diff --git "a/ur/shard-11.txt" "b/ur/shard-11.txt" new file mode 100644--- /dev/null +++ "b/ur/shard-11.txt" @@ -0,0 +1,4723 @@ + + +قائداعظم محمد علی جناح پیدائش: 25 دسمبر 1876ء– وفات: 11 ستمبر 1948ء) آزادی پاکستان کے اہم رہنماء اور پاکستان کے بانی تھے۔ بیسویں صدی عیسوی میں وہ برصغیر میں مسلمانوں کاعظیم ترین رہنماء تسلیم کیے جاتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل تھے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک اِس عہدے پر فائز رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو کراچی میں انتقال کرگئے اور موجودہ مزار قائد کے احاطہ میں تدفین کی گئی۔ عوام میں اُن کی تقاریر اکثر انگریزی زبان میں ہوا کرتی تھیں، بعد ازاں اردو زبان میں بھی اُن کی تقاریر عوامی دلچسپی کا باعث بنیں۔اُنہیں قائداعظم، بابائے قوم کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ +* کفایت شعاری قومی فریضہ ہے۔ +مساوات اور اخوت ہو تو جمہوریت بنتی ہے۔ +برداشت کے سچے جذبات کا مظاہرہ کریں۔ +مسلمان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا کہ وہ صداقت کی خاطر شہید کی موت مر جائے۔ +پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی،صرف اردو ہو گی۔ +*ہمیں پنجابی،سندھی،بلوچی بن کر نہیں سوچنا چاہیے،بلکہ ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہے۔ +* ایک فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچا کرو، مگر جب فیصلہ کرلو تو اس پہ ایک مرد کی طرح قائم رہو۔ +پاکستان کا قومی شعار جو دراصل قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ ہیں: +*اگر مسلمانوں کو اپنے عزائم اور مقاصد میں ناکامی ہوگی تو مسلمانوں ہی کی دغا بازی کے باعث ہوگی، جیسا کہ گزشتہ زمانے میں ہوچکا ہے۔ میں دغا بازوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا، لیکن ہر انساف پسند اور سچے مسلمان سے میری درخواست ہے کہ اپنی جماعت کی فلاح و بہبود کی غرض سے متحد و متفق ہوکر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آکر اُس کے پرچم کے نیچے کام شروع کردے۔ +سندھ مسلم لیگ کانفرنس کراچی سے خطاب، 19 اکتوبر 1938ء) +*میری زِندگی کی واحد تمناء یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اِطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض اداء کردیا۔ +**آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب، 21 اکتوبر 1939ء +*اپنی تنظیم اِس طور پر کیجئیے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بدخواہی یا عناد رکھیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کر لیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔ +**مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور سے خطاب، 23 مارچ 1940ء +*چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی رواء رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔ +**مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2 نومبر 1940ء +*اقبال نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔ وہ دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اِس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اِس کا فخر حاصل ہے کہ آپ کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے اُس سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔ +**ہفت روز حمایتِ اسلام، لاہور، 6 مارچ 1941ء +*یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنایت کی ہے، صرف حفاظت کے لیے اُٹھے گی۔ لیکن فی الحال جو سب سے ضروری امر ہے، وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جائیے اور علم حاصل کیجئیے۔ +**مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کوئٹہ، بلوچستان سے خطاب، 3 جولائی 1943ء +*میں ایک بار پھر اپیل کروں گا کہ جن لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مسلم بورڈ کی طرف سے ٹکٹ نہیں ملے، اگر اُنہوں نے دس کروڑ مسلمانوں سے غداری کی تو وہ خود بھی وزیراعظم یا وزیر بننے کے لیے زندہ نہ رہ سکیں گے۔ +**مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ پشاور سے خطاب، 21 نومبر 1945ء +*ہماری یہ منشاء نہیں ہے کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ساتھ اختلافات اور جھگڑے شروع ہو جائیں۔ ہمارے سامنے بہت کام ہوں گے۔ اِسی طرح (ہندو) برادرانِ وطن کو اپنی مملکت میں بہت سے کام کرنے ہوں گے۔ لیکن وہ اہماری اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی شروع کردیتے ہیں اور اُن کو ستاتے ہیں تو پاکستان ایک خاموش تماشائی نہ بنے گا۔ اگر گلیڈسٹون کے زمانے میں برطانیہ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر امریکہ میں مداخلت کرسکتا تھا تو اگر ہندوستان میں ہماری اقلیتوں پر مظالم کیے گئے تو ہمارا مداخلت کرنا کیونکر حق بجانب نہ ہوگا؟ +**مسلم لیگ کنونشن دہلی سے خطاب، 17 اپریل 1946ء +*اِس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں کو جانے کے لیے، اپنی مساجد کو جانے کے لیے، اور دیگر عبادت کے مقامات کو جانے کے لیے۔ آپ کسی بھی دین، مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، کارِ ریاست کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ +**کراچی میں پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی سے صدارتی خطاب، 11 اگست 1947ء +*جو لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کردیں گے، بڑی سخت بھول میں مبتلاء ہیں۔ دنیاء کی کوئی طاقت پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، اِس پاکستان کا جس کی جڑیں مضبوط اور گہرائی کے ساتھ قائم کردی گئی ہیں۔ ہمادے دشمنوں کے اُن خوابوں یا اِرادوں کا نتیجہ جس کی وجہ سے وہ قتل اور خونریزی پر اُتر آتے ہیں، سوائے اِس کے کچھ نہ نکلے گا کہ کچھ اور معصوم اور بے گناہوں کا خوب بہے۔ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے اپنے فرقہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔ +**24 اگست 1947ء کو جلسہ عام سے خطاب +*میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ +*ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اُتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے اُبھریں گے، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔ +**24 اکتوبر 1947ء کو عید الاضحیٰ کے موقع پر قوم سے خطاب +*ہمیں جو دکھ دیا گیا ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ہمیں پاکستان کو قائم رکھنے کےلیے ابھی اور قربانی کرنی ہو گی ۔ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا، ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ اگر اسی طرح تمام ملت ہمت اور لگن کے ساتھ کام کرتی رہی تو ہماری یہ مصیبتیں انشاءاللہ بہت جلد ختم ہو جائیں گی۔ +**لاہور میں میموتھ ریلی سے خطاب، 30 اکتوبر 1947ء +*میں اُن لوگوں کی سوچ کو نہیں سمجھ سکتا جو جان بوجھ کر یا شیطانی سازشوں کے سبب پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ اسلامی قوانین آج کی زندگی میں زیادہ قابل قبول ہیں بہ نسبت 1300 سال قبل کے۔ +**کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب، 25 جنوری 1948ء +*حکومت کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے، عوام کی بے لوث خدمت، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا، اِس کے سواء برسراقتدار حکومت کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟۔ اور اگر اِس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے ہے تو ایسی حکومت کو اقتدار سے الگ کردو، لیکن ہلڑبازی سے نہیں۔ اقتدار آپ کے پاس ہے اور یہ آپ کی چیز ہے۔ آپ کو اِسے استعمال کرنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ آپ کو سیاسی نطام کے اسرار و رموز اور طریق کار بھی سیکھنے چاہئیں۔ +**ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب، 21 مارچ 1948ء +*آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں ہے۔ آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظرانداز کرکے آپ جو چاہیں، کر گزریں۔ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ۔ اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں۔ اِس وقت ہم سب کو چاہیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں۔ جنگ آزادی کے دِنوں کی جنگجوئی کی اب ضرورت نہیں رہی۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگجویانہ جذبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ آسان ہے اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل۔ +**ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب۔ 26 مارچ 1948ء +*کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ ایک نئی اور نوزائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھری ہوئے ہیں، ایسے موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا مقامی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔۔ خودکشی +کوئٹہ میونسپلٹی کی استقبالیہ تقریب سے خطاب، 15 جون 1948ء +*قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے۔ +**14 اگست 1948ء کو آزادی پاکستان کی پہلی سالگرہ پر قوم سے خطاب + + +* کسی جاندار کو ضائع مت کرو۔ پرائی چیز غصب نہ کرو۔ جھوٹ نہ بولو۔ +* عورت کی کتاب دنیا ہے وہ کتابوں سے اتنا نہیں سیکھتی جتنا دنیا سے سیکھتی ہے۔ مرد کتابیں پڑھتا ہے عورت دنیا کا مطالعہ کرتی ہے۔ +*شراب انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ + + +* نام میں کیا رکھا ہے۔ +* ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ +عورت کا حسن اسے مغرور بنا دیتا ہے۔ اس کی نیکی اس کے لیے مداح پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن وفا اسے دیوتائی صورت میں نمایاں کرتی ہے۔ +* ایڑیاں رگڑ کر مرنے سے بہتر ہے کہ جوانی میں جہاد میں ہی مر جائے۔ +انسان کو موت تک اپنی جدوجہد رکھنی چاہئے۔ +==شیکسپئیر کے متعلق اقوال و اقتباسات== +*یہ بات تو شک و شبہ سے مُنَزہ ہے کہ شیکسپئیر تمام ادبی ہستیوں میں نہایت ممتاز ہے۔ آج کم لوگ ہی چوسر]]، ورجل یا حتیٰ کہ ہومر کی تحریروں کو پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ بس وہی پڑھتے ہیں جو نصاب میں شامل ہوتا ہے۔ جبکہ شیکسپئیر کے ناٹکوں (ڈراموں) کو آج بھی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔عبارت میں ڈرامائی عنصر پیدا کرنے میں شیکسپئیر کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بساء اوقات اُس کے حوالے دئیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی ایسے حوالے دینے سے باز نہیں آتے جنہوں نے کبھی اُس کا کوئی ڈرامہ دیکھا ہوتا ہے‘ نہ پڑھا ہوتا ہے‘ نہ ہی اُس کی شہرت کو زوال ممکن ہے۔چار صدیوں سے اُس کے ڈراموں نے اپنے قارئین اور ناظرین کی توجہ کو باندھے رکھا ہے۔ چونکہ اب تک اِن کی چاشنی میں کوئی کمی نہیں آئی‘ سو یہ فرض کرنا بہرکیف بجاء ہوگا کہ آئندہ متعدد صدیوں میں بھی وقت اُن کی جاذبیت کو ماند نہیں کر پائے گا۔ + + +* خُدائے کریم کے تمام عطیات میں سے حکمت و دانائی سب سے بڑھ کر ہے۔ +خدا سے ایسی باتوں کی آرزو مت رکھ جو پائیدار نہیں وہ چیز مانگ جو مستقل ہو۔ + + +میرے خیال میں صفحات کی تعداد 100 سے اوپر ہے، مگر ادھر 40 لکھا گیا ہے۔ اور کچھ صفحات کے نام انگریزی میں بھی تھے ان کو بھی تبدیل کیا جاۓ۔--عبید رضا 13:24, 10 مئی 2014 (UTC) + + +w:ٹیپو سلطان پیدائش: 20 نومبر 1750ء— وفات: 4 مئی 1799ء) سلطنت خداداد میسور کے سلطان تھے جنہوں نے 1782ء سے 1799ء تک حکومت کی۔ +* شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ + + +* اپنی جوانی کے ڈھلتے ہوئے حصے میں، آج میں نے یہ کپ جیت لیا ہے۔ +* میں نے سیاست کو کبھی کریئر نہیں سمجھا۔ میرا مقصد تھا کہ اس ملک کو اقبال کے تصور کے مطابق حقیقی فلاحی ریاست بنایا جائے۔ +* میں ملٹری سیکریٹری کے گھر کے پاس تین کمروں کے گھر میں رہوں گا۔ تین ملازم رکھوں گا۔ میں صرف سکیورٹی کی وجہ سے یہاں رہ رہا ہوں۔ +* آج پاکستان کے معاشی حالات مشکل ہیں۔ پاکستان پر 2013ء میں 15 ہزار ارب کا قرضہ تھا اور آج 23 ہزار ارب قرضہ ہے۔ ہم قوم کو یہ بھی بتائیں گے کہ اس قرضے کی رقم کہاں گئی۔ ہم ان قرضوں پر عائد سود کو ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے لے رہے ہیں۔ +* میں عوام کو سادہ ترین زندگی گزار کر دکھاؤں گا، میں عوام کوایک ایک پیسہ بچا کر دکھاؤں گا اور جب تک حکومت میں ہوں کوئی کاروبار نہیں کروں گا۔ + + +* اللہ تعالیٰ نے فرمایا یَاعِبَادِیْ إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّماً فَلاَ تَظَالَمُوْا ۔ الحدیث۔ اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر دیا ہے اور تمہارے درمیان بھی۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔ +==ایمان و دین سے متعلق اقوال== +*اِنَّ لِلإسْلَامِ ضَوْءًا وَ مَنَارًا کَمَنَارِ الطَّرِیقِ +**اسلام راستے کے سنگ ِمیل کی طرح ہدایت کا ایک مینارۂ نور ہے۔ +*جو شخص ایمان کی حلاوت محسوس کرنا چاہے ، اُس کو چاہیے کہ لوگوں سے محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خاطر محبت کرے۔ +*مومن وہ ہے جو لوگوں کے لیے ضرر رساں نہ ہو اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچے اور مہاجر وہ ہےجو گناہوں کو چھوڑ دے اور اُس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا، جس کی شرارتوں سے اُس کے ہمسائے تکلیف میں ہوں۔ +*ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟، آپ نے جواب ارشاد فرمایا: جب تجھے نیکی پر خوشی ہو اور گناہ برا لگے تو تُو مومن ہے۔ اُس نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! گناہ کیا ہوتا ہے؟۔ آپ نے ارشاد فرمایا جو چیز تیرے دل میں کھٹکے(وہ گناہ ہے)، اُسے چھوڑ دے۔ +*مومن کی مثال کھیت کی طرح ہے، جسے مسلسل ہوا اِدھر اُدھر جھکاتی رہتی ہے۔ اِسی طرح مومن کو بھی ہمیشہ آزمائش لاحق رہتی ہے اور منافق کی مثال اخروٹ کے درخت کی طرح ہے‘ جو لہراتا نہیں ہے یہاں تک کہ (ایک ہی مرتبہ) اُسے جڑ سے اُکھاڑ لیا جاتا ہے۔ +**صحیح ابن حبان، جلد 4، کتاب الجنائز، رقم 2915۔ +*حیاء اور ایمان، دو گہرے دوست ہیں۔ جب اِن میں سے کوئی ایک اُٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے۔ +*تم میں سے کامل ترین مومن وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہوں۔ +*حیاء اور خاموشی، ایمان کی دو شاخیں ہیں۔ بے حیائی اور یاوہ گوئی (لغو و بے ہودگی) نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ +*ف��اشی اور بے حیائی سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ بے حیاء کو پسند نہیں کرتا اور ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے روز یہ تاریکی (کا باعث) ہوگا اور بخل اور حرص سے بچو، اِس لیے کہ تم سے پہلی قوموں کو اِن باتوں کی تبلیغ کی گئی لیکن اُنہوں نےقتل و غارت گری کی، اُنہیں صلہ رحمی کی تبلیغ کی گئی، لیکن اُنہوں نے قطع رحمی سے کام لیا، اُنہیں حرام سے بچنے کی تبلیغ کی گئی لیکن اُنہوں نے حرام کو حلال ٹھہرا لیا۔ +*مومن لعن طعن کرنے والا نہیں ہوتا ، نہ فاحش ہوتا ہے اور نہ ہی بے حیاء۔ +*مومن محبت کرنے والا ہوتا ہے اور وہ شخص اچھا نہیں جو نہ خود محبت کرتا ہو اور نہ اُس سے کوئی محبت کرتا ہو۔ +*جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، پھر اگر بندہ توبہ کرلے تو وہ مٹ جاتا ہے اور اگر بار بار گناہ کرے تو وہ سیاہ نقطہ اِتنا بڑھ جاتا ہے کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ +**مستدرک امام حاکم، کتاب الایمان، جلد1، رقم6، صفحہ 17۔ +*اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، پنجگانہ نماز اداء کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکوٰۃ اداء کرو، اور اپنے امیر کی اطاعت کرو، (اِس طرح کرنے سے) تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ +اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شرک نہ ٹھہراؤ، صرف اُسی کی عبادت کرو۔ نماز، روزہ کی پابندی کرو، زکٰوۃ اداء کرو، حج اداء کرو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔ اپنے اہل و عیال کو سلام کرو، جس نے اِن میں سے کسی بھی عمل کو چھوڑا، اُس نے اسلام کا ایک حصہ (اچھا عمل) چھوڑا اور جس نے سب کو چھوڑ دیا، اُس نے اسلام سے ہی منہ پھیر لیا۔ +==غم و مصائب سے متعلق اقوال== +*مومن بندے کو جو بھی تکلیف، پریشانی، غم تکلیف، غم اور اذیت لاحق ہوتی ہے، یہاں تک کہ اُسے جو کانٹا چبھتا ہے ‘ تو اللہ تعالیٰ اُس کی وجہ سے بھی اُس کے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ +==حق شفاعت اور مسلمانوں کے لیے شفاعت سے متعلق اقوال== +*میری شفاعت ہر مسلمان کے لیے ہے۔ +*بدشگونی شرک ہے ، اللہ پر توکل کرکے اِس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ +**صحیح بخاری کتاب الادب، باب رحمۃ الناس و البھائم، حدیث 6013 ، صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب رحمۃ الصبیان، حدیث 2318۔ +**صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی ’’قل ادعو اللہ او ادعو الرحمٰن‘‘، حدیث 7376۔ +*بے شک یہ تکلیف (طاعون) ایک عذاب ہے، جس کے ذریعے تم سے پہلے لوگوں کو عذاب دیا گیا جب یہ کسی ایسی سرزمین پر واقع ہو جہاں تم موجود نہیں ہو تو تم وہاں نہ جاؤ اور جب یہ ایسی سرزمین پر واقع ہو جہاں تم موجود ہو، تو تم وہاں سے فرار اِختیار کرتے ہوئے نہ نکلو۔ +**صحیح ابن حبان، جلد 4، کتاب الجنائز، رقم 2912۔ +*اِنَّ لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءً، فَإِذَا اُصِیْبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللہِ +**بے شک ہر بیماری کی دواء ہے، جب بیماری کی صحیح دواء مل جائے تو (بیمار اللہ کے حکم کے تحت تندرست ہوجاتا ہے۔ +**صحیح ابن حبان، جلد 7، کتاب الطب، رقم 6063، صفحہ 146۔ +اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو کسی مسلمان کو قتل کرے۔ +1۔ حضرت ابی الدردا سے روایت ہے میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ "اگر مجھے صحت و عافیت ھاصل رھے تو میں شکر کرتا ہوں اور یہ بات اس امر کے مقابلہ میں مجھے زیادہ محبوب رہے کہ میں بیماری سے آزمایؑش میں پڑوں اور صبر کروں" اس پر آپؐ نے فرمایا "اور اللہ کا رسول بھی تمہارے ساتھ صحت و عافیت محبوب رکھتا ہے"۔ +2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "صحت اور فراغت خدا بزرگ و برتر کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ہیں اکثر لوگ ان کے بارے میں دھوکے یا نقصان میں ہیں"۔ +3۔ منقیٰ کے بارے میں ارشاد فرمایا "اسے کھاؤ یہ بہترین کھانا ہے یہ تھکن کو دور کرتا ہے غصہ تھنڈا کرتا ہے اعصاب کو مضبوط کرتا ہے چھرے کو خوبصورت کرتا ہے بلغم کو نکالتا ہے اور چھرے کی رنگت کو نکھارتا ہے"۔ +4۔ "جس نے روزانہ منقیٰ سرخ کے اکیس دانے کھاےؑ وہ ان تمام بیماریوں سے محفوظ رہے گا جن سے ڈر لگتا ہے"۔ +5۔ آپﷺ کے لیے منقیٰ بھگویا جاتا تھا وہ شربت اس روز پیتے اگلے روز پیتے اور بعض اوقات اس سے اگلے روز بھی بقایا دوسروں کو دے دیتے تھے۔ +6۔ "منقیٰ کھایا کرو مگر اسکا چھلکا اتار دیا کرو کیونکہ اسکے چھلکے میں بیماری اور گودے میں شفا ہے"۔ +7۔ ذات الجنب (پلوریسی) کے علاج میں درس اور زیتون کا تیل بھت مفید ھے جامع ترمزی)۔ +8۔ تندرست افراد (بلاضرورت) مریض کے قریب نہ جایں صیح بخاری و مسلم)۔ +9۔ ایت: اے نبی آپ کے اوپر اللہ نے کتاب اتاری اور آپ کو حکمت کے ساتھ ایسی چیزوں کا علم دیا جو (اس سے پہلے) آپ کے پاس نہیں تھا سورۃ النسا)۔ +10۔ "بدن کی تھنڈک بیماریوں کا باعث ہوتی ہے سنن ابن حبان)۔ +11۔ "کوڑھ کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ اس سے اگر بات کرنا ضروری ہو تو اپنے اور اس کے بیچ 1-2 تیر کا فاصلہ رکھو متفق علیہ)۔ +12۔ "کھانستے اور چھینکتے وقت منہ کے آگے ہاتھ یا کپڑا رکھا جاۓ صیح بخاری)۔ +13َ "پانی اس وقت تک پاک ہے جب تک کوئی چیز اس کی بو، ذائقہ اور رنگت کو تبدیل نہ کرے بہقی) +14۔ "اللہ تعالٰی نے بیماریاں نازل کرتے ہوۓ ان کا علاج بھی نازل کیا ہے اس لیے علاج کرتے رہنا چاہیے البتہ حرام چیزوں سے علاج نہ کیا جاۓ" +15. "اللہ نے ایسے کویؑ بیماری نھیں اتاری جس کا علاج اتارا نا گیا ہو بخاری و مسلم) +16. "اللہ تعالٰی نے دنیا میں ایسی کویؑ بیماری نازل نھیں کی جسکی دوا نہ اتاری گئی ہو جب دوا کے اثرات بیماری کی ماہیت سے مطابقت رکھیں تو اللہ تعالٰی کے حکم سے شفا ہو جاتی ھے صیح مسلم) +17. "جس شخص نے (طب کے) علم کو باقاعدہ (سلیقے اور توجہ سے) نہ پڑھا ہو وہ اپنے ہر فعل کا خود ذمہ دار ہو گا سنن ابن ماجہ) +18. "طبیب کا کام صرف مریض کواطمینان دلانا ہے جبکہ اسے شفا دینااللہ کا کام ہے مسنداحمد) +19. حضرت سعد بن ابی وقاص ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایک دن بیمار تھا کہ آپ کو خبر ہوئی اور آپ عیادت کو تشریف لاۓ۔ میری حالت دیکھ کر فرمایا کہ اسے دل کا عارضہ ہے۔ میرے درد کو دور کرنے کے لیے آپنے اپنا ہاتھ میرے سینے پر پھیرا اور اس کی تھنڈک میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اسے حارث بن مکدہ کے پاس لے جاؤ جو کہ بنی ثقیف میں مطب کرتا ہے اور طبیب کو چاہیے کہ وہ مدینہ کی عجوہ کجھور کے سات دانے گھٹلی سمیت کوٹ کر مریض کو کھلاۓ سنن ابوداؤد) +20. "جنت سے اگر کوئی میوہ زمین پر آسکتا ہے تو یہ ہے انجیر۔ کھاؤ کہ یہ بواسیر کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے اور جوڑوں کے درد میں مفید ہے سنن ابن السنی) +21. الکحل بارے فرمایا یہ دوائی نہیں بلکہ بیماری ہے" +22. "رفع حاجت کے وقت بائیں پاؤں پر بوجھ ڈالیں اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیں" +23. "بازار میں کھانا کمینہ (غیر اخلاقی اور غیر محفوظ) حرکت ہے" +24. "جو شخس مٹی کھاتا ہے وہ اپنے آپ کو قتل کرنے میں اعانت کرتاہے" +25. "عجوہ کھجور میں ہر بیماری سے شفاء ہے" +26. حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ کھجور کھانے سے قولنج (بڑی آنت کا درد) نہیں ہوتا۔ +27. "جس گھر میں کھجور ہواس گھر والے کبھی بھوکے نہ رہیں گے" +28. "رات کا کھانا ضرور کھاؤ خواہ تمہیں کھجور کی ایک مٹھی میسر ہو کیونکہ رات کا کھانا ترک کرنے سے بڑھاپا (کمزوری) طاری ہو جاتا ہے" +29. "کھانے کے ساتھ (ہمیشہ) سالن استعمال کرواگرچہ وہ پانی کی صورت میں ہو" +30. "بہترین سالن نمک ہے" +31. "کھانے میں آپ کو کدو بہت مرغوب تھا" +32. "جو کھانا تمھارے سامنے ہے وہی کھاؤ" +33. "تہائی پیٹ کھانے کی لیے، تہائی پیٹ پانی کے لیے اور تہائی پیٹ سانس کے لیے ہے" +34. "خوشی غذا کو ہضم ھونے اور جزو بدن بننے میں مدد دیتی ہے اور رنج و غم کھانے کو جزو بدن بننے نہیں دیتے" +35. " کھانے کی چکنائی ہاتھوں، بازؤں اور قدموں سے صاف کرلی جاۓ ابن ماجہ) +36. "جس نے رات کو ہاتھ نہ دھوۓ اور اس کو کسی حشرات الارض سے نقصان پہنچا تو ہمارا ذمہ نہیں" +37. "پانی چوس چوس کر پیؤ اور غٹ غٹ کر کے نہ پیؤ" +38. "اگر تمہیں پتا لگ جاۓ کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کا اتنا نقصان ہے تو وہ پانی تم حلق میں انگلی ڈال کر نکال دو" +39. احادیث مبارکہ میں پانی 3 اور بعض میں 2 سانسوں میں پینے کا حکم ہے۔ اسی طرح پیالے میں سانس لینے سے منع فرمایا۔ اور کھلے منہ والے برتن میں پانی پینے کا حکم فرمایا۔ آپ سرد اور قدرتی شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ آپ نے اس بات سے بھی سختی سے منع فرمایا کہ کسی کھلے کھڑے پانی میں جو نہانے دھونے یا پینے کا کام میں لایا جاتا ہو کوئی غلاظت پھیلائی جاۓ یا اس میں پیشاب پاخانہ کیا جاۓ۔ اس قسم کے کنوؤں سے پانی پینے اور استعمال کرنے سے منع فرمایا جو کھنڈرات میں صدیوں سے ویران اور بیکار پڑے ہوں۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ دودھ اور مچھلی، دودھ اور ترشی، دو گرم غذائیں، دو جلاب آور غذائیں، دو چپکنے والی غذائیں جمع نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح نہ ہی ایک قبض اور دوسری جلاب آور، ایک زود اور دوسری دیر ہضم، ایک تازہ اوردوسرے باسی غذا کھاتے تھے۔ آپ نہ تو تیز گرم کھانا کھاتے، نہ ہی رات کا پکا ہوا اور نہ ہی چٹ پٹے کھانے کھاتے تھے۔ +40. قرآن میں ہے کہ "پانی سے ہم نے ہر چیز کو زندگی بخشی ہے" +41. آپ نے تیز گرم کھانے میں بے برکتی فرمائی ہے۔ نیز کھانے پینے کی چیزیں ڈھانپ کر رکھنے کی ہدایت کی۔ +42. آپ دودھ میں پانی ڈالی لسی پی لیتے تھے اور ان چھنا موٹا آٹا پسند کرتے تھے۔ +43. انگور کی شراب بارے پوچھا تو فرمایاکہ "حرام چیزوں میں شفا نہیں ہوتی" +44. قرآن نے خون پینے کو منع فرمایا ہے۔ +45. "تمہارے فائدے کے لیے گاۓ کا دودھ ہے کیونکہ یہ دودھ اور اس کا مکھن مفید دوا ہیں البتہ اس کے گوشت میں بیماری ہے اس سے بچو"۔ +46. "گاۓ کے دودھ میں شفا ہے اس کا مکھن ایک عمدہ دوائی ہے اور اس کا گوشت بیماری کا باعث ہوتاہے" +47. جنگِ احد کے دوران جب آپ کو زخم آۓ تو پھلے آپ نے زخموں کو دھویا پھر ان پر بار بار ٹھنڈا پانی ڈالا۔ اس سے انجماد خون نہ ہوا اور نہ ہی سوزش اور ورم آیا۔ +48. آپ نے ایک ہنگامی حکم کے تحت مدینہ کے سارے کتے ہلاک کروا دیے اور یہ بھی فرما دیا کہ جس گھر میں کتا ہو گا اس میں رحمت کا فرشتہ داخل نہ ہو گا۔ +49. "جس کسی نے زندہ جانور کے جسم سے جو ٹکڑا کاٹا وہ مردار ہے"۔ +50. "چھریاں خوب تیز کی جائیں اور ان کو جانوروں سے چھپا کر لے جائیں اور جب ذبح کر تو جلدی کر ڈالو"۔ +51. "اللہ تعالٰی نے ہر چیز پر احسان کرنے کی ہدایت فرمائی اگر تم کسی کو قتل بھی کرو تو اسے بھی جلد از جلد انجام دو اور اگر ذبح کرنے لگو تو بھی چابک دستی سے کرو۔ چھری کو اچھی طرح تیز کرواور ذبیح کو آرام دو" +52. ایک دفعہ ایک بکری مر رہی تھی ایک شخس نے تیز پتھر سے اسکو ذبح کیا اور آپ نے اسکو کھانے کا حکم دیا۔ +53. "جو شخص ہر ماہ میں صبح کے وقت شہد چاٹے گا اسے کوئی بڑ�� بلا بھی تکلیف نہیں دے سکتی سنن ابن ماجہ) +54. "شہد ہر جسمانی مرض کے لیے شفا کاباعث ہے اور قرآن ہر روحانی مرض کے لیے دوا ہے اس لیے قرآن اور شہد دونوں شفاؤں کو تھامے رہو"۔ (ابن ماجہ و الحکم) +55. آپ کو حلوہ اور شہد سے بہت محبت تھی" حضرت عایؑشہ۔ +56. "شفا تین چیزوں میں پوشیدہ ہے، ایک حجام سے پچھنا لگوانے میں۔ دوم شہد کی ایک خوراک کھانے میں۔ سوم آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں"۔ (مسلم) +57. “لہسن میں 70 بیماریوں کی دوا ہے" از امام جعفرؒ۔ +عبادت و دعا سے متعلق +جانوروں، و پودوں، بے جان چیزوں سے متعلق +*جو تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے، تم اُس کے ساتھ دوستی کرو کیونکہ ایسی دوستی پائیدار ہوتی ہے۔ +**نہج الفصاحت، ص 4، قول 11۔ +==غیر مسلم شخصیات کے اقوال== +*مجھے یقین ہے کہ اِن جیسا آدمی جدید دنیا کا آمر بھی ہوتا تو وہ اِس آمریت کی تمام تر خامیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوجاتا اور انسانیت کے لیے اَمن و اَمان اور اِطمینان کا ضامن نظام بنانے میں کامیاب ہوجاتا۔ میں اِس چیز کی پیشگوئی کرتا ہوں کہ محمد کا دِین مستقبل کے یورپ میں بھی اِسی طرح مقبول نظر آئے گا، جس طرح آج کے یورپ میں اِس کی مقبولیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ +*فلسفی، خطیب، رسول، قانون ساز، افکار کی دنیا کا بادشاہ، منطقی عقیدوں کا احیا کرنے والا، بیس مادی اور ایک روحانی ریاست کا بانی، یہ ساری کی ساری صفات محمد کی شخصیت میں جمع ہوگئی ہیں۔ اِنسانی عظمت کو جانچنے کے جس پیمانے سے بھی ناپا جائے، سوال یہی اُٹھے گا کہ کیا محمد سے بڑھ کر بھی کوئی ہے؟ +*عرب کے عظیم رسول کی سیرت اور کردار کو جو بھی بغور پڑھتا ہے اور جو یہ بھی جان لیتا ہے کہ کس طرح نبی نے زندگی بسر کی اور کس طرح لوگوں کو رہنا سکھایا، اُس کے لیے اُن کی عظمت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ عظیم رب کا عظیم رسول میں نے جو کچھ اُن کے بارے میں کہا، وہ شاید بہت سے لوگوں کو پہلے ہی معلوم ہو۔ لیکن میں جب بھی اُس شاندار عربی مُعَلَّم کی سیرت پڑھتی ہوں تو جہانِ حیرت میں ڈوب جاتی ہوں اور میری نظر میں اُن کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ +**دی لائف آف ٹیچنگز آف محمد۔ +*وہ ایک ایسے انسان تھے جو عظمت کی انتہائی درجہ پر صرف اپنی فطرت سے پہنچے، نہ تو اُن کو کسی مدرسہ اور نہ کسی استاد نے مہذب اور مؤدب بنایا، وہ اِن تمام سے قطعاً بے نیاز تھے، جس طرح ایک کانٹا تنقیح سے بے نیاز ہوتا ہے۔ صحرا کی گہرائی میں اپنے کام کو تنہاء اپنی زندگی میں ا نجام دیا۔ +**محمد رسول اللہ، صفحہ 43۔ +*امام حاکم المستدرک للحاکم ، جلد 1، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور، فروری 2016ء +*امام ابن حبان صحیح ابن حبان ، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور، مارچ 2014ء +[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]] + + +اس براعظم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینار پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت تین صدیوں پر محیط ہے، جس میں سکھوں کا گردوارہ، ہندوؤں کا مندر اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی ایک بات کہہ دی: +’’جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جب حق کی جگہ حکایت اور جہاد کی جگہ جمود لے لے، جب ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہ�� جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔“آواز دوست +مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں‌تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ قائد اعظم نے لیاقت علی خاں کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائد اعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کو بڑھا کر پیش کرے۔ +جب ہیکٹر بولتھیو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر کراچی سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بڑی حد تک جولائی 1933ء میں اس روز ہوگیا تھا جب لیاقت علی خاں ہیمسٹیڈ ہیتھ گئے تاکہ جلاوطن جناح سے گفتگو کریں۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں بیگم رعنا لیاقت کے ذکر کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ قائد اعظم اپنے خط میں لیاقت علی خان کو لکھا کرتے تھے کہ میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پانچویں باب میں بیگم لیاقت کی زبانی اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اگر قائد اعظم کو حالات فرصت دیتے تو وہ لیاقت علی خان کو علیحدہ کر دیتے۔ بیگم لیاقت اس مفروضے کو مہمل قرار دیتی ہے۔ ممکن ہے یہ سچ ہو، مگر مجھے بولتھو کی ساری کتاب ہی مہمل معلوم ہونے لگی۔“ آوازِ دوست، صفحہ نمبر220 ،221 +میں فلسطین کا حشر دیکھ کر پاکستان کے بارے میں پریشان ہوجاتا ہوں۔ جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے بجائے کھیل کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں ان سے سرزمین کا حق ملکیت، ان کی حکومت سے حق حکمرانی اور بالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔مصنف کی کتاب لوح ایام صفحہ نمبر 46۔47 +۔۔۔۔ کہتے ہیں ایک خاندان میں چینی کا ایک قیمتی اور قدیمی گلدان ہوا کرتا تھا۔ ایک لا ابالی نوجوان نے بوڑھے جد سے اس کی اہمیت کے بارے پوچھا، جواب ملا کہ وہ نسلوں سے خاندان میں سب سے قیمتی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ چلا آرہا ہے اور خاندان کے ہر فرد اور نسل کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ نوجوان نے کہا: اب اس کی حفاظت کا تردد ختم ہوا، کیونکہ چینی کا وہ گلدان موجودہ نسل کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔ +بو ڑھا بولا: ’’حفاظت کا تردد ختم ہوا، ندامت کا دور کبھی ختم نہ ہوگا۔‘‘ + +میرا نام عرفان ارشد ہے اور میرا تعلق پاکستان سے ہے + + +ایمان انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور سب سے بدقسمت شخص کا کوئی مذہب نہیں ہے جو ایک ہے۔ + + +مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ +دین کے متعلق جو بات یقینی طور پر معلوم وہ ہی بیان کرنی چاہیے۔ +* دوسروں کو ترغیب دلانے کیلئے خود سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے۔ + + +مختلف روایتوں میں سیدنا صدیق اکبر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ کے بے شمار ارشادات و اقوال نقل کیے گئے ہیں جو بالعموم آپ کے خطبات سے اخذ کیے گئے ہیں ان میں سے چند ارشادات یہاں بیان کیے جاتے ہیں۔ +# جو نفسانی خواہشات، لالچ اور غصے سے بچا وہ کامیاب ہو گیا۔ +# فخر سے بچو، کیونکہ جو مٹی سے پیدا ہوا اور مرنے کے بعد بھی مٹی میں چلا جائے گا کیڑے مکوڑے اسے کھا جاہیں گ�� ایسے شخص کو فخر کی کیا ضرورت۔ +# مصیبت کی جڑ انسان کی گفتگو ہے۔ +# سچائی امانت اور جھوٹ خیانت ہے۔ +# کسی مسلمان کو حقیر مت جانو۔ +# علم، بغیر عمل کے بے کار ہے۔ +# کبھی ہار نہ ماننا بلکہ ہر بار پھر سے (منزل کو پانے کیلئے) کوشش کرو۔ +# عقل مند کی پہچان کم گوئی ہے۔ +# جس پر نصیحت اثر نہ کرے اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ +# مصیبت کی جڑ انسان کی گفتگو ہے۔ +# شریف جب علم پڑھتا ہے متواضع ہو جاتا ہے۔ +# گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے مگر گناہ سے بچنا واجب تر۔ +# صبح خیزی میں مرغان سحر کا سبقت لے جانا تیرے لیے باعث شرم ہے۔ +# فقیر (مسکین) کے سامنے عاجزی اور ادب سے صدقہ پیش کر کیونکہ خوشدلی سے صدقہ دینا قبولیت کا نشان ہے۔ +# بوڑھا توبہ کرے تو خوب ہے اور اگر جوان توبہ کرے تو خوب تر ہے۔ +# جوان کا گناہ بھی اگرچہ برا ہے لیکن بوڑھے کا گناہ بدتر ہے۔ +# تو دنیا کا سامان جمع کرنے میں مشغول ہے اور دنیا تجھ کو اپنے سے جدا کرنے میں سرگرم ہے۔ +# ہر چیز کا ثواب ایک اندازہ ہے لیکن صبر کا ثواب بے اندازہ ہے۔ +# جو شخص دعوت توحید کی ابتدا میں فوت ہو گیا وہ بہت خوش نصیب تھا۔ +# امیروں کا تکبر کرنا برا ہے لیکن غریبوں اور متحاجوں کا تکبر کرنا بدتر ہے۔ +# عام لوگ عبادت میں سستی کرے تو بری بات ہے لیکن اگر علما اور طلبہ عبادت میں سستی کرے تو یہ اور بھی زیادہ برا ہے۔ +# دولت آرزو کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ +# بالوں کو خصاب لگا کر جوانی حاصل نہیں ہوتی۔ +# دوائیں کھا کر صحت مند نہیں بنا جا سکتا۔ +# مردوں کا شرم کرنا اچھا ہے لیکن عورتوں کا شرم کرنا بہت اچھا ہے۔ +# غریب اگر تواضع کرے تو اچھا ہے لیکن امیروں کا تواضع کرنا بہت اچھا ہے۔ +# زبان کو شکوہ شکایت سے روکو، خوشی کی زندگانی عطا ہو گی۔ +# اللہ کے خوف سے روؤ اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو۔ +# اللہ سے ڈرو اور اس کی ایسی تعریف کرو جس کا وہ سزاوار ہے۔ +# امید اور خوف دونوں کو مخلوط رکھو اور الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرو۔ +# دنیا میں حاکم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ قیامت کے دن اس سے سختی سے حساب لیا جائے گا اور اس کا اعمال نامہ بہت لمبا ہو جائے گا۔ +# اگر میرا ایک پاؤں جنت میں ہو اور دوسرا پاؤں باہر تو بھی میں اپنے آپ کو اللہ کے غضب سے محفوظ تصور نہیں کرتا۔ +# اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں اور نہ اس کی روشنی کبھی ماند پڑے گی۔ +نیک عمل کرنے سے) اپنی رفتار تیز سے تیز کر دو کیونکہ تمہارے پیچھے ایک ایسا تعاقب کرنے والا لگا ہوا ہے جو بڑا ہی تیز رفتار ہے۔ +# ہر عمل کا اس کے وقت کے ساتھ بجالانا ضروری ہے۔ اللہ تعالی اس وقت تک نفل قبول نہیں کرتا جب تک تم فرض ادا نہ کرو۔ +# اس دن پر رو جو تیری عمر سے گزر گیا اور اس میں نیکی نہیں کی۔ +# ہر کام کرتے وقت اللہ تعالی کو حاضر ناظر جانو۔ اس سے ڈرو اور شرم کرو۔ +# کفار سے جہاد کرنا جہاد اصغر ہے اور نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے۔ +# اخلاص یہ ہے کہ اعمال کا عوض نہ چاہے۔ دنیا کو آخرت کے لیے اور آخرت کو اللہ کے لیے چھوڑ دے۔ +# جو امر پیش آتا ہے وہ نزدیک ہے لیکن موت اس سے بھی نزدیک تر ہے۔ +# مومن کو اتنا کافی ہے کہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے۔ +# میں نیک کام کروں تو میری اعانت کرو۔ +# میں برا کام کروں تو مجھے درست کرو۔ +# سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ +# عمل بغیر علم کے سقیم و بیمار اور علم بغیر عمل کے عقیم (بے کار) ہے۔ +# بروں کی ہم نشینی سے تنہائی بدر جہا بہتر ہے۔ +# جاہ و عزت سے بھاگو، عزت تمہارے پیچھے پھرے گی۔ +# کسی مسلمان کو حقیر نہ جانو۔ +# چھوٹا سا مسلمان بھی خدا کے نزدیک بڑا ہے۔ +# موت پر دلیر رہو تم کو زندگی بخشی جائے گی۔ +# ہم نے بزرگی تقوی میں، بے نیازی یقین میں اور عزت تواضع میں دیکھی۔ +# جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل کر ڈالتا ہے۔ +# مظلوم کی دعا سے بچو کیونکہ قبولیت اور اس کے درمیان میں کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ +# جس قوم میں بری باتیں عام ہو جاتی ہیں اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ +# آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ جیسا کہ تم کو حکم ہے۔ +سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی صفحہ 418 تا 421 + + +* جو شخص نمازبرباد کرتا ہے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ +*بزرگ بننے کے لیےعلم حاصل کرو۔ +*جو آدمی خود کو عالم کہے وہ جاہل ہے۔ +*سب سے بری آوازیں دو ہیں :نوحہ اور راگ۔ +*توبہ کی تکلیف سے گناہ چھڑنا آسان ہے۔ +*حسن خلق نصف عقل ہے۔ حُسنِ سوال نصف علم ہے، اور حُسنِ تدبیر نصف معیشت ہے۔ + + +میں دنیا چھوڑ سکتا ہوں لیکن ایمان نہیں۔ +اس نے اللہ کا حق نہیں جانا جس نے لوگوں کا حق نہیں جانا۔ +اپنے رب کے سوا کسی سے امید نہ رکھو۔ +گناہ کسی نہ کسی صورت میں دل کو بے قرار رکھتا ہے۔ +سب سے برا آدمی وہ ہے جو لوگوں کی برائیاں کرتا پھرے۔ +حقیر سے حقیر پیشہ اختیار کرنا ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔ + + +میرا نام عبیدالمصطفی{{ا ہے، قلمی نام عبید رضا استعمال کرتا ہوں۔ + + +* جو کام کرو اطمینان اور وقار کے ساتھ کرو ۔ +* فراخی اور تنگ دستی میں استغناء پر قائم رہو ۔ +* گفتگو میں آواز بلند نہ ہونے دو تاکہ آپس میں محبت پیداہو ۔ +* راستہ میں چلو تو دائیں بائیں کی چیزوں کو دل میں جگہ مت دو ۔ +* ہر بات میں تقوُی اور امانت کو پیش نظر رکھو ۔ +* اپنی جان کے لیے گناہ جمع کرنا اور ورثاء کے لیے مال جمع کرنا سب سے بڑی غلطی ہے ۔ +* دنیا پر مائل نہ ہو تاکہ احکام الہی سے غفلت نہ ہو ۔ +* سب سے بڑی عبادت ایمان اور سب سے بڑا گناہ کفر ہے ۔ + + +* علم کی کوئی بات ہلکی نہیں۔ +*دین کے بہترین اُمور وہ ہیں جو سنت ہیں اور نئے پیش آنے والے اُمور میں بدتر زبردستی کی ایجاد ہیں۔امام ابوزہرہ: امام مالک، مترجم اردو، ص 201۔ + + +امام شافعی یا محمد بن ادریس الشافعی پیدائش: اگست 767ء– وفات: 19 جنوری 820ء) اہل سنت کے فقہ شافعی کے امام ہیں۔ +*طلب علم نوافل نماز سے افضل ہے۔ +**سیر اعلام النبلا، جلد 10 صفحہ 53۔ +* اگر شعر علما کے لیے عیب نہ ہوتا تو میں اِس زمانہ میں لبید بن ربیعہ سے بڑا شاعر ہوتا۔ (لبید بن ربیعہ زمانہ جاہلیت میں زبان عربی کا بلند پایہ شاعر تھا)۔ +دیوان امام شافعی، صفحہ 124۔ +*تحصیل علم کے لیے فرماتے ہیں کہ: یہ علم دین کوئی شخص مالداری اور عزتِ نفس سے حاصل کرکے کامیاب نہیں ہو سکتا، البتہ جو شخص نفس کی ذلت، فقر و محتاجی اور علم کی حرمت کے ساتھ اِس کو حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا +**جامع البیان والعلم، جلد 2 صفحہ 98۔ +*امام شافعی کے نزدیک اگرمفتی یا مجتہد غلطی بھی کرے گا تو حسن نیت کی بنا پر وہ عنداللہ ماجور ہوگا۔ خود فرماتے ہیں کہ: جو عالم فتویٰ دے گا، اجر پائے گا۔ البتہ دین میں غلطی پر اجر نہیں ملے گا اِس کی اجازت کسی کو نہیں ہے اور ثواب اِس لیے ملے گا کہ جو غلطی اُس نے کی ہے اُس میں اِس کی نیت برحق تھی۔ +جامع البیان والعلم، جلد 2 صفحہ 72۔ +*طبیعت اور طلب علم کے متعلق فرماتے ہیں کہ: طبیعت زمین ہے اور علم بیج ہے اور علم طلب سے ملتا ہے۔ جب طبیعت قابل ہوگی تو علم کی کھیتی لہلہائے گی اور اُ�� کے معانی و مطالب شاخ در شاخ پھیلیں گے۔ +*طرز اِستدلال کے متعلق فرماتے ہیں کہ: بہترین استدلال وہ ہے جس کے معانی روشن اور اُصول مضبوط ہوں اور سننے والوں کے دل خوش ہوجائیں۔ +*قاضی اور مفتی کے لیے فیصلہ کرنا اور فتویٰ دینا اُس وقت تک جائز نہیں ہے کہ وہ کتاب اللہ اور اُس کی تفسیر کے عالم اور سنن و آثار اور اختلاف علما کے عالم نہ ہوں، اُن میں حسن نظر صحیح فہم، تقویٰ اور مشتبہ مسائل میں مشورہ ہونا چاہیے۔ +**الجامع والبیان العلم، جلد 2 صفحہ 82۔ +*علم دین کوئی شخص مالداری اور عزتِ نفس سے حاصل کرکے کامیاب نہیں ہو سکتا، البتہ جو شخص نفس کی ذلت، فقر و محتاجی اور علم کی حرمت کے ساتھ اِس کو حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ +جامع البیان والعلم، جلد 2 صفحہ 98۔ +==دیوان امام شافعی سے شعری اقوال== +*حوادثات دنیاء ہمیشہ نہیں رہتے۔ +دیوان امام شافعی: ص 35۔ +*اگر مخلوقات پر تیرے کثیر عیوب ظاہر ہوگئے ہوں اور تجھے یہ بات پسند ہو کہ اُس کی پردہ پوشی ہو، تو سخاوت و بخشش کے ذریعہ پردہ پوشی اختیار کر کیونکہ مشہور ہے کہ سخاوت ہر عیب کو چھپا دیتی ہے۔ +**دیوان امام شافعی: ص 36۔ +*کسی بخیل سے جود و سخا کی امید مت رکھ، اِس لیے کہ پیاسے کو آگ میں پانی نہیں ملتا۔ +*تاخیر تیرے رزق میں کمی نہیں کرتی اور بہت مشقت سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا۔ +موت جب کسی کے صحن میں فروکش ہوجاتی ہے تو پھر اُس کو زمین و آسمان کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی۔ +**دیوان امام شافعی: ص 37۔ +*انسان کے لیے وہ گھڑی کتنی حسرت ناک ہوتی ہے جو وہ اپنے دوستوں سے فراق کے بعد گزارتا ہے۔ +**دیوان امام شافعی: ص 42۔ +*طبیب علم طب اور دواء کے ذریعہ تقدیر کے فیصلوں کو بدل نہیں سکتا۔ +**دیوان امام شافعی: ص 44۔ +*تو خواہشات نفس کی خلاف ورزی کر اِس لیے کہ نفسانی خواہشات انسان کی بری قیادت کرتی ہیں۔ +**دیوان امام شافعی: ص 63۔ +*جو شخص لوگوں کی عزت کرتا ہے، لوگ اُس کی عزت کرتے ہیں اور جو دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے، اُس کی کبھی عزت نہیں کی جاتی۔ +**دیوان امام شافعی: ص 76۔ +*عقلمند آدمی وہ ہے جو اپنے دشمنوں سے بھی دل کی ناراضی کے باوجود خندہ پیشانی سے ملے۔ +**دیوان امام شافعی: ص 85۔ +*جاہل احمق کے جواب میں چپ رہنا شرافت ہے۔ +**دیوان امام شافعی: ص 105۔ +**دیوان امام شافعی: ص 111۔ +*میں نے تکلیفوں پر ہنسنے والوں اور خوشیوں میں حسد کرنے والوں کے علاوہ کوئی اور نہیں پایا۔ +**دیوان امام شافعی: ص 113۔ +**دیوان امام شافعی: ص 118۔ +**دیوان امام شافعی: ص 128۔ +**دیوان امام شافعی: ص 132۔ +**دیوان امام شافعی: ص 134۔ +**دیوان امام شافعی: ص 135۔ +**دیوان امام شافعی: ص 137۔ +**دیوان امام شافعی: ص 141۔ +**دیوان امام شافعی: ص 143۔ +**دیوان امام شافعی: ص 146۔ +**دیوان امام شافعی: ص 147۔ +**دیوان امام شافعی: ص 154۔ +**دیوان امام شافعی: ص 154۔ +**دیوان امام شافعی: ص 155۔ +ابن ندیم الفہرست مقالہ ششم بابت تصنیفات علمائے اسلام۔ صفحہ 501۔ +* اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر ایسے عالم دین کو پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دفاع کرتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پہلی صدی کے سرے پر عمر بن عبد العزیز اور دوسرے صدی کے سرے پر امام شافعی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ +**تاریخ بغداد، جلد 2، صفحہ 61/62۔التہذیب التہذیب، جلد 9 صفحہ 27۔ +**’’میں سحری کے وقت چھ آدمیوں کے لئے دعا کرتا ہوں: ان میں ایک شافعی ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو۔‘‘ +**الطیوریات: ج 2، ص 268۔ مناقب الشافعي: ج 2، ص 254۔ تاریخ بغداد: ج 2، ص 66۔ تھذیب الکمال ل��مزي: ج 24، ص 372۔ سیر أعلام النبلاء: ج 10، ص 45۔ التھذیب لإبن حجر عسقلاني: ج 9، ص 25۔ +ابن ندیم الفہرست مقالہ ششم بابت تصنیفات علمائے اسلام۔ صفحہ 501۔ مطبوعہ لاہور +[[زمرہ:820ء کی دہائی کی وفیات]] + + +حیات امام احمد بن حنبل (مصنف امام ابوزھرہ المصری) سے اقتباسات +**حیات امام احمد بن حنبل، صفحہ 26۔ +**حیات امام احمد بن حنبل، صفحہ 26۔ +*خبردار! کسی ایسے مسئلہ میں سخن طرازی نہ کرنے لگنا، جس میں تمہارا کوئی امام اور رہبر نہ ہو۔امام احمد کی یہ نصیحت خاص طور پر اپنے شاگردوں کے لیے تھی۔ +**حیات امام احمد بن حنبل، صفحہ 26۔ +مکتوبات احمد بن حنبل سے اقتباسات +*ایمان قول و عمل کا مجموعہ ہے۔ اِس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ تم نیک کام کرو گے تو ایمان میں زیادتی ہوگی، اور برے کام کرو گے تو نقصان ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان سے خارج ہوکر اسلام میں داخل ہوجائے، اگر توبہ کرے گا تو پھر ایمان میں داخل ہوجائے گا اور اسلام سے سوائے شرک باللہ کے کوئی چیز نہیں نکال سکتی، یا فرائض ِ خداوندی میں سے کسی فریضہ کا منکر ہوکر اُسے رَد کرے تو کافر ہوتا ہے اور اگر کوئی فریضہ صرف کسی اور کوتاہی سے ترک کیا ہے تو اُس کا معاملہ خدا کی قدرت و مشیت کے حوالہ ہے، اگر وہ چاہے تو عذاب دے، اور اگر چاہے تو درگذر فرمائے۔یہ عقائد دراصل فقۂ حنبلی کے نقطہ نظر سے ہیں۔ +**مکتوبات امام احمد بن حنبل، صفحہ 27-28۔ +*میں حکم کرتا ہوں کہ آپ لوگ قرآن پر کسی چیز کو ترجیح نہ دیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، جس چیز کے ذریعہ اللہ نے کلام کیا، وہ مخلوق نہیں ہے۔ جن الفاظ کے ذریعہ قرونِ ماضیہ (گذشتہ واقعات) کی خبر دی ہے، وہ غیر مخلوق ہیں، لوحِ محفوظ میں جو کچھ ہے، وہ بھی غیر مخلوق ہے۔ جو شخص اُسے مخلوق کہے، وہ کافر ہے اور جو ایسے لوگوں کی تکفیر نہ کرے، وہ بھی کافر ہے۔امام احمد بن حنبل کے زمانہ حیات میں فتنہ ٔ خلق قرآن بہت مشہور ہوا تھا اور سرکاری سطح پر اِس عقیدۂ باطلہ کی تبلیغ و ترویج کی جا رہی تھی جس پر امام مذکور نے اِس کفریہ عقیدہ کی مخالفت کی جس کی پاداش میں آپ کو قید کیا گیا اور کوڑے مارے گئے۔ لیکن امام مذکور کی رہائی اور عباسی خلیفہ المتوکل علیٰ اللہ کے عہدِ خلافت میں یہ عقیدۂ باطلہ و کفریہ اپنے انجام کو پہنچا۔ +**مکتوبات امام احمد بن حنبل، صفحہ 27۔ +*دنیاء اور سلطنت‘ بیماریاں ہیں اور عالمِ دین طبیب ہے۔ جب تم اُس طبیب کو دیکھو کہ اِس بیماری کو اپنی طرف دعوت دیتا ہے، تو ایسے عالم سے تمہیں پرہیز لازم ہے۔ +*مکتوب بنام سعید بن یعقوب ، مکتوبات امام احمد ، صفحہ43۔ +*ابو زھرہ المصری حیات امام احمد بن حنبل ، مترجم رئیس احمد جعفری، مطبوعہ لاہور، 1956ء۔ +*قاضی اطہر مبارکپوری مکتوبات امام احمد بن حنبل ، مطبوعہ مکتبہ الفہیم، مئوناتھ بھنجن، اترپردیش، بھارت]]، نومبر 2006ء + + +==نفسانی اور شیطانی خواہش میں فرق== +گناہ کی خواہش سے متعلق گفتگو میں ارشاد فرمایا)اس قسم کی خواہش یا تو نفسانی ہو اکرتی ہے یا شیطانی ،جس کے دو امتیاز سَہل(یعنی آسان) ہیں، ایک یہ کہ شیطانی خواہش میں بہت جلد کا تقاضا ہوتا ہے کہ ابھی کرلواَلْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ،عجلت (یعنی جلدی)شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔ +اور نفس کو ایسی جلدی نہیں ہوتی ، دوسری یہ کہ نفس اپنی خواہش پر جمار ہتا ہے جب تک پوری نہ ہو اُسے بدلتا نہیں ۔ اُسے واقعی اُسی شے کی خواہش ہے ۔ اگر شیطانی ہے تو ایک چیزکی خواہش ہوئی ،وہ نہ ملی، دوسری چیز کی ہوگئی ، وہ نہ م��ی تیسری کی ہوگئی ،اس واسطے کہ اُس کا مقصد گمراہ کرنا ہے خواہ کسی طورپرہو ۔ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی صفحہ 158 +==کیانفس اور رُوح میں فرق ہے؟== +* عرض: حضور!نَفس اور رُوح میں فَرق اِعتباری معلو م ہوتا ہے؟ +ارشاد: اصل میں تین چیزیں علیحدہ علیحدہ ہیں،نفس ۔۔۔رُوح۔۔۔قَلب۔۔۔رُوح بمنزلہ بادشاہ کے ہے۔۔۔ اورنَفس وقَلب اس کے دو وَزیرہیں۔نَفس اس کو ہمیشہ شَرّ کی طرف لے جاتا ہے اورقَلب جب تک صاف ہے خیر کی طرف بلاتا ہے اور مَعاذَ اﷲعَزَّوَجَل کثرتِ مَعَاصِی(یعنی گناہوں کی زیادتی)اور خصوصاً کثرتِ بِدْعَات سے اندھا کردیا جاتا ہے ۔ اب اُس میں حق کے دیکھنے،سمجھنے، غور کرنے کی قابِلیت نہیں رہتی، مگر اَبھی حق سننے کی اِسْتِعْدَاد (یعنی قابلیت)باقی رہتی ہے اور پھر مَعاذَ اﷲعَزَّوَجَل اَوندھا کردیا جاتا ہے اب وہ نہ حق سن سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے، بالکل چَوپَٹ (یعنی ویران)ہو کر رہ جاتا ہے۔ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی صفحہ 405 +==گناہِ کبیرہ اور صغیرہ میں کیا فرق ہے== +* عرض :گناہِ کبیرہ وصغیر ہ میں کیا فر ق ہے ؟ +ارشاد :گناہِ کبیرہ سات سو ہیں ، اِ ن کی تفصیل بہت طویل ۔اللہ عَزَّوَجَل کی معصیت جس قدر ہے سب کبیرہ ہے ۔ اگر صغیرہ وکبیرہ کو علیحدہ شمار کرایا جائے تو لوگ صغائر (یعنی صغیرہ گناہوں)کو ہلکا سمجھیں گے، وہ کبیرہ سے بھی بد تر ہوجائے گا ،غرض جس گناہ کو ہلکا جان کر کریگا وہی کبیرہ ہے۔ اِن کے امتیاز کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ: فرض کا ترک کبیرہ ہے اور واجب کا صغیرہ۔ جو گناہ بے باکی اور اِصرار سے کیا جائے کبیرہ ہے ۔ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص137 + + +! تاریخ صفحات درجہ کن زبانوں کو پیچھے چھوڑا اگلا حدف اگلے درجہ پر موجود زبان +وعلیکم السلام، جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ اردو ویکی اقتباسات پر کام کر رہے ہیں اللہ آپ کو مزید زور قلم عطا کرے +آپ کو یہ پیغام اس لیے مل رہا ہے کیونکہ آپ ایک ویکیمیڈیا ویکی پر منتظمین ہیں۔ +آج جب کوئی ویکیمیڈیا ویکی میں بغیر داخل ہوئے ترمیم کرتا ہے تو ہم ان کا آئی پی پتہ دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ پہلے ہی جان چکے ہوں گے، ہم مستقبل میں ایسا نہیں کر پائیں گے۔ یہ وکیمیڈیا تنظیم کے قانونی شعبے کا فیصلہ ہے، کیونکہ آن لائن رازداری کے اصول اور ضوابط بدل چکے ہیں۔ + + +آپ نے انسانی مملکت کو ایک بادشاہت سے تشبیہ دی ہے جس طرح ایک مملکت میں بادشاہ ، وزیر، مشیر]]، محافظ، قاضی، سپاہ سالار، فوج اور رعایا ناگزیر ہے ویسے ہی اس جسم انسانی میں بھی یہ سب موجود ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے مراحل ویسے ہی طے کرتا ہے جیسے کوئی پودا طے کرتا ہے، یہ جوان ہوتا ہے پھر اس سے بیج لیا جاتا ہے ، کئی پودوں کی نسل چلتی ہے جبکہ کچھ کی رک جاتی ہے، پھر یہ پودا بوڑھا ہو کر ختم ہو جاتا ہے انسان کی مثال ایسی ہی ہے شیخ اکبر کے نزدیک اس انسان کا بھائی اور دوسرا پودا یہ کائنات ہے۔ کائنات کے بڑھنے کی مثال انسان میں ناخن اور بال ہیں، کائنات میں چار عناصر ہیں انسان کی تخلیق بھی انہی عناصر سے ہوئی ہے۔ کائنات میں درندے اور وحشی جانور ہیں انسان میں بھی قہر غضب کمینگی اور حسد ہے۔ جیسے کائنات میں نیک روحیں اور فرشتے ہیں ویسے ہی انسان میں اعمال صالحہ ہیں۔ زمین میں موجود پہاڑوں کی مثال انسان میں ہڈیاں ہیں۔ زمین میں بہتے دریاوں کی مثال اس کی رگوں میں گردش خون ہے۔ جیسے کائنات میں سورج ایک ر��شن چراغ ہے ویسے ہی جسم میں روح ایک روشنی ہے؛ جب یہ جسم سے جدا ہوتی ہے تو جسم اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ کائنات میں چاند ہے انسان میں اس کی مثال قوت عقل ہے جیسے چاند سورج سے روشنی اخذ کرتا ہے ویسے ہی عقل روح سے نور اخذکرتی ہے، جیسے چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے ویسے ہی عقل عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اور پھر بڑھاپے میں کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عالم علوی میں موجود عرش کی مثال جسم انسانی میں دل ہے اور اسی طرح کی دوسری مثالیں۔ +انسانی مملکت کی اصلاح میں خدائی تدبیریں) + + +* قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ +* قوت باطل کو چھو لیتی ہے تو باطل حق میں بدل جاتا ہے۔ +* تہذیب مرد قوی کا ایک خیال ہے۔ +* پیکر قوت مہدی کا انتظار چھوڑ دو۔ جاو اور مہدی کو تخلیق کرو۔ + + +==اذان و نماز عربی میں ہی کیوں؟== +* فرض کیجئے ایک انگریز مسلمان چین جاتا ہے جب کہ وہ چینی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا، فرض کیجئے وہ گلی ميں یہ الفاظ سنتا ہے "چن چو چی شان"فطری بات ہے اس کے پلے کچھ نہيں پڑےگا۔ اگر اس کے کانوں میں اذان کے الفاظ "اللہ اکبر" کا چینی ترجمہ پڑے گا تو وہ کس طرح جان سکے گا کہ یہ اذان کی آواز ہے اور شاید وہ نماز پنجگانہ میں سے کوئی یا تھر جمعہ کی نماز بھی ادا نہ کر سکے۔۔۔۔اس لیے ایک عالمگیر مذہب کا تقاضا ہے کہ اس کے پیرو کاروں میں بعض بنیادی چیزیں مشترک ہوں۔اس میں اذان اور نماز میں پڑھی جان والی دعاہیں اور کلمات ایسی چیزیں ہیں جن کو بنیادی قرار دیا جا سکتا ہے۔اسلام کیا ہے، بیکن بکس، ملتان + + +کتاب ایک اچھی ساتھی ہے، کتاب ایک سچا دوست ہے۔ اچھا دوست ویی ہوتا ہے جو دوست کا بھلا چاہتا ہے۔ دوست یہ چاہتا ہے کہ ہم صاحب کردار ہوں، ہم میں امانت ہو، دیانت ہو، صداقت ہو۔ ہمارے اخلاق اچھے ہوں کہ سب ہمیں پسند کریں۔ ہماری ذات سے کسی کو دکھ نہ پہنچے۔ اچھی کتاب ہمیں ایسا ہی اچھا انسان بننا سکھاتی ہے۔(ریل کی کہانی کا دیباچہ، 1989 ref> + + +* کسی کے لیے بلندی پر چڑھنا اس وقت تک ممکن نہین جب تک وہ نیچے کے اندھیرے میں قدم رکھنے کے لیے خود کو تیار نہیں کرتا۔ + + +* ہم گرد میں تیرتے ہوئے ذرات، اس کائنات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ فلسفہ کل کی روشنی میں جز کے مطالعہ کا نام ہے: اور اس کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہم ایک بہت بڑے کل کے بہت خفیف جز ہیں۔ جز اور کل کی ہم آہنگی کو شاید صحت، خوب صورتی، سچائی، دانش، اخلاقیات اور مسرت کی بہترین تیریف قرار دیا جا سکتا ہے۔ہیرو آف ہسٹری، صفحہ75 +*اگر ہم تاریخ پر اثرات کے حوالے سے تجزیہ کریں تو محمد صل للہ علیہ والہ ےسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے جاہلیت کی دلدل میں دھنسے ہوئے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی رفعت سے ہم کنار کیا، اور کسی بھی دوسرے مصلح یا پیغمبر کی نسبت کہیں زیادہ کامیاب ہوئے۔ تاریخ کا شاید ہی کوئی اور آدمی کبھی اپنے خوابوں کو اس قدر بھرپور انداز میں تعبیر دے سکا۔ محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے عربوں کر تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک نیا مذہب بھی دیا، کیونکہ مذہب کے علاوہ کوئی اور طریقہ دستیاب ہی نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہیرو آف ہسٹری، صفحہ234 +*ساٹھ سال پہلے میں سب کچھ جانتا تھا۔ اب کچھ بھی نہیں۔ تعلیم ہماری اپنی جہالت کی ایک ترقی پذیر دریافت ہے۔ +* تہذیب زمینی رضا مندی سے ہوتی ہے، یہ بغیر اطلاع دیئے بدل سکتی ہے۔ + + +بانو قدسیہ پیدائش: 28 نوم��ر 1928ء — وفات 4 فروری 2017ء اردو زبان کی شہرت یافتہ ادیبہ، مصنفہ تھیں۔ +* کرنیل کور کے ہونٹ بغیر ہلے کہہ رہے تھے "یا رسول اللہ تیرے درپہ آئے ہوئے لوگوں کے لیے تیرے پیاروں نے دروازے کیوں بند کررکھے ہیں- مجھے اس بات کا رنج نہیں کہ سوڈھی سرداروں کی لڑکی تیلی سےبیاہی جارہی ہےمیں توپوچھتی ہوں کتنے سوبرسوں میں ایک نومسلم مسلمان ہوجاتا ہے کلمہ پڑھنے کے بعد مسلمان کہلانے کے لیے کتنے برسوں کی کھٹالی میں رہنا پڑتاہے" +کتنے سال کتنے سوسال ؟ ،(بانوقدسیہ کے افسانے "کتنے سوسال"سے اقتباس ref> +*بڑا اِنسان وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے سارے تضاد، اُن کی طبیعتوں کا فرق، حالات، خیالات سارے رنگوں کو خوش دلی سے قبول کرے۔ مسلک مختلف ہو تو اپنا مسلک چھوڑے بِنا دوسرے کے اعتقادات کی تعظیم کرتا رہے۔ کلچر مختلف ہو تو اعتراضات کیے بغیر دوسرے کے کلچر کو بھی اچھا سمجھتا رہے، رنگ، نسل، طبقاتی اُونچ نیچ، لباس، زبان غرضیکہ زیادہ سے زیادہ تضاد اور فرق کو زِندگی کا حصہ اور اِنسان کو اِنسان سے ممیّز کرنے کی سہولت سمجھ لے۔ اِن امتیازات کی وجہ سے نفرت کا شکار نہ ہو۔ + + +* جب فوٹو کھنچ چکا تو ماؤ ہمارے سامنے کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگا۔ اب ہم لوگ باری باری اس سے ہاتھ ملانے لگے، جب میری باری آئی تو میں نے اس کے کلچے سے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ ہلانے لگا،پھر میں نے قریبی انٹرپریٹر سے کہا،”ان سے کہو کہ مجھے کوئی نصیحت کریں!۔“ ”نصیحت!“ ماؤ نے حیران ہو کر پوچھا ”کیسی نصیحت؟“ اس کے چہرے پر ناخوشی کے تاثرات تھے۔میں نے کہا کہ ”نصیحت جو ایک بڑ ا بزرگ، ایک تجربہ کار صاحب فراست اپنے چھوٹوں کو کیا کرتا ہے۔“چیئرمین ماؤ ذرا سا مسکرایا پھر اپنی آدھی بند آنکھوں کو اور بند کر لیا۔ ذرا توقف کیا جیسے آٹو گراف دینے والے لمحہ بھر کے لئے سوچا کرتے ہیں۔پھر بڑی صاف اور کھنک دار آواز میں بولا۔”اس کو کہو کہ اپنی بقا اور سالمیت کے لئے اپنے ملک کی سرحدیں غیرملکی اور سامراجی ثقافت پر سربمہر کر دیں۔ یہی میری نصیحت ہے۔“مجھے اتنے بڑے عظیم اور عالمی رہنما کی یہ چھوٹی سی بات پسند نہ آئی۔ اتنے بڑے ماؤ نے اتنی ہلکی سی بات کہی تھی کہ مجھے حوصلہ ہو گیا۔میں نے کہا،”سر ثقافتیں تو ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ان کو تازہ پانیوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور پھر یہ دوسری ثقافتوں کے میل جول اور تال میل سے ہی توانا ہوتی ہیں۔“ماؤ نے ہنس کر کہا”جہاں اندر کے پشتے مضبوط ہوتے ہیں وہاں تازہ پانیوں کی آدھ دھار آجانے کی صورت میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن جہاں پشتے کمزور ہوتے ہیں وہاں تازہ پانی طغیانی کی صورت میں آتے ہیں اور جگہ جگہ سے پشتہ بندیاں توڑ کر سارے علاقے کو دلدل بنا دیتے ہیں۔“ماؤزے تنگ سے مکالماتی یاد، اشفاق احمد + + +* محبت کی تعریف مشکل ہے. اس پر کتابیں لکھی گئی. افسانے رقم ہوے. شعرا نے محبت کے قصیدے لکھے. مرثیے لکھے. محبت کی کیفیت کا ذکر ہوا. وضاحتیں ہوئیں. لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہو سکی. واقعہ کچھ اور ہے روایت کچھ اور. بات صرف اتنی سی ہے کہ جب ایک چہرہ انسان کی نظر میں آتا ہے تو اسکا انداز بدل جاتا ہے. کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے. بلکہ ظاہر و باطن کا جہاں بدل جاتا ہے. محبت سے آشنا ہونے والا انسان ہر طرف حسن ہے حسن دیکھتا ہے. اسکی زندگی نثر سے نکل کر شعر میں داخل ہو جاتی ہے. اندیشہء سود و زیاں سے نکل کر انسان جلوہ جاناں میں گم ہو جاتا ہے. اسکی تنہائی ��یں میلے ہوتے ہیں. وہ ہنستا ہے بے سبب ، روتا ہے بے جواز. محبت کی کیفیت جلوہ محبت کے سوا کچھ نہیں. محب کو محبوب میں کجی یا خامی نظر نہیں آتی. اگر نظر آئے بھی تو محسوس نہیں ہوتی. محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی. محبوب کی ہر ادا دلبری ہے. یہاں تک کہ اسکا ستم بھی کرم ہے. اسکی وفا بھی پر لطف اور جفا بھی پر کشش. محبوب کی جفا کسی محب کو ترک وفا پر مجبور نہیں کرتی. دراصل وفا ہوتی ہی بے وفا کے لئے ہے. محبوب کی راہ میں انسان مجبوری یا معذوری کا اظہار نہیں کرتا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجاز کیا ہے اور حقیقت کیا. دراصل مجاز بذات خود ایک حقیقت ہے. اور یہ حقیقت اس وقت تک مجاز ہے جب تک رقیب ناگوار ہو. جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو، وہ عشق حقیقی ہے. اپنا عشق اپنے محبوب تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز، اور اگر اپنی محبت میں کائنات شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت۔ +*انسان پریشان اُس وقت ہوتا ہے جب اُس کے دِل میں کسی بڑے مقصد کے حصول کی خواہش ہو، لیکن اُس کے مطابق صلاحیت نہ ہو۔ سکون کے لیے ضروری ہے کہ یا تو خواہش کم کی جائے یا صلاحیت بڑھائی جائے۔ ہر خواہش کے حصول کے لیے ایک عمل ہے۔ عمل نہ ہو تو خواہش ایک خواب ہے۔ ہم جیسی عاقبت چاہتے ہیں، ویسا عمل کرنا چاہیے۔ کامیابی، محنت والوں کے لیے، جنت ایمان والوں کے لیے اور عید روز داروں کے لیے۔ +*دور سے آنے والی آواز بھی اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔ +*ہوسِ زَر اور لذتِ وجود چھوڑ دی جائے، تو زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ +*خوش نصیب انسان وہ ہے، جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔ +*بدی کی تلاش ہو تو اپنے اندر جھانکو، نیکی کی تمنا ہو تو دوسروں میں ڈھونڈو۔ +*ظاہر کی روشنی کی تلاش، آنکھ کی بینائی سے ہے اور باطن کے نور کی تلاش، قلبِ منور سے اور صادق کی پہچان اپنی صداقت سے۔ +*آپ کی اپنی تسلیم ہی کا نام اللہ ہے۔ باہر کی دنیا میں اللہ کے لاکھ مظاہر ہوں، آپ سے آپ کے اللہ کا تعلق اُتنا ہے جتنا کہ وہ آپ کی تسلیم و رَضا میں ہے۔ +*سب سے زیادہ بدقسمت انسان وہ ہے جو حد درجہ غریب ہو اور خدا پر یقین نہ رکھتا ہو۔ +*خیال بدل سکتا ہے لیکن اَمر نہیں ٹل سکتا۔ +*توبہ منظور ہوجائے تو وہ گناہ کبھی سَرزد نہیں ہوتا اور نہ اُس گناہ کی یاد باقی رہتی ہے۔ +*جس سفر کا انجام کامیابی ہے، اُس سارے سفر کو ہی کامیابی کہنا چاہیے۔ +*انسانی حد بندیاں اور پیش بندیاں، فطرت کے کام میں رکاوٹ نہیں پیدا کرسکتیں۔ +*اُس چیز کا ذِکر نہ کرو، جس کو دیکھا نہیں اور اُس کا بھی کیا تذکرہ جو کسی کو دِکھلائی نہ جاسکے۔ +*آسمانوں پر نگاہ ضرور رکھو، لیکن یہ نہ بھولو کہ پاؤں زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔ +*دو انسانوں کے مابین ایسے الفاظ۔۔۔ جو سننے والا سمجھے کہ سچ ہے اور کہنے والا جانتا ہو کہ جھوٹ ہے۔۔۔ خوشامد کہلاتے ہیں۔ +*جب تک آنکھ میں آنسو ہیں، انسان خدا کا تصور ترک نہیں کرسکتا۔ +*انسان کا دِل توڑنے والا شخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا۔ +*انسان جتنی محنت خامی چھپانے میں صرف کرتا ہے، اُتنی محنت میں خامی دور کی جاسکتی ہے۔ +*دوسروں کی خامی، آپ کی خوبی نہیں بن سکتی۔ +*اگر آرزو ہی غلط ہو تو حسرتِ آرزو، تکمیل آرزو سے بہت بہتر ہے۔ +*نعمت کا شکر یہ ہے کہ اُسے اُن کی خدمت میں صَرف کیا جائے، جن کے پاس وہ نعمت نہیں۔ +*وہ انسان جھوٹا ہے جو حق گوئی کے موقع پر خاموش رہے یا ایسی بات کہے جس سے اِبہام پیدا ہو۔ +*قربِ جمال، انسان کا حال اور خیال بدل کے رکھ دیتا ہے۔ +*اچھے لوگوں کا ملنا ہی اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔ +*بہترین کلا�� وہی ہے جس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوں۔ +*جس خطرے کا وقت سے پہلے احساس ہوجائے، سمجھو کہ وہ ٹل سکتا ہے۔ +*زندگی کی کامیابی کا فیصلہ، زندگی کے اختتام پر ہی ہوسکتا ہے۔ +* جو انسان حال پر مطمئن نہیں، وہ مستقبل پر بھی مطمئن نہ ہوگا۔ اطمینان حالات کا نام نہیں، یہ روح کی ایک حالت کا نام ہے۔ مطمئن آدمی نہ شکایت کرتا ہے، نہ تقاضا۔ +*اللہ سے وہ چیز مانگیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت دِقت نہ ہو۔ اللہ سے مانگی ہوئی نعمت اللہ کے لیے وقف ہی رہنے دیں، چاہے وہ زندگی ہی کیوں نہ ہو۔ +*اللہ کی رحمت سے انسان اُس وقت مایوس ہوتا ہے جب وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو۔ +*اہل ظاہر کے لیے جو مقام، مقامِ صبر ہے، اہل باطن کے لیے وہی مقام، مقامِ شکر ہے۔ +*کسی ایک مقصد کے حصول کا نام کامیابی نہیں۔ کامیابی اُس مقصد کے حصول کا نام ہے جس کے علاوہ یا جس کے بعد کوئی اور مقصد نہ ہو۔ +*علم اُتنا حاصل کریں کہ اپنی زندگی میں کام آئے۔ علم وہی ہے جو عمل میں آسکے، ورنہ ایک اِضافی بوجھ ہے۔ +*اگر محنت میں لطف نہیں تو نتیجے کا انتظار تکلف ہے۔ +*حقیقت آئینے کے عکس کی طرح ہے۔ آپ قریب ہوجاؤ، وہ قریب ہوجاتا ہے۔ آپ دور ہوجاؤ، وہ دور ہوجاتا ہے۔ آپ سامنے سے ہٹ جاؤ، وہ بھی ہٹ جاتا ہے۔ +*ایسی دعوت میں جانے کا کیا فائدہ؟ جس میں نہ جانے سے دعوت کی مجموعی کیفیت پر کوئی نمایاں اَثر نہ ہو۔ +*بیدار کردینے والا غم، غافل کردینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔ +*مذہب ماضی کی آسانی کی طرف لے جاتا ہے اور سائنس مستقبل کی پیچیدگیوں کی طرف۔ اِس کا حل یہ ہے کہ آپ سائنس سے آسانی حاصل کرتے جاؤ اور مذہب سے رجوع کرتے جاؤ۔ +*کوئی مسلمان ایسا نہیں جو خوشی کے ساتھ گناہ کرے۔ گناہ بیماری کی طرح کہیں اُسے لاحق ہوجاتا ہے۔ +*گناہ وہ ہر عمل ہے جو تمہارے لیے نقصان دہ ہے۔ +*گنہگار کا گناہ عاجزی پیدا کر رہا ہو تو وہ بچ سکتا ہے۔ +*بدی کا موقع ہو اور بدی نہ کرو تو یہ بہت نیکی ہے۔ +*کائنات کا کوئی غم ایسا نہیں ہے جو آدمی برداشت نہ کرسکے۔ +*غم چھوٹے آدمی کو توڑ دیتا ہے۔ اگر غم میں غم دینے والے کا خیال رہے تو پھر انسان بہت بلند ہوجاتا ہے۔ +*مرنے کے دو ہی طریقے ہیں غم مل جائے یا خوشیاں چلی جائیں۔ +* مرنے کے بعد زِندہ ہونے کی خوشی صرف اُسی شخص کو ہوسکتی ہے جو اِس زندگی میں کوئی کام کر رہا ہو۔ جو اِس زندگی میں کوئی کام کر رہا ہو تو اُسے مرنے کا خوف نہیں ہوتا۔ +*سانس کی موت سے پہلے بہت سی موتیں ہوچکی ہوتی ہیں، ہم سانس کو موت سمجھتے ہیں، حالانکہ سانس تو اعلان ہے اُن تمام موتوں کا، جو آپ مر رہے ہیں۔ +*آپ کے سانس گنتی کے مقرر ہوچکے ہیں، نہ کوئی حادثہ آپ کو پہلے مار سکتا ہے، نہ کوئی حفاظت آپ کو دیر تک زِندہ رکھ سکتی ہے۔ +*جب موت سے پہلے موت کا مقام سمجھ آ جائے تو موت کے بعد ملنے والے انعام موت سے پہلے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ +*جو بات آپ کے دِل میں اُتر گئی، وہی آپ کا انجام ہے۔ اگر آپ کو موت آ جائے تو جس خیال میں آپ مریں، وہی آپ کی عاقبت ہے۔ +*انسان اپنا بہت کچھ بدل سکتا ہے حتیٰ کہ شکل بھی تبدیل کرسکتا ہے، لیکن وہ فطرت نہیں بدل سکتا۔ +*سخی تب سخاوت کرسکے گا جب سائل بھی موجود ہو۔ +*کسی کو اُس کے حق سے زیادہ دینا احسان کہلاتا ہے۔ +*سائل بخیل کو سخی بنانے کے لیے آتا ہے۔ +*اگر صاحبِ مرتبہ شخص لوگوں کی خدمت میں مصروف ہو تو سمجھو کہ اُس کا یہ مرتبہ انعام ہے۔ +*جتنے عظیم لوگ تھے، وہ غیر عظیم زمانوں میں آئے۔ +*شہرت ایک مستقل ابتلاء ہے جہاں انسانوں کی خوبیاں مشہور ہوتی ہی��، وہاں اُن کی خامیاں بھی مشہور ہونے لگ جاتی ہیں۔ + + +بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا_میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں،اب انہیں اس "کھوتی" پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں_ +ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تا کہ انہیں بیت المال لے جائیں- +آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا_مجھے تو چاہیئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں. + + +*احمق ہی پانی کی گہرائی دونوں ٹانگوں سے ماپتا ہے +*میرے خیال میں کسی عقلمند انسان کے لئے پانی ہی بہترین مشروب ہے۔ +*ہزاروں انسان محبت کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں لیکن پانی بنا کوئی نہیں۔ + + +اقتباسات روز مرہ زندگی سے متعلق مختصر مگر پر اثر ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے چاہے جو بھی فلسفہ، ملک، نسل یا مذہب ہو، چاہے وہ سنجیدہ نوعیت کے ہوں یا مزاحیہ، ان کے خالقین چاہے اچھی شہرت رکھتے ہوں یا بری، متنازعہ ہوں یا غیر جانبدار، مختصر الفاظ میں دانائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ +اقتباسات سے ہمیں ان کے خالقین کے بارے جاننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے یا پھر ہم اپنی زندگی میں انہیں منطبق کرتے ہیں، ان پر ہنستے ہیں یا محض زباندانی کی داد دیتے ہیں۔ تاہم اقتباسات کسی بھی معاشرے کی مجموعی سوچ یا بزرگوں کی دانائی وغیرہ کو ایک نسل سے دوسرے نسل تک با آسانی منتقل کرتے ہیں۔ +ویکی اقتباسات مشہور اقتباسات کو جامع اور درست طور پر پیش کرتا ہے۔ +*درستگی: ویکی اقتباسات درستگی پر زور دیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم متعلقہ حوالہ جات دیں کہ یہ اقتباس شروع کہاں سے ہوا یا اس پر اہم اثرات کیسے مرتب ہوئے۔ اس کے علاوہ غلط افراد سے منسوب اقوال کو تلاش کر کے ان کی درستگی کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ غلطی کہاں سے در آئی۔ +*جامعیت: ویکی اقتباسات جامع ہوتے ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ مختلف افراد، ادبی کاموں، یادگاروں اور دیگر ذرائع سے اقتباسات حاصل کریں۔ ان میں موجودہ اور ماضی کے اقتباسات بھی شامل ہوتے ہیں اور اس میں کسی خاص جگہ کی قید نہیں۔ +*قابل ذکر: ہماری کوشش ہوتی ہے کہ صرف قابل ذکر اقتباسات پیش کریں۔ قابل ذکر اقتباسات کسی قابل ذکر فرد، قابل ذکر تخلیق یا پھر بہت سارے افراد سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ +*اقتباسات ویکی اقتباسات دراصل اقتباسات کا مجموعہ ہے۔ اسے مکمل بنانے کی خاطر بہتر ہے کہ ہر عنوان کے ساتھ اس کا مختصر تعارف بھی دے دیا جائے۔ تاہم بنیادی مقصد اقتباسات کو پیش کرنا ہے۔ + + +* ایک قہقہہ اور لمبی نیند ڈاکٹروں کی کتاب میں بہترین دوا کے طور پر درج ہیں +* خدا مہربان سہی لیکن کشتی میں مت ناچو +* انجان راہ پر قدم آہستہ اٹھتے ہیں +* ہر انسان کا دماغ اس کی سلطنت ہے +* خدا کا ڈر ذہانت کی بنیاد ہے +* جب راستہ انجان ہو تو آہستگی سے چلیں +* پھسلی زبان سے سچ ہی نکلتا ہے + + +*بچہ، پاگل اور شرابی سچ ہی بولتے ہیں۔ +* جسے خارش ہوتی ہے وہی کھجلاتا ہے۔ + + +* جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا مخالف ہے۔ +* جو مجھے چاہتا ہے وہ میرے کتے کو بھی جانتا ہے۔ +* اگر داڑھی ہی سب کچھ ہوتی تو بکرا بھی تبلیغ کرتا۔ +* نوکدار اوزار سے مت کھیلو۔ +* ٹیڑھی لکڑی بھی کبھی سیدھی جلی؟۔ +* محبت کسی قانون کو نہیں ماتی۔ + + +* ترقی کے زینے پر چڑھنے کے لئے پینٹ کی جیب سے ہاتھ نکالنے پڑتے ہیں +* جب چھوٹے انسان کاسایہ طویل ہو تو سمجھ لیں کہ سورج ڈوب رہا ہے +* پہلے اڑنے والا پرندہ کیڑا پکڑتا ہے + + +* پانی سے کھیلنا گیلا کرتا ہے اور آگ سے کھیلنا جلاتا ہے +* جو ہوا بوتا ہے وہ آندھی کاٹتا ہے +* خالی ڈھول اونچا بجتا ہے + + +*پھل کا کوئی آگا پیچھا نہیں ہوتا۔ +* پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ +* جو پانی پر چلتا ہے وہی ڈوبتا ہے۔ + + +[[افریقہ ایک براعظم ہے، افریقی سے مراد، برا‏عظم افریقہ کے لوگ ہیں۔ +* دشمنوں میں سوتے ہوئے ایک آنکھ کھلی رکھنی چاہیئے۔ +* پیسہ تلوار سے بھی تیز ہوتا ہے۔ +* مچھلی پانی میں گرے تو گم نہیں ہوتی۔ +* کدال اپنے دستے سے اونچی نہیں ہو سکتی۔ +* اگر درختوں پر پیسے اگتے تو عورتیں بندروں سے محبت کرتیں۔ +* مرغیوں کے غول میں کاکروچ بن بلایا مہمان ہوتا ہے۔ +* گرگٹ تب تک رنگ نہیں بدلتا جب تک اسے دوسرے رنگ کا یقین نہ ہو جائے۔ +* جسے چمگادڑ کی طرح اڑنے کا شوق ہو، اسے اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنی چاہیئے۔ +* ضدی مکھی لاش کے ساتھ قبر تک جاتی ہے۔ +* ایک ہی تیر والا شکاری احتیاط سے نشانہ لیتا ہے۔ +* جب تک ہوا نہ چلے، درخت نہیں ہلتا۔ +* سورج جتنا بھی گرم ہو جائے، سمندر خشک نہیں کر سکتا۔ +* ایک بار کا مشاہدہ سو بار کے سننے سے بہتر ہے۔ +* اگر عجلت میں جانا ہو تو اکیلے جاؤ، دور جانا ہو تو دوسروں کے ساتھ مل کر جاؤ۔ +* عقلمند انسان بولنے سے پہلے سوچتا ہے۔ +* کھینچنے سے بھی گھاس جلدی نہیں اگتی۔ +* جب ہاتھی پیچھا کرے تو بھینس کو اپنی طاقت بھول جاتی ہے۔ +* بارش کسی کی دوست نہیں، ہر کسی پر برستی ہے۔ +* جسے آنکھ دیکھ لے، ہاتھ بھی وہیں پڑے گا۔ +* بوڑھے آدمی کے پیٹ میں کیلنڈر ہوتا ہے۔ +* داڑھی والے کو آگ میں پھونک نہیں مارنی چاہیئے۔ +* خشک درخت خود کو جلنے سے نہیں بچا سکتا۔ +* قانون اسی کا جس کے ہاتھ چھری کا دستہ۔ +* صرف آگے کو چلنے سے ہی سفر ختم ہوتا ہے۔ +* ایک دوسرے سے بات کرنا ہی پیار ہے۔ +* جب بندر دیکھ رہا ہو تو مونگ پھلی مت کاشت کرو۔ +* جو درخت کو ہلائے گا، پھل بھی وہی پائے گا۔ +* جو درخت پر چڑھنا چاہے گا، اسے اوپر کی بجائے نیچے سے چڑھنا ہوگا۔ +* جس کا پیٹ بھرا ہو، وہ بھوکے کے لئے آگ نہیں جلائے گا۔ +* جو کھل کر بات نہ کرے، وہ آپ کا دوست نہیں۔ +* جو اپنے کتے کو چاہتا ہے، اسے کتے کے چیچڑ کو بھی چاہنا ہوگا۔ +* جو آہستہ چلے گا وہ دور تک جائے گا۔ +* دو بادشاہ ایک کشتی میں سوار نہیں ہوتے۔ + + +* بیٹا شادی ہونے تک اور بیٹی تاحیات بیٹی رہتی ہے۔ +* کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ +* وقت پر لگایا ایک ٹانکہ بے وقت کے نو ٹانکوں سے بہتر ہے۔ +* گھر جیسی کوئی جگہ نہیں۔ +* اچھی بات سے اچھا فعل بہتر ہے۔ +* آملیٹ کھانے کے لئے انڈہ توڑنا پڑتا ہے۔ +* جو ایک انڈا چوری کرے گا وہ بھینس بھی چوری کرے گا۔ +* اگر گرمی نہیں سہہ سکتے تو باورچی خانے سے نکل جاؤ۔ +* جہاں باڑ چھوٹی ہوگی لوگ وہیں سے عبور کریں گے۔ +* اگر کسی گڑھے میں گر جاؤ تو رونا دھونا بند کر دو۔ +* امید پر جینے والا بھوک سے مرے گا۔ +* اپنا منہ بند اور آنکھیں کھلی رکھیں۔ +* ہنستے کے ساتھ دنیا ہنستی ہے اور رونے والا اکیلا روتا ہے۔ +* عشق اندھا ہوتا ہے۔ +* اونچی کیل ہتھوڑا کھاتی ہے۔ +* کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں ہے۔ + + +* آنکھ اپنا عیب دیکھنے سے معذور ہوتی ہے۔ + + +* ہر چیز اپنی اصل سے پہچانی جاتی ہے۔ +* ایک اکیلا دو گیارہ۔ +* اگر آپ کا دوست شہد جیسا میٹھا ہے تو اس کا زیادہ فائدہ نہ اٹھاؤ۔ +* ایک بھرا ہوا خاندان، ایک پورا گھر، سواری کا گھوڑا، یہ سب زندگی کی بڑی بڑی خوشیاں ہیں۔ +*اصیل گھوڑا کبھی غلطی کر لیتا ہے۔ +*ہر اصل گھوڑے کو کبھی کبھی ٹھوکر لگتی ہے۔ +* زبان ایک ایسا گھوڑا ہے جو کسی کو بھی دور کے ملک لے جا سکتا ہے۔ + + +* جو اکیلا کھائے گا وہ اکیلا مرے گا۔ +علم کو کھاد کی طرح کھلا رکھنا ہی بہتر ہے۔ + + +پرونسی فرانس کی ایک زبان ہے +* کسی اور کے نقصان سے سبق لینا آسان ہے +* شاہین مکھیاں نہیں پکڑتے +* جیسا باپ ویسا بیٹا +* جب تک ریچھ پکڑ نہ لو، اس کی کھال کا سودا مت کرو +* ہر انسان اپنی قسمت کا خود معمار ہے + + +* انڈا مرغی سے بھی سیانا ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ +* اختتام کام کا سرتاج ہے۔ +* ڈر کی بہت سی آنکھیں ہوتی ہیں۔ +* امید سارے پاگلوں کی ماں ہے۔ +* قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے۔ + + +یہ اقوال پشتو زبان سے ہیں +* دو بھینسوں کے سر ایک دیگچی میں نہیں پک سکتے۔ +* بچوں کو کوئی کام نہیں ہوتا پھر بھی وہ فارغ نہیں رہتے۔ +* چھری چاہے سونے کی ہی کیوں نہ ہو، پیٹ میں نہیں مارتے۔ +* جہاں دل جاتا ہے پیر بھی وہیں جاتے ہیں۔ +* کسی کی جان سے عزرایل کو کیا لینا دینا۔ +* ناپاک پودے پر کتا بھی پیشاب نہیں کرتا۔ +* باتیں سو اور سر ایک۔ +* ہندو تھکا اور خدا ناراض۔(یعنی ہندو دن رات عبادت کرتا رہتا ہے پر چونکہ عبادت اسلامی اصولوں سے ہٹ کر ہوتا ہے اسلئے خدا کو تو قبول ہی نہیں)۔ +* چاہے جتنا بھی گھومے پھرے (مگر گھومنے پھرنے کے بعد) اپنے ٹھکانے پر ہی آنا ہوتا ہے + + +* بندر بھی درخت سے گر سکتا ہے۔ +* مینڈک کا بچہ بھی مینڈک ہی رہتا ہے۔ +* ایک اچھی بات تین سردیوں کو گرم کر سکتی ہے۔ + + +تجویز کنندہ کے نزدیک یہ مضمون حذف کر دیا جانا چاہیے خط رنگ=سرخ متن اگر 1 وجہ 1 لیکن اس کی وجہ نہیں بیان کی گئی۔ +اگر آپ کے خیال میں اسے حذف نہیں ہونا چاہیے تو ، PAGENAME ، کے صفحۂ TALKPAGENAME تبادلۂ خیال پر رائے دیجیئے۔ +| متن اگر 2 2 ء جو متعین نہیں کی گئی کے بعد حذف کیا جا سکتا ہے۔ + + +اردو ویکی اقتباسات ایک طویل عرصہ سے غیر فعال تھا۔ حال ہی میں اردو ویکیپیڈیا کے پچاس ہزاری ہدف کی تکمیل پر دیگر غیر متحرک منصوبوں کو بھی فعال کیا جارہا ہے، اردو ویکی کتب بھی کچھ دنوں میں فعال ہوجائے گا۔ اب اردو ویکی اقتباسات کو فعال کیا جانا ہے، اس سلسلہ میں یہاں منتظمی کے اختیارات کی از حد ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ + + +اصل نام منصور ہے، بسلسلہ روزگار آج کل فن لینڈ میں مقیم ہوں۔ پاکستان سے تعلق ہے + + +* آنکھیں خود دیکھتی ہیں جبکہ کان دوسروں کو سنتے ہیں۔ +* جوان عورت اور پرانی شراب ہو تو مہمان بہت آتے ہیں۔ +* کام شروع کرنا آسان ہے لیکن اسے جاری رکھنا مشکل۔ +* محبت ہو یا انڈے، تازہ ہی مزہ دیتے ہیں۔ +* مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے۔ +* عورتیں ذہانت کی بجائے اپنی شکل پر زیادہ توجہ دیتی ہیں کیونکہ مرد کی آنکھیں اس کے دماغ کی نسبت زیادہ کام کرتی ہیں۔ +* جب آپ غلط راستے پر جا رہے ہوں تو تیز بھاگنا بےکار ہے۔ +* تخت چاہے جتنا اونچا ہو، بیٹھنا ہمیشہ کولہوں پر ہی پڑتا ہے۔ +* فقیر اور دکاندار ہمیشہ راستے کے قریب ہوتے ہیں۔ +* انڈا مرغی سے بھی زیادہ ذہین ہونے کی کوشش کر تا ہے۔ +* عورت مرد کا بزنس کارڈ ہے۔ +* شراب سے دوست بنائے جاتے ہیں اور آنسوؤں سے ان کا امتحان ہوتا ہے۔ +* کنجوس ہو یا بکری، انہیں سلاد کے ساتھ تیل یا سرکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ +* تیز بیئر اور ہلکا سرکہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔۔ +* امیر آدمی کا دماغ اس کی جیب میں ہوتا ہے۔ +* چار آنکھیں دو انکھوں کی نسبت بہتر دیکھتی ہیں۔ +* دوسروں کے دکھانے میں وہ مزہ کہاں۔ + + +یہ کہاوتیں سندھی زبان سے ہیں ۔ +* بھینس کو اپنی سیاہی دکھائی نہیں دیتی۔ +* بدنیتی سے روٹی آدھی رہ جاتی ہے۔ +* چور کی ماں چھپ کر روتی ہے۔ +* جو چولہے پر ہو وہی دل پر راج کرتی ہے۔ +* سچ ہو تو ناچو۔ + + +یہ ضرب الامثال مرہٹی زبان سے ہیں +* پیسے بچانا ایسا ہی ہے جیسے جنگل میں جا کر سوئی ہوئی شیرنی کا دودھ دوہنے کے بعد پی کر اسے ہضم کرنا۔ +* ریچھ کو بالوں کی کیا کمی۔ + + +* دو خرگوشوں کا شکار کرنے والا ایک بھی نہیں پکڑ سکتا۔ +* اگر دو بیل ایک ساتھ باندھے جائیں گے تو ایک دوسرے کے مزاج پر اثر انداز ہوں گے۔ + + +* جو دوسرے کو انتظار کرائے گا وہ اسے اپنا دشمن بنائے گا۔ +* محبت کے اولین مراسلے آنکھوں سے جاتے ہیں۔ +* بند منہ میں مکھیاں نہیں گھس سکتیں۔ +* جو سستا لگتا ہےو ہ مہنگا پڑتا ہے۔ +* ضرورت کے وقت ہی بندے کو اپنے اصلی دوست کی پہچان ہوتی ہے۔ +* جینے کے لئے کھاؤ، کھانے کے لئے مت جیو۔ +* بادام کھانے کے لئے چھلکا توڑنا پڑے گا۔ +* سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں مت رکھو +* لوگ اپنی سوچ چھپانے کے لئے باتیں بناتے ہیں۔ +* سیب اپنے درخت سے دور نہیں گرتا۔۔ +* موچی سے جیتنے والے سب سے زیادہ برے ہوتے ہیں +* بندا وہیں سے چھلانگ لگاتا ہے جہاں باڑ نیچی ہو۔ +* کہنے سے کرنا بہتر ہے۔ +* اگر کوئی کام مناسب انداز سے کرنا چاہتے ہیں تو خود کریں۔ +* میٹھا چکھنے کے لئے آپ کو لازماً کڑوا بھی چکھنا ہوگا۔ +* جس کا سر موم سے بنا ہو، اسے آگ سے دور رہنا چاہئے۔ +* جو مجھے چاہے گا وہ میرے کتے کو بھی چاہے گا۔ +* بھوکے پیٹ کے کان نہیں ہوتے۔ + + +* آپ کسی کا سونا تو واپس کر سکتے ہیں لیکن ان کی نیکی کا بدلہ نہیں اتار سکتے۔ +* جہاں پہاڑ وہیں دلدل۔ +* جہاں سوئی وہیں دھاگہ۔ + + +* پنچھی اپنی اڑان سے پہچانا جاتا ہے +* روتی عورت اور ہنستے مرد کا کبھی اعتبار نہ کرو +* جھوٹ کے بوسے سے سچ کا تھپڑ بہتر ہے +* ڈر کی آنکھیں بڑی ہوتی ہیں + + +* ایک ہی غلطی دو بار کرنے والا بے وقوف ہوتا ہے۔ +عقل مند بندے آسمان سے نہیں اترتے۔ +* بہتر اچھے کا دشمن ہے۔ +* اونچے درخت کو زیادہ ہوا لگتی ہے۔ +* جن پر کتے بھونکیں، وہ سب چور نہیں ہوتے۔ +* تحفے میں کیڑے نہیں نکالنے چاہیں۔ +* سفید بال قبر کا تحفہ ہیں۔۔ +* آپ انڈے توڑے بنا آملیٹ نہیں بنا سکتے + + +*عورت کی زور اور حوصلہ]]، غرور اور عزت مرد کی ذات سے ہے اسے شوہر کی طاقت اور مرد کی ہمت کا گھمنڈ ہوتا ہے۔ +عورت گالیاں سہتی ہے، مار سہتی ہے مگر میکے کی نندا اس سے نہیں سہی جاتی۔افسانہ، بڑے گھر کی بیٹی ref> + + +* تحفے کے گھوڑے کے دانت نہیں گننے چاہیں۔ +* شام کی نسبت صبح زیادہ سیانی ہوتی ہے۔ +* رات کو ہر بلی کالی ہوتی ہے۔ +* جو دیکھتا ہے وہی تلاش کر پاتا ہے۔ +* اسے مت بجھائیں جو آپ کو نہ جلائے۔ + + +* لمبے سفر پر ایک تنکا بھی بھاری لگتا ہے۔ + + +یہ اقوال کھوار زبان سے ہیں۔ +* پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ +* دو بھینسوں کے سر ایک ہی دیگچی میں نہیں پک سکتے۔ +* خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ +* ہر پیلی شئے سونا نہیں ہوتی۔ + + +* جیسی بیٹی ویسی ماں]]۔ +* اچھی شراب کو اشتہا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ +* ہوا کے بنا جھاڑیاں نہیں ہلتیں۔ + + +یہ ضرب الامثال سلاوک زبان سے ہیں +* سونے کو آگ میں اور دوست کو مشکل وقت میں پرکھو +* جو کچھ آپ کے پاس ہے اور جو آپ ہیں، اسی کا مزہ لیں +* پہلی غلطی معاف، دوسری گناہ اور تیسری پر سزا]] +* کمانے کی نسبت کھانا آسان ہے۔ + + +یہ ضرب الامثال فارسی زبان سے +پہاڑ ایک دوسرے سے اور انسان ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ +سفر کا تحفہ سلامتی ہے۔ +جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔ +* انڈا چور اونٹ بھی چرا لیتا ہے۔ +* نظروں سے اوجھل تو دل سے دور۔ +عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ + + +قسمت ہمیشہ بہادروں کے ساتھ ہوتی ہے +* جب سر میں تکلیف ہو تو پورا جسم درد کرتا ہے + + +* امیروں سے بچت کرنا سیکھو۔ +* دنیا میں گوشت کا سب سے برا ٹکڑا زبان ہے۔ +* الفاظ بونے تو افعال جن۔ +* جب ایک آنکھ بند کریں تو سب کچھ نہیں سنائی دیتا۔ + + +یہ اقوال ماوری زبان سے ہیں جو نیوزی لینڈ میں بولی جاتی ہے +* آکٹوپس کی طرح نہ مرو، بلکہ شارک کی طرح مرو۔ +* لڑ لڑ کر جیو۔ +* اپنا منہ سورج کی طرف رکھو تاکہ سایہ پیچھے کو گرے۔ + + +* سست جوانی فقیری بڑھاپا۔ +* زبان میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن ہڈیاں تڑوا سکتی ہے۔ + + +یہ اقوال چین سے ہیں +* کتاب پھلواری کی مانند ہے جسے آپ اپنے ساتھ لے کر پھر سکتے ہیں +* اگر آپ کو ہنسنا نہیں آتا تو دکان مت کھولیں +* پیاس لگنے سے پہلے پہلے کنواں کھود لو +* جہاں دھواں وہاں آگ +* جب درخت گرتا ہے تو بندر بھاگ جاتے ہیں +* جب تبدیلی کی ہوا چلتی ہے تو کچھ لوگ دیواریں جھاڑتے ہیں اور کچھ لوگ پون چکی لگاتے ہیں +* استاد محض دروازہ کھولتے ہیں، اندر آپ نے خود جانا ہوتا ہے +* ایک انچ سونے کے بدلے ایک انچ وقت نہیں خریدا جا سکتا +* پانی ہی کشتی کو چلاتا ہے اور ڈبوتا بھی پانی ہی ہے +* سنی سنائی پر یقین مت کرو، خود جا کر تسلی کرو +* اگر اسے آسمان نے بنایا ہے تو زمین اس کا استعمال جانتی ہے +* اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی کو علم نہ ہو تو پھر وہ کام نہ کریں +* آدمی پہاڑ سے نہیں بلکہ چھوٹے پتھروں سے ٹھوکر کھاتا ہے +* جو شخص یہ کہے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا، اسے چاہئے کہ دوسروں کو نہ روکے + + +[[پاکستان]]، بھارت، افغانستان میں ٹرکوں، ویگنوں، رکشوں پر لکھے، جملے، اشعار، مصرعے، اصلاحی و مذہبی اقوال، مذہبی نعرے اور دیگر عبارات ایک کافی پرانی روایت ہے، یہ شاید ان ایجادات کے ساتھ ہی وجود میں آ گئی تھی۔ ان میں کچھ ایسے بھی جملے ہیں جو اب ہمارے ادب اور ہماری زبان کا حصہ بن چکے ہیں ، ان میں سے اکثر کے تو اصل موجد کا بھی اتا پتا نہیں۔ اس کام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر پاکستان و بیرون پاکستان تحقیقی کام کیا جا چکا ہے۔ +ماں کی دعا جنت کی ہوا۔ +* جلنے والے کا منہ کالا۔ +*جس نے ماں کو ستایا اس نے رکشہ چلایا۔ +*پاس کر یا برداشت کر۔ +*پپو یار تنگ نہ کر +* مجھے دعوت اسلامی سے پیار ہے۔ +* دعوت و تبلیغ زندہ باد۔ +* دیکھتے رہو مدنی چینل۔ +* جلو مت ورنہ کالے ہو چاو گے۔ +* عقل نئیں تے موجاں ای موجاں۔ +*ماں، باپ کی عزت کرو۔ +*سواری لبے نہ لبے، سپیڈ ایک سو نبے۔ 190 +==وطن سے محبت کا اظہار== + + +اس دوران دارا کے جرنیلوں نے ایک بڑی فوج جمع کر کے اسے دریائے گرینیکس کے محاذ پر کھڑا کر دیا۔ اس طرح ��ارس میں داخلے کے لیے سکندر کو گویا دروازے پر ہی مقابلہ شروع کر دینا پڑا۔ +مقدونی افسروں میں سے زیادہ تر دریا کی گہرائی کے بارے میں سن کر تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ان کے سامنے یہ دشواری تھی کہ دریا عبور کرتے ہی غیرمسطّح اور دشوار گزار زمین تھی اور اس پر دشمن محاذ بنائے ہوئے پوری طرح چوکنا بیٹھا تھا۔ بعضوں کا خیال تھا کہ سکندر کو مقدونیہ کی روایات کا لحاظ کرتے ہوئے اس وقت جنگ نہیں کرنی چاہئیے کیونکہ اس مہینے میں مقدونوی بادشاہ جنگ نہیں کرتے تھے۔ +سکندر نے ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پارمینیو نے اسے دریا عبور کرنے کی دشواریاں بتا کر قائل کرنا چاہا تو اس نے جواب دیا۔ +’’اگر میں گرینیکس سے مرعوب ہو گیا تو درۂ دانیال کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔‘‘ +یہ کہتے ہی وہ دریا میں کود پڑا۔ سوار فوج کے تیرہ دستے بھی فوراً پانی میں اتر گئے۔ کسی سمجھدار سپہ سالار سے یہ توقع ہرگز نہ کی جا سکتی تھی بلکہ سکندر اس وقت کوئی ایسا پاگل انسان معلوم ہو رہا تھا جو خودکشی پر مائل ہو۔ صورتحال یہ تھی کہ گہرے دریا میں پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ سپاہیوں کے قدم اکھڑ جاتے تھے۔ ستم بالائے ستم سامنے سے تیروں کی بوچھاڑ آ رہی تھی اور پھر سکندر اپنے ساتھیوں کو ان حالات میں جس ساحل پر لے جانا چاہتا تھا وہ نہ صرف چٹان کی طرح عمودی تھا بلکہ دشمن اس پر ایک مستحکم محاذ بنائے بیٹھا تھا۔ +ان سب باتوں کے باوجود وہ آگے بڑھتا رہا اور خاصی جدوجہد کے بعد ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جو نہ صرف عمودی تھا بلکہ وہاں پھسلن بھی تھی اور اس کی سطح کیچڑ کی تھی۔ یہاں پہنچ کر ایک دم بوکھلائے ہوئے دشمن سے دست بدست جنگ شروع ہو گئی۔ سکندر کو اتنی مہلت بھی نہ ملی کہ اپنے پیچھے آنے والے دستوں کو ترتیب دے سکتا۔ جوں ہی اس کے ساتھیوں نے ساحل پر قدم جمائے دشمن نے نعرے لگا کر ان پر حملہ کر دیا۔ وہ نیزوں سے لڑ رہے تھے اور نیزے ٹوٹ جاتے تو تلوار نکال لیتے۔ +ان میں سے کئی سکندر پر حملہ آور ہو گئے کیونکہ اسے اس کی ڈھال اور خود کے دونوں جانب لگی ہوئی سفید کلغی کی وجہ سے باآسانی پہچانا جا سکتا تھا۔ +فارسی فوج کے دو کماندار جن کے نام رہوسیسز اور سپتھریڈیٹس تھے سکندر پر چڑھ دوڑے(۱۴)۔ اس نے ایک کا وار خالی دے کر رہوسیسز کے سینے میں اپنا نیزہ بھونک دینا چاہا لیکن نیزے کی انّی دشمن کے سینہ بند سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی۔ سکندر نے تلوار نکال لی۔ وہ رہوسیسز کا مقابلہ کر رہا تھا کہ سپتھریڈیٹس نے دوسری طرف سے پہنچ کر اپنا کلہاڑا پوری قوت کے ساتھ سکندر کے سر پر دے مارا۔ اس ضرب نے خود کو نقصان پہنچایا اور ایک کلغی بھی علیٰحدہ ہو گئی۔ لیکن جونہی اس نے دوسری ضرب کے لیے اپنا کلہاڑا بلند کیا سیاہ کلایٹس نے (جیسا کہ وہ کہلاتا تھا) سپتھریڈیٹس کو اپنے نیزے سے ہلاک کر دیا۔ اُسی لمحے سکندر بھی اپنے حریف کو ہلاک کر چکا تھا۔ +مقدونوی سوار اس خطرناک اور خونی جنگ میں مصروف تھے کہ پیدل فوج نے بھی دریا عبور کر لیا اور دونوں جانب کی پیدل افواج بھی مقابلے میں شریک ہو گئیں ۔ تھوڑی دیر تک فارسیوں نے مقابلہ کیا لیکن پھر جلد ہی میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے البتہ وہ تنخواہ دار یونانی جو دارا کی ملازمت میں اپنے ہموطنوں سے لڑ رہے تھے اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ پھر انہوں نے ایک چٹان پر قبضہ کر لیا اور سکندر کو مقابلے کے لئے للکارا۔ +سکندر جذبات سے مغلوب ہو گیا اور ان پر چڑھ دوڑا۔ اس وقت وہ بیوسیفالس پر سوار نہیں تھا بلکہ یہ کوئی اور گھوڑا تھا۔ دشمن نے اس کی پسلیوں میں تلوار ماردی اور یہ مارا گیا۔ مقدونویوں کو سب سے زیادہ نقصان جنگ کے اس حصے میں اٹھانا پڑا۔ ان کا مقابلہ ماہر پیشہ ور سپاہیوں سے تھا اور یہ مقابلہ دست بدست تھا۔ اس کے علاوہ دشمن فتح کی تمام امیدیں ہار بیٹھا تھا لہٰذا اب زندگی اور موت سے بے پروا ہو کر لڑ رہا تھا۔ +فارسیوں کے بیس ہزار پیدل سپاہی اور ڈھائی ہزار سوار اس جنگ میں کام آئے جبکہ سکندر کی طرف سے کل چونتیس سپاہی کام آئے۔ یہ بیان ارسٹوبولوس کا ہے۔ سکندر نے حکم دیا کہ ان تمام لوگوں کے مجسمے بنائے جائیں ۔ یہ کام لِسّی پس نے انجام دیا۔ +سکندر دوسری یونانی ریاستوں کو بھی اس فتح میں حصہ دار بنانا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایتھنز والوں کو مالِ غنیمت میں سے تین سو ڈھالیں بھجوائیں اور باقی تمام چیزوں پر اس نے یہ عبارت کندہ کروائی: +’’سکندر، پسرِ فیلقوس اور تمام یونانیوں نے، ماسوائے اسپارٹا کے، یہ مالِ غنیمت ان دشمنوں سے جنگ کر کے جیتا جو ایشیا میں رہتے ہیں ۔‘‘ +جہاں تک برتنوں ، پردوں اور اس قسم کی دوسری چیزوں کا تعلق ہے تو ان میں سے چند کے سوا باقی تمام اس نے اپنی ماں کو بھجوا دیں ۔پلوٹارک کی کتاب سوانحِ سکندر + + +[[زمرہ:پھانسی کے ذریعہ مقتول شخصیات]] + + +*آرٹ کمرے کو سجانے کے لئے نہیں بنا ہے. یہ دشمن کے خلاف ایک جارحانہ اور دفاعی ہتھیار ہے. +* فن کار وہ ہے جو ہر سمت سے آنے والے جذبات کو وصول کرتا ہے۔ + + +*تمام انسان فانی ہیں، سقراط ایک انسان ہے، اس لیے سقراط فانی ہے۔سو عظیم کتابیں، رٹن سمورسمتھ، صفحہ67 + + +*اور لوگوں سے غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔ +*مصائب سے مت گھبرا کیونکہ ستارے اندھیرے ہی میں چمکتے ہیں +*میں نے بولنے پر بارہا افسوس کیا ہے مگر خاموش رہنے پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ + + +*اے عراق کے لوگوں! مجھے تمہارے ان اشخاص کے ساتھ کیا سلوک کرنہ چاہئے جو میرے ہمراہ ہیں؟ ۔۔۔۔مجھے" آگاہ کیا گیا ہےکہ تمہارے شرفاء تک میر معاویہ سے مل چکے ہیں۔ میرے والد کے بعد تم خود سے میرے پاس آۓ تھے اور تم نے اپنی پسند سے مجھ سے بیعت کی تھی۔ میں نے تمہاری بیعت کو قبول کیا اور معاویہ سے مقابلے کو نکل کھڑا ہوا۔۔۔۔ جو کچھ میں جھیل چکا ہوں کافی ہے۔مجھے میرے دین میں دھوکا مت دو کیونکہ میں اقتدار کو معاویہ کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔ + + +ڈیل میں اردو مصنفین کی فہرست ہے۔ + + +مصنفین، مصنف کی جمع ہے۔ + + +وہ 100 سے زیادہ کتابوں کے خالق ہیں۔ دنیا بھر میں انہیں لیکچر دینے کے لیئے مدعو کیا جاتا ہے۔ +انکی ایک کتاب دنیا کس طرح کام کرتی ہے نے بڑی شہرت پائی۔ چومسکی نے اکثر موقعوں پر امریکی کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ +اگر نیور مبرگ قوانین اب بھی نافذ العمل ہوں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کا ہر صدر پھانسی کامستحق قرار پائے۔انٹر ویو سے اقتباس + + +[[زمرہ:قرون وسطی کے عربی متون]] + + +(1) وہ شخص سچ مچ میں خوش نصیب ہو گا +اگر وہ شریروں کی صلاح پر نہ چلے، +اور اگر وہ گنہگاروں کی سي زندگی نہ گزارے +اور اگر وہ ان لوگوں کے ساتھ میں نہ بیٹھے جو خدا کی تعظیم نہیں کر تا ہے۔ +(2) نیک آدمی خدا وند کی تعلیمات سے محبت کر تا ہے۔ +اُسی میں دن رات اُس کا دھیان رہتا ہے۔ +(3) اس سے وہ شخص اُس درخت کی مانند ہو گا جو پانی کے دھا راؤں کے پاس لگایا گیا ہے۔ +وہ اس درخت کی مانند ہے جو صحیح وقت میں پھلتا پھولتا ہے +اور جس کے پتّے کبھی مُرجھا تے نہیں۔ +وہ جو بھی کر تا ہے کامیاب ہی ہو تا ہے۔ +(4) لیکن شریر لوگ ایسے نہیں ہو تے۔ +شریر لوگ اُس بھو سے کی مانند ہو تے ہیں جسے ہوا کا جھو نکا اڑا لے جاتا ہے۔ +(5) اس لئے شریر لوگ معصوم قرار نہیں دیئے جائیں گے۔ صادق لوگوں میں وہ خطاکار ثابت ہو نگے۔ +ان گنہگاروں کو چھوڑا نہیں جائیگا۔ +(6) ایسا بھلا کیوں ہو گا ؟ کیوں کہ خدا وند صادقوں کی حفاظت کر تا ہے +اور وہ شریروں کو نیست و نابود کرتا ہے۔ + + +متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی انجیل کے نام سے معروف۔ +*(27)اِس کے بعد عیسیٰ نکل کر ایک ٹیکس لینے والے کے پاس سے گزرا جو اپنی چوکی پر بیٹھا تھا۔ اُس کا نام لاوی تھا۔ اُسے دیکھ کر عیسیٰ نے کہا، ”میرے پیچھے ہو لے۔“ (28)وہ اُٹھا اور سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔ (29)بعد میں اُس نے اپنے گھر میں عیسیٰ کی بڑی ضیافت کی۔ بہت سے ٹیکس لینے والے اور دیگر مہمان اِس میں شریک ہوئے۔ (30)یہ دیکھ کر کچھ فریسیوں اور اُن سے تعلق رکھنے والے شریعت کے عالِموں نے عیسیٰ کے شاگردوں سے شکایت کی۔ اُنہوں نے کہا، ”تم ٹیکس لینے والوں اور گناہ گاروں کے ساتھ کیوں کھاتے پیتے ہو؟“ (31)عیسیٰ نے جواب دیا، ”صحت مندوں کو ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مریضوں کو۔ (32)مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گناہ گاروں کو بُلانے آیا ہوں تاکہ وہ توبہ کریں۔“متی کی انجیل، باب 5، ورس 27 تا 32 + + +افلاطون میرا دوست ہے، ارسطو بھی میرا دوست ہے لیکن میرا بہترین دوست صرف سچ ہے۔ +* میں بہت آگے اس لئے دیکھ سکتا ہوں کہ میں آدمیوں کے کندھے پر سوار ہوں۔ +خدا نے ہر چیز کو نمبر، وزن اور ناپ میں بنایا ہے۔ + + +اگاتھا کرسٹی 15 ستمبر 1890 تا 12 جنوری 1976) ایک انگریز جاسوسی ادیبہ تھیں۔ +*میرا نہیں خیال کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ایجاد محض سستی کی وجہ سے کی جاتی ہے کہ مشکل سے بچا جائے۔ +* ڈر نامکمل علم ہے۔ +* جرات ان دیکھے سے نمٹنے کا نام ہے۔ + + +* سچ کی روح اور آزادی کی روح معاشرے کے بنیادی ستون ہیں +* قرضے پر چلنے والے گھر میں نہ تو زندگی ہوتی ہے اور نہ ہی حسن +* جب بھی آپ کو آزادی اور سچ کے لئے لڑنے نکلنا پڑے تو کبھی اپنے بہترین کپڑے مت پہن کر نکلو +* جو اکیلا کھڑا ہو جائے، وہ دنیا کا طاقتور ترین انسان ہے +* طاقت کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ کبھی وہ کام نہ کریں جسے تکمیل تک پہنچانے کی سکت نہ ہو۔ + + +اوپراہ ونفرے 29 جنوری 1954 ایک امریکی اداکارہ اور ٹی وی میزبان ہے +* جہاں کوئی کوشش نہیں وہاں کوئی طاقت بھی نہیں۔ +* بہت سارے افراد آپ کے ساتھ لیموزین پر بیٹھنا پسند کریں گے لیکن آپ کو وہ بندہ چاہئے جو لیموزین خراب ہونے پر آپ کے ساتھ بس میں بیٹھ سکے۔ +* اصل ایمانداری اس وقت ٹھیک کام کرنا ہے جب آپ جانتے ہوں کہ آپ کے کرنے یا نہ کرنے کا کسی کو علم نہیں ہوگا۔ + + +* اگر آپ مصنف بننا چاہتے ہیں تو لکھیں۔ +* آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے، یہ اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ اس سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ +* کوئی بڑی چیز یکا یک نہیں بنتی۔ + + +* بے وقوفی کے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں۔ +* اگرچہ ہم سب گٹر میں ہیں لیکن ہم میں سے بعض افراد ستارے دیکھ رہے ہیں۔ +* ہر کوئی اپنی غلطی کوتجربے کا نام دیتا ہے۔ +* اس دنیا میں دو ہی ٹریجیڈیاں ہیں، ایک اس چیز کا نام یاد کرنا جس کی آپ کو ضرورت ہو اور دوسرا اسے تلاش کر لینا۔ +* میں ہر وقت خود کو حیران کرتا رہتا ہوں اور یہی وجہ زندگی کو زندہ رہنے کے قابل بناتی ہے۔ +* خالص اور سادہ سچ شاید ہی کبھی خالص ہو لیکن سادہ پھر بھی نہیں ہوتا۔ +* سر رابرٹ آپ اتنے امیر بھی نہیں کہ اپنا ماضی خرید کر لا سکیں۔ کوئی بھی اتنا امیر نہیں۔ +* جلد یا بدیر ہمیں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ +* جو اپنے لئے نہیں سوچتا وہ کبھی سوچتا ہی نہیں۔ +* خودغرضی اپنی مرضی سے جینے کا نام نہیں بلکہ دوسروں کو اپنی مرضی کے مطابق جینے دینا ہے۔ +* صرف اچھے سوالات کے ہی اچھے جوابات ہوتے ہیں۔ +* عورت کی زندگی جذبات کے موڑ گھومتی رہتی ہے۔ مرد کی زندگی عقل کے گرد۔ + + +اووڈ ایک رومی شاعر اور مصنف تھا۔ +* رواج سے طاقتور کوئی چیز نہیں۔ +* عادت سے طاقتور کوئی چیز نہیں۔ +* وقت ہر چیز کو کھا جاتا ہے۔ +* دیوتاؤں کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ + + +/*جدید ناوباکسز و سائید بارز*/ + + +* صبر عقلمند کا ساتھی ہے +* برا قانون کوئی قانون نہیں +* اگر سچ سے بڑی بھی کوئی چیز ہے تو وہ خدا ہے، ورنہ سچ ہی خدا ہے۔ +* کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ وقت کی ماہیت کیا ہے تو میں نہں بتا سکتا۔۔ہاں مگر میں جانتا ہوں کہ وقت کیا ہے۔ + + +الیکسس ڈی ٹوکول ایک فرانسیسی مصنف ہے +* سوشلزم ایک نئی قسم کی غلامی ہے۔ +* ناول کی طرح انقلاب کا سب سے مشکل مرحلہ اس کا اختتام ہے۔ +* “قوم یہ چاہتی ہے“ کے نام پر سب سے زیادہ قوم کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے۔ + + +انٹوائن ڈی سان زوپری ایک فرانسیسی لکھاری ہیں +* صحرا کو پوشیدہ کنواں ہی خوبصورت بناتا ہے۔ +* آپ کا کام آنے والے وقت کو دیکھنا نہیں بلکہ اسے بہتر بنانا ہے۔ +* سچی خوشی کام کو اچھے طریقے سے کرنے سے ملتی اور نئی چیز بنانے کی خواہش سے۔ + + +ایڈلائی سٹیونسن 5 فروری 1900 – 14 جولائی 1965) اک امریکی لکھاری ہے۔ +* عادتیں قوانین سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ +* ہر ایک کی پسند کے لئے چنے جانے والے الفاظ کسی کو بھی پسند نہیں آتے۔ +* بھوکا انسان آزاد نہیں ہوتا۔ +* ایٹم میں کوئی برائی نہیں، برائی انسان کی روح میں ہے۔ +* دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والا اپنے پیروں تلے کی زمین گنواتا ہے۔ +* آپ کسی بھی انسان کی پیمائش اس چیز کی پیمائش سے کر سکتے ہیں جس سے اسے غصہ آئے۔ +* کسی انقلاب کو روکنا اس کی ابتداء میں ممکن ہوتا ہے، انتہا پر نہیں۔ + + +ارونادھتی رائے (24 نومبر 1961 ایک بھارتی لکھاری ہے۔ +* ادب ایٹم بم کا متضاد ہے۔ +* 20ویں صدی میں قتل عام کی بڑی وجہ قوم پرستی ہے۔ دماغ کو پہلے جھنڈے کے کپڑے میں قید کر کے پھر اسی کو اس کا کفن بنا دیا جاتا ہے۔ +* اگر آپ مذہبی ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ بم انسان کی طرف سے خدا کو چیلنج ہے۔ ہماری یہ دنیا 4 ارب 60 کروڑ سال پرانی ہے اور اسے ختم ہونے میں ایک یا دو پہر ہی لگیں گے۔ + + +* مستقبل میں ہر کوئی محض پندرہ منٹ میں ساری دنیا میں مشہور ہو جائے گا۔ +* مجھے آج تک کوئی ایسا رشتہ نہیں ملا جسے میں خوبصورت نہ کہہ سکوں۔ + + +انٹیستھینز 445-365 ق م)ایک یونانی فلسفی تھا +* اپنے دوستوں پر نظر رکھیں۔ آپ کی غلطی سب سے پہلے انہیں دکھائی دے گی۔ +* ملک اس وقت تباہ ہوتے ہیں جب ان کے اچھے یا برے لوگوں کا فرق دکھائی نہ دے سکے۔ +* خوشامدیوں سے بہتر ہے کہ میں کوؤں کے ساتھ رہوں۔ خوشامدی مجھے زندہ کھا جائیں گے، کوے مرنے کے بعد۔ +* کوے مردار کھاتے ہیں اور خوشامدی زندہ لوگوں کو۔ +* یہ نہ سوچیں کہ دوسروں کو بھی سننے کا اتنا ہی شوق ہوگا جتنا آپ کو بولنے کا۔ + + +ایسوپ 620 ق م – 560 ق م) ایک یونانی داستان گو تھا +* اپنی غلطی کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا بہتر ہے۔ +* مشکل کا شکار بندے سے مشورہ مت لو۔ +* دور سے بہادر بننا آسان ہے۔ + + +انیس نین 1903 – 1977) ایک امریکی مصنفہ تھی +محبت زندگی کے لمحے کم کرتی ہے +* وہ غصے سے پاگل ہے یا سارا غصہ ہی پاگل پن ہے +* زندگی کا مزہ پھر سے چکھنے کے لئے ہم لکھتے ہیں +* تنہائی آپ کے الفاظ کو زنگ لگا سکتی ہے +* زندگی آپ کی ہمت کے مطابق پھیلتی یا تنگ ہوتی ہے + + +* خود پر بھروسہ سب سے بڑی دولت ہے +* دوستوں کی مدد کی اتنی اہمیت نہیں جتنی ان کا بوقت ضرورت ساتھ ہونا اہم ہے + + +الین باڈیو 1937) ایک فرانسیسی فلسفی ہے +* ریاضی کے بغیر ہم اندھے ہیں۔ +* سچ یورپ میں ایک نیا لفظ ہے۔ + + +ایملی ڈکنسن 10د سمبر 1830 – 15 مئی 1886) ایک امریکی شاعرہ تھی۔ +* اتنا سچ ادھور ہوتا ہے جب تک وہ مزہ دے۔ +* دماغ آسمان سے بھی بلند ہے۔ +* جیت انہیں ہی شیریں لگتی ہے جو کبھی جیتے نہ ہوں۔ +* قسمت جی داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ +* اگر زندگی پھر نہیں لوٹ کر آنے والی تو یہی بات زندگی کو میٹھا بناتی ہے۔ + + +* میرے جرمنی، تجھے میرا سلام: مرنے سے قبل جوڈل کے آخری الفاظ۔ + + +* لکھائی اور سفر آپ کے کولہے چوڑے کر دیتے ہیں، اگر سوچ کو وسیع نہ کر سکیں تو۔ اسی وجہ سے میں کھڑا ہو کر لکھتا ہوں۔ +* شراب کی بوتل اچھی دوست ہے۔ + + +الجاندرو جوڈوروسکی 17 فروری 1929) ایک اداکار،ڈرامہ نگار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، کمپوزر، کامک مصنف اور سائیکو تھراپسٹ ہے +* پنجرے میں پیدا ہونے والا پرندہ اڑان کو بیماری سمجھتا ہے +* سچے آرٹ کی انوکھی خوبی یہ ہے کہ ابھی تک کسی کو اسے مشہور کرنے کا ہنر نہیں مل سکا۔ + + +*میرا 'خوف' میرا جوہر ہے،اور میرا شاید بہترین حصہ. + + +* سکندر اعظم نے ایران کے بادشاہ دارا کو شکست دے کر اس کے وزراء اور خدمت گاروں کو قتل کروا دیا۔ +* سکندر کو بتایا گیا کہ دارا کی بیٹی نہایت حسین و جمیل ہے اور اس کے علاوہ اس کے شاہی حرم اور شاہی خاندان کی بے شمار دوشیزائیں حسن و جمال میں اپنی نظیر نہیں‌ رکھتیں۔ لہذا سکندر کو محل سرا کی سیر کرکے ان کی دید سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ خصوصا شہزادی کا حسن تو بے مثال ہے اور توجہ کے قابل ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ سکندر شہزادی کو دیکھے گا تو عین ممکن ہے اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسے ملکہ بنا لے مگر سکندر نے جواب دیا۔ +ہم دارا کے شہہ زور مردوں کو شکست دے چکے ہیں۔ اب ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس کی کمزور عورتیں ہمیں زیر کر لیں۔ + + +*ایک دولت مند اورمفلس کی دوستی نہایت مشکل ہے۔ + + +*امن کے لیے پیچھے ہٹا جا سکتا ہے۔ + + +* مبارک ہیں وہ مجاہد]]، جو حق کے دشمن سے جنگ کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے، کہ یہ ہی جنت میں جانے کا دروازہ ہے۔گیتا، 32:2 + + +میرا مالک ایک ہے، ہاں ہاں بھائی وہ ایک ہے۔ وہی مارنے والا اور زندہ کرنے والا ہے۔ وہی دے کر خوش ہوتا، وہی جس پر چاہتاہے اپنے فضلوں کی بارش کردیتا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے بغیر اور کوئی بھی کر نہیں سکتا۔ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے ہم وہی بیان کرتے ہیں ہر چیز اس کی حمد بپا کررہی ہے۔گروگرنتھ صاحب اردو، ص 523 + + +*میں ایک بات جانتا ہوں کہ ، میں کچھ نہیں جانتا۔ +ّّانسان کو انصاف و ظلم اور سچ و جھوٹ میں ہمیشہ تمیز رکھنی چاہیے۔ٗٗٗ +ّنیکی علم ہے اس لیے اسکی تعلیم ہو سکتی ہے۔ٗ +ّّظلم کرنا ظلم سہنے سے بدرجہ ہا بہتر ہے۔ٗ +ّسچا آدمی موت سے نہیں بلکہ بد اعمال سے گھبراتا ہے۔ٗ + + +ژند اوستا پارسی مذہب کی مقدس کتاب ہے۔ + + +رالف والڈو ایمرسن ایک امریکی شاعر رہ چکے ہیں۔ +# وہاں مت جاؤ کہ راستہ وہیں لے جارہا ہے۔ اس کے بجائے وہاں رخ کرو جہاں راستہ نہ ہو اور اپنی چھاپ چھوڑ آؤ۔ + + +ملکہ ایلزبتھ دؤم پیدائش: 21 اپریل 1926ء) مملکت متحدہ و برطانیہ عظمیٰ کی ملکہ ہیں۔ +# ہم غم کے ذریعے محبت کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ +# مجھے دیکھ کر ہی آپ مجھ پر یقین کریں گے۔ + + +جواہر لعل نہرو بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماء اور تحریک آزادی ہند کے اہم کردار تھے۔نہرو 14نومبر 1889ء میں پیدا ہوۓ۔ وہ 1947ء سے 1964ء تک بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ بھارت میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنے میں ان کا کردار ہے۔ +# جہالت ہمیشہ ہی تبدیلی سے خائف ہے۔ +# جمہوریت اور اشتراکیت کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے، نہ خود حصول مقصد۔ + + +# ہمیں انسانیت کو ان جڑوں تک دوبارہ پہونچاناہوگا جہاں سے خوش نظمی اور آزادی پھل پھول اٹھے۔ +# ادبی عبقری کی پہچان ہے کہ سب کا آئینہ دار ہوتا ہے جبکہ کوئ اس جیسا نہیں ہوتا۔ + + +# ایک بندوق پردار آدمی سو بندوق نہ رکھنے والوں پر حاوی ہوسکتاہے۔ +# اکثر کہاجانے والا جھوٹ سچ بن جاتا ہے۔ + + +# آزادی کے درخت کو وقتًافوقتًا وطن پرستوں اور ظالموں کے خون سے تروتازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ +# حکمت کی کتاب کا پہلا باب ایمانداری ہے + + +* محبت دوسرے شخص میں سماجانے کا نام ہے۔ مگریہ کامیاب تب ہی ہو سکتا ہے جب سپردگی دوطرفہ ہو +* کسی نظم کو پڑھنا اسے آنکھوں سے سننا ہے۔ یہ سننا کانوں سے دیکھنا ہے۔ +* اپنے خوابوں کے قابل بنو۔ + + +# مجھے صرف ایک ہی بات کا یقین ہے، انسانی عزم کی طاقت کا۔ +# مجھے کسی پر اعتماد نہیں، اپنے آپ پر بھی نہیں۔ + + +* تبدیلی آب و ہوا کے لیے جنت کی سیر کیجیے، مصاحبت کے لیے جہنم کا رخ کیجیے +غالبًا ایسا کچھ نہیں جو کہ آج ممکن نہیں ہے۔ +* اُس شخص کو جو پڑھنے لکھنے کا عادی نہیں کسی بھی طرح سے پڑھنے لکھنے سے قاصر شخص پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ + + +# جو آپ بن سکتے ہو، اس کے ہونے میں کبھی بھی بہت دیر نہیں ہوتی۔ +# مجھے صرف محبوب بنایا جانا ہی نہیں بلکہ مجھے محبوب کہا جانا بھی پسند کرتا ہوں۔ + + +# ہر وہ شخص جو آسمان کو ہرے اور کھیت کو اودے رنگ میں اتار دے، اس قابل ہے کہ اس کی نسبندی کی جائے۔ +# عظیم کاذب عظیم جادوگر بھی ہوتے ہیں۔ + + +# مجھے آدمیوں کی دنیا میں رہنے پر کوئ اعتراض نہیں اگر اُس میں میں ایک عورت کی طرح جی سکوں۔ +# مجھے اکثر کتے نہیں انسان کاٹا کرتے ہیں۔ + + +ٰٰٰٰیہ اقوال تلنگانہ اور آندھراپردیش کی مشترکہ زبان تلگو کے ہیں: +# ملک کا مطلب مٹی نہیں،ملک کا مطلب وہاں کے انسان ہیں۔ +# پسی ہوئی شکر اور نمک اگرچہ یکساں دکھتے ہیں، مگر مزے کا فرق ان کی حقیقت بتادیتا ہے۔ +# ہرروز دھتکاراگیا فقیر اچانک خیرات ملنے پر دینے والے کو پاگل سمجھتا ہے۔ + + +تَمِل زبان بھارت کی ریاست تَمِلناڈ یا ٹامل ناڈو میں بولی جاتی ہے۔ +* بلی تھیلے سے باہر آگئ (یعنی راز فاش ہوگیا)۔ +گھر سے نکلا تو جنت پاگیا۔ (یعنی اکثرنقل مقام ترقی کا باعث ��نتاہے) + + +بھارت کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +پاکستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +سری لنکا کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +آسٹریلیا کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +نیوزی لینڈ کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +ٌ انگلستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +ویسٹ انڈیز کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +جنوبی افریقہ کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +زمبابوے کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] +بنگلہ دیش کے کرکٹ کھلاڑیوں کے اقوال]] + + +بھارت کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] +پاکستان کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] +انگلستان کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] +انگلستان کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] +برازیل کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] +جرمنی کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] +ارجنٹائن کے فٹ بال کھلاڑیوں کے اقوال]] + + +راجستھانی بھارت کی ریاست راجستھان کی عام بولی ہے۔ +* رکھیو پارس بیچیو تیل، ترجمہ؛ آدمی قیمتی دولت رکھ کر بھی مشکل سے گزربسر کررہا ہے۔ + + +حسب ذیل موضوعات جغرافیہ کے ضمنی زمرے میں آتے ہیں: +براعظم کے متعلق ضرب الامثال]] +برصغیر کے متعلق ضرب الامثال]] +جزیرہ نماؤں پر ضرب الامثال]] +ملکوں کے متعلق ضرب الامثال]] + + +حیدر آباد پاکستان کا ایک شہر اور بھارت کی ایک ریاست کا نام بھی ہے۔ +* کیا ہے کی ۔ (یعنی مجھے پتہ نہیں کہ ماجرٰی کیا ہے)۔ + + +اپنی رائے کا اظہار پہلے سے موجود آراء کے نیچے کریں۔ fullurl TALKPAGENAMEE action=edit§ion=new نیا موضوع شروع کرنے کے لیے یہاں طق کریں]۔ +; حکمت عملی برائے تحریر مضمون center> + + +اوٹو وان بسمارک ۱۸۱۵- ۱۸۹۸) جرمنی کے سیاسی رہنما تھے۔ +# چٹنیوں کی طرح قوانین کا بنتاہوا نہ ہی دیکھنا بہتر ہے۔ +# اہم بات تایخ سازی ہے، نہ اس کا لکھا جانا۔ +# کوئ دست غیب ضرور ہے جو احمقوں، شرابیوں، بچوں اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حفاظت کرتا ہے۔ + + +عربی زبان میں ‘‘ ہے ’’ کا معنی دینے کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔مگر جملہ مکمل ہونے سے ‘‘ ہے ’’ کا مطلب خود ہی نکل آتا ہے جیسے ھذا قمیصٌ میں ھذا کا معنی ہے ‘‘ یہ ’’ اور قَمِیْصٌ کا معنی ہے قمیص یعنی یہ قمیص ۔اب اس میں ‘‘ ہے ’’ کا معنی جملہ پورا ہونے کی وجہ آیا ہے یعنی +(۲)جب تک اردو ترجمہ میں ‘‘ ہے ’’ کا لفظ نہ آئے اس کا مطلب ہوگا ابھی کلام مکمل نہیں ہوا ہے +عربی سے اردو ترجمہ کریں +مفید وضاحتیں طالب علم کے مطالعہ کے لئے +تمام آوازیں جو ایک انسان بناتا ہے عربی میں انکو معنی اور غیر معنی لفظوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جن الفاظوں میں معنی ہوتے ہیں وہ مَوضُوع کہلاتے ہیں۔ بغیر معنی کے الفاظ مُھمَل کہلاتے ہیں۔ +مَوضُوع (معنی والے لفظ) کو دو طرح سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ مُفرَد اور مُرَکَّب الفاظ اگر صرف ایک لفظ ہو تو یہ مُفرَد کہلائے گا۔ جیسے کِتَاب لیکن اگر ایک سے زیادہ لفظ ہوں تو وہ مُرَکَّب کہلائےنتا۔ جیسے رَسُولُ اللہ دو لفظوں رَسُولُ اور اللہ سے مل کر بنا ہے۔ +مرکب الفاظ کو مُفِید اور غَیر مُفِید میں علیحدہ کیا جاسکتا ہے مفید الفاظ وہ ہیں جں کو ملا کر ایسے جملے بنائے جاسکتے ہیں جن سے ایک مکمل خیال بنے۔ دوسرے طرف غَیر مُفِید الفاظ سے نامکمل جملے بنتے ہیں جو کوئ اظہار خیال نہیں کرتے۔ ہم ان اسباق میں صرف مُفرَد لفظوں کی قسموں کو تفصیل سے دیکھیں گے۔ +مُرَ کب مُفِید اور غَیر مُفِید +مُفرَد اِسم، فِعل اور حِرف +أسماء الاشارہ:عربی زبان میں کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے جن الفاظ کا استعمال ہوتا ہے ان میں سے تین ہم پڑہ چکے ہیں یعنی ھذا ،ذاک ، ذلک ۔ +ان تینوں میں مشترک بات یہ ہے کہ: +1. تینوں مفرد (Single)چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ +2. تینوں مفرد مذکر (Masculine)کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ +ان تینوں کا آپس میں فرق یہ ہے کہ: +1. ھذا قریب ترین چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہےاردو ترجمہ ‘‘ یہ ’’۔ +2. ذالک بہت دور تک کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہےاردو ترجمہ‘‘ وہ ’’۔ +3. ذاک درمیانی مسافت پر اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہےاردو ترجمہ ‘‘ وہ ’’ ۔ +3. یہ آئل ہے اور وہ چاول ہیں +4. وہ لڑکا ہے اور وہ بوڑھا ہے +5. یہ آٹا ہے وہ چاول ہیں اور وہ انڈہ ہے +‘‘مَا’’ اور ‘‘ مَنْ’’ دونوں سوال کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن مَا کے ذریعے سے انسان، ملائکہ کے علاوہ دیگر چیزوں کے بارے سوال کیا جاتا ہے اور مَنْ کے ذریعے سے صاحب عقل کے لئے سوال کیا جاتا ہے +‘‘ أ ’’ بھی سوال کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ہم اردو میں اس لفظ کی جگہ لفظ ‘‘ کیا ’’ استعمال کرتے ہیں ۔ + + +برٹرینڈ رسّل 18 مئی 1872 میں پیدا ہوئے اور دو فروری 1970 میں انتقال کر گئے۔ وہ صرف برطانیہ ہی کے نہیں دنیا بھر میں ایک عظیم فلسفی]]، ماہر منطق، ماہر ریاضی، مورخ اور سماجی نقاد کے طور جانے جاتے ہیں۔ +انھیں ایک لبرل یا آزاد خیال اور سوشلسٹ بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ ہمیشہ یہ کہہ کر اس کی تردید کرتے رہے کہ وہ ان میں سے کسی کی معیار پر بھی خود کو پورا نہیں پاتے۔ +رسّل جنگ کے مخالفت کرنے والے دنیا کے سرفہرست لوگوں میں شامل رہے، عالمی جنگ کے دوران انھیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ انھوں نے سٹالن پر بھی کڑی تنقید کی اور ایک بڑی سامراج دشمن بھی رہے، ہٹلر کے خلا نکلنے والوں میں بھی وہ انتہائی نمایاں تھے، ویت نام کی جنگ میں انھوں نے امریکہ کی شدید مخالفت کی، ایٹمی اسلحے کی مخالفت میں بھی سب سے آگے رہنے والوں میں شامل تھے۔ انھیں 1950 میں امن کا نوبل انعام پیش کیا گیا۔ +*زبان بعض اوقات کسی اعتقاد کی پیچیدگی کو اوجھل کردیتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایک شخص خدا پر اعتقاد رکھتا ہے، اور ممکن ہے یوں معلوم دے گویا خدا اعتقاد کے تمام مشتملہ پر حاوی ہے، لیکن حقیقتاً جس بات کا اعتقاد رکھا جاتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ خدا موجود ہے۔ اور یہ بات اِتنی سیدھی سادی یا بالکل ہی مفرد نہیں۔اِسی طرح جب کوئی شخص ایک حافظی تمثالچے کے ساتھ کوئی حافظی اعتقاد بھی رکھتا ہو تو’’ اعتقاد اب وارد ہونے والی چیز ہے‘‘۔ اور اب یہ وارد ہونے والی بات مفرد نہیں ہوتی۔ اِسی طرح اِن تمام صورتوں میں جن میں کہ اعتقاد کا مشتملہ بادی النظر میں مفرد دکھائی دیتا ہے، جب ذرا تحقیق کریں تو پتا چلتا ہے کہ مشتملہ ہمیشہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ +**تجزیہ نفس، خطبہ 12، صفحہ 245۔ +* جنگ کسی کا صحیح ہونا طے نہیں کرتا۔ صرف یہ طے کرتا ہے کہ کون باقی نہیں رہ سکا۔ +* صرف تعاون ہی انسانیت کو بچا سکتا ہے۔ +* خوف پر فتح پانا علم کے آغاز کی علامت ہے۔ + +*دنیا کی سیاست میں شکریہ کی کوئی جگہ نہیں۔ +* میرے نزدیک اب بھی ثقافتیں پیدا ہوتیں ہیں لیکن آنے والے چیلنجز سے ہار کر آگے نہیں بڑھتیں، یہ آنے والے چیلنجز سے ہار کر گرتی یا ٹوٹتی نہیں + + +* زندگی کے دو اہم دن ہوتے ہیں، ایک دن جب آپ پیدا ہوتے ہیں اور ایک دن جب آپ اس کا سبب معلوم کرتے ہیں۔ (نامعلوم) +* ولادت اور موت لازمی ہیں، ان کے درمیان ہر چیز پیچیدہ ہے۔ نامعلوم) + + +* چھاتیاں متنازعہ ہیں کیونکہ وہ مادریت اور شہوانیت دونوں کے درمیان ہے۔ (آئیریس ماریون ینگ) + + +کپل دیو سابق میں بھارت کے کرکٹ کپتان رہ چکے ہیں۔ +# کامیابی کی سرحد نہیں ہوتی ہے۔ +# دنیا جان چکی ہے کہ بھارت بھی عالمی کپ جیت سکتا ہے۔ +# میری ساری دولت لے لو ، مگر مجھ پر کرکٹ کے ساتھ سودے بازی کا الزام مت لگاؤ۔ + + +سنیل گاوسکر بھارت کے کرکٹ کھلاڑی رہے ہیں۔ +# پتہ نہیں کیوں لوگ مجھے لٹل ماسٹر کہتے ہیں۔ +# میرا مستقبل بھارت کے ساتھ ہے۔ +# جس پر بیاٹ کی دھن سوار ہے اس کے کیا دن، کیا رات ہے۔ + + +سچن ٹینڈولکر بھارت کے کرکٹ کھلاڑی رہے ہیں۔ +# میں نے خود کا تقابل کسی اور سے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ +پاکستان کو شکست دینا خاص ہے کیوں کہ وہ ایک مشکل ٹیم ہے، اور اگر ہم کرتے ہیں تو تاریخ رقم کرتے ہیں۔ + + +سٹیفن کنگ ایک مصنف ہیں. +# معصوموں کا بھروسا جھوٹوں کا بہترین سہارا ہے۔ + + +لوئزا مے الکاٹ ایک امریکی ناول نگار ہیں۔ +رہنا" ایک دوست کے الفاظ میں حسین لفظ ہے۔ +# عورتوں کو اکثر ملکاؤں کا درجہ دیا گیا ہے، مگر انہیں دی گئ بادشاہت حکمرانی کے لائق نہیں ہے۔ + + +# سچائی وقت کی بیٹی ہے اور مجھے اس کی دایہ بننے میں کوئی شرم نہیں ہے۔ +# سیارے بیضوی دائروں میں سورج کو مرکز بناتے ہوئے اس کے گرد پھرتے ہیں۔ + + +والیس ڈی ویٹلے بیسویں صدی کے مصنف اور فلسفی تھے۔ +# دنیا کے لیے کو بہترین کام آپ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود کو بہترین بناؤ۔ +# آپ آگے تبھی بڑھ سکتے ہیں جب اپنے موجودہ جگہ سے کچھ آگے کام انجام دو۔ + + +* بعض کتابیں سونگھی جاتی ہیں، بعض چکھی جاتی ہیں اور بعض کو چبانا اور ہضم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بیکن) +* میں کتابوں کے بنا زندہ نہیں رہ سکتا۔ تھامس جیفرسن]] + + +زبان میں مہارت رکھتا ہے + + +| info یہ صارف اردو زبان اپنی مادری زبان کی طرح استعمال کرتا ہے + + +| info یہ صارف اردو کا صاحبِ زبان ہے۔ + + +* پاکستان کے سب سے زیادہ اتحادی ایشیا میں ہیں۔ + + +زمرہ:مسلمان شخصیات کی فہرست مسلمان +* اسلام کی تاریخ میں دو موقعے ایسے آئے جبکہ وحشی کفار نے سختی کے ساتھ مسلمانون کو پامال کیا۔ سلجوقی ترکوں نے گیاروہویں صدی میں اور تاتاریوں نے تیرہوہں صدی میں۔ مگر ان دونوں موقوں پر فاتحین نے اسی قوم کا مذہب اختیار کر لیا جس کو انہوں نے مغلوب کیا تھا۔ مسلمان مبلغین نے اپنا مذہب وسطی افریقہ، چین اور جزائر ہند چینی مین پھیلایا ہے۔حالانکہ ان کو وہاں کسی دنیوی حکومت کی حمایت حاصل نہ تھی۔دعوت اسلام، ٹی ڈبلیو آرنلڈ، پروفیسر، لاہور (1972)۔ صفحہ 6 + + +* مجھے اسلامی تصوف کی انسان دوستی، ذوق و وجدان، خدا سے بندوں کے تعلق اور انسانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق واضح احکامات نے اسلام کی طرف ماہل کیا۔المستشرقون والاسلام، زکریا ہاشم زکریا، (1968)۔ صفحہ 439-40 + + +* میں ماں کا نظرانداز کیا ہوا، نرس کے ہاتھوں فاقون کا شکار ایک لاغر بچہ تھا، جس کا بہت کم خیال رکھا گيا + + +* سب کچھ پہلس سے طے شدہ ہے لیکن ہم خود کو آزاد مرضی کا تصور کئے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔سو عظیم کتبابیں، مارٹن سیمورسمتھ، تخلیقات، لاہور۔ صفحہ 416 + + +سائنسی اشتراکیت کا بانی 5 مئی 1818ء میں ٹراٹر (صوبہ رائن پروشیا) میں ایک قانون دان گھرانے میں پیدا ہوا۔ مارکس کی جنم بھومی صوبہ رائن صنعتی طور پر بہت ترقی یافتہ تھا، اٹھارویں صدی میں فرانس کے بورژوازی انقلاب کی وجہ سے یہاں جاگیراری واجبات اور ٹیکس منسوخ ہو چکے تھے۔ کوئلے کے ذخائر سے حاصل شدہ بڑی بڑی رقوم نے صنعتی ترقی کے لئے حالات سازگار کر دئے تھے، اس طرح صویہ میں بڑے پیمانے کی سرمایہ داری کی صنعت لگ چکی تھی۔ اور ایک نیا طبقہ یعنی پرولتاریہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ +1830 ء سے 1835تک مارکس نے ٹراٹر کے جمناسٹک سکول مین تعلیم حاصل کی، جس مضون پر اس کو بی۔ اے کی ڈگری دی گئی اس کا عنوان تھا “پیشہ اختیار کرنے کے متعلق ایک نوجوان کے تصورات”، اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہاس سترہ سالہ نوجوان نے ابتداء ہی سے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو ٹھہرایا۔۔۔۔جمناسٹک سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے توبون میں پھر برلن یونیورسٹی میں قانون پڑھا۔ علم قانون اس کا پسندیدہ مصمون تھا۔لیکن اس نے فلسفہ اور تاریخ میں بھی گہری دلچسپی لی۔۔۔ +* فلسفیوں نے دنیا کی تعبیر مختلف طریقوں سے کی ہے لیکن اصل مسئلہ اسے تبدیل کرنے کا ہے۔ +*دنیا کے اے محنت کشوں متحد ہوجاؤ،تمھارے پاس اپنے بیڑیوں کے کھونے کے سوا کچھ نہیں۔ + + +* انسانوں کی ادراکی صلاحتیں کند اور غبی ہیں۔ +* انسانی تفہیم کوئی پھیکی روشنی نہیں، بلکہ ارادے اور امنگوں کے ساتھ رچ بس جاتی ہے، اس طرح حقیقی سائنسنز جنم لیتی ہیں۔ول ڈیورانٹ، ہیروز آف ہسٹری، نگارشات پبلشرز، لاہور۔ صفحہ 400 + + +* عوام پارلیمنٹ اورعدالتوں کے حقیقی حکمران ہیں۔ مگر وہ آئین نہیں، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو آئین کا خاتمہ کرنا چاہیں۔ +*آخر میں یہ بات اہم نہیں کہ آپ کتنے برس جیے، بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ نے ان برسوں میں زندگی کیسے گزاری؟ +*آئین کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ خانی نہ کیجیے، اسے ہر حالت میں برقرار رہنا چاہیے… کیونکہ وہی ہماری آزادی اور تحفظ کا ضامن ہے۔ +* دورانِ الیکشن میری سب سے بڑی خواہش جیتنا نہیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ میں سچا اور اپنے ضمیر کی آواز پر چلتا رہوں۔ +* اگر آپ کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی میں برائی تلاش کی جائے تو وہ یقینناً مل ہی جاتی ہے۔ +* آپ طاقتور کو کمزور کر کے کبھی کمزوروں کو طاقتور نہیں بنا سکتے۔ +* میں عوام پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ اگر انہیں سچائی سے آگاہ کیا جائے‘ تو وہ سخت ترین بحران کا بھی سامنا کرسکتے ہیں… لیکن پہلے انہیں سب کچھ سچ بتایا جائے۔ +* جب میں نیکی کرو ں تو خوشی محسوس کرتا ہوں۔ بدی کروں تو غم… یہی میرا مذہب ہے۔ +* جو دوسروں کی آزادی چھین لیں، انہیں بھی آزاد رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ +* ایک کلاس میں جو کچھ پڑھایا بتایا جائے گا‘ اگلی نسل کی حکومت وہی سب اختیار کرے گی۔ +*کامیابی یہ ہے کہ چاہے آپ کو پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے، لیکن آپ ایک لحظے کے لیے بھی جوش وجذبہ نہ کھوئیں۔ +* پہلے پوری احتیاط سے قدم صحی�� جگہ پر رکھیے پھر مضبوطی سے کھڑے ہوجائیے۔ +* برائی ہوتا دیکھ کر احتجاج کرنے کے بجائے خاموش رہنا بزدلی کی علامت ہے۔ +انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی ہیں‘ ہر حال میں نیک رہیے۔ +* میں آہستہ چلتا ہوں، مگر میں نے کبھی پیچھے قدم نہیں اٹھائے۔ +* ناکام ہونا نہیں بلکہ اس امر پہ دل چھوڑ بیٹھنا اصل ناکامی ہے۔ +* میں غلام بننا نہیں چاہتا اور نہ ہی مالک…میرا فلسفہِ جمہوریت یہی ہے۔ +میں اس شخص کو لائقِ اہمیت نہیں سمجھتا جو کل کی نسبت آج زیادہ عقل مند نہ ہو۔ +* بعض انسانوں کا عظیم کامیابیاں حاصل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ دوسرے بھی انہیں پاسکتے ہیں۔ +* اگر آپ دل کا اطمینان چاہتے ہیں تو شہرت سے دور رہیے۔ +* کتابیں ہر انسان پر یہ تلخ سچائی آشکارا کرتی ہیں کہ اس کے ’’تخلیقی‘‘ خیالات نئے نہیں۔ +* میری کوئی پالیسی نہیں… بس میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر روز اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا کر مفید و مثبت کام کرتا رہوں۔ +* جو سچا و راست باز آدمی ہے‘ اس کے ساتھ پوری استقامت سے کھڑا ہوئیے… لیکن جب وہ راستی پر نہ رہے تو الگ ہوجایئے۔ +* بیلٹ (ووٹ) بُلٹ (گولی) کا حقیقی اور بہترین جانشین ہے۔ +* جب بھی میں کسی کو غلامی کے حق میں بولتا دیکھوں تو میرا جی چاہتا ہے کہ خواہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی،اسے بھی غلام بنا دیا جائے۔ + + +* انسانوں میں رذیل ترین وہ ہےجوکھانےپینےاورپہننےمیں مشغول رہے۔ +* جوسچائی جھوٹ کےمشابہہ ہواسےاختیارمت کرو۔ +* نفس کواپنےمرتبہ کےلئےخوارنہ کرو۔ +* اگرتم بزرگوں کامرتبہ چاہتےہوتوبادشاہوں کی اولادسےدوررہو۔ +* جب کوئی مومن بیمارہوتواسےمعلوم ہوناچاہیےکہ یہ بیماری اس کےلئےرحمت ہے۔جوگناہوں سےاس کوپاک کرتی ہے۔ +* دوریش فاقےسےمرجاتےہیں مگرلذت نفس کےلئےقرض نہیں لیتے۔ +* وہ شےبیچنےکی کوشش نہ کروجسےلوگ خریدنےکی خواہش نہ کریں۔ +* اچھائی کرنےکےلئےہمیشہ کسی بہانےکی تلاش میں رہو۔ +* دوسروں سےاچھائی کرتےہوئےسوچوکہ تم اپنی ذات سےاچھائی کررہےہو۔ +* ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھلا۔ +* وہ لوگ جودوسروں کےسہارےجینےکاارادہ رکھتےہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس ہوتےہیں۔ + + +وکی اقتباسات دنیا کی مختلف زبانوں میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ +switch FULLPAGENAME Special:Statistics اردو وکی اقتباسات کا آغاز 2004 میں ہوا، اردو وکی اقتباسات میں فی الوقت Special:Statistics NUMBEROFARTICLES مضامین 32 موجود ہیں۔ دیگر زبانوں میں وکی اقتباسات بھی موجود ہیں؛ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:: + + +&bull وکی اقتباسات:وکی اقتباسات کیا نہیں ہے؟ + + +* ہمیں خود کو درپیش برائیوں سے اغماض نہیں برتنا چاہیے۔۔۔۔ ہمیں ان کی شدت کم کرنے کے لیے پیہم کام کرنا ہوگا۔ لیکن ہم ماضی کی کامیابیوں، اپنے شاندار ورثے سے تقویت حاصل کر سکتے ہیں۔آئیے شکسپیئر کے ناخوش بادشاہ سے انحراف کرتے ہوئے مل بیٹھیں اور اعلی{{ا و عظیم مردوں اور عورتوں کی بہادرانہ کہانیاں سناہیں۔ + + +[[زمرہ:ادب نوبل انعام یافتہ شخصیات]] + + +* اس مضبوط معاشرے میں کو تباہ کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ان کے اندر تخریبی افکار بو دئیے جائیں اور سب سے خطر ناک خیال جو ان کے اندر داخل کیا گیا، وہ یہ تھا کہ زندگی کا مقصد کام کرنا نہیں بلکہ روپیہ کمانا ہے۔عالمی یہود، ہنری فورڈ اوّل، صفحہ پبلشرز، لاہور۔ صفحہ 11 + + +* بدکرداری کا خیال بھی تیرے دل میں نہیں آناچاہےے یہی اصولِ زندگی ہے۔ +خوشامدی لوگوں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو تیرے عیوب کی نشاندہی تیرے سامنے برملا کریں۔ +* مرد کا امتحان عورت ہے اور عورت کا ا[[متحان روپے پیسے سے ہوتا ہے۔ + + +سائنس تمام انسانیات کی مشترکہ میراث ہے ناکہ کسی ملک یا قوم کی جاگیر. سورج کی روشنی کی طرح سائنس کے نور سے بھی سارا جہاں روشن ہوتا ہے. قوموں کا عروج سائنس کے بغیر ممکن نہیں. وہی قوم دنیا کی قیادت کرنے کی حقدار ہے جو آزادانہ غور و فکر اور ذہانت کے ذریعے شاہکار (دریافتیں اور ایجادات) تخلیق کرنے میں دوسری قوموں سے آگے ہے. + + +*میں بارش میں چلنا پسند کرتا ہوں تاکہ کوئی میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کو نہ دیکھ سکے + + +*سوچنے والی مشینیں انسانی بقا کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں۔ + + +موسوی شریعت کی رو سے بنی اسرائیل امت کو جو دس ابتدائی ہدایت دی گئیں وہ دس احکام کہلاتی ہیں۔ یہ احکام بنی اسرائیل کے عقیدے کے مطابق خداوند کریم نے حضرت موسی پر نازل کیے جو وہ پتھر کی دو سلوں پر کندہ کرکے لائے۔ توریت کی دوسری کتاب خروج میں ان کا اندراج موجود ہے۔ ان احکام کودو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول جو خاص خدا سے متعلق ہیں۔ دوم جو بنی نوع انسان کے متعلق ہیں۔ مختصر طور پر یہ احکام حسب ذیل ہیں۔ +# خدا کو وحدہ لاشریک جاننا۔ +# خدا کے سوا کسی اور کے آگے سجدہ نہ کرنا۔ +# خدا کا نام بے فائدہ نہ لیا۔ +# ماں باپ کی عزت کرنا۔ + + +| quote طاقت خوف پیدا کرتی ہے، خوف نفرت پیدا کرتا ہے، نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور بغاوت طاقت کو توڑ دیتی ہے! + + +یہ ایک بنیادی زمرہ ہے، اس میں صرف ذیلی زمرہ جات شامل کریں۔ + + +* زندگی مشکل ہے ۔۔۔۔ اور یہ ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اچھی، ثمر آور اور مسرت بخش ہو سکتی ہے۔ اسے ہاں کہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہال اربن ref>ہال اربن، زندگی کے بیس عظیم سبق، دارالشعور، مزنگ لاہور۔ اردو ترجمہ صفحہ 42 +* زندگی مسلسل مسائل کا نام ہے۔ کیا ہم ان پر گریہ و زاری کرنا چاہتے ہیں یا انہیں حل کرنا چاہتے ہیں؟ سکاٹ پیک ref>(The Road Less Travelled ref> + + +براہ کرم زمرہ جات&zwnj docpage FULLPAGENAME دستاویز دستاویز کے ذیلی صفحے پر اور بین الویکی روابط ویکی ڈیٹا میں شامل کریں۔ + + +خالد جاوید 9 مارچ 1963ء کو اترپردیش کے ایک شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلسفہ، سائنس اور اردو ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کئی سال تک روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھایا۔ آج کل وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ + + +خواب کی تعبیر پورا ہونے کا انتظار، زندگی کو دلچسپ بنا دیتا ہے۔ (صفحہ 26) +* منزل وہ خواہش ہے جس کے پورا ہونے کی ہر کوئی ہمیشہ دعا کرتا ہے۔