diff --git "a/ur/shard-10.txt" "b/ur/shard-10.txt" new file mode 100644--- /dev/null +++ "b/ur/shard-10.txt" @@ -0,0 +1,26566 @@ + + +علوم ارضیات زمین کا علم ہے۔ اس میں ہم زمین کے بارے میں سائینسی علم اور مشاہدات کا مطالعہ کرتے ہیں مثلا ان تبدیلیوں کا جو ہماری زمین میں ہو رہی ہیں، چٹانیں کیسے بنتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ +اس علم کی بدولت ہم اس قابل ہوے ہیں کہ زمین کا سینہ چیر کر اس میں اللہ تعالی کا دی ہوئی نعمتیں نکال سکیں مثلا معدنیات، تیل، گیس وغیرہ وغیرہ +علم ارضیات کی شاخیں یہ ہیں + + +ایڈز کی مرض کے بارے میں معلومات + + +پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں + + +کس کی مجال میرا چمن مجھ سے چھین لے! + + +جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے + + +اداسی بال کھولے سو رہی ہے + + +رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے + + +دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی + + +بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر + + +تجھ کو یاد تو آتا ہوگا + + +جس کی دھڑکن صدائے تیشہ نہیں + + +کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے + + +دریا ہوں اور پیاسا ہوں + + +میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل + + +چاند نکلے تو پار اتر جائیں + + +غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا دیس کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا +بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا +نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا +دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے +سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا +جگہ جگہ پہ دراڑیں تھیں ندی نالے تھے +سوادِ چشم میں پانی کا رِسم ایسا تھا +کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ +تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا +ہر ایک چیز برہنہ تھی بے کے نقطے میں +الف فروزاں تھا جس میں وہ بسم ایسا تھا +یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور +چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا +اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا +مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا +نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے +مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا +بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں +اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا +یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں پلکوں پر +کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا +گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور +تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا +(جس دوست جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں۔۔۔ +یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا +یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا +مجھ سے لپٹی جا رہی ہے اک حسیں آکاس بیل +یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا +موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں +کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا +بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی +روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا +کیا بلندی بخش دی بس ایک لمحے نے اسے +جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا +پھیر مت بالوں میرے ، اب سلگتی انگلیاں +مت کفِ افسوس میرے ، مردہ چہرے پر لگا +ہے محبت گر تماشا تو تماشا ہی سہی +چل مکانِ یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا +بہہ رہی ہے جوئے غم ، سایہ فگن ہے شاخِ درد +باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا +اتنے ویراں خواب میں تتلی کہاں سے آئے گی +پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا +اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے +آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا +ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا +آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا +بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ +دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا +کہیں ایسا نہ ہو کچھ ٹوٹ گیا ہو ہم میں +اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا +لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا +ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا +قوس در قوس کوئی گھوم رہا ہے کیا ہے +رقص کرتی کسی لڑکی کے غرارے جیسا +کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور +اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا +پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا +صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا +وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں +رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا +کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے +شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا +پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے +رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا +مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں +کربلا کیا موسم ِ ذوالحج گیا تھا +تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی +تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا +وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے +جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا +کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر +گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا +تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا +وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا +رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا +تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا +میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے +کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا +سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی +سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا +کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں +کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا +گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے +یہ آبِ زندگی ، بس چشمہ ء ہوس میں رہا +مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت +یونہی ستارہ مرا ، حرکت ء عبث میں رہا +کنارے ٹوٹ کے گرتے رہے ہیں پانی میں +عجب فشار مرے موجہ ء نفس میں رہا +وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں +وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا +قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن +ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا +جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور +تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا +موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا +بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا +اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ +گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا +بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں +ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا +شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ +دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا +ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ +اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا +پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں +میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا +شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی +مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا +کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر +اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا +پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ +اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا +بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر +اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا +باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے +لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا +گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات +آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا +منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں +دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا +اِس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا +ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا +دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف +اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا +آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی +اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا +اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب +تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا +ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو +دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا +گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ +میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا +ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول +لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا +پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے +کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا +یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف +اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا +ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع +تھا انگ انگ جسم کا محشر بنا ہوا +دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا +ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا +بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس +محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا +آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر +اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا +ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال +یہ مسٗلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا +کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو +اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا +اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ +منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا +آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا +ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا +یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت کو +ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا +پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں +امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا +یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف +ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا +آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں +وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا +فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ +میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا +کیا قریہ ء کلام میں قحط الرجال ہے +منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا +گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا +اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے +بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا +پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں +آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا +اور پھر تازہ ہوا کے واسطے +ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا +ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر +پائوں میں اس کے مقدر رکھ دیا +دیکھ کر افسوس تارے کی چمک +اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا +ایک ہی آواز پہنی کان میں +ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا +نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر +خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا +دیدہ ء تر میں سمندر دیکھ کر +اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا +زندگی کا استعارہ جان کر +ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا +رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس +ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا +میری مٹی کا دیا تھا سو اسے +میں نے سورج کے برابر رکھ دیا +خانہ ء دل سے اٹھا کر وقت نے +بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا +جو پہن کر آتی ہے زخموں کے پھول +نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا +کچھ کہا منصور اس نے اور پھر +میز پر لاکے دسمبر رکھ دیا +ہر روئیں پر ایک تارہ رکھ دیا +رات کا قیدی بنایا اور پھر +آنکھ میں شوقِ نظارہ رکھ دیا +خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر +میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا +بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے +چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا +دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں +اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا +میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا +تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا +فروزاں خواب کئے تیرہ طاق نے کیا کیا +میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کے لیے +بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا +عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک +سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق ��ے کیا کیا +خراب و خستہ ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی +دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا +وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے +گماں دئیے ترے حسن ِ مذاق نے کیا کیا +مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا +ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا +ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی +لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا +ہر اک شجر ہے کسی قبر پر کھڑا منصور +چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا +خواب ِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا +گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا +میں نے شب ِ فراق کی تصویر پینٹ کی +کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا +کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً +افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا +رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے +اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا +اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں +سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا +کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے +ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا +منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی +پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا +زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا +فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا +میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے +کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا +سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن +ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا +مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر +کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا +رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر +کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا +مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں +اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا +مری سچائی میں دہشت بڑی تھی +کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا +بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے +ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا +مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں +نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا +اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں +بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا +اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا +اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا +نظر منصور گولی بن گئی تھی +ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا +اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا +میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا +پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا +کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا +یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے +انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا +ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل +آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا +اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے +پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا +اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو +وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا +یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے +تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا +موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی +دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا +عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو +کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا +میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور +محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا +تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا +سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا +مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے +جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتادل نہیں ہوگا +محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے +وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا +مری جاں ویری سوری اب کبھی چشم ِ تمنا سے +یہ اظہار ِ محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا +سکوت ِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقش ِ پا ہوں گے +کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا +ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی +تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا +یہی لگتا ہے بس وہ شورش ِ دل کا سبب منصور +کبھی ہنگامہ ء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا +کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا +یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا +پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں +مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا +میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے +جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا +لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے +’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا +جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں +ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا +جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت +سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا +ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور +یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا +پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا +وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا +آپھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ +پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا +جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی +حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا +میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا +سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار +پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا +بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے +دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا +وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں +چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں +وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا +میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے +لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا +صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب +بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی +کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا +کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے +وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا +جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم +پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا +پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر +تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا +جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا +برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا +جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی +اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا +میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی +اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا +ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے +اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا +ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار +لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا +منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے +ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا +کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے +یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا +سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس +منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا +اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا +میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا +صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند +جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا +جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی +موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا +ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں +تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا +سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی +گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا +میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول +جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا +پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا +اور اس ہجر سے پھر میرا دب��تاں نکلا +رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی +اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا +نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے +کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا +خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے +رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا +لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر +والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا +صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ +جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا +وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے +اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا +زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن +چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا +ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں +یہ خرابہ تو مری جان گلستاں نکلا +زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا +تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا +رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور +جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا +آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا +ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا +اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی +آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا +محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر +آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا +آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی +چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا +ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟ +شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا +جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور +غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا +درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا +شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا +اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے +ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا +پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں +اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا +شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے +بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا +ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا +پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا +مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری +ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا +وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی +کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا +ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے +بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا +میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا +باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا +ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا +اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا +میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں +ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ +ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر +شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا +پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا +ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا +عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے +صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا +سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن +یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا +جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی +میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا +لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے +شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا +تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر +سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا +سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن +رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا +ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا +آسمانوں سے آگے سفر رات کا +بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں +میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا +صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی +جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا +چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں +آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا +پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے +کتنا احسان ہے شہر پر رات کا +میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا +مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا +مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک +میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا +میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ +یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا +کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس +کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا +میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں +کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا +مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے +میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا +شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک +کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا +مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں +میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا +مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا +مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا +انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے +ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا +تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا +میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا +اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست +مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا +کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں +میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا +مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی +میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا +فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں +سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا +مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے +میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا +شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا +ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا +یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے +لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا +قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی +اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا +قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر +کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا +ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے +دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا +سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر +وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا +یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور +یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا +وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا +کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا +بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا +میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا +کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا +پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا +رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش +اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا +اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی +برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا +جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے +کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا +بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے +یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا +کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا +نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا +خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں +کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا +ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ +جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا +توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن +تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا +دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں +کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا +دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور +کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا +گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا +پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا +خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں +اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا +کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا +ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا +لندن کے اک کلب سے بلی کی کج رو�� پر +ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا +شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی +چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا +بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا +میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا +کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں +منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا +موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا +پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا +اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے +پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا +اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں +پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا +میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال +آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا +یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ +مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا +میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا +دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا +اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن +مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا +کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین +ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا +اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ +اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا +وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف +مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا +جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک +یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا +کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا +انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا +کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر +اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا +ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی +مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا +اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی +اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا +اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے +اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا +آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی +منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا +یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا +نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا +میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا +ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا +چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ +دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا +اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید +یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا +میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے +میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا +کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی +یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا +آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور +خواب میں تو معاملہ کچھ تھا +سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا +سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا +زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں +ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا +کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے +امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا +شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے +دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا +وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد +سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا +جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور +ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا +دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا +پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا +رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی +برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا +سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں +پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا +’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں +ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا +رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک +ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا +کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل +کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا +پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو +دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا +وقت آگے تو نہیں ��ھر بڑھ گیا منصور سے +یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا +پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا +اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا +چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے +وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا +وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے +میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا +میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے +اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا +لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر +وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا +چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور +آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا +کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا +میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے +کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا +ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں +خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا +کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں +کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا +لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر +تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے +کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا +پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا +شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا +پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں +مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا +ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ +میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا +لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر +قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا +دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر +دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا +منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر +پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا +مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا +وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا +مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی +مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا +مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو +کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا +ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی +کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا +میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے +کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا +وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا +وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا +ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو +آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا +کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے +پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا +صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی +ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا +منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی +سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا +خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا +قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا +یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے +یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا +مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں +محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘ +سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا +کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا +سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج +لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا +یہی منصور حاصل زندگی کا +خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا +مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا +لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا +رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر +دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا +جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی +اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا +پوچھی گئی کسی سے جب اس کی ک��ئی پسند +آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا +تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ +لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا +تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق +منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا +ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا +میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا +اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں +ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا +دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن +کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا +اے بجھتی ہوئی شام محبت کے سفرمیں +اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا +نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے +ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا +شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد +لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا +منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن +اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا +عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا +دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا +بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی +اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا +منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی +کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا +ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر +بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا +ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی +اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا +ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں +لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا +قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی +جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا +باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی +ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا +ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور +اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا +شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا +اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا +سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی +جا کے دریا میں میری پیاس ملا +خشک پتے مرا قبیلہ ہیں +دل جلوں میں نہ سبز گھا س ملا +آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور +بس مرے خوف میں ہراس ملا +آ ، مرے راستے معطر کر +آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا +نسخہ ء دل بنا مگر پہلے +اس میں امید ڈال آس ملا +ہے سسی خان کے لیے منصور +سو غزل میں ذرا سپاس ملا +{سسی کا صحیح تلفظ یہی ہے} +خاک کا ایک اقتباس ملا +آسماں کے مگر ہے پاس ملا +اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں +جن کو وکٹوریہ کراس ملا +دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو +اپنے ہی قتل کا قصاص ملا +جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے +ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا +میز پر اہلِ علم و دانش کی +اپنے بھائی کا صرف ماس ملا +کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو +کیا نگر کا نگر خلاص ملا +اس میں خود میں سما نہیں سکتا +کیسا یہ دامنِ حواس ملا +چاند پر رات بھی بسر کی ہے +ہر طرف آسمانِ یاس ملا +گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے +شلیف سے کیا ابونواس ملا +وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا +جب مجھے حسنِ التماس ملا +تیرا فیضان بے قیاس ملا +جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا +تیرے قدموں کے آس پاس ملا +تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی +جب کہیں کوئی بھی اداس ملا +تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے +بس وہی مرتبہ شناس ملا +یوں بدن میں سلام لہرایا +جیسے کوثر کا اک گلاس ملا +تیری کملی کی روشنائی سے +زندگی کو حسیں لباس ملا +ابن عربی کی بزم میں منصور +کیوں مجھے احترامِ خاص ملا +بجا ہے دوستو منصور کا گلہ کرنا +مگر کچھ اس کے مسائل کا بھی پتہ کرنا +بڑا ضروری ہے عشقِ مجاز میں منصور +خود اپنے آپ پہ خود کو فریفتہ کرنا +نگارِ لوح و قلم کا ہے مشورہ منصور +ہر ایک شے کا مکمل مطالعہ کرنا +بھلا دیا ہے جہنم نے وقت کے منصور +لبوں سے قوسِ قزح کا تبادلہ کرنا +بس اپنی آنکھ سے اک بار دیکھنا منصور +پھر اس کے حسنِ مکمل پہ تبصرہ کرنا +یہ عمر ایک ہی پہلو میں کاٹ دے منصور +غلط ہے روز تعلق کا تجربہ کرنا +بس ایک کام نہیں آ سکا مجھے منصور +شبِ فراقِ مسلسل کا خاتمہ کرنا +پھر اس کے بعد بدلنا اسے عجب منصور +تمام عمر میں بس ایک فیصلہ کرنا +جلا کے راکھ نہ کردے کہیں تجھے منصور +یہ برقِ طور سے شب بھر معانقہ کرنا +مرے رسول کی سنت مرے لئے منصور +زمیں پہ رہ کے فلک سے مکالمہ کرنا +جنابِ شیخ کو اچھا نہیں لگا منصور +خدا کی ذات سے اپنا مصافحہ کرنا +یہ پانچ وقت جماعت کہے مجھے منصور +نماز کیا ہے زمانے سے رابطہ کرنا +یہ کیا کہ وہ جو دھڑکتا بدن میں ہے منصور +اس ایک شخص کا ہر شخص سے پتہ کرنا +شعورِ عشقِ محمد مری نماز ہوا +گماں یقین کی ساعت سے سرفراز ہوا +تُو کائنات کا خالق ہے مانتا ہوں مگر +مرا وجود تری ذات کا جواز ہوا +ترے لبوں کی کرم بار مسکراہٹ سے +نیاز مند خدائی سے بے نیاز ہو +میں رک گیا تھا جدائی کے جس جہنم میں +وہ انتظارِ قیامت سے بھی دراز ہوا +مرے سجود کی منزل ہے میری تنہائی +میں اپنی ذات کا خود ہی حریمِ ناز ہوا +مری مژہ پہ سجاتا ہے آنسوئوں کے چراغ +مزاجِ یار عجب روشنی نواز ہوا +مری جمال پرستی بھی تجھ سے ہے منصور +مرا حبیب ترا چہرہ ئ مجاز ہوا +کبھی بارشوں سے بہنا ، کبھی بادلوں میں رہنا +یہی زندگی ہے اپنی ، یونہی آنسوئوں میں رہنا +کبھی یونہی بیٹھے رہنا تری یاد کے کنارے +کبھی رات رات بہتے ہوئے پانیوں میں رہنا +کبھی سات رنگ بننا کسی ابرِ خوشنما کے +کبھی شاخ شاخ گرتی ہوئی بجلیوں میں رہنا +مجھے یاد آ رہا ہے ترے ساتھ ساتھ شب بھر +یونہی اپنے اپنے گھر کی کھلی کھڑکیوں میں رہنا +مجھے لگ رہا ہے جیسے کہ تمام عمر میں نے +ہے اداس موسموں کے گھنے جنگلوں میں رہنا +یہ کرم ہے دلبروں کا ،یہ عطا ہے دوستوں کی +مرا زاویوں سے ملنا یہ مثلثوں میں رہنا +ابھی اور بھی ہے گھلنا مجھے ہجر کے نمک میں +ابھی اور آنسوئوں کے ہے سمندروں میں رہنا +اپنے بت ، اپنے خدا کا درد تھا +یعنی اپنے بے وفا کا درد تھا +موت کی ہچکی مسیحا بن گئی +رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا +ننگے پائوں تھی ہوا کی اونٹنی +ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا +کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں +عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا +میں جسے سمجھا تھا ہجراں کا سبب +زخم پرودہ انا کا درد تھا +رات کی کالک افق پر تھوپ دی +مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا +پہلی پہلی ابتلا کا درد تھا +اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا +اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی +مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا +اب تلک احساس میں موجود ہے +کتنا حرف ِبرملا کا درد تھا +دور کا بے شک تعلق تھا مگر +خاک کو عرش علیٰ کا درد تھا +رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ +ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا +اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے وہ +ایسا ظالم کربلا کا درد تھا +مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا +خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا +جان لیوا بس وہی ثابت ہوا +جو مسیحا کی دوا کا درد تھا +رک گیا ، آہیں ُسروں پر دیکھ کر +ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا +کچھ برس پہلے مرے احساس میں +تھا ، سلوکِ ناروا کا درد تھا +مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا +اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا +اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا +اس کی آنکھوں میں نزع کا درد تھا +وقت کی قربان گاہ تھی دور تک +اور ازل بستہ قضا کا درد تھا +اس کی مجبوری پہ چپ تھا میں مگر +مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا +ہجر کی کالک بھری برسات سے +مجھ کو صحبت کو سزا کا درد تھا +اک طرف شہد و شراب و لمس تھے +اک طرف روزِ جزا کا درد تھا +اعتبارِ باختہ کا درد تھا +ساختہ پر داختہ کا درد تھا +امن پیشہ مورچوں کے پیٹ میں +پھڑپھڑاتی فاختہ کا درد تھا +جلوہ ئ خودساختہ کا درد تھا +اک امانت کی طرح ہے لمس میں +جو کسی دو شاختہ کا درد تھا +جس کی لذت حاصل ئ احساس ہے +ایک دوشیزہ خطا کا درد تھا — +آخرش ہجراں کے مہتابوں کا مد فن ہوگیا +آنکھ کا تالاب بدروحوں کامسکن ہو گیا +دھوپ در آئی اچانک رات کو برسات میں +اس کا چہرہ آنسوئوں میں عکس افگن ہو گیا +دل چرا کر جا رہا تھا میں دبے پائوں مگر +چاند نکلا اور سارا شہر روشن ہو گیا +رو پڑا تھا جا کے داتا گنج کے دربار پر +یوں ہوا پھرراہ میں سانول کا درشن ہوگیا +بجلیاں ہیں بادلوں کے بین ہیں کمرے کے بیچ +اور کیلنڈر کہے ہے ، ختم ساون ہو گیا +کیوں سلگتی ریت نے سہلا دئیے تلووں کے پھول +یہ اذیت کیش دل صحرا کا دشمن ہو گیا +جھلملا اٹھتا تھا برتن مانجھنے پر جھاگ سے +اس کلائی سے جو روٹھا زرد کنگن ہو گیا +تیری میری زندگی کی خوبصورت ساعتیں +تیرا بچپن ہو گیا یا میرا بچپن ہو گیا +ایک جلوے کی قیامت میں نے دیکھی طور پر +دھوپ تھی ایسی کہ سورج سوختہ تن ہو گیا +بے خدا ہوں سوچتا ہوں شکر کس کا ہو ادا +میں نے جو چاہا وہی منصور فوراً ہو گیا +مرکوز رکھ نگاہ کو ، پھر نین مت لگا +فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا +زردار! یہ جو تُونے کئے ہیں ہزار حج +اس پر امیدِ رحمتِ دارین مت لگا +جس سے تُو دیکھتا ہے ابو جہل کے قدم +اُس آنکھ سے رسول کے نعلین مت لگا +خطرہ ہے انعدام کا میرے وجود کو +باہوں سے اپنی محفلِ قوسین مت لگا +دونوں طرف ہی دشمنِ جاں ہیں خیال رکھ +اتنے قریب حدِ فریقین مت لگا +کوئی تماشا اے مرے جدت طراز ذہن +تُو عرش اور فرش کے مابین مت لگا +جائز ہر ایک آنکھ پہ جلوے بہار کے +اپنی کتابِ حسن پہ تُو بین مت لگا +دیوارِ قوس رکھ نہ شعاعوں کے سامنے +لفظِ طلو کے بعد کبھی عین مت لگا +دشمن کے ہارنے پہ بھی ناراض مجھ سے ہے +مجھ کو تو اپنا دل بھی کوئی’ جین مت‘ لگا +ادارک سلسلہ ہے ، اسے مختصر نہ کر +اپنے سکوتِ فہم کو بے چین ’مت‘ لگا +جس نے تمام زندگی بجلی چرائی ہے +اس کو تو واپڈا کا چیئرمین مت لگا +لگتا ہے یہ مقدمہ یک طرفہ عشق کا +منصور شرطِ شرکتِ طرفین مت لگا +مرے نصیب پہ رو دے ،کسی کا گھر نہ دکھا +تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج۔۔ اور در نہ دکھا +تُو اپنی شام کے بارے کلام کر مجھ سے +کسی کے بام پہ ابھری ہوئی سحر نہ دکھا +ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں +شبِ فراق! ابھی سے یہ چشمِ تر نہ دکھا +گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے +فریبِ وقت! مجھے شاخِ بے ثمر نہ دکھا +میں جانتا ہوں قیامت ہے بیچ میں منصور +مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا +آسرا کس وقت مٹی کے کھلونے پر رکھا +وقت پر پائوں کہانی ختم ہونے پر رکھا +دیکھتا کیا دو جہاں میں کہ فراقِ یار میں +دیدہ و دل کو ہمیشہ وقف رونے پر رکھا +پانیوں کو ساحلوں میں قید کر دینے کے بعد +موج کو پابند ساحل کے ڈبونے پر رکھا +چاہتا تو وقت کا ہم رقص بن سکتا تھا میں +خود سے ڈر کر خود کو لیکن ایک کونے پر رکھا +اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اس کے دروازے کے پاس +اور اس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا +سونپ کر منصور دل کو آگ سلگانے کا کام +آنکھ کو مصروف دامن کے بھگونے پر رکھا +ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آلیا +آوارگی کی شام مجھے گھر نے آلیا +میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لئے بغیر +پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آلیا +میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں +کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آلیا +گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں +یادش بخیر یادِ ستم گر نے آلیا +وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی +پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آلیا +منصور چل رہا تھاابھی کہکشاں کے پاس +یہ کیا ہوا کہ پائوں کی ٹھوکر نے آلیا +یوں خیالوں نے بدحواس کیا +ہجر کو وصل پر قیاس کیا +اپنی پہچان کے عمل نے مجھے +روئے جاناں سے روشناس کیا +کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن +آسماں نے بہت اداس کیا +ہم نے ہر ایک نماز سے پہلے +زیبِ تن خاک کا لباس کیا +بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور +کیا بسرا کسی کے پاس کیا +اے چاند پتہ تیرا کسی سے نہیں ملتا +رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا +او پچھلے پہر رات کے ،جا نیند سے کہہ دے +اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا +کیوں وقتِ مقرر پہ ٹرام آتی نہیں ہے +کیوں وقت ترا میری گھڑی سے نہیں ملتا +میں جس کے لیے عمر گزار آیا ہوں غم میں +افسوس مجھے وہ بھی خوشی سے نہیں ملتا +یہ ایک ریاضت ہے خموشی کی گپھا میں +یہ بخت ِہنر نام وری سے نہیں ملتا +وہ تجھ میں کسی روز ضرور آکے گرے گی +دریا تو کبھی جا کے ندی سے نہیں ملتا +دھلیز پہ رکھ جاتی ہے ہر شام جو آنکھیں +منصور عجب ہے کہ اسی سے نہیں ملتا +مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا +رنگ بکھرا دئیے پھر تازہ ہوانے کیا کیا +کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے +پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرھانے کیا کیا +میں تجھے کیسے بتائوں مری نازک اندام +مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا +میری خاموشی پہ الزام لگانے والی +کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا +کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی +شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا +میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے +مجھ کو شاداب کیادستِ دعا نے کیا کیا +یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن +پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا +سینہ ء ہجر میں پھر چیر لگا +رات بھر نعرہ ئ تکبیر لگا +دھجیاں اس کی بکھیریں کیا کیا +ہاتھ جب دامنِ تقدیر لگا +وہ تو بے وقت بھی آ سکتا ہے +خانہ ئ دل پہ نہ زنجیر لگا +میں نے کھینچی جو کماں مٹی کی +چاند کی آنکھ میں جا تیر لگا +اس سفیدی کا کوئی توڑ نکال +خالی دیوار پہ تصویر لگا +کیوں سرِ آئینہ اپنا چہرہ +کبھی کابل کبھی کشمیر لگا +سر ہتھیلی پہ تجھے پیش کیا +اب تو آوازہ ئ تسخیر لگا +آسماں گر نہ پڑے ، جلدی سے +اٹھ دعا کا کوئی شہتر لگا +رہ گئی ہے یہی غارت گر سے +دائو پہ حسرت ِ تعمیر لگا +پھر قیامت کا کوئی قصہ کر +زخم سے سینہ ئ شمشیر لگا +بند کر پاپ کے سرگم منصور +کوئی اب نغمہ دلگیر لگا +کنارِ صبح ِمکاں اک تبسم بار چہرہ تھا +سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا +مری نظریں اٹھیں توپھر پلٹ کر ہی نہیں آئیں +عجب سندرسی آنکھیں تھی عجب دلدار چہرہ تھا +سنا ہے اس لئے اس نے تراشے خال و خد میرے +اسے پہچان کو اپنی کوئی درکار چہرہ تھا +ہوا کی آیتوں جیسی تکلم کی بہشتیں تھیں +شراب و شہدبہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا +جہاں پردھوپ کھلتی تھی وہیں بادل برستے تھے +جہاں پُرخواب آنکھیں تھیں وہیں بیدار چہرہ تھا +شفق کی سر خ اندامی لب و رخسار جیسی تھی +چناروں کے بدن پر شام کا گلنار چہرہ تھا +جسے بتیس برسوں سے مری آنکھیں تلاشے ہیں +بس اتنا جانتا ہوں وہ بہت شہکار چہرہ تھا +جہاں پر شمع داں رکھا ہوا ہے یاد کا منصور +یہاں اس طاقچے میں کوئی پچھلی بار چہرہ تھا +میں زندگی ہوں وہ جانے لگا تواس نے کہا +وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا +مجھے زمین سے رکھنے ہیں اب مراسم بس +جب آسماں نے فسردہ کیا تو اس نے کہا +میں تتلیوں کے تعاقب میں جانے والا ہوں +کسی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تو اس نے کہا +اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی +گلی میں اس کی کوئی مرگیا تو ا�� نے کہا +مجھے بھی شام کی تنہائی اچھی لگتی ہے +مری اداسی کا قصہ سنا تو اس نے کہا +خیال رکھنا تجھے دل کا عارضہ بھی ہے +جب اس کے سامنے میں رو پڑا اس نے کہا +مجھے تو رات کی نیت خراب لگتی ہے +چراغ ہاتھ سے میرے گرا تو اس نے کہا +کوئی فرشتوں کی مجھ سے تھی دشمنی منصور +پڑھا نصیب کا لکھا ہوا تو اس نے کہا +پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا +وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا +پھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ +پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا +جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی +حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا +میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا +سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار +پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا +بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے +دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا +وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں +چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں +وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا +میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے +لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا +صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب +بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی +کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا +کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا + + +ہم نے کچھ اور سنا ہے اب کے + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا + + +آج تو رات جگا دی ہم نے + + +بند اس گھر کے دریچے ہو گئے + + +مرے کاسۂ شب وروز میں ترے کام کی کوئی شے نہیں + + +باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے + + +کاش یہ گھر کسی عنواں چمکے + + +آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی + + +یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں + + +شہر میں تیرا پتہ کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ + + +بجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے + + +آج کسی نے یاد کیا ہے + + +پھر وہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے + + +جیسے اک خواب، خواب میں دیکھا + + +کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دوں گا + + +میرے گیتوں کا دیوانہ پن پھول ہے + + +ہم ہی بیٹھے رہے مگر خاموش + + +برساتی ہیں اطراف سے پتھر تیری یادیں + + +تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے + + +تھا کوئی آدمی درختوں میں + + +جو خزاں کے خوف سے ��شک ہے وہی شاخ لائے گی برگ وبر + + +آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے + + +یہ کیا روگ لگا رکھا ہے + + +قصرِ بیدار کی دیوار گری ہم نفسو شکر کرو + + +اہل تحریر کا ہنر دیکھو + + +اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے + + +میں جاگوں یا داتا جاگے + + +ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے + + +تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے + + +میں بھی دریا تھا اتر کر رہ گیا + + +الم کشو اُٹھو کہ آفتاب سر پہ آگیا + + +تیرے دکھ گیتوں میں ڈھلیں + + +کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہوگئیں ڈھیر + + +یاد آتی ہے گل کی باس بہت + + +گر اتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی + + +رونا دھونا تو عمر بھر ہے یہ + + +بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی + + +وسعتِ‌ ارض و سما ہے دل میں + + +مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی + + +وہ نَے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اڑاتی تھی + + +جام چلتے رہیں مے اچھلتی رہے + + +لے کے پھر نئی چبھن بسنت آگئی + + +وہ ہم نوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے + + +وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا کوئی + + +وہ دیکھو سورج نکلا ہے + + +اس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے + + +کان دبی ہے ہیروں کی + + +دشت ہے یہ فیلوں کا + + +سنا ہے اُن میں سے کچھ آملے کنارے پر + + +آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں + + +کہ یادگار ہے یہ وقت انقلابوں میں + + +جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ +تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ + + +زمین پانی کو، سورج کرن کو ترسے گا + + +زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے + + +[[یاسمین حبیب کی شاعری ►◄[[Category:زبان و ادب]] + + +سیاسیات اور شھریت مین کوئ خاص فرق نہیں شھریت کہتے ہیں افراد کے منظم گرہ کے علم کو اور سیاسیات کہتے ہین لوگوں کے گرو کو منظم رکھنے کو + + +یاہو کا ای میل ایڈریس کیسے بنایا جاتا ہے + + +طبیعیات (يونانی physis نوعیت معنی φύσις ایک قدرتی سائنس ہے کہ [1] بات کا مطالعہ شامل ہے اور زمان و مکاں کے ذریعے اس کی رفتار ، جیسا کہ توانائی اور طاقت کے طور پر بھی تمام لاگو تصورات ، 2 (ہے) مزید موٹے طور پر. ، اس نوعیت کے جنرل تجزیہ ، تاکہ سمجھ دنیا اور کائنات کو کس طرح برتاؤ کرنے کی منظم کیا ہے 3 4 5] +طبیعیات کا سب سے پرانا تعلیمی مضامین میں سے ایک ، شاید علم فلکیات کو اس کی شمولیت کے ذریعے سب سے قدیم ہے [6] گزشتہ دو ہزار سال سے زیادہ ، طبیعیات کی گئی تھی پر غور کیا فلسفہ ، کیمیکل کا متبادل ہے ، اور ریاضی اور بیالوجی کے بعض شاخوں ، لیکن سائنسی انقلاب کے دوران. 16th صدی میں ، اس کا اپنا حق میں ایک منفرد جدید سائنس بننے کے لئے 7] تاہم ابھر کر سامنے آئے ، کچھ موضوعات علاقوں میں جیسا کہ ریاضی فزکس اور مقداریہ کیمیاء ، طبیعیات کی حدود میں مشکل رہ میں امتیاز کرنے والا. +طبیعیات دونوں اہم اور مؤثر ہے ، ایک حصہ میں ہے کیونکہ اس کو سمجھنے میں پیشگی اکثر نئی ٹیکنالوجی میں ترجمہ کیا ہے ، بلکہ یہ بھی وجہ سے دوسرے سائنس ، ریاضی کے ساتھ اکثر resonate طبیعیات میں نئے خیالات ، اور فلسفہ. مثال کے طور پر) ، برقی یا جوہری نئی مصنوعات جن میں ڈراما��ی جدید سماج (مثال کے طور پر ، ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر ، خانگی اشیاء ، اور جوہری ہتھیاروں کے پلٹ کے فروغ کے لئے براہ راست قیادت میں طبیعیات کے سمجھنے میں ترقی ، حرحرکیات میں ترقی کی ترقی کے نتیجے میں موٹر ٹرانسپورٹ کے اور آلاتیات میں پیشگی ریاضی کی ترقی سے حوصلہ افزائی. + + +نماز نبوی صلوۃ الرسول صحیح فرمانین رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں +٭ اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائیں ، حتی کہ کندھوں تک پہنچ جائیں۔اور ہتھلیاں قبلہ رخ ہوں ۔ (بخاری و مسلم) +اَﷲ ُ اَکبَرُ ۔ (مشکٰوة) اﷲ بہت بڑا ہے۔ +٭ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں دیاں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھ کر مضبوطی سے سینے پر باندھتے ۔ (ابو داود) +دُعائے اِستفتاح: ٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تکبیر تحریمہ کے بعد قرات شروع کرنے سے پہلے تھوڑی دیر خاموش رہتے۔ میں نے عرض کیا :یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان ، اس خاموشی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں یہ د ُعا پڑھتا ہوں ۔ +اَ للّٰھُمَّ بَا عِد بَینی وَ بَین خَطَیایَ کَمَا بَا عَدتَّ بَین المَشرِقِ وَالمَغرِبِ ۔ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِی مِنَ الخَطَا یا کَمَا ینقَّی الثَّوبُ الاَبیض مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰھُمَّ اغسِل خَطَیایَ بِالمَآئِ وَالثَّلجِ وَ البَرَدِ ۔ +(بخاری و مسلم ،نسائی و ابن ماجہ) +ترجمہ: اے اﷲ دوری ڈال درمیان میرے اور میرے گناہوں کے جِس قدر کہ دور رکھا ہے آپ نے مشرق کو مغرب سے۔ یا اﷲ! صاف کردے مجھے گناہوں سے جس طرح صاف کیا جاتا ہے کپڑا سفید میل کچیل سے ۔ یا اﷲ دھو ڈال میرے گناہ پانی،برف اور اولوں سے۔ +ثنا ء :سُبحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمدِکَ وَ تَبَارَکَ اسمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیرکَ ۔(ابو داود) +پاک ہے تو ، اے اﷲ اور آپکی ہی حمد ہے اور با برکت ہے نام آپکا اور بلند ہے آپکی شان، اور نہیں کوئی عبادت کے لائق آپ کے سوا ۔ +سورة الفا تحہ خلف الامام : +٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز میں سورة الفاتحہ (الحمد ﷲ) نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی(اور پھر فرمی) نماز نامکمل رہتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا، ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا،اس وقت دل میں پڑھ لیا کرو۔ +اَ لحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِین لا الرَّحمٰنِ الرَّحِیم لا مٰلِکِ یومِ الدِّین ط یاکَ نَعبُدُ وَ یاکَ نَستَعِین ط اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیم لا صِرَاطَ الَّذِین اَنعَمتَ عَلَیہم لا غَیرالمَغضُوبِ عَلَیہم وَ الضَّا ٓلِّین ۔( اٰمِین) +بلند آواز سے آمین کہنا :٭ حضرت وائل بن حجر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ولا الضالین کہتے ،تو ہم اونچی آواز میں آمین کہتے۔ +٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔جس کی آمین (کی آواز) فرشتوں کی آ مین سے موافق ہو گئی اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ +سورة فاتحہ کے بعد قرآن مجید کی کوئی یک سورة پڑھ لی جائے۔ +٭ حضرت نافع رضی اﷲ ��نہ بیان فرماتے ہیں کہ!عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب نماز شروع کرتے تو ،اﷲ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرتے ، تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب (رکوع سے اٹھنے کے لیے) سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو پھر دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب(تین یا چار رکعتوں والی نماز میں) دو رکعتوں بعد اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے اور فرماتے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس طرح کیا کرتے تھے ۔(بخاری شریف) +رکوع کی تسبیح: کم از کم تین دفعہ،پانچ،یا سات مرتبہ یہ تسبیح پڑھ لی جائے۔ +سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیم ۔ (ابن ماجہ) +ترجمہ پاک ہے رب میرا بزرگ۔ +٭ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب رکوع فرماتے تو اپنا سر (کمر سے) نہ اونچا کرتے نہ نیچا کرتے بلکہ سر اور کمر برابر رکھتے۔ +٭ حضرت ابو حمیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے،یہاں تک کہ ہر جوڑ اپنی جگہ پر آجاتا۔(بخاری )یعنی رکوع سے سر اٹھا کر نہیت اطمینان سے کھڑے ہونا چاہئے اور پھر سجدہ کریں۔ +قومہ یعنی رکوع سے ا ٹھا نے کی دُعاء: آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو ان کلمات کا ثواب لکھنے میں سبقت حاصل کرتے دیکھا۔ +سَمِعَ اﷲ ُ لِمَن حَمِدَہ‘ ۔ رَ بَّنَاوَ لَکَ الحَمدُ۔ حَمدًا کَثِیرا طَیبا مُّبَارَکًا فِیہ ۔ (بخاری) +ترجمہ: سن لیا اﷲ نے جِس نے اسکی تعریف کی۔اے ہمارے رب اور آپ کے لئے ہے تعریف۔تعریف بہت پاکیزہ بابرکت۔ +٭ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیشانی پر یہ کہتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا ، دونوں ہاتھ،دونوں گٹھنے اور دونوں پاوں کی انگلیاں۔نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔ +٭آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا!سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی سجدے میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔ (بخاری و مسلم )یعنی سجدے میں بازو زمین پر نہیں بچھانے ،بلکہ پہلواوں سے الگ ہوں۔اور سجدے میں پاوں کی انگلیاں قبلہ رخ ہونی چاہئیں۔ +سجدہ کی تسبیح سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی ۔(ابن ماجہ) پاک ہے رب میرا بہت بلند۔ +کم از کم تین دفعہ،پانچ،یا سات مرتبہ یہ تسبیح پڑھ لی جائے۔۰ +جلسہ یعنی دو سجدوں کے درمیان کی دُعاء : +اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاجبُرنِی وَارفَعنِی وَاھدِنِی وَ عَافِنِی وَارزُقنِی ۔ (ابو داود ،ترمذی) +٭آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب نماز کی طاق رکعتوں (پہلی اور تیسری) میں ہوتے تو (دوسرے سجدے کے بعد) تھوڑی دیر سیدھے بیٹھتے پھر قیام کے لیے کھڑے ہوتے۔ (بخاری) +تشہد اَلتَّحِیاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوَاتُ وَ الطَّیباتُ اَلسَّلاَمُ عَلَیک یھا النَّبِیُّ وَرَحمَةُ اﷲِ وَ بَرَ کَاتُہ‘ اَلسَّلاَمُ عَلَینا وَ عَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّا لِحِین اَشھَدُ اَن لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ‘ وَرَسُو لَہ‘ ۔ +ترجمہ:سب درُود وظیفے اﷲ کے لیے ہیں اور سب عجزونیاز اور سب صدقے خیرات بھی ، سلام ہو تجھ پر اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور رحمت اﷲ کی اور اُسکی برکتیں ، سلام ہو ہم پر اور اﷲ کے نیک بندوں��ر ، میں اقرار کرتا ہوں کہ نہیں لائق عبادت کے مگر اﷲ اور اقرار کرتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اﷲ کے بندے اور اُسکے رسول ہیں۔ +٭آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو داہنا ہاتھ دائیں گٹھنے پر اور بیاں ہاتھ بائیں گٹھنے پر رکھتے اور اپنے انگوٹھے کو اپنی درمیانی انگلی پر رکھ کر حلقہ بناتے ہوئے شہادت کی انگلی اوپر اٹھاتے ۔ +د رُ ود شریف اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیٓ اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیت عَلٰی اِبرَاھِیم وَعَلٰیٓ اٰلِ اِبرَاھِیم اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیٓ اٰل ِمُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیم وَعَلٰیٓ اٰلِ اِبرَاھِیم اِنَّکَ حَمِید’‘ مَّجِید’‘ ۔ +٭رَ بِّ اجعَلنِی مُقِیم الصَّلٰوةِ وَ مِن ذُرِّ یتی رَبَّنَا وَتَقَبَّل دُعَا ٓئِ ٭رَبَّنَااغفِرلِی وَلِوَلِدَیَّ وَلِلّمُومِنِین یَومَ یقومُ الحِسَاب ُ ۰ (سورة ابراہیم/61) +ترجمہ:اے میرے رب مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد کو بھی ۔ اے ہمارے رب ہماری دعا قبول فرما ۔ اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماںباپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش ، جس دن حساب ہونے لگے ۔ +٭اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمتُ نَفسِی ظُلمًا کَثِیرا وَّ لاَ یغفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّآ اَنتَ فَاغفِرلِی مَغفِرَةً مِّن عِندِکَ وَارحَمنِی اِنَّکَ اَنتَ الغَفُورُ اَلرَّحِیم ط +یا جو بھی دعا یاد ہو پڑھ سکتے ہیں۔ +تشہد اور دُعاوں سے فارغ ہو کر دائیں اور بائیں منہ پھیرتے ہوئے یوں کہیں۔ +اَلسَّلاَمُ عَلَیکم وَ رَحمَةُ اﷲِ +سلام ہو تم پر ، اور رحمت اﷲ کی ۔ + + +[[صحت کارکن کے لئے احم پیغامات]] + + +بریسٹ کینسر کے علاج کا حیرت انگیز واقعہ]] + + +مرکز صحت میں موجود ڈاکٹر٬لیڈی ڈاکٹر٬ نرس٬ مڈوائف یا لیڈی ہیلتھ وزیٹر سے معائنہ کروائیں۔ +ماں اور بچے کی صحت اور نشونما کے بارے میں جاننے کےلیے +حاملہ کو خطرناک علامات کی پہچان کےلیے (مثلاً خون کی کمی٬ بلڈپریشر وغیرہ) +مستند کارکنان صحت سے مفید مشورے حاصل کرنے کےلیے۔ +* پورے حمل کے دوران میں حاملہ کو ہر ماہ معائنہ کروانا چاہیے اگر اتنی مرتبہ آنا ممکن نہ ہو تو :۔ +پورے حمل میں کم از کم 4 مرتبہ معائنہ کروائیں یعنی +پہلا معائنہ حمل کے شروع کے 4 ماہ کے دوران۔ +دوسرا معائنہ چھٹے اور ساتویں مہینے کے دوران۔ +تیسرا اور چوتھا معائنہ حمل کے نویں مہینے میں ۔ +* اینیمیا یا خون کی کمی +* بچے کی پوزیشن اور حرکت کے بارے میں جاننے کےلیے +* خوراک اور تشنج کے ٹیکوں کے متعلق مشورہ +* فولاد فولک ایسڈ کی گولیاں کھانے کا طریقہ +* اگلی دفعہ چیک اپ کی تاریخ +حمل کے دوران میں کسی تکلیف نہ ہونے کی صورت میں بھی مرکز صحت سے معائنہ ضروری ہے۔ + + +* متلی ہونا٬ قے آنا +تھوڑے تھوڑے وقفے سے کھانا کھائیں اور عام حالات کی نسبت زیادہ کھائیں۔ +پانی اور مشروبات زیادہ استعمال کریں لیکن کھانے کے دوران میں پینے والی اشیائ کم استعمال کریں۔ +کم مصالحہ او رکم چکنائی والی خوراک استعمال کریں۔ +سونے سے پہلے تھوڑا کھانا ضرورکھائیں۔ +سونے سے پہلے چہل قدمی ضرور کریں۔ +مصالحہ دار اور چکنائی والی خوارک سے پرہیز کریں۔ +سر تھوڑا اونچا کرکے سوئیں۔ +سونے سے پہلے چہل قدمی ضرور کریں۔ +خوراک میں زیادہ تر پتوں والی سبزیاں ٬ اسپغول اور پھل استعمال کریں۔ +پانی یا مشروبات زیادہ مقدار میں استعم��ل کریں۔ +روزانہ ہلکی ورزش کریں یا کم از کم آدھ گھنٹے چہل قدمی کریں۔ +* پیروں پر سوجن اور کمر کا درد +لگاتار زیادہ دیر کھڑے ہونے سے پرہیز کریں۔ +دن کے دوران میں ایک یا دو گھنٹے لیٹ کر آرام کریں۔ لیٹنے کے دوران میں پاؤں سر سے اونچے رکھیں۔ +کسی قسم کی دوا کھانے یا مالش کرنے کی ضرورت نہیں ۔ +* شرمگاہ کی خارش اور بچہ دانی سے رطوبت کا اخراج +:شرمگاہ کو صابن اور پانی سے بار بار دھوئیں ۔ +تکلیف زیادہ ہو یا علامات برقرار رہیں تو فوراً مرکز صحت /ڈاکٹرسے رابطہ کریں۔ + + +حاملہ عورتوں کو صحت مند رہنے کےلیے اور زچگی کی طاقت پیداکرنے کےلیے اضافی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ +ہر حاملہ عام دنوں سے زیادہ کھائے کیونکہ ماں کی صحت اور بچے کی نشو ونما کے لیے بھی ضروری ہے۔ +* دن میں تین دفعہ کھانا کھائیے۔ ہر کھانے پر روٹی اور سالن کی دگنی مقدار استعمال کریں۔ +# ایک روٹی ٬ آدھ پاؤ سبزیاں ٬ آدھ پاؤدودھ یا جو کچھ بھی میسر ہو اسے زیادہ مقدار میں لیں۔ +# دن میں تین دفعہ کھانوں کے درمیان میں ہلکی غذا لیں مثلاً پھل ٬ دہی ٬ لسی ٬ گھی کی روٹی ٬ چاٹ یا حلوالیں۔ +# کچی سبزیاں جیسے ٹماٹر'کھیرا'مولی'گاجریں یا لیموں وغیرہ کا زیادہ استعمال کریں۔ +# ہرے پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک٬ ساگ٬ ہرا دھنیا بھی کھائیں۔ +یہ چیزیں تھوڑی مقدار میں ہر کھانے کے ساتھ کھانے سے گیس یا بد ہضمی نہیں ہوگی۔ +حمل کے دوران میں ہر قسم کی میسر خوراک معمول سے زیادہ استعمال کریں۔ +کسی قسم کی خوراک کی ممانعت نہیں ہے (مثلاً انڈا، گوشت، مچھلی وغیرہ) + + +* رفع حاجت کے بعد اور کھانے کی اشیائ کو چھونے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھولیں۔ +* انگلیوں کے ناخن چھوٹے اور صاف رکھیں۔ +* اپنی جلد اور خاص طور پر شرمگاہ صاف رکھیں۔ +* بالوں میں روزانہ کنگھی کریں۔ +* کپڑے دھونے کے بعد دھوپ میں خشک کریں۔ +* ہر کھانے کے بعد کلی کریں۔ +* دانتوں کو صاف رکھیں۔ +* دن میں ایک یا دو گھنٹے آرام ضرور کریں۔ (بائیں کروٹ پر لیٹنا سیدھا لیٹنے سے بہتر ہے) +* زیادہ دیر کےلیے سخت تھکا دینے والے کام نہ کریں۔ +* زیادہ دیر تک کھڑے ہوکر کام نہ کریں۔ +* چھوٹے چھوٹے کاموں کےلیے گھر کے دیگر افراد اور بچوں سے مدد لیں۔ +* بھاری بوجھ اٹھانے سے پرہیز کریں۔ +دوران میں حمل دن میں ایک یا دو گھنٹے آرام ضرور کریں۔ + + +*خون بنانے والی گولیاں (فولاد٬ فولک ایسڈ) دوا نہیں ہیں بلکہ غذا کی طرح جسم میں خون پیدا کرتی ہیں۔ +* حمل کے چوتھے مہینے سے لیکر بچے کی پیدائش کے چھ مہینے تک روزانہ پابندی سے کھائیں۔ +* یہ گولیاں خالی پیٹ نہ کھائیں بلکہ کھانے کے درمیان میں کھائیں۔ +* یہ گولیاں پانی یا لیموں پانی کے ساتھ کھائیں کیونکہ اس طرح فولاد جلد جذب ہوتی ہے۔ +* پابندی سے خون بنانے والی گولیاں (فولاد) کھانے سے آپ کو سانس پھولنے ٬ چکر آنے ٬ تھکن محسوس کرنے اور کمزوری کی شکایت نہیں ہوگی۔ +* خون بنانے والی گولیوں کے ساتھ ساتھ اضافی خوراک بھی کھائیں۔ +بعض اوقات فولاد کی گولیوں سے کچھ خواتین میں ضمنی اثرات پیدا ہوسکتے ہیں مثلاً +ضمنی اثرات کی صورت میں کیا کرنا چاہیے? خاتون کو تسلی دیں اور بتائیں کہ +* کالے پاخانوں کا مطلب ہے کہ فولاد جسم میں جذب ہو رہا ہے۔ +* دوائی جاری رکھیں 5۔3دنوں میں مسئلہ خود بخود ہی حل ہوجائیگا۔ +* گولیاں کھانے کے درمیان میں کھاکر دیکھیں۔ +چائے یا دودھ پینے کے تین گھنٹے بعد تک گولی نہ کھائیں۔ + + +# خون جاری ہونا٬ دھبے لگنا (درد یا درد کے بغیر) +# شرمگاہ پر سرخی یا دھبے +# شرمگاہ سے بدبودار مواد کا اخراج +# تیسرے مہینے کے بعد قے جاری رہنا +# پیٹ اور نچلے حصے میں شدید درد +# شدید سر درد ٬ نظر دھند لانا٬ چکر آنا٬ ہاتھوں اور پاؤں پر سوجن +# اگر بچے کی پوزیشن صحیح نہ ہویعنی بچہ کا سر نیچے کی طرف نہ ہو۔ +# گر حمل کے چوتھے ماہ کے بعد بچہ کی حرکت محسوس نہ ہو۔ +ان تمام صورتحال میں گھر پر علاج ہرگز نہ کروائیں بلکہ فوراً مرکز صحت یا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ +خون پڑنے یا دھبے لگنے کی صورت میں کھبی بھی دائی سے اندرونی معائنہ نہ کروائیں۔ + + +# بچے کی پیدائش سے پہلے شوہر اور گھر والوں کے ساتھ مل کر محفوظ زچگی کےلیے لیڈی ہیلتھ وزیٹرمڈوائف یا لیڈی ڈاکٹرکاانتظام کریں۔ +# زچگی کےلیے جگہ کا انتخاب (گھر یا مرکز صحت) کا فیصلہ پہلے سے کرلیں۔ +حمل /زچگی کی خطرناک علامات کی صورت میں پہلے سے ڈسٹرکٹ یا پرائیویٹ ہسپتال کی نشاندہی لیڈی ہیلتھ ورکر کے مشورے سے کرکے رکھیں۔ +# مسئلے کی صورت میں کون ساتھ جائیگااور خون دے گا اس کا فیصلہ پہلے سے کرلیں۔ +# کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے اور زچگی کے اخراجات کےلیے پہلے سے پیسوں کا بندوبست کرلیں۔ +اس مقصد کےلیے ہر ماہ تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر رکھیں۔ +# مرکز صحت یا ہسپتال لے جانے کےلیے سواری انتظام پہلے سے کرلیں +متعلقہ افراد کو بوقت ضرورت سواری مہیا کرنے کےلیے پہلے سے پابند کرلیں +محفوظ زچگی کےلیے ہنر مند طبی کارکن 'مناسب مرکز صحت ہسپتال کی نشاندہی'رقم اور سواری کا انتظام پہلے سے کرلیں۔ + + +# ماں اور آنے والے بچے کی تیاری +ممکن ہوتو نہالیں ٬ صاف کپڑے پہنیں ٬ پیشاب پاخانہ کرلیں۔ +شرمگاہ سے غیر ضروری بال صاف کریں اور اچھی طرح صابن اور پانی سے دھوکر خشک کرلیں۔ +بچے کےلیے مناسب کپڑے اور لپیٹنے کےلیے چادر کا انتظام کریں۔ +کمرہ ہوا دار ہونا چاہئے اور اس میں بجلی لالٹین یا موم بتی سے روشنی کا انتظام ہونا چاہئے۔ +ایک صاف بستر یا چار پائی تیار کریں۔ +پانی ابالنے کا انتظام کریں چولھا اور بڑی پتیلی (دو کلو والی) تیار رکھیں۔ +#:دائی ٬ حاملہ ٬ لیڈی ہیلتھ ورکر اور گھر کے اور ذمے دار افراد مل کر دائی کٹ میں موجود اشیائ کا جائزہ لیں اور کٹ کو مکمل کرلیں۔ کٹ میں مندرجہ ذیل اشیائ شامل ہیں۔ +ناڑو کاٹنے کےلیے نیا بلیڈ +دھاگے٬ روئی اور ململ کے ٹکڑے +محفوظ زچگی کےلیے آنے والے بچے کے مناسب کپڑے٬ کمرے اور زچگی کے ضروری سامان اور دائی کٹ کا انتظام /تیاری پہلے سے کرکے رکھیں۔ + + +# ہاتھوں کی صفائی (دائی یا زچگی کروانے والے کےلیے ۔ +#:ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ +ناخن کاٹیں اور ناخن کے اندر سے میل صاف کریں۔ +اپنی کہنیوں تک بازؤں پر پانی ڈالیں +ہاتھ دھونے کےلیے صابن استعمال کریں۔ +ہاتھوں کو رگڑ کر صاف کریں خاص طور پر انگلیوں کے درمیان میں اور ناخنوں کے گرد ۔ +ہاتھوں کو اچھی طرح صاف پانی سے دھوئیں۔ +انگلیوں کو سیدھا رکھتے ہوئے ہاتھوں اور بازؤں کو اوپر کی طرف اٹھالیں تاکہ پانی نیچے کی بہہ جائے اور ہاتھ جلدی خشک ہوجائیں +ہاتھوں کو ہوا میں خشک ہونے دیں ٬ تولیے یا کسی دوسرے کپڑے سے ہرگز صاف نہ کریں +#:اس بات کا یقین کرلیں کہ زچگی کے وقت حاملہ کے اردگرد کی جگہ صاف ہو اور زچگی کی جگہ پر صاف چادر یا پلاسٹک شیٹ بچھی ہوئی ہو۔ +# سامان کی صفائیاں اس بات کی یقین دہانی کرلیں کہ: +ناڑو کاٹنے کےلیے نیا بلیڈ موجود ہو۔ +نوزائیدہ کی آنکھیں صاف کرنے کےلیے صاف روئی موجو د ہو۔ +ناڑو باندھنے کےلیے صاف دھاگے اور منہ اور ناک صاف کرنے کےلیے صاف ململ کے ٹکڑے موجودہوں۔ +محفوظ زچگی کےلیے تین صفائیوں کا خیال رکھیں۔ + + +# زچگی کا درد شروع ہوئے 8 سے 21 گھنٹوں سے زیادہ ہو۔ +# سر درد ٬ دورے یا جھٹکے۔ +# دردوں کی شدت میں کمی ہوجائے۔ +# شدید دردوں کے باوجود پیدائش نہ ہو۔ +# زچگی کے دوران میں بازو ٬ ٹانگ یا ناڑو پہلے آجائے۔ +# ماں کو غشی طاری ہونا٬ نبض کی رفتار 001 سے بڑھ جانا٬ جلد ٹھنڈی ہونا۔ +ان تمام صورتحال میں ماں کو فوراً مرکز صحت لے جائیں تاکہ ماں اور بچے کی جان بچائی جاسکے۔ + + +زچگی کے بعد ماں کی فوراًدیکھ بھال +# بسترپر صاف اور خشک چادربچھالیں۔ +# ماں کو صاف کپڑے پہنائیں اور صاف روئی ٬ کپڑے کا پیڈ/گدی استعمال کریں۔ +# ماں کو پینے کےلیے گرم مشروب٬ دودھ ٬ یخنی اور دہی دیں۔ +# ماں کوآرام کرنے کےلیے کہیں۔ +# خون کا اخراج وقفے وقفے سے چیک کرتے رہیں۔ +# پیدائش کے فوراًبعد بچے کو ماں کا دودھ شروع کروادیں۔ +بچے کو فوراً ماں کا دودھ شروع کروائیں اور زچہ کے خون کا اخراج وقفہ وقفہ سے چیک کریں۔ + + +* زچہ کو اچھی خوراک اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کےلیے چاہیے۔ +* اضافی خوارک اور پانی /مشروبات لینے سے آپ کو طاقت ملے گی اور دودھ زیادہ بنے گا۔ +حمل کے دوران میں شروع کی گئی اضافی خوراک جاری رکھیں مثلاً: +* دن میں تین تین دفعہ کھانا کھائیے اور دو دفعہ کھانوں کے درمیان میں ہلکی غذالیں۔ +ہر کھانے پر روٹی اور سالن کی دگنی مقدار استعمال کریں۔ +پھل ٬ دہی٬ لسی٬ گھی کی روٹی٬ چاٹ یا حلوالیں۔ +* کھانوں کے درمیان میں ہلکی پھلکی چیزیں مثلاً پھل 'کچی سبزیاں 'دودھ وغیرہ استعمال کریں۔ +* ہر دفعہ بچے کو اپنا دودھ پلانے سے پہلے ایک گلاس پانی٬ دودھ یا جوس (جو کچھ بھی میسر) ہو پی لیں۔ +* اگر آپ یہ چیزیں تھوڑی مقدار میں ہر کھانے کے ساتھ کھائیں گی تو گیس یا بد ہضمی نہیں ہوگی۔ +* فولاد ٬ فولک ایسڈ کی گولیوں کا استعمال تب تک جاری رکھیں جب تک بچہ چھ ماہ کا نہ ہوجائے۔ +* گھر کے کام کاج میں دیگر افراد خانہ کی مدد لیں۔ +اضافی خوارک کے ساتھ ساتھ دن میں ایک یا دو گھنٹے کےلیے آرام ضرور کریں۔ + + +خاندانی منصوبہ بندی کے معنی ہیں : +# خاندان کے بارے منصوبہ بنانا +# میاں بیوی کا یہ طے کرنا کہ ان کو کتنے بچے چاہئیں۔ +# یہ طے کرنا کہ ایک حمل کے بعد دوسرا حمل کب اور کتنے وقفے سے ہونا چاہئے +# بغیر خواہش حمل سے بچاؤ کے طریقے اختیار کرنا۔ +خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ +# ماں اور بچے کی صحت کےلیے +# خاندان کی بھلائی اور خوشگوار زندگی کےلیے +# خاندان کی خوشحالی اور معاشی تحفظ کےلیے +# سماجی اور قومی بھلائی کےلیے +عورت کی بہتر صحت کےلیے ضروری ہے کہ دو بچوں کے درمیان میں سال کا وقفہ ہو تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرسکے۔ +ایک صحت مند ماں بھرپور طریقے سے اپنے بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کرسکتی ہے۔ +بچوں کوماں کی پوری توجہ ملتی ہے ار انکی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔ +بچوں کو تعلیم اور ترقی کے بہتر مواقع ملتے ہیں۔ +با پ کو بڑھتے ہوئے کنبے کی ضرورت پوری کرنے کےلیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ +بچے زیادہ صحتمند اور طاقت ور ہوتے ہیں اور زندگی کی دوسری آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ +معاشرے میں غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ +خوراک٬ تعلیم کی کمی٬ طبی سہولتوں کے فقدان ٬ پانی کی فراہمی اور ماحول کی آلودگی کے مسئلوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ +کم آبادی سے ملک پر معاشی بوجھ کم ہوتا ہے اور موجودہ وسائل کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ +بڑے خاندان خوشحال نہیں رہ سکتے: +# نہ پیٹ بھر کر خوراک۔ +بچوں کی پیدائش میں کم از کم تین سال کا وقفہ رکھنے سے ماں صحت مند اور بچہ تندرست + + +کنڈوم کے استعمال کےلیے کسی طبی معائنے یا ڈاکٹری نسخے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ +کوئی بھی شادی شدہ مرد کنڈوم استعمال کرسکتا ہے۔ +اس کا استعمال صرف ضرورت کے وقت کرنا ہوتا ہے۔ +کنڈوم سے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی٬ نہ ہی یہ عورت کی ماہواری پر کوئی اثر ڈالتا ہے۔ +ہر عمر کا مرد استعمال کرسکتا ہے۔ +چند کلائنٹ کومعمولی ضمنی اثرات ہوسکتے ہیں جیسے کہ :۔ +کنڈوم کے ربر سے الرجی ہوسکتی ہے۔ +ہر ملاپ کے دوران میں ایک نیا کنڈوم استعمال کریں۔ اسے دوبارہ استعمال نہیں کرسکتے۔ +کنڈوم کی ہر وقت موجودگی ضروری ہے تاکہ جب بھی میاں بیوی ملاپ کرنا چاہیں ان کے پاس یہ موجود رہے۔ +28گولیوں کا پیکٹ ہوتا ہے۔ +ماہواری کے پہلے دن سے پہلی گولی شروع کریں اور پھر روزانہ بلا ناغہ ایک گولی کھائیں۔ +بہت قابل اعتبار ہے۔ باقاعدگی سے استعمال کرنے سے حمل نہیں ٹھہرتا۔ +ماہواری میں باقاعدگی پیدا کرتی ہے۔ +ماہواری کے دردوں کو ختم کرتی ہے۔ +ماہواری میں زیادہ خون کے اخراج اور ایام میں کمی کرتی ہیں۔ +چند کلائنٹ کو معمولی اثرات ہو سکتے ہیں جیسے کہ کچھ عرصے بعد ٹھیک ہو:۔ +ماہواری کے درمیان میں خون کا دھبہ لگنا +یہ شکایات گولیوں کے متواتر استعمال سے خودبخود دور ہوجاتی ہیں +مرغن اور چکنائی والے کھانوں سے پرہیز کریں۔ روزانہ ہلکی پھلکی ورزش کریں۔ +ایک انجکشن 8۔21 ہفتے تک حمل سے محفوظ رکھتا ہے۔ +روزانہ استعمال کا جھنجھٹ نہیں ہے۔ +اس کا جنسی ملاپ سے کوئی تعلق نہیں +بچے کی پیدائش کے چھ ہفتے بعد لگایا جاسکتا ہے۔ +اس کے استعمال سے ماں کا دودھ بڑھ جاتا ہے +چند کلائنٹ کو معمولی اثرات ہوسکتے ہیں جیسے کہ: +ماہواری میں زیادہ خون آنا +چھلا تربیت یافتہ فرد کی مدد سے بچہ دانی میں رکھا جاتا ہے ۔ +چھلہ ماہواری آنے کے شروع کے پانچ دنوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ حمل کا خدشہ نہ ہو۔ +چھلہ پلاسٹک یا پلاسٹک کے علاوہ تانبے کے بنے ہوتے ہیں +روزانہ استعمال سے نجات مل جاتی ہے +مضر اثرات پیدا کئے بغیر 5تا01سال تک بچے دانی میں رہ سکتا ہے۔ +جب بچے کی خواہش ہو تو آسانی سے نکالا جاسکتا ہے۔ +جنسی ملاپ میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ +ماں کے دودھ پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ +چند کلائنٹ کو معمولی اثرات ہوسکتے ہیں جیسے کہ: +ماہواری میں بے قاعدگی (ماہواری کے دنوں کے علاوہ دھبے لگنا)۔ +ماہواری زیادہ اورطویل عرصے کےلیے ہونا۔ +ماہواری کے دنوں میں پیٹ کے نچلے حصے میں درد یا اینٹھن۔ +بچے کی خواہش پر عارضی طریقوں کو چھوڑنے پر عورت دوبارہ حاملہ ہوسکتی ہے۔ +ضمنی اثرات ہونے کی صورت میں گھبرائیں مت یہ عارضی ہیں کچھ عرصے بعد ٹھیک ہوجائیں گے۔ +# نس بندی (مردوں کا آپریشن) +#:آپریشن کے تین ماہ تک حمل کا خطرہ رہتا ہے اس لیے کوئی مانع حمل طریقہ مثلاً کنڈوم استعمال کرنا ضروری ہیں +سو فیصد قابل اعتبار ہے +سادہ آپریشن ہوتا ہے صرف 01 منٹ لگتے ہیں۔ +آپریشن کے تین ماہ بعد بیوی کو حمل ٹھہرنے کا خطرہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوجاتا ہے ۔ +جنسی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے۔ +چند کلائنٹ کو معمولی اثرات ہوسکتے ہیں جیسے کہ: +دو یا تین دن تک جسم میں معمولی درد +#:نوٹ :۔ آپریشن کے بعد دوبارہ خواہش پر بچہ پیدا نہیں کیا جاسکتا ۔ +# نل بندی (عورتوں کا آپریش��) +سو فیصد قابل اعتبار ہے۔ +آپریشن کے فوراً بعد ہی حمل کا امکان ختم ہوجاتا ہے ۔ +عورت آرپریشن کے چند گھنٹے بعد ہی ہسپتال سے گھر واپس آسکتی ہے۔ +بار بار مرکز صحت جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ +حمل کے دڑسے جو مستقل خوف یا پریشانی رہتی ہے وہ دور ہوجاتی ہے۔ +ماں کے دودھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ +ماہواری کے دنوں میں بھی آپریشن کیا جاسکتا ہے۔ +چند کلائنٹ کو معمولی اثرات ہوسکتے ہیں جیسے کہ: +دو یا تین دن تک جسم میں معمولی درد۔ +خاندان مکمل ہونے کی صورت میں یہ طریقہ اپنائیں۔ +یہ مستقل اور محفوظ طریقہ ہے۔ + + +# پیدا ہوتے ہی بچے کو فوراً صاف کپڑے سے خشک کریں۔ +# پھر دوسرے صاف خشک کپڑے میں اسے لپیٹ دیں۔ +# صاف کپڑے یا صاف روئی کی مدد سے فوراً بچے کی ناک اور منہ صاف کریں تاکہ اسے سانس لینے میں آسانی ہو۔ +# دیکھیں کہ بچہ صحیح سانس لے رہا ہے اور اس کی رنگت گلابی ہے۔ اگر نہیں تو: +فوراً بچے کی ناک اور منہ سے رطوبت صاف کریں ۔ اگر پھر بھی سانس نہ آئے تو: +مصنوعی سانس کا عمل شروع کریں۔ +# بچے کو فوراً ماں کے ساتھ لٹائیں تاکہ بچہ گرم رہے۔ +جس کمرے میں بچہ موجود ہو موسم کے مطابق اس کمرے کو گرم رکھیں۔ +# بچے کو فوراً ماں کا دودھ شروع کرائیں۔ +# پیدائش کے پہلے چھ گھنٹے تک بچے کو نہ نہلائیں +# ناڑو کو وقفے وقفے سے خون کے اخراج کےلیے چیک کریں +ناڑو کے سرے پر کچھ نہ لگائیں۔ +بچے کو گرم رکھیں اور پیدائش کے چھ گھنٹے تک نہ نہلائیں۔ + + +بچے کو فوراً مرکز صحت ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اگر پیدائش کے بعد بچے کو: +* سانس لینے میں مشکل ہو یا سانس کی رفتار 60 فی منٹ سے زیادہ ہو۔ (مصنوعی سانس دینے کے باوجود بچہ صحیح سانس نہ لے سکتا ہو۔) +* کم وزن بچہ ہو (جس کا وزن 2500 گرام سے کم ہو) +* دستوں کی صورت میں پانی کی کمی ہونے لگے۔ +* مسلسل قے کے ساتھ پانی کی کمی کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ +* پیدائشی یرقان ایک ہفتے سے زیادہ دیر تک رہے۔(یہ پیدائش کے تقریباً دو دن بعد شروع ہوتا ہے۔) +* بچے کے جسم کی رنگت نیلی ہوجائے۔ +* نال /ناڑو'آنکھوں اور جلد میں جراثیمی سوزش (سوج'مواد کا اخراج'سرخی یا پیپ سے بھرے چھالے) +ان علامات میں بچے کو فوراً ہسپتال ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ + + +# پہلے دودھ کے فوائد +کلوسٹرم (باؤلی یا پہلا دودھ) غزائیت اور توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ +یہ بچے کا پہلا حفاظت ٹیکہ ہے۔ +یہ بچے کا پیٹ صاف کرتا ہے ۔ +# کسی قسم کی گھٹی نہ دی جائے۔ یہ ماں کے دودھ کو کم اور بچے میں انفیکشن زیادہ کریگی۔ +# ماں بچہ کو بار بار دودھ پلائے +جتنا زیادہ بچہ ماں کا دودھ پینے کی کوشش کرے گا اتنا ہی زیادہ ماں کا دودھ اترے گا۔ +دن و رات میں کم از کم بارہ دفعہ دودھ پلایا جائے۔ +اگر بچہ سویا ہو ا ہو تو اسے جگا کر دودھ پلائیں۔ +# ہر بار ماں دونوں چھاتیوں سے دودھ پلائے۔ بچہ جب تک چاہے اسے دودھ پینے دینا چاہئے۔ +# ماں کادودھ پینے والے بچے کو پانی نہ پلائیں کیونکہ ماں کے دودھ میں 87%پانی ہوتا ہے۔ +# بکری ٬ گائے یا بھینس کا دودھ ہرگز نہ دیں۔ +پہلے چھ ماہ کے دوران میں بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ پانی٬ قہوہ یا کوئی اور مشروب ہرگز نہ دیں۔ + + +# بچے کی گردن سیدھی ہے یاذرا سی پیچھے کو جھکی ہوئی ہے۔ +# بچے کا جسم ماں کی طرف گھوما ہوا ہے۔ +# بچے کا جسم ماں سے قریب ہے اور +# بچے کے پورے جسم کو سہارا مل رہا ہے۔ +چھاتی سے درست انداز میں لگانا +# منہ اچھی طرح سے کھلا ہوا ہے۔ +# بچے کا نچلا ہونٹ باہر کو مڑا ہوا ہے۔ +# نپل کے گرد ہالابچے کے منہ میں اوجھل ہے یا منہ کے نیچے کے مقابلے میں ہالا کا زیادہ حصہ منہ کے اوپر سے نظر آتا ہے۔ +موّثر طریقے سے دودھ چوسنے کی علامات۔ +# بچہ آہستہ سے اور دیر لگا کر چوستا ہے۔(دودھ پیتے ہوئے درمیان میں وقفہ دیتا ہے) +# کھبی کبھاردودھ نگلتا دکھائی دیتا ہے اور حلق سے آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ +# دودھ پینے کے بعد بچہ مطمئن دکھائی دیتا ہے اور خودبخود دودھ چھوڑدیتا ہے۔ +ہر مرتبہ دودھ پلانے کے بعد بچہ کوڈکار ضرور دلوائیں۔ + + +مسئلہ ناکافی دودھ کی شکایت یا اپنا دودھ پلانے میں مشکل +# باقاعدگی سے صرف اور صرف اپنا دودھ پلائیں۔ +# اوپر کا دودھ ہرگز نہ دیں۔ +# دن کے علاوہ رات کو بھی دودھ پلائیں۔ +# ہردفعہ مانگنے پر بچہ کو دودھ پلائیں۔ +#:ماں کو یقین دلائیں کہ اس کا دودھ بچے کےلیے کافی ہے اگر: +بچہ صرف ماں کادودھ پی رہا ہے اور دن میں چھ یا زیادہ مرتبہ پیشاب کرتا ہے۔ +بچہ ایک ماہ میں آدھ سے ایک کلو تک وزن بڑھتا ہے۔ +# جلدی جلدی دودھ پلائیں اور ہر دفعہ چھاتیوں کو خالی کردیں۔ +# گرم پانی کی ٹکور کریں۔ +# سہارا دینے والی بریزیئراستعمال کریں۔ +# بچے کو کم وقت کےلیے لیکن بار بار دودھ پلائیے۔ +# دودھ پلانے کے بعد نپل کو ہوا میں خشک ہونے دیجیے۔ +# بچے کو چھاتیوں پر صحیح طریقے سے لگائیے اور پوزیشن بدلتے رہئے۔ +# دودھ پلانا بند کرنا ہو تو بچے کے منہ میں انگلی ڈال کر اسے آرام سے علاحدہ کر لیجیے۔ +# کچھ دودھ نپل کے اوپر رہنے دیجیے تاکہ نپل جلد ٹھیک ہوجائے۔ +مناسب علاج اور دیکھ بھال سے ان تکالیف سے نجات حاصل کریں۔ + + +* حفاظتی ٹیکہ جات سے بچے سات مہلک بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں +* ان میں معذوری اور شرح اموات کم ہوجاتی ہے۔ +* حفاظتی ٹیکے بچے کے جسم میں بیماری سے مقابلہ کرنے کی طاقت کو بڑھادیتے ہیں +* شیڈول کے مطابق ٬ بچے کی پیدائش پر بی سی جی کا ٹیکہ اور پولیو کے قطرے دئیے جاتے ہیں۔ +* پھر بچے کو 9مہینے کی عمر تک مزید چار دفعہ 10,6اور 14ہفتے کی عمر میں بیماریوں سے بچاؤکے ٹیکے دئیے جاتے ہیں۔ +* آپ اپنے بچے کو سرکاری گشتی ٹیم یامرکز صحت سے حفاظتی ٹیکے لگواسکتے ہیں۔ +* یہ ٹیم آپ کے علاقے میں باقاعدہ طور پر مختلف وقفوں سے آئے گی۔ +* اس کے علاوہ آ پ حفاظتی ٹیکے کسی پرائیویٹ ڈاکٹر سے بھی لگواسکتے ہیں۔ +* آپ اپنی مرضی کے مطابق اوپر بتائی ہوئی کسی بھی سہولت سے فائدہ اٹھاکر حفاظتی ٹیکے لگا سکتے ہیں ۔ +* پہلاٹیکہ لگواتے وقت اپنے بچے کےلیے حفاظتی ٹیکوں کا کارڈ لینا ضرور یاد رکھیے +* اس کارڈ سے آپ کو صحیح تاریخوں پر باقی ٹیکے لگوانے میں مدد ملے گی۔ +* ہر بار ٹیکہ لگوانے کےلیے کارڈ ساتھ لائیں۔ +* بچے کی صحت کا اندازا ا س کے وزن کرنے سے آسان ہوجاتا ہے کہ : +* بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے صحت مند ہے یا کمزور ۔ +* اسے اپنی عمر کے لحاظ سے غذاکی پوری مقدار مل رہی ہے یا کم یا بالکل نہیں مل رہی۔ +* ہر ماہ وزن کرنے سے ماؤں کو اپنے ساتھ شریک کرنے کا موقع ملتا ہے۔ +* جب ماں اپنے بچے کا وزن ہر ماہ بڑھتے دیکھتی ہے تو خوش ہوتی ہے۔ +بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروائیں اور تین سال کی عمر تک باقاعدگی سے وزن کروائیں۔ + + +* حمل کے دوران میں چار دفعہ طبی معائنہ ضرور کروائیں۔ +* حمل اور زچگی کے دوران میں اضافی خوارک کے ساتھ ساتھ فولاد کی گولیاں کھاتی رہیں ۔ +* محفوظ زچگی کےلیے تربیت یافتہ ٬ فرد٬ صاف جگہ ٬ سواری اور پیسوں کا انتظام پہلے سے کرلیں۔ +* حمل اور زچگی کے دوران میں خطرناک علامات کی صورت میں فور��ً صحت مرکز سے رجوع کریں۔ +* زچگی کے وقت یقین کرلیں کہ دائی کے ہاتھ اور جگہ صاف ہیں ۔ +* بچہ کا ناڑوکاٹنے کےلیے ہمیشہ نیا بلیڈاور ناڑو باندھنے کےلیے صاف اور نیا دھاگہ استعال کریں ۔ +* پیدائش کے بعد نوزائیدہ کو گرم رکھیں۔ +* پیدائش کے بعد نوزائیدہ کو فوراً ماں کا دودھ شروع کرائیں۔ +* پیدائش کے بعد نوزائیدہ کو چھ گھنٹے تک نہ نہلائیں۔ +* پیدائش کے بعد نوزائیدہ میں خطرناک علامت کی صورت میں فوراً مرکز صحت ریفر کریں۔ +* بچے کو چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلائیں۔ +* بچوں کی پیدائش میں کم از کم تین سال کا وقفہ رکھیں۔ +* بچے کا حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروائیں اور باقاعدگی سے وزن کروائیں۔ + + += حمل کے دوران طبی معائنہ = +صحت کی دستک/حمل کے دوران طبی معائنہ}} += حمل کے دوران معمولی مسائل اور ان کا حل = +صحت کی دستک/حمل کے دوران معمولی مسائل اور ان کا حل}} +صحت کی دستک/دوران حمل روزمرہ کی نسبت زیادہ خوراک}} += دوران حمل ذاتی صفائی اور آرام کا خیال = +صحت کی دستک/دوران حمل ذاتی صفائی اور آرام کا خیال}} += حمل کے دوران فولا د کی گولیوں کا استعمال = +صحت کی دستک/حمل کے دوران فولا د کی گولیوں کا استعمال}} += حمل کے دوران خطرناک علامات = +صحت کی دستک/حمل کے دوران خطرناک علامات}} += محفوظ زچگی کےلئے تیاری = +صحت کی دستک/محفوظ زچگی کےلئے تیاری}} += محفوظ زچگی کےلئے ضروری انتظامات = +صحت کی دستک/محفوظ زچگی کےلئے ضروری انتظامات}} += زچگی کی صفائیاں = +صحت کی دستک/زچگی کی صفائیاں}} += زچگی کے دوران خطرناک علامات = +صحت کی دستک/زچگی کے دوران خطرناک علامات}} += زچگی کے بعد ماں کی فوری دیکھ بھال = +صحت کی دستک/زچگی کے بعد ماں کی فوری دیکھ بھال}} += زچہ اور دودھ پلانے والی ماں کی خوراک = +صحت کی دستک/زچہ اور دودھ پلانے والی ماں کی خوراک}} += خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت اور فوائد = +صحت کی دستک/خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت اور فوائد}} += خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقے = +صحت کی دستک/خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقے}} += نوزائیدہ کی دیکھ بھال = +صحت کی دستک/نوزائیدہ کی دیکھ بھال}} += پیدائش کے بعد نوزائیدہ بچے میں خطرناک علامات = +صحت کی دستک/پیدائش کے بعد نوزائیدہ بچے میں خطرناک علامات}} += نوزائیدہ کو پیدائش کے پہلے چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ = +صحت کی دستک/نوزائیدہ کو پیدائش کے پہلے چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ}} += بچے کو دودھ پلانے کا صحیح طریقہ = +صحت کی دستک/بچے کو دودھ پلانے کا صحیح طریقہ}} += ماں کا دودھ پلانے کے مسائل اور حل = +صحت کی دستک/ماں کا دودھ پلانے کے مسائل اور حل}} += نوزائیدہ کے حفاظتی ٹیکے اور نشو ونما کی جانچ = +صحت کی دستک/نوزائیدہ کے حفاظتی ٹیکے اور نشو ونما کی جانچ}} += لیڈی ہیلتھ ورکر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بڑے بڑے فائدے = +صحت کی دستک/لیڈی ہیلتھ ورکر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بڑے بڑے فائدے}} + + +دست ایک ایسی بیماری ہے جس کے بروقت علاج نہ کرنے پر موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس کی علامات ، پیچیدگیاں، اور علاج کے بارے میں صحیح معلومات ہونی چاہیئے تاکہ درست اور بروقت علاج ہو سکے۔ والدیں کو وجوہات کے بارے میں معلومات بہم پہنچا کر اس بیماری کو ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ +اگر بچے کو چوبیس گھنٹوں میں تین یا اس سے زیادہ مرتبہ پتلے اور پانی کی طرح پاخانے ہوجائیں تو اسے دست کی بیماری کہتے ہیں ۔ دست ہونے سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی ہو جاتی ہے، جو بچے کے لئے بہت خطرناک ہے۔ +جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کی خاص خاص نشانیاں +جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کی خاص خاص نشانیاں یہ ہیں. اگر ان دو میں سے کویئ بھی ایک نشانی ہو تو فوری طور پر ہیلتھ سینٹر کو رفر کردیں۔ +* آنکھوں کا اندر کی طرف دھنس جانا۔ +* چٹکی میں لی ہوئی جلد کا آہستہ واپس اپنی جگہ پر آنا۔ +اگر ان چار میں سے کوئی دو علامات ہوں تو فوری طور پر ہیلتھ سینٹر کو رفر کردیں۔ +* بے چینی اور چڑچڑے پن کا ہونا +* پیاسا ہونا یا بہت زیادہ شوق سے پانی پینا۔ +* نڈھال اور سستی کا ہونا +* پانی یا دودھ کا صحیح مقدار میں نہ لینا یا بلکل نہیں پینا۔ +دست کی بیماری کے علاج کے تین بنیادی اصول ہیں : +*پہلا اصول بچے کو زیادہ مشروب یعنی liquids دینا۔ +*دوسرا اصول بچے کی غذا کو جاری رکھنا۔ +*تیسرااصول بچے کوبر وقت صحت کے مرکز لے جانا۔ +علاج کا پہلا اصول: بچے کو زیادہ مشروب دینا +اس اصول کے تحت مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھنا چایئیے: +* بیماری کے دوران ماں کوشش کرے کہ وہ بچے کواپنا دودھ زیادہ مرتبہ اور زیادہ دیر تک پلائے ۔ +* اگر بچہ چھ ماہ سے چھوٹا اور صرف ماں کے دودھ پر ہے تو بیماری کے دوران اسے نمکول کا پانی یا صرف صاف پانی بھی وقتاًفوقتاًدیتے رہنا چائیے۔ +* اگر بچہ ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ اوپر کی غذائیں بھی لے رہا ہو تو نمکو ل کے پانی کے علاوہ غذائی مشروب مثلاًسوپ ، چاولوں کا پانی یا دہی وغیرہ بھی کھلاتے رہیں ۔ +یادرہے !اگر بچے کو دست زیادہ ہورہے ہوں تو نمکول کے پانی کا مسلسل استعمال بے حد ضروری ہے۔ +نمکول یا ORS دینا دست کے علاج کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کو تیار کرنے کا طریقہ، اس کی پلانے کی مقدار، اور پلانے کے طریقہ کے بارے میں صحہح معلومات ہونا ضروری ہے۔ +نمکول کے پانی کو تیار کرنے کا طریقہ +نمکول کے پانی کو تیار کرنے کے لئے آپ کے پاس ایک جگ یا ایسا برتن ہو جس میں چار درمیانے گلاس پانی کے آرام سے آجائیں۔ سب سے پہلے آپ چارگلاس صاف پانی کو اچھی طرح اُبال کر ایک جگ یا برتن میں ڈا ل کر اسے کمرے کے درجہ حرارت پر لے آئیں ۔ پھر ایک پیکٹ نمکول ملا کر اس کو اچھی طرح پانی میں ملائیں۔ نمکول کاپانی تیار ہوجانے کے بعد اسے آپ عام درجہ حرارت پربارہ گھنٹے اور فریج میں چوبیس گھنٹے تک رکھ سکتےہیں۔ اگر نمکول کا پیکٹ دستیاب نہ ہوتو ایک گلاس پانی میں ایک چائے کا چمچ چینی اور ایک چوتھائی چائے کا چمچ نمک ڈال کر اچھی طرح ملاکر نمکول کا پانی تیار کرسکتے ہیں۔ +دستوں کی صورت میں بچے کو معمول کے مطابق مشروب پلانے کے علاوہ نمکول کا پانی بچے کی عمر کے مطابق مندرجہ ذیل مقدار میں ہر دست کے بعد اس کو پلائیں۔ +*دو سال کی عمر تک بچے کو پاؤ کپ سے آدھاکپ تک نمکول پلائیں۔ +*دو سال سے بڑے بچہ کو آدھے کپ سے ایک کپ تک نمکول پلائیں۔ +دست کے دوران بچے کو نمکول کے پانی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ کپ یا پھر چمچ کے ذریعے بار بار پلاتے رہیں۔ +اگر بچہ الٹی کردے تو ۱۰ منٹ تک انتظار کریں اور پھر دوبارہ نمکول کا پانی دینا شروع کردیں مگر پہلے کی نسبت آہستہ آہستہ پلائیں۔بچے کو اس وقت تک نمکول کا پانی یا اضافی مشروب دیتے رہیں جب تک کہ دست بلکل نہ رک جائیں۔ +علاج کا دوسرا اصول: بچے کی غذا کو جاری رکھنا +دستوں کے دوران بچے کو عمر کی مناسبت سے نرم غذائیں دینا جاری رکھیں مثلاً سوجی کی کھیر ، کھچڑی ، ساگودانہ، مسلا ہوا آلو یا سبزیاں، مسلا ہوا کیلا ، موسمی پھل وغیرہ۔ +علاج کا تیسرا اصول: بچے کو بروقت صحت مرکز پر لے جانا +اگر دوران علاج دست میں مبتلا بچے میں مندرجہ ذیل علامات میں سے کوئی بھی ایک علامت ظاہر ہو تو فوری طور پر آپ اپنے قر یبی ہیلتھ سینٹر سے رجوع کریں۔ +* غنودگی یا بے ہوشی ہونا۔ +* مشروب پینے میں کمی یا کمزوری ظاہر ہونا۔ +* ماں کا دودھ یا کچھ بھی نہ پی سکنا یا مشکل سے پینا +* پاخانے میں خون آنا +جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی دست کی بیماری کی ایک سنگین پیچیدگی ہے۔ اگر اس کابروقت علاج نہ کیا جائےتو یہ بچے کی زندگی کےلئے خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ +دست کی بیماری کی مندرجہ ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں : +* ہاتھوں کو دھوئے بغیر اپنے گندے ہاتھوں سے بچے کو کھانا کھلانا۔ +* بوتل سے دودھ پلانااور چوسنی کا استعمال کرنا جس سے جراثیم بچے تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔ +* پانی کو صحیح طریقہ سے اُبالے بغیر استعمال کرنا۔ +* گلے سڑے یا گرد آلود پھلوں اور سبزیوں کا استعمال کرنا۔ +* کوڑا کرکٹ کے کھلے ہوئےمکھیوں سے بھرے ڈھیر کے قریب کھانے پینے کی اشیائ کارکھنا جو ان کی آلودگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ +* بازار کے کھانوں اور ٹھیلوں کے کھلے ہوئے کھانوں کا استعمال کرنا۔ +* بچے میں قوت مدافعت یعنی بیماری سے بچاؤ کی طاقت کا کم ہونا جس کی وجہ غذائی کمی ہے۔ +اگر بچے کے پاخانے میں خون رطوبت کے ساتھ یا بغیررطوبت کے خارج ہو تو اسے خونی پیچش یا Dysentery کہتے ہیں۔ یاد رکھئیے دست کی بیماری خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ + + +کتب ایک آزاد بین اللسانی کتب خانہ ہے۔ وکی کتب کی شروعات جنوری ۲۰۰۳ میں ہوئی جبکہ اردو وکی پیڈیا کی شروعات جنوری ۲۰۰۵ میں ہوئی ۔ اردو زبان کے اس آن لائن کتب خانہ کے بنانے میں آپ بھی بہت آسانی سے ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں،: + + +اردو ویکی کتب کے دیوان عام میں خوش آمدید! +ویکی مینیا 2023 پروگرام سبمشنز کا خیر مقدم کرتی ہے۔ + + +ایسے عناصر کا مجموعہ جہاں جمع/تفریق کے عمل ممکن ہوں، اور عناصر کو چھوٹا بڑا کیا جا سکتا ہو، "سمتیہ فضا" کہلاتا ہے۔ اب ہم مکمل تعریف دیتے ہیں۔ اگر کسی مجموعہ V کے عناصر X''، Y''، Z''، وغیرہ مندرجہ ذیل قواعد پر پورے اتریں، تو ایسے مجموعہ کو سمتیہ فضاء کہیں گے، اور عناصر کو سمتیہ +اعداد a''، b''، وغیرہ کے لیے +لکھا جا سکتا ہے ۔ یعنی مستوی کے کسی بھی نقطہ کو بطور سمتیہ یوں +کو قطبی صورت میں مطلق قدر +سے دیا جاتا ہے، اور سمتیہ کو تصویری صورت میں مبداء (0,0 math> سے نقطہ (x,y math> تک ایک تیر کے نشان سے دکھایا جاتا ہے، جس کی لمبائی r اور دائیں افقی محور (x-axis) سے زاویہ \theta ہوتا ہے۔ غور کرو کہ قطبی صورت میں بھی نقطہ کو دو اعداد سے لکھا جاتا ہے (مطلق قدر اور زاویہ) مگر ان دو مقداروں کو بطور مصفوفہ نہیں لکھا جا سکتا (یعنی مصفوفہ حساب کے قاعدے لاگو نہیں کیے جا سکتے)۔ +شکل 2 میں نقطہ ‭ x=a, y=b ‬ کو سمتیہ U سے دکھایا ہے، جہاں مبداء ‭ x=0, y=0 ‬ پر ہے۔ اسی طرح شکل 2 کے نقاط کو سمتیہ کے روپ میں (بطور مصفوفہ) یوں لکھتے ہیں: +غور کرو کہ سمتیہ R کی سمت نقطہ ‭ x=a, y=b ‬ سے نقطہ ‭ x=c, y=d ‬ سیدھی لکیر کی طرف ہے، اور سمتیہ کی لمبائی (مطلق قدر) ان نکات کے درمیان سیدھی لکیر میں فاصلہ ہے۔ اس لیے اس سمتیہ کو ان نکات کے درمیان ہٹاؤ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھو کہ سمتیہ R چونکہ دو نکتوں کے درمیاں ہے، اس لیے اگر مبداء کو کسی اور نقطہ پر لے جایا جائے، تو اس کا اس سمتیہ R پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لیے اکثر کہا جاتا ہے کہ سمتیہ ایسی شئے ہے جو کہ ایک مطلق قدر magnitude اور فضا میں ایک رُخ direction) سے تعریف ہو جاتا ہے۔ +اسی طرح نقطہ ‭ x=c, y=d ‬ سے نقطہ ‭ x=e, y=f ‬ کے درمیان ہٹاؤ سمتیہ G ہے، جو سمتیہ V کو سمتیہ W میں سے تفریق کر کے حاصل ہوتا ہے۔ +فرض کرو کہ ہم نقطہ ‭ x=a, y=b ‬ سے نقطہ x=c, y=d ہٹتے ہیں سمتیہ R ، اور پھر نقطہ x=e, y=f کی طرف ہٹ جاتے ہیں (سمتیہ G ۔ اب ہمارا کُل ہٹاؤ سمتیہ B ہے جو کہ سمتیہ R اور سمیتہ G کی جمع ہے۔ +غور کرو کہ سمتیہ B صرف اپنے شروع اور آخر کے نقاط سے نکل آتا ہے سفر کی ابتدا" اور "آخری منزل" سے، اور درمیانی منازل سے آزاد ہے)۔ +اب چونکہ سمتیہ اپنی مطلق قدر اور رُخ سے تعریف ہو جاتا ہے، اس لیے کسی سمتیہ کو اس کے متوازی گھسیٹا جا سکتا ہے۔ شکل 3 میں ہم نے سمتیہ R''، B ، W ، کو گھسیٹ کر ان کی دُم کو مبداء پر رکھ دیا ہے۔ +اب ہندسہ کے نقطۂ نظر سے سمتیہ تفریق پر نظر ڈالتے ہیں۔ سمتیہ B میں سے R کو تفریق کر کے سمتیہ G ملتا ہے، G=B-R ۔ اس کا طریقہ یوں ہؤا کہ B اور R کی دُمیں ملا دو، اور R کے سر سے B کے سر تک سمتیہ فرق G ہے۔ +اسی طرح ہندسہ کے نقطہ نگاہ سے سمتیہ جمع پر نظر ڈالتے ہیں۔ سمتیہ R اور G کو جمع کر کے سمتیہ B ملتا ہے، B=R+G ۔ اس کا طریقہ یوں ہؤا کہ سمتیہ G کی دُم سمتیہ R کے سر کے ساتھ جوڑو، اور پھر R کی دُم سے G کے سر تک سمتیہ جمع B ہے۔ +بعینہ فضا میں نقطوں کو بطور مصفوفہ لکھا جا سکتا ہے، اور یہ نکتے ایک سمتیہ فضاء بناتے ہیں۔ (یاد رہے کہ بعض اوقات نقاط کو بجائے مصفوفہ کے ایک مصفوفہ کے بطور بھی لکھا جاتا ہے۔) ایک سمتیہ کو یوں لکھا جائے گا: +شکل 4 میں \mathbb{R}^2 کا مستوی دکھایا گیا ہے۔ سرخ محور پر واقعہ سمتیہ +غور کرو کہ سرخ محور کے بجائے ہم سبز محور بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے شکل 4 میں سبز نقطوں سے دو سمتیہ دکھائے گئے ہیں، جو (سرخ محور کے حوالے سے) یوں ہیں: +اب نقطہ ‭ x,y ‬ کو ان سبز سمتیہ کے لکیری تولیف کے طور پر یوں لکھا جا سکتا ہے: +یعنی سرخ محور کے نقطہ ‭ x,y ‬ کو سبز محور میں نقطہ ‭ a,b ‬ کہا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں جو نقطہ +حل کر کے ‭''c0, c1, c2, c3''‬ نکالنا ہیں۔ اب چونکہ مساوات صرف دو ہیں جبکہ متغیر چار، اس لیے ہم کسی بھی دو متغیر کو اپنی مرضی کی قدر دے کر باقی دو متغیر کی قیمتیں مساوات سے نکال سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مساوات کے لامتناہی حل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: +اس سے پتہ چلا کہ عبری سمتیہ‭''e0, e1, v0, v1''‬ کے حوالہ سے نقاط کا ایک واحد روپ نہیں۔ شکل 4 سے ظاہر ہے کہ \mathbb{R}^2 میں کوئی بھی دو سمتیہ جو آپس میں متوازی نہ ہوں، نکات کا واحد روپ نکالنے کے لیے کافی ہیں۔ \mathbb{R}^2 میں دو سے زیادہ سمتیہ چننے سے ایک ہی نقطہ کے بہت سے روپ ممکن ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیں اگلے موضوع بنیاد سمتیہ کی طرف لے جاتی ہے۔ +ایسے مجموعہ کو عبری سمتیہ کہتے ہیں، اور +کو ان عبری سمتیے کے حوالے سے سمتیہ v +کی صورت representation) کہتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی عبری سمتیہ مجموعہ کے حوالہ سے ایک ہی سمتیہ کی ایک سے زیادہ صورتیں ممکن ہوں۔ +عبری سمتیہ کا ایسا مجموعہ جس کے حوالہ سے فضاء کے کسی بھی سمتیہ کی صرف ایک واحد صورت ممکن ہو، ایسے مجموعہ کو سمتیہ فضاء کا بنیاد سمتیہ مجموعہ (basis vectors) کہتے ہیں۔ +مسلئہ اثباتی (بنیاد سمتیہ کی لکیری آزادی +\mathbb{R}^n میں نیچے دیے قائم الزاویہ بنیاد سمتیہ کے مجموعہ کو math>\mathbb{R}^n کا قدرتی بنیاد سمتیہ مجموعہ) کہا جاتا ہے۔ +شکل 4 میں \mathbb{R}^2 کے لیے یہ جوڑے بنیاد سمتیہ کا کردار ادا کر سکتے ہیں: +یعنی کوئی ب��ی دو ایسے سمتیہ جو آپس میں متوازی نہ ہوں، بنیاد سمتیہ کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ +بنیاد سمتیہ کے حوالے سے (منفرد) صورت +فرض کرو کہ سمتیہ فضا V کے بنیاد سمتیہ کا ایک مجموعہ v_0, v_1 v_{n-1 math> ہے (ان بنیاد سمتیہ کی تعداد n ہے)۔ اب V کے کسی بھی سمتیہ v کو ان بنیاد سمتیہ کے لکیری تولیف کے طور پر یوں لکھا جا سکتا ہے: +گویا اس بنیاد سمتیہ مجموعہ کے حوالے سے سمتیہ v کی صورت کو \mathbb{R}^n کے ایک رکن کے بطور یوں لکھا جا سکتا ہے: +math>\mathbb{R}^n کے بنیاد سمتیہ کے حوالے سے صورت نکالنے کا طریقہ +\mathbb{R}^n میں دیے گئے بنیاد سمتیہ کے مجموعہ کے حوالے سے کسی سمتیہ +کی صورت نکالنے کا طریقہ یہ ہے۔ بنیاد سمتیہ کے مجموعہ v_0, v_1 cdots, v_{n-1 math> کو مصفوفہ صورت میں لکھو، یعنی ایسی مصفوفہ جس کا ہر ستون ایک بنیاد سمتیہ ہو: +جسے زیادہ تفصیل میں یوں لکھا جا سکتا ہے (ہر ستون ایک سمتیہ ہے) +ان بنیاد سمتیہ کے حوالے سے سمتیہ X کی صورت representation ہو گا۔ +دوسرے الفاظ میں قائم الزاویہ بنیاد سمتیہ کی مصفوفہ +کے لیے ضروری ہے کہ +شکل 4 میں یہ جوڑے (جو کہ آپس میں نوے درجہ کے زاویہ پر ہیں) قائم الزاویہ بنیاد سمتیہ کا جوڑا بناتے ہیں: +قائم الزاویہ (مصفوفہ ہے۔ اسی طرح \mathbb{R}^2 میں بنیاد سمتیہ v0, v1 کی مصفوفہ +قائم الزاویہ مصفوفہ ہے۔ یعنی +اوپر ہم نے "بنیاد سمتیہ کے حوالے سے صورت نکالنے کا طریقہ" دیکھا۔ قائم الزاویہ بنیاد سمتیہ کی صورت میں c_0 کی مساوات یوں بنتی ہے: +اگر ایک سمتیہ فضا کا ایک "بنیاد سمتیہ" مجموعہ ہو۔ اور اس فضا میں کسی سمتیہ b کی بنیاد سمتیہ مجموعہ کے حوالے سے بنیاد سمتیہ کے حوالے سے (منفرد) صورت c ہے۔ اب فرض کرو کہ اسی سمتیہ فضا کا ایک اور (نیا) بنیاد سمتیہ مجموعہ ہے اور اس (نئے) بنیاد سمتیہ مجموعہ کے حوالے سے اسی سمتیہ b کی صورت d ہے۔ ان دونوں صورتوں کی نسبت ایک مصفوفہ کے ذریعہ ہو گی: +مصفوفہ P کو u سے v جانے والی منتقلہ مصفوفہ transition) کہتے ہیں۔ +کے حوالے سے صورت بھی یہی ہے، یعنی: +اب فرض کرو کہ نیا بنیاد سمتیہ مجموعہ یہ ہے: +ان نئے سمتیوں کو پرانے کے حوالے سے لکھنے سے ان کی پرانوں کے حوالے صورت نکل آئے گی +اب نقطہ (4,2) کی نئے بنیاد سمتیہ مجموعہ کے حوالے سے صورت یوں نکالتے ہیں (دیکھو مصفوفہ کا الٹ استعمال ہؤا ہے) +اگر کسی سمتیہ فضا میں بنیاد سمتیہ مجموعہ u سے بنیاد سمتیہ مجموعہ v جانے والی منتقلہ مصفوفہ P'' +تعریف ذیلی مجموعہ subset ایک مجموعہ (set) کا ذیلی مجموعہ میں اصل مجموعہ مٰٰیں موجود عنصر میں سے کچھ عناصر ہونگے۔ +سمتیہ فضا کے مجموعہ کا ایسا ذیلی مجموعہ جو خود بھی ایک سمتیہ فضا ہو، کو سمتیہ ذیلی فضا کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے vector subspace کہتے ہیں۔ کوئی بھی ذیلی مجموعہ اوپر دیے سمتیہ فضا کے قواعد 2 سے 5 پورے کرے گا۔ یہ جاننے کے لیے ذیلی مجموعہ ایک سمتیہ فضا ہے یا نہٰیں، ہمیں صرف اسے قواعد 1 کے لیے پرکھنا ہوتا ہے۔ +مثال: تصویر میں معکب فضا \mathbb{R}^3 کی ایک سمتیہ ذیلی فضا نیلے مستوی سے دکھایا گئی ہے۔ \mathbb{R}^3 میں سمتیہ تین اعداد (معکب کی تین سمتوں X''، Y''، Z''، کی اطراف پیمائیش، مبداء سے) سے یوں دیا جاتا ہے، +، جبکہ سمتیہ ذیلی فضا (نیلامستوی) پر سمتیہ یوں ہے +* تعریف: ایک مصفوفہ کی قطاروں کو قطار سمتیہ کہا جاتا ہے، یعنی ان کو \mathbb{R}^n math> سمتیہ فضا میں سمتیہ سمجھا جا سکتا ہے۔ +مثال کے طور پر مصفوفہ +* تعریف: ایک مصفوفہ ک�� ستونوں کو ستون سمتیہ کہا جاتا ہے، یعنی ان کو \mathbb{R}^n math> سمتیہ فضا میں سمتیہ سمجھا جا سکتا ہے۔ +مثال کے طور پر مصفوفہ A کے تین ستون سمتیہ، فضاء \mathbb{R}^2 math> میں یہ ہیں: +اوپر کی مثال میں لکیری تولیف +سے پیدا ہونے والی \mathbb{R}^3 math> کی ذیلی فضا کو اس مصفوفہ A کی قطار فضا کہیں گے۔ +مصفوفہ کے ستون سمتیوں کے لکیری تولیف سے جو سمتیہ فضا بنتی ہے اسے ستون فضا کہتے ہیں۔ یعنی ستون سمتیہ کو "عبری سمتیہ" کے بطور استعمال کرتے ہوئے \mathbb{R}^n math> کی جو "سمتیہ ذیلی فضا" عبور ہوتی ہے، وہ ستون فضا کہلائے گی۔ +اوپر کی مثال میں لکیری تولیف +سے عبور ہونے والی \mathbb{R}^2 math> کی ذیلی فضا کو اس مصفوفہ A کی ستون فضا کہیں گے۔ +کسی بھی مصفوفہ کی قطار فضا اور ستون فضا کے بُعد فضا (dimension) برابر ہوتے ہیں۔ اور یہ بُعد مصفوفہ کا رُتبہ کہلاتا ہے۔ غور کرو ک ایک کے برابر یا اس سے کم ہو گا۔ + + +''تو 1 User 3 3 سب کو اس کے استعمال کی عام اجازت دیتا/دیتی ہے، کسی بھی مقصد کے لیے، غیر مشروط، ماسوائے ایسی صورت میں کہ اس میں کوئی قانونی رکاوٹ ہو۔'' + + +مُتواقِت لکیری مساوات کا نظام +دو متغیر x اور y میں دو لکیری مساوات کے نظام کی ایک مثال یہ ہے +مسئلہ متغیر کی ایسی قیمت نکالنا ہوتا ہے، جو بیک وقت دونوں مساوات کی تسکین کریں۔ ایسی قیمتوں کو نظام کا حل کہا جاتا ہے۔ اس مثال میں x=1 y=3 نظام کا حل ہے۔ تصویر میں دونوں مساوات کے XY پلاٹ نیلی اور سرخ خط (لکیریں) ہیں، اور جہاں یہ دو لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں، وہ نقطہ‭ x,y 1,3 ‬ ہے۔ +اگر مصفوفہ A کا اُلٹ ممکن ہو، تو اس نظام کے حل کو یوں لکھا جا سکتا ہے: +n متغیر میں m لکیری مساوات نظام +تعریف n متغیر کی وہ قیمتیں جو نظام کی تمام m مساوات کی تسکین کریں، کو نظام کا حل کہا جاتا ہے۔ +تعریف: لکیری مساوات نظام کو موافق کہا جاتا ہے اگر اس نظام کا کم از کم ایک حل ممکن ہو۔ اگر کوئی حل ممکن نہ ہو، تو نظام کو ناموافق کہا جاتا ہے۔ +کسی نظام کے حل کی تین صورتٰیں ہو سکتی ہیں: +* کوئی حل ممکن نہ ہو +* ایک اور صرف ایک حل ممکن ہو +* لامحدود حل ممکن ہوں +مثال: نیچے مثال 1 میں دیا تین مساوات کا نظام موافق ہے۔ ہر مساوات کا پلاٹ ایک مستوی ہے جو تصویر میں مختلف رنگوں میں دکھایا گیا ہے۔ صرف ایک نقطہ ایسا ہے جس میں سب تینوں مستوی ملتے ہیں۔ یہ نقطہ اس نظام کا حل ہے جو کہ اس نظام کا واحد حل ہے۔ اگر تین میں سے صرف دو مساوات کا احاطہ کیا جائے، تو تصویر میں کوئی بھی دو مستوی ایک لکیر پر ملتے ہیں، یعنی دونوں مساوات موافق ہیں اور ان کے لامتناہی حل ہیں۔ +اب ایسے تین مستوی کا تصور کرنا مشکل نہیں جو سب کسی ایک نقطہ پر نہ ملتے ہوں۔ ان مستوی کی تین مساوات ناموافق ہوں گی، چونکہ ان کا کوئی حل ممکن نہ ہو گا۔ +ایک موافق لکیری مساوات کا نظام، جس میں متغیر کی تعداد زیادہ ہو مساوات کی تعداد سے math m)، ایسے نظام کے لامتناہی حل ممکن ہوں گے۔ +عمل جن سے نظام متاثر نہیں ہوتا +کسی لکیری مساوات نظام پر مندرجہ ذیل عمل کرنے سے مساوات کے نظام کے حل پر کوئی فرق نہیں پڑتا: +* ایک مساوات کو کسی ساکن عدد سے ضرب دے دو +* دو مساوات کی باہمی جگہ تبدیل کر دو +* ایک مساوات کو کسی ساکن عدد سے ضرب دینے کے بعد جو حاصل ضرب ملے، اسے کسی دوسری مساوات میں جمع کر دو +مساوات کے نظام کو حل کرنے کی غرض سے ان کو ایک افزائشی مصفوفہ کے بطور لکھنا مفید رہتا ہے۔ افزائشی مصفو��ہ یوں ہو گی: +جو عمل کرنے سے مساوات کے نظام کے حل پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کو اب افزائشی مصفوفہ کے حوالے سے یوں بولا جا سکتا ہے: +* ایک قطار کو کسی ساکن عدد سے ضرب دے دو +* دو قطاروں کا باہمی تبادلہ کر دو +* ایک قطار کو کسی ساکن عدد سے ضرب دینے کے بعد جو حاصل ضرب قطار ملے، اسے کسی دوسری قطار میں جمع کر دو +ان عملیات کو ابتدائی قطار عملیات کہا جاتا ہے۔ +مساوات کے حل کی طرف جانے کے لیے افزائشی مصفوفہ کو ابتدائی قطار عملیات کے ذریعہ قطار در قطار ہئیت میں لے جاتے ہیں۔ +تعریف: اگر مصفوفہ میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہوں، تو مصفوفہ کو قطار در قطار ہئیت کہتے ہیں: +# اگر قطار سب صفر نہ ہو، تو قطار کا پہلا غیرصفر جُز (بائیں طرف سے) ایک (1) ہو۔ اس 1 کو "اول 1" کہتے ہیں۔ +# اگر کچھ ایسی قطاریں ہو جو تمام صفر ہوں، تو یہ قطاریں سب سے نیچے ہوں +# کسی بھی دو قطاروں جو غیر صفر ہوں میں اوپر والی قطار کا "اول 1" نیچے والی قطار کے "اول "1 کے بائیں طرف ہونا چاہیے۔ +مثال کے طور پر مصفوفہ +قطار در قطار ہئیت میں ہے۔ +جب مصفوفہ اس ہئیت میں آ جائے تو نظام کا حل آسانی سے "الٹا تبادلہ" کے ذریعہ نکالا جا سکتا ہے۔ +اب ہم ایک مثال کے ذریعہ اوپر والے طریقے استعمال کرتے ہوئے لکیری مساوات کا نظام حل کر کے دیکھاتے ہیں: +* تیں متغیر x y z میں تین لکیری مساوات کے نظام +کو افزائشی مصفوفہ کے بطور لکھو +* مصفوفہ کی پہلی قطار کو 1/2 سے ضرب دو (تو افزائشی مصفوفہ یوں ہو جائے گی) +* اوپر کی مصفوفہ کی پہلی قطار کو ‭-3‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے اسے دوسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ کی پہلی قطار کو ‭-5‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے اسےتیسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ کی دوسری قطار کو ‭-2/13‬ سے ضرب دو +* اوپر کی مصفوفہ کی دوسری قطار کو 7/2 سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے اسے تیسیر قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ کی تیسری قطار کو ‭-13/110‬ سے ضرب دو +اب یہ مصفوفہ قطار در قطار ہئیت میں آ گئی ہے۔ اس مصفوفہ کا نظام یوں لکھا جا سکتا ہے: +* دیکھو کہ آخری مساوات سے ہمیں z کی قیمت معلوم ہو چکی ہے: +اب یہ قیمت ہم دوسری مساوات میں ڈال کر y کی قیمت حاصل کر لیتے ہیں: +تو پورے لکیری مساوات نظام کا حل یوں ہؤا +کو بطور افزائشی مصفوفہ یوں لکھا جاتا ہے +جو عمل کرنے سے مساوات کے نظام کے حل پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کو افزائشی مصفوفہ کے حوالے سے یوں بولا جا سکتا ہے: +# ایک قطار کو کسی دائم عدد سے ضرب دے دو +# دو قطاروں کا باہمی تبادلہ کر دو +# ایک قطار کو کسی دائم عدد سے ضرب دینے کے بعد جو حاصل ضرب قطار ملے، اسے کسی دوسری قطار میں جمع کر دو +ان عملیات کو ابتدائی قطار عملیات کہا جاتا ہے۔ +گاسین اخراج کے طریقہ میں مساوات کے حل کی طرف جانے کے لیے افزائشی مصفوفہ کو ابتدائی قطار عملیات کے ذریعہ ترتیبہ ہئیت میں لے جاتے ہیں۔ +# اگر قطار سب صفر نہ ہو، تو قطار کا پہلا غیرصفر جُز (بائیں طرف سے) ایک (1) ہو۔ اس 1 کو "اول 1" کہتے ہیں۔ +# اگر کچھ ایسی قطاریں ہو جو تمام صفر ہوں، تو یہ قطاریں سب سے نیچے ہوں +# کسی بھی دو قطاروں جو غیر صفر ہوں میں اوپر والی قطار کا "اول 1" نیچے والی قطار کے "اول "1 کے بائیں طرف ہونا چاہیے۔ +مثال کے طور پر مصفوفہ +جب مصفوفہ اس ہئیت میں آ جائے تو نظام کا حل آسانی سے "الٹا تبادلہ" کے ذریعہ نکالا جا سکتا ہے۔ +اب ہم ایک مثال کے ذریعہ اوپر والے عملیات استعمال کرتے ہوئے لکیری مساوات کا نظام حل کرنے کا گاسین اخراج کا کا طریقہ سمجھاتے ہیں: +* تیں متغیر میں تین لکیری مساوات کے نظام +کو افزائشی مصفوفہ کے بطور لکھو +* اوپر کی مصفوفہ میں پہلے ستون (بائیں طرف سے) میں مطلق قدر میں سب سے بڑا عنصر ‭-5‬ ہے۔ اس لیے ہم تیسری قطار کو سب سے اوپر لے آتے ہیں۔ یعنی پہلی اور تیسری قطار کا تبادلہ۔ +* اوپر کی مصفوفہ کی پہلی قطار کو ‭-1/5‬ سے ضرب دو (تو افزائشی مصفوفہ یوں ہو جائے گی) +* اوپر کی مصفوفہ کی پہلی قطار کو ‭-3‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے اسے دوسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ کی پہلی قطار کو 2 سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے اسےتیسری قطار میں جمع کر دو +* اب اوپر کی مصفوفہ میں پہلی قطار کو بھول جاؤ اور اس سے نیچے کی قطاروں کو دیکھو۔ دوسرے ستون میں مطلق قدر میں سب سے بڑی رقم (‭-22/5‬) سب سے اوپر ہے اس لیے ہمیں قطار تبادلہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اوپر کی مصفوفہ کی دوسری قطار کو ‭-5/22‬ سے ضرب دو +* اوپر کی مصفوفہ کی دوسری قطار کو ‭-7/5‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے اسے تیسیر قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ کی تیسری قطار کو 1/5 سے ضرب دو +اب یہ مصفوفہ ترتیبہ ہئیت میں آ گئی ہے۔ اس مصفوفہ کا نظام یوں لکھا جا سکتا ہے: +* دیکھو کہ آخری مساوات سے ہمیں x_3 کی قیمت معلوم ہو چکی ہے: +اب یہ قیمت ہم دوسری مساوات میں ڈال کر x_2 کی قیمت حاصل کر لیتے ہیں: +تو پورے لکیری مساوات نظام کا حل یوں ہؤا +یہ طریقہ ہم ایک مثال کے ذریعہ سمجھاتے ہیں: +کو مقلوب کرنا مقصود ہے۔ +* اس کی شناخت مصفوفہ سے افزائش کرتے ہوئے: +* اوپر کی مصفوفہ میں پہلی قطار کو 1/2 سے ضرب دے کر +* اوپر کی مصفوفہ میں پہلی قطار کو ‭-3‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے، اسے دوسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ میں پہلی قطار کو ‭-5‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے، اسے تیسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ میں دوسری قطار کو ‭-2/13‬ سے ضرب دو +* اوپر کی مصفوفہ میں دوسری قطار کو 7/2 سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے، اسے تیسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ میں تیسری قطار کو ‭-13/110‬ سے ضرب دو +* اوپر کی مصفوفہ میں تیسری قطار کو 11/13 سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے، اسے دوسری قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ میں تیسری قطار کو 1/2 سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے، اسے پہلی قطار میں جمع کر دو +* اوپر کی مصفوفہ میں دوسری قطار کو ‭-3/2‬ سے ضرب دے کر جو حاصل ضرب آئے، اسے پہلی قطار میں جمع کر دو +* اب ہمارے پاس بائیں طرف شناخت مصفوفہ آ گئی ہے۔ اس لیے دائیں جانب مصفوفہ +اصل مصفوفہ کا الٹ ہے۔ +اگر کسی مرحلہ پر تمام صفر قطار مل جائے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مصفوفہ مقلوب نہیں (یعنی الٹ ممکن نہیں)۔ +اوپر ہم نے بنیادی قطار عملیات بیان کیے، جو کی یہ ہیں: +# ایک قطار کو کسی دائم عدد سے ضرب دے دو +# دو قطاروں کا باہمی تبادلہ کر دو +# ایک قطار کو کسی دائم عدد سے ضرب دینے کے بعد جو حاصل ضرب قطار ملے، اسے کسی دوسری قطار میں جمع کر دو +ایسی مصفوفہ جو شناخت مصفوفہ پر کوئی بھی ابتدائی قطار عمل سے حاصل ہو کو ابتدائی مصفوفہ کہتے ہیں۔ +ابتدائی مصفوفہ کی خوبی یہ ہے کہ اس سے کسی مصفوفہ A" کو ضرب دینے سے مصفوفہ A پر ابتدائی قطار عمل ہو جاتا ہے۔ +ابتدائی مصفوفہ سے ضرب دینے سے کسی بھی 3 \times m math> مصفوفہ کی دوسری قطار 3 سے ضرب کھا جاتی ہے۔ +ابتدائی مصفوفہ سے ضرب دینے سے کسی بھی 3 \times m math> مصفوفہ کی دوسری اور تیسری قطاروں کا باہمی تبادلہ ہو جاتا ہے۔ +ابتدائی مصفوفہ سے ضرب دینے سے کسی بھی 3 \times m math> مصفوفہ کی پہلی قطار میں تیسری قطار کا 2 سے حاصل ضرب جمع ہو جاتا ہے۔ +ابتدائ مصفوفہ ہمیشہ مقلوب مصفوفہ ہوتی ہے۔ +مصفوفہ الٹ طریقہ کی وجہ +تو مصفوفہ الجبرا کی رو سے +یعنی وہی عمل شناخت مصفوفہ کو A کے الٹ میں بدل دیں گے۔ + + +نیچے سبز رنگ میں الجبرا کی جگہ الحبرا لکھا ہے + + +ریاضی میں مصفوفہ اعداد کے مجموعہ کو کہتے ہیں، جو قطاروں اور ستونوں میں سجائے جاتے ہیں۔ اعداد کی قطاریں بائیں سے دائیں جاتی ہیں، جبکہ ستون اوپر سے نیچے۔ مثال کہ طور پر نیچے لکھی مصفوفہ کی چار قطاریں اور تین ستون ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس مصفوفہ کا سائیز math 4\times 3 math ہے،اور مصفوفہ کے 12 اجزا ہیں۔ +ایک مصفوفہ کو اس طرح لکھا جاتا ہے، یعنی m قطاریں اور n ستون، +اگر دو مصفوفہ کو جمع کرنا ہو، تو دونوں کا سائیز برابر ہونا چاہیے۔ اسی طرح تفریق کے لیے بھی۔ نیچے جمع اور تفریق کی مثال دی ہے۔ ہر جز اپنے ہم منصب جز کے ساتھ جمع یا تفریق ہوتا ہے۔ +دو مصفوفہوں کو ضرب دینے کے لیے پہلی مصفوفہ کے ستونوں کی تعداد دوسری مصفوفہ کی قطاروں کے برابر ہونی چاہیے۔ نیچے ہم مصفوفہ A کو مصفوفہ X سے ضرب دے کر مصفوفہ Y حاصل کرتے ہیں۔ +یہاں دونوں مصفوفہ A اور X مربع مصفوفہ ہیں۔ دونوں کا سائیز math 3 \times 3 math ہے۔ اسلئے مصفوفہ Y کا سائیز بھی math 3 \times 3 math> ہو گا۔ +غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ مصفوفہ Y کا ہر جز، مصفوفہ A کی ایک قطار اور مصفوفہ X کے ایک ستون سے ٹکرا کر بنا ہے۔ مثال کے طور پر مصفوفہ Y کا جز math y_{00 math> مصفوفہ A کی قطار 0 اور مصفوفہ X کے ستون 0 کے ملاپ سے بنا ہے ۔ اسی طرح جز سائیز کی مصفوفہ سے ضرب دینے سے math m\times r +شناخت مصفوفہ کو ریاضی میں خاص مقام حاصل ہے۔ یہ ایسی مصفوفہ ہے جس کے بائیں سے دائیں آر پار جز 1 ہوں، اور اس کے علاوہ باقی جز 0 ہوں۔ ایک math n\times n شناخت مصفوفہ کو یوں لکھیں گے: +شناخت مصفوفہ ہمیشہ مربع مصفوفہ ہوتی ہے۔ عام ریاضی میں یہ نمبر 1 سے مماثلت رکھتی ہے۔ +مربع مصفوفہ کی طاقت بھی مصفوفہ ضرب کے ذریعہ تعریف ہوتی ہے، مثلاً n \times n math مربع مصفوفہ A کے لیے +اور k=0 کے لیے یہ شناخت مصفوفہ کے برابر ہو گا +مصفوفہ کا اُلٹ مقلوب مصفوفہ +آپ سوچ رہے ہو گے کہ کیا مصفوفہ تقسیم بھی ممکن ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے عام اعداد کی تقسیم پر غور کرو: +صرف مربع مصفوفہ کا الٹ ممکن ہے، مگر ہر مربع مصفوفہ کا الٹ ممکن نہیں۔ جس مربع مصفوفہ کی قطاریں باہمی آزاد ہوں (اور ستون آپس میں باہمی آزاد ہوں)، صرف ایسی مصفوفہ کو الٹایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مصفوفہ +کی تیسری قطار، پہلی دو قطاروں کو جمع کر کے بنی ہے، اس وجہ سے تیسری قطار پہلی دو قطاروں سے آزاد نہیں۔ اس لیے اس مصفوفہ کو الٹانا ممکن نہیں۔ +اس کے علاوہ جب مصفوفہ کے سائیز ایسے ہوں کہ مصفوفہ ضرب ممکن ہو تو یہ سچ ہو گا (یاد رہے کہ ایک مصفوفہ اور ایک مصفوفہ کی ضرب سے نکلنے والی مصفوفہ کا سائیز ہوتا ہے) +اب اس نقطہ X کو ایک مصفوفہ A سے ضرب دے کر نقطہ Y حاصل ہوتا ہے۔ نقطہ Y، m رُخی فضا میں ہے۔ مصفوفہ ضرب دالہ کا کام کرتی ہے۔ دالہ کو عموماً math f math> سے ظاہر کرتے ��یں: +اب یہ آسانی سے تسلی کی جا سکتی ہے کہ مصفوفہ ضرب ایک لکیری استحالہ کا کام کرتی ہے: +طور پر سکرین کی سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ +سکرین پر عمودی (vertical لکیروں کو ترچھا کرتی ہے، اور ان کے درمیان فاصلے بڑھاتی ہے، جبکہ مصفوفہ +سکرین پر افقی (horizontal لکیروں کو ترچھا کرتی ہے، اور ان کے درمیان فاصلے بڑھاتی ہے۔ جبکہ مصفوفہ +دونوں اطراف کی لکیروں کو ترچھا کرتی ہے۔ +ملاحظہ ہو۔ پہلی تصویر نیلا رنگ) میں مربع تانا بانا دکھایا گیا ہے۔ ان نکات کو مصفوفہ سے ضرب دے کر دوسری تصویر (سرخ رنگ) میں ترچھے تانا بانا حاصل ہوتا ہے۔ دیکھو کہ ایک مربع بدل جاتا ہے پیرللوگرام (parallelogram) میں تصاویر میں کالے ڈبے)۔ +مصفوفہ ضرب بطور لکیری دالہ +اگر پہلی تصویر میں دالہ کے ساحہ (domain) کے کالے ڈبے کے نکات S کو کہا جائے، تو دوسری تصویر میں دالہ کے حیطہ (range) میں کالے ڈبے کے نکات ‭f(S)‬ ہوں گے۔ ان دونوں کالے ڈبوں کا رقبہ مصفوفہ A کے دترمینان (باب 3) کی تناسب سے ہوتا ہے: +صیغہ یہاں درج کیجئے سے اُلٹی گھڑی کی سمت گھما دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو + +کا دترمینان یہ ہو گا +اسی طرح ایک n\times n مصفوفہ A کا دترمینان یوں لکھا جا سکتا ہے +یہ طریقہ دترمینان کی تعریف سمجھنے کے لیے ہے۔ عملی طور پر دترمینان نکالنے کا ایک طریقہ ہم اب بتاتے ہیں: +دترمینان نکالنے کا ایک طریقہ +انگریزی میں اسے minor کہتے ہیں۔ مثلاً مصفوفہ +کا (1,2) واں چھوٹا یوں لکھیں گے +کا دترمینان یوں نکال سکتے ہیں (پہلے ستون کو استعمال کرتے ہوئے): +* اگر مصفوفہ A کی کسی قطار کو math>\alphan \times n math ہو، تو مصفوفہ ضرب کا دترمینان: +مصفوفہ ضرب بطور لکیری فنکشن +لکیری فنکشن بزریعہ مصفوفہ ضرب +لکیری فنکشن بزریعہ مصفوفہ ضرب +، جہاں مصفوفہ A کا سائیز 3 \times 3 math ہے، اور اس کا ہر جُز میدان \mathbb{R math> میں ہے۔ یہ "فنکشن" علاقہ''E کو علاقہ ‭f(E)‬ میں بھیجتی ہے۔ اب ان دونوں علاقوں کے حجم کا تناسب مصفوفہ''A کےدترمینان کی مطلق قدر کے برابر ہو گا: +ایک مربع مصفوفہ A کے لیے نیچے دی گئے بیان ایک دوسرے کے ہم معٰنی ہیں: +اس مصفوفہ کو اُلٹانا ممکن ہے۔ +* اس میٹرکس کا رتبہ (پورا n ہے۔ +اس مصفوفہ کے تمام ستون باہمی لکیری آزاد ہیں، اور تمام قطاریں باہمی لکیری آزاد ہیں۔ +یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اگر اس مصفوفہ کا دترمینان بہت چھوٹا عدد ہو، تو میٹرکس کو الٹانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے میٹرکس کا حالتی عدد (condition number) نکالنا مفید رہتا ہے۔ +یاد رہے کہ عام طور پر متواقت لکیری مساوات کے نظام سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ + +ایسی لکیری فضا (سمتیہ فضاء) جس میں "اندرونی حاصل ضرب" تعریف کیا ہؤا ہو، کو اندرونی حاصل ضرب فضا کہتے ہیں۔ +اقلیدیسی فضا پر "اندرونی حاصل ضرب +اندرونی حاصل ضرب" یوں تعریف کیا جا سکتا ہے: +فضا میں سمتیہ کی لمبائی== +لکیری فضا میں ایک سمتیہ \mathbf{v math> کی لمبائی کو لکھتے ہیں، اور یہ سمتیہ کا اپنے ساتھ "اندرونی حاصل ضرب" کے جزر سے یوں تعریف کی جاتی ہے: +سمتیہ کی لمبائی کو سمتیہ کا اُمثولہ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے سمتیہ کی norm کہتے ہیں۔ +اقلیدسی فضا میں سمتیہ کی لمبائی +اقلیدسی فضا \mathbb{R}^n میں سمتیہ کی لمبائی کی تعریف یوں ہو جائے گی (اقلیدسی فضا پر "اندرونی حاصل ضرب" کی پہلی تعریف استعمال کرتے ہوئے): +دیکھو کہ یہ اقلیدسی ہندسہ (Euclidean geometry) میں لمبائی کی تعریف ہے۔ غور کرو کہ فضا پر "اندرونی حاصل ضرب" کی تعریف بدلنے سے "لمبائی" کی تعریف بھی مختلف ہو گی۔ +اقلیدسی فضا math>\mathbb{R}^n میں فاصلے کی تعریف یوں ہو سکتی ہے (اقلیدسی فضا پر "اندرونی حاصل ضرب" کی پہلی تعریف استعمال کرتے ہوئے): +دیکھو کہ یہ اقلیدسی ہندسہ میں دو نقطوں کے درمیان فاصلے کی تعریف ہے۔ غور کرو کہ فضا پر "اندرونی حاصل ضرب" کی تعریف بدلنے سے "فاصلے" کی تعریف بھی مختلف ہو گی۔ +ایک "اندرونی حاصل ضرب فضا" پر سمتیہ مجموعہ ، جس میں ہر سمتیہ دوسرے سے قائیم الزاویہ ہو، اور ہر سمتیہ کا امثولہ ایک (1) ہو، ایسے سمتیہ مجموعہ کو قائم امثول بولتے ہیں۔ یعنی +جسے یوں بھی لکھا جا سکتا ہے +قائم امثول" بنیاد سمتیہ مجموعہ کے حوالے سے صورت +کسی"اندرونی حاصل ضرب فضا" پر اگر ایک "قائم امثول" بنیاد سمتیہ مجموعہ ہو، تو اس فضا کے کسی سمتیہ کو اس مجموعہ کے حوالے سے یوں لکھا جا سکتا ہے: +تو سمتیہ کے امثولہ، فاصلہ، اور "اندرونی حاصل ضرب" کو یوں دیا جاتا ہے: +اس مسئلہ اثباتی کی خوبی یہ ہے کہ یہ \mathbb{R}^n فضا جیسے خوبصورت نتائج کسی بھی سمتیہ فضا (جہاں "اندرونی حاصل ضرب" تعریف ہؤا ہو) کے لیے عام کرتا ہے۔ +کسی"اندرونی حاصل ضرب فضا" پر مجموعہ میں تمام n غیر صفر سمتیہ قائم امثول" ہوں (تمام سمتیہ ایک دوسرے کے ساتھ قائم الزاویہ ہوں، اور ہر سمتیہ کا امثولہ ایک (1) ہو)، تو +قائم امثول بنیاد سمتیہ مجموعہ (مسلئہ اثباتی +لکیری فضا، جس میں "اندرونی حاصل ضرب" تعریف ہؤا ہو، اور اس کا بُعد متناہی ہو۔ ایسی لکیری فضا میں "قائم امثول بنیاد سمتیہ مجموعہ" ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ +اگر U کسی "اندرونی حاصل ضرب فضا V کی لکیری ذیلی فضا ہو، تو V کے کسی بھی سمتیہ v کو صرف ایک منفرد صورت میں یوں لکھا جا سکتا ہے: +جبکہ سمتیہ u ذیلی فضا U میں ہو، اور سمتیہ b ذیلی فضا U کے قائم الزاویہ ہو۔ اب سمتیہ u کو سمتیہ v کا مسقط (projection) کہا جاتا ہے۔ +تصویر میں \mathbb{R}^3 فضا میں سمتیہ v دکھایا گیا ہے۔ (اس فضا کو ہندسہ میں معکب XYZ کہا جا سکتا ہے۔) اس سمتیہ کا مسقط سمتیہ u ہے، جو کہ فضا math>\mathbb{R}^2\hbox{proj}_Uv math> ، سمتیہ v کا بہترین تقرب ہے، اس معنی میں کہ +جہاں u ذیلی فضا U کا کوئی بھی دوسرا سمتیہ ہے۔ +یعنی مسقط کے "غلطی سمتیہ" +کا امثولہ سب سے کم ہو گا- یہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ یہ غلطی سمتیہ e قائم الزاویہ ہوتا ہے ذیلی فضا U کے (یعنی U میں تمام سمتیوں کے)۔ +"اندرونی حاصل ضرب" کی مدد سے ہم مسقط نکال سکتے ہیں۔ +ایک "اندرونی حاصل ضرب فضا V کی لکیری ذیلی فضا U ہو۔ اگر فضا U کے لیے ایک قائم امثول بنیاد سمتیہ مجموعہ ہو، تو فضا V کے کسی بھی سمتیہ z کا مسقط \hbox{proj}_U z math> ذیلی فضا U میں یوں نکالا جا سکتا ہے: +کا مستوی XY میں مسقط نکالتے ہیں۔ مستوی XY کے لیے +ایک قائم امثول بنیاد سمتیہ مجموعہ ہے۔ اب + + +ویژہ قدر، ویژہ سمتیہ، اور ویژہ فضاء +ایک لکیری سمتیہ فنکشن کو مصفوفہ ضرب کے طور پر لکھا جا سکتا ہے +کے ویژہ قدریں اور ویژہ سمتیے نکالتے ہیں۔ +ہمیں یہ مساوات ملتی ہے، جسے حل کر کے دو ویژہ قدریں مل جاتی ہیں: +اور اس طرح ہمیں دو وہژہ قدریں مل جاتی ہیں: +اب پہلی ویژہ قدر کو استعمال کرتے ہوئے دو متواقت لکیری مساوات ملتی ہیں۔ +ویژہ سمتیہ کی مصفوفہ یوں لکھی جا سکتی ہے: +جو کہ شناخت مصفوفہ کے ویژہ سمتیہ ہیں۔ +یہ سچ ہو گا کہ +اسے یوں بھی لکھا جا سکتا ہے، یعنی ایک مصفوفہ کو وتر مصفوفہ میں بدلا جا سکتا ہے، ویژہ سمتیہ مصفوفہ کی +اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ +اوپر والی مثال 1 میں: +اور یہ بھی تسکین کر لو کے کہ +تصویر میں دیکھو کہ سرخ بیضوی شکل کا رقبہ گنا ہے بہ نسبت نیلے دائرہ کے رقبہ کے۔ +اس لیے اوپر والی ویژہ مصفوفہ کو ہم سے تقسیم کر کے قائم الزاویہ مصفوفہ بنا لیتے ہیں: +اب مسئلہ اثباتی 2 کی رو سے (یاد رہے کہ A متناظر مصفوفہ تھی) + + +تیکوانڈوایک کورین مارشل آرٹ ہے۔ + + +اگر X سمتیہ فضا math>\mathbb{R}^n کا کوئی بھی سمتیہ ہو، تو یہ استحالہ +لکیری استحالہ ایسے استحالہ کو کہتے ہیں جو لکیری آزمائیش پر پورا اترے۔ اگر استحالہ درج ذیل آزمائش پوری +تو اسے لکیری استحالہ کہتے ہیں۔ +مصفوفہ ضرب سے لکیری استحالہ بنتا ہے۔ اگر X سمتیہ فضا \mathbb{R}^n کا رکن ہو، اور A ایک مصفوفہ، تو لکیری استحالہ یوں لکھا جا سکتا ہے: +اب فرض کرو کہ ایک دوسری سمتیہ فضا U ہے، اور ایک لکیری استحالہ ہے، اور +اب چونکہ سمتیہ فضا U میں ہیں، اسلئے انہیں U کے بنیاد سمتیہ کے لکیری جوڑ کے طور پر لکھا جا سکتا ہے: +اب v کو سمتیہ فضا V کے بنیاد سمتیہ کے لکیری جوڑ کے بطور لکھتے ہوئے +اور لکیرے پن کا استعمال کرتے ہوئے +چونکہ u کو سمتیہ فضا U کے بنیاد سمتیہ کے لکیری جوڑ کے بطور یوں لکھا تھا +اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ +اب اس مصفوفہ کو ہم A کہتے ہوئے اوپر کی مساوات جو سمتیہ فضا U کے کسی سمتیہ u کی صورت d اور سمتیہ فضا V کے سمتیہ v کی صورت c کے درمیان رشتہ ایک مصفوفہ ضرب کے طور بتاتی ہے، یوں لکھتے ہیں: +غور کرو کہ مصفوفہ A دونوں سمتیہ فضا V اور U میں انتخاب کردہ بنیاد سمتیہ مجموعہ اور پر منحصر ہے۔ مصفوفہ A کی ہئیت پر غور کرو۔ مصفوفہ A کا ہر ستون حاصل کرنے کے لیے، سمتیہ فضا V کے ایک بنیاد سمتیہ کو T کے ذریعہ U میں بھیجا جاتا ہے، اور کو سمتیہ فضا U کے بنیاد سمتیہ مجموعہ کے لکیری جوڑ کے طور پر لکھنے سے جو عددی سر a math> حاصل ہوتے ہیں، یہ میٹرکس کا ایک ستون بنتے ہیں۔ +اور جو سمتیہ فضا V=\mathbb{R}^2 سے math>\mathbb{R}^3 کی ذیلی سمتیہ فضا U میں بھیجتا ہے۔ اس ذیلی سمتیہ فضا کو تصویر میں نیلے مستوی سے دکھایا گیا ہے۔ \mathbb{R}^2 میں بنیاد سمتیہ مجموعہ کے لیے ہم قدرتی بنیاد سمتیہ مجموعہ کا انتخاب کر لیتے ہیں، یعنی +اور math>\mathbb{R}^3 کی اس ذیلی سمتیہ فضا میں بنیاد سمتیہ مجموعہ +اب V کے بنیاد سمتیہ کو T کے ذریعہ U میں بھیج کر U کے بنیاد سمتیہ کے لکیری جوڑ کے بطور یوں لکھتے ہیں +جس سے ہم مصفوفہ A پڑھ لیتے ہیں +یہاں درجہ اول کے کثیر رقمی کو +فضا V میں بنیاد سمتیہ +اور فضا U میں بنیاد سمتیہ +ایک سمتیہ فضا S پر لکیری استحالہ T:S \to S ہو۔ اس سمتیہ فضا میں ایک بنیاد سمتیہ مجموعہ کے لحاظ سے اس استحالہ کی صورت مصفوفہ A ہو۔ اب اگر اسی فضا کا ایک اور بنیاد سمتیہ مجموعہ ہو، اور اس مجموعہ کے حوالے سے استحالہ کی صورت مصفوفہ B ہو، تو دونوں مصفوفہ میں نسبت یوں لکھی جا سکتی ہے +''نَسبی استحالہ ایسے استحالہ کو کہتے ہیں، جو لکیری استحالہ کے بعد ترجمہ استحالہ کے استعمال سے وقوع ہو۔ لکیری فضا math mathbb{R}^nT:V \to U math>، جو سمتیہ فضا V کے سمتیہ کو سمتیہ فضا U کے سمتیہ میں لے جاتا ہے۔ فضا U کے ان سمتیوں کا مجموعہ جو اس استحالہ T کے ذریعہ حاصل ہو سکیں کو استحالہ T کا حیطہ (range) کہا جاتا ہے۔ یعنی T کے حیطہ کا ہر سمتیہ فضا V کے کم از کم ایک سمتیہ پر استحالہ T کے استعمال سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ T کے حیطہ کو ہم ‭''R(T ‬ لکھیں گے۔ +فرض کرو کہ فضا V کا بُعد n ہے۔ اگر استحالہ کی عدیمہ فضا کے بُعد کو ‭ nullity(T)‬ لکھا جائے تو +تعریف: ایک لکیری استحالہ ، جو سمتیہ فضا V کے سمتیہ کو سمتیہ فضا U کے سمتیہ میں لے جاتا ہے۔ فضا V کے ان سمتیوں کا مجموعہ جو اس استحالہ T کے ذریعہ صفر سمتیہ \mathbf{0 math> میں جائیں، کو لکیری استحالہ T کی عدیمہ فضا کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے T کا kernel یا null space کہتے ہیں۔ یہ عدیمہ فضا، سمتیہ فضا V کی سمتیہ ذیلی فضا ہوتی ہے۔ +کے حل کی سمتیہ فضا کو مصفوفہ A کی عدیمہ فضا کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے null space کہتے ہیں۔ عدیمہ کا لفظ عدیم الوجود سے بنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں +یہ آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مصفوفہ کی عدیمہ فضا کے لیے درج ذیل ایک بنیاد سمتیہ مجموعہ ہے +گویا اس مصفوفہ کی عدیمہ فضا کا بُعد 2 ہے۔ اور یہ عدیمہ فضا، \mathbb{R}^4 کی سمتیہ ذیلی فضا ہے۔ اس مصفوفہ کا رتبہ بھی 2 ہے۔ اوپر کے مسئلہ اثباتی کی اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ "بُعد عدیمہ فضا" اور رتبے کی جمع، مصفوفہ کے ستونوں کی تعداد کے برابر ہے۔ +دوسرے الفاظ میں متواقت لکیری مساوات کا نظام +کا حل یہ ہے (بنیاد سمتیہ کا لکیری تولیف): + + +اب ان اشیا کی تیاری کے لیے ایک خام مال باترتیب درکار ہوتا ہے، جس کی محدود مقدار سائز کی مصفوفہ ہے، اور +ایک کاشتکار کے پاس 10 ایکڑ زمین ہے جس پر وہ مٹر اور گاجر کی فصل کاشت کرنا چاہتا ہے۔ مٹر کی فصل میں ہر ایکڑ کے لیے 2 میٹرک ٹن کھاد درکار ہوتی ہے جبکہ گاجر کی فصل کے لیے 1 میٹرک ٹن فی ایکڑ۔ فرض کرو کہ کاشتکار کو صرف 12 میٹرک ٹن کھاد دستیاب ہے۔ اب منڈی میں مٹر کی فی ایکڑ پیداوار کے 9 ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ گاجر کی ایک ایکڑ پیداوار کے 4 ہزار روپے۔ ہمیں یہ ڈھونڈنا ہے کہ کتنے ایکڑ پر مٹر اُگائے جائیں اور کتنے پر گاجر تاکہ کاشتکار کو زیادہ سے زیادہ آمدنی ہو۔ +فرض کرو کہ گاجر x ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے اور مٹر y ایکڑ پر۔ اب چونکہ کل رقبہ 10 ایکڑ ہے، اس لیے +کھاد مٹر کو 2 میٹرک ٹن فی ایکڑ، اور گاجر کو 1 میٹرک ٹن فی ایکڑ۔ جبکہ کاشتکار کے پاس کھاد کی ساری مقدار 12 میٹرک ٹن ہے، اس لیے +اس کے علاوہ چونکہ زیر کاشت رقبہ منفی نہیں ہو سکتا، اس لیے +مٹر کی قیمت 9 ہزار فی ایکڑ اور گاجر کی قیمت 4 ہزار فی ایکڑ کے حساب سے کاشتکار کی آمدنی ہو گی +تصویر میں مساوات کالے رنگی لکیر سے دکھائ گئی ہے۔ اس کالی لکیر سے نیچے کا سارا علاقہ پہلی نامساوات کی رُو سے جائز ہے۔ مساوات کو ملا کر رنگدار (shaded) علاقہ جائز ہے، یعنی اس رنگدار علاقے کا کوئی بھی نقطہ تمام نامساوات کی تسکین کرتا ہے۔ غور کرو کہ یہ علاقہ ایک کثیرالاضلاع (polygon ہے، جسے کے کونے یہ ہیں: +ہمیں اس رنگدار علاقے میں سے وہ نقطہ چننا ہے جس پر سب سے زیادہ آمدنی ہو۔ یہ پتہ کرنے کے لیے ہم نے تصویر میں 40 ہزار کی آمدنی تصور کرتے ہوئے، اس مساوات کے لیے +سرخ لکیر لگائی ہے۔ اس لکیر پر کسی بھی نقطہ پر آمدنی 40 ہزار ہو گی۔ غور کرو کہ یہ لکیر کونہ (x,y 10,0 math> سے گزرتی ہے۔ اس طرح دوسرے کونوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ان مساوات +کے مطابق متوازی سرخ لکیریں لگاتے ہیں۔ اب یہ واضح ہے کہ کونہ نقطہ math>(x,y 0,6 math> پر سب سے زیادہ آمدنی (54 ہزار ہے۔ اس لیے حل یہ ہے کہ 0 ایکڑ پر گاجر کاشت کی جائے اور 6 ایکڑ پر مٹر (یعنی صرف 6 ایکڑ رقبے پر مٹر کاشت کرو، اور باقی 4 ایکڑ فارغ چھوڑ دو)۔ +غور کرو کہ نیلی اور کالی لکیریں نقطہ (x,y 8,2 math> پر ملتی ہیں، جو ان متواقت لکیری مساوات کے نظام کا حل ہے۔ مگر یہ حل اس مسئلہ کا حل نہیں چونکہ اس میں آمدنی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ +اگر ہم منڈی کی قیمت بدلیں تو حل بھی بدل سکتا ہے۔ مثلاً اگر مٹر کے9 ہزار ملتے ہوں اور گاجر کے 6 ہزار، یعنی +اگر اوپر کی مثال میں ایک فصل زیادہ کر دیں: +:ایک کاشتکار کے پاس 10 ایکڑ زمین ہے جس پر وہ مٹر، گاجر، اور ٹماٹر کی فصل کاشت کرنا چاہتا ہے۔ گاجر، مٹر، اور ٹماٹر کے ایکڑوں کو کہتے ہوئے +اب منڈی میں مٹر کی فی ایکڑ پیداوار کے 9 ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ گاجر کی ایک ای��ڑ پیداوار کے 4 ہزار روپے، اور ٹماٹر کے 7 ہزار روپے فی ایکڑ۔ +مٹر کی فصل میں ہر ایکڑ کے لیے 2 میٹرک ٹن کھاد درکار ہوتی ہے جبکہ گاجر کی فصل کے لیے 1 میٹرک ٹن فی ایکڑ، اور ٹماٹر کی فصل کے لیے 3 میٹرک ٹن فی ایکڑ ۔ فرض کرو کہ کاشتکار کو صرف 12 میٹرک ٹن کھاد دستیاب ہے۔ +مٹر کی فصل کو 10 دن فی ایکڑ مزدوری چاہیے ہوتی ہے، گاجر کو 6 دن فی ایکڑ، اور ٹماٹر کو 11 دن فی ایکڑ۔ کل 100 دن کی مزدوری میسر ہے۔ +ہمیں یہ ڈھونڈنا ہے کہ کتنے ایکڑ پر مٹر اُگائے جائیں، کتنے پر گاجر، اور کتنے پر ٹماٹر، تاکہ کاشتکار کو زیادہ سے زیادہ آمدنی ہو۔ +اب دیکھو کہ یہ مسئلہ تین متغیر میں ہے۔ اس کا کثیرالاضلاع سہ العبادی ہو گا۔ اس سے واضح ہؤا کہ جب متغیر کی تعداد زیادہ ہو تو ہندسیہ کی مدد سے کثیرالاضلاع کا تصور کر کے اس کے کونے ڈھونڈنا ممکن نہیں رہتا۔ خوش قسمتی سے بسیط (simplex) کا ایسا طریقہ موجود ہے جس کے استعمال سے تصور کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور ایک میکانکی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ایک کونے سے دوسر ے کونے، چھلانگیں اس طرح لگائی جا سکتی ہیں کہ ہر چھلانگ میں دالہ کی قیمت میں اضافہ ہوتا جائے اور بالآخر سب سے بہتر حل نکل آئے۔ +اوپر دیا لکیری پروگرامنگ کا مسئلہ، یعنی: +:جبکہ یہ لوازمات پورے ہوں +اس مسئلہ کے ساتھ انتہای قریبی تعلق رکھنے والا مسئلہ: +:جبکہ یہ لوازمات پورے ہوں +(یہاں الفاظ "تکبیر" اور "تصغیر" صرف و نحو کے حوالے سے فعل ہیں۔) +ان دونوں مسلئوں کا گہرا تعلق نیچے دیہ ہے: +اگر X اور Y ایسے سمتیہ ہیں جو بالترتیب مقدم اور ثنوی مسائل کے لوازمات پورے کرتے ہیں، تو +# اگر ان X اور Y کے لیے، مساوات X math> اور Y math> لکھا جاتا ہے (تصویر)۔ +جب بسیط کے طریقہ سے لکیری پروگرامنگ مقدم مسئلہ کا حل X نکالا جاتا ہے، تو اس دوران ثنوی مسئلہ کا حل Y بھی ساتھ ہی نکل آتا ہے۔ +اوپر مثال 1 میں مقدم مسئلہ کو یوں لکھا جا سکتا ہے +اب ثنوی مسئلہ کو یوں سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کرو کہ کوئی شخص کاشتکار سے ساری کھاد (بارہ میٹرک ٹن) خریدنا چاہتا ہے اور زمیں (دس ایکڑ) فصل کے دورانیہ کے لیے کرائے پر لینا چاہتا ہے۔ اب اس شخص کا مسئلہ یہ ہو گا کہ کاشتکار کو کیا قیمت کی پیشکش کرے۔ یہ شخص ایک ایکڑ کے کرائے کی قیمت y_1 روپے لگاتا ہے، اور کھاد کی فی میٹرک ٹن قیمت y_2 روپے لگاتا ہے، تو پوری قیمت یہ بنی +ظاہر ہے کہ یہ شخص کم سے کم قیمت لگانا پسند کرے گا۔ +چونکہ ایک ایکڑ زمین اور ایک میٹرک ٹن کھاد کے استعمال سے چار ہزار روپے مالیت کی گاجر پیدا ہوتی ہے، اس لیے کاشتکار یہ سودا اسی وقت قبول کرے گا جبکہ +اور چونکہ ایک ایکڑ زمین اور دو میٹرک ٹن کھاد کے استعمال سے نو ہزار روپے مالیت کا مٹر پیدا ہوتا ہے، اس لیے کاشتکار یہ سودا اسی وقت قبول کرے گا جبکہ +تو ثنوی لکیری پروگرامنگ مسئلہ یہ بنا +اس مسئلہ کا حل نکالا جائے تو کل قیمت 54 ہزار ہی نکلے گی، اور y_1=0، +اس مثال میں ہم نے یہ عجیب بات دیکھی کہ زمین کی قیمت صفر لگی۔ ثنوی لکیری پروگرامنگ مسائل میں ان قیمتوں کو پرچھائیں قیمتیں (shadow prices) کہا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین کی کوئی وقعت نہیں۔ صرف یہ کہ منڈی (مارکیٹ) کے حوالے سے اس ایک مسئلہ کے تناظر میں ان اشیاء کا بھاؤ یہ (پرچھائیں قیمت) لگا۔ +سے تقرب کی جا سکتی ہے۔ +تصویر میں گیارہ نقطوں x,y) کا درجہ دوم کثیر رقمی سے تقرب کیا گیا ہے۔ +تجربہ سے حاصل ہونے والے n جوڑے اگر درجہ m کے کثیر رقمی میں ایک ایک کر کے ڈالے جائیں تو ہمارے پاس n مساوات حاصل ہونگی، جنہیں درج ذیل مصفوفہ مساوات کی صورت لکھا جا سکتا ہے (عام طور پر math>n m\mathbb{R}^n میں ہے، اس لیے ہمیں اقلیدسی فضا میں امثولہ کی عام تعریف استعمال کرتے ہوئے +جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ + + +/*جدید ناوباکسز و سائید بارز*/ +وضاحت در صفحات ریتخانہ برائے صارفین +content اطلاع: یہ صفحہ دائرۃ المعارف کا حصہ نہیں ہے، چنانچہ ویکیپیڈیا صفحہ کے طور پر اس کا شمار نہیں ہوتا، یہ محض ویکیپیڈیا صارفین کے لیے بطور تجربہ گاہ استعمال ہوتا ہے۔'; +حالیہ تبدیلیوں اور زیر نظر فہرست میں نیا صفحہ رنگین +درستی علامت قفل برائے محفوظ صفحات +زمرہ و رجوع مکرر ساز آلات کے تصویری علامتیے +/*سانچہ:اصل مضمون کا پس منظر*/ + + +آپ کے اس ویب سائٹ پر بندہ نے بھت ہی استفادہ کیاہے،خاص کرکے شعرا، ادبا اور نامور علماکی حالات زندگی اور خدمات زندگی کے بارے۔ بندہ تہ دل سے آپ کے شکرگزارہے، لیکن بندہ کی ایک طالبعلمانہ اور دوستانہ گزارش ہے کہ اس ویب سائٹ کے ذخیرۂ کتب کو اوربھی جوانی اور فراوانی دی جائے۔ مع السلام + + +*مکسما میں math math تعریف کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً نیچے مساوات x^2-3x-3 0 کو e1 کا نام دیا گیا ہے۔ +مساوات کو متغیر x میں حل کرنے کے لیے یوں لکھو +حل کو عددی صورت میں لانے کے لیے +متغیر x کی قدر 5 کے لیے فنکشن کی قدر یوں معلوم کی جا سکتی ہے +فنکشن کا مخطط یوں بنایا جا سکتا ہے +*متغیر a کی قدر مقرر کرنا ہو، تو لکھیں گے۔ +*دو متواقت مساوات کا حل +*اگر کسی عبارت کا جواب نکالنا مقصود نہ ہو، صرف تحریر کرنا ہو، تو پہلے لگاتے ہیں، مثلاً متکامل +بتاؤ کہ y تابع ہے x کے +تفریقی مساوات کا حل معلوم کرو +حل میں k1 اور k2 نامعلوم دائم ہیں، جو احاطہ حالت (boundary conditions) بتانے سے معلوم کیے جا سکتے ہیں +حل کی دائیں ہاتھ طرف (rhs) کا مخطط بنایا جا سکتا ہے + + +عام طور پر ریاضی میں میٹرکس کی قطاروں اور ستونوں کا شمار صفر (0) سے شروع کرتے ہیں، مگر سائیلیب میں یہ شمار ایک (1) سے شروع ہوتا ہے۔ +میٹرکس کے کسی جُز کو اس کے قطار اور ستون کے ذریعہ مخاطب کیا جا سکتا ہے، جیسے: +میٹرکس کا سائیز دیکھنے کے لیے یوں کرتے ہیں (یہاں میٹرکس C کا سائیز 3 \times 4 + +درسمند ضلع ہنگو کا ایک بہت بڑا اور مشہور گاؤں ہے۔ یہاں پر کافی تعداد میں تازہ اور ٹھنڈے پانی کے خوبصورت چشمے ہیں۔ یہاں کے پہاڑ کافی سرسبز و شاداب ہیں۔ یہاں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہے۔ اسکے اطراف میں دوآبہ، ٹل، طورہ وڑی، کربوغہ شریف واقع ہے۔ + + +ایک کاشتکار کے پاس 10 ایکڑ زمین ہے جس پر وہ مٹر اور گاجر کی فصل کاشت کرنا چاہتا ہے۔ مٹر کی فصل میں ہر ایکڑ کے لیے 2 میٹرک ٹن کھاد درکار ہوتی ہے جبکہ گاجر کی فصل کے لیے 1 میٹرک ٹن فی ایکڑ۔ فرض کرو کہ کاشتکار کو صرف 12 میٹرک ٹن کھاد دستیاب ہے۔ اب منڈی میں مٹر کی فی ایکڑ پیداوار کے 9 ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ گاجر کی ایک ایکڑ پیداوار کے 4 ہزار روپے۔ ہمیں یہ ڈھونڈنا ہے کہ کتنے ایکڑ پر مٹر اُگائے جائیں اور کتنے پر گاجر تاکہ کاشتکار کو زیادہ سے زیادہ آمدنی ہو۔ +فرض کرو کہ گاجر x ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے اور مٹر y ایکڑ پر۔ اب چونکہ کل رقبہ 10 ایکڑ ہے، اس لیے +کھاد مٹرکو 2 میٹرک ٹن فی ایکڑ، اور گاجر کو 1 میٹرک ٹن فی ایکڑ۔ جبکہ کاشتکار کے پاس کھاد کی ساری مقدار 12 میٹرک ٹن ہے، اس لیے +اس کے علاوہ چونکہ زیر کاشت رقبہ منفی نہیں ہو سکتا، اس لیے +مٹر کی قیمت 9 ہزار فی ایکڑ اور گاجر کی قیمت 4 ہزار فی ایکڑ کے حساب سے کاشتکار کی آمدنی ہو گی +سائلیب میں یہ مسئلہ linpro کی مدد سے حل کیا جاتا ہے۔ منافع فنکشن کے لیے ہم لکھتے ہیں: +جو سائلیب کی زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں +اب سائلیب کو بتاتے ہیں کہ x اور y کی کم سے کم (min) اور زیادہ سے زیادہ (max) قیمت کیا ہو سکتی ہے: +چونکہ سائلیب linpro منافع فنکشن کی بجائے نقصان فنکشن استعمال کرتی ہے اس لیے ہم اسے منفی p بتاتے ہیں۔ آخری صفر کا مطلب ہے کہ C b میں سب نامساوات ہیں (مساوات کوئی نہیں) +یعنی گاجر کاشت نہ کی جائے، اور مٹر چھ ایکڑ پر کاشت کیا جائے۔ +اور منافع ہو گا 54 ہزار۔ +اوپر مثال 1 میں مقدم مسئلہ کو یوں لکھا جا سکتا ہے +اب ثنوی مسئلہ کو یوں سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کرو کہ کوئی شخص کاشتکار سے ساری کھاد (بارہ میٹرک ٹن) خریدنا چاہتا ہے اور زمیں (دس ایکڑ) فصل کے دورانیہ کے لیے کرائے پر لینا چاہتا ہے۔ اب اس شخص کا مسئلہ یہ ہو گا کہ کاشتکار کو کیا قیمت کی پیشکش کرے۔ یہ شخص ایک ایکڑ کے کرائے کی قیمت y_1 روپے لگاتا ہے، اور کھاد کی فی میٹرک ٹن قیمت y_2 روپے لگاتا ہے، تو پوری قیمت یہ بنی +ظاہر ہے کہ یہ شخص کم سے کم قیمت لگانا پسند کرے گا۔ +چونکہ ایک ایکڑ زمین اور ایک میٹرک ٹن کھاد کے استعمال سے چار ہزار روپے مالیت کی گاجر پیدا ہوتی ہے، اس لیے کاشتکار یہ سودا اسی وقت قبول کرے گا جبکہ +اور چونکہ ایک ایکڑ زمین اور دو میٹرک ٹن کھاد کے استعمال سے نو ہزار روپے مالیت کا مٹر پیدا ہوتا ہے، اس لیے کاشتکار یہ سودا اسی وقت قبول کرے گا جبکہ +تو ثنوی لکیری پروگرامنگ مسئلہ یہ بنا +سائلیب میں اس کا حل یوں نکلے گا۔ +اب چونکہ linpro کو نامساوات کی "کم" صورت چاہیے، اس لیے ہم C اور b کو منفی لکھیں گے۔ یعنی +چونکہ g نقصان فنکشن ہی ہے، اس لیے p کو مثبت ہی رہنے دیں گے +اس مسئلہ کا حل یہ نکالا کہ کل قیمت 54 ہزار ہی نکلے گی، اور y_1=0، + + +سائلیب میں کا اوزار "گاسین اخراج" کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ اس کی مدد سے یکلخت لکیری مساوات کا حل یوں نکالا جا سکتا ہے: + + +ماں نے کہا”۔ انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں۔اور تمارے ابو تمہیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں۔ +اسلئے تم سقراط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو۔“ +“ لیکن اخلاقی محبت کی تاثیر اور اچھائی کے بارے میں۔ +میں نے اور ابو نے تمہیں اور سعدیہ کو پہلے دن سے سیکھانا شروع کیاتھا”۔ +ماں نے اپنا جواب مکمل کیا۔ +مگر امی محبت میں تمام اچھائیاں کیسے سما سکتی ہیں؟“ +محبت کیا ہے؟ سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔ +ماں نے کہا ۔" اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں +ایک گہرا ناقابلِ بیان جذبہ، رشتہ اور تعلق، شفقت ، بے قراری اور پرواہ کرنے کا نام ہے۔یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اوربنیادی +" امی ، امی ۔سعدیہ چلائ۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا”۔ + + +ہر اتوار کو رشتہ دار ، دوست واحباب ہمارے گھر پر جمع ہوتے ہیں۔ صبع سے دوپہر تک لوگ آتے رہتے ہیں۔ ماں مزےدار کھانے تیار کرتی ہیں لڑکوں اور لڑکیوں میں بحث ہوتی ہے اور اخر میں سب اباجان کے پاس جا کر ان گُتھیوں کو سُلجھاتے ہیں۔ +ایسے ہی ایک اتوار کو سب لوگ جمع تھے۔ ماں مسالے والی مرغ کوآنچ پر سینک رہی تھیں اباجان نان بنا رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے دوست واحباب سے باتیں کررہے تھے۔ لڑکے سوئمنگ پُول میں تیراکی کررہے تھے لڑکیاں سوئمنگ پُول کے کنارے پر بیٹھیں کُھسر پُھسر کررہی تھیں۔تمام چچا آپس میں عراق کی باتیں کررہے تھے۔اور چاچیاں کھانے کی میز لگانے میں مصرف تھیں۔ +" تم نے تندور لیا ہے اور بتایا بھی نہیں؟" وہاب چچا نے پوچھا”۔ +"نہیں میرے بھائی ہم تو باربی کیو کی گریل اور توّے پر نان بنائیں گے”۔ اباجان نے کہا۔ +"وہ کیسے؟” وہاب چچا نے حیرت سے کہا۔ +"نان بنانے کیلئے گریل کی گرمی ٢٦٠ سینٹی گریڈ ہونی ضروری ہے۔ اسی طرح نان اوون میں بھی بنائے جاسکتے ہیں”۔ اباجان نے ہنس کر کہا۔ +"عقلمندکے بھائی کبھی تم نے نان کا آٹا بھی گوندھا ہے؟" وہاب چچا نے سوال کیا۔ +اباجان نے چچا کو گوندھا ہوئے میدے کا آٹا دیکھایا۔ +چچا نے قہقہ لگایا اُن کو یقین نہیں آیا اور ماں سے پوچھا بھابھی، نان کے آٹابنانے کی ترکیب کیا ہے؟ +اس پرتمام عورتوں کے کان کھڑے ہو گے۔ +ماں نے کہا “۔ یہ تو زیادہ مشکل نہیں مگر ہرکام کی طرح اس میں بھی کامل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ میں آپ کو اس کی سیدھی سی ترکیب بتا تی ہوں”۔ +"میں لکھتا ہوں آپ بتائیں”۔ +ماں نے کہا لکھیں۔” اجزا یہ ہیں۔ ایک کپ میدے کا آٹا، آدھا کپ نیم گرم پانی، آدھا چمچہ شکر، ایک چمچہ سوکھا خمیر، آدھا چمچہ نمک، اور چوتھائی کپ، نیم گرم پِگھلا ہواگھی اور حسب ضرورت آٹاگوندھنے کے دوران کے لئے “۔ ناز چچی نے اپنے شوہر وہاب سے مذاق میں کہا۔” آپ ان سب اجزا کو منہ میں ڈالکر خوب ہلیں جلیں اور پھرگرم توّے پر بیٹھ جائیں”۔ +ماں نے مسکرا کر اپنی گفتُگو کو جاری رکھا۔” ایک ناپ کے کپ میں آپ شکر اور خمیر کو ملائیں ۔ اب اس میں نیم گرم پانی ڈال کر پھرملائیں۔ اس آمیزے کوپانچ منٹ کیلئے ایک طرف رکھ دیں اس میں جھاگ بن جائیں گی۔ +۔"لکھ لیا آپ نے۔ “ماں نے پوچھا +" جی ۔ وہاب چچا نے جلدی جلدی لکھا . + + +" اب ایک بڑے پیالہ میں ایک کپ میدے کا آٹا، آدھا چمچہ نمک، اور چوتھائی کپ ، نیم گرم گھی ڈال کر ملا دئیں۔ اس آٹے کے درمیان ایک کنواں سا بنا کراس میں تیارشدہ آمیزے کو ڈال دیں۔اس آٹے کو ہاتھوں سےگوندھیں۔ گوندھائی کے دوران ضرورت کے مطابق اور بھی سوکھا آٹا ڈالا جاسکتا ہے۔جب گُندھا ہوا آٹا ،ملائم اور چکنا ہوجائے تو ایک دوسرے پیالہ کو گھی سے لیپ کریں اور گوندھے ہوئے آٹے کا گولا اس پیالہ میں منتقل کردیں۔اس آٹے کے گولے کو پیالہ میں اسطرح گھمائیں کہ اس پر ہر طرف گھی لگ جائے۔اب اس آ ۤٹا پر ایک گیلا کپڑا رکھ کر خمیر کو کام کرنے دیں۔ خمیر کی مقد ار کی بنا پر گند ھے ہوئے آٹے کو اپنی مقدار سے دُگنا ہونے میں کم ازکم دو گھنٹے لگیں گے۔ اب آپ اسے فریج میںرکھ دیں۔ نان بنانے سے تقریباً آدھاگھنٹا پہلے آٹے کے گولے کو فریج سے نکال لیں۔ اور اس کو دو حصوں میں ایک چھری سے کاٹ لیں۔ایک حصہ کوگیلے کپڑے میں لِپیٹ کر ایک پیالہ میں رکھ دیں تاکہ خشک نہ ہو۔ اب دوسرے حصہ کو ٦ حصوں میں بانٹ دیں۔اور اس کے پیڑے بنا لیں”۔ +اباجان نے کہا۔” بھئ گریل تیار ہے۔ چلو وہاب نان لگاؤ "۔ +چچا نے اردگرد دیکھا جیسے کسی چیز کی تلاش ہو۔ +تم کو یہ پتہ ہے کہ نان کو روٹی کی طرح نہیں بیلتے ہیں؟" اباجان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ " +چچا نے حیرت سے پوچھا۔” تو یہ روٹی کی طرح کیسے بن جاتا ہے؟" +" دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں استمعال کر کے اس ایک پیڑے کو روٹی کی طرح یا ایک آنسو کے قطرے کی پھیلاؤ۔ آٹے میں لچک ہے اسلئے یہ پھیلے گا”۔ اباجان نے کہا۔ +جمیل نے ڈایوینگ بورڈ سے سوئمنگ پُول میں چھلانگ ماری اور پُول کے پانی نے سب لڑکیوں کو بھگودیا۔ تھوڑی دیر تک توسب لڑکے ہنسے۔ +سِمل نے کہا ـ یہ تواچھی بات نہیں ہے کہ آپ نےہمارے کپڑے گیلے کردیے “۔ +آسیہ بولی جمیل کو کیا پتہ اچھائ کیا ہوتی ہے؟" +آسیہ کے بھائ عمران نے کہا۔ سبحان اللہ ، جیسے اِن کو تو پتہ ہے”۔ +سعدیہ نے کہا "ْ واہ جرات تو دیکھیے اپنی ننھی بہن پراپنا بڑا پن جتا رہے ہیں”۔ +عمران نے کہا اسی کو تو انصاف کہتے ہیں”۔ +" لو، بڑے بھایئوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ اچھائی اور انصاف کیا ہوتا ہے" ۔ سِمل نے منہ بنا کر کہا ۔ +کی ہا ں ہاں ، جیسے آپ جانتی ہیں اچھائیاں کیا ہوتی ہیں؟" ۔ جمیل نے اپنی چھوٹی بہن کو بحث میں لانے کوشش کی ۔ +بس یہی تو لڑکیاں چاہ رہی تھیں۔ اُنکے خاص مضامین نفسیات، زبانیں، تاریخ اور فلسفہ تھے ۔ لڑکے بچارے کمپیوٹر سائنس، مینیجمینٹ اور میڈیکل کے طالبِ علم تھے۔ +تھوڑی دیربحث کے بعد لڑکوں نے دیکھا کہ ہار قریب ہے۔ لڑکوں نے اس گفتگوسے نکلنا چاہ ا۔ +جمیل نے کہا۔" چلو اباجان سے پوچھتے ہیں”۔ +“اباجان ہمیں آپ سےاچھائیوں کے بارے میں پوچھنا ہے”۔ + + +اباجان نے اپنا ایپرن ماں کودیااور کہا نان جل رہے ہیں۔ ماں نے ہنس کرکہا۔ “ چلیں آپ ا پنی عمر کے لوگوں میں جائیں”۔ +ہم سب لڑکے اور لڑکیاں اباجان کے اردگرد بیٹھ گئے۔ +اباجان نے کہا تم میں سے مجھ کو کون بتائےگا کہ یونانی زبان کے لفظ آراتے کے کیا معنی ہیں۔ +سب کی نظریں آسیہ پر تھیں۔ آسیہ کا مضمون خاص زبانیں" ہے ۔ +یہ توبہت ہی آسان ہے ۔ اسکا قریبی انگریزی ترجمہ تو “ virtue “ ہے ۔ اردو میں اسکے معنی “جوہراور تقوی“ کے ہوسکتے ہیں۔ +اباجان نے کہا۔ “ آسیہ بیٹی تم بلکل صحیح کہتی ہو۔ یونانی شاعرھومر نےجو آراتے کی تعریف بتائی ہے اسکو سُقراط نے صاف صاف علم انسانیت سے ملا دیا۔ سقراط کو یہ یقین تھا کہ اگر آپ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے تو آپ سچائی کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر آپ کو یہ علم ہے کہ جرات، انصاف، تقدس، اور اعتدال کیا ہیں تو آپ اُن پر عمل کریں گے”۔ +فلاسفر ارسطو نے یہ سوچا کہ انسان یہ جاننے کے باوجود کے نیکی کیا ہے، برائ اور اچھائی دونوں کرے گا۔ اسے یونانی زبان میں 'َ اکراشیا' اور اردو میں انساں کی خصلت میں کمزوری" کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جو بدکاری کرتا ہے وہ نہ تو اچھائی اور نہ بُرائی جان کر کرتا ہے۔ سقراط کو اس بات سے اختلاف ہے۔ +اباجان نے عمران کیطرف دیکھا”۔ بیٹے عمران وہ بات ��و بظاہر باطل اور حقیقت میں صحیح ہوایسی بات کو کیا کہتے ہیں”۔ +عمران نےقہقہ لگا کر کہا “۔ اُس کو آسیہ کہتے ہیں “۔ +اسے پہلے کہ آسیہ عمران کو چٹکی بھرتی، عمران نےدونوں ہاتھوں کو معافی کے انداز میں جوڑ لیا”۔ نہیں میرا مطلب ہے اُلٹی بات اور انگریزی میں اسکو paradox کہتے ہیں۔ +" ہاں جیسے بہت انگریزی جانتے ہیں”۔ آسیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ +ہاں تم سے تو بہتر ہے" ۔عمران نے اپنی قابلیت ظاہرکی۔ " +" آراتے ـ علم انسانیت کے عروج کا ذریعہ ہے ۔سقراط کہتا ہے حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے گُفتگواور سوال و جواب ضروری ہیں اسکا کہنا تھا کہ ان کو استعمال کرکے اس حقیقت پر پہنچیں جس میں تعمیم ہو یعنی عالم گیر سچائ ہو۔ ارسطو کو تامل، سوچ بچار، غور اور ادھیڑبُن پر بھروسہ تھا اور سقراط کو علم انسانیت حاصل کرنے کے لیے گفتگو اور سوال و جواب پر اعتبار تھا ۔ + + +"ان سوالوں کو پوچھنے سے سُقراط یہ نہیں جانناچاہتا تھا +کہ تقویٰ کِن اجزا سے مل کر بنا ہے؟ +یا جرات، انصاف، تقدس ، اعتدال اور اچھائ کی خصوصیات مل کر تقویٰ بناتی ہیں؟ +یا تقویٰ میں ان اجزا کی مقدار برابرہے؟ +سُقراط کا مقصد تو دنیاکو یہ بتانا تھا کہ بشر ہی دنیا کو صحیح عمر اور صحیح سوچ سے بہتر بناسکتاہے”۔ اباجان بولے۔ +سانیہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔” لیکن یہ تو الٹی بات ہوئ۔ جسے عمران بھائ نے پیرڈاکس کا نام دیا کہ علم انسانیت تقویٰ ہے۔ +میرا خیال میں تو تقو یٰ ایک قوت ہے جس کا عمل، نتیجہ اور اثر ہوتا ہے”۔ +" مثال کے طور پر پودے یا دوا کا تقویٰ شفا دینا ہے۔ میرے حساب سے تو تقویٰ اپنے عمل سے علیحدہ ہے چاقو، ایک قاتل کے ہاتھ میں اُتنا ہی تقویٰ رکھتا ہے جتنا باورچی کے ہاتھ میں اور ایک پودا جو شفا دیتا ہے اتنا ہی تقویٰ رکھتا ہے جتناکہ ایک زہری پودا”۔ +اباجان نے مسکرا کر کہا میری بیٹی نے ٹھیک کہا۔ سب سے اچھا چاقو وہی ہوگا جو سب سے بہتر کاٹے۔لیکن کیا سانیہ کی سوچ میں مناسب قدر شامل ہے؟ +سانیہ نے پوچھا۔ چاقو کا کام توصرف کاٹنا ہے تو اسکا تقویٰ ، خاصیت اور پیمانہ پر منصر ہے۔ لیکن انسان کواپنے عمل کے نتیجہ کا بھی فیصلہ کرنا ہے۔ارسطو کا کہنا تھا کہ یہ خاصیت انسان کو حیوان سے علاحدہ کرتی ہے۔اس لیے انسان کو حیوان ناطق یا آدم زاد بھی کہتے ہیں۔ +اباجان نے کہا لیکن ناطق ہونے کے لیے صرف سوچ بچار بلکہ خواہش، تعلیم، عادت، فکر اور دوسرے اجزا کی ضرورت ہے تمام بھی ضرورت ہے۔ تقویٰ نہ صرف تاریخی ہیں بلکہ اچھائ ہیں۔اور ایک نیک اور درست انسان میں انسانیت اور تقویٰ یکجا ہوجاتے ہیں۔ +میں نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو انسان کہنے کے لیے آدمی کے پاس نہ صرف تقویٰ ہو بلکہ وہ اس تقویٰ کی اخلاقی استعمال کی ذمہ دار ی بھی لے ۔ایسا کرنے سے انسان ، انسانیت کی تکمیل پر پہنچے گا۔ +" اس لیے تقویٰ علم حیات اور تہذیب کی نشوونما کا ملن ہے۔ تقویٰ، انسان کو انسانیت سیکھاتاہے”۔ +سمل بولی”۔ اسلام بھی تو ہمیں پرہیزگاری اور اچھائیاں دیتا ہے”۔ +اباجان نے اپنا سر اسطرح ہلایا جسے انکو اس سوال کا انتظار تھا۔ تم نے “ایووروئیز“ کا نام سنا ہے؟ ہم سب نے یکجا ہو کر کہا۔کس کا؟ +اباجان نے مُسکرا کر کہا۔ دہ شخص جو کہ سائنس کا شہزادہ ، علم فقہ ، ریاضی، طب اور فلسفہ کا ماہرتھا۔ہم سب نے یکجا ہو کر کہا۔کون؟ +عبدوالولید محمد ابن رشد، بارویں صدی کا مسلم فلاسفر تھا ۔ جس کی کتابوں تخلیص ، جَامی ، تفسیر نے ازمینہ وسطیٰ یورپ کی جدید ترقیوں کے ابتدا کے بیج بوۓ۔ ابن رشد نے ٣٨ کتابیں فلسفہ پر لکھیں۔ بہت سی کتابیں علم ہیئیت ، علم موسیقی، علم شاعری اورعلم انشاء پر لکھیں۔اس کے علاوہ 8 جلدوں کا مجمع العلوم انسا ئیکلوپیڈیا، جس میں علم تشریع، تشخیص مرض ،علم الادویہ ، علم الامراض ، علم عضویات ، عملی اور دفاع مرض کو مفصل بیان کیا۔ اسکا ترجمہ اطالوی زبان میں ہوا۔ دنیا مسلم میں ابن رشد تَہَفُت التَہَفُت ، الفلسفہ اور مابادی الفلسفہ ، ان دو کتابوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ + + +"واقعی ابن رشد علم کا شہزادہ تھا”۔ عمران نے کہا۔ +اباجان نے گفتگو کو جاری رکھا”۔ ابن رشد اور ارسطو دونوں اس بات پراتفاق رکھتے ہیں کہ گہری سچائ کو معلوم کرنا بہت اہم ہے اور تجزیہ ، دلیل اورفلسفہ کی مدد سے انسان مکمل اوردائمی سچائ پر پہنچ سکتا ہے۔ +ابن رشد شریعت پر یقین کرتا ہے۔ وہ قران پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اُس کو اس بات پر اعتماد ہے کہ فلسفہ ، مذہب کی منافقت نہیں بلکہ تصدیق کرتا ہے۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کی تخلیق کو سمجھنا فلسفہ کا ایمان ہے۔ +عبدللہ المودودی ہمارے وقت کے مسلم اسکالر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ اسلام کے اخلاقی اصول میں لکھتے ہیں کہ اسلام کوئی نئے نادر اور انوکھے اخلاقی نتائج نہیں پیش کرتا اور نہ ہی پہلے سے موجود اخلاقی اصولوں سے اختلاف کرتا ہے۔اسلام صرف ان اصولوں میں اسلام کے بنیادی اصولوں کا اصافہ کرتا ہے۔ +ابا جان نے سوال کیا”۔ اچھائیاں کیا ہیں؟ +“ انسانیات کے اخلاقی اصول جو آدمی کوانسانیت سیکھاتے ہیں “۔ میں بولا۔ +اچھائی کون بناتا ہے؟ اباجان نے دوسرا سوال کیا”۔ +آدمی ۔۔۔ علم حیات اور تہذیب کے نشوونما سے اانسانیت کے اصول حاصل کرتا ہے”۔ سانیہ بولی”۔ +اچھائی کی تعریف بدل سکتے ہیں یا نہیں؟ "۔اباجان نے تیسرا سوال کیا”۔ +وقت کے ساتھ عام طور پر اچھائی کے اصول عالمی بن جاتے ہیں مگرعلم حیات اور تہذیب کے نشوونما سے ان میں اضافہ یا تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ آسیہ نے جواب دیا۔ +اچھائی تعداد میں کتنی ہیں؟ اباجان نے چوتھا سوال کیا”۔ +یہ تو کہنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اچھائیاں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ سقراط نے اس لیےتعداد پر زیادہ اہمیت نہیں دی”۔ جمیل نے کہا۔ +اباجان ، میں اسکا جواب دوں گی۔ یاسمن جلدی سے بولی”۔ تقویٰ ، جرات ، انصاف ، تقدس ، اعتدال اور اچھائی" +کیا اسلامی اصول عالمی اچھائی کے اصولوں سے مختلف ہیں؟ +اسلام کے اپنے بھی گوہر ہیں اور عالمی ورچوز بھی اسلامی ورچوز کا حصہ ہیں”۔ عمران نے کہا”۔ +اباجان نے کہا اب ہم سب جانتے ہیں کہ آراتے اوراچھائیاں کیا ہیں۔ +ایک دن تم اور ہم اچھائیوں کو ایک ایک کر کے دیکھیں گے۔ +اماں جان نے دوپہر کے کھانے کی گھنٹی بجائی۔ + + +اماں جان کے مسالے دار چکن تکہ، اباجان کے نان ، ممتاز آنٹی کا قورمہ اورصوبیہ آنٹی کی لیمب بریانی سے کھانے کی میز سجی ہوئی تھی۔ یاسیمن، آسیہ اورسانیہ نے میز کو گلاب اور چنبیلی کے پھولوں سے مہکایا تھا۔ مجھے آنٹی ممتاز اور انکل نصیر کے پاس جگہ ملی۔ +آنٹی نے سوال کیا”۔ تم اور یاسیمن کل سنیما گے تھے۔ کون سی فلم دیکھی؟ ہم نے انڈین فلم بلیک دیکھی”۔ سعدیہ نے کہا۔ +انکل نصیر بولے”۔ اچھا اسکے بجائے تم ہمیں بتاؤ کہ تم نے کیا دیکھا۔ ہم تم کو بتاتے ہیں کے تم نے کیا دیکھا۔ ایک غریب لڑکی کی امیر لڑکے سے محبت دیکھی یا شاید ایک امیر لڑکی کی غریب لڑکے سے محبت دیکھی۔ والدین اور رشتے داروں کی مخالفت دیکھی۔ سات گانوں میں لباسوں کو بدلتا دیکھا۔کچھ لڑائ اور بھلائ دیکھی اور بعد میں سب کو ملتا دیکھا”۔ +آنٹی نے مجھے آنکھ مار کر انکل سے کہا”۔ مر بے حیا”۔ +آنٹی نے کہا”۔ اِن کو تو بکنے دو۔تم مجھ کو بتاؤ اس فلم کے متعلق”۔ +" آنٹی" میں نے کہا”۔یہ فلم دوسری انڈین فلموں سے بہت مختلف ہے۔پہلی بار ڈائیریکٹر سنجے لیلہ بھان سالیی نے ایک ایسی کہانی چنی ہے جس میں ایک عورت اور آدمی کا عشق نہیں۔ دوسرے اس میں گانے اور لباس بھی نہیں تبدیل ہوئے ۔ رانی مکرجی اور امیتابچن کا کردار ایک استاد اور شاگرد کا ہے۔ رانی مکرجی ایک اندھی اور بہری لڑکی ہے اور امیتابچن اندھوں کوآنکھوں والی دنیا میں رہنا سکھانے کا استاد ہے۔ جب اندھی لڑکی اس قابل ہوتی ہے کہ وہ اس زندگی کے رنگوں کو دماغ سے جانے اسکے استاد کو الزایئمر کامرض ہو جاتا ہے شاگردہ اپنے استاد کو اسکی بھولی ہولی زندگی یا دیلانے کی زمیداری قبول کرتی ہے۔ رانی اور امیتابچن نے کمال اداکاری کی ہے۔ +“ آنٹی آپ دیکھیں نا ، آئیشہ کپور نے اندھی لڑکی کے بچپن کا کردار اتنی خوبصورتی سے کیا ہے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس کو ایک فلم ایوارڈ ملنا چاہیے۔ دوسرے ساری فلم صرف ایک خوب صورت گھر میں بنی ہے اور لوکیشن بھی بہت خوبصورت ہے۔ یہ فلم نیوز ی لینڈ کے ایک شہر کرایسٹ چرچ میں بنی ہے“۔ مجھے وہ ڈائیلاگ اچھا لگا جب رانی کہتی ہے کہ ہاں یہ صحیح ہے کہ زندگی ایک بڑی آیسکریم ہے اس سے پہلے کی پگھل جائے آّؤ اسے کھالیں”۔ سعدیہ نے کہا۔ +انکل نے کہا میں تواب آرام کروں گا۔اگر آنکھ لگ جائے تو چائے کے وقت سے پہلے مجھےجگادینا"۔ +سِمل نے منہ بنا کر کہا”۔ یہ ورچو کا موضوع تو میرے سرکے اوپر سےگزر گیا”۔ +جمیل نے ہنس کہا۔”مجھ پتہ تھا کہ تم رودوگی۔اگر ہم تم سے پوچھیں کہ گوہرِصفت (اچھائی) کیا ہے؟" تو تم فوراً سے پیشتر کہوگی۔ "گوہر تو جال کا گلوکار ہے۔اور عادت اسکا پہلا گانا تھا۔ +سِمل نے قہقہ مار کر کہا “۔ میرا بھائ بدھو ہے۔مجھے “جنون بینڈ“ پسند ہے”۔ +سعدیہ نے کہا ۔“ مجھے تو جال پسند ہے”۔ +“ لڑکیوں ‘ فیوزن ‘ سے بہتر تو کوئ بینڈ نہی ہے “ ۔سانیہ بولی۔ +مجھے تو علی ظفر کا البم شرارت بہت اچھا لگتا ہے نا۔ سعدیہ نے کہا۔ +“ مجھے بھی پسند ہے لیکن کیا تم نے البم کبھی سناہے؟ چلو ہم تمہارے کمرے میں اس کو سنتے ہیں”۔ + + +عمران نے جمیل سے کہا”۔ تم نےخبرسنی کہ پاکستان اور انڈیا مل کرکرکٹ ورلڈ کپ ٢٠١١ کو ایشیا میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ +"نہیں، میں نے تو نہیں سنا۔ کب کی خبر ہے”۔ +"چیئرمین شہریار نے صبع اعلان کیاہے"۔ عمران نے جواب دیا۔ +میں نے کہا۔ “ہاں پاکستان اور انڈیامل کر کرکٹ ورلڈ کپ ١٩٨٧ میں سری لنکا لائے تھے”۔ +“ عمران نے پوچھا”۔ اُن ملکوں کو اس کا تجربہ ہے؟ +“ اچھا ہے”۔ میں نے جواب دیا " +“ کرکٹ ورلڈ کپ ٢٠٠٧ کہاں ہو رہا ہے؟” +“ وہ تو ویسٹ انڈیز میں ہوگا”۔ جمیل نے کہا۔ +میں نے کہا۔ ” تم نے سنا کہ پاکستان نے انڈیا کی مہمان فٹ بال ٹیم کو نیشیل بنک آف پاکستان کپ فرینڈشپ میں 3۔ سے 0 ہرادیا”۔ +” یہ تو شاندار خبر ہے۔” جمیل اور عمران نے ایک ساتھ کہا۔ +” چلو یار ای۔ایس۔پی۔این پر اسپورٹس کا کوئ پروگرام دیکھیں”۔ جمیل بولا۔ +شام سہانی تھی۔ اماں جان اور سعدیہ دونوں سوئمنگ پُول کے قریب آرام دہ کرسیوں پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھاہوا تھا۔اباجان حسب معمول کتب خانہ میں تھے۔ تمام رشتے داراور احباب جاچکے تھے۔ +میں نے ماں سے پوچھا۔ ”اچھائی کیا ہوتی ہیں؟ +“ تم کیوں پوچ��تے ہو؟ کیا ابو کی باتیں کافی نہیں؟ ماں نے کہا۔ +" ہاں ابو نے ہمیں اچھائی کو سمجھنے میں مدد دی۔ مگر میں آپ کا خیال بھی جاننا چاہتا ہوں”۔ +“ ماں نے جھک کرسعدیہ کا ماتھا چوما۔ اور کہا”۔میرے خیال میں محبت انسان کی سب سے بڑی اچھائی ہے۔جو تمام اچھائیوں کواپنے اندر سمالیتی ہے۔ +“ محبت، اباجان نے تو اس کا ذکر ہم سے نہیں کیا؟ "میں نے حیرت سے کہا۔ +ماں نے کہا۔ ” انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں اور تمارے ابو تمیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں۔اس لیے تم سقرا ط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو”۔ +" لیکن محبت میں نے اور تمھارے ابو نے تم اور سعدیہ کو پہلے دن سے سیکھانا شروع کی تھی”۔ +" مگر امی محبت تمام اچھائیوں کو کسے سما سکتی ہے؟ محبت کیا ہے؟" سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔ +ماں نے کہا “۔ اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں ایک گہرا ناقابلِ بیان جذبہ ، رشتہ اورتعلق، شفقت ، بے قراری اور پروا ہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اوربنیادی یکجہتی سے پیدا ہوتاہے”۔ + + +" امی ، امی “۔ سعدیہ چلائ”۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا”۔ +" میں تم سے محبت کرتی ہوں تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ سچ ہے؟ +" امی یہ کیسا سوال ہے؟" سعدیہ نے ماں کی ناک موڑتے ہوے کہا”۔میں تو سارے جہاں سے زیادہ آپ سے محبت کرتی ہوں”۔ +“ مجھ سے بھی ذیادہ “۔میں نے ہنس کر کہا۔ +“ بھول جائیے بھائ جان۔ آپ کا نمبر تیسرا ہے“۔ سعدیہ نے اماں کو آنکھ مار کر کہا۔ +“ محبت کرنا ایک گہرا جذبہ ہے”۔ ماں نے کہا۔ +" تم مجھ سے کیوں محبت کرتی ؟ " +آپ میری امی ہیں۔” سعدیہ نے ماں کے گال چوم کرکہا”۔ +ماں نے کہا۔ ”رشتہ اور تعلق “ +" کیا تم کو یاد ہے، تم نے اس ننھی سی بلی کو اپنے کمرے میں، اپنے بستر میں پناہ دی تھی”۔ +" امی وہ بچاری تو بھوکی، بارش میں سردی سے مررہی تھی”۔ سعدیہ نے شکایت کی۔ +اور جب ہمارے شہر کا میونسپل بورڈ اوکھ کا سو سال پرانا درخت کاٹنا چاہتاتھا ۔ہم سب لوگ درخت کے چاروں طرف گھیرا ڈال کربیٹھے تھے تا کہ درخت کو کٹنے سے بچائیں تم بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اور جب پولیس نے ہم کو جانے کو کہا اور ہم نہیں گئے ۔تب پولیس نے ہم سب کی آنکھوں میں لال مرچ ڈال دی ۔ تم روئیں مگر تم نے کہا۔ ماں ہم نہیں ہٹیں گے۔ یہ درخت ہم سب سے پہلے یہاں تھا جب ہم یہاں نہیں تھے۔ یہ ہمارے ایکو سسٹم میں برابر کا شریک ہے۔ +جب سعدیہ کو یاد آیا کہ تمام کوششوں باوجوددرخت کاٹاگیا۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ +" اس کو ہم عصر کی پروا ہ کرنا کہتے ہیں”۔ اماں جان نے کہا۔ +” اللہ کی تمام مخلوق ہماری ہم عصر ہے”۔ +" اور جب کبھی تمہارے بھیا کالج سے وقت پر واپس نہیں آتے۔ توکون با ر بار پوچھتا ہے، امی ، بھائ جان نے کال کیا؟" ۔ +" وہ تو میں اس لئے پوچھتی ہوں کیوں کہ وہ مجھ سے وعدہ کرکے جاتے ہیں کہ میں وقت پر واپس آؤں گا۔ میں انکی پروا تھوڑی کرتی ہوں”۔ سعدیہ نے شرارت سے کہا۔ +ماں نے کہا۔” اس کو بے قراری کہتے ہیں”۔ +اور جب ہمارے ملک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس حملے کے خلاف کون سب لوگوں کے ساتھ ہر بدھ کی شام کو موم بتیاں لے کر شاپنگ مال کے سامنے احتجاج کرنے کھڑا ہوتا ہے۔ +سعدیہ مستی سے بولی۔ “بھائ جان”۔ +ماں نے کہا۔" یہ دوسرے انسانوں کی پروا ہ کرنا ہے”۔ + + +اللہ نے اس کائنات میں ایک بنیادی یکجہتی بنائی ہے اور ایک مقناطیسی لگاؤ ہر چیز کی بناوٹ میں ملا دیا ہے۔ اس یکجاپن اور مقناطیسی لگاؤ کو ہم اخلاقی محبت کہتے ہیں۔اب یہ انسان کا کام کہ وہ اس اچھائی کو ۔۔۔ سعدیہ با توں کے دوران میں سوگی۔ +ماں نے کہا۔ “چلو سب کے سونے کا وقت ہو گیا ہے"۔ +سعدیہ نے ایک آنکھ کو کھول کر کہا”۔ کیا آپ ہمشہ اس طرح مجھے اس طرح سلائیں گے؟" +میں نے کہا۔” ہاں مگر شرط یہ ہے کہ تو ایک تین فٹ کے بونے سے شادی کر ے گی اور ماں کو دروازے پر ایک ڈنڈا لیکر میری حفاظت کرنی ہوگی" ۔ +سعدیہ نے آنکھیں بند کر کے کہا”۔ بھائی جان تمہاری دوست سہانہ سچ کہتی ہے تم الّو ہو، تم پاگل ہو”۔ اور ۔۔۔وہ نیند کی دنیا میں چلی گی۔ +میرے کمرے میں ریڈیو بج رہا تھا۔ میں نے ریڈیو کو پانچ منٹ کے ٹائمر پر لگادیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ ماں نے میرے اوپر چادر اورکمبل کو ٹھیک کیا۔اور میرے ماتھے کو چوم کر شبِ خیر کہا۔ پانچ منٹ میں گہری نیند میں تھا- + + +[[باب ہفتم سفر کی تیاری]] + + +حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب دوم ریمشاں]] + + +باب اول کوہاٹ ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب سوم قندھار]] + + +باب دوم ریمشاں ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب چہارم پشاور]] + + +باب سوم قندھار ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب پنجم لاہور]] + + +باب چہارم پشاور ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب ششم کراچی]] + + +باب پنجم لاہور ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب ہفتم سفر کی تیاری]] + + +باب ششم کراچی ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب ہشتم سفر]] + + +باب ہفتم سفر کی تیاری ►◄ حیوانوں کی بستی سید تفسیراحمد حیوانوں کی بستی ►◄ باب نہم دوبئی]] + + +ماحولیات قدرتی ماحول اور اس کے مظاہر کے مطالعہ کو کہتے ہیں + + +اسلام میں خواتین کے حقوق +حقوق نسواں بارے اسلام کیا کہتا ہے؟ +;اسلام سے قبل عورت کا معاشرتی مقام +;اسلام میں عورت کا مقام +;ریاستِ مدینہ میں حقِ رائے دہی +;مسلم معاشرے میں عورت کا کردار + + +اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ سینٹ جیروم (St. Jerome) نے کہا: +مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوقِ نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جد و جہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) ۔Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman's Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔ +جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام پروفسیر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی زیرنظر کتاب میں اسلام میں خواتین کے حقوق کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس تصنیف سے نہ صرف اسلام کے بارے میں مغالطوں کا ازالہ ہوگا بلکہ معاشرے میں حقوقِ نسواں کے بارے میں حقیقی اسلامی شعور کو بھی فروغ حاصل ہوگا جس سے ہم اس معاشرے کی تشکیل کی طرف پیش قدمی کر سکیں گے جس کی تعلیم قرآن وسنت میں دی گئی ہے۔ + + +ویکی کتب ميں خوش آمديد +ویکی کتب ایک آزاد بین اللسانی کتب خانہ ہے۔ ویکی کتب کی شروعات جنوری 2003ء میں ہوئی جبکہ اردو ویکیپیڈیا کی شروعات جنوری 2005ء میں ہوئی ۔ اردو زبان کے اس آن لائن کتب خانہ کے بنانے میں آپ بھی بہت آسانی سے ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ + + +راقم کی طرف سے یونیکوڈ اردو کی خدمات + + +اسلام سے قبل عورت کا معاشرتی مقام]] +اسلام میں عورت کا مقام]] +ریاست مدینہ میں حق رائے دہی]] +مسلم معاشرے میں عورت کا کردار]] + + +==اسلام میں بچوں کے حقوق== +بچے بنی نوع انسان کی نسلِ نو ہیں۔ دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کا بھی ایک اَخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے ایسے اُمور ہیں جن میں بہ طور بنی نوع انسان بچوں کو بھی تحفظ درکار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ چوں کہ بچے بالغ نہیں لہٰذا بہت سی ایسی ذمہ داریاں جن کے بالغ لوگ مکلف ہیں، بچے ان کے مکلف نہیں ہو سکتے۔ گو انہیں کئی حقوق مثلاً رائے دہی، قیام خاندان اور ملازمت وغیرہ حاصل نہیں مگر اپنی عمر کے جس حصے میں بچے ہوتے ہیں اس میں انہیں اس تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ مستقبل میں وہ ان حقوق کی ادائیگی کما حقہ کر سکیں۔ یہ اَمر ہی بچوں کے حقوق کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ دورِ جدید میں بچوں کے حقوق کا تحفط کرنے والی نمایاں دستاویز United Nations Convention on the Rights of the Child-1980 ہے۔ جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ +اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو بنی نوع انسانیت کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ ان حقوق میں زندگی، وراثت، وصیت، وقف اور نفقہ کے حقوق شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ کہ ��ن کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ +ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر نظر کتاب میں اسلام میں بچوں کے حقوق کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اس تصنیف سے نہ صرف اسلام کے تصورِ حقوق کے نئے گوشوں سے آگاہی ہوگی بلکہ معاشرے کو اِسلام کے عطا کردہ حقوق کا گہوارہ بنانے کے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ +ناظمِ تحقیق تحریکِ منہاج القرآن +بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ اس کے بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر پوری توجہ دی جائے۔ یہ اَمر اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک بچوں کے حقوق کا واضح تصور اور ان حقوق کے اِحترام کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو۔ اِسلام نے دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کے حقوق کو بھی پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہاں ان حقوق کی تفصیل بیان کی جاتی ہے : +==1۔ قبل اَز پیدائش حقوق== +قبل اَز پیدائش بچہ حالتِ جنین میں ہوتا ہے۔ اِسلام نے بچے کو حقوق عطا کرنے کا آغاز حالتِ جنین سے کیا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے : +بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے۔ اسلام نے اس مرحلے سے بچے کے لیے زندگی کے حق کو قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ ابتدائي مہینوں میں اسقاط حمل کروانا +ابتدائي ایک سے تین ماہ مہینوں اوربچے میں روح ڈالے جانے سے قبل اسقاط حمل کا حکم کیا ہے ؟ +کبارعلماء کمیٹی نے مندرجہ ذيل فیصلہ کیا : +1 مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہيں لیکن کسی شرعی سبب اوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے ۔ +2 جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجوکہ چالیس یوم ہے اوراسقاط حمل میں کوئي شرعی مصلحت ہویا پھر کسی ضررکودورکرنا مقصود ہوتواسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جواولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں ۔ +3 جب مضغہ اورعلقہ یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ہوتواسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگي ماں کے لیے جان لیوا ہے اوراس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں +4 حمل کے تیسرے مرحلے اورچارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراورماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے ، اوراس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں ، تواس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا ۔ +ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئي ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے +دیکھیں فتاوی الجامعۃ 3 1056 ۔ +اگر حمل کے چار ماہ گزرگئے ہوں لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو تو چار ماہ کے بعد بھی اِسقاط حمل جائز ہے بلکہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کیونکہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں بچہ اور ماں دونوں کی ہلاکت کا خطرہ ہے اور پیٹ کا بچہ جس کا جاندار او زندہ ہونا ظنی ہے اس کی بنسبت ماں کی جان جو یقینی اور مشاہد ہے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اس صورت میں اسقاط کرانا واجب ہے۔ +فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود حمل درج ذیل دو شرائط پوری کرنے کی صورت میں وارث بن سکتا ہے : +2۔ وضعِ حمل کے وقت زندہ ہو کیونکہ وارث کا زندہ ہونا شرط ہے، مردہ انسان وارث نہیں بن سکتا۔ قرآن فرماتا ہے : +’’اﷲ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔‘‘}} +پیدا ہونے والا بچہ بھی اولاد کے زمرے میں آنے کی وجہ سے میت کا وارث ٹھہرے گا اور ترکہ میں سے حصہ پائے گا۔ +جنین کے لیے ثابت شدہ حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس کے لیے وصیت کی جائے۔ فقہاء کا اجماع ہے کہ جنین اگر زندہ پیدا ہو تو اُس کے لیے وصیت کیے جانے کا حق درست ثابت ہوگا اس شرط کے ساتھ کہ وصیت کیے جانے کے وقت وہ ماں کے پیٹ میں موجود ہو۔ بلکہ بعضوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر جنین وصیت کیے جانے کے وقت ماں کے پیٹ میں نہ ہو تب بھی اس کا حقِ وصیت درست ثابت ہوگا۔ +1. کشکي، الميراث المقارن 206 +جنین کے مالی حقوق میں سے ثابت شدہ تیسرا حق وقف کا ہے۔ حقِ وراثت اور وصیت کی طرح فقہاء نے موجود اور بعد میں پیدا ہونے والی اولاد کا حقِ وقف بھی جائز قرار دیا ہے۔ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں : +’’اور فقہاء نے یہ موقف اِختیار کیا ہے کہ اولاد و ذُرّیت کے لیے وقف کر دینا جائز ہے۔ اس (اولاد) میں وہ شامل ہوگا جو غلّہ آنے کے کم از کم چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہو یعنی غلّہ آنے کے وقت اس کا وجود ماں پیٹ میں متحقق ہو چکا تھا، سو وہ غلّہ میں شریک ہوگا۔‘‘}} +لہٰذا اس بناء پر اگر وقف کرنے والا فوت ہو جائے تو وقف شدہ مال جنین کو وراثت میں ملے گا۔ +5) تاخیرِ اِقامتِ حد کا حق +جنین کے لیے مذکورہ بالا تین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حاملہ عورت پر وضعِ حمل تک حد قائم کی جائے گی نہ اس سے قصاص لیا جائے گا۔ +حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : +’’قبیلہ جہینہ کی ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور وہ بدکاری سے حاملہ تھی۔ اس نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی! میں نے حد لاگو ہونے والا فعل کیا ہے پس مجھ پر حد لگائیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا اِسے اَحسن طریقے سے رکھ (بدکاری کا گناہ کرنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کیونکہ اس نے اپنے گناہ کا اِقرار کر لیا ہے اور اس پر شرمسار ہے)، جب وہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا۔ اس نے ایسا ہی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کے متعلق حکم دیا تو اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیے گئے (تاکہ ستر نہ کھلے)، پھر حکم دیا تو اسے سنگ سار کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نمازِ (جنازہ) پڑھی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا نبی اﷲ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تھا! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اُس نے توبہ بھی تو ایسی کی ہے کہ اگر اسے مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کیا جائے تو سب کے لیے کافی ہو اور کیا تم نے اس سے بہتر توبہ دیکھی ہے کہ اس نے اﷲ تعالیٰ کے لیے اپنی جان دے دی۔‘‘}} +حضرت عبد اﷲ بن بریدہ رضی اﷲ عنھما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : +’’قبیلہ غامد کی ایک عورت (بارگاہِ رسالت مآب میں) حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میں نے بدکاری کی ہے، مجھے پاک کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے واپس بھیج دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو اس نے کہا یا رسول اﷲ! آپ مجھے کیوں لوٹاتے ہیں، شاید آپ ایسے ہی لوٹانا چاہتے ہیں جیسے ماعز (بن مالک) کو لوٹایا تھا۔ خدا کی قسم! میں تو حاملہ ہوں (پس اب میرے بدکار ہونے میں کیا شک ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھا اگر تو نہیں لوٹنا چاہتی تو جا اور وضعِ حمل کے بعد آنا۔ پس جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لے آئی اور عرض کرنے لگی یہ وہ بچہ ہے جسے میں نے جنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جا اور اسے دودھ پلا یہاں تک کہ تو اسے دودھ چھڑا دے۔ جب اس نے بچہ کا دودھ چھڑا لیا تو بچہ کو لے کر آئی کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اس نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی! میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان کو پرورش کے لیے دے دیا۔ پھر حکم دیا تو اس عورت کے لیے اس کے سینے تک ایک گڑھا کھودا گیا، پھر لوگوں کو اسے سنگ سار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا تو خون کے چھینٹے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرے پر پڑے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اسے برا کہا تو یہ برا کہنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خبردار اے خالد ایسا مت کہو) قسم خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اس نے تو ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا (جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور حقوق العباد میں گرفتار ہوتا ہے اور مسکینوں کو ستاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تو اس پر نماز پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی۔‘‘}} +یہ بھی باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہونے والے بچہ کا خرچ اٹھائے اگرچہ اس کی ماں کا خرچ اُس پر لازمی نہ ہو۔ اسی طرح حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل ہے تاکہ : +1۔ بچہ کے نسب کا تحفظ ہو کیونکہ اگر عورت دوسری شادی کرلے تو پیدا ہونے والے بچہ کا نسب خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہے۔ +2۔ طلاق یافتہ حاملہ عورت کا نان و نفقہ بھی شوہر پر صرف بچہ کی وجہ سے لازم ہوتا ہے کیونکہ اگر عورت حاملہ نہ ہو اور طلاق ہو جائے تو اُس کی عدت تین ماہواریاں ہیں۔ +جنین کا حقِ نفقہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت شدہ ہے : +{{اقتباس ٹ ع}}وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ڑ ن}} +’’اور اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک اُن پر خرچ کرتے رہو۔‘‘}} +جنین (پیدا ہونے والے بچہ) کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا بالاتفاق مستحب ہے جب کہ امام احمد سے منسوب ایک قول کے مطابق یہ واجب ہے کہ نومولود و دیگر کی طرح جنین کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کیا جائے. +2۔ بعد اَز پیدائش بچوں کے حقوق +اِسلام سے پہلے لوگ اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔ اِسلام نے اِس قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی بنیاد ڈالی اور ایسا کرنے والوں کو عبرت ناک انجام کی وعید سنائی : +{{اقتباس ٹ ع}}1. قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُواْ أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ اللّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَO{{ڑ ن}} +’’واقعی ایسے لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا اور ان (چیزوں) کو جو اﷲ نے انہیں (روزی کے طور پر) بخشی تھیں اﷲ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا، بے شک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو سکےo‘‘}} +بھوک اور اَفلاس کے خدشہ سے اولاد کے قتل کی ممانعت کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے : +’’اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو، ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔‘‘}} +{{اقتباس ٹ ع}}3. وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًاO{{ڑ ن}} +’’اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo‘‘}} +اِسلام سے قبل بیٹیوں کی پیدائش نہایت برا اور قابل توہین سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور دفن کر دیا جاتا تھا۔ اِسلام نے اس خیالِ باطل کا ردّ کیا اور بیٹیوں کی پیدائش کو باعث رحمت قرار دیا۔ قرآن حکیم ایک مقام پر روزِ محشر کی سختیاں اور مصائب کے بیان کے باب میں فرماتا ہے : +’’اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاo کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھیo‘‘}} +2) آدابِ اِسلامی سے شناسائی کا حق +ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اس کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘}} +بچوں کو اِسلامی تعلیمات سے شناسا کرنے اور اُنہیں اِسلامی آدابِ زندگی سکھانا ماں باپ کا فرض ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’جس کے ہاں بچہ کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچہ کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔‘‘}} +اس طرح ایک بچہ کو پیدائش کے وقت سے اُس آفاقی حکم سے روشناس کرا دیا جاتا ہے جو زندگیوں میں اِنقلاب پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ +3) حُسنِ نام کا حق +بچہ کا یہ حق ہے اُس کا پیارا سا نام رکھا جائے۔ اسلام سے قبل عرب اپنے بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور خوبصورت نام رکھنے کا حکم دیا۔ امام طوسی روایت کرتے ہیں : +’’ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ! میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔‘‘}} +حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘}} +حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’انبیائے کرام کے ناموں پر اپنے نام رکھا کرو اور اﷲ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سے ’عبداﷲ‘ اور ’عبدالرحمٰن‘ زیادہ پسند ہیں۔ سب ناموں سے سچے نام ’حارث‘ اور ’ہمام‘ ہیں جب کہ سب سے برے نام ’حرب‘ اور ’مرہ‘ ہیں۔‘‘}} +5. بخاري، الادب المفرد 284، رقم 814 +حضرت علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ روایت کرتے ہیں : +’’جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اس کا نام ’حرب‘ رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ ’حسن‘ ہے۔ پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اس کا نام ’حرب‘ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ ’حسین‘ ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اس کا نام ’حرب‘ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ اس کا نام ’محسن‘ ہے۔ پھر ارشاد فرمایا میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘}} +حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں : +’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’عاصیہ‘ کا نام بدل دیا اور فرمایا تم ’جمیلہ‘ ہو۔‘‘}} +4. بخاري، الادب المفرد 285، رقم 820 +حضرت اسامہ بن اخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’اَصرم‘ نام کا ایک شخص کچھ لوگوں کے ساتھ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستفسار پر اس شخص نے اپنا نام بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں، تم ’زُرعہ‘ ہو۔ +امام ابوداؤد ’السنن (4 289)‘ میں لکھتے ہیں : +حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’عاص‘، ’عزیز‘، ’عَتَلَہ‘، ’شیطان‘، ’حکم‘، ’غُراب‘، ’حُباب‘، ’شِہاب‘ وغیرہ نام بدل دیے۔ پس ’شہاب‘ کا نام ’ہشام‘ رکھا، ’حرب‘ کا نام ’سلم‘ رکھا اور ’مضطجع‘ کا نام ’منبعث‘ رکھا۔ جس زمین کو ’عفرہ‘ کہا جاتا تھا اس کا نام ’خضرہ‘ رکھا اور ’شعب الضلالہ‘ کا نام ’شعب الھدیٰ‘ رکھا۔ ’بنو زینت‘ کا نام ’بنو رَشدہ‘ رکھا اور ’بنی مغویہ‘ کا نام ’بنی رِشدہ‘ رکھا۔ +بچے کے لیے نسب کا حق صرف اُسی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ماں باپ کا بھی حق ہے۔ باپ کا حق اس نسبت سے ہے کہ وہ اپنی اولاد کے تحفظ اور تعلیم و تربیت کا اختیار رکھتا ہے، اُسے اپنی اولاد کی سرپرستی اور ولایت کا حق ہے۔ جب اولاد محتاج ہو اور باپ کمانے کی قدرت رکھتا ہو تو اسے اولاد کے لیے کمانے کاحق ہے اور اگر اولاد باپ کی زندگی میں فوت ہو جائے تو وہ اولاد ترکہ میں سے حصہ پائے گی۔ اسی طرح ثبوتِ نسب ماں کا بھی حق ہے کیونکہ اولاد ماں کا جزو ہے اور وہ فطری طور اس بات کی شدید خواہش رکھتی ہے کہ اپنی اولاد کی حفاظت اور بہتر پرورش کرے۔ اسی طرح ماں کے بڑھاپے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں اُس پر خرچ کرنا اولاد کا فرض ہے۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نسب کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے پوری جماعت کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں : +{{اقتباس ٹ ع}}ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO{{ڑ ن}} +اپنا حقیقی نسب تبدیل کرنے والے کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : +’’جو اپنے باپ کو علاوہ کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘}} +یہی نہیں بلکہ ایک موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کفر سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا : +’’اپنے آباء و اَجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔‘‘}} +لفظ ’رضاعت‘ اور اس کے دیگر مشتقات قرآن حکیم میں دس مقامات پر آئے ہیں۔ ’المعجم الوسیط‘ میں رضاعت کا معنی کچھ یوں بیان ہوا ہے : +{{اقتباس ٹ ع}}أرضعت الأم کأن لها ولد تُرضِعه ڑ ن}} +’’ماں کا بچہ کو دودھ پلانا رضاعت کہلاتا ہے۔‘‘}} +فقہی اصطلاح میں بچہ کا پیدائش کے بعد پہلے دو سال میں ماں کے سینہ سے دودھ چوسنا رضاعت کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : +{{اقتباس ٹ ع}}وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO{{ڑ ن}} +’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہو گا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہےo‘‘}} +پیدائش کے بعد بچہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت اور افزائش کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی غذا استعمال کرے اس لیے وضعِ حمل کے بعد عورت کے پستانوں میں قدرتی طور پر دودھ جاری ہو جاتا ہے اور بچہ کے لیے اس کے دل میں پیدا ہونے والی محبت و شفقت اُسے بچہ کو دودھ پلانے پر اُکساتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت پر واجب کیا ہے کہ وہ بچہ کو پورے دو سال دودھ پلائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچہ کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ +جدید میڈیکل ریسرچ سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ بچہ کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کے پیشِ نظر دو سال کی مدتِ رضاعت ضروری ہے۔ یہ اسلام کی آفاقی اور ابدی تعلیمات کا فیضان ہے کہ اہل اسلام کو زندگی کے وہ رہنما اصول ابتداء ہی میں عطا کر دیے گئے جن کی تائید و تصدیق صدیوں بعد کی سائنسی تحقیقات کر رہی ہیں۔ +بچوں کی پرورش کرنا باپ کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے : +{{اقتباس ٹ ع}}لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاO{{ڑ ن}} +’’صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo‘‘}} +حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔‘‘}} +حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان سے اچھا سلوک کرے تو اس کے لیے جنت ہے۔‘‘}} +حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں : +’’میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔ اس نے ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا ماجرا کہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لیے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔‘‘}} +2. بخاري، الصحيح، کتاب الزکاة، باب اتقوا النار، 2 514، رقم 1352 +اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں : +’’میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی، پھر جو کھجور وہ کھانا چاہتی تھی اس کے بھی دو ٹکڑے کر کے انہیں کھلا دی۔ مجھے اس واقعہ سے بہت تعجب ہوا۔ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس عورت کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے (بیٹیوں پر) اس (شفقت و رحمت) کی وجہ سے اس عورت کے لیے جنت واجب کر دی یا (فرمایا اسے دوزخ سے آزاد کر دیا۔‘‘}} +1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب فضل الإحسان، 4 2027، رقم 2630 +بچوں کی اچھی تربیت کرکے انہیں اچھا، ذمہ دار اور مثالی مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کی تربیت کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اُسے مارو، اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔‘‘}} +حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +{{اقتباس ٹ ع}}أکرموا أولادکم وأحسنوا أدبهم ڑ ن}} +’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔‘‘}} +حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’جس کے ہاں کوئی بچہ ہو تو وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔‘‘}} +8) شفقت و رحمت کا حق +حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : +اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں : +’’اُن کے والد انہیں لے کر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ فرمایا کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا تو پھر اس سے واپس لے لو۔‘‘}} +ایک اور سند سے مروی روایت میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں : +’’میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کر دیا تو میری والدہ نے کہا میں اس پر تب راضی ہوں گی جب تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر گواہ لائے۔ میرے والد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی دیا ہے؟ میرے والد نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر میرے والد نے وہ ہبہ واپس لے لیا۔‘‘}} +حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’اپنی اولاد کو تحفہ دیتے وقت برابری رکھو، پس میں اگر اُن میں سے کسی کو فضیلت دیتا تو بیٹیوں کو فضیلت دیتا۔‘‘}} +یتیم بچہ کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے پر وعید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : +’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘}} +کیونکہ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اُس نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے وصال فرما چکے تھے۔ پھر چھ سال کی عمر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی انتقال فرما گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا ہے : +’’(اے حبیب کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo‘‘}} +پھر اس دُرِّ یتیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی محبت، ان کے ساتھ شفقت و حسنِ سلوک اور اِحسان برتنے کی نہایت اعلی مثالیں قائم کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی اچھی کفالت کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی اور اُن کے حقوق پامال کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قرآن حکیم کہتا ہے : +{{اقتباس ٹ ع}}فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْO{{ڑ ن}} +’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo‘‘}} +ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : +{{اقتباس ٹ ع}}وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًاO{{ڑ ن}} +’’اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہےo‘‘}} +اسی طرح دیگر مقامات پر فرمایا : +{{اقتباس ٹ ع}}وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاَحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ڑ ن}} +’’اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اُن (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر اُنہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے۔‘‘}} +{{اقتباس ٹ ع}}وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًاO{{ڑ ن}} +’’اور یتیموں کی (تربیۃً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور ان کے مال فضول خرچی اور جلدبازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو اور حساب لینے والا اﷲ ہی کافی ہےo‘‘}} +{{اقتباس ٹ ع}}وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًاO إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاO{{ڑ ن}} +’’اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکرمند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئےo بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘}} +القرآن، النساء، 4 9، 10 +{{اقتباس ٹ ع}}وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ڑ ن}} +’’اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘}} +’’کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہےo تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور اُنہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o‘‘}} +القرآن، الماعون، 107 1 3 +{{اقتباس ٹ ع}}كَلَّا بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَO وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO{{ڑ ن}} +’’یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتےo اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوo اور وراثت کا مال سمیٹ کر خود ہی کھا جاتے ہو (اس میں سے اَفلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)o اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہوo‘‘}} +القرآن، الفجر، 89 17 20 +حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘}} +حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : +’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ ۔ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘}} +حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : +حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں : +’’جس کو کسی یتیم کے مال کا ولی بنایا گیا تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس مال سے تجارت کرے اور اُس کو یونہی پڑا نہ رہنے دے مبادا زکوٰۃ ادا کرتے کرتے وہ مال ختم ہوجائے۔‘‘}} +لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جو راستہ میں پڑا ہوا ملے اور جس کے والدین کا پتہ نہ ہو. +فقہی اصطلاح میں لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جس کا نسب معلوم نہ ہو کیونکہ اس کے گھر والوں نے زنا کی تہمت سے بچنے کے لیے یا کسی اور وجہ سے اُسے پھینک دیا ہو۔ لہٰذا جب راستہ میں یا کسی public place پر گرا پڑا بچہ ملے تو اُسے زمین سے اٹھانا، اس کے ساتھ شفقت برتنا اور اس کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کے اس قول کی روشنی میں واجب ہو جاتا ہے : +{{اقتباس ٹ ع}}وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ڑ ن}} +’’اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔‘‘}} +کیونکہ بچہ کو زمین، راستہ سے اٹھانا ہی اُسے زندگی دینا ہے اور یہ اسی طرح واجب ہے جس طرح حالتِ اِضطرار میں صرف زندگی بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ +ثانیاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ وہ آزاد ہوتا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اﷲ عنھما نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ اگر ملتقط (بچہ کو اُٹھانے والا) یا کوئی اور شخص یہ دعویٰ کرے کہ بچہ اس کا غلام ہے تو بغیر گواہوں کے اس کا دعویٰ نہ سنا جائے گا کیونکہ اس کی حریت و آزادی اس کے ظاہر حال سے ثابت ہے اس لیے بغیر دلیل کے اس کے ظاہر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ +ثالثاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا خرچہ بیت المال سے کیا جائے۔ اگر اُس کے ساتھ کچھ مال بندھا ہو پایا گیا تو وہ اسی کا متصور ہوگا مثلا اس کے جسم پر موجود کپڑے یا اگر وہ جانور پر بندھا ہوا پایا گیا تو وہ جانور اس کا ہوگا۔ اس صورت میں خرچہ اس کے اپنے مال میں سے کیا جائے گا کیونکہ بیت المال میں سے خرچہ ضرورت کی بناء پر ہوتا ہے اور جب اس کے پاس مال ہو تو ضرورت ثابت نہیں ہوتی۔ +مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اِسلام نے دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کو بھی زندگی، تعلیم و تربیت اور دیگر بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک مثالی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے۔ اِسلام نے بچوں کے بنیادی حقوق کی بنیاد ان کی پیدائش سے بھی پہلے قائم کی ہے۔ اِس کا مقصد آئندہ نسلوں کی بہتر نشو و نما اور اُنہیں معاشرے کا فعال حصہ بنانے پر زور دینا ہے۔ +2۔ احمد بن حنبل، ابو عبد اللہ بن محمد (164۔ 241ھ 780۔ 855ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان المکتب الاسلامی، 1398ھ 1978ء۔ +3۔ انیس، ڈاکٹر ابراہیم، المعجم الوسیط۔ بیروت، لبنان دار احیاء التراث العربی۔ +4۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ 810۔ 870ء)۔ الادب المفرد۔ بیروت، لبنان دار البشائر الاسلامیہ، 1409ھ 1989ء۔ +5۔ بخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ھ 810۔ 870ء)۔ التاریخ الکبیر۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ۔ +7۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ 994۔ 1066ء)۔ دلائل النبوہ۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1405ھ 1985ء۔ +8۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ 994۔ 1066ء)۔ السنن الصغیر۔ بیروت، لبنان دارالکتب العلمیہ، 1412ھ 1992ء۔ +9۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ 994۔ 1066ء)۔ السنن الکبریٰ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب مکتبہ دار الباز، 1414ھ 1994ء۔ +10۔ بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ (384۔ 458ھ 994۔ 1066ء)۔ شعب الایمان۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1410ھ 1990ء۔ +11۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی (210۔ 279ھ 825۔ 892ء)۔ الجامع الصحیح۔ بیروت، لبنان دار الغرب الاسلامی، 1998ء۔ +13۔ حاکم، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد (321۔ 405ھ 933۔ 1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1411ھ 1990ء۔ +14۔ حاکم، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد (321۔ 405ھ 933۔ 1014ء)۔ المستدرک علی الصحیحین۔ مکہ، سعودی عرب دار الباز للنشر و التوزیع۔ +18۔ حسینی، ابراہیم بن محمد (1054۔ 1120ھ)۔ البیان و التعریف۔ بیروت، لبنان دار الکتاب العربی، 1401ھ۔ +24۔ ابو داؤد، سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد ازدی سبحستانی (202۔ 275ھ 817۔ 889ء)۔ کتاب المراسیل۔ لاہور، پاکستان مکتبۃ العلمیہ۔ +25۔ دارمی، ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن (181۔ 255ھ 797۔ 869ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان دار الکتاب العربی، 1407ھ۔ +26۔ دیلمی، ابو شجاع شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ بن فناخسرو ہمذانی (445۔ 509ھ 1053۔ 1115ء)۔ الفردوس بماثور الخطاب۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1986ء۔ +28۔ شامی، محمد بن محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی (1244۔ 1306ھ)۔ رد المحتار علی در المختار۔ کوئٹہ، پاکستان مکتبہ ماجدیہ 1399ھ۔ +30۔ شوکانی، محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ھ 1760۔ 1834ء)۔ فتح القدیر۔ مصر مطبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ، 1383ھ 1964ء۔ +32۔ شہاب، ابو عبد اللہ محمد بن سلامہ بن جعفر بن علی بن حکمون بن ابراہیم بن محمد بن مسلم قضاعی (م 454ھ 1062ء)۔ المسند۔ بیروت، لبنان مؤسسۃ الرسالہ، 1407ھ 1986ء۔ +35۔ شیبانی، ابو عبد اﷲ محمد بن حسن (123۔ 189ھ)۔ الحجۃ۔ بیروت، لبنان عالم الکتب، 1403ھ۔ +36۔ شیبانی، ابو عبد اﷲ محمد بن حسن (132۔ 189ھ)۔ الحجۃ۔ لاہور، پاکستان دار المعارف نعمانیہ۔ +37۔ شیبانی، ابو عبد اﷲ محمد بن حسن (132۔ 189ھ)۔ المبسوط۔ کراچی، پاکستان ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ۔ +39۔ صالح، ڈاکٹر محمد بن احمد۔ الطفل فی الشریعۃ الاسلامیہ۔ قاہرہ، مصر مطبعہ نہضہ۔ +43۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ 873۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ موصل، عراق مطبعۃ الزہراء الحدیثہ۔ +44۔ طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی (260۔ 360ھ 873۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ قاہرہ، مصر مکتبہ ابن تیمیہ۔ +46۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ 1372۔ 1449ء)۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ بیروت، لبنان دار الجیل، 1412ھ 1992ء۔ +47۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ 1372۔ 1449ء)۔ تغلیق ا��تعلیق علی صحیح البخاری۔ بیروت، لبنان المکتب الاسلامی عمان اُردن دار عمار، 1405ھ۔ +48۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ 1372۔ 1449ء)۔ تلخیص الحبیر۔ مدینہ منورہ، سعودی عرب 1384ھ 1964ء۔ +50۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ 1372۔ 1449ء)۔ الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ۔ بیروت، لبنان دار المعرفہ۔ +51۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ 1372۔ 1449ء)۔ فتح الباری۔ لاہور، پاکستان دار نشر الکتب الاسلامیہ، 1401ھ 1981ء۔ +52۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ھ 1372۔ 1449ء)۔ ہدی الساری مقدمہ فتح الباری۔ بیروت، لبنان دار المعرفہ، 1379ھ۔ +54۔ ابن قدامہ، ابو محمد عبداﷲ بن احمد مقدسی (م620ھ)۔ المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل الشیبانی۔ بیروت، لبنان دارالفکر، 1405ھ۔ +55۔ ابن قدامہ، ابو محمد عبداﷲ بن احمد مقدسی (م620ھ)۔ المقنع۔ المطبعۃ السلفیہ۔ +56۔ کاسانی، علاؤ الدین ابو بکر (م 587ھ)۔ بدائع الصنائع۔ بیروت، لبنان دار الکتاب العربی، 1982ء۔ +58۔ کشکی، محمد عبد الرحیم۔ المیراث المقارن۔ +59۔ کنانی، احمد بن ابی بکر بن اسماعیل (762۔ 840ھ)۔ مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ۔ بیروت، لبنان دار العربیہ، 1403ھ۔ +60۔ مالک، ابن انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔ 179ھ 712۔ 795ء)۔ المدونۃ الکبریٰ۔ بیروت، لبنان دار صادر۔ +61۔ مالک، ابن انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔ 179ھ 712۔ 795ء)۔ المدونۃ الکبریٰ۔ بیروت، لبنان دار الفکر للطباعہ و النشر والتوزیع، 1980ء۔ +62۔ مالک، ابن انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی (93۔ 179ھ 712۔ 795ء)۔ الموطا۔ بیروت، لبنان دار احیاء التراث العربی، 1406ھ 1985ء۔ +64۔ ماوردی، ابو حسن علی بن محمد۔ الاحکام السلطانیہ۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1398ھ۔ +65۔ ابن مبارک، ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن واضح مروزی (118۔ 181ھ 736۔ 798ء)۔ کتاب الزہد۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ۔ +66۔ مزی، ابو الحجاج یوسف بن زکی عبد الرحمن بن یوسف بن عبد الملک بن یوسف بن علی (654۔ 742ھ 1256۔ 1341ء)۔ تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف۔ ممبئی، بھارت الدار القیمہ بیروت، لبنان المکتب الاسلامی، 1403ھ 1983ء۔ +68۔ مسلم، ابو الحسین ابن الحجاج بن مسلم بن ورد قشیری نیشاپوری (206۔ 261ھ 821۔ 875ء)۔ الصحیح۔ بیروت، لبنان دار احیاء التراث العربی۔ +70۔ مقدسی، محمد بن عبد الواحد بن احمد بن عبدالرحمن بن اسماعیل بن منصور سعدی حنبلی (م 569۔ 643ھ1173۔ 1245ء)۔ الاحادیث المختارہ۔ مکہ مکرمہ، سعودی عرب مکتبۃ النہضۃ الحدیثہ، 1410ھ 1990ء۔ +71۔ منذری، ابو محمد عبد العظیم بن عبد القوی بن عبد اللہ بن سلامہ بن سعد (581۔ 656ھ 1185۔ 1258ء)۔ الترغیب و الترہیب۔ بیروت، لبنان دارالکتب العلمیہ، 1417ھ۔ +72۔ نسائی، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار (215۔ 303ھ 830۔ 915ء)۔ السنن۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1416ھ 1995ء۔ +73۔ نسائی، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار (215۔ 303ھ 830۔ 915ء)۔ السنن الکبریٰ۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ، 1411ھ 1991ء۔ +74۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ھ 1335۔ 1405ء)۔ مجمع الزوائد۔ قاہرہ، مصر دار الریان للتراث بیروت، لبنان دار الکتاب العربی، 1407ھ 1987ء۔ +75۔ ہیثمی، نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735�� 807ھ 1335۔ 1405ء)۔ موارد الظمآن اِلیٰ زوائد ابن حبان۔ بیروت، لبنان دار الکتب العلمیہ۔ +76۔ ابو یعلیٰ، احمد بن علی بن مثنی بن یحییٰ بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔ 307ھ 825۔ 919ء)۔ المسند۔ دمشق، شام دار المامون للتراث، 1404ھ 1984ء۔ +77۔ ابویعلیٰ، احمد بن علی بن مثنی بن یحییٰ بن عیسیٰ بن ہلال موصلی تمیمی (210۔ 307ھ 825۔ 919ء)۔ المعجم، فیصل آباد، پاکستان ادارۃ العلوم و الاثریہ، 1407ھ۔ + + +دنیا میں کوئی کام بھی ایسا نہیں ہے جس انسان کا اپنا فائدہ نہ ہوکائی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں انسانیت کی تذلیل نہ ہوکوئی لیکن رضاکار یت دنیا وہ پہلاشعبہ ہے جس میں کسی بھی شخص کا دکھی انسانیت کے خدمت کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں ہے” قرآن شریف میں ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے فوری انسانیت بچائی “ +اس سلسلے میں ہلال احمر پاکستان ”بلوچستان شاخ“شعبہ امورنوجوانان ورضاکاران کیجانب سے پشین کے علاقے بند خوشدل خان میں پانچ روزہ تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان کے مختلف اضلاع کوئٹہ ،سبی جعفر آباد ،پشین ،خاران ،نوشکی ، ژوب ،قلعہ سیف اللہ ، چمن اورلورالائی کے رضاکارکارکنوں نے شرکت کیںکیمپ کا افتتاح باقاعدہ طورپر ضلعی رابطہ آفیسر پشین نے کیا کیمپ میں نوجوانوں کو ہلال احمرپاکستان کے بارے میں تفصیلی بتا یا گیا جبکہ ایچ آئی وی ایڈ ز سے بچاﺅ ،ہنگامی حالت میں صاف پانی کی فراہمی ،صفائی کی صورتحال ،ہنگامی حالت سے نمٹنے میں نوجوانوں کا کرداراورذمہ داریاں،قدرتی آفات اورپیدا کردہ آفات میں لوگوں کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی ،آگ قابو پانے اورآگ سے بچنے کے طریقے سے سکھائے گئے +کیمپ کے تعارفی سیشن سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر روبینہ سعید شاہوانی اورسدرہ خورشید کی خطاب +کیمپ کے پہلے اورتعارفی سیشن سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر امورنوجوانان ورضاکاران روبینہ شاہوانی اورسدرہ خورشید نے خطاب کیا جس میں انہوںنے کہاکہ پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی جو کہ بلا کسی لالچ وغر ض رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہی ہے انہوں نے کہاکہ 1859 ئ ہنری ڈوناڈو کی سیلفورینو کے جنگ میں رضا کار کی حیثت سے خدمات نے خطہ میں رضاکاریت نے جنم لیا جس کے بعد ہنری ڈوناڈوکی مسلسل کاوشوں کے بعد باقائدہ طور پر اس شعبے کے فروغ کے لیے کام شروع کیا جس کی بدولت آج دنیا بھر کے 188ممالک میں ریڈکراس اورریڈ کریسنٹ کے نام سے رضاکاریت کے فروغ کیلئے کام کررہی ہیں۔یہ تنظیم مسلم ممالک میں ریڈ کریسنٹ جبکہ غیر مسلم ممالک میں ریڈ کراس کے نام سے پہچانا جاتاہے ۔پاکستان میں اس تنظیم کا قیام 1947ئ میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت عمل میں لایا گیا جبکہ 1948ئ میں عالمی تنظیم برائے ریڈ کراسریڈکریسنٹ نے باقاعدہ طور پر اسے تسلیم کرتے ہوئے اپنا ممبر بنادیا ملک کا صدر ہی تنظیم کا صدر ہوتاہے جبکہ صوبائی سطح پر گورنر تنظیم کا صدر ہوتاہے رضاکاریت کے فروغ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج پا کستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی” بلوچستان برانچ “کے ساتھ دوہزار رضاکار رجسٹرڈ ہیں جن میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی رجسٹرڈ رضاکاروں کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی ممالک میں تربیت فراہم کرتاہے ۔ ضلعی رابطہ آفیسرسیدال خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک باصلاحیت معاشرے کے قیام کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لائینگے نوجوانوں کو رضاکاریت کی درس دیکرہی ہم ہرمشکل گھڑی میں اپنے بھائیوں دکھ در�� میں شریک ہوسکتے ہیںانہوں نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ نوجوانوں کو رضاکاریت کی طرف راغب کرے انہیںاس سلسلے میں تربیت دیںمطعین کرے اورانکی حوصلہ افزائی کرے نوجوانوں کی بہترمستقبل ہلال حمر پاکستان کاتربیتی کیمپ کا انعقاد قابل تحسین اقدام ہے +کیمپ کے پہلے سیشن سے انیل کمار کا خطاب +کیمپ کے دوسرے سیشن میں ایڈزجیسے ناسور سے بچاﺅ کے بارے میں بتایا گیا جس نے خطاب کرتے ہوئے انیل کمارنے کہاکہایڈز ایک لاعلاج اور مہلک مرض ہے پوری دنیا میں پھیلی ہوئی یہ وہ خطرناک بیماری ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ڈھونڈاجاسکا ایڈز مرض ایک خاص انسانی وائرس(جرثومے )ایچ ،آئی ،وی ایڈز (HIV)کے ذریعے پھیلتا ہے جو جسم میں مدافعتی نظام کو کمزورکردیتاہے اگر اس مرض کے جراثیم کسی شخص کو لگ جائیں تو یہ ساری عمرجسم میں موجود رہتی ہے ایسے افراد جس کو ایڈز کی بیماری کے جراثیم لگ چکے ہو مگر بظاہر اُس میں اس بیماری کی علامات اور نشانیاں بالکل موجود نہ ہو ایسے افراد اپنے جنسی تعلقات کے ذریعے یا اپنے خون کے عطیہ سے اس بیماری کے جراثیم دیگر تندرست افراد تک پہنچا سکتا ہے ایڈز کے جرثومے سے متاثرہ آلات بھی ایڈز کی بیماری پھیلنے کا ذریعہ ہےںخاص طور پر اگر استعمال شدہ سرنج کو دوبارہ استعمال کیا جائے ،نشہ کے عادی افراد ایک ٹیکہ میں نشہ آور دوائی بھرکر یک ہی سوئی کے استعمال سے بھی یہ بیماری پھیلتی ہے،ایڈز کے وائرس سے متاثرہ اوزارمثلاً کان ، ناک چھیدنے والے اوزار ،حجام کے استعمال شدہ بلیڈ اوردانتوں کے علاج میں استعمال ہونیوالے اوزار سے بھی ایڈز پھیلتا ہے ایڈز کا وائرس حمل کے دوران یا پیدائش کے بعد متاثرہ ماں سے بھی بچے میں منتقل ہوسکتاہے اورآخر کار اس مرض ہی کے باعث مریض کی موت واقع ہوجاتی ہےایڈز جیسے ناسور کی تدارک کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو کردار اداکرنا ہوگا ایڈز کی بیماری دنیا تیزی سے پھیل رہی ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایڈز ایک لا علاج مرض ہے لیکن اس سے باآسانی بچایا جاسکتا ہے ایڈ زسے متاثرہ شخص کے پاس بیٹھنے یا گلے ملانے سے ایڈز نہیں پھیلتی ۔ +کیمپ کے تیسرے سیشن سے واٹراینڈ سنیٹیشن کے صوبائی آفیسر ملک بلول دانا کا خطاب +کیمپ کے چھوتے سیشن سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہلال احمر اسلام آباد داور خان اورمحمد ایوب کا خطاب +کیمپ کے چھوتے سیشن سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہلال احمر اسلام آباد داور خان اورمحمد ایوب نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ابتدائی امداد کے حوالے سے ہلال احمر کے رضاکار ہمیشہ ہروقت ہر تیار رہینگے ایسے حالات میں ابتدائی طبی امداد کے اصول ایمرجنسی کی صورت میںزندگی بچانا ،حالت مزید خراب ہونے سے بچانا ،نازک حالت کو بحال کرنے میں مدد دینا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ابتدائی طبی امدادکے حوالے سے رضاکاروں کو اس کے قابل بنانا ہے کہ وہ کسی بھی وقت کسی بھی حادثے کو نمٹاسکیںدل کا دورہ پڑنے والے افراد کو سنبھال سکےںزخموں پر مرہم پٹی اورزہریلے جانوروں سے ڈسنے پر اس کو طبی امداد دے سکیں سب سے پہلے کسی زخمی شخص کے زخم دبائیں ورمتاثرہ عضو کو دل کی سطح سے اونچا رکھیںتاکہ زخم مزید خون بہنے سے بچ جائیں اورپھر اس کے بعد زخم پرپٹی باندھیںایسے ہنگامی صورتحال میں سب سے پہلے بے ہوش مریض کا حالت معلوم کرکے اسے پکاریں اورہلائیںایسے حالت میں مریضوں کوتسلی دیں اور اپنے اور اپنے حواس برقرار رکھیں اوراگر کسی زخمی کا خون بہت زیادہ بہہ رہاہوتو اسے جلد ازجلد روکنے کی کو��ش کریںاور لوگوں کی زندگی بچانے کی کوشش جاری رکھیں جلی ہوئی جگہ پر کپڑا نہ رکھیں کسی بے ہوش مریض کو کوئی چیز پلانے کی کوشش نہ کریں اورنہ ہی کسی زخمی کو ایسے چیزیں پلائیںجس سے دوران خون تیز ہو جائے اوربے ہوش افراد کو چھینٹے مارکر یا جھٹکے دیکر جگانے کی کوشش نہ کریں +کیمپ کے پانچویں سیشن سے فرسٹ ایڈ ٹرینر نشرہ ندیم کی خطاب +کیمپ کے پانچویںسیشن سے خطاب کرتے ہوئے بشرہ نے کہا کہ ہلال احمر محظ انسانیت کی خاطرانسانی خدمت پر یقین رکھتی ہے بلاکسی تعصب وقومیت غیر جانبدار اوررضاکارانہ خدمات کے اصولوں پر کلام کررہی ہےں رضاکار ٹیموں میں جونیئر رضاکار ٹیم جس میں 10سال سے 14سال تک کی سکولوں کے بچے شامل ہوتے ہیںجبکہ 15سال سے 25سال تک جن میں کالج یونیورسٹی ے طلباءوطالبات شامل ہوتے ہیںجونیئر رضاکارٹیم کا حصہ ہیںاس کے علاوہ ڈاکٹر،پیرامیڈیکس ،انجینئر ،لاجسٹکس ،اور ہنرمند افراد ہمارے پروفیشنل رضاکاروں کے ٹیم میں شامل ہوتے ہیںایسے لوگ جو اپنے علاقے سے واقف ہو اور اپنے متعلقہ علاقے آفات اورواقعات کے دوران لوگوںکو ابتدائی طبی امدادفراہم کرسکیں ہمارے کیمونٹی بیس ضاکارٹیموں میں شامل ہوتے ہیںانہوں نے کہا کہ ہلال احمر پاکستان شعبہ امور نوجوانان ورضاکاران آفات اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایمر جنسی سروس ،ریلیف آپریشن ٹیم ،اورکیمونیٹی بیس قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے رضاکاروں کی ٹیمیںتیار کرتی ہےںجو آفات میں خون کی فراہمی اور صحت کے سہولیات میں پہنچانیں میں لوگوں کی مدد کرتی ہے ۔اور اس سلسلے میں ہلال احمر ایمبو لینس سروس ہمہ وقت تیار رہیگا +کیمپ کے چھٹے سیشن سے محکمہ شہری دفاع کے ڈائریکٹرڈاکٹرہدایت اللہ کا خطاب +کیمپ کے چھٹے سیشن سے محکمہ شہری دفاع کے ڈائریکٹرڈاکٹرہدایت اللہ نے رضاکاروں کو آگ بجانے کے طریقے بتائے جس میں انہوں نے کہاکہ اگرچہ آگ کو فیکٹریوں ،گھروں اورزندگی کے ضرورت سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف آگ انسانیت کی دشمن ہے جس سے نہ صرف لاکھوں کروڑوں کا مالی نقصان ہوتاہے بلکہ کئی جہگوں پر آگ کی لپیٹ میں آکر انسانی جانوں کابھی ضیاع ہوتا ہے جس سے بچنے کیلے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہوگا سال 2008میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں آگ بجاتے ہوئے 22نوجوانوں نے جان کی بازی ہاردی کئی بھی آگ لاپرواہی سے بے قابو ہوکر پھیلا جاتا ہے انہوں نے اس موقع پر رضاکاروں کو آگ بجانے کے طریقے بتائے اورمختلف قسم کے گیسوں کو تیار کرکے اس کے استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ۔انہوںنے کہاکہ آگ بجانے والے گیس تین قسم کے بنائے جاتے ہیں جس میں میٹھا سوڈا ،سیلفورک ایسایڈ اور پانی کا استعمال کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ہاتھ سے تیا رکردہ گیسوں کا استعمال ایک سال تک کیا جاسکتاہے اس موقع پر انہوں نے آگ بجانے کا تجربہ بھی کیا۔ +کیمپ کے اختتامی سیشن سے چیئرمین برانچ سردار نصیر خان ترین ،سیکرٹری میجر (ر)سردار محمد صابر درانی اور دیگر کا خطاب +کیمپ کے اختتامی سیشن میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے انجمن ہلال احمر پاکستان بلوچستان شاخ کے چیئرمین سردارنصیر خان ترین ،سیکرٹری میجر (ر)محمد صابر درانی ،ڈپٹی ڈائریکٹر امورنوجوانان ورضاکاران روبینہ شاہوانی ،ڈاکٹرنادرہ نے خطاب کیا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلوچستان برانچ سردار نصیر خان ترین نے کہا کہ سال 2008میں ملک بھر رضاکاروں میں بلوچستان کے رضاکاروں کی کارکردگی سب سے زیادہ موثر رہی جس کا سہرہ بلوچستان رضاکاروںکے سر��اتا ہے ہلال احمر اگر زندہ ہے تو اس میں انہی رضاکاروں کی روح ہے جس سے آج بلوچستان سمیت پورے ملک میں ہلال احمر کی شناخت ہے ایسے اداروں رضاکار نہ ہوتو نہ کبھی چل سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی چلے ہیںانہوں نے کہا کہ بلوچستان رضاکاریت کے فروغ کیلئے بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر روبینہ شاہنوانی کی کاکردگی قابل تحسین ہے جس دن رات کاوشوں سے ہی بلوچستان میں رضاکاریت کو فروغ مل رہاہے اور ہر علاقے سے رضاکا رہلال احمر کے پلیٹ فارم سے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیںرضاکارانہ خدمات کودکھی انسانیت کی خدمت سمجھتے ہےں ہمیں چاہیئے کہ اسے جاری رکھے انسانیت کے جذبے کو لیے ہوئے بلوچستان کے رضاکارکارکن اس شعبے کو آگے بڑھائیں گے تاکہ مستقبل میں قدرتی اورپید اکردہ آفات میں کردار اداکرے۔تقریب سے سیکرٹری ہلال احمر پاکستان بلوچستان میجر (ر)محمد صابر درانی نے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دوسرے صوبوں کی نسبت بلوچستان کے رضاکاروں کی کارکردگی بہتر ہے سال 2009میں اٹلی کیلئے بلوچستان سے رضاکارمنتخب کیا گیا ہے جوکہ بلوچستان کے رضاکاروں کے لیے فخر کی بات ہے کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہلال احمر کا فرسٹ ایڈ ٹیم ہمہ وقت تیار رہیگا ٹیم میں شامل نوجوان کسی آفت میں متاثرہ افراد کو موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کرے گی بلوچستان اپنی نوعیت کا یہ پہلاٹیم ہے جوہلال احمر کے نوجوانوں پر مشمتل ہے ۔انہوں نے کہا کہ نوجوان سے ملک وقوم کا مستقبل وابستہ ہے ہمیں نوجوانوں کی فلاح وبہبود کیلئے مزید اقدامات کرنے ہونگے۔ 28اکتوبر کوآنیوالے ہولناک زلزلے سے متاثرہ علاقوںہی سب سے پہلے ہلال احمر پاکستان کے رضاکار ،ڈاکٹرز،امدادی ٹیمیں پہنچے جوکہ تاحال کئی ٹیمیںوہاں پر موجود ہیںرضاکاریت جو انسانی خدمت ہی ہے کو فروغ دینے مزید اقدامات اٹھائینگے اورانشاءاللہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی اقدامات سے گریزنہیں کرینگے ۔ہلال احمر پاکستان ”بلوچستان برانچ نے 200خاندانوں کیلئے ہنگامی طورپر سامان رکھاگیا ہے انہوں نے کہا کہ رضاکاریت کو کسی قوم یا ملک تک محدودنہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میںمعاشرے کے ہر فرد نے کردار اداکرنا ہے اسی سلسلے میں ہلال احمر کیجانب سے سکولوں اورکالجز میں بھی تقریبات کا نعقاد کیا جارہاہے آخر میں ہلال احمر پاکستان ”بلوچستانشاخ “کیجانب سے چیئرمین بلوچستان شاخ سردارنصیر خان ترین ،عالمی تنظیم برائے ریڈ کریسنٹ ریڈ کراس اورڈی سی او پشین کو خصوصی شیلڈ بھی دیدی گئیں۔ +رپورٹ :دین محمد وطن پال میڈیا رضاکار پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی بلوچستان +دین محمد وطن پال 3مارچ1985میں کوئٹہ کے علاقے کلی اسماعیل میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ابائی علاقے کوئٹہ میں حاصل کی1997میں وہ 12سال کی عمر میں والد کے سائے سے محروم ہوگئے 2004میں وہ کاروبار کی غرض سے افغانستان چلے گئے مگر وہاں کے حالت خراب ہونے کے باعث 3ماں بعد واپس کوئٹہ آئے اور ایک غیر سرکاری تنظیم زرمل سوسائٹی میں کام شروع کیا 2سال سے زائد عرصہ زرمل سوسائٹی میں کام اور اس کے بعد انہوں نے کوئٹہ کے مقامی اخبار روزنامہ انقلاب نو میں بطور سب ایڈیٹر کام شروع کیا انقلاب نو میں 2کام کرنے کے بعد روزنامہ بلوچستان نیوز کے ساتھ بطور فوٹو جونلسٹ کام شروع کیا اس دوران انہوں نے ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا اور اس کے علاوہ روزنامہ پبلک کے ساتھ بھی بطورفوٹو ایڈیٹر کام شروع کیا ۔چونکہ انہوں نے اخبارشعبہ سے پہلے سماجی ��دمات میں حصہ لیا تھا اور کئی علاقوں میں اور تنظیموں میں جان پہچان کے علاوہ انہوں نے اپنافرض سمجھا کہ صحافتی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کو بھی ترجیح دی مئی 2008انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک غیر سرکاری و غیر سیاسی تنظیم ”ہیوادآرگنائزیشن“کی بنیاد رکھ دی جوکہ حکومت پاکستان کے مجریہ آرڈیننس1961کے تحت باقاعدہ رجسٹرڈ ہے اورایک بار پھر انہوں سماجی خدمات کو اپنافریضہ سمجھ کر کام شروع کیا جبکہ ستمبر2008میں انہوں پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی بلوچستان برانچ امور نوجوانان ورضاکاران کی ممبر شپ حاصل کرلی اور انہوںنے ایک صحافی اورسماجی کارکن کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ خدمات بھی شروع کیںاور ریڈ کریسنٹ کے انہوں زرائع ابلاغ کے حوالے بہت کام کیا مئی اسے یوتھ کیمپ کی دعوت دی گئی لیکن وہ اپنے فرائض ومصروفیات کی وجہ سے کیمپ میں باقاعدہ حصہ نہ لے سکے انہوں نے اکتوبر کے زلزلہ میں نہ صرف پاکستان ریڈ کریسنٹ کے کام کیا بلکہ افغانستان کے ایک تنظیم کی طرف سے بھی زیارت میں ایک 3ماہ کا منصوبہ چلایا اور اکتوبر 2009وہ نیشنل یوتھ کیلئے منتخب ہوئے لیکن حالات کی خرابی کے باعث کمیپ منسوخ ہوگیاجبکہ نومبر2009میں وہ روزنامہ کرائم میل ملتان کا بیوروچیف بھی منتخب ہوئے + + +وکی پیڈیا پر دنیا جہان کی شخصیات سے متعلق مواد موجود ہے۔ پاکستان کے نامور شاعر سے متعلق وکی پیڈیا پر زیادہ سے زیادہ معلومات کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ناصر کاظمی کا نام اور شاعری کووکی پیڈیا سے غائب کرنا افسوسناک امر ہو گا۔ + + +اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیدنَا مُحَمَّدٍ طِبِّ القُلُوبِ وَدَ وَا ئِھَا وَ عَافِیةِ الاَ بدَانِ وَ +شِفَائِھَاوَ نُو رِالاَبصَارِ وَضِیائِھَاوَعَلٰی اٰلِہ وَصَحبِہ وَسَلِّم +“قارئین! یہ درودشریف کینسر کے لیے تو شفا یابی کا ذریعہ بن سکتا ہے کیا دوسری امراض کے لیے نہیں ؟ + + +منہاج القرآن والوں کے بارے میں مزید جاننا چاہوں گا + + +مقالہ نگار اکبر علی غازی +کھوار اس زبان کا نسبتی نام ہے جو کھوہ قوم بولتی ہے (۹۴)۔ پاکستان کے خوبصورت ترین خطوںمیں سے ایک خطہ چترال ہے جسے ’’مشرقی سویٹزرلینڈ ‘‘کا نام دیا جاتا ہے(۹۵)خطے کی مناسبت سے اس زبان کو چترالی بھی کہا جاتا ہے۔جسے علاقائی لہجے میں مقامی لوگ چھتراری پکارتے ہیں۔ چترال سے باہر اس زبان کو چتراری، چترالی،کھوہ وار،کھوار، قشقاری اور آرنیہ بھی کہا جاتارہا ہے(۹۶)۔ یہ زبان چترال کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے ضلع غدر میں بھی بولی جاتی ہے۔اس کے علاوہ سوات، کالام، واخان، پامیر اور نورستان کے افغان اضلاع میںبھی مادری زبان کے طور پر کھوار بولنے والوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہیں(۹۷)۔دیگر زبانوں کی طرح کھوار ادب کی ابتداء بھی لوک ادب سے ہوئی البتہ کھوار ادب میں نظم اور نثر دونوں شامل ہیں۔ جن سے اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کھوار میں نثر قدیم ہے یا نظم ۔ البتہ لوک گیتوں کی قدامت کے شواہد زیادہ ہیں۔ کیونکہ موزوں ضرب الامثال اور پہیلیوں کو آسانی سے نظم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔’’کھوار لوک ادب میں تین ہزار سال پرانی داستانوں، پہیلیوں، ضرب الامثال اور قصے کہانیوں کا سراغ ملتا ہے اور یہ ادب زیادہ تر لوک گیتوں پر مشتمل ہے‘‘(۹۸)۔ کھوار میں لوک گیتوں کو ’’باشو نو‘‘ کہا جاتا ہے(۹۹)۔ کھوار لوک ادب کو اپنے میعار اور مقدار کے حوالے سے دیگر زبانوں کے لوک ادب کے سامنے برابری کی سطح پر رکھا جاسکتا ہے۔ البتہ اس ادب میںخالص حمدونعت کے موضوعات بہت کم ہیںاگرچہ کہیں کہیں مناجات کا رنگ ضرور جھلکتا ہے جیسے کھوار لوری میں ہمیں اللہ کی طرف رحمت و برکت کی طلب بھری باتیں ملتی ہیں۔ +قدیم کھوار ادب میں ہمیں تین سو سال قدیم شعری نمونے ملتے ہیں مگر ان کو حمد میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ البتہ حمدیہ عناصر سے انکار کرنا بھی مشکل ہے۔ کھوار ادب کا پہلانام اتالیق محمد شکور غریب )۱۶۹۵ء تا ۱۷۷۲ء ہے۔ بنیادی طور پر ان کو فارسی کا شاعر مانا جاتا ہے البتہ ان کے فارسی دیوان کے آخری باب’’بلغت چتراری‘ ‘کو کھوار ادب میں اولیت کا درجہ حاصل ہے(۱۰۰)۔ اتالیق محمد شکور غریب بیک وقت مصاحب شاہ، جنگجو، شمشیرزن اور اہل قلم تھے۔ ان کا کلام عشقیہ مضامین سے پر ُہے۔جس میں عربی فارسی اصطلاحوں کے ساتھ ساتھ متصوفانہ رنگ بھی موجود ہے۔ کھوار غزل کے حوالے سے انہیں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ان کے ہاں حمد کے مضامین نہیں ملتے البتہ نقشبندی اولیاء کی منقبتیں ملتی ہیں۔جن میں جزوی طور پر حمدیہ عناصر پائے جا سکتے ہیںمکمل حمدیہ اشعار نہیں۔ +مرزا محمدسیر جنھیں پروفیسر اسرارالدین نے مولانا محمد سیئر ۱۰۱) لکھا ہے چترال میں مہسیار کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کو چترال کاعظیم ترین شاعر خیال کیا جاتاہے۔ ان کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے البتہ ان کا کھوار رومان ’’یار من ہمیں‘‘ایک عظیم کھوار دستاویز ہے جو کہ چترال میں زبان زدخاص وعام ہے۔ ان کے فارسی کلام میں حمدکے اعلٰی نمونے ملتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں بھی حمدیہ اشعار نہیں مل سکے۔البتہ ان کے کھوار کلام میںتصوف، معرفت اور عشق مجازی کے بے شمار رنگ ملتے ہیں جو کہ مجازی سے بڑھ کر حقیقی کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ان کے بارے میں ڈاکٹر فتح محمد ملک لکھتے ہوئے ان کی شاعری کو شیرازخراسان اور ہندکی صوفیانہ شاعری کا حسین امتزاج قرار دیا ہے(۱۰۲)َ۔ شہزادہ تجمل شاہ محوی کھوار ادب کا ایک اور معتبرنام ہے۔ آپ کٹور مہتر چترال کے فرزند تھے اور بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ وہ ۱۷۹۰ء میں پیدا ہوئے اور ۱۸۴۳ء میں شہید ہوئے۔ان کا فارسی دیوان موجودہے مگرکھوار میں کچھ غزلیات اور قطعات بھی محفوظ ہیں۔ آپ کے کلام میں عارفانہ کلام کثرت سے ہے جس میں معرفت اور عشق و مستی کا خاص رنگ ملتا ہے۔ ان کے ہاں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی فکر عام ہے۔کلاسیکی دور کے شعراء جین ،آمان، زیارت خان زیرک،گل اعظم خان ،حسیب اللہ ، باچہ خان ھما ، مرزا فردوس فردوسی ، بابا ایوب، مہر گل ،اور منیر عزیزالرحمن بیغش شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر کا کلام ابھی شائع نہیں ہوا۔ +باچہ خان ہما کلاسیکی شعراء کے متا خرین میں ایک خصوصی اہمیت کے حامل شاعر ہیں۔ ان کے کلام میںصنائع، بدائع، لطافت اور ظرافت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔وہ عالم باعمل اور صاحب دل بھی تھے۔ شگفتہ مزاجی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ البتہ آپ ایک مشکل پسند شاعر تھے۔ آپ کے کلام میںعربی اور فارسی الفاظ کا بھاری پن ہے۔ اپنے گاؤں کے ایک مجذوب مجید کا ذکروہ اپنے کلام میں جا بجا کرتے ہیں ۔ جس سے تصوف اور سلوک کی منازل کے حصول کی نشاندہی کرتے ہیں۔یاد رہے آپ کھوار زبان کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر بھی ہیں(۱۰۳)۔ ان کے ہاںایک دو کی بجائے کئی جگہ حمدیہ مضامین ملتے ہیں گو انھوں نے حمد کے عنوان سے کچھ نہیں کہا۔ ان کے دو اشعار کا ترجمہ پیش ہے:۔ +اے محبوب تم اپنے حجاب اور پردے کو ہٹا کر کیا کمال کرتے ہو کہ افلاطون جیسا عاقل بھی مجید جیسا فاترالعقل بن جاتا ہے۔ اے محبوب اپنے حسن کی بہار دکھادے جوزندگی کا سر چشمہ ہے۔ اس بہار کی مسکراہٹیں بکھیر کر مجھ جیسے لاکھوں عاقلوں کو مجید جیسا دیوانہ بنا دے۔( ۱۰۴) +آپ۱۶ دسمبر ۱۹۸۹ء کو سول ہسپتال دروش میںانتقال کر گئے۔کلاسیکی دور کے ایک اہم نام امیر گل خان ہیں ان کے کلام میں تصوف اور معرفت کی چاشنی بھر پور طور پر موجود ہے۔ آپ کو چترال میں موسیقی کے حوالے سے خصوصی مقام حاصل ہے۔ آپ جتنے اچھے گیت نگار ہیں اتنے ہی اچھے مو سیقاربھی ہیں۔ آپ نے عشقیہ گانوں کے علاوہ حمد ، نعت ، مرثیے اور قومی ترانے بھی لکھے (۱۰۵)۔ پروفیسر اسرار الدین کے مطابق آپ پہلے کھوار شاعر ہیں ۔جنہو ں نے باقاعدہ طور پر حمد لکھی ۔ ان کا ایک حمدیہ بند حا ضر ہے جو کہ صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔ +ترجمہ[L: 58]خداتعالی طرح طرح سے اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے کہیں صلیب کے اُوپر منصور کی مستی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور )اس سب کے باوجود(اللہ تعالی لا شریک بادشاہ ہے۔اور اس کی ہستی واحد اور بلند ہے(۱۰۶)۔ +قدیم دور کے مقابلے میں جدید دور میں کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔قدیم ادوار میںحکمرانوں کی زبان کیو ں کہ فارسی رہی ہے۔ اس لیے کھوار ادب بھی ترقی نہیں کر سکامگر قیام پاکستان کے بعد عموماً اور موجودہ دور میں خصوصاً کھوار ادب میں نئے نئے تجربے ہوئے اور شعراء نے دیگر اضاف ادب کے ساتھ ساتھ حمد اور نعت پر بھی توجہ صرف کی۔کھوار ادب میں نعت تو کافی ملتی ہے البتہ حمد کے حوالے سے یہ ادب اتنا ثروت مند نہیں۔روایت کے طور پر حمد تقریباً سارے شعراء کے ہاں ملتی ہے مگر ابتداء میں ہو،یہ ضروری نہیں ۔ جدید دور کے شعراء کے ہاں کوشش کی جارہی ہے کہ تمام شعری کتب حمد و نعت سے شروع ہوں البتہ بسم اللہ سے دیوان کی ابتدا کرنے کا رجحان قدیم ہے۔حمد کو صنف شاعری کے طور پر رواج دینے والے شعراء میں قاضی ملغت خان بڑے اہم شاعر ہیں ۔یہ تورکھو سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کا کلام دستیاب نہیں ہو سکا۔ان کے بعد بابا فردوسی، باباایوب خان ایوب، ناجی خان ناجی، محمد چنگیز خان طریقی، مولاناپیر محمد چشتی، مولانا نقیب اللہ رازی، گل نواز خان خاکی، اقبال حیات، محمد جاوید حیات، جاوید حیات کاکا خیل، فداالرحمن فدا۔ عبدالولی خان، پروفیسر اسرارالدین، رحمت عزیزچترالی، نورالہادی، عنایت الرحمن پرواز وغیرہ حمد لکھنے والے شعراء میں شامل ہیں۔مرزا فردوس فردوسی کو سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے مجموعہ کلام میں حمدیہ اشعار شامل کیے ان کے بعد رحمت عزیز چترالی نے اپنے مجموعہ کلام ۔’’گلدستہ رحمت‘‘ میں کئی حمدیں شامل کیں جو کہ ایک نیارجحان ہے۔ان کی ایک نظم کا ترجمہ پیش ہے جو کہ انھوں نے بچوں کے لئے لکھی۔وہ لکھتے ہیں:۔ +کھوار ادب میں اب ایک تحریک کی صورت میں حمد نگاری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ اور ان تحریک کو فروغ دینے میں جمہور الاسلام، ماہنامہ شندور، ماہنامہ ژھنگ، صدائے چترال ، ہندو کش ، ھمکلام، بزم کھوار اورچترال وژن پیش پیش ہیں۔کھوار ادب میں کچھ مجموعہ جات حمد سے خالی بھی دستیاب ہیں اس حوالے سے ذاکر محمد زخمی کے مجموعہ کلام کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس کی ابتداء حمد سے نہیں کی گئی (۱۰۸)کھوار ادب میں بھی حمد سے زیادہ قدیم مناجات ہے گو مناجات بھی حمد کے ذیل میں شامل ہے مگر وہ مناجات بہت کم ہیں جن میں شاعر نے تعریف و توصیف کے بعد دعا مانگی ہے۔اور تعریف و توصیف اور بڑائی کے بغیر مانگی گئی دعایا مناجات التجا، درخواست، منت اور زاری تو ہو سکتی ہے حمد نہیں۔ کھوار زبان میں ابھی تک کوئی حمدیہ مجمویہ شائع نہیں ہوا مگر چند مجموعے ایسے ہیں جن میں حمد و مناجات کو روایت سے ہٹ کرزیادہ صفحات دئیے گئے ہیں ۔اس حوالے سے رحمت عزیز چترالی کو اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ گلدستٗہ رحمت ‘‘میں پہلی دفعہ تیرہ حمدویں شامل کیں ان کے بعد پروفیسر اسرارالدین کے مجموعے ’’درون ہنو‘‘کی باری آتی ہے کہ اس میں ۲۹ سے ۶۶ صفحہ تک حمدومناجات کو جگہ دی گئی ہے۔پروفیسر اسرارالدین کی حمد کا منظوم ترجمہ پیش ہے :۔ +اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو +اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو +اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو +موجودہ دور میں تاج محمد فگار، امین چغتائی، ذاکرمحمد زخمی، مولانا نقیب اللہ رازی اور پیر محمد چشتی نے حمد کو اپنے مجموعہ جات میں شامل کیا ہے۔اب تو اکثر شعراء حمد کو اپنے مجموعے میںاولیت دیتے ہیں ان شعراء میں پروفیسر اسرارالدین ، رحمت عزیز چترالی، ناجی خان ناجی، امین چغتائی، پیر محمد چشتی ، ولی زار خان ولی، ولی الرحمن ولی اورتاج محمد فگار شامل ہیں۔۱۹۷۸ء میں جب انجمن ترقی کھوارچترال اور 1996میں کھوار اکیڈمی کراچی کا قیام عمل میں آیا تو کھوار ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت تک یہ انجمن قابل قدر کام کر چکی ہے۔ اب اس انجمن کے ڈائریکڑ رحمت عزیز چترالی ہیںجو کہ ایک ایثار پسند، ملنساراور علمی کام میں ہر وقت مدد کے لئے تیار رہنے والے شخص ہیں ان کی وجہ سے کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ان کے قلم سے کئی ایک مجموعہ جات چھپ چکے ہیں۔جبکہ حمدکے حوالے سے ایک نثری کتاب ’’کھوار حمد ونعت کی مختصر تاریخ‘‘اور ایک خاص حمدیہ شعری مجموعہ ’’حمد و ثنائے رب جلیل‘‘ عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہونے والا ہے۔یہ دونوں کتب بلاشبہ کھوار ادب میں ایک نیا اور صحت مند اضافہ ہونگی اور کھوار حمد و نعت کو اردو ،سندھی اور پنجابی کی صف لا کھڑا کرنے میں معاون ثابت ہو نگی ۔ +جاوید حیات کاکا خیل جدید دور کے شعراء میں سے ایک اہم شاعر ہیں ان کی ایک حمدیہ نظم پیش ہے ۔وہ لکھتے ہیں: +صفدر ساجد اس دور کا شاعر ہے جو کہ حمد و نعت ، نظم اور غزل پر یکساں دسترس رکھتا ہے ان کا کلام قلمی صورت میں انجمن ترقی کھوار کی لائبریری میں شائع ہونے کے لئے منتظر ہے وہ اللہ جل شانہ کے حضور یوں عرض گزارہے: ۔ +ترجمہ[L: 58]اے میرے خدا! اے میرے پروردگار، تیرا یہ بندا بڑا گنہگار ہے۔ میری زندگی نا فرمانیوں میںگزر رہی ہے، اے اللہ تو اس گناہ کے ملبے کو ختم کر کے میرے دل کو صاف کیجییو(۱۱۱)۔ مترجم( رحمت عزیز چترالی) +کھوارشعراء کی توجہ حمد و نعت کی طرف مبذول ہو چکی ہے جس کا ثبوت نعتیہ مجموعہ’’ آقائے نا مدار‘‘ ہے جو کہ مولانا محمد نقیب اللہ رازی کا تخلیق کردہ ہے (۱۱۲)جسے کھوار ادب میں ایک خوش آئند اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔انجمن کھوارچترال کی کوششوں سے ’’ققنوز‘‘ کے نام سے دو شعری انتخاب شائع ہوئے تھے جن میں حمد و نعت کے بھی قابل ذکر نمونے ملتے ہیں۔بہرحال یہ انتخاب کھوار ادب کا بھرپور اور متوازن منظرنامہ ہے جس میں حمد و نعت کا پہلو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (۵)۔ باشونو کے آگے کئی سابقوں کے ساتھ اہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں ��و الگ الگ نام دیا جاتا ہے ۔ آشور جان بھی اس ادب کی ایک مقبول صنف ہے جو نہ صرف ہردلعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(۶)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (۷)کہا جاتاہے اس میں ذیلی طورپر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔جیسے:۔ +ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ با لکل روئے گا نہیںبلکہ سوئے گا(۸)۔ +مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک حمدیہ مثنوی کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ +اللہیئے کا پورہ کوئی تہ سار غیر مہ حاجتو +اے مہ غفور الرحیم اوہ بو گنہگار اسوم +اگر کہ گنہگار تہ رحمتو امیدوار اسوم (۱۸) +سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ +چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاضرہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ +ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں ۔رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (۵۹)۔مترجم رحمت عزیزچترالی) +کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے ۔مگر جدید شاعری میںاب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور انکی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی ۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے ۔وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی ، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ ک�� بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے ۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں ۔ انکی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی ، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ان میں سے چند نام یہ ہیں پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔سبحان عالم ساغر کی غزل سے تین حمدیہ اشعارپیش ہیں۔وہ لکھتے ہیں:۔ +ہر دورا،ہر زمانہ جلوہ تہ نمایان شیر +طورا ، چاہ کنعانہ ، جلوہ تہ نمایان شیر +گمبو دیو خاموشیہ ، ہو رنگو چ ووریا +بلبلو ہے ترانہ ، جلوہ تہ نمایان شیر +زندہ کرے ماریس تو،ماری اجی زندہ کوس +بہار اوچے خزاں،جلوہ تہ نمایان شیر(۷۰) +ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا ، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ مترجم رحمت عزیز چترالی) +کھوار حمد نگاری میں صنفی اشتراک +کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (۳۶)۔ باشونو کو آگے کئی سابقوں کے ساتھاہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے جن میں آشور جان جیسی مقبول صنف بھی شامل ہے جو نہ صرف ہر لعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(۳۷)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (۳۸) کہا جاتاہے اس میں ذیلی طورپر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔جیسے:۔ +ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بلکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بلکل روئے گا نہیںبلکہ سوئے گا(۳۹)۔ +کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے ۔مگر جدید شاعری میںاب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور انکی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی ۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے ۔وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاع�� تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی ، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے ۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں ۔ انکی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی ، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ان میں سے چند نام یہ ہیں پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔سبحان عالم ساغر کی غزل سے سے ایک حمدپیش ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔ +ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ +بھی تو ہی کرے گا ، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے(۴۰)۔ مترجم رحمت عزیز چترالی) +نظم کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی کام ہوا ہے اور اس کام کو نثر سے زیادہ وقیع کہا جا سکتا ہے۔ اس میں اگر غزل کے علاوہ تمام قسم کی شاعری کو شامل کر لیا جائے تو یہ کام قابل فخر ہے۔ اس میدان میں مثنوی کے حوالے سے اتالیق محمد شکور غریب کا نام ابتدائی حوالہ ہے جبکہ مثنوی کی صنف قدیم ہے ۔ قطعات کے حوالے سے بھی اتالیق کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرز امحمدسیئر کو بھی مثنوی اور نظم کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے جبین، آمان ، زیارت خان زیرک گل اعظم خان وغیرہ کو گیتوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے جدید ادب میں نظم کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی ،سلطان علی، صالع نظام، مبارک خان ، عبدالولی خان عابد ، محمد عرفان عرفان، محمد جناح الدین پروانہ، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا اور سیلم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔رحمت عزیز چترالی کی حمدیہ نظم کا ترجمہ پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ +ترجمہ: اے میرے پرودگار! یہ زمین تیری تخلیق ہے اور آسمان بھی تیری ہی تخلیق ہے۔ یہ چرند،پرند،حیوان اور انسان بھی تیری تخلیق ہیں۔ تمام روحوں کو بھی تو نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہمارے جسموں میںیہ جانیں بھی تیری ہی تخلیق ہیں یہ ناشکرا انسان پھر اس آیت کا مطب نہیں سمجھتا اور تیرا شکر ادا نہیں کرتا کہا’’تم انپے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘(۴۱)مترجم( رحمت عزیز چترالی) +مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونک�� رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک مثنوی نما حمد کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ +سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاضرہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ +ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں ۔رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (۴۳)۔مترجم رحمت عزیزچترالی +تعظیم و تکریم کی حقیقت کیا ہے۔ اور اس پر ثقافت کے کیا اثرات مرتب ہوءے ہیں۔ + + +یہ صفحہ درج ذیل ربط سے ملاحظہ فرمائیے + + +میرا نام زوالقرنین انصاری اور نک زین هے. میں ایک ویب ڈیزاینر ہوں اور مجھے ذاتی طور پہ وکی کی یہ سروس بہت اچھی لگی ہے. +میری کوشش ہے کہ میں بھی اس سروس میں اپنا کردار ضرور ادا کروں اور اردو کی ترویج کے لئے حتی الامکان سعی کروں. +میرا رابطہ درج ذیل ہے + + +وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ (207) +اورلوگوں میں وہ بھى ہیں جو اپنے نفس کو مرضى پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور الله اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے +1_ لوگوں میں بعض ایسے انسان بھى ہیں جو اپنى جان فداکر کے اللہ تعالى کى رضا کو خرید لیتے ہیں_ +ومن الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +2_ اللہ تعالى کى رضا اور خوشنودى کیلئے جان قربان کر نا بہت ہى قابل قدر ہے_ +ومن الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +3_ راہ خدا میں ایثار کرنے والوں کا بلند ترین ہدف +خدا کى رضا ہى ہونا چاہیے_ +و من الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +خداوند عالم کا ان لوگوں کى تعریف کرنا جو اپنى جانیں فدا کر کے اس کى رضا حاصل کرتے ہیں_ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کى رضا ہى بلند ترین ہدف ہونا چاہے +4_ ان لوگوں کے مقابلے میں کہ جو ذاتى مفادات کى خاطر آباد کھیتوں اور پروان چڑھتى نسلوں کو ویران کر دیتے ہیں بعض ایسے لوگ بھى ہیں جو الہى اقدار کى حفاظت کى خاطر اپنى جانیں فدا کر دیتے ہیں_ +لیفسد الحرث و النسل و من الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +5_ رضائے خدا کے علاوہ کسى اور چیز کیلئے جان دینا اسکى قدر و قیمت کو کھودینے کے مترادف ہے +و من الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +خدا ان لوگوں کى تعریف کر رہا ہے جو اس کى رضا کى خاطر جان دیتے ہیں نہ کہ کسى اور چیز کیلئے جیسے جنت کا شوق یا جہنم کا خوف_ +6_ انسان کى جان رضائے الہى کے حصول کا ایک ذریعہ ہے_ +و من الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +7_ مومنین کو رضائے خدا کے حصول کیلئے جان پر کھیل جانے کى ترغیب دلائی گئی ہے_ +و من الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله +چونکہ مذکورہ بالا آیت ایسے ہى لوگوں کى مدح کر رہى ہے لہذا اس سے ایسى تشویق و ترغیب کا استفادہ ہوتا ہے_ +8_ معاشرے میں تباہى و فساد کا مقابلہ کرنے کیلئے ایثار کرنے والے مومنین کا وجود ، خدا کے اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہونے کى نشانیوں میں سے ہے_ +و اذا تولى سعى فى الارض و من الناس من یشرى نفسہ ابتغا ء مرضات الله و الله رؤف بالعباد +9_ ایثار و قربانى خداوند عالم کى رافت و رحمت کا باعث ہے_ +و من الناس من یشرى و الله رؤف بالعباد +10_انسانوں کے درمیان گہرا فرق اور ان کى نظریہ کائنات، عقیدہ، عمل اور اخلاق کے لحاظ سے تقسیم +و من الناس من یقول ربنا اتنا من یعجبک من یشری +11_ خداوند متعال اپنے بندوں پر مہربان اور رؤف ہے +12_ اپنى رضا کے مقابلے میں مومنین کى جانیں خرید کر خدا تعالى کا ان پر مہربان ہونا_ +و من الناس و الله رؤف بالعباد +13_ زندگى کى آخرى سانسوں تک ظلم و فساد اور ظالم حکمرانوں کے خلاف نبردآزمائی ضرورى ہے_ +و من الناس من یعجبک و اذا تولى سعى فى الارض و من الناس من یشرى نفسہ +چونکہ مفسد حکمرانوں کى برى خصلتیں بیان کرتے ہى ، فوراً ان لوگوں کى تعریف و توصیف کى گئی ہے جو راہ خدا میں اپنى جان فدا کر دیتے ہیں، اس سے مندرجہ بالا مفہوم حاصل کیا جا سکتا ہے_ +14_ حضرت امیرالمومنین على ابن ابى طالب (ع) نے شب ہجرت نبى اکرم(ص) کے بستر پر سو کر خود کو خطرے میں ڈال دیا اور پیغمبر اکرم(ص) کى سلامتى اوررضائے خدا کو خرید لیا_ +و من الناس من یشرى نفسہ +امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں، خداوند متعال کا یہ ارشاد و من الناس من یشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله والله رؤف بالعباد فانہا نزلت فى على بن ابیطالب(ع) حین بذل نفسہ لله و لرسولہ لیلة اضطجع على فراش رسول الله (ص) لما طلبتہ کفار قریش(5) یہ آیت''ومن الناس من یشرى حضرت على (ع) کى شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ (ع) نے اپنى جان کا نذرانہ خدا اور اس کے رسول (ص) کے لیئے پیش کیا، یہ اس رات کا واقعہ ہے کہ جب کفار قریش نے رسول اکرم (ص) کى جان لینا چاہى تو حضرت على (ع) آپ (ص) کے بستر پر سوگئے_ +صدر اسلام کى تاریخ 14 +امیر المؤمنین (ع) کاایثار و قربانى 14; امیر المؤمنین (ع ع) کے فضائل 14 +ایثار کااجر 6; ایثار کى ترغیب7;ایثار کى قدر و قیمت 2، 5; ایثار کے اثرات 9; ایثار کے مراتب 1، 4، 6، 12، 13 ;خدا کى راہ میں ایثار3 +رشد و ہدایت کے اسباب 4، 7 +مومنین کا ایثار 7، 8; مومنین کے فضائل 12 +ظالم حکمرانوں کے خلاف نبرد آزمائی13; فساد کے خلاف نبرد آزمائی 8، 13 + + +اسلام میں مناظرے کی اہمیت +اسلامی مقاصدکی پیشرفت میں اس کاکردار +حقائق کوسمجھنے اورواقعات کوجاننے کے لئے مناظرہ ومباحثہ کرناخصوصادورحاضرمیں جب کہ دامن علم وسیع ہوچکاہے کسی مہذب مقصدتک پہنچنے کاقوی ترین راستہ ہے۔ اگربالفرض تعصب اورہٹ دھرمی کے سبب اسے قبول نہ بھی کیاجائے توکم ازکم اتمام حجت کے لئے توکافی ہے کیونکہ یہ بات توواضح ہے کہ تلوارکے زورپرزبردستی اپنے عقیدے کودوسروں پرمسلط نہیں کیاجاسکتا اوراگرمسلط کربھی دیاجائے تووہ بے بنیاد اورعارضی ثابت ہوتاہے۔ +خدانے بھی قرآن مجیدمیں اس موضوع کوکافی اہمیت دی ہے اوراسے اصول قراردے کرچارمواقع پراپنے پیغمبرۖ سے ارشادفرمایاہے: +قل ھاتوبرھانکم ان کنتم صادقین(سورہ ربقرہ آیت١١١)۔ +''اے نبیۖ! آپ مخالفین سے کہہ دیں کہ اگرتم لوگ سچ کہتے ہوتودلیل لے آؤ''۔ +لہذااسلام جب دوسروں کودلیل وبرہان اورمنطق کی دعوت دیتاہے توضروری ہے کہ خودبھی دلیل اوراستدلال کے ذریعے اپنی بات کوثابت کرے۔مزید پیغمبراکرمۖ کومخاطب کرتے ہوئے ارشاداگ +ادع الی سبیلک ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی احسن(سورہ نحل آیت١٢٥)۔ +''اے رسول ۖ! آپ ان لوگوں کواپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت کے ذریعے بلائیں اوران سے مناظرہ بھی کریں اس طریقے سے جو(لوگوں کے نزدیک)سب سے اچھاطریقہ ہے''۔ +اس آیت میں حکمت سے مرادوہ محکم ترین راستہ ہے جوعلم وعقل پرمبنی ہواور''موعظہ حسنہ''سے مرادوہ معنوی نصیحتیں ہیں جوسننے والوں کے احساسات کوحق کی طرف مائل کرتی ہیں۔ البتہ بعض لوگ سخت اورہٹ دھرم ہوتے ہیں جوہرچیزسے انکارکرتے ہیں اوراپنے باطل افکاروخیالات کوہرطرح سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذاایسے لوگوں کووعظ ونصیحت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان سے مقابلہ کیاجائے لیکن یہ مقابلہ حسن اخلاق اورشائستہ طریقے سے ہوجس میں سچ اورحسن اخلاق پایاجائے۔ لہذافن مناظرہ میں ضروری ہے کہ مناظرہ کرنے والے مناظرے کے طورطریقے سے خوب آگاہی رکھتے ہوں تاکہ جہاں بحث ومناظرے کی ضرورت محسوس کی جائے وہاں بحث ومناظرہ کیاجائے۔ جیساکہ پیغمبرۖاکرم نے مختلف حالات میں تین طریقوں کااستعمال کیا اوراس طریقے سے مختلف افرادکواسلام کی دعوت دی۔ +امام جعفرصادق علیہ السلام نے چارہزارشاگردوں کی تربیت کی اوران کو مختلف علوم کاماہربنایاجن میں مناظرہ اوردیگر علوم شامل تھے۔ چنانچہ جب کوئی مخالف علمی مذاکرہ کرنے اوربحث کرنے آتااورامام کے پاس وقت نہ ہوتاتوآپ اپنے شاگردوں میں ہی سے کسی کوحکم دیتے کہ وہ اس آنے والے سے بحث ومناظرہ کرے۔ ابن ابی العوجاء دیصانی اورابن مقنع جیسے دنیاپرست اورمنکرخدانے بارہاامام صادق اوران کے شاگردوں سے مناظرہ کیا۔ امام ان کی باتوں کوسنتے اوراس کاحرف بہ حرف جواب دیتے تھے یہاں تک کہ ابن ابی العوجاء کہتاہے کہ امام صادق پہلے ہم سے کہتے تھے کہ تم لوگوں کے پا س جوبھی دلیل ہولے آؤاورجب ہم اپنی تمام دلیلوں کوآزادنہ طورپربیان کردیتے توامام ان دلیلوں کوخاموشی سے سنتے ہم یہ گمان کرتے کہ شایدہم نے امام کومغلوب کردیاہے لیکن جب امام کی باری آتی توآپ بڑی محبت اورنرم لہجے کے ساتھ اس طرح ہمارے ایک ایک سوال کاجواب دیتے کہ ہمارے لئے مزیدکسی قسم کے بہانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی۔ +قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم کے مناظروں کاذکرکیاگیاہے۔ +قرآن حضرت ابراہیم کے بعض مناظرات کاتذکرہ کرکے بتلاناچاہتاہے کہ حضرت ابراہیم کے پیروکاراپنے اجتماعی،سیاسی اوراعتقادی مسائل میں غافل نہیں تھے بلکہ مختلف محاذوں میں بالجملہ تہذیب کے محاذمیں دلائل اوراپنی منطقی گفتگوسے دین خداکادفاع کیاکرتے تھے۔ مثلاحضرت ابراہیم کی بت شکنی کے واقعات کے بارے میں قرآن میں ملتاہے کہ انہوں نے تمام بتوں کوتوڑدیاتھا لیکن بڑے بت کوباقی رکھا،جب نمرودکے دربارمیں ان سے پوچھاگیاکہ تم نے بتوں کوکیوں توڑا؟توآپ جواب میں فرماتے ہیں: +بل فعلہ کبیرھم فاسئلوان کانواینطقون(سورہ انبیاء آیت٦٢)۔ +یہ کام بڑے بت کاہے اگروہ بت بول سکتے ہیں توان سے پوچھ لو''۔ +حضرت ابراہیم نے اس جواب میں درحقیقت بت پرستوں کے اعتقادکے مسئلے کوموضوع قراردیتے ہوئے اس استدلال کوان کے سامنے پیش کیاہے گویا ان کومنہ توڑجواب دیدیاہے۔ بت پرست کہنے لگے کہ تم خودجانتے ہوکہ یہ بت بول نہیں سکتے۔ حضرت ابراہیم نے اس موقع کوغنیمت سمجھتے ہوئے کہاتو کیوں ان بتوں کی پرستش کرتے ہوجوکسی قسم کاکوئی نفع ونقصان نہیں رکھتے اورنہ کسی کام پران کوکوئی قدرت حاصل ہے۔ افسوس ہے تم لوگوں پراورتمہارے معبودوں پرکیاتم لوگ اتنی سی بات کوبھی نہیں سمجھتے۔ +دوسری جگہ قرآن حضرت ابراہیم کے ایک اورمناظر�� کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نمروداورحضرت ابراہیم کے درمیان گفتکوکاتذکرکرتاہے۔ جس میں نمرود نے حضرت ابراہیم سے سوال کیاکہ آپ کاخداکون ہے؟ حضرت ابراہیم نے جواب دیاکہ میںاس خداکوسجدہ کرتاہوںجس کے ہاتھ میں موت وحیات ہے نمرودجوحیلہ وبہانے سے سادہ لوح افراد کواپنے اردگرجمع کئے ہوئے تھاجب اس نے دیکھاکہ لوگوں پرحضرت ابراہیم کی بات کااثرہورہاہے توچلایاکہ اے نادان لوگو! قدرت تومجھے بھی حاصل ہے میں زندہ کرتاہوں اورموت دیتاہوں کیاتم لوگ نہیں دیکھتے کہ سزائے موت کے مجرم کوآزادکردیتا ہوں اورجس کوسزانہیں ہوتی اگرچاہوں تواس کوقتل کردیتاہوں اورپھراسی لمحے نمرودنے ایک مجرم کوجوسزائے موت کاحکم سن چکاتھا حکم دے کرآزادکردیااور وہ مجرم جس کے لئے سزائے موت مقررنہیں تھی اسے سزائے موت دیدی۔ حضرت ابراہیم نے نمرودکی ان غلط باتوں کے مدمقابل اپنے استدلال کوجاری رکھتے ہوئے کہاکہ صرف موت اورحیات ہی خداکی قدرت میں نہیں ہے بلکہ تمام کائنات کی تمام مخلوق اس کی تابع ہے اسی بناء پرمیراپروردگارسورج کومشرق سے نکالتاہے اورمغرب میں غروب کرتاہے اگرتم سچ کہتے ہوکہ لوگوں کے خداہوتوذراسورج کومغرب سے نکال دواورمشرق میں غروب کرکے دکھاؤقرآن کہتاہے: +فبھت الذی کفرواللہ یھدی القوم الظالمین(سورہ بقرہ آیت٣٥)۔حضرت ابراہیم کی اس بات پروہ کافرہکابکارہ گیااورخداہرگزظالموں کی ہدایت نہیں کرتا''۔ +یہ تھیں حضرت ابراہیم کے مناظروں کی دومثالیں جنہیں حضرت ابراہیم نے مخالفین کے سامنے پیش کرکے حجت کوتمام کیا۔ قرآن میں مخالفوں سے حضرت ابراہیم کے جن مناظروں کاتذکرہ ہواہے وہ سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مناظرے میں صحیح طریقے کواپنایاجاناچاہئے اورتہذیبی آثارمیں ہونے والی سازشوں کے مقابلے میں(مناسب)دلائل اورصحیح مناظروں سے مسلح ہوناچاہئے تاکہ وقت پڑنے پرحق کادفاع کیاجاسکے،ارشادہوتاہے: +''اے ایمان والو!اپنی حفاظت کے ذرائع کواچھی طرح سے لے لو''۔ +یہ آیت اس بات کوبیان کرتی ہے کہ کہ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ تمام حالات میں اپنے آپ کودشمنوں اورسازش کرنے والوں سے مقابلے کے لئے تیاررکھیں ان مواردمیں سے علمی وادبی آثاربھی ہیں کیوںکہ ان کے استعمال کے مواقع دوسری تمام چیزوں سے زیادہ گہرے ہیں اوریہ بات بھی واضح ہے کہ فکروتہذیب اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں جب مناظرہ،بحث اورعلمی تحقیق اوردلائل وغیرہ کے طریقوں سے بہترطورپر آشنائی حاصل کی جائے اوراس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام چیزوں سے آشنائی اوربہرہ مندہوکرمناسب اوقات میں حق کادفاع کیاجاسکے۔ +حضرت امام صادق مخالفین سے مناظرے کی ضرورت کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں: +خاصموھم وبینولھم الھدی الذی انتم علیہ وبینولھم ضلالتھمووباھلوافی علی علیہ السلام(بحارج١٠ص٤٥٢)۔ +''اپنے مخالفوں سے بحث اورمقابلہ کروجس راستے کے تم راہی ہواس ہدایت کے راستے کولوگوں کے لئے بیان کرواورجن راستوں سے گمراہ ہوئے ہوانہیں ان لوگوں کے لئے واضح کرواورحضرت علی علیہ السلام کی حقانیت کے سلسلے میں ان سے مباہلہ کرو۔ یعنی باطل کے طرفداروں سے نفرت اورخداسے ان کے مصیبت وبلامیں مبتلاء ہونے کی درخواست کرو''۔ +اسی بناء پرپیغمبراسلامۖ اورہمارے اماموں علیہم السلام اورمذہب تشیع کے علماء نے مناسب موقع پربحث،مقابلے اورقانع کرنے والے شواہدودلائل کے ذریعے مناظرات کئے اوراس کے ذریعے بہت سے لوگوں کوہدایت کے راستوں کی طرف راہنمائی کی اورگمراہیوں سے نجات دلائی۔ +امام باقرارشادفرماتے ہیں: علماء شیعتنا مرابطون فی الثغرالذی یلی ابلیس وعفاریتہ یمنعونھم عن الخروج علی ضعفاء شیعتناوعن ان یتسلط علیھم ابلیس وشیعتہ النواصب الافمن انتصب کان افضل ممن جاھدالروم والترک والخزرالف الف مرة لانہ یدفع عن ادیان محبینا وذلک یدفع عن ابدانھم(احتجاج طبرسی ج١،ص١٠٥)۔ +''ہمارے پیروکارعلماء ان سرحدی فوجوں کی مانندہیں جوابلیس اوراس کی فوج کے سامنے صف بستہ کھڑے ہیں اورہمارے شیعوں کوجب ابلیس اورا س کی فوج کے حملہ کے موقع پراپنابچاؤکرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ان سے بچاتے ہیں اورابلیس کے تسلط اوراس کے ناصبی پیروکاروں سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ آگاہ رہواے شیعہ صاحبان علم جودین اورمذہب وملت کے دفاع میںاپناقیمتی وقت صرف کرتے ہیں ان کی اہمیت ان سپاہیوں سے کئی درجہ بالاترہے جواپنے ملک ووطن اوراسلام کے دفاع میں کفاراوردشمنان اسلام سے جنگ کرتے ہیں اورشہیدہوتے ہیں اورہمارے دوستوں کے دین کے دفاع کرنے ولے ہیں جب کہ مجاہدصرف اپنے ملک کی جغرافیائی حدودکے محافظ ہوتے ہیں''۔ +شیخ محمودشلتوت مصری سے گفتگو +الازہریونیورسٹی مصرکے بلندپایہ استاداورمفتی شیخ محمودشلتوت جواہل سنت کے سربرآوردہ علماء میں سے تھے اپنے ایک انٹرویوکے دوران کہتے ہیں کہ: +''تمام پہلوؤں کومدنظررکھتے ہوئے انصاف کی بنیادوں پرکوشش کرنے والاشخص جب اسلام کے بارے میں تحقیق کرتاہے تواسے شیعہ مذہب کی حقانیت پرمبنی ایسے بہت سے مواردکاسامناہوتاہے جس کی بناء پراسے یہ محسوس ہوتاہے کہ یہ دلائل بہت مضبوط ہیں اورشریعت اسلامی کے مقاصداورمعاشرے اورنسلوں کی تربیت کے لئے بہت سازگارہیں اسطرح یہ چیزیں انسان کوشیعہ مذہب اوراس کی ہدایات کی طرف مائل کردیتی ہیں''۔ +پھرچندمعاشرتی اورخاندانی مسائل کونمونہ کے طورپریہ کہتے ہوئے ذکرکیاکہ: +''جب بھی ان امورمیں سے مجھ سے کوئی سوال کرتاہے تومیں شیعوں کے فتاوی کی بنیادوں پران مسائل کاجواب دیتاہوں اخبارالیقظہ بغدادشمارہ٩٦۔٧ شعبان)۔ +قاہرہ کی یونیورسٹی الازہرکے ایک ایسے مقبول اوربڑے استادکااعتراف بہت پرامیداورتوجہ کوجلب کرنے والاہے کیونکہ وہ شیعہ مذہب کودلیل وبرہان کی بنیاد پراستواراوراسلام کے پا ک وصاف مقاصدکے موافق سمجھتے ہیں۔ آگے چل کرمذہب شیعہ کے صحیح ہونے کے بارے میں ان کے تاریخی فقرے اورقاہرہ کے بزرگ علماؤں کے ذریعے ان کی تائیدکے بارے میں مناظرہ نمبر٨٥میں تذکرہ کیاجائے گا۔ +زیرنظرکتاب میں ان مناظرات کانمونہ کے طورپرذکرگیاگیاہے جوپیشوایان اسلام پیغمبراکرمۖ و ائمہ اطہارعلیہم السلام اورعلماء کرام نے ماضی اورحال میں منکر اورنادان افردادسے مناسب رویے کواپنا نے کے طریقوں کی عکاسی کرتے ہیں اورہمیں سکھاتے ہیں کہ کس طرح سے دین حق کادفاع کیاجائے۔ دلائل واستدلال کافن اورصحیح مناظرہ،افرادکومتوجہ کرنے یاانہیں قانع کرنے میں بہت مؤثرہے اوران طریقوں کوسیکھانابہت ضروی ہے ہمیں چاہئے کہ مختلف مواقعوں پرگمراہ اورنادان لوگوں کی ہدایت کے لئے کمربستہ رہیں۔ +اس کتاب کودوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔ +حصہ اول میں حضرت میں حضرت خاتم النبینۖ،ائمہ طاہرین اوران کے شاگردوں کے مناظرے ہیں جوانہوں نے مختلف لوگوں کے ساتھ اسلام کے مختلف امور کے بارے میں کئے۔ +حصہ دوم میں معروف اورمحقق علماء اسلام کے مختلف گروہوں کے ساتھ مناظرے ہیں مجموعایہ کتاب ١٠١مناظروں پرمشمل ہے ۔امیدہے کہ اس مجموعہ کے ذریعے مناظرہ کاطری��ہ اوراسلامی مقاصدکی پہچان کی جانب پیش رفت میںمددملے گی اورہم علمی وادی میں ہونے والی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ +پیغمبراسلام کے مناظروں کے چندنمونے +پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کااسلام مخالف پانچ مختلف مذاہب کے گروہوں سے مناظرہ جن میں سے ہرگروہ پانچ افرادپرمشتمل تھا۔مجموعی طورپر٢٥ افرادتھے جنہوں نے آپس میں یہ طے کیاکہ پیغمبراسلام کی خدمت میں پہنچ کرمناظرہ کیاجائے،یہ پانچوں گروہ مدینہ طیبہ میں پیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اورآپۖ کے اطراف میں بیٹھ گئے۔پیغمبراسلام ۖ نے بڑی خوش اخلاقی سے انہیں بحث شروع کرنے کی اجازت دی۔ +یہودیوں کے گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ ہے کہ حضرت عزیر (عزیرحضرت موسی کے بعدآنے والے بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ہیں)خداکے بیٹے ہیں لہذاہم اس موضوع پرآپ سے مناظرہ کرنے آئے ہیں اگراس موضوع پرحق ہمارے ساتھ ہوااورآپ ہمارے ہم عقیدہ ہوگئے توہم آپ پرسبقت لے جانے والوں میں سے ہوں گے اوراگرآپ ہے ہمارے ساتھ موافقت نہ کی توآپ کے ساتھ مخالفت اوردشمنی رکھنے پرمجبورہوجائیں گے۔ +عیسائیوں کے گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی خداکے بیٹے ہیں اورخدانے ان کے ساتھ اتحادکیاہے۔لہذاہم آپ سے مذاکرہ کرنے آئے ہیں اگرآپ نے ہماری پیروی کی اورہمارے عقیدے سے متفق ہوگئے توہم آپ پرسبقت لے جائیں گے ورنہ ہم آپ کی مخالفت اورآپ سے دشمنی کرنے پرمجبورہوجائیں گے۔ +مادہ پرست گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ ہے کہاس دنیاکی ابتداء اورانتہا نہیں ہے بلکہ یہ دنیاہمیشہ سے ہے۔لہذااس موضوع پرہم آپ سے بحث کرنے آئے ہیں۔اگرہم کامیاب ہوگئے تومعلوم ہوجائے گاکہ حق ہمارے ساتھ ہے اوراگرآپ نے ہمارے ساتھ اتفاق نہ کیاتوہم آپ کی مخالفت کریں گے۔ +دوئی پرست گروہ نے کہا:کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ اس دنیاکوپالنے والے اورچلانے والے دوہیں ایک پروردگارنورہے ایک پروردگارظلمت ہے۔ لہذااس سلسلے میں ہم آپ سے مناظرہ کرنے آئے ہیں تاکہ آپ بھی اس مسئلے میں ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں۔اگرآپ نے ہمارے ساتھ موافقت نہ کی توہم آپ کی مخالفت پرآمادہ ہوجائیں گے۔ +بت پرست گروہ نے کہا:ہم اعتقادرکھتے ہیں کہ بت ہمارے خداہیں۔لہذاآپ سے بحث کرنے آئے ہیں تاکہ آپ کوبھی اس مسئلے میں قائل کریں۔ اگرآپ نے ہماری بات نہ مانی توہم آپ کی مخالفت کریں گے۔ +پیغمبراسلام ۖ کے جوابات: پیغمبراسلامۖ نے پہلے سب کوایک عام سامکمل جواب دیاکہ تم سب نے اپنے اپنے عقائدکااظہارکیااب میری باری ہے کہ پہلے میں اپنے مذہب کااظہارکروں۔لہذاسنو!میں خدائے یکتاوحدہ لاشریک پراعتقادرکھتاہوں اوراس کے علاوہ ہرخداکاانکارکرتاہوں،خدائے واحدنے مجھے اس کائنات والوں کے لئے اپناپیغمبربناکربھیجاہے،میں رحمت خداکی خوشخبری دینے والااوراس کے عذاب سے ڈرانے والاہوں،میںدنیاوالوں پرخداکی طرف سے حدت ہوں اورخداہی مجھ کومیرے مخالفین اوردشمنوں کی اذیتوں سے بچانے والاہے۔پھرپیغمبراسلامۖ ترتیب کے ساتھ ہرگروہ کی طرف متوجہ ہوئے اورہرایک کوعلیحدہ علیحدہ جواب دیناشروع کیا۔پہلامناظرہ یہودیوں کے گروہ کے ساتھ تھاجن کے ساتھ اس طرح سے مناظرہ ہوا: +پیغمبراکرمۖ :کیاتم چاہتے ہوکہ میںبغیردلیل کے تمہاری باتوں کوقبول کرلوں؟ +یہودی گروہ:(دلیل یہ ہے کہ)چونکہ تورات بالکل ختم ہوچکی تھی کوئی بھی اسے زندہ کرنے والانہ تھااورکیونکہ حضرت عزیر نے اسے زندہ کیااس وجہ سے ہم انہیں خداکابیٹاماننے لگے۔ +پیغمبراکرمۖ :اگرحضرت عزیر کوخداکابیٹاماننے کے لئے تم لوگوں کے پاس یہی دلیل ہے توحضرت موسی اس کے زیادہ مستحق ہیں اس لئے کہ وہ تورات کولانے والے ہیں اورصاحب معجزات بھی ہیں ایسے معجزات جن کااعتراف آپ لوگ بھی کرتے ہیں توپھرکیوں تم لوگ حضرت موسی کے بارے میں ایسانہیں کہتے جن کامقام ان سے بھی ا علی تھا۔دوسری طرف اگرتم خداکابیٹاہونادنیاوی باپ بیٹے کی طرح تصورکرتے ہوکہ وہ خداسے ہوئے ہیں تواس صورت میں گویاتم دیگرمو جودات کی طرح خداکوبھی ایک مادی اورجسمانی اورمحدودموجودقراردیتے ہوجس کی بناپریہ لازم آئے گاکہ خداکابھی ایک پروردگارتصورکیاجائے اوراسے کسی خالق کامحتاج سمجھاجائے گا۔ +یہودی گروہ: ہمارامقصدحضرت عزیر کے خداکے بیٹے ہونے کاوہ نہیں ہے جوآپ نے فرمایاہے کیونکہ اس طرح کہناسراسرکفراورجہالت ہے بلکہ ہمارامقصد فقط ان کی شرافت واحترام ہے جس طرح ہمارے بعض علماء اپنے ممتازشاگردوں کواپنابیٹاکہتے ہیں۔یہاں کوئی باپ بیٹے کی رشتہ داری نہیں ہوتی،لہذا خداوندعالم نے بھی حضرت عزیر کوان کے احترام میں اپنابیٹاکہاہے۔لہذاہم بھی اسی بناپران کوخداکابیٹاکہتے ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ تمہاراجواب اب بھی وہی ہے جومیں نے پہلے دیاہے کہ اگرحضرت عزیر کوخداکابیٹاماننے کی یہی وجہ ہے توضروری ہے کہ حضرت موسی جوحضرت عزیر سے بلندترمقام رکھتے ہیں خداکابیٹاماناجائے کبھی کبھارخدالوگوں کوان کے دلائل کے ذریعے قانع کرتاہے آپ لوگوںکی دلیل اس بات کوظاہر کرتی ہے کہ حضرت موسی کے بارے میں حضرت عزیر سے بڑھ کرکہیں،آپ نے مثال دی اورکہاکہ ایک ایسااستادجواپنے شاگردکے ساتھ کسی قسم کارشتہ نہیں رکھتا اس کے احترام میں کہتاہے کہ اے میرے بیٹے،تواس قسم کے جملے اس کی شرافت واحترام کوظاہرکرتے ہیں جس کااحترام زیادہ ہوگااس کی شان میں اتنے ہی زیباالفاظ استعمال کئے جائیں گے۔توپھرآپ لوگوں کے نزدیک یہ بھی رواہوناچاہئے کہ موسی خداکے بیٹے یابابھائی ہیں کیونکہ موسی کامقام عزیر سے بلندہے اب میں پوچھتاہوں کہ آیاآپ لوگ مناسب سمجھتے ہیں کہ حضرت موسی کوبھی خداکابیٹایابھائی قراردیاجائے اورخداحضرت موسی کواحترامااپنابیٹایابھائی یااستاد یاراہنماقراردے؟یہودی جواب نہ دے سکے اورحیران وپریشانی کے عالم میں کہنے لگے ہمیں اتنی مہلت دیں کہ ہم تحقیق کریں۔ +پیغمبراکرمۖ :اگرآپ لوگ اس مسئلے میں خالص وپاک دل اورانصاف کے ساتھ غوروفکرکریں توخداضرورحقیقت کی جانب آپ کی راہنمائی کرے گا۔ +دوسرامناظرہ مسیحی گروہ کے ساتھ: +پیغمبراکرمۖ اب مسیحی گروہ کی طرف متوجہ ہوئے اورکہاکہ یہ جوآپ لوگ کہتے ہیں کہ خدانے قدیم میں اپنے بیٹے حضرت مسیح کے ساتھ اتحادکیاہے اس سے آپ کی کیامرادہے؟آیااس سے آپ لوگوں کی مرادیہ ہے کہ خداوندعالم نے جوکہ قدیم ہے اپنے درجے سے نیچے آکرایک حادث وجود(یعنی پیداہونے والے)کے ساتھ اتحادکیااورموجودبن گیا،یااس کے برخلاف حضرت عیسی جوایک حادث اورمحدودموجودہیں ترقی کرکے پروردگارقدیم کے ساتھ وجود واحد بن گئے،یااتحادسے آپ لوگوں کی مرادحضرت عیسی کااحترام اورشرافت ہے اگرپہلاقول آپ لوگوں کاموردنظرہے یعنی خدااپنے قدیم وجودسے تبدیل ہوکر وجودحادث بن گیاتویہ محال ہے کیونکہ انسانی عقل اس بات کوقبول نہیں کرتی کہ محدوداورازل سے موجودہونے والاوجوددونوں ایک بن جائیں اوراگر دوسرے قول کوقبول کیاجائے تووہ بھی محال ہے کیونکہ عقل کی نظرمیںایک محدوداورحادث چیزایک لامحدوداورازلی چیزمیں تبدیل نہیں ہوسکتی اوراگرت��سرے قول کوقبول کرلیاجائے کہ حضرت عیسی دوسرے بندوں کی طرح حادث ہیں لیکن خداکے نزدیک لائق احترام ہیں اس صورت میں بھی خدااورعیسی کی برابری اوراتحاد قابل قبول نہیں ہوگی۔ +مسیحی گروہ:کیونکہ خدانے حضرت عیسی کوبہت سے امتیازات دئیے ہیںاورمعجزات اورحیرت انگیزکام کرنے کااختیاردیاہے اسی وجہ سے انہیں اپنے بیٹے سے تعبیرکیاہے اوران کاخداکابیٹاہونااحترام کی وجہ سے ہے۔ +پیغمبراکرمۖ :آپ لوگوں نے سناکہ اسی قسم کی گفتگویہودی گروہ کے ساتھ بھی ہوچکی ہے جس کانتیجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے لوگ جومقام ومنزلت کے لحاظ سے حضرت عیسی سے بھی بالاترہیں انہیں(نعوذباللہ)خداکابیٹایااستادیابھائی ہوناچاہئے۔عیسائی گروہ کے پاس اس اعتراض کاکوئی جواب نہ تھااورنزدیک تھا کہ وہ اس بحث ومباحثہ سے خارج ہوجاتے مگران میں سے ایک نے آگے بڑھ کرکہاکہ کیاآپ حضرت ابراہیم خلیل کوخداکادوست نہیں سمجھتے؟ +پیغمبراکرمۖ :جی ہاں !سمجھتے ہیں۔ +مسیحی گروہ :پس اسی طرح ہم بھی حضرت عیسی کوخداکابیٹامانتے ہیں آپ کیوں ہمیں اس عقیدے سے منع کرتے ہیں؟ +پیغمبراکرمۖ ان دونوں القاب کاآپس میں فرق ہے کیونکہ لغت میں خلیل خلہ ذرہ کے وزن سے لیاگیاہے جس کے معنی غریبی اورمحتاجی کے ہیں۔ حضرت ابراہیم کیونکہ خداکی طرف زیادہ متوجہ رہتے تھے اورغیرخداسے بالکل بے نیازہوکراپنے آپ کوصرف خداکامحتاج سمجھتے تھے۔لہذاخدانے ان کواپناخلیل قراردیا۔آپ لوگ خصوصیت کے ساتھ ان کے آگ میں ڈالے جانے کے واقعے کوملاحظہ کریں کہ جب انہیں منجنیق میں نمرودکے حکم سے ڈالاگیاتاکہ اس کی دہکائی ہوئی آگ میں پھینک دیاجائے،حضرت جبرئیل خداکی طرف سے ان کے پاس آئے اورفضامیں ان سے ملاقات کی اورکہنے لگے کہ میں خداکی طرف سے آیاہوں تاکہ آپ کی مددکروں،حضرت ابراہیم نے انہیں جواب دیاکہ میں خداکے علاوہ کسی سے مددنہیںچاہتااوراس کی مددمیرے لیے کافی ہے، وہ اچھامحافظ ہے۔لہذاخدانے اس وجہ سے ان کوخلیل یعنی خداکافقیرومحتاج بندہ قراردیااوراگرخلیل کے لفظ کو''خلہ''کے معنوں میں لیاجائے تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ پیدائش وحقیقت کے رموزواسرارسے آگاہی رکھنے والا۔لہذااس وجہ سے حضرت ابراہیم خلیل تھے۔یعنی حقیقت خلقت کے اسرارسے آگاہ تھے۔تواس طرح کے معنی مخلوق کوخالق سے تشبیہ دینے کاباعث نہیں بنتے۔اس صورت میں اگرحضرت ابراہیم اگرصرف خداکے محتاج نہ ہوتے تواسرار خلقت سے بھی آگاہ نہ ہوتے توخلیل بھی نہ ہوتے لیکن پیدائشی اوراولادی رشتوں میں ایک قسم کاذاتی پیونداوررابطہ ہوتاہے یہاں تک کہ اگرباپ بیٹے کواپنے سے دورکردے اوررابطہ توڑدے تب بھی وہ اس کابیٹاکہلائے گااوران کے درمیان باپ بیٹے کارشتہ باقی رہے گا۔اب اگرتمہاری دلیل یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کیونکہ خلیل خداہیں لہذاحضرت عیسی بھی خداکے بیٹے ہیں تولازم ہے کہ حضرت موسی کوبھی خداکابیٹاکہویااسی طرح کاجواب جویہودیوں کو دیاگیاکہ مقام کے اعتبارسے نسبتوں کورکھاجاتاہے توکہناپڑے گاکہ موسی بھی (نعوذباللہ)خداکے بیٹے یااستادیابھائی ہوں جبکہ تم ایسانہیں کہتے۔ایک عیسائی گویاہواکہ انجیل نام کی کتاب جوحضرت عیسی پرنازل ہوئی،اس میںلکھاہے کہ حضرت عیسی نے کہاکہ میں اپنے باپ اورتمہارے باپ کی طرف جارہاہوں لہذااس عبارت کی بناپرحضرت عیسی نے اپنے آپ کوخداکابیٹاظاہرکیاہے۔ +پیغمبراکرمۖ: اگرتم لوگ انجیل کومانتے ہوتوا س میں حضرت عیسی کے قول کے مطابق تمام لوگوں کوبھی خداکابیٹاماناجائے گاکیونکہ عیسی کہتے ہیں کہ میں اپنے اورتمہارے باپ کی طرف جارہاہوں''۔ اس جملے کامفہوم یہ ہے کہ میں بھی خداکابیٹاہوں اورتم بھی خداکے بیٹے ہودوسری طرف جوآپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کیونکہ شرافت واحترام کے لحاظ سے ایک خاص احترام رکھتے تھے لہذاخداوندعالم نے انہیں اپنے سے تعبیرکیاہے توتم لوگوں کی باتیں آپس میں تناقض رکھتی ہیں اس لئے کہ اس قول میں حضرت عیسی صرف اپنے آپ کوخداکابیٹانہیں کہتے بلکہ سب کوخداکابیٹاکہتے ہیں۔پتایہ چلاکہ نہ صرف یہ امتیازات دوسرے لوگوں میں موجودنہیں ہیں بلکہ حضرت عیسی بھی خداکے بیٹے نہیں ہیں۔آپ لوگ حضرت عیسی کے قول کونقل توکرتے ہیں مگران ہی کے خلاف بات کرتے ہیں،آپ لوگ باپ اوربیٹے کی نسبت کوجس کاتذکرہ حضرت عیسی کے کلام میں ہے غیرمعمولی معنی میں کیوں لیتے ہیں ہوسکتاہے کہ حضرت عیسی کی اس جملے سے مرادیہ ہوکہ میں حضرت آدم وحضرت نوح کی طرف جوسب کے باپ ہیں جارہاہوں جومعمول کے مطابق ہیں یعنی خدامجھے ان کی طرف لے جارہاہے۔آدم ونوح ہم سب کے باپ ہیں لہذااس جملے کے ظاہری اورحقیقی معنوں سے کیوں اختلاف کیاجائے اوردسرے معنی کاانتخاب کیاجائے۔ عیسائی گروہ نے جب اس قسم کامدلل جواب سناتوشرمندہ ہوکرکہنے لگے ہم نے آج تک کسی کونہیں دیکھاجس نے اتنی بھرپوری مہارت کے ساتھ ہم سے مقابلہ اوربحث کی ہوجیسی بحث آپ نے کی ہے۔لہذاہمیں مہلت دیں ہم اس سلسلے میں غوروفکرکریں۔ +تیسرامناظرہ مادہ پرستوں کے ساتھ: +اب مادہ پرست اورمنکرین خداکے گروہ کی باری آئی ۔پیغمبراسلامۖ ان کی طرف متوجہ ہوکربولے کہ آپ لوگ اعتقادرکھتے ہیں کہ موجودات کاکوئی آغاز نہیں ہے اوریہ ہمیشہ سے تھی اورہمیشہ رہے گی۔ +مادہ پرست: جی ہاں !یہی ہماراعقیدہ ہے کیونکہ نہ توہم نے موجودات کے آغازکودیکھااورنہ ہی اس کے فنااوراختتام کومشاہدہ کیا۔لہذاہمارااندازہ یہ ہے کہ موجودات دنیاہمیشہ سے ہیں اورہمیشہ رہیں گی۔ +پیغمبراکرمۖ: لیکن میں تم لوگوں سے سوال کرتاہوں کہ کیاتم لوگوں نے موجودات کے ہمیشہ باقی ہونے اوررہنے کواپنی آنکھوں سے دیکھاہے؟اگرتم کہوکہ ہم نے دیکھاہے توپھریہ لازم آئے گاکہ تمہاراجسم اپنی طاقت عقل وفکرکے ساتھ ازل سے ابدتک موجودہوتاکہ تمام موجودات کے ازل سے ابدتک ہونے کودیکھ سکے جبکہ ایسی بات غیرمحسوس اورخلاف واقع ہے اوردنیاکے عقلمندافرادآپ کے اس دعوے کوجھٹلادیں گے۔ +مادہ پرست: ہم اس طرح کاہرگزدعوی نہیں کرتے کہ اس کائنات کے قدیم اورموجودات کے ابدی ہونے کوہم نے دیکھاہے۔ +پیغمبراکرمۖ :تم لوگ یکطرفہ اندازفکراختیارنہ کروکیونکہ تم لوگ پہلے یہ کہہ چکے ہوکہ نہ ہم نے تمام موجودات کودیکھاہے اورنہ ہم نے ان کے ہمیشہ سے ہونے اورہمیشہ باقی رہنے اورنابودہونے کودیکھاہے توپھرکیوں یکطرفہ اندازمیں یہ فیصلہ کرتے ہواورکہتے ہوکہ کیونکہ ہم نے موجودات کے فناہونے اورحادث ہونے کونہیں دیکھالہذاوہ ازل سے ابدتک ہیں۔(پھرپیغمبراکرمۖ نے ان سے ایک سوال ایساکرلیاجس میں ان کے عقیدے کوباطل کرتے ہوئے اس کائنات کی وجودات کے حادث ہونے کوثابت کیاگیاتھا)۔ +پیغمبراکرمۖ: کیاتم لوگ دن ورات کوایک دوسرے کے بعدآتے جاتے ہوئے دیکھتے ہو؟۔ +پیغمبراکرمۖ: کیاتمہارے خیال میں اس بات کاامکان ہے کہ دن اوررات ایک جگہ جمع ہوجائیں اوران کی ترتیب الٹ جائے؟ +پیغمبراکرم: لہذایہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں جب ایک کاوقت ختم ہوجاتاہے تودوسرے کی بار آتی ہے۔ +پیغمبراکرمۖ: تم لوگوں نے بغیردیکھے دن اوررات کے حادث ہونے کااقرارکرلیاتوپھرخداکے منکرنہ بنو۔پھرپیغمبراکرم نے اپنی بات کواسی طرح جاری رکھتے ہوئے کہاکہ تمہارے عقیدے کے مطابق دن اوررات کی کوئی ابتداہے یانہیں یایہ ہمیشہ سے ہیں؟اگرتم لوگ یہ کہوکہ ان کی ابتداہے توہماری بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ یہ حادث ہیں اوراگرتم لوگ یہ کہوکہ ان کی ابتدانہیں ہے تویہ کہناپڑے گاکہ جس کاانجام ہے اس کاآغازنہیں ہوناچاہئے۔(جب دن اوررات کاانجام محدودہے توعقل کہتی ہے کہ ان کے آغازکوبھی محدودہوناچاہئے اوردن رات کے انجام کی محدودہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں اورایک دوسرے کے سپردکرتے ہیں یعنی ایک کے بعددوسراایک نئے طریقے سے وجودمیں آتاہے،پھرآپ نے فرمایاکہ: یہ جوآپ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے ہے اپنے اس عقیدے کواچھی طرح سے سمجھابھی ہے یانہیں؟ +مادہ پرست: جی ہاں ہم جانتے ہیں کہ ہم کیاکہہ رہے ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ کیاآپ لوگ اس بات کامشاہدہ کرتے ہیں کہاس دنیاکی تمام موجودات کاایک دوسرے سے تعلق ہے اوراپنے وجودوبقامیں ایک دوسرے کی محتاج ہیں جس طرح ایک عمارت میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سیمنٹ بجری لوہابلاک وغیرہ سے مل کرتعمیرہوتی ہے لہذایہ سب اس بلڈنگ کی بقامیں ایک دوسرے کی محتاج ہیں جب اس جہان کی بقاہرچیزاسی طرح سے ہے توانہیں کیونکرقدیم اورغیرمحدودکہاجاسکتاہے اوراگران اجزاء کوجوایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اورایک دوسرے کے محتاج ہیں اگرقدیم مان لیاجائے توحادث ہونے کی صورت میں انہیں کیاکیاجائے گا۔مادہ پرست جواب دینے سے قاصررہے اورحادث ہونے کے معنی کوبیان نہ کرسکے اس لئے کہ وہ جتناحادث ہونے کے معنی بیان کرناچاہتے اسی قدرموجودات کے قدیم ہونے کی بات کی مخالفت ہوتی اورمجبوراقدیمی موجودات حادث بن جاتیں لہذا وہ بہت پریشان ہوئے اورکہاکہ ہمیں مہلت دی جائے تاکہ اس سلسلے میں غوروفکرکرسکیں۔ +چوتھامناظرہ دوئی پرستوں کے ساتھ: +اب دوئی پرستوں اورمانویوں کی باری آئی جواس بات پراعتقادرکھتے تھے کہ اس دنیاکے دوخدااوردومدبرہیں ایک نوراوردوسراظلمت۔ +پیغمبراکرمۖ آپ لوگ کس بناپراس عقیدے کے قائل ہوئے؟ +دوئی پرست:کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کائنات دوچیزوں پرمشتمل ہے اچھائی اوربرائی،دوسری طرف یہ بات مسلم ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔اس بناپرہم معتقدہیں کہ ان کاپیداکرنے والابھی الگ الگ ہے کیونکہ ایک خالق دوعمل جوایک دوسرے کے ضدہوںانجام نہیں دے سکتا۔ مثلا محال ہے کہ آگ سردی کوایجادکرے لہذااس بناپرہم ثابت کرتے ہیں کہ اس جہان کے دوقدیم خالق ہیں ایک نیکیوں کوپیداکرنے والادوسراظلمت کوپیدا کرنے والا۔ +پیغمبراکرمۖ :کیاتم اس بات کی تصدیق کرتے ہوکہ اس دنیامیں کئی قسم کے رنگ پائے جاتے ہیں سیاہ،سفید،سرخ،زردوسبزوغیرہ ان میں سے ہرایک دوسرے کاالٹ ہے دورنگ ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں اسی طرح گرمی اورسردی کایک جگہ جمع ہونامحال ہے۔ +دوئی پرست: ہاں!ہم تصدیق کرتے ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ: اچھاتوآپ ہررنگ کے لئے ایک علیحدہ خداکوکیوں نہیں مانتے،کیاآپ ہی عقیدے کے مطابق ہرضدونقیض چیزکے لئے علیحدہ خالق ضروری نہیں ہے؟ پھرتمام متضاداشیاء کے بارے میں کیوںنہیں کہتے کہ ان سب کے خالق موجودہیں۔دوئی پرست پیغمبراکرمۖ کے اس منہ توڑجواب کوسن کرخاموش ہوگئے اورحیرت وفکرکے سمندرمیں ڈوب گئے۔پیغمبراکرم نے بات کوجاری رکھتے ہوئے کہاکہ آپ لوگوں کے عقیدے کے مطابق کس طرح نوراورظلمت دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میںہاتھ دے کراس نظام کائنات کوچلارہے ہیں جب کہ نورترقی وبلندی کی جانب رواں دواں ہوتاہے اورظلمت پستی کی طرف رواں ہوتی ہے۔کیاآپ لوگوں کے عقیدے وخیال میں یہ بات ممکن ہے کہ دواشخاص ایک ساتھ حرکت کرسکیں اورجمع ہوسکیں جب کہ ایک مشرق کی سمت رواں ہواوردوسرامغرب کی طرف۔ +دوئی پرست: نہیں!یہ ممکن نہیں ہے۔ +پیغمبراکرمۖ :توپھرکس طرح سے نوراورظلمت جوایک دوسرے کی مخالف سمت میں حرکت کرتے ہیں پھربھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کراس دنیاکوچلاسکتے ہیں کیااس بات کاامکان نظرآتاہے کہ یہ دنیادوایسے بنانے والوںکی وجہ سے حرکت میں آئی جوایک دوسرے کے ضدہوں ظاہرہے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔لہذا یہ دونوں نوراورظلمت مخلوق ہیں اورخداوندقادروقدیم کے حکم کے تحت کام کررہے ہیں۔دوئی پرست پیغمبراکرمۖ کے سامنے عاجزہوگئے لہذااپنے سروں کوجھکا کرکہنے لگے ہمیں مہلت دیجئے تاکہ ہم اس مسئلہ میں غوروفکرکرسکیں۔ +باطل دوئی پسندہے حق لاشریک ہے +پانچواں مناظرہ بت پرستوں کے ساتھ: +اب پانچویں گروہ یعنی بت پرستوں کی باری آئی پیغمبراکرم ۖ ان کی طرف رخ کیااورفرمایاآپ لوگ خداسے منہ پھیرکرکیوں بتوں کی پوجاکرتے ہو؟ +بت پرست: ہم ان بتوں کے ذریعے خداکی بارگاہ میں قربت(نزدیکی) کرتے ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ: کیایہ بت سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورکیایہ بت خداکے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں اوراس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ لوگ ان کے احترام کے ذریعے خداکاقرب حاصل کرتے ہیں؟ +بت پرست:نہیں یہ سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اورنہ ہی خداکی عبادت کرنے والے اوراس کی اطاعت گزارہیں۔ +پیغمبراکرمۖ: کیاآپ لوگوں نے انہیں اپنے ہی ہاتھوں سے نہیں بنایا؟ +بت پرست: کیوں نہیں ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں ہی سے بنایاہے۔ +پیغمبراکرمۖ: توپھران کے بنانے والے آپ لوگ خودہی ہیں لہذاحق تویہ تھاکہ یہ آپ کی پوجاکرتے۔جب خداوندعالم آپ کے امورکے فوائداورانجام اور آپ کی ذمہ داریون اوروظائف سے آگاہ ہے تواسے چاہئے تھاکہ وہ ان بتوں کی پرستش کاحکم دیتاجبکہ خداکی جانب سے ایساکوئی حکم نہیں آیاجب پیغمبراکرمۖ کی گفتگواس مقام تک پہنچی توخودبت پرستوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ایک گروہ کہنے لگاکہ خدانے ان بتوں کی شکل وصورت سے ملتے جلتے چندمردوں کے اندرحلول کیاہے لہذاان بتوں کی طرف توجہ اوران کی پوجاسے ہمارامقصدان مخصوص افرادکااحترام ہے۔دوسراگروہ کہنے لگاکہ ہم نے ان بتوں کواپنے بزرگوں میں سے چندپرہیزگاراوراطاعت گزاربندوں کی شبیہ کے طورپربنایاہے لہذاہم خداکے احترام کے پیش نظران کی پوجاکرتے ہیں۔ تیسراگروہ کہنے لگا:خدانے حضرت آدم کوخلق کرکے فرشتوں کوحکم دیاکہ آدم کوسجدہ کریں چونکہ ہم لوگ زیادہ لائق تھے کہ آدم کوسجدہ کریں لیکن ہم اس زمانے میں موجودنہیں تھے چنانچہ سجدہ کرنے سے محروم رہے لہذااب ہم نے حضرت آدم کی شکل وصورت کامجسمہ بنایاہے اورخداکے قرب کوحاصل کرنے کے لئے انہیں سجدہ کرتے ہیں تاکہ ماضی کی محرومیت کی تلافی کرسکیں جیساکہ اسی طرح فرشتوں نے آدم کے سامنے سجدہ کرکے خداکاتقرب حاصل کیا۔جس طرح آپ لوگ اپنے ہاتھ سے محرابیں بناتے ہیں اورا س میں کعبے کے رخ پرسجدہ کرتے ہیں اورکعبہ کے سامنے خداکی تعظیم اوراحترام کے لئے سجدہ اورعبادت کرتے ہیں ہم بھی ان بتوں کے سامنے درحقیقت خداکااحترام کرتے ہیں۔پیغمبراکرمۖ نے تینوں گروہوں کی طرف رخ کیااورفرمایاآپ سب غلطی اورگمراہی پرہیں اورحقیقت سے دورہیں اوربھرباری باری تینوں گروہوں کی جانب متوجہ ہوئے اوراس طرح ترتیب وارجواب ارشادفرمایا: +پہلے گروہ کی طرف رخ کرکے فرمایاکہ آپ لوگ جوکہتے ہوکہ خداان بتوں کی شکل وصورت رکھنے والے مردوں میں حلول کرگیاہے لہذاہم نے ان بتوں کوان مردوں کی شبیہ بنایاہے اوران کوپوجتے ہیں توآ پ نے اس بیان کے ذریعے خداکومخلوقات کی طرح محدوث اورحادث سمجھ لیاہے کیاخداکسی چیزمیں حلول کرسکتاہے اوروہ چیزجومحدودہے خداکواپنے اندرسمونے پرقادرہے؟پس اس طرح خدااوردوسری اشیاء کے درمیان کیافرق رہاجوجسموں میں حلول کرتی ہیں سماجاتی ہیں جیسے رنگ،غذا،بو،نرمی،گندگی،بھاری پن،ہلکاپن،وغیرہ اس بناپرآپ لوگ کس طرح یہ کہتے ہیں کہ وہ جسم میں خداحلول ہواہے وہ حادث اورمحدودہولیکن خداجواس میں سمایاہے وہ قدیم اورلامحدودہوحالانکہ معاملہ اس کے برخلاف ہوناچاہئے تھایعنی سمانے والے کوحادث اورسمانے کی جگہ کوقدیمی ہوناچاہئے تھادوسری طرف کس طرح ممکن ہے کہ خداوندعالم جوتمام موجودات میں سے پہلے ہمیشہ ہی سے مختاراورغنی تھاحلول پانے کی جگہ سے پہلے موجودتھاوہ جگہ کامحتاج بن جائے اورخودکوکسی جگہ قراردے دوسری طرف دیکھاجائے توآپ کے عقیدے میں خداکے موجودات میں حلول کرنے کے ذریعے آپ نے خداکوموجودات کی صفات کی طرح حادث اورمحدودفرض کرلیاہے جس کی بناپریہ ضروری ہوتاہے کہ خداکوایک زوال پذیراورتبدیل ہونے والی چیزفرض کیاجائے اس لئے کہ ہروہ چیزجوحادث اورمحدودہوگی وہ زوال پذیراورتبدیل ہونے والی بھی ہوگی اوراگرآپ لوگ یہ کہیں کہ یہ حلول کرناتبدیلی اورزوال کاباعث نہیں بنتاتوپھرحرکت وسکون اورسیاہ وسفیدوسرخ رنگ جیسے رنگوںکوبھی تبدیلی اورزوال کاباعث نہ سمجھونتیجتا خداکوموجودات کی طرح محدودوحادث ماننددوسری مخلقوات کے سمجھنالازم آئے گااوراگراس عقیدے کوکہ خدامختلف شکلوں میں حلول کرسکتاہے بے اساس مان لیاجائے توبت پرستی بھی خودبخودباطل اوربے بنیادعقیدہ کہلائے گاکیونکہ یہ بھی اسی بناپرصحیح ماناجاتاتھا۔پہلے گروہ کے افرادپیغمبراکرمۖ کے دلائل اوربیانات کے آگے سوچ میں ڈوب گئے اورکہنے لگے کہ ہمیں اس سلسلے میں مہلت دی جائے تاکہ کچھ سوچ سکیں۔ +پیغمبراکرمۖ دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایاآپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ جب آپ لوگ پرہیزگاربندوں کی صورتوں کی پرستش کرتے ہیں اوران کے سامنے نمازپڑھتے ہیں اورسجدے کرنے میں اپنے مقدس چہروں کوان صورتوں کے آگے سجدہ کے لئے خاک پرکھتے ہیں اورجتناخضوع ہوسکے اس کام کے لئے انجام دیت ہیں توپھرخداکے لئے کونساخضوع باقی رکھتے ہیں؟واضح الفاظ میں کہاجائے کہ سب سے بڑی خضوع کی علامت سجدہ ہے آپ جوان شکلوں کے آگے سجدہ کرتے ہیں تواس سے زیادہ کونساخضوع ہے جسے خداکے سامنے انجام دیتے ہیں۔اگرآپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ خداکوبھی سجدہ کرتے ہوتو اس صورت حال میں آپ نے بندوں کی صورتوں اورخداکے آگے خضوع کومساوی سمجھاہے کیاواقعی خداکی تعظیم اوربتوں کااحترام مساوی ہے؟مثال کے طورپراگرآپ بااقتدارحاکم کے ساتھ اس کے نوکرکابھی اسی قدراحترام کریں توایک بزرگ شخص کوچھوٹے شخص کے برابردرجہ دینے سے اس بزرگ کی توہین نہیں ہوگی؟ +بت پرستوں کادوسراگروہ: ہاںظاہرہے ایساہی ہوگا۔ +پیغمبراکرمۖ لہذاآپ درحقیقت ان بتوں کی پرستش کے ذریعے جوپرہیزگاربندوںکی صورتیں ہیں،خداکے عظیم مرتبے کی توہین کرتے ہیں،بت پرستوں کادوسراگروہ پیغمبراسلامۖ کی ان منطقی دلیلوں کے سامنے ساکت ہوگیااوروہ سب کہنے لگے ہمیں مہلت دیں تاکہ ہم فکرکریں۔اب تیسرے گروہ کی باری آئی۔ پیغمبراسلامۖنے ان کی طرف رخ کیااورفرمایا:آپ لوگوں نے مثال کے ذریعے اپنے آپ کومسلمانوں جیسابتایاہے اس بنیادپرکہ بتوں کے سامنے سجدہ کرناگویاحضرت آدم کے سامنے یاکعبہ کے سامنے سجدہ کرنے کے برابرہے لیکن یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔آپس میں ان کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ ہماراعتقادہے کہ ہماراایک خداہے اوراس کی اسی طرح پرستش اوراطاعت کرناہمارافریضہ ہے،جس طرح وہ چاہتاہے،جس طرح اس نے ہمیں حکم دیاہے،ہم بغیرحدودسے نکلے ہوئے اسی طرح انجام دیتے ہیں اورہم بغیراس کی اجازت اورحکم کے قیاس اورتشبیہ کے ذریعے اس کے حکم کی حدودسے آگے تجاوزنہیں کرسکتے اورنہ اپنے لئے کسی فریضے کوقائم کرسکتے ہیں۔اس لئے کہ ہمیں تمام پہلوؤں سے آگاہی نہیں ہے ہوسکتاہے کہ خداکسی کام کوکرواناچاہتاہواورکسی کام کونہ کرواناچاہتاہواسی لئے اس نے اپنے حکم سے آگے بڑھنے سے ہمیں منع کیاہے کیونکہ اس نے حکم دیاہے کہ عبادت کے وقت کعبے کی طرف رخ کریں لہذاہم اس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں اوراس کے فرمان کی حدودسے تجاوزنہیں کرتے اسی طرح اس نے حکم دیاہے کہ کعبے سے دورکے علاقوں میں عبادت کے وقت کعبے کی طرف رخ کریں توہم نے بھی اس کی تعمیل کی ہے اورحضرت آدم کے بارے میں جوخدانے فرشتوں کوحکم دیاتھاکہ وہ خودحضرت آدم کوسجدہ کریں نہ کہ ان کی تصویراورمجسمے کوجوحضرت آدم کے علاوہ ہے لہذاجائزنہیں ہے کہ حضرت آدم کی تصویریامجسمے کاان کے وجودسے مقابلہ کریں ،ہوسکتاہے تمہیں معلوم نہ ہواورخداتمہارے اس کام سے ناراض ہوکیونکہ اس نے تمہیں اس کام کا حکم نہیں دیا۔مثال کے طورپراگرکوئی شخص آپ کوکسی معین دن اورمعین گھرمیں داخلے کی اجازت دے توکیایہ صحیح ہوگاکہ کسی اوردن اسی کے گھرجائیں یااسی دن اس کے کسی اورگھرمیں جائیں؟یااگرکوئی شخص اپنے کپڑوں میں سے معین کپڑے گھوڑوں میں سے معین گھوڑے آپ کوہدیہ کردے توکیایہ صحیح ہوگاکہ آپ اس کے کسی دوسرے لباس یاجانورکوجوانہیں میں سے ہے اوران کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی ہے انہیں استعمال کریں؟ +بت پرستوں کاتیسراگروہ: ہرگزہمارے لئے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نے کچھ خاص معین چیزوں کی اجازت دی ہے نہ کہ مساوی چیزوں کی۔ +پیغمبراکرمۖ پھرکیوں آپ لوگ اپنی جانب سے خداکے حکم اوراجازت کے بغیربتوں کوسجدہ کرتے ہیں؟بت پرستوں کاتیسراگروہ بھی پیغمبراکرمۖ کے مدلل اورمنطقی بیانات کے آگے خاموش ہوگیااورکہنے لگاکہ ہمیںمہلت دی جائے تاکہ کچھ غوروفکرکرسکیں۔ +اس مناظرے کوابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ ان پانچوں گروہوں کے ٢٥افرادپیغمبراسلامۖ کی خدمت میں آئے اوراسلام قبول کیااورجرأت کے ساتھ کہنے لگے ماراینامثل حجتک یامحمدشھدانک رسول اللہ اے محمدہم نے آپ جیسااستدلال کرنے والانہیں دیکھا۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپۖ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔(احتجاج طبرسی جلداول صفحہ١٦)۔ +پیغمبراکرم ۖ اورسرداران قریش کے درمیان ایک عجیب وغریب واقعہ مناظرہ کی صورت میں پیش آیا۔ہوایوں کہ ایک دن پیغمبراکرمۖ مسلمانوں کے یاک گروہ کے ساتھ کعبہ کے نزدیک تشریف فرماتھے اوراحکام اسلام وآیات قرآنی کی تبلیغ میں مصروف تھے ۔اسی دوران بزرگان قریش کے کچھ افرادجوسب کے سب مشرک اوربت پرست تھے جیسے ولیدبن سفیرہ،ابوالبخرتی،ابوجہل ،عاص بن وائل،عبداللہ بن حذیفہ،عبداللہ مخزومی،ابوسفیان ،عتبہ،شیبہ،وغیرہ مل کر جمع ہوئ�� اورکہنے لگے کہ محمدۖ کی تبلیغ کاکام روزبروزترقی کررہاہے اوروسیع ہوتاجارہاہے لہذاضروری ہے کہ ان کے پاس جاکران کی مذمت وسرزنش کریں اوران سے بحث اورمقابلہ کریں اوران کی باتوں کوردکریں اوراس طرح جب ان کی بے بنیادباتوں کوان کے دوستوں اوراحباب کے سامنے پیش کریں گے تووہ اپنی ان حرکتوں سے بازآجائیں گے اوراس طرح ہم اپنے مقصدمیں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ تلوارکے ذریعے ان کاکام تمام کردیں گے۔ ابوجہل کہنے لگاتم لوگوں میں کون ہماری نمائندگی کرے گااورمحمدۖ سے بحث ومناظرہ کرے گا؟عبداللہ مخزومی کہنے لگامیں ان سے بحث کرنے کیلئے حاضر ہوں اگرم لوگ بہترسمجھوتومجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ابوجہل نے اس کی بات کوقبول کیاپھرسب اٹھے اورمل کرپیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اورعبداللہ مخزومی نے بولناشروع کیا،اعتراض پراعتراض کرنے لگا۔ہرمرتبہ پیغمبراکرمۖ فرماتے کہ کچھ اوربھی کہناہے وہ کہتاہاں اورپھراپنی باتوں کوجاری رکھتایہاں تک کہ کہنے لگاکہ بس اتناہی کہناتھا،اگرآپۖ کے پاس ان اعتراضات کے جواب ہیں توہم سننے کوتیارہیں۔اس کے اعتراضات اورموضوعات کچھ اس ترتیب سے تھے: پہلااعتراض کہ آپ ۖ عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں جب کہ پیغمبرکوچاہئے کہ وہ دوسروں کی طرح کھاناوغیرہ نہ کھائے۔ +دوسرااعتراض کہ آپ کے پاس ملکیت اوردولت کیوں نہیں ہے جب کہ خداکے بااقتدارنمائندے کے پاس دولت اورمرتبہ ہوچاہئے۔ +تیسرااعتراض کہ آپ کے پاس ایک فرشتہ ہوناچاہئے جوآپ کی تصدیق کرے اورہم بھی اس فرشتے کودیکھیں بلکہ بہتریہ ہوگاکہ پیغمبربھی فرشتوں کی نسل سے ہو۔ +چوتھااعتراض کہ آپ ۖ پرجادوکردیاگیاہے کیونکہ آپۖ مسحورمعلوم ہوتے ہیں۔ +پانچواں اعتراض کہ کیوں قرآن ولیدبن مغیرہ مکی''یا''عروة طائفی جیسی معروف شخصیات پرنازل نہیں ہوا۔ +چھٹااعتراض ہم آپۖ پراس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپۖ اس پتھریلی اورسخت زمین پرپانی کاچشمہ جاری نہ کردیں اورکھجوراورانگور کے باغ نہ بنادیں تاکہ ہم چشمے کے پانی کوپئیں اوراس باغ کے پھلوں کوکھائیں۔ +ساتواں اعتراض کہ کیاآپ آسمان کوگہرے بادلوں (کالی گھٹاؤں) کی صورت میں ہمارے سروں پرسایہ فگن کرسکتے ہیں؟۔ +آٹھواں اعتراض کہ کیاخدااورفرشتوں کوہماری آنکھوں کے سامنے ظاہرکرسکتے ہیں تاکہ ہم انہیں دیکھ سکیں۔ +نواں اعتراض کہ آپ کے پاس سونے سے لداہواایک گھرکیوں نہیں ہے؟ +دسواں اعتراض کہ آپ ۖ آسمان پرجاکرہمارے لئے ایک ایساخط کیوں نہیں لاتے کہ ہم اسے پڑھ سکیں۔(یعنی جس میں خدامشرکوں کولکھے کہ محمدۖ میراپیغمبرہے اورتم لوگ اس کی پیروی کرو)البتہ ان تمام کاموں کوانجام دینے کے بعدبھی ہم یہ وعدہ نہیں کرتے کہ ہم مطمئن ہوجائیں گے کہ تم پیغمبرخدا ہو کیونکہ ممکن ہے ان کاموں کوتم جادواورنظروں کے دھوکے کی بناپرانجام دے دو۔ +پیغمبراکرم ۖ کے جوابات : +پیغمبراکرم ۖ نے عبداللہ مخزومی کی طرف رخ کیااورفرمایاکہ: +پہلے اعتراض کاجواب تویہ ہے کہ کھانے پینے کے بارے میں تمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ مصلحت اوراختیارخداکے ہاتھ میں ہے،جس طرح وہ چاہتاہ حکومت کرتاہے،کسی کواس پراعتراض کرنے کاحق نہیں ہے،وہ کسی کوفقیراورکسی کوامیراورکسی کوعزیزومحترم اورکسی کوذلیل وخواراورکسی کوصحیح وسالم اورکسی کوبیمارکرتا ہے۔(البتہ اس کاتعلق خودانسان کی لیاقت سے ہے)لہذااس صورت حال کے پیش نظرکوئی طبقہ بھی خداپراعتراض کرنے کاحق نہیں رکھتااورجوبھی خدا کے سامنے اعتراض وشکایت کے لئے زبان درازکرے وہ منکراورکافرہے کیونکہ ساری دنیاکااختیارخداکے ہاتھوں میں ہے۔ وہ تمام امورکی مسلحتوں کوبہتر جانتاہے جولوگوں کے لئے بہترہوانہیں دیتاہے لوگوں کوچاہیئے کہ اس کے حکم کے تابع رہیں اورجوبھی خداکے حکم کی اطاعت کرے وہ مومن ہے ورنہ گناہکار کہلائے گااورشدیدقسم کے عذاب کاحقدارٹہرے گاپھرآپ نے سورہ کہف کی آیت ١٠٩کی تلاوت فرمائی: +قل انماانابشرمثلکم یوحی الی انماالھکم الہ واحد۔ +''کہہ دواے پیغمبرۖ کہ میں تم جیسابشرہوں(تمہاری طرح کھاتاپیتاہوں) لیکن خدنے مجھے وحی سے مخصوص کیاہے کہ بیشک تمہاراخداایک ہی ہے''۔ +جس طرح انسانوں میں سے ہرایک کوایک خاص خصوصیت کاحامل بنایاہے اورجس طرح تم لوگوں کوامیر،غریب،صحتمند،خوبصورت،بدصورت، شریف وغیرہ کے بارے میں اعتراض کاحق نہیں ہے اوراس سلسلے میں خداکافرمانبرداررہناچاہئے اسی طرح نبوت ورسالت کے بارے میں بھی خداکے حکم کے فرمانبردار رہواوراعتراض نہ کرو۔ +دوسرے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ نے فرمایاکہ تم جوکہتے ہوکہ میرے پاس مال ودولت کیوں نہیں ہے جب کہ خداکے نمائندے کے پاس بادشاہوں کے نمائندوں کی طرح مال ودولت اورمرتبے کامالک ہوناچاہئے بلکہ خداکوبادشاہوں سے زیادہ اس بات کاخیال رکھناچاہئے توتمہیں یہ معلوم ہونی چاہئے کہ خداپریہ اعتراض غلط اوربے بنیادہے کیونکہ خدازیادہ آگاہ اورخبررکھنے والاہے،وہ اپنے کاموں اورتدبیروں میں مصلحت کوسمجھتاہے اوردوسروں کی مرضی کوملحوظ رکھے بغیرعمل کرتاہے۔پیغمبروں کاکام لوگوں کوخداکی عبادت کی دعوت دیتاہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ دن رات لوگوں کی ہدایت کاکام انجاد دیں۔ اگرپیغمبردنیاوی بادشاہوں کی طرح مال ودولت کامالک ہوتاتوغریب اورعام افراداتنی آسانی کے ساتھ پیغمبرسے رابطہ قائم نہیں کرسکتے تھے اس لئے کہ دولتمندشخص محلوں میں آرام کررہاہوتاہے اورمحلوں کی عالیشان عمارتیں اورپردے اس کے اورغریبوں اورمزدوروں کے درمیان فاصلہ پیداکردیتے اورلوگ اس تک نہیں پہنچ پاتے۔چنانچہ ایسی صورت میں بعثت کامقصدانجام نہیں پاتااورتعلیم وتربیت کاسلسلہ رک جاتا،نبوت کاآفاقی مقام مصنوعی نمودونمائش کی وجہ سے آلودہ ہوجاتا۔ رہبریاحاکم کالوگوں سے دورہوناملک کے اموراورنظام میں خلل کاباعث ہوتاہے جوناسمجھ اورلاچار لوگوں کے درمیان فساداورگڑبڑ کاسبب بن جاتاہے اوردوسری بات یہ کہ خدانے جومجھے دولت نہیں دی تووہ اس لئے کہ تمہیں اپنی قدرت کودکھلائے کہ وہ ایسی صورت حال میں بھی اپنے رسول کی مددکرتاہے اوراس کوتمام دشمنوں ومخالفوں کے مقابلے میں کامیاب کرتاہے اوریہ بات پیغمبراکرم کی صداقت کے لئے کافی ہے۔قدرت خداتمہاری کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اپنے پیغمبرکوبغیرمال ودولت وفوج وسلطنت کے تم پرغالب کرے اورعنقریب خدامجھے تم پرغالب کرے گاتم لوگ میرے اثرکوہرگزنہ روک سکوگے اورنہ ہی مجھے قتل کرسکوگے۔ عنقریب میں تم لوگوں پرمسلط ہوکرتمہارے شہروں پرقبضہ کرلوں گا سارے مخالفین اوردشمن مؤمنوں کے آگے سرخم کرنے پرمجبورہوجائیںگے۔ +تیسرے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ فرماتے ہیں کہ یہ جوتم نے کہاکہ میرے ساتھ ایک فرشتہ ہوناچاہئے جس کوتم لوگ دیکھ سکواورجومیری تصدیق کرتاہوبلکہ خودپیغمبرکوفرشتوں کی نسل سے ہوناچاہئے تویادرکھوکہ فرشتے ہواکی مانند نرم جسم رکھنے والے ہیں جنہیں دیکھانہیں جاسکتااورالغرض اگرتمہاری آنکھوں کواتنی قدرت دی جائے کہ تم فرشتے کودیکھ سکوتوتم اسے انسان کہوگے ن�� کہ فرشتہ(یعنی وہ انسان کی صورت میں ہوگا)اوریہ اسی وقت ہوسکتاہے کہ وہ تم سے رابطہ قائم کرے اورگفتگوکرے تاکہ تم اس کی باتوں اورمقاصدکوسمجھ سکو،اس کے علاوہ کس طرح معلوم ہوسکے گاکہ وہ فرشتہ ہے نہ کہ انسان اورجوکہہ رہاہے وہ حق ہے اورخدااپنے پیغمبروں کوایسے معجزات کے ساتھ بھیجتاہے جس دوسرے عاجزہوں اوریہی پیغمبرکی صداقت کی نشاندہی ہے لیکن اگرفرشتہ معجزات دکھائے توتم کس طرح تشخیص دے سکتے ہوکہ اس فرشتے نے جومعجزہ دکھایاہے دوسرے فرشتے اس کے انجام دی سے قاصرہیں لہذافرشتے کامعجزوں دکھایاہے دوسرے فرشتے اس کے انجام دہی سے قاصرہیں لہذافرشتے کامعجزوں کے ساتھ نبوت کادعوی اس کی نبوت پردلالت نہیں کرتاکیونکہ فرشتوں کامعجزہ پرندوں کی پروازکی مانندہے جس سے انسان عاجزہیں جب کہ خودفرشتوں کے درمیان یہ معجزہ شمارنہیںکیاجاتالیکن انسانوں کے درمیان اگرکوئی پرواز کرے تووہ معجزہ کہلاے گااوریہ بات ہرگزفراموش نہ کرناکہ خداوندعالم کاانسانوں کے درمیان بناناتمہارے ہی امورکی آسانی کے لئے ہے تاکہ تم بغیر زحمت کے اس سے رابطہ حاصل کرسکواوروہ خداکی حجت ودلیل کوتم تک پہنچاسکے حالانکہ تم لوگ اپنے اعتراضات کے ذریعے خوداپنے کاموں کومشکل کررہے ہو۔ +چوتھے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ فرماتے ہیں کہ یہ جوتم نے کہاکہ گویامجھ پرجادوکیاگیاہے یہ الزام کس طرح صحیح ہوسکتاہے حالانکہ میں عقل وتشخیص کے لحاظ سے تم سب پربرتری رکھتاہوں میں نے ابتداسے آج تک ٤٠سال زندگی گزاری ہے اس مدت میں کوئی چھوٹی سی بھی غلطی وخطاجھوٹ یاخیانت تم نے نہیں دیکھی ہوگی آیاجس نے تمہارے درمیان ٤٠سال اپنی قوت وصلاحیت کے ساتھ زندگی گزاری ہویاجسے خداکی مددسے امانت وصداقت میں برتری حاصل ہواس پراس قسم کی الزام تراشی زیب دیتی ہے؟اسی لئے پروردگارتمہارے جواب میں کہتاہے: +انظرکیف ضربوالک الامثال فضلوافلایستطیعون سبیلا(سورہ بنی اسرائیل آیت٤٨)۔ +''اے رسولۖ!آگاہ رہنایہ کمبخت تمہاری طرف کیسی کیسی نسبتیں دیتے ہیں،انہوں نے گمراہی کاراستہ اپنایاہواہے اوریہ ہدایت نہیں پاسکتے''۔ +پانچویں اعتراض کے جواب میں آپۖ نے فرمایاکہ یہ جوتم نے کہاکہ کیوں قرآن ولیدبن مغیرہ مکی یاعروہ بن مسعودطائفی جیسوں پرنازل نہیں ہواتوتمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ خداکے نزدیک مقام ومنصب اورشہرت ذرہ برابربھی حیثیت کے حامل نہیں ہیں اگردنیاوی نعمتیں اورعیش مکھی کے پرکے برابربھی خدا کے نزدیک حیثیت رکھتی ہوتی توان میں سے ذرہ برابربھی کافروں اورمخالفین اسلام کونہیں دیتا۔دوسری طرف اس کی تقسیم بھی خداکے ہاتھ میں ہے اس معاملے میں کوئی بھی بندہ اعتراض یاشکایت کاحق نہیں رکھتاوہ جسے چاہے اورجس قدرچاہے نعمتیں عطاکرتاہے بغیراس کے کہ اسے کسی کاخوف لاحق ہو۔تم اپنے کاموں میں مختلف سمتوں کومعین کرتے ہواوراپنے کاموں کوہوس،خواہشات اورخوف کے مطابق انجام دیتے ہواورحقیقت اورعدالت کے خلاف مخصوص افرادکے احترام میں غلطی کرتے ہوجب کہ خداکے کام عدالت اورحقیقت کے تحت ہوتے ہیں دنیاوی مقام ومناسبت اس کے ارادہ اورخواہش میں معمولی سااثربھی نہیں رکھتے یہ تم ہوجواپنی سطحی اورظاہری نظروں کی بناپرپیغمبری کے لئے دولتمنداورمشہورلوگوں کودوسرے سے زیادہ لائق سمجھتے ہولیکن خدارسالت کواخلاقی فضیلتوں اورروحانی لیاقت وحقیقت اوراپنی فرمانبرداری اوراطاعت کی بناپرقراردیتاہے۔ اس سے بھی بالاتریہ کہ خدااپنے کاموں میں مختارہے۔ ایسانہیں ہے کہ اگرکسی کومال دنیاکی نعمتیں اورشخصیت دے تواسے نبوت دینے پربھی مجبورہوچنانچہ تم لوگ مشاہدہ کرتے ہوگے کہ خدانے کسی کومال ومتاع دیا مگرحسن وجمال نہیں دیااوربرعکس کسی کوحسن وجمال دیامگرمال نہیں دیاکیاان میں سے کوئی خداپراعتراض کرسکتاہے؟ +چھٹے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایایہ جوتم لوگ کہتے ہوکہ ہم ہرگزایمان نہیں لائیں گے مگریہ کہ اس پتھریلی اورسخت سرزمین میں پانی کاچشمہ جاری کروں توتمہاری یہ خواہش نادانی اورجہالت کی بناپرہے اس لئے کہ چشمے کے جاری کرنے اورسرزمین مکہ میں باغ بنانے کاپیغمبری سے کوئی رابطہ نہیں جیساکہ سرزمین طائف میں تمہارے پاس زمین،پانی اورباغات ہیں مگرتم پیغمبری کادعوی نہیں کرتے اوراسی طرح ایسے افرادکوبھی جانتے ہوکہ جنہوں نے محنت وکوشش سے چشمہ وزراعت بنایالیکن پیغمبری کادعوی نہیں کیا۔لہذایہ معمولی کام ہیں اگرمیں بھی انہیں انجام دوں تویہ میری رسالت کی دلیل نہیں بن سکتے،تمہاری یہ خواہشات ایسی ہیں کہ گویاتم کہوکہ ہم ہرگزآپ پرایمان نہیں لائیں گے مگریہ کہ آپ لوگوں کے درمیان چلیں پھریں اورکھائیں پئیں آگر میں اپنی پیغمبری کے اثبات کے لئے ایسی چیزوں کوذریعہ بناؤتومیں نے گویاانہیں دھوکادیااوران کی جہالت اورنادانی سے فائدہ اٹھایااورنبوت کے مقام کوبے کاراوربے بنیادباتوں پرقراردیاحالانکہ نبوت کامقام دھوکہ وفریب سے پاک ہے۔ +ساتویں اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپۖ نے فرمایاکہ یہ جوتم نے کہاکہ آسمان کوہمارے اوپرکالی گھٹاؤں کی صورت میں لاکررکھ دوتویادررکھوکہ آسمان کانیچے آناتمہارے ہلاک ہونے کاباعث ہے حالانکہ بعثت وپیغمبری کامقصدسعادت وخوش بختی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرناہے۔خداکی عظمت پرمبنی آیات اورنشانیاں لوگوں کودکھاناہے اوریہ بات ظاہرہے کہ حجت ودلیل کاطے کرناخداکے اختیارمیں ہے کوئی ان امورمیں یہ حق نہیں رکھتاہے کہ اپنی ناقص سوچ کی بناپرایسے تقاضے کرے جن کاعملی ہونا،معاشرے اورنظم کے خلاف ہوکیونکہ ہرشخص اپنی خواہشات کے تحت تقاضاکرتاہے اورظاہرہے کہ ان تقاضوں کی تکمیل نظم میں خلل اورایک دوسرے کی ضدچیزوں کے انجام دینے کاباعث ہوگاکیاتم نے آج تک کسی ایسے ڈاکٹرکودیکھاہے جوعلاج کے دوران مریض کی مرضی کے مطابق نسخہ لکھتاہویاجوشخص کسی چیزکادعوی کرے کیاوہ اپنے دعوی کی دلیل کے لئے اپنے مخالف کی باتوں پرعمل کرے گا؟ظاہرہے کہ اگرڈاکٹر بیمارکی پیروی کرے توبیمارٹھیک نہیں ہوگااس طرح اگردعوی کرنے والااپنے مخالف کی دلیلوں پرعمل کرنے پرمجبورہوجائے تواس صورت میںحق بات کوثابت نہیں کرسکے گااورپھرمظلوم اورسچے لوگ ظالم اورجھوٹے شخص کے سامنے اپنے دعوی کوثابت کرنے سے عاجزہوجائیں گے۔ +آٹھویں اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے آپۖ نے فرمایاتم کہتے ہوکہ خدااورفرشتوں کوتمہاری نظروں کے سامنے حاضرکروں تاکہ تم انہیں دیکھ سکو،یہ تمہاری بات انتہائی بے بنیاداورمحال ہے کیونکہ خددیکھے جانے کی صفت اورمخلوقات کی صفات سے عاری ہے تم خداکوان بتوں سے تشبیہ دیتے ہوجن کی پوجاکرتے ہواورپھراسی قسم کاتقاضامجھ سے کرتے ہو۔ہاں یہ بت جوحددرجہ کمی اورخامی کے حامل ہیں اس قسم کے تقاضوں کے لئے مناسب ہیں لیکن خداکی ذات ایسی نہیں ہے اس کے بعدپیغمبراکرم ایک مثال پیش کرتے ہیں جومفہوم کواورزیادہ واضح کردیتی ہے کہ اگرخداکودکھانامحال نہ بھی ہوتب بھی عقل کے قوانین کے خلاف ہے وہ یہ کہ پیغمبراکرمۖ عبداللہ مخزمی سے فرماتے ہیں:کی��تمہارے پاس طائف اورمکہ میں زمین اورملکیت ہے؟اورکیاان کوسنبھالنے کے لئے تمہارے نمائندے ہیں؟ +عبداللہ مخزومی بولا: جی ہاں!میرے پاس باغ اورملکیت اورنمائندے ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ :تم اپنے باغ اورملکیت کوحساب وکتاب کرتے ہویانمائندے کے ذریعے یہ کام انجام پاتاہے؟ +پیغمبراکرمۖ :اگراس نمائندے نے کسی زمین کوکرائے پردیایابیچ دیاتوکیادوسروں کویہ حق ہے کہ اس پراعتراض کریں اورکہیں کہ ہم خودمالک سے رابطہ کرین گے اوراس وقت تمہاری نمائندگی کوقبول کریں گے جب خودمالک آئے اورتمہاری باتوں کی تصدیق کرے۔ +عبداللہ مخزومی جی نہیں! دوسرے ہرگزایسے اعتراض کاحق نہیں رکھتے۔ +پیغمبراکرمۖ: ہاں البتہ یہ اس صورت میں ہے جب تمہارے نمائندے کے پاس کوئی ایسی نشانی ہوجوتمہاری نمائندگی کوظاہرکرے اب مجھے ذرایہ بتاؤان کے پاس کیسی نشانی ہوجوتمہاری نمائندگی کوظاہرکرتی ہوجب کہ لوگ بغیرنشانی کے اس کی نمائندگی کوقبول کرنے پرتیارنہ ہوں۔ +عبداللہ مخزومی: نمائندے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس کوئی نشانی ہو۔ +پیغمبراکرم: اگرلوگ اس کی اس نشانی کوقبول نہ کریں توکیااس نمائندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مالک کوان کے سامنے حاضر کرے اورمالک کوحکم دے کہ وہ ان لوگوں کے سامنے حاضرہو؟ایک عقلمندنمائندہ اس طرح کی ذمہ داری اپنے مالک کودے سکتاہے؟ +عبداللہ مخزومی: جی نہیں! اسے چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کے مطابق کام کرے اپنے مالک کوحکم دینے کااسے کوئی حق نہیں ہے۔ +پیغمبراکرمۖ اب میں کہتاہوں کہ تم کس طرح خداکے نمائندے رسول کے بارے میں اس طرح کی بات کرتے ہوکہ وہ اپنے مالک کوحاضرکرے میں اس کافقط نمائندہ ہوں کس طرح ممکن ہے کہ اپنے مالک خداکوحکم صادرکروں اوراس پرذمہ داری لگاؤں جوکہ مقام رسالت کے خلاف ہے اسی بنیادپرتمہارے سارے اعترافات کاجواب بالخصوص فرشتوں کے حاضرکرنے کے بارے میں واضح ہوجاتاہے۔ +نویں اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ یہ جوتم نے کہاکہ میرے پاس سونے سے لداہواگھرہوناچاہئے''یہ بات بھی بے بنیادہے اس لئے کہ سونااوردولت رسالت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے کیااگربادشاہ مصرکے پاس سونے کے بنے ہوئے گھرہوں گے تووہ اسی بناپرنبوت کادعوی کرسکے گا؟ +عبداللہ مخزومی: نہیں وہ ایسادعوی نہیں کرسکتا۔ +پیغمبراکرمۖ لہذامیرے پاس بھی سونے اورچاندی کاہوناذرہ برابربھی میری رسالت کی صداقت پردلالت نہیں کرتا،لہذامیں اس راہ سے بھی لوگوں کی نادانی وجہالت سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا اورنہ ہی خداکی حجت کے مقابلے میں اس قسم کے بے بنیاددلائل سے اپنی رسالت کوثابت کرنے کے لئے فائدہ اٹھاسکتاہوں۔ +دسویں اعتراض کاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:اوریہ جوتم کہتے ہوکہ میں آسمان پرجاؤں اورخداکی طرف سے تمہارے لئے خط لاؤں تمہاری ان باتوں سے ظاہرہوتاہے کہ تم حق کوقبول کرنے کے لئے کسی طرح سے تیارنہیں ہواس لئے کہ تمہارے کہنے کے مطابق صرف آسمان پرجاناکافی نہیں ہے بلکہ آسمان پرجانے کے علاوہ خداکی طرف سے تمہارے لئے خط بھی لاؤں اورخط لے بھی آؤں تب بھی قبول نہیں کروگے کیونکہ تم صاف کہہ رہے ہوکہ اگرمیں تمہارے ان کاموں کوانجام بھی دے دوں تب بھی ممکن ہے تم ایمان نہ لاؤ لیکن یادرکھواس طرح کی ضداورہٹ دھرمی وعنادکانتیجہ سوائے عذاب اوربلاکے نازل ہونے کے کچھ بھی نہیں اورتم اپنے ان کاموں کی وجہ سے عذاب کے مستحق ٹہروگے۔ تمہارے تمام سوالات کاجواب خداوندعالم نے سورہ کہف کی آیت ١١٠ اورسورہ فصلت کی آیت میں اس طرح دیاہے: +��ل انماانابشرمثلکم یوحی الی انماالھکم الہ واحد''یعنی میں بھی تمہاری طرح کاایک بشرہوں اورخداکانمائندہ ہوں،خداکے فرمان کوتم تک پہنچانے والاہوں۔ +میری نشانی یہی قرآن ومعجزات ہیں جوخداوندعالم نے مجھے عطاکئے ہیں۔ لہذامیں نہ توخداکوحکم دے سکتاہوں اورنہ ہی تمہاری بے بنیادخواہشات پراسے مکلف کرسکتاہوں۔ +ابوجہل کہنے لگا:ایساکیوں نہیں کہتے کہ جب قوم موسی نے ان کے خداکودیکھنے کی موسی سے گزارش کی توخداان پرغضبناک ہواااوربجلی کے ذریعے ان کوجلا ڈالا۔ +پیغمبراکرم: ۖ کیوں ایسانہیں ہواتھا۔ +ابوجہل: ہم نے توقوم موسی سے بھی بڑی فرمائش کردی ہے ہم کہتے ہیں کہ ہرگزتم پرایمان نہیں لائیں گے جب تک تم ہمارے سامنے خداوفرشتوں کوحاضر نہ کرو۔لہذاخداسے کہوکہ ہمیں بھی جلاڈالے اورنابودکردے۔ +پیغمبراکرمۖ: کیاتم نے حضرت ابراہیم کی داستان نہیں سنی جب انہوں نے خداکے نزدیک اتناتقرب حاصل کرلیاکہ خدانے ان کی آنکھوں کے نورکواس حدتک قوی کردیاکہ وہ لوگوں کے پوشیدہ اورظاہراعمال کوبھی دیکھ سکتے تھے اسی دوران انہوں نے دیکھاکہ ایک مردوعورت زناکرنے میں مصروف ہیں لہذاان کے لئے بددعاکی اوروہ دونوں ہلاک ہوگئے۔ پھردوسرے مردوعورت کودیکھاکہ وہ یہی کام کررہے تھے۔لہذاان کے لئے بھی نفرین کی اوروہ دونوں بھی ہلاک ہوگئے جب تیسری دفعہ بھی اسی طرح کامنظردیکھااورنفرین کی اوروہ ہلاک ہوگئے توخداوندعالم نے انہیں وحی کی کہ بددعانہ کروکیونکہ کائنات کے چلانے کا اختیارتمہارے ہاتھ میں نہیں ہے گناہگاربندے تین حالتوں سے خارج نہیں ہیں: نمبرایک یاوہ تائبین میں سے ہیں جنہیں میں بخش دوں گایاان کی آئندہ نسل میں کوئی بندہ مؤمن آنے والاہے جس کی خاطران کومہلت دی جائے گی اوراس کے بعدان تک عذاب آن پہنچے گااوران دوصورتوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے عذاب تمہارے تصورسے زیادہ ہے جسے میں نے ان کے لئے تیارکیاہے۔اے ابوجہل اسی وجہ سے خدانے تجھے مہلت دی ہوئی ہے کہ تیری نسل میں ایک فرزندمؤمن عکرمہ نامی پیداہوگا۔(احتجاج طبرسی جلداول صفحہ٢٩)۔(عکرمہ بن ابوجہل جوپہلے پیغمبراکرمۖ کاسخت دشمن تھالیکن فتح مکہ کے بعدایساپلٹاکہ مدینے میں پیغمبراکرمۖ کے پاس آکراسلام لے آیااورآپۖ کے نزدیک اتنامقام ومنزلت حاصل کرلیاکہ آنحضرتۖ نے قبیلہ ہوازن سے زکات جمع کرنے کاعامل اسے بناکربھیجااورسرانجام خلافت ابوبکرکے زمانے میں جنگ اجنادین یاجنگ یرموک میں درجہ شہادت پرفائزہوا(سفینة البحار جلد٢صفحہ٢١٩)۔ +جیساکہ آپ نے ملاحظہ کیااگرچہ پیغمبرکے سامنے بحث کرنے والے اسلام سے دشمنی وکینہ رکھنے والے افرادتھے مگرپیغمبراکرمۖ نے کتنے کمال وبردباری سے پہلے ان کی گفتگوسنی اورپھرکتنی نرمی ومتانت سے ان کے جوابات دئیے اورکتنی مدلل بحث کے ذریعے ان پرحجت تمام کی یہ اسلام کامنطقی اوراخلاقی طریقہ ہے۔ +ہجرت مدینہ سے پہلے یہودی آپس میں ان نشانیوں کاتذکرہ کیاکرتے تھے جوپیغمبراسلامۖ سے متعلق توارت میں لکھی ہوئی تھیں۔یہودی علماء تورات کی آیتوں کے ذریعے پیغمبراسلامۖ کی ہجرت کی جگہ کے بارے مین بھی اپنے لوگوں کوخبریں دیتے تھے اوراس طرح وہ بالواسطہ یابلاواسطہ پیغمبراکرمۖ کے ظہور کی گفتگوکیاکرتے تھے یہودی ربی سمجھتے تھے کہ وہ پیغمبراسلام کوطاقتوربناکراپنی جانب مائل کرلیں گے اورنتیجتااطراف کے علاقوں میں مذہبی طاقت بن جائیں گے۔ مگرجب پیغمبراکرم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوراسلام بڑی سرعت سے پھیلاتوپیغمبراکرمۖ ک��یہودیوں پرغلبہ حاصل ہوگیااوریوں اسلام اور رسول اسلام کو''قابو کرنے کی ان کی ناپاک خواہش دم توڑگئی۔ چنانچہ یہودیوں کے مذہبی حلقوں میں پیغمبراکرمۖ کی مخالفت کی جانے لگی اوروہ مختلف بہانوں سے اسلام کوگزندپہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔ جیساکہ سورۂ بقرہ وسورۂ نباء میں ان کی دشمنی اورہٹ دھرمی کاذکرکیاگیاہے۔ مثال کے طورپرانہوں نے ایک سازش یہ کی کہ اوس اورخزرج کی ١٢٠ سالہ دشمنی کودوبارہ زندہ کیا(یہ مدینے کے دوبڑے قبیلے تھے جواسلام کے بعدمتحد ہوگئے اورانصارکہلائے)تاکہ اسلام کی صفوں میں انتشارپھیلایاجائے۔لیکن پیغمبراسلامۖ اورمسلمین کی ہشیاری نے ان کی سازشوں پرپانی پھیردیا۔ +اسی طرح ان کی دیگرسازشوں کوبھی پیغمبراسلام نے ناکام بنادیاتھا۔لہذاصرف آزادبحث ہی ایک راستہ بچاتھاجس کے ذریعے وہ پیغمبراکرمۖ پرچڑھائی کرناچاہتے تھے لیکن پیغمبراکرمۖ مکمل رضامندی کے ساتھ ان کے مشوروں کااستقبال کرتے تھے۔ہردفعہ وہ اگرپیچیدہ قسم کے سوالات اوربحث کرتے تاکہ پیغمبراکرمۖ کولاجواب کریں لیکن یہ بحثیں ان کے اپنے نقصان پرتمام ہوتیں اورلوگوں کوپیغمبراسلامۖ کے علمی مقام اورعالم غیب ہونے کایقین ہوجاتاتھا اورانہیں بحثوں کانتیجہ تھاکہ کافی تعدادمیں یہودی اوربت پرستوں کے گروہ اسلام لے آئے تاہم یہ لوگ اگرچہ پیغمبراکرم سے بحثوں میں قائل ہوجاتے تھے مگرغرورتکبرکے عالم میں پیغمبراکرمۖ سے کہتے کہ ہم آپ کی باتیں نہیں سمجھتے۔ یعنی جیساکہ سورۂ بقرہ آیت ٨٨میں ارشادہوا''قلوبناغلف ان کے قلوب پر پردے پڑے ہوئے تھے ۔علماء یہودنے پیغمبراسلام سے کئی مناظرے کئے جن کے جواب پیغمبراکرم ۖ نے نہ صرف بڑی نرمی اورمحکم استدلال کے ذریعے دئیے بلکہ فیصلہ بھی عوام کی عدالت پرچھوڑدیا۔جس کی دومثالیں ملاحظہ فرمائیں: +پہلی مثال جب عبداللہ بن سلام ایمان لایاجوکہ علماء یہودمیں سے ایک مشہورعالم اورمذہبی علوم کاماہرسمجھاجاتاتھا(مسلمان ہونے سے پہلے اس نام حصین تھا اس کے مسلمان ہونے کے بعدپیغمبراکرمۖ نے اس کانام عبداللہ رکھ دیاتھا)پیغمبراکرمۖ کی ہجرت کے پہلے سال ایک دن یہ شخص پیغمبراکرم کی مجلس میں حاضرہوا، دیکھاکہ پیغمبراکرمۖ لوگوں کونصیحتیں کررہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! ایک دوسرے کوسلام کیاکرواورایک دوسرے کوکھاناکھلایاکرواپنے رشتہ داروں سے رابطہ رکھاکروآدھی رات میں جب لوگ سورہے ہوں اٹھ کرنمازشب پڑھاکروتاکہ اللہ کی بنائی ہوئی بہشت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوسکو عبداللہ نے دیکھاکہ پیغمبراسلامۖ کی یہ گفتگوبے بنیادجھوٹ بولنے والوں کی طرح نہیں ہے اس کویہ گفتگواچھی لگی لہذاایسی مجلسوں میں شامل ہونے کامحکم ارادہ کرلیا۔ ایک دن عبداللہ مذہب یہودکے ٤٠سرکردہ افرادکولے کرپیغمبراسلامۖ کے پاس آیاتاکہ نبوت ورسالت کے سلسلے میں ان سے کھل کربحث کریں اورآپ سے مناظرہ کرکے آپ کومغلوب کریں اس نیت سے یہ لوگ پیغمبراکرمۖ کے پاس حاضرہوئے۔پیغمبراکرمۖ نے ان کے بزرگ عبداللہ بن سلام کی طرف رخ کیااور فرمایا میں بحث ومناظرہ اورتنقیدکے لئے تیارہوں''یہودیوں نے رضامندی ظاہرکی اوربحث ومناظرہ شروع ہوگیایہودیوں نے گفتگوکامحاذ تیار کیااورپیغمبراسلامۖ پرسوالات کی بوچھارکردی۔ مگرپیغمبراکرمۖ ان کے ایک ایک سوال کاجواب دیتے رہے۔یہاں تک کہ ایک دن عبداللہ خصوصی طورپرپیغمبر اکرمۖ کے پاس آیااورکہنے لگاکہ میںآپ کی اجازت سے آپ سے تین سوال کرناچاہتاہوں جس کے جواب سوائے پیغمبرکے کوئی نہیں دے سکتا۔ +عبداللہ ذرامجھے یہ بتائیے کہ قیامت کی پہلی نشانی کیاہے بہشت کی پہلی غذاکیاہے اوراس کی کیاوجہ ہے کہ بچے کبھی باپ کے اورکبھی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں ؟ +پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: ابھی اس کاجواب خداکی جانب سے جبرئیل لائیں گے تومیں تمہیں بتاؤں گا۔جیسے ہی جبرئیل کانام آیاعبداللہ کہنے لگا''جبرئیل توہم یہودیوں کادشمن ہے کیونکہ اس نے متعددبارہم سے دشمنی کی ہے بخت النصرجبرئیل ہی کی مددسے ہم پرغالب ہوااوربیت المقدس کے شہرمیں آگ لگائی وغیرہ''۔ پیغمبراکرمۖ نے اس کے جواب میں سورہ ٔ بقرہ کی آیت ٩٧۔٩٨ کوپڑھاجس کاترجمہ یہ ہے وہ جبرئیل جسے تم دشمن سمجھتے ہواپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتااس نے قرآن کوخداکے اذن سے پیغمبر کے قلب پرنازل کیاہے وہ قرآن جورسولۖ کی ان نشانیوں اورصفات سے مطابقت رکھتاہے جوپچھلی کتابوں میں موجودہیں اوران کی تصدیق کرتاہے۔ خداکے فرشتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگرکوئی ان میں سے ایک سے دشمنی کرے گاوہ ایساہے کہ اس نے سارے فرشتوں،پیغمبروں اورخداسے دشمنی کی ہے کیونکہ س کے فرشتے اورپیغمبرایک ہی طریقے سے خداکے حکم کوجاری کرنے والے ہیں ان کے کام تقسیم شدہ ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے مخالف،ان کے ساتھ دشمنی خداکے ساتھ دشمنی کرنے کے متردف ہے''۔ پھرپیغمبراکرمۖ نے عبداللہ کے تین سوالوں کے جواب میں فرمایا روزقیامت کی پہلی نشانی یہ ہے کہ دھوئیں سے بھری آگ روشن ہوگی جولوگوں کومشرق سے مغرب کی طرف ہرکت دے گی اوربہشت کی پہلی غذا مچھلی کاجگراوراس کے ٹکڑے ہوں گے جووہاں کی بہترین غذاہے تیسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاکہ مردوعورت کے نطفہ میں سے جوبھی دوسرے پرغلبہ پاجائے بچہ اس کے ہم شکل ہوتاہے اوراگرعورت کانطفہ غالب آجائے توبچہ ماں یااس کے رشتہ داروں کے ہم شکل ہوتاہے۔ عبداللہ نے ان جوابات کوتورات سے ملایاتودرست پایااسی لمحہ اسلام قبول کرلیااورخداکی وحدانیت اوررسول ۖ کی رسالت کی گواہی دی۔ پھرعبداللہ کہنے لگا:یارسول اللہۖ کیونکہ میں یہودیوں کابڑاعالم دین ہوں اوربڑے عالم دین کابیٹاہوں اگروہ لوگ میرے اسلام لانے سے آگاہ ہوگئے تومجھے جھٹلادیںگے لہذااس وقت تک میرے ایمان لانے کوپوشیدہ رکھئے گاجب تک یہودکانظریہ میرے بارے میں معلوم نہ ہوجائے۔ پیغمبراسلامۖ نے موقع کوغنیمت جانتے ہوئے یہودیوں کے ساتھ ایک مجلس مناظرہ تشکیل دی جوآزادبحث ہی کی ایک دلیل تھی اورعبداللہ کواسی مجلس میں چھپاکے رکھاپھرگفتگوکے درمیان پیغمبراکرمۖ نے یہودیوں سے فرمایاکہ میں خداکاپیغمبرہوں خداکونگاہوں میں رکھواورنفسانی خواہشات سے دستبردارہوجاؤاورمسلمان ہوجاؤ۔وہ کہنے لگے: ہم دین اسلام کے صحیح ہونے کے بارے میں بے خبرہیں۔ +پیغمبراسلامۖ: اچھایہ بتاؤکہ عبداللہ تمہارے درمیان کس قسم کاشخص ہے؟ +یہودی گروہ: وہ ہمارے بڑے دانشورہیں اورعالم دین وپیشواکے فرزندہیں۔ +پیغمبراسلامۖ: اگروہ مسلمان ہوجائے توتم لوگ بھی اس کی اطاعت کروگے؟ +یہودی گروہ: وہ ہرگزاسلام لانے والے نہیں ہیں۔ +پیغمبراسلامۖ نے عبداللہ کوآوازدی اورعبداللہ جوچھپے ہوئے تھے سب کے سامنے آئے اورکہنے لگے اشہدان لاالہ الااللہ واشہدان محمدا رسول اللہ اورکہا اے گروہ یہود اللہ سے ڈرواورپیغمبرپرایمان لے آؤجب تم جانتے ہوکہ یہ اللہ کے پیغمبرہیں توکیوں ایمان نہیں لاتے؟ گروہ یہود میں غصے اوردشمنی کی لہریں دوڑ نے لگیں اورکہنے لگے یہ ہمارے درمیان بدترین شخص ہے یہ اوراس کاباپ دونوں بدترین ونادان افرادمیں سے ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ کایہ طرزاستدلال اچھاتھااگرچہ ان یہودیوں نے اپنی شکست کااظہارنہ کیالیکن حقیقت میں وہ مغلوب ہوچکے تھے اورانصاف پسنددانشمند کے بارے میں ان کی ضداورہٹ دھرمی ثابت ہوچکی تھی لیکن عبداللہ واقعی خداکے آگے سرتسلیم خم کرنے والے بندے تھے جب حق کی خبرہوئی تواس سے پیوست ہوگئے حالانکہ ان حالات میں یہ بات نقصاندہ تھی اسی لئے پیغمبراکرمۖ نے ان کانام عبداللہ رکھاان کے ایمان لانے کادوسرے افرادپربھی اثرپڑااورکچھ عرصہ نہ گذراکہ مخیرق نامی یہودیوں کاایک اوردانشورکچھ اورافرادکے ہمراہ ان سے آکرمل گئے۔ +جیساکہ ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبراکرمۖ بیت المقدس جوکہ یہودیوں کاقبلہ تھا،کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاکرتے تھے اوراسی طرح ہجرت کے سولہ سال گزر جانے کے بعدتک مدینے میں بھی آپۖ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھاکرتے تھے یہودیوں نے اس بات کواسلام اورپیغمبراسلام پرنکتہ چینی کے لئے مناسب سمجھااورکہاکہ محمدۖ جودعوی کرتے ہیں کہ وہ ایک مستقل شریعت اورقانون لائے ہیں جب کہ ان کاقبلہ وہی ہے جویہودیوں کاقبلہ ہے ان کے اس طرح کے اعتراضات نے پیغمبراسلام کوآزردہ خاطرکیا،آپ وحی کے منتظررہتے،یہاں تک کہ بیت المقدس سے کعبہ کی جانب قبلے کی تبدیلی کے بارے میں سورۂ بقرہ کی آیت ١٤٤نازل ہوئی۔ ہجرت کے سولہ سال بعد١٥رجب کی تاریخ تھی،پیغمبراکرمۖ مسجدبنی سلمہ جومسجداحزاب سے ایک کلومیٹرپرواقع تھی میں نمازجماعت کی امامت کررہے تھے ابھی دورکعت تمام ہوئی تھی کہ جبرئیل امین سورۂ بقرہ کی آیت١٣٩لے کرنازل ہوئے۔لہذاپیغمبراکرم نے اسی حالت میں اپنارخ کعبے کی طرف بدلااورباقی دورکعتیں کعبے کی طرف رخ کرکے پڑھیں اقتدارکرنے والوں نے بھی ایساہی کیا،جب سے وہ مسجدذوقبلتین کے نام سے معروف ہے،اس واقعے کے بعدسے یہودیوں نے ہرطرف سے قبلے کی تبدیلی کے قانون پراعتراضات شروع کردئیے اوراس واقعے سے اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی،چنانچہ ایک نشست میں ان کے اورپیغمبراکرمۖ کے درمیان طے پایاکہ اس مسئلے پرآزادبحث کے دوران بات کی جائے یہودیوں کی کچھ تعدادنے اس میں شرکت کی اوریہودیوں نے ابتداء کرتے ہوئے سوالات شروع کئے اورکہاکہ آپۖ کومدینے میں آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہورہاہے اب تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے رہے اوراب جوآپ کعبے کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے ہیں توذرایہ بتائیں کہ وہ نمازیں جوآپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھیں صحیح تھیں یاباطل؟ اگرصحیح تھیں تویقیناآپ کادوسراعمل باطل ہوگااوراگرباطل تھیں توہم کس طرح دیگرتمام افعال کے بارے میںاطمئنان کریں کہیں ایسانہ ہوکہ وہ آپ کے تبدیلی قبلے کی طرح باطل ہوں؟ +پیغمبراکرم ۖ: دونوں قبلے اپنی اپنی جگہ درست اوربرحق ہیں ان چندمہینوں میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنابھی برحق تھااوراب خدا کی طرف سے ہمیں حکم ملاہے کہ خانہ کعبہ کواپناقبلہ قراردیں۔پھرآپۖ نے سورہ بقرہ کی آیت١١٥کی آیت تلاوت فرمائی۔ +وللہ المشرق والمغرب فاینماتولوفثم وجہ اللہ ان اللہ واسع علیم۔ +سب مشرق ومغرب خداکے لئے ہیں جس طرح بھی دیکھوخداہی خداہے اوربیشک خدابے نیازوداناہے۔ +یہودی گروہ: اے محمدۖ! کیاخدابر''بدائ کاقانون صادق آتاہے یعنی(کوئی بات پہلے اس پرمخفی تھی اوراب آشکارہوئی ہواورپہلے حکم سے منحرف ہوکراس نے دوسراحکم صادرکیاہو)اوراسی بنیادپرنیاقبلہ معین کیا؟اگرآپ اس طرح کہتے ہیں توگویاخداکوایک نادان انسا�� کی طرح فرض کیاہے؟ +پیغمبراسلامۖ خداکے لئے ان معنوں میں بدائ''نہیں ہے خداآگاہ اورمطلق قدرت کامالک ہے۔اس سے ہرگزخطاسرزدنہیں ہوتی کہ جس کے بعدوہ پشیمان ہواورنظرثانی کرے اورکوئی چیزاس کے راستہ میںرکاوٹ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ وقت کوتبدیل کرے۔ میں آپ لوگوں سے پوچھتاہوں کیابیمار شخص شفایاب نہیں ہوتایاصحت مندشخص بیمارنہیں ہوتایازندہ نہیں مرتا؟کیاسردی گرمی میں تبدیلی نہی ہوتی؟خداجوان امورکودوسری شکل میں تبدیل کرتاہے اس کے لئے بدائ کہاجائے گا؟جواس طرح کے امورکوتبدیل کرتاہے کیااس کوبعدمیں معلوم ہوتاہے جوکرتاہے؟ +یہودی گروہ: نہیں ان امورمیں بدائ نہیں ہے۔ +پیغمبراکرمۖ پس قبلے کی تبدیلی بھی انہی امورمیں سے ہے خداہرزمانے میں بندوں کی مصلحت کے پیش نظرمخصوص حکم دیتاہے جواس کی اطاعت کرے گااجر پائے گاورنہ سزاپائے گا۔لہذاخداکی مصلحت وتدبیرکے سلسلے میں مخالفت نہیں کرنی چاہئے اورمیرادوسراسوال آپ لوگوں سے یہ ہے کہ کیاآپ لوگ ہفتہ کے دن اپنے کاموں کی چھٹی نہیں کرتے؟ اورکیاہفتے کے بعدسے اپنے کاموں میں مشغول نہیں ہوتے؟کیاپہلاصحیح اوردوسراغلط ہے؟ یابرعکس پہلاغلط اوردوسراصحیح یادونوں غلط یادونوںصحیح ہیں؟ +پیغمبراسلامۖ :پس میں بھی تویہی کہہ رہاہوںکہ دونوں صحیح ہیں گزشتہ سالوں میں اورمہینوں میں بیت المقدس کوقبلہ قراردیناصحیح ہے آپ لوگ بیمارانسانوں کی مانندہیں خداتمہارے لئے ماہرطبیب کی حیثیت رکھتاہے بیمارکی اچھائی اسی میں ہے کہ ماہرطبیب کی پیروی کرے اوراپنی نفسانی خواہشات پراس کے نسخے کوترجیح دے۔ منقول ہے کہ کسی نے امام حسن عسکری سے(جواس مناظرے کے نقل کرنے والے ہیں)سوال کیاکہ معلاء کیوں پہلے ہی سے مسلمانوں کاقبلہ کعبہ قرارنہ پایا؟امام نے فرمایا: خدانے سورۂ بقرہ کی آیت ١٤٣ میں اس سوال کاجواب دیاہے اس آیت کامفہوم یہ ہے کہ اس حکم کومومنین ومشرکین کی پہچان کے لئے دیاگیاہے تاکہ ان کی صفیں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں کیونکہ اس زمانے میں کعبہ مشرکوں کے بتوں کامرکزتھاان کے سامنے مشرک سجدہ کرتے تھے لہذامسلمانوں کوحکم ہواکہ فی الحال بیت المقدس کی طرف سجدہ کریں تاکہ اپنی صفوں کومشرکین کی صفوں سے جدارکھ سکیں لیکن آپۖ نے جب مدینے ہجرت کی اورایک مستقل حکومت کی بنیادڈالی اوران کی صفیں دوسروں سے جداہوگئیں توپھراس قسم کی ضرورت نہیں رہی لہذامسلمانوں کوکعبے کے طرف متوجہ کیا۔ ظاہرہے شروع میں بیت المقدس کی سمت نمازپڑھنانئے مسلمانوں کے لئے جوابھی دوران شرک کی رسومات کونہیں بھولے تھے مشکل کام تھا۔ +ہذااسے لوگوں کواس حکم کے ذریعے آزمایاگیاتاکہ اپنے جاہلیت کے زمانے والے پیوندوں کوتوڑدیں اوریہ بات ظاہرہے کہ جب تک انسان باطل رسومات کونہ توڑے صحیح طرح سے حق کوقبول نہیں کرسکتااوردرحقیقت ابتدامیں بیت المقدس کی طرف توجہ دلانااورلوگوں کی فکروروح میں ایک تحریک پیدا کرنا تھااوراسلام اس طریقے سے ماحول کے اثرات کودھوناچاہتاتھا لیکن مدینے میں ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی یامکہ کی طرف توجہ کرنے کی مصلحت اس سے زیادہ تھی۔ +ایک دن ایک گروہ کے لوگ پیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اورکہنے لگے ہمیں قرآن پراشکال ہے لہذاآپ سے مناظرہ کرنے آئے ہیں۔ کیاآپ خداکے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں؟ +یہودی گروہ: ہماراقرآن پراشکال یہ ہے کہ سورہ انبیاء کی آیت ٩٨میں توخدافرماتاہے انکم وماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم''۔ یعنی تم لوگ اوروہ کہ جن کی تم خداکے علاوہ عبادت کرتے ہوجہن�� کی بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے بنوگے۔ توہمارااشکال یہ ہے کہ اس آیت کے مطابق توحضرت عیسی علیہ السلام کوبھی دوزخی ہوناچاہئے کیونکہ حضرت مسیح کوبھی ایک جماعت خدامانتی اورپرستش کرتی ہے۔ +پیغمبراکرمۖ: نے ان کے اس اعتراض کوسنااورفرمایاکہ قرآن کلام عرب کے عرف کے مطابق نازل ہواہے کیونکہ کلام عرب میں لفظ من اکثرذوی العقول کے لئے استعمال ہوتاہے اورلفظ ما غیرذوی العقول کے لئے جیسے جمادات وحیوانات وغیرہ ہیں لیکن کلمہ''الذی ذوی العقول وغیر ذوی العقول دونوں کے لئے استعمال ہوتاہے لہذاآیت میں لفظ ما''استعمال ہواہے جس سے مرادوہ معبودہیں جوصاحب عقل نہ ہوں جیسے لکڑی وپتھرومٹی وغیرہ سے بنائے ہوئے بت ہوتے ہیں لہذاآیت کے معنی یہ ہوں گے کہ غیرخداکی پرستش کرنے والوں اوروہ بت جن کی پرستش کی جاتی ہے،کی جگہ جہنم ہے۔ +پیغمبراکرمۖ کی یہ گفتگوسن کروہ لوگ قائل ہوگئے اورپیغمبراکرمۖ کی تصدیق کرتے ہوئے اٹھ کرچلے گئے۔ +ہرزمانے میں منافقوں کی ایک خاص عادت رہی ہے کہ وہ جاہ طلبی اورلوگوں کی طرفداری حاصل کریں تاکہ محبوبیت اجتماعی حاصل کرسکیں اورلوگوں پرقدرت حاصل کرکے ان پرحکومت کریں۔اسی لئے وہ رہبری کے مسئلے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اوربڑی دقت سے کام لیتے ہیں۔ خصوصازمانہ پیغمبرۖ میں جب امام علی کی رہبری کومختلف اورمناسب مواقع پرمطرح کیاجاتاتھاتومنافقین کوشش کرتے تھے کہ اس کی مخالفت کریں حتی کہ بعض مواردمیں خود پیغمبر اکرمۖ کوبھی ضرب لگاناچاہتے تھے تاکہ مسئلہ رہبری کواس خاندان سے جداکردیں ان کی ایک سازش جوجنگ تبوک کے موقع پرسامنے آئی وہ یہ کہ وہ لوگ چوری چھپے حضرت علی اور خودپیغمبراکرمۖ کرناچاہتے تھے لہذاان میں سے ٢٤افرادنے مجرمانہ نشست تشکیل دی اوریہ طے پایاکہ اس حساس موقع پرجب مسلمان جنگ میں سرگرم ہوں گے ان دونوں افرادکوقتل کردیاجائے لہذاان میں سے١٠افرادحضرت علی کوقتل کرنے کے ارادے سے مدینے میں رک گئے اور١٤افرادمناسب موقع کی تلاش میں رہے تاکہ جنگ تبوک میں شریک ہوکرپیغمبراکرمۖ کاکام تمام کردیں۔ +اسلامی فوج جودس ہزارسواراوربیس ہزارپیادوں پرمشتمل تھی پیغمبراکرمۖ کی رہبری میں مدینے سے تبوک کی طرف حرکت کررہی تھی جب کہ پہلے یہ خبرمل چکی تھی کہ روم کی فوج جوچالیس ہزارسوارپیادوں پرمشتمل تھی تمام جنگی سازوسامان کے ساتھ شام کی سرحدوں اورکمین گاہوں پرمتعین ہے اورمسلمانوں پرغافل گیرانہ حملہ کرناچاہتی ہے اگرچہ یہ جنگ مختلف جہات سے کافی دشوارتھی جس میں آپ وغذاوگرمی کی سختیاں بھی تھیں اسی لئے اس جنگ کو''جیش العسرة یعنی ایسے سپاہی جوسخت دشواریوں کے سامنے تھے،کہاجاتاہے ہے۔ لیکن مسلمانوں کی فوج ایمان،توکل،استقامت کے ساتھ پیغمبراکرمۖ کی رہبری میں حرکت کررہی تھی اوریہ لوگ مدینے وتبوک کے درمیان کاطولانی راستہ طے کررہے تھے۔ اورجب نویں ہجری کوماہ شعبان میں اسلامی فوج تبوک کی سرزمین پرپہنچی تورومی فوج پہلے ہی سے خوف ووحشت کی وجہ سے میدان چھوڑچکی تھی لہذایہ جنگ واقع نہ ہوسکی اس طرح منافقوں کی یہ سازش ناکام ہوئی اب انہوں نے نئی سازش چلی کہ مسلمانوں کے درمیان مشہورکردیاکہ پیغمبراکرمۖ حضرت علی سے بیزارتھے اسی لئے حضرت علی کواپنے ساتھ جنگ پرنہیں لے گئے یہ لوگ اپنی اس نامردانہ سازش اورتہمت سے امام علی کی رہبری پرضرب لگاناچاہتے تھے لہذاحضرت علی کوجب ان کی اس سازش کاعلم ہواتوآپ مدینے کے باہر نکلے اورپیغمبراکرمۖ سے ملاقات کرکے قصہ بیان کیاتوپیغمبراکرمۖ نے فرمایا:کیاتم راضی نہیں ہوکہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جوہارون کوموسی سے تھی فرق صرف اتناہے کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔پیغمبراکرمۖ کی یہ بات سن کرقلب علی کوسکون ہوااورمدینہ واپس لوٹے۔ منافقین جوامام علی کی رہبری پرضرب لگاناچاہتے تھے نہ صرف یہ کہ ان کی سازش ناکام ہوئی بلکہ پیغمبرۖ کی اس تائیدسے آپ کی رہبری اورہم نشینی میں اوربھی زورپیداہوگیا۔اسی طرح مدینے واپسی پرمنافقوں نے حضرت علی کے راستے میں گڑھاکھودااوراس کے اوپرگھاس ڈال کرچھپادیاتاکہ اس طرح حضرت علی سے اپنی دشمنی نکال سکیں مگرخدانے اس موقع پربھی حضرت علی کوان کی اس سازش سے زندہ بچایااورحضرت علی زندہ وسلامت مدینے پہنچے اس طرح ان دس افرادجوحضرت علی کے قتل کے ارادے سے مدینے رکے تھے،کی سازشیں ناکام ہوئیں۔ اورباقی چودہ افرادجولشکراسلام کے ہمراہ تھے انہوں نے خفیہ منصوبہ بنایاتھاکہ تبوک سے لوٹتے وقت مدینے وشام کے درمیان جوپہاڑہے اس میں چھپ کررسول خداۖ کے اونٹ کوپتھرماریں گے تاکہ وہ بھاگے اوراس طرح رسول خداۖ پہاڑوں کے درمیان گرکرہلاک ہوجائیں گے لہذاجیسے ہی پیغمبراکرم ان پہاڑوں کے نزدیک ہوئے جبرئیل نے آکرپیغمبراکرمۖ کومنافقین کی اس سازش سے آگاہ کیا اورمدینے والے منافقین کے بارے میں بھی آگاہ کیاجوحضرت علی کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ پیغمبراکرمۖنے مسلمانوں کومنافقین کی اس سازش سے آگاہ کیااورحضرت علی کی شان میں کچھ باتیں بھی کیں وہ چودہ منافقین بھی اپنے آپ کوپیغمبراکرامۖ سے محبت کرنے والاظاہرکرتے ہوئے آپ کی خدمت میں آکرحضرت علی کی رہبری کے سلسلے میں سوالات کرنے لگے پیغمبراسلام بھی بڑے اطمینان سے ان کے سوالوں کاجواب دینے لگے تاکہ ان پراتمام حجت کرسکیں۔ منافقین نے اس طرح بحث کاآغازکیاکہ ہمیں یہ بتائیں کہ علی بہترہیںیافرشتے؟ +پیغمبراکرمۖ: فرشتوں کی مقام ومنزلت ہی اس میں ہے کہ وہ محمد وعلی اورخداکے بھیجے ہوئے رہبروں سے محبت کریں اوران کی رہبریت کوقبول کریں لہذاہروہ انسان جواخلاص اورپاک قلب کے ساتھ ان کی رہبریت کوقبول کرتااوران سے محبت کرتاہے وہ فرشتوں سے برترہے۔ کیاتم لوگوں کوعلم نہیں کہ فرشتوں کا آدم کوسجدہ کرناہی اس لئے تھاکہ وہ اپنے آپ کوآدم سے افضل وبرترجانتے تھے لیکن خدانے جب آدم کاعلمی وانسانی مقام انہیں دکھایاتوپھرانہوں نے اپنے آپ کوآدم کے مقابل میں پست پایالہذااسی دن یہ سجدہ تمام نیکوکارخصوصاپیغمبراسلامۖ وحضرت علی ودیگرآئمہ کے لئے قرارپایاکیونکہ اس وقت بھی صلب آدم میں یہ لوگ موجودتھے گویایہ سب ایک دوسرے کے پیچھے کمال ونظم کے ساتھ صف آراء تھے اس عالم میں فرشتوں نے آدم کوسجدہ کیااگرچہ ظاہرمیں یہ سجدہ حضرت آدم کے لئے تھا مگردرحقیقت خداکے لئے تھااوراس مقام پرآدم مانندقبلہ تھے یعنی خانہ کعبہ کے ہم مقام تھے اورابلیس لعین جس نے غروروتکبرکے خاطر حضرت آدم کوسجدہ نہیں کیاوہ درگاہ الہی سے نکال دیاگیا۔ +منافقین: ممکن ہے ان رہبروں کے اشتباہات وترک اولی حضرت آدم کی طرح وقت سے پہلے ہلاک کردیں۔ +پیغبراکرمۖ: اگرحضرت آدمۖ نے بہشت کے منع شدہ درخت سے پھل کھاکرترک اولی کیاتویہ تکبروغرورکے تحت نہیں تھااسی لئے وہ جلدہی اپنے اس کئے پرپشیمان بھی ہوئے اورتوبہ کی۔خدانے بھی ان کی اس توبہ کوقبول کرلیا۔ +وہ مقام جہاںمنافقوں کے اصل نقشے خاک میں مل چکے تھے پیغمبراکرم کی یہ گفتگومنافقین کے لئے بے سودثابت ہوئیں اوروہ پہلے کی طرح اپنے سازشوں سے ��ازنہیں آئے یہاں تک کہ وہ اپنے اس فریب پربھی باقی رہے جوپیغمبراکرم کو پہاڑوں کے درمیان دھکیل کرقتل کی سازش بنائی ہوئی تھی۔لہذاپیغمبراکرمۖ نے جوحضرت جبرئیل کے ذریعہ اس سازش سے آگاہ تھے مسلمانوں میں سے حذیفہ نامی ماہرشخص کوحکم دیاکہ وہ پہاڑکے ایک کونے میں بیٹھ جائے تاکہ کوئی مجھے سے پہلے پہاڑپرنہ چڑھ سکے سب پیغمبراکرمۖ کے پیچھے پیچھے حرکت کریں گے۔ +لہذاحذیفہ پیغمبراکرمۖ کے حکم کے مطابق پہاڑکے ایک پتھرکے پیچھے چھپ کربیٹھ گئے تاکہ کوئی پیغمبراکرم سے پہلے نہ چڑھے لیکن پھربھی انہوں نے دیکھاکہ وہ ی ١٤افرادبڑے ماہرانہ اندازمیں پیغمبراکرم سے پہلے پہاڑپرچڑھ گئے اورہرایک نے اپنے کوایک ایک پتھرکے پیچھے چھپالیاہے حذیفہ نے سب کوپہچان لیا اورفوراپیغمبراکرمۖ کوآکراس کی خبردی پیغمبراکرم ان کی سازشوں سے آگاہی کے باوجوداونٹ پرسواررہے۔ حذیفہ بن الیمان،سلمان فارسی،عماربن یاسر، آنحضرت کی نگہبانی کررہے تھے جیسے ہی پہاڑ کے اس کونے پرپہنچے منافقین نے بھی اپنی سازش کے تحت اوپرسے پتھرلڑھکایاتاکہ پیغمبراکرم کے اونٹ کوڈرائیں وہ بدک کربھاگ جائے اورپیغمبراکرم پہاڑوں کے درمیان گرکرہلاک ہوجائیں لیکن سب نے دیکھاکہ وہ لڑھکنے والاپتھراس وقت تک اسی بلندی پررکارہاجب تک پیغمبر اکرم اورآپ کے تمام ساتھی سلامتی کے ساتھ گھاٹی سے گزرنہ گئے اس طرح کسی کابھی بال بیکانہ ہوا۔ +پیغمبراکرمۖ نے عمارکوحکم دیاکہ اوپرجاکے ان منافقین کے اونٹوں کومشتعل کردو۔عمارحکم پیغمبرکی اطاعت کرتے ہوئے اوپرگئے اوران منافقین کے اونٹوں کومشتعل کرنے لگے اسی اثناء میں جومنافقین اپنے اونٹوں پرچڑھ چکے تھے وہ اونٹوں کے مشتعل ہونے سے زمین پرگرنے لگے جس کی وجہ سے بعض کے ہاتھ پیربھی ٹوٹ گئے اس طرح ان منافقین کوپیغمبراکرم اوران کے اسلام سے دشمنی کرنے کاسبق ملالہذاہمین بھی چاہئے کہ ہرطرح سے اسلام کادفاع کرین اورمنافقین کے ارادوں کوناکام بنائیں۔ +نتیجہ: پیغمبراکرمۖ نے خودمنافقین کے ساتھ بھی ان کی سازشیں آشکارہونے سے پہلے ان سے مناظرے کئے جس کے ذریعے عقل ومنطق کے راستے دکھانے کی کوشش کی اورآخرتک ان پرحجت تمام کرتے رہے۔ +نجران ،مکہ ویمن کے درمیان کی آبادی ہے جس میں٧٣گاؤں تھے صدراسلام کے وقت وہاں عیسائی مذہب کے روحانی پاپ زندگی بسرکرتے تھے۔ وہاں کاسیاسی حاکم عاقب''نام کاشخص تھااورنجران کامذہبی رہنماابوحارثہ تھاجولوگوں کے درمیان مورداعتمادوقابل احترام تھا۔اسی طرح ایھم نامی شخص بھی کافی مشہورتھاوہ بھی لوگوں کے درمیان محترم وقابل احترام شمارہوتاتھا۔ جب ندائے اسلام پوری دنیامیں پھیلی تومسیحی علماء جنہوں نے پہلے ہی کتاب تورات اورکتاب انجیل میں دی ہوئی بشارتیں پیغمبراسلامۖ کے بارے میں پڑھی ہوئی تھیں وہ اس خبرکی تحقیق میں لگ گئے اسی تحقیق کے خاطرنجران کے مسیحیوں نے تین مرتبہ اپنے نمائندوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کرپیغمبراسلام کے پاس بھیجی تاکہ نبوت کی صداقت کے بارے میں تحقیق کریں ایک بارہجرت سے پہلے پیغمبراسلام کے پاس آئے اورمناظرے کئے دوسری اورتیسری مرتبہ ہجرت کے بعدمدینے میں پیغمبراسلام کے ساتھ مناظرہ ہواجس کاخلاصہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: +پہلی مرتبہ مسیحی مذہب کے نمائندے مکہ میںپیغمبراسلام کے پاس آئے تاکہ ان کی نبوت کی صداقت کے سلسلے میں تحقیق کریں لہذاکعبے کے اطراف میں انہوں نے رسول اللہۖ سے ملاقات کی اوربحث ومناظرے کوشروع کیاپیغمبراسلام خاموشی سے سنتے رہے اورپھران کے جواب دیناشروع کئے آخرمیں پیغمبر اسلام نے قرآن کی بعض آیات کی تلاوت کی جوس حدتک ان پراثراندازہوئیں کہ قرآن سنتے سنتے بے اختیاران لوگوں کی آنکھوں میں آنسوآگئے اورجب انہوں نے پیغمبراسلام کے بیانات کوبالکل اسی بشارت کے مطابق پایاجوان کوتورات وانجیل سے دی گئی تھیں تووہ فورامسلمان ہوگئے۔ وہ آیت جس کی پیغمبر اسلام ان کے سامنے تلاوت کی جواسی موقع پرنازل بھی ہوئی تھی وہ سورہ مائدہ کی آیت٨٣ تھی: واذاسمعواماانزل الی الرسول اعینہم تفیض من الدمع مماعرفوا من الحق یقولون ربناآمنافاکتبنامع الشاہدین۔ +تمام مشرکین خصوصاابوجہل کواس مناظرے سے بڑادکھ پہنچااورجب نجران کے نمائندے پیغمبراسلام کے پاس سے اٹھ کرجانے لگے توابوجہل اوراس کے ساتھ کچھ لوگوں نے ان کاراستہ روکااوران کوبرابھلاکہنے لگے کہ تم نے مسیحیوں کے ساتھ خیانت کی ہے اورتم اپنے آئین سے پلٹ گئے اوراسلام قبول کرلیا۔ انہوں نے بڑی نرمی سے جواب دیتے ہوئے کہاتمہیں ہم سے یاہمیں تم سے کوئی سروکارنہیں ہے اپنے اعمال کے جواب گوہم خودہوں گے۔(سیرت حلبی جلداول صفحہ ٣٨٣)۔ +یہ مناظرہ نجران مکہ کے بڑے سیاسی ومذہبی لیڈروں کے ساتھ مدینے میں ہجرت کے نویںسال پیش آیاجومباہلہ کے نام سے مشہورہے۔ جب پیغمبراسلامۖ نے تمام دنیاکے سربراہوں کے نام خطوط بھیجے اورانہیں اسلام کی دعوت دی۔ایک خط نجران کے رہنماابوحارثہ کے پاس بھی بھیجاجس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی نجران کاپاپ یہ خط پڑھ کرغصے سے سرخ ہوگیااوراسی وقت خط کوپھاڑدیااورنجران کے دوسرے بزرگان اوراہم اشخاص کوجمع کرکے مشورہ کیااس کے ساتھی کہنے لگے کہ کیونکہ موضوع کاتعلق نبوت سے ہے لہذاہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پھراس نے یہ بات عوامی آراء میں رکھی تونتیجتا یہ طے پایاکہ نجران کے تمام مسیحیوں کی طرف سے اہل علم کاایک گروہ پیغمبراسلامۖ کے پاس مدینہ جائے اوراس مسئلے میں ان سے مناظرہ کرے تاکہ حقیقت معلوم ہوسکے۔ +اگرچہ اس سلسلے میں گفتگوزیادہ ہے(جولوک اس کی تفصیل دیکھناچاہیں وہ بحارالانوارکی جلد٢١کے صفحے ٣٧٦میں رجوع کریں)۔ +نتیجہ یہ نکلاکہ مسیحیوں میں سے وہ ١٤افرادجوسب سے زیادہ قابل مانے جاتے تھے پیغمبراسلام کے پاس مدینہ آئے تاکہ آپۖ سے مناظرہ کریں یہ نجران کے نمائندے عملابہترین زرق وبرق والے لباس پہن کرآئے تاکہ جیسے ہی مدینے میں واردہوں تومدینے کے لوگ ان کی طرف جذب ہونے لگیں اوراس طرح ضعیف النفس لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت بٹھاسکیں۔ پیغمبراکرم ۖ بھی تمام پہلوؤں پرنگاہ رکھے ہوئے تھے جب یہ نجران کے نمائندے پیغمبراسلام کے پاس آئے توآپۖ نے ان کی طرف بالکل توجہ نہ کی اوردوسرے مسلمانوں نے بھی ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کی آخروہ تین دن تک مدینے میں حیران وسرگردان پھرتے رہے کہ ایک دن ان میں سے ایک نے عثمان وعبدالرحمن جوان کے سابقہ دوست تھے اس کی وجہ پوچھی توانہوں نے ان نمائندوں کوحضرت علی کے پاس بھیجاجب یہ حضرت علی کے پاس پہنچے توآپ نے فرمایاکہ یہ زرق وبرق والے لباس اپنے سے دورکرکے پیغمبراسلام کی خدمت میں جاؤتاکہ ان سے ملاقات میں کامیابی حاصل کرسکووہ لوگ حضرت علی کے کہنے کے مطابق فاخرہ لباس تبدیل کرکے گئے اورپیغمبراکرم سے ملاقات کاان کوشرف ملا۔ پیغمبراسلام جومسجدمیں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نمازباقی لوگ آ پ کی اقتدامیں نمازپڑھ رہے تھے نجران کے نمائندے آکراپنے مذہب کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کر��ے نمازمیں مشغول ہوگئے کچھ مسلمانوں نے ان کومنع کرنے کی کوشش کی مگرپیغمبراسلام نے ان کوروکااس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان نمائندوں کومدینے میں پوری آزادی ملی ہوئی تھی کسی کے زیراثرنہیں تھے لہذاتین تک ہرروزنمازجماعت کے بعدپیغمبراسلام اوران نمائندوں کے درمیان مناظرے ہوئے جن میں مسلمانوں کے علاوہ دیگرمسیحی ویہودی بھی شرکت کرتے تھے جس میں سب سے پہلے پیغمبراسلام نے گفتگوسروع کرتے ہوئے ان نجران کے نمائندوں کواسلام اورتوحیدکی طرف دعوت دی کہ آؤہم سب ایک خداکی پرستش کرتے ہیںاورخداکے فرمان کے مطابق زندگی بسرکریں پھرقرآن کی چندآیتوں کی تلاوت کی۔ +اہل نجران :اگراسلام لانے سے آپ کامقصدخداپرایمان لانااورخداکے فرمان پرعمل کرناہے توہم پہلے ہی سے مسلمان ہیں۔ +پیغمبراکرمۖ: اسلام حقیقی کی جوعلامات ہیںان میں سے تمہارے تین اعمال تمہارے مسلمان نہ ہونے پردلالت کرتیہیں۔ ایک علامت تمہاراصلیب کی پرستش کرنا،دوسری علامت سورکے گوشت کوحلال جاننااورتیسری علامت عقیدہ کہ خداکافرزندہے۔ +اہل نجران: ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی خداہیں کیونکہ وہ مردوں کوزندہ کرتے تھے اورلاعلاج بیمارکوشفادیتے تھے اورمٹی سے پرندہ بناکراس میں روح پھونکتے تھے اس طرح وہ مٹی پرندہ بن کراڑنے لگتی تھی،اس طرح کے کام ان کی خداہونے پردلالت کرتے ہیں۔ +نجران کانمائندہ کہنے لگاکہ حضرت عیسی خداکے بیٹے تھے اس بات پرہمارے پاس دلیل یہ ہے کہ ان کی مادرمریم سلام اللہ علیہاکے ساتھ کسی نے ازدواج نہیں کی تھی اورپھربھی حضرت عیسی کی ان سے ولادت ہوئی لہذاان کاباپ خدااوروہ خداکے بیٹے۔ +پیغمبراسلام نے سورہ آل عمران کی آیت ٦١کی تلاوت کی اورفرمایاکہ عیسی کی مثال حضرت آدم کی سی ہے کہ خدانے ان کوبغیرماں باپ کے خاک سے پیدا کیااوراگرباپ نہ ہونادلیل ہے کہ عیسی خداکے بیٹے ہیں توحضرت آدم جن کے ماں باپ دونوں ہی نہیں تھے ان کوبدرجہ اولی خداکابیٹاکہناچاہئے۔ نجران کے نمائندوں نے جب یہ دیکھاکہ جوبھی ہم پوچھتے ہیں توپیغمبراسلام جواب دیتے ہیں توجودنیاوی حرص میں مناظرہ کرنے آئے تھے قائل ہونے کے بعد بھی کہنے لگے کہ آپ کی یہ باتیں ہمیں قائل نہیں کرسکیں لہذابہترہے کہ ہم آپس میں مباہلہ کریں یعنی ایک جگہ جمع ہوکرخداسے رازونیازکریں اورجھوٹ بولنے والوں پرنفرین کریں تاکہ خداجھوٹ بولنے والوں کوہلاک کردے۔ +پیغمبراسلام نے وہی سورہ آل عمران کی آیت٦١ کے نازل ہونے کے بعد ان کی اس دعوت مباہلہ کوقبول کرلیااورپھرسب مسلمانوں کواس خبرسے آگاہ کیا۔ لوگوں میںمباہلہ کی باتیں ہونے لگیں اورلوگ مباہلہ کے انتظارمیں تھے۔ ہجرت کے نویں سال کا٢٤ویں ذی الحجہ کادن آیانجران کے نمائندوں نے آپس میں پہلے یہ کہہ رکھاتھاکہ اگرمحمدۖ لشکرواسباب کے ساتھ آئے توان سے مباہلہ کرنے میں نہ ڈرنااورمباہلہ کرناگویاپس پردہ کوئی حقیقت نہیں ہے اوراگرکم افراد کے ساتھ آئے توان سے مباہلہ نہ کرناکیونکہ اس حال میں ان کے ساتھ مباہلہ کرناخطرناک ہے۔ نجران کے نمائندے مباہلہ کی جگہ پرجمع ہوکرتورات وانجیل کی تلاوت اوررازونیازکرنے میں مصروف ہوگئے اوراس جگہ پیغمبراسلام کے آنے کاانتظارکرنے لگے ناگاہ انہوں نے دیکھاکہ پیغمبراسلام اپنے ساتھ چار دوسرے افرادکولئے چلے آرہے ہیں ایک ان کے داماد علی ،دوسرے ان کی بیٹی فاطمہ اوردوان کے فرزند۔ نجران کے نمائندوں میں شرجیل نامی شخص چلاکربولا خداکی قسم میں ایسی صورتوں کودیکھ رہاہوں جواگرخداسے چاہیں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے توایساہی ہوگالہذاڈرواورمباہلہ نہ کرو۔پھربھی اگرتم نے محمدکے ساتھ مباہلہ کیاتونجران کے مسیحیوں میں سے ایک فردبھی نہیں بچ سکے گالہذامیری بات سنواورمباہلہ نہ کرو۔ شرجیل کی اتنی تاکیدنے دوسرے نجران کے نمائندوں کے دلوں پراثرکیاجس کی وجہ سے ان پرعجیب سااضطراب طاری ہوافوراانہوں نے ایک شخص کوپیغمبراسلام کے پاس بھیجااورمباہلہ کوترک کرنے اورصلح کرنے کی درخواست کی۔ پیغمبراسلام نے بھی ان چارشرائط کے تحت صلح قبول کرلی: +اول یہ کہ نجران کے لوگ پابندہیں کہ اگراپنے علاقوں میں امن چاہتے ہیں توہرسال دوہزارحلے لباس دوقسطوں میںحکومت اسلامی کواداکریں۔ +دوم یہ کہ جب بھی محمدۖ کاکوئی نمائندہ نجران جائے اس کی ایک ماہ یااس سے زیادہ مہمان نوازی کی جائے۔ +سوم یہ کہ جب بھی یمن میں اسلام کے خلاف کوئی شوراٹھے نجران کے لوگ پابندہیں کہ تیس زرہ،تیس گھوڑے،تیس اونٹ عاریتاحکومت اسلامی کودیں۔ +چہارم یہ کہ اس صلح نامہ کے بعدسے نجران کے لوگوں میں شراب ممنوع ہے۔ +نجران کے نمائندوں نے اس ترتیب سے ان شرائط کوقبول کرلیا جب کہ حقیقت میں وہ لوگ پہلے ہی شکست کھاچکے تھے اورپھروہ لوگ نجران چلے گئے۔ +(بحارالانوارجلد٢١صفحہ٣١٩۔ سیرة ابن ہشام جلد٢صفحہ ١٧٥۔ فتوح البلدان صفحہ٧٦)ضمناخودآیت مباہلہ ہی عظمت اہل بیت کوبیان کرتی ہے۔ +نجران کاتیسراگروہ: یہ گروہ قبیلہ بنی حارث سے تھا جس میں بعض لوگ خالدبن ولیدکی نمائندگی میں پیغمبراسلام کے پاس مدینے آئے اورتحقیق کرنے کے بعد اسلام لے آئے اورکہنے لگے کہ ہم خداکالاکھ لاکھ شکراداکرتے ہیں کہ جس نے ہمیں آپ کے ذریعے ہدایت دی،پیغمبراسلام نے ان سے پوچھاتم لوگ کس طرح اپنے دشمنوں پرغالب آتے تھے؟ وہ لوگ کہنے لگے ہم آپس میں تفرقہ نہیں ہونے دیتے تھے اورکسی پرظلم نہیں کرتے تھے ۔پیغمبراسلام نے فرمایا: بیشک تم نے سچ کہا۔نتیجہ یہ نکلاکہ مسیحیوں کے نمائندوں میں سے پہلااورتیسراگروہ تواسلام لے آیامگردوسرے گروہ کاکام مباہلہ تک پہنچااورترک مباہلہ کے بعد حقانیت اسلام کوانہوں نے قبول کرلیا۔اگرچہ ظاہرمیں اسلام کوقبول نہیں کیاکیونکہ ان لوگوں کامباہلہ ترک کرواناخوداس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ لوگ محمدۖ اوراسلام کی حقانیت کوسمجھ چکے تھے صرف دوچیزیں ان کے اسلام لانے میں مانع تھیں ایک حکومت وریاست،دوسری نجران کے لوگوں کاخوف وڈر۔ +امام علی کامعاویہ سے مکاتبہ +معاویہ بن ابوسفیان نے حضرت علی کی خلافت میںجنگ صفین کے وقت ایک خط لکھاجس میں اس نے چارمطالبات کئے: +پہلامطالبہ شام کی سرزمین میرے حوالے کردیں تاکہ وہاں کی رہبری میں خودکروں۔ +دوسرامطالبہ جنگ صفین کابرقراررہنا،مسلمانوں کی زیادہ خونریزی اورعرب کی نابودی کاسبب بنے گی لہذااسے رکوادیں۔ +تیسرامطالبہ اس جنگ میں دونوں طرفین مسلمان ہیں اوراسلام کی اہم شخصیات ہیں۔ +چوتھامطالبہ ہم دونوں عبدمناف کے فرزندہیں جوپیغمبراکرمۖ کے جدتھے ہم میں سے کسی کوایک دوسرے پرکوئی برتری حاصل نہیں ہے۔لہذا ابھی موقع ہے گزشتہ باتوں پرپشیمان ہوکرآئندہ کے لئے اپنی اصلاح کرلیں۔ (کتاب الصفین ابن مزاحم صفحہ ٤٦٨)۔ +امام علی نے معاویہ کے ہرسوال کاجواب اس طرح دیا: +پہلے مطالبہ کاجواب تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں شام کی سرزمین دے دوں،یادرکھوجس چیزسے میں تمہیں کل تک منع کرتارہاآج بھی ہرگزتمہیں نہیں دوں گا کیونکہ حکومت الہیہ میں کل اورآج کی بحث نہیں ہے وہ ہرگزنااہلوں کے ہاتھ می�� نہیں دی جاسکتی۔ +دوسرے مطالبے کاجواب: تم نے یہ لکھاکہ یہ جنگ عربوں کی نابودی کاسبب بنے گی تویادرکھوکہ جوبھی جنگ میں حق کی طرفداری کرتے ہوئے مرااس کی جگہ جنت ہے اوراگرباطل کی طرفداری کرتے ہوئے مرااس کی جگہ آتش جہنم ہے۔ +تیسرے مطالبے کاجواب :تمہارایہ دعوی ہے کہ تمہارے اورہمارے جنگی افرادبرابرہیںجب کہ ایسانہیں ہے اس لئے کہ تم یقین میں میرے درجہ تک نہیں پہنچ سکتے اوریادرکھواہل شام ،اہل عراق کی نسبت آخرت کے مسئلے میں زیادہ حریص نہیں ہیں۔ +چوتھے مطالبے کاجواب :یہ جوتم نے کہاکہ ہم سب عبدمناف کی اولادسے ہیں اگرچہ یہ صحیح ہے لیکن تیرے جدامیہ میرے جدحضرت ہاشم کی مانند نہیں ہیں کیونکہ تیرے داداکی جنگ میرے داداعبدالمطلب کی طرح نہیں ہے اورتیرے باپ ابوسفیان اورمیرے باباابوطالب کے درمیان ہرگزکوئی برابری نہیں ہے اورمہاجرین ہرگزان اسیروں کے مانندنہین ہوسکتے جوکفاراوررسول اکرم کے آزادکردہ ہوں اورسنوصحیح النسب ہرگزمنسوب الپدرکے برابرنہیں ہوسکتے۔ +خلافت عثمانیہ کے زمانے میں ایک دفعہ مہاجرین وانصارکی تقریبادوسوافرادپرمشتمل جمعیت مسجدنبوی میں جمع ایک دوسرے سے گفتگومیں مصروف تھے۔ دونوں گروہ علم وتقوی کے بارے میں گفتگوکررہے تھے اورقریش کی برتری اوران کی ہجرت کی باتیں ہورہی تھیں کہ رسول خدانے قریش کے بارے میں کیا کہا۔بعض کہنے لگے رسول خدا نے قریش کے بارے میں کہاہے کہ الائمة من القریش یعنی آئمہ قریش سے ہوں گے۔بعض کہہ رہے تھے کہ رسول خدانے فرمایا الناس تبع لقریش وقریش ائمة العرب یعنی لوگ قریش کے تابع ہیں اورقریش عرب کے پیشواہیں۔ان کی یہ بحث صبح سے ظہرتک رہی۔اسی اثناء میں کسی نے حضرت علی سے پوچھاکہ آپ اس سلسلے میں کیافرماتے ہیں؟حضرت علی نے فرمایادونوں گروہ میں سے ہرایک اپنی شان ومنزلت کی گفتگوکررہا ہے لیکن میں تم لوگوںسے پوچھتاہوں کہ خداوندعالم نے کس کے سبب یہ بلندمرتبہ تم لوگوں کوعطاکیاہے؟مہاجرین وانصارکہنے لگے پیغمبراکرمۖ اوران کے خاندان کے وسیلے سے ہمیں یہ عظمت اوربلندمرتبہ ملاہے۔ +امام علی تم لوگوں نے سچ کہاکیونکہ تم لوگوں کے لئے سعادت دنیاوآخرت کاذریعہ ہم خاندان نبوت ہیں اورجیساکہ میرے چچازادبھائی پیغمبراکرمۖ نے فرمایا میں اورمیراخاندان خلقت آدم سے چودہ سال پہلے حالت نورمیں موجودتھے پھرخداوندعالم نے ہمارے نورکوپاک صلبوں میں منتقل کیاتاکہ کسی قسم کی آلودگی اس نورکوچھونے نہ پائے،پھرمولائے کائنات نے اپنے بعض فضائل بیان فرمائے اورحاضر ین سے قسم لی کہ کیارسول خدانے یہ نہیں فرمایا؟سب نے اعتراف کیاکہ بیشک رسول خدانے علی کی شان میں یہی کہاہے۔ منجملہ آپ نے فرمایاکہ میں تم لوگوں کوخداکی قسم دیتاہوں کہ جس نے بھی پیغمبراکرمۖ سے میری خلافت کے بارے میں سناہے وہ اٹھے اورگواہی دے۔اسی ہنگام میں سلمان،ابوذر ،مقداد،عمار،زیدبن ارقم،برابن عازب اٹھے اورکہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے پیغمبراسلامۖ سے سنااوریادرکھاہے کہ حضرت علی ایک دن پیغمبراکرم کے نزدیک کھڑے ہوئے تھے اورآپ منبرپرتشریف فرماتھے کہ آپ نے فرمایاکہ خداندعالم نے حکم دیاہے کہ تمہارے لئے امام،اپناجانشین اوروصی قراردوں۔ +میرے بعدجس کی تم لوگوں نے اطاعت کواطاعت کرنی ہے وہ میرابھائی علی ہے۔یہی میرے بعدتمہاراپیشوااوررہنماہوگا۔ +''یعنی یہ علی تمہارے درمیان مقام ومنزلت کے لحاظ سے میری روح ہے۔زندگی کے تمام مراحل میں اس کی اطاعت کرنا الغدیرجلداول صفحہ ١٦٣۔ فرائد السمطین باب ٧٨سمط اول)۔ +اس طرح مولائے کائنات نے اپنی امامت کے دلائل ان کے سامنے بیان کرکے ان پرحجت تمام کی۔ +پیغمبراکرمۖ کے صحابیوں میںسے ایک حضرت عماریاسرتھے جنہوں نے کافی عمرپائی اوررسول خداکے بعدحضرت علی کاساتھ دیتے رہے جنگ صفین میں ان کی شہادت واقع ہوئی۔ +پیغمبراکرم نے ان کے بارے میں فرمایاتھا تقتلک الباغیة''اے عمار!تمہیں باغی گروہ قتل کرے گا۔یہ حدیث دوسرے مسلمانوں نے بھی سنی تھئی اوران کے درمیان پیغمبراکرمۖ کی یہ حدیث کافی مشہورہوچکی تھی۔ +اس بات کوکئی سال گزرگئے یہاں تک کہ حضرت علی کی خلافت کازمانہ آیااورحضر ت علی اورمعاویہ کے سپاہیوں کے درمیان جنگ ہوئی۔اس جنگ میں حضرت عماریاسرجوامام علی کے لشکرمیں تھے جنگ کرتے کرتے معاویہ کے سپاہیوںکے ہاتھوں قتل ہوکردرجہ شہادت پرفائزہوئے۔اب توجولوک شک وتردد میں تھے کہ معاویہ حق پرہے یاحضرت علی اس واقعے کے بعدپیغمبراکرمۖ کے فرمان کی روشنی میں ان پربھی واضح ہوگیاکہ معاویہ اوراس کالشکرباغی اورظالم ہے۔ لہذامعاویہ باطل پرہے۔جب معاویہ نے دیکھاکہ لوگوں کی ان باتوں سے اس کے سپاہیوں کے ارادوں میں ضعف پیداہورہاہے اورممکن ہے ان کے درمیان اختلاف ہوجائے تومعاویہ نے سیاست اورغلط بیانی سے لوگوں کودھوکہ دیتے ہوئے کہاکہ دراصل عمارکے قتل کے ذمہ دارعلی ہیں کیونکہ وہ عمارکوجنگ میں لائے اگروہ عمارکوجنگ میں نہ لاتے توعمارقتل نہ ہوتے۔اس کی اس توجیح سے بعض افرادگمراہ ہونے لگے۔ +جب حضرت علی نے یہ عالم دیکھاتواس کاجواب دیتے ہوئے فرمایا اگرمعاویہ کایہ کہناصحیح ہے توجنگ احدمیں جوپیغمبرکے چچامشرکوں کے ہاتھوں قتل ہوئے انہیں بھی کہوکہ پیغمبرنے انہیں شہیدکروایاہے کیونکہ پیغمبرنے انہیں جنگ پربھیجاتھا''۔ +عمروعاص کے بیٹے عبداللہ نے امام کایہ جواب معاویہ کوپہنچایاجس پرمعاویہ سخت غصے میں عمروعاص سے کہنے لگا اے فرزنداحمق!اپنے آپ کواس مجلس سے دورکر''۔یہ سب باتیں گویاخودایک مناظرہ ہی تھی جس نے دشمن کی فکرکوخاک میں ملادیا(اعیان الشیعہ جلد٤٢ص٢١٥)۔ +امام سجاد اورایک شامی مرد +واقعہ کربلاکے بعدامام سجاد کوان کے اہل خانہ کے ساتھ اسیرکرکے دمشق لے جایاجارہاتھا کہ راستے میں شام کارہنے والاایک ضعیف شخص امام کے پاس آیااورکہنے لگا خداکی حمدوثناء کہ اس نے تم لوگوں کوقتل کیاتمہارے شہرکے لوگوں کوتم سے نجات دی اورامیرالمومنین(یزید)کوتم پرمسلط کیا''۔امام سجاد نے ناآگاہ اس مسلمان بوڑھے سے اس طرح مناظرہ کیاکہ اے شخص!تونے قرآن پڑھاہے؟ +امام سجاد: کیاتم نے اس آیت قل لااسئلکم علیہ اجراالاالمودة فی القربی کے معنی صحیح سمجھے ہیں؟یعنی اے پیغمبرۖ!آپ کہہ دیجئے کہ مجھے تم لوگوں سے تبلیغ رسالت کااجرکچھ نہیں چاہئے سوائے اس کے کہ تم میرے اہل بیت سے محبت کرو(سورہ شوریآیت٢٣)۔ +بوڑھاشخص: ہاں یہ آیت میں نے پڑھی ہے۔ +امام سجاد: وہ اہل بیت رسولۖ ہم لوگ ہیں۔کیاتم نے سورہ اسراء کی آیت ٢٦پڑھی ہے وات ذالقربی حقہ یعنی پیغمبرکے قربی کاحق اداکرو؟ +بوڑھاشخص:یہ آیت بھی میں نے پڑھی ہے۔ +امام سجاد: وہ رسول کے قربی ہم ہیں اے شخص تم نے سورہ انفال کی آیت ٤١پڑھی ہے واعلمواانماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی یعنی یاد رکھو جوبھی مال غنیمت تمہارے ہاتھ آئے اس کاپانچواں حصہ خداورسول اوران کے اقرباء کاہے؟ +بوڑھاشخص: ہاں یہ آیت بھی میں نے پڑھی ہے۔ +امام سجاد: وہ پیغمبرکے اقرباہم ہیں اورکیاتم نے سورہ احزاب کی آیت ٣٣کی تلاوت کی ہے انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطھیرا یعنی اے اہل بیت،خدایہ چاہتاہے کہ ہرقسم کی نجاست کوتم سے دوررکھے اورتم کوایساپاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے؟ +بوڑھاشخص: ہاں یہ آیت بھی پڑھی ہے۔ +امام سجاد ہم وہ خاندان ہیں جن کی شان میں یہ آیہ تطھیرنازل ہوئی ۔ +بوڑھے شخص نے جب یہ سب سنااورحقیقت واضح ہونے لگی توپشیمانی کے آثاراس کے چہرے پرنمایاں ہوئے اوروہ کہنے لگا:آپ کوخداکی قسم!کیاآپ نے جوکچھ کہاوہ سچ ہے؟ +امام سجاد:خداکی قسم اوراپنے جدپیغمبرکے حق کی قسم کہ ہم ہی وہ خاندان نبوت ہیں۔ +بوڑھاشخص رونے لگااورہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکرک کہنے لگا خدایاہم دشمنان آل محمدچاہے جنات سے ہوں یاانس سے سب سے بیزارہیں''۔ +اورامام کے سامنے توبہ کرنے لگاجب اس بوڑھے شخص کی توبہ کی داستان یزیدتک پہنچی تواس نے اس بوڑھے شخص کے قتل کاحکم دیااس طرح یہ راہ راست پانے والابوڑھاشخص محبت وآل محمد میںدرجہ شہادت پرفائزہوا۔ +امام صادق کے دست مبارک پرملحدکاقبول اسلام +مصرمیں عبدالملک نام کاایک شخص رہتاتھا اس کے بیٹے کانام عبداللہ تھالہذااس بناء پراسے ابوعبداللہ کہاجاتاتھا۔عبدالملک ملحدتھااس کااعتقاد یہ تھاکہ یہ دنیاخودبخودوجودمیں آگئی ہے اس نے سناہواتھاکہ شیعوں کے امام حضرت صادق مدینے میں رہتے ہیں لہذاس نے مدینہ کاسفرکیا۔ جب مدینہ پہنچا اورامام صادق کاپتہ پوچھاتولوگوں نے اسے بتایاکہ امام مراسم حج انجام دینے کے لئے مکہ گئے ہوئے ہیں وہ مکے کی طرف روانہ ہوا،کنارکعبہ اس کی امام سے ملاقات ہوئی،امام طواف میں مشغول تھے،ہ بھی طواف کرنے والوں کی صفوں میں داخل ہوگیااوراس نے امام کودشمنی کووجہ سے کندھامارا،امام نے بڑی نرمی سے پوچھاتیرانام کیاہے؟اس نے کہاعبدالملک،امام نے پوچھاتیری کنیت کیاہے؟اس نے کہاابوعبداللہ۔امام نے پوچھاوہ سلطان جس کے تم بندہے وہ زمین کاحاکم ہے یاآسمان کااورتمہاری کنیت جوابوعبداللہ ہے تووہ خداجس کے بندے کے تم باپ ہووہ زمین کاخداہے یاآسمان کاخداہے؟عبدالملک نے کچھ جواب نہ دیا۔ہشام بن حکم جوامام صادق کے شاگردتھے وہ بھی وہاں حاضرتھے اس نے عبدالملک سے کہاامام کے سوال کاجواب کیوں نہیں دیتے؟عبدالملک ہشام کی بات سن کرتواورآگ بگولہ ہوگیاامام صادق نے بڑے پیارسے کہاصبرکرومیرا طواف تمام ہوجائے اس کے بعدتم میرے پاس آنا توپھرگفتگوکریں گے جب امام نے طواف مکمل کرلیاتووہ امام کے پاس آکربیٹھ گیااس وقت امام کے پاس ان کے کچھ شاگردبھی بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں امام اورعبدالملک کے درمیان اس طرح سے مناظرہ شروع ہوا: +امام صادق :کیاتم مانتے ہوکہ زمین کاکوئی ظاہروباطن ہے؟ +امام صادق کیازمین کے نیچے گئے ہو۔ +امام صادق پس تمہیں کیسے معلوم کہ زمین کے نیچے کیاہے؟ +ملحد: زمین کی تہہ کاعلم تونہیں ہے لیکن گمان کرتاہوں کہ نیچے کچھ بھی نہیں ہے۔ +امام صادق گمان وشک ایک قسم کاعلاج ہے جب انسان کسی چیزمیں یقین حاصل نہ کرسکے توپھرگمان پرعمل کرتاہے پھرامام نے فرمایاکیاآسمان پرگئے ہو؟ +امام صادق عجیب بات ہے کہ جب تم نہ مشرق گئے ہونہ مغرب گئے ہونہ زمین میں گئے ہونہ آسمان پرگئے ہوتاکہ تمہیں پتہ چل سکے کہ وہاں کیاہے تواس جہالت کے سبب کیوںکرخداکاانکارکرتے ہو؟جب تم موجودات زمین وآسمان کے نظام سے ناآشناہوجووجودخدااوراس کی وحدانیت کی حکایت کرتی ہیں کیونکرخداکاانکارکرتے ہو؟کیاجوشخص جس چیزکاعلم نہیں رک��تااس کاانکارکردے؟ +ملحد: آج تک کسی نے مجھ سے ایسی گفتگونہیں کی۔ +امام صادق: پس اس بناء پرتم شک وترددمین ہوکہ شایدزمین کے اندراورآسمان کے اوپرکوئی چیزین ہوں یانہ ہوں۔ +ملحد: شایدایساہو،اسطرح وہ منکرخداانکارکے مرحلے سے نکل کرشک وتردد میں پڑگیا۔ +امام صادق کیاجونہیں جانتااس پرجوجانتاہودلیل وبرہان لاسکتاہے؟اے برادرمصری! مجھ سے سن لواورذہن نشین کرلوکہ ہم ہرگزوجودخداکے بارے میں شک نہیں کرتے۔کیاتم چاندوسورج اوردن ورات کامشاہدہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے معین وقت پرآتے جاتے ہیں وہ اپنی حرکت میں دوسرے کے مجبورہیں اور اگرمجبورنہیں ہیں توکیوں کبھی دن رات اوررات دن نہیں ہوجاتے؟ اے برادرمصری !خداکی قسم یہ سب مجبورہیں کہ ن کوکوئی حکم دے۔ +ملحد: آپ نے سچ کہا۔ +امام صادق اے برادرمصری ذرایہ توبتاؤکہ تمہاراعقیدہ اس بارے میں کیاہے کہ زمانہ تمام موجودات کوزندہ کرتاہے اورسب کوچلارہاہے اوراگرایساہے تو مرنے والے مردوں کوزمانہ پھرسے زندہ کیوں نہیں کردیتا؟ اے برادر! یہ سب مجبورہیں کیونکہ آسمان اوپراورزمین نیچے ہے کیوں آسمان نیچے اورزمین اوپر چلے نہیں جاتے کیوں موجودات آپس میں ایک دوسرے سے مل نہیں جاتے؟ +عبدالملک نے جب امام کے یہ محکم استدلال سنے تواب اس کاشک کامرحلہ بھی یقین وایمان میں بدل چکاتھاوہ فوراامام کے سامنے ہی ایمان لے آیااور گواہی دی کہ خداوحدہ لاشریک ہے۔اسلام مذہب حق ہے بیشک وہی خدازمین وآسمان کامالک ہے جس نے ان دونوں کواپنی اپنی جگہ روکاہواہے۔امام کاایک شاگرد جس کانام حمران تھااٹھااورکہنے لگامیرے ماں باپ آپ پرقربان بیشک آج جس طرح منکران خداآپ کے ہاتھوں ایمان لارہے ہیں اسی طرح کل آپ کے جدپیغمبراکرمۖ کے ہاتھوں اسلام لائے تھے۔ عبدالملک جوابھی تازہ مسلمان ہواتھا امام ۖ سے عرض کرنے لگامجھے بعنوان شاگردقبول کرین امام نے اپنے معتمدعلیہ شاگرد ہشام بن حکم کوبلایااورکہاعبدالملک کواپنے ساتھ لے جاؤاوراس کواسلام کی تعلیم دو،ہشام امام کی طرف سے معین کردہ زبردست استادتھے، ہشام نے عبدالملک کواپنے پاس بلایااوراس کواصول عقائدواحکام اسلام کی تعلیم دی تاکہ وہ ایک سچے اورپاک عقیدہ کے ساتھ رہ سکے امام ہشام کے اس طریقہ تعلیم کوبہت پسندکرتے تھے(اصول کافی جلداولص٧٢۔٧٣)۔ +ابن ابی العوجاء اورامام صادق +عبدالکریم نامی شخص جوابن ابی العوجاء کے نام سے مشہورتھاایک دن امام صادق کی بارگاہ میں آیا،دیکھاامام کے پاس ایک گروہ بیٹھاہواہے یہ بھی خاموش بیٹھ گیا۔ امام نے اس کی طرف متوجہ ہوکرکہاکیامجھ سے بعض مسائل پرمناظرہ کرنے آئے ہو؟ابن العوجاء کہنے لگا:اے فرزندرسول بے شک میں اسی مقصدسے آیاہوں۔ +امام صادق تم پرتعجب ہے کہ ایک طرف خداکاانکارکرتے ہودوسری طرف مجھے پیغمبرخداکافرزندکہتے ہو۔ +ابن ابی العوجائ: میری عادت مجھے ایسی بات کرنے پرمجبورکرتی ہے ۔ +امام صادق توپھرخاموش کیوں ہو؟ +ابن ابی العوجائ: آپ کارعب وجلال باعث بناہواہے کہ میری زبان کلام کرنے سے قاصرہے اگرچہ میں نے بڑے بڑے دانشمندوں اورخطبیوں سے بحث کی ہے اورانہیں شکست دی ہے لیکن کوئی مجھے آپ کی طرح مرعوب نہیں کرسکا۔ +امام صادق: اب جب کہ تم گفتگوشروع نہیں کررہے ہیں تومیں خودگفتگوکاآغازکرتاہوں اورپھرآپ نے اس سے فرمایاتم کسی کے بنائے ہوئے ہویانہیں؟ +ابن ابی العوجائ: میں کسی کابنایاہوانہیں ہوں۔ +امام صادق ذراتم یہ توبتاؤکہ اگرکسی کے بنائے ہوئے ہوتے توکس طرح ہوتے۔ +ابن ابی العوج��ء کافی دیرخاموش رہااوراپنے نزدیک پڑی ہوئی لکڑی کوہاتھ میں لے کرتخلیقی چیزوں کی صفتیں بیان کرنے لگاکہ مصنوعی چیزوں میں اس طرح کے عیوب مثلابڑایاچھوٹاہونایامتحرک اورجامدہونایہ سب صفتیں پائی جاتی ہیں۔ +امام صادق اگرتخلیقی چیزوں کی ان صفات کے علاوہ دوسری صفات تم نہیں جانتے ہوتویادرکھوکہ تم خودبھی ایک تخلیق ہولہذاخودکوبھی کسی کابنایاہواجانوکیونکہ اسی طرح کی صفات تم اپنے وجودمیں بھی پاؤگے۔ +ابن ابی العوجائ: آپ نے مجھ سے ایساسوال کیاہے جوآج تک کسی نے نہیں کیااورنہ آئندہ کرے گا۔ +امام صادق اگریہ فرض کرلیاجائے کہ پہلے کسی نے تم سے اس قسم کاسوال نہیں کیاتویہ کیسے کہہ سکتے ہوکہ آئندہ بھی کوئی اس قسم کاسوال تم سے نہیں کرے گا۔ اس طرح تم نے خوداپنی بات پرنقض واردکردیاکہ تمام پہلی اورپچھلی چیزیں برابرہیں۔لہذااس بناپرایک ںچیزکومقدم اورایک چیزکوموخرمانتے ہو۔ اے عبدالکریم یہ بتاؤکہ اگرتمہارے پاس سونے کے سکوں سے بھری ہوئی تھیلی ہواورکوئی تم سے کہے کہ اس تھیلی میں سونے کے سکے ہیں اورتم جواب میں کہونہیں اس میں کوئی چیزنہیں ہے۔وہ تم سے کہے کہ سونے کے سکے کی علامت کیاہے تواگرتم طلائی سکوں کی صفت نہ جانتے ہوتوکیاتم اس سے کہہ سکتے ہوکہ اس تھیلی میں سونے کے سکے نہیں ہیں۔ +ابن ابی العوجا: نہیں اگرنہ جانتاہوں تونہیں کہہ سکتاکہ نہیں ہیں۔ +امام صادق تویادرکھوکہ اس جہان کی وسعت اس تھیلی سے کہیں زیادہ ہے لہذااب میں پوچھتاہوں کہ کیایہ جہان مصنوع ہے؟کیونکہ تومصنوعی چیزوں کی خصوصیت کوغیرمصنوع چیزوں کے مقابل میںنہیں جانتے ہوجب گفتگواس حدتک پہنچی اورابن ابی العوجاء سے کوئی جواب نہ بن پڑاتووہ شرمندہ ہوکرخاموش رہااس کے بعض ہم مسلک مسلمان ہوگئے اوربعض اپنے ہی کفرپرڈٹے رہے(اصول کافی جلداول صفحہ٧٦)۔ +ابن ابی العوجاء پھرتیسرے دن امام صادق کے پاس آیااورکہنے لگاآپ سے آج پھرکچھ سوال کرنے آیاہوں۔ +ابن ابی العوجائ: آپ کے پاس اس پرکیادلیل ہے کہ یہ دنیاحادث ہے کہ پہلے نہیں تھی اوراب وجودمیں آئی ہے؟ +امام صادق ہرچھوٹی بڑی چیزوں کوتصورکرواگرکوئی اضافی چیزہوتواس کواس کے ساتھ ضم کروتووہ چیزبڑی ہوجائے گی یہی حال انتقال کاہے کہ حالت اول میں چیزچھوٹی ہوتی ہے دوسری حالت میں بڑی ہوجاتی ہے۔حادث کے معنی بھی یہی ہیں اگروہ چیزقدیم ہوتی تودوسری صورت میں تبدیل نہیں ہوسکتی، کیونکہ ہروہ چیزجونابودہویامتغیرہو،دوبارہ پیداہونے اورنابودہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لہذ١یہ موجودعدم سے حاصل ہوتاہے اکرفرضاوہ چیزقدیم تھی اور بڑی ہوجانے کی وجہ سے متغیرہوئی اورحادث ہوگئی ہے توبھی اسے قدیم ہی ماناجاسکتاکیونکہ ایک ہی چیزقدیم وحادث نہیں ہوسکتی۔ +ابن ابی العوجاء چلیں فرض کریں کہ چھوٹے یابڑے ہونے کی وہی حالت ہے جوآپ نے فرمائی جواس دنیاکے حادث ہونے کی حکایت کرتی ہے لیکن اگرسب چیزیں اپنے چھوٹے سن کی حالت پرباقی رہیں توآپ کے پاس ان کے حدوث پرکیادلیل ہے؟ +امام صادق ہماری بحث کامحوریہی موجودہ دنیاہے جوتغیرکی حالت میں ہے اوراگراس جہان کے علاوہ دوسرے کسی جہان کی بحث کریں توگویاوہ بھی ایک بعد میں آنے والی دنیاہے یاپہلے والی ہے تویہ بھی وہی حادث ہونے کے معنی ہیں اوراگربقول تمہارے چھوٹی چیزاپنی ہی حالت پرباقی رہے تویہ رہ سکتی ہے مگر جب اسی چھوٹی چیز کے ساتھ کوئی دوسری چھوٹی ہی چیزضم کی جائے تووہ بڑی ہوجائے گی لہذااشیاء کاتغیروتبدل خودان کے حادث ہونے کی دلیل ہے۔ +ابن ابی العوجاء کی ناگہانی موت +ابن ابی العوجااورامام صادق کے درمیان مناظرے کے دوسرے سال کنارکعبہ پرپھرامام صادق سے ملاقات ہوئی امام کے کسی چاہنے والے نے امام سے عرض کی کہ مولا! کیاابن ابی العوجاء اب تک مسلمان نہیں ہوا؟ +امام نے جواب میں فرمایا: اس کاقلب اسلام کے مدمقابل اندھاہے وہ ہرگزایمان لانے والانہیں ہے جیسے ہی امام کی نگاہ ابن ابی العوجاء پرپڑی آپ نے کہا: اب یہاں کیوں آئے ہو؟ +ابن ابی العوجاء کہنے لگا:اپنے معمول کے مطابق مسلمانوں کی موسم حج میں دیوانگی ،پتھرپرسرمارنے اورچومنے وچکرلگانے کودیکھنے آیاہوں۔ +امام تواب تک اپنی سرکشی اورگمراہی پرباقی ہے؟ابن ابی العوجاء جیسے ہی بات شروع کرناچاہتاتھاامام نے فرمایا: مراسم حج میں مجادلہ صحیح نہیں ہے۔ پھرآپ نے اس کی عباکوہلاتے ہوئے کہاکہ اگرحقیقت وہی ہے جس کے ہم معتقدہیں،اوربے شک ایساہی ہے توہم ہی کامیاب ہیں اوراگرحق تمہارے ساتھ ہے، اوریقیناایسانہیں ہے توہم اورتم دونوں کامیاب ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں حالتوں میں کامیاب ہیں لیکن تم ان دونوں صورتوں میں سے ایک میں ہلاک ہوجاؤ گے۔ +اسی دوران ابن ابی العوجاء کی حالت بدلنے لگی وہ اپنے اطرافیوں سے کہنے لگامیرے قلب میں دردمحسوس ہورہاہے مجھے لے چلوجیسے ہی اس کے اطرافی اسے لے چلے وہ راستہ ہی میں مرچکاتھا۔لہذاوہ اسی طرح کفرکی موت مرا۔ +عبداللہ دیصانی کاہشام کے سامنے مسلمان ہونا +جیساکہ پہلے گزراہشام بن حکم امام صادق کے ایک لائق شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکرخداعبداللہ دیصانی نے ہشام سے ملاقات کی اورکچھ سوالات کئے: +عبداللہ: کیاتمہاراخداپوری دنیاکوایک مرغی کے انڈے کے اندربندکرسکتاہے؟جب کہ دنیاچھوٹی ہواورنہ مرغی کاانڈابڑاہو؟ +ہشام: اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو۔ +عبداللہ :ایک سال تمہیں مہلت دیتاہوں۔ +ہشام اپنی سواری پرسوارہوئے اورامام صادق کی خدمت میں آکرعرض کرنے لگے فرزندرسول!عبداللہ دیصانی میرے پاس آیااورایک ایساسوال مجھ سے کیاجس کاجواب میں نہیں دے سکا۔ +امام صادق اس کاسوال کیاہے؟ +ہشام: وہ کہہ رہاتھاکہ کیاخدااپنی قدرت کے پیش نظردنیاکواپنی وسعت کے ساتھ مرغی کے انڈے میں قراردے سکتاہے یانہیں؟ +امام صادق: اے ہشام تمہارے پاس کتنے حواس ہیں؟ +ہشام: حواس خمسہ: ١۔قوت باصرہ ٢۔قوت سامعہ ٣۔ قوت لامسہ ٤۔قوت ذائقہ ٥۔قوت شامہ۔ +امام صادق ان میں سے سب سے چھوٹی قوت کونسی ہے؟ +امام صادق اس قوت باصرہ کوآنکھ میں قراردیاگیاہے،کبھی اس کااندازہ کیاہے؟ +ہشام جی ہاں امام وہ آنکھ ایک دال کے دانے کے برابرہے یاشایداس سے بھی چھوٹی ہے۔ +امام صادق اے ہشام!ذرااپنے سامنے،اوپراورنیچے نگاہ ڈالواوربتاؤکہ تم کیادیکھتے ہو؟ +ہشام: آسمان،زمین،گھر،پہاڑ،نہریں،لوگ سب نظرآرہے ہیں۔ +امام صادق وہ جواس بات پرقادرہے کہ جوکچھ بھی تم دیکھ رہے ہواس آنکھ کے اندرہے جودال کے برابرہے توکیاوہ اس کائنات کومرغی کے انڈے میں چھوٹا کئے بغیراورانڈے کوبڑاکئے بغیرقرارنہیں دے سکتا؟ +ہشام اسی وقت اٹھے اورامام صادق کے ہاتھ پیروں کابوسہ دیااورکہنے لگے: یاابن رسول اللہ! میرے سوال کااتناہی جواب کافی ہے ہشام اپنے گھرچلے گئے دوسرے دن جب عبداللہ دیصانی ہشام کے پاس آیااورکہنے لگامیں صرف ملنے آیاہوں نہ کہ گزشتہ دن کے سوال کاجواب لینے،ہشام کہنے لگے اگراس سوال کاجواب بھی چاہتے ہوتولوسنو۔امام کاجواب من وعن نقل کردیا۔ +عبداللہ دیصانی نے چاہاکہ خودامام کے پاس جائے اورسوالات کرے لہذاوہ امام صادق کے گھرآکران کی زیارت سے مشرف ہوااورکہنے لگا: جعفربن محمد مجھے میرے معبودکی طرف رہنمائی کیجئے۔ +عبداللہ باہرچلاگیااوراپنانام نہ بتایااس کے دوستوںنے اس سے پوچھاتم نے اپنانام کیوں نہیں بتایااس نے جواب دیاتووہ یہ ضرور پوچھتے کہ جس کے تم بندے ہووہ کون ہے؟عبداللہ کے دوست کہنے لگے جاؤامام سے کہوآپ مجھے معبود کی طرف رہنمائی کریں اورمیرانام نہ پوچھیں۔ عبداللہ نے جاکرایساہی کیا۔ +امام صادق جاؤفلاں جگہ جاکربیٹھ جاؤ۔عبداللہ جاکربیٹھ گیا۔اسی اثناء میں امام کے ایک فرزندجن کے ہاتھ میں مرغی کاانڈاتھا اوروہ اس سے کھیل رہے تھے وہاں پہنچے،امام نے اس بچے سے کہالاؤمجھے یہ انڈاتودیدو۔امام نے انڈے کوہاتھ میں لیتے ہوئے عبداللہ کومتوجہ کرتے ہوئے کہا: اے عبداللہ دیصانی ذرا اس انڈے کی طرف نگاہ کروگے کہ یہ انڈاکتنی چیزوں پرمشتمل ہے۔ ١۔ موٹی کھال۔ ٢۔پھراس کے نیچے باریک اورمضبوط کھال۔ ٣۔دوسونے اورچاندی کے رنگ کے دریاہیں جوکبھی بھی آپس میں نہیں ملتے۔ نہ سوناچاندی سے مل پاتاہے اورنہ چاندی سونے سے بلکہ اپنی اسی حالت پرباقی رہتے ہیں۔ پھراگراسے استعمال نہ کیاجائے اوراسے گرمی دی جائے توایک خوبصورت چوزہ اس سے باہرآتاہے کیاتمہاری نظرمیں یہ سب تشکیلات بغیر تدبیر وارادے کے وجودمیں آگئی ہیں؟ عبداللہ دیصانی کافی دیرتک سرجھکائے خاموش رہاپھرجب نورایمان اس کے قلب پرپڑاتواس نے سراٹھایااورکہاکہ میںگواہی دیتاہوں کہ خداوحدہ لاشریک ہے اورمحمدۖ اس کے بندے اوررسول ہیں اورآپ خداکی طرف سے لوگوں پرحجت ہیں لہذامیں اپنے سابقہ باطل عقیدے سے توبہ کرتاہوں اورحق کی طرف آتاہوں(اصول کافی جلداول ص٧٩۔٨٠)۔ +دوئی پرستوں کاامام صادق سے مکالمہ +دوئی پرست امام صادق کی بارگاہ میں آئے اوراپنے عقیدے کادفاع کرنے لگے ان کاعقیدہ یہ تھاکہ اس کائنات کے دوخداہیں ایک نیکیوں کاخدادوسرا بدیوں کاخدا۔ امام صادق نے ان کے اس عقیدے کی ردمیں فرمایاکہ یہ جوتم لوگ کہتے ہوکہ دوخداہیں وہ ان تین تصورات سے خالی نہیں ہیں: ١۔ یادونوں طاقت وراورقدیم ہیں۔ ٢۔یادونوں ناتوان ہیں۔ ٣۔یاایک قوی اوردوسراناتوان ہے ۔ +لہذاپہلی صورت میں کیوں پہلادوسرے کومیدان سے ہٹانہیںدیتاتاکہ خودتنہااس پوری دنیاپرحکومت کرے لہذااس دنیاکاایک ہی نظام ہونااس بات پردلیل ہے کہ اس کاحاکم بھی ایک ہے لہذاخداقوی مطلق ہے ۔ +تیسری صورت بھی خدائے یکتاوواحدکوبیان کرتی ہے اورہماری بات کوثابت کرتی ہے کیونکہ وہی خداقوی ہے ۔ +لیکن دوسری صورت میں وہ دونوں ایک جہت سے متفق ہیں اورایک اعتبارسے آپس میں اختلاف ہے ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ان میں ایک مابہ الامتیاز''ہوتاکہ ایک کادوسرے سے امتیازہوسکے یعنی ایسی چیزجوایک خدامیں ہودوسرے میں نہ ہواوریہ بھی ضروری ہے کہ وہ مابہ الامتیاز''قدیم ہویعنی ابتداء سے ان دونوں خداؤں کے ساتھ ہو،تاکہ اگراسی ترتیب سے فرض کرتے جائیں توکئی خداؤں کاہونالازم آئے گالہذاضروری ہے کہ کسی آخری خداکے قائل ہوں۔ +دوئی پرست: وجودخداپرآپ کی کیادلیل ہے؟ +امام صادق: یہ پوری دینایہ تمام مخلوق اپنے بنانے والے کی نشان دہی کرتی ہے جیسے کہ تم ایک اچھی بنی ہوئی تیاربلڈنگ کودیکھ کراس کے بنانے والے کی تعریف کرتے ہواگرچہ اس کے بنانے والے کوتم نے نہ دیکھاہو۔ +امام صادق: خداتمام چیزوں کودرک کرنے میں حواس کامحتاج نہیں اورنہ ہی خیالات اس کودرک کرسکتے ہیں اورزمانے کے ردوبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی۔ +ابن شہرآشوب مسندابوحنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بن زیادنے حنفیوں کے امام ابوحنیفہ سے سوال کیاکہ آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ شخص کون ہے؟ابوحنیفہ نے اس کے جواب میں کہالوگوں میں فقیہ ترین شخص جعفربن محمدیعنی امام صادق ہیں کیونکہ جب منصور دوانقی (جو دوسرا عباسی خلیفہ تھا)نے حضرت کواپنے پاس بلایااورمجھے اس طرح کاپیغام بھیجاکہ اے ابوحنیفہ لوگ بہت زیادہ جعفربن محمدکے فریفتہ ہوگئے ہیں لہذاکچھ سخت قسم کے مسائل تیارکرو تاکہ ان سے مناظرہ کیاجائے جن کاوہ جواب نہ دے سکیں اوران کامقام ومرتبہ لوگوں کی نگاہ سے گرجائے چنانچہ میں نے ٤٠سوال تیار کئے اورمنصورکے پاس کوفہ وبصرہ کے درمیان واقع ایک شہر،جاپہنچاجب میںوہاں دربارمیںپہنچاتودیکھاکہ امام صادق منصورکی سیدھی طرف بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے ہی میری نگاہ امام صادق پرپڑی توایک عجیب قسم کارعب وجلال میرے قلب پراثراندازہواجومنصورکودیکھنے سے بھی نہ ہواتھا،میں نے سلام کیا، منصورنے مجھے بیٹھنے کوکہااوراماصادق کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگایہ ہیں ابوحنیفہ۔ امام صادق نے فرمایاہاں میں اس کوپہچانتاہوں۔ پھرمنصورمیری طرف متوجہ ہوکرکہنے لگااپنے سوالوں کوشروع کرو۔میں ایک ایک سوال کرکے پوچھتارہا،امام مجھے جواب دیتے رہے اورفرماتے رہے اس مسئلے میں تم لوگ یہ کہتے ہو چین والے یہ کہتے ہین اہل مدینہ یوں کہتے ہیں امام کے جوابات ہمارے نظریے کے موافق تھے بعض اہل مدینہ کے بعض دونوں کے مخالف تھے یہاں تک کہ میں نے اپنے پورے چالیس سوال امام سے کئے اورامام نے جواب دئیے،پھرابوحنیفہ کہنے لگا الیس علم الناس اعلمہم باختلاف الناس یعنی کیالوگوں میں سے زیادہ اعلم وہ نہیں ہے جومختلف لوگوں کے نظریات سے آگاہ ہو(انوارالبہیہ ص١٥٢)۔ +امام صادق کاایک خدانما''شخص سے مکالمہ +امام صادق کے زمانے میں ایک شخص جعدبن درہم نامی بدعت گزاراوراسلام کامخالف تھااس کے کچھ حمایتی بھی تھے عیدقربان کے دن اسے سزائے موت دی گئی۔اس نے ایک دن ایک شیشے میں کچھ پانی وخاک ڈالی،جب تھوڑے دنوں بعداس شیشے میںحشرات پیداہوئے تواس نے لوگوں میں آکرصدادی کہ ان حشرات کاپیداکرنے والامیں ہوں کیونکہ میں ان کی پیدائش کاسبب بناہوں لہذاان کاخدامیں ہوں کچھ مسلمانوں نے جب یہ خبرامام صادق تک پہنچائی توآپ نے فرمایا: ذرااس سے جاکرپوچھوکہ اس شیشے کے اندرکتنے حشرات ہیں؟اوران میں سے کتنے نراورکتنے مادہ ہیں؟ان کاوزن کتناہے؟اوراس سے کہوکہ ذراان کودوسری شکل میں تبدیل توکردے کیونکہ جوکسی چیزکاخالق ہوتاہے اسے اتنی قدرت ہوتی ہے کہ وہ اس کی شکل وصورت کوتبدیل کرسکے۔ لہذا جب لوگوں نے اس خدانما سے جاکراس قسم کے سوالات کئے تووہ جواب نہ دے سکا۔اس طرح اس کی سازش ناکام ہوگئی(سفینة البحارجلداول ص١٥٧)۔ +کیاآپ اس جواب کوحجاز سے لائے ہیں +ابوشاکردیصانی امام صادق کے زمانے کابڑامشہورومعروف دانشمندتھا۔ خدائے واحدکاانکارکرتے ہوئے دوخدامانتاتھا۔ ایک نورکاخداایک ظلمت کاخدااوراپنی کلامی گفتگوسے اس کوثابت بھی کرتاتھا اسی لئے وہ مذہب دیصانی کارئیس قرارپایااس کے کئی شاگردتھے حتی کہ خودہشام بن حکم(پہلے کچھ عرصہ اسی کے شاگردرہے تھے)اب اس کے تراشے ہوئے اشکالات کاایک نمونہ ملاحظہ کریں: +ابوشاکرکی نظرمیں اس نے قرآن پراشکال کیاتھا لہذاایک دن وہشام بن حکم(جوکہ امام صادق کے خاص شاگردتھے)کے پاس آیااورکہنے لگا: قرآن میں ایک آیت ہے جوہمارے عقیدے کے مطابق دوخداہ��نے کی تصدیق کرتی ہے۔ ہشام: وہ کونسی آیت ہے؟ابوشاکر: سورہ زخرف کی آیت ٨٤ وھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ یعنی خداوہ ہے جوزمین کابھی معبودہے،آسمان کابھی معبودہے۔ لہذاآسمان کابھی ایک معبودہے اورزمین کابھی ایک معبودہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ میں نہیں آیاکہ اسے کیسے جواب دوں اسی سال میں خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوااورامام صادق سے یہ ماجرا بیان کیا۔ امام صادق نے فرمایا: یہ گفتگواس بے دین خبیث کی ہے جب تم واپس لوٹناتواس سے پوچھناتیراکوفے میں کیانام ہے؟ وہ کہے گافلا ں،پھراس سے کہنا ہماراپروردگاربھی ایساہی ہے۔ اس کازمین میں بھی نام الہ ہے اس کاآسمان میں بھی نام الہ''ہے اس طرح دریاصحراؤں میں ہرمکان میں اس کانام الہ ومعبودہے۔ +ہشام کہتے ہیں کہ جب میں واپس لوٹااورابوشاکرکے پاس جاکراس کے سوال کایہ جواب دیاتووہ کہنے لگایہ تمہاراجواب نہیں ہے کیااس جواب کوحجاز سے لائے ہو؟(سفینة البحارص١٢٨)۔ +شاگردان امام صادق کاایک شامی دانشمندسے مکالمہ +امام صادق کے زمانے میں ایک شام کادانشمند(جوسنی عالم دین تھا)آیااورامام صادق کے سامنے اپنایوں تعارف کرایاکہ میں علم کلام وفقہ سے آشناہوں، یہاں آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے آیاہوں''۔ +امام صادق تمہاری گفتگوپیغمبرۖ کے اقوال کی روشنی میں ہے یااپنی طرف سے ہے؟ +شامی دانشمند: کچھ پیغمبرسے لی گئی ہے،کچھ اپنی طرف سے ہے۔ +امام صادق: پس تم پیغمبرکے شریک ہوئے؟ +شامی دانشمند: نہیں میں پیغمبراکرمۖ کاشریک نہیں ہوں۔ +امام صادق: کیاتم پروحی نازل ہوتی ہے؟ +امام صادق: اگراطاعت پیغمبرکوواجب جانتے ہوتوکیااپنی اطاعت کوبھی واجب جانتے ہو؟ +شامی دانشمند: نہیں ،اپنی اطاعت کوواجب نہیں جانتا۔ +امام صادق نے اپنے ایک شاگرد یونس بن یعقوب کی طرف رخ کیااورفرمایااے یونس! اس سے پہلے کہ تم اس کے ساتھ بحث ومناظرہ کرواس نے اپنے آپ کومغلوب کرلیاہے کیونکہ بغیردلیل کے اپنی بات کوحجت جانتاہے اے یونس! اگرتم علم کلام کوصحیح طریقے سے جانتے ہوتے تواس مردشامی کے ساتھ تم مناظرہ کرسکتے تھے(علم کلام ،اصول وعقائدکاعلم ہے جواستدلالات عقلی ونقلی سے بحث کرتاہے)۔ +یونس نے کہا: افسو س ہومجھ پرکہ میںعلم کلام کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا،لیکن مولا!میںآپ پرقربان ہوجاؤآپ ہی نے مجھے حصول علم کلام سے منع فرمایاتھا اورفرمایاتھا کہ وائے ہوان لوگوں پرجوعلم کلام سے سروکاررکھتے ہیں اورجولوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے اوروہ غلط،یہ سمجھ میں نہیں آرہاہے اور وہ نہیں۔ +امام نے فرمایا: میں نے جوروکاتھا وہ اس کلام سے روکاتھا جواپنی طرف سے جعل کیاہواورہم اہلبیت کاکلام نہ ہو۔اے یونس !تم باہرجاؤاورجس متکلم یعنی علم کلام کے جاننے والے کودیکھویہاں لے آؤ۔ +یونس کہتے ہیں کہ میں امام کے پاس سے رخصت ہوااورعلم کلام میں عبوررکھنے والے چارافرادحمران بن اعین،مؤمن طاق احول،ہشام بن سالم اورقیس بن ماصرکوجومیری نظرمیں علم کلام میں زیادہ ماہرتھے اورجنہوں نے علم کلام امام سجاد سے سیکھاتھا،لے کرامام کی خدمت میں پہنچا۔ +جب سب جمع ہوگئے توامام صادق نے اپناسرخیمہ سے باہرنکالاوہی خیمہ جومکہ میں حرم کے اطراف میںپہاڑپرامام کے لئے لگایاتھااورجب امام نے دیکھا توامام کی نگاہ ایک بھاگتے ہوئے اونٹ پرپڑی آپ نے فرمایاکعبہ کے خداکی قسم یہ اونٹ سوارہشام ہے جویہاں آرہاہے۔ +حاضرین سوچنے لگے کہ شایدہشام سے امام کی مرداوہ ہوں جوعقیل کے فرزندہیں کیونکہ انہیں امام زیادہ دوست رکھتے تھے ۔ناگاہ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ اونٹ نزدیک ہوااورہشام بن حکم ہیں جوامام کے خاص بڑے شاگردتھے،امام کے پاس آئے،اس وقت ہشام نوجوان تھے اوران کی داڑھی کے بال تازے آناشروع ہوئے تھے دیگرحاضرین ان سے سن وسال میں بڑے تھے۔ +جیسے ہی ہشام آئے امام صادق نے ان کاگرم جوشی کے ساتھ استقبال کیااوران کوبیٹھنے کے لئے جگہ دی اوران کے بارے میں فرمایا ھذا ناصرنابقلبہ ولسانہ ویدہ یعنی ہشام اپنے دل وزبان اورعمل سے ہماری مددکرنے والے ہیں۔ پھرامام ان علم کلام کے ماہرشاگردوں کی طرف متوجہ ہوئے اورایک ا یک کواس دانشمندنامی سے مناظرہ کرنے کوکہا۔ +پہلے حمران سے کہاتم جاؤاوراس مردشامی سے مناظرہ کرووہ گئے اوراس مردشامی کے ساتھ مناظرہ کیااورکچھ دیرنہ گزری تھی کہ وہ مردشامی حمران کے سامنے بے جواب ہوگیا۔ پھرامام نے مومن طاق سے کہاکہ اب تم اس شامی سے جاکرمناظرہ کرو۔انہوں نے جاکراس مردشامی سے مناظرہ کیاابھی زیادہ دیرنہ گزری تھی کہ آپ کواس مردشامی پرفتح ہوئی۔پھرہشام بن سالم سے کہایہ بھی گئے مگریہ اس مردشامی کے مقابلے میں برابررہے اس وقت امام نے قیس بن ناصر سے کہاوہ بھی گئے اوراس مردشامی سے مناظرہ کیاامام جوان سب مناظروں کامشاہدہ فرمارہے تھے مسکرائے کیونکہ اب وہ مردشامی بالکل مغلوب ہوچکا تھا اوراس کے چہرے سے عاجزی ظاہرہورہی تھی(اصول کافی جلداول ص١٧١)۔ +ہشام بن حکم کامردشامی سے مکالمہ +جیساکہ پہلے والے مناظرے میں گزراکہ ہشام بن حکم امام صادق کے خاص شاگردتھے اورامام نے اس شامی دانشمندسے کہا:اے شخص! اب ذرااس جوان سے مناظرہ کرووہ مردشامی ہشام بن حکم سے مناظرہ کرنے پرتیارہوگیاان دونوں کی گفتگوامام کے سامنے اس طرح سے شروع ہوئی: +مردشامی: اے جوان! تم اس مرد''یعنی امام صادق کی امامت کے بارے میں مجھ سے سوال کروکیونکہ میں اس موضوع پرتم سے گفتگوکرناچاہتاہوں۔ +ہشام نے جب اس مردشامی کی امام کے بارے میں اس طرح کی بے ادبی اورگستاخی دیکھی اورسنی توغصہ کے مارے ان کابدن لرزنے لگااس عالم میں اس مردشامی سے کہاذرایہ بتاؤکہ خداتمام بندوںکی زیادہ خیروسعادت چاہتاہے یاصرف اپنے خاص بندوں کی خیروسعادت چاہتاہے؟ +ہشام: توپھرخداوندعالم نے بندوں کی خیروسعادت کے لئے کیاکیاہے؟ +مردشامی: خدانے لوگوں پرحجت تمام کردی ہے تاکہ یہ لوگ گمراہ نہ ہوں اورانسانوں کے درمیان اس نے دوستی والفت پیداکی تاکہ اس الفت ودوستی کے سبب ایک دوسرے کی مددکریں اورایک دوسرے کوقوانین الہی سے آگاہ کریں۔ +ہشام: وہ خداکی حجت کیاہے؟ +مردشامی: وہ حجت خدا،رسول خداہیں۔ +ہشام: رسول خداکے بعدحجت خداکون ہے؟ +مردشامی: رسول خداکے بعدحجت خداقرآن وسنت ہے +ہشام: کیاقرآن وسنت آج کل کے اختلافات دورکرنے کے لئے فائدہ مندہیں؟ +ہشام: پس کیوں میرے اورتیرے درمیان اختلاف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے یہاں مکے آئے ہو؟ مردشامی اس سوال کے سامنے خاموش رہا اورامام صادق نے اس سے کہاکیوں جواب نہیں دیتے؟ +مردشامی: میں اگرہشام کے جواب میں یہ کہوں کہ قرآن وسنت ہمارے درمیان اختلافات کودورکرتے ہیں تویہ غلط بات ہوگی کیونکہ قرآن وسنت کی عبارات مختلف ہیں،اگریوں کہوں کہ ہمارااختلاف فقط قرآن وسنت کوسمجھنے میں ہے جوہمارے عقیدے کوضررنہیں پہنچاتاتودوسری طرف ہم میں سے ہرایک ادعاء حق کرتاہے اس اعتبارسے قرآن وسنت ہمارے رفع واختلاف کے لئے توسودمندنہیں ہیں۔ +امام صادق: اب سوال کاجواب ذراخودہشام سے پوچھووہ خودتمہیں اس کاتسلی بخش جواب دیں گے جن کاوجودعلم وکمال سے سرشارہے۔ +مردشامی: کیاخدانے کسی شخص کوبشرکے پاس ان کے درمیان اتحادکرانے کے لئے بھیجاہے؟تاکہ لوگوں کے درمیان حق وباطل میں فرق ہوجائے۔ +ہشام رسول خداکے زمانے میںیاآج کے زمانے میں؟ +مردشامی رسول خداکے زمانے میں توخودرسول خداتھے آج کے دورمیں وہ کون ہے؟ +ہشام امام صادق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہایہ ہیں جوحجت خداہیں اورہمارے درمیان کے اختلاف کودورکرنے والے ہیں،جوعلم ونبوت کومیراث میں پانے والے ہیں،جوان کوان کے آباؤاجدادسے ملے ہیں،جوہمارے لئے زمین وآسمان کی خبریں دیتے ہیں۔ +مردشامی: میں کس طرح سمجھوں کہ یہ شخص وہی حجت خداہیں؟ +ہشام: جوکچھ جانتے ہوان سے پوچھ لوتاکہ ان کے حق ہونے کے بارے میں تمہیں یقین حاصل ہوجائے۔ +مردشامی: اے ہشام! تم نے تواس گفتگوسے میرے لئے اس کے سواکوئی عذرنہیں چھوڑاکہ میں ان سے سوال کروں اورحقیقت کوپہنچوں۔ +امام صادق: کیاتم چاہتے ہوکہ تمہارے سفرکے حالات بتاؤں کہ کس طرح سے تم شام سے یہاں آئے ہو؟پھرامام نے کچھ مقدارمیں اس کے سفرکے حالات بیان کئے۔ +مردشامی امام کے ان بیانات سے حیران رہ گیا،وہ حقیقت جان چکاتھا،نورایمان اس کے قلب میں اثرکرچکاتھا،خوشی سے کہنے لگاکہ آپ نے سچ کہا، اب میں خدائے وحدہ لاشریک پرایمان لاتاہوں۔ +امام صادق: اب جبکہ ایمان لائے ہوتواسلام کادرجہ ایمان سے پہلے ہے کیونکہ اسلام ہی کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کاارث لے سکتے ہیں،آپس میں ازدواج کرسکتے ہیں،لیکن ثواب کاحاصل کرناایمان پرموقوف ہے تم پہلے مسلمان تھے مگرمیری امامت کوقبول نہیں کرتے تھے،اب میری امامت قبول کرنے کے بعدتم نے اپنے اعمال کے ثواب کوبھی حاصل کرلیا۔ +مردشامی: آپ نے بالکل صحیح فرمایااورمیں بھی گواہی دیتاہوں کہ خداوحدہ لاشریک ہے اورمحمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں اورآپ رسول خدا کے جانشین ہیں۔ +اب امام صادق نے اپنے شاگردوں کے مناظرات کے سلسلے میں اپنے نظریات دیناشروع کئے حمران''سے کہا: تم کیوں کہ اپنی گفتگوکواحادیث سے ہم آہنگ کرتے ہواس لئے آگے بڑھ جاتے ہواورصحیح مطلب تک پہنچ جاتے ہو۔ +ہشام بن سالم سے کہا: تم اگرچہ اپنی غلطیوں میں احادیث کولاتے ہومگران کوصحیح طریقے سے جاری نہیں کرپاتے۔ +مؤمن طاق سے کہا: تم بہت زیادہ قیاس وتشبیہ کے ذریعے بحث کرتے ہواوراصل موضوع بحث سے خارج ہوجاتے ہواورباطل کے ذریعے باطل کوردکرتے ہوتمہاراباطل زیادہ روشن ہے۔ +قیس بن ماصرسے کہا: تم اس طرح سے گفتگوکرتے ہوکہ گویاحدیث پیغمبراکرم سے نزدیک ہومگرپھردورہوجاتے ہواورحق کوباطل سے مخلوط کردیتے ہوجب کہ حق اگرچہ چھوٹاانسان کوبہت سے باطل سے بے نیازکردیتاہے تم اورمومن الطاق دونوں بحث کوکھنچ کرلے جاتے ہواس جہت سے تم دونوں میں کافی مہارت ہے۔ +یونس کہتے ہیں خداکی قسم میں سمجھاکہ امام ہشام کے بارے میں بھی فرمائیں گے جوقیس کے بارے میں فرمایاتھا لیکن امام نے ہشام کی اچھے القاب کے ساتھ تعریف کی اورکہا یاہشام لاتکاذتقع تلوبی رجلیک اذاھمت بالارض طرث''۔یعنی اے ہشام جب بھی تم اپنے آپ میں کامیابی کی نشانی کااحساس کرلیتے ہوتوبہت اچھے طریقے سے اپنے کونجات دیتے ہو۔پھرامام نے ہشام سے کہاکہ تم بہت اچھے طریقے سے اپنے کونجات دیتے ہو۔پھرامام نے ہشام سے کہاکہ تم جیسے ماہرخطیبوں کے لئے ضروری ہے کہ مناظرے کیاکرواوریادرکھواپنی بحثوں میں لغزش نہ کھانابے شک خداکی مددکے ساتھ ہماری شفاعت ایسے لوگوں کے لئے ہے جواس طر�� کے بحث ومناظرے کرتے ہیں۔ +نتیجہ امام صادق ہشام بن حکم کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں کہ ہشام حق کادفاع کرنے والے،ہمارے اقوال دوسروں تک پہنچانے والے،ہماری حقیقت حق کادفاع کرنے والے،ہمارے اقوال دوسروں تک پہنچانے والے،ہماری حقیقت کوثابت کرنے والے اورہمارے دشمنوں کے بے ہودہ مطالب کوباطل کرنے والے ہیں۔لہذاجوبھی ان کی پیروی کرے گویااس نے ہماری پیروی کی اورجس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت کی الشافی ص١٢ تنقیح المقال ج٣ص٢٩٥)۔ +جاثلیق کاامام کاظم کے دست مبارک پرقبول اسلام +شیخ صدوق اوردوسرے علماء ہشام بن حکم سے روایت کرتے ہیں کہ جاثلیق(مسیحیوں کاایک بڑاعالم دین ودانشمند)جس کانام''بریہہ''تھااس نے سترسال تک مسیحی مذہب کے مطابق زندگی بسرکی لیکن وہ حق کی تلاش میں رہتاتھا۔ اس کے ساتھ اس کی خدمت کے لئے ایک عورت بھی تھی،بریہہ نے مسیحیت کے ناقص دلائل کواس عورت سے پوشیدہ رکھاتھالیکن یہ عورت اس بات سے آگاہ ہوگئی۔ بریہہ جوحق کی تلاش میں لگارہتاتھا علمائے اسلام سے معلومات حاصل کرتارہتاتھا لیکن اس نے جس فرقہ کے بارے میں بھی تحقیق کی اسے حق نام کی کوئی بھی چیزدکھائی نہیں دی تواس نے کہااگرتمہارے رہبربرحق ہوتے تویقینا تمہارے حق ہوتا،یہاں تک کہ اس نے اوصاف شیعہ اورہشام بن حکم کانام سنا۔یونس بن عبدالرحمن(جوامام صادق کے شاگردتھے)کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام نے نقل کیاکہ وہ باب الکرخ میں اپنی دکان میں بیٹھاہواتھا،کچھ لوگ اس سے قرآن سیکھ رہے تھے کہ اس دوران تقریباسوافرادپرمشتمل مسیحیوں کاایک گروہ جس میں بریہہ بھی شامل تھاچلاآرہاہے سب کے سب کالے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے،لمبی لمبی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے،بریہہ دوسرے لوگوں کے ساتھ میری دکان پرجمع ہوگئے۔ میں نے بریہہ کوایک کرسی دی وہ اس پربیٹھ گیااوراپنے عصا کاسہارالیتے ہوئے بولا: میں نے مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد نہیں دیکھاجوعلم کلام(عقائد)میں دسترس رکھتاہواورمیں نے اس سے مسیحیت کی حقانیت کے سلسلے میں مناظرہ کیاہواوروہ مجھے مطمئن کرسکاہو،اب میں تمہارے پاس آیاہوں تاکہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں تم سے مناظرہ کروں۔ +یونس بن عبدالرحمن نے ہشام اوربریہہ کے درمیان ہونے والے مناظرے کوبیان کرتے ہوئے ہشام کی کامیابی کاذکرکیاہے۔ کافی لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کے بعدپھرکہتے ہیں کہ بریہہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے منتشرہونے لگے کہ کاش ہم ہشام سے مناظرہ نہ کرتے اورخودبریہہ بھی اس مناظرے میں شکست کھانے کے بعدکافی غمگین ہوا۔ جب گھرپہنچاتواس کی بیوی نے اس سے غمگین ہونے کی وجہ پوچھی توبریہہ نے ہشام سے اپنے مناظرے اورناکامی کو بیان کیا۔ بریہہ کی بیوی کہنے لگی وائے ہوتم پر،کیاتم حق پرہوناچاہتے ہویاباطل پر؟بریہہ نے کہا:میں حق کے ساتھ جیناچاہتاہوں اورحق پرمرناچاہتاہوں۔ بریہہ کی بیوی کہنے لگی توانتظارکس چیزکاہے جس طرف حق ہے اسی طرف ہوجاؤاوراپنی ہٹ دھرمی چھوڑدوکیونکہ یہ ایک قسم کاشک ہے جوبراہے اوراہل شک جہنم میں جلائے جائیں گے۔ بریہہ نے اپنی بیوی کی بات مانی اورارادہ کیاکہ صبح ہشام کے پاس جائے گا۔صبح جب وہ ہشام کے پاس گیاتودیکھاکہ ہشام تنہادکان پربیٹھے ہوئے ہیں ہشام کوجاکرسلام کیااوران سے دریافت کیاکہ آپ کی نظرمیں کوئی ایساشخص ہے جس کی بات کوحجت مانتے ہوئے اس کی پیروی کی جائے؟ہشام نے کہاہاں ہے۔ +بریہہ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا۔ہشام نے امام صادق کے اوصاف بیان کئے بریہہ کوامام صادق سے ملنے کااشتیاق ہوا۔لہذا ہشام کے ساتھ بریہہ اورا س کی بیوی نے عراق سے مدینے کاسفرکیا۔جب مدینے میں امام صادق کے گھرپہنچے تودیکھاکہ گھرکے دالان میں امام صادق کے ساتھ امام کاظم بھی تشریف فرماہیں۔ ثاقب المناقب کی روایت کے مطابق ہشام نے امام جعفرصادق اورامام کاظم کوسلام کیابریہہ نے بھی دونوں کوسلام کیااوراپنے آنے کی وجہ بیان کی۔ اس وقت امام کاظم کمسن تھے اورشیخ صدوق کی روایت کے مطابق ہشام نے خودہی بریہہ کی داستان امام کاظم سے بیان کی اس طرح امام کاظم اوربریہہ میں گفتگوشروع ہوئی: +امام کاظم: تم کس حدتک اپنی کتاب کے بارے میں جانتے ہو؟ +بریہہ مجھے انجیل کے بارے میں کافی معلومات ہیں۔ +امام کاظم تم کس حدتک اس کے باطنی معنی کی تاویل پراعتمادرکھتے ہو؟ +بریہہ: جس حدتک علم ہے اسی حدتک اعتمادبھی ہے۔ +پھرامام کاظم نے انجیل کی چندآیات کی تلاوت کی۔ بریہہ امام امام کی قرائت سے متاثرہوااورکہنے لگاکہ حضرت مسیح بھی اسی طرح انجیل کی تلاوت کیاکرتے تھے اس طرح کی تلاوت صالحین کے سواکوئی نہیں کرسکتا۔ پھربریہہ امام کاظم سے کہنے لگا ایاک کنت اطلب منذخمسین سنة اومثلک میں پچاس سال سے آپ یاآپ کے مثل افرادکی تلاش میں تھا۔ یہ کہہ کربریہہ اسی وقت مسلمان ہوگیااوراس کی بیوی بھی مسلمان ہوگئی۔ پھرہشام ،بریہہ اوراس کی بیوی کوامام صادق کی طرف متوجہ ہوئے اوربریہہ کے اسلام لانے کاذکرکیا۔ +امام صادق نے فرمایا ذریة بعضھامن بعض واللہ سمیع علیم''۔(سورہ آل عمران آیت٣٤)۔ بعض کوبعض کی ذریت سے ان کی پاکیزگی اورکمال کی بنا پر لیاگیاہے بیشک خداسننے والااورجاننے والاہے۔ +بریہہ اورامام صادق کے درمیان گفتگو: +بریہہ:میں آپ پرفداہوں،یہ تورات وانجیل اورآسمانی کتابیں آپ لوگوں تک کس طرح پہنچی ہیں؟۔ +امام صادق یہ کتابیں ان سے ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ہم انہیں کی طرح ان کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں تاکہ لوگوں پرحجت تمام ہواورکسی کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے۔ +اس وقت سے لیکر مرتے دم تک بریہہ امام صادق کے تابعین وناصرین میں رہے۔جب ان کاانتقال ہواتوخودامام صادق نے اپنے ہاتھوں سے اسے غسل دیا، قبرمیں اتارااورفرمایا ھذامن حواری المسیح علیہ السلام یعرف حق اللہ علیہ یعنی یہ حضرت مسیح کے حواریوں میں سے تھا اورخداکے حق کوپہچانتاتھا۔ +اکثردوسرے اصحاب امام صادق بریہہ جیسے مقام معنوی کی آرزوکیاکرتے تھے(انوارالبریہہ ص١٨٩)۔ +امام کاظم کے پاس ابویوسف کاعلاج +ایک دن مخالف اہل بیت عالم،ابویوسف اورخلیفہ مہدی عباسی،امام کاظم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس نے مہدی سے کہاکہ اگراجازت ہوتومیں موسی ابن جعفرسے کچھ سوالات کروں جس کے یہ جواب نہ دے سکیں۔ +مہدی عباسی ہاں اجازت ہے۔ +ابویوسف امام کاظم سے بولااگراجازت ہوتوآپ سے کچھ سوالات کروں؟ امام کاظم نے فرمایا:ہاں سوال کرو۔ +ابویوسف: آیااس شخص کے لئے جوحالت احرام میںہوسایہ تلے چلناجائزہے؟ +ابویوسف:اگرمحرم کہیں قیام کرے تواس صورت میں اس کے لئے وہاں زیرسایہ چلناجائزہے یانہیں؟ +امام کاظم: اب اس صورت میں اس کے لئے سائے تلے چلناجائزہے۔ +ابویوسف: ان دونوںسایہ میں کیافرق ہے کہ پہلاجائزنہیں اوردوسراجائزہے۔ +امام کاظم اس مسئلے کواس طرح سمجھوکہ کیاعورت عادت ماہانہ میں چھوٹی ہوئی نمازکی قضاکرے گی؟ +امام کاظم اوران ایام میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاضروری ہے یانہیں؟ +امام کاظم :اب اس میں ذرابتاؤکہ کیافرق ہے کہ نمازکی قضانہیں ہے لیکن روزہ کی قضاہے۔ +ابویوسف :خد��کی طرف سے اسی طرح حکم آیاہے۔ +امام کاظم پس جوشخص حالت احرام میں ہے اس کے لئے بھی اسی طرح کاحکم آیاہے مسائل شرعی کوقیاس نہیں کرناچاہئے۔ +ابویوسف اس جواب کوسن کرہی خاموش ہوگیا۔مہدی عباسی اس سے کہنے لگاتم امام کوشکست دیناچاہ رہے تھے مگرایسانہ ہوسکا۔ +ابویوسف کہنے لگا رمانی بحجردامغ یعنی امام موسی ابن جعفرنے تومجھے سخت شکنجے دارپتھرکے ذریعے ہلاک کرڈالا(عیون اخبارالرضاجلداول ص٧٨)۔ +امام کاظم کاہارون سے مکالمہ +ہارون رشید۔پانچویں عباسی خلیفہ نے ایک روزامام سے اس طرح گفتگوشروع کی کہ آپ عام وخاص کے درمیان نسبت کے قائل ہیں اورخود کورسول خداسے نسبت دیتے ہیں کہ آپ اولادپیغمبراکرم ہیں جب کہ پیغمبرکاکوئی بیٹانہیں تھاتاکہ ان کی نسل چل سکتی اورآپ جانتے ہیں کہ نسل بیٹے کے ذریعے چلتی ہے نہ کہ بیٹی کے ذریعے جب کہ آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولادہیں لہذاپیغمبرۖ کی اولادنہیں ہیں۔ +امام کاظم :اگرپیغمبراکرمۖ اس وقت ہوتے اورتجھ سے تیری بیٹی کارشتہ مانگتے توکیاتم ان کومثبت جواب دیتے؟ +ہارون: عجیب ہے میں ان کومثبت جواب کیونکرنہ دیتابلکہ اس خواست گاری کے ذریعے تومیں عرب وعجم میں افتخارمحسوس کرتا۔ +امام کاظم :لیکن پیغمبراکرم ۖ نہ مجھ سے میری لڑکی مانگیں گے اورنہ میرے لئے جائزہوگاکہ میںاپنی لڑکی ان کودوں۔ +امام کاظم :اس لئے کہ میں ان کانواسہ ہوں جب کہ توان کانواسہ نہیں ہے۔ +ہارون: احسن اے موسی یہی تومیراسوال ہے کہ آپ کیوں خودکوذریت پیغمبراکرم سے کہتے ہیں کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے۔ +امام کاظم :ذرامجھے اجازت دوگے کہ میں جواب دوں۔ +امام کاظم :خداوندعالم قرآن میں سورہ انعام کی آیات ٨٤۔٨٥میں ارشادفرماتاہے: +ومن ذریتہ داؤدوسلیمان وایوب ویوسف وموسی وہارون وکذالک نجزی المحسنین وزکریاویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین +یعنی داؤدوسلیمان وایوب ویوسف وموسی وہارون سب کے سب حضرت ابراہیم کے ذریت سے ہیں اورہم اپنے نیک بندوں کوجزادیتے ہیںاسی طرح زکریا ویحیی وعیسی والیاس سب کے سب صالحین میں سے تھے''۔ +اب میںتم سے پوچھتاہوں کہ حضرت عیسی کاباپ کون تھا؟ +ہارون عیسی کاتوکوئی باپ ہی نہیں تھا۔ +امام کاظم: لیکن اس کے باوجودخدانے عیسی کوان کی ماں یعنی (مریم)کی جانب سے ذریت پیغمبرابراہیم میں شمارکیاہے اسی طرح ہماری ماں فاطمہ زہرا کی جانب سے ہمیں ذریت پیغمبراکرم میں شمارکیاہے۔ +امام کاظم :خداوندعالم سورہ آل عمران آیت ٤١میں مباہلہ کے قصہ کوبیان کرتے ہوئے کہتاہے: +فمن حاجک فیہ من بعدماجائک من العلم فقل تعالواندعابنائناوانبائکم ونسائناونسائکم وانفسناوانفسکم ثم نبتھل لعنة اللہ علی الکاذبین۔ +پھرحضرت نے فرمایاکسی نے بھی دعوی نہیں کیاکہ پیغمبراکرم نصاری سے مباہلہ کے وقت سوائے علی وفاطمہ وحسن وحسین کے کسی اورکولے گئے ہوں۔لہذا اس وقت اپنے نفوس کی جگہ علی کولے جانااور''ابنائنا کی جگہ حسن وحسین کولے جانابتاتاہے کہ علی نفس رسول ہیں اورحسن وحسین کوخدانے ان کافرزندقراردیاہے۔ +ہارون امام کی یہ محکم دلیل سن کرخاموش ہوگیااورکہنے لگا:اے موسی آپ پرسلام ہو۔ +رضوان بن یحیی جوامام رضاکے شاگردتھے کہتے ہیں کہ ابوقرہ (جومسیحی مذہب کاتھا)اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اسے امام رضاکی خدمت میںلے جاؤں،میں نے امام رضاسے اجازت لی اورآنحضرت کی خدمت میں ابوقرہ کولے کرآیاجب امام رضاکی خدمت میں پہنچاتوآپ سے اس نے احکام دین حرام وحلال کے مسائل پوچھے۔ یہاں تک کہ جب س��الوں کاسلسلہ توحیدتک پہنچاتواس طرح گفتگوشروع ہوئی: +ابوقرہ: ہمارے لئے روایت نقل کی گئی ہے کہ خداوندعالم نے اپنے دیداراوراپنے سخن کو پیغمبروں میں سے دوپیغمبروں کے درمیان تقسیم کردیاہے تاکہ ایک سے کلام کرے اورایک کودیدارکرائے۔ حضرت موسی سے گفتگوکی اورحضرت محمدۖ کواپنادیدارکرایا۔لہذااس بناپرخداکاوجوددیکھنے کے قابل ہے۔ +امام رضا: اگرایساہی تھاتوکیاانہی پیغمبراسلامۖ نے یہ نہیں فرمایاکہ تمام جن وانس کی آنکھیں خداکونہیں دیکھ سکتیں کیونکہ مخلوقات کی یہ وسیع آگاہیاں اس کے سمجھنے کااحاطہ ہرگزنہیں کرسکتیں کیونکہ خدانہ کسی کی شبیہ ہے نہ ہمسر۔ +ابوقرہ: یقیناانہوں نے اس طرح ارشادفرمایاہے۔ +امام رضا: لہذااس بناپریہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک طرف پیغمبراکرم خداکی طرف سے لوگوں کوخبردیں اوران سے کہیں کہ یہ آنکھیں خداکودیکھنے پرقادر نہیں ہیں اورمخلوقات کی وسعت آگاہی بھی اس کی ذ١ت کوسمجھنے میں مددنہیں دیتی،کیونکہ وہ کسی کام کاہم شکل یاشبیہ نہیں ہے اوردوسری طرف یہی پیغمبراکرمۖ کہیں کہ میں نے اپنی ان دوآنکھوں سے خداکودیکھاہے یامیں نے اپنے علم سے اس کااحاطہ کرلیاہے اوروہ انسان کی شکل کی طرح ہے اسے دیکھاجاسکتاہے کیا تم لوگوں کوپیغمبراکرمۖ کی طرف ایسی نسبتیں دیتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ +ابوقرہ: اسی مقام پرسورہ نجم کی آیت ١١بھی ہے کہ پیغمبرنے جودیکھااس کوبیان کیاہے ماکذب الفوادمارای یعنی ان کے قلب نے جودیکھاوہ ہرگزجھوٹ بولنے والانہیں ہے یعنی قلب پیغمبرۖ۔جوکچھ ان کی آنکھوں نے دیکھاہے قلب پیغمبراس میں ہرگزجھوٹ بولنے والانہیں ہے اورپھراسی سورہ نجم میں خدا اس چیزکوجس کوپیغمبرنے دیکھابیان کرتاہے لقدرای من آیات ربہ الکبری سورہ نجم آیت١٨)یعنی انہوں نے اپنے پروردگارکی بعض بڑی نشانیوں کودیکھا۔ لہذااس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبراکرمۖ نے جوکچھ دیکھاوہ ذات خداکے علاوہ کچھ اورتھا۔ +مزیدخداوندعالم سورہ طہ کی آیت١١میں ارشادفرماتاہے ولایحیطون بہ علما یعنی کوئی علم بھی اس کااحاطہ نہیں کرسکتا۔لہذاجوخداکودیکھ سکتاہے وہ خداکااحاطہ بھی کرسکتاہے۔جب کہ آیت مذکوراس کے دیکھنے کومنع کرتی ہے۔ +ابوقرہ: توکیاآپ ان روایات کوجوکہتی ہیں کہ پیغمبراکرمۖنے خداکودیکھاانکارکرتے ہیں؟ +امام رضا: ہاں!اگرروایات خلاف قرآن ہوںتوان کومیں ردکروںگاکیونکہ تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں کہ وجودخداکااحاطہ نہیں کیاجاسکتا،آنکھیں اس کودیکھ نہیں سکتیں اوروہ کسی چیزکی شبیہ نہیں ہے(اصول کافی باب ابطال الرویہ جلداول ص٩٥۔٩٦)۔ +صفوان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابوقرہ نے میرے ذریعے امام رضا سے وقت لیااورحلال وحرام کے سوالات کے بعدکہنے لگا: آیاآپ اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ خدامحمول ہے؟ +امام رضا: ہرمحمول یعنی(حمل شدہ)پرکسی دوسرے پرحمل کیاجاتاہے اورخودمحمول کے معنی نقص کے ہیں جوحامل پرتکیہ کئے ہوتاہے جس طرح (زبر)مدح پر دلالت کرتاہے اور(زیر)نقص پردلالت کرتاہے خداکی طرف ایسی چیزوں کی نسبت دیناصحیح نہیں ہے کیونکہ خداحامل ہے یعنی ہرچیزکاپیداکرنے والاہے جب کہ کلمہ محمول بغیرکسی پرتکیہ کئے ہوئے کوئی مفہوم نہیں رکھتااس بناپرخدامحمول نہیں ہوسکتااورجوخدااوراس کی عظمت پرایمان رکھنے والے کسی سے بھی نہیں سناگیاہے کہ اس نے خداکولفظ محمول سے تعبیرکیاہو۔ +ابوقرہ: خداوندعالم سورہ حاقہ کی آیت١٧میں فرماتاہے ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذثمانیہ یعنی خداوندکے عرش کواس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اورسورہ غافرکی آیت٧میں بھی ارشادہوتاہے الذین یحملون العرش یعنی وہ لوگ جوعرش کواٹھانے والے ہیں۔ +امام رضا: عرش خداکانام نہیں ہے بلکہ عرش خداکے علم وقدرت کانام ہے جس میںتمام چیزیں ہیں،اسی لئے خدانے اس عرش کے حمل کی نسبت اپنے غیر یعنی فرشتوں کی طرف دی ہے۔ +ابوقرہ: روایت میں آیاہے کہ جب بھی خداغضبناک ہوتاہے توعرش کواٹھانے والے فرشتہ اس کے غضب کی سنگینی کومحسوس کرتے ہیں اورسجدہ میں چلے جاتے ہیں اورجب خداکاغصہ ٹھنڈاہوجاتاہے اوران کی دشتیں ہلکی ہوجاتی ہیں تووہ دوبارہ اپنی جگہ پرآجاتے ہیں،کیاآپ اس روایت کاانکارکرتے ہیں۔ +امام رضا: توخودتمہارے بقول عرش کواٹھانے والے فرشتوں کوہمیشہ سجدہ میں ہوناچاہئے بلکہ اس طرح نہیں ہے لہذاعرش خداکانام نہیں ہے اورتم کس طرح جرأت کرتے ہواورخداکومختلف تفسیرات سے تعبیرکرتے ہوجبکہ وہ ان چیزوں سے منزہ ہے اوران نسبتوں سے دورہے اس کی ذات ثابت اورقابل تفسیرنہیں ہے تمام موجودات اس کے قبضہ قدرت وتدبیرمیں ہیںاورسب اس کے محتاج ہیں جب کہ وہ کسی کامحتاج نہیں ہے(اصول کافی جلداول ص١٣٠)۔ +امام رضا کاایک منکرخداسے مکالمہ +وجود خداکے منکرین میںسے ایک منکرخدا،امام رضا کے پاس آیااس وقت امام رضاکے پاس لوگوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی امام اس منکرخداکی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااگرحق تمہارے ساتھ ہوا(جب کہ ایسانہیں ہے)تواس صورت میں ہم اورتم برابرہوں گے لہذاہمارے نماز،روزہ،زکات اورہمارا دین وغیرہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گااوراگرحق ہمارے ساتھ ہوا(یقیناایساہی ہے)تواس صورت میں بھی ہم کامیاب ہیں اورتم نقصان اٹھانے والے اورہلاک ہونے والے ہو۔ +منکرخدا: مجھے بتائیں کہ خداکس طرح کاہے اورکہاں ہے؟ +امام رضا: وائے ہوتم پرجوخداکواس طرح کاتوصیف کرتے ہوکیونکہ وہ کس طرح کاہے کہاں ہے ہرگزدرک نہیں کیاجاسکتاکیونکہ کوئی قوت حس اسے درک نہیں کرسکتی اوراس کوکسی چیزسے تشبیہ نہیںدی جاسکتی۔ +منکرخدا: توجب خداکوکسی بھی حس سے درک نہیں کیاجاسکتاتووہ کچھ بھی نہیں ہے؟ +امام رضا: وائے ہوتم پرکہ تمہارے قوی حسیہ اس کے درک کرنے سے عاجزہیں۔لہذااس کاانکارکرتے ہوجب کہ ہماری قوی حسیہ بھی اس کودرک کرنے سے عاجزہیں مگرہم اس پرایمان رکھتے ہیں اوریقین رکھتے ہیں کہ وہ ہماراپروردگارہے جس کوکسی بھی چیزسے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ +منکرخدا: اچھاذرابتائیں کہ خداکب سے ہے؟ +امام رضا: ذراتم مجھے یہ بتاؤکہ وہ کس زمانے میں نہیں تھاتاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ وہ کس زمانے میں تھا۔ +امام رضا: جب میں نے اپنے وجودپرنظردوڑائی توسوچاکہ یہ اپنے جسم کی طول وعرض اوراس کے فوائد ونقصان کے سلسلے میں مجھے ذرابھی قدرت حاصل نہیں ہے کہ ان نقصانات کودورکرسکوں لہذ١میں نے یقین کرلیاہے کہ میرے اس وجودکا کوئی خالق ہے جوان سب چیزوں پرقدرت رکھتاہے۔لہذا وجود صانع کااعتراف کیااسی طرح گردش سیارات،بادل اورہواکے چلنے اورچاندوسورج کے سیرکرنے اورستاروں کی گردش سے بھی اندازہ کرلیاکہ کوئی حرکت دینے والا ان کوحرکت دے رہاہے لہذایہ موجودات اپنے ایک صانع کی محتاج ہیں جس نے ان کوبنایاہے(اصول کافی جلداول٧٨)۔ +یونس بن عبدالرحمن امام رضا کے ایک شاگردتھے اس زمانے میں قضاوقدرکی بحث کابازارگرم تھا۔یونس چاہتے تھے کہ قضاوقدرکے صحیح معنی کوخودامام کی زبانی سناجائے۔لہذاامام کی خدمت میں آئے اوراس بارے میں گفتگوکرنے کی گزارش کی امام رضانے ان سے فرمایا: اے یونس قدریہ ک�� عقیدے کوتم ہرگز نہ لیناکیونکہ قدریہ سے وہ لوگ مرادہیں جوکہتے ہیں کہ خدانے تمام کام لوگوں کے سپردکردئیے اورخودآزادہوگیاہے''۔ +یونس: خداکی قسم میں قدریہ کے اقوال کوہرگزقبول نہیں کرتابلکہ میراعقیدہ یہ ہے کہ کوئی چیزبھی موجودنہیں ہوسکتی جب تک خدااس کونہ چاہے یاارادہ نہ کرے۔ +امام رضا: اے یونس !ایسانہیں ہے بلکہ خدایہ چاہتاہے کہ انسان بھی اپنے کاموں میں مختارہے۔ کیاتم جانتے ہوکہ مشیت الہی کے کیامعنی ہیں؟ +امام رضا: ارادہ کرنایعنی جس چیزکوکرناچاہتے ہو۔کیاتم جانتے ہوکہ قدرکے کیامعنی ہیں؟ +امام رضا: یعنی وہی اندازہ(حدبندی)کرناہے جس طرح مرنے کے وقت اس مرنے والے کی عمرکی مدت کومعین کیاجاتاہے پھرآپ نے فرمایاقضاکامعنی محکم بناناوعینیت بخشناہے۔ +یونس: جواب امام کے اس جواب سے قانع ومطمئن اورعاشق امام ہوگئے تھے امام کے سرکابوسہ لیااورکہنے لگے: +فتحت لی شیئا کنت عنہ فی غفلة۔ +یعنی آپ نے میرے لئے ان مشکل مطالب کی گرہ کھول دی ہے جن سے میں ناآگاہ تھا اصول کافی جلداول١٥٧)۔ +مامون کابنی عباس سے شان امام جوادمیں مکالمہ +شیخ مفید اپنی کتاب الارشادمیں لکھتے ہیں کہ مامون۔ساتواں خلیفہ عباسی تھا۔ عاشق امام جواد تھااورامام کی عظمت اورعلم ودانش کاقائل تھا کیونکہ وہ بچپن سے مشاہدہ کررہاتھا کہ آپ کی نظر،علم،حکمت،ادب اورکمال اس تک پہنچی ہوئی تھی جن کودوسرے ہم سن بچے درک کرنے سے عاجزتھے اسی لئے اس نے اپنی بیٹی ام الفضل کوآپ کی ہمسری میں دیا۔اوراس کوآپ کے ساتھ مدینہ روانہ کیالہذاوہ امام جواد کے سلسلے میں کافی تجلیل واحترام کاقائل تھا۔ +حسن بن محمدبن سلیمان،ریان بن شبیب سے روایت کرتے ہیں کہ جب مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل کوامام کے عقد میں دیناچاہااوراس بات کی اطلاع بنی عباس کوہوئی تویہ بات ان پرسخت گراں گزری۔ چنانچہ اس خوف سے کہ امام جواد کوبھی وہ مقام حاصل نہ ہوجائے جوان کے والدامام رضاکوحاصل تھا سب جمع ہوکرمامون کے پاس گئے اورکہنے لگے: اے مامون تمہیں خداکی قسم دیتے ہیں کہ اپنے ارادے سے جوامام جواد کی ازدواج کے سلسلے میں کیاہے بازرہو کیونکہ ہمیں خوف ہے کہ اس طرح تم وہ منصب جوخدانے ہمیں دیاہے خارج نہ کردواورلباس عزت وشہرت کوہمارے تن سے اتاردوکیونکہ تم ہمارے کینہ سے بخوبی واقف ہو جوبنی ہاشم سے ہے اورگزشتہ خلفاء کاسلوک جوان لوگوں کے ساتھ روارکھاگیااس کوبھی خوب جانتے ہو۔انہوں نے جوان کے ساتھ کیا اس کابھی تم کوعلم ہے اس کے باوجودتم نے ان کے والدامام رضا کے ساتھ جوکیاتھا ہم لوگ اسی پرپریشان تھے یہاں تک کہ خداوندعالم نے ہمارے غم واندوہ کوان کی جانب سے برطرف کیا۔ +لہذاتم کوخداکی قسم دیتے ہیں کہ ذراسوچواورہمارے کینے کوجوہمارے سینے میں ہے اورسینوں کے ختم ہونے والے اس غم واندوہ کودوبارہ روشن نہ کرواوراپنی اس رائے کوجوام الفضل کی شادی فرزند علی ابن موسی رضاکے سلسلے میں ہے تبدیل کردوکیونکہ تمہارے رشتہ دارجوبنی عباس سے ہیں وہ ا س کے زیادہ لائق ہیں۔ +رہایہ مسئلہ کہ میں نے حضرت جواد کواپنی دامادی کے لئے کیوں پسندکیاہے،اس لئے کہ وہ بچپن ہی سے علم ودانش کی اس بلندی پرفائزہیں جوبلندی دوسروں کو حاصل نہیں۔ البتہ ان کی یہ دانش حیرت انگیزہے مجھے خداسے امیدہے کہ جوکچھ میں ان کے بارے میں جانتاہوں تم لوگوں کواس بارے میں آگاہ کرسکوں تاکہ تم لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ میں نے جوان کے بارے میں رائے قائم کی ہے وہ صحیح ہے۔ +وہ لوگ مامون کے جواب میں کہنے لگے: اگرچہ اس نوجوان کی رفتاروگفتارنے تمہیں حیرت میں ڈال دیاہے اورتمہیں اپناگرویدہ بنالیاہے لیکن جوبھی ہو وہ ابھی بچے ہیں ان کے فہم ومعرفت کم ہے لہذاانہیں ابھی مہلت دوتاکہ دانشمندبنیںا ورعلم دین میں فقیہ بیں پھرجومرضی میں آئے کرنا۔ +مامون کہنے لگا: وائے ہوتمہارے حال پرمیں اس جوان کوتم لوگوں سے زیادہ بہترجانتاہوں یہ جوان ایسے خاندان سے ہے جس کاعلم ودانش خداکی طرف سے ہے ان کاظریف لامحدودہے اورعلم والہامات ان کے اجدادسے ان تک منتقل ہواہے وہ علم وادب میں دوسروں کے محتاج نہیں ہیں حتی کہ دوسرے بھی حدکمال تک پہنچنے میں ان کے محتاج ہیں اگران کوآزماناچاہتے ہوتوآزمالولیکن یادرکھوکہ میں نے جوکچھ کہاہے سچ کہاہے اورمزیدمیری سچائی تم لوگوں پرظاہرہوجائے گی۔ +ان لوگوں نے کہا: یہ تجویزاچھی ہے ہمیں خوشی ہوگی کہ ہم لوگ ان کوآزمائیں لہذاہمیں اجازت دوکہ ایسے کولائیں جومسائل فقہی اوراحکام اسلام ان سے پوچھ سکے اگرصحیح جوابات دیں توہمیںکوئی اعتراض نہ ہوگااوراس بچے کے بارے میں آپ کی دوراندیشی بھی معلوم ہوجائے گی اوراگروہ جواب دینے سے عاجز وناتواں رہے توپھرہماری گفتگومیں مصلحت اوربہتری ہوگی۔ +مامون نے کہا: جہاں چاہوان کومیرے سامنے بلاکرامتحان لے لو۔ +وہ لوگ مامون کے پاس سے چلے گئے اورآپس میں طے کیاکہ اس زمانے کابڑاقاضی یحیی بن اکثم کوراضی کیاجائے کہ وہ امام جواد سے ایسے سوالات کرے جس کے وہ جواب نہ دے سکیں لہذامعترضین یحیی بن اکثم کے پاس آئے اورا س کو بہت سارامال دینے کی خوش خبری دی تاکہ وہ امام جواد سے مناظرے پرراضی ہوجائے۔ دوسری طرف مامون کے پاس آئے اوراس سے کہاکہ مناظرے کادن متعین کرو۔مامون نے دن معین کردیا۔ +چنانچہ اس دن تمام بزرگ علماء اورخودمامون اوریحیی بن اکثرم حاضرہوئے،ایک اسٹیج بنایاگیاجس پردوکشن لگائے گئے ۔امام(جن کی عمرا سوقت ٩سال سے کچھ ماہ زیادہ تھی) واردمجلس ہوئے اوران دوکشنوں کے درمیان بیٹھ گئے ۔یحیی بن اکثم بھی ان کے سامنے آکربیٹھ گیااوردوسرے افراداپنی اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ مامون بھی اپنی مخصوص جگہ پرامام جواد کے برابرمیں بیٹھا۔ +یحیی بن اکثم،مامون سے مخاطب ہوا: کیااجازت ہے کہ حضرت جواد سے کچھ سوال کریں؟ مامون کہنے لگاکہ خودان سے اجازت لو۔ یحیی نے امام کی طرف رخ کرکے کہا: میں آپ کے قربان جاؤں اگراجازت ہوتوکچھ سوالات کروں؟ +یحیی: وہ شخص جوحالت احرام میں شکارکرے اس کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں؟ +امام جواد اس نے یہ شکارحل(حرم سے باہرکی جگہ)میں کیایاحرم میں؟ مسئلہ جانتاتھا یانہیں؟عمداشکارکیایاخطاء سے؟آزادتھایاغلام؟شکاری چھوٹاتھا یا بڑا؟ پہلی دفعہ اس نے ایساکیایاپہلے بھی ایساکرچکاتھا؟وہ شکارپرندہ تھایاکوئی اورجانور؟وہ جانورچھوٹاتھایابڑا؟ وہ شخص اپنے اس کام پرنادم ہوایانہیں؟ دن مین شکار کیایارات میں؟احرام عمرہ کاتھایاحج کا؟ان میں سے کونسی صورت تھی؟کیونکہ ہرایک کاعلیحدہ علیحدہ حکم ہے۔ +یحیی ان سوالات کے سامنے دنگ ہوکررہ گیا،پشیمانی کے آثاراس کے چہرے سے ظاہرہونے لگے،اس کی زبان لڑکھڑانے لگی،اس طرح حاضرین اس کی یہ حالت ،امام جواد کے سامنے دیکھ کرمتحیرتھے۔ +مامون نے کہا: میں خداکاشکرگزارہوں کہ جوکچھ میں نے سوچاتھاوہی ہوا۔ +پھراپنے خاندان کے افرادکی طرف رخ کرکے کہا: اب مطمئن ہوگئے یانہیں؟تم لوگ میری بات نہیں مان رہے تھے اورتم لوگوں کی ساری باتیں بے جا تھیں اورپھرمامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام جواد سے ط�� کردی(ترجمہ ارشادمفیدجلد٢ص٢٦٩)۔ +عراق کے فلسفی سے ایک مکالمہ +اسحاق کندی جوعراق کاایک دانشمند اورفلسفی شمارہوتاتھا +عراق کے فلسفی سے ایک مکالمہ +اسحاق کندی جوعراق کاایک دانشمند اورفلسفی شمارہوتاتھا اورکفرکی زندگی بسرکررہاتھا۔ جب اس نے قرآن کامطالعہ کیاتودیکھاکہ قرآن کی بعض آیات دوسری بعض آیتوں سے سازگارنہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضدہیں تواس نے چاہاکہ قرآن میں جوتناقض ہے اس سلسلے میں ایک کتاب لکھے اوراس نے یہ کام شروع بھی کردیا۔اس کاایک شاگردامام حسن عسکری کے پاس آیااورکہنے لگاکیاآپ کے پاس کوئی ایساشخص ہے جواپنے استدلال سے میرے استاد کندی کواس کام سے روک سکے؟ +امام نے فرمایامیںتمہیں کچھ باتیں بتاتاہوں اس کے سامنے جاکراسی طرح دھرانااس ترتیب سے کہ پہلے اس کے پاس جاکراس کے اس کام میں اس کی مدد کروجب اس سے زیادہ نزدیک ہوجاؤاوروہ تم سے مانوس ہونے لگے تواس سے کہوکہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے جوآپ سے پوچھناچاہتاہوں،وہ کہے گاپوچھو،تم اس سے کہناکہ اگرقرآن کانازل کرنے والاتمہارے پاس آئے اورکہے کہ تم قرآن قرآن کے جومعنی سمجھ رہے ہووہ میری مرادنہیں بلکہ فلاں معانی مرادہے،تواستادکندی کہے گاہاں اس طرح کاامکان توہے،پھراس سے کہناکہ کیایہ ہوسکتاہے کہ خداکی ان آیات قرآنی سے مرادوہ معانی نہ ہوں جوآپ سمجھ رہے ہیں۔ شاگرداپنے استاد اسحاق کندی کے پاس گیاکچھ مدت اس کے ساتھ اس کتاب کی تالیف میں اس کی مددکی پھرامام کے حکم کے مطابق اس سے کہاممکن ہے خداکی مرادان آیات قرآنی سے وہ نہ ہوجوآپ سمجھ رہے ہیں۔استادنے کچھ دیرفکری کی اورکہاذرااپناسوال پھرسے دہرانا شاگرد نے دوبارہ سوال دہرایا،تواستادکہنے لگاہاں ممکن ہے کہ خدانے ان معنی ظاہری کے علاوہ کسی اورکاارادہ کیاہو۔ +پھرشاگردسے کہنے لگایہ بات تمہیں کس نے سکھائی ہے؟شاگردکہنے لگاایسے ہی میرے دل میں بات آئی جومیں نے آپ سے پوچھ لی۔استاد کہنے لگااس قسم کابلندکلام تم سے بعیدہے اورتم ابھی ایسے بلندمقام تک نہیں پہنچے ہو۔شاگرد کہنے لگایہ بات امام حسن عسکری سے سنی ہے۔استادنے کہااب تم نے سچ کہا کیونکہ اس قسم کے مسائل سوائے اس خاندان کے کسی اورسے نہیں سنیں گئے پھراستادنے آگ منگوائی اورتمام وہ نسخے جواس طرح قرآن کے تناقضات میں لکھے تھے جلاڈالے(انوارالبہیہ ص٣٤٩)۔ +علماء اسلام کے مناظرے ومکالمے +ایک شیعہ خاتون کاسبط بنی جوزی سے مکالمہ +سبط بن جوزی جواہل سنت کے بڑے عالم دین تھے اورانہوں نے متعددکتابیں تالیف کی تھیں مسجدبغدادمیں لوگوں کووعظ ونصیحت کیاکرتے تھے ایک دن انہوں نے سلونی قبل من تفقدونی کادعوی کردیا(جس کاامام علی کے علاوہ کوئی اہل نہیں ہے)اگرچہ اس وقت ان کے منبرکے اطراف میں بہت سے شیعہ وسنی مردوعورت جمع تھے ناگاہ ایک خاتون جومحبہ علی تھی اٹھی اورسوال کرلیاکہ کیایہ روایت صحیح ہے جونقل کی جاتی ہے کہ عثمان کوبعض مسلمانوں نے قتل کیا اوران کاجنازہ تین دن تک پڑارہاکوئی بھی نہیں گیاکہ ان کے جنازے کواٹھاکردفن کردے۔ +سبط: ہاں یہ روایت صحیح ہے۔ +خاتون: کیایہ روایت بھی صحیح ہے کہ جب سلمان کاانتقال مدائین میں ہواتوحضرت علی مدینے (یاکوفے)سے مدائن گئے اوراورسلمان کوغسل وکفن دے کردفن کیااورپھرلوٹ آئے؟ +سبط :ہاں یہ روایت بھی صحیح ہے۔ +خاتون: توحضرت علی جوعثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں تھے کیوں نہیں گئے تاکہ انہیں غسل وکفن دے کردفن کرتے تواس صورت میں یاتوعلی خطاکارہیں کہ وہ عثمان کے جنازے میں نہیںگئے یاعثمان مؤمن نہیں تھے کہ حضرت علی ان کے غسل وکفن ودفن سے دوررہے یہاں تک کہ تین دن کے بعد یہودیوں کے قبرستان میں ان کوخفیہ طورپردفن کیاگیا(طبری جلد٩ص١٤٣)۔ +وہ خاتون برجستہ بولی: عائشہ جوجنگ جمل میںحضرت علی کے سامنے آئی تھیں کیااپنے شوہررسول خدا سے اجازت لے کرآئی تھیں یابغیراجازت کے آئی تھیں؟ +سبط بن جوزی خاتون کے اس سوال کے سامنے بھی کچھ نہ کہہ سکے کیونکہ اگرکہتے عائشہ بغیراجازت سے آئی تھیں توعائشہ کوخطاکارقراردیتے ہیں اوراگر کہتے ہیں کہ اجازت لے کرآئی تھیں توحضرت علی کوخطاکارقراردیتے ہیں یہ دونوں باتیں ان کے عقیدے کے مخالف تھیں۔لہذاشرمندگی کے عالم میں منبرسے نیچے اترے اورسیدھے اپنے گھرکوچلے گئے(بحارجلد٨قدیم ص١٨٣)۔ +بہلول بن عمروکوفی جوانتہائی تیزوہوشیارقسم کے انسان تھے انہوں نے امام صادق وامام کاظم کازمانہ دیکھاتھا اورخودامام کے سچے پیروکاروں میں سے تھے انہوں نے صرف اس ارادے سے کہ ہارون رشیدان کوقاضی نہ بنائے اپنے آپ کودیوانہ بنالیاتھا وہ اہل مناظرہ تھے اوردقیق وعمیق استدلالات کے ذریعہ مخالفین کے انحرافی عقائد کوآشکارکیاکرتے تھے ان کاایک مناظرہ یہ تھاکہ انہوں نے سناکہ ابوحنیفہ(رئیس مذہب حنفی)نے اپنے درس میں کہاکہ امام صادق نے تین ایسی باتیں کہی ہیں جن میں سے ایک کوبھی نہیں مانتاوہ تین باتیں یہ ہیں: +دوم: خداکودیکھانہیں جاسکتاجب کہ ہرموجودچیزدیکھنے کے قابل ہے؟ +سوم: لوگ جوبھی کام کرتے ہیں خوداپنے ارادے سے کرتے ہیں جب کہ آیات وروایات اس کے مخالف ہیں وہ بندوں کے کاموں کوخداسے نسبت دیتی ہیں لہذاہم اپنے کاموں میں مجبورہیں نہ کہ مختارہیں۔ +بہلول نے ایک ڈھیلااٹھاکرابوحنیفہ کی پیشانی پردے مارا،ابوحنیفہ نے ہارون کے پاس بہلول کی شکایت کی ہارون نے حکم دیا کہ بہلول کوحاضر کیا جائے ،لہذاان کوحاضرکیاگیااس مجلس میں بہلول نے ابوحنیفہ سے کہا: +١۔پہلے مجھے درددکھاؤاگرنہ دکھاسکے تواپنے اس عقیدے کے پیش نظرجوکہتے ہوکہ ہرموجودچیزکودکھائی دیناچاہئے،یہ نظریہ غلط ہوجاے گا۔ +٢۔تم کہتے ہوکہ ایک جنس کی دوچیزیں ایک دوسرے کونقصان نہیں پہنچاسکتیں لہذاتم بھی مٹی سے پیداکے گئے ہوتوپھراس مٹی کے ڈھیلے سے تم کواذیت نہیں ہونی چاہئے۔ +٣۔میں نے کوئی گناہ نہیں کیاکیونکہ خودتمہارے عقیدے کے مطابق بندہ جوکام کرے اس کافاعل خداہے۔لہذاخدانے تمہیں ماراہے میں نے نہیں ماراہے۔ +ابوحنیفہ خاموش رہے اورشرمندہ ہوکراس مجلس سے اٹھ کرچلے گئے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ بہلول کی یہ ایک ضرب میرے غلط عقیدوں کاجواب ہے(مجالس المومنین جلد٤١٩وبہجةالآمال ج٢ص٤٣٦)۔ +ایک دن وزیرنے ہارون رشیدکے دربارمیں بہلول سے کہا:تمہاری قسمت کتنی اچھی ہے کہ خلیفہ نے تمہیں کتوں اورسوروں کابادشاہ بنایاہے۔ بہلول نے بے دھڑک کہا:اب تمہیں اس بات کاعلم ہوگیاہے تواب تم میری اطاعت سے ہرگزمنہ نہ موڑنا۔اس طرح سے بہلول نے وزیرکوکتوں اورسوروں سے تشبیہ دی۔ حاضرین ،بہلول کی یہ بات سن کر ہنسنے لگے اوروزیرشرمندہ ہوگیا(بہجہ الآمال ج٢ص٤٣٧)۔ +ایک شیعہ کا''جبرکے قائل استادسے مکالمہ +ایک دن ضراربن صبی جواہل تسنن کے بڑے عالم دین اوراہل جبرکے رئیس تھے،یحیی بن خالدجوہارون رشیدکاوزیرتھا،کے پاس آئے کچھ گفتگوکرنے کے بعد کہنے لگے:میں بحث ومناظرے کے لئے تیارہوں جس کوچاہولے آؤ۔ +یحیی: کیاتم راضی ہوکہ ایک شیعہ سے مناظرہ کرو؟ +ضرار: ہاں ہرشخص سے مناظرہ کرنے پرراضی ہوں۔ +یحیی نے ہش��م بن حکم(جوامام جعفرصادق )کے شاگردتھے ان کوپیغام بھیج کربلوایااورمناظرے کے لئے جگہ بھی تعین ہوگئی اوراس طرح مناظرہ شروع ہوا۔ +ہشام :مسئلہ امامت میں کسی شخص کی صلاحیت رہبری کوظاہرسے سمجھاجاسکتاہے یاباطن سے؟ +ضرار: ہم ظاہرسے سمجھتے ہیں کیونکہ لوگوں کے باطن کاعلم حاصل کرناسوائے عالم الغیب کے کسی کوممکن نہیں ہے۔ +ہشام: تم نے صحیح کہا۔اب ذرامجھے بتاؤکس نے ظاہرمیں شمشیراٹھاکررسول خداکادفاع کیا،حضرت علی نے یاابوبکرنے؟ کون ایثاروفداکاری کرتے ہوئے میدانوں میں جاتے اوررسول سے دشمنی وکینہ رکھنے والے دشمنوں کوتہہ تیغ کردیتے تھے اورجنگوں میں مسلمانوں میں سب سے اچھاکردارکس کارہا؟ +ضرار:علی نے کئی جہادکئے لیکن معنوی(باطنی)لحاظ سے ابوبکرزیادہ منزلت ومقام رکھتے تھے۔ +ہشام: تم نے ابھی ابھی خوداپنے عقیدے ظاہری میں ظاہرکالحاظ رکھتے ہوئے حضرت علی کومنزل جہادمیں رہبری کے لئے لائق ہونے کااقرارکرچکے ہواور اب مسئلہ باطنی کودرمیان میں لارہے ہو۔ +ضرار: ظاہری لحاظ سے ہاں۔ +ہشام: اگرکسی کاظاہروباطن دونوں کاپاک ہونامعلوم ہوجائے توکیااپنے صاحب کی برتری پردلالت نہیں کرے گا؟ +ضرار: بیشک اپنے صاحب کی برتری پردلالت کرے گا۔ +ضرار: ہاں اس حدیث کومانتاہوں(اس بات کوذہن نشین کرتے ہوئے کہ ضرارنے پہلے حقانیت باطن کوجاننے کاذریعہ وحی الہی کوقراردیاتھا اورپیغمبراکرمۖ کی باتوں کووحی کاسرچشمہ مانتے ہیں)۔ +ہشام: کیاممکن ہے کہ پیغمبراکرمۖ علی کی اس طرح سے تعریف کریں فقط ظاہرکالحاظ کرتے ہوئے جب کہ پیغمبراکرمۖ کے نزدیک علی کاباطن واضح نہ ہو؟ +ضرار: نہیں یہ ہرگزممکن نہیں کیونکہ علی ظاہرکے ساتھ باطنی لحاظ سے بھی اس تعریف کے حقدارتھے اورپیغمبراکرمۖ نے بھی اس چیزکومدنظررکھتے ہوئے تعریف کی۔ +ہشام پس اپنے بیان کی بناپراعتراف کرتے ہوکہ علی ظاہری وباطنی دونوں لحاظ سے برتری رکھتے تھے اسی وجہ سے وہ مقام امامت وامت کی رہبری کے سلسلے میں دوسروں سے زیادہ حقدارتھے(فصول المختارسیدمرتضی جلداول ص٩وساموس الرجال ج٩ص٣٤٢)۔ +امام جعفرصادق کے زمانے میں مذہب حنفی کے سربراہ ابوحنیفہ مسجدکوفہ میں اپنے شاگردوں کودرس دے رہے تھے کہ امام صادق کے ایک ہوشیارشاگرد اپنے کسی دوست کے ساتھ گھومتے ہوئے وہاں پہنچے ۔دیکھاکہ ابوحنیفہ کے گردکچھ لوگ حلقہ کئے بیٹھے ہیں اوروہ ان کودرس دینے میں مصروف ہیں۔فضال اپنے دوست سے کہنے لگے میں اس وقت تک اس جگہ سے نہیں جاؤں گاجب تک ابوحنیفہ کواس بات پرآمادہ نہ کرلوں کہ وہ مذہب شیعہ اختیارکرلیں''۔ +اس ارادے سے وہ ابوحنیفہ کے درس میں جاکران کے شاگردوں کے ہمراہ بیٹھ گئے اوراس طرح ابوحنیفہ سے سوالات کاسلسلہ شروع کیا: +فضال: اے سربراہ مذہب ،میراایک چھوٹابھائی ہے جولیکن مذہب شیعہ کاپیروکارہے میں نے کئی دلیلیں ابوبکرکی علی پرفضیلت رکھنے پردیں تاکہ اسے اپنے مذہب تسنن کی طرف لے آؤں لیکن وہ میرے تمام دلائل کوردکردیتاہے لہذااب میں آپ سے گزارش کرتاہوں کہ کوئی دلیل محکم ابوبکروعمرکی علی پربرتری کے بارے میں بتائیں تاکہ اپنے بھائی کوبتاکرقائل کرسکوں۔ +ابوحنیفہ: جاؤاپنے بھائی سے جاکرپوچھوکہ تم کیوں کرعلی کوابوبکروعمر پرمقدم کرتے ہوجب کہ تمہیں معلوم ہے کہ ابوبکروعمر،پیغمبرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور پیغمبراکرم،علی کوجنگوں پرروانہ کیاکرتے تھے یہ خوداس بات پردلیل ہے کہ پیغمبران دنوں کوزیادہ چاہتے تھے اس لئے ان کی جان کی حفاظت کے طورپران کواپنے پا�� رکھتے تھے۔ +فضال: اتفاقا یہی سوال میں نے اپنے بھائی سے کیاتھا مگراس نے جواب دیاکہ علی قرآن کے مطابق دشمنوں سے جہادوجنگ کی خاطردوسروں پڑبرتری رکھتے ہیں کیونکہ قرآن کہتاہے وفضل اللہ المجاھدین علی القائدین اجراعظیما سورہ نسائ٩٥)خداوندعالم مجاہدین کوقائدین(بیٹھنے والوں)پرفضیلت وبرتری عطاکرنے والاہے۔ +ابوحنیفہ اپنے بھائی سے پوچھنا کہ وہ کیونکرعلی کوابوبکروعمرپربرتری دیتاہے جب کہ یہ دونوں قبرپیغمبرکے کنارے دفن ہیں جب کہ علی کی قبرپیغمبرۖ کی قبرسے میلوں دورہے یہ افتخاران کی برتری کے لئے کافی ہے۔ +فضال: اتفاقا یہی دلیل میں نے اپنے بھائی کودی تھی مگراس نے جواب میں قرآن کی یہ آیت پڑھی لاتدخلوبیوت النبی الاان یوذن لکم سورہ احزاب آیت٥٣)۔ یعنی نبی کی اجازت کے بغیران کے گھرمیں داخل نہ ہو،اوریہ بات روشن ہے کہ پیغمبرکی قبران کے شخصی گھرمیں ہے اورقطعا نبی نے انہیں اجازت نہیں دی تھی اوراسی طرح ان کے وارثین نے بھی اجازت نہیں دی تھی۔ +ابوحنیفہ: اپنے بھائی سے کہوکہ عائشہ وحفصہ نے اپنے مہریہ کے طورپراپنے شوہرپیغمبراکرمۖ سے وہ زمین طلب کی تھی اوران میں سے ہرایک نے وہ زمین اپنے باپ کوبخش دی تھی۔ +فضال: اتفاقا میں نے بھی یہی جواب اپنے بھائی کودیاتھا مگراس نے مجھ سے کہاکہ کیاتم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی،جس میں خداوندعالم اپنے پیغمبر سے ارشادفرماتاہے یاایھاالنبی انااحللناازواجک التی آتیت اجورھن سورہ احزاب آیت٤٩)یعنی اے نبی ہم نے تمہاری بیویوں کوتم پرحلال کردیاہے جن کاتم مہردے چکے ہو۔لہذاپیغمبراکرم اپنے زمانہ حیات ہی میں ان کامہراداکرچکے تھے۔ +ابوحنیفہ تم اپنے بھائی سے کہوکہ عائشہ وحفصہ جوابوبکروعمرکی بیٹیاں اپنے حصے کاارث اس گھرسے لیاتھا اوراس کواپنے اپنے والدکوبخشاتھا اس بناپران لوگوں کے جنازے وہاں دفن کئے گئے۔ +فضال: اتفاقایہ دلیل بھی میں نے اپنے بھائی کودی تھی مگروہ جواب میں کہتاہے کہ تم برادران اہل سنت اس بات کے معتقدہوکہ پیغمبر اسلام اپنے ورثہ کے لئے کوئی چیزارث میں چھوڑکرنہیں گئے اسی لئے باغ فدک کوحضرت زہرا سے لے لیااوراگرتمہاری بات قبول کرلیں کہ پیغمبراکرم نے میراث چھوڑی ہے توپیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت آپ کی نوزوجہ تھیں سب کاآٹھواں حصہ ہوگااوراگراس گھرکی زمین کاآٹھواں حصہ نوافرادمیں تقسیم کریں توہرایک کے حصے میں ایک بالشت زمین آئے گی نہ کہ ایک انسان کی طول وقامت کے برابر۔ +ابوحنیفہ یہ جواب بھی سن کردنگ ہوکررہ گئے اورغصہ کے عالم میں اپنے بھائیوں سے کہا اخرجوہ فانہ رافضی ولااخ لہ یعنی اس کومسجدسے نکال دویہ خودرافضی ہے یعنی شیعہ ہے)اس کاکوئی بھائی وائی نہیں ہے(خزائن نراقی ص١٠٩)۔ +ایک دلیرخاتون حجاج کے دربارمیں +حجاج بن یوسف ثقفی جوتاریخ انسانیت میں ظالم ترین شخص گزراہے جب پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک کی طرف سے عراق کاسربراہ منتخب ہواتواس نے بہت سے شیعہ بزرگان۔کمیل قنبراورسعیدبن جبیرجیسے افرا۔کوقتل کیاان سب شیعوں سے دشمنی کانتیجہ اس کابغض علی تھا۔ایک دن ایک خاتون جوشجاعت وصلاحیت سے بھرپورتھی حرہ کے نام سے مشہورتھی اورحضرت حلیمہ سعیدہ(جنہوں نے رسول خداکودودھ پلایاتھا)کی رشتہ دارتھی اوران کی بیٹی کے عنوان سے لوگ انہیں پہچانتے تھے وہ حضرت علی کے طرفداروں میں سے تھیں اورکافی دلیرخاتون تھی ان کی اچانک حجاج سے ملاقات ہوئی۔ +حجاج نے سوال کیاتم حلیمہ سعدیہ کی بیٹی ہو؟ +حرہ فراسہ من غیرمومن اگرچہ اس کالفظی ترجمہ یہ ہے کہ یہ ایک غیرمومن کی ہوشیاری ہے(اوراس بات کاکنایہ ہے کہ ہاں میں حرہ ہوں لیکن یہ کہ تم جیسے بے ایمان فردنے مجھے پہچان لیایہ تمہاری ہوشیاری کی دلیل ہے)۔ +حجاج: خداتم کویہاں لایاتاکہ تم میرے دام میں پھنس جاؤمیں نے سناہے کہ تم علی کوابوبکراورعمردونوں پربرتری دیتی ہو۔ +حرہ: یہ بات جس نے تم سے نقل کی ہے جھوٹ کہاہے اس لئے کہ میں علی کوہرگزان جیسوں سے مقائسہ نہیں کرتی بلکہ میں علی کوپیغمبروں مثلا آدم،نوح،لوط، ابراہیم،موسی،داؤد،سلیمان،عیسی علیہم السلام سے بھی بالاترسمجھتی ہوں۔ +حجاج: وائے ہوتم پرکہ تم علی کوصحابہ کے علاوہ ان آٹھ پیغمبرجن میں اولوالعزم بھی ہیں ان پربھی برترجانتی ہو؟اگرتم اپنے اس دعوی پردلیل نہ لاسکیں توگردن اڑادوں گا۔ +حرہ: یہ میں نہیں ہوں جوعلی کوپیغمبران سے برترجانتی ہوں بلکہ خداوندعالم نے خودقرآن میں علی کوان سب پرفوقیت بخشی ہے کیونکہ قرآن حضرت آدم کے بارے میں فرماتاہے وعصی آدم ربہ فغوی سورہ طہ آیت ١٢١)یعنی آدم نے اپنے پروردگارکی نافرمانی کرکے اس کی عطاسے محروم ہوگئے جب کہ قرآن حضرت علی وان کی زوجہ ودوفرزندوں کے بارے میں فرماتاہے سعیکم مشکورا سورہ انسان آیت٢٢)یعنی آپ لوگوں کی سعی وکوشش قدردانی کے قابل ہے۔ +حجاج:اے حرہ تم کوشاباش ہوااچھایہ توبتاؤکہ حضرت علی کونوح ولوط پرکیونکربرتری دیتی ہو؟ +حرہ: خدانے علی کوان دونوں پربرترجاناہے کیونکہ خداان دونوں کے بارے میں فرماتاہے ضرب اللہ مثلاللذین کفرواامرائة نوح وامرائة لوط کانتا تحت عبدین من عبادناصالحین فخانتاھمافلم یغنیامن اللہ شیئا وقیل ادخلاالنارمع الداخلین سورہ تحریم آیت١٠)یعنی خدانے کافروں کی عبرت کے لئے نوح کی بیوی (واعلہ)اورلوط کی بیوی(واہلہ)کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں کی بیویاں تھیں ان دونوں نے اپنے شوہروں سے دغاکی(گویاان کے شوہر)خداکے مقابل میں ان کے کچھ کام نہ آئے اوران دونوں عورتوں کوحکم دیاگیاکہ تم دونوں جہنم میں جانے والوں کے ساتھ چلی جاؤ، جب کہ حضرت علی کی زوجہ دخترپیغمبرفاطمہ تھیں جن کی خوشنودی خداکی خوشنودی تھی اورجن کی ناراضگی خداکی ناراضگی تھی۔ +حجاج: سبحان اللہ حرہ!اب ذرایہ بتاؤکہ حضرت علی کوحضرت ابراہیم پرکیونکربرتری دیتی ہو۔ +حرہ:کیونکہ قرآن حضرت ابراہیم کے بارے میں ارشادفرماتاہے رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی سورہ بقرہ آیت٢٦٠)یعنی خدایاذرامجھے دکھاکہ مردوں کوکس طرح زندہ کرتاہے،خدانے کہاکیاتم ایمان نہیں لائے؟ ابراہیم نے کہاکیوں نہیں صرف قلبی اطمینان کے لئے چاہتاہوں،لیکن میرامولاعلی یقین کی اس منزل تک پہنچاہواتھا آپ کاارشادگرامی ہے لوکشف الغطاء ماازددت یقینا یعنی تمام پردے بھی اٹھالیے جائیں تومیرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔اس قسم کی بات کسی نے آج تک نہیں کی اورنہ کہہ سکتاہے۔ +حرہ: خداوندعالم حضرت موسی کے بارے میں فرماتاہے مخرج منھاخائفایترقب سورہ قصص آیت٢١)یعنی موسی فرعونیوں کے خوف سے شہرسے باہر چلے گئے،لیکن میرامولاعلی شب ہجرت بستررسول پرآرام کی نیندسوکرشجاعت وایثارکے لحاظ سے اس آیت کامصداق قرارپایا ومن یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ سورہ بقرہ آیت٣٠٧)یعنی لوگوں میں بعض ایسے ہیں جواپنی فداکاری کے سبب اپنی جان کومرضی خداکے سامنے بیچ دیتے ہیں۔ +حجاج: حضرت داؤدپرحضرت علی کوکیونکربرتری دیتی ہو؟ +حرہ: اس لئے کہ خداوندعالم حضرت داؤدکے لئے ارشادفرماتاہے: +''یاداؤداناجعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولاتتبع الہوی فیضلک عن سبیل اللہ سورہ ص آیت٢٦)یعنی اے داؤدہم نے تمہیں زمین مین اپنانائب بنایاہے تم لوگوں کے درمیان صحیح فیصلہ دیاکرواورنفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرناورنہ یہ پیروی تمہیں خداکی راہ سے بہکادے گی۔ +حجاج: حضرت داؤدکی قضاوت کس مسئلے میں تھی۔ +حرہ: دوافرادکے مسئلے میں تھی جن میں سے ایک کسان تھا،دوسرا چرواہا،چرواہے کے بھیڑکسان کے باغ میں چلے گئے اوروہاں جاکراس کی زراعت کوتباہ کردیا،یہ دونوں افرادحضرت داؤدکے پاس فیصلے کے لئے آئے،دونوں نے اپنامسئلہ حضرت داؤدکے سامنے بیان کیا،حضرت داؤدنے فیصلہ دیاکہ چرواہا اپنے بھیڑبینچ کرکسان کواس کاخسارادے۔ کسان اس پیسے کولے کرباغ کودوبارہ سے تروتازہ بنائے۔ حضرت سلیمان جوحضرت داؤدکے بیٹے تھے اپنے باپ سے کہنے لگے بابابلکہ ان جانوروں کادودھ اورپشم بھی اس کسان کودیاجائے۔اس طرح کسان کے خسارہ کاجبران کیاجاسکتاہے''۔ خداوندعالم قرآن میں فرماتاہے ففھمناسلیمان سورہ انبیاء آیت٧٩)یعنی ہم نے حکم واقعی سے سلیمان کوسمجھایا،لیکن میرامولافرمایاکرتاتھا سلونی قبل ان تفقدونی یعنی مجھ سے پوچھوقبل اس کے تم مجھے اپنے درمیان نہ پاؤ۔تورات والوں کوتورات سے انجیل والوں کوانجیل سے،زبوروالوں کوزبورسے،اورقرآن والوں کو قرآن قرآن سے جواب دوں گا۔ جیساکہ حضرت علی جب جنگ خیبرکی فتح کے بعدنبی اکرم کے پاس گئے آپ نے حاضرین سے فرمایا: افضلکم واعلمکم واقضاکم علی یعنی علی تم سب سے افضل،تم سب سے زیادہ علم کامالک،تم سب سے اچھافیصلہ کرنے والاہے۔ +حجاج: اے حرہ تم پرآفرین ہو!اچھایہ توبتاؤکہ حضرت علی کوحضرت سلیمان پرکیونکربرتری دیتی ہو؟ +حرہ خداوندعالم قرآن مجیدمیں حضرت سلیمان کی زبانی نقل کرتاہے: +''رب اغفرلی وھب لی ملکالاینبغی لاحدمن بعدی سورہ ص آیت٣٥)یعنی سلیمان فرماتے ہیں کہ اے میرے پروردگارمجھے بخش دے اورمجھے ایسی حکومت عطاکرجس کامیرے بعدکوئی سزاوارنہ ہواوردوسری طرف میرے مولاعلی دنیاکے بارے میں فرماتے ہیں طلقت یادنیاثلاثالاحاجة لی فیک یعنی اے دنیا تجھے میں نے تین دفعہ طلاق دی جس کے بعدرجوع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اس وقت خداوندعالم نے یہ آیت نازل کی تلک الدار الآخرة نجعلھاللذین لایریدون علوافی الارض ولافساداوالعاقبة للمتقین سورہ قصص آیت ٨٣)یعنی آخرت کاگھرتوہم انہیں لوگوں کے لئے خاص کردیںگے جوروئے زمین پرنہ سرکشی کرناچاہتے ہیں اورنہ فساداورپھرنیک انجام توپرہیزگاروں ہی کاہے۔ +حجاج: اچھاحضرت علی کوحضرت عیسی پرکیونکرفضیلت دیتی ہو؟ +حرہ: کیونکہ خداوندعالم قرآن میں حضرت عیسی سے فرماتاہے: +''واذقال اللہ یاعیسی بن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ قال سبحانک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ علمتہ تعلم مافی نفسی ولااعلم مافی نفسک انک انت علام الغیوب ماقلت لھم الاماامرتنی بہ سورہ مائدہ آیت ١١٦،١١٧)۔ +''اوروہ وقت بھی یادکرو جب قیامت کے دن عیسی سے خدافرمائے گاکہ اے مریم کے بیٹے عیسی کیاتم نے لوگوں سے یہ کہہ دیاتھا کہ خداکوچھوڑکرمجھ کواورمیری ماں کوخدابنالو؟ عیسی عرض کریں گے توبلندوبالاہے میری کیامجال جومیں یوں کہوں جس کامجھے کوئی حق نہیں ہے اوراگرمیں نے کہاہوگاتوتجھ کوتوضرور معلوم ہوگیاکیوں کہ تومیرے دل کی سب باتیں جانتاہے۔ ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں جانتاکیوں کہ اس میں ��وئی شک نہیں کہ توہی غیب کی باتیں خوب جانتاہے''۔ +لہذاعیسی کی پرستش کرنے والوں کاعذاب اس ترتیب سے قیامت تک موخرہوگیاجب کہ میرے مولاعلی کوجب فرقہ نصیریہ غلوکرنے والے گروہ نے خدا جاناتوعلی نے ان کوان کی اس بات پرقتل کرکے ان کے عذاب کوقیامت تک بھی تاخیرنہیں ہونے دیا۔ +حجاج: حرہ تجھے صدآفرین ہوکہ جودعوی کیاتھااس پرپوری اتری اوراگرتم یہ جوابات نہ دے پاتیں تومیں تمہاری گردن ضروراڑادیتا۔پھرحجاج نے حرہ کوانعامات دے کربڑی عزت کے ساتھ رخصت کیا(فضائل ابن شاذان ص ١٢٢۔بحارالانوارج٤ص١٣٦)۔ +ابوالہذیل عراق کااہل سنت کامعروف عالم دین(مکالمہ ٤٦میں اس کی گفتگومزیدآئے گی)ایک سفرکے دوران جب سورہ کے ایک شہررقہ میں پہنچاتواس نے سناکہ یہاں ایک دیوانہ(اگرچہ ایک صحیح وسالم دانشمندمگرتقیتا اپنے کودیوانہ نمابنایاہواتھا)ہے لیکن ہے بڑاخوش کلام ۔ابوالہذیل اس سے ملنے اس کے گھر گیا،دیکھاایک بوڑھاشخص ہے مگربڑے جمال اورخوش قامت اپنی جگہ پربیٹھااپنے بالوں کوکنگھاکررہاہے۔ہذیل نے اس کوسلام کیااس نے جواب دیا اوراس ناشناس اورابوالہذیل کے درمیان اس طرح گفتگوشروع ہوئی : +اجنبی دانشمند: کہاںکے رہنے والے ہو؟ +اجنبی دانشمند:تواہل تجربہ واہل ہنرہوںگے۔ذرایہ بتاؤعراق میں کس جگہ رہتے ہو؟ +اجنبی دانشمند: پھرتواہل علم واہل تجربہ ہوںگے۔ تمہاراکیانام ہے؟ +اجنبی دانشمند اپنی جگہ سے اٹھے اورابوالہذیل کواپنے برابرمیںبٹھایاگفتگوکے بعداس سے کہا: امامت کے بارے میں تمہاراکیانظریہ ہے؟ +ابوالہذیل: آپ کی مرادکونسی امامت ہے؟ +اجنبی دانشمند: میرامقصدیہ ہے کہ رحلت پیغمبرۖ کے بعدبعنوان جانشین پیغمبرتم کس کومقدم جانتے ہو؟ +ابوالہذیل :اسی کوجس کوپیغمبرنے مقدم کیاہے۔ +اجنبی دانشمند: وہ کون ہے؟ +اجنبی دانشمند: ان کوکس پرمقدم جانتے ہو؟ +ابوالہذیل: کیونکہ رسول خدا کافرمان ہے کہ تم میں جوسب سے بہترین وبرترفردہے اس کومقدم رکھواوراپنارہبرقراردو۔لہذاتمام لوگ ابوبکر کے مقدم ہونے پرراضی تھے۔ +اجنبی دانشمند: اے ابوالہذیل! یہاں پرتم نے غلطی کی ہے اوریہ جوتم نے رسول خداکا فرمان ابوبکرکی حمایت میںذکرکیااس پرمیرااعتراض یہ ہے کہ ابوبکر نے خودمنبرپرجاکرکہاتھاکہ ولیتکم ولست بخیرکم یعنی اگرچہ میں نے تم لوگوں کی رہبری لی ہے مگرتم میں بہترین شخص نہیں ہوں(العقدالغدیر ج٢ص٣٤٧)۔ +لہذااگرلوگوں نے ابوبکرکے جھوٹ کوبھی برترجانتے ہوئے اپنارہبربنایاہے توخودرسول خداکے فرمان کی مخالفت کی ہے اوراگرخودابوبکرنے جھوٹ بولاہے یہ کہہ کرکہ میں تمہارے درمیان کوئی برتری نہیں رکھتا''تویہ صحیح نہیں ہے کہ ایسے جھوٹ بولنے والے افرادمنبررسول ۖ پرجائیں اوریہ جوتم نے کہاکہ تمام لوگ ابوبکر کی رہبری پرراضی تھے یہ تم نے کس طرح کہاجب کہ انصارمیں سے اکثرافرادجومدینہ میں تھے کہتے تھے مناامیرومنکم امیر یعنی ایک سربراہ ہم انصار میں سے ہواورایک سربراہ تم مہاجرین میںسے،اورجب مہاجرین میں سے زبیرنے کہاکہ میں علی کے علاوہ کسی کے ہاتھ پربیعت نہیں کروں گاتواس کی شمشیرکوتوڑدیاگیا۔ابوسفیان حضرت علی کے پاس آیااورکہنے لگااگرآپ چاہتے ہیں توہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرنے کوتیارہیں اس طرح ابوبکر کی بیعت کے وقت اختلاف کاہونااس بات کی دلیل ہے کہ سب ابوبکرکی رہبری پربھی راضی نہیں تھے۔ اے ہذیل اب میں تم سے کچھ سوال پوچھناچاہتاہوں لہذاان سوالوں کے ذرامجھے جواب دو۔ +سوال ٢: ذرامجھے یہ بتاؤکہ اگرتم خودمعتقدہوکہ پ��غمبرۖ نے کسی کواپناجانشین نہیں بنایا،لیکن ابوبکرنے عمرکواپناجانشین بنایااورعمرنے کسی کوجانشین نہیں بنایا ان لوگوں کے کردارمیں کیاتناقض ہے،اس کاجواب کیاہے؟ +سوال ٣: مجھے ذرایہ بتاؤکہ عمرنے جب اپنی بعدوالی خلافت میں چھ افراد کی شوری بنائی اورکہایہ سب اہلبیت ہیں توبعدمیں یہ کیوں کہاگیاکہ اگران میں سے دو افرادچارافرادکی مخالفت کریں توان دوافرادکوقتل کردینااوراگرتین افراددوسرے تین افرادکی مخالفت کریں توان میں اگرعبدالرحمن بن عوف ہے توان کوقتل کردینا،کیااس قسم کاحکم دیناان کی دیانت پردلالت کرتاہے کہ اہل بہشت کے قتل کافتوی دیں؟ +سوال ٤: اے ابوالہذیل !تم ابن عباس وعمرکی ملاقات اوران کی گفتگوکے بارے میں کیاسمجھتے اورکیاکہتے ہو۔جب عمرابن خطاب ٹھوکرکھانے کی وجہ سے شدید بیمارہوگیااورعبداللہ ابن عباس ان کے پاس گئے تودیکھابڑے بیتاب ہیں،پوچھاکیوں بیتاب ہو؟ کہنے لگے میری یہ پیشانی اپنے لئے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ میرے بعدکون مقام رہبری کوسنبھالے گا۔ پھران کے اورابن عباس کے درمیان یہ گفتگوہوئی: +ابن عباس: طلحہ بن عبداللہ کورہبربنادو۔ +عمر: وہ بڑاخودغرض انسان ہے پیغمبراکرم اسے اس حوالے سے پہچانتے تھے،میں ایسے شخص کوہرگزرہبری نہیں دوں گا۔ +ابن عباس: زبیربن عوام کولوگوں کارہبربنادو۔ +عمر: وہ ایک بخیل انسان ہے میں مسلمین کی رہبری ایسے بخیل شخص کوہرگزنہیں دوں گا۔ +ابن عباس: سعدابن ابی وقاص کولوگوں کارہبربنادو۔ +عمر: سعدکاشمشیروگھوڑے سے سروکارہے یعنی فوجی آدمی ہے ایساشخص رہبری کے لئے مناسب نہیں ہے۔ +ابن عباس عبدالرحمن بن عوف کورہبربنادو۔ +عمر: وہ تواپنے گھرکوچلانے سے عاجزہے۔ +ابن عباس: اپنے بیٹے عبداللہ کورہبربنادو۔ +عمر: نہیں خداکی قسم ایسامردجواپنی بیوی کوطلاق دینے سے عاجزہوہرگزمقام رہبری کے لائق نہیں ہے۔ +عمر: تین مرتبہ کہاخداکی قسم اگرعثمان کورہبربناؤںتوطائفہ بنی معیط جوبنی امیہ کی نسل سے ہیں مسلمانوں پرمسلط ہوجائیں گے اورعثمان کوقتل کرڈالیں گے۔ +ابن عباس کہتے ہیں کہ پھرمیں خاموش ہوگیا،اورعمراورحضرت علی کے درمیان عداوت کی وجہ سے امیرالمومنین کانام نہیں لیا۔لیکن خودعمرنے مجھ سے کہا: اے ابن عباس !اپنے دوست علی کانام نہیں لیا؟ +میں نے کہا: توعلی کولوگوں کارہبربنادو۔ +عمرنے کہا: خداکی قسم میں پریشان وبیتاب نہیں ہوں مگرصرف اس لئے کہ جس کاحق تھاہم نے اس سے اس کاحق لے لیا واللہ لئن ولیتہ لیحملنھم علی المحجہ العظمی وان یطیعوہ یدخلھم الجنة''یعنی خد اکی قسم اگرعلی کولوگوں کارہبربنادوں تویقینا وہ لوگوں کوسعادت کے بلنددرجہ تک پہنچادیں گے۔ اگرلوگ ان کی پیروی کریں تووہ ان لوگوں کوبہشت تک پہنچادیں گے ۔عمرنے اگرچہ یہ سب باتیں کیں مگرپھربھی اپنے بعدکے لئے خلافت کواس چھ نفری شوری کے سپردکی۔ اس کے پروردگارکی نسبت وائے ہواس پر۔ +ابوالہذیل: کہتے ہیں کہ وہ اجنبی دانشمند جب یہ سب باتیں تمام کرچکاتوپھرسے اس پردیوانگی طاری ہوگئی(یعنی تقیتا اپنے کودیوانہ بنالیا)جب یہ ماجرا مامون(ساتویں خلیفہ اموی)کوجاکاکربتایاتومامون نے اس بلواکراپنے پاس رکھا،اس کاعلاج کرایااوراپنے امورمیں اپناہمدم قراردیا۔حتی کہ خودمامون اس کی منطقی باتوں سے شیعہ ہوگیا(احتجاج طبرسی ج٢ص٥١تا١٥٤)۔ +ایک دفعہ (ساتواں خلیفہ عباسی)کے دربارمیں اہل سنت کے بزرگ علماء کی جمعیت بیٹھی ہوئی تھی اس میں کافی طویل مناظرہ شروع ہوگیا۔ +ایک سنی عالم دین کہنے لگے: پیغمبراکرمۖ سے روایت ہے کہ آپۖ نے ابوبکروعمرکے شان میں فرمایا ابوبکروعمرسیداکھول اہل الجنة یعنی ابوبکروعمر جنت میں بوڑھوں کے سردارہیں۔ +مامون نے کہا: یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ بہشت میں کوئی بوڑھانہیں جائے گا۔کیونکہ ایک روایت ہے کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت پیغمبراکرمۖ کے پاس آئی آپ نے اس سے کہاکہ بوڑھے جنت میں نہیں جائیں گے وہ عورت رونے لگی ۔پیغمبراکرمۖ نے فرمایاکہ خداوندعالم فرماتاہے اناانشاناہم انشاء فجعلناھن ابکاراعربااترابا سورہ واقعہ آیت٣٥تا٣٧)یعنی ان کووہ حوریں ملیں گی جن کوہم نے نت نیاپیداکیاہے توہم نے انہیں کنواریاں پیاری پیاری ہمجولیاںبنایاہے۔ +اب اگرتم کہوکہ ابوبکروعمرجوان ہوکربہشت میں جائیں گے تواس روایت رسول خدا کوکیاکروگے جس میں رسول خدانے فرمایا ان الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنة الاولین والآخرین وابوھماخیرمنھما یعنی حسن وحسین دونوں اہل جنت کے جوانوں کے سردارہیں اوران کے والد محترم ان سے بہترہیں(بحار ج٤٩ ص١٩٣)۔ +ابودلف کااپنے بیٹے کوپیغمبرۖ کے قول پراشکال کاجواب +قاسم بن عیسی عجلسی جو''ابودلف کے نام سے مشہورتھے،جوان،سخی اورامام علی کے سچے پیروکاروں میں سے تھے۔وہ اپنے خاندان کے سرپرست اورشاعر بھی تھے ان کاانتقال ٢٢٠ھ ق میں ہوا(سفینة البحارج١ص٤٦٢)۔ +دلف جواس موضوع ہی کامنکرتھا،اپنے دوستوں سے کہنے لگا: تمہارانظریہ میرے باپ ابودلف کے بارے میں کیاہے؟ کیاکوئی یہ کہہ سکتاہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے زناکیاہو؟ +اس کے دوست کہنے لگے: ہرگزہم امیرابودلف کے بارے میں ایسانہیں سوچ سکتے ہیں۔ +دلف کہنے لگا خداکی قسم میں حضرت علی سے شدیدترین دشمنی رکھتاہوں جب کہ نہ میں زنازادہ ہوں اورنہ ولدحیض ہوں''۔ +دلف کے دوست وحاضرین سب دلف کی حضرت علی سے دشمنی کی وجہ سمجھ گئے کہ جس کی بنیادہی خراب ہواس کی آخرت بھی خراب ہے۔ +معاویہ نے کچھ جھوٹے صحابہ وتابعین کوپیسوں سے خریداہواتھا تاکہ ان کے ذریعے امام علی کی مخالفت میں جعلی حدیثیں نقل کروائے،ابوہریرہ، عمروبن عاص اور مغیربن شعبہ جیسے صحابہ اورعروة ابن زبیرجیسے تابعین۔ +ابوہریرہ،حضرت علی کی شہادت کے بعدکوفے آکرمعاویہ کی حمایت میں حضرت علی کے خلاف احادیث گھڑتاتھاکہ پیغمبرۖ نے یوں فرمایا،مسجدکوفہ میں بیٹھ کرلوگوں کوگمراہ کیاکرتاتھا۔ +ایک رات کوفے کاایک غیوروآگاہ جوان بھی اس محف میں بیٹھاتھا۔ابوہریرہ کی بے بنیادباتیں سن کریہ جوان بولا: اے ابوہریرہ تمہیں خداکی قسم دیتاہوں کہ ذریہ بتاؤتم نے رسول خداسے حضرت علی کے بارے میں یہ دعاسنی ہے اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ یعنی خدایا!جوعلی کو دوست رکھے توبھی اسے دوست رکھ،جواس سے دشمنی رکھے تواس سے دشمنی رکھ۔ +ابوہریرہ نے جب دیکھاکہ اس سچی حدیث سے انکارنہیں کرسکتاتوکہنے لگا اللہم نعم یعنی خداکوگواہ بناکرکہتاہوں کہ ہاں سنی ہے''۔ +وہ غیورجوان بولا: لہذامیں بھی خداکوگواہ بناکرکہتاہوں کہ تم دشمن علی سے دوستی اورعلی کے دوستوں سے دشمنی رکھتے ہو۔لہذارسول خداکی تضدین میں تم بھی شامل ہو۔یہ کہہ کروہ جوان اس جلسہ سے اٹھ کرچلاگیا(شرح نہج البلاغہ ابن حدیدجلد٤ص٤٣)۔ +ایک دوست نے کہاکہ میں سعودی عرب کی ایک مسجدمیںتھاکہ ایک شخص جوسواریہ کارہنے والاتھا میرے پاس آیااورکہنے لگاتم شیعہ لوگ نمازکے بعدیہ تین مرتبہ کیوں کہتے ہو خان الامین،خان الامین،خان الامین یعنی جبرئیل امین نے خیانت کی۔ +مجھے یہ سن کرتعجب ہوااوراس سے کہامیں دورکعت پڑھتاہوں ذرادیکھناکس طرح پڑھتاہوں۔اس نے کہاٹھیک ہے۔میں نے دورکعت نمازکامل پڑھی،اس کے آخرکی تین تکبیرمستحبی بھی پڑھیں،اس کے بعداس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: کہوکیسادیکھا؟ +وہ کہنے لگا:تم توایک عجم ہولیکن ہم عربوں سے بہترتم نے نمازپڑھی ہے لیکن تم نے خان الامین کیوں نہیں کہا؟ +میں نے کہا: اس طرح کے الزامات وتہمتیں تم سادہ لوح افرادکے اذہان میں استعماروشیاطین ڈالتے ہیں جومسلمانوں میں تفرقہ پیداکرنے کے لئے ایجاد کرتے ہیں۔ +مزیدوضاحت: یہ کہ ان کامطلب خان الامین''یہ ہے کہ نعوذباللہ شیعہ معتقدہیں کہ جبرئیل امین جوفرشتہ وحی ہیں، انہیں یہ حکم ملاتھاکہ قرآن کوحضرت علی کے پاس لائیں،مگرانہوں نے خیانت کی اورقرآن پیغمبراسلام کے پاس لے گئے اس لئے شیعہ ہرنمازکے بعدتین مرتبہ خان الامین کہتے ہیں۔ یعنی جبرئیل نے خیانت کی ہے لہذاس قسم کے الزامات بعض اہل سنت کے معروف افرادنے دئیے ہیں جس کی طرف اشارہ کیاہے ڈاکٹرسیدمحمد تیجانی نے وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب پھرمیں ہدایت پاگیا میں صفحہ ٤٥پرتحریرکیاہے۔ +ایک شیعہ کے محکم دلائل +ایک عالم دین کابیان ہے کہ میں مدینہ میں نبی کی قبرکے کنارے کھڑاتھا کہ دیکھاکہ ایک شیعہ ایرانی آیااوروہ ضریح مقدس رسول خداکو چومنے لگا۔ مسجدکاامام جماعت اسے ڈانٹنے لگاکہ ان بے جان اوربے شعورپتھر،دیواراوردروازوں کوکیوںچومتے ہو،یہ توپتھراورلوہے کے ہیں۔ +اس مسجدکے امام جماعت کے اس چیخنے چلانے سے میرادل اس ایرانی کے لئے دکھا،میں آگے بڑھااوراس امام جماعت سے کہا: جناب ان درودیواروں کا چومنارسول خداسے محبت کی دلیل ہے جس طرح باپ اپنے بچے کومحبت میں چومتاہے جس میں کسی قسم کاکوئی شرک نہیں ہے۔ +امام جماعت کہنے لگا: نہیں یہ شرک ہے۔ +میں نے کہا: کیاتم نے سورہ یوسف کی آیت ٩٦نہیں پڑھی جس میں خداوندعالم فرماتاہے فماان جاء البشیرالقاہ علی وجھہ فارتدبصیرا یعنی جب خبرینے والے نے یعقوب کویوسف کی خبردی اوریوسف کے لباس کویعقوب کی آنکھوں پرملاتوان کی بصارت لوٹ آئی۔لہذا میراآپ سے یہ سوال ہے کہ یہ کیسا لباس تھا جوحضرت یعقوب کی بینائی لوٹ آنے کاسبب بنا؟ کیااس کے علاوہ اورکوئی بات تھی کہ وہ حضرت یوسف کے جسم سے مس کیاہواتھا؟ +اس وہابی امام جماعت سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ پھرمیںنے کہا:تم نے سورہ یوسف کی آیت٩٤میں پڑھاہوگا: جب حضرت یعقوب قافلے میں مصرسے ٨٠ کلومیٹرکے فاصلے پرتھے توکہنے لگے انی لاجدریح یوسف یعنی میں یوسف کی خوشبوکومحسوس کررہاہوں۔لہذااولیاء کے یہ آثارمعنوی ہیں جوشرک نہیں ہیں بلکہ عین توحیدہیں۔ +مزیدوضاحت: اولیاء خداکی قبورکی نزدیک سے زیارت کے وقت ہماراقلبی ومعنوی احساس بڑھ جاتاہے اورہم انہیں خداکی بارگاہ میں واسطہ قراردیتے ہوئے دعاکرتے ہیں کہ ہم تومستقیما خداکے سامنے جانے کے قابل نہیں ہیں لہذاان صاحبان کوواسطہ قراردیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں اس بات کی طرف اشارہ ہواہے قالوایاابانا استغفرلنا ذنوبنااناکناخاطئین سورہ یوسف آیت٩٧)۔یعنی حضرت یعقوب کے بیٹے کہنے لگے: اے باباخداسے ہمارے گناہ کی مغفرت کی دعامانگیں،بیشک ہم نے خطاکی ہے۔لہذا اولیائے خداسے توسل جائزہے۔ جولوگ ان توسلات کوشرک سے تعبیرکرتے ہیں وہ قرآن سے ناآشناہیں اوراپنے غلط تعصب کی بناپراس قسم کے فتودے دیتے ہیں خداوندعالم سورہ مائدہ کی آیت ٣٤میں فرماتاہے یاایھاالذین آمنوااتقواللہ وابتغوا الیہ الوسیلة ۔ +یعنی اے صاحبان ایمان! خداسے ڈرواورخداک�� لئے وسیلہ بناؤ۔یہ آیت فقط ادائے واجبات وترک محرمات ہی کووسیلہ قرارنہیں دیتی بلکہ واضح کرتی ہے کہ مستحبات بشمول انبیاء واولیاء سے توسل بھی وسیلہ ہے۔ +روایت ہے کہ منصوردوانیقی(دوسراخلیفہ عباسی)نے مفتی اعظم(مالک بن انس)جومذہب مالکی کے سربراہ تھے ان سے پوچھا: حرم پیغمبرمیں روبقبلہ ہوکردعامانگوںیاپیغمبرکی ضریح کی طرف رخ کرکے دعامانگوں؟مالک نے جواب میں کہا لم تصرف وجھک عنہ وھووسیلتک ووسیلة ابیک آدم الی اللہ یوم القیامة بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ قال اللہ تعالی۔ولوانھم اذظلمواانفسھم یعنی کیوں پیغمبرکی طرف سے رخ موڑتے ہوجب کہ وہ تمہارے اورتمہارے باپ آدم کے لئے روزقیامت وسیلہ ہیں،ان کی طرف رخ کروان کواپناشفیع قراردوکیونکہ خداوندان کی شفاعت کوقبول کرنے والاہے اورخود خداوندعالم فرماتاہے ولوانھم اذظلمواجاؤک۔فاستغفراللہ واستغفرلھم الرسول لوجدواللہ توابارحیما سورہ نساء آیت ٦٤)۔یعنی اے رسولۖ ان لوگوں نے نافرمانی کرکے اپنی جانوں پرظلم کیا،اگریہ تمہارے پاس چلے آتے اورخداسے معافی مانگتے اوراے رسول تم بھی ان کی مغفرت چاہتے توبیشک یہ لوگ خدا کوبڑاتوبہ قبول کرنے والامہربان پاتے۔شیعہ سنی دونوں سے نقل ہے کہ حضرت آدم نے توبہ کے وقت خانہ خداکے سامنے پیغمبراسلام کوواسطہ قراردیتے ہوئے یہ دعاکی تھی اللہم اسئلک بحق محمدالاغفرت لی یعنی خداتجھے محمدکے حق کاواسطہ دے کردعاکرتاہوں کہ مجھے معاف کردے(درمنثورج١ص٥٩، مستدرک حاکم ج٢ص٦١٥،مجمع البیان ج١ص٨٩)اس موضوع پرکہ اولیائے خداکی قبورکاچومنایاان کووسیلہ قراردیناشرک نہیں ہے اہل سنت کی کتابوں سے تین روایتیںنقل کی جاتی ہیں: +پہلی روایت: ایک شخص پیغمبراسلام کے پاس آیااورسوال کیا: یارسول اللہ! میں نے قسم کھائی ہے کہ بہشت کے دروازے اورحورالعین کی پیشانی کوچوموں گا، اب میں کیاکروں ؟پیغمبراکرمۖ نے جواب دیا: ماں کے قدم اورباپ کی پیشانی کوچوم لو۔یعنی اگرایساکروگے تواپنی آرزوکوپہنچ سکتے ہو۔اس نے کہا:اگرماں باپ مرچکے ہوں؟توپیغمبراکرمۖ نے کہا: ان کی قبورکوچومو۔(اعلام قطب الدین حنفی صفحہ٢٤)۔ +دوسری روایت: جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے حضرت اسماعیل سے ملنے شام سے مکہ گئے توبیٹاگھرپرموجود نہ تھاچنانچہ وہ شام کوواپس آگئے۔ جب حضرت اسماعیل سفرسے لوٹے توزوجہ اسماعیل نے حضرت ابراہیم کے آنے کی خبردی تووہ دوڑے اوراپنے والدکے پیروں کے نشان ڈھونڈے اوروالدکے احترام میں اس جگہ پربوسہ دینے لگے(الاعلام قطب الدین حنفی ص٢٤)۔ +تیسری روایت سفیان ثوری جو(اہل سنت کے صوفی مسلک سے تعلق رکھتاتھا)امام صادق کے پاس آیااورکہنے لگا:لوگ کعبے کے پردے کوچومتے ہیں؟ جب کہ وہ پرانے کپڑے کاپردہ ہے جولوگوں کوکوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔امام صادق نے اس کے جواب میں فرمایا: یہ اس شخص کی سی مثال ہے جودوسرے کاحق ضائع کرتاہے اورپھراس کے دامن کوپکڑکرمعافی مانگتاہے تاکہ وہ اسے بخش دے(انوارالبہیہ شرح حال امام صادق)۔ +ایک مجتہدکاسعودی پولیس سے مباحثہ +حضرت آیت اللہ العظمی سیدعبداللہ شیرازی قدس سرہ اپنی مشہورکتاب الاحتجاجات العشرہ کے احتجاج ششم میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں روضہ رسول پر حاضری دینے گیاتودیکھاکہ حوزہ علمیہ قم کاایک طالب علم ضریح پیغمبرۖ کوبوسہ دینے کے لئے آگے بڑھااوروہاں کے سیکورٹی گارڈ(شرطہ)سے بچتے ہوئے ضریح مقدس کوچومنے لگا۔جب شرطہ نے دیکھاتوغصہ سے بھرامیرے پاس آیااورکہنے لگا:جناب عالی آپ اپنے ��وگوں کوضریح کوچومنے سے منع کیوں نہیں کرتے ،یہ پتھرکے دروازے اوراینٹوں کی دیواریں ہیں جن کوچومناشرک ہے۔ لہذاان کومنع کریں کہ یہ ایسانہ کیاکریں۔ +میں نے کہا: تم خانہ کعبہ کے کونے پرلگے حجراسودکوچومتے ہو؟ +میں نے کہا: جب روضہ رسول کے اس پتھرکوچومناشرک ہے توحجراسودکوچومنابھی شرک ہے۔ +میں نے کہا: جب کسی چیزکوتبرکاچومناشرک ہے توبالکل فرق نہیں ہے چاہے پیغمبرہویاکوئی اور۔ +شرطہ پیغمبراکرم نے حجراسودکواس لئے چوماکہ وہ جنت سے آیاتھا۔ +میں نے کہا: اچھا۔چونکہ وہ پتھرجنت سے آیاہے اس لئے آپ اسے چومتے ہیں اوردوسری طرف پیغمبرنے چونکہ اس کوچومنے کاحکم دیاہے اس لئے چومتے ہیں۔ +شرطہ: ہاں!اسی لئے چومتے ہیں۔ +میں نے کہا: یعنی جنتی چیزیں بذات خودمحترم نہیں ہیں مگروجودپیغمبرکی وجہ سے قابل احترام ہوگئی ہیں۔ +میں نے کہا: توجب جنت یااس کی چیزیں وجودپیغمبرکی وجہ سے قابل احترام ہوسکتی ہیں اورانہیں تبرکاچوماجاسکتاہے تویہ قبرنبی کے اطراف میں لگاہوا لوہا بھی قبرنبی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے احترام کاحامل ہے۔لہذااسے بھی بعنوان تبرک چومناجائزہے۔ +مزیدوضاحت یہ کہ قرآن کی جلدجوکسی جانورکے چمڑے سے بنی ہوجوجنگل میں چرتاہے اس کی اس کھال کی خاص اہمیت نہیں ہوتی مگرجب اسی کھال سے قرآن کی جلدبنادی جائے تواگرچہ اس چمڑے کوجلدسے بننے سے پہلے نجس کرناحرام نہیں تھا مگراب اسے نجس کرنابھی حرام ہوجائے گااورا س کی اہمیت بھی پہلے سے بڑھ جائے گی اسی لئے اسے چومنا بھی جائزہوجاتاہے۔ کسی نے اسے شرک یاحرام نہیں کہا۔پیغمبر اکرم،ائمہ اطہاراوردیکراولیائے خداکی ضریح کو چومنابھی اسی طرح ہے۔ اس میں شرک اوربدعت نہیں ہے جیساکہ تاریخ میں لیلی ومجنوں گزرے ہیں کہ ایک دفعہ لیلی کے محلے سے ایک کتامجنوں کے محلے میں گیا،مجنوں نے جیسے ہی اس کتے کودیکھااس کے پاس گیااوراسے اٹھاکرپیارکرنے لگا۔کسی نے آکراس سے کہا لیس علی المجنون حرج کیونکہ تم دیوانہ ہواس لئے کتے کوپیارکرنے سے دریغ نہیں کررہے ہو۔مجنوں نے جواب میں کہا: لیس علی الاعمی حرج کیونکہ تم اندھے ہواس لئے میرے اس پیارکرنے کوسمجھ نہیں سکتے اورپھرمجنوں نے یہ اشعارکہے: +ولکن حب من سکن الدیار +یعنی جب میں لیلی کے گھرکے پاس سے گذروں گاتواس کی ایک ایک دیوارکوچوموں گااوریہ چومنااس گھرسے محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ لیلی اس میں رہتی ہے(کشکو شیخ بہائی ج١ص٩١)۔ +علی بن میثم کے چندمکالمے +ایک شیعہ برجستہ عالم دین جوتاریخ شیعہ کے متکلم(یعنی علم کلام میں ماہر)بھی تھے علی بن اسماعیل بن شعیب بن مثیم جومیثم تمارکے نواسے تھے اورعلی بن میثم کے نام سے مشہورتھے امام رضاکے اصحاب خاص میںان کاشمارہوتاتھا اورمخالفین سے بحث ومناظرہ کرنے میں ان کوکافی مہارت حاصل تھی۔ لہذابطور نمونہ ہم یہاں ان کے کچھ مناظروں کوذکرکرتے ہیں۔ +علی بن میثم کاایک مسیحی سے مکالمہ +علی بن میثم: تم لوگ صلیب کواپنی گردنوں میں کیوں آویزاں کرتے ہو؟ +مسیحی: اس لئے کہ یہ اس سولی کی شبیہ ہے جس پرحضرت عیسی علیہ السلام کوسولی دی گئی ۔ +علی بن میثم: کیاحضرت عیسی کوبھی یہ بات پسندہوگی کہ وہ اس قسم کی چیزگردن میں آویزاں کریں؟ +مسیحی: اس لئے کہ وہ چیزجس پرانہیں سولی دی گئی ہووہ کس طرح چاہیں گے کہ اس کوگلے میںلٹکائیں ۔ +علی بن میثم: کیاحضرت عیسی یہ چاہتے تھے کہ وہ گدھازندہ رہے تاکہ وہ اپنی منزل مقصودتک پہنچ جائیں۔ +علی بن میثم: عجیب بات ہے کہ حضرت عیسی جس چیزکی بقاچا��تے تھے اسے توتم نے ترک کردیاہے اورجس چیزکووہ پسندنہیں کرتے تھے اسے گردن میں لٹکائے پھرتے ہو۔ +علی بن میثم کامنکرخداسے مکالمہ +ایک دن علی بن میثم،حسن بن سہل(جومامون کاوزیرتھا)کے پاس گئے تودیکھاایک منکرخداوزیرکے پاس بیٹھاہواہے اوروزیراس کااحترام کررہاہے اوروہ منکر خداسب کے سامنے گستاخی کرتے ہوئے اپنے مذہب کی حقانیت بیان کررہاہے۔ +علی بن میثم نے اپنے مناظرے کواس طرح شروع کیا: +اے حسن بن سہل!آج میں نے تمہارے گھرکے باہرایک عجیب وغریب چیزدیکھی۔ +علی بن میثم: میںنے دیکھاایک کشتی بغیرناخداکے چلی جارہی ہے۔ +اسی وقت منکرخدا جوبیٹھاہواتھابولا: اے وزیریہ شخص علی بن میثم دیوانہ ہے جبھی ایسی باتیں کررہاہے۔ +علی بن میثم: نہیں میں نے صحیح بات کی ہے میں دیوانہ نہیں ہوں۔ +منکرخدا: کشتی جوجمادات سے ہے عقل وجان نہیں رکھتی کس طرح بغیرناخداورہنماکے چلی جارہی تھی۔ +علی بن میثم: میری بات تعجب آورہے یاتمہاری جوکہتے ہوکہ یہ دریابے کراںجس میں عقل وجان رکھنے والی بھی ہیں بغیرپیداکرنے والے ورہنماکے تلاطم میںہے،یہ مختلف قسم کی سبزیاں جوزمین سے اگتی ہیں اوریہ بارش وغیرہ جوآسمان سے برستی ہے تیرے بقول ان کاکوئی خالق ومدبرنہیں ہے بلکہ خودتعجب کررہے ہوکہ ایک کشتی بغیرناخداکے کیسے حرکت کرسکتی ہے۔ +وہ منکرخداجواب نہ دے سکااورشرمندہ ہوگیا۔سمجھ گیاکہ یہ کشتی کی مثال مجھے قائل کرنے کے لئے پیش کی گئی تھی(فصول المختارسیدمرتضی ص٤٤)۔ +علی بن میثم کاابوالہذیل سے مکالمہ +جیساکہ پہلے ابوالہذیل کانام گزرچکاہے کہ یہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین اوربڑی شخصیت شمارہوتے تھے قرن سوم کے آغازمیں٢٣٠ھ ق بغداد میں پیداہوئے سوسال کی عمرپاکر٣٣٥ھ ق بغدادہی میں انتقال ہوا۔ +ایک دن علی بن میثم نے ابوالہذیل سے پوچھا: کیاایسانہیں ہے کہ ابلیس انسانوں کوہرقسم کی نیکی سے روکتااورہرقسم کی برائی پرابھارتاہے؟ +علی بن میثم: پس یہ بات توثابت ہوئی کہ ابلیس تمام نیکی وبدی کوجانتاہے۔ +علی بن میثم: توپھرذرامجھے یہ بتاؤپیغمبراسلام کے بعدتمہاراامام کون ہے؟اورکیاوہ تمام نیکی وبدی کوجانتاہے یانہیں؟ +ابوالہذیل: نہیں وہ تمام نیکی وبدی کونہیں جانتے۔ +ابوالہذیل سے کوئی جواب نہ بن سکااورشرمندہ ہوکررہ گئے(الفصول المختارسیدمرتضی ج١ص٥،بحارالانوارج١٠ص٣٧٠)۔ +ایک دن ابوالہذیل نے علی بن میثم سے سوال کیاکہ آپ کے پاس حضرت علی کی امامت اوربعدرسول خدا،ابوبکرپران کی برتری پرکیادلیل ہے؟ +علی بن میثم: تمام مسلمین کااجماع واتفاق رائے ہے کہ علی ہی رسول خداکے بعدعالم ومومن کامل تھے۔ لیکن اس وقت اس قسم کاادعاابوبکرکے لئے نہیں تھا۔ +ابوالہذیل کون کہتاہے کہ رسول خداکی رحلت کے بعدابوکرکے مومن وعالم ہونے پراجماع نہیں تھا؟ +علی بن میثم: میں اورمجھ سے پہلے والے اورحاضرکے تمام لوگ یہی کہتے ہیں۔ +ابوالہذیل: لہذاتم اورتمہارے افرادسب کے سب گمراہی وسرگردانی میں ہیں۔ +علی بن میثم: اس قسم کاجواب توصرف گالی اورلڑائی والی ہے۔تم بجائے منطقی جواب دینے کے اس طرح کے جواب دے کرہمیں گمراہ سمجھتے ہو۔ لہذا یادرکھو پھر پتھرکاجواب پتھرہوتاہے۔ +عمربن عبدالعزیزکاامت پرحضرت علی کی برتری کااعلان کرنا +عمربن عبدالعزیز(آٹھواں خلیفہ اموی)کی خلافت کے زمانے میں ایک سنی شخص قسم کھاتے ہوئے کہنالکا ان علیاخیرھذہ الامة والاامراتی طالق ثلاثا علی امت میں سب سے بہترین فردہیں ورنہ گویامیری زوجہ تین طلاق شدہ ہے کیوںکہ وہ معتقدتھاکہ علی،پیغمبراکرم کے بعدامت مسلمہ میں سب سے بہترین فردہیں لہذااس کی یہ طلاق باطل تھی(اس بات کی طرف متوجہ رہتے ہوئے کہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں ہوسکتی ہیں)۔ +اس شخص کاخسرجوحضرت علی کوتمام مسلمانوں پربرترنہیں مانتاتھا اس نے کہا: یہ طلاق ہوگئی اورمیں اب اپنی بیٹی کواپنے گھرلے جارہاہوں لہذاخسروداماد کانزاع ہونے لگا۔ +دامادکہتاتھا کہ طلاق کی شرط یہ ہے کہ علی سب پربرترنہ ہوں،جب کہ یہ بات سب کے نزدیک روشن ہے کہ حضرت علی مسلمین میں سب سے برترہیں۔ لہذا شرط باطل ہوگئی توطلاق بھی باطل ہوگئی۔ +جب ان دونوں کایہ نزاع بڑھااورکچھ لوگ خسرکی طرف داری کرنے لگے اورکچھ لوگ دامادکی تویہ مسئلہ عمربن عبدالعزیزکولکھاگیاکہ وہ اس قضیہ کوحل کرے۔ عمربن عبدالعزیز نے ایک مجلس تشکیل دی جس میں بنی ہاشم وبنی امیہ اوربزرگان قریش کومدعوکیاگیاان سے اس مسئلے کوحل کرنے کوکہاگیا۔ جب گفتگوشروع ہوئی اوربنی امیہ سے کوئی جواب بن نہ پڑااوروہ ایک طرف ہوگئے توبنی ہاشم کاایک فرداٹھااورکہنے لگاکہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ بیشک علی امت کے تمام افرادپربرترہیں اورکیونکہ طلاق مشروع ہے عدم برتری علی پرجب کہ وہ برترہیں لہذاطلاق اصلا و اقع ہی نہیں ہوئی۔ +اس ہاشمی مردنے اپنی بات کی مزیدوضاحت میں عمربن عبدالعزیزسے کہا: تم کوخداکی قسم ذرایہ بتاؤکہ کیایہ روایت پیغمبرسے نہیں سنی کہ ایک روزآپ اپنی بیٹی فاطمہ کے گھران کی عیادت کوگئے اوران سے فرمایا:بیٹی تمہاراکونسی چیزکھانے کودل کررہاہے؟فاطمہ نے عرض کی: باباجان !انگورکھانے کودل چاہتاہے اگرچہ انگورکاموسم نہیں تھا اورعلی بھی سفر پرگئے ہوئے تھے۔ پیغمبرنے اس طرح دعاکی اللہم آتنابہ مع افضل امتی عندک منزلة یعنی خدایا!انگوروں کواس کے پاس بھیج جوتیری بارگاہ امت میں سب سے بہترہے۔اسی وقت حضرت علی پہنچے،دروازہ کھٹکھٹایااورگھرمیں داخل ہوئے،ان کے ہاتھ میں ایک گچھاتھا جسے اپنی عباکے دامن سے ڈھانکے ہوئے تھے۔پیغمبراکرم نے فرمایا: یاعلی یہ کیاہے؟علی نے فرمایا:یارسول اللہ انگورہیں جوفاطمہ کے لئے لایاہوں کیونکہ انہیں انگور پسندہیں ۔ پیغمبراکرم نے فرمایا: اللہ اکبر ۔خدایا!جس طرح تونے مجھے خوش کیااس جہت سے کہ علی کوامت میں سب سے بہترین شخص قراردیااسی طرح ان انگوروں کے ذریعے میری بیٹی فاطمہ کوشفادے۔پھرآپ نے انگورحضرت فاطمہ کودیتے ہوئے کہا:بیٹی خداکانام لے کرکھاؤ۔حضرت فاطمہ نے انگور کھائے۔ پیغمبرابھی خانہ فاطمہ ہی میں تھے کہ فاطمہ نے صحت یابی پائی۔ +عمربن عبدالعزیز نے اس مردہاشمی سے کہا: تم نے سچ کہااورمیں بھی گواہی دیتاہوں کہ میں نے یہ حدیث سنی ہے اورمانتابھی ہوں۔پھراس نے اس عورت کے شوہرسے کہاکہ اپنی بیوی کاہاتھ پکڑواورلے جاؤوہ تمہاری بیوی ہے۔اگراس کے باپ نے کوئی دخل اندازی کی تواس صورت میں زخمی کردینا(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیداحقاق الحق ج٤صفحہ ٢٩٢تاص٢٩٥)۔ +اس طرح اس بھری مجلس میں عمربن عبدالعزیزنے علی الاعلان حضرت علی کاتمام امت پربرترہونے کااعلان کیااوراسی بناپراس طلاق کوباطل قراردیتے ہوئے نکاح کے باقی رہنے کافتوی دیا۔ +شیخ بہائی کاایک مخالف سے مباحثہ +محمدبن حسین بن عبدالصمدجوشیخ بہائی کے نام سے مشہورتھے اورعلماء معروف وملت تشیع کے لئے فخرکے باعث تھے جنہوں نے ١٠٣١ھ ق میں اس دنیائے فانی کومشہدمقدس میں خداحافظ کہااورجوارامام رضامیں دفن ہیں۔ +ایک روزدوران سفران کی ملاقات ایک سنی عالم دین سے ہوئی انہوں نے خودکواس کے سامنے شافعی مذہب کاظاہرکیاوہ عالم جوعلماء شافعی میں سے تھا جب اس نے جاناکہ یہ شیخ بہائی بھی شافعی ہیں اورمرکزتشیع یعنی ایران سے آرہے ہیں تواس نے شیخ بہائی سے پوچھا: کیاشیعوں کے پاس اپنے دعوی کے ثبوت پرکوئی دلیل ہے؟ شیخ بہائی نے جواب دیا:ہاں! بعض اوقات ایران میں شیعوں سے سامناہواتومیں نے اندازہ لگایاکہ ان کے پاس اپنے دعووں پرمحکم استدلال ہیں۔ +سنی شافعی: اگرہوسکے توان استدلالات میں سے کوئی ایک نقل کریں۔ +یعنی فاطمہ میرے جگرکاٹکڑاہے جس نے اس کواذیت دی مجھے اذیت دی،جس نے اس کوغضبناک کیااس نے مجھے غضبناک کیا(صحیح بخاری،دارالجیل بیروت ج٧ص٤٧)۔ +اوراسی کتاب میں چارورق بعدروایت نقل ہے کہ خرجت فاطمة من الدنیاوھی غاضبة علیھما''۔ +یعنی فاطمہ مرتے وقت ان(عمروابوبکر)سے ناراض گئی ہیں(صحیح بخاری،دارالجیل بیروت ج٧ودیگرفضائل خمسہ من الصحاح الستہ ج٣ ص١٩٠)۔ +اب ذراآپ بتائیں کہ ان دونوں روایتوں کااہلسنت کے اعتبارسے طریقہ جمع کیاہوگا؟وہ سنی شافعی فکرکرنے لگے اورسوچنے لگے کہ اگریوں کہوں کہ ان دو روایتوں کاطریقہ جمع یہ ہے کہ یہ دونوں عادل نہیں تھی توگویایہ دونوں رہبری کے لائق نہیں تھے۔لہذاکچھ سوچنے کے بعدکہنے لگابعض اوقات شیعہ جھوٹ بولتے ہیں ممکن ہے اس میں بھی انہوں نے جھوٹ بولاہولہذامجھے ایک رات کی مہلت دوکہ میں صحیح بخاری کامطالعہ کرکے آؤں اوران دونوں روایتوں کاسچ وجھوٹ معلوم کرلوں اورسچ ہونے کی صورت میں اس کاجواب تلاش کروں۔ +شیخ بہاری دوسرے دن جب اس سنی شافعی کودیکھاتواس سے پوچھا)کیاہواآپ نے تحقیق کرلی؟ وہ کہنے لگاہاں میں نے تحقیق کرلی بالکل جومیں نے کہاتھاوہی ہے کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ میں نے صحیح بخاری کامطالعہ کیاتواگرچہ اس میں یہ دونوں روایتیں تھیں مگران دونوں روایتوں کے درمیان شیعوں نے جوچارصفحے کافاصلہ بتایاتھا وہ پانچ صفحے سے زیادہ ہے۔ واقعاعجیب جواب ہے کیونکہ مقصدان دوروایتوں کااس کتاب میں ہوناہے چاہے پانچ ورق کے فاصلے پریہ روایتیں ذکرہوئی ہوں یا٥٠ورق کے بعدذکرہوئی ہوکیافرق پڑتاہے۔ +حلامہ حلی کاسیدموصلی سے مباحثہ +آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں ایران کابادشاہ شاہ خدابندہ''جوسنی المذہب تھا٧٠٩ھ میںعلامہ حلی کے ساتھ قوی ولطیف مناظروں کے بعدشیعہ ہوگیااورتشیع کوایران کاسرکاری مذہب قراردیدیا۔ایک روایت کے مطابق کچھ علمائے اہل سنت شاہ خدابندہ کے دربارمیں حاضرتھے علامہ حلی بھی شاہ کی دعوت پراس مجلس میں تشریف لائے۔پھرسنی شیعہ علماء کے مابین مناظرہ ہواجودرج ذیل ہے: +سیدموصلی وبشرالصابرین الذین اذااصابتہم مصیبة قالوااناللہ واناالیہ راجعون۔اولئک علیہم صلواة من ربھم ورحمة سورہ بقرة ایت١٥٥تا١٥٧)یعنی وہ لوگ جوخداکی راہ میں استقامت سے کام لیتے ہیں جب بھی ان پرکوئی مصیبت آتی ہے تووہ کہتے ہیں کہ ہم خداہی کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف لوٹ جائیں گے،ان لوگوں پرخداوندعالم کی طرف سے درودوسلام اوررحمت ہوتی ہے۔ +سیدموصلی: پیغمبرکے علاوہ اماموں پرکونسی مصیبت پڑی ہے جووہ درودوسلام کے مستحق قرارپائیں گے؟ +علامہ حلی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: سخت ترین مصائب جوان پرپڑے اس سے تم جیسے افرادوجودمیں آئے جومنافقوں کوآل رسول پرمقدم کرتے ہیں حاضرین علامہ حلی کی بزلہ سنجی پرہنسنے لگے(بہجة الآمال ج٣ص٢٣٤)۔ +شیعہ عالم کاسربراہ تنظیم امربالمعروف ونہی عن المنکرس�� مباحثہ +ایک شیعہ عالم دین مدینہ میں امربالمعروف ونہی عن المنکرکے دفترمیں گئے توان کے اوراس دفترکے سربراہ کے درمیان اس طرح مناظرہ شروع ہوا: +سربراہ: رسو اللہۖ اب دنیاسے جاچکے ہیں اورجومردہ ہوچکاہووہ فائدہ ونقصان نہیں پہنچاسکتالہذاآپ لوگ اب پیغمبرۖ سے کیامانگتے ہیں؟ +شیعہ عالم دین: رسول خدااگرچہ اس دنیاسے پردہ فرماچکے ہیں مگروہ زندہ ہیں کیونکہ قرآن فرماتاہے: +''ولاتحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتابل احیاء عندربھم یوزقون سورہ آل عمران آیت١٦٣)۔ +جولوگ خداکی راہ میں قتل کئے گئے ہیں انہیںمردہ نہ سمجھوبلکہ وہ زندہ ہیں اوراپنے خداسے رزق پاتے ہیں۔ +اسی طرح دوسری روایات بھی ہیں جوپیغمبرۖ کی رحلت کے بعدبھی احترام پیغمبرپردلالت کرتی ہیں جس طرح ان کی زندگی میں ان کااحترام کیاجاتاتھا۔ +سربراہ: یہ موت وحیات جوقرآن اورروایات میں ہے وہ نہیں ہے جس میں ہم اس وقت ہیں۔ +شیعہ عالم دین: تمہارے لئے کیاحرج ہے کہ ہماری اس بات کومان لوکہ پیغمبرۖ اکرم رحلت کے بعدبھی ہمارے لئے اسی طرح ہیں جس طرح عالم حیات میں تھے۔ اذن خداسے اب بھی ہم پروہی لطف وکرم کرتے ہیں میں آپ سے پوچھتاہوں کہ آپ کے باپ جب سے اس دنیاسے گئے توکیاآپ ان کی قبر پرنہیں گئے اورکیاان کی مغفرت کے لئے دعانہیں مانگی؟ +شیعہ عالم دین: ہم کیونکہ زمانہ پیغمبرۖ میں نہیں تھے اوراگرہوتے توان کی زیارت کرتے اوراب جب ان کی قبرپرآئے ہیں توان کی زیارت کرتے ہیں۔ +مزیدروشن عبارت: اس قبرکارسول خداکے جسم اطہرسے مس ہونااسے مبارک قراردیتاہے چنانچہ اس کی خاک کواگرہم تبرک قراردیتے ہیںتویہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ میں اپنے استادکی پیروں کی خاک اپنی آنکھوں کاسرمہ قراردیتاہوں۔ +سرمہ ہے میری آنکھ کاخاک مدینہ ونجف +مؤلف فرماتے ہیں کہ مجھے یادہے جب امام خمینی قیدمیں تھے استادجوان سے بہت انسیت رکھتے تھے کہنے لگے میری آرزوہے کہ اپنے عمامہ کی تحت الحنک کوامام خمینی کی نعلین کی خاک سے مس کروںاوراسی خاک آلودتحت الحنک کے ساتھ نمازاداکروں اس طرح کے اظہارخیال عواطف قلبی وشدت محبت کوبیان کرتے ہیں یہ کسی قسم کاکوئی شرک نہیں ہے قرآن بھی اس مسئلے کوصراحت سے بیان کرتاہے کہ اولیاء خداکوواسطہ بنانانتیجہ بخش وفائدہ مندہوتاہے جیساکہ سورہ نساء کی آیت٦٤میں ارشادہوتاہے۔ +ولوانھم اذظلمواانفسھم جاؤک فاستغفروااللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوااللہ توابارحیما''۔ +جب وہ جنہوں نے اپنے نفسوں پرظلم (یعنی گناہ)کیاآپ کے پاس آئیں اورخداسے طلب استغفارکرں اوررسول بھی ان کے لئے مغفرت طلب کریں تویقیناوہ خداکوتوبہ قبول کرنے والااوررحمت کرنے والاپائیں گے۔ +علامہ امینی کاتسلی بخش جواب +علامہ امینی جواپنے زمانے کے بزرگ عالم دین اورصاحب کتاب الفریدبھی ہیں اپنے کسی سفرکے دوران کسی مجلس میں شرکت کی۔ان میں ایک سنی عالم ان سے کہتے ہیں کہ آپ شیعہ لوگ حضرت علی کے سلسلے میں غلوکیوں کرتے ہیں مثلاان کو(یداللہ''وعین ا للہ یعنی خداکاہاتھ،خداکی آنکھ)سے کیوں تعبیر کرتے ہیں کسی صحابہ کی اس حدتک توصیف بیان کرناصحیح نہیں ہے۔ +علامہ نے بے دھڑک کہا: اگرعمربن خطاب نے حضرت علی کواس خطاب سے پکاراہوتوآپ کیاکہیں گے؟ +سنی عالم: عمربن خطاب کاقول ہمارے لئے حجت ہے۔ +علامہ نے اسی مجلس میں اہل سنت ہی کی کسی اصلی کتاب کومنگوارکران کاصفحہ پلٹ کراس سنی عالم کے سامنے رکھ دی کہ یہ دیکھئے ۔حدیث ہے کہ ایک شخص طواف کعبہ میں مصروف تھااوراسی عالم میں ��س نے ایک نامحرم عورت کی طرف نامناسب نگاہ کی۔حضرت علی نے اس کواس حال میں دیکھ لیااوروہیں ایک ہاتھ اس کے منہ پرماراوہ شخص اسی طرح چہرے پرہاتھ رکھے عمربن خطاب کے پاس شکایت کرنے آیااورقصہ بیان کیا۔ عمربن خطاب نے اس کوجواب میںکہا قدرای عین اللہ وضرب یداللہ)تمہیں انہوں نے خداکی آنکھ سے دیکھااوردست خدانے مارا۔یعنی علی کی آنکھ جودیکھتی ہے اس میں خطانہیں کرتی کیونکہ ان کی آنکھ اعتقادخداسے لبریزہے جوغلطی نہیں کرتی۔اسی طرح علی کاہاتھ رضائے خداکے علاوہ حرکت نہیں کرتا۔ +سوال کرنے والے نے جب اس حدیث کودیکھاتومطمئن ہوگیا۔ +مزیدوضاحت: اس قسم کی تعبیریں حضرت مسیح کے لئے بھی ہیں مثلاروح اللہ،جوان کے احترام وتجلیل میں کہاجاتاہے نہ یہ کہ اس سے مرادیہ ہوکہ وہ خدا کی روح یاہاتھ یاآنکھ ہیں اورخدایہ چیزیں رکھتاہو۔ +ایک مرجع تقلید(آیت اللہ العظمی آقائے خوئی)ایک دن مسجدنبوی میں نمازصبح اداکررہے تھے نماز سے فارغ ہوکرروضہ نبی ۖکے نزدیک تلاوت قرآن میں مصروف ہوگئے۔ +ان کابیان ہے کہ میں بیٹھاقرآن پڑھ رہاتھاکہ ایک بندۂ مومن آکرنماز میں مصروف ہوگیا۔نمازکے دوران اس نے اپنی جیب سے سجدہ گاہ نکالی تاکہ اس پرسجدہ کرے،میں نے دیکھادوافرادجوبظاہرمصری تھے آپس میں کہنے لگے ا سکودیکھویہ پتھرپرسجدہ کرناچاہتاہے۔جیسے ہی وہ شیعہ مؤمن سجدے میں مہررکھ کرسجدہ کرناچاہتاتھا کہ ان میں سے ایک اٹھااورغصہ سے اس شیعہ کے سجدہ سے سجدہ گاہ چھیننے کے لئے لپکاکہ میں نے غصہ میں اس کاہاتھ پکڑلیااوراس سے کہاکہ کیوں اس مردمسلمان کی نمازباطل کرتے ہو؟وہ کہنے لگا:اس مقدس جگہ پریہ پتھرپرسجدہ کرناچاہتاہے۔ +میں نے کہا:اس کے پتھرپرسجدہ کرنے میں کیاحرج ہے میں بھی پتھرپرسجدہ کرتاہوں۔ +وہ کہنے لگا: پتھرپرسجدہ کیوں کرتے ہو؟ +میں نے کہا: وہ شیعہ ومذہب جعفری کاپیروکارہے میں بھی مذہب جعفری کامعتقدہوں،کیاتم لوگ جعفربن محمدۖ امام صادق کوجانتے ہو؟ +میں نے کہا: کیاوہ رسول کے اہل بیت سے ہیں؟ +میں نے کہا: وہ ہمارے مذہب کے سربراہ وامام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ زمین یااجزاء زمین پرسجدہ کروکسی اورچیزپرسجدہ جائزنہیں ہے۔ +وہ سنی: تھوڑی دیرسوچنے کے بعدکہنے لگادین ایک ہے نمازایک ہے۔ +میں نے کہا: اگردین ونمازایک ہی ہے توتم اہل سنت نمازکوحالت قیام میں مختلف طریقوں سے کیوں پڑھتے ہو،تم لوگوں میں سے بعض مذہب مالکی والے ہاتھ کھول کرنمازپڑھتے ہیں،تم میں سے بعض ہاتھ سینے پررکھتے ہیں،جب کہ دین سب کاایک ہے اوررسول خدا جونمازپڑھتے تھے وہ اکی ہی طرح کی تھی۔ لہذاتم لوگ اس سوال کے جواب میں کہوگے کہ ابوحنیفہ یاشافعی یامالکی یااحمدبن حنبل نے اسی طرح کاحکم دیاہے۔ +وہ کہنے لگے: ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس طرح کاحکم دیاہے۔ +میں نے کہا: توجعفربن محمدامام صادق جوہمارے مذہب کے سربراہ ہیں اورابھی تمہارے اعتراف کے مطابق کہ خاندان رسالت سے ہیں،توہم کہتے ہیں کہ اہل البیت ادری بمافی البیت)یعنی گھروالے جوکچھ گھرمیں ہوتاہے اس سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں اوراقرباء رسول دوسروں سے زیادہ باخبرہوتے ہیں لہذاامام صادق فرماتے ہیں کہ اجزاء زمین پرسجدہ کروروئی یاریشم پرسجدہ جائزنہیں ہے۔لہذاہماراتمہارااختلاف فروع میںہے اصول میں نہیں ہے۔لہذااس میں کوئی شرک کاپہلوہرگزنہیں نکلتا۔لہذاجب بات یہاں تک پہنچی توجواہل سنت وہاں بیٹھے ہوئے تھے اورہمارے مذاکرے کوسن رہے تھے ان سب نے میری تصدیق کی۔ پھرمیں نے دوبارہ اس شخص سے جوشیعہ نمازی کے آگے سے سجدہ گاہ کواٹھاناچاہتاتھا کہا:تمہیں رسول خداسے حیاء نہیں آتی کہ جوان کی قبرکے نزدیک ان کے خاندان کے مذہب کے مطابق نمازپڑھ رہاہے اس کی نمازباطل کرناچاہتے ہوجیساکہ ان خاندان اہل بیت کے بارے میں ارشاد خداوندی ہوتاہے :انمایریداللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطھیرا(سورہ احزاب آیت٣٣)یعنی بس اللہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہربرائی کودوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپا ک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔ یہ سن کرباقی اطراف والے اس شخص کی مذمت کرنے لگے اورکہنے لگے یہ بے چارامسلمان جواپنے مذہب کے مطابق نمازپڑھ رہاہے اس کوکیوں اذیت دیناچاہتے ہو؟یہ سن کروہ دونوں مصری جلدی سے اٹھے اورمجھ سے معذرت کرتے ہوئے چلے گئے۔ +تشریح: حقیقتا ان علماء وہابی کاکام کتناعجیب ہے کہ لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں کہ تربت حسینی یاپتھریالکڑی وغیرہ پرسجدہ کرناشرک ہے ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیاوجہ ہے کہ تم لوگ چٹائی وفرش وغیرہ پرسجدہ کوشرک نہیں مانتے اوروہ سجدہ گاہ پرسجدہ کرناسی کی عبادت کرناہے جب کہ تم لوگ دیکھتے اورسنتے ہوکہ شیعہ لوگ نمازمیں تین مرتبہ سبحان اللہ کاوردکرتے ہیں یعنی وہ ذات ہرعیب وشرک سے منزہ ہے یایوں کہتے ہیں کہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ یعنی میراپروردگارہرعیب سے پاک ومنزہ ہے بزرگ ہے اورتمام حمدوستائش اسی کے لئے تم لوگوں کی زبان بھی عربی ہے عربی الفاظ کی خصوصیات کوبہترجانتے ہوکہ ان دونوں لفظوں میں بہت فرق ہے السجودعلیہ یعنی اس پرسجدہ اورالسجودعلیہ یعنی اس کے لئے سجدہ۔لہذااگرکسی چیزپرسجدہ کرتے ہیں تواس کے معنی یہ نہیں ہیں کہاس چیزکی پرستش کرتے ہیں بلکہ اس حال میں انتہائی خضوع وخشوع کے ساتھ عبادت انجام دیتے ہیں کیاتم لوگوں نے دیکھاہے کہ بت پرستوں نے کبھی بتوں پرسجدہ کی غرض سے پیشانی رکھی ہوبلکہ بت کواپنے سامنے رکھ کرزمین پرسجدہ کرتے ہیں۔اس سے بالکل واضح ہے کہ وہ بتوں کی پرستش کرتے ہیں نہ کہ زمین کی یااس چیزکی جس پرپیشانی رکھتے ہیں۔ +نتیجہ: لہذااس جہت سے خاک یازمین پرسجدہ کرناگویااس کے لئے سجدہ نہیں ہے بلکہ سجدہ دراصل خداکے لئے ہے اس فرق کے ساتھ جوہمارے سربراہ مذہب امام صادق فرماتے ہیں کہ اجزاء زمین مثلامٹی کی سجدہ گاہ یالکڑی کی سجدہ گاہ پرسجدہ کروجب کہ اہل سنت کے علماء ابوحنیفہ وشافعی وغیرہ کہتے ہیں کہ جس پرنمازپڑھ رہے ہواسی پرسجدہ کرو۔ +اس جگہ اہل سنت شیعوں سے سوال کرتے ہیں کہ مہرپرسجدہ کیوں کرتے ہوہماری طرح فرش پرکیوں نہیں کرتے؟تواس کاجواب دیتے ہوئے شیعہ کہتے ہیں کہ رسول خداکی سجدہ گاہ فرش نہیں تھا بلکہ آپۖ کے ساتھ تمام مسلمان خاک پرسجدہ کرتے تھے لہذاہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے خاک پرسجدہ کرتے ہیں(التاج الجامع ج٢ص١٩٢واحادیث صحاح ستہ ج١١ابوب سجود)۔ +ہاں بعض روایات کے مطابق ضرورت کے وقت مثلا شدیدگرمی وغیرہ کے وقت لباس پربھی سجدہ کی اجازت دی گئی ہے جیساکہ انس بن مالک سے نقل ہے کہ کنانصلی مع النبیۖ فیضع احدناطرف الثوب من شدة الحرفی مکان السجود یعنی ہم پیغمبراکرم کے ساتھ نمازپڑھ رہے تھے توہم میں سے بعض شدیدگرمی کی وجہ سے سجدہ گاہ کی جگہ اپنی پیشانی سجدہ کے وقت اپنے لباس کے ایک کونے پررکھتے تھے(التاج الجامع ج٢ص١٩٢واحادیث صحاح ستہ ج١١ابوب سجود)۔ +اسی طرح کی دوسری روایات سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضرورت کے وقت کپڑے پربھی سجدہ ہوسکتاہے۔ایسی حالت میں پیغمبرۖ بھی کپڑے پرسجدہ کرتے تھے یانہیں اس پریہ روایات دلالت نہیں کرتی۔ +دوسرامطلب: اگراجزاء زمین پرسجدہ کرناشرک ہوتوکہناپڑے گاکہ فرشتوں کاسجدہ جوحکم خداسے حضرت آدم کے سامنے تھاوہ بھی شرک تھایاخانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنا(نعوذباللہ)شرک ہے بلکہ شرک ان دوصورتوں میں توزیادہ شدیدہوگیاکیونکہ فرشتوں نے خودحضرت آدم کوسجدہ کیاتھا نہ کہ آدم پرسجدہ کیاتھا۔ +اسی طرح تمام مسلمان کعبہ کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے ہیں نہ کہ خودکعبہ پر،جب کہ مسلمان نے بھی آدم کوسجدہ کرنے اورکعبہ کی طرف رخ کرکے سجدہ کرنے کوبھی شرک نہیں کہاکیونکہ حقیقت سجدہ یہ ہے کہ نہایت تواضع کے ساتھ خداکے سامنے اس کے فرمان کے مطابق ہو۔لہذاکعبہ کی طرف سجدہ کرناحکم خداپرعمل کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ہے۔ +اسی طرح آدم کوسجدہ کرنااولاتوحکم خداتھا،ثانیایہ شکرالہی تھا۔اسی طرح خاک وپتھرولکڑی پرسجدہ کرنادراصل سجدہ خداکے لئے ہے اوریہ سجدہ ایسی چیزوں پرہے جوزمین سے ہیں اوریہ حکم ہمارے رہنماوپیشواحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے دیاہے لہذااجزاء زمین پرسجدہ کرناشرک نہیں ہے۔ +شیعہ عالم کارہنماتنظیم امربالمعروف ونہی عن المنکرسے مباحثہ +ایک شیعہ عالم مدینہ میں تنظیم امربالمعروف ونہی عن المنکرکے دفترکسی کام سے گئے۔وہاں ان سے اوراس تنظیم کے رہنماکے درمیان شیعوں کے متعلق اس طرح سے گفتگوشروع ہوئی۔ +رہنما: آپ لوگ قبرنبیۖ کے نزدیک نماززیارت کیوں پڑھتے ہیں جب کہ نمازغیرخداکے لئے شرک ہے؟ +شیعہ عالم :ہم پیغمبرۖکے لئے نمازنہیں پڑھتے بلکہ نمازخداکے لئے پڑھتے ہیں اوراس کوثواب رسول خداۖ کی بارگاہ میں نثارکرتے ہیں۔ +شیعہ عالم: اگرنمازقبرکے کنارے پڑھناشرک ہے توکعبہ کے کنارے بھی نمازپڑھناشرک ہوناچاہئے کیونکہ حجراسماعیل میں حضرت ہاجرہ وحضرت اسماعیل کی قبرہے اوربعض دیگرپیغمبروں کی قبربھی ہیں کیونکہ یہ بات توشیعہ سنی سب نقل کرتے ہیں کہ وہاں بہت سے انبیاء دفن ہیں لہذابقول تم لوگوں کے حجراسماعیل میں بھی نمازپڑھناشرک ہے جب کہ تمہارے ہی مذہب کے رہنماؤں نے مثلا(حنفی ومالکی وشافعی وحنبلی)سب نے حجراسماعیل میں نمازیں پڑھی ہیں۔لہذا اس بناپرقبرستان میںنمازپڑھناشرک نہیں ہے(مناظرات فی الحرمین الشرفین سیدعلی بطحائی۔مناظرہ پنجم)۔ +ایک دوسراوہابی: خودرسول خدانے قبرستان میں نمازپڑھنے سے منع کیاہے۔ +شیعہ عالم: تم پیغمبراکرمۖ کیطرف جھوٹی حدیث منسوب کررہے ہوچونہ اگررسول خداقبرستان میں نمازپڑھنے کومنع کرتے یاحرام جانتے تویہ ہزاروں لاکھوں حجاج وزوارکیوں کرپیغمبر اکرمۖ کی مخالفت کرتے اوریہ فعل حرام خودمسجدنبوی میں جس میں رسول خدا،عمروابوبکرکی قبریں ہیں مرتکب ہوتے؟جب کہ ایسانہیں ہے کیونکہ پیغمبر سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں کہ آپ ۖاوربعض دوسرے صحابہ کرام قبرستان میں نمازپڑھاکرتے تھے۔ +من جملہ ان روایات میں سے وہ روایت جوصحیح بخاری کی ج٣ص٢٦پررسول خداسے نقل ہوئی ہے کہ آپۖ نے عیدقربان کے دن قبرستان بقیع میں دوررکعت نمازپڑھی،نمازکے بعدآپ نے فرمایا:آج کے دن کی پہلی عبادت یہ دورکعت نمازہے،پھرجاکرقربانی کریںگے،جس نے بھی ایساکیا اس نے میری سنت کی پیروی کی۔ +اس روایت کے مطابق رسول خدانے قبرستان میں نمازپڑھی لیکن تم لوگ قبرستان میں نمازپڑھنے سے منع کرتے ہواورکہتے ہوکہ اسلام نے اس کومنع کیاہے اگراسلام سے مرادشریعت محمدیۖ ہے توصاحب شریعت نے قبرستان میں نمازپڑھی ہے کیونکہ رسول کے زمانہ سے اب تک بقیع قبرستان ہے قبورکے کنارے نماز پڑھناجائزہے لیکن تم لوگ پیغمبرۖ کی مخالفت کرتے ہوئے اطراف قبورمیںنمازپڑھنے سے منع کرتے ہو۔ +اس بارے میں ایک غم انگیزداستان +ڈاکٹرسیدمحمدتیجانی جوسنی عالم دین تھے اوراب شیعہ ہوچکے ہیں،لکھتے ہیں کہ میں مدینہ میں بقیع کی زیارت کے لئے گیاہواتھا اوراہل بیت پرصلواتیں پڑھ رہا تھاکہ دیکھتاہوں کہ میرے قریب ایک بوڑھاشخص کھڑارورہاہے۔میں اس کے رونے سے سمجھ گیاکہ وہ شیعہ ہے ،وہ روبقبلہ ہوااورنمازپڑھنے لگا،اچانک ایک سعودی شرطہ غصہ سے بھرااس کے نزدیک آیاگویادورسے وہ اس کی حرکات دیکھ رہاتھا۔جیسے ہی وہ ضعیف سجدہ میں گیااس شرطہ نے ایسی لات ماری کہ وہ ضعیف الٹازمین پرجاگرا،اسے کافی دیرتک ہوش نہیں آیا،لیکن یہ شرطہ اسے اسی طرح مارتارہا۔ +مجھے اس ضعیف کے حال پررحم آیامیں نے خیال کیاشایدوہ مرگیاہے،میری غیرت کوجوش آیامیںنے اس شرطہ سے کہا: اس بے چارے کوحالت نماز میں کیوں ماررہاہے؟ +شرطہ مجھ سے کہنے لگا:تم خاموش رہو،مداخلت نہ کرو،ورنہ تمہارے ساتھ بھی ایساہی کروںگا۔ +وہاں دیگرزواربھی تھے جوکہہ رہے تھے کہ یہ اس کی سزاہے یہ کیوں قبرستان میں نمازپڑھ رہاتھا۔میں نے غصہ میں کہا:کس نے قبرستان میں نمازپڑھنے کوحرام قراردیاہے اورپھرکافی طویل گفتگوکے بعدکہاکہ اگرقبرستان میں نمازپڑھنے کوحرام بھی ماناجائے توکیااس طرح سے ظلم وستم کرکے روکاجاتاہے یاپیارومحبت سے سمجھایاجاتاہے ابھی میں تمہیں ایک صحرانشین شخص کی داستان سناتاہوں۔پیغمبرۖ کے زمانے میں ایک بے شرم وحیاصحرانشین نے آکرپیغمبرۖکے سامنے سجدہ میںپیشاب کردیا۔ایک صحابی اٹھے کہ اس کی گردن اڑادیں۔پیغمبرنے بڑے غصے میں ا نہیں روکااورکہا:اس کواذیت نہ دو،جاؤپانی لاؤاوراس جگہ کوپاک کردو، لوگوں کے امورکوآسان کرنے کے لئے پیداکئے گئے ہونہ کہ لوگوں کواذیتیں دینے کے لئے۔اصحاب نے پیغمبرکے فرمان پرعمل کیا اورپھرپیغمبرنے اس صحرانشین کوآوازدے کربلایااوراپنے پاس بٹھاتے ہوئے اسے خوش آمدیدکہااورپھربڑے پیارومحبت سے اس سے کہا،بندہ خداکایہ خداکاگھرہے اس کونجس نہیں کرتے،وہ صحرانشین رسول خداکی محبت آمیزباتوں سے اس قدرمتاثرہواکہ فورامسلمان ہوگیا۔اس کے بعدجب بھی وہ مسجدمیں آتاپاک وصاف کپڑے پہن کرآتاتھا۔کیانگہبان حرمین کاحجاز میںاس طرح کارویہ ایک بوڑھے ضعیف شخص کے ساتھ صحیح ہے کیوں سیرت رسول کواپناطریقہ حیات قرارنہیںدیتے؟(کتاب پھرمیں ہدایت پاگیاص١١١تا١١٣)۔ +فاطمہ زہرا کی مظلومیت کیوں؟ +ایک وہابی،شیعہ عالم دین سے کہتاہے کہ تم لوگ قبر(فاطمہ زہرا)کے پاس یہ کیوں کہتے ہوکہ :السلام علیک ایتھاالمظلومة یعنی ہماراسلام ہوآپ پراے مظلومہ بی بی۔کس نے دختررسول فاطمہ زہراپرظلم وستم کیاہے؟ +شیعہ عالم:اس ظلم وستم پرفاطمہ کی غم انگیزداستان خودتمہاری کتابوں میں لکھی ہے۔ +شیعہ عالم: الامامة السیاسة جوابن قتیبہ دینوری کی لکھی ہوئی ہے اس کے تیرہویں صفحے پرلکھی ہے۔ +وہابی: اس قسم کی کوئی کتاب ہمارے پاس نہیں ہے۔ +شیعہ عالم میں یہ کتاب بازارسے تمہارے لئے خریدکرلاتاہوں۔ +وہابی نے میری بات مان لی،میں گیااورکتاب خریدکراس کے پاس لایااوراس کی جلداول کے صفحہ ١٩کوکھولااوراس سے کہالویہ پڑھو: +لکھاتھاکہ جب ابوبکرکے زمانہ خلافت میں علی وبعض دیگرلوگ جوابوبکرکی بیعت نہیں کرناچاہتاتھے سب حضرت علی کے گھرمیںجمع تھے،ابوبکر نے عمربن الخطاب کوبلایااوران لوگوں سے بیعت لینے کوحضرت علی کے گھرروانہ کیا،عمردرحضرت علی پرآکربلندآوازسے کہتے ہیں کہ جوبھی اندرہے ابوبکرکے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے باہرآجائے جب کوئی باہرنہیں آیاتوعمرنے لکڑیاں منگوائیں اورکہنے لگے خداکی قسم اگرتم لوگ باہرنہیں آئے توا س گھرکوتم لوگوں سمیت جلاکرخاک کردوں گا،کسی نے عمرسے کہا: اے عمراس گھرمیںدختررسول فاطمہ بھی ہیں وہ کہنے لگے: میرے لئے کوئی فرق نہیں ۔چاہے فاطمہ ہی کیوں نہ ہوں۔مجبورابعض لوگ توخوف سے باہرآگئے مگرحضرت علی نہیںآئے۔اس روایت کے ذیل میں لکھاہے کہ جب ابوبکربسترمرگ پرتھے توکہتے تھے کہ کاش میں علی کے گھرکے درپرنہ جاتا،چاہے وہ مجھ سے اعلان جنگ ہی کیوں نہ کرتے۔ +اس مقام پرشیعہ عالم نے اس وہابی سے کہا:ذراابوبکرکی بات پرتوجہ توکروکہ کس طرح وہ موت کے وقت افسوس اورپشیمانی کااظہارکررہے ہیں۔وہابی جواس استدلال کے سامنے لاجواب ہوکررہ گیاتھاکہنے لگا: ا س کتاب کامصنف ابن قتیبہ شیعیت کی طرف مائل تھا(مناظرات الحرمین الشرفین مناظرہ ٩)۔ +شیعہ عالم:اگرابن قتیبہ مذہب تشیع کی طرف مائل تھاتوکتاب مسلم وصحیح بخاری کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں جن میں دوروایتیں ہیں کہ حضرت فاطمہ اپنی زندگی کے آخری مراحل میں ابوبکرسے ناراض اس دنیاسے گئی ہیں''فھجرتہ فاطمة ولم تکلمہ فی ذالک حتی ماتت اس بارے میں صحیح مسلم کی جلد٥کے صفحہ ١٥٣ چھاپ مصراورصحیح بخاری کی جلد٥صفحہ ١٧٧چھاپ الشعب کے باب غزوة خیبر میں رجوع کریں(شرع نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدمعتزلی ج٦ص٤٦)۔ +تربت امام حسین پرسجدہ کرنا +ایک سنی عالم دین جودانش گاہ الازہرسے فارغ التحصل تھے،بنام(شیخ محمدمرعی انطاکی)جوسوریہ کے رہنے والے تھے انہوں نے مذہب تشیع کے سلسلے میں تحقیقات کرنے کے بعدایک کتاب لکھی لماذااخترت مذہب الشیعہ یعنی کیوں میں نے مذہب تشیع اختیارکیا۔اس میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ سنی عالم دین سے تربت حسینی وخاک پرسجدہ کرنے کے سلسلے میں اس طرح مناظرہ ہوا +محمدمرعی: میں اپنے گھرمیں تھاکہ میرے کچھ سنی دوست جودانش گاہ الازہرمیں میرے ہم کلامی تھے مجھ سے ملنے آئے اس ملاقات میں اس طرح بحث شروع ہوئی: +سنی دوست شیعہ لوگ تربت حسینی پرسجدہ کرتے ہیں۔لہذااس فعل کی بناپروہ لوگ مشرک ہیں۔ +محمدمرعی: تربت پرسجدہ کرناشرک نہیں ہے کیوںکہ تربت پرسجدہ خداکے لئے کرے ہیں نہ کہ تربت کے لئے ۔اگربقول تمہارے فرضی محال کی بنابرکہ اس تربت میں کوئی ایسی چیزہے جس کی خاطروہ لوگ اس پرسجدہ کرتے ہیں نہ یہ کہ اس کے اوپرسجدہ کرتے ہیں تویقینااس طرح کافعل شرک ہے لیکن شیعہ اپنے معبودجوخداہے اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں یعنی نہایت تواضع کے ساتھ خداکی بارگاہ میں خداکے لئے اس تربت پرپیشانی رکھتے ہیں۔ +مزیدروشن عبارت: یعنی حقیقت سجدہ خداکے سامنے نہایت خضوع وخشوع ہے نہ کہ مہرکے سامنے۔ +حاضرین میں سے ایک شخص جس کانام حمیدتھابولا: احسن ہوتم پرتم نے اچھاتجزیہ وتحلیل کیالیکن سوال ہمارے لئے باقی رہ جاتاہے کہ تم شیعہ لوگ تربت حسینی ہی پرسجدہ کوکیوں ترجیح دیتے ہو؟جس طرح تربت پرسجدہ کرتے ہودوسری چیزوں پرسجدہ کیوں نہیںکرتے؟ +محمدمرعی: ہم جوخاک پرسجدہ کرتے ہیں وہ پیغمبر اکرمۖ کی اس حدیث کی بنیاد پرکرتے ہیں جوتمام مسلمین کی متفق علیہ حدیث ہے کہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا جعلت لی الارض مسجدا وطہورا یعنی خدانے زمین کومیرے لئے سجدگاہ اورپاکیزہ قراردیاہے لہذااس پرتمام مسلمین کااتفاق ہے کہ سجدہ خالص مٹی پرجائز ہے اس لئے ہم لوگ خاک پرسجدہ کرتے ہیں۔ +محمدمرعی: جب ر��ول خدا نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی وہاں پہنچتے ہی آپ نے وہاں ایک مسجدبنانے کاحکم دیاکیااس مسجدکافرش تھا؟ +محمدمرعی: پس پیغمبر اکرمۖاوردیگرمسلمین نے کس چیزپرسجدہ کیا؟ +حمید: اسی زمین کی خاک پرسجدہ کیا۔ +محمدمرعی: رحلت رسول کے بعداورزمانہ خلافت ابوبکر وعثمان وعمرمیں مسلمان کس چیزپرسجدہ کرتے تھے؟کیااس وقت مسجدوں کے فرش تھے؟ +حمید: اس وقت فرش نہیں تھے وہ لوگ اسی مسجدکی خاک پرسجدہ کرتے تھے۔ +محمدمرعی: لہذاتم اپنے اس بیان سے اعتراف کرتے ہوکہ پیغمبراکرمۖ نے اپنی تمام نمازوں میں زمین پرسجدہ کیااسی طرح دیگرمسلمانوں نے بھی اس زمانے اوراس کے بعدوالے زمانوں میں خاک پرسجدہ کرتے رہے لہذااس سے معلوم ہوتاہے کہ خاک پرسجدہ صحیح ہے۔ +حمید: میرااشکال شیعوں کی اس بات پرہے کہ وہ لوگ کیوں صرف خاک ہی پرسجدہ کرتے ہیں اوروہ خاک بھی جوزمین کربلاسے لی گئی ہواورا س سے مہربنائی گئی ہواس کواپنی جیب میں رکھ کرچلتے ہیں جہاں نمازپڑھتے اس کورکھ کراس پرسجدہ کرتے ہیں؟ +محمدمرعی: اولاتوشیعوں کاعقیدہ یہ ہے کہ زمین کی ہرقسم کی چیزخواہ وہ خاک ہویاپتھرجائزہے اورثانیایہ کہ سجدہ کے لئے شرط ہے کہ سجدہ کی جگہ پاک ہو، لہذا نجس یاآلودہ زمین پرسجدہ صحیح نہیں ہے اسی لئے پاکیزہ خاک کی ایک سجدگاہ جس کومہرکہتے ہیں تیارکرتے ہیں اوراپنے ساتھ لے کرچلتے ہیں تاکہ اس سجدگاہ پرجوخالص خاک سے تیارکی گئی ہے اطمینان قلبی کے ساتھ اس پرسجدہ کریں کیونکہ شیعہ جس زمین یاخاک کے پاک ہونے کااطمینان نہ ہواس پرسجدہ نہیں کرتے۔ +حمید: اگرشیعوں کامقصد خالص خاک پرسجدہ کرناہے توکیوں صرف خاک اپنے ساتھ نہیں رکھتے بلکہ اس سے مہربناتے ہیں اوراپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ +محمدمرعی: کیونکہ مٹی کوساتھ رکھنے سے لباس خاک آلودہوتاہے اورکیوںکہ مٹی کوکہیں بھی کسی چیزمیں رکھیں وہ خاک آلودہوجاتی ہے اسی لئے مٹی میںپانی ملا کراس سے مہربناتے ہیں اوراپنے ساتھ رکھتے ہیں جونہ باعث زحمت ہے اورنہ اس سے لباس وہاتھ پیرآلودہ ہوتے ہیں۔ +حمید: تم لوگ زمین کی چیزوں کے علاوہ قالین ،دری اورفرش پرسجدہ کیوں نہیں کرتے؟ +محمدمرعی: یہ بات تومیں نے پہلے کہی کہ سجدہ کی غرض خداکے سامنے انتہائی خضوع وخشوع کرناہے چاہے خودخاک پرہویااس سے بنی ہوئی مہرپرہواس سے خدا کے سامنے زیادہ خضوع ہوتاہے کیونکہ خاک سب سے پست ترین چیزہے اورانسان کاسب سے عظیم ترین عضواس کی پیشانی ہے لہذاجب انسان اپنی عظیم ترین چیزکوپست ترین چیزخاک پرحالت سجدہ میںرکھتاہے تاکہ نہایت خضوع کے ساتھ خداکی عبات کرے اسی لئے مستحب ہے کہ سجدہ کی جگہ ہاتھ پیروں سے ذرانیچی ہوتاکہ زیادہ خضوع کوبیان کرے اسی طرح مستحب ہے کہ سجدہ میں ناک کی نوک بھی خاک پرلگے تاکہ زیادہ خضوع حاصل ہو۔لہذا خشک شدہ خاک یعنی مہرپرسجدہ کرنادوسری چیزوں کی نسبت بہترہے جن پرسجدہ جائزہوکیونکہ اگرانسان حالت سجدہ میں اپنی پیشانی قالین یاسوناچاندی یااس قسم کی دوسری چیزوں پررکھے وہ خضوع حاصل نہیں ہوتااورہوسکتاہے کہ اس طرح سے سجدہ کرناخداکے سامنے بندے کی پستی وتذلیل پربھی دلالت نہ کرے لہذااس وضاحت کے بعدآپ بتائیں کہ کیاوہ لوگ جوخداکے سامنے خضوع وخشوع کے ساتھ مہرپرسجدہ کرتے ہیں کافرومشرک ہیں یاقالین ورنگ برنگی کپڑوں پرسجدہ کرناجس سے تواضع نہیں رہتی،یہ تقرب خداہے؟جوکوئی بھی اس طرح کاتصورکرے وہ تصورباطل وبے اساس ہے؟ +حمید: تووہ کلمات کیاہیں جواس مہرپرلکھے ہوتے ہیں جس پرشیعہ سجدہ کرتے ہیں؟ +محمدمرعی: اولاتوسب مہروں پرلکھاہوانہیں ہوتاجن پرسجدہ کیاجاتاہے ۔ثانیاان میں سے بعض پریہ لکھاہوتاہے سبحان ربی الاعلی وبحمدہ یعنی جوخود ذکرسجدہ کی طرف اشارہ ہے اوربعض پرلکھاہوتاہے کہ یہ تربت زمین کربلاسے لی گئی ہے تم کوخداکی قسم ذرایہ بتاؤکہ یہ لکھاہوناموجب شرک ہے؟ +کیایہ سب لکھاہونااس خاک کے صحیح سجدہ سے خارج کردیتاہے؟ +حمید: نہیں یہ ہرگزموجب شرک یااس پرسجدہ کے جائزہونے میں مانع نہیں ہے لیکن ایک سوال اورمیرے ذہن میں آتاہے ہ تربت کربلامیں کیاخصوصیت ہے جواکثرشیعہ اس پرسجدہ کوزیادہ باعث ثواب سمجھتے ہیں؟ +محمدمرعی: اس کارازیہ ہے کہ ہمارے اماموں سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں کہ جس میںآیاہے کہ سجدہ کرناتربت امام حسین پردوسری تربتوں سے زیادہ اہمیت وثواب ہے۔امام صادق کاارشادہے السجودعلی تربة الحسین یخرق الحجب السبع یعنی تربت حسین پرسجدہ کرناسات پردوں کودورکردیتا ہے(بحار الانوار ج٨٥ص١٥٣ یعنی نمازکی قبولیت کاباعث ہوتاہے اوراس کی آسمان کی طرف بلندی کاباعث ہوتاہے اورایک دوسری روایت ہے کہ آپ صرف تربت حسینی پرسجدہ کرتے تھے اپنے کوخداکے سامنے چھوٹاوذلیل ظاہرکرنے کی خاطر(بحارج٨٥ص١٥٨وارشادالقلوب ص١٤١)۔ +لہذااس تربت حسینی کوایک قسم کی برتری حاصل ہے جودوسری تربتوں میںنہیںہے۔ +حمید: کیاتربت حسینی پرنمازموجب قبول ہوتی ہے چاہے نمازباطل ہی کیوں نہ ہو؟ +محمدمرعی: مذہب شیعہ میں ہے کہ اگرنمازکی صحت کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی فاسدہے تونمازباطل ہے اورایسی نمازقبول نہیں ہوگی لیکن جونمازتمام شرائط صحت پرمشتمل ہواگراس کاسجدہ تربت حسینی پرہوتوقبول ہونے کے علاوہ زیادہ ثواب کاباعث ہے۔ +حمید: کیازمین کربلاتمام زمینوں حتی کہ مکہ ومدینہ کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جوتمام تربت حسینی پرسجدہ دوسری تربتوں کی نسبت افضل ہے؟ +محمدمرعی: اس میں کیاعیب ہے کہ اگرخدااس طرح کی خصوصیت زمین کربلاکوعطاکردے۔ +حمید: زمین مکہ جوحضرت آدم کے زمانے سے لے کراب تک کعبہ کی جگہ بنی ہوئی ہے اورزمین مدینہ جوجسدپیغمبرکواٹھائے ہوئے ہے کیاان کامقام زمین کربلاسے کمترہے ویسے یہ عجیب ہے کیاحسین اپنے جدپیغمبرۖ سے بڑھ گئے ہیں؟ +محمدمرعی: ایساہرگزنہیں ہے بلکہ عظمت وشرافت حسین اپنے جدرسول اکرم کی عظمت مقام وشرافت کے سبب سے ہے لیکن خاک کربلاکوسب زمینوں پربرتری حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام حسین نے اپنے جدکی راہ میں اس زمین پرشہادت پیش کی ہے اورمقام حسین مقام رسالت کاایک جزہے لیکن اس جہت سے کہ آپ اورآپ کے اصحاب وانصارنے خداکی راہ میں اسلام کوزندہ کرنے وارکان دین کواستوارکرنے اوران کے تحفظ کرنے میں اپنی جانوں کونثار کرکے شہادت حاصل کی خداوندعالم نے اسی وجہ سے امام حسین کوتین خصوصیتیں عطاکی ہیں۔ پہلی یہ کہ دوسرے آئمہ آپ کی نسل سے قرارپائے۔ دوسری یہ کہ ان کی تربت میں شفاہے تیسری یہ کہ ان کے روضہ اقدس پرکوئی جاکردعاکرے تومستجاب ہوتی ہے۔کیاتربت حسینی کواس طرح کی خصوصیت عطاکرنے میں کوئی اعتراض ہے؟کیایہ کہنے سے کہ زمین کربلا،ارض مدینہ سے افضل ہے یہ معنی نکلتے ہیں کہ حسین پیغمبرپربرتری رکھتے ہیں جیساکہ آپ لوگ ہم پراشکال کرتے ہیں حالانکہ مطلب اس کے برعکس ہے یعنی تربت حسینی کااحترام خودامام حسین کااحترام ہے اورامام حسین کااحترام ان کے جدرسول خدااوران کااحترام ہے جب میری بات اس حدتک پہنچی توایک دوست جومیری باتوں سے قانع ہوچکاتھاخوشی کے عالم میں اپنی جگہ سے ��ٹھااورمجھ سے شیعوں کی کتابوں کی دوخواست کی اورمجھ سے کہنے لگا: تمہاری باتیں بہت اچھی تھیں میں تواب تک سمجھتاتھا کہ شایدشیعہ لوگ امام حسین کورسول خداسے بڑامانتے ہیں اب میرے سامنے حقیقت واضح ہوگئی ہے اورتمہاری شیرین گفتگوکاشکریہ اورآج سے میں خودتربت کربلاکی ایک مہراپنے ساتھ رکھوں گااوراس پرنماز پڑھاکروں گا(کتاب لماذااخترت مذہب التشیع محمدمرعی انطاکی ص٣٤١تا٣٤٨)۔ +اگرپیغمبراسلامۖ کے بعدکوئی پیغمبرہوتاتوکون ہوتا؟ +ایران کے ایک آیت اللہ العظمی سیدعبداللہ شیرازی فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مکہ میں بات السلام کے سامنے کتاب فروش کے پاس کھڑاہواتھا کہ ایک سنی عالم دینی آئے اورمجھے سلام کرکے مجھ سے اس طرح گفتگوشروع کی: +سنی عالم: آپ لوگ پیغمبراکرمۖ کی اس حدیث کے بارے میں کیاکہتے ہیں: لوکان نبی غیری لکان عمر یعنی اگرمیرے بعدکوئی پیغمبرہوتاتووہ عمربن خطاب ہوتا۔ +میں نے کہا: پیغمبرنے اس قسم کی حدیث ہرگزنہیں کہی ہے بلکہ یہ حدیث جعلی وجھوٹ ہے۔ +سنی عالم: ہاں یہ حدیث ہم لوگوں کے نزدیک مسلم وقطعی ہے۔ +میں نے کہا: لہذااس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اگرپیغمبراکرمۖ کے بعدکوئی نبی ہوتاتووہ حتماعلی ہوتے۔ لہذااس حدیث کی بناپروہ حدیث جوتم نے ابھی نقل کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایاکہ اگرمیرے بعدکوئی نبی ہوتاتووہ عمرہوتاجھوٹی وجعلی ہے۔ +وہ اس جواب کے سامنے حیرت زدہ ہوکررہ گیااورکچھ نہ کہہ سکا(الاحتجاجات العشرة ص١٦)۔ +مرحوم آیت اللہ سیدعبداللہ شیرازی فرماتے ہیں کہ اس سنی عالم نے مجھ سے سوال کیاکہ آپ لوگ متعہ کوجائزجانتے ہیں؟ +شیعہ عالم کامسیحی عالم سے مباحثہ +قرآن مجیدکے سورہ عبس کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں کہ عبس وتولی،ان جائہ الاعمی''یعنی اس نے منہ بسورلیااورپیٹھ پھیرلی کہ اس کے پاس ایک نابینا آگیا۔ لہذاخوداہل تسنن کی کتابوں میں اس آیت کی شان نزول کے سلسلے میں نقل ہوئی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ پیغمبرۖ اکرم کچھ سرداران قریش کے ساتھ گفتگومیں مصروف تھے تاکہ ان کودعوت اسلام دیں اسی اثنامیں ایک مؤمن فقیربنام عبداللہ ملتوم پیغمبرۖ کے پاس آیااورکہنے لگااے خداکے رسول مجھے آیات قرآنی سکھائیں توپیغمبراکرمۖ اس پرناراض ہوئے توخداوندعالم نے پیغمبرۖ کواس کام پرسرزنش کی جب کہ روایات شیعہ کے مطابق یہ آیات عثمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس پرخداکی طرف سے سرزنش ہوئی ہے کیونکہ اس نے اس نابینافقیرسے بے اعتنائی کی تھی(تفسیربرہان ونورالثقلین وغیرہ)اب وہ مناظرہ جوشیعہ عالم ومسیحی عالم کے درمیان ہواملاحظہ کریں: +مسیحی عالم: حضرت عیسی تمہارے پیغمبرۖ سے بہترتھے اس لئے کہ تمہارے رسول ۖنعوذباللہ کچھ بداخلاق تھے،نابیناؤںس منہ پھیرلیتے تھے جیساکہ تمہارے قرآن کے سورہ عبس میں ذکرہے جب کہ ہمارے پیغمبرعیسی اس قدرخوش اخلاق تھے کہ جہاں بھی نابینایاکسی بھی بیماری میں کسی کومبتلاپاتے تونہ یہ کہ اس کی طرف سے منہ پھیرلیتے تھے بلکہ اس کوشفادیتے تھے۔ +شیعہ عالم: ہم شیعہ معتقدہیں کہ یہ آیت بداخلاق عثمان کے بارے میں نازل ہوئے ہے کیونکہ پیغمبراکرمۖ توکافروں تک سے خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے تومومنین سے توبدرجہ اولی اخلاق سے پیش آتے تھے۔ چنانچہ اسی قرآن میں جس کاتم نے نام لیاہے خداوندعالم پیغمبرکی شان میں فرماتاہے انک لعلی خلق عظیم''۔ یعنی بیشک اے رسول ۖآپ ہی اخلاق عظیم پرفائزہیں اوردوسری جگہ قرآن میں ارشادفرماتاہے وماارسلناک الارحمة للعالمین یعنی اے رسول! ہم نے آپ کولوگوں میں نہیں بھیجامگریہ کہ عالمین کے لئے رحمت قراردیاہے۔ +مسیحی عالم: میں نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی ہے بلکہ ایک مسلم خطیب سے بغدادکی مسجدمیں سنی ہے۔ +شیعہ عالم: وہی جومیں نے کہاکہ ہم شیعوں کے نزدیک مشہوریہی ہے کہ سورہ عبس کی یہ ابتدائی دوآیتیں عثمان سے مربوط ہیں۔ بعض بنی امیہ کے راویوں نے جوعثمان کی حفاظت کرتے تھے اس کی نسبت پیغمبرۖ کی طرف دی ہے۔ +بہ عبارت دیگر: سورہ عبس کی آیات میں اس چیزکی تصریح بھی نہیں ہے کہ وہ نابیناشخص کون تھا مگرسورہ قلم کی آیت٤ اورسورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ میںاس کاذکرہے کہ یہ آیات پیغمبرکے بارے میں نہیں تھیں۔ امام صادق فرماتے ہیں کہ یہ سورہ عبس کی دوآیتیں اس وقت نازل ہوئی جب بنی امیہ میں سے ایک شخص پیغمبرۖ کے پاس بیٹھاہواتھا اوروہ نابینا شخص جس کانام ابن ملتوم تھا جن کودیکھ کروہ صحابی منہ پھیرکراس کی طرف پشت کرکے بیٹھ گیا۔اب تواس مسیحی عالم سے کچھ نہیں کہاجاسکااورخاموش ہوکربیٹھ گیا(مجمع البیان ج١٠ص٤٣٧)۔ +ایک شیعہ بزرگ عالم محمدبن محمدبن نعمان جوشیخ مفیدکے نام سے مشہورتھے ١١ذی القعدہ سال ٣٣٦یا٣٣٨کوسوبقہ نامی دیہات جوشمال بغدادسے دس فرسخ کے فاصلے پرہے ولادت ہوئی اپنے والدکے ساتھ (جومعلم تھے) بغدادآئے اورتحصیل علم کی یہاں تک کہ مذہب تشیع کے بڑے عالم دین اورتمام اسلامی فرقوں کے معتمدعلیہ قرارپائے ،حلامہ حلی شیخ مفیدکے بارے میں فرماتے ہیں کہ مفیدمذہب تشیع کے رہبرواستادتھے کیونکہ جوبھی ان کے بعدآیاان کے علم سے فیضیاب ہوتارہا(رجال نجاشی ص٣١١)ابن کثیرشامی اپنی کتاب البدایة والنہایة میں کہتے ہیں کہ شیخ مفیدشیعیت کادفاع کرنے والے مصنف تھے ان کی مجلس ودروس میں مختلف مذاہب کے علماء شرکت کیاکرتے تھے(البدایة والنہایة ج١٣ص١٥)شیخ مفیدنے دوسوسے زیادہ مختلف فنون میں کتابیں تالیف کی ہیں نجاشی جونسب شناس معروف ہیں وہ شیخ مفیدکی تالیفات ١٧٠سے زیادہ کے نام لیتے ہیں(مقدمہ اوائل المقالات تبریزسال١٣٧١ھ)۔ +شیخ مفیدنے شب جمعہ ماہ رمضان ٣سال ٤١٣ھ بغدادمیں اس دنیاکوخداحافظ کہاآپ کی قبرکاظمین میںامام جوادکے جوارمیں ہے شیخ مفیدفن مناظرہ میں کافی ذہین وقوی تھے ان کے محکم ومستدل مناظرات میں سے یہاں ایک مناظرہ نمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں بقول بعض لوگوں کے کہ اسی مناظرے کے بعد سے آپ کوشیخ مفیدکالقب ملا۔شیخ مفیدکے زمانے میں ایک بڑاسنی عالم دین بغدادمیںدرس دیاکرتاتھا جس کانام قاضی عبدالجبارتھا۔ ایک دن وہ اپنے شاگردوں کودرس دے رہاتھا اس کے درس میں شیعہ وسنی سب شاگردحاضرتھے۔ اس دن شیخ مفیدبھئی اس کے درس میںجاکربیٹھ گئے۔ قاضی جس نے آج تک شیخ مفیدکونہیں دیکھاتھا،مگران کے اوصاف سنے تھے،کچھ لمحات گزرنے کے بعدشیخ مفید،قاضی سے کہتے ہیں کہ اجازت ہے کہ ان شاگردوں کے سامنے آپ سے کچھ سوالات کروں؟ +شیخ مفید: یہ حدیث جوشیعہ پیغمبر اکرمۖسے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے صحراغدیرمیں علی کے بارے میں فرمایاکہ من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ'یعنی میں جس کامولاہوں اس کایہ علی مولاہے۔کیاصحیح ہے یاشیعوں نے جعلی بنائی ہے؟ +قاضی: یہ روایت صحیح ہے۔ +شیخ مفید: لفظ مولاسے اس روایت میں کیامرادہے؟ +شیخ مفید: اگرایساہے توپیغمبرۖ کے قول کے مطابق حضرت علی سب کے آقاومولاہیں توپھرسنی وشیعوں کے درمیان اختلاف ودشمنیاں کیوں ہیں؟ +قاضی: اے برادریہ حدیث غدیربطورروایت ومطلب نقل ہوئی ہے جب کہ خلافت ابوبکر(درایت(وایک امرمسلم ہے اورایک عاقل انسا�� روایت کی خاطر درایت کوترک نہیں کیاکرتا۔ +شیخ مفید: آپ پیغمبرۖ کی اس حدیث جوعلی کی شان میں کہی کیاکہتے ہیں:(یاعلی حربک حربی وسلمک سلمی)یعنی اے علی تمہاری جنگ میری جنگ ہے اورتمہاری صلح میری صلح ہے۔ +قاضی: یہ حدیث صحیح ہے۔ +شیخ مفید: لہذااس بناپرجنہوں نے جنگ جمل تیارکی تھی مانندطلحہ ،زبیروعائشہ وغیرہ اورعلی کے ساتھ لڑے تھے لہذااس حدیث کے مطابق جس کی خود ابھی آپ نے تصدیق کی ہے گویاخودرسول خداسے جنگ کرنانہیں ہے اوررسول خداسے توجنگ کرنے والے کافرہیں۔ +قاضی: برادرعزیزطلحہ وزبیروغیرہ نے توبہ کرلی تھی۔ +شیخ مفید: جنگ جمل تودرایت وقطعی ہے مگران کاتوبہ کرناروایت ہے جوصرف سنی گئی ہے اورابھی آپ کے قول کے مطابق درایت کوروایت کے پیچھے نہیں چھوڑاجاسکتا اورمردعاقل روایت کے پیچھے درایت کونہیں چھوڑتا۔ +قاضی: کافی دیرتک سوچتارہاجب کوئی جواب نہ بن سکاتوکہنے لگاتم کون ہو؟ +شیخ مفید: میں آپ کاخادم محمدبن محمدبن نعمان ہوں۔ +قاضی: اسی وقت منبرسے نیچے اترااورشیخ مفیدکاہاتھ پکڑااوراپنی جگہ پربٹھاتے ہوئے کہا: انت المفیدحقا۔ یعنی تم مفیدہوسب کے لئے۔ باقی دیگرعلماء جواس درس میں بیٹھے ہوئے تھا قاضی کی اس حرکت پرکافی ناراض ہوئے اورآپس میں باتیں کرنے لگے۔ قاضی نے ان سب سے کہامیں تواس شیخ مفیدکے جوابات میں بے جواب ہوکررہ گیاہوں لہذااگرتم میںسے کسی کے پاس ان کاجواب ہے تودیدو۔کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں اٹھااس طرح شیخ وہ مناظرہ جیت گئے اورا س درس میں لوگوں کی زبانوں پرآپ کے لقب مفیدکاوردہونے لگا(مجلس المومنین ج١ص٢٢٠۔٢٠٢مجلس پنجم)۔ +شیخ مفیدکاعمربن خطاب سے مکالمہ +ہم قرآن کے سورہ توبہ کی آیت نمبر٤٠میں پڑھتے ہیں الاتنصروہ فقدنصرہ اللہ اذاخرجہ الذین کفرواثانی اثنین اذھمافی الغاراذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکینہ علیہ وایدہ بجنود لم تروھا''۔ +یعنی اگرتم لوگ اس رسول کی مددنہیں کروگے توکوئی پرواہ نہیں خدامددگارہے۔ اس نے تواپنے رسول کی اس وقت بھی مددکی جب اس کوکفارنے گھرسے باہر نکال دیاتھا،اس وقت صرف دوآدمی تھے،جب وہ دونوں غارثورمیں تھے اوررسول اپنے دوسرے ساتھی کواس کی گریہ وزاری پرسمجھارہے تھے کہ گھبراؤ نہیں خدایقینا ہمارے ساتھ ہے توخدانے ان پراپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اورفرشتوں کے لیسے لشکرسے ان کی مددکی جن کوتم لوگوں نے دیکھاتک نہیں تھا''۔ +علماء اہل تسنن اس آیت کوفضائل ابوبکرکے معروف دلائل میںنقل کرتے ہیں اورابوبکرکوغارکادوست کے نام سے پکارتے ہیں اورا سکی خلافت کی تائید کے لئے اس کوپیش کرتے ہیں شعراء ان کواسی عنوان سے یادکرتے ہیں ان کی تعریف کرتے ہیں مثلا سعدی کہتاہے: +مردان قدم یہ صحبت یاراں نہادہ اند +لیکن نہ ہمچنان کہ تودرکام اژدھا +علامہ طبرسی کتاب احتجاج وکراجکی کنزالفوائدمیں شیخ ابوعلی حسن بن محمدرقی نقل کرتے ہیں کہ شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن خواب میں دیکھاکہ کہیں جارہاہوں ناگاہ میری نظرلوگوں کی ایک جمعیت پرپڑی جوایک شخص کے گردجمع تھے وہ شخص لوگوں کے لئے قصے نقل کرتاتھا میں نے لوگوں سے پوچھاوہ شخص کون ہے؟ لوکوں نے بتایاکہ وہ عمربن خطاب ہے ۔میں عمرکے پاس گیاتودیکھاکہ ایک شخص عمرسے بات کررہاہے مگرمیں ان کی گفتگونہیں سمجھ سکا۔ میں ان کی بات کاٹتے ہوئے بولا: ابوکرکی برتری اس آیت اذھمافی الغار میں کیادلیل ہے؟ اس میں آیت میں چھ نکتے ہیں جوابوبکرکی فضیلت +کوبیان کرتے ہیں: نکتہ اول: یہ کہ اس آیت میںپیغمبراکرمۖ کے بعدابوبکرکودوسرا(ثانی اثنین)پکاراگیاہے۔نکتہ دوم: یہ کہ اس آیت میں رسول وابوبکرکوایک ساتھ جوان کی دوستی کی دلیل ہے اذھمافی الغار نکتہ سوم: یہ کہ اس آیت میں ابوبکرکوپیغمبرکارفیق کے نام سے پکاراگیاہے جوابوبکرکی بلندی کی دلیل ہے اذیقول لصاحب نکتہ چہارم: یہ کہ خداوندعالم نے ابوبکرکوخبردی کہ خداہم دونوں کایارومددگارہے بطورمساوی ان اللہ معنا نکتہ ششم: خداوندعالم نے اس آیت کے ذریعے سکون وآرام کی خبردی کیونکہ پیغمبرکوتوآرام وسکون کی ضرورت نہیں ان کوتوپہلے ہی سے حاصل تھا''فانزل اللہ سکینہ علیہ''۔ +لہذااس آیت کے یہ چھ نکتے تھے جوابوبکرکی خلافت پردلالت کرتے ہیں جن کوتم ہرگزردنہیں کرسکتے۔ +شیخ مفیدکہتے ہیں کہ میںنے کہاکہ بیشک تم نے ابوبکرسے رفاقت کاحق اداکردیالیکن میںانشاء اللہ خداکی مددسے ان تمام چھ نکتوں کے جوابات دوں گااس تیز ہواکی طرح جوطوفانی دن میں خاک کواڑادیاکرتی ہے اوروہ جواب یہ ہیں۔ +نکتہ اول کاجواب: یہ ہے کہ ابوبکرکودوسرانفرقراردینااس کی فضیلت پردلالت نہیں کرتاکیونکہ جب مومن کے ساتھ کہیں کافرکھڑاہوتومومنین کی بات کرتے وقت کہاجائے گاکہ وہ دوسراکافرہے نہ کہ یہ دوسراہونااس کی فضیلت ہے۔ +تیسرے نکتہ کاجواب: اس کارسول کی مصاحبت میں رہناباعث فضیت نہیں ہے کیونکہ مصاحبت کے معنی ساتھ کے ہیں کیونکہ بعض اوقات مومن کاساتھ ہوتاہے اورکبھی کافرکاساتھ ہوتاہے جیساکہ خداندعالم سورہ کہف کی آیت ٣٧میں فرماتاہے کہ قال لہ صاحبہ وھویحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب یعنی اس کاساتھی جواسی سے باتیں کررہاتھا کہنے لگاکہ کیاتواس پروردگارکامنکرہے جس نے تجھے مٹی سے پیداکیا''۔ +چوتھے نکتہ کاجواب: پیغمبرۖ کاابوبکرسے کہناکہ لاتحزن''یہ ابوبکرکی خطاء کی دلیل ہے نہ اس کی فضیلت ہے کیونکہ ابوبکرکاحزن یااطاعت تھا یاگناہ اگراطاعت تھا توپیغمبرۖ کواس سے منع نہیں کرناچاہئے تھالہذاوہ حزن گناہ تھا جس سے رسول خدانے منع کیا۔ +پانچویں نکتہ کاجواب: پیغمبرۖ کایہ کہناکہ ان اللہ معنا اس بات پردلیل نہیں ہے کہ ہم دونوں ساتھ ہیں بلکہ اس سے مرادتنہارسول خداکی ذات ہے رسول خدانے اپنے کولفظ جمع سے تعبیرکیاہے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن میں خودکولفظ جمع سے تعبیرکیاہے ان نحن نزلناالذکروانالہ الحافظون سورہ حجرآیت٩) یعنی ہم نے ہی قرآن کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ +چھٹے نکتہ کاجواب: تم نے جویہ کہاکہ خدانے ابوبکرپرسکون وآرام کونازل کیایہ کہناظاہرآئیہ کے سباق کے خلاف ہے کیونکہ سکینہ''اس کے لئے نازل ہواجوآخر آیت کے لحاظ سے رسول خداکی ذات ہے اوروہ لشکرجوان کی مددکوآیاتھا،کیونکہ پیغمبرہی کے شایان شان تھاکہ ان کے لئے سکینہ نازل ہوکیونکہ قرآن میں ایک دوسری جگہ پیغمبرکے ساتھ سکینہ میں دوسرے مومنین بھی شامل ہیں جس میں دونوں کانام آیاہے جیساکہ ارشادہوتاہے فانزل اللہ سکینہ علی رسولہ وعلی المومنین سورہ فتح آیت٢٦)یعنی خدانے اپنے رسول اورمومنین پرسکون نازل کیالہذاتم اگراس آئیہ غارکے ذریعے ان کی رفاقت پراستدلال نہ کروتوبہترہے۔ +شیخ مفیدکہتے ہیں کہ عمرجواب نہ دے سکاتولوگ ان کے گردسے منتشرہوگئے اورمیں خواب سے بیداہوگیا(احتجاج طبرسی ج٢ص٣٢)۔ +آئیہ غارکے سلسلے میں مامون کاایک سنی عالم سے مکالمہ +مامون(ساتواں خلیفہ عباسی)نے قاضی وقت یحیی بن اکثم کوحکم دیاکہ فلاں دن فلاں مقام پرتمام برجستہ علماء کوہماری مجلس میں حاضرکرو۔ یحیی بن اکثم نے تمام سنی علماوراوین کومامون کی اس مجلس میں حاضرکیا۔ جب سب جمع ہوگئے تومامون نے احوال پرسی کے بعدکہا: میںنے آپ سب کویہاں اس لئے جمع کیاہے کہ آپس میں بیٹھ کرامامت کے بارے میں آزادنہ بحث کریں تاکہ سب پرحجت تمام ہوجائے۔ اس مجلس میں سب علماء ابوبکروعمرکی برتری کی باتیں کررہے تھے تاکہ ان کاخلیفہ رسول خداہوناثابت کرسکیں۔ مامون ان کے کہنے کو(روشن تربیان سے)ردکرتارہا۔ +یہاں تک کہ اس میں سے ایک عالم جس کانام اسحاق بن حمادبن زیدتھا میدان مناظرہ میں آیااورمامون سے کہنے لگا: خداوندعالم ابوبکرکے بارے میں فرماتاہے ثانی اثنین اذھمافی الغاراذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا یعنی پیغمبر خدامکہ سے ہجرت کے وقت غارثورمیں چھپ گئے تھے گویاآپ دوفرد تھے دونوں غارمیں تھے۔ پیغمبرنے اپنے دوست ابوبکرسے کہا: محزون نہ ہوخداہمارے ساتھ ہے لہذاخدانے انہیں سکون قلبی عطاکیااورخداوندعالم نے ابوبکرکو پیغمبرکادوست اورمصاحب کے نام سے پکاراہے۔ +مامون: عجیب بات ہے کہ تم لغت وقرآن کے سلسلے میں کتنی کم معرفت رکھتے ہوکیاکافرمومن کامصاحب ودوست نہیں ہوسکتا؟لہذاایسی صورت میں یہ مصاحبت کافرکے لئے افتخارکاباعث ہوگی؟جیساکہ قرآن سورہ کہف کی آیت نمبر٣٧میں ارشادہوتاہے قال لہ صاحبہ وھویحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب یعنی مومن دوست اپنے دوسرے ثروتمندومغروردوست سے کہنے لگاکہ کیااس خداکاجس نے تمہیں خاک سے پیداکیاہے انکارکرتے ہو۔ لہذا اس آیت کے مطابق مومن کافرکے ساتھ مصاحبت ودوست ہوسکتاہے اورفصحاء عرب کے اشعاربھی اس بات کی تائیدکرتے ہیں کہ بعض اوقات انسان کوحیوان کے ساتھ مصاحب کے عنوان سے ذکرکیاگیاہے لہذ١فقط مصاحب ہرگزان کے افتخارپردلیل قرارنہیں پاسکتا۔ +اسحاق خداوندعالم نے آیئہ لاتحزن کے ذریعے ابوبکرکوتسلی دی ہے۔ +مامون: ذرامجھے یہ بتاؤکہ ابوبکرکاحزن تھایااطاعت؟اگرکہتے ہواطاعت تھی تواس جگہ گویافرض کیاجاسکتاہے کہ پیغمبرنے اطاعت سے منع کیا(اس قسم کی نسبت پیغمبرۖ کی طرف دیناصحیح نہیںہے)اگرکہتے ہوگناہ تھاتویہ آئیہ ایک گناہگارکی فضیلت وافتخارکے لئے کیسے ہوسکتی ہے۔ +اسحاق خدانے قلب ابوبکرکوسکون عطاکیایہی ان کے لئے باعث افتخارہے۔ لہذایہاں سکینہ سے مرادابوبکرہی ہے پیغمبرۖ کوسکینہ کی ضرورت نہیں ہے۔ +مامون: خداوندعالم سورہ توبہ کی آیت٢٥اور٢٦میں فرماتاہے ویوم حنین اذاعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیاوضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولیتم مدبرین ثماانزل اللہ سکینہ علی رسولہ وعلی المومنین یعنی جنگ حنین کے دن جب تمہیں اپنی کثرت نے مغرورکردیاتھا پھروہ کثرت تمہیں کچھ بھی کام نہ آئی اورتم ایسے گھبرائے کہ زمین باوجوداس وسعت کے تم پرتنگ ہوگئی تم پیٹھ پھیرکربھاگ نکلے تب خدانے اپنے رسول پراورمومنین پرتسکین نازل فرمائی اے اسحاق کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کون لوگ تھے جوجنگ سے نہیں بھاگے اورآخرتک پیغمبرۖکے ساتھ تھے؟ +اسحاق: میں نہیں جانتایامجھے نہیں معلوم۔ +مامون: جنگ حنین جومکہ وطائف کے درمیانی علاقہ میں ہجرت کے آٹھویں سال ہوئی تمام سپاہ اسلام شکست کھاکربھاگ گئے مگرپیغمبراکرم اوران کے ساتھ علی اوررسول خداکے چچاعباس اورپانچ دوسرے بنی ہاشم تھے آخرخدانے ان لوگوں کوکامیابی عطاکی اس جگہ خدانے اپنے پیغمبراوران سات مومنین جو رسول خداکے ہمراہ تھے تسکین نازل کی لہذااس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبرکوبھی تسکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ +اسحاق: توکیاآپ کی مرادجگہ علی ودیگربنی ہاشم ہیں جومیدان میں حاضرتھے توان لوگوں میں اوران صاحب کے درمیان جوغارمیں رسول کے ساتھ تھے تسکین کے لحاظ سے کون افضل ہیں۔ +مامون: ذراتم بتاؤکہ وہ افضل ہے جوغارمیں رسول کے ہمراہ تھایاوہ افضل ہے جوبستررسول پرسویااوررسول کی جان بچنے کاسبب بناجیساکہ علی نے کہاتھا کہ یارسول اللہ اگرمیں آپ کے بسترپرسوجاؤتوکیاآپ کی جان بچ جائے گی ۔پیغمبر ۖنے فرمایا(ہاں)توعلی نے فرمایا سمعاوطاعتة توصحیح ہے میں آپ کی اطاعت کرتاہوں۔ پھرعلی بستررسول پرسوگئے۔ مشرکین جوراب بھرنگاہ کئے ہوئے تھے ان کوذرابھی شک نہیں ہواکہ پیغمبرکے علاوہ کوئی اورسورہاہے۔ +سب نے اتفاق رائے سے پروگرام بنایاکہ ہرقبیلے کاایک ایک فردمل کرپیغمبرۖ پرحملہ آورہوگاتاکہ پیغمبرکے قتل کی ذمہ داری کسی ایک پرنہ آئے اوراس طرح بنی ہاشم ہم سے انتقام نہ لے سکیں علی مشرکین کی یہ باتیں سن کرغمگین نہیں ہوئے جس طرح ابوبکرغارمیں مغموم ہورہے تھے جب کہ وہ پیغمبرکے ساتھ تھے جب کہ علی تنہاتھے اس کے باوجودپورے خلوص واستقامت کے ساتھ لیٹے رہے خداوندعالم نے فرشتوں کوان کے پاس بھیجاتاکہ مشرکین قریش سے ان کوامان میںرکھیں۔ لہذاعلی نے اس قسم کی فداکاریاں اسلام اورپیغمبراسلام کے لئے دیں ہیں(بحارج٤٩ص١٩٤)۔ +غیبی مؤلف وابن ابی الحدیدکے درمیان مکالمہ +علماء اہل سنت کے بڑے عالم دین ومورخ عبدالمجید بن محمدبن حنین بن ابی الحدیدمولف جوابن ابی الحدیدکے نام سے مشہورتھے،جن کے مہم اورمعروف آثار میں سے ایک شرح نہج البلاغہ ہے جوانہوں نے ٢٠جلدوں پرمشتمل تحریرکی ہے،ان کاسال ٦٥٥میں بغدادمیں انتقال ہوا۔وہ اپنی شرح نہج البلاغہ کی چھٹی جلدمیں رسول خداکی رحلت کاواقعہ بیان کرتے ہوئے اس بات کااقرارکرتے ہیں کہ حضرت عمرکچھ لوگوں کے ہمراہ درفاطمہ پرآئے اورصدافاطمہ بلندہوئی کہ میرے گھرسے دورہوجاؤ۔جس کی صحیح بخاری وصحیح مسلم نے بھی تصریح کی ہے: فھجرتہ فاطمہ ولم تکلمہ فی ذلک حتی ماتت فدفنھاعلی لیلاولم یوذن بھاابابکر'' +یعنی حضرت فاطمہ نے مرتے دم تک ابوبکرسے بات نہیں کی اورعلی نے حضرت فاطمہ کورات میں دفن کیاجس کی ابوبکرکوخبرنہیں دی گئی(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٦ص٤٩تا٤٧)۔ +اس کے باوجودابی الحدیدصاحب عمروابوبکرکی حمایت میں اس طرح تعبیرکرتے ہیں فان ھذالوثبت انہ خطالم یکن کبیرة بل کان من باب الصغائرالتی لاتفتضی التبری ولاتوجب زوال التولی یعنی اگرثابت ہوجائے کہ ابوبکروعمرکی اس طرح کی رفتارفاطمہ کے ساتھ گناہ تھی م گرگناہ کبیرہ نہیں تھی بلکہ گناہ صغیرہ تھی جوان سے قطع دوستی وبیزاری کاہرگزسبب نہیں بن سکتی۔ +مولف: کیادرفاطمہ پرجمع ہوکراس کوجلانااورعلی کی گردن میں رسی باندھ کرلے جانا،فاطمہ کوناراض کرنااس حدتک کہ آپ نے آخری دم تک ان سے کوئی کلام نہ کیاہو،یہ گناہ صغیرہ ہے؟ +اگرابن ابی الحدیدنے یہ کہاہوتاکہ اصل واقعہ ہی ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے توہمیں زیادہ تعجب نہ ہوتامگروہ صحت حادثہ کااقرارکرتے ہیں مگرپھربھی اس طرح سے قضاوت کی ہے کیاانہیں گناہ کبیرہ وصغیرہ کے درمیان فرق نہیں معلوم تھا؟ جب کہ تنہاابی الحدیدہی نے یہ واقعہ نقل نہیں کیا،بلکہ دیگرسنی علماء نے بھی نقل کیاہے کہ پیغمبراکرم نے حضرت فاطمہ کے بارے میں فرمایاتھا ان للہ یغضب لغضب فاطمة ویرضی لرضاھا یعنی جس نے فاطمہ کوغضبناک کیااس نے خدا کوغضبناک کیا،جس نے فاطمہ کوخوش کیااس نے خداکوخوش کیا۔جس سے فاطمہ ناراض ہیں اس سے خدا��اراض ہوتاہے اورجس سے فاطمہ خوش ہوتی ہیں اس سے خداخوش ہوتاہے۔ +ان دونوں یعنی عمروابوبکرنے فاطمہ کواذیتیں دیں جوخدااوررسول کواذیت دینے کاباعث ہوگیا،توکیایہ گناہ صغیرہ ہے؟اگریہ گناہ صغیرہ ہے توگناہ کبیرہ کیاہے؟ کیاخداوندعالم قرآن میںیہ نہیں فرماتاکہ: ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیاوالآخرة واعدلھم عذابا مھینا سورہ احزاب آیت٨٧) یعنی جوخداورسول کواذیت دے خداوندعالم دنیاوآخرت میں ان پرلعنت بھیجنے والاہے ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے''۔ +جوبات اسلام کی نظرمیں آیات قرآنی وفرمان نبی سے صریح روشن ہواس کی پیروی کرنی چاہئے اگراس کے مقابل توجیہات کی جائے تواسے اجتہادکہتے ہیں جب کہ نص کے مقابل اجتہادقطعاباطل ہے اوراس طرح کااجتہادبدعت ہے جوانسان کوکفروگمراہی میںڈال دیتاہے۔ اجتہادکے معنی یہ ہیں کہ حکم موضوعی کے سلسلے میں صحیح دلیل جوسندیادلالت کی روسے روشن ہو۔مجتہدقواعداجتہادکی روسے اس موضوع کے حکم کواخذکرتاہے اس طرح کااجتہادمجتہدجامع الشرائط سے اس کے مقلدین کے لئے حجت ہوتاہے۔اب اس کے درج ذیل مناظرہ ملاحظہ فرمائیں۔ +بادشاہ سلجوقی اوراس کے وزیرنے ایک مجلس تشکیل دی جس میں خواجہ نظام الملک''بھی حاضرتھے ایک بڑے سنی عالم عباسی''اورایک شیعہ عالم علوی کے درمیان عوام اورعلماء کے ہجوم میں اس طرح سے مناظرہ شروع ہوا۔ +علوی: تمہاری معتبرکتابوں میں ملتاہے کہ عمربن خطاب نے رسول خداکے زمانے کے بعض قطعی احکام کوبدل دیاتھا۔ +عباسی کونسے احکام کوتبدیل کیاہے؟ +علوی: مثلا(صحیح بخاری ج٢ص٢٥١کامل ابن اثیرج٢ص٣١)نمازتراویح جونافلہ کے طورپرانجام دی جاتی ہے،عمرنے کہا: اسے جماعت سے پڑھاجائے جب کہ نافلہ کوہرگزجماعت کے ساتھ نہیں پڑھاجاسکتا۔ جیساکہ رسول خداکے زمانے میں رائج تھا مگرصرف نمازاستقساء تھی جوزمانہ رسول مین بھی جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی تھی(شرح زرقانی برموطامالک ج١ص٢٥)یامثلاعمرنے حکم دیاکہ اذان کے جملے حی علی خیرالعمل کی جگہ الصلواة خیرمن النوم کے جملے کوکہاجائے یامثلا حج تمتع اورمتعہ(ازدواج موقت)دونوں کوانہوں نے حرام قراردیا۔یامثلازکات میں مولفہ قلوب کے حصہ کودرمیان سے حذف کردیا جب کہ سورہ توبہ کی آیت٦٠میں ان کے حصے کی تصریح ہے اگرچہ دوسرے احکام بھی ہیں مگریہاں صرف نمونہ کے طورپرکچھ ذکرکئے ہیں۔ +بادشاہ سلجوقی: کیایہ سچ ہے کہ عمرنے ان احکام کوتبدیل کیاہے؟ +خواجہ نظام الملک: جی ہاں یہ سب اہل سنت کی معتبرکتابوں میں مذکورہے۔ +بادشاہ سلجوقی: توہم ایسے بدعت گزارشخص کی کیونکرپیروی کرتے ہیں؟ +قوشجی قوشجی سنی مذہب کابڑاعالم دین ہے جسے امام المتکلمین کہتے ہیں)اگرعمرنے حج تمتع،متعہ یااذان سے حی علی خیرالعمل کے جملات کومنع کیاہے تویہ ان کااجتہادہے اوراجتہادبدعت نہیں ہے(شرح تجریدقوشجی ص٣٧٤)۔ +علوی: کیاقرآن کی تصریح اورپیغمبراکرمۖ کے صریح فرمان کے بعدکوئی دوسری بات کہی جاسکتی ہے؟کیانص کے مقابل میں اجتہادجائزہے؟اگرایساہے توتمام مجتہدوں کویہ حق تھاکہ اپنے اپنے زمانہ میں اسلام کے بہت سارے احکامات کوتبدیل کردیتے،اس طرح اسلام کی جاودانی ختم ہوجاتی،لہذاحقیقت یہ ہے جوقرآن فرماتاہے ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتہو''سورہ حشرات آیت٧۔ +یعنی جورسول کہیں اسے لے لواورجس سے رسول منع کریں رک جاؤاوردوسری جگہ ارشادہوا وماکان لمومن ولامومنة اذاقضی اللہ ورسولہ امراان یکون لھم الخیرة من امرھم''سورہ احزاب آیت٣٦)۔ +یعنی کسی بھی مومن مردوعورت کوکوئی حق نہیں ہے کہ جن امورکوخدااوررسول نے لازم کردیاہواس میں کسی کواپنی طرف سے کوئی اختیارنہیں ہے۔ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ رسول خدانے فرمایا حلال محمدحلال الی یوم القیامة وحرام محمدحرام الی یوم القیامة یعنی حلال محمدتاروزقیامت حلال ہے اورحرام محمدتاروزقیامت حرام ہے۔ +نتیجہ: یہ ہے کہ ہرگزاسلام کے صریح احکام کوتبدیل کرنے کاکوئی حق نہیں رکھتا،حتی کہ خودپیغمبربھی یہ کام نہیں کرسکتے،جیساکہ خودپیغمبراکرم کے لئے قران میں ارشادہوتاہے ولوتقول علینابعض الاقاویل لاخذنامنہ بالیمین ثم لقطعنامنہ الوتین،فمامنکم من احدعنہ حاجزین سورہ حاقہ آیت٤٤تا٤٧)۔ +یعنی اگررسول ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بتائے توہم ان کاداہناہاتھ پکڑلیتے۔ پھرہم ضروران کی شہ رگ کاٹ دیتے۔توتم میںسے کوئی بھی مجھے نہیں روک سکتا تھا۔ +ڈاکٹرمحمدتیجانی سماوی تیونس کے شہرقفصہ سے تعلق رکھتے تھے۔ان کاآبائی مسلک اہل سنت میں مالکی تھا۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعدمذاہب اسلامی میں مذہب شیعہ خیرالبریہ کی جستجومیں لگ گئے۔اگرچہ ڈاکٹرتیجانی کومختلف مشکلات کاسامناکرناپڑااس کے باوجودانہوں نے حقیقت کی تلاش میں مختلف مقامات کے سفرکئے جن میں سے ایک سفرنجف اشرف کاتھا،جہاں موصوف نے حضرت آیت اللہ خوئی اورشہیدآیت اللہ باقرالصدرسے بحث ومناظرہ کئے اس حق وحقیقت کے متلاشی کوخداوندکرمی نے بصیرت دی اورانہوں نے مذہب حقہ کوتہہ دل سے قبول کرلیا جس کی تمام تفصیلات ان کی کتاب ثم اھتدیت پھرمیںہدایت پاگیانامی کتاب میں موجودہیں۔ پھرانہوں نے اپنی دوسری کتاب کونوامع الصادقین میں مذہب تشیع کی حقانیت کوواضح اور روشن طریقے سے بیان کیاہے۔ +آقائے صدرسے توسل کے بارے میں مکالمہ: +ڈاکٹرتیجانی جب مالکی مذہب کے پیروتھے تواپنے ملک تیونس سے ایک دفعہ نجف اشرف گئے اوراپنے دوستوں کے توسط سے آیت اللہ باقرالصدر کی خدمت میں پہنچے ان سے ملاقات کے بعدیوں سوالات شروع کئے: +تیجانی: سعودی علماء کہتے ہیں کہ قبروں کوچومنااوراولیاء اللہ سے توسل شرک ہے آپ کااس کے بارے میں کیاخیال ہے؟ +آیت اللہ صدر: اگرقبرکاچومنااوراولیاء اللہ سے توسل کرنااس نیت سے ہوکہ وہ لوگ خداکی اجازت کے بغیرمستقلا بالذات نفع وضرر پہنچاسکتے ہیں تویہ کام یقینا شرک ہے لیکن خداپرست مسلمان جانتے ہیں کہ نفع ونقصان فقط خداکے ہاتھ میں ہے اوراولیاء اللہ صرف وسیلہ اورواسطہ ہیں پس اس نیت سے توسل کرناشرک نہیں ہے تمام مسلمان سنی شیعہ زمانہ رسول سے لے کراب تک اس بات پرمتفق ہیں سوائے وہابی علماء کے ،جودورجدیدکی پیداوارہیں اوراجماع مسلمین کے برخلاف کام کرتے ہیں مسلمان کے خون کومباح جانتے ہیں اورمسلمانوں میں فتنہ ڈالتے ہیں اورقبرکوچومنے اوراولیاء اللہ سے توسل کوشرک اوربدعت کہتے ہیں۔علامہ سیدشرف الدین لبنانی جوبہت بڑے شیعہ محقق گزرے ہیں اوربہت ہی عظیم الشان کتاب المراجعات کے مولف ہیں شاہ عبدالعزیز السعودکے دورحکومت میں مکہ معظمہ عمرہ کے لئے گئے تھے عیدقربان کے دن تمام اکابرین شاہ کی دعوت پرجمع ہوئے تھے تاکہ حسب معمول اس کومبارک باد پیش کریں علامہ شرف الدین بھی ان میں شامل تھے جب ان کی باری آئی توانہوں نے شاہ کوقرآن ہدیہ کے طورپرپیش کیا۔شاہ نے قرآن مجید کی بڑی تعظیم کی اوراسے احتراماچومنے لگا۔علامہ شرف الدین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فرمایا: اے شاہ محترم! آپ اس جلدکوکیوں چوم رہے ہیں جب کہ یہ بک��ے کی کھال ہے؟ +شاہ مسعود: میرااس جلدکوچومنے کامقصدوہ قرآن ہے جواس کے اندرہے نہ کہ خودیہ جلد۔ +علامہ شرف الدین نے فوراکہا: بیشک آپ نے سچ کہا۔ہم شیعہ اہل بیت بھی جب پیغمبراکرم کی ضریح مطہرکوچومتے ہیں تووہ تعظیم واحترام رسول میں چومتے ہیں جس طرح آپ اس جلدکواس کے اندرکے قرآن کی تعظیم میںچوم رہے ہیں۔ یہ سن کرسب حاضرین نے تکبیربلندکی اورعلامہ صاحب کی تصدیق کرنے لگے۔ جس سے مجبورہوکرملک عبدالعزیزالسعودنے حاجیوں کواتنی اجازت دیدی تھی کہ وہ ضریح رسول کوچوم سکتے ہیں۔لیکن بعدمیں آنے والے شاہ نے اس قانون کوبدل دیا۔ +وہابی جواس موضوع کوچھیڑتے ہیں وہ اپنی سیاست کے تحت مسلمانوں کے خون کومباح جانتے ہیں تاکہ مسلمانوں پرحکومت کرسکیں۔ خودتاریخ گواہ ہے کہ ان وہابیوں نے اس امت محمدیہ پرکیاکیاستم ڈھائے ہیں۔(پھرمیں ہدایت پاگیاص٩٢)۔ +اذان میں ولایت علی کی گواہی دینا +ڈاکٹرتیجانی: شیعہ اذان واقامت میں علیا ولی اللہ کیوں کہتے ہیں؟ +آیت اللہ صدر: امام علی بھی دوسرے لوگوں کی طرح بندہ ٔخداہیں لیکن خدانے ان کولوگوں میں سے ان کے شرف کی وجہ سے رسالت کابارگراں اٹھانے کے لئے چن لیاہے جس کااعلان پیغمبراکرمۖ نے کئی مقامات پرکیاہے کہ علی میرے بعدمیرے جانشین،میرے خلیفہ،میرے بعدلوگوں کے مولاوآقاہیں۔اسی لئے ہم بھی انہیں دوسرے صحابہ سے افضل جانتے ہیں کیونکہ خدااوررسول نے انہیں فضیلت عطاکی ہے جس پرعقلی اورنقلی دلائل کتاب وسنت میں موجودہیں جن پرکسی قسم کاکوئی شک نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ یہ احادیث نہ فقط شیعوں کے نزدیک متواترہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھ متواترہیں۔ اس سلسلے میںہمارے علماء نے کثیرتعدادمیں کتابیں لکھی ہیں۔ دراصل اموی حکومت علی کی دشمنی میں ان تمام حقائق کوچھپارہی تھی۔ علی وفرزندان علی کاقتل جائزجانتی تھی،ان کے دورمیں منبروں سے علی پرسب وستم کیاجاتاتھا اورلوگوں کوزبردستی اس کام پرآمادہ کیاجاتھا۔اس لئے شیعیان علی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ خداکے ولی ہیں اوریہ ہرگزجائزنہیں ہے کہ کوئی بھی مسلمان ولی خداپرلعنت کرے۔ شیعوں کایہ شیوہ چلاآرہاہے کہ وہ ہردورکے ظالم،جابراورفاسق حکمرانوں سے ٹکراتے رہیں تاکہ یہ تمام مسلمانوں اورآئندہ آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ قرارپاجائے اورلوگ علی کی حقانیت اوردشمنوں کی سازشوں کوسمجھ سکیں۔ لہذااس بناء پرہمارے فقہاء اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ اذان میں علی کی حقانیت کی گواہی دینے کومستحب قراردیتے ہیں۔ یہ اذان یااقامت کاجزو نہیں ہے ۔لہذاجوبھی اذان یااقامت میں ولایت علی کی گواہی جزواذان یااقامت کی نیت سے دے تواس کی اذان واقامت باطل ہے۔ +آیت اللہ خوئی سے مکالمہ +ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ جب میں سنی تھااورپہلی مرتبہ نجف اشرف گیاتواپنے ایک دوست کی معرفت آیت اللہ خوئی سے ملا۔میرے دوست نے ان کے کان میں کچھ کہااورپھرمجھے ان کے نزدیک بیٹھنے کوکہا۔ میرے دوست نے مجھ سے بہ اصرارکہاکہ آیت اللہ کوشیعوں کے بارے مین اپنااورتیونس کے لوگوں کانظریہ بتاؤ۔میں نے کہاشیعہ ہمارے نزدیک یہودی ونصاری سے بدترہیں کیونکہ یہودونصاری توخداکومانتے ہیں اورموسی وعیسی کی رسالت کے معتقد ہیں لیکن ہم جوشیعوں کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ کوخدامانتے ہیں اوران کی عبادت کرتے ہیں ان کی تقدیس بیان کرتے ہیں، البتہ شیعوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوخداکومانتے ہیں لیکن علی کے مقام کورسول کے مقام سے ملاتے ہیں اوراس حدتک کہتے ہیں کہ جبرئیل جن کوقرآن (نعوذباللہ)علی کے پاس لاناتھا غلطی سے رسول کوپہنچاگئے۔ +آیت اللہ خوئی: چندلمحے خاموش رہے،پھربولے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،محمداللہ کے رسول ہیں،درودوسلام ہوان کی آل پاک پر اورہم گواہی دیتے ہیں کہ علی اللہ کے بندے ہیں۔ پھرآیت اللہ نے حاضرین کی طرف نگاہ کی گویامیری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ذرا دیکھو یہ بیچارے کس طرح سے تہمت وفریب کے شکارہیں،یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ میں نے تواس سے بھی بدترالفاظ شیعوں کے بارے میں سنے ہیں لاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم پھرآیت اللہ خوئی میری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: کیاتم نے قرآن پڑھاہے؟ +ڈاکٹرتیجانی: جب میں دس سال کابھی نہیں ہواتھا تونصف قرآن حفظ کرلیاتھا۔ +آیت اللہ خوئی: کیاآپ جانتے ہیں کہ تمام اسلامی فرقے اپنے درمیان اختلاف کے باوجودقرآن مجیدکی حقانیت پریقین رکھتے ہیں اورجوقرآن ہمارے پاس ہے وہی آپ کے پاس بھی ہے۔ +ڈاکٹرتیجانی: جی ہاں! یہ تومیں جانتاہوں۔ +آیت اللہ خوئی: کیاتم نے یہ آیت پڑھی ہے ومحمدالارسول قدخلت من قبلہ الرسل سورہ آل عمران آیت١٤٤)محمدۖ سوائے رسول کے کچھ نہیں ہیں،اس سے پہلے بھی پیغمبرآچکے ہیں۔ دوسری جگہ ارشادہواہے: محمدرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار(سورہ فتح آیت٢٩)محمدخداکے رسول ہیں اورجوان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پربڑے سخت ہیں۔ اوریہ بھی ارشادہواہے: ماکان ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین(سورہ احزاب ایت٤٠)یعنی محمدتم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ خداکے رسول اورآخری نبی ہیں۔ کیاان آیات کوآپ نے پڑھاہے؟ +آیت اللہ خوئی: ان آیات میں علی کاذکرکہاں ہے؟ان میں توصرف رسول کی بات ہوئی ہے اوراس قرآن کوہم اورآپ سب دل وجان سے مانتے ہیں تو کس طرح ہم پرتہمت لگاتے ہوکہ علی کوپیغمبرکے درجے تک بلندکرتے ہیں۔ +میں خاموش رہااورکچھ جواب نہ دے سکاتوآیت اللہ خوئی نے گفتگوکوجاری رکھتے ہوئے مزیدکہا: جبرئیل کی خیانت کے مسئلہ میں جوہم لوگوں پرتہمت لگاتے ہوکہ ہم شیعہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی،یہ تہمت پہلی والی تہمت سے زیادہ سخت ہے۔کیاایسانہیں ہے کہ جب آغازبعثت کے وقت جبرئیل پیغمبرپر نازل ہوئے تواس وقت علی کی عمردس سال سے کم تھی۔ پس کیوں کرجبرئیل نے غلطی کی اورمحمد اورعلی کے درمیان فرق نہ کرپائے۔ +میں خاموش رہااوراپنے اندرحضرت آیت اللہ خوئی کی منطقی گفتگوکی صحت کودرک کررہاتھا۔ پھرانہوں نے فرمایا:شیعہ ہی تمام اسلامی فرقوں میں وہ واحد فرقہ ہے جوپیغمبراوراماموں کی عصمت کامعتقدہے اوریقینا جبرئیل جوروح الامین ہیں وہ بھی ہرخطاء سے پاک ہیں۔ +ڈاکٹرتیجانی: تویہ سب جومشہورہے وہ کیاہے؟ +آیت اللہ خوئی: یہ ست تہمتیں ہیں جومسلمانوں کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے لگائی جارہی ہیں اورآپ کیونکہ ایک سمجھدارانسان ہیں اورمسائل کوبخوبی سمجھتے ہیں،شیعوں کے درمیان رہیں اورشیعوں کے حوزہ علمیہ(دینی مدارس)کونزدیک سے دیکھیں اورپھرذرادقت کریں کہ آیااس طرح کی تہمتیں جوشیعوں سے منسوب کی جاتی ہیں کیاوہ صحیح ہیں؟ +میں جب تک نجف اشرف میں رہااندازہ کرلیاکہ یہ سب شیعوں کی طرف بے جاتہمتیں دی گئی ہیں(پھرمیں ہدایت پاگیاص٧٦۔٧٨)۔ +نماز ظہروعصراورمغرب وعشاء کاایک ساتھ پڑھنا +ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک نمازظہروعصراورمغرب وعشاء کوایک ساتھ پڑھنے سے نمازباطل ہوجاتی ہے لہذاوہ لوگ ہرنمازکواس کے خاص وقت پرپ��ھناضروری جانتے ہیں۔ لہذاڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ جب میں سنی تھاتواسی طرح نمازپڑھاکرتاتھا اورایک ساتھ نمازپڑھنے کوباطل سمجھتاتھا۔ جب نجف اشرف میں اپنے دوست کی معرفت آیت اللہ باقرالصدرکے پاس پہنچاتوظہرکی نمازکاوقت ہوچکاتھا۔ آیت اللہ صدرمسجدکی طرف روانہ ہوئے، میں اوردوسرے حاضرین بھی مسجدپہنچ کرنمازپڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ میں نے دیکھاکہ آیت اللہ صدرنمازظہرکے بعدتھوڑے سے وقفہ کے ساتھ نمازعصر پڑھنے میں مصروف ہوگئے اورمیں کیونکہ صفوں کے درمیان میں تھا،لہذااٹھ نہ سکااورمجبورانمازعصرکوظہرکے فورابعدپڑھاجوزندگی میں پہلاتجربہ تھا مگرروحانی اعتبارسے مجھے بہت تکلیف پہنچی کہ کیامیری عصرکی نمازصحیح ہے یانہیں؟ کیونکہ اس دن خودآیت اللہ صدرکامہماتھا۔لہذاموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان سے پوچھ ہی لیاکہ کیاکسی مسلمان کے لئے جائزہے کہ وہ حالت اضطرارمیں دونمازیں ایک ساتھ پڑھ لے؟ +آیت اللہ صدر: ہاں جائزہے دوفریضے یعنی نمازظہروعصراورمغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ +ڈاکٹرتیجانی: اس فتوے پرآپ کی کیادلیل ہے۔ +آیت اللہ صدر: کیونکہ رسول خدامدینہ میں بغیرسفروبغیرخوف وبغیربارش یاکسی اورمجبوری کے بغیربھی نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء کوایک ساتھ ادا کرتے تھے ان کایہ کام اس لئے تھاکہ ہم پرسے مشقت کواٹھادیں اوراس طرح کاعمل الحمدللہ ہمارے عقیدے کے مطابق آئمہ کے ذریعے بھی ثابت ہے اسی طرح آپ اہل سنت کے نزدیک بھی سنت کے ذریعے ثابت ہے۔ +مجھے تعجب ہوا،کیونکہ میںنے اس قسم کاعمل کسی سنی کوانجام دیتے ہوئے نہیں دیکھاتھا بلکہ اس کے برعکس عمل کرتے دیکھاتھاکیونکہ سنیوں کے نزدیک اگر نماز اذان سے ایک منٹ پہلے ہوتوبھی باطل ہے تونمازعصرکواس کے وقت سے پہلے ظہرکے فورابعدپڑھنا،توبدرجہ اولی نمازکوباطل کردے گااسی طرح نمازعشاء کو نمازمغرب کے فورابعدپڑھنا،ہمارے نزدیک غیرمعمولی چیزبھی تھی۔ +آیت اللہ صدرنے میرے چہرے سے اندازہ لگالیاکہ گویامیں تعجب کررہاہوں کہ نمازظہر،عصراورمغرب وعشاء کوایک ساتھ پڑھناکیسے جائزہے؟ اسی وقت انہوں نے اپنے ایک شاگردکواشارہ کیا۔ وہ گیااوردوکتابیں لاکرمجھے دیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ صحیح بخاری وصحیح مسلم تھیں۔ آیت اللہ صدرنے اس شاگرد سے کہاکہ وہ احادیث جودونمازوں کوجمع کرکے پڑھنے کے سلسلے میں ہیں نکال کردکھائے۔ میں نے ان دونوں کتابوں میں پڑھاکہ رسول خداخوف وخطر یااضطرارکے بغیردونوں نمازیںجمع کرتے تھے۔ یعنی ظہرکے فورابعدعصر پڑھتے تھے اورصحیح مسلم میں تواس مسئلے پرایک مستقل باب پایا۔ میں توبہت پریشان ہوا کہ خدایااب میں کیاکروں میرے دل میں آیاکہ شایدیہ دوکتابیں جویہاں ہیں تحریف شدہ ہوں۔ لہذامیں نے اپنے دل میں طے کیاکہ جب تیونس واپس جاؤں گاتووہاں کی کتابوں میںدیکھوں گااوراس مسئلے کی صحیح تحقیق کروں گا۔ اسی دوران آیت اللہ صدرنے مجھ سے سوال کیاکہ اب اس دلیل کے بعد آپ کی کیارائے ہے؟ +ڈاکٹرتیجانی: بیشک آپ حق پرہیں اورآپ نے بجاکہاہے۔ +پھران کاشکریہ اداکیالیکن اپنے دل میں قانع نہیں ہوا۔ مگریہ کہ اپنے وطن آکراپنی کتابیں صحیح بخاری اورصحیح مسلم دیکھیں توبالکل قانع ہوگیااوراس دن سے بغیر کسی ضرورت کے نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء کوایک وقت میں پڑھتاتھا کیونکہ خودپیغمبر دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ میں نے دیکھاکہ امام مسلم اپنی صحیح کے باب الجمع بین الصلواتین فی الحضرمیں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء بغیر کسی خوف کے ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ ابن عباس سے سوال ہواکہ پیغمبراکرمۖ کیوں اس طرح کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا لایحرج امتہ یعنی امت دشواری میں نہ پڑجائے۔ اسی طرح کتاب صحیح بخاری کی جلداول ص١٤٠ پرباب وقت المغرب میں دیکھاکہ ابن عباس سے نقل ہے کہ پیغمبرسات رکعت نماز یعنی مغرب وعشاء کی ایک وقت میں پڑھتے تھے اوراسی طرح آٹھ رکعت نمازیعنی ظہروعصرکی ایک ہی وقت میں اداکرتے تھے۔ پھرمیں نے مسنداحمد(جلد١ص٢٢١)موطاء امام مالک شرح الحوالک ج١ص١٦١)میں بھی یہ مطلب اسی طرح لکھادیکھا۔اسی طرح کتاب الموطاء مؤلفہ امام مالک میں بھی دیکھاکہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ صلی رسول اللہ الظہروالعصرجمیعاوالمغرب والعشاء جمیعافی غیرخوف ولاسفر یعنی رسول خدابغیرکسی خوف یاسفر کے نمازظہروعصراوراسی طرح مغرب وعشاء ایک ہی وقت میںاداکرتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ جب یہ مسئلہ اتناواضح ہے توبرادان اہل سنت اپنی اصلی کتابوں سے غافل رہتے ہوئے کیوں اس مسئلے کوایک بڑے اشکال کے طورپرشیعوں پرواردکرتے ہیں(کونوامع الصادقین ص٢١٠)۔ +امام جماعت اہلسنت سے مباحثہ +ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ دونوں نمازوں کوجمع کرکے پڑھنے کے مسئلے کوجب میں نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے حوالے سے اپنے وطن میں اپنے کچھ دوستوں کو بتایاتوان میں سے بعض نے حقیقت تسلیم کرلی مگریہ بات جب شہرقفصہ کے امام جماعت تک پہنچی تووہ ناراض ہوگئے اورکہنے لگے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والاایک نیادین لایاہے جوقرآن سے مخالف ہے کیونکہ قرآن فرماتاہے ان الصلواة کانت علی المومنین کتابا موقوتا سورہ نساء آیت١٠٣)یعنی مومنین پرنمازوقت معین کے ساتھ واجب ہے۔اس امام جماعت کے دل میں جو آیااس نے وہ ناسزاباتیں کیں۔ میرا ایک دوست جوخود کافی پڑھالکھا تھا اورمیری باتیں اسے مطمئن کرچکی تھین وہ بھی امام جماعت کی تقریرسن رہاتھا،اس نے آکروہ باتیں مجھے بتائیں۔ میں نے اس کے سامنے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے وہ صفحات کھول کرپڑھوائے۔ پھروہ دوست حسب معمول اس امام جماعت کی نمازمیں گیا،جب نمازکے بعدامام درس دینے بیٹھے تواس نے امام جماعت سے پوچھا: مولانا نمازظہروعصراورمغرب وعشاء کوایک ساتھ پڑھناکیساہے؟ +امام جماعت: یہ شیعوں کی بدعت ہے۔ +میرادوست: اس موضوع کی صحت توصحیحین میں بھی ملتی ہے۔ +امام جماعت: نہیں ۔یہ ہرگزثابت نہیں ہے بلکہ ان دونوں کتابوں کی طرف اس طرح کی نسبت دیناغلط ہے۔ +میری دوست نے جب ان دونوںکتابوں میں لکھاہواامام جماعت کودکھایاتواس نے مسئلے کی حقیقت کوبچشم خودپڑھ لیاتوکتاب بندکرکے اسے واپس دی اورکہنے لگا: یہ دونوں نمازوں کوایک ساتھ پڑھناصرف پیغمبرکے لئے ہے۔ کیاتم بھی پیغمبربنناچاہتے ہو؟ تمہارے لئے ہرگزیہ جائزنہیں کہ ایک ساتھ دونمازیں پڑھو۔ +میرادوست امام جماعت کے اس نامعقول جواب سے ہی سمجھ گیاکہ وہ صرف تعصب کے پیش نظرحقیقت کوقبول نہیں کررہاہے۔ اس نے بھی قسم کھائی کہ آج کے بعدسے اس کے پیچھے نمازنہیں پڑھوں گا۔ +اس جگہ مناسب ہے کہ اس حکایت کوبیان کرتاچلوں کہ جوشکاری شکارکے لئے صحرامیں گئے۔ وہاں انہوں نے دورسے کوئی کالی چیزکودیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا: وہ کواہے۔ دوسراکہنے لگا: بکراہے دونوں اپنی اپنی بات پرڈٹے ہوئے تھے جب دونوں ا سکے نزدیک گئے تودیکھاکہ وہ کواہے اوروہ اڑگیاتوپہلے والے نے کہا: میں نہیں کہہ رہاتھاکہ کواہے اب تم قانع ہوگئے؟ لیکن دوسراشکاری بڑی ڈھٹائی سے بولا:بکرابھی تواڑسکتاہے۔ +ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ میںنے اس دوست کوبلوایااوراس سے کہاکہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم لے جاکراس امام صاحب کودکھاؤکہ ان میں ابن عباس اورانس بن مالک جیسے جیدصحابہ سے روایت ہے کہ بہت سے صحابہ ظہروعصرکی نمازپیغمبرکی اقتداء میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ لہذاجمع بین الصلواتین پیغمبرہی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ کیاہمارے لئے جائزنہیں ہے کہ ہم سنت پیغمبرکی پیروی کریں۔ مگرمیرے دوست نے معذرت کرلی۔ کہنے لگا: اگرخودرسول خدا بھی آکر کہیں توبھی امام صاحب نہیں مانیں گے۔ +قاضی مدینہ سے آیت تطہیرکی بحث +ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں مسجدالنبی کی زیارت سے مشرف ہواتودیکھاکہ ایک خطیب نمازیوں کے درمیان بیٹھادرس دے رہاہے۔ میں نے بھی اس کے درس میں شرکت کی۔ وہ کچھ قرآنی آیات کی تفسیربیان کررہاتھا۔ لوگوں کی آپس کی گفتگوسے مجھے اندازہ ہواہ یہ قاضی ٔمدینہ ہے۔ جب اس کادرس ختم ہوااوروہ اٹھ کرمسجدالنبی ۖسے باہرجاناچاہتاتھا تومیں نے اس سے کہاکہ قبلہ ذرایہ بتائیں کہ آیت تطہیر''انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطھیرا سورہ احزاب آیت٣٣)میں اہل بیت سے مرادکون ہیں؟ +قاضی: اس آیت میں اہلبیت سے مرادامہات المومنین ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے شروع میں ازواج پیغمبرسے خدافرماتاہے وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیةالاولی یعنی اے ازواج پیغمبرۖ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھی رہواورزمانہ جاھلیت کی طرح(لوگوں کے درمیان)اپنی زینتیں ظاہرنہ کرو۔ +ڈاکٹرتیجانی: شیعہ کہتے ہیں کہ یہ آیت علی وفاطمہ حسن وحسین علیہم السلام کے لئے مختص ہے۔ میں نے شیعوں سے کہاکہ اس آیت کے آغازمیں ازواج پیغمبر ۖ کاذکرہے اوراس سے پہلے والی آیت میں بھی ازواج پیغمبرۖ سے یانساء النبی کے لفظ کے ذریعے صریح خطاب ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ابتدائی آیت اوراس سے پہلے والی آیت بھی ازواج پیغمبرکے بارے میں آئی ہے اوراس میں جمع مونث کاصیغہ استعمال ہواہے مثلا لستن وفلاتخضعن وبیوتکن ولاتبرجن واصمن وآتین واطعن لیکن جب یہی آیت آخرکوپہنچتی ہے تواس کاسیاق تبدیل ہوجاتاہے اورتمام ضمیریں جمع مذکرکی استعمال ہوئی ہیں مثلا عنکم ویطھرکم وغیرہ۔ +قاضی نے اپنی عینک اوپرکی اور(بجائے اس کے کہ مجھے کوئی استلالی جواب دیتا)مجھے گھورتے ہوئے غصے سے بولاشیعہ اپنی خواہشات کے مطابق آیات قرآنی کی تاویل کرتے ہیں(پھرمیں ہدایت پاگیاص١١٤)۔ +اب یہاں تکمیل بحث کے طورپرمیں علامہ محمدحسین طباطبائی کی تفسیرالمیزان سے مستفیدہوتے ہوئے کہتاہوں کہ اس بات کی کوئی بھی دلیل نہیں ہے کہ آیت تطھیرسورہ احزاب کے آخرہی میں نازل ہوئی ہوبلکہ روایات سے بخوبی استفادہ ہوتاہے کہ یہ آیت جداگانہ طورپرنازل ہوئی ہے۔ پھرزمانہ پیغمبر میں قرآن کی جمع آوری کے وقت یہ آیت سورہ احزاب کے درمیان قرارپاگئی(تفسیرالمیزان ج١٦ص٣٣٠)خوداہلسنت کی کتابوں سے متعددروایات مروی ہیں کہ اہلبیت سے مرادعلی وفاطمہ وحسن وحسین ہیں۔ حتی کہ خودازواج پیغمبرۖ مثلاام سلمہ،عائشہ اوردوسروں سے نقل کیاجاتاہے کہ اہلبیت سے اس آیت مذکورمیں علی وفاطمہ وحسن وحسین علیہم السلام ہیں(شواہدالتنزیل ج٢ص١١و٢٥وکتاب احقاق الحق ج٢)۔ +جیساکہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اہلسنت جب علی کانام لیتے ہیں تو''علیہ السلام کے بجائے کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں۔ یعنی خداوندعالم ان کامقام بلند کرے جب کہ اصحاب رسولۖ کے لئے رضی اللہ''عنہ کہتے ہیں ۔یعنی ان سے اللہ راضی ہوکیونکہ وہ لوگ خوداس بات کے معتقدہیں کہ علی نے کوئی گناہ ہی نہیں کیاہے جوان کے بارے میں رضی اللہ عنہ کہاجائے بلکہ ضروری ہے کہ ان کے بارے میں کرم اللہ وجہہ کہاجائے۔ اب یہاں پرایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ لوگ کیوں حضرت علی کو علیہ السلام نہیں کہتے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ایک مناظرہ ملاحظہ کریں: +ڈاکٹرجب سنی تھے توجہازمیں قاہرہ سے عراق کے سفرمیں ایک یونیورسٹی کے استادمنعم ہم سفرتھے جوعراق کے رہنے والے تھے۔ دوران سفردونوں آپس میں گفتگوکرنے لگے۔ ڈاکٹرتیجانی اوراستادمنعم کے مابین جہازمیں بھی اورپھرعراق پہنچ کربھی کافی گفتگوہوئی۔ایک دن استادمنعم کے گھربغدادمیں اس طرح مناظرہ ہوا: +ڈاکٹرتیجانی: آپ لوگ علی کے مقام کواس قدربڑھاتے ہیں کہ ان کوپیغمبرۖکے ہم ردیف لے آتے ہیں کیونکہ علی کے بعدبجائے کرم اللہ وجہہ کہنے کے آپ لوگ علیہ السلام کہتے ہیں یا''علیہ الصلواة والسلام کہتے ہیں جب کہ صلواة وسلام پیغمبرۖکے لئے مخصوص ہے۔ چنانچہ قرآن میں پڑھتے ہیں ان اللہ ملائکتہ یصلون علی النبی یاایھاالذین آمنواصلواعلیہ وسلمواتسلیما سورہ احزاب ایت٥٦)یعنی بے شک خدااوراس کے ملائکہ سب نبیۖ پردرودبھیجتے ہیں، لہذااے صاحبان ایمان تم بھی ان پردرودوسلام بھیجو۔ +استادمنعم: ہاں تم نے صحیح کہاکہ ہم جب امیرالمومنین علی کایادوسرے اماموں کے نام لیتے ہیں توآخرمیں علیہ السلام کہتے ہیں لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان کوپیغمبرۖ کے درجے سے ملادیتے ہیں۔ +ڈاکٹرتیجانی: توپھرآپ لوگ کس دلیل کے تحت ان پردرودوسلام بھیجتے ہیں؟ +استادمنعم: اسی آیت کے دلیل کے تحت جوتم نے ابھی پڑھی کہ ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی کیاتم نے اس آیت کی تفسیرپڑھی ہے؟ تمام سنی وشیعہ مفسرین نے اجماعااس بات کونقل کیاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کی ایک جماعت نے آکرپوچھا: یارسول اللہ! ہم یہ توسمجھ گئے کہ آپ پردرود وسلام بھیجیں مگریہ نہیں سمجھ سکے کہ کس طرح آپ پردرودوسلام بھیجیں۔ +پیغمبراکرمۖ نے جواب میں فرمایا: اللہم صل علی محمدوعلی آل محمدکماصلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراھیم فی الصالحین انک حمیدمجید یعنی خدایا!درودوسلام بھیج محمدۖ وآل محمدۖ پرجس طرح دنیاوالوں میں ابراہیم وآل ابراہیم پردوردبھیجتاہے۔ بیشک توقابل ستائش واجابت کرنے والاہے(صحیح بخاری ج٦ص١٥١۔ صحیح مسلم ج١ ص٣٠٥)اورآپ نے یہ بھی فرمایا لاتصلواعلی الصلواة البترا یعنی مجھ پرناقص صلوات نہیں بھیجنا۔ لوگوں نے پوچھا: ناقص صلوات کیاہے؟ توآپ نے فرمایا: یعنی اللہم صلی علی محمد کہنا،بغیرلفظ آل محمدکے کہنا،بلکہ کہو: اللہم صل علی محمد وآل محمدجوکامل صلوات ہے(الصواعق المحرقہ ص١٤٤)اکثرروایات میں آیاہے کہ کامل صلوات بھیجوجملہ آل محمد''کوآخرسے حذف نہ کرو۔ حتی کہ نمازکے تشہدمیں بھی فقہاء اہلبیت اس کوواجب جانتے ہیں اورفقہاء اہل بیت میں امام شافعی بھی فرض نمازکے دوسرے تشہدمیں واجب جانتے ہیں(شرح نہج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدیدمعتزلی ج٦ص١٤٤)بلکہ اسی فتوے کے پیش نظراپنے معروف اشعارمیں یوں کہتے ہیں: +فرض من اللہ فی القرآن انزلہ +من لم یصل علیکم لاصلواة لہ۔ +یعنی اے اہلبیت رسول خداآپ سے دوستی ایک فریضہ ٔواجب ہے جس کاحکم خدانے قرآن میں دیاہے۔ آپ کے مقام وعظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جونمازمیں آپ پرصلوات نہ بھیجے اس کی نمازباطل ہے(المواہب زرقانی ج٧تذکرہ علامہ جلد١ص١٢٦)۔ +ڈاکٹرتیجانی جواس گفتگووجواب سے بہرہ مندہورہے تھے اوریہ استدلالی باتیں ان کے قلب پراثرکررہی تھی،کہنے لگے اس لحاظ سے میں قبول کرتاہوں کہ اہلبیت درودمیں محمدۖ کے ساتھ شریک ہیں اورہم بھی جب پیغمبرپرصلوات بھیجتے ہیں تواصحاب وآل پیغمبرکوبھی شریک صلوات سمجھتے ہیں لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب تنہانام علی لیاجاتاہے توکیوں علیہ السلام کہاجاتاہے؟(جیساکہ سورہ صافات کی آیت ١٣٠میں پڑھتے ہیں سلام علی آل یسین یعنی عباس سے نقل ہے کہ آل یسین سے مرادآل پیغمبرعلیہم السلام ہیں)۔ +استادمنعم: کیاتم صحیح بخاری کومانتے ہو؟ +ڈاکٹرتیجانی: ہاں یہ کتاب توامام عالی مقام اورسنیوں کے موردقبول اماموں میں سے امام بخاری کی ہے اورقرآن کے بعد صحیح ترین کتابوں میں سے ہے۔ +استادمنعم اپنی الماری سے کتاب صحیح بخاری اٹھاکرلے آئے اوراس کے صفحات کوکھولتے ہوئے مجھے دی اورکہا: ذرااسے پڑھو۔ +ڈاکٹرتیجانی: جب میں نے اس صفحہ کوپڑھاتولکھاہواتھا کہ مجھ سے فلاں نے اورفلاں نے اورفلاں نے حضرت علی علیہ السلام سے جیسے ہی میں نے لفظ علیہ السلام دیکھاتعجب کرنے لگامجھے یقین نہیں آرہاتھاکہ ایساہوسکتاہے۔ میں اپنے آپ سے کہنے لگا: یہ صحیح بخاری نہیں ہے۔ پھرسے اس صفحہ کادقیق مطالعہ کیا دیکھاکہ وہی ہے لہذامیراشک دورہوا۔ +استادمنعم: میں نے صحیح بخاری کے دوسرے صفحے کوکھول کردکھایااس پرلکھاتھا کہ: علی بن الحسین علیہ السلام سے حدیث ہے۔ اب تومیرے پاس کوئی جواب نہ رہاسوائے تعجب کے،سبحان اللہ۔ پھرسے میں نے اسے پڑھااوراس کوپلٹ کردیکھاتووہ مصرسے انتشارات الشرکت الحلبی والاوہ سے چھپی ہوئی تھی۔ لہذا سوائے اس حقیقت کے قبول کرنے کے میرے پاس کوئی دوسراراستہ نہیں تھا(پھرمیں ہدایت پاگیا ص٦٥)۔ +ڈاکٹرتیجانی کہتے ہیں کہ اپنے ملک تیونس میں ایک سنی عالم سے مناظرہ ہواجس میں میں نے اس سے کہاکہ آپ حدیث غدیرکومانتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے صحرا غدیر میں ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمع کے سامنے فرمایا من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ یعنی جس کامیں مولااوررہبرہوں اس کایہ علی مولاورہبرہے۔ +سنی عالم: ہاں میں اس حدیث کوتسلیم کرتاہوں یہ صحیح حدیث ہے اورمیں نے قرآن پرایک تفسیرلکھی ہے جس میں اتفاقاسورہ مائدہ کی آیت ٦٧کے ذیل میں حدیث غدیرکولکھاہے اوراس کی صحت کااقرارکرتاہوں۔ پھراس نے مجھے اپنی تفسیرمیں اس سلسلے کودکھایا۔ میں نے دیکھاکہ اس کتاب میں حدیث غدیرکے بعداس طرح لکھاہواتھاکہ شیعہ معتقدہیں کہ یہ حدیث غدیربطورصراحت پیغمبرۖ کے بعد سیدناعلی کرم اللہ وجہہ کی خلافت پردلالت کرتی ہے لیکن اہلسنت کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے(کہ حدیث غدیرخلافت علی پردلالت کرتی ہے)کیونکہ ہمارے خلفاء ابوبکر،عمراورعثمان(رضی ا للہ عنہم)کی خلافت سے منافات رکھتاہے۔ لہذاضروری یہ ہے کہ اس حدیث کی ظاہری صراحت سے انکارکریں اوراس کی اس طرح تاویل کریں کہ لفظ مولاکے معنی رہبرکے نہیں ہیں بلکہ دوست ویاورکے ہیں۔ جیساکہ یہی لفظ قرآن میں دوست ویاورکے معنی میں استعمال ہواہے اورخلفاء راشدین یعنی ابوبکروعثمان وعمر(رضی اللہ عنہم) اوردوسرے اصحاب پیغمبرۖ نے بھی اس لفظ مولاکے معنی یہی سمجھے ہیں۔ پھرتابعین اورعلماء مسلمین نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے یہی معنی مرادلئے ہیں۔ لہذا اس میں شیعوں کے عقیدے کاکوئی اعتبارنہیں ہے۔ +ڈاکٹرتیجانی: آیاتاریخ میں اصل واقعہ غدیرپیش آیاہے یانہیں؟ +سنی عالم: ہاں ہے اگریہ واقعہ نہ ہواہوتاتوعلماء ومحدثین اسے کیوں نقل کرتے؟ +ڈاکٹرتیجانی: کیایہ مناسب ہے کہ رسول خدا ایک لاکھ سے زیادہ حجاج کے سامنے سفرحج سے واپسی کے وقت جن میں خواتین وبچے بھی تھے تپتے صحراپرتپتے سورج کے نیچے روک کرخطبہ طولانی دے کرکیاپیغمبراسلامۖ کوصرف یہ بتاناتھا مقصودتھا کہ علی میرادوست ویاورہے۔ لہذاتمہارابھی دوست ویاورہے؟ کیا اس طرح کی تاویل وتوجیح کرناحدیث غدیرکے ظاہری وصریح معنی سے روگردانی کرنانہیںہے،کیایہ حرکت صحیح ہے؟ +سنی عالم: کیوں کہ بعض اصحاب نے حضرت علی کی طرف سے جنگوں میں صدمے اٹھائے تھے بعض کے دلوں میں حضرت علی کے سلسلے میں وہ کینہ وعداوت تھی۔ لہذاپیغمبرۖ نے اس واقعہ غدیرسے ان لوگوں کے دلوں سے کینہ کونکالنے کے لئے کہاکہ علی تمہارادوست ویاورہے تاکہ وہ لوگ علی سے دشمنی نہ کریں۔ +ڈاکٹرتیجانی: صرف مسئلہ دوستی کوبتانااس بات کااقتضاء نہیں کرتاہے کہ رسول خدااس تپتے صحرامیں لوکوں کوروکیں اورطولانی خطبہ دے کرصرف علی کی دوستی کوبیان کریں۔ نہیں بلکہ مسئلہ کچھ اورتھا اوریہ آپ نے خطبہ کے آغازہی میں حاضرین سے فرمایاتھا کہ الست اولی بکم من انفسکم یعنی کیا تم لوکوں کی جان کی نسبت میں اولیت نہیں رکھتاہوں؟ حاضرین نے اقرارکیا کہ کیوں نہیں آپ ہم سب کی جانوں پراولیت رکھتے ہیں لہذالفظ اولی کے وہی لفظ مولاکے معنی ہیں جوحدیث غدیرمیں آیاہے لہذ١یہاں پرپیغمبرۖ کی مرادرہبرہے اوراگرآپ کے بقول لفظ مولاکے معنی دوست ویاورکے قراردیں توپیغمبرۖ کے لئے ممکن نہیں تھا کہ فقط علی کوان کادوست ویاورکہہ کردشمنان علی یاان لوگوں کے دلوں سے جوعلی سے کینہ رکھتے تھے اس کینہ کوختم کرتے اوریہ بات کوئی بھی عاقل تسلیم نہیں کرے گاکہ صرف چندنفرکی دشمنی وکینہ کودورکرنے کے لئے پیغمبراکرمۖ ایک لاکھ سے زیادہ حجاج کوتپتے صحرامیں دیرتک روکیں اوران سے صرف حضرت علی کی دوستی ویاوری بیان کریں جب کہ خودابوبکروعمر(رضی اللہ عنہم)بھی اس لفظ مولی سے امام لی کی رہبری ہی کے معنی سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت علی کے پا س آکر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا بخ بخ یابن ابی طالب اصبحت مولایاومولاکل مومن ومؤمنة یعنی مبارک ہو،مبارک ہواے ابی طالب کے بیٹے کہ آپہ ہمارے اورتمام مومنین ومومنات کے مولاہوئے۔ یہ وہ مشہورومعروف مبارکباد ہے جوبڑے سے بڑے علماء اہلسنت نے بھی نقل کی ہے(مسنداحمدبن حنبل ج٤ص٢٨١ اورعلامہ امینی نے الغدیرمیں٦٠علماء اہلسنت سے یہ حدیث نقل کی ہے)اب میں پوچھتاہوں کہ کیاصرف سادہ دوستی اتنی اہم تھی جوابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہم)نے حضرت علی کواتنی بڑی عبارت کے ساتھ مبارکباد پیش کی جب کہ خودپیغمبرنے بھی خطبہ کے بعداعلان کیاکہ سلمواعلیہ بامیرالمومنین یعنی علی کو مومنوں کے امیر کہہ کرسلام کرو۔ پیغمبرۖ نے حکم غدیرکوسورہ مائدہ کی آیت ٦٧کے نازل ہونے کے بعدپیش کیاوہ آیت یہ ہے یاایھاالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فمابلغت رسالتہ یعنی اے پیغمبرجوکچھ خداکی طرف سے آپ پرنازل ہواہے لوگوں تک پہنچادیں اگرایسانہیں کیاتوگویا کوئی کاررسالت انجام نہیںدیا۔ توکیامسئلہ دوستی اس قدرمہم تھا کہ اگرپیغمبرۖ اس کوپیش نہ کرتے توکاررسالت ادھورارہ جاتا؟ +سنی عالم: توپیغمبرۖ کی رحلت کے بعدلوگوں اورخلفاء نے علی کی بیعت کیوں نہیں کی کیاانہوںنے گناہ کیاہے اورفرمان رسول کی مخالفت کی ہے کیاایساہے؟ +ڈاکٹرتیجانی: جب سنی علماء اپنی کتابوں میںگواہی دیتے ہیں کہ اصحاب رسول کئی دستوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ بعض اوامرپیغمبرکی زندگی ہی میںمخالفت کرت�� تھے(صحیح مسلم ج٤ص٤٨٢۔کتاب الامارہ دارالشعب۔مسنداحمدج٥ص٥٦تا٩٢مستدرک صحیحین ج٤ص٥٠١مجمع بیہقی ج٥ص١٩٠)لہذا تعجب نہیں ہے کہ رحلت پیغمبرۖ کے بعدآنحضرت نے اسامہ بن زید نامی جوان کولشکرکاسرداربنایا تولوگوں نے اعتراض کئے کہ ان کی عمرکم ہے جب کہ پیغمبرنے اسامہ کو تھوڑی سی مدت کے لئے سرداربنایاتھا تورہبری کے لئے علی کوکیونکر قبول کرسکتے تھے جب کہ علی کی اس وقت دوسروں سے کم عمرتھی یعنی تقریبا٣٣سال کے تھے یہ لوگ کس طرح علی کی رہبری کومانتے اورتم نے خود ابھی اقرارکیاکہ بعض اصحاب حضرت علی سے کینہ وعداوت رکھتے تھے پس معلوم ہواکہ سب کے قلب صاف نہیں تھے۔ +سنی عالم: اگرعلی جانتے تھے کہ پیغمبرۖ نے ان کواپنے بعدکے لئے خلیفہ قراردیاتھا تووہ بعدازرسولۖ کیوں خاموش رہے اس شجاعت وصلاحیت کے ذریعے جو ان کوحاصل تھی اپنے حق کادفاع کرتے۔ +ڈاکٹرتیجانی: مولاناصاحب: یہ ایک جداگانہ بحث ہے جس کومیں شروع نہیں کرناچاہتا۔ جب تم حدیث صریح کوتاویل کرسکتے ہوتوسکوت علی کی بحث میں کیوں کرقانع ہوسکتے ہو؟ +سنی عالم مسکراتے ہوئے بولے: خداکی قسم میں ان لوگوں میں سے ہوں جوعلی کوسب سے برترمانتے ہیں۔ یقین جانوکہ اگرمیرے ہاتھ میں ہوتاتوکسی کو علی پرمقدم نہ کرتاکیونکہ علی مدینة العلم واسداللہ الغالب ہیں۔ یعنی شہرعلم اورخداکے شیرہیں۔ لیکن میں کیاکروں خدانے جس کوچاہامقدم کردیاجس کوچاہامؤخر کردیا۔مشیت الہی وخداکی قضاء وقدرکے مسئلے میں کیاکہہ سکتے ہیں؟ +میں بھی مسکرایااورکہا: جناب قضاء وقدربھی ایک علیحدہ موضوع ہے جس کاہماری بحث سے کوئی ربط نہیں ہے +سنی عالم: میں اپنے عقیدہ پرباقی ہوں جس کوتبدیل نہیں کرسکتا۔ہاں اس ترتیب سے موضوع تبدیل ہورہے تھے بجائے اس کے کہ کوئی ایک موضوع کامل ہو یہ بات خودمستدلل استدلالات کے سامنے ان کی شکست کی دلیل تھی(لاکون مع الصادقین ص٥٨)۔ +ایک استاداورشاگرد کے سوال وجواب +شاگرد: یونیورسٹی کے ایک استاد ڈاکٹرخالدنوفل اردن کی یونیورسٹی میں پڑھانے آتے تھے۔ میں بھی ان کی کلاس میں شرکت کرتاتھا۔میں شیعہ مذہب کاتھا اوروہ استادسنی مذہب کاتھا۔ بعض اوقات وہ اپنے تعصب کے پیش نظرشیعوں کوبرابھلاکہتاتھا۔ ایک دن ہماری اس استادسے رسولۖ کے بارہ جانشینوں کے بارے میں بحث ہوئی۔ +استاد: میں نے کسی بھی حدیث کی کتاب میں نہیں پڑھاکہ رسول خدانے کہاہوکہ میرے بعد١٢خلیفہ وجانشین ہیں۔ لہذایہ حدیث تمہار گھڑی ہوئی ہے۔ +شاگرد: اتفاقاسنیوں کی اکثرمستندکتابوں میں مختلف تعبیرات سے یہ حدیث مذکورہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: الخلفاء بعدی اثناعشربعددنقباء بنی اسرائیل وکلھم من قریش یعنی میرے بعدبارہ خلیفہ ہیں نقباء بنی اسرائیل کے حساب سے اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ لہذاتمہاری مورداعتمادکتابوں میں یہ حدیث موجودہے۔ +استاد:چلواگرمان لیں کہ یہ حدیث قابل قبول ہے توتم شیعوں کے نزدیک وہ بارہ افرادکون ہیں؟ +شاگرد: بہت سی روایتوں کے ذریعے جوہم تک پہنچی ہیں ان میں وہ بارہ افرادیہ ہیں: ١۔علی ابن ابی طالب ٢۔حسن بن علی ٣حسین بن علی ٤علی بن حسین ٥۔محمد بن علی ٦۔جعفربن محمد ٧۔موسی بن جعفر ٨علی بن موسی ٩۔محمدبن علی ١٠۔علی بن محمد ١١۔حسن بن علی ١٢۔محمدبن حسن المہدی۔ +استاد: کیا یہ حضرت مہدی ابھی زندہ ہیں۔ +شاگرد: جی ہاں! وہ زندہ ہیں اورہمارے عقیدہ کے مطابق وہ پردأ غیب میں ہیں۔ جب اس دنیامیںان کے ظہورکی راہیں ہموارہوجائیں گی تووہ ظہورفرمائیں گے اورا س کائنات پرحکومت ورہبری کریں گے۔ +شاگرد: وہ ٢٥٥ہجری میں پیداہوئے اوراب ١٤١٣ہجری میں ان کی عمرمبارک ١١٥٨سال ہے۔ +استاد: یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی انسان ایک ہزارسال سے زیادہ عمرپائے جب کہ طبیعی لحاظ سے ایک انسان کی عمرکی حد١٠٠ سال تک کی ہے؟ +شاگرد:ہم مسلمان ہیں اورقدرت الہی کایقین رکھتے ہیں لہذااس میں کیاحرج ہے کہ مشیت الہی کے سبب ایک انسان ہزارسال عمرپائے؟ +استاد: خداکی قدرت اپنی جگہ مگرایسی چیزخداکی سنت سے باہرہے۔ +شاگرد: آپ بھی قرآن کومانتے ہیں اورہم بھی۔ لہذاقرآن میں سورہ عنکبوت کی آیت١٤ میں ارشادہوتاہے ولقدارسلنانوحاالی قومہ فلبث فیھم الف سنة الاخمسین عاما یعنی ہم نے نوح کوان کی قوم کی طرف بھیجا،انہوں نے اپنی قوم کے درمیان ٥٠سال کم ہزارسال زندگی کی۔ لہذاحضرت نوح نے اس آیت کے مطابق ٩٥٠سال قبل ازطوفان اپنی قوم کے درمیان زندگی پائی، لہذااگرخداچاہے تودوسرے انسان کوبھی اسی مقداریااس سے زیادہ مقداراس دنیا میں زندہ رکھ سکتاہے اورپیغمبر اکرمۖ نے بھی متعددمواردمیں امام مہدی کے آنے کی خبردی ہے۔ ایک امام ورہبرکے عنوان سے کہ آپ اس دنیاپرآکرحکومت کریں گے اورزمین کوعدل وانصاف سے پرکردینے کی خبریں دی ہیں اس مسئلے پرہزارسے زیادہ احادیث شیعہ وسنی محدثین سے نقل ہوئی ہیں جس کاکوئی انکار نہیں کرسکتا۔ نمونہ کے طورپریہ حدیث کہ پیغمبرۖ نے فرمایا المھدی من اھل بیتی بملاء الارض قسطاوعدلاکماملئت ظلماوجورا یعنی حضرت مہدی عجل اللہ میرے اہلبیت سے ہیں وہ اس زمین کوجوظلم وجورسے پرہے عدل وانصاف سے پر کردیں گے(مسنداحمدج٣ص٢٧)جب بات اس حدتک پہنچی تواستاد نے شاگرد کے منطقی استدلال سنی معتبرکتابوں کے حوالے سے سنیں توان سے کچھ بن نہ پڑاخاموش ہوکربیٹھ گئے۔ شاگرد نے موقع سے فائدہ اٹھاکرکہا: ہم واپس اپنی اصل بحث کی طرف آجاتے ہیں کہ آپ نے اس بات کی توتصدیق کی کہ پیغمبرۖ نے فرمایا: کہ میرے بعدمیرے ١٢خلیفہ ہیں جوقریش سے ہوں گے۔ آپ نے مجھ سے پوچھاکہ وہ بارہ نفرکون ہیں؟میں نے سب کے نام بتائے۔ اب میں آپ سے پوچھتاہوں کہ آپ کی نظرمیں وہ بارہ افرادکون ہیں؟ +استاد: ان بارہ افرادمیں توچارخلیفہ ہیں: ١۔ابوبکر٢۔عمر ٣۔عثمان ٤۔علی پھر٥۔حسن ٦معاویہ ٧۔ابن اثیر۔٨محمدبن عبدالعزیز جوآٹھ افرادبنتے ہیں اورممکن ہے مہدی عباسی(تیسراخلیفہ عباسی)کوبھی ان میں شامل کریں اورہوسکتاہے ان میں ١٠طاہرعباسی کوبھی ان میں شامل کیاجائے بطورخلاصہ یہ کہ یہ بارہ افراد ہمارے نزدیک مشخص نہیں ہیں۔ اس لئے اس مسئلے میں ہمارے علماء کی باتیں مختلف وپراکندہ ہیں۔ +شاگرد: پیغمبرۖ نے حدیث ثقلین میں جوتمام مسلمین کے نزدیک معتبرہے،فرماتے ہیں انی ترکت فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی یعنی میں تمہارے درمیان دوگراں قدرچیزیں چھوڑے جارہاہوں، ایک کتاب خدادوسری میری عترت جومیرے اہلبیت ہیں کہ اگران دونوں سے تمسک رکھاتوکبھی گمراہ نہیں ہوگے(مسنداحمدج٤ص٣٦٧،صحیح مسلم ج٢ص٢٣٨،صحیح ترمذی ج٧ص١١٢،کنزالعمال ج٧ص١١٢)اوریہ بات مسلم ہے کہ عمروابوبکروعثمان(رضی اللہ عنہم) اوردوسرے افرادزبیروعمربن عبدالعزیزومہدی عباسی جیسے افرادعترت واہلبیت رسول خداسے نہیں ہیں لہذاکیوں رسول خداکے بارہ خلیفہ کے مسئلے میں جھگڑیں جب کہ حدیث ثقلین کے حوالے سے یہ بارہ عترت پیغمبرۖسے ہیںاورہمارے شیعہ عقیدے کے مطابق امام علی سے لے کرامام مہدی عجل اللہ تک سب پریہ حدیث منطبق ہوتی ہے۔ +استاد: مجھے ذرافرصت دوتاکہ اس مسئلے م��ں مزیدتحقیق کرلوں۔ فی الحال توکوئی قانع کنندہ جواب میرے ذہن میںنہیں آرہاہے۔ +شاگرد امیدہے کہ آپ اپنی تحقیقات سے جان لیں گے کہ رسول خدا کے وہ بارہ جانشین جوروزقیامت تک کے لئے ہیں کون ہیں۔ لیکن جب کافی مدت بعدان استادسے شاگردکی ملاقات ہوئی تووہ استاد اپنی تحقیقات کی بنا پرعقیدہ اہلسنت کے تحت موضوع مشخص کونہیں پاسکاتھا۔ +دوسرے مناظرے میںایک طالب علم اپنے ایک مدرس سے معارف اہلسنت کے سلسلے میں سوال کرتاہے کہ کیاآپ اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ پیغمبرۖ کے بارہ جانشین ہیں اوروہ سب قریش سے ہیں؟ +استاد: ہاں! ہماری معتبرکتابوں میں روایات موجودہیں جواس مطلب پردلالت کرتی ہیں۔ +شاگرد: وہ بارہ افرادکون ہیں؟ +استاد: وہ ١۔ابوبکر٢۔عمر٣۔عثمان٤۔علی ٥۔معاویہ٦۔یزیدبن معاویہ ٧۔ +شاگرد یزیدکس طرح سے خلیفہ ہوسکتاہے جب کہ وہ علی الاعلان شراب پیتاتھا اورجس کی وجہ سے کربلاکاخونی سانحہ پیش آیااوراس نے قتل امام حسین وانصار حسین کاحکم صادرکیا۔ پھروہ طالب علم استادسے کہنے لگاباقی چھ بھی توشمارکریں۔ استادمزیدجواب دینے سے قاصررہاتومطلب کوعوض کرتے ہوئے بولا: تم شیعہ لوگ اصحاب پیغمبرکوناسزاباتیں کہتے ہو۔ +شاگرد: ہم تمام اصحاب کوناسزانہیں کہتے۔ تم لوگ کہتے ہوکہ سب اصحاب عادل تھے۔ ہم لوگ کہتے ہیں ایسانہیں ہے کیوںکہ کثیرتعدادمیں آیات ہیں جوزمانہ رسول کے منافقین کے بارے میں ہیں۔ اگربقول آپ کے کہیں کہ تمام اصحاب عادل تھے توان کثیرتعدادآیات کوقرآن سے نکالناپڑے گاجومنافقین کے بارے میں آئی ہیں۔ +استاد: تم گواہی دوکہ ابوبکروعمروعثمان(رضی اللہ عنہم)سے راضی ہو۔ +شاگرد: میں گواہی دیتاہوں کہ جس سے بھی رسول خدا وفاطمہ زہراراضی تھے میں بھی ان سے راضی ہوں اورجس سے بھی رسول خداوفاطمہ ناراض تھیں میں بھی اس سے ناراض ہوں۔ +ایک شیعہ عالم نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ تقریبا پچاس افرادکے ساتھ مدینہ مسجدنبوی گیااورضریح مقدس کے نزدیک زیارت پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ حرم کے نگہبانوں کاسرداربنام شیخ عبداللہ بن صالح میرے پاس آیااوربطوراعتراض کہنے لگااپنی آوازکوضریح مقدس پیغمبرکے پاس بلندنہ کرو۔ +میں نے کہا: مگرکیاحرج ہے؟ +سردار: خداوندعالم سورہ حجرات کی آیت ٢میں فرماتاہے یاایھاالذین آمنوالاترفعواصواتکم فی صوت النبی ولاتجھرولہ بالقول کجھربعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون یعنی اے صاحبان ایمان! اپنی آوازوں کوپیغمبرۖ کی آوازسے بلندنہ کروان کے سامنے بلندآوازمیں باتیں نہ کرو(چیخ پکارنہ کرو)جس طرح تم میں سے بعض ،بعض کے ساتھ کرتے ہیں تاکہ تمہارے اعمال بربادنہ ہوں جب کہ تم لوگ نہیں جانتے ہو۔ +میں نے کہا: امام صادق کے پاس بھی اسی مقام پرچارہزارشاگردتھے اوریقیناوہ درس کی وقت شاگردوں تک اپنی آوازپہنچانے کے لئے بلندآوازسے پڑھاتے ہوں گے کیاوہ حرام کام کرتے تھے؟ اورابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہم)بھی اسی مسجدمیں بلندآوازسے خطبہ دیتے اورتکبیرکہتے تھے کیاحرام کام کرتے تھے؟ اوراب آپ کے خطیب صاحب بلندآوازسے خطبہ دیتے ہیں بلندآوازمیں کیاقرآن کے خلاف کام کرتے ہیں؟ کیونکہ قرآن فرماتاہے: اے مومنین اپنی اوازوں کونبی کی آوازسے بلندنہ کرو۔ +سردار: توپھرتمہاری نظرمیں اس آیت سے کیامرادہے؟ +میں نے کہا: خدمت پیغمبرۖ میں بے فائدہ باتیں جوانضباط واجب کے خلاف ہوں جیساکہ آیت کی شان نزول میں روایت ہے کہ قبیلہ بنی تمیم کاایک گروہ مسجد میں داخل ہوااورپیغمبراکرمۖ کو،جواس وقت اپنے گھرمیں تھے،اس اندازمیں آوازدی یامحمدۖ اخرج الینا یعنی اے محمدہمارے پاس باہرآئیں(تفسیرقرطبی ج٩ص٦١٢١۔صحیح بخاری ج٦ص١٧٢)۔ +جب کہ ہم بڑی تواضع واحترام سے زیارت پڑھ رہے ہیں لہذامذکورہ آیت سے پتہ چلتاہے کہ وہ لوگ بلندآواسے قصدتوہین رسالت مآب رکھتے تھے جبھی حبط اعمال'یعنی اعمال کی بربادی کامسئلہ آیاکیونکہ اس طرح کی جرأت کافروں کاکرداراوربہت بڑاگناہ ہے نہ کہ ہم جیسے لوگوں کے لئے جوبڑے ادب واحترام سے زیارت پڑھیں اگرچہ ہماری آوازیں کچھ بلندہیں اسی لئے روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو''ثابت بن قیس جوکہ پیغمبرسے بلند آوازمیں باتیں کرتے تھے،فرمانے لگے کہ وائے ہومجھ پرکہ میرے نیک اعمال حبط ہوگئے کیونکہ میں ہی پیغمبرسے بلندآوازمیں بات کرتاہوں۔ لہذااس آیت سے میں ہی مرادہوں۔ جب ان کی یہ باتیں پیغمبرۖتک پہنچیں توآپ نے فرمایا: ایسانہیں ہے بلکہ ثابت بن قیس اہل بہشت سے ہیں کیونکہ وہ وظیفہ انجام دیتے ہیں نہ کہ بلندآوازسے ان کاقصدتوہین ہوتاہے(مجمع البیان ج٩ص١٣٠تفسیرفی ظلال ومراغی)۔ +شیخ بہائی کے والدسے سنی علماء کے مباحثے +علامہ شیخ حسین بن عبدالصمدعاملی جوشیخ بہائی کے والدبزرگوارتھے وہ ٩١٨ہجری کے محرم کے اوائل میں جبل عامل میں پیداہوئے اورانہوں نے آٹھ ربیع الاول ٩٨٤ہجری میں ٦٦سال عمرپاکراس دیناکوخداحافظ کہا۔ آپ بہت بڑے محقق وعالم وشاعرتھے۔ ٩٥١ہجری میں آپ نے شام کے ایک شہرحلب کاسفر کیااوروہاں ایک بڑے سنی عالم دین سے مذہب حق کے سلسلے میں کئی مناظرے کئے بالاخران سنی عالم دین نے مذہب حق تشیع اختیارکرلیا۔ +قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم ان مناظرات کی تلخیص صرف چارمناظروں میں بیان کریں گے۔ +مناظرہ اول: امام صادق کی تقلیدکیوں نہیں کی جاتی؟ +شیخ حسن بن عبدالصمدکہتے ہیں کہ شہرحلب میں جب واردہوئے توحنفی مذہب کیایک سنی عالم دین جوعلوم وفنون میں کافی ماہرمانے جاتے تھے،نے میری دعوت کی۔ گفتگومیںتقلیدکی بحث آئی جومیرے اوران کے درمیان مناظرے کی صورت اختیارکرگئی لہذاوہ مناظرہ کچھ اس طرح سے تھا: +شیخ حسین: آپ اہلسنت کے نزدیک قرآن سے یارسول خداکی طرف سے کوئی صریح حکم آیاہے کہ آپ لوگ ابوحنیفہ کی تقلیدکرو؟ +حنفی عالم: نہیں اس قسم کاقرآن یاگفتارپیغمبرسے کوئی حکم صریح نہیں آیاہے۔ +شیخ حسین: کیاسب مسلمانوں نے اس بات پراجماع کیاہے کہ ہم سب مل کرابوحنیفہ کی تقلیدکریں؟ +حنفی عالم:نہیں اس قسم کابھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ +شیخ حسین: توکس دلیل کے تحت آپ لوگوں پرابوحنیفہ کی تقلیدواجب ہوگئی ہے؟ +حنفی عالم: ابوحنیفہ مجتہدہیں اورمیں مقلدہوں اورمقلدپرواجب ہے کہ کسی ایک مجتہدکی تقلیدکرے۔ +شیخ حسین: کیاآپ کی نظرمیں امام صادق مجتہدتھے؟ +حنفی عالم: جعفربن محمدالصادق توبلندترین مقام ومنزلت رکھتے تھے علم وتقوی ونسب ومقام یمں سب سے بلندتھے ہمارے بعض علماء نے ان کے چارخاص شاگردوں کے نام لئے ہیں کہ جومجتہدتھے ان میں سے ایک ابوحنیفہ ہیں۔ +شیخ حسین: اب جب کہ آپ نے امام صادق کے فوق العادة تقوی کااعتراف کیاہے توہم شیعہ حضرات اسی امام کی تقلیدکرتے ہیں لہذاآپ لوگوں نے یہ کہاں سے سمجھاکہ ہم لوگ گمراہی میں اورآپ لوگ رہ ہدایت پرہیں؟جبکہ ہمارے عقیدے کے مطابق امام صادق معصوم تھے جن سے کسی قسم کی خطاکاکوئی امکان نہیں تھاان کاحکم خداکاحکم تھا۔ ہمارے پاس اپنی اس بات پرمتقن دلائل ہیں اوروہ ابوحنیفہ کی نانندقیاس ورائے واستحسان وغیرہ کے ذریعے فتوی نہیں د��تے تھے جب کہ ابوحنیفہ کے فتووں کے بارے میں احتمال خطاہے جب کہ امام صادق کے سلسلے میں اس قسم کاکوئی احتمال نہیں ہے۔ بالفرض اگرہم ان کی عصمت سے چشم پوشی بھی کرلیں اوراپ لوگوں کی طرح کہیں کہ امام صادق مجتہد تھے تب بھی ہمارے پاس ایسے دلائل ہیں کہ تنہااس مجتہد(یعنی امام صادق)کی تقلیدکرنی چاہئے نہ کہ ابوحنیفہ کی۔ +حنفی عالم: آپ کے پاس اس مسئلے پرکیادلائل ہیں؟ +شیخ حسین: تمام مسلمان اس بات پرمتفق ہیں اوراعتراف کرتے ہیں کہ امام صادق علم وتقوی وعدالت ومقام میں دوسروں پربرتری رکھتے تھے اس طرح کہ میں نے کسی بھی دن کی کسی بھی تاریخ کی کتاب میں نہیں دیکھاکہ کسی نے امام صادق پرکسی نے کوئی اعتراض کیاہو،شیعوں کے دشمنوں کے پاس تمام امکانات وقدرت وجمعیت زیادہ ہونے کے باوجودامام صادق کی شان میں کوئی ناسزابات نہ کہہ سکے یہ فوقیت خودایک بڑاامتیازہے لہذایہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم ایسے آقاومولاکی تقلیدجن کے بارے میں تمام علماء اسلام فوقیت علمی وتقوی کااعتراف کرتے ہیں چھوڑدیں جب کہ دوسروں کی تقلید جواعتراض واشکالات پرمشتمل ہواختیارکریں؟ جب کہ مسئلہ تقلیدوعدم شک وغیرہ اثبات عدالت پرموقوف ہیں۔ چنانچہ یہ خودایک تفصیلی بحث ہے جواپنے موردمیں تفصیلاآئے گی۔ +دوسری طرف آپ لوگوں کے امام غزالی جنہوں نے کتاب المنخول لکھی ہے ابوحنیفہ پراعتراض کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض دیگرشافعی علماء نے کتاب النکت الشریعہ فی الردعلی ابی حنیفہ لکھی ہیں۔ لہذابغیرکسی تردیدکے ایسے شخص کی تقلیدکرناجوعلم وتقوی وعدالت میں سب کے نزدیک معتمدعلیہ ہوواجب ہے۔ تمام محققین کے اجماع کے پیش نظرراجح فتوی کے سامنے مرجوح فتوے پرعمل کرناجائزنہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام صادق اہل بیت رسول خداہیں جوسورہ احزاب کی آیت ٣٣کی تصریح کے تحت ہرطرح کی نجاست وانحراف سے پاک ہیں۔ چنانچہ علامہ لغوی ابن فارس اپنی کتاب معجم مقاییس اللغہ میں مجمل اللغہ''کی تصریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام،اہلبیت پیغمبرۖ سے ہیں(جب کہ ابن فارس مشہورومعروف اہلسنت سے ہیں)اوروہی مقام عصمت ہے جوشیعہ امام صادق کی عصمت کے قائل ہیں۔ لیکن ابوحنیفہ کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ اہلبیت پیغمبرسے نہیں تھے۔ لہذ١خودقرآن کی تصریح کے پیش نظرضروری ہے کہ ایسے افرادکی تقلیدکی جائے جوہرقسم کی خطاولغزش سے پاک ومنزہ ہوتاکہ یقینی طورپراس کی تقلید کرنا نجات کاذریعہ ہو۔ +حنفی عالم: ہم نہیں مانتے کہ امام صادق اہلبیت رسول سے ہیں بلکہ ہماری احادیث کے تحت آیت تطہیرکے پیش نظرپانچ افرادہیں: محمدۖوعلی وفاطمہ وحسن و حسین +شیخ حسین: چلیں ہم فرض کرلیں کہ امام ان پانچ میں سے نہیں ہیں لیکن تین دلیلوں کے تحت ان کاحکم بھی عصمت اورپیروی کے واجب ہونے میں انہیں پانچوں کے حکم میں ہے۔ +پہلی دلیل یہ کہ جوبھی عصمت پنجتن کامعتقدہے وہ عصمت امام صادق کوبھی مانتاہے اورجوبھی پنجتن کاعصمت کونہیں مانتاوہ امام صادق کی عصمت کوبھی نہیں مانتا۔ اورپنجتن کامعصوم ہوناتوآیت تطہیرکوتصریح کے ذریعے ثابت ہے۔ لہذاعصمت امام صادق بھی ثابت ہے کیونکہ علماء اسلام کی اتفاق رائے کے تحت امام صادق وپنجتن کی عصمت میں کوئی فرق نہیں ہے اورتنہا پنجتن کی عصمت کااعتقادرکھنابغیرعصمت امام صادق کااعتقادرکھے اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔ +دوسری دلیل یہ ہے کہ تمام راویوں وسیرت لکھنے والوں سے یہ بات معلوم ومشہورہے کہ امام صادق اوران کے اجدادمیں سے کوئی بھی تحصیل علم کے لئے کسی کے پاس بھی نہیں گئے کسی نے بھی نہیں لکھاہے کہ معصومین میں سے کسی نے علماء تسنن کے کسی درس میں شرکت کی ہوبلکہ سب نے اس بات کونقل کیاہے کہ امام صادق نے علم اپنے والدامام باقر اورانہوں نے اپنے والدامام سجاداورانہوں نے اپنے والدامام حسین سے تحصیل علم کیاہے اورامام حسین تواجماع مسلمین کے تحت اہلبیت پیغمبرۖسے ہیں۔ لہذاکسی بھی امام کے فرمان ازحیث اجتہادکے نہیں ہیں،کبھی بھی ایسانہیں ہواکہ کسی چھوٹے یابڑے نے آئمہ معصوم میں سے کسی سے کوئی سوال کیاہواورآپ لوگ جواب دینے میں کتابوں کے مطالعہ کی طرف محتاج ہوئے ہوں۔ خودمعصومین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ہم میں سے ہرایک کاقول ان کے پدربزرگوارکاقول ہے اورپدربزرگوارکاقول قول رسول ہے۔ اوریہ بات توہمارے نزدیک بطورمتیقن ثابت ہے کیونکہ پیغمبرۖ کابھی توفرمان ہے کہ اولنامحمد واوسطنامحمد وآخرنامحمد وکلنامحمد یعنی ہمارااول وآخرواوسط وسب کے سب محمدۖ ہیں۔ یعنی جواول کاقول ہے وہی اوسط کاآخر کابلکہ سب کاوہی قول ہے۔ لہذاقول امام صادق بھی وہی قول رسول ہے جواس کائنات سے ظلم وجہالت وبربریت کوختم کرنے آئے۔ +مناظرہ دوم: مذاہب اربعہ کی نسبت مذہب تشیع کیوں مشہورنہیں؟ +پہلے مناظرے میں جب امام صادق کی تقلیدکی برتری ثابت ہوگئی توحنفی عالم کہنے لگے: صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ امام صادق نے علم اپنے اجدادسے سیکھااوردوسروں پرعلم وتقوی کے لحاظ سے برتری رکھتے ہیں اوراپنے مقلدین کی نجات کاباعث ہیں مگرپھربھی مذہب اتنامشہورنہیں ہے جتنایہ چار مذاہب(حنفی ومالکی وحنبلی وشافعی)مشہورہیں۔ +شیخ حسین: اگرآپ کامقصدیہ ہے کہ مذہب شافعی وحنفی وغیرہ نے مذہب تشیع کونقل نہیں کیا،توصحیح ہے لیکن ان کانقل نہ کرناہمارے لئے کوئی نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے بھی ان کے مذہب کونقل نہیں کیا۔ اوراسی طرح ان چاروں نے بھی ایک دوسرے کے مذہب کونقل کیا،اوریہ نقل نہ ہونابھی آپ لوگوں کے لئے کوئی نقصاندہ نہیں ہے ۔اوراگرآپ کامقصدیہ ہے کہ کسی بھی مسلمان نے مذہب تشیع کونقل نہیں کیاتوآپ کایہ دعوی بے بنیادہے کیونکہ خودشیعہ جومسلمانوں میں عظیم لوگ ہیں انہوں نے اوربہت سے اہلسنت اورباقی اسلامی فرقوں نے بھی گفتاروآداب وعبادات میں جعفری مذہب(مکتب اہل بیت)کونقل کیاہے خودشیعوں نے مطالب مذہب تشیع کونقل کرنے میں بڑااہتمام کیاہے،مناظرے کئے ہیں اورراویوں کے مسئلے میں ثقہ وعدم ثقہ پربڑی توجہ دی ہے جس پرکئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن کاکوئی انکارنہیں کرسکتا۔ علماء شیعہ جتنے بھی علماء اہلسنت سے کم ہی کیوں نہ ہوں پھربھی علماء چہارگانہ بالخصوص حنبلی ومالکی سے کم نہیں ہیں بلکہ ان دومذہب کے علماء سے توزیادہ ہیں اورہمیشہ علماء شیعہ اپنے اماموں کی پیروی میں علم وتقوی وغیرہ میں عالی ترین منزلت ومرتبہ پرفائزہیں۔ جس طرح ہمارے اماموں کے زمانہ میں کوئی بھی علم وعمل کے لحاظ سے ہمارے اماموں بلکہ ان شاگردوں سے علم وبحث وتحقیق میں برتر نہیں تھا۔ شاگردان امام مثلابن حکم،جمیل بن دراج وزرارہ بن اعین ومحمدبن مسلم اوردوسرے کثیرشاگردجوانہی کی مانندتھے حتی کہ مخالفین بھی ان کے علم وعمل وتقوی کی تعریف کیاکرتے تھے۔اسی طرح اماموں کے دورکے بعدکے علماء بھی ہیں۔ مثلاعلامہ مجلسی،شیخ صدوق،شیخ کلینی،شیخ مفید،شیخ طوسی،سیدمرتضی، سیدرضی،ابن طاؤس،خواجہ نصیرالدین طوسی،میثم بحرانی،علامہ حلی اوران کے بیٹے فخرالمحققین اورانہی کی طرح وہ دی��رعلماء ومحققین ہیں کہ جنہوں نے اپنی تالیفات وبحثوںکے ذریعے تمام مشرق ومغرب کے عالم کوپرکردیاتھا۔ لہذااس مذہب سے لوگوں کوانکارکردیاتوتعصب کے پیش نظرہے یانادانی کے سبب۔ لہذاآپ کومجبورمانناپڑے گاکہ ہمارامذہب صحیح ہے،بلکہ ہم لوگ جس کی تقلیدکرتے ہیں وہ باقی سب پربرتری رکھناہے،لہذاجوانصاف سے کام لیتاہے اس کے لئے ناگزیرہوجاتاہے کہ مذہب تشیع کی صحت کااعتراف کرے لیکن ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم آپ ک مذہب حنفی کے صحیح ہونے کی تصدیق کریں کیونکہ ہم لوگ جس کی پیروی کرتے ہیں اس میں عصمت کوشرط مانتے ہیں لہذاہم ہی نجات یافتہ گروہ ہیں۔ آپ لوگ اگرچہ ہمارے مذہب کی صحت کواپنی زبانوں پرنہیں لاتے لیکن دلائل وقواعدمسلم جوآپ لوگوں کے پاس ہیں وہ آپ لوگوں کومذہب تشیع کی متابعت پرمجبورکرتے ہیں کیونکہ بقول آپ کے نجات کاسبب مجتہدکی تقلیدکرناہے جوہمارے مذہب میں ترجیحاناقابل انکارہے۔ جب بات اس مقام تک پہنچی تووہ حنفی عالم لاجواب ہوکررہ گئے اوراپنے سوال سے منحرف ہوکردوسری بحث شروع کرنے لگے۔ +حنفی عالم: میری نظرمیں ایک موضوع باقی رہ گیاہے وہ یہ کہ آپ کے نزدیک اصحاب پیغمبراکرم کوناسزاکہناکیساہے؟وہ لوگ جواپنی جان ومال کے ذریعے اور شمشیرکے ذریعے شہروں اورعلاقوں کوحکومت اسلامی کے تحت لے آئے۔ +مثلاعمربن خطاب(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں جوفتاوی صادرہوئے وہ کسی بھی خلفاء کے زمانے میں صادرنہیں ہوئے جن کاہرگزانکارنہیں کیاجاسکتا۔ لہذا ان کی قدرت وصلاحیت سے بھی ہرگزانکارنہیں کیاجاسکتا۔ جب میں آپ کے دلائل کی طرف توجہ کرتاہوں تودیکھتاہوں کہ مذہب تشیع بہت اچھاتومحکم ومذہب ہے لیکن جب آپ کے مذہب میں دیکھتاہوں کہ بعض اصحاب پیغمبرۖ کوناسزاکہاجاتاہے جوصحیح نہیں اس سے اندازہ لگاتاہوں کہ آپ کامذہب ہی صحیح نہیں ہے۔ +شیخ حسین: ہمارے مذہب میں اس قسم کاکوئی حکم نہیں ہے کہ اصحاب پیغمبرکوناسزاکہاجائے بلکہ عوام الناس انہیں ناسزاکہاجائے۔ آپ تمام ہماری فقہی کتابیں اٹھاکردیکھ لیں کہیں بھی یہ مسئلہ آپ کونہیں ملے گا۔ پھراس حنفی عالم کے سامنے میں نے قسم کھاتے ہوئے بتایاکہ اگرکوئی مذہب اہلبیت یعنی مذہب تشیع میں ہزار سال بھی زندگی گزارے ولایت اہلبیت کوقبول کرتاہوان کے دشمنوں سے بیزارہواورہرگزکسی بھی صحابہ رسول کوناسزانہ کہتاہوان کے دشمنوں سے بیزار ہو اورہرگزکسی بھی صحابہ رسول کوناسزانہ کہتاہوتووہ ہرگزخطاوارنہیں ہے اورنہ اس کے ایمان میں کوئی کمی آنے والی ہے۔ +حنفی عالم نے جب میری یہ بات سنی توا س کاچہرہ کشادہ ہوگیا۔ اس نے خوشی کااظہارکیاگویاکہ میری بات تصدیق کررہاہو۔اسی اثناء میں میں نے اس سے کہاکہ جب کہ آپ کے نزدیک علم اہلبیت پیغمبرۖاوران کامقام اجتہاد وعدالت اوران کی سب پربرتری ثابت ہوگئی توآپ کوچاہئے کہ ان کی پیروی کریں۔ +حنفی عالم: میں گواہی دیتاہوں کہ میں ان کاپیروکارہوں لیکن اصحاب رسول کوہرگزناسزانہیں کہوں گا۔ +شیخ حسین: آپ صحابہ میں سے کسی کوبھی سزانہ کہیں لیکن جب آپ اس کے معتقدہیں کہ اہلبیت رسولۖ،خداکی نظرمیں عظمت رکھتے ہیں تواس وقت آپ ان کے دشمنوں کوکیاکہیں گے؟ +حنفی عالم: میں دشمنان اہلبیت رسول سے بیزارہوں۔ +شیخ حسین:میرے نزدیک آپ کے مذہب تشیع کے قبول رکنے کے لئے اتناہی کافی ہے۔ پھروہ حنفی عالم کہنے لگے: میں خداکی وحدانیت وپیغمبرکی رسالت اورخدا کی فرشتوں کی گواہی دیتاہوں اوران سب کے دشمنوں سے بیزاری اختیارکرتاہوں۔ پھرمجھ سے فقہ اہلبیت پرکتاب طلب کی تومیں نے ان کو مختصر النافع شرح شرائع علامہ محقق حلی ان کودی۔ +مناظرہ چہارم: مقام صحابہ پرایک بحث +شیخ حسین بن عبدالصمدکہتے ہیں کہ کافی مدت بعدجب پھراس حنفی عالم کودیکھاجوشیعہ ہوچکے تھے تووہ بڑے مغموم نظرآرہے تھے کیونکہ ان کے اندریہ بات رسوخ کرگئی تھی کہ اصحاب پیغمبرکے بلندوعظیم رتبہ کے باوجودشیعہ ان کوبراکیوں کہتے ہیں؟ میں نے ان سے کہاکہ اگرآپ انصاف کوبراکہنے کی علت آپ کے سامنے بیان کروں۔ انہوں نے مختلف قسم وغیرہ کھاکرعہدکیاکہ انصاف سے قضاوت کریں گے اوراس گفتگوکودوسروں سے مخفی رکھیں گے توپھرمیں نے ان سے کہاآپ کانظریہ اس صحابی کے بارے میں جس نے عثمان خلیفہ سوم کوقتل کیاتھاکیاہے؟ +حنفی عالم: اس نے اپنے اجتہادکے پیش نہظریہ کام(قتل عثمان)کیاتھا۔لہذاوہ لوگ گناہگارنہیں ہیں جیساکہ ہمارے علماء نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔ +شیخ حسین: آپ کانظریہ عائشہ وطلحہ وزبیراوران کے پیروکاروں کے بارے میں کیاہے جوحضرت علی کے ساتھ جنگ جمل کووجودمیں لانے اوردونوں طرف کے سولہ ہزارافرادکے قتل کے موجب بنے؟اسی طرح آپ کانظریہ معاویہ اوراس کے اصحاب جوجنگ صفین کووجودمیں لانے اورحضرت علی سے جنگ لڑنے اورنتیجہ میں دونوں طرف سے ساٹھ ہزارافرادکے قتل کاسبب بنے کیاہے؟ +حنفی عالم: یہ سب جنگیں بھی قتل عثمان کی طرح اجتہاد کے پیش نظرہوئی ہیں۔ +شیخ حسین: کیاحق اجتہادمسلمانوں کے صرف ایک گروہ کاحاصل ہے دوسروں کوحق حاصل نہیں ہے؟ +حنفی عالم: نہیں بلکہ تمام مسلمان اجتہادکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ +شیخ حسین: جب اجتہاد میں قتل اصحاب اوردوسرے مومنین کے قتل دختررسول وقتل حضرت علی جائزہیں یعنی جس کے علم وزہدوتقوی رسول خداکے بعدسب سے بلندوبرترہوں اسلام اس کی شمشیرہی سے بچاہواوررسول نے ان کے بارے میں مختلف طریقوں سے مختلف مقامات پران کی فضیلت میں احادیث ارشاد فرمائی ہوں جن سے ہرگزانکارنہیں کیاجاسکتا اوریہاںتک کہ خدانے جس کوتمام لوگوں کارہبروسرپرست بتایاہویہ فرماکرکہ انماولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنوا یعنی اے صاحبان ایمان! تمہاراولی ورہبرخداورسول ۖ اوروہ لوگ ہیں جو(اس پر)ایمان لائے ہیں(سورہ مائدہ ایت٥٥)یعنی وہ علی ہیںکیونکہ علماء اسلام کی اتفاق رائے کے تحت والذین آمنوا''سے مرادحضرت علی ہیں(احقاق الحق ج٢ص٣٩٩۔کنزالعمال ج٦ص٣٩١۔ فتح القدیر ج٢ص٥٠۔ ذخائرالعقبی ص٨٨)اوربھی بہت سی روایات ہیں جواس مطلب پردلالت کرتی ہیں۔ اب میں پوچھتاہوں کہ کیابعض اصحاب کوناسزا کہنے میں اجتہاد(خودبقول آپ کے)جائزہے کیوں اوراصحاب کوبراوناسزاکہنے میں اجتہادجائز نہیں ہے کیوں؟(شیعہ)کسی کوبھی برانہیں کہتے مگراس کو براوناسزا کہنے میں اجتہادجائزنہیں ہیں کیوں؟کیونکہ(شیعہ)کسی کوبھی برانہیں کہتے مگراس کوبراوناسزاکہتے ہیں جس نے علی الاعلان اہلبیت رسول کے ساتھ دشمنی کی لیکن جواہلبیت رسول سے مخلصانہ محبت کرتے ہیں ہم بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ مثلاسلمان ومقدادوعماروابوذروغیرہ۔ لہذ١ان سے دوستی کے پیش نظرہم خداسے تقرب چاہتے ہیں۔ یہ ہے ہمارااعتقاداصحاب پیغمبرۖ کی شان میں اورناسزاکہنابھی ایک قسم کی بددعاہے خداکی مرضی اسے قبول کرے یانہ کرے جس طرح صحابہ کاخون گراناہے اوریہ معاویہ تھاس نے سب وشتم حضرت علی اوران کے خاندان پرقراردیا۔اس طرح کہ اسی (٨٠)سال حکومت بنی امیہ میں یہی رائج رہی مگرپھربھی مقام ومنزلت علی میں ذرہ برابربھی کمی نہیں آئی اسی طرح شیعوں کادشم��ان خاندان رسالت کوبراکہنااپنے اجتہادکی بنا پرصحیح ہے یہ لوگ اگرفرضااپنے اجتہادمیں خطابھی کرجائیں پھربھی گنہگارنہیں ہیں۔ +مزیدوضاحت: اصحاب پیغمبرۖ بھی کئی طرح کے تھے۔ بعض سچے تھے،بعض منافق تھے اورخداکابعض اصحاب کی تعریف کرنااس بات پردلالت نہیں کرتاکہ دوسرے صحابیوں کافسق وفجوروکفرختم ہوجائے اوروہ بھی اس تعریف میں شامل ہوجائیں۔ لہذاہمارااجتہادرسول خداکے منافق صحابیوں کوبراکہنے میں ہے نہ ہ ہم سب کوبراکہتے ہیں۔ +حنفی عالم: کیااجتہادبغیردلیل کے صحیح ہے۔ +شیخ حسین: ہمارے مجتہدین کے دلائل اس مسئلے میں روشن ہیں۔ +حنفی عالم: ان میں سے ایک میرے لئے بیان کریں۔ +مجھے یادہے کہ ایک دفعہ میری ایک شافعی عالم سے ملاقات ہوئی جوکسی حدتک قرآن وحدیث سے واقف تھا۔ اس نے شیعوں پراپنے اعتراضات کواس طرح سے شروع کیاکہ شیعہ اصحاب پیغمبرپرلعن وطعن کرتے ہیں اوریہ کام خلاف قرآن ہے۔ لہذاجولوگ خداکی خوشنودی کاباعث ہیں ان کے بارے میں ہرگز بدگوئی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ خداوندعالم سورہ فتح کی آیت نمبر١٨میں فرماتاہے لقدرضی اللہ عن المومنین اذیبایعونک تحت الشجرة فعلم مافی قلوبھم فانزل السکینة علیہم واثابھم فتحاقریبا یعنی خداوندعالم مومنین سے راضی ہوگیاجنہوں نے اس درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پربیعت کی ہے،خداان کے قلوب میں جوکچھ ہے جاننے والاہے،لہذا انہیں قلبی سکون عطاکیااورعنقریب ان کے نصیب میں فتح ہوگئی۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبرۖ اکرم ہجرت کے چھٹے سال ماہ ذی الحجہ میں ایک ہزارچارسومسلمانوں کے ہمراہ عمرہ کے ارادے سے مدینے سے مکہ کی طرف چلے ابوبکروعمروعثمان وطلحہ وزبیروغیرہ بھی ان کے ساتھ تھے لیکن جب عسفان۔جومکہ سے قریب ایک آبادی تھی۔ پہنچے تومعلوم ہواکہ مشرکین مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے سے روکیں گے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمۖ نے مکہ سے بیس کلو میٹردورحدیبیہ جہاں پانی اوردرخت وغیرہ تھے توقف کیاتاکہ صحیح خبرمعلوم ہوجائے۔اسی دوران پیغمبراکرمۖنے عثمان کوسرداران قریش سے مذ١کرہ کرنے کے لئے مکہ بھیجا،کافی دن تک ان کی کوئی خبرنہ مل سکی،لہذا مشہورہونے لگاکہ مشرکین نے عثمان کوقتل کردیاہے اسی دوران پیغمبراکرمۖ نے شدت عمل کاارادہ کیااوراسی درخت کے نیچے مسلمانوں کوحاضرکیااورتجدیدبیعت لی جوبعدمیں بیعت رضوان کے نام سے مشہورہوگئی۔ پیغمبراکرمۖ نے مسلمانوں سے عہدلیاکہ اپنے اپنے خون کے آخری قطرہ تک مشرکین سے جنگ میں مقاومت کریں گے لیکن تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ عثمان صحیح وسالم لوٹ آئے،اس بیعت کی خبرسے مشرکین مرعو ب ہوگئے اورسہیل بن عمرکوپیغمبرۖ کی خدمت میں صلح کے لئے بھیجاجس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ قرارپائی اوریہ طے پایاکہ مسلمان آئندہ سال مکہ میں آئیں گے اس سال واپس چلے جائیں(تلخیص تاریخ طبری ج٢ص٢٨١)اسی دوران سورہ فتح کی آیت مذکورہ نازل ہوئی جس میں خدانے بیعت کرنے والوں کی ستائش اوراس کے بارے میں اپنی رضامندی کااظہارکیاہے لہذاجوصحابی خداکی رضامندی کاسبب بنیں، ان کوہرگزلعن وطعن نہیں کرناچاہئے۔ +میں نے اس کوجواب دیاکہ اولایہ آیت صرف ان لوگوں پرمشتمل ہے جواس وقت بیعت میں حاضرتھے اورثانیااس آیت میں منافقین شامل نہیں، یعنی عبداللہ ابی اوراوس بن خولی وغیرہ۔ جن کوآیت رضی اللہ عن المومنین خارج کرتی ہے ثالثا آیت مذکورہ دلالت کرتی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بیعت کی خداان سے راضی ہوگیا۔آیت کامعنی یہ نہیں ہے کہ خداتاابدان سے راضی ہوگیاہے ��س پراسی سورہ کی آیت نمبر١٠گواہ ہے فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاھدعلیہ اللہ فسیوتیہ اجراعظیما یعنی جس نے عہدپیمان کوتوڑاگویااس نے اپناہی نقصان کیااورجوخداسے کئے ہوئے عہدکوپو راکرے اسے عنقریب اجرعظیم دیاجائے گا یہ آیت اس بات کوبیان کرتی ہے کہ ان افرادمیں سے بعض تھے جن کے بارے میں بیعت شکنی کااحتما ل تھا ۔ چنانچہ بعض کے بارے میں یہ مسئلہ ظاہرہوگیالہذاآیت رضوان خداکی رضایت ابدی کوبیان نہیں کرتی بلکہ ممکن ہے کہ یہ مسلمان دودستہ ہوجائیں،ایک دستہ اپنی بیعت کی وفاکرے اوردوسرا دستہ بیعت کی وفانہ کرے۔ لہذاہم شیعوں کے نزدیک جنہوں نے دلائل بے جاکے ذریعے وفاداری نہیں کی وہ اس آیت رضوان سے خارج ہیں۔ لہذاہمارے نزدیک قابل لعن ہیں اورآیت مذکورہ بھی ہمیں اس سے نہیں روک سکتی۔ + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا +بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا +نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا +دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے +سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا +لبوں پہ جیسے دراڑیں ، کٹے پھٹے رخسار +کسی فراق کے پانی کا رِسم ایسا تھا +کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ +تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا +رکا تھا وقت کا ناقوس بھی تحیر سے +بریدِ چاک سے مٹی کا بسم ایسا تھا +یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور +چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا +اسے بھی رشتہ ء بستر تمام کرنا تھا +مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا +نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے +مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کر نا تھا +بس ایک لنچ ہی ممکن تھا جلدی جلدی میں +اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا +چراغ جلتے تھے جس کے اک ایک آسن میں +اُس ایک رات کا کیا اختتام کرنا تھا +بس ایک رات بھی گزری نہیں وہاں منصور +تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا +(جس دوست جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں۔۔۔ +یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا +یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا +مجھ سے لپٹی جا رہی ہے بیل جیسی کوئی شام +یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا +موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں +کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا +بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی +روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا +ایک لمحے کی عبادت کیا بلندی دے گئی +جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا +پھیر مردہ بالوں میں اب اپنی نازک انگلیاں +یہ ملائم ہاتھ میرے سرد چہرے پر لگا +ہجر ہے برداشت سے باہر تو بہتر ہے یہی +چل کے کوئے یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا +لگ رہا ہے غم ، اداسی کھل رہی ہے شاخ شاخ +باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا +اتنی ویراں شاٹ میں تتلی کہاں سے آئے گی +پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا +اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے +آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا +ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا +آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا +بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ +دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا +کچھ کہیں ٹوٹ گیا ٹوٹ گیا ہے ہم میں +اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا +لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا +ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا +جا رہا ہے کسی دلہن کا جنازہ شاید +جھیل میں بہتے ہوئے سرخ شکارے جیسا +کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور +اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا +پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا +صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا +وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں +رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا +کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے +شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا +پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے +رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا +مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں +کربلا کیا موسم ِ ذوالحج گیا تھا +تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی +تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا +وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے +جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا +کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر +گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا +تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا +وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا +رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا +تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا +میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے +کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا +سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی +سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا +کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں +کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا +گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے +یہ آبِ زندگی ، سر چشمہ ء ہوس میں رہا +مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت +یونہی ستارہ مرا ، حرکت ء عبث میں رہا +کنارے ٹوٹ گرتے رہے ہیں پانی میں +عجب فشار مرے موجہ ء نفس میں رہا +وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں +وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا +قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن +ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا +جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور +تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا +موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا +بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا +اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ +گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا +بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں +ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا +شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ +دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا +ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کئے چراغ +اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا +پیچھے جوچل دیا میرے سائے کی شکل میں +میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا +اس کی گلی تھی جاں سے گزرنا تھا زندگی +سو موت کو حیات سے بہتر بنا لیا +شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی +مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا +کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر +اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا +پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ +اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا +بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر +اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا +باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے +لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا +گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات +آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا +منصور بام و در پہ جلا کر چراغِ دل +ہجراں کو میں نے کوچہ ء دلبر بنا لیا +اِس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا +ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا +دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف +اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا +آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی +اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا +اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب +تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا +ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہ��ں پہ ہو +دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا +گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ +میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا +ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول +لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا +پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے +کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا +یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف +اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا +ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع +تھا انگ انگ جسم کا محشر بنا ہوا +دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا +ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا +بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس +محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا +آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر +اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا +ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال +یہ مسٗلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا +کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو +اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا +اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ +منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا +آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا +ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا +یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت میں +ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا +پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں +امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا +یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف +ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا +آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں +وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا +فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ +میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا +کیا قریہ ء کلام میں قحط الرجال ہے +منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا +گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا +اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے +بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا +پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں +آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا +اور پھر تازہ ہوا کے واسطے +ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا +ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر +پائوں میں اس کے مقدر رکھ دیا +دیکھ کر افسوس تارے کی چمک +اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا +ایک ہی آواز پہنی کان میں +ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا +نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر +خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا +دیدہ ء تر میں سمندر دیکھ کر +اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا +میں نے اپنا استعارہ جان کر +ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا +رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس +ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا +میری مٹی کا دیا تھا سو اسے +میں نے سورج کے برابر رکھ دیا +خانہ ء دل سے اٹھا کر وقت نے +بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا +جو پہن کو آتی ہے زخموں کے پھول +نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا +کچھ کہا منصور اس نے اور پھر +میز پر لاکے دسمبر رکھ دیا +ہجر میں شوقِ نظارہ رکھ دیا +رات پر اپنا اجارہ رکھ دیا +خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر +میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا +بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے +چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا +دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں +اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا +غم نے اپنا استعارہ رکھ دیا +میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا +تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا +فروزاں خواب کئے شمعِ طاق نے کیا کیا +میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کے لیے +بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا +عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک +سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا +خراب و خستہ ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی +دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا +وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے +گماں دئیے ترے حسن ِ مذاق نے کیا کیا +مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا +ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا +ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی +لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا +ہر ��ک مکاں ہے کسی قبر پر کھڑا منصور +چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا +خواب ِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا +گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا +میں نے شب ِ فراق کی تصویر پینٹ کی +کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا +کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً +افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا +رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے +اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا +اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں +سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا +کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے +ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا +منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی +پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا +زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا +فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا +میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے +کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا +سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن +ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا +مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر +کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا +رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر +کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا +مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں +اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا +مری سچائی میں دہشت بڑی تھی +کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا +بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے +ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا +مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں +نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا +اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں +بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا +اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا +اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا +نظر منصور گولی بن گئی تھی +ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا +اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا +میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا +پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا +کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا +یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے +انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا +ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل +آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا +اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے +پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا +اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو +وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا +یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے +تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا +موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی +دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا +عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو +کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا +میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور +محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا +تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا +سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا +مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے +جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتادل نہیں ہوگا +محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے +وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا +مری جاں ویری سوری اب کبھی چشم ِ تمنا سے +یہ اظہار ِ محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا +سکوت ِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقش ِ پا ہوں گے +کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا +ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی +تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا +یہی لگتا ہے بس وہ شورش ِ دل کا سبب منصور +کبھی ہنگامہ ء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا +کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا +یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا +پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں +مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا +میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے +جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا +لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے +’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا +جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں +ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا +جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت +سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا +ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور +یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا +آنکھیں مری تھیں جھیل سا سپنا کہیں کا تھا +مرغابیوں کا سرمئی جوڑا کہیں کا تھا +اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے +وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے شام کی +کچھ اس کا انتظار کمینہ کہیں کا تھا +جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم +پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ کہیں کا تھا +پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر +تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا +چہرہ بھی اپنا تھا ، مری آنکھیں بھی اپنی تھیں +شیشے میں عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی وہی میرا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +کھلتی کسی چراغ پہ کیسے شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش ہے گناہ میں +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا +جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا +برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا +جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی +اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا +میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی +اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا +ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے +اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا +ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار +لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا +منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے +ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا +کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے +یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا +سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس +منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا +اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا +میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا +صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند +جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا +جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی +موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا +ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں +تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا +سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی +گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا +میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول +جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا +پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا +اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا +رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی +اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا +نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے +کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا +خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے +رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا +لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر +والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا +صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ +جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا +وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے +اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا +زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن +چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا +ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں +یہ خرابہ تو مری جان گلستاں نکلا +زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا +تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا +رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور +جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا +آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا +ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا +اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی +آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا +محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر +آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا +آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی +چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا +ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟ +شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا +جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور +غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا +درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا +شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا +اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے +ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا +پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں +اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا +شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے +بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا +ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا +پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا +مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری +ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا +وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی +کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا +ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے +بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا +میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا +باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا +ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا +اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا +میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں +ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ +ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر +شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا +پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا +ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا +عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے +صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا +سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن +یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا +جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی +میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا +لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے +شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا +تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر +سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا +سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن +رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا +ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا +آسمانوں سے آگے سفر رات کا +بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں +میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا +صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی +جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا +چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں +آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا +پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے +کتنا احسان ہے شہر پر رات کا +میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا +مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا +مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک +میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا +میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ +یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا +کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس +کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا +میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں +کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا +مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے +میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا +شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک +کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا +مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں +میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا +مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا +مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا +انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے +ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا +تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا +میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا +اسے رقص گاہ میں دیکھ��ا کبھی مست مست +مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا +کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں +میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا +مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی +میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا +فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں +سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا +مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے +میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا +شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا +ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا +یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے +لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا +قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی +اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا +قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر +کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا +ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے +دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا +سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر +وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا +یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور +یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا +وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا +کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا +بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا +میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا +کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا +پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا +رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش +اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا +اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی +برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا +جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے +کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا +بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے +یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا +کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا +نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا +خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں +کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا +ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ +جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا +توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن +تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا +دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں +کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا +دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور +کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا +گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا +پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا +خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں +اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا +کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا +ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا +لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر +ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا +شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی +چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا +بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا +میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا +کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں +منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا +موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا +پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا +اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے +پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا +اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں +پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا +میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال +آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا +یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ +مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا +میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا +دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا +اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن +مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا +کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین +ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا +اس محبت میں تعلق کی طوالت ��ا نہ پوچھ +اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا +وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف +مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا +جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک +یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا +کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا +انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا +کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر +اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا +ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی +مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا +اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی +اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا +اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے +اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا +آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی +منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا +یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا +نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا +میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا +ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا +چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ +دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا +اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید +یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا +میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے +میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا +کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی +یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا +آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور +خواب میں تو معاملہ کچھ تھا +سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا +سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا +زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں +ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا +کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے +امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا +شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے +دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا +وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد +سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا +جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور +ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا +دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا +پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا +رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی +برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا +سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں +پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا +’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں +ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا +رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک +ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا +کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل +کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا +پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو +دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا +وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے +یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا +پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا +اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا +چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے +وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا +وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے +میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا +میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے +اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا +لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر +وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا +چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور +آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا +کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا +میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے +کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا +ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں +خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا +کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں +کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جان��ا +لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر +تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے +کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا +پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا +شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا +پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں +مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا +ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ +میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا +لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر +قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا +دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر +دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا +منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر +پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا +مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا +وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا +مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی +مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا +مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو +کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا +ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی +کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا +میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے +کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا +وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا +وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا +ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو +آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا +کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے +پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا +صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی +ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا +منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی +سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا +خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا +قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا +یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے +یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا +مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں +محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘ +سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا +کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا +سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج +لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا +یہی منصور حاصل زندگی کا +خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا +مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا +لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا +رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر +دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا +جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی +اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا +پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند +آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا +تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ +لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا +تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق +منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا +ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا +میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا +اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں +ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا +دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن +کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا +اے بجھتی ہوئی شام محبت کے سفرمیں +اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا +نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے +ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا +شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد +لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا +منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن +اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا +عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا +دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا +بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی +اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا +دوستوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی +کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا +ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر +بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا +ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی +اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا +ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں +لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا +قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی +جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا +باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی +ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا +ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور +اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا +شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا +اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا +سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی +جا کے دریا میں میری پیاس ملا +خشک پتے مرا قبیلہ ہیں +دل جلوں میں نہ سبز گھا س ملا +آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور +بس مرے خوف میں ہراس ملا +آ ، مرے راستے معطر کر +آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا +نسخہ ء دل بنا مگر پہلے +اس میں امید ڈال آس ملا +ہے سسی خان کے لیے منصور +سو غزل میں ذرا سپاس ملا +{سسی کا صحیح تلفظ یہی ہے} +خاک کا ایک اقتباس ملا +آسماں کے مگر ہے پاس ملا +اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں +جن کو وکٹوریہ کراس ملا +دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو +اپنے ہی قتل کا قصاص ملا +جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے +ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا +میز پر اہلِ علم و دانش کی +اپنے بھائی کا صرف ماس ملا +کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو +کیا نگر کا نگر خلاص ملا +اس میں خود میں سما نہیں سکتا +کیسا یہ دامنِ حواس ملا +چاند پر رات بھی بسر کی ہے +ہر طرف آسمانِ یاس ملا +گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے +شلیف سے کیا ابونواس ملا +وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا +جب مجھے حسنِ التماس ملا +تیرا فیضان بے قیاس ملا +جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا +تیرے قدموں کے آس پاس ملا +تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی +جب کہیں کوئی بھی اداس ملا +تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے +بس وہی مرتبہ شناس ملا +یوں بدن میں سلام لہرایا +جیسے کوثر کا اک گلاس ملا +تیری کملی کی روشنائی سے +زندگی کو حسیں لباس ملا +ابن عربی کی بزم میں منصور +کیوں مجھے احترامِ خاص ملا + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا دیس کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا +بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا +نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا +دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے +سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا +جگہ جگہ پہ دراڑیں تھیں ندی نالے تھے +سوادِ چشم میں پانی کا رِسم ایسا تھا +کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ +تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا +ہر ایک چیز برہنہ تھی بے کے نقطے میں +الف فروزاں تھا جس میں وہ بسم ایسا تھا +یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور +چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا +اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا +مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا +نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے +مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا +اسے بھی عارض و لب کے دئیے جلانے تھے +مجھے بھی چاند سے کوئی کلام کرناتھا +بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں +اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا +مراقبہ کس�� بگلےکا دیکھنا تھامجھے +کنارِ آبِ رواں کچھ خرام کرنا تھا +گلی کے لڑکوں کو سچائیاں بتانی تھیں +کوئی چراغ اندھیروں میں عام کرنا تھا +یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں پلکوں پر +کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا +بلانے آیا تھا اقبال بزمِ رومی میں +سو حکم نامے کا کچھ احترام کرنا تھا +گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور +تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا +(جس دوست جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں۔۔۔ +یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا +یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا +مجھ سے لپٹی جا رہی ہے اک حسیں آکاس بیل +یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا +موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں +کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا +بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی +روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا +کیا بلندی بخش دی بس ایک لمحے نے اسے +جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا +پھیر مت بالوں میرے ، اب سلگتی انگلیاں +مت کفِ افسوس میرے ، مردہ چہرے پر لگا +ہے محبت گر تماشا تو تماشا ہی سہی +چل مکانِ یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا +بہہ رہی ہے جوئے غم ، سایہ فگن ہے شاخِ درد +باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا +اتنے ویراں خواب میں تتلی کہاں سے آئے گی +پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا +اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے +آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا +ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا +آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا +بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ +دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا +کہیں ایسا نہ ہو کچھ ٹوٹ گیا ہو ہم میں +اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا +لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا +ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا +قوس در قوس کوئی گھوم رہا ہے کیا ہے +رقص کرتی کسی لڑکی کے غرارے جیسا +کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور +اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا +پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا +صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا +وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں +رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا +کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے +شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا +پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے +رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا +مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں +کربلا کیا موسم ِ ذوالحج گیا تھا +تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی +تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا +وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے +جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا +کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر +گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا +تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا +وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا +رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا +تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا +میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے +کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا +سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی +سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا +کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں +کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا +گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے +یہ آبِ زندگی ، بس چشمہ ء ہوس میں رہا +مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت +یونہی ستارہ مرا ، حرکت ء عبث میں رہا +کنارے ٹوٹ کے گرتے رہے ہیں پانی میں +عجب فشار مرے موجہ ء نفس میں رہا +وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں +وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا +قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن +ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا +جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور +تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا +موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا +بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا +اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ +گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا +بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں +ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا +شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ +دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا +ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ +اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا +پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں +میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا +شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی +مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا +کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر +اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا +پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ +اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا +بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر +اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا +باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے +لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا +گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات +آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا +منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں +دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا +اِس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا +ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا +دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف +اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا +آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی +اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا +اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب +تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا +ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو +دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا +گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ +میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا +ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول +لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا +پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے +کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا +یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف +اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا +ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع +تھا انگ انگ جسم کا محشر بنا ہوا +دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا +ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا +بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس +محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا +آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر +اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا +ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال +یہ مسٗلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا +کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو +اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا +اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ +منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا +آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا +ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا +یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت کو +ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا +پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں +امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا +یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف +ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا +آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں +وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا +فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ +میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا +کیا قریہ ء کلام میں قحط الرجال ہے +منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا +گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا +اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے +بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا +پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں +آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا +اور پھر تازہ ہوا کے واسطے +ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا +ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر +پائوں میں اس کے مقدر رکھ دیا +دیکھ کر افسوس تارے کی چمک +اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا +ایک ہی آواز پہنی کان میں +ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا +نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر +خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا +دیدہ ء تر میں سمندر دیکھ کر +اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا +زندگی کا استعارہ جان کر +ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا +رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس +ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا +میری مٹی کا دیا تھا سو اسے +میں نے سورج کے برابر رکھ دیا +خانہ ء دل سے اٹھا کر وقت نے +بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا +جو پہن کر آتی ہے زخموں کے پھول +نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا +کچھ کہا منصور اس نے اور پھر +میز پر لاکے دسمبر رکھ دیا +ہر روئیں پر ایک تارہ رکھ دیا +رات کا قیدی بنایا اور پھر +آنکھ میں شوقِ نظارہ رکھ دیا +خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر +میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا +بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے +چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا +دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں +اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا +میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا +تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا +فروزاں خواب کئے تیرہ طاق نے کیا کیا +میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کیلئے +بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا +عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک +سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا +خراب و خستہ ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی +دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا +وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے +گماں دئیے ترے حسن ِ مذاق نے کیا کیا +مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا +ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا +ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی +لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا +ہر اک شجر ہے کسی قبر پر کھڑا منصور +چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا +خواب ِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا +گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا +میں نے شب ِ فراق کی تصویر پینٹ کی +کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا +کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً +افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا +رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے +اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا +اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں +سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا +کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے +ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا +منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی +پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا +زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا +فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا +میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے +کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا +سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن +ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا +مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر +کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا +رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر +کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا +مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں +اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا +مری سچائی میں دہشت بڑی تھی +کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا +بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے +ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا +مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں +نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا +اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں +بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا +اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا +اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا +نظر منصور گولی بن گئی تھی +ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا +اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا +میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا +پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا +کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا +یہ صرف پرندوں کے بسیرے کیلئے ہے +انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا +ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل +آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا +اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے +پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا +اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو +وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا +یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے +تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا +موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں ��یں روانی +دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا +عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو +کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا +میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور +محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا +تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا +سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا +مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے +جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتادل نہیں ہوگا +محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے +وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا +مری جاں ویری سوری اب کبھی چشم ِ تمنا سے +یہ اظہار ِ محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا +سکوت ِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقش ِ پا ہوں گے +کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا +ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی +تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا +یہی لگتا ہے بس وہ شورش ِ دل کا سبب منصور +کبھی ہنگامہ ء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا +کب اپنا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا +یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا +پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں +مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا +میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے +جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا +لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے +’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا +جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں +ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا +جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت +سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا +ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور +یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا +پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا +وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا +آپھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ +پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا +جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی +حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا +میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا +سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار +پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا +بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے +دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا +وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں +چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں +وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا +میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے +لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا +صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب +بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی +کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا +کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے +وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا +جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم +پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا +پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر +تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا +جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا +برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا +جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی +اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا +میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی +اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا +ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے +ا�� اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا +ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار +لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا +منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے +ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا +کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے +یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا +سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس +منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا +اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا +میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا +صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند +جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا +جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی +موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا +ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں +تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا +سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی +گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا +میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول +جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا +پیڑ پر شام کھلی ، شاخ سے ہجراں نکلا +پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا +رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی +اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا +نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے +کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا +خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے +رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا +لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر +والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا +صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ +جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا +وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے +اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا +زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن +چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا +ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں +یہ خرابہ تو مری جان گلستاں نکلا +زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا +تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا +رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور +جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا +آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا +ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا +اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی +آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا +محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر +آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا +آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی +چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا +ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟ +شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا +جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور +غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا +درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا +شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا +اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے +ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا +پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں +اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا +شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے +بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا +ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا +پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا +مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری +ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا +وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی +کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا +ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے +بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا +میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا +باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا +ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا +اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا +میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں +ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ ��ے وقت کا ناطہ +ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر +شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا +پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا +ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا +عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے +صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا +سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن +یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا +جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی +میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا +لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے +شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا +تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر +سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا +سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن +رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا +ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا +آسمانوں سے آگے سفر رات کا +بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں +میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا +صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی +جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا +چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں +آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا +پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے +کتنا احسان ہے شہر پر رات کا +میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا +مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا +مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک +میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا +میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ +یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا +کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس +کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا +میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں +کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا +مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے +میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا +شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک +کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا +مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں +میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا +مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا +مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا +انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے +ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا +تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا +میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا +اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست +مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا +کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں +میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا +مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی +میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا +فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں +سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا +مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے +میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا +شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا +ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا +یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے +لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا +قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی +اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا +قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر +کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا +ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے +دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا +سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر +وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا +یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور +یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا +وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا +کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا +بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا +میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا +کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا +پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا +رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش +اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا +اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی +برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا +جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے +کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا +بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے +یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا +کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا +نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا +خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں +کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا +ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ +جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا +توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن +تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا +دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں +کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا +دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور +کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا +گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا +پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا +خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں +اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا +کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا +ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا +لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر +ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا +شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی +چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا +بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا +میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا +کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں +منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا +موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا +پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا +اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے +پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا +اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں +پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا +میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال +آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا +یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ +مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا +اک مسلسل رتجگا سورج کے گھر نازل ہوا +یعنی ہجراں کا بدن مثلِ سحر نازل ہوا +زندگی میری رہی مثبت رویوں کی امیں +میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا +اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن +مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا +کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین +خالی بیلا رات بھر بس ہیر پر نازل ہوا +اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ +اک گلی میں سینکڑوں دن کا سفر نازل ہوا +وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف +مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا +جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک +یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا +کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا +انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا +کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر +اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا +ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی +مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا +اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی +اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا +اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے +اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا +آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی +منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا +یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا +نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا +میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا +ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا +چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ +دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا +اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید +یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا +میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے +میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا +کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی +یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا +آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور +خواب میں تو معاملہ کچھ تھا +سیاہ رنگ کا امن و سکوں ت��اہ ہوا +سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا +زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں +ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا +کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے +امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا +شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے +دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا +وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد +سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا +جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور +ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا +دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا +پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا +رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی +برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا +سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں +پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا +’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں +ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا +رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک +ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا +کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل +کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا +پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو +دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا +وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے +یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا +پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا +اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا +چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے +وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا +وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے +میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا +میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے +اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا +لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر +وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا +چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور +آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا +کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا +میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے +کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا +ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں +خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا +کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں +کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا +لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر +تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے +کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا +پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا +شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا +پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں +مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا +ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ +میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا +لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر +قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا +دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر +دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا +منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر +پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا +مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا +وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا +مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی +مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا +مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو +کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا +ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی +کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا +میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے +کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا +وہ چشم سر��پا حیرت تھی کیا میں نے کیا +وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا +ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو +آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا +کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے +پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا +صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی +ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا +منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی +سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا +خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا +قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا +یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے +یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا +مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں +محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘ +سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا +کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا +سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج +لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا +یہی منصور حاصل زندگی کا +خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا +مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا +لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا +رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر +دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا +جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی +اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا +پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند +آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا +تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ +لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا +تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق +منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا +ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا +میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا +اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں +ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا +دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن +کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا +اے بجھتی ہوئی شام محبت کے سفرمیں +اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا +نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے +ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا +شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد +لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا +منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن +اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا +عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا +دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا +بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی +اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا +منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی +کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا +ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر +بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا +ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی +اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا +ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں +لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا +قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی +جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا +باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی +ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا +ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور +اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا +شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا +اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا +سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی +جا کے دریا میں میری پیاس ملا +خشک پتے مرا قبیلہ ہیں +دل جلوں میں نہ سبز گھا س ملا +آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور +بس مرے خوف میں ہراس ملا +آ ، مرے راستے معطر کر +آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا +نسخہ ء دل بنا مگر پہلے +اس میں امید ڈال آس ملا +ہے سسی خان کیلئے منصور +سو غزل میں ذرا سپاس ملا +{سسی کا صحیح تلفظ یہی ہے} +خاک کا ایک اقتباس ملا +آسماں کے مگر ہے پاس ملا +اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں +جن کو وکٹوریہ کراس ملا +دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو +اپنے ہی قتل کا قصاص ملا +جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے +ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا +میز پر اہلِ علم و دانش کی +اپنے بھائی کا صرف ماس ملا +کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو +کیا نگر کا نگر خلاص ملا +اس میں خود میں سما نہیں سکتا +کیسا یہ دامنِ حواس ملا +چاند پر رات بھی بسر کی ہے +ہر طرف آسمانِ یاس ملا +گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے +شلیف سے کیا ابونواس ملا +وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا +جب مجھے حسنِ التماس ملا +تیرا فیضان بے قیاس ملا +جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا +تیرے قدموں کے آس پاس ملا +تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی +جب کہیں کوئی بھی اداس ملا +تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے +بس وہی مرتبہ شناس ملا +یوں بدن میں سلام لہرایا +جیسے کوثر کا اک گلاس ملا +تیری کملی کی روشنائی سے +زندگی کو حسیں لباس ملا +ابن عربی کی بزم میں منصور +کیوں مجھے احترامِ خاص ملا +بجا ہے دوستو منصور کا گلہ کرنا +مگر کچھ اس کے مسائل کا بھی پتہ کرنا +بڑا ضروری ہے عشقِ مجاز میں منصور +خود اپنے آپ پہ خود کو فریفتہ کرنا +نگارِ لوح و قلم کا ہے مشورہ منصور +ہر ایک شے کا مکمل مطالعہ کرنا +بھلا دیا ہے جہنم نے وقت کے منصور +لبوں سے قوسِ قزح کا تبادلہ کرنا +بس اپنی آنکھ سے اک بار دیکھنا منصور +پھر اس کے حسنِ مکمل پہ تبصرہ کرنا +یہ عمر ایک ہی پہلو میں کاٹ دے منصور +غلط ہے روز تعلق کا تجربہ کرنا +بس ایک کام نہیں آ سکا مجھے منصور +شبِ فراقِ مسلسل کا خاتمہ کرنا +پھر اس کے بعد بدلنا اسے عجب منصور +تمام عمر میں بس ایک فیصلہ کرنا +جلا کے راکھ نہ کردے کہیں تجھے منصور +یہ برقِ طور سے شب بھر معانقہ کرنا +مرے رسول کی سنت مرے لئے منصور +زمیں پہ رہ کے فلک سے مکالمہ کرنا +جنابِ شیخ کو اچھا نہیں لگا منصور +خدا کی ذات سے اپنا مصافحہ کرنا +یہ پانچ وقت جماعت کہے مجھے منصور +نماز کیا ہے زمانے سے رابطہ کرنا +یہ کیا کہ وہ جو دھڑکتا بدن میں ہے منصور +اس ایک شخص کا ہر شخص سے پتہ کرنا +شعورِ عشقِ محمد مری نماز ہوا +گماں یقین کی ساعت سے سرفراز ہوا +تُو کائنات کا خالق ہے مانتا ہوں مگر +مرا وجود تری ذات کا جواز ہوا +ترے لبوں کی کرم بار مسکراہٹ سے +نیاز مند خدائی سے بے نیاز ہو +میں رک گیا تھا جدائی کے جس جہنم میں +وہ انتظارِ قیامت سے بھی دراز ہوا +مرے سجود کی منزل ہے میری تنہائی +میں اپنی ذات کا خود ہی حریمِ ناز ہوا +مری مژہ پہ سجاتا ہے آنسوئوں کے چراغ +مزاجِ یار عجب روشنی نواز ہوا +مری جمال پرستی بھی تجھ سے ہے منصور +مرا حبیب ترا چہرہ ئ مجاز ہوا +کبھی بارشوں سے بہنا ، کبھی بادلوں میں رہنا +یہی زندگی ہے اپنی ، یونہی آنسوئوں میں رہنا +کبھی یونہی بیٹھے رہنا تری یاد کے کنارے +کبھی رات رات بہتے ہوئے پانیوں میں رہنا +کبھی سات رنگ بننا کسی ابرِ خوشنما کے +کبھی شاخ شاخ گرتی ہوئی بجلیوں میں رہنا +مجھے یاد آ رہا ہے ترے ساتھ ساتھ شب بھر +یونہی اپنے اپنے گھر کی کھلی کھڑکیوں میں رہنا +مجھے لگ رہا ہے جیسے کہ تمام عمر میں نے +ہے اداس موسموں کے گھنے جنگلوں میں رہنا +یہ کرم ہے دلبروں کا ،یہ عطا ہے دوستوں کی +مرا زاویوں سے ملنا یہ مثلثوں میں رہنا +ابھی اور بھی ہے گھلنا مجھے ہجر کے نمک میں +ابھی اور آنسوئوں کے ہے سمندروں میں رہنا +اپنے بت ، اپنے خدا کا درد تھا +یعنی اپنے بے وفا کا درد تھا +موت کی ہچکی مسیحا بن گئی +رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا +ننگے پائوں تھی ہوا کی اونٹنی +ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا +کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں +عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا +میں جسے سمجھا تھا ہجراں کا سبب +زخم پرودہ انا کا درد تھا +رات کی کالک افق پر تھوپ دی +مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا +پہلی پہلی ابتلا کا درد تھا +اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا +اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی +مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا +اب تلک احساس میں موجود ہے +کتنا حرف ِبرملا کا درد تھا +دور کا بے شک تعلق تھا مگر +خاک کو عرش علیٰ کا درد تھا +رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ +ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا +اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے وہ +ایسا ظالم کربلا کا درد تھا +مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا +خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا +جان لیوا بس وہی ثابت ہوا +جو مسیحا کی دوا کا درد تھا +رک گیا ، آہیں ُسروں پر دیکھ کر +ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا +کچھ برس پہلے مرے احساس میں +تھا ، سلوکِ ناروا کا درد تھا +مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا +اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا +اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا +اس کی آنکھوں میں نزع کا درد تھا +وقت کی قربان گاہ تھی دور تک +اور ازل بستہ قضا کا درد تھا +اس کی مجبوری پہ چپ تھا میں مگر +مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا +ہجر کی کالک بھری برسات سے +مجھ کو صحبت کو سزا کا درد تھا +اک طرف شہد و شراب و لمس تھے +اک طرف روزِ جزا کا درد تھا +اعتبارِ باختہ کا درد تھا +ساختہ پر داختہ کا درد تھا +امن پیشہ مورچوں کے پیٹ میں +پھڑپھڑاتی فاختہ کا درد تھا +جلوہ ئ خودساختہ کا درد تھا +اک امانت کی طرح ہے لمس میں +جو کسی دو شاختہ کا درد تھا +جس کی لذت حاصل ئ احساس ہے +ایک دوشیزہ خطا کا درد تھا — +آخرش ہجراں کے مہتابوں کا مد فن ہوگیا +آنکھ کا تالاب بدروحوں کامسکن ہو گیا +دھوپ در آئی اچانک رات کو برسات میں +اس کا چہرہ آنسوئوں میں عکس افگن ہو گیا +دل چرا کر جا رہا تھا میں دبے پائوں مگر +چاند نکلا اور سارا شہر روشن ہو گیا +رو پڑا تھا جا کے داتا گنج کے دربار پر +یوں ہوا پھرراہ میں سانول کا درشن ہوگیا +بجلیاں ہیں بادلوں کے بین ہیں کمرے کے بیچ +اور کیلنڈر کہے ہے ، ختم ساون ہو گیا +کیوں سلگتی ریت نے سہلا دئیے تلووں کے پھول +یہ اذیت کیش دل صحرا کا دشمن ہو گیا +جھلملا اٹھتا تھا برتن مانجھنے پر جھاگ سے +اس کلائی سے جو روٹھا زرد کنگن ہو گیا +تیری میری زندگی کی خوبصورت ساعتیں +تیرا بچپن ہو گیا یا میرا بچپن ہو گیا +ایک جلوے کی قیامت میں نے دیکھی طور پر +دھوپ تھی ایسی کہ سورج سوختہ تن ہو گیا +بے خدا ہوں سوچتا ہوں شکر کس کا ہو ادا +میں نے جو چاہا وہی منصور فوراً ہو گیا +مرکوز رکھ نگاہ کو ، پھر نین مت لگا +فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا +زردار! یہ جو تُونے کئے ہیں ہزار حج +اس پر امیدِ رحمتِ دارین مت لگا +جس سے تُو دیکھتا ہے ابو جہل کے قدم +اُس آنکھ سے رسول کے نعلین مت لگا +خطرہ ہے انعدام کا میرے وجود کو +باہوں سے اپنی محفلِ قوسین مت لگا +دونوں طرف ہی دشمنِ جاں ہیں خیال رکھ +اتنے قریب حدِ فریقین مت لگا +کوئی تماشا اے مرے جدت طراز ذہن +تُو عرش اور فرش کے مابین مت لگا +جائز ہر ایک آنکھ پہ جلوے بہار کے +اپنی کتابِ حسن پہ تُو بین مت لگا +دیوارِ قوس رکھ نہ شعاعوں کے سامنے +لفظِ طلو کے بعد کبھی عین مت لگا +دشمن کے ہارنے پہ بھی ناراض مجھ سے ہے +مجھ کو تو اپنا دل بھی کوئی’ جین مت‘ لگا +ادارک سلسلہ ہے ، اسے مختصر نہ کر +اپنے سکوتِ فہم کو بے چین ’مت‘ لگا +جس نے تمام زندگی بجلی چرائی ہے +اس کو تو واپڈا کا چیئرمین مت لگا +لگتا ہے یہ مقدمہ یک طرفہ عشق کا +منصور شرطِ شرکتِ طرفین مت لگا +مرے نصیب پہ رو دے ،کسی کا گھر نہ دکھا +تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج۔۔ اور در نہ دکھا +تُو اپنی شام کے بارے کلام کر مجھ سے +کسی کے بام پہ ابھری ہوئی سحر نہ دکھا +ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں +شبِ فراق! ابھی سے یہ چشمِ تر نہ دکھا +گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے +فریبِ وقت! مجھے شاخِ بے ثمر نہ دکھا +میں جانتا ہوں قیامت ہے بیچ میں منصور +مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا +آسرا کس وقت مٹی کے کھلونے پر رکھا +وقت پر پائوں کہانی ختم ہونے پر رکھا +دیکھتا کیا دو جہاں میں کہ فراقِ یار میں +دیدہ و دل کو ہمیشہ وقف رونے پر رکھا +پانیوں کو ساحلوں میں قید کر دینے کے بعد +موج کو پابند ساحل کے ڈبونے پر رکھا +چاہتا تو وقت کا ہم رقص بن سکتا تھا میں +خود سے ڈر کر خود کو لیکن ایک کونے پر رکھا +اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اس کے دروازے کے پاس +اور اس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا +سونپ کر منصور دل کو آگ سلگانے کا کام +آنکھ کو مصروف دامن کے بھگونے پر رکھا +ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آلیا +آوارگی کی شام مجھے گھر نے آلیا +میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لئے بغیر +پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آلیا +میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں +کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آلیا +گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں +یادش بخیر یادِ ستم گر نے آلیا +وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی +پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آلیا +منصور چل رہا تھاابھی کہکشاں کے پاس +یہ کیا ہوا کہ پائوں کی ٹھوکر نے آلیا +یوں خیالوں نے بدحواس کیا +ہجر کو وصل پر قیاس کیا +اپنی پہچان کے عمل نے مجھے +روئے جاناں سے روشناس کیا +کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن +آسماں نے بہت اداس کیا +ہم نے ہر ایک نماز سے پہلے +زیبِ تن خاک کا لباس کیا +بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور +کیا بسرا کسی کے پاس کیا +اے چاند پتہ تیرا کسی سے نہیں ملتا +رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا +او پچھلے پہر رات کے ،جا نیند سے کہہ دے +اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا +کیوں وقتِ مقرر پہ ٹرام آتی نہیں ہے +کیوں وقت ترا میری گھڑی سے نہیں ملتا +میں جس کیلئے عمر گزار آیا ہوں غم میں +افسوس مجھے وہ بھی خوشی سے نہیں ملتا +یہ ایک ریاضت ہے خموشی کی گپھا میں +یہ بخت ِہنر نام وری سے نہیں ملتا +وہ تجھ میں کسی روز ضرور آکے گرے گی +دریا تو کبھی جا کے ندی سے نہیں ملتا +دھلیز پہ رکھ جاتی ہے ہر شام جو آنکھیں +منصور عجب ہے کہ اسی سے نہیں ملتا +مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا +رنگ بکھرا دئیے پھر تازہ ہوانے کیا کیا +کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے +پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرھانے کیا کیا +میں تجھے کیسے بتائوں مری نازک اندام +مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا +میری خاموشی پہ الزام لگانے والی +کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا +کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی +شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا +میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے +مجھ کو شاداب کیادستِ دعا نے کیا کیا +یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن +پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا +سینہ ء ہجر میں پھر چیر لگا +رات بھر نعرہ ئ تکبیر لگا +دھجیاں اس کی بکھیریں کیا کیا +ہاتھ جب دامنِ تقدیر لگا +وہ تو بے وقت بھی آ سکتا ہے +خانہ ئ دل پہ نہ زنجیر لگا +میں نے کھینچی جو کماں مٹی کی +چاند کی آنکھ میں جا تیر لگا +اس سفیدی کا کوئی توڑ نکال +خالی دیوار پہ تصویر لگا +کیوں سرِ آئینہ اپنا چہرہ +کبھی کابل کبھی کشمیر لگا +سر ہتھیلی پہ تجھے پیش کیا +اب تو آوازہ ئ تسخیر لگا +آسماں گر نہ پڑے ، جلدی سے +اٹھ دعا کا کوئی شہتر لگا +رہ گئی ہے یہی غارت گر سے +دائو پہ حسرت ِ تعمیر لگا +پھر قیامت کا کوئی قصہ کر +زخم سے سینہ ئ شمشیر لگا +بند کر پاپ کے سرگم منصور +کوئی اب نغمہ دلگیر لگا +کنارِ صبح ِمکاں اک تبسم بار چہرہ تھا +سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا +مری نظریں اٹھیں توپھر پلٹ کر ہی نہیں آئیں +عجب سندرسی آنکھیں تھی عجب دلدار چہرہ تھا +سنا ہے اس لئے اس نے تراشے خال و خد میرے +اسے پہچان کو اپنی کوئی درکار چہرہ تھا +ہوا کی آیتوں جیسی تکلم کی بہشتیں تھیں +شراب و شہدبہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا +جہاں پردھوپ کھلتی تھی وہیں بادل برستے تھے +جہاں پُرخواب آنکھیں تھیں وہیں بیدار چہرہ تھا +شفق کی سر خ اندامی لب و رخسار جیسی تھی +چناروں کے بدن پر شام کا گلنار چہرہ تھا +جسے بتیس برسوں سے مری آنکھیں تلاشے ہیں +بس اتنا جانتا ہوں وہ بہت شہکار چہرہ تھا +جہاں پر شمع داں رکھا ہوا ہے یاد کا منصور +یہاں اس طاقچے میں کوئی پچھلی بار چہرہ تھا +میں زندگی ہوں وہ جانے لگا تواس نے کہا +وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا +مجھے زمین سے رکھنے ہیں اب مراسم بس +جب آسماں نے فسردہ کیا تو اس نے کہا +میں تتلیوں کے تعاقب میں جانے والا ہوں +کسی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تو اس نے کہا +اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی +گلی میں اس کی کوئی مرگیا تو اس نے کہا +مجھے بھی شام کی تنہائی اچھی لگتی ہے +مری اداسی کا قصہ سنا تو اس نے کہا +خیال رکھنا تجھے دل کا عارضہ بھی ہے +جب اس کے سامنے میں رو پڑا اس نے کہا +مجھے تو رات کی نیت خراب لگتی ہے +چراغ ہاتھ سے میرے گرا تو اس نے کہا +کوئی فرشتوں کی مجھ سے تھی دشمنی منصور +پڑھا نصیب کا لکھا ہوا تو اس نے کہا +پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا +وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا +پھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ +پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا +جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی +حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا +میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا +سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار +پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا +بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے +دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا +وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں +چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں +وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا +میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے +لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا +صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب +بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی +کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا +کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا +سین ستو میں پڑ گیا ہو گا +ملک اردو میں پڑ گیا ہو گا +گر پڑا ہے افق کے شعلوں میں +دل پکھیرو میں پڑ گیا ہوگا +بے خیالی میں چھو گئے تھے لب +نیل بازو میں پڑ گیا ہو گا +اس طرف جھک گئی ہے سب دنیا +کچھ ترازو میں پڑ گیا ہوگا +ایک گجرے کے ٹوٹ جانے سے +داغ خوشبو میں پڑ گیا ہو گا +ایسا لگتا ہے عمر کادریا +ایک آنسو میں پڑ گیا ہو گا +کتنی مشکل سے روکی ہے گالی +چھالاتالو میں پڑ گیا ہو گا +ہجر کی رات شور تھا کوئی +درد پہلو میں پڑ گیا ہو گا +شام سے جا گراتھا کچھ باہر +نور جگنو میں پڑ گیا ہو گا +ہاتھ چھلکا نہیں یونہی منصور +چاند دارو میں پڑ گیا ہو گا + + +ایک شرابی ہاتھ کی دستک اور شراب +جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب +پیاس ہوائے شام میں اپنے بین کرے +ابر ہے بامِ ذات کی حد تک اور شراب +مجھ سے تیری یادیں چھین نہیں سکتے +اُس بازار کے سارے گاہک اور شراب +سات سمندر پار کا ایک پرانا کوٹ +بیچ سڑک کے ٹوٹی عینک اور شراب +سناٹوں کی آوازوں کا ایک ہجوم +شور میں گم ہوجانے کا شک اور شراب +تیری گلی آواز ِ سگاں ،مجذوب ضمیر +ڈوب رہی ہے رات کی کالک اور شراب +عمر ہوئی میخانے کے دروازے پر +دست و گریباں میرا مسلک اور شراب +رات کے پچھلے پہر لہو کی صورت تھے +میری رگوں میں گھنگھرو ڈھولک اور شراب +کھلتا سرخ سا فیتہ ، دوشیزہ فائل +انٹر کام کی بجتی دستک اور شراب +دیکھ کے موسم خود ہی بچھتے جاتے ہیں +صحرا کی سہ پہر میں اجرک اور شراب +اک منصور گلی میں دو دیواریں ہیں +ساتھ مری بے مقصد بک بک اور شراب +منصور پر خدائی کے الزام کے سبب +مارا نہ جائوں میں بھی کہیں نام کے سبب +بس رہ گئی ہے یاد میں بجھتی سی ریل کار +میں لیٹ ہو گیا تھا کسی کام کے سبب +مہکا ہوا ہے دیر سے میری گلی کا موڑ +خوشبو پہن کے چلتی ہوئی شام کے سبب +کر لوں گا آسمانوں پہ آباد بستیاں +میں پُر یقیں ہوں زینہ ء ایام کے سبب +چہرے تک آ گئی تھیں شعاعوں کی ٹہنیاں +جاگا ہوں آفتابِ لبِ بام کے سبب +کتنے سفید کتنے حسین و جمیل لوگ +چھوڑ آیا ایک حسن سیہ فام کے سبب +انجامِ گفتگو ہوا پھولوں کے درمیان +آغازِ گفتگو ہوا دشنام کے سبب +بیٹھا ہوں کوہِ سرخ کے پتھر تراشتا +دریائے سندھ آپ کے پیغام کے سبب +صحرا نے صادقین کی تصویر پہن لی +اک نظمِ گردباد کے الہام کے سبب +جس کی مجھے تلاش تھی وہ درد مل گیا +میں کامیاب صحبتِ ناکام کے سبب +سورج پلٹ گیا ہے ملاقات کے بغیر +زلف سیہ کے بسترِ بدنام کے سبب +پروردگارِ اول و آخر سے پانچ وقت +ملتے ہیں لوگ کمرہ ء اصنام کے سبب +شب ہائے زخم زخم گزارے خوشی کے ساتھ +لندن کی ایک غم زدہ مادام کے سبب +منصور مولوی سے ہو میرا حساب بھی +کافر ہوا ہوں چہرہ ء اسلام کے سبب +کچھ موتیے کے پھول ہوئے زرد بے سبب +ناراض ہو گئے مرے ہمدرد بے سبب +ویسے محوِ آئینہ داری تھی میری آنکھ +پھیلی ہے میرے چاروں طرف گرد بے سبب +کرتے رہے ہیں میرا تعاقب قدم قدم +شہرِ شبِ فراق کے کچھ فرد بے سبب +یہ سچ ہے اس سے کوئی تعلق نہیں مرا +پھرتا ہے شہر جاں میں کوئی درد بے سبب +شامِ وصال آئی تھی آ کر گزر گئی +جاگا ہے مجھ میں سویا ہوا مرد بے سبب +گرتی رہی ہے برف مگر بس خیال میں +منصور میرا کمرہ ہوا سرد بے سبب +شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب +کیسے وہ پھر رہی ہے جدامجھ سے بے سبب +کچھ اس کے کارِ ہائے نمایاں بھی کم نہیں +دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب +روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت +پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب +دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی +جب چل پڑا تو راہ میں بننے گئے سبب +کیا کیا نکالتی ہے بہانے لڑائی کے +آنسو کبھی وجہ تو کبھی قہقہے سبب +منصور اتقاق سے ملتی ہیں منزلیں +بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب +غیب کا مدفن عینک اور کتاب +میرے کاہن عینک اور کتاب +ایک بہکتے حرف کے پہلو میں +رکھ دی فوراً عینک اور کتاب +ٹیرس پر تنہائی کی رم جھم +بھیگا ساون عینک اور کتاب +میر و غالب پھر مہمان ہوئے +چائے کے برتن عینک اور کتاب +یاد کی لائب ریری زندہ باد +اپنا جیون عینک اور کتاب +برف بھری تنہائی میں منصور +یار کا درشن عینک اور کتاب +بہتی بہار سپنا ، چلتی ندی ہے خواب +شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب +ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے +رکھ آئو گھر سے باہر بہتریہی ہے خواب +تُونے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں +میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب +وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب +ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ +لگتا ہے آسماںکی بارہ دری ہے خواب +اس کے لئے ہیں آنکھیں اس کیلئے ہے نیند +جس میں دکھائی دے تُو وہ روشنی ہے خواب +دل نے مکانِ جاں تو دہکا دیا مگر +اُس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب +اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس +دیکھو زمانے والو! کیادیدنی ہے خواب +تجھ سے فراق کیسا ، تجھ سے ملال کیا +تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب +سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں +لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب +امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں +چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب +رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے +تجھ میں کسی مکان کی کھڑکی کھلی ہے خواب +منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں +ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب +لگتے ہیں خوبصورت گزری ہوئی کے خواب +کیا ہے جو دیکھتاہوں پچھلی گلی کے خواب +ہیں بے چراغ دل کے جگنو قطار میں +پلکوں سے چُن رہا ہوں لا حاصلی کے خواب +آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں فرات کی +پتھرا گئے ہیں جیسے تشنہ لبی کے خواب +ہے اجتماعی وحشت چشمِ شعور میں +اپنے خمیر میں ہیں کیا کیا کجی کے خواب +مجبور دل الگ ہے دل کی طلب الگ +بستر کسی کا بے شک دیکھے کسی کے خواب +منصور موتیوں سے جس کی بھری ہے جیب +مرے دماغ کے سب عنکبوت آخرِ شب +بنے ہوئے ہیں بڑے راجپوت آخر ِ شب +عشائےغم میری خیرہ سری میں گزری ہے +سو پڑھ رہا ہوں دعائے قنوت آخرِ شب +اداسیوں کے تنفس میں میرے اندر سے +نکل پڑا ہے عدم کا سکوت آخرِ شب +لکھا گیا تھا مجھے آسماں پہ کرنوں سے +ہوا ہے خاک پہ میرا ہبوط آخرِ شب +میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں +ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب +دبا دیا تھا افق میں امید کا پتہ +نکل پڑا ہے کوئی شہ بلوط آخرِ شب +ہزار رنگ جہنم کے دیکھتا ہوں میں +کیا ہے موت کا منظر حنوط آخر شب +بدن پہ دھوپ کا آسیب دیکھ کر منصور +چرا کے برف کے لے آیا بھوت آخرِ شب + + +کچھ تلاش آپ ہی کئے ہیں سانپ +کچھ نصیبوں نے بھی دئیے ہیں سانپ +گفتگو زہر سے بھری ہی نہیں +سر پہ دستار بھی لئے ہیں سانپ +چھائوں کو ڈس رہے ہیں شاخوں سے +دھوپ کے سرخ زاویے ہیں سانپ +شام ہوتے ہی چاٹتے ہیں دل +بس وہ دوچار ثانیے ہیں سانپ +پھر کہا خواب سے سپیرے نے +اور اب کتنے چاہیے ہیں سانپ +بھر گیا زہرِغم سے اپنا دل +یعنی یادوں کے بھی دئیے ہیں سانپ +یہ جو پندار کے پڑے ہیں سانپ +یہ ابھی جسم سے جھڑے ہیں سانپ +اس کنویں میں بڑے بڑے ہیں سانپ +ہر قدم پر خدا کی بستی میں +یہ مسائل ہیں یا کھڑے ہیں سانپ +کم ہوئی کیا مٹھاس پانی کی +کتنے دریائوں کو لڑے ہیں سانپ +اب بھی ڈرتا ہے آدمی ان سے +وہ جو تاریخ میں گڑے ہیں سانپ +ایک فوسل کی شکل میں منصور +کچھ مزاروں پہ بھی جڑے ہیں سانپ +آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ +کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ +آتی راہیں تو اونی بھیڑیں ہیں +جاتے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ +ہم لکیروں کو پیٹنے والے +جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ +آسماں سے پہن کے تیرا روپ +دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ +میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں +یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ +چل رہے ہیں سنپولئے ہمراہ +ہم بھی محسوس ہورہے ہیں سانپ +شہر میں محترم نہیں ہم لوگ +صاحب ِعزو جاہ ہوئے ہیں سانپ +اپنے جیون کی شاخ ِجنت پر +موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ +لالہ و گل کے روپ میں منصور +زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ +گزرا ہے مجھ میں ایک زمانہ بھی اپنے آپ +میں موت کی طرف ہوں روانہ بھی اپنے آپ +بے شکل صورتوں کاٹھکانہ بھی اپنے آپ +بننے لگا ہے آئینہ خانہ بھی اپنے آپ +جب دھوپ سے ہنسی ترے آنچل کی شوخ تار +روٹھا بھی اپنے آپ میں۔۔ مانابھی اپنے آپ +جاری ہے جس کے مرکزی کردار کی تلاش +صرف ِ نظر بھی آپ کیا بزم میں مگر +اس دلنواز شخص نے جانابھی اپنے آپ +کتنا ابھی ابھی ترو تازہ تھا شاخ پر +یہ کیا کہ ہو گیا ہے پرانا بھی اپنے آپ +منصور کائنات کا ہم رقص کون ہے +یہ گھومنا بھی اور گھمانا بھی اپنے آپ +غم کی طویل رات کا اک انتباہ دھوپ +صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ +احمق ہے جانتی ہی نہیں میری برف کو +جم جائے آپ ہی نہ کہیں بادشاہ دھوپ +میں چل رہا ہوں تیری تمنا کے دشت میں +میرے رفیق آبلے ، میری گواہ دھوپ +پردے ابھی نہ کھینچ مری کھڑکیوں کے شام +مجھ سے بڑھا رہی ہے ذرا رسم و راہ دھوپ +برطانیہ کی برف میں کتنی یتیم ہے +صحرائے تھل میں جو تھی بڑی کجکلاہ دھوپ +جھلسا دیا دماغ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ +مشرق کے المیے میں نہیں بے گناہ دھوپ +منصور اپنی چھت سے رہو ہمکلام بس +تنہائیوں کی شہر میں ہے بے پنا ہ دھوپ +بادِ صبا کے ساتھ صدائے فلاح دھوپ +منصور شامِ غم میں بھی کارِ مباح دھوپ +آنسو رکے ہوئے ہیں کہیں بادلوں کے بیچ +پھیلی ہے چشمِ یاد کے گرد و نواح دھوپ +فتووں کے ابر سے کسی پردے میں جا چھپی +رکھی ہوئی تھی گھر میں جو اک بے نکاح دھوپ +اندھی شبوں میں حضرتِ اقبال آفتاب +برفاب موسموں میں جنابِ جناح دھوپ +ہم لمس ہوں تو شاید دریا بہے کوئی +تیرا مزاج برف ہے میرا مزاح دھوپ +ہوجائوں ساحلوں پہ برہنہ ، نہیں ، نہیں +کیسی یہ دے رہی ہے مسلسل صلاح دھوپ + + +کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست +ہم نے تیری نظر اتاری دوست +اک تعلق ہے خواب کا اس سے +وہ زیادہ نہیں ہماری دوست +زد میں آیا ہوا نہیں نکلا +شور کرتے رہے شکاری دوست +اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا +میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست +کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں +اک دہکتی ہوئی کنواری دوست +راہ بنتی ہے آنے جانے سے +اور بناتے ہیں باری باری دوست +کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں +بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست +بس اداسی پہن کے پھرتے ہیں +کچھ ہماری بھی غم گساری دوست +ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں +ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست +رات بھر بیچتے تھے جو سورج +اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست +کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی +حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر +تم نے وہ زندگی گزاری دوست +ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں +کیا تمہاری ہے شہریاری دوست +دشت ِدل میں تمہاری ایڑی سے +ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست +ہجر کی بالکونی کی شاید +میلوں لمبی ہے راہداری دوست +زندگی نام کی کہیں منصور +ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست +چل رہے ہیں ایک ساتھ +مرد و زن کا اجتماع +میں سڑک کا خشک پات +شب تھی خالی چاند سے +گر پڑی ہے آنکھ سے +کٹ گئے ہیں روڈ پر +دو ہوا بازوں کے ہاتھ +گمان صبح ہے کافی ، خیالِ نور بہت +مرے لئے یہ ذرا سا چراغِ طور بہت +میں بارگاہِ محبت میں کس طرح جائوں +مرے گناہ بہت ہیں مرے قصور بہت +یہی بہت کہ خزاں میں بہار ہے مجھ پر +ہے پھول پھول۔ یہی شاخ کو شعور بہت +تمام عہد نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہیں +ہوا ہے شعر میں شاید مرا ظہور بہت +یہ میرے بیگ میں رکھ دے نا کانچ کے ٹکڑے +میں بھیج دوں گا نئی چوڑیاں، ضرور،بہت +نصیب ، نسبتِ دشتِ عرب جسے منصور +بروز حشر وہی سایہ ء کھجور بہت + + +اپنے ہی کناروں کو میرے دیدہ ء تر کاٹ +اڑنے کا وسیلہ ہیں امیدوں کے نہ پر کاٹ +اک بنک کے لاکر میں تری عمر پڑی ہے +شب کاٹ اگر لی ہے تو بے مہر سحر کاٹ +ہر سمت دماغوں کے شجر اگنے لگے ہیں +اس مرتبہ پودوںکے ذرا سوچ کے سر کاٹ +تُو ساعتِ کی تسخیر سے پہلے +آ خانہ ء درویش میں بس ایک پہر کاٹ +منصور نکلنا تو ہے مٹی کی گلی سے +لیکن ابھی کچھ اور یہ سورج کا سفر کاٹ +گرفت ِ زر کے گرفتاروں میں رہائی بانٹ +جو چار لوگوں کے گھر ہے وہ دو تہائی بانٹ +تُو مجھ کو چھوڑ ، کسی اور سے تعلق رکھ +تمام شہر میں اپنی نہ بے وفائی بانٹ +مجھے بھی بخش تصرف کسی کے خوابوں پر +ذرا سی اپنے فقیروں میں بھی خدائی بانٹ +پلٹ پلٹ کے نہ دیکھ اُس کا دل ربا چہرہ +کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ +یہ لوگ شعر کو دیکھیں تری بصارت سے +دیارِ حرف میں آنکھیں جلی جلائی بانٹ +کتابِ ذات کی بے چہرگی کو چہرہ دے +ہزار سال پہ تقریب رونمائی بانٹ +پڑا وہ قحط ہے لوگوں کو عشق بھول گیا +تمام گائوں میں گندم کٹی کٹائی بانٹ +سنا ہے شہر میں تیری کئی دکانیں ہیں +مرے امام! ذرا زہد کی کمائی بانٹ +ترے لئے تو ہے بد ، سات کا عدد منصور +تُو اٹھ روز پہ تقویم کی اکائی بانٹ + + +خانقاہِ غم کا سجادہ نشیں ہوں میر کا وارث +ہے کوئی میرے علاوہ حرف کی جاگیر کا وارث +نظم تلوارِ علی ہے اور مصرعہ لہجہ ء زینب +کربلائے لفظ میں ہوں خیمہ ء شبیر کا وارث +چشمِ دانش کی طرح گنتا نہیںہوں ڈوبتے سورج +میں ابد آباد تک ہوں شام کی تحریر کا وارث +کنٹرول اتنا ہے روز وشب پہ سرمایہ پرستی کا +اب مرا بیٹا ہے میرے پائوں کی زنجیر کا وارث +نقش جس کے بولتے ہیں ، رنگ جس کے خواب جیسے ہیں +حضرتِ غالب وہی ہے پیکرِ تصویر کا وارث +ساحلِ یاد پہ آہوں کا دھواں کارِ عبث +بہتے پانی کی قسم ، گریہ ئ جاں کارِ عبث +دھوپ میں ساتھ بھلا کیسے وہ دے سکتا تھا +ایک سائے کے لئے آہ و فغاں کارِ عبث +میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا +یہ فلک فہمی یہ تسخیرجہاں کارِ عبث +تیرے ہونے سے مہ و مہر مرے ہوتے تھے +اب تو ہے سلسلہ ئ کون و مکاں کارِ عبث +یہ الگ چیختے رنگوں کا ہوں شاعر میں بھی +ہے مگر غلغلہ ئ نام و نشاں کارِ عبث +ایک جھونکے کے تصرف پہ ہے قصہ موقوف +بلبلے اور سرِ آب رواں کار عبث +خیر باقی رہے یا شر کی عمل داری ہو +دونوں موجود ہوں تو امن و اماں کارِ عبث +کوئی انگلی ، کوئی مضراب نہیں کچھ بھی نہیں +کھینچ رکھی گئی تارِرگ جاں کارِ عبث +رہ گئے جنت و دوزخ کہیں پیچھے منصور +اب جہاں میں ہوں وہاں سود و زیاں کارِعبث + + +کسی نے کچھ کہا ہے کیا ، کہاں یہ چل دیا سورج +ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج +اسے معلوم تھی شاید مری راتوں کی برفابی +مری آنکھوں کے بالکل سامنے دن بھر رہا سورج +چپک جاتا ہے خاموشی سے میرے ساتھ بستر میں +یہ نم دیدہ دسمبر کی اداسی سے بھرا سورج +برہنہ پانیوں پر شام کی کرنیں ٹپکتی تھیں +مگر پھر یوں ہوا نیلا سمندر ہو گیا سورج +مرے دریا کے پانی کو ہوا ہونے نہیں دیتا +کہیں برفیلے کہساروں کو پگھلاتا ہوا سورج +یہ کافی دیر سے کھڑکی کھلی ہے میرے کمرے کی +ابھی نکلا نہیں ہے اِس گلی میں صبح کا سورج +ابھی کچھ دیر رہنا چاہتا ہوں میں اجالوں میں +بلاتا ہے مجھے اپنی طرف پھر ڈوبتا سورج +مجھے دل کی گلی میں بھی پتش محسوس ہوتی ہے +خود اپنے ہجر میں اتنا زیادہ جل بجھا سورج +اُدھر پوری طرح اترا نہیں وہ روشنی کا تھال +نکلتا آ رہا ہے یہ کدھر سے دوسرا سورج +رکھا ہے ایک ہی چہرہ بدن کے بام پر میں نے +کوئی کہتا ہے یوں ہی ہے کسی کا تبصرہ سورج +نگاہوں کو شعاعوں کی ضرورت تھی بہت لیکن +کہاں تک میری گلیوں میں مسلسل جاگتا سورج +جہاں اس وقت روشن ہے تبسم تیرے چہرے کا +انہی راتوں میں برسوں تک یہ آوارہ پھرا سورج +اسے اچھے نہیں لگتے سلگتے رتجگے شاید +اکیلا چھوڑ جاتا ہے ہمیشہ بے وفا سورج +اجالے کا کفن بُننا کوئی آساں نہیں ہوتا +نظر آتا ہے شب کے پیرہن سے جابجا سورج +ابھرنا ہی نہیں میں نے نکلنا ہی نہیں میں نے +اتر کر عرش کے نیچے یہی ہے سوچتا سورج +افق پر اک ذرا آندھی چلی تھی شام کی منصور +کہیں ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی صورت گر پڑا سورج + + +دل کی بستی سوچتی ہے جاگتے رازوں کے بیچ +ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ +کھو گئیں میری سخن بستہ نوائیں درد میں +رہ گیا آہوں کا رقصِ مشتعل سازوں کے بیچ +ایک چڑیا سے تقاضائے وفا اچھا نہیں +جانثاری کی سعادت قرض شہبازوں کے بیچ +تم جسے کہتے تھے چرخ نیلگوں اک وہم تھا +گم ہوئی اس کی بلندی میری پروازوں کے بیچ +اپنے شانوں پر اٹھا رکھی تھی خود میں نے صلیب +ہے مگر تاریخ کا الزام ہمرازوں کے بیچ +ہر قدم پر کھینچ لیتا تھا کوئی اندھا کنواں +سو بسا لی اپنی بستی اپنے خمیازوں کے بیچ +شہر ہوتا چاہئے تھا اس سڑک کے آس پاس +کوئی غلطی رہ گئی ہے میرے اندازوں کے بیج +سن رہا ہوں یاد کے پچھلے پہر کی ہچکیاں +دور سے آتی ہوئی منصور آوازوں کے بیچ +ڈھونڈتی ہے آسماں پر در کوئی تاروں کے بیچ +نیند سے بولائی دستک تری دیواروں کے بیچ +گفتگو کیا ہو مقابل جب ہیں خالی پگڑیاں +پہلے تو سر بھی ہوا کرتے تھے دستاروں کے بیچ +اے خدا میرا بھرم رکھنا ، فرات ِ وقت پر +اک انا کا بانکپن ہے کتنی تلواروں کے بیچ +ریل کی پٹڑی بچھائی جا رہی ہے اس کے ساتھ +ایک کاٹج کیا بنایا میں نے گلزاروں کے بیچ +جانتی تھی اور سب کو ایک بس میرے سوا +وہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی چند فنکاروں کے بیچ +دھوپ بھی ہے برف تیری سرد مہری کے طفیل +رات بھی پھنکارتی ہے تیرے آزاروں کے بیچ +ٹکڑے تھے کچھ نیل پالش کے مری آنکھوں کے بیچ +اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ +راکھ کے گرنے کی بھی آواز آتی تھی مجھے +مر رہا تھا آخری سگریٹ مرے ہونٹوں کے بیچ +ہاتھ میں تو لالہ و گل تھے مرے حالات کے +پشت پر کاڑھی ہوئی تھی کھوپڑی سانپوں کے بیچ +کون گزرا ہے نگارچشم سے کچھ تو کہو +پھر گئی ہے کونسی شے یاد کی گلیوں کے بیچ +دو ملاقاتوں کے دن تھے آدمی کے پاس بس +اور کن کا فاصلہ تھا دونوں تاریخوں کے بیچ +گوشت کے جلنے کی بو تھی قریہ ء منصور میں +کھال اتری تھی ہرن کی ، جسم تھا شعلوں کے بیچ + + +برف کی شال میں لپٹی ہوئی صرصر کی طرح +زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح +کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف +میں نے دیکھا تھا اُسے آخری منظر کی طرح +چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح +بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں +شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح +کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اِتراتی تھی +میں پہنتا تھا اسے گرم سمندر کی طرح +پلو گرتا ہوا ساڑھی کا اٹھا کر منصور +چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح + + +آتشِ لمس سے جلتی ہوئی چیخ +ہاتھ تصویر پہ ملتی ہوئی چیخ +زخم پائوں میں کئے جاتی ہے +خشک پتوں سے نکلتی ہوئی چیخ +اک شکاری کے کفن سے ابھری +برف کے ساتھ پگھلتی ہوئی چیخ +کس نے چپکائی ہے دیواروں پر +خواب میں رنگ بدلتی ہوئی چیخ +میں طلسمات سے نکلا تو ملی +بابِ حیرت پہ مچلتی ہوئی چیخ +چلتی جاتی ہے وہ چلتی ہوئی چیخ +اک تعلق کے گلے سے نکلی +در و دیوار نگلتی ہوئی چیخ +پھر و��ی ڈوبتا سورج منصور +پھر وہی آگ اگلتی ہوئی چیخ +آخری سانس میں ڈھلتی ہوئی چیخ +گر پڑی ایک سنبھلتی ہوئی چیخ +فلک سے بھی پرانی خاک کی تاریخ +محمد کی زمینِ پاک کی تاریخ +مکمل ہو گئی ہے آخرش مجھ پر +جنوں کے دامن صد چاک کی تاریخ +ابھی معلوم کرتا پھر رہا ہوں میں +تری دستار کے پیچاک کی تاریخ +مری آنکھوں میں اڑتی راکھ کی صورت +پڑی ہے سوختہ املاک کی تاریخ +رگِ جاں میں اتر کر عمر بھر میں نے +پڑھی ہے خیمہ ء افلاک کی تاریخ +سرِ صحرا ہوا نے نرم ریشوں سے +پھٹا کویا تو لکھدی آک کی تاریخ +مسلسل ہے یہ کیلنڈر پہ میرے +جدائی کی شبِ سفاک کی تاریخ +پہن کر پھرتی ہے جس کو محبت +مرتب کر تُو اُس پوشاک کی تاریخ +ہوائے گل سناتی ہے بچشمِ کُن +جہاں کو صاحبِ لولاک کی تاریخ +کھجوروں کے سروں کو کاٹنے والو +دکھائی دی تمہیں ادراک کی تاریخ +ہے ماضی کے مزاروں میں لکھی منصور +بگولوں نے خش و خاشاک کی تاریخ + + +زندہ ہوں پر زندگانی ختم شد +فلم جاری ہے کہانی ختم شد +رو لیا ہے جتنا رو سکتا تھا میں +آنکھ میں جو تھا وہ پانی ختم شد +کر رہاہوں شام سے فکرِ سخن +یعنی عہدِ رائیگانی ختم شد +میں بھی ہوں موجود اب افلاک پر +لامکاں کی لامکانی ختم شد +رک گیا میں بھی کنارہ دیکھ کر +پانیوں کی بھی روانی ختم شد +پیچھے چھوڑ آیا ہوں شورِ ناتمام +گاڑیوں کی سرگرانی ختم شد +اور باقی ہیں مگر آسیب کی +اک بلائے ناگہانی ختم شد +آنے سے پہلے بتاتی ہیں مجھے +بارشوں کی بے زبانی ختم شد +دیکھتے ہیں آسماں کے کیمرے +اب گلی کی پاسبانی ختم شد +آگئے جب تم تو کیا پھر رہ گیا +جو تھا سوچا جو ہے ٹھانی ختم شد +بھیج غالب آتشِ دوزخ مجھے +سوزِ غم ہائے نہانی ختم شد +اڑ رہی ہے راکھ آتش دان میں +یار کی بھی مہربانی ختم شد +کچھ بچا ہی اب نہیں ہے آس پاس +ایک ہی تھی خوش گمانی ختم شد +وہ سمندر بھی بیاباں ہو گیا +وہ جو کشتی تھی دخانی ختم شد +اک تکلم اک تبسم کے طفیل +میرا شوقِ جاودانی ختم شد +آہٹیں سن کر خدا کی پچھلی رات +میرے دل کی بیکرانی ختم شد +اک مجسم آئینے کے سامنے +آروز کی خوش بیانی ختم شد +لفظ کو کیا کر دیا ہے آنکھ نے +چیختے روتے معانی ختم شد +ایسا ہی کچھ ہے ہوا کے ساتھ بھی +جس طرح میری جوانی ختم شد +اہم تھا کتنا کوئی میرے لئے +اعتمادِ غیر فانی ختم شد +دشت کی وسعت جنوں کو چاہئے +اس چمن کی باغبانی ختم شد +ذہن میں منصور ہے تازہ محاذ +سرد جنگ اپنی پرانی ختم شد +کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد +منزلیں دیں گئی کسے اپنا پتہ میرے بعد +رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا +آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد +یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا +کوزہ گر چاک پہ کیا تونے رکھا میرے بعد +’’کون پھر ہوگا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟‘‘ +کون دنیا کےلئے قبلہ نما میرے بعد +لڑکھراتی ہوئی گلیوں پھرے گی تقویم +وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد +میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر +کم نہیں میرا کیا اس نےگلہ میرے بعد +میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں +اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد +دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھالائی ہے +کوئی ہوگا ہی نہیں آبلہ پا میرے بعد +تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید +سالہاسال تلک شام سیہ میرے بعد +گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر +ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد +میر و غالب بھی نہیں ہیں اے سخن کی ملکہ +{کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد +رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا +اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد +رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر +ک��ن ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد +بات کرنی ہی نہیں آتی ہے اہل دل کو +بزم میں چین سے ہیں اہل جفا میرے بعد +پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی +سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد +پہلےتو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی +ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد +مجھ سے پہلے توکئی قیس ہیں گزرے لیکن +ختم ہو جائے گا یہ نام وفا میرے بعد +بس یہی درد لئے جاتا ہوں دل میں اپنے +وہ دکھائے گی کسے ناز وادا میرے بعد +یہ الگ۔۔۔ شہر یہ پھر شہرِ خموشاں ہو گا +وہ بھی اس شہرِ ستم گر سے گیا میرے بعد +جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے +جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد +جاں ہتھیلی پہ سجالی ہے سحر کی خاطر +جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد +میرے ہوتے ہوئے دریائوں میں خاک اڑتی تھی +اب برستی ہے وہاں کھل کے گھٹا میرے بعد +میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہوگی +شکریہ ۔۔کرنا یہی بات ذرا میرے بعد +میں ہی موجود ہوا کرتا تھا شاید اس میں +وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد +میرا سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر +کیسا سجدہ تھا۔۔۔ہوا پھر نہ ادا میرے بعد +کاٹنے والے کہاں ہوگی یہ تیری مسند +یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد +قبر پہ بال وہ بکھرائے ہوئے بیٹھی ہے +میری چاہت کا ملا مجھ کو صلہ میرے بعد +موسم درد میں یہ ساز طرب کا کیسے +کون یہ ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد +میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن +کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد +میں بھی کرلوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے +زخم تیرا بھی نہیں ہوگا ہرا میرے بعد +میرے راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو +کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد +شمع بجھتی ہے‘ تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے +کیسی ہے محفل ء آشفتہ سرا میرے بعد +اس کا افسوس بڑی عمر رہا ہے مجھ کو +چاک خواہش بھرے دامن کو کیا میرے بعد +میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے +اس پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد +عشق رکھ آیا تھا کیا دار ورسن پر منصور +کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد +وہ خواب گاہِ عرش وہ باغِ جناں کی یاد +پھر مہرباں ہوئی کسی نا مہرباں کی یاد +آنکھوں میں کس کے عارض و لب کے چراغ ہیں +پھرتی ہے یہ خیال میں آخر کہاں کی یاد +پھر گونجنے لگی ہے مرے لاشعور میں +روزِ ازل سے پہلے کے کچھ رفتگاں کی یاد +میں آسماں نژاد زمیں پر مقیم ہوں +کچھ ہے یہاں کا درد توکچھ ہے وہاں کی یاد +کوئی نہ تھا جہاں پہ مری ذات کے سوا +آئی سکوتِ شام سے اُس لا مکاں کی یاد +دیکھوں کہیں خلوص تو آتی ہے ذہن میں +پیچھے سے وار کرتے ہوئے دوستاں کی یاد +دریائے ٹیمز! اپنے کنارے سمیٹ لے +آئی ہے مجھ کو سندھ کے آبِ رواں کی یاد +منصور آ رہی ہے سرِ آئینہ مجھے +اِس شہرِ پُر فریب میں سادہ دلاں کی یاد +ہے تیراسامنا کرنا، شبِ زوال کے بعد +یہ یاد آیا ہے مجھ کو پچاس سال کے بعد +ترے زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھا +کھڑا غلاموں میں ہوتا کہیں بلال کے بعد +عجب حصار سا کھینچا ہے اسم نے تیرے +خیال کوئی نہ آیا ترے خیال کے بعد +تجھے ملے تو ملاقاتیں سب ہوئیں منسوخ +ہوئی تلاش مکمل ، ترے وصال کے بعد +فرشتے ٹانکتے پھرتے ہیں پھول شاخوں سے +خدا بدل گیا اس کی بس ایک کال کے بعد +کسی نے مجھ سے کہا آپ کون ہیں منصور +کھڑا تھا ایک وہاں پھر وہی سوال کے بعد + + +اس کیلئے تھا باعثِ آزار عید کارڈ +بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ +ایسا نہیں کہ بھول گیا ہے تمام شہر +آئے ہیں اپنے پاس بھی دوچار عید کارڈ +تیرہ برس کے بعد بھی اک یاد کے طفیل +میں نے اٹھایا تو لگا انگار عید کارڈ +ہر س��ل بھیجتا ہوں جسے اپنے آپ کو +اک ہے مری کہانی کا کردار عید کارڈ +کرنا ہے کب تلک شبِ انکار میں قیام +پچھلے برس کا آخری اقرار عید کارڈ +منصور سرورق پہ ہے تصویر شام کی +آیا ہے کیسا آئینہ بردار عید کارڈ + + +پڑے ہیں جو قلم کے ساتھ کاغذ +یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ +جلا آیا جلوسِ دانشِ دیں +شعورِ محترم کے ساتھ کاغذ +جڑے بس رہ گئے ہیں داستاں میں +ترے عہد ِستم کے ساتھ کاغذ +یہی بس التماسِ دل کہ رکھنا +یہ دیوارِ حرم کے ساتھ کاغذ +پرندے بنتے جاتے ہیں مسلسل +ترے فضل و کرم کے ساتھ کاغذ +میانوالی میں آئے ہیں فلک سے +یہ امکانِ عدم کے ساتھ کاغذ +خود اپنے قتل نامے کا کسی کو +دیا پورے بھرم کے ساتھ کاغذ +کسی مبہم سی انجانی زباں میں +پڑے ہیں ہر قدم کے ساتھ کاغذ +الٹنے ہیں پلٹنے ہیں لحد تک +خیالِ بیش و کم کے ساتھ کاغذ +یہ وہ تہذیب ہے جو بیچتی ہے +ابھی دام و درم کے ساتھ کاغذ +کسی کو دستخط کرکے دئیے ہیں +سرِ تسلیم خم کے ساتھ کاغذ +درازوں میں چھپانے پڑ رہے ہیں +کلامِ چشمِ نم کے ساتھ کاغذ +کسی عباس نے لکھا ہے خوں سے +یہ چپکا دے علم کے ساتھ کاغذ +چمکتے پھر رہے ہیں آسماں کے +چراغِ ذی حشم کے ساتھ کاغذ +بدل جاتے ہیں اکثر دیکھتا ہوں +مری تاریخ ِغم کے ساتھ کاغذ +ابد کے قہوہ خانے میں ملے ہیں +کسی تازہ صنم کے ساتھ کاغذ +ہوئے ہیں کس قدر منصور کالے +یہ شب ہائے الم کے ساتھ کاغذ + + +اب کوئی ایسا ستم ایجاد کر +اس کو بھی اپنی طرح برباد کر +روند کر رکھ دوں ترے سات آسماں +اک ذرا بس موت سے آزاد کر +اب مجھے تسخیر کرنے کیلئے +اسم اعظم روح میں آباد کر +میری باتیں میری آنکھیں میرے ہاتھ +بیٹھ کر اب رو مجھے اور یاد کر +قریہ ء تشکیک کی سرحد پہ ہوں +صاحبِ لوح و قلم امداد کر +خالق و مخلوق میں دے +ہم خدا زادوں کو آدم زاد کر +خشک سالی آ گئی آنکھوں تلک +پانیوں کے واسطے فریاد کر +ہے رکا کوئی یہاں برسوں کے بعد +بس دعائے عمرِ ابر و باد کر +پھر قیامت سے نکل آیا ہوں میں +اب کوئی نازل نئی افتاد کر +ہیں ہمہ تن گوش ساتوں آسماں +بول کچھ منصور کچھ ارشاد کر +کچھ زخم دھنک خیز ہیں کچھ زخم لہو بار +دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار +کیا مانگنے آ سکتے ہیں پھر تیری گلی میں +ہم آخرِ شب ،آخری سگریٹ کے طلب گار +یہ فلسفہ ہے یا کہ خرابی ہے خرد کی +ہونے سے بھی انکار نہ ہونے سے بھی انکار +اک زاویہ در زاویہ جذبوں کی ریاضی +رکھ ہاتھ نہ زانو پہ اے دھکے ہوئے موسم +اس وقت زیادہ ہے بہت کار کی رفتار +نازک ہے بہت، داغ نہ پڑ جائیں بدن پر +اُس حسنِ گنہ خیز کو مسواک سے مت مار +آنکھوں سے لپکتے ہیں یہاں برف کا طوفاں +ہرچند کہ مصنوعی نہیں گرمی ء بازار +بنیاد میں رکھا گیا تھا جس کو مکاں کی +منصور ہوا پھر اسی بھونچال سے مسمار +وحدت کے ازل زار یہ کثرت کے ابد زار +ہم ہی سے دھنک رنگ ہیں ہم ہی سے کرم بار +ہم عالمِ لاہوت کی خوش بخت سحر ہیں +ہم حرکت ِ افلاک ہیں ہم ثابت وسیار +ہم حسنِ نزاکت کی چہکتی ہوئی تاریخ +ہم قرطبہ اور تاج محل کے درو دیوار +ہم کاسہ ء مجذوب ہیں ہم دھجیاں دھج کی +ہم روندکے پائوںسے نکل آئے ہیں دستار +ہم کُن کی صدا ہیں ہمی لولاک کا نغمہ +ہم وقت کے گنبد ہمی بازیچہ ِ اسرار +ہم لوگ سراپا ہیں کرامت کوئی منصور +ہم قربِ خداوندی کے احساس کا اظہار +یہ دشتِ مغیلاں ہے ، ثمرکوٹ کہیں اور +کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور +اک پھول نے یہ ہاتھ مرا تھام رکھا ہے +سردائی بدن بھنگ کی جا گھوٹ کہیں اور +اس ہاتھ پہ تقسیم کی اشکال بنا دیں +اقرارِ محبت کا لکھا نوٹ کہیں اور +سایوں کے تعاقب میں یہی ہوتا ہے شاید +میں اور کہیں ، چاند بھری اوٹ کہیں اور +چلتے تھے پسینے کے مری جلد پہ قطرے +بم جیسے مرے پائوں میں ریموٹ کہیں اور +ہے اپنے مراسم میں کوئی اور بھی شامل +ہم ٹھیک ہی سمجھے تھے کہ ہے کھوٹ کہیں اور +اِس شہر کی گلیوں میں دھڑکتے ہوئے دل ہیں +اے حاکمِ جاں رہتے ہیں روبوٹ کہیں اور +اِس شہر ِ منافق کو بھی کوفہ نہ کہیں کیوں +وعدہ تھا کسی اور سے اور ووٹ کہیں اور +ڈستی ہے مرے خواب کو پروازوں کی آواز +تعمیر کیا جائے ایئرپورٹ کہیں اور +ٹوٹا مرا دل تھا ، جھڑی آنکھوں میں لگی تھی +احساس کہیں اور تھا اور چوٹ کہیں اور +اڑتا تھا تعلق کی کسی تیز ہوا میں +ٹائی کہیں جاتی تھی مری ، کوٹ کہیں اور +میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر +دیکھ کے پہلی بار دہکتا سورج +اس نے پھینک دیا ملبوس سڑک پر +برسوں پہلے میرا گھر ہوتا تھا +شہرِ فسوں کی اس مانوس سڑک پر +صرف یہ رستہ جانے والوں کا ہے +پہلی بار ہوا محسوس سڑک پر +میں نے آگ بھری بوتل کھولی تھی +اس نے پیا تھا اورنج جوس سڑک پر +چاند دکھائی دیتا تھا کھڑکی سے +ننگے پائوں چلتے ہیں ہم منصور +دونوں بچھڑ کے چل دیئے راہ ِ ملال پر +ناموں کے زخم رہ گئے برگد کی چھال پر +شب کے سکوت میں لیا یوں اسنے کوئی نام +مندری بجی ہو جس طرح پیتل کے تھال پر +بارش میں بھیگتی چلی آئی تھی کوئی ہیر +بوندیں ٹھہر گئی تھیں دھنک رنگ شال پر +آتی تھی ٹیلی فون سے آواز ِ لمس ِ یار +بستر بچھا تھا فرش ِ بہشت ِ خیال پر +منصور کیا سفید کرسمس کی رات ہے +تارے مچل رہے ہیں زمیں کے وصال پر +ذرا بھی دھیان نہیں وصل کے فریضوں پر +یونہی وہ کاڑھتی پھرتی ہے دل قمیضوں پر +قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں +کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر +یہی تو لوگ مسیحا ہیں زندگانی کے +ہزار رحمتیں ہوں عشق کے مریضوں پر +کسی انار کلی کے خیال میں اب تک +غلام گرشیں ماتم کناں کنیزوں پر +جلا رہی ہے مرے بادلوں کے پیراہن +پھوار گرتی ہوئی ململیں شمیضوں پر +غزل کہی ہے کسی بے چراغ لمحے میں +شبِ فراق کے کاجل زدہ عزیزوں پر +وہ غور کرتی رہی ہے تمام دن منصور +مرے لباس کی الجھی ہوئی کریزوں پر +فلم چلتی ہے مسلسل وہی اک سین پہن کر +کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر +کوئی کمرہ مرے پائوں پہ اترتا ہی نہیں ہے +سیڑھیاں چلتی چلی جاتی ہیں قالین پہن کر +ہوتے رہتے ہیں جہازوں کے بڑے حادثے لیکن +کرتا رہتا ہوں سفر سورہ ء یٰسین پہن کر +نرمگی اس کی ابھر آئی تھی ملبوس سے باہر +کتنی نازک سی سکرٹ آئی تھی نرمین پہن کر +تم مرے ہونٹوں کی کیا پیاس بجھا سکتی ہو وینس +میرا پیاسا ہے بدن ، آب ِ ابا سین پہن کر +جاگتے میں بھی اٹھایا نہ کرو پلکوں کے پردے +شہر میں پھرتی ہیں بس خواب خواتین پہن کر +یہ خدائی کا شکوہ ہے کہ سرِ راہ پڑے ہیں +اک تماشے کا لبادہ سا فراعیٰن پہن کر +پار دریا کر رہی تھی سبز اونٹوں کی قطار +پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشارٰ +دور تک کالی سڑک تھی اور پگھلتی تارکول +چل رہی تھی ٹائروں کا دکھ پہن کر ایک کار +رات ہجراں کی، سلوموشن میں صدیوں پر محیط +دن جدائی کا کہیں ، جیسے ابد کا انتظار +خطہ عشق ِ محمد ابَرہوں کی زد میں ہے +پھر ابابیلوں کا لشکر آسمانوں سے اتار +سندھ کی موجوں کے بوسے مضطرب ہیں دیر سے +کر رہا ہے تیرے نقش ِ پا کا ساحل انتظار +دور تک منصور بستر سی وصال انگیز ریت +ایک گیلی رات ،میں، اور تھل کا حسن ِ خوشگوار +چاندنی پھیلی ہوئی تھی ریت کی شہنیل پر +چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر +ایک اچھے دوست کے ہمراہ گزری تھی کبھی +فروری کی ایک اجلی پیر ’’چشمہ جھیل‘‘ پر +لمبی کر کے اپنی گردن گھولتی تھی زرد چونچ +کونج تھی مامور شاید درد کی ترسیل پر +اور پھر تصویر پر تاریک سائے رہ گئے +روشنی سی پڑ گئی تھی کیمرے کی ریل پر +مانگتی ہے زندگی پھر روشنی الہام کی +اور ابد کی خامشی ہے قریہء جبریل پر +آئینے سے پھوٹتی ہیں نور کی پرچھائیاں +کیا کہوں منصور اپنے عکس کی تمثیل پر +کچھ اندھیرے جاگتے تھے کچھ اجالے میز پر +دو برہنہ شیڈتھے اک لیمپ والے میز پر +آنکھ جھپکی تھی ذراسی میں نے کرسی پر کہیں +وقت نے پھر بن دئیے صدیوں کے جالے میز پر +صلح کی کوشش نہ کر ہابیل اور قابیل میں +کھول دیں گے فائلیں افلاک والے میز پر +آگ جلتے ہی لبوں کی مل گئیں پرچھائیاں +رہ گئے کافی کے دو آدھے پیالے میز پر +جسم استانی کا لتھڑا جا رہا تھا رال سے +چاک لکھتا جا رہا تھا نظم کالے میز پر +میری ہم مکتب نزاکت میں قیامت خیز تھی +چاہتا تھا دل اسے ، اپنی سجالے میز پر +کوئی ترچھی آنکھ سے منصور کرتا تھا گناہ +سکس کے رکھے تھے پاکیزہ رسالے میز پر + + +ساعتِ دیدہ ء انکار کے سینے میں دراڑ +دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ +ایک ہی لفظ سے بھونچال نکل آیا ہے +پڑ گئی ہے کسی کہسار کے سینے میں دراڑ +کوئی شے ٹوٹ گئی ہے مرے اندر شاید +آ گئی ہے مرے پندار کے سینے میں دراڑ +چاٹتی جاتی ہے رستے کی طوالت کیا کیا +ایک بنتی ہوئی دلدار کے سینے میں دراڑ +کب بنائو گے مرے شاہ سواروں آخر +موت کی وادی ء اسرار کے سینے میں دراڑ +ایک ہنستی ہوئی پھر چشمِ سیہ نے ڈالی +آ مری صحبتِ آزار کے سینے میں دراڑ +رو پڑا خود ہی لپٹ کر شبِ غم میں مجھ سے +تھی کہانی ترے کردار کے سینے میں دراڑ +روندنے والے پہاڑوں کو پلٹ آئے ہیں +دیکھ کر قافلہ سالار کے سینے میں دراڑ +صبح کی پہلی کرن تجھ پہ تباہی آئے +ڈال دی طالع ء بیدارکے سینے میں دراڑ +کل شبِ ہجر میں طوفان کوئی آیا تھا +دیدہ ء نم سے پڑی یار کے سینے میں دراڑ +غم کے ملبے سے نکلتی ہوئی پہلی کوپنل +دیکھ باغیچہ ء مسمار کے سینے میں دراڑ +لفظ کی نوکِ سناں سے بھی کہاں ممکن ہے +وقت کے خانہ ء زنگار کے سینے میں دراڑ +بس قفس سے یہ پرندہ ہے نکلنے والا +نہ بڑھا اپنے گرفتار کے سینے میں دراڑ +شام تک ڈال ہی لیتے ہیں اندھیرے منصور +صبح کے جلوہ ء زرتار کے سینے میں دراڑ +وحشتیں اوڑھ ، انتظاری چھوڑ +اب تعلق میں بردباری چھوڑ +دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے +کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ +دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی +یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ +زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ +مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ +مردہ کتے کی دیکھ لے آنکھیں +مشورہ مان ، شہریاری چھوڑ +کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ +یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ +صبح کی طرح چل! برہنہ ہو +یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ +توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو +اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ +بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے +ظلم سے التجا گزاری چھوڑ +آج اس سے تُو معذرت کر لے +یہ روایت کی پاس داری چھوڑ +رکھ بدن میں سکوت مٹی کا +یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ +دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ +یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں +شہر ِغالب سے بھاگ جا منصور +میر جیسی غزل نگاری چھوڑ + + +اک راکھ کے بدن کو ہوا کی رپورتاژ +لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ +میں کھڑکیوں سے صبح کی پہلی کرن کے ساتھ +پڑھتا ہوں روز باد صبا کی رپورتاژ +تشکیل کائنات کی رودادِ گم شدہ +ہوگی کہاں پہ لوحِ خدا کی رپورتاژ +شاید ہے مانگنے کی جبلت وجود میں +لمبی ��ہت ہے دستِ دعا کی رپورتاژ +تقسیم کیا کروگے وسائل زمین کے +لکھتے رہو گے جرم و سزا کی رپورتاژ +لکھتے ہیں روز خونِ جگر کو نچوڑ کے +سورج کے ہاتھ شامِ فنا کی رپورتاژ +لاشوں بھری سرائے سے نکلے گی کب تلک +جانِ جہاں کے ناز و ادا کی رپورتاژ +پڑھتے بنام علم ہیں بچے سکول میں +بالِ ہما کے بختِ رسا کی رپورتاژ +شاید لبِ فرات پہ خوں سے لکھی گئی +اس زندگی کی نشو و نما کی رپورتاژ +برسوں سے نیکیوں کا فرشتہ رقم کرے +منصور صرف آہ و بکا کی رپورتاژ + + +روشنی کے خواب ، خوشبو کے دئیے تھے آس پاس +گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس +آ گئے ، اچھا کیا ، بھیگی ہوئی اِس شام میں +ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس +اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی +درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس +ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچئے، ہونٹوں پہ تھے +ہاتھ میرے ، آپ اتنا جانئیے ، تھے آس پاس +جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں +جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس +دیکھتی تھیں اسکی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش +زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس +اک فریب ِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ +چاند جیسے ناموں والے کالئے تھے آس پاس +رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا +اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس +نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے +اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس +اک سفر میں نے کیا تھا وادی ء تاریخ میں +بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس +جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں +اہل کوفہ اپنی دستاریں لئے تھے آس پاس +ہفتہ بھرسے کوئی بھی ’اطلا‘ نہیں منصور کی +فون پر کچھ رابطے میں نے کئے تھے آس پاس +{مجھے پورا یقین ہے کہ آنے والے زمانے میں اطلاع ۔ یا شروع یا اس طرح کے دوسرے الفاظ کے آخر سے عین نکال دی جائے گی} +سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس +پائوں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس +ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے +کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس +گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں +فون مردہ ہے مگر بسترِبیدار کے پاس +کس طرح برف بھری رات گزاری ہوگی +میں بھی موجود نہ تھا جسمِ طرح دار کے پاس +عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج +طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستارکے پاس +چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور +سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس +وہی رنگ رنگ کی اجرکیں ، وہی خوشبوئیں نہیں آس پاس +وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس +کہیں خشک سالی وصال کی کہیں آبِ لمس کا قحط ہے +وہ جو پیاس میری بجھاتے تھے وہی اب کنوئیں نہیں آس پاس +مرے دھوپ روپ دیار کے سبھی برف پوش مکان ہیں +وہ جو چمنیوں سے نکلتے تھے کبھی، وہ دھوئیں نہیں آس پاس +یہاں گرم ہاتھ کو پھیر مت ، یہاں لمس لمس بکھیر مت +جو مچلتے تھے ترے قرب سے وہی اب روئیں نہیں آس پاس +سبھی شوخ وشنگ لباس ہیں کوئی لازوال بدن نہیں +جنہیں آنکھیں چومیں خیال میں جنہیں لب چھوئیں نہیں آس پاس +کوئی رات اجلی وصال کی کوئی گیت گاتی سی بالیاں +میرے سانس سے جو دھک اٹھیں وہی اب لویں نہیں آس پاس +کس بھیانک زندگی کا رنج میرے آس پاس +اک سمندر میں بدلتی ہنج میرے آس پاس +کھوجتا پھرتا ہوں میں اسرار اپنی ذات کے +اور ان گلیوں میں داتا گنج میرے آس پاس +تھے مخالف بس مرے دونوں طرف کے لشکری +کیا عجب کھیلی گئی شطرنج میرے آس پاس +بہہ رہی تھی یاد کی سکرین پر دریا کے ساتھ +ناچتی گاتی ہوئی اک جنج میرے آس پاس +میرے ہونٹوں سے گرے جملے اٹھانے کیلئے +رہ رہے ہیں کتنے ب��لہ سنج میرے آس پاس +آئینے کو دیکھ کر رویا تو ازراہِ مذاق +وقت نے پھیلا دیا اسفنج میرے آس پاس +میرے سوا کسی کو بھی میسج ہوا تو بس +کردار ہم میں تیسرا حارج ہوا تو بس +آسیب سرسرائیں سمندر کی چاپ میں +لہروں سے ہمکلام یہ کاٹج ہوا تو بس +پانی میں بہہ گئے ہیں غربیوں کے صبح و شام +پھر آسماں زمیں کا معالج ہوا تو بس +تھوڑا سا دم چراغ کے چہرے میں رہ گیا +اس مرتبہ بھی صبح کو فالج ہوا تو بس +ابدال ایسا کشفِ مدارج ہوا تو بس +برسوں پھر اس کے بعد مجھے جاگنا پڑے +اک خواب میری نیند سے خارج ہوا تو بس +یہ روشنی ، یہ پھول ، یہ خوشبو ، یہ سات رنگ +جب بند لڑکیوں کا یہ کالج ہوا تو بس +میں جا رہا ہوں آپ کے کہنے پہ اس کے پاس +میرا خراب دوستو امج ہوا تو بس +منصور گفتگو ہے یہ پہلی کسی کے ساتھ +تجھ سے غلط حروفِ مخارج ہوا تو بس +وصل کی راتوں کا شب زندہ دار لباس +یار کا میں ہوں اور ہے میرا یار لباس +سوچ کی چپٰ میں سمٹی ہوئی اس دنیا کی +ٹیلی ویژن آنکھیں ہیں اخبار لباس +آدھے بدن پر ٹیبل لیمپ کا نیلا شیڈ +آدھے بدن پر رات کا جالی دار لباس +خواب بہت بوسیدہ ہوتے جاتے ہیں +آئو بدل لیں نیندوںکے اس پار لباس +ننگ دکھائی دے جاتا ہے درزوں سے +کہنے کو ہے گھر کی ہر دیوار لباس +تنہائی کی ڈیٹوں میں منصورآفاق +تیرے میرے بیچ رہا ہر بار لباس + + +مٹی مرا وجود ، زمیں میری جا نماز +پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز +اک دلنواز شخص نے دیکھا مجھے تو میں +قوسِ قزح پہ عصر کی پڑھنے لگا نماز +پڑھتے ہیںسر پہ دھوپ کی دستارباندھ کر +سایہ بچھا کے اپنا ہم اہلِ صفا نماز +لات و منات اپنے بغل میں لئے ہوئے +کعبہ کی سمت پڑھتی ہے خلقِ خدا نماز +تیرا ہے کوئی اور تعین مرا میں آپ +تیری جدا نماز ہے میری جدا نماز +جانے کب آئے پھر یہ پلٹ کر شبِ وصال +ہو جائے گی ادا تو عشاء کی قضا نماز +میں نے کہا کہ صبح ہے اب تو افق کے پاس +اس نے کہا تو کیجئے اٹھ کر ادا نماز +مت پوچھ کیسی خواہشِ دیدار تھی مجھے +برسوں میں کوہِ طور پہ پڑھتا رہا نماز +قرباں خیالِ گنبدِخضرا پہ ہیں سجود +میری دعا مدنیہ مقامِ حرا نماز +اس مختصر قیام میں کافی یہی مجھے +میرا مکاں درود ہے میرا دیا نماز +پندارِ جاں میں آئی ہیں تجھ سے ملاحتیں +تجھ سے ہوئے دراز یہ دستِ دعا نماز +اے خواجہ ء فراق ملاقات کیلئے +پھر پڑھ کنارِ چشمہ ئِ حمد و ثنا نماز +اے شیخ شاہِ وقت کے دربار سے نکل +دروازہ کر رہی ہے بغاوت کا وا نماز +اس کا خیال مجھ سے قضا ہی نہیں ہوا +لگتا ہے میرے واسطے منصور تھا نماز + + +تحیر خیز موسم کی ہوئی وجدان پر بارش +نظر دیوار سے گزری ، رکی ڈھلوان پر بارش +ترے پاگل کی باتیں اتفاقاتِ جہاں ہیں کیا +ہوئی ہے یوں ہی برسوں بعد ریگستان پر بارش +سراپا آگ !دم بھر کو مرے چہرے پہ نظریں رکھ +تری آنکھوں سے ہو گی تیرے آتش دان پر بارش +گرے تو پھول بن جائے ترے چہرے پہ مہتابی +پڑے تو آگ بن جائے ترے دامان پر بارش +کتابِ غم کو کتنی بار برساتوں میں رکھا ہے +نہیں پڑتی جنابِ میر کے دیوان پر بارش +وہ برساتیں پہن کر گائوں میں پھرتی ہوئی لڑکی +مجھے یاد آتی ہے اس سے مہکتی دھان پر بارش +محبت جاگتی ہے جب تو پھر ہوتی ہے سپنوں کی +مقام یاد پر بارش ، شبِ پیمان پر بارش +عدم آباد سے آگے خدا کی آخری حد تک +رہی ہے زندگی کی قریہ ء امکان پر بارش +گئے گزرے زمانے ڈھونڈتی بدلی کی آنکھوں سے +یونہی ہے اِس کھنڈر جیسے دلِ ویران پر بارش +کئی برسوں سے پانی کو ترستی تھی مری مٹی +کسی کا پائوں پڑتے ہی ہوئی دلان پر بارش +بڑی مشکل سے بادل گھیر لایا تھا کہیں سے میں +اتر آئی ہے اب لیکن مرے نقصان پر بارش +بہا کر لے گئی جو شہر کے کچے گھروندوں کو +نہیں ویسی نہیں ہے قصرِ عالی شان پر بارش +کہے ہے بادلو! یہ ڈوبتے سورج کی تنہائی +ذرا سی اہتمامِ شام کے سامان پر بارش +بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں سنہری بھاپ کی لہریں +اثر انداز کیا ہو لمس کے طوفان پر بارش +جلایا کس گنہ گارہ کو معصوموں کی بستی نے +کہ اتری بال بکھرائے ہوئے شمشان پر بارش +کسی مشہور نٹ کا رقص تھا اونچی حویلی میں +ہوئی اچھی بھلی نوٹوں کی پاکستان پر بارش +مجھے مرجھاتے پھولوں کا ذرا سا دکھ ہوا منصور +مسلسل ہو رہی ہے کانچ کے گلدان پر بارش + + +فردوس سے آگے ہے وہ سرچشمہ ء مخصوص +جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستہ ء مخصوص +اپنی تو رسائی نہیں اس بامِ فلک تک +معلوم کیا جائے کوئی بندہ ء مخصوص +اے شہرِ گداگر ترے والی کیلئے کیا +بنوانا ضروری ہے کوئی کاسہ ء مخصوص +انکارِ مسلسل کی فصیلیں ہیں جہاں پر +تسخیر کروں گا میں وہی رشتہ ء مخصوص +اک نرم سے ریشے کی کسی نس کے نگر میں +بس دیکھتا پھرتا ہوں ترا چہرہ ء مخصوص +کہتے ہیں کہ آسیب وہاں رہنے لگے ہیں +ہوتا تھا کسی گھر میں مرا کمرہ ء مخصوص +سنتے ہیں نکلتا ہے فقط دل کی گلی سے +منزل پہ پہنچ جاتا ہے جو جادہ ء مخصوص +لوگوں سے ابوزر کے روابط ہیں خطرناک +صحرا میں لگایا گیا پھر خیمہ ء مخصوص +ہنستے ہوئے پانی میں نیا زہر ملا کر +بھیجا ہے کسی دوست نے مشکیزہ ء مخصوص +آواز مجھے دیتا ہے گرداب کے جیسا +منصور سمندر میں کوئی دیدہ ء مخصوص +راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص +اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص +قوسِ قزح پہ کیسے مرے پائوں چلتے تھے +دھیمے سروں میں رنگ بہاتا تھا کون شخص +مٹی ہوں جانتا ہوں کہاں کوزہ گر کا نام +یہ یاد کب ہے چاک گھماتا تھا کون شخص +بادل برستے رہتے تھے جو دل کے آس پاس +پچھم سے کھینچ کر انہیں لاتا تھا کون شخص +ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز +شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص +کوئی دعا تھی ، یا کوئی نیکی نصیب کی +گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص +اس کہنہ کائنات کے کونے میں بیٹھ کر +کارِ ازل کے کشف کماتا تھا کون شخص +بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سی +وہ جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص +ہونٹوں کی سرخیوں سے مرے دل کے چاروں اور +داغ ِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص +پائوں سے دھوپ گرتی تھی جس کے وہ کون تھا +کرنوں کو ایڑیوں سے اڑاتا تھا کون شخص +وہ کون تھا جو دیتا تھا اپنے بدن کی آگ +ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قیامتیں +سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص +منصور بار بار ہوا کون کرچیاں +مجھ کو وہ آئینہ سا دکھاتا تھا کون شخص +صحرا کی سرخ آگ بجھاتا تھا کون شخص +دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص +تھا کون سوز سینہ ئ صدیق کا امیں +خونِ جگر سے دیب جلاتا تھا کون شخص +تھامے ہوئے عدالت ِ فاروق کا علم +پھر فتح نو کی آس جگاتا تھا کون شخص +تھا کون شخص سنتِ عثمان کا غلام +تقسیم زر کا فرض نبھاتا تھا کون شخص +وہ کون تھا شجاعتِ حیدر کا جانثار +وہ آتشِ غرور بجھاتا تھا کون شخص +ہر سمت دیکھتا ہوں سیاست کی مصلحت +شبیریوں کی آن دکھاتا تھا کون شخص +ہم رقص میرا کون تھا شہرِ سلوک میں +رومی کی قبر پر اسے گاتا تھا کون شخص +صدیوں سے جس کی قبر بھی بستی ہے زندہ ہے +یہ کون گنج بخش تھا داتا تھا کون شخص +ہوتا تھا کون وہ جسے منصور کہتے تھے +دار و رسن کو چومنے جاتا تھا کون شخص +آسیب میں چراغ جلاتا ہے کون شخص +تنہائی کے مکان میں آتا ہے کون شخص +جی چاہتا ہے اس سے ملاقات کو مگر +اجڑے ہووں کو پاس بٹھاتا ہے کون شخص +چلتا ہے کس کے پائوں سے رستہ بہار کا +موسم کو اپنی سمت بلاتا ہے کون شخص +جس میں خدا سے پہلے کا منظر دکھائی دے +وہ کافرانہ خواب دکھاتا ہے کون شخص +پھر اک ہزار میل سمندر ہے درمیاں +اب دیکھئے دوبارہ ملاتا ہے کون شخص +برسوں سے میں پڑا ہوں قفس میں وجود کے +مجھ کو چمن کی سیر کراتا ہے کون شخص +منصور صحن ِ دل کی تمازت میں بیٹھ کر +ہر روز اپنے بال سکھاتا ہے کون شخص +تھا کون ، صبحِ طور کا مسکن تھا کون شخص +کچھ پہلے کائنات سے روشن تھا کون شخص +تحریکِ کن فکاں کا سلوگن تھا کون شخص +بعد از خدا وجود میں فوراً تھا کون شخص +کس کا کہا خدا کا کہا ہے اک ایک لفظ +لوح و قلم کا خاک پہ درشن تھا کون شخص +بہتا ہے کس کے نام سے بادِ ازل کا گیت +آوازِ کُن کی صبح شگفتن تھا کون شخص +گجرے پُرو کے لائی تھی کس کے لئے زمیں +چیتر کی پہلی عصر کا جوبن تھا کون شخص +صحرا کی پیاس کون بجھاتا ہے اب تلک +منصور ریگزار میں ساون تھا کون شخص +دھکے ہوئے لحاف کا دامن تھا کون شخص +جاڑے میں رنگ و نور کا ایندھن تھا کون شخص +خود ہی میں گھیر لایا تھا اڑتا ہوا وہ تیر +میرے علاوہ زخم کا ساجن تھا کون شخص +کچھ یاد آرہا ہے محبت مجھے بھی تھی +مری نظر تھا کون وہ دھڑکن تھا کون شخص +ممکن نہیں ہے پھینکے وہ پتھر مری طرف +کھڑکی میں یار کی مرا دشمن تھا کون شخص +منصور بزمِ یار میں میری طرح وجیہہ +برخاستن سے پہلے وہ گفتن تھا کون شخص + + +مٹی ذرا سی قریہ ء لولاک کے عوض +دو گز زمین چاہئے افلاک کے عوض +جاگیر بھی حویلی بھی چاہت بھی جسم بھی +تم مانگتے ہو دامن ء صد چاک کے عوض +اِس شہر میں تو ایک خریدار بھی نہیں +سورج کہاں فروخت کروں خاک کے عوض +وہ پیٹ برگزیدہ ہیں میری نگاہ میں +جو بیچتے ہیں عزتیں خوراک کے عوض +مثلِ غبار پھرتا ہوں آنکھوں میں جھانکتا +اپنے بدن کی اڑتی ہوئی راکھ کے عوض +دے سکتا ہوں تمام سمندر شراب کے +بھونچال آئے تو کوئی دو روٹیاں نہ دے +میلوں تلک پڑی ہوئی املاک کے عوض +غالب کا ہم پیالہ نہیں ہوں ، نہیں نہیں +جنت کہاں ملے خس و خاشاک کے عوض +ہر روز بھیجنا مجھے پڑتا ہے ایک خط +پچھلے برس کی آئی ہوئی ڈاک کے عوض +جاں مانگ لی ہے مجھ سے سرِاشتیاقِ لمس +بندِ قبا نے سینہ ء بیباک کے عوض +کام آ گئی ہیں بزم میں غم کی نمائشیں +وعدہ ملا ہے دیدہ ء نمناک کے عوض +آیا عجب ہے مرحلہ شوقِ شکار میں +نخچیر مانگتا ہے وہ فتراک کے عوض +نظارہ ء جمال ملا ہے تمام تر +تصویر میں تنی ہوئی پوشاک کے عوض +منصور ایک چہرہ ء معشوق رہ گیا +پہنچا کہاں نہیں ہوں میں ادراک کے عوض + + +آنسوئوں کے عکس دیواروں پہ بکھرانا غلط +یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط +وہ پرندوں کے پروں سے نرم ، بادل سے لطیف +یہ چراغِ طور کے جلووں سے سنولانا غلط +جاگ پڑتے ہیں دریچے اور بھی کچھ چاپ سے +اس گلی میں رات کے پچھلے پہر جانا غلط +درد کے آتش فشاں تھم ، کانپتی ہیں دھڑکنیں +یہ مسلسل دل کے کہساروں کا پگھلانا غلط +کون واشنگٹن کو دے گا ایک شاعر کا پیام +قیدیوں کو بے وجہ پنجروں میں تڑپانا غلط +ان دنوں غم ہائے جاناںسے مجھے فرصت نہیں +اے غمِ دوراں ترا فی الحال افسانہ غلط +ایک دل اور ہر قدم پر لاکھ پیمانِ وفا +اپنے ماتھے کو ہر اک پتھرسے ٹکرانا غلط +ایک تجریدی تصور ہے یہ ساری کائنات +ایسے الجھے مسئلے بے کار۔ سلجھانا غلط +وقت کا صدیوں پرانا فلسفہ بالکل درست +یہ لب و عارض غلط ،یہ جام و پیمانہ غلط +کیا بگڑتا اوڑھ لی��ا جو کسی تتلی کی شال +شاخ پر کھلنے سے پہلے پھول مرجھانا غلط +کچھ بھروسہ ہی نہیں کالے سمندر پر مجھے +چاند کا بہتی ہوئی کشتی میں کاشانہ غلط +زندگی کیا ہے۔ ٹریفک کا مسلسل اژدھام +اس سڑک پر سست رفتاری کا جرمانہ غلط +جس کے ہونے اور نہ ہونے کی کہانی ایک ہے +اُس طلسماتی فضا سے دل کوبہلانا غلط +منہ اندھیرے چن کے باغیچے سے کچھ نرگس کے پھول +یار بے پروا کے دروازے پہ دھر آنا غلط +پھر کسی بے فیض سے کر لی توقع فیض کی +پھر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ پہچانا غلط +زندگی جس کیلئے میں نے لگا دی دائو پر +وہ تعلق واہمہ تھا ، وہ تھا یارانہ غلط +میں انالحق کہہ رہا ہوں اور خود منصور ہوں +مجھ سے اہل معرفت کو بات سمجھانا غلط +شیشہ ء جاں پھوڑ کر +آ گرے ہیں سین پر +بڑھ رہا ہے باغ میں + + +راکھ ہوئے ارمان ، خداحافظ +ایک بجا ہے رات کے چہرے پر +اچھا ، میری جان! خدا حافظ +رخت ِ سفر میں باندھ نہیں سکتا +جوشِ قدح سے آنکھیں بھرلی ہیں +رات کا خالی شہر بلاتا ہے +میں کیا جانوں میں کس اور گیا +اے دل اے انجان خدا حافظ +مان نہیں سکتا میں ہجر کی فال +حافظ کے دیوان خدا حافظ +تیرا قصبہ اب میں چھوڑ چلا +ساونت پوش مکان خدا حافظ +کالی رات سے میں مانوس ہوا +سورج کے امکان خدا حافظ +رات شرابی ہوتی جاتی ہے +میں ہوں شہر سخن کا آوارہ +علم و قلم کی شان خدا حافظ +خود کو مان لیا پہچان لیا +دل منصور چراغِ طور ہوا +موسیٰ کے ارمان خدا حافظ + + +صبح مانگی تو ملا تاریکیوں کا اجتماع +اور ان میں بھی کڑکتی بجلیوں کا اجتماع +میں ، میانوالی ، نظر کی جھیل ، جاں کا ریگزار +یار کی تصویر میں تھا منظروں کا اجتماع +گفتگو میں گمشدہ اقدار کا دن بھر ملال +ذہن میں شب بھر برہنہ لڑکیوں کا اجتماع +جمع ہیں حکمت بھری دنیا کے سارے پیشہ ور +کابل و قندھار میں ہے قاتلوں کا اجتماع +یاد کی مرغابیاں ، بگلے خیال و خواب کے +پانیوں پر دور تک اڑتے پروں کا اجتماع +ایک کافر کی زباں بہکی ہے میرے شہر میں +ہر گلی ہر موڑ پر ہے پاگلوں کا اجتماع +بس تمہی سے تھاپ پر بجتے دھڑکتے ہال میں +روشنی کے رقص کرتے دائروں کا اجتماع +جانتا ہوں دھوپ سے میرے تعلق کے سبب +آسماں پر ہے ابھی تک بادلوں کا اجتماع +بارشیں برساتِ غم کی ، میری آنکھیں اور میں +کوچہ ء جاں میں عجب ہے رحمتوں کا اجتماع +مجلسِ کرب و بلا کے آج زیر اہتمام +ہو رہا ہے شہر دل میں آنسوئوں کا اجتماع +شہر میں بیساکھیوں کے کارخانے کیلئے +رات بھر ہوتا رہا بالشتیوں کا اجتماع +ہاتھ کی الجھی لکیریں کس گلی تک آگئیں +ذہن کے دیوار پر ہے زاویوں کا اجتماع +چل پہن مایا لگا جوڑا ، چمکتی کھیڑیاں +دشمنوں کے شہر میں ہے دوستوں کا اجتماع +ایک پاگل ایک جاہل اک سخن نا آشنا +مانگتا ہے حرف میں خوش بختیوں کا اجتماع +ہیں کسی کے پاس گروی اپنی آنکھیں اپنے خواب +کیا کروں جو شہر میں ہے سورجوں کا اجتماع +رات کا رستہ ہے شاید پائوں میں منصور پھر +کر رہا ہے پھر تعاقب جگنووں کا اجتماع + + +ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف +وہ پائوں سوگئے جو بے ارادہ اٹھتے تھے +طواف کوچہ ئ جاناں پہ ، کوئے یار پہ تف +تجھ ایسے پھول کی خواہش پہ بار ہا لعنت +بجائے خون کے رکھتاہوں نوکِ خار پہ تف +دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے +اے میرے حسنِ نظر تیرے اعتبار پہ تف +پہنچ سکا نہیں اس تک جو میرے زخم کا نور +چراغ خون پہ تھو سینہ ئ فگار پہ تف +ہیں برگِ خشک سی شکنیں خزاں بکف بستر +مرے مکان میں ٹھہری ہوئی بہار پہ تف +کسی فریب سے نکلا ہے جا مٹھائی بانٹ +ترے ملا��ِ تری چشم اشکبار پہ تف +تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ مرگیا ہوں میں +اے میرے دوست ترے جیسے غمگسار پہ تف +یونہی بکھیرتا رہتا ہے دھول آنکھوں میں +ہوائے تیز کے اڑتے ہوئے غبار پہ تف +خود آپ چل کے مرے پاس آئے گا کعبہ +مقامِ فیض پہ بنتی ہوئی قطار پہ تف +حیات قیمتی ہے خواب کے دریچوں سے +صدا ہو صوتِ سرافیل تو مزہ بھی ہے +گلے کے بیچ میں اٹکی ہوئی پکار پہ تف +جسے خبر ہی نہیں ہے پڑوسی کیسے ہیں +نمازِ شام کی اُس عاقبت سنوار پہ تف +مری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے +امیرِشہر! تیرے عہدِ اقتدار پہ تف +ترے سفید محل سے جو پے بہ پے ابھرے +ہزار بار انہی زلزلوں کی مار پہ تف +ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی +ترے ضمیر پہ تھو،تیرے اختیار پہ تف +سنا ہے چادرِ زہرا کو بیچ آیا ہے +جناب شیخ کی دستارِِ بدقمار پہ تف +تُو ماں کی لاش سے اونچا دکھائی دیتا ہے +مرے گھرانے کی سنت یہی غریبی ہے +ترے خزانے پہ تھو مالِ بے شمار پہ تف +یہی دعا ہے ترا سانپ پر قدم آئے +ہزار ہا ترے کردارِ داغ دار پہ تف +کسی بھی اسم سے یہ ٹوٹتا نہیں منصور +فسردگی کے سلگتے ہوئے حصار پہ تف + + +قیام دار سہی آسمان پر آفاق +ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق +کسی نے آنا تھا لیکن بڑے مسائل تھے +بھرا ہوا تھا اجالوں سے رات بھر آفاق +کرن کی قوس افق در افق ملائے اسے +ہے آج اپنے ہی پہلو میں جلوہ گر آفاق +صراطِ سمت پہ رکھی ہوئی بصارت سے +تمام کیسے دکھائے مری نظر آفاق +بس اتنا ہے کہ بلندی پہ ہیں ذرا لیکن +ہمیشہ کھول کے رکھتا ہے اپنے در آفاق +نکالتا ہے مسلسل اسی کو دامن سے +ترے چراغ سے کرتا رہا سحر آفاق +یہ اور بات کہ سورج پہن کے رہتا ہے +مرے لئے میرا چھتنار سا شجر آفاق +ابھی بچھڑنے کی ساعت نہیں ڈیئر آفاق +ابھی تو پب میں پڑی ہے بہت بیئر آفاق +بس اس لئے کہ اسے دیکھنے کی عادت ہے +جلاتا روز ہے سورج کا لائیٹر آفاق +بدن نے آگ ابھی لمس کی نہیں پکڑی +ابھی کچھ اور کسی کا مساج کر آفاق +خدا سے کیوں نہ تعلق خراب میرا ہو +ہے ایک چھتری کی صورت اِدھر اُدھر آفاق +اُدھر پتہ ہی نہیں کچھ بہشت کا منصور +اِدھر زمیں کے نظاروں سے بے خبر آفاق + + +ہونٹوں بھری رکھ دی درِ انکارِ پہ دستک +دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک +اک شام پلٹ آئے ہیں یہ بات الگ ہے +دی پائوں نے برسوں رِہِ پُرخار پہ دستک +پھر رات کی رانی کا محل سامنے مہکے +پھر صبح کی چڑیوں بھری چہکار پہ دستک +کاندھے پہ کوئی بھیدوں بھری پوٹلی رکھ کر +دیتا ہے پھر امکان ابد زار پہ دستک +دم بھر کو نئی صبح کا اعلانیہ سن کر +دی اہلِ قفس نے گل و گلزار پہ دستک +بازار سے گزرا تو چہکتی ہوئی رت کی +تصویر نے دی جیبِ خریدار پہ دستک +کچھ ہاتھ کہیں اور سے آیا ہی نہیں ہے +دینا پڑی پھر عرشِ کرم بار پہ دستک +ممکن ہے ملاقات ہو آسیبِ بدن سے +اچھی طرح دے کمرہ ء اسرار پہ دستک +ہے فرض یہی تجھ پہ یہی تیری عبادت +اے خاک نسب خانہ ء سیار پہ دستک +درویش فقیری ہی کہیں بھول نہ جائے +ہے کون یہ دیتا ہے جو پندار پہ دستک +وہ دیکھئے دینے لگا پھر اپنے بدن سے +اٹھ دیکھ کوئی درد نیا آیا ہوا ہے +وہ پھر ہوئی دروازہ ء آزار پہ دستک +دشنام گلابوں کی طرح ہونٹوں پہ مہکیں +درشن کے لئے دے درِ دلدار پہ دستک +برسوں سے کھڑا شخص زمیں بوس ہوا ہے +یہ کیسی سمندر کی تھی کہسار پہ دستک +پانی مجھے مٹی کی خبر دینے لگے ہیں +اک سبز جزیرے کی ہے پتوار پہ دستک +افسوس ضروری ہے مرا بولنا دو لفظ +پھر وقت نے دی حجرہ ء اظہار پہ دستک +مایوسی کے عالم میں محبت کا مسافر +در چھوڑ کے دینے لگا دیوار پہ دستک +دی جائے سلگتی ہوئی پُرشوق نظر سے +کچھ دیر تو اس کے لب و رخسار پہ دستک +اب اور گنی جاتی نہیں مجھ سے یہ قبریں +اب دینی ضروری ہے کسی غار پہ دستک +منصور بلایا ہے مجھے خواب میں اس نے +دی نیند نے پھر دیدہ ء بیدار پہ دستک + + +شب زندہ دار خواب ، عشائے نماز لوگ +آئے نہیں دعائے تہجد کے بعض لوگ +کھلنے لگے تھے پھول گریباں کے چاک سے +لوٹ آئے دشتِ یاد سے ہم بے نیاز لوگ +دونوں کا ایک بیج ہے دونوں کی ایک شاخ +یونہی یہ خار و گل میں کریں امتیاز لوگ +کیسی عجیب شے ہیں یہ چہرے کے خال وخد +دل میں بسے ہوئے ہیں کئی بدلحاظ لوگ +پہلے پہل تھے میرے اجالے سے منحرف +کرتے ہیں آفتاب پہ اب اعتراض لوگ +ہر شخص بانس باندھ کے پھرتا ہے پائوں سے +نکلیں گھروں سے کس طرح قامت دراز لوگ +صبحوں کو ڈھانپتے پھریں خوفِ صلیب سے +کالک پرست عہد میں سورج نواز لوگ +پتھر نژاد شہر! غنیمت سمجھ ہمیں +ملتے کہاں ہیں ہم سے سراپا گداز لوگ +منصور اب کہاں ہیں ہم ایسے ، دیار پر +غالب مثال آدمی ، احمد فراز لوگ + + +بڑی سست رفتاریوں سے بھلے چل +محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل +وہاں گھر ہے دریا جہاں ختم ہوگا +چلے چل کنارے کنارے چلے چل +خدا جانے کب پھر ملاقات ہوگی +ٹھہر مجھ سے جاتے ہوئے تو ملے چل +میں تیرے سہارے چلا جا رہا ہوں +ذرا اور ٹوٹے ہوئے حوصلے چل +نئے ساحلوں کے مسائل بڑے ہیں +تُو پچھلی زمیں کی دعا ساتھ لے چل +اکیلا نہ منصور رہ کیرواں میں +محبت کے چلنے لگے قافلے چل +یہ تیرا خار بھی ہے محوِ خواب شاخ ِ گل +ذرا سمیٹ بدن کے گلاب شاخ ِ گل +مرے نصیب میں کانٹوں کی فصل آئی تھی +نہ مانگ مجھ سے گلوں کا حساب شاخ ِ گل +مری بہار کے بارے نہ پوچھا کر مجھ سے +ہے جھوٹ بولنا مجھ پہ عذاب شاخ ِ گل +کنارِ آب رواں ہمسفر زمانوں سے +خرامِ زندگی ، موجِ کتاب ، شاخ ِ گل +ورق ورق پہ پڑی ہیں شعاعیں خوشبو کی +کتاب زیست کا ہے انتساب شاخ ِ گل +خزاں کی شام ملی ہے مجھے تو گلشن میں +کہاں پہ آتا ہے تجھ پہ شباب شاخِ گل +تلاش میں ہیں ہوائیں بہار کی منصور +کہاں لہکتی ہے خانہ خراب شاخ گل +اے میری نرم گرم بہشت ِجوان سال +چہرے کے ڈوبتے ہوئے فردوس کو اجال +ہنزہ کے نور سیبو دسمبرکی نرم دھوپ +نارنجی کر رہی ہے تمہارے سفید گال +کچھ فیض قربتوں کے بھی ہوتے تو ہیں مگر +ہے بند پارٹنر سے ابھی تک تو بول چال +لب پر ہیں قہقہے کسی ناکام ضبط کے +دل میں بھرا ہوا ہے قیامت کا اک ملال +ہر چند گفتگو ہے توسط سے فون کے +لیکن نگاہ میں ہیں خیالوں کے خدو خال +کیا کھولتی ہو پوٹلی ان پڑھ فقیر کی +بازار سے خرید کے لایا ہوں کچھ سوال +منصور احیتاط سے چاہت کے بول، بول +لڑکوں سے اسکے کام ہیں مردوں سے اسکے بال + + +اب آسماں نژاد بلائوں کا خوف ختم +بجلی کے ہیں چراغ ، ہوائوں کا خوف ختم +تلوئوں تلے لگا لئے سیارے وقت نے +ہر لمحہ سوچتے ہوئے پائوں کا خوف ختم +بادل بڑے گرجتے ہیں باراں بکف مگر +سینہ نہیں دھڑکتا، خدائوں کا خوف ختم +اک چشمہ ء شعور پہ اپنی رگوں کے بیچ +ہم شیر مار آئے ہیں، گائوں کا خوف ختم +سورج تراش لائے ہیں صحن ِعلوم سے +سہمی ہوئی سیاہ فضائوں کا خوف ختم +ہم نے طلسم توڑ لیا ہے نصیب کا +جادو نگر کی زرد دعائوں کا خوف ختم +اب شرم سار ہوتی نہیں ہے سنہری دھوپ +پلکوں پہ سرسراتی گھٹائوں کا خوف ختم +دروازہ ء وصال کے قبضے اکھڑ گئے +شام ِ فراق والی سزائوں کا خوف ختم +کوہ ندا کے کھل گئے اسرار آنکھ پر +آسیب ِ آسماں کی صدائوں کا خوف ختم +اپنا لی اپنے عہد نے تہذیب جین کی +اکڑی ہوئی قدیم قبائوں کا خوف ختم +ہم رقص کائنات ہے منصور ذات سے +اندر کے بے کنار خلائوں کا خوف ختم +وہ غم وہ بے کسی وہ لہو کا سفر وہ شام +بازارِ شام پر نہ ہو بارِ دگر وہ شام +ظالم شکاریوں کے نئے فائروں کی گونج +سہمے ہوئے پرندوں کا وہ مستقر وہ شام +وہ ساعتِ جدائی وہ ہجراں نگر وہ شام +اس دل میں حوصلہ تو بہت تھا مگر وہ شام +شانوں پہ اک خیال کے گیسو گرے ہوئے +وہ باغِ خامشی وہ عدم کا ثمر وہ شام +رکھے ہیں بام چشم پہ میں نے بھی کچھ چراغ +پھر آ رہی ہے درد پہن کر اگر وہ شام +شانوں پہ پھر فراق کی زلفیں بکھیر کر +افسردہ سی اداس سی آئی ہے گھر وہ شام +گرنی تو تھی افق میں گلابوں کی سرخ شاخ +لیکن گری کہیں بہ طریق دگر وہ شام +مژگاں کی نوک نوک پہ آویختہ کرے +منصور کاٹ کاٹ کے لختِ جگر وہ شام + + +اتنی جمیل صبحِ شگفتن پہ ایسا داغ +ظلم عظیم ۔۔