ہر شخص جانتا ہے کہ اس کی منزل کیا ہے۔جب انسان جوان ہوتا ہے تو ہر چیز واضح اور قابل حصول نظر آتا ہے۔[[انسان جوانی میں خواب دیکھنے سے نہیں ڈرتا۔نہ ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے قیمت دینے سے گھبراتا ہے، چاہیے یہ قیمت کچھ بھی ہو۔لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے۔ کچھ پراسرار قوتیں اسے یہ یقین دلاتی ہیں کہ اس کے لیے اپنی منزل تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ (صفحہ 33) +* آخر میں تمہیں ایک کہانی سناؤں گا۔ ایک دکاندار نے اپنے بیٹے کو دنیا کے سب سے بڑے عالم کے پاس بھیجا تا کہ وہ ابدی خوشی کا راز سیکھ سکھے۔ لڑکا صحرا میں چالیس دن چلنے کے بعد پہاڑ پر واقع قلعہ پر پہنچا ۔ + + +*پھر سے بگ برادر کا چہرہ مٹ جاتا ہے اور پارٹی کے نعرے بڑے حروف میں نظر آتے ہیں: +*اقتدار ایک ذریعہ نہیں، بلکہ مقصد ہوتا ہے۔ +* ایذا دہی اور تادیب کا مقصد صرف ایذا دہی اور تادیب ہی ہوتا ہے۔ +* بگ برادر تمہیں دیکھ رہا ہے + + +==پہلا باب: علی پور کا ایلی== +* اس کا نام الیاس تھا-لیکن گھر میں سبھی اسے ایلی کہا کرتے تھے-“ایلی “ اس کے ابا آواز دیتے- ابا کی آواز سن کر اس کا دل دھک سے رہ جاتا-“ایلی-حقہ بھر دو“ وہ چپ چاپ اٹھ بیٹھتا -ابا کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کرایک ساعت کے لیے ہچکچاتا محسوس کرتا کہ اس بند کمرے میں داخل ہونا ٹھیک نہیں-دبی آواز میں کھانسنے کی کوشش کرتا تاکہ کمرے میں موجود لوگ اس کی آمد سے مطلع ہو جا ئیں-لیکن اس کی آواز حلق میں سوکھ جاتی-پھر وہ بڑی کوشش سے چلاتا “ابا جی“ اور جراءت کرکے دروازہ کھولتا لیکن دروازہ کھولنے سے پہلے اپنی نگاہیں جھکا لیتا اور ایسا انداز اختیار کرلیتا- جس سے ظاہر ہو کی حقہ کے علاوہ اسے کمرے کی کسی چیز سے دلچسپی نہیں-کمرے میں ابا کو اکیلے دیکھ کر اس کے دل سے بوجھ اتر جاتا اور وہ بے فکری سے حقہ کی طرف بڑہتا۔ +اس کے ابا عام طور پر چٹائی پر بیٹھے ڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے-وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے-ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے پلوؤں کو ادھر ادھر سرکے رہنے کی بری عادت تھی-جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی-“ہوں کیاہے“- ابا گھور کراس کی طرف یوں دیکھتے جیسے وہ خواہ مخواہ کمرے میں آ گھسا ہو-“جی-جی چلم“-ایلی ان کی دھوتی کی طرف نہ دیکھنے کی شدید کوشش کرتے ہوئے جواب دیتا اور پھر چلم اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگتا صفحہ 1) +ممتاز مفتی، علی پور کا ایلی، سنگ میل، پبلشرز، لاہور۔ مختلف صفحات + + +ہنسی ایک فعل ہے، جو مسکرانے سے بڑھ کر ایک کیفیت کا نام ہے۔ اس سے بڑھ کر قہقہ ہوتا ہے۔ +فطرت نے نوع انسان کو جتنی بھی نعمتیں عطا کی ہیں، ہنسی ان میں سے عظیم ترین نعمت ہے۔ نورمن کزنس + + +* کامیابی مسلسل کی جانے والی چھوٹی چھوٹی کوششوں کا نام ہے۔ روبرٹ کولئیر +* تم جہاں سے چاہو زمین کھودلو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔ خلیل جبران + + +* امید پر دنیا قائم ہے۔ +* خوف اور امید کا پہلو ایک جیسا ہی ہونا چاہیے، خوف کا پہلو امید پر غالب ہو نہ امید کا پہلو خو ف پر غالب ہو۔اگران دونوں پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو غالب آجائے، تو بندہ ہلاک وبربادہو جائے ۔‘‘ کیونکہ اگر اس نے امید کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہو جائے گا اور اگر اس نے خوف کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کا شکار ہو جائے گا۔[[امام شافعی]] + + +* کامیابی مسلسل کی جانے والی چھوٹی چھوٹی کوششوں کا نام ہے۔ + + +فطرت نے نوع انسان کو جتنی بھی نعمتیں عطا کی ہیں، ہنسی ان میں سے عظیم ترین نعمت ہے۔ + + +[[زمرہ:حقوق نسوانی کی علمبردار شخصیات]] + + +مہربان الفاظ پر خرچ کچھ بھی نہیں ہوتا جب کہ ان سے حاصل بہت کچھ ہوتا ہے۔ + + +* کسی بھی کام میں تمہاری کامیابی کے امکانات کا اندازہ صرف تمہارے خود پر یقین سے لگایا جا سکتا ہے۔ + + +نامعلوم شخصیات کے اقوال کے لیے ان میں سے مناسب صفحہ کا انتخاب کریں۔ +مذہب سے متعلق نامعلوم شخصیات کے اقوال]] +سائنس سے متعلق نا��علوم شخصیات کے اقوال]] +زندگی سے متعلق نامعلوم شخصیات کے اقوال]] + + +وارن ایڈورڈ بافیٹ Warren Edward Buffett تلفظ ˈbʌfɨt ایک امریکی تاجر، سرمایہ کار اور انسان دوست شخص ہے۔ اسے بیسویں صدی کا سب سے زیادہ کامیاب سرمایہ کار تصور کیا جاتا ہے۔ بافیٹ برکشائر ہیتھوے کا چیئرمین، سی ای او اور کا سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ وارن بافیٹ 2008 میں دنیا کے امیر ترین اشخاص کی درجہ بندی میں سر فہرست تھا۔ 2012 میں امریکی میگزین ٹائم نے بافیٹک کو دنیا کے بااثر ترین لوگوں میں سے ایک شمار کیا۔ + + +* اُن کی فکر مت کرو جو آپ کی قدر نہیں کرتے، اُن کی فکر کرو جو دوسروں کی قدر نہیں کرتے۔ (باب 1-16) +* شاعری کی بیاض کے تین سو شعروں کو ایک فقرے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ +برائی کا مت سوچو۔ باب 2-2) +* وہ اتنا کم عقل ہے کہ اس نے کہیں بھی میرے ساتھ اختلاف نہیں کیا۔ (باب 2-9) +* اعلیٰ انسان لفاظی کی بجائے ،عمل میں سبقت رکھتا ہے۔ (باب 2-13) +* میں نہیں جانتا کہ اگر کوئی شخص قابل اعتبار نہیں ہے تو وہ کیا حاصل کر سکتا ہے۔(باب 2-22) +چیزوں پر تحقیق کر لینے سے علم مکمل ہو گیا۔ ان کے علم مکمل ہو جانے پر سوچیں بے لوث ہو گئیں۔ سوچوں کے بے لوث ہوجانے پر ان کے دل صاف ہوگئے۔ دل صاف ہوجانے پر ان کی ذات ٹھیک ہوگئی۔ ذات ٹھیک ہوجانے پر ان کے گھرانے منضبط ہوگئے۔ گھرانوں کے منضبط ہونے پر ان کی ریاستیں درست حکومت کی حامل بنیں۔ ریاستوں میں درست حکومتیں بننے پر ساری بادشاہت مطمئن اور مسرور ہو گئی۔کنفیوشس، عظیم وعظ + + +*اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا۔جب زبان کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دکان سونے کا ہے یا کوئلے کا۔ حضرت علی ابن ابی طالب + + +ڈر، ایک نفسیاتی احساس، جو اپنے سے طاقتور، موجود یا غیر موجود حقیقی یا خیالی چیز سے انسان کو محسوس ہوتا ہے۔ +وہ واحد چیز، جس سے ہمیں ڈرنا چائیے، وہ خود ڈر ہے۔ + + +* ہمارے پاس ہمیشہ وقت ہوتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسے درست انداز میں استعمال کریں۔ گوئٹے + + +بنا دیا اور اس کے مجسمے بنا کر عبادت شروع کر دی۔ بدھ مت مذہب گوتم بدھ کے ہی پیروکاروں کا ہے۔ +* آدمی محبت سے غصے پر قابو پائے۔ +* اندر سے امن آتا ہے۔ اس کے بغیر تلاش نہ کریں۔ +* پوری دنیا میں اتنی تاریکی نہیں ہے کہ ایک چھوٹی موم بتی کی روشنی . +* ہم جو کچھ بھی ہیں ہم اس کے نتیجے میں ہیں جو ہم نے سوچا ہے۔ +* خوشی کبھی نہیں آئے گی جو اپنے پاس موجود چیزوں کی تعریف کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ + + +مادری زبان وہ زبان جو والدین بولتے ہوۂ، اور بچہ ان میں رئے کر ہی اسے سیکھے اور بولے۔ +* مادری زبانوں کا احترام کریں کیوں کہ یہ صرف آپ کی ماں کی زبان نہیں ہے بلکہ سب کی ماؤں کی زبانیں ہیں۔ مظہر الحق صدیقی +* مادری زبان ورثے میں ملتی ہے جب کہ دوسری زبانیں ہماری معاشی اور معاشرتی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی + + +* مادری زبان ورثے میں ملتی ہے جب کہ دوسری زبانیں ہماری معاشی اور معاشرتی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ + + +* جب تک ہرگھر میں پانچ پانچ بچے پیدا ہوتے رہیں گے اردو کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ ر ضا علی عابدی + + +اردو کے معروف صحافی، بی بی سی اردو سے کافی عرصہ منسلک رئے، کئی کتب کے مصنف۔ + + +حضرت داؤد کے بیٹے، اور مسلمانوں کے نزدیک ایک نبی، مسیحی انہیں صرف بادشاہ مانتے ہیں۔ نبی نہیں۔ +* انصاف ، صادق کے لیے خوشی اور بدکرداروں کے لیے خوف ��ے ۔ +* جو درست کلام سے جواب دیتا ہے اس کے لب چومے جائیں گے ۔ +جو کوئی جاہل کو عزت دیتا ہے وہ اس کی مانند ہے جو موتیوں کی تھیلیوں کو پتھروں میں پھینکے ۔ +جیسے کتا اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے ، ایسے ہی جاہل بار بار حماقت کرتا ہے ۔ +شریر آدمی جو مسکین لوگوں کا حاکم ہو ، وہ گرجتا ہوا شیر اور بھوکا ریچھ ہے ۔ +دغا کی روٹی ، آدمی کو میٹھی لگتی ہے مگر بالآخر اس کا منہ کنکریوں سے بھر جاتا ہے ۔ +گھر اور مال وہ میراث ہے جو باپ سے حاصل ہوتی ہے ، مگر عقل مند اور نیک بیوی نعمت خداوندی ہے ۔ +* رعایا کی خوشحالی سے بادشاہ کی رونق ہے اور رعایا کی مفلسی سے بادشاہ کی تباہی ہے ۔ +ایک خوش مزاج آدمی پژمردہ دلوں کی دوا ہے ۔ +بہترین تعلیم ، سب سے اچھا جہیز ہے ۔ +ملائم جواب ، غصے کو کھو دیتا ہے مگر کرخت انگیز ہیں ۔ +[[زمرہ:عہد نامہ قدیم میں مذکور شخصیات]] + + +وکی اقتباسات:مامور اداری/رائے شماری/محمد شعیب]] + + +==ویکی اقتباسات دائرۃ المعارف نہیں ہے== +ویکی اقتباسات اپنے ساتھی منصوبے ویکیپیڈیا کی طرح دائرۃالمعارف (encyclopedia) نہیں ہے اگر زیادہ ضروری ہو تو موضوع کے متعلق مختصر تعارف ویکی اقتباسات پر دیا جا سکتا ہے لمبی چوڑی تفصیلات ویکی اقتباسات میں ڈالنے کی بجائے متعلقہ ویکیپیڈیا آرٹیکل میں ڈال کر ربط دیا جا سکتا ہے +==ویکی اقتباسات لغت نہیں ہے== +ویکی اقتباسات لغت کی طرح الفاظ ڈالنے کے لیے نہیں ہے اس کا صحیح مقام ویکشنری ہے تاہم کسی مخصوص لفظ (مثلا محبت کے متعلق اقتباسات پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن عام لفظوں پر نہیں +==ویکی اقتباسات درسی کتب نہیں ہے== +ویکی اقتباسات میں درسی کتب کی طرح معلومات پیش نہیں کی جاتی +==ویکی اقتباسات پبلک ڈومین ڈاکیومنٹس کے لیے بہیں ہے== +==ویکی اقتباسات ذاتی ویب سائیٹ نہیں ہے== +مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے وکی اقتباسات:صارف صفحہ]] +==ویکی اقتباسات ذاتی اقتباسات جمع کرنے کے لیے نہیں ہے== +کوئی بھی صارف اپنے صارف صفحہ پر اپنے یا اپنے دوستوں کے کہے ہوئے اقتباسات رکھ سکتا ہے لیکن مرکزی نام فضا میں نہیں +==ویکی اقتباسات انٹرنیٹ ہدایت نامہ نہیں ہے== +==ویکی اقتباسات فورم نہیں ہے== +==ویکی اقتباسات بلاگ نہیں ہے== +==ویکی اقتباسات غیر آزاد اقتباسات شائع کرنے کے لیے نہیں ہے== +==ویکی اقتباسات اشتہار بازی کے لیے نہیں ہے== +==ویکی اقتباسات کرسٹل بال نہیں ہے== + + +مزید دیکھیں زمرہ:پیشے صفحہ اول + + +ميرا نام طاہر محمود ہے ۔ ميرا تعلق لاہور پاكستان سے ہے + + +لاہور Lahore) صوبہ پنجاب پاکستان کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل بھی کہتے ہیں۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ +*جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ (پنجابی سے ترجمہ) + + +اس کا اردو ترجمہ خارج کرسکتے ہیں؟ + + +صفحہ کے حجم میں اتنے بائٹس کے برابر اضافہ یا کمی ہوئی + + +$1 نے صفحہ $3 حذف کیا + + +نے صفحہ 1 کو محفوظ کردیا + + +کلمۂ شناخت بھول گئے ہیں؟ + + +ایک اور کھاتہ تخلیق کریں + + +آپ پہلے ہی GENDER:$1|$1 کھاتے سے داخل نوشتہ ہیں. +کسی دوسرے کھاتے سے داخل ہونے کے لیے ذیل کے خانوں کو پر کرکے 'داخل ہوں' پر کلک کریں. + + +ذیل کے خانوں کو پر کریں اور بذریعہ برقی ڈاک پتہ عارضی کلمۂ شناخت حاصل کریں + + +$1 نے صارف کھاتہ تخلیق کیا + + +صارف کی شراکت برائے $1 + + +بڑے پیمانے پر حذف شدگیاں + + +صرف نئے صارفین کی شراکت دکھائیں + + +صرف تخلیق صفحات والی ترامیم دکھائیں + + +صرف حالیہ ترین ترامیم دکھائیں + + +یہ ترجیح آپ کی اگلی داخل نوشتگی پر اثرانداز ہوگی + + +تبادلۂ خیال صفحات پر بیانات کے آخر میں nowiki nowiki سے ضرور دستخط کیے جانے چاہییں جو کہ آپ کے دستخط اور مہر وقت میں تبدیل ہوجائیں گے + + +اس سہولت کے لیے جاوا سکرپٹ درکار ہے۔ + + +یہاں کچھ نئی سہولیات ہیں جو SITENAME پر ابتدائی مراحل میں ہیں۔ براہ کرم انہیں جانچیں، تجربہ کریں اور اپنی آراء سے ہمیں نوازیں، تاکہ ہم اس بنیاد پر انہیں مزید بہتر بناسکیں۔ + + +خودکار طور پر جملہ تمام نئی آزمائشی سہولیات فعال کریں + + +صفحہ میں موجود مواد کا خلاصہ برخیزہ دریچے میں دکھاتا ہے جب صارف متعلقہ صفحہ کے ربط پر کرسر (تیر) لے کر جاتا ہے + + +زیرنظر فہرست، اطلاعات اور تبادلۂ خیال صفحہ تک بہترین اور منظم انداز میں رسائی ایک سادہ سرنامہ جس کے ذریعے بوقت ضرورت متعدد آلات تک رسائی ہوتی ہے۔ + + +بین الویکی روابط کی مختصر فہرست دکھاتا ہے، جس میں محض وہ زبانیں ظاہر ہوتی ہیں جو آپ کے لیے زیادہ اہم ہوں۔ + + +خانۂ آلات میں دیگر منصوبے + + +دائیں قائمہ میں دیگر منصوبے شامل کرتا ہے جن میں ویکی ڈیٹا کے ڈیٹا پر مبنی ویکیمیڈیا کے دیگر منصوبوں کے روابط موجود ہوتے ہیں۔ + + +ہر اطلاع کو برقی خط کے ذریعے اسی وقت بھیجیں + + +کوئی اطلاع بھی برقی خط کے ذریعے نہ بھیجیں + + +دن کی تمام اطلاعات کا خلاصہ دن میں ایک بار بذریعہ برقی خط بھیجیں + + +ہفتہ کی تمام اطلاعات کا خلاصہ ہفتہ میں ایک بار بذریعہ برقی خط بھیجیں + + +مجھے ان واقعات کے بارے میں اطلاع بھیجیں + + +تبادلۂ خیال صفحہ پر پیغام کا اشارہ ٹول بار میں دکھائیں + + +یہاں سے آپ اپنی خفیہ کلید جو دوسروں کو آپ کے کھاتے کے خفیہ مواد تک رسائی کی اجازت دیتی ہے کو ری سیٹ (باز ترتیب) کرسکتے ہیں- +اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی خفیہ کلید کسی دوسرے کو پتہ چل گئی ہے یا آپ نے غلطی سے کسی کو بتا دی ہے تو آپ یہاں سے اسے ری سیٹ کرسکتے ہیں- + + +یہ میڈیاویکی فضائے نام میں دستیاب نظامی پیغامات کی فہرست ہے۔ + + +پیر کامل حمیرہ احمد کا ایک اردو زبان میں لکھا ہوا ناول ہے۔ اسے نوجوان نسل میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک امیر، بہت ذہین اور بگزا ہوا نوجوان لڑکا ہے۔ جو مختلف اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے، مگر بعد میں ایک کہانی میں موڑ آتا ہے اور لڑکا ایک لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے، ناول میں قادیانیت کو موضوع بنایا گيا ہے۔ مرکزی کردار میں شامل لڑکی قادیانیت سے توبہ کر کے اسلام قبول کرتی ہے۔ جس وجہ سے اس کے ہم مذہب اسے تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور لڑکا (مرکزی کردار) اسے بچاتا ہے۔ +* جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا، اسے یونہی لگتا ھے کہ وہ پیاس سے مر جائیگا مگر پانی کے گھونٹ بھرتے ہی وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے، پھر اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر بھی سکتا تھا۔۔۔۔ کوئی پیاس سے نہیں مرتا۔۔۔۔۔ مرتے تو سب اپنے وقت پہ ہی ہیں اور اسی طرح، جس طرح اللہ چاہتا ہے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہیں کہ پھر ہمیں زندہ رہتے ہوئے بھی بار بار موت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ + + +نواب نہیں بسم اللہ جان اب مجھ کو جانے دو اب میرا آنا بے کار ہے جب خدا ہمارے دن پھیرے گا تو دیکھا جائے گا اور اب کیا دن پھریں گے۔ +بسمﷲ میں تو نہ جانے دوں گی۔ +نواب تو کیا اپنی ماں سے جوتیاں کھلواؤگی۔ +بسم ﷲ مجھ سے ہاں سچ تو ہے بہن امراو, آج یہ بڑی بی کو ہوا کیا تھا ؟ برسوں ہو گئے میرے کمرے میں آج تک جھانکی نہ تھی ۔ آج آئیں بھی تو قیامت برپا کر گئیں بھئی اماں جان چاہے خفا ہو جائیں چاہے خوش ہوں میں نواب سے رسم نہیں ترک کر سکتی۔ آج نہیں ہے ان کے پاس نہ سہی۔ ایسی بھی کیا آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لینا چاہیے ۔ آخر یہی نواب ہیں جن کی بدولت اماں جان نے ہزاروں روپئے پاے۔ آج زمانہ ان سے پھر گیا تو کیا ہم بھی توتے کی طرح ان سے آنکھیں پھیر لیں گھر سے نکال دیں ؟ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اب اگر اماں زیادہ تنگ کریں گی تو بہن امراو میں سچ کہتی ہوں تواب کل ہاتھ پکڑ کے کسی طرف کو نکل جاؤں گی۔ لو میں نے اپنے دل کی بات کہ دی ۔ +میں بسم اللہ کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی ۔ ہاں میں ہاں ملا رہی تھی ۔ +بسم ﷲ اچھا تو نواب تم کہاں رہتے ہو ؟ +بسم ﷲ آخر کہیں تو ؟ +نواب تحسین گنج میں مخدوم بخش کے مکان پر رہتا ہوں ۔ افسوس میں نہ جانتا تھا کہ مخدوم ایسا نمک حلال آدمی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سے بہت ہی شرمندہ ہوں۔ + + +نیا کلمۂ (پاسورڈ) شناخت برقی ڈاک میں بھیجیں + + +حالیہ تبدیلیاں میں ویکی ڈیٹا ترامیم دکھائیں + + +وہ صفحات زیر نظر فہرست میں شامل کریں جنہیں میں استرجع کروں- + + +زیر نظر فہرست میں ویکی ڈیٹا ترامیم دکھائیں + + +[[زمرہ:اندرونی روابط کے سانچے PAGENAME + + +جو میں کر سکتا تھا، وہ کیا۔ + + +* خوف اور جھوٹ کے ساتھ جینا موت سے بدتر ہے۔ +* انسان کو انصاف و ظلم اور سچ و جھوٹ میں ہمیشہ تمیز رکھنی چاہیے۔ٗٗٗ +*جوسچائی جھوٹ کےمشابہہ ہواسےاختیارمت کرو۔ +**قول فرید الدین گنج شکر]] +*جھوٹ کے بوسے سے سچ کا تھپڑ بہتر ہے ۔ +*اکثر کہاجانے والا جھوٹ سچ بن جاتا ہے۔ +* سچائی امانت اور جھوٹ خیانت ہے۔ +قول حضرت ابو بکر صدیق]] + + +$1 نے صفحہ $3 کو بجانب $4 منتقل کیا + + +انسان کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کائنات کی ہر شے اس کے حصول کے لیے انسان کی مدد کرتی ہے۔ + + +اگر آپ اس سانچہ میں کوئی تبدیلی کررہے ہیں تو براہ کرم اس کے قابل طبع نسخہ کی بھی تجدید فرمادیں۔' + + +نام محمد عمار ضیا، عموماً قلمی نام عمار ابنِ ضیا سے جانا جاتا ہوں۔ پیشے کے اعتبار سے فی الوقت ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے میں اُردو مدیر ہوں، شوقیہ بلاگر اور لکھاری ہوں، اور مادری زبان اُردو ہونے کے ناتے اپنی زبان کا ادنا سا خادم ہوں۔ + + +ذیل میں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے مواد (پروگرام، شو، ڈرامے، وغیرہ) کے اقتباسات کی فہرست ہے۔ اس صفحے پر پروگراموں کا صرف عنوان/نام شامل ہے جن پر طق (کلک) کرنے سے اُن سے متعلقہ صفحہ ظاہر ہوجائے گا۔ + + +ذیل میں فلموں کی فہرست ہے۔ اس صفحے پر فلموں کا صرف عنوان/نام شامل ہے جن پر طق (کلک) کرنے سے اُن سے متعلقہ صفحہ ظاہر ہوجائے گا۔ + + +* لوگ ہمیشہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں ٹائلر ڈورڈن کو جانتا ہوں؟ +* جب لڑائی ختم ہوگئی تو کچھ بھی حل نہیں ہوا ، لیکن کچھ بھی اہم نہیں رہا۔ ہم سب نے اپنے آپ کو محفوظ سمجھا۔ +* اگر آپ کسی مختلف وقت پر، کسی الگ جگہ پر جاگتے ہیں، تو کیا آپ ایک مختلف شخص کی حیثیت سے جاگ سکتے ہیں؟ +* میں جیک کی ہوں حیرت کی مکمل کمی۔ +* میں جیک کی برباد زندگی ہوں۔ +* میں جیک کا زبردست انتقام ہوں۔ + + +مورگن میرا نام ہنری مورگن ہے۔ میری کہانی خاصی طویل ہے۔ یہ تھوڑی غیر معقول محسوس ہوسکتی ہے۔ بلکہ، شاید آپ میرا یقین ہی نہ کریں۔ لیکن میں آپ کو پھر بھی سناؤں گا، کیوں کہ، دیگر تمام باتوں کے علاوہ، میرے پاس بہت اور بہت ہی زیادہ وقت ہے۔ +لوکس ہمیں کچھ نہیں ملا۔ +مورگن میں کچھ نہیں پر یقین نہیں رکھتا۔ میں ایک سائنس دان ہوں اور، صاف کہوں تو، متشکک (عام عقائد پر شک کرنے والا)۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے، ہاں اگر آپ کو معلوم ہو کہ کس چیز کو تلاش کرنا ہے۔ +مورگن اپنے آپ کو دہرائے جانا تاریخ کا مقدر ہے۔ +ایب تم جانتے ہو، میں یہ نہیں مانتا۔ میرا مطلب ہے کہ یہ تاریخ نہیں ہے جو اپنے آپ کو دہراتی ہے، بلکہ یہ ہم ہیں جو اسے تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ +مورگن خوب، تو ہم یہ کیسے کرتے ہیں؟ +ایب لو، یہ بھلا مجھے کیسے پتا ہوگا؟ میں تو بہ مشکل 70 سال کا ہوں۔ +ایب تلخی کے بغیر شیرینی کہاں مل سکتی ہے۔ +مورگن اس عورت نے یکے بعد دیگرے تمھارا دل توڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ +ایب تم وہ بندوق والے واقعے کی بات کر رہے ہو؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ بندوق بھری ہوئی ہے۔ +مورگن نہیں، ایب۔ مجھے یہ فکر ہے کہ وہ تمھارا دل توڑے گی۔ +ایب میری عمر میں؟ مجھے تو بہت خوش قسمت ہونا چاہیے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ (دل) اب تک کام کر رہا ہے۔ +مورگن سیکس، منشیات، بلندی سے چھلانگ (اسکائے ڈائیونگ)۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ کام جو ہم ہیجان خیزی کے لیے کرتے ہیں، تاکہ ہم اپنے آپ کو زندہ محسوس کروا سکیں، وہی کام ہیں جو ہمیں ہلاک کر سکتے ہیں۔ بالکل یہی بات انسانی رشتوں پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ لوگ جن سے ہم سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، وہی ہوتے ہیں جو ہمیں سب سے گہرا زخم پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ +مورگن ہمیں خطرے سے خبردار کرنے کے لیے ہمارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہ ہمیں ہمارے زندہ ہونے کی یاد بھی دلاتا ہے کہ ہم اب تک محسوس کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اس (درد) کی طلب کرتے ہیں، جب کہ دیگر لوگ اسے سُن رکھنا پسند کرتے ہیں۔ سکون کی خاطر تنہائی ہمیشہ میرا انتخاب رہی ہے۔ لیکن اگر کچھ محسوس نہ ہونا (بے حسی) ہی ہماری سب سے بڑی تکلیف ہو تو کیا ہو؟ کیا ہو اگر درد بانٹنا ہمیں دوسروں کے ساتھ ملا دے اور ہمیں یاد دلائے کہ جب تک ہمارا احساس باقی ہے، ہم تنہا نہیں ہیں۔ +لوکس ہنری مورگن اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ نوش کر رہا ہے؟ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ رہوں گا۔ +مورگن کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیسے جیتے یا مرتے ہیں، ہمارا انجام ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔۔۔ خاموشی میں۔ ہماری زندگی کی تمام تر اُمیدیں اور سپنے ایک ایسی داستان بن جاتے ہیں جسے مختصر کردیا گیا ہو۔ لیکن اگر ہم خاصے خوش قسمت ہوں، تو ہمارے قصے زندہ رہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنے اور چاہنے والوں کے دلوں میں ہمارے گیت کو آواز ملتی ہے۔ +مورگن کہتے ہیں کہ ایک آدمی تب تک نہیں مرتا جب تک اُس کا نام لیا جاتا رہے، اور یہ کہ ہم در حقیقت تب مرتے ہیں جب ہم اپنے چاہنے والوں کی یادوں سے محو ہوجاتے ہیں، گویا ایک عظیم فنکار کبھی نہیں ملتا۔ جب تک اُس کی کتابیں پڑھاتی جاتی رہیں، اُس کی تصاویر سراہی جاتی رہیں، جب تک ہمارے گیت گائے جاتے رہیں، ہم میں سے ہر ایک ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔ + + +ایک طرف آرکسٹرا ارِمسکی کراسکو کی مشہور دُھن شہرزادی بجا رہا تھا۔ سمفنی کا یہ وہ حصہ تھا جہاں شہرزادی بڑھتے ہوئے طوفان کا قصہ سناتی ہے۔ +’’یہ قصہ بغداد کا ہے، دُھن اِس علاقے کی ہے، لیکن نغمہ نگار یورپین ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘ وہ بولا۔ +’’[[افسوس کی بات تو ہے، لیکن کیا کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ مشرق کو سمجھنے کے لیے ہمیں مغرب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ دوسرے موضوع تو ایک طرف رہے، خود ہمارے علوم وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ مشرق پر ریسرچ اکثر برٹش میوزیم میں کی جاتی ہے۔ ابنِ خلدون، رازی، بو علی سینا]]، ابن بطوطہ]]، بابر اور دیگر شہرۂ آفاق ہستیوں کی تصانیف ہم پہلے انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ رہ گئی ہماری موسیقی جس پر ہم اس قدر فریفتہ ہیں، وہ سکھائی جاتی ہے، پڑھائی نہیں جاتی۔ کسی نے اسے لکھا اور چھاپا نہیں۔‘‘ +’’پتا نہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارے علوم و فنون سینہ بہ سینہ چلتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فنکار کا بیٹا سدا فنکار نہیں ہوتا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ طبابت ورثے میں ملے۔ لہٰذا بہت کچھ ضائع ہوتا رہا ہے اور ضائع ہوتا رہے گا۔‘‘ +ساز تھرائے، واللہ کے نعرے لگے اور رقص شروع ہوا۔ اُس کی انگلیوں میں مجیرے تھے جنھیں وہ بڑی فیاضی سے استعمال کر رہی تھی۔ جو تھوڑا سا لباس اُس نے ازراہِ کرم پہن رکھا تھا، وہ ملتان کی گرمیوں کے لیے تو موزوں ہوسکتا تھا لیکن قاہرہ کی خنک رات کے لیے غالباً مناسب نہیں تھا۔ +مشرقِ وسطیٰ کا یہ رقص خوب ہے۔ اس میں آرٹ کم ہے اور تھرکنا زیادہ۔ جنبش اتنی تیز کہ نگاہیں ساتھ نہیں دے سکتیں۔ بالکل جیسے کھلونے کو چابی بھر کر چھوڑ دیا جائے۔ +راوی ’’طبی نکتۂ نظر سے ایسا رقص صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس سے کمر کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ بھوک کھل کر لگتی ہے اور متواتر اُچھل کود سے جگر بھی بیدار رہتا ہے۔‘‘ +دوست ’’ہائے، تم سمجھے نہیں۔ طبی رائے کون لے رہا ہے؟ فنّی زاویے سے بتاؤ۔‘‘ +راوی ’’فن کا تو پتا نہیں، لیکن اگر ایسا ناچ اہرام سے بر آمد کی ہوئی کسی فرعون کی ممی کے سامنے کیا جائے تو ممی چھلانگ مار کر اُٹھ کھڑی ہو۔‘‘ +دوست ’’اس علاقے کا رقص ایسا ہی ہے۔ مگر پبلک تو بڑے شوق سے دیکھتی ہے۔ بلکہ حاضرین میں سے کئی تو تسبیح بھی پھیرتے رہتے ہیں، اگرچہ دوسرے ہاتھ میں مشروب ہوتا ہے۔‘‘ +راوی پبلک عادی ہوچکی ہے۔ پبلک اکثر عادی ہوجایا کرتی ہے۔‘‘ +چاندنی میں اہرام کو دیکھ کر جو تاثرات پیدا ہوتے ہیں وہ کسی اور عظیم عمارت کو دیکھنے سے نہیں ہوتے۔ +اہرام خوشنما نہیں ہیں۔ نہ پُر ہیبت و سنگلاخ ہیں۔ انھیں نستعلیق بھی نہیں کہا جاسکتا۔ پتھروں کے یہ ڈھیر بے حد سادہ سے ہیں، جیسے ریاضی کے کسی طالبِ علم نے تکون بناتے وقت چند خطوط کھینچ دیے ہوں۔ اس کے باوجود ان میں انوکھا پن ہے۔ ان سے عظمت ہویدا ہے اور یہ پُرکشش ہیں۔ +یہ انسانی تاریخ کا اوّلین ترین باب ہیں۔ +فرعونوں کے نام سب جانتے ہیں۔ اُن کی عظمت و جبروت کے تذکرے عام ہیں۔ لیکن ان کروڑوں انسانوں کے متعلق معلومات بہت کم ہیں جو اس عجوبے کے اصل خالق تھے۔ +دوست تمھارے دریا کیسے ہیں؟ +راوی خیریت سے ہیں۔ مگر ہم نے سارے شہر اُن پر نہیں بسائے۔ +راوی شاید اس لیے کہ ہم نے اپنے دریاؤں کو اور اُنھوں نے ہمیں اچھی طرح نہیں سمجھا۔ تبھی وہ بار بار اپنا راستہ بدلتے رہتے ہیں اور سیلاب بھی لاتے ہیں۔‘‘ +دوست لیکن ہم تو نیل کے سیلاب کا بڑے شوق سے انتظار کرتےیہں، کیوں کہ یہ آب پاشی کرتا ہے اور زرخیز مٹی گارا بچھاتا ہے۔ +راوی اتفاق سے ہمارے ہاں آب پاشی کے لیے بے شمار نہریں ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، دریاؤں کو بذاتِ خود آب پاشی کرنے کا شوق ہے۔ چناں چہ برسات میں وہ دور دور کے کھیتوں تک پہے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ +دوست تمھارے ہاں اس طرح دریا کے کنارے سیر کی جاسکتی ہے؟ +راوی رات کے چار بجے تبھی کی جاسکتی ہے جب آوارہ گردی کے چالان کا ڈر نہ ہو۔ + + +اب اس عمر میں آ کر مجھے یہ سمجھ میں آ گیا ہے کہ وہ پچکی ہوئی شے دنیا تھی۔ +# اپنی زندگی میں، میں نے جو سب سے سمجھ دار آدمی دیکھا، وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا۔ +# ایسے کئی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے آپ دنیا کے ساتھ ہم قدم نہ ہوں۔ + + +انسان کو منطق کو کبھی پس{{زیر نہیں ڈالنا چائیے کیونکہ آنکھیں آگے کی طرف ہوتی ہیں نہ کہ پیچھے کی طرف۔ +زبوں حالی کے لیے ہدایت نامہ سے + + +کمیونٹی باب میں خوش آمدید! +اس صفحے میں وکی اقتباسات میں لکھنے والوں کے لئے معاونت و معلومات ہیں۔کمیونٹی میں سب لوگ شامل ہیں جو اس منصوبے میں کام کرتے ہیں ۔یہ منصوبہ ہر کسی کے لئے آزاد ہے اور کوئی بھی یہاں بلاخوف و خطر کام کرسکتا ہے۔ +وکی اقتباسات کے ساتھی منصوبے + + +ویکی اقتباسات کے منتظمین عام صارفین ہی ہوتے ہیں مگر ان کو چند خاص اختیارات دئے جاتے ہیں تاکہ وہ وکی اقتباسات کو سنواریں ۔یہ اختیار ان لوگوں کو ملتے ہیں جن کو وکی میں ترمیم و ترتیب کرنا آتا ہو ۔اور جس اس سے پہلے شراکتیں کرچکے ہو۔ +اس وقت وکی اقتباسات پر یہ صاحبان منتظمین ہیں: +summary= صفحہ نامزدگی تخلیق کریں +اس کے بعد آپ ایک نئے صفحے پر تشریف لے جائیں گے وہاں پر نئے صفحہ میں اپنی تحریر نامزدگی وغیرہ لکھیں۔ + + +آپ کا درخواست شدہ تصفیہ پوشیدہ ہے، اور آپ اس کا تاریخچہ نہیں دیکھ سکتے۔ + + +اس صفحہ میں متعین مقطارات کی فہرست موجود ہے، نیز اس صفحہ کے ذریعہ ان مقطارات میں ترمیم بھی کی جاسکتی ہے۔ + + +محض حذف شدہ مقطارات دکھائیں + + +نوشتۂ اندراج کی تفصیلات $1 + + +اس اندراج کو عمومی منظر سے پوشیدہ کریں + + +اس صارف کے نوشتۂ مقطار کی تدوین + + +عدد مقطار پائپ کے ساتھ الگ سے): + + +سابقہ ترامیم کے خلاف تصفیہ کی جانچ کریں + + +مضمون کے عنوان میں اعراب (ـٔـّـَـِـُـًـٍـٌـْ) جیسے زبر، زیر، پیش، جزم، تشدید، تنوین وغیرہ کا استعمال ممنوع ہے۔ البتہ اعراب کے عنوان سے رجوع مکرر بنایا جا سکتا ہے۔ + + +{{SITENAME میں داخلے کیلیے آپ کے پاس کوکیز مجاز ہونا چاہیے۔ + + +ذیل میں ان تمام صارفین کی فہرست درج ہے جنہیں دیگر صارفین کے جانب سے شکریے موصول ہوئے۔ + + +اب آپ SITENAME میں بنام"$1" داخل ہو چکے ہیں۔ + + +آپ خفی الاسم SITENAME کا استعمال جاری رکھ سکتے ہیں، یا دوبارہ اسی نام یا مختلف نام سے داخل بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ یاد آوری کرلیں کہ کچھ صفحات ایسے نظر آتے رہیں گے کہ جیسے ابھی آپ خارج نہیں ہوئے ، جب تک آپ اپنے براؤزر کا کیشے (cache) صاف نہ کردیں۔ + + +انتباہ: یہ صفحہ $1 کلو بائٹ طویل ہے؛ کچھ براؤزر 32 کلو بائٹ سے طویل صفحات کی تدوین کے وقت مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں، اگر ممکن ہو تو اس صفحہ کو منقسم کر کے طوالت کم کرنے پر غور کیجیئے۔ + + +کلید برائے طے شدہ ترتیب + + +ترامیم کی حالیہ تعداد (گذشتہ $1 میں) + + +کوئی بیرونی آلہ (ایپلی کیشن) استعمال کرتے ہوئے اس کی تدوین کریں + + +اس صفحے کا رائج متن مرتب کریں۔ + + +انتباہ آپ ایک ایسا صفحہ مرتب کر رہے ہیں کہ جو سافٹ ویئر کے لیے انٹرفیس مہیا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس صفحہ میں کی جانے والی ترمیم، دیگر صارفین کے انٹرفیس کو تبدیل کردے گی۔ + + +فرق سے نیچے اندراجات نہ دکھاؤ + + +ذیل میں موجود صفحات ویکی اقتباسات کے دیگر صفحات سے مربوط نہیں ہیں۔ + + +منتقلی کے سلسلے میں انتخاب کردہ مضمون 1 پہلے ہی موجود ہے۔ کیا آپ اسے حذف کرکے منتقلی کے لیے راستہ بنانا چاہتے ہیں؟ + + +صارف کی حذف شدہ شراکتیں + + +"$1" کو حذف کر دیا گیا ہے۔ +حالیہ حذف شدگی کی تاریخچہ کے لیے 2 دیکھیے + + +خیال رہے کہ وکی اقتباسات برادری معلومات کے حصول کی راہ میں مسلسل کوشاں ہے؛ لہذا بامقصد اظہار رائے اور تبادلۂ خیال ناگزیر ہے۔ وکی اقتباسات کی ترقی وتوسیع سے متعلق تمام آراء وخیالات کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ + + +آگ کا دریا اردو کی معروف مصنفہ قرات العین حیدر کا لکھا ہو ا ناول ہے۔یہ ناول وقت کے لحاظ سے کئی صدیوں پر محیط ہندوستان کے قدیم عہد سے لے کر 1947ء میں انگریز حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے بعد تک کے عرصے تک محیط ہے۔ +قرۃالعین حیدر کی کتاب “آگ کا دریا” سے اقتباس +"لڑکیاں سوانگ رچنے کی بے حد شوقین ہوتیں ہیں۔ بچپن میں وہ پلنگ کھڑے کر کے ان کے پلنگ پوش کے پردے لگا کر گھر گھر کھیلتی ہیں۔ گھروندا سجا کر تصور کرتی ہیں یہ سچ مچ کا مکان ہے- ہنڈکلیا ان کے نزدیک بڑا اہم دعوتی کھانا ہوتا ہے۔ گڑیاں گڈے ان کے لئے جاندار انسان ہیں۔ جب ذرا بڑی ہوتی ہیں تو اپنا بناوء سِنگھار کر کے کس قدر مسرور ہوتی ہیں۔ باہر جانے سے پہلے گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے صرف کریں گی۔ جوتوں اور کپڑوں کا انتخاب ان کے لئے آفاقی اہمیت کا حامل ہے۔ سجنا بہروپ بھرنا ان کے لئے بے حد ضروری ہے۔ رادھا اور کرشن کا ناچ ناچتی ہیں تو تصور کرتی ہیں کہ واقعی ورندابن میں موجود ہیں۔ ساری عمر ان کی اپنی ایک نازک سی دنیا بسانے میں گزرتی ہے اور یہ دنیا بسا کر وہ بڑے اطمینان سے اس میں اپنے آپ کو پجارن یا کنیز کا درجہ تفویض کر دیتی ہیں۔ اوّل دن سے ان کے بہت چھوٹے بڑے دیوتا ہوتے ہیں جو ان کی رنگ بھوم کے سنگھاسن پر آرام سے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں۔ باپ، بھائی، شوہر، خدا، بھگوان، کرشن، بیٹے، پرستش ان کے مقدر میں لکھا ہے۔ جب رنگ بھوم کا ڈائریکٹر ان سے کہتا ہے کہ تم مہارانی ہو، دل کی ملکہ ہو، دنیا کی حسین ترین لڑکی ہو، روپ وتی ہو تو یہ بی چاریاں بہت خوش ہوتی ہیں۔" + + +کارل ساگان مشہور امریکی سائنسدان تھے۔جن کو خاص کر مابعد الطبیعات اور مافوق الفطرت علوم پر تشکیک اور ان کو رد کرنے کے حوالے سے شہرت حاصل ہے۔ + + +یاددہانی محفوظ کرنے کے بعد، تبدیلیاں دیکھنے کے لیے آپ کو اپنے متصفح (browser) کے ابطن (cache) کو خالی کرنا ہوگا۔ +انٹرنیٹ ایکسپلورر جب Refresh طق کریں تو Ctrl یا Ctrl-F5 دبائیں + + +ترامیم کا استرجع از $1 مکمل ہوا؛ +آخری اعادہ از $2 کے جانب تبدیل ہوگیا۔ + + +متضاد ترامیم درمیان میں آجانے کی وجہ سے اس ترمیم کو استرجع نہیں کیا جاسکتا۔ + + +صفحہ غیر موجود یا حذف شدہ ہے اس لیے اس ترمیم کو استرجع نہیں کیا جا سکتا۔ + + +ترمیم کو واپس پھیرا جاسکتا ہے۔ برائے مہربانی درج ذیل موازنہ دیکھ کر یقین کر لیں کہ آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں، اور پھر استرجع کے لیے محفوظ کس بٹن سے محفوظ کر دیں۔ + + +جلال الدین رومی مشہور فارسی شاعر مثنوی مولانا روم کے لکدنے والے۔ آپ کی مثنوی کا ترجما دنیا کی کئی زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ آپ کے پیروکار خود کو مولویہ کہلواتے ہیں۔ آپ کی دی؛گر تصنیفات میں، فیہ ما فی اور دیوان شمس تبریز ہیں اس کے علاوہ کچھ مکتوبات بھی آپ سے منسوب ہیں۔ +==مولانا رومی کے متعلق اقوال== +علامہ محمد اقبال کا فارسی میں خراجِ تحسین +پس چہ باید کرد اے اقوام شرق]]، صفحہ 803۔ +پس چہ باید کرد اے اقوام شرق]]، صفحہ 804۔ +پس چہ باید کرد اے اقوام شرق]]، صفحہ 825۔ + + +pre حوالہ جات n{{حوالہ جات n", + + +var months جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون', +جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر + + +ارکان کے اعداد و شمار + + +cat_exists زمرہ 1" پہلے سے موجود ہے؛ اس کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا.' +add نئے زمرہ کا اضافہ کریں' +down تبدیلی کے لیے کھولیں اور ذیلی زمرہ جات دکھائیں' +up تبدیلی کے لیے کھولیں اور اساسی زمرہ جات دکھائیں' +,multi_tooltip متعدد زمرہ جات کی درستگی کریں' + + +* صرف دلیل کرنے والادماغ ایک ایسے چاقو کی طرح ہے جس میں صرف بلیڈ (پھل)ہے۔ یہ خود اس کے استعمال کرنے والے کے ہاتھ سے خون نکال دیتا ہے۔ +* عمر سوچتی ہے، جوانی کرتی ہے۔ +تعصب سچ کو ان ہاتھوں میں محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے مارنا چاہتے ہیں۔ +* پنکھڑیاں توڑ کر آپ پھول کی خوبصورتی نہیں اکٹھا کرتے۔ +موت روشنی کو ختم کرنا نہیں ہے؛ یہ صرف چراغ کو بجھانا ہے کیونکہ صبح ہو گئی ہے۔ +دوستی کی گہرائی تعارف کی لمبائی پر انحصار نہیں کرتی ۔ +* کسی بچے کی تعلیم اپنے علم تک محدود مت رکھیے، کیونکہ وہ کسی اور وقت میں پیدا ہوا ہے۔ +* مٹی کے بندھن سے آزادی درخت کے لئے آزادی نہیں ہے +* ہر بچہ اسی پیغام کے ساتھ آتا ہے کہ خدا ابھی تک انسانوں سے حوصلہ شکن نہیں ہوا ہے۔ +* ہر ایک مشکل جس سے آپ منھ موڑ لیتے ہیں،ایک ماضی بن کر آپکی نیند میں رکاوٹ ڈالے گی۔ +* جو کچھ ہمارا ہے وہ ہم تک آتا ہے ؛ اگر ہم اسے قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ +* حقیقت Factکئی ہیں پرحقیقت Truthایک ہے۔ +* ایمان وہ پرندہ ہے جو صبح اندھیرا ہونے پر بھی اجالے کو محسوس کرتی ہے۔ +* مندر کی شدید اداسی سے باہر بھاگ کر بچے دھول میں بیٹھتے ہیں، بھگوان انہیں کھیلتا دیکھتے ہیں اور پجاری کو بھول جاتے ہیں۔ +* وہ جو اچھائی کرنے میں بہت زیادہ ومصروف ہیں ،خود اچھا ہونے کے لئے وقت نہیں نکال پاتا۔ +* میں نے پُر امید ہونے کے لیے اپنا ہی موقف بنا لیا ہے۔ اگر میں ایک دروازے سے نہیں جا پاتا تو دوسرے سے جاؤں گا یا ایک نیا دروازہ بناؤں گا۔ حال چاہے جتنا بھی اندھیرے میں ہو کچھ شاندار سامنے آئے گا۔ +* میں سویا اور خواب دیکھا کہ زندگی ’’لُطف‘‘ہے۔ میں جاگا اور دیکھا کہ زندگی ‘‘خدمت ’’ہے۔ میں نے خدمت کی اور پایا کہ خدمت میں لطف ہے۔ +* اگر آپ تمام غلطیوں کے لئے دروازے بند کر دیں گے تو سچ باہر رہ جائیگا۔ +* فن میں فرد خود کو اجاگر کرتا ہے آرٹ ورک کو نہیں۔ +* ہم یہ دعا نہ کریں کہ ہمارے اوپر خطرے نہ آئیں ، بلکہ یہ کریں کہ ہم ان کا سامنا کرنے میں نڈر رہیں۔ +* زندگی ہمیں دی گئی ہے، ہم اسے دے کر کماتے ہیں۔ +* محبت حق کا دعویٰ نہیں کرتا ، بلکہ آزادی دیتا ہے۔ +* صرف محبت ہی حقیقت ہے، یہ محض ایک احساس نہیں، یہ وہ حتمی سچائی ہے جو ہر مخلوق کے دل میں بستی ہے۔ +* موسیقی دو روحوں کے درمیان کے لامحدود خلا کو بھرتی ہے۔ +* جب میں خود پر ہنستا ہوں تو میرے اوپر سے میرا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ +* تتلی مہینے نہیں لمحے گنتی ہے، اور اسکے پاس کافی وقت ہوتا ہے۔ +* اکیلے پھول کو کئی کانٹوں سے بغض کرنے کی ضررت نہیں ہوتی۔ + + +خودکار حذف شدگی (برائے منتظمین) + + +بیرونی روابط نئی ونڈو/ٹیب میں کھلیں + + +ویکی خانہ تحریر، آلات تحریر سے مزین ایک مکمل خانہ تحریر جو موزیلا فائر فوکس، گوگل کروم اور سفاری میں کام کرتا ہے۔ + + +یک رمز روابط کو چھوٹا کرنے کے لیے + + +برخیزہ دریچے (popups) برائے براؤزر درون ویکی روابط + + +صفحات کے منتخب اعادوں کے درمیان گردش، دیکھیے گردش در اعادہ جات۔ + + +اضافہ زریہ برائے ممنوعیت صارف + + +مطلوبہ لفظ پر دوہرے کلک سے ذریعہ ویکشنری (لغت) میں تلاش + + +زریہ برائے منتقلی زمرہ جات فعال + + +زیر نظر فہرست میں موجود صفحات میں ترمیم کی اطلاع + + +گوگل ترجمہ۔ مطلوبہ لفظ پر فارہ رکھ کر شفٹ کی زریہ دبائیں + + +صارف کے صفحہ شراکت پر خارجی شماریات کا ربط + + +آلہ برائے نمائش روابط تصاویر + + +مُتناسق عالمی وقت اور تاریخ کو مقامی وقت میں تبدیل کریں + + +انتظام اختیارات صارف کا اختیار اقدامات کے ذیل میں + + +صفحہ کے اوپر ترمیمی زریہ + + +خانۂ آلات میں ذیلی صفحات کا ربط + + +صفحہ کے اوپر متناسق عالمی وقت کے لحاظ سے وقت دکھانے والی گھڑی ظاہر کریں + + +نمائش ریئل ٹائم حالیہ تبدیلیاں، مزید دیکھیں صفحہ دستاویز۔ + + +صارفی اختیارات (برائے مامورین اداری) + + +فوری زمرہ بندی، صفحات میں زمرہ جات کی تبدیلی، اضافہ وحذف شدگی میں آسانی کے لیے۔ + + +صفحہ میں آخری ترامیم دکھائیں + + +اظہار حوالہ جات بوقت نمائش + + +عربی سے اردو اعداد میں تبدیلی + + +تمام زریے صفحے کے نیچے + + +خانۂ تحریر میں مزید ترمیمی اختیارات + + +خانہ آلات میں تلاش تصاویر فعال کریں۔ (آلہ FIST دیگر ویکیپیڈیا، کومنز اور فلکر میں جو مفت تصاویر مہیا ہوتی ہیں انہیں تلاش کرتا ہے۔) + + +گروہ زمرہ بندی (Cat-a-lot) فعال کریں + + +تطہیر وجوہات حذف درخانہ دیگر اضافی وجوہات + + +تخلیق ربط بیرون و ویکیپیڈیا + + +تجاویز اقدامات (حذف، پابندی) برائے منتظمین + + +یاددہانی برائے دستخط بعد از تحریر پیغام در خانہ تحریر + + +زمرہ جات صفحہ کے اوپر + + +آپ کے نا خواندہ پیغامات کے انتباہ کے لیے ذاتی آلات میں موجود تبادلۂ خیال کے ساتھ علامت استعجاب ! + + +دائیں جانب موجود آلات کے خانہ سے برقی ڈاک، اور سماجی رابطہ کے مواقع پر شراکت + + +بیرونی روابط کے علامتیے (icons) چھپائیں + + +کومنز پر تصویر اپلوڈ کرنے کا ربط (اسے بھی فعال کرنا ضروری ہے) + + +خانۂ ترمیم میں پیشرفتہ اختیارات برائے حوالہ دہی + + +خلاصہ ترمیم میں کلید ادخال دبانے پر صفحہ محفوظ + + +سانچہ جات کا فوری اضافہ کرنے کے لیے اقدامات کے خانہ میں ٹیگ کی زریہ فعال + + +تبادلۂ خیال صفحات کے پیغامات کا رنگین پس منظر + + +قوسین تحریر کرتے وقت عناوینِ مقالات وسانچہ جات کی تجاویز + + +صارف نام کے نیچے صارف کی معلومات + + +غلط املاء کو رنگین کریں + + +صفحہ میں میرا ریتخانہ فعال کریں + + +زریہ برائے ریفریش صفحہ در خانہ اقدامات + + +خانہ برائے ادخال حوالہ جات + + +خلاصہ ترمیم میں کلید ادخال دبانے پر نمائش + + +صفحہ کی ترمیمی تاریخ میں کسی بھی سابقہ نسخہ کو ترمیم کرنے کے لیے زریہ (ترمیم) کا اضافہ + + +ربط برائے اپلوڈ در کومنز + + +کومنز میں موجود تصاویر کے روابط کومنز کے جانب رجوع مکرر + + +خانہ ترمیم کے نیچے اطلاع برائے تخلیق یتیم صفحات + + +تبادلۂ خیال صفحہ کے نیچے «نیا موضوع» کی زریہ + + +عنوان کے تحت معلومات صفحہ در ویکی ڈیٹا + + +علامتیہ در صارف صفحات برائے صارف ترامیم + + +زیرنظر فہرست سے صفحات کا ازالہ و ترتیب + + +زمرہ ساز: آلہ برائے خودکار تخلیق زمرہ جات بلحاظ انگریزی وکی اقتباسات + + +خانۂ تحریر میں نمائش کی زریہ کے ساتھ فوری نمائش کی زریہ کا اضافہ + + +تلاش کے خانہ میں بیرونی تلاش کو فعال کریں + + +گمنام صارفین کے صفحات شراکت پر ربط (کون؟) فعال + + +زریہ برائے نمائش مشاہدات صفحہ + + +* [[نصب العین کے تعین کے بغیر ہدایت اور رہنمائی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔ +* حقیقی زندگی دراصل نصب العین کے شعور اور اس کے حصول کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ +* اصل نصب العین اور مقصد وہ ہوتا ہے جو کسی بھی حالت میں نظر انداز نہ ہونے پائے۔ +* اگر کامیابی کی امید باقی نہ رہے تو شکست خوردگی اور مایوسی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ +* افراد کا اپنے اندر انفرادی ذمہ داری کا احساس اجاگر کر لینا کامیابی و کامرانی کی خشت اول ہے۔ +* شخصیت کے توازن کا تقاضا یہی ہے کہ شعور اور لا شعور کے تقاضوں کا تصادم ختم ہو۔ +* ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبے سے عاری معاشرہ اسلامی نہیں کہلا سکتا۔ +* نمونہ کمال اس طرز عمل کو قرار دیا جا سکتا ہے جو قابل تقلید ہو۔ +* اجتماعی بودوباش کے تمام مظاہر میں فضول خرچی قومی زوال کا باعث ہے۔ +* مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ اور بےعقل تصور کرنا، خود بےعقلی اور گمراہی ہے۔ +* انسانی شخصیت کا حسن و جمال رحمت اور عدالت دونوں کے حسین امتزاج کا باعث ہے۔ +* اسلام محض توجیہ کا نہیں، تخلیق کا نام ہے۔ +توحید ایمان کا جسم اور رسالت اس کا حسن ہے۔ +تزکیہ نفس اخلاص فی العمل کا نام ہے۔ +* حالت ِاعتدال سے انحراف کا نام بدعقیدگی ہے۔ +* اسلام محکومی و ذلت کی زندگی کو گوارہ نہیں کرتا۔ +* حرص و ہوا کفر و شرک کی علامتوں میں سے ہیں۔ +* فرض عبادت کے بعد بہترین وظیفہ درود و سلام ہے۔ +نعت پڑھنا اور سننا حسن ایمان ہے۔ +* صلوٰۃ و سلام کا انکار نص قرآنی کا انکارہے، اور بالاجماع کفر ہے۔ +* علم نبوت کی شان ہی یہ ہے کہ وہ علم و فکر کا جامع ہوتا ہے۔ +* عمل انفاق نہ صرف تزکیہ مال بلکہ تزکیہ نفس کا بھی باعث ہے۔ +* [[شریعت]]، طریقت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے تین نام ہیں۔ +* اسلام کسی سطح پر بھی حق و باطل کے درمیان سمجھوتے کا روادار نہیں۔ +* انسان کی انفرادی زندگی کا نصب العین اور مقصد رضائے الہٰی کا حص��ل ہے۔ +* سواداعظم کسی خاص فرقے کی نہیں، بلکہ امت مسلمہ کی نمائندگی کا نام ہے۔ +* مذہبی فضائل کا حصول لوگوں کو معاشی تعطل سے نجات دلائے بغیر ممکن نہیں۔ +* ایمان ایک ایسی باطنی اور اعتقادی کیفیت کا نام ہے، جہاں پہنچ کر ہر قسم کا تردد اور شک رفع ہو جاتا ہے۔ +* ایمان کے تن مردہ میں جان صرف اور صرف محبت الہٰی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی پیدا کی جا سکتی ہے۔ +* انسانیت جس زمانے میں بھی ہوگی، معیارِ کمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوں گے۔ +* صلحائے امت کی راہ اور تعلیمات کو تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا سمجھنا، کھلی جہالت اور گمراہ ہے۔ +* تصورِ رسالت کے بغیر انسان اپنی زندگی کو صحیح سمت پر نہیں ڈال سکتا۔ +* [[قرآن نے انسانی بہبود کا وہ ضابطہ مہیا کیا ہےکہ اشتراکیت سمیت دنیا کا کوئی نظام معیشت اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ +* اسلام انسانی معاشرے کے اندر مختلف قبیلوں کے وجود کو وحدتِ نسلِ انسانی کے تصور کے منافی قرار نہیں دیتا۔ +* قرآن و حدیث اور احکامِ شریعہ کے باب میں آزاد رائے دہی حرام ہے۔ +* مسائل و مصائب میں جلتی نسل آدم کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت میں ہی پناہ مل سکتی ہے۔ +* اسلام کے اجتماعی مقاصد کا حصول زندگی کے تمام تقاضوں کی صحیح تکمیل کے بغیر ناممکن ہے۔ +* اگر دنیا کو امن و عافیت کی تلاش ہے تو اسے دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھکنا ہوگا۔ +* بارگاہِ رسالت میں صدقہ و خیرات کی کثرت اور اظہار مسرت کے جلوس محبت اور خلوص کے بغیر قبولیت نہیں پاتے۔ +* عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ ہی ہماری حیات کی بقا کا ضامن ہے۔ +* حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر قول و فعل اسلام اور اس کی مخالفت کفر ہے۔ +* قرآن مجید نے اس دنیا میں اہل حق کی کامیابی کو اُخروی کامیابی کی دلیل قرار دیا ہے۔ +* اللہ اور رسول (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان عبدیت کا فرق مٹانے والا کافر ہے۔ +* حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں سے محبت کرنا تقویٰ کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔ +* اسلام تمام محدود تصورات کو رد کر کے صرف فکری و نظریاتی وحدت کے تصور پر یقین رکھتا ہے۔ +* کائنات کو وجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے ملا، دنیا و مافیہا اور آخرت کی جملہ نعمتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِاقدس کی خیرات ہیں۔ +* نعمتوں کے حصول پر اللہ کے حضور شکر ادا کرنا واجب، جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر شکر ادا کرنا بدرجہ اولیٰ واجب ہے۔ +* مسلمان ہونے کی نسبت آسمانی پر امت مسلمہ کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ +* مشترک عقائد مسالک کے مابین یکجہتی، بھائی چارے اور امت واحدہ کی بنیاد ہیں۔ +* مسلمانو! بے شک اپنے اپنے عقیدے پر چلو، مگر یاد رکھو تم پہلے مسلمان ہو اور بعد میں سنی]]، شیعہ اور اہل حدیث ہو۔ +* فساد اور خون ریزی کی آگ کو باہمی محبت کے ذریعے بروقت ختم نہ کیا گیا تو نئی نسل دین سے باغی ہوجائے گی۔ +* فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے ذریعے امت ِمسلمہ کے شیرازۂ اتحاد کو پارہ پارہ کرنا بلاشک و شبہ فساد فی الارض ہے۔ +* مسلمانوں کا مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر سے وابستہ ہونا اور مسلکی تشخصات برقرار رکھنا ہرگز فرقہ واریت نہیں کہلا سکتا۔ +* مسلمانو! بےشک اپنے مسلکی تشخصات کو قائم رکھو، مگر باہمی تعصبات کی دیوار کو گرادو، ورنہ تمہارا اسلامی تشخص مٹ جائے گا۔ +* مسلمانو! ایک دوسرے سے مل بیٹھنا سیکھو، اسی سے بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوں گی، انتہاپسندانہ رجحانات کم اور ختم ہوں گے۔ +* اسلام دشمن سامراج مسلکی اختلافات کو ہوا دےکر منتشر، کمزور اور محکوم رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ تمہاری تقدیر سے کھیلتا رہے۔ +* [[دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے غیرمبہم قانون سازی ناگزیر عمل ہے۔ +* [[جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں۔ +* دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہماری اپنی جنگ قرار دیئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ +* غربت، معاشی ناہمواری، بے روزگاری اور ظلم و استحصال کا خاتمہ کئے بغیر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ +* دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں یتیم ہوجانے والے بچوں کی کفالت اور ان کی تعلیم و تربیت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ +* دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نفرتوں اور انتہاپسندی کو تقویت دینے والے لٹریچر پر پابندی ضروری ہے۔ +* دہشت گردی کے خاتمے کیلئے خاطرخواہ بجٹ مخصوص کئے بغیر قوم کو امن کی نعمت سے آسودہ حال نہیں کیا جا سکتا۔ +* اس ملک کو دہشت گردی سے نجات کیسے مل سکتی ہے جہاں انتہاپسند کالعدم جماعتوں پر نام بدل کر کام کرنے پرکوئی روک ٹوک نہ ہو؟ +* دہشت گردی کا بےباکانہ سدباب تبھی ممکن ہے جب متعلقہ خصوصی عدالتیں، ادارے اور ایجنسیاں براہ راست فوج کے ماتحت ہوں۔ +* نوجوانوں کو دہشت گردوں کا آلہ کار بننے سے بچانے کیلئے اسلام کی تعلیمات امن کو فروغ دینے کیلئے بڑے پیمانے پر ’پیس ایجوکیشن سنٹرز‘ کا قیام ضروری ہے۔ +* دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دینی مدارس، جماعتوں، تنظیموں اور شخصیات کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ کو بند کرنا ضروری ہے۔ +* دینی مدارس پر دہشت گردی کی نرسریاں ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے نظام اور نصاب میں اصلاحات اور یکسانی ضروری ہے۔ +* فرقہ واریت اور انتہاپسندی کو فروغ دینے والوں کو کڑی سزائیں دیئے بغیر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں۔ +* دہشتگردوں کے نام، شناخت، مذہبی و علاقائی پس منظر کو بےنقاب کرنے سے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب ہوسکتی ہے۔ +* حاکم اور محکوم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کے یکساں تابع ہوتے ہیں۔ +* محکوم طبقہ صرف اسی وقت تک حکمران کے احکام کی تعمیل کا پابند ہے جب تک وہ خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع رہیں۔ +* مفادپرست حکمرانوں سے اتحادِ امت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ +* [[حق اسے کہتے ہیں جو خود بخود نہ ملنے کی صورت میں چھین کر بھی لیا جا سکے۔ +* [[فرض اور حق دونوں مترادف حقیقتیں ہیں، ایک کا فرض دوسرے کا حق ہوتا ہے۔ +* مطالبے کی صورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی کا حق از خود ادا نہ ہو رہا ہو۔ +* جب فرض ادا کیے بغیر حق کا مطالبہ ہونے لگے تو معاشرہ روبہ زوال ہو جاتا ہے۔ +* کسی بھی غریب و خستہ حال شخص کی عزت غربت کی وجہ سے پامال نہیں ہونی چاہیے۔ +* آج پاکستانی قوم کی حالت وہی ہے جو بنی اسرائیل کی تھی، فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا تھا اور قوم اس کے خلاف نہیں اٹھتی تھی۔ +* حکام بالا کی اصلاح سے ماتحت عملہ کافی حد تک اصلاح پذیر ہو جاتا ہے۔ +* [[انقلاب سماجی اور معاشرتی سطح پر مکمل تبدیلی کا نام ہے۔ +* سماجی، معاشرتی اور اخلاقی انقلاب ’سیاسی انقلاب‘ کا نتیجہ ہوتے ہیں، اس لیے سیاسی انقلاب ان سب پر مقدم ہے۔ +* حق کسی شخصیت کے اندر کلی اور ہمہ گیر انقلاب کا نام ہے، جزوی تبدیلی کا نہیں۔ +* مسلمانو! اتحاد تمہاری قوت، انقلاب تمہارا سفر اور فتح تمہاری منزل ہے۔ +* [[پردہ عورت کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما پر قدغن نہیں لگاتا۔ +* نئی نسل کو دین اسلام کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے خواتین کو ہر قدم پر عملی قربانیوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ +* [[امہات المومنین رضی اللہ عنھن کی سیرت روشن خیال خواتین کیلئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ +* اسلام کی بیٹیاں اگر امہات المومنین کے کردار کو اپنالیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسلامی انقلاب کو نہیں روک سکتی۔ +* یہ تصور غلط ہے کہ اعلائے کلمہ حق کے لیے صرف مرد ہی کارگر ہو سکتے ہیں۔ +* [[وقت اپنے وجود پر خود دلیل ہے۔ +* [[علم بغیر نظم کے علم نہیں ادراک رہتا ہے۔ + + +صل للہ علیہ والہ وسلم + + +[[اردو زبان ان چند زبانوں میں سے ہے جس میں شعر و شاعری]]، اور عام بول چال میں محاورات کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ +* ایک انار سو بیمار]]۔ +بھینس کے آگے بین بجانا۔ +* نہ جان نہ پہچان، میں تیرا مہمان۔ +* گائے کی دم پکڑ کر گھر میں داخل ہونا۔یعنی کسی نہ کسی طریقے سے داخل ہونا، چاہے سہی ہو یا غلط +زمین میں گڑجانا۔یعنی شرمندہ ہونا +باغ باغ ہونا۔یعنی خوش ہونا +*تیروں کا برسات۔یعنی جنگ کے دوران ڈھیر سارے تیروں کا ایک ساتھ پھینکنا +* پرندے کے پنکھ کاٹناأیعنی کسی سے آزادی چھین لینا + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +یہ سانچہ روابط کی فہرست میں دو روابط کے درمیان استعمال کریں + + +سورۂ بقرہ قرآن کی دوسری اور سب سے لمبی سورۃ ہے۔ اس کی 286 آیات ہیں اور قرآن کے پہلے پارے کی اولین سات چھوڑ کر باقی تمام آیات، دوسرا پارہ مکمل طور پر اور تیسرے پارے کا بڑا حصہ اسی سورۃ پر مشتمل ہے۔ قرآن کی مشہور آیت الکرسی بھی اسی سورۃ کا حصہ ہے اور تیسرے پارے میں آتی ہے۔ اس سورت میں بہت سے اسلامی قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ بقرہ کے لفظی معنی "گائے" ہیں۔ +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +==سورہ آل عمران سے متعلق== +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت ہی مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ +* قسم ہے زمانے کی(1) +* یقینا ہر انسان خسارے میں ہے (2) +* بجز ان (خوش نصیبوں) کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے نیز ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے رہے (3)پیر محمد کرم شاہ، ترجمہ و تفسیر (ضیاالقرآن)، جلد پنجم صفحہ 653،54 +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو۔ تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو اعلانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا (آیت 1) +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +اے محبوب! بیشک ہم نے تمہیں بیشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔【۱】 +تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔【۲】 +بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔【۳】ترجمہ کنزالایمان از احمد رضا خان ref> +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +غیر مسلم شخصیات کے اقتباسات + + +| above گذشتہ ر → ڑ سورت_کا_نام ر ← ڑ آئندہ +| data12 عددی شکلبندی آیات_کی_تعداد +| data13 عددی شکلبندی الفاظ_کی_تعداد +| data14 عددی شکلبندی حروف_کی_تعداد +| data15 عددی شکلبندی حروف مقطعات +| data16 عددی شکلبندی سجود_کی_تعداد + + +* میں اس شخص سے نہیں ڈر]]تا جس نے دس ہزار حربوں کی ایک بار مشق کی ہو، لیکن میں اس شخص سے خوف زدہ ہوں گا جس نے ایک حربے کی دس ہزار بار مشق کی ہو + + +حسن میں یقینا کشش ہے مگر حسن خلق میں بہت ہی کشش ہے اسی لیے فرمایا کچھ دے نہیں سکتے تو مسکرا کر ہی دیکھ لو۔ + + +* کسی قوم میں زہر بھرنا ہے تو اس کی تحریروں کو زہریلا بنا دو،۔ احساس شکست سے دوچار قوم خود کو احساس شکست والی ہی کہانیاں سناتی ہے۔ +* عظیم رہنما ان کہانیوں کی طاقت کو سمجھتے ہیں جنہیں وہ اپنی عوام کے سر منڈھتے ہیں۔ + + +متحرک مکی اقتباسات والی زبانیں +کم از کم 100 صفحات والی زبانیں کومتحرک کہا جاتا ہے، مزید دیکھیے m:Which projects are active؟ +غیر لاطینی رسم الخط میں + + +| caption انگریزی ویکی اقتباسات (Wikiquote) کے صفحہ اوّل کا سکرین شاٹ +| type اقتباسات کا ذخیرہ +| author جیمی ویلز اور ویکیمیڈیا کیمونٹی +| نئی زبانوں کا اندراج۔ +| انگریزی صفحہ پر 2000 صفحات کی تکمیل +| 24 زبانوں تک تعداد پہنچ گئی +| انگریزی صفحہ کے 3،000 صفحات کو ملا کر کل 10،000 صفحات مکمل ہوئے۔ +| انگریزی ویکی اقتباسات 5،000 صفحات مکمل ہوئے۔ +| فرانسیسی ویکی اقتباسات کو بعض قانونی وجوہات کی بنا پر معطل کر دیا گیا۔ +| فرانسیسی ویکی اقتباسات نے کام شروع کر دیا۔ +| انگریزی ویکی اقتباسات نے 10،000 صفحات مکمل کیے۔ +| تمام زبانوں کے ویکی اقتباسات کے صفحات کل ملاکر، 10،0000 (ایک لاکھ) ہو گئے۔ + + +دوسروں کو تکلیف نہ دو تاکہ دوسرے بھی تمہیں تکلیف نہ دیں۔ محمد درود}} +تم نہ بدلہ لو گے، نہ ہی اپنے لوگوں کے بچوں کے خلاف کوئی نفرت اپنے دل میں رکھو گے، تم اپنے ہمساۓ سے محبت کرو گے جیسا کہ تم اپنے آپ سے کرتے ہو موسی]] +یہ کام کا اصول ہے، دوسروں کے ساتھ وہ نہ کرو جو تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی کیا جاۓ۔ مہا بھارت]] +جو تمہیں اپنے لیے پسند نہیں ہے، وہ دوسروں کے لیے نہ چاہو کنفیوشس]] +جو تمہارے لیے قابل نفرت ہے، وہ دوسروں کے لیے نہ چاہو۔ ہلل]] + + +اگر آپ خود مصور یا تصویر ساز ہیں تو درج ذیل اجازت ناموں میں سے کسی ایک اجازہ کے منتخب کرسکتے ہیں: +خالق جملہ حقوق سے دستبردار ہوچکا ہے: +حقوق تصنیف واشاعت کی مدت ختم ہوچکی ہے: + + +جذبات، جذبہ کی جمع ہے جذبہ کیا معنی ہے دل کا جوش اور ولولہ۔ +عورت کی زندگی جذبات کے موڑ گھومتی رہتی ہے۔ مرد کی زندگی عقل کے گرد۔[[آسکر وائلڈ]] +* اپنے جذبات کی آب یاری کرو، اور کبھی ان کی قدر کم نہ کرو۔ رابرٹ ہنری]] +* فن کار وہ ہے جو ہر سمت سے آنے والے جذبات کو وصول کرتا ہے۔ پیبلو پکاسو]] +* کبھی خود پر ترس نا کھاؤ۔۔۔یہ سب سے زیادہ تباہ کن جذبہ ہے۔[[میلی سنٹ فین وک]] +* بدترین غلامی جذبات کی غلامی ہے۔ بروک + + +6 ماہ کی عارضی منتظمی کے دوران میں نے کام شروع کیا تھا جس کے تحت صفحات کی تعداد 400 تک پہنچ گئیں، اکثر صفحات میں زمرہ جات، اور تصاویر شامل کیں، صفحات کا بین الویکی ربط کرنے کی کوشش کی، صفحہ اول کو نئے سرے سے بنایا گيا، اور 2، 3 انتظامی صفحات بھی بنائے گئے، اپریل کے اختتام پر میری منتظمی اختیارات کو مزید بڑھانے کے لیے مجھے آپ لوگوں کی تائید کی + + +[[زمرہ:تصویری تبصروں والے سانچے PAGENAME + + +منتقل ذیلی صفحات 1 سے زیادہ) + + +نے ترتیبات محفوظ شدگی از 2 بجانب 1 منتقل کیا + + +ذیل میں کل منتقل شدہ صفحات کی فہرست ہے۔ + + +اس صفحہ کے ذیلی صفحات نہیں ہیں۔ + + +صفحہ $1 پہلے سے موجود ہے اور خودکار طور پر برتحریر (overwrite) نہیں کیا جاسکتا۔ + + +صفحہ $1 بجانب $2 منتقل نہیں کیا جا سکا۔ + + +لہذا یہ یقینی بنانا آپ کی ذمہ داری ہے کہ تمام روابط درست صفحات کی جانب رہنمائی کرتے رہیں۔ +یہ بات بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ اگر نئے منتخب کردہ نام کا صفحہ پہلے سے ہی موجود ہو تو ہوسکتا ہے کہ صفحہ منتقل نہ ہو؛ ہاں اگر پہلے سے موجود صفحہ خالی ہے، یا وہ صرف ایک لوٹایا گیا صفحہ ہو اور اس سے کوئی تاریخچہ منسلک نہ ہو تو منتقلی ہوجائے گی۔ گویا کسی خامی کی صورت میں آپ صفحہ کو دوبارہ اسی پرانے نام کی جانب منتقل کرسکتے ہیں اور اس طرح پہلے سے موجود کسی صفحہ میں کوئی حذف و خامی نہیں ہوگی۔ +انتباہ کسی اہم اور مقبول صفحہ کی منتقلی غیرمتوقع اور پریشان کن بھی ہی ہوسکتی ہے اس لیے؛ منتقلی سے قبل براہ کرم یقین کرلیجیے کہ آپ اسکے منطقی نتائج سے باخبر ہیں۔}} + + +درج ذیل ورقہ کے ذریعہ صفحہ کو نیا نام دیا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ صفحہ کا تاریخچہ بھی منتقل ہوجائیگا۔ +نئے عنوان کے جانب قدیم عنوان کو رجوع مکرر کردیا جائیگا۔ +آپ اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں کہ روابط انہیں جگہوں سے مربوط ہیں جن کو فرض کیا گیا ہے۔ +خیال رہے کہ یہ صفحہ منتقل نہیں ہوگا اگر نئے عنوان کے ساتھ صفحہ پہلے سے موجود ہو، سوائے اس کے کہ صفحہ خالی ہو اور اس کا گذشتہ ترمیمی تاریخچہ موجود نہ ہو۔ +اس کا مطلب ہے آپ سے اگر غلطی ہوجائے تو آپ صفحہ کو اسی جگہ لوٹا سکتے ہیں، تاہم موجود صفحہ پر برتحریر (overwrite) نہیں کرسکتے۔ +کسی اہم اور مقبول صفحہ کی منتقلی، غیرمتوقع اور پریشان کن بھی ہی ہوسکتی ہے اس لیے؛ +منتقلی سے قبل براہ کرم یقین کرلیں کہ آپ اسکے منطقی نتائج سے باخبر ہیں۔ + + +ملحقہ صفحہ، تباد‎لۂ خیال بھی منتقل کریں + + +MathJax (تجرباتی؛ اکثر متصفحات (browsers) کے لیے بہترین) + + +تمام دیکھنے اور استعمال کنندہ کو وکی اقتباس میں خوش آمدید + + +اس لوگو کو انگریزی لوگو سے بدلنے کے لئے آپ لوگوں کی رائے درکار ہے۔ موجودہ لوگو انگریزی میں ہے اور اردو کے حساب سے اس کا رخ بھی الٹا ہے۔اگر کوئی اس سے بہتر بنا سکتا ہے تو اور بھی اچھا ہے۔ ہمیں بس ایک بار اسے بدلنے کے لئے رائے شماری کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اسے بہتر سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ + + +* افسانوں کو افسانے اور دیو مالائی کہانیوں کو دیو مالائی کہانیاں سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جائے. نیز معجزوں کو شاعروں کی تخیل پرواز یا مبالغہ آرائی سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے. فرضی داستانوں اور توہمات کو سچائی بنا کر پیش کرنا اور پڑھانا افسوسناک ہے. ایک معصوم بچے کا ذہن ان افسانوں، توہمات، اور شاعرانہ تخیل پرواز کو حقیقت سمجھ کر قبول کر لیتا ہے. پھر بےپناہ ذہنی کوفتوں، الجھنوں، یا المیوں سے گزارنے کے بعد اس پر ان توہمات کی حقیقت آشکارا ہوتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ مرد توہمات کا دفاع یوں کرتے ہیں جیسے وہ سچائی ہوں بلکہ سچائی سے بھی بڑھ کر. چونکہ ہر توہم ناقابل فہم ہوتا ہے، یعنی حواس خمسہ سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے نہ تردید، اس کو رد کرنا یا غلط ثابت کرنا آسان نہیں. توہم کے برعکس سچائی ایک نقطہ نظر ہے اور اسے بدلا بھی جا سکتا ہے +* میں خدا پر نہیں فلسفے پر یقین رکھتی ہوں + + +* اگر تبدیلیاں درست ہوچکی ہوں اور متن کی درستی پر آپ کو یقین ہوگیا ہو تو خانہ ترمیم کے نیچے موجود محفوظ پر کلک کریں۔ + + +استرجع شدہ ترامیم کے بعد، جن صارفین کی ترمیم کو استرجع کیا گیا ہو، خود کار طور پر ان کی شراکتیں کھول دیتا ہے۔ + + +صفحۂ اول لوڈ ہونے پر کرسر کو تلاش کے خانے میں دیکھانے کے لیے + + +غالبا عورت نے ہی زراعت کے فن کو ترقی دی، جو تہذیب کی کھیتی ہے۔ اس نے پھلوں یا درختوں سے گرے ہوئے بیجوں میں سے شگوفوں کو پھوٹتے دیکھا؛ جب مرد جانوروں کا شکار کرنے گیا ہوتا تو اس نے محتاط اور صابر انداز میں بیجوں کوقریبی غار یا جھونپڑے میں بو دیا۔ تجربہ کامیاب ہونے پر ساتھی نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر وہ اور دیگر مل کر بیرونی حملے ک وروکنے کا انتظام کر لیں تو اپنی جانوں کوخطرے میں ڈالنے کی بجائے بیج بونے اور فصل حاصل کرنے میں عورتوں کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ + + +صفحہ میں مستعمل سانچوں کی فہرست کا سمٹنا +خلاصہ ترمیم کے خانہ میں انٹر کلید کے ذریعہ صفحہ محفوظ + + +'disable برخیزہ دریچے غیر فعال', +'sinceMeHint میری آخری ترمیم کے بعد سے تبدیلیاں دکھائیں', + + +* یہ کھلا راز ہے ��ہ 9/11 حملے خود جارج بش نے خود کرائے۔ +*میں نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے، کیونکہ قران پاک کے مطابق، اگر آپ نے ایک معصوم شخص کا قتل کیا تو آپ نے پوری انسانیت کا قتل کر دیا۔ + + +* تم جو کا م اپنے لیے ناپسندیدہ سمجھتے ہو، وہ اپنے ساتھی سے نہ کرو: اصل تورات بس اتنی ہے; باقی اسی کی تفسیر ہے; جاؤ اور مطالعہ کرو۔ + + +if پشتو ترکی جاپانی عربی فارسی ، گرمکھی گرمکھی +if پشتو ترکی جاپانی عربی فارسی گرمکھی ، ہندی ہندی +if پشتو ترکی جاپانی عربی فارسی گرمکھی ہندی ، انگریزی انگریزی + + +* اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ +* اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زکوۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا۔ + + +6 ماہ کی عارضی منتظمی کے دوران میں نے زیادہ تر میڈیاویکی اور آلات پر کام کیا ہے مزید اکثر صفحات میں زمرہ جات، اور تصاویر شامل کیں، صفحات کا بین الویکی ربط کرنے کی کوشش کی، صفحہ اول کو نئے سرے سے بنایا گيا، اردو ویکیپیڈیا پر کچھ انتظامی کاموں کی وجہ سے وقت نہیں دے پا رہا، لیکن جب اتنی محنت کی ہے تو اسے جاری رکھنا چاہتا ہوں، 12 اکتوبر کے اختتام پر میری منتظمی اختیارات کو مزید بڑھانے کے لیے مجھے آپ لوگوں کی تائید کریں۔ + + +allDone تمام صفحات میں مطلوبہ کام انجام پذیر ہوا۔', +enterName زمرہ کا نام تحریر کریں', +editing صفحہ میں ترمیم ہورہی ہے', + + +کہتے ہیں۔ ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ بادشاہ کے حکم پر پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے چلے تو اس نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا کسی شخص کے لیے بڑی سے بڑی سزا یہی ہوسکتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو کر درپے آزار ہو گا۔ +بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے؟ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا س نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصےّ سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہوسکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں''۔ +وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔ +بادشاہ کا ایک اور وزیر پہلے وزیر کا مخالف اور تنگ دل تھا وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا''یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہّ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا''۔ +وزیر کی یہ بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہوئے +وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زباں پہ آئے +اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائے +حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ وزیروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ اس نے مزید کہا +''یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، سب کا انجام موت ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پر قبض کی جاتی ہے یا فرش خاک پر''۔ +حضرت سعدیؒ کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ مصلحت کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلق خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیے اور جب یہ اعلیٰ د ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق روّیہ اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں۔ جیسے جراح کو یہ اجازت ہے کہ فاسد مواد خارج کرنے کے لیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کے جسم کو نشتر سے کاٹنا بذات خود کوئی اچھی بات ہر گز نہیں ہے لیکن جب جرّاح یہ عمل کرتا ہے تو اسے اس کی قابلیت سمجھا جاتا ہے۔ + + +*۔ آپس میں محبت سے رہو۔ اپنے اندر محبت پیدا کرو۔ +*۔ اللہ کی مخلوق سے محبت کے ساتھ پیش آؤ۔ ایسی محبت کے ساتھ جو مامتا کی طرح ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرح محبت کرو۔ +*۔ جو اپنے لئے چاہو اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرو۔ +*۔ ہمارا ہر بھائی سکون کی دولت سے مالا مال ہو۔ اللہ ہم کو دیکھے اور ہم اللہ کو دیکھیں۔ +*۔ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا رازق سمجھو۔ اس سے اس یقین کے ساتھ مانگو جیسے بچہ اپنی ماں سے مانگتا ہے تو ماں اپنی مامتا سے مجبور ہو کر اپنے بچے کی خواہش کو پورا کرتی ہے۔ +*۔ اللہ تعالیٰ کو دور نہ جانو وہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے۔ عرش پر تلاش نہ کرو۔ اپنے اندر تلاش کرو۔ اگر تم اکیلے ہو تو دوسرا اللہ ہے اگر تم دو ہو تو تمہارے +*۔ اللہ تعالیٰ سے دوستی پیدا کرو کیونکہ اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔ +*۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو مت۔ اللہ تعالیٰ کو محبت سے پہچانو۔ کیونکہ اللہ محبت ہے اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ +*۔ سکون زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے اور روح کے عرفان کے بغیر سکون ممکن نہیں۔ +*۔ اللہ تعالیٰ کی قربت اور روح کا عرفان حاصل کرنے کا بہترین اور آسان طریقہ مراقبہ ہے۔ +*۔ ہر بندے کا اللہ کے ساتھ محبوبیت کا رشتہ قائم ہے، ایسی محبوبیت کا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتا ہے۔ +*۔ انسان کا اصل جسم روح ہے۔ روح بھی دو رخ پر قائم ہے۔ ایک رخ روح کا مظاہرہ یعنی جسم مثالی Aura اور دوسرا رخ خود روح ہے۔ +*۔ ہر چیز جس کا وجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ کہیں پہلے سے موجود ہے یعنی دنیا میں کوئی چیز اس وقت تک موجود نہیں ہو سکتی جب تک وہ پہلے سے موجود نہ ہو۔ +*۔ راسخ العلم لوگوں کے ذہن میں یقین کا ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت ہر ضرورت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اندر استغنا پیدا کر دیتا ہے۔۔ +*۔ برائی یا بھلائی کا جہاں تک تعلق ہے کوئی عمل دنیا میں برا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمل میں معنی پہنانا اچھائی یا برائی ہے معانی پہنانے سے مراد نیت ہے۔ عمل کرنے سے +پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہوتا ہے، وہی خیر یا شر ہے۔ + + +آپ نے سنہ 58 ہجری میں بمقام منیٰ ایک خطبہ دیا تھا: +میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ہو ہے کہ جب رسول الله نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو اس وقت آنحضرت نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیاتھااورفرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ سامعین نےکہا بارالہا ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ فرمایا تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لئے جگہ خریدی۔ پھرمسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لئے اور دسواں وسط میں میرے والد کے لئے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا میں نے نہیں تمہارے دروازے بند کئے اور علی کا دروازہ کھلارکھا، بلکہ الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کروں اور ان کادروازہ کھلا رکھوں۔ اس کے بعد نبی اکرم نے علی کے سوا تمام افراد کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا۔ چونکہ حضرت علی کا حجرہ مسجد میں رسول الله کے حجرے کے ساتھ ہی تھا لہذا علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے۱ور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لئے الله تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ سامعین نے کہا بارالہا ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو لیکن نبی نے انہیں منع کر دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے ، میرے بھائی علی اور ان کی اولاد کے سوا کوئی اور شخص مسجدمیں نہیں رہ سکتا۔ سامعین نے کہا بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کااعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله نے غزوئہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور فرمایا تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ سامعین نے کہا بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا: تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول الله نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے جنگ خیبرکے دن لشکر اسلام کا پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا کرار ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے غیرفرار اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی کو سورئہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول الله کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے ، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ سامعین نے کہا بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے۔ سامعین نے کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ حضرت علی ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول الله سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بناکر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ سید الشہدا پر فضیلت دی ،جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے ، جو سب سے پہلےاسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔سامعین نے کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں ، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +اس کے بعد جب امیر المومنین کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ کیا انہوں نے رسول الله سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علی کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علی سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول الله یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ رسول الله نے فرمایا کیونکہ وہ علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے الله سے دشمنی کی ۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ +اے لوگو! الله تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو ۔الله تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔ +درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ، انہیں ظالموں کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں،ان ظالموں کی طرف سے ملنے والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے پہنچ سکنے والی سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔ +اس آیت کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار +جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے ،عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔ +اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔ +یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، معاشرے کے کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔ +اسکے باوجود آپ جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ +آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان۱ نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو بھیمنع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ +آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ہے ، اس لئے کہ اگر آپ سمجھیں تو علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔ +اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی اجراء کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور معاملات میں آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔ +وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور نتیجہ یہ ہے کہ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔ +ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔ +تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے مقرر کردہ گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل او�� بے رحم۔ آخر کار الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔ +امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا: +بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات حاضرین سے خطاب نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور نور نبوت کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔ +*کتاب سلیم بن قیس: صفحہ 206۔ +*اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو اس دنیا میں کم از کم آزاد رہو۔ +اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج1، ص 592۔ +*لوگ دنیا کے غلام ہیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی زبانوں پر دین کا ورد کرتے رہتے ہیں. اور جب آزمائش میں ڈالے جائیں تو دیندار لوگ بہت کم ہوں گے۔ +*لوگوں کی تم سے احتیاجات اللہ کی تم پر نعمت ہیں؛ نعمتوں سے تھکن اور مغموم مت ہونا کہیں وہ بلا میں تبدیل نہ ہوجائے۔ +**اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج 1، ص 573۔ +*ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ +**ابن شہرآشوب، المناقب، ج 4، ص 98۔ +*میں ظلم اور فساد پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے قیام کرچکا ہوں؛ میں امر بمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔ +*جو شخص اللہ کی نافرمانی سے کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہو تو جس چیز کی امید ہے اس کے حصول سے کہیں زیادہ جلدی میں اس چیز کو کھو بیٹھتا ہے اور جس چیز سے گھبرا رہا ہے اس میں گرفتار ہوتا ہے۔ +==حسین بن علی کے متعلق اقوال و اقتباسات== +محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم]]، + + +:ٹھنڈی سانسیں، خاموشیاں اور وہ گفتگو جس سے ہم گریز کرتے ہیں، اتنی ہی اہم ہوتی ہیں جتنا کہ وہ معاملات جن کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں۔ +:میں ان چیزوں کی اہمیت گھٹا نہیں رہا ہوں، بے شک آپ کو کھانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، بے شک آپ کو زندہ رہنے کے لیے کھانے کی ضرورت ہے، لیکن آپ کو توانائی حاصل کرنے کے لیے سونے کی بھی ضرورت ہے، خوش رہنے کے لیے مسکرانے کی بھی ضرورت ہے، اور خوش رہنے کی بھی ضرورت ہے کہ آپ قہقہہ لگا سکیں، کہیں آپ دل کا دورہ پڑنے سے مر ہی نہ جائیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اُن کے پاس انتخاب کا حق موجود ہے۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ان چیزوں کی قطعی کوئی اہمیت نہیں۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ اس پر توجہ دیں جو اُن کے پاس ہے، بجائے اس کے کہ اس پر توجہ دی جائے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ اور ویسے بھی، خواہشات رکھنے اور سپنے دیکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اُن چیزوں پر توجہ مرکوز رکھیں جو آپ کو حاصل نہیں، بلکہ یہ تو مثبت سوچ ہے جو آپ کو اُمید اور یقین کی اہمیت دیتی ہے، نہ کہ شکوے شکایتوں کی۔ + + +انمول ہیرے" با نی دعوتِ اِسلامی، حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارقادِری رَضَوی ضیائیدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العا��یہ کا تحریرکردوہ رسالہ ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے عطاکردہ زندگی کے حسین لمحات انمول ہیرے ہیں انہیں بیکار اور فضولیات ولغویات میں نہیں گزارنا چاہئے،ان کی قدر کرنی چاہئے اور ان لمحات کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں گزارنا چاہیے۔ + + +* ایک انچ سونا ایک انچ وقت نہیں خرید سکتا۔ +کاغذ سے آگ کو ڈھانپا نہیں جا سکتا۔ +*ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہے۔ +*جسے مسکرانا نہیں آتا اسے دکان نہيں کھولنی چاہیے۔ +*دور کسی مندر میں اگربتیاں جلانے سے بہتر ہے کہ قریب ہی کسی کو خوش کر دیں۔ +پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے بے شمار راستے ہوتے ہیں مگر وہاں سے منظر ایک جیسا نظر آئے گا۔ + + +* آدمیوں کے ساتھ مل کر رہنا دشوار ہے، کیوں کہ چپ رہنا دشوار ہے۔ +* میں ایک گیت گا سکتا ہوں، اور گا کر رہوں گا۔ اگرچہ میں اس مکان کے خلاوں میں تنہا ہوں اور اس بات پر مجبور ہوں کہ اپنے گیت کا جادو اپنے ہی کانوں میں پھونکوں۔ +* خطرات سے لبریز زندگی بسر کرو۔ آتش فشاں پہاڑ کے دامن میں شہر بساؤ۔ جہاز لے کر ان سمندروں کی سیاحت کے لیے جاؤ جہاں اب تک کوئی نہیں گیا۔ ہر وقت برسر پیکار رہو۔ +* وعدہ کرو کہ میرے مرنے ک بعد صرف میرے دوستوں کو میرے تابوت کے قریب آنے کی اجازت دو گی اور عوام کو یمری لاش سے دور رکھو گی کیونکہ وہ خواہ مخواہ ہر بات کی کرید کرتے ہیں اور دیکھنا کوئی پادری، یا کوئی اور شخص میری قبر پر کھڑا ہو کر جھک نہ مارے کہ میں اس وقت مدافعت نہ کر سکوں گا۔ میں کافر اور مشرک ہوں۔ اور اسی حیثیت سے مجھے قبر میں اتار دینا۔ (اپنی بہن کے نام خط میں) +* نطشے ڈارون کا بیٹا اور بسمارک کا بھائی تھا۔ ول ڈیورنٹ + + +* آدمیوں کے ساتھ مل کر رہنا دشوار ہے، کیوں کہ چپ رہنا دشوار ہے۔زرتشت نے کہا، صفحہ 212 +* میں ایک گیت گا سکتا ہوں، اور گا کر رہوں گا۔ اگرچہ میں اس مکان کے خلاوں میں تنہا ہوں اور اس بات پر مجبور ہوں کہ اپنے گیت کا جادو اپنے ہی کانوں میں پھونکوں۔زرتشت نے کہا، صفحہ 279 +* خطرات سے لبریز زندگی بسر کرو۔ آتش فشاں پہاڑ کے دامن میں شہر بساؤ۔ جہاز لے کر ان سمندروں کی سیاحت کے لیے جاؤ جہاں اب تک کوئی نہیں گیا۔ ہر وقت برسر پیکار رہو۔ + + +| align="right" width="95 یہ سانچہ ایک یا زیادہ اختیاری پیرامیٹرڑ پر مشتمل ہے: مزید TALKSPACE PAGENAME تبادلۂ خیال تفصیل دیکھیے۔ + + +ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ آپ اردو ادب کے نامور ناول نگار اور شاعر تھے۔ آپ کے تحریراتی کاموں میں جاسوسى دنيا اور عمران سيريز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ افسانے اور طنز و مزاح بھی لکھتے تھے۔ +جونک کی واپسی میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔" +سہ رنگا شعلہ آدمی کس قدر بے چین ہے مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا ہے اور آدمی مستقبل کے لیے مرا جاتا ہے۔" +مہکتے محافظ میں عموماً بنجر زمین پر کاشت کرتا ہوں اور کچھ نہیں تو کانٹے دار پودے ہی اگا لیتا ہوں اور وہ کانٹے میرے لیے خون کی بوندیں فراہم کردیتے ہیں۔" +خطرناک لاشیں اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انہیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں۔" +صحرائی دیوانہ جو عبادت آدمی کو آدمی نہیں بنا سکتی، میں اس عبادت کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں۔" +ہیروں کا فریب دنیا کا کوئی مجرم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف دھکیلتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سو سکو، زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اگے۔" +جہنم کی رقاصہ یہاں اس ملک میں تمہارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تکمیل نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو۔" +موت کی آندھی جب کوئی ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی مسلسل ناکامیوں سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی ساری شخصیت صبر کی تلخیوں میں ڈوب جاتی ہے۔" +دشمنوں کا شہر ایک پرندے کو سنہرے قفس میں بند کر کے دنیا کی نعمتیں اس کے لیے مہیا کر دو لیکن کیا وہ پرندہ تمہیں دعائیں دے گا ؟" + + +رانی مکھرجی بھارتی فلمی اداکارہ ہے۔ ان کا جنم 21 مارچ 1978 کو ہوا۔ + + +ہم سفر ایک پاکستانی ٹی وی ڈرامہ سیریل ہے جس کے ہدایت کار سرمد سلطان کھوسٹ ہیں. یہ ڈرامہ فرحت اشتیاق کے ناول ہم سفر پر مبنی ہے۔ +فرحت اشتیاق نے اس ڈرامے کے ڈاٸیلاگ بھی خود لکھے۔ + + +وکی اقتباسات:ہم سے رابطہ کریں + + +دلوالے دلہنیا لے جائیں گے ایک بالی وڈ فلم ہے۔ +* بڑے بڑے دیسوں مین ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ +* تمھاری جیسی لڑکی کے ساتھ میرے جیسے لڑکے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ +* اگر یہ تجھے پیار کرتی ہے، تو یہ پلٹ کر دیکھے گی۔ +* اگر تم غلط راستے پر چلوگے، تو ہو سکتا ہے شروعات میں بہت کامیابی ملے۔ مگر انت میں تمھاری ہار ہوگی۔ اور اگر صحیح راستے پر چلوگے تو بھلے ہی شروعات میں تمھیں قدم قدم پر ٹھوکریں ملیں، مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے، پریشانی ہو مگر انت میں ہمیشہ جیت ہوگی۔ +* میں ایک ہندوستانی ہوں۔ اور میں جانتا ہوں کہ ایک ہندوستانی لڑکی کی عزت کیا ہوتی ہے۔ +* سپنے دیکھو، ضرور دیکھو، مگر ان کے پورے ہونے کی شرط مت رکھو۔ + + +* دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان راز کو چھپا سکتا ہے اور ذلت سے بچ سکتا ہے۔ (امام ابو بکر طر طوشی + + +* اگر لوگ موت کوعقل سے اس کی واقعی شکل کے ساتھ تصور کرتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔ حسین بن علی +* کیونکہ وہ بادشاہ کے طور پر اُس وقت تک حکمرانی کرے گا جب تک خدا تمام دُشمنوں کو اُس کے پاؤں تلے نہ کر دے اور آخری دُشمن یعنی موت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔‏ بائبل 1-‏کُرنتھیوں 15:25, 26‏ +:زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب +:موت کیا ہے، انہی اجزاء کا پریشاں ہونا چکبست لکھنوی + + +آپ خدا کے نور کا ایک دور دراز حصہ ہیں، پھر کیوں آپ اپنی مقدس پیدائش سے ناواقف ہیں؟ آپ کیوں نہیں جانتے جب آپ کھا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کون ہیں جو کھاتے ہیں اور کون کو کھلاتا ہے، وہی خدا جس کے نام کی آپ تسبیح کرتے ہیں۔ آپ کے اندر ایک خدا موجود ہے جسے آپ اپنے ساتھ اٹھاتے پھرتے ہیں۔ +[[انسان حالات کے ہاتھوں پریشان نہیں ہوتے ہیں، جو وقوع پزیر ہوتے ہیں، بلکہ حالات کے بارے اپنی رائے کے نتیجے میں جو وقوع پزیر ہوتے ہیں (ان کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ + + +'avt-only-unchanged محض وہ ترمیمیں دکھائیں جو چار تجدید کے بعد تبدیلی نہیں ہوئیں', +spelldictPage وکی اقتباسات:متداول املائی غلطیوں کی فہرستیں/برائے_مشین', + + +حالیہ تبدیلیوں میں موجود املائی غلطیوں کی راست جانچ پڑتال کو فعال کریں راست املائی جانچ + + +* میرا نام: بشارت علی +* اردو وکیپیڈیا سے وابستگی: 10 دسمبر 2016‏ء +* وکی اقتباسات پر پہلی ترمیم: 6 فروری 2017ء + + +*وہ جو صرف علم جاننے کے لئے کوئی علم حاصل کرتا ہے وہی شخص سب سے بہتر علم کو ہی اپناتا ہے۔ +*آدمی کو سب سے کڑوی بات یہ لگتی ہے کہ علم تو ہو لیکن طاقت نا ہو۔ +*تھیلس سے کسی نے پوچھا سب سے مشکل علم کیا ہے، کہا نفس شناسی." +*تمام علم جو عدل و فضیلت سے ہٹی ہوئی ہو دلفریب تو لگتی ہے لیکن دانائی نہیں ہوتی۔ +*میری علم بس ہ ہے کہ میرے پاس کوئی علم نہیں۔ +*علم تب بہت خطرناک ہوتی ہے +جب یہ ۜکوئی مدد نا دے سکے +*علم حاصل کرنا ایک فن ہے اور علم کو منتقل کرنا بھی ایک خاص فن ہے +ہر کوئی خود کو بہت کم جانتا ہے اور خود کو جاننا بہت مشکل کام ہے۔ +وہ شخص جو اپنی پیدائش سے قبل کو نہیں جانتا ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے۔ +*ایک شخص سب کچھ نہیں جان سکتا. +*اچھائی اس میں ہے کہ شخص اپنی گفتگو سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ +*جنت سے نکال دینے کا مفہوم یہ ہے کہ :اپنے آپ کو جانو۔ +*ہماری حسیات ہی ہمیں بہترین علم دیتی ہے۔کوئی دوسرا کیسے درست غلط میں فرق کرسکتا ہے؟ +*میں ان تمام کو اپنے نام سے بہتر جانتا ہوں۔ +*کیا آپ کے علم کی کوئی قدر نا ہوگی جب تک کہ دوسرے کو آپکےعلم نا ہو؟ +*قدرت نے ہمیں علم کی طلب دی ہے نا خود علم۔ +*بہت سارا علم جان کر وہ یہی جانے کہ کچھ نا جانے۔ +*بھلے ہی دائرے میں گھومیں لیکن علم پھر بھی بڑھے گی۔ +*تمھارا علم بے کار ہے اگر دوسروں تک اسے نا پہنچاؤ۔ +*وہ جو علم بڑھاتا ہے اپنے غم میں اضافہ کرتا ہے۔ +*استاد نے پوچھا: کیا میں تمھیں بتاؤ کہ علم کیا ہے؟،کہ جب تم جانو اس بات کا اقرار کرو اور جب تمھارے علم میں نا ہو تو اسکا بھی اقرار کرو یہی علم ہے۔ +انسان میں علت جہاں میں خدا کی مانند ہے۔ +*اچھا سوال آدھا علم ہے۔ +* آدمی جتنا زیادہ جانتا ہے اتنا ہی اچھا ہے۔ + + +اقتباسات ایک ایسا بیان ہے جو کسی دوسرے سے ہو، مستند ذرائع سے ثابت ہو اور لوگوں میں مشہور ہوجائے اور تواتر سے ذکر کیا جائے۔ +* تمھارے بدن کی طرح تمھارے اذہان بھی تھک جاتے ہیں لہذا اسے عاقل باتیں پڑھ کر آرام دو۔ +علی ابن ابی طالب]]، نہج البلاغہ +* یہ بات جاننے کے لئے مجھے کسی اقوال کی لغت کی ضرورت نہیں کہ آنکھیں روح کی کھڑکی ہے۔ +زندگی اپنے آپ میں ایک اقتباس ہے۔ +*لوگ جنھیں اقوال پسند ہیں درحقیقت بے معنی نتائج نکالنے والے ہوتے ہیں۔ +*آپ دنیا کے بہترین مصنفین کی کتابوں سے مخصوص پیرائے نکال کر انتہائی بے کار کتاب تیار کر سکتے ہیں۔ +*ایک فلسفی کی کہی ہوئی بات سے کوئی چیز عجیب نہیں۔ +*ان مفکرین سے ہوشیار رہو جنکے اذہان صرف اقوال سن کر ہی کام کرتے ہیں۔ + + +جنگ ایک ایسا تنازعہ ہے جس میں ہتھیاروں کا استعمال ہو۔ +* یہ میرے لئے ایک بیکار بات ہوگی کہ میں حکام کو بتاؤں ک یہ جنگ ہے۔ +* میری آواز اب بھی جنگ کے لئے ہیں۔ +*انھوں نے جنگ کے واسطے لوگوں کو بھیجا لیکن کوئی بھی ان میں سے واپس نا آیا۔ + + +مذہب ایک ایسا نظریہ ہے جو انسان کی روحانی زندگی و عملی زندگی سے تعلق رکھتا ہے جس میں عبادات تہوار اور دیگر سماجی افعال شامل ہوتے ہیں۔ +* ایک مذہب اسقدر سچا ہے جسقدر دوسرا۔ + + +سائنس تمام اشیاء کا کا علم ہے جو مشاہدے سے شروع ہو اور قانون پر ختم اس سفر میں تجربات کا دخل ہو۔ +* سائنس کائنات کی ابتداء کے حوالے سے پیشن گوئی کر سکتی تھی۔ +*سائنس خیالات پر بحث کرتی ہے اور حقائق کو قبول، جبکہ مذہب خیالات کو قبول اور حقائق پر بحث۔ + + +ابن خلدون پیدائش: 27 مئی 1332ء – وفات: 19 مارچ 1406ء) سیاستدان، مؤرخ، فقیہ اور فلسفی تھے۔ +*علم تاریخ ایک معزز و بلند پایہ، بہت فائدہ مند اور شریف غرض و غایت کا فن ہے، کیونکہ یہ ہمیں گزشتہ اَقوام کے اخلاق و احوال بتاتا ہے۔ انبیاء کی سیرتوں سے آگاہ کرتا ہے اور حکومتوں اور سیاست میں سلاطین کے حالات کی خبر دیتا ہے، تاکہ اگر کوئی کسی دِینی یا دُنیوں سلسلے میں اِن میں سے کسی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہے تو اُسے پورا پورا استفادہ ہو۔ +**مقدمہ ابن خلدون جلد 1، صفحہ 117۔ +==تاریخ عوامی مقاصد و فنون کی حامل== +*تاریخ عوام کے مقاصد و فنون میں سے سمجھی جاتی ہے، اِن حالات میں ایک مؤرخ کو قواعدِ سیاست اور طبائع موجودات کی آگاہی اِنتہائی ضروری ہے اور عادات و اخلاق میں، اقوال و مذاہب میں اور شمائل و سِیَر میں مختلف اقوام کا مختلف مقامات کا اور مختلف زمانوں کا خیال رکھنا بھی اِنتہائی اہم ہے۔ +**مقدمہ ابن خلدون جلد 1، صفحہ 137۔ +==ہر زمانے میں اقوام کے حالات== +*بدلتے ہوئے زمانوں میں اقوامِ عالم کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور اُن کے اخلاق و عادات، طور طریقے اور تہذیب و تمدن ایک حالت پر اور ایک راہ پر باقی نہین رہتے، بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پھر جس طرح یہ تغیرات لوگوں میں اوقات میں اور شہروں میں رونماء ہوتے ہیں۔ اِسی طرح دنیاء کے ہر گوشے میں، ہر زمانے میں اور ہر حکومت میں بھی رونماء ہوتے ہیں۔ +**مقدمہ ابن خلدون جلد 1، صفحہ 138۔ + + +[[زمرہ:1400ء کی دہائی کی وفیات]] + + +* آنکھ اپنا عیب دیکھنے سے معذور ہوتی ہے۔ بلوچی کہاوتیں +حاکم کے آنکھ نہیں ہوتی کان ہوتے ہیں فرہنگ آصفیہ ،1: 253) + + +* پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے بے شمار راستے ہوتے ہیں مگر وہاں سے منظر ایک جیسا نظر آئے گا۔ چینی کہاوتیں + + +* کاغذ سے آگ کو ڈھانپا نہیں جا سکتا۔ چینی کہاوتیں + + +کاغذ سے آگ کو ڈھانپا نہیں جا سکتا۔ چینی کہاوتیں + + +پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے بے شمار راستے ہوتے ہیں مگر وہاں سے منظر ایک جیسا نظر آئے گا۔ چینی کہاوتیں + + +* انسان کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کائنات کی ہر شے اس کے حصول کے لیے انسان کی مدد کرتی ہے۔(کیمیا گر، پاؤلو کویلہو + + +[[زمرہ:رائے شماریاں برائے انتظامی اختیارات]] + + +لباس یا ملبوسات، جسم کے بعض حصون کو چھپانے، ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ +اس موضوع پر اقتباس درج کریں +* قرآن مجید نے سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۷ میں عورت کو مرد کا لباس اور مرد کو عورت کو لباس قرار دیا ہے۔ قرآن کی اس عجیب تشبیہ میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں۔:​ +* لباس کو رنگ، جنس اور قیمت میں انسان کے مناسب ہونا چاہیے۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کو بھی ہم کفو اور ان کی شخصیت اور فرہنگ کی آپس میں مطابقت ہونی چاہیے۔​ +* لباس انسان کے لیے باعث زینت اور باعث آرام ہے۔۔۔ اسی طرح نیک شوہر یا بیوی انسان کے لیے باعث زینت وآرامش ہے۔​ +* لباس انسان کے عیوب کو چھپاتا ہے۔ اسی طرح مرد وعورت کو بھی چاہیے ایک دوسرے کے عیوب اور رازوں کی حفاظت کریں۔​ +* لباس انسان کو سردی اور گرمی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح نیک ہمسر انسان کو گناہوں کی گرمی اور سردی سے بچاتا ہے۔​ +* موسم کے مطابق انسان لباس پہنتا ہے۔ ہوا اگر سرد ہو تو ہم موٹا لباس پہنتے ہیں اور اگر سرد ہو تو نازک لباس پہنتے ہیں۔ اگر شوہر غصے ��یں ہے تو بیوی کو چاہیے کہ نرمی سے اس سے برتاو کرے۔ اور اسی طرح اگر بیوی تھکی ہوئ ہے تو شوہر کو چاہیے گھر کے کاموں میں اس کی مدد کرے۔​ +* “کسی کو اس کی ذات اور لباس کی وجہہ سے حقیر نہ سمجھنا کیونکہ تم کو دینے والا اور اس کو دینے والا ایک ہی ہے اللہ۔ وہ یہ اُسے عطا اور تم سے لے بھی سکتا ہے۔” + + +ریاضی کی خوبصورتی صرف اپنے صابر چاہنے والوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ + + +پاکستان نامور >پختون< کرکٹر کے درج ذیل ہیں +<گلی گلی میں شور ہے +سارا شریف خاندان چور ہے + + +میرا دماغ میری بادشاہت ہے +یہ تمام خوشیوں سے بڑھ کر ہیں + + +::کوئی انسان اپنی ذات میں مکمل جزیرہ نہیں ہوتا +::ہر انسان براعظم کا حصہ ہوتا ہے + + +* جس تاؤ کی تبلیغ کی جا سکتی ہے، وہ ابدی تاؤ نہیں ہے۔ جس نام کو بیان کیا جا سکتا ہے، وہ ابدی نام نہیں ہے +آسمان اور زمین کے وجود میں آنے سے پہلے کچھ بے شکل مگر کامل موجود تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہم اس کا حقیقی نام نہیں جانتے، لیکن اسے تاؤ کہتے ہیں۔ +* روح{{زیر وادی کبھی نہیں مرتی، اسے تاریک مادہ کہا جاتا ہے اور زمین و آسمان اسی کی دہلیز میں سے برآمد ہوئے۔ +* جو شخص تاؤ (راستے) کے تحت کسی حکمران کی مدد کا خواہشمند ہو تو تمام مسلح تسخیر کی مخالفت کرے گا کیونکہ معاملات متضاد رد عمل کے تابع ہیں۔ تاؤ کے خلاف کوئی بھی چیز جلد فنا ہو جائے گی۔ +ارشد مسعود ہاشمی کے ترجمے سے چند مثالیں: +1۔ جو رہین نطق و کلام ہے نہیں وہ سلوک جاوداں +جو سزاوار بیان ہے نہیں وہ ہویت جاوداں +مخرج انفس و آفاق بے نام ہے ازل سے +جو ازل سے نام برد وہ ماسر اولیٰ +2۔ حق پسند باتیں دل پذیر نہیں ہوتیں +دل پذیر باتیں حق پسند نہیں ہوتیں + + +* سدھارتھ سب کو پیارا تھا۔ اسے دیکھ کر سب کے دل مسرور ہو جاتے لیکن سدھارتھ بذات خود خوش نہیں تھا۔ انجیر کے باغوں کی گلابی رہگزاروں میں رواں آم کے درختوں کے ہلکے آسمانی سائے میں محو استغراق غسل سحر کے لیے جاتا ہوا، آم کے گھنے درختوں کے نیچے ہون کرتا ہوا سدھارتھ، سب کا پیارا اور دلارا سدھارتھ، مئموم تھا۔ + + +علی احمد مسکرا کر نرمی سے بولا۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ تم معاشرے کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے متعلق بات کرو؟ +سلمان اسی تلخی کے ساتھ بولا۔ دیکھیے بات یہ ہے۔ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر جاری نہیں رکھ سکتا۔ ملازمت چاہتا ہوں، وہ ملتی نہیں۔ ایک ذمہ دار کارآمد شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں، اس کے امکانات نہیں۔ سیدھا سادہ اقتصادی مسئلہ ہے اور کوئی اقتصادی مسئلہ معاشرے سے ہٹ کر اپنا وجود نہیں رکھتا۔ خدا کی بستی، فصل 6، صفحہ 183، الحمرا پبلشنک، اسلام آباد، 2011ء + + +چارلس ڈارون 1809-1882) ایک انگریز ماہر حیاتیات تھا۔ اسنے نے نظریہ ارتقا پیش کیا اور دنیا کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی لے کر آیا۔ +میں نے ارتقائی تبدیلیوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ یوں ہی اتفاقیہ وجود میں آ گئیں ۔یہ الفاظ مغالطہ پیدا کرنے والے ہیں ۔ ان سے مفہوم صرف اس قدر ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کے اسباب و علل معلوم کرنے سے قاصر ہیں ۔ +*دوسری جگہ لکھتا ہے ۔ +"اس تصور میں کتنی بڑی عظمت پوشیدہ ہے کہ خالق کائنات نے زندگی کے اندر اس قدر گوناگوں توانائیاں مضمر رکھ دیں ۔ خواہ یہ زندگی ابتداءً کسی ایک پیکر میں پھونکی گئی تھی یا زیادہ پیکروں میں ، اور اس کے بعد اس طویل المعیاد عرصہ میں جب کہ یہ کرہ قوانین ثقل و کشش کے مطابق مصروف گردش رہا ہے ۔ زندگی اس قدر متنوع پیکروں میں بایں حسن و رعنائی جلوہ بار ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ + + +# کئ لوگوں کو کرسمس پاس لاتی ہے۔ مگر کچھ کے لیے پھر بھی خدمت مقدم ہے۔ + + +==معاصرین و محققین کے غالب سے متعلق اقتباسات و آراء== +*غالب کی زِندگی بڑی ہی پہلودار تھی۔ وہ شروع سے آخر تک تہہ در تہہ نظر آتی ہے۔ اُس میں بے شمار نشیب و فراز دکھائی دیتے ہیں۔ وہ تو ایک حَسین اور دل آویز پہاڑی سلسلے کی طرح حَسین اور دل آویز، پر شکوہ اور شاندار ہے۔ جلال اور جمال دونوں اِس میں گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ رومان و حقیقت کا اِس میں ایک نہایت ہی دلکش اور دِل موہ لینے والا امتزاج ملتا ہے۔ +**حیات غالب پر چند خیالات، مشمولہ غالب اور مطالعہ غالب، صفحہ 3۔ +*غالب کو دیکھیے، ساری عمر ناقدری اور عُسرت و تنگدستی کا رونا روتے رہے ، خصوصاً آخری دِنوں میں۔ لیکن ذرا مرض الموت میں اُن کی آخری غذا تو ملاحظہ فرمائیے۔ صبح کو سات بادام کا شیرہ، قند کے شربت کے ساتھ۔ دوپہر کو سیر بھر گوشت کی یخنی۔تین شامی کباب۔ چھ گھڑی رات گئے پانچ روپئے بھر شرابِ خانہ ساز اور اِسی قدر عرقِ شیر۔ +مشتاق احمد یوسفی آ ب گم ، مطبوعہ مکتبہ دانیال، کراچی۔ پاکستان، فروری 1990ء + + +راویانِ روایاتِ شیریں اور حاکیانِ حکایاتِ دل نشین، اس افسانے کو یوں حکایت کرتے ہیں کہ سرزمینِ ایران کے شہر مدائن میں ایک بادشاہ تھا، قبادکامران نام، کام دہِ مستمدانِ ناکام رعیت پروری میں اپنا نظیر اور عدالت گستری میں عدیل نہ رکھتا تھا۔ ملک میں اس کے محتاج و فقیر مثلِ عنقا بے نشاں اور زبردست اور زیردست یکساں تھے۔ چھوٹا بڑا بایکدیگر دل جوئی کرتا اور ایک دوسرے پر احسان دھرتا تھا۔ دن رات دروازے گھروں کے مثل چشمِ پاسبان کھلے رہتے تھے، کہ چور حنا تک کا آسیاے عدالت میں پیسا جاتا تھا۔ چور چوری سے بھی نام چوری کا زبان پر نہ لاتا تھا۔ + + +* جو کوئی شادی کرتا ہے، وہ ان غموں کو آپس میں بانٹ سکتا ہے، جو پہلے اس کو لاحق نہیں تھے۔ (جرمن افورسم +محبت انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ شادی کر لو، تمہیں فوراً دکھائی دینے لگے گا۔ (جرمن افورسم + + +* مرد مشکلات جانتے ہیں، ہر حل کے لیے۔ (جرمن افورسم +* ایک عورت مرد کے بغیر مچھلی کی طرح ہے، جس کے پاس بائیسیکل نہیں ہے۔ (جرمن افورسم + + +* ایک عورت مرد کے بغیر مچھلی کی طرح ہے، جس کے پاس بائیسیکل نہیں ہے۔ جرمن افورسم +* مرد کا امتحان عورت ہے اور عورت کا امتحان روپے پیسے سے ہوتا ہے۔ فیثاغورث +*عورت کی زور اور حوصلہ]]، غرور اور عزت مرد کی ذات سے ہے اسے شوہر کی طاقت اور مرد کی ہمت کا گھمنڈ ہوتا ہے۔ +*عورت گالیاں سہتی ہے، مار سہتی ہے مگر میکے کی نندا اس سے نہیں سہی جاتی۔افسانہ، بڑے گھر کی بیٹی ref> +* عورت کا حسن اسے مغرور بنا دیتا ہے۔ ولیم شیکسپیئر +* عورت کی زندگی جذبات کے موڑ گھومتی رہتی ہے۔ آسکر وائلڈ +* روتی عورت اور ہنستے مرد کا کبھی اعتبار نہ کرو۔ روسی ضرب الامثال +* جوان عورت اور پرانی شراب ہو تو مہمان بہت آتے ہیں۔ جرمن ضرب الامثال + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +* اپنی تنہائی میں جو خوش ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی اس خوشی سے شرمسار بھی ہو سکتے ہیں۔ + + +*آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا — پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا + + +* ہم تعجب نہیں کرتے تھے۔ +* میں اچھی رہوں گی۔ +* ہم ناممکن]]ات کی متوقع صورتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ اُن کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ + + +* تمام بڑے مذاہب کی تعلیمات بنیادی طور پر ایک ہی پیغام دیتی ہیں- محبت، رحمت، اور معذرت، اہم بات یہ ہے کہ یہ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہونی چاہئیں۔ +* جب کبھی ممکن ہو مہربان بنے رہیے. اور یہ ہمیشہ ممکن ہے۔ +* خوشی پہلے سے موجود کوئی چیز نہیں ہے (جسے تلاش کیا جائے)، یہ آپ ہی کے اعمال سے آتی ہے۔ +* اگر آپ دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں، تو ضرور کریں۔ اور اگر نہیں کر سکتے ہیں تو کم سے کم انہیں نقصان نہیں پہنچائیں۔ +* اگر آپ دوسروں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمدردی کا احساس رکھیں. اگر آپ خود خوش رہنا چاہتے ہیں تو بھی ہمدردی کا احساس رکھیں. +* رواداری کے امتحان میں، آپ دشمن ہی آپ کا سب سے بہترین اور اچھا استاد ہوتا ہے. +* یہ ضروری ہے کہ ہم اپنا نقطۂ نظر اور دل جتنا ممکن ہو اچھا کریں. اسی سے ہماری اور دوسرے لوگوں کی زندگی میں، جلد یا بدیر خوشیاں آئیں گی. +* محبت اور ہمدردی ضروریات ہیں، عیش و آرام نہیں۔ کیونکہ محبت اور ہمدردی کے بغیر انسانیت زندہ نہیں رہ سکتی. +* میرا مذہب بہت آسان ہے، میرا مذہب احسان کرنا ہے۔ +* پرانے دوست چھوٹتے ہیں، نئے دوست بنتے ہیں. اس طرح دنوں میں ایک پرانا دن جاتا ہے، ایک نیا دن آتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ہم اسے قابل قدر بنائیں: ایک بامعنی دوست یا ایک بامعنی دن۔ +* كبھی کبھی لوگ کچھ کہہ کر اپنا ایک شاندار تاثر بنا دیتے ہیں، اور کبھی کبھی لوگ خاموش رہ کر ہی اپنا ایک متاثر کن تاثر بنا دیتے ہیں. +* اپنی صلاحیتوں کو جان کر اور اس پریقین کر کے ہی ہم نے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کر سکتے ہیں. +* مندروں کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی پیچیدہ علوم کی. میرا دماغ اور میرا دل ہی میرے مندر ہیں؛ میرا فلسفہ احسان ہے. +* ہم باہری دنیا میں کبھی امن نہیں پا سکتے ہیں، جب تک ہم اندر سے پرسکون نہ ہوں. +* ہماری زندگی کا مقصد خوش رہنا ہے۔ +* جب آپ کچھ گنوا بیٹھتے ہے تو اس سے حاصل ہونے والے سبق کو نہ گوائیں۔ +* اگر آپ یہ سوچتے ہے آپ بہت چھوٹے ہے تو ایک مچھر کے ساتھ سوکر دیکھیے. +* جب تک ہم اپنے آپ سے صلح نہیں کر لیتے تب تک ہم دنیا سے بھی صلح نہیں کر سکتے. +* نیند غوروفکر کرنے کا بہترین طریقہ ہے +* ایک چھوٹے سے تنازعہ سے ایک عظیم رشتے کو زخمی مت ہونے دینا. +* مذہب اور مراقبہ کے بغیر رہا جاسکتا ہے، لیکن ہم انسانی پیار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے. +* اگر آپ کا کوئی خاص مکتبہ فکر یا مذہب ہے، تو اچھا ہے۔ لیکن آپ اس کے بغیر بھی جی سکتے ہیں۔ + + +قاسم بن محمد بن ابی بکر  (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:  مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا:  اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: +*نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔امام ابن العمرانی: الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔ +*میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔ +*اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔ +*نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجئیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔ +*میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 11 صفحہ 4، الرقم 24515۔ مطبوعہ لاہور۔ +*میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔ +*آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔ +*نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی  (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہ کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔ +*نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔ +*نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں مدفون ہوئے۔ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 59، مطبوعہ لاہور۔ +دوسری روایت میں ہے کہ تابعی عمیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی ہیں کہ: مجھے چند چیزیں حاصل ہیں جو کسی عورت کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر سات سال تھی، آپ کے پاس فرشتہ اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آیا اور آپ نے میری تصویر دیکھی، رخصتی کے وقت میں نو سال کی تھی، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، اُنہیں میرے سواء کسی عورت نے نہیں دیکھا، میں آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھی، میرے والد آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں مرض الموت کے ایام گزارے اور میں نے آپ کی تیمارداری کی پھر جب آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس صرف میں اور فرشتے تھے، کوئی اور نہ تھا۔ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 60، مطبوعہ لاہور۔ +*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  عائشہ جنت میں بھی میری بیوی ہوں گی۔ابن سعد۔ طبقات ابن سعد۔ لاہور۔ صفحہ 55 تا 70 (جلد دوم، حصہ 8)۔ +*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں پر عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4436 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23366۔  مطبوعہ لاہور۔ +*اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا (یہ آپ نے کسر نفسی میں فرمایا تھا)۔ +*تابعی ابن ابی عتیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جب کہ وہ علیل تھیں، بولے:  اُم المومنین کسی طبیعت ہے؟  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، فرمانے لگیں:  اللہ کی قسم  یہ موت ہے۔ +*عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ جانا اور میری میت پر سرخ مخملی چادر نہ بچھانا۔ +[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]] + + +[[زمرہ:1900ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:820ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1050ء کی دہائی کی وفیات]] + + +بائبل سے اقتباسات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے کہ: +تناخ جو کہ یہودیت کی مقدس کتاب ہے جس میں عہدنامہ قدیم کے صحائف موجود ہیں۔ +*عیسائی بائبل جو عہدنامہ قدیم عہدنامہ جدید اور اپوکریفا کے متعدد صحائف پر مشتمل ہے۔ +==اپوکریفا کے صحائف سے اقتباسات== + + +تکبر کرنے والے کو متکبر کہتے ہیں۔ +*تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ +محمد بن عبد اللہ]]، صحیح مسلم]]، کتاب الیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص 61، حدیث:147 + + +**منتخب مضامین (1988ء)، صفحہ 253۔ + + +[[زمرہ:1960ء کی دہائی کی وفیات]] + + +*اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے گناہ گار مومن سے محبت فرماتا ہے۔ +**حلیۃ الاولیاء ج 3، ص 341۔ الطبقات ج 5، ص 219۔ تہذیب الکمال ج 20، ص 398۔ +*جسم اگر بیمار نہ ہوتو وہ مست ومگن ہو جاتا ہے اور کوئی خیر نہیں ایسے جسم میں جو مست ومگن ہو۔ +**حلیۃ الاولیاء، ج 3، ص 134۔ سیر اعلام النبلا، ج 4، ص 396۔ +*لوگوں میں سب سے زیادہ خطرے میں وہ شخص ہے جو دنیا کو اپنے لیے خطرے والی نہ سمجھے۔ +**تہذیب الکمال ج 20، ص 398۔ سیر اعلام النبلاج 4، ص 391۔ +*کوئی کسی کی ایسی اچھائی بیان نہ کرے جو اسے معلوم نہ ہو، قریب ہے کہ وہ اس کی وہ برائی بیان کر بیٹھے جو اس کے علم میں نہیں۔ +**تہذیب الکمال ج 20، ص 398۔ +*جو باتیں معروف نہیں وہ علم میں سے نہیں، علم تو وہ ہے جو معروف ہو اوراہل علم کا اس پر اتفاق ہو۔ +**تہذیب الکمال ج 20، ص 398۔ سیر اعلام النبلاج 4، ص 391۔ +*جو اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت اختیار کر لے وہ لوگوں میں سب سے غنی آدمی ہو گا۔ +**حلیۃ الاولیاء، ج 3، ص 135۔ +*بندہ تقویٰ و پرہیزگاری کے بغیر جو کچھ کرتا ہے، اُس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، پوری پوری عزت تو تقویٰ والے ہی کے لیے ہے۔ +*سنو بندے کی نماز میں سے صرف اُتنا ہی حصہ قبول ہوتا ہے جتنا وہ رجوعِ قلب سے پڑھتا ہے۔ +*خدا کی طرف سے ایک دِن مقرر ہے جس میں فضول حرکتیں کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔ +*خدا کی قسم کل قیامت کے دِن کوئی چیز فائدہ نہیں دے گی سوائے اُس نیک عمل کے جو تم نے بارگاہِ خداوندی میں (بطور ہدیہ و تحفہ) آگے بھیج دیا ہے۔ +*مصائب پر صبر کرو اور حقوق کے درپے نہ ہو اور اپنے برادر سے اُس امر میں اتفاق نہ کرو جس کا نقصان تمہارے لیے اُسے نفع پہنچنے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو۔ +*اے بیٹے !مصائب پر صبر کرو اور حقوق سے تعرض نہ کرو اوراپنے بھائی کو اس معاملے کے لیے پسند نہ کرو جس کا نقصان تمہارے لیے زیادہ ہو اس بھائی کو ہونے والے فائدے سے ۔ +تہذیب الکمال ج 20، ص 399۔ حلیۃ الاولیاء، ج 3، ص 138۔ +*دوستوں کا نہ ہونا پردیسی اجنبیت) ہے۔ +**حلیۃ الاول��اء، ج 3، ص 134۔ +*جن دو شخصوں کا ملاپ اللہ کی اطاعت کے علاوہ ہوا ہو تو قریب ہے کہ ان کی جدائی بھی اسی پر ہو۔ +**تہذیب الکمال ج 20، ص 398۔ +* میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ +**مقتل ابی مخنف صفحہ 135۔ 136 +*ابونعیم الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج 3۔ +*امام مزی: تہذیب الکمال، ج 20۔ +*امام شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، ج 4۔ +*علامہ باقر مجلسی: بحار الانوار، ج 6، مترجمہ اردو۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] +[[زمرہ:710ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +طاؤس بن کیسان وفات: 713ء) پہلی صدی ہجری کے تابعی اور محدث تھے۔ +*نوجوان کا عابد و زاہد بننا اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ شادی نہ کرلے۔ +**حلیۃ الاولیاء، ج 4، ص 346۔ مترجم اردو +*امام ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ/ 1989ء۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:شخصیات کے ناموں کی قاموس]] + + +[[زمرہ:پندرہویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +السفاح پیدائش: 721ء– وفات: 10 جون 754ء) خلافت عباسیہ کا پہلا حکمران اور عباسی خلیفہ تھا جس نے 25 جنوری 750ء سے 10 جون 754ء تک دنیائے اسلام پر بحیثیت خلیفہ حکمرانی کی۔ +*جب اقتدار کی قوت وسیع ہوجاتی ہے تو خواہشات کم ہو جاتی ہیں اور کوئی نیکی ضائع اور برباد نہیں ہوتی۔ +*کمینہ اور ذلیل وہ ہیں جو بخل کو احتیاط اور بردباری کو ذلت تصور کرتے ہیں، اگر بردباری کو حقیر تصور کیا جائے تو عفو کرنا بھی کمزوری و عاجزی کہلائے گا۔ +صبر و ثابت قدمی بڑی اچھی چیز ہے تا وقتیکہ اِس کے سبب سے اسلام میں کوئی خلل پیدا نہ ہو اور حاکم اعلیٰ میں سستی رونما نہ ہو۔ +*سخاوت اتنی ہی اچھی ہے جتنی کہ سکت و قوت ہو۔ +*علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء، مطبوعہ کراچی، 1983ء۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +ابو جعفر المنصور پیدائش: 714ء– وفات: 7 اکتوبر 775ء) خلافت عباسیہ کا دوسرا حکمران تھا جس نے دنیائے اسلام پر 10 جون 754ء سے 6 اکتوبر 775ء تک بحیثیت خلیفہ حکمران کی۔ +بادشاہ تمام چیزیں مان لیتا ہے مگر حسبِ ذیل تین اُمور کو ہرگز برداشت نہیں کرتا رازداری کا افشا، بیوی کے بارے میں کوئی غلطی یا جرم وغیرہ اور ملک میں بغاوت۔ +*جب دشمن تمہاری طرف ہاتھ بڑھائے تو ممکن ہو تو اُس کا ہاتھ کاٹ دو، ورنہ اُس کے ہاتھ کو بوسہ دو تاکہ وہ تم کو نقصان نہ پہنچائے۔ +*علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء، مطبوعہ کراچی، 1983ء۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +المہدی باللہ پیدائش: 745ء وفات 24 جولائی 785ء) خلافت عباسیہ کا تیسرا حکمران تھا جس نے 6 اکتوبر 775ء سے 24 جولائی 785ء تک بحیثیت خلیفہ دنیائے اسلام پر حکومت کی۔ +*مجھ سے فائدہ اُٹھانے کا سب سے بہتر ذریعہ یا وسیلہ یہ ہے کہ میرے کسی سابقہ احسان کو جو میں نے کیا ہو، مجھے یاد دِلایا جائے تاکہ ویسا ہی احسان پھر میں کروں، کیونکہ بعد کو احسان کرنے سے دست کش ہوجانا سابقہ احسانات کے شکر کو قطع کردیتا ہے۔ +*علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء، مطبوعہ کراچی، 1983ء۔ +*ابوجعفر محمد ابن جریر طبری: تاریخ الامم والملوک (تاریخ طبری)، جلد 5، مترجم اردو، ص 374، مطبوعہ لاہور۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +عبد الملک بن مروان پیدائش: 646ء – وفات: 8 اکتوبر 705ء) خلافت امویہ کا پانچواں حکمران تھا جس نے 12 اپریل 685ء سے 8 اکتوبر 705ء تک بحیثیتِ خلیفہ حکمرانی کی۔ +*میرے سامنے جھوٹ نہ بولنا کیونکہ جھوٹے کی کوئی قدر و منزلت نہیں کرتا۔میرے پوچھے بغیر کوئی جواب نہ دینا کیونکہ بن پوچھے جوابات میرے لیے بیکار ہیں۔میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا کیونکہ میں اپنا حال بخوبی جانتا ہوں اور اپنے ضمیر سے واقف ہوں۔رعیت پر مجھے برانگیختہ نہ کرنا کیونکہ اُن سے مہربانی کرنے کی مجھے بڑی ضرورت ہے۔ +*علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء، مطبوعہ کراچی، 1983ء۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +*کسی انسان کے دل میں جگہ بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس سے اسی کی زبان میں بات چیت کی جائے۔ +*بھگوان وشنو کو روح اور مادے پر کامل اختیار ہے اور جنہوں نے پاکیزہ اور اچھی زندگی گزاری ہو وہ انہیں اپنی طاقت سے ان کی روحوں کو بچا لیتے ہیں۔ بری روحوں کا مقدر ابدی عذاب ہے جبکہ اوسط درجے کی روحیں مستقل طور پر دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہیں۔ + + +محمد بن تغلق وفات: 20 مارچ 1351ء) ہندوستان میں سلطنت دہلی کے تغلق خاندان کا حکمران تھا جس نے 1325ء سے 1351ء تک حکومت کی۔ +*میں اِن بغاوتوں کی طرف سے زیادہ پریشان نہیں ہوتا۔ + + +*جن کا ماضی مشکوک تھا، آپ اُن کے نئے نعروں اور نئے رہنماؤں سے دور رہیں اور ایسی کسی تنظیم یا آرگنائزیشن کے لئے اپنی حوصلہ افزائی یا اُس میں حصہ لینے کے لیے اور اپنی محنت و توانائی صرف (خرچ) نہ کریں اور ایسے اقدام میں ہچکچاہٹ نہ برتیں۔ +**23 مارچ 1948ء کو کرزن ہال، ڈھاکہ میں زنانہ مسلم لیگ کے اِجلاس میں خطاب۔ +*ملت کی مشترکہ بھلائی کے لئے اعلی ترین کردار اور سالمیت کو تیار کرنا چاہئے اور تمام ذاتی عزائم کو مٹا دینا چاہئے۔ +**1948ء، کراچی میں آل پاکستان مسلم یوتھ کنوینشن سے خطاب۔ +*عورت دنیا میں ایک انتہائی اہم مقام رکھتی ہے۔ اُس کی صلاحیتوں کے پیش نظر ، قدرت نے اسے وسیع فرائض تفویض کیے ہیں۔ اگر آپ اِن میں ناکام ہوگئے تو آپ نہ صرف اپنے نفس کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ اپنی اجتماعی زندگی کو بھی سخت نقصان پہنچائیں گے۔ +**1949ء، لاہور میں انجمن تحفظ حقوقِ نسواں کی مجلس سے خطاب۔ +*کوئی قوم کبھی بھی اپنے عوام کے ذہنی عمل کو غیر ملکی زبان کے جوئے سے کسی افکار اور اظہار خیال کے وسیلے کے طور پر پہلے جاری کیے بغیر مکمل فکری قد یا مقام حاصل کرنے کی امید نہیں کرسکتی ہے۔ +**1949ء، کراچی کے اُردو ڈِگری کالج کی افتتاحی تقریب سے خطاب۔ +*بڑی کامیابیوں کے لئے بہت بڑی کاوشوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جس کے بغیر ہماری ترقی کا عمل سست پڑتا ہے۔ +**14 اگست 1950ء، یوم آزادیٔ پاکستان کے موقع پر قوم سے خطاب۔ +*آئین ان اولین لوازمات میں سے ایک ہے جس پر ہمارا مستقبل اور پیشرفت مبنی ہے۔ +**24 جون 1952ء، عیدالفطر کے موقع پر قوم سے خطاب۔ +[[��مرہ:حقوق نسوانی کی علمبردار شخصیات]] + + +[[زمرہ:1960ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1890ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1800ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +بات یہ ہے مبلّغانِ ادیان و مُصلحانِ اذہان نے جس خشتِ اول پر اپنے نظام کے قصور تعمیر فرمائے ہیں وہ خشتِ اول سائنس دانوں کی سی کرید اور کھرے سونے کی سی تحقیقی نیت کے باوجود اب تک میری گرفت میں نہیں آ سکی۔ اور یہی میرا دیانت دارانہ اعتراف ِ جہل ہے جس کو یاروں نے الحاد، عدوان اور ارتداد کا نام دے کر میرے خلاف ایک غوغا بلند کر رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میری عقل کا قصور ہو لیکن یار لوگ اس کو میری نیت کا فتور سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور لطف یہ کہ جو لوگ مجھ سے برافروختہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ علت العلل یا مُحرک اول کے باب میں مجھ سے بھی زیادہ جاہل ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنے جہل کا علم نہیں اور اسی بنیاد پر وہ دین دار ہونے کے مدعی ہیں۔ کاش ان کو پتا ہوتا کہ ہمارا ایقان اس پیڑھی اور سیڑھی کے مثل ہے جس کو ہم نے والد مرحوم کے ترکے میں پایا ہے۔ ہمارا ایقان تحقیقی نہیں تقلیدی ہے۔ ہم حادثہ اتفاقی کے طور پر مسلمان کے گھر میں پیدا ہو گۓ ہیں اس لیے مسلمان ہیں۔ اگر یہودی کے گھر میں پیدا ہو جاتے تو ہم سے بڑا یہودی کوئ نہ ہوتا۔ اور ہمارے معتقدات کا پرفسوں محل ٹھوس کھوپڑی پر نہیں کھوکھلے کانوں پر تعمیر فرمایا گیا ہے۔ اب رہا علت العلل اور محرک اولّیں کا مسئلہ جس کو خدا بھگوان اللہ یہوا منروا یا گاڈ کے نام دیے گئے ہیں۔ جو تنزیہ کے دائرے میں نور یا ھو ہے لیکن تشبیہ کے میدان میں ایک مطلق العنان بادشاہ اور انسانوں کا سا مزاج رکھنے والا انتہائی طاقت ور شخص ہے ۔ سو یہ بحث اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس کے واسطے اس کتاب میں گنجائش نہیں نکالی جا سکتی۔ بہرحال میں اقرار و انکار کے دو کروں کے بیچوں بیچ بیٹھا ہوا ہوں، نظام ِ سماوی کو دیکھتا ہوں تو کہیں کوئی خلا نظر نہیں آتا، دل اقرار کرنے لگتا ہے اور نظام ِ ارضی کو دیکھتا ہوں تو اس میں کروروں خلا نظر آتے ہیں۔ اور حیاتِ انسانی کی عبرت ناک بے ثباتی اور اس کی بے کراں درد مندیوں پر نگاہ کرتا ہوں تو دل انکار پر مُصر ہو جاتا ہے۔ نوعِ انسانی ابھی تک اس قدر ۔۔۔۔۔۔ جہل میں گرفتار ہے کہ ہم اپنی اس موجودہ ذہنی سطح پر بیٹھ کر نہ اقرار کر سکتے ہیں نہ انکار۔ اقرار یا انکار کا موقع اس وقت آۓ گا جب ہم ذرّے سے لے کر آفتاب تک کے علم پر حاوی ہو جانے کے بعد علت العلل کے ہر پہلو کو خوب ٹھونک بجا کر دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس آخری منزل تک پہنچنے میں ابھی لاکھوں سال بیت جائیں گے اور میں اسی تذبذب کے عالم میں خالی ہات دنیا سے اٹھ جاؤں گا۔ لیکن مجھ کو یقینِ کامل ہے کہ لاکھوں یا کروروں برس کے بعد سہی مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ نوعِ انسانی آخرکار روحِ کائنات کو اپنی مٹھی میں لے لے گی اور پوری کائنات پر فرماں روائ کرنے لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ +( ۔ یادوں کی برات ۔ جوش ملیح آبادی ۔ ) + + +[[زمرہ:1990ء کی دہائی کی وفیات]] + + +جعفر الصادق یا جعفر ابن محمد الباقر پیدائش: 20 اپریل 702ء — وفات: 3 دسمبر 765ء) اہل بیت اطہار کے بزرگ اور شیعہ اثنا عشریہ کے چھٹے امام ہیں۔ فقہ جعفریہ کی نسبت اِنہی کی طرف منسوب ہے۔ +*اے انسان دنیاء میں جو کچھ کرنا ہے، کر لے۔ اِس لیے کہ تو مرنے والا ہے۔ گویا یوں سمجھ کہ جو کچھ تھا یا ہے�� وہ نہیں رہے گا۔ اور جو کچھ نہیں ہوا ہے اور ہونے والا ہے، وہ ہو جائے گا۔ +**بحار الانوار، جلد 8، صفحہ 27۔ +*نہ فارغ البالی سے ہم خوش ہوتے ہیں، نہ تنگ حالی سے رنجیدہ۔ اگر زمانہ ہمیں خوشی دیتا ہے تو ہم آپے سے باہر نہیں ہوتے، اگر رنج پہنچاتا ہے تو خاطر براشتہ ہوکر اظہارِ غم نہیں کرتے۔ +**بحار الانوار، جلد 8، صفحہ 27۔ +*تم اللہ کی نافرمانی کرتے ہو، اور بظاہر اُس کی محبت کا دم بھی بھرتے ہو۔ یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے۔ سنو! اگر تمہارے دِل میں اللہ کی سچی محبت ہوتی تو تم اُس کی اطاعت کرتے، اُس کے کہنے پر چلتے، اِس لیے کہ ایک محبت کرنے والا اپنے محبوب کی بات مانتا بھی ہے اور اُس کے کہے پر چلتا ہے (کبھی بھی اُس کی مخالفت نہیں کرتا)۔ +**بحار الانوار، جلد 8، صفحہ 27۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +حسن العسکری یا حسن ابن علی العسکری پیدائش: 3 دسمبر 846ء وفات: یکم جنوری 874ء) اہل بیت کے بزرگ اور اہل تشیع کے گیارہویں امام تھے۔ +*دو بہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پر ایمان رکھو اور لوگوں کو فائدہ پہنچاؤ۔ +*تواضع اور فروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گذرو تو سلام کرو اور مجلس میں معمولی مقام پر بیٹھو۔ +*دنیا کی تلاش میں کوئی فریضہ نہ گنوا دینا۔ +*وہ چیز زندگی سے بہتر ہے جس کی وجہ سے تم زندگی کو برا سمجھو۔ +*جو دنیا میں بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ +*وہ چیز موت سے بدتر ہے جو تمہیں موت سے بہتر نظر آئے۔ +*موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے، اچھا بوؤ گے تو اچھا کاٹو گے، برا بوؤ گے تو ندامت ہوگی۔ +*جو شخص دنیا سے دِل کا اندھا اُٹھے گا، آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ +مصائب و عادات سے متعلق اقوال +*کسی کی پڑی ہوئی عادت کو چھڑوانا اعجاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ +*تواضع ایسی نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاسکتا۔ +*ہر بلا اور مصیبت کے پس منظر رحمت اور نعمت ہوتی ہے۔ +طہارت و پاکیزگی سے متعلق اقوال +*بہترین عبادت گذار وہ ہے جو فرائض ادا کرتا رہے۔ +*بہترین متقی اور زاہد وہ ہے جو گناہ مطلقاً چھوڑ دے۔ +*ایک مومن دوسرے مومن کے لیے برکت ہے۔ +*طہارت میں شک کی وجہ سے زیادتی کرنا غیر ممدوح ہے۔ +*پرہیزگار وہ ہے جو کہ شب کو وقت توقف و تدبر سے کام لے، اور ہر اَمر میں محتاط رہے۔ +*غصہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ +*بے وقوف کا دِل اُس کے منہ میں ہوتا ہے اور عقلمند کا منہ اُس کے دِل میں ہوتا ہے۔ +*جاہل کی دوستی مصیبت ہے۔ +*کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، جب وہ حق کو چھوڑ دے گا تو ذلیل تر ہوجائے گا۔ +*معمولی آدمی کے ساتھ اگر حق ہو تو وہی بڑا آدمی ہے۔ +*غمگین کے سامنے ہنسنا بے اَدبی اور بدعملی ہے۔ +*بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔ +*پڑوسیوں کی نیکیوں کو چھپانا اور برائیوں کو اُچھالنا ہر شخص کے لیے کمر توڑ دینے والی مصیبت اور بے چارگی ہے۔ +*جاہل کی دوستی اور اُس کے ساتھ گذارہ کرنا معجزہ کی مانند ہے۔ +*اِس انداز سے کسی کی تعظیم نہ کرو کہ جسے وہ برا سمجھے۔ +*وہ شخص بدترین ہے جو دو منہ اور دو زبان رکھتا ہو، جب دوست سامنے آئے تو اپنی زبان سے خوش کردے اور جب وہ چلا جائے تو اُسے کھا جانے کی تدبیر سوچے، جب اُسے کچھ ملے تو یہ حسد کرے، اور جب اُس پر کوئی مصیبت آ جائے تو قریب نہ پھٹکے۔ +*اپنے بھائی کی پوشیدہ نصیحت کرنی اُس کی زِینت کا سبب ہوتا ہے۔ +*کسی کی اعلانیہ نصیحت کرنا برائی کا پیش خیمہ ہے۔ +*حرص اور لالچ سے کوئی فائدہ نہیں، جو ملنا ہے، وہی ملے گا۔ +*حسد کرنے اور کینہ رکھنے والے کو کبھی سکونِ قلب نصیب نہیں ہوتا۔ +*سید نجم الحسن کراروی چودہ ستارے، مطبوعہ لاہور، 1393ھ/ 1973ء + + +زینب بنت علی ابن ابی طالب اور فاطمہ بنت رسول اللہ کی بیٹی ہیں۔ +سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ +اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔ +*خوارزمی، مقتل الحسین، ص 45 تا 47۔ + + +[[زمرہ:1860ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +حسن ابن علی پیدائش: 4 مارچ 625ء — وفات: 9 مارچ 670ء) اہل بیت کے بزرگ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب کے فرزند ہیں۔ +*لوگوں کے ساتھ اس طرح برتاؤ رکھو جس طرح تم اپنے ساتھ برتاؤ کے خواہاں ہو۔ +**کشف الغمہ، ج 1، ص 521۔ +*کسی سے دوستی اور بھائی چارہ قائم نہ کرو مگر یہ کہ جان لو کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔ +*ایک شخص کے جواب میں جس نے حق اور باطل کے درمیان فاصلے کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: حق اور باطل کے درمیان چار اُنگلیوں کا فاصلہ ہے، جو کچھ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ حق ہے اور تمہاری کانوں سے بہت ساری باتیں سنے کو ملیں گے جو باطل ہیں۔ +*ابن شہر آشوب: المناقب، ج 4، ص 13۔ مطبوعہ 1379ھ۔ +[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]] + + +[[زمرہ:1930ء کی دہائی کی وفیات]] + + +*لوگ دنیا میں اپنے اموال کے ساتھ ہیں اور آخرت میں اپنے اعمال کے ساتھ۔ +مسند الامام الہادی، صفحہ 304۔ +*حکمت فاسد طینتوں پر اثر نہیں کرتی۔ +مسند الامام الہادی، صفحہ 304۔ +*جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے۔ +**مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 11، حدیث 13376۔ +*جس کا نفس پست ہو جائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ مت سمجھو۔ +*جب بھی معاشرے میں عدل و انصاف ظلم و ستم پر غلبہ کرے، کسی پر بدگمانی کرنا حرام ہے مگر یہ کہ وہ اس کے بارے میں یقین تک پہنچے؛ اور جب بھی ظلم و ستم عدل و انصاف پر غالب آجائے تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کے بارے میں حسن ظن رکھے مگر یہ کہ اس کے بارے میں یقین حاصل کرے۔ +*جو بھی تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی اطاعت کرو۔ +*مص��بت صبر كرنے والے كے لئے اکہری (ایك ہی) اور بے صبری کرنے والے كے لئے دوہری ہے۔ +**اعلام الدین: ابو الحسن دیلمی، صفحہ 311۔ بحار الانوار: جلد 75، صفحہ 326۔ +*خدا ہی ثواب و عقاب دینے والا اور اعمال کی جلد یا بدیر جزا و سزا دیتا ہے۔ +*محمد باقر مجلسی: بحار الانوار: جلد 75، صفحہ 326۔ +*میرزا حسین نوری: مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 11۔ +*ابن شعبہ الحرانى: تحف العقول عن آل الرسول، مطبوعہ 1404 ہجری۔ قم، ایران۔ +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] +[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]] + + +*میں بینظیر بھٹو نہیں ہوں، اور میں یہ جانتا ہوں۔ لوگ اِس لیے میری عزت کرتے ہیں کیونکہ میں نے گیارہ سال جیل میں بطور قیدی کے بسر کیے۔ +* میں کیا کرسکتا ہوں اگر صدر سے لے کر ایک جونیئر بیوروکریٹ تک ہر شخص مجھ کو سزا سنانے کے لیے مرے جا رہا ہو۔ اگر میں اتنا ہی مجرم ہوں تو، بینظیر سے شادی سے قبل میں جیل سے باہر کیا کر رہا تھا؟ + + +نفرت محبت کی ضد ہے۔ +* اپنی نفرت کو برف پر لکھو، جب بھی اُلفت کی دُھوپ نکلے گی برف پگھلے گی اور اس کے ساتھ نفرت بھی۔ گیبرئیل گارسیا مارکیز]] + + +معاشرے پر سائنس کے اثرات برٹرینڈ رسل پیدائش:18 مئی 1872ء — وفات: 2 فروری 1970ء کی کتاب ہے۔ +**باب اول، سائنس اور روایت ، صفحہ 24۔ + + +[[زمرہ:1990ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1920ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی وفیات]] + + +حسین بن منصور الحلاج پیدائش 858ء — وفات: 26 مارچ 922ء ایک اختلافی شخصیت تھے۔ اپنے عہد میں وہ مختلف آراء اور اپنے بیانات کے سبب اختلافات کا شکار رہے۔ چند عرصہ تک حالت مجذوبی میں رہے بالآخر خلیفہ بغداد کے حکم سے اُنہیں 26 مارچ 922ء کو بغداد میں اُن کے اختلافی بیانات کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی۔اُنہیں مصنف، صوفی اور مجذوب خیال کیا جاتا ہے۔ +*آپ کوکسی عارف نے نہیں پہچانا ہے، کیونکہ آپ کا وصف ہمیشہ اُس پر نامعلوم ہی رہا ہے اور وہ آپ کی صفت کماحقہ معلوم نہیں کرسکا ہے۔ +کتاب طواسین]]، باب اول، صفحہ 95۔ +کتاب طواسین]]، باب اول، صفحہ 95۔ +کتاب طواسین]]، باب اول، صفحہ 95۔ +*تمام علوم آپ کے بحر علم کا ایک قطرہ ہیں۔ اسی طرح تمام حکمتیں آپ کے معارف کے سمندر کی ایک چُلو ہیں اور تمام زمانے آپ کے وقت (یعنی عہدِ مبارکہ) کی ایک ساعت ہیں۔ +کتاب طواسین]]، باب اول، صفحہ 97/98۔ +اَنَا الْحَق ، لفظی معنی ہیں کہ: میں ہی حق (خدا) ہوں۔ +*کلام کی خوبی مقامِ قرب کے معنی کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ پس وہی معنی عمدہ اور بہتر ہوں گے جو حق کی حقیقت کے لیے شایانِ شان ہوں۔ مخلوق کے طور طریقوں کے لیے نہ ہوں اور مقامِ قُرب نگہداشت کی ایک دنیا ہے۔ +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] +[[زمرہ:پھانسی کے ذریعہ مقتول شخصیات]] + + +دریچے واصف علی واصف کی مشہور کتاب ہے جو اُن کے انتقال کے بعد 2004ء میں شائع ہوئی۔ +*شکر کا طریقہ یہ ہے کہ گِلہ نہ ہو، بندوں کا گلہ نہ ہو، خالق کا گلہ نہ ہو، زِندگی کا گلہ نہ ہو، شب و رَوز کا گلہ نہ ہو۔ زِندگی کو حاصل اور محرومیوں کی شکل میں نہ تولو بلکہ زِندگی میں اپنی عافیت کو، عطا کرنے والے محسنوں کو تلاش کرو اور محسن کے احسان کا شکریہ اداء کرو۔ +*اگر لوگوں کے ظاہری حالات برابر نہ ہوں تب بھی اُن پر اللہ کا فضل ہوسکتا ہے۔ +*اگر آپ سے نیک عمل نہیں ہو رہا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ غلط عمل نے اُس کا راستہ روکا ہوا ہے، اِس لیے آپ غلط عمل کو نکال دو۔ +*اپنے غم کو غصہ نہ بناؤ کیونکہ غم کو غصہ وہ بناتا ہے جو کسی تقدیر کو نہیں مانتا اور جو کسی خدا کو نہیں مانتا۔ +*بد آدمی بدعمل نہ کرے تب بھی بد ہے اور نیک آدمی نیکی نہ کرے تب بھی نیک ہے کیونکہ نیکی نیت کا نام ہے۔ +*تنہائی میں اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرو، گِلہ نہ کرو، پھر عبادت کرو تو پوری زِندگی عبادت بن جائے گی۔ + + +* جس اہم کام کی ابتداء بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، 1 277، الجزءالاول، الحدیث:2488تفسیر صاوی، سورہ فاتحہ]]، 1 15 + +نصیر الدین محمد ہمایوں پیدائش: 6 مارچ 1508ء — وفات 27 جنوری 1556ء) مغلیہ سلطنت کا دوسرا شہنشاہ تھا جس نے 1526ء سے 1540ء تک اور 1555ء سے 1556ء تک حکومت کی۔ +*بے شک سلیمان اعظم دنیا کا بادشاہ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ + + +[[زمرہ:1550ء کی دہائی کی وفیات]] + + +جلال الدین اکبر پیدائش: 15 اکتوبر 1542ء – وفات: 27 اکتوبر 1605 مغلیہ سلطنت کا تیسرا حکمران اور مغل شہنشاہ تھا کہ جس نے 1556ء سے 1605ء تک حکومت کی۔ +*انسان کی شناخت بے حد دشوار ہوتی ہے اور ہر فرد اِس کا اہل نہیں ہے۔ +*مخلوقات میں جو کہ خیر و شر نیکی و بدی کو جداگانہ شمار کرتی ہے، یہ سب خدا کی عنایت کی نیرنگیاں ہیں، یہ دگرگوں و مختلف حالاتِ انسانی اعمال کے نتائج ہیں۔ +*امراض عقلی کے لیے کوئی معالجہ نیک نفس افراد سے ملاقات سے بہتر نہیں ہے۔ + + +[[زمرہ:1540ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1600ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:سترہویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +نورالدین جہانگیر (پیدائش: 31 اگست 1569ء – وفات: 28 اکتوبر 1627ء مغلیہ سلطنت کا چوتھا حکمران شہنشاہ تھا جس نے 1605ء سے 1627ء تک حکومت کی۔ + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:سترہویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1620ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1560ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1910ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:2010ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[شاہ جہاں پیدائش: 5 جنوری 1592ء – وفات: 22 جنوری 1666ء مغلیہ سلطنت کا پانچواں حکمران شہنشاہ تھا کہ جس نے 19 جنوری 1628ء سے 31 جولائی 1658ء تک حکومت کی۔ +*بادشاہوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ عدل و انصاف کے راستے سے منحرف ہوں۔ +**ملا محمد صالح کمبوہ عمل صالح، صفحہ 97۔ +*ملا محمد صالح کمبوہ عمل صالح]] + + +[[زمرہ:1660ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:سترہویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +کیمیائے سعادت امام غزالی کی شاہکار تصنیف ہے جو بارہویں صدی عیسوی کے اوائل عشروں میں لکھی گئی تھی۔ +**باب اول: معرفت الٰہی، صفحہ 59۔ +امام غزالی کیمیائے سعادت، مطبوعہ لاہور۔ 1999ء + + +*اقسامِ علم بے حد ہیں اور عمر انسانی نہایت ناقص۔ بنا بریں واضح ہوگیا کہ تمام علوم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض نہیں، مثلاً علم نجوم، علم حساب، علم صنائع و بدائع وغیرہ وغیرہ۔ مگر اِن علوم میں سے اِتنا حاصل کرنا لازمی ہے جس کی شریعتِ مطہرہ کے اندر ضرورت ہے، جیسے کہ علم نجوم۔ اِس کا اِتنا جاننا ضروری ہے کہ جس سے رات دن کے اوقات، صوم و صلوٰۃ کے وقت جانے جاسکیں۔ علم طب اِس قدر ضرور پڑھا جائے کہ جس سے انسان صحت کی حفاظت، عوارضاتِ مرض سے کرسکے۔ اِسی طرح ریاضی (علم حساب) اِس قدر پڑھنی ضروری ہے کہ جس سے علم فرائض آسانی سے سمجھ سکے۔ +**باب اول: اثباتِ علم، صفحہ 84/85۔ +*علماء سے لوازماتِ جہالت منفی ہوتے ہیں، اِس وجہ سے وہ علم کو ذریعہ ٔ جاہ و عزتِ دنیاء نہیں بناتے اور جو علم کے ذریعے جاہ طلبی کرتے اور عزت دنیاوی چاہتے ہیں، وہ لوازماتِ جہل میں ملوث رہ کر کوئی درجہ، درجاتِ اہل علم سے نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ علم بغیر کسی لطیفہ کے ذریعہ ٔ خدا رسیدہ نہیں ہوسکتا اور علم کی برکت سے تمام مقامات کا مشاہدہ ہوجاتا ہے۔ +**باب اول: اثباتِ علم، صفحہ 87۔ +*جس کو علم عرفان حاصل نہیں، اُس کا دِل ظلمتِ جہلی سے مردہ ہے اور ھسے شریعت حاصل نہیں، اُس کا دِل نادانی کی بیماری میں مریض ہے۔ کفار کا دِل مردہ ہے، اِسی وجہ سے وہ ذاتِ واجب تعالیٰ جل شانہ‘ کے عرفان سے جاہل ہیں اور اہل غفلت کا دِل بیمار ہے، اِس وجہ سے وہ فرمان ہائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے خبر ہیں۔ +**باب اول: اثباتِ علم، صفحہ 96۔ +*درویش جس قدر تنگدست ہو، اُس کے لیے مفید ہے تاکہ حقیقتِ توکل و شانِ رزاق کے راز کا اُس پر اِنکشاف ہو۔ اِس لیے کہ درویش کے لیے علائقِ دنیاوی جس قدر زیادہ ہوں گے، اُسی قدر اُس کو نقصان ہوگا۔ غرض یہ کہ درویش درحقیقت وہی ہے جو ضروریاتِ زندگی کی کسی چیز سے واسطہ نہ رکھے۔ مگر اُسی قدر جس قدر کہ اُس کی ضرورت قوتِ لا یموت کو کافی ہو۔ غرض یہ کہ محبوبانِ الٰہی کی زندگی کا محض الطافِ خفی اور اسرارِ بے نیازی کے ساتھ وابستہ رہنا ہی بہتر و اَفضل ہے۔ +**باب دؤم: اثباتِ فقر، صفحہ 103۔ +*صوفی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے محبوب سے وابستہ رکھے اور دنیائے غدار و بے وفا کے علل و اَسباب سے آزاد رہے کہ یہ دنیاء سرائے فجار و فساق ہے اور صوفی کا سرمایہ ٔ زِندگی محبتِ محبوبِ حقیقی ہے اور متاعِ دنیاء مناع راہِ رضا و صبر ہے۔ +**باب دؤم: اثباتِ فقر، صفحہ 103 +*اگر کسی کو اللہ مال دے اور وہ اُس کی محافظت میں اپنی زِندگی بسر کرے تو وہ بھی غنی ہے اور اگر منجانب اللہ کسی کو مال ملے اور وہ اُس کے صرف میں اپنی قوت صرف کرے تو وہ بھی غنی ہے۔ لیکن یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ جن کا تعلق مِلک میں تصرف کرنے سے ہے اور یہ شانِ فقر کے خلاف ہے ، درحقیقت فقر میں ترکِ محافظت اور ترکِ خیالِ اسراف لازمی ہے۔ +**باب سوم: فقر و غنا، صفحہ 110۔ +*محبوبِ حقیقی کا عزیز بندہ وہی ہے جو بارِ بلاء محبوب بطیبِ خاطر اُٹھائے۔ اِس لیے کہ وہ بلاء جواز جانبِ محبوب آئے، وہ عزت خالص ہے اور نعماءِ دنیاء و بلاء دنیاء درحقیقت ذِلتِ خالص ہیں۔ اِس لیے عزت اُس بندے کو ملتی ہے جو سچائی کے ساتھ اپنے محبوب کے حضور حاضر ہو اور ذِلت اُسے جو مشاہدۂ حق سے اپنے آپ کو غائب کرے۔ +**باب سوم: فقر و غنا، صفحہ 113۔ +*درجہ ٔ تصوف میں جو لوگ ہیں، اُن کی تین قسم ہیں ایک صوفی، دوسرا متصوف، تیسرا مستصوف۔ صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے فانی ہوکر باقی بحق ہوگیا ہو۔ قیدِ مزاج و طبائع سے آزاد ہوکر حقیقتِ حقائق کے ساتھ مل گیا۔ متصوف وہ ہے جو اِس درجہ کے حاصل کرنے کی آرزو میں تکلف و مشقت و مجاہدہ کر رہا ہے اور صوفی بننے کا خواہشمند ہےاور صوفیائے کرام کے رسم و رواج کی پیروی میں اپنی اِصلاح کرتا ہے اور مستصوف وہ ہے جو مال و منال دنیاوی حاصل کرنے کی غرض سے صوفیاء کرام کے اعمال و اَفعال و حرکات کی نقل کرتا ہے۔ صوفیاء کے اَقوال کہتا پھرتا ہے مگر خود محض بے خبر ہے اور کچھ نہیں جانتا۔ +*حقیقتِ تصوف یہ ہے کہ بندہ کی صفت کو فنا کردے اور صفاتِ عبد کا فنا ہونا صفتِ حقہ باقی رہنے کو ہے اور یہی صفتِ حق ہے اور رسم تصوف دواماً بندہ سے مجاہدات و ریاضات کا تقاضا کرتی ہے اور فنائے صفت استقامت و استمرار اُس مجاہدہ پر رکھنا یہ بندہ کی شان ہے اور اِس مضمون کو بالفاظِ دِیگر یوں بھی اداء کرسکتے ہیں کہ حقیقتِ توحید میں بندہ کو کسی صفت سے متصف کرنا صحیح نہیں۔ اِس لیے کہ صفاتِ عبدِ حق عبد میں دوامی نہیں اور بندہ کی صفت کی حقیقت محض رسم ہے۔ اِس سے زیادہ کچھ نہیں اور واضح طور پر روشن ہے کہ صفتِ عبد باقی نہیں رہتی بلکہ بندہ میں کسی صفت کا آنا، یہ ایک فعل ہے اُس قدیم الصفات کا۔ اور ذاتِ قدیم الصفات کے جتنے افعال ہیں، وہ سب اُس کی مِلک اور تح�� قدرت ہیں۔ تو درحقیقت جو صفت بندہ میں ہوگی، وہ صفت واجب تعالیٰ شانہ‘ ماننی پڑے گی۔ +*تصوف اگر رسمی چیز ہوتی تو مجاہدہ و ریاضت سے حاصل ہوجاتا اور اگر یہ علم ہوتا تو محض تعلیم و تعلم سے حاصل ہوجاتا۔ تو ثابت ہوا کہ تصوف ایک خصلتِ خاص کا نام ہے اور جب تک یہ خصلت خود اپنے اندر انسان پیدا نہ کرے تو اُس وقت تک وہ (یعنی تصوف) حاصل نہیں ہوتا۔ +[[زمرہ:گیارہویں صدی عیسوی کی کتابیں]] + + +داتا گنج بخش یا علی بن عثمان الہجویری غزنوی پیدائش: نومبر 1009ء — وفات: 25 ستمبر 1072ء) لاہور کے عظیم المرتبت صوفی، محقق و عالم تھے۔آپ کی وجہ شہرت کشف المحجوب ہے۔ +*صوفی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے محبوب سے وابستہ رکھے اور دنیائے غدار و بے وفا کے علل و اَسباب سے آزاد رہے کہ یہ دنیاء سرائے فجار و فساق ہے اور صوفی کا سرمایہ ٔ زِندگی محبتِ محبوبِ حقیقی ہے اور متاعِ دنیاء مناع راہِ رضا و صبر ہے۔ +کشف المحجوب باب دؤم، اثباتِ فقر، صفحہ 103۔ +*اقسامِ علم بے حد ہیں اور عمر انسانی نہایت ناقص۔ بنا بریں واضح ہوگیا کہ تمام علوم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض نہیں، مثلاً علم نجوم، علم حساب، علم صنائع و بدائع وغیرہ وغیرہ۔ مگر اِن علوم میں سے اِتنا حاصل کرنا لازمی ہے جس کی شریعتِ مطہرہ کے اندر ضرورت ہے، جیسے کہ علم نجوم۔ اِس کا اِتنا جاننا ضروری ہے کہ جس سے رات دن کے اوقات، صوم و صلوٰۃ کے وقت جانے جاسکیں۔ علم طب اِس قدر ضرور پڑھا جائے کہ جس سے انسان صحت کی حفاظت، عوارضاتِ مرض سے کرسکے۔ اِسی طرح ریاضی (علم حساب) اِس قدر پڑھنی ضروری ہے کہ جس سے علم فرائض آسانی سے سمجھ سکے۔ +کشف المحجوب باب اول: اثباتِ علم، صفحہ 84/85۔ +*علماء سے لوازماتِ جہالت منفی ہوتے ہیں، اِس وجہ سے وہ علم کو ذریعہ ٔ جاہ و عزتِ دنیاء نہیں بناتے اور جو علم کے ذریعے جاہ طلبی کرتے اور عزت دنیاوی چاہتے ہیں، وہ لوازماتِ جہل میں ملوث رہ کر کوئی درجہ، درجاتِ اہل علم سے نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ علم بغیر کسی لطیفہ کے ذریعہ ٔ خدا رسیدہ نہیں ہوسکتا اور علم کی برکت سے تمام مقامات کا مشاہدہ ہوجاتا ہے۔ +کشف المحجوب باب اول: اثباتِ علم، صفحہ 87۔ +*جس کو علم عرفان حاصل نہیں، اُس کا دِل ظلمتِ جہلی سے مردہ ہے اور ھسے شریعت حاصل نہیں، اُس کا دِل نادانی کی بیماری میں مریض ہے۔ کفار کا دِل مردہ ہے، اِسی وجہ سے وہ ذاتِ واجب تعالیٰ جل شانہ‘ کے عرفان سے جاہل ہیں اور اہل غفلت کا دِل بیمار ہے، اِس وجہ سے وہ فرمان ہائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے خبر ہیں۔ +کشف المحجوب باب اول: اثباتِ علم، صفحہ 96۔ +دوسرے ماخذین سے اقتباسات و اقوال +*محبت کا اظہار الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ اِس لئے کہ بیان‘ بیان کرنے کی صفت ہے اور محبت محبوب کی صفت ہے۔ +*کرامت ولی کی صداقت کی علامت ہوتی ہے اور اُس کا ظہور جھوٹے سے جائز نہیں۔ +*ایمان و معرفت کی انتہا عشق و محبت ہے اور محبت کی علامت بندگی ہے۔ +*راہِ حق کا پہلا قدم توبہ ہے۔ +*انسانوں کا کوئی گروہ ایسا نہیں، جسے غیب میں کوئی ایسا کام نہ پڑا ہو جس کی محبت سے اپنے دل میں فرحت یا زخم نہ رکھتا ہو۔ +*کھانے کے ادب کی شرط یہ ہے کہ تنہا نہ کھائیں اور جو کھائیں، ایک دوسرے پر ایثار کریں۔ +*جو چیز دولت مند کی خراب ہوجائے، اُس کا عوض ہوسکتا ہے لیکن جو چیز درویش کی بگڑ جائے تو اُس کا کوئی عوض نہیں ہوتا۔ +دل پر ایک حجاب ہے جو ایمان کے سوا کسی اور چیز سے دور نہیں کیا جاسکتا اور وہ کفر اور گمراہی کا حجاب ہے۔ +*مسلسل عبادت سے مقامِ کشف و مشا��دہ ملتا ہے۔ +*رضا کی دو قسمیں ہیں: اول‘ خدا کا بندے سے راضی ہونا، دؤم‘ بندے کا خدا سے راضی ہونا۔ +*دین دار لوگوں کو خواہ وہ کیسے ہی غریب و نادار ہوں، چشم حقارت سے نہ دیکھو کہ اُس سے فی الجملہ خدا تعالیٰ کی تحقیر لازم ہوتی ہے۔ +*صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسرے ہاتھ میں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔ +*غافل امراء، کاہل فقیر اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز کرنا عبادت ہے۔ +*سارے ملک کا بگاڑ اِن تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے۔ حکمران جب بے علم ہوں، عالم بے عمل ہوں اور فقیر جب بے توکل ہوں۔ +*درویش کو لازم ہے کہ وہ بادشاہ کی ملاقات کو سانپ اور اژدھے کی ملاقات کے برابر سمجھے۔ +*کلام شراب کی طرح ہے، جو عقل کو مست کردیتی ہے اور آدمی جب اُس کے پینے میں پڑ جاتا ہے تو اُس سے باہر نہیں نکل سکتا اور اپنے آپ کو اُس سے روک نہیں سکتا۔ +*شریعت اور طریقت میں رقص کی کوئی سند نہیں، کیونکہ وہ عقل مندوں کے اتفاق سے جب اچھی طرح کیا جائے تو لہو ہوتا ہے اور جب بے ہُودہ طور پر کیا جائے تو لغو ہوتا ہے۔ +*طالبِ حق کو چاہیئے کہ چلتے وقت یہ خیال رکھے کہ اپنا قدم زمین پر کس لئے رکھتا ہے۔ خواہش نفسانی کے لئے یا اللہ تعالیٰ کے لئے؟ اگر وہ خواہش نفسانی کے لئے زمین پر قدم نہیں رکھتا ہے، تو اُس میں اور بھی کوشش کرے تاکہ اُسے مزید خوشنودی حاصل ہوجائے۔ +**تاریخ ساز اقوال، صفحہ 77۔ + + +==دیوان شمس تبریزی سے شعری اقتباسات== +ترجمہ عشقِ الٰہی میں) کیفیات و اِرادت روحانی کے باوصف میرا بیابان ناپیدا کنار ہے (یعنی کہ عشقِ الٰہی کی کیفیات و اِرادتِ روحانی کے باوصف میرے دِل و جان کو قرار نہیں ہے)۔ +اگر آسمان گردش کرنے والا اپنے کام سے کسی وقت بیکار ہوجائے اور جس کے سبب تمام نظام ارضی و فلکی درہم برہم ہوجائے، پھر بھی خدا کے عاشقوں کی کائنات سرگرم کار رہے گی (یعنی عشاقِ حق ہر حالت میں باخدا رہتے ہیں اور ہنگامہ عشقِ حقیقی کا کبھی سرد نہیں پڑتا)۔ +**معارف شمس تبریز، صفحہ 96 ۔ + + +[[زمرہ:1240ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1240ء کی دہائی کی وفیات]] + + +مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّـهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ وَكَانَ ٱللَّـهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا +محمد تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ +*میری اور دوسرے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی آدمی نے مکان بنایا، اور اُس کے سجانے اور سنوارنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ مگر کسی گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اُس کے گرد پِھرتے اور تعجب سے کہتے: بھلا یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟۔ فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں، میں سارے انبیاء سے آخری ہوں۔ +صحیح بخاری کتاب المناقب، حدیث 3535، صفحہ 288۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل، حدیث 5961، صفحہ 1084۔ سنن ترمذی کتاب الآداب، حدیث 2862، صفحہ 1939۔ + + +امام غزالی یا ابوحامد محمد بن محمد الغزالی پیدائش: 1058ء – وفات 19 دسمبر 1111ء) گیارہویں و بارہویں صدی عیسوی کے مسلمان فلسفی، متکلم، محدث، فقیہ اور عالم تھے۔ +*ہر چیز کو اُس کی ضد سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ +*ہر کام کی ابتدا آنکھ سے ہی ہوتی ہے۔ +*آدمی کی نیک بختی کا راز معرفتِ الٰہی میں مضمر ہے۔ +*مال کی محبت دور اِسی طرح ہوسکتی ہے کہ اُسے اپنے سے علیحدہ کردیا جائے۔ +*بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی چیز پر قادر ہونے کے باعث کوئی شخص واقعی اپنے آپ کو اُس سے محفوظ رکھ سکے۔ +*عذاب کے اسباب ہر شخص خود اِسی دنیا سے اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور وہ یہیں پر اُس کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ +*ایثار کا درجہ سخاوت سے بھی بلند تر ہے، کیونکہ سخی وہ ہے جو اُس چیز کو دوسرے کے حوالے کردیتا ہے جس کی اُسے خود ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن صاحبِ اِیثار کی شان یہ ہے کہ اُس چیز کو دوسرے کے حوالے کردیتا ہے جس کی اُسے خود ضرورت ہوتی ہے۔ +*دنیا کی بے شمار شاخیں ہیں اور اِنہی شاخوں میں ایک شاخ مال و نعمت کے نام سے موسوم ہے۔ اِسی طرح ایک اور شاخ جاہ و حشمت کہلاتی ہے اور ایسی بہت سی دوسری شاخیں ہیں، لیکن فتنہ ٔ مال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔ +*جب انسان گناہ کا اِرتکاب کرتا ہے تو اُس سے اُس کی پاکیزہ اور معصوم فطرت متاثر ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ گناہوں سے اُس کی نفرت، اُن سے اُنس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن جب کوئی شخص بڑے بڑے گناہوں سے بچنے کا پختہ اِرادہ کرلیتا ہے اور ساری آلائشوں بلکہ اِشتعال انگیزیوں کے باوجود اپنا دامن بچانے کی سعی کرتا ہے تو اِس کشمکش سے اُس کے دِل کے آئینہ سے زنگار دور ہونے لگتا ہے۔ +*علم کی ایک ہی قسم نہیں ہے اور نہ ہی ہر قسم ہر ایک کے حق میں یکساں ہے، بلکہ احوال و وَاقعات کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی جنس علم کی حاجت ہر کسی کو بہرحال ہوتی ہے۔ +*دنیا میں دوستی کو برباد کرنے کے لیے اِس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوتی کہ دوست کے ساتھ بات بات پر اِختلاف کا اِظہار کرتے رہیں اور مناظرہ کرنے لگیں۔ +*تمام آفتیں آنکھ سے ہی پیدا ہوتی ہیں اور اُن کا ظہور گھر کے اندر سے نہیں ہوتا بلکہ یہی در و بام، کھڑکیاں، دریچے اور روزن اِس کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ +*جس شخص کو دنیا کی تجارت اپنے اندر یوں مستغرق کرلے کہ اُسے آخرت کی تجارت یاد ہی نہ رہے، تو وہ یقیناً بڑا بدبخت ہے۔ +*کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کی خاطر دوستی یا بھائی چارہ قائم کرنا بہت بڑی عبادتوں اور مقاماتِ بلند میں شامل ہے جو راہِ دِین میں میسر آسکتے ہیں۔ +*دنیا میں دوستی کو برباد کرنے کے لیے اِس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوتی کہ دوست کے ساتھ بات بات پر اِختلاف کا اِظہار کرتے رہیں اور مناظرہ کرنے لگیں۔ +==امام غزالی کے متعلق شخصیات کی آراء== +*غزالی سے بغض رکھنے والا یا تو حاسد ہوگا یا زندیق۔ +**امام تاج الدین سبکی]]، تاریخ المشاہیر، صفحہ 85۔ +*قاضی سلیمان منصورپوری: تاریخ المشاہیر، مطبوعہ لاہور۔ + + +نظام الدین اولیاء پیدائش: 9 اکتوبر 1238ء — وفات: 3 اپریل 1325ء) ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے جلیل القدر بزرگ اور صوفی تھے۔ +*برا کہنا برا ہے مگر برا چاہنا اِس سے بدتر ہے۔ +*جس کی طبع لطیف ہو، وہ جلد ہی برہم ہوجاتا ہے۔ +*اگر کسی نے تیری اِیذاء کے لیے کانٹے بکھیرے ہیں تو تُو اُنہیں راستے سے ہٹا دے۔ اگر تو بھی اُس کے جواب میں راہ میں کانٹے ہی رکھے گا تو پھر ساری دنیا میں کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ +*جس قدر غم و اندوہ مجھے رہتا ہے، اِس جہان میں کسی کو نہ ہوگا۔ میرے پاس اِتنی مخلوق آتی ہے۔ ہر شخص اپنا دُکھڑا سناتا ہے، اُس کا بوجھ میری جان و دِل پر پڑتا ہے۔ وہ عجب دِل ہے کہ مسلمان بھائی کا غم سنے اور اُس پر اُس کا اثر نہ ہو۔ +*رائے محمد کمال: اقوالِ زریں کا انسائیکلوپیڈیا ۔ مطبوعہ لاہور + + +[[زمرہ:عراق کی شخصیات بلحاظ رہائش]] + + +[[زمرہ:1040ء کی دہائی کی وفیات]] + + +شیخ عبدالقادر جیلانی یا محی الدین ابومحمد بن ابوالصالح عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی پیدائش 17 مارچ 1078ء – وفات: 21 فروری 1166ء) فقہ حنبلی کے جلیل المرتبت عالم، محدث، فقیہ، محقق و مصنف اور سلسلہ قادریہ کے مؤسس تھے۔ +*فقیر صابر، شاکر غنی سے بہتر ہے اور فقیر شاکر دونوں سے بہتر۔ فقیر صابر و شاکر سب سے افضل ہے۔ +*مطالعہ حق اور استصغارِ نفس کے بعد تجھے خلقِ خدا کے جور و جفا کا احساس نہ ہو، تو اُسے حُسنِ خلق کہتے ہیں۔ +*ذاکر مُحِب ہے اور ذِکر الٰہی پر دِل لگانے والا محبوب، دنیا تیرے لیے حجاب ہے اور تیرا نفس اللہ کے لیے حجاب ہے۔ +*اِتباع کرنا سیکھو۔ بدعت کے کام مت نکالو۔ اِطاعت کیا کرو، الگ راہ اِختیار نہ کرو۔ گناہوں سے طہارت حاصل کرو، اِن میں آلودہ نہ ہوا کرو۔ اپنے مالک کے آستانے پر ڈٹے رہو اور صبر رکھو۔ بے صبری سے بچو اور ثابت قدم رہو۔ تفرقہ سے بچو اور رحمتِ الٰہی سے مایوس نہ ہو۔ ذِکر الٰہی کے لیے اکٹھے ہوجایا کرو اور فرقہ نہ بنو۔ +*قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری تاریخ المشاہیر، مطبوعہ لاہور۔ + + +*محمد حامد نواز شیخ مشاعرہ 1989ء، صفحہ 45/46۔ مطبوعہ ملتان، 1990ء +[[زمرہ:تحریک حقوق نسواں کی پاکستانی شخصیات]] + + +[[زمرہ:1950ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1990ء کی دہائی کی وفیات]] + + +حکمران نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے دائرے سے بھی باہر ہوتے ہیں، اور جبر و تشدد کا راستہ ہی اُن کی سیاست کی مضبوطی کی بنیاد ہوتا ہے۔ + + +[[زمرہ:1520ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1460ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +ن م راشد یا نذر محمد راشد پیدائش: یکم اگست 1910ء – وفات: 9 اکتوبر 1975ء) اردو زبان کے جدید شعراء میں سے تھے۔ وہ اردو شاعری میں آزاد شاعری کی صنف کے بانی خیال کیے جاتے ہیں۔ +**شب خوں، اے سمندر سے اقتباس + + +[[زمرہ:1970ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1970ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1750ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1790ء کی دہائی کی وفیات]] + + +w:عاصی کرنالی 2 جنوری 1927ء — وفات: 20 جنوری 2011ء اردو کے مشہور نعت گو اور غزل گو شاعر تھے۔ + + +ڈاکٹر انور سجاد (پیدائش: 27 مئی، 1935ء) پاکستان کے مشہور اردو افسانہ نگار، ناول نگار، اداکار اور ڈراما نویس تھے جو اپنے افسانوں میں علامت نگاری کی وجہ سے مشہور و معروف تھے +* ہاں تو بچہ جمورا، بول، شاباش۔ پیٹ کیا مانگتا ہے؟ تخت نہیں مانگتا، تاج نہیں مانگتا، تو پھر بول کیا مانگتا ہے؟ ہَیں ؟ روٹی ؟ او تیرے پہ خدا کی مار۔ یہ لفظ واپس لے۔ نہیں تو کافر ہو جائیگا، غدار ہو جائیگا، سنگسار ہو جائیگا۔ صاحبان، مہربان جمورے کو معاف کردیں۔ بچہ ہے بڑا ہو جائیگا تو سمجھ جائیگا کہ روٹی کا لفظ زبان پر نہیں لانا چاہئیے بلکہ پیٹ میں ہونا چاہئیے۔ +انسان کا خون کتنا بے وقعت ہے کہ اس کے عوض کوئی بینک گارنٹی نہیں دیتا +* نئے انسان کی تخلیق کیلئے جدوجہد ہی زندگی کا جواز ہے۔ فرد کی حتمی آزادی کیلئے میرے واسطے زندگی اور موت ایک دوسرے کا نعم البدل بن گئے ہیں +* یہ جذبات سے عاری خود ساختہ مدبروں کا قول ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئیے۔ کیونکہ وہ خود اس دولت سے محروم ہوتے ہیں +* گٹر کے گول تاریک کنارے ایک طرف نیلا پڑتا مرد قے کرتا نظر آتا ہے۔ جسے ایک بڑھیا ماتھے سے تھامے ہے۔ اس مرد کی آنکھیں پَھٹی پَھٹی ہیں نہ دیکھنے والی۔ جیسے میری بیٹی کے گُڈے ��ی +* ان کی بھوک کبھی نہ مٹنے والی ہوتی ہے۔ ان کا طریقہ واردات بدلتا رہتا ہے۔ کبھی پیار کبھی غصہ]]، کبھی دھونس دھاندلی، اور کبھی دوستی کبھی جنگ۔ اس ہاتھ سے آپ کو دیتے ہیں۔ تو دوسرے ہاتھ سے اصل زر بمعہ سود در سود وصول کر لیتے ہیں +* وہ اپنے پھیپھڑوں کی قوت سے ہیر گاتا ہے۔اس کی آواز سناٹے کو چیر کر مجھ تک پہنچتی ہے جیسے دریا کے مخالف بہاؤ میں مچھلی۔ اسے جیل میں کوٹھی لگے چند دن ہوئے ہیں اور یہ تاریخ کا پہلا قیدی ہے جسے کچھ دن بعد سرعام پھانسی دی جانی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے یا نہیں مگر بھینگا ضرور ہوتا ہے +* کہو جب تم ریستوران کھانا کھانے جاتے ہو۔ اور بَیرا تمہارے سامنے مینو لا کے رکھتا ہے تو تم اس کے حوالے سے کھانا منگواتے ہو یا مینو کے محض لفظ ہی کھا جاتے ہو؟ تو پھر مجہے کیوں مجبور کرتے ہو کہ مَیں آسمانی صحیفوں اور زمینی کتابوں کے لفظ ہی کھاؤں؟ + + +[[زمرہ:1030ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[w:بایزید بسطامی 804ء – 874ء) مسلم صوفی بزرگ تھے جو ایران کے شہر بسطام سے تعلق رکھتے تھے۔ +*اگر تم اپنی عبادت اور ثواب کا کل انتظار کرو تو وہ عبادت اور خدمت نہیں، کیونکہ سچے کا اَجر حال ہی میں حاصل ہے۔ +*خوش خلقی اور خاموشی ہلکی ہیں پشت پر اور بھاری ہیں میزان پر۔ +*تواضع یہ ہے کہ تو درویشوں سے تواضع کرے اور امیروں سے تکبر۔ +*توکل یہ ہے کہ تو زندگانی کو ایک دن کے لئے جانے اور کل کی فکر نہ کرے۔ +*نیک بخت وہ ہے کہ نیکی کرے اور ڈرے اور بدبخت وہ ہے کہ وہ بدی کرے اور مقبولیت کی اُمید کرے۔ +*نفس ایک ایسی چیز ہے کہ جو ہمیشہ باطل کی طرف رخ کرتی ہے۔ +*ملک ایک کھیتی ہے اور عدل اُس کا پاسبان، پاسبان نہ ہو تو کھیتی اُجڑ جاتی ہے۔ +*نیکوں کی صحبت کارِ نیک سے بہتر ہے اور بدوں کی صحبت کارِ بد سے بدتر ہے۔ +*آسائش کا دروازہ اپنے اُوپر بند کرنا اور محنت کے زانوؤں کے نیچے سر رکھنا تصوف ہے۔ +*معرفت الٰہی کے ایک ذرے سے عارف کے قلب میں جو لذت اور سرشاری پیدا ہوتی ہے، اُس کے مقابلے میں بہشت کے ایک لاکھ محل ہیچ ہیں۔ +*اقوالِ اولیاء کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ 37 تا 43۔ +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +w:ابوسعید ابوالخیر پیدائش 7 دسمبر 967ء — وفات: 12 جنوری 1049ء) دسویں صدی عیسوی کے فارسی النسل مسلمان صوفی شاعر تھے۔ +**رباعیات ابوسعید ابوالخیر، صفحہ 13۔ +**رباعیات ابوسعید ابوالخیر، صفحہ 26۔ +[[زمرہ:1040ء کی دہائی کی وفیات]] + + +ذوالنون مصری پیدائش: 796ء – وفات: 859) نویں صدی عیسوی کے مسلم صوفی تھے۔ +*عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے جبکہ خواص کی توبہ غفلت سے ہوتی ہے۔ +*جب معدے میں کھانا بھرا ہو، تو اُس میں حکمت قرار نہیں پکڑتی۔ +*کلام کا دارومدار چار چیزوں پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے محبت، قرآن کی اِتباع، قلیل دنیا سے نفرت، حالت کی تبدیلی کا ڈر۔ +*اللہ تعالیٰ کو دوست رکھنے والے کی علامات یہ ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، افعال، اَوامر اور سنن کی اتباع کرنا۔ +*کمینے کی نشانی یہ ہے کہ جو اللہ تک پہنچنے کا طریقہ نہ جانتا ہو اور نہ ہی جاننے کی کوشش کرتا ہو۔ +**ابوالقاسم القشیری الرسالۃ القشیریہ]]، صفحہ 59/60۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +==تصوف کے متعلق اقوال و اقتباسات== +*تصوف دس معانی پر مشتمل نام ہے: پہلا یہ کہ دنیا کی ہر شے میں کثرت کی بجائے قلت پر اکتفا کرے۔ دوسرا یہ کہ اسباب پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ عزوجل پر قلب کا اعتماد رکھے�� تیسرا یہ کہ نفلی طاعات کے ساتھ فرض پورا کرنے میں رغبت رکھے۔ چوتھا یہ کہ دنیا چھوٹ جانے پر صبر کرے اور دستِ سوال اور زبانِ شکوہ دراز نہ کرے۔ پانچواں یہ کہ قدرت کے باوجود کسی بھی شے کے حصول کے وقت حلال و حرام کی تمیز رکھے۔ چھٹا یہ کہ تمام مشغولیات کے مقابلے میں اللہ کے ساتھ شغل رکھنے کو ترجیح دے۔ ساتوں یہ کہ تمام اذکار کے مقابلے میں ذِکر خفی کو فوقیت دے۔ آٹھواں یہ کہ وساوس آنے کے باوجود اخلاص کو ثابت اور پختہ رکھے۔ نواں یہ کہ شک کی وجہ سے یقین کو متزلزل نہ ہونے دے۔ دسواں یہ کہ اضطراب اور وحشت کو چھوڑ کر اللہ عزوجل کے ساتھ اُنس اور سکون حاصل کرے۔ پس جو شخص اِن صفات کا حامل ہو، وہ اُس نام کا یعنی صوفی کہلانے کا مستحق ہے، ورنہ وہ کاذب ہے۔ +حلیۃ الاولیا]]، جلد اول، صفحہ 34۔ +حلیۃ الاولیا]]، جلد اول، صفحہ 35۔ +*نفس کو لوازمِ عبودیت کی مشق کرانا ہی تصوف ہے۔ +*تصوف گفتگو نہیں (یعنی قیل و قال نہیں ہے)، یہ بھوک ہے اور عمدہ چیزوں کا ترک ہے۔ +**تصوف اور صوفیاء، صفحہ 41۔ +*صوفی وہ ہے جب بولے تو اُس کی زبان حقائق سے پردہ اُٹھائے اور اگر سکوت اختیار کرے تو اُس کے اعضاء و جوارح دنیا سے ترکِ تعلقات کی گواہی دیں۔ +حلیۃ الاولیا]]، جلد اول، صفحہ 35۔ +حلیۃ الاولیا]]، جلد اول، صفحہ 35۔ +*تصوف ایسے اخلاقِ کریمانہ کا نام ہے جو اپنے حامل شخص کو مُکَرَّم قوم سے ملا دیں۔ +*علامہ محمد افضل قادری: تصوف اور صوفیاء، مطبوعہ لاہور، 2012ء + + +*’’ جو لوگ مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش نہیں آتے، اُن کے قلوب میں مخلوق کی دوستی کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور جو لوگ اپنی زِندگی کو اُمورِ خداوندی میں صَرف نہیں کرتے، اُن کی آسانی کے ساتھ پُل صراط سے گذر نہیں ہوسکتی۔‘‘ +**تذکرہ شیخ ابوالحسن خرقانی، صفحہ 102۔ +دنیا میں اِس سے زیادہ سخت کوئی چیز نہیں کہ تمہاری کسی کے ساتھ دشمنی ہو۔ +*بے کاری اور سستی انسان کو ہلاک کردیتی ہے۔ +نماز اور روزہ بڑی چیزیں ہیں مگر حسد اور غرور دل سے دور کرنا ان سے بہتر ہے۔ +علم سے زیادہ مفید یہ ہے کہ تم اُس پر عمل کرو اور سب سے اچھا علم وہ ہے جو تم پر فرض ہے۔ +*اعلانیہ گناہ پوشیدہ کی نسبت زیادہ سخت اور اظہارِ گناہ دوسرا گناہ ہے۔ +اللہ تعالیٰ کی دوستی اس شخص کے دل میں نہیں ہوتی جس کو خلق پر شفقت نہیں۔ +*ایک لمحہ کے واسطے اللہ تعالیٰ کا ہَو رہنا خلائق زمین و آسمان کے اعمال سے بہتر ہے۔ +*صدق یہ ہے کہ دل باتیں کرے یعنی وہ بات کہے جو دل میں ہو۔ +عالم وہ ہے جسے اپنا علم ہو، نہ کہ وہ جو اور چیزوں کا علم رکھتا ہو۔ +*سب سے بہتر وہ دل ہے جو بدی اور شر سے خالی ہو۔ +*سب سے بہترین شے وہ دل ہے جو خدا کی یاد سے معمور ہو۔ +*صدق سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ دل میں ہو، وہی زبان پر جاری ہو۔ +*جس دل میں مخلوق نہ ہو وہ دلوں میں سب سے زیادہ روشن دل ہے۔ +*جس کام میں مخلوق کا اندیشہ نہ ہو، وہ کاموں میں سب سے اچھا کام ہے۔ +*جو نعمت بصد کوشش حاصل ہو، وہ نعمتوں میں سب سے زیادہ حلال ہے۔ +*ذِکر الٰہی سے دل کی کھیتی سرسبز رہتی ہے۔ +*لالچ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے اور ذلت و خواری کے سمندر میں دھکیل کر ہی سانس لیتی ہے۔ +* جب تک تم دنیا کے طالب رہو گے، وہ تم پر غالب رہے گی۔ جب اِس سے منہ پھیر لو گے، وہ تمہارے ماتحت ہوجائے گی۔ + + +[[زمرہ:1030ء کی دہائی کی وفیات]] + + +w:سفیان ثوری پیدائش: 716ء — وفات: 778ء) آٹھویں صدی عیسوی کے مسلمان محدث اور فقیہ تھے۔ +*دنیا کو جسم کی خاطر اختیار کرو اور آخرت کو دل کے لئے۔ +*لو��وں سے میل جول اور تعارف کم رکھو، میرا غالب گمان یہی ہے کہ تجھے جو تکلیف اور ایذا پہنچی ہوگی وہ کسی واقف کار ہی سے پہنچی ہوگی۔ +*میرا جو عمل نیک ظاہر ہوجائے، میں اُس عمل کو شمار نہیں کرتا۔کیونکہ جب لوگ دیکھ لیں تو ہمارے جیسوں سے اخلاص نہیں ہوسکتا۔ +*تمہارے لئے بہترین دولت وہ ہے جو تمہارے قبضے میں نہیں ہے اور قبضہ میں آئی ہوئی بہترین وہ ہے جو تمہارے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ +*جو ظالم کو خندہ پیشانی سے ملے یا مجلس میں جگہ دے یا اُس کی دِی ہوئی چیز لے لے تو اُس نے اسلام کی زنجیر توڑ ڈالی اور ظالموں کے مددگار میں شمار ہوا۔ +**تاریخ ساز اقوال، صفحہ 72۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:عراق کی شخصیات بلحاظ مقام]] + + +[[زمرہ:عراق کی شخصیات بلحاظ رہائش]] + + +*جو لوگ عقلمند ہوتے ہیں وہ مذاق کی بات میں سے بھی نصیحت حاصل کرلیتے ہیں۔ +*گندے ماحول میں کسی بھلے کا پیدا ہونا ایک تعجب خیز بات ہے لیکن گندے ماحول میں پیدا شدہ نیک انسان راسخ العقیدہ ہوتا ہے۔ +*یہ عجیب تماشہ ہے کہ چراغِ زندگی غم سے بھی بجھتا ہے اور خوشی سے بھی۔ +*عہدوں کی وفا کرنا عقل والوں کا کام ہوتا ہے۔ +*چوہا شیر کی دھاڑ کو نہیں سمجھتا، اچھی نسل کے جانور سمجھتے ہیں۔ +*یاد رکھو! جہالت کے اقرار کی ذلت جہالت کے فخر سے بہت بہتر ہے۔ +*جب سننے والے میں اہلیت نہ ہو تو خاموشی بہتر ہے۔ اسرار و حکم نا اہلوں کو نہیں سنائے جاتے۔ +*زمین کی اچھائی یا برائی کا معیار اُس کی پیداوار ہے۔ خیالات دل کی زمین کی پیداوار ہیں، اِن سے دل کی اچھائی برائی معلوم ہوجائے گی۔ +*نیک لوگوں کے ساتھ مکر کرنا آسان نہیں ہوتا، جو لوگ آخرت کی دولت کے مالک ہیں، اُن کی عقلوں پر کوئی جادو، مکاری اور فریب پردہ نہیں ڈال سکتا۔ + + +حاتم الاصم یا حاتم اصم وفات: 851ء) تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی) میں بلخ کے مشہور عالم تھے۔ +*شائستہ انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے، محبت کرے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے اُمید نہ رکھے۔ +**مقدمہ ادب المفرد، صفحہ 63۔ + + +[[زمرہ:850ء کی دہائی کی وفیات]] + + +شقیق بلخی وفات: 810ء) نویں صدی عیسوی کے مسلمان زاہد اور صوفی تھے۔ +*انسان کی ہلاکت تین چیزوں میں ہے توبہ کی اُمید میں گناہ کرے، زِندگی کی اُمید میں توبہ نہ کرے، رحمت کی اُمید میں توبہ سے دور رہے۔ +**تصوف، جدید معاشرے میں (مجموعہ مقالات)، صفحہ 139۔ +*وہ اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے جو ضربِ خداوندی پر شکر نہ کرے۔ +**سیرت رابعہ بصری، صفحہ 83۔ +*تصوف، جدید معاشرے میں (مجموعہ مقالات)، مطبوعہ لاہور، 2012ء + + +[[زمرہ:افغانستان کی شخصیات بلحاظ مقام]] + + +*تصوف دس معانی پر مشتمل نام ہے: پہلا یہ کہ دنیا کی ہر شے میں کثرت کی بجائے قلت پر اکتفا کرے۔ دوسرا یہ کہ اسباب پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ عزوجل پر قلب کا اعتماد رکھے۔ تیسرا یہ کہ نفلی طاعات کے ساتھ فرض پورا کرنے میں رغبت رکھے۔ چوتھا یہ کہ دنیا چھوٹ جانے پر صبر کرے اور دستِ سوال اور زبانِ شکوہ دراز نہ کرے۔ پانچواں یہ کہ قدرت کے باوجود کسی بھی شے کے حصول کے وقت حلال و حرام کی تمیز رکھے۔ چھٹا یہ کہ تمام مشغولیات کے مقابلے میں اللہ کے ساتھ شغل رکھنے کو ترجیح دے۔ ساتوں یہ کہ تمام اذکار کے مقابلے میں ذِکر خفی کو فوقیت دے۔ آٹھواں یہ کہ وساوس آنے کے باوجود اخلاص کو ثابت اور پختہ رکھے۔ نواں یہ کہ شک کی وجہ سے یقین کو متزلزل نہ ہونے دے۔ دسواں یہ کہ اضطراب اور وحشت کو چھوڑ کر اللہ عزوجل کے ساتھ اُنس اور سکون حاصل کرے۔ پس جو شخص اِن صفات کا حامل ہو، وہ اُس نام کا یعنی صوفی کہلانے کا مستحق ہے، ورنہ وہ کاذب ہے۔ +حلیۃ الاولیا]]، جلد اول، صفحہ 34۔ + + +[[زمرہ:760ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1110ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1320ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1320ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1320ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1260ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء سے اقوال +* اگر مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے اور پھر جنت میں داخل ہونے کے درمیان اور مجھے دوبارہ نہ اُٹھائے جانے درمیان کا اِختیار دیا جائے تو میں دوبارہ نہ اُٹھائے جانے کو ترجیح دوں گا۔ +**حلیۃ الاولیاء، جلد 8، صفحہ 279۔ +*کیا تم موت سے ڈرتے ہو؟۔ اگر تم کہو کہ: میں موت سے ڈرتا ہوں، تو تمہارا یہ دعویٰ قابلِ قبول نہیں۔ اِس لیے کہ اگر تم موت سے ڈرتے ، تمہیں کھانا پینا دنیاء کی کوئی اور چیز قطعاً نفع نہ پہنچاتی، اگر تم موت کی سچی معرفت رکھتے، تو شادی کرتے اور نہ ہی اولاد کی خواہش رکھتے۔ +**حلیۃ الاولیاء، جلد 8، صفحہ 280۔ +*جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اُس کے غم کو زیادہ کردیتا ہے اور جب کسی سے نفرت کرتا ہے، تو اُس کے لئے دنیا کو کشادہ کردیتا ہے۔ +*اگر ساری کی ساری دنیا مجھ پر پیش کردی جائے اور مجھ سے اُس کا حساب بھی نہ لیا جائے، تو میں اِس سے اِس طرح بچوں گا‘ جس طرح تم مردار سے گزرتے ہوئے بچتے ہو کہ کہیں وہ کپڑوں کے ساتھ نہ لگ جائے۔ +*اگر میں قسم کھاؤں کہ میں ریاکار ہوں، تو یہ مجھے اِس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں یہ قسم کھاؤں کہ میں ریاکار نہیں ہوں۔ +*لوگوں کے لئے کوئی کام چھوڑنا ریاکاری اور لوگوں کے لئے کوئی کام کرنا شرک ہے۔ +*فضیل کی موت سے غم و حزن اُٹھ گیا۔ +رسالہ القشیریہ]]، ، اُردو ترجمہ، مطبوعہ لاہور۔ + + +[[زمرہ:800ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1030ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:920ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1770ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:940ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[w:سری سقطی پیدائش: 772ء— وفات: 8 ستمبر 867ء) نویں صدی عیسوی کے مسلم صوفی اور زاہد و عابد بزرگ تھے۔ +تصوف ایسے اخلاقِ کریمانہ کا نام ہے جو اپنے حامل شخص کو مُکَرَّم قوم سے ملا دیں۔ + + +[[زمرہ:1790ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +[[زمرہ:1810ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +تاریخ کی سو انتہائی متاثر کن شخصیات انگریزی: The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History ایک مشہور کتاب ہے جس کے مصنف ماہر فلکیات اور مؤرخ مائیکل ایچ ہارٹ نے تصنیف کیا۔ یہ کتاب 1978ء میں شائع ہوئی تھی۔ +[[زمرہ:1970ء کی دہائی کی کتابیں]] + + +[[زمرہ:1930ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +*دریائے فرات کے کنارے چلتے ہوئے کہا ’’اے باری تعالیٰ! اگر مجھے علم ہو کہ آپ کو مجھ سے زیادہ راضی کرنے والی شے یہ ہے کہ میں گر کر اپنے آپ کو ہلاک کردوں تو میں اِس کے لیے بصد خوشی تیار ہوں اور اگر مجھے علم ہو کہ مجھ سے آپ کو راضی کرنے والی بات یہ ہے کہ میں اِس فرات میں چھلانگ لگا کر غرق ہوجاؤں، تو میں کر گزروں گا۔ +حلیۃ الاولیاء]]، جلد 1، صفحہ 134۔ + + +حلیۃ الاولیا]]، جلد 3، صفحہ 35۔ +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] +[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]] + + +[[زمرہ:آٹھویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +w:بہادر شاہ ظفر پیدائش: 24 اکتوبر 1775ء — وفات: 7 نومبر 1862ء مغلیہ سلطنت کے آخری شہنشاہ تھے جنہوں نے 28 ستمبر 1837ء سے 14 ستمبر 1857ء تک بحیثیت مغل شہنشاہ حکومت کی۔ اُن کی حکومت محض دہلی تک باقی رہ گئی تھی۔ 14 ستمبر 1857ء کو جنگ آزادی کے بدلے میں انگریزوں نے اُنہیں معزول کردیا اور ایک عدالتی کارروائی کے نتیجے میں اُنہیں رنگون جلاوطن کردیا گیا جہاں اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے اور 7 نومبر 1862ء کو حالت کسمپرسی میں رنگون میں انتقال ہوا۔ + + +[[زمرہ:1770ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1860ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +امام محمد بن علی الجواد یا امام محمد تقی پیدائش: 12 اپریل 811ء — وفات: 27 نومبر 835ء بزرگ اہل بیت اور اہل تشیع کے نویں امام تھے۔آپ کے والد امام علی الرضا ہیں۔ +*دوستوں اور بھائیوں کی ملاقات دل کی طراوت اور نورانیت کا باعث اور عقل و درایت کے اضافے کا سبب بنتی ہے خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔ +**الامالی، صفحہ 328، حدیث 13۔ +*امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں پس جو ان دو کی مدد کرتا ہے خداوند متعال انہیں عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتا ہے خداوند متعال ان کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ +**صدوق: الخصال، صفحہ 42، حدیث 32۔ +*تین چیزیں نیک لوگوں کے اعمال میں سے ہیں: واجبات الہی کی ادائیگی، گناہ ترک کرنا اور گناہوں سے دوری کرنا اور دین میں غفلت سے اجتناب کے حوالے سے ہوشیار رہنا۔ +**کشف الغمۃ، جلد 2، صفحہ 349، حدیث 3۔ +*تین چیزیں بندے کو رضوان الہی اور اللہ کی رضا کی منزل پر پہنچاتی ہیں گناہوں اور خطاؤں سے زیادہ اسغفار کرنا، تواضع اور منکسرالمزاجی، بہت صدقہ دینا، بہت زیادہ کار خیر کرنا۔ +**کشف الغمۃ، جلد 2، صفحہ 349، حدیث 7۔ +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +*اللہ کے سوا کوی معبود نہیں چشتی اللہ کا رسول ہے۔ +*مصیبت اور سختی کاآنا صحت اور ایمان کی علامت ہے۔ +*عقلمند دنیا کا دشمن اور اللہ کا دوست ہے۔ +* بد ترین شخص وہ ہے جو توبہ کی امید پر گناہ کرے۔ +*وہ ضعیف ترین ہے جو اپنی بات پر قائم رہے۔ +* کائنات میں صرف ایک چیز نور خدا موجود ہے اور تمام غیر موجود۔ +*دشمن کو دل کی مہربانی اور احسان سے اور دوست کو نیک سلوک سے جیت لو۔ +* عارفین کا توکل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر سے مدد نہ چاہیں اور کسی کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ +*بھوکے کو کھانا کھلانا ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا اور دشمن کے ساتھ نیک سلوک کرنا نفس کی زینت ہے۔ + + +[[زمرہ:1140ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1230ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[w:میر تقی میر پیدائش: 28 مئی 1723ء — وفات: 20 ستمبر 1810ء اردو زبان کے خدائے سخن تسلیم کیے گئے یعنی اردو زبان کے پہلے شہرت یافتہ شاعر۔ میر آگرہ میں پیدا ہوئے اور لکھنؤ میں آخری عمر بسر کی۔ + + +[[زمرہ:1720ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1810ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1800ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1300ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1380ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1350ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[w:اوسوالڈ اسپینگلر پیدائش: 29 مئی 1880ء— وفات: 8 مئی 1936ء) جرمن فلسفی، مؤرخ اور سیاسی محقق و مصنف تھے۔ +تاریخ کے ایک آزاد پیکر کی خاکہ کشی کی ضرورت ہے تاکہ شخصیات کے اثرات سے نجات حاصل کی جاسکے۔ ایسی شخصیات جو اپنی ثقافت میں مذہبی، ذہنی اور سیاسی اور معاشرتی رجحانات کے زیر اثر تاریخی مواد کو ذاتی نقطہ نظر سے منظم کرلیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ثقافت کا زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ +*مقصدیت کا عصبیت سے آزادی حاصل کرنا اور ماہر طبیعیات کا آزادانہ نقطہ نظر سے علت و معلول کی میکانیت معلوم کرنا تاریخ کو ذاتیات کے حصار سے باہر نکال دیتا ہے۔ +تاریخ عالم ثقافتوں کی اِجتماعی سوانح عمری ہے۔ کلاسیکی یا چینی ثقافت کی تاریخ کسی فردِ واحد کی سوانح سے مختلف نہیں۔ اِس کی داخلی صورتوں کا عرفان حاصل کرنے کے لیے نباتات اور حیوانات کی صوریاتی تشکیل کو جاننا ہوگا۔ متعدد ثقافتیں معراجِ کمال تک پہنچتی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جاتی رہی ہیں۔ اِس طرح انسانی تاریخ دب کر رہ گئی ہے۔ اگر ہم اِن ثقافتوں کو اِس دباؤ سے آزاد کروائیں تو اِن کی الگ الگ نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ +[[زمرہ:بیسویں صدی کے مرد جرمن مصنفین]] + + +[[زمرہ:1880ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1930ء کی دہائی کی وفیات]] + + +*تاریخ عالم ثقافتوں کی اِجتماعی سوانح عمری ہے۔ کلاسیکی یا چینی ثقافت کی تاریخ کسی فردِ واحد کی سوانح سے مختلف نہیں۔ اِس کی داخلی صورتوں کا عرفان حاصل کرنے کے لیے نباتات اور حیوانات کی صوریاتی تشکیل کو جاننا ہوگا۔ متعدد ثقافتیں معراجِ کمال تک پہنچتی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جاتی رہی ہیں۔ اِس طرح انسانی تاریخ دب کر رہ گئی ہے۔ اگر ہم اِن ثقافتوں کو اِس دباؤ سے آزاد کروائیں تو اِن کی الگ الگ نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ + + +[[زمرہ:1300ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1360ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1690ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:سترہویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1630ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1530ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1280ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1280ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1000ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:960ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:نویں صدی عیسوی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1040ء کی دہائی کی وفیات]] + + +*جس نے نفس کو شکست دی، اُس نے دونوں جہان کو فتح کرلیا۔ +*سچے آدمی کو خدا کی رحمت اور دولت پائدار نصیب ہوتی ہے۔ +صبر کرنے سے انسان خالص سونا بن جاتا ہے۔ +*صبر مقلد کو محقق بنا دیتا ہے۔ +رضا یہ ہے کہ اپنے کلام میں مغرور نہ ہو۔ +عاشق کسی کی ملامت سے نہیں ڈرتا۔ +عارف کا کلام، کلامِ حق ہوتا ہے۔ +مجذوب ہونا آسان ہے، تعلقات میں رہ کر بے تعلق ہونا مردوں کا کام ہے۔ +*دنیا ایک نجاست ہے جو سونے میں لپیٹی ہوتی ہے۔ +*دنیا دار ابن الغرض ہیں۔ +*دنیا دار جب دنیا سے جاتے ہیں تو افسوس ساتھ لے جاتے ہیں۔ +*دنیا دار دیوانے ہیں اور اپنے آپ سے بیگانے ہیں۔ +*دنیا داروں کو عمر کی تیز رفتاری کی خبر نہیں۔ +*پرہیزگار وہ ہے جو اَمر و نَہی کا پابند ہو اور حرام و مکروہات سے بچتا رہے۔ +پرہیزگار وہ ہے جو تقدیر اِلٰہی سے ڈرتا اور کانپتا رہے۔ +**اذکار نوشہ گنج بخش، صفحہ 147/148۔ + + +[[زمرہ:1650ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:سترہویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1550ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1250ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +*اور خداوند نے یہ سب باتیں فرمائیں کہ خداوند تیرا خدا جو تجھے ملکِ مصر کی غلامی سے نکال لایا، میں ہوں۔ اور خداوند نے یہ سب باتیں فرمائیں کہ خداوند تیرا خدا جو تجھے ملکِ مصر کی غلامی سے نکال لایا، میں ہوں۔ +*تُو کِسی بھی شَے کی صورت پر خواہ وہ اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا نیچے پانیوں میں ہو، کوئی بت نہ بنانا۔ +*تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ہی اُن کی عبادت کرنا۔ کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور ہوں۔ +*تُو خداوند اپنے خدا کا نام بری نیت سے نہ لینا کیونکہ جو کوئی اُس کا نام بری نیت سے لے گا تو خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا۔ +*سبت کے دِن کو یاد سے پاک رکھنا۔ چھ دِن تک تُو محنت سے اپنا سارا کام کاج کرنا۔ لیکن ساتوں دِن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے۔ اُس دِن نہ تُو کوئی کام کرنا نہ تیرا بیٹا یا بیٹی، نہ تیرا نوکر یا نوکرانی، نہ تیرے چوپائے اور نہ ہی کوئی مسافر جو تیرے یہاں مقیم ہو۔ کیونکہ چھ دِن میں خداوند نے آسمانوں کو، زمین کو، سمندر کو اور جو کچھ اُن میں ہے، وہ سب بنایا۔ لیکن ساتویں دِن آرام کیا اِس لیے خداوند نے سبت کے دِن کو برکت دِی اور اُسے مقدس ٹھہرایا۔ +*اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عمر اُس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، دراز ہو۔ + + +* جب دار الحکومت تھمپو کی سڑکوں پر گاڑی چلاتا ہے تو ڈرائیور نہیں ہوتا اور عام لوگ اس پر فریفتہ ہیں۔ [کیونکہ] چھٹی کے دن گاڑی چلاتے ہوئے میرا دل چاہتا ہے کہ ہسپتال کی طرف گاڑی موڑ دوں۔محمد اسلم خان، ایک معالج ایک مسیحا ایک منتخب وزیر اعظم، روزنامہ نوائے وقت، مورخہ 16 مئی 2019ء +* چھٹی کے دن کچھ گالف کھیلتے ہیں، کسی کو تیر اندازی کا شوق ہوتا ہے، میں آپریشن کر لیتا ہوں۔ میں اپنا ہفتہ تعطیل یہاں گزار لیتا ہوں۔ + +*اور تو اپنی زِندگی کے تمام ایام میں خدا کو اپنے دِل میں رکھ۔ اور ڈرتا رہ، کہ تو گناہ میں کبھی راضی نہ ہو۔ +*خداوند ہمارے خدا کے حکموں (احکام) کی نافرمانی نہ کرے۔ اپنے مال میں سے خیرات کر اور غریب سے منہ نہ موڑ۔ تَو خداوند بھی تیری طرف سے منہ موڑے گا۔ +*خیرات تمام خطاؤں اور موت سے بچاتی ہے اور روح کو اندھیرے کی طرف جانے نہیں دیتی۔ +*جس بات سے تجھے نفرت ہے کہ تجھ سے کی جائے، تو تُو بھی وہ دوسرے کے ساتھ نہ کر۔ بھوکوں اور مسکینوں کے ساتھ اپنی روٹی کھا اور ننگوں کو اپنے کپڑوں میں سے پہنا۔ +*ہمیشہ عقلمند آدمی کی مشورت کی تلاش کر۔ اور خدا کو ہروقت مبارک کہہ۔ اور اپنی راہوں کی درستی اور اپنی تمام مشورتوں کے برقرار رہنے کے لیے اُس کی ہدایت مانگ۔ +*نماز روزہ کے ساتھ اچھی ہے۔ اور خیرات سونے کے خزانوں کے ذخیروں سے بہتر ہے۔ کیونکہ خیرات موت سے رہائی دیتی ہے۔ گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔اور انسان کو رحمت اور اَبدی حیات حاصل کرنے کے لائق بناتی ہے۔ مگر وہ جو گناہ اور بدی کرتے ہیں، اپنی جان کے دشمن ہیں۔ + + +**نسخہ ہائے وفا، صفحہ 61۔ +**نسخہ ہائے وفا، صفحہ 259۔ +**نسخہ ہائے وفا، صفحہ 264۔ منٹگمری جیل (ساہیوال) میں 29 جنوری 1954ء کو لکھی گئی۔ +**9 مارچ 1954ء کو منٹگمری جیل (ساہیوال) میں کہی گئی غزل کا ایک شعر، اقتباس از: نسخہ ہائے وفا، صفحہ 260۔ +**نسخہ ہائے وفا، صفحہ 133۔ +**نسخہ ہائے وفا، صفحہ 173۔ +==فیض احمد فیض سے متعلق اقتباسات و آراء== +اردو ادب کی تاریخ میں تین مرنجان اہلِ قلم ایسے گزرے ہیں جن کی ذاتی شرافت و شائستگی اور عظمت و برگذیدگی اُن کی تحریر سے بھی جھلکتی ہے۔ یہ تینوں اپنے مزاج و اقدار کی بلندی ، شیرینی اور شائستگی کو اپنے الفاظ میں سمو دیتے ہیں، اور اپنے لہجے میں اپنی طبیعت و کردار کا سارا حُسن لے آتے ہیں: یہ ہیں خواجہ الطاف حسین حالی، رشید احمد صدیقی اور فیض احمد فیض]]۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 58۔ +*مشتاق احمد یوسفی شام شعر یاراں ، مطبوعہ کراچی، 2014ء + + +[[زمرہ:1980ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1590ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1720ء کی دہائی کی وفیات]] + + +**پنجاب کا صوفی ورثہ، صفحہ 119۔ +*اکرم شیخ: پنجاب کا صوفی ورثہ، مطبوعہ لاہور۔ + + +[[زمرہ:شاعری بلحاظ قوم اور زبان]] + + +[[زمرہ:1800ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1850ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1760ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1840ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +*اُس ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کریں گی۔ لیکن وہ جو کچھ دکھا رہا ہے، وہ عالمی برادری کو دکھا رہا ہے کہ انہیں بین الاقوامی قانون کا کوئی احترام نہیں ہے ، وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ ثقافتی مقامات پر حملہ کرنا ایک جنگی جرم ہے اور غیر متنازعہ ردعمل جنگی جرم ہے۔ ایسا لگتا ہے ، لیکن بین الاقوامی قانون کے بارے میں ، اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن اس نے امریکہ کو زیادہ محفوظ بنا دیا ہے؟ کیا امریکی زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں؟ کیا آج امریکی اس خطے میں خوش آمدید ہیں؟ کیا وہ خوش آمدید محسوس کرتے ہیں؟ +**سی این این کو دئیے گئے انٹرویو سے اقتباس، 7 جنوری 2020ء +*پرکشش فوجی ساز و سامان (آلاتِ حرب دنیا پر حکمرانی نہیں کرتے، لوگ دنیا پر حکومت کرتے ہیں، ’’ لوگ‘‘۔۔! +**سی این این کو دئیے گئے انٹرویو سے اقتباس، 7 جنوری 2020ء +*ایران میں مخملی اِنقلاب (عیش و عشرت) کے تصور کو بے بنیاد خوف نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ +*ہم لوگوں کو اُن کی رائے کے اِظہار پر جیل کا راستہ نہیں دِکھاتے۔ +*ایک سفارت کار کا فن یہ ہے کہ وہ اپنی مسکراہٹ کے پیچھے تمام ہنگاموں کو چھپائے۔ + + +[[زمرہ:1960ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:شخصیات بلحاظ پیشہ اور بلحاظ ملک]] + + +*قوم اِرادے سے بنتی ہے نہ کہ توہمات سے۔ +**آثار جمال الدی�� افغانی، صفحہ 7۔ + + +[[زمرہ:1930ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1890ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1850ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1530ء کی دہائی کی وفیات]] + + +لوگ ڈر کے مارے لُوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں پاہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔ +ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔ +شور سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔ دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔ +دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کیلیے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔ +اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیئے جل رہے تھے۔ +( سیاہ حاشیے، سعادت حسن منٹو)​ + + +[[زمرہ:530ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:600ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1870ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +ویکی اقتباس کا مقامی لوگو + + +[[زمرہ:1880ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1760ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1830ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +*اے آل زبیر اگر تم نے میرے ساتھ خیر خواہی کی ہوتی تو عرب میں ہمارا خاندان وہ ہوتا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی جانیں قربان کی ہوتیں اور کبھی ہم پر یہ مصیبت نازل نہ ہوتی۔ اے آل زبیر تم ہرگز تلواروں کے لڑنے سے خائف نہ ہونا، کیونکہ مجھے اِس کا تجربہ ہے۔ کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں مَیں زخمی نہ ہوا ہوں۔ اور میں جانتا ہوں کہ زخم کے علاج کرنے کی تکلیف تلوار کے لگنے سے زیادہ سخت ہے، جس طرح تم اپنے چہروں کو بچاتے ہو، اُسی طرح تلواروں کو بھی بچانا کیونکہ میں کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں کہ جس کی تلوار ٹوٹ گئی ہو اور وہ پھر زِندہ باقی رہا ہو۔ کیونکہ مرد کے پاس ہتھیار نہ ہوں تو وہ عورت کی طرح رہتا ہے۔ جب بجلی چمکے تو اپنی آنکھیں بند کرلینا یا تلواروں سے اپنی آنکھیں بچانا۔ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ صرف اپنے مقابل کا دھیان رکھے۔ میرے متعلق سوال تمہاری اپنی توجہ کو نہ ہٹائے۔ اور یہ ہرگز نہ کہنا کہ میں کہاں ہوں؟۔ البتہ جو شخص دریافت کرے، اُسے بتا دینا۔ میں سواروں کے سب سے اَول دستے میں کھڑا ہوں گا۔ +تاریخ الرسل والملوک]]، جلد 19، صفحہ 230۔ +ابن جریر طبری تاریخ الرسل والملوک ، مطبوعہ انگریزی نیویارک، 1989ء + + +[[زمرہ:620ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:690ء کی دہائی کی وفیات]] + + +ڈرامے کے بعد مکالمے بہت جاندار اور موثر ہیں، ان میں سے کچھ اقوال ذیل میں درج ہیں: +:یاد رہے، یہ اقوال ڈرامے کے کردار سے کہلاوئے گئے ہیں، تاریخی شخضیت نے حقیت میں ایسا کچھ تھا یا نہیں، ویکی اقتباسات اس کی تصدیق نہیں کرتا! +ظالم اپنا نام چاہے سونے کے حروف سے لکھوا لے،[[تاریخ میں وہ ایک سیاہ تحریر ہی ہوتی ہے۔ +* ظلم روکنے کے لیے اور ظالموں کو عدل کی طاقت دکھانے کے لیے آپ کو حکمرانی نصیب ہو آمین۔ +* بڑی فتوحات چھوٹی شکست سے ہی ملتی ہے۔ +* تخت، طاقت کی لالچ]]، عہدوں نے بہت سے بہادروں کو سیدھے رستے سے بھٹکا دیا۔ +* کمال صبر کی کوکھ سے پھوٹتا ہے۔ +* کوئی شخص اگر اپنی زبان اور خواہش پر قابو نہیں رکھ سکتا ہو تو وہ کبھی رہنما نہیں ہو سکتا۔ +* تقدیر ان سے پیار کرتی ہے جو جد جہد کرتے ہیں۔ +* انسانوں کا اپنا جوڑ توڑ ہے تو اللہ کا اپنا حساب و کتاب ہے اور کوئی شک نہیں کہ اللہ کا حساب و کتاب سب کے لیے یکساں ہے۔ + + +شام کو شاید چند ہی گھڑیاں باقی ہوں گی؛ آفتاب سامنے کی برف آلود چوٹیوں کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس کی کمزور کرنوں نے جو تھوڑی بہت گرمی پیدا کی تھی، مٹ گئی اور ہوا کے سرد جھونکے جو بلند برفستان پر سے پھسلتے ہوئے آتے ہیں، انسان کے کپکپا دینے کے لیے کافی ہیں۔ +* ایک دن صبح کو سو کے اٹھا تو خلاف معمول زمرد کی قبر پر ایک کاغذ پڑا ملا۔ حیرت و شوق سے دوڑ کے اسے اٹھایا اور پڑھاتو چند لمحے تک نقشِ حیرت بنا کھڑا رہا بار بار تحریر کو غور کر کے دیکھتا اور کہتا:"نگاہ تو نہیں غلطی کر رہی؟"۔ مگر ساعت بہ ساعت یقین پختہ ہوتا جاتا کہ خاص زمرد کے ہاتھ کی تحریر ہے۔ + + +[[زمرہ:تہران میں پیدا ہونے والی شخصیات]] + + +* په خپل ژوند کې خطرات واخلئ. که تاسو وګټئ ، تاسو رهبري کولی شئ ، که تاسو له لاسه ورکړئ ، تاسو لارښود کولی شئ. + + +* هیڅ شی ناممکن ندي ترڅو چې تاسو فکر کوئ دا وي. + + +شہر میں دودھ سپلائی کر کے واپس گاؤں کی طرف آ رہا تھا، سائیکل پر ہی تھا۔وہ میری شاگرد سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔میں نے پاس جا کر پوچھا کیا وجہ ہے، کیا آپ انتظار کر رہی ہیں کسی کا؟کہنے لگی کہ نہیں، میں وہ اُس پہاڑی کی دوسری طرف جا رہی تھی اور گاڑی خراب ہو گئی ہے۔میں نے کہا کہ آپ کو وہاں کوئی کام ہے یا ویسے ہی گھومنے پھرنے آئی ہوئی ہیں۔کہنے لگی جی مجھے بہت ضروری کام ہے، استاد جی رہتے ہیں وہاں، انہی کو ملنے آئی ہوں۔پھر اس نے موبائل پر گوگل نقشہ کھولا اور پھر پہاڑ کی طرف دیکھ کر کہا کہ نادرا کی بتائی ہوئی لوکیشن اسی طرف آ رہی ہے۔پھر میں نے اسے اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھایا اور گاؤں کی طرف چل دئیے۔پھر اسے اپنے گھر لے گیا۔وہ گوگل نقشہ دیکھتے ہوئے گلی میں نکل پڑی تو میں نے کہا کہ رکو، کئی دفعہ لوکیشن مکمل واضح طور پر نہیں ظاہر ہوتی موبائل پر۔اس لیے یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں، میں آپ کو پہنچا دوں گا۔پھر میں نے پوچھا کہ آپ کو کیا کام ہے باوا سے؟کہنے لگی کہ ہے ایک ضروری کام۔پھر میں نے کہا کہ اگر سامنے آ جائے تو پہچان لیں گی؟کہنے لگی ہاں شاید، مگر اب تو دس سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے دیکھے ہوئے۔پھر میں نے کمرے میں لے جا کر کونے میں رکھے ہوئے ایک سندوق کو کھولا اور اس میں سے تصاویر اور اعزازات نکال کر اسے دیکھائے۔اس نے مجھے پہچان لیا اور میری تصویریں چومنے لگی۔پھر میں نے کہا کہ اب بتائیں کیا کام ہے؟کہنے لگی کہ بات کچھ یوں ہے کہ ہمارے ملک میں ہونے والے ہیں الیکشن، تو میں چاہتی ہوں کہ آپ وہاں میری کیمپین چلائیں۔میں نے کہا کہ میں فقیر کیا کیمپین کروں گا۔تو اس نے کہا کہ آپ کے بہت سے شاگرد وہاں اونچے اونچے عہدوں پر ہیں۔ اور وہاں کے عوام بھی آپ کو بہت چاہتے ہیں۔پھر میں نے ایک اہم مقصد بھی سوچا۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی چلا گیا۔پھر وہاں تقاریر کیں۔الیکشن ہوئے، وہ جیت گئی اور صدر منتخب ہو گئی۔پھر اُس نے کہا کہ بزرگو آج مانگو جو آپ کا دل چاہتا ہے۔میں نے کہا سچی؟ اس نے کہا ہاں ہاں بلکل۔میں نے کہا کہ صرف ایک وزارت، اُس نے کہ�� کہ جس مرضی ہے وزارت کا چارج سنبھال لیں، آپ ویسے بھی پڑھے لکھے اور قابل ہیں۔میں نے کہا کہ کوئی رکاوٹ تو نہیں ہو گی مجھے؟ کہنے لگی کہ آپ آج سے خود کو صدر ہی سمجھیں، رکاوٹ کیسی؟ میں نے پھر اپنی مرضی کی وزارت ہی کو ترجیح دی۔ پھر کہا کہ سب کے رُخ اینڈیا کی طرف موڑ دو۔ کنٹرول والا بٹن میرے ہاتھ دے دو۔پھر میں نے بٹن کے سامنے کھڑے ہو کر فون کال ملائی اور کہا مودی تیار ہو جا۔پھر بٹن دبا دیا، ڈز۔۔ڈز۔۔ڈز۔وہ دوڑتی ہوئی سیدھی کنٹرول روم آئی اور کہنے لگی کیا ہو رہا ہے؟؟؟مجھے غصے میں دیکھ کر ہنسنے لگی، پھر پوچھا ڈرون چلائیں؟میں نے کہا سب کچھ چلے گا۔آج یا آر یا پار۔خیالی سے اقتباس + + +عزیزو یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں اۓگا۔ + + +ہیملٹ ولیم شیکشپیئر کا ڈرامہ ہے۔ +ہیملٹ ایکٹ 1، سین 3، لائن 75-77 میں ادھیڑ عمر پولونئیس اپنے بیٹے لےارٹیز کو پیرس سفر پرروانگی سے قبل کچھ نصیحتیں کرتا ہے۔۔جن میں سے ایک یہ ہے: +"نہ کبھی قرض لینا اور نہ ہی دینا، کیونکہ قرض دینے سے اکثر پیسہ اور دوست دونوں ہاتھ سے جاتے ہیں، +اور قرض لینے سے فضول خرچی کی لت پڑ جاتی ہے، جو انسان کے مالیاتی معاملات میں خرابی کا باعث بنتی ہے۔" + + +کسی بھی بات یا کام کا واقع اور حقیقت کے مطابق ہونا سچ یا صدق کہلاتا ہے مثال کے طور آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک پارک ہے اور وہ جا کر دیکھے اور آپ کے گھر کے سامنے پارک ہو تو وہ آپ کی بات کو سچا قرار دے گا اور آپ کی بات سچائی سے متصف ہوگی۔ +* جھوٹ کی ان گنت ترکیبیں ہیں مگر سچ ایک ہی قاعدے پر ہوتا ہے۔ + + +*نیکی ہمدردی کرنے کا نام ہے، نیکی (لوگوں کو غلام بنا لیتی ہے۔ علی ابن ابی طالب ref>غرر الحکم و درر الکلم، قول 55، ص 39۔ +* ّنیکی علم ہے اس لیے اسکی تعلیم ہو سکتی ہے۔ٗ سقراط +عورت کا حسن اسے مغرور بنا دیتا ہے۔ اس کی نیکی اس کے لیے مداح پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن وفا اسے دیوتائی صورت میں نمایاں کرتی ہے۔ ولیم شیکسپیئر + + +[[زمرہ:1870ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:غیر افسانوی مصنفین بلحاظ قومیت]] + + +[[زمرہ:غیر افسانوی مصنفین بلحاظ قومیت]] + + +**کلیات اکبر الہٰ آبادی، ص324 +**کلیات اکبر الہٰ آبادی، ص332 + + +[[زمرہ:1840ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1920ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:1960ء کی دہائی کی وفیات]] + + +آپ کو یہ پیغام اس لیے مل رہا ہے کیونکہ آپ ایک ویکیمیڈیا ویکی پر منتظمین ہیں۔ +آج جب کوئی ویکیمیڈیا ویکی میں بغیر داخل ہوئے ترمیم کرتا ہے تو ہم ان کا آئی پی پتہ دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ پہلے ہی جان چکے ہوں گے، ہم مستقبل میں ایسا نہیں کر پائیں گے۔ یہ وکیمیڈیا تنظیم کے قانونی شعبے کا فیصلہ ہے، کیونکہ آن لائن رازداری کے اصول اور ضوابط بدل چکے ہیں۔ + + +آپ کو یہ پیغام اس لیے مل رہا ہے کیونکہ آپ ایک ویکیمیڈیا ویکی پر منتظمین ہیں۔ +آج جب کوئی ویکیمیڈیا ویکی میں بغیر داخل ہوئے ترمیم کرتا ہے تو ہم ان کا آئی پی پتہ دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ پہلے ہی جان چکے ہوں گے، ہم مستقبل میں ایسا نہیں کر پائیں گے۔ یہ وکیمیڈیا تنظیم کے قانونی شعبے کا فیصلہ ہے، کیونکہ آن لائن رازداری کے اصول اور ضوابط بدل چکے ہیں۔ + + +محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔[11][12] +کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔ +1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔ +پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔ + + +گم شدہ درختوں کا جزیرہ +کوستاس نے بیلچہ زمین میں دھنساتے ہوئے کہا، "جب تم دفن ہو جاؤ گے تو میں روزانہ تمہارے پاس باتیں کرنے آیا کروں گا۔" اس نے بیلچے کے دستے پر جھکتے ہوئے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھایا اور اسے قریبی مٹی کے ڈھیر کی طرف اچھال دیا۔ 'تم اکیلا پن محسوس نہیں کرو گے۔' +کاش میں اسے بتا سکتا کہ تنہائی ایک خالص انسان]]ی اختراع ہے۔درخت کبھی تنہا نہیں ہوتے۔ انسانوں کے خیال میں وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا اختتام اور دوسروں کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ اپنی الجھی ہوئی جڑوں اور زیرِ زمین فنجائی اور بیکٹیریا سے جڑے ہوئے درخت اس قسم کا کوئی بھی وہم نہیں پالتے�� ہم درختوں کے لیے ، ہر شے آپس میں مربوط ہے۔ + + +محمد تقی عثمانی ایک پاکستانی عالم اور سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں. +لالچ سے بڑھ کر کوئی چیز دوسروں کے دلوں میں عزت کو ختم نہیں کرتی۔" + + +محمد زکریا کاندھلوی ایک ہندوستانی عالم دین اور مظاہر علوم کے سابق شیخ الحدیث ہیں فضائل اعمال ان کی اہم کتابوں میں سے ایک ہے. +تصوف کی حقیقت صرف نیت کی اصلاح ہے۔ یہ "اعمال صرف نیتوں کے مطابق ہیں" سے شروع ہوتا ہے اور "اس کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو" پر ختم ہوتا ہے"۔ + + +ابو الحسن علی حسنی ندوی]] + + +ابو الحسن علی حسنی ندوی 24 نومبر 1914ء 31 دسمبر 1999ء) ایک ہندوستانی عالم دین، مشہور کتاب انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر کے علاوہ متعدد زبانوں میں پانچ سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ +ابو الحسن علی حسنی ندوی، تحفہ کشمیر لکھنؤ: مجلس تحقیقات و نشریات اسلام. صفحہ 94 +جامعہ کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ سیرت سازی کا کام کرے، وہ ایسے صاحب علم افراد پیدا کرے جو اپنے ضمیر کا سودا نہ کرسکیں، جن کو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تخریبی فلسفہ، کوئی غلط دعوت و تحریک کسی دام خرید نہ سکے +ابو الحسن علی حسنی ندوی، تحفہ کشمیر لکھنؤ: مجلس تحقیقات و نشریات اسلام. صفحہ 99 + + +*خدا کا خوف دِل کو خوشی دیتا اور سرور اور فرحت اور اَیام کی درازی بخشتا ہے۔ جو خداوند سے ڈرتا ہے ، وہ اپنے انجام میں خوش دِل ہوگا اور اپنی موت کے دن مقبولیت پائے گا۔ +*عبادت دِل کو قائم رکھتی اور اُسے پاک کرتی ہے اور سرور اور فرحت بخشتی ہے۔ جو خداوند سے ڈرتا ہے، وہ خوش دِل رہے گا اور اپنی وفات کے اَیام میں مقبولیت پائے گا۔ +*خداوند کا خوف حکمت کا تاج ہے ۔ وہ سلامتی اور صحت کا ارام عطاء کرتا ہے۔ +*خداوند کا خوف گناہ کو ہنکا دیتا ہے۔ +*عقلمند اپنی بات کو تھوڑی دیر چھپاتا ہے اور ایمانداروں کے ہونٹ اُس کی عقل کی تعریف کریں گے۔ +*حکمت کے ذخیروں میں معرفت کی تمثیلیں ہیں۔لیکن خطاکار نے نزدیک خدا کی عبادت مکروہ ہے۔ بیٹا! اگر تُو حکمت کی خواہش کرتا ہے تو حکموں (احکام) کو مان ، اور خداوند اُسے تجھے عطاء کرے گا۔ کیونکہ خداوند کا خوف حکمت اور تادیب ہے، اور اُس کی خوشنودی اِیمان اور حلیمی میں ہے۔ +* آدمیوں کی نگاہ میں رِیاکار نہ ہو اور اپنے ہونٹوں کو اپنی حراست میں رکھ۔ اونچا مت ہو تاکہ تُو گِر نہ جائے اور اپنی جان پر ذِلت نہ لائے۔ +* اگر تُو خداوند کی حکمت کے لیے آیا تَو صداقت اور خوف پر قائم رہ، اور اپنے آپ کو اِمتحان کے واسطے تیار کر۔اپنے دِل کو قبضے میں رکھ اور برداشت کر۔ اپنے کان کو مائل کر اور عقل کی باتیں قبول کر اور تکلیفوں کے وقت بھاگ نہ جا۔ صبر کے ساتھ خدا کا اِنتظار کر۔ اُس کے ساتھ چِپٹا رہ اور الگ نہ ہو۔ اِس طرح تیرے انجام میں زِندگی بڑھ جائے گی۔ جو کچھ تجھ پر آ پڑے، اُسے قبول کر۔ اور اپنی ذِلت کے حادثوں میں صبر کر۔ کیونکہ سونا آگ میں آزمایا جاتا ہے اور اِنسانوں میں سے پسندیدہ لوگ فروتنی کی بھٹی میں آزمائے جاتے ہیں۔ + + +* انگلینڈ ہر دوسرے طبقے کے غریبوں کو بلا تفریق مذہب کی تعلیم کے لیے مفت فراہم کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ گونگے بہرے کیوں مستثنیٰ ہوں؟ بے زبان غریبوں کو وہ استحقاق کیوں نہیں دیا جانا چاہئے جو اس قدر آزادانہ طور پر باقی سب کو عطا کیا جاتا ہے؟ +1863-05 میں آئرلینڈ میں شماریاتی اور سماجی تحقیقاتی سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گونگوں اور بہروں کے لیے اسکول بہت سے دوسرے ممالک میں قائم کیے گئے تھے لیکن انگلینڈ میں نہیں۔ +* نیکی کی حوصلہ افزائی اور برائی کو دبانے کے لیے کوئی بھی اقدام کسی قوم کی دانشمندانہ اور بہترین پالیسی ہونی چاہیے۔ نئے ممالک میں مزدوری میں وقار ہے اور خود کو سہارا دینے والی عورت یکساں قابل احترام ہے۔ ان غریب عورتوں پر امید کا دروازہ کیوں بند کیا جائے اور انہیں دوسرے ممالک میں اس آزادی کے حصول کے ذرائع سے کیوں انکار کیا جائے جس سے وہ اس میں روکے ہوئے ہیں؟ +1863-05 کے بعد میٹنگ میں آئرلینڈ میں شماریاتی اور سماجی تحقیقاتی سوسائٹی سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایسی خواتین کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے جو بے سہارا ہو چکی ہیں اور ہجرت کرنے کے لیے ضروری ہنر حاصل کرنے کے لیے بغیر پیسے کے ورک ہاؤس جانے کی ضرورت ہے۔ یہ آئرلینڈ سے قحط اور بڑے پیمانے پر ہجرت کے تناظر میں تھا۔ + + +اسلام و علیکم دوستوں میں یہاں پر آپ کو دلچسپ تبصرے بتاتا ہوں + + +میر انیس پیدائش: 1800ءء – وفات: 10 دسمبر 1874ء اردو زبان کے ممتاز ترین شاعر اور مرثیہ نگار تھے۔ +*افسوس ہے‘ جو دِل میں ہوتا ہے وہ پورے طور پر قلم سے اداء نہیں ہوتا، جیسا کہنا چاہتا ہوں، ویسا نہیں ہوتا۔اُس کو (یعنی کلام کو) میرا دِل ہی جانتا ہے کہ جو کچھ کہنا چاہتا ہوں‘ وہ ٹھیک طور پر اداء نہیں ہوتا۔ +**نقوش: انیس نمبر، صفحہ 679۔ +**رباعیات انیس، رباعی نمبر6، صفحہ 86۔ +**رباعیات انیس، رباعی نمبر9، صفحہ 87۔ +**رباعیات انیس، رباعی نمبر12، صفحہ89۔ +*محمد طفیل نقوش: انیس نمبر ، مطبوعہ ادارہ فروغِ اُردو، لاہور]]، نومبر 1981ء + + +الطاف حسین حالی پیدائش: 1837ء – وفات: 31 دسمبر 1914ء اردو زبان کے نامور شاعر، ادیب اور نثرنگار تھے۔ +*دین برحق کی شان یہ ہے کہ اُس میں کوئی چیز اِنسان کو مجبور کرنے والی نہ ہو۔ نہ اعتقادات میں کوئی محال بات تسلیم کرائی جائے ، نہ عبادات میں کوئی بوجھ ایسا ڈالا جائے کہ عاجز بندوں سے اُس کی برداشت نہ ہوسکے۔ کھانے، پینے، پہننے اور برتنے کی چیزوں میں اُن کے لیے اُسی قدر روک ٹوک ہو جیسے طبیب کی طرف سے بیمار کے حق میں ہوتی ہے۔ اُس کا بڑا مقصد اِخلاق کی تہذیب اور نفسِ انسانی کی تکمیل ہو۔ اُس میں عبادت کے طریقے ایسے عمدہ ہوں جن میں مشقت کم اور فائدہ بہت ہو۔ اُس کے اصول ایسے جامع ہوں کہ ایک نیکی میں بہت نیکیاں مندرج ہوں۔ اُس میں کوئی بندش ایسی نہ ہو جس سے انسان کو اپنی واجبی آزادی سے دستبردار ہونا پڑے۔ اُس میں کوئی مزاحمت ایسی نہ ہو جس سے انسان پر ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں اور وہ خلافت ِ رحمانی کا منصب حاصل کرنے سے محروم رہ جائے اور جس خوانِ یغما سے اُس کے بنی نوع بہرہ مند ہیں، اُس میں اُن کا شریک نہ ہوسکے؛ جیسے ایک کوتل گھوڑا، جو اپنے ہم جنسوں کو جنگل میں آزاد اور بے قید چرتا اور کلول کرتا دیکھتا ہے مگر خود اپنے مالک کے بس میں ایسا مجبور و ناچار ہے کہ اُن کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے، لیکن ہاتھ پاؤں نہیں ہلاسکتا اور بوجھ میں لدا ہوا چپ چاپ چلا جاتا ہے۔ +**کلیات نثر حالی: جلد 1، صفحہ 4/5۔ +*ایک شخص کی بدگمانی سے جو مضر نتیجے پیدا ہوتے ہیں، وہ اکثر ایک یا چند آدمیوں سے زیادہ کو نقصان نہیں پہنچتے۔ لیکن جب کسی ملک یا قوم کی عام طبیعتوں میں بدگمانی کا بیج بویا جاتا ہے تو اُس سے تمام ملک یا تمام قوم کو مضرت پہنچتی ہے۔ +**کلیات نثر حالی: جلد 1، صفحہ 138۔ +==حالی سے متعلق اقتباسات و آراء== +اردو ادب کی ��اریخ میں تین مرنجان اہلِ قلم ایسے گزرے ہیں جن کی ذاتی شرافت و شائستگی اور عظمت و برگذیدگی اُن کی تحریر سے بھی جھلکتی ہے۔ یہ تینوں اپنے مزاج و اقدار کی بلندی ، شیرینی اور شائستگی کو اپنے الفاظ میں سمو دیتے ہیں، اور اپنے لہجے میں اپنی طبیعت و کردار کا سارا حُسن لے آتے ہیں: یہ ہیں خواجہ الطاف حسین حالی، رشید احمد صدیقی اور فیض احمد فیض]]۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 58۔ +*شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی کلیات نثر حالی ، جلد 1، مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، دسمبر 1967ء +*مشتاق احمد یوسفی شام شعر یاراں ، مطبوعہ کراچی، 2014ء + + +[[زمرہ:1830ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +محیط ادب سے مترجم شدہ اشعار + + +[[زمرہ:1640ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +انجینئر عمر فاروق گل پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر ہیں اور ایک کاروباری، مصنف اور جذبے کے لحاظ سے ایکو سسٹم بنانے والے ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر پاکستانی ہے، ایک پرجوش، خود حوصلہ، قابل اعتماد، ذمہ دار اور محنتی شخص ہے۔ انجینئر عمر فاروق گل نے اپنے ملک کی ایک اعلیٰ انجینئرنگ یونیورسٹی UET پشاور سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ انجینئر عمر فاروق گل نے اپنا کاروباری سفر 2014 میں اس وقت شروع کیا جب حال ہی میں پری انجینئرنگ کالج پاس کیا۔ عمر نے اپنے سفر کا آغاز Techsol Labs (پہلے UfvTechSol پرائیویٹ لمیٹڈ کو جانتا تھا) کے نام سے ایک سافٹ ویئر ہاؤس شروع کر کے کیا۔ Techsol labs اب پاکستان کی ایک معروف سافٹ ویئر کمپنی ہے جو عالمی سطح پر IT سروسز فراہم کرتی ہے۔ +ایک نوجوان خون کے طور پر وہ ہمیشہ نوجوانوں کے لیے کام کر رہے ہیں اور اسی لیے انہوں نے 2019 میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام "یوتھ انٹرنیشنل کانکلیو" تھا جس کا مقصد دنیا بھر کے نوجوانوں کو جوڑنا اور نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنا تھا۔ عمر فاروق گل نے یوتھ انٹرنیشنل کانکلیو کے نیٹ ورک کو 31 ممالک تک پھیلایا اور اب YIC کے پاس پوری دنیا سے 31 کنٹری ڈائریکٹرز ہیں اور وہ مستقبل کے رہنما اور کاروباری افراد بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ +"اپنے آپ پر اور اپنے خوابوں پر یقین رکھیں، اور کائنات انہیں حقیقت بنانے کی سازش کرے گی۔" +"کامیابی کا صحیح پیمانہ اس بات میں نہیں ہے کہ آپ کتنا حاصل کرتے ہیں، بلکہ آپ کتنی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔" +"زندگی حیرتوں سے بھرا ایک سفر ہے۔ ہر موڑ اور موڑ کو گلے لگائیں، اور سواری کا لطف اٹھائیں۔" +"سب سے بڑا تحفہ جو آپ کسی کو دے سکتے ہیں وہ آپ کا وقت اور توجہ ہے۔ یہ انمول ہے۔" +"کامیابی ایک منزل نہیں بلکہ ایک سفر ہے۔ اس عمل سے لطف اٹھائیں اور ہر قدم سے سیکھیں۔" +"ہر کسی کے ساتھ حسن سلوک کرو جس سے تم ملتے ہو۔ تم کبھی نہیں جانتے کہ وہ کون سی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔" +"خوف کو اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے سے باز نہ آنے دیں۔ اعتماد کی چھلانگ لگائیں اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں۔" +"خوشی وہ چیز نہیں ہے جسے آپ ڈھونڈتے ہیں، یہ وہ چیز ہے جو آپ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔" +"زندگی کی سب سے بڑی خوشی دوسروں کو واپس دینے اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانے میں ہے۔" +"مشکلات کے باوجود ہمیشہ اپنی اقدار اور اصولوں پر قائم رہیں۔ یہ وہی چیز ہے جو آپ کو ایک شخص کے طور پر بیان کرتی ہے۔" + + +نظم ’’ تم کون ہو؟‘‘ +**ماہنامہ ماہِ نَو، اپریل 1957ء، صفحہ 42۔ +ماہنامہ ماہِ نَو ، اپریل 1957ء، کراچی، نظم ’’ تم کون ہو؟‘‘، مترجم:ابتسام الدین۔ + + +[[زمرہ:1890ء کی دہائی کی پیدا��شیں]] + + +[[زمرہ:1970ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ: جنوبی ایشیاء کے ممالک]] + + +*بے آزاری، سچائی، صفائی، بغض و بَیر سے یکسر بے تعلقی، ظلم سے پرہیز، عفو و در گذر‘ یہ سب (عوام) پر واجب ہیں۔ +*جو کوئی (حکمران) سخت تعزیریں (سزائیں) دے گا، خلق میں بدنام اور قابلِ نفرت ہوجائے گا اور جو ہلکی سزائیں دے گا، اُس کا مان (عزت) جاتا رہے گا اور بودا (بزدل، کمزور) سمجھا جائے گا۔لیکن جو کوئی واجبی اور قرار واقعی سزا دے گا تو اُس کی عزت کی جائے گی کیونکہ جب تعزیر (سزا) سے سوچ سمجھ کر مناسب طور پر کام لیا جائے تو لوگوں کو نیک چلنی اور مفید و باردَر کام سے لگے رہنے کی ترغیب ہوتی ہے۔ +*اگر تعزیر (سزا) کے اُصول کو بالکل برطرف (موقوف) رکھا جائے تو اُس سے افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ حاکم مُنصِف موجود نہ ہو تو بقول معروف بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے لگتی ہیں۔ اُس(حکمران) کی موجودگی میں کمزور کا دِل مضبوط رہتا ہے۔ +*جو راجہ (حکمران) اچھی طرح پڑھا لکھا ہوگا اور علوم پر عبور رکھتا ہوگا، وہی رعایاء پر خوبی و تَندہی کے ساتھ حکومت کرے گا اور اُس (سلطنت) کا بھلا چاہے گا، وہی زمین (سلطنت) پر بے روک ٹوک قابض رہے گا۔ +**با ب 1، صفحہ 25، جزو 5۔ +*کان ، جِلد، نگاہ، زبان اور ناک کے ذریعے سماعت، لمس، رنگ اور بُو کے احساس سے بے پرواء ہوجانا، حواس پر قابو کہلاتا ہے۔ احکامِ حکمت کی پابندی کا یہی تقاضاء ہے ‘ کیونکہ تمام علوم کا مقصد یہی ہے کہ حواس پر قابو رکھا جائے۔ جو اِس کے خلاف جائے گا، جسے حواس پر قابو نہ ہوگا، جلد تباہ ہوجائے گا‘ چاہے تمام رُوئے زمین کا حاکم اور چار دانگِ عالم پر قابض کیوں نہ ہو۔ + + +*جو پنچھی پہلی بار گھونسلا چھوڑتا ہے‘ وہ ایک عجیب سے ناسٹلجیا میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔ اُسے چھوڑا ہوا گھونسلا یاد تو بہت آتا ہے مگر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ گھونسلا اب نئی زمین، نئی فضاؤں اور نئی ہواؤں میں اُسی درخت کو اُسی شاخ پر ٹنگا ہو ہاں، چوگا اور چہچہے نئے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 11-12۔ +*اگر آدمی کی اوسط عمر 70 برس فرض کرلی جائے تو جو رنج و محَن، مصائب و مظالم اور ذِلت و خواری وہ سَتَّر برس تک بھوگتا اور بھگتتا ہے ‘ و ہ چودہ گنا ہوجائے گی۔ آدمی گڑگڑا کے مرنے کی دعائین مانگے گا، مگر موت ہے کہ آ کے نہیں دے گی۔اِنتہاء یہ کہ ہمارا فیورٹ (پسندیدہ) بسنتی رنگ جھلس بُھلسا کے بھلبھلائے بینگن کا بُھرتا نظر آنے لگے گا ناں بابا، ناں۔ در گزرے ایسی زندگی سی۔ اللہ ہر شریف آدمی کو ایسے جالینوسی جہنم سے محفوظ رکھے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 18۔ +*کچھ دوائیں کھانے سے پہلے اور کچھ کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں۔ لیکن سچ پوچھیے تو تقریر نہ قبل از غذاء اچھی، نہ بعد از غذاء۔ خلوئے معدہ تو گانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ گانا ہی نہیں، خالی پیٹ تو حکومت کے خلاف ڈھنگ سے نعرہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسے ویسے خواب تک آنے بند ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خالی پیٹ صرف خون ٹیسٹ کرایا اور آپریشن کرایا جاسکتا ہے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 35۔ +*میں اکثر کہتا ہوں کہ کسی عمر و امراض رسیدہ شخص یعنی میرے ہم عمر سے کبھی اُس کی طبیعت کا مفصل حال نہیں پوچھنا چاہیے۔ اِس لیے کہ اگر اُس نے اپنے جملہ امراض و عوارض گنوانے شروع کردئیے تو ایک گھنٹے میں بھی فہرست ختم نہیں ہوگی۔ دل میں جمع شدہ غُبَّار بھی جیسا نکلنا چاہیے، ویسا نہیں نکل پائے گا۔اگر وہ الحمدللہ کہہ دے تو اِسے اظہارِ عقیدہ سم��ھنا چاہیے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 36۔ +پرانا مقدمہ باز آدھا وکیل ہوتا ہے اور دائم المرض آدمی پورا عطائی۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 37۔ +*آدمی کیسا ہی ہفت زبان ہو، گالی، گانے اور گنتی کے لیے اپنی مادری زبان ہی اِستعمال کرتا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات اپنی رپورٹیں، مضامین اور خطبات انگریزی میں رقم فرماتے ہیں، لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی تنخواہ کے نوٹ مادری زبان میں ہی گِنتے ہوں گے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 38۔ +سمجھدار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 39۔ +مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔ +زندگی میں اُداسیاں تمہارے سر پر منڈلاتی رہیں گی۔ اِن کو اپنے بالوں میں گھونسلا نہ بنانے دو۔ +*آپ کو مشکل سے کوئی ایسا شخص ملے گا جسے بچپن میں ڈاکٹربننے اور دکھی انسانیت کی مفت خدمت کرنے کی تمنَّا نہ رہی ہو۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 40۔ +*جب تک ہم اپنے ممدوح کے سر پر تاجِ شاہانہ نہ رکھ دیں اور اُس کے ہاتھ پر بیعتِ محکومانہ نہ کرلیں، ہمارے جذبۂ عقیدت و اِرادت مندی کی تسکین نہیں ہوتی۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 40-41۔ +اسلام کسی اور وسیلے سے پھیلایا نہ پھیلا ہو، طبلے اور سارنگی اور باجماعت تالیوں سے ہرگز نہیں پھیلا۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 42۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 42۔ +*میں ہومیوپیتھی کے خلاف نہیں۔ حق میں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جو امراض بغیر دواء کے بھی دور ہوجاتے ہیں، اُن کا ہومیوپیتھی سے بہتر کوئی علاج نہیں !۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 45۔ +*ہمارے ملک میں بے شمار مسائل ہیں۔ لیکن ہم کچھ اِتنے مجبور اور بے وسائل بھی نہیں۔ مسئلے کے صحیح Definition (بیان و توضیح) میں ہی اُس کے حل کے واضح اِشارے مل جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے اِس پہلو پر بھی ذرا غور کیجئے کہ ہر اِنسان کی طرح ہر قوم کو بھی اُس کے حوصلے اور سہار کے بقدر ہی آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ ہر مسئلہ ہمارے لیے ایک ذاتی اور اجتماعی چیلنج ہے۔ انسان کا ہر دکھ ہمیں اُس کے مداواء اور حسنِ سلوک کا موقع فراہم کرتا ہے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 47۔ +ایک زندہ، ذِمہ دار اور مہَّذ ب معاشرے کی یہ پہچان ہے کہ اگر وہ کسی کے دکھ درد کا مداواء نہیں کرسکتا تو اُس میں شریک ہوجاتا ہے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 48۔ +آدمی اُس وقت تک انسان اور اِنسان اُس وقت تک اشرف المخلوقات نہیں کہلایا جاسکتا ، جب تک وہ دوسروں کے دکھ نہ اَپنا لے۔ +**شام شعر یاراں، صفحہ 50۔ +*مشتاق احمد یوسفی شام شعر یاراں ، مطبوعہ کراچی، 2014ء + + +[[زمرہ:1920ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +تاریخ ابن کثیر سے اقتباسات +*ظالم سزا کا منتظر ہے اور مظلوم مدد کا۔ +**تاریخ ابن کثیر، جلد 9، صفحہ 38۔ +*ظالموں کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ اُنہوں نے کس کس کا حق مارا ہے؟، نیز یہ کہ ظالم کو عتاب کا اِنتظار کرنا چاہیے اور مظلوم کو نصرت و اعانت کا۔ +**تاریخ ابن کثیر، جلد 9، صفحہ 38۔ +*تمہیں اللہ کی نعمتیں دوسروں پر تو نظر آتی ہیں ، لیکن اپنی ذات میں اُنہیں بھول جاتے ہو۔ +**تاریخ ابن کثیر، جلد 9، صفحہ 41۔ +[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]] + + +**سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 83۔ +**سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 84۔ +**سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 84۔ +**سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 85۔ +**سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 85۔ +**سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 87۔ +* صدیق طاہر سرائیکی دیوان سچل سرمست ، مطبوعہ پاکستان فاؤنڈیشن، لاہور]]، مئی 1978ء +* محمد اسلم رسولپوری منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست ، مطبوعہ بزمِ ثقافت، ملتان، 1977ء +* ڈاکٹر نواز علی شوق سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری ، مطبوعہ سندھیکا اکیڈمی، کراچی (محکمہ ثقافت و سیاحت‘ حکومت سندھ)، ستمبر 2009ء + + +[[زمرہ:1730ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +[[زمرہ:1820ء کی دہائی کی وفیات]] + + +[[زمرہ:انیسویں صدی عیسوی کی وفیات]] + + +**مجموع الفتاویٰ، جلد 4، صفحہ 487۔ +[[زمرہ:1260ء کی دہائی کی پیدائشیں]] + + +نام سید اظہر حسین سبزواری +منصب: بانی و چیف ایگزیکٹو شاہ شمس ورلڈ فورم +