یار کے دامن پہ ایسا داغ +توبہ یہ وارداتِ فلسطین ، کیا کہوں +اس عہدِ با شعور کے جوبن پہ ایسا داغ +ابھراہے آئینہ سے جو تیرے سلوک پر +لگتا ہے چشم مہر میں پھاگن پہ ایسا داغ +ایسا تو کچھ نہیں مرے دل کے مکان میں +کیسے لگاہے دستِ نقب زن پہ ایسا داغ +حیرت ہے بارشوں کے مسلسل فروغ میں +رہ جائے آنسوئوں بھرے ساون پہ ایسا داغ +لگتا ہے انتظار کے چپکے ہیں خدو خال +دیکھا نہیں کبھی کسی چلمن پہ ایسا داغ +جس میں دھڑکتے لمس دکھائی دیں دور سے +اس نے بنا دیا میری گردن پہ ایسا داغ +ہونٹوں کے یہ نشان مٹا دو زبان سے +اچھا نہیں ہے دودھ کے برتن پہ ایسا داغ +جیسے پڑا ہوا ہے لہو میرا روڈ پر +کیسے لگا ہے رات کے مدفن پہ ایسا داغ +جس میں مجھے اترنا پڑے اپنی سطح سے +کیسے لگائوں دوستو دشمن پہ ایسا داغ +یہ کیا پرو دیا ہے پرندے کو شاخ میں +زیتون کے سفید سلوگن پہ ایسا داغ +بعد از بہار دیکھا ہے میں نے بغور دل +پہلے نہ تھا صحیفہ ء گلشن پہ ایسا داغ +اب تو تمام شہر ہے نیلا پڑا ہوا +پہلے تھا صرف چہرہ ء سوسن پہ ایسا داغ +شاید ہے بدعا کسی مجذوب لمس کی +منصور میرے سینہ ء روشن پہ ایسا داغ + + +چل پڑے دار و رسن کو ہستے ہستے سینکڑوں +دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں +یہ پہنچ جاتے ہیں کیسے خاکِ طیبہ کے غلام +آسمانوں تک بیک براق جستے سینکڑوں +روک سکتی ہیں یہ کانٹے دار باڑیں کیا مجھے +چلنے والے کیلئے ہوتے ہیں رستے سینکڑوں +میرے صحرا تک پہنچ پائی نہ بدلی آنکھ کی +تیرے دریا پر رہے بادل برستے سینکڑوں +دل کی ویرانی میں اڑتا ہے فقط گرد و غبار +کیسے ممکن تھا یہاں بھی لوگ بستے سینکڑوں +میں لگا دوں آئینے گلیوں میں کیسے سینکڑوں +عکس ابھریں گے وہاں ہر ایک شے سے سینکڑوں +کم نہیں دکھ تیرے جانے کا مگر جانِ بہار +زخم میرے دل میں پہلے بھی ہیں ایسے سینکڑوں +اس کی آنکھوں نے کسے لوٹا ہے اس کو کیا خبر +اس کو رستے میں ملیں گے میرے جیسے سینکڑوں +روح کی حیرت زدہ آواز آتی ہی نہیں +وائلن کے تار لرزاں مجھ میں ویسے سینکڑوں +اک اکیلا تشنہ لب ہوں میں کنویں کے آس پاس +پھرتے ہیں منصور بے خود تیری مے سے سینکڑوں +روشنی کے ، رنگ و بو کے آستانے سینکڑوں +میری جاں ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں +اک ترے بالوں کی وہ دو چار میٹر لمبی لٹ +اک ترے شاداب جوبن کے فسانے سینکڑوں +صبح تازہ دودھ جیسی رات قہوے کی طرح +روٹی جیسے چاند پر گزرے زمانے سینکڑوں +چھین کے گل کر دئیے بامِ خیال و خواب سے +تیری یادوں کے دئیے پاگل ہوا نے سینکڑوں +صرف تیرے قرب کا پل دسترس سے دور ہے +زندگی میں آئے ہیں لمحے سہانے سینکڑوں +میرے ساتھی میرے پیارے میرے ا��نے سینکڑوں +مجھ میں پھر بھی دکھ کسی کے ہیں پنپنے سینکڑوں +اور کیا حاصل ہوا ہے روز وشب کی نیند سے +چند تعبیریں غلط سی اور سپنے سینکڑوں +یہ بھی میرا مسئلہ ہے لوگ اچھے کیوں نہیں +دکھ دئیے ہیںخواب پرودہ تڑپ نے سینکڑوں +گل کئے پھر اپنے آسودہ گھرندوں کے چراغ +دو ممالک کی کسی تازہ جھڑپ نے سینکڑوں +رات کے دل میں لکھیں نظمیں بیاضِ صبح پر +بھاپ اٹھتی چائے کے بس ایک کپ نے سینکڑوں +پل صراطِ آسماں پر چل رہے تھے سینکڑوں +ایک چہرے کے پس ِ منظر میں چہرے سینکڑوں +جمع ہیں نازل شدہ انوار کتنے شیلف میں +معجزے حاصل ہوئے لاحاصلی کے سینکڑوں +چاند پہ ٹھہرو ، کرو اپنے ستارے پر قیام +رات رہنے کیلئے سورج پہ خیمے سینکڑوں +صفر سے پہلا عدد معلوم ہونا ہے ابھی +ہیں ریاضی میں ابھی موجود ہندسے سینکڑوں +میں کہاں لاہور بھر میں ڈھونڈنے جائوں اسے +لال جیکٹ میں حسین ملبوس ہونگے سینکڑوں +شہر کی ویراں سڑک پر میں اکیلا رتجگا +سورہے ہیں اپنی شب گاہوں میں جوڑے سینکڑوں +مال و زر ، نام و نسب ، قاتل ادا ، دوشیزگی +میں بڑا بے نام سا ، تیرے حوالے سینکڑوں +کیوں بھٹکتی پھر رہی ہے میرے پتواروں کی چاپ +خامشی تیرے سمندر کے کنارے سینکڑوں +کوئی بھی آیا نہیں چل کر گلی کے موڑ تک +دیکھنے والوں نے کھولے ہیں دریچے سینکڑوں +مرے نہیں تو کسی کے ملال گھٹ جائیں +کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں +تمہارے ظرف سے ساتھی گلہ نہیں کوئی +پہاڑ مجھ سے محبت کریں تو پھٹ جائیں +ترے بدن پر لکھوں نظم کوئی شیلے کی +یہ زندگی کے مسائل اگر نمٹ جائیں +میں رہ گیا تھا سٹیشن پہ ہاتھ ملتے ہوئے +مگر یہ کیسے کہانی سے دو منٹ جائیں +اے ٹینک بان یہ گولان کی پہاڑی ہے +یہاں سے گزریں تو دریا سمٹ سمٹ جائیں +زمینیں روندتا جاتا ہے لفظ کا لشکر +نئے زمانے مری گرد سے نہ اٹ جائیں +چرا لوں آنکھ سے نیندیں مگر یہ خطرہ ہے +کہ میرے خواب مرے سامنے نہ ڈٹ جائیں +گھروں سے لوگ نکل آئیں چیر کے دامن +اب اس کے بعد دھانہ ہے بس جہنم کا +جنہیں عزیز ہے جاں صاحبو پلٹ جائیں +ہزار زلزلے تجھ میں سہی مگر اے دل +یہ کوہسار ہیں کیسے جگہ سے ہٹ جائیں +مرا تو مشورہ اتنا ہے صاحبان ِ قلم +قصیدہ لکھنے سے بہتر ہے ہاتھ کٹ جائیں +وہ اپنی زلف سنبھالے تو اس طرف منصور +کھلی کتاب کے صفحے الٹ الٹ جائیں +مسلسل چاک کے محور پہ میں ہوں +مسلسل کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں +تُو مجھ کو دیکھ یا صرف ِ نظر کر +مثالِ گل ترے کالر پہ میں ہوں +سبھی کردار واپس جا چکے ہیں +اکیلا وقت کے تھیٹر پہ میں ہوں +صلائے عام ہے تنہائیوں کو +محبت کیلئے منظر پہ میں ہوں +پھر اس کے بعد لمبا راستہ ہے +ابھی تو شام تک دفتر پہ میں ہوں +اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو +فقط دو سو کلو میٹر پہ میں ہوں +مجھے بھی رنگ کر لینا کسی دن +ابھی کچھ دن اسی نمبر پہ میں ہوں +بجا تو دی ہے بیل میں نے مگراب +کہوں کیسے کہ تیرے در پہ میں ہوں +ازل سے تیز رو بچے کے پیچھے +کسی چابی بھری موٹر پہ میں ہوں +پڑا تمثیل سے باہر ہوں لیکن +کسی کردار کی ٹھوکر پہ میں ہوں +کہے مجھ سے شبِ شہر نگاراں +ابھی تک کس لئے بستر پہ میں ہوں +یہی ہر دور میں سوچا ہے میں نے +زمیں کے آخری پتھر پہ میں ہوں +ہلا منصور مت اپنی جگہ سے +پہاڑ ایسا خود اپنے سر پہ میں ہوں +ڈال دی اس نے محبت کی نئی سم مجھ میں +ایک ہی رابطہ رہنے لگا قائم مجھ میں +اس کی آنکھوں سے مجھے ہوتا ہے کیا کیا معلوم +کون کرتا ہے یہ جذبوں کے تراجم مجھ میں +روح تک جکڑی ہوئی ہے میری زنجیروں میں +کم نہیں ایک تعلق کے مظالم مجھ میں +گھونٹ دیتا ہے گلہ روز مرے خوابوں کا +کوئی رہتا ہے خطرناک سا مجرم مجھ میں +بخش کے مجھ کو تہی دامنی دنیا بھر کی +رکھ دیا درد بھرا سینہ ٗء حاتم مجھ میں +چھو کے دیکھوں تو مرے ہاتھ پہ رہ جاتی ہیں +اس قدر خواہشیں ہیں نرم و ملائم مجھ میں +جانے کب آتا ہے ہونٹوں پہ کرامت بن کر +کروٹیں لیتا ہے اک نغمہ ئ خاتم مجھ میں +اس کے آنسو مری بخشش کیلئے کافی ہیں +وہ جو بہتا ہے کوئی چشمہ ء نادم مجھ میں +میں نے چپکائی ہے کاغذ پہ سنہری تتلی +اب بھی پوشیدہ ہے شاید کوئی ظالم مجھ میں +کتنی قبروں پہ کروں فاتحہ خوانی منصور +مر گئے پھر مرے کچھ اور مراسم مجھ میں +جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں +برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں +ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی +خوشبوئیں بولتی ہیں رنگ وہاں سنتے ہیں +ایک ویرانہ ہے ، قبریں ہیں ، خموشی ہے مگر +دل یہ کہتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں +زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید +آنکھ رکھتے ہیں شجر ، بات بھی ، ہاں سنتے ہیں +تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ +ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں +بیٹھ کر ہم بھی ذرا ذاتِ حرا میں منصور +وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں ، سنتے ہیں +رات کا شور ، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں +نورکے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں +ایک سقراط نے زنجیر بپا آنا ہے +دوستو آئو عدالت میں بیاں سنتے ہیں +کیوں پلٹتی ہی نہیں کوئی صدا کوئی پکار +یہ تو طے تھا کہ مرے چارہ گراں سنتے ہیں +اب بدلنی ہے شب و روز کی تقویم کہ لوگ +شام کے وقت سویرے کی اذاں سنتے ہیں +ایسے منفی تو لب ودیدہ نہیں ہیں اس کے +کچھ زیادہ ہی مرے وہم گماں سنتے ہیں +بات کرتی ہے ہوا مری نگہ سے منصور +اور رک رک کے مجھے آبِ رواں سنتے ہیں +کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں +تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں +عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے +نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں +اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری +نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں +بس اس خیال سے منزل پہن لی پائوں نے +ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں +تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے +یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں +اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں +گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں +ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا +ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں +کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں +ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں +ہراک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں +تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں +ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں +ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں +ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے +کئے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں +کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے +تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں +ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں +بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں +اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی +کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں +بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے +بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں +بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی +کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں +دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور +یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں +پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں +پھرکہیں اور مر رہا ہوں میں +جانتا ہوں منافقت کے گُر +شہر میں معتبر رہا ہوں میں +رابطے سانپ بنتے جاتے تھے +رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں +رات کچھ اور انتظار مرا +آسماں پر ابھر رہا ہوں میں +ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور +زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں +آخری بس بھی جانے وا��ی ہے +اور تاخیر کر رہا ہوں میں +بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں +تجھ کو معلوم میری وحشت بھی +تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں +تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں +کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں +کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں +خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں +ہم چوک چوک سرخ اشاروں میں قید ہیں +قانون کے جدید دیاروں میں قید ہیں +جنگل میں لومڑی کی شہنشاہی ان دنوں +بیچارے شیر اپنے کچھاروں میں قید ہیں +یہ سبز میز پوش پہ بکھرے ہوئے خیال +دراصل چند فرضی بہاروں میں قید ہیں +بے حد و بے کراں کا تصور بجا مگر +سارے سمندر اپنے کناروں میں قید ہیں +منصور زر پرست ہیں فالج زدہ سے جسم +یہ لوگ زرق برق سی کاروں میں قید ہیں +آخرِ شب کی بے کلی اور میں +تیرا وعدہ تری گلی اور میں +دل سے اٹھتے ہوئے دھویں کے قریب +ایک لکڑی سی ادھ جلی اور میں +گفتگو میں مگن علی اور میں +رات کو کاٹتے ہیں چاقو سے +شہر کی ایک باولی اور میں +شام کے ساتھ ساتھ بہتے تھے +ایک سپنے میں سانولی اور میں +عارض و لب کی دلکشی اور لوگ +ایک تصویر داخلی اور میں +حاشیوں سے نکلتا اک چہرہ +چند ریکھائیں کاجلی اور میں +مائی بھاگی کی گائیکی اور میں +رو رہے ہیں سرائیکی اور میں +مسکراہٹ سے کانپ جاتے ہیں +میری افسردہ سائیکی اور میں +آم کے پیڑ لے کے پھرتا ہوں +ایک کوٹھی کرائے کی اور میں +کتنے کپڑوں کے جوڑے لے آیا +اس نے دعوت دی چائے کی اور میں +زلف کی دوپہر کے سائے میں +شام عبرت سرائے کی اور میں +کتنی صدیوں سے ہوں تعاقب میں +ایک آواز سائے کی اور میں +آسماں کی برابری اور میں +رو پڑے میری کافری اور میں +چار سو ہیں دعا کے گلدستے +بیچ میں آخری جری اور میں +لفظ کی بے بسی کی بستی میں +چشم و لب کی سخن وری اور میں +اپنی اپنی تلاش میں گم ہیں +عمر بھر کی مسافری اور میں +مر گیا اختتام سے پہلے +اک کہانی تھی متھ بھری اور میں +کچھ نہیں بانٹتے تناسب سے +میرا احساس برتری اور میں +ایک فیری کے خالی عرشے پر +رقص کرتی تھی جل پری اور میں +فہمِ منصور سے تو بالا ہے +یہ تری بندہ پروری اور میں +ریگِ صحرا کی سنسنی اور میں +اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں +تیرے نقش قدم کی کھوج میں ہیں +آج بھی تھل میں چاندنی اور میں +تیرا کمرہ ، دہکتی انگیٹھی +برف پروردہ روشنی اور میں +چند فوٹو گراف آنکھوں کے +دیکھتے ہیں شگفتنی اور میں +لائٹیں آف ، لائنیں انگیج +ایک کمرے میں کامنی اور میں +گنگ بیٹھا ہوا ہوں پہروں سے +ایک تصویر گفتنی اور میں +اک لباسِ نمائشی اور میں +تازہ چھلکوں کی دلکشی اور میں +ایک اجڑی ہوئی گلی میں چپ +کچھ پرانے رہائشی اور میں +جانے کس سمت چلتے جاتے ہیں +قبر سی رات ، خامشی اور میں +خاک کی جستجو میں پھرتے ہیں +ایک اڑتا ہوا رشی اور میں +نامراد آئے کوچہ ئ جاں سے +میرا ہر اک سفارشی اور میں +اپنے اپنے محاذ پر منصور +ایک معلون سازشی اور میں +تاریخ ساز ’’لوٹ‘‘ کوئی دیکھتا نہیں +بندوق کے سلوٹ کوئی دیکھتا نہیں +رقصاں ہیں ایڑیوں کی دھنوں پر تمام لوگ +کالے سیاہ بوٹ کوئی دیکھتا نہیں +انصاف گاہ تیرے ترازو کے آس پاس +اتنا سفید جھوٹ کوئی دیکھتا نہیں +چکلالہ چھاونی کی طرف ہے تمام رش +اسلام آباد روٹ کوئی دیکھتا نہیں +طاقت کے آس پاس حسینائوں کا ہجوم +میرا عوامی سوٹ کوئی دیکھتا نہیں +سب دیکھتے ہیں میری نئی کار کی طرف +چہرے کی ٹوٹ پھوٹ کوئی دیکھتا نہیں +وہ آنجہانی پائوں وہ مرحوم ایڑیاں +رقاصہ کی دکھائی دیں منظوم ایڑیاں +ہرانچ دکھ پڑے ہیں گئی گزری دھول کے +ہر فٹ زمیں کے ماتھے کا مقسوم ایڑیاں +ہر روز تارکول کی سڑکیں بناتی ہیں +ہاری ہوئی پھٹی ہوئی محروم ایڑیاں +غالب تھا ہمسفر سو اذیت بہت ہوئی +کہتی ہیں دو اٹھی ہوئی مظلوم ایڑیاں +سنگیت کے بہائو پہ شاید صدا کا رقص +گوگوش کی سٹیج پہ مرقوم ایڑیاں +پیاسا کہیں فرات کا ساحل پڑا رہے +چشمہ نکال دیں کہیں معصوم ایڑیاں +چلنے لگے ہیں پنکھے ہوائوں کے دشت میں +ہونے لگی ہیں ریت پہ معدوم ایڑیاں +پاتال کتنے پائوں ابھی اور دور ہیں +ہر روز مجھ سے کرتی ہیں معلوم ایڑیاں +لکھنے ہیں نقش ِ پا کسی دشت ِ خیال میں +منصور میرے گھر میں پہنچتی ہیں پچھلی رات +اڑتی ہے جن سے دھوپ وہ مخدوم ایڑیاں +اِدھر نہ آئیں ہوائوں سے کہہ رہا ہوں میں +کہ راکھ راکھ تعلق میں رہ رہا ہوں میں +طلوع ِوصل کی خواہش بھی تیرہ بخت ہوئی +فراقِ یار کے پہلو میں گہہ رہا ہوں میں +مرا مزاج اذیت پسند ہے اتنا +ابھی جو ہونے ہیں وہ ظلم سہہ رہا ہوں میں +یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے +کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں +مجھے بھلانے کی کوشش میں بھولتے کیوں ہو +کہ لاشعور میں بھی تہہ بہ تہہ رہا ہوں میں +گھروں کے بیچ اٹھائی تھی جو بزرگوں نے +کئی برس سے وہ دیوار ڈھ رہا ہوں میں +کنارِ اشکِ رواں توڑ پھوڑ کر منصور +خود آپ اپنی نگاہوں سے بہہ رہا ہوں میں +بارش سے سائیکی کے سخن دھو رہا ہوں میں +بادل کے ساتھ ساتھ یونہی رو رہا ہوں میں +دیکھا ہے آج میں نے بڑا دلربا سا خواب +شاید تری نظر سے رہا ہو رہا ہوں میں +اچھے دنوں کی آس میں کتنے برس ہوئے +خوابوں کے آس پاس کہیں سو رہا ہوں میں +میں ہی رہا ہوں صبح کی تحریک کا سبب +ہر دور میں رہین ِ ستم گو رہا ہوں میں +لایا ہے کوئی آمدِ دلدار کی نوید +اور بار بار چوم کسی کو رہا ہوں میں +ابھرے ہیں میرے آنکھ سے فرہنگِ جاں کے رنگ +تصویر کہہ رہی ہے پکاسو رہا ہوں میں +سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں +سورج دکھائی دے شبِ خانہ خراب میں +تجھ ایسی نرم گرم کئی لڑکیوں کے ساتھ +میں نے شبِ فراق ڈبو دی شراب میں +آنکھیں ، خیال ، خواب ، جوانی ،یقین، سانس +کیا کیا نکل رہا ہے کسی کے حساب میں +قیدی بنا لیا ہے کسی حور نے مجھے +یوں ہی میں پھر رہا تھا دیار ثواب میں +مایوس آسماں ابھی ہم سے نہیں ہوا +امید کا نزول ہے کھلتے گلاب میں +دیکھوں ورق ورق پہ خدوخال نور کے +سورج صفت رسول ہیں صبحِ کتاب میں +سیسہ بھری سماعتیں بے شک مگر بڑا +شورِ برہنگی ہے سکوتِ نقاب میں +جسم پر نقش گئے وقت کے آئے ہوئے ہیں +عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں +ہم سمجھتے ہیں بہت ، لہجے کی تلخی کو مگر +تیرے کمرے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں +دیکھ مت بھیج یہ میسج ہمیں موبائل پر +ہم کہیں دور بہت روٹھ کے آئے ہوئے ہیں +ہم نہیں جانتے روبوٹ سے کچھ وصل وصال +ہم ترے چاند پہ شاید نئے آئے ہوئے ہیں +پھر پگھلنے کو ہے بستی کوئی اٹیم بم سے +وقت کی آنکھ میں کچھ سانحے آئے ہوئے ہیں +ڈھونڈنے کے لئے گلیوں میں کوئی عرش نشیں +تیرے جیسے تو فلک سے بڑے آئے ہوئے ہیں +ہم سے چرواہوں کو تہذیب سکھانے کیلئے +دشت میں شہر سے کچھ بھیڑے آئے ہوئے ہیں +ہم محبت کے کھلاڑی ہیں سنوکر کے نہیں +کھیل منصور یونہی کھیلنے آئے ہوئے ہیں +تیرے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں +ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں +سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ +چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں +یہ عجب ہے کہ مرے بلب بجھانے کے لئے +آسماں تیرے ستاروںکے خزانے لگ جائیں +خوبصورت بھی ، اکیلی بھی ، پڑوسن بھی ہے +لیکن اک غیرسے کیاملنے ملانے لگ جائیں +مجھ میں کیوں فلم کے سنسر شدہ گانے لگ جائیں +پل کی ری��نگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور +بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں +کھلا گیا کوئی آسیب زار کمرے میں +سنائی دیتا ہے اب تک گٹار کمرے میں +یہ شیمپین یہ کینڈل یہ بے شکن بستر +پڑا ہوا ہے ترا انتظار کمرے میں +یہ رات کتنے نصیبوں کے بعد آئی ہے +ذرا ذرا اسے دن بھر گزار کمرے میں +دکھائی دی تھی مجھے ایک بار پرچھائیں +پلٹ پلٹ کے گیا بار بار کمرے میں +جو میں نے کروٹیں قالین پر بچھائی تھیں +وہ کر رہی ہے انہیں بھی شمار کمرے میں +تمام رات تعاقب کریں گی دیواریں +نہیں ہے قید سے ممکن فرار کمرے میں +چھپا رہا تھا کسی سے دھویں میں اپناآپ +میں پی رہا تھا مسلسل سگار کمرے میں +کون ٹینس کھیلتی جاتی تھی وجد و حال میں +کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں +جانے کس نے رات کا خاکہ اڑایا اس طرح +چاند کا پیوند ٹانکا اس کی کالی شال میں +ایک کوا پھڑ پھڑا کر جھاڑتا تھا اپنے پر +تھان لٹھے کے بچھے تھے دور تک چترال میں +لوگ مرتے جا رہے تھے ساحلوں کی آس پر +نائو آتی جا رہی تھی پانیوں کے جال میں +کوئی پتھر کوئی ٹہنی ہاتھ آتی ہی نہیں +گر رہا ہوں اپنے اندر کے کسی پاتال میں +جن گناہوں کی تمنا تنگ کرتی تھی مجھے +وہ بھی ہیں تحریر میرے نامہ ئ اعمال میں +میں نے یہ منصوردیکھااس سے مل لینے کے بعد +اپنی آنکھیں بچھ رہی تھیں اپنے استقبال میں +باقی سب چیزیں تو رکھی ہیں اٹیچی کیس میں +میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں +زندگی کی دوڑ ہے اور دوڑنا ہے عمر بھر +شرط گھوڑا جیت سکتا ہی نہیں ہے ریس میں +رقص کرتی لڑکیاںمیوزک میں تیزی اورشراب +نیکیاں ملتی ہیں مجھ سے کیوں بدی کے بھیس میں +میں برہنہ گھومتا تھا ہجر کی فٹ پاتھ پر +رات جاڑے کی اکیلی سو گئی تھی کھیس میں +کیوں بدلتا جا رہا ہے روح کا جغرافیہ +کون سرحد پار سے آیا بدن کے دیس میں +بلا کا ضبط تھا دریا نے کھو دیا مجھ میں +مجھے جو ولولے دیتا تھا رو دیا مجھ میں +شب ِ سیاہ کہاں سے رگوں میں آئی ہے +تڑپ رہا ہے کوئی آج تو دیا مجھ میں +عجیب کیف تھا ساقی کی چشم رحمت میں +شراب خانہ ہی سارا سمو دیا مجھ میں +رکھا ہے گنبد ِخضرا کے طاق میں شاید +بلا کی روشنی کرتا ہے جو دیا مجھ میں +ہزار درد کے اگتے رہے شجر منصور +کسی نے بیج جو خواہش کا بو دیا مجھ میں +من و سلویٰ لیے ا فلاک سے بم گرتے ہیں +شہر میں گندم و بارود بہم گرتے ہیں +فتح مندی کی خبر آتی ہے واشنگٹن سے +اور اسا مہ ترے ہر روز علم گرتے ہیں +زرد پتے کی کہانی تو ہے موسم پہ محیط +ٹوٹ کے روز کہیں شاخ سے ہم گرتے ہیں +رقص ویک اینڈ پہ جتنا بھی رہے تیز مگر +طے شدہ وقت پہ لوگوں کے قدم گرتے ہیں +شہر کی آخری خاموش سڑک پر جیسے +میرے مژگاں سے سیہ رات کے غم گرتے ہیں +جانے کیا گزری ہے اس دل کے صدف پر منصور +ایسے موتی تو مری آنکھ سے کم گرتے ہیں +اور جینے کا سبب کوئی نہیں +پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں +صرف اک جاں سے گزرنا ہے مجھے +مجھ سا بھی سہل طلب کوئی نہیں +خواہش ِ زرق درندوں کی طرح +جیسے اس شہر کا رب کوئی نہیں +وقت کیفیت ِ برزخ میں ہے +کوئی سورج ، کوئی شب ، کوئی نہیں +شہر میں مہر بلب کوئی نہیں +کیوں گزرتا ہوں وہاں سے منصور +اس گلی میں مرا جب کوئی نہیں +تیرا چہرہ کیسا ہے میرے دھیان کیسے ہیں +یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں +خواب میں اسے ملنے کھیت میں گئے تھے ہم +کارپٹ پہ جوتوں کے یہ نشان کیسے ہیں +بولتی نہیں ہے جو وہ زبان کیسی ہے +یہ جوسنتے رہتے ہیں میرے کان کیسے ہیں +روکتے ہیں دنیا کو میری بات سننے سے +لوگ میرے بارے میں بد گمان کیسے ہیں +کیا ابھی نکلتا ہ�� ماہ تاب گلیوں میں +کچھ کہو میانوالی آسمان کیسے ہیں +کیا ابھی محبت کے گیت ریت گاتی ہے +تھل کی سسی کیسی ہے پنوں خان کیسے ہیں +کیا قطار اونٹوں کی چل رہی ہے صحرا میں +گھنٹیاں سی بجتی ہیں ، ساربان کیسے ہیں +چمنیوں کے ہونٹوں سے کیا دھواں نکلتا ہے +خالی خالی برسوں کے وہ مکان کیسے ہیں +لان میں وہ رنگوں کے سائبان کیسے ہیں +اب بھی وہ پرندوں کو کیا ڈراتے ہیں منصور +کھیت کھیت لکڑی کے بے زبان کیسے ہیں +میں اپنی فیملی کے ساتھ کچھ دن ۔۔۔پُر سکوں کچھ دن +سمندر کے کنارے ایک کاٹج میں رہوں کچھ دن +کہیں ڈھلتی ہوئی شب کو بھی ورزش کی ضرورت ہے +میںاپنے دوستوں کے ساتھ جاگنگ چھوڑدوں کچھ دن +ابھی کچھ دن پلیٹوں میں رکھوں جذبے قیامت کے +سلاخوں میں دہکتے گوشت پر نظمیں لکھوں کچھ دن +مرے ہم عصر پیرس اب اداسی چھوڑ دے اپنی +جدا ہونا تو ہے لیکن ابھی میں اور ہوں کچھ دن +ابھی اس لمس تک شاید کئی ہفتوں کا رستہ ہے +رگوں میں تیز رہنی ہے ابھی رفتارِ خوں کچھ دن +بدن کے شہر کو جاتی سڑک پہ کوئی خطرہ ہے ؟ +مجھے حیرت سرائے روح میں رہنا ہے کیوں کچھ دن +بہت ہی سست ہیں نبضیں مرے شہر ِنگاراں کی +اضافہ خود سری میں کچھ ، چلے رسمِ جنوں کچھ دن +ایٹمی جنگ میں سوختہ خواب تسخیر کے ہیں +خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیرکے ہیں +وقت کی گیلری میں مکمل ہزاروں کی شکلیں +صرف ٹوٹے ہوئے خال و خد میری تصویر کے ہیں +شہر بمبار طیارے مسمار کرتے رہیں گے +شوق دنیا کو تازہ مکانوں کی تعمیر کے ہیں +ایک مقصد بھری زندگی وقت کی قیدمیں ہے +پائوں پابند صدیوں سے منزل کی زنجیر کے ہیں +ایک آواز منصور کاغذ پہ پھیلی ہوئی ہے +میرے سناٹے میں شور خاموش تحریر کے ہیں +سبز سر چھیڑ خشک سالی میں +چوڑیاں ڈال مردہ ڈالی میں +کوئی دریا گرا تھا پچھلی شب +تیری کچی گلی کی نالی میں +لمس ہے تیرے گرم ہونٹوں کا +جو ابھی ہونا ہے پڑوسن نے +اپنے دانتوںسے کس لئے ناخن +کاٹتا ہوں میں بے خیالی میں +اوڑھ لیتی ہیں ستاروں کا لبادہ آنکھیں +اب تو کرتیں ہی نہیںخواب کاوعدہ آنکھیں +کوئی گستاخ اشارہ نہ کوئی شوخ نگہ +اپنے چہرے پہ لئے پھرتا ہوں سادہ آنکھیں +دھوپ کا کرب لئے کوئی افق پر ابھرا +اپنی پلکوں میں سمٹ آئیںکشادہ آنکھیں +ایک دہلیز پہ رکھا ہے ازل سے ماتھا +ایک کھڑکی میں زمانوں سے ستادہ آنکھیں +آنکھ بھر کے تجھے دیکھیں گے کبھی سوچا تھا +اب بدلتی ہی نہیں اپنا ارادہ آنکھیں +شہر کا شہر مجھے دیکھ رہا ہے منصور +کم تماشا ہے بہت اور زیادہ آنکھیں +ترے مکان کا رستہ تو چھوڑ دیتا ہوں +مگر میں ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں +میں اس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں کہ جہاں +فراق ووصل کو آپس میں جوڑ دیتاہوں +مجھے مزاج کی وحشت نے فتح مند رکھا +کہ ہار جائوں تو سر اپنا پھوڑ دیتا ہوں +ابھی دھڑکتا ہے دل بھیڑیے کے سینے میں +ابھی غزال پکڑتا ہوں ، چھوڑ دیتا ہوں +ڈرا ہوا ہوں میں اپنے مزاج سے منصور +جو میری ہونہ سکے ، شے وہ توڑ دیتا ہوں +ریت کے ٹرک میں دواجنبی مسافر ہیں +میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافرہیں +گھر میں کم پیوٹر کی صرف ایک کھڑکی ہے +ورنہ قیدیوں کے دل ہر گھڑی مسافر ہیں +چند ِٹن بیئر کے ہیں چند چپس کے پیکٹ +رات کی سڑک ہے اور ہم یونہی مسافرہیں +کون ریل کو سنگنل لالٹین سے دے گا +گائوں کے سٹیشن پر اک ہمی مسافر ہیں +نیند کے جزیرے پر ، آنکھ کی عمارت میں +اجنبی سے لگتے ہیں، یہ کوئی مسافر ہیں +شب پناہ گیروں کے ساتھ ساتھ رہتی ہے +روشنی کی بستی میں ہم ابھی مسافر ہیں +اور اک سمندر سا پھر عبور کرنا ہے +خاروخس کی کشتی ہے کاغذی مسافر ہیں +چند اور رہتے ہیں دھوپ کے قدم منصور +شام کی گلی کے ہم آخری مسافر ہیں +گھلی تھی ایک ویراں چرچ کی گھمبیر تا رب میں +مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں +خدا جانے کہانی کار کتنا دلربا ہو گا +عجب رومان پرور لمس کی دھڑکن ہے مذہب میں +مجھے اکثر وہ ہجراں کی سیاہی میں دکھائی دی +سلگتے گھائو کی صورت ہے کوئی سینہئ شب میں +خدا کے قیدخانے سے کوئی باہر نہیں نکلا +اگرچہ ہے بلاکی قوت ِ پرواز ہم سب میں +ازل کی شام سے آنکھیں کسی کی خوبصورت ہیں +رکاہے وقت صدیوں سے کسی کے عارض و لب میں +تیز چلنے کے لئے کب راستے موجود ہیں +وقت کی ہراک سڑک پر کیمرے موجود ہیں +کھل نہیں سکتے اگر بابِ نبوت کے کواڑ +سینکڑوں جبریل مجھ میں کس لئے موجود ہیں +بس صدا ڈی کوڈ کرنی ہے خموشی کی مجھے +کتنے سگنل عرش سے آئے ہوئے موجود ہیں +چاند شاید پیڑ کی شاخوں میں الجھا ہے کہیں +صحن میں کچھ روشنی کے شیڈ سے موجود ہیں +قیمتی سوٹوں کی جلسہ گاہ میں خاموش رہ +کرسیوں پر کیسے کیسے نابغے موجود ہیں +کھول کر اپنے گریباں کے بٹن ہم سرفروش +موت کی بندوق کے پھرسامنے موجود ہیں +ذہن میں جمع ڈر کئے جائیں +جتنے لمحے بھی ہو سکیں ممکن +روشنی میں بسر کئے جائیں +اس سے آٹو گراف بک پہ نہیں +دستخط ہاتھ پر لئے جائیں +موسم آنے پہ باغ میں روشن +قمقموں سے شجر کئے جائیں +آسمانوں کو جاننے کے لئے +اپنے پاتال سر کئے جائیں +وقت کے سائیکل پہ ہم منصور +اک کنویں میں سفر کئے جائیں +ہرایک طاق پہ رکھے ہوئے چراغ میں ہوں +میں آفتاب صفت رات کے دماغ میں ہوں +میں جاودانی کا چشمہ ، مثالِ آب ِ حیات +کسی فقیر کے ٹوٹے ہوئے ایاغ میں ہوں +مجھے تلاش نہ کر خال و خد میں خوشبو کے +کہیں پہ زخم میں ہوں میںکہیں پہ داغ میں ہوں +اکیلا روز سلگتا ہوں چھائوں میں اپنی +یہ اور بات کہ شادابیوںکے باغ میں ہوں +میں دوپہر کے تسلسل کا سوختہ منصور +چراغ لے کے کسی رات کے سراغ میںہوں +دستکوں کی دہشت سے در بدلتے رہتے ہیں +اک اجاڑ بستی میں گھر بدلتے رہتے ہیں +موسموں کی تبدیلی معجزے دکھاتی ہے +جسم ایک رہتا ہے سر بدلتے رہتے ہیں +وہ بچھڑ بھی سکتا ہے ، میں بدل بھی سکتا ہوں +راہ میں محبت کی ، ڈر بدلتے رہتے ہیں +کائنات کا پنجرہ کوئی در نہیں رکھتا +اور ہم پرندوں کے پر بدلتے رہتے ہیں +ارتقائ کے پردے میں کیا فریب ہے منصور +ہم نہیں بدل سکتے ، پر، بدلتے رہتے ہیں +یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں +جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں +بنا کر فرش سے بستر تلک ٹوٹی ہوئی چوڑی +گذشتہ رات کا تصویر میں منظر بناتے ہیں +چلو ٹھہرے ہوئے دریا کو کاغذ پر بناتے ہیں +سمندر کے بدن جیسا ہے عورت کا تعلق بھی +لہو کی آب دوزوں کے سفر گوہر بناتے ہیں +مکمل تجربہ کرتے ہیں ہم اپنی تباہی کا +کسی آوارہ دوشیزہ کو اب دلبر بناتے ہیں +شرابوں نے دیا سچ بولنے کا حوصلہ منصور +غلط موسم مجھے کردار میں بہتر بناتے ہیں +ابھی تو شاخ سے اپنی ، جدا ہوا ہوں میں +’’مرے شجر نہ ابھی رو ‘‘ابھی ہرا ہوں میں +یہ لگ رہا ہے کئی دن سے اپنے گھر میں مجھے +کسی کے ساتھ کہیں اور رہ رہا ہوں میں +وصال ِ زانوئے جاناں کے انتظار میں پھر +خود اپنے ہاتھ پہ سر رکھ کے سو گیا ہوں میں +لہو میں دوڑتی پھرتی ہے لمس کی خوشبو +تیر ے خیال سے شاید گلے ملا ہوں میں +ستم کہ جس کی جدائی میں بجھ رہا ہے بدن +اسی چراغ کی مانگی ہوئی دعا ہوں میں +یہ المیہ نہیں سورج مقابلے پر ہے +یہ المیہ ہے کہ بجھتا ہوا دیا ہوں میں +پڑے ہوئے ہیںزمانوں کے آبلے منصور +بس ایک رات کسی جسم پر چلا ہوں میں +میرا خیال ہے کوئی پردہ اٹھا ہی دوں +اک مستقل فراق کے پہلو میں کیوں رہوں +مے خانہ ئ حیات میں محرم کوئی نہیں +شاید میں کائنات کا پہلا شعور ہوں +دن بھر تلاش کرتا ہوں تعبیر کس لئے +ہر رات ایک خواب کے ہوتا ہوں ساتھ کیوں +بستی سے جارہی ہے پرندوں بھری ٹرام +توُ ساتھ دے اگر تو کہیںمیں بھی چل پڑوں +کیوں آنکھ میں بچھا کے سمندر کے آئنے +حیرت سے دیکھتا ہے کسی چاند کو جنوں +کوئی نشانی میری کسی ہاتھ میں تو ہو +منصور کس کوجا کے میں سونے کا رِنگ دوں +یزید زاد الگ ، کربلا علیحدہ ہیں +ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں +نمازِ جسم میں کعبہ کی سمت لازم ہے +نمازِ عشق کے قبلہ نما علیحدہ ہیں +مرے فراق کے جلتے ہوئے سیہ موسم +تمہی کہو مری جاں! تم سے کیا علیحدہ ہیں +سمجھ رہی ہو محبت میں وصل کو تعبیر +ہمارے خواب میں کہتا نہ تھا ، علیحدہ ہیں +ہماری دھج کو نظر بھر کے دیکھتے ہیں لوگ +ہجوم شہر میں ہم کج ادا علیحدہ ہیں +سیاہ بختی ٹپکتی ہے ایک تو چھت سے +ترے ستم مری جانِ وفا علیحدہ ہیں +ٹوٹنے والے تارے پر رک جاتے ہیں +آنکھ کے ایک کنارے پر رک جاتے ہیں +وقت کی تیز ٹریفک چلتی رہتی ہے +ہم ہی سرخ اشارے پر رک جاتے ہیں +جب میں سطح ِ آب پہ چلتا پھرتا ہوں +دیکھ کے لوگ کنارے پر رک جاتے ہیں +ہم ایسوں کے کون مقابل آئے گا +ہم طوفان کے دھارے پر رک جاتے ہیں +روز نکلتے ہیں مہتاب نگر میں ہم +لیکن ایک ستارے پر رک جاتے ہیں +اڑتے اڑتے گر پڑتے ہیں آگ کے بیچ +شام کے وقت ہمارے پر رک جاتے ہی +باہر کھڑا ہوں کون و مکاں کے قفس سے میں +دیکھا نکل گیا ناٰ ۔۔۔تری دسترس سے میں +دیکھو یہ پھڑپھڑاتے ہوئے زخم زخم پر +لڑتا رہا ہوں عمر بھر اپنے قفس سے میں +اے دوست جاگنے کی کوئی رات دے مجھے +تنگ آگیاہوں نیند کے کار ِ عبث سے میں +بے وزن لگ رہا ہے مجھے کیوں مرا وجود +بالکل صحیح چاند پہ اترا ہوں بس سے میں +اک سوختہ دیار کے ملبے پہ بیٹھ کر +انگار ڈھانپ سکتا نہیں خاروخس سے میں +جذبوں کی عمر میں نے مجرد گزار دی +منصور روزہ دار ہوں چودہ برس سے میں +در کوئی جنت ِ پندار کا وا کرتا ہوں +آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں +رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم +وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں +وہ ترا ، اونچی حویلی کے قفس میں رہنا +یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں +ایک لڑکی کے تعاقب میں کئی برسوں سے +نت نئی ذات کے ہوٹل میں رہا کرتاہوں +پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں +اشکِ گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں +مجھ سے منصور کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا +ننگے پائوں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں +زمانہ ۔۔تجھ کو کیا حاصل ہواقصہ بنانے میں +فقط اک اشک کو بستی کا افسانہ بنانے میں +غزل کہنا پڑی ایسے سخن آباد میں مجھ کو +خدا مصلوب ہوتے ہیں جہاں مصرعہ بنانے میں +نجانے کونسے دکھ کی اداسی کا تعلق ہے +مری اس سائیکی کو اتنا رنجیدہ بنانے میں +تجھے دل نے کسی بہتر توقع پر بلایا تھا +لگے ہو تم مسائل اور پیچیدہ بنانے میں +اگر آ ہی گئے ہوتو چلو آئو یہاں بیٹھو +ذرا سی دیر لگنی ہے مجھے قہوہ بنانے میں +کسے معلوم کیا کیا کردیا قربان آنکھوں نے +یہ تنہائی کی آبادی، یہ ویرانہ بنانے میں +مری صبح منور کی جسے تمہید بننا تھا +کئی صدیاں لگا دی ہیں وہ اک لمحہ بنانے میں +کہاں سے آگئی اتنی لطافت جسم میں میرے +شبیں ناکام پھرتی ہیں مرا سایہ بنانے میں +کھڑا ہے لاش پر میری وہ کیسی تمکنت کےساتھ +جسے تکلیف ہوتی تھی مجھے زینہ بنانے میں +مرے منزل بکف جن پہ تُو ط��نہ زن دکھائی دے +یہ پائوں کام آئے ہیں ترا رستہ بنانے میں +مجھ ایسے آسماں کو گھر سے باہر پھینکنے والو +ضرورت چھت کی پڑتی ہے کوئی کمرہ بنانے میں +کہیں رہ جاتی تھیں آنکھیں کہیں لب بھول جاتا تھا +بڑی دشواریاں آئیں مجھے چہرہ بنانے میں +پلٹ کر دیکھتے کیا ہو۔صفِ دشمن میں یاروں کو +بڑے ماہر ہیں اپنے دل کو یہ کوفہ بنانے میں +کسی کرچی کے اندر کھو گیا میرا بدن مجھ سے +جہانِ ذات کو اک آئینہ خانہ بنانے میں +مٹھاس ایسے نہیں آئی مرے الفاظِ تازہ میں +لگی ہے عمر مجھ کو دودھ کا چشمہ بنانے میں +بڑا دل پھینک ہے یہ دل بڑی آوارہ آنکھیں ہیں +کوئی عجلت ہوئی شاید دل و دیدہ بنانے میں +کسی ہجرِ مسلسل کا بڑا کردار ہے منصور +محبت کی کہانی اتنی سنجیدہ بنانے میں +اناالحق کی صدائوں میں کہیں گم ہو گیا میں بھی +اسے منصور اپنی ذات کا حصہ بنانے میں +مرے ہمذاد اپنے آپ نادیدہ بنانے میں +تجھے کیا مل گیا آنکھوں کو لرزیدہ بنانے میں +صحبتِ قوسِ قزح کا کوئی امکاں جاناں +کوئی دلچسپی ، کوئی رابطہ جاناں جاناں +میرے اندازِ ملاقات پہ ناراض نہ ہو +مجھ پہ گزرا ہے ابھی موسمِ ہجراں جاناں +جو مرے نام کو دنیا میں لئے پھرتے ہیں +تیری بخشش ہیں یہ اوراقِ پریشاں جاناں +آ مرے درد کے پہلو میںدھڑک کہ مجھ میں +بجھتی جاتی ہے تری یادِ فروزاں جاناں +تیری کھڑکی کہ کئی دن سے مقفل مجھ پر +جیسے کھلتا نہیں دروازہئ زنداں جاناں +تیری گلیاں ہیں ترا شہر ہے تیرا کوچہ +میں ، مرے ساتھ ترا وعدہ و پیماں جاناں +پھر کوئی نظم لٹکتی ہے ترے کعبہ پر +پھر مرے صبر کی بیچارگی عنواں جاناں +ہجر کا ایک تعلق ہے اسے رہنے دے +میرے پہلو میں تری یاد ہراساں جاناں +ہم فرشتوں کی طرح گھر میں نہیں رہ سکتے +ہاں ضروری ہے بہت رشتہ ئ انساں جاناں +زخم آیا تھا کسی اور کی جانب سے مگر +میں نے جو غور کیا تیرا تھا احساں جاناں +اس تعلق میں کئی موڑ بڑے نازک ہیں +اور ہم دونوں ابھی تھوڑے سے ناداں جاناں +دشت میں بھی مجھے خوشبو سے معطر رکھے +دائم آباد رہے تیرا گلستاں جاناں +ویسا الماری میں لٹکا ہے عروسی ملبوس +بس اسی طرح پڑا ہے ترا ساماں جاناں +مجھ کو غالب نے کہا رات فلک سے آکر +تم بھی تصویر کے پردے میں ہو عریاں جاناں +وہ جو روٹھی ہوئی رت کو بھی منالیتے ہیں +بس وہی شعرِ فراز اپنا دبستاں جاناں +روشنی دل کی پہنچ پائی نہ گھر تک تیرے +میں نے پلکوں پہ کیا کتنا چراغاں جاناں +کیا کہوں ہجر کہاں وصل کہاں ہے مجھ میں +ایک جیسے ہیں یہاں شہر و بیاباں جاناں +چھت پہ چڑھ کے میں تمہیں دیکھ لیا کرتا تھا +تم نظر آتی تھی بچپن سے نمایاں جاناں +اک ذرا ٹھہر کہ منظر کو گرفتار کروں +کیمرہ لائے ابھی دیدہ ئ حیراں جاناں +مانگ کر لائے ہیں آنسو مری چشمِ نم سے +یہ جو بادل ہیں ترے شہر کے مہماں جاناں +لڑکیاں فین ہیں میری انہیں دشنام نہ دے +تتلیاں پھول سے کیسے ہوں گریزاں جاناں +آگ سے لختِ جگر اترے ہیں تازہ تازہ +خانہ ئ دل میں ہے پھر دعوتِ مژگاں جاناں +زخم در زخم لگیں دل کی نمائش گاہیں +اور ہر ہاتھ میں ہے ایک نمکداں جاناں +تھم نہیں سکتے بجز تیرے کرم کے، مجھ میں +کروٹیں لیتے ہوئے درد کے طوفاں جاناں +بلب جلتے رہیں نیلاہٹیں پھیلاتے ہوئے +میرے کمرے میں رہے تیرا شبستاں جاناں +رات ہوتے ہی اترتا ہے نظر پر میری +تیری کھڑکی سے کوئی مہرِ درخشاں جاناں +تُو کہیں بستر کمخواب پہ لیٹی ہوگی +پھر رہا ہوں میں کہیں چاک گریباں جاناں +ویسے ہی تمہیں وہم ہے ، افلاک نشیں ہیں +تم لوگ بڑے لوگ ہو ، ہم خاک نشیں ہیں +خسخانہ و برفاب ک�� خواہش نہیں رکھتے +ہم دھوپ صفت لوگ ہیں خاشاک نشیں ہیں +امید بغاوت کی ہم ایسوں سے نہ رکھو +ہم ظلم کے نخچیر ہیں ، فتراک نشیں ہیں +اطراف میں بکھری ہوئی ہے سوختہ بستی +ہم راکھ اڑاتے ہوئے املاک نشیں ہیں +معلوم ہے کیا تم نے کہا ہے پسِ تحریر +اسباقِ خفی ہم کو بھی ادراک نشیں ہیں +کیا کوزہ گری بھول گیا ہے کوئی منصور +ہم لوگ کئی سال ہوئے چاک نشیں ہیں +الفاظ پہن کر ہمی اوراق نشیں ہیں +پروازِ مسلسل میں ہیں ، براق نشیں ہیں +یہ بات الگ روشنی ہوتی ہے کہیں اور +ہم مثلِ چراغِ شبِ غم طاق نشیں ہیں +سورج کی طرف دیکھنے والوں کی قسم ہم +اک خوابِ عشائ اوڑھ کے اشراق نشیں ہیں +چاہیں تو زباں کھینچ لیں انکار کی ہم لوگ +بس خوفِ خدا ہے ہمیں ، اشفاق نشیں ہیں +آتی ہیں شعاعوں سے انا الحق کی صدائیں +ہم نورِ ہیں منصور ہیں آفاق نشیں ہیں +امکان کے صحرا میں کہیں خیمہ نشیں ہیں +ہم سلسلہ ئ قیس کے سجادہ نشیں ہیں +ہر روز ڈبو دیتے ہیں طوفان بسیرا +ہم دل کے جزیرے میں کہیں گوشہ نشیں ہیں +ٰپیروں تلے ہر لمحہ نیا طور نئی برق +اک مرحلہ ئ شوق میں ہم جلوہ نشیں ہیں +پیچھے سے کوئی اچھی خبر آئے تو جائیں +برزخ سے ذرا پہلے ابھی رستہ نشیں ہیں +دوچار نکل آئے ہیں جلباب سے باہر +منصور ابھی دوست کئی پردہ نشیں ہیں +۱۔یونس ایمرے کے ایک شعر کا ترجمہ +میں رابطوں کے مکاں معتبر بناتا ہوں +فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں +اڑان دیکھ مرے آہنی پرندوں کی +مسیح میں بھی ہوں لوہے کے پر بناتا ہوں +فروغ دیدہ ئ ابلاغ کے وسیلے سے +یہ اپنے آپ کو کیا باخبر بناتا ہوں +خدا کی شکل بنانی پڑے گی کاغذ پر +میں اپنا باطنی چہرہ اگر بناتا ہوں +سمٹ گئے ہیں جہاں تو مرے ہتھیلی میں +سواب میں ذات کے اندر سفر بناتا ہوں +یونہی یہ لفظ چمکتے نہیں اندھیرے میں +جلا جلا کے کتابیں شرر بناتا ہوں +نکل پڑے نہ زمانہ مرے تعاقب میں +سو نقش پا بھی بہت سوچ کر بناتا ہوں +بس ایک صرف سناتا ہوں آیتِ منسوخ +فروغ خیر سے تہذیبِ شر بناتا ہوں +مرے دماغ میں بس عنکبوت رہتے ہیں +میں وہم بنتا ہوں خوابوں میں ڈر بناتا ہوں +اکھیڑ دیتا ہوں نقطے حروف کے منصور +میں قوسیں کاٹ کے تازہ ہنر بناتا ہوں +عدم کو صفحہ ئ ادراک پر بناتا ہوں +الائو سا خش و خاشاک پر بناتا ہوں +زمیں سے دور بناتا ہوں خاک کے چہرے +خدا بنائوں تو افلاک پر بناتا ہوں +مری زمین کی بنیاد میں شرارے ہیں +مکان سوختہ املاک پر بناتا ہوں +ستارہ لفظ تراشوں میں چاند تحریریں +اک آسمانِ ادب خاک پر بناتا ہوں +لہو کی بوندیں گراتا ہوں اپنے دامن سے +دلِ تباہ کو پوشاک پر بناتا ہوں +مرا وجود مکمل ابھی نہیں منصور +سو اپنے آپ کو پھر چاک پر بناتا ہوں +آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں +عکس در عکس ہے کیا چیز ، نظر ہو تو کہوں +اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل +مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں +درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن +قطرہ پہ گزری ہے کیا ، قطرہ گہر ہو تو کہوں +ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے +کوئی بستی ،کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں +کوئی شہ نامہ ئ شب ، کوئی قیصدہ ئ ستم +معتبر کوئی کہیں صاحب ِ زر ہو تو کہوں +قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا +آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں +کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر +کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں +یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی +موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں +کون بے چہرگی ئ وقت پہ تنقید کرے +سر بریدہ ہے یہ دنیا ،مرا سر ہو تو کہوں +رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے +کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں +کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے +کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں +ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے +کوئی سایہ سا ، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں +دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے +بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں +زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے +زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں +میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا +آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں +سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے +سینہ ئ درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں +میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے +دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں +تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو +کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں +رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں +رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں +پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے +کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں +پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں +کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں +عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے +یہ بلائیں ہیں اگر ماہ ِ صفر ہو تو کہوں +اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری +کوئی سسکاری کوئی دیدہ ئ تر ہو تو کہوں +ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں +’یہ تو وقفہ ہے کوئی ‘ ان کو خبر تو کہوں +کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے +نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں +یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے +جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں +مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے +موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں +آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن +قریہ ئ وقت کبھی زیر و زبر ہو توکہوں +ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کرپایا +خود کو شاعر کبھی تکمیل ِ ہنر ہو تو کہوں +اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور +حاکم ِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں +زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور +میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں +پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور +ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں +مرنے سے نکالوں کبھی جینے سے نکالوں +خود کو کبھی بوزر کے مدینے سے نکالوں +کچھ دھوپ چرائوں میں کسی گرم بدن کی +کمرے کو دسمبر کے مہینے سے نکالوں +جراح بلائوں یا کوئی سنت سپیرا +کس طرح ترے درد کو سینے سے نکالوں +آ پھر ترے گیسو کی شبِ تار اٹھاکر +مہتاب سا بالی کے نگینے سے نکالوں +صحرا سا سمندر کی رگ و پے میں بچھا دوں +لیکن میں سفر کیسے سفینے سے نکالوں +ہے تیر جو سینے میں ترازو کئی دن سے +میں چاہتا ہوں اس کو قرینے سے نکالوں +افلاک سے بھی لوگ جنہیں دیکھنے آئیں +وہ خواب خیالوں کے خزینے سے نکالوں +ہر چیز سے آتی ہے کسی اور کی خوشبو +پوشاک سے کھینچوں کہ پسینے سے نکالوں +ہونٹوں کی تپش نے جو ہتھیلی پہ رکھا ہے +سورج میں اُسی آبلہ گینے سے نکالوں +ممکن ہی نہیں پائوں ، بلندی پہ میں اتنی +تقویم کے ٹوٹے ہوئے زینے سے نکالوں +نیکی تجھے کیا علم کہ کیا لطف ہے اس میں +منصور دہکتے ہوئے سورج کی مدد سے +دریا کو سمندر کے دفینے سے نکالوں +مر گئے ہم ، برت ورت کرلیں +فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کرلیں +خواب دفنا کے لوٹ آئے ہیں +اب دعا ہائے مغفرت کرلیں +دائرے میں برے شگون کے ، ہم +کیسے معلوم اک جہت کرلیں +کس طرف دوستوں کی منزل ہے +کچھ ہوا سے مشاورت کرلیں +گر چکی ہے زمین پیچھے سے +کس طرح ہم مراجعت کرلیں +من و سلویٰ کی کیا تمنا میں +روگ بنتے ہوئے تعلق سے +یہی بہتر ہے معذرت کرلیں +کوچہ ئ یار کی مسافت میں +وصل میں اِس لباسِ اطلس کی +ہم ذرا سی مخالفت کرلیں +بے ت��اشا کیا ہے خرچ اسے +اب تو دل کی ذرا بچت کرلیں +یہ بھی صورت ہے اک تعلق کی +ہجر سے ہی مطابقت کرلیں +ڈھنگ جینے کا سیکھ لیں ہم بھی +وقت سے کچھ مناسبت کرلیں +طور بھی فتح کر لیں جلوہ بھی +کچھ وسیع اور سلطنت کرلیں +اس نظر کے فریب سے نکلیں +دل سے بھی کچھ مخاصمت کرلیں +کب کہا ہے زبان بندی کا +کلک ِ ناخوردہ صرف قط کرلیں +کاٹ دیں راستے ، گرا دیں پل +پوچھ لیں کیا کریں مسائل کا +کچھ خدا سے مراسلت کر لیں +جا بسیں قیس کے محلےمیں +اک ذرا اپنی ترتیت کرلیں +ظلم کا ہے محاصرہ منصور +دیکھتے لپک تیرے طنز کی تو ہم بھی ہیں +دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں +کھلتے کھلتے کھلتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں +تم اگر تجسس ہو سنسنی تو ہم بھی ہیں +تم سہی سیہ بدلی آنسوئوں کے موسم کی +آس پاس مژگاں کے کچھ نمی تو ہم بھی ہیں +عشق کی شریعت میں کیا جو قیس پہلے تھے +ہجر کی طریقت میں آخری تو ہم بھی ہیں +جانتے ہیں دنیا کو درد کا سمندر ہے +اور اس سمندر میں اک گلی تو ہم بھی ہیں +پیڑ سے تعلق تو ٹوٹ کے بھی رہتا ہے +سوختہ سہی لیکن شبنمی تو ہم بھی ہیں +دو گھڑی کا قصہ ہے زندگی محبت میں +دو گھڑی تو تم بھی ہو دو گھڑی ہم بھی ہیں +جیل کی عمارت ہے عاشقی کی صحبت بھی +بیڑیاں اگر تم ہو ہتھکڑی تو ہم بھی ہیں +نام وہ ہمارا پھر اک کرن کے ہونٹوں پر +وقت کے ستارے پر ۔ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں +کیا ہوا جو ہجراں کی رہ رہے ہیں مشکل میں +یار کے شبستاں میں یاد سی تو ہم بھی ہیں +دیدنی زمانے میں بے خبر بہاروں سے +گلستانِ حیرت کی اک کلی تو ہم بھی ہیں +مانا عشق کرنے کا کچھ پتہ نہیں تم کو +دلبری کی بستی میں اجنبی تو ہم بھی ہیں +یہ الگ گوارہ ہم وقت کو نہیں لیکن +جس طرح کے ہوتے ہیں آدمی تو ہم بھی ہیں +کربلا کی وحشت سے ، سلسلہ نہیں لیکن +ساحلوں پہ دریا کے تشنگی تو ہم بھی ہیں +ہیر تیرے بیلے میں آنسوئوں کے ریلے میں +خالی خالی بیلے میں بانسری تو ہم بھی ہیں +تم چلو قیامت ہو تم چلو مصیبت ہو +بے بسی تو ہم بھی ہیں ، بے کسی تو ہم بھی ہیں +صبح کے نکلتے ہی بجھ تو جانا ہے ہم کو +رات کی سہی لیکن روشنی تو ہم بھی ہیں +دیکھتے ہیں پھولوں کو ، سوچتے ہیں رنگوں کو +خوشبوئوں کے مکتب میں فلسفی تو ہم بھی ہیں +ایک الف لیلی کی داستاں سہی کوئی +دوستو کہانی اک متھ بھری تو ہم بھی ہیں +آنکھ بنو تم اور ہم منظر بن جائیں +اور وہیں پھر دونوں پتھر بن جائیں +ان پیروں سے کیسے گریزاں منزل ہو +جو آپ ہی رستہ آپ سفر بن جائیں +جن لوگوں کے بیج کجی سے نکلے ہوں +وہ کیسے سایہ دار شجر بن جائیں +گھل جائیں لہروں میں ایک سمندر کی +ریت پہ پھیلی دھوپ کی چادر بن جائیں +مار کے سورج کے سینے میں طنز کے تیر +خود نہ کہیں ہم ایک تمسخر بن جائیں +جنس کے بینر لٹکائیں بازاروں میں +اور فرائیڈ سے دانش ور بن جائیں +جو موجود نہیں تقویم کے اندر بھی +ان تاریخوں کا کیلنڈر بن جائیں +کچھ یاروں کی لاشیں گل سڑ جائیں گی +بہتر ہے منصور فریزر بن جائیں +سورج پہ گلابوں کے تصور کی طرح ہیں +ہم دیدہ ئ حیرت ہیں ، تحیر کی طرح ہیں +چھیڑو نہ ہمیں دوستو پھر تھم نہ سکیں گے +ملہار کے ہم بھیگے ہوئے سُر کی طرح ہیں +صد شکر کہ سینے میں دھڑکتا ہے ابھی دل +ہم کفر کے لشکر میں سہی حر کی طرح ہیں +بجھ جاتا ہے سورج کا ہمیں دیکھ کے چہرہ +ہم شام کے آزردہ تاثر کی طرح ہیں +ہردور میں شاداب ہیں سر سبز ہیں منصور +وہ لوگ جو موسم کے تغیر کی طرح ہیں +لٹنے کو خزانوں بھرے مندر کی طرح ہیں +ہم لوگ سدھارتھ کے کھلے در کی طرح ہیں +ہم حرفِ زمیں ، چیختی صدیوں کی امانت +گم گشتہ ثقا��ت کے سخنور کی طرح ہیں +ہم پھول کنول کے ہیں ہمیں نقش کھنڈر کے +آثارِ قدیمہ کے پیمبر کی طرح ہیں +فرعون کے اہرام بھی موسیٰ کی عصا بھی +ہم نیل کی تہذیب کے منظر کی طرح ہیں +آدم کے ہمی نقشِ کفِ پا ہیں فلک پر +کعبہ میں سیہ رنگ کے پتھر کی طرح ہیں +ہم گنبد و مینار ہوئے تاج محل کے +ہم قرطبہ کے سرخ سے مرمر کی طرح ہیں +ہم عہدِہڑپہ کی جوانی پہ شب و روز +دیواروں میں روتی ہوئی صرصر کی طرح ہیں +پلکیں کسی برہن کے کھلے سر کی طرح ہیں +آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں +گرتے ہیں ہمی میں کئی بپھرے ہوئے دریا +ہم وقت ہیں ، لمحوں کے سمندر کی طرح ہیں +بس ٹوٹتے پتوں کی صدائیں ہیں ہوا میں +موسم بھی مرادوں کے مقدر کی طرح ہیں +رکھتے ہیں اک اک چونچ میں کنکر کئی دکھ کے +اب حرف ابابیلوں کے لشکر کی طرح ہیں +بکتے ہوئے سو بار ہمیں سوچنا ہو گا +اب ہم بھی کسی آخری زیور کی طرح کی ہیں +یہ خواب جنہیں اوڑھ سونا تھا نگر کو +فٹ پاتھ پہ بچھتے ہوئے بستر کی طرح ہیں +ناراض نہ ہو اپنے بہک جانے پہ جاناں +ہم لوگ بھی انسان ہیں ، اکثر کی طرح ہیں +اب اپنا بھروسہ نہیں ، ہم ساحلِ جاں پر +طوفان میں ٹوٹے ہوئے لنگر کی طرح ہیں +تم صرفِ نظر کیسے ، کہاں ہم سے کرو گے +وہ لوگ ہیں ہم جو تمہیں ازبر کی طرح ہیں +منصور ہمیں بھولنا ممکن ہی نہیں ہے +ہم زخم میں اترے ہوئے خنجر کی طرح ہیں +جیتے ہوئے لوگوں کے سوئمبر کی طرح ہیں +ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں +ہر لمحہ پیانو سے نئی شکل ابھاریں +یہ انگلیاں اپنی ، کسی بت گر کی طرح ہیں +کیا چھائوں کی امید لئے آئے گا کوئی +ہم دشت میں سوکھے ہوئے کیکر کی طرح ہیں +الحمدِ مسلسل کا تسلسل ہے ہمی سے +ہم صبحِ ازل زاد کے تیتر کی طرح ہیں +جلتے ہوئے موسم میں ہیں یخ بستہ ہوا سے +ہم برف بھری رات میں ہیٹر کی طرح ہیں +حیرت بھری نظروں کیلئے جیسے تماشا +ہم گائوں میں آئے ہوئے تھیٹر کی طرح ہیں +یہ بیچ بھی ہے زانوئے دلدار کی مانند +یہ پارک بھی اپنے لئے دلبر کی طرح ہیں +پیاسو سے کہو آئیں وہ سیرابی ئ جاں کو +ہم دودھ کی بہتی ہوئی گاگر کی طرح ہیں +منصور ہمیں چھیڑ نہ ہم شیخ ِجہاں کے +مسجد میں لگائے ہوئے دفتر کی طرح ہیں +دوبارہ کاٹنے آئو گے ۔۔۔آس ہے سائیاں +ابھی توکھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں +مری دعائوں پہ چیلیں جھپٹنے والی ہیں +یہ ایک چیخ بھری التماس ہے سائیاں +عجیب شہد سا بھرنے لگا ہے لہجے میں +یہ حرفِ میم میں کیسی مٹھاس ہے سائیاں +تمہارے قرب کی مانگی تو ہے دعا میں نے +مگر یہ ہجر جو برسوںسے پاس ہے سائیاں +جسے ملو وہی پیاسا دکھائی دیتا ہے +بھرا ہوا بھی کسی کا گلاس ہے سائیاں +ترے بغیر کسی کا بھی دل نہیں لگتا +مرے مکان کی ہر شے اداس ہے سائیاں +ٹھہر نہ جائے خزاں کی ہوا اسے کہنا +ابھی شجر کے بدن پر لباس ہے سائیاں +کوئی دیا کہیں مصلوب ہونے والا ہے +بلا کا رات پہ خوف و ہراس ہے سائیاں +نجانے کونسی کھائی میں گرپڑے منصور +یہ میرا وقت بہت بد حواس ہے سائیاں +اپنی نیندوں میں کوئی خواب نہیں +کوئی تمہید ِ انقلاب نہیں +سا حلوں پر برھنہ جوڑے ہیں +پر کوئی آنکھ بے حجاب نہیں +ہم سفر احتیاط، میرا بدن +نیکیوں کی کوئی کتاب نہیں +کچھ دنوں سے بجا ہے شب کا ایک +اور گھڑیال بھی خراب نہیں +ایک بستر پہ سوئے ہیں دونوں +پھر بھی ہم رنگ اپنے خواب نہیں +کس لئے ذہن میں در آتے ہیں +جن سوالات کے جواب نہیں +آنکھ بھی خالی ہو گئی منصور +اور گٹھڑی میں بھی ثواب نہیں + + +وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے +آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے +ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے +اپنے کمرے کا کوئی ، بلب بجھایا نہ کرے +میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے +کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے +روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے +میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ کرے +حافظہ ایک امانت ہے کسی کی لیکن +یاد کی سرد ہو ا شام کو رویا نہ کرے +چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور +میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے +دل کو کچھ دن اور بھی برباد رکھنا چاہئے +اور کچھ اس بے وفا کو یاد رکھنا چاہئے +کونج کی سسکاریاں کانوں میں اتریں تو کھلا +گھر بڑی شے ہے اسے آباد رکھنا چاہئے +ریل میں جس سے ہوئی تھی یونہی دم بھر گفتگو +خوبصورت آدمی تھا ، یاد رکھنا چاہئے +موسم گل ہے کہیں بھی لڑکھڑا سکتا ہے دل +ہر گھڑی اندیشہ ئ افتاد رکھنا چاہئے +مت پکڑ منصور پتوں میں یہ چھپتی تیتری +ایسی نازک چیز کو آزاد رکھنا چاہئے +میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے +اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے +گلی کی برف پر کھنچیں لکیریں بے خیالی میں +ادھورے نقش ہیں کچھ کچھ مگر چہرہ مکمل ہے +مجھے روکا ہوا ہے جسم کی دہلیز پر اس نے +ادھوری ہے وفا اپنی ، تعلق نامکمل ہے +لکیر اپنے لہو کی ہے ابھی اِن دونوں ٹکڑوں میں +خزانے تک پہنچنے کا کہاں نقشہ مکمل ہے +مجھے شہر نگاراں سے نئے کچھ زخم لینے ہیں +وہ جو دل میں رفو کاکام نکلا تھا مکمل ہے +بلا کا خوبصورت ہے کوئی اُس بالکونی میں +ہے بے مفہوم سا مکھڑا مگر کتنا مکمل ہے +محبت کا سفر بھی کیا کرشمہ ساز ہے منصور +ادھر منزل نہیں آئی ادھر رستہ مکمل ہے +بھر گئی تھی بیسمنٹ نیکیوں کے شور سے +کہہ رہا تھا کون کیا ساتویں فلور سے +نیم گرم دودھ کے ٹب میں میرے جسم کا +روشنی مساج کر اپنی پور پور سے +زاویہ وصال کا رہ نہ جائے ایک بھی +شاد کام جسم ہو لمس کے سکور سے +فاختہ کے خون سے ہونٹ اپنے سرخ رکھ +فائروں کے گیت سن اپنی بارہ بور سے +بام بام روشنی پول پول لائٹیں +رابطے رہے نہیں چاند کے چکور سے +وحشتِ گناہ سے نوچ لے لباس کو +نیکیوں کی پوٹلی کھول زور زورسے +واعظوں کی ناف پر کسبیوں کے ہاتھ ہیں +کوتوال ِشہر کی دوستی ہے چور سے +شیر کے شکار پر جانے والی توپ کی +رات بھر بڑی رہی بات چیت مور سے +گھونٹ بھرا چائے کا تیرے گھر کچھ دیر رکے +جیسے موٹر وے کی سروس پر کچھ دیر رکے +حیرانی سے لوگ بھی دیکھیں میری آنکھ کے ساتھ +کیمرہ لے کے آتا ہوں ۔۔ منظر کچھ دیر رکے +اتنی رات گئے تک کس ماں کے پہلو میں تھا +کتے کا بچہ اور اب باہر کچھ دیر رکے +کیسی کیسی منزل ہجرت کرتی آتی ہے +دیس سے آنے والی راہ گزر کچھ دیر رکے +وہ منصور کبھی تو اتنی دیر میسر ہو +اس کی جانب اٹھے اور نظر کچھ دیر رکے +فراق بیچتے کیسے ، پلان کیا کرتے +بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے +ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی +سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے +نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے +یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے +تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر +ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے +بدن کا روح سے تھااختلاف لیکن ہم +خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے +دکھائی دیتا تو تشکیک کیوں جنم لیتی +یقین ہوتا ہمیں تو گمان کیا کرتے +یہ سچ کی آگ پرے رکھ مرے خیالوں سے +بھرا ہوا ہوں سلگتے ہوئے سوالوں سے +مکانِ ذات کے دیمک زدہ کواڑ کھلے +بھری ہوئی ہیں چھتیں مکڑیوں کے جالوں سے +مجھے پسند ہے عورت ، نماز اور خوشبو +انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے +عمل کے اسم سے بابِ طلسم کھلنا ہے +اتار رینگتی صدیوں کا زنگ تالوںسے +بھٹک رہا ہے سرابوں کی شکل میں پانی +قضا ہوا کوئی چشمہ کہیں غزالوں سے +نہ مانگ وقت کی باریش چھائوں سے دانش +لٹکتے کب ہیں ثمر برگدوں کے بالوں سے +بدل رہی ہے کچھ ایسے گلوب کی گردش +ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے +مکاں بھی اپنے مکینوں سے اب گزیراں ہیں +گلی بھی خود کو چھپاتی ہے چلنے والوں سے +وہ تیرگی کہ لرزتے ہیں بام و در شب کے +وہ روشنی ہے کہ سورج ڈرے اجالوں سے +یہ روز وشب ہیں تسلسل سے منحرف منصور +یہ ساعتیں کہ الگ ہو گئی ہیں سالوں سے +فروغ ِکُن کو صوتِ صورِاسرافیل ہونا ہے +پہاڑوں کا بھی اب جغرافیہ تبدیل ہونا ہے +زمیں پر خیر وشر کے آخری ٹکرائو تک مجھ کو +کبھی ہابیل ہونا ہے کبھی قابیل ہونا ہے +کہاں معلوم ہوتا ہے تماشا ہونے سے پہلے +کسے پردے میں رہنا ہے کسے تمثیل ہونا ہے +ابھی تعلیم لینی ہے محبت کی ، ابھی میں نے +بدن کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہونا ہے +کوئی ہے نوری سالوں کی طوالت پر کہیں منصور +مجھے رفتار سر کرتی ہوئی قندیل ہونا ہے +رک گئے پیر فرید اور وارث باہو چلتے چلتے +لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے +یاد تھکن ہے ایک سڑک کی ،یاد ہے دکھ کا رستہ +بیٹھ گیا تھا میرے کاندھوں پر توُ چلتے چلتے +تیرا میرا نام بھی شاید لافانی کر جائے +برگدکے مضبوط تنے پر چاقو چلتے چلتے +وار قیامت خیز ہوئے دو دھاری تلواروں کے +رخساروں کو چیر گئے ہیں آنسو چلتے چلتے +ایک محل کے بند کواڑوں سے منصور نکل کر +میرے صحن تلک آئی ہے خوشبو چلتے چلتے +وہ چوک میں کھڑا ہے پھریرا لئے ہوئے +یہ اور بات فوج ہے گھیرا ٰلئے ہوئے +آنکھیں کہ رتجگوں کے سفر پر نکل پڑیں +اک دلنواز خواب سا تیرا لئے ہوئے +اللہ کے سپرد ہے خانہ بدوش دوست +وہ اونٹ جا رہے ہیں’’ بسیرا ‘‘لئے ہوئے +اندر کا حبس دیکھ کے سوچا ہے بار بار +مدت ہوئی ہے شہر کا پھیرا لئے ہوئے +چلتے رہے ہیں ظلم کی راتوں کے ساتھ ساتھ +آنکھوں میں مصلحت کا اندھیرا لئے ہوئے +رہنا نہیںہے ٹھیک کناروں کے آس پاس +پھرتا ہے اپنا جال مچھیرا لئے ہوئے +گردن تک آ گئے ہیں ترے انتظار کے +لمبے سے ہاتھ ، جسم چھریرا لئے ہوئے +لوگوں نے ڈھانپ ڈھانپ لیا درز درز کو +منصور پھر رہا تھا سویرا لئے ہوئے +گھیرا لئے ہوئے ۔۔۔ اعتراض کی گنجائش موجود ہے۔ +ساتھ نہ تھا کوئی اپنے ساتھ سے پہلے +دھند تھی دنیا شعورِ ذات سے پہلے +بزم ِسخن میں اک تارہ بول پڑا تھا +غم کی تلاوت تھی ، حمد و نعت سے پہلے +نیند بھری رات انتظار کسی کا +ہوتا تھا ترک ِتعلقات سے پہلے +کہتے ہیں خالی نگر میں رہتی ہیں روحیں +لوٹ ہی جائیں آ گھر کو ، رات سے پہلے +کیسا تھا سناٹا تیرے عہد ِ عدم میں +کیسی خموشی تھی پہلی بات سے پہلے +خواب تھے پنہاں شکست ِ زعم میں شاید +فتح کی باتیں کہاں تھیں مات سے پہلے +تیرے کرنوں والے ہٹ میں رات کرنا چاہتی ہے +ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے +اپنے بنگلوں کے سوئمنگ پول کی تیراک لڑکی +میرے دریا میں بسر اوقات کرنا چاہتی ہے +وقت کی رو میں فراغت کا نہیں ہے کوئی لمحہ +اور اک بڑھیا کسی سے بات کرنا چاہتی ہے +چاہتا ہوں میں بھی بوسے کچھ لبوں کی لاٹری کے +وہ بھی ملین پونڈ کی برسات کرنا چاہتی ہے +مانگتا پھرتا ہوں میں بھی لمس کا موسم کہیں سے +وہ بھی اپنے جسم کی خیرات کرنا چاہتی ہے +کتاب ہاتھ میں ہے اور کج ، کلاہ میں ہے +مگر دماغ ابو جہل کی سپاہ میں ہے +بلند بام عمارت تری ہر اک منزل +پڑی ہے ایش ٹرے میں سلگتے لمس کی راکھ +ملن کی رات ابھی عر صہ ئ گناہ میں ہے +بھٹکتا پھرتا ہوں ظلمات کے جزیرے میں +بلا کی رات کسی دی��ہ ئ سیاہ میں ہے +رکا نہیں ہوں کسی ڈاٹ کا م پر منصور +گلوب پائوں تلے تو خلا نگاہ میں ہے +کوئی نرم نرم سی آگ رکھ مرے بند بند کے سامنے +چلے فلم کوئی وصال کی دلِ ہجر مند کے سامنے +یہ عمل ومل کے کمال چپ ، یہ ہنروری کے جمال چپ +یہ ہزارگن سے بھرے ہیں کیا ، ترے بھاگ وند کے سامنے +کھلی کھڑکیوں کے فلیٹ سے ذرا جھانک شام کو روڈ پر +ترے انتظار کی منزلیں ہیں مری کمند کے سامنے +کئی ڈاٹ کام نصیب تھے جسے زینہ زنیہ معاش کے +وہ منارہ ریت کا دیوتا تھا اجل پسند کے سامنے +ابھی اور پھینک ہزار بم ، مرے زخم زخم پہاڑ پر +کوئی حیثیت نہیں موت کی ، کسی سر بلند کے سامنے +ہجر کو تاپتے تاپتے جسم سڑنے لگا ہے +اس لِونگ روم کا وال پیپر اکھڑنے لگا ہے +گھر کے باہر گلی میں بھی بکھرے ہیں پتے خزاں کے +کیسا تنہائی کے پیڑ سے درد جھڑنے لگا ہے +خواب جیسے دریچے میں آتی ہے دوشیزہ کوئی +کچھ دنوں سے مرا چاند پر ہاتھ پڑنے لگا ہے +اک توبالشتیے ہم ، پلازوں کی اونچائی میں ہیں +دوسرا شہر میں آسماں بھی سکڑنے لگا ہے +آندھیاں اور بھی تیز رفتار ہونے لگی ہیں +اب تو یہ لگ رہا ہے کہ خیمہ اکھڑنے لگا ہے +آسماں کے حرا پہ اترا ہے +اک محمد خدا پہ اترا ہے +بول زنجیر ریل گاڑی کی +کون کیسی جگہ پہ اترا ہے +کب کسی کربلا پہ اترا ہے +کس کے جوتے کا کھردرا تلوا +خیر کی آرزو نہ راس آئی +قہر دست ِ دعا پہ اترا ہے +جھونک دے گی ہر آنکھ میں منصور +راکھ کا دکھ ہوا پہ اترا ہے +گنبدوں سی کچھ اٹھانیں یاد آتی ہیں مجھے +گفتگو کرتی چٹانیں یاد آتی ہیں مجھے +میرے گھر میں توکوئی پتیل کا برتن بھی نہیں +کس لئے سونے کی کانیں یاد آتی ہیں مجھے +ان نئی تعمیرکردہ مسجدوں کو دیکھ کر +کیوں شرابوں کی دکانیں یاد آتی ہیں مجھے +یاد آتی ہے مجھے اک شیرنی سے رسم و راہ +اور دریچوں کی مچانیں یاد آتی ہیں مجھے +سیکھتی تھی کوئی اردو رات بھر منصور سے +ایک ہوتی دو زبانیں یاد آتی ہیں مجھے +وہ لپیٹ کر نکلی تولیے میں بال اپنے +بوند بوند بکھرے تھے ہر طرف خیال اپنے +درد کے پرندوں کو آنکھ سے رہائی دے +دیکھ دل کے پنجرے میں رو پڑے ملال اپنے +یہ صدا سنائی دے کوئلے کی کانوں سے +زندگی کے چو لہے میں جل رہے ہیں سال اپنے +کسِ نے بند کرنے اور کھولنے کی خواہش میں +جنیز کے اٹیچی میں بھر دئیے جمال اپنے +قتل تو ڈرامے کا ایکٹ تھا کوئی منصور +کس لئے لہو سے ہیں دونوں ہاتھ لال اپنے +حرکت ہر ایک شے کی معطل دکھائی دے +جاگا ہوا نگر بھی مجھے شل دکھائی دے +آتے ہوئے منٹ کی طوالت کا کیا کہوں +گزری ہوئی صدی تو مجھے پل دکھائی دے +پلکوں کے ساتھ ساتھ فلک پر کہیں کہیں +مجھ کو کوئی ستارہ مسلسل دکھائی دے +برسات کی پھوار برہنہ کرے تجھے +تیرے بدن پہ ڈھاکہ کی ململ دکھائی دے +پیچھے زمین ٹوٹ کے کھائی میں گر پڑی +آگے تمام راستہ دلدل دکھائی دے +ہجراں کی رات نرم ملائم کچھ اتنی ہے +مجھ کو ترا خیال بھی بوجھل دکھائی دے +زیادہ بے لباسی کے سخن اچھے نہیں ہوتے +جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے +کئی اجڑے ورق خوشبو پس ِ ملبوس رکھتے ہیں +کئی اچھی کتابوں کے بدن اچھے نہیں ہوتے +کبھی ناموں کے پڑتے ہیں غلط اثراتٰ قسمت پر +کبھی لوگوں کی پیدائش کے سن اچھے نہیں ہوتے +غزالوں کے لئے اپنی زمینیں ٹھیک رہتی ہیں +جو گلیوں میں نکل آئیں ہرن اچھے نہیں ہوتے +محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی +کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے +بڑی خوش چہرہ خوشبو سے مراسم ٹھیک ہیں لیکن +گلابوں کے بسا اوقات من اچھے نہیں ہوتے +اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر ��ڑے پڑے +پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے +کیسا ہے کائنات کی تہذیب ِکُن کاآرٹ +شکلیں بدلتے رہتے ہیں پتھر پڑے پڑے +اے زلف ِ سایہ دار تری دوپہر کی خیر +جلتا رہا ہوں چھائوں میں دن بھر پڑے پڑے +ویراں کدے میں جھانکتے کیا ہو نگاہ کے +صحرا سا ہو گیا ہے سمندر پڑے پڑے +سوچا تھا منتظر ہے مرا کون شہر میں +دیکھا تو شام ہوگئی گھرپر، پڑے پڑے +شکنوں کے انتظارمیںاے کھڑکیوں کی یار +بوسیدہ ہو گیا مرا بستر پڑے پڑے +منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے +میں مررہاہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے +کسی لحاف کے موسم کو اوڑھنا ہے مجھے +بدن کی برف کا کچھ زور توڑنا ہے مجھے +کسی سے میلوں پرے بیٹھ کرکسی کے ساتھ +تعلق اپنی نگاہوں کا جوڑنا ہے مجھے +نکالنا ہے غلاظت کو بوٹ کے منہ سے +یہ اپنے ملک کا ناسور پھوڑنا ہے مجھے +کسی کا لمس قیامت کا چارم رکھتا ہے +مگر یہ روز کا معمول توڑنا ہے مجھے +فش اینڈ چپس سے اکتا گیا ہوں اب منصور +بس ایک ذائقے کا وصل چھوڑنا ہے مجھے +اچھے بزنس مین کی پہچان ہے +ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے +دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس +دور تک اک گھاس کا میدان ہے +صبح تازہ کی اذاں کے واسطے +میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے +پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح +سنگ میں بھی روح کا امکان ہے +موت آفاقی حقیقت ہے مگر +زندگی پر بھی مرا ایمان ہے +یہ عمر جیل کے اندر گزار سکتے تھے +جو چاہتے تو اسے جاں سے مار سکتے تھے +یہ اور بات کہ راتیں رہی ہیں ہم بستر +ہم اپنے ہاتھ پہ سورج اتار سکتے تھے +بہت تھے کام کسی ڈاٹ کام پر ورنہ +غزل کی زلف ِ پریشاں سنوار سکتے تھے +وہ ایک کام جو ممکن تھا رہ گیا افسوس +جو ایک جاں تھی اسے تجھ پہ وار سکتے تھے +ہمیشہ ربط کے پندار کا بھرم رکھا +صباحت ِ لب و رخ تو وسار سکتے تھے +یہ بار بند نہ ہوتا تو ہم شرابی لوگ +تمام رات کسینو میں ہار سکتے تھے +کسی سے کی تھی محبت کی بات کیا منصور +کہ ایک مصرعے میں جیسے ہزار سکتے تھے +کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی ، کچھ ڈھیر ماس کے +کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے +فٹ پاتھ بھی درست نہیں مال روڈ کا +ٹوٹے ہوئے ہیں بلب بھی چیرنگ کراس کے +پھر ہینگ اوور ایک تجھے رات سے ملا +پھر پائوں میں سفر وہی صحرا کی پیاس کے +ہنگامہ ئ شراب کی صبح ِ خراب سے +اچھے تعلقات ہیں ٹوٹے گلاس کے +کیوں شور ہو رہا ہے مرے گرد و پیش میں +کیا لوگ کہہ رہے ہیں مرے آس پاس کے +ننگ کا بھی لباس اگ آئے +کچھ بدن پر کپاس اگ آئے +ہم نفس کیا ہوا سوئمنگ پول +پانیوں میں حواس اگ آئے +۱۔آتے جاتے رہو کہ رستے میں +یوں نہ ہو پھر سے گھاس اگ آئے +سوچ کر کیا شجر قطاروں میں +پارک کے آس پاس اگ آئے +گائوں بوئے نہیں اگر آنسو +شہر میں بھوک پیاس اگ آئے +کوئی ایسی بہار ہو منصور +استخوانوں پہ ماس اگ آئے +باہر نکل لباس سے کچھ اور دھوم سے +میں آشنا نہیں ہوں بدن کے علوم سے +لگتا ہے تو بھی پارک میں موجود ہے کہیں +مہکی ہوئی ہے شام ترے پرفیوم سے +میں چاہتا ہوں تیرے ستارے پہ ایک شام +ای میل اور بھیج نہ شہر ِ نجوم سے +کس نے بنایا وقت کا پہلا کلوز شارٹ +آنکھوں کے کیمرے کے فسوں کار زوم سے +نکلا ہی تھا دماغ سے اک شخص کا خیال +منصور بھر گئیں مری آنکھیں ہجوم سے +حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے +فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے +دکھائی کیا دیا اک خط ِمستقیم مجھے +کہ دائرے مری پر کار سے نکل آئے +خبرہو نغمہ ئ گل کو ، سکوت کیا شے ہے +کبھی جو رنگ کے بازار سے نکل آئے +پہن لے چھائوں جو میرے بدن کی تنہائی +تو دھوپ سایہ ئ دیوار سے نکل آئے +ادھر سے نیم برھنہ بدن کے آتے ہی +امام ِ وقت ۔ اِ ��ھر، کار سے نکل آئے +ذرا ہوئی تھی مری دوستی اندھیروں سے +چراغ کتنے ہی اس پار سے نکل آئے +کبھی ہوا بھی نہیں اور ہو بھی ہو سکتا ہے +اچانک آدمی آزار نکل سے آئے +یہ چاہتی ہے حکومت ہزار صدیوں سے +عوام درہم و دینار سے نکل آئے +دبی تھی کوئی خیالوں میں سلطنت منصور +زمین چٹخی تو آثار سے نکل آئے +لکھنے والوں میں محترم کیا ہے +چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے +ہے بلندی کا فوبیا ورنہ +یہ حریم ِحرم ورم کیا ہے +مسئلے تو ہزار ہیں لیکن +تیری موجودگی میں غم کیا ہے +روز پانی میں ڈوب جاتا ہوں +ایک دریا مجھے بہم کیا ہے +اے سٹیچو بشیر بابا کے +بول کیا ؟ دید کیا ؟ قدم کیا ہے ؟ +مرہم ِ لمس بے کنار سہی +صحبت ِ انتظار کم کیا ہے +آنکھوں سے منصور شباہت گر جاتی ہے +ٹوٹے جو شیشہ تو صورت گر جاتی ہے +روز کسی بے انت خزاں کے زرد افق میں +ٹوٹ کے مجھ سے شاخ ِتمازت گرجاتی ہے +باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن +پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے +اک میری خوش وقتی ہے جس کے دامن میں +صرف وہی گھڑیال سے ساعت گرجاتی ہے +لیپ کے سوتا ہوں مٹی سے نیل گگن کو +اٹھتا ہوں تو کمرے کی چھت گر جاتی ہے +ہجر کی لمبی گلیاں ہوں یا وصل کے بستر +کہتے ہیں کہٰ عشق میں صحت گر جاتی ہے +برسوں ظل ِ الہی تخت نشیں رہتے ہیں +خلق ِ خدا کی روز حکومت گر جاتی ہے +پھر شام دشت روح و بدن تک اتار کے +اس نے بچھا دی ریت پہ اجرک اتار کے +کس نے نمازیوں کو بلانے سے پیش تر +رکھا زمیں پہ عرش کا پھاٹک اتار کے +پھرتی ہے رات ایک دئیے کی تلاش میں +باہر نہ جانا چہرے سے کالک اتار کے +کرتی ہیں مجھ سے اگلے جہاں کا مکالمہ +آنکھیں میرے دماغ میں اک شک اتار کے +صدیوں سے دیکھ دیکھ کے شامِ زوال کو +رکھ دی ہے میں نے میز پہ عینک اتار کے +دروازے پر جمی ہوئی دستک اتار کے +دیوار پہ لگی ہوئی تصویر یار کی +اک لے گیا دوکان سے گاہک اتار کے +منصور کیا ہوا ہے تعلق کے شہر کی +دل نے پہن خامشی ڈھولک اتار کے +پتھر کے رتجگے میری پلکوں میں گاڑ کے +رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے +اتنی کوئی زیادہ مسافت نہیں مگر +مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے +آنکھوں سے خدو خال نکالے نہ جا سکے +ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے +یہ پھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس +رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے +مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی +کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے +بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی +خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے +دو چار دن لکھی تھی جدائی کی سرگزشت +منصور ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے +دیکھتا ہوں خواب میں تیرے محل کے آئینے +یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے +میں نے دیواروں پہ تیری شکل کیا تصویر کی +آ گئے کمرے میں آنکھوں سے نکل کے آئینے +آدمی نے اپنی صورت پر تراشے دیوتا +آپ اپنی ہی عبادت کی ، بدل کے آئینے +ساڑھی کے شیشوں میں میرا لمس ِ تازہ دیکھ کر +تیرے شانوں سے نظر کے ساتھ ڈھلکے آئینے +آخری نقطے تلک دیکھا تھا اپنی آنکھ میں +اور پھر دھندلا گئے تھے ہلکے ہلکے آئینے +ایک سورج ہے ترے مد مقابل آج رات +دیکھ اس کو دیکھ لیکن کچھ سنبھل کے آئینے +سینہ ئ شب میں حرارت تھی کچھ اتنی چاند کی +پارہ پارہ ہو گئے ہیں دو پگھل کے آئینے +پھر برہنہ شخصیت ہونے لگی دونوں طرف +جب شرابوں سے بھرے کچھ دیر چھلکے آئینے +مراسلے دیارِ غیب کے قلی کے دوش پر پڑے رہے +بڑے بڑے بریف کیس شانہ ئ سروش پر پڑے رہے +پیانو پہ مچلتی انگلیوں کے بولتے سروں کی یاد میں +تمام عمرسمفنی کے ہاتھ چشم و گوش پر پڑے رہے +ہزار ہا کلائیاں بہار سے بھری رہیں ہری رہیں +نصیب زرد موسموں کے دستِ گل فروش پر پڑے رہے +برہنہ رقص میں تھی موت کی کوئی گھڑی ہزار شکر ہے +کہ سات پردے میرے دیدہ ئ شراب نوش پر پڑے رہے +اٹھا کے لے گئی خزاں تمام رنگ صحن سے حیات کے +کسی نے جو بنائے تھے وہ پھول میز پوش پر پڑے رہے +یہ مارکر سے لکھا گیٹ پر بڑا کرکے +میں جا رہا ہوں گلی سے معانقہ کر کے +تُو زود رنج ہے لیکن برا نہیں دل کا +فریب دیتا ہوں خود کو ترا گلہ کرکے +میں کیا بتائوں شبِ التفات کا قصہ +گلی میں چھوڑ دیا اس نے باولہ کرکے +میں فلم کا کوئی ہیرو نہیں مگر اس کو +بھلا دیا ہے قیامت کا حوصلہ کر کے +سپیڈ میں نے بڑھا دی ہے کار کی منصور +قریب ہونے لگی تھی وہ فاصلہ کر کے +بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے +آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے +دل ہی کچھ کرنے پہ آمادہ نہیں تھا +ڈائری میں فون نمبر تو کئی تھے +میں نے بچپن میں کوئی وعدہ کیا تھا +ورنہ گائوں میں حسیں بر تو کئی تھے +صبح تنہائی تھی اور خالی گلاس +ہم زباں ہم رقص شب بھر تو کئی تھے +تیرے آتش دان کی رُت ہی نہیں تھی +لمس کے دھکے دسمبر تو کئی تھے +ایک اک کمرے میں بستر موت کا تھا +آس کی بلڈنگ میں چیمبر تو کئی تھے +گیسوئوں کے آبشار آنکھوں کی جھیلیں +ہم پکھی واسوں کے امبر تو کئی تھے +خاک کا الہام تنہا ایک تُو تھا +آسمانوں کے پیمبر تو کئی تھے +شہر میں منصور بس کوئی نہیں تھا +رونق ِئ محراب و منبر تو کئی تھے +یہ چاند یہ چراغ مہیا ہے کس لئے +یہ میری دسترس میں ثریا ہے کس لئے +چلتی ہوئی سڑک پہ زمانہ کہے مجھے +چوکور تیری کار کا پہیہ ہے کس لئے +مجھ سے تو ایک پھول خریدا نہ جا سکا +یہ میرے پاس اتنا روپیہ ہے کس لئے +ہیٹر تو بالکونی کا بھی آن ہے مگر +اس درجہ سرد گھر کا رویہ ہے کس لئے +دنیا میں بے شمار ہیں اُس جیسے اور لوگ +ممکن نہیں ملن تو تہیہ ہے کس لئے +کیا سیکھتے ہو پانی پہ چلنے کا معجزہ +اس پار جانے والے یہ نیا ہے کس لئے +شہر کی فتح بابِ شک پر ہے +منحصر لوگوں کی کمک پر ہے +کلمہ کا ورد کر رہے ہیں لوگ +آخری شو کا رش سڑک پر ہے +فیملی جا رہی ہے لے کے اسے +گھر کا سامان بھی ٹرک پر ہے +پڑھ رہا ہوں ہزار صدیوں سے +کیا کسی نے لکھا دھنک پر ہے +بھیج مت پرفیوم جانِ جاں +حق مرا جسم کی مہک پر ہے +چاند ہے محوِ خواب پہلو میں +یعنی بستر مرا فلک پر ہے +میری پلکوں کی ساری رعنائی +موتیوں کی چمک دمک پر ہے +آس کا شہر ہے سمندر میں +اور بنایا گیا نمک پر ہے +دل کی موجودگی کا افسانہ +بادلوں کی گرج چمک پر ہے +چاند کی ہاتھ تک رسائی بھی +دلِ معصوم کی ہمک پر ہے +کس نے ہونا ہے شہر کا حاکم +فیصلہ بوٹ پر دھمک پر ہے +کون قاتل ہے فیصلہ، منصور +فائروں کی فقط لپک پر ہے +آنکھ کے قطرہ ئ عرق پر ہے +علم بس عشق کے سبق پر ہے +منزلِ ہجر سے ذرا آگے +اپنا گھر چشمہئ قلق پر ہے +کوئی آیا ہے میرے انگن میں +ابر صحرائے لق و دق پر ہے +ایک ہی نام ایک ہی تاریخ +ڈائری کے ورق ورق پر ہے +شامِ غم کے نگار خانے میں +زخم پھیلا ہوا شفق پر ہے +سن رہا ہوں کہ میرے ہونے کی +روشنی چودھویں طبق پر ہے +دیکھ کر کارِ امت شبیر +لگ رہا ہے یزید حق پر ہے +یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے +ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے +تُو چشمِ ہجر کی رنگت پہ تبصرہ مت کر +یہ انتظار کے جاڑے میں جامنی ہوئی ہے +نہ پوچھ مجھ سے طوالت اک ایک لکنت کی +یہ گفتگو کئی برسوں میں گفتنی ہوئی ہے +چمکتی ہے کبھی بجلی تو لگتا ہے شاید +یہیں کہیں کوئی تصویر سی بنی ہوئی ہے +ابھی سے کس لئے رکھتے ہو بام پر آنکھیں +ابھی تو رات کی مہتاب سے ٹھنی ہوئی ہے +ابھی ن��ال نہ کچھ انگلیوں کی پوروں سے +ابھی یہ تارِ رگ جاں ذرا تنی ہوئی ہے +شراب خانے سے کھلنے لگے ہیں آنکھوں میں +شعاعِ شام سیہ ، ابر سے چھنی ہوئی ہے +نظر کے ساتھ سنبھلتا ہوا گرا پلو +مری نگاہ سے بے باک اوڑھنی ہوئی ہے +کچھ اور درد کے بادل اٹھے ترے در سے +کچھ اور بھادوں بھری تیرگی گھنی ہوئی ہے +کلی کلی کی پلک پر ہیں رات کے آنسو +یہ میرے باغ میں کیسی شفگتنی ہوئی ہے +اک ایک انگ میں برقِ رواں دکھائی دے +کسی کے قرب سے پیدا وہ سنسنی ہوئی ہے +جنوں نواز بہت دشتِ غم سہی لیکن +مرے علاوہ کہاں چاک دامنی ہوئی ہے +میں رنگ رنگ ہوا ہوں دیارِ خوشبو میں +لٹاتی پھرتی ہے کیا کیا ، ہوا غنی ہوئی ہے +سکوتِ دل میں عجب ارتعاش ہے منصور +یہ لگ رہا ہے دوبارہ نقب زنی ہوئی ہے +عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے +دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے +جس سے گزرا ہی نہیں ہوں عمر بھر +وہ گلی وہ آستاں معشوق ہے +رفتہ رفتہ کیسی تبدیلی ہوئی +میں جہاں تھا اب وہاں معشوق ہے +ہے رقیب ِ دلربا اک ایک آنکھ +کہ مرا یہ آسماں معشوق ہے +مشورہ جا کے زلیخا سے کروں +کیا کروں نامہرباں معشوق ہے +صبحِ ہجراں سے نشیبِ خاک کا +جلوہئ آب رواں معشوق ہے +ہیں مقابل ہر جگہ دو طاقتیں +اور ان کے درمیاں معشوق ہے +گھٹیاں کہتی ہیں دشتِ یاد کی +اونٹنی کا سارباں معشوق ہے +وہ علاقہ کیا زمیں پر ہے کہیں +ان دنوں میرا جہاں معشوق ہے +میں جہاں دیدہ سمندر کی طرح +اور ندی سی نوجواں معشوق ہے +ہر طرف موجودگی منصور کی +کس قدر یہ بے کراں معشوق ہے +ہجراں کے بے کنار جہنم میں ڈال کے +پلکیں سفید کر گئے دو پل ملال کے +میں آنکھ کی دراز میں کرتا ہوں کچھ تلاش +گہرے سیاہ بلب سے منظر اجال کے +دفنا نہیں سکا میں ابھی تک زمین میں +کچھ روڈ پر مرے ہوئے دن پچھلے سال کے +بستر پہ کروٹوں بھری شکنوں کے درمیاں +موتی گرے پڑے ہیں تری سرخ شال کے +تصویر میں نے اپنی سجا دی ہے میز پر +باہر فریم سے ترا فوٹو نکال کے +پازیبِ کے خرام کی قوسیں تھیں پائوں میں +کتھک کیا تھا اس نے کناروں پہ تھال کے +اڑنے دے ریت چشمِ تمنا میں دشت کی +رکھا ہوا ہے دل میں سمندر سنبھال کے +سر پہ سجا لئے ہیں پرندوں کے بال و پر +جوتے پہن لئے ہیں درندوں کی کھال کے +آنکھوں تلک پہنچ گئی ، دلدل تو کیا کروں +رکھا تھا پائوں میں نے بہت دیکھ بھال کے +حیرت فزا سکوت ہے دریائے ذات پر +آبِ رواں پہ اترے پرندے کمال کے +میں سن رہا ہوں زرد اداسی کی تیز چاپ +جھڑنے لگے ہیں پیڑ سے پتے وصال کے +منصور راکھ ہونے سے پہلے فراق میں +سورج بجھانے والا ہوں پانی اچھال کے +تھی کہاں اپنے میانوالی سے بیزاری اسے +لے گئی ہے اِک سڑک کی تیز رفتاری اسے +نہر کے پل پر ٹھہر جا اور تھوڑی دیر ، رات +روک سکتی ہے کہاں اِک چار دیواری اسے +کوئی پہلے بھی یہاں پر لاش ہے لٹکی ہوئی +کہہ رہی ہے دل کے تہہ خانے کی الماری اسے +پوچھتی پھرتی ہے قیمت رات سے مہتاب کی +تازہ تازہ ہے ابھی شوقِ خریداری اسے +جو طلسم حرف میں اترا ہے اسمِ نعت سے +قریہ ئ شعر و سخن کی بخش سرداری اسے +نیم عریاں کر گئی ہے رقص کی مستی اسے +دیکھنے کو جمع ہے ترسی ہوئی بستی اسے +جیسے حرکت کا بہائو ، جیسے پانی کا مزاج +کھینچتی ہے اپنی جانب اس طرح پستی اسے +ایک ہی بیڈ روم میں رہتے ہوئے اتنا فراق +چوم لینا چاہئے اب تو زبردستی اسے +کھینچ لایا میرے پہلو کی سنہری دھوپ میں +شامِ شالا مار کا باغیچہ ئ وسطی اسے +اس سیہ پاتال میں ہیں سورجوں کی بستیاں +زینہ در زینہ کہے ، بجھتی ہوئی ہستی اسے +جاگتے دل کی تڑپ یا شب کی تنہائی اسے +کونسی شے می��ے کمرے کی طرف لائی اسے +اس قدر آنکھوں کو رکھنا کھول کر اچھا نہیں +لے گئی تاریکیوں میں اس کی بینائی اسے +ڈوبنا اس کے مقدر میں لکھا ہے کیا کروں +اچھی لگتی ہے مری آنکھوں کی گہرائی اسے +بجھ گیا تھا چاند گہرے پانیوں میں پچھلی رات +ڈھانپتی اب پھر رہی ہے دور تک کائی اسے +جو برہنہ کر گیا ہے ساری بستی میں مجھے +میں نے اپنے ہاتھ سے پوشاک پہنائی اسے +لے گئی ہے دور اتنا ، ایک ہی غلطی اسے +سوچتا ہوں کیا کروں کیسے کہوں سوری اسے +رفتہ رفتہ نیم عریاں ہو گئی کمرے میں رات +لگ رہی تھی آگ کی تصویر سے گرمی اسے +ایک بستر میں اکیلی کروٹیں اچھی نہیں +بھول جانی چاہئے اب شام کی تلخی اسے +لوگ کتنے جگماتے پھر رہے ہیں آس پاس +ہے یہی بہتر بھلا دو تم ذرا جلدی اسے +اُتنا ہی مشکل ہے یہ کارِ محبت جانِ من +تم سمجھتے پھر رہے ہو جس قدر ایزی اسے +تری تعمیر کی بنیاد اپنی بے گھری پر ہے +مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے +جسے حاصل کیا ہے تُو نے اپنی بیچ کر لاشیں +مرا تھو ایسی صدرِ مملکت کی نوکری پر ہے +فقط میری طرف سے ہی نہیں یہ پھولوں کا تحفہ +جلوس اپنا ابھی نکلے گا کالی کالی قبروں سے +نظر اپنی بھی زر آباد کی خوش منظری پر ہے +ترے آسیب کا سایہ شجر ایسا سہی لیکن +ترا اب انحصار اپنی ہوائے سر پھری پر ہے +قسم مجھ کو بدلتے موسموں کے سرخ رنگوں کی +ترا انجام اب لوگوں کی آشفتہ سری پر ہے +نظامِ زر !مجھے سونے کے برتن دے نہ تحفے میں +مرا ایمان تو خالی شکم کی بوزری پر ہے +زیادہ حیثیت رکھتی ہے پانی پت کی جنگوں سے +وہ اک تصویر بابر کی جو تزکِ بابری پر ہے +فرشتے منتظر ہیں بس سجا کر جنتیں اپنی +مرا اگلا پڑائو اب مریخ و مشتری پر ہے +وہ جو موج سبک سر ناچتی ہے میری سانسوں میں +سمندر کا تماشا بھی اسی بس جل پری پر ہے +اسے صرفِ نظر کرنے کی عادت ہی سہی لیکن +توقع ، بزم میں اپنی مسلسل حاضری پر ہے +یقینا موڑ آئیں گے مرے کردار میں لیکن +ابھی تو دل کا افسانہ نگاہِ سرسری پر ہے +عجب تھیٹر لگا ہے عرسِ حوا پر کہ آدم کی +توجہ صرف اعضائے بدن کی شاعری پر ہے +وفا کے برف پرودہ زمانے یاد ہیں لیکن +یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے +مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادوگری پر ہے +تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے +ترے دربار سے کچھ مانگنا گر کفر ٹھہرا ہے +تو میں کافر ہوں مجھ کو ناز اپنی کافری پر ہے +تری رفعت تفکر کی حدودِ فہم سے بالا +ترا عرفان طنزِ مستقل دانشوری پرہے +سراپا ناز ہو کر بھی نیازِ عشق کے سجدے +خدا کو فخر بس تیرے خلوصِ دلبری پر ہے +صلائے عام ہے وہ بنض ِ ہستی تھام لے آکر +جو کوئی معترض آقا تری چارہ گری پر ہے +مجھے تسخیرِ یزداں کا عمل معلوم ہے منصور +کرم خاکِ مدنیہ کا مری دیدہ وری پر ہے +کون درزوں سے آئے رس رس کے +میرا کمرہ کرے سخن کس کے +میں گلی میں سلگتا پھرتا ہوں +جل رہے ہیں چراغ مجلس کے +بازووں پر طلوع ہوتے ہی +کٹ گئے دونوں ہاتھ مفلس کے +جز ترے کیا ہیں رنگ پیرس کے +میں بھی شاید موہنجو داڑو ہوں +اب بھی سر بند راز ہیں جس کے +متحرک ہیں غم کی تصویریں +چل رہے ہیں بدن حوادث کے +دیکھ چھو لے مجھے ذرا اے دوست +دیکھنا پھر کرشمے پارس کے +وقت کے ساتھ میرے سینے پر +بڑھتے جاتے ہیں داغ نرگس کے +تم سمجھ ہی کہاں سکے منصور +مسئلے عشق میں ملوث کے +مان لیا وہ بھی میرا یار نہیں ہے +اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے +جاگ رہا ہوں میں کتنے سال ہوئے ہیں +کیسے کہوں اس کا انتظار نہیں ہے +ٹوٹ گئے ہیں دو پھر امید بھرے دل +ٹکڑے ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہے +میرا بدن برف ہے یا تیر ِ نظر میں +پہلے پہل والی اب کے مار نہیں ہے +عہدِ خزاں میں ہے میرا باغ کہ جیسے +دامن ئ تقدیر میں بہار نہیں ہے +سنگ اچھالے ہیں اس نے بام سے مجھ پر +جیسے گلی اس کی رہگزار نہیں ہے +ایک دعا ہے بس میرے پاس عشائ کی +رات! مرا کوئی غمگسار نہیں ہے +صرف گھٹا ہے جو دل بہلائے برس کے +اور کوئی چشمِ اشکبار نہیں ہے +سرخ ہے بے شک نمود چہرہ ئ تاریخ +دامن ئ تہذیب داغ دار نہیں ہے +سنگ زدہ اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن +آدمی ہے کوئی کوہسار نہیں ہے +پار کروں گا میں اپنی آگ کا دریا +دیکھ رہا ہوں یہ بے کنار نہیں ہے +وقت نہیں آج اس کے پاس ذرا بھی +اور یہاں رنگِ اختصار نہیں ہے +مست ہوائیں بھی ماہتاب بھی لیکن +رات بھری زلفِ آبشار نہیں ہے +گھوم رہا ہوں فصیلِ ذات کے باہر +کوئی بھی دروازہ ئ دیار نہیں ہے +ایک نہیں قحط عشق صرف یہاں پر +شہر میں کوئی بھی کاروبار نہیں ہے +پھیر ہی جا مجھ پہ اپنا دستِ کرامت +آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے +درج ہے نیلی بہشتِ خواب کا منظر +آنکھ میں منصور کی غبار نہیں ہے +میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دئیے +پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دئیے +پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے +آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا ، دئیے +کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں +ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دئیے +ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب +کتنے بجھا سکے گی زمیں پر ،ہوا ،دئیے +بڑھنے لگی تھی دھوپ مراسم کی آنکھ میں +دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دئیے +بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں +کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دئیے +بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں +ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دئیے +کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی +میری یقین چاند ، مرا حوصلہ دئیے +اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس +مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دئیے +کچھ پل ستم شعار گلیوں میں گھوم لے +عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دئیے +میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کردیا +فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دئیے +منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر +گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دئیے +یہ بے ضمیر۔ قوم و وطن بیچتے ہوئے +کچھ سوچتے نہیں ہیں کفن بیچتے ہوئے +کچھ دیکھتے کہاں ہیں یہ سوداگرانِ خاک +دریا ، پرند ، برگ و سمن بیچتے ہوئے +گنتے ہیں غیر ملکی کرنسی کے صرف نوٹ +حکام بیٹیوں کے بدن بیچتے ہوئے +خوش ہیں امیر شہر محلات میں بہت +ابلیس کو دیار ِ عدن بیچتے ہوئے +اس عہدِ زر پرست کی آواز بن گئے +اپنے قلم کو اہلِ سخن بیچتے ہوئے +ہیں اہتمام ِ رقص ِطوائف میں منہمک +منصور باغبان چمن بیچتے ہوئے +شاخِ بدن پہ کوئی تعلق کھلے ہوئے +عرصہ گزر گیا ہے کسی سے ملے ہوئے +میں کیا کروں کہ مجلسِ دل میں تمام رات +تیری شکایتیں ہوئیںتیرے گلے ہوئے +میں نے مقام ِ طور پہ دیکھا خود اپنا نور +صبحِ شعورِ ذات کے کچھ سلسلے ہوئے +پہلے ہی کم تھیں قیس پہ صحرا کی وسعتیں +ہجراں کے مدرسے میں نئے داخلے ہوئے +منصور دو دلوں کی قرابت کے باوجود +اپنے گھروں کے بیچ بڑے فاصلے ہوئے +دل میں پڑی کچھ ایسی گرہ بولتے ہوئے +ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے +سارے نکل پڑے تھے اسی کے حساب میں +بچوں کی طرح رو پڑی دکھ تولتے ہوئے +میں کیا کروں کہ آنکھیں اسے بھولتی نہیں +دل تو سنبھل گیا ہے مرا ڈولتے ہوئے +کہنے لگی ہے آنکھ میںپھر مجھ کو شب بخیر +پانی میں شام اپنی شفق گھولتے ہوئے +کنکر سمیت لائے ہمیشہ مرا نصیب +منصور موتیوں کو یونہی رولتے ہوئے +یہ کائنات ِ روح و بدن چھانتے ہوئے +میں تھک گیا ہوں تجھ کوخدا مانتے ہوئے +اک دو گ��ڑی کا تیرا تعلق کہے مجھے +صدیاں گزر گئی ہیں تجھے جانتے ہوئے +پھرتا ہوں لے کے آنکھ میں ذرے کی وسعتیں +صحرا سمٹ گئے ہیں مجھے چھانتے ہوئے +برکھا کے شامیانے سے باہر ندی کے پاس +اچھا لگا ہے دھوپ مجھے تانتے ہوئے +یہ بھول ہی گیا کوئی میرا بھی نام تھا +ہر وقت نام یار کا گردانتے ہوئے +اس کے کمال ِ ضبط کی منصور خیر ہو +صرف ِ نظر کیا مجھے پہچانتے ہوئے +زمیں سے عرش پہ نازل کلام کیاکرتے +ادھورے گیت سے حاصل دوام کیاکرتے +اُدھر بلاوا تھااُس کا کہ میں اکیلی ہوں +اِدھر ادھو رے تھے دفتر کے کام کیاکرتے +ہر آسماں سے نیا آسماں دکھائی دے +جہاز عرش کا رستہ تمام کیاکرتے +ازل تھا میز پہ جن کی ،ابدتھا جیب کے بیچ +حیات و موت کا وہ احترام کیا کرتے +ہوا نے رنگ بکھیرے نہ پھول نے خوشبو +ترے بغیر ادھوری تھی شام کیا کرتے +زمین ہوتی توہم بھی کہیں قدم رکھتے +مقام ہی نہ تھا کوئی ، قیام کیا کرتے +ہم اپنی ذات کی سڑکوں کے گم شدہ منصور +وصال و فاصلہ کااہتمام کیا کرتے +خراب و خستہ و ناکام کو ترے غم نے +بنایا خاص کسی عام کو ترے غم نے +یہ جانتا ہی نہیں ہے فراق کے آداب +لگا دی آگ درو بام کو ترے غم نے +کھلے ہوئے ہیں درختوں کے بال وحشت سے +رلا دیا ہے عجب شام کو ترے غم نے +میں آنسوئوں کے گہر ڈھونڈتا تھا پہلے بھی +بڑھایا اور مرے کام کو ترے غم نے +بنادیا ہے جہاں بھر میں معتبر کیا کیا +مجھ ایسے شاعرِ بے نام کو ترے غم نے +بدل دیا ہے یقیں کے گمان میں منصور +فروغِ ہجر کے الزام کو ترے غم نے +ٹہل رہا تھا کوئی سنگ سنگ رنگوں کے +بدل رہے تھے تسلسل سے رنگ رنگوں کے +وہ آسمان پہ شام ِ وصال پھرتی ہے +بچھے ہیں قوسِ قزح پہ پلنگ رنگوں کے +اتر نہ جائے درختوں سے گل رتوں کی شال +پہن لے کپڑے ذرا شوخ و شنگ رنگوں کے +تری گلی سے نکلتے نہیں ہیں جانِ بہار +فقیرعارضِ گل کے ملنگ رنگوں کے +تری مہک سے بڑھاتے ہیں اپنی توقیریں +میں جانتا ہوں سبھی رنگ ڈھنگ رنگوں کے +دستکوں کی آس پر لکڑی کے در بوڑھے ہوئے +اور ہم مغرور مجنوں اپنے گھر بوڑھے ہوئے +یہ الگ ہے گھٹ گئی فصلِ ثمر باری مگر +بڑھ گئی کچھ اور چھائوں جب شجر بوڑھے ہوئے +جس کی تزئین کیلئے اپنی جوانی صرف کی +دوست ہم اس شہر کے فٹ پاتھ پر بوڑھے ہوئے +صبح کی تجسیم کرنا غیر ممکن ہو گیا +رات کو جو کاٹتے تھے کاریگر بوڑھے ہوئے +رو پڑی لگ کر گلے دریا سے پھر پاگل ہوا +جب لبِ ساحل کسی بگلے کے پر بوڑھے ہوئے +ہوتے مرے بھی خال و خد ، آئینہ دیکھتا مجھے +سنگِ جہاں نژاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے +کشف ِ وصال و ہجر میںکیسا شعورِ ذات ہے +عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے +اس کے خرامِ ناز پہ کوئی چراغ کیا جلا +شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے +لکھی غزل ہے میر نے میرے چرا چرا کے خواب +غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے +قریہ ئ ماہ تاب تک چھان کے آگیا ہوں میں +منزلِ وصل کیلئے اتنا نہ اب پھرا مجھے +اس کو حیات بخش دی ، مہر منیر ہو گیا +شاخ صلیب ِ شام پہ جس نے کہا خدا مجھے +جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے +چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے +کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں +میرے قریب بیٹھ کر توُ بھی کبھی منا مجھے +مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک +میرا مقام و مرتبہ ، پستی نہیں ، اٹھا مجھے +میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں +میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے +ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں +لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے +میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی +اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے +خیمہ ئ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو +حرف صدائے کن بتا کیسے ہے تھامنا مجھے +اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے +لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے +میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے +اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے +ایک کرن شعور کی ، ایک بہار نور کی +اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے +مجھ سے بڑا کوئی نہیں‘ رات کے اک چراغ نے +کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے +آمدِ یار کیلئے جمع چراغِ چشم ہیں +کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے +پائوں میں ہے غبارِ راہ ، آنکھ میں منظر ِ سیہ +دل ہے طلب کدہ مرا کوئی دیا دکھا مجھے +اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا +پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے +کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیئوں ترے بغیر +دیتا تمام شہر ہے ، جینے کا مشورہ مجھے +رستہ تھا روشنی بکف ، گھر تھا چمن بنا ہوا +تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے +میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں +میرے بدن پہ پائوں رکھ ، قوس قزح بنا مجھے +کہتی ہے داستانِ نور ، آکے سیہ لباس میں +مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے +سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں +چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے +مستی سے بھر، ترنگ دے،دل کو کوئی امنگ دے +اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے +تُو پہلے لوح پہ لکھا ہوا بدل چل کے +پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے +اکیلا دیکھ کے تالاب کے کنارے پر +تسلی دینے مجھے آ گیا کنول چل کے +مجھے دکھا نہ دہکتے ہوئے پہر کا جلال +جا اپنی شام کی عبرت سرا میں ڈھل چل کے +صدائوں سے وہ سفینہ پلٹ نہیں سکتا +اِسی جزیرہ وحشت میں ہاتھ مل چل کے +نکال دشتِ تعلق سے اپنی تنہائی +کسی حبیب کے گھر جا ، ذرا سنبھل چل کے +وہ سنگ زاد پگھلتا نہیں مگر پھر بھی +اسے سنا کوئی جلتی ہوئی غزل چل کے +طلوعِ حسن کی ساعت پہ تبصرہ کیا ہو +نکل رہا ہے کوئی آسماں کے بل چل کے +مزاجِ خانہ ئِ درویش کو خراب نہ کر +چراغ! اپنے حریم ِ حرم میں جل چل کے +فسادِ خلقِ خدا پہ امید صبحوں کی +بغاوتوں کی کرن ہیں تماشے ہلچل کے +رکی ہے چرخ کی چرخی کسی خرابی سے +نکال وقت کے پہییے سے اب خلل چل کے +مثالِ تیر لپکتے ہوئے تعاقب میں +ابد میں ہو گیا پیوست خود ازل چل کے +اب اس کے بعد کہانی ترے کرم کی ہے +خود آ گیا ہے یہاں تک توبے عمل چل کے +ندی کی پیاس بجھا ریت کے سمندر سے +کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھر ابل چل کے +سنا ہے کھڑکیاں کھلتی ہیں چاند راتوں میں +کسی کو دیکھ مرے دل ، کہیں مچل چل کے +مجھے بھی آتے دنوں کا شعور حاصل ہو +پڑھوں کہیں پہ گذشتہ کا ماحصل چل کے +بس ایک فون کی گھنٹی ، بس ایک ڈور کی بیل +کسی کی آگ میں پتھر بدن !پگھل چل کے +عجب ہے حسنِ تناسب کی داستاں منصور +بنا ہے ’تاج محل‘ موت کا محل چل کے +چیزوں سے گرد جھاڑتے ، لان کی باڑ کاٹتے +کیسے نکلتے زخم سے، کیسے پہاڑ کاٹتے +پچھلی گلی کی نیند سے آتے طبیب خواب کے +ہجر کی فصد کھولتے ، درد کی ناڑ کاٹتے +چلتیں گھڑی کی سوئیاں ، اپنے بدلتے روز و شب +دن کا ملال ٹوٹتا ، شب کا بگاڑ کاٹتے +قیدی نظام ِزر کے ہیں دست بریدہ لوگ ہم +دانتوں سے کیسے لوہے کے بھاری کواڑ کاٹتے +قوسِ قزح بچھا کے ہم کنجِ صبا میں بیٹھ کر +دیدہ ئ صادقین سے تھور کا جھاڑ کاٹتے +یاد کے راٹ وائلر ، ہوتے اگر نہ آس پاس +بھیڑے دشتِ درد کے جسم کو پھاڑ کاٹتے +حسنِ طلب کے شہر میں گنتے بدن کے لوتھڑے +تیغِ سکوتِ مرگ سے من کا کراڑ کاٹتے +بیچ نئے وصال کے بوتے کہ ہم سیہ نصیب +کشتِ خرابِ عمر سے پچھلا کباڑ کاٹتے +لاتے کہیں سے ہم کوئی ابرِ حیات کھنچ کر +شاخِ خزاں تراشتے ، دکھ کا اجاڑ کاٹتے +آتی تری ہوا اگر اپنی گلی کے موڑ تک +چیت کے صحنِ سبز میں عمر کا ہاڑ کاٹتے؟ +اچھے دنوں کو سوچتے دونوں کہیں پہ بیٹھ کر +ہاتھوں کو تھام تھام کے لمبی دیہاڑ کاٹتے +۔۔۔۔۔پھاڑ کاٹنا خالصتاً میانوالوی محاورا ہے۔۔ +وہ تعلق ہیں زمیں زاد سے دانائی کے +سلسلے عرش تلک حسنِ پذیرائی کے +میرے سینے سے بھی دھڑکن کی صدا اٹھی تھی +اس کی آنکھوں میں بھی تھے عکس شناسائی کے +حرف نے باندھ رکھا ہے کوئی پائوں سے سروش +مجھ پہ ہیں کشف ِمسلسل سخن آرائی کے +بادلوں سے بھی ٹپکتی ہیں لہو کی بوندیں +دیکھ لو چارہ گرو زخم مسیحائی کے +سٹیاں بجتی ہیں بس کان میں سناٹوں کی +رابطے مجھ سے زیادہ نہیں تنہائی کے +روشنی اتنی چراغِ لب و رخ سے نکلی +ختم یک لخت ہوئے سلسلے بینائی کے +آخرش میں نے بھی تلوار اٹھا لی منصور +حوصلہ ختم ہوئے میری شکیبائی کے +یہ گہرے سبز سے کہسار مجھ سے +ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے +زمانہ ہے سحر آثار مجھ سے +ملو آ کے افق کے پار مجھ سے +اسے ہر بار ایسے دیکھتا ہوں +ملا ہے جیسے پہلی بار مجھ سے +طلب کی آخری حد آ گئی ہے +وہ آئے اور سنے انکار مجھ سے +مری تقدیر میں بربادیاں ہیں +کہے ٹوٹا ہوا اوتار مجھ سے +سمجھ کر دھوپ مجھ کو زندگی کی +گریزاں سایہ ئ دیوار مجھ سے +درختوں پر میں بارش کی طرح ہوں +ہوا میں خاک کی مہکار مجھ سے +مسلسل لفظ ہیں کرب و بلا میں +سرِ نوکِ سناں اظہار مجھ سے +منائیں لوگ جشن فتخ مندی +فقط نسبت ہے تیری ہار مجھ سے +پڑا کوئے ملامت میں کہیں ہوں +تعلق کیا رکھے دستار مجھ سے +میں شب بھر چاند کو منصور دیکھوں +یہ چاہے دیدہ ئ بیدار مجھ سے +خواہ یہ دل برباد رہے +اس میں تُو آباد رہے +شکر ہے دشتِ حسرت میں +برسوں غم کے مکتب میں +اک لمحے کی خواہش میں +غم سے تُو آزاد رہے +جیسا بھی ہوں تیرا ہوں +اتنا تجھ کو یاد رہے +تیری گلی میں سانس سدا +زخم نہ چاٹے کوئی بھی +دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے +اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے +فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے +زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے +یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں +یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے +قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف +یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے +جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی +وہ مادھو لال آگ کنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے +کہے ، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں؟ +وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے +کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں +وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے +جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں +یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے +ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ +یہ برف پوش رُت تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے +یہ اپنا آپ مسلسل نثار کرتے ہوئے +رہا نہیں میں، تجھے اختیار کرتے ہوئے +ازل نژاد نظر اور اب کہاں جائے +ابد گزار دیا انتظار کرتے ہوئے +وہ جانتا ہے مقابل ہے آئینہ اس کے +ہزار بار وہ سوچے گا وار کرتے ہوئے +چراغ بھول گئی بام پر وہ آنکھوں کے +شبِ فراق! تجھے بے کنار کرتے ہوئے +گزر گیا مرے کوچے سے وہ مثالِ صبح +اک ایک آئینہ تمثال دار کرتے ہوئے +میں کانپ جاتا ہوں اس پر یقین اتنا تھا +کسی بھی شخص پہ اب اعتبار کرتے ہوئے +لبِ فرات پہ ہار آئی آلِ ابراہیم +فلک ولک پہ زمیں انحصار کرتے ہوئے +ہر ایک بار ترے بارے سوچتا ہوں میں +تعلقات کہیں استوار کرتے ہوئے +بیاض اپنی اسے دے دی میں نے ت��فے میں +یہی کلام کیا اختصار کرتے ہوئے +یہ شہرِ دل کا لٹیرا بھی لٹ گیا منصور +شکار ہو گیا آخر شکار کرتے ہوئے +کوئی دہلیز ِ جاں سے ٹھتا ہے +چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے +ہے ابھی کوئی خالی بستی میں +وہ دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے +چھوڑ آتا ہے نقشِ پا کا چراغ +پائوں تیرا جہاں سے اٹھتا ہے +جس بلندی کو عرش کہتے ہیں +ذکر تیرا(ص) وہاں سے اٹھتا ہے +اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا +درد سا کچھ یہاں سے اٹھتا ہے +اک ستارہ صفت سرِ آفاق +دیکھتے ہیں کہاں سے اٹھتا ہے +ہم ہی ہوتے ہیں اس طرف منصور +پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے +اوس سے اخذ ہوئے ، پہلی کرن سے نکلے +ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے +ہم نے اس کے گل و گلزار سے کیا لینا ہے +اپنے اجداد تھے جس باغِ عدن سے نکلے +رات بھر قوس ِ قزح پھیلی رہی کمرے میں +رنگ کیا کیا تری خوشبوئے بدن سے نکلے +دیکھ اے دیدہ ئ عبرت مرے چہرے کی طرف +ایسے وہ ہوتا ہے جو اپنے وطن سے نکلے +سائباں دھوپ کے ہی صرف نہیں وحشت میں +درد کے پیڑ بھی کچھ سایہ فگن سے نکلے +بستیاں ہیں مری ، ماضی کے کھنڈر پر آباد +ذہن کیسے بھلا آسیبِ کہن سے نکلے +فوج اب ختم کرے اپنا سیاسی کردار +یہ مرا ملک خداداد گھٹن سے نکلے +یوں جہنم کو بیاں کرتے ہیں کرنے والے +جیسے پھنکار لپکتے ہوئے پھن سے نکلے +تیرے اشعار تغزل سے ہیں خالی منصور +ہم سخن فہم ۔ تری بزم سخن سے نکلے +ناچنے والے وہ درویش وہ گانے والے +جانے کس شہر گئے شہر بسانے والے +بامِ تالاب پہ آباد کتابیں اور ہم +کیا ہوئے شمس وہ تبریر سے آنے والے +اب کہاں غالب و اقبال ، کہاں فیض و فراز +رہ گئے ہم ہی فقط راکھ اڑانے والے +لفظ زندہ رہے شہ نامہ ئ فردوسی کے +طاقِ نسیاں ہوئے ایران بنانے والے +کیا ہوئے درد کسی یاد کے مہکے مہکے +رات کے پچھلے پہر آ کے جگانے والے +اپنی صورت ہی نظر آنی تھی چاروں جانب +دیکھتے کیسے ہمیں آئنہ خانے والے +غزوہ ئ آتشِ نمرود ہو یا آتشِ دل +ہم ہمیشہ رہے بس آگ بجھانے والے +یہ شکاری نہیں حاسد ہیں ، ہماری زد میں +دیکھ کر حسنِ چمن شور مچانے والے +عشق کیا تجھ سے کیا جرم کیا ہے ہم نے +اب تو دہلیز تلک آ گئے تھانے والے +اب کہاں شہرِ خموشاں میں ہم ایسے منصور +مردہ قبروں پہ چراغوں کو جلانے والے +کچھ خبر بھی ہے تجھے آنکھ چرانے والے +کس لئے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے +ہم نے خوابوں کے دریچوں سے یونہی جھانکا تھا +تم تھے فنکار فقط گیت سنانے والے +روٹھنے والے ہمیں اب تو اجازت دے دے +اور مل جائیں گے تجھ کو تو منانے والے +بجھ گئے درد کی پلکوں پہ سسکتے دیپک +ہوگئی دیر بہت دیر سے آنے والے +ہم تو ہاتھوں کی لکیروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں +یہ تجھے علم نہ تھا ہاتھ ملانے والے +راس آئے نہیں منصور کو پھر دار و رسن +تم جو زندہ تھے ہمیں چھوڑ کے جانے والے +مجھے شوخ و شنگ لباس میں کوئی دلربا نہ ملا کرے +مرادل تو جیسے جنازہ گہ کہیں مرگ ہو تو بسا کرے +بڑی سرپھری سی ہوا چلے کہیں شام ِ دشت خیال میں +مرے راکھ راکھ سے جسم کو کوئی ریت پر نہ لکھا کرے +تری کائنات میں قید ہوں بڑے مختصر سے قفس میں ہوں +بڑی سنگ زاد گھٹن سی ہے مجھے کوئی اس سے رہا کرے +مرے ہر گناہ و ثواب کو یہ چھپا لے اپنے لباس میں +بڑی لاج پال ہے تیرگی ،کوئی رات کا نہ گلہ کرے +مرا ذکر و فکر ہوا کرے تری بارگاہِ خیال میں +مرے داغِ سجدہ کو چومنے تری جائ نماز بچھا کرے +اسے پوچھنا کہ وصال کا کوئی واقعہ بھی عدم میں ہے +وہ جو خامشی کے دیار میں کسی ان سنی کو سنا کرے +تراوصل آب ِ حیات ہے ترے جانتے ہیں محب مگر +ہے طلب درازیئ عمر کی کوئی موت کی نہ دعا کرے +مرے جسم وجاں سے پرے کہیں بڑی دورخانہ ئ لمس سے +کوئی خانقاہی کبوتری کہیں گنبدوں میں رہا کرے +کوئی قم باذنی کہے نہیں کوئی چارہ گر نہ نصیب ہو +مرا اور کوئی خدانہ ہو ترے بعد جگ میں خداکرے +کسی کے صرف چھولینے سےا یسے آگ لگ جائے +کسی پٹرول اسٹیشن کو جیسے آگ لگ جائے +کسی بیلے میں اشکوں کے دئیے تک بھی نہ روشن ہوں +کہیں پر بانسری کی صرف لے سے آگ لگ جائے +ہوائوں کے بدن میں سرخ موسم کے سلگنے سے +گلابو ں کے لبوں کی تازہ مے سے آگ لگ جائے +کبھی جلتے ہوئے چولہے میں جم جائے بدن کی برف +کبھی بہتے ہوئے پانی میں ویسے آگ لگ جائے +کسی کے بھیگنے سے کس طرح جلتی ہیں برساتیں +کسی کے چلنے سے رستے میں کیسے آگ لگ جائے +جام کے بادہ کے خوشبو کے کلی کے کیسے +تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے +زخم مرہم کی تمنا ہی نہیں کر سکتا +ہیں یہ احسان تری چارہ گری کے کیسے +نقشِ پا تیرے نہ ہوتے تو سرِ دشتِ وفا +جاگتے بخت یہ آشفتہ سری کے کیسے +اپنے کمرے میں ہمیں قید کیا ہے تُو نے +سلسلے تیرے ہیں آزاد روی کے کیسے +اتنے ناکردہ گناہوں کی سزا باقی تھی +ہائے در کھلتے بھلا بخت وری کے کیسے +صفر میں صفر ملاتے تھے تو کچھ بنتا تھا +جمع کر لیتے تھے اعداد نفی کے کیسے +۔جیپ آتی تھی تو سب گائوں نکل آتا تھا +کیا کہوں بھاگ تھے اس بھاگ بھری کے کیسے +ہجر کی رات ہمیں دیکھ رہی تھی دنیا +بند ہو جاتے درے بارہ دری کے کیسے +ڈاک کے کام میں تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں +سلسلے ختم ہوئے نامہ بری کے کیسے +موت کی اکڑی ہوئی سرد رتوں میں جی کر +یہ کھچے ہونٹ کھلیں ساتھ خوشی کے کیسے +کون روتا ہے شبِ ہجر کی تنہائی میں +پتے پتے پہ ہیں یہ قطرے نمی کے کیسے +موج اٹھتی ہی نہیں کوئی سرِ چشمِ وفا +یہ سمندر ہیں تری تشنہ لبی کے کیسے +موت کی شکل بنائی ہی نہیں تھی اس نے +نقش تجسیم ہوئے جان کنی کے کیسے +آ ہمیں دیکھ کہ ہم تیرے ستم پروردہ +کاٹ آئے ہیں سفر تیرہ شبی کے کیسے +بس یہی بات سمجھ میں نہیں آتی اپنی +جو کسی کا بھی نہیں ہم ہیں اسی کے کیسے +آنکھ کہ چیر تی جاتی ہےستاروں کے جگر +موسم آئے ہوئے ہیں دیدہ وری کے کیسے +کجکلاہوں سے لڑائی ہے ازل سے اپنی +دوست ہو سکتے ہیں ہم لوگ کجی کے کیسے +ہم چٹا نوں کے جگر کاٹنے والے منصور +سیکھ بیٹھے ہیں ہنر شیشہ گری کے کیسے +سحر سورج سے، شب تاروں سے خالی ہے +مری تمثیل کرداروں سے خالی ہے +نکالیں کوئی کیا ابلاغ کی صورت +خلا مصنوعی سیاروں سے خالی ہیں +چھتوں پر آب و دانہ ڈال جلدی سے +فضا بمبار طیاروں سے خالی ہیں +مزاجِ حرص کو دونوں جہاں کم ہیں +سرشتِ خوف انکاروں سے خالی ہے +اس آوارہ مزاجی کے سبب شاید +فضلیت اپنی ، دستاروں سے خالی ہے +کہیں گر ہی نہ جائے نیلی چھت منصور +کہ سارا شہر دیواروں سے خالی ہے + + +چراغ ہو گیا بدنام کچھ زیادہ ہی +کہ جل رہا تھا سرِ بام کچھ زیادہ ہی +ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے +کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی +میں کتنے ہاتھ سے گزرا یہاں تک آتے ہوئے +مجھے کیا گیا نیلام کچھ زیادہ ہی +ملال تری جدائی کا بے پنہ لیکن +فسردہ ہے یہ مری شام کچھ زیادہ ہی +تمام عمر کی آوارگی بجا لیکن +لگا ہے عشق کا الزام کچھ زیادہ ہی +بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے +بدن کو چاہئے آرام کچھ زیادہ ہی +سنبھال اپنی بہکتی ہوئی زباں منصور +تُو لے رہا ہے کوئی نام کچھ زیادہ ہی +تم کیسے اجالوں کا گزر بند کرو گی +کس چیز میں سورج کو نظر بند کرو گی +یہ کیا کہ چہکتے ہوئے رازوں کی گلی میں +ٹوٹی ہوئی بوتل کو بھی سر بند کرو گی +چھپ جائ�� گی تم ذات کے تہہ خانے میں لیکن +کیسے کسی احساس کا در بند کرو گی +یہ تیرے مکان کا کوئی دروازہ نہیں ہیں +کیسے مرے جذبوں کا سفر بند کرو گی +منصور پلٹ جائے گا دستک نہیں دیگا +تم ذات کا دروازہ اگر بند کرو گی +اک شخص نے ہونٹوں سے کوئی نظم کہی تھی +ہے یاد مجھے بوسوں بھری سات مئی تھی +میں انگلیاں بالوں میں یونہی پھیر رہا تھا +وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہی تھی +اس شخص کے گھر وہی حالت تھی مگر اب +بِڈ روم کی دیوار پہ تصور نئی تھی +آئی ہے پلٹ کر کئی صدیوں کے سفر سے +اس گیٹ کے اندر جو ابھی کار گئی تھی +موسم کے تغیر نے لکھا مرثیہ اس کا +منصور ندی مل کے جو دریا سے بہی تھی +عشق میں مبتلا ہوں ویسے ہی +میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی +آج میرا بہت برا دن تھا +یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی +اس لئے آنکھ میں تھکاوٹ ہے +ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی +بارشِ سنگ ہوتی رہتی ہے +آسماں لیپتا ہوں ویسے ہی +مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے +میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی +ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو +اک ذرا رک گیا ہوں ویسے ہی +پھول یوں ہی یہ پاس ہیں میرے +راستے میں کھڑا ہوں ویسے ہی +تُو بہت خوبرو سہی لیکن +میں تجھے مل رہا ہوں ویسے ہی +وہ مجھے پوچھتا نہیں آیا +آسماں سے جڑا ہوں ویسے ہی +مجھ کو جانا نہیں کہیں منصور +تار پر چل رہا ہوں ویسے ہی +آشنا سا لگتا ہے اپنی پُرخواب چاپ سے کوئی +ہے مرے تعاقب میں ،نیندکے بس سٹاپ سے کوئی +موسمِ جدائی کی تنگ تھا زرد سی طوالت سے +رُت خرید لایا ہے وصل کی ، لمس شاپ سے کوئی +قوس قوس آوازیں دور تک دائرے بناتی تھیں +لکھ رہا تھا کمرے میں گیت سا کیا الاپ سے کوئی +رقص کے الائو میں ڈوب کر پائوں سے کلائی تک +جل اٹھا تھا ڈھولک کی نرم سی تیز تھاپ سے کوئی +سردیوں کی برفانی صبح میں گرم گرم سے بوسے +پھینکتا تھا ہونٹوں کی برف سی سرد بھاپ سے کوئی +جو کہیں نہیں موجود ، روح کے آس پاس میں منصور +پوچھتا رہا اس کا ، دیر تک اپنے آپ سے کوئی +کلی لبادہ ئ تزئین سے نکل آئی +سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی +دکھائی فلم کسی نے وصال کی پہلے +پھر اس کے بعد وہی سین سے نکل آئی +مرے خدا کی بھی قربان گاہ مٹی تھی +بہار پھول کی تدفین سے نکل آئی +اسے خرید لیا مولوی کفایت نے +جو نیکی سیٹھ کرم دین سے نکل آئی +چراغ لے کے میں بیٹھا ہی تھا کہ صبحِ ازل +خرامِ آبِ اباسین سے نکل آئی +مرید ِ خاص ہوئی تخلیے کی آخرکار +خرد نصیحت و تلقین سے نکل آئی +ہر ایک حرف اناالحق کا ورد کرتا تھا +سو میری آنکھ طواسین سے نکل آئی +مجھے جگایا کسی نے یوں حسنِ قرات سے +کہ صبح سورہ ئ یاسین سے نکل آئی +گریزاں یار بھی تکرار سے ہوا کچھ کچھ +طبعیت اپنی بھی توہین سے نکل آئی +گزر ہوا ہے جہاں سے بھی فوج کا منصور +زمین گھاس کے قالین سے نکل آئی +ساری پوشاک خون سے ترتھی ، دور سے بھی دکھائی دیتی تھی +جانے کیوں میری بے گناہی کی پھر بھی بستی گواہی دیتی تھی +دن نکلتے ہی بجنے لگتا تھا ایک ڈھولک کا کیروا مجھ میں +رات بھر وائلن کے ہونٹوں سے بھرویں سی سنائی دیتی تھی +ایک ہوتی تھی تجھ سی شہزادی ا لف لیلیٰ کی داستانوں میں +جو گرفتاریوں کے موسم میں قیدیوں کو رہائی دیتی تھی +ایک امید مجھ میں ہوتی تھی ، خواب بوتی تھی پھول کھلتے تھے +تیلیاں توڑتی قفس کی تھی آسماں تک رسائی دیتی تھی +ایک ٹوٹے ہوئے کواٹر میں وہ تمنا بھی مرگئی آخر +وہ جو منصور کے تخیل کو شوقِ عالم پناہی دیتی تھی +کیا کہوں کھو گئی کہاں مجھ سے شام ہوتے ہی جو بڑے دل سے +موتیے کے سفید گجروں کو اپنی نازک کلا،ئی دیتی تھی +ایک کیفیتِ عدم جس میںجنت ِ خواب کے خزانے تھے +روح کل کی شراب سے بھر کر وہ بدن کی صراحی دیتی تھی +عمر دھویں سے پیلی ہو گی +یہ لکڑی بھی گیلی ہو گی +موت مرا معمول رہے گا +کوئی کہاں تبدیلی ہو گی +پھیل رہا ہے سرد رویہ +رات بڑی برفیلی ہو گی +ہجر کا اپنا ایک نشہ ہے +غم کی شام نشیلی ہو گی +میں نے سگریٹ سلگانا ہے +ماچس میں اک تیلی ہو گی +غالب کے قہوہ خانے میں +بات ذرا تفصیلی ہو گی +اچھی طرح سے بال سکھا لے +تیز ہوا سردیلی ہو گی +ہفتوں بعد ہے نکلا سورج +دھوپ بہت نوکیلی ہو گی +کال آئی ہے امریکہ سے +گرم دسمبر کے پہلو میں +جسم کی آگ لجیلی ہوگی +نوٹ پیانو کے سُن سُن کر +رم جھم اور سریلی ہو گی +دن بھی ہوگا آگ بلولا +رات بھی کالی نیلی ہو گی +اک اتوار ملے گی مجھ سے +اور بڑی شرمیلی ہو گی +شعر بنانا چھوڑ دے لیکن +یہ منصور بخیلی ہو گی +اتاریں اب بدن کی شرم تھوڑی سی +محبت ہے تو ہو کنفرم تھوڑی سی +ضروری ہے لہو میں آگ بھی لیکن +چل اپنے سادہ و معصوم سے دل پر +چڑھا لے بھیڑے کی چرم تھوڑی سی +اب اپنا قتل کرنا چاہتا ہوں میں +اجازت دے مجھے اے دھرم تھوڑی سی +’’بیا جاناں‘‘ ’’بصد سامانِ رسوائی‘‘ +خموشی ہے ، خبر ہو گرم تھوڑی سی +کسی کے نرم و نازک جسم سے مل کر +ہوئی ہے آتما بھی پرم تھوڑی سی +سکوتِ شام جیسی ایک دوشیزہ +محبت میں ہوئی سرگرم تھوڑی سی +بس کسی اعتراض میں رکھ دی +جاں لباس مجاز میں رکھ دی +رات کھولے تھے کچھ پرانے خط +یادِ یاراں نے پھر وہ چنگاری +ایک مردہ محاذ میں رکھ دی +یوں تو سب کچھ کہا مگر اس نے +راز کی بات راز میں رکھ دی +تان لی تھی رقیب پر بندوق +ربطِ جاں کے لحاظ میں رکھ دی +کس نے تیرے خیال کی دھڑکن +دست طبلہ نواز میں رکھ دی +شرٹ ہینگر پہ ٹانک دی میں نے +اور لڑکی بیاض میں رکھ دی +اس نے پستی گناہ کی لیکن +ساعتِ سرفراز میں رکھ دی +مرنے والا نشے میں لگتا تھا +رات آتش فشاں پہاڑوں کی +اپنے سوز و گداز میں رکھ دی +کس نے سورج مثال تنہائی +میری چشم نیاز میں رکھ دی +داستاں اور اک نئی اس نے +میرے غم کے جواز میں رکھ دی +مسجدوں میں دھمال پڑتی ہے +کیفیت ایسی ساز میں رکھ دی +پھر ترے شاعرِ عجم نے کوئی +نظم صحنِ عکاظ میں رکھ دی +کس نے پہچان حسن کی منصور +دیدہ ئ عشق باز میں رکھ دی +ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی +مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں +مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی +فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے +وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی +پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے +کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی +مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے +میں سوگوار۔۔۔ تو ہے سوگوار تنہائی +کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے +شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی +مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے +یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی +نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا +دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی +ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں +ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی +یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے +ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی +نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق +کسی کا پھر بھی مجھے انتظار ، تنہائی +جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی +تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی +مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے +بڑی جمیل ، افق کے بھی پار تنہائی +کسی سوار کی آمد کا خوف ہے ،کیا ہے +دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا +یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی +بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے +کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی +اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا +تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی +سونی سونی پورٹ کی جھلمل چھوڑ گئی تھی +آنکھ کھلی تو فیری ساحل چھوڑ گئی تھی +فلم کا ہیرو دیکھ کے بھولی بھالی لڑکی +سینما ہال کی کرسی پر دل چھوڑ گئی تھی +شاید ملک سے باہر ننگ زیادہ تھا کچھ +مزدوروں کو کپڑے کی مل چھوڑ گئی تھی +اس نے میرے ہاتھ پہ رکھا تھا اک وعدہ +جاتے ہوئے کچھ اور مسائل چھوڑ گئی تھی +میں نے اپنے جسم سے پردہ کھنچ لیا تھا +اور مجھے پھر ساری محفل چھوڑ گئی تھی +گھر لوٹنے میں اک ذرا تاخیر کیا ہوئی +سب کچھ بدل کے رہ گیا تقصیرکیا ہوئی +کمرے میں سن رہاہوں کوئی اجنبی سی چاپ +دروازے پر لگی ہوئی زنجیر کیا ہوئی +وہ درد کیا ہوئے جنہیں رکھا تھا دل کے پاس +وہ میز پر پڑی ہوئی تصویر کیا ہوئی +جو گیت لا زوال تھے وہ گیت کیا ہوئے +وہ ریت پر وصال کی تحریر کیا ہوئی +ہر صبح دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے موت کو +گرتے ہوئے مکان کی تعمیر کیا ہوئی +منصور اختیار کی وحشت کے سامنے +یہ جبرِکائنات یہ تقدیر کیا ہوئی +ایک ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہائش کیا تھی +مجھ سے موسیٰ کو ملاقات کی خواہش کیا تھی +شامیانوں سے نگر ڈھانپ رہی تھی دنیا +حاکمِ شہر کی جادو بھری بارش کیا تھی +اپنے خالق کی بھی تفہیم وہ رکھ سکتا تھا +مجھ سے مت پوچھ کہ روبوٹ کی دانش کیا تھی +خالی بوتیک تھا کپڑوں کی نمائش کیا تھی +جل گئی تھی مری آغوش گلوں سے منصور +رات وہ بوسہِ ء سرگرم کی سازش کیا تھی +پہلو میں آکہ اپنا ہو عرفان سائیکی +یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی +میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر +احساس ، خواب ، آگہی ، وجدان ، سائیکی +اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑمیں مرا دماغ +وحشت زدہ خیال ، پریشان سائیکی +باہر مرے حریم ِحرم سے نکل کے آ +اپنے چراغ ِ طور کو پہچان سائیکی +رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے +باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی +لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے +میری خلائوں سے بھی ہے سنسان سائیکی +کیا توُبرھنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ +میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی +یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد وغم +کرتی ہو جمع میر کا دیوان ، سائیکی +گرا کے پھول اٹھائے کوئی کڑی تھل کی +کھلے گلے کی پہن کر قمیض ململ کی +ابھی تو پائوں میں باقی ہے ہجر کا ہفتہ +پڑی ہے راہ ابھی ایک اور منگل کی +حنائی ہاتھ پہ شاید پلیٹ رکھی تھی +ہوا کے جسم سے خوشبو اٹھی تھی چاول کی +بچھی ہوئی ہیں سحر خیزیوں تلک آنکھیں +ملی ہوئی ہے شبوں سے لکیر کاجل کی +لیا ہے شام کا شاور ابھی ابھی کس نے +گلی میں آئی ہے خوشبو کہاں سے جل تھل کی +شفق کے لان میں صدیوں سے شام کی لڑکی +بجا رہی ہے مسلسل پرات پیتل کی +نکھر نکھر گیا کمرے میں رنگ کا موسم +ذرا جو شال بدن کے گلاب سے ڈھلکی +کسی کوفتح کیا میں نے پیاس کی رت میں +چھتوں پہ لوگ اٹھائے ہوئے تھے بندوقیں +تمام شہرپہ اتری تھی رات جنگل کی +جھلس گیا تھا دسمبر کی رات میں منصور +وہ سرسراتی ہوئی آگ تیرے کمبل کی +وہ بر گزیدہ خطا رات عاصیوں سے ہوئی +کہ اوس اوس کلی بے لباسیوں سے ہوئی +ہر ایک صبح منور ہوئی ترے غم سے +ہرایک شام فروزاںاداسیوں سے ہوئی +میں کھوجنے کے عمل میں شکار اپنا ہوا +مری اکیلگی چہرہ شناسیوں سے ہوئی +لپک کے بھاگ بھری نے کسی کو چوم لیا +گھٹا کی بات جو روہی کی پیاسیوں سے ہوئی +بہت سے داغ اجالوں کے رہ گئے منصور +جہاں میں رات عجب بدحواسیوں سے ہوئی +ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی +میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی +اس نے رکھنی ہی تھیں ہرگام پہ برفاب شبیں +میں مسافر تھا مسافت تو کڑی ہونی تھی +ہجر کی سالگرہ اور مسلسل سورج +آج تو دس تھی دسمبر کی جھڑی ہونی تھی +صبح ِ تقریب! ذرا دیر ہوئی ہے ورنہ +یہ گھڑی اپنے تعارف کی گھڑی ہونی تھی +اور کیا ہونا تھا دورازے سے باہر منصور +دن رکھا ہونا تھا یا رات پڑی ہونی تھی +روشنی سائے میں کھڑی ہے ابھی +شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی +دیکھنا ہے اسے مگر اپنی +آنکھ دیوار میں گڑی ہے ابھی +آسماں بھی مرا مخالف ہے +ایک مشکل بہت بڑی ہے ابھی +ایک بجھتے ہوئے تعلق میں +شام کی آخری گھڑی ہے ابھی +ہم سے مایوس آسماں کیا ہو +موتیوں سے زمیں جڑی ہےابھی +ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی +میرے پاتھوں میں ہتھکڑی ہے ابھی +موسمِ گل ہے میرے گلشن میں +شاخ پر ایک پنکھڑی ہے ابھی +وہ کھلی ہے گلاب کی کوپنل +میری قسمت کہاں سڑی ہے ابھی +۔۔سایہ ء زلف کی تمازت ہے +۔۔رات کی دوپہر کڑی ہے ابھی +اس میں بچپن سے رہ رہا ہوں میں +آنکھ جس خواب سے لڑی ہے ابھی +میں کھڑا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں +ایک دیمک زدہ چھڑی ہے ابھی +آگ دہکا نصیب میں منصور +۔برف خاصی گری پڑی ہے ابھی +میں نے کیا دیکھنا تھا ویسے بھی +میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی +اس کی آنکھیں بدلنے والی تھیں +اور میں بے وفا تھا ویسے بھی +اس نے مجھ کو پڑھانا چھوڑ دیا +میں بڑا ہو گیا تھا ویسے بھی +کچھ مزاج آشنا نہ تھی دنیا +کچھ تعلق نیا تھا ویسے بھی +کچھ ضروری نہیں تھے درد و الم +میں اسے پوجتا تھا ویسے بھی +چاند شامل ہوا صفِ شب میں +دن اکیلا کھڑا تھا ویسے بھی +ذکر چل نکلا بے وفائی کا +یاد وہ آ رہا تھا ویسے بھی +میں اکیلا کبھی نہیں سویا +میں نے اس کو کہا تھا ویسے بھی +اس نے چاہا نہیں مجھے منصور +میں کسی اور کا تھا ویسے بھی +ابھی پرکھ اسے کچھ دن ، ہوا کو جانچ ابھی +تُو سرد رہنے دے اپنے بدن کی آنچ ابھی +او دل کو توڑنے والی ذرا خیال سے چل +چٹخ رہا ہے مری کرچیوں کا کانچ ابھی +جنہیں وسیلہ بناتا ہوں میں یقین کے ساتھ +ہیں مہربان مری ذات پر وہ پانچ ابھی +وہاں سے دور مرے زاویے کی اونچائی +جہاں نصیب کی جاری ہے کھینچ کھانچ ابھی +سجا کے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے افسانے +اٹھائے پھرتی ہے تہذیب اپنا خوانچ ابھی +خراب سمت نما نے کنارے چھین لئے +بھٹک رہی ہے سمندر میں اپنی لانچ ابھی +مرے غزال یہ منظر سمیٹ لینے دے +نہ بھر زقند ابھی تُو، نہ بھر قلانچ ابھی +بڑے سکون سے بستی میں لوگ رہتے تھے +کھلی نہیں تھی کسی بنک کی برانچ ابھی +نئی غزل کا زمانہ ابھی نہیں آیا +ڈھا رہے ہیں پرانی غزل کا ڈھانچ ابھی +کسی کا وصل مکمل نہ کر سکا منصور +ادھوری ہے مرے جلتے بدن کی سانچ ابھی +اک ایک سایہ ئ ہجراں کے ساتھ پوری کی +پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی +میں ایک کُن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے +ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی +عجیب عالمِ وحشت ، عجیب دانائی +کبھی بکھیرا ، کبھی اپنی ذات پوری کی +تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل +پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی +پلک پلک پہ ستارے رکھے سہاگ کی رات +نہ پوچھ چاند کی کیسے برات پوری کی +کئی برس سے ادھوری پڑی تھی ، سو میں نے +یہ مانگ تانگ کے سانسیں ، حیات پوری کی +یہ اور بات کہ دل میں اتر گیا پھر بھی +کسی سے ملتے ہوئے احتیاط پوری کی +یہ اور بات کہ آنسو ورق ورق پہ رکھے +کتابِ فلسفہ ئ انبساط پوری کی +یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی +اُس اجنبی نے مگر واردات پوری کی +ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور +کہا نہ کچھ بھی مگر اس نے بات پوری کی + + +پرانے غم کے نئے احتمال بسم اللہ +آ انتظار کے اک اور سال بسم اللہ +بس ایک تیری کمی تھی جنوں کے صحرا میں +خوش آمدید اے میرے غزال ، بسم اللہ +آ دیکھ زخم ترو تازہ ہیں مہکتے ہیں +آ مجھ سے پوچھنے پرسانِ حال بسم اللہ +اندھیرے کروٹیں لیتے ہیں مجھ میں پہلے بھی +بہ سرو چشم شبِ ذوالجلال بسم اللہ +سنا ہے آج اکیلا ہے اپنے کمرے میں +چل اس کے پاس دلِ خوش خیال بسم اللہ +لگی تھی آنکھ ذرا ہجر کی تھکاوٹ سے +میں اٹھ گیا میرے دشتِ ملال بسم اللہ +یہ کیسے خانہ ئ درویش یاد آیا ہے +بچھائوں آنکھیں ؟ اے خوابِ وصال بسم اللہ +پھر اپنے زخم چھپانے کی رُت پلٹ آئی +شجر نے اوڑھ لی پتوں کی شال بسم اللہ +کھنچا ہوا ترا ناوک نہ جان ضائع ہو +ہے جان پہلے بھی جاں کا وبال بسم اللہ +لو میں نے پھینک دی خود آپ ڈھال بسم اللہ +یہ لگ رہا ہے کہ اپنے بھی بخت جاگے ہیں +کسی نے مجھ پہ بھی پھینکا ہے جال بسم اللہ +نہیں کچھ اور تو امید رکھ ہتھیلی پر +دراز ہے مرا دستِ سوال بسم اللہ +کسی فقیر کی انگلی سے میرے سینے پر +لکھا ہوا ہے فقیدالمثال بسم اللہ +یہی تیرے غم کا کِتھارسز ، یونہی چشمِ نم سے ٹپک کے پڑھ +یونہی رات رات غزل میں رو ، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ +جو اکائی میں نہیں ذہن کی اسے سوچنے کا کمال کر +یہ شعور نامہ ئ خاک سن ، یہ درود لوح ِ فلک کے پڑھ +یہی رتجگوں کی امانتیں ہیں بیاضِ جاں میں رکھی ہوئی +جو لکھے نہیں ہیں نصیب میں وہ ملن پلک سے پلک کے پڑھ +مرے کینوس پہ شفق بھری نہ لکیریں کھینچ ملال کی +ترے نرم سر کا خرام ہو مری روح کے کسی راگ میں +مجھے انگ انگ میں گنگنا ، مرا لمس لمس لہک کے پڑھ +یہ بجھادے بلب امید کے ، یہ بہشتِ دیدِ سعید کے +ابھی آسمان کے بورڈ پر وہی زخم اپنی کسک کے پڑھ +او ڈرائیور مرے دیس کے او جہاں نما مری سمت کے +یہ پہنچ گئے ہیں کہاں پہ ہم ،ذرا سنگ میل سڑک کے پڑھ +کوئی پرفیوم خرید لا ، کوئی پہن گجرا کلائی میں +نئے موسموں کا مشاعرہ کسی مشکبو میں مہک کے پڑھ +ہے کتاب ِ جاں کا ربن کھلا کسی ووڈکا بھری شام میں +یہی افتتاحیہ رات ہے ذرا لڑکھڑا کے ، بہک کے پڑھ +یہ ہے ایک رات کا ناولٹ ، یہ ہے ایک شام کی سرگزست +یہ فسانہ تیرے کرم کا ہے ، اسے اتنا بھی نہ اٹک کے پڑھ +کئی فاختائوں کی ہڈیاں تُو گلے میں اپنے پہن کے جا +وہ جو عہد نامہ ئ امن تھا اسے بزم شب میں کھنک کے پڑھ +عالمی بنک کے اک وفد کی تجویز پہ وہ +بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ +کیا بتاتا کہ مرا اس سے تعلق کیا تھا +رو بھی سکتا نہ تھا تکفین پہ تجہیز پہ وہ +کھوجنی پڑتی ہے ماتھے سے وہ قیمت لیکن +ایک لیبل سا لگا دیتا ہے ہر چیز پہ وہ +ہو نہیں سکتا شب و روز کا مالک کوئی +عمر ہر شخص کو دتیا ہے فقط لیز پہ وہ +اس نئے دور کا منصور عجب عامل ہے +یا بدن کے سرخ گجروں کی مہک محدود رکھ +یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ +دھن کوئی کومل سی بس ترتیب کے لمحے میں ہے +اے محافظ کالے بوٹوں کی دھمک محدود رکھ +سو رہا ہے تیرے پہلو میں کوئی غمگین شخص +باغباں ہر شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں زرد سانپ +جاگنے لگتے ہیں گلیوں میں غلط فہمی کے خواب +آئینے تک اپنی آنکھوں کی چمک محدود رکھ +لوگ چلنے لگتے ہیں قوسِ قزح کی شال پر +اپنے آسودہ تبسم کی دھنک محدود رکھ +چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ +پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ +میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق +اور پھر رخت ِسفر میں رکھ لئے حالات ساتھ +میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں +دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ +چاہئے تھا صرف تعویذ ِ فروغ ِکُن مجھے +دے دیا درویش نے اذنِ شعور ِذات ساتھ +یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے +یونہی بے مقصد ہوائوںکے ہیں سوکھے پات ساتھ +ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن +کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ +اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ +آئینہ میں دیکھتاہوں اور نظر آتا ہے وہ +حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے +اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ +رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے +جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ +وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں +اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ +میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر +جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ +سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا +اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ +مل جائو تھوڑی دیر تو آکر کسی جگہ +میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ +میں روزنامچہ ہوں تری صبح و شام کا +مجھ کو چھپا دے شلِف کے اندر کسی جگہ +جادو گری حواس کی پھیلی ہوئی ہے بس +ہوتا نہیں ہے کوئی بھی منظر کسی جگہ +کچھ دن گزارتا ہوں پرندوں کے آس پاس +جنگل میں چھت بناتا ہوں جا کر کسی جگہ +منصور اس گلی میں تو آتی نہیں ہے دھوپ +گھر ڈھونڈھ کوئی مین سڑک پر کسی جگہ +پائوں کی وحشت بچھاتی جارہی ہے راستہ +جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ +احتراماً چل رہا ہوں میں سڑک کے ساتھ ساتھ +اور سڑک ہے کہ بڑھاتی جا رہی ہے راستہ +میرے پائوں میں گراتی جا رہی ہے راستہ +سوچتا ہوں میری پرُآشوب بستی کس لئے +اپنا دریا سے ملاتی جا رہی ہے راستہ +پیچھے پیچھے پائوں اٹھتے جا رہے ہیں شوق میں +آگے آگے وہ بتاتی جارہی ہے راستہ +رہ بناتا جا رہا ہوں وقت میں منصور میں +عمر کی آندھی اڑاتی جا رہی ہے راستہ +قوسِ قزح کے لکھے ہوئے تبصرے بھی دیکھ +مہکے ہوئے بدن ذرا خاشیے بھی دیکھ +رنگوں بھرے لباس کی مہکار پر نہ جا +میرے خیال و خواب کے ویراں کدے بھی دیکھ +تُو نے گرا دیا تھا فلک سے تو اب مجھے +بادِ صبا کے رنگ پہ چلتے ہوئے بھی دیکھ +دونوں طرف وجود ترا ہی کہیں نہ ہو +گردن ذرا گھما کے تُو کُن کے سرے بھی دیکھ +بے شک گلے لگا کے سمندر کو ، رو مگر +ساحل کے پاس بنتے ہوئے بلبلے بھی دیکھ +ہر چند تارکول ہے پگھلی ہوئی تمام +میں بھی تو چل رہا ہوں سڑک پر ، مجھے بھی دیکھ +سورج مرے قدم ہیں ستارے ہیں میری گرد +تسخیر کائنات کے یہ مرحلے بھی دیکھ +اک دلنواز خواب کی آمد کے آس پاس +آنکھوں میں جھملاتے ہوئے قمقمے بھی دیکھ +کھینچی ہیں تم صرف لکیریں ہوا کے بیچ +بنتے ہوئے خطوط کے یہ زاویے بھی دیکھ +میں جل رہا ہوں تیز ہوائوں کے سامنے +اے شہرِ شب نژاد مرے حوصلے بھی دیکھ +جلتی ہوئی چتا سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ +صبح ِ فلک پہ اب مجھے چلتے ہوئے بھی دیکھ +جس کو بلا کا زعم تھا اپنے مزاج پر +وہ آہنی چٹان پگھلتے ہوئے بھی دیکھ +چھو کر کسی گلاب کو موجِ بدن کے رنگ +بہتی ہوئی ندی میں مچلتے ہوئے بھی دیکھ +اے بادِ تندِ یار تجھے اور کیا کہوں +بجھتے ہوئے چراغ کو جلتے ہوئے بھی دیکھ +پاگل سا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر کبھی +اس چودھویں کے چاند کو ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ +مجھ کو گرا دیا تھا زمیں پر تو کیا ہوا +سطحِ زمیں سے گیند اچھلتے ہوئے بھی دیکھ +وہ بھی تو ایک پیڑ تھا اپنے نصیب کا +موسم کے ساتھ اس کو بدلتے ہوئے بھی دیکھ +منصور پھر کھڑا ہے خود اپنے ہی پائوں پر +جو گر گیا تھا اس کو سنبھلتے ہوئے بھی دیکھ +انداز گفتگو کے ، مدارات کے بھی دیکھ +فوٹو گراف ہوتی ہوئی بات کے بھی دیکھ +ممکن نہیں ہے قید میں رکھنا چراغ کو +یہ اضطراب اپنی سیہ رات کے بھی دیکھ +بادل پہن لئے ہیں درختوں کے جسم نے +یہ معجزے پہاڑ پہ برسات کے بھی د��کھ +اک آخری امید تھی مٹی میں مل گئی +کچھ روز اب تُو سختی ئ حالات کے بھی دیکھ +قربت کی انتہا پہ ہیں صدیوں کے فاصلے +منصور سلسلے یہ ملاقات کے بھی دیکھ +چھپ نہیں سکتا خدا اگلی صدی تک آدمی سے +ہے ابھی افلاک پر کچھ سرسری چشم توجہ +وقت ِ رخصت دیر تک جاتی ہوئی بس کا تعاقب +دھول میں پھر کھو گئی اشکوں بھری چشم توجہ +آپ جیسی ایک لڑکی پر لکھی ہے نظم میں نے +اک ذرا سی چاہئے بس آپ کی چشم توجہ +وہ اندھیرا تھا کہ میلوں دور چلتی کاڑیوں کی +بیل بجی مدھم سروں میں در ہوا وا دھیرے دھیرے +اس کو دیکھا اور پھر پتھرا گئی چشم ِتوجہ +اپنے چہرے پر سیاہی تھوپ دے منصور صاحب +اس کی ساری نیگروکی سمت تھی چشم توجہ + + +ہوائے نرم خُو کو اپنی عادت کم نہ ہونے دو +شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو +ابھی گلدان میں رہنے دو یہ بکھری ہوئی کلیاں +ابھی اس کے بچھڑنے کی اذیت کم نہ ہونے دو +دئیوں کی لو رکھو اونچی دیارِ درد میں منصور +اندھیروں کے خلاف اپنی بغاوت کم نہ ہونے دو +مرے دھکے ہوئے جذبوں کی شدت کم نہ ہونے دو +تعلق چاہے کم رکھو ، محبت کم نہ ہونے دو +ذرا رکھو خیال اپنے نشاط انگیز پیکر کا +مری خاطر لب و رخ کی صباحت کم نہ ہونے دو +مسلسل چلتے رہنا ہو طلسم ِ جسم میں مجھ کو +رہو آغوش میں چاہے مسافت کم نہ ہونے دو +مجھے جو کھینچ لاتی ہے تری پُر لمس گلیوں میں +وہ رخساروں کی پاکیزہ ملاحت کم نہ ہونے دو +رکھو موجِ صبا کی وحشتیں جذبوں کے پہلو میں +تلاطم خیز دھڑکن کی لطافت کم نہ ہونے دو +اجنبی ہے کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو +یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو +اتنے ناپاک خیالات سے لتھڑی ہے فضا +حرفِ حق کہنا بھی اچھا نہیں لگتا مجھ کو +قتل تو میں نے کیا رات کے کمرے میں اسے +اور یہ واقعہ سپنا نہیں لگتا مجھ کو +پھر قدم وقت کے مقتل کی طرف اٹھے ہیں +یہ کوئی آخری نوحہ نہیں لگتا مجھ کو +وقت نے سمت کو بھی نوچ لیا گھاس کے ساتھ +چل رہا ہوں جہاں رستہ نہیں لگتا مجھ کو +کیسی تنہائی سی آنکھوں میں اتر آئی ہے +میں ہی کیا کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو +موت کا کوئی پیالہ تھا کہ وہ آب ِ حیات +جسم سقراط کا مردہ نہیں لگتا مجھ کو +اب تو آنکھیں بھی ہیں سورج کی طنابیں تھامے +اب تو بادل بھی برستا نہیں لگتا مجھ کو +ٹین کی چھت پہ گرا ہے کوئی کنکر منصور +شور ٹوٹے ہوئے دل کا نہیں لگتا مجھ کو +تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو +سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو +میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں +ہزار وحشتِ موج ِہوا سلامتی ہو +مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی +صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو +ملال ِ شام ِ مسلسل کی حکمرانی ہے +الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو +تمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیر +فقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہو +وہاںبچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی +کنارِ چشمہ ئ حمد و ثنا سلامتی ہو +میں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میں +کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو +سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا +اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو +پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے +سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو +میں خوشہ چین ہوں اقبال تیری جنت کا +اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو +شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلوئوں سے +اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو +یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد +مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو +یہ جو بستر کی پہیلی دیکھتی ہو +یہ تعلق کی چنبیلی دیکھتی ہو +پتھروں کو کاٹتا رہتا ہوں دن بھر +کیا مری چھو کر ہتھیلی دیکھتی ہو +کچھ بھی کر سکتے ہیں ہم دونوں یہاں پر +ہے سڑک کتنی اکیلی دیکھتی ہو +غم کی صدیوں کی کھنڈر ہوں تیرے بعد +جسم کی خالی حویلی دیکھتی ہو +یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے چشم و لب میں +بولتی ہو رت ، چنبیلی دیکھتی ہو +بات خوشبو کی اچانک موسموں نے +چھین اس کے ہونٹ سے لی ،دیکھتی ہو +مجھ میں دیکھو بیٹھ کر اس کو کوئی دن +خود میں کیا دلہن نویلی دیکھتی ہو + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا +بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا +نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا +دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے +سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا +لبوں پہ جیسے دراڑیں ، کٹے پھٹے رخسار +کسی فراق کے پانی کا رِسم ایسا تھا +کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ +تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا +رکا تھا وقت کا ناقوس بھی تحیر سے +بریدِ چاک سے مٹی کا بسم ایسا تھا +یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور +چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا +اسے بھی رشتہ ء بستر تمام کرنا تھا +مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا +نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے +مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کر نا تھا +بس ایک لنچ ہی ممکن تھا جلدی جلدی میں +اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا +چراغ جلتے تھے جس کے اک ایک آسن میں +اُس ایک رات کا کیا اختتام کرنا تھا +بس ایک رات بھی گزری نہیں وہاں منصور +تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا +(جس دوست جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں۔۔۔ +یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا +یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا +مجھ سے لپٹی جا رہی ہے بیل جیسی کوئی شام +یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا +موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں +کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا +بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی +روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا +ایک لمحے کی عبادت کیا بلندی دے گئی +جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا +پھیر مردہ بالوں میں اب اپنی نازک انگلیاں +یہ ملائم ہاتھ میرے سرد چہرے پر لگا +ہجر ہے برداشت سے باہر تو بہتر ہے یہی +چل کے کوئے یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا +لگ رہا ہے غم ، اداسی کھل رہی ہے شاخ شاخ +باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا +اتنی ویراں شاٹ میں تتلی کہاں سے آئے گی +پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا +اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے +آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا +ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا +آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا +بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ +دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا +کچھ کہیں ٹوٹ گیا ٹوٹ گیا ہے ہم میں +اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا +لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا +ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا +جا رہا ہے کسی دلہن کا جنازہ شاید +جھیل میں بہتے ہوئے سرخ شکارے جیسا +کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور +اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیس�� +پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا +صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا +وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں +رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا +کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے +شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا +پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے +رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا +مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں +کربلا کیا موسم ِ ذوالحج گیا تھا +تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی +تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا +وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے +جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا +کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر +گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا +تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا +وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا +رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا +تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا +میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے +کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا +سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی +سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا +کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں +کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا +گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے +یہ آبِ زندگی ، سر چشمہ ء ہوس میں رہا +مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت +یونہی ستارہ مرا ، حرکت ء عبث میں رہا +کنارے ٹوٹ گرتے رہے ہیں پانی میں +عجب فشار مرے موجہ ء نفس میں رہا +وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں +وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا +قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن +ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا +جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور +تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا +موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا +بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا +اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ +گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا +بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں +ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا +شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ +دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا +ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کئے چراغ +اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا +پیچھے جوچل دیا میرے سائے کی شکل میں +میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا +اس کی گلی تھی جاں سے گزرنا تھا زندگی +سو موت کو حیات سے بہتر بنا لیا +شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی +مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا +کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر +اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا +پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ +اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا +بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر +اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا +باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے +لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا +گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات +آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا +منصور بام و در پہ جلا کر چراغِ دل +ہجراں کو میں نے کوچہ ء دلبر بنا لیا +اِس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا +ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا +دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف +اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا +آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی +اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا +اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب +تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا +ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو +دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا +گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ +میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا +ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول +لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا +پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے +کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا +یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف +اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا +ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع +تھا انگ انگ جسم کا محشر بنا ہوا +دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا +ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا +بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس +محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا +آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر +اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا +ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال +یہ مسٗلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا +کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو +اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا +اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ +منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا +آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا +ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا +یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت میں +ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا +پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں +امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا +یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف +ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا +آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں +وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا +فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ +میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا +کیا قریہ ء کلام میں قحط الرجال ہے +منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا +گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا +اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے +بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا +پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں +آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا +اور پھر تازہ ہوا کے واسطے +ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا +ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر +پائوں میں اس کے مقدر رکھ دیا +دیکھ کر افسوس تارے کی چمک +اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا +ایک ہی آواز پہنی کان میں +ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا +نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر +خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا +دیدہ ء تر میں سمندر دیکھ کر +اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا +میں نے اپنا استعارہ جان کر +ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا +رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس +ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا +میری مٹی کا دیا تھا سو اسے +میں نے سورج کے برابر رکھ دیا +خانہ ء دل سے اٹھا کر وقت نے +بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا +جو پہن کو آتی ہے زخموں کے پھول +نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا +کچھ کہا منصور اس نے اور پھر +میز پر لاکے دسمبر رکھ دیا +ہجر میں شوقِ نظارہ رکھ دیا +رات پر اپنا اجارہ رکھ دیا +خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر +میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا +بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے +چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا +دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں +اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا +غم نے اپنا استعارہ رکھ دیا +میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا +تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا +فروزاں خواب کئے شمعِ طاق نے کیا کیا +میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کے لیے +بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا +عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک +سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا +خراب و خستہ ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی +دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا +وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے +گماں دئیے ترے حسن ِ مذاق نے کیا کیا +مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا +ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا +ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی +لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا +ہر اک مکاں ہے کسی قبر پر کھڑا منصور +چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا +خواب ِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا +گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا +میں نے شب ِ فراق کی تصویر پینٹ کی +کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا +کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً +افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا +رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے +اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا +اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں +سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا +کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے +ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا +منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی +پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا +زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا +فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا +میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے +کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا +سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن +ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا +مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر +کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا +رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر +کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا +مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں +اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا +مری سچائی میں دہشت بڑی تھی +کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا +بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے +ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا +مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں +نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا +اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں +بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا +اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا +اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا +نظر منصور گولی بن گئی تھی +ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا +اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا +میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا +پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا +کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا +یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے +انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا +ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل +آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا +اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے +پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا +اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو +وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا +یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے +تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا +موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی +دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا +عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو +کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا +میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور +محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا +تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا +سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا +مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے +جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتادل نہیں ہوگا +محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے +وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا +مری جاں ویری سوری اب کبھی چشم ِ تمنا سے +یہ اظہار ِ محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا +سکوت ِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقش ِ پا ہوں گے +کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا +ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی +تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا +یہی لگتا ہے بس وہ شورش ِ دل کا سبب منصور +کبھی ہنگامہ ء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا +کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا +یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا +پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں +مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا +میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے +جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا +لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے +’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا +جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں +ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا +جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت +سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا +ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور +یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا +آنکھیں مری تھیں جھیل سا سپنا کہیں کا تھا +مرغابیوں کا سرمئی جوڑا کہیں کا تھا +اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے +وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے شام کی +کچھ اس کا انتظار کمینہ کہیں کا تھا +جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم +پھیلا ہوا گلی میں اج��لا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ کہیں کا تھا +پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر +تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا +چہرہ بھی اپنا تھا ، مری آنکھیں بھی اپنی تھیں +شیشے میں عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی وہی میرا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +کھلتی کسی چراغ پہ کیسے شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش ہے گناہ میں +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا +جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا +برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا +جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی +اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا +میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی +اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا +ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے +اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا +ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار +لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا +منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے +ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا +کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے +یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا +سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس +منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا +اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا +میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا +صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند +جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا +جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی +موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا +ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں +تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا +سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی +گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا +میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول +جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا +پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا +اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا +رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی +اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا +نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے +کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا +خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے +رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا +لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر +والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا +صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ +جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا +وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے +اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا +زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن +چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا +ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں +یہ خرابہ تو مری جان گلستاں نکلا +زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا +تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا +رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور +جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا +آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا +ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا +اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی +آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا +محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر +آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا +آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی +چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا +ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟ +شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا +جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور +غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا +درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا +شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا +اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے +ہجر کے کا��ے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا +پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں +اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا +شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے +بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا +ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا +پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا +مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری +ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا +وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی +کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا +ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے +بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا +میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا +باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا +ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا +اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا +میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں +ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ +ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر +شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا +پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا +ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا +عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے +صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا +سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن +یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا +جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی +میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا +لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے +شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا +تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر +سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا +سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن +رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا +ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا +آسمانوں سے آگے سفر رات کا +بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں +میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا +صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی +جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا +چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں +آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا +پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے +کتنا احسان ہے شہر پر رات کا +میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا +مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا +مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک +میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا +میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ +یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا +کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس +کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا +میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں +کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا +مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے +میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا +شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک +کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا +مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں +میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا +مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا +مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا +انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے +ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا +تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا +میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا +اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست +مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا +کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں +میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا +مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی +میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا +فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں +سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا +مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے +میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا +شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا +ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا +یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے +لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا +قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی +اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا +قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر +کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا +ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے +دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا +سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر +وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا +یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور +یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا +وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا +کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا +بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا +میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا +کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا +پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا +رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش +اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا +اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی +برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا +جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے +کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا +بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے +یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا +کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا +نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا +خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں +کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا +ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ +جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا +توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن +تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا +دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں +کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا +دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور +کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا +گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا +پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا +خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں +اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا +کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا +ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا +لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر +ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا +شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی +چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا +بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا +میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا +کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں +منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا +موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا +پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا +اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے +پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا +اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں +پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا +میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال +آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا +یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ +مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا +میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا +دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا +اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن +مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا +کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین +ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا +اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ +اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا +وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف +مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا +جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک +یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا +کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا +انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا +کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر +اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا +ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی +مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا +اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی +اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا +اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے +اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا +آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی +منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا +یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا +نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا +میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا +ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا +چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ +دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا +اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید +یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا +میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے +میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا +کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی +یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا +آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور +خواب میں تو معاملہ کچھ تھا +سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا +سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا +زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں +ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا +کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے +امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا +شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے +دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا +وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد +سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا +جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور +ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا +دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا +پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا +رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی +برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا +سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں +پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا +’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں +ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا +رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک +ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا +کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل +کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا +پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو +دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا +وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے +یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا +پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا +اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا +چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے +وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا +وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے +میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا +میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے +اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا +لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر +وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا +چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور +آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا +کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا +میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے +کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا +ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں +خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا +کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں +کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا +لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر +تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے +کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا +پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا +شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا +پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں +مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا +ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ +میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا +لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر +قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا +دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر +دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا +منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر +پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا +مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا +وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا +مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی +مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا +مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو +کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا +ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی +کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا +میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے +کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا +وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا +وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا +ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو +آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا +کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے +پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا +صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی +ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا +منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی +سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا +خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا +قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا +یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے +یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا +مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں +محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘ +سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا +کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا +سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج +لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا +یہی منصور حاصل زندگی کا +خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا +مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا +لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا +رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر +دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا +جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی +اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا +پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند +آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا +تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ +لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا +تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق +منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا +ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا +میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا +اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں +ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا +دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن +کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا +اے بجھتی ہوئی شام محبت کے سفرمیں +اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا +نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے +ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا +شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد +لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا +منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن +اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا +عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا +دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا +بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی +اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا +دوستوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی +کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا +ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر +بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا +ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی +اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا +ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں +لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا +قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی +جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا +باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی +ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا +ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور +اپنا ہی زمانے پر ا��تدار لگتا تھا +شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا +اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا +سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی +جا کے دریا میں میری پیاس ملا +خشک پتے مرا قبیلہ ہیں +دل جلوں میں نہ سبز گھا س ملا +آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور +بس مرے خوف میں ہراس ملا +آ ، مرے راستے معطر کر +آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا +نسخہ ء دل بنا مگر پہلے +اس میں امید ڈال آس ملا +ہے سسی خان کے لیے منصور +سو غزل میں ذرا سپاس ملا +{سسی کا صحیح تلفظ یہی ہے} +خاک کا ایک اقتباس ملا +آسماں کے مگر ہے پاس ملا +اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں +جن کو وکٹوریہ کراس ملا +دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو +اپنے ہی قتل کا قصاص ملا +جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے +ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا +میز پر اہلِ علم و دانش کی +اپنے بھائی کا صرف ماس ملا +کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو +کیا نگر کا نگر خلاص ملا +اس میں خود میں سما نہیں سکتا +کیسا یہ دامنِ حواس ملا +چاند پر رات بھی بسر کی ہے +ہر طرف آسمانِ یاس ملا +گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے +شلیف سے کیا ابونواس ملا +وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا +جب مجھے حسنِ التماس ملا +تیرا فیضان بے قیاس ملا +جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا +تیرے قدموں کے آس پاس ملا +تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی +جب کہیں کوئی بھی اداس ملا +تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے +بس وہی مرتبہ شناس ملا +یوں بدن میں سلام لہرایا +جیسے کوثر کا اک گلاس ملا +تیری کملی کی روشنائی سے +زندگی کو حسیں لباس ملا +ابن عربی کی بزم میں منصور +کیوں مجھے احترامِ خاص ملا + + +ایک شرابی ہاتھ کی دستک اور شراب +جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب +پیاس ہوائے شام میں اپنے بین کرے +ابر ہے بامِ ذات کی حد تک اور شراب +مجھ سے تیری یادیں چھین نہیں سکتے +اُس بازار کے سارے گاہک اور شراب +سات سمندر پار کا ایک پرانا کوٹ +بیچ سڑک کے ٹوٹی عینک اور شراب +سناٹوں کی آوازوں کا ایک ہجوم +شور میں گم ہوجانے کا شک اور شراب +تیری گلی آواز ِ سگاں ،مجذوب ضمیر +ڈوب رہی ہے رات کی کالک اور شراب +عمر ہوئی میخانے کے دروازے پر +دست و گریباں میرا مسلک اور شراب +رات کے پچھلے پہر لہو کی صورت تھے +میری رگوں میں گھنگھرو ڈھولک اور شراب +کھلتا سرخ سا فیتہ ، دوشیزہ فائل +انٹر کام کی بجتی دستک اور شراب +دیکھ کے موسم خود ہی بچھتے جاتے ہیں +صحرا کی سہ پہر میں اجرک اور شراب +اک منصور گلی میں دو دیواریں ہیں +ساتھ مری بے مقصد بک بک اور شراب +منصور پر خدائی کے الزام کے سبب +مارا نہ جائوں میں بھی کہیں نام کے سبب +بس رہ گئی ہے یاد میں بجھتی سی ریل کار +میں لیٹ ہو گیا تھا کسی کام کے سبب +مہکا ہوا ہے دیر سے میری گلی کا موڑ +خوشبو پہن کے چلتی ہوئی شام کے سبب +کر لوں گا آسمانوں پہ آباد بستیاں +میں پُر یقیں ہوں زینہ ء ایام کے سبب +چہرے تک آ گئی تھیں شعاعوں کی ٹہنیاں +جاگا ہوں آفتابِ لبِ بام کے سبب +کتنے سفید کتنے حسین و جمیل لوگ +چھوڑ آیا ایک حسن سیہ فام کے سبب +انجامِ گفتگو ہوا پھولوں کے درمیان +آغازِ گفتگو ہوا دشنام کے سبب +بیٹھا ہوں کوہِ سرخ کے پتھر تراشتا +دریائے سندھ آپ کے پیغام کے سبب +صحرا نے صادقین کی تصویر پہن لی +اک نظمِ گردباد کے الہام کے سبب +جس کی مجھے تلاش تھی وہ درد مل گیا +میں کامیاب صحبتِ ناکام کے سبب +سورج پلٹ گیا ہے ملاقات کے بغیر +زلف سیہ کے بسترِ بدنام کے سبب +پروردگارِ اول و آخر سے پانچ وقت +ملتے ہیں لوگ کمرہ ء اصنام کے سبب +شب ہائے زخم زخم گزارے خوشی کے ساتھ +لندن کی ایک غم زدہ مادام کے سبب +منصور مولوی سے ہو میرا حساب بھی +کافر ہوا ہوں چہرہ ء اسلام کے سبب +کچھ موتیے کے پھول ہوئے زرد بے سبب +ناراض ہو گئے مرے ہمدرد بے سبب +ویسے محوِ آئینہ داری تھی میری آنکھ +پھیلی ہے میرے چاروں طرف گرد بے سبب +کرتے رہے ہیں میرا تعاقب قدم قدم +شہرِ شبِ فراق کے کچھ فرد بے سبب +یہ سچ ہے اس سے کوئی تعلق نہیں مرا +پھرتا ہے شہر جاں میں کوئی درد بے سبب +شامِ وصال آئی تھی آ کر گزر گئی +جاگا ہے مجھ میں سویا ہوا مرد بے سبب +گرتی رہی ہے برف مگر بس خیال میں +منصور میرا کمرہ ہوا سرد بے سبب +شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب +کیسے وہ پھر رہی ہے جدامجھ سے بے سبب +کچھ اس کے کارِ ہائے نمایاں بھی کم نہیں +دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب +روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت +پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب +دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی +جب چل پڑا تو راہ میں بننے گئے سبب +کیا کیا نکالتی ہے بہانے لڑائی کے +آنسو کبھی وجہ تو کبھی قہقہے سبب +منصور اتقاق سے ملتی ہیں منزلیں +بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب +غیب کا مدفن عینک اور کتاب +میرے کاہن عینک اور کتاب +ایک بہکتے حرف کے پہلو میں +رکھ دی فوراً عینک اور کتاب +ٹیرس پر تنہائی کی رم جھم +بھیگا ساون عینک اور کتاب +میر و غالب پھر مہمان ہوئے +چائے کے برتن عینک اور کتاب +یاد کی لائب ریری زندہ باد +اپنا جیون عینک اور کتاب +برف بھری تنہائی میں منصور +یار کا درشن عینک اور کتاب +بہتی بہار سپنا ، چلتی ندی ہے خواب +شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب +ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے +رکھ آئو گھر سے باہر بہتریہی ہے خواب +تُونے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں +میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب +وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب +ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ +لگتا ہے آسماںکی بارہ دری ہے خواب +اس کے لئے ہیں آنکھیں اس کے لیے ہے نیند +جس میں دکھائی دے تُو وہ روشنی ہے خواب +دل نے مکانِ جاں تو دہکا دیا مگر +اُس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب +اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس +دیکھو زمانے والو! کیادیدنی ہے خواب +تجھ سے فراق کیسا ، تجھ سے ملال کیا +تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب +سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں +لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب +امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں +چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب +رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے +تجھ میں کسی مکان کی کھڑکی کھلی ہے خواب +منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں +ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب +لگتے ہیں خوبصورت گزری ہوئی کے خواب +کیا ہے جو دیکھتاہوں پچھلی گلی کے خواب +ہیں بے چراغ دل کے جگنو قطار میں +پلکوں سے چُن رہا ہوں لا حاصلی کے خواب +آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں فرات کی +پتھرا گئے ہیں جیسے تشنہ لبی کے خواب +ہے اجتماعی وحشت چشمِ شعور میں +اپنے خمیر میں ہیں کیا کیا کجی کے خواب +مجبور دل الگ ہے دل کی طلب الگ +بستر کسی کا بے شک دیکھے کسی کے خواب +منصور موتیوں سے جس کی بھری ہے جیب +قنوطیت کے ہیں بس عنکبوت آخرِ شب +سو پڑھ رہا ہوں دعائے قنوط آخرِ شب +اداسیوں کے تنفس میں میرے اندر سے +نکل پڑا ہے عدم کا سکوت آخرِ شب +لکھا گیا تھا مجھے آسماں پہ کرنوں سے +ہوا ہے خاک پہ میرا ہبوط آخرِ شب +رہا ہوں رات بڑی بد نما کہانی میں +خیال و خواب ہوئے ہیں سموتھ آخرِ شب +میں اپنے پاس تہجد کے وقت آیا ہوں +ملا ہے مجھ کو خود اپنا ثبوت آخرِ شب +دبا دیا تھا افق میں امید کا پتہ +نکل پڑا ہے کوئی شہ بلوط آخرِ شب +ہزار رنگ جہنم کے دیکھتا ہوں میں +کیا ہے موت کا منظر حنوط آخر شب +بدن پہ دھوپ کا آسیب دیکھ کر منصور +چرا کے برف کے لے آیا بھوت آخرِ شب + + +الف ریف سے لے کر ے ردیف تک +دیوان منصور آفاق کے حقوق محفوظ نہیں ہیں ۔ ہر شخص اس دیوان پر مکمل حق حاصل ہے ۔۔منصور آفاق +امی اور ابو کے نام + + +مجھے ادب کے بڑوں نے کہا کہ غالب اور اقبال کے بعد تیسرے بڑے شاعر فیض احمد فیض ہیں حتیٰ کہ + + +جہاں تک مجھے یادہے تو غالباً فیض نے اپنے ایک انٹر ویو میں نثر ی شاعری کو بڑی سختی سے ریجیکٹ کیا تھا اور صاف کہا تھا کہ نثر نثر ہے اور نظم نظم۔ انہیں باہم گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے ۔ جب یہ کہا جا رہا ہوتا ہے کہ شاعری اور نثر کا آہنگ جد اہے تو اہل علم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ شاعری او زان اور بحور کے تابع ہوتی ہے ۔ یہ کناروں کی قیدمیں رہ کر بہنے والی ندی کانام ہے جبکہ نثر میں یہ بات نہیں وہ سمندر ہے ۔معمولی سے معمولی شاعر بھی یہ التزام رکھتا ہے کہ شعر بھلے انتہائی عامیانہ اور بھو نڈا بلکہ مہمل ہی کیوں نہ ہو مگر اسکا وزن درست ہو۔ آزاد نظم کا بھی ایک خاص وزن ہوتاہے جو شروع سے آخر تک چلتا ہے ۔فیض بھی یہ بات جانتے تھے مگر افسوس کہ کئی جگہوں پر۔۔شاید اپنی ’سہل طلبی‘ کے باعث۔(ہم سہل طلب کونسے فرہاد ہیں لیکن)۔ اپنی نظموں میں وہ اس کا خیال نہیں رکھ سکے اوراپنی شخصیت کے بھاری بھرکم بلڈوزر پر بیٹھ کر بڑی بے دردی سے وزن کو روندتے چلے گئے ہیں۔ان کی کتاب ’مرے دل مرے مسافر ‘کی دوسری نظم ”پھول مر جھا گئے سارے “ پر وزن کے اعتبار سے تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے میں نے کئی طرح کی عینکیں بدل لیںمگر ہر عینک سے نظم ا وزان کی صلیب پر آویختہ نظرآئی ۔نظم کا مصرع ِآغاز ہے” پھول مر جھا گئے ہیں سارے “ ایک رکن کی کمی کے ساتھ یہ مثنوی کی معروف بحر ہے ،اسے بحر خفیف مسدس مخبون مقطوع کہتے ہیں،یوں اسکا وزن بنتا ہے ۔ +پھو لمر جھا گئے ہیں سا رے +اس سے جڑا ہوا اگلا مصرع ہے ۔”تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو “ یہاں ترازو کے ایک پلڑے میں وزن کچھ زیادہ پڑگیا ہے ،صلیب ایک طرف جھک گئی ہے +”آسماںآج اک بحر پر شور ہے ۔۔۔ +جس میں ہر سو رواں بادلوں کے جہاز ۔۔۔ +ان کے عر شے پہ کرنوں کے مستول ہیں ۔۔۔ +بادبانوں کی پہنے ہوئے فرغلیں ۔۔۔ +نیل میں گنبد وں کے جزیرے کئی ۔۔۔۔ +ایک بازی میں مصروف ہے ہر کوئی“ +اور اب یہ دومصرعے آگئے ہیں +”ابا بیل کوئی نہاتی ہوئی ۔۔ +کوئی چیل غوطے میں جاتی ہوئی “ +”کوئی طاقت نہیں اس میں زور آزما “ +پوری نظم پڑھتے ہوئے یو ں لگتا ہے کہ چیل کے ساتھ نظم بھی غوطے میں گئی اور پھر اُبھر آئی ۔ میرے لئے اتنے اہم شاعر کی شاعری میں ایسی غوطہ زنی کی کیفیت حیرت انگیز ہے۔ ایسی ہی ایک اور کا روائی ان کی ایک اور پابندنظم ” ہم تو مجبور وفاہیں “ میں بھی موجود ہے کہ اچانک بحر بدل جاتی ہے۔ پہلے دو اشعار کا آغاز ”فا علن “ سے کرتے ہیں اگلے دو شعر ”مفاعلن “ سے شروع کر لیتے ہیں ۔ پھر واپس فاعلن پر آجاتے ہیں ۔آغاز یوں کرتے ہیں +”تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے +کتنے وعدے جو نہ آسودہ ٗ اقرار ہوئے +کتنی آنکھوں کو نظر کھاگئی بد خواہوں کی +خواب کتنے تری شہ راہوں میں سنگسار ہو ئے “ +”بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا +جو مجھ پہ گزری مت اسکو کہو ہوا +سو ہوا مبادا ہو کوئی ظالم ترا گر یباں گیر +لہو کے داغ تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا“ +پھر پہلی بحر کی طرف لوٹتے ہیں ”ہم تومجبور وفاہیں مگر اے جانِ جہاں اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے “ فیض صاحب کی ایک اور نظم ہے +” عشق اپنے مجر موں کو پابجولاں لے چلا “۔ +اسکی ابتداءبھی فا علن ، فاعلن ، فا علن “ کی بحر سے ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ یہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ +”اپنا پہلو ٹٹو لا تو ایسا لگا ۔۔۔ +دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے “ +۔۔اس سے اگلے مصرعوںمیں اچانک فعولن فعولن ہونے لگتا ہے ۔”گلو میں کبھی طوق کا وا ہمہ ۔۔۔کبھی پاوںمیں رقص زنجیر “ +یہاں بھی اِن دو مصرعوں کے بعد وہ فاعلن والی بحر میں لوٹ آتے ہیں ۔ +”اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح “ +یہ ایک مصرع فاعلن کی بحر کہہ کر پھر فعولن ، میں جانکلتے ہیں ۔۔ +”رسن در گلو پابجولاں ہمیں ۔۔ +اسی قافلے میں کشاںلے چلا “ +کیا کہوں تبصرے کی گنجائش ہی نہیں۔ان کی ایک اور نظم ’اشک آباد کی شام ‘کی آخری چھ لائنیں دیکھئے +”تم اپنے تن کی سیج پہ سج کر ۔۔ +تھیں یوں محوِ آرام ۔۔۔ +بجھ گئی شمع ِ جام ۔۔۔اشک آباد کے نیلے افق پر ۔۔۔ +ان لائنوں میں ایک بحر تلا ش کرنے کا تر دد نہ کیجئے کیونکہ یہاں کھینچ تان کر دو بحروں میں کام چلایا جا سکتا ہے۔۔ +اپنی کتاب ’سر وادی ئِ سینا‘ میں فیض نے بغیر عنوان کے ایک چھوٹی سی نظم درج کی ہے جس کا آغاز فا علن ، فاعلن فعولن سے ہوتا ہے ۔ اور آگے کیا ہوا ۔اپنی سمجھ سے معاملہ باہر ہے۔فیض کہیں مصرعہ کہتے ہیں توآسمان سے پھولوں کے آبشار گرنے لگتے ہیں اور کہیں شاعری تو کجامصرعہ وزن میں ہی نہیں ہوتا۔۔۔ +”یار اغیار ہوگئے ہیں ۔۔ +اور اغیا ر مصر ہیں کہ وہ سب ۔۔۔۔ +یا ر غار ہوگئے ہیں ۔۔۔ +اب کوئی ندیم با صفا نہیں ہے ۔۔۔ +سب رند شراب خوار ہوگئے ہیں“ +اس نظم میں پہلے کے تین مصر عے تو ربڑ کی طرح کھینچ کھا نچ کر بحر میں فٹ کئے جا سکتے ہیں ۔چلو چوتھے مصرع سے بھی آنکھیں چُرا لیتے ہے ۔ مگر آخری مصرعہ تو پاوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔۔ اِس کا کیا کیا جائے ۔یہ خار خار شاخِ گلاب تو زخم زخم ہوکر بھی گلے لگانی ہی ہوگی۔ممکن ہے کہ وزن کے سلسلہ میں اِس ناروا بے احتیاطی کا فیض کے ہاں بکثرت ہونا آپ کےلئے حیرت انگیز ہومگر میں یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ فیض کو پڑھنے والوں نے اِسے محسوس نہیں کیاہوگا۔ میرا خیال ہے کہ فیض کو جو مقام و مرتبہ اُن کی بین الاقوامی سیاست کی وجہ سے مِلا تھا اُس نے بولنے والوں کی جسارت چھین لی تھی۔فیض کامنکر میں بھی نہیں ہوں ۔ مجھے بھی انکے مقام و مرتبہ کا پوری طرح سے احساس ہے ۔جیلوں کی دیواروں میں چکراتے ہوئے پانچ سات سالوں سے لے کر(ادب کے نہیں) امن کے لینن پرائز کی پروازوں تک ۔۔مجھے سب کچھ یاد ہے ۔لیکن میں پوری دیانت داری سے یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگرادبی کوتاہیوں کی نشا ندہی نہ کی جائے تو پھر یہ روش عام ہو جائیگی اور نظم کا حلیہ بگڑ کر رہ جائیگا۔ سعدی والی بات کہ ”بنیادِ ظلم درجہاں اند ک بود ہر کہ آمد برآں مزید کر د“( ظلم کی بنیاد پہلے جہاں تھوڑی تھی پھر جو آتا گیا اس پر ردّے چڑھاتا گیا۔ کسی حد تک فیض کی انہی اداوں کی بدولت کچھ غلطیوں کو بھی رواج ملا۔پائوں کا لفظ فیض سے پہلے فعل کے وزن پر باندھا جاتا تھا فیض نے اسے فعلن کے وزن پر باندھ دیا۔ +جس کی پک زور والوں کے پائوں تلے +پہر کا لفظ مفا کا وزن رکھتا تھا مگر فیض نے اس کو بھی فعل وزن دے دیا +”سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی ، زرد دوپہر“ +اور”نہ“ کو ”فع“ کے وزن پر باندھ دیا”اب تو ہاتھ سجھائی ناں دیوے لیکن اب سے پہلے تو“ +”اب بادل ہے ناں برکھا ہے“۔ +فیض سے پہلے شاعری میں ایسا کرنا ایک بہت بڑی غلطی سمجھا جاتا تھا مگر اب کسی پر اعتراض کیا جائے تو جواباً کہا جاتا ہے کہ ”فیض نے ایسا ہی بان��ھا ہے جی“۔جی تو چاہتا ہے کہ اِس جواب کے جواب میں احتجاجاًیہ کہا جائے کہ فیض نے لفظ نہیں کھونٹے کے ساتھ بیل باندھا ہے۔مگراِس باندھنے کے کام میں اکیلے فیض ہی نہیں ۔ یہ وہ مساج پارلر ہے جہاں ایک جمِ غفیربے لباس ہے میرے سمیت۔۔۔۔ +فیض کی نظم ”پائوں سے لہو کو دھوڈالو“ میں بھی ایک مصرعہ لہولہان لہو لہان ہے“۔اس مصرعے میں انہوں نے ”لہو لہان “ کے لفظ کو’ مفامفعول‘ کے وزن پر باندھ دیا ہے جب کہ اس کا وزن مفاعلات کا ہے انشاءکا شعر دیکھئے +آغوشِ غیر ہو گئے سارے لہو لہان +آساں نہیں ہے آپ کے بسمل کو تھامنا +فیض سے یہ غلطی شاید اس لئے سرزد ہوئی کہ فعلن کی بحر میں ہندی یا پنجابی میں لکھنے والے اکثراوقات اس بات کا قطعاً خیال نہیں رکھتے ۔فیض تو فیض تھے۔کہتے ہیں کہ عربی زبان کے عظیم شاعر متنبی سے کسی نے کہا تھا کہ آپ کے بعض اشعارکی بحر میں نہیں ہیں تو متنبی نے لمحہ توقف سے کام لیا اور کہاکہ ماہرین ِ عروض سے کہو کہ میرے اشعار کے اوازن درست ہیں انہیں اپنی بحریں میرے اشعار کے مطابق بنا لینی چاہئیں اور وقت نے ثابت کیا کہ متنبی کے اوزان درست تھے مگر افسوس کہ میں یہ بات صاحبانِ علمِ عروض سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے فیض نے مجھے اوزان کے باب میں وہاں وہاں شرمندہ کیا ہے جہاں جہاں میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔فیض شاید اوزان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔انہوں نے جو افتخار عارف کی کتاب ”مہر دونیم “ کا دیباچہ لکھا اس میں انکی منظوم نظموں کو نثری قرار دیا اورانکی نظم بارہواں کھلاڑی جس میں فنی سقم موجود ہے اسے باوزن قرار دیا حیرت افتخار عارف پر بھی ہے کہ انہوں نے آج تک اس بات کی نشان دہی نہیں کی شاید ان کےلئے یہی بہت بڑی بات ہے کہ فیض نے ان کی کتاب کا دیباچہ لکھاایک اور بات بھی اس سلسلہ میں حیران کن ہے کہ فیض کی پہلی کتابوں میں وزن کی اور زبان و بیان غلطیاں بہت کم ہیں جبکہ بعد کی کتابوںمیں یہ زیادہ ہوتی گئی ہیں۔ کہنہ مشقی سے تو کلام میں صفائی آنا چاہیے تھی اور اسے غلطیوں سے پاک ہوجانا چاہیئے تھا ۔ فی الواقع فیض کا مطالعہ کر نے والوں کے لئے یہ سوال بڑا پر یشان کن ہے انتہائی دھیمے سروں میں سرگو شیوں کے سے انداز میں کچھ لوگ کچھ لوگوں سے یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ فیض اپنا کلام پہلے صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کو دکھا لیتے تھے اور وہ ایسے اسقام دورکر دیتے تھے بعد میں صوفی صاحب فوت ہوگئے اسلئے بعد کاکلام اسقام سے پاک نہ ہوسکا ۔ پر وفیسر صوفی تبسم 1929 میں گورنمنٹ کالج لاہور آئے۔ اسوقت فیض تھرڈ ائیر کے طالب علم تھے یہاں سے فیض وتبسم کے تعلق کی ابتداءہوئی جو کسی نہ کسی صورت میں صوفی صاحب کی وفات تک قائم رہا۔ عین ممکن ہے کہ سر گو شیوں میں کہی جانے والی یہ بات کسی حد تک درست ہو۔عدیل یوسف صدیقی نے اپنے مضمون ”فیض احمد فیض کے ساتھ چند لمحے “ میں لکھاہے کہ فیض نے لندن کے ایک مشاعرہ میں جب ”مرثیہ امام“ سنایا تو اس میں ایک مصرعہ یوں پڑھا”پھرنام لیا اللہ کا اور یوں ہوئے گویا“۔۔لیکن جب یہ مرثیہ کتاب میں شائع ہوا تو وہ مصرعہ کچھ یوںتھا۔”پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا۔۔یقینا صوفی صاحب یا کسی اورصاحب نے اس بات کی نشاندہی کی ہوگی کہ وہ مصرعہ بے وزن ہے ”اللہ “ کے لفظ کا وزن فعل نہیں مفعول یا فعلن ہے۔ + + +جملہ حقوق بنام مصنف محفوظ ہیں +ہم اپنے آپ میں کتنے مگن تھے +ہمیں آواز کیوں دے دی ہے تم نے +اب کیا کہوں کسی سے +کل کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ مجھے دنیا کے بارے میں ��چھ علم نہیںاور میں سوچ میں ہوں کہ مجھے تو معلوم ہے کہ دنیا گول ہے ۔ اِس وقت رات گئے مجھے احساس ہورہا ہے کہ اُس نے ٹھیک ہی کہا ہے شاید ۔ دنیا گول نہیں "گول مول"ہے۔ اِس گول مول سی دنیاکیلئے چند لمحے رقم کررہی ہوں۔ +ایک راز کی بات ہے ۔۔ میں مکڑیوں سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں۔ایک مرتبہ گھر میں ایک بڑی سی مکڑی دیکھ کر اپنے جوتوں سمیت بستر پر بیٹھ کر تھر تھر کانپ رہی تھی کہ کسی کا فون آگیا ۔اتفاق سے وہ ماہر نفسیات تھے ۔ مجھے کہنے لگے کہ میں تو آپ سے ملنے کے لئے آپ کے گھرآنا چاہ رہا تھا مگر مجھے محسوس ہورہاہے کہ آپ تو مکڑی کے گھر میں رہتی ہیں اب میں اپنا ارادہ تبدیل کئے دیتا ہوں۔کچھ کچھ سمجھ میں آیا، بستر سے اتر کر ہاتھ میں کوئی بھاری سی چیز لے کر مکڑی بہت تلاش کی ۔خبر نہیںکہاں چلی گئی تھی۔یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ نہ جانے کب سے دماغ میں جالے بُن رہی تھی۔اب توایک مکمل’’ ویب‘‘ سائیٹ بن چکی ہے ۔کبھی کوئی حرف، کبھی لفظ اور کبھی جملہ مِل ہی جاتا ہے مجھے ۔۔۔اور میں اسے قرطاس پر بُن دیتی ہوں۔ +پہلی کتاب "آسیب سے پرچھائیں تک"کی اشاعت کے بعد دوسری کتاب "تنکوں کا دوپٹہ" شاید ایک حادثے کی صورت میں سامنے آئی ۔ حوصلہ افزائی ہوئی تو عجیب سے اطمینان کا احساس ہوا مگر یقین اب تک نہیں آرہا کہ اتنے سارے جھمیلوں سے بھری زندگی کے باوجودمیں "کاجلوں کی لکیر" تک آپہنچی ہوں۔ چلتی جارہی ہوں اس لکیر پر۔۔دیکھتی ہوں کہاں تک جاتی ہے۔ +میں نے گزشتہ کتاب میں اعتراف کیا تھا کہ مجھے تیرنا نہیں آتاڈوب جائوں گی مگر سمندر اتنا بھی گہرا نہیں تھا جتنا کنارے سے محسوس ہو رہا تھا۔پانی پر چلنا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ +لمسِ تشنہ لبی سے گزری ہے +رات کس جاں کنی سے گزری ہے +اس مرصع نگار خانے میں +آنکھ بے منظری سے گزری ہے +ایک سایہ سا پھڑپھڑاتا ہے +کوئی شے روشنی سے گزری ہے +لُوٹنے والے ساتھ ساتھ رہے +زندگی سادگی سے گزری ہے +کچھ دکھائی نہیں دیا ، شاید +عمر اندھی گلی سے گزری ہے +شام آتی تھی دن گزرنے پر +کیا ہوا کیوں ابھی سے گزری ہے +کتنی ہنگامہ خیزیاں لے کر +اک صدا خامشی سے گزری ہے +آنکھ بینائی کے تعاقب میں +کیسی لا حاصلی سے گزری ہے +کسی کانٹوں بھری جھاڑی کی طرح +میرا پیکر مگر احساس سے عاری کب ہے +میرے سب پھول ہیںبکھرے ہوئے +دیکھتے ہیں مجھے آنکھوں میں شکایت لے کر +انہیں خار مِرے چبھتے ہیں +اور جواباً مِری سوکھی ہوئی ٹہنی کوئی +دردکا بوجھ لئے ٹوٹ کے گِر جاتی ہے +اگر مجھ میں تجھ جیسی یکسوئی ہوتی +تو میں شب کی رفعت میں آویختہ +بامِ فطرت کو تھامے ہوئے +ایک شب زندہ داروں کی مجلس میں +صابر سے زاہد کی آنکھیں پہن کر +زمینوں کے بشری کناروں کو پاکیزہ کرتے +﴿ کسی رہبانہ عمل کی طرح ﴾ +بہتے پانی کو دیکھا نہ کرتی +پہاڑوں کی پھولوں بھری چوٹیوں پر +یا ویراں زمینوں پہ گرتی ہوئی برف سے +پردے پہ اپنی نظر نہ جماتی +نہیں ۔۔۔ یوںتو ہرگز نہ ہوتا +مگر مجھ میں پھر بھی یہ یکسوئی ہوتی +کبھی کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوتی +میں بے داغ اجلی سی اپنی محبت کے بھرپور بستر پہ +رکھے ہوئے ایک تکیے کی مانند ہوتی +میں اس کا گداز آفریں زیر وبم +اک تسلسل سے میں جاگتی اور +حلاوت بھری سرخ بے چینیوں کو پہن کر +سکوتِ مجسم میں آباد رہتی +کہ نرمائی سانسوں کی کومل صدائیں +گلے سے لگا لیتی ۔۔ +میں موت کے رنگِ گُل کو +ملا دیتی پھر روح سے روحِ کُل کو +﴿جان کیٹس کی نظم سے ماخوذ﴾ +صبح کی پہلی کرن سی روشنی تھی ، کیا ہوئی +نور بِکھراتی ہوئی خوش قسمتی تھی ، کیا ہوئی +جھِلملاتے قمقمے جلتے رہے چاروں طرف +شب زدہ کی رات اِک تاروں بھری تھی، کیا ہوئی +بھر کے اپنی آنکھ میں کوئی سلگتی آرزو +سرد رُت میں آنچ اِک حدت بھری تھی ، کیا ہوئی +اِک طلسمِ خوش ادا آنکھوں کو میری سونپ کر +سُرخیوں سے جھانکتی جادو گری تھی ، کیا ہوئی +دھوپ تنہائی کی اِس لمحے تمازت خیز ہے +بس ذرا سی دیر کی موجودگی تھی ، کیا ہوئی +کیا ہوئے وہ حرف جو تھے عمر بھر کے واسطے +لوح پر تحریر جو لکھی ہوئی تھی، کیا ہوئی +کیا ہوئے معمول اپنے ، کیا ہوئے وہ روز و شب +سادہ سی، معصوم سی اِک زندگی تھی، کیا ہوئی +ڈھونڈتی رہتی ہوں میں کمرے میں اپنے آپ کو +میز پر تصویر جو میری پڑی تھی ، کیا ہوئی +اب جنوں سے واسطہ کوئی نہ کچھ تیشے سے ہے +وہ بھی دن تھے ہر طرف دیوانگی تھی، کیا ہوئی +یاد کچھ کچھ ہے مگر اب یاد شاید کچھ نہیں +اِس سڑک کے اُس طرف جو اِک گلی تھی کیا ہوئی +کُھردرے دھاگے اُٹھاتی پھر رہی ہوں فرش سے +اِک ملائم اون سے خواہش بُنی تھی، کیا ہوئی + + +جیتنا ہی کوئی قسم تو نہیں +عشق میں ہارنا بھی کم تو نہیں +منزل ِ جاں رہ ِعدم تو نہیں +یہ کوئی آخری قدم تو نہیں +کوئی دستک ہو اٹھ کے جاتے ہیں +دیکھنے کے لئے کہ ہم تو نہیں +وقت آیا تو رو بھی لیں گے ہم +درد اتنا ابھی بہم تو نہیں +صبح صادق مزاج ہیں لیکن +شام ایسی کہیں رقم تو نہیں +شرط یہ ہے زیاں ہو سودے میں +رسم یہ ہے کہ آنکھ نم تو نہیں +دکھ کسی اور بات کا ہے ہمیں +کارِ رسوائی کار ِ غم تو نہیں +مری جان اٹھ کے نہ جا ابھی مرا دل بہت ہی اداس ہے +مری آنکھ میں تری دید کی ذرا بجھ تو لے یہ جو پیاس ہے +میں سنگھارکر کے دلہن بنوں لئے رنگ تیرے وصال کے +کہ یقین کچھ تو مجھے بھی ہو ، تو قریب ہے مرے پاس ہے +ترا حرف ، حرف ہوآخریں ،ذرا لب کشا تو ہو دلنشیں +مجھے رکھ گرفت ِ فریب میں، ترا جھوٹ بھی مجھے راس ہے +بنیں قربتوں کی ضمانتیں ، تری فرقتوں بھرے رتجگے +پس ِ چشم ِخشک نگاہ کر کہ تو ایک چہرہ شناس ہے +مری زندگانی ہے تو اگر تو قیام مرے بدن میں کر +ترے لمس سے ہو شکن شکن ، مرے تن پہ جو بھی لباس ہے +مجھے اعتبار ِ نظر نہیں تجھے دیکھتی ہوں ٹٹول کے +مجھے وہم کیسا عجیب ہے ، مرے دل میں کیسا قیاس ہے +سانس لیتا تو ہے اک پتھر میں توُ +ڈھل بھی جا اب جسم کے پیکر میں توُ +شاخ پر جیسے نظر آتا نہ تھا +سج اٹھا ہے کوٹ کے کالر پہ توُ +سوچتے رہتے ہیں تنہا رات بھر +جاگتا شاید نہ ہو بِستر میں تُو +نیند کیا آئے بھلا اِس فکر میں +جانے باہر ہے یا اپنے گھر میں تُو +ہِجر میں بھی وصل کا ہے امتزاج +گویا منظر ہے پسِ منظر میں تُو +نام سے جس کے بدن میں جھرجھری آتی رہی +وقت یہ آیا کہ اس کی یاد بھی جاتی رہی +یوں خزاں کی چیونٹیاں چمٹیں زمیں کی کوکھ سے +فصل ِ گل بے چین تھی راتوں کو چلاتی رہی +ایک نقطے پر ملے احساس کے سب زاویے +دائرہ میں درد کی تصویر لہراتی رہی +اس نظر کی دھوپ کا لکھنا پڑا ہے مرثیہ +عمر بھر جو منجمد سوچوں کو پگھلاتی رہی +منزل ِ شہر ِ تمنا دسترس میں تھی مگر +آرزو کو راستے میں نیند آ جاتی رہی +اس طرح جاڑا کوئی لپٹا رہا کہ عمر بھر +گرم پانی سے بھری بوتل کو سہلاتی رہی +زخمِ دل ، زخم ِ جگر داں ہوئے ہیں کیا کیا +دیکھئے آپ کے احسان ہوئے ہیں کیا کیا +غم کے انگارے ، کسک درد کی ، آنسو خوں کے +ایک دل ہے مگر مہمان ہوئے ہیں کیا کیا +یہ بھی تسلیم ہمیں عشق میں بیباک ہوئے +یہ بھی ہم ہی ہیں پشیمان ہوئے ہیں کیا کیا +سو گئی ایک امر بیل لپٹ کر ہم سے +ہم بہاراں میں بھی ویران ہوئے ہیں کیا کیا +کتنے برسوں سے جلایا ہی نہیں کوئی چراغ +آنکھ کے مقبرے سنسان ہوئے ہیں کیا کیا +آنکھ جلتی ہے ابھی تک کسی نرگس کی طرح +روشنی کے لئے سامان ہوئے ہیں کیا کیا +چاندنی رات میں مہتاب سلگتا دیکھوں +نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں +آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں +آسماں سے پرے اک نور دمکتا دیکھوں +کل کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے +آج اس شخص کو دریا میں اترتا دیکھوں +آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح +دل اسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں +راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر +ہاں مگر دل سے لہو روز ٹپکتا دیکھوں +سینک لیتی ہوں جگر درد کے انگاروں سے +روپ اس آنچ کی حدت میں سنورتا دیکھوں +غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے +میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں +ہوئی جو ہوش میں کیوں کر بہ نام بادہ ہوئی +خطا کہاں تھی جو کہہ دیں بلا ارادہ ہوئی +وصالِ حسنِ مجازاں تھا مختصر کتنا +ستم کہ راہِ فغاں کس قدر کشادہ ہوئی +میں جس کو وقت بڑی مشکلوں سے پڑھتا تھا +تری زبان پہ آئی تو حرفِ سادہ ہوئی +وہ جس کو ننگِ وفا جان کر بھلا گیا +وہی تو رات مرے حزن کا لبادہ ہوئی +بساطِ عشق میں جو شہ رخوں کی ہم سر تھی +یہ کیا ہوا وہی تقدیر پا پیادہ ہوئی +برکھا بھی ہو لبوں پہ ذرا پیاس بھی رہے +پھر سے فریب دے کہ کوئی آس بھی رہے +مدت سے انتظار تھا اپنا بہت مگر +خود سے لپٹ کے رونا ہمیں راس بھی رہے +تُو لاکھ دور دور سے دیکھے ہمارے خواب +اپنا وہی لگے ہے کہ جو پاس بھی رہے +اک ہو مکاں ہماری تمنا میں مضطرب +اور دسترس میں اپنی ، یہ بن باس بھی رہے +خوشیوں کی کیا دلیل ہوں مجبور قہقہے +ہنسنے لگیں تو درد کا احساس بھی رہے +ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھی +یہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے +وصل کا عالم رہا ہے ہجر کے ماروں کے بیچ +تُو نظر آتا رہا ہے رات بھر تاروں کے بیچ +راکھ ہو جاتے ہیںاپنے شوق میں اہل جنوں +پھول الفت کے کھلا کرتے ہیں انگاروں کے بیچ +کو بہ کو رسوائیاں دیتی ہیں دل کو حوصلے +منزلیں خود چل کے آجاتی ہیں دیواروں کے پیچ +خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیں +’ہاں‘ دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ +ساری دنیا ایک جانب اور تو ہے اک طرف +دیکھتے رہتے ہیں تجھ کو پیار سے ساروں کے بیچ +یوں مرا انتظار کرنا کبھی +ٹوٹ کر مجھ سے پیار کرنا کبھی +میرا باطن تو تم پہ ظاہر ہے +خود کو بھی آشکار کرنا کبھی +تم نے جو کہہ دیا صحیفہ ہے +میرا بھی اعتبار کرنا بھی +تم جہاں بھی ہو صرف میرے ہو +اعتراف ایک بار کرنا کبھی +سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے +مجھ اپنا شمار کرنا کبھی +موڑ اک پُر خطر بھی آتا ہے +اور رستے میں گھر بھی آتا ہے +عشق کی داستاں عجیب سی ہے +سنگ آتا ہے سر بھی آتا ہے +جانتے ہیں سو گھر سے نکلے ہیں +رہ میں رنجِ سفر بھی آتا ہے +اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے +چاہنے پر نظر بھی آتا ہے +لاکھ تنہائی کی منازل ہوں +راہ میں ہمسفر بھی آتا ہے +اتنا دشوار تو نہیں رستہ +گاہے گاہے شجر بھی آتا ہے +رات اچھی بھی لگتی ہے لیکن +نیند آنے پہ ڈر بھی آتا ہے +مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا +مری نظر کی حسین کائنات پھر ملنا +تجھے یہ دن کے اجالے بھی سوچتے ہونگے +یہ شوقِ دید میں جاگے گی رات ، پھر ملنا +بس ایک تُو ہی ہے لمحہ قرار کا ورنہ +سراپا درد ہے ساری حیات ، پھر ملنا +ہزار رنگ ابھی تیرے مجھ سے لپٹے ہیں +جلو میں لے کے دھنک کی برات پھر ملنا +چٹخ رہے ہیں مرے ہونٹ ریگزاروں میں +بجھی ہے پیاس کہاں اے فرات پھر ملنا +سنی ہوئی ہے تری آنکھ کی زباں میں نے +تجھے سنانی ہے اس دل کی بات پھر ملنا +مشکل بہت تھا ساتھ بنھانا مرے لئے +لازم تھا تجھ کو بھول ہی جانا مرے لئے +رکتا کہاں ہے وقت کسی کے بھی واسطے +ویسے بھی تھا گراں وہ زمانہ مرے لئے +اٹھتے تھے میرے پائوں ،سفر بھی تھا دو قدم +پھر بھی کٹھن تھا لوٹ کے آنا مرے لئے +دشوار تھا تجھے بھی مرے گھر کا رستہ +شاید یہی بہت تھا بہانہ مرے لئے +آواز میرے حلق میں میری اٹک گئی +اچھا نہیں تھا تجھ کو بلانا مرے لئے +مختصر سی یہ بات ہے ہمدم +تجھ سے میری حیات ہے ہمدم +تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے +تُو مری کائنات ہے ہمدم +شام ہونے کو ہے چلا بھی آ +زندگی بے ثبات ہے ہمدم +اپنی آنکھیں جلا کے میز پہ رکھ +کتنی تاریک رات ہے ہمدم +یہ الگ دید کو ترستی ہوں +چار سو تیری ذات ہے ہمدم +وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے +خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے +جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی +ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے +عجیب شخص ہے کم گو ہے،کم نظر بھی ہے +کہ جس کے حرفِ وفا میں ہیں شدتیں مجھ سے +کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں +خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے +اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی +سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے +ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو +گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو +بھول جانے کی آرزو کی ہے +اور شدت سے یاد آئے ہو +یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی +میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو +کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوں +تم مری روح میں سمائے ہو +کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے +کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو +میں سمندر کے پار کیا آئوں +تم تو اک ساحلی سرائے ہو +اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں +مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں +سب دیکھتے ہیں اس کے ہی ایوان کی طرف +جس نے مری مکان کی اینٹیں چرائی ہیں +میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے +میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں +وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا +بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں +اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں +سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں +وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا +ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا +ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں +وہ ایک نائو کوئی بادباں نہ تھا جس کا +اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں +کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا +جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاں +عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا +گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا +کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا +بات جو ہوتی ہے بے بات ہوا کرتی ہے +اب خرابوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے +صبح سے شام تو ہو جاتی ہے جیسے کیسے +درد بڑھ جاتا ہے جب رات ہوا کرتی ہے +ہے عجب عالمِ محرومیِ افسردہ دلاں +سادہ ہوتے ہیں جنہیں مات ہوا کرتی ہے +روز سجتے ہیں نئے زخم مژہ پر میری +روز دہلیز پہ بارات ہوا کرتی ہے +ہجر چبھنے لگے آنکھوں میں آجانا کبھی +وصل کا لمحہ بھی سوغات ہوا کرتی ہے +تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے +میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے +ابھی تو چوٹ ہے آئی گلاب سے مجھ کو +ابھی تو راہ میں اک خار زار باقی ہے +ہوائیں تھم گئیں ، گروو غبار بیٹھ گیا +اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے +تمام عمر دیا میں نے جس کو اپنا لہو +ا’سی چراغ پہ اب تک نکھار باقی ہے +اداس رکھتی ہے دن بھر یہ بازگشت مجھے +صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے +جو رات ہجر کی گزری تمہارے پہلو میں +اس ایک شب کا ابھی تک خمار باقی ہے +جو گھائو بھر گیا اس کا نشان ہے ابتک +اس ایک زخم پہ اب بھی بہار باقی ہے +وہ یاد بھولی ہوئی داس��اں سہی لیکن +وہی مزاجِ سدا سوگوار باقی ہے +رات کو کیسے سحر کرپائیں گے تیرے بغیر +چھوڑ کر مت جا ہمیں مر جائیں گے تیرے بغیر +کون لپٹے گا گلے سے پیار سے دیکھے گا کون +یاد کی باہوں سے دل بہلائیں گے تیرے بغیر +زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی +اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر +رات بھر باتیں کریں گے ہم تری تصویر سے +اور تیرا غم کسے بتلائیں گے تیرے بغیر +فاصلوں سے ضبط کا ہم کو تو اب یارا نہیں +خود کو کیسے کس طرح سمجھائیں گے تیرے بغیر +جب زندگی کے راستے دشوار ہو گئے +ہم حادثوں سے بر سر پیکار ہو گئے +اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم +ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے +دیکھا اسے قریب سے ہم نے تو یوں ہوا +ہم خامشی سے مائلِ اغیار ہو گئے +جب انتظار تھا تو سویرا نہیں ہوا +سوتے رہے تو صبح کے آثار ہو گئے +بیکار حسرتوں کو ذرا چھانٹ کیا لیا +ہم اپنی منزلوں کے بھی مختار ہو گئے +آزاد تھے تو اپنی زمینیں بلند تھیں +ہاتھوں میں لے کے چاند گرفتار ہو گئے +ڈوبے ہیں ساحلوں کی سرکتی سی ریت میں +لے پانیوں کے ہم بھی طلب گار ہو گئے +ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا +ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے +چاند ، دریا ستارے چھوٹے ہیں +عشق کے استعارے جھوٹے ہیں +اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہے +اس کے الفاظ سارے جھوٹے ہیں +ایک تنہائی ہی حقیقت ہے +اور باقی سہارے جھوٹے ہیں +کوئی موجود ہی نہیں مجھ میں +دل کے سندر نظارے جھوٹے ہیں +اک سمندر ہے اور کشتی ہے +زندگی کے کنارے جھوٹے ہیں +ہمسفر تم نہیں رہے میرے +ساتھ جو دن گزارے جھوٹے ہیں +جہاں وہ چلتے چلتے کھو گیا ہے +وہ رستہ مجھ کو ازبر ہو گیا ہے +پھر اس کی منتظر ہوں شدتوں سے +کہ مجھ میں مجھ سے مل کر جو گیا ہے +کوئی بے چین سا بچہ تھا مجھ میں +اور اب لگتا ہے تھک کر سو گیا ہے +ابھی تک نم ہے یہ تکیے کا کونا +یہ کیسا درد کوئی رو گیا ہے +خدا جانے کبھی لوٹے نہ لوٹے +مگر ایسا ہی کچھ کہہ تو گیا ہے +اگے گی اب سحر تیرہ رتوں میں +کوئی غم کے ستارے بو گیا ہے +میں تو روز اکیلی رویا کرتی ہوں +روتے روتے اکثر سویا کرتی ہوں +خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سے +راہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں +پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں +چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں +لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت +جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں +صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ +رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں +کل کے داغ مٹانا کل پہ رکھا ہے +آج تو آج کا دامن دھویا کرتی ہوں +سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں +تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں +اب ملے خود سے زمانہ ہو گیا +یہ کہاں میرا ٹھکانہ ہو گیا +عشق کیا کہیے کہ بس الزام تھا +چوٹ کھائی تھی بہانہ ہو گیا +دیکھتے کیسے کہ بھر آئی تھی آنکھ +کس طرف کوئی روانہ ہو گیا +رات بھر برسات کی جل تھل کے بعد +خود بخود موسم سہانا ہو گیا +ٹوٹنے کی دل ، صدا آئی تو تھی +زد پہ تھا شاید نشانہ ہو گیا +زخم ِ دیرنیہ ابھی تازہ ہی تھا +حادثہ پھر جارحانہ ہو گیا +جہاں میں درد کا ہر رابطہ ہے میرے لئے +کوئی کٹھن ہے تو وہ راستہ ہے میرے لئے +خیال بھی نہیں آتا کہ نیند کیا شے ہے +یہ رتجگوں کا عجب سلسلہ ہے میرے لئے +عجب حصار میں ہوں ماورائی آنکھوں کے +قدم قدم پہ کوئی دائرہ ہے میرے لئے +چراغ گل ، شبِ تاریک ، وحشتِ گریہ +جتن سہی پہ مرا سانحہ ہے میرے لئے +سنا ہے کل پہ کسی اور کا ہے نام رقم +تو گویا آج کا ہر مسئلہ ہے میرے لئے +کوئی گلی کوئی موسم کوئی مہینہ ہو +تلاشِ ذات ہی اک مشغلہ ہے میرے لئے +میں لڑ رہی ہوں اکیلی کئی مح��ذوں پر +یہ خود سے جنگ تو اک مرحلہ ہے میرے لئے +کوئی چہرہ ، شناس سا گزرا +وہ یہیں ہے قیاس سا گزرا +اور اک رات کاٹ لی میں نے +اور اک دن اداس سا گزرا +درد آنکھوں سے پھوٹ کر نکلا +پل کوئی ناسپاس سا گزرا +جانے کس سچ کا سامنا کل ہو +شب کے دل میں ہراس سا گزرا +پھر سر آئینہ اداسی کا +دیدہ ئ التماس سا گزرا +زخم کی گہرائی سے لپٹے رہے +رات بھی تنہائی سے لپٹے رہتے +سی کے اپنے لب ترے اعزاز میں +جابجا رسوائی سے لپٹے رہے +چاند میں دیکھا کئے چہرہ ترا +گونجتی شہنائی سے لپٹے رہے +وصل کی بدشکل تصویروں میں ہم +ہجر کی رعنائی سے لپٹے رہے +زندگی کے ساحلوں پر عمر بھر +بے بسی کی کائی سے لپٹے رہے +بجلیاں کوندیں جو تیری یاد کی +خواب استقرائی سے لپٹے رہے +مسمار کر کے خواب مرے وہ چلا گیا +لے کر گل و گلاب مرے وہ چلا گیا +ساری حقیقتیں سرِ بازار کھل گئیں +یوں نوچ کر نقاب مرے وہ چلا گیا +کیا کیا نہ درد دے گیا رونے کے واسطے +زخموں سے بھر کے باب مرے وہ چلا گیا +آہیں بچھا گیا مری سانسوں کے آس پاس +کر کے سوا عذاب مرے وہ چلا گیا +اک لذتِ گناہ فقط رہ گئی ہے پاس +لے کر سبھی ثواب مرے وہ چلا گیا +پھر ہوائے نم میں خالی ہو گئے آنکھوں کے جام +دیکھ تُو آ کر ، گزاری کس طرح اک اور شام +کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر +آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام +ضبط کا آنچل کبھی وابستگی کا پیراہن +یاس میں لپٹا رہا جسمِ تمنا بس مدام +منزلِ نادیدہ کی جانب رواں تھے نیند میں +اور غم کی سرزمیں کے خون آلودہ تھے گام +رات بھر رویا کروں یادوں کے بستر میں پڑے +کروٹیں لے کر شبِ تیرہ کہاں ہو گی تمام +سکونِ دل کے لیے ایک ہی دوا کی تھی +خدا سے بارہا تیری ہی التجا کی تھی +یہ پائوں پھر تری دہلیز سے ہٹے ہی نہیں +مسافتوں کی ترے در پہ انتہا کی تھی +وہ جن گناہوں کی لذت ثواب جیسی تھی +ترے ہی نام سے ان سب کی ا بتدا کی تھی +بتائوں ترکِ مراسم کا کیا سبب کہ مری +محبتوں کی کہانی تو بس جفا کی تھی +ہوا تھا تیرا گماں خود پہ بارہا مجھ کو +مہک تیری مجسم بدن میں کیا کی تھی +عالم وگرنہ عشق میں کیا کیا نہیں لگا +دیکھا تھا جسیا خواب میں ، ویسا نہیں لگا +ٹوٹا ہوا ہے ایسے تعلق جہان سے +ملنے پہ آشنا بھی شناسا نہیں لگا +جاتے ہوئے کو دور تلک دیکھتے رہے +ایسے کہ پھر وہ لوٹ کے آتا نہیں لگا +اک دن ہوئے تھے گرمی ئ بازار کا سبب +پھر اپنے نام پر وہ تماشا نہیں لگا +ویسے تو اپنی ذات میں سارے اکائی ہیں +اپنی طرح سے کوئی بھی تنہا نہیں لگا +دل کے معاملے میں تھی وابستگی عجیب +جب کہہ دیا پرایا تو اپنا نہیں لگا +جہاں تمثیل تم میں ہو گیا ہے +یہ کیا ترسیل تم میں ہو گیا ہے +کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں +وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے +سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس +کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے +تسلسل سے سفر میرے لہو کا +ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے +ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو +کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے +دور دنیا سے کہیں ۔۔ دل میں چھپا کر رکھوں +تم حقیقت ہو مگر خواب بنا کر رکھوں +میں تو بس خاک ہوں اک روز بکھر جائوں گی +چند لمحے سہی خود کو تو سجا کر رکھوں +تم رگ و پے سے لپٹ جائو چنبیلی کی طرح +اور میں یاد کو خوشبو میں بسا کر رکھوں +میں نے چاہا ہے تمہیں ایک صحیفے کی طرح +دل و جاں آیہ ئ مژگاں سے لگا کر رکھوں +تم جو کہہ دو کہ شبِ تار میں آنا ہے تمہیں +میں ہوائوں کو چراغوں میں رچا کر رکھوں +تم جو آتے ہو تو جی لیتی ہوں ورنہ اکثر +اپنی آہوں کو بھی سینے میں دبا کر رکھوں +زندگی بھر میں تعاقب کروں سائے کی طرح +پائو�� رکھوں تو قدم تم سے ملا کر رکھوں +کب تک ڈرے کوئی تری بجلی کے خوف سے +جتنی ہے جس کے نام خدایا گرا بھی دے +گھٹنوں کے بل سہی یہ مسافت ہوئی تمام +دہلیزِ جاں پہ بھی مرے پائوں نہ رک سکے +طوفان میں چٹان کی صورت کھڑی رہی +دریا نہ تھی کہ راہ بدلتی نئے نئے +کمزور آسمان سے لڑنا فضول ہے +ایسا نہ ہو کہ لاگ میں سر پر ہی آگرے +آنکھوں سے میری ایک زمانے نے پڑھ لیا +خاموش داستاں کے چرچے بہت ہوئے +مثلِ سحاب رخ پہ ہوا کی اڑے تو کیا +میرے لئے تو دھوپ میں سایہ نہ کر سکے +دل یوں ترے خیال سے غافل نہ ہو سکا +دھڑکن پہ تیرے لمس کے نقشے بنے رہے +خاموش شب میں سسکیاں گونجی ہیں صبح تک +کس درجہ روئی ہوں مرے تکیے سے پوچھ لے +جنھیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے +وہ جا بجا میری تصویر کیوں سجانے لگے +فریفتہ ہوں میں اس پر تو وہ بھی مجھ پر ہے +کہ اپنے خواب میں اکثر مجھے بلانے لگے +یہ دل عجیب ہے غم کی اٹھا کے دیواریں +ترے خیال کے آتے ہی ان کو ڈھانے لگے +تُواپنی عمر کی محرومیاں مجھے دے دے +میں چاہتی ہوں تری روح مسکرانے لگے +یہ کیسا ہجر ہے جس پر گمان وصل کا ہے +تُو مرے پاس رہے جب بھی اٹھ کے جانے لگے +خدا کرے کہ کہیں تجھ کو تیری فطرت سا +کوئی ملے کبھی پھر میری یاد آنے لگے +ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے +کہ جس پہ پائوں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے +منزل کی جستجو میں تو چلنا بھی شرط تھا +چنگاریوں کے کھیل میں جلنا بھی شرط تھا +یہ اذن تھا کہ خواب ہوں رنگین خون سے +اور جاگنے پہ رنگ بدلنا بھی شرط تھا +مجروح ہو کے درد چھپانا تھا لازمی +اور زخم آشنائی کا پھلنا بھی شرط تھا +گرنا تھا ہو قدم پہ مگر حوصلے کے ساتھ +اور گر کے بار بار سنھبلنا بھی شرط تھا +اُس حسن سرد مہر کے قانون تھے عجیب +اپنا جگر چبا کے نگلنا بھی شرط تھا +اپنے خلاف فیصلہ لکھنا تھا خود مجھے +پھر اُس بریدہ ہاتھ کو ملنا بھی شرط تھا +سوال کرتے اگر وہ جواب دیتا کوئی +ہر ایک زخم کا کیسے حساب دیتا کوئی +یہ ابجدِ غمِ جاناں تو ہو گئی ازبر +جہاں کی نوحہ گری پر کتاب دیتا کوئی +شبِ فراقِ مسلسل میں چشمِ تر اپنی +لگی کہاں کہ وہ آنکھوں کو خواب دیتا کوئی +ملا ہوا تھا گریباں بھی اس کے دامن سے +کیا اور میرے بدن پر نقاب دیتا کوئی +گمان ہوتا سفر میں چمن سے گزرے ہیں +کہ سوکھا ہی سہی ہم کو گلاب دیتا کوئی +چٹخ کے دھوپ میں راحت بدن کو ملنے لگی +تو کیسے چھائوں کا آخر عذاب دیتا کوئی +ہمارے نام دعائیں اسی کو لگتی گئیں +تو بدعا ہمیں خانہ خراب دیتا کوئی + + +کسی کشِش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا +ہمیں بھی آخرش اِک دائرے کا ہونا تھا +ابھی سے اچھا ہوا رات سو گئی ورنہ +کبھی تو ختم سفر رت جگے کا ہونا تھا +برہنہ تن بڑی گزری تھی زندگی اپنی +لباس ہم کو ہی اِک دوسرے کا ہونا تھا +ہم اپنا دیدہ ئ بینا پہن کے نِکلے تھے +سڑک کے بیچ کسی حادثے کا ہونا تھا +ہمارے پائوں سے لپٹی ہوئی قیامت تھی +قدم قدم پہ کسی زلزلے کا ہونا تھا +ہم اپنے سامنے ہر لمحہ مرتے رہتے تھے +ہمارے دِل میں کسی مقبرے کا ہونا تھا +تم آ سکے نہ شبِ قدر کے اجالے میں +وگرنہ وصل بڑے مرتبے کا ہونا تھا +تمام رات بلاتا رہا ہے اِک تارہ +افق کے پار کسی معجزے کا ہونا تھا +کسی کے سامنے اٹھی نظر تو بہہ نکلا +ہماری آنکھ میں کیا آبلے کا ہونا تھا +یہ کیا کہ ساتھ ازل سے ہے ہمسفر منزل +کسی جگہ تو کسی مرحلے کا ہونا تھا +ہم اپنی ذات سے باہر نکل ہی آئے ہیں +کبھی ہمیں بھی کسی راستے کا ہونا تھا +میری پہچان رکھا درد کا دھبہ تُو نے +خالی تصویر میں رہنے دیا چہرہ ��ُو نے +تیری آواز مرے کان سے جاتی ہی نہیں +بھول جائوں تجھے اک روز کہا تھا تُو نے +رات چمنی سے لگا تھا کوئی امید کا چاند +دیکھ کھولا ہی نہیں اپنا دریچہ تُو نے +دل کے کمرے میں کہیں کوئی کمی آج بھی ہے +جانے کس حسن تناسب سے سجایا تُو نے +روز گرتے ہیں ترے ہاتھ سے گھر کے برتن +زندگی جینے کاسیکھا نہ قرینہ تُو نے +ٹوٹا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +تڑپا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +کہتا نہیں کسی سے مگر جانتے ہیں ہم +رویا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +پھیلا کے اپنے گرد تصاویر اور خطوط +بکھرا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +رااتوں کی سائیں سائیں میں تنہائیوں کے بیچ +جاگا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +دہلیز پر پرانے زمانوں کا منتظر +بیٹھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +اٹھتے قدم ہماری طرف روکتے ہوئے +اُلجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +ہر زخم کا علاج مسیحائی میں نہیں +سمجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ +اِک دِل میں تھا اِک سامنے دریا اُسے کہنا +ممکن تھا کہاں پار اُترنا اسے کہنا +ہجراں کے سمندر میں ہیولا تھا کسی کا +اِمکاں کے بھنور سے کوئی اُبھرا اُسے کہنا +اِک حرف کی کرچی کہیں سینے میں چُبھی تھی +پہروں تھا کوئی ٹوٹ کے رویا اُسے کہنا +مدت ہوئی خورشید گہن سے نہیں نِکلا +ایسا کہیں تارا کوئی ٹوٹا اُسے کہنا +جاتی تھی کوئی راہ اکیلی کسی جانب +تنہا تھا سفر میں کوئی سایا اُسے کہنا +ہر زخم میں دھڑکن کی صدا گونج رہی تھی +اِک حشر کا تھا شور شرابا اُسے کہنا +اک نیند میں بس عمر گزرتی رہی اپنی +اک خواب میں گھر ہم نے بنایا اسے کہنا +مجھ کو اتار حرف میں ، جانِ غزل بنا مجھے +میری ہی بات مجھ سے کر، میرا کہا سنا مجھے +رخشِ ابد خرام کی تھمتی نہیں ہیں بجلیاں +صبحِ ازل نژاد سے کرنا ہے مشورہ مجھے +لوحِ جہاں سے پیشتر لکھا تھا کیا نصیب میں +کیسی تھی میری زندگی ، کچھ تو چلے پتہ مجھے +کیسے ہوں خواب آنکھ میں ، کیسا خیال دل میں ہو +خود ہی ہر ایک بات کا کرنا تھا فیصلہ مجھے +چھوٹے سے اک سوال میں دن ہی گزر گیا مرا +تُو ہے کہ اب نہیں ہے تُو بس یہ ذرا بتا مجھے +دامِ صراطِ وقت سے کیسے گزرنا اب مجھے +ویسے تو دے گئے سبھی جاتے ہوئے دعا مجھے +میرا سفر مرا ہی تھا اٹھتے کسی کے کیا قدم +اپنے لئے تھا کھوجنا اپنا ہی نقشِ پا مجھے +لگتا ہے چل رہی ہوں میں روحِ تمام کی طرف +جیسی تھی ابتدائی مجھے ویسی ہے انتہا مجھے +چاندنی رات میں مہتاب سلگتا دیکھوں +نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں +آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں +آسماں سے پرے اک نور دمکتا دیکھوں +کل کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے +آج اس شخص کو دریا میں اترتا دیکھوں +آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح +دل اسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں +راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر +ہاں مگر دل سے لہو روز ٹپکتا دیکھوں +سینک لیتی ہوں جگر درد کے انگاروں سے +روپ اس آنچ کی حدت میں سنورتا دیکھوں +غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے +میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں +ہوئی جو ہوش میں کیوں کر بہ نام بادہ ہوئی +خطا کہاں تھی جو کہہ دیں بلا ارادہ ہوئی +وصالِ حسنِ مجازاں تھا مختصر کتنا +ستم کہ راہِ فغاں کس قدر کشادہ ہوئی +میں جس کو وقت بڑی مشکلوں سے پڑھتا تھا +تری زبان پہ آئی تو حرفِ سادہ ہوئی +وہ جس کو ننگِ وفا جان کر بھلا گیا +وہی تو رات مرے حزن کا لبادہ ہوئی +بساطِ عشق میں جو شہ رخوں کی ہم سر تھی +یہ کیا ہوا وہی تقدیر پا پیادہ ہوئی +برکھا بھی ہو لبوں پہ ذرا پیاس بھی رہے +پھر سے فریب دے کہ کوئی آس بھی رہے +مدت سے انتظار تھا اپنا بہت مگر +خود سے لپٹ کے رونا ہمیں راس بھی رہے +تُو لاکھ دور دور سے دیکھے ہمارے خواب +اپنا وہی لگے ہے کہ جو پاس بھی رہے +اک ہو مکاں ہماری تمنا میں مضطرب +اور دسترس میں اپنی ، یہ بن باس بھی رہے +خوشیوں کی کیا دلیل ہوں مجبور قہقہے +ہنسنے لگیں تو درد کا احساس بھی رہے +ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھی +یہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے +وصل کا عالم رہا ہے ہجر کے ماروں کے بیچ +تُو نظر آتا رہا ہے رات بھر تاروں کے بیچ +راکھ ہو جاتے ہیںاپنے شوق میں اہل جنوں +پھول الفت کے کھلا کرتے ہیں انگاروں کے بیچ +کو بہ کو رسوائیاں دیتی ہیں دل کو حوصلے +منزلیں خود چل کے آجاتی ہیں دیواروں کے پیچ +خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیں +’ہاں‘ دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ +ساری دنیا ایک جانب اور تو ہے اک طرف +دیکھتے رہتے ہیں تجھ کو پیار سے ساروں کے بیچ +یوں مرا انتظار کرنا کبھی +ٹوٹ کر مجھ سے پیار کرنا کبھی +میرا باطن تو تم پہ ظاہر ہے +خود کو بھی آشکار کرنا کبھی +تم نے جو کہہ دیا صحیفہ ہے +میرا بھی اعتبار کرنا بھی +تم جہاں بھی ہو صرف میرے ہو +اعتراف ایک بار کرنا کبھی +سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے +مجھ اپنا شمار کرنا کبھی +موڑ اک پُر خطر بھی آتا ہے +اور رستے میں گھر بھی آتا ہے +عشق کی داستاں عجیب سی ہے +سنگ آتا ہے سر بھی آتا ہے +جانتے ہیں سو گھر سے نکلے ہیں +رہ میں رنجِ سفر بھی آتا ہے +اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے +چاہنے پر نظر بھی آتا ہے +لاکھ تنہائی کی منازل ہوں +راہ میں ہمسفر بھی آتا ہے +اتنا دشوار تو نہیں رستہ +گاہے گاہے شجر بھی آتا ہے +رات اچھی بھی لگتی ہے لیکن +نیند آنے پہ ڈر بھی آتا ہے +مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا +مری نظر کی حسین کائنات پھر ملنا +تجھے یہ دن کے اجالے بھی سوچتے ہونگے +یہ شوقِ دید میں جاگے گی رات ، پھر ملنا +بس ایک تُو ہی ہے لمحہ قرار کا ورنہ +سراپا درد ہے ساری حیات ، پھر ملنا +ہزار رنگ ابھی تیرے مجھ سے لپٹے ہیں +جلو میں لے کے دھنک کی برات پھر ملنا +چٹخ رہے ہیں مرے ہونٹ ریگزاروں میں +بجھی ہے پیاس کہاں اے فرات پھر ملنا +سنی ہوئی ہے تری آنکھ کی زباں میں نے +تجھے سنانی ہے اس دل کی بات پھر ملنا +مشکل بہت تھا ساتھ بنھانا مرے لئے +لازم تھا تجھ کو بھول ہی جانا مرے لئے +رکتا کہاں ہے وقت کسی کے بھی واسطے +ویسے بھی تھا گراں وہ زمانہ مرے لئے +اٹھتے تھے میرے پائوں ،سفر بھی تھا دو قدم +پھر بھی کٹھن تھا لوٹ کے آنا مرے لئے +دشوار تھا تجھے بھی مرے گھر کا رستہ +شاید یہی بہت تھا بہانہ مرے لئے +آواز میرے حلق میں میری اٹک گئی +اچھا نہیں تھا تجھ کو بلانا مرے لئے +مختصر سی یہ بات ہے ہمدم +تجھ سے میری حیات ہے ہمدم +تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے +تُو مری کائنات ہے ہمدم +شام ہونے کو ہے چلا بھی آ +زندگی بے ثبات ہے ہمدم +اپنی آنکھیں جلا کے میز پہ رکھ +کتنی تاریک رات ہے ہمدم +یہ الگ دید کو ترستی ہوں +چار سو تیری ذات ہے ہمدم +وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے +خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے +جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی +ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے +عجیب شخص ہے کم گو ہے،کم نظر بھی ہے +کہ جس کے حرفِ وفا میں ہیں شدتیں مجھ سے +کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں +خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے +اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی +سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے +ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو +گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو +بھول جانے کی آرزو کی ہے +اور شدت سے یاد آئے ہو +یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی +میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو +کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوں +تم مری روح میں سمائے ہو +کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے +کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو +میں سمندر کے پار کیا آئوں +تم تو اک ساحلی سرائے ہو +اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں +مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں +سب دیکھتے ہیں اس کے ہی ایوان کی طرف +جس نے مری مکان کی اینٹیں چرائی ہیں +میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے +میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں +وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا +بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں +اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں +سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں +وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا +ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا +ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں +وہ ایک نائو کوئی بادباں نہ تھا جس کا +اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں +کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا +جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاں +عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا +گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا +کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا +بات جو ہوتی ہے بے بات ہوا کرتی ہے +اب خرابوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے +صبح سے شام تو ہو جاتی ہے جیسے کیسے +درد بڑھ جاتا ہے جب رات ہوا کرتی ہے +ہے عجب عالمِ محرومیِ افسردہ دلاں +سادہ ہوتے ہیں جنہیں مات ہوا کرتی ہے +روز سجتے ہیں نئے زخم مژہ پر میری +روز دہلیز پہ بارات ہوا کرتی ہے +ہجر چبھنے لگے آنکھوں میں آجانا کبھی +وصل کا لمحہ بھی سوغات ہوا کرتی ہے +تمہارے وصل کا بس انتظار باقی ہے +میں رنگ رنگ ہوں لیکن سنگھار باقی ہے +ابھی تو چوٹ ہے آئی گلاب سے مجھ کو +ابھی تو راہ میں اک خار زار باقی ہے +ہوائیں تھم گئیں ، گروو غبار بیٹھ گیا +اک اپنی ذات کا بس انتشار باقی ہے +تمام عمر دیا میں نے جس کو اپنا لہو +ا’سی چراغ پہ اب تک نکھار باقی ہے +اداس رکھتی ہے دن بھر یہ بازگشت مجھے +صدا کی گونج میں پیہم پکار باقی ہے +جو رات ہجر کی گزری تمہارے پہلو میں +اس ایک شب کا ابھی تک خمار باقی ہے +جو گھائو بھر گیا اس کا نشان ہے ابتک +اس ایک زخم پہ اب بھی بہار باقی ہے +وہ یاد بھولی ہوئی داستاں سہی لیکن +وہی مزاجِ سدا سوگوار باقی ہے +رات کو کیسے سحر کرپائیں گے تیرے بغیر +چھوڑ کر مت جا ہمیں مر جائیں گے تیرے بغیر +کون لپٹے گا گلے سے پیار سے دیکھے گا کون +یاد کی باہوں سے دل بہلائیں گے تیرے بغیر +زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی +اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر +رات بھر باتیں کریں گے ہم تری تصویر سے +اور تیرا غم کسے بتلائیں گے تیرے بغیر +فاصلوں سے ضبط کا ہم کو تو اب یارا نہیں +خود کو کیسے کس طرح سمجھائیں گے تیرے بغیر +جب زندگی کے راستے دشوار ہو گئے +ہم حادثوں سے بر سر پیکار ہو گئے +اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم +ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے +دیکھا اسے قریب سے ہم نے تو یوں ہوا +ہم خامشی سے مائلِ اغیار ہو گئے +جب انتظار تھا تو سویرا نہیں ہوا +سوتے رہے تو صبح کے آثار ہو گئے +بیکار حسرتوں کو ذرا چھانٹ کیا لیا +ہم اپنی منزلوں کے بھی مختار ہو گئے +آزاد تھے تو اپنی زمینیں بلند تھیں +ہاتھوں میں لے کے چاند گرفتار ہو گئے +ڈوبے ہیں ساحلوں کی سرکتی سی ریت میں +لے پانیوں کے ہم بھی طلب گار ہو گئے +ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا +ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے +چاند ، دریا ستارے چھوٹے ہیں +عشق کے استعارے جھوٹے ہیں +اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہے +اس کے الفاظ سارے جھوٹے ہیں +ایک تنہائی ہی حقیقت ہے +اور باقی سہارے جھوٹے ہیں +کوئی موجود ہی نہیں مجھ میں +دل کے سندر نظارے جھوٹے ہیں +اک سمندر ہے اور کشتی ہے +زندگی کے کنارے جھوٹے ہیں +ہمسفر تم نہیں رہے میرے +ساتھ جو دن گزارے جھوٹے ہیں +جہاں وہ چلتے چلتے کھو گیا ہے +وہ رستہ مجھ کو ازبر ہو گیا ہے +پھر اس کی منتظر ہوں شدتوں سے +کہ مجھ میں مجھ سے مل کر جو گیا ہے +کوئی بے چین سا بچہ تھا مجھ میں +اور اب لگتا ہے تھک کر سو گیا ہے +ابھی تک نم ہے یہ تکیے کا کونا +یہ کیسا درد کوئی رو گیا ہے +خدا جانے کبھی لوٹے نہ لوٹے +مگر ایسا ہی کچھ کہہ تو گیا ہے +اگے گی اب سحر تیرہ رتوں میں +کوئی غم کے ستارے بو گیا ہے +میں تو روز اکیلی رویا کرتی ہوں +روتے روتے اکثر سویا کرتی ہوں +خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سے +راہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں +پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں +چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں +لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت +جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں +صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ +رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں +کل کے داغ مٹانا کل پہ رکھا ہے +آج تو آج کا دامن دھویا کرتی ہوں +سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں +تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں +اب ملے خود سے زمانہ ہو گیا +یہ کہاں میرا ٹھکانہ ہو گیا +عشق کیا کہیے کہ بس الزام تھا +چوٹ کھائی تھی بہانہ ہو گیا +دیکھتے کیسے کہ بھر آئی تھی آنکھ +کس طرف کوئی روانہ ہو گیا +رات بھر برسات کی جل تھل کے بعد +خود بخود موسم سہانا ہو گیا +ٹوٹنے کی دل ، صدا آئی تو تھی +زد پہ تھا شاید نشانہ ہو گیا +زخم ِ دیرنیہ ابھی تازہ ہی تھا +حادثہ پھر جارحانہ ہو گیا +جہاں میں درد کا ہر رابطہ ہے میرے لئے +کوئی کٹھن ہے تو وہ راستہ ہے میرے لئے +خیال بھی نہیں آتا کہ نیند کیا شے ہے +یہ رتجگوں کا عجب سلسلہ ہے میرے لئے +عجب حصار میں ہوں ماورائی آنکھوں کے +قدم قدم پہ کوئی دائرہ ہے میرے لئے +چراغ گل ، شبِ تاریک ، وحشتِ گریہ +جتن سہی پہ مرا سانحہ ہے میرے لئے +سنا ہے کل پہ کسی اور کا ہے نام رقم +تو گویا آج کا ہر مسئلہ ہے میرے لئے +کوئی گلی کوئی موسم کوئی مہینہ ہو +تلاشِ ذات ہی اک مشغلہ ہے میرے لئے +میں لڑ رہی ہوں اکیلی کئی محاذوں پر +یہ خود سے جنگ تو اک مرحلہ ہے میرے لئے +کوئی چہرہ ، شناس سا گزرا +وہ یہیں ہے قیاس سا گزرا +اور اک رات کاٹ لی میں نے +اور اک دن اداس سا گزرا +درد آنکھوں سے پھوٹ کر نکلا +پل کوئی ناسپاس سا گزرا +جانے کس سچ کا سامنا کل ہو +شب کے دل میں ہراس سا گزرا +پھر سر آئینہ اداسی کا +دیدہ ئ التماس سا گزرا +زخم کی گہرائی سے لپٹے رہے +رات بھی تنہائی سے لپٹے رہتے +سی کے اپنے لب ترے اعزاز میں +جابجا رسوائی سے لپٹے رہے +چاند میں دیکھا کئے چہرہ ترا +گونجتی شہنائی سے لپٹے رہے +وصل کی بدشکل تصویروں میں ہم +ہجر کی رعنائی سے لپٹے رہے +زندگی کے ساحلوں پر عمر بھر +بے بسی کی کائی سے لپٹے رہے +بجلیاں کوندیں جو تیری یاد کی +خواب استقرائی سے لپٹے رہے +مسمار کر کے خواب مرے وہ چلا گیا +لے کر گل و گلاب مرے وہ چلا گیا +ساری حقیقتیں سرِ بازار کھل گئیں +یوں نوچ کر نقاب مرے وہ چلا گیا +کیا کیا نہ درد دے گیا رونے کے واسطے +زخموں سے بھر کے باب مرے وہ چلا گیا +آہیں بچھا گیا مری سانسوں کے آس پاس +کر کے سوا عذاب مرے وہ چلا گیا +اک لذتِ گناہ فقط رہ گئی ہے پاس +لے کر سبھی ثواب مرے وہ چلا گیا +پھر ہوائے نم میں خالی ہو گئے آنکھوں کے جام +دیکھ تُو آ کر ، گزاری کس طرح اک اور شام +کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر +آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام +ضبط کا آنچل کبھی وابستگی کا پیراہن +یاس میں لپٹا رہا جسمِ تمنا بس مدام +منزلِ نادیدہ کی جانب رواں تھے نیند میں +اور غم کی سرزمیں کے خون آلودہ تھے گام +رات بھر رویا کروں یادوں کے بستر میں پڑے +کروٹیں لے کر شبِ تیرہ کہاں ہو گی تمام +سکونِ دل کے لیے ایک ہی دوا کی تھی +خدا سے بارہا تیری ہی التجا کی تھی +یہ پائوں پھر تری دہلیز سے ہٹے ہی نہیں +مسافتوں کی ترے در پہ انتہا کی تھی +وہ جن گناہوں کی لذت ثواب جیسی تھی +ترے ہی نام سے ان سب کی ا بتدا کی تھی +بتائوں ترکِ مراسم کا کیا سبب کہ مری +محبتوں کی کہانی تو بس جفا کی تھی +ہوا تھا تیرا گماں خود پہ بارہا مجھ کو +مہک تیری مجسم بدن میں کیا کی تھی +عالم وگرنہ عشق میں کیا کیا نہیں لگا +دیکھا تھا جسیا خواب میں ، ویسا نہیں لگا +ٹوٹا ہوا ہے ایسے تعلق جہان سے +ملنے پہ آشنا بھی شناسا نہیں لگا +جاتے ہوئے کو دور تلک دیکھتے رہے +ایسے کہ پھر وہ لوٹ کے آتا نہیں لگا +اک دن ہوئے تھے گرمی ئ بازار کا سبب +پھر اپنے نام پر وہ تماشا نہیں لگا +ویسے تو اپنی ذات میں سارے اکائی ہیں +اپنی طرح سے کوئی بھی تنہا نہیں لگا +دل کے معاملے میں تھی وابستگی عجیب +جب کہہ دیا پرایا تو اپنا نہیں لگا +جہاں تمثیل تم میں ہو گیا ہے +یہ کیا ترسیل تم میں ہو گیا ہے +کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں +وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے +سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس +کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے +تسلسل سے سفر میرے لہو کا +ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے +ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو +کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے +دور دنیا سے کہیں ۔۔ دل میں چھپا کر رکھوں +تم حقیقت ہو مگر خواب بنا کر رکھوں +میں تو بس خاک ہوں اک روز بکھر جائوں گی +چند لمحے سہی خود کو تو سجا کر رکھوں +تم رگ و پے سے لپٹ جائو چنبیلی کی طرح +اور میں یاد کو خوشبو میں بسا کر رکھوں +میں نے چاہا ہے تمہیں ایک صحیفے کی طرح +دل و جاں آیہ ئ مژگاں سے لگا کر رکھوں +تم جو کہہ دو کہ شبِ تار میں آنا ہے تمہیں +میں ہوائوں کو چراغوں میں رچا کر رکھوں +تم جو آتے ہو تو جی لیتی ہوں ورنہ اکثر +اپنی آہوں کو بھی سینے میں دبا کر رکھوں +زندگی بھر میں تعاقب کروں سائے کی طرح +پائوں رکھوں تو قدم تم سے ملا کر رکھوں +کب تک ڈرے کوئی تری بجلی کے خوف سے +جتنی ہے جس کے نام خدایا گرا بھی دے +گھٹنوں کے بل سہی یہ مسافت ہوئی تمام +دہلیزِ جاں پہ بھی مرے پائوں نہ رک سکے +طوفان میں چٹان کی صورت کھڑی رہی +دریا نہ تھی کہ راہ بدلتی نئے نئے +کمزور آسمان سے لڑنا فضول ہے +ایسا نہ ہو کہ لاگ میں سر پر ہی آگرے +آنکھوں سے میری ایک زمانے نے پڑھ لیا +خاموش داستاں کے چرچے بہت ہوئے +مثلِ سحاب رخ پہ ہوا کی اڑے تو کیا +میرے لئے تو دھوپ میں سایہ نہ کر سکے +دل یوں ترے خیال سے غافل نہ ہو سکا +دھڑکن پہ تیرے لمس کے نقشے بنے رہے +خاموش شب میں سسکیاں گونجی ہیں صبح تک +کس درجہ روئی ہوں مرے تکیے سے پوچھ لے +جنھیں نگاہ اٹھانے میں بھی زمانے لگے +وہ جا بجا میری تصویر کیوں سجانے لگے +فریفتہ ہوں میں اس پر تو وہ بھی مجھ پر ہے +کہ اپنے خواب میں اکثر مجھے بلانے لگے +یہ دل عجیب ہے غم کی اٹھا کے دیواریں +ترے خیال کے آتے ہی ان کو ڈھانے لگے +تُواپنی عمر کی محرومیاں مجھے دے دے +میں چاہتی ہوں تری روح مسکرانے لگے +یہ کیسا ہجر ہے جس پر گمان وصل کا ہے +تُو مرے پاس رہے جب بھی اٹھ کے جانے لگے +خدا کرے کہ کہیں تجھ کو تیری فطرت سا +کوئی ملے کبھی پھر میری یاد آنے لگے +ہوا ہے طے وہ سفر ایک جست میں مجھ سے +کہ جس پہ پائوں بھی دھرتے تجھے زمانے لگے +منزل کی جستجو میں تو چلنا بھی شرط تھا +چنگاریوں کے کھیل میں جلنا بھی شرط تھا +یہ اذن تھا کہ خواب ہوں رنگین خون سے +اور جاگنے پہ رنگ بدلنا بھی شرط تھا +مجروح ہو کے درد چھپانا تھا لازمی +اور زخم آشنائی کا پھلنا بھی شرط تھا +گرنا تھا ہو قدم پہ مگر حوصلے کے ساتھ +اور گر کے بار بار سنھبلنا بھی شرط تھا +اُس حسن سرد مہر کے قانون تھے عجیب +اپنا جگر چبا کے نگلنا بھی شرط تھا +اپنے خلاف فیصلہ لکھنا تھا خود مجھے +پھر اُس بریدہ ہاتھ کو ملنا بھی شرط تھا +سوال کرتے اگر وہ جواب دیتا کوئی +ہر ایک زخم کا کیسے حساب دیتا کوئی +یہ ابجدِ غمِ جاناں تو ہو گئی ازبر +جہاں کی نوحہ گری پر کتاب دیتا کوئی +شبِ فراقِ مسلسل میں چشمِ تر اپنی +لگی کہاں کہ وہ آنکھوں کو خواب دیتا کوئی +ملا ہوا تھا گریباں بھی اس کے دامن سے +کیا اور میرے بدن پر نقاب دیتا کوئی +گمان ہوتا سفر میں چمن سے گزرے ہیں +کہ سوکھا ہی سہی ہم کو گلاب دیتا کوئی +چٹخ کے دھوپ میں راحت بدن کو ملنے لگی +تو کیسے چھائوں کا آخر عذاب دیتا کوئی +ہمارے نام دعائیں اسی کو لگتی گئیں +تو بدعا ہمیں خانہ خراب دیتا کوئی + + +میں نے جب اپنے ایک دوست سے یہ کتاب لکھنے کا وعدہ کیا تھا تو یہ بات طے پائی تھی کہ اس کے سرورق پر میرا نام نہیں ہو گالیکن جب میں نے کام کیا تو میں نے کہاکہ مجھے اس کتاب کے سرورق پر اپنا نام لکھتے ہوئے فخر محسوس ہو گاکیونکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی سرگزشت ہے جس نے صدیوں بعد مغرب کے گلیوں میں محمدالرسول اللہ کا ورد کیا ہے اور کرایا ہے، مادیت پرست معاشرے کی بدبوداراور گھٹاٹوپ تاریکیوں میںروشنی اور خوشبو کی ترسیل کی ہے۔ +جل رہے ہیں ہر طرف عشقِ محمد (ص) کے چراغ +کس کی لو میں اتنی روشنی تھی ، نور تھا +میں جب پہلی بار اپنے اخبارکے انٹرویو کے لیے پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کے پاس گیاتھاتومجھے حیرت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔اٹھارہ ساوتھ فیلڈ اسکوائرکوئی ایسی جگہ نہیں تھی جو کسی پیر کی رہائش کے لیے موزوں کہی جا سکے وہاں تو کسی مل کے مزدور کا مکان ہو سکتا ہے۔ میں جب مکان کے اندر داخل ہوا تو چھوٹے سے ایک کمرے پیر صاحب زمین پر بیٹھے ہوئے کوئی کام کر رہے تھے۔ ان کے سامنے بہت سے فائلیں پڑی ہوئی تھیں ۔میں نے غور سے کمرے کا جائزہ لیا تووہ کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ چھوٹی چھوٹی دو سیٹوں کے رکھ دینے کے بعدوہاں کوئی اور فرنیچر شاید ڈھنگ سے نہیںرکھا جا سکتا تھا۔ اسی کے اندر ایک طرف سنیک بھی لگا ہوا تھا ۔سیٹوں کی حالت یہ بتاتی تھی کہ شاید پیر صاحب نے اپنی جوانی کے دنوںمیں خریدی تھیں کیونکہ وہ بھی پیر صاحب کے ساتھ ساتھ اب بوڑھی ہو چکی تھیں۔ایک میز بھی پڑی تھی جس پرایک بار استعمال کیے جانے والے کچھ کاغذی برتن پڑے ہوئے تھے ۔پرانے زمانے کا گیس ہیٹر جل رہا تھا۔ سنٹرل ہیٹنگ کی کوئی لوہے کی دوہری چادر کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی ۔دیواروں پر سلسلہ ئ نوشاہیہ کے شجرے اور اشتہار لگے ہوئے تھے ، کچھ تصویروں کے فریم بھی تھے ۔دیواروں کا وال پیپر صاف ستھرا تھا مگر بہت پرانے زمانے کے ڈیزائن کا تھا ۔ +کارپٹ پر بیٹھ کر کام کرتے ہوئے شخص نے عینک لگا رکھی تھی۔ عام سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ عینک کے پیچھے چمکتی ہوئی متحرک آنکھوں سے ذہانت سے بھری ہوئی معاملہ فہمی ٹپک رہی تھی۔ کھردرے ہاتھ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انہوں نے زندگی بھر مشکل کام کیے ہیں۔وہ جب وہاں سے اٹ��ے تو معلوم ہوا کہ دراز قد آدمی ہیںاو ربدن قامت کے اعتبار سے متناسب ہے۔چہرے پر اطمینان تھا۔پیشانی کشادہ تھی۔پیچھے سے بال سلامت اور مائل بہ درازی تھے۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ان کا تعلق ضرور کسی گائوں سے ہے اورانہیں بچپن اور لڑکپن میں گائوں کی صاف ستھری ہوا اور بکریوں کا دودھ میسر آیا ہے ۔ +میں جب ان کا انٹرویو لینے کے لیے دفتر سے نکل رہا تھا تو میں نے اپنے ایک اخبار کے ساتھی سے ان کے متعلق پوچھا تھا تواس کے چہرے پر کوئی اچھے تاثرات نہیں آئے تھے اور اس نے اپنی چند لفظی گفتگو میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس شخص کے انٹرویو کی کوئی ضرورت نہیں ،لیکن اس شخص سے زیادہ یقین مجھے ظفربھائی ﴿ظفرتنویر ﴾ پر تھا جنہوں نے ان کے متعلق کہا تھا کہ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے تمام زندگی رات کی شفٹ میں کام کیا ہے اور دن کو اسلام کی تبلیغ کی ہے ۔پھر بھی میرا خیال تھا کہ پیر تو پیر ہوتے ہیں ۔مریدوں کے نذرانوں پراونچے اونچے محل تعمیر کرنے والے پیربقول اقبال +ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی +گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن +لیکن یہ شخصیت ویسی نہیں تھی جن کے ساتھ برسوں سے واسطہ پڑتا چلا آرہا تھا پھر ان کے ساتھ گفتگو سے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ پیر صاحب خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ فارسی اور پنجابی زبان میں شعربھی کہتے ہیں۔ فارسی سے تو میری کچھ زیادہ شدبد نہیں ہے مگر پنجابی زبان کے اسرارو رموز جاننے کا تو مجھے بھی دعویٰ ہے سو میں نے ان کی پنجابی شاعری میں دلچسپی لی اور وہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میںنے ان کی پنجابی شاعری کے اردو زبان میں منظوم تراجم بھی کیے جو بہت جلد کتابی صورت میں شایع ہونے والے ہیں۔ +پیر صاحب سے دوسری ملاقات ایک مشاعرے کے سلسلے میں ہوئی ۔میں نے پیر صاحب کو اس مشاعرہ کی صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ مشاعرہ سے دودن پہلے مجھے پیر صاحب کا فون آیا کہ میں مشاعرہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ دوستوں نے اس مشاعرہ کو ایک سیاسی اشو بنا لیا ہے کیونکہ کچھ دنوں کے بعد برطانیہ میں نیشنل اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں ۔دوستوں کا یہ خیال ہے کہ یہ مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور وہاں لیبر پارٹی کے امیدوار مارشا سنگھ سے میری ملاقات ہونی ہے۔ میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنا کیا خیال ہے تو انہوں نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ یہ سب غلط فہمی ہے مگر وقت کم ہے اور میں یہ غلط فہمی دور نہیں کر سکتا۔ اس لیے مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ میں مشاعرہ میں نہ آئوں تاکہ کسی دوست کا دل نہ دکھے۔ میں شاعر ہوں مجھے مشاعرہ میں شریک ہونا اچھا لگتا ہے لیکن کیا میں دوستوں کے لیے اتنی قربانی نہیں دے سکتا اور مجھے پیر صاحب اور زیادہ بڑے آدمی محسوس ہوئے۔ +پیر صاحب سے تیسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نماز کے حوالے سے ایک ڈاکومینٹری فلم بنا رہا تھا ۔میں نے اس سلسلے میں پیر صاحب سے مدد کی درخوست کی تو انہوں نے بریڈ فورڈ کے تمام علمائے کرام کو کہا کہ مجھے اس ڈاکومینٹری کے سلسلے میں جس قسم کی کوئی مدد کی ضرورت پڑے، وہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور یوں پیر صاحب کے تعاون سے میں وہ ڈاکومینٹری بنانے میں کامیاب ہوا۔اس ڈاکومینٹری کا انتساب بھی میں نے پیر صاحب کے نام کیا تھا۔ +پیر صاحب سے چوتھی ملاقات ان دنوں ہوئی جب پاکستان کے ممتاز موسیقار میاں شہر یار بریڈفورڈ میں میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں جب پیر صاحب کا عارفانہ کل��م سنایا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس کلام کا ایک آڈیو کیسٹ تیار کرنا چاہتا ہوں سو اس کے لیے پیر صاحب کی اجازت ضروری تھی۔ میں انہیں ساتھ لے کر پیر صاحب کے پاس گیا۔ پیر صاحب نے بڑی خوش دلی سے اس بات کی اجازت دی۔ پیرصاحب کے عارفانہ کلام پر مشتمل وہ کیسٹ تیار ہو چکا ہے جس میں پاکستان کے نامور گلوکاروں نے پیر صاحب کے کلام کو سازو آواز کے ساتھ پیش کیا ہے۔ +اس کے بعد اتفاقاً میری رہائش گاہ تبدیل ہو گئی اور میں نے پیر صاحب کے ساتھ والی گلی میں رہنا شروع کر دیا یوں پیر صاحب سے ملاقات کا سلسلہ اور بڑھتا چلا گیا ۔میں جس قدر پیر صاحب کے قریب ہوتا گیا وہ مجھے اس قدر زیادہ اچھے لگنے لگے، وگرنہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب آدمی کسی شخصیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو اس کے ظاہر و باطن کے تضادات دکھائی دینے لگتے ہیں اور آدمی اس سے متنفر ہوتا چلا جاتا ہے اور حافظ شیرازی کی طرح پکار اٹھتا ہے ، +واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند +چوں بخلوت می رویدایںکار دیگر می کنند +اور پھر جب یہ کتاب لکھنے کے سلسلے میں مجھے پیر صاحب کے ماضی میں جھانکنے کا موقع ملاتو مجھے اس شخصیت کو زندگی میں اپنا رہنما ماننے میںکوئی تردد نہیں ہوا۔ان کی زندگی ایک جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کا ہرسانس اللہ کے نام کی روشنی سے بھرا ہوا ہے اور محمد(ص) کے لفظ کی رفعتوںسے سرفراز ہے۔ جوانی سے بڑھاپے تک ایک اضطراب افزائ تسلسل کے ساتھ وہ دیار مغرب میںدینِ مصطفی(ص) کی ترویج کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ،کبھی سستائے نہیں ،کبھی اپنے پائوں کے تلووں سے خار چننے کے لیے کسی درخت کے نیچے نہیں رکے۔ مشرق کی تپتی ہوئی دھوپ ہو یا مغرب کی جمتی ہوئی برفاب ہوا، ان کا سفر جاری ہے بلکہ وہ تو غالب کی زبان میں ہمیشہ یہی کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ +ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں +جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر +اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں ان سے محبت کرنے والوں کاجہاں آباد ہے، وہاں ان کے دشمن بھی کچھ کم نہیں لیکن ان تمام دشمنیوں کے پیچھے صرف اور صرف محبتِ رسول کا جذبہ کار فرما ہے ۔ + + +سیدپیرمعروف حسین نوشاہی کی سرگزشت +میں نے جب اپنے ایک دوست سے یہ کتاب لکھنے کا وعدہ کیا تھا تو یہ بات طے پائی تھی کہ اس کے سرورق پر میرا نام نہیں ہو گالیکن جب میں نے کام کیا تو میں نے کہاکہ مجھے اس کتاب کے سرورق پر اپنا نام لکھتے ہوئے فخر محسوس ہو گاکیونکہ یہ ایک ایسی شخصیت کی سرگزشت ہے جس نے صدیوں بعد مغرب کے گلیوں میں محمدالرسول اللہ کا ورد کیا ہے اور کرایا ہے، مادیت پرست معاشرے کی بدبوداراور گھٹاٹوپ تاریکیوں میںروشنی اور خوشبو کی ترسیل کی ہے۔ +جل رہے ہیں ہر طرف عشقِ محمد (ص) کے چراغ +کس کی لو میں اتنی روشنی تھی ، نور تھا +میں جب پہلی بار اپنے اخبارکے انٹرویو کے لیے پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کے پاس گیاتھاتومجھے حیرت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔اٹھارہ ساوتھ فیلڈ اسکوائرکوئی ایسی جگہ نہیں تھی جو کسی پیر کی رہائش کے لیے موزوں کہی جا سکے وہاں تو کسی مل کے مزدور کا مکان ہو سکتا ہے۔ میں جب مکان کے اندر داخل ہوا تو چھوٹے سے ایک کمرے پیر صاحب زمین پر بیٹھے ہوئے کوئی کام کر رہے تھے۔ ان کے سامنے بہت سے فائلیں پڑی ہوئی تھیں ۔میں نے غور سے کمرے کا جائزہ لیا تووہ کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ چھوٹی چھوٹی دو سیٹوں کے رکھ دینے کے بعدوہاں کوئی اور فرنیچر شاید ڈھنگ سے نہیںرکھا جا سکتا تھا۔ اسی کے اندر ای�� طرف سنیک بھی لگا ہوا تھا ۔سیٹوں کی حالت یہ بتاتی تھی کہ شاید پیر صاحب نے اپنی جوانی کے دنوںمیں خریدی تھیں کیونکہ وہ بھی پیر صاحب کے ساتھ ساتھ اب بوڑھی ہو چکی تھیں۔ایک میز بھی پڑی تھی جس پرایک بار استعمال کیے جانے والے کچھ کاغذی برتن پڑے ہوئے تھے ۔پرانے زمانے کا گیس ہیٹر جل رہا تھا۔ سنٹرل ہیٹنگ کی کوئی لوہے کی دوہری چادر کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی ۔دیواروں پر سلسلہ ئ نوشاہیہ کے شجرے اور اشتہار لگے ہوئے تھے ، کچھ تصویروں کے فریم بھی تھے ۔دیواروں کا وال پیپر صاف ستھرا تھا مگر بہت پرانے زمانے کے ڈیزائن کا تھا ۔ +کارپٹ پر بیٹھ کر کام کرتے ہوئے شخص نے عینک لگا رکھی تھی۔ عام سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ عینک کے پیچھے چمکتی ہوئی متحرک آنکھوں سے ذہانت سے بھری ہوئی معاملہ فہمی ٹپک رہی تھی۔ کھردرے ہاتھ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انہوں نے زندگی بھر مشکل کام کیے ہیں۔وہ جب وہاں سے اٹھے تو معلوم ہوا کہ دراز قد آدمی ہیںاو ربدن قامت کے اعتبار سے متناسب ہے۔چہرے پر اطمینان تھا۔پیشانی کشادہ تھی۔پیچھے سے بال سلامت اور مائل بہ درازی تھے۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ان کا تعلق ضرور کسی گائوں سے ہے اورانہیں بچپن اور لڑکپن میں گائوں کی صاف ستھری ہوا اور بکریوں کا دودھ میسر آیا ہے ۔ +میں جب ان کا انٹرویو لینے کے لیے دفتر سے نکل رہا تھا تو میں نے اپنے ایک اخبار کے ساتھی سے ان کے متعلق پوچھا تھا تواس کے چہرے پر کوئی اچھے تاثرات نہیں آئے تھے اور اس نے اپنی چند لفظی گفتگو میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس شخص کے انٹرویو کی کوئی ضرورت نہیں ،لیکن اس شخص سے زیادہ یقین مجھے ظفربھائی ﴿ظفرتنویر ﴾ پر تھا جنہوں نے ان کے متعلق کہا تھا کہ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے تمام زندگی رات کی شفٹ میں کام کیا ہے اور دن کو اسلام کی تبلیغ کی ہے ۔پھر بھی میرا خیال تھا کہ پیر تو پیر ہوتے ہیں ۔مریدوں کے نذرانوں پراونچے اونچے محل تعمیر کرنے والے پیربقول اقبال +ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی +لیکن یہ شخصیت ویسی نہیں تھی جن کے ساتھ برسوں سے واسطہ پڑتا چلا آرہا تھا پھر ان کے ساتھ گفتگو سے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ پیر صاحب خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ فارسی اور پنجابی زبان میں شعربھی کہتے ہیں۔ فارسی سے تو میری کچھ زیادہ شدبد نہیں ہے مگر پنجابی زبان کے اسرارو رموز جاننے کا تو مجھے بھی دعویٰ ہے سو میں نے ان کی پنجابی شاعری میں دلچسپی لی اور وہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میںنے ان کی پنجابی شاعری کے اردو زبان میں منظوم تراجم بھی کیے جو بہت جلد کتابی صورت میں شایع ہونے والے ہیں۔ +پیر صاحب سے دوسری ملاقات ایک مشاعرے کے سلسلے میں ہوئی ۔میں نے پیر صاحب کو اس مشاعرہ کی صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ مشاعرہ سے دودن پہلے مجھے پیر صاحب کا فون آیا کہ میں مشاعرہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ دوستوں نے اس مشاعرہ کو ایک سیاسی اشو بنا لیا ہے کیونکہ کچھ دنوں کے بعد برطانیہ میں نیشنل اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں ۔دوستوں کا یہ خیال ہے کہ یہ مشاعرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور وہاں لیبر پارٹی کے امیدوار مارشا سنگھ سے میری ملاقات ہونی ہے۔ میں نے ان سے پو چھا آپ کا اپنا کیا خیال ہے تو انہوں نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ یہ سب غلط فہمی ہے مگر وقت کم ہے اور میں یہ غلط فہمی دور نہیں کر سکتا۔ اس لیے مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ میں مشاعرہ میں نہ آئوں تاکہ کسی دوست کا دل نہ دکھے۔ میں شاعر ہوں مجھے مشاعرہ میں شریک ہونا اچھا لگتا ہے لیکن کیا میں دوستوں کے لیے اتنی قربانی نہیں دے سکتا اور مجھے پیر صاحب اور زیادہ بڑے آدمی محسوس ہوئے۔ +پیر صاحب سے تیسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نماز کے حوالے سے ایک ڈاکومینٹری فلم بنا رہا تھا ۔میں نے اس سلسلے میں پیر صاحب سے مدد کی درخوست کی تو انہوں نے بریڈ فورڈ کے تمام علمائے کرام کو کہا کہ مجھے اس ڈاکومینٹری کے سلسلے میں جس قسم کی کوئی مدد کی ضرورت پڑے، وہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور یوں پیر صاحب کے تعاون سے میں وہ ڈاکومینٹری بنانے میں کامیاب ہوا۔اس ڈاکومینٹری کا انتساب بھی میں نے پیر صاحب کے نام کیا تھا۔ +پیر صاحب سے چوتھی ملاقات ان دنوں ہوئی جب پاکستان کے ممتاز موسیقار میاں شہر یار بریڈفورڈ میں میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں جب پیر صاحب کا عارفانہ کلام سنایا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس کلام کا ایک آڈیو کیسٹ تیار کرنا چاہتا ہوں سو اس کے لیے پیر صاحب کی اجازت ضروری تھی۔ میں انہیں ساتھ لے کر پیر صاحب کے پاس گیا۔ پیر صاحب نے بڑی خوش دلی سے اس بات کی اجازت دی۔ پیرصاحب کے عارفانہ کلام پر مشتمل وہ کیسٹ تیار ہو چکا ہے جس میں پاکستان کے نامور گلوکاروں نے پیر صاحب کے کلام کو سازو آواز کے ساتھ پیش کیا ہے۔ +اس کے بعد اتفاقاً میری رہائش گاہ تبدیل ہو گئی اور میں نے پیر صاحب کے ساتھ والی گلی میں رہنا شروع کر دیا یوں پیر صاحب سے ملاقات کا سلسلہ اور بڑھتا چلا گیا ۔میں جس قدر پیر صاحب کے قریب ہوتا گیا وہ مجھے اس قدر زیادہ اچھے لگنے لگے، وگرنہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب آدمی کسی شخصیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو اس کے ظاہر و باطن کے تضادات دکھائی دینے لگتے ہیں اور آدمی اس سے متنفر ہوتا چلا جاتا ہے اور حافظ شیرازی کی طرح پکار اٹھتا ہے ، +واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند +چوں بخلوت می رویدایںکار دیگر می کنند +اور پھر جب یہ کتاب لکھنے کے سلسلے میں مجھے پیر صاحب کے ماضی میں جھانکنے کا موقع ملاتو مجھے اس شخصیت کو زندگی میں اپنا رہنما ماننے میںکوئی تردد نہیں ہوا۔ان کی زندگی ایک جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کا ہرسانس اللہ کے نام کی روشنی سے بھرا ہوا ہے اور محمد(ص) کے لفظ کی رفعتوںسے سرفراز ہے۔ جوانی سے بڑھاپے تک ایک اضطراب افزائ تسلسل کے ساتھ وہ دیار مغرب میںدینِ مصطفی(ص) کی ترویج کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ،کبھی سستائے نہیں ،کبھی اپنے پائوں کے تلووں سے خار چننے کے لیے کسی درخت کے نیچے نہیں رکے۔ مشرق کی تپتی ہوئی دھوپ ہو یا مغرب کی جمتی ہوئی برفاب ہوا، ان کا سفر جاری ہے بلکہ وہ تو غالب کی زبان میں ہمیشہ یہی کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ +ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں +جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر +اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں ان سے محبت کرنے والوں کاجہاں آباد ہے، وہاں ان کے دشمن بھی کچھ کم نہیں لیکن ان تمام دشمنیوں کے پیچھے صرف اور صرف محبتِ رسول کا جذبہ کار فرما ہے ۔ +تاریخ سا ز لمحو ں کی با ت +چین کے عظیم رہنما ما ئو زے تنگ نے ایک مختصر سی کہا نی لکھی تھی کہ ایک چینی مز دو ر نے اپنے مختصر سے کنبے کے لیے ایک کوٹھا بنایا۔ کو ٹھے کے مغر ب کی طر ف گھنا جنگل تھا ۔ اس لیے اُس نے کو ٹھے کا در وا زہ مشر ق کی طرف کھو لا ۔کو ٹھے کے آگے چھو ٹا سا صحن تھا ۔اب مصیبت یہ پیش آئی کہ مشر ق کی طر ف چٹا ن تھی جو دھو پ رو ک لیتی ��ھی۔ بیو ی نے کہا اب کیا کر و گے ،چینی مز دو ر نے کہا اس چٹان کو یہاں نہیں ہو نا چا ہیے میں اسے یہاں سے ہٹا دو نگا۔ بیو ی بچے ہنس کر چپ ہو گئے مگر وہ دُھن کا پکا تھا۔ اُس نے چٹا ن کو کھو دنا شر و ع کیا ،دن را ت میں جتنا و قت بھی ملتا بڑی مستعد ی سے پتھر توڑتاپھر اس کام میں بیو ی بچے بھی شر یک ہو نے لگے۔ مشقت ہو تی رہی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ اُسکے کو ٹھے کے در وا زے اور سو ر ج کے درمیان حا ئل ہو نے والی چٹان نیست و نا بو د ہو گئی ۔ +یہ تو ایک کہا نی تھی لیکن گر ا ں خو ا ب افیونی چینی قو م کو آزا د ، خو د مختا ر، بیدا ر مغز اور مستحکم قو م بنا نے میں ما ئو اور اُسکے انقلابی سا تھیوں نے بھی طو یل مشقت اور جد و جہد کی اور با لا خر ما ئو نے اپنی بیان کر دہ کہا نی سچ کر دکھا ئی۔ چین کی تا ریخ پڑھنے والا ہر شخص کل اور آج کے چین کو دیکھتا ہے تو حیر ت اور استعجا ب سے تصو یر بن جا تا ہے۔ فی الو ا قع اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پنا ہ قوتوں سے نواز اہے ۔ اُس نے سمند ر پھا ڑے ،پہا ڑوں کے جگر چیر کر نہریں اور سٹر کیں بنائیں،چا ند پر اپنی تسخیر کے پر چم گا ڑ آیا ، فضا ئو ں اور خلا ئو ں کو فتح کیا ،فطر ت کے بے پنا ہ او ر بے اماں مو انعا ت کو اپنی را ہ میں سے ہٹا یااور آج اس قا بل ہو گیا کہ اقبا ل کے الفا ظ میں خد ائے ذو الجلا ل کے سا منے فخر سے سر بلند کر کے کہہ رہا ہے ۔خد ایا فرشتوں کو تونے اِنیِ اَ عْلَمُ ما لاَ تعْلَمُوْن کہہ کر ،تخلیق آدم کے جو معار ف سمجھا دیے تھے ،میں نے اُنکی لا ج رکھ لی ہے۔ +تُو شب آفر یدی ، چراغ آفریدم +سفا ل آفر یدی ، ایا غ آفر ید م +تُو صحرا و کہسا ر و را غ آفر یدی +خیا با ن و گلز ا ر وو با غ آفر ید م +من آنم کہ از سنگ آئینہ سا ز م +من آنم کہ از زہر نو شینہ سا زم +﴿تر جمہ :۔تُو نے را ت پیدا کی اور میں نے چرا غ بنا یا ۔ تو نے مٹی بنا ئی میں نے نفیس جا م بنا لیے۔ تو نے پہا ڑ ، راہگز ار اور جنگل بنا ئے میں نے خو بصو ر ت گلز ا ر اور پھلدا ر در ختو ں کے با غ بنا لیے۔ میں وہ ہو ں کہ پتھر سے میں نے آئینے بنا لیے اور زہر سے تر یا ق تیا ر کر لیا﴾انسانوں کو لا حق بے شما ر رو حا نی اور جسمانی امرا ض کا علا ج در یا فت کر لیا اور اپنے آپ کو بجا طو ر پر خلافت اِر ضی کا مستحق ثا بت کر دیا ۔ اس نے فطرت کے ہر چیلنج کو قبول کیا اورخدا کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کامران وفیروزمند ہوا۔﴾ +’’ کر شمہ دامن دِل می کشد کہ اینجا است ‘‘ +ایک طو فا ں خیز دریا اپنی طغیا نیوں اور رو انیوں میں سب کچھ بہا ئے لیے جا تا ہے، اچا نک ایک تنکا گر تا ہے اور دریا کی حشر سا ما نیوں سے الجھنے لگتا ہے ۔وہ اعلا ن کر تا ہے کہ در یا کے تند و تیز د ھا رے کا رُخ مو ڑ دے گا۔اُسے اپنے بہا ئو کو با لکل اُلٹ سمت میں بد لنا ہو گا اُ سے پیچھے کی طر ف چلنا ہو گا اور دنیا حیر ت سے تکنے لگتی ہے ۔ +الجھ رہا ہے زما نے سے کو ئی دیو انہ +کشا کشِ خس و دریا ہے دید نی کو ثر +اور پھر تا ریخ یہ معجز ہ دیکھ لیتی ہے کہ دریا کی سا ر ی مو جیں اُس تنکے کے اشا ر وں پر اپنا رُخ بد ل لیتی ہیں ،دھا ر ے پیچھے کی طرف ، اپنی مخالف سمت میں بہنے لگتے ہیں ۔ ایک کو مل کو نپل دُو ر تک دہکتے انگا رو ں اور بھڑ کتے ہو نکتے شعلو ں کے جہنم میں کُو د جا تی ہے۔ اس حیرا ن کُن اعلا ن کے سا تھ کہ ان شعلو ں کو گلزا رِ پرُ بہا ر میں بد لنا ہو گا ۔ یہ انگا رے پُہو ل بن کر رہیں گے۔ ساعتوں کی نبضیںِ دھڑ کنا بند کر دیتی ہیں۔ لمحو ں کی سا نسیں رُک جا تی ہیں، وقت تھم جا تا ہے کہ ان منظرو ں کی ہو شر با ئی سمیٹ کر آ گے بڑ ہے گا اور پھر وہ کچھ ہو جا تا ہے جسے دما غ نا ممکنا ت میں شما ر کر رہے تھے ۔ +یہ جو کچھ میں نے لکھا کوئی شا عر ی نہیں ، کو ئی افسا نہ نہیں ، دیو تا ئو ں کی مفر و ضہ وا دیوں کا قصہ نہیں، بھٹکتے خیالوں کے خلائوں کی با ت نہیں ، بد مست اور مد ہو ش آنکھوں میں لٹکا کوئی اند ھا خوا ب نہیں، یہ سب کچھ ہوُا ،اسی دھر تی پر ہوُ ا ، اسی آسما ن کے نیچے ہوُا ،یہی سو ر ج اسکا گوا ہ ہے ، یہی چا ند اسکی شہا د ت ہے، یہی ستا رے ،یہی کہکشا ں اسکے عینی شا ہد ہیں۔ از ل سے در بد ر بھٹکنے والی ہر گھر میں، ہر دشت و در میں ،ہر غا ر میں، ہر خا ر زا ر میں ، ہر با غ میں ، ہر دا غ میں جھانکنے والی اور ہر سمند ر کی مو ج مو ج سے لپٹ لپٹ جا نے والی ہو ا ،جگہ جگہ اسکی تصد یق ثبت کر تی پھر رہی ہے۔ انسان بڑا ہے، انسا ن عظیم ہے ، اسکی رفعتوں کے آگے سب کچھ پست ہے۔بلندیاں اس کے قدموں کے بوسے لیتی ہیں۔اسکی عظمتوں کو ساری کائنات سجدے کرتی ہے۔ +یہ اشر ف المخلو ق ہے، یہ سب کچھ ہے ،یہ معظم ہے ، محتر م ہے ، مکرّ م ہے ۔ +وَ لَقَدْ کَرّ مَنَا بَنیْ اٰدَم +خدا نے اسے مکر م ٹھہرا دیا، اس لیے تما م مخلو ق کو ، تما م کا ئنا تی قو تو ں کواس کا احتر ام کر نا چا ہیے، اسکی تکر یم میں سر فگند ہ ہونا چا ہیے ۔ملا ئکہ نے اس کا سجدہ کیا، یہ مسجو دِ ملا ئک ٹھہرا۔ کا ئنا ت میں اس کا ور و د اپنی سلطنت میں سلطا ن کا و ر ود ہے ۔کائنا ت کو جشن منا نا چاہیے، ذر ے ذر ے کو استقبال کے پھول نچھا و ر کر نے چا ہئیں اور ایسا ہی ہو ا۔ ایسا ہی ہو تا رہا ،زمین اپنے دفینے کھول کر اسکے قد مو ں پر لٹا رہی ہے ،سمند ر اپنے خزا نے اگل رہا ہے ،پہا ڑ اسکی ٹھو کر و ں میں ہیں ۔یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ رو شنی اسکی جیب میں ہے ،تو ا نا ئیاں اسکی مٹھی میں ہیں، اسے کوئی بھی زیر نہیں کر سکتا بشر طیکہ یہ بیدا ر ہو، شعو ر آشنا ہو، خو د کو اپنے پر منکشف کر دے ، اپنے آپ کو پہچا ن لے ۔ +تسخیر ِ کائنات ہے تسخیر ِ ذات سے +ہم لوگ آشنا نہیں اپنی صفات سے +بلا شبہ کا ئنا ت میں ایسے آدمیوں کی کمی نہیں جنہو ں نے اپنی او لوا لعز می سے ایسے ایسے کا ر نا مے کر دکھا ئے جنہیں آج بھی ہمتیں نا ممکنا ت شما ر کر تی ہیں اور جو لا نیا ں محا ل دیکھ کر مُنہ مو ڑ لیتی ہیں۔ کہہ دیا جا تا ہے یہ سب کل کی با ت ہے ،تاریخ کی کہا نی ہے ۔کیا خبر اس میں کتنی صدا قت ہے اور کتنی قلم کی رنگ آمیز ی ، کتنی سچا ئی ہے اور کتنی ،لفظو ں کی صنا عی ، کتنی مو تیوں کی اصلی چمک ہے اور کتنی جھو ٹے نگو ں کی ریز ہ کا ری ، یُوں کو شش کی جا تی ہے کہ اپنی دُو ں ہمتی کا جواز تلاش کیاجا ئے۔ اپنی پستیٔ حوصلہ اور اپنے ضعفِ عز م و عز یمت پر پر دہ ڈا ل دیا جا ئے ۔دن کو رات کہہ کر کچھو ئے کی طرح سر اپنی سنگین کھا ل میں چھپا کر سو لیا جا ئے ،مگر سو ر ج کی شعا عیں بند آنکھوں کو کھلنے پر مجبو ر کر دیں تو آدمی سو ر ج کا انکا ر کیسے کر ے ؟ آج کے رو شن پل کو گزری را ت کا تا ریک لمحہ کیسے کہا جا ئے ۔ آنے والے صفحا ت میں ایک ایسے پُر عزم اور با ہمت مر د مو من کی انتھک جد و جہد کا ذکر آرہا ہے جس نے اپنی زند گی کے ایک ایک پل سے صد یا ں کشید کی ہیں۔ ہر ہر لمحہ کو جا و دا ں کیا ہے اور جس کی جد و جہد اپنی فتح مند یوں کی تا ریخ سے سر شا ر برا بر آگے بڑھ رہی ہے، جس نے اپنے سفر میں گن گن کر قد م اٹھا ئے ہیں اور ہر ہر قد م میں سینکڑ وں میل طو یل منزلیں ما ری ہیں ۔ اُس کا سفر آج بھی جا ری ہے۔، اُس کا بڑھا پا جو ا نی سے زیا دہ جوا ن ہے اور اس سفرِ شوق میں کہیں بھی خستگی اور تھ��ن اسکے پائوں کی زنجیر نہ بن سکی بلکہ اُس کاہر اگلا قدم پہلے سے زیا دہ تیزی اور طو فا ں بر دو ش جولانی سے اُٹھا ہے اور وہ دعا ئیں ما نگ رہا ہے کہ سفرِ شو ق میں وہ مر حلہ نہ آئے جسے منزل کہہ کر وہ کمر کھو ل دے۔ +ہر لمحہ نیا طور ، نئی برقِ تجلیٰ +اللہ کرے مرحلہ ئ شوق نہ ہو طے +تا ریخ کیا ہے؟ طا قتو روں کے ظلم اور کمز و روں کی مظلو میت کی کہا نی ، بڑے بڑے فا تحین کی جنگو ں اور مغلوب و مفتوح لو گو ں کے لُٹنے کی دا ستا ن، قتل و غا ر ت اور سلب و نہب کے قصے ، تشد د اور قہر ما نی ، ہلا کت اور تبا ہی ، چیر ہ دستی اور تِیرہ بختی کے تذکرے، دا ر او سکندر کی سر گز شت ، با د شا ہو ں اور انکے منصبدا روں کے قصیدے ۔ یہی کچھ تا ریخ تھی ۔ اس میں کسی عا م آدمی کا کو ئی گز رنہ تھا ، حا لا نکہ ہر آدمی قطع نظر اسکے کہ عام ہو یا خا ص ایک محشرِو ا قعا ت و تذکا ر ہے ۔ تا ریخ کو ہمیشہ کہا نی کی طر ح لکھا اور کہا نی کی طر ح پڑ ھا گیا ۔ قر آن حکیم نے سب سے پہلے انسا نو ں کو بتا یا کہ تار یخ صر ف کہا نی نہیں اسکا ایک فلسفہ ہے ۔قرآن حکیم نے انبیا ئ و رسُل اور اقوا م و ملل کا با ر با ر تذکر ہ کیا تو منکر ینِ قرآن بو ل اٹھے کہ قر آن کیا ہے؟ +﴿یہ تو گز رے ہو ئے لو گو ں کی کہا نیوں کا مجمو عہ ہے ﴾ +قرآن نے کہا، نہیں یہ کہا نیاں نہیں، قصے نہیں، یہ تو ’’ تذکر ہ ‘‘ہے ’’تذکیر‘‘ ہے، نظا رہ نہیں ’’تنذیر‘‘ ہے۔ اس میں یاد،دلا یا گیاہے کہ تمہارا کو ئی عمل بیکا ر نہیں جا تا ۔ بڑ ے سے بڑا عمل ہو یا چھو ٹے سے چھوٹا ،اپنا نتیجہ پیدا کر کے رہتا ہے۔ +فَمَنْ یّعْمَل مِثْقَا لَ ذَرَّ ۃٍ خَیْرَ اًَ یَّرَہْ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَا لَ ذَرَّ ۃٍ شَرّ اً یَرَہْ +﴿جو ذر ہ برا بر نیکی کر تا ہے وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے اور جو ذرہ برا بر بد ی کر تا ہے وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے﴾ +جس طر ح یہ اعما ل ایک فر د کی انفرادی زند گی میں نتیجہ خیز ہو تے ہیں ، بالکل اسی طرح ایک قو م کی اجتما عی زند گی میں بھی ہوتے ہیں اور قر آن کے بیا ن کر دہ قصص عام کہا نیاںنہیں یہ تو عمل کی نتیجہ خیزی کے نظا ئر ہیں، شوا ہد ہیں ۔ان سے تم بصا ئر و عہداخذ کر و کہ تم ویسے عمل کر و گے تو تمہیں بھی ویسے ہی انجا م سے دو چا ر ہو نا پڑے گا۔ +اَفَلَمْ یَسِیْرْوْ افِی الْاَرْضِ فَیَنْظْرُ وْاکَیْفَ کَا نَ عَا قِبَۃُ الَّذ یْنُ مِنْ قَبِلھِمْ۔ +﴿کیا وہ زمیں میں گھو متے پھر تے نہیں کہ دیکھ لیں اُن سے پہلے گز رے ہو ئے لو گوں کو کس انجا م سے دو چا ر ہو نا پڑ ا ﴾ +اس طرح یہ قصے انتہا ئی نصیحت بخش اور عبرت انگیز ہیں۔ +لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃ لِاّ وُ لِی الْاَ لْباَ بِ o +﴿یقینا اِن قصو ں میں اربا بِ علم و دانش کے لیے عبر ت و مو عظت ہے﴾ +یہ ہے فلسفہ تا ریخ جسے پہلی دفعہ قرآن حکیم نے متعا رف کر ایا ۔یو ں تو ہر انسان کی زند گی میں عبر ت کے لاکھوں سا ما ن ہوتے ہیں ۔اسکی حیا ت ِفانی کا ہر لمحہ اپنے پیچھے بہت سے سبق چھو ڑ جا تا ہے لیکن جن لو گو ں نے کو ئی خا ص کا ر نا مہ سر انجا م دیا ہو، کسی زا ویہ سے تا ریخ کو متا ثر کیا ہو، ا ن کی زند گیوں کو ضر و ر محفو ظ ہو نا چا ہیے کہ وہ تا ریخ کا اثا ثہ اور انسا نیت کی امانت ہیں ۔ بلاشبہ ایک انسا ن کے تما م افعا ل و اعما ل کو محفو ظ کر نا نا ممکن ہے ۔یہ کام تو کر اماً کا تبین ہی کر سکتے ہیں ۔ انسانو ں کے بس میں تو یہی کچھ ہے کہ اُسکی زند گی کے کچھ جستہ جستہ وا قعا ت ہی قلمبند کرے ۔وہ تو بس ایک خا کہ ہی مرتب کر سکتا ہے۔ ایک رف سکیچ کی کچھ آر �� تر چھی لکیر یں ہی کھینچ سکتا ہے لیکن یہی لکیریں اگرسوچ سمجھ کر کھینچی جا ئیں اور انہیں دیکھنے والا عقل و دانش سے دیکھے تو بہت کچھ حاصل ہو جا تا ہے ۔اسی لیے سر گز شتیں لکھی جا تی ہیں تا کہ بعد میں آنیو الے اُن سے رہنمائی حاصل کر سکیں ۔ شا ہر اہِ حیا ت پر سے بہت سے لو گ گزر تے ہیں اور بہت سے پا ئو ں کے نشان ادھر ادھر بکھر ے پڑ ے ہو تے ہیں مگر کہیں کہیں آدمی ٹھٹھک جا تا ہے ۔کوئی نقش پا اسکی تو جہ کھینچ لیتے ہیں ۔یہ نقش ِپارو شن ہو تے ہیںاِن سے ایک خا ص قسم کی تا بند گی پھُو ٹ رہی ہو تی ہے۔ ان سے اٹھتی ہو ئی خو شبو مشا م جِا ں میں اُتر کر پہچان کر ا دیتی ہے کہ یہ کس بد ن کی ہے ،کس رو ح کی ہے؟ +نقش ِ قدم کو دیکھ کہ منزل کا راستہ +اشفاق ہے لکیروں کے دل میں رکھا ہوا +یعنی یہی نقش پاِ رہنما بن جا تے ہیں او ر ہمیں رو شن منز لوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ +تصو ف کی حقیقت اور اسکی تا ریخ +لفظ ’’ صو فی ‘‘ کہا ں سے آیا اور اس کا اصل مفہو م کیا ہے، اس کے متعلق محققین مختلف الرا ئے ہیں۔ عا م طو ر اسی با ت پر اتفا ق کر لیا گیا ہے کہ ’’ صو ف ‘‘ سے یہ لفظ بنا ہے ’’ صو ف ‘‘ مو ٹی اُو ن کو کہتے تھے جو رنگی ہو ئی نہ ہو ۔ اپنے جسم کو مستقل طو ر پر تکلیف میں رکھنے کیلئے زا ہد لو گ اس کا لبا س پہن لیتے تھے، پھر یہ لبا س عا جز ی و انکسا ر ی کے اظہا ر کے لیے کچھ لو گ پہننے لگے انہیں صو فی کہا جا نے لگا ۔ کہتے ہیں، حج کے مو قع پر بھی یہی لبا س بعض لو گ پہن لیتے ،ان کا مقصد بھی عجز و انکسا ر کا اظہا ر تھا۔ یہ بھی بتا یا جا تا ہے کہ ابتدا ئے اسلام میں اکثر لو گ اسے بد عت سمجھتے اور اس سے نفر ت کا اظہار کر تے تھے ۔کچھ فقہا ئ اس مخصو ص گر وہ کو ایسی منفر د صو ر ت اختیا ر کر نے پر مطعو ن کر تے تھے۔ ان کا خیا ل تھا کہ یہ لوگ عجز و انکسا ری کی بجا ئے کبرو غر و ر کے اظہا ر کے طو ر پر ایسا کر تے ہیں ۔ ایک اما میہ رو ایت میں جو حضرت جعفر صادق سے منسو ب ہے ،صو ف پہننے و الو ں کے اس فعل کو ریا کا ر ی سے تعبیر کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ یہ محض نما ئش ہے ۔یہ لو گ نیچے ریشم کا لبا س پہنتے ہیں ۔بتا یا جاتاہے کہ بعد میں اس لبا س کی عز ت و تو قیر بڑ ھ گئی اور ایسی رو ا یا ت بھی متعا ر ف ہو نے لگیں کہ بعض میں اسے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا اور بعض میں خو د حضور کا لبا س قرا ر دیا گیا َ +یہ تفا صیل تو اُن لو گو ں کی طر ف سے ہیںجو لفظ صو فی کو ’’ صو ف ‘‘ سے مشتق خیا ل کر تے ہیں۔ +کچھ دو سرے لو گ کہتے ہیں کہ یہ یو نا نی لفظ صو فی ﴿ Sophy﴾سے ما خو ذہے ۔یو نا نی زبان میں عقل و دانش کے لیے یہی لفظ استعما ل ہو تا ہے ۔لفظ فلسفہ Philosophyکی تر کیب میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے ۔جن لو گو ں کا یہ خیا ل ہے ،وہ استشہاد کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ جا بر بن حیا ن اور ان کے شا گر د صالح بن علو ی جو مشہو ر کیمیا دا ن یا کیمسٹر ی میں ممتا ز تھے، وہ بھی صوفی کہے جا تے تھے ۔ عقل و دا نش میں کئی اور معر و ف عا لم بھی ،جیسے مشہو ر شیعہ عا لم سنا نی کے استاد محمدبن ہا رو ن، مشہور معتزلی عالم عیسیٰ بن ہشیم کو بھی صو فی کہتے تھے ۔کچھ اور حضر ا ت کہتے ہیں کہ صو فی کا لفظ ’’ صفا ‘‘ سے ما خو ذ ہے ۔صا ف باطن اور پاک دل لو گ صو فی کہلا تے تھے ۔یہ خیا ل بھی بہت سے محققین سے منسوب ہے کہ صوفی کا لفظ ’’ صفہ ‘‘ سے نکلا ہے۔ اصحا بِ صفہ حضو ر کے وہ اصحا ب تھے جو گھر با ر اور دو لتِ دنیا سے بے نیا ز مسجد نبو ی کے حجرے میں رہا ئش رکھتے تھے ۔ یہ جہا د اور تبلیغ کے سو اکسی اور تکلیف ِدنیا کے پا بند نہ تھے ۔ شب و رو ز عبادت میں مشغول رہتے جو انہیں ملنے آتا اس سے قرآن حکیم کے احکا م پر تبا دلہ خیا لا ت کر تے اور لو گو ں کی رہنما ئی کے لیے اپنے آپ کو و قف کیے رکھتے ۔بعد میں جن لو گو ں نے انہی کی زندگی کواپنا کر اپنی زند گی کو خد مت اسلام کے لیے وقف کیے رکھا ،صو فی کہلا ئے ۔ +کہا جا تا ہے کہ مسلما نو ں میں پہلا آدمی جو صو فی کے لقب سے مشہو ر ہوا ،ابو ہا شم عثما ن بن شر یک کو فی تھا۔ پہلی خا نقا ہ ارضِ فلسطین کے شہر رَ ملّہَ ﴿ Ramallah﴾میں قا ئم ہو ئی۔ ابو ہا شم کو فے سے اسی خا نقا ہ میں آگیا ۔یہ خانقا ہ 140 ہجر ی میں قائم ہو ئی ۔ابو ہا شم یہیں 160 ہجر ی میں فو ت ہو ا۔اس کے بعد حضر ت ابن ادہم کے مر شد ابو عبا د بھی یہیں رہے اور ابو جعفر قصاب بھی یہیں رہے ۔230 ہجر ی کے قر یب یر و شلم میں بھی ایک خا نقا ہ مو جو د ہو گئی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے تصو ف کی تعلیم کے لیے قاہر ہ اور بغدا د میں منبر و جو د میں آگئے ۔قا ہر ہ میں تصو ف کا در س یحییٰ را زی دیتے اور بغدا د میں ابو حمزہ یہ کا م کر تے تھے۔ چونکہ خا نقاہوں کی ابتدا ئ ارض ِ فلسطین سے ہو ئی، اس لیے مغر بی محققین نے تقر یبا ً حتمی رائے قا ئم کی ہے کہ مسلما نو ں میں تصوف عیسا ئی رہبا نیت کی تقلید میں دا خل ہو ا۔ پھر اس کا دو سرا دو ر شر و ع ہو تا ہے جس میں نو فلا طو فی فلسفہ نے اسے متا ثر کیا۔ تیسرے دو ر میں ہند ی فلسفہ اس پر اثر انداز ہو ا مگر مسلما ن محققین کہتے ہیں زہد و تقوٰ ی کسی قو م اور کسی مذ ہب کی ملکیت نہیں ہر مذہب میں ایسے لو گ ہمیشہ مو جو د رہے ہیں جو اپنی ذ ا ت کو خدا کی عبادت کے لیے مخصو ص کر دیتے ہیں۔ دنیا اور اُس کے مشاغل سے اپنے آپ کو الگ کر لیتے ہیں۔ جہا ں تک مسلما ن صو فیا ئ کا تعلق ہے، ان کے سا منے قرا ٓن حکیم کی یہ تعلیم ضر و ر رہی کہ +﴿اور ان عیسا ئیوں نے رہبا نیت خو د گھڑلی ہم نے ان پر فر ض نہیں کی تھی﴾ +ایک اور سو ال انتہا ئی اہم ہے کہ جب مسلما ن صو فیا ئ بھی مبلغ اسلام تھے اور علما ئ بھی، تو پھر علما ئ اور صو فیا ئ کے ما بین تصا دم کیوں ہو تا رہا اور شر یعت و طر یقت کی اصطلا حا ت کیسے وجو د میں آئیں ۔ یہ بحث بڑی اہم ہے لیکن ہم اس پر اختصا ر کے سا تھ رو شنی ڈا لیں گے کیونکہ یہ ہما را ذیلی مو ضو ع ہے ۔ +قرآن حکیم میں جو احکا م وا ر دہو ئے ہیں ان کی ایک ظا ہر ی صو ر ت ہے اور ایک با طنی علِت و حکمت ۔ علما ئ نے با لعمو م ظا ہر کو دیکھا اور علتِ حکم پر غو ر نہیں کیا۔ اس لیے انہیں علما ئے ظا ہر کہا گیا ۔ صو فیا ئ نے علت پر نظر رکھی، یہاں سے شریعت اور طر یقت کی اصطلا ت و جو د میں آئیں ۔ علت پر نظر رکھنے کو دو سر ے لفظو ں میں با طنی تعبیر کہا جاتا ہے ۔علما ئ نے کہا! انسا نی ذہن احکا مِ خداوند ی کی حکمت و علت پو ر ی طر ح کہا ں سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے انسا نو ں کو مخا طب کر تے ہو ئے فرما یا ۔ +عَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئاً وَّ ھُوَ شَرُّ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تَکْرَ ھُوْا شَیئاً وَھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ +﴿کتنی ہی ایسی چیز یں ہیں کہ تم انہیں پسند کر تے ہو ا ور وہ تمہا رے حق میں بر ی ہو تی ہیں اور کتنی ہی ایسی چیز یں ہیں جنہیں تم نا پسند کر تے ہو اور وہ تمہا رے حق میں اچھی ہو تی ہیں﴾ +فوَ جَدَ عَبْدً امِّنْ عِبَا دِ نَااٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِ نَا وَ عَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُ نَّا عِلْماً۔ +﴿تو مو سیٰ علیہ السلام نے ہما رے بند وں میں سے ایک بندہ پا یا جسے ہم نے اپنی طر ف سے رحمت اور اپنی طر ف سے علم عطا فرما یا تھا ﴾ +’’ مِنْ لّدُنَّا عِلْماً‘‘ سے علم لَدُ نیَْ کی اصطلاح وجو د میں آئی ۔ آگے با ت یو ں چلتی ہے۔ +قال لہ موسی ھل اتبعک علی ان تعلمن مماعلمت رشدا +﴿مو سیٰ علیہ السلام نے اُس سے کیا کہا میں تمہا رے سا تھ چل سکتا ہوں تا کہ تو مجھے اس علم میں سے کچھ سکھا دے جو تجھے اللہ نے عطا کر رکھا ہے۔﴾ +قَا لَ اِنّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا ہ وَکَیْفَ تَصْبِرُعَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہٰ خُبْر ًا o +﴿اس شخص نے کہا تجھ میں یہ طاقت ہی نہیں کہ تو میرے ساتھ صبروسکون سے چل سکے اور تو اس بات پر صبر کر بھی کیسے سکتا ہے جس پر تیرا علم محیط نہیں﴾ +قَا لَ سَتَجِدُ نیْ اِنْ شَا ئَ اللّٰہ صَا بِراً وّ لَا اَعْصِیْ لَکَ اَمْراًٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍo +﴿مو سیٰ علیہ السلام نے کہا اگر اللہ نے چا ہا تو تو مجھے صبر کر نے والا پا ئیگا اور میں تیر ی کسی با ت پر مخا لفت نہیں کر و نگا ﴾ +قَالَ فَا نِ اتَّبَعْتَنِی فَلاَ تَسْئَلْنِیْ عَنْ شیْیٍ حَتّٰی اُحْدِ ثُ لک منہ ذکراہ +﴿اگر میرے پیچھے چلنے کا و عد ہ کر تا ہے تو میر ی کسی با ت پر سو ال نہ کر ناجب تک میں خو د اس کا ذکر نہ کر و ں ﴾ +اب اس کے بعد تین عجیب و غر یب وا قعے آتے ہیں۔ +فَا نَطَلَقاً حَتّٰی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِْینَۃِ خَرَقَہَاقالَ أَ خَرَقْتَھَا لِتُغْرِ قَ اَھْلَھَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً اِمْر اً +﴿دو نو ں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوا ر ہو ئے تو اُس نے یعنی بند ئہ خاص نے اُسے پھاڑ ڈا لا۔ مو سیٰ علیہ السلام نے کہا کیا تو نے اسے پھاڑ ڈ الا کہ اس پر سوا ر لو گ ڈو ب جا ئیںیہ تو تو نے بُرا کا م کیا ﴾ +﴿اُس نے کہاکیا میں نے کہا نہیں تھا کہ تو میرے سا تھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا﴾ +مو سیٰ علیہ السلام معذر ت کر تے ہیں اور پھر خا مو ش رہنے کا و عدہ کر تے ہیںاور آگے کا سفر شر و ع ہو تا ہے۔ +حَتَّٰی اِ ذَا لَقِیاَ غُلٰماً فَقَتَلَہ‘ قَالَ أَ قَتَلْتَ نَفْساً زکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جئَتَ شَیْئاً نُکْراًo +﴿یہاں تک کہ جب ایک لڑ کا ملا اُس نے اُسے قتل کر دیا۔ مو سیٰ علیہ السلام نے کہا کیا تُو نے کسی جا ن کے قتل کے بغیر ایک بے گنا ہ انسان کو قتل کر دیا یہ تو تُونے عجیب انو کھا کا م کیا ﴾ +وہ بند ئہ خا ص کہتا ہے میں نے کہا نہیں تھا کہ تم میرے فعل پر خا مو ش نہیں رہ سکو گے۔ مو سی علیہ السلام نے کہا مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ اگر اب کسی با ت پر سو ال اٹھا ئو ں تو مجھے اپنی رفا قت ِ سفر سے محرو م کر دینا۔ پھر سفر شر و ع ہو جا تا ہے اور تیسر ا اور آخر ی وا قعہ ہوتا ہے۔ +حَتَّیٰ اِذَا اَتَیاَ اَھْلَ قَرْ یَہِ نِاسْتَطْعَماَ اَھْلَھَا فَاَ بَوْا اَنْ یّضَیِفُوْ ھُمَا فَوَ جَدَا فِیْھَا جِدَا راً یُرِیْدُ اَنْ یَّنَقضَّ فَاَ قَا مَہ‘طقَالَ لَوْ شِئَتَ لَتَّخَذْ تَ عَلَیْہِ اَجْر اًo +﴿حتیٰ کہ وہ دونو ں ایک بستی میں آئے اور وہا ں کے لو گو ں سے کھا نا ما نگا مگر اُن لو گو ں نے مہما ن نوا زی سے انکا ر کر دیا ۔ تب انہوں نے وہیں ایک دیو ا ر دیکھی جو گر ا چا ہتی تھی ۔اُس شخص نے نئی دیو ار کھڑی کر دی۔ مو سیٰ علیہ السلام نے کہا اگر تو چا ہتا تو اسی دیوا ر کی تعمیر کی اجر ت لے سکتا تھا ﴾ +اس پر اس نے کہا بس اب اپنے وعدہ کے مطا بق تیرامیرا سا تھ ختم ہوا، ہاں بچھڑ نے سے پہلے میں وضا حت کیے دیتا ہوں کہ ان تین وا قعا ت کے پیچھے کیا حکمت و علت تھی ۔اب وہ ایک ایک کر کے بتا نے لگتا ہے ۔ +﴿جہا ں تک کشتی کا تعلق ہے وہ کچھ مسکینوں کی تھی جو در یا میں کا م کر تے تھے۔ وہا ں کا با دشا ہ عنقر یب ت��ا م کشتیوں پر غاصبا نہ قبضہ کر نے والا تھا پس میں نے چا ہا کہ اُسے عیب دا ر بنادو ں تا کہ وہ با دشا ہ سے بچ جا ئے ﴾ +یعنی عیب دا ر واور نا قص حا لت میں دیکھ کر با د شا ہ اُسے نا کا رہ سمجھ لے گا اور مسا کین اس معمو لی عیب کو در ست کر کے بعد میں اپنا کا م چلا تے رہیں گے اور دریا میں ما ہی گیری وغیر ہ کا کا م کر سکیں گے۔ +﴿اور وہ جو لڑ کا تھا اُسکے وا لد ین مسلما ن تھے اور ہمیں ڈ ر ہو ا کہ وہ انہیں سر کشی اور کفر پر آما دہ کر دے گا پس ہم نے چا ہا کہ ان دونو ں کا ر ب اس سے بہتر پاکیزہ اور مہر با نی میں اس سے زیا دہ قر یب عطا کر دے ﴾ +تیسرے مر حلہ یعنی دیوا ر کی تعمیر کی علت بیا ن کر تے ہو ئے بتا یا گیا ۔ +وَامَالْجوارُ فَکَا ن لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی المد یْنَۃِ وَکَا نَ تَحْتہ‘ کَنْزاً لَّھُمَا وَ کَا نَ اَبُوْ ھُمَا صَا لِحاًجفَاَرَادَرَبُکَ اَن’یّبلُغاَ اَشُدَّھُماَ وَیَسْتَخْرِجاًکَنْزَھُماَ قرَحْمَۃً مِّنْ رَبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہ‘ عَنْ اَمْرِ ی ذٰلِکَ تَاْ وِیْلُ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عّلَیْہِ صَبْرًا o +﴿جہاں تک دیو ار کا تعلق ہے تو وہ دو یتیم لڑ کو ں کی تھی جن کا پُو رے شہر میں کوئی پُر سا نِ حا ل نہ تھا اور اُن کا والد نیک ﴿اور با صلاحیت﴾تھا اِس دیوا ر کے نیچے اُس نے ان بچو ں کے لیے خز انہ مد فو ن کر رکھا تھا ﴿جس کا انہیں علم تھا ﴾ تیر ے رب نے چاہا دیو ار در ست کر دی جا ئے تاکہ وہ با لغ اور با صلا حیت ہو ں تو اپنا خز انہ نکا ل لیں ۔یہ کا م تمہا رے رب کی رحمت سے کیا گیا ۔میں نے کچھ اپنے اختیا رسے نہیں کر دیا۔ یہ ہے حقیقت اُن با تو ں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے﴾ +اس طر ح تمام امو ر کی سر انجا م دہی کی عِلت بتا دی گئی ۔ +اسر ائیلیا ت میں اس بند ئہ خا ص کے متعلق بتا یا گیا ہے کہ وہ یو نس علیہ السلام تھے لیکن یہ با ت با لکل بے اصل اور بے بنیاد ہے کیو نکہ ایک تو حضرت یو نس علیہ السلام ،حضرت مو سیٰ علیہ السلام سے کئی سو سال بعد پید ا ہو ئے تھے ،دو سرے یہ قو ل اُن صحیح احادیث کے بھی خلا ف ہے جن میں بتا یا گیا ہے کہ رسو ل خدا نے فر ما یا کہ اُس بند ئہ خا ص کا نا م ’’خضر ‘‘ تھا ۔ بعض صوفیائ نے جن میں زیا دہ تر اما میہ مسلک کے ہیں خضر علیہ السلام کو ایک انسا ن قرا ر دے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قصہ کو بیان کر کے یہ بتا نا چا ہتا ہے کہ ایسے افرا د بھی ہو تے ہیں جنہیں با طنی علم سے سر فرا ز فر ما یا جا تا ہے ۔کچھ لو گ اس خیا ل کے بھی ہیں کہ ایسے افرا د انبیا ئ سے بھی افضل ہو تے ہیں مگر یہ قو ل جمہور متصو فین کا نہیں ہے ۔ جو کام اُس بند ئہ خِا ص نے کیے ان میں سے پہلے دو کا م یعنی کسی کی مملو کہ چیز کو خر ا ب اور نا قابل استعمال کر دینا اور کسی انسا ن کو ظا ہر ی گنا ہ کے بغیر قتل کر دینا کبھی بھی کسی شر یعت میں جا ئز نہیں رہا۔ یہ تو صا ف بتا یا گیا ہے کہ کر نے والے کو اللہ تعالیٰ نے خا ص علم عطا کر رکھا تھا اور یہ کا م اُسی خا ص علم کے تحت اللہ کے حکم سے ہو ئے تھے ۔ہم یہ جا نتے ہیں کہ اللہ کے احکا م دو طر ح کے ہیں ایک تشر یعی اور ایک تکوینی ۔تشر یعی احکا م وہ ہیں جنہیں دنیا میں نا فذ العمل کر نے کیلئے انبیائ علیہ السلام تشر یف لا ئے اور جنہیں شر یعت کہتے ہیں۔تکو ینی احکا م وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا ئنا ت میں ہر لمحہ، ہر ثا نیہ سر انجا م دے رہاہے ۔ہو ائیں رخ بد لتی ہیں ، طو فان آجا تے ہیں ، در یا ئو ں اور سمند ر میں تلا طم خیز یا ں ہو تی ہیں کشتیا ں اور جہا ز ڈو بتے ہیں یاکنا رو �� پر بعا فیت پہنچ جا تے ہیں۔ سیلا ب آتے ہیں اور بستیو ں، کی بستیا ں دریا بر د ہو جا تی ہیں ۔ بو ڑھے ، بچے جو ا ن لقمہئ اجل ہو جا تے ہیں ۔زلزلے آتے ہیں اور ہزاروں افرا د مو ت کی تا ریک و ادیو ں میں اتر جا تے ہیں۔ اِن کی حکمت اور مصلحت خد اہی جا نتا ہے، اُن فر شتو ں کو بھی علم نہیں ہو تا جن کے ذر یعے یہ امو ر طے پا تے ہیں کیو نکہ وہ تو صر ف حکم خدا وندی کی سر انجا م دہی کے پا بند ہو تے ہیں اور وہ اوامر الہٰی سے یک سر موا نحراف نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ طا قت نہیںکہ وہ ذر ا سی سر تا بی کر سکیں ’’ولَا یَعْصُوْ نَ اللہ ما اَمْر اللّٰہ‘‘ انکی زند گی کو محیط ہے ۔ رہے انسا ن تو انہیں اجا ز ت نہیں کہ اپنے کسی الہا م یا اطلا ع علی الغیب کی بنیا د پر شر عی احکا م کی مخالفت کر ے ۔یہ وہ امر مسلم ہے جس پر نہ صر ف تما م علما ئے شر یعت متفق ہیں بلکہ اکا بر صو فیا ئ بھی متفقہ طو ر پر اسی کے قائل و معتر ف ہیں ، چنا نچہ صا حب تفسیر ر و ح الما نی ، علا مہ محمو د آلو سی نے بڑ ی تفصیل اور شر ح و بسط کے ساتھ و ضا حت کی ہے کہ عبد الوہا ب شعر ا نی رح)، محی الدین ابن (رح) عر بی ، مجد د الف ثا نی (رح) ، شیخ عبد القا د رجیلا نی (رح) ، جُنید بغدا دی (رح) ، سَرِ ی سقطی (رح) ، ابوا لحسین النور ی (رح) ، ابو سعید الخرا ز (رح) ، ابو العباس احمد الدِنیو ا ر ی(رح) ، اور اما م غز ا لی (رح) جیسے نا مو ر بز ر گو ں سے یہ اقو ال منقول ہیں کہ اہل تصو ف کے نز دیک بھی کسی ایسے الہا م پر عمل کر نا خو د صا حبِ الہا م تک کے لیے جا ئز نہیں ،جو نص ِشرعی کے خلا ف ہو ﴿روح المعا نی پا رہ 16 صفحہ18 تا16 ﴾ +مطلب یہ ہے کہ ہما رے پا س اول تو کوئی معیا ر نہیں جس پر پر کھ کر ہم سمجھ لیں کہ یہ ولی ہے اور پھرا س کا بھی کو ئی پیما نہ نہیں کہ ہم جس پر ناپ کر کہہ سکیں کہ واقعی جو با ت یہ شخص کہہ رہا ہے ،الہا م ہے اور ہم یقین کر لیں کہ فلا ں لڑ کا آگے جا کر بد کا ر ہو جا ئیگا، ا س لیے اسے یہیں ما ر دیا جا ئے۔ اس طر ح تو جو شخص کسی کو قتل کر نا چا ہے گا اپنا کو ئی الہا م تر اش لے گا اور معاشرہ فسا د سے بھر جا ئے گا ۔ انبیا ئ علیہ السلام نے بھی کبھی ایسا نہیں کیا پھر کیا یہ سمجھ لیا جا ئے کہ تما م نسل انسا نی میں صر ف ایک شخص جسے خضر علیہ السلام کا نام دیا گیا ہے، ایسا کر سکنے کا اہل تھا ۔ اس لیے محققین کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا انسان نہیں تھا ، جیسے فرشتے انسا نی شکل میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ آپ نے انہیں انسان گما ن کیا اور ان کے لیے بچھڑ ے کا گو شت بھُون کر لے آ ئے یا جیسے یہ لو ط علیہ السلام کے پا س خو بصو ر ت لڑ کو ں کی شکل میں آئے ۔ +قر آن میں ’’ عبداً منِ عبا دنا ‘‘ کے الفا ظ آئے ہیں بعض نے اس سے استد لال کر تے ہو ئے کہاکہ حضرت خضر انسان تھے لیکن ملا ئکہ بھی تو اللہ کے غلا م ﴿عبد﴾ہیں اور ان کے لیے قرآن حکیم ہی میں یہ لفظ استعمال ہواہے ۔مثلا ً سو رہ انبیا ئ آیت نمبر26 اور سو ر ہ ز خر ف آیت 19میں دیکھ لیجئے ۔ حضو ر سے جو مستند ر و ایا ت مر و ی ہیں ،ان میں بھی کسی جگہ صراحت نہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام انسان تھے ۔ زیا دہ سے زیا دہ رجل کا لفظ آیا ہے مگر یہ لفظ صر ف انسانوں کے لیے استعمال نہیں ہو تا سو ر ہ جن میں جنوں کے لیے بھی کہا گیا ’’رجا ل’‘ من الجن‘‘غر ض جن ہو یا فر شتہ جب انسا نی شکل میں آئیگا اُسے انسان ہی کہا جائے گا۔ حضر ت مر یم علیہ السلام کے سا منے جب فر شتہ آیا تو کہا گیافَتَمثَّلَ لَہاَ بَشَراً سَوِیَّا یہاں فر شتے کے لیے ’’بشر ‘‘ کا لفظ اس��عمال ہو ا ۔ پس حضو ر کا یہ فر ما نا کہ وہا ں انہوں نے ایک ’’ رجل‘‘ کو پا یا قطعیت کے سا تھ یہ وا ضح نہیں کر تا کہ وہ شخص انسا ن ہی تھا۔ خضر کو انسان ما ن کر جو مشکل پیش آتی ہے اسکا ہم نے ذکر کر دیا ہے، اسے رفع کر نے کی بس یہی صو ر ت ہے کہ ہم اسے ایسی مخلو ق سمجھیں جو شر ا ئع کی مکلف نہیںبلکہ کار گا ہِ مشیت کی کا ر کن ہے ،جسے خداتکو ینی امو ر پر ما مو ر کر تا ہے۔ ابن کثیر نے ما و ر دی کے حوالہ سے یہی قو ل بعض متقد مین سے منسو ب کیا ہے۔ +اب سو ال پیدا ہو تا ہے کہ آخر قرآن حکیم نے اس واقعہ کو بیا ن کس لیے کیاہے ؟ محقق متصو فین کہتے ہیں کہ اللہ ابنیائ کو اطمینا ن قِلب اور حق الیقین تک لیجا نے کے لیے ایسی عجیب و غر یب صو ر ت ِ حا ل سے دو چا ر کر دیا کر تا ہے، جیسے ابراہیم علیہ السلام کو چار پر ند و ں کے زند ہ ہو نے کا وا قعہ دکھا یا یا عز یز علیہ السلام کو طو یل نیند میں ڈا ل کر مر دہ گد ھے کے زند ہ ہونے کا وا قعہ دکھا یا ۔ اس واقعہ میں یہ دکھا نا مقصو د تھا کہ اللہ کا ئنا ت میں جو کچھ کر تا ہے وہ مبنی بر حکمت ہو تا ہے۔ +صو فیا ئ نے اسی سے را ضی بر ضا رہنے کا نتیجہ اخذ کیا ۔تسلیم و رضاہی مو من کی شا ن ہے۔ اصفیا ئ کے متعلق تذ کر و ں میں کئی ایک کے متعلق بیان کیا گیا کہ جب انہیں تکلیف پہنچی تو انہوں نے صبر و شکر کا مظا ہر ہ کیا ۔ کتنے اولیا ئ کو جو ان بیٹے کی وفا ت کی خبر ملی اور انہوں نے خبر سُن کر نفل پڑ ھنا شر وع کر دئیے۔ +یہی وہ صفا ئے با طن ہے جو صو فیا ئ کے لیے وجہ امتیا ز بنی۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحیمی کو صو فیا ئ نے اپنی ذا ت میں منعکس کرنے کی کوشش کی اور اُسکی رحما نیت اپنا نے کی پو ر ی پو ری کو شش کی اللہ تعالیٰ کی رحمت سا ری مخلو ق کو اپنی چھا ئو ں میں سمیٹے رکھتی ہے۔ اُسے اپنی سا ری مخلو ق سے پیا رہے۔ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ ’’ ا لخلق عیا ل اللہ ‘‘ +ہے سا ری مخلو ق کنبہ خدا کا +یہی تعلیم ہے جو وحد ت الو جو د کی بنیا دی بنی اور اسی کو پیش نظر رکھ کر اولیا ئ پو ر ی دنیا میں پھیل گئے۔ یہ ان کا حسنِ سلو ک تھا، کر امت و عظمتِ اخلاق تھی جس کے با عث لو گ جو ق در جو ق اسلام میں داخل ہو ئے۔ یہا ں آکر ملا ئیت اور صوفیت میں اختلا ف ہو ا۔ صو فیا ئ نے کسی تمد ن کی ایسی با تو ںکو نہ چھیڑ ا جواسلام کی رو ح کے خلاف نہیں تھیں۔ چھیڑنا تو کجا ان با توں میں اپنا حصہ ڈالا اور اُن لو گو ں میںگھل مل کر ، اُن کے دکھ در د میں شر یک ہو کر انہیں سید ھا رستہ دکھا یا جب کہ خشک مو لویوں نے لو گو ں سے نفر ت کی۔ غیرو ں کو اپنا بنا نا تو کجا چھو ٹی چھو ٹی با تو ں پر خو د مسلما نو ں پر کفر کے فتوے داغنے شر وع کر دئیے یُوں +امت کو چھا نٹ ڈا لا ، کا فر بنا بنا کر +اسلام اے فقیہو ممنو ن ہے تمہا را +انہوں نے احکا مِ اسلا م کی حکمت کو نہ دیکھا ،ظا ہر ی الفا ظ پر زو ر دا ’’ من حبر ا زا رہ‘‘ کیا تھا ؟ لو گ فخر و غر و ر اور کبر و نخوت سے اپنی چا د ر یں زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر اور پھیلا پھیلا کر چلتے تھے۔ اسے بڑے پن کی علا مت سمجھا جا تا تھا حضور نے اس سے مما نعت فر ما ئی تو مطلب یہی تھا کہ اسلام میں بڑ ا چھو ٹا کوئی نہیں، سب بھا ئی بھا ئی ہیں سب برا برہیں۔ ملا ئیت نے اصل علت کو تو ر ہنے دیا مگر ٹخنوںسے تہبند کی اونچا ئی نا پنے لگے ۔یہ تھا وہ اصو لی اختلاف جس کی بنیا د پر پیکا رِ صو فی و مُلا چھڑ ی اور بیچارے صو فی ما رے جا تے رہے ۔ +بہر حا ل اشا عت ِ اسلا م صو فیا ئ کے با عث زیا دہ ہو ئی اور اب تو تما م مو رخین اس با ت پر متفق ہیں۔ صو فیا ئ کی ��ا ریخ بڑی طو یل ہے مختصر ا ً یہ کہ دو سری صد ی ہجر ی میں صو فیا ئ کی جما عتو ں اور سلسلوں کا آغا ز ہو گیا تھا ۔ چونکہ یہ فطری امر تھا کہ لو گ جب کسی کے زہد و تقوٰ ی کا شہر ہ سُنتے تو دو ر و نز دیک سے کھنچے کھنچے اُس کے پاس پہنچتے۔ اس طر ح پیر ِ ی مرید ی کا ایک با قا عدہ نظا م قا ئم ہو گیا۔ ابتدا ئ سے ہی تصو ف کو مقبو لیت اور ہر د لعز یز ی حا صل تھی کیو نکہ تصو ف مسا وا ت ِ انسانی کے اسلامی تصو ر کا حقیقی علمبردار تھا اسکی نظر میں امیر ‘ غر یب‘ عالم ‘ جا ہل اور شر یف و ر ذیل کی وہ تمیز نہ تھی جو اسلام سے پہلے کے تما م مذہب میں کم و بیش ہر جگہ پا ئی جا تی تھی اور انہی کی دیکھا دیکھی مسلما نو ں میں بھی پیدا ہو گئی تھی۔ خلا فت کی بجائے ملو کیت کا دو ر دو ر ہ ہو اتو اسلام کے ستو ن کہلا نے والے علما ئ میں بھی یہ تمیز و تفر یق در آئی تھی اور وہ اسلام جو ان امتیازت کو مٹا نے آیا تھا ان کی آما جگا ہ بن گیا ۔ تصو ف اسکے خلا ف مسلسل احتجا جی تحر یک کا پیغامبر تھا۔ اس میں اخو ت اور مساوات تھی ۔ اس لیے خلقِ خدا کے اجتما عی ضمیر اور خا لق کا ئنات کی منشا کا ترجمان تھا۔ مسلمان در و یش اور فقرا ئ عوا م اور اسلام کی رُو ح کے صد اقت نا مے تھے جو دو لت پر ست با د شا ہو ں اور جا ہ پسند علما ئ و فقہا ئ کو انکی کو تا ہیوں پر برا بر متنبہ کر تے رہتے تھے ۔ اس لیئے بھی صو فیا ئ ایک طر ف شا ہا ن و ملو ک کے معتو ب تھے تودوسری طر ف علما ئ و فقہا ئ کے مغضو ب ‘عر صہ دراز تک یہ جنگیں رہیں ،صو فیا ئ پر فقہا ئ فتو ے صا در کر تے اور با د شا ہ انہیں قتل کر دیتے ۔منصو ر حلا ج اسی کا نشا نہ بنا ۔ اب ہم اِن تفاصیل سے قطع نظر کر کے ما ضی قر یب کے تصو ف کی ارتقائی تا ریخ کی طر ف متو جہ ہو تے ہیں۔ وحد ت الوجو د اپنی اصل صورت میں کچھ اور تھا لیکن عا م لو گو ں نے اسے غلط سمجھا ۔یہ گہر ا فلسفیانہ مو ضو ع تھا لو گو ں نے سمجھا اگر و حد ت الو جو د کو تسلیم کیا جا ئے تو ہر چیز پھر خدا بن جا تی ہے یہ با ت علما ئ و فقہا ئ کی تھی اور یہ اعتر اض وحد ت الو جو د کی اُس نازک خیا لی کو نہ سمجھ سکنے پر پیدا ہوا +محققین کے مطا بق منصو ر حلا ج کے ’’ انا الحق ‘‘ کا وحدت الو جو د سے کوئی تعلق نہیں کیو نکہ ’’ نمی تو ا ں کہ اشا رت با و کنند ‘‘ ہی وحدت الو جو د میں سب سے بڑی حقیقت ہے اور وہا ں کہنے والا اشا رہ کر کے دعوٰی کر رہا ہے ۔ منصو ر کا ’’ انا الحق‘‘ در اصل ایک صو فی کے اُن لمحا تی تجلی سے مسحو ر ہو کر مُنہ سے نکل جا نے والا ویسا ہی بے اختیا ر ر و بے سا ختہ جملہ تھا جیسا حضرت بایز ید بسطا می کی زبا ن سے نکل گیا کہ ’’ سبحا نی ما اعظم شانی ‘‘ یہ مقدر کہ با ت ہے کہ منصو ر کو دا ر نصیب ہو ئی اور بسطا می ایسی سزا سے بچ گئے۔ ایسے اقوا ل جو بے اختیا ری اور بے سا ختگی میں مسحو رِ تّجلیٰ ہو کر زبا ن سے نکل جا تے ہیں، صو فیا ئ کے ہا ں ’’شطحیات ‘‘ کہلا تے ہیں ۔ خیر یہ الگ بحث ہے ۔ ہم کہہ یہ رہے تھے کہ وحد ت الو جو د کا نا زک فلسفہ عا م علما ئ و فقہا ئ کی فہم سے با لا تر تھا اسلیئے وجو د ی صو فیوں کی طو یل مصیبتوں کا دو ر شر و ع ہو گیا ۔ تصو ف اور روا یتی اسلا م میں دو ر دو ر تک مغائر ت آگئی اور بڑا بعد پیدا ہو گیا ۔ محی الد ین ابن عر بی کا فلسفہ زیا دہ تر عد م تفہیم کا شکا ر رہا۔ ان کے بعد عبد الکر یم الجیلی کی انسا نِ کامل دراصل دونو ں انتہا ئو ں کا فا صلہ پا ٹنے کی کو شش ہے اس طر ح و حد ت الشہود کی بات نکل آئی اور لو گو ں نے سمجھا ،یہ نیاتخیل ہے، حا لا نکہ وحد ت الو جو د او�� و حد ت الشہو د میں بہت کم فر ق ہے دو نو ں کا مظقی نتیجہ ایک ہی ہے کہ خدا کے سوا کو ئی مو جو د حقیقی نہیں ،رہا انسا ن کا مل کا خیال تو یہ خیا ل بھی الجیلی کا اپنا خیال نہیں یہ خیال بھی بڑا قد یم ہے، اور اسکی اصل نو ستک فلسفہ میں ہے ،جسکی بنیا د قد یم مصر ی ’ یو نا نی امتزا ج پر ہے۔ نو سس ﴿عر فا ن یا معر فت﴾ اگر چہ یو نا نی لفظ ہے لیکن نو ستک تخیل قدیم مصر یو ں کا ہے یعنی انسا ن نے کسی اعلیٰ رو حا نی در جہ سے تنز ل کیا ہے اور اُسے دو با رہ کھو ئی عظمت حا صل کر کے اپنا کما ل بحا ل کرنایا انسان کا مل بننا ہے ۔عیسا ئیوں میں جنا ب مسیح علیہ السلام کی ذ ا ت کا تخیل بھی انسان کا مل ہی کے طو ر پر تھا ۔اسلام میں یہ پہلے شیعو ں کے تصو را مامت میں درآیا۔ جیلی کے مطا بق حضرت محمد کی ذا ت ہی انسا ن کا مل ہے اور ہر زمانہ کا غو ث یا قطب حقیقت محمد ی کی مجا زی صو ر ت ہو تا ہے چنا نچہ الجیلی کہتے ہیں کہ خو د انہیں حضرت محمد کی ذا ت اپنے پیر شمس الد ین جبرتی کی شکل میں نظر آئی ۔ یوں وحد ت الشہو د تصوف اور مذہب کی صلح کا با عث بنا۔ بر صغیر کے صو فی خا نو ادو ں میں سب سے زیا دہ قد یم قا د ر یہ ، چشتیہ ، سہر وردیہ اور افا عیہ ہیں یہ سلسلے مسلما نو ں میں تصو ف کے با قا عدہ آغا ز سے صد یو ں بعد پیدا ہو ئے اس وقت تک تصو ف کے تمام نظر یا ت اور عملیا ت تر تیب و تنظیم پا چکے تھے ۔ +صو فیا ئ کاعا م طو ر پر خیا ل ہے کہ صو فی خر قہ کی اصل ایک گلیم سیا ہ یا منقش ہے جو جنا ب رسو ل اکر م نے جنا ب علی المرتضیٰ کو فر ما ئی تھی اور پھر یہ مشا ئخ عظام کو سلسلہ در سلسلہ منتقل ہو تی رہی ان کا خیا ل ہے کہ یہ خر قہ اسرا ر ِ نبو ت و ولا یت کا نشان تھا ۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خر قہ حضور کو شب معرا ج میں اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ملا تھا۔ صو فیا ئ کے متذ کرہ بالاسلسلوں میں ایک اور سلسلہ نقشبند یہ کا بھی اضا فہ ہو ا ۔صر ف یہی ایک ایسا خا نوا دہ ہے جو اپنا سلسلہ جنا ب صد یق اکبر سے ملا تا ہے لیکن اس خانوادہ کے تین مختلف شجر ے سا منے لا ئے جا تے ہیں ،جن میں ایک کی نسبت حضرت صد یق اکبر (رح) سے اور با قی دو کی جنا ب علی المر تضٰی (رح) سے بتا ئی جا تی ہے۔ جنا ب علی المر تضیٰ(رض) کے بعد بر صغیر کے صو فیا ئ چا ر ا شخا ص کو خصو صیا ت سے چا ر پیریا چار خلیفہ کا لقب دیتے ہیں وہ چا ر یہ ہیں۔ جنا ب حسن (رض) بن علی المر تضٰی(رض) ، جنا ب حسین بن (رض) علی المر تضٰی(رض) ، حضر ت خوا جہ حسن بصری (رض)اور خوا جہ کمیل بن زیا د(رض) ۔خوا جہ حسن بصر ی(رض) کے دو مشہو ر خلیفہ تھے خوا جہ عبد الو ا حدبن زید اور خوا جہ حبیب اعجمی ۔اول الذکر سے پانچ خانوا دے منسو ب ہیں یعنی زید یہ ، عیا ضیہ ، اد ہمیہ ، ہبیر یہ ، اور چشتیہ ۔ثا نی الذ کر سے نو خا نوا دے منسو ب ہیں حبیبیہ ، طیفو ریہ ، کرخیہ، سقطیہ جنید یہ ، گا ز ر ونیہ ، طو سیہ ، فرد و سیہ ، سہرو ر دیہ ۔ یہ چو دہ خا نوا دے قد یم اور اصل سمجھے جا تے ہیں با قی پھر ان کی شاخیں چلتی ہیں مثلا ً قا دریہ خا ند ا ن جو ہند و ستا ن میں بہت محتر م و مقتدر ہے ،حضرت شیخ عبد القا در جیلا نی محبو ب سبحا نی سے منسوب ہے جنکا انتقا ل 561 ھ میں ہو ا۔ چشتیہ خانوا دہ قد یم تر ین ہے کیو نکہ وہ خو ا جہ اسحا ق شا می چشتی سے منسو ب ہے جنکی سن وفا ت 329 ہجر ی ہے ۔بر صغیر میں یہ حضرت خوا جہ معین الد ین چشتی سے شر و ع ہوا۔ خوا جہ غر یب نو ا ز کی ولا دت 537 ھ اور وفا ت 633 ھ میں بتا ئی جا تی ہے ۔وہ غا لبا ً سیستا ن میں پیدا ہو ئے ،خر ا سان میں نشو و نما پا ئی اور ہند وستا ن میں اجمیر میں فیض رسا نی کر تے ہو ئے یہیں وفا ت پا ئی۔ سہر و ر دیہ خا نوا دہ شیخ شہا ب الد ین عمر سہر و ر دی سے منسو ب ہے جن کا سنِ وفا ت 632 ہجر ی ہے ۔خیا ل رہے کہ شہا ب الد ین سہر و ر دی نا م کے دو مختلف آدمی ہیں ایک یہی شیخ شہا ب الد ین عمر سہرو ر دی ہیں جنکی مشہو ر کتا ب ’’ عو ا ر ف المعا رف ‘‘ تصو ف کے مکا تب میںمد تو ں داخل در س رہی اور جس کی بہت سی صو فیا نہ شر حیں لکھی گئیں ۔دو سرے شہا ب الد ین سہر و ر دی وہ ہیں جو فلسفہ ئِ اشرا ق کے مفسر ہیں اور جنہیں اپنے عہد کے علما ئ کے فتو یٰ پر عمل کر تے ہو ئے صلیبی جنگو ں کے مشہور کُر د فا تح سلطا ن صلا ح الد ین ایو بی نے قتل کر ا دیااور ہما رے اکثر صاحبانِ علم نے ان دو آد میوں کو نا مو ں کے ایک ہو نے کے با عث ایک فر د سمجھ لیا ہے اور یہ غلطی فلسفہ ئِ عجم میں علا مہ اقبال جیسی معتبرشخصیت سے بھی ہو ئی ۔ سہر و ر دی خا نوا دے کو بر صغیر میں شیخ بہا ئو الد ین ذکر یا نے متعا رف کر ایا جو شیخ شہا ب الد ین سہر و ر دی کے خلفا ئ میں سے تھے ۔انکا انتقا ل 666 ہجر ی میں ہوا ۔ان کا مز ا ر ملتا ن میں ہے۔ اکثر بے شرع اور ملا متیہ صو فی گر وہ مثلا ً رسو ل شا ہی وغیر ہ خا نوا دہ سہر و ر دیہ سے ہی ملحق خیا ل کیے جا تے ہیں۔ +خا نو ا دہ نقشبند یہ کے شیخ الشیو خ خوا جہ بہا ئو الد ین نقشبند تھے جن کی ولا دت 718 ھ اور وفا ت 791 ھ میں ہو ئی۔ روحانی سلسلہ حضرت با یز ید بسطا می تک پہنچتا ہے ۔کہا جا تا ہے کہ حضرت با یز ید بسطا می کو حضرت اما م جعفر صا دق سے فیض حا صل ہوا ۔اگر چہ حقیقت یہ ہے کہ حضر ت اما م جعفر صا د ق کا انتقا ل حضرت با یز ید بسطا می کی ولا د ت سے بر سو ں پہلے ہو چکا تھا مگر نقشبندی سلسلہ میں ایسے تا ریخی معا ملا ت کوئی حیثیت نہیں رکھتے کیو نکہ وہ کہتے ہیں اس قسم کی فیض رسانی کے لیے با ہمی ملا قا ت کو ئی ضر و ر ی نہیں ۔خوا ب میں رو حا نی ملا قا ت بھی ہو سکتی ہے اور فیض بھی حا صل کیا جاسکتا ہے۔ علیٰ ھذا القیا س حضرت امام جعفر صا دق کو قا سم بن محمد بن ابو بکر کا مر ید اور اسے یعنی قا سم بن محمد بن ابو بکر کو حضر ت سلما ن فا ر سی کا مر ید تسلیم کیا جا تا ہے حا لا نکہ تا ریخی طو ر پر یہ دو نو ں با تیں بھی انتہا ئی بعید از قیا س ہیں۔ اسی طرح یہ روایت بھی نا قا بل اعتبا ر ہے کہ حضرت با یز ید بسطا می سے خر قۂ خلا فت ابو الحسن خر قا نی کو ملا حا لا نکہ ابو الحسن خر قا نی بھی حضرت با یز ید بسطا می کی وفا ت کے بعد پیدا ہو ئے ۔اس طر ح نقشبندیہ کا وہ شجر ہ جو عا م طو ر پر مر و ج ہے با لکل غیر مستند ہے لیکن جیسا کہ عر ض کیا جا چکا ہے نقشبند یہ سلسلہ کے دو اور شجر ے بھی بتا ئے جا تے ہیں ۔ایک وہ جو جنید بغدا دی ، سر ی سقطی اور معرو ف کر خی کے وا سطہ سے جنا ب علی رضا تک اور پھر آخر میں جنا ب علی المر تضٰی تک پہنچا تے ہیں بر صغیر میں نقشبندیہ تما م صو فی سلسلوں سے زیا دہ با شر ع ہو نے کا دعوٰی کر تے ہیں محققین کا خیا ل ہے کہ یہ متذ کرہ با لا چو دہ سلسلوں سے خا رج ہیں۔ وسط ہند میں نقشبندیہ کے حقیقی با نی خوا جہ عبید اللہ احرار تھے جن کا ا میرتیمو ر کے پڑ پو تے ابو سعید مر ز اپر بہت اثر تھا۔خواجہ عبید اللہ کے جا نشین ان کے فر ز ند خو اجہ یحییٰ ہو ئے۔ انہیں اور انکی اولا د کو ملا شیا نی خا ن از بک نے قتل کرا دیا اسکے بعد یہ سلسلہ پھر مشکو ک ہو جا تا ہے ،تا ہم کسی نہ کسی طر ح خو اجہ با قی با للہ اور ان کے خلیفہ شیخ احمد سر ہند ی تک پہنچتا ہے جو ستر ہو یں صد ی عیسو ی میں آتے ہیں اور بعد میں مجدد الف ثا نی کے نا م سے مش��و ر ہو تے ہیں۔ +در و یش اور صو فی بر صغیر کے علا وہ تما م مسلما ن مما لک میں پا ئے جا تے ہیں اور مسلما نو ں کی مذہبی اور معا شر تی زند گی پر ان کا بہت گہر ا اثر پڑا ہے قا در یہ ، سہر و ر دیہ اور چشتیہ خانقا ہیں تقر یبا ً تما م مسلما ن مما لک میں پا ئی جا تی ہیں با لخصو ص شما لی افر یقہ ، مصر اور اُن مما لک میں جہا ں تر ک اور تا تا ر ی پا ئے جا تے ہیں تصو ف کا بڑ ا اثر ہے۔ حجا ز، نجد اور یمن میں تصوف کا ذوق نسبتا ً کم ہے اور مو جو دہ دو ر میں اسکی وجو ہا ت واضح ہیں کیو نکہ سعو دی عر ب میں نجدی خا ند ان آل سعو د کی حکو مت ہے اور وہ محمد بن عبدالو ہا ب کے مسلک کی پیر وی میں خا نقا ہو ں کو ختم کر نے اور صو فیا ئ دشمن مشہو رہے۔ +سلسلہ ہا ئے ار بعہ کی خصو صیا ت +بر صغیر میں یہ رو اج عا م رہا ہے کہ ایک سلسلہ سے وا بستہ فر د کسی دو سرے سلسلہ میں بھی مر یدہو جا تا ہے۔ شا ہ ولی اللہ نے تو یہ کہا کہ وہ بیعت لیتے وقت تما م سلسلو ں کے بز ر گو ں کا نا م لیتے کہ سب کا فیض شا مل حا ل ہو۔ ان ر حجا نا ت کے نتائج یہ ہو ئے کہ ایک سلسلہ کی پا بند ی نہ رہی لیکن اسکے با وجو د ان کے طر یق ہا ئے ذکر و عبا دا ت میں فر ق و امتیا ز ہے۔ +ان کے ذکر میں جب کلمہ ئ شہا دت کا ورد شر وع ہو تا ہے تو الا اللہ پر خا ص زو ر دیا جا تا ہے اور عمو ما ًان الفا ظ کو دہراتے ہو ئے سر اور جسم کے با ئیں حصہ کو حر کت دی جا تی ہے ۔اس سلسلہ میں سما ع کا روا ج ہے اور ان پر سما ع کے وقت عجیب و جدا نی کیفیت طا ر ی ہو جا تی ہے بلکہ جب وجد حا ل تک پہنچتے ہیں تو یہ تھک کر چو ر ہو جا تے ہیں ۔اس سلسلہ کے درو یش عمو ما ً رنگ دا ر کپڑ ے پہنتے ہیں اور ہلکے با دا می رنگ کو تر جیح دیتے ہیں۔ +سہر و ر دیہ :۔ +ان کے ہا ں سا نس بند کر کے اللہ ہو کا ور د کر نے کا بڑ ا رو اج ہے ۔ویسے یہ ذکر جلی بھی کر تے ہیں اور ذکر خفی بھی۔ سماع سے بے تو جہی بر تتے ہیں ۔تلا وت قر آن پر خا صا زور دیتے اور تا کید کر تے ہیں ۔ +اکثر سنی علما ئ اسی سلسلہ سے وا بستہ ہیں ۔قا در ی حضر ا ت سما ع با لمز ا میر کے خلا ف ہیں ۔مو سیقی بغیر آلات کے سنتے ہیں۔ قا در ی در و یش سر پر سبز پگڑ ی با ندھتے ہیں۔ اور انکے لبا س کا کو ئی نہ کو ئی حصہ با دا می رنگ کا ہو تا ہے۔ ان کے ہا ں بھی ذکر جلی اور ذکر خفی دو نو ں جا ئز ہیں ۔ +ذکر جلی کے خلا ف ہیں ۔ذکر خفی کر تے ہیں ان کے ہا ں مر شد مر ید و ں کے سا تھ بیٹھتا ہے اور تو جہ الی البا طن سے انکی رہنما ئی کر تا ہے۔ یہ اپنے آپکو بہت پا بند شر یعت بنا نے کی کو شش کر تے ہیں ۔ با لعمو م مر اقبہ میں آنکھیں بند کر کے یا نگا ہیں زمین پر جما کر بیٹھتے ہیں مو سیقی اور سما ع سے پر ہیز کر تے ہیں۔ +بیعت کے وقت تما م سلسلوں میں سر تر شوا یا جا تا ہے، تو بہ کر ائی جا تی ہے اور کو شش کی جا تی ہے کہ بیعت سے نئی رو حا نی اور اخلاقی زند گی کا آغا ز ہو ۔ +سلسلۂ عالیہ قا در یہ نو شا ہیہ +سلسلۂ عظمی نو شا ہیہ سلسلہ ئ عا لیہ قا در یہ کی ایک ذیلی شا خ ہے۔ سلسلۂ عا لیہ قا در یہ بھی با قی سلسلوں کی طر ح با ب العلم جناب علی المر تضیٰ کر م اللہ وجہہ کے وا سطہ سے حضور رحمت عا لم تک پہنچتا ہے ۔ +مر ید ان ِ با صفا کے لیے حضرت سید ابو الکما ل بر ق قا در ی نو شا ہی بحر العلو می نے اسے ایک دعا میں منظو م کر دیا ہے اور اسے سرا ج السا لکین حضرت پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف تک پہنچا یا گیا ہے۔ ہم پو ر ی نظم نقل کر رہے ہیں۔ +بسم اللہ الر حمن الر حیم +یا الہٰی کر م فر ما مصطفےٰ کے وا سطے +مشکلیں حل کر سبھی مشکل کُشا کے وا سطے +حسن بصری و حبیب عجمی و حضرت شا ہ دا ئو د +خو اجہ ئِ معر و ف کر خی با صفا کے وا سطے +شا ہ سر ی سقطی ، جنید و شیخ شبلی ، بو الفضل +بو الفر ح ، بو الحسن شا ہِ اولیا ، کے وا سطے +چشمہ ئِ رشدو ہد ایت خو اجہ ئِ ما بو سعید +غو ث اعظم پیر پیرا ں راہنماکے وا سطے +سید عبد الوہا ب و سید صو فی با کمال +عا ر ف حق ِ ، سید احمد پیشو ا کے وا سطے +سید ی مسعو د حلبی اور سید شا ہ علی +حضرت شا ہ میر قبلہ بے ریا کے واسطے +سید شمس الد ین اور سید محمد غو ث شا ہ +شا ہ مبا رک حضرت معر وف شا ہ کے وا سطے +شاہ سلما ں نور ی و حا جی نو شہ گنج بخش +شا ہ ہا شم شا ہ سعید پُر ضیا کے واسطے +سید ابرا ہیم ، سید ملک شا ہ ، سید حسن +اور غلا م شا ہ محمد مقتدا ئ کے وا سطے +سید السا دات قطب ِ اولیا بحر ا لعل +شا ہ چر اغ دیں محمد پا ر سا کے وا سطے +مطلع ِ انوا رِ وحدت پیر سید بو الکمال +یعنی حضرت بر ق شا ہ با رضا کے و ا سطے +سا لک را ہِ طر یقت وا قف اسرا ر حق +یا الہٰی با ب ِ رحمت ان بز ر گو ں کے طفیل +کھول دے بیکس ، غر یب وبے نوا کے واسطے +التجا ئ مسکین کی میرے خدا یا کر قبو ل +عا ر فا نِ سلسلہ ئ ِ نو شا ہیہ کے وا سطے +﴿نقل از شجر ہ شا ئع کر دہ الحا ج صو فی محمد یو نس اویسی قا دری نو شا ہی نا ظم شعبہ نشر و اشا عت سلسلہ عا لییہ نو شا ہیہ بحر العلومیہ بریڈ فو ر ڈ انگلینڈ﴾ +اس منظو م شجر ہ کی تفا صیل یہ ہیں ۔ +۱﴾ سید کا ئنا ت حضو ر سر و ر ِ عا لم ۔م۔ ربیع الا ول 11 ھ مد فن پاک مد ینہ منو رہ ﴿عر ب﴾۔ +۲﴾ ابو الحسن حضرت علی المر تضٰی م ۱۲ رمضا ن ۰ ھ مد فن نجف اشر ف ۔ +۳﴾ ابو محمد حضرت خوا جہ حسن بصر ی م ۴ محر م ۱۱۱ ھ مد فن زبیر ہ ﴿بصر ہ﴾۔ +۴﴾ ابو نصر حضرت حبیب اعجمی م ۳ ربیع الثا نی ۶۵۱ ھ بغدا د ۔ +۵﴾ ابو سلیما ن حضرت خوا جہ شا ہ دا ئو د الطا ئی م ۸۲ ربیع الا ول ۵۶۱ ھ بغدا د ۔ +۶﴾ ابو المحفوظ حضرت خو اجہ معر وف کر خی م ۲ محر م ۰۰۲ ھ محلہ کر خ بغدا د ۔ +۷﴾ ابو الحسن حضرت شا ہ سر ی سقطی م ۳ رمضا ن ۳۵۲ ھ گو ر ستا ن شو نیز یہ بغدا د ۔ +۸﴾ ابو القا سم سید الطا ئفہ حضرت خوا جہ جنید بغدادی م ۷۲ رجب ۷۹۲ ھ گو ر ستا ن مثو نیز یہ بغدا د ۔ +۹﴾ حضرت خوا جہ ابو بکر و لف شبلی م ۸۲ ذو الحجہ ۴۳۳ ھ مقبر ہ خیز ران بغدا د ۔ +۰۱﴾ حضرت ابو الفضل عبدا لو ا حد تمیمی م ۹ جما دی الا خر یٰ ۵۲۴ ھ مقبر ہ اما م احمد بن جنبل ۔ +۱۱﴾ حضرت خوا جہ ابو الفر ح طر طو سی م ۔ ۳ شعبا ن ۷۴۴ ھ طر طو س ۔ +۲۱﴾ حضرت خوا جہ ابو الحسن علی الہکا ری م یکم محر م ۶۸۴ ھ بغدا د ۔ +۳۱﴾ حضرت خو اجہ ابو سعید مبا ر ک مخر می م ۷ محر م الحرا م با ب الا ج بغدا د ۔ +۴۱﴾ غو ث الا عظم محبو ب سبحا نی حضرت شیخ عبد القا د ر جیلا نی م ۱۱ ربیع الثا نی بغدا د ۔ +۵۱﴾ حضرت سید سیف الد ین عبد الو ہا ب م ۔ ۵ شو ال ۳۹۵ ھ بغدا د ۔ +۶۱﴾ حضرت ابو نصر سید صفی الد ین صو فی م ۳ رجب ۱۱۶ ھ بغدا د ۔ +۷۱﴾ حضرت سید ابو العبا س احمد م ۵۲ رجب ۰۳۶ ھ حلب اقد س ۔ +۸۱﴾ حضرت ابو البر کا ت سید مسعو د الد ین م ۵ شعبا ن ۰۶۶ ھ حلب +۹۱﴾ حضرت سید ابو الحسن علی م ۲ محر م ۵۱۷ ھ حلب اقد س۔ +۰۲﴾ حضرت ابو عبد اللہ سید شا ہ میر م ۸ فر و ر ی ذی قعد ۶۶ ھ حلب اقد س ۔ +۱۲﴾ ابو محمد حضرت سید شمس الد ین اعظم م ۵۸ ھ حلب اقدس ۔ +۲۲﴾ ابو عبد اللہ حضرت محمد غو ث بند گی م ۷ رجب ۳۲۹ ھ اُچ شر یف پاکستان ۔ +۳۲﴾ حضرت سید مبا ر ک حقا نی م ۹ شوا ل اُچ شر یف پاکستان ۔ +۴۲﴾ قطب الکو نین حضرت سخی شا ہ معر و ف ۰۱ محر م ۷۸۹ ھ خو شا ب شر یف پاکستان ۔ +۵۲﴾ شیخ المشائخ حضرت سخی شا ہ سلما ن نو ر ی م ۷۲ رمضا ن ۲۱۰۱ ھ بھلوا ل شر یف پاکستا ن ۔ +۶۲﴾ اما م سلسلہ نو شاہیہ مجد دِ اعظم حضرت سید نو شہ گنج بخش قا دری م ۵ ربیع الا ول ۴۶۰۱ ھ رنمل شر یف ضلع گجرات۔ +۷۲﴾ محد ث اعظم حضر ت سید محمد ہا شم در یا دل سجا دہ نشین اول م ۲۹۰۱ ھ ر نمل شریف تحصیل پھا لیہ ضلع گجرا ت ۔ +۸۲﴾ حضرت سید محمد سعید شا ہ دُو لا نو شہ ثا نی م ۹۲ ذیقعد ۸۴۱۱ ھ رنمل شر یف ضلع گجر ا ت ۔ +۹۲﴾ فقیرا عظم حضرت حا فظ سید محمد ابرا ہیم شاہ نو شا ہی م ۳۰۲ھ رنمل شر یف ۔ +۰۳﴾ حضرت حا فظ سید خا ن محمد ملک شا ہ نو شا ہی م یکم محر م ۸۷۲۱ ھ رنمل شر یف ۔ +۱۳﴾ حضرت حا فظ سید محمد حسن محمد شا ہ نو شا ہی م ۔ ۴۱ شعبا ن ۴۶۲۱ ھ رنمل شر یف ۔ +۲۳﴾ قطب التکو ین حضرت سید غلا م محمد شا ہ نو شا ہی م ۲۱ ربیع الا ول ۱۸۲۱ ھ ٹھیکر یا ں شر یف مقبو ضہ کشمیر ۔ +۳۳﴾ غوا ص بحر ہو یت حضرت سید نصیر الد ین احمد بحر العلوم نو شاہی ۳ ذو الحجہ ۰۴۳۱ ھ چک سوا ر ی شر یف ضلع میر پور +۴۳﴾ قطب الا قطا ب حضرت سید چر اغ محمد شا ہ نو شا ہی م ۔ ۲۱ ربیع الثا نی ۶۶۳۱ ھ چک سوا ر ی شر یف ۔ +۵۳﴾ مبلغ ِ اسلام حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شاہی سجا دہ نشین در با ر نو شاہی ڈو گہ شر یف ولا دت ۶ محر م ۳۴۳۱ ھ +۶۳﴾ سر اج السا لیکن حضرت پیر سید معر و ف حسین شا ہ عا ر ف نو شا ہی ۹۲ ربیع الاول ۵۵۳۱ ھ ﴿حا ل انگلینڈ﴾ +﴿نقل از شجر ہ طیبہ شا ئع کر دہ الحا ج صو فی محمد یو نس اویسی قا دری نو شاہی نا ظم شعبہ نشر و اشا عت سلسلہ عا لیہ نو شاہیہ بحرا لعلو میہ بر یڈ فو ر ڈ انگلینڈ﴾ +اُچ شر یف اور سلسلہ ٔعا لیہ قا دریہ +بر صغیر میں اسلام کے قد یم تر ین گہو ا رے سند ھ اور ملتا ن تھے۔ یہا ں اقصا ئے عالم سے علما ئ و مشا ئخ و ارد ہو تے رہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں با لخصو ص ملتا ن میں با طنی ، اہل تشیع وغیر ہ بکثر ت آگئے تھے اور بہت جلد سند ھ ا ور ملتا ن پر قراعطہ قا بض ہو گئے تھے ۔ مغر بی پنجا ب میں اشا عتِ اسلا م کا بڑ ا مر کز ’’اُچ ‘‘ تھا جو پنجا ب کے پانچ در یا ئو ں کے سنگم پنجند کے قر یب ایک قدیمی قصبہ ہے۔ شیخ محمد اکر ام ایم اے ڈی لٹ لکھتے ہیں۔ +’’ اگر سند ھ میں شیخ ابو ترا ب کے مزا ر کو شما ر نہ کیا جا ئے تو سر زمین ہند و پا کستان میں سب سے قد یم اسلا می زیا ر ت گا ہ ’’ اُچ ‘‘ ریاست بہا و لپو ر میں شیخ صفی الد ین حقا نی گا زر و نی کا مزا ر ہے ‘‘ +یہ شیخ صفی الد ین حقا نی گا زرو نی کو ن تھے ۔ مو لو ی محمد حفیظ الد ین بہا و لپو ر ی لکھتے ہیں۔ +’’ شیخ صفی الد ین مشہو ر صو فی بز ر گ خو اجہ ابو ا سحا ق گا ز ر و نی کے مر ید ا ور خوا ہر زا دہ تھے، جو اپنی تبلیغی اور رو حا نی کوششوں کے لیے شہر ہ آفا ق ہیں ۔شیخ صفی الد ین 962 ئ میں پیدا ہو ئے ،ستر ہ بر س کی عمر میں اُچ شر یف لا ئے اور 1007 ئ میں وفات پا گئے ‘‘﴿تا ریخ اُچ ص40 ﴾ +سلطا ن المشا ئخ حضرت خوا جہ نظا م الد ین محبو ب الا ولیا کی ز با نی ایک حکا یت نقل ہو ئی ہے کہ ’’ ایک مر تبہ اُچ میں ایک جو گی شیخ صفی الد ین گا زرو نی کی خد مت میں آیا اور بحث شر و ع کر دی اور شیخ سے کہا ‘‘ اگر تم سچے ہو تو کو ئی کرا مت دکھا ئو انہوں نے فر ما یا دعوٰ ی تم لے کر آئے ہو تم کو ئی کر ا مت دکھا ئو اس پر وہ جو گی زمین پر سے سید ھا اوپر کو اُڑا اور پھر اپنی جگہ پر آبیٹھا اور کہا کہ تم بھی کچھ دکھا ئو ۔ شیخ نے آسمان کی طر ف منہ کر کے در گا ہ با ر ی تعا لیٰ میں التجا کی کہ اے پر و ر د گا ر تو نے بیگا نو ں کو یہ طاقت عطا کی ہے مجھے بھی کچھ عنا یت کر دیجیے، بعد ازا ں شیخ اپنی جگہ سے قبلہ رُخ اڑے، پھر مشر ق کی سمت ،پھر شما ل کو، پھر جنو ب کی طر ف اور پھر اپنی جگہ پر آگئے۔ جو گی یہ دیکھ کر قا ئل ہو گیا اور کہا میں تو صر ف سید ھا اوپر کو اٹھ سکتا ہو ں آپ ہر سمت اڑ سکتے ہیں وا قعی آپ سچے ہیں اور ہم با طل ‘‘ ﴿فو ائد افواد بحو الہ آبِ کو ثر 73﴾ +یہ رو ایت نقل کر کے شیخ محمد اکر ام لکھتے ہیں۔ +’’ فو ائد فواد میں سلطا ن المشا ئخ کے ملفو ظا ت و ا ر شا د ات مشہو ر فا ر سی شا عر امیر حسن سنجر ی نے سلطا ن المشا ئخ سے سُن کر بڑی احتیا ط سے تر تیب دیئے تھے ۔با لعمو م اس میں وہ وا قعا ت ہیں جو سلطا ن المشا ئخ یا ان کے مر شد شیخ کبر ِ با با فر ید گنج شکر یا ان کے معا صر ین کو پیش آئے ۔اس میں خا ر قِ عا د ت و ا قعا ت بہت تھو ڑے ہیں لیکن شیخ صفی الد ین اور سلطان المشا ئخ کے درمیان دو صد ی کا بعُد تھا۔ ان کے متعلق وہ پو ری تحقیق نہ کر سکتے تھے ۔لہٰذاجو رو ا یت سلطا ن المشائخ نے اپنے بز ر گو ں سے سنی بیا ن کر دی ‘‘ ﴿حا شیہ آب کو ثر 73﴾ +خیر یہ کر ا مت صا د ر ہو ئی ہو یا نہ ہو ئی ہو، ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہمیں اُچ شر یف میں اشا عت اسلام کے مو ضو ع سے مطلب ہے۔ شیخ عبد الحق محد ث دہلو ی لکھتے ہیں۔ +’’ قصبہ ئِ اُچ ‘‘ کی بنیا د شیخ صفی الد ین گا ز ر و نی نے رکھی ۔ان کے ما مو ں شیخ ابو اسحا ق گا ز ر و نی نے انہیں نعمتِ خلافت سے فیض یا ب کر کے حکم دیا کہ تم اُونٹ پر سوا ر ہو جا ئو اور او نٹ جد ھر لے جا ئے اُسی طر ف چلتے جا ئو جب او نٹ اُ چ کی سر ز مین میں پہنچا تو ایسا بیٹھا کہ اُٹھنے سے انکا ر کر دیا، شیخ نے یہیں تو طن اختیا ر کیا ،عما ر تیں بنوا ئیں اور اس جگہ کو آبا د کیا ‘‘ +﴿اخبا ر الا خیا ر 205﴾ +لیکن حقیقت یہ ہے کہ قصبہ اُچ کی تا ریخ یہاں سے شر و ع نہیں ہو تی یہ ان شہر و ں میں سے ہے جنکی آبا دی کو سکند ر ِ اعظم سے منسوب کیا جا تا ہے۔ یہ قصبہ کئی دفعہ اجڑا اور کئی دفعہ آبا د ہو ا۔ اسکے آس پا س کئی آبا دیاںہوئیں، ممکن ہے شیخ صفی الد ین نے پرانی آبا دی سے دو ر کوئی بستی بسا ئی ہو ۔ +قصبہ اُچ میں سلسلہ ئِ عا لیہ قا د ر یہ کے مشا ئخ بھی آئے اور خلق خدا کو فیضیا ب کیا۔ شیخ محمد اکرا م لکھتے ہیں۔ +’’ اُ چ قد یم قصبہ ہے ‘‘ ’’ اُ چ ‘‘ کے دو بڑ ے حصے ہیں ایک گیلا نیہ کہلا تا ہے اور ایک بخا ریہ۔ گیلا نیہ وہ حصہ جہا ں قا در یہ سلسلہ کے بز ر گ رہتے ہیں۔ ﴿آبِ کوثرصفحہ 276﴾ +گیلا نیہ ،مشا ئخِ قا در یہ کا آبا د کر دہ ہے جو شیخ عبدالقا در دجیلا نی ﴿گیلا نی﴾کی نسبت سے گیلا نیہ کہلا یا دو سرا حصہ بخا ریہ اس لیے کہلا تا ہے کہ یہاںسہر و ر دیہ سلسلہ کے بز ر گ سید جلا ل الد ین منیر شا ہ سر خ بخا ری ،جو شیخ بہا ئو الد ین ذکر یا ملتانی کے خلیفہ تھے آکر آبا د ہو ئے تھے ۔ +سلسلہ قا در یہ کے شیخ طر یقت حضرت محمد غو ث بند گی بھی اُچ شر یف میں وا ر د ہو ئے۔ اُن کی تا ریخ وفا ت بمطا بق شجر ہ محو لہ سا بقہ ۷ رجب ۳۲۹ ھ ہے ۔وہیں انکا مز ا ر ہے ۔ا +ما م سلسلہ نو شا ہیہ مجد دِ اعظم حضرت سید نو شہ گنج بخش قا ر دی ۵ربیع الا ول ۴۶۰۱ ھ کو رنمل شر یف ضلع گجر ا ت میں وا صل بحق ہوئے۔ ان کا مز ا ر شر یف ر نمل میں ہے۔با قی سلسلہ ہا ئے مقد سہ کی طر ح سلسلہ قا د ریہ نے بھی تبلیغ و اشا عت اسلام میں بڑی سر گر می سے حصہ لیا۔ سلسلہ ئِ قا د ریہ کے مشا ہیر کی فہر ست بہت طو یل ہے ان میں شیو خِ طر یقت، علما ئو فقہا ئ، ادبا ئ ، شعر ا ئ سبھی لو گ پیدا ہو ئے لیکن چو نکہ ہما را موضو ع سلسلہ ئِ عا لیہ نو شا ہیہ قا دریہ ہے، اس لیے ہمیں اسی سلسلہ تک محدو د رہنا ہے، اس سلسلہ کے بز رگا نِ دین کا اجما لی تعارف کچھ یُو ں ہے۔ +تمہید سلسلہ ئ نو شا ہیہ +یو ں تو ہر روز لاکھوں لو گ پیدا ہو تے ہیں اور لا کھو ں مو ت کی تا ر یک وا دیوں میں اتر جا تے ہیں ، مگر زمین جب سور ج کے ارد گر د سینکڑ وں چکر مکمل کر تی ہے ،چا ند کر ہ ئ ارض کے ارد گر د ہزا رو ں مر تبہ گھوم لیتا ہے تو پھر کہیں جا کر کو ئی ایسی پر نور اور ضیا بخش شخصیت جنم لیتی ہے جو نئے دور کی خا لق بن کر ایک عظیم تا ریخ کی تمہید بن جا تی ہے۔ +عمر ہا در کعبہ و بت خا نہ می نا لد حیا ت +تا ز بز م عشق یک دا نا ئے را ز آید بر و ں +وہ ایک بر کتو ں سے بھر ا ہوا دن تھا جب وقت نے کر ب کے دو ز خ میں صد یو ں تڑ پ تڑ پ کر اپنی گر دش مکمل کر لی تھی ۔ آسمان ِولا یت کے افق پر اس غیر فا نی شخصیت کی ولا دت با سعا د ت کی ابدا ٓشنا سا عت طلو ع ہو رہی تھی جس کی پیش گوئی آقا ئے نا مدا ر، پیغمبر انسا نیت، چا رہ سا زبیکسا ں حضور سر و ر کا ئنا ت محمد نے صد یو ں پہلے فر ما د ی تھی۔ حد یث مبارکہ ہے +قا ل رسو ل یبعت رجلا علی احد عشر ما نۃ سنۃ ہو نو ر عظیم اسمہ اسمی۔ ﴿جا مع الدر د بحوا لہ روضیۃ القیومیہ﴾ +تر جمہ :۔ ﴿رسو ل نے ارشا د فر ما یا کہ گیا ر ہوں صد ی میں ایک مر د پید ا ہو گا جو بڑا نو ر ہو گا اور اس کا نام محمد ہو گا ﴾ +اہلِ علم و دا نش اس با ت پر متفق ہیں کہ گیا ر ہو یں صدی میں جس پر نو ر شخصیت کی آمد کی پیشن گو ئی حضور نے فر ما ئی تھی وہ مجدد اعظم سید نو شہ گنج بخش کی ذا ت گر امی تھی اگر چہ ان کی پیدا ئش دسو یں ہجر ی میں ہو ئی مگر انہوںنے گیارہویں صد ی میں تقر یبا ً نصف صد ی دین محمد ی کے فر و غ میں گز ا ر ی ۔ سوا س لیے یہ با ت طے پا گئی ہے کہ یہی و ہ شخصیت تھی جس کے را ستے میں وقت رو شنی اور پھول لے کر کھڑا تھا اور صد یا ں انتظا ر میں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں ۔ +959 ہجر ی میں رمضا ن المبا ر ک کی تقد س بھر ی پہلی تا ریخ حجلہ ئ وقت سے پر فشا ں ہو ئی اور تقو یم نے سلطنت فقر کے تاجدار کو تا ریخ کے سپر د کر دیا +مت سہل ہمیں جا نو پھر تا ہے فلک بر سو ں +تب خا ک کے پر دے سے انسان نکلتے ہیں +یہ نو شہ گنج بخش کا ہے فیض ہند میں +جو بھی کہیں ملا اسے مسلم بنا دیا +شا م دیا ر ِ ہند میں صبحیں بکھیر کر +سب کا فرو ں کو مو من اعظم بنا دیا +اپنے عمل سے نسل کا با طن اجا ل کر +نو شا ہی سلسلے کو معظم بنا دیا +حضرت نو شہ گنج بخش کی ذا تِ گر امی پر لا کھوں لو گو ں نے نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا ۔ مجھے اپنی خو ش بختی پر رشک آرہا ہے کہ میں بھی اپنے حقیر لفظو ں کے نذر ا نے لے کر حا ضر ہو نے کی +یہی گلی ہے ولا یت کے نُو ر سے معمور +اسی میں فقر کے عا لم پنا ہ رہتے ہیں +اسی کو کہتے ہیں در با ر شا ہِ نو شا ہی +یہیں پہ حضرت معر و ف شا ہ رہتے ہیں +اسی گلی میں طر یقت کا آشیا نہ ہے +اسی میں رشد و ہدا یت کا آستا نہ ہے +اسی سے ملتا ہے ہر اک کو حوصلوں کانور +شکست خو ر دہ یہیں آکے ہو گئے منصو ر +اگلے صفحا ت میں ’’ بر کت نامہ ‘‘ کے عنو ان سے سید نو شہ گنج بخش کی منقبت لکھی گئی ہے +گر قبو ل افتد ز ہے عز و شر ف +منقبت سید نو شہ گنج بخش (رح) +بر کتوں کا مطلع ئ انوا ر نو شہ گنج بخش (رح) +ہند کی سب سے بڑی سر کا ر ۔ نو شہ گنج بخش(رح) +انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوا ر ‘نوشہ گنج بخش(رح) +منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے +حضرت نو شہ گنج بخش سے شر و ع ہو نے وا لے اس سر چشمہ ئ رشد و ہد ا یت نے ہر دو ر میں بڑ ے بڑ ے با کما ل لو گو ں کو جنم دیا ہے ۔اس لڑ ی میں ایسی ایسی رو حا نی شخصیا ت پر و ئی ہو ئی ہیں کہ جن پر دنیا ئے تصو ف ہمیشہ نا ز کر تی رہے گی۔ +��ضرت خو اجہ محمد ہا شم در یا دل نو شا ہی(رح) +حضرت خو اجہ محمد ہا شم در یا دل نو شاہی سید نو شہ گنج بخش کے صا حب زا دے تھے۔ ان کی سخا وت کی وجہ سے دنیا انہیں در یا دل کے نا م سے پکا ر تی تھی ۔علم ظا ہر ی میں انہو ں نے اتنا کما ل حاصل کیا کہ اپنے وقت کے تما م فقہا اور محد ثین میں سب سے ممتا ز قر ار پائے ۔علم با طنی میں ان کی قدر و منز لت ایسی کہکشاں گیر رفعتوں کی حا مل ہے کہ تا ریخ کی کتا بیں ان کی کر امتو ں بھر ی پڑ ی ہیں۔ قطب المشا ئخ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ان کے قطعہ تا ریخ وفا ت میں لکھتے ہیں ۔ +پیر ہا شم شا ہ سجا دہ نشین +شیخ عا لم وا ر ثِ نو شا ہ دیں +آں محد ث اعظم قطب نہا ں +عا ر ف حق دستگیر بے کسا ں +عا لم و فا ضل فقیہ و راز دا ں +نا ئب نو شا ہ عا لم بے گما ں +گشت چو ں آں ما ہ تا با ں زیر خا ک +و صلش آمد وا ر ثِ نو شا ہ پاک +حضرت سید محمد سعید شا ہ دو لا نو شہ ثا نی (رح) +حضر ت سید محمد ہا شم کے صا حب زا دے سید محمد سعید شا ہ دو لا نو شہ ثا نی (رح) کا خطا ب لے کر مسندِ ولا یت پر ظا ہر ہو ئے ۔ان کی نگاہِ فیض رسا ں کے کما لا ت سے ایک دنیا کے دل رو شن ہو ئے ۔ان کے متعلق کہا جا تا ہے کہ ان کی تیز نگا ہ جہاں پڑ جا تی تھی، وہیں دل اللہ کا ذکر کر نے لگتا تھا ۔ظا ہر ی اور با طنی علو م میں یگا نہ ئ رو ز گا ر تھے۔ ان کے رو حا نی کمالات کا شہر ہ چا ر دانگ عا لم میں تھا ۔ان کے مسند سجا دگی پر فا ئز ہو نے کے بعد نو شا ہیہ سلسلہ ئ سعا د ت مآ ب کو بہت زیا دہ شہر ت اور مقبو لیت حا صل ہو ئی ۔لنگر کے انتظا مات میں بہت وسعت ہو ئی۔ بے شما ر غیر مسلمو ں نے ان کے ہاتھ پر اسلا م قبو ل کیا۔ قطب المشا ئخ حضرت سید ابوالکما ل بر ق نو شا ہی نے ان کے قطعہ تا ریخ وفا ت میں انہیں صاحبِ دستا رِ شیخ اولیا ئ قر ا ر دیا اورا ن کی دو تا ریخ وفا ت نکا لی۔ +سید عا لی نسب رو شن جبیں +پیر دولا پاک سجا دہ نشیں +نا صرِ دیں قطب عا لم مقتدا +صا حب دستا رِ شیخ اولیا +چو ں بجنت رفت آں مر د رشید +گفت و صلش ’’ خو ر شید وحید‘‘ +بر ق سا ل انتقا ل آں مر د پاک +گو ’’ جنا ب وا رث نو شہ پاک‘‘ +حضرت سید محمد ابرا ہیم نو شا ہی (رح) +حضرت سید محمد سعید دو لا کے بعد ان کے فر زند اکبر حضر ت سید محمد ابرا ہیم نو شا ہی شا ہ مسند نشین ہو ئے۔ وہ ایک بڑ ے عالم اور صاحب تصر ف بز ر گ تھے ۔چو دہ سا ل کی عمر میں علم و فنو ن میں یکتا ہو ئے اور دستا ر ِ فضلیت حا صل کی۔ فقہ میں ان کا کو ئی ثا نی نہیں تھا ۔فقہہ ئ اعظم کے لقب سے شہر ت حاصل کی ۔کشف و کر اما ت اور تصر فا تِ با طنی میں ان کی یکتا ئی بے مثا ل سمجھی جا تی ہے۔ قطب المشا ئخ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے ان کے قطعہ تا ریخ وفا ت میں انہیں نو ر کبر یا فر ما یا ہے ۔ +سید ابر اہیم نو ر کبر یا +مخز ن عر فا ن قطب الا تقیا +چو ں بگفتم ہا تفا وصلش بجو +گفت سید افضل الفقہا بکو +حضرت سید حا فظ خا ن محمد ملک شا ہ +حضرت سید محمد ابر اہیم شا ہ کے بعد ان کے بیٹے سید حا فظ خا ن محمد ملک شا ہ سلسلہ ئ نو شا ہیہ کے ایک ایسے کا مل بز ر گ گزرے ہیں ،جن کی علمیت اور کشف و کر اما ت کا شہر ہ پو رے بر صغیر میں پھیلا ۔ وہ فقیہہ اور محد ث تھے اور ایک بڑ ے عر صہ تک دارالولا یت نو شا ہیہ میں در س و تد ر یس کا فر یضہ سر انجا م دیتے رہے۔ ان کے حلقہ ئ ادا ر ت میں ایک دنیا شامل ہو ئی ۔ قطب المشا ئخ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے ان کے قطعہئ تا ریخِ وصا ل میں انہیں زا ہدِ خو ر شید عالم قر ا ر دیا ہے ۔ +آں محمد ملک شا ہ حق نما +عا ر ف حق صد ر بز م اتقیا +بر ق خو رشید عالم بے مثا ل +’’ ز اہد خو رشید عا لم ‘‘ انتقال +حضرت حافظ سید حسن محمد شا ہ عا ر ف +ان کے بعد ان کے فر ز ند حضرت حا فظ سید حسن محمد شا ہ عا رف سجا دہ نشین ہوئے۔ نو سا ل کی عمر میں قرآن حکیم حفظ کیا۔ بہت بڑے زا ہد اور متقی تھے۔ ان کی کر اما ت بہت مشہور ہو ئیں وہ روز انہ کئی سو نفل پڑ ھتے تھے ۔ظا ہر ی اور با طنی علو م میں اپنے زمانے میں یکتا تھے۔ ا نہوں نے اللہ تعالیٰ کی اتنی عبا دت کی جو عا م آدمی کی دستر س سے باہرہے ۔اس لیے کہا جا تا ہے کہ قدرت نے انہیں عبا د ت کر نے کیلئے ایک ایسی رو حا نی قو ت عطا فر ما ئی تھی کہ وہ مسلسل نفل پڑ ھتے رہتے تھے لیکن نہ تو انہیں تھکاوٹ ہو ئی تھی اور نہ ہی ان کے پا ئو ں سو جھتے تھے ۔ان کی تا ریخ پیدا ئش 1194 ئ ہے۔ قطب المشا ئخ حضر ت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے ان کے قطعہ تا ر یخ وفا ت میں انہیں اما م اولیا فر ما یا ہے۔ قطب المشا ئخ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نوشاہی لکھتے ہیں۔ +اما م او لیا ئ شا ہِ مکر م +معظم بو د چو ں آں شا ہ والا +حضر ت سید غلا م شا ہ نو شا ہی +حضرت سید حسن شا ہ کے بعد ان کے بیٹے حضرت سید غلا م شا ہ نو شا ہی بھی بہت بڑے بز ر گ ہو ئے ۔انہیں قطب التکو ین کہا جا تا ہے ۔وہ مادر زا د و لی تھے۔ بچپن سے ان کی طر ف سے کر اما ت کا ظہو ر ہو نا شر و ع ہو گیا تھا ۔ان کی تا ریخ پیدا ئش 1219 ھ ہے ۔انہوں نے با رہ سا ل گو شہ ئ تنہا ئی میں اللہ تعا لیٰ کی عبا د ت کی۔ مضا فا ت راجو ری کے بیسیوں قبائل ان کے ہا تھ پر مسلما ن ہوئے انہو ں نے 1280 ہجر ی میں انتقا ل فر ما یا ۔ +حضرت سید نصر الد ین بحر العلو م +حضرت سید غلا م شا ہ نو شا ہی کے فر زند حضرت سید نصیر الد ین ان کے بعد مسند نشین ہوئے ۔ان کی کنیت ابو المعصو م تھی اور لقب بحر العلوم تھا ۔ان کی والد ہ سید ہ گو ہر بی بی بھی ولیہ تھیں۔ ان کی زو جیت میں را بعۂ دور اں سید ہ حسن بی بی جیسی با کما ل خاتون تھیں۔ حضرت بحر العلو م کو علم لد نی میں بہت کما ل حا صل تھا۔ وہ بڑے جلا لی ولی تھے۔ ان کے سامنے کسی کو با ت کر نے کی جرات نہیں ہو تی تھی ۔ان سے سینکڑو ں کر ا مات کا صدو ر ہوا ۔قطب المشا ئخ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے ان کے قطعہ تا ریخ و صا ل میں انہیں صد رِ شر یعت ، امیرِ ملت اور شمس ِطر یقت قر ا ر دیا ہے اور ان کی دو تا ر یخ وفا ت نکا لیںہیں۔ +مظہر عو ن ِالٰہی سید ی بحر العلوم +چو ں بجستم بر ق و صل آںشہ والا مقا م +بنظرِعون الٰہی پاک آمدسال او +حضرت سید محمد چرا غ شا ہ (رح) +سید نصیر الد ین(رح) بحر العلو م کی وفا ت کے بعد سلسلہ نو شاہیہ کے سجا دہ نشین ان کے فرزند قطب اقطا ب حضرت سید محمد چر اغ شاہ (رح) بنے ۔وہ 1296 ھ میں رنمل میں پیدا ہوئے اور 1304 ھ میں اپنی وا لد ہ کے سا تھ چکسوا ر ی میں آگئے ۔وہ بہت زیا دہ عباد ت الٰہی میں مشغو ل رہنے والے بز ر گ تھے۔ ایک دن میں قر آن حکیم کے دس سپا ر وں کی تلا وت کر نا ان کا معمو ل تھا ان سے بے شما ر کر اما ت منسو ب ہیں ۔انہوں نے فقہ کے مو ضو ع پر بہت کا م کیا ۔وہ پنجا بی زبا ن کے قا د ر الکلا م شا عر تھے اور علم لد نی کے اسرار و رمو ز بھی جا نتے تھے ۔انہوں نے شجر ہ شر یف نو شا ہیہ ، سہ حر فی نو شہ گنج بخش ، مکتوبِ منظو م ، ملفو ظا تِ چراغ دین حبیب حق تعا لی بحر العلو م، شر ح صد سی مسئلہ مجر با ت ِ قا د ریہ اور آداب طر یقت کے نا م سے سا ت مقا مش بو د ، در اقطا ب با لا کتابیں تحر یر کیں۔ قطب المشا ئخ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے ان کے قطعہ تاریخ وصا ل میں انہیں دین ِ محمد ی کا چر اغ قر ار دیا ہے ۔ +زاولا دشہ نو شا ہ حا جی فرید +الد ہر بو د آں شاہ والا +وصا لش با بر ق از غیب ہا تف +بگفتا ’’ رحلت مخدو م ‘‘ +حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی +قطب اقطا ب حضر ت سید چر اغ محمد شا ہ کے چا ر صا حب زا دے ہیں ۔فر ز ند اکبر سید پیر عالم شا ہ۔ ان کے بعد سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ان کے بعد سید غلام سر و ر شا ہ اور چو تھے بیٹے سید معر و ف حسین شا ہ نو شا ہی ہیں اور دو صاحب زادیاں ہیں ۔ان کی وفات کے بعد سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی سجا دہ نشین ہو ئے ۔ +سلسلہ ئ نو شا ہیہ کے ما ضی قر یب میں وصا ل پا نے والے یہ بز ر گ اپنے وقت کے نا بغہ روز گا ر تھے ۔ان کی ہزا ر پہلو شخصیت پر کچھ لکھتے ہو ئے مجھے بنجمن فر ینکلن کا ایک حو الہ یا د آر ہا ہے۔ اگر چہ ان دو نو ں شخصیا ت کی اپنی اپنی دنیا ہے مگر سید ابو الکما ل برق نوشا ہی کی ذ ات گرا می کو سمجھنے کیلئے اس حو الے سے مدد ضر و ر ملے گی ۔ +بنجمن فر ینکلن کی شخصیت پر مختصر سے مختصر مضمو ن لکھنے کا عا لمی مقا بلہ فر ینکلن لا ئبر یر ی وا لو ں نے منعقد کر ایا جس میں فرٹے ڈی سکا ٹ کے مضمو ن کو سب سے بہتر سمجھا گیا اس مضمو ن میں بس یہی دو چا ر لفظ تھے۔ +’’میں سا ری را ت بنجمن فر ینکلن پر مضمو ن لکھنے کی کو شش کر تا رہا ۔صبح سو یر ے اٹھ کر گھر کے با غیچے میں گیا تو میرا سب سے چھو ٹا بیٹا گا لف ریڈ ما ئر ادھر ادھر بھا گتا پھر رہا تھا ۔وہ مٹھی بند کر تا تھا ور پھر کھول دیتا تھا میں نے پو چھا کہ بیٹے کیا کر تے پھر رہے ہو تو کہنے لگا کہ ڈیڈی سو ر ج کی شعا عو ں کو قید کر رہا ہو ں ، سو رج کی شعا عو ں نے تو کہا ں قید ہو نا تھا مگر میر ی سمجھ میں یہ با ت آگئی کہ بنجمن فر ینکلن پر کچھ لکھنا سو ر ج کی شا عو ں کو مٹھی میں بند کر لینے کے مترا د ف ہے ۔میرا قلم رک گیا اور میں نے را ت کے کا لے نیلے کئے ہو ئے تما م صفحا ت پھا ڑ دیئے ۔‘‘ +سو سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کی ہزا ر پہلو شخصیت پر کچھ لکھنا ،سو ر ج کی شعا عو ں کو مٹھی میں بند کر نے کے مترا دف ہے۔وہ عظیم المر تبت رو حا نی پیشوا تھے ۔ ایک صا حب معر فت دینی رہنما تھے ۔ علم طب میں انہیں کما ل ِخا ص حا صل تھا۔ +خطا بت کے میدا ن میں ان کا کوئی ثا نی نہیں تھا ۔ ایسے شعلہ بیا ں مقر ر تھے کہ تقر یر کر تے ہو ئے پا نی میں آگ لگا دیتے تھے۔ شا عرِجا دو بیا ں تھے۔ ان کی پنجا بی اور فا ر سی زبا ن کی شا عر ی ادب ِ عا لیہ کا ایک حصہ ہے ۔مقا م معرفت کے اسرار و رمو ز سے کچھ ایسے آشنا تھے کہ ان کی گفتگو تر جما ن حقیقت کبر یٰ محسو س ہو تی تھی۔ ادب کے بڑ ے با ر یک بین نقا د تھے ایک مستند مورخ تھے ۔ ایک نکتہ سنج مفسرتھے ۔ اشہبِ تحقیق کے شہسوا ر تھے ۔ ایک مسلمہ مفتی کی حیثیت رکھتے تھے ۔علم الکلا م اور فلسفے پر ان کی اتنی گہری نظر تھی کہ مشکل معا ملا ت میں علی عبا س جلا ل پو ر ی تک ان سے مشو ر ہ لیتے تھے۔ علم نفسیا ت پر بھی انہیں مکمل عبو ر حاصل تھا ۔ ما ہر عمرا نیا ت بھی تھے ۔ صر ف و نحو اور منطق پر ان کی گفتگو سنو ر سنو ر جا تی تھی ۔ بلند پا یہ منا ظر اور ایک عظیم الشان مبلغ ِاسلام تھے۔ سو ایک شخصیت جو اتنے علو م و فنو ن میں یکتا ہو ا سکے با ر ے میں کچھ کہنا سو ر ج کو چرا غ دکھا نے کے مترا دف ہے ۔ اس نا بغہ روز گا ر شخصیت کے ہر عمل میں قدر ت کی ایسی کر م نوا زیا ں نظر آتی ہیں کہ حیر تو ں کے در وا ہو نے لگتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہو ں کہ سو ر ج نے ان کا نا م آ سمان کی بے کر اں چھا تی پر اپنی سونے سے بنی ہو ئی کر نو ں کے سا تھ تحر یر کر دیا ہے۔ +مر ے خو رشید کی زر تا ب شع�� عیں چن کر +ظلمت شب بھی اجالو ں کے کفن بنتی ہے +اس کو کیا علم کہ سو ر ج کبھی بجھتا ہی نہیں +وہ تو بہر ی ہے مر ی با ت کہا ں سنتی ہے +سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے اپنی چا لیس سا لہ تصنیفی زند گی میں پانچ سو سے زا ئد تصا نیف زمانے کے حو الے کی ہیں۔ یہ کتابیں علم تفسیر، علم حد یث ، علم فقہ، علم تصو ف ، علم طب ، علم منطق، علم نحو، علم صر ف، سفر نا مے تذکر ے، سیر ت، منا قب و فضائل ، وعظ، عملیا ت، مکتاب اور تار یخ گو ئی کے مو ضو عا ت پر ہیں۔ انہو ں نے 1985 میں انتقا ل فر ما یا۔ را قم الحروف کو ان کے قطعہ تا ریخ وفا ت کہنے کی سعا دت بھی نصیب ہو ئی۔ +حا صل ِعلم و فضیلت صا حب عِلم لِد نی ، حا ملِ کشف القبور +وار ثِ فیضا ن نو شہ ، منزل اِسرا ر کے راہی کی ر حلت کیا ہو ئی +سوگئے پھر شہر کن میں مومن شب زندہ دارو عاملِ تسخیرِ ذات +کُھل گیا روحانیت کا’’ بابِ رحلت ،بر ق نو شا ہی کی رحلت‘‘ کیا ہوئی +ان کے وصا ل کے بعد سلسلہ ئ نو شا ہیہ کی سجا دگی کا اعزا ز حضرت سید معرو ف حسین شا ہ عارف کے حصے میں آیا ۔سلسلہ نوشا ہیہ کے انہی عا لی مر تبت سجا دہ نشین کے کا ر ہا ئے نما یا ں اس کتا ب کا بنیا دی مو ضو ع ہیں اور یہ طو یل تمہید اس لیے ضروری تھی کہ پڑ ھنے والو ں کو اس با ت کا احسا س ہو کہ اس شخصیت کا تعلق کس قسم کے رو حا نی خانوادہ سے ہے ،اس کے بزرگوں میں کیسے کیسے عظیم لو گ شا مل ہیں اس آسمان گیر سلسلے کے رو حا نی فیو ض و بر کا ت سے کتنی دنیا منور ہو ئی ہے ۔ یعنی یہ سلسلہ ،یہ خاندا ن صد یو ں سے گنا ہو ں کی شبِ تا ریک میں ثو ابو ں کے آفتا ب بکھیر تا چلا آرہا ہے۔ ان کے دروازے سے ایک دنیا دینِ مصطفوی کی رو شنی سے فیض یا ب ہو ئی ہے ۔گیا رہو یں صد ی سے تسلسل کے سا تھ چلتا ہو ا یہ سلسلہ ئ نو شا ہیہ کہیں رکا نہیں ۔ اس لڑ ی کا ہر مو تی ایک گہر بے قیمت تھا اور اس وقت یہ سلسلہ حضرت سید معر و ف حسین شا ہ عا ر ف نو شا ہی تک پہنچا ہو ا ہے۔ جنہو ں نے اس سلسلے کو بر صغیر سے نکا ل کر پو ر ی دنیا میں پھیلا دیاہے ۔ +==اجا لے کا پہلا قدم +دیکھتے ہیں حضرت ِ معر و ف شا ہ کے فیض سے +کفر کی تہذ یب میں دین محمد کا وقا ر +پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی۔ 20 جو ن1936کو جنتِ کشمیر ﴿آزا د﴾کے شہر چک سوا ر ی میں پیدا ہو ئے ،مگر میرا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کب پیدا ہوئے، کہا ں پیدا ہو ئے ۔ میرے لیے یہی بہت ہے کہ ایک نیکیوں سے بھر ے ہو ئے شخص نے جنم لیا۔ +ایک فقیر پیدا ہوا جس میں لو گو ں کے ہا تھو ں پہ رکھی ہو ئی دعا اور خدا کے درمیا ن رو شنی اور خو شبو کی طر ح وسیلہ بننے کی صلاحیت مو جو د تھی۔ ایک ایسے در و یش کی ولا د ت ہو ئی جس کی ظا ہر ی اور با طنی زند گی میں کہیں کو ئی عملی کم ما ئے گی نہیں دکھا ئی دیتی ۔ جس کا عمل اور جس کے لفظ پکا ر پکا ر کر کہہ رہے ہیں ،دیکھو کہ جو دیکھ سکتے ہو، سنو کہ جو سن سکتے ہو۔ یہ کوئی جوئے رو اں ہے، ازل سے ابد تک جا تی ہوئی جو ئے رو اں۔۔۔ یہ کو ئی محبت کا لا ز و ال سر چشمہ ہے جس کے سو تے کبھی خشک نہیں ہو تے ۔ یہ کوئی محبت کر نے والا شا عر ہے اور محبت کر نے والے کبھی نہیں مر ا کر تے، زمین کی چھا تی ان کے جذ با ت کو اپنے اند ر نہیں سنبھا ل سکتی ۔ تر کی زبان کے عظیم شا عر یو نس ایمر ے نے کہا تھا، +کیا میں کبھی پیدا ہو ا ہو ں۔ +کیا میں کبھی مر سکتا ہو ں +میں توایک جو ئے رو اں ہو ں جو ا ز ل سے ہے +اور ابد تک بہتی چلی جا رہی ہے +مجھے اس سے بھی کچھ غر ض نہیں کہ دیا ر کفر میں اسم محمد کا اجا لا پھیلا نے کے اس عمل میں کو ن کون ان کے ہم رکا ب تھا، کیونکہ ای��ے لو گ فر دِ وا حد نہیں ،ایک زند ہ و تا بند ہ تحر یک ہو تے ہیں۔ عشق ر سول �öکے دھڑ کتے ہو ئے دل کا نا م ہوتے ہیں اور وہ تحریک، وہ دھڑ کتا ہو ادل اس وقت ہم سے مطا لبہ کر رہا ہے کہ +دو ستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر +گلستا ن کی با ت رنگیں ہے نہ مے خا نے کا نا م +سلسلہ ئ نو شا ہیہ کے اس فقیر پر مبدا ئ فیا ض کی بے پا یا ں رحمتو ں کا نز ول ہو ا۔ قسمت مہر با ن تھی کہ وہ خا نوا دہ ئ غو ث اعظم کے چشم و چرا غ تھے۔ انہیں نو شہ گنج بخش کی وا رثت ملی ۔ وہ سید چرا غ عا لم شا ہ کے گھر میں پیدا ہو ئے اور قطب اقطا ب سید ابوالکمال بر ق شا ہ ان کے برا در بز ر گ تھے۔ انہوں نے اُس علمی ، مذ ہبی اور رو حا نی خا نوا دے میں آنکھ کھو لی جہا ں صر ف و نحو کی گر دانو ں سے لے کر علم لد نی تک قد م قد م پر بکھر ا ہو ا تھا۔ ما حو ل میں خو شبو ، رو شنی اور پاکیز گی رچی ہو ئی تھی۔ علم و ادب کے خزا نے انہیں ورثے میں ملے تھے۔انہیں اس خا ندا ن میں اٹھا یا گیا تھا جہا ں صد یو ں سے ما در زادو لی پید ا ہو تے چلے آر ہے تھے، جہا ں ما ئیں و ضو کئے بغیر بچو ں کو دو د ھ نہیں پلا یا کر تیں ۔ یعنی وہ ثو ا بو ں بھر ے آنگن میں کھیل کھیل کر بڑ ے ہو ئے ۔ ابتدا ئی تعلیم اپنے وا لد محتر م حضر ت پیر سید چرا غ عا لم شا ہ سے حا صل کی اور اپنے برادرم مکر م پیر سید ابو الکما ل بر ق شا ہ نوشا ہی سے سبق لینے لگے ۔والد گرا می کی وفا ت کے بعد پیر سید ابو الکما ل برق نوشاہی نے نہ صر ف ان کی علمی و ر و حا نی تز ئین کی بلکہ ان کی کفا لت کے تم معا ملا ت بھی اپنے ذمے لے لیے اور اس گو ہر نا یا ب کی ترا ش خر ا ش کا عمل شر و ع کر دیا۔ +28 جو ن 1953 کی ایک نیکیوں سے بھر ی ہو ئی اتوا ر کے دن پیر سید معر و ف حسین شا ہ نے اپنے رو حا نی سفر کا آغا ز کیا ۔جامع مسجد نو شا ہیہ ر نمل شر یف ضلع گجر ا ت میں اپنے بر ا ددر اکبر پیر سید ابو الکمال بر ق نو شا ہی کے ہا تھ پر سلسلہ ئ نو شا ہیہ کی بیعت کی اور را ہ طر یقت پر چل پڑ ے ۔ اپنے شیخ کا مل کی تو جہ ئ خا ص کی بد و لت بہت جلد طر یقت کی وہ تما م منا ز ل طے کر لیں جن کے لیے بر سو ں کی ریا ضت در کا ر ہو تی ہے اور خلا فت و نیا بت کے اعز از سے سر فرا ز ہوئے ۔ +نگا ہِ مر دِ مو من کے کر شمے دیکھنے والو +مسلسل ذکر میں مصر وف دھڑ کن کیسی لگتی ہے +بچپن سے لڑ کپن اور لڑ کپن سے جو انی تک آتے آتے اس رو حا نی تر بیت نے انہیں ذکر و فکر کے اس را ستے پر ڈا ل دیا تھا جہاں ہر قد م اجا لے کا قد م ہو تا ہے ۔جہا ں ہر نظر سو ر ج کی کر ن ہو تی ہے اور جہا ں ہر خیا ل کو ثر و تسنیم سے دھلا ہوا ہوتا ہے ۔ +سو ر ج جہا ں ہے ذا ت اجا لے جہا ں قد م +گر تا ہے جس مقا م پر صبحو ں کا آبشا ر +یو ں عد ل و انصا ف کے معا نی ہی بدل دیے گئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسا ن کا گھر اسکی جنت ہے وہ جس جگہ رہتا ہے اسکی حفا ظت ضر و ر ی ہو تی ہے۔ وہ بڑ ے ار ما نو ں سے اپنا گھر بنا تا ہے اسکی ایک ایک اینٹ پر اپنی محبتوں کی کہانیاں لکھتا ہے وہ اس میں اپنی محنت و مشقت سے کما ئی ہو ئی دو لت سمیٹ کر محفو ظ رکھتا ہے یا اسکی زیبا ئش و آ ر ئش پر صر ف کر تا ہے وہ دن بھر مختلف جگہو ں پر اپنا خو ن پسینہ بہا تا رہتا ہے اور اس جا نفشا نی کے بعد سکو ن حا صل کر نے کے لیے اُسکے قد م اپنے اسی گھر اور اسی جنت کی طر ف اٹھنے لگتے ہیں وہ شا م کو بڑ ی بیتابی سے گھر کی طر ف لو ٹتا ہے جیسے پرندے شا م کو اپنے آشیا نو ں کی طر ف لوٹتے ہیں۔ ایک مسلما ن بلا شبہ اپنے گھر با ر سے محبت رکھتا ہے او ر اسکی حفا ظت ضر و ر ی سمجھتا ہے اور جس ملک میں اس کا گھر وا قع ہو تا ہے ا س سے بھی اُسے پیا ر ہو تا ہے لیکن اسکی محبت کا اصل محو ر اللہ کی رضا ہے ارشا د خدا وند ی ہے ۔ +یعِباَ دِ یَ الَّذِیْنَ آمَنُوْ اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃ’‘ فَا ِ یَّا یَ فَا عْبُدْون 29/56 +﴿اے میرے وہ بند و جو میرے قو انین کی صد اقت پر یقین و ایما ن رکھتے ہو یقینا میری زمین و سیع ہے ، پس تم میری اور صرف میری محکومیت اختیا ر کر و ﴾ +جیسا پہلے لکھا جا چکا ہے آدمی کو گھر سے دل بستگی ضر و ر ہو تی ہے لیکن جب حکو مت اعلا ن کرتی ہے کہ خو فنا ک سیلا بی ریلا آرہا ہے تو ما ل و متا ع اور گھر با ر کی محبت کو اپنی زند گی پر قر با ن کر دیا جا تا ہے اور آدمی اپنی اور اپنے با ل بچوں کی جا ن بچا نے کے لیے گھر چھو ڑ نے میں ہی عا فیت سمجھتا ہے اور وہا ں سے نکل جا تا ہے ۔مسلما ن جا ن سے بھی زیا دہ ضر و ری حفاظت ایما ن کو سمجھتا ہے اور ہر ایک چیز اسی پر نثا ر کر دیتا ہے ۔یہا ں تو یہ عا لم ہو تا ہے +نک مہا ر سجن دی وار ث جتول کہو ے اُثول چل +﴿اے وا ر ث محبو ب نے ناک میں نکیل ڈا ل رکھی ہے وہ جد ھر کہے ادھر ہی چل ﴾ +اسی چیز کو ہجر ت کہتے ہیں یہی انبیا ئ اور با لخصو ص جنا ب سر و ر ِ انبیا ئ�ö کی سنت ہے ۔ +﴿میں اپنے رب کی طر ف جا رہا ہو ں﴾ یہی ہے اور +اِنّیِْ مُہَا جِر’‘ اِلیٰ رَبِیّْ اِنَہُ ھُوَ الْعَزِْ یز الْحَکِیمْo +﴿اپنے رب کی طر ف ہجر ت کر کے جا رہا ہو ں یقینا وہ غا لب اور حکمت وا لا ہے ﴾ +انبیا ئ کی طر ح اولیا ئ بھی ہجر ت کر تے رہے ۔تبلیغ و اشا عت اسلام کے لیے بھی اور سلا متی جا ن و ایما ن اور حصو ل رزقِ حلا ل کے لیے بھی ۔ارشا دِ ربا نی ہے +وَمَنْ یُہَا جِرْ فِیْ سَبِیْل اللّٰہِ یَجِدْ فِیْ الْاَ رْضِ مُرٰ غَماً کَثِیْرًاوَّسَعَہo 4/100 +﴿اور دیکھو جو کوئی اللہ کی راہ میں اپنا گھر با ر چھو ڑ کر ہجر ت کر یگا تو اسے خدا کی زمین میں بہت سی اقا مت گا ہیں ملیں گی اور ہر طر ح کی کشا ئش پا ئیگا ﴾ +ہجر تو ں کی کہا نی +یہ وا قعہ 14 اگست 1947 کے قر ب و جوا ر کا ہے ۔اس وقت پیر سید معر و ف حسین شا ہ کی عمر گیا رہ سا ل تھی۔ ان کے والد گر امی سید محمد چرا غ شا ہ کا انتقا ل ہوا اور انہیں اپنے خا ند ان کے سا تھ چک سوا ر ی کو الو د اع کہنا پڑ ا دراصل قیا م پاکستان کی وجہ سے کشمیر کے حا لا ت بھی بہت خر اب ہو گئے تھے ۔ڈو گر ہ حکومت نے مسلما نو ں پر مظا لم کی انتہا کر دی تھی اور کشمیر ی مسلما ن پاکستان کی طر ف ہجر ت کر نے پر مجبو ر ہو گئے تھے۔ ہر طر ف قتل و غا ر ت اور ظلم و تشد د کا با ز ا ر گر م ہو گیا تھا۔ چک سوا ر ی کا علاقہ بھی چو نکہ ڈو گر ہ حکو مت کے زیر اثر تھا اس لیے وہاںرہنا بھی مشکل ہو گیا تھا، خا ص طو ر پر پیر صا حب کے خا ندا ن کے لیے کیو نکہ اسلا م اور پاکستان کے سا تھ ان کی جو غیر مشر و ط محبت تھی وہ کسی سے پو شید ہ نہیں تھی، سو پیر صا حب نے پہلی ہجر ت کی اور اپنے خا ند ان وا لو ں کے سا تھ پا کستان آگئے ۔ +پاکستان آکر ان کے خا ندا ن نے جہلم ضلع کے ایک معر و ف قصبے دینہ میں قیا م کیا ۔ ان کے بڑ ے بھا ئی سید ابو الکما ل بر ق نوشا ہی طب ِیو نا نی میں بھی بڑ ی مہا ر ت رکھتے تھے سو انہوں نے دینہ میں دو ا خا نہ کھو ل لیا اور قد و س ِ ذو الجلا ل نے ان کے دستِ مبار ک کو مسیحا ئی عطا فر ما دی ۔یو ں بہت ہی کم وقت میں وہ شفا خا نہ پو رے علا قے میں مشہو ر ہو گیا۔ کشمیر کے حا لا ت تبد یل ہوتے ہی1951میں پیر صا حب اپنے خا ند ان کے سا تھ وا پس چک سوار ی لو ٹ گئے ۔کچھ عر صہ چک سوار ی میں رہے اور پھر خا ندا ن کے سا تھ ٹھل شر یف میںسکو نت اختیا ر کر لی ۔ +ٹھل ضلع جہلم کا ایک خو بصو ر ت قصبہ ہے۔ یہیں پیر صا حب نے اپنے برا در بز ر گ اور مر شدِ رو حا نی سیدا بو الکما ل بر ق نوشاہی سے تر بیت حاصل کی ۔ میٹر ک کا امتحا ن انہو ں نے گو ر نمنٹ ہا ئی سکو ل چک سوا ر ی سے پا س کیا ۔ اس کے بعد دا ر العلوم اہلسنت مشین محلہ جہلم شہر میں دا خلہ لے لیا اور بڑ ے بڑے جید اساتذہ سے تعلیم حا صل کی ۔اس کے بعد وہ مدر سہ غو ثیہ مور گا ہ را و لپنڈی میں آگئے جہا ں انہو ں نے مفتی صا دق گو لڑ وی جیسے صا حب بصیر ت و بصا ر ت سے اکتسا ب ِفیض کیا اور پھر اگلی منز ل کی طر ف رو انہ ہو گئے یعنی دا ر العلو م احسن المدا ر س را و لپنڈی میں پہنچ گئے جہا ں حضرت مو لا نا اللہ بخش ، حضرت مولانا حا فظ محمد عظیم اور حضرت مو لا نا اسرا ر الحق حقا نی جیسے نا مو ر اسا تذہ سے رو حا نی اور دینی علو م حاصل کیے ۔ مفکر اسلام حضرت عبدا لقادر جیلا نی سے فا رسی زبان کی تعلیم حا صل کی اور 1961 میں تمام علو م کی تکمیل کے اعزاز سے سرفراز ہو کر وا پس ٹھل شر یف چلے گئے مگر وہا ں قیا مت صغر یٰ کی صو ر تحا ل تھی ہر شخص کی زبا ن پر یہی تھا کہ منگلا ڈیم کی تعمیر ان کے گھروں کو بہا لے جا نے والی ہے۔ ان کے مکا ن، ان کے اجدا د کی قبر یں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی کے تلے آنیوا لی ہیں۔ وہ جو اپنے والد کی وفا ت کے بعد دو مر تبہ ہجر ت کے خو فنا ک عمل سے گز ر چکے تھے ایک تیسر ی ہجر ت انہیں دکھا ئی دے رہی تھی۔ ایک اور نقل مکا نی ان کے پا ئو ں میں تھی، ہجر تو ں کے اس تسلسل کو ختم کر نے کے لیے انہو ں نے ایک بڑ ی ہجر ت کا فیصلہ کیا اور اپنے برادر ِ بز ر گ پیر بر ق شا ہ کے مشو رہ سے بر طا نیہ جا نے کا پر و گرا م بنا لیا۔ یقینا پیر سید ابو الکمال بر ق شا ہ نو شا ہی کی دو ر س نگا ہ دیکھ رہی تھی کہ ان کا بر طا نیہ جا نا، سلسلہ نو شا ہیہ کے فیض کو عا لم گیر کر نے کی پہلی کڑ ی ہے اور پھر وقت نے یہ ثا بت کیا کہ اس ہجر ت نے سلسلہ ئ نو شا ہیہ کی شہر تیں چہا ر دانگ پھیلا دیں۔ ہجر ت کا عمل شرو ع ہوا پیر سید معر و ف حسین شا ہ نے بر طا نیہ ہجرت کی اور ان کا خا ندا ن ٹھل سے ہجرت کر کے ڈو گے منتقل ہو گیا یعنی ہجر ت مکمل ہو گئی بر طا نیہ میں اس نو جو ان کی آمد یقینا کئی تبد یلیوں کے امکان سا تھ لے کر آئی تھی ۔اس نو جو ان بھی نے ایک نئی دنیا سے متعا ر ف ہو نا تھا اور اس دنیا نے اس نوجوان کو بھی دیکھنا تھا کہ دنیا میں ایسے لو گ بھی ہو تے ہیں ۔ وہ نو جو ان بر طا نیہ کی گلیو ں میں گھو منے لگا اور یہ سو چنے لگا ۔ +دیکھتا پھر تا ہو ں اک دنیا گنا ہو ں سے بھر ی +یہ کہا ں لے آئے مجھ کو، ہجر تو ں کے سلسلے +بر طا نیہ میں نو شا ہی رو شنی کی پہلی کر ن +دو سر ی جنگ عظیم کے بعد لو گ کام کر نے کے لیے با قا عد ہ انگلستا ن آنا شر و ع ہو گئے تھے ،خا ص طور پر پچا س سے ستر کی دھا ئی تک بہت زیا دہ لو گ بر طا نیہ آئے ۔ ان کے آ نے کی و جو ہا ت دو طر ح کی تھیں ۔ ایک تو بر طا نیہ کی دم تو ڑ تی ہو ئی معیشت کو اپنی زندگی بچا نے کے لیے سستی اور بے زبا ن لیبر در کا ر تھی ا وربر طا نو ی حکو مت نے اس سلسلے میں بر صغیر پا ک و ہند سے یہ ضرورت پو ر ی کر نے کا فیصلہ کیا تھا ۔ دو سرا اس وقت پاکستان اور بر طا نیہ کے در میا ن ویز ے کی پا بند ی نہیں تھی کو ئی بھی شخص پاکستان سے یہا ں آکر آسا نی سے کا م ڈھو نڈ سکتا تھا اور پاکستان کے مقا بلے میں یہا ں کا م کر نے والے مز دو ر بہت زیا دہ اجر ت حاصل کر تے تھے ۔یہ 1960 کے مو سم سر ما کی دھو پ بھر ے دن کا وا قعہ ہے ۔ ایک شخص جو بر طا نیہ میں مز دو ر ی کر تا تھا کچھ دنو ں کے لیے واپس اپنے وطن گیا اور جب اس نے درِ نو شا ہی پر حا ضر ی دی تو اس کے بیٹھنے کے لیے با قا عدہ چا ر پا ئی پر چا در بچھا ئی گئی جو قد رے میلی تھی، جس پر اس شخص کے ما تھے پر شکنیں ابھر یں یعنی اس با ت پر نا لا ں تھا کہ وہ چا در میلی کیو ں تھی ۔ +پیرسید معر و ف حسین شا ہ ،ان دنوں نو جو ان تھے انہو ں نے یا د کیا کہ یہ وہی شخص ہے کہ بر طا نیہ جا نے سے پہلے جب کبھی ہمارے پاس آتا تھا اور اسے بیٹھنے کے لیے خس کی بنی ہو ئی چٹا ئی مل جا تی تھی تو یہ اپنے لیے اعزا ز سمجھتا تھا اور آ ج جب اسے چادر کا میلا ہو نا پسند نہیں آرہا اس تبد یلی کے پس منظر میں اس شخص کی معا شی استقا مت ہے۔ چند سال بر طا نیہ میں مز دو ر ی کرنے کی وجہ سے یہ شخص اور اس کا خا ند ان ما لی طور پر اتنا مستحکم ہو گیا ہے کہ علا قے میں ان لو گو ں کی حیثیت بد ل کر رہ گئی ہے +پیر صا حب نے پا سپو ر ٹ کے لیے اپلا ئی کیا تو پا سپو ر ٹ آفیسر نے ان کا با ر یش چہر ہ دیکھ کر کہا ’’ کیا آپ بر طا نیہ میں نماز پڑھا نے جا رہے ہیں ‘‘ پیر صا حب نے کسی نہ کسی طر ح اس وقت تو پا سپو ر ٹ آفیسر کو مطمئن کر لیا لیکن اس وقت یہ با ت نہ وہ پاسپو رٹ آفیسر جا نتا تھا اور نہ پیر صا حب جا نتے تھے کہ قد وس ذوالجلا ل نے انہیں لا کھو ں افرا د کی نماز و ں کی تکمیل کیلئے منتخب کر لیا ہے۔ ان کے مقدر میں وہ سعا د ت رقم کر دی گئی ہے جو بر طا نیہ کی تا ریخ ان سے پہلے کسی کو حا صل نہیں ہو ئی۔ پیر صاحب بھی اس وقت کچھ نہیں جا نتے تھے کہ آنے والی صبحوں میں ان کے متعلق کیا لکھا ہوا ہے ۔ +بر طا نیہ آنے سے پہلے پیر صا حب ایک شخص کو ملنے گئے جو تا زہ تازہ بر طا نیہ سے لو ٹ کر آیا تھا ۔وہ شخص جب بر طا نیہ گیا تھا تو اس کے چہر ے پر سنتِ رسول(ص) مو جو د تھی اور اب جب وا پس آیا تو اس نے کلین شیو کی ہو ئی تھی۔ پیر صا حب کو یہ با ت عجیب محسوس ہو ئی مگر اس با ت سے زیا دہ حیر ت وہا ں بیٹھے ہو ئے ایک نمبر دا ر کے عمل پر ہو ئی ۔ اس نمبر دا ر کو جب اس با ت کا علم ہوا کہ پیر صاحب بھی انگلستا ن جا رہے ہیں تو اس نے اس شیو کرا نے والے بر طا نیہ پلٹ شخص کی طر ف دیکھتے ہو ئے اپنے چہر ے پر ہا تھ پھیر تے ہو ئے اس طر ح کا تا ثر دیا کہ بر طا نیہ میں پیر صا حب کی دا ڑھی کا بھی وہی حا ل ہو گا جو ا س شخص کی دا ڑ ھی کا ہو ا ہے یعنی وہا ں جا کر پیر صا حب بھی کلین شیو ہو جا ئیں گے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب پیر صا حب کی اس نمبر دا ر سے برطانیہ میں ملاقات ہو ئی اور انہو ں نے اپنی دا ڑ ھی پر ہا تھ پھیر تے ہو ئے، اسے اس با ت کا احسا س دلا یا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکر م سے یہ اسی طرح مو جو د ہے جس پر اس بیچا رے نمبر دا ر کو بے پناہ شر مند گی ہو ئی۔ +لیکن اس شخص کی شر مند گی بہت کر بنا ک تھی جس نے نئے نئے آئے ہو ئے سید معرو ف حسین کا ایک دن زکام میں مبتلا دیکھ کر کہا ’’ تھو ڑی سی برا نڈی پی لیا کر و، یہ زکا م و کا م کبھی نہیں ہو گا ‘‘ اور پیر صا حب خا مو شی سے یہ جملے سن کر اس جگہ سے چلے گئے۔ مگر کئی بر سو ں کے بعد وہی شخص رو تا ہو ا پیر صا حب کی خد مت میں حا ضر ہو ا کہ حضور میرے لیے دعا کر یں مجھے میر ی بیوی اور بچے ما رتے ہیں اور گنا ہو ں کی دلد ل میں دھنسے جا رہے ہیں۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ تا کہ میں کیا کر وں پیر صا حب نے اس کے لیے دعا کی لیکن اسے یہ بھی ضر و ر کہا کہ آدمی جس طر ح کی فصل بوتا ہے اسی طر ح کی فصل کا ٹتا ہے اور پھر ایک دن اس شخص نے اپنی بیو ی اور بیٹی کو قتل کر دیا اور با قی زند گی بر طا نیہ کی جیلوں میں گزا ر دی ۔ +پیر صا حب 26اپر یل 1961میں انگلستا ن کی سر زمین پر وا رد ہوئے۔ بر منگھم میں قیا م کیا اور پھر چند ہفتو ں کے بعد بر یڈ فور ڈ آگئے بر یڈ فو رڈ اس وقت ٹیکسٹائل کی صنعت کے حوالے سے پو ری دنیا میں مشہو ر تھاا س شہر میں کپڑا بنا نے کی بے شما ر ملیں تھیں ۔با ہر سے آنے والو ںکو یہا ں آسانی سے کا م مل جا تا تھا اور اس شہر میں بہت سے ایسے لو گ ملوں میں بھی کا م کرتے تھے جن کا تعلق آزا د کشمیر سے تھا ۔ سو پیر صا حب بھی دو سرو ں کے نقشِ قد م پر پا ئو ں رکھتے ہوئے بر یڈ فورڈ آگئے اور ایک دیا نتد ا ر ہنر مند کی طر ح فیکٹر یو ں میں کا م کر نے لگے ۔ شر و ع ہی سے پیر صا حب زیا دہ تر را ت کی شفٹ میں کا م کرتے تھے اور ریٹا ئر منٹ تک زیا دہ تر رات کی شفٹ میں ہی کا م کیا ۔ اس سے ان کو یہ فا ئدہ ہو ا کہ دن کو انہیں دین اسلام کے کا مو ں کے لیے کا فی وقت مل جا تا تھا ،ویسے تو رات بھر کا م کر نے والے لو گ دن کو صر ف آرام سے سو تے ہیں مگر پیر صا حب نے اپنی نیند وں کو اپنے دین کی خا طر قر با ن کر دیا۔ وہ بہت کم وقت میں اپنی نیند پوری کر لیتے تھے اور پھر دین کے کا مو ں کے لیے نکل کھڑ ے ہو تے تھے اس نیند کی قر با نی نے یو ر پ میں اسلا م کے فر و غ میں بڑ ا اہم کر دا ر اد اکیا۔ ذرا سو چیے را ت کو آٹھ دس گھنٹے فیکٹر ی میں کام کر نے والے شخص کے پا س اسلام کی تبلیغ کے لیے کتناوقت ہو تا ہو گا۔ لازمی با ت ہے ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو فیکٹر ی آنے جا نے میں بھی لگتا ہو گا پھر اس وقت کھا نا بھی خو د پکا نا پڑ تا تھا اور اگر دو وقت کھا نا پکا یا جا ئے تو دو تین گھنٹے اس میں بھی لگ جا تے ہیں، پھر صحت مند رہنے کے لیے پانچ چھ گھنٹوں کی نیند بھی انسا نی جسم کے لیے ضر و ر ی ہے ،ایسی صور تحا ل میں پانچ وقت کی نماز با جما عت ادا کر نا بلکہ اما م کی حیثیت سے نما ز پڑ ھا نا اور پھر دین اسلام کی تبلیغ کے لیے گلی گلی شہر شہر جا کر لو گو ں کو اکٹھا کر نا اور یہ سب کچھ اپنی جیب سے کر نا ،اسی رقم سے کر نا جو را ت بھر فیکٹری میں کا م کر نے سے حاصل ہو تی ہے کو ئی آسان کام نہیں ۔ +پیر صا حب جب بریڈ فو رڈ میں آئے تو انہیں یہاں کے مسلما نو ں کی حالت زار دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ یہا ں بہت سے پاکستانی اور کشمیر ی لو گ رہ رہے تھے جو اپنے دین کو مکمل طو ر پر بھلا چکے تھے، لہو و لہب میں ڈو بے ہو ئے تھے ،شرا ب کا چسکا لگ چکا تھا جوئے کی عا دت پڑ چکی تھی، با زا ر ی عو ر ت زند گی کا حصہ بن گئی تھی، لو گ دینی معا ملا ت سے تقر یبا ً نا آشنا اور لا تعلق ہو چکے تھے ۔ نما ز روزہ تو کہا ں کسی کو یا دتھا لو گو ں کو تواس با ت کی بھی خبر نہیں تھی کہ عید آئی ہے یا نہیں اور لوگ یہ جا ننے کی ضر و ر ت محسوس نہیں کر تے تھے ۔ان کا خیا ل تھا کہ اس ملک میں مسلمان بن کر رہنا شا ید بیو قو فی ہے ۔ یہاں ہمیں گوروں کی طر ح رہنا چاہیے اور اس طر ح رہنا نہ صر ف عقل مند ی کی علا مت ہے بلکہ ہما ری مجبو ری بھی ہے ،سو تقر یبا ً زیا دہ تر لو گو ں نے اپنی زندگیو ں کو گور وں کے سٹا ئل میں ڈ ھال رکھا تھا ۔پانچ دن پو ری طر ح کا م کر تے تھے اور دو ن جو کچھ کما تے تھے وہ گوریوں اور شرا ب خا نو ں میں لٹا دیتے تھے ۔ہر معا ملے میں گو ر وں کے نقشِ قد م پر چلنے کی کو شش کر تے تھے ۔ عید نہیں منا تے تھے مگر کرسمس میں ضر و ر دلچسپی لیتے تھے، اجتما عی سطح پر گنا ہو ں میں شر یک ہو تے تھے ۔کسی کو کسی کا کو ئی شر م و حیا نہیں تھا۔ با پ اور بیٹا اکٹھے بیٹھ کر شرا ب پینے میں عا ر محسو س نہیں کر تے تھے۔ دنیا کی وہ تما م بر ائیاں جو انگر یز کلچر کا حصہ ہیں مسلما نو ں نے اپنا رکھی تھیں اور یہ سب کچھ پیر صا حب کے لیے بہت تکلیف دہ تھا ۔ انہیں اس با ت کا کچھ احسا س تو یہاں آنے سے پہلے بھی تھا، لوگوں سے یہاں کے متعلق بہت سی با تیں سن رکھی تھیں مگر اپنی آنکھوں سے مسلما نو ں کو دو زخ کی پستیوں میں گر تا ہو ا دیکھ کر انہیں بہت افسو س ہو تا تھا سوا نہوں نے اپنے اوپر یہ فر ض کر لیا کہ یہاں کے مسلما نو ں کو جہنم کی پستی سے نکا لنا ہے، انہیں اس بات کا احسا س دلا نا ہے کہ تم مسلما ن ہو اور مسلما ن کیسے ہو تے ہیں۔ +شر و ع شر و ع میں اس سلسلے میں انہیں بہت تکلیفیں اٹھا نی پڑیں ۔لو گو ں نے ان کی بہت دل شکنی کی بلکہ یہاں تک کہا کہ یہ شخص دا ڑ ھی رکھ کر انگلستا ن کیو ں آگیا ہے۔ اسے اگر اپنے مذہبی فر ائض سر انجا م دینے تھے تو یہا ں آنے کی کیا ضرو ر ت تھی مگر پیر صا حب کے سینے میں ر و حا نیت کی شمع فر و ز اں تھی سو اس نے انہیں کبھی ما یو س نہیں ہو نے دیا۔ اسکے اند ر کے انسا ن نے پیر صاحب کو ہمیشہ احمد افرا ز کے الفا ظ میں یو ں حوصلہ دیا۔ +یہ جس مسافت پہ ہم چلے ہیں +وہ حر ف حق کی مجا ہد ت ہے +ہمیں نہ جا ہ و حشم ، نہ ما ل منا ل کی آرزو ر ہی ہے +نہ ہم کو طبل و علم ، جمال و جلا ل کی آر ز و رہی ہے +کہ جس کی حر مت کی آگہی +ہم فقیر و ں کا کل اثا ثہ ہے، آبر و ہے +پیر صا حب نے اپنی زند گی اسی فقیر ی میں گزا ر دی۔ اپنی اک اک سا نس بر طا نیہ اور یو ر پ میں بھٹکتے ہو ئے مسلما نو ں کو راہ راست پر لا نے میں خر چ کر دی ۔ +پیر صا حب جب بر یڈ فو ر ڈ آئے اور جس مکا ن میں قیا م کیا اس میں ان سے پہلے چو بیس آدمی رہتے تھے انہوں نے دیکھا کے ان چو بیس میں سے اکثر وہ تما م کا م کرتے ہیں جن کی اسلا م میں کو ئی گنجا ئش مو جو د نہیں انہو ں نے اس مکان میں باجماعت نما ز پڑ ھا نے کا سلسلہ شر و ع کیا ۔کچھ لو گو ں کا وہ بہت بر ا لگا مگر اتفا ق سے ما ہ رمضا ن کا مہینہ تھا سو مکان میں رہنے والے سا تھیو ںنے شر مسا ر ہو کر ان کا سا تھ دینا شر و ع کر دیا۔ اس وقت ان تما م سا تھیوں کا یہ خیا ل تھا کہ ما ہ رمضا ن ختم ہونے پر پیر صا حب نما ز و ں کا سلسلہ منقطع کر دیں گے اور رفتہ رفتہ انہی جیسے ہو جا ئیں گے مگر صور ت حال مختلف ثا بت ہوئی یہ نو جو ان کو ئی عجیب و غر یب شخص تھا ۔ ایک طر ف ایک دنیا تھی ایک طر ف وہ ایک اکیلا ۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اکیلا نہیں تھا اس کی پشت پر تو سلسلۂ نو شا ہیہ کے بڑ ے بڑ ے ولی مو جو د تھے۔ اسکے قدم کیسے ڈگمگا سکتے تھے ۔ +وہ حا لا ت کے سیلا ب میں بہنے والو ں میں سے نہیں تھا اس نے ایک لمحہ ضا ئع نہیں کیا اور ظلمت اور گمرا ہی کے اند ھیر وں کے سا منے پو ری استقا مت سے کھڑ ا ہو گیا اور اپنے عمل سے لو گو ں کو بتا نا شر وع کر دیا ۔ +سال کے چا ر دہم سینکڑ ے پلکو ں پہ رکھو ں +میر ی تہذ یب کا حاصل ہیں عقا ئد میرے +پیر صا حب نے اپنے اجدا د کے نقشِ کف پا پہ چلتے ہو ئے یہ ثا بت کیا کہ ان کی رگو ں میں جو خو ن دو ڑ رہا ہے اس میں پاکیزگی ہے ، سچا ئی ، دیا نت ہے ہمت اور قو ت ہے ۔ اسی خو ن کا ،اسی ما ں با پ کی تر بیت کا کر شمہ تھا کہ پیر صا حب مشکل ترین حا لا ت میں اپنے کا م کو آگے بڑ ھا تے چلے گئے۔ رہ ِ یا ر کو قد م قدم یا د گا ر بنا نے والی اس شخصیت کا لب و لہجہ اور اس کی سائیکی اپنے ہر عمل میں یہی بتا تی رہی +والد ہ سنتِ نبو ی کا نمو نہ تھیں مر ی +اور مضبوط عقید ہ کے تھے وا لد میرے +پیر صا حب نے سب سے پہلے ان لو گو ں کو تلا ش کر نا شر و ع کیا جن کے اندر کہیں ایما ن کی کو ئی رمق بچی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب یہ سب اپنی ا صل کی طر ف لو ٹ آئی�� گے مگر ایسے احبا ب کی اشد ضر و رت تھی جو ان کے شا نہ بشا نہ چل کر لو گو ں کو دین کی طر ف لا نے میں ان کی مد د کر یں۔ پیر صا حب کی گو ہر شنا س نگا ہ نے بہت کم وقت میں ایسے سا تھی تلاش کر لیے جن کے دلوں میںابھی دین محمد ی کا چرا غ ٹمٹما رہا تھا اور پھر ان لو گو ں کی طر ف تو جہ شر و ع ہو ئی جن کی زندگیاںشر ا ب کی بو تل میں بند ہو چکی تھیں۔ جو سینما بینی کو خو بصو ر تی سمجھتے تھے۔ جنہیں سر عام بے حیا ئی میں کسی شر مند گی کا احسا س نہیں ہو تا تھا ۔ ان لو گو ں نے بھی پیر صا حب کو اپنے عمل سے با ز رکھنے کی بڑ ی کوشش کی، ان کے را ستو ں میں بڑ ی بڑی رکا و ٹیں کھڑ ی کیں، مگر پیر صا حب بھی حو صلو ں اور ارادوں کی مضبو ط چٹا ن ثا بت ہو ئے ۔ جنہیں کو ئی ایک انچ بھی سرکانے میں کا میا ب نہیں ہو سکا ۔ بلکہ دنیا خو د پیر صا حب کے رستے پر چلنے لگی ۔ +میں اکیلا ہی چلا تھا جا نب منزل +لو گ آ تے گئے کا روا ں بنتا گیا +حلقہ ئ احبا ب میں اضا فہ ہو تا گیا ۔وہ لو گ جو کل تک شرا ب و شبا ب میں ڈو بے ہو ئے تھے انہیں بھی رو شنی کی کر ن دکھائی دینے لگی اور دنیا پیر صاحب کے ارد گر د جمع ہو تی چلی گئی ۔یو ر پ کے عبر ت سر ائے جسم و جا ں میں مسلما نو ں کی موجو دگی کا احسا س ہونے لگا اور اب ضر و ر ت اس با ت کی محسو س ہو نے لگی کہ ان لو گو ں کو کیسے منظم کیا جا ئے اور ایک تحریک کی صو رت میں اس کا م کو آگے بڑ ھا یا جا ئے تا کہ زیا دہ سے زیادہ لو گو ں تک روشنی پہنچ سکے۔ +مد ح پیر سید معر و ف حسین شا ہ نو شاہی +پیر پیراں حضرت سید معرو ف حسین شا ہ نو شاہی نے زند گی کو خدا کی اما نت سمجھا اور اس احسا س کے سا تھ گزار رہے ہیں کہ +ایک ایک قطر ہ کا مجھے دینا پڑا حساب خو ن ِ جگر و دیعتِ مثر گا ن یا ر تھا +ان کے شب و روز جس جہاد میں گزر رہے ہیں اسکی تفصیل آگے آرہی ہے پہلے ذر ا شعرو ں میں جا مع تعا رف ہو جائے۔ پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شاہی کے متعلق اہل علم و قلم نے بہت کچھ لکھا، مگر میں سمجھتا ہو ں کہ اُن کی ذا ت کے لیے سب سے بڑا عزا ز سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کی نظم ہے جو انہو ں نے ہا لینڈ میں اُن کے لیے کہی تھی ۔قطب ارشا د سید ابو الکما ل بر ق نوشاہی وہ شخصیت ہیں جن کے ہا تھ پر پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی نے بعیت کی تھی وہ انکے بڑے بھا ئی بھی تھے اور جب کوئی مرشد، کو ئی بڑ ا بھا ئی اپنے مر ید یا اپنے چھو ٹے بھا ئی کے متعلق نظم لکھتا ہے تو وہ اسی صو ر ت میں لکھی جا سکتی ہے جب وہ مر ید، وہ چھو ٹا بھا ئی اپنے ذا ت میں ایسی صفا ت رکھتا ہو کہ جن پر مر شد ناز کر سکے، قطب ار شا د ابو لکما ل بر ق نو شا ہی لکھتے ہیں ۔ +شب الحادِ مغر ب ہو گئی سہا ب پا جس سے +وہ کی معرو ف نو شاہی نے ایما ں کی سحر پیدا +نہاں، امرو زِ روشن میں ہے اک فرد ائے روشن تر +تما شا کر اگر ہے دید ہ و دل میں نظر پیدا +کئی صد یو ں کی ظلمت نو ر سے جنکے گر یز اں ہو +نہیں ممکن کہ ہو ں ہر دور میں وہ راہبر پیدا +’ ہز ا ر و ں سا ل نر گس اپنی بے نو ر ی پر رو تی ہے +بڑی مشکل سے ہوتا ہر چمن میں دیدہ ور پیدا‘ +قطب ارشاد ابو الکمال بر ق نو شاہی نے اس نظم میں پیر صا حب کی جو صفا ت بیا ن کی ہیں اس میںکوئی شک نہیں کہ پیر صاحب میں وہ تمام صفا ت مو جو د ہیں۔ پیر صا حب وا قعی ایک رہبر کا مل ہیں، وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے با رے میں اقبال کا یہ شعر کو ڈ کیا جا سکتا ہے کہ +ہزارو ں سا ل نر گس اپنی بے نو ر ی پر رو تی ہے +بڑ ی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا +قطب ارشا د ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کے علا وہ بھی بہت سی شخصیا �� نے پیر صا حب کی مد ح میں بہت کچھ لکھا ہے۔ قمر یز دانی کا نذ را نہ عقید ت بھی اس با ت کا اظہا ر کر تا ہے کہ کیسے کیسے قا در العلو م شا عر پیر صا حب کی عظمتو ں کے معتر ف ہیں اور اُن کے مد ح خو اں ہیں۔ قمر یز دا نی کہتے ہیں۔ +شہِ روحانیاں فخر المشا ئخ +مطاع این و آں فخر المشا ئخ +محبت کی زباں فخر المشا ئخ +خدا کے ترجما ں فخر المشا ئخ +خودی کے راز داں فخر المشا ئخ +خطیب حق بیا ں فخر المشا ئخ +فقیہہ نکتہ داںفخر المشا ئخ +شہیدِ عشق محبو ب دو عالم +وہ سر خیلِ گر وہ اغنیا ئ ہیں +ہیں مر دِ را ہ داں فخر المشا ئخ +انیس ِدر د مندا ںِزمانہ +سبھی کے مہر با ں فخر المشا ئخ +جہا ں میں اولیا ئ و اتقیا کے +امیر کا رو اں فخر المشا ئخ +وہ اخلا ق و محبت کے بلا شک +ہیں بحر بے کر اںفخر المشا ئخ +حریم بر ق نو شاہی کی زینت +وقا ر ِ خا ند اں فخر المشا ئخ +بلا شک ہیں جما ل قا دریت +ہیں معرو ف جہاں،فخر المشا ئخ +ہے نو شہ پور شریف اُن سے در خشا ں +معین و احسن اور سید حسن کے +بیاں او ج مر ا تب کا ہو کیسے +ہیں یکتا ئے زماں فخر المشا ئخ +ہے ان سے نو شہ پورکی زیب و زینت +مہا ربے خزا ں فخر المشا ئخ +ہو پاکستا ن یا بر طا نیہ بھی +چہ نسبت خا ک رابا عالم پاک +کہا ں ہم اور کہا ں فخر المشا ئخ +قمر یزدانی ان کا مد ح خو اں ہے +ہیں اس کی جا نِ جا ںفخر المشا ئخ +قمر یر دانی کے اس نذرانہ ئ عقید ت کو پڑ ھ کر اس با ت کا بھی احسا س ہو تا ہے کہ پیر صا حب رو حا نی سطح پر کس مقا م پر فا ئز ہیں اور ان کے چا ہنے والے انہیں کس نگا ہ سے دیکھتے ہیں ۔ +پنجا بی زبا ن کے شا عر محمد ابر اہیم عا صی کچھ اس انداز میں پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف نو شاہی کی شا ن میں رطب اللساں ہیں۔ +پیر سید معرو ف حسین عا ر ف مر دِ قا در ی نیک انسان جیو ے +مبلغِ اسلام مشہو ر عالم خدمت دیں اندر انگلستا ن جیوے +میں نے بھی پیر صا حب کی شا ن میں ایک نظم کہی ہے جس میں یو رپ کے گنا ہ آبا د ما حو ل میں دین اسلا م کی شمع جلا نے کے حوالے سے پیر صا حبص کی مدح سر ائی کی گئی ہے ۔ +دیکھتے ہیں حضرت معرو ف شاہ کے فیض سے +کفر کی تہذیب میں دین محمد(ص) کا وقا ر +پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا رف نو شاہی کے ایسے ایک منظوم مکتوب جو انہیں قطب ارشا د ابو الکما ل بر ق نو شاہی نے لکھا ۔ اسے پڑ ھ کر اس با ت کا احسا س ہو تا ہے کہ قبلہ قطب ارشا د پیر صا حب سے کتنی محبت کر تے ہیں یقینا پیر صا حب کواپنے بھا ئی اور اپنے مر شد کی یہی محبت رو حا نیت کے ان مدا ر ج کی طر ف لے گئی ہے ، جو تصوف کی دنیا میں ہر طالب کا مطلو ب ہو تے ہیں، وہ لکھتے ہیں ۔ +’’ بنا م سر اج السا لکین پیر سید معر وف حسین شا ہ عا ر ف نو شاہی مقیم بر یڈ فو رڈ انگلینڈ +رکھے رب سلامتی نا ل تینو ں آرز و میرے وال وال دی اے +ترے باہجھ نہ چین قرا ر دل نو ں گھڑ ی فر قتا ند ی سو سو سال دی اے +رکھی دلا ند ے دکھ نو ں ویکھ کے تے نو ک قلم پئی نیرا چھال دی اے +تیرے ہجر دے گئے نی چیر سینہ ہو یا کالجہ مثل غر بال دی اے +پلک پلک اندر کر اں یا د تینوں اگ فر قتاں دی جگر جا ل دی اے +یک یک سا ہ مر چ سو سو طو فا ں غم دے شا مت اپنے کے اعما ل دی اے +عجب بدلیا رنگ تقر یر مری بھا نبرنویں توں نوا ں پئی با ل دی اے +گئے بیت اوہ سمے آزا د یاں دے آئی سر یتے گھڑ ی زوا ل دی اے +بند بندا سیر کمند اندر قدم قدم تے پھا ہی جنجا ل دی اے +کد ے بحرفر اق وچ کھاں غو طے ، کد ے طبع وچ مستی ابا ل دی اے +کد ے یا دو چھیناں بیلیاں دی کد ے فکر اذ کا را شفا ل دی اے +کد ے اپنے آپ تھیں دو ر دسا ں، کدے سو چ سب اہل اعیا ل دی اے +میری��ں ویکھ پر وا ز یاں نو ں رو ح تڑفدی پئی اقبال دی اے +اب عشق دا بھا ر نبا ہ دیو ے خو اہش سدا جا م اتصا ل دی اے +ما ہی ، با بجھ ہر شے من دو ن اللہ کوئی حر ص نہ ما ل منا ل دی اے +سر و ر ویر نو ں کیئں سلام میرا نالے جو سنگت تر ے نال دی اے +کر کے یا د حسنا ت دن را ت تینو ں فو ٹو انگلیاں نال دسا ل دی اے +گلا ں مٹھیاں نال پر چائے سا نو ں تیرے پتے نت پچھد ی بھا ل دی اے +تیرے خطا ں نو ں چم کے لا ئے سینے نال شو ق پیار سنبھا ل دی اے +بھا ئیاں با ھجھ نہ ونڈ دا در د کوئی دنیانال بہا نیاں ٹا ل دی اے +سکھ چین اقبا ل نصیب ہو وی ایہو انتہا ئ میرے احوا ل دی اے +مکن وچہ نہ آوند ی مول ویرا لمی دا ستان رنج ملا ل دی اے +جانے رب کد ملا ں گے پھر مڑ کے فکر کو چد ے کھر ے گھڑ یا ل دی اے +عا ر ف ہویں معروف کو نیں اند ریہ دعا بر ق ابو الکما ل دی اے +مکتو با ت بر قیہ +اس خط میں قطب ارشا د ابوالکما ل بر ق نو شاہی نے پیر صا حب کو ’’ سرا ج السا لکین‘‘قرار دیا ہے ۔ ایک خط میں وہ ’’ سراج العا رفین ‘‘ لکھتے ہیں ، اس با ت میں کو ئی شک نہیں کہ قطب ارشا د ابو لکمال بر ق نو شاہی رو حا نیت کے اس مقام پر فا ئز تھے جہاں آدمی کسی شخص کے با طن میں جھا نکنے کی قو ت رکھتا ہے اس لیے میں سمجھتا ہو ں کہ اگر قطب ارشا د ابو لکمال بر ق نو شاہی نے پیر صاحب کو سرا ج اسا لکین اور سرا ج العارفین لکھا ہے تو وہ یو نہی انہیں ان خطا با ت سے نہیں نواز سکتے ، دو سرا خط ملا حظہ کیجئے۔ یہ خط وا لد ہ کی وفا ت کے مو قع پر انہو ں نے پیر صاحب کو لکھا تھا ۔ +بنام’’ سرا ج العا رفین مبلغ اسلام حضرت پیر سید معرو ف شا ہ عا ر ف نو شاہی با نی حمیتہ تبلیغ الا سلام بریڈ فو رڈ انگلستا ن +اول رب دی سب تعر یف آکھا ں بے نیاز مو لیٰ ذو الجلا ل ویرا +اوہ ہے حییّ قیو م کر یم قا در اس دی ذا ت نو نئیں زوا ل ویرا +بعد حمد نعتِ مصطفی لکھاں ختم جنہاں تے سا ر ا کما ل ویرا +پڑ ھا ں نت درود سلا م ادبو ں اپر ّنبی کر یم دی آل ویرا +میر اں پیر حقیقت ذا ت ازلی اند ر اولیا دے بے مثا ل ویرا +سید پیر نو شہ کیتا جگ ر وشن فقر قا دری د ا دیو ا با ل ویرا +حضر ت بحرِعلو م دی ذا ت اگے سجد ے ادب مر ے کر ن ابد ال ویرا +اس تھیں بعد سلام سنوں تحفہ کر اںپیش محبتا ں نال ویرا +لکھاں بعد سلام احوال سا را نینوں خو ن دی ند ی اچھا ل ویرا +اکی ما ہ رمضان شریف دی نوں کیتا وا لد ہ نے انتقال ویرا +قا صد وچ ٹو پے عثما ن دتا آن پیغا م و صا ل ویرا +لگا تیر کلجیڑے وچ آکے آئے دلے وچ سو سو ابال ویرا +ٹر یا ا ٹھ بے وس مجبو ر ہو کے قد م چکنا ں ہو یا محال ویرا +بہتا چک سوا ر ی شر یف اند رآن دیدا ر جما ل ویر ا +اج با غ ِامید ویرا ن ہو یا کیتا روز آرنج و ملال ویر ا +کوئی واہ دو انہ مول چلی لا یا مو ت صیا د ے جال ویرا +سایہ ما پیا ند ا بے شک ظل ربی ایدے وچ نہ شک روا ل ویرا +ہے افسو س اج اسیں محرو م ہوگئے مر ضی جیو یں اب لا یز ال ویرا +سنجا ںبستر ا ویکھ کے بلن بھا بڑاگ فر قتا ں دی رہی جا ل ویرا +اکھا ں سا منے پاک تصو یر پھر دی کسے وقت نہ بھلداخیا ل ویرا +روز جمے دے بعد عشا ہورا ں کیتاجنتوں آ ستقبال ویرا +کلمہ پڑ ھد یا ں رو ح رواںہو یا کیتا رب بلند اقبال ویرا +دو ر دو ر تو ڑیں لوگ آن پتے کر ن راز یا ں ہو کے بے حال ویرا +آکے وچ جنا زے دے ہو ئے شا مل غو ث قطب او تا ر ابدا ل ویرا +تو بہ کنب گئے زمیں آسما ن ستے آندامو ت نے سخت بھو چال ویرا +مخلو قا ت دے وچ تڑ خا ٹ آ یا رنی خلق سا ری پلے ڈال ویرا +سر و ر شا ہ نا لے پیر ویر دنو یں رور وکے ہو ئے نڈ ھا ل ویرا +صغرٰ ی فا طمہ ��وربیتا ب ہوئی غشا ں کھا وند ی ہوئی بے حا ل ویرا +کون چپ کر اوس رونڈری نو ں دکھیں رو ند یاں گذر سن سا ل ویرا +صبح و شا م کر آہ وففاںعا جز کڈھے ولید ے پئی ا با ل ویرا +اچن چیت و چھو ڑے دی وا جھلی ظا لم مو ت دتی اگ با ل ویرا +آتش غماد ی اس طر ح بھڑ ک اٹھی دتوس حا ل میرا وال وال ویرا +کون سنے فر یا د فریادں دی آئی با ہجھ ہے مر ن بحا ل ویرا +الو دا ع پکا رکے اٹھ چلے ہیں رونقا ں جہان دے نال ویرا +میرے دل دی دلی بر با د ہو ئی ہو یا کا لجہ مثل عر با ل ویرا +کس نو ں درد مسکین مسا فر اند ا کو ن دکھیا ند ی کر سی بھا ل ویر ا +جہا ں دلاں نو ں درد اسا ڈ اسی ستے وچ قبرا ں پر دے ڈا ل ویرا +دید انہاں دی اکبر ی حج ہیسی اے پر اج نہ کیتا جما ل ویرا +بد نصیبا ں رکھیا دور مینو ں حا ئل راہ وچ رہے جنجا ل ویرا +نالے امر انج قادر قد یر داسی دیند ا کیویں قضا میں ٹا ل ویرا +راضی ہا ں میں جیو یں رضا ربی کر اں عذر کی میر ی مجا ل ویرا +کیتا رب پر دیس نصیب اندر بختاں بھیڑ یا ں پاکے وبا ل ویرا +رب جا ندا حال دکھیا ریا ں دا اوکھی فر قتا ں دے وچ حا ل ویرا +کر اں گلہ کی گر د ش فلک دا میں قسمت اپنی اپنے نا ل ویرا +اگے تیرے فر اق نے ما ریا سی اتوں ہو ر پے گیا ز و ال ویر ا +گلا ں دل دیا ں دل دے وچ رہیاں جا سن حسر تا ں وچ قبر نا ل ویرا +اک جا ں تے درد ہز ا ر لکھاں سر تے کھڑ ک دا مو ت گھڑ یا ل ویرا +عین حق حقیقت عشق ازلی ہو ر خا م تما م خیا ل ویرا +حق حق تحقیق نہ شک کو ئی پر دہ دو ئی دا اہل و عیا ل ویر ا +انہاں راز حقیقت نو ں سمجھیا اے پیتا جنہاں کا سات الو صال ویر ا +ہو کے آپنے آپ وچ گم اوہ تے بنے محر م حرمِ جلا ل ویرا +جنہاں آپنا آپ اجا ڑ یا ئی پیتے اوہ وچ بز م و صا ل ویرا +دیر و حرم دی قید و ں آزا د ہوئے جہڑ ے عشق نے کیتے حلا ل ویرا +اینو یں طبع دی تیز پر وا ز ہوگئی بڑے دو ر ٹرگیا خیا ل ویرا +گھوڑا قلم دا صفحے قر طا س اتے انجے ٹر پیا اوپر ی چا ل ویرا +رکھے رب سلا متی نال تینوں صبح و شا م میں کر اں سوال ویرا +نو شہ پیردیاں کر م فر ما یاں تھیں ودھی روز بر وز اقبال ویرا +میری خو شی ایوکفر ستا ن اندر رکھیں شمع تو حید دی با ل ویرا +لکھیا چک سوا ر یوں خط تینوں آیا دلے وچ جو ش ابا ل ویر ا +سولا ں فر و ر ی ہجر دی رات کالی لکھی داستان رنج و ملا ل ویرا +تیرے ملن دی سک بیتاب کیتا گھڑی فر قتا ند ی وا نگوں سال ویرا +کلمہ نبی دا آکھ زبان وچوں روکے قلم بر ق ابو الکما ل ویرا +﴿ مکتو با تِ بر قیہ صفحہ 249﴾ +اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو با قی اقوام عِا لم میں امتیا زی حیثیت عطا کر تے ہوئے اُس کا فر یضہ بھی وا ضح کر دیا۔ +کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلناّ س تَا مَرُ وْنَ بِا لْمعْرُوْ فِ و تَنْھَوْ نَ عَنِ الْمنْکَرِ +﴿تم وہ سعا د ت مند امت ہو جسے نسل انسانی سے چھا نٹ کر الگ کر لیا گیا ہے تا کہ تم امر با لمعر و ف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجا م دو﴾ +بھلا ئی کو فرو غ دینا اور برا ئیوں سے رو کنا، یہ ہے امتِ مسلمہ کے ہر فر د کا فر یضہ ۔ اس فر یضہ کو جنا بِ رسالتما ب �ö نے جس اندا ز سے سر انجام دیا، مسلما نو ں کو بھی اسی انداز میں یہ فر یضہ سر انجا م دینا چا ہیے کیو نکہ +لَقَدْ کَا نَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْ لِ اِللّٰہِ اُسْوَ ۃ’‘ حَسنَۃ’‘ +﴿تمہا رے لیے رسو ل اللہ �ö کی زند گی میں حسین تر ین نمو نہ ہے﴾ +اس ارشا د کے مطا بق حضو ر �ö کے اندا ز ہا ئے تبلیغ میں سے کسی ایک طر یقہ کو وقت اور ما حو ل کے تقا ضو ں کو دیکھ کر اپنانا ہے سب سے پہلی با ت تو یہ ہے کہ تبلیغ کر نے والے کے قو ل و فعل میں مطا بقت ہو نی چا ہیے۔ اہل کتا ب کے مذہبی پیشوا ئو ں کی فر دِ قرا ر دا دِمجر م سنا تے ہو ئے قرا ٓن حکیم نے انہیں مخا طب کر تے ہو ئے کہا ۔ +﴿کیا لو گو ں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو ا ور اپنی جا نو ں کو بھو ل جا تے ہو ﴾ +شعرا ٔ کی زند گی کا بھی ایک بد تر ین پہلو اجا گر کرتے ہو ئے فر ما یا۔ +وَ اَنَّھُمْ یَقُوْلونَ مَا لَا یَفْعَلُوْن +﴿اور وہ زبا ن سے وہ با تیں کہتے ہیں جن پر خو د عمل نہیں کر تے﴾ +حضو ر �ö کے قو ل و فعل میں انتہا در جہ کی مطا بقت رہی۔ اس لیے اسلام کے ہر مبلغ کو یہی انداز اپنانا چاہییہر مبلغ کا فر ض ہے کہ وہ دعو تِ حق و صدا قت لو گو ںتک پہنچا کر انہیں عذا ب کی گر فت سے بچا ئے ۔ +�ò اگر بینی کہ نا بینا و چا ہ است +وگر خا مو ش بنشینی گناہ رست +﴿ اگر تو دیکھے کہ اندھا جا رہا ہے اور اس کے آگے کنُو اں ہے۔ اس وقت اگر تو خا مو ش بیٹھا ر ہے گا، تو یہ خا مو شی گناہ ہے﴾ +اسی لیے فر ما یا۔ +یَأ یّہاَ الرَّ سُوْ لُ بَلِّغِْ مَا اُنْزِ لَ اِلَیْک مِنْ رَّ بِّکَْ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَا لَتہ‘۔ +﴿اے رسول خِدا جو آپ پر اپنے رب کی طر ف سے نا ز ل کیا گیا اُسے پو رے کا پو را لو گو ں تک پہنچا دے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو فر یضہ ئِ رسا لت ادا نہیں کیا ﴾ +غو ر کیا جا ئے تو اس پر دہ میں اصل تخا طب امتِ مسلمہ کے افرا د سے ہے کیونکہ اللہ کے رسول �ö اور وہ بھی محمد �ö کے متعلق کب یہ تصو ر کیا جا سکتا تھا کہ وہ فر یضہ ئِ رسا لت کی ادا ئے گی میں ذراسی بھی کو تا ہی کر ینگے۔ آپ یہ کب دیکھ سکتے تھے کہ انسا ن ہلا کتو ں کے جہنم کی طر ف بڑ ھتے چلے جا ئیں ، آپ یہ کب گوا را کر سکتے تھے کہ اپنی جہا لت اور لا علمی کے باعث آدمی بر با د ہو اور تبا ہی کی آگ میں گر رہا ہو اور آپ خا مو ش بیٹھے رہیں۔ آپ کا سینہ تو انسا ن کی ہمد ردی سے لبر یز تھا۔ آپ نے تو اس جا نکا ہی اور جگر کو خو ن کر دینے والی مشقت سے فر یضۂ رسا لت ادا کیا اور اس طر ح دن را ت کا چین اپنے اوپر حر ام کر لیا کہ خو د خد ائے قد وس نے کہا ۔ +لَعَلَّکَ با خِع’‘ النَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْ نُوْامؤ مِنِیْنo +﴿اے محبو ب تم تو شا ید اس رنج و غم میں اپنی جا ن ہی کھو د و گے کہ وہ سب لو گ ایما ن لا نے والو ں میں سے کیو ں نہیں ہو +اللہ تعالیٰ نے حضو ر �ö کی اسی شد ت ِ احسا س اور روز و شب کے اضطر ا ب کا ذکر کر تے ہو ئے ،دو سر ی جگہ فر ما یا۔ +فَلَعَلَّکَ با خِع’‘ نَّفْسَکَ عَلیٰ اٰثَارِھِمْ اِ نْ لَّمْ یُؤمِنُوْابِھٰذا الْحدِ یْثِ اَسَفاً +﴿اے محبو ب آپ کی حا لت توایسی ہو رہی ہے کہ جب یہ لو گ واضح با ت بھی نہ ما نیں توا نکی ہدا یت کے پیچھے ما رے افسوس کے آپ اپنی جا ن ہی ہلاکت میں ڈا ل دیں گے﴾ +ایک اور جگہ آپ کی اسی بے تا بی و بے قرا ر ی کا نقشہ کھینچتے ہُو ئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ آپ اس طر ح جا ن نہ گھلا ئیں یقینا تبلیغ آپ کا فر ض ہے اور آپ بطر یق اِحسن پُو را کر رہے ہیں، آگے ان کا مقدر ہے۔ انہیں انکے حا ل پر چھوڑ دیں۔ اللہ آپ کی دعو ت حق کے جوا ب میں انکے اعرا ض کو دیکھ رہا ہے ۔ +فَلاَ تذ ھَبْ نَفْسَکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰ ت ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم’‘ بِمَا یَصْنَعُوْن۔ +﴿اے محبو ب دیکھئے ان لو گو ں پر غم کھا نے سے آپ کی جا ن ہی نہ چلی جا ئے یہ وا قعہ ہے کہ یہ لو گ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے پو ر ی طر ح با خبر ہے ﴾ +آپ کو تبلیغ میں اس انتہا در جہ کی جا نکا ہی اور جگر کا وی سے باز رکھنے کے لیے اللہ نے فر ما یا ۔ +﴿اے محبو ب اگر وہ گر دن پھیر کر چل دیں تو جا نے دیجیے ہم نے آپ کو ان کا محا فظ و نگرا ن بنا کر نہیں بھیجا آپ کی ذمہ دا ر ی اسکے سوا کچھ نہیںکہ آپ پیغا م پہنچا دیں﴾ +آپ انہیں فر ائض و وا جبا ت یا د دلا تے جا ئیں انہیں اعما لِ بد کے نتا ئج و عو ا قب سے آگا ہ کر تے جا ئیں ۔انہیں نکوکاری کے نتائج میں حا صل ہو نے والی شا د کا م و با مرا د زند گی کی خو شخبر یا ں سنا تے جا ئیں اور بس۔ +فَذَ کِرّ اِ نّما اَنْتَ مُذَ کَِّرْ ط لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرْo +﴿یا د دہا نی کرائیں کیو نکہ آپ یا د دہا نی اور نصیحت کر نے والے ہی ہیں آپ کو کوئی ان لو گو ں پر دا ر و غہ تو مقر ر نہیں کیا گیا ﴾ +پس وہ با ت جس میں تبلیغ کے سلسلہ میں کو تا ہی کا اند یشہ ظا ہر ہو تا تھا آپ کے پر دہ میں امت مسلمہ کے در میا ن حق و صداقت کے لیے تھی۔ اسی سلسلہ میں یہ وضا حت بھی کر دی گئی کہ تبلیغ حسین تر ین انداز میں اللہ کا پیغا م پہنچا نا ہے اور بس ، آگے لو گو ں کی مرضی ہے انہیں اپنا را ستہ خو د منتخب کر نا ہے ۔ زبردستی اُن سے کچھ نہیں منوا نا انہیں جبر کے زور سے را ہ حق پر نہیں لا نا۔ +لَا اِکْرا ہَ فیِ الدِّ یْن قَدْ تَبَیَّنَ الرَُّ شْدُمِنَ الْغَیّیِ +﴿دین میں کوئی جبر و اکر اہ نہیں حق اور با طل کے را ستے ممینر ہو چکے﴾ +اند ھیر وں میں رو شنی پھیلا نا مبلغ کا فر ض ہے اسکے بعد اگر کو ئی دیکھ بھا ل کر کنو ئیں میں گر تا ہے تو اسکی مرضی مبلغ کوتبلیغ کے اثرا ت دیکھنے کے لیے بے صبر ی سے کا م نہیں لینا چا ہیے۔ اُسے پو رے صبر و سکو ن اور د لجمعی سے استقا مت کے ساتھ حق وا ضح کر تے رہنا چاہیے۔ +وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُ کَ اِلا بِا للّٰہِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ +﴿عز م و استقلا ل سے اپنا کا م کئے جا ئو تمہیں یہ صبر و استقلا ل قو انینِ خدا وندی کے اتبا ع سے حا صل ہو گا اور ان لو گو ں کے رویہ سے رنجید خا طر مت ہو جا ئو﴾ +﴿پُر جما ل استقلا ل کے سا تھ اپنے مشن کی سر انجام دہی میں جمے رہو ﴾ +مبلغ کو اپنا کا م کئے جا نا اور صبر و سکو ن سے نتا ئج کا انتظا ر کر ناہوتا ہے ۔ +وَقُلْ لِلَّذِ یْنَ لَایُؤ مِنُوْنَ اعْمَلُوْاعَلیٰ مَکَا نْتِکُمْ اِناّ عٰمِلُون وانْتَظِرُوْاِنّاَ +﴿اور جو لو گ دعو تِ حق و صدا قت پر یقین نہیں رکھتے ان سے صا ف صا ف کہہ دو کہ تم اپنے پر و گرام کے مطا بق کا م کر تے رہو ہم اپنے پر و گرا م کے مطا بق کا م کر رہے ہیں۔ تم ظہو ر نتا ئج کا انتظا ر کر و اور ہم بھی اپنے اعما ل کے نتا ئج کا انتظا ر کر رہے ہیں﴾ +تبلیغ کا طر یق ِ کا ر +تبلیغ فر یضہ خدا وندی ہے کسی انسا نی انجمن کی طر ف سے یہ فر یضہ کسی انسا ن پر عا ئد نہیں کیا گیا اس لیے ایک مبلغ کسی اجر کا طالب نہیں ہو تا۔ اس کا اجرا للہ کے ذمہ ہو تا ہے اسی لیے تمام ابنیائ نے آکر یہ اعلا ن کیا کہ لو گو میں تمہا ری بھلا ئی کی لیے دن را ت کا م کر تا ہو ں شب و روزتمہیں تمہا ری اپنی فلا ح کی طر ف بلا تا ہو ں لیکن اسکا اجر میں تم سے نہیں ما نگتا ۔ +اِ نْ اَجْرِ یَ اِلّاَعَلَی اللّٰہ۔ +﴿میرا اجر تو میرے رب کے ہی ذمہ ہے﴾ +رہے تم تو اگر تم را ہ حق پر آگئے تو سمجھو میرا معا وضہ مجھے مل گیا حضور �ö کو بھی حکم ہو ا کہ +قُلْ مَا اسَْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلّامَنْ شَآ ئَ اَن یَّتَّخذَ اِلیٰ رَبِّہٰ سَبِیْلاً +﴿کہہ دو کہ میں اسکے سوا کو ئی اجر تم سے نہں ما نگتا کہ تم میں سے جو چا ہے اپنے ر ب کی طر ف لے جا نے والا ر ستہ اختیار کرلے﴾ +ایک مبلغ کے اخلا ص اور للہیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ پیغا مبر ی میں اتنا مخلص ہو کہ کسی قیمت پر بھی اپنا پیغا م چھو ڑنے پر آما دہ نہ ہو ،اسے کو ئی تر غیب اور کوئی تر ہیب اپنی دعو ت سے با ز آجا نے پر تیا ر نہ کر سکے۔ اُس پر پتھربرسائے جائیں اور وہ کہے۔ +اِ عْمَلُوْ ا عَلیٰ مَکا َ نَتِکُمْ اِنِیّ عَا مِلْ ۔ سَوْ فَ تعْلَمُوْ ن +﴿تم اپنا کا م کئے جا ئو میں اپنا کا م کئے جا تا ہو ں فتحمند کو ن ہے جلد وا ضح ہو جا ئیگا ﴾ +�ò ستمگر تجھ سے امید کر م ہو گی جنہیں ہو گی +ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تو ظالم کہا ں تک ہے +ادھر سے پتھر پھینکے جا تے ہیں او رادھر سے دعا ئو ں کے پھول بر سا ئے جا تے ہیں ۔ +رَبِّ اِھْدِ قَوْ مِیْ فَاِ نَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْ ن۔ +﴿پر و ر دگا ر میری قو م کو ہد ایت دے وہ لوگ علم سے بے بہر ہ ہیں﴾ +تر غیب کا یہ عالم ہے کہ مخا طب کہہ ر ہے ہیں ’’ محمد �ö ما نگو جو کچھ ما نگتا ہے ۔ہم سب کچھ حا ضر کر دیں گے حتی کہ ہم عر ب کی با د شا ہی تم پر نثا ر کر نے کو تیا ر ہیں ،ہم تخت سِلطنت تمہا رے قد مو ں میں بچھا ئے دئیے جا تے ہیں بس تم یہ کر و کہ اپنی دعوت سے با ز آجا ئو ‘‘ اور اللہ کا رسو ل �ö کہتا ہے ’’ نہیںاگر تم میرے ایک ہا تھ پر سو ر ج اور دو سرے پر چا ند رکھد و توبھی میں اپنی دعو ت حق و صد ا قت سے باز نہیں آئو نگا ‘‘ ۔ +پیغا م کی صد ا قت اور پیغمبر کے اخلا ص کی یہ بڑ ی دلیل ہے کہ وہ کسی قیمت پر پیغا م اور پیغا مبر ی سے صر فِ نظر پر تیا ر نہیں ہو تا اُس کے لیے وہ ہر پیشکش کو ٹھکر ا دیتا ہے اور ہر وقت جا ن کی باز ی لگا ئے رکھتا ہے پھر یہ کہ اسکا اپنا اس میں کوئی دنیاوی مفا د نہیں، مفا د ہے تو انہی لو گو ں کا دنیاوی اور اخر و ی مفا د ہے جو مخا طب ہیں۔ وہ اپنی معا ش اور روزی کما نے کے لیے خو د مشقت کرتا ہے مگر زیا دہ وقت اس تبلیغ کو دیتا ہے جو لو گو ں کے مفا د میں ہے۔ ایک ڈا کٹر کو مریض کے امرا ض کا علم ہو تا ہے وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے کہ کڑ وی دوا دینی ہے یا میٹھی ۔اگر جسم کا کوئی حصہ زہر آلو د ہو گیا ہے اور اس سے اندیشہ ہے �; کہ با قی جسم کو زہرزدہ کر کے زند گی ختم ہو سکتی ہے تو اُسے کس وقت کا ٹ دینا ہے مر یض نہیں جا نتا۔ وہ وا ویلا کر تا ہے اور اپنی بے علمی کے باعث وہ ایسا کر نے پر مجبو ر ہو تا ہے وہ ڈا کٹر کو گا لیا ں دیتا ہے ۔احتجا ج کر تا ہے ،مز ا حمت کر تا ہے لیکن ڈاکٹر اُسکے جو ا ب میں گا لیا ں نہیں دیتا۔ مز احمت پر ما ر پیٹ نہیں کر تا مبلغ بھی ایک ڈاکٹر ہو تا ہے بلکہ ڈاکٹر سے بہت بڑ ھ کر ہو تا ہے کیو نکہ ڈا کٹر تو فیس لیتے ہیں، دو ائیوں کی قیمتیں و صو ل کر تے ہیں مگر مبلغ جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کسی طر ح کے اجر کا طا لب نہیں ہو تا مبلغ ایک ایسا ڈاکٹر ہو تا ہے جسے ہر حا ل میں مر یض کا مفا د سو چنا ہے اُسے اپنے لیے کچھ نہیں لینا، اُسے مر یض سے پو ر ی ہمد ر دی ہے اور شب و روز اسی فکر میں ہے کہ کسی طر ح مر یض صحتیا ت ہو جا ئے ۔ +مبلغ کا قو ل اور عمل دو نو ں تبلیغ کے ذر ائع ہیں اور ہر مر حلہ کے تقا ضے سمجھ کر وہ اپنا طر ز عمل اپنا تا ہے جہا ں تک قو ل کا تعلق ہے ،وہ تحر یر و تقر یر کے ذر یعے یہ فر یضہ ادا کر تا ہے۔ قر آن حکیم اس سلسلہ میں بھی مبلغ کی رہنما ئی کر تا ہے۔ وہ بتا تا ہے کہ مخا طب اگر باربار کے سمجھا نے پر بھی اپنی ہٹ پر اڑا ر ہتا ہے تو مبلغ کو جھنجھلا نہیں اٹھنا چا ہیئے، اسے مخا طب کی مجبو ر ی کو سمجھنا چا ہیئے، اُسے دیکھنا چاہییکہ مخا طب کو وہ ایسے عقا ئد تر ک کر ا نا چا ہتا ہے جو اسکی گھٹی میں شامل ہیں، اسکے مزا ج اور اسکی عا د ات کا ��صہ ہیں اسکی جذ با تی عقید توں نے انہیں محتر م بنا رکھا ہے۔ یہ عقا ئد صد یو ں سے متوا ر ث چلے آرہے ہیں ۔اسکے اسلا ف اور اُسکے ما ں با پ نے اِن سے محبت کی ہے اور پر و ان چڑ ھا یا ہے اس لیے وہ مجبو ر ہے ،وہ انہیں فو ر ا ً نہیں جھٹک سکتا اُسکے ذہن میں کئی زلزلے بپا ہو نگے ،کئی آتش فشا ں دہک اٹھیں گے، تغیر اور انقلا ب ِ حا ل کے کئی طو فا ن آئینگے۔ کئی جھکڑ چلینگے آخر �ò +کس طر ح کوئی کہنہ روا یا ت چھوڑ دے +ما ں کا مزا ج با پ کی عا د ا ت چھو ڑ دے +اسلا ف سے ملے ہیں جو جذ با ت چھو ڑ دے +گھٹی میں ہیں جو حل وہ خیا لا ت چھو ڑ دے +کس جی سے کوئی رشتہ ئِ او ہا م تو ڑ دے +ور ثے میں جو ملے ہیں وہ اصنا م تو ڑ دے +یہ سب کچھ چھو ڑ دینے پر اور ا س بے پنا ہ تو ڑ پھوڑ پر آما دہ کر نے کے لیے مبلغ کو بڑی حکمت اور دانائی سے کا م لینا ہو گا۔اللہ کا ارشا د ہے ۔ +اُ دْ عُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْ عِظَۃِ الْحَسَنَۃ +﴿اللہ کے را ستے کی طر ف بلا نے کے لیے حکمت و دا نش اور خو بصو ر ت مو عظت سے کا م لے﴾ +اور اگر مخا طب بحث و منا ظر ہ اور حجت و تکرا ر پر اتر آئیں تو بحث کا انتہا ئی خو بصو ر ت انداز اختیا ر کیا جا ئے ۔ +وَ جَا دِ لْھُمْ با لَّْتِیْ ھِیَ اَحسَن۔(16/125) +﴿اور اُن سے بحث آپُڑ ے تو بحث کا وہ طر یقہ اختیا ر کر جو انتہا ئی خو بصو ر ت ہو ﴾ +﴿ قرآن کے ذ ریعے حقا ئق انکے سا منے لا تے رہو اس احسا س کے سا تھ کہ کہیں ایسا نہ ہو کوئی انسان اپنی بد عملی کی وجہ سے ہلاکت میں چھو ڑ دیا جا ئے ﴾ +اس کے بعد اگلا اور سب سے ضر و ر ی قد م یہ ہے کہ مخا طب کے معبو د ان ِ با طل کو بُرا نہ کہا جا ئے ۔انہیں ہد فِ دشنا م نہ بنا یا جائے +وَ لَا تسبوا الذین ید عو ن من دو ن اللّٰہ +﴿اور ان کو تم بُرا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے چھو ڑ کر پکا رتے ہیں ﴾ +ان کے مبعو د ان با طل کو بُرا نہ کہو کیو نکہ یہ برا ہ ِ را ست اُنکے جذ با ت پر حملہ ہو گا وہ جو اب میں تمہا رے معبو د ِحقیقی کو بُرا کہیں گے پھر ممکن ہے تم اپنے جذبا ت پر قا بو نہ رکھ سکو ۔ +عام طو ر پر یہی ہو تا ہے کہ ابتدا ئ میں مبلغ یہی با ت کر بیٹھتے ہیں پھر یہ با ت بڑ ھ کر ہا تھا پا ئی اور قتل و غا ر ت تک پہنچ جا تی ہے اور اصل مسئلہ وہیں رہ جا تا ہے یہ تبلیغ کا وہ انداز نہیں جسے ’’ با لحکمتہ ‘‘ کہا گیا ہے۔ +تبلیغ کے راستہ میں دو سری حکمت جسے اختیا ر کر نا ہے وہ با ت کر نے کا سلیقہ ہے ۔مطلب ایک ہی ہو تا ہے لیکن با ت کرنے کے انداز مختلف ہو تے ہیں الفا ظ کا اثر ہو تاہے ۔الفا ظ میں اپنا حسن ہو تا ہے پھر انداز بیا ن میں فر ق ہو تا ہے۔ حسن الفا ظ کو فصاحت کہتے ہیں۔ انداز ِ بیا ن کا اثر الگ ہے ۔حضو ر �ö نے بجا فر ما یا’’ ان من البیا ن لسحر‘‘﴿بلا شبہ ایسا انداز بیا ن بھی ہے کہ جس میں جا دو ہو ﴾ آدمی کی زبا ن سے با ت نکلتی ہے اور وہ سُننے والے کے دل میں اُتر جا تی ہے ۔حسن بیا ن کی اس ادا کو بلا غت کہتے ہیں۔ اللہ نے جنا ب ر سا لتما ب �ö کو حکم دیا ہے ۔ +قُلْ لَّھُمْ فِیْ اَنْفُسِھِمْ قَوْ لاً بَلیْغا ً۔﴿4/63﴾ +﴿اُنکے سا تھ نصیحت اور مو عظت کی با ت اس انداز میں کیجئے کہ با ت سید ھی دل میں اتر جا ئے ﴾ +با ت کر نے کا انداز فصا حت و بلا غت کے سا تھ رحمت و محبت کا آئینہ دا ربھی ہو نا چاہییاور شیر یں و ملا ئم بھی ۔لفظ لہجے کی حلاوت میں ڈوبے ہو ئے ہوں۔ +فَبِماَ رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظّاً غَلِیظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضّْوْا مِنْ حَوْ لِکَ(3/159) +﴿اور یہ آپ(ص) پر اللہ کی بڑی ہی رحمت ہے کہ آپ اُن لو گو ں کے لیے اس قد ر نر م مز اج وا قع ہو ئے ہیں اگر آپ سخت مزا ج ، سخت دل ہوتے یہ لو گ آپ کے پاس سے بھا گ کھڑ ے ہو تے ﴾ +اس قو لی تبلیغ کے سا تھ ایک اور بڑ ی تبلیغ مبلغ کا عمل ہے اور اُس میں بھی سر و ر ِ عالم �ö کی زند گی حسین تر ین نمو نہ ہے اگر آپ زبا ن سے کہتے رہیں کہ آپ مخا طبین کو ہلا کت ِدنیا و آخر ت سے بچا نے کے لیے انہیں دعو ت حِق دے رہے ہیں تو با ت اپنے آپ کی در ست ہے لیکن عمل سے اسکی تصد یق ہو نی چاہیے۔آپ کے عمل سے ثابت ہو نا چا ہیے کہ آپ ان کے ہمدرد ہیں۔ آپ زند گی کے چھو ٹے بڑے معا ملا ت میں ان کے سا تھ ہمد ر دی کر یں گے تو وہ آپ کے قر یب آجا ئیں گے ۔آپ کی دعوت تو جہ سے سنیں گے اور ان کے دل میں یہ با ت بیٹھ جا ئے گی کہ آپ یقینا ان کے ہمدردہیں پھر عین ممکن ہے کہ وہ عقا ئد و اعما ل کے سلسلہ میں بھی آپ کو ہمد رد اور دمسا ز سمجھنے لگ جا ئیں اور اپنے سا بقہ عقا ئد سے دستبر دا ر ہو جا ئیں ۔ بڑ ا مشہو ر وا قعہ ہے کہ مکہ کی ایک بڑ ھیا روز انہ اپنی چھت پر بیٹھ کر حضو ر �ö کا انتظا ر کر تی۔ ادھر آپ (ص) گزر تے ادھر وہ گند گی اور کوڑے کی ٹوکری آپ(ص) پر الٹ دیتی ایک دو ر روز اُس نے ایسا نہ کیا اور وہ چھت پر نظر نہ آئی تو پوچھنے پر حضو ر �ö کو بتا یا گیا کہ وہ بیمار ہے۔ آپ �ö اس کے گھر چلے گئے ۔دیکھا تو وہ بخا ر میں تپ رہی تھی اور بے ہوش پڑ ی تھی اس کا کوئی پر سا نِ حا ل نہیں تھا ۔آپ اس کے لیے دوا ئی لا ئے اس کے گھر کی صفا ئی کی ،پا نی کا گھڑ ا بھر لا ئے ۔اُس کے ما تھے پر گیلی پیٹاں رکھیں ایک دو ر وز آپ(ص) نے اسکی خد مت کی و ہ تند ر ست ہو گئی اور جب اُسے معلو م ہو ا کہ اسکی تیمار دا ر ی کر نے والے وہی محمد �ö ہیں جن پر وہ ہررو ز گند گی کی ٹو کر ی پھینکنااپنے لیے عبا دت و سعا د ت سمجھتی تھی تو اس کا دل جھک گیا اور اس نے اسلام و ایما ن قبول کر لیا یہ ہے وہ عملی تبلیغ جو قو لی تبلیغ کے سا تھ جا ری رہی اور جسکی در خشا ں مثا لو ں سے حضور �ö کی زند گی معمو ر ہے ۔ یہی وہ زند گی ہے جسے اپنے دعو ٰ ی کی تصد یق کے طو ر پر بھی آپ (ص) نے پیش فر ما یا ۔ +فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمْراً اَفَلاَ تَعْقِلُوْ ن ۔ +﴿میں نے تمہا رے اند ر عمر گزا ری کیا تم عقل سے کا م نہیں لیتے ﴾ +یعنی اس پو ر ی عمر میں جو تمہا رے اندر بیت گئی کیا تم نے کوئی مو قع ایسا دیکھا کہ میں نے سچ نہ بو لا ہو۔ میں نے جھو ٹ بو لا ہو کسی کی اما نت میں خیا نت کی ہو اپنی ذمہ دا ر ی نبھا نے میں کو تا ہی کی ہو، غلط اندازِ زندگی اختیا ر کیاہو۔ کسی پر ذرہ بر ابر ظلم کیا ہو ۔ نہیں تم کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کر سکتے، میں کا ذب نہیں تھا صا دق تھا ، میں خائن نہیں امین تھا ، میںظا لم نہیں ہمدرد تھا، میں نے زخم نہیںلگا ئے مر ہم رکھے ہیں۔ زخمو ں کا اندما ل کرنے کی بھر پو ر کوشش کی ہے۔ چا رہ سا زی اور غمخوا ری کی ہے ۔ تمہا رے دکھو ں پر صر ف آنسو نہیں بہا ئے ،حتی الا مکا ن ان کا مدا وا کیا ہے ، کسی سے کوئی تنا زع نہیں کیا، تمہا رے تنا ز عا ت ختم کئے ہیں، تمہا رے جھگڑ ے مٹا ئے ہیں جن اختلا فا ت پر تم تلوا ریں سو نت رہے تھے انہیں ختم کیا ہے ۔میں ہمیشہ امن ، سکو ن اور صلح کا شہزا دہ رہا ہو ں ، یہ تھا عملی تبلیغ کا وہ انداز جسے اولیا ئے امت نے اپنا یا اور شر یعت کے دوش بد و ش طر یقت کا سفر شروع ہو اجس کے لیے تصو ف کی عظیم اصطلاح و ضع ہو ئی ۔ +اشا عتِ اسلا م دو طر ح سے ہو ئی ، مسلما نو ں کی حکمر ا نی بلا شبہ اشا عت اسلا م کا با عث بنی اور اس کے سا تھ ہی مسلما ن اولیائ نے اسلام کی تو سیع و اشا عت میں بھر پور حصہ لیا۔ مسلما ن حکمرا نو ں کی اشا عتِ اسلا م سے اس تا ریخی مغا لطہ کی طرف ذہن نہ جا ئے جو ایک عر صہ تک مغر ب کے متعصب مئو ر خین دہر ا تے رہے کہ +’’ اسلا م تلوا ر کے زور سے پھیلا ‘‘ +اور جسے با لا ٓ خر مغر ب ہی کے غیر متعصب اور معقولیت پسند مئو رخین نے بے بنیا د اور جھو ٹا پر و پے گینڈ ا کہہ کر رد کر دیا اور دنیا جان گئی کہ ’’ حقیقت خو د کو منوا لیتی ہے ما نی نہیں جا تی ‘‘ +حقیقت یہ ہے کہ اسلا م میں جار حا نہ جنگ کا کوئی و جو د نہیں ۔اسلا م میں مدا فعا نہ جنگ ہے یا مصلحا نہ ۔ مد ا فعا نہ جنگ تو اپنی بقائ کے لیے نا گز یر ہے اور مصلحا نہ جنگ یہ ہے کہ جس جگہ ایسا ظا لم حا کم ہو کہ اپنی رعیت پر اور با لخصو ص اپنی مسلمان رعا یا پر مظا لم کی انتہا کر رہا ہواور اسلا می حکو مت کی با ر با ر کی مصلحا نہ کو ششو ں کے با و جو د را ہِ را ست پر نہ آئے تو خلق خِدا کو اُسکے ظلم اور تشد دسے نجات دلا نے کیلئے خدا مسلما نو ں کو اسکے خلا ف تلوا ر اٹھا نے کی اجا زت دیتا ہے ۔ مگر ایہ اجا زت قطعی نہیں دیتا کہ مفتو حہ ممالک میں بزور و جبر لو گو ں کو اپنا مذ ہب تبد یل کر نے پر مجبو ر کیا جا ئے۔ اسکے بر عکس وہ کہتاہے کہ ہر ایک کو پو ر ی پو ر ی آزادی دی جا ئے، کیو نکہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّ یْنِ ﴿دین میں کوئی جبر و اکرا ہ نہیں﴾ ۔فرا نس کا مشہو ر ما ہر تمد ن و عمرا نیا ت ڈا کٹر گستائو لی با ن اپنی مشہو ر کتا ب ’’ تمد ن ِ عرب ‘‘ میں با ر با ر اس حقیقت کا اعتراف کر تا ہے کہ ’’ خلفا ئے اسلا م نے مفتو ح ممالک میں اپنا دین پھیلا نے کی ذر ہ بھر بھی کو شش نہیں کی۔ اسکے برعکس انہوں نے مفتوح اقوا م کو اپنے مذہب اور معا شر ت کی پو ر ی پو ری آزا دی دیے رکھی‘‘ ﴿تمد نِ عر ب از ڈا کٹر گستا ولی با ن 131 ﴾ +جنا ب فا رو ق جب فا تح کی حیثیت سے بیت المقد س میں وا ر د ہوئے تو کیا ہوا، اسی مصنف کی زبا نی سنئے ’’ بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر کا اخلا ق ہم پر وا ضح کر تا ہے کہ مسلما ن فا تحین اپنی مفتو حہ اقوا م کے سا تھ کیسا نر م اور فرا خدلا نہ سلو ک کرتے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے شہر میں دا خل ہو تے ہی منا دی کرا دی ’’ میں ضما نت دیتا ہو ں کہ با شند گان شہر کے ما ل و منال اور انکی عبا د ت گا ہو ں کا پو را پو را احترا م کیا جا ئیگا اور ہر شہر ی کی عز ت ِنفس کا پو ر پورا خیا ل رکھا جائے گا۔ رعیت کے تما م افرا د مسا دی حقو ق کے مالک ہو نگے ۔قا نو ن کی نظر میں سب کے سب برا بر ہو نگے ہر ایک کو عد ل و انصا ف ملے گا ‘‘ایضاً 132 +ایسی بہت سی مثا لیں پیش کر کے مصنف مذ کو ر نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلما ن فا تحین ایک تو مفتوحہ اقوام کو پہلی حکو متو ں کے مظالم سے نجا ت دلا تے تھے دو سرے انکے سا تھ ایسا فیا ضا نہ سلو ک کر تے تھے کہ لو گو ں کے دل ان کے حق میں نر م ہو جا تے فاتح مفتو ح قر یب آجا تے اور پھر حکمر انو ں کا دین اختیا ر کر لیتے ۔یہ عمل خا لصتا ً حکمرا ن قو م کے طر زِ عمل اور اعلیٰ اخلا ق سے سرانجا م پا تا اس میں تلوا ر کا کوئی دخل نہ تھا ۔ +بر صغیر میں اسلام محمد بن قاسم کی فتح سند ھ سے بہت پہلے آچکا تھا لیکن محمد بن قا سم جب بطو ر فا تح آیا ، اس نے راجہ دا ہر کے مظام سے لو گو ں کو نجا ت دلا ئی اور پھر لو گو ں کے سا تھ ایسا سلو ک کیا کہ اہل ہند اُسے دیو تا ما ننے لگے، دین اسلا م کے ساتھ ان کا تعصب دو ر ہوا،اور وہ مسلمانو ں کے دین کی تعلیما ت غو ر و فکر سے سننے لگے اور انکے ذہنو ں نے اسلا م کی صد اقت و حقانیت کو ��سلیم کر لیا ۔ +اس طر ح مسلما ن حکمرا ن بلا شبہ اپنے اعلیٰ اخلا ق کے با عث اشا عت اسلا م میں بڑے ممد و معا و ن ثا بت ہو ئے ۔لیکن ان سے بھی زیا دہ جو لوگ اسلا م کی اشا عت کا با عث بنے وہ اولیا ئ اللہ تھے جنہیں صو فیا ئ کہا جا تا ہے ۔ +حکمرا نو ں کے با عث اشا عت اسلا م کا جب ذکر کیا جا تا ہے تو یہ خیا ل پیدا ہو تا ہے کہ عین ممکن ہے بعض مو قع پر ست حکمرانوںکا قر ب حا صل کر نے کے لیے دکھا وے کے طو ر پر مسلما ن ہو گئے ہو ں اورا سلام اُن کے دل ود ما غ میں داخل نہ ہوا ہو ۔ بلا شبہ یہ با ت در ست ہے یقینا ان لو گوں میں ایسے افراد ہو نگے ۔ کسی کے دل کو چیر کر ایما ن وا خلاص دیکھا نہیں جا سکتا لیکن وہ کثیر التعداد لو گ جو صو فیا ئ کے با عث مسلما ن ہو ئے اور جنہیں صو فیا ئ نے کلمہ ئ شہا دت پڑ ھایا اُن کے متعلق تو کمزورسا اشتبا ہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا کہ کسی حر ص و طمع نے انہیں اسلا م کی طر ف کھینچا ہو۔ انِ فقیرو ں کے پاس کیا تھا کہ لو گو ں کو تحر یص و ترغیب ہوئی ۔ +آغا زِ سلسلہ ئ تبلیغ و تد ریس +نو شا ہی سلسلے کا کوئی بر گز یدہ شخص +ایما ن کی ، یقین کی تحر یک بن گیا +اسلام کے شعو ر کی تبلیغ کے لیے +یو ر پ میں رب کے دین کی تحر یک بن گیا +سا حلو ں پر بکھر ی ہو ئی ریت کے بر فا ب ذر ے سو ر ج کی شعا عو ں سے اپنے بد ن گر ما رہے ہیں ۔نا ئٹ کلبو ں اور پبو ں میں جوش اور ولو لوں سے بھر ی ہوئی شر م و حیا سے منز ہ تہذ یب اپنے باز وفضا میں لہرا لہرا کر کہہ رہی ہے +با بر بہ عیش کو ش کہ عالم دو با رہ نیست +اور عر یا نی وفحا شی کو دیکھ دیکھ کر ہر طر ف زمین نے گھا س میں منہ چھپا رکھا ہے۔ ۔۔ یہ یو ر پ ہے ۔۔ کا گ اڑاتی شمپین کی بوتلوں کا یو رپ ۔۔ عر یا نی کے گیت گا تی ہو ئی مے گی کا یو ر پ ۔۔۔۔ جس کے بغیر ا نجیلِ مقد س کا نیا عہد نا مہ مکمل نہیں ہو تا ۔۔۔ تہذبیوں پر گفتگو کر تے ہو ئے بر ٹینڈر سل کا یو ر پ ۔۔۔ جو خدا کے وجو د سے خا لی معا شرے کی تلا ش میں ہے ۔۔۔۔ بر نارڈ شا کا یو ر پ ۔۔۔ جہا ں مر د مر دسے مل کر مکمل ہو تا ہے اور اس میں پیر سید معرو ف حسین شا ہ میرے ہم سفر ہیں ہم دونوں سا تھ سا تھ چل رہے ہیں مگر اپنے اپنے را ستے پر ۔۔۔۔ میں اس وقت ہر وہ ایشا ئی فر د ہو ں جس کی آنکھیں مغر بی تہذیب و تمد ن کی چکا چو ند سے خیرہ ہو چکی ہیں۔ ہم دونو ں چل رہے ہیں دو ر تک نر م گر م سا حلو ں کی ریت سن با تھ لے رہی ہے۔ یہ سپین ہے پیر سید معرو ف حسین شا ہ پو چھ رہے ہیں ۔کیا یہ وہی سپین ہے جو کبھی اسلا می تہذ یب و تمد ن کا گہوا رہ تھا اس وقت مسجد قر طبہ سے اٹھتی ہوئی اذانو ں کی صد ائو ں سے لے کر کر کشتیا ں جلا نے والے مجا ہد وں کے حو صلو ں اور ارا دو ں کی تاریخ ان کے رگ وپے میں دو ڑ رہی ہے ۔وہ سر ما یہ اور شر اب کی گر د ش سے جنم لینے والی ثقا فت کو اپنے پا ئو ں تلے رو ند تے ہوئے چلتے جا رہے ہیں۔ ان کی آنکھو ں کے سا منے جبل الطا ر ق ہے۔ آٹھو یں صد ی عیسویں کا کوئی دھو پ سے نکھرا ہوا دن ان کا ہم رکاب ہے ، سمند ر کا پانی قد مو ں کے نشا ن چو م چو م کر ان کا استقبال کر رہا ہے۔ سا حلو ں پر بھے گی بھے گی ہو ا ،دھیمے دھیمے سر و ں میں خو شی کے گیت گا رہی ہے اور بچیوں کی طر ح کھلکھلاتی اور مسکرا تی ہو ئی مو جیں ہوا کی تال پر دف بجا رہی ہیں۔ +جبرا لٹر کے صو بے دا ر کے محل میں اس کی بیٹیوں کے چہر ے تمتا اٹھے ہیں۔ انہیں پورا یقین ہے کہ ان کی عز ت لو ٹنے والے سپین کے با د شا ہ کاآخر ی وقت آگیا ہے ۔وہ بہت جلد سپین کی گلیوں میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو نیوالی ہیں۔ یور پ کی سیا ہ را ت میں نو ر کے خنجر بو نے والے سا حل پر اتر چکے ہیں۔ +سا حل سمند ر پر بے شما ر کشتیا ں کھڑ ی ہیں۔ آنے والے مطمئن ہیں کہ شکست کی صو رت میں واپسی کا راستہ مو جو د ہے اور سپین کا با دشا ہ بھی یہ خبر سن چکا ہے کہ بہت سے لٹیر ے جبر الٹرکے سا حل پر لنگر انداز ہو چکے ہیں۔ وہ خو ش ہے کہ جبر الڑ کے باغی صو بے دا ر کی مشکلا ت میں اضا فہ ہو رہا ہے مگر جبر الڑ پر یشا ن ہیں ۔سو چ رہے ہیں کہ اس مر تبہ لٹیر ے دو ر تک بستیوں کو لوٹنے کا ارا داہ لے کر آئے ہیں۔ اس سے پہلے تو کبھی لٹیرو ں کی اتنی بڑ ی تعدا د ان سا حلو ں پر لنگر اندا ز نہیں ہوئی ۔ افواہیں گردش میں ہیں کہ خو د صو بے دا ر نے ان لیٹر وںکو بلا یا ہے اور انہیں لا نے والی کشتیا ں خو دصوبے دار کی اپنی ہیں۔ اللہ خیر کرے نجا نے صو بے دا ر کیا چا ہتا ہے اور پھر لو گو ں نے دیکھا کہ لیٹر وں کے سپہ سا لا ر نے کشتیوں کو آگ لگوا دی ہے سپاہیوں کی آنکھیں سمجھ گئی تھیں کہ اب شکست کا مفہو م صر ف اور صر ف مو ت ہے ۔ غر یب الو طنی کی مو ت ۔۔ مگر شہا د ت ۔ +اور پھر جبر الڑ کے صو بے دا ر کے تعا و ن سے مسلما نو ں کا لشکر آگے بڑ ھنے لگا ۔فتح کے لیے ہتھلیوں پر سرسو ں کے چرا غ جلالئے گئے ایک نئی تا ریخ رقم کر نے والے معر کے شر و ع ہو گئے ۔ +رفتہ رفتہ کشتیوں کی راکھ سو نا بنتی چلی گئی ۔ سپین میں داخل ہونے والے سا ت ہزا ر مجا ہد لا کھوں میں تبد یل ہو گئے۔ یو رپ میں پہلی اسلا می سلطنت وجو د میں آگئی۔ زمین سے کھجو ر وں کے بلند قا مت در خت ابل پڑ ے ۔ آب رسا نی کے +نظام نے مٹی کو زرخیز تر کر دیا۔ نئی تعمیرا ت اور نئی سہو لیا ت سے زند گی کا رنگ رو پ بد لنے لگا صد یو ں کے پا نی مسلما ن باد شا ہو ں کے محلا ت کی سیٹرھیو ں کے آخر ی ز ینے چو م چو م کر آگے بڑ ھنے لگے ۔ +میں نے پیر صا حب کے ہا تھ پر ہا تھ رکھاا ور وہ تصو ر کی دنیا سے پلٹ آئے ۔سا حل نے ہم سے کوئی صد یو ں پر انی سر گوشی کی اور منظر بدل گیا ۔ پیر سید معر و ف حسین شا ہ کی آنکھیں پتھر ہو گئیں ، درد سے پتھر ، لیکن پھر بھی وہ دیکھتے رہے ۔ +آٹھویں صد ی میں کشتیا ں جلا نے والے سمند ر کی تہہ میں اتر تے جا رہے ہیں جس پا نی پر صد یو ں تک ان کی جلا ئی ہو ئی کشتیوں کی راکھ اڑ تی رہی تھی وہا ں شا ر ک مچھلیوں کے بھنو ر انہیں اپنے اند ر کھینچ رہے ہیں ۔ مو ت کی حکمر انی ہے ۔ ہر طرف مو ت ۔ ہر مسلما ن کی مو ت ۔ کلیسا ئو ں کی سر زمین کو پاک کر نے کے لیے اسے مسلما نو ںکے لہو سے نہلا یا جا رہا ہے ۔ گلیو ں میں لا شیں ہی لا شیں پڑ ی ہیں۔ جلتے ہو ئے مکا نو ں میں سو ختہ ہو تے ہوئے مسلما ن خا ندا ن ۔ بر بر یت کی کچھ نئی مثالیں۔ بچوں کو چھو ڑ کر ہجر ت کر تے ہو ئے ما ں با پ ۔ کیا کہیں کوئی مسلما ن رہ تو نہیں گیا ۔ نہیں نہیں ۔ کوئی نہیں ۔ کوئی نہیں ۔ کہیں نہیں رہا ۔ صرف بچے رہ گئے ہیں انہیں عیسا ئی بنا لیا جا ئے گا۔ +میں نے پھر پیرصا حب کے ہا تھ پرہاتھ رکھا اور وہ تصو ر کی دنیا سے پلٹ آئے ،مگر اس مر تبہ آبد یدہ تھے۔ پتھرا تی ہو ئی آنکھیں چھلک پڑ ی تھیں۔ کہنے لگے ’’ چو دھویں صد ی عیسو ی میں یو ر پ سے اسلام کو با رہ پتھرباہر کر نے کے ہو لنا ک واقعہ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں پیدا ہوا جس نے یو ر پ میں اسلا م کی تبلیغ کے متعلق کچھ سو چا ہو یا اس پر عمل کر نے کی سعی کی ہو ۔ +اور پھر یو ں ہو ا کہ پیر سید معرو ف حسین شا ہ نے اس سلسلے میں اپنے اند ر ایک جما عت ،ایک تنظم، ایک تحریک کے قیا م کا فیصلہ کر لیا جو یو رپ میں اسلا م کی تبلیغ کے لیے صد یو ں تک جا ری ہے ۔ +وہ 1963 کی کیا پر سعا د ت صبح تھی جب پ��ر صا حب نے اپنے سا تھیوں کو جمع کر کے ایک جما عت کے قیا م کا اعلا ن کیا اس جما عت کا نام جمعیت تبلیغ الا سلا م رکھا گیا اور اس کا مقصد فر و غِ دین مصطفوی قر ا ر دیا گیا بنیا دی طو ر پر تین کا م سا منے رکھے گئے ۔ +﴿ 1 ﴾ یہا ں مو جو د مسلما نو ں میں بید ار ی کے لیے کا م کیا جا ئے تا کہ مسلما ن جمعیت تبلیغ الا سلام کا حصہ بن کر اسلا م کی ترویج کے لیے کا م کر سکیں۔ +﴿2 ﴾مسا جد اور مدا ر س کا قیام عمل میں لا یا جا ئے اور اسلامی ممالک سے بڑے بڑے علما ئے کر ام کو یہا ں بلا کر ان سے دین مصطفوٰی کی تبلیغ کا کا م لیا جا ئے ۔ +﴿3 ﴾ ایسے مسلما ن بنا نے کی کو شش کی جا ئے جن کے کر دا ر کو دیکھ کر غیر مسلم اسلام کی طر ف راغب ہو ں تاکہ یورپ میں اس انداز سے دین اسلا م کے شجر کی آبیا ری ہو کہ آنے والی صدیو ںمیں، کو ئی اسے اکھا ڑ نہ سکے۔ +چو د ہو یں صد ی عیسو یں میں سپین میں اسلا م کی تر ویج و تبلیغ کے خا تمے کے بعد یو ر پ میں یہ وہ پہلی جما عت ہے جس نے منظم انداز میں اسلام کو متعا رف کر انے کی سعی کی۔ اس میں بڑی حد تک کا میا بی بھی حا صل کی ۔ جس وقت پیر سید معر و ف حسین شا ہ نو شاہی نے اس کا م کا آغاز کیا اسو وقت بر طا نیہ میں صر ف ایک مسجد تھی جسے مسجد شا ہجہا ں کہتے ہیں۔ ڈاکٹر لا ئٹ نر نے ۹۸۸۱میں اسے اپنے مسلما ن طا لب علمو ں کی سہو لت کے لیے تعمیر کرا یا تھا۔ اس کی رقم ملکہ بھو پا ل شا ہجہا ن بیگم نے دی تھی ۔ جس کی وجہ سے اس مسجد کا نام شا ہجہا ن رکھا گیا تھا۔ ۹۹۸۱ میں ڈاکٹر لا ئٹنر کی وفا ت کے بعد اس مسجد کو بند کر دیا گیا تقریبا ً تیرہ سا ل یہ مسجد بند رہی۔ اس کے بعد اسے عبا د ت اور نماز کے لیے کھول دیا گیا ۔یہ مسجد سرے کاونٹی کے قصبے ووکنگ میں ہے جہا ں مسلما نو ں کی آبا دی بہت کم ہے ۔ذوالفقا ر علی بھٹو کے دو ر سے حکومتِ پاکستان اس مسجد کے لیے ہر سا ل فنڈ فرا ہم کر تی ہے پیرسید معرو ف حسین شا ہ جب یہا ں آئے اور انہو ں نے دیکھا کہ شہر میں خا صی تعدا د میں مسلما ن مو جو د ہیں اور نماز پڑھنے کے لیے کوئی مسجد مو جو د نہیں تو انہو ں نے اس کا ر خیر کا آغا ز اپنے وہیں سے کیا، جہا ں انہو ں نے رہا ئش رکھی ہو ئی تھی ، اسی مکان میں با جما عت نماز پڑ ھا نے لگے۔ پھر بر یڈ فو رڈ 8 کے سا و تھ فیلڈ سکو ا ئر میں 18 نمبر کا مکان خر ید ا اور اس کے ایک کمرے کو تبلیغ اسلا م کی سر گر میوں کا مر کز بنا لیا۔ پیر صا حب آج بھی اسی مکان میں رہا ئش پذ یر ہیں اور آج بھی وہی مکا ن تبلیغ اسلا م کی سر گر میوں کا مر کز ہے یہ الگ با ت کہ جمعیت تبلیغ الا سلام کا دا ئرہ پو رے یو ر پ میں پھیل چکا ہے، بے شما ر مساجد قا ئم ہو چکی ہیں ، مدا ر س بن چکے ہیں۔ +دعا دیں گے مر ے بعد آنے والے میری و حشت کو +بہت کا نٹے نکل آئے ہیں میرے سا تھ منز ل کے +اگر چہ ورلڈ ٹر یڈ سنٹر کی تبا ہی سے شر و ع ہو نے والی امر یکہ کی دہشت گر دی کے خلا ف جنگ کسی حد تک مسلما نو ں کے خلا ف ایک تحر یک ہے اور مغر بی طا قتو ں نے امر یکہ اور یو ر پ میں اسلام کے پھیلنے کے عمل کا بغو ر جا ئز ہ لینا شر و ع کر دیاہے ۔ وہ غو ر کر رہے ہیں کہ لو گ اسلا م کی طر ف کیو ں را غب ہو رہے ہیں اور انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے مگر پیرسید معرو ف حسین نوشاہی کے سلسلہ ئ تبلیغ میں کو ئی رکا و ٹ نہیں آئی اس کی وجہ یہی ہے کہ انہو ں نے اپنی تبلیغ کی بنیا د نفر ت پر نہیں، محبت پر رکھی ہوئی ہے۔ ان کے ہاتھ میں تلو ا ر نہیں پھول ہیں اور وہ خو شبو بکھیر تے ہیں ،خو ن نہیں بہا تے ۔ وہ یو ر پ میں اسی طر ح �òاسلام پھیلا نے کی کوشش کر رہے ہیں جس طر ح دنیا بھر میں صو فیا ئے کر ام نے اسلا م پھیلا یا ہے۔ دنیا میںیہ بہت کم ہوا ہے کہ کسی شخص نے خو ف کی وجہ سے اپنا مذہب بدل لیا ہو ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ کہیں کوئی ایسی شخصیت پید ا ہو جا تی ہے جس کی با تو ں سے پھو ل جھڑ تے ہیں، جس کے عمل میں کہکشا ئیں دکھا ئی دیتی ہیں۔ +پیر صا حب نے یو ر پ میں بہت سے غیر مسلمو ں کو مسلما ن کیا ہے میرے خیا ل یو ر پ میں اور کو ئی بز ر گ شخصیت ایسی نہیں جس نے اتنے لو گو ں کو مسلما ن کیا ہو جتنے لو گو ںنے پیر صا حب کے دستِ مبا ر ک پر اسلا م قبو ل کیا ہے یہ اور با ت کہ اس وقت یورپ میں کئی ایسے بہر وپیے بھی مو جو د ہے جنہو ں نے ایک شخص کو بھی مسلما ن نہیں کیا مگر دعوٰ ی ہزا وں کا کر تے ہیں +یو ر پ کے با رے میں مجھے یہ پیش گوئی کر تے ہوئے کوئی ہچکچا ہٹ نہیں ہو رہی کہ چالیس پچا س سا ل کے بعد یو رپ میں مسلما نو ں کی تعدا د کر و ڑو ں تک پہنچ جا ئے گی اور یو ر پ کا کو ئی شہر ایسا نہیں رہے گا جہاں اسلا می مدا ر س اور مساجد نہ ہوں اور میرے خیا ل میں یو ر پ میں ہو نے والی نیکیوں کے اجر کے سب سے بڑے حق دا ر ،سید معرو ف حسین شا ہ ہی ہو ں گے ،جنہو ں نے یہا ں جمعیت تبلیغ الا سلا م کی بنیا د رکھی۔ +خیر کا اجر تر ے نام قیا مت تک ہے +دہر میں نغمہ ئ اسلا م قیا مت تک ہے +مو ت کی دھول مٹا سکتی نہیں ہے تجھ کو +کہ ترا نا م تر ا کا م قیا مت تک ہے +آج اگر یو ر پ کی گلیوں سے اذا نو ں کی صد ائیں سنا تی دیتی ہیں تو اس کا کریڈ ٹ پیر سید معرو ف حسین شا ہ کے علا وہ کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا ۔ آج اگر یو ر پ کے کئی شہر و ں میں مسجد کے سپیکر پر اذا ن دینے کی اجا ز ت ہے تو اس کے پیچھے پیر صا حب کی فکر رسا اور جہد ِمسلسل ہے ۔ +اس وقت پیر صا حب کے زیر نگرا نی د نیا بھر میں 23 مسا جد قا ئم ہو چکی ہیں اور اس کے علا وہ بہت سا رے دینی مدا ر س بھی کا م کر رہے ہیں۔ صر ف بر یڈ فو ر ڈ، شیفیلڈاور اولڈ ھم میں 17 ادا رے قا ئم ہو چکے ہیں ۔ہا لینڈ اور فرا نس میں بھی مسا جد بن چکی ہیں اور انشا ئ اللہ یہ سلسلہ جا ر ی رہے گا۔ +کتا بو ں کے دو ست +ایک چھو ٹا سا بچہ ۔ اپنے گھر کے ایک کمر ے میں اکیلا کھیل رہا ہے ۔ کھلو نے کے طو ر کھیلنے کے لیے اس کے پا س صر ف کتا بیں ہیں۔ مختلف سا ئز کی کتا بیں۔ وہ ان کتا بو ں سے اپنے خو ابو ں کا محل تعمیر کر نے کی کوشش کر رہا ہے اس نے کمرے کے فر ش کے طو ر پر ایک جہا زی سا ئز کی ہد یہ شر یف نیچے رکھ دی ہے ۔فقہ کی یہ کتا ب علما ئے کر ام کے خیا ل میں مسا ئل شر یعت کے بیان میں بنیا دی حیثیت رکھتی ہے ۔ دائیں طر ف کی دیو ار کے طو ر پر گلستا نِ سعد ی کو کھڑ ا کر دیا ہے اور با ئیں طر ف کی دیوا ر بوستان سعد ی سے بنا لی ہے۔ سعد ی شیر از ی کی یہ د ونو ں کتا بیں علم کی وہ مضبو ط فصیلیں ہیں جن پر صدیو ں سے جہا لت کی منجنیق پتھر بر سا ر ہی ہے مگرکسی دیوا ر کو ذرا سا بھی نہیں سر کا سکی ۔ پچھلی دیو ار کے طو ر پر شہا ب الد ین سہرور دی کی کتا ب المعارف العا رف کھڑی کر دی ہے۔ دنیا ئے تصو ف کی یہ وہ کتا ب ہے جو صو فیو ں کو بھٹکنے سے رو کتی ہے۔ اور چھت کے طور پر عمر خیا م کی ربا عیوں کا مجمو عہ رکھ دیا ہے ۔ ربا عیا ت عمر خیام وہ میکدہ ئ خیا ل ہے جہا ں شا عر ی کے پر جلتے ہیں وہ کئی اور بھی کمر ے بنا تا ہے جن میںبخا ر ی شر یف ، منطق استخر ا جیہ، کیمیا ئے سعادت ، تا سین، فتوحا ت ، مکیہ اور نجا نے کو ن کونسی کی کتا بیں دیو ا ر وں اور چھتو ں کے طو ر پر استعمال ہو جا تی ہیں ۔ بچے کا محل تیا ر ہو چکا ہے اور اب وہ اس محل میں داخل ہو نے کی کوشش کر رہا ہے یہی کو شش کر تے کر تے بچہ جو ان ہو جا تاہے ۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ اس نے گلستا ن و بو ستا ن سعد ی کی دیوار یں پہن رکھی ہیں ۔مسلم و بخا ری کو چھتو ں کے طو ر پر اوڑ ھ رکھا ہے ۔ اس کا سینہ علم کے اعجا ز سے بھرا ہوا ہے اور دما غ میںرب زدنی علما کاور د جا ری ہے ۔ وہ با ر با ر کہہ رہا ہے ۔اے رب میرے علم میں اضا فہ کر۔ اس نے اسرا رِ کا ئنا ت کے راز دا ں یہ الفا ظ زند گی کا حاصل بنا ئے ہوئے ہیں کہ ما ں کی گو د سے لحد کی آرا م گا ہ تک علم حاصل کر و۔ اور اس حد یث کو اپنے ہر سفر کی بنیا د بنا رکھا ہے کہ علم حا صل کر و چاہے تمہیں چین ہی کیو ں نہ جا نا پڑ ے ۔ +کتا بو ں سے کھیلنے والا وہ بچہ علم کی تلا ش میں کہا ں تک پہنچ گیا۔ آئیے دیکھتے ہیں اس بچے کی لا ئبر یر ی جو ا ب بچے کے سا تھ ساتھ بز ر گ تر ہو تی چلی جا رہی ہے ۔ یہ لا ئبر یر ی بر یڈ فور ڈ میں تقریبا ً دس کمروں پر مشتمل ہے ۔اس میں دنیا بھر سے نا یا ب کتا بیں جمع کی گئی ہیں۔ وہ بچہ دنیا کے جس ملک میں گیا وہا ںسے رو شنی کا یہی ذخیر ہ وافر مقدا ر میں اٹھا لا یا اس نے زند گی میں جو کچھ محنت مشقت سے کما یا اس کا زیا دہ حصہ اسی کا رخیر پر صر ف کردیا اور نہ صرف خو دا ن کتا بو ں سے اکتساب فیض کیا بلکہ ہر علم کے متلا شی کے لیے اس کے در و ازے وا ر کھے۔ +مجھے منصو ر حلا ج کے شعر ی مجمو عہ ’’ دیو ان منصو ر ‘‘ کی تلا ش، اس لا ئبر یر ی تک لے گئی تھی۔ میں نے حیر ت سے بریڈ فورڈ جیسے شہر میںاس ذا تی لا ئبر یر ی کو دیکھا ۔اس میں اردو ، فا ر سی ، عر بی ، اور انگر یزی زبان کی ہزاروں کتا بیں مو جو د تھیں ۔ علمی مذہبی اور ادبی معلو ما ت پر کتا بوں کا اتنابڑ ا ذخیر ہ مجھے بر طا نیہ میںکسی اور شخص کے پا س نہیں دکھا ئی دیا ۔ +تفا سیر کے شعبے میں دو سو کے لگ بھگ تفا سیر مو جو د ہیں۔ تقر یبا ً ہما رے قر ب جوا ر میں بو لی جا نے والی ہر زبان کے اندر لکھی گئی تفسیر وہا ں مو جو د ہے ۔ ابوا لفضل کی غیر منقو ط تفسیر القرا ن بھی نظر آئی۔ محمد علی لا ہو ری کی بیا ں القران بھی وہاں مو جو د تھی ۔ تفسیر ابن کثیر تو خیرا ب ہر جگہ مل جا تی ہے۔ میرے لیے حیر ت کی با ت یہ تھی کہ ایسی تفا سیر جو مسلک کے اعتبا ر سے ان کے ساتھ لگا نہیں کھا تیں وہ بھی وہا ں پڑ ی ہو ئی تھیں۔ +احا دیث کی تما م کتا بو ں کے علا وہ شر و حا ت احا دیث پر بھی بے شما ر کتا بیں اس لا ئیر بر ی میں ہیں اور اصول حد یث پر جو کتا بیں وہا ں پڑ ی ہیں انہیں نو درا ت میں شما ر کیا جا تا ہے۔ فقہ کے حو الے سے بھی وہ کتب خا نہ کما ل کی جگہ ہے اصول فقہ پر کونسی کتا ب ہے جو وہا ں مو جو د نہیں ، فلسفہ اور منطق کے با ب میں کوئی کمی نہیں۔ معا نی ، بدی ،صر ف اور نحو کے مو ضو ع پر بھی اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب وہا ں نظر آتی ہے ۔عر بی لغت پر کتا بوں کا ایک وسیع ذخیر ہ مو جو د ہے ۔ صو فی از م پر ہر ممکنہ کتا ب جمع کی گئی ہے۔ ایسے قلمی نسخے جو صر ف بڑی بڑی لا ئبر یر یوں میںپڑ ے ہو ئے ہیں ان کی عکسی کا پیا ں تیار کر ائی گئی ہیں۔ یو ں مجھے یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچا ہٹ نہیں ہو رہی کہ جمع کر نے والی شخصیت وا قعی کتا بوں سے سچا عشق کر تی ہے اور اس شخصیت کا، اس بچے کا نام ہے ،پیر سید معر و ف حسین شا ہ ۔ جو شخص اس لا ئبر یر ی سے گز ر کر ان تک پہنچتا ہے اسکی نگا ہ اس شخصیت کو کسی اور نگا ہ سے دیکھنے لگتی ہے۔ +پر انے زما نہ میں سفر کیا تھا ؟ ایک عذا ب تھاا سی لیئے عر بوں کے ہا ں ایک مقو لہ تھا ۔ +’’ اَ السَّفَرْ سَقْر’‘ وَّ لَوْ کَانَ فَرْ سُخا ً ‘‘ +﴿سفر سقر یعنی دو زخ ہے چاہے ایک میل کا ہی کیو ں نہ ہو ﴾ +اور یہ مقولہ یو نہی وجو د میںنہیں آگیا تھا اپنے زمانے کی تکلیف دہ مسافتوںسے نکلا تھالو گ پید ل یا او نٹو ں گھو ڑ و ں پر ایک جگہ سے دو سری جگہ جا تے تھے ۔را ستے دشوا ر گزا ر تھے ۔مو سم تو نا قا بل اعتبا ر ہو تا ہی ہے ۔مسا فر ہر قسم کے مو سم کا مقا بلہ کر نے کے لیے سا زو سا مان سا تھ لے کر اتنی گر انبا ری میں کہا ں چل سکتا تھا۔ دو ر دو ر تک آبا دی کا نام و نشا ن تک نہ ہو تا تھا زا دِ را ہ بو قت تما م ساتھ رکھنا ہو تا مگر اسکے ہر وقت کم پڑ جا نے کا خطر ہ ہو تا تھا ۔اپنے سا تھ اپنی سوا ر ی کا بھی کھانے پینے کا سا ما ن سا تھ رکھنا ہو تا تھا پھر یہ علم نہیں کہ کہا ں مسا فر یا اسکی سوا ر ی کے جا نور کو کوئی بیما ری لا حق ہو جا ئے ایک جگہ سے دو سر ی جگہ منتقل ہونے میں ہفتے ، مہینے اور سا ل لگ جا تے تھے را ہِ منزل کا تعین دشوا ر تھا ۔ را ستے مصئو ن و ما مو ن نہ تھے۔ ہر قدم پر رہز نو ں کا خطر ہ ہو تا تھا ۔ اکیلا آدمی سفر کی جر ات نہ کر سکتا تھا ۔کئی کئی روز قا فلوں کا انتظا ر کیا جا تا کوئی قا فلہ تیا ر ہو تا تو اسکے بھی را ستے میں لُٹ جا نے کا خطر ہ رہتا تھا کیو نکہ کوئی کا رو اں اپنے سا تھ فو ج لے کر تو نہیں چل سکتا تھا ادھر ہر قدم پر راہ بھٹک جا نے کے ہو لنا ک اند یشے رہتے اس وجہ سے لو گ سفر کو دوز خ سے تعبیر کر تے اور حتی الا مکا ن اس سے پر ہیز کر تے تھے ۔ قرآن حکیم نے پہلی دفعہ لو گو ں کو سفر پر اکسا یا اور بتا یا کہ پوری دنیا انسا ن کا وطن ہے۔ سفر کر و زمین میں گھو مو پھر و تو تُم دو سر ی قو مو ں کے عبر تنا ک حا لا ت و وا قعا ت دیکھ سکو گے ۔اجڑ ی ہو ئی بستیو ں کو دیکھو گے اور تمہیں معلو م ہو گا کہ اللہ کی نا فر ما نی پر کتنے لو گو ں کو خو د انکی بد کا ر ی نے گھیر لیا اور عذا ب خدا وند ی کی گر فت میں آکر تہس نہس ہو گئیں ۔تمہیں معلو م ہوگا کہ زمین میں بقا صر ف اسی کو حا صل ہو تی ہے جو نسل انسانی کے لیے نفع بخش ہو ۔ +واَ ما ماَ یَنْفَعُ النَا سَ فَیَمْکْثْ فِی الْا ر ْضِ ۔ +﴿بقا اسی کو حا صل ہو گی جو نو عِ انسا ن کے لیے نفع بخش ہو گا ﴾ +یہی اللہ کا قا نو ن ہے ۔پیغمبر یہی قا نو ن آکر بتا تے رہے اور اسی قا نو ن سے اعر ا ض بر تنے والو ں کو اُنکے انجا م سے خبر دا ر کرتے تھے۔ +قُلْ سیْرُ وْ ا فِی الْاَرْ ض ثُم َ انْظرو ا کَیْفَ کَاَ نْ عَا قِبَۃْ المکذبین +﴿ اے اللہ کے رسو ل فر ما دیجیے، لو گو زمین میںچلو پھر و اور دیکھو کہ جن لو گو ں کوانجا م بد سے ڈرا یا جا تا رہے اور وہ نہ ما نے تو ان کا انجا م کیا ہو ا﴾ +اشا عتِ اسلا م کے لیے اور خدا کے پیغا م کو دنیا کے ہر گو شے تک پہنچا دینا بھی سفر پر اُکسا تا اور اسکی تر غیب بنتا رہا ۔ یہ بھی بتا یا گیا کہ حکمت و دانش مو من کی گمشد ہ چیز ہے، پس اسے چا ہیے کہ وہ اسے دنیا میں تلا ش کر ے اور اس تلا ش و جستجو میں دو ر درا ز کے سفر تک سے دریغ نہ کرے۔ حضور �ö ’’ ا طلبو العلم و لوکانا با لصین‘‘ +﴿علم تلا ش کر و چا ہے اسکی جستجو میں تمہیں چین کے دو ر درا ز ملک میں ہی کیو ں نہ جا نا پڑ ے ﴾ +اس طر ح سفر بھی ایک طر ح کی عبا د ت بن گیا۔ مسلما ن خلفانے را ستے مصئو ن کئے۔ رہز نو ں کا قلع قمع کیا۔ سٹر کیں اور شاہراہیں بنوا ئیں۔ سڑ کو ں پر سا یہ دا ر در خت لگوا ئے ۔جگہ جگہ سرا ئیں بنوا ئیں کنو ئیں کُھد وا ئے اور سفر کے لیے ہر طر ح کی آسانیاںمہیا کیں۔ اہلِ علم میں بلا ذر ی اور یا قو ت حموی جیسے لو گ پیدا ہو ئے، جنہو ں نے دو ر درا ز کے ملکو ں اور شہر و ں کا تعارف کر ایا۔ وہا ں کے مو سموں ا��ر پیدا وا ر وں سے شنا سا ئی فر اہم کی اور علم جغر افیہ کی بنیا د پڑی ۔ بر ی اور بحر ی سفر شر و ع ہوئے اور عر بو ں کا قد یم مقولہ بد ل گیا ۔ بقو ل مو لا نا حا لی یہ حا لت ہو گئی کہ �ò +سفر جو کبھی تھا نمو نہ سقر کا +وسیلہ ہے اب وہ سر اسر ظفر کا +پیر معرو ف شا ہ صا حب کی زند گی کا بیشتر حصہ بھی سفر میں گز ر ا۔اور یہ سا را سفر تبلیغی مقا صد کے لیے ہوا ۔انہو ں نے سفر کی تفا صیل اپنی ڈا ئر یو ں میں محفو ظ کیں جن سے ہم نے انکے سفر نا مے تر تیب دیئے ۔ ان میں سب سے زیا دہ پر سعادت سفر تو سفرِ حج ہے۔ انہو ں نے ابتک چا ر دفعہ یہ سعا دت حا صل کی۔ انکا سفر نا مہ ئِ حج شا مل ِ کتا ب کر نے سے پہلے ہم یہ وضا حت ضر و ر ی سمجھتے ہیں کہ انکے نز د یک حج کے مقا صد کیا ہیں ۔ آئندہ صفحا ت میں انکی تحر یر و تقر یر سے ترتیب پا نے وا لا مقالہ ’’ حج اور مقاصد حج‘‘ آر ہا ہے ۔ +حج اور اس کے مقا صد +قر آن حکیم انسا نی تمد ن کی ابتدا ئ کا ذکر کر تے ہو ئے بتا تا ہے ۔ +﴿نسل ِ انسانی شر و ع میںامت ِ وا حد ہ تھی پھرا ختلا فا ت پیدا ہو گئے﴾ +فکر و نظر کا یہ اختلا ف آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا ۔قبائل تقسیم ہو ئے پھر نسلو ں اور قو مو ں تک یہ اختلا ف پھیلتا گیا اور صورت حال یہ ہو گئی کہ آدمی آدمی کا دشمن ہو گیا۔ قو میں قو مو ں کو آگ اور خو ن میں ڈبو نے لگیں ۔زمین پر لکیر یں کھینچ دی گئیں اور قومیت و طینت کے نام تعصب ، بغض و حسد اور با ہمی نفر ت و عدا و ت کے جہنمی الاؤ دہکنے لگے۔ +اللہ تعالیٰ نے انسا نو ں میں یہ در ند گی پیدا ہو تے دیکھی تو انبیا ئ و رسل کی تر سیل کا سلسلہ زر یں شر وع کیا اور وحی کی رہنما ئی کا آغا ز کر دیا ار شا د ربا نی ہے۔ +کَانَ النَّا سُ اُمَّۃً وَّ حِدَ ۃً قف فَبَعَثَ اللّٰہ البِنّٰیِیّن‘َ مُبَثِّرِ یْنَ وَ مُنْذرِ یْنَ وَ اَ نْزَ لَ مَعَھُمْ الْکِتَا بَ با لْحَقِّ لِیَحْکْمُ بَیْنَ النَّاس فِیْمَااخْتَلَفُوْ ا فِیْہ(2/213) +﴿نسل انسا نی امت ِ وا حد ہ تھی پھر اس میں اختلا فا ت نمودا ر ہو ئے، پس اللہ نے انبیا ئ کو بشا ر ت دینے والے اور ڈر انے والے بنا کر بھیجا اور انکے سا تھ بر حق کتا ب نازل کی تا کہ وہ لو گو ں کے با ہمی اختلا فا ت کو ختم کر یں﴾ +یو ں سلسلہ تر سیل انبیا ئ کا مقصد لو گو ں میں تما م قسم کے اختلا فا ت ختم کر کے نسلِ انسانی کو پھر امت ِ وا حد ہ میں ڈھا لنا تھا ان انبیا ئ نے وضا حت کی کہ رنگ ، نسل ، زبان ، وطن کے اختلاف کے با و جو د سب انسا ن برا بر ہیں ، ایک امت ہیں،اس لیے ان میں اتحا د و اتفا ق ہو نا چا ہیے۔ انبیا ئ نے چا ہا کہ ایک امت کی تشکیل کے لیے ایک اجتما عی نظا م ہو۔ اب چو نکہ ایک اجتماعی نظا م کے لیے ایک مر کز محسو س ہو نا چاہییتھا ۔یہ مر کز محسو س کعبہ کے نا م سے شہر مکہ میں حضر ت ابر اہیم علیہ السلام کے ہا تھو ںکرا یا گیا اور اس تعمیر میں ان کے فر زند جلیل حضرت اسمعیل علیہ السلام ان کے ساتھ شریک رہے۔ +’’اِنَّ اَوَّل بَیْتٍ وُّ ضِعَ لِنَّا سِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مَّبَا رَ کاً وَّ ھُدً ی لِّلْعَا لَمِینo ﴿3/96﴾ ‘‘ +﴿حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا گھر ﴿جو رنگ ، نسل ، قو م ، وطن کے امتیا زا ت سے بلند ہو کر ﴾ خا لص انسا نیت کے لیے وجو د میں آیا وہ مکہ کی مبا ر ک وا دی میں خا نہ کعبہ تھا ﴾ +اسے تما م انسا نی نسبتو ں سے بلند اور ار فع قر ا ر دینے کے لیے خدا نے اسے ’’ اپنا گھر ‘‘﴿بیتی2/25 ﴾ کہا اسے ’’ الناس ‘‘ یعنی انسا نی ہیئت ِ اجتما عیہ کا مر کز قر ار دیا ۔کعبہ اور حج کے سلسلہ میں قر آن حکیم میں جتنی آیا ت وا ر د ہو ئی ہیں تمام میں ’’ النا س ‘‘ ہی کا لفظ استعمال ہو ا ہے چو نکہ اللہ کا مقصد انسا ن کی عا لمگیر برا در ی کی تشکیل ہے اسلیئے جس مقا م کو اس کا اجتما عی مر کز بنا یا گیا اُسے ’’اللنَّاس ‘‘ ہی کہاجا نا چا ہیے تھا ۔ نو عِ انسا نی کی اس مر کز یت سے مقصو د کیا تھا ؟ اسکی وضا حت کر تے ہو ئے فر ما یا ۔ +’’جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃ البَیْتَ الْحَراَم قِیاَ ماً لِلّنَّا س وَ اَمْناًo ﴿2/125 ﴾‘‘ +﴿اللہ تعا لیٰ نے کعبہ کو واجب الا حتر ام قر ار دیا تا کہ اس کی مر کز یت سے نو ع ِ انسا نی اپنے پا ئو ں پر کھڑ ی ہو سکے اور عا لمگیر امن قا ئم ہو ﴾ +اس سے دو مقا صد سا منے آتے ہیں۔ +ایک قیا م نسل انسانی اور دو سرے بین الا قو امی امن کا قیا م +اقوا م عالم ہمیشہ دو گر و ہو ں میں بٹی رہی ہیں ایک سپر پا ور ز یعنی مہیب قو تو ں کی ما لک قو میں اور دو سر ی کمز ور اور پسما ند ہ قو میں ۔یہ کمز ور قو میں سپر پا ورز کا ،’کھا جا ‘ہو تی ہیں اس لیے وہ کوشش کر تی ہیں کہ زیا دہ سے زیا دہ کمز و ر قو میں انکے ساتھ ہو ں اور ہر سپر پاور زیا دہ سے زیادہ امدا د اور قر ض کا لا لچ دے کر زیا دہ سے زیا دہ کمزور قو مو ں کو اپنے سا تھ ملا تی ہے۔ اسکی یہ بھی کو شش ہو تی ہے کہ کمزور قو م کبھی طا قتو ر نہ بن پا ئے ،کبھی اپنے پا ئو ں پر کھڑ ی نہ ہو سکے، تا کہ ہمیشہ اس کی محتا ج رہے لیکن اگر قو میتو ں کا تصو ر ختم ہو جائے اورسا ری نسل انسانی امتِ وا حد ہ بن جا ئے تو اسے اپنے پا ئو ں پر کھڑا ہو نے کے لیے کسی اور سہا رے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔تر قی ہو گی تو تب جب سا ر ی نسل انسا نی تر قی کے ثمرا ت سے بہر ہ ور ہوگی ۔یہ ہے ’’ قیمٰا لًلِنَّاسِ‘‘ کا اصل مفہو م اور یہ ہے کعبہ کی مر کز یت کا پہلا مقصد ۔ +دو سر ا مقصد قیا م اِمن عا لم ہے ، جب تک نسل انسا نی بٹی رہے گی، بڑے چھوٹے کی تمیز باقی رہے گی۔ ایک دو سرے کے وسا ئل پر قابض ہو کر اپنی بڑ ائی کی شا ن بڑ ھا تی رہے گی۔ قو مو ں کی تفر یق برقر ا ر رہے گی تو ایک دو سرے سے مقابلہ بھی بر قرا ر رہے گا اور یہ مقا بلہ اسی طر ح جنگو ں کو جنم دیتا رہے گا جیسی صو ر ت حا ل آج ہے قومیں اپنے عوا م میں دوسری قوم کے عوا م کے خلا ف خوا ہ مخواہ کے تعصبا ت پیدا کر تی اور نفر تیں بڑ ھا تی رہتی ہیں۔ عوا م پر جنو ن سوا ر کر دیا جا تا ہے اور قو میں ہمہ وقت ایک دو سرے کے خلاف حالت جنگ میں رہتی ہیں۔ کھلا ڑی کھیل کے میدا ن میں ایک دوسرے کا مقا بلہ کر رہے ہیں اور عو ام گھر میں بیٹھے اعصابی تنا ئوکا شکا ر ہیں ۔ذر ا ئع ابلا غ اس تنا ئو کو بڑ ھا وادے رہے ہیں۔ ادھر زعما ئے سیا ست اپنی بیا ن با زی سے ہر وقت آگ بھڑ کا تے رہتے ہیں۔ اور لو گو ں کو جنگ کے خو ف میں مبتلا رکھتے ہیں۔ تا کہ وہ انکے نیچے سے کر سیا ں کھسکا نے کے متعلق نہ سو چ سکیں اور پھر کسی وقت بھی جو الا مکھی پھٹ جا تا ہے اور جنگ چھڑ جا تی ہے۔ +بڑی قو تیں بری اسی لیے بنی ہیں کہ انکے پا س ہو لناک اسلحہ اور وسا ئل ہلاکت ہیں ۔انکے اسلحہ کے بے پنا ہ کا ر خا نے ہیں ۔ ملکی وسائل کا زیا دہ حصہ اسلحہ سا زی میں جھو نکا جا تاہے انہیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے یہی اسلحہ کمز ور اقوام پر بیچنا ہے اس لیے وہ اپنے خر یدا ر پیدا کر نے کے لیے ملکو ں کو حا لتِ جنگ میں مبتلا رکھتے ہیں تا کہ انہیں اپنی بقا کا سوا ل ستا تا رہے وہ زیا دہ سے زیا دہ اسلحہ خر یدتے رہیں ۔ پھر آج کی جنگیں پہلی جنگو ں کی طر ح نہیں کہ محدو د انسا نی ہلا کتو ں کے بعد جنگ ختم ہو جائے۔ آج جنگ چھڑ تی ہے تو کئی ملک اس میں شامل ہو تے ہیں اور اسلحہ ایسا ہے کہ ایک بم کتنے شہرو ں کو بھسم کر دیتا ہے ۔بیسویں صد ی اس لحا ظ سے تا ریخ کی انتہا ئی ہلاکت خیز صد ی تھی کہ صد ی کے پہلے پچاس بر س میں دو دفعہ پو ری انسا نی برادری بر با د یو ں کا شکا ر ہو ئی اور دو سر ی جنگ عظیم میں ایٹم بم بھی استعما ل کر دیا گیا۔ ہیرو شیما اور نا گا سا گی جیسے شہر دہکتے ہوئے انگا رے بن گئے دنیا چیخ اٹھی ’’ امن ، امن‘‘ +بیت اللہ کا دو سر ابڑا مقصد عا لم انسا نیت میں قیام اِمن ہے۔ وہ خو د بھی جا ئے امن ہے اور دو سرے قو مو ں کو بھی امن و امان اور حفا ظت و سلا متی فر اہم کر تا ہے ۔ +’’وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَا بَۃً لِّلنّاِ س ِ وَ اَمْناًo﴿2/125﴾‘‘ +﴿اور ہم نے کعبہ کو نو ع ِ انسا نی کی اجتما عیت کا مر کز اور مقام امن بنا یا ﴾ +’’ وَمَنْ دَخَلَہ‘ کَا نَ آمِناًo ﴿3/97 ﴾‘‘ +﴿جو یہاں دا خل ہو گیا ما مون و محفوظ ہو گیا ﴾ +انسان تو بڑی چیز ہے اور اسلا م کے نز دیک کسی ایک انسا نی جا ن کا قتل سا ری نسل انسا نی کا قتل ہے یہا ںتو مکھی اور مچھر تک کو امان مل جا تی ہے کسی چڑ یا تک کو نہیں ما را جا سکتا ۔ +مگر کیا صر ف کعبہ کی عما رت دنیا کو امن فر اہم کر دیتی ہے اور انسا نیت کو اپنے پا ئو ں پر کھڑ ا کر دیتی ہے، نہیں یہ کا م وہ امت کر تی ہے جو کعبہ کو اپنا مر کز بنا تی ہے ،جیسے ہم کہتے ہیں لند ن کی یہ پا لیسی ہے وا شنگٹن کا یہ موقف ہے تو اس سے وہ شہر مرا د نہیں ہوتے، وہ مملکتیں مرا د ہو تی ہیں جنکے یہ شہر دا ر الحکو مت ہیں ۔ دنیا کو امن اور انسا نیت کو قیا م عطا کر نے والی بھی وہ امت ہو گی جس کا مرکز کعبہ ہے یہ امت دنیا میں انصا ف کر ے گی تما م اقوا م عِالم کے کر دا ر کی نگرا ن ہو گی جب ایک قوم دو سری قو م پر زیادتی کر نے لگے گی۔ یہ اُسے اس زیا دتی سے رو ک دے گی ۔ یہ عد ل و انصا ف کو فر و غ دے گی اور ظلم ودراز دستی سے مما نعت کرے گی ۔ +’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّا سِ تَأ مُرُ وْنَ بِا لْمَعْرُوْ فِ وَ تَنْھَوْ نَ عَنِ الْمنْکرَ‘‘ +﴿تم وہ بہتر ین امت ہو جسے نو ع انسا نی سے چھا نٹ کر الگ کر لیا گیا ہے تاکہ بھلا ئی کو فر و غ دو اور بر ائی سے رو ک دو﴾ +جو امت امر با لمعر و ف اور نہی المنکر کے فرا ئض سرا نجا م دے گی، عد ل و انصا ف کر کے امن کے قیا م کا ذر یعہ بنے گی،زیا دتی کرنے والوں کو زیا دتی کر نے سے رو کے گی۔ اُسے طر ف دا ر ی اور جا نب داری سے دو ر ہو نا چا ہیے کسی ایک طر ف جھکا ئو اور دو سری طرف سے بیز ا ر ی کا رویہ نہیں اختیا ر کر نا چا ہیے ہر ایک سے اسکا فا صلہ یکسا ں ہو نا چا ہیے اس لیے اس امت کو امتِ وسطیٰ یعنی در میان کی امت کیا گیا ۔ +’’وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْ نُوْ ا شُھَد َ ا ئَ عَلیَ النَّا سِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً‘‘(2/143) +﴿اور اسی لیے ہم نے تمہیں ایسی امت بنا یا جو تما م اقوا م عالم سے یکسا ں فا صلے پر رہے تاکہ انکے اعما ل و کردا ر کی نگرا نی کرسکے اور رسو ل تمہا رے اعما ل و کر دار پر نگرا ن ہو ﴾ +حج کی تما م آیا ت میں لفظ ’’ الناس ‘‘ استعما ل کیا گیا ہے اور امتِ مسلمہ کو ’’الناس‘‘ کی اما مت سو نپی گئی ہے۔ امت ِ مسلمہ کا دوسرانام ملتِ ابر اہیمی ہے ۔یعنی وہ امت جو رو ش ِ ابر اہیمی پر چلتی ہے اور یہ رو شں صر ف مسلما ن قو م ہی کی ہے +بر اہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہو تی ہے +ہوس چھپ چھپ کے سینو ں میں بنا لیتی ہے تصو یر یں +جنا ب ابر اہیم علیہ السلام ��ے سر پر تا ج اما متِ انسا نی رکھا گیا ۔ +﴿ ہم تجھے نسل انسا نی کا اما م بنا ئے دیتے ہیں﴾ +اسی لیے امت مسلمہ کو کہا گیا ۔ +﴿تم منصب و مقا م ابرا ہیمی کو اپنی تما م تگ و تا ز کی جو لا ں گا ہ بنا لو ﴾ +حج عظیم اجتما ع ہے جس میں با ہمی مشا ور ت سے امت دیگرا قو ام کے نز اعی امو ر کا فیصلہ کر ے گی اور اپنی آئندہ سا ل کی پالیساں زیر بحث آئینگی۔ اس لیے حج کا اذنِ سا ری نسل ِ انسا نی کے لیے ہے اور حکم خا ص امتِ مسلمہ کے لیے ۔ چنانچہ ابر اہیم علیہ السلام سے کہا گیا +’’وَ اَذِّنْ فِی النَّا س بِا لْحَجِo ﴿22/27﴾‘‘ +﴿تم اے ابرا ہیم (ع) تما م انسا نو ں کو دعو ت دو کہ وہ حج کے لیے آئیں﴾ +اس اسو ئہ ابرا ہیمی کی اتبا ع میں ،ملت ابرا ہیمی پر یہ فر یضہ عا ئد کر دیا گیا کہ وہ حج کا اہتما م کر یں ظا ہر ہے کہ حج کا اجتما ع اصو لاً تو امت کی با ہمی مشا ور ت کے لیے ہے ،اس لیے افرا د ملت اسلامیہ ادا ئیگیِ فر ض کے لیے اس میں شر یک ہو نگے لیکن ’’النَّاس‘‘ بطو ر مبصر شر یک ہو سکتے ہیں اسی لیے امت ِ مسلمہ کو کیا گیا ۔ +’’وَ لِلّٰہِ عَلیَ النَّا سِ حِجُّ الْبَیْتَ مَنِ اِسْتِطَا عَ اِلَیْہِ سَبِیْلاًo ﴿3/96﴾‘‘ +﴿جو لو گ بھی وہا ں تک پہنچنے کی استطا عت رکھتے ہو ں انہیں چا ہیے کہ ان مقا صد کے حصو ل کے لیے جو خدا نے مقر ر کر رکھے ہیں حج کے اجتما ع میں شر کت کریں﴾ +حج ابر اہیم علیہ السلام سے شر وع ہو۔ عر بو ں نے بھی اسے اختیا ر کئے رکھا لیکن حج کی رو ح ختم ہو گئی۔ اب یہ ایک رسم ہو گیا۔اسکی حیثیت ایک میلہ سی ہو گئی۔ جہا ں وہ لو گ ہرطر ح کی مشر کا نہ اور فا سقانہ رسو م ادا کر تے تھے تا ہم اسکی اہمیت با قی رہی۔ قریش حج کا اہتما م کر تے اس لیے کعبہ کی تو لیت بھی انہی کے پا س تھی اور معا شرہ میں بھی انہیں محترم اسی وجہ سے سمجھا جا تا تھا ۔حج کے لغو ی معنی ما دہ کے اعتبا ر سے قصد وا رادہ کے بھی ہیں اور رو ک دینے کے بھی۔ زمانہ قبل اسلا م میں اگر چہ حج کو ایک بے روح رسم بنا دیا گیا تھا لیکن ایک بڑی اہم با ت مو جو د تھی اور وہ یہ کہ لو گ اس میں اپنے منا قشا ت پیش کر تے اور انکے تنازعات مٹا ئے جا تے، جس کی طر ف سے تعد ی اور زیا دتی ہو تی اسے اس تعد ی سے رو ک دیا جا تا ۔ اور یہ رو کنا بز ور و جبر نہ ہو تا اسے دلا ئل و بر اہین سے قا ئل کر دیا جا تا کہ اس کا اقدا م غلط تھا ۔ یہیں سے لفظ ’’ حجت ‘‘ ہے اور س لیئے قرآن حکیم اپنے بصیر ت افر وز دلا ئل کو’’اَلحجۃاللّٰہ البا لِغہَ‘‘(6/149)کہتا ہے ۔غر ض حج کا مقصد یہ تھا کہ قو م ، نسل ، رنگ ، وطن یہ تمام امتیا زا ت کو با طل سمجھ کر ایک وسیع انسا نی برا دری کا قیا م عمل میں لا یا جائے جس کی اما مت امت مسلمہ کے پا س ہو اور وہ ساری دنیا میں امن اور انصا ف قا ئم کر ے ۔حج کے یہی مقا صد اعلیٰ تھے جنہیں جنا ب رحمت اللعا لمین �ö نے اپنے اس خطبہ میں دہرا یا جسے خطبہ حجتہ الو دا ع کہا جاتا ہے اور جو نسل انسا نی کے لیے منشورِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے ۔آپ نے فر ما یا +﴿سُن لو کہ جا ہلیت کے اند ھیرے دنو ں کے تمام آئین و ضو ا بط میرے قد مو ں سے کچلے پڑ ے ہیں﴾ +’’اَیَّھَا النَّا س الا ان ربکم وا حد ، وان ابا کم واحد ۔ الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لا حمر علی اسود لا لاسود علی احمر الا با لتقوٰی‘‘ +اے افراد ِ نسل انسانی خو ب غو ر سے سُن لے کہ تم سب کا رب ایک اور تم سب کا با پ ایک ہے اس لیے کسی عر بی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کوکسی عر بی پر ،کسی گو ر ے کو کسی کالے پر، کسی کا لے کو کسی گو رے پر، ��وئی فضلیت نہیں مگر تقوٰ ی کے سبب۔ +’’ایہا الناس کلکم من واٰ دم واٰدم من تر اب‘‘ +اے افرا د ِ نسل انسا نی تم سب آدم کی اولا د ہو ا ور آدم مٹی سے پیدا کیا گیا تھا ۔ اس خطبہ میں تما م تفا صیل بیا ن کر نے کے بعد آپ جا نب منیٰ رو انہ ہو ئے تو فر ما یا +’’ان الز مان قد استدا ر کھیئۃ یو م خلق اللّٰہ السمو ت و الارض‘‘ +﴿زما نہ پھر پھر ا کر آج پھر اسی مر کز پرآگیا جس پر اللہ تعا لیٰ نے تخلیق ارض و سمٰوٰت کے رو ز اسے متعین کیا تھا ﴾ +یہی وہ مقصو د حقیقی تھا جس کے اعلا ن کے بعد آپ (ص) نے فر ما یا ۔ لو گو بتا ئو +﴿بو لو کیا میں نے پیغا م خدا و ند ی تم تک پہنچا دیا ﴾ +سا را مجمع یک زبا ن ہو کر پکا ر ا یقینا آپ نے بطر یق احسن فر یضہ ئِ رسا لت سر انجام دیا آپ نے فرما یا +﴿اے اللہ تو گوا ہ ہو جا﴾ +تین مر تبہ یہی ہوا پھر فر ما یا +’’فلیبلغ لشا ہد الغا ئب‘‘ +﴿تو جو لو گ یہا ں مو جو د ہیں۔ وہ یہ پیغا م ان لو گو ں تک پہنچا دیں جو مو جو د نہیں ﴾ +اس طرح امتِ مسلمہ پر فرض ہو گیا کہ یہ پیغا م قیا مت تک نسل انسا نی کو پہنچا تی چلی جا ئے ۔ +اس خطبہ میں حضور �ö نے بھی ’’ النا س ‘‘ فر ما یا اور تما م نسلِ انسا نی کو بتا یا کہ انسا نو ں اور انسا نو ں میں پید ا کر دہ سارے امتیا زات با طل ہیں ۔معیا ر فضیلت صر ف تقوٰ ی ہے اور وہ معیا ر اللہ کے پا س ہے ۔ +’’اِنَّ اَکْرَ مَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ‘ +﴿تم میں اللہ کے نز دیک زیا دہ قابل تکر یم و احتر ام وہی ہے جو زیا دہ متقی ہو﴾ +پہلی جنگ عظیم کے بعد اقو ام عِالم نے محسو س کیا کہ کوئی ایسا ادا رہ ہو نا چاہیے جو اقو ام عالم کے با ہمی تنا ز عا ت کا تصفیہ کرے اور ’’ انجمن ِ اقو ام ‘‘ کے نام سے ایک ادا رہ قائم کیا گیا مگر یہ ادا رہ جن قو مو ں پر مشتمل تھا وہ خو د ہی غا صب تھیں ۔اقبا ل نے اس ادا رہ کے قیا م پر بڑی خو بصو ر ت با ت کہی تھی �ò +من ازیں بیش ند انم کہ کفن دز دے چند +بہر تقسیم قبور انجمنے سا ختہ اند +﴿تر جمہ میں اس سے زیا دہ نہیں جا نتا کہ چند کفن چو رو ں نے قبر یں تقسیم کر نے کے لیے ایک انجمن بنا ئی﴾ +اور ان کفن چو ر وں کی انجمن کے منشو ر کی سیا ہی بھی خشک نہیں ہو تی تھی کہ یہ تہس نہس ہو گئی اور دوسر ی جنگ عظیم چھڑ گئی اسکی ہلاکت خیز یو ں کے بعد اقوا م متحد ہ کا ادا رہ وجو د میں آیا جس کی کا ر کر دگی دنیا کے سامنے ہے ۔اسکی با گ دو ڑ مکمل طو ر پر غاصب چو دھر یو ں کے ہا تھ میں ہے اور اس نے آج تک کو ئی مسئلہ حل نہیں کیا ۔ اقبال نے انجمن اقوام کے قیا م پر دنیا کو ملتِ اسلا میہ کے وجو د کی طر ف متو جہ کر تے ہو ئے کہا تھا �ò +مکہ نے دیا خا ک جنیوا کو یہ پیغا م +مگر مکہ کا پیغا م جب ملتِ اسلامیہ ہی بھو ل گئی تو خا کِ جنیوا کا کیا قصو ر ؟ پا سبا ن جب سو جا تے ہیں تو راہز نو ں کا را ج ہو جا تا ہے حج آج بھی با قی ہے اور دنیا بھر سے کرو ڑ وں مسلما ن یہ فر یضہ ادا کر نے کے لیے حا ضر ہو تے ہیں مگر حج کا مقصد ان پر واضح نہیں، جن مسلما نو ں پر حج کے مقاصد وا ضح تھے انہیں اللہ نے وہ قوت بخشی تھی کہ وہ کہتے تھے +�ò عا لم ہے فقط مو منِ جا نبا ز کی میرا ث +مومن نہیں جو صا حب لو لا ک نہیں ہے +ان کے سا منے اسر ائیل کی کیا حیثیت تھی مگر آج مسلما ن کر و ڑ وں کی تعدا د میں مو جو د ہیں، کئی مما لک میں ان کی حکو متیں قائم ہیں کئی اسلا می مما لک میں دو لت کی ریل پیل ہے حج کے اجتما عا ت میں خشو ع و خضو ع سے اسرا ئیل کی تباہی کی دعا ئیں ما نگی جا تی ہیں مگر وہ روز برو ز مستحکم سے مستحکم تر ہو تا جارہا ہے ۔ اقبال نے کتنی سچی با ت ابلیس کی زبا نی کہلو ائی تھی �ò +یہ ہما ری سعی پیہم کی کرا مت ہے کہ آج +صو فی و مُلا ملو کیت کے بند ے ہیں تما م +ہے طو ا ف و حج کا ہنگا مہ اگر با قی تو کیا +کُند ہو کر رہ گئی مو من کی تیغ ِ بے نیام +جس بھی فر یضہ کے مقا صد حقیقی نگا ہو ں سے او جھل ہو جا تے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ بے رو ح ورسم ہو جا تی ہے یہی حال آج حج کا ہو گیا ہے ہر سا ل حا جیو ں کی تعد اد میں ہز ارو ں ، لا کھو ں کا اضا فہ ہو جا تا ہے جنہیں سنبھا لنا ، مشکل ہو جا تا ہے پھر یہ کہ ان میں خو د بڑی بد نظمی ہو تی ہے ،کئی پا ئو ں تلے کچلے جا تے ہیں ،جو ایک دفعہ گر جا تا ہے پھر اُسے زند ہ اٹھنا نصیب نہیں ہو تا خواتین کے لیے تو تما م ارکا ن بہ سہو لت ادا کر نا نا ممکن ہے۔ اسی لیے اقبال نے اسے ’’طو ا ف و حج ‘‘ کا ہنگا مہ کہا ہے جب مقا صد فنا ہو جائیں تو فر ائض یو نہی سا ہنگا مہ بن جا تے ہیں ۔ +پیر صا حب پہلی دفعہ سفر حج پر گئے تو انہیں احسا س ہو گیا کہ مسلمانو ں کے زو ال کے اسبا ب میں سب سے بڑا سبب ارکا نِ اسلام کے حقیقی مقاصد سے صر ف نِظر کر لینا ہے اور وہ اقبال کے ہم آہنگ ہو کر کہنے لگے �ò +رگو ں میں وہ لہو با قی نہیں ہے +وہ دل وہ آر زو با قی نہیں ہے +نما ز و رو زہ و قر با نی و حج +یہ سب با قی ہے تو با قی نہیں ہے +یہی وہ تڑ پ تھی جس نے انکے دل میں تبلیغ اسلام کی مہم میں خو د مسلما نوں کو اسلام کی رو ح سے آشنا کر نے کی جد و جہد بھی شامل کر لی اور اسی کے تحت دو سرے سفرِ حج میں ’’ ور لڈ اسلا مک مشن ‘‘ کا قیا م عمل میں آیا ۔ ورلڈ اسلا مک مشن کے قیا م پر بحث اپنے مقام پر آئے گی فی الحا ل ہم اُن کے سفر نا مہ حج کو سا منے لا تے ہیں۔ +یہ سفر نا مے انکی ڈا ئر ی کے مند رجا ت ہیں ۔اس لیے انہیں تر تیب دے کران کی اپنی تحر یر شا مل کی جا رہی ہے۔ +بعض رو ایا ت میں ہے کہ کعبہ کی او لیں تعمیر حضرت آدم علیہ السلام کے ہا تھو ں سے ہو ئی لیکن علا مہ ابن کثیر ان روا یا ت پر بحث کر تے ہو ئے انہیں صحیح قرا ر نہیں دیتے ان کا خیا ل ہے ۔ +’’ یہ رائے در ست نہیں کہ کعبہ کے معمارِ اول آدم علیہ السلام تھے کیونکہ قرآن حکیم کی آیا ت اس امر کی دلیل بنتی ہیں کہ کعبہ شر یف کے پہلے معما ر جنا ب ابرا ہیم علیہ السلام ہیں۔ +﴿بے شک پہلا گھر جو لو گو ں کی عبا د ت کے لیے بنا یا گیا وہی ہے جو مکہ مبا رک میں ہے اور وہ اقوام عِالم کے لیے ہدایت ہے اس میں وا ضح نشا نیا ں ہیں ان میں سے ایک مقا م ابرا ہیم ہے جو بھی اس میں دا خل ہو تا ہے محفو ظ ہے ﴾‘‘ +﴿اسیر ۃ النبو یہ صفحہ 270ازحافظ ابن کثیر ﴾ +روا یا ت میں ہے کہ کا فی عرصہ تک عما ر ت اپنی حالت میں کھڑ ی رہی تھی۔ بعض رو ایا ت کے مطا بق یہ عما ر ت ابرا ہیمی پہلے منہدم ہو گئی تو عما لقہ نے اسے بنا یا ۔پھر کوئی سیلا ب آیا اور عما ر ت گر گئی۔ اب قبیلہ جر ہم نے اسے دو با ر ہ تعمیر کر دیا بعد کی تا ریخ جو زیا دہ یقینی ہے وہا ں سے شر و ع ہو تی ہے جب قر یش کو اسکی تعمیر نو ِ کا خیا ل آیا۔ اُس وقت یہ عما ر ت محض پتھرو ں کی چا ر دیواری تھی ۔ اس پر چھت بھی نہیں اور پتھر وں کے اوپر پتھر رکھ کر چا ر دیوار ی کھڑی کر دی گئی تھی۔ تا ہم اس وقت بھی اس عمارت کو انسا نی عقید تو ں کے مر جع کی حیثیت حا صل تھی اس وا دی غیر ذی روح کے لو گو ں کو کعبہ ہی کے تو سط سے رز ق ملتا تھا ۔لوگ دو ر دور سے گر می ، سر دی ہر مو سم میںاس کا طوا ف کر نے آتے تھے اور یہا ں کے باشندو ں کی روز ی کا سا ما ن ہو جاتا تھا قرآن نے اسی لیے کہا ۔ ﴿پس انہیں چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبا د ت ��ر یں جس نے انہیں بھو ک میں طعا م اور حا لتِ خو ف میں امن و سکو ن فر اہم کیا ﴾ +قر یش اس کے متو لی و سر پر ست تھے اور اسی فضل و شر ف نے ان میں بے انتہا کبر و نخو ت اور جا ہلی غر ور پیدا کر دیا تھا ۔ وہ اپنے آپ کو دو سرے لو گو ں سے الگ مخلو ق سمجھنے لگے تھے ۔ اور انہو ں نے جنا ب ابر اہیم علیہ السلام کے دین حنیف میں عجیب شر منا ک رسمو ں کا اضا فہ کر دیا تھا وہ خو د کو کیا سمجھتے تھے ابنِ ہشا م کا بیا ن ہے کہ وہ کہتے ۔ +’’ ہم ابرا ہیم علیہ السلام کے فرز ند ان جلیل الشان ہیں۔ ہم عز ت و عظمت کے ما لک ہیں۔ بیت اللہ کے نگرا ن ہیں۔ مکہ کے باشندے ہیں ہما رے حقو ق الگ اور بر تر ہیں ہما رے مقا م و مر تبہ کو کو ن پہنچ سکتا ہے ‘‘ +اور بقو ل ابن ہشا م ایک دوسرے کو تا کید کر تے کہ’’ حِل یعنی حر م سے با ہر کی اسطر ح تعظیم و احترا م مت کر و جس طر ح تم حرم کی تعظیم کر تے ہو ایسے کیا تو تم عر بو ں کے نز دیک اپنی عظمت کھو بیٹھو گے‘‘ ﴿اسیر ۃ النبو یہ جلوا صفحہ 216﴾ +9 ذو الحج کو تما م لو گ میدا ن ِ عر فا ت میں جمع ہو تے ۔وہا ں سے طو اف افا ضہ کے لیے مکہ مکر مہ آتے ۔میدا ن ِ عر فا ت حدو د ِ حرم سے با ہر تھا ۔ اس لیے ان کی رسم کے مطا بق اسکی تعظیم میں ان کی تو ہین تھی۔ اس لیے قر یش اور انکے حلیف قبائل کفا نہ اور خزاعہ میدا ن عر فا ت میں وقو ف کے لیے نہیں جا تے تھے ۔انہو ں نے یہ پا بند ی بھی عا ئد کر لی تھی کہ حالتِ احر ام میں وہ کسی مکان تو کجا عا م خیمو ں کے نیچے بھی نہیں آئینگے، چا ہے دھو پ کتنی ہی شد ت کی ہو، ہا ں صر ف ایسے خیمو ں کے سا یہ میں آسکتے ہیں جو چمڑے کے بنے ہو ئے ہو ں ۔ انہو ں نے بیرو ن مکہ سے آنیو الے حا حیو ں پر یہ پا بند ی بھی ڈا ل دی تھی کہ وہ حا لت احرا م میں اپنے سا تھ لا ئے ہو ئے سا ما ن ِ رسد سے کھا نا پکا کر نہیں کھا سکتے ۔انہیں ہر حا ل میں قر یش کا پکا یا ہو ا کھا نا لینا پڑے گا ۔ طوا ف کے وقت قر یش سے کپڑ ے لے کر پہن سکتے ہیں اور کو ئی کپڑا نہیں پہن سکتے اگر قر یش کا کپڑ ا کسی کو میسر نہیں آتا تو اسے بر ہنہ طوا ف کرنا پڑے گا یہ اور اس قسم کے دیگر خرا فا ت کو وہ ’’ الحمس ‘‘ کہتے تھے یہ سب اپنے جہا لت بھر ے غر و ر اور جلب زِر کے لیے تھا ۔ بہر حا ل کعبہ ان کیلئے سا ما نِ رِزق اور امن و سکو ن کا ذر یعہ تھا ۔ وہ جا ئز نا جائز د ونو ں طر ح کعبہ سے فا ئدہ اٹھا رہے تھے بہر حا ل کعبہ کی عما ر ت اسی طر ح نا مکمل حا لت میں کھڑ ی تھی کئی دفعہ قر یش کو خیا ل آیا کہ اسکی تعمیر نو کر یں لیکں وہ ایسا کر نے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے ، کیو ں ؟ اسکے کچھ اسبا ب تھے ۔روا یا ت میں ہے کہ تعمیر نو کے لیے ضر و ر ی تھا کہ پہلی عما ر ت گرا دیں مگر وہ اسے گرا نے کی جرات نہیں کر تے اور ڈر تے تھے ۔وہ ابر ہہ اور اسکے لشکر کا خو فنا ک انجا م دیکھ چکے تھے یہ بھی کہتے ہیں کہ کعبہ کے اندر ایک کنوا ں تھا زا ئر ین، زیورا ت اورر دیگر قیمتی اشیا ئ کعبہ شر یف کی نذ ر گزا ر تے تھے ۔وہ سب اسی کنوئیں میں ڈال دی جاتی تھیں۔ اس کنو ئیں میں ایک خو فنا ک اژ دہا تھا وہ کبھی کبھی نکل آتا اور آکر کعبہ شر یف کی دیوا ر پر دھوپ میں لیٹ جا تا تھا اُسکا بھی انہیں خو ف رہتا ۔ +اتفا ق یہ ہو اکہ ایک روز اژدہا دیوا ر پر لیٹا ہو ا تھا ۔فضا سے ایک بڑ اسا پر ند ہ جھپٹا اور اس اژدہا کو اٹھاکر لے گیا اس طر ح اژدہا کا خو ف دو ر ہو گیا ۔ ادھر تعمیر نو کے خیا ل کو اس سے بھی قو ی تحر یک ہو ئی کہ ایک را ت کچھ چو رو ں نے کعبہ شر یف سے کچھ قیمتی اشیا ئ چر الیں جب انکی تلا ش شر و ع ہو ئی تو یہ اشیا ئ بنو ملیح بن عمر و خز اعی کے آ زاد کر دہ غلا م دو یک کے پاس مل گئیں ۔ قر یش نے اشیا ئ حا صل کر لیں اور چو ر ی کے جر م میں دو یک کا ہا تھ کا ٹ دیا اس سے انہیں کعبہ کی تعمیر کا خیا ل آیا کہ کعبہ کی متا ع محفوظ کر لی جا ئے اور اسکی نذ ر نیا ز کی اشیائ آئندہ کو ئی نہ چرا سکے ۔ رئو سا ئے قر یش نے مل کر فیصلہ کیا کہ کعبہ کی عما ر ت میں حلال کی کما ئی صر ف کی جا ئے ۔نا جا ئز کما ئی کا ایک پیسہ بھی استعما ل نہ کیا جا ئے۔ سب پو رے اخلا ص سے اپنی حلا ل کی کما ئی تعمیر کعبہ فنڈ میں جمع کر انے لگے اتفا ق سے انتہا ئی قیمتی لکڑ ی بھی ہا تھ آگئی وہ یو ں کہ قیصر روم نے حبشہ کے ایک گر جا کے لیے جسے ایرا نیو ں نے جلا دیا تھا اچھی قسم کی لکڑ ی ایک کشتی میں بھیجی دیگر سا ما ن تعمیر بھی اس میں تھا سمند ر ی طو فا ن نے کشتی کا تبا ہ کر دیا ۔ یہ حا د ثہ شعیبہ کی بند ر گا ہ کے پا س رو نما ہو ا شیخ ابرا ہیم عر جون لکھتے ہیں +’’ قر یش کو اس کا علم ہو ا تو انہو ں نے لکڑ ی کے یہ قیمتی تختے خر ید لیے اور کعبہ کی تعمیر کے متعلق با قوم سے با ت کی وہ ان کے ساتھ مکہ مکر مہ آگیا ‘‘ ﴿محمد رسول اللہ ،از، ارجو ن جلد ا صفحہ87﴾ +با قو م لکڑی کا ما ہر کا ریگر تھا۔ کعبہ شر یف کے در وا زے شہتیر ، با لے وغیر ہ بنا نے کا کا م اس کے سپر د کیا گیا ﴿سیر ت ابن ہشا م ج اص 209﴾اس طر ح جب کعبہ کی تعمیر نو کے لیے کچھ وسا ئل بھی پیدا ہوگئے اور قر یش سردا رو ں نے بھی عز مِ مصمم کر لیا تو قر یش سر دا ر ابو و ھب نے کہا +’’ اے گر وہ قر یش خو ب غو ر سے سن لو تعمیر کعبہ کا مر حلہ ہے خبر دا ر اس میں اپنی پاک اور حلا ل کما ئی کے سوا کچھ نہ استعما ل ہو نے پائے، کسی بد کا ر عو ر ت کی کما ئی ، کو ئی سو د کا پیسہ ، کسی آدمی پر ظلم سے حاصل کی ہوئی دو لت اس میں شا مل نہ کر لینا ‘‘ +﴿اسیر ۃ النبو یہ ابن کیثر جلد ا صہ 277 و دیگر کتب سیر ت﴾ یہ ابو و ھب حضو ر �ö کے والد حضرت عبدا للہ کے ما مو ں تھے جو اپنی شر ا فت اور سخا وت میں بہت مشہو ر تھے ۔ جب ضر و رت کا سا مان بھی مہیا ہو گیا اور دو سرے انتظا ما ت بھی مکمل ہو گئے تو اب کا م شر و ع ہو نا تھا ۔اژدہا کا خو ف دو ر ہو چکا تھا اور اس واقعہ کو انہو ں نے تا ئید غیبی سمجھا تھا مگر پھر بھی پہلی عما ر ت کے انہد ام سے ڈر تے تھے اور ابر ہہ کا انجا م سا منے آجا تا تھا مگر یہ انہدا م کسی بد نیتی سے نہیں تھا اس لیے بہت سے دل آما دہ تھے آخر ولید بن مغیر ہ آگے بڑ ھا اور اس نے کہا +’ ’ میں اس عما ر ت کے گرا نے کی ابتدا ئ کر تا ہو ں۔ اس نے کد ال لی اور جنو بی دیو ار کے چند پتھر گرا ئے وہ پتھر بھی گرا رہا تھا اور یہ دعا بھی ما نگ رہا تھا ‘‘ اے اللہ ہمیں خو فز دہ نہ کر نا اے اللہ ہم صر ف خیر کا ارا دہ رکھتے ہیں‘‘ +﴿سیر ت ابن ہشام جلد ا صفحہ211﴾ +﴿یہ محمد ہیں یہ امین ہیں ہم سب انکے فیصلہ پر را ضی ہیں ﴾ ﴿سیر ت ابن ہشا م ج 214 ﴾ +تشا جر ت الا حیا ئ فی فصل خطۃ +جر ت بینھم با لخس منِ بعد اسعدٰ +﴿ایک با ت میں قبا ئل کا اختلا ف ہو گیاا ور یہ اختلا ف لو گو ں کو سعا د ت کے بعد نحو ست کی راہ پر ڈا لنے وا لا تھا﴾ +فلما ر اینا الا مر قد جد جد ہ ‘ +و لم یبق شیئی ’‘ غیر سل المہندٰ +﴿جب ہم نے دیکھا معا ملہ ازحد سنگین ہو گیا ہے اور اسکے سوا کو ئی چا رہ نہیں رہا کہ تیز تلوا ر یں تڑ پ کر میا نو ں سے با ہر آجائیں﴾ +رضینا و قلنا العد ل اول طا لعٍ +یجیئ من البطحا ئ من غیر مو عدٰ +﴿ہم اس پر متفق ہو گئے کہ کل صبح جو شخص پہلے حر م میں دا خل ہوگا وہی عد ل کر یگا ﴾ +فقلنا رضینا با ��ا مین محمد ٰ(ص) +﴿پس اچا نک یہ امین ہی پہلے آگیا جس کا اسم گرا می محمد (ص)ہے اسے دیکھ کر ہم نے کہا ہم اس پر راضی ہیں یہ محمد (ص) ہے یہ امین ہے﴾ +بخیر قر یش کلھا امس شیمۃً +وفی الیو م مع ما یحد ث اللہ فی غدٰ +﴿وہ اپنے شما ئل کر یمہ کے با عث کل بھی اور آج بھی تما م قر یش سے افضل ہے اور آنے والے کل میں یہ جو مہر با نیا ں کر نے والے ہے اس کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے ﴾ +فجا ئ با مر لم یر ی النا س مثلہ +اعم وا ر ضی فی العو اقب و البد ئٰ +وکل رضینا فعلہ و ضیعہ +فا عظمِ بہ من را ی ھا دٍ و مھتدٰ +﴿ہم سب اسکے اس فیصلہ کے کا ر نا مے اور اس کے شا ند ار عمل پر را ضی ہو گئے اور اس ہا دی و مہد ی کی رائے کتنی عظیم الشا ن تھی ﴾ +و تلک ید منہ علینا عظیمۃ +﴿ہم پر آپ (ص) کا یہ جلیل القد ر احسان ہے جس نے آج بھی ہمیں گر وید ہ کر د یاہے اور آنے والے کل میں بھی ہم اسے فرا مو ش نہیں کر سکیںگے﴾ ﴿سیر ۃ ابن ہشا م ح ا صہ 214﴾ +غر ضیکہ حضو ر �ö کے اس انتہا ئی قا بل قِدر فیصلہ کے مدتو ں چر چے رہے ،کیو نکہ اس نے حا لا ت کا رخ پلٹ دیا کعبہ کی تعمیر کا کام رُ کا ہو اتھا کیو نکہ حجر اسو د کی تنصیب کا مسئلہ ما بہ النز ا ع بن کر بڑ ی رکا وٹ بنا ہو ا تھا۔ اب رکا و ٹ دو ر ہو گئی تو اسی ذو ق و شوق اور عقید ت و خلو ص سے دو با ر ہ کا م شر و ع ہو گیا اب جو عما ر ت تعمیر ہو ئی اسکی بلند ی اٹھا رہ ہا تھ تھی۔ چھ سا ت ہاتھ رقبہ شما لی جانب سے دا خل نہ کیا جا سکا، صر ف ایک در وا زہ مشر ق کی جا نب رکھا گیا اور وہ بھی سطح زمین سے کافی بلند ی پر تھا۔ مقصد محض یہ تھا کہ ان لو گو ں یعنی اعیا ن قر یش کی اجا ز ت کے بغیر کوئی کعبہ میں دا خل نہ ہو سکے ۔ +ام المو منین حضر ت عا ئشہ صدیقہ (رض) سے مر وی ہے کہ ’’ رسو ل �ö نے مجھے مخا طب کر تے ہوئے فر ما یا +’’ اے عا ئشہ (رض) تو دیکھتی ہے کہ تیر ی قو م کا سر ما یہ کم پڑ گیا تو انہو ں نے حجر کا رقبہ کعبہ سے نکا ل دیا اگر تیر ی قوم کفر سے نئی نئی تائب نہ ہوئی ہو تی تو میں کعبہ کو گرا دیتا نئی عما ر ت تعمیر کر ا تا حجر کا رقبہ کعبہ میں دا خل کر دیتا اور اس کے دو دروازے رکھتا ایک مشر ق میں ایک مغر ب میں ‘‘ ﴿صحیح بخا ری ، صحیح مسلم ﴾ +علامہ ابن کثیر کی تحقیق کے مطا بق +’’ سب سے پہلے کعبہ پر سفید رنگ کے اس کپڑ ے کا غلاف چڑ ھا یا گیا جو مصر میں تیا ر ہو تا تھا اور جسے قبا طی کہتے تھے ۔اس کے برو د کا یعنی یمنی چا در و ں کا غلا ف تیا ر کر کے چڑ ھا یا گیا۔ دیبا ج کا غلا ف سب سے پہلے حجا ج بن یو سف ثقفی نے پہنا یا تھا ‘‘ +﴿السیرۃ النبویہ از حا فظ ابن کثیر ج ا 282 ﴾ +خا نہ کعبہ کی یہی عما ر ت حضو ر �ö اور خلفا ئے را شد ین کے عہد بلکہ اسکے کچھ عر صہ بعد تک قا ئم رہی ۔ 64 �÷ ھ حضر ت عبداللہ بن زبیر جب مکہ کے حکمرا ن ہو ئے یز ید نے اپنا لشکر حصین بن نمیر کی قیا د ت میں بھیجا ۔عبد اللہ بن زبیر مقا بلہ کی تا ب نہ لا کر حرم شر یف میں محصو ر ہو گئے ۔حملہ آور لشکر نے منجنیقو ں سے پتھر بر سا ئے۔ اس سنگ با ری سے کعبہ کی عمارت میں جگہ جگہ شگا ف پڑ گئے۔ ابھی سنگ با ر ی جا ری تھی کہ حصین بن نمیر کو یز ید کی مو ت کی خبر ملی اس نے محا صر ہ اٹھا لیا اور چلا گیا۔ حضرت عبد اللہ بند زبیر نے کعبۃ اللہ کی خستہ عما ر ت کو گرا دیا اورا نہی بنیا دو ں پر نئی عما ر ت تعمیر کی جن بنیا د وں پر حضر ت ابراہیم نے اسے اٹھا یا تھا۔ دو دروازے سطح زمین کے برا بر رھے۔ ایک مشر قی جا نب ایک مغر بی جانب ، ایک دا خل ہو نے کے لیے اور دوسرا با ہر نکلنے کے لیے۔ حضرت ابن زبیر کا اقتدا ر زیا دہ عر صہ تک نہ رہ سکا ۔حجا ج بن یو سف مکہ پر حملہ آور ہوا۔ حضرت عبدا للہ بن زیبر شہید ہو گئے اور حجا ج مکہ کا گو رنر مقر رہوا۔ اس نے اموی خلیفہ عبدالملک بن مرو ان کو کعبہ کی تعمیر کے متعلق لکھا ۔اس نے حکم دیا کہ ابن زبیرکی بنا ئی ہو ئی عما رت کعبہ کو گرا دیا جائے اور اسے انہی بنیا دو ں پر دو با رہ تعمیر کیا جا ئے جن پر یہ پہلے تھی ۔ حجر کو اسی طر ح با ہر رکھا جا ئے اس کا جواز یہی پیش کیا گیا کہ حضور �ö اور خلفا ئے را شد ین کے دور میں جو عما ر ت جیسی تھی ویسی ہی اللہ کو مطلوب ہے ۔ +بنوا میہ کا دو ر ِ حکومت ختم ہو ا۔ بنو عبا س نے اقتدا ر سنبھا لا ۔ عبا سی خلیفہ مہد ی نے ارا دہ کیا کہ اس عما ر ت کعبہ کو گرا دیا جائے اور ابرا ہیمی بنیا دو ں پر یہ عما رت اسی طرح تعمیر کی جا ئے جیسے ابن زبیر (رض) نے کیا تھا انہو ں نے اما م ما لک رحمۃ اللہ علیہ السلام سے فتو ٰ ی طا لب کیا اما م مالک نے جوا ب میں بڑی خو بصو ر ت با ت کی انہو ںنے لکھا +’’ میں اس با ت کو پسند نہیں کر تا ۔اس طر ح تو کعبہ با د شا ہو ں کا کھلو نا بن جا ئے گاجس کا جی چا ہے گا پہلی عما ر ت کو گرا کر اپنے نا م سے نئی عما ر ت کھڑ ی کر دیگا اس طر ح اس کا تقد س مجر و ح ہو گا ‘‘ +﴿سیر ۃ ابن کثیر ج ا 282 ﴾ +خلیفہ مہد ی کو اما م ما لک کی رأے بڑی منا سب معلو م ہو ئی اور اُس نے اپنا ارا دہ تر ک کر دیا اس طر ح آج تک کعبہ کی وہی عمار ت قا ئم ہے ۔ +حج صر ف ذو الحج کے مہینہ کی مخصو ص تا ریخو ں میں ہو سکتا ہے عمر ہ جب چا ہو کر سکتے ہو۔ حج کے دو رکن ہیں۔ طوا ف زیارت اور عرفا ت میں ٹھہر نا عمر ہ کاصر ف ایک رکن طو اف زیا ر ت ہے +حج کی تین قسمیں ہیں +۱﴾ قران:۔حج اور عمر ہ ملا کر کر نا اور دونو ں کے لیے بیک وقت احر ام با ند ھ لینا قرا ن کہلا تا ہے ۔ +۲﴾ افرا د :۔صر ف حج کر نا سا تھ عمر ہ نہ کر نا حج افرا دہے +۳﴾ تمتع:۔حج اور عمر ہ علیحدہ علیحدہ احرا مو ں کے سا تھ کر نا حج تمتع ہے ۔ +عام طو ر پر مسلما ن حج تمتع ہی کر تے ہیں۔ اس کا طر یقہ در ج ذیل ہے ۔ +حج کے تین فر ائض ہیں ایک شر طِ حج اور دو ار کا ن ِ حج ۔ +احرا م با ند ھنا شر طِ حج ہے مختلف اطرا ف سے حج کی خا طر آنے والو ں کے لیے کچھ مقا ما ت مقر ر کر دیے گئے ہیں جہا ں پہنچ کر احر ام با ند ھنا ہو تا ہے ان مقا ما ت کو ’’ میقا ت ‘‘ کہتے ہیں ۔پاکستان اور بھا ر ت کی طر ف سے آنے والو ں کے لیے میقات ’’ یَلملم ‘‘ ہے ۔یہ سمند ر میں کا مرا ن سے نکلنے کے بعد یمن کے علاقہ میں ایک پہا ڑی ہے جہا ں سے حا جی احرا م باندھتے ہیں۔ حجا ج کو لے جا نے والے بحر ی جہا ز یہا ں سے گز ر نے لگتے ہیں توا حرا م با ند ھ لیتے ہیں بعض لوگ کا مرا ن سے نکلتے ہی احرا م با ند ھ لیتے ہیں احر ام کا طر یقہ یہ ہے کہ پہلے سنت کے مطا بق غسل کیا جا ئے پھر بغیر سلی دو چا در یں لے کر ایک کو تہبند کے طو ر پر باند ھ لیا جا ئے اور دو سری کو جسم پر اس طر ح ڈال لیا جا ئے کہ سر اور منہ کُھلا رہے جو تا اسطر ح کا ہو کہ پہننے سے پا ئو ں کی در میا نی ہڈی کُھلی رہے خو شبو ملنا سر مہ لگا نا ، دا ڑ ھی اور با لو ں میں کنگھا کر نا غر ضیکہ ہر طر ح سے پاک صا ف ہو نا اور پھر دو ر کعت نفل ادا کر نا ہے ۔ان کی نیت اس طرح ہے ’’ نیت کر تا ہو ں میں دو ر کعت نفل نما ز احر ام کر وا سطے اللہ کے مُنہ کر تا ہو ں خانہ کعبہ کی طر ف اللہ اکبر ‘‘ پہلی رکعت میں سو رہ فا تحہ کے بعد ’’سو ر ۃ الکفرو ن ‘‘یعنیقُلْ یَا ایہا الکِفٰرُوْنَ لَا اَعْبُدْ مَا تَعْبُدُوْ نَ پڑ ھنا اور دو سری رکعت میں سور ہ اخلا ص یعنی قُل شریف ��ڑ ھنا بہتر ہے۔ حضور �ö نے یہی سورتیں پڑ ھی تھیں اگر یہ یادنہ ہو ں تو جو یا د ہو ں وہی پڑ ھ لے یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ مکر وہ اوقا ت میں نفل نہ پڑ ھے یعنی فجر کے بعد سے سو ر ج بلند ہو نے تک عین دو پہر کے وقت اور عصر کے بعد سے مغر ب پڑ ھنے تک نفل نہ پڑ ھنے جا ئیںنفل پڑھ کر یہ دعا ما نگی جا ئے ۔ +’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِ یْدُ الْعمرۃ ﴿الحج﴾فَیَبِّرق ھَا لِیْ تَقَبَّلْھَا مِنِّیْ‘‘ +﴿اے خد امیں عمر ہ کر نے کا ارا دہ رکھتا ہو ں اس سفر کو میرے لیے آسان فر ما اور میرا عمر ہ قبول فر ما ﴾ +اس کے بعد ’’ تلبیہ ‘‘ پڑ ھنا ہے تلبیہ کی عبا ر ت یہ ہے +’’لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک لاَ شَرِ یْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وْ ا لنِّعمَۃَ لَکَ وَ الْملْکَ لَا شَرِ یْکَ لَکَ‘‘ +﴿اے خد ائے ذو الجلا ل میں حا ضر ہو ں تیرا کوئی شر یک نہیں یقینا تعر یف تیر ے ہی لیے ہے نعمت تیر ی ہی عطا کی ہو ئی ہے بادشا ہی تیر ی ہے تیرا کو ئی حصہ دا ر نہیں ﴾ +تلبیہ کہنے کے بعد احرا م مکمل ہو گیا اب آدمی محر م کہلا ئیگا اور اس پر یہ پا بند یا ں عائد ہو جا ئینگی ۔ +۱۔ سر پر کپڑ ا نہیں ڈال سکتا شیعہ حضرا ت تو اس کے قا ئل ہیں کہ سر پر کسی چیز کا سا یہ بھی نہیں ہو نا چاہیے حتیٰ کہ اگر وہ بس میں سفر کر تے ہیں تو احرا م با ند ھنے کے بعد بس کے اندر بیٹھنے کی بجا ئے بس کی چھت پر بیٹھ جاتے ہیں تا کہ سر پر سا یہ نہ پڑ ے +۲۔ سر کی طر ح منہ بھی نہیں ڈھا نپ سکتا +۳۔ سِلا ہوا کپڑ ا نہیں پہن سکتا +۴۔ بیو ی سے صحبت بلکہ صحبت کی با ت چیت بھی نہیں کر سکتا +۵۔ جسم کا کوئی با ل یا نا خن اکھیڑ نہیں سکتا ۔ +۶۔ خشکی کے جا ندا رو ں کا شکا ر نہیں کر سکتا حتٰی کہ کھٹمل اور جو ں بھی نہیں ما رسکتا ۔ +۷۔ اب اس کے لیے ضر و ر ی ہے کہ وقتا ً فو قتا ً جب مو قع ملے تلبیہ کہتا رہے خصو صا ً صبح کے وقت ، سو کر اٹھتے وقت ، قافلو ں سے ملتے وقت ، نما زو ں کے بعد ، بلند ی پر چڑ ھتے اور پستی میں اتر تے وقت ، سوار ی پر چڑھتے اتر تے وقت ، +۸۔ جب مکہ میں داخل ہو کر بہتر ہے کدا ئ کی طر ف سے دا خل ہو ۔یہ مکہ مکر مہ کا ایک را ستہ ہے اسے ثینہ العلینیٰ بھی کہتے ہیں۔ +۹۔ مکہ مکر مہ پہنچ کر اپنے سا مان وغیر ہ کا انتظا م کر کے جہا ں تک ممکن ہو جلد ’’ تلبیہ ‘‘ کہتا ہوا اور اضطبا ع کی حالت میں مسجد حر ام میں دا خل ہو اگر ہو سکے تو با ب شیبہ سے دا خل ہو نگا ہیں نیچی ہو ں چہرے پر خوف کے آثا ر ہو ں دل خو ف خدا سے کا نپ رہا ہو پہلے دایا ں پا ئو ں مسجد میں رکھے اور کہے +’’بِسْمِ اللّٰہِ وَا لصَّلوٰۃ وَ السَّلاَ مُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ الَلّٰھُمَّ اَفْتَحْ لِیْ ابَوْ بَ رَ حْمَتِکَ وَ ا دْ خِلْنِیْ فِیٰھْاَ‘‘ +﴿اللہ کے نام سے اور سب تعر یفیں اللہ کے لیے ہیں اس کے رسو ل پر صلو ۃ و سلا م اے اللہ مجھ پر رحمت کے در وا زے کھول دے اور مجھے اپنی رحمت کے گھر میں داخل کر ﴾ +جب کعبہ شر یف پر نظر پڑ ئے تو دعا ئیں ما نگے۔ دعا میں غفلت نہ کی جا ئے کیو نکہ یہ وقت قبو لیت خا صہ کا ہے۔ پھر کعبہ شر یف کی طر ف بڑھے سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اُسکی طر ف مُنہ کر کے نما ز کی تکبیر اولیٰ کی طر ح ہا تھ اٹھا ئے اور اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کو ہا تھ سے چھو کر بو سہ دے ۔اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو چھڑ ی سے چھو کر ایسا کر ے اگر ہجو م بہت زیا دہ ہو اور چھڑ ی بھی وہا ں تک نہ پہنچ سکے تو حجر اسو د کی طر ف دو نو ں ہھتیلیا ں بڑ ھا کر انہیں چو م لیا جا ئے اور یہ دعا کہ کہی جا ئے +’’بسم اللّٰہ الر حمٰنِ الر حیم اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْ بِیْ وَ طَہِرّ لَیْ قَلْبِیْ وَ ا شْرَ حْ لِیْ صَدرِی وَ یَسّرْ لِیْ اَمْرِ یْ وَ عَا فِنِیْ فِیْمَنْ عَا فِیْت‘‘ +﴿اللہ کے نا م سے جو رحمن اور رحیم ہے۔ اے اللہ میرے گنا ہ معا ف فر ما میرے دل کو پاک کر دے میرا سینہ کھول دے میرا کام آسا ن کر دے ۔مجھے امن و عا فیت عطا کر دے اور ان لو گو ں میں شا مل کر دے جنہیں امن و عا فیت حا صل ہے ﴾ +پہلے لکھا جا چکا ہے کہ مسجد حر ام میں اضطبا ع کی حا لت میں آنا چا ہیے۔ اضطبا ع یہ ہے کہ جو ا حرا م کی چا در اوڑ ھ رکھی ہے اس کا دا یا ں کند ھا کھولے اور کپڑ ا با ئیں بغل سے نکال کر با ئیں کند ھے پر ڈا ل دے۔ اسکے بعد طو ا ف کر ے یعنی سات چکر اس طرح لگا ئے کہ ہر چکر حجر اسو د پر شر و ع ہو اور وہیں آکر ختم ہو ہر چکر پر حجر اسو د اور رکن یما نی کو چو متا جا ئے اس طو ا ف میں پہلے تین چکر و ں میں ’’ رمل ‘‘ کر نا ہے ۔رمل یہ ہے کہ سینہ نکا ل کر کند ھے ہلا تا ہواپہلو انو ں کی طر ح اکڑ تا ہو ا چلے ۔ دو سرے چار چکر و ں میں معمول کی رفتا ر سے چلے۔ خیا ل رہے کہ جس طوا ف کے بعد ’’ سعی ‘‘ ہے اس میں رمل اور اضطبا ع دو نو ں ہیں ﴿بحوا لہ فتا وٰ ی عا لگیر ی ﴾ طو ا ف سے فا رغ ہو کر مقا م ابر اہیم پر آنا ہے اور وہا ں دو ر کعت نفل طو اف پڑ ھے بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سو رۃ الکفر و ن اور دو سر ی میں سور ہ اخلا ص ﴿نفل احرا م کی طر ح ﴾پڑ ھے ۔ بعد میں کوئی دعا پڑ ھے پھر ز مز م پر جا کر آب ِ زمز م پیے ممکن ہو تو اسکے چھینٹے اپنے سینے پر بھی ما ر ے اور یہ دعا ما نگے +’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلْکَ رِزْقاً اسِعاً وَّ عِلْماً نافعاًوَ شِفاَ ئً مِّنْ کُلِّ دَا ئٍ‘‘ +﴿ اے اللہ میری در خوا ست ہے کہ مجھے رز ق و سیع ، نفع بخش علم اور ہر مر ض سے صحت عطا فر ما ﴾ +پھر حجر اسو د کو آکر بو سہ دے اور ہو سکے تو ملتزم سے لپٹے۔ ملتز م دیوا ر کعبہ کا وہ حصہ ہے جو حجر اسو د اور در وا زئہ کعبہ کے در میا ن ہے۔ اسکے بعد ’’ السعی بین الصفا و المر وہ ‘‘ کا مر حلہ آتا ہے ۔بہتر یہ ہے کہ با ب الصفا سے نکلے ،صفا پہا ڑ پر تین چار سیڑ ھیا ں کعبہ کی طر ف منہ کر کے دعا ئیں ما نگے ،اللہ کی حمد اور حضور(ص) پر صلو ۃ و سلا م پڑ ھے ۔ان سیڑ ھیو ں سے اتر کر مر وہ کی طر ف آہستہ آہستہ چلے جب سبز ستو ن کے پا س پہنچے تو دو ڑ لگا ئے اور دوسرے ستو ن تک دو ڑ تا جا ئے۔ یہ د و نوں ستو ن مسجد حرا م کی دیو ار میں نصب ہیں آہستہ چلتا ہو ا مروہ کی پہا ڑی تک جا ئے وہا ں بھی چند سیڑ ھیا ں چڑ ھ کر کعبہ کی طر ف منہ کر کے حمد و صلو ٰ ۃ پڑ ھے اور دعا ئیں ما نگے یہ ’’ سعی‘‘ کا ایک چکر ہے۔ ایسے ہی سا ت چکر مکمل کر کے احرا م کھو ل دے۔ یہ عمر ہ ہو گیا۔ اب سر منڈ ائے سلے ہو ئے کپڑ ے پہن لے اور مکہ مکر مہ میں رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمت و تو فیق عطا کرے تو وقتا ً فو قتا ً طو ا ف ِ کعبہ کا شر ف حا صل کر تا رہے اور ہر طوا ف کے بعد دو رکعت نما ز طوا ف کے نفل غیر مکر وہ اوقا ت میں ضر و ر پڑ ھتا رہے ۔اگر کبھی نماز عصر کے بعد طو اف کا اتفا ق ہو تو یہ نفل بعد نماز مغر ب تک مئو خر کر دے۔ 7 ذو الحجہ کو مسجد حر م شر یف میں یا مکہ مکر مہ میں جہا ں رہا ئش ہے۔ وہیں سے حج کے لیے احر ام با ند ھ لیا جا ئے اسکے بعد اسی طر ح کر ے جیسے عمر ہ میں کر چکا ہے ۔احرا م کے بعد کی مختصردعا میں ’’ عمرہ ‘‘ کی جگہ ’’ حج ‘‘ کا لفظ کہ دے، پھر تلبیہ کہے ،اس روز حرم شر یف میں اما م حج خطبہ دیتا ہے جس میں حج کے مسا ئل و احکا م بیا ن کئے جاتے ہیں بہتر ہے یہ خطبہ بغو ر سنا جا ئے ۔ حج میں کل تین خطبے ہو تے ہیں سا ت تا ریخ کو حر م محتر م میں نو تا ریخ کو عر فا ت میں اور گیا رہ تا ریخ کو منیٰ میں ، سا ت اور گیا رہ کے خطبے زوال کے بعد مگر نما زِ ظہر سے پہلے ہو تے ہیں۔ +سا ت ذو الحج کو حج کا احرا م با ند ھا گیا تو اسی روز دن، یا را ت کو طوا ف کر لیا جا ئے، اسے طو اف ِ قد وم کہتے ہیں ۔یہ حج کا پہلا طواف ہے یہ اضطبا ع اور رمل کیسا تھ کیا جا تا ہے ۔پھر عمر ے کی طر ح سعی بین الصفا و المر وہ ہے۔ آٹھ تا ریخ کو سو ر ج طلو ع ہو نے کے بعد منیٰ کو طر ف رو انگی ہو تی ہے ۔ +طوا ف و دا ع :۔مکہ مکر مہ سے رخصت ہو تے ہو ئے جو آخر ی اور الو دا عی طوا ف کر تے ہیں اُسے طوا ف ، و دا ع کہتے ہیں ۔ یہ طو ا ف رمل اور اضطبا ع کے بغیر دو سرے طوا فوں کی طر ح ہی ہو گا ۔ +با قی طر یقہ یہ ہے کہ طوا ف کے نفل پڑھ کر زم زم پر جا ئے قبلہ رو ہو کر تین سا نسو ں میں پیٹ بھر کرزم زم پئے ممکن ہو تو سر بلکہ جسم پر بھی بہا لے بیت اللہ شر یف پر آئے چو کھٹ کو بو سہ دے اپنے دونوں ہا تھ بیت اللہ کی طر ف پھیلا ئے اور یہ دعا پڑ ہے ۔ +’’اَلسَّا ئِلْ بِباَ بِکَ یَسْأ نکَ مِنْ فَضْلِک وَمَغْفِرتَکَ وَ یَرْجُوْ ارَحمَتَک ‘‘ +﴿تیرے در وا زہ کا بھکا ری تجھ سے تیرا فضل اور بخشش ما نگتا ہے اور تیر ی رحمت کا امیدا وار ہے ﴾ +آئندہ حج کی تو فیق ار ز ا تی کی دعا ئیں ما نگتا ہو ا ،با ب ودا ع سے نکلے اور ہو سکے تو مکہ مکر مہ کے نچلے راستہ سے نکلے جسے کدیٰ یا ثنیہ سفلیٰ کہتے ہیں ۔ +وہ لو گ جن پر حج فر ض ہو مگر اپنی کسی معذ ور ی کے با عث حج کر نا ان کے لیے نا ممکن ہو تو وہ اپنی جگہ دو سرے کو حج پر بھیج سکتے ہیں مگر اس طر ح جیسے خو دحج پر جا رہے ہو ں یعنی گھر سے واپس گھر تک تمام اخرا جا ت اُسی طر ح بر دا شت کر ے جیسے خو د حج پر جا تا تو اخرا جا ت ہو تے ۔ لو گ اپنے اُن عز یز و ں کی طر ف سے بھی حج بد ل کر ا تے ہیں جو یہ فر یضہ ادا نہیں کر سکے ۔ +یہ سب کچھ تو ٹھیک ہے لیکن آجکل ایک عجیب رسم نکل آئی ہے جو لو گ حج خو د کر رہے ہیں وہ وہیں کسی آدمی کو کچھ رقم دے کر احرا م کا کپڑ ا بھی دے د یتے ہیں۔ اور اپنے مر حو م بز رگو ں اور عز یزوں کے طر ف سے حج ادا کر نے کو کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکا حج ادا ہو گیا ہے یہ طر یقہ با لکل غلط ہے۔ +عور تیں مر دو ں کی طرح تما م ارکا نِ حج ادا کر یں گی لیکن کچھ فر ق رہے گا +۱﴾ عو ر ت احرا م کی حالت میں ان سِلے کپڑ ے نہیں پہنے گی اسی طر ح قمیض شلوار یا تہبند ﴿جو اس کا لبا س ہے ﴾ دوپٹہ پہنے گی ۔ عو ر ت کا احرا م میں سر کھو لنا بھی ضر و ری نہیں صر ف منہ کھو لے رہے گی ۔ +۲﴾ اگراحرا م کے وقت حا لتِ طہر میں نہیں تو احرا م کے نفل نہیں پڑ ہے گی بلکہ نفل پڑ ہے بغیرغسل کر کے احرا م با ند ھ لے گی۔ +۳﴾ عور ت تلبیہ آہستہ کہے گی ۔ +۴﴾ طوا ف کے وقت اضطبا ع بھی نہیں کر ے گی اور رمل بھی، بلکہ معمو ل کی رفتا ر سے چل کر طو اف مکمل کر ے گی تما م کپڑے پہنے رہے گی ۔ +۵﴾ صفا اور مرو ہ کے درمیا ن سعی بھی نہیں کر ے گی معمو ل کی رفتا ر سے چل کر را ستہ طے کر ے گی ۔ +۶﴾ طوا ف کے سلسلہ میں بھی یہ امر پیش نظر رہے کہ وہ طوا ف ِ زیا رت کر یگی اگر مکہ مکر مہ میں داخل ہو تے وقت وہ حالت طہر میں نہیں تو وہ مسجد حر م شریف میں بھی نہ آئے اور طوا ف نہ کر ے ،نہ صفا ئ مر وہ کی سعی کر ے بلکہ بعض صور تو ں میں اس پر طو اف ِ قد وم معا ف ہو جا تا ہے ۔ +۷﴾ اگر عمرہ کے احرا م سے مکہ میں دا خل ہو اور حج تک طہر نہ ہوسکے تو عمر ہ چھو ڑ دے صر ف حج کر ے ۔ +۸﴾ اگر طوا ف ِ زیا ر ت کے عرصہ میں حا لتِ طہر میں نہیں تو طوا ف ِ زیا ر ت مئو خر کر دے گی۔ جب حا لتِ طہر میںآئے گی توا طوا ف ِ زیا ر ت کر ے گی ۔ +۹﴾ اگر وہ طوا فِ زیا ر ت کر نے کے بعد نماز کے قابل نہیں رہی ﴿یعنی حا لت طہر میں نہیں رہی ﴾ اور مکہ مکر مہ سے روانگی ہو گئی تو طوا ف ِ ودا ع معا ف ہے۔ غر ض طوا فِ زیا ر ت کے سوا طوا ف قد وم اور طوا ف و دا ع معاف ہوسکتے ہیں طوا ف ِ زیا ر ت رہ جا تا ہے ۔ +۰۱﴾ عور ت سر نہیں منڈا ئے گی بلکہ ایک پو ر بھر با لو ں کی نو کیں کا ٹ دے گی ۔ +آج ذیقعد 1387 �÷ ھ کی 20 تا ریخ انگر یز ی کیلنڈر کے مطا بق 17 فر وری 1968 �÷ ہے۔ ہفتہ کا دن ہے۔ ہما را ہو ائی جہا ز کل کے قسطنطیہ اور آج کے استنبو ل سے اُڑا اور جد ہ پہنچا ۔ +آج کل جد ہ بہت بڑا اور عظیم الشا ن شہر بن گیا ہے۔ پرا نی طر ز کی عما ر تیں اب یہا ں نا پید ہو رہی ہیں جگہ جگہ امر یکی انداز کے بنگلے بنے ہو ئے ہیں۔ جد ہ مکہ معظمہ سے تقر یبا ً 46 میل دو ر مغر ب کی سمت میں ہے اس لیے یہا ں قبلہ بالکل مشر ق کی طر ف ہے یہا ں سے مکہ معظمہ تک بہت کشا دہ اور پختہ سڑ ک ہے ۔دور و یہ سڑ ک ہے۔ جگہ جگہ در خت لگے ہو ئے ہیں، بجلی ٹیلیگرا ف اور ٹیلی فون کا جد ید تر ین نظا م ہے ،جو بہت عمد گی سے کا م کر رہا ہے، یہا ں تقر یبا ً تما م ممالک کے سفیر و ں کی خوبصورت قیا م گاہیں ہیں یہا ں پا نی بافر اط ملتاہے اور مفت ملتا ہے یہا ں وہا ں ادھر ادھر پا نی کے نل لگے ہیں پیو، کپڑ ے دھولو ،غسل کر و پا نی عام ہے ۔ جد ہ میں گر میو ں میں سخت گر می پڑ تی ہے مچھر بہت ہو تے ہیں اور بڑ ے خو نخوار ، یہاں سے رابغ کو بھی پختہ سڑک جا تی ہے۔ رابغ جد ہ سے 96 میل کے فا صلہ پر ہے اس آگے رستہ مد ینہ منورہ جا تا ہے ۔ جد ہ میں ہمارے معلم محمد اسما عیل متعی موجودتھے ۔ +جد ہ سے ہم مکہ مکر مہ رو انہ ہو گئے، کشا دہ دو ر ویہ سڑ ک پر گا ڑی گو یا تیر رہی تھی۔ کا ش ہر آدمی کی زند گی کی سڑ ک بھی ایسی ہی صاف کشا دہ اور ہموا ر ہو تی۔ حا لا ت کے نشیب و فرا ز نہ ہو تے ،ٹھوکر یں نہ ہو تیں ،ہچکولے نہ کھا نا پڑ تے ،سڑ ک کے دو نو ں طرف سا یہ دا ر در خت نئی نئی کو نپلو ں سے آرا ستہ ہو رہے تھے ۔مو سم انکا لبا س بدل رہا تھا انہی خیا لات اور دعا ئو ں میں کھو ئے ہوئے حدود ِ حرم میں پہنچ گئے حر م کی حدو د شر و ع ہو تے ہی ہم گا ڑی سے اتر پڑ ے مقا م ابر اہیم پر دو رکعت و اجب ادا کئے رات ہو چکی تھی ، مکہ کی را ت ، پیا ری پیا ری پر تقد س را ت ، پاکیز ہ اور با بر کت لمحو ں کی امین را ت ، اپنی خو ش نصیبی پر مجھے رشک آنے لگا ۔ دل کی دھڑ کنیں کہنے لگیں +’’ اے خدا ئے کعبہ تو کتنا مہر با ن ہے کہ میرے جیسے خطا کا ر کو وہ شہر دکھا یا جسکی تو نے قسمیں کھا ئی ہیں اس لیے کہ اس شہر کی گلیوں کی خا ک نے تیرے محبو ب کے مبا رک پا ئوں کو بو سے دیے +’’لَااُ قْسِمُ بِھٰذ َا لْبَلَدِ وَ اَنْتَ حِلّ’‘ بِھٰذَ الْبَلَد‘‘ +﴿ارے نہیں ، میں تو قسم کھا تا ہو ں اس شہر کی کیو نکہ اے محبو ب آپ ان گلیوں میں چلتے پھر تے ہیں ﴾ +یہا ں وہ قد م محو ِ خرا م رہے کہ وہ با غ میں آجا ئیں تو بہا رو ں کے بھاگ جا گ اٹھیں بقول اعلیٰ حضر ت +وہ سوئے لا لہ زا ر پھر تے ہیں تیر ے دن اے بہا ر پھر تے ہیں +را ت بڑی پر سکو ن گز ری ،مکہ کی ہوا ئو ں نے تھپک تھپک کر ایسی شفقت بھر ی لو ریا ں سنا ئیں کہ سا ری تھکن ختم ہو گئی۔ تہجد تا زہ دم ہو کر ہر پڑھی ہر ہر آیت نو ر کی شعا عو ں کی طر ح دل و دما غ میں اتر تی گئی، لڑکپن کی ابتدا ہی سے تہجد پڑ ھنے کی سعا دت ورثہ میں مل گئی تھی، مگر تہجد کا لطف آج شر و ع ہو رہا تھا ۔ ہر ہر سا نس سر شا ر ہو رہی تھی ۔ نماز فجر کے بعد ہلکا نا شتہ کیا اور زیارت کے لیے نکل گئے آج درج ذیل مقا ما ت کے زیا رت نصیب ہو ئی ۔ +۱﴾ مولد النبی �ö :۔ وہ مکا ن جہاں سر و رِ انبیا ئ �ö کی ولا د ت با سعا دت ہو ئی +پہلے حضرت عقیل (رض) بن ابی طا لب کی ملکیت میں رہا، پھر حجا ج بن یو سف ثقفی کے بھا ئی محمد بن یو سف ثقفی نے ایک لا کھ دینا ر میں خر ید لیا اوراس جگہ کو اپنے مکان میں شا مل کر لیا چو نکہ اس مکا ن پر سفید چو نے کا پلستر کیا گیا تھا اس لیییہ ’’ البیضا ئ‘‘ کے نام سے مشہو ر ہو گیا ۔عر ضہ درا ز تک اسے دار ابن یو سف کہا جا تا رہا۔ ابن دحیہ کی روا یت کے مطا بق مشہور عبا سی خلیفہ ہا رو ن الرشید کی وا لد ہ خیز ران جب حج کے لیے آئی تو اس نے یہ مکان خر ید کر گر ا دیا اور یہا ں مسجد تعمیرا کرا دی۔ صا حب سیرۃ الحلبیہ کی روایت ہے کہ ہا رو ن الر شید کی انتہا ئی نیک دل ملکہ زبیدہ خا تو ن حج کے لیے آئیں تو انہو ں نے ابن یو سف کے مکا ن سے مولد ِ رسول کا حصہ نکال لیا اوروہاں مسجد تعمیر کرا دی ۔دو نو ں روا یا ت میں تطبیق کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ پہلے والد ہ ہارون خیزران نے مسجدتعمیرکر ائی ہو گی، پھر ملکہ زبیدہ نے اسے زیا دہ خو بصو ر ت انداز میں بنوایا ہو گا ۔ +﴿سیرۃ الجلیہ جلد ا صہ 59﴾ +علا مہ ابو لقا سم السہیلی نے صر ف یہ جملہ لکھا ہے ۔ +’’ ملکہ زبیدہ حج کے لیے آئیںتو انہو ں نے مو لدِ رسو ل کی جگہ مسجد بنا دی ‘‘ +﴿الر رض الا نف ج ا صہ 184﴾ +مو لا نا مفتی احمد یا ر خا ن صا حب نعیمی کی تحقیق یہ ہے ۔ +’’ حر م شر یف کے قر یب محلہ سو ق العیا ل میں ایک چھو ٹی سی مسجد جسے مسجد النبی �ö کہتے ہیں یہ بھی مشہو ر ہے کہ یہی حضور کی جا ئے پیدا ئش ہے مگرا کثر محققین کے نز دیک یہ با ت صحیح نہیں صحیح جا ئے پیدا ئش وہ ہے جو محلہ سوق الفیل میں واقع ہے یہاں پہلے قبہ بنا ہوا تھا مگر اسے سعو دی حکومت نے گرا دیا ہے اور ایک دو بڑی لا ئبر یری قائم ہے ‘‘ +﴿حکیم الا مت کا سفر 92﴾ +شیخ ابرا ہیم عر جو ن لکھتے ہیں ۔ +’’ مکہ مکر مہ میں حضو ر �ö کی جا ئے ولا دت مشہور و معر و ف ہے اب وہا ں دار لحد یث بنا دیا گیا ہے۔ 1370 71 �÷ ھ میں جب میں مکہ مکر مہ حا ضر ہوا تو دا ر لحد یث کی عما ر ت کی بنیا دیں دیکھیں جو زیر تعمیر تھی ‘‘ +﴿محمد رسو ل اللہ ۔ ازاابر اہیم عربوں ج ا 102﴾ +بہر حال اب وہا ں لا ئبر یری ہے جو مقرر اوقا ت پر کھلتی ہے اکثر مقفل رہتی ہے ۔ +۲﴾ مو لدِ علی کر م اللہ وجہہ :۔ یہ حضرت ابو طا لب کا مکا ن تھا یہ جگہ محلہ علی میں ہے۔ اب اس جگہ کو ئی عما ر ت نہیں کہا جاتا ہے کہ یہاں پہلے عما ر ت تھی مگر سعو دی حکو مت نے گرا دی اور اب تو اس جگہ کو ڑے کے ڈھیر دیکھنے میں آئے ۔حضرت علی المرتضٰی کی والدد ہ محترمہ فاطمہ بنت اسد کو بیت اللہ میں دود ِزہ شر وع ہو ا اور یہا ں آکر ولا دت ہو ئی اس وجہ سے یہ روا یت مشہو ر ہے کہ حضرت علی المر تضٰی مو لود کعبہ ہیں ۔علما ئے اہل سنت کہتے ہیں کعبہ شر یف میں ولا دت ممکن نہیں۔ اب اس مکا ن کی جگہ ایک معلم کا جد ید انداز کا مکا ن ہے ۔ +۳﴾بیت ام ہا نی (رض ۔ یہ حضرت اُم ہا نی کا مکا ن ہے حضو ر سر ور عا لم �ö اسی مکا ن سے معرا ج کے لیے تشریف لے گئے تھے اس گھر کو حد ود ِ حر م میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ اور اب یہ با ب ام ہا نی کہلا تی ہے۔ +۴﴾بیت ابو بکر صد یق:۔حضرت صد یق رضی اللہ عنہ کا یہ گھر محلہ کہا سیہ میں واقع ہے اسی گھر میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی ولا دت بھی ہوئی اور اسی گھر سے حضور �ö نے ہجر ت کے سفر کا آغا ز کیا۔ اب اس جگہ نیچے مختلف دکا نیں ہیں اور اوپر مسجد ہے ۔ بر و ایت عر وہ بن زبیرحضور �ö کا حضرت عا ئشہ سے نکا ح بھی اسی گھر میں ہوا +۵﴾بیت ار قم :۔یہ وہی جگہ ہے ہا ں حضور �ö نے کفا ر کے شر سے محفو ظ رہنے کے لیے اپنا ٹھکا نا بنا یا ہوا تھا ۔یہ جگہ صفا سے چند قدم آگے مر وہ کی جا نب سے یہیں حضرت عمر فا رو ق (رض) دو لت ِ ایما ن سے سر فرا ز ہو ئے ایک چھو ٹی گلی کے سر ے پر یہ مقا م وا قع ہے اب یہا ں مد ر سہ قا ئم ہے گو یا یہ کل بھی در سگا ہ تھی اور آج بھی در سگا ہ ہے اسے اب مسعیٰ میں شامل کردیا گیا ہے۔ +۶﴾مو لدِ حضر ت فا طمۃ الز ہر ا رضی اللہ عنہ :۔یہ حضر ت خد یجہ الکبر ٰ ی کا مکان ہے جسے حضور �ö کی رہائش گا ہ کا شر ف حا صل رہا ۔ یہیں حضرت فا طمۃ الز ہرا پید اہو ئیں یہ جگہ محلہ کشا شیہ میں سبز ی منڈی کی دا ئیں طر ف ہے اب یہا ں بھی ایک مدر سہ ہے ۔ +۷﴾جنت معلی:۔ مکہ مکر مہ کا قدیم تر ین قبر ستا ن یہی ہے ا سکے تین حصے ہیں ایک سڑ ک ان تینو ں حصو ں میں رابطہ کا ذریعہ بنتی ہے ۔قبر ستا ن کے دو سرے حصہ میں حضرت خد یجہ الکبر ٰ ی کی قبر ہے۔ یہا ں حضو ر �ö کی پہلی زو جہ اور آپ کی بہت زیا دہ مو نس و غمخوا ر ، آپ کی جا ن نثا ر و وفا دار اور اپنا سب کچھ آپ (ص) پر اور دین حق پر نچھا ور کر دینے والی رفیقہ حیات آرام فر ما ہیں حضور �ö کی سا ر ی اولا د سو ائے ایک بیٹے حضرت ابر اہیم کے انہی زو جہ محتر مہ کے بطن سے تھی ۔ اُم المو منین حضر ت خد یجہ الکبر ٰ ی سے حضو ر �ö کو بڑی محبت تھی اور یہ محبت آخر دم تک قا ئم رہی ۔اس قبر مبا رک پر بھی آل ِ سعو د کی حکو مت نے سخت پہر ہ بٹھا ر کھا ہے اور کسی کو قر یب جا نے نہیں دیتے ۔قبر بھی شکستہ حا لت میں ہے اس سے کچھ فاصلہ پر مشر قِ میںحضو ر �ö کے اجدا د حضرت ہا شم عبد المنا ف ، عبد المطلب کی قبر یں ہیں۔ عبد اللہ بن عمر ، عبدالرحمن حسن ، ابن زبیر اور انکی والد ہ اسما ئ کی قبر یں یہیں ہیں ۔ مگر سب شکستہ حا لت میں ہیں۔ قبر ستا ن کا پہلا حصہ اب بہتر بنا دیا گیا ہے قبرستا ن میں عو ر تو ں کو جا نے کی اجا ز ت نہیں ۔ +۸﴾مسجد جن:۔یہ مسجد جنت ِ معلی سے ذراآگے مسجد جن ہے اسی جگہ جنا ت نے حضور �ö سے قرآن حکیم کی آیات سنیں اور ایما ن لے آئے ۔یہی وہ واقعہ قرآنِ حکیم کی سو ر ہ جن میں مذ کو ر ہو کر ہمیشہ کے لیے محفو ظ ہو گیا ۔ بعد میں اس جگہ یہ مسجد بنی مگر اب یہ مقفل رہتی ہے یہاں قر یب قر یب سبز مینا ر کی دو مسا جد ہیں پہلی نہیں دو سری مسجد جن ہے۔ +۹﴾کو ہِ صفا :۔یہ وہ تا ریخی پہا ڑ ی ہے جس پر جنا ب سر و رِ انبیا ئ �ö نے اپنی نبو ت کا اعلا ن عام کیا اور دعو تِ حق و صدا قت پیش کی اس دعو ت کا ذکر کر تے ہو ئے مو لا نا الطا ف حسین حا لی نے اپنی مثنو ی مد و جز ر اسلام المعر و ف مسد س حا لی میں در ج ذیل اشعا ر لکھے �ò +وہ فخر عر ب زیب محر اب و منبر تما م اہل مکہ کو ہمرا ہ لے کر +گیا ایک دن حسب ِ فر ما نِ داور سُو ئے دشت اور چڑ ھ کے کو ہِ صفا پر +یہ فر ما یا سب سے کہ اے آل ِ غا لب +مجھے تم سمجھتے ہو صا د ق کہ کا ذب +کہا سب نے قو ل آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سُنا اور نہ دیکھا +کہا گر سمجھتے ہو تم مجھکو ایسا تو با ور کر و گے اگر میں کہو نگا +کہ فو جِ گرا ں پشت کو ہِ صفا پر +پڑ ی ہے کہ لُو ٹے تمہیں گھا ت پا کر +کہا تیر ی ہر با ت کا یا ں یقین ہے کہ بچپن سے صا د ق ہے تو اور امین ہے +کہا گر مر ی با ت یہ دلنشیں ہے تو سُن لو خلا ف اس میں اصلا نہیں ہے +کہ سب قا فلہ یا ں سے ہے جا نیوالا +ڈر و اس سے جو وقت ہے آنیوا لا +ہے اک ذاتِ وا حد عبا د ت کے لا ئق زبا ن اور دل کی شہا د ت کے لا ئق +اُسی کے ہیں فر ما ں اطا عت کے لا ئق اسی کی ہے سر کا ر خد مت کے لا ئق +لگا ئو تو لو اپنی اس سے لگا ئو +جھکا ئو تو سر اس کے آگے جھکا ئو +اور اسی دن سے آپ (ص) کو صا د ق و امین کہنے والے، آپ (ص) کی ہر با ت کا یقین کر نے والے اپنے تما م معا ملا ت میں آپ کو حکم تسلیم کر نے والے اور آپ کے ہر فیصلہ پر بصد احترا م سر جھکا نے والے اچا نک آپ (ص) کے دشمن ہو گئے۔ +کو ہِ صفا کو دیکھ کر یہ سا را منظر جیسے ایک دفعہ پھر زند ہ ہو کر میرے سا منے آگیا اب میں جیسے گز ر ی صد یو ں کی سا ر ی مسافتیں چیرکر اُن لمحو ں میں پہنچ گیا اور میرا رواں روا ں وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے لگا ۔ کوئی بڑ ی شیر یں آواز میں مجھے سمجھا نے لگا کہ لو گو ں کے بخشے ہو ئے اعزا زا ت اور انکی طر ف سے پیش کئے ہو ئے احترام و اکر ام سب جھو ٹ ہیں ۔ اصل اعزاز و اکرام وہ ہے جو اللہ کی طر ف سے عطا ہو تا ہے ۔ لو گ سر جھکا ئے کھڑ ے ہو ئے ہیں، لیکن جب لبوں سے حر فِ حق صا در ہو تا ہے تو وہی احترا ما ً جھکے ہو ئے سر اٹھتے ہیں، ادب میں بند ہے ہو ئے باز و کھل جا تے ہیں اور آگے بڑ ھتے ہیں کہ حر فِ حق کہنے والے کا سر کا ٹ لیں۔ کتنی سچی با ت کہی تھی میر زا صائب نے �ò +اعلا نِ صد ق ما یہ ئ آزار می شود +چو ں حر فِ حق بلند شود دار می شود +اور پھر حضور �ö کی پو ر ی زند گی آنکھوں کے آگے پھر نے لگی اور دل کی ایک ایک دھڑ کن بو لنے لگی کہ مکہ مکر مہ آئے ہو، کوہِ صفا دیکھا ہے تبلیغ حِق و صدا قت کے عز م کو عز یمت میں بد لو اور تما م مصا ئب کا مقا بلہ کر نے کے لیے تیا ر ہو جا ئو �ò +اذیت ، مصیبت ، ملا مت ، بلا ئیں +تر ے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا +یہیں مجھے خیا ل آیا کہ کتنے غلط اند یش ہیں وہ لو گ جو ایسی یا د گا رو ں کو مٹا تے پھر تے ہیں ۔یا د گا ر یں تو خا مو ش مبلغ ہو تی ہیں یہ تو رہنما ئی اور ہد ایت کی کتا بیں ہو تی ہیں ۔یہ تو روشنی کے مینا ر ہو تی ہیں ، یہ تو بڑ ی پر وقا ر اور متین در سگا ہیں ہوتی ہیں۔ یہ پیغا م بھی دیتی ہیں اور یہ بھی بتا دیتی ہیں کہ اس پیغا م پر عمل کیسے کیا جا تا ہے۔ یا د گا رو ں سے محر وم ہو جا نا تو تا ریخ سے محر وم ہو جا نا ہے اور جو قو م تا ریخ سے محر و م ہو جا تی ہے، اسکی حا لت اس شخص کی سی ہو جا تی ہے جو اپنا حا فظہ کھو بیٹھے ۔ +یا د گا ریں قبر کی صو ر ت میں بھی ہو ں تو مٹی کے انبا ر نہیں ۔در س گا ہیں ہیں مر نے والے کی پو ری زند گی کی کتا ب ہیں جن سے عبر ت و مو عظت بھی حا صل ہو تی ہے اور اپنی منز لیں متعین کر نے کا حو صلہ بھی اقبا ل نے سچ کہا �ò +زیا ر ت گا ہِ اہل عز م و ہمت ہے لحد میری +کہ خا ک رِا ہ کو میں نے بتا یا را زِ الو ند ی +۰۱﴾مسجد بلال:۔یہ مسجد کو ہ ِ صفا کی چوٹی پر ہے ۔ مشہو ر روا یت یہ ہے کہ فتح مکہ کے روز حضور �ö کے حکم سے حضر ت بلا ل (رض) نے پہلی اذا ن یہیں دی حضرت بلا ل (رض) کا نام آتا ہے تو کیا کچھ یا د نہیں آجا تا افسو س کہ +رہ گئی رسم اذان رو ح بلا لی نہ رہی +’’تعا لو اِعبا د اللّٰہ الی بیت اللّٰہ‘‘ +﴿اللہ کے بند و اللہ کے گھر کی طر ف آئو ﴾ +۱۱﴾شق القمر :۔یہ جگہ کو ہِ صفا پر مسجد بلال سے قر یبا ً پچا س قد م کے فاصلہ پر ہے کہتے ہیں یہیں کھڑ ے ہو کر آپ (ص) نے شق القمر کا معجز ہ دکھا یا تھا مفسر ین نے قرآن حکیم کی آیت اقتر بۃ السا عہ وا نسشق القمر سے اسی معجز ہ کی طرف اشارہ بیا ں کیا ہے۔ کہتے ہیں یہاں پہلے مسجد تھی جو ا ب گرا دی گئی ہے دیوا ر یں کھڑ ی ہیں ۔ +۲۱﴾مزار عثما ن ہا رو نی :۔محل کے قر یب خو اجہ معین الد ین اجمیر ی اور بہت سے او��یا ئے کر ام کے پیر و مر شد حضرت خواجہ عثما ن ہا رو نی کا بھی مز ا ر ہے ۔ +یہ تو گو یا اندرو ن مکہ مکر مہ یا قر ب و جوا ر کی زیا رات تھیں جن سے ہم لو گ خدا کے فضل و کر م سے مشر ف ہو ئے میں نے کوشش کی کہ آنکھو ں کے سا تھ دل بھی بیدا ر رہے تا کہ سا رے انوار سمیٹ سکو ں میرے سا تھ محمد اسلم ، غلا م سر و ر ، شا ہ ولی اور فتح عالم تھے، چا لیس دیگر مما لک کے افرا د بھی ہما رے سا تھ تھے۔ میں نے کوشش کی کہ اپنے سا تھیوں کو ہر مقا م کی مختصر ا ً تاریخ بھی بتا تا جا ئو ں تا کہ انہیں بھی اخذِ تجلیا ت و انوار میں اپنے سا تھ شر یک رکھو ں ۔ +ہر لحظہ نیا طو ر +اس سفر نامہ میں کہیں وہ تفا صیل چھوڑے دے رہا ہو ں جوطوا ف حر م اور عبا د ات کے متعلق ہیں میں چا ہتا ہو ں کہ حج کے طریق کا ر میں جو کچھ آگیا ہے وہ سب کچھ تو اپنے رفقائ کے سا تھ میرا سر انجا م دنیا معہو د ذہنی Under Stood ہے ۔ میں اس سفر نا مہ کے ذر یعے ار ض القرا ن کی اُن زیا رات سے اپنے قارئین کو رو شنا س کر ا تا چلو ں جن کے دیدا ر سے میں مشرف ہوا ۔دو سرے دن میں نے یہ پر و گر ام بنا یا کہ مکہ معظمہ کے ارد گر د کے تا ریخ سا ز مقا ما ت دیکھے جا ئیں ویسے توا س علاقہ میں با ر با ر بھٹکتے رہے کہ جو چا ہتا ہے کیونکہ یہ گلیا ں ، یہ کو چہ و با ز ا ر یہ پہا ڑ ،یہ رہگزار یہ بیابا ن ، یہ نخلستا ن اُسی محبوب دلنوا ز کی یا دو ں کے امین ہیں، جس کی محبت سب محبتو ں سے بلند تر اور پاکیز ہ تر ہے ۔ اس مٹی کے ذر ہ ذر ہ پر سلام کہ یہیں عا لمگیر امن و سلا متی کا شاہز ادہ اپنے مقدس نعلین کی خو شبو بکھر تا رہا ۔بہر حا ل پر و گرا م کے مطا بق ہماراگلا مقا م زیا ر ت جبل نو ر تھا ۔ +جبل نو ر:۔یہ پہا ڑ مکہ مکر مہ کی اصل آبا دی سے تقر یبا ً تین میل کے فا صلہ پر تھا مگر اب شہر مکہ بہت وسیع ہو گیا ہے اورا سکی حدود جبل نور تک پہنچنے لگی ہیں یہ پہا ڑ بھی اپنے ار د گر د کے دیگر پہا ڑ و ں کی طر ح خشک اور بے آب و گیا ہ ہے۔ یہیں غا ر ِ حرا ہے جس میں نبی �ö آکر مشغو ل عبا د ت ہو جا تے اور یہیں سے نز ول وحی کا آغاز ہو ا ۔ +غا ر حرا :۔ یہ غا ر چا ر گز لمبی اور دو گز چو ڑی ہے۔ اس میں ایک آدمی با آسانی لیٹ سکتا ہے اگر چہ اس طر ح کے غا ر اردگر د کے پہا ڑ و ں میں اور بھی بہت ہیں لیکن حضور �ö نے غا رِ حرا کا انتخا ب اس لیے کیا کہ یہاں بیٹھنے سے بیت اللہ شر یف کی زیارت بھی ہو سکتی تھی۔ یہ غار جبل النورکی چو ٹی پر ہے را ستہ بہت دشوار گزار اور کٹھن ہے تقر یبا ً ڈیڑ ھ میل چڑھا ئی ہے۔ پتھر چکنے ہیں اور راستہ تنگ ہے ۔کنا رہ پر کوئی روک نہیں سید ھی او نچا ئی پر چڑ ھا ئی ہے۔ ذرا پا ئو ں پھسلے تو نیچے گر جا ئیں جہا ں ہڈیاں سر مہ ہو جا ئیں ۔ +رو ایات میں آتا ہے کہ حضور �ö نبوت سے پہلے کچھ سا ما نِ خو ر دو نو ش لے کر اسی غا ر میں غو ر و فکر ور ذکر الہیٰ کے لیے آجاتے تھے علامہ احمد بن زینی دجلدن نے لکھا ہے ۔ +’’ اس غا ر میں قیا م کی مد ت متعین نہ تھی۔کبھی تین را تیں ، کبھی پا نچ کبھی سا ت کبھی رمضان کا پورا مہینہ یہا ں قیا م فر ما یا کر تے تھے ‘‘ ﴿اسیر ۃ النبویہ جلد ا صفحہ163﴾ +حضو ر �ö کا یہ دو ر آنکھو ں کے سا منے پھر نے لگاقرآن حکیم نے اس دو ر میں حضور کی حا لت کا ذکر کرتے ہو ئے ’’ضال‘‘ کا لفظ استعما ل کیا ہے ۔ ’’وو جد ک ضا لا ً ‘‘ضا ل کے معنی بھٹکا ہو ا اور را ہ گم کر دہ کے بھی ہیں اور تلا ش منز ل میں سر گردا ں بھی ایک گمرا ہ تو وہ ہو تا ہے جو را ستہ بھٹک جا تا ہے مگرا سے یقین ہو تا ہے کہ وہ صحیح را ستے ،پر ہے اُسے اپنی گمرا ہی کا احسا س تک نہیں ہو تا ،دو سرے اُسے را ہِ راست پر لا نے کی کوشش کر تے ہیں تو وہ ان سے جھگڑ نے لگتا ہے ،ضد کر تا ہے کہ جس را ہ پر وہ چل رہا ہے یہی راہ ِ را ست ہے ۔ایسا شخص کبھی منزل حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ،اُس کا ہر قد م اسے منزل سے دو ر تر کر تا جا تا ہے انہی لو گو ںکا ذکر سو ر ہ فا تحہ میں ہے۔ +’’ غَیْرِ ا لْمَضُوْ بِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّا لِیِنْ‘‘ +﴿اے اللہ ہمیں ان لو گو ں کی راہ پر ڈا ل جن پرتو نے پر انعا م کیا جو تیرے مغضو ب نہیں اور نہ را ہ گم کر دہ ہیں﴾ +ان کے بر عکس جو لو گ تلا ش منزل میں سر گر دا ں ہو تے ہیں انہیں منزل مل سکتی ہے کیو نکہ وہ دو سر و ں کی دکھا ئی ہو ئی را ہ پر چل پڑ تے ہیں حضور �ö کی بھی بعثت سے پہلے یہی حا لت تھی +’’وَوَجَدَ کَ ضَا لاً فَھَدَ ی‘‘ +﴿اس نے یعنی اللہ نے تجھے تلا ش منزل میں سر گرداں پا یا تو سید ھی راہ پر ڈال دیا ﴾ +حضور �ö کی اسی دو ر کی کیفیت بیا ن کر تے ہو ئے کا ر لا ئل لکھتا ہے +’’ شر و ع سے ہی چلتے پھر تے آپ کے دل میں ہزا رو ں سو الا ت پیدا ہو تے تھے +میں کیاہو ں ؟ کائنات کا یہ لا متنا ہی سلسلہ کیا ہے ؟ز ند گی کیا ہے ؟ مو ت کیا ہے؟ +مجھے کس چیز پر ایما ن رکھنا چاہیے؟ کیا کر نا چاہیے؟ بہتر زند گی کیا ہے ؟ +حرا ئ کی پہا ڑ یا ں ، ریت کے ٹیلو ںکا سکو ت ، ان سوا لا ت کا کو ئی جوا ب نہ دیتے تھے ۔ ان سوا لا ت کا کہیں سے کو ئی جوا ب نہیں ملتا تھا ۔ ان سوا لا ت کا جو ا ب انسا ن کی اپنی رو ح اور خدا کی اس وحی سے ملنا تھا جو اس رو ح کو اپنا مکسن بنا لے ‘‘ +ُٓ اپنے رفقائ کے سا تھ یہا ں نو افل ادا کیے ۔آدمی اگر غا ر ِ حرا ئ کو اس حا ل میں دیکھے کہ اُسکا دل بیدا ر ہو اور رو ح اخذ انوار کے لیے تیا ر تو اللہ تعا لیٰ اور رسو ل انسا نیت �ö کی تجلیا ت سے سر شا ر ہو جا تا ہے کتنی بڑی نواز ش ہے خدا ئے ذوالجلال کی کہ اُس نے ہمیں یہ تو فیق بخشی کے ہم یہ سعا دتیں حا صل کر تے پھر رہے ہیں۔ +غا ر ِ حرا ئ اور جبل نو ر میں وہ کشش اور جا ذبیت پا ئی کہ اپنے آپ کو انہی پتھر و ں میںجذ ب ہو تا محسو س کیا۔ وقت کھینچتا کہ واپس چلو مگر ہم جیسے وقت کی گر فت سے بہت آگے نکلے ہو ئے تھے ۔ صد یو ں کے بعد بے معنی ہو رہا تھا ۔ ہمیں یو ں معلو م ہو رہا تھا جیسے +سجی ہے بز م ابتک اور دولھا +ابھی اس بز م سے اُٹھ کر گیا ہے +دل کے کا نو ں سے سنُو تو را ستے بو لتے ہیں ، پتھر خو ش آمد ید کہتے ہیں اور حضو ر �ö جیسے اپنے ریشم قد م ان پر ٹکا تے چل رہے ہیں یہا ں جذ ب و کیف کے عالم میں بہت سا وقت گزرا آخر وا پسی ہو ئی نیچے ہو ٹل ہے چا ئے ، قہو ہ اور دیگر اشیا ئے خو ردو نو ش دستیا ب ہیں۔ ہم کچھ دیر وہا ں بیٹھے رہے پھر چل پڑ ے۔ لیکن ذہن میں غا ر ِ حرا کی پر نو ر فضا ئیں بسی ہو ئی تھیں۔ یہیں سے دنیا کی تار یخ کو نئے جہا نوں سے رو شنا س کر انے والی تحر یک طلو ع ہو ئی تھی یہیں سے نسل انسا نی کے لیے عا لمگیر منشور حیا ت کا حر ف اول صا در ہو ا تھا ۔ یہیں سے قر آن عظیم کے نز ول کا آغاز ہوا تھا اس انقلا ب آ فریں کتا ب کا آغاز ہو ا جو قیا مت تک کے لیے انسا ن کی رہنما ہے �ò +آں کتا ب ِ زند ہ قرآن حکیم حکمت اولا یزال است و قد یم +فا ش گو یم آنچہ در دل مضمر است ایںکتا ب نیست چیز ے دیگر است +طا ئف کی زیا ر ت +مکہ شر یف کے جنو ب مشر ق میں 70 میل کے فا صلہ پر شہر طا ئف ہے۔ طا ئف میں حضو ر �ö کے دو ر میںقبیلہ بنو ثقیف آباد تھا ۔ یہ شہر ایک دلکشا اور پر فضا پہا ڑ ی سلسلہ میں آبا د تھا ۔یہا ں گر می نہیں ہو تی مو سم خو شگوا ر رہتا ہے۔ بنو ثقیف زرا عت پیشہ لوگ تھے او�� زر عی معا ملا ت میں خا صی مہا ر ت رکھتے تھے۔ اسی مہا ر ت نے طا ئف اور اسکے قر ب و جوا ر کو رشک جنت بنا رکھا تھا ۔ آج بھی یہ علا قہ سبز ی اور پھل بکثر ت پیدا کر تا ہے انگو ر، انا ر ، انجیر ، بہی ، تھو ر کا پھل جسے قر وش کہتے ہیں، یہا ں و افر مقدار میں پیدا ہو تا ہے اور بہت ارزا ں ملتا ہے ۔جا بجا پا نی کے چشمے ہیں ۔ پا نی ٹھنڈ ا اور میٹھا ہے آج بھی وہا ں گرمیوں میں برف کی ضر و رت محسو س نہیں ہو تی ۔مکہ کے رئو سا ئ نے بھی وہا ں مو سم گرِ ما کے لیے اپنی رہا ئش گا ہیں بنا رکھی تھیں بعض قر یش سرداروںکے یہا ں زر عی رقبے بھی تھے ۔ +طا ئف کے با شند ے ما لی لحاظ سے خو شحا ل تھے ، اس لیے وہ اپنی اولا د کو تعلیم و تر بیت سے آرا ستہ کر نا بھی ضر و ری سمجھتے تھے جب سا را عر ب جہا لت کے اند ھیرو ں میں ڈ و با ہو اتھا ۔ یہا ں علم و حکمت کی خا صی رو شنی تھی، یہا ں طب و حکمت کے ما ہر ا ور منجم موجو د تھے ۔حا ر ث بن کلا ہ جیسا ما ہر طب بھی وہا ں مو جو د تھا جس نے علم طبِ ایرا ن کے ما ہر اطبا ئ سے حاصل کیا تھا ۔اسی طرح مشہو ر منجم عمر و بن امیہ بھی اسی طا ئف کا با شند ہ تھا وہ علم نجو م میں مہا ر ت رکھتا تھا اور علمی طر یقہ سے ستار و ں کی رفتا ر اور اوقا ت ِ طلو ع و غر و ب کا مشاہد ہ کر سکتا تھا۔ کہتے ہیں ستا رو ں کی نقل و حر کت کا مشاہد ہ کر نے کے لیے اس نے با قاعدہ رصد گا ہ قا ئم کر رکھی تھی ۔ اس شہر کے ارد گر د ایک فصل تھی یعنی ایک بڑی دیوا ر جس نے شہر کو ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا ۔ اور گو یا شہر کا طواف کر تی تھی اس لییاس کی منا سبت سے شہر کا نا م طا ئف پڑ گیا تھا ۔ پو رے جز یرئہ عر ب میں وا حد شہر تھا جسے فصیل نے گھیر رکھا تھا مؤ رخین لکھتے ہیں +’’ اس شہر کے ایک شخص نے کسر ائے ایرا ن کی غیر معمو لی خد اما ت سر انجا م دی تھیں ۔ با د شا ہ نے کہا تھا اپنی خدما ت کا صلہ طلب کر و اس نے یہی صلہ ما نگا کہ اس کے شہر کے گر د فصلِ تعمیر کر دی جا ئے تاکہ کوئی دشمن اسے فتح کر کے پا ما ل نہ کر سکے با د شا ہ نے یہ با ت منظو ر کر لی اور ایرا نی انجینئر و ں نے بڑی مہا ر ت سے یہ فصیل تعمیرکرادی۔ اسی فصیل کے با عث شہر کا نا م طائف پڑ گیا شہر میں ایک پہا ڑ ی ٹیلہ ہے جس پر لا ت کا بت نصب تھا ۔ +جو مشر کین کے تین اعلیٰ معبو رو ں میں سے ایک تھا مسلما نو ں کے غلبہ کے بعد یہ بت مسما ر کر دیا گیا تھا ‘‘ +﴿نظر ۃ جد ید ۃ ص 144﴾ +حضور �ö نے اپنی تبلیغ کے سلسلہ میں طا ئف سے بڑی امید یں وا بستہ کر رکھی تھیں۔ آپ کا خیا ل تھا کہ اس شہر میں چو نکہ کافی حد تک علم کی رو شنی مو جو د ہے اس لیے قبولیت حق کے لیے یہا ں کے ذہن آما د ہ ہو نگے نیز یہا ں کے لو گو ں کی خو شحا لی سے بھی امید تھی کہ وہ تند خونہیں خو ش مز اج اورنر م مز اج ہو نگے۔ اللہ نے ان پر جو نعمتیں کھول رکھی ہیں ان کا انہیں احسا س ہو گا اور وہ حق کا راستہ اختیا ر کر نے میں ویسے بد طن ثا بت نہیں ہو نگے جیسے مکہ کے لو گ ثا بت ہو رہے تھے چنا نچہ بعثت کے دسو یں سا ل ما ہِ شوال میں حضور �ö مکہ سے طا ئف رو انہ ہو ئے۔ علا مہ ابن اسحا ق کے مطا بق آپ (ص) تنہا پا پیا دہ طا ئف گئے لیکن محمد بن سعد نے ’’ طبقا ت ‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ +’’ اس سفر میں حضور �ö کے خادم خا ص حضرت زید بن حا رثہ آپ کے سا تھ تھے ‘‘ +آپ نے سردا ر ان طا ئف سے ملا قا تیں کیں او ر انہیں پیغا م حق پہنچا یا لیکن کسی میں قبو لیت حق کے لیے آما دگی نہ تھی۔ آخر میں آپ یہاں کے انتہا ئی سر برا ٓور دہ سر دا ر وں کے پا س گئے۔ یہ تین سر دا ر تھے اور تینو ں سگے بھا ئی تھے۔ یہ تھے عبد یا لیل بن عمرو، مسعو د بن عمر و اور جیب بن عمرو ۔ان میں سے ایک کی شا دی قر یش کے بنو جمح خا ندا ن سے ہوئی تھی ان تینو ں بد قسمتوں نے حضو ر �ö کی دعو ت کو برے استخفا ف سے ٹھکر ا دیا ایک نے کہا +’’ اگر اللہ نے، آپ کو رسو ل �ö بنا دیا تو کیا میں نے غلا ف کعبہ کو پا رہ پا رہ کر دیا تھا ۔ دو سرا بو لا ’’ کہا تمہا رے بغیر اللہ کو اور کوئی نہیں مل سکتا تھا جسے وہ رسول بنا تا ‘‘ +تیسرے نے کہا ’’ اللہ کی قسم میں تم سے با ت بھی نہیں کر و نگا کیو نکہ اگر تم اللہ کے رسول ہو تو تمہا ری شا ن بلند ہو گئی میں یہ تاب نہیں رکھتا کہ تم سے با ت کر سکو ں اور اگر تم اللہ پر جھو ٹ با ند ھ رہے ہو تو اتنے بڑے در و غ گو سے کلا م کر نا مجھے زیب نہیں دیتا ‘‘ ﴿اسیرۃ النبویہ از ابن کثیر جلد 2 صفحہ 149﴾ +انہوں نے حضو ر �ö کو کہا ۔ +’’ تم ہما رے شہر سے فو ر اً نکل جا ئو ہمیں اند یشہ ہے تم ہما ر ے شہر کے نو جو ا نوں کو بگا ر ڈ دو گے ‘‘ اسکے علا وہ انہو ں نے ’’ شہر کے اوبا شو ں اور نو جوا ن چھو کر و ں کو آپ (ص) کے پیچھے لگا دیا ۔وہ آواز ے کستے پھبتیا ں اڑ اتے ، گا لیا ں بکتے ، اپنے بتو ں کے نعرے لگا تے ۔حضو ر �öکے پیچھے لگ گئے ادھر شہر کے لو گ دو ر ویہ صف بیٹھ گئے ۔حضو ر �ö جد ھر سے گزر ے ان لوگوں نے پتھر بر سا ئے ان کے پتھر و ں کا نشا نہ خا ص طو ر پر آپ (ص) کے قد م رہے۔ آپ کے پا ئو ں زخمی ہو گئے اور خو ن بہنے لگا آپ (ص) درد کی شد ت سے بیٹھ جا تے تو وہ نا ہنجا ر با زو ئو ں سے پکڑ کر آپ کو اٹھا دیتے اور پھر پتھر بر سا نے لگتے اور قہقہے بلند کرنے لگتے حضرت زید بن حا رثہ بھی آڑ بننے کی کوشش میں زخمی ہو ئے ۔اس طر ح طا ئف کے بد بخت شہر یو ں نے اپنے معززو محتر م مہما ن کو رخصت کیا ۔ آپ زخمو ں سے چو ر شہر سے نکلے قر یب ہی ایک با غیچہ تھا انگوروں کی بیل کے نیچے بیٹھ گئے ‘‘ +﴿سبل الہدٰی والر شاذ جلد 2 صفحہ 577﴾ +ہیں آپ نے دو ر کعت نفل ادا کئے اور زخمی ہا تھ دعا کے لیے اٹھ گئے +’’ اے خدا ئے بز ر گ و بر تر میں اپنی نا توا نی ، اپنی قو ت عمل کی کمی ، لو گو ں کی نگا ہو ں میں اپنی بیکسی کا شکو ہ تجھ سے کر تا ہوں۔اے ارحم الر احمین تو کمز ورو ں کا بھی رب ہے، میرا بھی رب ہے تو مجھے کس کے حو الے کر رہا ہے کیا ایسے دو ر درا ز کے دشمن کے جو تر ش رو ئی سے میرے سا تھ پیش آتا ہے یا اپنو ں کے جو مجھے اذیت پہنچا نے میں مسر ت محسو س کر تے ہیں۔ خیر مجھے ان تکلیفو ں کی کو ئی پر وا نہیں اگر تو مجھ پر خو ش ہے ۔ +’’ میں نے حضور �öسے پو چھا یا رسول اللہ کیا احد کے دن سے بھی کوئی سخت دن آپ پر گزرا آپ نے فر ما یا ’’ میری قوم کے ہا تھو ں مجھے جو تکلیفیں یو م العقبہ کو پہنچیں وہ بہت زیا دہ سخت تھیں میں نے جس روز بنو ثقیف کے سردا رو ں عبد مالیل وغیر ہ کو دعوت حق دی اورا نہو ں نے اسکے بد لے میں میرے سا تھ جو سلو ک کیا وہ زیا دہ سخت تھا ‘‘ +﴿سبل الہد ٰ ی وار شا د جلد 2 صفحہ 579﴾ +ہم طا ئف کی پر ُبہا ر فضا ئو ں سے آنسو ئو ں کا انبا ر سمیٹتے اس چھو ٹی سی پہا ڑی کی طرف نکل گئے جہا ں سے اہل نجد احرا م باندتھے ہیں اور جس پہا ڑی کا نام قر ن الثعا لب ہے یہاں مجھے ایک اور واقعہ یا د آگیا جو میں نے سا تھیوں کو سنا یا ۔ +’’ حضور �ö نے طا ئف سے واپسی کا ذکرکر تے ہو ئے فر ما یا ‘‘ میں لو ٹا تو سخت غمز دہ اور پر یشا ن خا طر تھا ۔میں اپنی پریشانیوں میں کھو یا ہو ا تھا، چلتے چلتے جب قرن الثعا لب پہنچا تو میں نے سر اٹھا یا ،اور دیکھا کہ با دل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کئے ہو ئے ہے۔ میں نے غ�� ر سے دیکھا تو مجھے حضرت جبرا ئیل دکھا ئی دیے ۔انہو ںنے مجھے پکا ر کر کہا اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیکھا اورسنا اب اس نے پہا ڑو ں کا فر شتہ آپ کے پا س بھیجا ہے ۔حکم دیں وہ کیا کر ے ‘‘ پہا ڑو ں کے فرشتے نے عر ض کیا آپ حکم دیں تو میں پہاڑوں کو آپس میں ملا دو ں اور یہ سب ظا لم لو گ پس کر رہ جا ئیں ‘ میں نے کہا ‘‘ نہیں، میں امید کر تا ہو ں کہ انہی لو گو ں کی پشتو ں سے وہ او لا دیں پیدا ہو نگی جو میر ی دعو ت قبو ل کر یںگی۔ اللہ کی عبادت کر ںگی اور شر ک چھو ڑ دیں گی ‘‘ +﴿اسیر ۃ النبویہ از ابن کثیر ج2 صفحہ152 و سبل الہدٰ ی وا لر شا د ج2 ص579﴾ +ہم یہا ں سے چل پڑ ے اور پھر نخلہ کا مقا م دیکھا۔ یہا ں طا ئف سے واپسی پر حضور �ö نے را ت بسر کی تھی ۔ اور نماز فجر میں اس عجز و نیاز سے تلا وت ِ کلا م پاک کی کہ شجر و حجر جھو منے لگے۔ یہ آواز قر یب سے گز ر نے والے جنوںکے ایک قا فلہ نے سنی ۔ اسی واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے سو رہ الا حقا ف میں یو ں بیاں فر ما یا ۔ +’’ اور جس وقت ہم نے جنا ت کی ایک جما عت کو آپ کی طر ف متو جہ کیا کہ وہ قرآن سنیں وہ آپ کی خد مت میں پہنچے اور بولے خامو شی اور تو جہ سے سُنو ۔ جب تلا وت ہو چکی تو وہ اپنی قوم کی طرف گئے ۔انجا م بد سے ڈر ا تے ہو ئے اور کہا اے ہماری قوم ہم نے آج ایک کتا ب سُنی ہے جو اللہ کی طر ف سے اتاری گئی ہے۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی کتا ب کی تصدیق کر نے والی ہے ، رب کی طر ف رہنما ئی کر تی ہے، سید ھی را ہ دکھا تی ہے، اسے قبو ل کر لو ۔ اے ہما ری قو م والو! قبو ل کر لو اللہ کی طرف سے بلا نے والے کی دعو ت کو اس پر ایما ن لا ئو۔ اللہ تمہا رے گنا ہ بخش دے گا اور تمہیں عذ اب سے بچا لے گا۔ ﴿سور ہ الا حقا ف آیا ت 30 29 ﴾ +علامہ احمد بن زینی نے اپنی سیر ت کی کتا ب ج ا 273 پر اور محمد ابو ز ہر ہ نے اپنی کتا ب میں ج ا 342 پر لکھا ہے کہ حضور مقا م نخلہ میں کئی روز قیا م کیا ۔ +طا ئف کی زیا رت +۱﴾رو ضہ حضرت عبد اللہ بن عباس :۔ یہ تر جما ن القرا ن حضرت بن ِ عبا س کی آرا مگا ہ مسجد ابن عباس کے با ئیں ہاتھ پر مستصل ہے ۔مو جو د حکو مت نے اپنی عا د ت کے مطا بق اس رو ضہ کی زیا ر ت میں بھی موا نعات کی دیو ا رکھڑ ی کی کررکھی ہے پھر بھی یہ لو گو ں کا مرجع ہے ۔ +۲﴾مسجد علی (رض ۔یہ مسجد طا ئف سے جنو ب میں ایک میل کے فا صلہ پر وا قع ہے۔ پیلا رنگ ہے اذا ن کے لیے ایک مینا ر ہے برا بر میں آب رو اں کا چشمہ ہے ۔ +۳﴾بیرنبی :۔یہ کنو اں مسجد علی سے مشر قی جا نب وا قع ہے ۔روا یت ہے کہ غز وئہ طا ئف کے مو قع پر حضور �ö نے اس میں لباب دہن ڈا لا جس سے اس خشک کنو ئیں میں بکثر ت پانی آگیا اب بھی اس میں بہت پانی ہے۔ +۴﴾مسجد نبی (ص ۔یہ چھو ٹی سی مسجد علی سے جا نب جنو ب دو سو قد م پر وا قع ہے پہا ڑ کے دا من میں ہے، اسکے سا تھ ہی میٹھے پا نی کا ایک جا ری چشمہ ہے ،مشہو رہے کہ طا ئف کے تبلیغی سفر میں حضور �ö نے یہا ں نما ز پڑ ھی تھی ۔ +۵﴾حجرا لنبی :۔ یہ پتھر اسی مسجد نبی کی دیو ار میں نصب ہے اسکے متعلق مشہور ہے کہ اس پر حضور کے پنجہ اور کہنی کے نشان کا اثر مو جو د ہے۔ حکو مت نے اسے دیوا ر مسجد میں بند کر دیا ہے۔ +۶﴾روضہ حضرت عکر مہ :۔مسجد نبی سے جنوب میں دو میل کے فاصلہ پر ایک پہا ڑ ی پر حضرت عکر مہ(رض) بن ابی جہل کامزارہے جو شکستہ حا لت میں ہے ۔ +۷﴾جبل غزالہ :۔طا ئف سے مغر ب میں ایک میل کے فا صلہ پر ایک پہاڑی ہے۔ مو لا نا مفتی احمد یا ر خا ن نعیمی کے مطابق یہی وہ پہا ڑی ہے جہا ں ہر نی والا وا قعہ پیش آیا جو بہت مشہور ہے ایک ہر نی کو ایک یہو دی نے جا ل میں پھانس لیا حضور �ö نے یہ واقعہ دیکھا۔ ہر نی نے حضور �öسے عر ض کیا کہ وہ بچو ں کو دود ھ پلا کر واپس آجا ئے گی ۔حضور �ö نے یہو دی کو ضما نت دی کہ ہر نی بچو ں کو دودھ پلا کر واپس آجا ئے گی۔ اگر نہ آئی توآپ اسکی قیمت ادا کر دیںگے۔ ہر نی دود ھ پلا کر بچو ں کو لے کر واپس آگئی ۔ یہو د ی شکا ری نے نہ صر ف اسے آزا د کر دیا بلکہ خو د بھی اسلا م قبول کر لیا کہتے ہیں ۔ ہر نی کا دودھ پہا ڑ پر ٹپکتا گیا، وہا ں سے ایک بو ٹی پیدا ہو ئی جسکی ڈنڈی لمبی سر خ رنگ کی ہو تی ہے۔ اب بھی کہیں کہیں مل جا تی ہے یہ بو ٹی آنکھوں کے لیے بہت مفید ہے ۔ +۸﴾بستا نِ علی (رض ۔ یہ حضرت علی (رض) کا با غ تھا جو آپ نے عام مسلما نو ں کے لیے وقف کر دیا اس میں انار ، انگو ر اور انجیر بہت پیدا ہو تے ہیں۔ +۹﴾وا دی ا لنمل :۔قرآن حکیم میں ایک وا قعہ ہے کہ سلیما ن علیہ اسلام کا لشکر آرہا تھا تو ایک چیو نٹی نے کہا تھا اے چیونٹیو اپنے بل میں داخل ہو جا ئو سلیما ن کا لشکر آرہا ہے اور تم رو ند ی جا ئو گی اسی واقعہ کی نسبت سے پور ی سور ہ مبا رکہ کا نا م سورہ النمل ہے ۔ یہ جگہ طا ئف سے تقر یبا ً 7 میل جا نب مغر ب ہے ۔ اکثر تاریخ نو یسو ں نے اسی کو وا دی النمل کہہ کرا ُسی وا قعہ کی طرف منسوب کیا ہے جو قرآن حکیم میں مذکو ر ہے اور جس کی طر ف ہم نے اوپر اشا رہ کیا ہے ۔ لیکن دیگرمحققین کہتے ہیں کہ اس وادی میں چیو نٹیو ں کی کثر ت تھی جس کے با عث یہ وا دی النمل مشہو ر ہو گئی وگر نہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کی یہ گزرگاہ نہیں تھی ۔ +سا رے جز یرئہ عرب میں گنتی کے چند شہر تھے جن میں مکہ اور طا ئف بہت مشہور تھے۔ مکہ کی شہر ت خا نہ کعبہ کے با عث تھی اور طائف اپنی آب و ہوا اور زر خیز زمین کے با عث مشہور تھا۔ با قی آ با دی وسیع و عر یض صحرا ئو ں میں بکھر ی ہو ئی تھی ۔ کہیں کہیں کوئی گا ئو ں یا قصبہ دکھا ئی دیتا ور نہ بیشتر لو گ خا نہ بد و ش تھے جہا ں پا نی اور چا رہ نظر آیا خیمہ بستی آبا د کر لی کچھ روز رہے اور پھر بہت زمین کی تلاش میں آگے چلے گئے ۔را ستے غیر ما مو ن تھے۔ ڈاکوئو ں کا خطر ہ ہر قد م پر تھا ، قبا ئلی دشمنیا ں بھی آزا دا نہ سفر میں رکا وٹ بنتی تھیں۔ قبا ئل کے سردا رو ں نے با ہمی مشا ور ت سے یہ طے کیا کہ سال کے مختلف ایا م میں مخصو ص مقا ما ت پر تجارتی منڈ یا ںلگا ئی جا ئیں تا کہ تا جر اور دستکا راپنی اشیا ئ لے کر وہا ں پہنچ جا ئیں اور لو گ اپنی ضر و رت کی چیز یں خر ید سکیں ۔ ان طے شدہ مقا ما ت پر جتنے روز ایسے میلے منعقد کئے جا تے ان ایا م میں لو گوںکے جا ن و ما ل کی حفا ظت کی ضما نت دی جا تی ہے ۔ ان ایا م میں پو را عر ب ان اصو لو ں کا احتر ام کر تا حتیٰ کہ اگر کسی کے با پ یا بیٹے کا قا تل بھی اسکے سا منے آجا تا تو وہ اس پر ہا تھ نہ اٹھاتا ۔ +یہ میلے ایک طرف تجا ر تی منڈ یو ں کی حیثیت رکھتے ،دو سری طرف ثقا فتی سر گر میو ں کا مر کز بھی ہو تے پھر یہ کہ ثقا فت کا اہم شعبہ یعنی فنو ن لطیفہ کی بھی یہا ں نما ئشیں ہو تیں ،ادبی محفلو ں کا انعقا د ہو تا ،خطیب فصاحت و بلا غت کے دریا بہا دیتے شعر ائ اپنے قبائلی اور اپنے آبا ئ وا جدا د کی شجا عت ، فیا ضی اور سیر چشمی کے گُن گا تے اور قصا ئد سنا تے ۔ان قصا ئد کو پر کھا جا تا اور داددی جا تی ۔ +ان میلو ں میں زیا دہ مشہور تین تھے۔ عُکا ظ ، ذوا لمجا ز ِ اور مجنّٰہ ، عُکا ظ نخلہ اور طا ئف کے در میا ن وا قع ہے ۔ذوا لمجا ز عر فہ کے پیچھے اور مجنہ مرا لظہر ان میں ۔ +معرو ف مسلما ن جغر ا فیہ دان یا قوت حمو ی نے ان میلو ں کی جا ئے انعقا د کامحل و قو ع یہی بتا یا جو ہم نے اوپر لکھا ہے۔ اس نے یہ بھی بتا یا ہے کہ یہ تینو ں میلے یکے بعد دیگر ے ہو تے تفصیل اس طر ح بیا ن کی گئی ہے ۔ +’’ یہ تجا رتی منڈ یا ں قر یش اور تمام اہل ِ عر ب کی مشتر کہ منڈ یا ں تھیں اور عکا ظ سب سے بڑی منڈی تھی ۔کہتے ہیں کہ عکاظ شوال کا پورا مہینہ لگی رہتی پھر وہاں سے لو گ مجنہ آجا تے تھے، وہا ں ذی قعدہ کے پہلے بیس دن یہ منڈی رہتی پھر لو گ ذوا لمجا ز آجا تے۔ یہ منڈی ایا م ِ حج شر و ع ہو نے تک رہتی اسکے بعد حج ادا کر کے لو گ وا پس ہو تے ‘‘ +﴿معجم البلدان ج ۴ ص 142﴾ +ان سب میں عُکا ظ سب سے بڑ ا میلہ تھا۔ اسکی وجہ تسمیہ بیا ن کر تے ہو ئے علا مہ یا قو ت حمو ی لکھتے ہیں +حضور �ö بھی ان میلو ں میں جا تے اور مختلف قبا ئل سے مل کر دعو ت حق پیش کر تے، سفر طا ئف سے واپسی پر بھی ان میں تشر یف لے گئے اور دعو ت حق پیش کی ۔ابو طا ر ق (رض) سے روا یت ہے کہ میں نے حضور �ö کو ذو المجا ز کی منڈی میں دیکھا آپ لو گو ں سے کہ رہے تھے ۔ +’’ لو گو کہو اللہ تعالیٰ کے بغیر کو ئی عبا د ت کے لا ئق نہیں ۔تمہیں دو نو ں جہانو ں میں سر خرو ئی حاصل ہو گی ۔آپ (ص) کے پیچھے ایک آدمی کھڑا تھا۔ اسکے با ل د ونو ں طر ف سے اسکے سینے پر لٹک رہے تھے۔ وہ آپ (ص) کے پا ئو ں پر پتھر بھی ما ر رہا تھا اور کہہ رہا تھا لو گو اس کی با ت نہ ما ننا ۔یہ شخص جھو ٹا ہے میں نے اپنے والد سے پو چھا ۔یہ کو ن ہے انہو ں نے کہا یہ ان کا چچا ہے نا م عبد العز ی اور کنیت ابو لہب ہے ‘‘ ﴿اسیر ۃ الحلبیہ ازامام محمد ابو زہرہ ج ا ص 397﴾ +ایسا ایک وا قعہ منیب العا مر ی ہے۔ عکا ظ میں آپ کی تبلیغی سر گر میو ں کے متعلق تفصیل بیا ن کر تے ہو ئے وہ کہتا ہے ۔ +’’ مد ر ک نے کہا میں نے ز ما نہ ئِ جا ہلیت میں رسول �ö کو تبلیغ کر تے ہو ئے دیکھا آپ فرما رہے تھے لو گو اللہ کے سوا کسی کی عبا د ت نہ کر، دو نو ں جہا نو ں میں سر خر و ہو جا ئو گے۔ لو گ یہ سنتے اور در شنی سے پیش آتے کسی نے حضور کے روئے انور پر تھو کنا شر و ع کیا، کسی نے آپ پر مٹی پھینکی۔ بعض لو گ گا لیاں بکنے لگے۔ دوپہر تک یہ سلسلہ جا ری رہا۔ پھر ایک بچی پا نی لے کر آئی۔ حضور �ö نے اس سے ہا تھ منہ دھو ئے اور فر ما یا ’’ میر ی بیٹی اپنے با پ کے متعلق یہ خو ف نہ کر و کہ کوئی اسے مغلوب کر لے گا یا وہ رسوا ہوگا۔میں نے پو چھا یہ بچی کو ن ہے لو گو ں نے بتا یا یہ حضور �ö کی بیٹی ہے اس کا نا م زینب ہے ‘‘ +﴿سبل الہدٰی والر شا د ج ۲ ص 594﴾ +حج کے مو قع پر منٰی و عر فا ت میں عر ب قبا ئل آکر ٹھہر تے آپ ایک ایک قبیلہ کے پا س جا تے اور اپنا پیغا م پہنچا تے +ہم ایک ایک جگہ پھر رہے تھے اور پو ر ی تاریخ ہما رے سا تھ چل رہی تھی سیرۃِ طیبہ کا ایک ایک نقش اجا گر ہو رہا تھا ۔ +منٰی کی زیا را ت +۱۔ مسجد البیعۃ :۔ اس مقا م پر بیعت عقبہ وا قع ہو ئی تھی مگر اب یہا ں مسجد نہیں یہ جگہ مسجد خیف سے قر یب ہے ۔ +۲۔ مسجد خیف :۔ منٰی کی مشہو ر مسجد ہے یہا ں پیغمبر و ں نے نماز پڑ ھی اور ستر کے قر یب انبیا ئ کی قبر یں بھی یہا ں ہیں ۔ +۳۔ مسجد الکبش :۔ یہاں حضر ت اسما عیل علیہ السلام کا ذبح کا واقعہ ہوا۔ پہلے یہا ں مسجد تھی اب اس کا وجو د نہیں بس ایک نشا ن سا ہے جس کی زیا ر ت منجا نب حکو مت ممنو ع ہے ۔ +۴۔ غا ر مر سلا ت :۔ یہ جگہ مسجد خیف کے قر یب ہی ہے اس غا ر میں حضور �ö پرسو ر ہ مر سلا ت نا ز ل ہو ئی ۔ +۵۔ مز د افہ:۔ میں مشعر حرا م اور عر فہ میں مسجد نمر ہ مشہو ر تا ریخی جگہیں ہیں۔ +حضرت ابو طا لب حضور �ö کے وہ جا ن نثا ر چچا تھے جنہو ںنے ہمیشہ کو شش کی کہ وہ حضور �ö کو اپنی عا فیت کے حصار میں لیے رکھیں۔ جنا ب اسد اللہ الغا لب حضرت علی کر م اللہ وجہیہ جیسے فر ز ند جلیل اور پر وا نہ ٔ رسو ل کے والد ِ محترم نے بڑ ی شا ن سے اپنے عظیم المر تبت بھتیجے کو عمر بھر تحفظ فر اہم کیا ۔ +قر یش مکہ نے جب دیکھا حضور کی دعو تِ حق آہستہ آہستہ پھیلتی اور وسعت اختیا ر کر تی جا رہی ہے تو انہو ں نے آپ کے خلاف را ست اقدا م کا فیصلہ کر لیا وہ جا نتے تھے کہ انکی را ہ کا سنگ ِ گِرا ں جنا ب ابو طا لب تھے ۔چنا نچہ بر و ایت ابنِ ہشام رئوسائے قر یش کا ایک نمائندہ وفد جس میں در ج ذیل لو گ شا مل تھے ۔ +’’ عتبہ ، شیبہ ، پسرا ن ربعیہ ، ابو سفیا ن بن حر ب بن امیہ ، ابو البختر ی ، العا ص بن ہشا م، الا سو د بن مطلب ، ابو جہل ، ولید بن مغیرہ ، نبیہ اور منبہ پسرا ن حجا ج بن عا مر اور عا ص بن و ائل ، جنا ب ابو طالب کے پاس گیا ۔ +﴿سیر ت ابن ہشام ج ا ص276﴾ +انہو ں نے کہا ’’ اے ابو طا لب آپ کا بھیتجا محمد ہما رے خدا ئو ں کو ملا مت کر تا ہے ہما رے مذ ہب میں عیب جو ئی کر تا ہے ہمیں نا دا ن اور ہما رے آبا ئو وا جدا د کو گمر اہ کہتا ہے یا تو آپ اسے رو ک لیں یا آپ درمیا ن سے ہٹ جا ئیں ہم خو د اسے رو ک لیں گے۔ حضرت ابو طا لب نے بڑی نر می سے اس مر تبہ انہیں ٹا ل دیا۔ وہ سمجھے حضرت ابو طا لب سمجھا دیں گے اور حضور �ö تبلیغ سے رُک جا ئیں گے ۔لیکن جب انہو ں نے دیکھا کہ اس وفد کی ملا قا ت کے بعد بھی تبلیغ میں کو ئی کمی نہیںآئی اور دین حق کی تحر یک مز ید پھیل رہی ہے تو ان کے جذبا ت عدا وت میں بھی شد ت آنے لگی اور وہ دعو ت ِ حق کو رو کنے کے لیے طر ح طرح کی تد بیر یں سو چنے اور منصو بے بنا نے لگے۔ اور پھر ایک نما ئندہ وفد حضر ت ابو طالب کے پاس گیا گفتگو کا آغا ز بڑے سلیقے سے کیا گیا کہنے لگے ۔ +’’ چچا جا ن اگر وہ سو رج میرے دا ئیں ہا تھ پر اور چا ند میرے با ئیں ہا تھ پر لا کر رکھ دیں تو بھی میں دعو ت حق سے با ز نہ آئونگا ۔یہ اللہ نے مجھ پر فر ض عا ئد کیا ہے اور مجھے ہر حا ل میں نبھا نا ہے۔ میرا کا م جا ری رہے گا ۔ یہا ں تک کہ یا تواللہ اپنے دین کو غا لب کر دے گا اور یا میں اپنی جا ن کھو بیٹھو نگا ‘‘ ﴿اسیر ۃ النبو یہ ابن کثیر ج ا ص 474﴾ +آپ (ص) کی زبا ن سے یہ جملے نکل رہے تھے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو لر ز رہے تھے ۔آپ نے یہ کہا اور اٹھ کر چل پڑے ۔چچا نے وا پس بلا لیا اور کہا ’’ بھتیجے یہ با ت تو اپنا کا م جا ری رکھو میں کسی قیمت پر آپ کو ان دشمنو ں کے حو الے نہیں کر و نگا ‘‘ +ابن کثیر کے مطا بق حضرت ابو طا لب نے کچھ اشعا ر پڑ ھے جن میں سے ایک یہ شعر ہے �ò +واللّٰہ من یصلو الیک بجمعھم +حتی اُوَ سَّدَ فی الترا ٓب دفینا +﴿خد کی قسم وہ تجھ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک مجھے مٹی میں دفن ، نہ کر دیا جا ئے﴾ +اہلِ مکہ کو حضرت ابو طا لب کے اس فیصلہ کا علم ہوا تووہ اور پر یشا ن ہو گئے انہوں نے ایک اور تر کیب سو چی وہ ولید بن مغیرہ کے جو اں سال اور توا نا بیٹے عما رہ کو سا تھ لے گئے اور جا کر بڑ ے اد ب سے کہا ۔ +’’ اے ابو طا لب اب ہم ایک سو دا کر نے آئے ہیں مکہ کے سردا ر و لید بن مغیر ہ کا یہ خو بصو ر ت ، جوا ن رعنا ، تند رست و توانا اور فنو ن رزم و بز م میں مہا ر ت رکھنے والا فر ز ند ہم آپ کے حو الے کر تے ہیں۔ یہ آج سے آپ کا بیٹا ہو گا۔ آپ کا دست و بازو ہو گا۔ آپ کے اشا رو ں پر سر کٹا نے کو ہمہ وقت تیا ر رہے گا ۔ ما را جائے گاتو اس کی میت آپ کو ملے گی ،ہر میدا ن میں آپ کا سا تھ دے گا۔ ولید بن مغیر ہ اسکا حقیقی با پ ہے مگر اب اس کا اس سے کوئی سر و کا ر نہ ہو گا۔ ہما را بھی اس سے کوئی تعلق نہ ہو گا آپ اسے قبول فر ما ئیے اور اسکے بدلہ میں اپنا بھتیجا ہما رے حوالے کر د یجیے، وہ جس طر ح کا اور جیسا ہے آپ اچھی طر ح جا نتے ہیں ۔ وہ آپ کے اور آپ کے آبا ئو اجدا د کے معبو دو ں کو بر ا بھلا کہتا ہے۔ وہ آپ کے اور ہما رے مذہب کا دشمن ہے۔ اس نے قر یش کی وحد ت کو پا ر ہ پا رہ کر دیا ہے ۔قو م و و طن کا مخالف ہے ۔ہم اس کے سا تھ جو چا ہیں گے سلو ک کر یں گے ۔یقین جا نئے اس سود ا میں آپ کا کوئی خسا رہ نہیں۔ الٹا پو ری قو م کا فا ئد ہ ہے ، انکی با تیں سن کر حضرت ابو طا لب کہنے لگے ’’ واہ کیا سو دا ہے تم کتنا براسودا کر نا چا ہتے ہو۔ اپنا بیٹا مجھے دے رہے ہو کہ میں اسکی پر و رش کر و ں اور خا طر مدا را ت کر و ں ۔میرا بیٹا لے رہے ہو کہ تم اسے قتل کر ڈالو، بخدا یہ سودا کبھی نہیں ہو گا ‘‘ +مطعم بن عد ی بن نو فل بن عبد منا ف بو لا ’’ خدا کی قسم اے ابو طا لب تیری قو م نے تیرے سا تھ بڑ ا انصا ف کیا ہے اور حتی المقدور کو شش کی ہے کہ تمہیں پر یشا نی سے نجا ت دلائے تم نے ان کی پیشکش ٹھکر ا کر ثا بت کر دیا ہے کہ تمہیں مفاہمت کی کو ئی صو ر ت پسند نہیں اور تم ہر حا ل میں فتنہ کو ہو ادینا چا ہتے ہو ’’ حضرت ابو طا لب نے کہا ‘‘ اے مطعم میری قو م انصا ف نہیں ۔ظلم کر نا چا ہتی ہے اور تم پر افسو س ہے کہ تم نے بھی میرا سا تھ چھو ڑ دیا اور میرے خلا ف مخا لف قو م کی مد د کی ہے یہ بڑ ی زیا دتی ہے ‘‘ +یہ وفد نا کا م لو ٹا تو مخا لفت بہت شد ت اختیا ر کر گئی۔ کئی قر یبی رشتہ دا ر قطع رحمی کر تے ہوئے مخا لف صفو ں میں شامل ہو گئے۔ اس زہر آلو د ما حو ل میں حضرت ابو طا لب نے اپنو ں کی بے وفا ئی کا شکو ہ ایک قصید ہ میں کہا جس کے چند اشعا ر یہ ہیں �ò +ارٰ می اکو یا ض ابنیا و افدا +اذا سُئلا قالا الی غیر نا امر +﴿میں اپنے دو سگے بھا ئیوں کو دیکھتا ہوں کہ جب ان سے صو ر ت حال در یا فت کی گئی تو بولے ہما رے اختیا ر کی لگامیں غیروں کے ہا تھ میں ہیں﴾ +بلیٰ لھما امر ولکن تَجْر جَمَا +کما حبر جمت من را س ذی علق صخر ، +﴿نہیں، انکے اختیا ر میں تو سب کچھ تھا لیکن وہ دونو ں اپنے مقا م سے گر گئے جیسے ذی علق پہا ڑ پر سے پتھر لڑ ھک جا تا ہے﴾ +ھما نبذ ا نا مثل ما ینبذ الجمر ، +﴿مجھے خا ص طو ر پر عبد الشمس اور نو فل کی اولا د سے شکو ہ ہے جنہو ں نے ہمیں اس طر ح دو ر پھینک دیا جیسے دہکتے انگا رے کو دور پھینک دیا جا تا ہے ﴾ +اب مخا لفت اور بھی شدت اختیا ر کر گئی ۔ کفا ر متحد ہو کر اسلا م کے استحصال کے پر و گرا م بنا نے لگے۔ حضر ت ابو طا لب نے محسوس کیا کہ وہ تنہا اس یلغا ر کا مقا بلہ نہیں کر سکیںگے۔ انہو ں نے ایک طو یل قصید ہ لکھا جس میں بنو ہا شم کی غیر ت کو مہمینر کیا اور جو ش دلا یا کہ جس طر ح دو سرے قبا ئل متحد ہو کر حملہ آور ہو رہے ہیں اسی طر ح بنو ہا شم کو بھی متحد ہو کر دفا ع کر نا چاہیے اور متحد ہ محا ذ بنا لینا چاہیے ۔اس طو یل اور انتہا ئی اثر خیز قصید ہ کے چند اشعاریہ ہیں ۔ +وَلما را ئیت القو م لا و د فیھم +و قد قطعوا کل العر ی و الو سا ئل ، +﴿جب میں نے قوم کو دیکھا کہ ان میں محبت کا نام و نشا ن بھی با قی نہیں رہا اور انہو ں نے محبت و قر ابت کے سا رے رشتے قطع کر دییہیں ﴾ +و قد صا ر حُو نا با لعد ا وۃ والا ذیٰ +﴿اور انہو ں نے کھلم کھلا ہما ری عدا وت اور ایذار سا نی شر وع کر دی اور ہما رے دشمنو ں کا سا تھ دینے لگے ﴾ +و قد حا لفو ا ما علینا اظنۃ +یعضو ن غیظا خلفنا با لا نا مل +﴿انہو ں نے ہما رے دشمنو ں کے سا تھ دو ستیوں کے معا ہدے کر لیے ہیں اور ہما ری پیٹھ پیچھے غصے سے اپنی انگلیا ں کاٹتے ہیں ﴾ +صبر ت لھم نفسی بسمرا ئَ سمحۃ +﴿میں نے اپنے نفس کو صبر کر نے کی تلقین کی اور میرے ہا تھ میں گندم گو ں لچکد ار نیز ہ تھا اور سفید تیز تلوا ر تھی اور یہ کچھ ہمیں اپنے بز رگ سردا رو ں سے ور ثہ میں ملا تھا ﴾ +وا حضرت عندا لبیت رھطی و اخو تی +وا مسکت من اثوا بہ با لو صا ئل +﴿سب نے بیت اللہ کے پا س اپنی قو م اور اپنے بھا ئیوں کو اکٹھا کیا اور میں نے بیت اللہ کا سر خ دھا ریو ں والا غلاف پکڑ رکھا تھا ﴾ +کذ بتم وبیت اللہ نتر ک مکۃ +وَ نظعن الا امر کم فی بلا بل +﴿اللہ کے گھر کی قسم تم نے یہ جھو ٹ بو لا ہے کہ ہم مکہ چھو ڑ جا ئیں گے اور یہا ں سے تعلق تو ڑ لیں گے نہیں ایسا ہو ا بھی تو اسوقت ہو گا جب تمہا ری حا لت تبا ہ ہو گی اور تم ہز یمت سے ٹو ٹ جا ئو گے ﴾ +کذ بتم و بیت اللہ نبز ی محمدا ً +و الما نطا عن دو نہ و ننا ضل +﴿بیت اللہ کی قسم تم نے جھو ٹ بو لا ہے کہ ہم محمد �ö کو چھو ڑ دیں گے ۔ ہم تو اس کے دفا ع میں نیز وںاور تیر وں کی بوچھاڑیں کر ینگے ﴾ +ونسلمہ حتی نصر ع حو لہ +و نذ ھل عن ابنا ئ سنا و الحلائل +﴿ہم کیسے اُسے تمہا رے حوا لے کر دیں گے اس سے پیشترکہ ہما ری لا شیں اسکے گر د خا ک آلود پڑ ی ہو ں اور ہم اپنے بچوں بلکہ بیو یو ں کو بھی فرا مو ش کر چکے ہو ں ﴾ +وا بیض یسستقی الغما م بو جھہ +ثما ل الیتمی و عصمۃ الا ر امل +﴿میرا بھیتجا گو رے رنگ والا ہے جس کے چہر ے کی بر کت سے با ر ش طلب کی جا تی ہے وہ یتیموں کا ملجا اور بیو ائو ں کے ناموس کا پا سبا ن ہے ﴾ +یلو ذ بہ الھلا ک من آل ھا شم +فھو عند ہ فی رحمۃ و فوا ضل +حضور �ö کے دفا ع کے لیے بنو ہا شم اور بنو عبدا لمطلب کو متحد کر نے کی یہ کوشش با ر ور ثا بت ہو ئی۔ ان دو نو ں خا ندا نوں نے وعد ہ کیا کہ وہ دشمنو ں کے مقا بلہ میں محمد �ö کو اکیلا نہیں چھو ڑینگے بلکہ دشمنو ں کے ہروا ر کے سا منے ڈھا ل بن کر آپ کی حفا ظت کر ینگے ۔ صر ف ایک بد بخت ابو لہب تھا جو حضور �ö کا سگا چچا اور خا ندا ن بنو ہا شم کا سر کر دہ شخص تھا مگر اس نے قسم کھا لی تھی کہ ہر قدم پر حضور �ö کی مخا لفت میں سر گر م رہے گا۔ اسکے اس عمل میں اسکی شر یک اسکی بیو ی تھی انکی زند گی کا لمحہ لمحہ حضور �ö کو دکھ پہنچا نے اور آپ پر ظلم و ستم تو ڑنے میں صر ف ہو تا تھا ۔ابو الہب اس پر نا زا ں تھا ۔ +کفا ر کو سب سے زیا دہ ذہنی اذیت اس وقت ہو ئی جب جناب حمزہ (رض) اور عمر فا رو ق (رض) مسلمان ہو گئے۔ اس پر انہو ں نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک حضور �ö کا ﴿معا ذ اللہ ﴾ کا م تما م نہ کر دیا جا ئے اسلام کو رو کا نہیں جا سکے گا ۔ اب یہی سازشیں ہو نے لگیں کہ کسی طر ح سر چشمہ نو ر کو بند کر دیا جا ئے ۔حضر ت ابو طا لب تک یہ با تیں پہنچنے لگیں۔ انہو ں نے قبیلہ بنو ہا شم کے تما م افراد کو جمع کیا اور صو ر ت حا ل سا منے رکھی بنو ہا شم اور بنو مطلب نے حضور �ö کی حفا ظت کے لیے سر د ھڑ کی با زی لگا نے کا عہد کیا اب حضرت ابو طا لب نے ایک فیصلہ کیا علا مہ بلا ذر ی لکھتے ہیں۔ +’’حضرت ابو طا لب اپنے پیا رے بھتیجے کو لے کر بنو ہا شم اور بنو طا لب کی محبت میں اس گھا ٹی میں منتقل ہو گئے جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہو ر تھی اور ان سب نے یہ معا ہد ہ کیا کہ جب تک ہم میںسے ایک فر د بھی زند ہ ہے ہم کفا ر کو حضور �ö پر دراز دستی نہیں کر نے دینگے ‘‘ +دو اونچے پہا ڑو ں کے در میا ن تنگ گھاٹی یا وا د ی کو عر بی میں شعب کہتے ہیں۔ یہ گھا ٹی حضرت ابو طا لب کو ورثہ میں ملی تھی ۔ +اور شعب ابی طا لب کے نام سے مشہو ر تھی ۔ کفا ر نے جب یہ دیکھا کہ حضر ت ابو طا لب اپنے سا رے افرا د کو لے کر خودہی شعب ابی طا لب میں چلے گئے ہیں یا دو سرے لفظو ں میں قلعہ بند ہو گئے ہیں تو انہو ں نے متحد ہو کر سو شل با ئیکاٹ کا فیصلہ کر لیا ۔ اس سلسلہ میں ایک معا ہد ہ کیا گیا اور یہ معا ہدہ بڑ ی حفا ظت سے کعبہ کے اندر آویز اں کر دیا گیا ۔ علا مہ ابن کثیر معا ہد ہ کی تفا صیل بیان کر تے ہو ئے لکھتے ہیں۔ +’’ سا رے مشر کین ایک جگہ جمع ہو ئے اور سب نے متفقہ طو ر پر یہ طے کیا کہ وہ وان لو گو ں کے سا تھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گے ۔ ان کے ہا تھ کوئی چیز فر و خت نہیں کر ینگے ان کیسا تھ کسی طر ح کا معا ملہ نہیں کیا جائے گا جب تک یہ لو گ حضور �ö کو انکے حو الے نہیں کر ینگے انہو ں نے یہ معا ہد ہ ایک صحیفہ میں تحر یر کیا اسکی پا بند ی کا پختہ عہدلیا اور اسے کعبہ کے اندر آو یز ا ں کر دیا ۔ +﴿سیر ت ابن کیثر ج 2 ص 48﴾ +اس معا ہدہ کے تحت بچی کا رشتہ دینا بھی شعب ابی طا لب کے با شند و ں کو ممنو ع ہو گیا اور کو ئی انہیں کوئی چیز فر و خت بھی نہیں کر تا تھا ۔ اما م سہیلی لکھتے ہیں ۔ +’’ اگر بیرو ن مکہ سے کو ئی تجا ر تی قا فلہ آتا اور مسلما ن کچھ خر ید نے کے لیے پہنچتے تو ابو لہب ان تاجر وں کو کہتا تم انہیں اتنے بھا ئو بتا ئو جوا نکی قو ت خر ید سے باہر ہو ں اور فکر نہ کر نا یہ نہیں خر ید ینگے تو میں تمہیں نقصا ن نہیں ہو نے دو نگا ۔ یہ خسا رہ میں پورا کر دونگا ۔ شعب ابی طا لب کے مکین بھو ک سے بلکتے ہو ئے بچو ں کو چھو ڑ کر سا ما ن خر ید نے جا تے ۔انہیں پا نچ دس گنا زیا دہ درم بتا ئے جا تے اسطر ح وہ کچھ نہ خر ید سکتے اور اپنے بچو ں کی بھو ک نہ مٹا سکتے ۔ +یہ ظا لما نہ مقا طعہ ﴿سو شل با ئیکا ٹ﴾ تین سا ل تک جا ری رہا۔ کفا ر نے پہرے دا ر بھی لگا رکھے تھے اور اگر کو ئی معا ہد ہ کی خلاف ورز ی کر تے ہو ئے پکڑا جا تا تو اس کے خلا ف سخت تا دیبی کا رو ئی ہو تی لیکن اس سنگدلانہ ، ما حو ل میں کچھ ایسے نیک دل لو گ بھی تھے، جو چھپ چھپا کر بھی کھا نے کی کو ئی چیز حسب ِ استطا عت پہنچا دیا کر تے ۔ان میں ہشا م بن عا مر الفہری سر ِ فہر ست تھے ،جو بعد میں مشر ف بہ اسلا م بھی ہو گئے تھے۔ ایک را ت وہ خور ا ک کا سا ما ن تین اونٹوں پر لا د کر شعب ابی طالب میں لے گئے ۔ کفا ر کو پتہ چل گیا انہو ں نے سخت با ز پر س کی ہشا م بن عمر نے آئندہ یہ فعل نہ دہرا نے کے وعدہ پر گلو خلا صی کر ائی لیکن دوسر ی را ت پھر وہ کچھ سا ما ن لا د کرلے گئے ،کفا ر کو علم ہو گیا اور ان پر ملامتو ں کی بو چھا ڑ کر دی۔ کچھ تو انہیں قتل کر نے پر بھی تیا ر تھے۔ احمد بن زینی دحلا ن کہتے ہیں کہ ابو سفیا ن نے ان کی جا ں بخشی کر ائی ۔ یہی احمد بن زینی ایک دو سرا واقعہ بیا ن کر تے ہیں کہ ایک دفعہ حکیم بن خر ام اپنے غلا م سے گند م کی بو ری اٹھوا ئے شعب ابی طا لب کی طر ف جا رہے تھے ۔ وہ یہ غلہ اپنی پھو پھی ام المو منین خد یجۃ الکبرٰ ی کو پہنچا نا چا ہتے تھے ۔راستے میں ابو جہل مل گیا اس نے رو ک لیا اور کہا یہ گند م آگے نہیں جا سکتی۔ میں تمہیں مکہ لے جا کر خوب رسوا کر و نگا اتنے میں ابو البختر ی وہا ں آگیا ۔ وہ معا ملہ کی نز اکت کوسمجھ گیا۔ اس نے ابو جہل سے کہا میں جا نتا ہو ں یہ گند م کی بو ری اصل میں پھو پھی کی ہی ہے جو اسکے پا س اما نت تھی، اب یہ اسے لو ٹا نے جا رہا ہے۔ ابو جہل نہ ما نا ، جھگڑا شر و ع ہو گیا ، تلخ کلا می بڑ ھتی گئی۔ کسی او نٹ کے جبڑ ے کی ہڈ ی پاس پڑ ی تھی ابو البختر ی نے ابوجہل کے سر پر دے ما ری خو ن بہنے لگا پھر ابو لبختر ی نے ابو جہل کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور اسکی چھا تی پر چڑ ھ کر اسے خو ب ر گیدا ‘‘ یہ سب کچھ تھا مگر ایسے نیک دل لو گ ایک تو کم تھے، دو سرے انکی کوشش سخت پہرے کی وجہ سے بہت کم کا میا ب ہو تی تھی ۔ شعب ابی طا لب میں محصو ر ین کو بڑی مشکلا ت کا سا منا کر نا پڑ ا اور زند گی سخت دشوا ر ہو گئی ۔ ان کے مصا ئب کا ذکر کرتے ہو ئے علا مہ سہیلی لکھتے ہیں ۔ +’’ الصحیح میں ہے کہ شعب ابی طا لب میں محصو ر لو گو ں کو بڑ ے مصا ئب جھیلنے پڑ ے ۔بھو ک اور خورا ک کی عد م دستیا بی کا یہ عالم تھا کہ وہ لوگ در ختو ں کے پتے کھا کر بھو ک مٹا نے کی کوشش کر تے۔ ان محصو رین میں حضرت سعد بن (رض) وقا ص بھی تھے انہو ں نے بتا یا کہ ایک دفعہ میں بہت بھوکا تھا را ت کو اند ھیرے میں میرا پا ئو ں کسی گیلی چیز پر پڑ گیا ۔ میں نہیں جا نتا وہ کیا چیز تھی میں نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈا لا نگل گیا ابتک مجھے علم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی اسی طر ح ایک اور رو ایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہیں اونٹ کی خشک کھا ل کا ٹکرا مل گیا اسی کو دھو کر اور جلا کر کھا تے رہے ‘‘ +یہ محا صر ہ تین سا ل رہا ۔ ایک روز جنا ب رسو ل �ö کو اللہ نے آگا ہ کیا کہ با ئیکا ٹ کا جو معا ہد ہ تحر یر ی صو ر ت میں تھا اور جسے محفو ظ کر کے خا نہ کعبہ میں آویز اں کیا گیا تھا، وہ اند ر سے دیمک نے چا ٹ لیا ہے اس پو ر ی تحر یر میں جہا ں جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لکھا تھا۔ وہ بچ گیا با قی سب کچھ ختم ہو گیا ۔ حضور �ö نے یہ غیبی خبر حضرت ابو طا لب کو بتا ئی وہ بولے ۔ +’’ کیا آپ کو اپنے رب نے یہ با ت بتا ئی ‘‘ آپ (ص) نے اثبا ت میں جو اب دیا تو انہو ں نے کہا ٹھیک ہے کیو نکہ آج تک تیر ی کوئی با ت غلط نہیں نکلی ۔ در خشا ں ستار ے گوا ہ ہیں کہ تو سچا ہے‘‘ +وہ اپنے خا ندا ن کے چند افرا د کو سا تھ لے کر قر یش کے پا س گئے اور کہا ذرا اس صحیفہ کو لے آئو ہم بھی دیکھیں، ممکن ہے ان شرائط میں سے کسی پر ہما را سمجھو تہ ہو جا ئے۔ وہ صحیفہ لے آئے حضرت ابو طا لب نے کہا ’’ میں آج ایک منصفانہ حل لے کر تمہارے پاس آیا ہو ں۔ میرے بھتیجے نے کہا اور وہ جھو ٹ کبھی نہیں بو لتا کہ اس صحیفہ کی سا ری دفعا ت اللہ کے نام کے سوا دیمک نے چا ٹ لی ہیں ۔اسے کھول کر دیکھو اگر میرے بھتیجے کی با ت سچ ہو ئی تو ہم اسے ہر گز تمہا رے حو الے نہیں کر ینگے ۔اور اگر جھو ٹ ہو ا تو ہم اسے تمہا رے حو الے کر دینگے ۔قر یش نے کھول کر دیکھا تو حضور �ö کی با ت سچی تھی ان کو حق قبول کر لینا چاہیے تھا ،مگر ضد ی اور ہٹ دھر م لو گو ں نے کہا ‘‘ ابو طا لب یہ تیرے بھتیجے کا جا د وہے۔ حضرت ابو طا لب واپس آگئے ۔ +اے زہیر کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم تو انو ا ع و اقسا م کے لذ یذ کھا نے کھا ئو ۔عمد ہ لبا س زیب تن کر و، اپنی بیو ی بچو ں کے سا تھ راحت و آر ام کی پر لطف زند گی گز ا ر و اور تمہا رے ننھیا ل بھوکے پیا سے چتھڑو ں میں ملبو س خستہ حا ل ہو ں اور طرح طر ح کی مصیبتو ں میں مبتلا دُکھ کی گھڑ یا ں گن گن کر گزا ر رہے ہو ں ۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ اگر تم ابو الحکم ﴿ابو جہل ﴾کے ننہا ل کے خلا ف ایسا قد م اٹھا تے اور اسے دعو ت دیتے کہ وہ بھی اس میں تمہا را شر یک حا ل بنے تو وہ کبھی تمہا ری با ت نہ ما نتا ‘‘ یہ با ت بڑ ی معقو ل و مد ئل تھی زہیر نے سر جھکا کر کہا ‘‘ افسو س صد ا فسو س اے ہشام میں اکیلا ہو ں ۔اگر مجھے ایک بھی ہمنوا مل جا ئے تو میں تمہا رے سا تھ ہو ں ۔زہیر نے کہا پھر اپنے سا تھ ایک اور آدمی بھی تلاش کر و ہشا م مطعم بن عد ی کے پا س گیا اور کہا! اے مطعم کیا یہ با ت تمہیں پسند ہے کہ بنی عبد منا ف کے دو خا ند ان بنو ہا شم اور بنو عبد المطلب بھو ک سے جا ں بلب ہو کر ہلا ک ہو جا ئیں اور تم غیرو ں کی پشت پنا ہی کر تے رہو ۔سو چو اگر تم ان لو گو ں کے رشتہ دا رو ں کی ایسی ہلا کت کے در پے ہو تے تو کیا وہ تمہا را سا تھ دیتے کیا وہ سب مل کر تم پر حملہ آور نہ ہو جا تے مطعم نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میں تنہا پو ر ی قو م کا مقا بلہ کیسے کر سکتا ہو ں ہشا م نے کہا تم اکیلے نہیں دوسرا آدمی میں بھی ہوں ۔ مطعم نے کہا کوئی تیسر ابھی تلا ش کر و۔ ہشا م بو لا وہ بھی میں نے تلا ش کر لیا ہے۔ وہ زہیر بن امیہ ہے۔ اس طر ح ہشا م نے ابو البختر ی ، زمعہ بن الا سود اور بر و ایت طبقا ت ابن سعد ایک اور سا تھ عد ی بن قیس بھی تلاش کر لیا ان میں سے ہشا م ، زہیر عد ی بن قیس کو بعد میں اسلا م قبول کر نے کی سعا دت نصیب ہو ئی ۔یہ تما م حضرا ت را ت کو حجو ن کے مقا م پر اکٹھے ہو ئے اور معا ہد ہ کوکا لعد م کر نے کا پر و گرا م تر تیب دیا۔ زہیر نے کہا اس کا م کاآغا ز میں کر و نگا ۔ +صبح ہو ئی تو رئو سا ئے قر یش حسب ِ معمول اپنی اپنی مجا لس میں بیٹھے تھے کہ زہیر بڑ ی شا ن اور آن با ن سے حر م میں داخل ہوا اس نے لباس فا خر ہ زیب تن کر رکھا تھا۔ اس نے بڑے پر وقا ر انداز میں بیت اللہ کا طوا ف کیا اور پھر مو جو د لوگو ں کو مخا طب کر کے کہا ۔ +’’ اے مکہ کے با شند و کتنے شر م کی با ت ہے کہ ہم پر لطف کھا نے کھا ئیں ،عیش و راحت میں شب و رو ز بسر کریں اور خاندا ن بنو ہا شم کے افرا د بھو کے مر رہے ہو ں۔ ان کے پا س تن ڈھا نکنے کو کپڑ ا بھی نہ ہو کیایہی مر دا نگی ہے کہ ہم ان کے ہاتھ قیمت پر بھی کوئی چیز بیچنے کو تیا ر نہ ہو ں۔ خدا کی قسم میں اسوقت تک نہیں بیٹھو نگا جب تک اس قطع رحمی کر نے والی ظا لما نہ اورشر منا ک دستا ویز کو پا ر ہ پا رہ نہ کر دو ں ‘‘ ابو جہل غصہ سے در پیج و تا ب کھا تا ہو ا اٹھا اور گر ج کر بو لا ’’ تم جھو ٹ کہہ رہے ہو اس صحیفہ کو ہر گز نہیں پھا ڑ ا جائے گا ‘‘ اس پر ازمعہ بن اسود فو را ً کھڑا ہو گیااس نے ابو جہل کو مخا طب کر کے کہا ‘‘ سب سے بڑے جھوٹے تم ہو ہم تو پہلے بھی اس تحر یر کے حق میں نہیں تھے ‘‘ پھر ابو البختر ی کھڑ اہو گیا زمعہ نے سچ کہا ہے ہم اس معا ہد ہ کو نا پسند کر تے ہیں اور اسے باقی نہیں رہنے دینگے ۔ مطعم نے کہا اے زہیر ، زمعہ اور ابو البختر ی تم سچ کہتے ہو اور با قی جو بھی کچھ کہتا ہے جھو ٹ بکتا ہے پھر ہشا م نے بھی انکی تا ئید کی مطعم نے دستا ویز پر ہا تھ ڈا لا یہ دیمک کی چا ٹی ہو ئی تھی ۔ اسے پر زہ پر زہ کر دیا گیا ۔یو ں شعب ابی طا لب کے ایک طر ح کے قید خا نے سے رسو ل �ö آپ کے اعزہ و اقر با ئ اور آپ کے ساتھیوں کو نجا ت ملی ۔ حضرت ابو طا لب نے اس پر ایک تا ریخی قصید ہ لکھا جس کے چند اشعار یہ ہیں �ò +فیحنبر ھم ان الصحیفۃ مز قت +وا ن کل صا لم یر ض اللہ مفسد +﴿انہیں اطلا ع مل گئی کہ وہ د ستا ویز پا رہ پا رہ کر دی گئی جس چیز کو اللہ پسند نہ کر ے وہ اسی طر ح فنا ہو جا تی ہے﴾ +جز ی اللہ رھطا ً با لحجو ن تتا بعوا +علی ملا ئ ٍ یھد ی لحزم ویر شند +﴿اللہ اس گر وہ کو جز ا ئے خیر دے جو حجو ن کو مقا م پر جمع ہو ا اور ایسا فیصلہ کیا جو مبنی بر ہد ایت ودانش تھا ﴾ +وسر ابو بکر بھا و محمد +﴿وہی لو گ ہیں جنہوں نے سہل بن بیضا ئ کی را ضی کر کے لو ٹا یا اور ابو بکر و محمد �ö کو خو ش کر دیا ﴾ +ہم شعب ابی طا لب میںپھر رہے تھے ایک ایک پتھر اور ایک ایک ذر ہ دعو ت و عزیمت کی عظمت بھر ی داستا ن سنا رہا تھا ۔ میرے ان��ر تبلیغ کا شوق لہر یں لے رہا تھا میں ان ذرو ں سے ہمتیں سمیٹ رہا تھا ۔ حو صلے چن رہا تھا اور خو ا ب بن رہا تھا جنکی تعبیر یں اکٹھی کر نے میں با قی عمر گز ار نا چا ہتا تھا ۔ +مکہ مکر مہ میں جو کچھ ہو ناتھا ہو چکا حضور �ö نے اتنی مشقت اور جا نکا ہی سے فر یضہ تبلیغ و دعوت حق ادا کیا کہ خو د خدائے قد وس کو کہنا پڑا +’’لَعَلَّٰکَ بِا خِع’‘ نَفْسَکُ اَلّٰا یَکُوْ نُوْا مُؤمِنْیِنْo ﴿26/3﴾‘‘ +﴿آپ تو اس رنج میں اپنی جا ن ہی کھو دینگے کہ وہ لو گ ایما ن لا نے والو ں میں سے کیو ں نہیں ہو جا تے ﴾ +فر یضہ ئِ رسا لت عا ئد کر تے ہو ئے اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا تھا ۔ +’’اِنْ تُبْسَلْ نَفْس’‘ بِمَا کَسَبَتْo ﴿6/70﴾‘‘ +﴿کہیں ایسا نہ ہو کہ کو ئی انسا ن اپنی بد عملی کی وجہ سے ہلا کت میں چھو ڑ دیا جا ئے ﴾ +یعنی ایسا نہ ہو کہ کوئی آدمی ایسا رہ جا ئے کہ وہ کہے اس تک حق و صدا قت کی آواز نہیں پہنچی تھی اور آپ نے اس شا ن سے آواز پہنچا ئی اور کفر کی راہ پر چلنے والو ں کو عذ اب سے بچا نے کے لیے اتنی دلسوزی دکھا ئی کہ اللہ نے فر ما یا +’’فَلَعَلّٰکَ بَا خِع’‘ نَّفَسَکَ عَلیٰ آثَا رِ ھِمْ اِ نْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھذٰ ا لْحَدِ یْثَ اَسَفاًo ﴿18/6﴾ +﴿اے نبی �ö آپ کی حا لت تو ایسی ہو رہی ہے کہ جب یہ لو گ وا ضح با ت بھی نہ ما نیں تو عجب نہیں کہ آپ (ص) انکی ہدایت کے پیچھے ما رے حسر ت و افسو س کے اپنی جا ن ہلا کت میں ڈا ل دیں۔ دو سری جگہ فر ما یا ﴾ +’’فَلاَ تذھب نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم’‘ بِمَا یَصْنعوْن﴿35/8﴾‘‘ +﴿دیکھیے ان لو گو ں پر غم کھا نے سے آپ (ص) کی جا ن ہی نہ چلی جا ئے یقینا جا نتا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں﴾ +اپنے فر ض کو اتنی جا نکا ہی اور مشقت سے نبھا نے کا اعترا ف کر تے ہو ئے فر ما یا گیا +﴿اگر وہ منہ پھیر کر چل دییتو جا نے دیجیے آپکو ان کا نگرا ن بنا کر نہیں بھیجا گیا آپ کو تو پیغام حق پہنچا نا تھا ، پہنچا دیا﴾ +’’فَذَ کِرّ اِنَّماَ اَنْتَ مُذَ کِّرْ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمَصَیْطِر o ﴿88/21﴾‘‘ +﴿آپ (ص) تو صر ف یا د ہا نی کر انے والے ہیں ،کر اتے جا ئیں ان پر دا ر و غہ تو آپ کو مقر ر نہیں کیا گیا ﴾ +اور جب انکی طر ف سے ہٹ دھر می کی انتہاہو گئی تو آپ (ص) کو کہہ دیا گیا ۔ +’’ فَا عْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَ لیّٰ ۔ عَنْ ذِکْرِ نَا وَ لَمْ یُرِ دْ اِلاَّ الْحَیٰو ۃَ الد نیا﴿53/29﴾‘‘ +﴿تو اے پیغمبر آپ (ص) ان لو گو ں سے اعر اض بر تیں جو ہما رے ذکر سے گردن مو ڑ کر چل دیتے ہیں اور دنیاوی زند گی کے مفا د کے سو اکسی اور با ت کا ارا دہ نہیں رکھتے ﴾ +یہ تک فر ما دیا ۔ +’’ فَا صْفَحْ عَنْھُمْ وَ قُلْ سَلٰم’‘ فَسَوْ فَ یَعْلَمُوْ ن﴿ 34/89﴾‘‘ +﴿پس آپ ان سے در گز ر کیجیے اور کہہ دیجئے کہ اب تمہا را خدا حا فظ ، چنا نچہ کچھ عر صہ کے بعد وہ خو د ہی جا ن لیں گے ﴾ +تما م انبیا پر یہ مر حلہ آیا اور جب حضور �ö ،حضرت ابرا ہیم علیہ السلام پر یہ مر حلہ آیا تو انہو ں نے بھی اپنی قو م سے برأت کا اظہا ر کر نے کے بعد فر ما یا +’’ اِنّیِ مُہاَ جِر’‘ اِلیٰ رَبّیِْ ، اِنَّہ‘ ھُوَ الْعَزِ یْزُ الْحَکِیمْ﴿29/26﴾‘‘ +﴿ میں یہا ں سے ہجر ت کر کے ادھر جا رہا ہو ں ،جد ھر میرے ر ب نے مجھے حکم دیا اور وہ غا لب اور حکمت والا ہے ﴾ +عین اسی طر ح اس مر حلہ پر حضور �ö کو بھی مد ینہ چلے جا نے کا حکم ہو ا۔پہلے آپ (ص) نے اپنے پر وا نو ں کو ہجر ت حبشہ اور پھر ہجر ت مد ینہ کا حکم دیا او ر اللہ کا پیغا م سنا یا ۔ +’’ یِعٰباَ دِ ��َ الَّذِ یْنَ آمَنُوْ ا اِنَّ اَرْضِیْ وَ اسِعَۃ’‘ فَا یِاَّ یَ فَا عْبَدُ وْ ن﴿29/56﴾‘‘ +﴿اے میریے بند و جو میرے قو انین کی صد اقت پر ایما ن لا ئے ہو تمہیں صر ف میرا ہی محکو م بن کر رہنا ہے ﴿اگر یہا ں میری حکومت تمہیں میسر نہیں آتی تو میری زمین وسیع ہے﴾ +اور آخر میں خو د حضور �ö کو جا نا تھا ۔ مشر کین مکہ مسلما نو ں کی ہجر ت دیکھ رہے تھے اور خو ش ہو رہے تھے کہ ہمیں انہیں جلا وطنی کی سزا نہ سنا نا پڑ ی وہ خو دہی ہما رے خو ف سے جلا وطن ہو رہے ہیں لیکن ان پر بہت جلد کھل گیا کہ اس طر ح تو مسلما ن قوت پکڑ رہے ہیں۔ آخر انہو ں نے فیصلہ کر لیا کہ حضور �ö کو ﴿معا ذ اللہ ﴾ ختم کر کے سر چشمہ ئِ نو ر بند کر دیا جا ئے ۔ انہوں نے سو چا کہ اگر کوئی شخص فر د وا حد کی حیثیت سے یہ خو ن اپنی گر دن پر لیتا ہے، تو بنو ہا شم کے با اثر اور معزز خا ندا ن کی عد وا ت کا با ر نہیں اٹھا سکے گا، اس لیے سب مل کر یہ کچھ کر ڈالیں۔ یہ تجو یز سب کو پسند آئی قر آن حکیم نے اسی واقعہ کی طر ف اشارہ کر تے ہو ئے فر ما یا +’’اِ نَّھُمْ یَکِیْدُ وْنَ کَیْداً وَّ اَکِیْدُ کَیْداً۔ فَمَھّلِ الْکٰفِر یْنَ اَ مْھِلْھُمْ رُوَ یْداً﴿86/15-17﴾‘‘ +﴿ یہ وا قعہ ہے کہ وہ اپنی خفیہ تد بیر و ں میں لگے ہو ئے ہیں اور میں اپنی خفیہ تد بیر میں ہو ں۔ پس اے پیغمبر �ö آپ(ص) منکر ین حق کو اپنا کا م کر نے دیں اور دیکھیں کو ن اپنی تد بیر وں میں کا مر ان ہو تا ہے﴾ +حضور �ö کو انکی سا ز شو ں کا علم تھا ۔آ ُپ (ص) نے بمشا ور ت حضرت صد یق اکبر، ہجر ت کا سا ما ن مکمل کر ایا ۔ با لا ٓ خر ایک را ت فیصلہ ہو گیا کہ آپ مکہ چھو ڑ دیں۔ جناب علی المر تضیٰ (رض) حضو ر �ö کے پا س تھے انہو ں نے دیکھا کہ حضور �ö کچھ پریشا ن ہیں تو انہیں عجیب معلو م ہوا کیو نکہ احکا م الہٰی کی پیر و ی میں آپ (ص) کو کبھی تردد نہیں ہو ا تھا ۔ ہجر ت کی تیا ری کا سا را کام حضر ت صدیق (رض) اکبر کے سپر د تھا اس طر ف سے بھی پریشا نی نہیں تھی ، پھر چہرے پر فکر کے آثا ر کیو ں تھے؟ حضرت علی نے پو چھ لیا۔ آپ (ص) نے فر ما یا علی (رض) با ت یہ ہے کہ میرے پاس اہل مکہ میں سے بعض لو گو ں کی اما نتیں ہیں سو چتا ہوں وہ کیسے واپس ہو نگی ۔ حضرت علی (رض) نے فر ما یا’’ اس پر پر یشا ن نہ ہو ں وہ میرے سپر د فر ما دیں۔ میں اسو قت تک ہجر ت کا ارا دہ نہیں کر و نگا جب تک اما نتو ں کی ایک ایک پا ئی انہیں لو ٹا نہ دو ں۔ یہ پر یشا نی دو ر ہو گئی۔ را ت گئے حضور �ö اپنے رفیق باوفا حضر ت صدیق (رض) کے سا تھ مکہ سے نکل گئے ۔یہ سفر 2 صفر 13 �÷ نبو ی کو شر وع ہوا ۔ +مکہ سے تین چا ر میل کے فاصلہ پر پہا ڑ کی چو ٹی پر ایک غا ر ہے جسے غا ر ِ ثو ر کہتے ہیں قر آن حکیم میں اصحا ب کہف کی غا ر کا ذکر آیا ہے اور غا ر ِ ثو ر کا بھی ۔ حضور اور حضرت صد یق اکبر (رض) نے غا ر ثو ر میں ہی ٹھکا نا کیا تھا۔ جب مشر کین مکہ تعا قب میں تھے قرآن محا کا تی انداز میں کہتا ہے ۔ +’’ اور جب دو نو ں غا ر میں تھے تو دونو ں میں سے دو سرا یعنی صد یق (رض) کہنے لگا کہ ہم دو ہیں ‘‘﴿9/40﴾ +جنا ب صد یق (رض) پر یشان تھے ۔انہیں اپنی جا ن کی تو فکر نہ تھی کہ جا ن تو وہ اسی روز دا ئو پر لگا چکے تھے۔ جب اسلا م قبو ل کیا تھا ۔ انہیں حضور �ö کی فکر تھی اس لییپر یشا نی کا اظہا ر کر دیا کہ ’’ ہم دو ہیں اور ہما رے تعا قب میں آنے والے بہت ‘‘ آپ (ص) نے کمال طما نیت سے فر ما یا نہیں اے رفیق صد یق ہم تین ہیں۔ +’’لَاتَحْزَ نْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴿9/40﴾‘‘ +﴿اے دو ست فکر نہ کر اللہ ہما رے سا تھ ہے﴾ +رو ایا ت میں ہے کہ غا ر کے منہ پر ایک طر ف کبو تر ی نے گھو نسلہ بنا کر انڈے دیے اور انڈو ں پر بیٹھ گئی اور ادھر مکڑی نے جالا تن دیاتھا ۔تعا قب کر نے والے آئے انہو ں نے یہی سمجھا کہ اس غا ر میں کوئی دا خل ہو ا ہو تا تو یہ جا لا کیسے سا لم رہتا اور یہ گھونسلا ا ور پھر گھو نسلے میں انڈو ں پر اطمینا ن اور بے خو فی سے بیٹھی ہو ئی کبو تر ی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ خا سر و نا مرا د وا پس ہو گئے ۔ اسی غا ر کے متعلق یہ رو ایا ت بھی آتی ہیں کہ یہا ں حضور �ö جنا ب صد یق کے زا نو پر سر رکھ کر سوگئے سا نپ نے آکر ﴿بعض روا یا ت میں زہر یلا بچھو بتا یا گیا ﴾ کا ٹ لیا۔ حضرت صد یق (رض) نے یہ اذیت بر دا شت کر لی اور حر کت نہ کی مبا دا محبوب کی نیند میں خلل پڑے شد تِ تکلیف سے آنسو ٹپک کر حضور �ö کے چہر ے پر ٹپک گیا اور آپ (ص) کی آنکھ کھل گئی صور ت حا ل معلو م ہوئی تو لعاب دہن سے اذیت دو ر کر دی ۔ +ہما را ایک خا ص مقا مِ زیا ر ت غا ر ِ ثو ر بھی تھا ۔ ہمیں بتا یا گیا کہ غا رِ ثو ر کی حا ضر ی کوئی آسا ن کا م نہیں مگر جس کام کی خاطر ہم سفر کر رہے تھے۔ وہ خو دہی مشکلا ت را ہ آسان کر رہا تھا ۔ محلہ مسفلہ سے گز ر تے ہو ئے، ٹیکسی نے 45 منٹ میں ہمیں کو ہِ ثو ر پر پہنچا دیا ۔روا یت میں ہے کہ اس غا ر تک حضرت صد یق اکبر نے حضور �ö کو کندھے پر اٹھا کر لے گئے تھے ۔مجھے بے اختیا ر عبد الطیف افضل کی لکھی ہو ئی قصیدہ صدیقیہ نظم یا د آگئی ہے۔ +اوڈ سڈا غمخوار نبی دا اوڈسدا غا ر دے اندر یا ر نبی دا اوہ ڈسد ا +ڈا چی لے کے آیا در تے ہجر ت دی تیا ری کر کے +چھڈ کے دیس تھیا پر دیسی بن کے خد متگا ر نبی دا اوہ ڈسدا +پیاں بھا ر قد م نیں لا ندا ثو ر پہا ڑ تے چڑھدا جا ندا +صد قے ہو ہو پیا اٹھا ندا پشت تے پیا را بھا نبی دا او ڈ سد ا +کیتا فضل خدا و ند با ری یا ر نے خو ب نبھا ئی یا ر ی +دے کے پلکا ں نا ل بہا ری صا ف چا کیتا غا ر نبی دا اوڈ سد ا +بند سورا خ چا غا ر دے کیتے نئیں منظو رآزا ر نبی دا اوڈ سدا +ڈنگ گیا جا ں نا گ تلی نو ں در د ہو یا تا ں جا ن جلی نو ں +اتھر و دا ہک قطرہ ڈ ٹھا گر م ہو یا ر خسا ر نبی دا اوڈ سدا +کا فر تک کے غا ر کنا رے یا نبی صد یق پکا رے +نا ں ڈر نا ں ڈر یا پیا رے کہنا نا ل پیا ر نبی دا او ڈسدا +حضر دا سا تھی سفر دا سا تھی خند ق ، احد ، بد ر دا سا تھی +قبر دا سا تھی حشر دا سا تھی ، کون نکھیڑ ے یا ر بنی دا او ڈسدا +ثانی کہہ کے رب و ڈیا لقب اصحا ب خدا تھیں پا یا +ذکر قرآن دے اندر آیا صا ف اس یا ر غا ر نبی دا اوڈِسدا +افضل جے اس غا ر تے جا وا ں میں نینا ں دا فر ش و چھا وا ں +جھتے بیٹھے نبی پیا رے نا لے عا شق زار نبی دا اوڈِسدا +اوڈِسدا غمخواری نبی دا اوڈِسدا +راہ پیچید ہ اور دشوار گز ار ہے ۔اکثر جگہ خا ر دا ر جھا ڑیا ں ، چکنے یا پا ئو ں میں چبھنے والے اور جو تو ں کے تلو ے پھا ڑ دینے والے پتھر ہیں بہت احتیا ط سے قد م رکھنے پڑ تے ہیں ۔اب نجدی حکومت نے محلہ مسفلہ سے منیٰ و عر فا ت کو جو نئی سڑ ک نکالی ہے وہ مکہ شر یف سے جنو ب مشر ق کی جا نب ہے اس سڑ ک پر تقر یبا ً سا ت میل جا کر یہ سڑ ک چھو ڑ دی جا تی ہے تقر یبا ً ایک میل کچی سڑ ک پر یہ پہا ڑ وا قع ہے۔ غا ر ِ ثو ر تک چڑ ھا ئی تقر بیا ً تین میل ہے ۔اس طر ف سے را ستہ تنگ اور چکنا نہیں ہے قدرے کھلا ہے۔ اکثر جگہ دو طر فہ اور کہیں یک طر فہ دیوار کر کے سیڑ ھیا ں بنا دی گئی ہیں دیوا ر پر تیر وں کے نشا ن رہنما ئی کرتے جا تے ہیں ۔چا ر جگہ غا ر ملتے ہیں جن سے دھو کا ہو سکتا ہے مگر اس طر ف سے تیسرے نمبر کا غا ر اصل غا ر ہے یہا ں عربی میں ’’ ھذا غا ر ثور ‘‘ اور انگریزی میں ﴿ The Holy Cave﴾ لکھا ہو اہے ۔ایک کمرے کے برا بر بڑ ا سا پتھر ہے ۔سوراخ ایسا ہے کہ لیٹ کر اندر دا خل ہو ا جا سکتا ہے۔ اندر بمشکل چا ر پا نچ آدمی بیٹھ سکتے ہیں غا ر کے اند رکی زمین بھی ہموا ر نہیں جگہ جگہ سے ابھری ہو ئی ہے۔ +میرے لیے چڑ ھنا مشکل تھا مگر یقین کیجیے نظم مذکو رہ کاہر شعر را ستہ آسان کر تا گیا اور ایسی کیفیت طا ری ہو ئی جیسے وا قعی جناب صد یق (رض) اکبر دکھا ئی دے رہے ہو ں اور رہنما ئی کر رہے ہوں ۔ اس غا ر سے جو فیضا ن حا صل ہو ابیان سے با ہر ہے ۔ +دیا ر حبیب �ö کی طر ف +�ò مکہ سے سا رے کا رو ں اب صف بصف چلے +شہر بکا سے شہر دعا کی طر ف چلے +بلا شبہ مکہ شہر بکا ہے ۔مسلمان جب کعبہ کو دیکھتے ہیں تو انکی چیخیں نکل جا تی ہیں کس میں ہمت ہے کہ اتنا بڑ ا مقا م دیکھ سکے جسے اللہ نے بڑی شا ن سے اپنا گھر کہا یہا ں پہنچ کر دل تڑ پنے لگتا ہے اپنے گنا ہ یا د آجا تے ہیں ۔ کوئی اند ر کچو کے دینے لگتا ہے اے نا ہنجار کیا تو اس قابل ہے کہ اس گھر کو دیکھ سکے ، کیا تو اس قابل ہے کہ اتنے بڑ ے با د شا ہ کے در با ر میں حاضر ہو جہا ں شہنشا ہوں کے سر جھکتے ہیں ۔ جہا ں انبیا ئ مقد سین لر ز تے دا خل ہو تے ہیں۔ کعبہ میں دبد بہ ہے جلا ل ہے ہیبت ہے ۔مد ینہ شہر جمال ہے۔ یہ اس کا شہر ہے جو سب کو معا ف کر کے گلے لگا لینے وا لا با د شا ہ ہے ،جو اپنے اوپر پتھر بر سا نے والو ں کو مثر دہ سنا تا ہے لا تثر یب علیکم الیو م جو کہتا ہے ہم نے پتھر بر سا ئے کہ تمہا رے پا س پتھر و ں کے سوا کچھ نہ تھا تمہا رے اندر با ہر پتھر تھے ۔ میں پھول بر سا ئو نگا کہ میرے پا س پھو لو ں کے سوا کچھ نہیں۔ مکہ میں رو نا ہے گر یہ وزا ر ی ہے مد ینہ میں تسلیا ں ہیں دلدا ر ی ہے ۔ مکہ شر یف میں ہم نے حج کے تما م ار کا ن بحسن و خوبی ادا کر لیے ،جی بھر کے یا د گا رو ں کی زیاد تیں کیں اب ہم دیا ر حبیب کی طر ف جا رہے ہیں ۔یہاں مجھے اقبال بے طر ح یا د آئے انہوں نے ار مغا ن ِ حجا ز کا پہلا حصہ اسی پر شو ق سفر کے لیے لکھا تھا افسو س ہے انہیں یہ سفر نصیب نہیں ہو سکا مگر وہ ذہنی طو ر پر ہمیشہ اس سفر میں رہے اور آج بھی ہر قا فلے کے سا تھ محو سفر ہیں میں انکے سا تھ ہو لیا ۔ +اقبال نے اس مکہ سے مد ینہ کا سفرا ختیا ر کر نے پر کس قیا مت کا شعر لکھا ہے �ò +تُو با ش اینجاو با خا صا ں بیا مینر +کہ من دا رم ہو ا ئے منز ل دو ست +﴿ اے خدا الو دا ع تو یہیں رہ اور اپنے خا صا ںِ با ر گا ہ کے سا تھ محفل سجا ،میرے سر میں تواپنے یا ر کے گھر جا نے کا سوادا سما گیا ہے ﴾ +تُو جا ن تیرے در با ر کے خو اص جا نیں ہم تو اپنے یا ر کی طرف چلتے ہیں۔ +بہر حا ل ہم نے مکہ سے مد ینہ منور ہ کا سفر اختیا ر کیا ۔وا د ی ئ فا طمہ سے گزا رہوا ۔ وا دی را بغ پہنچے۔ را بغ جد ہ سے 96 میل جانب شما ل ہے یہ گو یا مکہ اور مد ینہ کے در میا ں کا پڑا ئو ہے۔ یہا ں نما زادا کی یہا ں کنو ئیں بھی ہیں بعض لو گ یہاں غسل بھی کر رہے تھے مگر را بغ کے کنو ئیں ایسے ہیں کہ کچھ پا نی نکلے تو مٹی آنے لگتی ہے ، را بغ کے بعد بیر عشر ہ آیا، یہ منز ل را بغ سے اٹھارہ میل جانب شما ل ہے یہا ں تر بو ز و ں کی گو یا منڈی ہے۔ یہ تر بوز میٹھے بھی ہو تے ہیں مگر زیا دہ لذید نہیں ۔وہا ں سے بیر عنبر ی پہنچے ۔یہ بیر عشر ہ سے دس میل جا نب شما ل ہے ۔ اس جگہ ایک کنوا ں ہے جسے بیر ی کہتے ہیں یہ بھی اس لحاظ سے تا ریخی کنو اں ہے کہ اس پر حضور �ö قیا م فر ما تے تھے خو د بھی پا نی پیتے اور او نٹو ں کو بھی پلاتے۔ اس کنو ئیں کا پا نی با لکل ز مز م کی طر ح ہے ��یک ہی رنگ ایک ہی مز ہ ، بیر عنبر ی سے 32 میل آگے منز ل لیہ ہے۔ لیہ سے 43 میل آگے مسیب ہے۔ یہا ں کے ہو ٹلو ں کا عجب دستو ر ہے رو ٹی کے پیسے الگ پا نی کے الگ ، سا یہ میں بیٹھ کر کھا نا کھا ئو تو سا ئے کی الگ قیمت دو۔ نہیں تو دھوپ میں بیٹھ کر کھا ئو ، مسیب سے 21 میل آگے منزل ،قر یشہ ہے ۔القر یشہ سے 24 آگے بیر علی ہے۔ بیر علی سے صر ف 4 میل آگے جا نب شمال مدینہ منور ہ ہے بیر علی کہ سر ز مین سر سبز ہے جگہ جگہ کنو ئیں ہیں یا ٹیو ب ویل سمجھئے ، پا نی نہا یت شیر یں اور ہلکا ہے ،کھجو ر کے باغات ہیں۔ یہا ں مو لیا ں ، کھجو ر یں ، انگو ر ککڑ یا ں وغیر ہ کثر ت سے ہیں۔یہا ں حضرت علی (رض) کی تعمیر کرائی ہوئی ایک عا لیشا ن مسجد ہے اسی مسجد سے حضور �ö اور خلفا ئے را شد ین حج کا احر ام با ند ھتے تھے ۔ یہ اہل مد ینہ کا میقا ت ہے ۔ خیا ل رہے کہ اسی بیر علی کا پر ا نا نا م ذو الحلیفہ ہے۔ مسجد کے سامنے ایک کنواں ہے جو حضر ت علی المر تضی سے منسو ب ہے اس میں پانی تک سیڑ ھیا ں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں کے انگو ر بہت میٹھے اور پُرذائقہ ہیں۔ یہاں ہم نے غسل کیا سب دوستو ں نے خو ب خو ب عطِر ملا ، دو سری عید ین تو ہر سال آجا تی ہیں مگر یہ یا ر کی دید کی عید ہے ۔جو ہم سے دور افتاد گا ن کو عمر میں کبھی کبھی اور کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔ +بیر علی سے رو انہ ہو ں تو آگے ایک میل کے فا صلہ پر ایک اور کنوا ں ہے جسے بیر عر وہ کہتے ہیں۔ سا تھ ہی مسجد ہے اس کا نام مسجد عر وہ ہے ۔یہ کنوا ں وہی ہے جس کا پانی پہلے بہت کھا ر ی تھا۔ حضو ر �ö کے ہا تھ ڈبو نے سے یہ پا نی میٹھا ہو گیا یہی وہ کنواں ہے، جس میں ایک روز جنا ب آقا ئے کا ئنا ت �ö پا ئو ں لٹکا ئے بیٹھے تھے پھر جنا ب صد یق (رض) وفا روق (رض) آگئے آپ(ص) نے انہیں جنت کی بشا ر ت دی وہ اسی طر ح پا ئو ں لٹکا کر دا ئیں با ئیں بیٹھ گئے پھر جنا ب عثما ن غنی آئے حضور (رض) نے انہیں بھی جنت بشا ر ت دی وہ آپ(ص) کے سا منے اسی انداز میں پا ئو ں لٹکا بیٹھ گئے۔ یہا ں ہم سب نے رک کر کنو یں کا پانی پیا اور اس مسجد میں شکر کے نوا فل پڑ ہے پھر آگے بڑھ گئے ایک چھو ٹی سی پہا ڑ ی آتی ہے۔ اس بلند ی پر چڑ ہے تو گنبد خضر ا اور دو مینا ر صا ف دکھائی دینے لگے۔ زبان سے بے اختیار الصلو ۃ و السلام علیک یا رسو ل اللہ کا وجد آور ترا نہ ئِ مقد سہ جا ر ی ہو گیا ۔ یہاں سے صر ف ڈیڑ ھ دو میل چل کر مد ینہ منور ہ میں با ب عنبر ی سے دا خل ہو ئے، یہا ں شا ندا ر مسجد ہے اور بائیں طر ف حکومت کا کسٹم آفس ہے ۔یہا ں سے تقر یبا ً نصف میل رو ضہ ئِ مطہر ہ ہے۔ با بِ جبر یل سے دا خل ہو ئے۔ یہا ں حضور �ö نما ز تہجد ادا کیا کرتے تھے ۔ ہم نے یہاں نفل تحیہ المسجد اور سلا م پڑ ہے ۔ پھر منبر رسو ل کا دید ا ر کیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ اور حضرت عبا س کے مزا را ت پر حا ضر ی دی ، مسجد فتح دیکھی۔ رو ضہ ئِ رسول(ص) پر زبا ن سے پہلے دل پہنچ چکا تھا۔ اپنے اندر جیسے صلوۃو سلا م لہو بن کر شریا نوں میں رو اں تھے ۔ حضر ت ابو ایو ب انصا ری کے مکا ن کی زیا ر ت کی ،مد ینہ پہنچ کر حضو ر �ö کی او نٹنی یہیں آکر بیٹھ گئی تھی۔ پھر ہم جنا ب خلیفہ حضرت عثما ن (رض) کے مکا ن پر گئے یہی مکا ن جا ئے شہا د ت بھی ہے کہ یہ عظیم خلیفہ ٔرا شدجسکی حدو د سلطنت افغا نستا ن تک وسیع تھیں ،پو را جزیر ہِ عِر ب جس کے زیر نگیں تھا۔ وہ اپنے ہی گھر میں کسمپر سی کے عا لم میں تنہا ما را گیا اور یہ سب کچھ مٹھی بھر شر پسند و ں نے کیا۔ لو گ کہتے رہے آپ اعلا ن کر دیں۔ ان شر پسند و ں سے لڑ نا جہا د ہے۔ مسلما ن مجا ہد ین ابھی ان کا صفا ی�� کر دیں گے۔ مگر آپ یہی کہتے رہے’’ میں مسلما نو ں کی تلوا ر یں مسلما نو ں کے خلاف بے نیا م نہیں ہو نے دو نگا ، کیا ہو گا میر ی جا ن ہی تو جا ئے گی ‘‘ کہتے ہیں سیدا میر علی نے یہ جملے حضرت عثما ن (رض) کے متعلق لکھا ہے ۔ +مجھے جملے کے پہلے حصہ سے اختلا ف اور دو سر ے حصہ سے پورا پورا، اتفاق ہے ۔ +حضر ت عثما ن (رض) کا یہ مکان اور جا ئے شہا دت دو نوں با ب ِ جبر یل سے متصل یعنی مسجد نبو ی سے متصل شر قی جا نب وا قع ہیں۔ پہلی گلی میں دا رِ عثما ن (رض) اور دو سر ی گلی میں دار ِ ایو ب (رض) انصا ر ی ہے ۔را ت ہو گئی مگر یہ را ت کہا ں تھی ۔ ایسی را تو ں پر کرو ڑ و ں روشن دن قر با ن کر دیے جا ئیں ۔اس را ت تو بخت بیدا ر ہو رہے تھے ۔ خو ش نصیبیاں جا گ اٹھی تھیںاورروحین صلو ٰۃ و سلا م کے زمزموں سے سرشا ر تھیں ۔ +�ò محمد (ص) شمع ِ محفل بُو د شب جا ئے کہ من بو د م +را ت بسر ہو گئی ۔ نئے دن کا آغا ز مسجد نبو ی میں نو افل تہجد کی ادا ئے گی سے ہو ا ۔پھر وہیں نماز ِ فجر ادا کی پھر تلا وت کی درود و سلام پڑ ھا ،نماز ِ اشرا ق محر اب النبی میں نصیب ہو گئی۔ محرا ب النبی ریا ض الجنتہ میں منبر شر یف کے با لکل قر یب ہے۔پھر علامہ ضیا ئ الد ین صا حب کی محفل میں گئے ۔علا مہ ضیا ئ الد ین اعلٰحضر ت اما م احمد رضا خا ن بر یلو ی کے شا گر د ِ رشید اور خلیفہ ئِ مجا ز ہیں ، بیس سا ل کی عمر میں بغدا د شر یف آئے تھے ۔ دس سا ل وہا ں قیا م کیا پھر مد ینہ منور ہ آگئے ۔اب کئی سا ل سے یہاں مقیم ہیں مد ینہ منو ر ہ میں با ب مجید ی کے قر یب آپ کا دو لتکدہ ہے۔ یہ حر مِ مسجد نبو ی کے با لکل قریب ہے ۔بس دونوں کے درمیا ن ایک سڑ ک وا قع ہے ۔ علامہ ضیا ئ الد ین کا دو لتخا نہ مد ینہ منور ہ میں اہل سنت کا قلعہ ہے آ پ بلا شبہ اولیا ئے دو را ں میں سے ہیں ۔اعلیٰ حضر ت مجد دما ئتہ حا ضر ہ مو لا نا احمد رضا خا ن بر یلو ی کے ایک دو سر ے شا گر د مو لا نا عبدا لعلیم صدیقی میر ٹھی تھے ۔انہو ں نے اعلیٰ حضرت کے ارشا د پر غیر مسلمو ں میں تبلیغ اسلا م کا فر یضہ سنبھا لا تھا ۔ انہو ں نے امر یکہ ، انگلینڈ ، افر یقہ سنگاپور ، ملا یا میں بھی تبلیغ اسلا م کی لیکن انکی زیا دہ تو جہ انڈو نیشیا پر رہی ۔ انڈو نیشیا کی حکو مت نے تمد ن انڈو نیشیا نا م کی کتا ب شا ئع کی تھی جس کے صفحا ت 540 تا 545 میں مو لا نا صد یقی مر حوم کے حا لا ت لکھے ہیں اور بتا یا گیا ہے کہ انہو ں نے اندو نیشیا میں تبلیغ اسلا م کا بہت کا م کیا اور بہت سے لو گو ں کے حلقہ بگو ش اسلا م کیا ۔مو لا نا شا ہ احمد نورا نی ،انہی مولا نا عبدا لعلیم صد یقی میر ٹھی کے فرزند ہیں۔ جو میرٹھ سے ہجر ت کر کے کرا چی ﴿پاکستان ﴾ میں مقیم ہو ئے ۔ مو لا نا عبد العلیم صاحب نے ملک ملک دو رے کئے لیکن ان کی نگا ہ ہمیشہ مد ینہ منورہ پر رہی اور دل بھی یہیں رہا یہیں انہو ں نے اپنا مکا ن بنوایا۔ 1954 �÷ ئ میں فو ت ہو ئے اور مد ینہ منور ہ میں ہی فوت ہو ئے جنت البقیع میں ام المو منین حضرت عا ئشہ کی قبر مبارک کے پا ئو ں میں دفن ہو ئے �ò +پر د در و سعتِ گر د وں یگا نہ +نگا ہِ اوبشا خِ آشیا نہ +مو لا نا عبد العلیم صد یقی میر ٹھی کے فر ز ند مو لا نا شا ہ احمد نو را نی کی شا دی، علا مہ ضیا ئ الد ین کی پو تی سے ہو ئی ہے۔ غر ض ہم اہل سنت کے لیے با لخصو ص علامہ ضیا ئ الد ین کا آستا نہ ایک مر جع ِ را حت اور مر کزِ سکو ن و قر ا ر بنا ہو اہے ۔ +صا حبز دہ محمد جمیل احمد شر قپو ری ، مو لا نا محمد شر یف نو ر ی قصو ری ، مو لا نا شاہ احمد نو را نی ،صا حبزا دہ محمد شر قپو ر ی ، مو لا نا محمد شریف نو ر ی قصو ری ، مو لا نا شا ہ احمد نو را نی، قا ری مصلح الد ین، صا حبز ادہ محمد انو ر شا ہ صاحب سجا دہ نشین آستا نہ عالیہ علی پو ر شریف ، سید محمد محمو د شا ہ ہزا ر و ی اور ایک عمر رسید ہ در و یش سیدخا ن بہادر بخشی مصطفی علی خان سے یہیں ملا قا ت ہو ئی، ڈ اکڑ چراغ سے بھی یہیں ملا قا ت ہو ئی ۔ڈ اکٹر صا حب را ولپنڈی کے رہنے والے ہیں اور یہیں علامہ ضیا ئ الد ین صا حب کے ہاں مقیم ہیں بعد میں اپنے چند رفقا ئ کے سا تھ مسجد نما مہ کی زیا ر ت کی اور وہاں نوا فل پڑ ھنے کی سعا د ت نصیب ہو ئی ۔ +شام کو مو اجہ شر یف میں پھر حا ضر ہو ئے۔ اچا نک ذہن میں اقبا ل کے وہ دو شعر گو نجنے لگے۔ جو نجا نے کس عا لم میں لکھے گئے کہ ذہن میں آتے ہیں تو بدن پا نی بن کر آنکھوں سے ٹپک جا نے کو بیقرا ر ہو جا تا ہے �ò +تُو غنی از ہر دو عا لم من فقیر +روزِ محشر عذ ر ہا ئے من پذ یر +در تو می دا نی حسا بم نا گز یر +از نگا ہِ مصطفےٰ پنہا ں بگیر +﴿اے اللہ تو دو نو ں جہا نو ں سے بے نیا ز مالک کل ہے اورمیں فقیر ِ بے نواہو ں ، میراکیا حسا ب لیتا ہے قیا مت کے روز میرے عذ ر قبو ل فر ما لے اور اگر تو میرا احسا ب لینا لا زمی سمجھتا ہے تو صر ف ایک عرض ہے کہ میراحسا ب میرے آقا اور اپنے محبو ب �ö کے سا منے نہ لینا ان کی نگا ہو ں سے چھپا کر لینا ﴾ +میں یہ اشعا ر پڑ ھتا رہا اور رو تا رہا پھر جیسے ذہن دھل گیا کوئی جیسے خرا م نا ز میں آہستہ آہستہ چلتا ہو ا فر ش ِ دل پر اپنے ریشم پیر ٹکاتا ہو ا آر ہا تھا یہ دل کی دھڑ کن نہیں تھی اُسکے پا ئو ں کی سکو ن بخش چا پ تھی �ò +پھر یہ طو فا ن بڑھے آتے ہیں آقا سائیں +اپنی کملی میں چھپا لے مجھے مو لا سا ئیں +یہ آر ا مگا ہ تو حجر ہ ئِ عا ئشہ (رض) ہے۔ اس حجر ہ کی قسمت کے کیا کہنے ۔ آنکھو ں میںبا دل بر س کے کُھل گئے ۔ اجا لے ہو گئے روشنیوں نے ہر دھند کو صا ف کر دیا ۔ پھر اچا نک ذہن کا ایک اور در واز ہ کُھل گیا ۔ مجھے ام المو منین صد یقہ ئِ کا ئنا ت حضرت عائشہ صد یقہ (رض) کے وہ دو شعر یا د آگئے جو انہو ں نے حضور �ö کی را ت عشا ئ کی نماز کے بعد تشر یف آور ی پر کہے تھے ۔ اور جوادب کی جا ن ہیں شا عر ی کی آبر وہ ہیں �ò +لنا شمس والآ فا ق شمس +وشمسی خیر من شمس السما د +فا ن الشمس تطلع بعد صبح +وشمسی تطلع بعد العشا ئٰ +﴿ہما را بھی ایک سو ر ج ہے اور کا ئنا ت کا بھی ایک سو رج ہے میرا سو ر ج آسما ن والے سو ر ج سے بہتر ہے وہ تو صبح کے بعد طلوع ہو تا ہے مگر میرا سو رج عشا ئ کے بعد بھی طلو ع ہو جا تا ہے ﴾ +یہی وہ خو بصو ر ت خیا ل ہے جسے چر اکر متنبی نے اپنے ایک قصید ہ کا غیر فا نی مطلع بنا لیا +�ò فد ینا ک من ربع و ان زد تنا کر با +فا نک کنت الشر ق لِلشمس وا لغر با +﴿اے کھنڈر ہو جا نے والے مکان کے گر ے پڑے در و ازے میں تیر ے قر با ن کہ میرے سو رج کا مشر ق بھی تو تھا اور مغرب بھی تو تھا ﴾ +یہیں آپ کے رفقائے خا ص میں سے جنا ب صد یق اکبر اور جناب عمر فا رو ق محو ِ خوا ب ہیں۔ دو نو ں کو یہ شر ف بھی حا صل ہے کہ ان کی دخترا نِ نیک اختر امہا ت المو منین ہو ئیں۔ ام المو منین عا ئشہ صد یقہ تو وہ ہیں کہ حضو ر �ö نے فر ما یا آدھا علم دین عا ئشہ (رض) کے پا س ہے اور آدھا علما ئے عالم کے پا س اور ام المو منین حضرت حفضہ (رض) وہ کہ قرا ٓن عظیم کا وہ نسخہ جسے اُم المصاحف کا در جہ حا صل ہے اور جسے خو د حضو ر سر و ر ِ عالم �ö نے اپنی نگر ا نی میں مر تب کیاتھا انہی کی تحو یل میں رہا اور یہ امین المصحف قرا ر پا ئیں۔ خدا یا ان ہی مقد س وا سطو ں سے دعا ہے کہ ہم بھٹکے ہو ئے مسلما نو ں کو متحد کر کے را ہِ ہدا یت پر لا اور ہمیں اپنی رحمتو ں سے نواز کہ آج ہم جس حا ل میں ہیں تجھ سے پو شید ہ نہیں �ò +اے خا صہ ئِ خا صا نِ رُسل وقت ِ دعا ہے +امت پہ تر ی آکے عجب وقت پڑ اہے +جو دین بڑی شا ن سے نکلا تھا وطن سے +پر دیس میں وہ آکے غر یب الغر با ئ ہے +مد ینہ اور جوا ر ِ مد ینہ کی زیا را ت +مد نیہ منو رہ کا پرا نا نا م ’’ یثر ب ‘‘ تھا ۔یثر ب کے معنی مصیبت اور تکلیف کے ہیں یہو دیو ں کی ریشہ دو انیوں اور قبیلو ں کی با ہمی عداو تو ں اور قتل و غا ر ت سے یہا ں کے با سیو ں کا ہر گھر مبتلا ئے عذ اب رہتاتھا ۔ اس لیے اسے مصیبت کی بستی کہا جا نے لگا قر آن حکیم میں بھی اس کا یہی پر انا نا م منافقین کی ز با ن سے ادا ہو ا ۔ حضور �ö یہا ں تشر یف لا ئے اور یہ شہر اسلا می نظا م کا مر کز بنا تو آپ نے اسے یثر ب کہنے سے منع فر ما دیا اور اسکا نا م مد نیہ النبی یعنی نبی �ö کا شہر قرار پا یا اب اسے ’’ یثر ب کہنا گنا ہ ہے ‘‘ مگرا فسو س ہے کہ فا ر سی اور اردو کے شا عرو ں کو علم نہیں اور وہ یہ نا م بے تکلف استعما ل کر دیتے ہیں۔ خدا، انہیں معا ف کرے مد ینہ منو ر ہ کا ہر ذر ہ یا د گا ر ہے ہرگلی یا د گا ر ہے، ہر گھر یا د گا ر ہے۔ کچی دیوا رو ں اور کھجو ر کے پتو ں کی چھتو ں والا مدینہ اب با قی نہیں رہا۔ پر انی عما رتیں نا پید ہو گئی ہیں ۔اب یہا ں خو بصو ر ت عا لیشا ن عمارتیں ہیں ۔اور یہ شہر پیر س کا نمو نہ بن گیا ہے۔ حر م مدینہ کے دس در وا زے ہیں ۔مغر بی جا نب با ب السلا م ، با ب الصد یق ، با ب الر حمت اور با ب السعو د ہیں۔ شما لی جا نب با ب عمر ، با ب عبد المجید، اور با ب عثما ن ہیں مشر قی جا نب باب النسا ئ ، با ب جبر یل اور با ب عبد العز یز ہیں ۔ جنوبی دیو ار یعنی دیوا ر قبلہ میں کوئی در و ازہ نہیں۔ چند خا ص زیا را ت جن سے ہم بطور خا ص مشر ف ہو ئے در ج ذیل ہیں۔ +۱۔ مسجد قبا ئ :۔یہ مد ینہ منورہ سے تقر یبا ً تین میل کے فا صلہ پر پر انے مدینہ میں وا قع ہے۔ اس مسجد کے بڑے فضائل ہیں قر آن حکیم نے بھی اس کی بڑی تعر یف کی ہے ۔احا دیث میں بھی اسکی فضیلتیں بیا ن کی گئی ہیں جو گھر سے یعنی اپنی قیا م گا ہ سے وضو کر کے جا ئے اور مسجد قبا ئ میں دو نفل پڑ ہے اُسے عمر ہ کا ثو ا ب ملتا ہے اس مسجد کے چا ر وں طر ف ہر ے بھرے با غا ت ہیں جن میں کھجو ر اور انا ر کے در خت بکثر ت ہیں۔ مسجد کی جنوبی دیوا ر قبلہ سے ایک گو ل سورا خ ہے اسے طا ق ِ کشف کہتے ہیںروایت ہے کہ یہاں بڑ ا معجز ہ ظہو ر پذیر ہوا تھا۔ مہا جر ین کی بیتا بی دیکھ کر یہا ں آپ (ص) نے کشف کے طور پر انہیں مکہ میں رہ جا نے والے اپنے عز یز وا قا ر ب سے ملا قا ت کر ا دی تھی ۔ بلکہ ان کی با تیں بھی کر ا دی تھیں نجدسی حکو مت نے اس طاق کو بند کر ا دیا ہے ۔ +۲۔ بیرا ر یس :۔اسے بیرا ریس بھی کہتے ہیں۔ اور بیر خا تم بھی یہ و ہ کنواں ہے جس میں حضور �ö کی ایک انگو ٹھی حضرت عثما ن غنی (رض) کے ہا تھ سے گر کر گم ہو گئی تھی اور پھر ڈھو ند نے پر بھی نہیں ملی تھی اب یہ کنو اں بند پڑا ہے ۔ +۳۔ ثنیۃ الوا دع :۔یہ وہ جگہ ہے جہا ں مد ینہ منورہ کی بچیو ں نے حضور �ö کا استقبال کیا تھا اور مسر ت آمیز گیت گائے تھے �ò +طلع البد ر علینا من ثنیا ت الودا ع +وجب الشکر علینا اذا دعا للہ دا ع +﴿ثنیۃ الودا ع سے چا ند ہما رے لیے طلو ع ہو ا جب تک دعا کر نے والے اللہ سے دعا کر تے ہیں اس وقت تک ہم پر خدا کا شکر ادا کر نا ضر و ر ی ہو گیا ﴾ +ثنیۃ الو دا ع مسجد قبا کے قریب ایک چھو ٹی سی پہا ڑ ی ہے۔ حضو ر �ö جب کسی کو کہیں کا حا کم مقر ر کر تے تو اسے رخصت کرنے کے لیے یہا ں تک تشر یف لا تے۔ آپ سے پہلے بھی مد ینہ کے لو گو ں کا دستو ر تھا کہ جب اپنے کسی معز ز مہما ن کو رخصت کر تے تو یہا ں تک اسکے سا تھ آتے ۔ یہا ں ایک مسجد بھی ہے۔ جسے مسجد الو دا ع کہتے ہیں۔ یہا ں اب ایک بڑی ما رکیٹ بن گئی ہے ۔ +۴۔ خمسہ مسا جد :۔یہ پانچ مسجد یں ہیں۔ مسجد ابو بکر صد یق (رض) ، مسجد عمر فا رو ق (رض) مسجد علی (رض) ، مسجد سلما ن (رض) فا ر سی اور مسجد النبی ۔یہ وہ مقا ما ت ہیں جن پر غز وہ خند ق کے مو قع پر حضور �ö نے صد یق (رض)، عمر (رض) ، علی (رض) ،سلمان(رض) رضوا ن اللہ علیھم کو رات کے وقت نگر انی کے لیے مقر ر کیا تاکہ کفا ر شب خو ن نہ ما ر دیں۔ اور آپ(ص) اپنی جگہ ﴿مسجد النبی ﴾بیٹھ کر فتح کی خوشخبری دی اس مسجد کو مسجد فتح بھی کہتے ہیں ۔ایک چھو ٹا سا چبو تر ہ بھی ہے جسے مصلی فا طمہ کہتے ہیں ۔ +۵۔ مسجد ذو قبلتین:۔یہ وہی مسجد ہے جہا ں نما ز تو حسبِ سا بق بیت المقدس کے قبلہ کی طر ح شر و ع کی گئی لیکن دو ر انِ نماز حکم آگیا ۔ +﴿اب آپ کعبہ کی طر ف منہ پھیر دیجیئے﴾ +اور آپ نے نماز میں منہ کعبہ کی طرف پھیر دیا اور آپ کے پیچھے مسلما نو ں نے بھی منہ پھیر دیے +۶۔ مسجد مباہلہ :۔ یہیں حضور �ö نے نجرا ن کے عیسا ئی وفد کو دعو ت مبا ہلہ دی جس کا ذکر قر آن حکیم میں بھی ہے عیسا ئی مقا بلہ پر تیا ر ہو ئے کہتے ہیں۔ اس جگہ تر کو ں نے مسجد بنو ا ئی تھی مگر نجد یو ں نے گرا دی آثا ر اب بھی مو جو د ہیں اہل مدینہ اسے مسجد بغلہ بھی کہتے ہیں۔ ۔ +۸۔ مسجد صد یق :۔ کہتے ہیں کہ یہ زمین خر ید کر جنا ب صد یق (رض) اکبر نے مسجد کے لیے وقف کی تھی اس لیے اسے مسجد ابو بکر صدیق کہتے ہیں ۔ +۹۔ مسجد فا طمہ (رض ۔ یہ مسجد غما مہ کے قر یب ہی ہے وجہ تسمیہ کی صحیح تحقیق نہیں ہو سکتی عا م رو ایت ہے کہ یہ حضرت علی (رض) کا گھر تھا اور شا دی کے بعد جنا ب فا طمۃ الز ہر ا (رض) اسی گھر میں لا ئی گئی تھی۔ +۰۱۔ مسجد عمر (رض):یہ مسجد فا طمہ کے قر یب ہے غا لبا ً حضرت عمر فا روق (رض) کے اوقا ف میں سے ہے ۔ +۱۱۔ مسجد علی (رض ۔ یہ مسجد عمر کے نز دیک ہے حضرت علی (رض) سے منسو ب ہے ۔ +۲۱۔ مسجد بلا ل:۔یہ مسجد علی المر تضیٰ کے قر یب ہے مسجد کے صحن میں کھجو ر کا ایک پر انا در خت ہے اور ایک بیر ی کا در خت بھی، معلو م نہیں ان در ختو ں کی زند گی کب سے ہے اور کب تک ہے ۔مسجد کے با لا ئی حصہ میںسر کا ر ی دفتر ہے اور ارد گر د مسافروں کے لیے کمر ے بنے ہو ئے ہیں۔ +۳۱۔ رو ضہ حضرت ما لک (رض) بن سنا ن انصا ر ی:۔یہ مز ا ر شر یف با ب السلام کے مغر بی جا نب ہے اور بہت عالیشان عما ر ت میں ہے ایک روا یت میں ہے کہ حضرت مالک بن سنا ن جنگ میں شہید ہو ئے تھے۔ جنگ سے سپا ہی وا پس آرہے تھے جنا ب صد یق اکبر (رض) بھی آرہے تھے حضرت ما لک بن سنا ن (رض) کی والد ہ نے ان سے پو چھا ’’ میرا بیٹا کہا ں ہے ‘‘ جنا ب صد یق (رض) اکبر نے کہہ دیا ’’ پیچھے آر ہے ہیں ‘‘ اللہ کو یہ گوا ر انہ ہو ا کہ صد یق (رض) کی کو ئی با ت جھو ٹ ثا بت ہو اللہ نے شہید کو عارضی زند گی دے دی اور وہ اپنی وا لد ہ کے پاس پہنچے اور پھر وفا ت پا ئی ۔ +۴۱۔ مسجد شمس :۔یہ مسجد قبا سے دو فر لا نگ کے قر یب دُور ہے اب یہ شکستہ حا لت میں ہے مشہو ر ہے کہ حضور �ö نے اسی جگہ ڈوبا ہو ا سور ج وا پس بلا یا تھا ۔ اس مسجد سے ایک فر لا نگ کے فا صلہ پر بیر غر س ہے جو اب خشک پڑ ا ہے اس کنو یں کا پانی حضو ر �ö بہت رغبت سے پیتے تھے اور آپ کو بعد وصا ل اسی پانی سے غسل دیا گیا ۔ +بد ر عظیم القدر کی زیا ر ا ت +میدا نِ بدر تا ریخ کا عظیم تر ین مو ڑ ہے یہیں اسلام ��ی پہلی جنگ ہو ئی وہ جنگ جس میں تین سو تیر ہ بے سر و سا مان مجا ہد ین نے کفا ر کے لشکر جرا ر کو شکست دی �ò +نہ تیغ و تیر پر تکیہ نہ خنجر پر نہ بھا لے پر +بھر و سا تھا تو اک سا دہ سی کا لی کملی والے پر +یہیں ابو جہل جیسا اسلام کا اور پیغمبر اسلا م کا کمینہ دشمن دو مسلمان لڑ کو ں معا ذ بن عفر ا (رض) اور معا ذ بن عمر و کے ہا تھو ں جہنم رسید ہوا اور اسکے سا تھ ہی چو ٹی کے قریش سر دا ر جو اسلا م دشمنی میں سر خیل تھے ،ما رے گئے یہا ں اسلا م کی اس سلطنت کے ناقا بل ِ تسخیر ہو نے کا اعلا ن ہوا جسے محدود پیما نے پر قا ئم ہو ئے بمشکل دو سا ل ہو ئے تھے ۔ +بد ر شر یف مکہ معظمہ کے را ستے پر ہے، یہ مد ینہ شر یف سے ایک سوا ڑ تا لیس کلو میٹر ہے اور مد ینہ سے بد ر چند منزل ہے آجکل بد ر ایک بڑ اور خو بصو ر ت شہر ہے اسکی اچھی خا صی آبا دی ہے یہا ں بہت سے پا نی کے چشمے ہیںچشمے کیا ہیں زمین دوز نہر یں ہیں جو جگہ جگہ سے کھول لی گئی ہیں۔ خو د بدر میں اور بد ر کے را ستے پر کجھورو ں کے با غا ت ہیں کھجو ر کے در ختوں کے در میا ن سر سبز کھیت ہیں جہا ں گند م ، اپنی ہریا لی لہرا تی دکھا ئی دیتی ہے پہا ڑ و ں کے دامن میں یہ ہر ے بھر ے کھیت بہت ہی خوبصورت منظر پیش کر تے ہیں ۔ +بد ر میں حسب ِ ذیل زیا ر ا ت ہیں۔ +مسجد عر یش:۔ جہا ں حضور �ö نے را ت کے وقت آر ام سے سو جا نے کو کہا اور خو د عا میں مشغو ل ہو گئے اب اس جگہ حکو مت نے ایک عظیم الشا ن جا مع مسجد بنا دی ہے دو سری جگہ وہ ہے جہا ں حضور �ö نے آغا زِ جنگ سے قبل طو یل سجد ہ کیا حضرت صد یق (رض) اکبر نے آپ کو سجد ہ سے اٹھا یا آپ (ص) نے اٹھ کر مٹھی بھر کنکر کفا ر کی طر ف پھینکے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے قر آنِ حکیم میں ہے +’’ وَمَا رَمیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلَکٰنَّ اللّٰہ رَمَیٰ‘‘ +﴿یعنی اے نبی (ص) وہ کنکر تو نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ نے پھینکے تھے﴾ یہاں بھی مسجد ہے ۔ +مد فن شہد ائ یا گنج شہیدا ن:۔یہاں تیر ہ شہدا ئے بد ر دفن ہیں ۔چو دھو یں غا زی زخمو ں سے چو ر مد ینہ شر یف لے جا ئے جا رہے تھے کہ مقا م حمرا ئ میں وصا ل ہو گیا اور وہیں دفن کئے گئے ، گنج شہیدن ابھی با لکل ویرا ن کر دیا گیا ہے ۔آس پا س چھو ٹی سی چا ر دیوا ر ی ہے ۔ +مسجد اجا بت :۔ مسجد اجا بت مسجد مبا ہلہ کے سا تھ ہی تھی مگر اب صر ف ڈھیر با قی ہیں کہتے ہیں یہا ں حضور �ö نے اپنی امت کے لیے دعا ئیں ما نگیں :َ +۱﴾ میری امت پر دو سری امتو ں کی طرح آسمانی عذا ب نہ آئے ۔ انکی پردہ پو شی رہے۔ +۲﴾ آپس میں جنگ نہ ہو پہلی دو دعا ئیں قبو ل ہو ئیں۔ +مسجد جمعہ :۔قر یب ہی ایک اور مسجد ہے جسے مسجد جمعہ کہتے ہیں مشہو ر ہے کہ یہاں حضور �ö نے پہلا جمعہ ادا فر ما یا تھا ۔ +�ò یہ نا ہموا ر چٹیل سلسلے کا لی چٹا نو ں کے +اما نتدا ر ہیں گو یا پرا نی دا ستا نو ں کے +جبل سَلع :۔ یہ پہا ڑ مد ینہ منور ہ کی مغر بی جا نب شہر سے متصل ہے مد ینہ منور ہ کے ایک طر ف غیر پہاڑ ہے ، دوسری طر ف احد ، سلع مغر بی جا نب ہے یہا ں بھی ایک مسجد ہے جسے مسجد نبی حر ام کہتے ہیں یہا ں نبی کریم �ö نے بہت عبا د ت کی ہے اور بعض دفعہ امت کی بخشش کے لیے اتنا رو ئے ہیں کہ جا نو رو ں نے کھا نا چھو ڑ دیا۔ مشہو ر ہے کہ بعض دفعہ خاتون جنت آپ (ص) کو اٹھا کر لا تی تھیں اسکے نیچے تہ خا نہ ہے اوپر مسجد ہے جو تر کو ں نے بطو ر یا د گا بنا ئی ہے +بیر رو مہ :۔ یہ و ہ تا ریخی کنوا ں ہے جو حضرت عثما ن (رض) غنی نے ایک یہو دی سے تین ہزا ر درہم میں خر ید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا اور یہ اسوقت ہو ا جب مد ینہ ��یں میٹھے پا نی کی سخت کمی تھی اور مسلما ن خا ص طو ر پر سخت مصیبت میں تھے کیو نکہ بیر رو مہ کا میٹھا پا نی یہو دی ما لک نے مسلما نوں کے لیے ممنو ع قر ا ر دے رکھا تھا جب مفسدو ں نے حضرت عثما ن(رض) غنی کا محا صر ہ کر رکھا تھا اور آپ نے ایک روزانہیں مخا طب کر کے سمجھا نے کی کوشش کی تھی تو اپنی خد ما ت میں اس کنو ئیں کا بھی ذکر کیا تھا اور فر ما یا تھا ’’تمہیں یا د ہے مد ینہ میں میٹھے پا نی کا ایک کنوا ں بیر رو مہ تھا اور یہو دی مالک نے اسے مسلما نو ں پر رو ک رکھا تھا اور حضور �ö نے فر ما یا تھا کو ن ہے جو یہ کنوا ں خر ید کر مسلمانو ں کو پانی کی قلت کی مصیبت سے چھٹکا ر ا دلا ئے تو بتا ئو وہ کون تھا جس نے یہ کنو اں اپنے پیسو ں سے خر ید کر عام مسلما نوں کے لیے وقف کر دیا تھا ‘‘ مفسد باغیوں نے خد ما ت کا اعترا ف کر تے ہو ئے کہا ‘‘ اے عثما ن وہ تم ہی تھے‘‘ حضرت عثما ن (رض) نے کہا حیف تم پر آج تم نے اس کنو ئیں کا پانی مجھی پر رو ک رکھا ہے ‘‘ اب اس کنو ئیں کو بیر عثما ن کہتے ہیں اب یہا ں پا ئیپ لگا ہے ہر طرف کھیتی ہے ۔برا بر میں حو ض ہے اسکا پا نی بہت میٹھا اور صحت بخش ہے ۔ +بیر بضا عہ:۔ یہ بھی میٹھے پانی کا کنوا ں تھا حضور �ö نے اس کنو ئیں کا پانی پیاا ور اس سے غسل بھی فر ما تے رہے کتب فقہ و حد یث میں اس کنو ئیں کا بکثر ت ذکر آیا ہے اب اس پر پائیپ لگا ہوا ہے بہت پا نی نکلتا ہے آس پاس کھیت اور باغا ت ہیں کھجو ر اور انا ر کے در خت ہیں ۔ +میدا ن خا کِ شفا ئ:۔ بیر عر یس کے آگے وسیع میدا ن ہے جس کی مٹی سفید ہے ،اسی سے خا کِ شفا ئ کی ٹکیا ں بنائی جا تی ہیں اس میں ایک چبو تر ہ ہے لو گ یہا ں سے تبر کاً مٹی لے جا تے ہیں ۔ +ایک رو ایت مشہور ہے کہ جنگ بد ر کے کچھ زخمی صحا بہ اسی طر ف سے لو ٹ رہے تھے۔ اسی مٹی سے انہیں فو را ً صحت ہو گئی اور یہ بھی مشہور ہے کہ حضور (ص) نے یہا ں کھڑ ے ہو کر دعا فر ما ئی تھی +مسجد اما م زین العا بد ین:مشہور ہے کہ حضور �ö اس جگہ اکثر تشر یف لا تے یہا ں کنواں تھا پا نی سے وضو کرتے اور پھر بعداز عبا د ت آرام فر ما تے جہا ں آپ آرا م فر ما تے وہیں اب مسجد ہے مسجد تر کو ں نے بنا ئی تھی اسکی وجہ تسمیہ سے پر دہ نہیں اٹھا سکایہاں بیر یو ں کے در خت ہیں بیر میٹھے اور بڑے بڑے ہیں ۔ +با غِ سلما ن (رض) فا ر سی :۔مسجد زین العا بد ین سے تقر یبا ً تین فر لا نگ کے فا صلہ پر یہ با غ ہے اس میں کھجو ر کے دو درخت ہیں جو اور در ختو ں سے ممتا ز ہیں شکل و صو ر ت میں بھی اور پھل کی شیر ینی و لطا فت میں بھی مشہور رو ایت ہے کہ یہ دو نو ں درخت خو د حضور �ö نے اپنے دستِ مبا رک سے کا شت کئے تھے اس سلسلہ میں کہ یہ در خت آپ (ص) نے کیو ں بو ئے ایک اور رو ایت یہاں مشہو ر ہے کہتے ہیں یہ با غ ایک یہو دی کی ملکیت تھا حضرت سلما ن فا ر سی (رض) اس یہو د ی کے غلا م تھے اور اسی با غ میں کا م کر تے تھے انہو ں نے اسلا م قبو ل کر لیا تو یہو دی مالک نے کہا +’’ جس رسو ل �ö پر تم ایما ن لا ئے ہو اگر وہ اس با غ میں کھجور کا بیج لگا ئے اور در خت ایک ہی ما ہ میں مکمل ہو کر بار آور ہو جائیں تو میں بھی اسی رسو ل کا دین قبو ل کر لو ں گا کہتے ہیں ۔ +حضور �ö نے یہ معجز ہ دکھا دیا وہ یہو دی مسلمان ہو گیا اس نے با غ حضر ت سلما ن فا ر سی (رض) کو بخش دیا مشہور ہے کہ یہ تین درخت تھے جن میں سے دو ابتک مو جو د ہیں ان در ختو ں کا پھل مہنگا بکتا ہے ۔ +مسجد فضیخ:۔ جب شر اب حرا م ہو ئی تو صحا بہ کرا م کا ایک گر وہ یہا ں مصر و ف میخوا ری تھا انہو ں نے حر مت کا اعلان سنا تو سب کھڑ ے ہو گئ�� اور شرا ب کے تما م جھو ٹے بڑے بر تن تو ڑے دیے۔ حضو ر �ö نے انہیں جنت کی بشارتیں دیں۔ پہلے پہل شر ا ب کے بر تن یہیں تو ڑے گئے تھے جہا ں اب مسجد فضیخ ہے اس مسجد کے محرا ب میں ایک سیا ہ پتھر نصب ہے اس میں حضور �ö کے انگو ٹھے اور انگلیوں کے نشا نا ت ہیں کہتے ہیں حضور �ö نے معجز ہ دکھا تے ہو ئے ا س پتھر کو مٹھی میں بھر کر نچو ڑا تھا اور اس سے پانی ٹپکنے لگا تھا پتھر کی شکل با لکل ایسی ہی ہے کہ ظاہر ہو تا ہے اسے مٹھی میں بھر کر نچو ڑا گیا ہے۔ +مسجد امِ ابر اہیم:۔یہ وہ جگہ ہے جہا ں رحمتِ عالم �ö کے فر زند حضرت ابرا ہیم ایک دا ئی کی گو د میں پر ور ش پا رہے تھے حضور اکثر انہیں دیکھنے یہاں تشر یف لا تے یہیں حضور �ö کی گو د میں انکا انتقال ہو ایہاں تر کو ں نے ایک عا لیشا ن مسجد بنوا دی تھی ۔نجد ی حکو مت نے وہ مسجد گر ائی تو نہیں مگر اسکے گرد دیوا ر کھینچوا دی ہے ہم نے اس مسجد کی زیا ر ت کی اس علا قہ کو عو الی مدینہ کہتے ہیں ۔ یہ سا را علا قہ بڑا سر سبز و شا دا ب کھیت ہیں ،با غا ت ہیں کنو ئیں ہیں ،ہر منظر دل کے سا تھ آنکھ کو بھی فرحت بخشتا ہے ۔ +قبرحضرت عبدا للہ بن عبد المطلب :۔ جنا ب رسو ل �ö کے والد گرا می کی یہ قبر با ب السلام سے غر بی جا نب محلہ عبدا للہ میں ہے قبر بڑی عالیشان عما رت میں ہے لیکن نجد ی حکومت نے در وا زہ اس طرح بند کیا ہے کہ قبر کو دیکھا نہیں جا سکتا قبر جس عالیشان عما ر ت میں ہے اس کے در وا زہ پر حضرت عبدا للہ کا نام اور فا ر سی زبان میں قطعا ت کند ہ ہیں فا ر سی قطعا ت کی توجیہ سمجھ نہیں آسکی ۔ +جنت البقیع میں با رہ ہز ار کے قر یب صحا بہ مد فو ن ہیں جن میں سے در ج ذیل حضرا ت کے مزا را ت کی زیا ر ت نصیب ہو تی ہے نجد ی حکو مت نے ان یا د گا رو ں کو مٹا نے کی ایسی نا مرا د کو ششیں کی ہیں کہ خو د انکے ہم عقید ہ لو گ بھی جن کا احسا س زند ہ تھا رو ئے اور تڑ پے بغیر نہ رہ سکے ۔ شو ر ش کا شمیر ی ایڈ یٹر ہفت روزہ چٹا ن تقر یبا ً نجد یو ں کا ہم عقید ہ تھا مگر اپنی کتاب ’’ شب جائے کہ من بو د م ‘‘ میں نجد یو ں کی اس حر کت پر نو حہ کنا ں ہے بہر حال جو کچھ دیکھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے۔ +جنت البقیع سے با ہر حضرت فا طمہ بنت اسد وا لد ہ حضرت علی (رض) اور حضرت ابو سعید خدر ی کے مزا را ت ہیں یہ دو نو ں قبر یں حضرت حلیمہ سعد یہ کے گو شہ کی طر ف قبر ستا ن سے با ہر وا قع ہیں کسی قبر پر کوئی قبہ یا سا ئبا ن نہیں صر ف نشان ہیں پتھر لگا کر بجر ی ڈا ل دی گئی ہے۔ +جنت البقیع کے اند ر حضرت فا طمۃ الز ھر ا ئ ، حضرت عبا س (رض) ، حضرت اما م حسن (رض) ، حضرت اما م زین (رض) العا بدین، حضرت امام جعفر (رض) صا دق، حضرت اما م با قر (رض) ، حضرت زینب (رض) ، حضرت رقیہ (رض) ، حضرت کلثو م (رض) بنا تِ رسول �ö حضر ت عا ئشہ (رض) ، حضرت ام سلمہ (رض) حضرت زینب (رض) ، حضرت حفصہ (رض) اور دیگرا مہما ت المو منین ، حضر ت عقیل (رض) بن ابی طالب ، حضرت سفیا ن (رض) بن حا رث حضرت امام ما لک (رح) ، حضر ت با فع مو لیٰ ابن عمر ، حضرت ابرا ہیم ابن رسول �ö حضرت عثما ن (رض) غنی ، حضرت حلیمہ (رض) سعد یہ کی قبر و ں کے نشا نا ت ملتے ہیں جنت البقیع سے متصل با ہر حضو ر �ö کی پھو پھیا ں حضر ت عا تکہ ، حضرت صفیہ ، حضرت ام بنین، حضرت اسما عیل بن اما م جعفر صا دق بیر و ن ِ بقیع جا نب شہر ہیں +تر تیب یہی ہے جس طر ح ہم نے تحر یر کی ہے +جنت البقیع میں سا رے سو رج ، چاند مد فو ن ہیں مگر افسو س ہے کہ نا شنا سو ں نے تا ریخ کو مٹا نے کی نا رو ا کوشش کی ہے اور سمجھا ہے کہ ہم اسلا م کی خد مت کر رہے ہیں۔ +خست�� و شکسۃ حا لت میں یہ سڑ ک سے تقریبا ً ایک میل جنوب کی طرف ہے +بد رکی مسا جد :۔بد ر می اسو قت تیس مساجد ہیں مسجد عر یش ، مسجد را قہ مسجد سعو د جو سڑک کے سا تھ +بد ر کا کنو اں:۔وہ کنوا ں جس کی منا سبت سے اس میدا ن کا نام میدا ن بد ر پڑ ا تھا ۔ وہ بالکل لا پتہ ہو چکا ہے +او نچی مسجد :۔گنج شہیدا ں کے پاس جو اونچی مسجد شکستہ حا لت میں ہے یہ وہی جگہ ہے جہا ں حضور �ö نے جنگ سے ایک روز پہلے مقتو لین بد ر کے ہلا ک ہو نے کی جگہیں بتا دی تھیں کہ کل یہا ں ابو جہل مر ے گا ، یہا ں ابو لہب وغیر ہ +جنگ احد کی جگہ ایک احا طہ میں سید الشہدا ئ، حضرت امیر حمز ہ (رض) اور حضرت عقیل (رض) کے مزا ر ہیں دو سرے احا طہ میں شہدا ئے احد کے مزا ر ا ت ہیں کچھ آگے پہا ڑ کے دا من میں حضور �ö کے دندا ن مبا ر ک شہیدہو نے کی جگہ پہا ڑ کے او پر وہ غا ر ہے جہاں بعدا ز جنگ حضو ر �ö نے آرام فر ما یا مگرا ن جگہو ں پر جا نے کی سخت مما نعت ہے اس جگہ پر مسجد امیر حمز ہ (رض) بھی ہے اور نہر زر قا ئ کا چشمہ بھی جہا ں پا نی ایک حو ض کی شکل میں جمع ہو کر بہتا ہے۔سامنے ہی وہ گھا ٹی ہے اور درہ بھی جہاں سر و رِ کو نین �ö نے صحا بہ کو متعین کیا تھا کہ کچھ بھی ہو جا ئے تم یہاں سے نہ ہلنا مگر انہو ں نے سمجھا کہ مکمل فتح ہو گئی اور جگہ چھو ڑدی اور حضرت خا لد بن ولید کا دستہ آیا اور فتح مبد ل بہ شکست ہو گئی۔ +آج خیبر کی زیا ر ا ت دیکھنے کا مو قع مل رہا تھا ۔ سا تھیو ں کے سا تھ ایک مو ٹر کرا یہ پر لے کر رو انگی ہو ئی۔ احد شر یف اور مد ینہ منورہ کے ہو ائی اڈ ہ کے قر یب سے گز ر تے ہو ئے اس سڑ ک پر آگئے جو مکہ مکر مہ سے تبو ک کو جا تی ہے سڑ ک پختہ ہے اور اچھی حا لت میں ہے ۔با لک پتھر یلا علا قہ ہے ۔ایک سو بیس کلو میٹر تک کو ئی منزل یا آبا دی نہیں آئی۔ ذہن آج سے صد یو ں پیشتر کے سفر پر سو چنے لگا۔ اس وقت اور آج کے وقت میں کتنا تغیر آگیا ہے۔ حضور �ö جب مسلما نو ں کا لشکر لے کر یہاں سے گزر ے ہو نگے توکن مشکلا ت کاسا منا کیا ہو گا ۔ ہم تصو ر کر تے ہیں تو دل ہو ل کھانے لگتا ہے ایک سو بیس کلو میٹر پر ایک آبادی آئی جس کا نا م ’’ سلسلہ ‘‘ ہے یہا ں کچھ گھر و ں کی چھو ٹی سی بستی ہے اور چا ئے کا ہو ٹل ہے یہاں سے تقر یبا ً چا لیس کلومیٹر کے فا صلہ پر خیبر ہے۔ یہاں پا نی کا اچھا انتظا م ہے پا نی میٹھا ہے ایک چھو ٹی سے مسجدبھی ہے یہاں سے چل کر تھوڑی دیر بعد ہم خیبر پہنچ گئے ۔ +آج خیبر پہا ڑو ں کے در میا ن کھجو ر و ں اور انا ر کے در ختو ں کے خو بصو ر ت اور دلکش با غا ت میں گھر ی ہو ئی ایک چھو ٹی سی بستی ہے خیبر تو اس کا پر انا نام ہے اور ابتک اسکے سا تھ ہے اسکے دو اور نا م بھی ہیں اسے قر یہئِ بشر بھی کہتے ہیں اور مکیدہ بھی قریہ ئِ بشر اس لیے کہ یہاں ایک صحا بی حضرت برا ئ بن بشر (رض) کا مزا ر ہے اور مکیدہ اس لیے کہ یہیں یہو دیو ں نے ’’ کید ‘‘ یعنی مکر و فریب سے کا م لے کر حضو ر �ö کو زہر ملا گو شت کھلا یا تھا ۔ یہا ں سے مد ینہ منورہ ایک سو سا ٹھ کلو میٹر ، تبو ک جا نب شما ل 5سو کلو میٹر ہے ۔یہی سڑک تبو ک سے عما ن اور پھر بیت المقد س کو نکل جا تی ہے ۔ خیبر کے متصل پہا ڑو ں کے دامن میں تھوڑے تھو ڑے فا صلہ پر بہت سے بستیا ں ہیں۔ جو با غا ت ہی میں گھر ی ہو ئی ہیں یہاں سات قلعے ہیں سب سے بڑا قلعہ سب سے بڑ ی بستی میں ہے یہی وہ قلعہ ہے جسے شیر خدا جنا ب علی المر تضیٰ نے فتح کیا تھا ۔ +خیبر میں مند رجہ ذیل زیا را ت ہیں ۔ +۱۔ عین علی (رض ۔یہ چھوٹا سا چشمہ خیبر سے مغر بی جا نب وا قعہ وا قع ہے۔ مشہو ر ہے کہ یہاں حضرت علی (رض) نے خیبر کے مشہور پہلو ان مر حب پر اپنی تلو ار ذوا لفقار کا راس قو ت سے وا ر کیا کہ تلوا ر ڈھا ل ، خو د سر ، بد ن اور گھو ڑے کو کاٹتی ہو ئی زمین کو چیر گئی اسی جگہ یہ چشمہ پھو ٹ آیا جو ابتک جا ری ہے ۔ +۲۔ مسجد علی (رض):۔عین علی کے قر یب یہ مسجد ہے فتح خیبر کے بعد حضرت علی (رض) نے یہاں شکر انہ کے نفل پڑھے تھے ۔ +۳۔ قلعہ خیبر :۔ خیبرمیں سا ت قلعے ہیں لیکن سب سے بڑا اور مشہور قلعہ یہی ہے جہا ں اب سر کا ر دفا تر ہیں اسکے گرد خندق تھی جو ختم ہو گئی قلعہ کا دروازہ حضرت علی (رض) نے اکھا ڑا تھا اسکے نشا ن ابھی تک مو جو د ہیں اور صا ف معلو م ہو تا ہے یہاں دروا زہ تھا ۔ +۴۔ گو ر ستا نِ شہیدا ں :۔یہ خیبر کی مغر بی جا نب تبو ک والی سڑ ک پا ر کر کے آتا ہے یہاں پہا ڑ کے دا من میں سترہ17 صحا بہ شہیدا دفن ہیں۔ جن میں سے صر ف حضر ت سلمہ بن اکو ع اور حضرت برا ئ بن بشر کے نام معلو م ہو سکے ہیں با قی نا م ہما را گائیڈ بھی نہ بتا سکا ۔ +۵۔ مسجد شمس :۔دو پہا ڑو ں کے دامن میں خیبر سے تین میل کے فا صلہ پر ایک وا د ی ہے جسے وا دی ئِ صحبا ئ کہتے ہیں یہا ںوہ جگہ ہے جس کے متعلق مشہو ر ہے کہ حضرت علی کے نماز قضا ہو نے پر حضور �ö نے سو رج لو ٹا یا تھا ۔ یہ مسجد تو ڑپھو ڑ کا شکا ر ہو گئی لو گو ں نے نشا ن با قی رکھنے کے لیے پتھر و ں سے اسکی حدود کھڑ ی کر دی ہے اور ٹھیک اس جگہ جہا ں بیٹھ کے حضور �ö نے معجز ہ دکھا یا تھا وہا ں محر ا ب بنا دی گئی ہے۔ +۶۔ با غ فد ک:۔یہی وہ مشہور با غ تھا ۔ جسکی بحثیں خو ب خو ب چھڑ تی آتی ہیں۔ شیعہ حضرا ت کہتے ہیں یہ حضور �ö نے اپنی لختِ جگر حضرت فا طمۃ الز ہرا (رض) کو تحفہ کے طو ر پر دیا تھا جسے جنا ب صد یق اکبر (رض) نے اپنی خلا فت کے دو ر ان چھین لیا اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ با غ خا تو ن جنت کو عا ر ضی تمتع کے لیے دیا گیا تھا جو جنا ب صد یق (رض) نے و اپس لے لیا ۔حکو متیں ایسے معا ملا ت کر تی رہتی ہیں جب خا تو ن جنت کو ضر و ر ت ہو گی انکی خا نگی ضر و ریا ت کی کفا لت کے طو ر پر ایساکیا گیا جب ضرورت مت گئی ۔حکو مت نے سمجھا کہ کشا ئش حا صل ہو گئی بیت الما ل کا یہ عو امی ما ل وا پس لے لیا گیا ۔ تا ریخ میں تو یہ بحثیں بھی آتی ہیں کہ اسی با غ پر دو نو ں میں جھگڑ ے رہے اور جنا ب علی المر تضٰی بھی اپنی زو جہ محتر مہ کی حما یت میں جنا ب صد یق (رض) سے ناراض رہے مگر ہم سا دہ دل مسلما ن تو ایسی با تو ں میں نہیں پڑ تے ہما را تو اللہ کے اسی فر ما ن پر ایما ن ہے کہ صحا بہ کے کیسے جھگڑ ے ۔ +اِنَّ مُحمدَّ رَّ سُوْ لُ اللّٰہ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ اَشِدَّا ئُ عَلیَ الْکُفّا رِرُحَمَا ئُ بَیْنَھُمْ۔ +﴿محمد اللہ کے رسو ل ہیں اور ان کے سا تھی وہ ہیں جو کفا ر کے لیے سخت اور آپس میں رحیم و کر یم ہیں ﴾ +یہ با غ خیبر سے تیس میل کے قر یب دور ہے کہا جا تا ہے کہ یہ دو مر بع میل تک پھیلا ہوا تھا مگر اب وہا ں با غ نہیں خا لی زمین پڑی ہے +ابوا ئ شر یف میں حا ضر ی +ابو ائ شر یف کی حا ضر ی کا خیا ل مد ت سے دل میں پا ل رہا تھا۔ الحمد اللہ کہ اب کے سفر میں وہ پورا ہو گیا ذرا اس مقا م کی تا ریخ بیان کر لو ں کہ سعا د ت مند و ں کے ذکر میں بھی سعا د تمند ی ہے اسی سے تو ذہن بر کتو ں سے سر شا ر ہو تے ہیں +حضرت عبدا لمطلب کے وا لد محتر م حضرت ہا شم نے مد ینہ ﴿قد یم یثر ب﴾ کے بنو نجا ر خا ند ا ن کے رئیس عمر و بن لبید کی دختر سلمیٰ سے شا دی کی تھی ۔ اسی کے بطن سے حضرت عبد المطلب پید ا ہو ئے جنکا نام شیبہ رکھا گیا تھا ۔ +حضرت عبدا للہ شا دی کے بعد اپنے تجا ر تی سفر پر شا�� گئے وا پس آنے لگے تو خیا ل آیا کہ کچھ روز اپنے والد کے ننھیا ل میں گزارلیں چنا نچہ ’’ یثر ب ‘‘ میں ٹھہر گئے۔ یہا ں بیما ر پڑ گئے اور یہیں انتقا ل ہو گیا اور وہیں مد فون ہو ئے ۔ انکی زوجہ حضرت آمنہ حا ملہ ہو چکی تھیں۔ علا مہ ابن جو زی نے اپنی سند کے سا تھ حضر ت آمنہ کا یہ قو ل در ج کیا ہے ۔ +’’ مجھے معلو م ہی نہ ہو اکہ میں حا ملہ ہو چکی ہو ں ،سنتی تھی کہ حمل سے بو جھ محسو س ہو تا ہے اور طبعیت نڈ ھا ل رہنے لگتی ہے لیکن میرے سا تھ ایسا کچھ نہیں ہوا بس یہ معلو م ہوا کہ ایا م ما ہوا ر ی بند ہو چکے ہیں ایک روز خوا ب اور بیدا ر ی کے بنِ بنِ حا لت میں تھی کہ کوئی آنے والا آیا اور اسکی آوا ز سنا ئی دی اس نے کہا ’’ آمنہ تجھے علم ہے تو حا ملہ ہے ‘‘ میں نے کہا ’’ نہیں میں نہیں جانتی ‘‘ اس نے کہا ’’ تجھے حمل ہے اور تیرے پیٹ اس قوم کا سردا ر خدا کا ایلچی ہے ‘‘ جس روز یہ وا قعہ پیش آیا وہ سو موا ر کا دن تھا ‘‘ ﴿الو فا ئ ۔ ابن مو زی ج ا ص 88﴾ +حضرت آمنہ چند رو زہ رفا قت کے بعد بیو ہ ہو گئی تھیںمگر یہ وا قعہ ہو چکا تھا کہ �ò +بصد انداز یکتا ئی بغا یت شا نِ زیبا ئی +امیں بن کر اما نت آمنہ کی گو د میں آئی +’’ ایک مکا ن کو دیکھا تو حضور �ö نے فر ما یا ۔ اس مکا ن میں میں اپنی وا لد ہ کے سا تھ ٹھہر ا تھاا ور میں نے بنو عد ی بن نجا ر کے اس تا لا ب میں تیرا کی سیکھی تھی ‘‘ ﴿اسیر ۃ النبویہ ج ا ص 65 ﴾ +واپسی کے سفر میں جب یہ مختصر قا فلہ ابوا ئ کے مقا م پر پہنچا تو حضرت آمنہ کی طبعیت نا سا ز ہو گئی ابو نعیم نے اپنی کتا ب ’’ دلا ئل النبو ہ ‘‘ میں اسما ئ بنت در ھم کی یہ رو ایت نقل کی ہے وہ کہتی تھیں۔ میری ما ں حضر ت آمنہ کی وفا ت کے وقت انکے پا س بیٹھی تھیں۔ حضو ر �ö کی عمر پانچ اور چھے سال کے در میان تھی آپ اپنے ننھے ننھے ہا تھو ں سے اپنی نیم بیہو ش وا لد ہ کا سر دبا رہے تھے۔ آپ کا ایک آنسو حضرت آمنہ کے رخسا ر پر گر ا ما ں کو ہو ش آگیا اس نے دو پٹہ کے پلو سے آپ کی آنکھیں پو نچھیں اور انکی زبا ن سے ارتجا لا ً یہ اشعا ر جا ری ہو گئے ۔ +اِنْ صَحَّ مَا اَبْصَرْ ت فِی اْلَمنَا مِ +فَاَنْتَ مَبْعُوْ ث’‘ اِلَی الْاَ نا مِ +﴿میں نے خوا ب میں جو کچھ دیکھا اگر وہ سچ ہے تو میرے بیٹے تو لو گو ں کی طر ف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے ﴾ +فَا للّٰہُ اَنْھَا کَ عَنِ الا صَنَا مِ +وَاَلاّ تُوَ الِیْھَا مَعَ الْاَ قَوَا مِ +﴿میں خدا کا و اسطہ دے کر کہتی ہو ں کہ دو سرے لو گو ں کے سا تھ مل کر بتو ں کی محبت دل میں نہ پا لنا ﴾ +علا مہ زر قا نی نے اپنی کتا ب ’’ شر ح موا ہب الد ینہ ‘‘ میں یہ اشعا رنقل کر کے علا مہ جلا ل الد ین سیو طی (رح) کا حوا لہ دیا ہے اور ان سے استد لال کر تے ہو ئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضر ت آمنہ مو حد ہ تھیں ۔ +یہاں میں چا ہتا ہو ں کہ حضو ر �ö کے و الدین کے ایما ن کے با ر ے میں علما ئے اہل سنت کی تحقیق بیان کر تا چلو ں +اس سلسلہ میں یہ تو متفق علیہ با ت ہے کہ حضور �ö کے وا لد ین کر یمین نجا ت یا فتہ ہیں اور جنتی ہیں علما ئ محققین کے اس بارے میں تین مسلک ہیں +حضو ر �ö کے والد ین جس زما نہ میں ہو ئے اُسے زما نہ ئ، فتر ت کہتے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ +السلام کے بعد چھ سو سا ل کا زمانہ فتر ت کا زما نہ ہے جس میں کوئی رسو ل نہیں آیا ۔ اب لو گ کہا ں سے نور ہد ایت حا صل کرتے اور جب ایسا نہیں تو پھر انہیں ان کے اعما ل پر عذا ب میں کیو ں ڈا لا جا ئے جبکہ اللہ کا و اضح ارشا د ہے ۔ +وَمَا کُناَّ مْعَذِّ بِیْنَ حَتَّی نَبْعثَ رَ سُوْ لاً +��ہم کسی کو عذ ا ب نہیں دیتے جب تک ان میں رسو ل مبعو ث نہ فر ما ئیں ﴾ +علا مہ بر ہا ن الد ین لکھتے ہیں ۔ +’’ علا مہ ابن حجرا الہیتھی نے کہا ہے روز ِ رو شن کی طر ح وا ضح با ت جس پر کو ئی شک و شبہ کا گر دو غبا ر نہیں یہی ہے کہ اہل فتر ۃ سب نجا ت یا فتہ ہیں۔ اہل ئِ بنی اسر ائیل کے ابنیا ئ کو تو یہ حکم ہی نہیں تھا کہ بنی اسر ائیل سے با ہر کے لو گو ں کو تبلیغ کر یں اور اہل عر ب بنی اسر ائیل سے با ہر تھے ‘‘ ﴿اسیر ۃ الحلبیہ اما م محمد ابو زہر ہ ج ا ص 103﴾ +علما ئ کر ام کے نز دیک اہل فتر ت تین طبقوں میں منقسم ہیں +پہلا طبقہ وہ ہے جس میںشامل لو گو ں نے اپنی دا نش اور اپنی بصیر ت سے عقید ہ ئِ تو حید تک رسا ئی حا صل کی اور شر ک سے مجتنب رہے۔ جیسے قُس بن سا عد ہ ، زید بن عمر و بن لفیل اور قو م تتبع کے بعض با د شا ہ یہ طبقہ جنتی ہے ۔ +دوسرا طبقہ ان لو گو ں کا ہے جنہو ں نے دین ابرا ہیمی کو بگا ڑا ۔شر ک کا را ستہ نہ صر ف خو د اپنا یا بلکہ دو سر وں کو بھی اس را ہ پر چلنے کے لیے مجبو ر کیا جیسے عمر و بن لحی الخز اعی لاور اسکے ہمنوا ۔ یہ طبقہ جہنمی ہے تیسرے وہ لو گ ہیں جو اپنی غفلت اور بے خبر ی کی وجہ سے کسی بھی عقید ہ سے وا بستہ نہ ہو ئے تو حید کی راہ اپنا ئی نہ شر ک کی اس طبقہ کو عذا ب سے مستثنیٰ رکھا گیا اور آیت کر یمہ ۔ +’’وَمَا کُناَّ مْعَذِّ بِیْنَ حَتَّی نَبْعَتَ رَ سُوْ لا‘‘کے مصد اق یہی لوگ ہیں۔ +حضو ر �ö کے وا لدین کو بعض علما ئ زما نہ ئ فتر ت میں ہو نے کی وجہ سے نجا ت یا فتہ بتا تے ہیں ۔ +علما ئ محققین کا دوسرا اگر وہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ حضور �ö کے والد ین کا دامن کبھی شر کت سے آلو دہ نہیں ہو ا ۔ وہ دین ابراہیمی پر تھے۔ تو حید اور یو م حشر پر انہیں پورا یقین تھا اور وہ اخلا ق عالیہ کا پیکر تھے۔ علامہ فخر الد ین رازی کا یہی مسلک ہے لکھتے ہیں ۔ �ò +’’ یقینا ابنیا ئ علھیم السلام کے وا لد ین کا فر نہیں ہو تے ۔آزر بھی حضر ت ابرا ہیم علیہ السلام کے وا لد نہیں چچا تھے ، دا دا پر بھی اب کااطلا ق ہو تا ہے اور جہا ں تک حضور �ö کا معا ملہ ہے تو اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے ’’ میری وہ ذا ت ہے جو آپ (ص) کو دیکھتی ہے جب آپ کھڑ ے ہو تے رہے اورجب آپ سجد ہ کر نے والو ں کی پیشا نیو ں میں منتقل ہو تے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور �ö کا نو ر ایک سجد ہ کر نے والی پیشا نی سے دو سر ی سجد ہ کر نے والی پیشا نی میں منتقل ہو تا رہا اس سے واضح ہوا کہ آپ (ص) کے جملہ ابا و اجدا د مسلما ن تھے ‘‘ +علامہ جلا ل الد ین سیو طی(رح) لکھتے ہیں۔ +’’ ابو نعیم نے دلا ئل النبو ۃ میں کئی سند و ں سے حضرت ابن عبا س سے رو ایت کیا کہ نبی کر یم �ö نے ارشا د فر مایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھے پاک پشتو ں سے پاکیز ہ رحمو ں میںمنتقل فر ما تا رہا۔ ہر آلا ئش سے پاک کر کے ہر آلو دگی سے صاف کر کے جہاں کہیں سے دو شا خیں پھو ٹیں وہا ں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس شا خ میں منتقل کیا جو ان دو نوں میں سے بہتر تھی ‘‘ +’’ اما م تر مذی نے یہی رو ایت اپنی کتا ب سنن تر مذی میں اور اما م بیہقی نے اپنی کتاب میں حضرت ابن عبا س سے ان الفا ظ میںنقل کیا ہے کہ رسو ل �ö نے فر ما یا ’’ بے شک اللہ نے مجھے پیدا فر ما یا تو بہتر ین مخلوق میں سے کیا ، قبائل سے بہتر ین قبیلہ میں افرا د میں سے بہتر ین بند و ں سے اور بہتر ین خا ند ان سے پیدا گیا ‘‘ +’’ طبرا نی نے او سط میں حضرت عا ئشہ صدیقہ (رض) سے رو ایت کیا کہ حضور �ö نے فر ما یا مجھے جبر یل نے کہا میں نے دنیا کے سا رے کو نے چھا ن ما رے۔ مجھے بنو ہا شم سے افضل خا ند ا ن اور اے رسو ل محترم �ö آپ (ص) سے افضل انسا ن نہیں دیکھا ‘‘ +علامہ سیو طی (رح) یہ رو ایا ت نقل کر نے کے بعد علا مہ ابن حجر کا یہ قول فیصل نقل کر تے ہیں ۔ +’’ یہ با ت صریحا ً‘‘ عیا ں ہے کہ کسی کا بہتر ہو نا ،خدا کا ہر گزید ہ ہو نا ، کسی پسند یدہ قر ا ر دیا جا نا او ر اپنی با ر گا ہ اور اپنی مخلو ق میں افضل قر ار دینا اس حا ل میں نہیں ہو سکتا کہ وہ مشر ک ہو ‘‘ +حضور �ö نے غز وہ حنین میں فخر سے فر ما یا +انا النبی لا کذ ب انا ابن عبد المطلب +﴿میںنبی ہو ں اس میں کوئی جھو ٹ نہیں میں عبدا لمطلب کا بیٹا ہو ں ﴾ +تو اگر عبد المطلب بھی شر ک کے مر تکب ہو تے تو یہ اُس پیغمبر کے لیے کو ئی قا بل ِ فخر با ت نہ تھی جو پیغا م تو حید لے کر آ یا ہو اور جسکی بعثت کا مقصد ہی شر ک کو جڑ سے اکھا ڑ نا ہو ۔ +تیسرے مسلک کے علما ئ کہتے ہیں کہ اللہ نے حضور �ö کے وا لد ین کو پھر زند ہ کیاا ور وہ حضور �ö پر ایما ن لے آئے اس گر وہ میں ’’ ابن شا ہین ، خطیب بغدا دی ابو لقا سم سہیلی ، ابو عبدا للہ القر طبی ، محب طبر ی ، علا مہ نا صر الد ین ابن المینر وغیر ھم ‘ +﴿مسا لک الحنفا ئ صفحہ 56﴾ +دو ر حا ضر کے عظیم محقق اما م محمد ابو زہر ہ نے طو یل بحث کر کے فر ما تے ہیں ۔ +’’ جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضور �ö کے وا لدین دو زخ میں ہو نگے ، میں جب اسکی با ت سنتا ہو ں تو میرے ذہن پر ہتھوڑے بر سنے لگتے ہیں اور میرے کا ن جلنے لگتے ہیں ‘‘ ﴿خا تم حضرت اما م محمد ابو زہر ہ ج ا صفحہ 139﴾ +غر ضیکہ حضور �öکے وا لدین اللہ کے فضل سے صا حب ایما ن تھے اور انہیں جنت الفر دو س میں اعلیٰ مقا م حا صل ہو گا ۔ +حضرت ابو طا لب کا ایما ن +یہاں ایک اور بحث بھی سامنے آگئی ہے اور وہ ہے حضر ت ابو طا لب کا ایما ن ہم پیچھے کہیں حضور �ö کے لیے جنا ب ابو طا لب کی قر با نیا ں اور ایثا ر کی مثالیں بیان کر تے آئے ہیں انکی ایک ایک قر با نی ایسی ہے کہ حضو ر �ö سے محبت کی قا بل تقلید مثا ل قا ئم ہو جا تی ہے۔ کفا ر کے مقا بلہ میں انہو ں نے ہر جگہ حضور �ö کی تحفظ بخش ڈھال کا کا م دیا۔ شعب ابی طا لب میں گزا ری ہو ئی ایک ایک سا عت خدا کے ہا ں کتنی عظمتو ں کی حا مل ہو گی اس کا ہم تصو بھی نہیں کر سکتے مگر عا م خیا ل یہی ہے انہو ں نے اسلا م قبول نہیں کیا اور ایمان نہیں لا ئے اس لیے انکی بخشش مشکو ک ہے اس سلسلہ میں حا فظہ ابن کثیر ایک وا قعہ بیا ن کر تے ہیں۔ +’’ جب کفا ر حضرت ابو طا لب کے پاس آئے اور انہو ں نے حضو ر �ö کو بلا یا اور مشرکین آپ (ص) کی با تو ں سے ما یو س ہو گئے کہ کسی صو ر ت میں مصا لحت نہیں ہو سکتی تو حضر ت ابو طا لب نے بھیتجے پر نا ر اضگی کا اظہا ر نہیں کیا بلکہ یہ کہا ’’ بھتیجے میں نے نہیں دیکھا کہ تم نے ان سے کسی غلط با ت کا مطا لبہ کیا ہو تو حضور �ö کے دل میں خیا ل پیدا ہوا کہ اب اگر کہا جا ئے تو شا ید ابو طا لب کلمہ پڑ ھ لیں اور مسلما ن ہو جا ئیں مگر آپ (ص) کے کہنے پر انہو ں نے کہا ‘‘ اے میرے بھتیجے اگر ا س بات کا اند یشہ نہ ہو تا کہ میری مو ت کے بعد لو گ تمہیں اور تمہا رے بھا ئیوں کو طعنہ دیں گے کہ تمہا رے با پ نے مو ت کے خو ف سے کلمہ پڑھا ہے تو میں ضر و رکلمہ پڑ ھتا اور صر ف تمہیں خو ش کر نے کے لیے پڑ ھتا ۔ جب مو ت کا وقت قریب آگیا تو حضر ت عباس نے دیکھا کہ ان کے ہو نٹ ہل رہتے تھے ۔انہو ں نے اپنے کا ن لگا دیے اور سُن کر کہا ’’ اے بھتیجے خدا کی قسم میرے بھائی نے وہی کلمہ پڑ ھا ہے۔ جس کے پڑ ھنے کے لیے تم نے کہا تھا ‘‘ حضور �ö نے فرما یا لم اسمع میں نے نہیں سنا ���‘ +﴿اسیر ۃ النبویہ ابن کثیر ج ا ص 124 تا123﴾ +حا فظ ابن کثیر کی عبا ر ت آپ پڑ ھ چکے اب یہ تفا صیل بھی دیکھیے۔ +حضرت ابو طا لب کی زند گی کی شمع بجھنے والی ہے۔ قبیلہ کے سر کر دہ لو گ اکٹھے ہیں اس وقت آپ وصیت کر تے ہیں۔ +اے گروہِ قر یش ، تمہیں خد انے اپنی مخلو ق میں سے چن لیا ہے ۔تم عرب کا دل ہو اچھی طر ح جا ن لو کہ تم نے سب سے اچھی صفا ت اپنے اند ر مجتمع کر لی ہیں۔ شر ف اور عزت کے سا رے مدا ر ج تم نے حا صل کر لیے ہیں انہی اوصا ف کی بنا ئ پر دو سری قو مو ں پر تمہیں بر تر ی اور فضیلت ملی ہے ۔ میں تمہیں اس گھر ﴿بیت اللہ ﴾ کی تعظیم و احتر ام کی وصیت کر تا ہو ں کیونکہ اسی میں خدا کی خو شنو دی ہے اسی سے تمہارا دبد بہ قائم ہے اور اسی سے تمہیں معا شی آسا نیاں ملی ہو ئی ہیں۔ قر یبی رشتہ دا رو ں سے صلہ رحمی کر نا قطع رحمی سے بچنا ۔ بغا وت اور سر کشی تر ک کئے ر ہنا کہ اسی سے قو میں بر با د ہو ئیں ۔دعوتیں رد نہ کر نا ، سا ئل کو خالی نہ لو ٹا نا ، کیو نکہ اسی میں زند گی اور مو ت کی عز ت ہے ۔سچ بو لنا ، اما نت میں خیا نت نہ کرنا یہ وہ اوصا ف ہیں جو خوا ص میں محبو ب بنا تے ہیں اور عوا م میں معزز ۔ +میں تمہیں وصیت کر تا ہو ں کہ محمد �ö کے سا تھ بھلا ئی کر نا کیو نکہ پو رے قبا ئل قر یش اسے امین و صا دق کہتے ہیں ۔جن اوصا ف کی میں نے تمہیں وصیت کی ہے وہ ان کا جا مع ہے۔ بخد امیں دیکھ رہا ہو ں کہ عرب کے مفلسو ں اور نا دا رو ں نے کمزوروں اور دو ر درا ز کے علا قو ں کے با شند و ں نے اسکی دعو ت قبو ل کر لی ہے۔ اس کے دین کی تعظیم کی ہے گو یا میں دیکھ رہا ہو ں کہ اس دین کی بر کت سے وہ لو گ قر یش کے سر دا ر بن گئے ہیں ۔ اور قر یش جو سر دار تھے پیچھے رہ گئے ہیں ان کے محلات غیر آبا د ہو گئے ہیں۔ عر ب کے سا رے با شند ے اس سے دل کی گہر ا ئیوں سے محبت کر نے لگے ہیں۔ اسکی محبت اور عقید ت میں ان کے دل ڈو ب گئے ہیں انہو ںنے اپنی قیا د ت کی با گیں اس کے ہا تھو ں میں تھما دی ہیں ۔ +اے گر وہ ِ قر یش اپنے بھا ئی کے مد د گا ر بن جا ئو ۔ جنگو ں میں اس کے مد د گا ر بن جا ئو۔ خدا کی قسم جو اس کی راہ پر چلے گا ہد ایت پائیگا او رجو اس کے دین ہدا یت کو قبول کر لیگا وہ خو ش بخت اور بلند اقبال ہو جائے گا اگر میری زند گی مجھے مہلت دیتی اور میری موت میں کچھ تا خیر ہو تی تو میں ہر میدا ن میں اسکے سا تھ ہو تا اور اس کا دفا ع کر نا ‘‘ +اس وصیت کے بعد آپ کی مو ت وا قع ہو گئی ‘‘ +﴿سبل الہد ٰ ی والر شا د ج 2 ص 565 ﴾ +یہ سب کچھ کیا ہے؟ اسکے سا تھ وہ قصا ئد بھی دیکھ لیجئے جو حضور �ö کی شا ن میں حضرت ابو طالب نے کہے تھے ۔ تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت ابو طا لب صا حب ِ ایما ن نہیں تھے ۔ حا فظ ابن کثیر پر خدا ر حم کر ے انہو ں نے یہ سب کچھ لکھا مگر پھر کہتے ہیں ۔ +’’ ابو طا لب ان تما م امو ر میں یہ جا نتے تھے کہ رسو ل �ö صا دق ہیں ،ر اشد ہیں لیکن اسکے با وجو د آپ کا دل ایما ن نہیں لا یا دل کے جا ننے اور ما ننے میں فر ق ہے ‘‘ ﴿اسیر ۃ النبو یہ از حا فظ ابن کیثر ج2 ص124﴾ +اس پر شیخ محمد ابو زہر ہ لکھتے ہیں۔ +’’ گو یا ابن کثیر ابو طا لب کے جا ننے کو یہو دیو ں کے جا ننے سے مشا بہت دے رہے ہیں جن کے متعلق قر آن نے کہا +’’یعرفو نہ کما بعر فون ابنأ ھم‘‘ ﴿یہو دی نبی (ص) کو پہچا نتے ہیں جس طر ح اپنے بیٹو ں کو جا نتے اور پہچانتے ہیں ﴾ لیکن اسکے با وجو د ایما ن نہیں لائے تھے۔ میں اجا زت چا ہو نگا کہ حا فظ ابن کثیر کے اس خیا ل کی مخا لفت کر و ں اور جیسے انہو ں نے ابو طا لب کے جا ننے کو یہو د کے جا ننے پ�� منطبق کیا اسکی تر دید کر و ں ۔ میں کہتا ہو ں یہو د کے جا ننے اور حضرت ابو طا لب کے جا ننے میں زمین آسما ن کا فر ق ہے ابو طا لب کا علم ایسا ہے جس کے سا تھ تصدیق اور یقین پا یا جا تا ہے اور آپ کی سا ری زند گی اور سا رے قصید ے اسکی تا ئید کر تے ہیں اس لییمیں کہتا ہو ں یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت ابو طا لب مشرک ہو ں ‘ ‘ +ا س کے بعد شیخ ابو زہر ہ حضرت ابو طا لب کی خد ما ت گناِتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت ابو طا لب کے شر ک دشمن ہو نے کا اس سے بڑ ا ثبو ت اور کیا ہے پھر لکھتے ہیں۔ +’’ لیکن اگر کسی کے نز دیک دو سری رو ا یا ت قا بل قبو ل ہو ں تو بھی اسے حق نہیں پہنچتا کہ حضرت ابو طا لب کے حق میں کوئی ناشا ئستہ با ت کہے ان کی بے مثا ل خد ما ت کا صلہ ہمیں یہ نہیں دینا چاہییکہ ہم منبر و ں پر کھڑ ے ہو کر اپنا سا را زور بیان انہیں کافر ثا بت کر نے پر صر ف کر یں۔ اس سے بڑھ کر نا شکر ی اور احسان فر ا مو شی کی اور کو ئی مثا ل نہیں ‘‘ +علا مہ محمو د آلو سی لکھتے ہیں +’’ حضرت ابو طا لب کے ایما ن کا مسئلہ اختلا فی مسئلہ ہے اور جو لو گ آپ کے مسلما ن ہو نے کے قا ئل نہیں ان کے لیے بھی یہ جا ئز نہیں کہ اپنی زبان پر کوئی نا ر و اجملہ لے آئیں کیو نکہ اس سے سید نا علی کر م اللہ وجہہ کی اولا د کو اذیت پہنچتی ہے اور یہ کہاں بعید ہے کہ خو د سر و رِ کا ئنات �ö کا دل بھی رنجیدہ ہو تا ہو ‘‘ +﴿تفسیر روح المعا نی سورہ مقص آیت55﴾ +اور سب سے بڑی با ت یہ کہ حضرت عبا س نے بھی شہا دت دی تھی قر یش کچھ بھی ہو ں جھو ٹ نہیں بو لتے تھے، حضرت ابوسفیان(رض کو دیکھو کہ زما نہ ئِ کفر میں بھی نجا شی کے در با ر میں حضور �ö کی صفا ت کا کس طر ح بر ملا اعترا ف کیا ۔ +با ت مقا م ابو ائ کی زیا ر ت کی ہو رہی تھی اور رہو ا ر ِ قلم دو ر نکل گیا ۔ مگر بے لگا م نہیں ہوا میںاپنے جوش ِ عقید ت کی بنا ئ پر یہ با تیں ضر و ر ی سمجھتا تھا بہر حا ل ذکر حضر ت آمنہ کی وفا ت کا ہو رہا تھا ۔ آپ کے آخر ی الفاظ یہ تھے ۔ ’’ ہر زند ہ مو ت کی وا دی میں اتر یگا ہر نئی چیز پر انی ہو جا ئے گی اور ہر کمال کو زوال ہے میں تو مر رہی ہو ں مگر میر ی یا دیں اور میرے تذکر ے با قی رہیں گی کہ میں نے ایک پاکبا ز بچے کو جنم دیا ہے ۔ +﴿شر ح مو اہب الدینہ از علا مہ زر قانی وسیرۃ دحلدن ج ا ص 66﴾ +اما م محمد ابو زہر ہ لکھتے ہیں۔ +’’ ایک دفعہ آپ (ص)نے سنا کہ آپ کے ایک صحا بی نے کسی کو عا ر دلا تے ہو ئے کہا ۔ +یا ابن السو دا ئ ﴿اے کا لی ما ں کے بچے ﴾ اس پر حضور �ö بو ل اٹھے ۔ +﴿پیما نہ چھلک گیا ، پیما نہ چھلک گیا ، پیما نہ چھلک گیا ، کسی سفید رنگ والی ما ں کے بیٹے کو کسی کالے رنگ والی ماں کے بیٹے پر کوئی فضیلت نہیں، فضیلت کا معیا ر تقوٰ ی ہے محمد سفید رنگ والی ما ں کا بیٹا ہے اُسے کالے رنگ والی ما ں نے پالا، پس وہ ایک سا تھ دونوں کا بیٹا ہے ﴾ ﴿خاتم النبیین ج ا ص131﴾ +مدنیہ شر یف سے جو سڑک مکہ جا تی ہے اس پر مدینہ شر یف سے 208میل ،کلو میٹر کے فا صلہ پر ایک منزل مستور ہ ہے ۔وہا ں سے سڑ ک چھو ڑ کر چا ر کلو میٹر پیچھے۔ مد ینہ کی جا نب آکر ریگستا ن میں چلنا ہو تا ہے جو بالکل مشر ق کی سمت ہے ابوا ئ یہاں سے تیس کلو میٹر کے فا صلہ پر ہے یہاں چھو ٹی چھو ٹی پہا ڑیا ں ہیں بالکل سا منے والی پہا ڑی کی چو ٹی پر حضرت آمنہ (رح) کا مزا ر ہے دس پند رہ منٹ میں آدمی پہا ڑ ی کی چو ٹی پر پہنچ جا تا ہے کہتے ہیں پہلے مزا ر شر یف میں نہا یت شا ند ا ر قبہ تھا سا منے مسجد بھی تھی یہ دو نو ں عما رتیں نجد ی حکومت نے گرا دیں پھر اہل مکہ نے بنا دیں اور حکومت نے گرا دیں اب وہاں کالے پتھر و ں کی ڈھیر ی ہے اس کے اردگر د ایسے ہی پتھر وں کو جو ڑ کر چا ر دیو اری بنا دی گئی ہے ۔ +اس علاقہ میں پا نی بالکل نہیں۔ یہاں جا نے والے پا نی سا تھ لے کر جا تے ہیں یہاں سے تین میل کے فا صلہ پر بستی ابوا ئ ہے یہاں بکثر ت سبز یا ں اور با غا ت ہیں یہ سبز یا ں مدینہ منورہ ٹر ک کے ذر یعے لا ئی جا تی ہیں اسی بستی میں آکر حضرت آمنہ (رح) طاہر ہ بیما ر ہو ئیں۔ اور تھو ڑی سی علا لت کے بعد فو ت ہو گئیں ۔ +حضر ت بی بی آمنہ (رض) کے مزا ر پر انوا ر پر بڑی تجلیا ت ہیں جنہیں اہل بصیر ت سمیٹ سکتے ہیں یہاں ہمیں بے انتہا ر و حانی سکون نصیب ہو ا۔ +سفر ِ حج اختتا م پذیر ہو ا ۔اللہ کی مہر بانی سے تیر ہ سا تھیوں کے سا تھ بصحت و سلامتی وا پسی ہو ئی یہ پہلا سفر ِ حج تھا یہ سفر جسما نی ہی نہیں رہا رو حا نی بھی رہا جی بھر کے زیا ر ت کیں اور جہا ں بھی گئے ذہن پر ا س مقا م کی پو ر ی تا ریخ قد م قد م گز ر تی رہی عا لمِ خیا ل میں ہم صدیو ں کوپھلا نگ کر اسی عہد سے پہنچ جا تے تھے اسی لئیے میں نے سفر نا مہ لکھا تو سا تھ پو ر ی تا ریخ بھی لکھنے کی کوشش کر تا گیا ۔ اور اپنی ذہنی وا ر دا ت بھی ۔ +سفرِ حج کا سب سے بڑ ا فا ئدہ یہی ہے کہ حضور �ö کی پو ری تبلیغی زند گی آنکھوں کے سا منے پھر نے لگتی ہے اور ان دما غو ں کر تحر یک ملتی ہے اور تحریک کے لیے رہنما ئی بھی ملتی ہے جو دما غ اپنے اند ر تبلیغی جو ش رکھتے ہیں۔ میں بھی چو نکہ اسی را ہ کا راہی ہوں مجھے تواس سفر سے نئی زند گی نصیب ہو ئی۔ دل میں ولولے جوا ن ہو ئے امنگو ں میں جولا نی آئی۔ حضور �ö کی جگر کاویوں اور جا نفشا نیوں کا تصو ر پیش نظر رہا اور رو ح ندا مت سے کا نپتی رہی کہ اس دور میں جب ہمیں ہر طر ح کی آسا نیاں اور سہولتیں میسر ہیں ۔مخا طب تعلیم یا فتہ ہیں ان میں وہ وحشت اور بر بر بت نہیں ۔ ہم لو گ فر یضہ ئِ تبلیغ کی ادا ئے گی میں کتنی کو تا ہی سے کا م لے رہے ہیں کیا ہمیں اس کا حسا ب نہیں دینا پڑے گا ۔ آج ذر ائع رسل و رسا ئل ایسے ہیں کہ ایک لمحہ میں با ت ساری دنیا تک پہنچ جا تی ہے اور ہم دو سر و ں کو تو کجا اپنے آپ کو بھی مسلما ن نہیں بنا سکتے ۔ ہما ری زند گیا ں شر مند گیا ں بن چکی ہیں۔ سفر ِ حج سے لو ٹنے والا یقینا ایک نیا انسا ن بن کر لو ٹتا ہے ،بشر طیکہ یہ سفر اس نے دل و دما غ کی پوری بیدا ر ی کے سا تھ کیا ہو۔ میں نے سفر نا مہ میں کئی مذہبی بحثیں چھیڑ ی ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ بحثیں غیر متعلق نہیں ہما ری محفلو ں میں یہ سا ری بحثیں چھڑتی رہیں تما م مو ضو عا ت زیر گفتگو رہے ہر ایک نے اپنے علم کے مطا بق ان بحثو ں میں حصہ لیا میں نے سب احبا ب کی دا نشورانہ اور عا لما نہ با تو ں کو یکجا کر کے مقا لا ت کی شکل دے کر سفر نامے کا حصہ بنا لیا۔ +سفر کوئی بھی ہو اس میں ایک فا ئد ہ یہ بھی ہو تا ہے کہ نئی نئی زمینو ں کے سا تھ نئے نئے آدمیوں سے بھی تعا رف ہو تا ہے نئی نئی صحبتو ں کے فیضا ن بر ستے ہیں۔ ہما رے سفرِ حج میںایسے کئی اصحا ب سے ہم متعا ر ف ہوئے جو بلا شبہ اولیا ئ اللہ تھے اور جن کی صحبت وہی صحبت تھی جس کے متعلق مو لا ئے رو م نے فر ما یا �ò +یک زما نہ صحبتے با اولیا ئ +بہتر از صد سا لہ طا عت بے ریا ئ +کئی دو ستو ں کی رفا قتیں حاصل ہو ئیں۔ اور انکی یا دیں دل و دما غ پر نقش ہوتی گئیں۔ جب تنہا ئی کے مہر با ن لمحے آئیں گے یہ یا دیں گھٹا کر کے آئینگی ۔ اور دل سے دو ر دو ر تک رو شنیا ں پھیل جا ئینگی ۔ +نمبر دا ر دیو ان علی چو دھر ی ، صد ر دین چو دھر ی ، عبد الر شید آف بو ڑ ، چو دھر ی و��ا یت علی آف رجپال ، او ر پیر علا ئو الد ین صدیقی سے جو مذہبی بحثیں رہیں وہ کون فر امو ش کر سکتا ہے ۔ +مشر قی پاکستان کے مو لا نا وقا ر الد ین جو مو لا نا سر دا ر احمد لا ٹلپور ی مر حو م کے ہمد ر س رہے ان سے ملا قا ت مغتنما ت میں سے ہے ۔ بر یڈ فو رڈ کے مشہور مذہبی کا رکن مستری خا دم حسین کو کو ن بھو ل سکتا ہے ۔پھر را و لپنڈی کے مو لا نا محمد رضا صا حب بھی اپنی رفا قت کی نا قابل فرا مو ش یا دیں بطو ر اما نت میرے حو الے کر گئے۔ +اے خدا ئے بز ر گ و بر تر ان احبا ب کو عز ت ، صحت اور سلا متی ئِ ایما ن سے نوا ز او ر مجھ گنہگا ر کو تو فیق دے کر تیرے حبیب �ö کے نقش قدم پر چل سکو ں +اگر با و نر سید ی تمام بو اللہبیست +کیونکہ اے پر و ر د گا ر تیرا ہی فر ما ن ہے +لقد کان لکم فی رسو ل اللہ اُسو ۃ حسنہ +پیر صا حب کی اس سفر میں رو انگی 19 دسمبر 1972 �÷ کو ہو ئی اور واپسی 20 جنو ر ی1973 �÷ کو ہو ئی۔ زیا رت کے تما م مقا ما ت پہلے سفر حج کے تفصیلی ذکر میں آگئے ہیں اس سفر میں بعض مقا مات کی دو با ر ہ زیا رت کی عبا دا ت پر زیا دہ زور رہا انکی کو شش رہی کہ ایسے علما ئِ عا لم سے ملا قا تیں ہو ں جن کے دل درد مند ہو ں اور اختلا ف و افترا قِ امت پر خو ن کے آنسو رو تے ہوں ۔ شکر ہے کہ اس سفر میں یہ حسر ت پو ری ہو ئی ۔ ایسے احبا ب مل گئے جو حج کے مقصد ِ خا ص سے آشنا تھے جن کی رو حیں بیقرا ر تھیں اور دل اشک با ر تھے جو ملت کے سچے غمگسا ر تھے اورچا ہتے تھے کہ ا متِ مسلمہ کی نشأۃِ ثا نیہ ہو۔ مسلما ن ایک دفعہ پھر میدا ن میں آکر ٹھو کر یں کھا تی ہو ئی انسا نیت کو پیغمبر ِ رحمت کے در و ازے پر لیجا نے کی سبیل سو چیں کہ اس در و ا زے کے بغیر کو ئی ایسا در و ا زہ نہیں جہا ں انسا نیت کے زخمو ں کا علا ج ہو سکے �ò +وہی دیر ینہ بیما ری ، وہی نا محکمی دل کی علاج اس کا وہی آبِ نشا ط انگیز ہے سا قی +خدا کے فضل سے بہت سے سر کر دہ علما ئ کا اجتما ع ہو گیا سب یہی کہہ رہے تھے �ò +سبب کچھ اور ہے تو جس کو خو د سمجھتا ہے +زوا ل بند ئہ مو من کا بے زر ی سے نہیں +بے زر ی اور افلا س کیسا کہ محمد پا ک �ö کے خدا نے جز یر ئہ عر ب کے صحرا ئو ں کو سیا ل اور منجمد سو نے سے بھر رکھا ہے اور یہاں کے لو گو ں کو اتنی دو لت عطا کر دی ہے کہ انہی کی دو لت سے یو رو پ اور امر یکہ کے بینک چل رہے ہیں اور وہ مزید کر م کے با دل بھیجتا چلا جا تا ہے شر ط یہ ہے کہ �ò +کی محمد (ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں +یہ جہا ں چیز ہے کیا لو ح و قلم تیرے ہیں +اسی سفر مین ورلڈ اسلامک مشن کا قیا م عمل میں آیا جو صر ف حضرت معر و ف شا ہ صا حب کی زند گی ہی نہیں پو ر ی تا ریخ دعوت و عز یمت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ورلڈ اسلامک مشن کی تفا صیل اپنے مقا م پر آرہی ہیں۔ +اس سفر میں حضرت پیر صا حب 23 ما رچ 1979 �÷ کو جد ہ پہنچے۔ 25 ما رچ کو کچھ کتا بیں خر ید یں اور مد ینہ منو ر ہ چلے گئے ۔محمد یو نس نو شا ہی ہمرا ہ تھے ۔ایک ضر و ر ی چیز جس کا تذ کر ہ پہلے نہیں آیا یہ ہے کہ حضرت پیر صا حب جس سفر پر جہا ں بھی گئے انکی تو جہ کا مر کزِ خصو صی کتب خا نے اور کتب فروشو ں کی دکا نیں رہیں ۔ مد ینہ منو ر ہ پہنچے تو تین کتب خا نے دیکھے ۔23 سو ریا ل کی کتا بیں خر ید یں اور پھر احبا ب سے ملا قا تیں کر تے رہے پھر بعض مقا ما تِ زیا ر ت پر دو با ر ہ حا ضر ی دیتے رہے ۔3 اپر یل کو پھر مکہ مکر مہ کی طر ف رو انہ ہو ئے ۔ مکہ شر یف سے پھر کتا بو ں کی خر یدا ری ہوئی اور پا نچ بنڈ ل بنا کر بر یڈ فو ر ڈ ارسا ل کر دیے۔ +15 اپر یل بر و ز منگل منٰی میں خیمو ں میں آگ لگ گئی۔ پی�� صا حب کے سا تھ طا ر ق مجا ہد نو شا ہی تھے اس وقت جب مصیبت زدہ لو گ جا ن بچانے کی فکر میں انتہا ئی افرا تفر ی کے عالم میں بھا گ رہے تھے ۔ پیر صا حب اور انکے سا تھی لو گو ں کا سا ما ن اٹھا تے اور جس حد تک ممکن تھا لوگوں کی مد د کر تے رہے اپنے قا فلے والو ں سے بچھڑگئے تھے را ت پہا ڑ پر گز ا ر ی جہا ں ہر طر ف ویرا نی کا عالم تھا جنگلی جا نورو ں کا خو ف تھا بھیڑ یو ں نے وہا ں بھیڑ یں وغیر ہ پھا ڑ رکھی تھیں طا ر ق مجا ہد نو شاہی کا بیا ن ہے کہ اس ویر ان اور خو فنا ک جگہ پر پیر صا حب یکسو ئی سے عبا د ت کرتے رہے ۔ہا ں اگر انہیں پر یشا نی تھی تو یہی کہ اگر جا ں چلی گئی تو کو ئی با ت نہیں مگر لو گو ں کی جو اما نتیں انکے پا س ہیں کہیں ان کے پیچھے ان میں خیا نت نہ ہو جا ئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کر م سے حفا ظت فر ما ئی صبح پہا ڑ سے اتر کر اپنے قا فلے والوں سے جا ملے وہ سب لو گ پر یشا ن تھے کہ کہیں حضرت صاحب او رانکے سا تھی طا ر ق صا حب شعلو ں کی لپیٹ میں نہ آگئے ہو ں ۔ پیر صا حب کو اور انکے سا تھی کو صحیح سلا مت وا پس آتے دیکھا تو سب کی پر یشا نی دو ر ہو ئی۔ پیر صا حب نے انہیں وا قعات سنا تے ہوئی بتا یا کہ بیچا ر ی عو ر تیں جو اس بد حو اسی اور افرا تفر ی میں اپنے قا فلو ں سے بچھڑ گئی تھیں سو یر ے بہت پر یشا ن تھیں ہم انہیں قا فلوں تک پہنچا کر آپ لو گو ں کے پا س آئے ہیں سب نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ +16 مئی 1993 �÷ کو شر و ع ہو ا ور بخیرو عا فیت 15 جو ن 1993 �÷ کو اختتا م پذ یر ہو ا۔ +اس وقت تک حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب تین با ر عرا ق جا چکے ہیں خو اجہ خو اجگا ن شیخ الکل پیر محبو ب سبحا نی حضرت شیخ عبد القا در جیلا نی کے مزار کی زیا ر ت ایک حسر ت بنکر اہل سنت کے ہر فر د کے دل میں ہمیشہ مو جو د رہی ہے اور پیر صا حب کا تو تعلق بھی اسی خا نوا دہ سے ہے جسے سلسلہئِ عا لیہ قا دریہ کہتے ہیں۔ اس لیے انہیں تو بچپن سے یہی خو اہش تڑ پا رہی تھی ، اللہ تعا لیٰ نے سا ما ن بھی پیدا کر دییاس لیے کشاں کشاں عراق گئے یہاں صر ف شیخ عبدالقا د ر جیلا نی کا ہی مز ا ر نہیں یہاں تو قد م قد م پر آفتا ب و ما ہتا ب دفن ہیںاس لیے انہو ں نے کو شش کی کہ تما م زیا ر ا ت سے مشرّ ف ہو ا جا ئے ۔ پیر صا حب نے عرا ق کے تینو ں سفر ڈا ئر ی میں قلمبند کئے ہیں ہم نے انہیں یکجاکر کے یہ با ب مر تب کیا ہے اور چو نکہ الفا ظ زیا دہ تر انہی کے ہیں۔ اس لیے انہیں خو د نو شت سفر نا مہ کی صور ت دے دی ہے ۔ +خیا ل رہے کہ حضرت پیر صا حب کا ہر سفر محض اسلا م کی خا طر رہا ہے ۔ یو نہی سی سیر و سیا حت مقصو د نہیں تھی اس لیے انہوں نے شہر و ں کے دیگر تاریخی مقا ما ت پر اعا ظم و اکابر کے مقبرو ں کی زیا را ت کو تر جیح دی ہے ۔ اس لیے کہ یہ سفرنامے او لیا ئ کے مقا بر کی زیا رات کے لیے ایک گا ئیڈ بک بھی ہیں اور دنیا پر آخر ت کو مقد م ٹھہر ا نے والے نفو س قد سیہ کے تذ کا ر جلیلہ کا مر قعِ نُو ر بھی ، انہو ں نے کہیں کہیں بعض مسا ئل پر بھی اپنے دلکش اور دلنشین انداز میں رو شنی ڈا لی ہے یوں ان سفر نا مو ں کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جا تی ہے کیو نکہ وہ قا ر ی کو بھی اس سفر میں شر یک کر لیتے ہیں۔ اور اسے سمجھا تے بھی جا تے ہیں کہ اسلا م کیاہے اور وہ ہم سے کیا کیا مطا لبے کر تا ہے۔ ان سفر نا مو ں میں کہیں بھی فر قہ وا را نہ تعصب کی کو ئی علامت نہیں ملتی وہ تما م مسلما نو ں کے سا تھ کشا دہ دلی اور خند ہ جبینی سے با ت کر تے ہیں۔ اپنی اور ہما ری معلو ما ت میں اضا فہ کے لیے بڑی وسیع الظر فی سے دو سر ے فر قو ں کے اکا بر کی تعظیم کر تے اور انکی با تو ں سے مستفید ہو تے ہیں۔ ایک سچے اور کھر ے مسلما ن کی طر ح ﴿خُذ�: مَا صَفَا دَ ع�: مَاکَدِرْ ﴾ان کا اصو ل ہے اور یہی اصول سفر نا مو ں میں انکے پیش نظر رہا ہے۔ ان کی زبا ن صا ف ہے اور تحر یر سا دہ کیو نکہ انکے ذہن میں کوئی گنجلک پن نہیں کو ئی گنجھل نہیں۔ انہو ں نے اپنے محسو سا ت بھی بڑی سلیس اور رو اں زبا ن میں بیا ن کر دیے ہیں۔ انہیں سیا ست میں پڑ نے کی عا د ت نہیں، وہ جا نتے ہیں کہ سیا ست انسا نی حقو ق کے حصو ل کی کو شش ہے اور جب انسا ن کو اپنے حقوق وفر ائض کا علم حاصل ہو جا ئے تو سیا ست خو د بخو د پا کیز ہ را ہو ں پر گا مز ن ہو جا ئے گی ۔ اس لیے ان کا ہر سفر اور ان کا ہر سفر نا مہ انکے تبلیغی مشن سے ہم آہنگ ہے اور انکا تبلیغی مشن یہی ہے کہ +دل و نگا ہ مسلما ن تو کچھ بھی نہیں +ہما را پہلا سفر عرا ق جو رفیق محتر م مو لا نا لیا قت حسین نو شا ہی کی معیت میں ہو ا ۔حکو متِ عراق کی طر ف سے الا قصیٰ کا نفر نس میں شر کت کی دعو ت پر ہو ا۔ ہم 20 جون 1987 �÷ بروز ہفتہ بغدا د پہنچے وزا ر تِ اوقا ف کی طر ف سے دو آدمی ہمیں لینے کے لیے آئے ہو ئے تھے ۔ منسٹر ی کے لو گو ں نے ہمارے لیے پر و گرا م تر تیب دے رکھا تھا ہم نے پر و گرا م میں کچھ تبد یلیا ں تجو یز کیں جو منظو ر کر لی گئیں۔ ہمیں زیا ر ا ت پر لیجا نا وزار تِ اوقا ف کے لو گو ں کے ذمہ تھا جنہو ں نے اپنی ذمہ دا ر ی بطر یقِ احسن نبھائی ۔ ہم پہلے اما م مو سیٰ کا ظم اور اما م محمد جو ا د کے مز ارات پرگئے۔جن لو گو ں نے تا ریخ کا مطا لعہ کیا ہے ،بخو بی جا نتے ہو نگے کہ سید نا اما م جعفر صا د ق کی ذا ت با بر کا ت اسلامی تا ریخ میں خا صی اہمیت کی حامل ہے شیعہ اما میہ اثنا عشر ی، انہیں اپنے مذہب کا مد و ن خیا ل کر تے ہیں۔ صو فیا ئ ان کو مشا ئخ طر یقت میں شیخ الشیو خ کا اعلیٰ تر ین مر تبہ دیتے ہیںان کے شا گر دو ں کی فہر ست بڑی طو یل ہے مختلف شعبہ ہائے علم کے لو گ ان سے کسب فیضِ حا صل کر تے رہے۔ بتا یا جا تا ہے کہ اہل سنت کے اما م اعظم ابو حنیفہ اور جنا ب اما م ما لک بن انس فقہ میں انکے شاگر د تھے، ان کے سا تھ ہی تصو ف اور علم کیمیا ئ کے مصر وف عالم و عا مل جا بر بن حیا ن بھی انہی کے فیض یا فتہ تھے ۔ ان کے علا وہ کثیر مشا ہیر کو ان کے تلا مذہ میں شما ر کیا جاتاہے ۔ان میں سے کسی کا نسبِ تلمذ صحیح ہو یا غلط ، یہ بہر حا ل ثا بت ہے کہ حضرت اما م جعفر صا د ق اپنے ہم عصر لو گو ں پر بہت اثر انداز ہو ئے۔ خواجہ فر ید الد ین عطا ر نے اپنی کتا ب تذ کر ہ الا ولیا ئ کا آغا ز تبر کا ً و تیمنا ً انہی کے ذکر سے کیا ہے۔ علا مہ شہر ستا نی نے اپنی کتا ب ’’ الملل و النحل ‘‘ میں ان کے کما لا ت اور زہد و تقوٰی کا بڑی شا ن سے ذکر کیا ہے۔ غر ض مسلما نوں کے تمام فر قے اس با ت پر متفق ہیں کہ و ہ زبر دست شخصیت کے ما لک تھے شیعہ اما میہ اپنے شر عی معاملا ت میں ان سے استناد کر تے ہیں۔ باطنیہ اپنے عطا ئبا ت کو ان سے منسوب کر تے ہیں۔ جابر بن حیان، حضرت ذو النو ن مصر ی اور دیگر ممتا ز صو فیا ئ انہیں اسرارِ خفی و جلی کا معلم قرا ر دیتے ہیں۔ دیگر علوم عجیبہ کے سا تھ قرآن حکیم کی با طنی تاویل جس کا اسمعٰیلی اور صو فی روا یا ت میں ذکر آتا ہے اسی طر ح حر و ف و اعدا د سے مستقبل کے حا لا ت معلو م کر نے کاوہ طر یقہ جسے علم ِ جعفرکہا جا تا ہے ۔ ان دو نو ں کا ما خذ بھی سید نا جعفر صا دق کی ذ ات کو ہی تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اما م مو صو ف زند گی بھر فر قہ وا را نہ سیا ست سے با لا تر رہے ان کے دو فر ز ند نا مو ر ہیں۔ مو سی ٰ کا ظم اور اسمعیل ۔ثا نی الذکر کی وا لد ہ حضر ت اما م حسن (رض) کی پو تی تھیں ۔کہتے ہیں کہ اما م جعفر صا دق نے پہلے اسمعٰیل کو اپنا وصی نا مز د کیا تھا مگر ان سے ناخوش ہو کر جنا ب مو سیٰ کا ظم کو وصی مقر ر کر دیا ۔ +جمہو ر کہتے ہیںاسمعٰیل حضرت اما م جعفر صا دق کی زند گی میں ہی فو ت ہو گئے تھے اس لیے مو سیٰ کا ظم و صی اور اما م ہیں۔ اسمعیل مذکو ر سے آگے اسمعٰیلی فر قہ چلا ۔ +ہمیں ان بحثو ں سے کوئی مطلب نہ تھا ہم اما م مو سیٰ کا ظم اور امام محمد جو اد کے مزا ر ات پر اپنی محبت کے تحت حا ضر ہو ئے ۔یہ کئی کنا لو ں پر پھیلے ہوئے میدان میں ہیں۔ چا ر و ں طر ف شا ند ر حو یلی ہے صحن میں سفید سنگِ مرمر لگا ہو ا ہے دروا زو ں پر گنبد و ں پر سو نا لگا ہو ا ہے ۔کئی لوگ مزار کے خا دم ہیں الشیخ ا لفا ضل علی الکلیدا ر، رو ضے کے امو ر کے انچا ر ج تھے بڑے عالم آدمی تھے ان سے بڑی دیر تک گفتگو رہی ۔ بہت سے مو ضو عا ت زیر ِ بحث آئے ان سے ہی معلو م ہو ا کہ عباسی علو ی اور فا طمی علوی کے درمیا ن نکا ح ہو تے ہیں اور یہ سب اہل بیت نبو ی شما ر ہو تے ہیں ان میں با ہمی تعصب یہا ں بہت کم ہے ۔انہو ں نے ایک اور بات بتا کر ہما رے علم میں اضافہ کیا کہ علوی اور سا دا ت مو سو ی سیا ہ پگڑ ی با ندھتے ہیں ۔ سا دات حسنی و حسینی سبز اور عم رِسول حضرت عبا س کی اولا د سفید پگڑی استعمال کر تی ہے ۔ +اسکے بعد ہم حضرت اما مئیِ ا عظم ابو حنیفہ کے مزا ر پر گئے۔ یہ محلہ با ب الشیخ سے تقر یبا ً 8 کلو میٹر دو ر دجلہ کے پل کے اس طر ف وا قع ہے۔ اس محلہ کا نا م اعظمیہ ہے اور یہا ں کے لو گو ں کو اعظمین کہتے ہیں ۔لب سٹر ک کما ن نما د یوار ہے تین شا ندا ر کما نیں بنتی ہیں اندر وسیع صحن ہے جس کے کنارے پر بہت شا ند ر ٹا ور ہے۔ یہ بہت اونچا ہے اس میں چاروں طر ف گھڑ یا ل نصب ِ ہیں جو دو ر سے نظر آتے ہیں دو سرے کنا رے پر مینار ہے جس پر گو ل دا ئر ہ کی شکل میں ٹیوبیں نصب ہیں مینا ر کی چو ٹی پر نیلی ٹیو بو ں سے بہت جلی حرو ف میں ’’ اللہ ‘‘ بنا یا گیا ہے۔ کئی در و ا زے طے کر کے امام صا حب کے مزا ر تک پہنچتے ہیںمز ا ر کے گر د چا ند ی کا کٹہر ا ہے اس میں اما م اعظم کی قبر شر یف ہے ۔یہ قبر ایک بڑے ہا ل کے کمر ہ میں ہے کمرہ بھی بہت خو بصو ر ت ہے۔ امام اعظم کی قبر شریف قبو لیت دعا کے با عث مر جعِ خلا ئق ہے۔ یہا ں اما م شا فعی بھی اپنی حا جت رو ائی کے لیے آتے تھے شا ید ہی کسی عالم کا مزا ر اتنا پر شو کت ہو ۔یہا ں ایک ہیبت اور دبد بہ سا ہے۔ یہ علم و حکمت کا رعب ہے جو اند ر دا خل ہو نے والے کے دل پر طا ر ی ہو جا تا ہے ۔ یہا ں وہ اما م سو رہا ہے جس نے حد یث میں رو ایت کے سا تھ در ایت کا معیا ر بھی دیا ۔ علم ِ فقہ کی شمعیں روشن کیں اور کتاب و سنت پر مبنی قو انین تر تیب دیے۔مزا ر کے سا تھ ہی عظیم الشا ن مسجد ہے یہا ں کے انچا ر ج اما م اور خطیب کئی کتا بو ں کے مصنف ڈ اکٹر شیخ عبدالغفا ر سے ملا قا ت ہو ئی ۔بڑ ے ملنسا ر اور خو ش اخلا ق آدمی ہیں ۔اللہ انہیں سلا مت رکھے ۔ +سا تھ ہی دجلہ کا پل ہے ۔اس پل کو جسرِ ائمہ کہتے ہیں کیو نکہ کہ یہاں کئی ائمہ کے مزا ر قر یب قریب ہیں ۔اسی پل کے کنا رہ پر حضرت اما م احمد بن حنبل کا مزا ر بھی تھا ۔ جو ا ب در یا بر د ہو کر بہہ گیا ہے۔ +ایک کنا رہ پر اما م اعظم دو سرے پر کنا رے پر اما م ابو یو سف ، اما م مو سیٰ کا ظم اور اما م محمد جوا د ابن اما م رضا کے مز ار ہیں۔ +ہم یہا ں سے آگے بڑ ہے دجلہ کا پل پا ر کیا تو سامنے کا ظمین شر یف ہے بڑی شا ندا ر عما ر ت ہے یہا ں زا ئر ین کا بے پنا ہ ہجو م رہتا ہے ۔ اس عمارت کے چا ر مینا ر اور دو خو بصو رت گنبد ہیں اندر تما م دیوا ر و ں اور چھتو ں پر شیشے نصب ہیں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اند ر اما م مو سیٰ کا ظم اور امام محمد جو ا دبن ر ضا کی قبر یں ہیں۔ اس عما ر ت کے با ہر محقق نصیر الد ین طو سی کی قبر ہے یہاں سے نکلیں تو با ئیں طر ف اما م اعظم کے مشہو ر شا گر د اور فقہ حنفی کے ستو ن اما م ابو یو سف کا مزا ر ہے یہاں ایک شا ندا ر مسجد ہے۔ مسجد کے با ئیں جا نب ابو یو سف کے مز ار کا قبہ ہے۔ مسجد سے متصل ایک کتب خا نہ ہے جسے مکتبہ ابو یو سف کہا جا تا ہے ۔یہا ں کے امام نے بکما ل نو از ش ہمیں کچھ کتا بیں تحفہ کے طو ر پر دیں۔ +برا بر میں با ئیں جا نب ایک قبر ستا ن ہے۔ اسکے آخر ی کنا رہ پر شیخ شبلی (رح) کا مزا ر ہے۔ وہاں ایک خا دم جس کا نا م طا ر ق تھا بہت سی قبر و ں سے گزار کر لے گیا ۔در با ر بند تھا صر ف جمعرا ت کو کھو لا جا تا تھا ۔ ہما رے لے کھو لا گیا وہا ں فا تحہ پڑھنے کی سعا د ت حا صل کی ۔ +جنا ب بشر حا فی کے مز ار پر حا ضر ی دی ۔ ابو الحسن نو ر ی کے مز ار کی زیا ر ت کی ۔ پھر حضرت شیخ شہا ب الد ین سہرور دی المعر وف شیخ عمر کے مز ا رپر گئے ۔ یہا ں ایک عظیم الشا ن مسجد ہے ۔مسجد کے گو شے میںحضرت شیخ کا مز ار ہے ۔جا لیو ں کے کٹہر ے میں مز ا ر شر یف ہے ۔ یہ جگہ بغدا د میں ہی ہے اور باب الشیخ سے چا ر میل کے فا صلہ پر ہے۔ شا رع رشید کے متصل ہے ۔یہا ں سے رخصت ہو کر حضرت معر و ف کر خی (رح) کے مزا ر پرُ انوار پر حاضر ی دی۔ یہ مز ار بڑے کشا دہ اور وسیع قبر ستا ن میں ہے۔ قبر ستا ن کی وسعت کا اند از ہ اس سے لگا ئیے کہ اس کے در میا ن ایک پختہ سڑ ک ہے ۔ جس پر موٹریں چلتی ہیں اس سڑ ک کو پا ر کر کے ہم خلیفہ ہا رو ن الر شید کی نا مو ر نیک دل اور پاکباز ملکہ زبیدہ کے مزا ر پر گئے۔ یہ وہی ملکہ ہے جس کا ایک بڑ ا اور سعا د تمند ا نہ کا ر نا مہ یہ ہے کہ اس نے نہر کے ذر یعہ مکہ مکر مہ میں پا نی پہنچا یا ۔ یہ نہر منٰی ، مزد لفہ ، عر فا ت ہر جگہ مو جو د ہے اور اسے نہر زبیدہ ہی کہا جا تا ہے ۔افسو س اب اس نہر کی قرا ر وا قعی دیکھ بھا ل نہیں کی جا رہی ۔ ملکہ کی قبر بڑی اونچی جگہ ہے۔ بر جی پر دو سر خ رنگ کے بلب روشن ہیں قبر کے اردگر د نجا ست دیکھ کر ہمیں بہت افسو س ہوا جو لو گ اپنے پُر کھو ں کے سا تھ یہ بے رحمی اور نا انصا فی کر تے ہیں انہیں کسی طرح بھی معاف نہیںکیا جا سکتا۔ یہا ں فا تحہ پڑ ھی اور آگے بڑھے، قر یب ہی ایک قبر ستا ن ہے ،جسے قبر ستا نِ شو تز یہ کہتے ہیں۔ یہ پرا نے شہر کی کچی آبادی کا ویرا ن علا قہ ہے ۔راستہ بھی کچا ہے ۔ایک بڑے گیٹ سے اندر داخل ہو ئے جہا ں کچھ کھجو ر کے در خت تھے یہاں حضرت جنید بغدادی کا مزا ر ہے ۔مزا ر بڑ ا پر و قا ر ہے ۔یہا ں صفا ئی کا انتظا م بہت بہتر ہے مقبر ے کے با ہر بو رڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا ۔ +’’مر قد شیخ الجنید بغدا دی قد س اللّٰہ سرہ العزیز‘‘زیا رت اور فا تحہ خو انی سے مشر ف ہو ئے۔ قر یب ہی سید نا شیخ بہلو ل دا نا کا مزا ر ہے ۔سا تھ ہی حضرت دا ئو د الطا ئی (رح) کا مز ار ہے وہا ں حا ضر ی دی ، حضرت سر ی سقطی(رح) اور ابو المحفوظ حضرت معر و ف کر خی(رح) کے مزار ات کی زیا ر ت کی۔ حضرت معر و ف کر خی (رح) کے مزا ر سے متصل مسجد میں دا خل ہو ں تو دائیں ہا تھ پر ایک قبر ہے۔ یہ قبر پنجا بی کے مشہو ر شا عر اورداستان یو سف زلیخا کے مصنف غلام رسول کی ہے۔ مو لو ی غلام رسول صا حب کی سفرِ حج سے واپسی کے دوران عراق میں وفا ت ہوئی تھی قبر دیکھی تو ذہن میں انکا ایک شعر گو نجنے لگا �ò +جیں کُو ں دلبر وِ کد املے تھے قیمت ہو وے پَلّے اس دے جیڈ نہ طا لع کوئی اس دے بخت سَو لے +﴿جس آدمی کو یہ مو قع ہا تھ آئے کہ محبو ب بیچا جا رہا ہو اور اسکی قیمت بھی اس آدمی کے پا س ہو تو اس آدمی جیسا خو ش نصیب کو ئی نہیں یو ں سمجھو اس کے بھا گ جا گ اٹھے ہیں ﴾ لو ح ِ مز ا ر پر تا ریخ وفا ت 10 رجب1331 �÷ ھ درج ہے ۔ اسی در و ازے کے بائیں ہا تھ پر علا مہ محمو د آلو سی کی قبر ہے جن کی تفسیر ’’ رو ح المعا نی ‘‘ کو بڑ ی شہر ت حاصل ہے ۔ ان کا سنِ وفا ت لو حِ مزا ر پر 1220 ہجر ی در ج ہے ۔ حضرت حبیب العجی کے مزار پر فا تحہ پڑ ھنے کی سعا د ت حا صل کی۔ +حضرت ابو بکر شبلی (رح) کی اولادمیں آخر ی فر د جو اس وقت بقیدحیا ت ہیں ایک ما ئی صا حبہ ہیں ۔مز ا ر کی چا بیا ں انہی کے پا س رہتی ہیں ان کی زیا ر ت نصیب ہو ئی ۔ سید حسن بن عبد اللہ بن عبا س بن علی کے مز ار پر حا ضر ی دی حضرت حمز ہ بن حسن بن عبداللہ بن ابو الفضل عبا س بن علی (رح) کے رو ضہ کی زیا ر ت نصیب ہو ئی ، حضر ت سیف الد ین بن سید کا ظم بن اما م جعفر صا د ق (رح)، حضرت زبیر بنت الحسن بن علی ، قا سم بن عیسیٰ ، سید حمد بن جعفر بن الحسن بن امام مو سیٰ ، کاظم بن اما م جعفر صادق ، اما م احمد الحا د ث بن اما م مو سیٰ کا ظم بن اما م جعفر صا د ق کے مزارات پر فا تحہ خو انی کا شر ف حا صل ہو ا ، طا ہر بن اما م محمد بن با قر بن علی بن اما م حسن کے مزا ر پر حا ضر ی دی حضور غو ث پاک سید عبد القا در جیلانی کی در گاہ شر یف کے سا منے جو سڑک ہے اس کے کنا رہ پر کچھ ہو ٹل ہیں ان سے آگے بڑ ہیں تو ایک قبر ستا ن ہے۔ اس قبر ستا ن میں کھجوروں کے بہت سے در خت ہیں در میان میں حجۃ الاسلام اما م غز ا لی کا رو ضہ ہے رو ضہ شر یف پر بو سید گی کے آثا ر ہیں اکثر بند رہتا ہے زیارات کے مو قع پر مجا ور کھول دیتا ہے ۔ہما رے لیے بھی کھولا گیا اند رجا کر دیکھا کہ بو سید ہ ہے، صفا ئی کا بھی خا ص انتظا م نہیں ہے، پرانا پھٹا ہو ا غلاف پڑ ا ہے بہت افسو س ہو ا اسلا م کی بنیا د وں سے ٹکرا نے والے یو نا نی فلسفہ کے سیل بے پنا ہ کا رُخ پھیر دینے والا اما م اس حا لت میں پڑ ا ہے۔ لو گو ں کی علم سے بے رغبتی اور عا لمو ں کے بے وقتی کا یہ منظر دیکھ کر دل بہت رنجید ہ اور ذہن بہت پر یشا ن ہو ا ۔حضرت سید عبد العز یز کی اولا د میں سے حضرت عبدا لر حمن قاد ر ی اور حضرت سید الر حمن قادری سے ملا قا ت ہو ئی ۔ +بغدا د شر یف کا ذرہ ذر ہ زیا ر ت گا ہ ہے ۔ اور ہم نے خو ب زیا ر ات کیں ۔اسی سلسلہ میں شیخ حما د ، شیخ ابر اہیم خوا صی ، منصو ر حلا ج ، شیخ سر اج الدین، شیخ صد ر الد ین ، سید احمد ،فا عی ، ابو شیبہ بد وی کے مزا رات پر بھی حا ضر ی دی ۔ +در با ر غو ثِ صمد انی ، محبو ب سبحا نی جنا ب شیخ عبدا لقا د ر جیلا نی (رح) +غو ث پا ک کا مز ا ر در یا ئے دجلہ سے تقر یبا ً ایک میل دو ر پر انے شہر میں ہے ،رو ضے کا کمر ہ تقر یبا ً تیس30 فٹ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہو گا۔ قبر پانچ فٹ اونچی ہے اس پر سبز رنگ کی چادر چڑ ھی ہو ئی ہے، اندر و نی دیو ار وں پر شیشہ لگا ہو ا ہے اور چھت پر فا نو س بھی مو جو د ہیں ۔یہا ں با قا عدہ لنگر خانہ ہے ۔جہا ں غر یبوں کو کھا نا تقسیم ہو تا ہے ۔غو ث پا ک نے اپنی زند گی میں یہ لنگر جا ری کیا تھا آج ایک ہز ا ر بر س سے یہ لنگر تقسیم ہو تا چلا آرہا ہے۔ طو فان ہو با ر ش ہو غو ث پاک کے در و ازے پر بھو کو ں کو کھانا ضر ور مل جا تا ہے ۔ +ہم یہا ں حا ضر ہو ئے تو دل دما غ کی عجیب حا لت تھی ۔بہت سے لو گ چیخ رہے تھے ،رو رہے تھے ۔ آنکھیں بہہ رہی تھیں اور کتنے آنسو ئو ں میں دل کے ٹکڑے بھی بہ رہے ہو نگے ۔ہم کہ رہے تھے چورو ں کو قطب بنا نے والے ہم بھی چور ہیں اللہ کے حقوق رہ گئے ، بند و ں کے حقوق رہ گئے ۔اللہ کے چو ر ہیں،بند وںکے چورہیں۔ احسا س ندا مت سے چُو ر آپ کے در و ازے پر آئے ہیں۔ ڈو بی ہو ئی کشتیو ں کو ابھا رنے اور سلا متی سے کنارے لگانے والے ہما رے بیڑے پا ر لگا کہ یہ بھی ڈو ب رہے ہیں ہا تھ پھیلا ئے کھڑ ے ہیں آپ ہی نے تو کہا تھا �ò +قف علی با بی اذا سد کل با ب +﴿ جب سب در و ا زے بند ہو جائیں تو میرے در و ا زے پر آجا نا ﴾ +سو آگئے ہیں، اے سخی دا تا ۔ ابھی ہو نٹو ں پر اضطر ا ب کی سسکیا ں تڑ پ رہی تھیں کہ ذہن کو یو ں محسو س ہو ا جیسے کوئی ریشم پیر ٹکا تا ہو ا د ل کے فر ش پر محو ِ خر ام ہو، آ رہا ہو، دکھ مٹا نے زخمو ں کو مندمل کر نے رو ح کا قلق دھو نے اور دل ہشا ش بشا ش ہو گیا، سکون کی چا در تن گئی، انوا ر و تجلیا ت کی وہ بارش ہوئی کہ ر وح میں اند ھیر ا نا م کو نہ رہا اندر دو ر دو ر تک رو شنی ہو گئی کوئی شہد بھر ی آواز کا نو ں میں رس گھو لنے لگی ’’ مُر ید ی لا تخف ‘‘ میری بر کتیں تیرے سا تھ ہیں جا خد انے تیر ی سا ری مشکلیں آسا ن کر دیں۔ رحمتہ اللعا لمین نے تجھے آغوش رحمت میں لے لیا ۔ +اللہ کے کلمہ ئِ حق کو سا ری دنیا میں پھیلا دے ۔ میں آپ کو کیسے یقین دلا ئو ں کہ میں سب کچھ سُن سکتا تھا ۔ سُن رہا تھا بلکہ آج بھی جب تنہا ئی میں ہوتا ہو ں، آنکھیں بند کر کے ذہن میں وہ منظر بسا لیتا ہو ں تو وہی آواز بہشت گو ش ہو نے لگتی ہے ۔ یو ں اللہ والو ں کی قبر یں زند ہ ہو تی ہیں میر ی طر ح سینکڑو ں ہزا ر و ں صا حبا ن دِل کو یہ تجر با ت ہو ئے ہو نگے اور ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تما م مسلما نو ںکو اولیا ئ کی محبت عطا کر ے تا کہ وہ انکی بر کا ت سے اخذِ فیض کر یں۔ +رو ضہ شر یف کے د ا ئیں ہا تھ دو مسجد یں متصل ہیں۔ مسجد حنفی ، مسجد شا فعی۔ شا فعی مسلک کے لو گو ں کی الگ جما عت ہو تی ہے اور حنفی مسلک کے لو گو ں کی الگ ۔ تہجد کے لیے بھی اذا ن ہو تی ہے اور لو گ تہجد پڑ ھنے جو ق در جو ق آتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے فر ز ند عبد الجبا ر اور صا لح گیلانی کے مز ا را ت کی بھی زیا ر تیں تھیں۔ غو ث پاک کی در گا ہ میں مد ر سہ بھی ہے، جسے مد رسہ قا د ر یہ کہتے ہیں ،مگر اس میں تعلیم و تد ر یس کا کو ئی معقول انتظا م نہیں کوئی خا ص نصا ب بھی مقرر نہیں اور با قا عد ہ امتحا ن کا نظا م بھی نہیں۔ +مد رسہ کے ملحق ایک کتب خا نہ ِ یا لا ئبر یر ی ہے اس کا نام ہے۔ مکتبہ مد رسہ قا در یہ ، یہا ں کئی اچھی اور نا یا ب کتا بیں ہیں اور ہر لا ئبر یر ی کی طر ح یہا ں بھی یہی ضا بطہ ہے کہ وہیں بیٹھ کر مطا لعہ کر و ۔ ادھر ادھر کتب فر و شو ں کی دکا نیں ہیں ۔اپنے فطر ی ذوق و شوق کی بنیا د پر ہم تقر یبا ً ہر بڑی دکان پر گئے لیکن یہ دیکھ کر نہا یت افسو س ہو ا کہ یہاں محبوب سبحانی پیرا ن پیر جنا ب شیخ عبدا لقا در جیلا نی رح) کے ذا تی احو ال و کو ائف پر مستند اور جا مع کتا بیں نہیں مل سکیں۔ ویسے بھی اس موضو ع پر ابھی بہت کچھ لکھنے کی ضر و ر ت ہے ۔صو فیا ئ اولیا ئ میں عام طو ر پر علما ئ کے خلا ف جذ با ت پا ئے جا تے ہیں اور وہ اس لیے کہ اس تعصب کی ابتدا ئ علما ئ ہی کی طر ف سے ہو ئی جنہو ں نے دین کو صر ف ظو اہر تک محد و د کر دیا ۔ صو فیا ئ بالعمو م طر یقت اور شر یعت میں حد یں کھینچنے لگتے ہیں حضرت شیخ عبدالقا د ر جیلا نی بہت بڑے عا لم بھی تھے اور سر تا ج الاولیا ئ بھی ، انہو ں نے یہ حد یں مٹا دیں، شر یعت اور طر یقت کو ملا دیا اور سمجھا دیا کہ طر یقت شر یعت سے الگ نہیں۔ یوں یہ ��قیقت سا منے لے آئے کہ �ò +خلا فِ پیمبر کسے راہ گز ید +کہ ہر گز بمنز ل نخو اہد رسید +اسی محلہ میں آگے سبز ی منڈی ہے۔ اس منڈی کے در میا ن میں حضرت شیخ سرا ج الد ین ابو حفص عمر بن علی مقر ی کا مزار ہے۔ وہ حضرت محبو ب سبحا نی کے استاد تھے ۔ +بغدا د شر یف سے تیس میل جنو ب مشر ق میں ایک بستی ہے جس کا نام سلما ن پاک ہے ۔یہا ں حضرت سلما ن فا ر سی (رض) کا مز ار ہے جو معرو ف صحا بی ہیں۔ بہت بڑی وسیع عما ر ت ہے بڑ ا خو بصو ر ت اور عظیم الشا ن گیٹ ہے۔ اندر ایک کشا دہ صحن ہے اور شا ند ار قبہ ہے جس کے اند ر جا لیو ں میں حضرت سلما ن (رض) فا ر سی کا مز ا رہے۔ اس کے با ئیں طر ف ایک اور مقتد ر صحا بی حضرت حذیفہ (رض) بن الیما ن کا مر قد ہے ، بر ابر میں در وا زہ ہے۔ اس میں ایک اور عظیم صحا بی حضرت جا بر بن (رض) عبد اللہ انصا ری اور حضرت محمد طا ہر بن امام زین العا بد ین مد فو ن ہیں۔ ان دونو ں حجرو ں کے در میا ن چھو ٹی سی مسجد ہے ۔یہا ں کی زیا رات سے فا رغ ہو کر ہم ایک اور تاریخی یا د گا ر گئے اور وہ ہے قصرِ کسرٰ ی ، یہ کسرٰ ی شا ہ ایرا ن کا محل ہے جو متذ کر ہ با لا مزاروں سے صر ف ایک فر لا نگ کے فا صلہ پر وا قع ہے ۔ حضو ر سر و ر ِ عالم �ö کی ولا دت با سعا د ت پر اسی قصر میں زلزلہ آیا اور اس کے چو د ہ کنگرے گر پڑ ے ۔ چو دہ کنگر ے اور پھٹی ہو ئی دیوا ر کو تا ریخی یا د گا ر کے طور پر محفو ظ کر لیا گیا ہے ۔ یہ محل دیکھ کر بے اختیا ر حضور سر ور ِ کا ئنا ت �ö کا تصو را و ر انکی پو ر ی زند گی ذہن میں تا زہ ہو جا تی ہے ۔یہ قصرِ کسر ٰ ی کے چو دہ کنگر ے نہیں گر ے تھے، ملو کیت کے تخت الٹ گئے تھے اور ملو کیت پر مہر ِ اختتا م ثبت ہو گئی تھی۔ سلطا نی ٔ جمہو ر کا آغاز ہو گیا تھا اور جس جمہو ر یت کے آج چر چے ہو رہے ہیں ۔اسکی خشتِ اول رکھ دی گئی تھی۔ ہو ائی اڈہ کے سا تھ ہی بغدا د شر یف کا بڑ ا سٹیشن ہے جسے محبط العا لمی کہتے ہیں۔یہا ں سے ریل گا ڑی مو صل ، شا م ، تر کی ہو تی ہوئی اور بہت سے ملکو ں سے گز ر تی ہو ئی سید ھی لند ن پہنچتی ہے ۔ را ستہ میں چا لیس میل سمند ر پڑتا ہے یہا ں ایک بڑے جہا ز پر ریلو ے لا ئن بنی ہوئی ہے۔ ٹر ین اسی سے گز رتی ہے اس سے پہلے اور اس کے بعد تو سا را سفر خشکی کا ہے ۔ آٹھ روز کے طو یل سفر کے بعد یہ ٹر ین لند ن پہنچتی ہے ۔ ریلو ے سٹیشن بغدا د شر یف کا ایک قا بل دید مقا م بن گیا ہے۔ ٹر ین کے ڈبے بھی بہت خوبصورت اور آرام دہ ہیں عرا ق میں قبلہ جا نبِ جنو ب ہے ۔ +اے کر بلا کی خا ک +غر یب و سادہ رنگیں ہے داستانِ حر م +نہایت اسکی حسین (رض) ابتدائی ہے اسمٰعیل (ع) +بغدا د شر یف سے کر بلا کی جا نب رو انہ ہوئے۔ جنو ب کی طر ف 34 میل کے فا صلہ پر فلو ح آبا د ہے۔ بڑ اآبا د شہر ہے ۔اسکے ایک طر ف در یا ئے فرات ہے ۔فرا ت کا پا نی بہت گد لا ہے ۔ذا ئقہ میں پھیکا ہے۔ پا نی اوک میں بھر لیا اور آنکھوں سے بھی پا نی بہنے لگا، سو چنے لگے ،اسی پانی کے لیے تاریخ کا سب سے بڑ اظلم ہو ا ،اور خدا کی را ہ میں سب سے بڑی قر با نی دی گئی کسی کا شعر یا د آگیا ہے �ò +خا ک ہو جا خا ک ہو کر ، خا ک میں مل جا فرا ت +خاک تجھ پر دیکھ تو سو کھی زبانِ اہل بیت +فرا ت پر بڑ ا خو بصو ر ت پُل بنا ہو اہے۔ سا تھ ہی ہو ٹل ہیں آگے ایک دو ر اہا آتا ہے جہا ں سے ایک سڑ ک دمشق کو جا تی ہے، دو سری کر بلا ئے معلی کو ، ہم کر بلا ئے معلی کی سڑ ک پر چل پڑ ے کچھ فا صلہ طے کیا تو ایک لق و دق ریگستان شر و ع ہو گیا ہر طر ف ریت ہی ریت ۔ فر ا ت کے کنارے ایک معمو لی سی بستی مسیب ہے ۔یہا ں سے سڑ ک چھو ڑ کر دو میل کچی سڑ ک پر جا ئیں تو امام مسلم (رح) کے فرز ند ان ِ معصو م حضرت عو ن اور حضرت محمد کے مز ا ر ات ہیں۔ بڑی سی عما ر ت ہے اس میں دو چھوٹے چھو ٹے سبز گنبد ہیں جو ایک دو سرے کے سامنے ہیں ۔در گا ہ کے در وازہ پر تصو یریں بنی ہو ئی ہیں۔ حا رث نے مسلم کے لعلوں کے منہ پر پٹیا ں با ند ھ رکھی ہیں ۔ایک کو ذبح کر رہا ہے ،خو ن بہتا دکھا یا گیا ہے دو سر ا بند ھا ہو ا اپنے قتل کا انتظا ر کر رہا ہے۔ بڑی گر یہ آور تصو یر یں ہیں سسکیا ں نکلنے لگتی ہیں۔ یہا ں سے فا ر غ ہو کر ہم پھر پختہ سڑ ک پر آگئے۔ دو ر سے ہی دو سبز گنبد دکھائی دے رہے تھے۔ ایک جنا ب ِ اما م حسین (رض) کا اور دوسرا جنا ب عبا س علمدار کا ہے ۔ +کر بلا بہت بڑ ا شہر ہے ۔بغدا د شر یف سے جا نب جنو ب ہے۔ کھجو ر کے با غا ت ہیں خو بصو ر ت دلکش با ز ا ر ہے۔ حضرت سید الشہد ا کے مز ا ر کے گنبد پر سو نے کا پترا چڑ ھا ہو ا ہے۔ بڑی محرا ب پر بھی سو نے کا پر ت ہے۔ اس مزا ر کے دو سرے قبہ میں دو حصے ہیں ان میں حضرت علی اکبر ا ور معصوم علی اصغر کے مزا رہیں اسی عما رت میں قر یب ہی سید ابر اہیم حجاب بن اما م مو سیٰ بن جعفر کی قبر ہے ۔کچھ آگے حبیب بن مظا ہر کی قبر ہے۔ ذر ا آگے حضرت قا سم بن حسن کا مزا ر ہے ۔آگے گنجِ شہیدا ن ہے یعنی بہتر شہید ائے کر بلا کے مزا ر ہیں۔ حضرت علی بن امام مو سیٰ کا ظم بھی اسی رو ضہ میں ابد ی نیند سو رہے ہیں۔ حضرت قا سم کا جسد مبا رک یہا ں دفن ہے۔ انکا سر مبا ر ک شیرا ن تہر ان میں دفن بتا یا جا تا ہے ۔ اسی عما ر ت میں ایک مضبو ط حجر ہ بنا ہو اہے۔ اس کے اندر گہرا تہہ خا نہ غا ر کی طر ح کا ہے۔ اس کے منہ پر مضبو ط جا لی لگی ہوئی ہے ۔جا لی پر مضبو ط در و ا زہ ہے۔ یہ در و ازہ اٹھا کر جھا نکیں تو نیچے حضرت اما م حسین کی قتل گا ہ ہے۔ اب زمین بہت او نچی ہوگئی ہے ،اس لیے یہ جگہ بہت نیچے ہے ۔اسکی زیا ر ت بڑے اہتما م سے کرائی جا تی ہے۔ کچھ دو ر جا کر حضرت عبا س علمدا ر کی شہا دت گا ہ اور قبر ہے ۔اس مزا ر کا گنبد بہت بڑا ہے ہر رو ضے کے اندر شیشہ لگا ہو اہے۔ کربلا کے کنا رہ پر 45 میل لمبی جھیل ہے ۔ کر بلا ئے معلی سے تین میل دور کچی سڑ ک پر حضرت حُر بن یز ید ریا حی کا مقبر ہ ہے۔ اس پر بھی بہت شاندار گنبد ہے ۔مقبرہ کے در و ا زے پر بڑے بڑے تصو یری چو کھٹے نصب ہیں ایک تصو یر میں حُر حضرت اما م حسین کے آگے تو بہ کر رہے ہیں۔ حضرت اما م کا دستِ مبا رک حُر کے سر پر ہے اور وہ اسے تسلی دے رہے ہیں ، دو سری تصو یر میں جنگ کا نقشہ دکھا یا گیا ہے۔ حُر حا لتِ پیکا ر میں ہیں اور انکا گھو ڑا یز ید ی لا شو ں کو رو ند رہا ہے اردگر د سر کٹے پڑ ے ہیں۔ +ہما رے پو چھنے پر معلو م ہو اکہ کر بلا ئے معلی میں سنیوں کے بھی سو ڈیڑ ھ سو گھر ہیں۔ انکی اپنی الگ مسجد بھی ہے۔ یہ اہل سنت زیا دہ تر مالکی مسلک کے ہیں ۔پو چھنے پر معلو م ہو ا کہ یہا ں شیعہ سنی میں کو ئی کشید گی نہیں۔ دو نو ں آزا دی سے اپنے مذہبی کا م سر انجا م دیتے ہیں ۔یہا ں کے خر بوز ے بھی بڑے لذیذ ہیں مگر تر بو ز بہت شیر یں ہو تے ہیں ۔شکل میں یہ لمبے ہو تے ہیں یہاں با ز ا ر بھی بہت ہیں، صر ا فہ با زا ر بھی الگ سے ہے ۔یہاں ریلوے سٹیشن بھی ہے چھو ٹی ٹرین چلتی ہے ۔یہ ریلوے لا ئین خا لقین یعنی سر حدِ ایرا ن سے آتی ہے۔بغدا د ، کر بلا سے ہو تی ہو ئی بصر ہ کی طر ف نکل جا تی ہے ۔ +نجف اشر ف اور کو فہ +اقبا ل نے کہا تھا �ò سر مہ ہے میری آنکھ کا خا کِ مدینہ و نجف ، +مد ینہ تو مدینہ ہے کہ �ò +گفت معشو قے با عا شق کا ئے فتیٰ اے کہ بہر ِ ما تو دید ی شہر ہا +پس کد ا مے شہر شہرا ں خو شترا ست گفت آں شہر ے کہ درو ے دلبراست +﴿معشوق نے عا شق سے کہا! اے جوان تو نے ہما رے لیے بہت سے شہر دیکھے۔ پس ان شہر وں میں سب سے اچھا شہر کو نسا پا یا۔ عا شق نے کہا وہی شہر سب شہرو ں سے اچھا ہے جس میں دلبر رہتا ہو﴾ +مدینہ تو مدینۃ النبی ہے۔ نجف کو شر ف جناب علی المر تضٰی نے بخشا ۔ یہا ں حضرت علی المر تضیٰ کا رو ضہ مبا رکہ ہے ۔سبز گنبد دور سے نظر آتا ہے ۔ یہاں بہت خو بصو رت چھتا ہو ا بازا ر ہے۔ جنا ب علی المر تضیٰ (رض) کا روضہ مبا رکہ بڑ اہی مز ین اور خوبصو ر ت ہے۔ قبر شر یف سبز جا لیو ں کے اند ر ہے۔ مز ا ر شریف پر کئی من سو نا لگا ہو ا ہے ۔چا ند ی کا تو حسا ب ہی نہیں۔ اسی رو ضہ کے با عث یہ شہر نجف آبا د ہوا۔ قبر ستان بہت بڑ ا ہے کیونکہ امیر شیعہ لوگوں کی لا شیں دو سرے ملکو ں سے بھی یہا ں لا کر دفن کی جا تی ہیں ۔ کو فہ یہا ں سے قر یب ہے ۔بڑ اسر سبز و شا دا ب علا قہ ہے۔ ہر طرف ہر یا لی ہی ہر یا لی ہے ۔کو فہ شہر کے کنا رے پر بہت بڑی مسجد ہے ۔دیوا ر ِ قبلہ کے وسط میں خو بصو ر ت محرا ب ہے جوسنہر ی جا لی دا ر کواڑو ں سے بند ہے یہی وہ جگہ ہے ،جہاں اسد اللہ الغا لب حضرت علی ابن ابی طا لب کو شہید کیا گیا۔ یہیں شقی ازلی عبدالر حمن بن ملجم خا رجی نے آپ پر وار کر کے آپ کو زخمی کیا تھا ۔ مسجد کا وسیع و عر یض صحن ہے جس میں چا ر محرا بیں ہیں۔ یہ چا رمصلے ّ کہلا تی ہیں۔ ۱﴾ مصلیٰ جبر یل ۲﴾ مصلیٰ آدم ۳﴾ مصلیٰ زین العا بد ین ۴﴾ مصلیٰ خضر ۔ ان کے متعلق عجیب و غر یب رو ایا ت بیان کی جا تی ہیں۔ مصلیٰ جبر یل کی وجہ تسمیہ بیان کر تے ہوئے ہمیں بتا یا گیا کہ ایک روز جنا ب علی المر تضیٰ یہا ں تشر یف فر ما تھے ارد گرد بہت سے لو گ جمع تھے۔ جنا ب با ب العلم حضرت علی (رض) نے فر ما یا’’ میں یہاں بیٹھا ہو ں اور عرش و فر ش میری نگا ہ میں ہیں ۔ اور ہر چیز میرے علم کی گر فت میں ہے حا ضر ین میں شمر ذی الجو شن بھی مو جو د تھا اس نے پو چھا ‘‘ ’’ پھر بتا ئیے میرے سر میں کتنے سفید با ل ہیں ؟ ‘‘ آپ (رض) نے فر ما یا ’’ اکتیس 31 ہیں اور ہر با ل کے نیچے کفر و نفا ق چھپا ہوا ہے ‘‘ ایک اور شخص نے پو چھا ’’ بتا ئیے اس وقت جبر یل کہا ں ہیں‘‘ آپ تھوڑی دیر کے لیے مر اقبہ میں چلے گئے ’’ فر ما یا آسمان ، زمین میں نہیں ، اپنے آشیا نے سدرہ میں بھی نہیں ، کسی اور کو نے میں نہیں بلکہ اسی مجمع میں ہے اور وہ تم ہی ہو اے سا ئل تم یہاں شکل اِنسا نی میں بیٹھے ہو ‘‘ کہتے ہیں اسی روز سے اس جگہ کا نام مصلیٰ جبر یل پڑ گیا ۔ +ان چا ر محرا بو ں کے علا وہ دو ا ور محرا بیں بھی ہیں۔ ایک کا نام دا ر القضا ئ ہے یہا ں بیٹھ کر امیر المؤ منین علی المر تضیٰ عد الت کر تے اور دو سرے محراب جو محکمہ کے نا م سے مشہو ر ہے۔ وہا ں بیٹھ کر آپ احکام صا د ر فر ما تے تھے ۔ یہ بھی بتا یا گیا کہ جنا ب علی المر تضیٰ کے رو ضہ میں حضرت آدم اور جنا ب نوح علیہ السلام کے مزا ر بھی ہیں۔ +اس صحن میں ایک وسیع گہر ا غا ر ہے اسے آہنی جنگلے نے گھیر ا رکھا ہے۔ نیچے اتر نے کے لیے سیڑ ھیا ں لگی ہو ئی ہیں بتا یا جا تا ہے کہ یہی وہ تنور ہے جہاں سے نو ح علیہ السلام کے زما نہ میں پا نی ابلنا شر و ع ہو ا تھا جو طو فا ن نِو ح (ع) کا سبب بنا تھا ۔ +مسجد کے گر د مشر قی دیوا ر میں ایک بہت وسیع کمرہ ہے اس پر بھی سبز رنگ کا گنبد ہے یہ حضرت اما م مسلم (رح)کی قبر شر یف ہے جا لی کے اند ر بڑی خوبصو ر ت قبر ہے ۔ اس کے سا منے مغر بی دیوا ر میں بھی ایک سبز گنبد والی عما ر ت ہے اس میں حضرت ہا نی بن عر وہ کی قبر ہے یہ وہی ہا نی بن عروہ ہیں جنہو ں نے اہل ِ کو فہ کی بے وفا ئی کے بعد حضرت اما م مسلم کو اپنے گھر میں جگہ دی اور آپ کی حفا ظت میں خو د شہید ہو گئے۔ اس حجر ہ سے ملا ہوا ایک گو شے میں ایک اور حجر ہ ہے اس میں مشہو ر تا ریخی کر دا ر مختا ر بن عبید کی قبر ہے۔ یہ وہی مختا ر بن عبید ہے جس نے وا قعہ کر بلا کے بعد شیعان علی کے جذبا ت سے فا ئد ہ اٹھا یا ، انہیں ابھا ر کر حضرت حسین پر ظلم کا بد لہ یزید یو ں سے لیا ابنِ زیا د کو قتل کر ایا مگر بعد میں مشہو ر روا یت کے مطا بق خود مد عی نبو ت ہو گیا اور امو ی با د شا ہ عبد الملک بن عمرا ن نے اسے قتل کر دیا اس طرح یہ مر تد ہو کرما را گیا مگر شیعہ حضرا ت دشمن یز ید ہو نے کے باعث اسکی قبر کا احترا م کر تے ہیں یہا ںسے تھوڑ ے فا صلہ پر دا ر لقضا ئ ہے ۔یہ وہ جگہ ہے جہا ں ابنِ زیا د کے سامنے حضرت اما م حسین کا سر لا یا گیا پھر اسی جگہ مختا ر بن عبید کے سا منے ابن زیا د کا سر لا یا گیا پھر عبد الملک کے سا منے مختا ر بن عبید کا سر لا یاگیا ۔ عبد الملک نے یہا ں قا ئم شدہ عمار ت کو منحو س سمجھ کر گرا دیا تھا۔ اب وہ جگہ ویرا ن پڑ ی ہے وہا ں کوئی نشا ن مو جو د نہیں۔ +اب کو فہ کا پرا نا شہر ایک بستی کی طر ح ہے۔ یہا ں سے واپس بغدا د دو سرے را ستے سے جا ئیں تو لبِ دریا ئے فرا ت ایک مقا م آتا ہے جس کے متعلق مشہو ر ہے کہ یہا ں مچھلی نے یو نس علیہ السلام کو اپنے شکم سے با ہر اگل دیا تھا ۔ آگے حُلّہ آجا تا ہے۔ یہا ںخو بصو ر ت پل ہے، پختہ سڑ ک سے فا صلہ پر کچی سڑ ک ہے جو فر ا ت کے کنا رے کنا رے جا تی ہے اس پر ذرا آگے جا ئیں تو فرا ت کے کنا رے پر ایک جگہ کو مقا مِ ایو ب (ع)کہتے ہیں۔ وہا ں ایک گنبد ہے۔ اسی گنبد میں ایک کٹہر ے میں گھر ی ہوئی حضرت ایو ب (ع) کی زوجہ محتر مہ ’’ رحمت ‘‘ کی قبر ہے ۔سا منے برآمد ہ ہے۔ ایک خا دم بھی یہاں رہتا ہے۔ اسکے پیچھے دو چشمے ہیں جو اب کنو ئو ں کی شکل اختیا ر کر گئے ہیں۔ +سا منے دو غسل خا نے ہیں ۔ایک مر دانہ ایک ز نا نہ ، یہ حجر ہ وہ ہے جس کے متعلق بتا یا جا تا ہے کہ یہاں ایو ب علیہ السلام نے اپنا زما نۂ علالت گزارا اورآپ کی زو جۂ محتر مہ رحمت نے صبر و شکر سے آپ کی خد مت کی ۔یہ دو چشمے وہی بتا ئے جا تے ہیں جو آپ کی ایڑ ی کی رگڑ سے پیدا ہو ئے۔ ان چشمو ں کا ذکر قرآنِ حکیم میں بھی آیا ہے ’’ھٰذا غسل و ھذا مغتسل‘‘ ایک چشمہ غسل کے لیے ہے اور دو سرا پینے کے لیے ۔ یہاں بہت سے بیما ر لو گ آتے اور لائے جا تے ہیں۔ ایک چشمے کے پا نی سے نہا تے ہیں اور دوسرے کا پا نی پیتے ہیں جو چشمہ پینے کے پانی کا ہے اس کا پانی شیر یں اور ٹھنڈا ہے ۔ انکے ارد گرد کچھ کھجو رو ں کے در خت بھی ہیں۔ ایک کھجو ر کے ایک پر ا نے در خت کے متعلق مشہو ر ہے کہ یہ حضرت ایو ب علیہ السلام کے زمانہ کا ہے۔ لو گ اسکی چھا ل لے جا تے ہیں اسے گھس کر بیما ر کے ضما د کرتے ہیں اور مشہو ر ہے کہ شفا بھی پا تے ہیں۔ +حُلہ شہر میں ریلو ے سٹیشن بھی ہے ۔یہ بغدا د سے بصر ہ جا نے والی گا ڑی کی گزر گا ہ پر ہے۔ اچھا خو بصو ر ت سٹیشن ہے۔ حُلہ سے کچھ دو ر کچی سڑک پر شہر با بلین تھا ۔ یہی نمر ود کی تخت گا ہ یا دا ر السلطنت تھا۔ یہیں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے لیے نمر ود نے آگ بھڑ کا ئی تھی جو خدا نے گلزا ر بنا دی۔ اب یہاں کوئی آبا دی نہیں۔ کہیں کہیں کھنڈر ہیں جو کچھ کہا نیا ں سنا تے ہیں ۔ +ایک با ت اور کہ کر بلا ئے معلی سے نجف اشر ف تک کوئی آبا دی نہیں۔ نجف اشر ف کے کنا رے پر ایک پرا نا وسیع قبرستا ن ہے جس میں پتھروں کی قبر یں ہیں ۔دو قبر و ں پر سبز قبے ہیں ۔ہ��یں بتا یا گیا کہ یہ حضرت صا لح علیہ السلام اور حضرت ہود علیہ السلام کے مزا ر ہیں۔ اسی قبر ستان میں رسول اللہ �ö کے مقتد ر صحا بی حضرت ابو مو سی ٰ اشعر ی کا مزا ر بھی ہے ۔ +بصر ہ بغدا دشریف سے بہت د ور ہے یہا ں سے تقر یبا ً دو گھنٹے کے سفر پر صفوا ن کی چیک پو سٹ ہے جو عرا ق کی آخر ی سر حد ہے ۔اس کے بعد کویت کا علا قہ شر و ع ہو جا تا ہے ۔ +بصر ہ ہی میںجنگ جمل پیش آئی تھی اورفتنہ پسند و ں نے اُم المؤ منین عا ئشہ صد یقہ (رض) اور امیر المؤ منین حضرت علی ابن ابی طا لب کے درمیان جنگ بپا کر ائی تھی ۔ اس لیے یہا ں صحا بہ رضوا ن اللہ علیھم اجمعین کی قبر یں ہیں۔ بصر ہ کے را ستے میں بہت ہی ظا لم اور خو فنا ک ریگستا ن ہے۔ یہاں تیل کثر ت سے نکلتا ہے ۔پائیپ لا ئنو ں کے جال بچھے ہوئے ہیں یہاں دجلہ اور فرا ت مل کر بہتے ہیں۔ اور آگے جا کر سمند ر میں گر جاتے ہیں ۔بصر ہ انتہا ئی کا ر آمد اور اہم بند ر گاہ ہے۔ یہاں دنیا بھر سے ما ل بردار جہا ز آکر ٹھہر تے ہیں۔ سا ما ن لا تے اور لے جا تے ہیں ۔ یہا ں زیارت گا ہیں بھی بڑی اور اہم ہیں اور ہم جیسے لو گ یہا ں قد م قدم پر آنسو بہا تے اور ثوا ب سمیٹتے ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر کیا جا تا ہے۔ +۱:۔حضرت طلحہ (رض) کا مزار بصر ہ سے کچھ فا صلہ پر جنو ب کی سمت میں وا قع ہے۔ چٹیل میدا ن میں ٹو ٹا ہو ا گنبد نظر آتا ہے اس گنبد میں حضور �ö کے صحا بی کی قبر مبا رک شکستہ حا لت میں نظر آئی۔ شا ید کسی نے عر صہ سے مر مت نہیں کر ائی ۔ قبر کے ارد گر د چٹا ئیا ں پڑ ی ہیں صفا ئی وغیرہ کا بھی کوئی انتظا م نہ دیکھا۔ قبر بہت لمبی اور اُو نچی ہے اسکی اتنی لمبا ئی حیرا ن کُن ہے ۔قبر کا رنگ بھی بہت جگہ سے اکھڑا ہوا ہے۔ +۲:۔حضرت زبیر بن عوا م حضور �ö کے رشتہ میں بھا ئی ہیں ۔حضور �ö اور حضرت زبیر (رض) دو نو ں ہی حضرت صدیق اکبر (رض) کے دا ما د ہیں۔ حضرت زبیر (رض) کے گھر حضرت صدیق (رض) کی بڑ ی صا حبز ادی حضرت اسما ئ تھیں اور حضور �ö کے گھر حضرت صدیق (رض) کی چھو ٹی صاحبزادی ام المؤ منین عا ئشہ صد یقہ (رض) تھیں۔ انہی حضرت زبیر (رض) کے فر زند حضرت عبداللہ بن زبیر تھے ۔ حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) د ونو ں جنگ جمل میں شہید ہوئے ۔دو نو ں ام المؤ منین حضرت عائشہ صد یقہ (رض) کے سا تھی تھے ۔حضرت طلحہ (رض) کے مزا ر سے تقر یبا ً ایک میل کے فا صلہ پر ایک اچھا خا صا قصبہ آبا د ہے ،جس کا نام شیبہ ہے ۔یہا ں بڑ ی مسجد ہے اور مسجد کے جنو ب مغر ب میں اند ر کی طر ف حضرت زبیر (رض) کی قبر مبا ر ک ہے۔ قبر پر غلاف ہے آس پاس لکڑ ی کی جا لی ہے زا ئر ین کے لیے قا لین بچھا ہوا ہے یہا ں صفا ئی وغیر ہ کا اچھا انتظا م ہے حضرت طلحہ (رض) اور حضر ت زبیر (رض) دونوں جنگ جمل میں شہید ہو ئے اور یہ بھی بتا تا چلو ں کہ دو نو ں اُن اصحاب کر ام میں سے تھے جن کو حضور �ö نے جنت کی بشا ر ت دی تھی اس طرح دو نو ں ان دس صحا بہ میں شا مل تھے جنہیں عشرہ مبشر ہ کہتے ہیں۔ +۳:۔اسی مسجد میں حضرت زبیر (رض) العوام کے قر یب ہی حضرت عقبہ بن (رض) عز وا ن کی قبر بھی ہے ۔ایک شیشہ کی کھڑ کی لگی ہے جس سے مزا ر صاف نظر آتا ہے ۔ +۴:۔حضرت حسن بصر ی تا بعین میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ حضر ت علی المر تضیٰ (رض) کے خلیفہ ہیں صو فیا ئ کے تین سلسلے قادر یہ ، چشتیہ ، سہرور دیہ انہی سے چلے ہیں ۔ولی ٔ کا مل بھی تھے اور عالم با ِ عمل بھی ، آپ کا مزا ر جنا ب زبیر(رض) کے قر یب قبر ستا ن میں ہے او پر قبہ ہے، قبر کے ارد گر د قا لین بچھے ہیں +۵:۔حضرت خو ا جہ حسن بصر ی کے سا تھ ہی اسی قبہ میں حضرت محمد بن سی�� ین کی قبر مبا ر ک بھی ہے۔ یہ اما م بخاری اور اما م مسلم کے استا د ہیں۔ +سفرِ عرا ق کے تا ثر ات +الا قصیٰ کا نفر نس میں شر کت سے بہت کچھ حاصل ہو ا ۔ سب سے بڑی با ت تو یہ کہ یہا ں شد ت سے احسا س ہو ا کہ مسلما نو ں کا اصل مسئلہ کم ما ئے گی نہیں ،دو ں ہمتی ہے۔ انکے مقا بلہ میں اسر ائیل کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں دنیا کی سپر پا ور ز کو یہ آج بھی سر نگو ں کر سکتے ہیں۔ تیل جیسی طا قت انکے ہا تھ میں ہے دو لت انکے پاس ہے افرا دی قو ت انکے پا س ہے اور یہ افرا د ی قو ت ایسی نہیں کہ گنتی پو ری کر نے والے کا غذی سپا ہی ہیں ،نہیں جو ش و ولولہ سے بھر ے ہوئے مسلما ن جو ان ہیں۔ مسلما ن لا کھ بے عمل ہو ں، ضعیف الا عتقا د ہو ں یہ جذبہ ان میں ہمیشہ زند ہ رہا ہے کہ جب اسلا م کے نام پر انہیں بلا یا جا ئے تو صف درصف آتے ہیں۔جو ق در جو ق آتے ہیںاور اپنی جا نیں ہتھیلی پر رکھ کر آتے ہیں شرط صر ف یہ ہے کہ بلا نے ولا مخلص ہو اور اسکے جذبا ت سچے ہو ں۔ +الا قصیٰ کا نفر نس نے میرے اپنے تبلیغی مشن میں بھی مجھے بڑھا وا دیا اور میرے اند ر نئی رو ح پھونک دی یہاں اپنی ہی سو چ رکھنے والے بہت سے احبا ب سے ملا قا تیں ہو ئیں امتِ مسلمہ کے دکھو ں کی چا رہ سا زی مل بیٹھ کے سو چتے رہے ، خا ص طو ر پر گیلا نی محمود را مز سے کئی ملاقا تیں رہیں انہو ں نے آکسفو ر ڈ یو نیو ر سٹی سے تعلیم حاصل کی ہے بڑی صلا حیتو ں کے حا مل ہیں یہاں انہیں خا صی شہر ت بھی حا صل ہے ۔زیا ر ات کے ساتھ وزا ر تِ او قا ف کی لائبر یری دیکھی۔ بڑی لا ئبر یری ہے کئی کتا بو ں کے قلمی نسخے مو جو د ہیں قر آن ِ حکیم کے کئی نا یا ب قلمی نسخے بھی اس لائبر یر ی کی زینت ہیں۔ شا م اور حلب کے مشا ئخ پر بھی کتا بیں مو جو د ہیں۔ وز یر ا وقا ف سے ملا قا ت ہو ئی۔ انکا اسم گرامی سید عبدا للہ ہے ۔ان سے مذہب اور سیا ست کے مو ضو عا ت پر گفتگو ہو تی رہی ۔میں نے انہیں شیخ شبلی کے مزا ر اور بعض دیگر مزارا ت کی زبو ںحا لی پر بھی تو جہ دلا ئی۔ طلبہ کے و ظائف کے لیے بھی کہا۔ یہ وظا ئف دراصل پاکستان اور بر طا نیہ سے عراق کی یو نیو ر سٹیو ں میں حصو ل تعلیم کی خا طر آنیوالے طلبہ کے تھے۔ انہوں نے ان امو ر کی طر ف خصو صی تو جہ دینے کا وعد ہ کیا ۔ +عرا ق کی عا م معا شر تی زند گی میں مغر بی تہذ یب کے اثرا ت نما یا ں ہو نے لگے ہیں۔ سینما ،کلب وغیر ہ عا م ہیں۔ نا چ گا نے کا رو اج بھی ہے اور بڑ ھ رہا ہے ۔علم و ادب کے محا ذ پر بھی اسلامی طر زِ فکر رکھنے والے لو گ محجو ب سے نظر آتے ہیں۔ یہ کچھ اچھے آثا ر نہیں۔ +ایک اور با ت جو میں نے خا ص طو رپر نوٹ کی یہاں پاکستان کے مقا بلہ میں بھا رت کا پر و پیگنڈا زیا دہ ہے، اسکا سکہ بھی یہا ں مقبول ہے، اہل پاکستا ن کو اس طرف خصو صی تو جہ دینی چا ہیے ۔ یہاں بلکہ تمام عرب مما لک میں بیدا ر دما غ اور متحر ک سفیر بھیجنے چا ہییں۔ +کچھ اور چیز یں جنہیں معلو م کر کے مجھے بے انتہا مسر ت ہو ئی یہ ہیں کہ اس وقت تک شیعہ سنی تعصب زیا دہ نہیں اسی طر ح ما لکی ، شافعی ، حنبلی ، حنفی مسالک کے لو گ بھی با ہمی تکفیر کے تشد د پسند انہ رجحا نا ت نہیں رکھتے ۔ یہ معلو م کر کے بھی خو شی ہو ئی بلکہ خو شی کی انتہا نہ رہی کہ عراق میں میلا د النبی سر کا ر ی طور پر منا یا جا تا ہے اس طر ح شب معرا ج ، شب ِ قدر شبِ برات کے ایا م بھی منا ئے جا تے ہیں۔ +بز ر گا نِ دین کے عر س بھی مقا می طو ر پر سر کا ری سر پر ستی میں منا ئے جا تے ہیںاور محکمہ اوقا ف خا صا سر گر م رہتا ہے۔ عرا ق کے بڑ ے شہر و ں میں جہا ں تہا ں لا ئبر یریا ں بھی ہ��ں، تیل والے علا قو ں میں لو گ فا ر غ البا ل ہیں اور مہنگا ئی بھی ہے ۔با لعمو م لو گو ں کی معا شی حا لت اچھی ہے۔ ان عر ب علا قو ں میں ایک اور با ت دیکھنے میں آئی کہ یہاں دا ڑھی کا رو اج کم اور نہ ہو نے کے برا بر ہے ۔مسجد کے اما م اور خطیب بھی بے ریش ہو تے ہیں۔ خطیب جمعہ پڑھا نے آتے ہیں تو تا زہ شیو کر کے آتے ہیں۔ مسجد کا احترا م بھی ایسا نہیں جیسا ہم برصغیر کے مسلما نو ں میں ہے ۔صحنِ مسجد میں جو تو ں سمیت پھر تے ہیں جب نماز پڑ ھنے کے قا لین کے قر یب آتے ہیںتو جو تے اتا ر تے ہیں۔ +اردن کا سفر بھی کا نفر نس کے سلسلہ میں تھا ۔ 6 جنور ی 1991 �÷ئ کو ہم ارد ن پہنچے کانفر نس میں کئی مما لک کے علما ئے کر ام آئے ہو ئے تھے۔ خو ب خوب ملا قا تیں ہو ئیں اجتما عا ت میں شر کت کی سا تھ ہی زیارات کا سلسلہ بھی جا ری رکھا ۔ مقام بنی شعیب پر گئے ۔یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کا مزا ر دیکھا اور ذہن اُس قو م کی طرف چلا گیا ۔جو نا پ تو ل میں کمی کر تی تھی اور جس کا ذکر کر تے ہو ئے۔ قر آن حکیم نے ’’ صلوٰۃ‘‘ کا جا مع مفہو م وا ضح کر دیا اُس قو م کے لو گ بھی یہی نظر یہ رکھتے تھے جو آج کے رو شن دو ر کے صا حب علم و دا نش کہلا نے والے رکھتے ہیں کہ مذہب خدا اور بندے کا پرا ئیو یٹ تعلق ہے۔ انہو ں نے کہا تھا ۔ +یشعیب اصلٰو تُک تأ مُرْ کَ اَن نتْرُ کَ ما یعبدُ اٰ بَا ؤُ نا اَ و اَنْ نَّفْعَلَ فی اموالنا ما نشؤُ ا ط +﴿ اے شعیب (ع) کیا تیر ی نما ز تجھے یہ بھی حکم دیتی ہے کہ ہم انکی پر ستش چھو ڑ دیں جنکی پر ستش ہما رے آبا ئو اجدا د کر تے تھے اور ہم اپنا مال حا صل کرنے کے لیے اپنی مر ضی استعمال نہ کر یں﴾ +یعنی یہ عجیب نماز ہے جو ہمیں اپنے آبا ئ و اجدا د کے معبو د وں سے روکتی ہے اور ہما رے تر از و ئوں کو پکڑ لیتی ہے کہ ہم ڈنڈی نہ ما ریں۔ تو اپنے انداز کی پر ستش کر ہمیں اپنے اندا ز کی پر ستش کر نے دے ۔سیکو لرا ز م پر دو نو ں عمل کر یں اور یہ کیا کہ تیری نماز مسجد سے نکل کر ما رکیٹ میں آجا تی ہے۔ ہا ں یہ اس شعیب علیہ السلام کا مزا ر ہے جنہیں خدا نے مو سی ٰ علیہ السلا م جیسا دا ما د عطا کیا جو سا لہاسا ل تک آپ کا شبا ن ﴿گڈریا ﴾ رہا آپ کی بھیڑ یں چرا تا رہا اور جسے اللہ تعالیٰ نے اولو العز م بنا دیا اقبال نے کہا تھا �ò +اگر کوئی شعیب آئے میسر +شِبانی سے کلیمی دو قدم ہے +اردون کا پرا نا شہر دیکھے رومتہ الکبٰری کے عظیم تمد ن کی کھنڈر ہو تی ہو ئی عما ر ات دیکھیں ۔ +’’فَاْ عتبُِرِوْاَیاْ اُوِلی اْلا لالباب‘‘ +﴿عبر ت حا صل کر اے آنکھو والو ﴾ +اصحا ب کہف کے غا ر دیکھے ۔وہی اصحا ب کہف جو بر سوں ان غا ر وں میں چھپے رہے اور جن کے سِکے پر انے ہو گئے تھے ۔مجھے خیا ل آیا کہ ہمیں بھی لو گ اصحا ب کہف ہی خیا ل کرتے ہیں اور ہم پر ہنستے ہیں کہ ہم اس دو ر میں چو دہ سو سال پر انی با تیں کر تے ہیں ۔ہم اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہیں ۔یہ خیال آیا تو ایک قو لِ رسو ل �ö ذہن میں ابھرا اور قلب و رو ح شا د کا م ہو گئے۔ +’’ بدئَ الا سلام غریباً سیعو دالی الغر با فطو بیٰ للغربا‘‘ +﴿اسلام آیا تو اُسے اجنبی سمجھا گیا وہ جلد ان لوگو ں کی طرف لو ٹ جائے گا جنہیں اپنے معا شرہ میں اجنبی سمجھا جائے گا پس بشا ر ت اور خو شخبر ی ہے ان لو گوں کے لیے جنہیں اجنبی سمجھا جائے گا ﴾ +عبد اللہ الفاصل ، ڈاکٹر شریف اور عد نا ن سے ملا قا تیں ہو ئیں۔ +اردو ن کا دا ر الخلا فہ، عما ن ہے۔ پہا ڑ وں میں گھر ا ہوا خو بصو ر ت شہر ہے ۔یہا ں کے لو گ بھی بڑے خوبصورت خو ش اور اخلا ق و شیریں مقال ہیں ۔شہ�� نشیب و فرا ز میں ہے کچھ گھر بہت بلند ی پر ہیں توکچھ پستی میں۔ یہاں با د شا ہی محل اور جا معہ حسینیہ قا بل دِید مقا ما ت ہیں۔ قصرِ شاہی کو وسیع اور انتہا ئی خو بصور ت با غ اپنی گو د میں سمیٹے کھڑا ہے۔ یہ شا ہ حسین کا محل ہے ۔ ’’ جا معہ حسینیہ ‘‘ جس کا نام جنا ب حسین (رض) کے تقد س کے سا تھ ۔شا ہ حسین کے نام کی شا ن و شو کت بھی رکھتا ہے ۔عما ن کے آخر ی سرے پر خو بصو ر ت تین منزلہ عما ر ت ہے۔ تعمیر میں سفید او ر سیا ہ سنگِ مر مر استعما ل ہو اہے۔ پہلی منزل میں مد رسہ ہے اوپر کی دو منز لو ں میں مسجد ہے۔ مر دو ں کے لیے الگ خو اتین کے لیے الگ ۔اس کے با نی حسین بن طلا ل ہیں ۔یہاں طالب علم انگر یز ی لبا س میں ملبو س رہتے ہیں ۔مؤذن اور اما م بھی ایسے ہیں۔ با لعمو م ننگے سر ہی اذا ن وغیر ہ ہو تی ہے۔ جا معہ حسینیہ 1961 �÷ ئ میں مکمل ہوئی۔ +عما ن میں اکثر یت مسلما نو ں کی ہے مگر یہاں عیسا ئی بھی ہیں۔ جا معہ حسینیہ سے کچھ فا صلہ پر عیسا ئیوں کا گر جا ہے۔ عما ن سے بیت المقدس تک پختہ اور شا ند ار سڑ ک ارد گر د سر سبز پہا ڑ یا ں ہیں جنکے دا من میں ہر ا بھر ا میدا نی علا قہ دوتک چلا جا تا ہے، تیس میل کے فا صلہ پر ایک بستی نا عو ر ہے۔ آگے نہر اردن ہے۔ اس پر خو بصو ر ت پُل ہے ،پُل کے اس طر ف اردن کا علاقہ ہے اور دو سری طرف فلسطین کا۔ گو یا پل پا ر کر یں تو فلسطین آجاتا ہے جو اردن سے بھی زیادہ سر سبز و شا د ا ب ہے۔ عما ن سے 55 کلو میٹر پر بحیر ہ لو ط ہے۔ اسے بحیر ہ ا لمیت بھی کہتے ہیں۔ا س کا پانی انتہا ئی کھاری ہے، چکھیں تو جیسے زبا ن کٹ جا تی ہے۔ اسی پا نی کو خشک کر کے نمک بنا یا جا تا ہے۔ یہاںکنا رے کا میدا نی علاقہ گو یا اسی نمک کے کھیت ہیں ۔وہا ں نمک بنا یا جا رہا ہے۔ بحیر ئہ لو ط کے پا نی کی ایک خا ص با ت یہ ہے کہ یہا ں آدمی ڈو بتا نہیں۔ یہاں سے آگے اور بیت المقد س سے تقر یبا ً 28 کلومیٹر پہلے مو سیٰ علیہ السلام کا مزا ر ہے، جس کے دروا زہ پر قرآن پاک کی یہ آیت لکھی ہے ’’وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْ سٰی تَکْلیِماَ‘‘ یہا ں مسلما نو ں کا قبضہ ہے یہودی نہیں جا سکتے ۔ +حدو د ِ شا م میں دا خل ہو تے ہی تا حدِ نظر سبز ہ ہی سبز ہ نظر آنے لگتا ہے اور آنکھو ں میں طر ا وت تیر نے لگتی ہے جن علا قو ں کو ہم نے دیکھا وہ سا رے کے سا رے اردن اور فلسطین سے بھی زیا دہ سر سبز و شا د ا ب تھے۔ دمشق شا م کا دا ر الخلا فہ ہے ۔ یہا ں فر و ٹ بہت عا م اور سستے ہیں یہا ں کا لوکاٹ اتنا میٹھا اور لذیذ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں چکھا تھا، منہ میں ڈا لو تو جیسے شہد کا گھو نٹ پی لیا ،گٹھلی فو را ً الگ ہو جا تی ہے ۔ سیب بھی الگ ذا ئقہ رکھتے ہیں۔ انکی خو شبو بھی مشا م ِ جا ں کو معطر کر دیتی ہے۔ بڑے نر م اور انتہا ئی شیر یں ہو تے ہیں۔ لبنا ن کے سیب بھی مشہو ر ہیں مگر یہاں کے سیب بھی ،ان سے کم لذیذ نہیں۔ یہاں کا لباس عمو ما ً انگر یز ی ہے مگر انگر یز ی زبا ن کا زیا دہ رو اج نہیں۔ کیلنڈ ر فر نچ کا چلتا ہے ۔ پاکستان کے مقا بلہ میں انڈیا کا پر و پیگنڈ ا یہا ں بھی زیا دہ ہے۔ یہا ں کے لو گ بڑ ے خو ش اخلا ق ہیں، لیکن دکا ندا ر کچھ فر یب کا رہیں۔ دمشق کا پر انا شہر دیکھا ۔عجیب با ت ہے کہ دمشق دیکھ کر طبیعت بہت ہی منغّض ہوئی ۔سبب سمجھ نہیں آیا خفقا ن سا ہو نے لگا۔ آنکھوں کے آگے اند ھیرا سا چھا نے لگا ۔رفیق ِ سفر سے ذکر کیا تو انہو ںنے کہا کہ دمشق ہی یزید کا پا یۂ تخت تھا۔ یہیں جنا ب حسین (رض) کا کٹا ہو ا سر مبا ر ک اور یہیں اہل بیت اطہا ر کا قا فلہ قید یو ں کی صورت میں لا ��ا گیا۔ وہ بیبیا ں بے پر دہ لا ئی گئیں جنکی جھلک چشم فِلک نے بھی نہیں دیکھی تھی۔ شا ید رو ح پر اسی کا اثر ہوا اور ہم سمجھ گئے کہ و ا قعتا یہی سبب ہوگا ۔ وہ خفقا ن جس نے دل کو گھیر لیا تھا ،وہ حضرت زینب (رض) کے کھُلے با لو ں اور رو تی آنکھو ں کا دُکھ تھا اور وہ اند ھیرا آنکھو ں پر چھا گیا تھا ۔وہ شا مِ غر یبا ں کا اند ھیرا تھا ۔سا را منظر ذہن میں گھو منے لگا ۔پوری فلم با طن میںچلنے لگی اور آنکھیں بہنے لگیں۔ بہتی رہیں بہتی رہیں پھر جیسے جھڑی برس کر کُھل جا تی ہے۔ اسی طرح با طن صا ف ہو گیا ۔دل کو سکو ن سا محسو س ہو ا۔ یہ آنسو شا م غِر یبا ں کا قر ض تھے ،قرض ادا ہو گیا تو مقر و ض کی پریشا نی ختم ہو ئی اور دو سرے رو ز زیا ر ات شر و ع کیں۔ محلہ صا لحیہ سے نکلیں تو پہلے مو لا نا خا لد غو ث دمشقی کا مزا ر آتا ہے جو کرا د میں وا قع ہے۔ بہت بلند ی ہے اس پر جا ئیں تو نیچے پو را دمشق یو ں نظر آتا ہے جیسے اپنے ہا تھ کی ہتھیلی پر رکھا ہو ۔ وہ پہاڑ بھی نظر آتا ہے جہا ں چا لیس ابدا ل دفن ہیں اور جسے کو ہ چیل ابدا ل بھی کہتے ہیں ۔خا لد غو ث اپنی اولاد سمیت یہا ں مد فو ن ہیں۔ سا تھ ہی مسجد ہے اور حلقہ ٔذکر کی جگہ بھی جہا ں ہر سو موا ر کو نقشبند ی سلسلہ کے علما ئ جمع ہو کر ذکر نقشبند یہ کر تے ہیں۔ +محلہ صا لحیہ میں شیخ اکبر الد ین ابن عر بی کا مزا ر ہے۔ یہ وہی فصوص الحکم کے مصنف ابنِ عر بی ہیں جنہیں اقبال نے ’’ وحد ت الو جو د کا انتھک مفسر ‘‘ کہاہے اور جنکا نظر یہ و حد ت الو جو د مشر ق سے مغر ب تک چھا یا ہو ا ہے۔ مزا ر مسجد میں ہے قبر کے گر د جا لی وا لا کٹہر ا ہے۔ یہ قبر نیچے تہ خا نہ میں ہے ۔آ گے آپ (رح) کے صا حبز ادے شیخ عبد القا د ر الجز ا ئمر ی کا مزا ر ہے۔ ان سے آگے حضرت شا ہ عبد الغنی نا بلسی اور ان کے فر ز ند ِ جلیل جناب مصطفی نا بلسی کے مزا ر ہیں آگے جا ئیں تو محلہ برا مکہ میں سلطا ن سلیم کا مز ار ہے آگے دمشق کا پر ا نا قبر ستا ن شر و ع ہوتا ہے ۔ یہیں جنا ب ِ حسین (رض) کی تین صا حبز دیاں بی بی سکینہ، بی بی زینب اور امِ کلثو م کا مقبر ہ ہے۔ یہا ں حا ضر ی دی تو حضرت سکینہ کا قید خانے میں گر یہ کر نا یا د آگیا اور ہما ری آنکھیں سا و ن کے بادل کی طر ح بر سنے لگیں ۔ دو ر کعت نفل پڑ ہے ،فا تحہ پڑ ھنے کا شر ف حا صل کیا۔ اسی قبر ستا ن میں تھوڑے فا صلہ پر مؤذن ِ رسو ل حضرت سید نا بلا ل (رض) اور حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کے مز ا ر ہیں ۔اسی قبرستا ن کے با لمقا بل سڑ ک سے اُس پا ر دو سرا بڑ ا قبرستا ن ہے، جہاں بہت سے اہل بیت اطہا ر دفن ہیں ۔ان پر بڑ ا گنبد بنا ہو ا ہے، وہا ں حا ضر ی دی ِ ام المؤمنین حضر ت صفیہ (رض) ، ام لمؤ منین حضرت حبیبہ (رض) اور ام المؤ منین حضرت سلمیٰ (رض) کے مزا ر پر گئے۔ دو نو ں مؤ خر الذ کر مزا ر متصل بنے ہو ئے ہیں۔ حضرت امِ کلثو م بنت علی(رض)، حضرت اسما ئ زوجہ حضرت جعفر طیار ، حضرت میمو نہ بنت حسن بن علی ، حضر ت حمیدہ بنت مسلم بن عقیل کے مزا ر وں پر حا ضر ی دی گئی۔ حضرت فا طمہ دختر اما م حسن (رض) کے مزا ر پر فا تحہ پڑھی ۔غا زیٔ اسلام اور صلیبی جنگو ں کے مشہو ر فا تح سلطا ن صلا ح الد ین ایو بی کے مزار پر حاضر ی دی مگر شر م سے سر جھکائے ہو ئے کہ جو جنگ انہو ں نے بڑی شا ن سے جیتی تھی، اُسے بعد کی نسلیں سنبھا ل نہ سکیں۔ +حضرت زینب بنت حضرت علی المر تضیٰ (رض) کا مز ا ر دمشق سے دس کلو میٹر کے فا صلہ پر ہے ۔ادھر رو نہ ہو گئے را ستے میں ایک جگہ غو طہ ہے یہ بڑا سر سبز مقام ہے اور زتیو ن کے با غا ت سے لبر یز ہے۔ حضر ت زینب (رض) جنا ب علی المر تضیٰ اور حضرت فا طمۃ الز ہرا (رض)کی و ہ عظمت ما ٓ ب دختر ہیں جنہو ں نے میدا نِ کر بلا میں بڑے صبر و سکو ن سے اپنے شہید ہو جا نے والو ں کو رخصت کیا۔ جنا ب سید الشھد ائ حضرت اما م حسین (رض) کو گھو ڑے پر سوار کر ایا پھرلُٹے ہوئے قا فلہ کو سنبھا ل کر لے گئیں اور یز ید کو بڑی جر أ ت سے جوا ب دیے۔ بعد میں بچے کھچے خا ندا ن کو سنبھا لے رکھا اور بڑ ے حوصلہ سے حا لا ت کا مقا بلہ کیا ۔ حضرت زینب (رض) کے مزا ر پر بڑ ا وسیع اور عظیم الشا ن قبہ بنا ہوا ہے۔ اسی مز ار کی وجہ سے یہا ں اچھی خا صی آبا دی ہو گئی ہے اس آبا دی کا نام محلہ سبطیہ ہے ۔شا ید یہ نا م سبطِ رسو ل کی منا سبت سے مشہو ر ہوا وسیع و عر یض احا طہ ہے اور احا طہ کے در میا ن میں یہ مزا ر ہے۔ دروازہ پر چا ر وں طر ف چا ند ی کا مضبو ط کٹہرا ہے۔ اندر بڑ ی خو بصو ر ت جالی ہے۔ یہا ںہر وقت زا ئر ین کا ہجو م رہتا ہے اس قبہ کے در واز ہ پر ہر طرف اہل بیت اطہا ر پر سلام لکھے ہیں ۔یہا ں نو افل پڑ ہے فا تحہ پڑ ھی۔ خو ب آنسو بہا ئے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ ہچکی بند ھنے لگی تھی کہ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے قبر سے آواز آرہی ہے ’’واللّٰہ الُمستعانُ علی ما تصفون فصبر’‘ جمیل‘‘ ﴿ اور اللہ ہی مد د گا رہے اور صبر جمیل ہما را سر ما یہ ہے﴾ حوصلہ آگیا دل پر کسی نے اپنا ٹھنڈ ا ہا تھ رکھ دیا، ر وح پر سکون ہو گئی پھر دمشق کی طر ف وا پس ہوئے ۔را ستے میں حضور �ö کے صحا بہ حضرت مقداد (رض) بن اسو د اور حضرت ابی (رض) بن کعب کے مزا ر و ں پر حا ضر ی دی اور فا تحہ خو انی کا شر ف حا صل کیا۔ پھر حضرت خو لہ (رض) بنت الا زور کے مزا ر پر حاضر ی دی ۔یہ وہی خو لہ بند الا زور ہیں کہ ایک غز وہ میں مجا ہد ین کے سا تھ کچھ خو اتین بھی تھیں۔ اور خوا تین سا تھ ہو ا کر تی تھیں تا کہ زخمیو ں کو پانی پلا ئیں او ر سنبھا لیں یہ خوا تین حضور �ö نے ایک جگہ بٹھا دیں اور شا عرِ در با ر ِ نبو ت حضرت حسا ن (رض) بن ثا بت کو انکی حفا ظت کے لیے کھڑ ا کر دیا ۔کچھ دشمن ادھر آنکلے حضرت حسا ن (رض) نے کچھ کم ہمتی دکھا ئی۔ حضرت خو لہ(رض) نے ایک لکڑ ی سے حملہ کر دیا ۔ایک کا فر کا سر کھول دیا اور وہ لو گ بھا گ گئے حضور سید کائنا ت �ö نے بعد میں یہ سنا تو بہت خو ش ہو ئے اس بہا در خا تو ن کا مزار شہر کے ایک کنا رہ رپر ہے۔ یہا ں فاتحہ پڑ ھی شہر میں دا خل ہو نے لگیںتو حضر ت رقیہ بنت حسین (رض) کا مزا ر ہے۔ چھوٹی سی قبر بڑی خو بصو ر ت بنی ہوئی ہے۔ پھر ہم شہر میں پہنچ گئے یہاں سو ق حمید یہ کے آخر ی کنا رے پر جو مسقف با ز ا ر ہے۔ یہا ں جا مع امو ی ہے ۔بنو امیہ کی بنا ئی ہو ئی بہت کشا دہ اور خو بصو ر ت مسجد ہے۔ مسجد میں بڑے شا ندا ر قا لین بچھے ہیں۔ اس مسجد کے محر ا ب کے قر یب اند ر خو بصو ر ت قبہ ہے۔ جس کا گنبد مسجد کے اند ر ہے۔ اس میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی قبر مبا ر ک ہے ۔ یہا ں نوا فل ادا کئے اور فاتحہ پڑ ھی ۔قبر سطحِ زمین سے آٹھ فٹ اونچی ہے اوپر چادریں پڑی ہیں۔ لو حِ مز ا ر پر سبز پگڑ ی ہے ۔مسجد کے مشر قی جانب سبحنِ اہل بیت ہے یہاں اہل بیت قید یو ں کا مقد س قا فلہ ٹھہر ا یا گیا تھا۔ اس کے قر یب ہی وہ جگہ ہے جہا ں یز ید در با ر لگا تا تھا ۔ یہیں جنا بِ حسین (رض) اما م الشھد ائ کا سر مبا ر ک اس کے سا منے رکھا گیا تھا ۔ اسی مسجد کے ایک حصہ میں سر مبا ر ک دفن ہے۔ +کچھ آگے جا ئیں تو سلطا ن نو را لد ین کا مزا ر ہے یہ وہی سلطا ن نورا لد ین ہیں جن کے دور میں عیسا ئی حضور �ö کے رو ضہ ئِ مبارکہ کی طرف سر نگ بنا ر ہے تھے کہ لحد سے حضور �ö کا جسدِ اطہر چر الے جا ئیں گے اور پھر کہیں گے ،دیکھ لو اس قبر میں تو کچھ بھی نہیں۔ حضور �ö نے سلطا ن نو ر الد ین کو خو ا ب میں خبر دی۔ سلطا ن نے بڑی بیدا ر دماغی سے انہیں پکڑ کر پھا نسی پر لٹکا دیا اور قبر ِ انو ر کے اردگرد پا نی تک سیسہ پگھلا کر بھروا دیا ۔ +اسکے بعد ہم نے جا مع ابو الد ر (رض) دا ئ کی زیا ر ت کی۔ بتا یا جا تا ہے کہ مشہو ر صحا بی حضرت ابو الد رد ائ (رض) کی قبر یہاں ہے مگر وا ضح نہیں۔ البتہ مسجد موجو د ہے ۔ دمشق میں ہی یز ید کی قبر ہے ۔جہا ں ایک شخص نے سیسہ پگھلا نے کی بھٹی بنا رکھی ہے ۔ قصر وایوا ن ویر ا ن کھنڈر ہو چکے ہیں ۔ حضرت امیر معا ویہ(رض) کے مزا ر پر بھی گئے اور فا تحہ پڑ ھی۔ یہ مز ا ر کچی کو ٹھڑ ی میں ہے ۔یہ بھی دمشق میں ہے ۔ہم حمص کے شہر میں بھی گئے۔ شہر کے عین درمیان میں ایک کشا دہ جگہ پر حضرت خا لد(رض) بن ولید کا مزا ر ہے ۔ اس کے سا تھ مسجد ہے ۔ مسجد کے کونے میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عمر فا روق (رض) کی قبر ہے یہاں بھی حا ضر ی کی سعا د ت حا صل کی۔ +حضرت ہا بیل علیہ السلام کے مزا ر پر بھی حا ضری دی۔ یہ مزا ر دمشق شہر سے چا لیس کلو میٹر دور ایک پہا ڑ ی پر ہے۔ اس پہا ڑی کی چو ٹی پر قتل ہا بیل کی جگہ ہے۔ یہ پہلا انسا نی قتل ہے جو اپنے بھا ئی قا بیل کے ہا تھو ں ہوا اور جس کا ذکر قرآن ِ حکیم نے کیا ہے ۔ اسی پہا ڑی پر چہل ابد ال کے مصلے ہیں۔ ہم حلب شہر میں بھی گئے یہاں۔ ذکر یا علیہ السلام کا رو ضہ ہے۔ اسکی زیا ر ت سے مشر ف ہو ئے اور فا تحہ کی سعا د ت حا صل کی ۔ +حضرت حجر بن عد ی کے مزا ر پر حا ضر ی دی۔ اسی طر ح حضرت اویس قر نی (رض)کے مزا ر کی بھی زیا ر ت کی۔ درود فا تحہ کا شرف حا صل کیا۔ +پیر صا حب نے عرا ق کا تین با ر سفر کیا۔ پہلی با ر جو ن 1987 �÷ ئ میں دو سری با ر 1991 �÷ ئ جنور ی میں اور تیسر ی با ر فر و ر ی 2000 �÷ ئ میں ، ان تینو ں وقتو ں کے سفر کی زیا ر ات یکجا کر دی گئی ہیں ﴿مر تب﴾ +’’ استنبول بغدا د کے تیسر ے سفر میں تھو ڑے سے وقت کے لیے جا نا ہوا مگر یہ تھو ڑا سا وقت بھی بہت ثمر آور ثا بت ہوا کہ ہم نے رسو ل �ö کے عظمت ما ٓ ب صحا بی حضر ت ایو ب (رض) انصا ر ی کا مزا ر اور انکے نا م پر بنی ہو ئی مسجد دیکھ لی۔ +حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب کے سفر دو حصو ں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو خا لص وہ سفر ہیں جو عباد ت میں شا مل ہیں یا اسلام کی عظمتِ رفتہ کے آثا ر و نشا نا ت کی یا د یں تا زہ کر نے اور مستقبل کا لا ئحہئِ عمل طَے کر نے کے سلسلہ میں کئے گئے مکہ ، مدینہ ، عر ا ق و کر بلا اور اند لس کے سفر اسی قبیل میں آتے ہیں دو سرے وہ سفر ہیں جو وقتا ً فو قتا ً تبلیغی مقا صد کے لیے کئے گئے ہم نے ثا نی الذ کر قسم کے سفر الگ کر دییہیں اور انہیں ’’ورلڈ اسلا مک مشن ‘‘ کے قیا م کے بعد لکھیں گے۔ +اند لس یا سپین ایک ہی ملک کے دو نام ہیںمؤ ر خ اس طر ف ما ئل ہیں کہ اس ملک کو مسلما نو ں کے دو ر میں اند لس کہا جا تا تھا اس لیے اس عہد کی تاریخ لکھی جا ئے تو اسے اند لس لکھا جا ئے اور مسلما نو ں کے بعد کے ادوار میں اسے سپین لکھا جا ئے۔اور یہ با ت در ست بھی ہے۔ اسلا م یورپ پر کس طر ح اثر اندا ز ہو ا ؟ اس مو ضو ع پر جب بھی لکھا جا ئے ایک بڑ ا اور ضخیم با ب اند لس پر لکھا جائے گا ۔ اند لس یا سپین ایک دا ستا نِ عبرت ہے ایک مسلما ن جب اند لس میں قد م رکھتا ہے تو اچا نک اسکی بصیر ت کی آنکھیں کھل جا تی ہیں اور وہ اس دا ستا نِ عبر ت کا حر ف حر ف پڑھنے لگتا ہے ۔ +اند لس کا تا ریخی پس منظر +اس ملک کے قد یم با شند ے سلٹ قو م سے تھے اور یہ قوم فر انس سے ��ہا ں وا ر د ہو ئی تھی پھر یہا ں آئی بیر ی اور لگو ر ی آ ئے۔ اسکے بعد فنیقی آئے پھر یو نا نی ، ان کے بعد قر طا جنہ اس ملک کے فا تح ہو ئے ۔قر طا جنہ کی اس شا خ کا نا م کا ر تھیجین ہوا ۔ +پھر پیو نک جنگیں شر و ع ہو ئیں۔ جنگیں رو میوں اور قر طا جنو ں کے درمیان شر و ع ہو ئی تھیں ۔ اس سلسلہ کی پہلی جنگ 264 �÷ قبل مسیح سے 241 �÷ قبل مسیح تک جا ری رہی ۔دو سری جنگ 218�÷ قبل مسیح سے 202 �÷ قبل مسیح تک اور تیسری جنگ جس میں قر طا جنہ با لکل بر با د ہو گئے۔ 149 �÷ قبل مسیح سے 146 �÷ قبل مسیح تک جا ری رہی ۔ اند لس دو سر ی پیو نک جنگ میں ہی قر طا جنہ کے ہا تھو ں سے نکل گیا تھا اور رو میوں کے زیر تسلط آگیا تھا ۔ رومیوں نے یہا ں پا نچو یں صد ی عیسو ی تک حکو مت کی۔ ان کے عہد حکو مت میں ملک سر سبز شہر و ں سے آبا د ہو گیا ۔ اور کئی ایسے ہیر و پیدا ہو ئے جنہیں قو م کے لیے قا بل ِ فخر سمجھا جا تا تھا۔ مثا ل کے طو ر پر 4 �÷ قبل مسیح میں پیدا ہو نے والا معر و ف فلسفی سینکا جو شہنشا ہ نیر و کا استاد تھا کثیر کتا بو ں کا مصنف تھا اور جو مسئلہ ئِ تو حید کے قر یب پہنچ گیا تھا ۔ یا لو شن جس نے خیا لی مکا لما ت لکھے۔ یا مشہو ر شا عر ما رشل ، ادھر بادشاہو ں میں ٹر یجن ، ہیڈر ین مارکس ،آ ر یلیس اور تھو ڈو سیس جیسے لو گ سا منے آئے جنہو ں نے انتظا م ملکی میں اپنی قا بلیت کے جو ہر دکھا ئے ،پھر جر من و حشی قو میں وینڈ ل آلن اور سوا یو نے جب فر انس کو تہ وبا لا کر دیا تو اند لس پر بھی قبضہ کر لیا ۔یہ وحشی بہت جلد ان لا طینی اقوا م کے سا تھ مل گئے جو پہلے سے اند لس میں مو جو د تھیں۔ اب لا طینی ا نکی زبا ن ہو گئی اور انہو ں نے اپنے دیو تا ئوں کو چھو ڑ کر عیسا ئی مذہب اپنا لیا۔ یہی لو گ اس وقت بھی اند لس پر قا بض تھے جب مسلمانوں نے اند لس پر حملہ کیا ۔ +711 �÷ عیسو ی میں دو بڑے امر ا ئے اندلس کو نٹ جو لین اور اشبیلیہ کے رئیس الا سا قفہ کی حما یت پاکر عر ب اند لس پر حملہ آور ہو ئے۔ بار ہ ہزا ر کے اس فو جی دستے کا قا ئد طا رق بن زیا د تھا ۔ یہ حملہ اسی مقا م سے ہوا جسے آج بھی فا تح جر نیل کے نام پر جبل الطا ر ق جبر الٹر کہا جا تا ہے یہیں وہ تاریخی وا قعہ پیش آیا جو تا ریخ اسلام بلکہ مسلما نو ں کے ادب کا بھی ایک جز و بن گیا ۔وہ یہ کہ بہا در جر نیل نے کشتیا ں جلا دینے کا حکم دیا تا کہ سپاہیوں کی یہ امید یں ہی ختم ہو جا ئیں کہ شکست کی صو ر ت میں گھر و ں کو وا پس ہو جا ئینگے ۔انہیں یقین ہو کہ انہیں مر نا ہے یا فتح حا صل کر نا ہے۔ اقبال نے بھی اِسے ایک مختصر سے وا قعا تی قطعہ میں نظم کیا ہے جس کا آخر ی شعر کچھ یو ں ہے کہ اعتر اض کر نے والو ں کے اعتراض پر طارق +خند ید و د ستِ خو یش بہ خنجر زدہ و گفت +ہر ملک ملکِ ما ست کہ ملکِ خدا ئے ما ست +﴿ہنسا اور اپنے ہا تھ میں خنجر بلند کر کے کہا ہر ملک ہما را ہی ملک ہے کیو نکہ سب کچھ ہما رے خدا کا ہے ﴾ +افر یقہ کے بر برو ںکو زیر تسلط لا نے میں عربو ں کو تقر یبا ً پچا س سا ل لگ گئے تھے ۔اُن کا خیا ل تھا کہ یو روپ کے لو گو ں میں بھی ویسی ہی آزا دی سے محبت شجا عت ہو گی لیکن یہا ں رعیت حکمر انو ں سے نا لا ں تھی۔ اس لیے طا رق کی فو ج نے با ٓ سا نی میدا ن ما رلیا اور مسلما ن اند لس میں دا خل ہو گئے۔ اندلس کی آب و ہوا، یہا ں کی زمین کی زرخیز ی سب کچھ افر یقہ کے تپتے ہو ئے صحرا ئو ں سے مختلف تھا۔وہ آگے بڑ ھتے گئے ۔مو سیٰ بن نصیر بھی بیس ہزا ر فو ج لے کر اپنے ما تحت جر نیل طا ر ق بن زیا د سے آملا تا کہ فتح کی تکمیل کر ے فتح نہا یت ہی سر عت کے سا تھ اتما م کو پہنچی قرطبہ ، ما لقہ ، غر نا طہ اور طلیطلہ اشبیلیہ جیسے بڑے شہر گو یا انہو ں نے بغیر مزا حمت کے لیے اس وقت بھی اندلس میں زر اعت اور فلا حت بڑ ی حد تک عرو ج پر تھی یہاں کے فو جی سر برا ہ نے دمشق میں بیٹھے خلیفہ کو اپنے خط میں لکھا ۔ +’’ آسما ن اور زمین کی خو بصو ر تی میں یہ ملک شا م ہے۔ آ ب و ہوا کی لطا فت میں یمن ، پھو لو ں اور عطر یا ت میں ہند ہے ۔زر خیز ی میں مصر ہے اور بیش بہا فلز ا ت میں چین ‘‘ +اند لس پر مسلما نو ں کا عہد ِ حکمر انی سو بر س کو محیط ہے ۔ فتو حا ت سے فا رغ ہو نے کے مسلما نو ں نے اند لس کو با مِ عر و ج پر پہنچا نے کی کوشش شر وع کر دیں ۔غیر مز رو عہ زمینیں قا بل کا شت بنا ئی گئیں اور زیر کا شت لا ئی گئیں ۔اجڑ ی بستیا ں آبا د ہو گئیں دو ر دور تک کے مما لک کے سا تھ تجا ر تی تعلقات قا ئم ہو ئے۔ دنیا بھر سے سا ما ن تجا ر ت اند لس میں آنے لگا ۔ کا ر و با ر بڑھے ، آبا دی بڑھی ، عا لیشا ن عما را ت تعمیر ہو نے لگیں ۔علم و ادب میں بے انتہا تر قی ہو ئی ۔ یو نا نی ، لا طینی اور دیگر علمی زبا نو ں کے تر اجم ہو ئے، دا ر العلو م قا ئم ہو ئے اور یہی دا ر العلو م عر صۂ درا ز تک علم و دانش کی رو شنی پھیلا تے رہے ۔ +مر کز میں جب خلا فت امو یو ں کے ہا تھو ں سے نکل کر عبا سیو ں کے ہا تھ میں آئی تو عبد الر حمن اول اند لس میں پہنچ کر اس کا حکمر ا ن ہو ا وہ امو ی تھا اس نے عبا سیو ں کی خلا فتِ بغدا د سے قطع تعلق کرلیا اور قر طبہ میں اپنی خلا فت قا ئم کر لی ۔756 �÷ عیسو ی میں عر بو ں کے تمد ن کا عروج شر و ع ہوا اور تین صد یو ں تک قر طبہ علو م کے لحا ظ سے تما م عا لم کے شہر و ں کا سر تا ج رہا ۔ مسجد ِ قر طبہ تعمیر ہو ئی جو ہر لحا ظ سے عجا ئبا تِ عا لم میں شما ر ہو تی تھی۔ اند لس پر سکو ن تھا لو گ خو شحا ل تھے دنیا بھر سے دو لت کھچی کھچی اند لس پہنچ رہی تھی زمینو ں کی سر سبز ی و شا دابی کما ل عر و ج پر تھی ، زمین بلا شبہ سو نا اگل رہی تھی ۔ +عبد الر حمن اول اور اسکے بعد آنے والے خلفا ئ کو جنگ میں دو لت نہیں جھو نکنا پڑ تی تھی۔ ملک امن و اما ن کا گہوا رہ تھا اس لیے انہو ں نے تما م و سا ئل ملکی تر قی میں صر ف کئے علو م و فنو ن اور ادب کو بے انتہا تو جہ ملی اور انتہا ئی فر و غ حا صل ہو ا ، ہند سہ ، ہیئت ، طبعیا ت کیمیا اور طب و حکمت میں قا بل قِدر تر قی ہو ئی اور قر طبہ کی یو نیو ر سٹی سے فا ر غ التحصیل ہو نا سا ری دنیا میں قا بل فخر سمجھا جا نے لگا ۔ +صنعت و حر فت اور تجا ر ت میں بھی اند لس کو مما لک پر فو قیت حا صل ہو گئی۔معد نیا ت کے دفا ئن بر آمد ہو ئے۔ بے انتہا مصنو عا ت تیار ہو نے لگیں وہ سا رے ذرا ئع آبپا شی جو اس وقت بھی کسی نہ کسی حا لت میں مو جو د ہیں مسلما نو ں ہی کی یا د گا ر ہیں زمین سے قسم قسم کی پیدا وار حاصل کی جا نے لگی گنا ، چا ول ، کپا س مختلف قسم کے پھل سب کچھ اند لس میں تھا اور فی الوا قع اند لس دنیا کی بہشت تھا ۔مسلما نو ں با لخصو ص عر بو ں کی مستعد ی علو م و فنو ن اور صنعت و حر فت کے تما م شعبو ں پر چھا ئی ہو ئی تھی ان کی تعمیرا ت عا مہ کا بھی جو ا ب نہ تھا سٹر کیں ، پل ، شفا خا نے ، مسا فر خا نے ، مسا جد جو صر ف مسا جد نہیں مدا ر س بھی تھے ہر طرف بکثر ت تھے ۔ +قر طبہ کا دا را لخلا فہ علو م و فنو ن کا عظیم تر ین مر کز تھا تجا رت کا مرکز تھا، ذہا نت کا مر کز تھا ۔ چند صد یو ں میں عربو ں نے اند لس کو علمی اور مالی تر قی میں با لکل بد ل دیا اسے یو ر پ کا سر تا ج بنا دیا ۔یہ تغیرصر ف علمی و اقتصا دی نہ تھا بلکہ اخلا قی بھی تھا ۔ م�� و ت ، انسا نی ہمدرد ی ، مذہبی و نظریاتی روا دا ر ی اور کشا دہ ظر فی اور دو سرے مذا ہب کے لیے نر می اورحسنِ سلو ک میں وہ رو شن مثا لیں قا ئم ہو ئیں جو آج تک تا ریخ کے ما تھے کا جھو مر ہیں ۔ اگر مسا جد بن رہی تھیں تو کلیسا ئو ں کی تعمیر کی بھی کھلے عا م اجا زت تھی اور اسا قفہ کو مذہبی مجا لس منعقد کر نے پر کوئی پا بند ی نہ تھی ۔ +تجا رت عر و ج پر تھی تو ذر ائع رِسل و رسا ئل اور وسا ئل نقل و حمل کو بھی بے انتہا تر قی ہوئی ۔خشکی کے را ستے بہتر ہوئے بد امنی نا م و نشا ن کو نہ تھی۔ راستے ما مو ن تھے۔ بحری سفر کے لیے جہا ز را نی کو بے انتہا تر قی اور وسعت حاصل ہو ئی ۔تمام یو ر و پ ایشیا ئ اور افر یقہ کے سو احل تجا ر تی لحا ظ سے مربو ط ہو گئے تھے اور مد تِ درا ز تک سا را بحرِ متوسط مسلما نو ں ہی کے قبضہ میں تھا ۔ +مسلما نو ں کی بلند اخلا قی کا ہی اعجا ز تھا کہ بہت سے عیسا ئی مسلما ن ہو گئے مگر یہ کا م انہو ں نے خو ف سے نہیں کیا ۔خو ف کا تو ان کے دو ر میں نا م و نشا ن بھی نہ تھا ۔ہر ایک پو ر ی مذہبی آزا دی حا صل تھی۔ لَا اِکْراَ ہَ فِی الد ین جس قوم کا ما ٹو ﴿MOTTO﴾ہو جس کا نعر ہ ہو ’صر ف سو چو اور سید ھی راہ کا فیصلہ کر و ‘ ’وھدینٰہُ النجدین‘ ہم نے دو را ہیں دکھا دی ہیں۔’’امّا شاکرًاوّامَّا کَفُورًا‘‘جورا ستہ مر ضی آئے اختیا ر کرلو ۔ اس میں کبھی دین حق کو تلو ار کے زور سے منوا نے کی کوشش نہ کی گئی نہ ہی اسکی ضر و رت سمجھی گئی ۔ اند لس میں یہو د ، نصا ریٰ اور مسلما ن سبھی کے لیے تر قی کی را ہیں یکسا ں کھلی تھیں چنا نچہ سا رے یو ر و پ میں اند لس ہی وہ ملک تھا جہا ں یہو د یو ں کو اما ن ملی تھی اور وہ بکثر ت یہا ں جمع ہو گئے تھے ۔ +عر بو ں میں وحشت و بر بر یت کو بہا د ری نہیں سمجھا جا تا تھا ۔ دنیا کا اصو ل تھا ۔ +﴿محبت اور جنگ میں سب کچھ جا ئز ہے﴾ +اسلا م نے جنگ میں بھی عد ل و انصا ف کی تعلیم دی تھی ۔ +’’وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَا نُ قَوْمٍ عَلیَ اَلاَّ تَعْد لُوْا اِعْدِ لُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلٰتَّقْوَی‘‘ +﴿کسی قو م کی دشمنی تمہیں اس پر آما د ہ نہ کر ے کہ عد ل کا دا من ہا تھ سے چھو ڑ دو عد ل کر و یہی تقو ٰی کے قر یب ہے ﴾ +مسلما نو ں نے بہا در انہ اخلا ق کی ایک مخصو ص تعر یف متعین کی تھی ان کے نز دیک کوئی شخص بہا د ر کہلا نے کا مستحق اس وقت سمجھا جا تا تھا جب اس میں یہ دس اوصا ف موجود ہوتے ہیں :۔ +۲﴾ شجا عت و حو صلہ +۳﴾ خو ش اخلا قی +۶﴾ قو تِ جسما نی +اندلس کی تا ریخ اس قسم کی دا ستا نو ں سے لبر یز ہے جن سے معلو م ہو تا ہے کہ وہا ں کے لو گو ں میں یہ خصا ئص اپنی انتہا ئی صو ر ت میں مو جو د تھے مثلا ً جس وقت 1139 �÷ عیسو ی میں والی ئِ قر طبہ نے طلیطلہ کا محا صر ہ کیا تو وہا ں ایک خا تو ن حکمر ان تھی جس کا نا م بیرا ن ژیرتھا شہزادی قلعہ بند ہو گئی اس نے قا صد کے ذر یعہ کہلا بھیجا ’’ عو ر تو ں پر حملہ کر نا بہا در و ں کا شیو ہ نہیں عر ب سالار نے فو را ً محا صر ہ اٹھا لیا ۔ +اند لس میں مسلما نو ں کا عرو ج اندلس کا عر و ج تھا ۔اندلس کے عو ام کا بلا تمیز مذہب و ملت عر و ج تھا اور انسا نیت کا عرو ج تھا، علم و دا نش کا عرو ج خو شحا لی و فا ر غ البا لی کا عر و ج تھا، زرا عت کا عرو ج تھا ،صنعت و حر فت کا عر و ج تھا لیکن ان کا یہ عرو ج اپنی اصل حا لت میں قائم نہ رہ سکا اور زوال کا شکا ر ہو گیا ۔ اس زوا ل کے بہت سے اسبا ب تھے لیکن سب سے بڑ ا سبب خو د مسلما ن قوم کے آپس کے اختلا ف تھے جن کے با عث خا نہ جنگیا ں شر و ع ہو گئی تھیں۔ +اسی نو حہ اور اسی شہرا ٓ شو ب کا ذکر کرتے ہو ئے اقبا ل (رح) نے لکھا تھا �ò +آسمان نے دولتِ غرناطہ جب برباد کی +ابنِ بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی +فر ڈ نینڈ نے ازرو ئے معا ہد ہ عر بو ں کو زبا ن اور مذہب کی آزا دی دینے کی ضما نت دی تھی مگر 1499 �÷ ئ سے مظا لم شر و ع ہو گئے اور ان مظا لم کا ہدف یہ تھا کہ مسلما ن کہلا نے والا کوئی شخص بھی سپین میں نہ رہنے پا ئے۔ ایک ہی صدی میں مسلما نو ں کو نیست و نا بو د کر نے کا عمل تکمیل کو پہنچا دیا گیا ۔ ظلم و ستم کے عجیب طر یقے استعمال کئے گئے جنہیں دیکھ کر ابلیس بھی شر مند ہ ہو گیا ۔ +پہلے مسلما نو ں کو بہ جبر عیسا ئی بنا یا گیا پھر انکو زیشن ﴿ INQUISITION ﴾ کے نام سے وہ رسو ائے زما نہ عد التیں، 1400 �÷ئ میں قائم کی گئیں جب مسلما ن بہ جبر عیسائی بنا ئے جا تے تو اس بہا نے کہ وہ عیسا ئی ہیں ۔اس ’’ مقدس مذہبی عد الت ‘‘ کے سامنے لا ئے جا تے۔ اس عدالت نے انہیں جہا ں تک ممکن ہو ا آگ میں جھو نکا ۔1481 �÷ میں اس عد الت کے حکم سے تین ہزا ر مسلما ن جلا دیے گئے ۔پھر محسو س ہوا کہ یہ طریقہ سُست رفتا ر ہے اور ویسے بھی لاکھو ں آدمیو ں کو جلا دینا مشکل تھا ۔انہو ں نے مسلما نو ں سے سپین کو پاک کر نے کی ایک اور تر کیب سو چی۔ طلیطلہ کے رئیس الا سا قفہ نے جو اس ’’ مذہبی عد الت ‘‘ کا میر مجلس تھا یہ تجو یز پیش کی کہ تما م عیسا ئی نہ ہو نے والے مسلما ن قتل کر دیے جا ئیں۔ عورتوں اور بچو ں تک کو ختم کر دیا جا ئے۔ ایک را ہب بلیڈ انے کہا مسلما ن اگر عیسا ئی ہو تے بھی ہیں تو یقین نہیں کہ وہ صد قِ دل سے عیسائی ہیں، اس لیے تمام مسلما نو ں کو قتل کر دیا جا ئے۔ قیا مت کے روز خدا خو د فیصلہ کر لیگا کہ کو ن دو زخی ہے اور کو ن جنتی ہے۔ اگر چہ پا در یو ں نے اس تجو یز کی بھر پور تا ئید کی لیکن حکو مت کو خیال ہوا کہ شا ید مسلما ن یہ اجتما عی ظلم بر دا شت نہ کر سکیں، چنا نچہ 1610 �÷ئ میں یہ اشتہا ر پھیلا دیا گیا کہ تما م مسلمان سپین سے نکل جائیں۔ مذکو رہ صد ر راہب بلیڈ انے بڑ ے فخر سے بیا ن کہا ہے کہ جن مسلما نو ں کو نکال دیا گیا تھا، ان میں سے تین چو تھا ئی راہ میں ما ر دیے گئے ۔ایک مہا جر ت جس میں ایک لا کھ چا لیس ہز ار لو گ افر یقہ جا رہے تھے ۔ایک لا کھ را ستے میں ما ر دیے گئے ۔اکثر مؤر خین اندا ز ہ لگا تے ہیںکہ فر ڈ نینڈ کی فتح سے لے کر مسلما نو ں کے مکمل اخرا ج تک اند لس سے تیس لا کھ لو گ نکل گئے۔ جو تعداد ما ر دی گئی وہ الگ ہے ۔ یہ دیس نکا لا مسلما نو ں کا تو تھا ہی اس سے سپین سے علم و دانش بھی جلا و طن ہو گئے۔ انہی مذہبی عدالتو ں نے ان تمام عیسا ئیو ں کو بھی تہ تیغ کر ا دیا جنہو ں نے مسلما نو ں سے کچھ سیکھا تھا اور شعو ری رو شنی کی با ت کر تے تھے۔ +اس کا نتیجہ کیا ہو ا۔ وہ اند لس جسکی تر قی زند گی کے ہر میدا ن میں ستار وں کو چھو رہی تھی ،جہا لت کا تا ریک غاربن گیا جس کا نا م سپین ہوا، زمینیں ویرا ن ہو گئیں۔ شا د ابیاں رو ٹھ گئیں، منڈ یا ں تبا ہ ہو گئیں، شہرو ں کی آبا دیا ں گھٹ گئیں ۔ڈا کٹر لی با ن اپنے وقت کی با ت لکھتا ہے کہ طلیطلہ جس کی آبا دی مسلما نو ں کے دو ر میں دو لا کھ تھی۔ اب ستر ہ ہز ار ہے۔ قر طبہ جہا ں دس لا کھ آدمی تھے ۔اب بیا لیس ہزا ر ہیں یہ تو بڑ ے شہرو ں کی بات ہے چھو ٹے سے شہر تو اکثر نیست و نا بو د ہوگئے ہیں۔ +فر ڈ نینڈ کے دو ر میں طلیطلہ کا رئیس الا سا قفہ زمی نیز نے فتح غِر نا طہ کے بعد غر نا طہ کی لا ئبر یر ی جلا د ی تھی۔ جس میں اسی ہزا ر کتب تھیں ۔اس نے سمجھا تھا کہ وہ مسلما نو ں کا خا تمہ کر رہا ہے لی��ن وہ بد بخت سپین کی قسمت کا چراغ بجھا رہا تھا اور یہ چر اغ بجھ گیا۔ اندلس کی تمد نی تر قی کے بانی مسلما ن تھے۔ اس لیے اس تر قی کے تما م مرا کز صنعت و حرفت ، تجا ر ت ، جا معا ت غر ض یہ کہ سب کچھ مسلما نو ں کے ہا تھ میں تھا، یہا ںآنے والے عیسا ئیوں کو مذہبی تعصب کے سا تھ ما دی محرو میوں نے بھی مسلما نو ں سے نفر ت پر ابھا را۔وہ جہا ں بھی نظر ڈا لتے مسلما ن چھا ئے ہو ئے دکھا ئی دیتے اس وجہ سے بھی انہو ں نے عر بو ں کے اخر اج کا جا ہلا نہ فیصلہ کیا وہ وسا ئل رِز ق پر خو د قا بض ہو نا چا ہتے تھے۔ +مسلما نو ں کے اخر اج کے بعد اند لس کا تنز ل فو ر ی طو ر پر شر و ع ہو گیا علو م و فنو ن ، زرا عت ، تجا ر ت ، اچا نک ختم ہو جا نے سے معیشت تبا ہ ہو گئی۔ زمین میں فلا حت و زرا عت ختم ہو گئی۔ اس لیے زمینیں بنجر ہو ئیں ۔صنعت و حرفت نہ رہی تو شہر و یرا ن ہو ئے میڈ رڈ کی آبا دی بقول ڈا کٹر لی با ن چا ر لا کھ سے گھٹ کر دو لا کھ پر آگئی اشبیلیہ میں جہا ں سو لہ سو کا ر خا نے تھے اور ان سے ایک لا کھ تیس ہزا ر افر اد اپنے کنبو ں کا رزق حا صل کر تے تھے ،اب وہ کا ر خا نے گھٹ کر تین سو رہ گئے ۔اسی کا اثر آبا دی پر پڑ ا جو ایک چو تھا ئی رہ گئی ۔ +طلیطلہ میں کپڑ ے کے پچا س کا ر خا نو ں کے بجا ئے تیر ہ رہ گئے۔ ریشمی کپڑ ے کے کا ر خا نے جن میں چالیس ہزا ر آدمی کا م کر تے تھے، با لکل بند ہو گئے ۔سا رے ملک کا یہی حا ل ہو گیا ۔قر طبہ ، سقو بیہ اور بر گا س جیسے بڑے شہر با لکل و یرا نے ہو گئے۔ چند حر فتیں جو مسلما نو ں کے بعد با قی رہ گئیں تھیں، وہ بھی جلد تلف ہو گئیں۔ ملک کی حر فت اس قدر تبا ہ ہو گئی کہ اٹھا ر و یں صد ی کے او ائل میں جس وقت سقوبیہ میں کپڑ ے کا کار خا نہ کھو لا گیا تو کا ر ی گر و ں کو ہا لینڈ سے لا نا پڑ ا ۔ ایسا ملک کہا ں چل سکتا تھا اور مذہبی جنو نی اسے کہا ں چلا سکتے تھے کہ وہ تو تبا ہی و بر با دی کے شیطا ن تھے آبا دی کیا جا نتے۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ ملک دو سر و ں کے حو الہ کر نا پڑ ا۔ با د شاہی ، نظا م مِلکی ، صنعت و حر فت ، تجا ر ت، فر ا نسیسیو ں ، اطایویوں ، جر منو ں کے ہا تھ آگئی ایک دو دفعہ اہل علم اور اہل فن با ہر سے لا کر ملک میں عا ر ضی چہل پہل کر لی گئی۔ مر دو ں کا یو ں زند ہ کر لینا کب ممکن ہو ا ہے جو سپین ایک دفعہ پھر اند لس ہو سکتا ۔ اند لس میں با شند ے تو رہ گئے تھے لیکن ان میں ایک بھی انسان نہ تھا۔ علم نا م کو نہ تھا صر ف مذہبی کتا بیں رہ گئی تھیں۔ بڑی سی بڑی کو ششیں بھی اس بد بخت ملک کو آج تک اسکی بر با د شدہ جو انی واپس نہیں دے سکیں۔ سپین کی حا لت پر مشہو ر انگریز مؤ رخ بکل Buckle نے کیا سچی با تیں لکھی ہیں۔ +’’ سپین کا ملک زما نہ سے بے خبر غفلت کی بے ہو شی میں ڈو با ہوا پڑ ا ہے نہ اس پر دنیا کا کچھ اثر پڑتاہے اور نہ یہ خو د دنیاکو دیکھ سکتا ہے یہ ملک یو ر وپ کی پیٹھ پر ایک بہت بڑا بے حس و حر کت اور بے معنی پشتارہ ہے جو اپنے خیالات اور امنگوںکے لحاظ سے زمانہ متوسطہ +﴿Middle Ages ﴾ کا قائم مقا م ہے اور سب سے زیا دہ افسو س یہ ہے کہ یہ ملک اپنی اسی حالت پر قا نع بھی ہے۔ اس ملک کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ جہل مر کب میں مبتلا ہے یورپ کی تما م قو مو ں میں یہ قوم سب سے پیچھے ہے مگر خو د فر یبی کی انتہا یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو سب سے آگے سمجھتی ہے جن چیز و ں پر اسے شر ما نہ چا ہییے یہ ملک ان پر نا ز کر رہا ہے اِسے اپنے بو سید ہ خیا لا ت ، مذہبی تعصب ، اعتقا دت کے استحکا م پر اپنی طفلا نہ سر یع الا عتقا دی پر اپنی مذہبی اور اخلا قی نفر ت پر ، غیر مذہب کے ��و گو ں کی عد اوت پر فخر ہے ‘‘ +غر ضیکہ اند لس ایک مر ثیہ ہے اس مسلما ن قو م کا بھی جس نے یہا ں اپنے عر و ج و زوا ل کی کہا نی لکھی اپنے زو ال کے اسبا ب لکھے او ر بتا یا کہ مسلما ن کیا تھے اور کیا ہو گئے؟ حضرت پیر عا رف شا ہ صا حب نے سپین کے سفر میں یہی کہا نی اپنی آنکھو ں سے اسی سر زمین کے صفحہ سے حر ف حرف ، لفظ لفظ اور ور ق ورق پڑ ھنے کے لیے یہ سفر اختیا ر کیا ان کے سفر نا مہ ئِ سپین سے معلو م ہوتا ہے کہ میں ، آپ اور ہم سب اس سفرمیں انکے سا تھ ہیں۔ +اقبال اور مسجد ِ قر طبہ +با لِ جبر یل میں علا مہ اقبال کی ایک شا ہکا ر نظم مسجد قر طبہ ہے اسکی بحر ہی ایسی ہے کہ پڑ ھو تو صو تی طو رپر وہی پر درد اور مقد س فضا موجود ہو جا تی ہے پھر لفظ لفظ میں پورا ما حو ل بولتا محسو س ہو تا ہے تر کیبیں ، بند ش ، رِدھم ، ہر اعتبا ر سے نظم بے مثا ل ہے ۔نہ معلو م کن لمحو ں میں یہ نظم تخلیق ہو ئی کہ دعو ٰی سے کہا جا سکتا ہے اقبال دو با رہ خو د بھی ایسی کوئی نظم نہیں کہہ پاتے۔ غا لبا ً میری یہ با ت بڑ ی حد تک درست ہے کہ ہم برصغیر کے لو گو ں کو اند لس سے شنا سائی اور اسکی تا ریخ تک رسا ئی بھی اسی نظم کے تو سط سے ملی اور اند لس کی تا ریخ پر جتنی کتا بیں بھی اردو میں لکھی گئیں۔ اس نظم کے بعد ہی لکھی گئیں۔ میں نے پیر صا حب کا سفرِ سپین پڑ ھا تو مجھے جگہ جگہ اقبا ل ان کا ہمسفر نظر آیا ۔ اس لیے مجھے خیا ل آیا کہ ان کے سفر نامہ کا دیبا چہ اقبال اور مسجد ِ قر طبہ ہے۔ میں چا ہتا ہو ں کہ یہی دیبا چہ ضبطِ تحر یر میں لے آئو ں تو آئندہ کے صفحا ت میں آنے والا سفر نامہ بھی مکمل ہو جائیگا اور کچھ ایسی با تیں بھی سا منے آجا ئینگی جو اقبال پر لکھنے والو ں نے زیب دِا ستا ن کے طو ر پر شا مل کر دی ہیں یو ں اقبال پر ایک نیا موضو ع بھی پیدا ہو جائے گا ۔ +اقبال غا لبا ً 5 یا 6 جنو ری 1933 �÷ ئ کو پیر س سے میڈر ڈ پہنچے ۔ میڈ رڈ میں اقبال کے میز بان پر وفیسر آسین پیلا کیو س تھے جنہو ں نے ڈا نٹے کی مشہو ر کتا ب ’’ طر بیہ خد اوند ی ‘‘ ﴿ DIVINA COMMEDIA ﴾ او ر اسلام پر ایک کتا ب لکھی تھی اور بتا یا تھا کہ اس کتا ب پر واقعہئِ معرا ج اور شیخ محی الد ین ابن عر بی کے کیا اثر ا ت ہیں انہو ں نے اقبال کو دعو ت دی تھی کہ وہ میڈ رڈ آکر یو نیو رسٹی میں کچھ لیکچر دیں ۔ اقبال پہلے ہی سے اس سفر کے لیے تیا ر تھے کیو نکہ وہ تو لا ہو ر سے یہی تہیہ کر کے چلے تھے کہ اس دفعہ سپین ضر ور جا ئینگے ۔ +پر و فیسر مذ کو ر کی دعو ت نے اس شو ق کو مزید مہمیز کیا ہو گا میڈر ڈ پہنچتے ہی اقبال کی ملا قا ت سپین کے وزیرتعلیم سے ہو ئی۔ میڈر ڈ ہی میں انکی ملا قا ت مشہو ر محقق محمو د خضیر ی سے ہوئی جو ان دنو ں فقہئِ اسلامی پر ریسر چ کر رہے تھے ۔ 24 جنو ر ی 1933کواقبال نے ’’ سپین اور فلسفہ ئِ اسلام ‘‘ کے مو ضو ع پر میڈ رڈ یو نیو رسٹی کی نئی عما ر ت میں لیکچر دیا۔ اجلا س کی صدا رت پر و فیسر آسین پیلا کیو س نے ہی کی تھی۔ +عبد المجید سا لک کہتے ہیں ’’ اقبا ل مسجد کی شا ن و شو کت سے اس قدر متا ثر ہو ئے کہ ان کا دل بے اختیا ر نما ز پڑ ھنے کو چا ہا چنا نچہ انہوں نے گا ئیڈ سے پو چھا وہ کہنے لگا میں بڑے پا دری سے پو چھ کر آتا ہو ں ادھر وہ پو چھنے گیا ادھر اقبا ل نے نیت با ند ھ لی اور اس کے واپس آنے سے پیشتر ادا ئے نماز سے فا رغ ہو گئے‘‘ ﴿ ذکر اقبال صفحہ182﴾فقیر سید وحید الد ین لکھتے ہیں ’’ اقبال نے سا ت سو سا ل بعد پہلی با ر مسجد قر طبہ میں اذا ن دی اور نماز پڑ ھی ‘‘ ﴿رو ز گا ر ِ فقیر ج ا صفحہ 148﴾ +سر ما لکم ڈار لنگ بی��ن کر تے ہیں۔ +’’ اقبال نے مجھے اپنے قیا م سپین کی بڑی خو بصو رت کہا نی سنائی انہو ں نے بتا یا کہ وہ قر طبہ کی عظیم الشا ن مسجد دیکھنے گئے تھے انہو ں نے گا ئیڈ سے اس جگہ نماز ادا کر نے کی اجا ز ت طلب کی کیو نکہ یہ کسی زمانہ میں مسجد رہ چکی تھی اور اب کلیسا میں تبد یل ہو چکی ہے گا ئیڈ نے کہا کلیسا کے راہب اس پر خو ش نہ ہونگے لیکن انہو ں نے اسکی پر و ا نہ کی اور مصلّٰے بچھا دیا۔ اتنے میں ایک پا در ی احتجا ج کے لیے وہا ں آنکلا اقبا ل نے کہا گائیڈ سے کہا کہہ دو کہ ایک با ر مد ینہ میں عیسا ئیوں کا ایک وفد کچھ مطا لبا ت لے کر رسو ل پا ک �ö سے ملنے آیا حضور �ö نے مسجد نبوی میں انہیں ٹھہرا یا جب عبا د ت کا وقت آیا تو عیسا ئی مترد د تھے کہ آیا وہ مسجد کے اند ر اپنے عقید ہ کے مطا بق عبا د ت کر سکیں گے جب سر ور ِ کائنات کو اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں بخو شی عبا د ت کی اجا زت مرحمت فر ما ئی ۔ +’’جب ہما رے نبی (ص) نے عیسائیوں کو اپنی مسجد میںعبا د ت کی اجا ز ت دے دی تھی تو میں اس جگہ جو کسی وقت مسجد ہی تھی کیا نما ز ادا نہیں کر سکتا ۔پا در ی سے اس کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور اقبا ل نے نماز شر وع کر دی ۔جب اقبال نے نماز ختم کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کلیسا کے تما م پادری اس منظر کو دیکھنے کے لیے جمع ہو چکے ہیں بلکہ ان میں سے ایک نے تو اس منظر کی تصو یر بھی لے لی۔ اسکے بعد اقبال نے کہا غا لبا ً میں واحد مسلما ن تھا جس نے گذ شتہ چا ر سو سال میں یہا ں پہلی با ر نماز ادا کی تھی ‘‘ +﴿بحوا لہ نو ائے وقت 10 مئی1959 �÷ مضمو ن: لند ن میں یو مِ اقبال﴾ +اسی سلسلہ میں ایک مضمو ن کسی محمود الر حمن صا حب نے روز نامہ جنگ را و لپنڈی مؤرخہ 21 اپر یل 1974 �÷ میں شا ئع کر ا یا تھا اس میں محمود الر حمن صا حب بحوا لہ امتیا ز محمد خان لکھتے ہیں ۔ +’’قیا م لند ن سے ہی اقبا ل کا ارادہ مسجد قر طبہ کی زیا ر ت اور کسی نہ کسی طر ح وہا ں نماز ادا کر نے کا تھا مگر مسجدگر جا بنا ئی جا چکی تھی اور وہا ں اذا ن و نماز دو نو ں کی مما نعت تھی اس لیے انہو ں نے اپنے استا د پر و فیسر آر نلڈ کی طرف رجو ع کیا اور پر و فیسر آر نلڈ کی کو شش سے انہیں مسجد قر طبہ میں نماز ادا کر نے کی اجا ز ت اس شر ط پر ملی کہ جب وہ مسجد کے اند ر دا خل ہو جا ئیں تو در وا ز ہ بند کر دیا جائے اور اس پر قفل لگا دیا جا ئے چنا نچہ ایسا ہی ہوا ۔ اقبال حسبِ قرا ر داد مسجد میں داخل ہو ئے آپ نے آواز کی پو ری شد ت سے اذا ن دی ۔ کہتے ہیں میں اس جذبے ، سر و ر اور کیفیت کو کبھی فرامو ش نہیں کر سکتا جو اس وقت مجھ پر طا ر ی تھی ۔4سو سا ل کے بعد مسجد کے اندر پہلی مر تبہ اللہ اکبر کی آواز محرا ب و منبر سے ٹکر ا ٹکر ا کر گو نج رہی تھی اذا ن سے فا رغ ہونے کے بعد اقبال نے مصلّٰے بچھا یا اور نماز ادا کر نے لگے دورا نِ نماز ان پر اس قدر رقت طا ر ی ہو ئی کہ سجد ے میں گر تے ہی بے ہو ش ہو گئے اس دورا ن عا لمِ رو یا میں دیکھا کہ ایک بز ر گ تشر یف لا ئے ہیں اور مجھے مخا طب کر کے کہہ رہے ہیں اقبال تم نے میری مثنوی کا بغو ر مطا لعہ نہیں کیا اسے مسلسل پڑ ھتے رہو اور میرا پیغا م دو سر وں تک پہنچا ئو اور جب اقبال ہو ش میں آئے تو دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہوچکا تھا ‘‘ +﴿اقبال ریو یو جو لا ئی ۔ اکتوبر 1977 نیز ’’اوراق گم گشتہ‘‘ ازرحیم نجش شاہین صفحہ332 ﴾ +آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب افسا نے میں پر اسرار رنگ آگیا ہے اور وہ جا سو سی افسا نو ں کی طر ح مزید دلچسپ ہو گیا ہے ،مگر اسکی افسانویت عیا ں ہے۔ ا س میں بتا یا گیا ہے کہ اقبال کو اس مسجد میں جانے کی خصو صی اجا ز ت اُنکے معرو ف استا د پر و فیسر آر نلڈ نے دلا ئی تھی ، مگر محمو د الر حمن کو کو ن بتا تا کہ کہا نی میں ایک بڑ ا جھول آگیا ہے کیو نکہ اقبال کا سفر ِ سپین 1933 �÷ میں ہے مگر اقبال کے وہ شفیق استاد پر و فیسر آرنلڈ صاحب اس سے قبل 1930 �÷ میں فو ت ہو چکے تھے ۔کہا نی کا آخر ی حصہ دیکھئے اقبال کو بے ہو شی میں جو مر دِ بز رگ ملتے ہیں ہم سمجھ رہے تھے وہ جناب سر و ر عا لم �ö ہو نگے مگر وہ مو لا نا رو م نکلے ۔نا معلو م مسجد ِ قر طبہ میں وہ کیا کر نے گئے تھے ؟ یہی بتا نے کہ ’’ اے اقبال تو نے میری مثنو ی کا بغو ر مطا لعہ نہیں کیا‘‘ اگر اقبال نے مثنو ی کا بغو ر مطالعہ نہیں کیا تھا تو پھر کس نے کیا ہو گا ۔ خو د اقبا ل نے سیاحتِ اسپین کے واقعات بیا ن کر تے ہوئے مسجد قر طبہ کے سلسلے میں جو کچھ بتا یا وہ بقول محمد عبد اللہ قر یشی یہ کچھ تھا ۔ +’’ میری را ئے میں اس سے زیا دہ خو بصو ر ت اور شا ند ار مسجد رو ئے زمین پر تعمیر نہیںہوئی عیسائیوں نے بعد فتح قر طبہ اس مسجد میں جا بجا چھو ٹے چھو ٹے گر جے بنا دیے تھے جنہیں اب صا ف کر کے مسجد کو اصل حا لت میں لانے کی تجو یز کی جا رہی ہے۔ میں نے ناظم آثا ر ِ قدیمہ کی معیت میں جا کر بہ اجا زت خا ص اس مسجد میں نماز ادا کی۔ قر طبہ پر عیسا ئیوں کے تسلط کے بعد جسے کم و بیش سا ڑھے چا ر سو بر س گز ر چکے ہیں اس اسلامی عبا د ت گا ہ میں یہ پہلی اسلا می نماز تھی ‘‘ ﴿آئینہئِ اقبال مر تبہ عبد اللہ قریشی صفحہ 18-19﴾ +عبد الر شید طا ر ق کی رو ایت کے مطا بق اقبا ل نے کہا! +’’ میں نے ہسپا نیہ میں مسلما نو ں کے تا ریخی مقا ما ت کا معا ئنہ کیا ، مسجد قر طبہ میں جس کی فضا صدیو ں سے بے اذا ن پڑ ی ہے ،حکا م کی اجا ز ت لے کر نماز ادا کی سجد ے میں گر کر خدا کے حضور گڑ گڑ ا یا کہ ’’ اللہ یہ وہ سر زمین ہے جہا ںمسلما نو ں نے سینکڑو ں بر س حکومت کی یونیورسٹیاں قا ئم کیں اور یو رپ کو علم و فضل سکھا یا جن کے دبد بے سے شیروں کے دل دہلتے تھے اور جن کے احسا ن کے نیچے آج تما م فر نگستا ن دبا ہو ا ہے ۔ آج میں اسی قو م کا ایک فر د انہی کی تعمیر کر دہ مسجد میں اغیا ر کی اجا ز ت لے کر نماز پڑ ھ رہا ہو ں ‘‘ +﴿ملفو ظا تِ اقبال مر تبہ ڈا کٹر ابو اللیث صد یقی صفحہ 274﴾ +اقبال کے فر ز ند ار جمند جنا ب ڈا کٹر جا وید اقبال نے انتہا ئی حقیقت پسند ی سے کا م لیتے ہو ئے لکھا ہے ۔ +’’ اقبال حکو متِ ہسپا نیہ کی اجا ز ت خا ص کے تحت ،نا ظم آثا ر ِ قدیمہ کی معیت میں نماز ادا کر نے کی خا طر گئے تھے۔ اس لیے مصلّٰے سا تھ لے کر گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ انتظا م ﴿اجا ز ت وغیر ہ حا صل کر نے کا ﴾ انہو ں نے قیا م میڈر ڈ کے دو را ن پر و فیسر آسین پیلا کو س یا وزیر تعلیم حکومت ہسپا نیہ کے ذر یعہ کر ایا ہو ان کے ہمرا ہ فو ٹو گرا فر بھی تھے جنہو ں نے نماز کی ادا ئے گی کے دو ر ان اور بعد میں انکی کئی تصو یر یں مسجد کے اندر کھینچیں جو کئی با ر اخبا رات میں شا ئع ہو چکی ہیں اور خاصی مقبول ہیں ‘‘ +﴿زندہ رود ج 3 صفحہ218﴾ +اب تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ سمجھ لیجئے کہ وہ حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب کے سفر نا مہ ئِ سپین کا ایک طر ح کا آغا ز یہ تھا اب اس کے بعد ان کا سفر نا مہ شر و ع ہو تا ہے ۔ جیسا کہ سفر نا مہ ئِ حجا ز اور سفر نا مہ ئِ عرا ق کے سلسلہ میں ہم وضاحت کر تے آرہے ہیں یہا ں بھی یہ وضا حت ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کے یہ سفر نا مے ہم نے انکی ڈا ئریو ں سے تر تیب دیے ہیں ،یو ں الفا ظ ان کے اپنے ہیں تحر یر انکی اپنی ہے وا قعا �� کے سلسلہ میں یا بعض مقا ما ت کی زیا ر ات کے سلسلہ میں کہیں تقد یم و تا خیر کر دی گئی ہے اور یہ تقد یم و تا خیر خو د حضرت صا حب کے ایما ئ پر کی گئی ہے۔ +جہا ں ہم نے وضا حت کی ضر و ر ت محسو س کی ہے وہاں اپنی طر ف سے اگر کچھ اضا فہ کیا ہے تو اسکی نشا ند ہی کر دی گئی ہے۔ کہیں اگر کسی کتا ب کا اقتبا س اصل صو ر ت میں دیا گیا تھا مگر پورا حو الہ در ج نہیں تھا تو کتا ب کا مکمل حوالہ بھی تحر یر کر دیا گیا ہے، تاکہ سفر نامہ میں کسی با ت کی تشنگی محسو س نہ ہو ۔اب آئیے حضرت پیر صا حب کے سفر نا مہ ٌٔ سپین میں انکی رفا قت کا شر ف حا صل کیجیے۔ +مطا لعہ ٔ اقبال میں جب با ل ِ جبر یل کی نظم ’’ مسجد ِ قر طبہ ‘‘ تک پہنچا تھا اور اسے قلب و ذہن میں اتا را تھا تو دل نے تڑ پ کر دعا کی تھی ’’ اے اللہ ا س عا جز طا لب علم کو بھی یہ سعا د ت عطا فر ما کہ وہ تیر اکعبہ ، تیر ے نبی کا مدینہ اور شوکت اسلام کا یہ مزا ر جسے مسجد قر طبہ کہا جا تا ہے دیکھ سکے اور اپنی رو ح شادکام کر سکے ‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا پو ری کی پوری منظو ر فر ما لی حر مین شر یفین کا دیدا ر کئی با ر کیا۔ 1982 �÷ میں سپین جا نے کی حسرت بھی پو ری ہو ئی۔ +27 دسمبر 1982 �÷ کو سفرِ سپین کا آغا ز ہو ا۔ مد تِ مدید سے یہ بے تا ب کن تمنا حر زِ جان بنی ہو ئی تھی کہ مسجد قر طبہ کو دیکھا جا ئے اور وہاں بیٹھ کر اقبال نے جو کچھ محسو س کیا تھا وہ اپنے اوپر وا رد کر نے کی کو شش کی جا ئے۔ خیا ل تھا کہ اُسکی نظم وہیں بیٹھ کر پڑ ھی جا ئے ممکن ہے وہ روحا نی وار دات مجھے بھی نصیب ہو جا ئیں جنہو ں نے اقبا ل کو سر اپا جذب و سوز بنا دیا تھا اور وہ چا ہنے لگے تھے کہ ہر صا حبِ دل اس مسجد کی زیا ر ت کر ے چنا نچہ انہو ں نے مو لا نا غلا م رسول مہر کو لکھا تھا ۔ +’’ مر نے سے پہلے قر طبہ ضر و ر دیکھو‘‘ +﴿گفتا رِ اقبال مر تبہ محمد رفیق افضل صفحہ165﴾ +انہو ں نے اپنے بیٹے کو قر طبہ سے تصو یر ی کا رڈ ار سا ل کیا تھا اور لکھا تھا ۔ +’’ میں خدا کا شکر گزا رہو ں کہ اس مسجد کو دیکھنے تک زندہ رہا۔ یہ مسجد تمام دنیا کی مسا جد سے بہتر ہے خدا کر ے تم جوا ن ہو کر اس عما ر ت کے انوا ر سے اپنی آنکھیں رو شن کر و ‘‘ +﴿خطو طِ اقبال مر تبہ رفیع الد ین ہا شمی صفحہ223﴾ +سپین کے سفر میں ہما ری اصل خو اہش یہی تھی کہ مسجد قرطبہ کو دل کی آنکھو ں سے دیکھا جا ئے اور اسکی دیواروں میں بسی ہوئی وہ آوازیں گو ش ِ نصیحت ہو ش سے سُنی جا ئیں جو صدیو ں پہلے کی مقد س اما نتیں ہیں اور جنہیں ان دیو ا رو ں نے اپنی چھا تی سے لگا یا ہوا ہے۔ +مسجد قر طبہ کو خلیفہ عبدا لر حمن نے 780 �÷ ئ میں شر و ع کیا تھا ۔ یہ عما ر ت حر مین شر یفین کے بعد معزز و محتر م گنی جانے والی چند مسا جد میں سے ایک ہے۔ خلیفہ نے اسکی تعمیر کا سنگِ بنیا د اس عز م سے رکھا تھا کہ اسکی تعمیر میں دنیا بھر کا حسن جمع کر دے ۔یہ رومی ، ایرا نی ، گا تھک ، دمشق و بغداد اور دیگر تما م تعمیر ی صنعتو ں کا مر قع ہو ۔اس میں وہ گلکا ر یا ں دکھا ئی جا ئیں کہ ہیکل سلیما نی کی داستا نیں فر امو ش کر دی جائیں اور فی الوا قع دنیا بھر کا تعمیر ی حسن اس میں جمع ہو گیا تھا ۔ اس کا مینا ر زمین سے اکہتر 71 گز بلند تھا اس کے گنبد کے نیچے تر شی ہو ئی لکڑی کا منطقہ تھا، چھت مختلف رنگوں کے سنگِ مر مر کے ایک ہزا ر تر انو ے ستو نو ں پر قا ئم تھی۔ یہ ستو ن شطر نج کی بسا ط جیسے مر بعو ں میں نصب تھے اور ایک مر بع میں پانچ ستو ن آتے تھے۔ ان ستو نو ں سے طو ل میں انیس 19 گلیا ں اورعر ض میں پہلی گلیو ں کو قطع کر تی ہوئ�� اڑ تیس38 گلیا ں بن گئی تھیں ۔مسجد کا جنو بی حصہ مشہو ر در یا کا ڈل کو ئید ر یعنی رود الکبیر کی جا نب وا قع تھا ۔یہ وہی الکبیر ہے جس کا ذکر اقبال کی نظم میں یو ں آیا ہے �ò +آبِ روا نِ کبیر تیرے کنا رے کوئی +دیکھ رہا ہے کسی اور زما نے کے خوا ب +اس جنو بی ر وکے یا دیوا ر میں انیس در و ا زے تھے جن پر نہا یت با ر یک کا م کی ہوئی کا نسی کی پتر یا ں چڑ ھی ہو ئی تھیں لیکن در میا نی در و ازے پر کانسی کی بجا ئے سو نے کی پتر یا ں تھیں ۔مشر ق او ر مغر ب کی دیوا ر وں میں بھی اسی طر ح کے نو نو در وا زے تھے ۔ +مسجد کی چھت ستو نو ن پر قا ئم تھی اور ان کی تر تیب اس اند ا ز سے ہو ئی تھی کہ دو نو ں طر ف متوازی راستے بنتے گئے تھے اِن ستو نو ں پر منقش نعل ایسی محرا بیں قا ئم تھیں چھت زمین سے تیس 30 فٹ بلند تھی اس لیے قد یم گا تھک کلیسا ئو ں کی سی تاریکی اس مسجد میں نہیں تھی۔ غر ضیکہ اس کی تعمیر ی خو بصو ر تی نے اسے اپنے دو ر کی عما ر تو ں میں ممینر کر دیا تھا اور بڑی جد ت عطا کر دی تھی مسجد قر طبہ فی الوا قع اُن عجا ئبا ت میں سے ہے جن پر انسان عش عش کر اٹھتا ہے ۔ +جب عیسا ئی اند لس پر قا بض ہو ئے تو مسجد قر طبہ بھی ان کی دسترس سے محفوظ نہ رہ سکی۔ مسجد کے اندر اس کے لا تعداد ستو نو ں کے درمیان جگہ گھیر گھیر کر بیسیوں چھو ٹے چھوٹے گر جے بنا ئے گئے جو دنیا بھر کے احتجا ج کے با وجو د پو ر ی طر ح صا ف نہیں کئے گئے البتہ مسجد کا حسین تر ین حصہ محر اب وا لا حصہ ہے جس پر ستو نو ں سمیت سو نے کے جڑ ائو کا کام کیا گیا ہے۔ اور خو ش قسمتی سے وہ ابتک اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔ +مسجد کے با ہر اسکے عا لیشا ن اکلو تے مینار پر جوا ذا ن کے لیے مخصو ص تھا اب گھنٹہ آویزاں ہے اسے رو من کیتھو لک عقیدہ کے مطا بق دن میں خا ص خاص اوقا ت پر بجا یا جاتا ہے ۔ مسجد قر طبہ مسلما نوں کی دیگر مسا جد کی طر ح رو شن اور تا بند ہ رکھی جا تی تھی چرا غ جلا نے کے لیے تیل کا سا لانہ خر چ314 من اور مو م بتیا ں جلا نے کے لیے 3 1/2 من مو م اور 34 سیر سو ت ہر سا ل صر ف ہو تا تھا۔ لیکن اب عیسا ئیوں کی عبادتگا ہو ں کی طر ح اسکی فضا ئیں تا ریک ہیں اور اس کے اند رسے ابھر تی ہو ئی بھا ری آرگن کی کر خت مو سیقی کے پس منظر میں اسکی ویرا نی اور بیکسی سے خو ف آتا ہے۔ را ت کو اسے دیکھیے اور اسکے اندر سے گھنٹے کی آو از سنیئے تو پو ری عما ر ت آسیب زدہ محسو س ہو تی ہے ۔ +مسجد قر طبہ تقر یبا ً 24 بیگھہ﴿ 96 کنال ﴾ زمین پر پھیلی ہو ئی ہے۔ +یہ تو وہ تفا صیل ہیں جو مختلف کتب تا ریخ میں ملتی ہیں اور ان میںسے کچھ اُن آنکھوں سے بھی دیکھی جا سکتی ہیں جو آدمی کی پیشانی کے نیچے چسپا ں ہیں سیا ح انہی کو دیکھتے ہیں تو بے کسی و کسمپر سی کی حا لت میں رو تی ہو ئی ایک عمارت انہیں دکھا ئی دیتی ہے۔ +جن لو گو ں نے کچھ تا ریخ کا مطا لعہ بھی کیا ہے وہ اس پر دو چا ر آنسو بھی بہا دیتے ہیںکچھ آہیں بھی بھر لیتے ہیں۔ اور پھر آگے چل پڑتے ہیں تا کہ اس گمشد ہ تہذ یب کے کچھ اور کھنڈ ر دیکھ لیں کچھ اور آنسو بہا لیں کچھ اور سسکیا ں بھر لیں۔ +مگر ایک اور مسجد قر طبہ بھی ہے جو اس کی فضا ئوں میں اب تک اپنی اصلی حالت میں مو جود ہے اور جو بصیرت کی آنکھو ں سے دیکھنے والو ں کے دل میں اتر جا تی ہے وہ اقبال کی وہی نظم ہے جو با لِ جبر یل کے صفحا ت پر سُلگ رہی ہے اور ہم نے مسجد قر طبہ ہی کے فر ش پر بیٹھ کر با ل ِ جبر یل کے وہ صفحا ت کھو ل لیے اور پڑ ھنے لگے آپ بھی ہما رے ساتھ پڑ ہیں۔ +﴿ہسپا نیہ کی سر زمین با لخصو ص قر طبہ میں لکھی گئی﴾ +سلسلہئ روز و شب نقش گرِ حادثات +سلسلہئ روز و شب ‘ اصلِ حیا ت و مما ت +سلسلہ ئ روز و شب ‘ تا رِ حر یرِ دو رنگ +جس سے بنا تی ہے ذا ت اپنی قبا ئے صفا ت +سلسلہ ئ روز و شب سا زِ ازل کی فغا ں +جس سے دکھا تی ہے ذا ت زیر و بمِ ممکنا ت +تجھ کو پر کھتا ہے یہ ‘ مجھ کو پر کھتا ہے یہ +سلسلہ ئ روز و شب ‘ صَیر فیِ کائنات +تو ہو اگر کم عیار ‘ میں ہوں اگر کم عیار +مو ت ہے تیر ی بر ات ‘ مو ت ہے میر ی برا ت +تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ! +ایک زمانے کی رو ‘ جس میں نہ دن ہے نہ ر ات +آنی و فا نی تمام معجز ہ ہا ئے ہنر ! +کا ر ِ جہا ں بے ثبا ت! کا ر ِ جہا ں بے ثبا ت +اول و آخر فنا ‘ با طن و ظا ہر فنا +نقشِ کہن ہو کہ نَو ‘ منزل آخر فنا ! +ہے مگر اس نقش میں رنگ و ثبا تِ دو ام +جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام +مر دِ خدا کا عمل عشق سے صا حب فر و غ +عشق ہے اصلِ حیا ت ‘ مو ت ہے اس پر حرا م +تُند و سبک سیر ہے گر چہ زما نے کی رَ و ! +عشق خود اک سیل ہے ‘ سیل کو لیتا ہے تھام +عشق کی تقو یم میں عصر رو اں کے سوا +اور زما نے بھی ہیں جن کا نہیں کو ئی نا م +عشق دمِ جبر ئیل ، عشق دل ِ مصطفی! +عشق خدا کا رسول ‘ عشق خدا کا کلا م +عشق کی مستی سے ہے پیکر ِ گل تا بنا ک +عشق ہے صہبا ے خا م ‘ عشق ہے کا س الکرا م +عشق فقیہ ِ حر م ‘ عشق امیر جنو د +عشق ہے ابن السبیل ‘ اس کے ہزا رو ں مقا م +عشق کے مضر اب سے نغمہ ئ تا ر حیا ت +عشق سے نو ر ِ حیا ت عشق سے نار حیا ت +اے حر م قر طبہ عشق سے تیرا وجو د +عشق سر ا پا دوام جس میں نہیں رفت و بود +رنگ ہو یا خشت و سنگ ‘ چنگ ہو یا حرف و صو ت +معجز ہ ئ فن کی ہے خو نِ جگر سے نمو د ! +قطر ہ خو نِ جگر ‘ سل کو بنا تا ہے دل +خو نِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود +تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سوز +عر شِ معلی سے کم سینہ ئ آدم نہیں +گر چہ کفِ خا ک کی حد ہے شہر کبو د +پیکر ِ نُوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا +اس کو میسر نہیں سوز و گداز سُجو د +کا فر ِ ہند ی ہو ں میں ‘ دیکھ مرا ذو ق و شو ق +دل میں صلو ۃ و درود ‘ لب پہ صلو ۃ و درود +شو ق مری لے میں ہے‘ شو ق مر ی نے میں ہے +نغمہ ئ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے +تیر ا جلا ل و جما ل ‘مردِ خدا کی دلیل +وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل +تیر ی بنا پا یدا ر ‘ تیرے سُتو ں بے شما ر +شا م کے صحرا میں ہو جیسے ہجو مِ نخیل! +تیرے در و بام پر وا دی ایمن کا نُو ر +تیر ا منا رِ بلند جلو ہ گہِ جبر ئیل +مٹ نہیں سکتا کبھی مر دِ مسلما ں ‘ کہ ہے +اس کی اذانو ں سے فا ش سرِ کلیم (ع) و خلیل(ع) +اس کی زمیں بے حدود ‘ اس کا اُفق بے ثغو ر +اس کے سمند رکی مو ج‘ دجلہ و دنیو ب و نیل +اس کے زمانے عجیب ‘ اس کے فسا نے غر یب +عہد کُہن کو دیا اس نے پیا م رحیل! +سا قی ار با ب ذو ق ‘ فا ر سِ میدا نِ شو ق +با دہ ہے ا س کا ر حیق تیغ ہے اس کی اصیل +مر د سپا ہی ہے وہ اس کی زر ہ لا الہ +سا یہ ئ شمشیر میں اس کی پنہ لا الہ +تجھ سے ہوا آشکا ر بند ئہ مو من کا راز +اس کے دنو ں کی تپش ‘ اس کی شبو ں کا گداز +اس کا مقا م بلند ‘ اس کا خیا ل عظیم +اس کا سر و ر اس کا شو ق ‘ اس کا نیا ز ‘ اس کا ناز +ہا تھ ہے اللہ کا بند ئہ مو من کا ہا تھ +غا لب و کا ر آفر یں‘ کا ر کُشا ‘ کا ر سا ز +خا کی و نو ر ی نہا د ‘ بندہ ئ مو لا صفا ت +ہر دو جہا ں سے غنی‘ اس کا دل بے نیا ز +اس کی امید یں قلیل ‘اس کے مقا صد جلیل +اس کی ادا دل فر یب‘ اس کی نگہ دل نواز +رز م ہو یا بز م ہو ‘ پاک دل و پا کبا ز +نقطہ ئ پر کا ر حق ‘ مر دِ خدا کا یقیں +اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز +عقل کی منزل ہے وہ ‘ عشق کا حاصل ہے وہ +حلقہئ آفاق میں گ��میِ محفل ہے وہ +کعبہئ اربابِ فن! سطوتِ دینِ مبین +تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں +ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر +قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں +آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار! +حاملِ ’’خلقِ عظیم‘‘ صاحب صدق و یقیں +جنکی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غر یب +سلطنتِ اہل دل فقر ہے‘ شا ہی نہیں! +جنکی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب +ظلمتِ یورپ میں تھی جنکی خرد راہ بیں +جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی +خوش دل و گرم اختلاط ‘ سادہ و روشن جبیں! +آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال +اور نگا ہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں +بوئے یمن آج بھی اس کی ہوا ئوں میںہے +رنگ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے +دیدہئ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں! +آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذا ں +کون سی وادی میں ہے‘ کون سی منز ل میں ہے +عشقِ بَلاخیز کا قافلہئ سخت جاں! +دیکھ چکا المنی‘ شورشِ اصلاح دیں +جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشا ں! +حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیرِ کُنشت +اور ہوئی فکر کی کشتیئ نازک رواں +چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب +جس سے دِگر گوں ہوا مغربیوں کا جہاں +ملت رومی نژاد کہنہ پر ستی سے پیر +لذتِ تجدید وہ بھی ہوئی پھر جواں +روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب +رازِ خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں +دیکھئے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا +گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا! +وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب +لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب +سادہ و پُر سوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت +کشتی دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب +آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی! +دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب! +عالمِ نَو ہے ابھی پردہ تقدیر میں! +میری نگاہوں میں ہے اسکی سحر بے حجاب +پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے! +لانہ سکے گافرنگ میری نوائوں کی تاب +جس میں نہ ہو انقلاب ‘ موت ہے وہ زندگی +روحِ اُمَم کی حیات کشمکشِ انقلاب +صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم +کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب +نقش ہیں سب ناتمام ‘ خونِ جگر کے بغیر! +نغمہ ہے سودائے خام‘ خون جگر کے بغیر۱ +ہم دیر تک وہا ں بیٹھے رہے اور اقبال کی نظم کا ایک ایک مصر ع ہم سے محو گفتگو رہا۔ مسجد کے انچا ر ج بڑے متعصب لوگ تھے وہ با ر بار چکر لگاتے اور ہمیں ایسی کھا جا نے والی نظر و ں سے گھو رتے جیسے ہم غیر محسو س طر یقے سے ان ہوا ئوں کو مسمو م کر رہے تھے ۔جن میں سا نسیں لیتے تھے اور اُن فضا ئو ں میں شعلے گھو ل رہے تھے جن میں ان کے آرگن اور انکے گھنٹے و حشیا نہ قہقہے بکھیر تے تھے ۔ +آخر ہم یہاں سے دلگیر و افسر دہ اُٹھ کر آئے یہیں ہمیں ایک نو مسلم عبد الما لک مل گیا بڑ ا پیارا ‘ محبت کر نے والا دلآویز و دلبر با آدمی تھا وہ اس بات پر نا زا ں تھا کہ اللہ نے اُسے قبول کر لیا تھا اور وہ دین ِ حق و صدا قت میں دا خل ہو گیا تھا۔ بھا ئی عبد الما لک ہمیں سعو دی عر ب کے خرچ پر چلنے والے ایک سنٹر میں لے گیا ۔ یہاں ایک پاکستانی بھا ئی گلنا ر علی اور اُسکے دو عز یز وں سے ملا قا ت ہو ئی ان عزیز وں کے نام ذہن سے اتر گئے ہیں۔ +سپین کی حکومت کو اب ان یا د گا روں کی اہمیت کا کچھ خیا ل آرہا ہے اور اب یہ اتوا ر کو ٹکٹ کے بغیر مگر دو سرے دنو ں میں ٹکٹ پر دکھا ئی جا تی ہے۔ سعو دی عر ب کی حکومت نے سنٹر کے سا تھ مسجد کے لیے زمین لے رکھی ہے لیکن ابھی مسجد کی تعمیر کا کام شر و ع نہیں ہو ا ۔ +قر طبہ میں ایک دو مسجد یں احمد یو ں نے بھی بنا رکھی ہیں۔ +ہم نے را ت اسی سنٹر میں گز ا ر ی مسجد کے لیے جو زمین لی جا چکی ہے۔ اس سے مسجد کا کا م لیا جا رہا ہے ۔ ہمیں بتا یا گیا کہ اس مسجد کے اما م غبن کے کیس میں ملو ث ہو کر جیل پہنچ چکے ہیں اب جو صا حب اما مت کے فرا ئض پر متعین تھے وہ نماز وں کے پو ر ی طر ح پا بند نہیں ۔ آج بھی فجر کی نماز میں وہ غیر حا ضر تھے ۔ اسلامک سنٹر میں کچھ تبلیغی جما عت والو ں سے بھی ملا قا ت ہو ئی ۔ +یہاں ایک چھو ٹی سی لا ئبر یر ی بھی ہے مگر وہ ’’ و ہا بیت ‘‘ کی کتا بو ں سے بھر ی ہو ئی ہے۔ دو سرے روز ہم گلنا ر علی صا حب کے سا تھ پھر مسجد قر طبہ کی زیا رت کو گئے اور انہی کر ب خیز اور در د انگیز کیفیا ت سے دو چا ر ہو ئے جو کل ہم پر طا ر ی ہو ئی تھیں۔ +ادھر ادھر پھر کر قر طبہ شہر کی ویرا نیا ں دیکھیں دل کو تھوڑا سکو ن بھی ہوا کہ بے شک قسمت نے ہما را سا تھ چھو ڑ دیا اور ہما ری بد نصیبی نے ہمیں طر ح طرح کے مصا ئب کا شکا ر بنا یا لیکن اند لس کی سر زمین بھی رو رہی ہوگی اور رو رہی ہے کہ اس نے کیا کھو یا او رکیا پا یا ۔ آنے والے سیا ح بھی یہی تا ثر لے کر جا تے ہیں کہ اند لس مسلما نو ں سے محرو م ہو کر اپنے بخت سے محر و م ہو گیا اور اپنی سعادتمند یو ں سے بے نصیب ہو گیا ۔ +کبھی ہم نے بھی کی تھی حکمرا نی اہل دنیا پر +مگر وہ حکمر انی جس کا سِکہ جا ن و دل پر تھا +پھر ہم قصر زہرا گئے جو قر طبہ سے چند ہی میل دو ر ہے +عبد الر حمن کے اس قصرِ عظمت نشا ن کے اب صر ف کھنڈر رہ گئے ہیں مگر �ò +ذرّو ں پہ ثبت عظمتِ جا ہ و جلا ل تھی +کھنڈر بتا رہے تھے عما ر ت کما ل تھی +یہ طلسمی قصر زہرا کیا تھا ؟ اسکی تفا صیل تا ریخ میں ملتی ہیں ۔مسٹر جیر ار ڈ ﴿M. GIRARD﴾کی ’’ تار یخ اندلس ‘‘ سے تر تیب دییہوئے در جِ ذیل اشا ر ا ت شا ید اسکی عظمتوں کا پر تو سامنے لا سکیں۔ اس عما رت میں چا ر ہز ا ر تین سو ستو ن قیمتی سنگ مر مر کے تھے انکی تر اش بھی غضب کی تھی۔ قصر کے دالا نو ں میں سنگ مر مر کا مر بع فر ش تھا جس میں ہز ا ر قسم کی گلگا ریا ں تھیں دیوا رو ں پر بھی سنگ مر مر کی دست کا ر ی تھی جس پر مختلف رنگو ں کے بیل بو ٹے بنے ہوئے تھے ۔چھتو ں میں بیچ در بیچ سنہر ی اور زنگا ری رنگ آمیز یا ں تھیں ۔چھت کے تختے اور شہتیر صنو بر کی لکٹر ی کے تھے ۔جن پر مہارت سے پھول بنا ئے گئے تھے ۔ادھر ادھر خو ش نما فوا رے چھو ٹ رہے تھے ۔انکی پھوا ریں رنگو ں میں نہا کر حو ضو ں میں گر تی تھیں جس دالان کا نام قصر الخلیفہ تھا ایک سنگ یشب کا حو ض تھا جس کے اوپر قسطنطنیہ کی بے مثا ل دستکا ری کا شا ہکا ر سو نے کا بگلا بیٹھا تھا القصر کے سا منے بڑے دلکشا اور دلر با با غا ت تھے۔ جن میں قسم قسم کے پھلدا ر در خت تھے بڑے با غ کے وسط میں خلیفہ کا کو شک بلند ی پر بنا ہوا تھا اور اس کے ستو ن سفید سنگ مر مر کے تھے جن کا اوپر کا حصہ مطلا تھا۔ کو شک کے وسط میں سنگ سما ق کا مشہو ر حو ض تھا جس میں پانی کی جگہ پا رہ بھر ا ہوا تھا ایک خا ص انداز سے اس میں سو ر ج کی کر نیں بڑا خو بصو ر ت منظر پیش کر تے ہوئے منعکس ہو تی تھیں۔ ان ہی با غا ت میں شا ہی حمام تھے جن میں ہر طر ح کے خو بصو رت قا لین بچھے رہتے تھے۔ ان پر پھول اور پر ندے اس مہا ر ت سے بنے ہوئے تھے کہ اصل کا گما ن ہو تا تھا ۔ +سفید سنگ مر مر المر یہ سے آیا تھا اور گلا بی اور سبز مر مر قر طا جنہ اور تیو نس سے ، طلا کا ر شا م سے آیا تھا ۔اس فوا رہ پر انسا نی تصو یر یں بنی ہوئی تھیں جنہیں احمد یو نا نی جیسے معر و ف نقا ش نے بنا یا تھا۔ قصر الخلیفہ کے ہر طر ف آٹھ آٹھ در تھے جنکی محر ابیں ہا تھی دا نت اور آبنو س کی بنی ہو ئی تھیں اور سو نے جو اہر ات سے مر صع تھی�� ان محر ا بو ں کے ستو ن مختلف الا لو ا ن سنگ مر مر اور بلو ر کے تھے ۔ +ابنِ حیا ن نے بھی قصر زہرا کی ایسی ہی تفا صیل بیا ن کی ہیںمگر اب تو صر ف کھنڈ را ت ہیں۔ حکو مت نے ان کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ لگا رکھا ہے ۔ یہا ں کی انچا ر ج ایک عو ر ت تھی جس نے بہت سے کتے رکھے ہو ئے تھے یہ مختلف نسلو ں کے تھے اور یہ کھنڈ ر انکی آرا م گا ہیں بن گئے تھے ۔ +خدا کی شا ن ہے جن ایو انو ں میںکبھی سو ر ج کی شعا عیں بھی احتر ام سے دا خل ہو تی تھیں اور ہوا ئو ں کو بھی بہ احتیا ط قد م دھر نا ہو تا تھا کہ دیکھو شو ر نہ ہو کسی حسین کا خوا ب نا زنیں ٹو ٹ نہ جا ئے ،آج وہا ں ویرا نیو ں کے ڈیر ے ہیں ،انہی کھنڈ رو ں میں خدا کی ابد یت کا جلا ل بھی جیسے جیسے قد م قدم پر ہما رے ذہن پر اپنی ہیبت طا ر ی کر رہا تھا ہم نے وہیں نماز ادا کی۔ وہا ں اور بھی کئی سیا ح پھر ر ہے تھے۔ وہ رک کر تعجب سے ہما ری نماز دیکھ رہے تھے ہم نے سلا م پھیر کر کہا جن آبا ئو اجدا د کی اولا دیںبد گیر ہو ں انکے وار ثو ں اور انکی چھو ڑی ہوئی جا ئید ا دو ں کا یہی حا ل ہوتا ہے ہمیں کیا دیکھتے ہو ہم اپنے عظمت ما ٓ ب اسلاف کے نا خلف فر زند ہیں۔ اپنے بز ر گو ں کے تر کے دیکھتے پھر تے ہیں۔ آنسو بہا تے اور آہوں سے طوفان اٹھا تے پھر تے ہیں ۔ +گر الڈ ا اور اشبیلیہ کا قصر +طلیطلہ میں بھی گئے ،طلیطلہ کے گر د مسلما نو ں کی بنا ئی ہو ئی فصیل اور بُر ج اب تک مو جو د ہیں شہر کے در وا ز وں میں بسکر ہ اور با ب الشمس اب تک مو جو د ہیں یہ با لتر تیب نو یں اور دسو یں صد ی عیسو ی کی یا د گا ر یں ہیں ۔ +اشبیلیہ کی سب سے قد یم عر بی عما رت ایک بر ج ہے جسے گِر ا لڈا کہتے ہیں یہ سر خ اینٹو ں کی بنی ہوئی ایک خو بصو ر ت مکعب شکل کی عمار ت ہے یہ او ر و نس کے بر ج سینٹ ما رک سے کچھ مشا بہت رکھتی ہے ۔ اسے ایک الگ عما ر ت نہیں سمجھنا چا ہیے۔ اصل میں یہ اس مسجد کا مینا ر ہے جسے خلیفہ المنصو ر نے 1195 �÷ ئ سے تعمیر کر ایا تھا۔ گر الڈا کے باہر کی جا نب پتھر کی ترا شی ہو ئی جا لیا ں اور جا بجا کھٹر کیا ں ہیں، جن میں سے بعض کی محرا بیں پھیلی ہو ئی ہیں اور بعض پھو لدا ر نکیلی ہیں ۔ +اشبیلیہ میں القصر بھی مسلما نو ں کی ایک عظیم یا د گا ر ہے۔ اصل عما ر ت گیا ر ہو یں صد ی عیسو ی میں شر و ع ہو ئی لیکن اس کا بہت بڑا حصہ تیر ہو یں صد ی عیسو ی میں مکمل ہوا ۔ اس میں عیسائی با د شا ہ بھی آکر رہے اس لیے انہو ں نے بھی اسکی تکمیل میں حصہ لیا لیکن ان کے دو ر کی بھی کا ر ی گر ی غما زی کر رہی ہے کہ یہا ں اصل عما ر ت کو بگا ڑ کر وحشی ہا تھو ں نے اپنی کا ر گز ا ر ی دکھا ئی ہے ۔ اس وقت اند لس کے شہر و ں میںاشبیلیہ ہی زند ہ اورکسی حد تک مہذ ب شہر ہے ۔ ہم ان علا قو ں سے سر سر ی گز ر گئے ۔ اور غر نا طہ کی طر ف پلٹ آئے کیو نکہ یہا ںہمیں ابھی ’’الحمرائ‘‘ کا قصر دیکھنا تھا جسے مسلما ن ’’ قلعہ الحمرا ئ ‘‘ بھی کہتے تھے ۔ +یہ قصر شہر کے کنا رے ایک ٹیلہ پر وا قع ہے جو سیرا نوا ڈا کی بر ف سے ڈھکی ہو ئی چو ٹیو ں کے نیچے اور بہتر ین جا ئے وقو ع پر تعمیرہوا ہے۔ ٹیلے کے نیچے سے الحمرا ئ کے مر بع شکل کے سر خ بر مو ں کی چو ٹیا ں نیلگو ں آسمانی زمین پر نظر آتی ہیں ان کا نیچے کے حصہ سبز ہ زار میں چھپا ہوا ہے اگر ہم اسکے پر انے در ختو ں کی قطا ر وں میں چلیں جن پر قسم قسم کے پر ندے چہچہا رہے ہیں اور جنکی دو نو ں جا نب چشمے روا ں ہیں تو ہم تھوڑی ہی دیر میں اس قصرِ عظیم کے در و ا زہ پر پہنچ جا تے ہیں ۔اسکی ثنا خوا نیو ں میں بہت سے شعر ائ رطب اللسا ں رہے ہیں کتا ب اور ی اینٹا ل کے مصنف نے بھی اسکی تعر یف میں اشعا ر لکھے ہیں ہم سید علی بلگرا می کاکیا ہو ا منظو م تر جم نقل کر رہے ہیں۔ +کیا جنا ت نے آرا ستہ جس قصر ِ شا ہی کو +بنا یا جس کو گھر ہر رنگ کی نغمہ سر ائی کا +نظر آتا ہے عالم خوا ب کا سا را طلسماتی +وہ الحمرا ئ ہے الحمرا ئ نہیں جس کا کوئی ہمتا +ہزا ر افسو س تیر ی بیکسی اور زا ر حالت پر +کہ تو اب منہد م ہو نے لگا ہے حسرتا دردا +تر ا وہ قلعہ اور کنگو ر ے دا ر اسکی وہ دیوا ر یں +جو اب گر نے لگی ہیں‘ ہے سما ں جن میں تنز ل کا +جہا ں کا نو ں میں جا دو کی صد ائیں شب کو آتی ہیں +جہا ں شا ید ہے تیر ی عظمت و شوکت کا ہر ذرا +جہا ں چا ند ا پنی نو را نی شعا عو ں سے بصد خو بی +تر ے دیو ار و در کو عمد گی سے آکے ہے دھو تا +سما ں وہ بھی ہے تیر ا دیکھنے کے لا ئق و قا بل +نہیں الفا ظ میں جس کا بیان لطف آسکتا +الحمرا ئ کے حسن اور اسکی شا ن و شوکت پر ہر زبان میں بڑ ا لٹر یچر مو جو دہے میںاس پر کو ئی اضا فہ نہیں کر سکتا اور اسے دہرا نا تحصیل حاصل سمجھتا ہوں اس لیے انیس کے ہمز با ں ہو کر کہے دیتا ہو ں �ò +بھلا تر در ِ بیجا سے ان میں کیا حاصل +اٹھا چکے ہیں زمیندا ر جن زمینو ں کو +دنیا کے اس دو لھا کے سا تھ و حشی عیسا ئیو ں نے کیا کیا ؟ اس کا جو ا ب در ج ذیل تفا صیل میں ملیگا ۔ جو ہم نے نہیں ایک منصف مزا ج عیسا ئی نے لکھی ہیں۔ ڈا کٹر گستا ولی با ن لکھتے ہیں ۔ +’’ کل صناع اور اہل کما ل جنہو ں نے الحمرا ئ کو دیکھا ہے اند لس کے نصا ر یٰ کی اس عجیب و غریب وحشیا نہ حر کت کو افسو س کے سا تھ بیا ن کر تے ہیں جوا ن سے اس قصر کو بر با د کر نے میں سر زد ہوئی ہیں ۔چا رلس پنجم نے تو اس کا ایک حصہ اس غر ض سے تو ڑہی ڈا لا تھا کہ اس کے مسالہ سے ایک دو سری بے ڈھنگی عما ر ت بنا ئے لیکن اور حکومتو ں نے بھی اس کو محض ایک ویرا نہ سمجھ لیا جس کی اشیا ئ دو سرے کا مو ں میں مستعمل کی جا سکیں ‘‘ +﴿’’تمد ن عِرب ‘‘ اردو تر جمہ از سید علی بلگرامی ص 271﴾ +مؤ ر خ اند لس ڈیو ی لا ئنرز ﴿DAVILLIERS﴾اپنی کتا ب ’’ اند لس ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ +’’ وہ خو بصو ر ت چینی کی تختیا ں جو قصر کے دالا نو ں میں نصب تھیں چند سا ل قبل پیس کر چو نا بنانے کی غر ض سے فر وخت کر دی گئیں۔ مسجد کا کانسی کا در وا زہ پر انے تا بنے کے نا م سے بکا اور وہ لکٹر ی کے کندہ کئے ہو ئے بیش بہا در وا زے جو دار بنی سرا ج میں لگے ہوئے تھے ایند ھن کے طو ر پر کا م میں لا ئے گئے جو چیز یں اس قصر میں سے بِک سکتی تھیں بیچ دی گئیں اور پھر یہ محل بڑی جیل کے طو ر پر کا م میں لا یا گیا پھر اس میں فو جی رسد کا کا ر خا نہ بنا یا گیا صفا ئی کی آسا نی کی غر ض سے تما م نسخی آرا ئشیں اور گلکا ر یا ں اس طر ح مٹا ئی گئیں کہ ان پر چو نے کا پلستر کر دیا گیا ‘‘ +﴿بحو الہ تمد نِ عرب صفحہ 272 ﴾ +ایک مدت تک سیا ح شا عر اور دو سرے دلدا دگا نِ فنو ن لطیفہ اس کا روا ئی پر رو تے رہے اور عیسا ئی حکمرا نو ں اور عو ام کے کا ن پر جو ں تک نہ رینگی لیکن پھر آہستہ آہستہ احسا س ہو گیا کہ وہ قیمتی ہیرو ں کو گیند بنا کر ہا کی کھیلتے رہے تھے انہو ںنے ادھر ادھر سے کا ریگر اور ما ہر ین بلا کر اپنی بر با د کر دہ اشیا ئ کی مر مت کا کا م شر وع کیا بہر حال جو لشتم پشتم آگے بڑ ھ رہا ہے مگر ویسے شا ہکا ر ا ب کہا ں تشکیل جد ید حا صل کر کے اصل بن سکتے ہیں۔ الحمرا کی مسجد اب چر چ آف سینٹا ما ریا ﴿SANTA MARIA﴾ہے ۔ +بہر حا ل ہم نے قصر الحمرا ئ دیکھا آنسو بہا ئے اپنے مسلما ن بھا ئیوں کی بد عملی پر افسو س کیا اور ان عیسا ئیو ں پر بہت زیا دہ افس�� س ہو ا جو اپنے آپ کو تر قی ، رو شن خیا لی اور بے تعصبی کا مر قع سمجھتے ہیں مگر عملا ً وحشیو ں اور جا ہلو ں سے بہت پیچھے ہیں۔ +خیا ل پیدا ہوا کہ مسلما نو ں کی جو تھوڑ ی بہت آبا دی اس وقت مو جو د ہے کچھ ان سے ملا ملا یا جا ئے اور حا لا ت معلو م کئے جا ئیں اسی سلسلہ میں PALSA COLON نا می ایک کا ر پارک میں گئے یہا ں مر اکش کے ایک مسلما ن جنر ل نے انچا س سا ل قبل ایک چھوٹی سے مسجد بنو ائی تھی ۔ جس کی چا بی ایک پاکستانی بھا ئی جان محمد کے پا س رہتی تھی معلو م ہو ا کہ وہ اکثر مسجد مقفل رکھتا ہے۔ وہا ں سے ہم شیخ عبد القادر کے زا ویہ میں گئے شیخ صا حب کے نو مسلم مر ید عبد البصیر سے ملا قا ت ہوئی ۔ یہ صا حب سپین ہی کے رہنے والے ہیں اور یو نیو ر سٹی میں پر و فیسر ہیں ۔ یہی ان د نو ں زا ویہ کے انچا ر ج بھی ہیں۔ سلمان اور ابو ہر یر ہ سے ملا قا ت ہوئی ۔ دو نو ں نو جوا نو ں نے داڑ ھی رکھی ہو ئی ہے سپین میں سات سا ل قبل جنا ب شیخ عبد القا در نے تبلیغی کا م کی بنیا د رکھی اور کام کا آغا ز کیا انکی مسا عی سے اب تک با ئیس آدمی مسلما ن ہو چکے ہیں یہ سنٹر یا زاویہ انہو ں نے تین سا ل قبل قا ئم کیا تھا یہا ں مسجد و مد رسہ میںبھی با قا عد ہ عر بی کلا سیں ہو تی ہیں۔ ایک نو مسلم عز یز نے بتا یا کہ اس شہر میں دو سو مساجد تھیں جو سب کی سب گر جو ں میں بد ل دی گئی ہیں ایک قرطبی مسلما ن سے ملا قا ت ہوئی جو حسر ت سے کہہ رہا تھا اس ملک میں سا ری مسجد یں گر جے بنا دی گئیں ۔ اس سفر میں حاجی عد الت خا ن نو شا ہی ، محمد شر یف نو شا ہی ‘ محمد ر شید نو شا ہی اور محمد صدیق نو شا ہی سا تھ رہے ۔ جنو ر ی 83 �÷ میں واپسی ہوئی ۔ +سفر نا مو ں کی خصو صیت +قا رئین نے ان سفر نا مو ں میں ایک خا ص با ت محسو س کی ہو گی ہم بھی اس کی طر ف اشا رہ کئے دیتے ہیں وہ خا ص با ت یہ ہے کہ یہ سفر نا مے دو سرے سفر نا مو ں سے مختلف ہیں سفر نامہ نگا ر جس شہر میں جا تے ہیں وہا ں کی مو جود معا شر ت اور ما حو ل تک ہی اپنے قلم کو محد ود کئے رکھتے ہیں ۔ان سفر نا موں میں یہ با تیں بہت کم کی گئی ہیں ’’ زیا رات ‘‘ کو زیا دہ اہمیت دی گئی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ سفر نامہ نگا ر ’’ گھر سے گھر تک ‘‘ کا مسافر نہیں وہ ’’ گھر سے با لا تر تک ‘‘ جا تا ہے اسے نقو شِ پا اکٹھے کر نے ہیں ایسے نقو ش پا جو سید ھے مد نی کے در تک جا تے ہیں اور وہا ں سے عرش تو بس دو قدم ہے۔ وہ ان تما م مسا فرو ں کے نشا نا ت پا کھو جتا پھر تا ہے جو اس سے پہلے ان راہو ں پر چلے ہیں یو ں یہ سفر نا مے ایک قسم کے ’’روحانی سفر نا مے ‘‘ ہیں۔ اِن سفر نا مو ں میں آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ سفر نامہ نگا ر ایک عا ر ف ِ راہ سلوک ہی نہیں ایک مبتحر عالم شر یعت بھی ہے اور طریقت کو سا تھ لے کر چلتا ہے عار فِ شیرا ز حا فظ شیرا زی نے شا ید اسی کے لیے یہ بہت بڑا شعر کہا تھا �ò +در کفے جا مِ شر یعت ‘ در کفے سند انِ عشق +ہر ہو سنا کے ندا ند جا م و سند ا ں با ختن +آپ محسو س کر ینگے کہ حضرت پیر صا حب کی نر م و گر م انگلیا ں آپ کی نبضو ں پر ہیں وہ جہاں کہیں کوئی اعترا ض ، کوئی سو ال دھٹر کتا محسو س کر تے ہیں آپ کے پو چھے بغیر اس کا جو ا ب حا ضر کر دیتے ہیں۔ +اس طر ح یہ سفر نا مے دو سرے سفر نا مو ں سے خا صے مختلف ہیں جن لو گو ں نے ’’ سفر نا مہ ابن بطو طہ ‘‘ پڑ ھا ہے ۔وہ جا نتے ہیں کہ اس سفر نامہ کا پہلا حصہ بھی محض خانقا ہو ں کی زیا رت تک محد ود ہے اس طر ح حضرت پیر صا حب کے سفر نا مے ’’ سفر نا مہ ابن بطو طہ ‘‘ کے حصہ اول سے ہم آہنگ بھی ہیں مگر مختلف بھی کیو نکہ ’’ا بن بطو طہ‘‘ خانقا ہ میں اپنا قیا م بتا تا ہے اپنے محسو سا ت نہیں بتا تا یا شا ید بتا ہی نہیں سکتا اور شا ید اس کا دل خانقا ہو ں کے کیف زا رو ں اور نشا ط کد وں کے انوا ر میں پہنچ ہی نہیں پا تا تھا مگر پیر صا حب اس میدا ن کے بھی شہسو ا رہیں اس لیے وہ یہاں بھی اپنی انفر ا دیت دکھا جا تے ہیں۔ +اولیا ئ کے مزا رو ں کے سا تھ خا نقا ہیں کیو ں ہو تی ہیںاور یہ خا نقا ہیں کیا تھیں ؟ اگلے صفحا ت میں ہم اس کی مختصر و ضا حت سا منے لا رہے ہیں ۔ +صو فیا ئ کا ذکر ہو اہے اور صو فیا ئ کے سا تھ خا نقا ہوںکا قر یبی تعلق ہے۔ اس لیے ہم ضر و ری سمجھتے ہیں کہ خا نقا ہو ں کا مختصرا ً تذ کر ہ کر دیا جائے ۔ +اصل لفظ ’’ خا نگا ہ ‘‘ ہے جب اسے عربی ٹچ ﴿TOUCH﴾ دیا گیا تو خا نقا ہ بنا دیا گیا کیو نکہ ’’ گا ف کا حرف عر ب میں نہیں تھا ۔ خانگاہ میں لفظ ’’ خا ن ‘‘ کے سا تھ گا ہ لا حقہ ہے جیسے ’’ عید گا ہ ‘‘ میں ہے۔ خان کا لفظ تا تا ری سے تر کی میں آیا اسکے لغو ی معا نی ’’ سہا را ‘‘ ہیں خاندان میں بھی اور خا نو ادہ میں بھی ’’ دا ن ‘‘ اور ’’ وا دہ ‘‘ لا حقے ہیں اسی ’’ سہا را ‘‘ کا مفہو م با قی رکھتے ہو ئے قبیلہ کے سر دا ر پھر بڑے سر دا ر کے لیے ’’ خا ن ‘‘ کا لفظ استعما ل ہو نے لگا ’’ خا ندا ن ‘‘ کا مطلب ہے ایک ایسا انسا نی اجتما ع جس میں لو گ ایک دو سرے کا سہا ر ا بنتے ہیں۔ خا نگا ہ کا مطلب ہے ایسا گھر جس میں لو گ ایک دو سرے کا سہا را بنتے ہیں اور جہاں سے لو گو ں کو سہا را ملتا ہے ۔ +’’وَ الّذیْنَ اتَّخَذُ وْ مَسْجِداً ضر َارً ا وَّ کُفْر اً وَّ تَفْرِ یْقاً بَیْنَ اَلْمُؤ مِنیِْن اِرْ صَا د اً لّمَِنْ حَا رَ بَ اللّٰہَ وَ رَ سُوْ لَہ‘ مِنْ قَبَلُ وَلَیَحْلِفَنَّ اِنْ اَرَدْ نَااِلاَّ الْحُسْنیٰ وَ اللّٰہ ُ یَشْھَدُ اَنّھُمْ لَکٰذِ بُو ْ نoلَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا‘‘ +﴿جن لو گو ں نے اس غر ض سے مسجد تعمیر کر ائی کہ اس سے ملت اسلا میہ اور خو د دین کو نقصا ن پہنچا یا جا ئے اور کفر کی حما یت کی جا ئے یا کفر کی رو ش اختیا ر کی جا ئے اور اس غر ض سے کہ مسلما نو ں میں تفر قہ پیدا کیا جا ئے ﴿یہ مسجد نہیں ﴾ بلکہ یہ وہ کمین گاہ ہے جس میں بیٹھ کر وہ شخص جو اس سے پہلے ہی اللہ اور رسو ل کا دشمن تھا ۔اپنی سر گر میاں جا ری رکھے۔ یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اس مسجد کی تعمیر سے ہما را ارا دہ بجز بھلا ئی کے اور کچھ نہیں ﴿آپ انکی با توں میں نہ آ جا نا ﴾ خدا گوا ہ ہے کہ یہ یکسر جھو ٹے ہیںآپ اس نام نہا د مسجد میں کبھی قد م بھی نہ رکھیں ﴾ +ہے دل کی سلطنت پہ تسلط فقیر کا +اجسام ناتواں پہ فرمانروا ہے میر +خا نقا ہو ں کی یہ حیثیت کم ظر ف سلا طین و ملو ک کو کھٹکنے لگی اور کئی المنا ک حا دثا ت رو نما ئ ہوئے ۔تصا دم ہو تا رہا حتیٰ کے خو اجہ نظا م الد ین محبو ب الاولیائ جیسی ہستی سے بھی شا ہا نِ وقت ٹکر اتے رہے۔ سلا طین و اولیا ئ کے اس تصا دم میں در با ر ی علما ئ سلا طین کے ہتھیا ر بنے ہیں۔ اولیا ئ پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور کئی قلند رو مجذوب شہید کئے گئے۔ +خا نقا ہ کے سا تھ ہی پیر کی تشر یح ضر و ر ی ہے کیو نکہ یہ لا زم و ملز وم ہیں ۔ پیر فا رسی لفظ ہے اور اس کے معنی بو ڑھا آدمی ہے یہ عربی لفظ ’’شیخ‘‘ کا لفظی تر جمہ ہے عربی میں شیخ بھی بوڑھے آدمی کو کہتے ہیں۔ +جب زکر یا علیہ السلام کی زو جہ محتر مہ کو فرشتہ آکر بشا ر ت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں فر ز ند عطا کر یگا تو وہ بڑھا پے کے با عث حیر ان ہو کر کہتی ہیں کیا اس عمر میں میرا بیٹا ��یدا ہو گا ؟ جبکہ +’’اَناَ عُجُوْ ز’‘ وَھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخا ً‘‘ +﴿میں سا لخوردہ بڑ ھیا ہو ں اور یہ میرا خا وند بو ڑھا ہے﴾ +خا ند ان میں بوڑھا آدمی چو نکہ بز رگی کی بنا ئ پر قا بل احتر ام سمجھا جا تا ہے او ر اسکی با تو ں کو تجر با ت کا نچو ڑ اور انتہائی دا نشمندا نہ سمجھا جاتا ہے خا ندا ن میں اسی کا احترا م ہو تا ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے اس لیے شیخ کا لفظ ہا دی اور رہنما کے لیے استعمال ہو نے لگا۔ استا ذ اور مر شد کے لیے بھی یہی لفظ شیخ استعمال ہوتا ہے عجم میں اس کی جگہ پیر کا لفظ استعمال کر لیا گیا ۔ +ور لڈ ا سلامک مشن +یہ مدینہ منورہ کی ایک بر کتو ں بھر ی را ت کا قصہ ہے پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی حر م نبو ی میں بیٹھے ہوئے تھے یا دِ الٰہی کی پاکیز ہ ساعتیں تھیں را ت کا آخر پہر تھا کہ ان کے دما غ میں امتِ مسلمہ کی زبو ں حا لی کا خیال لہرا گیا اور اس کے اسباب سو چنے لگے فکر ونظر کا مرکز ی نقطہ یہ بن گیا کہ مسلمان دنیا میں ناکا م مرا د کیوں ہیں۔ ﴿بقول محمد اشفاق چغتائی مر حوم﴾ +وہ دن بھی تھے کہ جہا ں میں تھی سر بر آ ور د ہ ایک قوم جو عصر کہن میں رہتی تھی +خو شا وہ دو ر کہ عشق رسول کی قو ت ہما رے باز و ئے با طل شکن میں رہتی تھی +یہ شر ق و غرب تھے میرا ث میرے آبا ئ کی کہ کا ئنا ت کی تسخیر من میں رہتی تھی +وہ دن تھے زیر فلک سر اٹھا کے جیتے تھے رگو ں میں بر ق ، تب و تا ب تن میں رہتی تھی +تھی ایک جسم کی صو ر ت یہ ملتِ مر حوم جہا ں میں ایک بڑے با نکپن میں رہتی تھی +سجی ہوئی تھی جو بس نام سے محمد �ö کے ہر ایک شمع اسی انجمن میں رہتی تھی +وہ وقت تھا کہ قیا مت کی کو ئی حر کت سی ہما رے عشق کی مستی بدن میں رہتی تھی +ہزا ر حیف کہ ہم سے اب آشنا ہی نہیں کبھی جو صبح دل آر اچمن میں رہتی تھی +سسک رہی ہے وہ بستر پہ مو ت کے ڈر سے جو سر فر و ش تھی ملت، کفن میں رہتی تھی +وطن پر ستی کے جا دو سے ہوگئی تقسیم نبی (ص) کی قوم کبھی اک وطن میں رہتی تھی +اور ان کے اند ر سے یہ صدا ئے صدق خیز بلند ہوئی کہ اگر کو شش کی جا ئے تو ملت اسلامیہ پھر ایک ہو سکتی اور اس مقصد کے لیے علما ئے امت کو ایک مر کز پر جمع کر کے اس کا م کو شر و ع کیا جا سکتا ہے اورپھر اس کا آغا ز یہی ہو نا تھا کہ در با رِ مصطفو ی (ص) پر حا ضر ی کے دو را ن لبو ں پر یہ التجا ہو نی تھی ۔ +حضور پا ئو ں میں رکھ لیجئے خیا ل و خوا ب +بھٹکتے پھر تے ہیں قلب ِ و نگا ہ امت کے +دعا کو قبو لیت کا شر ف ملا او ر انہو ں نے اس مقصدپر ثواب کے لیے اردا ہ با ند ھ لیا اور یہ خوا ہش ان کی نگا ہِ پر اعتما د میں تھی ۔ +سلسلہ تقسیم در تقسیم کا تبد یل ہو +عالم اسلا م کا جغر ا فیہ تبد یل ہو +ایک ہو ں اشفا ق ہم اسم محمد (ص) کے طفیل +اب یہ مٹی با نٹنے کا سلسلہ تبد یل ہو +اور پھر انہو ں نے ﴿ایک ہو ں مسلم حر م کی پا سبا نی کے لیے ﴾ کی صد ائے با ز گشت اپنے اندر سنی اور علما ئے کر ام سے را بطے کر نے شروع کر دیے۔ حج کے دوران مکہ مکر مہ میں علما ئے امت اور پیرا نِ عظا م سے ملا قا تیں کیں انہیں اس مقصدِ عظیم کی طر ف متو جہ کیا اس سلسلہ میں پہلی میٹنگ منیٰ میں رکھی گئی مگر اس میں شر یک ہو نے والے علما ئے کر ام کی تعدا د کچھ کم تھی سودو سری مجلس کا پر و گرا م تر تیب دیا گیا دو سری مجلس بھی منیٰ میں ہی بلا ئی گئی اور اس میں بھی علما ئے کر ام کی شر کت بھر پو ر انداز میں نہ سو سکی مگر پیر صا حب نے ہمت نہ ہا ری اور تیسری میٹنگ کے لیے کوشش کی اس مرتبہ پیر صا حب نے علما ئے کر ام کو اپنی رہا ئش گاہ پر بلا یا اور اپنے مقصد ��یں کا میا ب ہوگئے ۔ +ہفتہ 20 جنور ی 1973 کی را ت کا آغاز تھا عشا ئ کی نما ز ہو چکی تھی سید معرو ف حسین شا ہ کی رہا ئش گاہ نیکیو ں کی روشنی سے منو ر تھی دنیا کے مختلف گو شو ں سے مکہ مکر مہ آئے ہو ئے علما ئے کر ام اور مشا ئخ کی ایک عالمی تنظیم پر غو ر ہو تا ر ہا اور وہ تنظیم وجو د میں آئی جسے دنیا ور لڈ اسلامک مشن کے نام سے جا نتی ہے ۔ +اس مجلس میں ہند وستان ، پاکستان ، بر طا نیہ ، اور آزا د کشمیر کے علا وہ بہت سے ممالک کے علما و مشا ئخ نے شرکت کی جن میں اہم تر ین شخصیا ت کے اسم گر امی یہ ہیں’’ پیر سید معروف حسین شا ہ نو شاہی۔ محمد مد نی اشر فی جیلا نی کچھو چھا شر یف ۔ علامہ مصطفی الا ہز ی۔ مو لا نا عبدا لستا ر خان نیا زی ۔ حضرت مجا ہد ملت مو لا نا حبیب الر حمن مو لا نا محمد اقتدا ئ احمد نعیمی ۔ سید محمد ہا شمی اشر فی جیلا نی ۔ شا ہ اسر ا لحق فقیر محمد عظیم فیضی ۔ محمد اسما عیل رضو ی ، علامہ ارشد القاد ری ، علامہ عبد البا ری ، الحا ج طالب حسین ،صو فی محمد الیا س ۔ علا مہ اسما عیل عر جی ۔ پیر سید محمد نورا نی ، علا مہ عبد البا قی اشر فی اس اجلا س کی کا روا ئی جو علا مہ ارشد القا دری نے اپنے دست ِ مبا رک سے تحر یر فر ما ئی تھی ۔ جس پر تما م علما ئ مشا ئخ کے د ستخط مو جو د ہیں ۔ +’’بسم اللہ الر حمن الر حیم +آج بتا ریخ 17 ذی الحجہ 92 �÷ ھ بعد مغر ب بمقا م مسفلہ مکہ معظمہ ‘ مختلف مما لک سے آئے ہوئے حجا ج کر ام و علما ئ مشا ئخ کی ایک مجلس منعقد ہوئی ، جسکی صدا رت کے فر ائض حضرت مجا ھد ملت مو لا نا محمد حبیب الر حمن صا حب قبلہ نے سر انجا م دیے۔ آج کی مجلس میں مند رجہ ذیل افرا د شر یک ہو ئے ۔ +۲:۔ محمد مد نی اثر فی جیلا نی ، کچھو چھا شر یف ، ضلع فیض آبا د ، یو پی انڈیا ۔ +۳:۔ الازہری ﴿عبد المصطفیٰ الذ ہر ی﴾ دالعلوم امجد یہ کرا چی نمبر3 پاکستان ۔ +۴:۔ عبد الستا ر خا ن نیا زی ، نزد میکلو ڈ روڈلکشمی چو ک لا ہو ر پاکستان ۔ +۵:۔ محمد حبیب الر حمن قا دری ، ڈا کخا نہ دھا نگر ضلع مابعدا ہند +۶:۔ محمد اقتدا ر احمد خا ن نعیمی گجر ا ت ، مغر بی پاکستان +۷:۔ سید محمد ہا شمی اثرفی جیلا نی کچھو چھا شر یف ضلع فیض آبا د یو ۔ پی ۔ ہند و ستا ن ۔ +۸:۔ سید شا ہ اسرار الحق صدر آل انڈ یا مسلم متحد ہ محاذ ، کو ٹہ KOTA را جستھا ن ﴿انڈیا﴾ +۹:۔ فقیر محمداعظم فیض شا ہ جما لی مہتمم دا ر لالعلوم عر بیہ گلز ار یہ شا ہ جمالہہ بڈی شر یف ضلع ڈیر ہ غا زی خا ن ۔ +۰۱:۔ محمد اسما عیل رضو ی ، خادم دا ر العلو م امجد یہ کرا چی نمبر 5 ۔ +۱۱:۔ ارشد القا در ی ، مد رسہ فیض العلو م ، جمشد پو ر بہا ر ہند ستا ن ۔ +۲۱:۔ عبد البا ری بشو دیو ر با زار جمشید پو ر انڈ یا ۔ +۳۱:۔ اسما عیل عر جی محلہ پٹیل زنگا ر ضلع بھر د نج ہند ۔ +۴۱:۔ عبد البا قی الشر قی کڑی پختہ آنو لہ ضلع بریلی یو پی ہند و ستا ن ۔ +۴۱:۔ عبد البا ر ی، بشو دیور بازار جمشید پو ر انڈیا ۔ +۵۱:۔ پیر سید محمد نو را نی حید ر علی بھر د نج گجر ات ہند و ستا ن۔ +آج کی مجلس میں مند رجہ زیل امو ر زیر بحث آئے اور طے پائے ۔ +۱:۔ مو لانا ارشد القا دری نے مجلس کے انعقا د کے اغرا ض پر رو شنی ڈا لتے ہو ئے سب سے پہلے حضرت مو لا نا پیر سید معر و ف حسین صا حب کا شکر یہ ادا کیا جنہو ں نے کئی دن کی لگا تا ر جد و جہد کے بعد مختلف مقا ما ت +پر ٹھہر ئے ہو ئے علما ئے اہل سنت کوایک جگہ مجتمع کیا ، اس کے بعد مو لا نا نے فر ما یا کہ آج کی مجلس کے انعقادکے دو اہم مقا صد ہیں۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ اکثر افراد اسلامی اور مختلف ملکو ں میں مسلک و اعتقا د کے ل��ا ظ سے بھاری اکثر یت میںہو نے کے با وجو د ہما را اپنے ہم مسلک بھا ئیو ں سے کوئی را بطہ نہیںہے۔ اس لیے شد ت سے یہ ضر ورت محسو س کی جا رہی ہے کہ دینی و تبلیغی سطح پر اہل سنت کی کوئی ایسی عا لمی تنظیم برئو ے کا ر لا ئی جا ئے جس کے ذر یعے مختلف ملکو ں میں رہنے ولے سنی بھا ئیوں سے ہم را بط قائم کر سکیں۔ اور اپنے مسلک و اعتقا د کے تحفظ و استحکا م کے لیے ہم ایک دو سرے کے سا تھ تعاون کی راہ ہموا ر کر یں، جملہ شر کا ئے مجلس نے اہل سنت کی اس مذہبی ضر و رت کا خیر مقد م کر تے ہوئے یہ تجویز منظو ر کی کہ عالمی سطح پر ایک ایسی تنظیم ضر و ر عمل میں لا ئی جا ئے ، جس کا دا ئر ہ عمل مسلک اہل سنت کی تبلیغ و اشا عت تک محدود ہو ۔ +۲:۔ تنظیم کے نام کے سلسلے میں کا فی دیر تک بحث و تمحیص کے بعد حضرت مو لا نا ، عبد الستا ر خا ن نیازی کا پیش کر دہ نام آل ورلڈ اسلامک مشن منظو ر کر لیا گیا ۔ +۳:۔ مولا نا عبد الستا ر خا ن نیا زی نے تنظم کے رکن کی حیثیت سے حضرت مو لا نا پیر معرو ف حسین صا حب کا نام پیش کیا جسے ، اتفا ق آرا ئ جملہ شر کا ئ مجلس نے منظو ر کیا +۴:۔ تنظیم کے لیے مر کزی دفتر کے قیام کے سو ال پر متعد د ملکو ں کے نا م پیش کئے گئے لیکن حضرت مولا نا عبد المصطفیٰ الازہری کی یہ ر ائے سب نے پسند فر ما ئی کہ تنظیم کا مر کزی دفتر وہیں ہونا چا ہیے جہاں کنو ینٹرسکو نت پذیر ہو ، لہذ ا اس بنیا دی دفتر کے قیا م کے لیے بریڈ فو رڈ انگلینڈ کا نام منظو ر کیا گیا ۔ +۵:۔ مولا نا عبدالستا ر خا ن نیا زی کی تجو یز کے مطا بق حضرت مو لانا پیر سید معر و ف حسین صاحب کو خاص طو ر پر اس تنظیم کا کنوینٹر منتخب کیا گیا اور انہیں اختیا ر دیا گیا کہ وہ مسلم آبا دی والے ملکو ں سے را بطہ قا ئم کر نے کے لیے وہا ں کے با شند و ں میں سے کسی منا سب شخص یا اشخا ص کو کنو ئیر نا مز د کر کے وہاں تنظیم کی شاخ قائم کر وا ئیں اور تنظیم کے کام کو آگے بڑ ھا ئیں۔ +۶:۔ جنا ب پیر سید معرو ف حسین صاحب کو اس با ت کا بھی اختیا ر دیا گیا کہ وہ عصر حا ضر کی مذہبی ضروریا ت اور بین الا سلامی اقدا ر کو سامنے رکھ کر تنظیم کے لیے ایک جچا تلا اور جا مع دستو ر مر تب کر نے کے لیے جد وجہد کر یں، پہلے مقصد پر گفتگو تمام ہو جا نے کے بعد مو لا نا نے دو سرے مقصد کی تشر یح کر تے ہو ئے بتایا کہ موسم حج میں اہل سنت کی یکجا رہا ئش کے لیے اگر کوئی ربا ط تعمیر کی جا ئے تو مختلف حیثیت سے وہ ہما ری جما عتی تنظیم اور مسلک و اعتقا د کے استحکام کا ذر یعہ بنے گی اس مو ضو ع پر کا فی دیر تک بحث و تمحیص کے بعد حضرت مولا نا عبد الستا ر خا ن نیا زی کی یہ تجو یز منظو ر کی گئی کہ چو نکہ ابھی ہم کسی عما رت کی تعمیر کی پو زیشن میں نہیں ہیں اس لیے منتقلی ربا ط تعمیر کر نے کی بجا ئے مو سم حج میںوسیع زمین کر ایہ پر حا صل کر کے اس پر شا میانے لگا دییجا ئیں،یہ خد مت بھی آل ور لڈ اسلامک مشن کے سپرد کی گئی ، تقر یبا ً 12 بجے شب کو یہ نو را نی مجلس دعا ئو ں پر تما م ہوئی۔ +اس اجلا س کی ایک اور رپو رٹ جو الحاج محمد الیا س ناظم اشا عت مکہ مکر مہ نے لکھی انہو ں نے رپو رٹ میں لکھا ہے۔ +مکہ مکرمہ میں حج کے مبا رک مو قع پر آل ور لڈ اسلامک مشن کا قیام +20 جنو ر ی1973 بر و ز ہفتہ بعد نماز عشائ پیر سید عارف نو شا ہی کی رہا ئش گاہ محلہ مسفلہ مکہ مکر مہ سعو د ی عر ب میں دنیا کے مختلف گو شو ں سے آئے ہوئے ،علما و مشا ئخ کا ایک ایم اجلا س منعقد ہوا ، شرکا ئ حا فظ نو ر محمد مو سیٰ ، مو لا نا عبد المصطفیٰ الازہری مو لا نا عبد الستا ر خا ن نیا زی ،مفتی اقتدا ر احمد، سید محمد مد نی کھو چھو ی ، مو لا نا ارشد القاد ری، مجا ہد ملت مو لا نا حبیب الر حمن ، سید ہاشمی کچھو چھو ی ، پیر سید عا رف نو شا ہی، مو لا نا شا ہ اسرار الحق ، الحا ج طا لب حسین اور صو فی محمد الیا س کے اسما ئ قا بل ذکر ہیں ، تما م دنیا کے مسلمانوں میں اسلامی عملی رحجا ن پیدا کر نے اور غیر مسلمو ں میں منظم طو رپر تبلیغ اسلام کا فر یضہ انجام دینے کے لیے اجلا س میں مسلما نو ں کی ایک فعال عالمی تنظیم کے قیام کے با رے میں غو ر کیا گیا ، مو لا نا عبدالستا ر خان نیازی نے تنظیم کا نام آل ورلڈ اسلامک مشن تجو یز کیا جو متفقہ طو رپر منظو ر ہوا۔ +اجلا س نے تنظیم کے متحر ک پیر عا ر ف نو شا ہی کو آل ور لڈ اسلامک مشن کا کنو ینٹر مقر ر کیا ، اور انکے ذمہ آئین بنا نے اور دنیائے اسلام کے علما ئ مشائخ سے رو ابط قا ئم کر کے تنظیمی کا م کو آگے بڑ ھا نے کے فر ائض سپر د کئے گئے ۔ +میں مقر ر کیا گیادین اسلام کی تبلیغ و اشا عت سے دلچسپی رکھنے والے عامیت المسلمیں او ر علما ئ و مشا ئخ سے تنظیم کے کنوینئر سے مکمل تعا ون کر نے کی در خوا ست کی گئی۔ مولا نا ارشد القا در ی نے ابتدا ئ میں آل ورلڈ اسلامک مشن کی ضر و رت و اہمیت پر مفصل سے رو شنی ڈا لی اجلا س کی صد ا رت سید عار ف نو شاہی نے کی اجلا س کی کا رو ائی اڑ ھا ئی گھنٹے بعد دعا ئے خیر کے سا تھ اختتام پذ یر ہو ئی ۔‘‘ +ان دو نو ں رپو ٹو ں میں اختلا فی با ت صر ف اتنی ہے کہ اس اجلا س کی صدا رت علا مہ ارشد القا د ری کے الفاظ میں مجا ہد ملت حبیب الر حمن نے کی اور الحا ج محمد الیا س کی رپو ر ٹ کے مطا بق پیر سید عا ر ف نو شا ہی قا د ری نے فرما ئی۔ اس سلسلے میں جب پیر معر و ف حسین شاہ عار ف نو شاہی سے پو چھا گیا تو انہو ں نے بتا یا ، میں نے اس اجلا س کی صد ا ر ت کے لیے مجا ھد ملت حضرت حبیب الر حمن سے در خوا ست کی تھی مگر انہو ں نے کہا تھا کہ نہیں چو نکہ اس مجلس کا انعقا د آپ نے کرا یا ہے ۔اس لیے آپ ہی اسکی صد ارت کر یں، میرے پر زور انکا ر کے با وجود انہو ں نے انکا ر کر دیاتھااور کہاتھا مجھے اس مجلس کی صدا رت کر نے کا حق نہیںپہنچتا ، چو نکہ ہم نے سب سے آخر میں مجا ہد ملت حضرت حبیب الرحمن سے اس مجلس میں گفتگو سمیٹنے کی در خوا ست کی تھی، اس لیے علا مہ ارشد القا د ر ی نے اپنی رپو ر ٹ میں مجلس کے صد ر کے طو ر پر ان کا نام لکھا ہے، میرا بھی ذا تی طو ر پر یہی خیا ل ہے کہ اس مجلس کی صدا ر ت مجا ہد ملت حضرت حبیب الر حمن نے فر ما ئی تھی مگر چو نکہ الحا ج محمد الیا س صا حب بھی مجلس میں مو جو د تھے، اس لیے انکی با ت کو بھی جھٹلا یا نہیں جا سکتا ۔دو نو ں رپو رٹو ں میںیہ اختلا ف درا صل ایک دو سرے کی تکر یم کی وجہ سے سا منے آرہا ہے ، اور یہ کوئی ایسی اہم بات بھی نہیں، میرے لیے مجا ہد ملت حضرت حبیب الر حمن کی ذا ت گرا می نہا یت ہی وا جب احترا م ہے ،پیر حضرت سید معر و ف حسین شا ہ عار ف نو شاہی نے بر یڈ فو رڈ پہنچے ہی ورلڈ اسلامک مشن کا کام شر وع کر دیا ۔ سب سے پہلے انہو ں نے علا مہ ارشد القاد ری کو انگلستان بلا یا تا کہ وہ ان کے معا و ن کنو ینئر کے طو ر پر ان کے سا تھ کا م کر سکیں، ا س سلسلہ میں انہو ں نے جمعیت تبلیغ الا سلام کے پیڈپر جو پر یس ریلیزجا ر ی فر ما ئی تھی، اس پر یس ریلز میں لکھا گیا تھا۔ +مکہ معظمہ میں ایک عالمگیر دینی تحر یک کا قیام +گذ شتہ سا ل حج کے مو قع پر مکہ معظمہ میں مختلف ملکو ں کے علما ئ مشا ئخ کا ایک اجتما ع ہوا تھا ، جس میں ’’ آل ور لڈ اسلامک مشن +﴿الا دار الاسلا میۃ ��لعا لمیہ ﴾ کے نام سے ایک عا لمگیر دینی تحر یک کا قیا م عمل میں آیا ، مختلف سہو لتو ں کے پیش نظر اس تحریک کا مر کز بر یڈ فو ر ڈ انگلستا ن نا مز د کیا گیا ، اہل اسلام کی عام فلاح و بہبو د کے سوال پر داخلی اور خا رجی تقا ضو ں کو سامنے رکھتے ہو ئے تحر یک تو مندر جہ ذیل اغرا ض و مقا صد کے ساتھ مر بو ط کیا گیا ۔ +۱۔ مسلما نو ں میں دینی زند گی کی لگن اور عشق رسو ل کا جذ بہ پیدا کر نا ۔ +۲۔ عیسا ئیت اور دوسری ملحدا نہ تحر یکو ں کے اثر سے اسلامی نسل کو محفو ظ رکھنا ۔ +۳۔ غیر مسلمو ں کو اسلام سے متعا رف کر انا اور انہیں کلمہ ئ حق کی دعو ت دینا ۔ +۴۔ رو ئے زمین کے جملہ مسلما نو ں کے در میان اخو ت اسلامی کے جذ بے کو فر وغ دینا ۔ +۵۔ ما دیت پر ستی کے خلا ف مسلما نو ں میں رو حا نی زند گی کا ذوق پیدا کر نے کے لیے اسلامی تصو ف کو رو اج دینا ۔ +اس دینی تحر یک کو عملی جا مہ پہنا نے کے لیے ہند و ستا ن کے مشہو ر فا ضل علا مہ ارشد القا د ری صا حب جو 3 دسمبر کو انگلستان تشر یف لاچکے ہیں اور تحر یک کے ابتدا ئی تعا رف کے لیے بر طا نیہ کے اسلامی حلقو ں کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دینی تحر یک کی منصوبہ بند ی کے لیے مو لانا موصوف جنو ر ی کے آخر ی ہفتے میں ایک عظیم اسلامی کا نفر نس کے انعقا د کی تیا ری کر رہے ہیں، کانفر نس کے ایجنڈے اور مقا م و تار یخ کا اعلا ن جلد ہی کیا جا ئے گا ، پیر سید معرو ف حسین کنو ین،ر +اس سلسلہ میں پیرسید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف نو شا ہی نے پہلی ور لڈ اسلامک مشن کا نفر نس کا انعقا د کر ا یا ، یہ کا نفر نس 21 اپر یل 1974 کو ہو ئی یہ کانفرنس پیر صا حب نے بر یڈ فو رڈ سب سے بڑ ا ہا ل سینٹ جا رج ہا ل میںمنعقد کر ائی جہا ں اٹھا رہ سو سے زا ئد افرا د آسکتے ہیں ۔ +جنو ر ی 1973 میں حج کے مو قع پر مکہ مکر مہ میں مختلف مما لک کے مذھبی رہنما ئوں کا ایک اجلا س ہوا ، جس میں لا دینیت کی یلغا ر کو روکنے اور مسلما نو ں میں دین کا احترا م اور اسلامی زند گی کا جذبہ بیدا ر کر نے پر کئی دن تک گفت وشنید ہو تی رہی۔ اس اجلا س کے انعقا د میں کچھ اور اہم مذہبی شخصیا ت کا کر دا ر بھی ہے مگر پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی نے اس سلسلے میں بنیا دی کر دا ر ادا کر تے ہو ئے تمام علما ئے کر ام کو ورلڈ اسلامک مشن کے قیام پر متفق کیا۔ اس تنظیم کا عربی زبا ن میں نام الاد عو ۃ اسلا میہ العا لمہ رکھا گیا اور انگر یزی زبا ن میں دی ورلڈ اسلامک مشن تجو یز رکھا گیا ۔ پیر سید معر وف حسین شا ہ نے اس تنظیم کے پہلے کنو نشن کی ذمہ دا ر ی قبول کر نے کا اعلا ن کیا ، سو اس مجلس میں یہ با ت طے پائی کہ پہلا کنو نشن بر ید فو رڈ میں کیا جا ئے گا اور چو نکہ بنیا دی کر دا ر پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی کا تھا اور انہو ں نے آگے چل کر بھی ورلڈ اسلامک مشن کے لیے بہت کچھ کر نا تھا ، اسی لیے ور لڈ اسلامک مشن کا مر کز انہی کے شہر بریڈ فو رڈ کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور پیر سید معر و ف حسین شا ہ نو شا ہی کو ور لڈ اسلامک مشن کا کنو ینئر بنایا گیا ، بریڈ فو رڈ میں 21 اپریل 1974کو پیر صا حب نے ور لڈ اسلامک مشن کا پہلا کنو نشن منعقد کر ایا ، جس میں پاکستان ہندو ستان ، عراق ، یمن، بر طا نیہ ، افر یقہ ، یو ر پ اور دیگر اسلامی ممالک سے تقر یبا ً پانچ ہز ار مند و بین شر یک ہو ئے ، ورلڈ اسلامک مشن کا صد ر شا ہ احمد نو را نی کو بنا یا گیا ، پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی نا ئب صدر چنے گئے اور علامہ ارشد القا د ری جنرل سیکرٹیر ی نا مز د کئے گئے۔ پیر صا حب نے مولا نا نو را نی اور علا مہ ارشد قاد ری کو نا مز د کیا اور انہو ں نے پیر صا حب کو نامزد کیا ، اغرا ض و مقا صد یہ طے پا ئے۔ قران و حد یث کی تعلیمات کے مطا بق مسلم معا شرہ میں دینی زند گی کی تر ویج ، غیر مسلم اقدا م میں اسلام کا مؤثر اور دل نشیں تعارف، مسلما نا ن عالم کے در میان را بطہ، اخو ت اسلامی کا استحکا م، گمر اہ کن افکا ر و تحر یکا ت سے نسل اسلامی کا تحفظ مختلف زبانو ں میں اسلام کا تبلیغی لٹر یچر تیا ر کر انے کے لیے دا رالمصنفین اور پر یس کا قیا م ، اسلامی آثا ر او ر مقا ما ت مقدسہ کے تحفظ کے لیے مؤ ثر جد وجہد تبلیغ و ارشا د کی قا ئدانہ صلا حتیں پیدا کر نے کے لیے تر بیتی مرا کز کا قیام، مو جو دہ دو ر کے لیے مسائل پر اسلام کا نقطۂ نظر وا ضح کر نے کے لیے ایک ادا رہ تحقیقا ت کا قیام،پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی کی کوششوں سے ورلڈ اسلامک مشن کی جو بنیا دپڑی ۔ اس پر ایک عظیم الشا ن عما ر ت بہت ہی کم وقت میں کھڑ ی ہو گئی اور دنیا بھر میں ورلڈ اسلامک مشن پھیلتا چلا گیا ۔بر یڈ فو رڈ سے پیر صاحب کی زیر نگرانی اسلامک مشنری کالج کا قیا م عمل میں آیا ، تبلیغی لٹر یچر کی اشا عت شر و ع ہوئی ، الدعو ۃ الا سلامیہ کے نام سے ما ہنا مہ میگز ین نکا لا گیا ، تبلیغی دوروں کا اہتما م کیا گیا، دینی تربیتی کیمپ لگا ئے گئے ، عالمی دا ر الا فتا کا قیا م عمل میں آیا،پیر صا حب نے ور لڈ اسلامک مشن کے پہلے کنو ئیر کے طو ر پر پہلے کنو نشن کا جو دعو ت نامہ جا ری کیا اس میں لکھا گیا تھا ، +’’ یہ خبر آپ کے لیے با عث مسر ت ہو گی کہ گذ شتہ سال حج کے مو قع پر مکہ معظمہ میںورلڈ اسلامک مشن ﴿ الدعو ۃ الا سلامیۃ العا لمیۃ﴾ کے نام سے جس تبلیغی ادا رے کی بنیاد رکھی گئی تھی اس کا عالمی مر کز 12 دسمبر 1973 کو انگلستا ن کے مشہو ر شہر بر یڈ فو رڈ میں قا ئم کر دیا گیا اب عالمی سطح پر اس کے اصو ل و ضو ابط اور طر یقہ کا ر کی منصو بہ بند ی کے لیے 21 اپر یل1974 کو بر وز اتوار 10 بجے دن بمقا م سینٹ جا رج ہا ل بریڈ فورڈ میں اسکی پہلی تنظیمی کا نفر نس منعقد ہو رہی ہے جس میں مشر ق وسطی، افر یقہ امریکہ ، پاکستان اور دیگر مسلم مما لک کے علمی و مذہبی مفکر ین کو مد عو کیا گیا ہے، اس دعو ت نامے پر کنو ینئرکے طو ر پر پر سید معروف حسین نو شا ہی کا نام در ج ہے یہ دعو ت نامہ انگریز عربی ، ہند ی اور اردو زبان میں شا ئع شد ہ ہے۔ +پیر صا حب نے ورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتما م ایک جو بہت اہم کام پا یہ تکمیل تک پہنچا یا وہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بر یلوی کے ترجمہ القران کنزالا یما ن کا انگر یز ی میں تر جمہ ہے ۔اُن کی کوششوں سے کنزا لا یما ن کا انگریزی زبا ن کا تر جمہ اس وقت بر طا نیہ میں عام دستیا ب ہے ۔ قر آن حکیم کے یو ں تو بے شما ر تر اجم مو جو د ہیں مگر اعلیٰ حضرت اما م رضا خا ن نے قر آن حکیم کا جواردو زبان میں تر جمہ کیا ہے اس کے با رے میں تما م اہل علم اس با ت پر متفق ہیں کہ قر آن حکیم کا اس سے بہتر اردو زبا ن میں اور کوئی تر جمہ نہیں اور انگر یز ی زبان میں قران حکیم کے زیا دہ تر ترا جم ایسے ہیں جو اردو یا فا ر سی زبا ن سے انگر یزی میں تر جمہ ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ بڑ ا ضر و ر ی امر تھا کہ وہ بچے جو ا ردو زبا ن پڑ ھنا نہیں جانتے یا وہ لوگ جنہیں حرف انگر یز ی زبا ن آتی ہے انکے لیے قر ان حکیم کا انگر یز ی میں ایسے تر جمہ ہو نا چا ہیے جس سے انہیں قران حکیم کے حقیقی معنو ں تک پہنچنے میں کوئی دقت نہ ہو اس لیے کنز الا یما ن کا تر جمہ پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی کا ایک بہت بڑا کا ر نا مہ ہے ۔ +جر من،ہالینڈ اور فرانس میں با قاعدہارجسٹر یشن ہوئی۔ بر طا نیہ کے چپے چپے میں کا م ہو ا لیکن دنیا کے با قی ممالک میں اس تنظیم کے پھیلانے کا کام ،مولانانورانی۔ مو لا نا عبد الستا ر نیازی اور ارشد القا دری نے اپنے اپنے انداز میں آگے بڑھایا۔جر من زبا ن کے علاوہ انگر یز ی ، ڈچ اور فرنچ زبا ن جا ننے والو ں کے لیے بھی اسلامی کیلنڈر تیا ر کئے گئے ، ورلڈ اسلامک مشن کی ہا لینڈ اور فر انس کی بر انچو ں نے یہ کیلنڈر شا ئع کر ائے تھے، ان کیلنڈر و ں سے ایک اور با ت یہ ثابت ہو تی ہے کہ جمیعت تبلیغ اسلام اور ورلڈ اسلامک مشن کا آپس میں بہت گہر ا رابطہ رہا ہے کیو نکہ ان اسلامی کیلنڈروں کے اوپر جمیعت تبلیغ الا سلام کی زیر تعمیر جا مع مسجد کا نقشہ پر نٹ ہوا ہو اہے۔ +کہنے والے نے بڑ ی سچی با ت کہی تھی �ò +خشتِ اول چوں نہد معمار کَج +﴿معما ر اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑ ھی رکھ بیٹھے تو پو ر ی دیوا ر ٹیڑ ھی چلی جا تی ہے چاہے اسے ثر یا تک اٹھا دو ﴾ +ورلڈ اسلامک مشن بلا شبہ ایک کثیر المقا صد ادا ر ہ ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک کثیر ا لمقاصد تحر یک ہے ادا رے تو روز بنتے اور بگڑ تے رہتے ہیں لیکن تحریکیں کبھی کبھی بپا ہو تی ہیںاور ہر لمحہ اپنے اثرا ت ادھر ادھر منتقل کر تی رہتی ہیں ۔ ’’ روشنی ‘‘ بلا شبہ ایک ادارہ ہے لیکن سو ر ج ایک تحر یک ہے ۔ ادارہ کو وجو د میں لا نے کے لیے دما غ کی ضر و ر ت ہے ۔تخیل کی زر خیز ی کی ضر و ر ت ہے لیکن تحر یک کو ایک پو را جسم اور پورا زند ہ وجو د در کا ر ہے جس میں دما غ بھی ہے اور قوت عمل بھی یہاں سو چ اورعمل ہم آہنگ ہو کر چلتے ہیں، طویل پتہ ما ری ، مسلسل مشقت ، متواتر جد وجہد ، شب وروز کی بے قر ار محنت۔ حضور �ö کی پوری زند گی ایک نو را نی تحر یک ہے۔ اس کا ایک ایک لمحہ اپنے اوپر طا ر ی کیجئے تو تحر یک کے سا رے مفا ہیم اجا گر ہو جا ئینگے اسی لیے تو حکم ہوا تھا کہ زند گی گزا ر و تو ویسے جیسے ہما رے محبو ب �ö نے گز ا ر ی کہ +’’ لَقَد کَا نَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْ لِ اللّٰہ اُسْوَ ۃ’‘ حَسَنَۃ’‘ +یَاَ یُّہا الْمُزّمِّلْ‘‘اے رفقا ئے انقلا ب تیا ر کر نے والے زمیل اس سا تھ کو بھی کہا جا تا تھا جو کجا وہ میں وز ن بر ابر رکھنے کے لیے دو سرے پلڑ ے میں بٹھا یا جا تا تھا آج کی جد یدعربی میں بھی کلا س فیلو کو ’’ زمیل ‘‘ کہا جا تا ہے تو اے مز مل یعنی اے رفقا ئے انقلا ب کی تر بیت کر نے والے قُمِ اللَّیل ﴿را ت کا قیام اپنی عا دت بنا لے ﴾ اِلا قلیل ﴿تھوڑی دیر کا قیام ﴾ +’’ نِصفَہْ اَوِ انقُصْ مِنْہُ قلیلاً اَوْزِدْ عَلَیہْ وَرَتِّلِ اْلقُر آَ نَ تَرْ تِیِلاً‘‘ +﴿یہی کوئی آدھی را ت یا اس میں کچھ کمی بیشی کر لے اور قرآن عظیم ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا سمجھا کر سا تھیوں کے ذہن نشین کرا ﴾ +’’اِنَّ لَکَ فِی النَّھا رِ سَبْحاً طَوِیلاً‘‘ +﴿ویسے دن کو تو تیرے سامنے فر ائض کی طو یل فہر ست پڑ ی ﴾ +یعنی سب سے پہلا کا م رفقا ئے انقلاب کی تیا ری ہے اور یہ تیا ری ’’ صلو ٰۃ ‘‘ سے ہو گی پھر صلو ٰۃ کے لیے ایک مر کز چاہیے جہا ں سا تھی مقر ر وقت پر جمع ہو جا ئیں اس جگہ کو ’’ مسجد ‘‘ کہا گیا ۔ +سو تبلیغ و اشا عتِ اسلام کے لیے خشتِ اول مسجد ہے۔ یہ تحر یک کا مرکز ہے اور یہیں سے سب کچھ شر وع ہو تا ہے اور یہیں پر ختم ہوتا ہے ۔ +حضرت پیر معر و ف شا ہ کے شا نو ںپر جب ورلڈ اسلامک مشن کی ذمہ د اریا ں ڈا لی گئیں تو انتخا ب کر نے والی نگا ہو ں نے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا تھا کیو نکہ ورلڈ اسلامک مشن انہی کی سو چ کا نتیجہ تھا ا��ر وہی اس سلسلہ میں مستعد ذہن اور فعال قوتِ عمل رکھتے تھے۔ تحریکیں بپا کر نے والے لو گ سوچ کے ساتھ لگن ، ولو لو ں اور امنگو ں کا خز ینہ بھی ہو تے ہیں، انہیں اپنے کا م سے جنو ن کی حد تک عشق ہوتا ہے اور وہ اس جنو ں میں سب کچھ قربان کر دینے کا حو صلہ رکھتے ہیں �ò +پختہ ہو تی ہے اگر مصلحت اند یش ہو عقل +عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی +بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق +عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی +حضرت پیر معرو ف شا ہ صا حب انگلینڈ میں ایک غر یب مِل مز دو ر کی حیثیت سے وار د ہو ئے تھے ۔را ت کی شفٹ میں کام کر نے کو تر جیح دی۔ رات کی شفٹ میںکام کر نے والے دن کو سو تے ہیں تا کہ صحت بر قر ار رہے مگر یہ مز دو ر عجیب تھا کہ را ت کو روزی کما نے کے لیے بے خوابی کی اذیت بر دا شت کر تا تھا اور دن کو ان لَکَ فِی النَّھا رِ سبَحًا طَوِ یلًا ہ کے فر ائض نبھا نے کے لیے تگ و تا ز شر وع کر دیتا تھا ۔ایک سے دو اور دو سے چا ر کر نے کے لیے سا تھی تلا ش کر نے اور ان میں انقلا ب کی روحِ عمل بید ار کر نے کے لیے ۔ +لو گو ں نے کہا ’’ صحت تبا ہ ہو جا ئے گی ‘‘ کہا ’’ جس کا کام کررہا ہو ں صحت اسی کے ہا تھ میں ہے کہ واذا مرضت فھو یشفین اور شا فی ئِ مطلق اور محافظ جسم و جا ں نے اپنی ضما نت ادا کر نے میں کمی کہا ں چھو ڑ ی ؟ اس طر ح یہ دیو انہ ئِ مصطفی شب و روز مشقت کر تا رہا ۔ کس کے لیے ؟ خدا کے لیے ، مصطفی کے لیے �ò +واپس نہیں پھیر ا کوئی فر ما ن جنو ں کا +تنہا نہیں لَو ٹی کبھی آواز جَر س کی +خیر یت ِ جا ن ، را حت تن ، صحتِ داماں +سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی +تاآنکہ ورلڈ اسلامک مشن وجو د میں آگیا ۔ مِل کا ایک مز دو ر اور ’’ ورلڈ اسلامک مشن ‘‘ کی گر انبا ر ذمہ دا ر یا ں۔ مگر یہ سب کچھ تو ہو نا تھا کیونکہ سب سے بڑے منصو بہ سا ز کی سکیم ہی کچھ ایسی تھی ۔وہ پلا ننگ کر نے والا جس نے موسیٰ (ع) ٰکو صند و ق میں بند کر اکے نیل کی مو جو ں کے سپر د کیا پھر اس صند وق کو فر عو ن کے محل میں پہنچا یا ۔اس کے قصر میں پر وا ن چڑ ھا یا پھر کنعا ن کے بو ڑھے کے پاس بھیج دیا کہ تر بیت نبو ت بھی حاصل کرے پھر مصر پہنچا یا اور فر عون کو نیل کی مو جو ں میں غر ق کیا،وہی منصو بہ سا ز اس غر یب اور جو انسا ل و نا تجر بہ کا ر مز دو ر کو ایک گا ئو ں سے اٹھا کر دو ر درا ز کے ایک چکا چو ند ملک میں پہنچا رہا تھا اور اس کے شعور میں مدو جز ر پیدا کر رہا تھا ۔ بہر حا ل حضرت پیر معرو ف شا ہ صاحب نے پیغمبر وں جیسی جگر کا وی اور مشقت سے کام شر و ع کیا اور خشتِ اول کے طو رپر سو چا کہ مساجد کا قیا م کیا جا ئے ۔’’ مسا جد ‘‘ کیا ہیں اورکس طر ح ایک مسجد بنا کر بہت سے مقا صد حا صل کئے جا سکتے ہیں اس کے لیے ہم ذرا تفصیل میں جا رہے ہیں +معبد کا ہر قو م اور ہر مذہب میں مر کز ی مقا م ہو تا ہے۔ اسلام نے اپنی عبا د تگا ہ کو مسجد کا نام دیا ہے۔ یہ بڑا وسیع المفہو م لفظ ہے سجد ہ مکمل انقیا د اور پوری طر ح ‘ من کل الو جو دہ اطا عت کو کہتے ہیں۔ کا ئنا ت کا ذر ہ ذر ہ اطا عتِ خدا و ند ی میں سرگرم عمل ہے ۔اللہ ہی کے قوانین کے تحت ذرو ں کے اتصال سے پتھر بنتے ہیں پتھر وں میں کوئی لعل و زمر د اور ہیرے مو تی بنتے ہیں کچھ اور صور تو ں میں ظہو ر پذ یر ہو تے ہیں۔ذر وں ہی کے اتصال سے زمین بنی زمین میں قو ت نمو آئی پودے بنے ، پیٹر بنے ، پتے اُگے ، پھل پھول آئے اور خدا کا قا نو ن ربو بیت اپنی بے مثا ل قو ت سے نا فذ العمل رہا ، سور ج ، چا ند ، ستار ے سب ایک نظا م میں بند ہے ہوئے ہیں ۔سب کے را ستے مقر ر ہیں اور گر دش انتہا ئی محتا ط ہے کوئی چیز اگر اپنے راستے سے ایک انچ بھی سر ک جا ئے تو نظا م کائنات در ہم بر ہم ہو جا ئے ۔کتنا طا قتو ر ہے وہ ہا تھ جس کے جبر و ت و جلا ل نے سب کو تھا م رکھا ہے ۔جمادات و نبا تا ت کے بعد حیوا نا ت کی دنیا میں بھی اس کا قا نو ن پو رے جلا ل کے سا تھ بر سر ِ عمل ہے اور ہر جا ندا ر ایک مقرر اور لگے بندھے نظام کے تحت پیدا ہو رہا ہے۔ گر د شِ حیا ت مکمل کر رہا ہے اور پھر اپنی عمر کو پہنچ کرفنا ہو رہا ہے پھر اگلی نسل پید ا ہو جا تی ہے اور زند گی آگے بڑ ھنے لگتی ہے ،انہی را ستو ں پر جو فطر ت نے اس کے لیے مقر ر کر رکھے ہیں ۔اس عظیم نظا م تخلیق و ربو بیت کی پا بند ی کو لفظ’’ سجد ہ ‘‘ میں سمیٹ دیا گیا ۔ +’’وَ لِلّٰہ یَسْجُدُ مَا فیِ السَّمٰوٰتِ وَمَا فیِ الْا َ رْض ‘‘ +﴿اور زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے سب اللہ کے آگے سر لسجود ہے ﴾ +انسا ن کو اللہ تعالیٰ نے اختیا ر و ارادہ سے نوا زا ہے پھر انبیا ئ و رسل کے ذر یعے اسے رہنما ئی فر اہم کی ہے کہ زندگی کیسے گزار ی جا ئے۔ اطا عت کی زند گی کا مرا نی و فیر وز مند ی ہے اور نا فر ما نی کی زند گی خو دانسا ن کے حق میں ہلا کت خیز ہے ۔ ہر دین کی پکا ریہی تھی کہ +’’ اے خدا وند تیر ی مر ضی جس طر ح آسما نو ں میں پو ری ہو رہی ہے اسی طر ح زمینو ں میں بھی پور ی ہو ‘‘ +اسی اعلان کے لیے تما م معا بد وجو د میں آئے لیکن انسا نو ں نے خدا سے نا فر ما نی کی اور اپنی زند گی کا بٹو ا ر ہ کر لیا۔ عبا دت کو پو جا پا ٹ بنا لیا۔ دن میں کچھ وقت پو جا پا ٹ کے لیے مخصو ص کیا گیا اور با قی سا را وقت اپنی مر ضی پو ر ی کر نے کے لیے اپنے زیر تصر ف رکھا ۔ اسلام نے کہا نہیں اللہ سجد ہ مانگتا ہے ۔اپنی مر ضی سے اللہ کی مکمل غلامی ما نگتا ہے۔ اپنی خو شی اور رضا سے اپنی محبت اور اپنے شوق سے اُسی کے آگے سر خم کئے رہو اور پو ری زند گی اسی کے حو الے کئے رکھو۔ سر جھکے تو اس سے پہلے دل جھک جا ئے ۔اسلام نے اطا عت کا مطالعہ کیا ۔اطا عت کا لفظ ’’طو ع‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی اپنی خو شی اور رضا کے ہیں ۔اس میں صر ف سر نہیں جھکتے دل بھی جھکتے ہیں۔ غلا میٔ محض نہیں محبت اور عشق و شو ق کی سپر د گی ہے �ò +مقا م ِ بند گی دیگر ‘ مقا مِ عا شقی دیگر +زنُو ر ی سجد ہ می خو اہی ‘ زخا کی بیش ازیں خوا ہی +اسلام سجد ہ ما نگتا ہے ،زند گی ما نگتا ہے ،پو ر ی کی پو ری زند گی ۔ زند گی کو تقسیم نہیں کر تا کہ اتنا حصہ خدا کے لیے با قی اپنی ذات کے لیے ،نہیں ہر معا ملہ میں اور ہر عمل میں خد اکے احکا م پر عمل کیا جا ئے۔ یہ ہے اسلام کا مطا لبہ اور اسی کو ’’ سجد ہ ‘‘ کہتے ہیں مسجد جا ئے سجد ہ ہے۔ یہ وہ مر کز ی مقا م ہے جہا ں مسلمان ایک ہی دن کے مختلف حصو ں میں آکر اس اقرا ر کی تا ئید اور تجد ید کر تا ہے کہ ’’ اے اللہ ہما رے دل تیرے آگے جُھکے ہوئے ہیں۔ ہم حساب دینے کے لیے حا ضر ہو ئے ہیں کہ اس مختصر وقفہ میں جس میں ہم ’’ مسجد ‘‘ سے با ہر رہے ہم نے جتنے بھی کا م کئے، تیر ی محبت کی سر شا ری میں کئے۔ ایک عمل میں بھی تیر فر ما نبر دا ر ی میں کوتا ہی نہیں ہو ئی۔ ہم نے حلال کما یا حلا ل پر خر چ کیا ، ہم نے اپنے فر ض میں کوئی کو تا ہی نہیں کی ، ہم نے لین دین میں ایما ندا ری بر تی ، ہم نے کسی چیز پر نا جائز نفع نہیں کما یا ہم نے نا پ تو ل میں کوئی کمی نہیں کی ہما ری زبا ن کھُلی تو سچ کے لیے کھلی ہم نے کسی معا ملہ میں بھی جھوٹ نہیں بولا ، ہم نے حا جتمند وں کی بقدر ِ استطا عت حا جت پو ری کی ، کسی نے را ستہ پو چھا تو ہم نے اُسے منز ل تک پہنچنے میںپو ری پو ری مد د فر اہم کی ، ہم نے کسی بھی را ستے پر کوئی ایسی چیز نہیں پھینکی جو دو سرو ں کے لیے اذ یت کا با عث ہو۔ ہم نے جہا ں سٹر ک پر اذیت کا باعث بننے والی کوئی چیز دیکھی ۔اُسے را ستے سے ہٹا دیا ، ہم نے ذمہ دا ر شہر ی کی طر ح اپنے سا ر ے فر ائض سر انجا م دیے،ہم نے اپنی بیوی اور بچو ں کے حقو ق میں کو تا ہی نہیں ہم نے انسا نو ں کے حقو ق کی ادا ئے گی میںکوئی کمی نہیں آنے دی اور یوںوہ اپنی صلوٰۃ میں پچھلے وقت کا حساب دے کر آگے کے لیے عہد کر تا ہے کہ وہ اسی طر ح اطا عت کر تا رہے گا ۔ اس طرح مسجد اس بڑے با د شا ہ کا در با ر ہے جہا ں مسلما ن کو احتسا ب اور تجد ید عہد کے لیے دن میں پانچ مر تبہ آنا ہو تا ہے ۔ +مسجدمیں آکر اس کے اس نظر یہ کی تجد ید بھی ہو تی ہے کہ وہ ایک اجتما عیت کا ملت کا ایک حصہ ہے �ò +فر د قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں +مو ج ہے در یا میں اور بیر و ن در یا کچھ نہیں +اور جب ایسا ہے تو افرا دِ ملت کا فر یضہ ہے کہ وہ دکھ سکھ میں خو شی غمی میںایک دو سرے کے سا تھ جڑ ے رہیں۔ایک کا دکھ سب کا دُکھ ہو ۔ مسجد ہی اس سبق کی تجد ید کا با عث بنتی ہے جس میں حضو ر �ö نے فر ما یا ، +’’ تما م مسلما ن ایک ملت ہیں ایک جسم ہیں اور ایک جسم کے اعضا ئ ہیں جس طر ح جسم میں کسی عضو کو کو ئی تکلیف ہو تی ہے تو سا را جسم بے قر ار ہو جا تاہے اور بے خوا بی و بخا ر میں مبتلا ہو جا تا ہے اسی طر ح ایک مسلما ن کی مصیبت تما م ملت کو تڑ پا دیتی ہے‘‘ +بنی آدم اعضائے یک دیگراند +یہ عضوے بدرداوزد روز گار +دگر عضو ہارا نما نَد قرار +ایک ہی صف میں کھڑ ے ہو گئے محمو د و ایاز +نہ کوئی بند ہ رہا اور نہ کوئی بند ہ نواز +بند ہ و صاحب و محتا ج و غنی ایک ہوئے +تیر ی سر کا ر میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے +ٹھیک ہے ایک شخص صفو ں کے آگے کھڑا ہوتا ہے اور اسے اما م کہتے ہیں مگر وہ حقو ق کے لحا ظ سے بڑ ا نہیں فر ائض کے لحاظ سے بڑا ہے اس پر ذمہ دار یا ں بڑی ہیں مسجد ہی یہ تصو ر دیتی ہے کہ مسلما نو ں کی قوم اپنی ہیئت تر کیبی میں با لکل عجیب ہے یہاں حقو ق کے لحا ظ سے تو سب یکسا ں ہیں مگر فرا ئض اُسکے زیا دہ گر انبا ر ہیں جس کا منصب بڑ اہے ۔حضور �ö کا فر ما ن ہے ۔ +سید القو م خا د مھم +﴿قو م کا سر دا ر قو م کا خا دم ہو تا ہے ﴾ +افر اد ِ ملت تو میٹھی نیند سو ر ہے ہیں مگر عمر فا رو ق گلیوں میں پھر رہا ہے کہ کہیںکسی گھر میں کوئی تکلیف تو نہیں وہ سا ری را ت گلی کو چوں میں پھر پھر کر فجر کی نماز مسجد میں آکر ادا کر تا ہے سب لو گ تو احتسا ب میں گو یا یہ کہہ رہے ہو تے ہیں اے اللہ ہم نے عشا ئ کی نماز مسجد میں ادا کی اور پھر مزسے سے سوئے رہے اور امر المؤ منین کہہ رہا ہو تا ہے ۔ +’’ میرے مو لا میں حا ضر ہو ں سا ری را ت دو ڑ تا بھا گتارہا ہو ں میرے مالک تیرے نبی �ö کی بستی میں را ت کو کوئی بھو کا نہیں سو یا ، کوئی مریض بے دو ا نہیں رہا ‘‘ +جنا ب فا ر وق کا ہی فر ما ن ہے ۔ +’’ القا ئد و ن کا لعیو نالبا کیہ‘‘ +﴿قو م کے سر دا ر و رہنمارونے والی آنکھیں ہیں﴾ +اور آنکھ کیا ہو تی ہے یہ اقبال سے پو چھیئے وہ آپ کو بتا ئیگا ۔ +مبتلا ئے درد کوئی عضو ہو رو تی ہے آنکھ +کسی قدر ہمد رد سا رے جسم کی ہو تی ہے آنکھ +مسجد اسلامی حکومت میں بڑ ی اہمیت کی حا مل رہی۔ حضور �ö نے اسی لیے ہجر تِ مقد سہ کے بعد مد ینہ ئِ مطہر ہ میں جو سب سے پہلا کا م کیا وہ مسجد ِ نبو ی کی تعمیر تھی اس لیے کہ مسلما نوں کی الگ اجتما عیت قائم ہو گئی تو مر کز اجتما عیت کو ہو نا ضر و ری تھا ۔ +مسجد نبو ی بہت سے مقا صد کی جا مع تھی ۔یہ صلو ٰۃ عبا د ات کا مر کز بھی تھی، عد الت گا ہ بھی تھی ، دا ر الشور ٰ ی یاپار لیمنٹ ہا ئو س بھی تھی، ایون صد ر بھی تھی با ہر سے آنے والے و فو د یہیں آتے تھے ، در با ر نبوی بھی تھی، اورپھر یہ کہ مسجد نبو ی اللہ کی عبا د ت کا وہ گھر تھی جسے صر ف مسلمانوں کیلئے مخصو ص نہیں کیا گیا تھا آپ کی اجا ز ت سے یہا ں دیگر مذاہب کے لو گ اپنی عبا د ت بھی اپنے طر یقہ پر کر سکتے تھے نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا تو حضور �ö نے اُسے مسجد نبوی میں ہی ٹھہر ا یا اور نہ صر ف ٹھہر ایا بلکہ انہو ں نے اپنی عبا دت کے لیے اجا ز ت طلب کی تو آپ (ص) نے انہیں یہ اجا ز ت بھی مرحمت فر ما دی کہ اپنے طر یقہ کے مطا بق عبا د ت کر یں۔ +بخا ری و مسلم کی ایک دو سرے کی تکمیل کر نے والی رو ایت میں ام المؤ منین عا ئشہ صد یقہ (رض) بیا ن فر ما تی ہیں کہ مسجد نبو ی میں حبشیو ں کا ایک طا ئفہ اپنے کر تب دکھا رہا تھا اور حضور �ö کے کہنے پر آپ (رض) نے وہ کر تب اسطر ح دیکھے کہ آپ (رض) کی ٹھو ڑی حضور �ö کے کند ھے پر تھی۔ اس سے معلو م ہو تا ہے کہ مسجد نبو ی کا صحن کلچر ل سنٹر کے طو ر پر بھی استعمال ہوا ۔ +پھر قر آنِ حکیم کی تعلیم و تد ر یس کا بڑا مر کز بھی مسجد نبو ی ہی تھی۔ اصحا ب ِ صفہ کا قیا م بھی مسجدِ نبو ی کے حجرو ں میں ہی تھا ۔ +آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مسجد جیسے وسیع المقا صد مر کز کا قیا م خدا کے نز دیک کتنا قا بلِ قدر ہو گا۔ کعبہئِ مکر مہ کو بھی اللہ کا گھر کہا جا تا ہے اور مسجد کو بھی ۔ پس کتنے سعد تمند ہیں۔وہ ہا تھ جو خدا کا گھر تعمیر کر نے میں سر گر م ہو تے ہیں اور اس شخص کی خوش نصیبیوں کا تو ذکر ہی کیا جوتعمیر مساجد کے لیے زندگیا ں وقف کر دیتا ہے ڈا کٹر گستا ولی با ن نے بڑی سچی با ت کہی ہے کہ ’’ مسجد ایک خا مو ش مبلغ ہے ۔ جو ہر لمحہ جا گتا اور تبلیغ کر تا رہتا ہے‘‘ ۔دو سرے مذہب کے معا بد میں اور اسلام کی مسجد میں ایک اور واضح فر ق ہے ان میں اکثر شر ک کے سا ئے تھر تھر اتے رہتے ہیں مگر اسلام کی مسجد صر ف اور صر ف اللہ کی و حد نیت کا شا ہکا ر ہے ۔ +تما م معا بد خا لق و ما لک کی محبت اور عشق میں تعمیر ہو تے ہیں اس لیے انسا ن ان میں انتہا ئی حسن اور رعنا ئی پیدا کر نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہرہر نقش اور تعمیر و سا خت کی ہر ہر اینٹ میں اپنی عقید تو ں کے شا ہکا ر سمو تے ہیں۔ تما م قو مو ں نے اپنے اپنے انداز کے مطا بق اپنے معا بد کو تعمیر کا شا ہکا ر بنانے کی کو شش کی۔ اسلام چو نکہ دیگر مذاہب کے مقا بلہ میں جد ید تر ین ہے اس لیے اس نے تعمیرا ت کے تما م محا سن منتخب کر کے مسا جد کو بے مثا ل حسن عطا کیا ۔ +ما ہر ین تمد ن و عمرا نیا ت کہتے ہیں کہ عما ر ات اور ادب کسی زما نہ کی پو ر ی تا ریخ سمیٹ کر بیا ن کر دیتے ہیں ۔قو مو ں کے ایک خا ص دو ر میں خیالات اور مذاق کی پو ری نشا ند ہی عما رات میں بھی ہو جا تی ہے اور عبا د ت گا ہو ں میں تو اور زیا دہ ہو تی ہے مسلما نو ں نے قو تِ متخیلہ ، رو شنی ، صفا ئی ،آرائش اور با ریک سے با ریک کا م میں خو ش سلیقگی کا مظا ہر ہ کر کے مسا جد کی شکل میں بے انتہا شا ہکا ر نظیر یں چھو ڑ ی ہیں آج بھی حضرت عمر کے فر ما ن پر بنا ئی ہو ئی مسجد اقصیٰ، عمر و بن العا ص کی تعمیرکر ائی ہوئی ۔ مسا جد قا ہر ہ ، مسجد طو لو ن ، مسجد از ہر، مسجد حسن ، مسجد المو ید ، مسجد ابا صو فیہ ، مسجد قر طبہ ، شا ہی مسجد ،آج بھی فنِ تعمیر کا اعجا ز سمجھی جا تی ہیںمسلما نو ں نے مسجد یں تعمیر کر کے ہر جگہ لا کھوں خا مو ش اور دو امی مبلغ چھو ڑے ہیں شہروں ، قصبو ں ، گا ئو ں بلکہ شا ہر اہوں اور عا م گزرگا ہو ں پر بھی یہ مبلغ مسلسل تبلیغ میں مصر وف ہیں۔ +جن لو گو ں نے بر طا نیہ میں اسلام کو ایک اخو ت و مسا و ات کی تحر یک کی حیثیت سے متعا رف کر ایا ان میں حضرت پیر صا حب کو امتیازی مقا م حا صل ہے وہ نصف صد ی سے بیدا ر دماغ اور مستعد قوتِ عمل سے شب و روز تبلیغ اسلام میں مصر و ف ہیں بر طا نیہ کے غیر متعصب اور انصا ف پسند انگر یز صحا فیو ں نے ہمیشہ انہیں اپنے قلم سے خر اجِ عقید ت پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ورلڈ اسلامک مشن بھی انہی کی سو چ کا عملی اظہا ر ہے لیکن بحیثیت ایک تنظیم بہت بعد میں وجو د پذیر ہوئی پیر صا حب کا کام تو اس روز شر و ع ہو گیا جس روز انہو ں نے برطانیہ کی سر زمین پر اپنا پہلا قدم ٹکا یا ۔ +حضرت پیر معرو ف شا ہ صا حب کا اپنا تعلیمی پس منظر یہ ہے کہ انہو ں نے پاکستان میں میٹر ک پاس کر نے کے بعد دینی تعلیم کے مراحل مختلف مدا ر س سے حا صل کی دستار ِ فضیلت اور سندِ فر اغ حا صل کر نے کے بعد وہ درس ِ نظا می پر ایک اتھا ر ٹی کی حیثیت حا صل کر گئے تصوف تو انکی گھٹی میں پڑا تھا کہ وہ حضر ت نو شہ گنج بخش کے خا نوا دہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خا نوا دہ شر یعت و طر یقت میں ہمیشہ سے قیا دت و سیار ت کے منصب پر فا ئز چلا آتا تھا ۔ +وہ 20 اپر یل 1961 کے روز بر طا نیہ میں بظا ہر تلا ش رِز ق میں آئے انکا قیا م اپنے دو ست اور خا نوا دہ ئِ نو شا ہی کے دیر ینہ عقید ت مند چو دھر ی فر ما ن علی کے ہا ں ہو ا انہو ں نے فیکٹر ی مز دو ر کے طو ر پر روز گا ر کے حصو ل کا سفر شر و ع کیا ۔ را ت کی شفٹو ں کو تر جیح دی دن کو انہو ں نے سا تھ کے گھر و ں کے مسلما ن بچو ں کو اپنی قیا م گا ہ پروا قع بر یڈ فو رڈ میں نا ظر ہ قر ان حکیم پڑ ھا نے اور ابتدا ئی اسلامی با تیں تعلیم کر نے کا کام شر و ع کر دیا ۔ اس علا قہ کے لو گو ں کو یہ کا م بہت پسند آیا انہو ںنے پیر صا حب سے تعا و ن شر و ع کر دیا اور کام کی رفتا ر تیز ہو گئی ۔ +جب لو گ زیا دہ قر یب آئے اور انہو ں نے دیکھا کہ حضرت صا حب کا عز ائم بہت بلند ہیں اور اُن میں اللہ تعالیٰ نے وہ اوصا ف بدرجہ ئِ اتم و دیعت کئے ہیںجو اوصا ف ایک پیرِ طر یقت اور رہبر شر یعت کے لیے ضر و ر ی ہیں تو وہ معا و ن کی حیثیت سے بڑھ کر عقید تمند و ں کی صف میں دا خل ہوگئے اس طر ح سا ٹھ عقید تمند و ں کیسا تھ جمعیت تبلیغ الا سلام کے بنیا د رکھ دی گئی۔ +بر طا نیہ کے لو گو ں کا بلکہ یو ر پ میں تما م مسلما ن با شند و ں کا مسئلہ یہ ہے کہ انکی اولا دیں سیکو لر سکو لو ں میں تعلیم حا صل کر تی ہیں معاشرہ سیکو لر ہے اور خا ص طو ر پر اسلامی اقدا ر سے بیگا نہ ہے وہ اسی سو سا ئٹی میں جو ا ن ہو کر اپنا دینی وا بستگی کا اثا ثہ کھو بیٹھتی ہیں پیر صا حب نے اپنے مقد س کا م سے ان کے مسئلہ کے حل کی طر ف انکی رہنما ئی کر دی تھی ۔ اس لیے وہ چا ہنے لگے کہ پیر صا حب کے کا م میں توسیعی صو ر ت اختیار کی جا ئے ۔ ضر و ری سمجھا گیا کہ ایک سنٹر قا ئم کیا جا ئے جہا ں لو گو ں کو اسلام کی تعلیم دی جا ئے ایسے سنٹر کو ہی اسلام نے ’’ مسجد کے پاکیز ہ لفظ سے تعبیر کیا ہے چنا نچہ پیر صا حب کی تحر یک پر سب لو گو ں نے مل کر پیر صا حب کی قیا مگا ہ کے عین سا منے دو پر انے خر ید لیے۔ 1967 �÷ میں پلا ننگ پر مشن PLANNING PERMISSION حا صل کر لی گئی اس طر ح 68-69 سا ئو تھ فیلڈ سکو ائر جمعیت تبلیغ الا سلا م کی مر کزی مسجد بن گئی یہاں سے کا م کا آغا ز ہو ا جو اللہ کے فضل سے پھیلتا چلا گیا۔ +986 �÷ ئ میں ’’ بر طا نیہ اور اسلام ‘‘ پر جو تحقیقی مقا لمے ا��گر یز صحا فیو ں کی طر ف سے سا منے آئے ان میں وضا حت کی گئی تھی کہ بر طا نیہ میں اسلام کے تما م فر قو ں کے لو گ مو جو د ہیں انہو ں نے اپنی اپنی مسا جد بھی بنا رکھی ہیں ۔ ان فر قو ں میں اہل حد یث ، شیعہ ، وہا بی دیو بندی تبلیغی جما عت ۔ جما عت اسلا می ۔ بر یلو ی اور احمد ی ﴿جنہیں اب اسلامی فر قہ نہیں شما ر کیا جا تا ﴾ سب شا مل ہیں خیا ل رہے کہ مقا لمہ نگاروں نے وہا بیو ں کی دو قسمیں کی ہیں ایک اہل حد یث دو سرے دیو بند ی پھر تبلیغی جما عت اور جما عت اسلامی کو دیو بند ی کی ہی ذہلی شا خیں شما ر کیا گیا ہے۔ بر یلو یو ں میں جمعیت تبلیغ الا سلام کی نما یا ں کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ سب سے زیا دہ مسا جد انہی کی ہیں جمعیتہ تبلیغ الاسلام کی اس وقت گیا رہ مسا جد تھیں جنکی تفصیل یہ دی گئی ہے۔ +۱۔ راکسی بلڈنگ ۔ با ر ک رینڈ رو ڈ ۔ بر یڈ فو ر ڈ 3 +تفصیل میں بتا یا گیا ہے۔ کہ یہ مسجد لمبے عرصے تک تلخ تنا زعا ت کی آما جگا ہ رہی اور کئی دفعہ پولیس کو بلا نا پڑ ا۔ اسے جمعیت تبلیغ الا سلام نے 1981 �÷ میں خر یدا اور اسکی پو ر ی قیمت 33 ہزا ر پو نڈ ادا کر دی گئی اپنے فلو ر سپیس ﴿FLOOR SPACE﴾کے اعتبا ر سے یہ شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے ۔ یہ نچلی منز ل پہلے ایک سینا ہا ل کی تھی اس لیے فر ش ڈھلو انی صو رت ﴿SLOPING FLOOR﴾میں ہے اس لیے یہاں نماز نہیں پڑ ھی جا تی تا ہم اسے کبھی کبھی جنا زہ گا ہ کے طو ر پر استعما ل کیا جا تا ہے۔ اب انتظا میہ یہی سو چ رہی ہے کہ فر ش کو صحیح کر دیا جا ئے ۔ +مسجد کے جو حصے اس وقت زیا دہ تر زیر استعمال رہتے ہیں وہ یہ ہیں۔ بڑا در وا ز ہ جو پرا نے سینا ہا ل میں کھلتا ہے بند رہتا ہے اور عام طو ر پر استعمال نہیں کیا جا تا دا خلہ پیچھے کی طر ف وا قع چھو ٹے در وا زے سے ہو تا ہے دو چھو ٹے سا ئیڈ رو م میںجہاں اما م اور مد رس رہا ئش رکھتے ہیں پچھلے چھو ٹے در وا زے کے سا تھ ایک چھو ٹا سا ہال ہے جہا ں جو تے اتا رے جا تے ہیں۔ +سٹیج کی طر ف سے آتے ہوئے پر انے سینا ہال سے گز ر کر آئیں تو دو کمر ے ہیں یہ نماز کی ادا ئے گی کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ سا تھ ہی وہ جگہ ہے جو وضو کے لیے استعما ل ہو تی ہے۔ پر انے سینا ہا ل کی نسبت نما ز کے کمر ے زیا دہ رو شن، سجے ہو ئے اور گر م ہیں ان میں قا لین بچھے ہیں ایک پر انا سر خ دروا زہ محر اب کے طو ر پر استعمال ہو تا ہے ۔ نماز کے کمر ے دو سری مسا جد کے بر عکس بڑ ے سجے ہوئے ہیں قمقمے اور جھنڈیا ں لگی ہیں دیوا ر وں پر مقد س مقا ما ت کی تصو یر یں بڑے سلیقہ سے آرا ستہ ہیں نماز کے کمرو ں میں سے ایک اصل کمر ہ ہے جو نیچے ہے دوسرا اوپر ، اسکے لیے لکڑی کی سیڑ ھی لگی ہو ئی ہے یہاں محرا ب نہیں دو لا ئو ڈ سپیکر ہیں جن سے اما م کی آواز یہاں پہنچتی ہے۔ +اس مسجد میں بڑ ا مد رسہ ہے جو پو را ہفتہ بغیر کسی روز کی چھٹی کے روز انہ شام کو 4 1/2 بجے سے 7 سا ت بجے تک کا م کر تا ہے۔ جو طا لب علم حفظ ِ قر ان کی کلا س میں ہیں وہ روزانہ صبح 6 چھ بجے سے 8 آٹھ بجے تک حا ضر رہتے ہیں ۔ +۲۔ دو سری مسجد 21 ایبر ڈین پلیس بر یڈ فو رڈ ۔ 7 میں ہے ۔ +۳۔ تیسر ی مسجد 13 جیسمنڈ ایو ینیو بریڈ فو ر ڈ ۔ 9 میں ہے۔ +۴۔ چو تھی مسجد وہی ہے جسے مر کزی مسجد کہا جا تا ہے اور وہ 68/69 سا ئو تھ فیلڈ سکو ائر بر یڈ فو رڈ 8 میں ہے۔ +۵۔ اس سلسلہ کی پانچو یں مسجد 1-3 بر نٹ پلیس میں ہے۔ +۶۔ چھٹی مسجد 84 بیمز لے رو ڈ شپلے میں ہے۔ +۷۔ سا تو یں مسجد 2 ۔ بر ئو ننگ سٹر یٹ بر یڈ فو رڈ ۔ 3 میں ہے۔ +۸۔ شیئر بر ج بر یڈ فو رڈ میں جمعیتہ تبلیغ الا سلام کا ’’ اسلامک مشنر ی کالج ‘‘ ہے ۔ +یہ کثیر �� لمقا صد جگہ ہے جہا ں مسجد بھی ہے اور کا میا ب طلبہ کی دستا ر بند ی کے اجلا س بھی یہیں ہو تے ہیں۔ یہا ں باقاعدہ طا لب علمو ں کے سا تھ تعلیم با لغا ں کی کلا سز بھی ہو تی ہیں۔ +۹۔ اس سلسلہ کی نو یں مسجد 87-89 ریا ن سٹر یٹ میں ہے۔ +۰۱۔ دسو یں مسجد 564-A تھا ر نٹن رو ڈ بر یڈ فو رڈ 8 میں ہے۔ +۱۱۔ گیا ر ہو یں مسجد سینٹ لیو کس چر چ ہا ل بر یڈ فو رڈ 9 میں ہے ۔ +1986 �÷ تک کی سر و ے ر پو ر ٹ میں یہ صو ر ت حا ل تھی اسکے بعد کا م مسلسل آگے بڑ ھ رہا ہے 1989-90 �÷ تک یہ تعداد 15 تک پہنچ گئی مساجد کے سا تھ تعلیم و تد ریس کا انتظا م بھی ہے اور لا ئبر یر ی کا بھی ۔ دو بڑے مرا کز پاکستان میں ہیں چک سو ار ی میں 11 کنا ل رقبہ پر پھیلی ہوئی مسجد اور دا ر العلوم ہے۔ +حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب کے متعلق ہم عر ض کر چکے ہیں کہ وہ تبلیغ کو فر ض کے سا تھ عبا د ت سمجھ کر ادا کر تے ہیں اس لیے اپنے کا م سے کبھی تھکتے نہیں اور نہ کبھی مطمئن ہو تے ہیں کہ اب فر ائض کی تکمیل ہو چکی کا م پو را ہو گیا ہم بتا چکے ہیں کہ انہیں اس کا م سے عشق ہے اور عشق کی انتہا ہو تی ہی نہیں عشق کی انتہا چا ہنا تو حما قت ہے �ò +تر ے عشق کی انتہا چا ہتاہو ں +میر ی سا دگی دیکھ کیا چا ہتا ہو ں +یہا ں تو کل جتنا آ گے بڑ ھتا ہے اسی رفتا ر سے منزل بھی آگے بھا گتی ہے غا لب نے کیا خو بصو رت با ت کہی تھی �ò +ہر قد م دُو ر ی ئِ منزل ہے نما یا ں مجھ سے +تیر ی رفتا ر سے بھا گے ہے بیا باں مجھ سے +یہ بتا نے کی ضر و ر ت نہیں کہ ہر مسجد کے سا تھ مد ر سہ بھی سر گر مِ عمل رہتا ہے اور تبلیغی مقا صد بطر یق احسن پو رے ہورہے ہیں۔ +جا مع حیثیا ت شخصیت +حضرت پیر معر وف شا ہ صا حب ایک و سیع الجہا ت شخصیت کے ما لک ہیں اور اپنی شخصیت کی ہر جہت کے متعلق انہو ں نے مید انِ عمل منتخب کر رکھا ہے اور ہر میدا ن میں ہمہ وقت سر گر م عمل نظر آتے ہیں۔ +وہ بہت بڑ ے عالم دین ہیں اور اپنے اس علم کا اظہا ر زبا ن و قلم سے کر تے رہتے ہیں انکی تقر یریں سنیں تو آپ سمجھیںگے کہ علم کا سمند ر بادل بن کر بر س رہا ہے۔ہر مو ضو ع پر مشر ق و مغر ب کی مختلف زبا نو ں میں اظہا ر ِ خیا ل کر سکتے ہیں۔ اور کر تے رہتے ہیں ۔ قلم میں قو ت بھی ہے اور رو انی بھی ، جہا ں ضر و ر ت ہو تی ہے قلم کو حر کت میں لاتے ہیں اور حکمت و دانش کے سا تھ وسعتِ مطا لعہ کی دھا ک بٹھا تے چلے جا تے ہیں۔ ان کا علم کبھی با سی نہیں ہو تا کیونکہ وہ اسے ہر وقت تا ز ہ اور اپ ڈیٹ رکھنے کی دُھن میں رہتے ہیں۔ عر بی ، فا ر سی ، اردو ، انگر یز ی وغیر ہ زبا نوںمیں جو کتا ب تا زہ ما رکیٹ میں آتی ہے، اُسے اپنی لا ئبر یر ی کی زینت بنا نے میں مستعدی دکھا تے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی لا ئبر یر ی بہت بڑی ہے ۔ پھر یہ کہ وہ ہر مو ضو ع پر مطا لعہ کر تے ہیں علم و ادب ، تا ریخ ، ثقا فت ، سا ئنس غر ضیکہ مختلف شعبہ ہا ئے علو م میں سے ہر شعبہ پر انکی گر فت رہتی ہے ۔ دینی علوم میں بھی ہر شعبہ انکی دستر س میں ہے تفسیر ، حد یث ، فقہ اسما ئ الر جا ل کوئی جہت ایسی نہیں جو انکی با لغ نظر ی کہ شہا دت فر اہم نہ کرکے پیر صا حب ایک عالمِ با عمل کے ساتھ پیر و مر شد اور ہا دی ٔرا ہِ سلوک بھی ہیں وہ اپنے مر ید وں کی رو حا نی تر بیت کر تے ہیں۔ تصو ف ، متصوفین ، صو فیا ئ و اولیا ئ کے سو ر نح وغیر ہ علو م پر بھی انکی لا ئبر یر ی ہر سالکِ راہِ طر یقت کی علمی تشنگی بجھا تی ہے اور انکی ذا تی رہنما ئی بر و قت ہدایت فر اہم کر تی ہے جسما نی کے سا تھ رو حا نی علا ج بھی تعو یذ و اور اد وغیر ہ سے کر تے رہتے ہیں۔ اس طر ح بھی ان کا آستا نہ دکھیا رو ں کی امید گا ہ ہے۔ +’’اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْل ِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَا لْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ‘‘ +﴿اللہ کے را ستے کی طر ف حکمت و دا نش اور خو بصو ر ت نصیحت و مو عظمت سے بلا یا کر و ﴾ +کی بھر پو ر عکا سی کر تی ہیں۔ اور وہ میدا ن ِ تبلیغ کے بھی شہسوار ہیں۔ +وہ ایک مصلحِ قو م اور ریفا ر مر بھی ہیں وہ ہر وقت انسا ن کی بھلا ئی سو چتے اور استطا عت کے مطا بق کر تے رہتے ہیں۔ یو ر پ میں مسلما نوں کو جب بھی کسی مشکل کا سا منا ہو پیر صاحب ہی آگے بڑھ کر اُسے آسان کر نے کی کوشش کر تے ہیں انفرا دی طورپر بھی وہ لو گو ں کی حتی الامکان مد د اور رہنما ئی فر ما تے ہیں وہ سیا سی طو ر پر بھی مسلما نو ں کے حقو ق کے لیے ہمہ وقت آما دۂ جہا د ر ہتے ہیں۔ +وہ اس قد ر وسیع الجہا ت اور جا مع حیثیا ت شخص ہیں کہ ان کے کسی ایک پہلو اور ایک ہی جہت کا احا طہ کر نابھی مشکل معلو م ہو تا ہے ۔ کجاکہ انکی سا ری حیثیا ت زیر ِ قلم لا ئی جا سکیں ۔ +پیر صا حب اس وقت بھی مختلف تنظیمیں چلا رہے ہیں ۔تبلیغ الا سلام ، ور لڈ اسلامک مشن ، بز مِ نو شاہی مسلما نان کشمیر کا اتحا د مسلما نا نِ اہل سُنت کا اتحا د ﴿فیڈ ر یشن آف مسلمز اہل سنہ ﴾ بر یلو ی مسلک کے علما ئ کا اتحا د ، پھر ایک اور با ت بھی قا بل ذکر ہے کہ یہ تما م کا م صر ف بر طا نیہ میں نہیں سا تھ سا تھ اپنے ملک پاکستان میں بھی وہ اسی طر ح سر گر م عملِ ہیں اور وقتا فو قتا ًپاکستا ن جاتے رہتے ہیں۔ +’’ بر یلو ی ‘‘ اور ’’دیو بند ی ‘‘ بر صغیر میں اصطلا ت کی شکل اختیا ر کر چکے ہیں اور انہیں مسلما نو ں کے فر قو ں میں شمارکیا جا تا ہے۔ ’’بریلی‘‘ اور ’’دیو بند‘‘ بر صغیر کے دو شہر ہیںدیو بند میں مو لا نا رشید احمد گنگو ہی کے شا گر د مو لا نا قا سم نا نو تو ی نے مد رسہ قا ئم کیا جو دیو بند شہر میں تھا۔ اسکا نام ’’ دا ر العلوم ‘‘ دیو بند رکھا گیا ۔ بر یلی سے ایک بڑے عا لم دین امام احمد رضاخا ن کا تعلق ہے آپ وہیں پیدا ہوئے اور وہیں سے تعلیم و ارشاد کا سلسلہ شر و ع کیا ۔ +ہم تصو ف کی تا ریخ کے سلسلہ میں بڑی وضا حت سے بتا چکے ہیں کہ کچھ علما ئ شر یعت کے ظا ہر پر زو ر دیتے تھے اور کچھ کہتے کہ حکم کی ظاہر ی صو ر ت نہ دیکھو اسکی علت دیکھو یعنی اگر حد یث میں دانتو ں پر مسواک کر نے کا حکم آیا ہے تو یہ ضر و ری نہیں کہ ہم در خت ’’ جا ل ‘‘ کی وہی جڑ دا نتو ں کی صفا ئی کے لیے استعمال کر یں جو حضور �ö کر تے تھے ہمیں حکم کی علت کو دیکھنا چاہیے اور وہ ہے دا نتو ں کی صفا ئی پس دا نت جس چیز سے بھی صا ف کئے جا ئیں گے۔ سنت کا تقا ضا پو را ہو جائے گا ہا ں اگر میڈیکل سا ئنس ثا بت کر دیتی ہے کہ وہی رو ایتی مسوا ک ہی بہتر ہے تو اچھا ہے کہ وہی استعما ل کیا جا ئے لیکن ضر و ری نہیںمطلب دا نت صا ف کر نے سے ہے، دو سرا گر وہ ظا ہر پر ست تھا ۔اُس نے اسی پر زور دیا کہ وہی مسواک ضر و ری ہے غر ضیکہ اس طر ح کا اختلا ف پیدا ہوا جو آگے چل کر شر یعت اور طریقت کے دو با ہمد گر مخا لف طبقا ت پیدا کر گیا ۔ وقت بد لتا ہے حا لا ت بد لتے ہیں علم کی دنیا میں نِت نئے انکشا فات ہو تے ہیں۔ معاشرہ میں تغیر آتا ہے نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر ہم ظا ہر کو پکڑ کر بیٹھ جا ئیں تو شر یعت ایک جا مد چیز بن جا تی ہے جس کا زما نہ کے ساتھ ہر قد م پر تصا دم ہو تا ہے اگر ہم علتِ حکم کو دیکھ کر چلیں تو کوئی تصا دم نہیں وقت اور اسکے پیدا کردہ مسا ئل کو اسلام کی اصل بنیا د اور احکا م شر ع کی علت کو مد نظر رکھ کر ان مسا ئل کا حل تلا ش کیا جا سکتا ہے اسی کو تفقہ فی الد ین کہا جا تا ہے اور اسی کو علم فِقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہا ں سے دو گر وہ پیدا ہوئے جن میں سے ایک گر وہ فقہ کا قائل تھا اور دو سرا اگر وہ اپنے آپ کو اہل حد یث کہنے لگا پھر اول الذ کر اپنے آپ کو اہل سنت کہنے لگے۔ اہل سنت مقلد بھی کہلا ئے کہ وہ فقہ کے ائمہ اربعہ اما م ابو حنیفہ(رح) ، اما م ما لک (رح) ، امام شا فعی (رح) اور امام احد (رح) بن حنبل میں سے کسی ایک کی فقہ کی تقلید کر نے لگے ا س طرح حنفی ، مالکی ،شا فعی اور حنبلی فر قے پیدا ہوگئے۔ بر یلو ی او ر دیو بند ی دونو ں اپنے آپ کو اہل سنت بھی کہتے ہیں اور حنفی بھی صو فیا ئ و اولیا ئ میں سے اکثر کسی نہ کسی فقہی مسلک سے وا بستہ تھے کچھ آزا د خیا ل بھی تھے۔ +صو فیا ئ اور او لیا ئ کا سلسلہ ئِ مقدسہ سا ری دنیا میں اشا عتِ اسلام کا با عث بنا انہو ں نے اپنے حسنِ اخلاق اور شیر یں بیا ن سے لوگو ں کو را م کیا اور اسلام کا مطیع بنا یا۔ انہو ں نے مقا می لو گو ں کے تمد ن کو زیا دہ نہ چھیڑ ا صر ف ان رسو م بِد کا استصیال کیا جو شرک کی طر ف لے جا تی تھیں۔ اس طر ح وہ عو ام النا س میں مقبول ہو تے گئے۔ انہو ں نے حضو ر �ö کی سیر ت اپنا تے ہوئے اس قو ل پر عمل کیا کہ مر یض سے نفر ت نہ کر و مر ض سے نفر ت کر و۔ کا فر سے نفرت نہ کر و اسکے فعل کفرِ سے نفر ت کر و۔ انہو ںنے انسان سے پیا ر کیا اور کو شش کی کہ پیا را اور محبت سے اُسے سمجھا یا جائے کہ وہ گمر اہی چھو ڑ کر صر اطِ مستقیم پر آجا ئے ۔ یو ں میرا پیغا م محبت ہے جہا ں تک پہنچے کہنے والے یہ محبت بھر ے لوگ مقبو ل سے مقبول تر ہو تے چلے گئے۔ اسلام پھیلتا چلا گیا اور اولیا ئ کا حلقہ ئِ اثر وسیع تر ہو تا گیا۔ آج سب دانشوراس با ت پر متفق ہیں کہ سلطان محمو د (رح) غز نو ی کے ستر ہ حملو ں کے مقا بلہ میں دا تا گنج بخش (رح) کے ستر ہ دنو ں نے اسلام کی زیا دہ اشا عت کی۔ جب عو ام النا س میں ہر جگہ اولیا ئ زیا دہ مقبو ل ہو نے لگے تو خو د مسلما ن با د شا ہ کھٹک گئے انہیں احسا س ہو ا کہ ان کے حکم سے زیا دہ لو گ گد ڑ ی پو ش فقیر کا حکم ما نتے ہیں لو گ انہی فر قہ پو شو ں کی طر ف ر جو ع کر تے ہیں اور انکے اشا رو ں پر سر کٹا نے کو تیا ر ہوجا تے ہیں �ò +ہے دل کی سلطنت پر تسلط فقیر کا +اجسا مِ ناتواں پہ ہے فر ما ں روا امیر +با د شا ہو ں کے پا س دو لت کے انبا ر تھے ان کے آگے جھکنے والو ں پر انعا م و اکرا م کی با ر ش ہو جا تی تھی مگر لو گ کھچے کھچے فقیر وں کے پاس جا تے تھے کیو نکہ کو ئی ان کے گو ش ِ دل میں یہ سر گو شی پھو نک رہا تھا �ò +تمنا درد دل کی ہوتو کر خدمت فقیروں کی +نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں +نہ پوچھو ان خرقہ پوشوں کی عدادت ہو دیکھ ان کو +یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینو ں میں +اور لو گ اسی صد ا پر لبیک کہتے ہوئے قصرِ شا ہی کی بجا ئے فقرِ خا نقا ہی کی طر ف رجو ع کر تے اور کشا ں کشا ں فقیر کی با ر گا ہ میں پہنچتے جہا ں کو ئی حا جب و در بان نہیں تھا۔ امیر فقیر سب برا بر تھے۔ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جا تا اور دعا ئو ں کا ابر ِ کر م سب پر بر ستا ما دی طو ر پر دکھو ں کا مدا وا ممکن ہو تا تو وہ بھی کر دیا جا تا اور رو حا نی بر کا ت کی شعا عیں بھی ہر ایک پر جلو ہ فگن رہتیں۔ با د شا ہو ں کو فقیر و ں کی یابا ت بھی نیز ے کی طر ح چبھتی رہتی کہ یہ فقیر لوگ اپنے زا ویو ں میں قطب کی طر ح جمے رہتے ہیںکبھی اپنی احتیاجا ت کے ہا تھو ں مجبو ر ہو کر با دشا ہ کے در و ازے پر نہیں آتے۔ ان کے پاس خراج اور محا صل لا ے اونٹ نہیں آتے مگر را ت دن ان کے ل��گر چلتے رہتے ہیں۔ یہ با تیں با د شا ہو ں کو ستاتی تھیں انہیں کیا خبر کہ لو گو ں کے دماغو ں میں تو یہ معیا ر مبنی بر صداقت ہے کہ �ò +قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش +جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ +با دشا ہ اپنے مقا بلہ میں اپنی ہی سلطنت کے اندر دو سرے با د شا ہ کر بر دا شت نہیں کر سکتے تھے ۔وہ در و یشو ں پر عر صہ ئِ تنگ کر نا چا ہتے تھے مگر اس کے لیے انہیں کسی نہ کسی جوا ز کی تلا ش ہو تی۔ یہ جوا ز اُن علما ئے ظا ہر سے مل سکتا تھا جو وا بستگا ن دربا ر ہو کر تے تھے چنا نچہ ان کے فتو و ں سے اولیا ئ مستحق ِ دا ر ٹھہر ے کسی کو پھا نسی دی گئی کسی کی کھا ل کچھو ائی گئی ۔ صو فیا ئ کا قتلِ عام ہو تا رہا مگر را ہِ سلوک ویرا ن نہ ہو ئی۔ اس پر چلنے والو ں کی بھیڑ لگی رہی اور انکے پر وا نو ں کے ہجو م بھی بڑھتے گئے وہ مر گئے تو انکے مزا ر مر جعِ عوا م بن گئے۔ +علما ئے ظا ہر بھی یہ سب کچھ بر داشت نہ کر سکے اور ان اولیا ئ کے خلا ف صف آرا ئ ہو گئے شر ک و بد عت کے معا نی میں نا روا تو سیع کی گئی مزاروں پر جا نے والو ں کو قبر پر ست، مشر ک ، بد عتی مر تدا ور واجب القتل گر دا نہ گیا ۔ لمحہ بہ لمحہ اس مخالفت میں مخا صمت کی شد ت آتی گئی ، اہل حد یث اور حنبلی مسلک کے ابن تیمیہ جیسے متشد د لو گ جو ش غیظ و غضب سے تمتما تے اور فتو وں کے انبا ر لگا تے گئے۔ آخر نجد میں محمد بن عبد الو ہا ب پیدا ہوا جس نے ’’کتا ب التو حید ‘‘ میں ہر طر ف سے تو جہ ہٹا کر ان ہی لو گو ں کو ہد فِ ملا مت و تکفیر بنا یا جنہیں اولیا ئ سے محبت تھی انکے مز ارو ں کو سجا تے انکے عر س منا تے اور انکے جا نشینو ں کا احترا م کر تے تھے ۔ اس نجد میں سلطا ن سعو د پید اہوا جس نے اسی مسلک کو آگے بڑ ھایا ’’ عبد الوہا ب ‘‘ کے اس مسلک کے لیے اسی زما نہ میں ’’ وہا بیت ‘‘ کی اصطلا ح وضع ہو ئی۔ حجاز مقد س پر تر کو ں کی حکو مت تھی اور تر کو ں نے ہی شر یف مکہ کو حا کم مقر ر کر رکھا تھا۔ سلطا ن سعو د نے اُسے شکست دی ۔آل سعو د عرب پر قا بض ہوئی جس نے عرب کو ’’ سعو د ی عرب ‘‘ کا نا م دے دیا۔ وہی لوگ ابھی تک قا بض چلے آتے ہیں۔ +ان لوگو ں نے صحا بہ اکرا م کی قبر یں بے نشا ن کیں۔ ہر جگہ قبے گرا ئے۔ مزا رو ں کی تو ہین کی۔ انتہا ئی شدت سے اپنے مسلک کو رو اج دینے کی کوشش کی مگر دنیا جا نتی ہے کہ اکثر یت کد ھر ہے۔ اب انکی شد ت پسند ی میں کچھ کمی آگئی ہے۔ رو ضہئِ رسول کی جا لیوں کو بو سہ دینے والوں پر کو ڑے بر سا نے والے اب کچھ نر م پڑ نے لگے ہیں۔ +بہر حا ل محمد بن عبد ا لو ہا ب کی وہا بیت کو برصغیر میں بھی پنا یا گیا سید احمد بر یلو ی نے یہی مسلک اپنا یا شاہ اسمعیٰل انکے مر ید ہوئے یہاں کے اہلحد یث میں بھی چند نے ساتھ دیا ۔آخر سکھو ں کے خلا ف ہر کام جنگ لڑ کر کام آئے ۔ شا ہ اسمعیل نے ’’ کتا ب التو حید‘‘ کی اتبا ع کر تے ہوئے ’’ تقو یر الا یما ن ‘‘ نا م کی کتا ب لکھی اور تکفیر کی رہی مہم چلا ئی۔ اہلحد یثِ حضر ا ت لفظ وہا بی کہلانے سے بد کتے ہیں ۔چنا نچہ مو لو ی محمد حسین بٹا لو ی نے انگر یز گو ر نر سے نوٹیفیکیشن جا ری کر ایا کہ اہل حد یث کو وہا بی نہ کہاجا ئے ۔ یہاں تک تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہا ں ایک اور فر قہ پیدا ہوا جسے آج وہا بی اور دیو بند ی کہا جاتا ہے۔ دیو بند کے دا ر العلوم کی بنیا د مو لا نا قا سم نا نو تو ی نے رکھی اور ظا ہر یہی کہا گیا کہ اسلامی علو م اور اسلامی تہذ یب کے تحفظ کے لیے یہ مد رسہ قائم کیا جا رہا ہے چنانچہ سب طر ح کے لو گو ں نے اس میں داخلہ لیا بعد میں اس دا ر العلوم کے اربا ��ِ کا ر نے پر پر زے نکالے اور وہا بیت کے عقا ئد کی تبلیغ شر و ع ہو گئی۔ اس پر اما احمد رضا خا ن بر یلو ی نے انکی تحر یر وں پر گر فت کی اوربتا یا کہ انکی تحر یر یں اہل سنت کے عقا ئد کے خلا ف ہیں اس پر ’’ بریلو یت ‘‘ اور ’’دیو بند یت ‘‘ کی اصطلا حیں وجو د میں آئیں پہلے بعض علما ئے دیو بند نے شد ت اختیا ر کی اُن کے ذہنوں پر شا ہ اسمعٰیل کی تقو یر الا یما ن چھا ئی ہو ئی تھی ۔ +د ونو ں طر ف سے علما ئ نے اس جنگ میں حصہ لیا گر ما گر م لڑ یچر تیا ر ہوا اما م احمد رضا خا ن بر یلو ی نے ان علما ئے دیو بند کی تحر یر یں جمع کیں اور حر مین شر یفین کے علما ئے کرا م کو بصو ر ت استفتا ئ بھیجیں وہا ںسے فتو ٰ ی آگیا کہ ان تحریر وں میں بیا ن کر دہ عقا ئد کفر یہ ہیں ان سے تو بہ کرنی چاہیے ۔یہ فتوٰ ی جو پو ری ایک کتا ب ہے ’’ حسا م الحر مین ‘‘ کے نام سے اما م احمد رضا خان نے شا ئع کرا دیا جو با ر با ر شا ئع ہوا اور ابتک شائع ہو تا چلا آ رہا ہے ، اس کتا ب کا خا طر خواہ اثر ہوا اکا بر دیو بند نے اُن عقا ئد سے برأ ت کا اظہا ر کیااور ’’ مہند ‘‘ کے نام سے کتا ب شا ئع ہوئی جس میں کہا گیا علما ئے بند کے عقا ئد وہ نہیں جو حسا م الحر مین میں ہد ف تنقید بنا ئے گئے ہیں ’’ مہند ‘‘ میں ’’ بر یلو یت ‘‘ اور ’’ دیوبندیت ‘‘ ہر دو مسلک کے عقا ئد قر ار دیے گئے۔ +علما ئے دیو بند جو ذہنی طور پر وہا بیت سے قر یب ہیں ،عجیب مخمصے کا شکا ر رہے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ،کر تے نہیں اور جو کر تے ہیںکہتے نہیں اب ہم اُن چند عقا ئد کا ذکر کر تے ہیں جو ما بہ النز اع سمجھے گئے ۔ +۱۔حیا ت النبی �ö:۔ بر یلو ی اور دیو بند دو نو ں اس با ت پر متفق ہیں کہ رسو ل �ö ظا ہر ی مو ت کے بعد بھی زند ہ ہیں ۔دیو بند ی کہتے ہیں زند ہ ہیں مگر اپنی قبر میں زند ہ ہیں وہاں اگر درود شر یف پڑ ھا جا ئے تو وہ سنتے ہیں۔ بر یلو ی حضرا ت کہتے ہیں آپ ہر جگہ سے درود شر یف سُنتے ہیں۔ ورنہ ہمیں یہ حکم نہ ہو تا کہ ہم نماز میں السلام علیک ایھا النبی پڑھتے۔ یہیں سے حا ضر نا ظر کا مسئلہ پیدا ہوا۔ بر یلو ی حضرا ت کے نز دیک حضور �ö ہر وقت ہر جگہ حا ضر نا ظر ہیںاور ہما رے اعما ل دیکھ رہے ہیں۔ وہ قر آن حکیم کی اس آیت سے استدلا ل و استشہا د کرتے ہیں ۔ وکذلک جعلناکم اُمَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُونوْ ا شُھَدَا ئَ عَلیَ النَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّ سُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً‘‘ +﴿تم اعتدا ل پسند امت ہو ﴿اور ایسا تمہیں اس لیے بنا یا گیا ہے کہ ﴾ تم نسل ِ انسا نی کے اعما ل و کر دا ر کے نگرا ن رہوا اور رسو ل (ص) تمہا رے اعمال و کردار کا نگرا ن ہو ﴾ +آج کے دیو بند ی اس کے خلا ف ہیں ۔درود ،سلام اور یا رسو ل اللہ کہنے پر بھی اسی لیے جھگڑ ا کر تے ہیں یعنی جو چیز نماز میں پڑ ھتے ہیں ویسے پڑ ھ دیں تو شرک ہو جا تا ہے۔ استغفر اللہ ۔ +۲۔استمدا د لغیر اللہ:۔اب دیو ند ی حضرات کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مد د ما فو ق الا سبا ب طلب کر نا شر ک ہے جبکہ بریلو ی ایسا عمل جا ئز سمجھتے ہیں بلکہ اکا بر دیو بند بھی اسے جا ئز سمجھتے اور ایسا کر تے تھے صو فی امدا د اللہ مہا جر مکی کی نعتیں پڑ ھ لیجئے اس سے بھی بڑ ی با ت یہ ہے کہ خو د مو لا نا قا سم نا نو تو ی با نی دا ر العلوم دیو بند لکھتے ہیں �ò +مدد اے کرم ِاحمدی کہ تیرے سوا +نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامیئِ کار +اس شعر میں مو لا نا قا سم نا نو تو ی نے حضور �ö کو حا ظر نا ظر جا ن کر مخا طب بھی کیا ہے اور اُن سے مد دبھی ما نگی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور �ö کابھی فیض جا ری ہے اور وہ بے کسو ں کی پکا ر سُن کر انکی مد د فر ما تے ہیں۔ +۳۔سما عِ مو تیٰ :۔سما ع مو تیٰ یا مُر دو ں کا سننا ایک اور اختلا فی مسئلہ ہے ۔اکا بر دیو بند سما ع مو تی ٰ کے قا ئل ہیں، کیو نکہ بکثر ت روایات سے سما ع مو تی ٰ ثا بت ہو تا ہے ’’ المہند ‘‘ میں بھی تصر یح کی گئی ہے کہ علما ئے دیو بند سما ع مو تی ٰ کے قا ئل ہیں ۔ آج کے دیو بند حضرا ت کہتے ہیں کہ اولیا ئ قبر وں میں سنتے توہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے ۔بر یلو ی حضرا ت کہتے ہیں یہ تو اور بھی عجیب با ت ہے ،وہ کر کچھ نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ کا انہیں سنا نے کا فعل عبث ٹھہر تا ہے جو شا نِ خدا وند ی کے خلا ف ہے۔ اگر ایک ولی کا بیٹا اسے اپنا دکھڑ ا سنا رہا ہے۔ ولی قبر میں سب کچھ سُنتا ہے مگر کچھ مدا وا نہیں کر سکتا تو اس دُکھ سے وہ بھی دکھی ہو تا رہے گا ۔ یہ عجیب معا ملہ ہو ا کہ ایک نیک آدمی قبر میں جا کر اپنے بچو ں کو دکھ سُن کر مبتلا ئے اذیت رہے ۔ اصل میں میرے ﴿ را قم منصو آفاق نے ﴾ ضلع میا نو الی میں ایک قصبہ واں بھچرا ں ہے۔ وہا ں ایک عالم مو لا نا حسین علی صا حب پیدا ہوئے ۔وہ کہلا تے تو اپنے آپ کو دیو بند ی تھے مگر ان کے عقا ئد زیا دہ تر کتاب التو حید والے محمد بن عبد الو ہا ب نجد ی سے ملتے تھے ۔ +حضور �ö کی میلا د پر اور اولیا ئ کے عر س پر بھی اختلا ف کر تے ہیں، اور دیو بند ی حضرا ت متشد د ہو جا تے ہیں۔ بر یلوی یا اہل سنت حضرا ت کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ وہ محبت رسو ل (ص) میں ڈوبے ہوئے ہیں انکا ر ایما ن کہ �ò +محمد کی محبت دین حق کی شر طِ اول ہے +اسی میں ہو اگر خا می تو سب کچھ نامکمل ہے +اما م احمد رضا بر یلو ی محبت رسو ل (ص) کو ہی اصل عبا د ت سمجھتے تھے اور یہی چیز مخالف فر یق کے نز دیک شر ک قرار پا ئی ۔ +مسلما ن چا ہے دنیا کے کسی کو نے میں ہو ں اکثر یت محبت رسول میں وہی مسلک رکھتی ہے جسے بر صغیر مسلک بر یلو یت کہا گیا ۔ +اللہ کے رسو ل ، صحا بہ کرام اور اولیا ئ عظا م کی محب بر یلویت سمجھی گئی اور مسلما نو ں کی اکثر یت اسی سے وابستہ ہے لیکن انکی کمز وری یہ ہے کہ ان میںیکجہتی نہیں تنظیم واتحا د نہیں کچھ مذہبی سیا سی لیڈر و ں نے بھی انہیں تقسیم کر رکھا ہے ۔ ور لڈ اسلامک مشن میںبھی یہ طے ہو اتھا کہ مسلک اہل سنت کے مسلما نو ں کو وحد ت میں پر و یا جا ئے اور س تنظیم کے قیا م سے پیشتر بھی جنا ب پیر معرو ف شا ہ صا حب نے اسی کو مطمح نظر بنا رکھا تھا ۔ +وہ شب و روز اسی اتحا دد کو شا ں ہیں ۔ +بر یلو یت یا مسلکِ اہل سنت سے وابستہ مسلمان چو نکہ سر اپا محبت ہو تے ہیں اس لیے یہ کہیں بھی ہو ں فتنہ پسند نہیں ہوتے یہ اولیا ئ کے عقید تمندوں کا گروہ ہے اس لیے ان میں غیر مسلمو ں کے سا تھ رو اداری اور حسن سلو ک کے اوصاف نما یا ں ہو تے ہیں کسی فتنہ اور شرو فسا دمیں اس مسلک کا آدمی کبھی ملوث نہیں ہوا ۔لاٹھی کی بجا ئے منطق ان کا ہتھیا ر ہے پیر صا حب کا یہ نصب العین بھی ہے کہ غیر مسلمو ں پر و اضح کر دیں کہ جب وہ مسلما نو ں کے متعلق کوئی نظر یہ قا ئم کر نے لگیں تو اس اکثر یتی فر قہ کے خصا ئص ضر و ر مد نظر رکھیں۔ +معا شرہ کو در پیش مسا ئل +اقبال جس تصو ف اور خا نقا ہیت کے مخا لف ہے وہ تصو ف میں ایسا نقطہئِ فکر و عمل اپنا نا ہے جو تصو ف کو رہبا نیت کے قریب لے جا تا ہے۔ دنیا سے تعلق ہو جا ئو سا رے فر ائض حیا ت کو پس پشت ڈا ل کر غا ر وں اور جنگلو ں میں چھپ کر اللہ اللہ کر تے رہنا اور دنیا کے ابلیس اور چیلو ں کے حوا لے کر دینا صحیح اسلامی تصو ف نہیں رہبا نیت ہے جس کے متعلق اللہ نے فر ما یا +’’وَ رَ ھْبا نَیَّۃَنِِ ابْتَدَ عُوْ ھَا مَا کَتَبْنٰھَا‘‘ +﴿رہی رہبا نیت تو وہ انہوں نے خو د گھڑی ان پھر ہم نے نہیں ڈا لی تھی ﴾ +اللہ کے پاک رسو ل �ö نے معا شر ہ سے فرا ر اختیا ر نہیں کیا اسی معا شرہ میں رہے۔ شا دیا ں ‘ کیں بچے پیدا ہوئے گھر و الو ں کے حقو ق نبھا ئے پڑ وسیوں کے حقو ق پو رے کئے جنگیں لڑیں معا شرہ کی ارتقا ئی جد وجہد میں شامل رہے اور آخر معاشرہ کو بد ل کر رکھد یا �ò +اس پہ کیا فخر کہ بد لا ہے ، زما نہ نے تمہیں +مر د وہ ہیں جو زما نہ کو بد ل دیتے ہیں +حضرت پیر معرو ف شا ہ نو شا ہی سیر ت نبو ی پر عمل کر تے ہوئے معا شرہ میں جا ندا ر کر دا ر ادا کر تے ہیں۔ انہو ں نے برطا نیہ میں مسلما نو ں کو پیش آنے والے مسائل میں حا لا ت کا رُخ بد لنے کے لیے بھر پو ر کر دا ر ادا کیا مسلما نو ں کو منظم کیا ان کے مسائل سمجھے اور اربا بِ کا ر کو سمجھا ئے۔ انہو ں نے ہمیشہ مسائل کے حل کے لیے امن پسند ی اور افہا م و تفیہم کا را ستہ اختیا ر کیا اور آخر مسئلہ حل کر لیا ۔ +اگلے صفحا ت میں ہم ان کے کر دا ر کی اسی جہت پر ایک دو مثا لیں پیش کر ینگے +بر طا نیہ میں مسلما ن لڑ کیوں کی تعلیم +یہ شا ید 1974 کے قریب کی با ت ہے ، بر طا نیہ کے محکمہ تعلیم نے لڑ کیوں کے علاحدہ سکولو ں کا سسٹم ختم کر نے کا فیصلہ کیا اور مخلو ط طریقہ تعلیم تو رائج کر دیا ۔ پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی کی نگا ہ ، دو رمیں فو را ً انداز ہ ہو گیا کہ یہ صو رت احوا ل مسلما ن بچیو ں کی تعلیم کے لیے قطعا ً در ست نہیں انہیں سخت تشو یش لا حق ہوئی، انہو ں نے جمعت تبلیغ الا سلا م کے پلیٹ فا ر م پر اس سلسلہ میں جد وجہد کا آغا ز کیا ، بر طا نیہ کے مسلما نو ں کو اس با ت کا احسا س دلا یا کہ حکومت بر طا نیہ کا یہ فیصلہ درست نہیں، کئی میٹنگ ہو ئیں ، عقل اور حقیقت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جا ئز ہ لیا گیا اور پھر حکومت بر طا نیہ کو مسلما نو ں کی بے چینی کی معقول وجہ بتا ئے کے لیے چند تجا ویز دی گئیں اس سلسلہ میںمر کز ی جمیت تبلیغ الا سلا م نے ایک کتا بچہ شائع کیا جس میں لکھا گیا ۔ +’’ اپنی جگہ پر یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر قدم اپنی جدا گا نہ تہذیب اپنے مخصو ص ضابطہ ئ اخلا ق اور اپنی مذہبی رو یا ت کے بل پر دنیا کی دو سری قو مو ں کے درمیاں اپنی انفرا دیت بر قرا ر رکھتی ہے چنا نچہ مسلما ن قوم بھی کسی خا ص گھر انے یا قبیلے میں پیدا ہونے والے افرا د کا نام نہیں ہے بلکہ اس قو م کا نام ہے جو دا ئرہ اسلام میں داخل ہو کر ایک جدا گا نہ تہذ یب ایک مخصو ص ضا بطہ اخلا ق اور ایک منفر د طر یقہ زندگی اپنا لینے کے بعد تشکیل پا تی ہے، +اسلام نے جہا ں میں ایک جدا گا نہ طر یق عبا دت کی تعلیم دی ہے وہاں اس نے ہمیں مخصو ص نظا م معا شرت بھی عطا کیا ہے جس کے ذریعہ ہم زندگی گز ار نے کے طر یقے ، انفرا دی سیر ت و کر دا ر کے آداب ، سو سا ئٹی کے حقو ق ، خا ند انی زندگی کے ضا بطے ، مرد و زن تعلقا ت اور اہل و عیا ل کی پر و رش وپر دا خت کی ذمہ دا ر یو ں سے واقف ہو تے ہیں۔ +نا محر م مر دو ں سے نو جوا ن لڑ کیو ں اور عو ر تو ں کا پر دہ بھی اسی نظا م معا شر ت کا ایک قا نو ن ہے جو اسلا م نے ہم پر نا فذ کیا ہے اور مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ہم پر اسکی پا بند نا گزیر ہے ۔اور مذہبی کمز ریو ں کے با وجو د آج بھی دو سر ی قو مو ں کے در میا ن پر دے کا یہ سسٹم مسلم معا شرے کی ایک واضح علا مت سمجھا جا تا ہے یگا نہ مرد و زن کی مخلو ط سو سائٹی کو وہ اسلام کیو نکر بر دا شت کر ے گا جو خا ندا ن ان ممبر و ں سے بھی اپنی عو رتو ں کا پردہ کر ا تا ہے جو رشتہ کے اعتبا ر سے محر م نہیں ہیں، جذبا تی کمز وریو ں کی آرا ئش سے معا شرہ کو پاکیز ہ رکھنے کے لیے اسلام کا یہ قا نو ن فطر ت انسا نی کے گہرے مطا لعہ کا آئینہ دا ر ہے، اس سے بر طا نیہ کے مسلما نو ں میں مخلو ط تعلیم کے خلا ف اگر بے چینی ہے تو بجا طو ر پرانہیں اپنی بے چینی کا حق پہنچتا ہے کہ بیگا نہ لڑ کو ں کے سا تھ وہ اپنی لڑ کیو ں کا اختلا ط اپنی قو می تہذ یب اوراپنے مذہب کی ہدا یا ت کے خلا ف سمجھتے ہیں، علا وہ از یں اخلا قی نقطۂ نظر سے بھی اکر ہم مخلو ط تعلیم کے نتا ئج کا جائز ہ لیں تو وا قعا ت کی رو شنی میںیہ مخلو ط تعلیم گا ہو ں کی جنسی بے را ہ روی ، شہو انی تحر یکا ت اور آزا دانہ معا شقے کے لیے ایک سا ز گا ر ما حو ل کتنا زیا دہ پسند کر یں گے ۔اس لیے کہ دیا جا ئے کہ مخلو ط تعلیم کے ذریعے انسا نی ذات کو حیوا نو ں کی سرزشت اختیا ر کر نے پر مجبو ر کر نا انسا نیت کی کھلی ہو ئی توہین ہے۔ اس مسئلہ میں دو سری قو مو ں کا نقطہ ئِ نظر کیا ہے۔ اس کے متعلق ہم کچھ نہیںکہہ سکتے لیکن ایک غیر ت مند مسلما ن کبھی ایسے گوارا نہیں کر سکتا کہ اسکی بچی کو ایک حیا سوز ما حو ل میں چند لمحو ں کے لیے بھی دا خل کیا جا ئے، غا لباً اسی غیر ت قومی کا ثبو ت دیا ہے ، اس مر دِ مو من نے جس نے صر ف اس لیے بر طا نیہ کو خیر آبا د کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی بچی کو شر م و حیا کے مقتل میں بھیج کر زند ہ در گو نہیں کر نا چا ہتا تھا۔ وہ اپنے مثا لی کر دا ر کے ذریعہ یہاں کے مسلما نو ں کے لیے جو نقش چھو ڑ گیا ہے ہمیں امید ہے کہ وہ ہما ری قو می غیر ت کو ضر و ر بیدا ر کر ئے گا۔آخر میں حکومت بر طا نیہ کے دانشو رو ں کی تو جہ ہم اس نکتہ کی طر ف مبذ ول کر وا نا چا ہتے ہیںکہ پاک و ہند کے مسلما نو ں کا قومی اور مذہبی مز اج اُن سے مخفی نہیں ہے ایک طو یل عر صہ تک انہیں ہما رے قر یب رہ کر ہمیں سمجھنے کا موقع ملا ہے ۔اپنے دیرینہ تجر با ت کی رو شنی میں وہ اچھی طر ح جا نتے ہیں کہ ہما رے یہا ں لڑ کیو ں کی تر بیت اور ان کے رہن سہن کا مسئلہ کیا ہے۔ +اس لیے اپنے ملک میں ایک معزز شہر ی کی حیثیت سے انہو ں نے جن مسلما نو ں کو رہنے کی اجا ز ت دی ہے ہمیں امید ہے کہ وہ ان پر کوئی ایسی شر ط مسلط نہیں کر یں گے جس سے ان کے قو می اور مذہبی جذبہ کو ٹھیس پہنچے اور وہ عبو ر ہو کر یہاں سے فر ار کا راستہ اختیا ر کریں، پاک وہند میں آج بھی انگلستان کے جو شہر آبا دہیں ، انہیں جبر ی قا نون کے ذریعہ ہر گز اس کے لیے عبو ر نہیں کیا جا تا کہ وہ اپنی قومی تہذ یب اور اپنی مذہبی رو ایا ت سے دستبر دا ر ہو جا ئیں ۔ اس پے ہم امید کر تے ہیں کہ بر طا نیہ کے وسیع فر ما ں روا مخلو ط تعلیم کے مسئلہ کا اس ر خ سے اگر جا ئز ہ لیں کہ اسے با خیر نا فذ کر نے سے ایک قو م کی تہذ یبی رو ایت مجرح ہوتی ہے تو ہمیں یقین ہے کہ ہما ری دشواریوں کا کوئی نہ کوئی حل ضر و ر نکل آئے گا آخر آج سے چند سال قبل سکھو ں کی پگڑی کے خلا ف حکو متِ بر طا نیہ نے جو سر کلر جا ر ی کیا تھا، وہ صر ف اس بنیاد پر وا پس لیا گیا کہ اس سے ایک قو م کے مذہبی جذبہ کو ٹھیس لگتی تھی، مخلو ط تعلیم کے سو ال پر بر طا نیہ کے مسلما نو ں کی بے چینیوں کے ازا لے کے چند تجا ویز مر کزی جمیت تبلیغ الا سلام بر یڈ فو رڈ کی طر ف سے پیش کی جا رہی ہیں اگر ان میںسے کوئی قا بل قبول ہو تو ہمد ر د ی کے جذبہ کے سا تھ اس پر غو ر کیا جا ئے۔ +۱۔ مخلو ط تعلیم کے بجا ئے لڑ کیوں کی جدا گا نہ تعلیم کا سلسلہ جا ری رکھا جائے جیسا کہ عہد قد یم سے آج تک کا سسٹم چلا آرہا ہے، +۲۔ اگر یہ تجو یز قا بلِ قبول نہ ہو تو مسلما نو ں کو اپنی لڑ کیوں کا علاحدہ سکو ل کھولنے کے لیے معقول گر انٹ دی جا ئے ۔ +پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف نو شاہی کے زیر سر پر ستی پیش کی جا نے والی دو سری تجو یز کو حکو مت بر طا نیہ نے اخلا قی طور پر تسلیم کر لیا اس میں کوئی شک نہیں کہ بر طا نیہ مسلما ن لڑ کیوں کے علاحدہ سکول کے بننے کا عمل اس تجو یز کے بہت دیر کے بعد سا منے آیا لیکن الحمد اللہ اس وقت بر طا نیہ مسلمان لڑ کیوں کے لیے علیحد ہ سکول مو جو د ہے۔ +اسلامک مشنر ی کالج کا قیا م +پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف نو شاہی نے بر طا نیہ کے قیا م کے در ران ایک با ت کو خا ص طو ر پر محسو س کیا کہ ہما رے پا س تبلیغ اسلام وہ نظا م موجو د نہیں جو غیر مسلمو ں میں اسلام پھیلا نے کے لیے مفید ثا بت ہو سکے، کیونکہ عربی درسگا ہوں سے عام طو رپر علما ئے کر ام فا رغ ہوتے ہیں انہیں دنیا کی دو سری زبانیں نہیں آتی کہ وہ دوسرو ں قو م کے سا تھ افہام و تفہیم کا رابطہ قائم کر سکیں، اور انگر یز ی کا بچو ں اور یو نیو ر سٹیو ں کے تعلیم یا فتہ افرا د اس میں کوئی شک نہیں کہ دو سری زبا نو ں بھر پو ر قدر ت رکھتے ہیں مگر ان کے پاس دین کا اتنا علم نہیں ہو تا کہ وہ اسکی صحیح انداز میں وکا لت کر سکیں، سو پیر صا حب نے محسوس کیاکہ ایک ایسے ادا رے کا قیام عمل ہی لا یا جا ئے جہا ں علما ئے اسلام کو بین الا قو امی زبا نو ں میں سے کسی ایک زبا ن میں لسا نی تر بیت دی جا ئے اور اسے اس قا بل بنا یا کہ وہ غیر مسلم اقوم میں دین اسلام کے فر و غ کے لیے کا م کر سکیں،اس مقصد کے لیے ورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتما م اسلامک مشنر ی کا لج کا قیام پیر صا حب کی ایک بہت بڑ ی کا میا بی تھی ، 14 اگست1974 اس کا لج کا افتتا ح ہو ا، کویت کے الشیخ محمد سلیمان نے اس کا افتتا ح کیا ۔ اس سے پہلے کہیں بھی اس طر ح کا کوئی ادا رہ اور پھر خا ص طو ر پر یو رپ میں ایسے کسی ادارے کے قیا م کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن پیر صاحب کی کوشش اور بے پنا ہ اس مشکل تر ین کا م کو ممکن بنا دیا۔اس مقصد کے لیے بریڈ فو رڈ میں بر یڈ فو ر ڈ یو نیو رسٹی کے با لکل سا منے، پتھر کی ایک عما ر ت چا لیس ہز ار پو نڈ میں خر ید لی گئی جس میں اٹھا رہ چھوٹے بڑے کمر وں کے علا وہ دو وسیع تر ین ہا ل بھی مو جو د ہیں، اور اس میں دا خل ہو نے والے طا لب علمو ں کے متعلق یہ طے کیا گیا کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے صر ف وہی مسلم طلبہ کا لج میںداخل کئے جا ئیں گے جو صحت ، ذہا نت ، دیانتدا ر ، طبعی اوصا ف اخلا قی محاسن اور عمل و تقو ی کے اعتبا ر سے کالج مطلو بہ معیا ر پر پو رے اتر تے ہو ں، کالج کی طر ف سے طلبہ کو رہا ئش علاج، اور درسی کتب کی سو لتوں کے علاوہ حسب استطاعت و طا ئف دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ +اسلامک مشنر ی کالج کے اغرا ض و مقا صد میں دو بنیا دی با تیں رکھی گئیں، ایک یہ کہ جد ید عربی ، انگر یز ی ، فرنچ ، ، ڈچ اور دنیا کی دو سری لٹر یر ی زبا نو ں میں علما ئے اسلام کو تحر یر و تقر یر ی کی تر بیت دنیا اور انہیں دعو ت و تبلیغ کے فکر ی او ر عملی وسا ئل سے مسلح کر کے اس قابل بنا نا کہ وہ غیر مسلم اقوام میں تبلیغ اسلام کا فر یضہ سر انجام دے سکیں، اور دو سری با ت یہ رکھی گئی کہ افر یقہ ، یو ر پ اور امر یکہ کی مسلم آبا دیوں میں جا بجا دینی تعلیم کے مرا کز قا ئم کر نا اور ما حو ل کی ضر و ر ت کے مطا بق ہر ملک کے لیے دینی تعلیم کا ایسا نصا ب تیا ر کر نا جو وہا ں کے مسلما ن بچو ں اور نو جوا نو ں کو اسلام سے ��ر بو ط رکھ سکے۔ +تعلیمی نظام دو طر ح کے نصا ب پڑ ھا ئے جا نے کا فیصلہ کیا گیا پہلا نصا ب تعلیم ان ملکو ں میں رہنے والے مسلما ن بچو ں کے لیے ہوگا، جہا ں پانچ سا ل سے لے کر سو لہ سا ل کی عمر تک جبر ی تعلیم کا قانو ن نا فذ ہے یہ یو میہ دو گھنٹے کا پا ر ٹ ٹا ئم کو رس ہو گا ، جو مختلف مر احل سے گز ر تا ہوا دس سال میں مکمل ہوگا دو سرا نصا ب تعلیم جسے کا لج لیو ل کا نصا ب کہا جا ئے گا ان علما ئ کے لیے ہو گا جو کسی بھی مستند عر بی دا ر العلوم سے در جہ فضلیت پاس کر چکے ہو ں گے ، اس کو ر س کو مر حلہ ئِ تحقیق ﴿ڈاکٹر یٹ آف فلا سفی﴾ کے نام سے مو سوم کیا جا ئے گا۔ +ڈاکٹر یٹ آف فلا سفی کا کو رس عر بی ، انگر یز ی ، فر نچ سوا جسلی اور ڈچ زبا ن سے کسی ایک زبا ن میں تین سا ل کے اند ر مکمل کیا جا سکے گا ۔ یہ کو رس پانچ فیکلٹز پر مشتمل ہو گا، فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی لٹر یچر ، فیکلیٹی آف اسلامک مشنر ی آرٹ فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی سا ئنس، فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی فلا سفی، فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی ایڈ منسٹر یشن ، پر فیکلٹی کے طا لب علم کے لیے اختیا ر ی مضا مین کے علا وہ نو عد د لا زمی مضا مین بھی ہو نگے۔ +۱۔ لند ن یو نیو رسٹی کا اولیول اور اے لیول کو ر س، +۲۔ ایک زبا ن سے دو سری زبا ن میں کتا بو ں اور مضا مین کے تر جمے +۳۔ مختلف مو ضو عا ت پر انشا بر دا ر ی و مضمو ن نگا ر ی +۴۔ مختلف عنوا نا تپر بر خستہ تقر یر وں کی مشق +۵۔ زندگی میںپیش آنے والے مسائل پر بحث و مذ اکر ہ +۶۔ دنیا کے مختلف ادیا ن و تحر یکا ت کا تقابلی مطا لعہ ، +۷۔ تبلیغی ،تنظیمی اور اثطا می امو ر کی عمل مشق +۸۔ تر بیتی سفر اور نئے ما حو ل کو متا ثر کر نے کا تجر بہ +۹۔ معلوما ت عا مہ او مشا ہد ۔ +اس کالج کی انتظامیہ مغر بی اور مشر قی علوم کے ما ہر ین پر مشتمل دو مجا لس کی صو ر ت میںبنا ئی گئی، ایک گو ر ننگ با ڈی اور دو سری اکیڈ مک بو ر ڈ ، اکیڈ مک بو ر ڈ میں دنیا بھر کے مختلف حصو ں سے قدیم و جد ید علوم کے ننا نو ے دانشو رو ں کا انتخا ب کیا گیا اور گورننگ با ڈی میں پیر سید معر و ف شا ہ عا ر ف نو شاہی کے سا تھ در ج ذیل شخصیا ت شا مل تھیں۔ +۱۔ ڈاکٹر حنیف اختر کا ظمی پی ایچ ڈی ﴿لند ن﴾ ڈی آئی سی بیر سٹر ایم آئی ای ایف﴿انسٹ﴾ پی سی﴿رنگ﴾ +بی ای ﴿وڑٹنگ پر و فیسر کو یت یو نیو رسٹی﴾ +۲۔ علامہ الحا ج ارشد القا دری ﴿فاصل در س نظا میہ مبا رک بورڈ﴾ +۳۔ الحاج راجہ محمد عارف +۴۔ الحاج غلام السید یں ﴿ایم اے چا ر ٹر ڈا کاونٹنٹ ﴿لندن﴾﴾ +۵۔ علامہ قمر الزما ن اعطمی مصباجی ﴿فاصل علوم ﴾ +۶۔ الاکتو ر محمد عو نی الطا ئی البعدا د ی ﴿ڈی آرک لندن﴾ +۷۔ علامہ ابو المحمود ﴿نشتر﴾ ایم اے فا صل عر بی +اسلامک مشنری کالج کے زیر اہتما م ہر سال ایک تعلیمی کا نفر نس کا انعقا د کیا جا تاتھا جس میں طا لب علمو ں کو اسنا د عطا کی جا تی تھیںاسلامک مشنر ی کا لج میں جو اسا تذہ کرام اس وقت پڑ ھا تے ہیں ان کے نام در ج ہیں۔ +حضرت علامہ محمد سعید احمد سعید ی، +حضرت علامہ حا فظ محمد اسلم +حضرت علامہ علی اکبر سجا د +حضرت علامہ منصو ر احمد میرپو ری +حضرت علامہ عبد لطیب کا شمری +مو لانامسعو د احمد میر پو ری +سید ظہور الحسن شا ہ +اسلامک مشنری کالج کی چھٹی سا لانہ تعلیمی کا نفر نس جوپیر سید معر و ف حسین شا ہ عار ف نو شاہی کی زیر نگرا نی ہو تی اس کے اشتہا ر سے پتہ چلتا ہے کہ اس مو قع پر قر آن مجید حفظ کرنے والے پند رہ طلبا ئ کی دست بندی کی گئی، +اسلامک مشنر ی کا لج کے زیر اہتما م دینی تر بیتی کیمپ بھی لگا تے جا تے تھ��، اس سلسلہ میں پیر صا حب نے بر یڈ فو ر ڈ میں چا لیس روزہ دینی تر بیتی کیمپ کا اہتما م کر ایا ، +ان تر بیتی کیمپو ں کی ضر ورت اس لیے محسو س کی گئی کہ یو رپ کے جن مما لک میں مسلمان رہتے ہیں، وہا ں کی سو سا ئٹی مسلما ن بچو ں اور نو جوا نوں کے لیے بہت تبا ہ کن ہے، سو اس با ت کی ضر و ر ت تھی کہ نئی نسل کو فکر ی اور اخلا قی طو ر پر اسلام کے سا تھ مر بو ط رکھا جا ئے اس لیے انہوں نے چا لیس روزہ دینی تر بیتی کیمپ کا اہتمام کیا کہ نو جو ان چا لیس دن ایسی رو حانی اور فکر ی تر بیت گا ہ میں گزا ر یں ، جہا ں با ہر کی دنیا سے انکا کوئی تعلق نہ ہو تا کہ وہ خا لص دینی ما حو ل کا اثر آسانی سے قبو ل کر لیں، ان چا لیس دنو ں میں علمی اور عملی طر یقو ں سے انہیں دینی زند گی سے اسقد ر ما نو س کر دیا جا ئے کہ وہ نا سا ز گا ر ما حو ل میں بھی اپنا اسلامی تشخص بر قر ار رکھ سکیں اس سلسلے میں جو کو ر س تر تیب دیا گیا تھا وہ اسلامی انداز کی شخصیت کی تعمیر کے لیے بہت جا مع اور بنیا دی تھا۔ +جلسہ دستا ر بند ی ، +اسلامک مشنر ی کا لج چا ر طالب علمو ں کے حفظ کر نے پر اشتہا ر +تقر یبا ًوہی اسا تذہ ہیں +علما ئے کر ام میں مفکر اسلام پر سید عبد القا درشا ہ صاحب گیلا نی ، +حضرت پیر زا ہد حسین صاحب رضو ی +صا حبزادہ محمد امدا د حسین چشتی +زیر سر پر ستی ، پیر سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی +چھٹی سالانہ کا نفر نس کے ﴿اشتہا ر﴾ کی تفصیلا ت +اسلامک مشنر ی کا لج بر یڈ فو رڈ 26 اکتو بر 1986 +چھٹی سا لا نہ تعلیمی کا نفر نس +زیر صدا ر ت ، ڈا کٹر سید حنیف اختر کا ظمی +چیئر مین اسلامک مشنر ی کا بر یڈ فو رڈ +زیر نگر انی سید پیر معر و ف حسین شا ہ نو شاہی +بانی دی ورلڈ اسلامک مشن +مر کز ی جمیت تبلیغ اسلام ، +و ائس چیئر مین ۔ اسلامک مشنر ی کا لج بر یڈ فو رڈ ۔ +مہما ن علما ئے کرام حضر ت علا مہ قمر الز ما ن صا حب اعظمی ، مفتی غلام رسول صاحب شیخ ﴿الحدیث﴾ ، سید محمد مظہر شا ہ لا ہو ر ی، مو لا نا غلا م رسو ل خطیب چکسورا ی، مو لا نا حا فظ محمد فا ر وق چشتی ، علا مہ خا لد حسین نو شاہی ، علا مہ غلام مر تضیٰ صا بر نو شا ہی ، مو لا نا قا ر ی غلام یسٰین صا حب، حضرت مو لا نا قا ری محمد اقبا ل نو شاہی ، علامہ محمد بشیر صا حب سیا لو ی، مو لا نا سید کو ثر حسین شا ہ نو شاہی، مو لا نا سید طا ہر شا ہ ابر ار ، صا حبزادہ سید قطب شا ہ ابدال ۔ +درس نظا می کی تعلیم دینے والے اسا تذ ہ +۱۔ علامہ محمد سعید احمد صا حب سعید ی ۲۔ حضرت علامہ حا فظ محمد اسلم صا حب +۳۔ حضرت مفتی محمد عبداللہ صا حب قادری ۴۔ حضرت علامہ علی اکبر سجاد +۵۔ علامہ مقصو د احمد میر پو ری ۶۔ علامہ عبد الطیف کاشمیر ی +۷۔ مولا نا محمد بو ستان نا صر ۸۔ مو لا نا مسعو د احمد میر پو ری +۹۔ مو لا نا گل نوا ز چشتی ۰۱۔ سید ظہو ر الحسن شا ہ +۱۱۔ علامہ محمد حنیف قمر ایم اے ۲۱۔ ڈاکٹر علی عراقی +13 طا لب علم کے حفظ کر نے پر انکی دستا ر بند ی کا جلسہ +زیر صد ارت :۔ صا حبز ادہ سلطا ن پیر فیا ض الحسن، زیب آستانہ عالیہ ، سلطا نیہ قا دریہ جھنگ +مہما ن خصوصی:۔ پیر سید ابو الکمال بر ق نو شا ہی ، سجا دہ نشین ، آستانہ عالیہ ، نو شا ہیہ قا در یہ گجرا ت +علمائے کرام :۔ استا زالعلما ئ حضرت علامہ مفتی گل رحما ن بر منگھم +مو لا نا حا فظ محمد عظیم نو شاہی ، مو لا نا غلا م مر تضیٰ صا بر نو شاہی ، مو لانا حافظ محمد فا رو ق، حضرت مو لانا محمد طفیل اظہر ، نازش خطا بت ، مو لانا غلام رسول خطیب چکسوار ی ، حضرت مو لاناقار ی محمدابرا ہیم ، مو لا نا پیر سید کو ثر حسین شاہ ، مو لا نا محمد وز یر احمد خا ن، نو شا ہی۔ +اسا تذہ کر ام میں وہی نا م جو پہلے اشتہا ر میں در ج ہیں۔ +کسی ایک زبا ن کی عبا ر ت کو دو سر ی زبا ن میں منتقل کر نا انتہا ئی مشکل کا م ہے اور اگر یہ عبا ر ت شعر ی و ادبی انداز کی ہو تو یہ مشکل اور بھی سنگین ہو جا تی ہے۔ متر جم لاکھ کو شش کر ے اصل عبا ر ت کی فصا حت و بلا غت پو ر ی طر ح دو سری زبا ن میں منتقل نہیں کر سکتا تر جمہ میں اول تو وہ حسن بر قر ار نہیں رکھا جا سکتا جو اصل میں تھا ۔ پھر یہ کہ دو سر ی زبا ن میں اصل زبان کے الفا ظ کا صحیح بدل اور متبا دل تلا ش کر نا بہت مشکل ہے یہ مشکل مز ید کئی گنا بڑ ھ جا تی ہے جب اصل عبا ر ت ایک انتہا ئی وسیع زبا ن میں ہو اور جس زبا ن میں تر جمہ کر نا ہے وہ محدود ہو ۔ +سا ری دنیا جا نتی اور ما نتی ہے کہ عر بی زبا ن انتہا ئی وسیع زبا ن ہے اس میں ایک چیز کے لیے بہت سے الفا ظ استعما ل ہو تے ہیں۔ مثلا ً علامہ حمزہ نے مصیبت ﴿دَا ھِیَۃ﴾ کے لیے عربی میں استعما ل ہو نے والے الفاظ جمع کر نے کی کو شش کی تو وہ چا ر سو الفا ظ تک پہنچ کر تھک گیا اس کے لیے اتنے الفا ظ آئے کہ ما ہر ین لغت نے استقصا ئ کی کوشش کی تو تھک کر کہہ دیا ’’ مصیبت کے لیے آنے والے الفا ظ نے تو ہمیں مصیبت میں ڈا ل دیا ﴿فجر الا سلام صفحہ 162 ﴾ ایک ہی زبا ن میں اتنے سا ر ے الفا ظ کو لو گ عا م طو ر پر مترا د فا ت کہ دیتے ہیںیعنی ہم معنی الفا ظ ہیں لیکن ایک زبا ن میں جب پہلے سے ہی کو ئی لفظ مو جو د تھا ۔ تو کسی کو کیا پڑ ی تھی کو وہ دو سرا لفظ اُسی زبا ن میں وضع کر نے کا تر دد کر ے نہیں ان تما م الفا ظ میں تھو ڑا تھوڑا فر ق ضر ور ہو تا ہے ۔ عرب بد و جنکی سا ر ی زند گی زیا دہ تر مصا ئب میں بسر ہو تی تھی انہو ں نے مصا ئب اور اس کی بہت سی قسموں کے لیے الگ الگ الفا ط وضع کئے ظا ہر ہے مصا ئب کئی قسم کے ہیں مثلا ً ذہنی صد مہ ہے جسما نی صد مہ ہے پھر انہو ں نے ذہنی صد مو ں کی ہر قسم کے لیے الفا ظ وضع کئے محبو بہ کی طر ف سے بیو فا ئی کا صد مہ ، بھا ئیو ں کی طر ف سے بیو فا ئی کا صد مہ اولا د کی طر ف بیو فا ئی صد مہ جسمانی صد مے ہزا ر قسم کے ہیں مو سم کی مصیبت با دسمو م چل پڑ ی با ر ش زیا دہ ہوئی اور خیمے بیکا ر ہو گئے ، با ر ش نہ ہو ئی اورجا نو ر وں کی گھا س ختم ہو گئی گھر اکھا ڑ نا پڑ ا، بجلی گر گئی ، ژالہ با ری سے نخلستا نو ں کو نقصا ن ہوا ، جسم کے صد مو ں میں زخم ہیں چو ٹ لگی، چو ٹ سے زخم آیا، یا جسم پر ہی نیل پڑ گیا ، ہڈی ٹو ٹ گئی ، تلو ار کا زخم ، نیز ے کا زخم کلہا ڑی بھا لے کا زخم غر ضیکہ ایسے تما م حا لا ت اور تما م کیفیا ت جن کیلئے ہم ایک پو رے جملہ میں مفہو م ادا کر پا تے ہیں عر ب ایک لفظ استعما ل کر تے ہیں ﴿ONE WORD﴾ ۔ اور اسی چیز کو وسعت زبان کہتے ہیں۔ +عر بی زبان میں ایک چیز ہے ’’با ب ‘‘ اسکے بد ل جا نے سے معا نی میں تھوڑا فرق آ جا تا ہے با ب اٹھا رہ ہیں اور ہر با ب ایک ہی لفظ سے مشتق الفا ظ کے معا نی کو دو ر تک لے جا تا ہے قرآن کے متر جم با لعمو م اس کا خیال نہیں رکھتے پھر عر بی میں ایک اور چیز ہے جسے لغتِ اضدا د کہتے ہیں یعنی بعض الفا ظ ایسے ہیں کہ انکے دو معنی ہیں اور دونو ں ایک دو سرے سے متنا قض اور متضا د، جیسے ’’ اشترٰی ‘‘ کا لفظ ہے کہ اس کے معنی خر ید نا اور بیچنا بھی ، ہیں لفط اپنے محل ِ استعما ل سے اپنے معا نی واضح کر تا جا تا ہے ۔ قر آن کا تر جمہ کر نے والے کو اس کا بھی خیا ل رکھنا پڑ تا ہے۔ +پھر ایک ہی لفظ ہے جو عر ب کے مختلف علا قو ں میں مختلف معا نی میں استعما ل ہو تا تھا جیسے ’’ ��بن‘‘ کا لفظ حجا ز میں دو د ھ کے معنو ں میں استعما ل ہو تا تھا اور اس سے مختلف ابوا ب کے تحت مختلف الفاظ وضع ہو ئے تھے ۔ +’’ لبین ‘‘ ’’لبانہ‘‘ لبنی ‘‘ وغیر ہ اور سب میں بنیا دی لفظ لبن کے معنی یعنی ’’ دود ھ ‘‘ مو جو د تھا ۔ نجد میں دود ھ کے لیے حلیب کا لفظ استعمال ہوتا تھا ۔ اور پتلے دہی ﴿جو لسی کی حا لت کے قر یب ہو ﴾ کے لیے لبن کا لفظ بو لا جا تا تھا ۔ آج جب نجد یو ں کی حکو مت عر ب پر آئی تو بڑ ے افسوس کی با ت ہے کہ انہو ںنے اپنے علا قہ کی زبا ن کو عربی پر حا وی کر نے کی مہم شر و ع کر دی ۔ یو ں عربی ئِ مبین کو فنا کیا جا رہا ہے ۔ اب وہ ’’ حلیب‘‘ اور ’’لبن ‘‘ کو اپنے معنو ں میں استعما ل کر رہے ہیں وہ یہ نہیں سو چتے کہ اس طر ح وہ عر بی کے بہت سے الفاظ کو بے معنی کر رہے ہیں ۔ مثلا ً ’’ لبینہ ‘‘ زیا دہ دو د ھ والی بکر ی کو کہتے تھے تو کیا آج اس کے معنی زیا دہ لسی یا دہی دینے والی بکر ی کے معنی لیے جا ئیں گے خیر یہ الگ بحث اور بہت بڑا مو ضو ع ہے۔ +قرآن حکیم عر بی ئِ مبین میں نا زل ہو ا قرآن حکیم کا تر جمہ کر تے ہو ئے اس با ت کو بھی دیکھا جا نا چا ہیے کہ نزول قرآن کے وقت عربی مبین میں اسکے کیا معنی تھے۔ +ایک با ت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک ہی لفظ کے سا تھ حر فِ جا ر ﴿Proposition﴾آکر لفظ کے معنی بد ل دیتا ہے ۔ مثلا ً ’’ ضر ب‘‘ کے سا تھ ’’ ب‘‘ کا حر ف جا ر آئے تو اسکے معنی کسی چیز کے تو سط سے کسی چیز کو ما رنے کے ﴿TO BEAT WITH یا TO STRIKE WITH ﴾ ضرب کے سا تھ ’’ ل ‘‘ آئے تو اسکے معنی بیا ن کر نے کے ہیں یعنی صر ب لھم ﴿اس نے انکو بتا یا ﴾ ضر ب کے بعد فی آگیا تو ضر ب فی الارض کے معنی ہو گئے وہ سفر کے لیے نکلا ۔ اسی طر ح ضر ب علی کے معنی بند کر دینے کے حروف جا ر بد لنے سے لفظ کا اصل مفہو م بد ل جا تا ہے یہ با ت صر ف عربی یا انگر یز ی زبا ن میں ہے انگر یز ی میں بھی MAKE UP کے معنی ہیں کمی پو ر ی کر نا MAKE OUT کے معنی ہیں سمجھ لینا GET UP کے معنی اٹھنا ، جا گ اٹھنا GET AT رسا ئی حاصل کر نا GET OUT کوئی جگہ چھو ڑ کر نکل جا نا GET ON سوار ہو نا وغیرہ ۔ +اس مو ضو ع پر ایک انتہا ئی جا نفشا نی سے مر تب کی جا نے والی کتاب ’’ معنی اللبیت ‘‘ ہے ۔ قرآن کے متر جم کو اس پر بھی عبو ر ہو نا چاہیے ۔ عربی کے بعض الفا ظ کثیر ا لمعا نی ہیں محل استعمال کو دیکھ کر معا نی کا تعین ہو جا تا ہے قرآن حکیم کے تر جمہ میں اس کا خا ص خیال رکھنا چاہیے۔ زندہ زبا نو ں کا ایک خا صہ یہ ہو تا ہے کہ وہ دو سری زبا نو ں کے الفا ظ ہضم کر تی جا تی ہیں اور اپنی لغت میں وسعت پیدا کر لیتی ہیں مثا ل کے طو ر پر ’’ سجیل ‘‘ کا لفظ قرآن پاک میں استعمال ہوا مگر یہ عربی لفظ نہیں جو الفا ط عر بی نے دو سری زبا نو ں سے لیے ہیں اور تھوڑ ی تبد یلی سے اپنا لیے ہیں انہیں معرب کہتے ہیں ’’ سجیل ‘‘ بھی معرب ہے یہ فا ر سی لفظ ’’ سنگ ِ گِل ‘‘ مٹی سے بنا ہوا پتھر ﴿یا سنگر یز ہ﴾ سے معر ب کر ایا گیا ہے قرآنِ کے متر جم کو اسیے الفا ظ کے سا تھ یہ بھی معلو م ہو نا چاہییکہ وہ لفظ اپنی اصل زبا ن میں کن معنوی میں مستعمل تھا۔ +بعض ایسے الفا ظ ہو تے ہیں جو ایک زبا ن سے دو سری زبا ن میں منِ و عن اپنی اصل صو ر ت میں چلے جا تے ہیں مگر ان کا مفہو م ساتھ نہیں جا تا بلکہ کسی اور مفہو م میں استعما ل ہو نے لگتے ہیں اب اگر متر جم اس لفظ کو دیکھے اور یہ سمجھے کہ میری زبا ن میں بھی لفظ مو جو د ہے اور وہی لفظ استعما ل کر تے تو بھی مفہو م پر بہت اثر پڑ تا ہے مثا ل کے طو ر پر ’’ رَ قِیب ‘‘ عربی زبا ن کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ نگر ان کا ر ‘‘ ہیں یہ لفظ اللہ کے صفا تی نا م کے طو ر پر قرآن ِ حکیم میں بھی استعما ل ہوا فا ر سی اور اردو میں یہ لفظ اپنی اصل حالت میں مو جو د ہے مگرا س کے معنی کچھ اور ہو گئے ہیں ایک محبو ب کے دو چا ہنے والے ایک دو سرے کے رقیب کہلا تے ہیں ۔ انہیں ایک دو سرے کا دشمن سمجھا جا تا ہے فا رسی اور اردو شا عری کا بڑا حصہ رقیب روسیا ہ کو گا لیا ں دینے پر مشتمل ہے اگر ہم تر جمہ ئِ قرآن میں بھی اسی طر ح یہ لفظ استعمال کر دیں تو مفہوم اور کا اور ہو جا تا ہے ۔ +یا مثلا ً ’’ مکر ‘‘ کا لفط یا ’’ کید ‘‘ کا لفظ عر بی میں خفیہ تد بیر کے معنو ں میں استعمال ہو تا ہے اردو میں مکر کا لفظ مو جو د ہے مگر یہ انتہا ئی مکر وہ معنو ں میں استعما ل ہو تا ہے ادھر قرآن حکیم نے یہ لفظ خدا کے استعمال کیا ہے اور تر جمہ کر نے والو ں نے یہاں احتیا ط ملحوظ نہیں رکھی۔ فصیح و بلیغ زبا نو ں میں ’’ محا ورا ت ‘‘ استعمال ہو تے ہیں اور انکا استعما ل حسن بیا ن سمجھا جا تا ہے محا ورہ میں الفا ط اپنے حقیقی معنو ں کی بجا ئے مجا زی معنوی میں استعمال ہو تے ہیں اس لیے انکا لفظی تر جمہ بہت بڑی حما قت ہے کیو نکہ اس سے مطلب ’’ غتر بو د ‘‘ ہو جا تا ہے مثا ل کے طو ر پر ’’ با غ با غ ہونا‘‘ اردو زبا ن کا محا ورہ ہے جس کے معنی بہت خو ش ہو نا ہیں اب اگر ایک ادمی ’’ وہ با غ با غ ہو گیا ‘‘ کا فا رسی زبا ن میں یو ں تر جمہ کر ے ’’ او گلز ار گلزارشُد ‘‘ یا انگر یز ی زبا ن میں یہ تر جمہ کر ے HE BECAME GARDEN ANDD GARDEN تو کیا آپ کو اس کے پاگل پن کا یقین نہیں ہو جائے گا ۔ عربی بری فصیح و بلیغ زبا ن ہے اس میں ہزارو ں لاکھو ں محا ورا ت مو جو د ہیں قرآنِ حکیم نے انہیں استعما ل کیا کیونکہ تو فصیح تر ین کلا م ہے مگر متر جمین قرآن نے با لعمو م اس کا خیا ل نہیں رکھا اور وہی +ایک اور با ت جس کا متر جم قرآن کو خیا ل رکھنا چا ہیے وہ ایک زبا ن کا اندازِ بیا ن ہے ظا ہر ہے ہر زبان میں بیا ن کا انداز اور پیر ایہ دوسری سے قدرے مختلف ہو تا ہے تر جمہ نگا ر کواس با ت کا خا ص خیا ل رکھنا چا ہیے اسے اصل زبا ن کے اندازِ بیان اور جس زبا ن میں وہ بات کو منتقل کر رہا ہے اس کے اندازِ بیان میں پو ری مہا ر ت ہو مثا ل کے طو ر پر قرآن ِ حکیم کی یہ آیت مبا رکہ د یکھئے۔ +’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّ اْنَا الِذَ کْرَ اِنَّا لَہُ لَحَا فِظُوْ ن‘‘ +قرآن حکیم میں ضر ب الا مثا ل تلمیحا ت اور اصطلا حا ت بھی ہیں اور جب تک انکی تشر یح نہ ہو لفظی تر جمہ سے با ت سمجھا ئی نہیں جا سکتی اس لیے علما ئے اسلام اور مشر قین اس با ت پر متفق ہیں کہ قرآن حکیم کا لفظی تر جمہ ہو ہی نہیں سکتا اسکی تر جما نی کی جا ئے اور تفسیر ی نکا ت کو سمیٹ کر اس ترجما نی میں ضم کیا جا ئے۔ اسی لیے کہا جا تا ہے قرآن حکیم کا لفظی تر جمہ تفہیم قرا ن میں مشکلا ت پیدا کر سکتا ہے۔ +یہ تھیں وہ مشکلا ت جن کے پیش نظر عر صہ ئِ دِرا ز تک علما ئ اس امر پر مصر رہے کہ کسی دو سری زبا ن میں قرآنِ حکیم کا تر جمہ کیا جا ئے۔ قرآن فہمی کا طا لب عر بی زبا ن میں مہا ر ت حا صل کر ے اور پھر قرآن پر غو ر و فکر شر و ع کر ے لو گ اس پابند ی کوآ ج اُن علما ئ کی تنگ نظر ی اور علم دشمن خیا ل کر تے ہیں مگر ہما رے نز دیک ان لو گو ں کا اپنے دو ر کے مطا بق یہ فیصلہ درست تھا بلکہ آ ج بھی بڑی حد تک در ست ہے جب تک متر جم کو ان تمام امو ر میں مہا ر ت نہ ہو جو ہم نے بیا ن کئے ہیں اسو قت تک وہ تر جمہ قرآن کے کام میں ہا تھ نہ ڈا لے ۔ +قر آن حکیم کا سب سے پہلا تر جمہ فا ر سی زبا ن م��ں شیخ سعد ی شیرا زی نے کیا اسی تر جمہ کو سا منے رکھ کر پھر فا ر سی میں شا ہ ولی اللہ دہلوی نے تر جمہ کیا اسکے بعد اردو میں شا ہ عبد القا در اور شا ہ رفیع الد ین کے تر جمے آئے پھر مختلف لو گو ں نے تر اجم کئے۔ ان تر اجم کی خا میوں کو دیکھ کر اما م احمد رضا خا ن کو تحر یک ہو ئی اور انہو ں نے کنز الا یمان کے نام سے قرآن حکیم کا تر جمہ کیا جو ایک طر ح کی تر جما نی ہے کہ اس میں تفسیر کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے ۔ +اما م احمد رضا خا ن کی ولا دت بر یلی شر یف کے محلہ جسو لی میں 10 شوال 1272 �÷ ہجر ی بمطا بق 14 جون1856�÷ ئ ہوئی آپ کا سن ولا دت قرآن حکیم کی اس آیت مبا رکہ سے نکا لا گیا ۔ +’’اُ و لٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ الایْماَن وَ اَیَّد َ ھُمْ بِرُوْ ح ٍ مِّنْہُ‘‘ +آپ کے والد بز ر گوار کا نا م مو لا نا محمد نقی علی خا ن تھاآپ نے تقر یبا ً تمام کتا بیں اپنے والد بز ر گوار سے پڑ ھیں عربی ادب ، تفسیر ، حدیث ، فقہ اور اپنے زما نہ کے دیگر علوم میںمہا ر ت نامہ حا صل کی اور مسند افتاد پر فا ئز ہو ئے آپ نے تقر یبا ً ہر دینی مو ضو ع پر بے شما ر کتب تصنیف کیں اور بہت سے مسا ئل میںجا مع و مفصل فتو ے دیئے۔ +آپ کے بے پنا ہ دینی کا م کی تفاصیل اس وقت ہما را مو ضو ع نہیں اس وقت ہما را مو ضو ع کنز الا یما ن ہے ۔ ’’ کنز الا یما ‘‘ اور دیگر تر اجم قرآن کا تقابلی مطا لعہ بہت بڑ ا مو ضو ع ہے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور لکھا جائے گا ۔ میں زیا دہ تفصیل میں نہیں جا سکتا صر ف چند اشا را ت پر اکتفا ئ کر تا ہو ں +ہمیں قرآن حکیم کھو لتے ہیں ہی چند مقا ما ت پر رُکنا پڑ تا ہے سورہ فا تحہ ایک دعا ہے اور اس دعا کا جو ا ب پورا قرآن حکیم ہے دعا میں دعائیہ کلما ت کہے جا تے ہیں خبر نہیں دی جا تی مگر یہ کیا اللہ کی تعر یف سے با ت شر وع کی گئی ما لک یو م الد ین تک تعریف ہوئی آگے یہ کلمہ آیا ۔ +’’اِیاَّ کَ نَعْبُدُ وَ اِیّا کَ نَسْتَعِیْن‘‘ +اب اسکے تر اجم دیکھئے۔ +ترا می پر ستیم وا ز تو مد د می طلبیم ﴿شا ہ ولی اللہ ﴾ +﴿یعنی ہم تجھے پو جتے ہیں اور تجھ سے مد د ما نگتے ہیں﴾اس تر جمہ میں ایک تو وہ حصر ا اور تخصیص نہیں جو لفظ اِیّا ک َ میں ہے دو سرے خبر ہے دعا نہیں اب اور تر اجم دیکھئے ۔ +’’تجھ ہی کو عبا د ت کر تے ہیں ہم اور تجھ ہی سے مد د چا ہیتے ہیں ہم ﴿شاہ رفیع الد ین صا حب﴾ +’’ ہم آپ ہی کی عبا د ت کر تے ہیں اور آپ ہی سے در خو است اعا نت کر تے ہیں‘ ‘﴿اشر ف علی تھا نو ی صا حب ﴾ +ان ترا جم میں ’’ تجھ ہی‘‘ اور ’’آپ ہی ‘‘ کے الفا ظ سے حصرا ور تخصیص آگئی ہے اور وہ ایک اعترا ض دو ر کر دیا گیا ہے جو ہم نے شا ہ ولی اللہ صا حب کے تر جمہ میںاٹھا یا تھا مگر دو سرا اعترا ض اسی طر ح با قی ہے یعنی یہ تو خبر دی گئی ہے کہ ’’ہم تجھی کو پو جتے ہیں اور تجھی سے طلبگا ر ِ اعا نت ہو تے ہیں ‘‘ یہ دعا کے الفا ظ نہیں پھر جب کہنے والے عبا د ت بھی خدا کی ہی کر رہے ہیں اور مد د بھی اسی سے ما نگنے کے عا دی ہیں تو یہی تو صر اطِ مستقیم ہے پھر وہ آگے صر اطِ مستقیم کو نسا ما نگتے ہیں وہ تو پہلے ہی صر ا طِ مستقیم پر ہیں۔ ان اعترا ضا ت کو ذہن میں رکھیئے اور اب اعلی حضرت اما م احمد رضا خا ن کا ترجمہ دیکھئے۔ +’’ہم تجھی کو پو جیں اور تجھی سے مد د چا ہیں ‘‘﴿کنز الا یما ن﴾ +سو چیے تو اب دونوں اعترا ض دو ر ہو گئے ’’تجھی‘‘ میں حصرا ور تخصیص بھی آگئی اورالفاظ بھی دیا کے ہیں اس سے اگلی آیت دیکھئے۔ +’’اِھْدِ نَا الصِّرا طَ الْمُسْتَقِیْم‘‘ +﴿بنما ما را راہِ راست﴾��شاہ ولی اللہ صاحب﴾ +دکھا ہم کو ر اہ سید ھی ﴿شا ہ رفیع الد ین صا حب﴾ +بتلا دیجیے ہم کو را ستہ سیدا ھا ﴿اشر ف علی تھا نو ی صا حب﴾ +لفظ تھو ڑے بد ل گئے ہیں مگر تر جمہ ایک ہی ہے اسی تر جمہ پر ہمیں ایک تو وہی اعترا ض ہے جو پچھلی آیت کے تر جمہ سے منسلک ہے کہ جب قا ئل عبا ر ت اور دعا صر ف اللہ سے مخصو ص کر تا ہے وہ مشر ک سے ہٹ گیا اور یہی صر اطِ مستقیم ہے پھر وہ کو نسا صر اطِ مستقیم دیکھنا چا ہتا ہے ۔ +دو سرا اعترا ض یہ ہے کہ سید ھا را ستہ دیکھنے کی تمنا اور التجا ایک غیر مسلم تو کر سکتا ہے مگر ایک مسلما ن ہر نماز میں یہ کیوں پڑ ھتا ہے ’’ دکھا ہم کو سید ھی را ہ ‘‘ اولیا ئ (رح) و صحا بہ (رض) بلکہ خو د حضو ر �ö بھی یہی کہتے رہے اور زند گی کی آخر ی سا نس تک کہتے رہے ’’ دکھا ہم کو سید ھی راہ ‘‘ تو کیا معاذ اللہ حضور بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﴿جملہ آپ سمجھو گئے ہم لکھنے کی گستا خی نہیں کر سکتے ﴾ +ان کے مقا بلہ میں اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں۔ +’’ چلا ‘‘اور ’’دکھا ‘‘ میں جو نا زک فرق ہے اسے آپ بخو بی سمجھ سکتے ہیں مگر ہم بھی کچھ وضا حت کئے دیتے ہیں اِحدِ فعل امر ہے جو التجا اور در خو است کے لیے بھی آتا ہے اور حکم کے لیے بھی ، ظا ہر ہے یہاں التجا کے لیے ہے امر دو قسم کا ہو تا ہے ایک وقتی اور ہنگا می دو سرے دو امی اور استمر ا ری جیسے اُدْ ع ﴿بلا اور بلا تا رہ یا بلا تا چلا جا ﴾ دو نو ں معنی دے گا ۔ ’’دکھا ‘‘ کا مفہو م ہنگا می اور وقتی ہے ’’ دکھا ہم کو سید ھی را ہ ‘‘ کہنے والے نے کہا مجھے فلا ں کے گھر جا نا ہے را ستہ دکھا ئیں آپ نے اسے دکھا دیا کہ یہ سٹر ک چلے جا ئو پھر وہا ں تک جا ئو اور اتنے نمبر پر فلا ں ہا تھ پر اسکا گھر آجائے گا بس آپ فا رغ ہو گئے۔ لیکن ’’ چلا ‘‘ میں استمرا ر اور دو ام آجا تا ہے کہ ’’ اے خدا ہمیں صر اطِ مستقیم پر ہی چلا تا جا ‘‘ +ہدا یت کے تین درجے ہیں پہلا در جہ ہے صر ف رہنما ئی یعنی رستہ دکھا دینا ’’ اِنّا ھَدَ یْنٰہُ النجد ین‘‘ ہم نے دو راستے دکھا دیے۔ دو سرا در جہ ہے ’’را ہبر ی‘‘ کس نے آپ سے کسی کے گھر کا را ستہ پو چھا آپ اسکے سا تھ چل پڑ ے اور اسے مطلو بہ گھر تک پہنچا دیا ۔ یھد ی بہٰ کثیرا ﴿بہت سے لو گو ں کو اللہ اس قرآن کے ذر یعہ سے منزل پر پہنچا دیتا ہے﴾ اور ہد ایت کا تیسرا در جہ ہے انعا ما ت کی با ر ش کر نا ۔ +’’اِنِّیْ لَغَفَّا ر ’‘ لِمْنْ تَا بَ وَ آ مَنَ وَ عَمَلً صَا لِحاً ثُمَّ اھْتَدٰ ی ‘‘ +﴿یقینا میں بہت زیا دہ مغفر ت کر نے والا ہو ں اسکی جس نے تو بہ کی پھر ایما ن لا یا پھر اعما ل صا لحہ کی پھرہدا یت پا ئی ﴾ +ظاہر ہے کہ تو بہ کے بعد ایما ن لا کر اعما لَ صا لحہ کر تے رہنے کے بعد ’’ہد ا یت‘‘ حا صل ہونے کے معنی ہیں انعا مات کی بارش ہدا یت کے ان تین در جوں کے لیے اعا ظم مفسر ین یہ الفا ظ استعمال کر تے ہیں ۔ +۱۔ ارا ۃ الطر یق ﴿را ستہ دکھا دینا ﴾ +۲۔ ایصا ل الی المطلوب ﴿مطلو ب تک پہنچا دینا ﴾ +۳۔ اتما مِ نعمت ﴿نعمت کی تکمیل ، انعا ما ت کی با ر ش ﴾ +قر آن حکیم ھُدً ی لِلنَّا س بھی ہے یہ ہدا یت پہلے در جہ میں ہے ھَد َ ی اللہ الّذِ یْنَ اْ مَنُو لہ یہ دو سرے در جہ کی ہد ایت ہے اور ھُدً ی لّلمُتِقین تیسرے در جہ کی ہد یت ہے ۔ ’’ ہم کو سید ھا را ستہ چلا ‘‘ میں چلا کا لفظ یہ تما م مفہوم سمیٹے ہو ئے ہے ۔ +ایک اور آیت یو نہی اوراق الٹنے پر سا منے آگئی آپ بھی دیکھئے ۔ +’’وَ لَماّ یَعْلَمَ اللَّہُ الَّذِ یْنَ جَا ھَدُ و ا مِنْکُمْ‘‘﴿آل عمرا ن 142 ﴾ +﴿وہنوز تمیز نسا ختہ رست خدا آنر ر کہ جہا د کر دہ اندراز شما ﴿شا ہ ولی اللہ ﴾ +ابھی معلو م نہیں کئے اللہ نے تم میں سے جو لو گ لڑے ہیں ۔ ﴿شا ہ عبد القا در﴾ +اور حا لا نکہ نہیں جا نا اللہ نے ان لو گو ں کو کہ جہا د کر تے ہیں تم میں سے ﴿شا ہ رفیع الدین﴾ +ان ترا جم سے ظا ہر ہو تا ہے کہ لغو ذ با للہ اللہ ابھی تک یہ نہیں جا نا سکا کہ مسلما نو ں میں سے کون جہا د گر ینگے یہاں سے اللہ کی رو علمی ثا بت ہو تی تھی تر جمو ں کی اس کمزور ی کو بعد کے متر جمین نے محسو س کیا اور اسے دو ر کر نے کے لیے ہا تھ پا ئو ں ما رے اور اپنی طر ف بر یکٹیں ڈا ل کر معا ذ اللہ خد ا کی با ت کا نقص دو ر کر نے کی کوشش کی ذرا یہ نا کا م کو ششیں بھی دیکھئے۔ +’’ حا لانکہ اللہ نے ﴿ظا ہر ی طو ر پر﴾ اُن لو گو ں کو تم میں سے جا نا ہی نہیں ‘ ‘﴿عبد الما جد دریا آبا دی گو یا بعض چیز یں با طن میں اللہ جا نتا ہے ظا ہر طو ر پر نہیں جا تا نعو ذ با اللہ ۔ ظا ہر ی طو رپر وارد بر یکٹی نکتہ عبد الما جد در یا آبا دی صا حب نے اپنے مر شد اشر ف علی تھا نو ی صا حب سے اُڑا یا اب انکا تر جمہ ملا حظہ فر ما ئیے ۔ انہو ں نے ’’ یعلم ‘‘ کو ’’دیکھا ‘‘ سے بد ل کر اللہ میاں کو ﴿نعوذ بااللہ ﴾ با ت کر نے کا طر یقہ سکھا یا تھا ۔ +’’ حا لا نکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے ﴿ظا ہر ی طو ر پر ﴾ ان لو گو ں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہو ں نے تم میںسے ایسے مو قعو ں پر جہا د کیا ‘‘ ﴿اشر ف علی تھا نو ی ﴾ یہ ’’ دیکھا ‘‘ والا نکتہ تھا نو ی صا حب نے الحد یث متر جم قرآن ڈپٹی نذیر احمد دہلو ی سے اڑا یا ڈپٹی صاحب قرآن حکیم کے تر جمہ میں خو اہ مخوا ہ اردو کے محا و ر ے ٹھو نسنے کی کوشش کیا کر تے ہیں انکا تر جمہ دیکھئے۔ +’’ اور ابھی تک معلو م نہیں کیا اللہ نے جو لڑ نے والے ہیں تم میں ‘‘ ﴿محمو د الحسن دیو بند ی ﴾ +یعنی با قی لو گو ں کی طر ح اللہ کو بھی یہ با ت تب معلوم ہو گی جب تم لڑ و گے ۔ +اصل میں یہ سا ر ا مغا لظہ اس وجہ سے پیدا ہوا کہ بیچا رے متر جمین ’’علم ‘‘ کے صر ف ایک معنی جا نتے ہیں یعنی ’’ جا ننا ‘‘ حالا نکہ علم کے معنی جاننا بھی ہیں اور ظا ہر کر نا بھی اب اما م احمد رضا خا ن کا تر جمہ دیکھئے ۔ +’’ ابھی اللہ نے پہچا ن نہیں کرا ئی ان کی جو تم میں سے جہا د کر یں گے‘‘﴿کنز الا یما ن﴾ +’’ذٰلِکَ الِْکتٰبْ لَا رَیْتَ فِیۃِ‘‘ +اس کتا ب میں کچھ شک نہیں ﴿شاہ عبدا لقا در﴾ +یہ کتا ب نہیں شک بیچ اس کے ﴿شا ہ رفیع الد ین ﴾ +یہ کتا ب ایسی ہے جس میں کو ئی شبہ نہیں ﴿اشر ف علی تھا نو ی ﴾ +اب اعلیٰ حضر ت کا تر جمہ دیکھیئے۔ +’’ وہ بلند رتبہ کتا ب کو ئی شک کی جگہ نہیں ’’ ﴿کنز الا یما ن﴾ +ہا ں ہولے سے اردو جا ننے والے قا ر ئین کو بتا دیا یہاں اللہ میا ں ’’ ذٰلِک اور تِلک ‘‘ میں فر ق نہ کر سکے اس لیے ’’ ذ ٰ لِکَ‘‘ کے معنی ’’یہ‘‘ سمجھ لیجئے۔ اگر ان حضرا ت نے گر امر کو غو ر سے پڑ ھا ہو تا اور اگر پڑ ھا تھا تو اسے تر جمہ قرآن میں پیش نظر رکھتے تو انہیں معلو م ہو جا تا کہ اہل عرب جب قر یب کی چیز کی عظمت اور شا ن بیا ن کر نا چا ہیں تو اس کے لیے اسم اشا رہ بعید استعما ل کر تے ہیں اسی لیے اعلیٰ حضرت نے یہا ں ذلک َ کے معنی کئے ہیں ’’ وہ بلند رتبہ ‘‘ گو یا اللہ بتاتا ہے کہ تم نے ہد ایت طلب کی ﴿اھد نا الصر اط المستقیم ﴾ جوا ب آیا ’’ شک کا مقا م ہی نہیں وہ بلند مر تبہ اور پر عظمت کتا ب یہی تو ہے جو تقوٰ ی اختیا ر کر نے والو ں پر انعا ما ت کی با ر ش بر سا دیتی ہے‘‘۔ +یہ تو ہم نے ابتدا ئ سے ہی ’’ مشقے نمن از خر وارے ‘‘ کے طو ر پر کچھ الفا ظ لے لیے ہیں پو را تر جمہ ئِ قرآن متر جم کی عربی لغت اور عربی گرامر پر گر فت کے سا تھ احتر ام ِ خدا وند ی اور احترام پیغمبر انسا نیت �ö وا ضح کر نے کا حسین تر ین شا ہکا ر ہے ابھی آپ نے دیکھا کہ ہمارے متر جمین شا ہ ولی اللہ سے لیکر عبد الما جد در یا آبا دی تک معا ذ اللہ اللہ کو اسکے اپنی آیا ت کے تر جمہ سے ہی بتا رہے تھے کہ وہ عالمِ الغیب بعض با تو ں کو جا نتا نہیں ’’مَا قَد ُ رو اللہ حقَّ قَدْ رِہٰ ‘‘یہ لو گ وہ ہیں جو کہتے ہیں بر یلو ی اللہ کی عظمت کا خیا ل نہیں رکھتے رسول اللہ �ö کی شا ن بڑ ھا دیتے ہیں ۔ +’’روز رو شن اور شب تا ریک گواہ ہیں کہ اللہ نے کبھی آپ کو تنہا نہیں چھو ڑا اور بے شک آپ کی زند گی کا ہر اگلا لمحہ پچھلے لمحہ سے بہتر رہا اور عنقر یب اللہ تعالیٰ آپ کو اتنا کچھ عطا کر یگا کہ آپ را ضی ہو جا ئینگے ۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو یتیم پا یا تو اپنی پنا ہ میں لے لیا ‘‘ +اس میںبا ت صا ف ہے کہ اللہ نے اپنی نگرانی اور نگہبا نی میں ہمیشہ آپ کو رکھا کسی لمحہ بھی یہ نگہبانی ٹو ٹی نہیں اس کے بعد یہ آیت آتی ہے اسے دیکھئے اور مختلف مترا جم بھی دیکھتے جا ئیے۔ +’’وَ وَ جَدَ ک ضَآ لاً فَھَدٰ ی ‘‘ ’’اور پا یا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ دی ‘‘ ﴿شا ہ عبد القا د ر ﴾ +’’ اور پا یا تجھ کو بھو لا ہوا پس را ہ دکھا ئی ‘‘ ﴿شا ہ رفیع الدین﴾ +’’ ویا فت تر ار اہ گم کر دہ پس را ہ نمو د ‘‘ ﴿شا ہ ولی اللہ ﴾ +’’ اللہ نے آپ کو شر یعت سے بے خبر پا یا سو آپ کو شر یعت کا رستہ بتلا دیا‘‘﴿اشر ف تھا نو ی ﴾ ’’ ضا لا ‘‘ کے معنی ’’ راہ گم کر دہ ‘‘ بھی ہیں ۔ +’’ بھو ل جا نے والا ‘‘ بھی ہیں۔ ’’ تلا ش حقیقت میں گم ہو جا نے والا‘‘بھی ہیں اور محبت میں ’’ خو د رفتہ ‘‘ و ’’ وار فتہ ‘‘ بھی ہیں اعلیٰ حضرت میں حضور �ö کے شا یا ن ِ شا ن تر جمہ کیا ہے ۔ +’’ آپ کو اپنی محبت میں خو د رفتہ پایا تو اپنی طر ف راہ دی ‘‘ ﴿کنز الا یما ن﴾ اس مو ضو ع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا تا رہے گا ہم نے ’’ کنز الا یما ن‘‘ کا ہلکا سا تعا ر ف اس لیے ضر و ر سمجھا کہ ’’ کنز الا یما ن ‘‘ کی اشا عت میں حضرت پیر معر و ف شاہ نے بے پنا ہ خدما ت سر انجا م دی ہیں ۔ سعو دی عر ب میں اور اس کی دیکھا دیکھی ایک آدھ اور عر ب ریا ست میں جنا ب احمد رضا خا ن صا حب کے سلسلہ میں ایسا تعصب حکومت سعو دیہ کے ذہن میں پہنچا یا گیا ۔ کہ حکومت نے تر جمہ ئِ قر آن ’’ کنز الا یما ن‘‘ پر بھی پابند ی لگا دی ایک حکومت کی طر ف سے اس قسم کا اقدا م فی الوا قع قا بلِ مذمت تھا حضرت پیر صا حب نے اس کے خلا ف احتجا ج کیا اور حکو مت تک بر یلو ی مسلما نو ں کے جذبا ت پہنچا نے کے سلسلہ میں سعی ِ بلیغ کی با ر با ر مر اسلات بھیجے گئے علما ئ سے را بطے کئے گئے علما ئے کر ام اور مشا ئخ عِظا م نے پیر صا حب سے تعا ون کیا تب کہیں جا کر سعو دیہ حکومت کی متشددانہ پالیسی میں نر می آئی ۔ +پیر صا حب نے بر منگھم میں ایک بہت بڑ ی تقر یب کی جس میں مقتدر علما ئ مشا ئخ نے شر کت کی اس کا نفر نس کا نام ہی ’’ کنز الا یما ن کا نفر نس ‘‘ تھا ۔ اس میں ’’ کنز الا یمان ‘‘ کو فو کس کیا گیا اور مقر رین نے سا معین کو اس تر جمہ ئِ قرآن کے گو نا گو ں اوصا ف سے متعا رف کر ایا ۔ +پیر صا حب ورلڈ اسلامک مشن کے بانی ہیں ۔ اس مشن کے اغر اض و مقا صد میں ایک بڑ ا مقصد اما م احمد رضا خا ن کی تعلیما ت کی وسیع پیما نے پر اشا عت، بر یلو ی مکتب ِ فکر کے مسلما نو ں کا اتحا د اور کنز الا یما ن کو گھر گھر پہنچ�� نا تھا ۔ پیر صا حب نے انہی اغر اض و مقا صد کی تکمیل کے سلسلہ میں ضر و ری سمجھا کہ ’’ کنز الا یما ن ‘‘ کا انگر یزی میں تر جمہ کر ایا جا ئے ۔ اس مقصد کے تحت انہو ں نے اپنے سا تھی اور سلسلہ ئِ عا لیہ قادر یہ نو شا ہیہ سے وا بستہ ایک سکا لر پر و فیسر سید محمد حنیف اختر فا طمی قادر ی نو شا ہی کو آما دہ کیا کہ وہ یہ تا ریخ سا ز کا م سر انجا م دیں ۔ حنیف قادری صاحب کا مختصر تعا رف یہ ہے۔ +سید محمد حنیف قادر ی 1933 �÷ میں یو پی ﴿بھا رت ﴾ کو مقا م ’’ با ر ی ‘‘ میں پید ا ہوئے وہ شاہ فضلِ رحما ن گنج مراد آبا د ی کے خا ندا ن سے ہیں جو حضرت اما م احمد خا ن کے مدا حِ خا ص تھے ۔ سید محمد حنیف نے ابتدا ئی تعلیم اپنے خا ند انی مد رسہ میں حا صل کی پھر مسلم یو نیو ر سٹی علی گڑھ کے طا لب علم رہے انہو ں نے قا نو ن کی تعلیم اِنز آف کو ر ٹ سکو ل آف لا ئ سے حا صل کی سا ئنس اور ریا ضی کی تعلیم امپیر یل کا لج لندن سے حا صل کی ۔ با ر میں پر یکٹس کے علا وہ وہ ملتا ن ، کر اچی ، کو یت ، ریا ض، سند ھ اور لند ن کی یو نیو ر سٹیو ں میں پڑ ھا تے رہے ۔ اسلامک مشنر ی کا لج بر یڈ فو ر ڈ کی روحِ روا ں وہی ہیں جمعیت تبلیغ الا سلام کی تحر یک میں بھی سر گر م کا ر کن ہیں اور بر یڈ فو رڈ کی بڑی اور عظیم الشا ن سنی مسجد کے قیام میں ان کا بھر پو ر تعا و ن شا مل رہا یہ وہی بڑی مسجد ہے جس کے سا تھ کمیو نٹی سنٹر اور اسلامک سکول بھی ہے۔ +انہو ں نے ’’ کنز الا یما ن‘‘ کے انگر یز ی ترجمہ کا آغا ز 1975 �÷ میں کیا جو دو سا ل کی محنتِ شب و روز کے بعد بفضل خدا وند ی 1977 �÷ میں مکہ مکر مہ میں اختتا م کو پہنچا ۔ یہ تر جمہ پیر صا حب کے لیے اور سید محمد حنیف قادری کے لیے فی الوا قع تو شہئِ آخر ت ہے۔ پیر صاحب کی اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی سے محبت کے وسیلے پر مجھ پر ایک اعلی حضرت احمد رضا خان کی منقبت وارد ہوئی ۔ درج کر رہا ہوں +دشت ِکُن میں چشمہ ئ حمد و ثنا احمد رضا +صبح دم شہرِ مدنیہ کی ہوا احمد رضا +حمد کی بہتی کرن وہ نعت کی اجلی شعاع +مدحتوں کے باغ کی باد ِصبااحمد رضا +زندہ و جاوید رکھتا ہے انہیں عشقِ رسول +عشق کی بابت فنا نا آشنا احمد رضا +یہ سرِ فہرست عشاقِ محمدمیں ہے کون ؟ +پوچھنے والے نے پھر خود ہی کہا احمد رضا +خانہ ئ تاریک میں بھر دے اجالے لفظ سے +فیض کا سر چشمہ ئ صدق و صفا احمد رضا +کنزالایماں سے منور صحن ِ اردو ہو گیا +آیتوں کا اختتام ِ ترجمہ احمد رضا +روک دیتے ہیں بہارِ حکمت و عرفان سے +بد عقیدہ موسموں کا سلسلہ احمد رضا +جل اٹھے ان سے سبھی علمِ عقائدکے چراغ +راستی کاروشنی کا راستہ احمد رضا +حاصلِئ عہدعلوم ِ فلسفہ احمد رضا +عالم ِ علم لدنی ، عامل ِ تسخیرِ ذات +روح و جاں میں قربِ احساسِ خدا احمد رضا +وہ صفاتِ حرف کی رو سے مخارج کے امیں +محرم ِ احکام ِ تجوید و نوا احمد رضا +بابت ِ تفسیر قرآں جانتے تھے ایک ایک +معنی و تفہیم ِ الہام ِ الہ احمد رضا +وہ روایت اور درایت آشنا شیخ الحدیث +علم ِ احوال ِ نبی کے نابغہ احمد رضا +مالکی وشافعی ہوں یا کہ حنفی حنبلی +فقہ اربعہ پہ حرف انتہا احمد رضا +علم ِ استخراجیہ ہویا کہ استقرائیہ +دیدہ ئ منطق میں ہے چہرہ نما احمد رضا +علم ہندسہ و ریاضی کے نئے ادوار میں +موئے اقلیدس کی اشکال و ادا احمد رضا +علم ِجامع و جفر کی ہر ریاضت گاہ میں +جو ہرِ اعداد کی صوت و صدا احمد رضا +وہ بروج فلکیہ میں انتقال شمس ہیں +صاحب ِعلم ِ نجوم و زائچہ احمد رضا +وقت کی تاریخ ان کے ہاتھ پر تحریر ہے +جانتے ہیں سرگزشتِ ماجرا احمد رضا +روشنی ��لمِ تصوف کی انہی کی ذات سے +کثرتِ جاں میں لب ِ وحدت سرا احمد رضا +حرف ِ آخر تھے وہی عربی ادب پر ہند میں +والی ئ تختِ علوم عربیہ احمد رضا +علمِ جاں ، علم ِ فضائل ِ علم ِ لغت ،علم سیر +در علوم ِ خیرتجسیمِ ضیا احمدرضا +آسمان ِ معرفت ، علم ِ سلوک وکشف میں +منظرِبدرالدجیٰ ، شمس الضحیٰ احمد رضا +صبح ِ عرفان ِ الہی ، عابد شب زندہ دار +مسجدِ یاد خدا و مصطفی احمد رضا +عجز کا پندار ہے میرے قلم کی آنکھ میں +جو کچھ لکھا میںنے، کہیں اُس سے سوا احمد رضا +ٹوٹے پھوٹے لفظ تیری بارگاہ پیش ہیں +اعلی حضرت اہل ِ سنت کے امام و پیشوا +اک نگہ مجھ پہ کرم کی اک نگہ احمد رضا +اگر چہ پیر صا حب اپنے برا در بز رگ جنا ب ابوالکما ل بر ق نو شاہی کی وفا ت کے بعد 1985 �÷ میں سلسلہ عالیہ قا دریہ نو شاہیہ کے شیخ ِ طر یقت کی حیثیت سے سجا دہ نشین ہوئے لیکن انہو ں نے بر طا نیہ وار د ہو تے ہی 1961 �÷ میں بز مِ نو شا ہی قا ئم کر دی تھی۔ یہ بز م پیر صا حب متصو فا نہ زندگی کی نقیب ہے۔ پیر صا حب تصو ف کے اس خا نو ا دہ سے تعلق رکھتے ہیں جو شر یعت کو الگ نہیں سمجھتے اور یہی پیغمبر انہ شیو ہ کی تقلید ہے طر یقت کو شر یعت سے الگ سمجھنے والے صو فی دنیا سے لا تعلق ہو کر رہبا نیت کے قر یب پہنچ جا تے ہیں وہ انفرا دی اشتعا ل میں ڈو ب جا تے ہیں +علامہ اقبال نے اپنا ایک خطبہ ان الفا ظ سے شر و ع کیا ہے +’’ محمد عر بی فلک الا فلاک تک پہنچ کر واپس آگئے بخدا اگر میں وہا ںتک پہنچ جا ئو ں تو کبھی وا پس نہ آئو ں ، یہ الفا ظ ایک مشہو ر صو فی بز ر گ عبد القدو س گنگو ہی کے ہیں ایک صوفی اور نبی میں یہی فر ق ہے صو فی کچھ انوار و تجلیا ت میںگم ہو کر اپنے آپ کو کھو دیتا ہے جبکہ ایک نبی حقیقت کو بچشم ِ خو یش دیکھتا ہے اور دنیا کی طرف پلٹتا ہے تاکہ جو کچھ اس نے دیکھا ہے وہ کچھ اوروں کو بھی دکھلا دے ‘‘ +﴿RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHTS IN ISLAM﴾ شر یعت اور طر یقت کو ہم آہنگ سمجھنے والے صو فیا ئ بھی ہر دم اپنے آپ کو حکم دیتے ہیں ۔ دیکھا ہے جو کچھ تو نے اوروں کو بھی دکھلا دے یہی وہ چیز ہے جسے کہتے ہیں پیمبری کر دو پیمبر نتوا ں گفت یعنی اس نے پیغمبر ی کی لیکن اُسے پیغمبر نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ پیغمبر ی تو جنا ب سر و ر ِ کا ئنا ت �ö پر ختم ہو چکی ہے ۔ یہ لو گ ہمہ وقت انفرا دی اصلا ح کے سا تھ اجتما عی اصلا ح میں بھی منہمک رہتے ہیں عنبر دعوت و تبلیغ بھی سنبھا لنے ہیںاور مسند ار شا د بھی ، انکی خلو تیں بھی منور ہو تی ہیں اور جلو تیں بھی سور ج بد ست ، اور جب وہ اس طرح اپنی ذا ت کو اللہ کے کا م میں کھو دیتے ہیں تو قد سی صفا ت ہوجاتے ہیں ۔ +اسی حد یث قدسی کے عین مطا بق جس میں کہا گیا ہے کہ +’’ بندہ نوا فل کے ذر یعے یعنی اپنی خو شی سے کی جا نے والی عبا دت کے ذریعہ میرا تقر ب حاصل کر تا جا تا ہے حتیٰ کہ میرے پائوں اس کے پائو ں ہو جا تے ہیں ، میری آنکھیں اسکی آنکھیں ہوجا تی ہیں میرے کا ن اسکے کے کا ن ہو جا تے ہیں ، میر ے ہا تھ اس کے ہاتھ ہو جا تے ہیں ‘‘ ﴿صحیح بخا ری﴾ +ہا تھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہا تھ +غا لب و کا ر آفر یں کا ر کشا و کا ر سا ز +ہم آپ سو چتے ذہن شل کر بیٹھتے ہیں کہ ایک آدمی اتنی ڈھیر سا ری ذمہ دا ر یو ں سے کس طرح عہد ہ بر آہو سکتا ہے ۔ یہ کیسے ہے کہ وہ ایک زند گی کو کئی زند گیو ں میں ڈھا ل دیتا ہے ہم سے اپنے فر ائض پو رے نہیں کئے جا تے اور وہ دنیا جہا ن کے فر ائض اپنے سر لیے پھر تا ہے +جو بھی وعد ے تھے کسی کے سب و فا میں نے کئے +قر ض تھے اوروں کے لیکن وہ ادامیں نے کئے +پیر صاحب کے ایسے ہی فر ائض میں بز مِ نو شاہی بھی ہے اسلامی تصو ف عشقِ الہیٰ کے لیے وہ تڑ پ ہے جس میں بند ہ معرفت ذا ت حا صل کر تا ہے اور جب معرفت ذات حاصل ہو جا ئے تو پھر معر فت ِ رب بھی حا صل ہو جا تی ہے ۔ کہ ’’ من عرف نفسہ عرب ربہ‘‘ معرفت حا صل کر نے کے لیے اہلِ تصو ف نے تر بیت ِذا ت کے مختلف مر احل مقر ر کر رکھے ہیں ۔ یہ تر بیت صو فیا ئ کے سلسلہ میں اپنے اپنے انداز سے کر تے ہیں ۔ +چشتیہ ، قا دریہ ، سہر ور دیہ ، نقشبندیہ کا اپنا اپنا انداز ہے۔ راستہ کوئی بھی ہو مقصد معر فتِ رب کی منزل پر لیکن اس میں بنیا دی چیز پیر و مرشد کی نگر انی اور رہنائی ہے رہبر کے بغیر راستے طَے نہیں ہو تے اور منز لیں نہیں ملتیں ایک مر شد ِ کے ہا تھ پر بیعت کی جا تی ہے بیعت کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ مر ید نے اپنے آپ کو پیر کے حو الے کر دیا ہے اب وہ اس کے احکا م کی اطا عت کر تا جائے گا ۔ اور جس راہ پر وہ چلا ئیگا اس پر چلتا جائے گا ۔ اس را ہ میں سب سے بڑ ا زا دِ سفر اخلا ص ہے ہر پیر طر یقت کسی کا خلیفہ ئِ مجا ز ہو تا ہے ۔ اور پیر ی مر ید ی سلسلہ بہ سلسلہ چلتی ہے چرا غ سے چراغ جلتا جا تا ہے +حضرت پیر معرو ف شا ہ صاحب اپنے برادر ِ بز ر گ کے خلیفہ ئِ مجا ز تھے ’’ بز مِ نو شاہی ‘‘ کی بنیا دیں پڑ گئیں بعد میں وہ خو د زیب ِ سجا دہ ہوئے بز م نو شا ہی کا سلسلہ آج بھی چل رہا ہے اور تر قی پذ یر ہے۔ بز م ِ نو شا ہی کے قیا م کے اغر اض و مقاصد میں اصل مقصد تو ایک ہی ہے کہ بندے کا اللہ سے تعلق قا ئم کیا جا ئے آج کا انسا ن ما دی لحاظ سے انتہائی عر و ج پر پہنچ چکا ہے ، مگر اسکی محرو می پھر بھی ختم نہیں ہو ئی ۔ وہ بے چین ہے، بے قرا ر ہے، بے سکو ن ہے، سا ئنسد ان نے اُسے بے پنا ہ قو ت فراہم کر دی بے شما ر آسا ئشا ت اور تعیشا ت دے دییمگر پھر بھی دنیا کے ہر انسان کا مسئلہ ڈپیر یش ہے ذہنی بے سکو نی نے اعصا ب تبا ہ کر دییہیں اقبا ل نے پو ن صد ی پہلے کہا تھا �ò +ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا +اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا +جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا +زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا +اقبال اور اقبال جیسے بہت سے دانشو رو ں نے حکمت شنا سا نِ مغر ب کو اس حقیقت کی طرف با ربار متو جہ کی دا نا یانِ مغر ب نے اور زیا دہ زور لگا یا بہت سی نئی آسا ئشا ت ایجا د کر لیں مگر اصل مسئلہ حل نہ ہو ا ، اور ہر آدمی کی بے سکو نی بڑھتی گئی آج بمشکل ایک دو فیصد آدمی ہو نگے جو کہہ سکیں کہ انہیں کوئی ڈپیر یشن نہیں اور وہ ایک دو فیصد بھی کون ہو نگے پاگل یا بچے وگر نہ ہر آدمی بے سکون ہے ایک آدمی ڈھیرو ں دولت کا مالک ہے ہر طر ح کی آسا ئشیں گھر میں مو جو د ہیں مگر نیند کیو ں را ت بھر نہیں آتی خوا ب آور گو لیا ں نگلتا ہے تو سو سکتا ہے نہیں تو مخمل ور یشم کا بستر کا نٹو ں کا بستر بنا ہو ا ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ آخر کمی کیا ہے ؟ کیا چیز ہے جو اسے میسر نہیں اسے اطمینا نِ قلب کیو ں نہیں حاصل ہو تا ۔ قرآن کہتا ہے اطمینا ن ِ قلب تو صر ف ایک چیز سے نصیب ہوتا ہے اور وہ کیا ہے ’’ ذکر الٰہی ‘‘ +’’اَلاَ بِذِکر اللّٰہِ تِطْمَئنَّ الْقُلُوْ ب‘‘ +﴿قلو ب صرف ذکر الٰہی سے اطمینا ن پا تے ہیں ﴾ +بزمِ نو شاہی محا فل ذکر کا اہتما م کر تی ہے یہ محا فل ذکر ہفتہ وار اور مہینہ وار مختلف مقا ما ت پر ہوتی ہیں تبلیغ الا سلام کی مسا جد میں انکا اہتما م ہو تا ہے اب تو بفضل خدا وند ی ہا لینڈ اور فرا نس میں بھی ذکر سر کل قا ئم ہو چکے ہیں ، یو ں چک سوار ی کا یہ سید زا دہ یو رپ کی اضطر اب گا ہو ں میں سکونِ قلب کی دو لت نا یا ب با نٹتا پھر تا ہے مگر نصیبو ں والے ہی یہ دو لت پا تے ہیں ۔ +﴿لو گو! میں تو سور ج لے آیا ہو ں مگر تمہا رے اند ھے پن کا کیا علا ج ﴾ +مر کزی بز مِ نو شا ہی کا ایک اور بڑا کا م، محا فل میلا د النبی اور اولیا ئ کے عر سو ں کا انعقا د ہے میلا د النبی بڑی شا ن و شو کت سے منا ئی جا تی ہے اجلسہ کے سا تھ جلو س بھی نکا لا جا تا ہے۔ +حضرت پیر صاحب کی مصر و فیا ت میں ایک اور مصر و فیت لوگو ں کی رو حانی مد د ہے مختلف رو حا نی اور جسما نی مصا ئب میں گھر ے ہوئے لو گ پیر صاحب کی ذا ت کو مر جع اِمید سمجھتے ہیں اور انکے در وازے پر آتے ہیں۔ +’’ تَو سّل الی اللہ ‘‘ یعنی اللہ سے اپنی دعا منظو ر کر انے کے لیے اللہ کے نیک بند و ں کا وسیلہ پکڑ نا ایک ایسا عمل ہے جو تقر یبا ً دنیا کے ہر مذہب میں مو جو د ہے اسلام میں بھی یہ عمل مو جو د ہے لوگ اپنی تکا لیف میں حضور �ö کے پاس حا ضر ہو کر طا لب دعا ہوتے اسی طر ح لوگ اولیا ئ واصفیا ئ کی با ر گا ہ میں آکر التجا کر تے کہ اللہ سے انکی مصیبت دور کر نے کی دعا کر یں۔ بر یلوی حضرا ت کا عقید ہ ہے کہ وفا ت کے بعدبھی اولیا ئ کے مزا ر پر حا ضر ہو کر انکے اعما ل صا لحہ کو وسیلہ بنا کر اپنی حا جا ت اللہ کے حضور پیش کی جا ئیں تواللہ صاحب مزار کے اعما ل حسنہ کے وا سطہ سے دعا منظو ر فر ما تا ہے دیو بند ی حضرا ت تیتر ہیں نہ بٹیر انہوں نے بھی اپنے پیر و مر شد بنا رکھے ہیں اشر ف علی تھا نو ی صا حب اور حسین احمد مد نی صاحب وغیر ہ با قاعدہ مر ید و ں سے بیعت لیتے رہے اور انکا بھی بر یلو یو ں کی طر ح پورا نظا م چلتا ہے صا حب قبر کے سلسلہ میں بھی وہ کہتے ہیں کہ لو گ قبر و ں پر جا کر کہتے ہیں ’’گھن ککڑ تے ڈے پتر‘‘ ﴿یعنی اے صا حب قبر مرغا لے اور لڑ کا دے﴾ یا کہتے ہیں ’’ گھن بکرا تے ڈے بچڑا ﴿یعنی بکر الے اور فر زند دے دے ﴾ اس طر ح وہ گو یا صا حب قبر ہی کو حا جت روا اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں اور یہ شر ک ہے اگر وہ کہیں ’’ اے فلا ں میرے لیے اللہ سے دعا کر ‘‘ تو ان کے نز دیک جا ئز ہے وہا بی اسکے بھی خلا ف ہیں کیو نکہ وہ سما ع مو تیٰ کے قا ئل ہیں۔ +ان خد ما ت کے سا تھ اولیا ئ و صو فیا ئ کے معمول کے مطا بق اور درود و ظا ئف میں بھی بہت سا وقت صر ف ہو تا ہے پیرصا حب اپنے یہ معمو لا ت بھی بطریق احسن سر انجا م دیتے ہیں۔ اور اد’و ظا ئف اور نوا فل کے سلسلہ میں بعض افرا د بڑ ی سخت محنت کر تے ہیں پیر معرو ف شا ہ صاحب کے پاس جب ان کے بھائی اور مرشد پیر سید ابو الکمال برق نوشاہی آئے تو انہوں بھی برطانیہ بلکہ یورپ بھراپنی روشنی سے منور کیا وہ حضر ت پیر معرو ف شا ہ صا حب کی طر ح کثیرا لمصر و فیا ت نہیںتھے اس لیے اپنا سا را وقت ریا ضت میں صر ف کر تے ہیں اور اسی حا لت میں سو تے ہیں بہت کم کھا تے ہیں او سا را وقت عبا د ت و ریا ضت میں گز ار تے ہیں اور اسی حا لت میں شب زند ہ دا ر ی کرتے ہیں بتا یا جا تا ہے کہ انہیں اللہ تعا لیٰ نے خا ص طور پر مہلک بیما ریو ں کا جڑ ی بو ٹیو ں سے علاج کرنے کی صدا قت و دیعت کی ہو ئی ہے۔ حضرت پیر معرو ف صا حب کے پا س بعض ایسی ہی بیما ریو ں کے مر یض آتے ہیں تو وہ انہیں اپنے اس بھائی کی طر ف بھیج دیتے ہیں۔ +اسلا می تصو ف کے میدا ن میں جو بھی قد م رکھتا ہے بنیا دی طور پر اس پر دو شرا ئط عا ئد ہو جا تی ہیں +۱۔ صد ق مقا ل یعنی جو با ت بھی کر سچ بو لے ۔ +۲۔ اکلِ حلا ل یعنی حلا ل کی رو ز ی کھا ئے +جب وہ یہ شر ائط پو ر ی کر تا ہے تو وہ ان پر موا ظبت کر تا ہے تو اس پر اگلی را ہیں کھل جا تی ہیں ۔ پیر صا حب کی ��دا یت اور نگہبا ئی میں بہت سے لوگ تصو ف کی منا زل طے کر چکے اور بہت سے طے کر رہے ہیں غر ضیکہ حضرت پیر صا حب جا مع الصفا ت ہیں اور انکی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ علوم دین کی طر ح وہ را ہِ سلوک میں بھی منبع رشد و ہد ایت ہیں۔ +تنظیمی و تبلیغی سفر پاکستان میں +پاکستا ن حضر ت پیر معر و ف شا ہ صا حب کا وطنِ ما لو ف ہے اوراس میں وہ آتے رہتے ہیں ۔ ایک پر دیسی کا وطن آنا بظا ہر ایسی کو ئی بڑی با ت نہیں کہ اسے کسی کتا ب کا جز و بنا یا جا ئے لیکن جن لو گو ں نے اپنی زند گی اللہ کے لیے وقف کر رکھی ہو انکا ہر لمحہ ایک اما نت بن جا تا ہے ۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس اما نت کو محفو ظ کر لینے کی کوشش کی جا نی چا ہیے میں نے کو شش کی ہے کہ پا کستا ن کے سفر میں جو چیز یں انہوں نے قا بل اعتنا سمجھ کر ڈا ئر ی میں در ج کیں انہیں کتا ب میں شامل کر لو ں۔ +پہلا سفر پاکستان 18 ما ر چ 1968 �÷ سے یکم جون 1968 �÷ تک رہا ۔ ادا ئے گی ئِ حج کے بعد تشر یف لا رہے تھے آپ کو لالہ مو سیٰ سے ایک عظیم الشا ن جلو س کی صو ر ف میں معرو ف منز ل در با ر نو شاہی تک لا یا گیا ۔ سلیم صاحب اور حا جی محمد حنیف ہمرا ہ تھے ۔ +قیا م پاکستان کے دورا ن لا ہو ر گئے ’’ حز ب الا حنا ف ‘‘ اہل سنت کا مشہو ر تعلیمی ادا رہ ہے جو عر صہ ئِ درا ز سے مو لا نا ابو الحسنا ت اورمولانا ابو بر کا ت کی سر کر دگی میں دینی تد ریس کی خد ما ت سر انجا م دے رہا ہے اور در س ِ نظا می کے فا ضل تیا ر کر رہا ہے پیر صا حب وقتا ً فو قتا ً اس کی ما لی امدا د کر تے رہتے ہیں اسو قت مو لا نا ابو البر کا ت صا حب فر اش تھے اور انکے فر زند علامہ محمو د احمد رضو ی یہ ادا رہ چلا رہے تھے پچھلے سال جو ما لی مد د بھیجی گئی تھی رضو ی صاحب کی طر ف سے اسکی رسید نہ بھیجی جا سکی استفسا ر پر انہو ں نے بتا یا کہ اپنے وا لد بز ر گوا ر کی مسلسل علالت کے با عث وہ پر یشا ن رہے اور یہ سستی ہو گئی ۔ لاہور میں قیا م کے دورا ن مفتی محمد حسین نعیمی صا حب سے بھی ملا قا ت کی مختلف مو ضو عا ت پر گفتگو ہو تی رہی ۔ +جا معہ تبلیغ الا سلام ﴿گجرا ت﴾ کے قیا م کے سلسلہ میں گجرا ت کے مشہو ر عا لم ِ دین مفتی احمد یا ر خا ن نعیمی گجر اتی سے مو لانا محمد اسلم نقشبندی چک سوا ری کے معزز احبا ب اور دو لت نگر گجر ات کے سرکر دہ احبا ب سے ملا قا تیں رہیں۔ 2 فر ور ی 1973 �÷ کو دو سر اسفر پاکستان پیش آیا ۔ +لاہور میں جامعہ نعیمیہ میںمفتی محمد حسین نعیمی سے ملے پھر پنجا ب یو نیو ر سٹی کی لا ئبر یر ی میں قا ضی عبدالنبی کو کب گجر اتی سے ملا قا ت کی لا ئبر یر ی میںشامل علمی کتب کی فہر ست دیکھی گھر پہنچے تو مو لانا بو ستان آئے ہو ئے تھے انہو ںنے بتا یا کہ پا سپورٹ بنوا لیا ہے ۔ +اس سفر کااہم وا قعہ یہ ہے کہ ’’ جا معہ تبلیغ الا سلام ‘‘ کے لیے زمین خر ید ی اور ابتدا ئی تعمیر ی معا ملا ت پر احبا ب سے مشو رے کئے +15 8/76 تیسرے سفر پاکستا ن کے سلسلہ میں آمد ہو ئی۔ وزیر آبا د میں اہل سنت کے معر و ف حق پر ست عالم دین علامہ عبد لغفو ر ہزا ر و ی کے زیر تعمیر روضہ کا جا ئز ہ لیا ۔ +علا مہ ابو المحمو دنشتر کی معیت میں حضرت دا تا گنج بخش کے مز ار پر حا ضر ی دی عشا ئ کی نماز وہیں ادا کی پھر مو لا نا عبد الستار خا ن نیا زی سے ملاقات کی حکیم محمد مو سی ٰ امر تسر ی سے ملے مجلس رضا کے معا ملا ت ان سے ڈسکس کئے اور انہیں مشو رہ دیا کہ وہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خا ن بر یلوی کی مستند سو انحعمر ی کسی ثقہ عالم اور صاحبِ قلم عالم سے لکھو ائیں ۔ +ورلڈ اسلامک مشن کے سلسلہ میں بھی احبا ب سے گفتگو ہو تی رہی آزا د کشمیر میں ور لڈ اسلامک مشن کے کنو ئیر تنو یر سے ملا قا ت کی تنظمی امو ر کے سلسلہ میں انکی رہنما ئی فر ما ئی۔ اسی سلسلہ میں چک سوار ی میںایک میٹنگ تر تیب دی گئی اور پیر صاحب نے جمعہ کے مو قع پر خطا ب کیا ۔ خطا ب کا مو ضو ع ’’ مسلما نو ں کے اجتما عی ز وردل تھا ‘‘ +پیر صاحب نے بڑی جا معیت سے مسلما نوں کے کل او آج کا موازنہ کیا بتا یا کہ کل سا ری دنیا ان کے قد مو ں میں تھی اور آج وہ دنیا کے قد مو ں میں ہیں اند ازِ بیان اتنا اثر انگیز تھا ۔ کہ سا معین کی سسکیا ں نکلتی رہیں۔ +پاکستان کا چو تھا سفر 16 ما رچ 1981 �÷ کو پیش آیا اس میں صر ف جا معہ تبلیغ الاسلام کے تعمیر ی مر احل دیکھے خا ندا نی مصر وفیا ت رہیں اور کوئی قابل ذِکر وا قعا ت پیش نہیں آئے ۔ +16 ما ر چ 1981 �÷ سے 13 اپر یل 1986 �÷ ئ تک اگلا سفر در پیش ہوا ۔ یہ سفر حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی قا دری کے پہلے سا لانہ عرس کی تقر یبا ت منعقد کرا نے کے لیے تھا ۔ اہل خا نہ کے علاوہ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نوشا ہی کے صا حبز ا دے سیدتصو ر حسین شا ہ نو شا ہی اور با رہ سا لہ بچہ وقا ر رحمن بھی سا تھ تھا ۔ بہت سے احبا ب استقبال کے لیے آئے تھے ۔ +سید عبا س علی شا ہ کا کتب خا نہ دیکھا اور بہت خوش ہو ئے اور قد یم شجر ہ ئِ طر یقت بھی نظر سے گزرا پھر گجر ا ت سے نو شہ گنج لا ہو ر پہنچے صا حبز ا دہ فضل الر حمن نو شاہی سے ملا قا ت ہوئی ۔ 23 ما رچ کو حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شاہی کا اما نتا ً دفن شدہ تا بو ت 18سا ل کے بعد نکا لا گیا اور مد فن جد ید کو بھجوا یا گیا ۔ +صدر مد رس جا معہ نعیمیہ سے طو یل ملا قا ت ہوئی۔ ’’ ختم نبو ت اکیڈیمی ‘‘ کے مو ضو ع پر تفصیلی گفتگو ہو ئی نیلسن ہو ٹل لا ہو ر میں پیرصاحب کو استقبا لیہ دیا گیا تھا ۔ اس تقریب میں شیخ رو حیل اصغر ایم پی اے اور ایک دو سرے رکن قو می اسمبلی بھی شر یک ہو ئے پیرصاحب کا مو ضو ع تھا ۔ ’’ بر طا نیہ میں مسلما نو ں کے مذہبی حا لا ت ‘‘ +پیر صاحب نے کھل کر با ت کی بر طانیہ میں مسلما نو ں کے مختلف فر قو ں کی سر گر میوں سے حا ضر ین کی متعا رف کر ایا اسی سلسلہ میں ’’ تبلیغ الاسلام ‘‘ کا بھی ذکر آیا ۔ انہوں نے کھل کر اپنی تنظیم کا کر دا ر بیان کیا اور بتا یاکہ کن نا منا سب حا لا ت میں کام کاآغا ز کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کر م جنا ب رسالتما ب �ö تا ئید رحمت اور بزر گو ں کی نظر ِ کرم سے سا تھی ملتے گئے کا رو اں سنتا گیا ار کام پھلیتا گیا ۔ کفر زا رو ں میں کلمہئِ حق و صدا قت بلند ہو ا تو جیسے پیا سی زمین پر رحمت کے با دل بر س گئے مسلما ن اور بالخصو ص اہل سنت بھا ئی جو ش و خر و ش سے کام میں ہا تھ بٹانے لگے اور وا قعی اقبا ل نے صحیح کہا تھا �ò +نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویرا ں سے +ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذر خیز ہے سا قی +جمعیت تبلیغ الاسلام کی تحر یک قیا م مسا جد کے نتا ئج سے حا ضر ین کو آگا ہ کیا ۔ یو ں یہ پر نو ر خطا ب جس میں تحر یکی زند گی کی روح رہی تھی ۔ بخیر و خوبی اختتا م پذ یر ہوا پاکستانی مسلما نو ں کے چہرے امید کی رو شنی سے تمتما رہے تھے ۔ اور ہر زبان پر یہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ پیر صا حب کی عمر دراز کر ے کہ وہ تا دیر اسلام کی خدمت کرتے رہیں۔ +بعد میں حضر ت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کے شا گر د رشید قا ری محمد یو نس کے مد رسہ کا افتتا ح کیا بد ھ 2 اپر یل 1986 �÷ کو حضرت سید ابو الکما ل کا عر س مبا رک شر و ع ہوا ۔ علمائے کر ام نے مر حوم کی زند گی پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈا لی۔ +3 اپر یل جمعرا ت کو عشا ئ کی نماز کے بعد نو شہ پیر کا ختم شر یف پڑ ھا گیا ۔ 14 اپر یل کو اہم الحسنات فا طمہ کاختم شر یف ہوا ۔ اسی رو ز دن کو در سگا ہ میں جا مع مسجد نو شاہیہ کا سنگ بنیا د رکھا گیا۔ 6 اپر یل کو نشہ پیر کے دربا ر عالیہ کی طر ف رو انگی ہوئی بڑ ی دیر تک در با ر میںحا ضر ی رہی پھر مز ا ر کے ساتھ کی مسجد کے اما م و خطیب سے ملا قا ت ہوئی یہاں سے فا ر غ ہوئے توحسب عا د ت مختلف کتب خا نو ں پر جا کر بڑی تعداد میںکتابیں خریدیں 8 اپر یل بروز منگل چک سوار ی میں نو شہ گنج بخش قادری (رح) کے عر س کی تقریبا ت کا آغا ز ہو ا۔ صاحبز ادہ سید تنو یر حسین شا ہ نو شاہی ابن حضرت چن پیر شا ہ نو شا ہی سے ملا قا ت ہو ئی اور بھی علما ئے کر ام سے ملا قا ت ہوئی۔ +مختلف علما ئے کر ام نے تقا ریر کیں، حضر ت پیر صا حب نے بھی عر س کے مو ضو ع پر اظہا ر خیا ل کیا ۔ خطا ب بڑ دلنشیں تھا با ت یہاں سے شر و ع کی گئی کہ ’’ ہما رے دو ست اپنے لو ا حقین کی سا لگر ہیں با ہر تھر ڈے منا تے ہیں بڑ ی دھو م دھا م کر تے ہیں کیک تیا ر کر ائے جا تے ہیں نام لکھایا جاتا ہے کا ر ڈ چھپوائے جا تے اور تقسیم کئے جا تے ہیں دو ر نز دیک سے اَحبائ ، اعز ہ واقر با ئ آتے ہیں اور رنگو ں کی بر سا ت میں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گا یا جا تا ہے ، سا لگر ہوں کی یہ تقر یبا ت صر ف مسئر و ں کے گھر و ں میں نہیں مو لا نا ئو ں کے گھر و ں میں بھی ہو تی ہیں ہیپی بر تھ ڈے ٹو یو نہ گا یا جا تا ہو ’’ آج میرے منے کی سا لگرہ ہے ‘‘ تو جا تا ہے یہ سب کچھ جا ئز ہ کسی ما تھے پر شکن نہیں پڑ تی کسی فتٰو ی با ز کی زبا نِ طعن دراز نہیں ہو تی لیکن یہ کیا ہے کہ جب ہم فخر مو جو د ا ت ، آ قا ئے کا ئنات سر ورِ عالم �ö کی میلا د منا تے ہیں تو اچا نک پیشا نیو ں پر بل پڑ جا تے ہیں اور جو لو گ خدا کے محبو ب کا کلمہ پڑ ھ کر مسلما ن ہو ئے او ر اپنے مسلما ن ہو نے پر فخر کر تے ہیں وہی شور مچا دیتے ہیں شر ک ہو گیا دین خطر ے میں پڑ گیا ۔ با لکل اسی طر ح یہ لوگ اپنے عز یز وں کی بر سیا ں منا تے ہیں مگر جب ہم عر س منا تے ہیں تو نا ک بھو ں چڑ ھا نے لگتے ہیں ‘‘ غر ضیکہ بڑا پر لطف اور حکیما نہ خطا ب تھا اہل دل کا ایما ن تا زہ ہو گیا ۔ +پاکستان کا سا توا ں سفر 4 جنو ر ی 1989 �÷ کو شر و ع ہوا اور 13 اپر یل 1989 �÷ کو واپسی ہوئی پہلے عبد الر حمن پاک نو شا ہی مو ضو ع تھا فر ما یا’’ مکہ کی گلیو ں میں اسلام قبول کر نے والو ں پر ظلم ہو رہے تھے کسی کو کا نٹو ں میں گھسیٹا جا رہا تھا کسی کو تپتی ریت پر لٹا دیا جا تا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جا تا خو د حضور سر و ر ِ عا لم �ö پر تشدد کی انتہا ہو تی رہی ۔ مسلما نوں کی انتہا ئ کو پہنچی ہو ئی تھی اللہ تعالیٰ نے کہا مصا ئب برداشت کئے جا ئو اور صبر و سکو ن سے نما ز پڑ ھے جا ئو استعنیو ابا لصبر و الصلو ۃ چنا نچہ مسلما ن اپنا یہی کا م کر تے رہے اور +’’اِذَا جَا ئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَ الْفَتْحُ رَ اَیْتَ النَّا سَ یَدْ خُلُوْ نَ فِی دِیْنِ اللّٰہِ اَفْو اَ جاً‘‘ +﴿اور جب آگئی اللہ کی مد د اور فتح نصیب ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ لو گ اللہ کے دین میں فو ج در فو ج دا خل ہو گئے ﴾ +اور حکم ہو ا اب بھی نماز پڑ ھے جا ئو پہلے اللہ سے مد د ما نگنے کے لیے پڑ ھتے تھے اب اللہ کی مد د آجا نے پر شکر ادا کر نے کے لیے پڑ ھو یہی نماز ہی نسخہ ئِ کیمیا یہی سب بیما ریو ں کا علاج ہے بے سر و سا ما نو ں کا سا ما ن ہے اور کمز ورو ں کی قو تَ آج مسلما ن کمز ور ہیں ہر جگہ شکست اور ظلم سے دو چا رہیں کہیں کشمیر ر و رہا ہ کہیں فلسط��ن ، علا ج ایک ہی ہے ’’فا سْتَعِیِنُوْ ا بِا لصَّبْرِ وَالصَّلَو ۃ‘‘ +وہی دیر ینہ بیما ری وہی نا محکمی دل کی +علاج اس کا وہی آبِ نشا ط انگیر ہے سا قی +منگلا میں پیر صا حب کو ایک استقبا لیہ دیا گیا وہا ں آپ نے اپنے خطبہ میں مسلمانو ں کو ’’ وا پس قرآن کی طر ف ‘‘ ﴿BACK TO QURAN﴾کے مو ضو ع پر خطا ب کیا اور فر ما یا مسلما ن دنیا پر غا لب آئے جہا ں بھی گئے فتح و نصر ت انکی رکا ہیں تھا م کر چلی اب ادبا ر اور زوال کی گھٹا ئو ں نے تما م آفا ق انکے لیے اند ھیر ے کر رکھے ہیں تا ریکیا ں انکا مقدر بن رہی ہیں ذلت اور پسما ند گی انکے ما تھے پر لکھی ہو ئی ہے ایسی بلندی اور پھر ایسی پستی اتنا تفا وت ، اتنا فر ق کیوں ؟ صر ف ایک وجہ سے �ò +وہ زما نے میں معزز تھے مسلما ں ہو کر +اور تم خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر +شیخو پو رہ میں تشر یف لے گئے وہا ں عقید تمند وں نے جا مع مسجد میں گیا ر ھو یں شر یف کی تقر یب میں شر کت کی دعو ت دے رکھی تھی اور خطا ب کا پر و گرا م بھی رکھا ہو اتھا محبوب سبحا نی پیر عبدا لقا د ر جیلا نی کی بر کا ت مو ضو ع بحث ہو ں اور حضرت پیر معرو ف شا ہ کی زبا ن �ò +پھر دیکھیے انداز ِ گل افشا نی ئِ گفتا ر +رکھ دے کوئی پیمانہ ئِ صہبا مرے آگے +سٹیج پر آئے تو تقر یر کی ابتدا ئ میں یہ اشعا ر پڑ ھے �ò +اند ھیر ے چھا رہے شر ق کے ہر ایک ایو اں پر +چمک اٹھ مہر جیلا ں غر ب سے اس محشر ستاں پر +’’ مُر ِ یْدِ ی ْ لَا تَخَفْ ‘‘ وہ کہ گئے ہیں خوا ب میں آکر +مرا دل خند ہ ہو نے لگا ہر ایک طو فاں پر +پھر جنا ب غو ث حمد انی کی کچھ کر امات بیا ن کر کے وضا حت کی کہ گیا ر ھو یں شر یف جس مقصد کے تحت منا ئی جا تی ہے وہ بڑ اپا کیز ہ ہے ہم اولیا ئ اللہ سے محبت کر تے ہیں انکی پنا ہ میں آتے ہیں ہم بہا نے ڈھو نڈے ہیں کہ کوئی مو قع ہا تھ آئے کہ ہم خد اکے پیا رو ں کا ذکر کر یں کسی کے پیارے کا ذکر کیا جائے اسکی تعر یف کی جا ئے تو سُننے والا خوش ہو تا ہے کہ اسکے پیا رے کی تعر یف ہو رہی ہے جب ہم رب کے پیا ر و ں کی تعریف کر تے ہیں تو ہما را رب خوش ہو تا ہے ان ہی کے متعلق تو خدا کہتا ہے ۔ +’’اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَا ئَ اللّٰہِ لاَ خَوْ ف’‘ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْز نُوْ ن‘‘ +﴿آگا ہ رہو کہ اللہ کے پیا رو ں کو کسی طر ح کا خو ف و حزن نہیں ﴾ +مقدور ہو تو خا ک سے پوچھوں کہ اے لیئم +تونے وہ گنجیا ئے گرا نما یہ کیا کئے +حضر ت پیر صا حب مزا ر ات کی زیا ر ت کر تے رہے اور اخذِ فیض کر تے رہے پھر سلسلہ ئِ قا دریہ کے مو جو دہ سجا دہ نشین سے ملا قا ت کی اور تا دیر اہل اللہ کا ذکر ہو تا رہا ۔ +اسی سفر میں غلا م شا ہ صا حب سچیا ر نو شاہی کے مز ار پر بھی فا تحہ خوا نی کی۔ دامن کوہ ٹلہ میں مو لا نا محمد شفیع اختر چشتی سے ملا قا ت کی انکی لا ئبر یر ی دیکھی بعض نا در و نا یا ب کتا بو ں کے قلمی نسخے دیکھے انہیں کہا کہ وہ کسی طر ح ان کی نقول فر اہم کریں۔ +رو ہتا س میں شا ہ محمد شہید رو ہتا سی کے مز ا ر انوار پر بھی تشر یف لے گئے ۔ اگلے سا ل 1990 �÷ میں پھر پاکستا ن کا سفر در پیش تھا ۔ پاکستان میں 6 نو مبر تا 2 دسمبر قیا م رہا ۔ 9 11/90 بر وز جمعہ بعد از نما ز ِ فجر محمد منشا ئ خا ن ولد بشیر آف 42 سیکٹر E-3 میر پو ر آزا د کشمیر نے بیعت کی اور حلقہ ئِ ارادت میں داخل ہو ئے ۔ +11 11/90 اتوا ر کا دن تھا حلقہ ئِ ارادتمند ان میں بیٹھے تھے ذکر اتوا ر کا چل پڑ ا فر ما نے لگے اہل یو نا ن ہر دن کو ایک خا ص ستارے کے تا بع سمجھتے تھے انہو ں نے ہفتے کے دنو ں کے نام انہی ستا ر وں کے نام پر رکھے تھے اتوار کو ��ہ سو ر ج کے تا بع سمجھتے تھے ا س لیے اس کا نام SUNDAY تھا سوموا ر چا ند کے تا بع سمجھا جا تاتھا اسے MOONDAY کہتے تھے جو MONDAY ہو گیا اسی طر ح با قی ستا رو ں کے نام بھی دنوں کے نام میں شامل ہیں انگر یز ی میں یہ تما م نام منتقل نہیں ہوئے انہو ں نے با قی ستا رو ں کے نام لا طینی سے لیے دنو ں کے نام وہی رہ گئے یہو دیو ں کے ہا ں یو م سبت یعنی سینچر کا دن خدا کا دن سمجھا جا تا تھا اس میں وہ عبا د ت کر تے اور کو ئی کا م نہیں کر تے تھے اللہ نے بھی اسے انکی چھٹی کا دن قرار دیا تھا عیسا ئیو ں کے لیے اتوار کے دن چھٹی کا اور عبا دت کے لیے مخصو ص ہو ا مسلما نو ں کی پو ری زندگی عبا د ت ہے اس لیے ان پر چھٹی کا کو ئی خا ص دن مقر ر نہیں کیا ہا ں جمعہ کو بر کت زیا دہ دی گئی لیکن یہ ضر و ر ی نہیں کہ اس روز کا م بند کر دیا جائے قرآنِ حکیم میںجہاں جمعہ کی نماز میں شمو لیت کا حکم دیا گیا فر ما یا گیا ۔ +’’فَا سْعَوْ اِلیٰ ذِکْرِ اللّٰہ وَ ذَرُ و الْبَیْع‘‘﴿جمعہ﴾ +یعنی جب جمعہ کی اذا ن سُنو تو نما ز کے لیے فو را ً حا ضر ہو جا ئو اور خر ید و فر و خت چھوڑ دو مطلب یہ کہ پہلے خرید و فر وخت ہورہی تھی صر ف نما ز کے وقت کے لیے حا ضر ہو کر یہ کارو با ر اتنی دیر کے لیے چھوڑنا ہے اسکے بعد بتایا گیا ہے کہ جب نماز سے فا ر غ ہو جا ئو تو اپنے کا م پر نکل جا ئو ۔ +اسی روزعتیق الر حمن ولد ڈاکٹر محمد اکر م آف الگڑہ رو یوا ل ضلع گجر ا ت مر ید ہو ئے اسی طر ح کشمیر کا لو نی کے سید خا دم حسین شا ہ بخاری اور سید سہیل محمد شہز ا د نے بھی بیعت کی 12 11/90 بر وز سو موا ر چو دھر ی محمد دین نو شا ہی اور محمد حنیف صاحب محیا ں ضلع جہلم ملا قا ت کے لیے آئے میر پو ر کے مو لا نا افتخا ر علی نقشبند ی بھی ملا قا ت کو آئے ۔ +13 11/90 پنڈ ور ی ضلع جہلم میں محمد یو نس نو شاہی کی صا حبز ا دی کی شا دی میں شر کت کی 14 11/90 مولا نا محمد ایو ب ہزا ر وی صا حب اور قا ری علا ئو الدین صا حب ملا قا ت کے لیے آئے ۔ +15 11/90 میر پو ر کے محمد شو کت حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہو ئے +28 11/90 ۔ مفتی سیف الر حمن ہز ا ر و ی ملا قا ت کے لیے آئے را و لپنڈی میں محلہ نصیر آبا د میں ایک مذہبی تقریب میں خطا ب فر ما یا دعا کے بعد 24افرا د حلقہ ارادت میں داخل ہوئے ۔ +29 11/90 جا مع تبلیغ الا سلام ڈو گر شر یف میں جلسہ دستا ر بند ی میں صد ا ر ت فر ما ئی اور حفظِ قرآ ن کی سعا دت حا صل کر نے والو ں کی دستا ر بند ی فر ما ئی ان خو ش نصیب افرا د کے نام یہ ہیں حا فظ محمد شفیع نو شاہی حا فظ افتخا ر احمد نو شاہی ، حا فظ محمد اقتدا ر نو شاہی ، جلسہ میں ارد گر د کے دیہات کے لو گ بکثر ت حا ضر تھے فضا ئل قرآن پر گفتگو فر ما ئی ۔ بعد میں 4افراد سلسہ ئِ نو شاہی میں شا مل ہوئے ۔ +30 11/90 محمد عبد الر شید نو شاہی کے گھر دعوت تھی دو خوا تین نے بیعت کی 2 12/90 مولانا عبد لقد وس صا حب کے گھر تشر یف لے گئے انہوںنے آپ کے دست حق پر بیعت کی وا پسی پر وزیر آبا د میں دو آدمیوں نے بیعت کی ۔ +5 12/90 کل 6 12/90 حسبِ اعلان عرس غو ث الا عظم دن کے با رہ بجے شر و ع ہو نا تھا مہما نو ں کو دو پہر کا کھا نا کھلا نا تھا اس کے لیے یہ فیصلہ فر ما یا کہ گو شت رو ٹی اور چا ول دییجا ئیں گے چنا نچہ در و یشو ں اور وا بستگان در با ر کو تما م با تیں سمجھا دیں اور ہر ایک کی دیو ٹی لگا دی کہ کون کیا کام کر یگا ۔ حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب میں اور اوصا ف کے علا وہ انتظامی خو بیا ں بھی بدر پائی جا تی ہیں ہر معاملہ میں آپ کو بہتر ین منتظم پا یا گیا ۔ آپ کی اپنی زند گی بھی پو ر ی منظم ہے اور دو سر و ں ک�� بھی آپ اسی طرح بنا دیتے ہیں ۔ +18 11/90 میر محمد چتر پڑ ی کے ایک سا تھی حلقہ ئِ بیعت میںآئے مولا نا محمد اور رنگ زیب جہلمی تشر یف لائے اور حضرت پیر صاحب کی ہدایات کی مطا بق عر س غو ث الا عظم کا اشتہا ر تر تیب دیا 12/90 عر س غوث الاعظم کے مو قع پر جلسہ ئِ عا م ہوا قا ر ی عبدا لقیوم الفت نوشاہی ، قار ی عا بد حسین نو شاہی اور قا ری محمد رفیق نو شاہی نے تلا وت کلا م مجید کا شر ف حا صل کیا ۔ کئی نعت خوا ن سٹیج پر آتے اور حضور سرور عالم �ö کے حضور ہد یہ ئِ عقید ت پیش کر تے رہے مولا نا محمد طفیل اظہر ، مو لا نا عبد الخا ق ، مو لا نا محمد ایو ب ہز ا ر و ی اور مو لانا عبد القد و س نو شا ہی نے خطا ب کیا مو لانا محمد صدیق مفتی سلیما ن اور دیگر کئی علما ئے کر ام نے شر کت کی بہت بڑا جلسہ تھا لو گ بھا ری تعد اد میں حا ضر ہوا حضر ت غو ث الاعظم کی ذا ت پر حضرت پیر معرو ف شا ہ جب بھی بو لتے ہیں والہانہ عقید ت سے بو لتے ہیں آپ نے آخر میں چند جملے کہے مگر لفظ نہیں تھے ہونٹو ں سے لعل و گہر جھڑ رہے تھے اس جلسہ کے بعد دو افرا د نے بیعت کی اور سلسلہ ئِ اقد س میں داخل ہو ئے ۔ +8 12/90 میر پو ر اور دینہ میں پر و گرا م ہوئے ایک آدمی حلقہ ئِ ارا د ت میں داخل ہوئے 8 12/90 بر صغیر کے علما ئ میں علامہ عبد الحکیم سیا لکو ٹی بہت بڑ ی شخصیت تھے جب ذر ائع رسل و رسا ئل نا پید تھے اسو وقت بھی آپ کی شہر ت پو رے عالم اسلام میں پہنچ چکی تھی منطق ، فلسفہ اور علم کِلا م میں آپ کی تصا نیف بہت بڑا سر ما یہ خیا ل کی جا تی تھیں اور در س ِ نظامی میں داخل رہیں ۔ آپ نے فلسفہ و کلا م کی جن کتا بوں کی شر و ح لکھیں ان میں مقلد انہ نہیں مجتہد نہ شا ن ہے اس طر ح وہ شر و ح نہیں اپنی تخلیق بن گئی ہیں۔ آج حضرت پیر صا حب کو خیا ل آیا اور سیالکوٹ پہنچ کر علامہ عبد الحکیم کے مزا ر پر حا ضر ی دی فا تحہ پڑ ھی اور قبر کے پا س دیر تک سر جھکا ئے بیٹھے رہے ۔ +10 12/90 راولپنڈی میں محلہ قا سم آبا د میں علامہ محمد اورنگ زیب قا دری کی مسجد میں عظیم الشا ن جلسہ ئِ عام سے خطا ب کیا موضوع تھا ’’ فضا ئل صِد یق اکبر (رض ‘‘ تا جدا ر ِ جنا ب صد یق اکبر (رض) کی زند گی پر بڑ ے منفر د انداز میں رو شنی ڈا لی۔ بعثت سے پہلے حضور �ö کے سا تھ وابستگی و پیو ستگی پر بو لتے رہے وضا حت سے بتا یا کہ کس طر ح غلا م مسلما نو ں کو خر ید کر آزا د کر تے اور انہیں کفا ر کے مصا ئب سے نجات دلا تے رہے پھر ہجر ت کا سفر ’’ ثا نی ئِ غا ر و بدر وقبر ‘‘ کی زند گی کے ہر با بر کت لمحہ کو اپنی تقر یر میں سمو لیا مجمع مسحو ر ہو کر سنتا رہا ۔ +جلسہ کے مو قع پر دو افرا د حلقہ ئِ ارا دت میں دا خل ہو ئے ۔ 11 12/90 کو پاکستان سے انگلینڈ واپسی ہوئی ۔ +اس سال کی ابتدا ئ میںبھی آپ پاکستان تشر یف لا ئے تھے نو شہ پو ر میں جلسہ معر اج النبی �ö سے خطا ب فر ما یا تھا ۔ +اس سفر میں سر گو دھا اور اسکے گر د و نوا ح کے علا قو ں میں تبلیغی دو ر ہ بھی ہو ا جس میں الحا ج عد الت خا ن نو شاہی اور دیگر کئی عقیدتمند ہمسفر رہے چک نمبر 116 شمالی میں کئی افرا د داخل سلسلہ ہو ئے۔ +دارالعلوم جا مع اسلامیہ چک سوار کے انتظا می اور تعلیمی معا ملا ت کو در ست اور معیا ری سطح پر لانے کے سلسلہ میں کئی با ر چک سوا ر ی تشر یف لے گئے ۔ مختلف دینی اجتما عا ت کی صدا ر ِت فر ما ئی ۔ لا ہو ر سے نئی اور پر انی کتا بیں مختلف مو ضو عا ت پر برا بر خر ید تے رہے حا فظ محمد عابد نو شا ہی کو اپنے اخرا جا ت پر حصو ل عِلم دین کے لیے ما مو ر کیا لا ہو ر ، را ولپنڈی اور قر ب وجوا ر سے کئی ن�� مو ر علما ئ ملا قا ت کے لیے آتے رہے دربا ر نو شا ہی کا کام تیز ی سے تکمیلی مر احل کی طر ف بڑ ھ رہا تھا اور آپ اس کی نگر انی میں ہمہ جہت مصر وف تھے لیکن ان مصر و فیا ت کے باوجو د تصنیف و تا لیف کی طر ف بھی دھیا ن دیتے رہے آ پ کے پنجا بی اشعا ر کا مجمو عہ زا ر ستا ن نو شاہی مر تب ہوا اسکی کتا بت اور پر و ف ریڈ نگ ہو ئی پر نٹ کر ائی ، اسی طرح ملک مر و لدین اور خضر نو شا ہی کی پرنٹنگ بھی کرائی اور یہ کتا بیں علما ئے کرا م اپنے متو سلین و مر ید ین میں مفت تقسیم کیں۔ اس سفر کے دو ر ان بیسیوں بیما رو ں اور حا جتمند و ں کو اپنی طر ف سے ما لی معا و نت بھی کر تے رہے ۔ کئی علما ئے کر ام کو جمعیت الاسلام کے خر چ پر بر طا نیہ آنے کا بند و بست کیا جن میں مولا نا طفیل اظہر لا ہو ر، مولانا منیر صا حب آف کنا رہ سرا ئے عا لمگیر وغیر ہ شا مل ہیں بہت سے لو گ بیعت سے مشر ف بھی ہوئے +28 نو مبر 1991 �÷ ئ کو پھر پاکستان جا نا ہوا 23 جنور ی 1992 تک قیا م رہا ۔ اس سفر میں آپ کے سا تھ سیدہ ام الر ضا نو شاہی ، حافظ وز یر نو شاہی اور محمد ہا رو ن نو شاہی تھے در با ر نو شاہی کا تعمیر ی کا م ہو رہا تھا اس لیے زیا دہ تر قیا م در با ر نو شاہی نو شہ پور شر یف کشمیر کا لو نی جہلم میں رہا اور چک سوا ر ی شر یف مزا ر اقد س پر بھی حا ضر ی ہو تی رہی چند جگہو ں پر جا نا ہو ا مگر بہت قلیل مختلف شعبہ ہائے ز ندگی سے تعلق رکھنے والے لو گ زیا ر ت کے لیے اور اپنے مسا ئل کے حل کے لیے حا ضر ہو تے رہے در با ر نو شاہی پر علما ئے کر ام اور قا ر یا ن عظا م بکثر ت حا ضر ہو تے رہے انہی میں حضرت علا مہ مفتی عبد القیو م صا حب رضو ی بھی تھے میر پو ر سے کئی علما ئ حلقہ ئِ ارا د ت میںدا خل ہوئے حا فظ محمد بشیر سا گر ی والے، حا فظ محمد فا ضل نو شاہی اور دیگر حفا ظ اکثر حا ضر ی میں رہے ۔ +پاکستان سے واپس آتے ہوئے حضرت صا حب فیصل مسجد بھی تشر یف لے گئے ۔ در با ر کی تعمیر کا کام تیز ی سے جا ری تھا ادھر سے مطمئن ہو کر واپسی کا سفر اختیا ر کیا ۔ یہ تو ایک لحاظ سے آپ کا معمو ل کا سا لا نہ سفر تھا اس سے پیشتر 24 جون 1991 �÷ کو بھی پاکستان کا ہنگا می سفر اختیا ر کرنا پڑ ا۔ +آپ کے برا در ِ بز ر گ حضرت سید عالم شا ہ نو شاہی کی شد ید بیما ری کی اطلا ع پاکر آپ پاکستان آئے اور کشا ں کشا ں بھائی صا حب کے پاس پہنچے زیا ر ت سے شا د کا م ہوئے اس وقت پیر سید عالم شا ہ کی حالت کچھ سنبھلی ہو ئی دکھائی دی فر مایا ’’ اللہ کے فضل و کر م سے اب تو آپ کو صحتمند دیکھتا ہو ں ‘‘ بھا ئی صاحب مسکر ائے اور بولے وہ تمہا رے اردو والے شا عر نے کیا کہا تھا �ò +ان کے دیکھنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق +وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کاحال اچھا ہے +کچھ رو ز دو نو ں بھا ئیوں میں را ز نیا ز کی با تیں ہوتی رہیں بیما ری شد ت اختیا ر کر تی گئی نقا ہت غا لب آتی گئی مگر اس حا ل میں بھی انہوں نے نماز اور اپنے اور ادو و ظا ئف کا سلسلہ نہ چھو ڑا جب ہو ش میں آتے کلمہ ئِ شہا دت اور درو د شر یف پڑ ھنے لگتے جس روز وفا ت ہوئی طبعیت خا صی سنبھلی ہوئی نظر آتی تھی حضرت پیر معر وف شا ہ صا حب کو پاس بیٹھ جا نے کا اشا رہ کیاوہ سر کے قر یب آنکھوں کے سامنے آکر بیٹھ گئے کمز ور اوردوبتی ہو ئی آواز میںکہا ’’ مسا فر اپنے وطن کو واپس جا رہا ہے میں خو ش قسمت ہو ں کہ میرے سا رے پیا رے میر ے پاس ہیں جو نہیں وہ ابھی ابھی نیند میں مجھے مل کر گئے ہیں کچھ بلا نے آئے تھے ‘‘ پیر معرو ف شا ہ صا حب نے کہا ’’ بھائی ما یو سی کی با تیں نہ کیجئے ‘‘فر ما یا ’’ ما یو سی ��یسی ؟ یہ تو حقیقت کا اظہا ر ہے ‘‘ پھر کلمہ ئِ شہا دت پڑ ھا درو د شریف پڑ ھنے لگے ہو نٹو ں پر مسکر اہٹ بکھر گئی اور دائیں ہا تھ سے اشا رہ کیا جیسے کسی کو پاس بلا رہے ہوں ‘‘ پیر صا حب کہتے ہیں میری چھٹی حس نے کہا بھائی صا حب فر شتہ ئِ اجل کو بلا رہے ہیں اور خو ش ہو رہے ہیں یہی کیفیت تو مو لا نا رومی پر طا ر ی ہو ئی تھی جب فر شتہ ئِ اجل کو دیکھ کر کیا تھا۔ +پیکِ بابِ حضرت سِلطانِ من +﴿اے میرے با د شا ہ کی طر ف سے آنے والے پیا رے آجا ، قریب تر آجا اور مجھے اپنے با د شا ہ کے پا س لے چل ﴾ +بھا ئی صا حب نے جا ن جا ںآفر یں کے سپر د کر دی آخر ی لمحہ آیا اور جھپا کے سے گز ر گیا مسا فر چلا گیا اس کے ہو نٹو ں پر تبسم بکھر ا تھا جیسے در و د شریف کا ایک ایک لفظ تبسم کی کر نو ں میں منجمد ہو کر لبو ں پر ٹھہر گیا مجھے اقبال کا شعر بیسا ختہ یا د آگیا ہے �ò +جنا زہ میں پورا علاقہ اور اسکے قرب و جوا ر کے لو گ شر یک ہو ئے جہا ں جہا ں خبر پہنچی لو گو ں نے پہنچنے کی کوشش کی با مو ر مذہبی و سیا سی شخصیا ت اور عوام النا س نے جنا ز ہ میں شمو لیت کی بہت بڑا جنا زہ تھا۔ پھر پاکستان کے طو ل و عر ض سے لو گ تعز یت کے لیے آنے لگے صا حبز ادہ پیر عتیق الرحمن آف ڈھا لگر ی شریف ، علامہ محمد بشیر مصطفو ی آف میر پو ر ، چو دھر ی محمد شر یف اور لا ہو ر اور اسلام آبا د اور کئی اضلا ع سے عقید تمند وں کے ہجو م آتے رہے فا تحہ خوا نی ہو تی رہی جو دور درا ز تھے اور نہیں آسکتے تھے انہوں نے خطو ط کے ذر یعے تعز یت کی ۔ اس طر ح کا فی دن حضرت صاحب اسی جگہ مقیم رہے قرآن پاک کے کئی ختم ہوئے درو د شر یف بکثر ت پڑ ھا گیا اور ایصا ل ثِو ا ب ہو تا رہا ۔ +آنے والو ں میں ایسے لوگ بھی آئے جنہو ں نے پہلے بیعت کا شر ف حا صل نہیں کیا تھا انہو ں نے بیعت کا اس طر ح سلسلہ میں کئی نئے لو گ داخل ہو ئے ۔ +17 فر و ری 2001 �÷ سے 25 ما ر چ 2001 �÷ تک بھی پاکستان میں رہنے کا اتفا ق ہوا ۔ پر و یز اقبا ل ڈ و یا ل حاجی محمد اقبال جہلمی اور انکی اہلیہ اور شمشیر جنگ اس سفر میں آپ کے ہمر اہ تھے یہ سب سلسلہ عالیہ نو شاہیہ سے وا بستہ حضر ا ت تھے ۔ +25 فر و ری کو جا مع نو شاہیہ کے سلسلہ میں علما ئے کر ام کا مشا ور تی اجلا س طلب کیا گیا اس اجلا س میں 20 سے زاہد علما ئ نے شر کت کی مفتی محمد یو نس چک سوا ر ی شر یف ، مو لا نا منیر احمد نو شاہی ، مو لا نا انوا ر الا سلام ، مو لا نا خا دم حسین نو شا ہی ، سید محمد شا ہ نو شاہی حا فظ محمد اسلم آف دھتیا لہ ، مو لا نا عبد اللطیف قا در ی اور دیگر علما ئ نے شمو لیت کی کئی امو ر زیر بحث آئے ، جا مع کی نگرا نی کو ن کر یگا یعنی ایڈمنسٹر یشن کسی کے ہا تھ میں ہو گی ۔ ابتدا ئی طا لب علمو ں کی تعلیم و تد ریس میں پڑ ھنے کے سا تھ لکھنا سکھا نے کی طر ف خصو صی تو جہ دینے کے لیے پر صا حب نے خا ص طو ر پر متو جہ کیا آپ نے فر ما یا علما ئے اہل سنت کی ایک کمز ور ی یہ رہ گئی ہے کہ انہو ں نے علم و فضل تو حا صل کر لیا تقر یر میںبھی مہا ر ت رکھتے تھے لیکن تحریر کی طر ف بہت کم تو جہ دی گئی حا لا نکہ تقر یر ہنگا می اور وقت چیز ہے اور تحر یر ہمیشہ رہ جا نے والی چیز ہے اس میدا ن پر دیو بند یو ں اور جما عت مِو دو دی نے قبضہ کر لیا جس مو ضو ع پر دیکھو یہی لو گ چھا ئے ہوئے ہیں ۔ +طالب علم انہی کی کتا بیں پڑ ھتے ہیں اور انہی کو عینِ اسلام سمجھ لیتے ہیں جا مع نو شاہیہ کو یہ چیز خا ص طو ر پر مد ِ نظر رکھنی چاہییکہ اسے صر ف مقرر ہی نہیں ادیب و انشائ پر واز بھی پیدا کر نے ہیں جو آگے جا کر ، صحا فت اور نثر نگا ری میں مہا رت رکھنے کی وجہ سے ذر ائع ابلا غ سنبھا ل سکیں۔ آپ نے یہ بھی وضا حت کی کہ جن علوم کو زما نہ مر دہ قر ار دے چکا مثلا ً یو نا نی منطق وغیر ہ انہیں نئے نصا ب سے خا رج کر دینا چا ہیے اور جد ید علوم کی طرف بھر پو ر تو جہ دینی چا ہیے آج زند گی اور اس کے مسا ئل بہت پیچید ہ ہو گئے ہیں ان مسا ئل کے حل ’’ ایسا غو جی اور ملا حسن ‘‘ جیسی یو نانی منطق کی کتا بو ں میں نہیں جد ید علوم میں ہے معا شر ت ، تمد ن عمر انیا ت معا شیا ت ، جد ید فلسفہ ، سا ئنسی علوم کی تما م شا خیں غر ضیکہ کیا کہا کچھ علوم پید اہو چکے ہیں پس جا معہ نو شاہیہ کے لیے وہ نصا ب ہو جوا ن علوم ر حا وی ہو اور چو نکہ یہ سا رے علوم انگر یز ی زبا ن میں ہیں اس لیے انگر یز ی زبان پر خصو صی طو ر پر عبو ر حا صل کر نا چا ہیے حضور �ö کا یہ قو ل بہت بڑی را ہِ عم متعین کر نا ہے کہ ’’ حکمت اور دانا ئی مو من کی گم شدہ چیز ہے پس وہ جہاں بھی ملے اسے چا ہیے کہ وہ ایسے اپنا لے ‘‘ +اس مجلس مشا ور ت میں علما ئ کے سا تھ جد ید علوم کے ما ہر ین بھی شامل تھے ۔ چنا نچہ را جہ طا ہر محمو د خا ن ایڈ و وکیٹ جہلم حا فظ نیاز احمد اے سی ضلع جھنگ اور حا فظ ابو سفیا ن بھی شر یک ہوئے ۔ +اکوڑ ہ خٹک اور پشا ور سے کتابیں خر ید ی گئی تھیں مگر حضر ت پیر صا حب مطمئن نہیں تھے اور تشنگی محسو س کر رہے تھے چنانچہ مختلف کتب خانو ں کی مطلبو عہ فہر ستیں دیکھیں کتابیں نشا ن زد کیں چو دھر ی نثا ر احمد نو شاہی ، قا ر ی منو ر حسین نو شا ہی ، مو لا نا امیر بخش سیا لو ی ، مو لا نا منیر احمد نو شاہی اور چند دیگر سا تھیو ں کو لا ہو ر بھیجا کہ وہ نشا ن زدہ کتا بیں اوراپنی صو ابد ید کے مطا بق ،اور کتا بیں جو مناسب سمجھیں خر ید لا ئیں اس طر ح پو نے دو لا کھ رو پے کی مز ید کتابیں خر ید کر لائیں گئیں۔ +یہاں ہم پاکستان کے سفر کا با ب ختم کر تے ہیں ۔ یہ با ب ڈا ئر یو ں سے تر تیب دیا گیا ہے اور کہیں کہیں جو تفاصل دی گئی ہیں وہ پیر صاحب سے زبا نی طو ر پر حا صل ہو ئیں۔ +یو ر پ میں تبلیغ سفر فر انس +﴿فر انس اور اسلام ،تا ریخی پس منظر ﴾ +فر انسیسی ما ہر تمد ن و عمر انیا ت ڈا کٹر گستا ولی بان کا خیال ہے کہ عر ب ممالک کو فتح کر تے تو دیکھتے ہیں انکی آب و ہوا اور جغر ا فیا ئی ما حو ل کیسا ہے پھر وہ فیصلہ کر تے کہ یہ ملک انکے رہنے کے قا بل ہے یا نہیں اگر وہ اسے مسلما نو ں کی رہا ئش کے قا بل سمجھتے تو وہاں اپنا مستقل تسلط قا ئم کر تے اور وہاں کے تمد ن پر اپنے اثر ا ت چھو ڑ تے ۔ وہ لکھتے ہیں ۔ +’’ اندلس کو فتح کر نے کے بعد عر بو ں نے فر انس پر کئی حملے کئے لیکن یہ معلوم نہیں ہو تا کہ انہو ں نے کبھی اس ملک میں اقامت کا قصد کیا ہو ۔ ظا ہر اً اس ملک کی سر د اور نم آلو د آب و ہوا انہیں اقا مت سے ما نع ہو ئی عرب یو ر پ کے جنو بی حصو ں میں ہی نشو و نما پاسکتے تھے کیو نکہ ان کی آب و ہوا معتد ل تھی فر انس کے جن حصو ں میں وہ زیا دہ عر صہ رہے وہ وہی تھی جنکی آب و ہوا گر م تھی ‘‘ ﴿تمد ن عرب صفحہ 285﴾ +اب ہم تا ریخی پس منظر ڈاکٹر گستا ولی بان کی تفاصیل سے اخذ کر تے ہیں اور وہ اس لیے ایک تو وہ فر انسیسی ہیں دو سرے ان میں اتنا تعصب نہیںجتنا دیگر ا بتدا ئی مستشر قین میں ہے۔ +آٹھو یں صد ی عیسوی میںجب عر بوں نے فر انس پر حملہ کیا تو فر انس پر ان با د شا ہو ں کی حکومت تھی جنہیں مؤ ر خین +متعصب مؤ ر خین نے چا رلس ما ئل کو بطو ر ہیر و پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس نے مسلما نو ں کا راستہ نہ رو کا ہو تا تو عرب فرا نس لے لیے اور تہذ یب و تمد�� کو تبا ہ و بر با د کر دیتے بلکہ پو را یو ر پ تہس نہس ہو جا ت اور تہذیب کی شمعیں گل ہو جا تیں۔ ایک نظر ان لو گو ں کا انداز، بیان بھی دیکھ لیجئے ۔ ہنر ی ما ر ٹن جو اپنے آپ کو سچ کا بڑا نما ئند ہ سمجھتا ہے ۔ ا س طر ح تعصب کا زہر اگلتا ہے۔ +’’ چا رلس مائل نے دنیا کی تا ریخ کا فیصلہ کر دیا اگر فر نسیسی شکست کھا جاتے تو سا ری دنیا مسلما نو ں کے ہا تھ آجا تی اس طر ح یو رپ اور تما م دنیا کی تر قی کا ستیا نا س ہو جا تا کیو نکہ وہ جذبہ جو انسا نو ں کو تر قی کا باعث بنتا ہے مسلما نو ں میںبالکل نہیں بلکہ ان کی فطر ت میں ہی نہیں انہیں بس یہی زعم ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئے ہیں مسلمانوں کا خدا جو دنیا کو پیدا کر نے کے بعد اپنی شا ن اور اپنی وحدانیت کے بستر پر لیٹ کر آرا م کر رہا ہے انسا ن کے اند بھی آگے بڑھنے اور تر قی کر نے کی ہمت پیدا نہیں کر تا ‘‘ +اس کا پہلا جو اب تو یہی ہے کہ مسلمان آگے بڑ ھ کر پورا یو ر پ لینا ہی نہیں چا ہتے تھے کیو نکہ وہا ں کی آب و ہوا انہیں پسند نہیں تھی وہ سر د اور مرطوب خطو ں سے نفرت کر تے تھے ۔ اس لیے جہا ں تک معتد ل آب و ہوا تھی وہا ںتک وہ گئے اور انہوں نے ان علا قو ں پر دو سو سال تک اپناقبضہ کسی نہ کسی صو ر ت میں بر قر ار رکھا اہی ہسٹری ما ر ٹن کی یہ با ت مسلما نو ں میں تر قی کر نے کا جذ بہ نہیں اور یو ر پ کو بر با د کر کے وہ دنیا کو مہذب و متمد ن ہو نے سے روک دیتے تویہ اس مؤرخ کی سب سے بڑی اور تعصب آفر یدہ جہا لت ہے مسلما ن جہا ں جہا ں گئے تہذ یب و تمدن کے سو ر ج طلو ع کر تے گئے اندلس اسکی بڑی مثال ہے مسلما نو ں نے اسے کہا ں پہنچا یا اور متعصب عیسا ئیوں نے اسے کس طر ح تباہ و بر با د کیا جس یو ر پ کی تہذیب پر اس نا ز ہے اس یو ر پ کو یہ سا را علم مسلمانو ں کے ما یہ ئِ ناز مفکر ین نے دیا ہے اور ہر مؤر خ اس کو کھلے عام ابد ی صد اقت کے طو ر پر پیش کر تا ہے ۔ چنا نچہ ما ر ٹن کی متذ کر ہ با لا با ت کا جو ا ب دیتے ہوئے ڈا کٹر گستا ئولی با ن کہتے ہیں ۔ +’’شمال فر انس کی آب و ہوا سر دی اور نمی کی وجہ سے عربو ں کو بالکل ناپسند تھی اگر یہ اند لس کی طر ح ہو تی اور عرب اسے زیر نگیں لے آتے تو یہاں وہی کچھ ہو تا جو انہو ں نے اند لس میں کیا تھا عر بو ں ہی کی وجہ سے اندلس کو اس قد ر عظیم الشا ن تمد ن نصیب ہوا اور جب اندلس کے تمد ن کا آفتا ب نصف النہا ر پر تھا اس وقت یو ر پ شدید و حشیا نہ حا لت میں تھا اگر عرب یو ر پ پر اپنا تمکن قا ئم کر لیتے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ یو رپ کی خو ش بختی ہوتی اسلام رحمت کاپیغام تھا اور یہ پھیل جا تا تو اقوام مغر ب اخلا ق میں نر قی پیدا ہوتی وہ انسا نیت سیکھ جا تیں اور یو ر پ اس قتل عام سے بچ جا تا جو سینٹ بر تھا لیمو نے بر پا کیا وہ خوفنا ک مذہبی عدا لتوں کو علم دشمنی سے بچ جا تا کوئی گلیلیو اذتیوں سے دو چا ر نہ ہوتا کسی بر ینو کو نہ جلا یا جا تا اور یو ر پ میں خو ن کے وہ دریا نہ بہا ئے جا تے جنہوں نے یو ر پ کی زمیں کو لہو لہا ن کئے رکھا ‘‘ +مسٹر لی بر ی LE BIRE لکھتے ہیں +’’ اگر عربو ں کا نام تا ریخ سے نکا ل دیا جا ئے تو یو ر پ کی علمی نشا ۃِ ثا نیہ کئی صدیو ں تک پیچھے ہٹ جا تی ‘‘ ﴿تمد ن عرب ص 514 ﴾ +بہر حا ل جنو بی فر انس میں مسلما ن قا بض رہے لیکن یہاں انہیں چین سے بیٹھنا کبھی نصیب نہ ہوا کہیں نہ کہیں سے وحشی ان پر حملہ آور ہو جا تے اور انہیں ہر وقت ان حملو ں سے بچا ئو کی تد بیر و ں منہمک رہنا پڑ تا ۔ +اس لیے انہوں نے یہاں اپنے تمدن کے وہ تا بند ہ نقو ش نہ چھو ڑے جو دو سرے مقا ما ت پر وہ چھو �� گئے اور جنہو ں نے تا ریخ کو ایک نئے اور روشن را ستے پر ڈا ل دیا۔ اس کے با جو د عر بو ں نے فرا نس میں اپنے کچھ نشا نا ت ضر و ر چھو ڑے ہیں۔ +ایک اثر تو زبان پر ہے ڈاکٹرلی با ن لکھتے ہیں +’’فر انس میں بھی عربی زبا ن نے بڑ ا اثر چھو ڑ ا ہے مو سو سعر یِ لو بالکل صحیح لکھتے ہیں اوورن اور لمو ژ ین کی زبان عربی الفا ظ سے معمو ر ہے اور ان کے نا مو ں کی صو رت بھی با لکل عربی ہے ‘‘ یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے یہ امر نہا یت قر ین قیا س ہے کہ بحر ی انتظام اور جہا ز را نی کے متعلق اکثر الفا ظ عر بی ہیں جو فرا نسیسی اور اطالو ی زبا نو ں میں مستعمل ہیں آلہ قطب نما غلطی سے چینیوں کی طر ف منسوب کر دیا گیا ہے یہ بھی عر بوں ہی کے تو سط سے یہاں آیا ہے ۔ یہ امر بھی قرین قیا س ہے کہ جس وقت با قا عدہ اور مستقل فو جیں قا ئم ہوئیں تو افسرو ں کے عہد ہ وا ر نا م اور لڑ ائی میں نعرے تک عر بو ں سے ہی لپٹے گئے اور انتظا م مملکت کے متعلق اصطلا حا ت بھی بغدا د اور قر طبہ سے اخذ کی گئیں ۔ فر انس کے طبقہ ئِ ثا لث کے سلا طین پو ری طر ح عر بو ں کے مقلد تھے اور اسی وجہ سے شکا ر کے متعلق اکثر الفا ظ عر بی الا صل ہیں ٹو ر نا منٹ کا لفظ مد طین نہیں عر بی ’’دوران‘‘ کی ہی دو سری شکل ہے یہ ایک قسم کی فو جی و رز ش تھی جس میں فو ج ایک دا ئرہ کی شکل میں گھو متی تھی۔ ہما ری زیا دہ تر علمی اصطلا حا ت عربی میں ہیں ہما را علم ہئیت ان عربی اصطلا حا ت سے معمو ر ہے ادویہ کے نام بھی عربی سے ماخو ذ ہیں‘‘ ﴿تمد نِ عرب صفحہ 404﴾ +ہم تفصیل میں نہیں جا سکتے نہیں تو ایسے الفاظ جمع کر نے کی کو شش کر تے جو عربی سے یو ر پ کی زبانو ں میں آئے ہم صر ف ڈا کٹر لی بان کی یہ با ت نقل کر دیتے ہیں ۔ +’’فی الو اقع وہ الفا ظ جو عر بی سے یو رپ کی زبا نو ں میں آئے ان سے عربو ں کے تمد ن تسلط کا پورا ثبوت ملتا ہے اگر یہ کل الفا ظ مع انکی پو ری تشر یح کے ایک جگہ جمع کئے جا ئیں تو ایک معقول مجلد تیا ر ہو جا ئے ‘‘ ﴿تمد ن عرب صفحہ 658﴾ +ڈاکٹرلی با ن نے مغر ب میں احیا ئے علوم اور اشا عت علوم کے سلسلہ میںعربو ں کے پر بحث کر تے ہو ئے لکھا ہے ۔ +’’ پند رھو یں صد ی تک کسی ایسے مصنف کا حو الہ نہیں دیا جا تا تھا جس نے عر بو ں سے نقل نہ کیا ہو راجر بیکن ، پیسا کا لیو نا ڈ ، ایما نڈل ، سینٹ ٹا مس ، ربرٹ اعظم ، یہ سب یا تو عر بو ں کے شا گر د تھے یا ان کی تصنیفا ت قتل کر نے والے موسیو ر ینا ں لکھتا ہے البر ٹ اعظم نے جو کچھ پایا ابن سینا سے پایا اور سینٹ ٹامس کو سا را فلسفہ ابن رشد سے ملا ‘‘ ﴿تمدن عرب صفحہ 515﴾ +اس کے علا وہ فر انس کے بعض حصو ں میں معلوم ہو تا ہے کہ ان فر نسیسیو ں کے خو ن میں بھی عر بو ں کے اثرا ت موجو دہیں یہ معلو م ہو تا ہے جہا ں جہا ں مسلما ن فو جیں موجو د تھیں ان علا قو ں کے قر ب و جوا ر میں کچھ مسلما ن آبا د ہوگئے تھے انہو ں نے وہا ں زرا عت یا حر فت شر و ع کر دی تھی ۔ کا شتکا ر ی اور زرا عت کے چند مخصو ص اصو ل جو وہ اند لس سے اپنے سا تھ لائے تھے انہی کے تحت زرا عت شر و ع کر دی تھی اسی طر ح حر فت میںقا لین با فی بھی عربوں کے پا س تھی اب رو بو سان میں وہ صنعت اسی انداز پر مو جو د ہے معلو م ہو تا ہے یہ مسلما ن جو زرا عت پیشہ یا مزدوری پیشہ تھے یہا ںکے اصل با شند و ں کیسا تھ مل جل گئے آہستہ آہستہ وہ اپنے مذہب سے اسو وقت دو ر ہو نے لگے جب مسلما نوں کی فوجیں یہاں سے نکل گئیں یہ عام بے علم لو گ ہو نگے یہ آخر دو سرے مذہب کی اکثر یت میں ڈو ب گئے لیکن ان کی نسل با قی رہ گئی ڈا کٹر لی بان لکھتا ہے ۔ +’’ اتنی صد یو ں کے بعد بھی فر انس کے بعض حصو ںمیں عر بو ں کی نسل کا پتہ لگتا ہے کر و ز کے صو بہ میں ہو ت آلپ میں اور بالخصو ص ان مقا ما ت میں جو مو نٹ مو ر ﴿یعنی جبل المسلمین﴾ کے ارد گر د ہیں نیز بین کے صو بہ میں اور لا ند و ر وزیان ، ولا نگے ڈا ک اور بیر ن کے قصبو ں میں عر بو ں کی تعداد بآسا نی پہچانی جا تی ہے ۔ ان کا گند می رنگ ، سیاہ آبنو سی با ل، خمدا ر ٹا ک ، بیٹھی ہو ئی چمکدار آنکھیں با قی آبا دی کے لو گو ں سے با لکل الگ ہیں انکی عو ر تو ں کا رنگ سا نو لا ، قدد لمبا ، بڑی بڑی سیا ہ آنکھیں بھر ے ہوئے ابر و وغیر ہ ان کا عربی انسل ہو نا ثا بت کر تی ہیں ۔ علم الا نسان کے قو ا عد کے مطا بق ان خصو صیا ت کا بر قر ا ر رہنا اور دیگر با شند و ں کے سا تھ مل کر تلف نہ ہو جا نا ثا بت کر تا ہے کہ ان مقامات میں جہا ں یہ لو گ پا ئے جا تے ہیں عربو ں نے بطو ر خو د چھو ٹے چھوٹے قا ئم کر رکھے تھے اور دو سرے با شند و ں کے سا تھ ازدوا ج و امتز اج کو جا ری نہیں رکھا تھا ‘‘ ﴿تمد ن عرب صفحہ 290 ﴾ +بلا شبہ وہ لو گ اپنے مذہب سے دور رہو گئے لیکن انہو ں نے اپنی نسل کو با قی رکھا ۔ تمد ن و عمر انیا ت کے اور علم الا نسا ن کے ابتدا ئی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ اکثر ایسے لو گ ہیں جو مذہب چھو ڑ بیٹھے ہیں لیکن اپنی نسل کو با قی رکھنے میں خا صے محتا ط رہے ۔ ہند و ستان میں ذا ت پا ت کی یہ تمیز بنیا دی حیثیت رکھتی تھی ہندو ئو ں میں ابتدا ئ سے ہی یہ چیز آگئی تھی ان میں سے کئی خا ندا ن مسلما ن ہو گئے مگر اسلام کی تعلیم مسا وا ت کے با وجود انہو ں نے ذا ت پا ت کی وہی تمیز با قی رکھی ۔ اور یہا ں بعض ذا تیں اصل میں جیسے را جپو ت وغیر ہ با قی رہ گئیں بعض کے نام تبد یل ہو گئے مگر شادی بیا ہ کے معا ملہ میں وہ دو سری ذا ت سے امتز اج نہ کر سکے پٹھا ن، را جپو ت ، سید وغیر ہ آج بھی اپنی ذا ت سے با ہر شا دی نہیں کر تے بیٹیاں دینے کا تو با لکل رو اج نہیں اگر کوئی مر د بھی دو سری ذا ت میں شا دی کر بیٹھتا ہے تو اس عو ر ت اور اسکی اولا د کوو مر د کے خا ندا ن سے نفر ت کے سو ا کچھ نہیں ملتا ۔ +فر انس کا عہد جد ید اور مسلما ن +جو نا تھن فر انس سنٹر فا ر پو ر و پین سٹڈ یز ہا ر و رڈ کی رپو رٹ کے مطا بق 2001 �÷ کے اختتام تک فر انس میں مسلما نو ں کی مجمو عی تعدا د اکیا لیس لاکھ پچپن ہز ا ر تھی ۔ دو سری جنگ عظیم کے بعد فرا نس کی تبا ہ شدہ حا لت کا تقا ضا تھا کہ نیا فر انس تعمیر کر نے کے لیے محنت کر نے والے لو گ زیا دہ سے زیا دہ تعد اد میں ہو ں چنا نچہ ادھر ادھر سے بہت سے لو گ تلاش رزق میں فر انس پہنچے ان میں زیادہ تر الجیر یا کے تھے ، متذ کرہ رپو ر ٹ میں مسلما ن آبا دی کی تفا صیل یو ں ہیں۔ +الجیر یا 1550000 ﴿پند رہ لا کھ پچا س ہزا ر ﴾ +ٹیو نس 350000 ﴿تین لا کھ پچا س ہزار ﴾ +بلیک افر یقہ 250000 ﴿دو لاکھ پچا س ہز ا ر ﴾ +تر کی 315000 ﴿تین لاکھ پند رہ ہزار﴾ +نو مسلم 40000 ﴿چالیس ہزا ر ﴾ +ایشیا 100000 ﴿ ایک لاکھ ﴾ +دیگر 10000 ﴿ایک لا کھ ﴾ +اسی رپو رٹ کے مطا بق فر انس میں 1558 ایسے مقا ما ت ہیںجہا ں نماز اجتما عی طو رپر پڑ ھی جا تی ہے اور جنہیں مسجد کے طور پر استعما ل کیا جا تا ہے لیکن ان میں سے اکثر میں بمشکل 150 آدمی سما سکتے ہیں ہیں 20 جگہیں ایسی ہیں جن میں سے ہر ایک میں ایک ہزا ر افرا د کی گنجا ئش ہو سکتی ہے صر ف پانچ جگہیں ایسی ہیں جنہیں مسا جد کے طو ر پر تعمیر کیا گیا اسکے مقا بلہ میں چا لیس ہز ار کیتھو لک چر چ ہیں 957 پر و ٹسنٹ کے معا بد اور 82 یہو دیو ں کے معابد ہیں یہا ں ایشیائی مسلما نو ں کی تعداد ایک لاکھ بتا ئی گئی ہے الگ الگ مما لک کے مسلما نو ں کی تعداد نہیں بتائی گئی خاص طور پر مسا جد کے طور پر تعمیر کی جا نے والی عما ر ات صر ف پا نچ ہیں۔ +جنا ب پیر معروف شا ہ صا حب کے تبلیغی سفر +حضر ت پیر معر و ف صا حب اکثر تبلیغی سفر میں رہتے ہیں فرا نس میں بھی وہ اس سلسلہ میں با ر با ر جا تے ہیں اور انہو ں نے وہا ں اپنا ایک حلقہ ئِ اثر پیدا کر رکھا ہے ہم صر ف ایسے ہی سفر احا طہئِ تحر یر یں لا سکتے ہیں جن کا ذ کر انکی ڈا ئر یو ںمیں ملتا ہے ۔ +پیر صا حب کا فر انس میںپہلا تبلیغی دو رہ 26 دسمبر 1982 �÷ کو شر و ع ہوا سب پہلے فر انس کے شہر پہنچے یہاں کے احباب کا بڑ ا مسئلہ ایک مسجد کا قیا م احبا ب نے گیا رہ ہزا ر پو نڈ جمع کر رکھے تھے اور انداز ہ تھا کہ انہیں مز ید سا ت ہز ار پو نڈ در کا ر ہونگے حضرت پیر صا حب نے ایک مختصر خطا ب کے بعد احبا ب سے مسجد کے سلسلہ میں فنڈ کی اپیل کی خدا کے فضل سے 5 ہز ار پو نڈ جمع ہو گئے ۔ +وہا ں سے آپ پیر س گئے با رو ں اور کیفوں ﴿BARS AND CAFS﴾سے بھر ے ہوئے پیر س کے ارد گر د الجیر ین مسلمانو ں کی کا فی آبا دی ہے ۔ پیر س شہر میں تر کو ں کی مسجد میں ور لڈ اسلامک مشن کی مقا می برا نچ نے ایک جلسہ کا اہتما م کیا ہوا تھا پیر صاحب نے وہا ں سیر ت ِ نبو ی اور تعمیر اخلا ق و کر دا ر کے مو ضو ع پر ایک بسیط اور جا مع تقر یر کی ۔ تقریر بڑے خو بصو ر ت انداز میں شر وع ہوئی اور دلر با طر یقہ سے اختتا م پذ یر ہو ئی ۔ آپ نے قرآن حکیم کی آیہ مبا رکہ ’’قَدْ کَاَ نَ لَکُمْ فِیْ رَسُو ل اللّٰہِ اُسْو ۃ’‘ حَسَنہ‘‘ سے آغا ز کیا اور فر ما یا ہر انسا ن ایک خا ص طر ح کی معا شر تی زند گی بسر کر تا ہے کوئی چر و ہا ہے ، کو ئی مز دو ر ، کوئی تا جر ہے کوئی مذہبی پیشوا ، کوئی جج ہے کوئی سپہ سا لا ر پھر زند گی کے مختلف حصے ہیں ، بچپن ہے جوا نی ہے ، بڑ ھاپا ہے، غر ضیکہ طر ح طر ح کی زند گیا ں ہیں اور طر ح طر ح کے تقا ضے ، ہم ارسطو اور افلا طون کی زندگی دیکھتے ہیں ان میں حصو ل عِلم و حکمت کی والہا نہ مگن پائی جا تی ہے طا لبا ن ، علم و دانش کے لیے یہ زند گی کسی حد تک نمو نہ بن سکتی ہے مگر ایک حا کم و فرا ما نروا اس زندگی سے کیا حاصل کر یگا ، ایک سیا ہ سالا ر کو کیا سبق ملیگا وہ اگر منطق کے صغرٰی کبرٰ ی قا ئم کر نے بیٹھ جا ئے جو ہر دور عر ض کی فلا سفی چھا نٹنے لگے تو جو لڑا ئی اسے در پیش ہے اس کا کیا ہو گا ۔ ایک چر وا ہا بکر یا ں چر ار ہا ہے ۔ منطق اسے کیا سہا را دے گی ۔ ایک جج اور ایک تا جر اس زند گی سے کیا سبق حا صل کریگا ۔ آپ دنیا کے جس شخص کو بھی دیکھیں ممکن ہے وہ اچھی زندگی گز ار رہا ہو با اصو ل زندگی گزار رہا ہوو مگر وہ ایک جہت رکھنے والی زند گی ہو گی وہ اس آدمی کے لیے تو ممکن ہے کسی حد تک مفید ہو جو اسی جہت کی زند گی رکھتا ہے مگر دو سر وں کے لیے اس زند گی میں کوئی سبق اور کوئی نمو نہ یا ماڈل نہیں ہو گا۔ پور ی دنیا از ازل تا ابد صر ف رحمتِ عالم �ö کی زند گی ہی ایسی ہے جس میں ہر دو ر کے ہر انسان کے لیے رہنما ئی ہے کوئی تا جر ہے تو مکہ کے اس تاجر کو دیکھے جو کسی کپڑ ے کے تھا ن کا نقص بتا نا بھول جا تا ہے اور جب اسے یا دآتا ہے تو خر یدا ر کے پیچھے گھو ڑ ا دو ڑا کر جا تا ہے اور اسے اصل صو ر ت حا ل سے آگا ہ کر تا ہے کوئی ملا زم ہے تو اس ملا زمت کر نے والے کو دیکھے جو حضرت خدیجہ کے لیے تجا ر ت کر نے شا م کا سفر اختیا ر کر تا ہے اور اس ملا زمت میں اتنی دیا نتدا رانہ جا نفشا نی دکھا تا ہے کہ مالکہ اس سے بے پنا ہ متا ثر ہو کر اپنا سب کچھ اسکے حو ��لے کر دیتی ہے کوئی بھو کا ہے تو فقرو غنا کے اس پیکر کو دیکھے جس نے پیٹ پر پتھر با ندھ رکھے ہیں کوئی فیا ض و سخی ہے تو بتائے �ò +زمانہ نے زمانہ میں سخی ایسا کہیں دیکھا +لبو ںپر جس کے سا ئل نے نہیں آتے نہیں دیکھا +کوئی حاکم اور با دشا ہ ہے تو اس با د شا ہو ں کے با د شا ہ کو دیکھے کہ دنیا بھر سے دو لت آکر اسے قد مو ں میں ڈھیر ہو تی ہے اور وہ سب با نٹ دیتا ہے اور اٹھتا ہے تو دامن جھا ڑ کر کہتا ہے اے خدا دیکھ لے کہ تیر ا فر ستا دہ گھر میں دنیا کی دو لت کا ایک درہم بھی نہیں لے جا رہا ہے غر ضیکہ کوئی سا لا ر و حا کم ہو یا تا جر و مز دو ر اس ذا تِ اقد س و اعظم کی سیر ت سے نو ر ہد ایت اخذ کرکے اپنی حیا ت ِ دنیو ی و اخر وی کے را ستے روشن کر سکتا ہے یہی وہ زند گی ہے جو ہر شخص کو رہنما ئی فرا ہم کر سکتی ہے اسی لیے تو کہا گیا کہ قد کا ن لکم فی رسو ل اللہ اسو ۃ حسنۃ یہی وہ زند گی ہے جس کی کتا ب کا ایک ایک صفحہ صبح کے گر یبا ن کی طر ح کھلا ہوا اور روشن ہے جس میں کوئی با ت راز نہیں اور اسی زند گی کو گواہ ٹھہرا کر کہنے والا کہ رہا ہے ۔ +’’قد لْبِثْتُ فِیْکُمْ عُمراً افلا تَعْقِلُوْ نْ‘‘ +﴿میں نے تم میں عمر بسر کی کیا تم سو چتے نہیں ﴾ +یہاں بھی مسجد کے بنا نے کیلئے تحر یک چلا رکھی تھی تقر یر کے آخر میں اسے تیز کر نے کی اپیل کی ۔ +27 دسمبر 1985 �÷ کو پھر فرانس تشر یف لے گئے۔ گیا رھو یں شر یف کی ایک تقریب میںشر کت کی اور گیا ر ھو یں شر یف کی بر کا ت اور غو ث الا عظم کی زندگی پر رو شنی ڈا لی۔ اور فر مایا تذ کرِ اولیا ئ اللہ بھی تز کر ِ بآ لا اللہ ہے کہ ان لو گو ں کی با بر کت زند گیا ںہما رے لیے با عثِ بر کت و نعمت ہیں خدا اپنے پیا رو ں کے ذکر سے خو ش ہو تا ہے اور ہمیں انک زند گی سے رہنما ئی ملتی ہے ہمیں پتہ چلتا ہے قرآن کی ہدا یا ت کے مطا بق زندگی بسر کر نے کی با ت کوئی آئید یلز م نہیں بلکہ ایسی زندگی بسرکی جا سکتی ہے کیونکہ ہما رے جیسی احتیا جا ت رکھنے والو ں نے قرآن پر عمل کی زندگی بسر کر کے دکھا دی ۔ اسکے بعد ور لڈ اسلا مک مشن کے تنظیمی امو ر پر گفتگو کی اور مشن کی مقا می بر انچ کی رہنما ئی کی ۔ +29 دسمبر کو میلا د النبی کے ایک جلسہ میں شر کت کی یہاں ڈا کٹر حمید اللہ صد یقی سے ملا قا ت ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ صد یقی ایک محقق ہیں جنہیں خا ص طو ر پر مخطو طا ت پڑ ھنے کی مہا ر ت ہے او ر انہو ں نے عربی مخطو طا ت پر خا صا کا م کیا ہے انہی مخطو طا ت می انہیں ’’ ہما م بن منبہ ‘‘ کی لکھی ہوئی احا دیث ملی تھیں یہ احا دیث نما ز کے متعلق مؤ لف نے جمع کی تھیں چند روا یا ت میں جو با قی کتب احا دیث میں کسی نہ کسی صو رت میں مو جو د ہیں مگر اس مجمو عہ کی خا ص با ت یہ ہے کہ یہ رو ایا ت پہلی صد ی ہجر ی کی ہیں منکر ین حد یث عا م طو ر پر کہتے ہیں کہ حد یث کی کتابیں دو سری صد ی ہجر ی میں کے اختتام پر حضور �ö کے تقر بیا ً دو سو سا ل بعد جمع ہوئیں اس مجمو عہ سے ثا بت ہوا کہ پہلی صد ی ہجر ی میں بھی حد یثیں جمع کر نے کا رو اج تھا ۔ ہما م بن منبہ کی جمع کر دہ روا یا ت کو انہو ںنے اور بھی کتابیں تر تیب دی ہیں جن میں ’’ رسو ل اللہ کی سیا سی زند گی‘‘ بہت معروف ہے ۔ ڈا کٹر حمید اللہ صد یقی کی پاکستان میں زیا دہ تشہیر جما عت اسلامی نے کی تھی اور عام طو ر پر سمجھا جا تا ہے کہ ان کا تعلق جما عت اسلامی سے ہے مگر حضرت پیر معروف شا ہ صاحب نے انکے متعلق جو تفا صیل اپنی ڈا ئر ی می دی ہیں ان سے کچھ اور با ت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ اگر چہ ڈا کٹر صد یقی صاحب اہلحد یث کی طر ح نما ز میں رفع ہدین کر تے ہیں لیکن بڑے وسیع الظر ف انسان ہیں اور محبت رسول میں انکے عقائد اہل سنت ﴿بر یلوی﴾ کے قریب تر ہیں حضرت پیر صا حب رقمطرا ز ہیں۔ +’’ پر و فیسر ڈاکٹر حمید اللہ سے طو یل گفتگو ہوئی انہو ں نے بتایا کہ پرس میں تقریبا ً 15 ہزا ر عربی مخطو طا ت ہیں جلسہ میں سب سے پہلی تقر یر ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی کی تھی ڈاکٹر صا حب نے فر ما یا ۔ +’’ وہا بی بکو اس کر تے ہیں میلا د منانا با لک جا ئز ہے ‘‘ +پیر صا حب لکھتے ہیں۔ ’’ یہ جملہ حر ف بحر ف ڈا کٹر حمد اللہ کا ہے ڈا کٹر حمید اللہ وَ اَماَّ بِنِمْمَۃِ رَبِکَ فَحَدِّ ث ‘‘ کو جو ضو ع بنا یا پھر درود والی آیت مبا رکہ پڑ ھی اِنَ اللَّہَ وَمَلٰئِکَتَہ‘ یُصَلَّوْ ن عَلیَ البِنّٰیِّ یَاَ یُّیا الذین آ مَنُوْا صَلُّوْ ا عَلَیْہِ وَسَلِّمُ ا تَسْلِیِمْا تقریباً تیس منٹ تقر یر کی تو را ت و انجیل کے مجمو عہ با ئبل کی تا ریخی حیثیت بیا ن کر تے کا کوئی ثبو ت نہیں ملتا اور قرآن حکیم کی تاریخی حیثیت کو ایک مسلمہ کی طر ح غیر مسلم بھی ما نتے ہیں اس میں ابتدا ئ سے لے کر آج تک کوئی تبد یلی نہیں آئی اس کے بعد 1986 �÷ کے سفر میں بھی ڈا کٹر حمید اللہ سے حضرت پیر صا حب کی ملا قا ت ہو ئی ڈا ئر ی میں ان کے متعلق کچھ اور با تیں بھی تحر یر فر مائی وہ بھی ہم یہیں نقل کر تے ہیں تا کہ ڈا کٹر حمید اللہ صا حب کے متعلق جملہ معلو ما ت جو پیر صا حب کے علم میں آئیں اکٹھی ہوجا ئیں پیرصا حب تحر یر فر ما تے ہیں ۔ +’’ ڈاکٹر حمیداللہ نے پو ری داڑھی رکھی ہو ئے ہے متو سط قد کے نحیف جسم کے ما لک ہہیں ذرا اونچا سنتے ہیں گفتگو پر و فیسر انہ انداز میں کر تے ہیں ہر با ت دلیل کے سا تھ کر تے ہیں نماز کے دورا ن رفع ہد ین کر تے ہیں لیکن اذا ن واقا مت میں جہاں نبی �ö کا اسم گرا می آتا ہے انگو ٹھے بھی چو متے ہیں انہو ںنے ہما رے سا تھ صلو ۃٰ و سلام بھی پڑھا ‘‘ +آگے ڈا کٹر صا حب سے ملا قا تیں رہیں چو تھی ملا قا ت پر ڈا ئر ی میں یہ الفا ظ تحر یر کئے +’’ پر و فیسر ڈا کٹر حمید اللہ جلسہ گا ہ میں آئے اور پیچھے بیٹھ گئے بعد میں اصر ا ر پر اگے تشر یف لے آئے آپ نے سب کے سا تھ مل کر کھڑے ہو کر ہاتھ با ند ھ کر صلو ٰ ۃ و سلام پڑ ھا ۔ نام ’’ محمد ‘‘ �ö جب بھی آتا تھا انگو ٹھے چو متے تھے۔ ان سے بعد میں تفصیلی گفتگو ہوئی انہو ں نے کہا میں ربیع الا ول کو ’’ ربیع الا نو ر‘‘ کہتا ہو ں میر ے نز دیک میلا د النبی منا نا خدا کو بہت محبوب ہے میلا د کا فا ئد ہ صر ف مو من ہی کو نہیں کافر کو بھی ہو تا ہے انہو ں نے کہا کا ئنات کے لیے �ö کی ذا ت سے بڑ ھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے اللہ اور اسکے فر شتے حضور کا جشن منا تے ہیں اور ہمیں بھی حکم ہے انہو ں نے کہا ’’ کوئی ایسا نبی نہیں گز را جو ہمہ صفت مو صو ف ہو مگر حضور �ö ہمہ صفت مو صو ف کا مل ، مکمل ، اکمل ہیں �ò +آنچ خوبا ں ہمہ دار ند تو تنہا دا ر ی +ڈا کٹر حمید اللہ کے متعلق پیر صا حب کی فر اہم کر دہ معلو ما ت بر ی علم افزا ئ ہیں ‘‘ +اس مو ضو ع کو یہیں ختم کر کے ہم 29 دسمبر 1985 �÷ کے اسی جلسہ ئِ میلا د النبی کی طرف پلٹتے ہیں جس کا زکر ہو رہا تھا ۔ +میلا د النبی کے اس جلسہ میں بڑ ی تعد اد میں تر ک اور مو ر یشسں مسلما ن بھی شا مل ہو ئے پیر صا حب کا مو ضوع تھا ’’ حضور کی ولا دت اور عالمِ انسانی ‘‘ آپ نے 45 منت تک کھل کر اپنے مو ضو ع پر تقر یر کی ابتدا ئ اس شعر سے ہوئی �ò +وہ آیا جس کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی +وہ آیا جس کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی +دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب +تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پر ی +ملو کیت نے صر ف چو لا بد ل لیا ہے لبا س تبدیل کر لیا ہے ملو کیت کا آقا ئے نا مدا ر ابلیس نا بکا ر آج بھی پکا ر پکا ر کر اپنے جیلو ں کو تسلی دے رہا ہے �ò +میں نے خودشاہی کو پہنا یا ہے جمہو ر ی لبا س +جب ذرا آدم ہو اہے خود شنا س و خود نگر +جمہو ریت اسلام نے ہی را ئج کی تھی اور اس کا پا سبا ن رہے گا فر د کی آزا دی اور اسکی را ئے کی اہمیت کا علمبر دا ر صر ف وہی معا شرہ ہے جو پیغا م محمدی �ö پر عمل پیر ا ہو ا یہ مثا لیں صر ف اسلام میں مل سکتی ہیں کہ طویل و عر یض سلطنت کی سند ِ اما رت پر بیٹھنے والا عمر فا روق کھڑ ا ہو کر کہتا ہے ’’ لو گو سنو اور اطا عت کر و‘ اور ایک عام آدمی بھر ے مجمع میں اٹھ کر کہہ دیتا ہے ’’ لا سمع و لا طا عۃ یا عمر ‘‘ اے عمر نہ ہم سنیں گے نہ اطا عت کر یں گے ‘‘ امر ا لمؤ منین سیفٹی ایکٹ کا ڈنڈ ا حر کت میں نہیں لا تا اسکے دا ر و غے اند یشہ ئِ نقص امن کی ہتکڑ یا ں نہیں بجا نے لگتے وہ پریشا ن ہو کر کہتا ہے ، ’’ بھا ئی مجھ سے کہا ں اللہ اور رسول کی اطا عت میں نا فر ما نی ہو ئی کہ تم میری اطا عت سے انکا ر کر رہے ہو ‘‘ وہ شخص کہتا ہے ’’ ما ل غنیمت میں جتنا جتنا کپڑ ا تقسیم ہو ااس میں تیرے جسیے درا ز قد آدمی کا کر تا نہیں بن سکتا تھا اور تونے اسی کپڑے کا کر تا پہن رکھا ہے ‘‘ امیر المؤ منین خا مو ش ہو کر بیٹے کو اشا رہ کر تا ہے بیٹا کھڑ ا ہو کر کہتا ہے ’’ امیرا لمؤ منین کا کر تا بہت پھٹ گیا تھا میں نے اپنے حصہ کا کپڑ ا بھی انہیں دے دیا تب یہ کر تا بنا ‘‘ وہ شخص کھڑا ہو کر کہتا ہے ٹھیک ہے امر المؤ منین وضا حت ہو گئی اب آپ فر ما ئیں ہم آپ کی با ت سنیں گے ابھی اور اطا عت بھی کر ینگے ’’ حضرت پیر صا حب نے بڑ ے خو بصو ر ت اور فصیح و بلیغ الفا ظ میں اسلام کا پیغا م و اضح کیا ۔ یو ں یہ محفل قد س اختتا م پذ یر ہوئی۔ جلسہ کے بعد پیر صاحب نے اپنے معمول کے مطابق پیر س سے کچھ کتا بیں خر ید یں اور ہا لینڈ چلے گئے +اسی سال پھر 23 مئی کو پیر س تشر یف لا ئے ۔ چو دھر ی محمد عا ر ف صا حب نے ایک تقر یب کا اہتما م کیا تھا مقصد تقریب یہ تھا کہ ورلڈ اسلامک مشن کا تعا ر ف کر ایا جا ئے اور مسلما نا نِ اہل سنت کو مشن کے کا م کو پھیلا نے کے لیے متحر یک کیا جا ئے ۔ پیر صا حب نے اپنی تقریر میں بطر یق احسن یہ فر یضہ سر انجا م دیا آپ نے بتا یا کہ پو رے عالم اسلام میں اہل سنت و الجما عت کی تعد اد اکثر یت رکھتی ہے اصل اہل سنت وہ ہیں جو رسول �ö سے دل وجا ن سے محبت کر تے ہیں آپ (ص) کا احترا م کا مل ملحوظ رکھتے ہیں اور آپ کے خلا ف ایک لفظ گوا را نہیں کر سکتے آپ کو جا مع الصفا ت اور مجمع حسن و خو بی سمجھتے ہیں آپ (ص) کے وصا ل کے بعد بھی آپ کے فیض کو جا ر ی و سا ری ما نتے ہیں اسی طرح آپ (ص) کے نقوش پا پر چلنے والے اولیا ئے کر ام سے بھی محبت و عقید ت رکھتے ہیں اور انکا احترا م کر تے ہیں اس چیز کے بھی قا ئل ہیںکہ وفا ت کے بعد بھی یہ لو گ اپنی بر کا ت سے ہمیں نو از تے رہتے ہیں یہ اہل سنت کا مسلک ہے اسی کو بر صغیر میں بر یلو ی مسلک کہتے ہیں تما م دنیا میں مسلمان جہاںبھی ہیں اکثر یت اہل سنت کی ہے افسوس ہے کہ یہ بھی بٹے ہوئے ہیںکہیں مقا می سیا ست نے انہیں تقسیم کر رکھا ہے کہیں کچھ اور چیز و ں نے ورلڈ اسلامک مشن کے قیا م میں ایک مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسو ل �ö صحا بہ کر ام اور اولیا ئے عظام سے محبت کر نے والے یہ تمام متحد ہو جا ئیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ کے کلمہ کو دنیا پر غا لب ہو نا ہے ہم اہل سنت اس سلسلہ میں بھی اپنا کر دا ر ادا کر نا چا ہتے ہیں امر با لمعر و ف اور نہی عن المنکر کا فر یضہ سر انجام دینا چا ہتے ہیں یہ فر یضہ بھی اسی طر ح سر انجام دینا چا ہتے ہیں جیسا کہ اللہ کے محبو ب �ö نے صحا بہ کرا م رضوان الیہ علیھم نے اور اولیا ئے عظام نے سر انجام دیایعنی اِلیٰ سَبِیْل رَبَکَ با لْحِکْمۃِ وَالْمَوْ عِظَۃِالحَسَنَۃِ﴿اللہ کی راہ کی طر ف دا نشمند ی اور شیر یں کلا می سے بلا تے جا ئیے ﴾ ہم اسی طر ح تبلیغ کر نا چا ہتے ہیں ہم فتنہ فسا د پھیلا نے والے لو گ نہیں تبلیغ کے لیے بنیا دی کر دا ر مسا جد سر نجام دیتی ہیں یہ خو د خا مو ش مبلغ ہو تی ہیں میں نے جمعیتہ تبلیغ الاسلام کے ذریعے اسی تحر یک پر زور دیا اور اللہ کے فضل سے لندن میں اس وقت تک ایسی گیا رہ مسا جد قا ئم ہو چکی ہیں ورلڈ اسلامک مشن بھی اسی جمعیتہ الاسلام کی تو سیعی شکل ہے اس پلیٹ فا رم سے ہم وسیع پیما نے پر مسا جد کے قیا م کے لیے کو شش کر سکتے ہیں آئیے ہم زیا دہ سے زیا دہ کوشش کر کے یو ر پ کے کو نے کونے میں اپنے یہ خا موش مبلغ کھڑ ے کر دیں۔ +’’مَنْ یقر ض اللہ قر ضا حسنا ً فیضعفہ اضعا فا کثیرا‘‘ +﴿جو اللہ کو قر ضہ حسنہ دیتا ہے تو اللہ کئی گنا زیا دہ کر کے اسے واپس کر تا ہے﴾ +پیر س کی مسجد میں بھی آپ کی تقر یر کا اہتما م کیا گیا مو ضو ع ’’ رضا ئے خد ا وند ی ‘‘ تھا فر ما یا ہم بند ے اللہ کی رضا چا ہتے ہیں اور اللہ محمد �ö کی رضا چا ہتا ہے وَ لَسَوْ ف َ یُقْطِیْکَ رَبَّک فَتَرْ ضیٰ ﴿بہت جلد اللہ تعالیٰ کی آپ کو اتنا کچھ اور وہ کچھ عطا کر یگا کہ آپ را ضی ہو جا ئینگے ﴾تحو یل قبلہ کی آیا ت میں فر ما یا اے محبو ب ہم دیکھتے رہے کہ آ پ کس طر ح با ر با ر آسما ن کی طر ف امید بھر ی نگا ہیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں اور چا ہتے ہیں کہ آپ کا قبلہ بیت المقد س کی جگہ بیت اللہ ہو +’’فَلَنُوَ یِّسَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْ ضٰھَا‘‘ +﴿پس ہم آپ کو اسی قبلہ کی طر ف پھیر ے دیتے ہیں جس سے آپ را ضی ہیں ﴾ +آئیے ہم بھی اسی محبوب �ö کو را ضی کر لیں کہ ہما را خد اہم سے را ضی ہو جا ئے اس در سے ما نگیں کہ یہاں سے ما نگنے والا خا لی ہا تھ نہیں جا تا اسے منا ئیں کہ یہ من گیا تو خدا من گیا اسکی فر ما نبر دا ر ی اور اطا عت کر یں کہ اسکی فر ما نبردا ری ہی خدا کی فر ما نبر دار ی ہے +’’مَنْ یّٰطعِ الرَّ سُوْ ل فَقَدْ اَطَا عَ اللّٰہ‘‘ +﴿جس نے اللہ کے رسو ل �ö کی اطا عت کی پس اس نے رب کی اطا عت کی ﴾ +اس اجلا س کے بعد تین مر دو ں اور تین عو ر تو ں نے پیر صاحب کی بیعت کی اور حلقہ ئِ ارادتمند اں میں دا خل ہوئے ۔ +پیر س کے احبا ب نے فیصلہ کیا تھا کہ سر تا ج الا ولیا ئ حضرت نو شہ گنج بخش (رح) کا عر س پیر س می منایا جا ئے حضر ت پیر صا حب اسی عر س میں شرکت کے لیے ڈا کٹر محمد حنیف فا طمی کے سا تھ 23 اگست 1986 �÷ ئ کو پیر س پہنچے طا رق جہلمی نو شاہی صا حب پہلے پہنچ گئے تھے کہ احبا ب کو اطلا ع دیں کے حضرت پیر صا حب فلا ں وقت تشر یف لائیں گے تا کہ وہ بر وقت استقبال کے لیے آسکیں۔ بہر حا ل مالک نو شا ہی ، طا ر ق مجا ہد جہلمی اور دیگر افقا ئ نے استقبال کیا عر س مبا ر ک کی تقر یبا ت پیر س کی ایک بڑی مسجد میں تھیں جلسہ کی صدا ر ت پیر صا حب نے فر ما ئی ڈا کٹر محمد حنیف فا طمی نے حضرت نو شہ گنج بخش کی مقد س شخصیت تھی ۔ پیر صا حب نے انکی پر ریا ضت زند گی پر تفصیل سے رو شنی ڈا لی انکی کر اما ت کا ذکر کیا اور بتا یا کہ انکے مز ا ر پر انوا ر سے بھی کتنے لوگ فیضیا ب ہوئے سینکڑ و ں ہز ارو ں کی مرا دیں پو ر ی ہو ئیں۔ ایسے لو گ کبھی فنا نہیں ہو تے کہ �ò +ہر گز نمیردآنکہ دلش زندہ شد بعشق +ثبت است برجرید ئِ عالم دوامِ ما +بعد میں ورلڈ اسلامک مشن کا اجلا س ہو اور ورلڈ اسلامک مشن کے پر و گر ام کے مطابق ایک مسجد کی تعمیر پر غو ر کیا گیا ۔ +26اگست کو ور لڈ اسلامک مشن کا ایک اجلا س تر ک جا مع مسجد میں ہوا پیر صاحب نے اس اجلا س کی صدا ر ت کی طا ر ق مجا ہد نے مشن کی کا ر گز اری پر جا مع تقر یر کی ، پیر صا حب کا خطبہ ئِ صد ار ت مسجد کی اہمیت پر تھا انہو ں نے و اضح کیا کہ مسا جد ہی ہما رے قلعے ہیں ہم مسلما ن یو رپ کے ان شہر و ں میں ہیں جہا ں کی تہذیب اور جہا ں کا تمد ن الگ ہے ہما رے بچے ان معا شر وں میں پل رہے ہیںوہ جن سکولو ں میں جاتے ہیں وہا ں سیکو لر تعلیم ہے گھر سے با ہر کا معا شرہ با لکل الگ ہے ہم میںسے کون ہے جو اپنے بچو ں کو اس معا شر ہ کے اثرا ت سے بچا سکے ٹھیک ہے آپ گھر میں کوشش کر سکتے ہیں کہ بچے مسلمان رہیں مگر گھر سے با ہر آپ انکی نگرانی نہیں رکھ سکتے آپ کے پا س اتنا وقت بھی نہیں کہ گھروں میں بچو ں کو اسلامی تعلیما ت سے آگاہ کر تے رہیں اور انہیں قرآن پاک اور اسلامی تعلیم دے سکیں ۔ عزیز انِ گرامی ہم اپنی نسل کو اگر مسلمان رکھنا چا ہتے ہیں تو مسا جد جیسے قلعے تعمیر کر نا ضر و ر ی ہیں مسجد میں اجتما عی نما ز ایک بہت بڑ اکا م ہے پھر مسجد کے سا تھ مدا رس بھی ہو تے ہیں جو ہما ری نسل کے لیے غیر اسلامی تمد ن ، تہذیب اور تعلیم کے سیلا ب سے پنا ہ گا ہ بنتے ہیں ہما را فر ض ہے کہ ہم خو د بھی اس معا شرہ میں اپنا دامن بچا ئے رکھیں اور اپنی نسلو ں کو بھی بچا ئیں ہم اپنا وطن ، اپنا گھر با ر چھو ڑ کر بہتر روزی کی تلا ش میں آتے ہیں اور یہ کوئی گنا ہ نہیں لیکن یہ گناہ ضرور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تر بیت سے محرو م کر کے کفر ز اروں میں تنہا چھو ڑ کرانہیں ڈوب جا نے دیں پیر صا حب کی تقر یر بڑ ی مؤ ثر رہی پیر صاحب 28 نو مبر 1986 کو پھر پیر س تشر یف لے گئے اور 2 دسمبر 1986 �÷ ئ کو واپس آئے جا مع مسجد تر ک میں میلا د النبی �ö کا جلسہ تھا افتتا حی تقر یر مو لا نا عبدالقا در نو شاہی کی تھی پھر ڈاکٹر حمید اللہ صا حب کی تقر یر ہوئی انکی تقریر اجا گر ہم پہلے نقل کر چکے ہیں صد ا ر تی تقریر میں پیر صاحب نے قرآنِ حکیم کی یہ آیت پڑ ی ۔ +’’لَقَدْ مَنّ اللّٰہُ الْمُؤ مِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُو لاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِم آیتِٰہٰ وَ یُزَ کِیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَا لْحِکْمَۃ‘‘ ﴿آلعمر ان ۔ 164﴾ +﴿یقینا اللہ تعالیٰ نے مؤ منو ں پر بڑا احسا ن فر ما یا کہ اس نے ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیا ت تلا وت کر تا ہے ، انہیں پاک کر تا ہے اور انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے﴾ +جب کسی پر کو ئی نعمت نا ز ل ہو تی ہے کوئی انعام ملتا ہے تو وہ خو شی منا تا ہے ۔ بلکہ خود خدا نے حضو ر �ö کو کہا کہ وہ مسلما نو ں کو کہ دیں کہ جب اللہ کا تم پر فضل ہو اور اسکی رحمت تم پر سا یہ کر ے تو تمہیں چاہییکہ تم خو شیا ں منا ئو اللہ کا ارشا د ہے ۔ +﴿کہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اسکی رحمت پر ان لو گو ں کو چاہییکہ خو شیا ں منا ئیں ﴾ +ہم اہل سنت جشن عید میلا د النبی اسی لیے منا تے ہیں کہ اسی روز تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا اتما م کیا اور رحمۃ اللعا لمین کو نسل انسانی کی ہدا یت کے لیے بھیجا ۔ +صحیح بخا ری میں یہ رو ایت مو جو دہے کہ حضور �ö کی ولا دت با سعا دت پر ابو لہب کو اسکی لونڈی ثو بیہ نے خبر دی تو اس نے خو ش ہو کر لو نڈی کو آزا د کر دیا اگر چہ وہ سا ری عمر حضور �ö کا جا نی دشمن رہا اور کفر پر ہی مرا اللہ نے قرآن حکیم میں اسکی تبا ہی کی سو ر ت اتا ری لیکن حضور �ö کی ولادت پر اظہا ر مسرت کی بر کت سے ہر سو مو ا ر کو اسے پانی کا گھونٹ پلا یا جا تا ہے اور اسکے عذا ب میں تخفیف کر دی جا تی ہے۔ +ہم تو اللہ کے حکم کے مطا بق رحمتِ عالم کی ولا دت کو دنیا کے سعا دت کا دن قر ار دیتے ہیں ہم تو حضور �ö کی ولا دت کو مسلما نو ں پر اور کائنا ت پر بہت بڑا انعا م سمجھتا ہو ں اور اسی انعا م کی خو شیا ں منا تے ہیں جشن منا تے فی الو اقع حضور کے ولا دت سا ر ی نسل انسا نی کے لیے عید کا دن ہے ۔ +مبارک رحمۃ اللعالمین تشریف آئے +مبارکباد صادق اور امین تشریف لے آئے +30 نو مبر کو وتر ی کے مقا م پر عرب بھا ئیوں سے ملا قا ت ہو ئی مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں انہوں نے تعاون کا یقین دلا یا لا کور نو میں اولیا ئ کا اندازِ تبلیغ کے مو ضو ع پر پیر صاحب نے خطا ب کیا ۔ ابتدا ئ میں قرآن حکیم کی آیت مبا رکہ پڑ ھی جس کا تر جمہ یہ ہے، +’’ اللہ نے آپ کو اپنی رحمت سے نر م مز اج بنا یا اگر آپ سخت مز اج ہو تے تو یہ لو گ آپ کے پاس سے بھا گ کھڑ ے ہوتے ‘‘ +پھر فر ما یا حضور �ö کا ہی اندازِ تبلیغ اولیا ئ اللہ نے اپنا یا لو گو ں سے محبت کی ان کی جہا لت کے با عث سر زد ہونے والے گنا ہو ں پر ان سے نفر ت نہ کی ان سے پیا ر کیا ان کی بد اعما لیوں سے نفر ت کی پیا ر سے انہیں سمجھا یا اپنے پیا ر بھر ے عمل سے انہیں سمجھا یا کہ تم اچھے انسا ن ہو تم اپنی ذا ت پر گنا ہ کے دا غ کیو ں لگا تے ہو اپنا صا ف من کیو ں میلا کر تیہو وہ سمجھتے گئے اور انکے قریب آتے گئے اولیا ئ اللہ اور پیا ر سے آگے بڑھے اور انہیں گلے لگا یا دوسرے لوگ ’’ جنہیں علما ئ کہتے تھے معمو لی گنا ہو ں پر اپنو ں پر ہی کفر کے فتو ے لگا نے لگے ان سے کا فر تو مسلمان کی ہوتے مسلما ن بھی ان سے دو ر ہو تے گئے یہاں آپ نے شیخ سعد ی شیرا ز ی کے یہ اشعا ر پڑ ھے �ò +شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا دل دشمناں ہم نہ کروندتنگ +تُرا ک میسر شود ایںمقام کہ بادوشتانت خلاف است جنگ +یکم دسمبر کو مختلف وفو د نے پیر صاحب سے ملا قا ت کی اور اپنے مسا ئل سے آگاہ کیا +حضرت پیر صاحب کا اگلا سفر 26 دسمبر 1987 �÷ کو ہوا ۔ 27 دسمبر کو جا مع مسجد تر ک میں عرس غوث الا عظم کی تقا ریب منعقد ہوئیں پیر صاحب جناب محبوب سبحا نی کے احوا ل و آثا ر پر اظہا ر خیا ل کیا صو فی عبد الما لک نے ورلڈ اسلامک مشن پیر س کی کا ر کر دگی پر تفصیلی رپو ر ٹ پیش کی ۔ +28 دسمبر کو لو س پیر س کے مقام پر پاکستانیوں کے ایک اجتما ع سے خطا ب فر ما یا 30 دسمبر کو احباب ملا قا ت کو آگئے پیر صاحب نے فر دا ً فرداً ہر ایک سے اُسکے انفرا دی حا لا ت سُنے اسے مشو رہ دیا ۔ +اسکے حق میں دعا فر ما ئی ممکن حد تک مد د کی اور یہ تو پیر صاحب کا مستقل شیو ہ ہے �ò +ہر اک درد دکھ سے انکو رہتا ے سدا مطلب +ہوا ممکن تو یاری کی نہیں تو غمگساری کی +31 دسمبر کو پھر ایک تقریب میںحضرت غو ث پاک کی ذا ت پیر صاحب کے خطا ب کا مو ضو ع تھی آپ نے اس دفعہ غو ث پاک کی علمی فضیلتوں کو مو ضو ع بنایا اور انکی تصنیف لطیف ’’ غنیتہ الطا لبین ‘‘ کو مو ضو ع بنا یا اور میر انیس کے اس مصر ع کو زند گی بخش دی �ò +اک پھول کا مضمو ن ہو تو سو رنگ سے با ند ھو ں +29 اگست 1987 �÷ کو پیر صاحب مجد دِ اعظم نوشہ گنج بخش کے 343 ویں سالانہ عر س کے سلسلہ میں شر کت کے لیے تشر یف لائے۔ مو لا نا عبد القا در نو شاہی نے نو شہ گنج بخش کی ذا ت کو مو ضو ع بنایا ۔ +ڈاکٹر یعقوب ذکی نے دی و رلڈ صو فی کا نفر نس کا تعارف پیش کیا الحا ج عد الت خا ن نو شاہی نے بھی تقریر فر مائی ۔ جمعیت حسان کے چا ر ار کا ن نے غو ث اعظم اور مجد دِ اعظم نو شہ گنج بخش کی شا ن مں منقبت پیش فر ما ئیں پیر صاحب نے صد ار تی خطبہ میں فر ما یا ۔ یہ آپ دو ستو ں کی مسلسل کو ششو ں کا نتیجہ ہے کہ آج مغر ب کے ان علا قو ں میں غو ث اعظم اور جنا ب نو شہ گنج بخش کی با تیں ہو رہی ہیںجہاں شرا ب و شبا ب کے نغمو ں سے ہر وقت فضا ئیں گو نجتی رہتی ہیں آپ نے احبا ب کو خر اجِ تحسین پیش کیا اور انہیںمز ید سر گر م ہو نے کی تلقین کی۔ +26 ما ر چ 1988 �÷ کو جلسہ ئِ معرا ج النبی کا اہتما م جا مع مسجد تر ک پیر س میں کیا گیا تھا اس جلسہ کے خا ص مقر ر ڈا کٹر حمید اللہ تھے اور صدا ر ت پیر صا حب کی تھی ۔ ڈا کٹر صاحب نے اس پر زو ر دیا کہ معرا ج النبی جسما نی معجز ہ بھی ہے اور جد ید سا ئنس آہستہ آہستہ اسکی تصد یق و تائید کی طرف بڑ ھ رہی ہے ۔ پیر صاحب نے معرا ج کے دورا ن حضور کے مشا ہدا ت جنت دوز خ کو مو ضو ع بنا یا کہ یہ وا قعہ اپنے اندر رشد و ہدایت ایک اور اجلا س میںجو نو شہ گنج بخش کے عر س کے سلسلہ میں تھا سید سبط الحسن رضو ی ’’ نو شہ گنج بخش ‘‘ ایک عظیم رو حانی اور تبلیغی شخصیت ’’ کے مو ضو ع پر بڑی جا مع تقریر کی یہ جلسہ بھی حضرت پیر صاحب ہی کی زیر صدا رت ہو ا اور آپ نے صد ار تی خطبہ میں مجد د اعظم نو شہ گنج بخش سرکار کی غر یب نوا ز یوں پر مفصل رو شنی ڈا لی ۔ +یکم ستمبر 1990 �÷ کو حضر ت مجد د ِ اعظم سید نو شہ گنج بخش کا 346 واں سا لا نہ عر س پیر س میں منا یا گیا پیر صا حب نے اسکی صدا رت کی اور احبا ب کی حو صلہ افزا ئی کی کہ وہ �ò +اگر چہ بت ہیں جما عت کی آستینوں میں +مجھے ہے حکم اذا ن لا الہ الاا للہ +کا فر یضہ نبھا رہے ہیں اور حضرت نو شہ گنج بخش کی جلا ئی ہو ئی شمعیں رو شنی پھیلا تی جا رہی ہیں ۔ 26 مئی 2001 �÷ میلا د النبی کے جلسہ اور عر س حضرت نو شہ گنج بخش کے سلسلہ میں پیر س تشر یف لے گئے اس سفر میں عثما ن نو شاہی الحا ج عد الت خان نو شاہی ، اشفا ق احمد نو شاہی آ پ کے سا تھ گئے تھے اور چو دھر ی محمد الیا س نو شا ہی اپنے طو ر پر پیر س پہنچ گئے تھے ان کے مقصد بھی پیر صا حب کے جلسہ میں شر کت کر نا تھا ۔ 27 مئی کو یہ جلسہ ہو اور پیر صا حب نے خطبہ صدا رت ارشا د فر ما یا ۔ 28 مئی کو دا ر الا سلا م کے کتب خانہ میں تشر یف لے گئے اور 8 ہز ار فر انگ کی کتا بیں خریدیں۔ یہ چند خا ص تبلیغی دور ے ڈا ئر ے کی زینت تھے انکے علا وہ بھی حضرت صا حب کئی مر تبہ فر انس تشر یف لے گئے ہم تبلیغ کے لیٹ کئے جا نے مختلف سفر یکجا کر رہے ہیں صر ف یہ دکھا نے کے لیے اپنی ذ ات کو خدا کے لیے ، رضا ئے مصطفے کے لیے اور انسا نیت کی فلا ح کے لیے وقف کر دینے والوں کی زند گی کس طر ح ایک ایسی لگن میں گز ر تی ہے جس میں تھکن اور زیا دہہ سفر پر اکسا تی ہے اور پائے طلب کو مسا فتیں کم ہو نے کا شکوہ رہتا ہے غا لب نے کیا بڑ ا شعر کیا تھا �ò +ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب +ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پایا +رکتے ہوکیوں کہ رکتے نہیں ہیں یہ پل ، چلو +پائوں جوتھک گئے ہیں تو آنکھوں کے بَل چلو +ہالینڈ کا نام نید ر لینڈ بھی ہے کہتے ہیں اصل نام یہی تھا لیکن اب ہا لینڈ زیا دہ معر وف ہے ۔ ہا لینڈ یو ر پ کا ایک ایسا ملک ہے جہا ں ڈ چ حکومت سیکو لر انداز کی ہے اور کسی کے مذہب میں کوئی مدا خلت نہیں کر تی ہر ایک کو پو ری مذہبی آزا دی ہے ۔ وہ چا ہتی ہ�� سا ری اقلیتیں اپنی مذہبی آزا دی بر قرار رکھیں لیکن ڈچ معا شرہ کا ایسا حصہ نہ بنیں جو معا شر تی ڈھا نچے کو نقصا ن پہنچا ئے۔ ہا لینڈ میں پاکستانی مسلمانو ں کی تعداد کم ہے 2 لاکھ ستر ہز ار کے قر یب مسلما ن دو لا کھ 25 ہزا ر کے قر یب مر اکشی مسلما ن ہیں سرہنا می مسلما نو ں کی تعداد پچا س ہزا ر ہے مسلما نو ںکی تقر یبا ً دو سو مساجد ہیں اور انکے قبر ستان بھی الگ ہیں +1960 �÷ کی دہا ئی میں ہا لینڈ میں افراد قو ت کم ہو گئی تھی خا ص طو رپر محنت کشو ں کے طبقہ میںخا صی کم محسو س ہو رہی تھی اس لیے ملک کو غیر ملکی محنت شکو ں کی ضر و ت محسو س ہو ئی اس طر ح تر کی اور مر اکش کے مسلما نو ں کو ہا لینڈ آنے کا مو قع مل گیا اگر چہ 1974 �÷ میں حکومت ہا لینڈ نے غیر ملکی لیبر رو ک دی لیکن ان ملکو ں سے آنے والو ن کی لہر کو رکا نہ جا سکا وہا ں پہنچے ہوئے بہت سے کا م کر نے والو ں نے اپنے خا ندا نو ں کو یہاں لا نا شر وع کر دیا ۔ ادھر سُر ی نا م سے بھی نقل مکا نی کر کے آنے والو ں لہر بھی چل پڑ ی اور ان میں سے اکثر مسلما ن تھے سُر ینا م 1975 �÷ میں آزاد نہ ہو ا یہ لہر رُک گئی ، اب ڈا چ آبا دی کی 4 فیصد مسلما نو ں کی آبا دی ہے 1971 �÷ ئ میں ہا لینڈ میں مسلما نوں کی کل تعد اد 54 ہزا ر 1975 �÷ میں ایک لاکھ آٹھ ہزا ر ، 1980 �÷ میں دو لاکھ 25 ہزار اور 1997 میں 5 لا کھ تہتر ہزا ر ہو گئی ۔ +وہ مسلما ن ان کے علا وہ ہیںجنہوں نے ایرا ن، عراق، صو مالیہ ، ایتھو پیا ، مصر ، افغا نستا ن، سابق سو یت یو نین ، اور بو سینا سے آکر یہاں پنا ہ لی۔ +ڈچ دستو ر کی دفعہ نمبر ۱ میں وضا حت کی گئی ہے کہ ہا لینڈ کے تما م با شند و ن کو یکساں حقوق حاصل ہو نگے مذہب ، رنگ ، نسل ار جنس کا تفا وت حقو ق پر اثر اندا ز نہیں ہو گا ۔ کسی نے با ہر سے آکر شہر یت لے لے یا ہا لینڈ میں پیدا ہو ا دو نو ں کے حقو ق میں کوئی فر ق نہیں ہر ایک کو ووٹ دینے کا اور نما ئند گی کے لیے بطو ر امیدوا ر انتخا بی میدا ن میں آنے کا یکسا ں حق ہے۔ +رپو رٹ کے مطا بق 1997 �÷ میں لو کل سطح پر مسلما ن انتخا ب میں کا میا ب ہو ئے تھے ۔ آئین سیکو لر ہے اس لیے مذہب او ر سیا ست بالکل الگ ہیں 1980 �÷ تک چر چ اور مسا جد کی تعمیر کے لیے حکو مت امدا د ی اقوم دیتی تھی پھر ایسا کر نا بند کر دیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ یہ کام سیکولرزم کے اس بنیا دی اصو ل کے خلا ف ہے جس کے تحت مذہب اور سیا ست کو الگ کیا گیا ۔ اب عبا دتگا ہیں مذہبی تنظیمیں خو د بنا تی ہیں ۔ +پر ائیویٹ ادا رو ں میں بھی مسلما نو ں کو پور مذہبی آزا دی حاصل ہے رمضا ن کے دنو ں میں مسلما نو ں کے اوقا تِ کا ر میں رعا یت دی جا تی ہے بعض بڑے تجا ر تی ادا رو ں یا فیکڑ یو ں میں نماز کے لیے الگ جگہیں بنی ہو ئی ہیں ۔ مسلما نو ں کو اپنے انداز میں رہنے کی پو ر آزا دی ہے عو ر تیں حجا ب میں بھی ہو تی ہیں اور بے پر دہ بھی سکول ، کالج یا یو نیو رسٹی میں ان پر کوئی پا بند ی نہیں، پر ائیویٹ تعلیمی ادا رو ں میں کسی حد تک حجا ب کی کسی حد تک حو صلہ شکنی کی جا ئے تو حکومت اسکی ذمہ دا ر نہیں ، مسلمانو ں کے ذ بح خا نے بھی الگ ہیں 4500 ذبح خا نو ں میں سے 500 ذبح خا نے مسلما نو ں کے ہیں تعلیم سب کے لیے لا زمی ہے مذہبی لو گو ں نے اپنے سکول بھی بنا ر کھے ہیں پر و ٹسٹنٹ سکول ، کیتھو لک سکول وغیر ہ اسی طر ح مسلما نو ں کے بھی تیس کے قر یب سکول ہیں سر کا ر ی نصا ب سیکو لر ہے مذہبی لو گ اس نصا ب کے سا تھ اپنا مذہبی نصا ب اپنے طو ر پر شامل کر سکتے ہیں مگر گو ر نمنٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ +اعلیٰ تعلیم میں اسلامک سٹڈیز اور عربی کے مضا مین بھی بطو ر اختیا ری مضا مین شامل ہیں اسی طر ح دو سری مشر قی زبانیں بھی شا مل ہیں 1998 �÷ میں ڈچ انسٹی ٹیو ٹ فا ر ا سلا مک سڈ یز بھی لیڈن میں کھل گیا ۔ مسا جد کے اما مو ں کی ٹر یننگ کے لیے حکو مت فنڈ مختص کر تی ہے ہر سا ل تقر یباً پچا س امام تر کی اور مرا کش سے آتے ہیں جنہیں ایک سال کی ٹریننگ دی جا تی ہے اس ٹر یننگ میں انہیں ڈچ سو سا ئٹی کے اڈل و ضوابط سمجھا ئے جا تے ہیں اور ڈچ زبا ن بھی سکھا ئی جا تی ہے +ان اما مو ں کا ٹر یننگ کے بعد امتحا ن بھی ہو تا ہے۔ یہ امتحا ن ڈ چ زبا ن سیکھنے میں بھی لیا جا تا ہے اور اس سے اما م کی قا بلیت بھی جا نچی جا تی ہے +لیڈن یو نیو ر سٹی +ہالینڈ کے بڑ ے شہر ہیگ ، ایمسٹر ڈم اور لیڈن ۔ لیکن ان میں لیڈ ن بین الا قوا می علمی دنیا میں بڑی شہر ت رکھتا ہے لیڈ ن یو نیو ر سٹی لیڈن شہر کے لیے غیر متو قع تحفہ تھا لیڈن یو نیو ر سٹی 1575 �÷ میں وجو د میں آئی نید ر لینڈ یا ہا لینڈ پر سپین نے قبضہ کر لیا تھا ۔ لیڈن کے بہا در عوا م نے جنگ آزا دی میں بڑی جر أ ت اور بے پنا ہ ہمت اور حو صلہ کا مظا ہر ہ کیا تھا۔ شہز ا دہ ولیم آف اور ینج نے سٹیٹس آف ہا لینڈ کو 1574 �÷ میں ایک خط لکھا جس میں مطا لبہ کیا گیا تھا کہ لیڈن کے لو گو ں کو انکی جر أ تمند ی کے انعا م کے طو ر پر یو نیو ر سٹی دی جائے اس طر ح یہ یو نیو ر سٹی وجو د میں آئی 8 فروری1975 �÷ کو اس یو نیو ر سٹی کی بنیا د رکھی گئی اس لحا ظ سے یہ انو کھی یو نیو ر سٹی تھی جو سپینی حملہ آ ورو ں کی مزا حمت کر نے والے اہل الیڈن کو شجاعت اور جر أ تمند ی کے انعا م کے طو ر پر ملی تھی ۔ +بہت جلد یہ یو نیو رسٹی عالمی شہر ت یا فتہ یو نیو ر سٹی بن گئی عالمی شہر ت یا فتہ سکا لر ز کی بہت بڑی تعدا د اسی یو نیو ر سٹی کی فارغ التھیل ہے آج بھی دنیا کے اعلی تعلیم حا صل کر نے کے شا ئق طا لب علم اور ریسر یچ سکا لر اسی یو نیو ر سٹی کی طر ف دو ڑ ے دوڑے آتے ہیں اس وقت 1998 میں اس کے طلبہ کی تعداد 14000 ہے سا ری دنیا کی یو نیو ر سٹیا ں لیڈ ن یو نیو ر سٹی کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتی ہیں اور اس کے فارغ التحصیل سکا لر اس کی ڈگر ی پر فخر کر تے ہیں۔ +لیڈ ن یو نیو رسٹی کے سا تھ ہی لیڈن کی لا ئبر یر ی کو بھی مثا لی حیثیت حاصل ہے دنیا کی انتہا ئی نا یا ب کتب کا بڑا ذخیر ہ اس لا ئبر یر ی میںہے اور لطف یہ ہے کہ تقر یبا ً تما م زند ہ زبا نو ں کی معرو ف اور قا بل مطا لعہ کتابیں اس لا ئبر یر ی کی زینت ہیں اب تو یہ جد ید تقا ضو ں کے مطابق آرا ستہ و پر استہ ہے اس میں یہ انتظام بھی ہے کہ جس کتا ب کی نقل حا صل کر نا چا ہو اعلی فو ٹو سٹیٹ مشینو ں کی مد د سے آپ کو تھو ڑے انتظا م کے بعد انتہا ئی معقو ل قیمت پر مل جا تی ہے ۔ +حضرت پیر معرو ف شا ہ اور ہالینڈ +جا نے کہا ں کہا ں گئے ہم کو نہ کچھ خبر ہوئی +جا نے کہا ں پہ شب کٹی جا نے کہا ں سحر ہو ئی +حضرت پیر معروف شا ہ صا حب کو عشق خیز پہلی دفعہ ۱۱ اگست 1979 �÷ کو ہا لینڈ لے گیا رمضا ن المبا ر ک کا مہینہ تھا بد ھ کا دن تھا نیو ٹن پلا ن کی مسجد نما ز ترا ویح کے بعد پہلا خطا ب کیا خطا ب کا مو ضو ع تھا ’’ اسلامک مشنر ی کا لج کا تعا ر ف ‘‘ ابتدا ئ میں علم کی فضیلت پر ایک بھر پو ر تقر یر کی سامعین میں بز ر گ بھی تھے اور نو جو ان طلبہ بھی ، آپ نے با ت شر و ع کی قصہ ئِ تخلیق آدم سے بتا یا کہ فر شتو ں کو آدم کا سجد ہ کر نے کا حکم دیا گیا اس لیے کہ ’’ علم آدم الا سما ئ ‘‘ آدم علیہ السلام کو علم اسما ئ و دیعت کہاگیا تھا جو ملا ئکہ میں نہیں تھا نو ر یو ںنے خا کی سجد ہ اس لیے کیا کہ خا کی کے پاس علم تھا گو یا علم ہی وجہ فضیلت تھی اور علم ہی کے با عث انسان مسجو د ِ ملا ئک ٹھہر ا ، یہ ابتدا ئ تھی اور انتہا یہ تھی کہ سر ورِ انبیا ئ سر تا ج ِ رسل �ö پر پہلی وحی اتر ی +’’اِقْرَأ بِا سِْم رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ ، خَلَقَ الْاِ نْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ، اِقْرَ أ وَ رَبُّکَ الْاَ کْرَم ْ الِّذ ی عَلّمَ بِا لْقَلَمِ عَلّمَ الْاِ نْسَا نَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘ +﴿پڑ ھ اپنے رب کے نام سے جس نے پید اکیا، ہا ں جس نے انسان کو جمے ہوئے خو ن سے پیدا کیا ، پڑ ھ اور تیر ا رب بڑ ا ہی تکر یم والا ہے جس نے انسا ن کو قلم کے ذر یعے علم سکھا یا اور انسا ن کو وہ سب کچھ سکھا یا اس سب کچھ کی تعلیم کردی جو وہ نہیں جا نتا تھا ﴾ +یہ انسا ن کو ن تھا ؟ یہ اللہ کے محبو ب کی ذا ت تھی جسے اللہ نے ان تما م علو م کا عا لم بنا دیا جو آپ نہیں جا نتے تھے ۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہو گیا کہ اللہ کے محبو ب کو سا را علم مل گیا دو سر ے یہ کہ علم اور قلم کا تعلق بنیا دی ہے ۔ اہلِ عر ب کہتے ہیں ۔ +’’اَلْعِلْمُ صَیْد’‘ وَّ الْکِتَاَ بۃُ قَیْد’‘‘‘ +یو ں علم کی اور پھر علم با تعلیم کی فضیلت وا ضح ہو گئی او جس رسو ل اول و آخر پر یہ فضیلت و اضح کی اس نے مسلما ن کے لیے صا حب علم ہو نا لا زمی قرار دیا ۔ طلب العم فر یضہ ، علی کل مسلم و مسلمۃ ﴿ علم حا صل کر نا ہر مسلما ن مر د اور ہر مسلما ن عور ت پر فر ض ہے﴾ +اور فر ما یا اطلبو العلم و لو کا ن با لصین +﴿علم حا صل کر و چا ہے تمہیں علم حا صل کر نے کے لیے چین جیسے دو ر درا ز ملک ہی کیو ں نہ جا نا پڑ ے ﴾ +اللہ نے فر ما یا میرے محبو ب کی ذا ت مسلما نو ں پر بہت بڑاا حسا ن ہے میں نے بڑ ا کرم کیا کہ اپنے رسو ل پاک کو مسلما نو ں کے پاس بھیج دیا وہ کیا کر تے ہیں ؟ انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور رسول ِ خدا �ö نے فر ما یا ۔ +’’ حکمت مو من کی گمشد ہ چیز ہے پس وہ جہاں اسے ملے اسے اپنا لے کیونکہ یہ اسکا اپنا مال ہے ‘‘ +ان ہی مقا صد عالیہ کے حصو ل کے لیے اسلامک مشنر ی کا لج قا ئم کیا گیا ہے اور اس میں انہی خطو ط پر تعلیم دی جا تی ہے جن خطو ط پر اسلامی نظام تعلیم استوا ر ہے ‘‘ پھر آپ نے طلبہ پر اسلامک مشنر ی کا لج کا بھر پو ر تعا ر ف کر ا یا اور انہیں تر غیب دی کہ وہ اس میں داخلہ لیں۔ +دو سرے رو ز ہا لینڈ میں احمد یو ں کی بھی دو مسا جد ہیں ﴿اگرا نہیں مسا جد کہا جا سکے تو ﴾ پیر صاحب احمد یوں کی مسجد میں تشر یف لے گئے یہ مسجد 1954 �÷ میں سر ظفر اللہ خا ن نے بنوا ئی تھی وہا ں احمد یو ں کے اما م اللہ بخش سے کا فی دیر گفتگو ہو تی رہی ، +پارلیمنٹ ہا ئو س دیکھا مو لانا سعا دت علی قا دری سے ملاقا ت ہوئی ۔ مو لانا سعا دت علی کا فی عر صہ سے یہاں مقیم تھے اور انہو ں نے جما عت اہل سنت قا ئم کر رکھی تھی یہ جما عت اہل سنت وہی ہے جو کسی زما نہ میں مو لانا شفیع اکا ڑو ی کے زیر صدا ر ت چلتی رہی تھی ۔ ادھر ادھر پھر کر کتا بیں خریدیں تبلیغ کے سلسلہ میں بہت سے لو گو ں سے ملا قا تیں کیں وہا ں کی بہت سی مسلما ن آبا دی مسا جد سے دور رہتی ہے اس لیے ایک ایک شخص سے ملنا خا صا دشوار کا م ہے اسی سا ل پیر صا حب نے دو سر ی مر تبہ ہا لینڈ کا سفر اس وقت اختیا ر کیا جب چند احبا ب کی طر ف سے آپ کو ایک تقریب میں شر کت کی دعو ت دی گئی اس تقر یب کا اہتما م حاجی عد الت خا ن نو شا ہی ، ایو ب صاحب اور رفیع صاحب نے کیا تھا اس سفر میں آپ کے سا تھ سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی اور سید ی عبدا لقا در شا ہ بھی تھے آپ کے اعزا ز میں وہا ں بہت بڑی تقریب کا اہتما م کیا گیا تھا ۔ جس میں بڑی تعدا د میں لو گو ں نے شر کت کی ۔ پیر صاحب نے وہا ں ’’ شا ن رسا لتما ب �ö پر ایک یا د گا ر تقر یر فر ما ئی ۔ +سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کوقبائیں دیں +سلام اس پرکہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں +ایک دو سری تقر یب میں پیر صا حب کامو ضو ع ’’ ختم نبو ت ‘‘ تھا پیر صاحب نے بجا ئے مر زا غلام احمد کو لعن طعن کر نے اور اسکی تحریروں کی خا میا ں اسکے کر دا رکی غلطیاں اور اس کی فہم کی ٹھو کر یں گنا نے کے حضور �ö کے کما لا ت گنا ئے اور فر ما یا چو نکہ آپ کی ذا ت میں انسان کا مل آگیا نبو ت و رسا لت مکمل ہوگئی دین مکمل ہو گیا ۔ +’’اَلْیوم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ وَ اَ لممتُ عَلَیْکَمْ نِعمتی وَرَ ضِیْتُ لَکُمُ الْاِ سْلاَم دینا ‘‘ +﴿میں نے آج تمہا را دین تمہا رے لیے مکمل کر دیا تم پر اپنی نعمت کا اتما م کر دیا اور اسلام کو تمہا رے ضا بطہ ئِ حیا ت کے طور پر پسند فر مایا ﴾ +دین مکمل ہو گیا ہد ایت مکمل ہو گئی تو کو ئی آکر کیا کر یگا ۔ قرآن حکیم کو قیا مت تک کے لیے محفو ط کر دیا گیا اور حفا ظت کی ذمہ دا ر ی کسی فر شتے کے سر نہیں ڈا لی خدا نے خو د اپنے اوپر لے لی اب اس میں کسی طر ح کی تحر یف لفظی نہیں ہو سکتی زبر زیر بلکہ ایک نقطہ تک کا فر ق نہیں آسکتا پر یس اور چھا پہ خا نے ایجا د ہونے سے پہلے ہی ایسا نا در انتظام کیا کہ سینو ں میں محفو ظ کر دیا تو کسی کتاب کی ضر و ر ت نہ رہی یہی اہد ایت آخر ی ہد ایت ہے اور قیا مت تک کا ہر انسا ن اس کی رو شنی میں اپنی منز لیں پا تا رہے گا اس طر ح نبی ئِ کا مل و اکمل نبو ت و رسا لت دو امی ہو گئی اور فر ما دیا کہ آپ خاتم النبیین ہیں پھر کوئی دو سرا بنی اور کوئی دو سر ی کتا ب کہا ں سے آئے گی ۔ اس طر ح کا خطا ب فی الوا قع ختم نبو ت کے سلسلہ میں بڑ اجا مع اور بڑا مکمل خطا ب تھا تقر یر کے بعد لو گو ں نے بڑے بھر پو ر انداز میںاپنے تا ثرا ت کا اظہا ر کی اور ہا تھ چو م چو م کر پیر صاحب کو درا زی ئِ عمر کی دعا ئیں دیتے رہے ۔ +تیسر ی تقر یب میں تصو ف کی حقیقت پر رو شنی ڈا لی اور سلسلہ ئِ نو شاہیہ کا تفصیلی تعا ر ف کر ایا ۔ چو تھی تقر یب ہا لینڈ کی سب سے بڑی مسجد میں نماز ِ مغر ب کے بعد منعقد ہوئی۔ اس میں پیر صا حب کا مو ضو ع وہا بیت تھا ۔ آ نے فر ما یا ۔ اللہ نے قرآن حکیم میں اپنے محبو ب کی شا ن کی اتنی رفعتیں بتا ئیں کہ فر ما دیا خبر دا ر ان کی مقد س آواز سے تمہا ری آواز بلند نہ ہو جا ئے کہ اگر ایسا ہو گیا تو تمہا ر ے سا رے اعما م حسنہ ضا ئع ہو جائیں گے سب گنا ہو ں میں سے ار تد ادہی ایسا گنا ہ ہے کہ تما م اعما ل صِالحہ بر با د ہو جا تے ہیں یہاں معا ذ اللہ رسو ل اللہ کا انکا ر نہیں صرف اتنی گستا خی ہو جا ئے کہ تمہا ر ی آواز ان سے بلند تر ہو گئی تو گو ریا ایما ن و عمل سب بر با د ہو گئے سچ کہا تھا شا عر نے �ò +ادب گا ہیت زیر آسماں از عرش نازک تر +نفس گم کردہ میں آید جنید و بایزید اینجا +عر ش سے بھی نا زک تر یہ ادب گا ہ ہے وہ کہتے ہیں ’’ با خدا دیو انہ با ش با محمد ہو شیا ر ‘‘ یہاں پھو نک پھو نک کر قد م رکھنا ہے یہ کا ر گا ہِ شیشہ گر ی ہے آبگینے بڑ ے نا ز ک ہیں لے سا نس بھی آہستہ کہ نا زک ہے بہت کام ، افسو س ہے ان لو گو ں پر ک قرآن پڑ ھتے ہیں اور قرآن میں وہ مقا ما ت تلاش کر نے بیٹھ جا تے ہیں جن سے اشا رہ ملتا ہو کہ فلا ں مقا م پر حضور �ö کو علم غیب حا صل نہیں تھا ۔ اولیا ئ اللہ کی زند گی کو خدا خو ف وحز ن سے ما مو ن کر دیتا ہے ہم انکا احترا م کر تے ہیں انہیں چبھتا ہے انکے عمل میں یہ عجیب تر با ت ہے کہ انہو ں نے اپنے مشائخ کا احترا م تو جا ئز سمجھا ہے لوگ جن کا احترا م کر تے ہیں یہ ان سے کہ رکھتے ہیں ہم اہل سنت تو حضور �ö کی محبت کو ہی سر ما یہئِ ایما ن بلکہ اصل ایمان سمجھتے ہیں �ò +محمد کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے +اسی میں ہوا اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے +عشا ئ کی نما ز کے بعد کچھ احمد ی حضر ات پیر صاحب کی ملا قا ت کے لیے آ گئے ان سے دیر تک گفتگو ہو تی رہی اس دو ر ہ میں زیا دہ تر مر زا ئیت اور وہا بیت کے مو ضو عا ت پر خطا با ت ہو تے رہے اور محفلوں میں بھی گفتگو تقر یبا ً انہی مو ضو عا ت پر مر تکز رہی ۔ +حضر ت پیر سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے بھی ایک جلسہ سے خطا ب کیا انہو ں نے بنی �ö کے علم غیب اور حیا تِ انبیا ئ سید ابو الکما ل نے فرمایا ۔ مجھے افسو س ہے کہ مسلما ن جہا ں جا تے ہیں اپنے اختلا فات بھی سا تھ لے کر جا تے ہیں اور یہ اختلا فا تت وہی بچگا نہ اختلا فا ت ہیں جن میں پڑ کر کچھ لوگ اپنے ایما ن کو خطر ہ میں ڈ ال دیتے ہیں ان ملکو ں میں جہا ں غیر مسلم اپنی اکثر یت کے با عث حکو مت کر رہے ہیں ہم آتے ہیں کہ اپنا فر یضہ تبلیغ نبھا ئیں غر مسلمو ں پر اسلام کے انوار وا ضح کر یں اسلامی تعلیما ت میں انسا نی کی نجا ت پر با تیں کر کے انہیں اسلام قبو ل کر نے پر آما دہ کر یں تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہر ا ور زمین پر اسکی حکومت ہم قا ئم کر دیں جس کی حکومت آسما نو ں پر اور سا ری کا ئنا ت میں ہے مگر ہما رے مخا لف فر قہ والے بھا ئی ہم سے پہنچ کر وہی اختلا فی مو ضو عا ت چھیڑ دیتے ہیں جن پر وہ اپنے ملکو ں میں صد یو ں سے چو نچیں لڑ اتے آتے ہیں اور تھکتے نہیں ۔ چنا نچہ میں یہاں پہنچا تو مجھے یہ مو ضو عا ت ہر جگہ سننے کو ملے ہر ملنے والے نے کہا کہ فلا ں مو لو ی آیا اور ہم اہل سنت کو کا فر و مشر ک قرار دے گیا ۔ اب مجھے مجبو را ً انہی مو ضو عا ت پر بو لنا ہے ۔ مگر پہلے ایک لمحہ کے لیے سو چیے کہ جب غیر مسلم اپنے نبی کے متعلق ہما ری یہ اختلا فی با تیں سنیں گے تو کیا نظر یہ قا ئم کر یں گے؟ ہم ہا لینڈ کی حکومت کے شکر گزا ر ہیں کہ اس نے مذہبی آزا دی دے رکھی ہے اور ہر ایک کو حق دے رکھا ہے کہ وہ آز ادی سے اپنے مذہب کی تبلیغ کر ے ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چا ہیے کہ سعو دی عر ب میں ہما رے اپنے مسلما نو ں کی حکومت ہے مگر وہاں ہم اہل سنت کو با ت کر نے کی آزا دی ہما رے اما م اور مجد د ما ئتہ حا ضر ہ احمد رضا خا ن بر یلو ی کے تر جمہ ئِ قرآن ’’کنز الایما ن ‘‘ پر پا بند ی ہے جسے ہم بہتر ین تر جمہ ئِ قرآن سمجھتے ہیںہم اگر سعو دی عرب کے با د شا ہ کے حضو ر سلا می پیش کر یں اسکے قصر کو بو سہ دیں تو ہمیں کوئی کچھ نہیں کہتا مگر ہم الصلو ٰۃ و السلام علیک یا رسو ل اللہ کہ دیں تو مجر م ٹھہر تے ہیں ر و ضہ ئِ اقد س کی جا لی کو بو سہ دیتے ہیں تو ہم پر بید بر سا ئے جا تے ہیں تفاو تِ را ہ از کجا ست تا بہ کجا ہمیں ہا لینڈ کی حکومت کی دی ہوئی مذہبی آزا دی سے فا ئدہ اٹھا کر اپنا کلمہ ئِ حق اپنے ان بھائیوں تک پہنچنا نا چاہییتھا جو اپنی نا وا قفیت اور دین حق سے شنا سا نہ ہونے کے با عث غلط راہ پر چل رہے ہیں مگر ہمیں کچھ اور کر نا پڑ رہا ہے میں اپنے اہل سنت احبا ب سے عر ض کر و نگا کہ آپ اپنا کا م کئے جا ئیں قرآن حکیم نے کہا ہے کہ +’’عَا لِمْ الْغَیْب وَلا یُظہر عَلیٰ غَیْبہٰ اَحَد اً اِلاَّ مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّ سُوْ لِہٰ‘‘ +﴿اللہ عا لم الغیب ہے وہ اپنا غیب کسی پر ظا ہر نہیں کر تا سوا ئے اپنے رسو لو ں میں سے جس پر چا ہتا ہے ﴾ +اس آیت میں صا ف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کا علم غیب ذا تی ہے جس کو وہ یہ علم غیب دے گا اس کا علم عطا ئی ہو گا اس لیے د و نوں کبھی بر ابر نہیں ہو سکتے پس شر ک کا واہم ختم ، اب دو سر ی با ت یہ ہے کہ وہ اپنے رسو لو ںمیں سے جس پر چا ہتا ہے اطلا ع الغیب کر تا ہے یا اظہا ر علی الغیب کر تا ہے یہ غیب وہی ہے جسے اس نے اپنی طر ف منسو ب کیا ہے غیبہ ﴿اسکا غیب﴾ ظا ہر ہے یہ غیب کلی ہے وہی سا رے کا سا ر ا غیب ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو ’’ عالم الغیب ‘‘ کہا ہے تیسر ی با ت یہ ہے کہ یہ پو رے کا پورا غیب وہ رسو لو ںمیں سے جس رسو ل کو چا ہے دیتا ہے سب رسو لو ں کو نہیں دیتا یہاں سے واضح ہو گیا ہے کہ غیب کا بعض حصہ تو سب رسو لو ںمیں ملتا ہے سا را غیب صر ف اس رسو ل کو دیا جا تا ہے جسے اللہ چا ہتا ہے اب جسے مسلما نو ں کے سا ر ے فر قے سر و ر ِ انبیا ئ ما نتے ہیں اسے اللہ علم غیب سا را کا سارا نہیں دینا چا ئیگا ۔ تو کس کو دینا چا ہیگا ۔ تو عز یز انِ گر امی اس صا ف قرآنی مسئلہ پر کوئی ہت دھر می کر تا ہے تو اسکی قسمت ، اب ایک اور صو ر ت دیکھئے عزیز ان گر امی ایک لفظ نبیئ’‘ اور نبی’‘ یعنی ایک نبی ھمز ہ کے سا تھ ایک بغیر ھمزہ کے ھمزہ کے سا تھ جو نبی اسکے معنی با لا تفا ق غیب کی خبر یں دینے والا ہے جو بنی بغیر ھمزہ کے ہے اسکے معنی مقا مِ بلند پر کھڑ ا ہونے والا ہے مگر مقا م بلند سے کیا مرا د ہے اسکی وضا حت خو د حضور �ö کے عمل سے ہو تی ہے ذرا ذہن میں لائیے حضور �ö کی ایک ابتدا ئی دعو ت حق اورا علا ن نبو ت کو اس سا رے تا ریخی وا قعہ کو الطا ف حسین حالی نے بڑی خو بصو ر تی سے نظم کر دیا ہے ذر ا یہ الفا ظ غو ر سے سنیئے ؟ +وہ فخر عرب زیب محر ا ب و منبر تما م اہل مکہ کو ہمرا ہ لے کر +گیا ایک دن حسب ِ فر مان دا ور سو ئے دشت اور چڑ ھ کے کوہِ صفا پر +یہ فر ما یا سب سے کہ اے آل غا لب +مجھے تم سمجھتے ہو صا دق کہ کا ذب +کہا سب نے قو ل آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھو ٹا سنا اور نہ دیکھا +کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو با ور کر و گے اگر میں کہونگا +کہ فو جِ گر ان پشت کو ہ صفا پر +پڑ ی ہے کہ لوٹے تمہیں گھا ت پا کر +کہا تیری ہر با ت کا یا ں یقیں ہے کہ بچپن سے صا دق ہے تو اورا میں ہے +اب ذر ا واقعہ کو ذہن میں لا ئے حضور �ö کو ہِ صفا پر کھڑ ے ہیں یعنی مقام بلند پہ کھڑ ے ہیں اہل مکہ کو ہ صفا کہ دا من میں بیٹھے ہیں حضور دونوں طرف دیکھ رہے ہیں اہل مکہ کو بھی اور پشت کوہ صفا کو مگر اہل مکہ پشت ِ کو ہِ صفا کو نہیں دیکھ سکتے انکے لیے یہ سب کچھ ’’غیب‘‘ ہے مگر مقام بلند پر کھڑ ے ہونے والے ﴿بنی﴾ محمد مصطفی �ö کے لیے پہا ڑ کے د ونو ںطر ف کے مید ان ’’ حا ضر ‘‘ ہیں سلو بنی کہ معنی مقا م بلند پر کھڑ ے ہو نے والے ہو ں تو بھی اس کا مطلب ہے وہ چیز یں جا ننے اور دیکھنے والا جو نیچے والو ں کے لیے ’’غیب‘‘ ہیں یہ مثا ل بڑی وا ضح ہے حضور �ö کی دعو ت کا یہ انداز بہت سی با تیں واضح کر گیا ۔ +پس عز یز انِ گر امی ہم تو حضو ر �ö کو کم علم کہہ کر گستا خی کے مر تکب نہیں ہوتے اللہ نے فر ما یا تر ارب تجھے اتنا کچھ عطا کروں گا کہ تو را ضی ہو جائے گا ۔ بھا ئیو دینے والا خدا لینے والا محمد (ص) اس کا محبو ب ’’ کتنا لیا دیا ‘‘ ہم کو ن ہوتے ہیں اپنی محد و د عقل کی تر ا زو میں تو لنے والے اب رہا دو سر ا مسئلہ حیا تِ انبیا ئ تو آپ جا نتے اور ما نتے ہیں کہ اللہ نے فر مایا ’’ جو اللہ کی را ہ میں شہید ہو ئے انہیں مر دہ مت کہو وہ زندہ ہیںلیکن تم سمجھتے نہیں ‘‘ دو سر جگہ فر ما یا وہ اللہ کے پاس زندہ ہیں رزق دییجا تے ہیں اور خو ش ہو تے ہیں یہ تو شہید ائ ہیں ظا ہر ہے انبیا ئ کا مر تبہ شہیدا ئ سے کئی کروڑ و ں مر تبہ بلند ہے تو انکی زند گی میں کیا شک ہو سکتا ہے آپ کو بتا ئوں کہ اصل اہلِ دیو بند بھی حیا ت النبی کے قا ئل ہیں ور آپ کے وصا ل کے بعد آپ سے مد د ما نگنے ہیں میں زیا دہ تفصیل میں نہیں جا سکتا صر ف مو لا نا قا سم نا نو تو ی با نودا ر العلوم دیو بند کی ایک لمبی نظم کا ایک شعر سنیئے �ò +مدد اے کرمِ احمد ی کہ تیرے سوا +نہیںہے قا سم بیکس کا کوئی حا میئِ کا ر +ختم ہو نے کے بعد بہت سے لو گو ں نے حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کے ہا تھو ں پر بیعت کی اور سلسلہ نو شاہیہ میں داخل ہوئے +اس سفر میں حضرت پیر معر وف شا ہ صاحب نے یہاں کا مشہور چڑ یا گھر اور میو ز یم دیکھا لیڈ ن کے میو ز یم سا ری دنیا میں مشہو ر ہیں لیکن ہا ل میونسپل میوز یم ، یہ 1500 �÷ ئ سے آج تک کا م کر رہا ہے لیکن ہا ل کسی ز ما نہ لیڈ ن کا انڈ سٹر ی آف ٹیکسٹا ئل کا سینٹر تھا ، اس میں قسم قسم کا پنٹینگز اور مختلف ادوا ر کی نقا شیو ں کے نمو نے ایک پو ر ی تا ریخ بیا ن کر تے ہیں ﴿LISSE﴾کے پھو لو ں کے با غا ت ایک منفر د پیش کر تے ہیں یہیں دنیا ک سب سے بڑ ے پھو لو ں کے با غا ت ہیں نیشنل میو ز یم آف انٹلٹیز پرا نی دنیا کی خو شحا لیو ں اور بد حا لیوں کی پو ر ی دا ستا نیں بیان کر تی ہیں، میوز یم بو رہا و میڈیکل سا ئنس کی پا نچ صد یا ں اس میں سما ئی ہوئی ہیں۔ نیشنل میو ز یم آف کا ئنز اینڈ میڈ لیز اس میں رو من ، یو نانی اور ڈچ میڈ لز اور سکے ہیں ۔ یہ سب میو ز یم نید ر لینڈ کی بڑ ی تا ریخ سمیٹے ہوئے ہیں اور بڑی دلچسپ جگہیں ہیں ان تما م مقا ما ت کو دیکھئے کہ بعد حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب کا تبلیغی کا رو ان ایمسٹر ڈیم کے جلسہ کے لیے رو انہ ہو گیا جہا ں پیر ابو الکما ل نو شاہی نے ختم نبو ت کے موضو ع پر زبر دست تقر یر کی۔ احمد یو ں نے بلا شبہ غیر مسلمو ں کو مسلما ن بنا نے کے لیے کا فی کام کیا لیکن انہیں احمد ی بنا یا اور بتا یا کہ اصل اسلام یہی ہے ۔ جنا ب پر ابو الکما ل نے اپنی تقر یر میں احمد ی مبلغین کو نشانہ بنایا اور لو گو ں پر وا ضح کیا کہ حضور �ö کا تم النبین تھے انکے بعد کسی ظلی بروزی یا اصلی نبی کی ہد ایت لے آنے کی کوئی ضر و ر ت نہیں نبو ت کی انتہا حضور پرہوگئی انکی کتا ب ہمیشہ کے لیے محفو ظ ہو گئی یہ کتا ب زند ہ ہی زند ہ رسو ل ہے پیر صا حب نے جمعہ کی نما ز پڑ ھائی خطا ب کیا اور بتا یا کہ حج مسلما نا نِ عالم کا عظیم اجتما ع ہے اور اتحا د فکر و نظری کی عظیم مثال امتِ وا حد ہ کا نمو نہ ہے اور اس کی بر کا ت بے پنا ہ ہیں پیر ابو الکما ل شا ہ صاحب کا مو ضو ع حضور �ö کی عا لمگیر نبو ت اور تکمیل دین تھا ۔ را ت کے اجتما ع میں پیر ابو الکما ل بر ق شا ہ صا حب نے پھر قا دیا نیت کو مو ضو ع بنا یا اور مززا غلا م احمد کی کتا بو ں سے اُسکے تضا دا ت دکھائے او ر اسکی بد حو ا سیو ں کی زبر د ست شہا دتیں پیش کیں یر معر و ف شا ہ صا حب نے اسلامی تصو ف اور عجمی تصو ف میں فرق واضح کی ااور اشا عتِ اسلام میں اسلامی تصو ف کے کر دا ر پر بھر پو ر رو شنی ڈا لی را ت دو بجے تک یہ محفل جا ری رہی ۔ دو سرے دن پیر معرو ف شا ہ صا حب نے با لمیر میں نماز جمعہ پڑ ھائی جمعہ کے فضا ئل ومسا ئل کی وضا حت کی اسی روز 19 اکتو بر کو واپسی ہوئی۔ +24 دسمبر 1982 �÷ ئ کو تبلیغی سلسلہ میں ہا لینڈ پہنچے اور 3 جنو ری 1983 �÷ کو واپسی ہوئی ۔ +17 اپر یل 1987 �÷ کو پھر ہالینڈ گئے اس سفر کی بنیا دی وجہ یہ تھی وہا ں احبا ب نے ورلڈ اسلا مک مشن کے دفتر اور دیگر مقا صد کے لیے 8 ہز ار پو نڈ میں ایک بلڈ نگ خر ید ی تھی پیر صا حب کو دکھا نا چا ہتے تھے ۔ پیر صاحب کے استقبا ل کے لیے بڑی تعداد میں لو گ ائیر پو رٹ پر آئے تھے ۔یہاں سے انہیں محمد رفیع کے وا لد محمد یو سف کے گھر لا یا گیا ورلڈ اسلامک مشن کے لیے خر ید ی ہوئی مذکو رہ بلڈ نگ کا معائنہ کیا دو ر در از سے لوگ پیر صاحب کی ملا قا ت کے لیے آئے ہو ئے تھے ۔ ور لڈ اسلامک مشن کے اجلا س سے خطا ب کیا مشن کے اغر اض و مقا صد پر رو شنی ڈا لی۔ اور لوگوں کو عما ر ت کی خر یدا ر ی کے سلسلہ میں تما م تفاصیل سے آگا ہ کیا را ت گئے تک تنظیمی امو ر پر گفتگو ہوتی رہی۔ +20 جون 1987 �÷ کو پھر ہا لینڈ کا سفر در پیش تھا اس مر تبہ انکے سا تھ پیر سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ، مو لا نا محمد حنیف سید کو ثر حسین شا ہ ، طا ر ق مجا ہد جہلمی نو شاہی اور غلام رول غا زی نو شاہی تھے ۔ سب سے پہلے ورلڈ اسلامک مشن کی عما رت میں گئے ورلڈ اسلامک مشن کی قائم کر دہ مسجد میں بے شما ر لو گو ں سے ملا قا تیں فر مائیں اس مر تبہ آنے کا مقصد یہ تھا کہ لو گو ں نے حضر ت نو شہ گنج (رح) کا عر س منا نے کا پر و گر ام بنا رکھا تھا ۔ اتوار کے روز عر س کی تقر یبا ت شر وع ہو ئیں۔ جلسہ کی صد ار ت پیر ابو الکما ل بر ق نو شاہی نے فر ما ئی پیر صاحب نے نظا مت کے فر ائض سر انجام دیے۔ ڈچ زبا ن میں تر جما نی کے فر ائض ورلڈ اسلامک مشن ہالینڈ کے جنر ل سیکر ٹر ی نظا م صا حب نے سر انجام دییپیر صاحب نے آغاز سلسلہ نو شاہیہ اور حضرت نو شہ گنج بخش کے حا لا ت زند گی اور کر اما ت کے مو ضو عا ت پر ایک تعا رفی تقر یر کی پیر ابو الکما ل صا حب نے اجتما عی دعا کر ائی تبر ک تقسیم کیا گیا ۔ عر س میں پا نچ سو سے ز اہد مسلما ن شر یک ہو ئے ۔ +22 جون کو واپسی ہوئی ۔ عبد العزیز نو شاہی ، عبد الما لک نو شاہی، محمد شر یف نو شاہی ، نو مسلم ما سٹر صا حب عدالت خا ن اور دیگر احبا ب رخصت کرنے کے لیے آئے ۔ پیر صاحب وا پس بر طا نیہ آگئے اور دیگر احبا ب کچھ روز کے لیے وہیں رک گئے۔ +14 مئی کو ہالینڈ کا اگلا سفر اس وقت ہو ا جب حضر ت پیر الو ا لکما ل بر ق نو شا ہی فو ت ہوچکے تھے ہا لینڈ میں انہو ں نے چند تقا ر یر کی تھیں کچھ روز گزا ر ے تھے یہاں کے لو گ انکے کما لا ت دیکھ چکے تھے اور انکے ساتھ کلبی وا بستگی رکھتے تھے انہو ںنے محر وم کی یا د میں ختم قرآن شر یف کی تقر یب کی پیر صاحب نے ختم شر یف کے بعد مر حوم کے احوا ل و افکا ر پر مختصر تقر یر کی ۔ اسی تقر یب میں ایک عیسائی روم فا ئڈ ر ناک یر صاحب کے ہا تھ پر مسلمان ہوا پیرصا حب نے اسکا اسلامی نا م ’’ محمد مجد عمر نو شاہی ‘‘ رکھا ۔ قر طبہ نا م کی ایک مسجد میں بھی تقریب ہوئی پیرصاحب نے پیر ابو الکما ل او ر اسلامی تصو ف کے مو ضو ع پر تقریر کی بعد میں کئی دینی امو ر پر لو گو ں سے گفتگو ہو تی رہی ، 16 مئی کو محمد اکبر نو شاہی کی منعقد کر دہ مجلس میں پیر ابو الکما ل اور تصو ف کے مو ضو ع پر تقر یر فر ما ئی۔ شا م کو محمد سر فرا ز نو شاہی کی منعقد کر دہ محفل میلا د میں شر کت فر ما ئی اولیا ئ کی تصا نیف و تا لیفا ت پر خطا ب کیا دو سرے روز ورلڈ اسلامک مشن کی قائم کر دہ مسجد میں اسلام کی صد ا قت پر خطا ب کیا یہ مسجد ہیگ میں ہے ۔ +محمد اشر ف نو شاہی نے میلا د النبی کا اہتما م کر رکھا تھا ۔ اس میں شر یک ہو ئے اور میلا د النبی پر جا مع تقر یر کی 18 مئی کو حضرت پیر ابوالکمال بر ق نو شا ہی کے چہلم کی تقر یبا ت ہوئیں جسمیں سینکڑ و �� افرا د نے شر کت کی پیر صاحب نے تقر یر مر ما ئی اس روز ایک سکھ پیر صاحب کے ہا تھ پر مسلما ن ہو ا اور بہت سے لوگ حلقہ ئِ ارادت میں دا خل ہو ئے اس نو مسلم کا اسلامی نام محمد آصف نوشاہی رکھا گیا 29 مئی کو پیر صا حب نے ہا لینڈ بر طا نیہ اور ہا لینڈ میں مذہبی کا م تفصیلی مو از نہ پیش کیا حا جی عدالت نو شا ہی نے پیر سید ابو الکما ل کی آواز میں انکے اپنے کلا م کی کیسٹ سنائی یہ کلا م 1982 �÷ میںسفر حج میں مکہ مکر مہ اور مدینہ منو ر ہ میں تحر یر کیا گیا تھا یہ پیر صا حب کے لیے ایک نا در تحفہ تھا اس سفر کے دورا ن کئی افراد حلقہ ئِ ارادت میں دا خل ہوئے آٹھ ہز ار گلڈر جمع ہوئے۔ +19 دسمبر 1985 �÷ کو میلا د النبی کے جلسہ میں شر کت کے لیے ہا لینڈ وا لو ں نے خا ص طو ر پر مد عو کیا تھا اس میں شر کت کے لیے آئے 20 دسمبر کو تفسیر ، حد یث ، فقہ ، صر ف و نحو پ آتھ سو پو نڈ کی کتا بیں خر ید یں دکا ند ا ر سے پیر صاحب کی اچھی خا صی عیک سلیک ہوگئی تھی وہ بڑ ی رو انی سے عربی زبا ن بو لتا تھا ۔ 21 دسمبر کو محفل میلا د منعقد ہوئی پیر صاحب نے خطا ب کا مو ضو ع اتحا د عقید ہ عمل تھا۔ 22 دسمبر کو پیر صاحب کا دو سر جلسہ ور لڈ اسلامک مشن کے ہا ل میں پیدا ہوا پیر صا حب نے اتحا د ، امتِ مسلمہ پر تقر یر کی۔ 23 اور24 دسمبر کو دو نو ں دن کتا بوں کی خر یدا ر ی میں گزا ر ے 25 دسمبر کو پھر مشن ہا ل میں خطا ب تھا اس تقر یب کے اختتا م پر تنظیمی امو پر گفتگو ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ رو ٹر دیم میں اسلامک مشن کا جا مع مسجد قا ئم کی جا ئے اس مقصد کے لیے 25 ہز ار گلڈ ر جمع ہوئے ۔27 دسمبر کو روٹر ڈیم میں’’ مسلمان کا کر دار ‘‘ کے مو ضو ع پر خطا ب کیا اور فر ما یا کل کے مسلما ن اور آج کے مسلما ن میں بڑ ا فر ق آگیا ہے اور اسی فر ق کو پا نے کے لیے ورلڈ اسلامک مشن کو وجو د میں لا یا گیا ہے 30 دسمبر کو محمد ایو ب نو شا ہی، محمد رمضا ن نو شا ہی اور سر فر ا ز نو شاہی کے ہمر اہ لیڈن کی لا ئبر یر ی میں گئے وہا ں سے تذ کرہ الا ولیا ئ ، عطا ر کا خلا صہ ، اور اورادِ عظیمہ وغیر ہ کتابیں خر ید یں 31 دسمبر کو ورلڈ اسلامک مشن کی مسجد میں گیا رھو یں شر یف کی تقر یب میں شر کت فر ما ئی اور طو یل خطا ب کیا وا پسی پررہا ئش گا ہ پر بہت سے ارادت مند جمع ہو گئے اور رو حا نی معا ملا ت پر دیر تک گفتگو ہو تی رہی مر ید و ں کی رہنما ئی فر ما تے رہے ۔ +یکم جو ن 1986 �÷ کو پھر ہا لینڈ گئے محمد یسٰین نو شا ہی نے محفل میلا د کا اہتما م کیا تھا اس میں گھنٹہ بھر تقر یر کی ’’ اللہ والو ں کی محبت ‘‘ کے مو ضو ع پر باتیں کیں محمد یسٰین کی زو جہ نے آپ کے ہا تھ پر بیعت کی اور سلسلہ ئِ نو شا ہیہ میں دا خل ہوئیں ما سٹر مرزا خا ن جمن نے بھی محفل میلا د کا پروگرام بنا یا اس میں شر یک ہوئے رسول اللہ �ö کی نبو ت کی ہمر گیر ی کے بعض گو شو ں کو اپنی تقریر میں اجا گر کیا 2 جنور ی کو پھر لیڈ ن یونیورسٹی کی لا ئبر یر ی میں تشر یف لے گئے اور عربی کی کچھ کتابیں خر ید یں نو جنو ر ی کو واپس بر یڈ فو ر ڈ پہنچ گئے۔ +ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ سا ر ی تفا صیل ہم پیر صا حب کی ڈ ائر یو ں سے جمع کر تے جا ر ہے ہیں۔ صر ف کہیں کہیں اپنے الفا ظ میں انکی بات کر دیتے ہیں اب ایک وا قعہ در ج کیا جا تا ہے جو پیر صا حب کے اپنے قلم سے ہے اسے ہم من و من یہاں نقل کئے دیتے ہیں پیرصا حب 20 جنو ر ی 1986 �÷ بر وز جمعہ یہ الفا ظ لکھے ہیں ۔ +’’ میں نے آج پیر بر ق شا ہ صا حب کی عالم بید ا ر ی میں زیا رت کی ہے میں جس کمرے میںآرا م کر رہا تھا میں اٹھا با ہر نکلا اور کمرے کے در وازے سے دائیں طر ف با ہر جا نے لگا تو دیکھا کہ بر ق شا ہ صا حب اسی در و از ے سے با ہر سے اندر آرہے تھے انکا پو را لبا س سفید تھا سر بر ہنہ تھا میں نے زندگی میں جا گتے ہوئے کسی بز ر گ کی زیا ر ت پہلی با ر کی ہے میں خدا کو حاضر نا ظر جا ن کر یہ حلفیہ بیا ن قلمبند کر رہا ہوں۔ یہ غلط نہیں اور اگر غلط ہو تو جھو ٹ کے خدا تبا ہ کر ے ﴿بقلم خو د سید معر و ف حسین شاہ ﴾ +مغر ب کے وقت رو ٹر ڈیم میں کلثو م نو شا ہی کی ایک تقر یب میں شر کت کی جہا ں گھنٹہ بھر خطا ب کیا وہا ں مو لا نا محمد حنیف سے بھی ملا قا ت ہو ئی ایک خا تو ن حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئی 22 جنو ر ی کو لیڈن کے کتب خا نے سے کچھ کتا بو ں کی خر یدا ر ی کی ۔ کچھ لو گ حقلہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے ۔19 اپر یل 1986 �÷ پھر ہا لینڈ کے دور ہ پر گئے ۔ ور لڈ اسلامک مشن ہیگ میں ’’ دنیا کی بے تابی ‘‘ پر خطا ب فر ما یا 20 اپر یل کو خا لد بھٹی نو شا ہی نے ایک جلسہ کا اہتما م کیا تھا اس میں شر کت کی ’’ اسلام اور عصر ِ حا ضر ‘‘ کے مو ضو ع پر خطا ب کیا حا ضر ین پیر صا حب کی تقر یر سے بہت متا ثر ہو ئے۔ +اسی سا ل 21 اگست 1986 �÷ کو پھر ہا لینڈ تشر یف لے گئے، یہ سفر حضرت نو شہ گنج بخش کے عر س کے سلسلہ میں کیا گیا 21 اگست کو حاجی اشر ف نے ایک مجلس کا اہتما م کیا اس میں پیر صا حب کے خطا ب کے مو ضو ع ’’ اولیا ئ اللہ سے محبت اور انکی اتبا ع ‘‘ تھا 22 اگست علوم شرقیہ کے دو سو سا ل پر انے مر کز لیڈ ن گئے وہا ں کے ایک کتب خا نے میں عر بی زبا ن کی نا در کتابو ں کا ذخیر ہ دیکھا وہا ں سے بڑ ی اہم اور قیمتی کتا بیں خر ید یں۔ +31 اگست کے بز مہِ نو شا ہیہ کے زیر اہتما م حضرت نو شہ گنج بخش قا دری کے عر س کی تقریب ہو ئی نظا مت کے فر ائض سر فراز نو شاہی نے سر انجا م دییبا قی مہما نو ں کے علا وہ ڈا کٹر فا طمی اور حا فظ وز یر نو شا ہی نے شر کت فر ما ئی شخِ طر یقت حضرت سید معرو ف حسین شاہ کا خصوصی خطا ب تھا جس میں حضرت نو شہ گنج بخش کی زند گی پر رو شنی ڈا لی گئی اور بتا یا گیا کہ ہم یہ دن بھی عبا دت کے طو ر پر منا تے ہیں کیونکہ بزرگوں کی زند گی نیکیو ں کا مجمو عہ ہو تی ہے انکی نیکیو ں کا ہی ذکرہو تا ہے پھر آدمی احتسا ب نفس کر تا ہے کہ جس کا دن منا رہے ہیں کیا ہم اسکی تعلیما ت پر بھی عمل کر تے ہیں کیا ہم نے اپنی زند گی اس رنگ میں رنگ لی ہے اگر نہیں تو ہم اس ذا ت کا دن منا نے کے اہل نہیں پھر آدمی کو اپنے دل سے عہد کر تا ہے اور آئندہ نیک عمل اختیا ر کر لیتا ہے اس لیے دن منا نے کا یہ عمل بڑا ہی با بر کت ہے 22 نو مبر 1986 �÷ کو بسلسلہ عید میلا د النبی حضرت پیر صا حب ہا لینڈ تشر یف لے گئے آپ نے اس کی شر عی حیثیت پر بڑی مد لل تقر یر کی بعد میں محفل احباب میں ارا دتمند و ں کے سوالا ت کے جو ا ب دیتے رہے ۔ +24 نو مبر کو لیڈن میں یو نیو ر سٹی کو اورینٹل کتب خا نہ میں تشر یف لے گئے اور تین ہز ار گلڈ ر کی کتا بیں خر ید یں ان میں طحطا وی اور شمس الا ئمہ سر خسی کی المبو ط شامل ہیں۔ +شا م کو محمد یو سف نو شاہی سر ی نامی نے تقر یب کا اہتما م کر رکھا تھا اس میںشر کت فر ما ئی 26 نومبر کو پھر لیڈ ن سے کتا بو ں کی خریداری ہوئی۔ عثما ن نا می ایک شخص نے شا م کی محفل احباب میں انگر یز ی میں اپنے کچھ اشکا لا ت پیش کئے پیر صاحب نے انتہائی تصلی بخش جواب دیے وہ نو جو ان قا نو ن کا طا لب علم تھا پیر صا حب کے علم و فضل سے بہت متا ثرہو ا 14 فر و ری 1987 سے 17 فر و ر ی1987 �÷ ئ تک ہالینڈ قیا م رہا ۔ محمد شر یف کی تقر یب میں حضرت پیر صا حب ورلڈ صو فی کو نسل کے مو ��و ع پر خطا ب کیا 15فر و ری کو محمد حنیف حیر ت نو شا ہی سے ’’ صو فی کو نسل‘‘ کے مو ضو ع پر گفتگو ہو تی رہی 16 فر و ر ی کو تنظیمی امو رپر با ت چیت ہوتی رہی 17 فر و ر ی کو پیر صاحب ہا لینڈ سے جر نی چلے گئے ۔ پیر صا حب اسی سا ل 28 اگست کو تبلیغی دور ہ کے سلسلہ میں پھر ہا لینڈ آئے ڈا کٹر یعقو ب ذکی پہلے ہی ہیگ پہنچ چکے تھے ۔ 31 اگست کو قیام گا ہ پر تشر یف فر ما ر ہے اور اشعا ر لکھنے رہے اسی روز فو ن پر اطلا ع ملی کہ FAR BANK رو ڈ کی جا مع مسجد میں آگ لگ گئی ہے یہ جگہ اسی سا ل 55 ہز ار پو نڈ میں خر ید ی گئی تھی کا فی پریشا نی کی وجہ سے را ت بھر نیند نہیں آئی ۔ یکم ستمبر کو بہت سے لو گ ملا قا ت کے لیے آئے اور سوالات کر تے رہے تشفی بخش جو ا بات سے وہ لوگ پیر صا حب کے علم و فضل سے اور رو حا نی قو ت سے بہت متا ثر ہوئے ان میںسے بہت سے حضر ا ت حلقہ ئِ ارا دت میں دا خل ہوئے جمعہ کی نماز ور لڈ اسلامک مشن کی اس مسجد میں ادا کی جو ہیگ میں ہے اگلے روز نما زِ ظہر کے بعد سی لینڈ کیطر ف چلے گئے وہا ں پر و گر ام تھا پیر صا حب کی تقریر کا مو ضو ع تھا ’’ اھد نا الصر اط المستقیم ‘‘ تقریر بہت اثر انگیز تھی با تیں دل سے نکل رہی تھیں اور دل میں اتر رہی تھیں بہت سے لو گ حلقہ ئِ ارا دت میںدا خل ہوئے ۔ +چھ ستمبر کو حضرت نو شہ گنج بخش کے عر س کے سلسلہ میں تقریب ہوئی صدا را ت پیر صاحب کی تھی ڈا کٹر یعقوب ذکی ، نظام محمد مو لا نا مہر علی کی تقر یر یں ہوئیں حسان نیلس نے کلا مِ بر ق اور کلا م عار ف پیش کیا کچھ اور لو گ حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے۔ +اسی سال دسمبر میں پھر ہا لینڈ جا تا ہو ا۔ 23 دسمبر کو پیرصاحب کی قیام گا ہ پر ایک انگر یز ملنے آگیا وہ اسلام کے متعلق معلو ما ت حا صل کر نا چا ہتا تھا ۔ مشہو ر عر ب کے عالم ڈا کٹر یعقو ب ذکی بھی آئے انگر یز نے سوا لنا مہ تر تیب دے رکھا تھا وہ سو ال پو چھتا گیا اور پیر صا حب جو ا ب دیتے گئے وہ پیر صا حب کے علم سے متاثر ہو کر گیا 25 دسمبر 1987 کو جمع کے اجتما ع سے ورلڈ اسلامک مشن کی جا مع مسجد میںخطا ب فر ما یا خطا ب کا مو ضو ع تھا ’’ اسلام میں تصو ر جما عت ‘‘ پیر صا حب نے فلسفہ اجتما ع پر رو شنی ڈ الی اور فر ما یا اسلام اجتما ع اور جما عت کو بڑی اہمیت دیتا ہے لیکن وہ پہلے فر د کی خو دی کو مستحکم کر تا ہے اور اسے اس قا بل بنا تا ہے کہ و ہ جما عت تعمیر و تر قی میں اپنا کر دا ر ادا کر سکے افرا د اگر ٹھیک نہ ہو ں تو وہ جما عت کیا کر سکتی ہے جو نا لائق اور نا قابل افرا د پر مشتمل ہو یہ بھی با لکل صحیح ہے کہ �ò +فردقائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں +مو ج ہے در یا میں اور بیر ون دریا کچھ نہیں +لیکن یہ بھی در ست ہے کہ �ò +افرار کے ہا تھو ں میں ہے اقوم کی تقدیر +ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا +حضو ر �ö نے فر ما یا ۔ +’’تما م افرا د ِ ملت جسم وا حد کی طر ح ہیں جس طر ح جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہو تو پو را جسم بخا ر اور بے خوا بی کا شکا ر ہو جا تا ہے اسی طرح جما عت میں کسی ایک فر د کی تکلیف پو ر ی امت کی تکلیف بن جا تی ہے ‘‘ +شیخ شیرا ز جنا ب شیخ سعد ی (رح) نے اسی مضمو ن کو اپنے اشعا ر میں یو ں ادا کیا ہے �ò +بنی آدم اعضا ئے ایک دیگر انذ +کہ در آفر نیش ایک جو ہر اند +فر د اور جما عت کا یہ تعلق ہو تو فر د کی قدرو قیمت قوم کی مفتخر اور محترم بنا تی ہے اور فر د کو بھی اپنی ذمہ دا ر یا ں نبھا نے کا ہر و قت خیا ل رہتا ہے اگر قوم یا جما عت اپنے افرا د کی طر ف سے غفلت بر تنے لگے تو جلد تبا ہ ہو جا تی ہے ۔ اور اس پر زوال آجا تا ہے ۔ +زوال کے ا��ام میں اگر کوئی فر د اپنی جما عت کو چھو ڑ بیٹھتا ہے اس سے لا تعلق ہو کر کٹ جا تا ہے تو وہ تبا ہ ہو جا تا ہے �ò +ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میںشجر سے ٹوٹ +ممکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے +جس طر ح درخت سے کٹی ہوئی شاخ بہا ر کے با د ل سے بھی ہر ی نہیں ہو سکتی اسی طرح ملت سے کٹ جا نے وا لا شخص بھی کبھی بر و مند نہیں ہو سکتا وقت اور حا لا ت بد ل جا ئیں گے تو قوم عرو ج پر پہنچ جا ئے گی مگر وہ شخص جو زوال کے دنو ں میںقو م سے لا تعلق ہو گیا تھا اس سے کٹ کر الگ ہو تیا تھا قوم کا دورِ عروج اسے کوئی فا ئدہ نہیں پہنچا سکتا اس لیے قوم کے سا تھ ہر حا ل میں جڑ ے رہنا چاہیے �ò +ملت کے ساتھ رابطئِ استوار رکھ +پیوستہ رہ شجر سے امید ِبہار رکھ +پیر صا حب کی تقریر بڑی اثر انگیز تھی سا معین بہت متا ثر ہوئے۔ +پیر صا حب 3 جنو ر ی 1988 �÷ کو الکہا ر تشر یف لے گئے یہاں ایک ہال میں ایک بہت بڑے جلسہ کا اہتما م تھا ڈاکٹر یعقو ب ذکی نے بھی تقر یر کی پیر صا حب نے خطبہ ئِ صدا رت میں مسجد کی اہمیت پر زو ر دیا اور آخر میں لو گو ں سے اپیل کی کہ وہ اپنی مسجد بنا نے کے سلسلہ میں تعاون کریں42 ہز ار گلڈ ر جمع ہو گئے۔ فر ور ی میں ور لڈ اسلامک مشن کی تقر یب میں شر کت کی اور مر حو مہ امیرن نو شاہی کے چہلم میں شامل ہوئے ۔ +18 ما رچ 1985 کو ہا لینڈ گئے مسجد قا دریہ غو ثیہ میں معر اج النبی کے جلسہ میںشر کت کی اور معرا ج کے مو ضو ع پر تقر یر فر ما ئی ۔ بتا یا کہ آج سائنس وقت اور فا صلہ TIME AND SPACE کے سلسلہ میں ایسے حیر ت انگیز انکشا فا ت کر رہی جن سے اسلامی صد اقتوں کی تائید ہو رہی ہے آج تسلیم کیا جا رہا ہے ہے �ò +عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تما م +اس زمین و آسما ں کو بیکرا ں سمجھا تھا میں +25 ما رچ کو ایک عیسا ئی عو ر ت اینگا بو خ ایسا انتو نیا نے پیر صا حب کے ہا تھ پر اسلام قبو ل کیا اور بہت سے مسلما ن بھی حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے ۔ +19 اگست کو ہالینڈ میں پھر حضرت نو شہ گنج بخش کے عر س کا اہتام کیا گیا تھا انگلینڈ سے کچھ دو ست بھی ہمرا ہ آئے تھے مقر رین نے سلسلہ عالیہ نو شاہیہ کی تعا رفی تقر یر یں انگر یزی اور ڈچ زبا نو ں میںکیں حضرت پیر صا حب نے صد ار تی تقر یر میں حضر ت نو شہ گنج بخش کے حالات زندگی پر رو شنی ڈا لی پیر ابو الکمال بر ق شا ہ کا کلام در ح مد ح، نو شہ گنج (رح) سنا یا اس عر س کے موقع پر ایک ہند و نے حضر ت پیر صا حب کے ہاتھ پر اسلام قبو ل کیا ۔ +5 نو مبر 1988 �÷ کو پھر ہا لینڈگئے طا ر ق مجا ہد اور انکی اہلیہ بھی سا تھ تھیں پیر صا حب نے مو لا نا عبد الو ہا ب صد یقی کے جلسہ میں خطاب کیا حا ضر ین میں عر ب ، ایر ان ، پاکستان ، تر کی اور سر ہنا می کے افرا د تھے ۔ پھر یمسٹر ڈیم کا تبلیغی دو ر ہ کیا دسمبر 1988 �÷ میں پھر ہا لینڈ آئے 1989 �÷ کے آغا ز سے پھر ہا لینڈ کے دو ر ے شر و ع ہو گئے 25 اگست 1989 �÷ کو رو نا مچہ میں ہے کہ ’’ آج نما زِ فجر سے قبل پیر بر ق شا ہ صاحب کی زیا رت ہو ئی سفید کپڑ و ں میں ملبو س تھے اور چا ر پائی پر آرا م فر ما رہے تھے ‘‘ اس سفر میںبھی بہت سے لو گ حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے 29 اگست کو ایک ڈچ عورت نے پیر صاحب کے ہا تھ پر اسلام قبو ل کیا اسکا اسلامی نا م آمنہ رکھا گیا ۔ +اس طر ح آپ با ر با ر ہا لینڈ آتے رہے اراد تمند وں کی تعدا د بر ابر بڑ ھ رہی ہے تقر یبا ً ہر دو ر ہ میں کوئی نہ کوئی غیر مسلم بھی مسلما ن ہو جا تا ہے اور پیرصاحب اپنا کتابوں کا شو ق بھی پو را کر لیتے ہیں بڑی رقم صر ف کر کے سینکڑو ں کتا بیں لیڈ ن سے خر ید چکے ہیں جن میں بعض نا در و نا یا ب کلمی نسخے بھی ہیں ۔ +2001 تک کی ڈ ائر یا ں ہم نے دیکھی ہیں لمحہ لمحہ کی دا ستانِ رقم ہیں اسلام کی اشا عت ، مسلما نو ںمیں اتحا د ، اہل سنت مسلک کا فروغ اور افر اد اہل سنت کی تنظیم شب و رو ز اسی کا م میں منہک ہیں اور اللہ کے فضل سے اس انتھک محنت کی ثمرا ت بھی حا صل ہو رہے ہیں ہم بخوف طو ا ست با قی تفا صیل چھو ڑے دیتے ہیں۔ +آہ تو اجڑی ہوئی دل میں آرا میدہ ہے +گلشنِ وَیمر میں تیرا ہمنوا خو بید ہ ہے +حضو ر �ö کی حیا تِ طیبہ پر گو ئٹے نے جو لا فا نی نظم لکھی ہے اس میں اس نے حیا تِ مقد سہ کو جو ئے رو اں سے تعبیر کیا ہے جو ہز ا ر مز احمتو ں اور مخا لفتو ں کے با و جو د آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے کہیں با غ آجا تا ہے تو اس میں نر م رو ہو کر پھو لو ں کی سر شا ر کر تی ہے کہیں پتھر ر کا وت بنتے ہیں تو در یا ئے پر خرا ش بن جاتی ہے اقبا ل نے اس خو بصو ر تی سے اس ’’ جو ئے رو اں ‘‘ کو فا رسی میں متقل کیا ہے کہ شا یدد اصل نظم میں بھی اتنا حسن نہیں ہو گا کچھ بند ہم بھی بر کت کے لیے نقل کئے دیتے ہیں ۔ +بنگر کہ جُوئے آب چہ مستا نہ محا رود ما نندِ کہکشا ں بگر یباں مَر غزا ر +در خوا ب ناز بو د بہ گہوارئ سحاب واکر د چشم شو ق بآ غو ش کو ہسا ر +زعی بحر بیکر انہ چہ مستا نہ رود +در خو د یگا نہ ازہمہ بیگا نہ محا رود +در راہِ اوبہا ر پر ی خا نہ آفر ید نر گس د مید و لا لہ د مید و سمن د مید +گل عشوہ دا د و گفت یکے پیش مِا با لیت خند ید غنچہ و سر د اما ن او کشید +زعی بحر بیکر انہ چہ مستا نہ رود +در خو د یگا نہ ازہمہ بیگا نہ محا رود +دریا ئے ہر خر وش از بند و شکن گز شت ازتنگنا ئے وادی و کو دہ ودمن گز شت +یکسان چو میل کر دہ نشیب فرا ز را ازکاخِ شاہ و با رہ وکشتِ چمن گز شت +زعی بحر بیکر انہ چہ مستا نہ رود +در خو د یگا نہ ازہمہ بیگا نہ محا رود +بنگر کہ جو ئے آب چہ مستا نہ ردو +CODE OF LIFE ہیں اسلام زندگی کے ہر گو شے میں انسا ن کی رہنما ئی کر تا ہے ۔ اس طر ح بڑی وضا حت سے اپنے موضو ع کا حق ادا کیا سننے والو ں کے دما گ رو شن ہو گئے جنا ب مسعو د احمد نو شا ہی آف نو شہر ہ شر یف کے صا حبز ادے اور کئی دو سرے احباب ملا قا ت کیلئے آئے رات عشا ئ کی نماز کے بعد پیر صا حب نے خطا ب کیا ان کا خطا ب تین بجے تک جا ری رہا اور مجمع پر سکو ت و سکو ن چھا یا رہا حضرت پیر معرو ف حسین شاہ نے دعا کر ائی ۔ اگلے روز حضرت پیر صا حب مسجد بلا ل شر یف لے گئے پر و فیسر جسا م العطا ر سے ملا قا ت ہوئی سنٹر ل لا ئبر یری دیکھنے کیلئے تشر یف لے گئے جہا ں انگریز ی میں اسلام پر بہت سی کتا بیں مو جو د تھیں میلا د شر یف کی تقر یب ہوئی اس میں بر ق شا ہ صا حب نے بھی خطا ب کیا ور قبلہ پیر صا حب نے میلا د مصطفےٰ پر رو شنی ڈا لتے ہو ئے فر ما یا ’’ آج لو گ اپنے لوا حقین کے بر تھ ڈے منا تے ہیں بڑ ے بابرکت ہیں وہ لو گ اللہ کے محبوب کا یو م میلا د منا کر اپنے آپ کو سعد تمند بنا لیتے ہیں اما م ابو شا مہ جو اما م نو وی شا ر حِ مسلم شر یف کے استا ذ الحد یث ہیں فر ما تے ہیں۔ +’’ ہما رے زما نہ میں بہتر ین کا م جو شر و ع ہو ا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حضور �ö کی ولا دت کے دن صد قا ت اور خیرا ت کر تے ہیں اور اظہا ر مسر ت کے لیے اپنے گھر و ں اور کو چو ں کو آراستہ کر تے ہیں کیونکہ اس کے کئی فا ئدے ہیں فقر ائ و مسا کین کے سا تھ احسان اور مر وت کا بر تا ئو ہو تا ہے نیز جو شخص یہ کا م کر تا ہے معلو م ہو تا ہے اس کے دل میں اللہ کے محبوب کی عظمت اور ان سے محبت کا چرا غ روشن ہے اور سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کو پیدا فر ما کہ اور انہیں رحمت اللعا لمین کا لبا س پہنا کر دنیا میں بھیجا ہے اور یہ اللہ کا بڑا احسا ن ہے جس پر بند و ں کو اللہ کا شکر ادا کر نا چا ہیے اور مسر ت کا یہ اظہا ر بطو ر ادا ئے شکر ہے ‘‘ +﴿السیر ۃ الجلیہ ج ا ص 80﴾ +اما م سخا وی فر ما تے ہیں +’’ مو جو د ہ صو رت میں میلا د کی محفلو ں کا انعقا د قر ونِ ثلا شہ کے بعد شر و ع ہوا پھر اس وقت سے تما م ملکو ں اور تمام بڑ ے شہر وں میں اہل اسلام میلا د شر یف کا انعقا د کر تے آرہے ہیں اسکی را ت میں صد قا ت خرات اور فقہ ئِ مسا کین کی دلدا ر کرتے ہیں حضور �ö کی ولا دت با سعا دت کے واقعات سنا کر لو گو ں کے دل حضور �ö کی طرف مائل کر تے ہیں اور اس عمل کا بر کتو ں سے اللہ اپنے فضل کی با رشیں ان پر بر سا دیتا ہے ‘‘ +﴿بحو الہ محمد رسول اللہ از علامہ محمد رضا ﴾ +علامہ ابن جوزی ضعیف رو ایا ت پر تنقید بڑی بے رحمی سے کر تے ہیں ان کی را ئے سُن لیجئے وہ فر ما تے ہیں۔ +’’محفل میلا د کی خصو صی بر کتو ں سے یہ ہے کہ جو اس کو منعقد کر تا ہے اس کی بر کت سے سا را سال اللہ تعالیٰ اسے اپنے حفظ و اما ن میں رکھتا ہے اور اپنے مقصداور مطلوب کو جلد حا صل کر نے کیلئے یہ ایک بشا ر ت ہے ‘‘ +﴿بحو الہ محمد رسول اللہ از علامہ محمد رضا ﴾ +یہ اس تقر یر کے چند اقتبا سا ت ہیں تقر یر بڑ ی مفصل تھی اور سا معین کے لیے بڑی منو ر ، کئی لو گ پیر صاحب کے ہا تھ پر بیعت کر کے حلقہ ئِ ارادت میں داخل ہوئے۔ +28-8-89 کو مسجد کی رقم کے انتظا ما ت کے لیے کا میا ب دو ر ہ کیا ۔2-9-1991 سلسلہ تبلیغ کا کچھ کا م کیا ، قمر حسین شا ہ اور تنو یر شا ہ صاحب سے گفتگو کی ۔ +فر ینک فوٹ میں صوفی منظو ر صا حب سے ملا قا ت ہوئی کا ر کی خر ابی کی وجہ سے جلسے میں ہم شریک نہ ہو سکے ور لڈ اسلامک مشن کے مقا صد عہداروں سے ملا قا ت اور مشن کے با رے میں با ت چیت ہوئی مغر ب کی نماز پڑ ھا نے کے بعد پیر صاحب نے میلا د النبی کے مو ضو ع پر خطاب کیاچا لیس ہز ار سے زا ہد لو گ مو جو د تھے مقا م نبو ت کی عظمت حضور �ö بے نذیر رسو ل عر بی تو قیر رسالت احسا س دین سنت نبو ی کی دین میں اہمیت و ضر و رت پر رو شنی ڈا لی سو الا ت کے جو ا با ت دیے پھر و یا ں سے ھا لینڈ کو سفر با ند ھا ۔ +13 اگست 1979 کو پیر صاحب پہلی مر تبہ بلجیم گئے وہا ں کی اہم جنگو ں کو دیکھا آر ٹی یکٹ مختلف آر ٹ کے حو الے سے وہا ں کا مطا لعہ ، اسلامک کلچر ل سنٹر میں بڑ گئے بر لسلزکی جا مع مسجد میں نما ز پڑ ھا ئی ۔ +25 دسمبر 1982 کو پیر صاحب بلجیم کے بر سلز پہنچے ، وہا ں سب احبا ب سے ملا قا ت کی اور انہیں تبلیغ دین کی طر ف متو جہ کیا اور پھر وہاں سے فرانس چلے گئے ۔ بلجیم مین اس وقت ایک ہزا ر کے قر یب مسلما ن تھے ، زیا دہ تر عر ب کے لو گ مسجد میں آکر نماز ادا کر تے تھے، بلجیم کے دو نو ں تبلیغی دوروں کا اختتا م پر مجلس میلا د کا انعقا د ہو ا، 1982 پیر صا حب کے سا تھ حضرت ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ہی تھی انہو ں نے بھی میلا د النبی اور تعلیم اسلام کے مو ضو عا ت خطا ب کیا بلجیم کے لقب سے مسلما نو ں نے آپ سے ملا قا ت کا شر ف حا صل کیا ۔ لقب سے احبا ب پر سید الکما ل بر ق نو ش اہی کے ہا تھ پر بیعت کی کچھ کتا بیں خر یدیں۔ +29 اگست بروز جمعہ 1989 کو پھر بلجیم گئے بر وسلز میں نماز جمعہ اداکی، طا رق مجا ہد نو شاہی خطا بت اور اما مت کا فر یضہ سر انجام پیر صا حب نے دعا کرا نی اس مو قع پر بھی لقب لوگو ں نے پیر صا حب کے ہا تھ پر بیعت کی ۔ +8 اکتو بر 1989 کو بر سلز جلسہ عیدمیلا د النبی کے سلسلے میں صدا ر تی خطبہ دیا اور ہا لینڈ چلے گئے ۔ 18 جنور ی1989 کو بھی پیر صا حب بلجیم گئے تھے ۔ جہا ں پاکستانی سفا رت خا نے ک ے افسر ان کی منعقد ہ کر دہ محفل میلا دد ، عر س غوث پاک اور عر س اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی میں شر یک ہوئے اور خطا ب فر ما یا تھا ۔ +اب ہم پیر صا حب کی 1975 کی ڈا ئر ی کے چند صفحا ت تقر یبا ً اصل صو رت میں نقل کر رہے ہیں +لند ن کے سعدود سفارت خا نہ میں گئے وہا ں مسٹر توفیق سے شر بر ج روڈ جگہ خر ید نے کے لیے 10 ہز ار پو نڈ و صو ل کئے شا ہنا مہ فر دو سی اور عربی کی کچھ کتا بیں بھی خر ید یں۔ +مولا نا اعطا المصطفیٰ جمیل لند ن ائیر پو ر ٹ پر RECEIVE کیا ۔ +بلیک بر ن میں جلسہ ہو ا صدا رت پیر معر و ف حسین شا ہ نے کی +اسلامک مشنر ی کالج بر یڈ فو رڈ کے ہا ل میں جلسہ ئِ سیر ت و شہا دت منعقد ہوا پیر صا حب نے صد ا ر ت فر ما ئی عطا ئ المصطفیٰ جمیل اور علامہ اعظمی نے خطا ب کیا ۔ +علامہ شا ہ احمد نو را نی ، علامہ ارشد القا دری ، مولا نا عبد الستا ر خا ن نیا زی اور شاہ فر یدد الحق لند ن ائیر پو رٹ پر اتر ے آج کا دن انہوں نے پیر صا حب کے پا س گز ا ر ا پیر صا حب نے انکے تبلیغی دو رے کا پر و گرا م تر تیب دے رکھا تھا اور اس کے مطا بق دورہ مکمل ہو ا۔ +مولا نا شا ہ فر ید الحق نے ہیلی فیکس میں خطا ب کیا ، مولا نا نیازی اور مو لا نا نو را نی نے بریڈ فو ر ڈ میں +ہر سفیلڈ میںتقریب ہوئی اور شا م کو ڈیوز بر ی میں ۔ +دن کے بر یڈ فو ر ڈ میں جلسہ ہو ا اور را ت کو بلیک بر نکی مسجد میں ۔ +جمعہ کے روز مولا نا نو را نی نے پر سٹن میں خطا ب کیا شا ہ فر ید الحق نے نیلسن میں اور مو لا نا نیا زی نے اولدہم میں مولا نا نیا زی کے اعزاز میںاہل بر یڈ فو رڈ نے دعو ت کا اہتما م بھی کیا ۔ +دوپہر سٹر میںتقر یب ہو ئی شا م کو ڈر بی میں۔ +صبح را شد یل میں شا م کو ما نچسڑ میں تقر یب ہوئی ۔ +لنکا سٹر ، بلیک بر ن اور بو سٹن میں فنکشن ہوئے ۔ +اور ہا ئی و بکمب میں جلسہ ہو ا۔ +بر منگھم میں جلسہ ہو ا ۔ +لند ن میں جلسے ہوئے 19 ما رچ ہا ئی وبکمب ، پیڑ برا اور سلائو میں 15 ما رچ کو گلا سکو میں اور16 ما رچ کو لندن میں جلسے ہو ئے +زند گی اور بند گی +شخصیت کے کچھ رنگ بیا ن کر نا چا ہے تھے نہیں کر سکا۔ اور دو سرے رنگ آگے بکھر ے پڑ ے ہیں کیا کر و ں؟ اب مثلا ً اسی چیز کو دیکھئے کہ میں یہ بیا ن نہیںکر سکا ہوں کہ اپنی ہزا ر پہلو مصر وفیا ت کے با وجو د حضرت پیر صاحب تصنیف و تا لیف کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں خو د لکھتے ہیں دو سر وں کو مو ضو عا ت دے کر لکھو اتے ہیں پھر انکا لکھا ہوا دقیق نظر سے دیکھتے ہیں اور شا ئع کر ا تے ہیں جمعتیہ تبلیغ الا سلام نے بہت بڑی لا ئبر یر ی کے سا تھ ادا رہ التصنیف و التا لیف بھی بنا رکھا ہے ایک میگز ین بھی نکالتے ہیں تبلیغی لڑ یچر میں جو کتا بیں پمفلٹ وغیر ہ شا ئع کئے ہیں انکی تعدا د بہت عر صہ پہلے انٹر ویوکے مطا بق سا تھ سے زیا دہ ہے ۔ پیر معر وف حسین شاہ صا حب ایک صاحب طر ز نثر نگا ر ہونے کے علاوہ فارسی میں اور پنجا بی زبا ن کے پو ٹھو ہا ری لہجہ میں شعر بھی کہتے ہیں اب تک انکی در ج ذیل کتا بیں منظر عام پرآچکی +۱﴾ شر ح ایسا غو جی ﴿منطق کی ایک مشکل کتا ب کی شر ح﴾ +۲﴾ پنجا بی اکھا ن ﴿ایک تحقیقی کتا ب﴾ +۳﴾ با رہ ما ہ نو شاہی ﴿نظم﴾ +۴﴾ سی حر فی نا قو س نو شا ہی ﴿نظم﴾ +۵﴾ سی حر فی سو ز نو شاہی ﴿نظم﴾ +۶﴾ فر یا د نو شاہی +۷﴾ سفر نا مہ حر مین الشر یفین +۸﴾ نغمہئِ نو شاہی ﴿نظم﴾ +۹﴾ نو حہئِ نو شاہی ﴿نظم﴾ +۰۱﴾ زارستان نو شا ہی ﴿نظم﴾ +نظا م میں ہے جو امنِ عالم کا اعلمبر دا ر ہو امن کی تڑپ ، امن کے لیے دو ڑ دھوپ اسلام ہی کی طر ف پیش قد می ہے کل کہا گیا تھا ۔ +اور اسلام نے کہا تھا نہیں ہر حا ل میں ’’ عد ل کر و ‘‘ حتیٰ کہ جنگ میں بھی عد ل کر و اگر مجبو را ً تمہیں دفا ع میں لڑ نا بھی پڑے تو حد سے نہ بڑھو +’’وَلاَ یَجْرِ مَنّکُمْ شَانُ قَوْ مٍ عَلیٰ اَلاّ تَعْدِ لُوْا ھُوَ اَقْرَ بْ لِلتَّقوٰ ی‘‘ +﴿کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر نہ اُکسا ئے کہ تم عد ل کا دامن ہا تھ سے چھوڑ بیٹھو ، نہیں ہر حا ل میں عد ل کر و یہی با ت تقوٰی سے زیا دہ قریب ہے﴾ آج انسا نیت بحیثیت مجمو عی عد ل کی پکا ر بلند کی رہی ہے بُش حکومت عر اق پر حملہ آور ہو تی ہے تو امر یکہ ہی سے لا کھو ں لو گ اور دنیا بھر سے کروڑ و ں لو گ احتجا ج کے لیے سڑ کو ں پر نکل آتے ہیں مر نے والے عر اقیو ں سے ان کا رنگ ، نسل اور وطن کا کوئی اشتر اک نہیں مگر سب کو راتو ں کی نیند اور دنو ں کا چین ختم ہو جا تاہے۔ ہر طرف سے پکا ر بلند ہو تی ہے ’’ عدل ‘‘ ’’عدل‘‘ ہر حا ل میں ’’عدل‘‘ دہشت کر دی ضر و ر ختم کر و مگر اس سے لا کھ گنا زیا دہ دہشت گر دی سے نہیں عد ل کیسا تھ ، فتنہ کا سر کچل دو مگر بہت بڑا فتنہ پیدا کر کے نہیں عد ل کے سا تھ جن لو گو ں نے ورلڈ ٹر یڈ سنٹر پر حملہ کیا وہ انسا ن نہیں وحشی در ند ے تھے انہیں اس پر آما دہ کر نے والے اور بھی بڑ ے در ند ے ہیں ان کے سر وں میں شیطا نو ں کے آشیا نے ہیں انہیں ڈھو نڈو ، انہیںتلا ش کر و اور پھر انہیں عبر تنا ک سزائیں دو مگر یو ں نہیں کہ افغا نیوں کے وہ بچے یتیم کر دو جنکے با پ اپنے اور +اپنے بچو ں کے پیٹ بھر نے کے لیے تمہا ری سٹر کو ں پرروڑ ی کو ٹ رہے ہیں ان عرا قی ما ئو ں کو نہ رُلا ئو جنہو ں نے اپنے بچو ں کو نا شتہ کرا کے سکول بھیجا تھا اور اپنے شو ہر وں کو رو ٹی کما نے کے لیے مز دو ری کے لئیئ رخصت کیا تھا ۔ بتا ئیے ’’ عدل ‘‘ ’’عدل‘‘ کی یہ پکا ر یں اسلام کی فتح نہیںتو کس کی فتح ہے؟ +اسلام نے سب سے پہلے مسا وا ت انسا نی کا پر چم بلند کیا تھا جمہو ر کے حقو ق کا تعین کیا تھا ، ملو کیت اور سلطا نی کا خا تمہ +کیا تھا جمہو ریت کی آواز بلند کی تھی آج سا ری دنیا جمہو ریت کی دلدا دا اور ملو کیت کی دشمن ہے بتا ئیے یہ کس کی فتح ہے ملو کیت کے نما ئندے یز ید کی یا ملو کیت کے خلاف آواز بلند کر کے اپنے سارے خا ندا ن کو اپنے خو ن میں ڈبو دینے والے حسین (رض) کی ، اسلام نے عو ر ت کو انسا نی حقو ق دییتھے اور اسے معا شرہ میں مرد کی سطح پر لا کھڑا کیا تھا آج عورت کے حق میں آواز بلند کرنے والے کیااسی نبی ئِ عربی کی اتبا ع نہیں کر نا چا ہتے جس نے سب سے پہلے عورت کو زند ہ در گو ر کر نے والے معا شر ہ میں عو ر ت کے حقوق کا تعین کیا تھا۔ +اسلام نے ہی سب سے پہلے رنگ ، نسل ، وطن اور دو سرے امتیا زا ت ختم کر کے کہا تھا لو گو تم سب ایک ہی آدم کے اولاد ہو اس لیے +’’کان النا س امۃ وا حدہ‘‘ پو ری نسل انسا نی امتِ وا حدہ ہے کسی گو رے کو کسی کالے پر کسی کالے کو کسی گو رے پر کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حا صل نہیں کہ فضیلت کا معیا ر بد ل کر سا ری دنیا کو ایک خا ندا ن بنا دیا گیا ہے۔ یہ جو آج گلو بل ولیج +GLOBAL VILLAGE کی با تیں ہو رہی ہیں بتا ئیے یہ کس آواز کی با زگشت ہے ۔ وحدت، انسا نی کا یہ تصو ر کس نے دیا تھا ؟ کیا یہ اسلام کی دعوت اور اسلام کی پکا ر نہیں تھی۔ بلا شبہ یہ سب کچھ اسلام تھا جو اجتما عی طو رپر سا ری دنیا نے تسلیم کر لیا ہے لیکن ابھی نظر یا تی طو ر پر یہ سب کچھ تسلیم کیا گیا ابھی عملی طو ر پر ان نظر ��ا تت کو جز ئیا ت سمیت قبو ل نہیں کیا گیا قبو ل کیا بھی گیا تو اس پر پو را اعمل نہیں کیا جا سکا کیو نکہ انسان ابھی مفا د خو یش کو چھو ڑنے پر آما دہ نہیں اس میں وہ ایما ن پیدا نہیں ہوا جو انسا ن کو اس عمل کا پیکر بنا دیتا ہے۔ +’’یُؤ ثرون َ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَا نَ بِھِمْ خَصَا صَہo 59/9‘‘ +﴿وہ دو سر و ں کی ضر و ر یا ت کو اپنی ضر و ریا ت پر تر جیح دیتے ہیں چا ہے وہ خو د کتنی ہی تنگی میں کیوں نہ ہو ں﴾ +اور وہ وقت آنے والا ہے جب انسا ن مجبو ر ہو کر ان نظر یا ت کو عملی طو ر پر بھی اس طر ح قبول کر یگا کہ ان نظر یا ت کو متعا ر ف کر انے والے قرآن پر ایما ن لا ئے ۔ ایسا ہو نا ہے ،ہو کر رہنا ہے کیو نکہ کا ئنا ت کے خا لق اور ما لک کا فر ما ن ہے اس +دین کا تما م ادیا نِ عالم پر غا لب آکر رہنا ہے ۔ اور ہم دیکھ رہے ہیںکہ اس کا م کی ابتدا ئ ہوگئی ہے کیونکہ اس دین کے نظر یا ت اب دنیائے انسا نیت کی اولیں تر جیحا ت بن گئے ہیں۔ غیر متعلق نہیںہوگا اگر ہم یہاں مغر بی مفکر ین میں سے ایک مفکر بر نا ر ڈ شا کے الفا ظ نقل کر دیں مفکر مو صو ف کہتاہے۔ +’’ میں محمد ﴿�ö﴾ کے مذہب کو اسکی تو انا ئی کی بنا ئ پر ہمیشہ بہ نگا ہِ احترام دیکھا ہے میرے نزدیک دنیا میںتنہا یہی مذہب ہے جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کے بد لتے ہوئے حالات کا سا تھ دے سکے اور یہی وجہ ہے +کہ اس کا پیغا م ہر زمانہ کے لو گو ں کو کر سکتا ہے میں نے اس حیر ت انگیز شخصیت کی سیر ت کا مطا لعہ کیا ہے اور میر خیا ل ہے کہ وہ مسیح +﴿علیہ اسلام﴾ کا نقیض ہونے کے بجا ئے بجا طو رپر نو عِ انسانی کا نجا ت دہند ہ کہلا سکتا ہے میرا یقین ہے اگر آج اس جیسا کو ئی انسان حکومت سنبھال لے تو وہ اس کے مسائل کا اس خو بی سے حل پیدا کر سکتا ہے کہ یہ دنیا پھر سے اس امن ار مسر ت ک زندگی کو پالے جس کی آج اسے اشد ضرور ت ہے میں نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ جس طر ح آج کا یو رپ اس مذہب کو قبول کرنے پر آما +دہ ہو رہا ہے اسی طرح کل کا یو رپ بھی اس مذہب کو قبول کر لے گا ‘‘ ﴿بحوا لہ معرا ج انسا نیت صفحہ 413 ﴾ +کیو نکہ اسلام کی تعلیما ت ہی ایسی ہیں جو ہر دو ر کے مسائل کا صحیح اور اطمینا ن بخش حل پیش کر تی ہیں گو ئٹے کے الفاظ میں ’’ اسلام کی تعلیم کہیںبھی نا کام نہیںہوسکتی ہم اپنے تمام نظا مہائے تمد ن کے با وجو د اسکی حد و د سے آگے نہیں جا سکتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں جا سکتا ‘‘ ﴿GOE THE TO ECKERMANN﴾اس حقیقت کا اعتراف تو آج مفکر ین یو ر پ کھل کر کہہ رہے ہیںکہ گز رے ہوئے کل کا یو رپ مسلما نو ں کی عطا کی ہوئی علمی اور تہذ یبی رو شنی سے ہی منو ر ہوا بر یفا لٹ لکھتا ہے۔ +’’ یو رپ کی نشأۃِ ثا نیہ اس وقت پند ر ھو یں صد ی میں نہیں ہوئی بلکہ اس وقت ہوئی جب یو رپ عر بو ں کے کلچر سے متا ثر ہو ا یو ر پ کی نئی زند گی کا گہوارہ اٹلی نہیںاندلس ہے ادھر روما کی تہذیب گر تے گر تے بر بریت کی انتہا تک پہنچ چکی تھی ادھر دنیائے اسلام بغدا د ، قر طبہ ، قاہر ہ تہذیب اور ذہنی تحر یکا ت کے مر کز بن رہے تھے۔ ان ہی شہر و ں میں وہ حیا ت ِ نو نمو دا ر ہوئی جسے انسا نی ار تقا ئ میں ایک نئے باب کا اضا فہ کر نا تھا۔ جس میں نئی تہذیب کو مخصوص طو ر پر سا منے آنا تھا ۔ اور وہ سامنے آگئی دنیا تہذیب نو سے متعا رف ہوئی۔ +اگر عرب نہ ہوئے تو یو ر پ کی تہذیب کا عمل وجو د عمل میں آتا ۔ انکے بغیریہ یقینا اس خصو صیت کو حا صل نہ کر سکتا تھا جس نے اسے ارتقائی مر احل میں بلند تر ین سطح پر لا کھڑ ا کیا ہے مغربی کلچر میں کوئی ایسا شعبہ نہیںجس میں عربی ثقا فت کا رنگ نہ جھلکتا ہو لیکن ایک شعبہ تو ایسا ہے جس +میں یہ اثر بالکل نکھر کر سامنے آجا تا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جو در حقیقت عصر ھا ضر کی قو ت کا با عث ہے او ر اسکی فتو حا ت کا ذریعہ ہے یعنی علم الا شیائ سا ئنس کی رو ح ، ہما ری سا ئنس صر ف اسی حد تک عربو ں کی مر ہین منت نہیں کہ انہو ں نے ہمیں عجیب و غر یب نظر یا ت و اکتشا فا ت سے رو شنا س کر ایا بلکہ ہما ری سا ئنس کو پورا وجو دہی اسکا شر مند ہئِ اِحسا ن ہے ‘‘ +﴿THE MAKING OF HUMANITY BY BRIFFAULT﴾ اور جس طر ح کل کے یو ر پ نے اسلام سے کسبِ فیض کیا تھا آج کا یو ر پ بھی مجبو ر ہے کہ اسلام ہی سے کسب فیض کر ے اس کی بد قسمتی یہ تھی کہ اس نے اسلام سے استقر ائی علم کا درس تو لے لیا لیکن یہ نہ سمجھ سکا کہ استقر ائی علم کی صرف علم ِنا فع کے طو رپر لینا چا ہیے اپنی نا دا نستگی میں وہ، ما دی فتوحا ت میں آگے بڑھتا گیا اور بڑ ھتے بڑ ھتے وہ ما دی قوت کے اس جن کی بو تل کا بھی ڈھکنا کھول بیٹھا جو آزا د ہو کر آج سب کچھ تہس نہس کر دینے کیلئے اسکے آگے پیچھے منڈ لا رہا ہے اب صر ف اور صرف ایک ہی علاج +ہے اور وہ اسلام ، وہی اسلام جس میںامن ہے سلامتی ہے اور جو انسانیت کی و احد پنا ہ گا ہ ہے ۔ ہم ابتدا ئ میںبتا چکے ہیں کہ پو ر ی دنیا ٹھو کر یں کھا کھا کر اب اسلامی تعلیما ت کے قر یب آرہی ہے دنیا ایک گا ئو ں بن رہی ہے ایک خا ندا ن میں ڈھل رہی ہے کالے گو رے کی تمیز ختم ہو رہی ہے انسا نی مسا وات کے نعر ے بلند ہو رہے ہیں مغر ب مشرق میں مدغم ہو رہا ہ مشر ق کی طر ف لپک رہا ہے اپنے دکھو ں کا علاج مانگ رہا ہے اور مشر ق مغر ب کو ما یو س نہیں کر یگا اسے اپنے دامنِ عا فیت میں سمیٹ لے گا ، خدا کا وعدہ پو را ہو گا ، اس کی با ت اپنی تکمیل کو پہنچے گی اور وہ دن آئیگا ۔ ضر و ر آئیگا کہ اللہ نے اس دنیا کے خا لق اور مالک ۔ کیا ہے ۔ +﴿زمین اپنے پر و ر ش دینے والے کے نو ر سے جگما اٹھے گی﴾ +زمین سا ری کی سا ری مشر ق ہو جا ئے گی ﴿اشر ف الارض﴾ مطلعِ انوار بن جا ئے گی۔ اور ایسا جب بھی ہوگا اس تا ریخ میں ایک نام ضر ورلکھا جائے گا اور وہ نام ہو گا ’’ مغر ب سے مشر ق‘‘ کی تحر یک اٹھا نیوالے ایک شخص ’’حضرت پیر معرو ف حسین شاہ نو شاہی قا دری ‘‘ کا ، جسے اسی ذ ات کی محبت نے اپنا دیو انہ بنا کر مغر ب میں بھیجا جس کی محبت دین ہے، ایما ن ہے، اسلام ہے جس کا دامنِ رحمت اس قدر و سیع ہے کہ سا ری کائنات ا س میں سما سکتی ہے اور جس کے خدا ’’ رب العلمین‘‘ نے فخر سے کہا ہے ۔ +’’وَ مَا اَرْ سَلْنٰکْ اِلّاَ رَحْمَۃً الا مَا لمین‘‘ +اِنَّااللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہ‘ یَصَلّٰوْ نَ عَلیَ النبی یَا َ یُّہَا الَّذِیْنَ آ مَنُوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ ا تَسْلِیْماً +اَللّٰھُمَّ صَلِّ وسَلِّمْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ۔ برُو ح اِ عظم و پا کش درود لا محدود +مصطفی جا نِ رحمت پہ لاکھو ں سلام +جن لو گو ں نے بر طا نیہ میں اسلام کو ایک اخو ت و مسا و ات کی تحر یک کی حیثیت سے متعا رف کر ایا ان میں حضرت پیر صا حب کو امتیازی مقا م حا صل ہے وہ نصف صد ی سے بیدا ر دماغ اور مستعد قوتِ عمل سے شب و روز تبلیغ اسلام میں مصر و ف ہیں بر طا نیہ کے غیر متعصب اور انصا ف پسند انگر یز صحا فیو ں نے ہمیشہ انہیں اپنے قلم سے خر اجِ عقید ت پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ورلڈ اسلامک مشن بھی انہی کی سو چ کا عملی اظہا ر ہے لیکن بحیثیت ایک تنظیم بہت بعد میں وجو د پذیر ہوئی پیر صا حب کا کام تو اس روز شر و ع ہو گیا جس روز انہو ں نے برطانیہ کی سر زمین پر اپنا پہلا قدم ٹکا یا ۔ +حضرت پیر معرو ف شا ہ صا حب کا اپنا تعلیمی پس منظر یہ ہے کہ انہو ں نے پاکستان میں میٹر ک پاس کر نے کے بعد دینی تعلیم کے مراحل مختلف مدا ر س سے حا صل کی دستار ِ فضیلت اور سندِ فر اغ حا صل کر نے کے بعد وہ درس ِ نظا می پر ایک اتھا ر ٹی کی حیثیت حا صل کر گئے تصوف تو انکی گھٹی میں پڑا تھا کہ وہ حضر ت نو شہ گنج بخش کے خا نوا دہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خا نوا دہ شر یعت و طر یقت میں ہمیشہ سے قیا دت و سیار ت کے منصب پر فا ئز چلا آتا تھا ۔ +وہ 20 اپر یل 1961 کے روز بر طا نیہ میں بظا ہر تلا ش رِز ق میں آئے انکا قیا م اپنے دو ست اور خا نوا دہ ئِ نو شا ہی کے دیر ینہ عقید ت مند چو دھر ی فر ما ن علی کے ہا ں ہو ا انہو ں نے فیکٹر ی مز دو ر کے طو ر پر روز گا ر کے حصو ل کا سفر شر و ع کیا ۔ را ت کی شفٹو ں کو تر جیح دی دن کو انہو ں نے سا تھ کے گھر و ں کے مسلما ن بچو ں کو اپنی قیا م گا ہ پروا قع بر یڈ فو رڈ میں نا ظر ہ قر ان حکیم پڑ ھا نے اور ابتدا ئی اسلامی با تیں تعلیم کر نے کا کام شر و ع کر دیا ۔ اس علا قہ کے لو گو ں کو یہ کا م بہت پسند آیا انہو ںنے پیر صا حب سے تعا و ن شر و ع کر دیا اور کام کی رفتا ر تیز ہو گئی ۔ +جب لو گ زیا دہ قر یب آئے اور انہو ں نے دیکھا کہ حضرت صا حب کا عز ائم بہت بلند ہیں اور اُن میں اللہ تعالیٰ نے وہ اوصا ف بدرجہ ئِ اتم و دیعت کئے ہیںجو اوصا ف ایک پیرِ طر یقت اور رہبر شر یعت کے لیے ضر و ر ی ہیں تو وہ معا و ن کی حیثیت سے بڑھ کر عقید تمند و ں کی صف میں دا خل ہوگئے اس طر ح سا ٹھ عقید تمند و ں کیسا تھ جمعیت تبلیغ الا سلام کے بنیا د رکھ دی گئی۔ +بر طا نیہ کے لو گو ں کا بلکہ یو ر پ میں تما م مسلما ن با شند و ں کا مسئلہ یہ ہے کہ انکی اولا دیں سیکو لر سکو لو ں میں تعلیم حا صل کر تی ہیں معاشرہ سیکو لر ہے اور خا ص طو ر پر اسلامی اقدا ر سے بیگا نہ ہے وہ اسی سو سا ئٹی میں جو ا ن ہو کر اپنا دینی وا بستگی کا اثا ثہ کھو بیٹھتی ہیں پیر صا حب نے اپنے مقد س کا م سے ان کے مسئلہ کے حل کی طر ف انکی رہنما ئی کر دی تھی ۔ اس لیے وہ چا ہنے لگے کہ پیر صا حب کے کا م میں توسیعی صو ر ت اختیار کی جا ئے ۔ ضر و ری سمجھا گیا کہ ایک سنٹر قا ئم کیا جا ئے جہا ں لو گو ں کو اسلام کی تعلیم دی جا ئے ایسے سنٹر کو ہی اسلام نے ’’ مسجد کے پاکیز ہ لفظ سے تعبیر کیا ہے چنا نچہ پیر صا حب کی تحر یک پر سب لو گو ں نے مل کر پیر صا حب کی قیا مگا ہ کے عین سا منے دو پر انے خر ید لیے۔ 1967 �÷ میں پلا ننگ پر مشن PLANNING PERMISSION حا صل کر لی گئی اس طر ح 68-69 سا ئو تھ فیلڈ سکو ائر جمعیت تبلیغ الا سلا م کی مر کزی مسجد بن گئی یہاں سے کا م کا آغا ز ہو ا جو اللہ کے فضل سے پھیلتا چلا گیا۔ +1986 �÷ ئ میں ’’ بر طا نیہ اور اسلام ‘‘ پر جو تحقیقی مقا لمے انگر یز صحا فیو ں کی طر ف سے سا منے آئے ان میں وضا حت کی گئی تھی کہ بر طا نیہ میں اسلام کے تما م فر قو ں کے لو گ مو جو د ہیں انہو ں نے اپنی اپنی مسا جد بھی بنا رکھی ہیں ۔ ان فر قو ں میں اہل حد یث ، شیعہ ، وہا بی دیو بندی تبلیغی جما عت ۔ جما عت اسلا می ۔ بر یلو ی اور احمد ی ﴿جنہیں اب اسلامی فر قہ نہیں شما ر کیا جا تا ﴾ سب شا مل ہیں خیا ل رہے کہ مقا لمہ نگاروں نے وہا بیو ں کی دو قسمیں کی ہیں ایک اہل حد یث دو سرے دیو بند ی پھر تبلیغی جما عت اور جما عت اسلامی کو دیو بند ی کی ہی ذہلی شا خیں شما ر کیا گیا ہے۔ بر یلو یو ں میں جمعیت تبلیغ الا سلام کی نما یا ں کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ سب سے زیا دہ مسا جد انہی کی ہیں جمعیتہ تبلیغ الاسلام کی اس وقت گیا رہ مسا جد تھیں جنکی تفصیل یہ دی گئی ہے۔ +۱۔ راکسی بلڈنگ ۔ با ر ک رینڈ رو ڈ ۔ بر یڈ فو ر ڈ 3 +تفصیل میں بتا یا گیا ہے۔ کہ یہ مسجد لمبے عرصے تک تلخ تنا زعا ت کی آما جگا ہ رہی اور کئی دفعہ پولیس کو بلا نا پڑ ا۔ اسے جمعیت تبلیغ الا سلام نے 1981 �÷ میں خر یدا اور اسکی پو ر ی قیمت 33 ہزا ر پو نڈ ادا کر دی گئی اپنے فلو ر سپیس ﴿FLOOR SPACE﴾کے اعتبا ر سے یہ شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے ۔ یہ نچلی منز ل پہلے ایک سینا ہا ل کی تھی اس لیے فر ش ڈھلو انی صو رت ﴿SLOPING FLOOR﴾میں ہے اس لیے یہاں نماز نہیں پڑ ھی جا تی تا ہم اسے کبھی کبھی جنا زہ گا ہ کے طو ر پر استعما ل کیا جا تا ہے۔ اب انتظا میہ یہی سو چ رہی ہے کہ فر ش کو صحیح کر دیا جا ئے ۔ +مسجد کے جو حصے اس وقت زیا دہ تر زیر استعمال رہتے ہیں وہ یہ ہیں۔ بڑا در وا ز ہ جو پرا نے سینا ہا ل میں کھلتا ہے بند رہتا ہے اور عام طو ر پر استعمال نہیں کیا جا تا دا خلہ پیچھے کی طر ف وا قع چھو ٹے در وا زے سے ہو تا ہے دو چھو ٹے سا ئیڈ رو م میںجہاں اما م اور مد رس رہا ئش رکھتے ہیں پچھلے چھو ٹے در وا زے کے سا تھ ایک چھو ٹا سا ہال ہے جہا ں جو تے اتا رے جا تے ہیں۔ +سٹیج کی طر ف سے آتے ہوئے پر انے سینا ہا ل سے گز ر کر آئیں تو دو کمر ے ہیں یہ نماز کی ادا ئے گی کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ سا تھ ہی وہ جگہ ہے جو وضو کے لیے استعما ل ہو تی ہے۔ پر انے سینا ہا ل کی نسبت نما ز کے کمر ے زیا دہ رو شن، سجے ہو ئے اور گر م ہیں ان میں قا لین بچھے ہیں ایک پر انا سر خ دروا زہ محر اب کے طو ر پر استعمال ہو تا ہے ۔ نماز کے کمر ے دو سری مسا جد کے بر عکس بڑ ے سجے ہوئے ہیں قمقمے اور جھنڈیا ں لگی ہیں دیوا ر وں پر مقد س مقا ما ت کی تصو یر یں بڑے سلیقہ سے آرا ستہ ہیں نماز کے کمرو ں میں سے ایک اصل کمر ہ ہے جو نیچے ہے دوسرا اوپر ، اسکے لیے لکڑی کی سیڑ ھی لگی ہو ئی ہے یہاں محرا ب نہیں دو لا ئو ڈ سپیکر ہیں جن سے اما م کی آواز یہاں پہنچتی ہے۔ +اس مسجد میں بڑ ا مد رسہ ہے جو پو را ہفتہ بغیر کسی روز کی چھٹی کے روز انہ شام کو 4 1/2 بجے سے 7 سا ت بجے تک کا م کر تا ہے۔ جو طا لب علم حفظ ِ قر ان کی کلا س میں ہیں وہ روزانہ صبح 6 چھ بجے سے 8 آٹھ بجے تک حا ضر رہتے ہیں ۔ +۲۔ دو سری مسجد 21 ایبر ڈین پلیس بر یڈ فو رڈ ۔ 7 میں ہے ۔ +۳۔ تیسر ی مسجد 13 جیسمنڈ ایو ینیو بریڈ فو ر ڈ ۔ 9 میں ہے۔ +۴۔ چو تھی مسجد وہی ہے جسے مر کزی مسجد کہا جا تا ہے اور وہ 68/69 سا ئو تھ فیلڈ سکو ائر بر یڈ فو رڈ 8 میں ہے۔ +۵۔ اس سلسلہ کی پانچو یں مسجد 1-3 بر نٹ پلیس میں ہے۔ +۶۔ چھٹی مسجد 84 بیمز لے رو ڈ شپلے میں ہے۔ +۷۔ سا تو یں مسجد 2 ۔ بر ئو ننگ سٹر یٹ بر یڈ فو رڈ ۔ 3 میں ہے۔ +۸۔ شیئر بر ج بر یڈ فو رڈ میں جمعیتہ تبلیغ الا سلام کا ’’ اسلامک مشنر ی کالج ‘‘ ہے ۔ +یہ کثیر ا لمقا صد جگہ ہے جہا ں مسجد بھی ہے اور کا میا ب طلبہ کی دستا ر بند ی کے اجلا س بھی یہیں ہو تے ہیں۔ یہا ں با قاعدہ طا لب علمو ں کے سا تھ تعلیم با لغا ں کی کلا سز بھی ہو تی ہیں۔ +۹۔ اس سلسلہ کی نو یں مسجد 87-89 ریا ن سٹر یٹ میں ہے۔ +۰۱۔ دسو یں مسجد 564-A تھا ر نٹن رو ڈ بر یڈ فو رڈ 8 میں ہے۔ +۱۱۔ گیا ر ہو یں مسجد سینٹ لیو کس چر چ ہا ل بر یڈ فو رڈ 9 میں ہے ۔ +1986 �÷ تک کی سر و ے ر پو ر ٹ میں یہ صو ر ت حا ل تھی اسکے بعد کا م مسلسل آگے بڑ ھ رہا ہے 1989-90 �÷ تک یہ تعداد 15 تک پہنچ گئی مساجد کے سا تھ تعلیم و تد ریس کا انتظا م بھی ہے اور لا ئبر یر ی کا بھی ۔ دو بڑے مرا کز پاکستان میں ہیں چک سو ار ی میں 11 کنا ل رقبہ پر پھیلی ہوئی مسجد اور دا �� العلوم ہے۔ +حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب کے متعلق ہم عر ض کر چکے ہیں کہ وہ تبلیغ کو فر ض کے سا تھ عبا د ت سمجھ کر ادا کر تے ہیں اس لیے اپنے کا م سے کبھی تھکتے نہیں اور نہ کبھی مطمئن ہو تے ہیں کہ اب فر ائض کی تکمیل ہو چکی کا م پو را ہو گیا ہم بتا چکے ہیں کہ انہیں اس کا م سے عشق ہے اور عشق کی انتہا ہو تی ہی نہیں عشق کی انتہا چا ہنا تو حما قت ہے �ò +تر ے عشق کی انتہا چا ہتا ہو ں +میر ی سا دگی دیکھ کیا چا ہتا ہو ں +یہا ں تو کل جتنا آ گے بڑ ھتا ہے اسی رفتا ر سے منزل بھی آگے بھا گتی ہے غا لب نے کیا خو بصو رت با ت کہی تھی �ò +ہر قد م دُو ر ی ئِ منزل ہے نما یا ں مجھ سے +تیر ی رفتا ر سے بھا گے ہے بیا باں مجھ سے +یہ بتا نے کی ضر و ر ت نہیں کہ ہر مسجد کے سا تھ مد ر سہ بھی سر گر مِ عمل رہتا ہے اور تبلیغی مقا صد بطر یق احسن پو رے ہورہے ہیں۔ +جا مع حیثیا ت شخصیت +حضرت پیر معر وف شا ہ صا حب ایک و سیع الجہا ت شخصیت کے ما لک ہیں اور اپنی شخصیت کی ہر جہت کے متعلق انہو ں نے مید انِ عمل منتخب کر رکھا ہے اور ہر میدا ن میں ہمہ وقت سر گر م عمل نظر آتے ہیں۔ +وہ بہت بڑ ے عالم دین ہیں اور اپنے اس علم کا اظہا ر زبا ن و قلم سے کر تے رہتے ہیں انکی تقر یریں سنیں تو آپ سمجھینگے علم کا سمند ر بادل بن کر بر س رہا ہے۔ہر مو ضو ع پر مشر ق و مغر ب کی مختلف زبا نو ں میں اظہا ر ِ خیا ل کر سکتے ہیں۔ اور کر تے رہتے ہیں ۔ قلم میں قو ت بھی ہے اور رو انی بھی ، جہا ں ضر و ر ت ہو تی ہے قلم کو حر کت میں لا تے ہیں اور حکمت و دانش کے سا تھ وسعتِ مطا لعہ کی دھا ک بٹھا تے چلے جا تے ہیں۔ ان کا علم کبھی با سی نہیں ہو تا کیو نکہ وہ اسے ہر وقت تا ز ہ اور اپ ڈیٹ رکھنے کی دُھن میں رہتے ہیں عر بی ، فا ر سی ، اردو ، انگر یز ی وغیر ہ زبا نو ں میں جو کتا ب تا زہ ما رکیٹ میں آتی ہے اُسے اپنی لا ئبر یر ی کی زینت بنا نے میں مستو ری دکھا تے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی لا ئبر یر ی بہت بڑی ہے ۔ پھر یہ کہ وہ ہر مو ضو ع پر مطا لعہ کر تے ہیں علم و ادب ، تا ریخ ، ثقا فت ، سا ئنس غر ضیکہ مختلف شعبہ ہا ئے علو م میں سے ہر شعبہ پر انکی گر فت رہتی ہے ۔ دینی علوم میں بھی ہر شعبہ انکی دستر س میں ہے تفسیر ، حد یث ، فقہ اسما ئ الر جا ل کوئی جہت ایسی نہیں جو انکی با لغ نظر ی کہ شہا دت فر اہم نہ کرکے +پیر صا حب ایک عالمِ با عمل کے ساتھ پیر و مر شد اور ہا دیئِ را ہِ سلو بھی ہیں وہ اپنے مر ید وں کی رو حا نی تر بیت کر تے ہیں تصو ف ، متصوفین ، صو فیا ئ و اولیا ئ کے سو ر نح وغیر ہ علو م پر بھی انکی لا ئبر یر ی ہر سالکِ راہِ طر یقت کی علمی تشنگی بجھا تی ہے اور انکی ذا تی رہنما ئی بر و قت ہدایت فر اہم کر تی ہے جسما نی کے سا تھ رو حا نی علا ج بھی تعو یذ و اور اد وغیر ہ سے کر تے رہتے ہیں۔ اس طر ح بھی ان کا آستا نہ دکھیا رو ں کی امید گا ہ ہے۔ +وقتا ً فو قتا ً محافلِ ذکر بھی بر پا ر ہتی ہیں، +وہ ایک بہت بڑے مبلغ بھی ہیں انہیں دیگر مذ اہب پر پو را پورا عبو ر ہے اور ادیا ںِ عا لم کے تقا بلی مطا لعہ +’’اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْل ِ رَبِّکَ بِاالْحِکْمَۃِ وَا لْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ‘‘ +﴿اللہ کے را ستے کی طر ف حکمت و دا نش اور خو بصو ر ت نصیحت و مو عظمت سے بلا یا کر و ﴾ +کی بھر پو ر عکا سی کر تی ہیں۔ اور وہ میدا ن ِ تبلیغ کے بھی شہسوار ہیں۔ +وہ ایک مصلحِ قو م اور ریفا ر مر بھی ہیں وہ ہر وقت انسا ن کی بھلا ئی سو چتے اور استطا عت کے مطا بق کر تے رہتے ہیں۔ یو ر پ میں مسلما نوں کو جب بھی کسی مشکل کا سا منا ہو پیر صاحب ہی آگے بڑھ کر ��ُسے آسان کر نے کی کو شش کر تے ہیں انفرا دی طورپر بھی وہ لو گو ں کی حتی الامکان مد د اور رہنما ئی فر ما تے ہیں وہ سیا سی طو ر پر بھی مسلما نو ں کے حقو ق کے لیے ہمہ وقت آما دہ ئِ جہا د ر ہتے ہیں۔ +وہ اس قد ر وسیع الجہا ت اور جا مع حیثیا ت شخص ہیں کہ ان کے کسی ایک پہلو اور ایک ہی جہت کا احا طہ کر نا بھی مشکل معلو م ہو تا ہے ۔ کجاکہ انکی سا ری حیثیا ت زیر ِ قلم لا ئی جا سکیں ۔ +پیر صا حب اس وقت بھی مختلف تنظمیں چلا رہے ہیں تبلیغ الا سلام ، ور لڈ اسلامک مشن ، بز مِ نو شاہی مسلما نا ن کشمیر کا اتحا د مسلما نا نِ اہل سُنت کا اتحا د ﴿فیڈ ر یشن آف مسلمز اہل سنہ ﴾ بر یلو ی مسلک کے علما ئ کا اتحا د ، پھر ایک اور با ت بھی قا بل ذکر ہے کہ یہ تما م کا م صر ف بر طا نیہ میں نہیں سا تھ سا تھ اپنے ملک پاکستان میں بھی وہ اسی طر ح سر گر م عملِ ہیں اور وقتا فو قتا ًپاکستا ن جاتے رہتے ہیں۔ +’’ بر یلو ی ‘‘ اور ’’دیو بند ی ‘‘ بر صغیر میں اصطلا ت کی شکل اختیا ر کر چکے ہیں اور انہیں مسلما نو ں کے فر قو ں میں شمارکیا جا تا ہے۔ ’’بریلی‘‘ اور ’’دیو بند‘‘ بر صغیر کے دو شہر ہیںدیو بند میں مو لا نا رشید احمد گنگو ہی کے شا گر د مو لا نا قا سم نا نو تو ی نے مد رسہ قا ئم کیا جو دیو بند شہر میں تھا اسکا نام ’’ دا ر العلوم ‘‘ دیو بند رکھا گیا ۔ بر یلی سے ایک بڑے عا لم دین اما م احمد رضاخا ن کا تعلق ہے آپ وہیں پیدا ہوئے اور وہیں سے تعلیم و ارشاد کا سلسلہ شر و ع کیا ۔ +ہم تصو ف کی تا ریخ کے سلسلہ میں بڑی وضا حت سے بتا چکے ہیں کہ کچھ علما ئ شر یعت کے ظا ہر پر زو ر دیتے تھے اور کچھ کہتے کہ حکم کی ظاہر ی صو ر ت نہ دیکھو اسکی علت دیکھو یعنی اگر حد یث میں دانتو ں پر مسواک کر نے کا حکم آیا ہے تو یہ ضر و ری نہیں کہ ہم در خت ’’ جا ل ‘‘ کی وہی جڑ دا نتو ں کی صفا ئی کے لیے استعمال کر یں جو حضور �ö کر تے تھے ہمیں حکم کی علت کو دیکھنا چاہییاور وہ ہے دا نتو ں کی صفا ئی پس دا نت جس چیز سے بھی صا ف کئے جا ئیں گے سنت کا تقا ضا پو را ہو جائے گا ہا ں اگر میڈیکل سا ئنس ثا بت کر دیتی ہے کہ وہی رو ایتی مسوا ک ہی بہتر ہے تو اچھا ہے کہ وہی استعما ل کیا جا ئے لیکن ضر و ری نہیںمطلب دا نت صا ف کر نے سے ہے، دو سرا گر وہ ظا ہر پر ست تھا اُس نے اسی پر زور دیا کہ وہی مسواک ضر و ری ہے غر ضیکہ اس طر ح کا اختلا ف پیدا ہوا جو آگے چل کر شر یعت اور طریقت کے دو با ہمد گر مخا لف طبقا ت پیدا کر گیا ۔ وقت بد لتا ہے حا لا ت بد لتے ہیں علم کی دنیا میں نِت نئے انکشا فات ہو تے ہیں معا شرہ میں تغیر آتا ہے نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر ہم ظا ہر کو پکڑ کر بیٹھ جا ئیں تو شر یعت ایک جا مد چیز بن جا تی ہے جس کا زما نہ کے ساتھ ہر قد م پر تصا دم ہو تا ہے اگر ہم علتِ حکم کو دیکھ کر چلیں تو کوئی تصا دم نہیں وقت اور اسکے پیدا کر دہ مسا ئل کو اسلام کی اصل بنیا د اور احکا م شر ع کی علت کو مد نظر رکھ گر ان مسا ئل کا حل تلا ش کیا جا سکتا ہے اسی کو تفقہ فی الد ین کہا جا تا ہے اور اسی کو علم فِقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہا ں سے دو گر وہ پیدا ہوئے جن میں سے ایک گر وہ فقہ کا قائل تھا اور دو سرا اگر وہ اپنے آپ کو اہل حد یث کہنے لگا پھر اول الذ کر اپنے آپ کو اہل سنت کہنے لگے۔ اہل سنت مقلد بھی کہلا ئے کہ وہ فقہ کے ائمہ اربعہ اما م ابو حنیفہ(رح) ، اما م ما لک (رح) ، امام شا فعی (رح) اور امام احد (رح) بن حنبل میں سے کسی ایک کی فقہ کی تقلید کر نے لگے ا س طرح حنفی ، مالکی ،شا فعی اور حنبلی فر قے پیدا ہوگئے۔ بر یلو ی او ر دیو بند ی دونو ں اپنے آپ کو اہل سنت بھی کہتے ہیں اور حنفی بھی صو فیا ئ و اولیا ئ میں سے اکثر کسی نہ کسی فقہی مسلک سے وا بستہ تھے کچھ آزا د خیا ل بھی تھے۔ +صو فیا ئ اور او لیا ئ کا سلسلہ ئِ مقدسہ سا ری دنیا میں اشا عتِ اسلام کا با عث بنا انہو ں نے اپنے حسنِ اخلاق اور شیر یں بیا ن سے لوگو ں کو را م کیا اور اسلام کا مطیع بنا یا انہو ں نے مقا می لو گو ں کے تمد ن کو زیا دہ نہ چھیڑ ا صر ف ان رسو م بِد کا استصیال کیا جو شرک کی طر ف لے جا تی تھیں اس طر ح وہ عو ام النا س میں مقبول ہو تے گئے انہو ں نے حضو ر �ö کی سیر ت اپنا تے ہوئے اس قو ل پر عمل کیا کہ مر یض سے نفر ت نہ کر و مر ض سے نفر ت کر و کا فر سے نفر ت نہ کر و اسکے فعل کفرِ سے نفر ت کر و۔ انہو ںنے انسان سے پیا ر کیا اور کو شش کی کہ پیا را اور محبت سے اُسے سمجھا یا جا ئے کہ وہ گمر اہی چھو ڑ کر صر اطِ مستقیم پر آجا ئے ۔ یو ں میرا پیغا م محبت ہے جہا ں تک پہنچے کہنے والے یہ محبت بھر ے لو گ مقبو ل سے مقبول تر ہو تے چلے گئے اسلام پھیلتا چلا گیا اور اولیا ئ کا حلقہ ئِ اثر وسیع تر ہو تا گیا آج سب دانشو ر اس با ت پر متفق ہیں کہ سلطان محمو د (رح) غز نو ی کے ستر ہ حملو ں کے مقا بلہ میں دا تا گنج بخش (رح) کے ستر ہ دنو ں نے اسلام کی زیا دہ اشا عت کی۔ جب عو ام النا س میں ہر جگہ اولیا ئ زیا دہ مقبو ل ہو نے لگے تو خو د مسلما ن با د شا ہ کھٹک گئے انہیں احسا س ہو ا کہ ان کے حکم سے زیا دہ لو گ گد ڑ ی پو ش فقیر کا حکم ما نتے ہیں لو گ انہی فر قہ پو شو ں کی طر ف ر جو ع کر تے ہیں اور انکے اشا رو ں پر سر کٹا نے کو تیا ر ہوجا تے ہیں �ò +ہے دل کی سلطنت پر تسلط فقیر کا +اجسا مِ ناتواں پہ ہے فر ما ں روا امیر +با د شا ہو ں کے پا س دو لت کے انبا ر تھے ان کے آگے جھکنے والو ں پر انعا م و اکرا م کی با ر ش ہو جا تی تھی مگر لو گ کھچے کھچے فقیر وں کے پاس جا تے تھے کیو نکہ کو ئی ان کے گو ش ِ دل میں یہ سر گو شی پھو نک رہا تھا �ò +تمنا درد دل کی ہوتو کر خدمت فقیروں کی +نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں +نہ پوچھو ان فرقہ پوشوں کی ادادت ہو دیکھ ان کو +ید یبضیا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینو ں میں +اور لو گ اسی صد ا پر لبیک کہتے ہوئے قصرِ شا ہی کی بجا ئے فقرِ خا نقا ہی کی طر ف رجو ع کر تے اور کشا ں کشا ن فقیر کی با ر گا ہ میں پہنچتے جہا ں کو ئی حا جب و در بان نہیں تھا امیر فقیر سب برا بر تھے سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جا تا اور دعا ئو ں کا ابر ِ کر م سب پر بر ستا ما دی طو ر پر دکھو ں کا مدا وا ممکن ہو تا تو وہ بھی کر دیا جا تا اور رو حا نی بر کا ت کی شعا عیں بھی ہر ایک پر جلو ہ فگن رہتیں با د شا ہو ں کو فقیر و ں کی یابا ت بھی نیز ے کی طر ح چبھتی رہتی کہ یہ فقیر لوگ اپنے زا ویو ں میں قطب کی طر ح جمے رہتے ہیںکبھی اپنی احتیاجا ت کے ہا تھو ں مجبو ر ہو کر با دشا ہ کے در و ازے پر نہیں آتے ان کے پاس خرا ج اور محا صل لا ے اونٹ نہیں آتے مگر را ت دن ان کے لنگر چلتے رہتے ہیں یہ با تیں با د شا ہو ں کو ستاتی تھیں انہیں کیا خبر کہ لو گو ں کے دماغو ں میں تو یہ معیا ر مبنی بر صداقت ہے کہ �ò +قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش +جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ +با دشا ہ اپنے مقا بلہ میں اپنی ہی سلطنت کے اندر دو سرے با د شا ہ کر بر دا شت نہیں کر سکتے تھے وہ در و یشو ں پر عر صہ ئِ تنگ کر نا چا ہتے تھے مگر اس کے لیے انہیں کسی نہ کسی جوا ز کی تلا ش ہو تی یہ جوا ز اُن علما ئے ظا ہر سے مل سکتا تھا جو وا بستگا ن دربا ر ہو کر تے تھے چنا نچہ ان کے فتو و ں سے اولیا ئ مستحق ِ دا ر ٹھہر ے کسی کو پھا نسی دی گئی کسی کی کھا ل کچھو ائی گئی ۔ صو فیا ئ کا قتلِ عام ہو تا رہا مگر را ہِ سلوک ویرا ن نہ ہو ئی اس پر چلنے والو ن کی بھیڑ لگی رہی اور انکے پر وا نو ں کے ہجو م بھی بڑ ھتے گئے وہ مر گئے تو انکے مزا ر مر جعِ عوا م بن گئے۔ +علما ئے ظا ہر بھی یہ سب کچھ بر داشت نہ کر سکے اور ان اولیا ئ کے خلا ف صف آرا ئ ہو گئے شر ک و بد عت کے معا نی میں نا روا تو سیع کی گئی مزاروں پر جا نے والو ں کو قبر پر ست، مشر ک ، بد عتی مر تدا ور واجب القتل گر دا نہ گیا ۔ لمحہ بہ لمحہ اس مخالفت میں مخا صمت کی شد ت آتی گئی ، اہل حد یث اور حنبلی مسلک کے ابن تیمیہ جیسے متشد د لو گ جو ش غیظ و غضب سے تمتما تے اور فتو وں کے انبا ر لگا تے گئے۔ آخر نجد میں محمد بن عبد الو ہا ب پیدا ہوا جس نے ’’کتا ب التو حید ‘‘ میں ہر طر ف سے تو جہ ہٹا کر ان ہی لو گو ں کو ہد فِ ملا مت و تکفیر بنا یا جنہیں اولیا ئ سے محبت تھی انکے مز ارو ں کو سجا تے انکے عر س منا تے اور انکے جا نشینو ں کا احترا م کر تے تھے ۔ اس نجد میں سلطا ن سعو د پید اہوا جس نے اسی مسلک کو آگے بڑ ھایا ’’ عبد الوہا ب ‘‘ کے اس مسلک کے لیے اسی زما نہ میں ’’ وہا بیت ‘‘ کی اصطلا ح وضع ہو ئی حجاز مقد س پر تر کو ں کی حکو مت تھی اور تر کو ں نے ہی شر یف مکہ کو حا کم مقر ر کر رکھا تھا سلطا ن سعو د نے اُسے شکست دی آل سعو د عر ب پر قا بض ہوئی جس نے عرب کو ’’ سعو د ی عرب ‘‘ کا نا م دے دیا وہی لوگ ابھی تک قا بض چلے آتے ہیں۔ +ان لوگو ں نے صحا بہ اکرا م کی قبر یں بے نشا ن کیں ہر جگہ قبے گرا ئے مزا رو ں کی تو ہین کی انتہا ئی شد ت سے اپنے مسلک کو رو اج دینے کی کوشش کی مگر دنیا چا نتی ہے کہ اکثر یت کد ھر ہے اب انکی شد ت پسند ی میں کچھ کمی آگئی ہے رو ضہئِ رسول کی جا لیوں کو بو سہ دینے والوں پر کو ڑے بر سا نے والے اب کچھ نر م پڑ نے لگے ہیں۔ +بہر حا ل محمد بن عبد ا لو ہا ب کی رہا بیت کو برصغیر میں بھی پنا یا گیا سید احمد بر یلو ی نے یہی مسلک اپنا یا شا +ہ اسمعیٰل انکے مر ید ہوئے یہاں کے اہلحد یث میں بھی چند نے ساتھ دیا آخر سکھو ں کے خلا ف ہر کام جنگ لڑ کر کا م آئے ۔ شا ہ اسمعیل نے ’’ کتا ب التو حید‘‘ کی اتبا ع کر تے ہوئے ’’ تقو یر الا یما ن ‘‘ نا م کی کتا ب لکھی اور تکفیر کی رہی مہم چلا ئی۔ اہلحد یثِ حضر ا ت لفظ وہا بی سے بد کتے ہیں چنا نچہ مو لو ی محمد حسین بٹا لو ی نے انگر یز گو ر نر سے نو ٹیفیکیشن جا ری کر ایا کہ اہل حد یث کو وہا بی نہ کیا جا ئے ۔ یہاں تک تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہا ں ایک اور فر قہ پیدا ہوا جسے آج وہا بی اور دیو بند ی کہا جاتا ہے دیو بند کے دا ر العلوم کی بنیا د مو لا نا قا سم نا نو تو ی نے رکھی اور ظا ہر یہی کہا گیا کہ اسلامی علو م اور اسلامی تہذ یب کے تحفظ کے لیے یہ مد رسہ قائم کیا جا رہا ہے چنانچہ سب طر ح کے لو گو ں نے اس میں دا خلہ لیا بعد میں اس دا ر العلوم کے اربا بِ کا ر نے پر پر زے نکالے اور وہا بیت کے عقا ئد کی تبلیغ شر و ع ہو گئی اس پر اما م احمد رضا خا ن بر یلو ی نے انکی تحر یر وں پر گر فت کی اوربتا یا کہ انکی تحر یر یں اہل سنت کے عقا ئد کے خلا ف ہیں اس پر ’’ بر یلو یت ‘‘ اور ’’دیو بند یت ‘‘ کی اصطلا حیں وجو د میں آئیں پہلے بعض علما ئے دیو بند نے شد ت اختیا ر کی اُن کے ذہنو ں پر شا ہ اسمعٰیل کی تقو یر الا یما ن چھا ئی ہو ئی تھی ۔ +د ونو ں طر ف سے علما ئ نے اس جنگ میں حصہ لیا گر ما گر م لڑ یچر تیا ر ہوا اما م احمد رضا خا ن بر یلو ی نے ان علما ئے دیو بند کی تحر یر یں جمع کیں اور حر مین شر یفین کے علما ئے کرا م کو بصو ر ت استفتا ئ بھیجیں وہا ںسے فتو ٰ ی آگیا کہ ان تحر یر وں میں بیا ن کر دہ عقا ئد کفر یہ ہیں ان سے تو بہ کرنی چاہیے یہ فتوٰ ی جو پو ری ایک کتا ب ہے ’’ حسا م الحر مین ‘‘ کے نام سے اما م احمد رضا خان نے شا ئع کرا دیا جو با ر با ر شا ئع ہوا اور ابتک شائع ہو تا چلا آ رہا ہے ، اس کتا ب کا خا طر خوا ہ اثر ہوا اکا بر دیو بند نے اُن عقا ئد سے برأ ت کا اظہا ر کیااور ’’ مہند ‘‘ کے نام سے کتا ب شا ئع ہوئی جس میں کہا گیا علما ئے بند کے عقا ئد وہ نہیں جو حسا م الحر مین میں ہد ف تنقید بنا ئے گئے ہیں ’’ مہند ‘‘ میں ’’ بر یلو یت ‘‘ اور ’’ دیو بند یت ‘‘ ہر دو مسلک کے عقا ئد قر ار دییگئے۔ +علما ئے دیو بند جو ذہنی طور پر وہا بیت سے قر یب ہیں عجیب مخمصے کا شکا ر رہے ہیں وہ جو کہتے ہیں کر تے نہیں اور جو کر تے ہیںکہتے نہیں اب ہم اُن چند عقا ئد کا ذکر کر تے ہیں جو ما بہ النز اع سمجھے گئے ۔ +۱۔ حیا ت النبی �ö:۔ بر یلو ی اور دیو بند دو نو ں اس با ت پر متفق ہیں کہ رسو ل �ö ظا ہر ی مو ت کے بعد بھی زند ہ ہیں دیو بند ی کہتے ہیں زند ہ ہیں مگر اپنی قبر میں زند ہ ہیں وہاں اگر درود شر یف پڑ ھا جا ئے تو وہ سنتے ہیں بر یلو ی حضرا ت کہتے ہیں آپ ہر جگہ سے درود شر یف سُنتے ہیں۔ ورنہ ہمیں یہ حکم نہ ہو تا کہ ہم نماز میں السلام علیک ایھا النبی پڑھتے یہیں سے حا ضر نا ظر کا مسئلہ پیدا ہوا بر یلو ی حضرا ت کے نز دیک حضور �ö ہر وقت ہر جگہ حا ضر نا ظر ہی اور ہما رے اعما ل دیکھ رہے ہیں وہ قر آن حکیم کی اس آیت سے استدلا ل و استشہا د کرتے ہیں ۔ +’’کُنْتُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْ ا شُھَدَا ئَ عَلیَ النَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّ سُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً‘‘ +﴿تم اعتدا ل پسند امت ہو ﴿اور ایسا تمہیں اس لیے بنا یا گیا ہے کہ ﴾ تم نسل ِ انسا نی کے اعما ل و کر دا ر کے نگرا ن رہوا اور رسو ل (ص) تمہا رے اعمال و کردار کا نگرا ن ہو ﴾ +آج کے دیو بند ی اس کے خلا ف ہیں درود اسلام اور یا رسو ل اللہ کہنے پر بھی اسی لیے جھگڑ ا کر تے ہیں یعنی جو چیز نماز میں پڑ ھتے ہیں ویسے پڑ ھ دیں تو شکر ک ہو جا تا ہے استغفر اللہ ۔ +۲۔ استمدا د لغیر اللہ:۔ اب دیو ند ی حضرات کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مد د ما نو ق الا سبا ب طلب کر نا شر ک ہے جبکہ بریلو ی ایسا عمل جا ئز سمجھتے ہیں بلکہ اکا بر دیو بند بھی اسے جا ئز سمجھتے اور ایسا کر تے تھے صو فی امدا د اللہ مہا جر مکی کی نعتیں پڑ ھ لیجئے اس سے بھی بڑ ی با ت یہ ہے کہ خو د مو لا نا قا سم نا نو تو ی با نی دا ر العلوم دیو بند لکھتے ہیں �ò +مدد اے کرم ِاحمدی کہ تیرے سوا +نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامیئِ کار +اس شعر میں مو لا نا قا سم نا نو تو ی نے حضور �ö کو حا ظر نا ظر جا ن کر مخا طب بھی کیا ہے او اُن سے مد دبھی ما نگی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور �ö بھی فیض جا ری ہے اور وہ بے کسو ں کی پکا ر سُن کر انکی مد د فر ما تے ہیں۔ +۳۔ سما عِ مو تیٰ :۔ سما ع مو تیٰ یا مُر دو ں کا سننا ایک اور اختلا فی مسئلہ ہے اکا بر دیو بند سما ع مو تی ٰ کے قا ئل ہیں کیو نکہ بکثر ت روایات سے سما ع مو تی ٰ ثا بت ہو تا ہے ’’ المہند ‘‘ میں بھی تصر یح کی گئی ہے کہ علما ئے دیو بند سما ع مو تی ٰ کے قا ئل ہیں ۔ آج کے دیو بند حضرا ت کہتے ہیں کہ اولیا ئ قبر وں میں سنتے توہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے بر یلو ی حضرا ت کہتے ہیں یہ تو اور بھی عجیب با ت ہے وہ کر کچھ نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ کا انہیں سنا نے کا فعل عبث ٹھہر تا ہے جو شا نِ خدا وند ی کے خلا ف ہے اگر ایک ولی کا بیٹا اسے اپنا دکھڑ ا سنا رہا ہے ولی قبر میں سب کچھ سُنتا ہے مگر کچھ مدا وا نہیں کر سکتا تو اس دُکھ سے وہ بھی دکھی ہو تا رہے گا ۔ یہ عجیب معا ملہ ہو ا کہ ایک نیک آدمی قبر میں جا کر اپنے بچو ں کو دکھ سُن کر مبتلا ئے اذیت رہے اصل میں میرے ﴿ را قم منصو آفاق نے ﴾ ضلع میا نو الی میں ایک قصبہ واں بھچرا ں ہے وہا ں ایک عالم مو لا نا حسین علی صا حب پیدا ہوئے وہ کہلا تے تو اپنے آپ کو دیو بند ی تھے مگر ان کے عقا ئد زیا دہ تر کتاب التو حید والے محمد بن عبد الو ہا ب نجد ی سے ملتے تھے ۔ +حضور �ö کی میلا د پر اور اولیا ئ کے عر س پر بھی اختلا ف کر تے ہیں، اور دیو بند ی حضرا ت متشد د ہو جا تے ہیں۔ بر یلو ی یا اہل سنت حضرا ت کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ وہ محبت رسو ل (ص) میں ڈوبے ہوئے ہیں انکا ر ایما ن کہ �ò +محمد کی محد دین حق کی شر طِ اول ہے +اسی میں ہو اگر خا می تو سب کچھ نامکمل ہے +اما م احمد رضا بر یلو ی محبت رسو ل (ص) کو ہی اصل عبا د ت سمجھتے تھے اور یہی چیز مخالف فر یق کے نز دیک شر ک قرار پا ئی ۔ +مسلما ن چا ہے دنیا کے کسی کو نے میں ہو ں اکثر یت محبت رسول میں وہی مسلک رکھتی ہے جسے بر صغیر مسلک بر یلو یت کہا گیا ۔ +اللہ کے رسو ل ، صحا بہ کرام اور اولیا ئ عظا م کی محب بر یلویت سمجھی گئی اور مسلما نو ں کی اکثر یت اسی سے وابستہ ہے لیکن انکی کمز وری یہ ہے کہ ان میںیکجہتی نہیں تنظیم واتحا د نہیں کچھ مذہبی سیا سی لیڈر و ں نے بھی انہیں تقسیم کر رکھا ہے ۔ ور لڈ اسلامک مشن میںبھی یہ طے ہو اتھا کہ مسلک اہل سنت کے مسلما نو ں کو وحد ت میں پر و یا جا ئے اور س تنظیم کے قیا م سے پیشتر بھی جنا ب پیر معرو ف شا ہ صا حب نے اسی کو مطمح نظر بنا رکھا تھا ۔ +وہ شب و روز اسی اتحا دد کو شا ں ہیں ۔ +بر یلو یت یا مسلکِ اہل سنت سے وابستہ مسلمان چو نکہ سر اپا محبت ہو تے ہیں اس لیے یہ کہیں بھی ہو ں فتنہ پسندد نہیں ہو تے یہ اولیا ئ کے عقید تمندوں کا گروہ ہے اس لیے ان میں غیر مسلمو ں کے سا تھ رو اداری اور حسن سلو ک کے اوصا ف نما یا ں ہو تے ہیں کسی فتنہ اور شرو فسا دمیں اس مسلک کا آدمی کبھی ملوث نہیں ہوا لاٹھی کی بجا ئے منطق ان کا ہتھیا ر ہے پیر صا حب کا یہ نصب العین بھی ہے کہ غیر مسلمو ں پر و اضح کر دیں کہ جب وہ مسلما نو ں کے متعلق کوئی نظر یہ قا ئم کر نے لگیں تو اس اکثر یتی فر قہ کے خصا ئص ضر و ر مد نظر رکھیں۔ +معا شرہ کو در پیش مسا ئل +اقبال جس تصو ف اور خا نقا ہیت کے مخا لف ہے وہ تصو ف میں ایسا نقطہئِ فکر و عمل اپنا نا ہے جو تصو ف کو وہبا نیت کے قریب لے جا تا ہے دنیا سے تعلق ہو جا ئو سا رے فر ائض حیا ت کو پس پشت ڈا ل کر غا ر وں اور جنگلو ں میں چھپ کر اللہ اللہ کر تے رہنا اور دنیا کے ابلیس اور چیلو ں کے حوا لے کر دینا صحیح اسلامی تصو ف نہیں رہبا نیت ہے جس کے متعلق اللہ نے فر ما یا +﴿رہی رہبا نیت تو وہ انہوں نے خو د گھڑی ان پھر ہم نے نہیں ڈا لی تھی ﴾ +اللہ کے پاک رسو ل �ö نے معا شر ہ سے فرا ر اختیا ر نہیں کیا اسی معا شرہ میں رہے شا دیا ں ‘ کیں بچے پیدا ہوئے گھر و الو ں کے حقو ق نبھا ئے پڑ وسیوں کے حقو ق پو رے کئے جنگیں لڑیں معا شرہ کی ارتقا ئی جد وجہد میں شامل رہے اور آخر معاشرہ کو بد ل کر رکھد یا �ò +اس پہ کیا فخر کہ بد لا ہے ، زما نہ نے تمہیں +مر د وہ ہیں جو زما نہ کو بد ل دیتے ہیں +حضرت پیر معرو ف شا ہ نو شا ہی سیر ت نبو ی پر عمل کر تے ہوئے معا شرہ میں جا ندا ر کر دا ر ادا کر تے ہیں انہ�� ں نے بر طا نیہ میں مسلما نو ں کو پیش آنے والے مسائل میں حا لا ت کا رُخ بد لنے کے لیے بھر پو ر کر دا ر ادا کیا مسلما نو ں کو منظم کیا ان کے مسائل سمجھے اور اربا بِ کا ر کو سمجھا ئے انہو ں نے ہمیشہ مسائل کے حل کے لیے امن پسند ی اور افہا م و تفیہم کا را ستہ اختیا ر کیا او آخر مسئلہ حل کر لیا ۔ +اگلے صفحا ت میں ہم ان کے کر دا ر کی اسی جہت پر ایک دو مثا لیں پیش کر ینگے +بر طا نیہ میں مسلما ن لڑ کیوں کی تعلیم +یہ شا ید 1974 کے قریب کی با ت ہے ، بر طا نیہ کے محکمہ تعلیم نے لڑ کیوں کے علاحدہ سکولو ں کا سسٹم ختم کر نے کا فیصلہ کیا اور مخلو ط طریقہ تعلیم تو رائج کر دیا ۔ پیر سید معرو ف حسین شا ہ نو شا ہی کی نگا ہ ، دو رمیں فو را ً انداز ہ ہو گیا کہ یہ صو رت احوا ل مسلما ن بچیو ں کی تعلیم کے لیے قطعا ً در ست نہیں انہیں سخت تشو یش لا حق ہوئی، انہو ں نے جمعت تبلیغ الا سلا م کے پلیٹ فا ر م پر اس سلسلہ میں جد وجہد کا آغا ز کیا ، بر طا نیہ کے مسلما نو ں کو اس با ت کا احسا س دلا یا کہ حکومت بر طا نیہ کا یہ فیصلہ درست نہیں، کئی میٹنگ ہو ئیں ، عقل اور حقیقت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جا ئز ہ لیا گیا اور پھر حکومت بر طا نیہ کو مسلما نو ں کی بے چینی کی معقول وجہ بتا ئے کے لیے چند تجا ویز دی گئیں اس سلسلہ میںمر کز ی جمیت تبلیغ الا سلا م نے ایک کتا بچہ شا ئع کیا جس میں لکھا گیا ۔ +’’ اپنی جگہ پر یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر قدم اپنی جدا گا نہ تہذیب اپنے مخصو ص ضابطہ ئ اخلا ق اور اپنی مذہبی رو یا ت کے بل پر دنیا کی دو سری قو مو ں کے درمیاں اپنی انفرا دیت بر قرا ر رکھتی ہے چنا نچہ مسلما ن قوم بھی کسی خا ص گھر انے یا قبیلے میں پیدا ہونے والے افرا د کا نام نہیں ہے بلکہ اس قو م کا نام ہے جو دا ئرہ اسلام میں داخل ہو کر ایک جدا گا نہ تہذ یب ایک مخصو ص ضا بطہ اخلا ق اور ایک منفر د طر یقہ زندگی اپنا لینے کے بعد تشکیل پا تی ہے، +اسلام نے جہا ں میں ایک جدا گا نہ طر یق عبا دت کی تعلیم دی ہے وہاں اس نے ہمیں مخصو ص نظا م معا شرت بھی عطا کیا ہے جس کے ذریعہ ہم زندگی گز ار نے کے طر یقے ، انفرا دی سیر ت و کر دا ر کے آداب ، سو سا ئٹی کے حقو ق ، خا ند انی زند گی کے ضا بطے ، مرد و زن تعلقا ت اور اہل و عیا ل کی پر و رش ویر دا خت کی ذمہ دا ر یو ں سے واقف ہو تے ہیں۔ +نا محر م مر دو ں سے نو جوا ن لڑ کیو ں اور عو ر تو ں کا پر دہ بھی اسی نظا م معا شر ت کا ایک قا نو ن ہے جو اسلا م نے ہم پر نا فذ کیا ہے اور مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ہم پر اسکی پا بند نا گزیر ہے +اور مذہبی کمز ریو ں کے با وجو د آج بھی دو سر ی قو مو ں کے در میا ن پر دے کا یہ سسٹم مسلم معا شرے کی ایک واضح علا مت سمجھا جا تا ہے بیگا نہ مرد و زن کی مخلو ط سو سا ئٹی کو وہ اسلام کیو نکر بر دا شت کر ے گا جو خا ندا ن ان ممبر و ں سے بھی اپنی عو رتو ں کا پردہ کر ا تا ہے جو رشتہ کے اعتبا ر سے محر م نہیں ہیں، جذبا تی کمز وریو ں کی آرا ئش سے معا شرہ کو پاکیز ہ رکھنے کے لیے اسلام کا یہ قا نو ن فطر ت انسا نی کے گیر ے مطا لعہ کا آئینہ دا ر ہے، اس سے بر طا نیہ کے مسلما نو ں میں مخلو ط تعلیم کے خلا ف اگر بے چینی ہے تو بجا طو ر پر انہیں اپنی بے چینی کا حق پہنچتا ہے کہ بیگا نہ لڑ کو ں کے سا تھ وہ اپنی لڑ کیو ں کا اختلا ط اپنی قو می تہذ یب اوراپنے مذہب کی ہدا یا ت کے خلا ف سمجھتے ہیں، +علا وہ از یں اخلا قی نقطۂ نظر سے بھی اکر ہم مخلو ط تعلیم کے نتا ئج کا جائز ہ لیں تو وا قعا ت کی رو شنی میںیہ مخلو ط تعلیم گا ہو ں کی جنسی بے را ہ روی ، شہو انی تحر یکا ت اور آزا دانہ معا شقے کے لیے ایک سا ز گا ر ما حو ل کتنا زیا دہ پسند کر یں گے، +اس لیے کہے دیا جا ئے کہ مخلو ط تعلیم کے ذریعے انسا نی ذریت کو حیوا نو ں کی سرزشت اختیا ر کر نے پو مجبو ر کر نا انسا نیت کی کھلی ہو ئی توہین ہے، اس مسئلہ میں دو سری قو مو ں کا نقطہ ئِ نظر کیا ہے اس کے متعلق ہم کچھ نہیںکہہ سکتے لیکن ایک غیر ت مند مسلما ن کبھی ایسے گوارا نہیں کر سکتا کہ اسکی بچی کو ایک حیا نو ر ما حو ل میں چند لمحو ں کے لیے بھی دا خل کیا جا ئے، غا لباً اسی غیر ت قومی کا ثبو ت دیا ہے ، اس مر دِ مو من نے جس نے صر ف اس لے بر طا نیہ کو خیر آبا د کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی بچی کو شر م و حیا کے مقتل میں بھیج کر زند ہ در گو نہیں کر نا چا ہتا تھا وہ اپنے مثا لی کر دا ر کے ذریعہ یہاں کے مسلما نو ں کے لیے جو نقش چھو ڑ گیا ہے ہمیں امید ہے کہ وہ ہما ری قو می غیر ت کو ضر و ر بیدا ر کر ئے گا، +آخر میں حکومت بر طا نیہ کے دانشو رو ں کی تو جہ ہم اس نکتہ کی طر ف مبذ ول کر وا نا چا ہتے ہیںکہ پاک و ہند کے مسلما نو ں کا قومی اور مذہبی مز اج اُن سے مخفی نہیں ہے ایک طو یل عر صہ تک انہیں ہما رے قر یب رہ کر ہمیں سمجھنے کا موقع ملا ہے اپنے دیر ینہ تجر با ت کی رو شنی میں وہ اچھی طر ح جا نتے ہیں کہ ہما رے یہا ں لڑ کیو ں کی تر بیت اور ان کے رہن سہن کا مسئلہ کیا ہے، +اس لیے اپنے ملک میں ایک معزز شہر ی کی حیثیت سے انہو ں نے جن مسلما نو ں کو رہنے کی اجا ز ت دی ہے ہمیں امید ہے کہ وہ ان پر کوئی ایسی شر ط مسلط نہیں کر یں گے جس سے ان کے قو می اور مذہبی جذبہ کو ٹھیس پہنچے اور وہ عبو ر ہو کر یہاں سے فر ار کا راستہ اختیا ر کریں، پاک وہند میں آج بھی انگلستان کے جو شہر آبا دہیں ، انہیں جبر ی قا نون کے ذریعہ ہر گز اس کے لیے عبو ر نہیں کیا جا تا کہ وہ اپنی قومی تہذ یب اور اپنی مذہبی رو ایا ت سے دستبر دا ر ہو جا ئیں ۔ اس پے ہم امید کر تے ہیں کہ بر طا نیہ کے وسیع فر ما ں روا مخلو ط تعلیم کے مسئلہ کا اس ر خ سے اگر جا ئز ہ لیں کہ اسے با خیر نا فذ کر نے سے ایک قو م کی تہذ یبی رو ایت مجرح ہوتی ہے تو ہمیں یقین ہے کہ ہما ری دشواریوں کا کوئی نہ کوئی حل ضر و ر نکل آئے گا آخر آج سے چند سال قبل سکھو ی کی پگڑی کے خلا ف حکو متِ بر طا نیہ نے جو سر کلر جا ر ی کیا تھا وہ صر ف اس بنیا د پر وا پس لیا گیا کہ اس سے ایک قو م کے مذہبی جذبہ کو ٹھہس لگتی تھی، مخلو ط تعلیم کے سو ال پر بر طا نیہ کے مسلما نو ں کی بے چینیوں کے ازا لے کے چند تجا ویز مر کزی جمیت تبلیغ الا سلام بر یڈ فو رڈ کی طر ف سے پیش کی جا رہی ہیں اگر ان میںسے کوئی قا بل قبول ہو تو ہمد ر د ی کے جذبہ کے سا تھ اس پر غو ر کیا جا ئے، +۱۔ مخلو ط تعلیم کے بجا ئے لڑ کیوں کی جدا گا نہ تعلیم کا سلسلہ جا ری رکھا جائے جیسا کہ مہمد قد یم سے آج تک کا سسٹم چلا آرہا ہے، +۲۔ اگر یہ تجو یز قا بلِ قبول نہ ہو تو مسلما نو ں کو اپنی لڑ کیوں کا علاحدہ سکو ل کھولنے کے لیے معقول گر انٹ دی جا ئے ۔ +پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف نو شاہی کے زیر سر پر ستی پیش کی جا نے والی دو سری تجو یز کو حکو مت بر طا نیہ نے اخلا قی طور پر تسلیم کر لیا اس میں کوئی شک نہیں کہ بر طا نیہ مسلما ن لڑ کیوں کے علاحدہ سکول کے بننے کا عمل اس تجو یز کے بہت دیر کے بعد سا منے آیا لیکن الحمد اللہ اس وقت بر طا نیہ مسلمان لڑ کیوں کے لیے علیحد ہ سکول مو جو د ہے۔ +اسلامک مشنر ی کالج کا قیا م +پیر سید معرو ف حسین شا ہ عا ر ف نو شاہی نے بر طا نیہ کے قیا م کے در ران ایک ب�� ت کو خا ص طو ر پر محسو س کیا کہ ہما رے پا س تبلیغ اسلام وہ نظا م موجو د نہیں جو غیر مسلمو ں میں اسلام پھیلا نے کے لیے مفید ثا بت ہو سکے، کیونکہ عر بی درسگا ہوں سے عام طو رپر علما ئے کر ام فا رغ ہوتے ہیں انہیں دنیا کی دو سری زبانیں نہیں آتی کہ وہ دوسرو ں قو م کے سا تھ افہام و تفہیم کا رابطہ قائم کر سکیں، اور انگر یز ی کا بچو ں اور یو نیو ر سٹیو ں کے تعلیم یا فتہ افرا د اس میں کوئی شک نہیں کہ دو سری زبا نو ں بھر پو ر قدر ت رکھتے ہیں مگر ان کے پاس دین کا اتنا علم نہیں ہو تا کہ وہ اسکی صحیح انداز میں وکا لت کر سکیں، سو پیر صا حب نے محسوس کیاکہ ایک ایسے ادا رے کا قیام عمل ہی لا یا جا ئے جہا ں علما ئے اسلام کو بین الا قو امی زبا نو ں میں سے کسی ایک زبا ن میں لسا نی تر بیت دی جا ئے اور اسے اس قا بل بنا یا کہ وہ غیر مسلم اقوم میں دین اسلام کے فر و غ کے لیے کا م کر سکیں، +اس مقصد کے لیے ورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتما م اسلامک مشنر ی کا لج کا قیام پیر صا حب کی ایک بہت بڑ ی کا میا بی تھی ، 14 اگست1974 اس کا لج کا افتتا ح ہو ا، کویت الشیخ محمد سلیمان نے اس کا افتتا ح کیا ۔ اس سے پہلے کہیں بھی اس طر ح کا کوئی ادا رہ اور پھر خا ص طو ر پر یو رپ میں ایسے کسی ادارے کے قیا م کے متعلق سو چا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن پیر صاحب کی کوشش اور بے پنا ہ اس مشکل تر ین کا م کو ممکن بنا دیا، +اس مقصد کے لیے بریڈ فو رس میں بر یڈ فو ر ڈ یو نیو رسٹی کے با لکل سا منے پتھر کی ایک عما ر ت چا لیس ہز ار پو نڈ میں خر ید لی گئی جس میں اٹھا رہ چھوٹے بڑے کمر وں کے علا وہ دو وسیع تر ین ہا ل بھی مو جو د ہیں، اور اس میں دا خل ہو نے والے طا لب علمو ں کے متعلق یہ طے کیا گیا کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے صر ف وہی مسلم طلبہ کا لج میںداخل کئے جا ئیں گے جو صحت ، ذہا نت ، دیانتدا ر ، طبعی اوصا ف اخلا قی عا سن اور عمل و تقو ی کے اعتبا ر سے کالج مطلو بہ معیا ر پر پو رے اتر تے ہو ں، کالج کی طر ف سے طلبہ کو رہا ئش علاج، اور درسی کتب کی سو لتوں کے علاوہ حسب استطاعت و طا ئف دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ +اسلامک مشنر ی کالج کے اغرا ض و مقا صد میں دو بنیا دی با تیں رکھی گئیں، ایک یہ کہ جد ید عربی ، انگر یز ی ، فر نچ ، ، ڈج اور دنیا کی دو سری لٹر یر ی زبا نو ں میں علما ئے اسلام کو تحر یر و تقر یر ی کی تر بیت دنیا اور انہیں دعو ت و تبلیغ کے فکر ی او ر عملی وسا ئل سے مسلح کر کے اس قابل بنا نا کہ وہ غیر مسلم اقوام میں تبلیغ اسلام کا فر یضہ سر انجام دے سکیں، اور دو سری با ت یہ رکھی گئی کہ افر یقہ ، یو ر پ اور امر یکہ کی مسلم آبا دیوں میں جا بجا دینی تعلیم کے مرا کز قا ئم کر نا اور ما حو ل کی ضر و ر ت کے مطا بق ہر ملک کے لیے دینی تعلیم کا ایسا نصا ب تیا ر کر نا جو وہا ں کے مسلما ن بچو ں اور نو جوا نو ں کو اسلام سے مر بو ط رکھ سکے۔ +تعلیمی نظام دو طر ح کے نصا ب پڑ ھا ئے جا نے کا فیصلہ کیا گیا پہلا نصا ب تعلیم ان ملکو ں میں رہنے والے مسلما ن بچو ں کے لیے ہوگا، جہا ں پانچ سا ل سے لے کر سو لہ سا ل کی عمر تک جبر ی تعلیم کا قانو ن نا فذ ہے یہ یو میہ دو گھنٹے کا پا ر ٹ ٹا ئم کو رس ہو گا ، جو مختلف مر احل سے گز ر تا ہوا دس سال میں مکمل ہوگا دو سرا نصا ب تعلیم جسے کا لج لیو ل کا نصا ب کہا جا ئے گا ان علما ئ کے لیے ہو گا جو کسی بھی مستند عر بی دا ر العلوم سے در جہ فضلیت پاس کر چکے ہو ں گے ، اس کو ر س کو مر حلہ ئِ تحقیق ﴿ڈاکٹر یٹ آف فلا سفی﴾ کے نام سے مو سوم کیا جا ئے گا ، +ڈاکٹر یٹ آف فلا سفی کا کو رس عر بی ، انگر یز ی ، فر نچ سوا جسلی اور ڈچ زبا ن سے کسی ایک زبا ن میں تین سا ل کے اند ر مکمل کیا جا سکے گا ۔ یہ کو رس پانچ فیکلٹز پر مشتمل ہو گا، فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی لٹر یچر ، فیکلیٹی آف اسلامک مشنر ی آرٹ فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی سا ئنس، فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی فلا سفی، فیکلٹی آف اسلامک مشنر ی ایڈ منسٹر یشن ، پر فیکلٹی کے طا لب علم کے لیے اختیا ر ی مضا مین کے علا وہ نو عد د لا زمی مضا مین بھی ہو نگے، +۱۔ لند ن یو نیو رسٹی کا اولیول اور اے لیول کو ر س، +۲۔ ایک زبا ن سے دو سری زبا ن میں کتا بو ں اور مضا مین کے تر جمے +۳۔ مختلف مو ضو عا ت پر انشا بر دا ر ی و مضمو ن نگا ر ی +۴۔ مختلف عنوا نا تپر بر خستہ تقر یر وں کی مشق +۵۔ زندگی میںپیش آنے والے مسائل پر بحث و مذ اکر ہ +۶۔ دنیا کے مختلف ادیا ن و تحر یکا ت کا تقابلی مطا لعہ ، +۷۔ تبلیغی ،تنظیمی اور اثطا می امو ر کی عمل مشق +۸۔ تر بیتی سفر اور نئے ما حو ل کو متا ثر کر نے کا تجر بہ +۹۔ معلوما ت عا مہ او مشا ہد ۔ +اس کالج کی انتظامیہ مغر بی اور مشر قی علوم کے ما ہر ین پر مشتمل دو مجا لس کی صو ر ت میںبنا ئی گئی، ایک گو ر ننگ با ڈی اور دو سری اکیڈ مک بو ر ڈ ، اکیڈ مک بو ر ڈ میں دنیا بھر کے مختلف حصو ں سے قدیم و جد ید علوم کے ننا نو ے دانشو رو ں کا انتخا ب کیا گیا اور گورننگ با ڈی میں پیر سید معر و ف شا ہ عا ر ف نو شاہی کے سا تھ در ج ذیل شخصیا ت شا مل تھیں۔ +۱۔ ڈاکٹر حنیف اختر کا ظمی پی ایچ ڈی ﴿لند ن﴾ ڈی آئی سی بیر سٹر ایم آئی ای ایف﴿انسٹ﴾ پی سی﴿رنگ﴾ +بی ای ﴿وڑٹنگ پر و فیسر کو یت یو نیو رسٹی﴾ +۲۔ علامہ الحا ج ارشد القا دری ﴿فاصل در س نظا میہ مبا رک بورڈ﴾ +۳۔ الحاج راجہ محمد عارف +۴۔ الحاج غلام السید یں ﴿ایم اے چا ر ٹر دا ونئٹ ﴿لندن﴾﴾ +۵۔ علامہ قمر الزما ن اعطمی مصباجی ﴿فاصل علوم ﴾ +۶۔ الاکتو ر محمد عو نی الطا ئی البعدا د ی ﴿ڈی آرک لندن﴾ +۷۔ علامہ ابو المحمود ﴿نشتر﴾ ایم اے فا صل عر بی +اسلامک مشنری کالج کے زیر اہتما م ہر سال ایک تعلیمی کا نفر نس کا انعقا د کیا جا تاتھا جس میں طا لب علمو ں کو اسنا د عطا کی جا تی تھیںاسلامک مشنر ی کا لج میں جو اسا تذہ کرام اس وقت پڑ ھا تے ہیں ان کے نام در ج ہیں۔ +حضرت علامہ محمد سعید احمد سعید ی، +حضرت علامہ حا فظ محمد اسلم +حضرت علامہ علی اکبر سجا د +حضرت علامہ منصو ر احمد میرپو ری +حضرت علامہ عبد لطیب کا شمری +مو لانامسعو د احمد میر پو ری +سید ظہور الحسن شا ہ +اسلامک مشنری کالج کی چھٹی سا لانہ تعلیمی کا نفر نس جوپیر سید معر و ف حسین شا ہ عار ف نو شاہی کی زیر نگرا نی ہو تی اس کے اشتہا ر سے پتہ چلتا ہے کہ اس مو قع پر قر آن مجید حفظ کرنے والے پند رہ طلبا ئ کی دست بندی کی گئی، +اسلامک مشنر ی کا لج کے زیر اہتما م دینی تر بیتی کیمپ بھی لگا تے جا تے تھے، اس سلسلہ میں پیر صا حب نے بر یڈ فو ر ڈ میں چا لیس روزہ دینی تر بیتی کیمپ کا اہتما م کر ایا ، +ان تر بیتی کیمپو ں کی ضر ورت اس لیے محسو س کی گئی کہ یو رپ کے جن مما لک میں مسلمان رہتے ہیں، وہا ں کی سو سا ئٹی مسلما ن بچو ں اور نو جوا نوں کے لیے بہت تبا ہ کن ہے، سو اس با ت کی ضر و ر ت تھی کہ نئی نسل کو فکر ی اور اخلا قی طو ر پر اسلام کے سا تھ مر بو ط رکھا جا ئے اس لیے انہوں نے چا لیس روزہ دینی تر بیتی کیمپ کا اہتمام کیا کہ نو جو ان چا لیس دن ایسی رو حانی اور فکر ی تر بیت گا ہ میں گزا ر یں ، جہا ں با ہر کی دنیا سے انکا کوئی تعلق نہ ہو تا کہ وہ خا لص دینی ما حو ل کا اثر آسانی سے قبو ل کر لیں، ان چا لیس دنو ں میں علمی اور عملی طر یقو ں سے انہیں دینی زند گی سے اسقد ر ما نو س کر دیا جا ئے کہ وہ نا سا ز گا ر ما حو ل میں بھی اپنا اسلامی تشخص بر قر ار رکھ سکیں اس سلسلے میں جو کو ر س تر تیب دیا گیا تھا وہ اسلامی انداز کی شخصیت کی تعمیر کے لیے بہت جا مع اور بنیا دی تھا۔ +جلسہ دستا ر بند ی ، +اسلامک مشنر ی کا لج چا ر طالب علمو ں کے حفظ کر نے پر اشتہا ر +تقر یبا ًوہی اسا تذہ ہیں +علما ئے کر ام میں مفکر اسلام پر سید عبد القا درشا ہ صاحب گیلا نی ، +حضرت پیر زا ہد حسین صاحب رضو ی +صا حبزادہ محمد امدا د حسین چشتی +زیر سر پر ستی ، پیر سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی +چھٹی سالانہ کا نفر نس کے ﴿اشتہا ر﴾ کی تفصیلا ت +اسلامک مشنر ی کا لج بر یڈ فو رڈ 26 اکتو بر 1986 +چھٹی سا لا نہ تعلیمی کا نفر نس +زیر صدا ر ت ، ڈا کٹر سید حنیف اختر کا ظمی +چیئر مین اسلامک مشنر ی کا بر یڈ فو رڈ +زیر نگر انی سید پیر معر و ف حسین شا ہ نو شاہی +بانی دی ورلڈ اسلامک مشن +مر کز ی جمیت تبلیغ اسلام ، +و ائس چیئر مین ۔ اسلامک مشنر ی کا لج بر یڈ فو رڈ ۔ +مہما ن علما ئے کرام حضر ت علا مہ قمر الز ما ن صا حب اعظمی ، مفتی غلام رسول صاحب شیخ ﴿الحدیث﴾ ، سید محمد مظہر شا ہ لا ہو ر ی، مو لا نا غلا م رسو ل خطیب چکسورا ی، مو لا نا حا فظ محمد فا ر وق چشتی ، علا مہ خا لد حسین نو شاہی ، علا مہ غلام مر تضیٰ صا بر نو شا ہی ، مو لا نا قا ر ی غلام یسٰین صا حب، حضرت مو لا نا قا ری محمد اقبا ل نو شاہی ، علامہ محمد بشیر صا حب سیا لو ی، مو لا نا سید کو ثر حسین شا ہ نو شاہی، مو لا نا سید طا ہر شا ہ ابر ار ، صا حبزادہ سید قطب شا ہ ابدال ۔ +درس نظا می کی تعلیم دینے والے اسا تذ ہ +۱۔ علامہ محمد سعید احمد صا حب سعید ی ۲۔ حضرت علامہ حا فظ محمد اسلم صا حب +۳۔ حضرت مفتی محمد عبداللہ صا حب قادری ۴۔ حضرت علامہ علی اکبر سجاد +۵۔ علامہ مقصو د احمد میر پو ری ۶۔ علامہ عبد الطیف کاشمیر ی +۷۔ مولا نا محمد بو ستان نا صر ۸۔ مو لا نا مسعو د احمد میر پو ری +۹۔ مو لا نا گل نوا ز چشتی ۰۱۔ سید ظہو ر الحسن شا ہ +۱۱۔ علامہ محمد حنیف قمر ایم اے ۲۱۔ ڈاکٹر علی عراقی +13 طا لب علم کے حفظ کر نے پر انکی دستا ر بند ی کا جلسہ +زیر صد ارت :۔ صا حبز ادہ سلطا ن پیر فیا ض الحسن، زیب آستانہ عالیہ ، سلطا نیہ قا دریہ جھنگ +مہما ن خصوصی:۔ پیر سید ابو الکمال بر ق نو شا ہی ، سجا دہ نشین ، آستانہ عالیہ ، نو شا ہیہ قا در یہ گجرا ت +علمائے کرام :۔ استا زالعلما ئ حضرت علامہ مفتی گل رحما ن بر منگھم +مو لا نا حا فظ محمد عظیم نو شاہی ، مو لا نا غلا م مر تضیٰ صا بر نو شاہی ، مو لانا حافظ محمد فا رو ق، حضرت مو لانا محمد طفیل اظہر ، نازش خطا بت ، مو لانا غلام رسول خطیب چکسوار ی ، حضرت مو لاناقار ی محمدابرا ہیم ، مو لا نا پیر سید کو ثر حسین شاہ ، مو لا نا محمد وز یر احمد خا ن، نو شا ہی۔ +اسا تذہ کر ام میں وہی نا م جو پہلے اشتہا ر میں در ج ہیں۔ +کسی ایک زبا ن کی عبا ر ت کو دو سر ی زبا ن میں منتقل کر نا انتہا ئی مشکل کا م ہے اور اگر یہ عبا ر ت شعر ی و ادبی انداز کی ہو تو یہ مشکل اور بھی سنگین ہو جا تی ہے۔ متر جم لاکھ کو شش کر ے اصل عبا ر ت کی فصا حت و بلا غت پو ر ی طر ح دو سری زبا ن میں منتقل نہیں کر سکتا تر جمہ میں اول تو وہ حسن بر قر ار نہیں رکھا جا سکتا جو اصل میں تھا ۔ پھر یہ کہ دو سر ی زبا ن میں اصل زبان کے الفا ظ کا صحیح بدل اور متبا دل تلا ش کر نا بہت مشکل ہے یہ مشکل مز ید کئی گنا بڑ ھ جا تی ہے جب اصل عبا ر ت ایک انتہا ئی وس��ع زبا ن میں ہو اور جس زبا ن میں تر جمہ کر نا ہے وہ محدود ہو ۔ +سا ری دنیا جا نتی اور ما نتی ہے کہ عر بی زبا ن انتہا ئی وسیع زبا ن ہے اس میں ایک چیز کے لیے بہت سے الفا ظ استعما ل ہو تے ہیں۔ مثلا ً علامہ حمزہ نے مصیبت ﴿دَا ھِیَۃ﴾ کے لیے عربی میں استعما ل ہو نے والے الفاظ جمع کر نے کی کو شش کی تو وہ چا ر سو الفا ظ تک پہنچ کر تھک گیا اس کے لیے اتنے الفا ظ آئے کہ ما ہر ین لغت نے استقصا ئ کی کوشش کی تو تھک کر کہہ دیا ’’ مصیبت کے لیے آنے والے الفا ظ نے تو ہمیں مصیبت میں ڈا ل دیا ﴿فجر الا سلام صفحہ 162 ﴾ ایک ہی زبا ن میں اتنے سا ر ے الفا ظ کو لو گ عا م طو ر پر مترا د فا ت کہ دیتے ہیںیعنی ہم معنی الفا ظ ہیں لیکن ایک زبا ن میں جب پہلے سے ہی کو ئی لفظ مو جو د تھا ۔ تو کسی کو کیا پڑ ی تھی کو وہ دو سرا لفظ اُسی زبا ن میں وضع کر نے کا تر دد کر ے نہیں ان تما م الفا ظ میں تھو ڑا تھوڑا فر ق ضر ور ہو تا ہے ۔ عرب بد و جنکی سا ر ی زند گی زیا دہ تر مصا ئب میں بسر ہو تی تھی انہو ں نے مصا ئب اور اس کی بہت سی قسموں کے لیے الگ الگ الفا ط وضع کئے ظا ہر ہے مصا ئب کئی قسم کے ہیں مثلا ً ذہنی صد مہ ہے جسما نی صد مہ ہے پھر انہو ں نے ذہنی صد مو ں کی ہر قسم کے لیے الفا ظ وضع کئے محبو بہ کی طر ف سے بیو فا ئی کا صد مہ ، بھا ئیو ں کی طر ف سے بیو فا ئی کا صد مہ اولا د کی طر ف بیو فا ئی صد مہ جسمانی صد مے ہزا ر قسم کے ہیں مو سم کی مصیبت با دسمو م چل پڑ ی با ر ش زیا دہ ہوئی اور خیمے بیکا ر ہو گئے ، با ر ش نہ ہو ئی اورجا نو ر وں کی گھا س ختم ہو گئی گھر اکھا ڑ نا پڑ ا، بجلی گر گئی ، ژالہ با ری سے نخلستا نو ں کو نقصا ن ہوا ، جسم کے صد مو ں میں زخم ہیں چو ٹ لگی، چو ٹ سے زخم آیا، یا جسم پر ہی نیل پڑ گیا ، ہڈی ٹو ٹ گئی ، تلو ار کا زخم ، نیز ے کا زخم کلہا ڑی بھا لے کا زخم غر ضیکہ ایسے تما م حا لا ت اور تما م کیفیا ت جن کیلئے ہم ایک پو رے جملہ میں مفہو م ادا کر پا تے ہیں عر ب ایک لفظ استعما ل کر تے ہیں ﴿ONE WORD﴾ ۔ اور اسی چیز کو وسعت زبان کہتے ہیں۔ +عر بی زبان میں ایک چیز ہے ’’با ب ‘‘ اسکے بد ل جا نے سے معا نی میں تھوڑا فرق آ جا تا ہے با ب اٹھا رہ ہیں اور ہر با ب ایک ہی لفظ سے مشتق الفا ظ کے معا نی کو دو ر تک لے جا تا ہے قرآن کے متر جم با لعمو م اس کا خیال نہیں رکھتے پھر عر بی میں ایک اور چیز ہے جسے لغتِ اضدا د کہتے ہیں یعنی بعض الفا ظ ایسے ہیں کہ انکے دو معنی ہیں اور دونو ں ایک دو سرے سے متنا قض اور متضا د، جیسے ’’ اشترٰی ‘‘ کا لفظ ہے کہ اس کے معنی خر ید نا اور بیچنا بھی ، ہیں لفط اپنے محل ِ استعما ل سے اپنے معا نی واضح کر تا جا تا ہے ۔ قر آن کا تر جمہ کر نے والے کو اس کا بھی خیا ل رکھنا پڑ تا ہے۔ +پھر ایک ہی لفظ ہے جو عر ب کے مختلف علا قو ں میں مختلف معا نی میں استعما ل ہو تا تھا جیسے ’’ لبن‘‘ کا لفظ حجا ز میں دو د ھ کے معنو ں میں استعما ل ہو تا تھا اور اس سے مختلف ابوا ب کے تحت مختلف الفاظ وضع ہو ئے تھے ۔ +’’ لبین ‘‘ ’’لبانہ‘‘ لبنی ‘‘ وغیر ہ اور سب میں بنیا دی لفظ لبن کے معنی یعنی ’’ دود ھ ‘‘ مو جو د تھا ۔ نجد میں دود ھ کے لیے حلیب کا لفظ استعمال ہوتا تھا ۔ اور پتلے دہی ﴿جو لسی کی حا لت کے قر یب ہو ﴾ کے لیے لبن کا لفظ بو لا جا تا تھا ۔ آج جب نجد یو ں کی حکو مت عر ب پر آئی تو بڑ ے افسوس کی با ت ہے کہ انہو ںنے اپنے علا قہ کی زبا ن کو عربی پر حا وی کر نے کی مہم شر و ع کر دی ۔ یو ں عربی ئِ مبین کو فنا کیا جا رہا ہے ۔ اب وہ ’’ حلیب‘‘ اور ’’لبن ‘‘ کو اپنے معن�� ں میں استعما ل کر رہے ہیں وہ یہ نہیں سو چتے کہ اس طر ح وہ عر بی کے بہت سے الفاظ کو بے معنی کر رہے ہیں ۔ مثلا ً ’’ لبینہ ‘‘ زیا دہ دو د ھ والی بکر ی کو کہتے تھے تو کیا آج اس کے معنی زیا دہ لسی یا دہی دینے والی بکر ی کے معنی لیے جا ئیں گے خیر یہ الگ بحث اور بہت بڑا مو ضو ع ہے۔ +قرآن حکیم عر بی ئِ مبین میں نا زل ہو ا قرآن حکیم کا تر جمہ کر تے ہو ئے اس با ت کو بھی دیکھا جا نا چا ہیے کہ نزول قرآن کے وقت عربی مبین میں اسکے کیا معنی تھے۔ +ایک با ت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک ہی لفظ کے سا تھ حر فِ جا ر ﴿Proposition﴾آکر لفظ کے معنی بد ل دیتا ہے ۔ مثلا ً ’’ ضر ب‘‘ کے سا تھ ’’ ب‘‘ کا حر ف جا ر آئے تو اسکے معنی کسی چیز کے تو سط سے کسی چیز کو ما رنے کے ﴿TO BEAT WITH یا TO STRIKE WITH ﴾ ضرب کے سا تھ ’’ ل ‘‘ آئے تو اسکے معنی بیا ن کر نے کے ہیں یعنی صر ب لھم ﴿اس نے انکو بتا یا ﴾ ضر ب کے بعد فی آگیا تو ضر ب فی الارض کے معنی ہو گئے وہ سفر کے لیے نکلا ۔ اسی طر ح ضر ب علی کے معنی بند کر دینے کے حروف جا ر بد لنے سے لفظ کا اصل مفہو م بد ل جا تا ہے یہ با ت صر ف عربی یا انگر یز ی زبا ن میں ہے انگر یز ی میں بھی MAKE UP کے معنی ہیں کمی پو ر ی کر نا MAKE OUT کے معنی ہیں سمجھ لینا GET UP کے معنی اٹھنا ، جا گ اٹھنا GET AT رسا ئی حاصل کر نا GET OUT کوئی جگہ چھو ڑ کر نکل جا نا GET ON سوار ہو نا وغیرہ ۔ +اس مو ضو ع پر ایک انتہا ئی جا نفشا نی سے مر تب کی جا نے والی کتاب ’’ معنی اللبیت ‘‘ ہے ۔ قرآن کے متر جم کو اس پر بھی عبو ر ہو نا چاہیے ۔ عربی کے بعض الفا ظ کثیر ا لمعا نی ہیں محل استعمال کو دیکھ کر معا نی کا تعین ہو جا تا ہے قرآن حکیم کے تر جمہ میں اس کا خا ص خیال رکھنا چاہیے۔ زندہ زبا نو ں کا ایک خا صہ یہ ہو تا ہے کہ وہ دو سری زبا نو ں کے الفا ظ ہضم کر تی جا تی ہیں اور اپنی لغت میں وسعت پیدا کر لیتی ہیں مثا ل کے طو ر پر ’’ سجیل ‘‘ کا لفظ قرآن پاک میں استعمال ہوا مگر یہ عربی لفظ نہیں جو الفا ط عر بی نے دو سری زبا نو ں سے لیے ہیں اور تھوڑ ی تبد یلی سے اپنا لیے ہیں انہیں معرب کہتے ہیں ’’ سجیل ‘‘ بھی معرب ہے یہ فا ر سی لفظ ’’ سنگ ِ گِل ‘‘ مٹی سے بنا ہوا پتھر ﴿یا سنگر یز ہ﴾ سے معر ب کر ایا گیا ہے قرآنِ کے متر جم کو اسیے الفا ظ کے سا تھ یہ بھی معلو م ہو نا چاہییکہ وہ لفظ اپنی اصل زبا ن میں کن معنوی میں مستعمل تھا۔ +بعض ایسے الفا ظ ہو تے ہیں جو ایک زبا ن سے دو سری زبا ن میں منِ و عن اپنی اصل صو ر ت میں چلے جا تے ہیں مگر ان کا مفہو م ساتھ نہیں جا تا بلکہ کسی اور مفہو م میں استعما ل ہو نے لگتے ہیں اب اگر متر جم اس لفظ کو دیکھے اور یہ سمجھے کہ میری زبا ن میں بھی لفظ مو جو د ہے اور وہی لفظ استعما ل کر تے تو بھی مفہو م پر بہت اثر پڑ تا ہے مثا ل کے طو ر پر ’’ رَ قِیب ‘‘ عربی زبا ن کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ نگر ان کا ر ‘‘ ہیں یہ لفظ اللہ کے صفا تی نا م کے طو ر پر قرآن ِ حکیم میں بھی استعما ل ہوا فا ر سی اور اردو میں یہ لفظ اپنی اصل حالت میں مو جو د ہے مگرا س کے معنی کچھ اور ہو گئے ہیں ایک محبو ب کے دو چا ہنے والے ایک دو سرے کے رقیب کہلا تے ہیں ۔ انہیں ایک دو سرے کا دشمن سمجھا جا تا ہے فا رسی اور اردو شا عری کا بڑا حصہ رقیب روسیا ہ کو گا لیا ں دینے پر مشتمل ہے اگر ہم تر جمہ ئِ قرآن میں بھی اسی طر ح یہ لفظ استعمال کر دیں تو مفہوم اور کا اور ہو جا تا ہے ۔ +یا مثلا ً ’’ مکر ‘‘ کا لفط یا ’’ کید ‘‘ کا لفظ عر بی میں خفیہ تد بیر کے معنو ں میں استعمال ہو تا ہے اردو میں مکر کا لفظ مو جو د ہے مگر یہ انتہا ئی مکر وہ معنو ں میں استعما ل ہو تا ہے ادھر قرآن حکیم نے یہ لفظ خدا کے استعمال کیا ہے اور تر جمہ کر نے والو ں نے یہاں احتیا ط ملحوظ نہیں رکھی۔ فصیح و بلیغ زبا نو ں میں ’’ محا ورا ت ‘‘ استعمال ہو تے ہیں اور انکا استعما ل حسن بیا ن سمجھا جا تا ہے محا ورہ میں الفا ط اپنے حقیقی معنو ں کی بجا ئے مجا زی معنوی میں استعمال ہو تے ہیں اس لیے انکا لفظی تر جمہ بہت بڑی حما قت ہے کیو نکہ اس سے مطلب ’’ غتر بو د ‘‘ ہو جا تا ہے مثا ل کے طو ر پر ’’ با غ با غ ہونا‘‘ اردو زبا ن کا محا ورہ ہے جس کے معنی بہت خو ش ہو نا ہیں اب اگر ایک ادمی ’’ وہ با غ با غ ہو گیا ‘‘ کا فا رسی زبا ن میں یو ں تر جمہ کر ے ’’ او گلز ار گلزارشُد ‘‘ یا انگر یز ی زبا ن میں یہ تر جمہ کر ے HE BECAME GARDEN ANDD GARDEN تو کیا آپ کو اس کے پاگل پن کا یقین نہیں ہو جائے گا ۔ عربی بری فصیح و بلیغ زبا ن ہے اس میں ہزارو ں لاکھو ں محا ورا ت مو جو د ہیں قرآنِ حکیم نے انہیں استعما ل کیا کیونکہ تو فصیح تر ین کلا م ہے مگر متر جمین قرآن نے با لعمو م اس کا خیا ل نہیں رکھا اور وہی +ایک اور با ت جس کا متر جم قرآن کو خیا ل رکھنا چا ہیے وہ ایک زبا ن کا اندازِ بیا ن ہے ظا ہر ہے ہر زبان میں بیا ن کا انداز اور پیر ایہ دوسری سے قدرے مختلف ہو تا ہے تر جمہ نگا ر کواس با ت کا خا ص خیا ل رکھنا چا ہیے اسے اصل زبا ن کے اندازِ بیان اور جس زبا ن میں وہ بات کو منتقل کر رہا ہے اس کے اندازِ بیان میں پو ری مہا ر ت ہو مثا ل کے طو ر پر قرآن ِ حکیم کی یہ آیت مبا رکہ د یکھئے۔ +’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّ اْنَا الِذَ کْرَ اِنَّا لَہُ لَحَا فِظُوْ ن‘‘ +قرآن حکیم میں ضر ب الا مثا ل تلمیحا ت اور اصطلا حا ت بھی ہیں اور جب تک انکی تشر یح نہ ہو لفظی تر جمہ سے با ت سمجھا ئی نہیں جا سکتی اس لیے علما ئے اسلام اور مشر قین اس با ت پر متفق ہیں کہ قرآن حکیم کا لفظی تر جمہ ہو ہی نہیں سکتا اسکی تر جما نی کی جا ئے اور تفسیر ی نکا ت کو سمیٹ کر اس ترجما نی میں ضم کیا جا ئے۔ اسی لیے کہا جا تا ہے قرآن حکیم کا لفظی تر جمہ تفہیم قرا ن میں مشکلا ت پیدا کر سکتا ہے۔ +یہ تھیں وہ مشکلا ت جن کے پیش نظر عر صہ ئِ دِرا ز تک علما ئ اس امر پر مصر رہے کہ کسی دو سری زبا ن میں قرآنِ حکیم کا تر جمہ کیا جا ئے۔ قرآن فہمی کا طا لب عر بی زبا ن میں مہا ر ت حا صل کر ے اور پھر قرآن پر غو ر و فکر شر و ع کر ے لو گ اس پابند ی کوآ ج اُن علما ئ کی تنگ نظر ی اور علم دشمن خیا ل کر تے ہیں مگر ہما رے نز دیک ان لو گو ں کا اپنے دو ر کے مطا بق یہ فیصلہ درست تھا بلکہ آ ج بھی بڑی حد تک در ست ہے جب تک متر جم کو ان تمام امو ر میں مہا ر ت نہ ہو جو ہم نے بیا ن کئے ہیں اسو قت تک وہ تر جمہ قرآن کے کام میں ہا تھ نہ ڈا لے ۔ +قر آن حکیم کا سب سے پہلا تر جمہ فا ر سی زبا ن میں شیخ سعد ی شیرا زی نے کیا اسی تر جمہ کو سا منے رکھ کر پھر فا ر سی میں شا ہ ولی اللہ دہلوی نے تر جمہ کیا اسکے بعد اردو میں شا ہ عبد القا در اور شا ہ رفیع الد ین کے تر جمے آئے پھر مختلف لو گو ں نے تر اجم کئے۔ ان تر اجم کی خا میوں کو دیکھ کر اما م احمد رضا خا ن کو تحر یک ہو ئی اور انہو ں نے کنز الا یمان کے نام سے قرآن حکیم کا تر جمہ کیا جو ایک طر ح کی تر جما نی ہے کہ اس میں تفسیر کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے ۔ +اما م احمد رضا خا ن کی ولا دت بر یلی شر یف کے محلہ جسو لی میں 10 شوال 1272 �÷ ہجر ی بمطا بق 14 جون1856�÷ ئ ہوئی آپ کا سن ولا دت قرآن حکیم کی اس آیت مبا رکہ سے نکا لا گیا ۔ +’’اُ و لٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ الایْماَن وَ اَیَّد َ ھُمْ بِرُوْ ح ٍ مِّنْہُ‘‘ +آپ کے والد بز ر گوار کا نا م مو لا نا محمد نقی علی خا ن تھاآپ نے تقر یبا ً تمام کتا بیں اپنے والد بز ر گوار سے پڑ ھیں عربی ادب ، تفسیر ، حدیث ، فقہ اور اپنے زما نہ کے دیگر علوم میںمہا ر ت نامہ حا صل کی اور مسند افتاد پر فا ئز ہو ئے آپ نے تقر یبا ً ہر دینی مو ضو ع پر بے شما ر کتب تصنیف کیں اور بہت سے مسا ئل میںجا مع و مفصل فتو ے دیئے۔ +آپ کے بے پنا ہ دینی کا م کی تفاصیل اس وقت ہما را مو ضو ع نہیں اس وقت ہما را مو ضو ع کنز الا یما ن ہے ۔ ’’ کنز الا یما ‘‘ اور دیگر تر اجم قرآن کا تقابلی مطا لعہ بہت بڑ ا مو ضو ع ہے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور لکھا جائے گا ۔ میں زیا دہ تفصیل میں نہیں جا سکتا صر ف چند اشا را ت پر اکتفا ئ کر تا ہو ں +ہمیں قرآن حکیم کھو لتے ہیں ہی چند مقا ما ت پر رُکنا پڑ تا ہے سورہ فا تحہ ایک دعا ہے اور اس دعا کا جو ا ب پورا قرآن حکیم ہے دعا میں دعائیہ کلما ت کہے جا تے ہیں خبر نہیں دی جا تی مگر یہ کیا اللہ کی تعر یف سے با ت شر وع کی گئی ما لک یو م الد ین تک تعریف ہوئی آگے یہ کلمہ آیا ۔ +’’اِیاَّ کَ نَعْبُدُ وَ اِیّا کَ نَسْتَعِیْن‘‘ +اب اسکے تر اجم دیکھئے۔ +ترا می پر ستیم وا ز تو مد د می طلبیم ﴿شا ہ ولی اللہ ﴾ +﴿یعنی ہم تجھے پو جتے ہیں اور تجھ سے مد د ما نگتے ہیں﴾اس تر جمہ میں ایک تو وہ حصر ا اور تخصیص نہیں جو لفظ اِیّا ک َ میں ہے دو سرے خبر ہے دعا نہیں اب اور تر اجم دیکھئے ۔ +’’تجھ ہی کو عبا د ت کر تے ہیں ہم اور تجھ ہی سے مد د چا ہیتے ہیں ہم ﴿شاہ رفیع الد ین صا حب﴾ +’’ ہم آپ ہی کی عبا د ت کر تے ہیں اور آپ ہی سے در خو است اعا نت کر تے ہیں‘ ‘﴿اشر ف علی تھا نو ی صا حب ﴾ +ان ترا جم میں ’’ تجھ ہی‘‘ اور ’’آپ ہی ‘‘ کے الفا ظ سے حصرا ور تخصیص آگئی ہے اور وہ ایک اعترا ض دو ر کر دیا گیا ہے جو ہم نے شا ہ ولی اللہ صا حب کے تر جمہ میںاٹھا یا تھا مگر دو سرا اعترا ض اسی طر ح با قی ہے یعنی یہ تو خبر دی گئی ہے کہ ’’ہم تجھی کو پو جتے ہیں اور تجھی سے طلبگا ر ِ اعا نت ہو تے ہیں ‘‘ یہ دعا کے الفا ظ نہیں پھر جب کہنے والے عبا د ت بھی خدا کی ہی کر رہے ہیں اور مد د بھی اسی سے ما نگنے کے عا دی ہیں تو یہی تو صر اطِ مستقیم ہے پھر وہ آگے صر اطِ مستقیم کو نسا ما نگتے ہیں وہ تو پہلے ہی صر ا طِ مستقیم پر ہیں۔ ان اعترا ضا ت کو ذہن میں رکھیئے اور اب اعلی حضرت اما م احمد رضا خا ن کا ترجمہ دیکھئے۔ +’’ہم تجھی کو پو جیں اور تجھی سے مد د چا ہیں ‘‘﴿کنز الا یما ن﴾ +سو چیے تو اب دونوں اعترا ض دو ر ہو گئے ’’تجھی‘‘ میں حصرا ور تخصیص بھی آگئی اورالفاظ بھی دیا کے ہیں اس سے اگلی آیت دیکھئے۔ +’’اِھْدِ نَا الصِّرا طَ الْمُسْتَقِیْم‘‘ +﴿بنما ما را راہِ راست﴾﴿شاہ ولی اللہ صاحب﴾ +دکھا ہم کو ر اہ سید ھی ﴿شا ہ رفیع الد ین صا حب﴾ +بتلا دیجیے ہم کو را ستہ سیدا ھا ﴿اشر ف علی تھا نو ی صا حب﴾ +لفظ تھو ڑے بد ل گئے ہیں مگر تر جمہ ایک ہی ہے اسی تر جمہ پر ہمیں ایک تو وہی اعترا ض ہے جو پچھلی آیت کے تر جمہ سے منسلک ہے کہ جب قا ئل عبا ر ت اور دعا صر ف اللہ سے مخصو ص کر تا ہے وہ مشر ک سے ہٹ گیا اور یہی صر اطِ مستقیم ہے پھر وہ کو نسا صر اطِ مستقیم دیکھنا چا ہتا ہے ۔ +دو سرا اعترا ض یہ ہے کہ سید ھا را ستہ دیکھنے کی تمنا اور التجا ایک غیر مسلم تو کر سکتا ہے مگر ایک مسلما ن ہر نماز میں یہ کیوں پڑ ھتا ہے ’’ دکھا ہم کو سید ھی را ہ ‘‘ اولیا ئ (رح) و صحا بہ (رض) بلکہ خو د حضو ر �ö بھی یہی کہتے رہے اور زند گی کی آخر ی سا نس تک کہتے رہے ’’ دکھا ہم کو سید ھی راہ ‘‘ تو کیا معاذ اللہ حضور بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﴿جملہ آپ سمجھو گئے ہم لکھنے کی گستا خی نہیں کر سکتے ﴾ +ان کے مقا بلہ میں اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں۔ +’’ چلا ‘‘اور ’’دکھا ‘‘ میں جو نا زک فرق ہے اسے آپ بخو بی سمجھ سکتے ہیں مگر ہم بھی کچھ وضا حت کئے دیتے ہیں اِحدِ فعل امر ہے جو التجا اور در خو است کے لیے بھی آتا ہے اور حکم کے لیے بھی ، ظا ہر ہے یہاں التجا کے لیے ہے امر دو قسم کا ہو تا ہے ایک وقتی اور ہنگا می دو سرے دو امی اور استمر ا ری جیسے اُدْ ع ﴿بلا اور بلا تا رہ یا بلا تا چلا جا ﴾ دو نو ں معنی دے گا ۔ ’’دکھا ‘‘ کا مفہو م ہنگا می اور وقتی ہے ’’ دکھا ہم کو سید ھی را ہ ‘‘ کہنے والے نے کہا مجھے فلا ں کے گھر جا نا ہے را ستہ دکھا ئیں آپ نے اسے دکھا دیا کہ یہ سٹر ک چلے جا ئو پھر وہا ں تک جا ئو اور اتنے نمبر پر فلا ں ہا تھ پر اسکا گھر آجائے گا بس آپ فا رغ ہو گئے۔ لیکن ’’ چلا ‘‘ میں استمرا ر اور دو ام آجا تا ہے کہ ’’ اے خدا ہمیں صر اطِ مستقیم پر ہی چلا تا جا ‘‘ +ہدا یت کے تین درجے ہیں پہلا در جہ ہے صر ف رہنما ئی یعنی رستہ دکھا دینا ’’ اِنّا ھَدَ یْنٰہُ النجد ین‘‘ ہم نے دو راستے دکھا دیے۔ دو سرا در جہ ہے ’’را ہبر ی‘‘ کس نے آپ سے کسی کے گھر کا را ستہ پو چھا آپ اسکے سا تھ چل پڑ ے اور اسے مطلو بہ گھر تک پہنچا دیا ۔ یھد ی بہٰ کثیرا ﴿بہت سے لو گو ں کو اللہ اس قرآن کے ذر یعہ سے منزل پر پہنچا دیتا ہے﴾ اور ہد ایت کا تیسرا در جہ ہے انعا ما ت کی با ر ش کر نا ۔ +’’اِنِّیْ لَغَفَّا ر ’‘ لِمْنْ تَا بَ وَ آ مَنَ وَ عَمَلً صَا لِحاً ثُمَّ اھْتَدٰ ی ‘‘ +﴿یقینا میں بہت زیا دہ مغفر ت کر نے والا ہو ں اسکی جس نے تو بہ کی پھر ایما ن لا یا پھر اعما ل صا لحہ کی پھرہدا یت پا ئی ﴾ +ظاہر ہے کہ تو بہ کے بعد ایما ن لا کر اعما لَ صا لحہ کر تے رہنے کے بعد ’’ہد ا یت‘‘ حا صل ہونے کے معنی ہیں انعا مات کی بارش ہدا یت کے ان تین در جوں کے لیے اعا ظم مفسر ین یہ الفا ظ استعمال کر تے ہیں ۔ +۱۔ ارا ۃ الطر یق ﴿را ستہ دکھا دینا ﴾ +۲۔ ایصا ل الی المطلوب ﴿مطلو ب تک پہنچا دینا ﴾ +۳۔ اتما مِ نعمت ﴿نعمت کی تکمیل ، انعا ما ت کی با ر ش ﴾ +قر آن حکیم ھُدً ی لِلنَّا س بھی ہے یہ ہدا یت پہلے در جہ میں ہے ھَد َ ی اللہ الّذِ یْنَ اْ مَنُو لہ یہ دو سرے در جہ کی ہد ایت ہے اور ھُدً ی لّلمُتِقین تیسرے در جہ کی ہد یت ہے ۔ ’’ ہم کو سید ھا را ستہ چلا ‘‘ میں چلا کا لفظ یہ تما م مفہوم سمیٹے ہو ئے ہے ۔ +ایک اور آیت یو نہی اوراق الٹنے پر سا منے آگئی آپ بھی دیکھئے ۔ +’’وَ لَماّ یَعْلَمَ اللَّہُ الَّذِ یْنَ جَا ھَدُ و ا مِنْکُمْ‘‘﴿آل عمرا ن 142 ﴾ +﴿وہنوز تمیز نسا ختہ رست خدا آنر ر کہ جہا د کر دہ اندراز شما ﴿شا ہ ولی اللہ ﴾ +ابھی معلو م نہیں کئے اللہ نے تم میں سے جو لو گ لڑے ہیں ۔ ﴿شا ہ عبد القا در﴾ +اور حا لا نکہ نہیں جا نا اللہ نے ان لو گو ں کو کہ جہا د کر تے ہیں تم میں سے ﴿شا ہ رفیع الدین﴾ +ان ترا جم سے ظا ہر ہو تا ہے کہ لغو ذ با للہ اللہ ابھی تک یہ نہیں جا نا سکا کہ مسلما نو ں میں سے کون جہا د گر ینگے یہاں سے اللہ کی رو علمی ثا بت ہو تی تھی تر جمو ں کی اس کمزور ی کو بعد کے متر جمین نے محسو س کیا اور اسے دو ر کر نے کے لیے ہا تھ پا ئو ں ما رے اور اپنی طر ف بر یکٹیں ڈا ل کر معا ذ اللہ خد ا کی با ت کا نقص دو ر کر نے کی کوشش کی ذرا یہ نا کا م کو ششیں بھی دیک��ئے۔ +’’ حا لانکہ اللہ نے ﴿ظا ہر ی طو ر پر﴾ اُن لو گو ں کو تم میں سے جا نا ہی نہیں ‘ ‘﴿عبد الما جد دریا آبا دی گو یا بعض چیز یں با طن میں اللہ جا نتا ہے ظا ہر طو ر پر نہیں جا تا نعو ذ با اللہ ۔ ظا ہر ی طو رپر وارد بر یکٹی نکتہ عبد الما جد در یا آبا دی صا حب نے اپنے مر شد اشر ف علی تھا نو ی صا حب سے اُڑا یا اب انکا تر جمہ ملا حظہ فر ما ئیے ۔ انہو ں نے ’’ یعلم ‘‘ کو ’’دیکھا ‘‘ سے بد ل کر اللہ میاں کو ﴿نعوذ بااللہ ﴾ با ت کر نے کا طر یقہ سکھا یا تھا ۔ +’’ حا لا نکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے ﴿ظا ہر ی طو ر پر ﴾ ان لو گو ں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہو ں نے تم میںسے ایسے مو قعو ں پر جہا د کیا ‘‘ ﴿اشر ف علی تھا نو ی ﴾ یہ ’’ دیکھا ‘‘ والا نکتہ تھا نو ی صا حب نے الحد یث متر جم قرآن ڈپٹی نذیر احمد دہلو ی سے اڑا یا ڈپٹی صاحب قرآن حکیم کے تر جمہ میں خو اہ مخوا ہ اردو کے محا و ر ے ٹھو نسنے کی کوشش کیا کر تے ہیں انکا تر جمہ دیکھئے۔ +’’ اور ابھی تک معلو م نہیں کیا اللہ نے جو لڑ نے والے ہیں تم میں ‘‘ ﴿محمو د الحسن دیو بند ی ﴾ +یعنی با قی لو گو ں کی طر ح اللہ کو بھی یہ با ت تب معلوم ہو گی جب تم لڑ و گے ۔ +اصل میں یہ سا ر ا مغا لظہ اس وجہ سے پیدا ہوا کہ بیچا رے متر جمین ’’علم ‘‘ کے صر ف ایک معنی جا نتے ہیں یعنی ’’ جا ننا ‘‘ حالا نکہ علم کے معنی جاننا بھی ہیں اور ظا ہر کر نا بھی اب اما م احمد رضا خا ن کا تر جمہ دیکھئے ۔ +’’ ابھی اللہ نے پہچا ن نہیں کرا ئی ان کی جو تم میں سے جہا د کر یں گے‘‘﴿کنز الا یما ن﴾ +’’ذٰلِکَ الِْکتٰبْ لَا رَیْتَ فِیۃِ‘‘ +اس کتا ب میں کچھ شک نہیں ﴿شاہ عبدا لقا در﴾ +یہ کتا ب نہیں شک بیچ اس کے ﴿شا ہ رفیع الد ین ﴾ +یہ کتا ب ایسی ہے جس میں کو ئی شبہ نہیں ﴿اشر ف علی تھا نو ی ﴾ +اب اعلیٰ حضر ت کا تر جمہ دیکھیئے۔ +’’ وہ بلند رتبہ کتا ب کو ئی شک کی جگہ نہیں ’’ ﴿کنز الا یما ن﴾ +ہا ں ہولے سے اردو جا ننے والے قا ر ئین کو بتا دیا یہاں اللہ میا ں ’’ ذٰلِک اور تِلک ‘‘ میں فر ق نہ کر سکے اس لیے ’’ ذ ٰ لِکَ‘‘ کے معنی ’’یہ‘‘ سمجھ لیجئے۔ اگر ان حضرا ت نے گر امر کو غو ر سے پڑ ھا ہو تا اور اگر پڑ ھا تھا تو اسے تر جمہ قرآن میں پیش نظر رکھتے تو انہیں معلو م ہو جا تا کہ اہل عرب جب قر یب کی چیز کی عظمت اور شا ن بیا ن کر نا چا ہیں تو اس کے لیے اسم اشا رہ بعید استعما ل کر تے ہیں اسی لیے اعلیٰ حضرت نے یہا ں ذلک َ کے معنی کئے ہیں ’’ وہ بلند رتبہ ‘‘ گو یا اللہ بتاتا ہے کہ تم نے ہد ایت طلب کی ﴿اھد نا الصر اط المستقیم ﴾ جوا ب آیا ’’ شک کا مقا م ہی نہیں وہ بلند مر تبہ اور پر عظمت کتا ب یہی تو ہے جو تقوٰ ی اختیا ر کر نے والو ں پر انعا ما ت کی با ر ش بر سا دیتی ہے‘‘۔ +یہ تو ہم نے ابتدا ئ سے ہی ’’ مشقے نمن از خر وارے ‘‘ کے طو ر پر کچھ الفا ظ لے لیے ہیں پو را تر جمہ ئِ قرآن متر جم کی عربی لغت اور عربی گرامر پر گر فت کے سا تھ احتر ام ِ خدا وند ی اور احترام پیغمبر انسا نیت �ö وا ضح کر نے کا حسین تر ین شا ہکا ر ہے ابھی آپ نے دیکھا کہ ہمارے متر جمین شا ہ ولی اللہ سے لیکر عبد الما جد در یا آبا دی تک معا ذ اللہ اللہ کو اسکے اپنی آیا ت کے تر جمہ سے ہی بتا رہے تھے کہ وہ عالمِ الغیب بعض با تو ں کو جا نتا نہیں ’’مَا قَد ُ رو اللہ حقَّ قَدْ رِہٰ ‘‘یہ لو گ وہ ہیں جو کہتے ہیں بر یلو ی اللہ کی عظمت کا خیا ل نہیں رکھتے رسول اللہ �ö کی شا ن بڑ ھا دیتے ہیں ۔ +’’روز رو شن اور شب تا ریک گواہ ہیں کہ اللہ نے کبھی آپ کو تنہا نہیں چھو ڑا اور بے شک آپ کی زند گی کا ہر اگلا لمحہ پچھلے لمحہ سے بہتر رہا اور عنقر یب اللہ تعالیٰ آپ کو اتنا کچھ عطا کر یگا کہ آپ را ضی ہو جا ئینگے ۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو یتیم پا یا تو اپنی پنا ہ میں لے لیا ‘‘ +اس میںبا ت صا ف ہے کہ اللہ نے اپنی نگرانی اور نگہبا نی میں ہمیشہ آپ کو رکھا کسی لمحہ بھی یہ نگہبانی ٹو ٹی نہیں اس کے بعد یہ آیت آتی ہے اسے دیکھئے اور مختلف مترا جم بھی دیکھتے جا ئیے۔ +’’وَ وَ جَدَ ک ضَآ لاً فَھَدٰ ی ‘‘ ’’اور پا یا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ دی ‘‘ ﴿شا ہ عبد القا د ر ﴾ +’’ اور پا یا تجھ کو بھو لا ہوا پس را ہ دکھا ئی ‘‘ ﴿شا ہ رفیع الدین﴾ +’’ ویا فت تر ار اہ گم کر دہ پس را ہ نمو د ‘‘ ﴿شا ہ ولی اللہ ﴾ +’’ اللہ نے آپ کو شر یعت سے بے خبر پا یا سو آپ کو شر یعت کا رستہ بتلا دیا‘‘﴿اشر ف تھا نو ی ﴾ ’’ ضا لا ‘‘ کے معنی ’’ راہ گم کر دہ ‘‘ بھی ہیں ۔ +’’ بھو ل جا نے والا ‘‘ بھی ہیں۔ ’’ تلا ش حقیقت میں گم ہو جا نے والا‘‘بھی ہیں اور محبت میں ’’ خو د رفتہ ‘‘ و ’’ وار فتہ ‘‘ بھی ہیں اعلیٰ حضرت میں حضور �ö کے شا یا ن ِ شا ن تر جمہ کیا ہے ۔ +’’ آپ کو اپنی محبت میں خو د رفتہ پایا تو اپنی طر ف راہ دی ‘‘ ﴿کنز الا یما ن﴾ اس مو ضو ع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا تا رہے گا ہم نے ’’ کنز الا یما ن‘‘ کا ہلکا سا تعا ر ف اس لیے ضر و ر سمجھا کہ ’’ کنز الا یما ن ‘‘ کی اشا عت میں حضرت پیر معر و ف شاہ نے بے پنا ہ خدما ت سر انجا م دی ہیں ۔ سعو دی عر ب میں اور اس کی دیکھا دیکھی ایک آدھ اور عر ب ریا ست میں جنا ب احمد رضا خا ن صا حب کے سلسلہ میں ایسا تعصب حکومت سعو دیہ کے ذہن میں پہنچا یا گیا ۔ کہ حکومت نے تر جمہ ئِ قر آن ’’ کنز الا یما ن‘‘ پر بھی پابند ی لگا دی ایک حکومت کی طر ف سے اس قسم کا اقدا م فی الوا قع قا بلِ مذمت تھا حضرت پیر صا حب نے اس کے خلا ف احتجا ج کیا اور حکو مت تک بر یلو ی مسلما نو ں کے جذبا ت پہنچا نے کے سلسلہ میں سعی ِ بلیغ کی با ر با ر مر اسلات بھیجے گئے علما ئ سے را بطے کئے گئے علما ئے کر ام اور مشا ئخ عِظا م نے پیر صا حب سے تعا ون کیا تب کہیں جا کر سعو دیہ حکومت کی متشددانہ پالیسی میں نر می آئی ۔ +پیر صا حب نے بر منگھم میں ایک بہت بڑ ی تقر یب کی جس میں مقتدر علما ئ مشا ئخ نے شر کت کی اس کا نفر نس کا نام ہی ’’ کنز الا یما ن کا نفر نس ‘‘ تھا ۔ اس میں ’’ کنز الا یمان ‘‘ کو فو کس کیا گیا اور مقر رین نے سا معین کو اس تر جمہ ئِ قرآن کے گو نا گو ں اوصا ف سے متعا رف کر ایا ۔ +پیر صا حب ورلڈ اسلامک مشن کے بانی ہیں ۔ اس مشن کے اغر اض و مقا صد میں ایک بڑ ا مقصد اما م احمد رضا خا ن کی تعلیما ت کی وسیع پیما نے پر اشا عت، بر یلو ی مکتب ِ فکر کے مسلما نو ں کا اتحا د اور کنز الا یما ن کو گھر گھر پہنچا نا تھا ۔ پیر صا حب نے انہی اغر اض و مقا صد کی تکمیل کے سلسلہ میں ضر و ری سمجھا کہ ’’ کنز الا یما ن ‘‘ کا انگر یزی میں تر جمہ کر ایا جا ئے ۔ اس مقصد کے تحت انہو ں نے اپنے سا تھی اور سلسلہ ئِ عا لیہ قادر یہ نو شا ہیہ سے وا بستہ ایک سکا لر پر و فیسر سید محمد حنیف اختر فا طمی قادر ی نو شا ہی کو آما دہ کیا کہ وہ یہ تا ریخ سا ز کا م سر انجا م دیں ۔ حنیف قادری صاحب کا مختصر تعا رف یہ ہے۔ +سید محمد حنیف قادر ی 1933 �÷ میں یو پی ﴿بھا رت ﴾ کو مقا م ’’ با ر ی ‘‘ میں پید ا ہوئے وہ شاہ فضلِ رحما ن گنج مراد آبا د ی کے خا ندا ن سے ہیں جو حضرت اما م احمد خا ن کے مدا حِ خا ص تھے ۔ سید محمد حنیف نے ابتدا ئی تعلیم اپنے خا ند انی مد رسہ میں حا صل کی پھر مسلم یو نیو ر سٹی علی گڑھ کے طا لب علم رہے انہو ں نے قا نو ن کی تعلیم اِنز آف کو ر ٹ سکو ل آف لا ئ سے حا صل کی سا ئنس اور ریا ضی کی تعلیم امپیر یل کا لج لندن سے حا صل کی ۔ با ر میں پر یکٹس کے علا وہ وہ ملتا ن ، کر اچی ، کو یت ، ریا ض، سند ھ اور لند ن کی یو نیو ر سٹیو ں میں پڑ ھا تے رہے ۔ اسلامک مشنر ی کا لج بر یڈ فو ر ڈ کی روحِ روا ں وہی ہیں جمعیت تبلیغ الا سلام کی تحر یک میں بھی سر گر م کا ر کن ہیں اور بر یڈ فو رڈ کی بڑی اور عظیم الشا ن سنی مسجد کے قیام میں ان کا بھر پو ر تعا و ن شا مل رہا یہ وہی بڑی مسجد ہے جس کے سا تھ کمیو نٹی سنٹر اور اسلامک سکول بھی ہے۔ +انہو ں نے ’’ کنز الا یما ن‘‘ کے انگر یز ی ترجمہ کا آغا ز 1975 �÷ میں کیا جو دو سا ل کی محنتِ شب و روز کے بعد بفضل خدا وند ی 1977 �÷ میں مکہ مکر مہ میں اختتا م کو پہنچا ۔ یہ تر جمہ پیر صا حب کے لیے اور سید محمد حنیف قادری کے لیے فی الوا قع تو شہئِ آخر ت ہے۔ +اگر چہ پیر صا حب اپنے برا در بز رگ جنا ب ابوالکما ل بر ق نو شاہی کی وفا ت کے بعد 1985 �÷ میں سلسلہ عالیہ قا دریہ نو شاہیہ کے شیخ ِ طر یقت کی حیثیت سے سجا دہ نشین ہوئے لیکن انہو ں نے بر طا نیہ وار د ہو تے ہی 1961 �÷ میں بز مِ نو شا ہی قا ئم کر دی تھی۔ یہ بز م پیر صا حب متصو فا نہ زندگی کی نقیب ہے۔ پیر صا حب تصو ف کے اس خا نو ا دہ سے تعلق رکھتے ہیں جو شر یعت کو الگ نہیں سمجھتے اور یہی پیغمبر انہ شیو ہ کی تقلید ہے طر یقت کو شر یعت سے الگ سمجھنے والے صو فی دنیا سے لا تعلق ہو کر رہبا نیت کے قر یب پہنچ جا تے ہیں وہ انفرا دی اشتعا ل میں ڈو ب جا تے ہیں +علامہ اقبال نے اپنا ایک خطبہ ان الفا ظ سے شر و ع کیا ہے +’’ محمد عر بی فلک الا فلاک تک پہنچ کر واپس آگئے بخدا اگر میں وہا ںتک پہنچ جا ئو ں تو کبھی وا پس نہ آئو ں ، یہ الفا ظ ایک مشہو ر صو فی بز ر گ عبد القدو س گنگو ہی کے ہیں ایک صوفی اور نبی میں یہی فر ق ہے صو فی کچھ انوار و تجلیا ت میںگم ہو کر اپنے آپ کو کھو دیتا ہے جبکہ ایک نبی حقیقت کو بچشم ِ خو یش دیکھتا ہے اور دنیا کی طرف پلٹتا ہے تاکہ جو کچھ اس نے دیکھا ہے وہ کچھ اوروں کو بھی دکھلا دے ‘‘ +﴿RECONSTRUCTION OF RELIGIOUS THOUGHTS IN ISLAM﴾ شر یعت اور طر یقت کو ہم آہنگ سمجھنے والے صو فیا ئ بھی ہر دم اپنے آپ کو حکم دیتے ہیں ۔ دیکھا ہے جو کچھ تو نے اوروں کو بھی دکھلا دے یہی وہ چیز ہے جسے کہتے ہیں پیمبری کر دو پیمبر نتوا ں گفت یعنی اس نے پیغمبر ی کی لیکن اُسے پیغمبر نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ پیغمبر ی تو جنا ب سر و ر ِ کا ئنا ت �ö پر ختم ہو چکی ہے ۔ یہ لو گ ہمہ وقت انفرا دی اصلا ح کے سا تھ اجتما عی اصلا ح میں بھی منہمک رہتے ہیں عنبر دعوت و تبلیغ بھی سنبھا لنے ہیںاور مسند ار شا د بھی ، انکی خلو تیں بھی منور ہو تی ہیں اور جلو تیں بھی سور ج بد ست ، اور جب وہ اس طرح اپنی ذا ت کو اللہ کے کا م میں کھو دیتے ہیں تو قد سی صفا ت ہوجاتے ہیں ۔ +اسی حد یث قدسی کے عین مطا بق جس میں کہا گیا ہے کہ +’’ بندہ نوا فل کے ذر یعے یعنی اپنی خو شی سے کی جا نے والی عبا دت کے ذریعہ میرا تقر ب حاصل کر تا جا تا ہے حتیٰ کہ میرے پائوں اس کے پائو ں ہو جا تے ہیں ، میری آنکھیں اسکی آنکھیں ہوجا تی ہیں میرے کا ن اسکے کے کا ن ہو جا تے ہیں ، میر ے ہا تھ اس کے ہاتھ ہو جا تے ہیں ‘‘ ﴿صحیح بخا ری﴾ +ہا تھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہا تھ +غا لب و کا ر آفر یں کا ر کشا و کا ر سا ز +ہم آپ سو چتے ذہن شل کر بیٹھتے ہیں کہ ایک آدمی اتنی ڈھیر سا ری ذمہ دا ر یو ں سے کس طرح عہد ہ بر آہو سکتا ہے ۔ یہ کیسے ہے کہ وہ ایک زند گی کو کئی زند گیو ں میں ڈھا ل دیتا ہے ہم سے اپنے فر ائض پو رے نہیں کئے جا تے اور وہ دنیا جہا ن کے فر ائض اپنے سر لیے پھر تا ہے +جو بھی وعد ے تھے کسی کے سب و فا میں نے کئے +قر ض تھے اوروں کے لیکن وہ ادامیں نے کئے +پیر صاحب کے ایسے ہی فر ائض میں بز مِ نو شاہی بھی ہے اسلامی تصو ف عشقِ الہیٰ کے لیے وہ تڑ پ ہے جس میں بند ہ معرفت ذا ت حا صل کر تا ہے اور جب معرفت ذات حاصل ہو جا ئے تو پھر معر فت ِ رب بھی حا صل ہو جا تی ہے ۔ کہ ’’ من عرف نفسہ عرب ربہ‘‘ معرفت حا صل کر نے کے لیے اہلِ تصو ف نے تر بیت ِذا ت کے مختلف مر احل مقر ر کر رکھے ہیں ۔ یہ تر بیت صو فیا ئ کے سلسلہ میں اپنے اپنے انداز سے کر تے ہیں ۔ +چشتیہ ، قا دریہ ، سہر ور دیہ ، نقشبندیہ کا اپنا اپنا انداز ہے۔ راستہ کوئی بھی ہو مقصد معر فتِ رب کی منزل پر لیکن اس میں بنیا دی چیز پیر و مرشد کی نگر انی اور رہنائی ہے رہبر کے بغیر راستے طَے نہیں ہو تے اور منز لیں نہیں ملتیں ایک مر شد ِ کے ہا تھ پر بیعت کی جا تی ہے بیعت کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ مر ید نے اپنے آپ کو پیر کے حو الے کر دیا ہے اب وہ اس کے احکا م کی اطا عت کر تا جائے گا ۔ اور جس راہ پر وہ چلا ئیگا اس پر چلتا جائے گا ۔ اس را ہ میں سب سے بڑ ا زا دِ سفر اخلا ص ہے ہر پیر طر یقت کسی کا خلیفہ ئِ مجا ز ہو تا ہے ۔ اور پیر ی مر ید ی سلسلہ بہ سلسلہ چلتی ہے چرا غ سے چراغ جلتا جا تا ہے +حضرت پیر معرو ف شا ہ صاحب اپنے برادر ِ بز ر گ کے خلیفہ ئِ مجا ز تھے ’’ بز مِ نو شاہی ‘‘ کی بنیا دیں پڑ گئیں بعد میں وہ خو د زیب ِ سجا دہ ہوئے بز م نو شا ہی کا سلسلہ آج بھی چل رہا ہے اور تر قی پذ یر ہے۔ بز م ِ نو شا ہی کے قیا م کے اغر اض و مقاصد میں اصل مقصد تو ایک ہی ہے کہ بندے کا اللہ سے تعلق قا ئم کیا جا ئے آج کا انسا ن ما دی لحاظ سے انتہائی عر و ج پر پہنچ چکا ہے ، مگر اسکی محرو می پھر بھی ختم نہیں ہو ئی ۔ وہ بے چین ہے، بے قرا ر ہے، بے سکو ن ہے، سا ئنسد ان نے اُسے بے پنا ہ قو ت فراہم کر دی بے شما ر آسا ئشا ت اور تعیشا ت دے دییمگر پھر بھی دنیا کے ہر انسان کا مسئلہ ڈپیر یش ہے ذہنی بے سکو نی نے اعصا ب تبا ہ کر دییہیں اقبا ل نے پو ن صد ی پہلے کہا تھا �ò +ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا +اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا +جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا +زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا +اقبال اور اقبال جیسے بہت سے دانشو رو ں نے حکمت شنا سا نِ مغر ب کو اس حقیقت کی طرف با ربار متو جہ کی دا نا یانِ مغر ب نے اور زیا دہ زور لگا یا بہت سی نئی آسا ئشا ت ایجا د کر لیں مگر اصل مسئلہ حل نہ ہو ا ، اور ہر آدمی کی بے سکو نی بڑھتی گئی آج بمشکل ایک دو فیصد آدمی ہو نگے جو کہہ سکیں کہ انہیں کوئی ڈپیر یشن نہیں اور وہ ایک دو فیصد بھی کون ہو نگے پاگل یا بچے وگر نہ ہر آدمی بے سکون ہے ایک آدمی ڈھیرو ں دولت کا مالک ہے ہر طر ح کی آسا ئشیں گھر میں مو جو د ہیں مگر نیند کیو ں را ت بھر نہیں آتی خوا ب آور گو لیا ں نگلتا ہے تو سو سکتا ہے نہیں تو مخمل ور یشم کا بستر کا نٹو ں کا بستر بنا ہو ا ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ آخر کمی کیا ہے ؟ کیا چیز ہے جو اسے میسر نہیں اسے اطمینا نِ قلب کیو ں نہیں حاصل ہو تا ۔ قرآن کہتا ہے اطمینا ن ِ قلب تو صر ف ایک چیز سے نصیب ہوتا ہے اور وہ کیا ہے ’’ ذکر الٰہی ‘‘ +’’اَلاَ بِذِکر اللّٰہِ تِطْمَئنَّ الْقُلُوْ ب‘‘ +﴿قلو ب صرف ذکر الٰہی سے اطمینا ن پا تے ہیں ﴾ +بزمِ نو شاہی محا فل ذکر کا اہتما م کر تی ہے یہ محا فل ذکر ہفتہ وار اور مہینہ وار مختلف مقا ما ت پر ہوتی ہیں تبلیغ الا سلام کی مسا جد میں انکا اہتما م ہو تا ہے اب تو بفضل خدا وند ی ہا لینڈ اور فرا نس میں بھی ذکر سر کل قا ئم ہو چکے ہیں ، یو ں چک سوار ی کا یہ سید زا دہ یو رپ کی اضطر اب گا ہو ں میں سکونِ قلب کی دو لت نا یا ب با نٹتا پھر تا ہے مگر نصیبو ں والے ہی یہ دو لت پا تے ہیں ۔ +﴿لو گو! میں تو سور ج لے آیا ہو ں مگر تمہا رے اند ھے پن کا کیا علا ج ﴾ +مر کزی بز مِ نو شا ہی کا ایک اور بڑا کا م، محا فل میلا د النبی اور اولیا ئ کے عر سو ں کا انعقا د ہے میلا د النبی بڑی شا ن و شو کت سے منا ئی جا تی ہے اجلسہ کے سا تھ جلو س بھی نکا لا جا تا ہے۔ +حضرت پیر صاحب کی مصر و فیا ت میں ایک اور مصر و فیت لوگو ں کی رو حانی مد د ہے مختلف رو حا نی اور جسما نی مصا ئب میں گھر ے ہوئے لو گ پیر صاحب کی ذا ت کو مر جع اِمید سمجھتے ہیں اور انکے در وازے پر آتے ہیں۔ +’’ تَو سّل الی اللہ ‘‘ یعنی اللہ سے اپنی دعا منظو ر کر انے کے لیے اللہ کے نیک بند و ں کا وسیلہ پکڑ نا ایک ایسا عمل ہے جو تقر یبا ً دنیا کے ہر مذہب میں مو جو د ہے اسلام میں بھی یہ عمل مو جو د ہے لوگ اپنی تکا لیف میں حضور �ö کے پاس حا ضر ہو کر طا لب دعا ہوتے اسی طر ح لوگ اولیا ئ واصفیا ئ کی با ر گا ہ میں آکر التجا کر تے کہ اللہ سے انکی مصیبت دور کر نے کی دعا کر یں۔ بر یلوی حضرا ت کا عقید ہ ہے کہ وفا ت کے بعدبھی اولیا ئ کے مزا ر پر حا ضر ہو کر انکے اعما ل صا لحہ کو وسیلہ بنا کر اپنی حا جا ت اللہ کے حضور پیش کی جا ئیں تواللہ صاحب مزار کے اعما ل حسنہ کے وا سطہ سے دعا منظو ر فر ما تا ہے دیو بند ی حضرا ت تیتر ہیں نہ بٹیر انہوں نے بھی اپنے پیر و مر شد بنا رکھے ہیں اشر ف علی تھا نو ی صا حب اور حسین احمد مد نی صاحب وغیر ہ با قاعدہ مر ید و ں سے بیعت لیتے رہے اور انکا بھی بر یلو یو ں کی طر ح پورا نظا م چلتا ہے صا حب قبر کے سلسلہ میں بھی وہ کہتے ہیں کہ لو گ قبر و ں پر جا کر کہتے ہیں ’’گھن ککڑ تے ڈے پتر‘‘ ﴿یعنی اے صا حب قبر مرغا لے اور لڑ کا دے﴾ یا کہتے ہیں ’’ گھن بکرا تے ڈے بچڑا ﴿یعنی بکر الے اور فر زند دے دے ﴾ اس طر ح وہ گو یا صا حب قبر ہی کو حا جت روا اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں اور یہ شر ک ہے اگر وہ کہیں ’’ اے فلا ں میرے لیے اللہ سے دعا کر ‘‘ تو ان کے نز دیک جا ئز ہے وہا بی اسکے بھی خلا ف ہیں کیو نکہ وہ سما ع مو تیٰ کے قا ئل ہیں۔ +ان خد ما ت کے سا تھ اولیا ئ و صو فیا ئ کے معمول کے مطا بق اور درود و ظا ئف میں بھی بہت سا وقت صر ف ہو تا ہے پیرصا حب اپنے یہ معمو لا ت بھی بطریق احسن سر انجا م دیتے ہیں۔ اور اد’و ظا ئف اور نوا فل کے سلسلہ میں بعض افرا د بڑ ی سخت محنت کر تے ہیں پیر معرو ف شا ہ صاحب کے ایک بھا ئی سا ئو تھ فیلڈ سکوا ئر میں رہتے ہیں وہ حضر ت پیر معرو ف شا ہ صا حب کی طر ح کثیرا لمصر و فیا ت نہیں وہ اپنا سا را وقت ریا ضت میں صر ف کر تے ہیں اور اسی حا لت میں سو تے ہیں بہت کم کھا تے ہیں او سا را وقت عبا د ت و ریا ضت میں گز ار تے ہیں اور اسی حا لت میں شب زند ہ دا ر ی کرتے ہیں بتا یا جا تا ہے کہ انہیں اللہ تعا لیٰ نے خا ص طور پر مہلک بیما ریو ں کا جڑ ی بو ٹیو ں سے علاج کرنے کی صدا قت و دیعت کی ہو ئی ہے۔ حضرت پیر معرو ف صا حب کے پا س بعض ایسی ہی بیما ریو ں کے مر یض آتے ہیں تو وہ انہیں اپنے اس بھائی کی طر ف بھیج دیتے ہیں۔ +اسلا می تصو ف کے میدا ن میں جو بھی قد م رکھتا ہے بنیا دی طور پر اس پر دو شرا ئط عا ئد ہو جا تی ہیں +۱۔ صد ق مقا ل یعنی جو با ت بھی کر سچ بو لے ۔ +۲۔ اکلِ حلا ل یعنی حلا ل کی رو ز ی کھا ئے +جب وہ یہ شر ائط پو ر ی کر تا ہے تو وہ ان پر موا ظبت کر تا ہے تو اس پر اگلی را ہیں کھل جا تی ہیں ۔ پیر صا حب کی ہدا یت اور نگہبا ئی میں بہت سے لوگ تصو ف کی منا زل طے کر چکے اور بہت سے طے کر رہے ہیں غر ضیکہ حضرت پیر صا حب جا مع الصفا ت ہیں اور انکی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ علوم دین کی طر ح وہ را ہِ سلوک میں بھی منبع رشد و ہد ایت ہیں۔ +تنظیمی و تبلیغی سفر پاکستان میں +پاکستا ن حضر ت پیر معر و ف شا ہ صا حب کا وطنِ ما لو ف ہے اوراس میں وہ آتے رہتے ہیں ۔ ایک پر دیسی کا وطن آنا بظا ہر ایسی کو ئی بڑی با ت نہیں کہ اسے کسی کتا ب کا جز و بنا یا جا ئے لیکن جن لو گو ں نے اپنی زند گی اللہ کے لیے وقف کر رکھی ہو انکا ہر لمحہ ایک اما نت بن جا تا ہے ۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس اما نت کو محفو ظ کر لینے کی کوشش کی جا نی چا ہیے میں نے کو شش کی ہے کہ پا کستا ن کے سفر میں جو چیز یں انہوں نے قا بل اعتنا سمجھ کر ڈا ئر ی میں در ج کیں انہیں کتا ب میں شامل کر لو ں۔ +پہلا سفر پاکستان 18 ما ر چ 1968 �÷ سے یکم جون 1968 �÷ تک رہا ۔ ادا ئے گی ئِ حج کے بعد تشر یف لا رہے تھے آپ کو لالہ مو سیٰ سے ایک عظیم الشا ن جلو س کی صو ر ف میں معرو ف منز ل در با ر نو شاہی تک لا یا گیا ۔ سلیم صاحب اور حا جی محمد حنیف ہمرا ہ تھے ۔ +قیا م پاکستان کے دورا ن لا ہو ر گئے ’’ حز ب الا حنا ف ‘‘ اہل سنت کا مشہو ر تعلیمی ادا رہ ہے جو عر صہ ئِ درا ز سے مو لا نا ابو الحسنا ت اورمولانا ابو بر کا ت کی سر کر دگی میں دینی تد ریس کی خد ما ت سر انجا م دے رہا ہے اور در س ِ نظا می کے فا ضل تیا ر کر رہا ہے پیر صا حب وقتا ً فو قتا ً اس کی ما لی امدا د کر تے رہتے ہیں اسو قت مو لا نا ابو البر کا ت صا حب فر اش تھے اور انکے فر زند علامہ محمو د احمد رضو ی یہ ادا رہ چلا رہے تھے پچھلے سال جو ما لی مد د بھیجی گئی تھی رضو ی صاحب کی طر ف سے اسکی رسید نہ بھیجی جا سکی استفسا ر پر انہو ں نے بتا یا کہ اپنے وا لد بز ر گوا ر کی مسلسل علالت کے با عث وہ پر یشا ن رہے اور یہ سستی ہو گئی ۔ لاہور میں قیا م کے دورا ن مفتی محمد حسین نعیمی صا حب سے بھی ملا قا ت کی مختلف مو ضو عا ت پر گفتگو ہو تی رہی ۔ +جا معہ تبلیغ الا سلام ﴿گجرا ت﴾ کے قیا م کے سلسلہ میں گجرا ت کے مشہو ر عا لم ِ دین مفتی احمد یا ر خا ن نعیمی گجر اتی سے مو لانا محمد اسلم نقشبندی چک سوا ری کے معزز احبا ب اور دو لت نگر گجر ات کے سرکر دہ احبا ب سے ملا قا تیں رہیں۔ 2 فر ور ی 1973 �÷ کو دو سر اسفر پاکستان پیش آیا ۔ +لاہور میں جامعہ نعیمیہ میںمفتی محمد حسین نعیمی سے ملے پھر پنجا ب یو نیو ر سٹی کی لا ئبر یر ی میں قا ضی عبدالنبی کو کب گجر اتی سے ملا قا ت کی لا ئبر یر ی میںشامل علمی کتب کی فہر ست دیکھی گھر پہنچے تو مو لانا بو ستان آئے ہو ئے تھے انہو ںنے بتا یا کہ پا سپورٹ بنوا لیا ہے ۔ +اس سفر کااہم وا قعہ یہ ہے کہ ’’ جا معہ تبلیغ الا سلام ‘‘ کے لیے زمین خر ید ی اور ابتدا ئی تعمیر ی معا ملا ت پر احبا ب سے مشو رے کئے +15 8/76 تیسرے سفر پاکستا ن کے سلسلہ میں آمد ہو ئی۔ وزیر آبا د میں اہل سنت کے معر و ف حق پر ست عالم دین علامہ عبد لغفو ر ہزا ر و ی کے زیر تعمیر روضہ کا جا ئز ہ لیا ۔ +علا مہ ابو المحمو دنشتر کی معیت میں حضرت دا تا گنج بخش کے مز ار پر حا ضر ی دی عشا ئ کی نماز وہیں ادا کی پھر مو لا نا عبد الستار خا ن نیا زی سے ملاقات کی حکیم محمد مو سی ٰ ام�� تسر ی سے ملے مجلس رضا کے معا ملا ت ان سے ڈسکس کئے اور انہیں مشو رہ دیا کہ وہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خا ن بر یلوی کی مستند سو انحعمر ی کسی ثقہ عالم اور صاحبِ قلم عالم سے لکھو ائیں ۔ +ورلڈ اسلامک مشن کے سلسلہ میں بھی احبا ب سے گفتگو ہو تی رہی آزا د کشمیر میں ور لڈ اسلامک مشن کے کنو ئیر تنو یر سے ملا قا ت کی تنظمی امو ر کے سلسلہ میں انکی رہنما ئی فر ما ئی۔ اسی سلسلہ میں چک سوار ی میںایک میٹنگ تر تیب دی گئی اور پیر صاحب نے جمعہ کے مو قع پر خطا ب کیا ۔ خطا ب کا مو ضو ع ’’ مسلما نو ں کے اجتما عی ز وردل تھا ‘‘ +پیر صاحب نے بڑی جا معیت سے مسلما نوں کے کل او آج کا موازنہ کیا بتا یا کہ کل سا ری دنیا ان کے قد مو ں میں تھی اور آج وہ دنیا کے قد مو ں میں ہیں اند ازِ بیان اتنا اثر انگیز تھا ۔ کہ سا معین کی سسکیا ں نکلتی رہیں۔ +پاکستان کا چو تھا سفر 16 ما رچ 1981 �÷ کو پیش آیا اس میں صر ف جا معہ تبلیغ الاسلام کے تعمیر ی مر احل دیکھے خا ندا نی مصر وفیا ت رہیں اور کوئی قابل ذِکر وا قعا ت پیش نہیں آئے ۔ +16 ما ر چ 1981 �÷ سے 13 اپر یل 1986 �÷ ئ تک اگلا سفر در پیش ہوا ۔ یہ سفر حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی قا دری کے پہلے سا لانہ عرس کی تقر یبا ت منعقد کرا نے کے لیے تھا ۔ اہل خا نہ کے علاوہ حضرت سید ابو الکما ل بر ق نوشا ہی کے صا حبز ا دے سیدتصو ر حسین شا ہ نو شا ہی اور با رہ سا لہ بچہ وقا ر رحمن بھی سا تھ تھا ۔ بہت سے احبا ب استقبال کے لیے آئے تھے ۔ +سید عبا س علی شا ہ کا کتب خا نہ دیکھا اور بہت خوش ہو ئے اور قد یم شجر ہ ئِ طر یقت بھی نظر سے گزرا پھر گجر ا ت سے نو شہ گنج لا ہو ر پہنچے صا حبز ا دہ فضل الر حمن نو شاہی سے ملا قا ت ہوئی ۔ 23 ما رچ کو حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شاہی کا اما نتا ً دفن شدہ تا بو ت 18سا ل کے بعد نکا لا گیا اور مد فن جد ید کو بھجوا یا گیا ۔ +صدر مد رس جا معہ نعیمیہ سے طو یل ملا قا ت ہوئی۔ ’’ ختم نبو ت اکیڈیمی ‘‘ کے مو ضو ع پر تفصیلی گفتگو ہو ئی نیلسن ہو ٹل لا ہو ر میں پیرصاحب کو استقبا لیہ دیا گیا تھا ۔ اس تقریب میں شیخ رو حیل اصغر ایم پی اے اور ایک دو سرے رکن قو می اسمبلی بھی شر یک ہو ئے پیرصاحب کا مو ضو ع تھا ۔ ’’ بر طا نیہ میں مسلما نو ں کے مذہبی حا لا ت ‘‘ +پیر صاحب نے کھل کر با ت کی بر طانیہ میں مسلما نو ں کے مختلف فر قو ں کی سر گر میوں سے حا ضر ین کی متعا رف کر ایا اسی سلسلہ میں ’’ تبلیغ الاسلام ‘‘ کا بھی ذکر آیا ۔ انہوں نے کھل کر اپنی تنظیم کا کر دا ر بیان کیا اور بتا یاکہ کن نا منا سب حا لا ت میں کام کاآغا ز کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کر م جنا ب رسالتما ب �ö تا ئید رحمت اور بزر گو ں کی نظر ِ کرم سے سا تھی ملتے گئے کا رو اں سنتا گیا ار کام پھلیتا گیا ۔ کفر زا رو ں میں کلمہئِ حق و صدا قت بلند ہو ا تو جیسے پیا سی زمین پر رحمت کے با دل بر س گئے مسلما ن اور بالخصو ص اہل سنت بھا ئی جو ش و خر و ش سے کام میں ہا تھ بٹانے لگے اور وا قعی اقبا ل نے صحیح کہا تھا �ò +نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویرا ں سے +ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذر خیز ہے سا قی +جمعیت تبلیغ الاسلام کی تحر یک قیا م مسا جد کے نتا ئج سے حا ضر ین کو آگا ہ کیا ۔ یو ں یہ پر نو ر خطا ب جس میں تحر یکی زند گی کی روح رہی تھی ۔ بخیر و خوبی اختتا م پذ یر ہوا پاکستانی مسلما نو ں کے چہرے امید کی رو شنی سے تمتما رہے تھے ۔ اور ہر زبان پر یہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ پیر صا حب کی عمر دراز کر ے کہ وہ تا دیر اسلام کی خدمت کرتے رہیں۔ +بعد میں حضر ت س��د ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کے شا گر د رشید قا ری محمد یو نس کے مد رسہ کا افتتا ح کیا بد ھ 2 اپر یل 1986 �÷ کو حضرت سید ابو الکما ل کا عر س مبا رک شر و ع ہوا ۔ علمائے کر ام نے مر حوم کی زند گی پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈا لی۔ +3 اپر یل جمعرا ت کو عشا ئ کی نماز کے بعد نو شہ پیر کا ختم شر یف پڑ ھا گیا ۔ 14 اپر یل کو اہم الحسنات فا طمہ کاختم شر یف ہوا ۔ اسی رو ز دن کو در سگا ہ میں جا مع مسجد نو شاہیہ کا سنگ بنیا د رکھا گیا۔ 6 اپر یل کو نشہ پیر کے دربا ر عالیہ کی طر ف رو انگی ہوئی بڑ ی دیر تک در با ر میںحا ضر ی رہی پھر مز ا ر کے ساتھ کی مسجد کے اما م و خطیب سے ملا قا ت ہوئی یہاں سے فا ر غ ہوئے توحسب عا د ت مختلف کتب خا نو ں پر جا کر بڑی تعداد میںکتابیں خریدیں 8 اپر یل بروز منگل چک سوار ی میں نو شہ گنج بخش قادری (رح) کے عر س کی تقریبا ت کا آغا ز ہو ا۔ صاحبز ادہ سید تنو یر حسین شا ہ نو شاہی ابن حضرت چن پیر شا ہ نو شا ہی سے ملا قا ت ہو ئی اور بھی علما ئے کر ام سے ملا قا ت ہوئی۔ +مختلف علما ئے کر ام نے تقا ریر کیں، حضر ت پیر صا حب نے بھی عر س کے مو ضو ع پر اظہا ر خیا ل کیا ۔ خطا ب بڑ دلنشیں تھا با ت یہاں سے شر و ع کی گئی کہ ’’ ہما رے دو ست اپنے لو ا حقین کی سا لگر ہیں با ہر تھر ڈے منا تے ہیں بڑ ی دھو م دھا م کر تے ہیں کیک تیا ر کر ائے جا تے ہیں نام لکھایا جاتا ہے کا ر ڈ چھپوائے جا تے اور تقسیم کئے جا تے ہیں دو ر نز دیک سے اَحبائ ، اعز ہ واقر با ئ آتے ہیں اور رنگو ں کی بر سا ت میں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گا یا جا تا ہے ، سا لگر ہوں کی یہ تقر یبا ت صر ف مسئر و ں کے گھر و ں میں نہیں مو لا نا ئو ں کے گھر و ں میں بھی ہو تی ہیں ہیپی بر تھ ڈے ٹو یو نہ گا یا جا تا ہو ’’ آج میرے منے کی سا لگرہ ہے ‘‘ تو جا تا ہے یہ سب کچھ جا ئز ہ کسی ما تھے پر شکن نہیں پڑ تی کسی فتٰو ی با ز کی زبا نِ طعن دراز نہیں ہو تی لیکن یہ کیا ہے کہ جب ہم فخر مو جو د ا ت ، آ قا ئے کا ئنات سر ورِ عالم �ö کی میلا د منا تے ہیں تو اچا نک پیشا نیو ں پر بل پڑ جا تے ہیں اور جو لو گ خدا کے محبو ب کا کلمہ پڑ ھ کر مسلما ن ہو ئے او ر اپنے مسلما ن ہو نے پر فخر کر تے ہیں وہی شور مچا دیتے ہیں شر ک ہو گیا دین خطر ے میں پڑ گیا ۔ با لکل اسی طر ح یہ لوگ اپنے عز یز وں کی بر سیا ں منا تے ہیں مگر جب ہم عر س منا تے ہیں تو نا ک بھو ں چڑ ھا نے لگتے ہیں ‘‘ غر ضیکہ بڑا پر لطف اور حکیما نہ خطا ب تھا اہل دل کا ایما ن تا زہ ہو گیا ۔ +پاکستان کا سا توا ں سفر 4 جنو ر ی 1989 �÷ کو شر و ع ہوا اور 13 اپر یل 1989 �÷ کو واپسی ہوئی پہلے عبد الر حمن پاک نو شا ہی مو ضو ع تھا فر ما یا’’ مکہ کی گلیو ں میں اسلام قبول کر نے والو ں پر ظلم ہو رہے تھے کسی کو کا نٹو ں میں گھسیٹا جا رہا تھا کسی کو تپتی ریت پر لٹا دیا جا تا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جا تا خو د حضور سر و ر ِ عا لم �ö پر تشدد کی انتہا ہو تی رہی ۔ مسلما نوں کی انتہا ئ کو پہنچی ہو ئی تھی اللہ تعالیٰ نے کہا مصا ئب برداشت کئے جا ئو اور صبر و سکو ن سے نما ز پڑ ھے جا ئو استعنیو ابا لصبر و الصلو ۃ چنا نچہ مسلما ن اپنا یہی کا م کر تے رہے اور +’’اِذَا جَا ئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَ الْفَتْحُ رَ اَیْتَ النَّا سَ یَدْ خُلُوْ نَ فِی دِیْنِ اللّٰہِ اَفْو اَ جاً‘‘ +﴿اور جب آگئی اللہ کی مد د اور فتح نصیب ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ لو گ اللہ کے دین میں فو ج در فو ج دا خل ہو گئے ﴾ +اور حکم ہو ا اب بھی نماز پڑ ھے جا ئو پہلے اللہ سے مد د ما نگنے کے لیے پڑ ھتے تھے اب اللہ کی مد د آجا نے پر شکر ادا کر نے کے لیے پڑ ھو یہی نماز ہی نسخہ ئِ کیمیا یہی سب بیما ریو ں کا علاج ہے بے سر و سا ما نو ں کا سا ما ن ہے اور کمز ورو ں کی قو تَ آج مسلما ن کمز ور ہیں ہر جگہ شکست اور ظلم سے دو چا رہیں کہیں کشمیر ر و رہا ہ کہیں فلسطین ، علا ج ایک ہی ہے ’’فا سْتَعِیِنُوْ ا بِا لصَّبْرِ وَالصَّلَو ۃ‘‘ +وہی دیر ینہ بیما ری وہی نا محکمی دل کی +علاج اس کا وہی آبِ نشا ط انگیر ہے سا قی +منگلا میں پیر صا حب کو ایک استقبا لیہ دیا گیا وہا ں آپ نے اپنے خطبہ میں مسلمانو ں کو ’’ وا پس قرآن کی طر ف ‘‘ ﴿BACK TO QURAN﴾کے مو ضو ع پر خطا ب کیا اور فر ما یا مسلما ن دنیا پر غا لب آئے جہا ں بھی گئے فتح و نصر ت انکی رکا ہیں تھا م کر چلی اب ادبا ر اور زوال کی گھٹا ئو ں نے تما م آفا ق انکے لیے اند ھیر ے کر رکھے ہیں تا ریکیا ں انکا مقدر بن رہی ہیں ذلت اور پسما ند گی انکے ما تھے پر لکھی ہو ئی ہے ایسی بلندی اور پھر ایسی پستی اتنا تفا وت ، اتنا فر ق کیوں ؟ صر ف ایک وجہ سے �ò +وہ زما نے میں معزز تھے مسلما ں ہو کر +اور تم خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر +شیخو پو رہ میں تشر یف لے گئے وہا ں عقید تمند وں نے جا مع مسجد میں گیا ر ھو یں شر یف کی تقر یب میں شر کت کی دعو ت دے رکھی تھی اور خطا ب کا پر و گرا م بھی رکھا ہو اتھا محبوب سبحا نی پیر عبدا لقا د ر جیلا نی کی بر کا ت مو ضو ع بحث ہو ں اور حضرت پیر معرو ف شا ہ کی زبا ن �ò +پھر دیکھیے انداز ِ گل افشا نی ئِ گفتا ر +رکھ دے کوئی پیمانہ ئِ صہبا مرے آگے +سٹیج پر آئے تو تقر یر کی ابتدا ئ میں یہ اشعا ر پڑ ھے �ò +اند ھیر ے چھا رہے شر ق کے ہر ایک ایو اں پر +چمک اٹھ مہر جیلا ں غر ب سے اس محشر ستاں پر +’’ مُر ِ یْدِ ی ْ لَا تَخَفْ ‘‘ وہ کہ گئے ہیں خوا ب میں آکر +مرا دل خند ہ ہو نے لگا ہر ایک طو فاں پر +پھر جنا ب غو ث حمد انی کی کچھ کر امات بیا ن کر کے وضا حت کی کہ گیا ر ھو یں شر یف جس مقصد کے تحت منا ئی جا تی ہے وہ بڑ اپا کیز ہ ہے ہم اولیا ئ اللہ سے محبت کر تے ہیں انکی پنا ہ میں آتے ہیں ہم بہا نے ڈھو نڈے ہیں کہ کوئی مو قع ہا تھ آئے کہ ہم خد اکے پیا رو ں کا ذکر کر یں کسی کے پیارے کا ذکر کیا جائے اسکی تعر یف کی جا ئے تو سُننے والا خوش ہو تا ہے کہ اسکے پیا رے کی تعر یف ہو رہی ہے جب ہم رب کے پیا ر و ں کی تعریف کر تے ہیں تو ہما را رب خوش ہو تا ہے ان ہی کے متعلق تو خدا کہتا ہے ۔ +’’اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَا ئَ اللّٰہِ لاَ خَوْ ف’‘ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْز نُوْ ن‘‘ +﴿آگا ہ رہو کہ اللہ کے پیا رو ں کو کسی طر ح کا خو ف و حزن نہیں ﴾ +مقدور ہو تو خا ک سے پوچھوں کہ اے لیئم +تونے وہ گنجیا ئے گرا نما یہ کیا کئے +حضر ت پیر صا حب مزا ر ات کی زیا ر ت کر تے رہے اور اخذِ فیض کر تے رہے پھر سلسلہ ئِ قا دریہ کے مو جو دہ سجا دہ نشین سے ملا قا ت کی اور تا دیر اہل اللہ کا ذکر ہو تا رہا ۔ +اسی سفر میں غلا م شا ہ صا حب سچیا ر نو شاہی کے مز ار پر بھی فا تحہ خوا نی کی۔ دامن کوہ ٹلہ میں مو لا نا محمد شفیع اختر چشتی سے ملا قا ت کی انکی لا ئبر یر ی دیکھی بعض نا در و نا یا ب کتا بو ں کے قلمی نسخے دیکھے انہیں کہا کہ وہ کسی طر ح ان کی نقول فر اہم کریں۔ +رو ہتا س میں شا ہ محمد شہید رو ہتا سی کے مز ا ر انوار پر بھی تشر یف لے گئے ۔ اگلے سا ل 1990 �÷ میں پھر پاکستا ن کا سفر در پیش تھا ۔ پاکستان میں 6 نو مبر تا 2 دسمبر قیا م رہا ۔ 9 11/90 بر وز جمعہ بعد از نما ز ِ فجر محمد منشا ئ خا ن ولد بشیر آف 42 سیکٹر E-3 میر پو ر آزا د کشمیر نے بیعت کی اور حلقہ ئِ ارادت میں داخل ہو ��ے ۔ +11 11/90 اتوا ر کا دن تھا حلقہ ئِ ارادتمند ان میں بیٹھے تھے ذکر اتوا ر کا چل پڑ ا فر ما نے لگے اہل یو نا ن ہر دن کو ایک خا ص ستارے کے تا بع سمجھتے تھے انہو ں نے ہفتے کے دنو ں کے نام انہی ستا ر وں کے نام پر رکھے تھے اتوار کو وہ سو ر ج کے تا بع سمجھتے تھے ا س لیے اس کا نام SUNDAY تھا سوموا ر چا ند کے تا بع سمجھا جا تاتھا اسے MOONDAY کہتے تھے جو MONDAY ہو گیا اسی طر ح با قی ستا رو ں کے نام بھی دنوں کے نام میں شامل ہیں انگر یز ی میں یہ تما م نام منتقل نہیں ہوئے انہو ں نے با قی ستا رو ں کے نام لا طینی سے لیے دنو ں کے نام وہی رہ گئے یہو دیو ں کے ہا ں یو م سبت یعنی سینچر کا دن خدا کا دن سمجھا جا تا تھا اس میں وہ عبا د ت کر تے اور کو ئی کا م نہیں کر تے تھے اللہ نے بھی اسے انکی چھٹی کا دن قرار دیا تھا عیسا ئیو ں کے لیے اتوار کے دن چھٹی کا اور عبا دت کے لیے مخصو ص ہو ا مسلما نو ں کی پو ری زندگی عبا د ت ہے اس لیے ان پر چھٹی کا کو ئی خا ص دن مقر ر نہیں کیا ہا ں جمعہ کو بر کت زیا دہ دی گئی لیکن یہ ضر و ر ی نہیں کہ اس روز کا م بند کر دیا جائے قرآنِ حکیم میںجہاں جمعہ کی نماز میں شمو لیت کا حکم دیا گیا فر ما یا گیا ۔ +’’فَا سْعَوْ اِلیٰ ذِکْرِ اللّٰہ وَ ذَرُ و الْبَیْع‘‘﴿جمعہ﴾ +یعنی جب جمعہ کی اذا ن سُنو تو نما ز کے لیے فو را ً حا ضر ہو جا ئو اور خر ید و فر و خت چھوڑ دو مطلب یہ کہ پہلے خرید و فر وخت ہورہی تھی صر ف نما ز کے وقت کے لیے حا ضر ہو کر یہ کارو با ر اتنی دیر کے لیے چھوڑنا ہے اسکے بعد بتایا گیا ہے کہ جب نماز سے فا ر غ ہو جا ئو تو اپنے کا م پر نکل جا ئو ۔ +اسی روزعتیق الر حمن ولد ڈاکٹر محمد اکر م آف الگڑہ رو یوا ل ضلع گجر ا ت مر ید ہو ئے اسی طر ح کشمیر کا لو نی کے سید خا دم حسین شا ہ بخاری اور سید سہیل محمد شہز ا د نے بھی بیعت کی 12 11/90 بر وز سو موا ر چو دھر ی محمد دین نو شا ہی اور محمد حنیف صاحب محیا ں ضلع جہلم ملا قا ت کے لیے آئے میر پو ر کے مو لا نا افتخا ر علی نقشبند ی بھی ملا قا ت کو آئے ۔ +13 11/90 پنڈ ور ی ضلع جہلم میں محمد یو نس نو شاہی کی صا حبز ا دی کی شا دی میں شر کت کی 14 11/90 مولا نا محمد ایو ب ہزا ر وی صا حب اور قا ری علا ئو الدین صا حب ملا قا ت کے لیے آئے ۔ +15 11/90 میر پو ر کے محمد شو کت حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہو ئے +28 11/90 ۔ مفتی سیف الر حمن ہز ا ر و ی ملا قا ت کے لیے آئے را و لپنڈی میں محلہ نصیر آبا د میں ایک مذہبی تقریب میں خطا ب فر ما یا دعا کے بعد 24افرا د حلقہ ارادت میں داخل ہوئے ۔ +29 11/90 جا مع تبلیغ الا سلام ڈو گر شر یف میں جلسہ دستا ر بند ی میں صد ا ر ت فر ما ئی اور حفظِ قرآ ن کی سعا دت حا صل کر نے والو ں کی دستا ر بند ی فر ما ئی ان خو ش نصیب افرا د کے نام یہ ہیں حا فظ محمد شفیع نو شاہی حا فظ افتخا ر احمد نو شاہی ، حا فظ محمد اقتدا ر نو شاہی ، جلسہ میں ارد گر د کے دیہات کے لو گ بکثر ت حا ضر تھے فضا ئل قرآن پر گفتگو فر ما ئی ۔ بعد میں 4افراد سلسہ ئِ نو شاہی میں شا مل ہوئے ۔ +30 11/90 محمد عبد الر شید نو شاہی کے گھر دعوت تھی دو خوا تین نے بیعت کی 2 12/90 مولانا عبد لقد وس صا حب کے گھر تشر یف لے گئے انہوںنے آپ کے دست حق پر بیعت کی وا پسی پر وزیر آبا د میں دو آدمیوں نے بیعت کی ۔ +5 12/90 کل 6 12/90 حسبِ اعلان عرس غو ث الا عظم دن کے با رہ بجے شر و ع ہو نا تھا مہما نو ں کو دو پہر کا کھا نا کھلا نا تھا اس کے لیے یہ فیصلہ فر ما یا کہ گو شت رو ٹی اور چا ول دییجا ئیں گے چنا نچہ در و یشو ں اور وا بستگان در با ر کو تما م با تیں سمجھا دیں اور ہر ایک کی دی�� ٹی لگا دی کہ کون کیا کام کر یگا ۔ حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب میں اور اوصا ف کے علا وہ انتظامی خو بیا ں بھی بدر پائی جا تی ہیں ہر معاملہ میں آپ کو بہتر ین منتظم پا یا گیا ۔ آپ کی اپنی زند گی بھی پو ر ی منظم ہے اور دو سر و ں کو بھی آپ اسی طرح بنا دیتے ہیں ۔ +18 11/90 میر محمد چتر پڑ ی کے ایک سا تھی حلقہ ئِ بیعت میںآئے مولا نا محمد اور رنگ زیب جہلمی تشر یف لائے اور حضرت پیر صاحب کی ہدایات کی مطا بق عر س غو ث الا عظم کا اشتہا ر تر تیب دیا 12/90 عر س غوث الاعظم کے مو قع پر جلسہ ئِ عا م ہوا قا ر ی عبدا لقیوم الفت نوشاہی ، قار ی عا بد حسین نو شاہی اور قا ری محمد رفیق نو شاہی نے تلا وت کلا م مجید کا شر ف حا صل کیا ۔ کئی نعت خوا ن سٹیج پر آتے اور حضور سرور عالم �ö کے حضور ہد یہ ئِ عقید ت پیش کر تے رہے مولا نا محمد طفیل اظہر ، مو لا نا عبد الخا ق ، مو لا نا محمد ایو ب ہز ا ر و ی اور مو لانا عبد القد و س نو شا ہی نے خطا ب کیا مو لانا محمد صدیق مفتی سلیما ن اور دیگر کئی علما ئے کر ام نے شر کت کی بہت بڑا جلسہ تھا لو گ بھا ری تعد اد میں حا ضر ہوا حضر ت غو ث الاعظم کی ذا ت پر حضرت پیر معرو ف شا ہ جب بھی بو لتے ہیں والہانہ عقید ت سے بو لتے ہیں آپ نے آخر میں چند جملے کہے مگر لفظ نہیں تھے ہونٹو ں سے لعل و گہر جھڑ رہے تھے اس جلسہ کے بعد دو افرا د نے بیعت کی اور سلسلہ ئِ اقد س میں داخل ہو ئے ۔ +8 12/90 میر پو ر اور دینہ میں پر و گرا م ہوئے ایک آدمی حلقہ ئِ ارا د ت میں داخل ہوئے 8 12/90 بر صغیر کے علما ئ میں علامہ عبد الحکیم سیا لکو ٹی بہت بڑ ی شخصیت تھے جب ذر ائع رسل و رسا ئل نا پید تھے اسو وقت بھی آپ کی شہر ت پو رے عالم اسلام میں پہنچ چکی تھی منطق ، فلسفہ اور علم کِلا م میں آپ کی تصا نیف بہت بڑا سر ما یہ خیا ل کی جا تی تھیں اور در س ِ نظامی میں داخل رہیں ۔ آپ نے فلسفہ و کلا م کی جن کتا بوں کی شر و ح لکھیں ان میں مقلد انہ نہیں مجتہد نہ شا ن ہے اس طر ح وہ شر و ح نہیں اپنی تخلیق بن گئی ہیں۔ آج حضرت پیر صا حب کو خیا ل آیا اور سیالکوٹ پہنچ کر علامہ عبد الحکیم کے مزا ر پر حا ضر ی دی فا تحہ پڑ ھی اور قبر کے پا س دیر تک سر جھکا ئے بیٹھے رہے ۔ +10 12/90 راولپنڈی میں محلہ قا سم آبا د میں علامہ محمد اورنگ زیب قا دری کی مسجد میں عظیم الشا ن جلسہ ئِ عام سے خطا ب کیا موضوع تھا ’’ فضا ئل صِد یق اکبر (رض ‘‘ تا جدا ر ِ جنا ب صد یق اکبر (رض) کی زند گی پر بڑ ے منفر د انداز میں رو شنی ڈا لی۔ بعثت سے پہلے حضور �ö کے سا تھ وابستگی و پیو ستگی پر بو لتے رہے وضا حت سے بتا یا کہ کس طر ح غلا م مسلما نو ں کو خر ید کر آزا د کر تے اور انہیں کفا ر کے مصا ئب سے نجات دلا تے رہے پھر ہجر ت کا سفر ’’ ثا نی ئِ غا ر و بدر وقبر ‘‘ کی زند گی کے ہر با بر کت لمحہ کو اپنی تقر یر میں سمو لیا مجمع مسحو ر ہو کر سنتا رہا ۔ +جلسہ کے مو قع پر دو افرا د حلقہ ئِ ارا دت میں دا خل ہو ئے ۔ 11 12/90 کو پاکستان سے انگلینڈ واپسی ہوئی ۔ +اس سال کی ابتدا ئ میںبھی آپ پاکستان تشر یف لا ئے تھے نو شہ پو ر میں جلسہ معر اج النبی �ö سے خطا ب فر ما یا تھا ۔ +اس سفر میں سر گو دھا اور اسکے گر د و نوا ح کے علا قو ں میں تبلیغی دو ر ہ بھی ہو ا جس میں الحا ج عد الت خا ن نو شاہی اور دیگر کئی عقیدتمند ہمسفر رہے چک نمبر 116 شمالی میں کئی افرا د داخل سلسلہ ہو ئے۔ +دارالعلوم جا مع اسلامیہ چک سوار کے انتظا می اور تعلیمی معا ملا ت کو در ست اور معیا ری سطح پر لانے کے سلسلہ میں کئی با ر چک سوا ر ی تشر یف لے گئے ۔ مختلف دینی اجت��ا عا ت کی صدا ر ِت فر ما ئی ۔ لا ہو ر سے نئی اور پر انی کتا بیں مختلف مو ضو عا ت پر برا بر خر ید تے رہے حا فظ محمد عابد نو شا ہی کو اپنے اخرا جا ت پر حصو ل عِلم دین کے لیے ما مو ر کیا لا ہو ر ، را ولپنڈی اور قر ب وجوا ر سے کئی نا مو ر علما ئ ملا قا ت کے لیے آتے رہے دربا ر نو شا ہی کا کام تیز ی سے تکمیلی مر احل کی طر ف بڑ ھ رہا تھا اور آپ اس کی نگر انی میں ہمہ جہت مصر وف تھے لیکن ان مصر و فیا ت کے باوجو د تصنیف و تا لیف کی طر ف بھی دھیا ن دیتے رہے آ پ کے پنجا بی اشعا ر کا مجمو عہ زا ر ستا ن نو شاہی مر تب ہوا اسکی کتا بت اور پر و ف ریڈ نگ ہو ئی پر نٹ کر ائی ، اسی طرح ملک مر و لدین اور خضر نو شا ہی کی پرنٹنگ بھی کرائی اور یہ کتا بیں علما ئے کرا م اپنے متو سلین و مر ید ین میں مفت تقسیم کیں۔ اس سفر کے دو ر ان بیسیوں بیما رو ں اور حا جتمند و ں کو اپنی طر ف سے ما لی معا و نت بھی کر تے رہے ۔ کئی علما ئے کر ام کو جمعیت الاسلام کے خر چ پر بر طا نیہ آنے کا بند و بست کیا جن میں مولا نا طفیل اظہر لا ہو ر، مولانا منیر صا حب آف کنا رہ سرا ئے عا لمگیر وغیر ہ شا مل ہیں بہت سے لو گ بیعت سے مشر ف بھی ہوئے +28 نو مبر 1991 �÷ ئ کو پھر پاکستان جا نا ہوا 23 جنور ی 1992 تک قیا م رہا ۔ اس سفر میں آپ کے سا تھ سیدہ ام الر ضا نو شاہی ، حافظ وز یر نو شاہی اور محمد ہا رو ن نو شاہی تھے در با ر نو شاہی کا تعمیر ی کا م ہو رہا تھا اس لیے زیا دہ تر قیا م در با ر نو شاہی نو شہ پور شر یف کشمیر کا لو نی جہلم میں رہا اور چک سوا ر ی شر یف مزا ر اقد س پر بھی حا ضر ی ہو تی رہی چند جگہو ں پر جا نا ہو ا مگر بہت قلیل مختلف شعبہ ہائے ز ندگی سے تعلق رکھنے والے لو گ زیا ر ت کے لیے اور اپنے مسا ئل کے حل کے لیے حا ضر ہو تے رہے در با ر نو شاہی پر علما ئے کر ام اور قا ر یا ن عظا م بکثر ت حا ضر ہو تے رہے انہی میں حضرت علا مہ مفتی عبد القیو م صا حب رضو ی بھی تھے میر پو ر سے کئی علما ئ حلقہ ئِ ارا د ت میںدا خل ہوئے حا فظ محمد بشیر سا گر ی والے، حا فظ محمد فا ضل نو شاہی اور دیگر حفا ظ اکثر حا ضر ی میں رہے ۔ +پاکستان سے واپس آتے ہوئے حضرت صا حب فیصل مسجد بھی تشر یف لے گئے ۔ در با ر کی تعمیر کا کام تیز ی سے جا ری تھا ادھر سے مطمئن ہو کر واپسی کا سفر اختیا ر کیا ۔ یہ تو ایک لحاظ سے آپ کا معمو ل کا سا لا نہ سفر تھا اس سے پیشتر 24 جون 1991 �÷ کو بھی پاکستان کا ہنگا می سفر اختیا ر کرنا پڑ ا۔ +آپ کے برا در ِ بز ر گ حضرت سید عالم شا ہ نو شاہی کی شد ید بیما ری کی اطلا ع پاکر آپ پاکستان آئے اور کشا ں کشا ں بھائی صا حب کے پاس پہنچے زیا ر ت سے شا د کا م ہوئے اس وقت پیر سید عالم شا ہ کی حالت کچھ سنبھلی ہو ئی دکھائی دی فر مایا ’’ اللہ کے فضل و کر م سے اب تو آپ کو صحتمند دیکھتا ہو ں ‘‘ بھا ئی صاحب مسکر ائے اور بولے وہ تمہا رے اردو والے شا عر نے کیا کہا تھا �ò +ان کے دیکھنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق +وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کاحال اچھا ہے +کچھ رو ز دو نو ں بھا ئیوں میں را ز نیا ز کی با تیں ہوتی رہیں بیما ری شد ت اختیا ر کر تی گئی نقا ہت غا لب آتی گئی مگر اس حا ل میں بھی انہوں نے نماز اور اپنے اور ادو و ظا ئف کا سلسلہ نہ چھو ڑا جب ہو ش میں آتے کلمہ ئِ شہا دت اور درو د شر یف پڑ ھنے لگتے جس روز وفا ت ہوئی طبعیت خا صی سنبھلی ہوئی نظر آتی تھی حضرت پیر معر وف شا ہ صا حب کو پاس بیٹھ جا نے کا اشا رہ کیاوہ سر کے قر یب آنکھوں کے سامنے آکر بیٹھ گئے کمز ور اوردوبتی ہو ئی آواز میںکہا ’’ مسا فر اپنے وطن کو واپس جا رہا ہے میں خو ش قسمت ہو ں کہ میرے سا رے پیا رے میر ے پاس ہیں جو نہیں وہ ابھی ابھی نیند میں مجھے مل کر گئے ہیں کچھ بلا نے آئے تھے ‘‘ پیر معرو ف شا ہ صا حب نے کہا ’’ بھائی ما یو سی کی با تیں نہ کیجئے ‘‘فر ما یا ’’ ما یو سی کیسی ؟ یہ تو حقیقت کا اظہا ر ہے ‘‘ پھر کلمہ ئِ شہا دت پڑ ھا درو د شریف پڑ ھنے لگے ہو نٹو ں پر مسکر اہٹ بکھر گئی اور دائیں ہا تھ سے اشا رہ کیا جیسے کسی کو پاس بلا رہے ہوں ‘‘ پیر صا حب کہتے ہیں میری چھٹی حس نے کہا بھائی صا حب فر شتہ ئِ اجل کو بلا رہے ہیں اور خو ش ہو رہے ہیں یہی کیفیت تو مو لا نا رومی پر طا ر ی ہو ئی تھی جب فر شتہ ئِ اجل کو دیکھ کر کیا تھا۔ +پیکِ بابِ حضرت سِلطانِ من +﴿اے میرے با د شا ہ کی طر ف سے آنے والے پیا رے آجا ، قریب تر آجا اور مجھے اپنے با د شا ہ کے پا س لے چل ﴾ +بھا ئی صا حب نے جا ن جا ںآفر یں کے سپر د کر دی آخر ی لمحہ آیا اور جھپا کے سے گز ر گیا مسا فر چلا گیا اس کے ہو نٹو ں پر تبسم بکھر ا تھا جیسے در و د شریف کا ایک ایک لفظ تبسم کی کر نو ں میں منجمد ہو کر لبو ں پر ٹھہر گیا مجھے اقبال کا شعر بیسا ختہ یا د آگیا ہے �ò +جنا زہ میں پورا علاقہ اور اسکے قرب و جوا ر کے لو گ شر یک ہو ئے جہا ں جہا ں خبر پہنچی لو گو ں نے پہنچنے کی کوشش کی با مو ر مذہبی و سیا سی شخصیا ت اور عوام النا س نے جنا ز ہ میں شمو لیت کی بہت بڑا جنا زہ تھا۔ پھر پاکستان کے طو ل و عر ض سے لو گ تعز یت کے لیے آنے لگے صا حبز ادہ پیر عتیق الرحمن آف ڈھا لگر ی شریف ، علامہ محمد بشیر مصطفو ی آف میر پو ر ، چو دھر ی محمد شر یف اور لا ہو ر اور اسلام آبا د اور کئی اضلا ع سے عقید تمند وں کے ہجو م آتے رہے فا تحہ خوا نی ہو تی رہی جو دور درا ز تھے اور نہیں آسکتے تھے انہوں نے خطو ط کے ذر یعے تعز یت کی ۔ اس طر ح کا فی دن حضرت صاحب اسی جگہ مقیم رہے قرآن پاک کے کئی ختم ہوئے درو د شر یف بکثر ت پڑ ھا گیا اور ایصا ل ثِو ا ب ہو تا رہا ۔ +آنے والو ں میں ایسے لوگ بھی آئے جنہو ں نے پہلے بیعت کا شر ف حا صل نہیں کیا تھا انہو ں نے بیعت کا اس طر ح سلسلہ میں کئی نئے لو گ داخل ہو ئے ۔ +17 فر و ری 2001 �÷ سے 25 ما ر چ 2001 �÷ تک بھی پاکستان میں رہنے کا اتفا ق ہوا ۔ پر و یز اقبا ل ڈ و یا ل حاجی محمد اقبال جہلمی اور انکی اہلیہ اور شمشیر جنگ اس سفر میں آپ کے ہمر اہ تھے یہ سب سلسلہ عالیہ نو شاہیہ سے وا بستہ حضر ا ت تھے ۔ +25 فر و ری کو جا مع نو شاہیہ کے سلسلہ میں علما ئے کر ام کا مشا ور تی اجلا س طلب کیا گیا اس اجلا س میں 20 سے زاہد علما ئ نے شر کت کی مفتی محمد یو نس چک سوا ر ی شر یف ، مو لا نا منیر احمد نو شاہی ، مو لا نا انوا ر الا سلام ، مو لا نا خا دم حسین نو شا ہی ، سید محمد شا ہ نو شاہی حا فظ محمد اسلم آف دھتیا لہ ، مو لا نا عبد اللطیف قا در ی اور دیگر علما ئ نے شمو لیت کی کئی امو ر زیر بحث آئے ، جا مع کی نگرا نی کو ن کر یگا یعنی ایڈمنسٹر یشن کسی کے ہا تھ میں ہو گی ۔ ابتدا ئی طا لب علمو ں کی تعلیم و تد ریس میں پڑ ھنے کے سا تھ لکھنا سکھا نے کی طر ف خصو صی تو جہ دینے کے لیے پر صا حب نے خا ص طو ر پر متو جہ کیا آپ نے فر ما یا علما ئے اہل سنت کی ایک کمز ور ی یہ رہ گئی ہے کہ انہو ں نے علم و فضل تو حا صل کر لیا تقر یر میںبھی مہا ر ت رکھتے تھے لیکن تحریر کی طر ف بہت کم تو جہ دی گئی حا لا نکہ تقر یر ہنگا می اور وقت چیز ہے اور تحر یر ہمیشہ رہ جا نے والی چیز ہے اس میدا ن پر دیو بند یو ں اور جما عت مِو دو دی نے قبضہ کر لیا جس مو ضو ع پر دیکھو یہی لو گ چھا ئے ہوئے ہیں ۔ +طالب علم انہی کی کتا بیں پڑ ھتے ہیں اور انہی کو عینِ اسلام سمجھ لیتے ہیں جا مع نو شاہیہ کو یہ چیز خا ص طو ر پر مد ِ نظر رکھنی چاہییکہ اسے صر ف مقرر ہی نہیں ادیب و انشائ پر واز بھی پیدا کر نے ہیں جو آگے جا کر ، صحا فت اور نثر نگا ری میں مہا رت رکھنے کی وجہ سے ذر ائع ابلا غ سنبھا ل سکیں۔ آپ نے یہ بھی وضا حت کی کہ جن علوم کو زما نہ مر دہ قر ار دے چکا مثلا ً یو نا نی منطق وغیر ہ انہیں نئے نصا ب سے خا رج کر دینا چا ہیے اور جد ید علوم کی طرف بھر پو ر تو جہ دینی چا ہیے آج زند گی اور اس کے مسا ئل بہت پیچید ہ ہو گئے ہیں ان مسا ئل کے حل ’’ ایسا غو جی اور ملا حسن ‘‘ جیسی یو نانی منطق کی کتا بو ں میں نہیں جد ید علوم میں ہے معا شر ت ، تمد ن عمر انیا ت معا شیا ت ، جد ید فلسفہ ، سا ئنسی علوم کی تما م شا خیں غر ضیکہ کیا کہا کچھ علوم پید اہو چکے ہیں پس جا معہ نو شاہیہ کے لیے وہ نصا ب ہو جوا ن علوم ر حا وی ہو اور چو نکہ یہ سا رے علوم انگر یز ی زبا ن میں ہیں اس لیے انگر یز ی زبان پر خصو صی طو ر پر عبو ر حا صل کر نا چا ہیے حضور �ö کا یہ قو ل بہت بڑی را ہِ عم متعین کر نا ہے کہ ’’ حکمت اور دانا ئی مو من کی گم شدہ چیز ہے پس وہ جہاں بھی ملے اسے چا ہیے کہ وہ ایسے اپنا لے ‘‘ +اس مجلس مشا ور ت میں علما ئ کے سا تھ جد ید علوم کے ما ہر ین بھی شامل تھے ۔ چنا نچہ را جہ طا ہر محمو د خا ن ایڈ و وکیٹ جہلم حا فظ نیاز احمد اے سی ضلع جھنگ اور حا فظ ابو سفیا ن بھی شر یک ہوئے ۔ +اکوڑ ہ خٹک اور پشا ور سے کتابیں خر ید ی گئی تھیں مگر حضر ت پیر صا حب مطمئن نہیں تھے اور تشنگی محسو س کر رہے تھے چنانچہ مختلف کتب خانو ں کی مطلبو عہ فہر ستیں دیکھیں کتابیں نشا ن زد کیں چو دھر ی نثا ر احمد نو شاہی ، قا ر ی منو ر حسین نو شا ہی ، مو لا نا امیر بخش سیا لو ی ، مو لا نا منیر احمد نو شاہی اور چند دیگر سا تھیو ں کو لا ہو ر بھیجا کہ وہ نشا ن زدہ کتا بیں اوراپنی صو ابد ید کے مطا بق ،اور کتا بیں جو مناسب سمجھیں خر ید لا ئیں اس طر ح پو نے دو لا کھ رو پے کی مز ید کتابیں خر ید کر لائیں گئیں۔ +یہاں ہم پاکستان کے سفر کا با ب ختم کر تے ہیں ۔ یہ با ب ڈا ئر یو ں سے تر تیب دیا گیا ہے اور کہیں کہیں جو تفاصل دی گئی ہیں وہ پیر صاحب سے زبا نی طو ر پر حا صل ہو ئیں۔ +یو ر پ میں تبلیغ سفر فر انس +فر انس اور اسلام تا ریخی پس منظر +فر انسیسی ما ہر تمد ن و عمر انیا ت ڈا کٹر گستا ولی بان کا خیال ہے کہ عر ب ممالک کو فتح کر تے تو دیکھتے ہیں انکی آب و ہوا اور جغر ا فیا ئی ما حو ل کیسا ہے پھر وہ فیصلہ کر تے کہ یہ ملک انکے رہنے کے قا بل ہے یا نہیں اگر وہ اسے مسلما نو ں کی رہا ئش کے قا بل سمجھتے تو وہاں اپنا مستقل تسلط قا ئم کر تے اور وہاں کے تمد ن پر اپنے اثر ا ت چھو ڑ تے ۔ وہ لکھتے ہیں ۔ +’’ اندلس کو فتح کر نے کے بعد عر بو ں نے فر انس پر کئی حملے کئے لیکن یہ معلوم نہیں ہو تا کہ انہو ں نے کبھی اس ملک میں اقامت کا قصد کیا ہو ۔ ظا ہر اً اس ملک کی سر د اور نم آلو د آب و ہوا انہیں اقا مت سے ما نع ہو ئی عرب یو ر پ کے جنو بی حصو ں میں ہی نشو و نما پاسکتے تھے کیو نکہ ان کی آب و ہوا معتد ل تھی فر انس کے جن حصو ں میں وہ زیا دہ عر صہ رہے وہ وہی تھی جنکی آب و ہوا گر م تھی ‘‘ ﴿تمد ن عرب صفحہ 285﴾ +اب ہم تا ریخی پس منظر ڈاکٹر گستا ولی بان کی تفاصیل سے اخذ کر تے ہیں اور وہ اس لیے ایک تو وہ فر انسیسی ہیں دو سرے ان میں اتنا تعصب نہیںجتنا دیگر ا بتدا ئی مستشر قین میں ہے۔ +آٹھو یں صد ی عیسوی میںجب عر بوں نے فر انس پر حملہ کیا تو فر انس پر ان با د شا ہو ں کی حکومت تھی جنہیں مؤ ر خین +متعصب مؤ ر خین نے چا رلس ما ئل کو بطو ر ہیر و پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس نے مسلما نو ں کا راستہ نہ رو کا ہو تا تو عرب فرا نس لے لیے اور تہذ یب و تمدن کو تبا ہ و بر با د کر دیتے بلکہ پو را یو ر پ تہس نہس ہو جا ت اور تہذیب کی شمعیں گل ہو جا تیں۔ ایک نظر ان لو گو ں کا انداز، بیان بھی دیکھ لیجئے ۔ ہنر ی ما ر ٹن جو اپنے آپ کو سچ کا بڑا نما ئند ہ سمجھتا ہے ۔ ا س طر ح تعصب کا زہر اگلتا ہے۔ +’’ چا رلس مائل نے دنیا کی تا ریخ کا فیصلہ کر دیا اگر فر نسیسی شکست کھا جاتے تو سا ری دنیا مسلما نو ں کے ہا تھ آجا تی اس طر ح یو رپ اور تما م دنیا کی تر قی کا ستیا نا س ہو جا تا کیو نکہ وہ جذبہ جو انسا نو ں کو تر قی کا باعث بنتا ہے مسلما نو ں میںبالکل نہیں بلکہ ان کی فطر ت میں ہی نہیں انہیں بس یہی زعم ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئے ہیں مسلمانوں کا خدا جو دنیا کو پیدا کر نے کے بعد اپنی شا ن اور اپنی وحدانیت کے بستر پر لیٹ کر آرا م کر رہا ہے انسا ن کے اند بھی آگے بڑھنے اور تر قی کر نے کی ہمت پیدا نہیں کر تا ‘‘ +اس کا پہلا جو اب تو یہی ہے کہ مسلمان آگے بڑ ھ کر پورا یو ر پ لینا ہی نہیں چا ہتے تھے کیو نکہ وہا ں کی آب و ہوا انہیں پسند نہیں تھی وہ سر د اور مرطوب خطو ں سے نفرت کر تے تھے ۔ اس لیے جہا ں تک معتد ل آب و ہوا تھی وہا ںتک وہ گئے اور انہوں نے ان علا قو ں پر دو سو سال تک اپناقبضہ کسی نہ کسی صو ر ت میں بر قر ار رکھا اہی ہسٹری ما ر ٹن کی یہ با ت مسلما نو ں میں تر قی کر نے کا جذ بہ نہیں اور یو ر پ کو بر با د کر کے وہ دنیا کو مہذب و متمد ن ہو نے سے روک دیتے تویہ اس مؤرخ کی سب سے بڑی اور تعصب آفر یدہ جہا لت ہے مسلما ن جہا ں جہا ں گئے تہذ یب و تمدن کے سو ر ج طلو ع کر تے گئے اندلس اسکی بڑی مثال ہے مسلما نو ں نے اسے کہا ں پہنچا یا اور متعصب عیسا ئیوں نے اسے کس طر ح تباہ و بر با د کیا جس یو ر پ کی تہذیب پر اس نا ز ہے اس یو ر پ کو یہ سا را علم مسلمانو ں کے ما یہ ئِ ناز مفکر ین نے دیا ہے اور ہر مؤر خ اس کو کھلے عام ابد ی صد اقت کے طو ر پر پیش کر تا ہے ۔ چنا نچہ ما ر ٹن کی متذ کر ہ با لا با ت کا جو ا ب دیتے ہوئے ڈا کٹر گستا ئولی با ن کہتے ہیں ۔ +’’شمال فر انس کی آب و ہوا سر دی اور نمی کی وجہ سے عربو ں کو بالکل ناپسند تھی اگر یہ اند لس کی طر ح ہو تی اور عرب اسے زیر نگیں لے آتے تو یہاں وہی کچھ ہو تا جو انہو ں نے اند لس میں کیا تھا عر بو ں ہی کی وجہ سے اندلس کو اس قد ر عظیم الشا ن تمد ن نصیب ہوا اور جب اندلس کے تمد ن کا آفتا ب نصف النہا ر پر تھا اس وقت یو ر پ شدید و حشیا نہ حا لت میں تھا اگر عرب یو ر پ پر اپنا تمکن قا ئم کر لیتے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ یو رپ کی خو ش بختی ہوتی اسلام رحمت کاپیغام تھا اور یہ پھیل جا تا تو اقوام مغر ب اخلا ق میں نر قی پیدا ہوتی وہ انسا نیت سیکھ جا تیں اور یو ر پ اس قتل عام سے بچ جا تا جو سینٹ بر تھا لیمو نے بر پا کیا وہ خوفنا ک مذہبی عدا لتوں کو علم دشمنی سے بچ جا تا کوئی گلیلیو اذتیوں سے دو چا ر نہ ہوتا کسی بر ینو کو نہ جلا یا جا تا اور یو ر پ میں خو ن کے وہ دریا نہ بہا ئے جا تے جنہوں نے یو ر پ کی زمیں کو لہو لہا ن کئے رکھا ‘‘ +مسٹر لی بر ی LE BIRE لکھتے ہیں +’’ اگر عربو ں کا نام تا ریخ سے نکا ل دیا جا ئے تو یو ر پ کی علمی نشا ۃِ ثا نیہ کئی صدیو ں تک پیچھے ہٹ جا تی ‘‘ ﴿تمد ن عرب ص 514 ﴾ +بہر حا ل جنو بی فر انس میں مسلما ن قا بض رہے لیکن یہاں انہیں چین سے بیٹھنا کبھی نصیب نہ ہوا کہیں نہ کہیں سے وحشی ان پر حملہ آور ہو جا تے اور انہیں ہر وقت ان حملو ں سے بچا ئو کی تد بیر و ں منہمک رہنا پڑ تا ۔ +اس لیے انہوں نے یہاں اپنے تمدن کے وہ تا بند ہ نقو ش نہ چھو ڑے جو دو سرے مقا ما ت پر وہ چھو ڑ گئے اور جنہو ں نے تا ریخ کو ایک نئے اور روشن را ستے پر ڈا ل دیا۔ اس کے با جو د عر بو ں نے فرا نس میں اپنے کچھ نشا نا ت ضر و ر چھو ڑے ہیں۔ +ایک اثر تو زبان پر ہے ڈاکٹرلی با ن لکھتے ہیں +’’فر انس میں بھی عربی زبا ن نے بڑ ا اثر چھو ڑ ا ہے مو سو سعر یِ لو بالکل صحیح لکھتے ہیں اوورن اور لمو ژ ین کی زبان عربی الفا ظ سے معمو ر ہے اور ان کے نا مو ں کی صو رت بھی با لکل عربی ہے ‘‘ یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے یہ امر نہا یت قر ین قیا س ہے کہ بحر ی انتظام اور جہا ز را نی کے متعلق اکثر الفا ظ عر بی ہیں جو فرا نسیسی اور اطالو ی زبا نو ں میں مستعمل ہیں آلہ قطب نما غلطی سے چینیوں کی طر ف منسوب کر دیا گیا ہے یہ بھی عر بوں ہی کے تو سط سے یہاں آیا ہے ۔ یہ امر بھی قرین قیا س ہے کہ جس وقت با قا عدہ اور مستقل فو جیں قا ئم ہوئیں تو افسرو ں کے عہد ہ وا ر نا م اور لڑ ائی میں نعرے تک عر بو ں سے ہی لپٹے گئے اور انتظا م مملکت کے متعلق اصطلا حا ت بھی بغدا د اور قر طبہ سے اخذ کی گئیں ۔ فر انس کے طبقہ ئِ ثا لث کے سلا طین پو ری طر ح عر بو ں کے مقلد تھے اور اسی وجہ سے شکا ر کے متعلق اکثر الفا ظ عر بی الا صل ہیں ٹو ر نا منٹ کا لفظ مد طین نہیں عر بی ’’دوران‘‘ کی ہی دو سری شکل ہے یہ ایک قسم کی فو جی و رز ش تھی جس میں فو ج ایک دا ئرہ کی شکل میں گھو متی تھی۔ ہما ری زیا دہ تر علمی اصطلا حا ت عربی میں ہیں ہما را علم ہئیت ان عربی اصطلا حا ت سے معمو ر ہے ادویہ کے نام بھی عربی سے ماخو ذ ہیں‘‘ ﴿تمد نِ عرب صفحہ 404﴾ +ہم تفصیل میں نہیں جا سکتے نہیں تو ایسے الفاظ جمع کر نے کی کو شش کر تے جو عربی سے یو ر پ کی زبانو ں میں آئے ہم صر ف ڈا کٹر لی بان کی یہ با ت نقل کر دیتے ہیں ۔ +’’فی الو اقع وہ الفا ظ جو عر بی سے یو رپ کی زبا نو ں میں آئے ان سے عربو ں کے تمد ن تسلط کا پورا ثبوت ملتا ہے اگر یہ کل الفا ظ مع انکی پو ری تشر یح کے ایک جگہ جمع کئے جا ئیں تو ایک معقول مجلد تیا ر ہو جا ئے ‘‘ ﴿تمد ن عرب صفحہ 658﴾ +ڈاکٹرلی با ن نے مغر ب میں احیا ئے علوم اور اشا عت علوم کے سلسلہ میںعربو ں کے پر بحث کر تے ہو ئے لکھا ہے ۔ +’’ پند رھو یں صد ی تک کسی ایسے مصنف کا حو الہ نہیں دیا جا تا تھا جس نے عر بو ں سے نقل نہ کیا ہو راجر بیکن ، پیسا کا لیو نا ڈ ، ایما نڈل ، سینٹ ٹا مس ، ربرٹ اعظم ، یہ سب یا تو عر بو ں کے شا گر د تھے یا ان کی تصنیفا ت قتل کر نے والے موسیو ر ینا ں لکھتا ہے البر ٹ اعظم نے جو کچھ پایا ابن سینا سے پایا اور سینٹ ٹامس کو سا را فلسفہ ابن رشد سے ملا ‘‘ ﴿تمدن عرب صفحہ 515﴾ +اس کے علا وہ فر انس کے بعض حصو ں میں معلوم ہو تا ہے کہ ان فر نسیسیو ں کے خو ن میں بھی عر بو ں کے اثرا ت موجو دہیں یہ معلو م ہو تا ہے جہا ں جہا ں مسلما ن فو جیں موجو د تھیں ان علا قو ں کے قر ب و جوا ر میں کچھ مسلما ن آبا د ہوگئے تھے انہو ں نے وہا ں زرا عت یا حر فت شر و ع کر دی تھی ۔ کا شتکا ر ی اور زرا عت کے چند مخصو ص اصو ل جو وہ اند لس سے اپنے سا تھ لائے تھے انہی کے تحت زرا عت شر و ع کر دی تھی اسی طر ح حر فت میںقا لین با فی بھی عربوں کے پا س تھی اب رو بو سان میں وہ صنعت اسی انداز پر مو جو د ہے معلو م ہو تا ہے یہ مسلما ن جو زرا عت پیشہ یا مزدوری پیشہ تھے یہا ںکے اصل با شند و ں کیسا تھ ��ل جل گئے آہستہ آہستہ وہ اپنے مذہب سے اسو وقت دو ر ہو نے لگے جب مسلما نوں کی فوجیں یہاں سے نکل گئیں یہ عام بے علم لو گ ہو نگے یہ آخر دو سرے مذہب کی اکثر یت میں ڈو ب گئے لیکن ان کی نسل با قی رہ گئی ڈا کٹر لی بان لکھتا ہے ۔ +’’ اتنی صد یو ں کے بعد بھی فر انس کے بعض حصو ںمیں عر بو ں کی نسل کا پتہ لگتا ہے کر و ز کے صو بہ میں ہو ت آلپ میں اور بالخصو ص ان مقا ما ت میں جو مو نٹ مو ر ﴿یعنی جبل المسلمین﴾ کے ارد گر د ہیں نیز بین کے صو بہ میں اور لا ند و ر وزیان ، ولا نگے ڈا ک اور بیر ن کے قصبو ں میں عر بو ں کی تعداد بآسا نی پہچانی جا تی ہے ۔ ان کا گند می رنگ ، سیاہ آبنو سی با ل، خمدا ر ٹا ک ، بیٹھی ہو ئی چمکدار آنکھیں با قی آبا دی کے لو گو ں سے با لکل الگ ہیں انکی عو ر تو ں کا رنگ سا نو لا ، قدد لمبا ، بڑی بڑی سیا ہ آنکھیں بھر ے ہوئے ابر و وغیر ہ ان کا عربی انسل ہو نا ثا بت کر تی ہیں ۔ علم الا نسان کے قو ا عد کے مطا بق ان خصو صیا ت کا بر قر ا ر رہنا اور دیگر با شند و ں کے سا تھ مل کر تلف نہ ہو جا نا ثا بت کر تا ہے کہ ان مقامات میں جہا ں یہ لو گ پا ئے جا تے ہیں عربو ں نے بطو ر خو د چھو ٹے چھوٹے قا ئم کر رکھے تھے اور دو سرے با شند و ں کے سا تھ ازدوا ج و امتز اج کو جا ری نہیں رکھا تھا ‘‘ ﴿تمد ن عرب صفحہ 290 ﴾ +بلا شبہ وہ لو گ اپنے مذہب سے دور رہو گئے لیکن انہو ں نے اپنی نسل کو با قی رکھا ۔ تمد ن و عمر انیا ت کے اور علم الا نسا ن کے ابتدا ئی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ اکثر ایسے لو گ ہیں جو مذہب چھو ڑ بیٹھے ہیں لیکن اپنی نسل کو با قی رکھنے میں خا صے محتا ط رہے ۔ ہند و ستان میں ذا ت پا ت کی یہ تمیز بنیا دی حیثیت رکھتی تھی ہندو ئو ں میں ابتدا ئ سے ہی یہ چیز آگئی تھی ان میں سے کئی خا ندا ن مسلما ن ہو گئے مگر اسلام کی تعلیم مسا وا ت کے با وجود انہو ں نے ذا ت پا ت کی وہی تمیز با قی رکھی ۔ اور یہا ں بعض ذا تیں اصل میں جیسے را جپو ت وغیر ہ با قی رہ گئیں بعض کے نام تبد یل ہو گئے مگر شادی بیا ہ کے معا ملہ میں وہ دو سری ذا ت سے امتز اج نہ کر سکے پٹھا ن، را جپو ت ، سید وغیر ہ آج بھی اپنی ذا ت سے با ہر شا دی نہیں کر تے بیٹیاں دینے کا تو با لکل رو اج نہیں اگر کوئی مر د بھی دو سری ذا ت میں شا دی کر بیٹھتا ہے تو اس عو ر ت اور اسکی اولا د کوو مر د کے خا ندا ن سے نفر ت کے سو ا کچھ نہیں ملتا ۔ +فر انس کا عہد جد ید اور مسلما ن +جو نا تھن فر انس سنٹر فا ر پو ر و پین سٹڈ یز ہا ر و رڈ کی رپو رٹ کے مطا بق 2001 �÷ کے اختتام تک فر انس میں مسلما نو ں کی مجمو عی تعدا د اکیا لیس لاکھ پچپن ہز ا ر تھی ۔ دو سری جنگ عظیم کے بعد فرا نس کی تبا ہ شدہ حا لت کا تقا ضا تھا کہ نیا فر انس تعمیر کر نے کے لیے محنت کر نے والے لو گ زیا دہ سے زیا دہ تعد اد میں ہو ں چنا نچہ ادھر ادھر سے بہت سے لو گ تلاش رزق میں فر انس پہنچے ان میں زیادہ تر الجیر یا کے تھے ، متذ کرہ رپو ر ٹ میں مسلما ن آبا دی کی تفا صیل یو ں ہیں۔ +الجیر یا 1550000 ﴿پند رہ لا کھ پچا س ہزا ر ﴾ +ٹیو نس 350000 ﴿تین لا کھ پچا س ہزار ﴾ +بلیک افر یقہ 250000 ﴿دو لاکھ پچا س ہز ا ر ﴾ +تر کی 315000 ﴿تین لاکھ پند رہ ہزار﴾ +نو مسلم 40000 ﴿چالیس ہزا ر ﴾ +ایشیا 100000 ﴿ ایک لاکھ ﴾ +دیگر 10000 ﴿ایک لا کھ ﴾ +اسی رپو رٹ کے مطا بق فر انس میں 1558 ایسے مقا ما ت ہیںجہا ں نماز اجتما عی طو رپر پڑ ھی جا تی ہے اور جنہیں مسجد کے طور پر استعما ل کیا جا تا ہے لیکن ان میں سے اکثر میں بمشکل 150 آدمی سما سکتے ہیں ہیں 20 جگہیں ایسی ہیں جن میں سے ہر ایک میں ایک ہزا ر افرا د ��ی گنجا ئش ہو سکتی ہے صر ف پانچ جگہیں ایسی ہیں جنہیں مسا جد کے طو ر پر تعمیر کیا گیا اسکے مقا بلہ میں چا لیس ہز ار کیتھو لک چر چ ہیں 957 پر و ٹسنٹ کے معا بد اور 82 یہو دیو ں کے معابد ہیں یہا ں ایشیائی مسلما نو ں کی تعداد ایک لاکھ بتا ئی گئی ہے الگ الگ مما لک کے مسلما نو ں کی تعداد نہیں بتائی گئی خاص طور پر مسا جد کے طور پر تعمیر کی جا نے والی عما ر ات صر ف پا نچ ہیں۔ +جنا ب پیر معروف شا ہ صا حب کے تبلیغی سفر +حضر ت پیر معر و ف صا حب اکثر تبلیغی سفر میں رہتے ہیں فرا نس میں بھی وہ اس سلسلہ میں با ر با ر جا تے ہیں اور انہو ں نے وہا ں اپنا ایک حلقہ ئِ اثر پیدا کر رکھا ہے ہم صر ف ایسے ہی سفر احا طہئِ تحر یر یں لا سکتے ہیں جن کا ذ کر انکی ڈا ئر یو ںمیں ملتا ہے ۔ +پیر صا حب کا فر انس میںپہلا تبلیغی دو رہ 26 دسمبر 1982 �÷ کو شر و ع ہوا سب پہلے فر انس کے شہر پہنچے یہاں کے احباب کا بڑ ا مسئلہ ایک مسجد کا قیا م احبا ب نے گیا رہ ہزا ر پو نڈ جمع کر رکھے تھے اور انداز ہ تھا کہ انہیں مز ید سا ت ہز ار پو نڈ در کا ر ہونگے حضرت پیر صا حب نے ایک مختصر خطا ب کے بعد احبا ب سے مسجد کے سلسلہ میں فنڈ کی اپیل کی خدا کے فضل سے 5 ہز ار پو نڈ جمع ہو گئے ۔ +وہا ں سے آپ پیر س گئے با رو ں اور کیفوں ﴿BARS AND CAFS﴾سے بھر ے ہوئے پیر س کے ارد گر د الجیر ین مسلمانو ں کی کا فی آبا دی ہے ۔ پیر س شہر میں تر کو ں کی مسجد میں ور لڈ اسلامک مشن کی مقا می برا نچ نے ایک جلسہ کا اہتما م کیا ہوا تھا پیر صاحب نے وہا ں سیر ت ِ نبو ی اور تعمیر اخلا ق و کر دا ر کے مو ضو ع پر ایک بسیط اور جا مع تقر یر کی ۔ تقریر بڑے خو بصو ر ت انداز میں شر وع ہوئی اور دلر با طر یقہ سے اختتا م پذ یر ہو ئی ۔ آپ نے قرآن حکیم کی آیہ مبا رکہ ’’قَدْ کَاَ نَ لَکُمْ فِیْ رَسُو ل اللّٰہِ اُسْو ۃ’‘ حَسَنہ‘‘ سے آغا ز کیا اور فر ما یا ہر انسا ن ایک خا ص طر ح کی معا شر تی زند گی بسر کر تا ہے کوئی چر و ہا ہے ، کو ئی مز دو ر ، کوئی تا جر ہے کوئی مذہبی پیشوا ، کوئی جج ہے کوئی سپہ سا لا ر پھر زند گی کے مختلف حصے ہیں ، بچپن ہے جوا نی ہے ، بڑ ھاپا ہے، غر ضیکہ طر ح طر ح کی زند گیا ں ہیں اور طر ح طر ح کے تقا ضے ، ہم ارسطو اور افلا طون کی زندگی دیکھتے ہیں ان میں حصو ل عِلم و حکمت کی والہا نہ مگن پائی جا تی ہے طا لبا ن ، علم و دانش کے لیے یہ زند گی کسی حد تک نمو نہ بن سکتی ہے مگر ایک حا کم و فرا ما نروا اس زندگی سے کیا حاصل کر یگا ، ایک سیا ہ سالا ر کو کیا سبق ملیگا وہ اگر منطق کے صغرٰی کبرٰ ی قا ئم کر نے بیٹھ جا ئے جو ہر دور عر ض کی فلا سفی چھا نٹنے لگے تو جو لڑا ئی اسے در پیش ہے اس کا کیا ہو گا ۔ ایک چر وا ہا بکر یا ں چر ار ہا ہے ۔ منطق اسے کیا سہا را دے گی ۔ ایک جج اور ایک تا جر اس زند گی سے کیا سبق حا صل کریگا ۔ آپ دنیا کے جس شخص کو بھی دیکھیں ممکن ہے وہ اچھی زندگی گز ار رہا ہو با اصو ل زندگی گزار رہا ہوو مگر وہ ایک جہت رکھنے والی زند گی ہو گی وہ اس آدمی کے لیے تو ممکن ہے کسی حد تک مفید ہو جو اسی جہت کی زند گی رکھتا ہے مگر دو سر وں کے لیے اس زند گی میں کوئی سبق اور کوئی نمو نہ یا ماڈل نہیں ہو گا۔ پور ی دنیا از ازل تا ابد صر ف رحمتِ عالم �ö کی زند گی ہی ایسی ہے جس میں ہر دو ر کے ہر انسان کے لیے رہنما ئی ہے کوئی تا جر ہے تو مکہ کے اس تاجر کو دیکھے جو کسی کپڑ ے کے تھا ن کا نقص بتا نا بھول جا تا ہے اور جب اسے یا دآتا ہے تو خر یدا ر کے پیچھے گھو ڑ ا دو ڑا کر جا تا ہے اور اسے اصل صو ر ت حا ل سے آگا ہ کر تا ہے کوئی ملا زم ہے تو اس ملا زمت کر نے والے کو دیکھے جو حضرت خدیجہ کے لیے تجا ر ت کر نے شا م کا سفر اختیا ر کر تا ہے اور اس ملا زمت میں اتنی دیا نتدا رانہ جا نفشا نی دکھا تا ہے کہ مالکہ اس سے بے پنا ہ متا ثر ہو کر اپنا سب کچھ اسکے حو الے کر دیتی ہے کوئی بھو کا ہے تو فقرو غنا کے اس پیکر کو دیکھے جس نے پیٹ پر پتھر با ندھ رکھے ہیں کوئی فیا ض و سخی ہے تو بتائے �ò +زمانہ نے زمانہ میں سخی ایسا کہیں دیکھا +لبو ںپر جس کے سا ئل نے نہیں آتے نہیں دیکھا +کوئی حاکم اور با دشا ہ ہے تو اس با د شا ہو ں کے با د شا ہ کو دیکھے کہ دنیا بھر سے دو لت آکر اسے قد مو ں میں ڈھیر ہو تی ہے اور وہ سب با نٹ دیتا ہے اور اٹھتا ہے تو دامن جھا ڑ کر کہتا ہے اے خدا دیکھ لے کہ تیر ا فر ستا دہ گھر میں دنیا کی دو لت کا ایک درہم بھی نہیں لے جا رہا ہے غر ضیکہ کوئی سا لا ر و حا کم ہو یا تا جر و مز دو ر اس ذا تِ اقد س و اعظم کی سیر ت سے نو ر ہد ایت اخذ کرکے اپنی حیا ت ِ دنیو ی و اخر وی کے را ستے روشن کر سکتا ہے یہی وہ زند گی ہے جو ہر شخص کو رہنما ئی فرا ہم کر سکتی ہے اسی لیے تو کہا گیا کہ قد کا ن لکم فی رسو ل اللہ اسو ۃ حسنۃ یہی وہ زند گی ہے جس کی کتا ب کا ایک ایک صفحہ صبح کے گر یبا ن کی طر ح کھلا ہوا اور روشن ہے جس میں کوئی با ت راز نہیں اور اسی زند گی کو گواہ ٹھہرا کر کہنے والا کہ رہا ہے ۔ +’’قد لْبِثْتُ فِیْکُمْ عُمراً افلا تَعْقِلُوْ نْ‘‘ +﴿میں نے تم میں عمر بسر کی کیا تم سو چتے نہیں ﴾ +یہاں بھی مسجد کے بنا نے کیلئے تحر یک چلا رکھی تھی تقر یر کے آخر میں اسے تیز کر نے کی اپیل کی ۔ +27 دسمبر 1985 �÷ کو پھر فرانس تشر یف لے گئے۔ گیا رھو یں شر یف کی ایک تقریب میںشر کت کی اور گیا ر ھو یں شر یف کی بر کا ت اور غو ث الا عظم کی زندگی پر رو شنی ڈا لی۔ اور فر مایا تذ کرِ اولیا ئ اللہ بھی تز کر ِ بآ لا اللہ ہے کہ ان لو گو ں کی با بر کت زند گیا ںہما رے لیے با عثِ بر کت و نعمت ہیں خدا اپنے پیا رو ں کے ذکر سے خو ش ہو تا ہے اور ہمیں انک زند گی سے رہنما ئی ملتی ہے ہمیں پتہ چلتا ہے قرآن کی ہدا یا ت کے مطا بق زندگی بسر کر نے کی با ت کوئی آئید یلز م نہیں بلکہ ایسی زندگی بسرکی جا سکتی ہے کیونکہ ہما رے جیسی احتیا جا ت رکھنے والو ں نے قرآن پر عمل کی زندگی بسر کر کے دکھا دی ۔ اسکے بعد ور لڈ اسلا مک مشن کے تنظیمی امو ر پر گفتگو کی اور مشن کی مقا می بر انچ کی رہنما ئی کی ۔ +29 دسمبر کو میلا د النبی کے ایک جلسہ میں شر کت کی یہاں ڈا کٹر حمید اللہ صد یقی سے ملا قا ت ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ صد یقی ایک محقق ہیں جنہیں خا ص طو ر پر مخطو طا ت پڑ ھنے کی مہا ر ت ہے او ر انہو ں نے عربی مخطو طا ت پر خا صا کا م کیا ہے انہی مخطو طا ت می انہیں ’’ ہما م بن منبہ ‘‘ کی لکھی ہوئی احا دیث ملی تھیں یہ احا دیث نما ز کے متعلق مؤ لف نے جمع کی تھیں چند روا یا ت میں جو با قی کتب احا دیث میں کسی نہ کسی صو رت میں مو جو د ہیں مگر اس مجمو عہ کی خا ص با ت یہ ہے کہ یہ رو ایا ت پہلی صد ی ہجر ی کی ہیں منکر ین حد یث عا م طو ر پر کہتے ہیں کہ حد یث کی کتابیں دو سری صد ی ہجر ی میں کے اختتام پر حضور �ö کے تقر بیا ً دو سو سا ل بعد جمع ہوئیں اس مجمو عہ سے ثا بت ہوا کہ پہلی صد ی ہجر ی میں بھی حد یثیں جمع کر نے کا رو اج تھا ۔ ہما م بن منبہ کی جمع کر دہ روا یا ت کو انہو ںنے اور بھی کتابیں تر تیب دی ہیں جن میں ’’ رسو ل اللہ کی سیا سی زند گی‘‘ بہت معروف ہے ۔ ڈا کٹر حمید اللہ صد یقی کی پاکستان میں زیا دہ تشہیر جما عت اسلامی نے کی تھی اور عام طو ر پر سمجھا جا تا ہے کہ ان کا تعلق جما عت اسلامی سے ہے مگر حضرت پیر معروف شا ہ صاحب نے انکے متعلق جو تفا صیل اپنی ڈا ئر ی می دی ہیں ان سے کچھ اور با ت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ اگر چہ ڈا کٹر صد یقی صاحب اہلحد یث کی طر ح نما ز میں رفع ہدین کر تے ہیں لیکن بڑے وسیع الظر ف انسان ہیں اور محبت رسول میں انکے عقائد اہل سنت ﴿بر یلوی﴾ کے قریب تر ہیں حضرت پیر صا حب رقمطرا ز ہیں۔ +’’ پر و فیسر ڈاکٹر حمید اللہ سے طو یل گفتگو ہوئی انہو ں نے بتایا کہ پرس میں تقریبا ً 15 ہزا ر عربی مخطو طا ت ہیں جلسہ میں سب سے پہلی تقر یر ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی کی تھی ڈاکٹر صا حب نے فر ما یا ۔ +’’ وہا بی بکو اس کر تے ہیں میلا د منانا با لک جا ئز ہے ‘‘ +پیر صا حب لکھتے ہیں۔ ’’ یہ جملہ حر ف بحر ف ڈا کٹر حمد اللہ کا ہے ڈا کٹر حمید اللہ وَ اَماَّ بِنِمْمَۃِ رَبِکَ فَحَدِّ ث ‘‘ کو جو ضو ع بنا یا پھر درود والی آیت مبا رکہ پڑ ھی اِنَ اللَّہَ وَمَلٰئِکَتَہ‘ یُصَلَّوْ ن عَلیَ البِنّٰیِّ یَاَ یُّیا الذین آ مَنُوْا صَلُّوْ ا عَلَیْہِ وَسَلِّمُ ا تَسْلِیِمْا تقریباً تیس منٹ تقر یر کی تو را ت و انجیل کے مجمو عہ با ئبل کی تا ریخی حیثیت بیا ن کر تے کا کوئی ثبو ت نہیں ملتا اور قرآن حکیم کی تاریخی حیثیت کو ایک مسلمہ کی طر ح غیر مسلم بھی ما نتے ہیں اس میں ابتدا ئ سے لے کر آج تک کوئی تبد یلی نہیں آئی اس کے بعد 1986 �÷ کے سفر میں بھی ڈا کٹر حمید اللہ سے حضرت پیر صا حب کی ملا قا ت ہو ئی ڈا ئر ی میں ان کے متعلق کچھ اور با تیں بھی تحر یر فر مائی وہ بھی ہم یہیں نقل کر تے ہیں تا کہ ڈا کٹر حمید اللہ صا حب کے متعلق جملہ معلو ما ت جو پیر صا حب کے علم میں آئیں اکٹھی ہوجا ئیں پیرصا حب تحر یر فر ما تے ہیں ۔ +’’ ڈاکٹر حمیداللہ نے پو ری داڑھی رکھی ہو ئے ہے متو سط قد کے نحیف جسم کے ما لک ہہیں ذرا اونچا سنتے ہیں گفتگو پر و فیسر انہ انداز میں کر تے ہیں ہر با ت دلیل کے سا تھ کر تے ہیں نماز کے دورا ن رفع ہد ین کر تے ہیں لیکن اذا ن واقا مت میں جہاں نبی �ö کا اسم گرا می آتا ہے انگو ٹھے بھی چو متے ہیں انہو ںنے ہما رے سا تھ صلو ۃٰ و سلام بھی پڑھا ‘‘ +آگے ڈا کٹر صا حب سے ملا قا تیں رہیں چو تھی ملا قا ت پر ڈا ئر ی میں یہ الفا ظ تحر یر کئے +’’ پر و فیسر ڈا کٹر حمید اللہ جلسہ گا ہ میں آئے اور پیچھے بیٹھ گئے بعد میں اصر ا ر پر اگے تشر یف لے آئے آپ نے سب کے سا تھ مل کر کھڑے ہو کر ہاتھ با ند ھ کر صلو ٰ ۃ و سلام پڑ ھا ۔ نام ’’ محمد ‘‘ �ö جب بھی آتا تھا انگو ٹھے چو متے تھے۔ ان سے بعد میں تفصیلی گفتگو ہوئی انہو ں نے کہا میں ربیع الا ول کو ’’ ربیع الا نو ر‘‘ کہتا ہو ں میر ے نز دیک میلا د النبی منا نا خدا کو بہت محبوب ہے میلا د کا فا ئد ہ صر ف مو من ہی کو نہیں کافر کو بھی ہو تا ہے انہو ں نے کہا کا ئنات کے لیے �ö کی ذا ت سے بڑ ھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے اللہ اور اسکے فر شتے حضور کا جشن منا تے ہیں اور ہمیں بھی حکم ہے انہو ں نے کہا ’’ کوئی ایسا نبی نہیں گز را جو ہمہ صفت مو صو ف ہو مگر حضور �ö ہمہ صفت مو صو ف کا مل ، مکمل ، اکمل ہیں �ò +آنچ خوبا ں ہمہ دار ند تو تنہا دا ر ی +ڈا کٹر حمید اللہ کے متعلق پیر صا حب کی فر اہم کر دہ معلو ما ت بر ی علم افزا ئ ہیں ‘‘ +اس مو ضو ع کو یہیں ختم کر کے ہم 29 دسمبر 1985 �÷ کے اسی جلسہ ئِ میلا د النبی کی طرف پلٹتے ہیں جس کا زکر ہو رہا تھا ۔ +میلا د النبی کے اس جلسہ میں بڑ ی تعد اد میں تر ک اور مو ر یشسں مسلما ن بھی شا مل ہو ئے پیر صا حب ��ا مو ضوع تھا ’’ حضور کی ولا دت اور عالمِ انسانی ‘‘ آپ نے 45 منت تک کھل کر اپنے مو ضو ع پر تقر یر کی ابتدا ئ اس شعر سے ہوئی �ò +وہ آیا جس کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی +وہ آیا جس کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی +دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب +تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پر ی +ملو کیت نے صر ف چو لا بد ل لیا ہے لبا س تبدیل کر لیا ہے ملو کیت کا آقا ئے نا مدا ر ابلیس نا بکا ر آج بھی پکا ر پکا ر کر اپنے جیلو ں کو تسلی دے رہا ہے �ò +میں نے خودشاہی کو پہنا یا ہے جمہو ر ی لبا س +جب ذرا آدم ہو اہے خود شنا س و خود نگر +جمہو ریت اسلام نے ہی را ئج کی تھی اور اس کا پا سبا ن رہے گا فر د کی آزا دی اور اسکی را ئے کی اہمیت کا علمبر دا ر صر ف وہی معا شرہ ہے جو پیغا م محمدی �ö پر عمل پیر ا ہو ا یہ مثا لیں صر ف اسلام میں مل سکتی ہیں کہ طویل و عر یض سلطنت کی سند ِ اما رت پر بیٹھنے والا عمر فا روق کھڑ ا ہو کر کہتا ہے ’’ لو گو سنو اور اطا عت کر و‘ اور ایک عام آدمی بھر ے مجمع میں اٹھ کر کہہ دیتا ہے ’’ لا سمع و لا طا عۃ یا عمر ‘‘ اے عمر نہ ہم سنیں گے نہ اطا عت کر یں گے ‘‘ امر ا لمؤ منین سیفٹی ایکٹ کا ڈنڈ ا حر کت میں نہیں لا تا اسکے دا ر و غے اند یشہ ئِ نقص امن کی ہتکڑ یا ں نہیں بجا نے لگتے وہ پریشا ن ہو کر کہتا ہے ، ’’ بھا ئی مجھ سے کہا ں اللہ اور رسول کی اطا عت میں نا فر ما نی ہو ئی کہ تم میری اطا عت سے انکا ر کر رہے ہو ‘‘ وہ شخص کہتا ہے ’’ ما ل غنیمت میں جتنا جتنا کپڑ ا تقسیم ہو ااس میں تیرے جسیے درا ز قد آدمی کا کر تا نہیں بن سکتا تھا اور تونے اسی کپڑے کا کر تا پہن رکھا ہے ‘‘ امیر المؤ منین خا مو ش ہو کر بیٹے کو اشا رہ کر تا ہے بیٹا کھڑ ا ہو کر کہتا ہے ’’ امیرا لمؤ منین کا کر تا بہت پھٹ گیا تھا میں نے اپنے حصہ کا کپڑ ا بھی انہیں دے دیا تب یہ کر تا بنا ‘‘ وہ شخص کھڑا ہو کر کہتا ہے ٹھیک ہے امر المؤ منین وضا حت ہو گئی اب آپ فر ما ئیں ہم آپ کی با ت سنیں گے ابھی اور اطا عت بھی کر ینگے ’’ حضرت پیر صا حب نے بڑ ے خو بصو ر ت اور فصیح و بلیغ الفا ظ میں اسلام کا پیغا م و اضح کیا ۔ یو ں یہ محفل قد س اختتا م پذ یر ہوئی۔ جلسہ کے بعد پیر صاحب نے اپنے معمول کے مطابق پیر س سے کچھ کتا بیں خر ید یں اور ہا لینڈ چلے گئے +اسی سال پھر 23 مئی کو پیر س تشر یف لا ئے ۔ چو دھر ی محمد عا ر ف صا حب نے ایک تقر یب کا اہتما م کیا تھا مقصد تقریب یہ تھا کہ ورلڈ اسلامک مشن کا تعا ر ف کر ایا جا ئے اور مسلما نا نِ اہل سنت کو مشن کے کا م کو پھیلا نے کے لیے متحر یک کیا جا ئے ۔ پیر صا حب نے اپنی تقریر میں بطر یق احسن یہ فر یضہ سر انجا م دیا آپ نے بتا یا کہ پو رے عالم اسلام میں اہل سنت و الجما عت کی تعد اد اکثر یت رکھتی ہے اصل اہل سنت وہ ہیں جو رسول �ö سے دل وجا ن سے محبت کر تے ہیں آپ (ص) کا احترا م کا مل ملحوظ رکھتے ہیں اور آپ کے خلا ف ایک لفظ گوا را نہیں کر سکتے آپ کو جا مع الصفا ت اور مجمع حسن و خو بی سمجھتے ہیں آپ (ص) کے وصا ل کے بعد بھی آپ کے فیض کو جا ر ی و سا ری ما نتے ہیں اسی طرح آپ (ص) کے نقوش پا پر چلنے والے اولیا ئے کر ام سے بھی محبت و عقید ت رکھتے ہیں اور انکا احترا م کر تے ہیں اس چیز کے بھی قا ئل ہیںکہ وفا ت کے بعد بھی یہ لو گ اپنی بر کا ت سے ہمیں نو از تے رہتے ہیں یہ اہل سنت کا مسلک ہے اسی کو بر صغیر میں بر یلو ی مسلک کہتے ہیں تما م دنیا میں مسلمان جہاںبھی ہیں اکثر یت اہل سنت کی ہے افسوس ہے کہ یہ بھی بٹے ہوئے ہیںکہیں مقا می سیا ست نے انہیں تقسیم کر رکھا ہے کہیں کچھ اور چیز و ں نے ورلڈ اسلامک مشن کے قیا م میں ایک مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسو ل �ö صحا بہ کر ام اور اولیا ئے عظام سے محبت کر نے والے یہ تمام متحد ہو جا ئیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ کے کلمہ کو دنیا پر غا لب ہو نا ہے ہم اہل سنت اس سلسلہ میں بھی اپنا کر دا ر ادا کر نا چا ہتے ہیں امر با لمعر و ف اور نہی عن المنکر کا فر یضہ سر انجام دینا چا ہتے ہیں یہ فر یضہ بھی اسی طر ح سر انجام دینا چا ہتے ہیں جیسا کہ اللہ کے محبو ب �ö نے صحا بہ کرا م رضوان الیہ علیھم نے اور اولیا ئے عظام نے سر انجام دیایعنی اِلیٰ سَبِیْل رَبَکَ با لْحِکْمۃِ وَالْمَوْ عِظَۃِالحَسَنَۃِ﴿اللہ کی راہ کی طر ف دا نشمند ی اور شیر یں کلا می سے بلا تے جا ئیے ﴾ ہم اسی طر ح تبلیغ کر نا چا ہتے ہیں ہم فتنہ فسا د پھیلا نے والے لو گ نہیں تبلیغ کے لیے بنیا دی کر دا ر مسا جد سر نجام دیتی ہیں یہ خو د خا مو ش مبلغ ہو تی ہیں میں نے جمعیتہ تبلیغ الاسلام کے ذریعے اسی تحر یک پر زور دیا اور اللہ کے فضل سے لندن میں اس وقت تک ایسی گیا رہ مسا جد قا ئم ہو چکی ہیں ورلڈ اسلامک مشن بھی اسی جمعیتہ الاسلام کی تو سیعی شکل ہے اس پلیٹ فا رم سے ہم وسیع پیما نے پر مسا جد کے قیا م کے لیے کو شش کر سکتے ہیں آئیے ہم زیا دہ سے زیا دہ کوشش کر کے یو ر پ کے کو نے کونے میں اپنے یہ خا موش مبلغ کھڑ ے کر دیں۔ +’’مَنْ یقر ض اللہ قر ضا حسنا ً فیضعفہ اضعا فا کثیرا‘‘ +﴿جو اللہ کو قر ضہ حسنہ دیتا ہے تو اللہ کئی گنا زیا دہ کر کے اسے واپس کر تا ہے﴾ +پیر س کی مسجد میں بھی آپ کی تقر یر کا اہتما م کیا گیا مو ضو ع ’’ رضا ئے خد ا وند ی ‘‘ تھا فر ما یا ہم بند ے اللہ کی رضا چا ہتے ہیں اور اللہ محمد �ö کی رضا چا ہتا ہے وَ لَسَوْ ف َ یُقْطِیْکَ رَبَّک فَتَرْ ضیٰ ﴿بہت جلد اللہ تعالیٰ کی آپ کو اتنا کچھ اور وہ کچھ عطا کر یگا کہ آپ را ضی ہو جا ئینگے ﴾تحو یل قبلہ کی آیا ت میں فر ما یا اے محبو ب ہم دیکھتے رہے کہ آ پ کس طر ح با ر با ر آسما ن کی طر ف امید بھر ی نگا ہیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں اور چا ہتے ہیں کہ آپ کا قبلہ بیت المقد س کی جگہ بیت اللہ ہو +’’فَلَنُوَ یِّسَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْ ضٰھَا‘‘ +﴿پس ہم آپ کو اسی قبلہ کی طر ف پھیر ے دیتے ہیں جس سے آپ را ضی ہیں ﴾ +آئیے ہم بھی اسی محبوب �ö کو را ضی کر لیں کہ ہما را خد اہم سے را ضی ہو جا ئے اس در سے ما نگیں کہ یہاں سے ما نگنے والا خا لی ہا تھ نہیں جا تا اسے منا ئیں کہ یہ من گیا تو خدا من گیا اسکی فر ما نبر دا ر ی اور اطا عت کر یں کہ اسکی فر ما نبردا ری ہی خدا کی فر ما نبر دار ی ہے +’’مَنْ یّٰطعِ الرَّ سُوْ ل فَقَدْ اَطَا عَ اللّٰہ‘‘ +﴿جس نے اللہ کے رسو ل �ö کی اطا عت کی پس اس نے رب کی اطا عت کی ﴾ +اس اجلا س کے بعد تین مر دو ں اور تین عو ر تو ں نے پیر صاحب کی بیعت کی اور حلقہ ئِ ارادتمند اں میں دا خل ہوئے ۔ +پیر س کے احبا ب نے فیصلہ کیا تھا کہ سر تا ج الا ولیا ئ حضرت نو شہ گنج بخش (رح) کا عر س پیر س می منایا جا ئے حضر ت پیر صا حب اسی عر س میں شرکت کے لیے ڈا کٹر محمد حنیف فا طمی کے سا تھ 23 اگست 1986 �÷ ئ کو پیر س پہنچے طا رق جہلمی نو شاہی صا حب پہلے پہنچ گئے تھے کہ احبا ب کو اطلا ع دیں کے حضرت پیر صا حب فلا ں وقت تشر یف لائیں گے تا کہ وہ بر وقت استقبال کے لیے آسکیں۔ بہر حا ل مالک نو شا ہی ، طا ر ق مجا ہد جہلمی اور دیگر افقا ئ نے استقبال کیا عر س مبا ر ک کی تقر یبا ت پیر س کی ایک بڑی مسجد میں تھیں جلسہ کی صدا ر ت پیر صا حب نے فر ��ا ئی ڈا کٹر محمد حنیف فا طمی نے حضرت نو شہ گنج بخش کی مقد س شخصیت تھی ۔ پیر صا حب نے انکی پر ریا ضت زند گی پر تفصیل سے رو شنی ڈا لی انکی کر اما ت کا ذکر کیا اور بتا یا کہ انکے مز ا ر پر انوا ر سے بھی کتنے لوگ فیضیا ب ہوئے سینکڑ و ں ہز ارو ں کی مرا دیں پو ر ی ہو ئیں۔ ایسے لو گ کبھی فنا نہیں ہو تے کہ �ò +ہر گز نمیردآنکہ دلش زندہ شد بعشق +ثبت است برجرید ئِ عالم دوامِ ما +بعد میں ورلڈ اسلامک مشن کا اجلا س ہو اور ورلڈ اسلامک مشن کے پر و گر ام کے مطابق ایک مسجد کی تعمیر پر غو ر کیا گیا ۔ +26اگست کو ور لڈ اسلامک مشن کا ایک اجلا س تر ک جا مع مسجد میں ہوا پیر صاحب نے اس اجلا س کی صدا ر ت کی طا ر ق مجا ہد نے مشن کی کا ر گز اری پر جا مع تقر یر کی ، پیر صا حب کا خطبہ ئِ صد ار ت مسجد کی اہمیت پر تھا انہو ں نے و اضح کیا کہ مسا جد ہی ہما رے قلعے ہیں ہم مسلما ن یو رپ کے ان شہر و ں میں ہیں جہا ں کی تہذیب اور جہا ں کا تمد ن الگ ہے ہما رے بچے ان معا شر وں میں پل رہے ہیںوہ جن سکولو ں میں جاتے ہیں وہا ں سیکو لر تعلیم ہے گھر سے با ہر کا معا شرہ با لکل الگ ہے ہم میںسے کون ہے جو اپنے بچو ں کو اس معا شر ہ کے اثرا ت سے بچا سکے ٹھیک ہے آپ گھر میں کوشش کر سکتے ہیں کہ بچے مسلمان رہیں مگر گھر سے با ہر آپ انکی نگرانی نہیں رکھ سکتے آپ کے پا س اتنا وقت بھی نہیں کہ گھروں میں بچو ں کو اسلامی تعلیما ت سے آگاہ کر تے رہیں اور انہیں قرآن پاک اور اسلامی تعلیم دے سکیں ۔ عزیز انِ گرامی ہم اپنی نسل کو اگر مسلمان رکھنا چا ہتے ہیں تو مسا جد جیسے قلعے تعمیر کر نا ضر و ر ی ہیں مسجد میں اجتما عی نما ز ایک بہت بڑ اکا م ہے پھر مسجد کے سا تھ مدا رس بھی ہو تے ہیں جو ہما ری نسل کے لیے غیر اسلامی تمد ن ، تہذیب اور تعلیم کے سیلا ب سے پنا ہ گا ہ بنتے ہیں ہما را فر ض ہے کہ ہم خو د بھی اس معا شرہ میں اپنا دامن بچا ئے رکھیں اور اپنی نسلو ں کو بھی بچا ئیں ہم اپنا وطن ، اپنا گھر با ر چھو ڑ کر بہتر روزی کی تلا ش میں آتے ہیں اور یہ کوئی گنا ہ نہیں لیکن یہ گناہ ضرور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تر بیت سے محرو م کر کے کفر ز اروں میں تنہا چھو ڑ کرانہیں ڈوب جا نے دیں پیر صا حب کی تقر یر بڑ ی مؤ ثر رہی پیر صاحب 28 نو مبر 1986 کو پھر پیر س تشر یف لے گئے اور 2 دسمبر 1986 �÷ ئ کو واپس آئے جا مع مسجد تر ک میں میلا د النبی �ö کا جلسہ تھا افتتا حی تقر یر مو لا نا عبدالقا در نو شاہی کی تھی پھر ڈاکٹر حمید اللہ صا حب کی تقر یر ہوئی انکی تقریر اجا گر ہم پہلے نقل کر چکے ہیں صد ا ر تی تقریر میں پیر صاحب نے قرآنِ حکیم کی یہ آیت پڑ ی ۔ +’’لَقَدْ مَنّ اللّٰہُ الْمُؤ مِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُو لاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِم آیتِٰہٰ وَ یُزَ کِیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَا لْحِکْمَۃ‘‘ ﴿آلعمر ان ۔ 164﴾ +﴿یقینا اللہ تعالیٰ نے مؤ منو ں پر بڑا احسا ن فر ما یا کہ اس نے ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیا ت تلا وت کر تا ہے ، انہیں پاک کر تا ہے اور انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے﴾ +جب کسی پر کو ئی نعمت نا ز ل ہو تی ہے کوئی انعام ملتا ہے تو وہ خو شی منا تا ہے ۔ بلکہ خود خدا نے حضو ر �ö کو کہا کہ وہ مسلما نو ں کو کہ دیں کہ جب اللہ کا تم پر فضل ہو اور اسکی رحمت تم پر سا یہ کر ے تو تمہیں چاہییکہ تم خو شیا ں منا ئو اللہ کا ارشا د ہے ۔ +﴿کہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اسکی رحمت پر ان لو گو ں کو چاہییکہ خو شیا ں منا ئیں ﴾ +ہم اہل سنت ج��ن عید میلا د النبی اسی لیے منا تے ہیں کہ اسی روز تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا اتما م کیا اور رحمۃ اللعا لمین کو نسل انسانی کی ہدا یت کے لیے بھیجا ۔ +صحیح بخا ری میں یہ رو ایت مو جو دہے کہ حضور �ö کی ولا دت با سعا دت پر ابو لہب کو اسکی لونڈی ثو بیہ نے خبر دی تو اس نے خو ش ہو کر لو نڈی کو آزا د کر دیا اگر چہ وہ سا ری عمر حضور �ö کا جا نی دشمن رہا اور کفر پر ہی مرا اللہ نے قرآن حکیم میں اسکی تبا ہی کی سو ر ت اتا ری لیکن حضور �ö کی ولادت پر اظہا ر مسرت کی بر کت سے ہر سو مو ا ر کو اسے پانی کا گھونٹ پلا یا جا تا ہے اور اسکے عذا ب میں تخفیف کر دی جا تی ہے۔ +ہم تو اللہ کے حکم کے مطا بق رحمتِ عالم کی ولا دت کو دنیا کے سعا دت کا دن قر ار دیتے ہیں ہم تو حضور �ö کی ولا دت کو مسلما نو ں پر اور کائنا ت پر بہت بڑا انعا م سمجھتا ہو ں اور اسی انعا م کی خو شیا ں منا تے ہیں جشن منا تے فی الو اقع حضور کے ولا دت سا ر ی نسل انسا نی کے لیے عید کا دن ہے ۔ +مبارک رحمۃ اللعالمین تشریف آئے +مبارکباد صادق اور امین تشریف لے آئے +30 نو مبر کو وتر ی کے مقا م پر عرب بھا ئیوں سے ملا قا ت ہو ئی مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں انہوں نے تعاون کا یقین دلا یا لا کور نو میں اولیا ئ کا اندازِ تبلیغ کے مو ضو ع پر پیر صاحب نے خطا ب کیا ۔ ابتدا ئ میں قرآن حکیم کی آیت مبا رکہ پڑ ھی جس کا تر جمہ یہ ہے، +’’ اللہ نے آپ کو اپنی رحمت سے نر م مز اج بنا یا اگر آپ سخت مز اج ہو تے تو یہ لو گ آپ کے پاس سے بھا گ کھڑ ے ہوتے ‘‘ +پھر فر ما یا حضور �ö کا ہی اندازِ تبلیغ اولیا ئ اللہ نے اپنا یا لو گو ں سے محبت کی ان کی جہا لت کے با عث سر زد ہونے والے گنا ہو ں پر ان سے نفر ت نہ کی ان سے پیا ر کیا ان کی بد اعما لیوں سے نفر ت کی پیا ر سے انہیں سمجھا یا اپنے پیا ر بھر ے عمل سے انہیں سمجھا یا کہ تم اچھے انسا ن ہو تم اپنی ذا ت پر گنا ہ کے دا غ کیو ں لگا تے ہو اپنا صا ف من کیو ں میلا کر تیہو وہ سمجھتے گئے اور انکے قریب آتے گئے اولیا ئ اللہ اور پیا ر سے آگے بڑھے اور انہیں گلے لگا یا دوسرے لوگ ’’ جنہیں علما ئ کہتے تھے معمو لی گنا ہو ں پر اپنو ں پر ہی کفر کے فتو ے لگا نے لگے ان سے کا فر تو مسلمان کی ہوتے مسلما ن بھی ان سے دو ر ہو تے گئے یہاں آپ نے شیخ سعد ی شیرا ز ی کے یہ اشعا ر پڑ ھے �ò +شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا دل دشمناں ہم نہ کروندتنگ +تُرا ک میسر شود ایںمقام کہ بادوشتانت خلاف است جنگ +یکم دسمبر کو مختلف وفو د نے پیر صاحب سے ملا قا ت کی اور اپنے مسا ئل سے آگاہ کیا +حضرت پیر صاحب کا اگلا سفر 26 دسمبر 1987 �÷ کو ہوا ۔ 27 دسمبر کو جا مع مسجد تر ک میں عرس غوث الا عظم کی تقا ریب منعقد ہوئیں پیر صاحب جناب محبوب سبحا نی کے احوا ل و آثا ر پر اظہا ر خیا ل کیا صو فی عبد الما لک نے ورلڈ اسلامک مشن پیر س کی کا ر کر دگی پر تفصیلی رپو ر ٹ پیش کی ۔ +28 دسمبر کو لو س پیر س کے مقام پر پاکستانیوں کے ایک اجتما ع سے خطا ب فر ما یا 30 دسمبر کو احباب ملا قا ت کو آگئے پیر صاحب نے فر دا ً فرداً ہر ایک سے اُسکے انفرا دی حا لا ت سُنے اسے مشو رہ دیا ۔ +اسکے حق میں دعا فر ما ئی ممکن حد تک مد د کی اور یہ تو پیر صاحب کا مستقل شیو ہ ہے �ò +ہر اک درد دکھ سے انکو رہتا ے سدا مطلب +ہوا ممکن تو یاری کی نہیں تو غمگساری کی +31 دسمبر کو پھر ایک تقریب میںحضرت غو ث پاک کی ذا ت پیر صاحب کے خطا ب کا مو ضو ع تھی آپ نے اس دفعہ غو ث پاک کی علمی فضیلتوں کو مو ضو ع بنایا اور انکی تصنیف لطیف ’’ غنیتہ الطا لبین ‘‘ کو مو ضو ع بن�� یا اور میر انیس کے اس مصر ع کو زند گی بخش دی �ò +اک پھول کا مضمو ن ہو تو سو رنگ سے با ند ھو ں +29 اگست 1987 �÷ کو پیر صاحب مجد دِ اعظم نوشہ گنج بخش کے 343 ویں سالانہ عر س کے سلسلہ میں شر کت کے لیے تشر یف لائے۔ مو لا نا عبد القا در نو شاہی نے نو شہ گنج بخش کی ذا ت کو مو ضو ع بنایا ۔ +ڈاکٹر یعقوب ذکی نے دی و رلڈ صو فی کا نفر نس کا تعارف پیش کیا الحا ج عد الت خا ن نو شاہی نے بھی تقریر فر مائی ۔ جمعیت حسان کے چا ر ار کا ن نے غو ث اعظم اور مجد دِ اعظم نو شہ گنج بخش کی شا ن مں منقبت پیش فر ما ئیں پیر صاحب نے صد ار تی خطبہ میں فر ما یا ۔ یہ آپ دو ستو ں کی مسلسل کو ششو ں کا نتیجہ ہے کہ آج مغر ب کے ان علا قو ں میں غو ث اعظم اور جنا ب نو شہ گنج بخش کی با تیں ہو رہی ہیںجہاں شرا ب و شبا ب کے نغمو ں سے ہر وقت فضا ئیں گو نجتی رہتی ہیں آپ نے احبا ب کو خر اجِ تحسین پیش کیا اور انہیںمز ید سر گر م ہو نے کی تلقین کی۔ +26 ما ر چ 1988 �÷ کو جلسہ ئِ معرا ج النبی کا اہتما م جا مع مسجد تر ک پیر س میں کیا گیا تھا اس جلسہ کے خا ص مقر ر ڈا کٹر حمید اللہ تھے اور صدا ر ت پیر صا حب کی تھی ۔ ڈا کٹر صاحب نے اس پر زو ر دیا کہ معرا ج النبی جسما نی معجز ہ بھی ہے اور جد ید سا ئنس آہستہ آہستہ اسکی تصد یق و تائید کی طرف بڑ ھ رہی ہے ۔ پیر صاحب نے معرا ج کے دورا ن حضور کے مشا ہدا ت جنت دوز خ کو مو ضو ع بنا یا کہ یہ وا قعہ اپنے اندر رشد و ہدایت ایک اور اجلا س میںجو نو شہ گنج بخش کے عر س کے سلسلہ میں تھا سید سبط الحسن رضو ی ’’ نو شہ گنج بخش ‘‘ ایک عظیم رو حانی اور تبلیغی شخصیت ’’ کے مو ضو ع پر بڑی جا مع تقریر کی یہ جلسہ بھی حضرت پیر صاحب ہی کی زیر صدا رت ہو ا اور آپ نے صد ار تی خطبہ میں مجد د اعظم نو شہ گنج بخش سرکار کی غر یب نوا ز یوں پر مفصل رو شنی ڈا لی ۔ +یکم ستمبر 1990 �÷ کو حضر ت مجد د ِ اعظم سید نو شہ گنج بخش کا 346 واں سا لا نہ عر س پیر س میں منا یا گیا پیر صا حب نے اسکی صدا رت کی اور احبا ب کی حو صلہ افزا ئی کی کہ وہ �ò +اگر چہ بت ہیں جما عت کی آستینوں میں +مجھے ہے حکم اذا ن لا الہ الاا للہ +کا فر یضہ نبھا رہے ہیں اور حضرت نو شہ گنج بخش کی جلا ئی ہو ئی شمعیں رو شنی پھیلا تی جا رہی ہیں ۔ 26 مئی 2001 �÷ میلا د النبی کے جلسہ اور عر س حضرت نو شہ گنج بخش کے سلسلہ میں پیر س تشر یف لے گئے اس سفر میں عثما ن نو شاہی الحا ج عد الت خان نو شاہی ، اشفا ق احمد نو شاہی آ پ کے سا تھ گئے تھے اور چو دھر ی محمد الیا س نو شا ہی اپنے طو ر پر پیر س پہنچ گئے تھے ان کے مقصد بھی پیر صا حب کے جلسہ میں شر کت کر نا تھا ۔ 27 مئی کو یہ جلسہ ہو اور پیر صا حب نے خطبہ صدا رت ارشا د فر ما یا ۔ 28 مئی کو دا ر الا سلا م کے کتب خانہ میں تشر یف لے گئے اور 8 ہز ار فر انگ کی کتا بیں خریدیں۔ یہ چند خا ص تبلیغی دور ے ڈا ئر ے کی زینت تھے انکے علا وہ بھی حضرت صا حب کئی مر تبہ فر انس تشر یف لے گئے ہم تبلیغ کے لیٹ کئے جا نے مختلف سفر یکجا کر رہے ہیں صر ف یہ دکھا نے کے لیے اپنی ذ ات کو خدا کے لیے ، رضا ئے مصطفے کے لیے اور انسا نیت کی فلا ح کے لیے وقف کر دینے والوں کی زند گی کس طر ح ایک ایسی لگن میں گز ر تی ہے جس میں تھکن اور زیا دہہ سفر پر اکسا تی ہے اور پائے طلب کو مسا فتیں کم ہو نے کا شکوہ رہتا ہے غا لب نے کیا بڑ ا شعر کیا تھا �ò +ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب +ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پایا +رکتے ہوکیوں کہ رکتے نہیں ہیں یہ پل ، چلو +پائوں جوتھک گئے ہیں تو آنکھوں کے بَل چلو +ہالینڈ کا نام نید ر لینڈ بھی ہے کہتے ہیں اصل نام یہی تھا لیکن اب ہا لینڈ زیا دہ معر وف ہے ۔ ہا لینڈ یو ر پ کا ایک ایسا ملک ہے جہا ں ڈ چ حکومت سیکو لر انداز کی ہے اور کسی کے مذہب میں کوئی مدا خلت نہیں کر تی ہر ایک کو پو ری مذہبی آزا دی ہے ۔ وہ چا ہتی ہے سا ری اقلیتیں اپنی مذہبی آزا دی بر قرار رکھیں لیکن ڈچ معا شرہ کا ایسا حصہ نہ بنیں جو معا شر تی ڈھا نچے کو نقصا ن پہنچا ئے۔ ہا لینڈ میں پاکستانی مسلمانو ں کی تعداد کم ہے 2 لاکھ ستر ہز ار کے قر یب مسلما ن دو لا کھ 25 ہزا ر کے قر یب مر اکشی مسلما ن ہیں سرہنا می مسلما نو ں کی تعداد پچا س ہزا ر ہے مسلما نو ںکی تقر یبا ً دو سو مساجد ہیں اور انکے قبر ستان بھی الگ ہیں +1960 �÷ کی دہا ئی میں ہا لینڈ میں افراد قو ت کم ہو گئی تھی خا ص طو رپر محنت کشو ں کے طبقہ میںخا صی کم محسو س ہو رہی تھی اس لیے ملک کو غیر ملکی محنت شکو ں کی ضر و ت محسو س ہو ئی اس طر ح تر کی اور مر اکش کے مسلما نو ں کو ہا لینڈ آنے کا مو قع مل گیا اگر چہ 1974 �÷ میں حکومت ہا لینڈ نے غیر ملکی لیبر رو ک دی لیکن ان ملکو ں سے آنے والو ن کی لہر کو رکا نہ جا سکا وہا ں پہنچے ہوئے بہت سے کا م کر نے والو ں نے اپنے خا ندا نو ں کو یہاں لا نا شر وع کر دیا ۔ ادھر سُر ی نا م سے بھی نقل مکا نی کر کے آنے والو ں لہر بھی چل پڑ ی اور ان میں سے اکثر مسلما ن تھے سُر ینا م 1975 �÷ میں آزاد نہ ہو ا یہ لہر رُک گئی ، اب ڈا چ آبا دی کی 4 فیصد مسلما نو ں کی آبا دی ہے 1971 �÷ ئ میں ہا لینڈ میں مسلما نوں کی کل تعد اد 54 ہزا ر 1975 �÷ میں ایک لاکھ آٹھ ہزا ر ، 1980 �÷ میں دو لاکھ 25 ہزار اور 1997 میں 5 لا کھ تہتر ہزا ر ہو گئی ۔ +وہ مسلما ن ان کے علا وہ ہیںجنہوں نے ایرا ن، عراق، صو مالیہ ، ایتھو پیا ، مصر ، افغا نستا ن، سابق سو یت یو نین ، اور بو سینا سے آکر یہاں پنا ہ لی۔ +ڈچ دستو ر کی دفعہ نمبر ۱ میں وضا حت کی گئی ہے کہ ہا لینڈ کے تما م با شند و ن کو یکساں حقوق حاصل ہو نگے مذہب ، رنگ ، نسل ار جنس کا تفا وت حقو ق پر اثر اندا ز نہیں ہو گا ۔ کسی نے با ہر سے آکر شہر یت لے لے یا ہا لینڈ میں پیدا ہو ا دو نو ں کے حقو ق میں کوئی فر ق نہیں ہر ایک کو ووٹ دینے کا اور نما ئند گی کے لیے بطو ر امیدوا ر انتخا بی میدا ن میں آنے کا یکسا ں حق ہے۔ +رپو رٹ کے مطا بق 1997 �÷ میں لو کل سطح پر مسلما ن انتخا ب میں کا میا ب ہو ئے تھے ۔ آئین سیکو لر ہے اس لیے مذہب او ر سیا ست بالکل الگ ہیں 1980 �÷ تک چر چ اور مسا جد کی تعمیر کے لیے حکو مت امدا د ی اقوم دیتی تھی پھر ایسا کر نا بند کر دیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ یہ کام سیکولرزم کے اس بنیا دی اصو ل کے خلا ف ہے جس کے تحت مذہب اور سیا ست کو الگ کیا گیا ۔ اب عبا دتگا ہیں مذہبی تنظیمیں خو د بنا تی ہیں ۔ +پر ائیویٹ ادا رو ں میں بھی مسلما نو ں کو پور مذہبی آزا دی حاصل ہے رمضا ن کے دنو ں میں مسلما نو ں کے اوقا تِ کا ر میں رعا یت دی جا تی ہے بعض بڑے تجا ر تی ادا رو ں یا فیکڑ یو ں میں نماز کے لیے الگ جگہیں بنی ہو ئی ہیں ۔ مسلما نو ں کو اپنے انداز میں رہنے کی پو ر آزا دی ہے عو ر تیں حجا ب میں بھی ہو تی ہیں اور بے پر دہ بھی سکول ، کالج یا یو نیو رسٹی میں ان پر کوئی پا بند ی نہیں، پر ائیویٹ تعلیمی ادا رو ں میں کسی حد تک حجا ب کی کسی حد تک حو صلہ شکنی کی جا ئے تو حکومت اسکی ذمہ دا ر نہیں ، مسلمانو ں کے ذ بح خا نے بھی الگ ہیں 4500 ذبح خا نو ں میں سے 500 ذبح خا نے مسلما نو ں کے ہیں تعلیم سب کے لیے لا زمی ہے مذہبی لو گو ں نے اپنے سکول بھی بنا ر کھے ہیں پر و ٹسٹنٹ سکول ، کیتھو لک سکول وغیر ہ اسی طر ح مسلما نو ں کے بھی تیس کے قر یب سکول ہیں سر کا ر ی نصا ب سیکو لر ہے مذہبی لو گ اس نصا ب کے سا تھ اپنا مذہبی نصا ب اپنے طو ر پر شامل کر سکتے ہیں مگر گو ر نمنٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ +اعلیٰ تعلیم میں اسلامک سٹڈیز اور عربی کے مضا مین بھی بطو ر اختیا ری مضا مین شامل ہیں اسی طر ح دو سری مشر قی زبانیں بھی شا مل ہیں 1998 �÷ میں ڈچ انسٹی ٹیو ٹ فا ر ا سلا مک سڈ یز بھی لیڈن میں کھل گیا ۔ مسا جد کے اما مو ں کی ٹر یننگ کے لیے حکو مت فنڈ مختص کر تی ہے ہر سا ل تقر یباً پچا س امام تر کی اور مرا کش سے آتے ہیں جنہیں ایک سال کی ٹریننگ دی جا تی ہے اس ٹر یننگ میں انہیں ڈچ سو سا ئٹی کے اڈل و ضوابط سمجھا ئے جا تے ہیں اور ڈچ زبا ن بھی سکھا ئی جا تی ہے +ان اما مو ں کا ٹر یننگ کے بعد امتحا ن بھی ہو تا ہے۔ یہ امتحا ن ڈ چ زبا ن سیکھنے میں بھی لیا جا تا ہے اور اس سے اما م کی قا بلیت بھی جا نچی جا تی ہے +لیڈن یو نیو ر سٹی +ہالینڈ کے بڑ ے شہر ہیگ ، ایمسٹر ڈم اور لیڈن ۔ لیکن ان میں لیڈ ن بین الا قوا می علمی دنیا میں بڑی شہر ت رکھتا ہے لیڈ ن یو نیو ر سٹی لیڈن شہر کے لیے غیر متو قع تحفہ تھا لیڈن یو نیو ر سٹی 1575 �÷ میں وجو د میں آئی نید ر لینڈ یا ہا لینڈ پر سپین نے قبضہ کر لیا تھا ۔ لیڈن کے بہا در عوا م نے جنگ آزا دی میں بڑی جر أ ت اور بے پنا ہ ہمت اور حو صلہ کا مظا ہر ہ کیا تھا۔ شہز ا دہ ولیم آف اور ینج نے سٹیٹس آف ہا لینڈ کو 1574 �÷ میں ایک خط لکھا جس میں مطا لبہ کیا گیا تھا کہ لیڈن کے لو گو ں کو انکی جر أ تمند ی کے انعا م کے طو ر پر یو نیو ر سٹی دی جائے اس طر ح یہ یو نیو ر سٹی وجو د میں آئی 8 فروری1975 �÷ کو اس یو نیو ر سٹی کی بنیا د رکھی گئی اس لحا ظ سے یہ انو کھی یو نیو ر سٹی تھی جو سپینی حملہ آ ورو ں کی مزا حمت کر نے والے اہل الیڈن کو شجاعت اور جر أ تمند ی کے انعا م کے طو ر پر ملی تھی ۔ +بہت جلد یہ یو نیو رسٹی عالمی شہر ت یا فتہ یو نیو ر سٹی بن گئی عالمی شہر ت یا فتہ سکا لر ز کی بہت بڑی تعدا د اسی یو نیو ر سٹی کی فارغ التھیل ہے آج بھی دنیا کے اعلی تعلیم حا صل کر نے کے شا ئق طا لب علم اور ریسر یچ سکا لر اسی یو نیو ر سٹی کی طر ف دو ڑ ے دوڑے آتے ہیں اس وقت 1998 میں اس کے طلبہ کی تعداد 14000 ہے سا ری دنیا کی یو نیو ر سٹیا ں لیڈ ن یو نیو ر سٹی کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتی ہیں اور اس کے فارغ التحصیل سکا لر اس کی ڈگر ی پر فخر کر تے ہیں۔ +لیڈ ن یو نیو رسٹی کے سا تھ ہی لیڈن کی لا ئبر یر ی کو بھی مثا لی حیثیت حاصل ہے دنیا کی انتہا ئی نا یا ب کتب کا بڑا ذخیر ہ اس لا ئبر یر ی میںہے اور لطف یہ ہے کہ تقر یبا ً تما م زند ہ زبا نو ں کی معرو ف اور قا بل مطا لعہ کتابیں اس لا ئبر یر ی کی زینت ہیں اب تو یہ جد ید تقا ضو ں کے مطابق آرا ستہ و پر استہ ہے اس میں یہ انتظام بھی ہے کہ جس کتا ب کی نقل حا صل کر نا چا ہو اعلی فو ٹو سٹیٹ مشینو ں کی مد د سے آپ کو تھو ڑے انتظا م کے بعد انتہا ئی معقو ل قیمت پر مل جا تی ہے ۔ +حضرت پیر معرو ف شا ہ اور ہالینڈ +جا نے کہا ں کہا ں گئے ہم کو نہ کچھ خبر ہوئی +جا نے کہا ں پہ شب کٹی جا نے کہا ں سحر ہو ئی +حضرت پیر معروف شا ہ صا حب کو عشق خیز پہلی دفعہ ۱۱ اگست 1979 �÷ کو ہا لینڈ لے گیا رمضا ن المبا ر ک کا مہینہ تھا بد ھ کا دن تھا نیو ٹن پلا ن کی مسجد نما ز ترا ویح کے بعد پہلا خطا ب کیا خطا ب کا مو ضو ع تھا ’’ اسلامک مشنر ی کا لج کا تعا ر ف ‘‘ ابتدا ئ میں علم کی فضیلت پر ایک بھر پو ر تقر یر کی سامعین میں بز ر گ بھی تھے اور نو جو ان طلبہ بھی ، آپ نے ب�� ت شر و ع کی قصہ ئِ تخلیق آدم سے بتا یا کہ فر شتو ں کو آدم کا سجد ہ کر نے کا حکم دیا گیا اس لیے کہ ’’ علم آدم الا سما ئ ‘‘ آدم علیہ السلام کو علم اسما ئ و دیعت کہاگیا تھا جو ملا ئکہ میں نہیں تھا نو ر یو ںنے خا کی سجد ہ اس لیے کیا کہ خا کی کے پاس علم تھا گو یا علم ہی وجہ فضیلت تھی اور علم ہی کے با عث انسان مسجو د ِ ملا ئک ٹھہر ا ، یہ ابتدا ئ تھی اور انتہا یہ تھی کہ سر ورِ انبیا ئ سر تا ج ِ رسل �ö پر پہلی وحی اتر ی +’’اِقْرَأ بِا سِْم رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ ، خَلَقَ الْاِ نْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ، اِقْرَ أ وَ رَبُّکَ الْاَ کْرَم ْ الِّذ ی عَلّمَ بِا لْقَلَمِ عَلّمَ الْاِ نْسَا نَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘ +﴿پڑ ھ اپنے رب کے نام سے جس نے پید اکیا، ہا ں جس نے انسان کو جمے ہوئے خو ن سے پیدا کیا ، پڑ ھ اور تیر ا رب بڑ ا ہی تکر یم والا ہے جس نے انسا ن کو قلم کے ذر یعے علم سکھا یا اور انسا ن کو وہ سب کچھ سکھا یا اس سب کچھ کی تعلیم کردی جو وہ نہیں جا نتا تھا ﴾ +یہ انسا ن کو ن تھا ؟ یہ اللہ کے محبو ب کی ذا ت تھی جسے اللہ نے ان تما م علو م کا عا لم بنا دیا جو آپ نہیں جا نتے تھے ۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہو گیا کہ اللہ کے محبو ب کو سا را علم مل گیا دو سر ے یہ کہ علم اور قلم کا تعلق بنیا دی ہے ۔ اہلِ عر ب کہتے ہیں ۔ +’’اَلْعِلْمُ صَیْد’‘ وَّ الْکِتَاَ بۃُ قَیْد’‘‘‘ +یو ں علم کی اور پھر علم با تعلیم کی فضیلت وا ضح ہو گئی او جس رسو ل اول و آخر پر یہ فضیلت و اضح کی اس نے مسلما ن کے لیے صا حب علم ہو نا لا زمی قرار دیا ۔ طلب العم فر یضہ ، علی کل مسلم و مسلمۃ ﴿ علم حا صل کر نا ہر مسلما ن مر د اور ہر مسلما ن عور ت پر فر ض ہے﴾ +اور فر ما یا اطلبو العلم و لو کا ن با لصین +﴿علم حا صل کر و چا ہے تمہیں علم حا صل کر نے کے لیے چین جیسے دو ر درا ز ملک ہی کیو ں نہ جا نا پڑ ے ﴾ +اللہ نے فر ما یا میرے محبو ب کی ذا ت مسلما نو ں پر بہت بڑاا حسا ن ہے میں نے بڑ ا کرم کیا کہ اپنے رسو ل پاک کو مسلما نو ں کے پاس بھیج دیا وہ کیا کر تے ہیں ؟ انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور رسول ِ خدا �ö نے فر ما یا ۔ +’’ حکمت مو من کی گمشد ہ چیز ہے پس وہ جہاں اسے ملے اسے اپنا لے کیونکہ یہ اسکا اپنا مال ہے ‘‘ +ان ہی مقا صد عالیہ کے حصو ل کے لیے اسلامک مشنر ی کا لج قا ئم کیا گیا ہے اور اس میں انہی خطو ط پر تعلیم دی جا تی ہے جن خطو ط پر اسلامی نظام تعلیم استوا ر ہے ‘‘ پھر آپ نے طلبہ پر اسلامک مشنر ی کا لج کا بھر پو ر تعا ر ف کر ا یا اور انہیں تر غیب دی کہ وہ اس میں داخلہ لیں۔ +دو سرے رو ز ہا لینڈ میں احمد یو ں کی بھی دو مسا جد ہیں ﴿اگرا نہیں مسا جد کہا جا سکے تو ﴾ پیر صاحب احمد یوں کی مسجد میں تشر یف لے گئے یہ مسجد 1954 �÷ میں سر ظفر اللہ خا ن نے بنوا ئی تھی وہا ں احمد یو ں کے اما م اللہ بخش سے کا فی دیر گفتگو ہو تی رہی ، +پارلیمنٹ ہا ئو س دیکھا مو لانا سعا دت علی قا دری سے ملاقا ت ہوئی ۔ مو لانا سعا دت علی کا فی عر صہ سے یہاں مقیم تھے اور انہو ں نے جما عت اہل سنت قا ئم کر رکھی تھی یہ جما عت اہل سنت وہی ہے جو کسی زما نہ میں مو لانا شفیع اکا ڑو ی کے زیر صدا ر ت چلتی رہی تھی ۔ ادھر ادھر پھر کر کتا بیں خریدیں تبلیغ کے سلسلہ میں بہت سے لو گو ں سے ملا قا تیں کیں وہا ں کی بہت سی مسلما ن آبا دی مسا جد سے دور رہتی ہے اس لیے ایک ایک شخص سے ملنا خا صا دشوار کا م ہے اسی سا ل پیر صا حب نے دو سر ی مر تبہ ہا لینڈ کا سفر اس وقت اختیا ر کیا جب چند احبا ب کی طر ف سے آپ کو ایک تقریب میں شر کت کی دعو ت دی گئی اس تقر یب کا اہتما م حاجی عد الت خا ن نو شا ہی ، ایو ب صاحب اور رفیع صاحب نے کیا تھا اس سفر میں آپ کے سا تھ سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی اور سید ی عبدا لقا در شا ہ بھی تھے آپ کے اعزا ز میں وہا ں بہت بڑی تقریب کا اہتما م کیا گیا تھا ۔ جس میں بڑی تعدا د میں لو گو ں نے شر کت کی ۔ پیر صاحب نے وہا ں ’’ شا ن رسا لتما ب �ö پر ایک یا د گا ر تقر یر فر ما ئی ۔ +سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کوقبائیں دیں +سلام اس پرکہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں +ایک دو سری تقر یب میں پیر صا حب کامو ضو ع ’’ ختم نبو ت ‘‘ تھا پیر صاحب نے بجا ئے مر زا غلام احمد کو لعن طعن کر نے اور اسکی تحریروں کی خا میا ں اسکے کر دا رکی غلطیاں اور اس کی فہم کی ٹھو کر یں گنا نے کے حضور �ö کے کما لا ت گنا ئے اور فر ما یا چو نکہ آپ کی ذا ت میں انسان کا مل آگیا نبو ت و رسا لت مکمل ہوگئی دین مکمل ہو گیا ۔ +’’اَلْیوم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ وَ اَ لممتُ عَلَیْکَمْ نِعمتی وَرَ ضِیْتُ لَکُمُ الْاِ سْلاَم دینا ‘‘ +﴿میں نے آج تمہا را دین تمہا رے لیے مکمل کر دیا تم پر اپنی نعمت کا اتما م کر دیا اور اسلام کو تمہا رے ضا بطہ ئِ حیا ت کے طور پر پسند فر مایا ﴾ +دین مکمل ہو گیا ہد ایت مکمل ہو گئی تو کو ئی آکر کیا کر یگا ۔ قرآن حکیم کو قیا مت تک کے لیے محفو ط کر دیا گیا اور حفا ظت کی ذمہ دا ر ی کسی فر شتے کے سر نہیں ڈا لی خدا نے خو د اپنے اوپر لے لی اب اس میں کسی طر ح کی تحر یف لفظی نہیں ہو سکتی زبر زیر بلکہ ایک نقطہ تک کا فر ق نہیں آسکتا پر یس اور چھا پہ خا نے ایجا د ہونے سے پہلے ہی ایسا نا در انتظام کیا کہ سینو ں میں محفو ظ کر دیا تو کسی کتاب کی ضر و ر ت نہ رہی یہی اہد ایت آخر ی ہد ایت ہے اور قیا مت تک کا ہر انسا ن اس کی رو شنی میں اپنی منز لیں پا تا رہے گا اس طر ح نبی ئِ کا مل و اکمل نبو ت و رسا لت دو امی ہو گئی اور فر ما دیا کہ آپ خاتم النبیین ہیں پھر کوئی دو سرا بنی اور کوئی دو سر ی کتا ب کہا ں سے آئے گی ۔ اس طر ح کا خطا ب فی الوا قع ختم نبو ت کے سلسلہ میں بڑ اجا مع اور بڑا مکمل خطا ب تھا تقر یر کے بعد لو گو ں نے بڑے بھر پو ر انداز میںاپنے تا ثرا ت کا اظہا ر کی اور ہا تھ چو م چو م کر پیر صاحب کو درا زی ئِ عمر کی دعا ئیں دیتے رہے ۔ +تیسر ی تقر یب میں تصو ف کی حقیقت پر رو شنی ڈا لی اور سلسلہ ئِ نو شاہیہ کا تفصیلی تعا ر ف کر ایا ۔ چو تھی تقر یب ہا لینڈ کی سب سے بڑی مسجد میں نماز ِ مغر ب کے بعد منعقد ہوئی۔ اس میں پیر صا حب کا مو ضو ع وہا بیت تھا ۔ آ نے فر ما یا ۔ اللہ نے قرآن حکیم میں اپنے محبو ب کی شا ن کی اتنی رفعتیں بتا ئیں کہ فر ما دیا خبر دا ر ان کی مقد س آواز سے تمہا ری آواز بلند نہ ہو جا ئے کہ اگر ایسا ہو گیا تو تمہا ر ے سا رے اعما م حسنہ ضا ئع ہو جائیں گے سب گنا ہو ں میں سے ار تد ادہی ایسا گنا ہ ہے کہ تما م اعما ل صِالحہ بر با د ہو جا تے ہیں یہاں معا ذ اللہ رسو ل اللہ کا انکا ر نہیں صرف اتنی گستا خی ہو جا ئے کہ تمہا ر ی آواز ان سے بلند تر ہو گئی تو گو ریا ایما ن و عمل سب بر با د ہو گئے سچ کہا تھا شا عر نے �ò +ادب گا ہیت زیر آسماں از عرش نازک تر +نفس گم کردہ میں آید جنید و بایزید اینجا +عر ش سے بھی نا زک تر یہ ادب گا ہ ہے وہ کہتے ہیں ’’ با خدا دیو انہ با ش با محمد ہو شیا ر ‘‘ یہاں پھو نک پھو نک کر قد م رکھنا ہے یہ کا ر گا ہِ شیشہ گر ی ہے آبگینے بڑ ے نا ز ک ہیں لے سا نس بھی آہستہ کہ نا زک ہے بہت کام ، افسو س ہے ان لو گو ں پر ک قرآ�� پڑ ھتے ہیں اور قرآن میں وہ مقا ما ت تلاش کر نے بیٹھ جا تے ہیں جن سے اشا رہ ملتا ہو کہ فلا ں مقا م پر حضور �ö کو علم غیب حا صل نہیں تھا ۔ اولیا ئ اللہ کی زند گی کو خدا خو ف وحز ن سے ما مو ن کر دیتا ہے ہم انکا احترا م کر تے ہیں انہیں چبھتا ہے انکے عمل میں یہ عجیب تر با ت ہے کہ انہو ں نے اپنے مشائخ کا احترا م تو جا ئز سمجھا ہے لوگ جن کا احترا م کر تے ہیں یہ ان سے کہ رکھتے ہیں ہم اہل سنت تو حضور �ö کی محبت کو ہی سر ما یہئِ ایما ن بلکہ اصل ایمان سمجھتے ہیں �ò +محمد کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے +اسی میں ہوا اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے +عشا ئ کی نما ز کے بعد کچھ احمد ی حضر ات پیر صاحب کی ملا قا ت کے لیے آ گئے ان سے دیر تک گفتگو ہو تی رہی اس دو ر ہ میں زیا دہ تر مر زا ئیت اور وہا بیت کے مو ضو عا ت پر خطا با ت ہو تے رہے اور محفلوں میں بھی گفتگو تقر یبا ً انہی مو ضو عا ت پر مر تکز رہی ۔ +حضر ت پیر سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی نے بھی ایک جلسہ سے خطا ب کیا انہو ں نے بنی �ö کے علم غیب اور حیا تِ انبیا ئ سید ابو الکما ل نے فرمایا ۔ مجھے افسو س ہے کہ مسلما ن جہا ں جا تے ہیں اپنے اختلا فات بھی سا تھ لے کر جا تے ہیں اور یہ اختلا فا تت وہی بچگا نہ اختلا فا ت ہیں جن میں پڑ کر کچھ لوگ اپنے ایما ن کو خطر ہ میں ڈ ال دیتے ہیں ان ملکو ں میں جہا ں غیر مسلم اپنی اکثر یت کے با عث حکو مت کر رہے ہیں ہم آتے ہیں کہ اپنا فر یضہ تبلیغ نبھا ئیں غر مسلمو ں پر اسلام کے انوار وا ضح کر یں اسلامی تعلیما ت میں انسا نی کی نجا ت پر با تیں کر کے انہیں اسلام قبو ل کر نے پر آما دہ کر یں تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہر ا ور زمین پر اسکی حکومت ہم قا ئم کر دیں جس کی حکومت آسما نو ں پر اور سا ری کا ئنا ت میں ہے مگر ہما رے مخا لف فر قہ والے بھا ئی ہم سے پہنچ کر وہی اختلا فی مو ضو عا ت چھیڑ دیتے ہیں جن پر وہ اپنے ملکو ں میں صد یو ں سے چو نچیں لڑ اتے آتے ہیں اور تھکتے نہیں ۔ چنا نچہ میں یہاں پہنچا تو مجھے یہ مو ضو عا ت ہر جگہ سننے کو ملے ہر ملنے والے نے کہا کہ فلا ں مو لو ی آیا اور ہم اہل سنت کو کا فر و مشر ک قرار دے گیا ۔ اب مجھے مجبو را ً انہی مو ضو عا ت پر بو لنا ہے ۔ مگر پہلے ایک لمحہ کے لیے سو چیے کہ جب غیر مسلم اپنے نبی کے متعلق ہما ری یہ اختلا فی با تیں سنیں گے تو کیا نظر یہ قا ئم کر یں گے؟ ہم ہا لینڈ کی حکومت کے شکر گزا ر ہیں کہ اس نے مذہبی آزا دی دے رکھی ہے اور ہر ایک کو حق دے رکھا ہے کہ وہ آز ادی سے اپنے مذہب کی تبلیغ کر ے ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چا ہیے کہ سعو دی عر ب میں ہما رے اپنے مسلما نو ں کی حکومت ہے مگر وہاں ہم اہل سنت کو با ت کر نے کی آزا دی ہما رے اما م اور مجد د ما ئتہ حا ضر ہ احمد رضا خا ن بر یلو ی کے تر جمہ ئِ قرآن ’’کنز الایما ن ‘‘ پر پا بند ی ہے جسے ہم بہتر ین تر جمہ ئِ قرآن سمجھتے ہیںہم اگر سعو دی عرب کے با د شا ہ کے حضو ر سلا می پیش کر یں اسکے قصر کو بو سہ دیں تو ہمیں کوئی کچھ نہیں کہتا مگر ہم الصلو ٰۃ و السلام علیک یا رسو ل اللہ کہ دیں تو مجر م ٹھہر تے ہیں ر و ضہ ئِ اقد س کی جا لی کو بو سہ دیتے ہیں تو ہم پر بید بر سا ئے جا تے ہیں تفاو تِ را ہ از کجا ست تا بہ کجا ہمیں ہا لینڈ کی حکومت کی دی ہوئی مذہبی آزا دی سے فا ئدہ اٹھا کر اپنا کلمہ ئِ حق اپنے ان بھائیوں تک پہنچنا نا چاہییتھا جو اپنی نا وا قفیت اور دین حق سے شنا سا نہ ہونے کے با عث غلط راہ پر چل رہے ہیں مگر ہمیں کچھ اور کر نا پڑ رہا ہے میں اپنے اہل سنت احبا ب سے عر ض کر و نگا کہ آپ اپ��ا کا م کئے جا ئیں قرآن حکیم نے کہا ہے کہ +’’عَا لِمْ الْغَیْب وَلا یُظہر عَلیٰ غَیْبہٰ اَحَد اً اِلاَّ مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّ سُوْ لِہٰ‘‘ +﴿اللہ عا لم الغیب ہے وہ اپنا غیب کسی پر ظا ہر نہیں کر تا سوا ئے اپنے رسو لو ں میں سے جس پر چا ہتا ہے ﴾ +اس آیت میں صا ف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کا علم غیب ذا تی ہے جس کو وہ یہ علم غیب دے گا اس کا علم عطا ئی ہو گا اس لیے د و نوں کبھی بر ابر نہیں ہو سکتے پس شر ک کا واہم ختم ، اب دو سر ی با ت یہ ہے کہ وہ اپنے رسو لو ںمیں سے جس پر چا ہتا ہے اطلا ع الغیب کر تا ہے یا اظہا ر علی الغیب کر تا ہے یہ غیب وہی ہے جسے اس نے اپنی طر ف منسو ب کیا ہے غیبہ ﴿اسکا غیب﴾ ظا ہر ہے یہ غیب کلی ہے وہی سا رے کا سا ر ا غیب ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو ’’ عالم الغیب ‘‘ کہا ہے تیسر ی با ت یہ ہے کہ یہ پو رے کا پورا غیب وہ رسو لو ںمیں سے جس رسو ل کو چا ہے دیتا ہے سب رسو لو ں کو نہیں دیتا یہاں سے واضح ہو گیا ہے کہ غیب کا بعض حصہ تو سب رسو لو ںمیں ملتا ہے سا را غیب صر ف اس رسو ل کو دیا جا تا ہے جسے اللہ چا ہتا ہے اب جسے مسلما نو ں کے سا ر ے فر قے سر و ر ِ انبیا ئ ما نتے ہیں اسے اللہ علم غیب سا را کا سارا نہیں دینا چا ئیگا ۔ تو کس کو دینا چا ہیگا ۔ تو عز یز انِ گر امی اس صا ف قرآنی مسئلہ پر کوئی ہت دھر می کر تا ہے تو اسکی قسمت ، اب ایک اور صو ر ت دیکھئے عزیز ان گر امی ایک لفظ نبیئ’‘ اور نبی’‘ یعنی ایک نبی ھمز ہ کے سا تھ ایک بغیر ھمزہ کے ھمزہ کے سا تھ جو نبی اسکے معنی با لا تفا ق غیب کی خبر یں دینے والا ہے جو بنی بغیر ھمزہ کے ہے اسکے معنی مقا مِ بلند پر کھڑ ا ہونے والا ہے مگر مقا م بلند سے کیا مرا د ہے اسکی وضا حت خو د حضور �ö کے عمل سے ہو تی ہے ذرا ذہن میں لائیے حضور �ö کی ایک ابتدا ئی دعو ت حق اورا علا ن نبو ت کو اس سا رے تا ریخی وا قعہ کو الطا ف حسین حالی نے بڑی خو بصو ر تی سے نظم کر دیا ہے ذر ا یہ الفا ظ غو ر سے سنیئے ؟ +وہ فخر عرب زیب محر ا ب و منبر تما م اہل مکہ کو ہمرا ہ لر کر +گیا ایک دن حسب ِ فر مان دا ور سو ئے دشت اور چڑ ھ کے کوہِ صفا پر +یہ فر ما یا سب سے کہ اے آل غا لب +مجھے تم سمجھتے ہو صا دق کہ کا ذب +کہا سب نے قو ل آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھو ٹا سنا اور نہ دیکھا +کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو با ور کر و گے اگر میں کہونگا +کہ فو جِ گر ان پشت کو ہ صفا پر +پڑ ی ہے کہ لوٹے تمہیں گھا ت پا کر +کہا تیری ہر با ت کا یا ں یقیں ہے کہ بچپن سے صا دق ہے تو اورا میں ہے +اب ذر ا واقعہ کو ذہن میں لا ئے حضور �ö کو ہِ صفا پر کھڑ ے ہیں یعنی مقام بلند پہ کھڑ ے ہیں اہل مکہ کو ہ صفا کہ دا من میں بیٹھے ہیں حضور دونوں طرف دیکھ رہے ہیں اہل مکہ کو بھی اور پشت کوہ صفا کو مگر اہل مکہ پشت ِ کو ہِ صفا کو نہیں دیکھ سکتے انکے لیے یہ سب کچھ ’’غیب‘‘ ہے مگر مقام بلند پر کھڑ ے ہونے والے ﴿بنی﴾ محمد مصطفی �ö کے لیے پہا ڑ کے د ونو ںطر ف کے مید ان ’’ حا ضر ‘‘ ہیں سلو بنی کہ معنی مقا م بلند پر کھڑ ے ہو نے والے ہو ں تو بھی اس کا مطلب ہے وہ چیز یں جا ننے اور دیکھنے والا جو نیچے والو ں کے لیے ’’غیب‘‘ ہیں یہ مثا ل بڑی وا ضح ہے حضور �ö کی دعو ت کا یہ انداز بہت سی با تیں واضح کر گیا ۔ +پس عز یز انِ گر امی ہم تو حضو ر �ö کو کم علم کہہ کر گستا خی کے مر تکب نہیں ہوتے اللہ نے فر ما یا تر ارب تجھے اتنا کچھ عطا کروں گا کہ تو را ضی ہو جائے گا ۔ بھا ئیو دینے والا خدا لینے والا محمد (ص) اس کا محبو ب ’’ کتنا لیا دیا ‘‘ ہم کو ن ہوتے ��یں اپنی محد و د عقل کی تر ا زو میں تو لنے والے اب رہا دو سر ا مسئلہ حیا تِ انبیا ئ تو آپ جا نتے اور ما نتے ہیں کہ اللہ نے فر مایا ’’ جو اللہ کی را ہ میں شہید ہو ئے انہیں مر دہ مت کہو وہ زندہ ہیںلیکن تم سمجھتے نہیں ‘‘ دو سر جگہ فر ما یا وہ اللہ کے پاس زندہ ہیں رزق دییجا تے ہیں اور خو ش ہو تے ہیں یہ تو شہید ائ ہیں ظا ہر ہے انبیا ئ کا مر تبہ شہیدا ئ سے کئی کروڑ و ں مر تبہ بلند ہے تو انکی زند گی میں کیا شک ہو سکتا ہے آپ کو بتا ئوں کہ اصل اہلِ دیو بند بھی حیا ت النبی کے قا ئل ہیں ور آپ کے وصا ل کے بعد آپ سے مد د ما نگنے ہیں میں زیا دہ تفصیل میں نہیں جا سکتا صر ف مو لا نا قا سم نا نو تو ی با نودا ر العلوم دیو بند کی ایک لمبی نظم کا ایک شعر سنیئے �ò +مدد اے کرمِ احمد ی کہ تیرے سوا +نہیںہے قا سم بیکس کا کوئی حا میئِ کا ر +ختم ہو نے کے بعد بہت سے لو گو ں نے حضرت سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی کے ہا تھو ں پر بیعت کی اور سلسلہ نو شاہیہ میں داخل ہوئے +اس سفر میں حضرت پیر معر وف شا ہ صاحب نے یہاں کا مشہور چڑ یا گھر اور میو ز یم دیکھا لیڈ ن کے میو ز یم سا ری دنیا میں مشہو ر ہیں لیکن ہا ل میونسپل میوز یم ، یہ 1500 �÷ ئ سے آج تک کا م کر رہا ہے لیکن ہا ل کسی ز ما نہ لیڈ ن کا انڈ سٹر ی آف ٹیکسٹا ئل کا سینٹر تھا ، اس میں قسم قسم کا پنٹینگز اور مختلف ادوا ر کی نقا شیو ں کے نمو نے ایک پو ر ی تا ریخ بیا ن کر تے ہیں ﴿LISSE﴾کے پھو لو ں کے با غا ت ایک منفر د پیش کر تے ہیں یہیں دنیا ک سب سے بڑ ے پھو لو ں کے با غا ت ہیں نیشنل میو ز یم آف انٹلٹیز پرا نی دنیا کی خو شحا لیو ں اور بد حا لیوں کی پو ر ی دا ستا نیں بیان کر تی ہیں، میوز یم بو رہا و میڈیکل سا ئنس کی پا نچ صد یا ں اس میں سما ئی ہوئی ہیں۔ نیشنل میو ز یم آف کا ئنز اینڈ میڈ لیز اس میں رو من ، یو نانی اور ڈچ میڈ لز اور سکے ہیں ۔ یہ سب میو ز یم نید ر لینڈ کی بڑ ی تا ریخ سمیٹے ہوئے ہیں اور بڑی دلچسپ جگہیں ہیں ان تما م مقا ما ت کو دیکھئے کہ بعد حضرت پیر معر و ف شا ہ صا حب کا تبلیغی کا رو ان ایمسٹر ڈیم کے جلسہ کے لیے رو انہ ہو گیا جہا ں پیر ابو الکما ل نو شاہی نے ختم نبو ت کے موضو ع پر زبر دست تقر یر کی۔ احمد یو ں نے بلا شبہ غیر مسلمو ں کو مسلما ن بنا نے کے لیے کا فی کام کیا لیکن انہیں احمد ی بنا یا اور بتا یا کہ اصل اسلام یہی ہے ۔ جنا ب پر ابو الکما ل نے اپنی تقر یر میں احمد ی مبلغین کو نشانہ بنایا اور لو گو ں پر وا ضح کیا کہ حضور �ö کا تم النبین تھے انکے بعد کسی ظلی بروزی یا اصلی نبی کی ہد ایت لے آنے کی کوئی ضر و ر ت نہیں نبو ت کی انتہا حضور پرہوگئی انکی کتا ب ہمیشہ کے لیے محفو ظ ہو گئی یہ کتا ب زند ہ ہی زند ہ رسو ل ہے پیر صا حب نے جمعہ کی نما ز پڑ ھائی خطا ب کیا اور بتا یا کہ حج مسلما نا نِ عالم کا عظیم اجتما ع ہے اور اتحا د فکر و نظری کی عظیم مثال امتِ وا حد ہ کا نمو نہ ہے اور اس کی بر کا ت بے پنا ہ ہیں پیر ابو الکما ل شا ہ صاحب کا مو ضو ع حضور �ö کی عا لمگیر نبو ت اور تکمیل دین تھا ۔ را ت کے اجتما ع میں پیر ابو الکما ل بر ق شا ہ صا حب نے پھر قا دیا نیت کو مو ضو ع بنا یا اور مززا غلا م احمد کی کتا بو ں سے اُسکے تضا دا ت دکھائے او ر اسکی بد حو ا سیو ں کی زبر د ست شہا دتیں پیش کیں یر معر و ف شا ہ صا حب نے اسلامی تصو ف اور عجمی تصو ف میں فرق واضح کی ااور اشا عتِ اسلام میں اسلامی تصو ف کے کر دا ر پر بھر پو ر رو شنی ڈا لی را ت دو بجے تک یہ محفل جا ری رہی ۔ دو سرے دن پیر معرو ف شا ہ صا حب نے با لمیر میں نماز جمعہ پڑ ھائی جمعہ کے فضا ئل ومسا ئل کی وضا حت کی اسی روز 19 اکتو بر کو واپسی ہوئی۔ +24 دسمبر 1982 �÷ ئ کو تبلیغی سلسلہ میں ہا لینڈ پہنچے اور 3 جنو ری 1983 �÷ کو واپسی ہوئی ۔ +17 اپر یل 1987 �÷ کو پھر ہالینڈ گئے اس سفر کی بنیا دی وجہ یہ تھی وہا ں احبا ب نے ورلڈ اسلا مک مشن کے دفتر اور دیگر مقا صد کے لیے 8 ہز ار پو نڈ میں ایک بلڈ نگ خر ید ی تھی پیر صا حب کو دکھا نا چا ہتے تھے ۔ پیر صاحب کے استقبا ل کے لیے بڑی تعداد میں لو گ ائیر پو رٹ پر آئے تھے ۔یہاں سے انہیں محمد رفیع کے وا لد محمد یو سف کے گھر لا یا گیا ورلڈ اسلامک مشن کے لیے خر ید ی ہوئی مذکو رہ بلڈ نگ کا معائنہ کیا دو ر در از سے لوگ پیر صاحب کی ملا قا ت کے لیے آئے ہو ئے تھے ۔ ور لڈ اسلامک مشن کے اجلا س سے خطا ب کیا مشن کے اغر اض و مقا صد پر رو شنی ڈا لی۔ اور لوگوں کو عما ر ت کی خر یدا ر ی کے سلسلہ میں تما م تفاصیل سے آگا ہ کیا را ت گئے تک تنظیمی امو ر پر گفتگو ہوتی رہی۔ +20 جون 1987 �÷ کو پھر ہا لینڈ کا سفر در پیش تھا اس مر تبہ انکے سا تھ پیر سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ، مو لا نا محمد حنیف سید کو ثر حسین شا ہ ، طا ر ق مجا ہد جہلمی نو شاہی اور غلام رول غا زی نو شاہی تھے ۔ سب سے پہلے ورلڈ اسلامک مشن کی عما رت میں گئے ورلڈ اسلامک مشن کی قائم کر دہ مسجد میں بے شما ر لو گو ں سے ملا قا تیں فر مائیں اس مر تبہ آنے کا مقصد یہ تھا کہ لو گو ں نے حضر ت نو شہ گنج (رح) کا عر س منا نے کا پر و گر ام بنا رکھا تھا ۔ اتوار کے روز عر س کی تقر یبا ت شر وع ہو ئیں۔ جلسہ کی صد ار ت پیر ابو الکما ل بر ق نو شاہی نے فر ما ئی پیر صاحب نے نظا مت کے فر ائض سر انجام دیے۔ ڈچ زبا ن میں تر جما نی کے فر ائض ورلڈ اسلامک مشن ہالینڈ کے جنر ل سیکر ٹر ی نظا م صا حب نے سر انجام دییپیر صاحب نے آغاز سلسلہ نو شاہیہ اور حضرت نو شہ گنج بخش کے حا لا ت زند گی اور کر اما ت کے مو ضو عا ت پر ایک تعا رفی تقر یر کی پیر ابو الکما ل صا حب نے اجتما عی دعا کر ائی تبر ک تقسیم کیا گیا ۔ عر س میں پا نچ سو سے ز اہد مسلما ن شر یک ہو ئے ۔ +22 جون کو واپسی ہوئی ۔ عبد العزیز نو شاہی ، عبد الما لک نو شاہی، محمد شر یف نو شاہی ، نو مسلم ما سٹر صا حب عدالت خا ن اور دیگر احبا ب رخصت کرنے کے لیے آئے ۔ پیر صاحب وا پس بر طا نیہ آگئے اور دیگر احبا ب کچھ روز کے لیے وہیں رک گئے۔ +14 مئی کو ہالینڈ کا اگلا سفر اس وقت ہو ا جب حضر ت پیر الو ا لکما ل بر ق نو شا ہی فو ت ہوچکے تھے ہا لینڈ میں انہو ں نے چند تقا ر یر کی تھیں کچھ روز گزا ر ے تھے یہاں کے لو گ انکے کما لا ت دیکھ چکے تھے اور انکے ساتھ کلبی وا بستگی رکھتے تھے انہو ںنے محر وم کی یا د میں ختم قرآن شر یف کی تقر یب کی پیر صاحب نے ختم شر یف کے بعد مر حوم کے احوا ل و افکا ر پر مختصر تقر یر کی ۔ اسی تقر یب میں ایک عیسائی روم فا ئڈ ر ناک یر صاحب کے ہا تھ پر مسلمان ہوا پیرصا حب نے اسکا اسلامی نا م ’’ محمد مجد عمر نو شاہی ‘‘ رکھا ۔ قر طبہ نا م کی ایک مسجد میں بھی تقریب ہوئی پیرصاحب نے پیر ابو الکما ل او ر اسلامی تصو ف کے مو ضو ع پر تقریر کی بعد میں کئی دینی امو ر پر لو گو ں سے گفتگو ہو تی رہی ، 16 مئی کو محمد اکبر نو شاہی کی منعقد کر دہ مجلس میں پیر ابو الکما ل اور تصو ف کے مو ضو ع پر تقر یر فر ما ئی۔ شا م کو محمد سر فرا ز نو شاہی کی منعقد کر دہ محفل میلا د میں شر کت فر ما ئی اولیا ئ کی تصا نیف و تا لیفا ت پر خطا ب کیا دو سرے روز ورلڈ اسلامک مشن کی قائم کر دہ مسجد میں اسلام کی صد ا قت پر خطا ب کیا ��ہ مسجد ہیگ میں ہے ۔ +محمد اشر ف نو شاہی نے میلا د النبی کا اہتما م کر رکھا تھا ۔ اس میں شر یک ہو ئے اور میلا د النبی پر جا مع تقر یر کی 18 مئی کو حضرت پیر ابوالکمال بر ق نو شا ہی کے چہلم کی تقر یبا ت ہوئیں جسمیں سینکڑ و ں افرا د نے شر کت کی پیر صاحب نے تقر یر مر ما ئی اس روز ایک سکھ پیر صاحب کے ہا تھ پر مسلما ن ہو ا اور بہت سے لوگ حلقہ ئِ ارادت میں دا خل ہو ئے اس نو مسلم کا اسلامی نام محمد آصف نوشاہی رکھا گیا 29 مئی کو پیر صا حب نے ہا لینڈ بر طا نیہ اور ہا لینڈ میں مذہبی کا م تفصیلی مو از نہ پیش کیا حا جی عدالت نو شا ہی نے پیر سید ابو الکما ل کی آواز میں انکے اپنے کلا م کی کیسٹ سنائی یہ کلا م 1982 �÷ میںسفر حج میں مکہ مکر مہ اور مدینہ منو ر ہ میں تحر یر کیا گیا تھا یہ پیر صا حب کے لیے ایک نا در تحفہ تھا اس سفر کے دورا ن کئی افراد حلقہ ئِ ارادت میں دا خل ہوئے آٹھ ہز ار گلڈر جمع ہوئے۔ +19 دسمبر 1985 �÷ کو میلا د النبی کے جلسہ میں شر کت کے لیے ہا لینڈ وا لو ں نے خا ص طو ر پر مد عو کیا تھا اس میں شر کت کے لیے آئے 20 دسمبر کو تفسیر ، حد یث ، فقہ ، صر ف و نحو پ آتھ سو پو نڈ کی کتا بیں خر ید یں دکا ند ا ر سے پیر صاحب کی اچھی خا صی عیک سلیک ہوگئی تھی وہ بڑ ی رو انی سے عربی زبا ن بو لتا تھا ۔ 21 دسمبر کو محفل میلا د منعقد ہوئی پیر صاحب نے خطا ب کا مو ضو ع اتحا د عقید ہ عمل تھا۔ 22 دسمبر کو پیر صاحب کا دو سر جلسہ ور لڈ اسلامک مشن کے ہا ل میں پیدا ہوا پیر صا حب نے اتحا د ، امتِ مسلمہ پر تقر یر کی۔ 23 اور24 دسمبر کو دو نو ں دن کتا بوں کی خر یدا ر ی میں گزا ر ے 25 دسمبر کو پھر مشن ہا ل میں خطا ب تھا اس تقر یب کے اختتا م پر تنظیمی امو پر گفتگو ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ رو ٹر دیم میں اسلامک مشن کا جا مع مسجد قا ئم کی جا ئے اس مقصد کے لیے 25 ہز ار گلڈ ر جمع ہوئے ۔27 دسمبر کو روٹر ڈیم میں’’ مسلمان کا کر دار ‘‘ کے مو ضو ع پر خطا ب کیا اور فر ما یا کل کے مسلما ن اور آج کے مسلما ن میں بڑ ا فر ق آگیا ہے اور اسی فر ق کو پا نے کے لیے ورلڈ اسلامک مشن کو وجو د میں لا یا گیا ہے 30 دسمبر کو محمد ایو ب نو شا ہی، محمد رمضا ن نو شا ہی اور سر فر ا ز نو شاہی کے ہمر اہ لیڈن کی لا ئبر یر ی میں گئے وہا ں سے تذ کرہ الا ولیا ئ ، عطا ر کا خلا صہ ، اور اورادِ عظیمہ وغیر ہ کتابیں خر ید یں 31 دسمبر کو ورلڈ اسلامک مشن کی مسجد میں گیا رھو یں شر یف کی تقر یب میں شر کت فر ما ئی اور طو یل خطا ب کیا وا پسی پررہا ئش گا ہ پر بہت سے ارادت مند جمع ہو گئے اور رو حا نی معا ملا ت پر دیر تک گفتگو ہو تی رہی مر ید و ں کی رہنما ئی فر ما تے رہے ۔ +یکم جو ن 1986 �÷ کو پھر ہا لینڈ گئے محمد یسٰین نو شا ہی نے محفل میلا د کا اہتما م کیا تھا اس میں گھنٹہ بھر تقر یر کی ’’ اللہ والو ں کی محبت ‘‘ کے مو ضو ع پر باتیں کیں محمد یسٰین کی زو جہ نے آپ کے ہا تھ پر بیعت کی اور سلسلہ ئِ نو شا ہیہ میں دا خل ہوئیں ما سٹر مرزا خا ن جمن نے بھی محفل میلا د کا پروگرام بنا یا اس میں شر یک ہوئے رسول اللہ �ö کی نبو ت کی ہمر گیر ی کے بعض گو شو ں کو اپنی تقریر میں اجا گر کیا 2 جنور ی کو پھر لیڈ ن یونیورسٹی کی لا ئبر یر ی میں تشر یف لے گئے اور عربی کی کچھ کتابیں خر ید یں نو جنو ر ی کو واپس بر یڈ فو ر ڈ پہنچ گئے۔ +ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ سا ر ی تفا صیل ہم پیر صا حب کی ڈ ائر یو ں سے جمع کر تے جا ر ہے ہیں۔ صر ف کہیں کہیں اپنے الفا ظ میں انکی بات کر دیتے ہیں اب ایک وا قعہ در ج کیا جا تا ہے جو پیر صا حب کے اپنے قلم سے ہے اسے ہم ��ن و من یہاں نقل کئے دیتے ہیں پیرصا حب 20 جنو ر ی 1986 �÷ بر وز جمعہ یہ الفا ظ لکھے ہیں ۔ +’’ میں نے آج پیر بر ق شا ہ صا حب کی عالم بید ا ر ی میں زیا رت کی ہے میں جس کمرے میںآرا م کر رہا تھا میں اٹھا با ہر نکلا اور کمرے کے در وازے سے دائیں طر ف با ہر جا نے لگا تو دیکھا کہ بر ق شا ہ صا حب اسی در و از ے سے با ہر سے اندر آرہے تھے انکا پو را لبا س سفید تھا سر بر ہنہ تھا میں نے زندگی میں جا گتے ہوئے کسی بز ر گ کی زیا ر ت پہلی با ر کی ہے میں خدا کو حاضر نا ظر جا ن کر یہ حلفیہ بیا ن قلمبند کر رہا ہوں۔ یہ غلط نہیں اور اگر غلط ہو تو جھو ٹ کے خدا تبا ہ کر ے ﴿بقلم خو د سید معر و ف حسین شاہ ﴾ +مغر ب کے وقت رو ٹر ڈیم میں کلثو م نو شا ہی کی ایک تقر یب میں شر کت کی جہا ں گھنٹہ بھر خطا ب کیا وہا ں مو لا نا محمد حنیف سے بھی ملا قا ت ہو ئی ایک خا تو ن حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئی 22 جنو ر ی کو لیڈن کے کتب خا نے سے کچھ کتا بو ں کی خر یدا ر ی کی ۔ کچھ لو گ حقلہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے ۔19 اپر یل 1986 �÷ پھر ہا لینڈ کے دور ہ پر گئے ۔ ور لڈ اسلامک مشن ہیگ میں ’’ دنیا کی بے تابی ‘‘ پر خطا ب فر ما یا 20 اپر یل کو خا لد بھٹی نو شا ہی نے ایک جلسہ کا اہتما م کیا تھا اس میں شر کت کی ’’ اسلام اور عصر ِ حا ضر ‘‘ کے مو ضو ع پر خطا ب کیا حا ضر ین پیر صا حب کی تقر یر سے بہت متا ثر ہو ئے۔ +اسی سا ل 21 اگست 1986 �÷ کو پھر ہا لینڈ تشر یف لے گئے، یہ سفر حضرت نو شہ گنج بخش کے عر س کے سلسلہ میں کیا گیا 21 اگست کو حاجی اشر ف نے ایک مجلس کا اہتما م کیا اس میں پیر صا حب کے خطا ب کے مو ضو ع ’’ اولیا ئ اللہ سے محبت اور انکی اتبا ع ‘‘ تھا 22 اگست علوم شرقیہ کے دو سو سا ل پر انے مر کز لیڈ ن گئے وہا ں کے ایک کتب خا نے میں عر بی زبا ن کی نا در کتابو ں کا ذخیر ہ دیکھا وہا ں سے بڑ ی اہم اور قیمتی کتا بیں خر ید یں۔ +31 اگست کے بز مہِ نو شا ہیہ کے زیر اہتما م حضرت نو شہ گنج بخش قا دری کے عر س کی تقریب ہو ئی نظا مت کے فر ائض سر فراز نو شاہی نے سر انجا م دییبا قی مہما نو ں کے علا وہ ڈا کٹر فا طمی اور حا فظ وز یر نو شا ہی نے شر کت فر ما ئی شخِ طر یقت حضرت سید معرو ف حسین شاہ کا خصوصی خطا ب تھا جس میں حضرت نو شہ گنج بخش کی زند گی پر رو شنی ڈا لی گئی اور بتا یا گیا کہ ہم یہ دن بھی عبا دت کے طو ر پر منا تے ہیں کیونکہ بزرگوں کی زند گی نیکیو ں کا مجمو عہ ہو تی ہے انکی نیکیو ں کا ہی ذکرہو تا ہے پھر آدمی احتسا ب نفس کر تا ہے کہ جس کا دن منا رہے ہیں کیا ہم اسکی تعلیما ت پر بھی عمل کر تے ہیں کیا ہم نے اپنی زند گی اس رنگ میں رنگ لی ہے اگر نہیں تو ہم اس ذا ت کا دن منا نے کے اہل نہیں پھر آدمی کو اپنے دل سے عہد کر تا ہے اور آئندہ نیک عمل اختیا ر کر لیتا ہے اس لیے دن منا نے کا یہ عمل بڑا ہی با بر کت ہے 22 نو مبر 1986 �÷ کو بسلسلہ عید میلا د النبی حضرت پیر صا حب ہا لینڈ تشر یف لے گئے آپ نے اس کی شر عی حیثیت پر بڑی مد لل تقر یر کی بعد میں محفل احباب میں ارا دتمند و ں کے سوالا ت کے جو ا ب دیتے رہے ۔ +24 نو مبر کو لیڈن میں یو نیو ر سٹی کو اورینٹل کتب خا نہ میں تشر یف لے گئے اور تین ہز ار گلڈ ر کی کتا بیں خر ید یں ان میں طحطا وی اور شمس الا ئمہ سر خسی کی المبو ط شامل ہیں۔ +شا م کو محمد یو سف نو شاہی سر ی نامی نے تقر یب کا اہتما م کر رکھا تھا اس میںشر کت فر ما ئی 26 نومبر کو پھر لیڈ ن سے کتا بو ں کی خریداری ہوئی۔ عثما ن نا می ایک شخص نے شا م کی محفل احباب میں انگر یز ی میں اپنے کچھ اشکا لا ت پیش کئے پیر صاحب نے انتہائی تصلی بخش جواب دیے وہ نو جو ان قا نو ن کا طا لب علم تھا پیر صا حب کے علم و فضل سے بہت متا ثرہو ا 14 فر و ری 1987 سے 17 فر و ر ی1987 �÷ ئ تک ہالینڈ قیا م رہا ۔ محمد شر یف کی تقر یب میں حضرت پیر صا حب ورلڈ صو فی کو نسل کے مو ضو ع پر خطا ب کیا 15فر و ری کو محمد حنیف حیر ت نو شا ہی سے ’’ صو فی کو نسل‘‘ کے مو ضو ع پر گفتگو ہو تی رہی 16 فر و ر ی کو تنظیمی امو رپر با ت چیت ہوتی رہی 17 فر و ر ی کو پیر صاحب ہا لینڈ سے جر نی چلے گئے ۔ پیر صا حب اسی سا ل 28 اگست کو تبلیغی دور ہ کے سلسلہ میں پھر ہا لینڈ آئے ڈا کٹر یعقو ب ذکی پہلے ہی ہیگ پہنچ چکے تھے ۔ 31 اگست کو قیام گا ہ پر تشر یف فر ما ر ہے اور اشعا ر لکھنے رہے اسی روز فو ن پر اطلا ع ملی کہ FAR BANK رو ڈ کی جا مع مسجد میں آگ لگ گئی ہے یہ جگہ اسی سا ل 55 ہز ار پو نڈ میں خر ید ی گئی تھی کا فی پریشا نی کی وجہ سے را ت بھر نیند نہیں آئی ۔ یکم ستمبر کو بہت سے لو گ ملا قا ت کے لیے آئے اور سوالات کر تے رہے تشفی بخش جو ا بات سے وہ لوگ پیر صا حب کے علم و فضل سے اور رو حا نی قو ت سے بہت متا ثر ہوئے ان میںسے بہت سے حضر ا ت حلقہ ئِ ارا دت میں دا خل ہوئے جمعہ کی نماز ور لڈ اسلامک مشن کی اس مسجد میں ادا کی جو ہیگ میں ہے اگلے روز نما زِ ظہر کے بعد سی لینڈ کیطر ف چلے گئے وہا ں پر و گر ام تھا پیر صا حب کی تقریر کا مو ضو ع تھا ’’ اھد نا الصر اط المستقیم ‘‘ تقریر بہت اثر انگیز تھی با تیں دل سے نکل رہی تھیں اور دل میں اتر رہی تھیں بہت سے لو گ حلقہ ئِ ارا دت میںدا خل ہوئے ۔ +چھ ستمبر کو حضرت نو شہ گنج بخش کے عر س کے سلسلہ میں تقریب ہوئی صدا را ت پیر صاحب کی تھی ڈا کٹر یعقوب ذکی ، نظام محمد مو لا نا مہر علی کی تقر یر یں ہوئیں حسان نیلس نے کلا مِ بر ق اور کلا م عار ف پیش کیا کچھ اور لو گ حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے۔ +اسی سال دسمبر میں پھر ہا لینڈ جا تا ہو ا۔ 23 دسمبر کو پیرصاحب کی قیام گا ہ پر ایک انگر یز ملنے آگیا وہ اسلام کے متعلق معلو ما ت حا صل کر نا چا ہتا تھا ۔ مشہو ر عر ب کے عالم ڈا کٹر یعقو ب ذکی بھی آئے انگر یز نے سوا لنا مہ تر تیب دے رکھا تھا وہ سو ال پو چھتا گیا اور پیر صا حب جو ا ب دیتے گئے وہ پیر صا حب کے علم سے متاثر ہو کر گیا 25 دسمبر 1987 کو جمع کے اجتما ع سے ورلڈ اسلامک مشن کی جا مع مسجد میںخطا ب فر ما یا خطا ب کا مو ضو ع تھا ’’ اسلام میں تصو ر جما عت ‘‘ پیر صا حب نے فلسفہ اجتما ع پر رو شنی ڈ الی اور فر ما یا اسلام اجتما ع اور جما عت کو بڑی اہمیت دیتا ہے لیکن وہ پہلے فر د کی خو دی کو مستحکم کر تا ہے اور اسے اس قا بل بنا تا ہے کہ و ہ جما عت تعمیر و تر قی میں اپنا کر دا ر ادا کر سکے افرا د اگر ٹھیک نہ ہو ں تو وہ جما عت کیا کر سکتی ہے جو نا لائق اور نا قابل افرا د پر مشتمل ہو یہ بھی با لکل صحیح ہے کہ �ò +فردقائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں +مو ج ہے در یا میں اور بیر ون دریا کچھ نہیں +لیکن یہ بھی در ست ہے کہ �ò +افرار کے ہا تھو ں میں ہے اقوم کی تقدیر +ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا +حضو ر �ö نے فر ما یا ۔ +’’تما م افرا د ِ ملت جسم وا حد کی طر ح ہیں جس طر ح جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہو تو پو را جسم بخا ر اور بے خوا بی کا شکا ر ہو جا تا ہے اسی طرح جما عت میں کسی ایک فر د کی تکلیف پو ر ی امت کی تکلیف بن جا تی ہے ‘‘ +شیخ شیرا ز جنا ب شیخ سعد ی (رح) نے اسی مضمو ن کو اپنے اشعا ر میں یو ں ادا کیا ہے �ò +بنی آدم اعضا ئے ایک دیگر انذ +کہ در آفر نیش ایک جو ہر اند +فر د اور جما عت کا یہ تعلق ہو تو فر د کی قدرو قیمت قوم کی مفتخر اور محترم بنا تی ہے اور فر د کو بھی اپنی ذمہ دا ر یا ں نبھا نے کا ہر و قت خیا ل رہتا ہے اگر قوم یا جما عت اپنے افرا د کی طر ف سے غفلت بر تنے لگے تو جلد تبا ہ ہو جا تی ہے ۔ اور اس پر زوال آجا تا ہے ۔ +زوال کے ایام میں اگر کوئی فر د اپنی جما عت کو چھو ڑ بیٹھتا ہے اس سے لا تعلق ہو کر کٹ جا تا ہے تو وہ تبا ہ ہو جا تا ہے �ò +ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میںشجر سے ٹوٹ +ممکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے +جس طر ح درخت سے کٹی ہوئی شاخ بہا ر کے با د ل سے بھی ہر ی نہیں ہو سکتی اسی طرح ملت سے کٹ جا نے وا لا شخص بھی کبھی بر و مند نہیں ہو سکتا وقت اور حا لا ت بد ل جا ئیں گے تو قوم عرو ج پر پہنچ جا ئے گی مگر وہ شخص جو زوال کے دنو ں میںقو م سے لا تعلق ہو گیا تھا اس سے کٹ کر الگ ہو تیا تھا قوم کا دورِ عروج اسے کوئی فا ئدہ نہیں پہنچا سکتا اس لیے قوم کے سا تھ ہر حا ل میں جڑ ے رہنا چاہیے �ò +ملت کے ساتھ رابطئِ استوار رکھ +پیوستہ رہ شجر سے امید ِبہار رکھ +پیر صا حب کی تقریر بڑی اثر انگیز تھی سا معین بہت متا ثر ہوئے۔ +پیر صا حب 3 جنو ر ی 1988 �÷ کو الکہا ر تشر یف لے گئے یہاں ایک ہال میں ایک بہت بڑے جلسہ کا اہتما م تھا ڈاکٹر یعقو ب ذکی نے بھی تقر یر کی پیر صا حب نے خطبہ ئِ صدا رت میں مسجد کی اہمیت پر زو ر دیا اور آخر میں لو گو ں سے اپیل کی کہ وہ اپنی مسجد بنا نے کے سلسلہ میں تعاون کریں42 ہز ار گلڈ ر جمع ہو گئے۔ فر ور ی میں ور لڈ اسلامک مشن کی تقر یب میں شر کت کی اور مر حو مہ امیرن نو شاہی کے چہلم میں شامل ہوئے ۔ +18 ما رچ 1985 کو ہا لینڈ گئے مسجد قا دریہ غو ثیہ میں معر اج النبی کے جلسہ میںشر کت کی اور معرا ج کے مو ضو ع پر تقر یر فر ما ئی ۔ بتا یا کہ آج سائنس وقت اور فا صلہ TIME AND SPACE کے سلسلہ میں ایسے حیر ت انگیز انکشا فا ت کر رہی جن سے اسلامی صد اقتوں کی تائید ہو رہی ہے آج تسلیم کیا جا رہا ہے ہے �ò +عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تما م +اس زمین و آسما ں کو بیکرا ں سمجھا تھا میں +25 ما رچ کو ایک عیسا ئی عو ر ت اینگا بو خ ایسا انتو نیا نے پیر صا حب کے ہا تھ پر اسلام قبو ل کیا اور بہت سے مسلما ن بھی حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے ۔ +19 اگست کو ہالینڈ میں پھر حضرت نو شہ گنج بخش کے عر س کا اہتام کیا گیا تھا انگلینڈ سے کچھ دو ست بھی ہمرا ہ آئے تھے مقر رین نے سلسلہ عالیہ نو شاہیہ کی تعا رفی تقر یر یں انگر یزی اور ڈچ زبا نو ں میںکیں حضرت پیر صا حب نے صد ار تی تقر یر میں حضر ت نو شہ گنج بخش کے حالات زندگی پر رو شنی ڈا لی پیر ابو الکمال بر ق شا ہ کا کلام در ح مد ح، نو شہ گنج (رح) سنا یا اس عر س کے موقع پر ایک ہند و نے حضر ت پیر صا حب کے ہاتھ پر اسلام قبو ل کیا ۔ +5 نو مبر 1988 �÷ کو پھر ہا لینڈگئے طا ر ق مجا ہد اور انکی اہلیہ بھی سا تھ تھیں پیر صا حب نے مو لا نا عبد الو ہا ب صد یقی کے جلسہ میں خطاب کیا حا ضر ین میں عر ب ، ایر ان ، پاکستان ، تر کی اور سر ہنا می کے افرا د تھے ۔ پھر یمسٹر ڈیم کا تبلیغی دو ر ہ کیا دسمبر 1988 �÷ میں پھر ہا لینڈ آئے 1989 �÷ کے آغا ز سے پھر ہا لینڈ کے دو ر ے شر و ع ہو گئے 25 اگست 1989 �÷ کو رو نا مچہ میں ہے کہ ’’ آج نما زِ فجر سے قبل پیر بر ق شا ہ صاحب کی زیا رت ہو ئی سفید کپڑ و ں میں ملبو س تھے اور چا ر پائی پر آرا م فر ما رہے تھے ‘‘ اس سفر میںبھی بہت سے لو گ حلقہ ئِ ارا دت میں داخل ہوئے 29 اگست کو ایک ڈچ عورت نے پیر صاحب کے ہا تھ پر اسلام قبو ل کیا اسکا اسلامی نا م آمنہ رکھا گیا ۔ +اس طر ح آپ با ر با ر ہا لینڈ آتے رہے اراد تمند وں کی تعدا د بر ابر بڑ ھ رہی ہے تقر یبا ً ہر دو ر ہ میں کوئی نہ کوئی غیر مسلم بھی مسلما ن ہو جا تا ہے اور پیرصاحب اپنا کتابوں کا شو ق بھی پو را کر لیتے ہیں بڑی رقم صر ف کر کے سینکڑو ں کتا بیں لیڈ ن سے خر ید چکے ہیں جن میں بعض نا در و نا یا ب کلمی نسخے بھی ہیں ۔ +2001 تک کی ڈ ائر یا ں ہم نے دیکھی ہیں لمحہ لمحہ کی دا ستانِ رقم ہیں اسلام کی اشا عت ، مسلما نو ںمیں اتحا د ، اہل سنت مسلک کا فروغ اور افر اد اہل سنت کی تنظیم شب و رو ز اسی کا م میں منہک ہیں اور اللہ کے فضل سے اس انتھک محنت کی ثمرا ت بھی حا صل ہو رہے ہیں ہم بخوف طو ا ست با قی تفا صیل چھو ڑے دیتے ہیں۔ +آہ تو اجڑی ہوئی دل میں آرا میدہ ہے +گلشنِ وَیمر میں تیرا ہمنوا خو بید ہ ہے +حضو ر �ö کی حیا تِ طیبہ پر گو ئٹے نے جو لا فا نی نظم لکھی ہے اس میں اس نے حیا تِ مقد سہ کو جو ئے رو اں سے تعبیر کیا ہے جو ہز ا ر مز احمتو ں اور مخا لفتو ں کے با و جو د آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے کہیں با غ آجا تا ہے تو اس میں نر م رو ہو کر پھو لو ں کی سر شا ر کر تی ہے کہیں پتھر ر کا وت بنتے ہیں تو در یا ئے پر خرا ش بن جاتی ہے اقبا ل نے اس خو بصو ر تی سے اس ’’ جو ئے رو اں ‘‘ کو فا رسی میں متقل کیا ہے کہ شا یدد اصل نظم میں بھی اتنا حسن نہیں ہو گا کچھ بند ہم بھی بر کت کے لیے نقل کئے دیتے ہیں ۔ +بنگر کہ جُوئے آب چہ مستا نہ محا رود ما نندِ کہکشا ں بگر یباں مَر غزا ر +در خوا ب ناز بو د بہ گہوارئ سحاب واکر د چشم شو ق بآ غو ش کو ہسا ر +زعی بحر بیکر انہ چہ مستا نہ رود +در خو د یگا نہ ازہمہ بیگا نہ محا رود +در راہِ اوبہا ر پر ی خا نہ آفر ید نر گس د مید و لا لہ د مید و سمن د مید +گل عشوہ دا د و گفت یکے پیش مِا با لیت خند ید غنچہ و سر د اما ن او کشید +زعی بحر بیکر انہ چہ مستا نہ رود +در خو د یگا نہ ازہمہ بیگا نہ محا رود +دریا ئے ہر خر وش از بند و شکن گز شت ازتنگنا ئے وادی و کو دہ ودمن گز شت +یکسان چو میل کر دہ نشیب فرا ز را ازکاخِ شاہ و با رہ وکشتِ چمن گز شت +زعی بحر بیکر انہ چہ مستا نہ رود +در خو د یگا نہ ازہمہ بیگا نہ محا رود +بنگر کہ جو ئے آب چہ مستا نہ ردو +CODE OF LIFE ہیں اسلام زندگی کے ہر گو شے میں انسا ن کی رہنما ئی کر تا ہے ۔ اس طر ح بڑی وضا حت سے اپنے موضو ع کا حق ادا کیا سننے والو ں کے دما گ رو شن ہو گئے جنا ب مسعو د احمد نو شا ہی آف نو شہر ہ شر یف کے صا حبز ادے اور کئی دو سرے احباب ملا قا ت کیلئے آئے رات عشا ئ کی نماز کے بعد پیر صا حب نے خطا ب کیا ان کا خطا ب تین بجے تک جا ری رہا اور مجمع پر سکو ت و سکو ن چھا یا رہا حضرت پیر معرو ف حسین شاہ نے دعا کر ائی ۔ اگلے روز حضرت پیر صا حب مسجد بلا ل شر یف لے گئے پر و فیسر جسا م العطا ر سے ملا قا ت ہوئی سنٹر ل لا ئبر یری دیکھنے کیلئے تشر یف لے گئے جہا ں انگریز ی میں اسلام پر بہت سی کتا بیں مو جو د تھیں میلا د شر یف کی تقر یب ہوئی اس میں بر ق شا ہ صا حب نے بھی خطا ب کیا ور قبلہ پیر صا حب نے میلا د مصطفےٰ پر رو شنی ڈا لتے ہو ئے فر ما یا ’’ آج لو گ اپنے لوا حقین کے بر تھ ڈے منا تے ہیں بڑ ے بابرکت ہیں وہ لو گ اللہ کے محبوب کا یو م میلا د منا کر اپنے آپ کو سعد تمند بنا لیتے ہیں اما م ابو شا مہ جو اما م نو وی شا ر حِ مسلم شر یف کے استا ذ الحد یث ہیں فر ما تے ہیں۔ +’’ ہما رے زما نہ میں بہتر ین کا م جو شر و ع ہو ا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حضور �ö کی ولا دت کے دن صد قا ت اور خیرا ت کر تے ہیں اور اظہا ر مسر ت کے لیے اپنے گھر و ں اور کو چو ں کو آراستہ کر تے ہیں کیونکہ اس کے کئی فا ئدے ہیں فقر ائ و مسا کین کے سا تھ احسان اور مر وت کا بر تا ئو ہو تا ہے نیز جو شخص یہ کا م کر تا ہے معلو م ہو تا ہے اس کے دل میں اللہ کے محبوب کی عظمت اور ان سے محبت کا چرا غ روشن ہے اور سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کو پیدا فر ما کہ اور انہیں رحمت اللعا لمین کا لبا س پہنا کر دنیا میں بھیجا ہے اور یہ اللہ کا بڑا احسا ن ہے جس پر بند و ں کو اللہ کا شکر ادا کر نا چا ہیے اور مسر ت کا یہ اظہا ر بطو ر ادا ئے شکر ہے ‘‘ +﴿السیر ۃ الجلیہ ج ا ص 80﴾ +اما م سخا وی فر ما تے ہیں +’’ مو جو د ہ صو رت میں میلا د کی محفلو ں کا انعقا د قر ونِ ثلا شہ کے بعد شر و ع ہوا پھر اس وقت سے تما م ملکو ں اور تمام بڑ ے شہر وں میں اہل اسلام میلا د شر یف کا انعقا د کر تے آرہے ہیں اسکی را ت میں صد قا ت خرات اور فقہ ئِ مسا کین کی دلدا ر کرتے ہیں حضور �ö کی ولا دت با سعا دت کے واقعات سنا کر لو گو ں کے دل حضور �ö کی طرف مائل کر تے ہیں اور اس عمل کا بر کتو ں سے اللہ اپنے فضل کی با رشیں ان پر بر سا دیتا ہے ‘‘ +﴿بحو الہ محمد رسول اللہ از علامہ محمد رضا ﴾ +علامہ ابن جوزی ضعیف رو ایا ت پر تنقید بڑی بے رحمی سے کر تے ہیں ان کی را ئے سُن لیجئے وہ فر ما تے ہیں۔ +’’محفل میلا د کی خصو صی بر کتو ں سے یہ ہے کہ جو اس کو منعقد کر تا ہے اس کی بر کت سے سا را سال اللہ تعالیٰ اسے اپنے حفظ و اما ن میں رکھتا ہے اور اپنے مقصداور مطلوب کو جلد حا صل کر نے کیلئے یہ ایک بشا ر ت ہے ‘‘ +﴿بحو الہ محمد رسول اللہ از علامہ محمد رضا ﴾ +یہ اس تقر یر کے چند اقتبا سا ت ہیں تقر یر بڑ ی مفصل تھی اور سا معین کے لیے بڑی منو ر ، کئی لو گ پیر صاحب کے ہا تھ پر بیعت کر کے حلقہ ئِ ارادت میں داخل ہوئے۔ +28-8-89 کو مسجد کی رقم کے انتظا ما ت کے لیے کا میا ب دو ر ہ کیا ۔2-9-1991 سلسلہ تبلیغ کا کچھ کا م کیا ، قمر حسین شا ہ اور تنو یر شا ہ صاحب سے گفتگو کی ۔ +فر ینک فوٹ میں صوفی منظو ر صا حب سے ملا قا ت ہوئی کا ر کی خر ابی کی وجہ سے جلسے میں ہم شریک نہ ہو سکے ور لڈ اسلامک مشن کے مقا صد عہداروں سے ملا قا ت اور مشن کے با رے میں با ت چیت ہوئی مغر ب کی نماز پڑ ھا نے کے بعد پیر صاحب نے میلا د النبی کے مو ضو ع پر خطاب کیاچا لیس ہز ار سے زا ہد لو گ مو جو د تھے مقا م نبو ت کی عظمت حضور �ö بے نذیر رسو ل عر بی تو قیر رسالت احسا س دین سنت نبو ی کی دین میں اہمیت و ضر و رت پر رو شنی ڈا لی سو الا ت کے جو ا با ت دیے پھر و یا ں سے ھا لینڈ کو سفر با ند ھا ۔ +13 اگست 1979 کو پیر صاحب پہلی مر تبہ بلجیم گئے وہا ں کی اہم جنگو ں کو دیکھا آر ٹی یکٹ مختلف آر ٹ کے حو الے سے وہا ں کا مطا لعہ ، اسلامک کلچر ل سنٹر میں بڑ گئے بر لسلزکی جا مع مسجد میں نما ز پڑ ھا ئی ۔ +25 دسمبر 1982 کو پیر صاحب بلجیم کے بر سلز پہنچے ، وہا ں سب احبا ب سے ملا قا ت کی اور انہیں تبلیغ دین کی طر ف متو جہ کیا اور پھر وہاں سے فرانس چلے گئے ۔ بلجیم مین اس وقت ایک ہزا ر کے قر یب مسلما ن تھے ، زیا دہ تر عر ب کے لو گ مسجد میں آکر نماز ادا کر تے تھے، بلجیم کے دو نو ں تبلیغی دوروں کا اختتا م پر مجلس میلا د کا انعقا د ہو ا، 1982 پیر صا حب کے سا تھ حضرت ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ہی تھی انہو ں نے بھی میلا د النبی اور تعلیم اسلام کے مو ضو عا ت خطا ب کیا بلجیم کے لقب سے مسلما نو ں نے آپ سے ملا قا ت کا شر ف حا صل کیا ۔ لقب سے احبا ب پر سید الکما ل بر ق نو ش اہی کے ہا تھ پر بیعت کی کچھ کتا بیں خر یدیں۔ +29 اگست بروز جمعہ 1989 کو پھر بلجیم گئے بر وسلز میں نماز جمعہ اداکی، طا رق مجا ہد نو شاہی خطا بت اور اما مت کا فر یضہ سر انجام پیر صا حب نے دعا کرا نی اس مو قع پر بھی لقب لوگو ں نے پیر صا حب کے ہا تھ پر بیعت کی ۔ +8 اکتو بر 1989 کو بر سلز جلسہ عیدمیلا د النبی کے سلسلے میں صدا ر تی خطبہ دیا اور ہا لینڈ چلے گئے ۔ 18 جنور ی1989 کو بھی پیر صا حب بلجیم گئے تھے ۔ جہا ں پاکستانی سفا رت خا نے ک ے افسر ان کی منعقد ہ کر دہ محفل میلا دد ، عر س غوث پاک اور عر س اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی میں شر یک ہوئے اور خطا ب فر ما یا تھا ۔ +اب ہم پیر صا حب کی 1975 کی ڈا ئر ی کے چند صفحا ت تقر یبا ً اصل صو رت میں نقل کر رہے ہیں +لند ن کے سعدود سفارت خا نہ میں گئے وہا ں مسٹر توفیق سے شر بر ج روڈ جگہ خر ید نے کے لیے 10 ہز ار پو نڈ و صو ل کئے شا ہنا مہ فر دو سی اور عربی کی کچھ کتا بیں بھی خر ید یں۔ +مولا نا اعطا المصطفیٰ جمیل لند ن ائیر پو ر ٹ پر RECEIVE کیا ۔ +بلیک بر ن میں جلسہ ہو ا صدا رت پیر معر و ف حسین شا ہ نے کی +اسلامک مشنر ی کالج بر یڈ فو رڈ کے ہا ل میں جلسہ ئِ سیر ت و شہا دت منعقد ہوا پیر صا حب نے صد ا ر ت فر ما ئی عطا ئ المصطفیٰ جمیل اور علامہ اعظمی نے خطا ب کیا ۔ +علامہ شا ہ احمد نو را نی ، علامہ ارشد القا دری ، مولا نا عبد الستا ر خا ن نیا زی اور شاہ فر یدد الحق لند ن ائیر پو رٹ پر اتر ے آج کا دن انہوں نے پیر صا حب کے پا س گز ا ر ا پیر صا حب نے انکے تبلیغی دو رے کا پر و گرا م تر تیب دے رکھا تھا اور اس کے مطا بق دورہ مکمل ہو ا۔ +مولا نا شا ہ فر ید الحق نے ہیلی فیکس میں خطا ب کیا ، مولا نا نیازی اور مو لا نا نو را نی نے بریڈ فو ر ڈ میں +ہر سفیلڈ میںتقریب ہوئی اور شا م کو ڈیوز بر ی میں ۔ +دن کے بر یڈ فو ر ڈ میں جلسہ ہو ا اور را ت کو بلیک بر نکی مسجد میں ۔ +جمعہ کے روز مولا نا نو را نی نے پر سٹن میں خطا ب کیا شا ہ فر ید الحق نے نیلسن میں اور مو لا نا نیا زی نے اولدہم میں مولا نا نیا زی کے اعزاز میںاہل بر یڈ فو رڈ نے دعو ت کا اہتما م بھی کیا ۔ +دوپہر سٹر میںتقر یب ہو ئی شا م کو ڈر بی میں۔ +صبح را شد یل میں شا م کو ما نچسڑ میں تقر یب ہوئی ۔ +لنکا سٹر ، بلیک بر ن اور بو سٹن میں فنکشن ہوئے ۔ +اور ہا ئی و بکمب میں جلسہ ہو ا۔ +بر منگھم میں جلسہ ہو ا ۔ +لند ن میں جلسے ہوئے 19 ما رچ ہا ئی وبکمب ، پیڑ برا اور سلائو میں 15 ما رچ کو گلا سکو میں اور16 ما رچ کو لندن میں جلسے ہو ئے +زند گی اور بند گی +شخصیت کے کچھ رنگ بیا ن کر نا چا ہے تھے نہیں کر سکا۔ اور دو سرے رنگ آگے بکھر ے پڑ ے ہیں کیا کر و ں؟ اب مثلا ً اسی چیز کو دیکھئے کہ میں یہ بیا ن نہیںکر سکا ہوں کہ اپنی ہزا ر پہلو مصر وفیا ت کے با وجو د حضرت پیر صاحب تصنیف و تا لیف کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں خو د لکھتے ہیں دو سر وں کو مو ضو عا ت دے کر لکھو اتے ہیں پھر انکا لکھا ہوا دقیق نظر سے دیکھتے ہیں اور شا ئع کر ا تے ہیں جمعتیہ تبلیغ الا سلام نے بہت بڑی لا ئبر یر ی کے سا تھ ادا رہ التصنیف و التا لیف بھی بنا رکھا ہے ایک میگز ین بھی نکالتے ہیں تبلیغی لڑ یچر میں جو کتا بیں پمفلٹ وغیر ہ شا ئع کئے ہیں انکی تعدا د بہت عر صہ پہلے انٹر ویوکے مطا بق سا تھ سے زیا دہ ہے ۔ پیر معر وف حسین شاہ صا حب ایک صاحب طر ز نثر نگا ر ہونے کے علاوہ فارسی میں اور پنجا بی زبا ن کے پو ٹھو ہا ری لہجہ میں شعر بھی کہتے ہیں اب تک انکی در ج ذیل کتا بیں منظر عام پرآچکی ہیں۔ +۱﴾ شر ح ایسا غو جی ﴿منطق کی ایک مشکل کتا ب کی شر ح﴾ +۲﴾ پنجا بی اکھا ن ﴿ایک تحقیقی کتا ب﴾ +۳﴾ با رہ ما ہ نو شاہی ﴿نظم﴾ +۴﴾ سی حر فی نا قو س نو شا ہی ﴿نظم﴾ +۵﴾ سی حر فی سو ز نو شاہی ﴿نظم﴾ +۶﴾ فر یا د نو شاہی +۷﴾ سفر نا مہ حر مین الشر یفین +۸﴾ نغمہئِ نو شاہی ﴿نظم﴾ +۹﴾ نو حہئِ نو شاہی ﴿نظم﴾ +۰۱﴾ زارستان نو شا ہی ﴿نظم﴾ +اور اسلام نے کہا تھا نہیں ہر حا ل میں ’’ عد ل کر و ‘‘ حتیٰ کہ جنگ میں بھی عد ل کر و اگر مجبو را ً تمہیں دفا ع میں لڑ نا بھی پڑے تو حد سے نہ بڑھو +’’وَلاَ یَجْرِ مَنّکُمْ شَانُ قَوْ مٍ عَلیٰ اَلاّ تَعْدِ لُوْا ھُوَ اَقْرَ بْ لِلتَّقوٰ ی‘‘ +﴿کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر نہ اُکسا ئے کہ تم عد ل کا دامن ہا تھ سے چھوڑ بیٹھو ، نہیں ہر حا ل میں عد ل کر و یہی با ت تقوٰی سے زیا دہ قریب ہے﴾ آج انسا نیت بحیثیت مجمو عی عد ل کی پکا ر بلند کی رہی ہے بُش حکومت عر اق پر حملہ آور ہو تی ہے تو امر یکہ ہی سے لا کھو ں لو گ اور دنیا بھر سے کروڑ و ں لو گ احتجا ج کے لیے سڑ کو ں پر نکل آتے ہیں مر نے والے عر اقیو ں سے ان کا رنگ ، نسل اور وطن کا کوئی اشتر اک نہیں مگر سب کو راتو ں کی نیند اور دنو ں کا چین ختم ہو جا تاہے۔ ہر طرف سے پکا ر بلند ہو تی ہے ’’ عدل ‘‘ ’’عدل‘‘ ہر حا ل میں ’’عدل‘‘ دہشت کر دی ضر و ر ختم کر و مگر اس سے لا کھ گنا زیا دہ دہشت گر دی سے نہیں عد ل کیسا تھ ، فتنہ کا سر کچل دو مگر بہت بڑا فتنہ پیدا کر کے نہیں عد ل کے سا تھ جن لو گو ں نے ورلڈ ٹر یڈ سنٹر پر حملہ کیا وہ انسا ن نہیں وحشی در ند ے تھے انہیں اس پر آما دہ کر نے والے اور بھی بڑ ے در ند ے ہیں ان کے سر وں میں شیطا نو ں کے آشیا نے ہیں انہیں ڈھو نڈو ، انہیںتلا ش کر و اور پھر انہیں عبر تنا ک سزائیں دو مگر یو ں نہیں کہ افغا نیوں کے وہ بچے یتیم کر دو جنکے با پ اپنے اور +اپنے بچو ں کے پیٹ بھر نے کے لیے تمہا ری سٹر کو ں پرروڑ ی کو ٹ رہے ہیں ان عرا قی ما ئو ں کو نہ رُلا ئو جنہو ں نے اپنے بچو ں کو نا شتہ کرا کے سکول بھیجا تھا اور اپنے شو ہر وں کو رو ٹی کما نے کے لیے مز دو ری کے لئیئ رخصت کیا تھا ۔ بتا ئیے ’’ عدل ‘‘ ’’عدل‘‘ کی یہ پکا ر یں اسلام کی فتح نہیںتو کس کی فتح ہے؟ +اسلام نے سب سے پہلے مسا وا ت انسا نی کا پر چم بلند کیا تھا جمہو ر کے حقو ق کا تعین کیا تھا ، ملو کیت اور سلطا نی کا خا تمہ کیا تھا جمہو ریت کی آواز بلند کی تھی آج سا ری دنیا جمہو ریت کی دلدا دا اور ملو کیت کی دشمن ہے بتا ئیے یہ کس کی فتح ہے ملو کیت کے نما ئندے یز ید کی یا ملو کیت کے خلاف آواز بلند کر کے اپنے سارے خا ندا ن کو اپنے خو ن میں ڈبو دینے والے حسین (رض) کی ، اسلام نے عو ر ت کو انسا نی حقو ق دییتھے اور اسے معا شرہ میں مرد کی سطح پر لا کھڑا کیا تھا آج عورت کے حق میں آواز بلند کرنے والے کیااسی نبی ئِ عربی کی اتبا ع نہیں کر نا چا ہتے جس نے سب سے پہلے عورت کو زند ہ در گو ر کر نے والے معا شر ہ میں عو ر ت کے حقوق کا تعین کیا تھا۔ +اسلام نے ہی سب سے پہلے رنگ ، نسل ، وطن اور دو سرے امتیا زا ت ختم کر کے کہا تھا لو گو تم سب ایک ہی آدم کے اولاد ہو اس لیے +’’کان النا س امۃ وا حدہ‘‘ پو ری نسل انسا نی امتِ وا حدہ ہے کسی گو رے کو کسی کالے پر کسی کالے کو کسی گو رے پر کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حا صل نہیں کہ فضیلت کا معیا ر بد ل کر سا ری دنیا کو ایک خا ندا ن بنا دیا گیا ہے۔ یہ جو آج گلو بل ولیج +GLOBAL VILLAGE کی با تیں ہو رہی ہیں بتا ئیے یہ کس آواز کی با زگشت ہے ۔ وحدت، انسا نی کا یہ تصو ر کس نے دیا تھا ؟ کیا یہ اسلام کی دعوت اور اسلام کی پکا ر نہیں تھی۔ بلا شبہ یہ سب کچھ اسلام تھا جو اجتما عی طو رپر سا ری د��یا نے تسلیم کر لیا ہے لیکن ابھی نظر یا تی طو ر پر یہ سب کچھ تسلیم کیا گیا ابھی عملی طو ر پر ان نظر یا تت کو جز ئیا ت سمیت قبو ل نہیں کیا گیا قبو ل کیا بھی گیا تو اس پر پو را اعمل نہیں کیا جا سکا کیو نکہ انسان ابھی مفا د خو یش کو چھو ڑنے پر آما دہ نہیں اس میں وہ ایما ن پیدا نہیں ہوا جو انسا ن کو اس عمل کا پیکر بنا دیتا ہے۔ +’’یُؤ ثرون َ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَا نَ بِھِمْ خَصَا صَہo 59/9‘‘ +﴿وہ دو سر و ں کی ضر و ر یا ت کو اپنی ضر و ریا ت پر تر جیح دیتے ہیں چا ہے وہ خو د کتنی ہی تنگی میں کیوں نہ ہو ں﴾ +اور وہ وقت آنے والا ہے جب انسا ن مجبو ر ہو کر ان نظر یا ت کو عملی طو ر پر بھی اس طر ح قبول کر یگا کہ ان نظر یا ت کو متعا ر ف کر انے والے قرآن پر ایما ن لا ئے ۔ ایسا ہو نا ہے ،ہو کر رہنا ہے کیو نکہ کا ئنا ت کے خا لق اور ما لک کا فر ما ن ہے اس دین کا تما م ادیا نِ عالم پر غا لب آکر رہنا ہے ۔ اور ہم دیکھ رہے ہیںکہ اس کا م کی ابتدا ئ ہوگئی ہے کیونکہ اس دین کے نظر یا ت اب دنیائے انسا نیت کی اولیں تر جیحا ت بن گئے ہیں۔ غیر متعلق نہیںہوگا اگر ہم یہاں مغر بی مفکر ین میں سے ایک مفکر بر نا ر ڈ شا کے الفا ظ نقل کر دیں مفکر مو صو ف کہتاہے۔ +’’ میں محمد ﴿�ö﴾ کے مذہب کو اسکی تو انا ئی کی بنا ئ پر ہمیشہ بہ نگا ہِ احترام دیکھا ہے میرے نزدیک دنیا میںتنہا یہی مذہب ہے جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کے بد لتے ہوئے حالات کا سا تھ دے سکے اور یہی وجہ ہے +کہ اس کا پیغا م ہر زمانہ کے لو گو ں کو کر سکتا ہے میں نے اس حیر ت انگیز شخصیت کی سیر ت کا مطا لعہ کیا ہے اور میر خیا ل ہے کہ وہ مسیح +﴿علیہ اسلام﴾ کا نقیض ہونے کے بجا ئے بجا طو رپر نو عِ انسانی کا نجا ت دہند ہ کہلا سکتا ہے میرا یقین ہے اگر آج اس جیسا کو ئی انسان حکومت سنبھال لے تو وہ اس کے مسائل کا اس خو بی سے حل پیدا کر سکتا ہے کہ یہ دنیا پھر سے اس امن ار مسر ت ک زندگی کو پالے جس کی آج اسے اشد ضرور ت ہے میں نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ جس طر ح آج کا یو رپ اس مذہب کو قبول کرنے پر آما دہ ہو رہا ہے اسی طرح کل کا یو رپ بھی اس مذہب کو قبول کر لے گا ‘‘ ﴿بحوا لہ معرا ج انسا نیت صفحہ 413 ﴾ +کیو نکہ اسلام کی تعلیما ت ہی ایسی ہیں جو ہر دو ر کے مسائل کا صحیح اور اطمینا ن بخش حل پیش کر تی ہیں گو ئٹے کے الفاظ میں ’’ اسلام کی تعلیم کہیںبھی نا کام نہیںہوسکتی ہم اپنے تمام نظا مہائے تمد ن کے با وجو د اسکی حد و د سے آگے نہیں جا سکتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں جا سکتا ‘‘ ﴿GOE THE TO ECKERMANN﴾اس حقیقت کا اعتراف تو آج مفکر ین یو ر پ کھل کر کہہ رہے ہیںکہ گز رے ہوئے کل کا یو رپ مسلما نو ں کی عطا کی ہوئی علمی اور تہذ یبی رو شنی سے ہی منو ر ہوا بر یفا لٹ لکھتا ہے۔ +’’ یو رپ کی نشأۃِ ثا نیہ اس وقت پند ر ھو یں صد ی میں نہیں ہوئی بلکہ اس وقت ہوئی جب یو رپ عر بو ں کے کلچر سے متا ثر ہو ا یو ر پ کی نئی زند گی کا گہوارہ اٹلی نہیںاندلس ہے ادھر روما کی تہذیب گر تے گر تے بر بریت کی انتہا تک پہنچ چکی تھی ادھر دنیائے اسلام بغدا د ، قر طبہ ، قاہر ہ تہذیب اور ذہنی تحر یکا ت کے مر کز بن رہے تھے۔ ان ہی شہر و ں میں وہ حیا ت ِ نو نمو دا ر ہوئی جسے انسا نی ار تقا ئ میں ایک نئے باب کا اضا فہ کر نا تھا۔ جس میں نئی تہذیب کو مخصوص طو ر پر سا منے آنا تھا ۔ اور وہ سامنے آگئی دنیا تہذیب نو سے متعا رف ہوئی۔ اگر عرب نہ ہوئے تو یو ر پ کی تہذیب کا عمل وجو د عمل میں آتا ۔ انکے بغیریہ یقینا اس خصو صیت کو حا صل ��ہ کر سکتا تھا جس نے اسے ارتقائی مر احل میں بلند تر ین سطح پر لا کھڑ ا کیا ہے مغربی کلچر میں کوئی ایسا شعبہ نہیںجس میں عربی ثقا فت کا رنگ نہ جھلکتا ہو لیکن ایک شعبہ تو ایسا ہے جس +میں یہ اثر بالکل نکھر کر سامنے آجا تا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جو در حقیقت عصر ھا ضر کی قو ت کا با عث ہے او ر اسکی فتو حا ت کا ذریعہ ہے یعنی علم الا شیائ سا ئنس کی رو ح ، ہما ری سا ئنس صر ف اسی حد تک عربو ں کی مر ہین منت نہیں کہ انہو ں نے ہمیں عجیب و غر یب نظر یا ت و اکتشا فا ت سے رو شنا س کر ایا بلکہ ہما ری سا ئنس کو پورا وجو دہی اسکا شر مند ہئِ اِحسا ن ہے ‘‘ +﴿THE MAKING OF HUMANITY BY BRIFFAULT﴾ اور جس طر ح کل کے یو ر پ نے اسلام سے کسبِ فیض کیا تھا آج کا یو ر پ بھی مجبو ر ہے کہ اسلام ہی سے کسب فیض کر ے اس کی بد قسمتی یہ تھی کہ اس نے اسلام سے استقر ائی علم کا درس تو لے لیا لیکن یہ نہ سمجھ سکا کہ استقر ائی علم کی صرف علم ِنا فع کے طو رپر لینا چا ہیے اپنی نا دا نستگی میں وہ، ما دی فتوحا ت میں آگے بڑھتا گیا اور بڑ ھتے بڑ ھتے وہ ما دی قوت کے اس جن کی بو تل کا بھی ڈھکنا کھول بیٹھا جو آزا د ہو کر آج سب کچھ تہس نہس کر دینے کیلئے اسکے آگے پیچھے منڈ لا رہا ہے اب صر ف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ اسلام ، وہی اسلام جس میںامن ہے سلامتی ہے اور جو انسانیت کی و احد پنا ہ گا ہ ہے ۔ ہم ابتدا ئ میںبتا چکے ہیں کہ پو ر ی دنیا ٹھو کر یں کھا کھا کر اب اسلامی تعلیما ت کے قر یب آرہی ہے دنیا ایک گا ئو ں بن رہی ہے ایک خا ندا ن میں ڈھل رہی ہے کالے گو رے کی تمیز ختم ہو رہی ہے انسا نی مسا وات کے نعر ے بلند ہو رہے ہیں مغر ب مشرق میں مدغم ہو رہا ہ مشر ق کی طر ف لپک رہا ہے اپنے دکھو ں کا علاج مانگ رہا ہے اور مشر ق مغر ب کو ما یو س نہیں کر یگا اسے اپنے دامنِ عا فیت میں سمیٹ لے گا ، خدا کا وعدہ پو را ہو گا ، اس کی با ت اپنی تکمیل کو پہنچے گی اور وہ دن آئیگا ۔ ضر و ر آئیگا کہ اللہ نے اس دنیا کے خا لق اور مالک ۔ کیا ہے ۔ +﴿زمین اپنے پر و ر ش دینے والے کے نو ر سے جگما اٹھے گی﴾ +زمین سا ری کی سا ری مشر ق ہو جا ئے گی ﴿اشر ف الارض﴾ مطلعِ انوار بن جا ئے گی۔ اور ایسا جب بھی ہوگا اس تا ریخ میں ایک نام ضر ورلکھا جائے گا اور وہ نام ہو گا ’’ مغر ب سے مشر ق‘‘ کی تحر یک اٹھا نیوالے ایک شخص ’’حضرت پیر معرو ف حسین شاہ نو شاہی قا دری ‘‘ کا ، جسے اسی ذ ات کی محبت نے اپنا دیو انہ بنا کر مغر ب میں بھیجا جس کی محبت دین ہے، ایما ن ہے، اسلام ہے جس کا دامنِ رحمت اس قدر و سیع ہے کہ سا ری کائنات ا س میں سما سکتی ہے اور جس کے خدا ’’ رب العلمین‘‘ نے فخر سے کہا ہے ۔ +’’وَ مَا اَرْ سَلْنٰکْ اِلّاَ رَحْمَۃً الا مَا لمین‘‘ +اِنَّااللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہ‘ یَصَلّٰوْ نَ عَلیَ النبی یَا َ یُّہَا الَّذِیْنَ آ مَنُوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ ا تَسْلِیْماً +اَللّٰھُمَّ صَلِّ وسَلِّمْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ۔ برُو ح اِ عظم و پا کش درود لا محدود +مصطفی جا نِ رحمت پہ لاکھو ں سلام + + +==تاریخ سا ز لمحو ں کی با ت +چین کے عظیم رہنما ما ئو زے تنگ نے ایک مختصر سی کہا نی لکھی تھی کہ ایک چینی مز دو ر نے اپنے مختصر سے کنبے کے لیے ایک کوٹھا بنایا۔ کو ٹھے کے مغر ب کی طر ف گھنا جنگل تھا ۔ اس لیے اُس نے کو ٹھے کا در وا زہ مشر ق کی طرف کھو لا ۔کو ٹھے کے آگے چھو ٹا سا صحن تھا ۔اب مصیبت یہ پیش آئی کہ مشر ق کی طر ف چٹا ن تھی جو دھو پ رو ک لیتی تھی۔ بیو ی نے کہا اب کیا کر و گے ،چینی مز دو ر نے کہا اس چٹان کو یہاں ن��یں ہو نا چا ہیے میں اسے یہاں سے ہٹا دو نگا۔ بیو ی بچے ہنس کر چپ ہو گئے مگر وہ دُھن کا پکا تھا۔ اُس نے چٹا ن کو کھو دنا شر و ع کیا ،دن را ت میں جتنا و قت بھی ملتا بڑی مستعد ی سے پتھر توڑتاپھر اس کام میں بیو ی بچے بھی شر یک ہو نے لگے۔ مشقت ہو تی رہی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ اُسکے کو ٹھے کے در وا زے اور سو ر ج کے درمیان حا ئل ہو نے والی چٹان نیست و نا بو د ہو گئی ۔ +یہ تو ایک کہا نی تھی لیکن گر ا ں خو ا ب افیونی چینی قو م کو آزا د ، خو د مختا ر، بیدا ر مغز اور مستحکم قو م بنا نے میں ما ئو اور اُسکے انقلابی سا تھیوں نے بھی طو یل مشقت اور جد و جہد کی اور با لا خر ما ئو نے اپنی بیان کر دہ کہا نی سچ کر دکھا ئی۔ چین کی تا ریخ پڑھنے والا ہر شخص کل اور آج کے چین کو دیکھتا ہے تو حیر ت اور استعجا ب سے تصو یر بن جا تا ہے۔ فی الو ا قع اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پنا ہ قوتوں سے نواز اہے ۔ اُس نے سمند ر پھا ڑے ،پہا ڑوں کے جگر چیر کر نہریں اور سٹر کیں بنائیں،چا ند پر اپنی تسخیر کے پر چم گا ڑ آیا ، فضا ئو ں اور خلا ئو ں کو فتح کیا ،فطر ت کے بے پنا ہ او ر بے اماں مو انعا ت کو اپنی را ہ میں سے ہٹا یااور آج اس قا بل ہو گیا کہ اقبا ل کے الفا ظ میں خد ائے ذو الجلا ل کے سا منے فخر سے سر بلند کر کے کہہ رہا ہے ۔خد ایا فرشتوں کو تونے اِنیِ اَ عْلَمُ ما لاَ تعْلَمُوْن کہہ کر ،تخلیق آدم کے جو معار ف سمجھا دیے تھے ،میں نے اُنکی لا ج رکھ لی ہے۔ +تُو شب آفر یدی ، چراغ آفریدم +سفا ل آفر یدی ، ایا غ آفر ید م +تُو صحرا و کہسا ر و را غ آفر یدی +خیا با ن و گلز ا ر وو با غ آفر ید م +من آنم کہ از سنگ آئینہ سا ز م +من آنم کہ از زہر نو شینہ سا زم +﴿تر جمہ :۔تُو نے را ت پیدا کی اور میں نے چرا غ بنا یا ۔ تو نے مٹی بنا ئی میں نے نفیس جا م بنا لیے۔ تو نے پہا ڑ ، راہگز ار اور جنگل بنا ئے میں نے خو بصو ر ت گلز ا ر اور پھلدا ر در ختو ں کے با غ بنا لیے۔ میں وہ ہو ں کہ پتھر سے میں نے آئینے بنا لیے اور زہر سے تر یا ق تیا ر کر لیا ، انسانوں کو لا حق بے شما ر رو حا نی اور جسمانی امرا ض کا علا ج در یا فت کر لیا اور اپنے آپ کو بجا طو ر پر خلافت اِر ضی کا مستحق ثا بت کر دیا ۔ اس نے فطرت کے ہر چیلنج کو قبول کیا اورخدا کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کامران وفیروزمند ہوا۔﴾ +’’ کر شمہ دامن دِل می کشد کہ اینجا است ‘‘ +ایک طو فا ں خیز دریا اپنی طغیا نیوں اور رو انیوں میں سب کچھ بہا ئے لیے جا تا ہے، اچا نک ایک تنکا گر تا ہے اور دریا کی حشر سا ما نیوں سے الجھنے لگتا ہے ۔وہ اعلا ن کر تا ہے کہ در یا کے تند و تیز د ھا رے کا رُخ مو ڑ دے گا۔اُسے اپنے بہا ئو کو با لکل اُلٹ سمت میں بد لنا ہو گا اُ سے پیچھے کی طر ف چلنا ہو گا اور دنیا حیر ت سے تکنے لگتی ہے ۔ +الجھ رہا ہے زما نے سے کو ئی دیو انہ +کشا کشِ خس و دریا ہے دید نی کو ثر +اور پھر تا ریخ یہ معجز ہ دیکھ لیتی ہے کہ دریا کی سا ر ی مو جیں اُس تنکے کے اشا ر وں پر اپنا رُخ بد ل لیتی ہیں ،دھا ر ے پیچھے کی طرف ، اپنی مخالف سمت میں بہنے لگتے ہیں ۔ ایک کو مل کو نپل دُو ر تک دہکتے انگا رو ں اور بھڑ کتے ہو نکتے شعلو ں کے جہنم میں کُو د جا تی ہے۔ اس حیرا ن کُن اعلا ن کے سا تھ کہ ان شعلو ں کو گلزا رِ پرُ بہا ر میں بد لنا ہو گا ۔ یہ انگا رے پُہو ل بن کر رہیں گے۔ ساعتوں کی نبضیںِ دھڑ کنا بند کر دیتی ہیں۔ لمحو ں کی سا نسیں رُک جا تی ہیں، وقت تھم جا تا ہے کہ ان منظرو ں کی ہو شر با ئی سمیٹ کر آ گے بڑ ہے گا اور پھر وہ کچھ ہو جا تا ہے جسے دما غ نا ممکنا ت میں شما ر کر رہے تھے ۔ +یہ جو کچھ میں نے لکھا کوئی شا عر ی نہیں ، کو ئی افسا نہ نہیں ، دیو تا ئو ں کی مفر و ضہ وا دیوں کا قصہ نہیں، بھٹکتے خیالوں کے خلائوں کی با ت نہیں ، بد مست اور مد ہو ش آنکھوں میں لٹکا کوئی اند ھا خوا ب نہیں، یہ سب کچھ ہوُا ،اسی دھر تی پر ہوُ ا ، اسی آسما ن کے نیچے ہوُا ،یہی سو ر ج اسکا گوا ہ ہے ، یہی چا ند اسکی شہا د ت ہے، یہی ستا رے ،یہی کہکشا ں اسکے عینی شا ہد ہیں۔ از ل سے در بد ر بھٹکنے والی ہر گھر میں، ہر دشت و در میں ،ہر غا ر میں، ہر خا ر زا ر میں ، ہر با غ میں ، ہر دا غ میں جھانکنے والی اور ہر سمند ر کی مو ج مو ج سے لپٹ لپٹ جا نے والی ہو ا ،جگہ جگہ اسکی تصد یق ثبت کر تی پھر رہی ہے۔ انسان بڑا ہے، انسا ن عظیم ہے ، اسکی رفعتوں کے آگے سب کچھ پست ہے۔بلندیاں اس کے قدموں کے بوسے لیتی ہیں۔اسکی عظمتوں کو ساری کائنات سجدے کرتی ہے۔ +یہ اشر ف المخلو ق ہے، یہ سب کچھ ہے ،یہ معظم ہے ، محتر م ہے ، مکرّ م ہے ۔ +وَ لَقَدْ کَرّ مَنَا بَنیْ اٰدَم +خدا نے اسے مکر م ٹھہرا دیا، اس لیے تما م مخلو ق کو ، تما م کا ئنا تی قو تو ں کواس کا احتر ام کر نا چا ہیے، اسکی تکر یم میں سر فگند ہ ہونا چا ہیے ۔ملا ئکہ نے اس کا سجدہ کیا، یہ مسجو دِ ملا ئک ٹھہرا۔ کا ئنا ت میں اس کا ور و د اپنی سلطنت میں سلطا ن کا و ر ود ہے ۔کائنا ت کو جشن منا نا چاہیے، ذر ے ذر ے کو استقبال کے پھول نچھا و ر کر نے چا ہئیں اور ایسا ہی ہو ا۔ ایسا ہی ہو تا رہا ،زمین اپنے دفینے کھول کر اسکے قد مو ں پر لٹا رہی ہے ،سمند ر اپنے خزا نے اگل رہا ہے ،پہا ڑ اسکی ٹھو کر و ں میں ہیں ۔یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ رو شنی اسکی جیب میں ہے ،تو ا نا ئیاں اسکی مٹھی میں ہیں، اسے کوئی بھی زیر نہیں کر سکتا بشر طیکہ یہ بیدا ر ہو، شعو ر آشنا ہو، خو د کو اپنے پر منکشف کر دے ، اپنے آپ کو پہچان لے ۔ +تسخیر ِ کائنات ہے تسخیر ِ ذات سے +ہم لوگ آشنا نہیں اپنی صفات سے +بلا شبہ کا ئنا ت میں ایسے آدمیوں کی کمی نہیں جنہو ں نے اپنی او لوا لعز می سے ایسے ایسے کا ر نا مے کر دکھا ئے جنہیں آج بھی ہمتیں نا ممکنا ت شما ر کر تی ہیں اور جو لا نیا ں محا ل دیکھ کر مُنہ مو ڑ لیتی ہیں۔ کہہ دیا جا تا ہے یہ سب کل کی با ت ہے ،تاریخ کی کہا نی ہے ۔کیا خبر اس میں کتنی صدا قت ہے اور کتنی قلم کی رنگ آمیز ی ، کتنی سچا ئی ہے اور کتنی ،لفظو ں کی صنا عی ، کتنی مو تیوں کی اصلی چمک ہے اور کتنی جھو ٹے نگو ں کی ریز ہ کا ری ، یُوں کو شش کی جا تی ہے کہ اپنی دُو ں ہمتی کا جواز تلاش کیاجا ئے۔ اپنی پستیٔ حوصلہ اور اپنے ضعفِ عز م و عز یمت پر پر دہ ڈا ل دیا جا ئے ۔دن کو رات کہہ کر کچھو ئے کی طرح سر اپنی سنگین کھا ل میں چھپا کر سو لیا جا ئے ،مگر سو ر ج کی شعا عیں بند آنکھوں کو کھلنے پر مجبو ر کر دیں تو آدمی سو ر ج کا انکا ر کیسے کر ے ؟ آج کے رو شن پل کو گزری را ت کا تا ریک لمحہ کیسے کہا جا ئے ۔ آنے والے صفحا ت میں ایک ایسے پُر عزم اور با ہمت مر د مو من کی انتھک جد و جہد کا ذکر آرہا ہے جس نے اپنی زند گی کے ایک ایک پل سے صد یا ں کشید کی ہیں۔ ہر ہر لمحہ کو جا و دا ں کیا ہے اور جس کی جد و جہد اپنی فتح مند یوں کی تا ریخ سے سر شا ر برا بر آگے بڑھ رہی ہے، جس نے اپنے سفر میں گن گن کر قد م اٹھا ئے ہیں اور ہر ہر قد م میں سینکڑ وں میل طو یل منزلیں ما ری ہیں ۔ اُس کا سفر آج بھی جا ری ہے۔، اُس کا بڑھا پا جو ا نی سے زیا دہ جوا ن ہے اور اس سفرِ شوق میں کہیں بھی خستگی اور تھکن اسکے پائوں کی زنجیر نہ بن سکی بلکہ اُس کاہر اگلا قدم پہلے سے زیا د�� تیزی اور طو فا ں بر دو ش جولانی سے اُٹھا ہے اور وہ دعا ئیں ما نگ رہا ہے کہ سفرِ شو ق میں وہ مر حلہ نہ آئے جسے منزل کہہ کر وہ کمر کھو ل دے۔ +ہر لمحہ نیا طور ، نئی برقِ تجلیٰ +اللہ کرے مرحلہ ئ شوق نہ ہو طے + + +ا اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں : +1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے، ارشاد ربانی ہے : +يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً. +’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘ +2۔ اﷲ تعالیٰ کے اجر کے استحقاق میں دونوں برابر قرار پائے۔ مرد اور عورت دونوں میں سے جو کوئی عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے : +’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو‘‘ +3۔ نوزائیدہ بچی کو زندہ زمین میں گڑھ جانے سے نجات ملی۔ یہ رسم نہ تھی بلکہ انسانیت کا قتل تھا۔ +4۔ اسلام عورت کے لئے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔ +5۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانہ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔ +6۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا ہے۔ وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : +لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًاO +’’مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہےo‘‘ +7۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔ +حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔ +8۔ وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اسلام نے بیٹی کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ ارشاد ربانی ہے : +يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ. +’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے۔‘‘ +9۔ قرآن حکیم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی اور سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بیان کرتے ہوئے قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا گیا : +’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔‘‘ +اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے۔ +بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3 1114، رقم 2896 +11۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے بھی اچھی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ عورت کو کم تر درجہ کی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت نظر انداز کر دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : +’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘ +گویا مندرجہ بالا قرآنی آیات و احادیث نبوی سے پتہ چلا کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں نہ صرف باعزت مقام و مرتبہ عطا کیا بلکہ اس کے حقوق بھی متعین کردیئے جن کی بدولت وہ معاشرے میں پرسکون زندگی گزار سکتی ہے۔ + + +شعر کہنا مجھے مرغوب ہے سو کہتا ہوں ، شعر میں نئی زمینیں دریافت کرنا اور نئے مضامین ڈھونڈ نکالنا میری ترجیحات ہیں ۔ + + +خانہ ء لاشعور میں کھڑکیاں بج رہی تھیں۔چمکتی بجلیوں میں پنجابی فلموں کے ہیرو صوراسرافیل پھونک رہے تھے ۔بادلوں میں روشنیوں کی رقاصہ آخری کتھک ناچ رہی تھی۔بھادوں بھری شام کے سرمئی سیال میں زمین ڈوبتی چلی جا رہی تھی ۔پگھلا ہوا سیسہ سماعت کا حصہ بن گیا تھا ۔مرتے ہوئے سورج کی چتا میں ڈوبتے ہوئے درخت چیخ رہے تھے۔پرندوں کے پروں سے آگ نکل رہی تھی ۔ ٹوٹتے تاروں کے مشکی گھوڑوں کی ایڑیوں سے اٹھتی ہوئی کالک زدہ دھول میں کائنات اور میں گم ہوچکے تھے۔سٹریٹ لائٹ کی آخری لوبھانپ بنتی ہوئی تار کول میں ضم ہوچکی تھی ۔سائے دیواروں کو چاٹ چکے تھے ۔آسماں گیر عمارتیں مقام ِ صفر سے مل چکی تھیں ۔انڈر گراونڈ ٹرینوں کی طرح بہتا ہوا لاوہ سرنگوں میں دوڑ رہا تھا۔چٹانوں کے ٹکڑے نرم نرم ریشوں میں ڈھل رہے تھے ۔آہنی چیزوں میں کپاس کے پھولوں کا گداز در آیا تھا۔کُن کا عمل وقت سے کئی لاکھ گنا زیادہ تیزہو چکا تھا۔ہوا نے آخری ہچکی لی اوراچانک شعور کے بیڈروم میں میری آنکھ کھل گئی +یہ دوہزار بائیس قبل از مسیح کی ایک خوشگ��ار صبح تھی ۔میں اوربہلول ایک قافلے ساتھ دھن کوٹ سے لہوار جارہے تھے۔ ابھی شہر سے نکلے ہوئے ہمیں تھوڑی دیر ہوئی تھی۔اس وقت دریائے سندھ ہمارے سامنے تھا۔پہاڑوں کی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی دریاکی موجوںکے گرم خرام میں نرم روی آرہی تھی ۔کنارے پر تھرتھراتی ہوئی کشتیاں پرسکون ہوتی جارہی تھیں۔ان میں سامان لاد جا رہاتھا۔اونٹ اورگھوڑے بھی کشتیوں پر سوار ہونے تھے۔دریا پر زندگی جاگ چکی تھی۔ساحل چہک رہا تھا ۔جہاں ہم کھڑے تھے ہمارے بالکل پیچھے نمک کی کان تھی۔ہمارے دائیں طرف سرسبز وشاداب کالا باغ کی بستی تھی بائیں طرف بے آب و گیا ہ کوہساروں کا سلسلہ تھا۔ہمارے سامنے دریا کے اس پار کوریوں کی بستی ’’ماڑی ‘‘ تھی جہاں کچھ سال پہلے کوریوں اور پانڈوں کے درمیان خوفناک لڑائی ہوئی تھی۔اتنا خون بہا تھا کہ دریائے سندھ کے پانی کا رنگ بھی سرخ ہو گیاتھا۔کئی چٹانوں پر ابھی خون کے داغ موجود تھے جہاں ہر جمعرات کو لوگ سرسوں کے تیل کے دئیے جلاتے تھے۔تھوڑی دیر میں قافلہ کشتیوں میں سما گیا۔جیسے ہی کشتیاں دریا کے درمیان میں پہنچیں تو پہاڑ پرنشیب سے فراز تک پھیلا ہوا کالاباغ شہر دکھائی دینے لگا۔آنکھیں ابھی اس منظر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ ہم دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔قافلہ کشتیوں سے اتر آیا۔اور ماڑی شہر کو ایک طرف چھوڑ کر آگے بڑھنے لگا۔ +اب ہم کئی کوس چل چکے تھے ۔دریا کے پانی سے دوشیزہ رہنے والی زمینیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں ۔اس وقت ریت کا لق و دق تھل کاصحرا ہمارے دائیں طرف بہہ رہا تھااور چچالی کا بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلے کی دیوتائوں کے ہاتھوں سے تراشی ہوئی سربلند دیوار بائیں طرف تھی۔ابھی سورج دوپہر کے نیزے تک نہیں پہنچا تھاہم آسمان سے ہمکلام ہوتی ہوئی دیوار کے سائے سائے چل رہے تھے ۔ ہم صرف چند لوگ نہیں تھے یہ ایک بڑا تجارتی قافلہ تھا سب تاجروں کے پاس دو طرح کا سامان تھا ،ہر تاجر کے سامان ایک حصہ’’ نمک‘‘ پر مشتمل تھا۔یہ بڑا قیمتی نمک تھا۔ کالاباغ کی کانوںسے نکلنے والے اس نمک کی شہرت ہڑپہ اور موہنجو داڑو تک پھیلی ہوئی تھی ،اس نمک کو پچاس خچروں پر لادا گیا تھا۔سامان کا دوسرا حصہ سندھو گوزہ گر کے نگار خانے میںبنائے گئے برتنوں اورکچھی کے ترنجنوں میں بنے ہوئے ریشم کے نازک پارچہ جات پرمشتمل تھاکچھی کے جنگلات سے حاصل ہونے والے ریشم کی چمک سونے سے کم نہیں تھی۔ اکثر خریدار یہ سمجھتے تھے کہ یہ سونے کی تاروں سے بنا ہوا کپڑا ہے۔سامان کے اس حصے کو بائیس اونٹوں پر مضبوطی کے ساتھ باندھا گیا تھا ۔ایک بوڑھا تاجر جو ہمارے قریب چل رہا تھا اس نے بہلول سے پوچھا +’’ نوجوان تم کیابیچنے جا رہے ہولہوار‘‘ +بہلول نے آہستہ سے کہا +بوڑھے تاجر نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور کہا +’’جانتے ہو دماغ کسے کہتے ہیں ‘‘ +’’ہاں دماغ دیوتائی عقل کے منبع کو کہتے ہیں جوروح کو سمجھنے کی اہلیت رکھتاہے ‘‘ +’’روح اس مکمل وحدت کی ایک کرن ہے جو ہر شے کی اصل ہے‘‘ +اب بوڑھے تاجر نے محبت بھرے انداز میںبہلول کو دیکھااور بولا +’’میری دعاہے کہ تم جس مقصد کے لئے جارہے ہو اس میںعقل کا دیوتا تم پر مہربان رہے تمہاری باتوں سے الہام کی خوشبو آتی ہے الہام جو زندگی کی رہنمائی کیلئے روح ِ ِکل کا سب سے بڑا انعام ہے‘‘ +چلتے چلتے اچانل قافلہ رک گیا کسی اونٹ پر بندھی ہوئی پسے ہوئے نمک کی بوری میں سوراخ ہو گیا تھا۔بوڑھا تاجر ہمیں چھوڑ کر اس سمت بھاگا۔میں نے بہلول سے کہا +’’بوڑھا تاجر ایسا بھاگا ہے ج��سے بوری سے نمک نہیں سونا بہہ رہا ہو‘‘ +’’میرے نزدیک تو یہ نمک سونے سے زیادہ اہم ہے۔ تمہیں معلوم ہے جس کان سے یہ نمک نکلتا ہے اس میں کام کرنے والوں کی عمر چالیس سال سے زیادہ نہیں ہوتی +میں نے حیرت سے کہا +’’نمک ہڈیوں کو چاٹ جاتا ہے۔۔۔انسانی زہر کے تریاق ہر بوری،انسانی سانسوں کا اجتماع ہوتی ہے اور سانس سے زیادہ قیمتی شے اس کائنات میں اور کوئی نہیں‘‘ +میں نے سوچتے ہوئے کہا +’’انسانی زہر کا تریاق۔۔یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی ‘‘ +بہلول نے مجھے حقارت بھری نظر سے دیکھاجیسے اس واسطہ کسی بہت ہی کند ذہن شخص سے پڑ گیا ہو اور کہنے لگا +’’انسان بنیادی طورپر ایک زہریلا جانور ہے۔بہت زیادہ زہریلا جانور۔۔وہ انسان جو نمک نہیں کھاتے وہ اتنے زیادہ زہریلے ہوتے ہیںکہ غلطی سے انہیں کبھی اڑنے والا کوبراکاٹ لے توخود مرجاتا ہے۔‘‘ +مجھے پھر حیرت سے پوچھنا پڑ گیا‘‘ +’’میں سانپوں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں مگرکوبروں کی کوئی ایسی نسل میری نظر سے نہیں گزری جو اڑ بھی سکتی ہو‘‘ +’’اڑنے والے کوبرے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پر ہوتے ہیں ۔ یہ کوبرے دراصل بہت لمبی چھلانگ لگانے پر قادر ہوتے ہیں اسی چھلانگ کے دوران ڈس بھی لیتے ہیں ۔یہ دنیا کا سب سے زہریلا سانپ ہوتا ہے‘‘ +میں بحث کرتے ہوئے کہا +’’مجھے اس نسل کا پتہ ہے مگر یہ کوبرے نہیں ہوتے‘‘ +بہلول میری بحث سے اکتا کے بولا +’’ اچھا بھی یہ کوبرے نہیں ہوتے ہونگے ۔ مجھے تمہاری یارو سنیاسی سے کرانی پڑے گی اس کے مخبوں میں کئی ایسے کوبرے موجود ہیں اور خود یارو سنیاسی کوبرے سے زیادہ زہرہلا ہے‘‘ +’’کیا اس نے ساری زندگی نمک نہیں کھایا‘‘ +’’اس کا تعلق جس قبیلے سے کہا اس میں نمک کے استعمال کا ابھی رواج شروع نہیں ہوا۔اس قبیلے کی لڑکیاں اور لڑکے صرف ایک دوسرے سے شادی کرتے ہیں ۔ان کا کوئی فرد کسی نمک کھانے والے سے شادی کرلے تو بیچارے کی فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔ یارو سنیاسی کی دو بہت خوبصورت بیٹیاں ہیں مگر لوگ ان کے قریب سے بھی ڈر کر گزرتے ہیں‘‘ +اور کہیں قریب میں آک کا کویا پھٹا اور زندگی جاگی۔ہوا کے جھونکے نرم نرم ریشوں اپنے پروں پر سجا کر اڑنے لگے۔ آک کے کچھ ریشے پرمیرے چہرے سے لپٹ گئے اور ادھر بوڑھا تاجر میری طرف متوجہ ہوامگر اس کے کچھ کہنے سے پہلے سائیکی نے میرا کندھا پکڑ کر مجھے جھنجھوڑ دیا اور میں دوہزار دس عیسویں میں واپس آگیا میں وہیں بریڈفورڈ کے کارلائل بزنس سنٹر میں بیٹھا ہوا تھاکھڑکی سے آتی ہوئی دسمبر کے سورج کی برفاب شعاعیںسیدھی سائیکی کے چہرے پر پڑ رہی تھیں ۔اس کا چہرہ دوسو واٹ کے دودھیابلب کی طرح روشن تھاحالانکہ سائیکی کی رنگت گندمی مائل تھی ایک آدھ سکینڈ میری نظریں اس روشنی پر مرتکز ہوئیں توسائیکی پیپر کٹر کو اپنی انگلیوں میں گھماتے ہوئے کہنے لگی +’’یہ کہاں کھو جاتے ہو اتنی اتنی دیر۔۔ میں کتنی دیر سے تمہارے سامنے کھڑی ہوں اور تمہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی‘‘ +میں نے ہاتھ سے اپنے چہرے پر چپکے ہوئے آک کے نرم ریشے ڈھونڈتے ہوئے کہا۔’’میں ذرا بہلول کے ساتھ تھا‘‘ +’’بہلول بہلول۔۔جاگتے میں بہلول ۔ سوتے میں بہلول ۔۔کہیں تم پاگل ہی نہ ہو جائو اسے سوچ سوچ کر ۔تم نے تو اسے اس طرح حواس پر طاری کر لیا ہے جیسے تمہاری زندگی میں میانوالی کے اس قدیم فلاسفر سے اہم شے کوئی اور ہے ہی نہیں ۔۔‘‘ +میں نے سائیکی سے کہا +’’وہ مجھے اچھالگتا ہے اس کے ساتھ جب میں گفتگو کرتا ہوں تو یقین کرو مجھے یوں احساس ہ��تا ہے جیسے وہ اور میں ایک ہی زمانے میں ہیں۔ میں اسے محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے اس کی سانسوں کی آواز تک سنائی دیتی ہے ۔میں اسوقت دو ہزار سال پرانی صاف ستھری ہوا میں اڑتے ہوئے آک کے نرم نرم ریشوں کو مس کر رہا ہوں۔‘‘ +سائیکی مجھے سنجیدگی سے دیکھتے ہو ئے کہنے لگی +’’مجھے تو شک پڑنے لگ گیا ہے تمہاری ذہنی حالت پر۔۔ پتہ نہیں یہ آقا قافا تم سے کیا چاہتا ہے ‘‘ +’’میں نے تم سے ذکر کیا تھا اپنے مرشد کا ۔تمہاری طرح بڑے اچھے شاعر ہیں۔ ان سے میں نے تمہارے متعلق بات کی تھی وہ تم سے شاید ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ +میں نے ہنس کر کہا +’’ شاید۔۔ شایدکیوں ۔۔ ویسے تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میںایک آزاد خیال مسلمان ہوں اور ان پیری مریدی کے سلسلوں کو روزی کے دھندے سمجھتا ہوں ۔بیچارے مرید یہ سمجھتے ہیں یہ پیر ہمارا رکھوالا ہے اور پیر سمجھتے ہیں کہ یہ اون سے بھری ہوئی بھیڑیں ہیںجن کی کھال ذبح کیے بغیر بھی اتاری جا سکتی ہے‘‘ +’’ میں تمہیں جانتی ہوں۔۔ اتنے دنوں میںکسی کے عقائد اور نظریات تو ایک طرف اس کی روح کو بھی سمجھا جاسکتا ہے‘‘ +’’ اتنے بڑے بڑے دعویٰ اچھے نہیں ہوتے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ۔وقت کا کالا انجن بیچارہ ۔ہمارے بیچ۔رک رک کے چل رہا ہے۔اتنی آہستگی سے تو ماڑی انڈس سے عیسیٰ خیل جانے والی ریل گاڑی بھی نہیں چلتی تھی‘‘۔ +سائیکی ہنس کر بولی ’’ +میں اس ریل گاڑی کے متعلق تم سے زیادہ جانتی ہوں وہی جو اڑھائی فٹ کی ریلوے لائن پر چلا کرتی تھی‘‘۔ +میں نے اس کی معلومات سے خوفزدہ ہوکربات بدلتے ہوئے کہا +’’بہلول نے کہا تھاآدمی کی پہچان سفر میں یا خواب میں ہوتی ہے۔ابھی نہ تو ہم نے مل کر سفر کیا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خواب دیکھے ہیں ‘‘ +سائیکی زچ ہو کر بولی +’’ یہ بہلول زندہ ہوتا تو میں اسے مار دیتی ۔ ۔ +سائیکی نے مصنوعی غصے سے پیپر کٹر کی نوک میری ہاتھ میں چبھوئی اور کہا +’’میں کوئی دھان پان کی لڑکی نہیں ہوں ۔ کئی بار موت کے کھیل میں شریک رہی ہوں ۔مرتے ہوئے لوگوں کا بغور مطالعہ کیا ہے میں نے‘‘ +میں نے سائیکی کی ہولناک دعوئوں سے صرف ِ نظرکرتے ہوئے کہا +’’ ایک بات پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا۔‘‘ +’’میں دو مرتبہ تمہارے گھر گیا ہوں ۔ میں نے دونوں مرتبہ کھڑکی سے تمہیں لیونگ روم میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تھامگر تم اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی یا دروازے کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ تمہاری ملازمہ نے آکرجب مجھے لیونگ میں بیٹھا دیا تو تم پھر لیونگ روم داخل ہوئی ۔ اس کا سبب کیا ہے‘‘ +’’صرف اسلئے تمہارے آمد مجھے نہ اٹھنا پڑے ۔ بلکہ میری آمد پر تمہیں کھڑا ہونا پڑے ‘‘ +میں نے ماتھے پر پھیلتی ہوئی شکنوں کو کم کرنے کیلئے سگریٹ کی ڈیبا سے سگریٹ نکالا اور اسے لائیٹر سے جلاتے ہوئے کہا +’’سائیکی یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ‘‘ +’’میں بس ایسی ہی ہوں اور ایسی ہی رہنا چاہتی ہو۔۔ ۔ تم یہ بتائو کہ تم جیسے ہی پیکٹ سے سگریٹ نکالتے ہو فوراً اسے جلاتے ہو ۔اتنی تیزی سے سگریٹ جلانا تمہیاری شخصیت کو زیب نہیں دیتا‘‘ +’’سائیکی مجھے اپنے ہاتھ میں ان جلا سگریٹ کسی انگارے کی طرح محسوس ہوتا ہے ‘‘ +سائیکی نے حیرت سے کہا +’’وہ کیوں ۔۔ میرے پاس اکثر ’سر پٹیل آتے ہیں ۔ میں ان کیلئے بھی کبھی کھڑی نہیں ہوئی‘‘ +’’پٹیل اس لئے بڑا آدمی ہے کہ اسے ملکہ برطانیہ نے نائٹ ہڈ کا خطاب دے رکھا ہے ‘‘ +’’نائٹ ہڈ کا اعزاز یعنی سر کا خطاب آسانی سے کسی کو نہیں ملتا ‘‘ +’’یہ سر۔۔ور اپنے پاس رکھو۔مجھے تو اس لفظ سے اپنے اجداد کے خون کی بو آتی ہے ‘‘ +سائیکی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی +’’اوہ یہ تم نے کن باتوں میں الجھا دیا ہے میں تویہ کہنے آئی تھی کہ میں ایک گھنٹے کے بعد آئوں گی ہم دونوں قنے تین بجے آقا قافا کی مجلس میں شریک ہونا ہے ۔ ادھر ادھر مت ہو جانا ۔۔ہمیں وہاں جانا ہے ‘‘ +’’جب تم نے کہہ دیا ہے کہہ جانا ہے تو پھر جانا ہے ‘‘ +میرا جملہ ابھی آدھا تھا کہ سائیکی کمرے سے باہر جا چکی تھی۔اور میرا بزنس پارنٹر ورما اندر داخل ہوا اور ہنس کر بولا +’’سائیکی سے تمہاری دوستی کچھ لمبی نہیں ہوگی ؟۔کبھی اس کے بارے میں کچھ بتایا نہیں۔میں کافی دیر سے اس کے جانے کا انتظار کر رہا تھا ‘‘ +’’میرا وہ دوست رضا ملال ہے نا لیڈز یونیورسٹی میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کا چیئرمین۔۔ اس نے ایک دن سکرپٹ رائیٹنگ کے موضوع پر لیکچر دینے کیلئے مجھے یونیورسٹی میں بلایاتھا۔انگریز طالب علموں نے تو میرے لیکچر میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی مگرایک ایشین لڑکی لیکچر کے بعد میرے سر ہوگی ۔ ۔۔ خوبصورت تھی اس لئے میں نے بھی اس میں دلچسپی لینی شروع کردی ۔‘‘ +’’ہاں ہاںپہلے پہلے سائیکی تم سے تو صرف سکرپٹ رائیٹنگ کے حوالے کچھ پوچھنے ہمارے دفتر آیا کرتی تھی‘‘ +’’ اس نے اپنے لکھے ہوئے ایک ڈرامہ سریل کے پانچ ایپی اسوڈ کا مسودہ مجھے دیا تھا مگر مجھے وقت ہی نہیں ملااسے پڑھنے کا‘‘ +ورما طنزیہ انداز میں ہنس کر بولا +’’ہاں جب سائیکی جیسا خوبصورت سکرپٹ پڑھنے مل جائے تو پھر کاغذوں سے کچھ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ +’’ نہیں وہ ایسی ویسی نہیں ہے ۔بس خالی خولی دوست ہی ہے۔بڑی انا ہے اس میں ۔ اپنے آپ کو کوئی بہت توپ چیز سمجھتی ہے ۔اکیلی رہتی ہے ۔اکثر لوگوں سے اس کارویہ غلاموں جیسا ہوا ہوتا ہے ۔اس نے گھر میں ملازمہ رکھی ہوئی ہے ۔فل ٹائم ملازمہ ۔اور وہ برطانیہ میں بھی اس کے سامنے سہمی ہوئی کھڑی ہوتی ہے ۔ +ورما نے حیرانگی سے کہا +’’یہاں برطانیہ ملین ائیر بھی گھر میں ملازم نہیں رکھتے۔لگتا ہے اس کے پاس بہت دولت ہے۔ کام کیا کرتی ہے ۔کوئی بزنس ہے اسکا‘‘میں نے کہا’’ نہیں کوئی کام نہیں کرتی ۔میں نے ایک بار پوچھا تھا اس سلسلے میں تو کہتی تھی باپ دادا بہت چھوڑ گئے ہیں اس لئے نسلوں تک ختم نہیں ہو گا۔ +’’اکیلی لڑکی ہمیشہ پارٹنر کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ کئی ایسی بھی ہوتی ہیں جہنیں ہر رات نئے پارنٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے کہا’’نہیں ورما اس حوالے بہت مضبوط لڑکی ہے ۔ایک بار اتفاق سے میرا ہاتھ اس کے جسم کے کسی حصے سے جا لگاتھا جس پر وہ کئی روز تک ناراض رہی تھی ۔باقاعدہ منانا پڑا تھا‘‘ +ور ما نے حیرت سے کہا +’’اتنے خوبصورت ’’اتفاق ‘‘ سے ناراض ہو گئی تھی ‘‘ +’’اسے چھوڑو یہ بتائو آج میرے لئے کوئی کام ہے ۔ +’’ کام ۔۔ تمہیں محبت کرنے کے سوا اور کوئی کام آتا ہے کیا ‘‘ +اور چیک بک میرے سامنے میز پر پھینک کرکمرے سے باہر نکل گیا۔۔ چیکوں پر دستخط کرتے ہوئے میں نے فائلوں والی ٹرے میں نظر دوڑائی تو مجھے اس حقیقت کا احساس ہواکہ جب سے میں نے ورما کو اپنا بزنس پارٹنر بنایا ہے میرے پاس دفتر میں چیک سائن کرنے کے سوا کوئی کام نہیں رہا۔لکھنے پڑھنے کا کام چھوڑے ہوئے بھی کئی سال ہو گئے تھے ۔وقت نے مجھے کہا تھا کہ چیک پہ چلتا ہوا قلم میر و غالب کے قلم سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے تو میں نے اپنی بال پوائنٹ کو پارکر کے ایسے پین سے بدل لیا تھا جس میں سونے کی نب لگی ہوئی تھی پھر مجھے یاد آیا کہ بہلول اور میں تو لہوار جا ��ہے تھے +صحرا کی دھوپ میں دھلی ہوئی ہواکا ایک ریت سے بھرا ہوا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔اور بہلول کہنے لگا +’’اس ہوا کے بارے میں بابا کہا کرتے تھے۔ یہ ازل سے سفر میں رہنے والی بے شکل بلا کبھی کبھی صحرا میں پاگل اونٹنی کی طرح کاٹنے لگتی ہے یہ نظر آئے تو ناگ دیوتا کے ہاتھ سے چہرہ ڈھانپ لیا کرو‘‘ +میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا +بہلول میری طرف دیکھ کر بولا +’’ تمہیں تو ہر بات بتانی پڑتی ہے۔۔یہ جو ہم بل دے کر سر پر چارد کی کنڈلی مارلیتے ہیں یہ ناگ دیوتا کی علامت ہے ۔ ناگ دیوتا کا ہاتھ۔۔پگڑی کے پلوکو کہا جاتا ہے۔۔۔‘‘ +اور میں نے بھی بہلول کی طرح پگڑی کے پلو کو چہرے کا نقاب بنا لیا۔کچھ دیر ہم خاموشی کے ساتھ چلتے رہے۔اچانک میری نظر پہاڑ کی طرف اٹھی تو ایک سلیٹ کی طرح سیدھی چٹان پر کچھ تصویریں بنی ہوئی تھی ۔میں نے بہلول کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگا +’’ میں تم سے پہلے پڑھ چکا ہوں‘‘ ۔ +میں نے حیرانگی سے پوچھا +’’کیا یہ کچھ لکھا ہوا ہے ‘‘ +’’تم بولتے بہت ہو ۔۔ہاں یہ قطبی ستارے کی شان میں لکھا ہوا ایک دراوڑی گیت ہے ‘‘ +اور بہلول گیت پڑھنا شروع کردیا +ابھے پاسے بکھداے ہن دے لیکھ دا تارہ +گندھیاے جیدے لشکاراںبھگوان دا گارا +ٍ ﴿شمال کی طرف سے ہنوں کے مقدر کا ستارہ روشن ہوتا ہے جس کی شعاعوں میں بھگوان کے بت کا گارا گوندھا گیا ہے ﴾ +میں نے گیت کے بول سن کر حیرت سے کہا +’’یہ تو سرائیکی زبان ہے‘‘ +’’سرائیکی ۔یہ بھی کسی زبان کا نام ہے۔یہ ہنی زبان ہے ۔ہنوں کی زبان ‘‘ +میں نے حیرت سے پوچھا +بہلول بڑی بے رحمی سے بولا +’’جتنے جاہل تم ہو اتنا جاہل تو ہمارے قبیلے کا بال کاٹنے والا بھی نہیں ‘‘ +مجھے ایسے لگا کہ آج بہلول گفتگو کرنے کے موڈ نہیں ہے سو میں نے بھی خاموشی پہن لی مگر ابھی ایک کوس ہی نہیں چلے تھے کہ اس نے مجھ سے کہا +’’ میرا خیال ہے تم زیادہ دیر میرے ساتھ نہیں چل سکو گے ۔تم دوسراپائوں ابد پر رکھنا چاہتے ہواور میں ازل کو سمجھنے کیلئے برسوں سے پہلے قدم پر رکا ہوا ہوں۔تمہارے نزدیک فلسفہ ئ صبر قاتلوں کی منطق ہے اور میں انتظارکی صدیوں بھری وحشت کا مسافر ہوں۔تم ایک چھلانگ میں معرفت کی اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کا خواب دیکھتے ہو اور میںاپنی فکری پرواز میں معرفتِ اعلیٰ کا پابند ہوںمیرے لئے اس حقیقت تک پہنچنے کے بہت سے مدارج ہیں جن سے میں نے گزرنا ہے ۔ دیکھو آندھیوں اور طوفانوں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے ‘‘ +میں نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا +’’بہلول تمہارا تعلق گائوں سے ہے اور تم یہ بھی کہتے ہو کہ تم پہلی باردھن کوٹ جیسے بڑے شہر میں آئے ہو ۔تو پھریہ اتنی عقل مندی کی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں‘‘ ۔ +بہلول ہنس پڑا اور بولا +’’ علم صرف شہروں میں لفظوں کو چبانے والے گیدڑوں کا ورثہ تونہیں۔میرے ساتھ درختوں کے پتے باتیں کرتے ہیںلہلہاتی فصلیں مجھے کہانیاں سناتی ہیں۔ان چھوئے جنگل مجھے اپنے خواب دکھاتے ہیں ۔ میری پرندوں کی گفتگو رہتی ہے۔ہوائیں مجھے لوریاں دیتی ہیں۔ سندھ کے پانی مجھ سے سر گوشیاں کرتے ہیں۔پہاڑ آگے بڑھ بڑھ کے میرے پائوں چومتے ہیں ۔ دشت میری آنکھ کی وسعت سے سہمے رہتے ہیں۔ راتوں کو ستارے مجھ سے ہمکلام ہوتے ہیں‘‘ +بہلول کے منہ سے اتنی بڑی باتیں سن کر میں نے کہا +’’تو پھرلہوارجیسے شہر میں لفظوں کو چبانے والے گیدڑ وں سے کیا لینے جارہے ہو۔‘‘ +بہلول کی پیشانی شکنوں سے بھر گئی اور بولا +’’تمہیں کہا ناکہ ماروائی اص�� تک پہنچنے کے لئے جو مدارج میں نے طے کرنے ہیں ان کیلئے کسی رہنما کی ضرورت پڑتی ہے میں نے سنا ہے کہ لہوارمیںچندروید نام کا ایک آدمی ہے جو اس سلسلے میں میری مدد کر سکتا ہے‘‘ +اور میں نے چونک کر کہا +’’یہ کیسی آواز ہے شاید کوئی گھنٹی بج رہی ہے‘‘ +اور ٹیلی فون کی گھنٹی مجھے واپس دفتر میں لے آئی ۔ فون پر سائیکی تھی کہ میں پارکنگ میں انتظار کر رہی ہوں اور چند لمحوں کے بعد میں سائیکی کی گاڑی میں کارلائل روڈ سے گزر رہا تھا ۔کار منگھم لین پر مڑی۔ اس وقت ہمارے دائیں طرف منگھم پارک تھا۔اسے دیکھتے ہی مجھے وہ شام یاد آگئی جب منگھم پارک کی جھیل میں سائیکی ساتھ بیٹھ کر میں کشتی رانی کی تھی اس جھیل میں گھومنے کیلئے پیڈلوں والی چھوٹی چھوٹی کشتیاں کرائے پر ملتی ہیں ۔ایک کشتی صرف دو آدمی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں اور وہ بھی بہت زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہو کر۔۔۔اسی کشتی رانی کے دوران میرا ہاتھ سائیکی کے جسم کے کسی نازک حصے سے ٹکرایا تھااور وہ ناراض ہو گئی تھی۔کار منگھم لین کو پیچھے چھوڑتی ہوئی کیتھلے روڈ پر آگئی۔میں نے سائیکی سے کہا +’’تمہیں معلوم ہے نا آج کتنا اہم کر کٹ میچ ہے ۔میری جیب میں دو ٹکٹ بھی موجود ہیں کہو تو گاڑی لیڈز کی طرف موڑ لوں ‘‘ +میں نے حیرت سے پوچھا +’’تمہیں کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ‘‘ +’’میرے بدن پر کرکٹ کی گیندوں کے لگے ہوئے بہت زخم ہیں ۔ہم جدھر جا رہے ہیں بس ادھر ہی جا رہے ہیں ‘‘ +میں نے مسکرا کر کہا +’’ کوئی نوکدار گیندیں تھیں ۔ کہاں سے ہوئی تھی تم پر باولنگ‘‘ +سائیکی نے بڑی معصومیت سے کہا +’’کمپیوٹر کے مانیٹر سے نکل نکل کر لگتی رہی ہیں مجھے ‘‘ +میں نے ذرا سا سنجیدہ ہو کر کہا +’’اتنی علامتی گفتگو اچھی نہیں ہوتی ۔ایک لفظ کے کئی کئی مطلب ہوتے ہیں ‘‘ +سائیکی بڑی سنجیدگی سے کہنے لگی +’’میں نے کوئی علامتی بات نہیں کی ۔۔ شاید تمہیں اس کا تجربہ نہیں ہے کبھی کبھی سکرین سے کردار باہر بھی نکل آتے ہیں۔مگر ہر شخص ان کرداروں سے ہمکلام نہیں ہو سکتا‘‘ +میں نے اس کی سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا +’’کمپیوٹر کے متعلق کتنا کچھ جانتی ہو ‘‘ +’’ تمہارے تصور بھی شاید کچھ زیادہ۔۔۔۔کمپیوٹر کا شمار میرے محسنوں میں ہوتا ہے۔تم سوچ بھی بہیں سکتے کہ میں اس کمپیوٹر کی کھڑکی یعنی ونڈو کا کتنا احترام کرتی ہوں۔ یہ جادوائی کھڑکی میرے نزدیک زندگی میں نہ آتی تو پتہ نہیں میرا کیا حشر ہوا ہوتا ‘‘ +میں نے سائیکی کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا +’’کیا احسان کیا ہے کمپیوٹر نے تم پر ‘‘ +’’میں یہاں سے پانچ ہزار میل دور ایک قید خانے میں تھی ۔جہاں مجھے صرف کمپیوٹر کی میسر تھی ۔ میں وہاں اس ونڈو میں داخل ہوئی اور یہاں برطانیہ آنکلی ‘‘ +میں نے ہنس کر کہا +’’ لگتا تو نہیں ہے مگر ممکن ہے تم کمپیوٹر کا کوئی پروگرام ہو‘‘ +سائیکی نے اور زیادہ سنجیدگی سے کہا +’’صرف میں نہیں تم بھی ایک ڈیزائن شدہ پروگرام ہو مگر ہمارا پروگرامر کوئی آدمی نہیں خدا ہے ‘‘ +اسی لمحے مجھے ایک تیز رفتار گاڑی بالکل سامنے سے آتی ہوئی دکھائی دی میں تیزی سے کٹ ماری ااورسانس بحال کرنے کیلئے گاڑی روک دی ۔ ایکسینڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا تھامیں نے سائیکی کی طرف دیکھا تووہ بڑے اطمینان سے بیٹھی ہوئی تھی۔میں نے سائیکی کہا +’’ہاں کالے وائرس بڑے خطرناک ہوتے ہیں ۔ ہمیں اللہ نے بچالیا ہے وگرنہ کمپیوٹر سچ مچ کرش ہونے لگا تھا‘‘ +یک لخت پھر لولیس کے سائرن بجنے کی آوازیں آ��ے لگی اور پھر لیولیس کاریں شاں کر کے ہمارے قریب سے گزر گئی یقینا وہ کالا پولیس بھاگ رہا تھا۔سائیکی بولی +’’اوہ تو اینٹی وائرس فورسز پیچھے لگی ہوئی تھیں‘‘ +ہم نے چند منٹ خاموشی سے سفر طے کیا۔ اچانک مجھے سائیکی کی گوری ماں یاد آئی اور میں نے سائیکی سے پوچھا +’’سائیکی تم نے تو کہا تھا تمہاری ماں انگریز تھی۔ پھر تم یہاں پانچ ہزار میل دور سے کیسے آئی ہو ‘‘ +سائیکی براسا منہ بنا کر بولی +’’مجھے ماں نے یہاں سے پانچ ہزار میل دور جنم دیا تھا ۔۔۔گاڑی آہستہ کر لو۔ ہم بس یہاں سے گیٹ کے اندر داخل ہونا ہے‘‘ +اور پھر سائیکی کے کہنے پر میں ایک وسیع عریض پیلس کے گیٹ میں گاڑی موڑلی ۔اور بر بڑاتے ہوئے کہا +’’یہ تو کوئی بہت امیر آدمی ہے‘‘ + + +﴿خواب گاہِ دماغ کی کھلی کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے باریک پردے ہوا کے زیر و بم کے ساتھ جاگ جاگ جاتے تھے۔ کمرے میں اونگتی ہوئی ہلکی نیلی روشنی لہرا لہرا جاتی تھی۔صبحِ وصال کی شعاعیں پچھلی گلی سے نکل نکل دیواروں کے کینوس پرالٹی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھیں ۔زمانے بدل رہا تھا۔شہر تبدیل ہو رہے تھے۔زبانیں بنتی اور بگڑتی جا رہی تھیں۔ روح کی تقسیم کا عمل جاری تھا۔عدم سے کچھ وجود میں آرہا تھا۔خواب کی کار چل رہی تھی۔ خیال کے پائوں اٹھ رہے تھے۔آسمان پر کچھ لکھا جا رہا تھا۔میرے ارد گرد کوئی خوشنما کہانی نبی جا رہی تھی۔کسی قبر سے زندگی کی کوپنل ابھر رہی تھی۔ +سوچوں کو بدن مل رہے تھیں ۔کائنات ِ ذات میں تحریک ہو رہی تھی﴾ +جب ہم آقا قافا کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو اندر نماز ہو رہی تھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ امام کے پیچھے دو صفیں تھی پہلی صف میںدس گیارہ نوجوان کھڑے تھے اور دوسری صف میں بھی تقریباً اتنی ہی نوجوان لڑکیاں ۔ان میں کچھ مغربی لباس میں بھی تھیں۔ یہ عصر کی نماز تھی چند ساعتوں میں ختم ہو گئی میں نے امام کے دعا مانگتے ہوئے چہرے کو غور سے دیکھا۔ یاد رکھنے والا خوبصورت چہرہ تھا۔عمر زیادہ سے زیادہ تیس سال ہونی چاہئے اس نے تازہ شیو کیا ہوا تھاوہ نوجوان امام میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز شخص تھاثبوت کیلئے یہی بہت ہے کہ اس نے پہلی نظرمیں مجھ جیسے آوارہ فکر شخص کو متاثرکرلیا تھا +سائیکی نے اس سے میرا تعارف کرایااور پھر سائیکی اور میں بھی دوسروں کی طرح مئودب ہو کرقالین پر بیٹھ گئے ۔میرے سامنے والی دیوار پر دو تلواریں ایک دوسرے کو کراس کرتی ہوئی لگی ہوئی تھیں ان کے نیچے شیر کی کھال آویزاں تھی ۔میں نے دوسری دیوار کی طرف دیکھاتو وہاں آرٹ کے تین نمونے سجے ہوئے تھے ایک صادقین کی پینٹنگ تھی جس میں ایک مشہور آیت کو اس نے تجسیم کیا ہوا تھا۔دوسرے دو نمونے مجھ سے دور تھے لیکن اتنا احساس ہو رہا تھا کہ کوئی تجریدی آرٹ کے شہکار ہیں ۔جب سائیکی نے اپنے مرشد سے ملاقات کیلئے مجھے کہا تھاتو میں نے سوچا تھاکوئی ساٹھ ستر سال کا بوڑھا شخص ہو گالمبی لمبی داڑھی ہو گی۔تعویذدھاگے کا کام کرتا ہو گااور بیچاری سائیکی اپنی ضعیف العتقادی کی وجہ سے اس کے چکر میں آگئی ہو گی مگر اس محفل میں تو سائیکی سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں موجود تھیں اور آقا قافابے پناہ پر کشش شخص نظر آتا تھااس نے بہت شاندار سوٹ پہن رکھا تھاٹائی لگائی ہوئی تھی لباس کے رنگوں میں حسنِ تناسب اس کے ذوقِ جمال کی خبر دے رہا تھامیں زندگی میں پہلی بار کسی ایسے شخص کو دیکھ رہا تھا جو سوٹ پہن کر امامت کرا رہا تھا +ایک طویل خاموشی کے بعد آقا قافا نے اپنے لب کھولے اور بڑے دھیمے لہجے میں کہا +’’آج ایک ایسا شخص ہماری محفل میں موجود ہے جس نے خواب اور حقیقت کے درمیان ایک پل بنا لیا ہے وہ جاگتے ہوئے تصور میں جہاں تک پہنچتا ہے اس سے آگے کا سفر سونے کے بعد خواب میں شروع کر لیتا ہے اور اپنے اس کمال کااسے احساس ہی نہیںشاید یہ کمال اسے بہلول کی ہمسفری سے ملا ہے۔ لیکن اسے علم نہیں کہ وہ ذہنی ارتقائ کے جس سفر پر روانہ ہونے والا ہے اس راستے پر بہلول زیادہ دیر تک اس کا ساتھ نہیں دے سکے گا۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے وہ کچھ بھی نہیں جانتا نہ اپنے بارے اور نہ ہمارے بارے میں ۔۔ وہ تو یہاں صرف سائیکی کا دل رکھنے کیلئے آیا ہے مگر مجھے بڑے دنوں سے اس شخص کا انتظار تھا۔۔شاید اس کی یا میری کوئی نیکی ہم دونوںکے کام آگئی ہے جس نے اسے سائیکی سے ملا دیا ہے سائیکی جو اس کا باطن ہے سائیکی جو اس کی روح ہے سائیکی جو روحِ کل سے اس کے رابطے کا ذریعہ ہے اور اس کی دوست بھی ۔ابھی میری باتیں اسکی سمجھ میںنہیں آئیں گی ۔ کیونکہ یہ تو وہ ہے جو اپنے گناہوں کا حساب رکھتا ہے ان پر اتراتا ہے اس کے خیال میں سائیکی اس کی زندگی میں آنے والی دوسو اکیسویں لڑکی ہے اور میرے خیال کے مطابق پہلی۔۔اسے لڑکیوں کو تسخیر کرنے میں حسن دکھائی دیتا ہے اور جب گناہ خوبصورت نظر آنے لگیں بدی خوبی محسوس ہونے لگے تو اس کا مطلب ۔ کوئی مطلق مایوسی نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شخص کا باطن مردہ خانہ بن چکا ہے جہاں ثواب اور خیر کی لاشیں پڑی ہوئی ہیںمگر روح کے ویرانوں میں جتنا بھی اندھیرا ہو جائے کوئی نہ کوئی چاند کوئی نہ کوئی ستارہ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔ عورت اور مرد کا ملاپ تو ’’کن‘‘ کے فروغ کا نام ہے ثوابِ عظیم ہے صدقہ ئ جاریہ ہے بس اتنی سی بات ہے کہ آپ خدا کی کھینچی ہوئی لکیر کے اندر کھڑے ہیں یا باہر۔۔آپ نے اسے گواہ بنایا ہے یا نہیں۔وہ جو ہر شخص کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہے۔وہ بادشاہ ہے چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق اس خوبصورت ترین عمل میں اسے بھی یاد رکھے۔ خوبصورت ساعتوں میں اسے یاد کرنا بدصورت ساعتوں میں اسے یاد کرنے سے ہزار گنا افضل ہے‘‘ +اور پھر آقا قافاکی گفتگواس موضوع کے ادر گرد گھومنے لگی کہ نیکی کیا ہے۔تقریباًوہ گھنٹہ بھر بولتے رہے اور پھر مجلس اختتام کو پہنچی۔میں باہر نکل آیا سائیکی ابھی اندر تھی کسی کے ساتھ کوئی بات کر رہی تھی میںنے آقا قافا کی ڈرائیو وے میں سائیکی کی کار کے پاس کھڑے ہو کرغور سے اس عمارت کو دیکھنا شروع کیا ۔ یہ کوئی پرانا پیلس تھالیکن اسے بہت خیال سے رکھا گیا تھا۔ محراب دار کھڑکیوں میں رنگ دار شیشے کا کام تھامحرابوں کے اور پر نیلے رنگ کے شیشے کی ایک موٹی سے لائن تھی جو محراب کے ساتھ ساتھ بل کھاتی چلی جاتی تھی ۔گھر کے باہر صحن کی دیوار سے ملحقہ ایک بڑی سے ڈیوڑھی تھی جسے پتھر کے گول گول ستونوں پر اٹھا گیا تھااور اس کے اوپر مورچے بنے ہوئے تھے یہ مورچے پیلس کے چاروں کونوں پر بھی تھے جن کے اوپر چھوٹے چھوٹے گنبد تھے محل میں داخل ہونے کیلئے اس ڈیوڑھی گزرنا پڑتا تھا ۔ ساری عمار ت پر باہر سے سنگ سرخ لگا ہوا تھا۔عمارت کے چاروں طرف وسیع و عرایض لان تھے جن میں فوارے لگے ہوتے تھے ۔ تمام چل رہے تھے ۔خزاں رسیدہ بے شمار درختوں کے باوجود کہیں کوئی پتہ زمین پر گرا ہوا نہیں تھا لان کی گھاس تازہ تازہ کاٹی ہوئی تھی پھولوں کی کیاریاں بھی ویران نہیں تھیں۔ لگتاتھا کہ اس محل کی تزئین و آرائش کیلئے آقا قافا نے کئی ملازم رکھے ہوئے ہی��۔اتنی دیر میں سائیکی محل کے دروازے سے کسی شخص کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی باہر نکلی۔وہ شخص اپنی مرسیڈز میں بیٹھ گیا اور سائیکی میرے پاس آکر بولی +میں سر کا لفظ سن کر برا سا منہ بنایااورکہا +’’پتہ نہیں سر کا لفظ سن کر میرے تن بدن میں آگ کیوں لگ جاتی ہے۔صدیوں پرانی کوئی دشمنی ہے شاید اس لفظ کے ساتھ‘‘ +پھر ہم دونوں کار میں بیٹھ گئے ۔کار چلتے ہی میں نے سائیکی سے شکایت کی کہ اس نے میرے بارے میں نجانے کیا کیا آقا قافا کو بتا رکھا ہے مگر وہ قسمیں اٹھانے لگی کہ میں نے تمہارے بارے میں ان سے کوئی بات نہیں کی۔وہ روحانی طور پر جس بات کو جاننا چاہتے ہیں اللہ تعالی انہیں اس بات کا علم عطا کر دیتا ہے۔میں نے آقا قافا کے ذوقِ جمال کی داد دیتے ہوئے کہا +’’لیونگ روم میں صادقین کی بڑی اچھی کیلی گرافی لگی ہوئی تھی ۔ یہ اورجنل ہے کاپی‘‘ +’’صرف وہی اورجنل نہیں ۔ اس طرف لیونارڈو ڈونچی کی ایک پینٹنگ بھی لگی ہوئی ہے۔وہ کئی ملین پونڈ کی ہے‘‘ +میں نے سائیکی سے کہا کہ کل بھی مجھے ساتھ لے کر جانا۔۔ اس نے مجھے میرے دفتر کی پارکنگ میں اتار دیا میں نے وہاں سے اپنی گاڑی نکالی اور معمول کے مطابق کسینو چلا گیارولیٹ کی میزیں آباد تھیں کچھ دیر ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعدمیں ایک میز کے پاس کھڑا ہو گیا پچاس پونڈ کے ٹوکن لے لیے اس میز پر مجھ سے پہلے چار آدمی اور موجود تھے۔ آج کا دن بہت اچھا تھا میں نے آغاز ہی سے جیتنا شروع کردیا تھااور رولیٹ بال گھمانے والی لڑکی نے کئی بار مسکرا کر مجھے دیکھا بھی تھا مگر حیرت انگیز طور پر آج یہاں بھی میرا دل نہیں لگ رہا تھا تقریباًآدھے گھنٹے کے بعد میں اپنے ٹوکن سمیٹتا ہوااس میز سے اٹھ گیااور پھر ایک سو بیس پونڈ کے ٹوکن واپس کرکے میں کیسنو سے باہر آگیاکار پارکنگ سڑک کے دوسرے سمت تھی میں جا کر کارمیں بیٹھا تومیری نظر کسینو کے جلتے بجھتے سائن بورڈ پر پڑی جہاں’’ نیپولین‘‘ لکھا ہوا تھا۔ میں روز یہیں کارکھڑی کرتا تھا مگر میںنے کبھی اس طرح نیپولین کو نہیں دیکھا تھا جس طرح آج دیکھ رہا تھامیرے ذہن میں نیپولین بوناپارٹ کی شبہہ بن رہی تھی۔ چھوٹے سے قد کا ایک جرنیل مجھے نظر آنے لگااس کے سینے پر بے شمار اعزازات چمک رہے تھے اور پھر نیپولین کے خدو خال میں آقا قافا کا چہرہ درآیا اس کا قد بڑھتا چلا گیااور کار پارکنگ سے باہر آگئی۔ +میں ٹائون سنٹر سے گزرتا ہوالیگرم لین پر آگیاسوچا کہ کھانا پنجاب سویٹ ہائوس پر بیٹھ کر کھایا جائے مگرکسی ان جانی طاقت نے مجھے وہاں کار روکنے نہیں دی اور میں آگے بڑھ گیاصنم ریستوران پر جا کر کار رک گئی۔اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک ٹیبل پر آقا قافا اور جاوید اختر بیدی بھی کھانا کھا رہے ہیں ۔ میں نے سلام کیا اور پھر ان کے اصرار پر اسی ٹیبل پر بیٹھ گیاجاوید اختر بیدی شعر سنا رہے تھے جو میرے بیٹھ جانے پر انہوں نے مکمل کیا +’’اور آبِ یخ سے میری طبعیت سنبھل گئی +دریا کودی دعا ۔۔۔۔۔کہ ترا خاتمہ نہ ہوا‘‘ +کھانے کے دوران ان سے ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہی۔برطانیہ میں پاکستانی فورڈ کی بڑھتی ہوئی مانگ میں مرچ مصالوںکی اہمیت پر بات ہوئی۔پھر بیدی صاحب چلے گئے ۔کچھ اور ہم نے ادھر ادھر کی گفتگو کی ۔کھانے کے بعد بل بھی زبردستی انہوں نے ادا کیااور جاتے ہوئے مجھے کہا +’’پریشان نہیں ہونا تم ذہنی طور پر کچھ عجیب و غریب ساعتوں سے دوچار ہونے والے ہو۔بہت سے ایسی کہانیاں تمہارے سامنے آنے والی ہیںجو یقین کی گلیوں میں آباد نہیں ہو سکتیں���‘ +میں نے ہنس کر کہہ کر کہا +’’پہلے بھی بہت عرصہ میری آنکھیں میرے دماغ میںایک شک اتار کراگلے جہاں کے مشاہدوں سے میرا مکالمہ کراتی رہی ہیں ‘‘ +’’وہ مشاہدہ کائناتی حیرتوں پر پھیلا ہوا تھا مگرنئے مشاہدات ذاتی حیرتوں پر محیط ہونگے ‘‘ +میںوہاں سے اپنے فلیٹ پر آگیاسونے سے پہلے معمول کے مطابق مجھے بہلول یاد آیا پھرمجھے خیال آیا کہ یہ بات آقا قافا کو کیسے معلوم ہوئی ہوگی کہ میں سونے سے پہلے خیالوں میں بہلول کے ساتھ ہوتاہوںاور اسے سوچتے سوچتے جب سو جاتا ہوں تو اس کی ہمراہی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا خواب میںشروع ہو جاتا ہے یہ وہ بات تھی جو میں نے کبھی کسی کو بھی نہیں بتائی تھی کیونکہ یہ کوئی عام زندگی کی بات نہیں تھی۔ میں نے اک دو بار یہ بھی سوچا تھاکہ اس سلسلے میںکسی ماہرِ نفسیات سے بات کروں مگرکسی انجانی قوت نے روک دیا تھا۔میں آقا قافا کو بھول کر پھر بہلول سے جاملا۔۔۔۔ قافلے نے ایک جگہ پڑائو ڈال رکھا تھاخیمے لگ چکے تھے ایک خیمے میں بہلول اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا اورمیں لیٹ چکاتھا ۔ بہلول نے میری طرف دیکھا اور پوچھا +’’ نیند آرہی ہے ‘‘ +اور میں اٹھ کی دوسری سمت سے لیٹ گیا تاکہ بہلول مجھے اور میں اس کو دیکھ سکوں ایسا کرنے سے میرے پائوں شمال کی طرف ہو گئے اور بہلول نے مجھے کہا +’’شمال کی طرف پائوں نہ کرو شمال کا احترام کیا کرو اس سمت سے دیوتائوں کا ہمراز قطبی ستارہ طلوع ہوتا ہے جو ہمیں دشت کی تاریکیوں میں راستوں سے سرفراز کرتا ہے۔۔ شمال بلندی کی سمت ہے اور بلندیاں قابلِ احترام ہوا کرتی ہیں۔۔ پانی شمال کی سمت سے بہتے ہیںکیونکہ برف بلندیوں پر اپنے نشیمن بناتی ہے ۔‘‘ +میں نے اپنے پائوں سکیڑ لئے اور کہا +’’ میں اس وقت یہ سوچ رہا ہوں کہ روح کے زیریں حصہ سے بالائی حصے کے جس رابطے کی تم بات کرتے ہواگراس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ کہیں سے بھی ٹوٹا ہوا نہیں ہے توزیریں حصے کو بالائی حصے کا احساس کیوں نہیں ہوتا ‘‘ +’’ احساس ہوتا ہے ہر شخص اپنے اندر کسی غیر مرئی طاقت کے آگے جھکنے کی جبلت کو محسوس کرتا ہے اسے کسی کو سجدہ کرنے میں تسکین ہوتی ہے یہ جذبہ روح کے بالائی حصے سے تعلق کی خبر دیتا ہے‘‘ +’’ کیا روح کی تقسیم بھی ممکن ہے ‘‘ +’’ روح تو ایک تسلسل کانام ہے چلتی رہتی ہے بڑھتی رہتی ہے اسی تسلسل کی بدولت تو نسل ِ انسانی کی افزائش ہو رہی ہے اورہاں کبھی کبھی ایک روح دو جسموں میں بھی ظاہر ہو جاتی ہے ۔بعض جڑواں پیدا ہونے والے بچوں میں علامتیں ملتی ہیں ‘‘ +’’ یعنی تم یہ کہہ رہے ہو کہ ایک روح دو جسموں میں بھی ہو سکتی ہے ‘‘ +اور پھر بہلول اور میں سو گئے میں شاید وہاں بھی سو گیا اور یہاں بھی ۔۔۔۔اور پھر قافلے والوں نے صبح ہونے سے پہلے بیدار کردیا ۔ یقینا یہ سونا اور جاگنا خواب کے اندر تھا۔۔۔خیمے اکھیڑ دئیے گئے اور قافلہ چل پڑاصبحِ صادق کی گہری ملگجی روشنی میںبہلول کا چہرہ بہت نکھرا ہوا تھااس کی صبح جیسی صادق آنکھیں میری طرف بار بار اٹھ رہی تھیں میں نے اس سے پوچھ لیا +’’کیا بات ہے بہلول ‘‘ +’’صبح کا آغاز اس روحِ کل کی یاد سے کرنا چاہئے مگر تم ابھی نیند کے حصار میں ہو ‘‘ +’’ تم اس روح کل کو کیسے یاد کرتے ہو‘‘ +’’کچھ دیر مراقبے میں رہتا ہوں جس میں صرف اس روحِ کل کو محسوس کرتا ہوں حتی کہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہوں ‘‘ +گرمی کا احساس بہت زیادہ ہوا اور میری آنکھ کھل گئی میں سونے سے پہلے کمرے کا ہیٹربند کر بھول گیا تھا اب اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا ہوا تھا میں کچھ دیر کھڑکی سے آتی ہوئی سورج کی کرنوں سے لطف اندوز ہوا برطانیہ میں سورج بھی کبھی کبھی نکلتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہی معمول کے کام شروع ہو گئے آج دفتر میں کئی میٹنگزتھیںوقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اورسائیکی کا فون آگیا کہ میں پارکنگ میں انتظار کر رہی ہوںاور ہم لیٹ ہو چکے ہیں۔۔میں فوراً اٹھ گیا کوئی کشش ایسی آقا قافا میں ضرور تھی جو مجھے اس کی طرف کھینچنے لگی تھی۔ہم جب وہاں پہنچے تو آقا قافا کی گفتگو جاری تھی وہ کہہ رہے تھے +’’ وقت کائنات کی سب سے قیمتی شے ہے سب سے انمول ہیرا ہے مگر وقت کے باب میں پھر گفتگو ہو گی۔ابھی کچھ دیر اس نوجوان کے بارے میں بات کرتے ہیںکیونکہ یہی میرا کل ہے میں نے اسی سے مکمل ہونا ہے مجھے اسی کا انتظار تھا اور ان جملوں کی وضاحت بھی ابھی نہیں کی جا سکتی۔یہ بہلول سے روح کا پوچھتا ہے حالانکہ وہ برگزیدہ شخص اتنا کچھ نہیں جانتا جتنا یہ خود جانتا ہے مگر اس کے دماغ میں ایک گرہ پڑی ہوئی ہے اس گرہ کے کھلنے کی دیر ہے بہلول جب اسے شمال کے احترام کا مشورہ دیتا ہے تو یہ سوچنے لگتا ہے کہ آج بھی ہم برصغیر کے لوگ شمال کا احترام کیوں کرتے ہیں ادھر سائبریا کے برفاب میدانوں کے سوا کچھ بھی نہیںہم جن کا ایمان ہے کہ سارے ستارے اللہ کے ہیںانہیں قطبی ستارے سے کیا نسبت ۔بہلول کے زمانے میں شاید یہاں ستارہ پرست لوگ آباد تھے ۔ بدھوں کے نزدیک بھی شمال قابل ِ احترام ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے ’’ہن‘‘ بھی شمال سے آئے تھے۔یہ سوال آج دن میں کئی بار اس کے دماغ میں آیا ہے کہ شمال میں نہ تو شاہ عبدالقادر جیلانی کا مزار ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شے جس کا ہم مسلمان احترام کرتے ہیں پھر ہم کیوں شمال کی طرف پائوں نہیں کرتے۔اور اس نے اس کا جواب بھی درست سوچا ہے کہ وہ عقائد جو ثقافت کا حصہ بن جاتے ہیںوہ مذہبی تبدیلی سے بھی انسانی سرشت سے باہر نہیں نکل سکتے۔رات میں اس نوجوان کونیپولین بونا پارٹ لگ رہا تھا اس کی وجہ یہ نہیں جانتا میں اسے بتاتا ہوں کہ بچپن میں اس نے جب نیپولین کے متعلق ایک کہانی پڑھی تھی تو شدت کے ساتھ اس کے جی میں آیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر نیپولین بنے گاسو نیپولین کے چہرے میں میرے خدو خال دیکھنے کا مفہوم دراصل اپنے خدو خال میں نیپولین کو دیکھنے کی ایک لاشعوری خواہش ہے ۔ اس کے تمام مسائل اس لاشعوری گرہ کے کھلنے تک ہیں جو میری زندگی کا حاصل ہے پھر ایک ایسا جملہ بول گیا ہوں جس کی ابھی وضاحت ممکن نہیں ۔‘‘ +آقا قافا کی گفتگو سن کردسمبر کے مہینے میں لیونگ روم کے نارمل درجہ ئ حرارت کے باوجودمیں اپنے ماتھے سے پسینے کی بوندیں پونجھ رہا تھا ۔ مجلس ختم ہوئی کار بیٹھتے ہی میں نے سائیکی سے کہا +’’زندگی میں دوسری بار کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بارے میں میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ یہ شخص انسان کے باطن میں جھانکنے کی قوت رکھتا ہے ۔‘‘ +’’ پہلا شخص کون تھا ‘‘ +’’پہلا شخص ایک مسجد کا مولوی تھا ‘‘ +’’ کوئی پرانی بات ہے ‘‘ +’’یہ انیس سو ستاسی کی بات ہے آگست کے ایک دہکتے ہوئے جمعے کی صبح تھی میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ٹھیک نو بجے اس شخص سے ملنے پپلاں گیا تھاوہ میرے بڑے بھائی کا دوست تھا وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے ہم جب وہاں پہنچے تو مولوی صاحب بڑے پیار سے ہمیں ملے ان کے حجرے میں چار لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے اور مولوی صاحب بڑے دھیمے انداز میں گفتگو کر رہے تھے ۔ بات سمجھنے کیلئے مجھے اپنی سماعت مجتمع کر کے پوری توجہ ان ��ی آواز پر مرکوز رکھنی پڑرہی تھی ۔ہمیں وہاں بیٹھے ہوئے تقریباً آدھے گھنٹہ گزراتھا کہ انہوں نے کہا ’’ جمعہ کی نماز کا وقت ہونے والا ہے اس لئے اٹھا جائے‘‘ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے میں نے سوچا کہ ہمیں اٹھانے کیلئے مولوی صاحب کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی ابھی ساڑھے نو ہوئے ہوں گے جمعہ کی نماز ایک ڈیڑھ بجے کھڑی ہوتی ہے یہی سوچتے ہوئے میں اس حجرہ، درویش سے باہر آیاتو مجھے احساس ہوا کہ سورج کو جہاں ہونا چاہئے تھا وہاں نہیں ہے۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے میں نے بھائی سے وقت پوچھا تو انہوںنے بھی میری گھڑی کی ایک لائن میں کھڑی ہوئی سوئیوں کی تصدیق کی ۔میں پریشان ہو گیاتقریبا ساڑھے تین گھنٹوں کا فرق لگ رہا تھا مجھے ۔۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ خانہ ئ ذہن سے یہ وقت کون چرا کر لے گیا ہے ۔میں ہفتہ بھر اسی وقت کی گمشدگی کے بارے میں سوچتا رہا ۔پھر ایک دن گھر سے نکلا تو میرے موٹر سائیکل کی تیز تر رفتار اس وقت دھیمی ہوئی جب میں پپلاں پہنچ چکا تھا۔ پپلاں پہنچتے ہی میرا موٹر سائیکل خوبخود اسی مسجد کی طرف مڑ گیا۔۔میں جو خدا کو نہیں مانتا تھا ۔۔میں جس نے الحاد اور تشکیک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔کئی سال سے نماز نہیں پڑھی تھی مسجد کے دروازے کے پاس جا کر رک گیا۔ شام کی نماز ہو چکی تھی نمازی مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے مسجد کے صحن میںصرف ایک شخص نمازپڑھ رہا تھا۔وہ وہی مولوی صاحب تھے شاید نفل پڑھ رہے تھے میں مسجد کے اندر داخل ہوا اور انہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگا میں شاید ان سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا ۔۔اچانک مجھے ایک دوست کی آواز سنائی دی’’شکر ہے کہ اللہ تعالی تمہیں مسجد میں لے آیا ہے رک کیوں ہو چلو وضو کرو اور نماز پڑھو‘‘میںنے اس سے کہا ’’میں نماز پڑھنے نہیں آیا میرا مولوی صاحب سے کوئی کام ہے‘‘اس نے مجھے کہا’’ دیکھواگر آج بھی تم نے نماز نہ پڑھی تو میں ساری زندگی تم سے کلام نہیں کروں گا ‘‘اور میں نے اپنے دوست کیلئے نماز پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ وضو کیا اور مسجد کے صحن میں آگیاجہاں پانچ چھ قطاروں میں پنکھے لگے ہوئے تھے جن کے نیچے صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ میں آخری صف پر ایک پنکھے کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا ۔ میرے باکل سامنے مجھ سے پانچ صفیں آگے مولوی صاحب نماز پڑھے رہے تھے میں نے ابھی کوئی الٹی سیدھی نیت باندھی ہی تھی کہ ایک طالب علم نے مولوی صاحب کے اوپر چلنے والے پنکھے کو چھوڑ کر باقی تمام پنکھوں کے بٹن آف کردئیے۔ بلا کی گرمی تھی میں نے سوچا کہ میرے دوست کا خدا بھی نہیں چاہتا کہ میں اس کیلئے نماز پڑھوں اور میں نے حیرت سے مولوی صاحب کو دیکھا جنہوں نے کھڑے کھڑے سلام پھیر لیااور جا کر میرے اوپر چلنے والے پنکھے کا بٹن آن کیا۔۔ واپس آئے اور نماز کی پھر نیت باندھ لی میں اندر سے کانپ کر رہ گیا وہ مجھ سے اتنی دور تھے کہ انہیں میرے سر پر چلنے والے پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہو سکتاتھاپھرمیری طرف ان کی پشت تھی میں آج تک اپنے دماغ کو اس بات کا قائل نہیں کر سکا کہ انہیں پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہو گیا تھا اور اگر احساس بھی ہو گیا تھا تو اس شخص سے زیادہ عظیم اور کون ہو سکتا ہے جس نے صرف ایک اجنبی آدمی کو گرمی سے بچانے کیلئے اپنی نماز توڑ دی‘‘۔ +میری بات ابھی یہیں پہنچی تھی کہ سائیکی کی کار میرے دفتر کی پارکنگ میں داخل ہو گئی ۔ میں نے سائیکی سے کہا +’’ یہ باتیں تمہیں پھر سنائوں گا دفتر میں ورما میرا ا��تظار کر رہا ہو گا ‘‘ +’’ یقینا وہ مولوی صاحب بھی آقا قافا کی طرح کوئی حیرت انگیز شخص تھے۔۔ تم ورما سے بات کرو میں ابھی ایک کام کر کے آتی ہوں ۔۔‘‘ +میں دفتر داخل ہوا تو ورما جا چکا تھا اب بیٹھنا بھی مجبوری تھی کہ سائیکی نے آنے کا کہا تھااور میں وقت ملتے ہی بہلول کی طرف چل پڑابہلول جس کے ساتھ میں تصور میں دھن کوٹ سے لہوارجارہا تھا ۔ جھلساتی ہوئی ہوا میرے چہرے سے ٹکرائی اور میں نے پگڑی کے پلو سے چہرہ ڈھانپ کربہلول سے کہا +’’ان روحوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جواپنے پروردگار کو بھلا چکی ہوتی ہیں ‘‘ +’’ اپنے اوپر ظلم کرنے والی ان روحوں پر ایک ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے جس کے سبب وہ اس مقدس وطن سے غافل ہو جاتی ہیںجو ان کا حقیقی ماخذ اور مسکن ہے اور اس سفاک اور ہولناک المیے سے دوچار ہو کراپنی علیحدگی اور خود پسندی کے خمار میں مبتلا ہو جاتی ہیں ان کی آنکھوںمیں صرف یہی مادی دنیا یہی فنا ہو جانے والی دنیا رہ جاتی ہے‘‘ +بہلول خاموش ہوا تو میں نے پوچھا +’’ان روحوں کو اپنے حقیقی وطن کی طرف کس طرح لوٹایا جا سکتا ہے‘‘۔ +’’اس کا ایک طریقہ کار ہے سب سے پہلے تو ان کے اندر خود کوجاننے کی خواہش پیدا کرنی پڑتی ہے پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ان آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت ہے یا نہیںکیونکہ انہوں نے جسے تلاش کرنا ہے وہ ان کی ذات سے جدا نہیں اور اگر انہوں نے ذات سے جدا کسی غیر کی تلاش شروع کردی ہے تو وہ پھر بھٹک گئی ہیںلیکن یہ طے ہے کہ ان روحوں کو راہ راست پر لانے کیلئے کسی بہلول کی ہر حال میں ضرورت ہے باقی روح روح میں فرق ہوتا ہے کسی کے لئے کسی بہلول کی ایک نگاہ کافی ہے اور کہیں عمر بھر کی کوششیںبے سود ہیں خود میں یعنی بہلول اپنی منزل کی تلاش میں کسی چندر وید کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ‘‘ +وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ سائیکی دفتر میں داخل ہورہی تھی۔گھڑیال کی طرف دیکھنے پرخبر ہوئی کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے میں واپس آئی ہے۔ سائیکی نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا +’’ہاں تو پھر اس مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی ؟پھر کیا ہوا ؟‘‘۔ +میں نے وہیں سے بات دوبارہ شروع کر دی +’’ میں نے نماز پڑھی سچ مچ کی نماز اور مولوی صاحب سے کوئی بات کئے بغیرمسجد سے باہر آگیا ۔باہر میرا دوست میرا انتظار کر رہا تھااس نے پو چھا کہ مولوی صاحب سے ملے تو میں نے کہا ’’ہاں میری ملاقات ہو گئی ہے ۔‘‘میرا دوست ہنس پڑا اور بولا ’’کسی وقت اس شخص سے ضرور ملنا ۔ حیرت انگیز آدمی ہے میں نے اس سے ملنے والوں کی تقدیریں بدلتی دیکھی ہیں ۔‘‘بہرحال یہ واقعہ میرے دماغ میں اٹک کر رہ گیا تھامیں نے بہت سے ہم خیال دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر گھنٹوں گفتگو کی ۔بہت سی تاویلیں بھی تلاش کیںمگر سانس میں پھانس بن کر اٹک جانے والا مولوی دماغ سے نکلتا ہی نہیں تھا تقریباً دو ہفتوں کے بعد میں نے سوچا کہ مولوی صاحب کی تقریر سنی جائے اس کے علم کا اندازہ لگایا جائے خود میں نے ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا تھا ابتدائی تعلیم مسجد سے حاصل کی تھی اور مطالعہ کا شوق مجھے لائبریری سمیت ورثے میں ملا تھا اس لئے میں خود کو اسلام پر اتھارٹی سمجھتا تھا اورشاید یہی زعم مجھے الحاد کی طرف لے گیا تھا۔ میں جمعہ کے روز جمعہ کی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مسجد میں پہنچ گیا میرے پہنچنے سے پہلے وہ تقریر شروع کر چکے تھے مسجد کا ہال نمازیوں سے بھرا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کے بالکل سامنے دوسری صف میںایک شخص کے بیٹھنے کی جگہ موجود ہے میں صفیں چیرتا ہواس جگہ تک پہنچا ۔۔ مولوی صاحب سے میری نظریں ملیںاور پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔۔ جب ہوش آیا تو میں سلام پھیر رہا تھا اور شدت کے ساتھ رو رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا گریبان پسینے سے نہیں آ نسوئوں سے بھیگا ہوا ہے ’’آنکھیں ٹکرانے ‘‘ سے لے کر ’’سلام پھیرنے تک‘‘ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ ہے میں توان ساڑھے تین گھنٹوں کی تلاش میں تھا جو کچھ دن پہلے اسی شخص کی محفل میں کھو گئے تھے الٹا ڈیڑھ گھنٹہ اور کھو بیٹھا ۔مگر اس ڈیڑھ گھنٹے کی گمشدگی نے ساری گمشدہ گُتھیاں سلجھا دیںاور میں یہ سوچ کر تشکیک کی وحشت سے باہر نکل آیاکہ میں اس خدا کے وجود کا کیسے انکار کر سکتا ہوں جس کے ایک معمولی سے ماننے والے مولوی کی ایک نگاہ برداشت نہیں کر سکا۔ میں شام کے وقت پھر اسی مسجد میں گیا اور خود کومولوی صاحب کے حلقہ ادارت میں دے دیا ۔انہوں نے دو باتیں کیں پہلی یہ تھی کہ اپنا حلقہ ئ احباب تبدیل کر لو اوردوسری یہ کہ وقت کو ضائع کرنا گناہ کبیرہ سے بھی بڑھ کے ہے قضا نمازیں تو لوٹائی جا سکتی ہیں مگر قضا ساعتیں نہیں لوٹ سکتیں ‘‘ +’’ مجھے یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں ۔میرے خیال میں تو وہ صرف کرپٹ حکمرانوں کی سرزمین ہے‘‘ +’’ نہیں حکمرانوں میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں ‘‘ +’’ہونگے مگر ان کا کبھی برطانیہ کے حکمرانوں سے موازنہ کرو ۔ ‘‘ +میں نے ہنس کر کہا +’’یہ دنیا اور ہے وہ دنیا اور ‘‘ +’’کیاں وہاں انسان نہیں رہتے ‘‘ +’’تم یہاں اور وہاں کے حکمرانوں کا موازنہ چاہتی ہونا ۔۔وہاںپچھلے ساٹھ سال سے چیونٹیوں کی حکومت ہے ۔جو اگلے موسم کیلئے خوراک ذخیرہ کرنے کی عادت ہوتی ہے ۔اور یہاں سور حکمران ہیں جو اپنی مادہ کے ساتھ ملاپ میں بھی شراکت کا خیال رکھتے ہیں اور لائن میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ‘‘ +سائیکی ناک چڑھاتے ہوئے کہا +’’کبھی کبھی تم بہت بری مثال دیتے ہو۔تم نے ان لوگوں کی اچھائی کو بھی برائی میں بدل دیا ہے ‘‘ +میں نے سمجھانے والے انداز میں سائیکی سے کہا +’’اچھائی اور برائی کے درمیان ایک باریک سا پردہ ہوتا ہے ۔جو اچھائی کو بدی آمیز نیکی میں اور برائی کو نیکی آمیز بدی میں بدلتا رہتا ہے +’’ آج میرے پاس کافی وقت ہے ۔کل کسی کام کیلئے آفس سے چھٹی لے رکھی ہے میں نے ‘‘ +مجھے اور کیا چاہئے تھا ہم دونوں دفتر سے باہر آئے اور سائیکی کی کار میں بیٹھ گئے + + +﴿خواب کوآنکھ کی شیف سے نکالا۔صدیوں کی گرد جھاڑی۔آنسوئوں میں بھیگ بھیگ کر خشک ہونے والے اکڑے ہوئے غلاف کو اتارا۔چمکتی دمکتی ہوئی بے شکل لڑکیاں میرے آئینہ خانے میں داخل ہوئیں ۔ نرم و نازک بدن یاداشت کے گلاس سے طلوع ہوئے۔دل کی دھڑکن دھولک کی تھاپ بن گئی۔ذہن میں کیروا بجنے لگا۔قیام ِ جنت کے دن یاد آئے نواح ِ فہم میںلاشعور کی بھولی بھٹکی لہروں کی انگلیاں ہارمونیم پر چلنے لگیں۔حوا کیلئے لکھا ہوا آدم گیت حوروں کے بدن میں سرسرانے لگا۔ ہوا تیز ہونے لگی خواب کے صفحے الٹ الٹ جانے لگے﴾ +اورمیں نے سائیکی کو غور سے دیکھا آج مجھے وہ بہت زیادہ خوبصورت لگی میں نے اسے کچھ اور غور سے دیکھا کہ کیا یہ وہی سائیکی ہے جسے میں روز ملتا ہوں تو مجھے محسوس ہوا کہ نہیں اُس سائیکی اور اِس سائیکی میں کافی فرق ہے۔ اب مجھے پتہ چلا کہ یہ جو ڈیڑھ گھنٹے کیلئے سائیکی کسی کام کے بہانہ سے کہیں گئی تھی وہ کام گھر جا کر لباس تبدیل کرنا تھا ۔ سائیکی کو آج میں پہلی بار ایشیائی لباس میں دیکھ رہا تھا وہ ہمیشہ م��ربی لباس میںہوتی تھی ۔ آج اس نے گلے میں موتیوں کی مالا بھی پہن رکھی تھی ۔بہت قیمتی مالا۔کانوں کی لووں پر دو ہیرے جگمگا رہے تھے ۔وہ مجھے کوئی نوابزادی لگ رہی تھی ۔اپنی چال ڈھال ، اپنے طور اطورار اپنے رکھ رکھائو میں تو سائیکی ہمیشہ سے مجھے کوئی نواب زادی ہی لگتی تھی مگر آج اپنے بنائو سنگھارسے کوئی وہ اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز ثابت کر رہی تھی ۔میں جیسے جیسے اسے دیکھتا چلا جا رہا تھا میرے دل کی دھڑکنیں اس کیلئے تیز ہوتی جار ہی تھیں ۔ اچانک میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ میں نے جس لڑکی کے انتظارمیں ابھی تک شادی نہیں کی۔کہیں یہ وہی تو نہیں۔اس وقت ہماری منزل لیڈز کا ایک ریستوران تھا ۔لیڈز اور بریڈ فورڈ دونوں جڑواں شہر ہیں ۔ہمیں کارلائل روڈ سے لیڈز روڈ تک پہنچنے میں پنچ سات منٹ لگے اور پھر لیڈز روڈ پر تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں بریڈفورڈ ختم ہوا ہے اور کہاں سے لیڈز شہر شروع ہو گیا ہے۔۔کار چلتی رہی اور میں سائیکی کو دیکھتا رہا۔سائیکی کار چلا رہی تھی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ صرف کار ہی کا نہیںآج سے میرے وقت کااسٹیئرنگ وہیل بھی سائیکی کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ تقریباً دس منٹ تک خاموشی ہمارے درمیان چیختی چلاتی رہی رنگ بکھیرتی رہی خواب دکھاتی رہی ۔خیال اجالتی رہی ۔یک لخت کیکر کے ان درختوں پر پیلے پیلے پھول کھل اٹھے جنہیں میں میانوالی چھوڑ آیا تھامیری معصوم اور سادہ محبت کے پھول۔۔ مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ مجھے سائیکی سے محبت ہوگئی ہے ،بے پناہ محبت کا احساس مجھے رگوں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوااور پھر میں نے اس احساس کی وجہ تلاش کرنی شروع کردی ۔سوچنے لگاکہ کیا اس کا سبب صرف سائیکی کی خوبصورتی ہے۔۔ یا پھریہ بھی کوئی آقا قافا کی کرامت ہے ۔ آخر کار سائیکی نے خود خاموشی کے حیرت کدے میں پائوں رکھا اور کہنے لگی +’’ یہ اتنی دیر سے مجھے کیوں دیکھتے آ رہے ہوکیا کبھی پہلے دیکھنے کا موقع نہیں ملا؟‘‘ +’’نہیں۔۔ سچ یہی ہے کہ میں نے آج تمہیں پہلی بار دیکھا ہے اور ۔۔۔۔۔۔‘‘ +سائیکی میرا جملہ کاٹتے ہوئے اشتیاق سے بولی +’’ہاں بولو نا اور کیا۔۔۔‘‘ +اور میں نے بول دیا +’’اور یہی کہ بار بار دیکھنے کی ہوس ہے ‘‘ +سائیکی ہنس پڑی اور شرما کر بولی +’’بکواس نہ کرو۔ہمارے درمیان طے تھا کہ ہم ایسی باتیں نہیں کریں گے‘‘ +’’مگر آج میری نیت ٹھیک نہیںہے ‘‘ +’’ اب اور کچھ کہا تو یہیں گاڑی سے اتادوں گی‘‘ +’’ اتار دو۔ مگر میں جو فیصلہ کر چکاہوں وہ اب تبدیل نہیں ہو سکتا ‘‘ +’’ کیا فیصلہ کر چکے ہو‘‘ +’’ابھی نہیں بتایا جاسکتاآرام سے کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں‘‘ +’’ پلیزدیکھو بڑے دنوں کے بعد آج موڈ بہت اچھا ہے۔اسے اچھا ہی رہنے دو ‘‘ +’’میں آج صرف محبت کے موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوںمیرا خیال ہے یہ کوئی ایسا موضوع نہیں جو کسی کے موڈ کو خراب کردے‘‘۔ +سائیکی ذراسا مسکرائی اور بولی +’’اچھا یہ بتائوتمہارے خیال میں محبت کیا شے ہے ‘‘ +میں کار کی کھڑکی سے باہر جلتی بجھتی روشنیوںمیں خزاں زدہ درختوں کو دیکھتے ہوئے بڑی وارفتگی سے کہنے لگا +محبت بانسری دل کی ۔محبت ہجرکی نے ہے +محبت روح کی وحشت۔محبت درد کی لے ہے +محبت اک عجب شے ہے ۔محبت اک عجب شے ہے +یہ پتھر جیسے دل پگھلا کے آنکھوں سے بہا دینے پہ قادر ہے ۔ +یہ پیلے خشک پتوں کے کناروںپہ بھی گرتی اوس کے قطروں کے اندرچلتی رہتی ہے۔۔۔ +یہ وہ ظالم ہے جومہتاب میں ڈھل کرسمندر کا گریباں چیر دیتی ہے ۔۔۔ +مرا دل تو شکستہ آئینہ خانہ ��ہاں بارش ہوئی ہے سنگ و آہن کی +مری آنکھوں میں اپنی کرچیاں چبھنے لگی ہیں ۔۔ +محبت سائیکی ہے جو لہو سرسراتی ہے۔ +بدن میں گیت گاتی ہے۔۔ +مراسم کی بہاریں ریگزاروں میں اگاتی ہے +مسافر کشتیوں کو ساحلوں کے پاس لاتی ہے +دماغوں کے جزیزوںکو یہی آباد رکھتی ہے +محبت سائیکی ہے تیرے جیسی ہے۔ +تراچہرہ محبت ہی کا چہرہ ہے ۔ +تری آنکھیں محبت ہی کی آنکھیں ہیں۔۔ +سائیکی نے میرے لہجے کی گھمبیرتا سے متاثر ہوتے ہوئے کہا +’’شاعر اچھے ہو مگرنظم سنانے کا ڈھنگ مجھے پسند نہیں آیا ۔پاگلوں کی طرح جذباتی انداز میں بولتے چلے جا رہے تھے ‘‘ +میں نے سائیکی کے گیئر لگانے والے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا +’’پتہ نہیں آج مجھے کیا ہوگیا ہے یہ کیا وارفتگی مجھ میں در آئی ہے ۔ تمہارے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آرہا۔بس تم ہی ایک ہو پھول کی طرح کھلتی ہوئی لڑکی ۔میں تمہاری خوشبو ہوںسائیکی مجھے محسوس کرو ‘‘ +جب میری بات ختم ہوئی تو سائیکی نے آہستگی سے اپناہاتھ کھینچ لیا اور مصنوعی انداز میں کھردرے لہجے میں بولی +’’تم نے پھر مجھے چھوا ہے ۔۔ہمارے درمیان طے تھا کہ تم کبھی مجھے ہاتھ نہیں لگائو گے‘‘ +میں نے کار کے شیشے سے باہر دیکھ کر کہا +’’سوری ۔اپنے اوپر قابو رکھناکبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے۔ +او دونوں جہاں کی سب سے سندر لڑکی +میرے ساتھ گزاروگی جو پیار بھرے دوپل توکیا نقصان کرو گی اپنا۔۔۔ +تیرے جوبن کے گلشن کومیرے پاکیزہ ہاتھوں کے چھو لینے سے میل نہیں لگ جائے گی ۔۔ +میرے شانوں پرآ گرنے سے تیرے بالوں میںدھول نہیں پڑجائے گی۔۔ +الٹا اور بڑھے گی رخساروں پر گرم لہو کی سرخ حرارت۔۔ +شاخ بدن کھل جائے کی +کچھ اور حسین ہو جائے گی‘‘ +سائیکی نے کار روک دی اور غصے سے کہا +’’تم نے میرا موڈ خراب کردیا ہے ۔نیچے اترو جائو ۔ +’’سوری سوری ۔ اب ایسی کوئی نہیں ہو گی۔میں نے تو ایک اور نظم سنائی ہے تجھے انداز بدل کر۔ چلو محبت کا موضوع ختم ۔۔ ‘‘ +سائیکی نے براسا منہ بنایا اور ایکسیلیٹر پر پائوں دبائو بڑھا دیا۔اس رات ہم کھانا کھانے کے بعد کافی دیر تک لیڈز شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہے۔جدا ہونے سے پہلے میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ سائیکی سے کہا +’’دل کا چین ، آنکھوں کی راحت بننے سے پہلے +مجھ سے بچھڑ جا ۔۔۔میری عادت بننے سے پہلے‘‘ +اگلے دن جب میں پھر سائیکی کے ساتھ آقا قافا کی مجلس میں گیا تو وہ کسی سوال کے جواب میں کہہ رہے تھے +’’میرے خیال میں تواگر راستہ دکھانے والا کوئی آقا قافا نہ ہو توآدمی اندھیروں میں بھٹکنے لگتا ہے اورآپ کہتے ہیں کہ خیر کیلئے یعنی کائناتی سچائی تک پہنچنے کیلئے کسی رہنما کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ +’’ہاں راستہ وہ خود دکھاتا ہے وہی کسی کے سینے کو روشنیوں سے بھر دیتا ہے اور کسی کے کانوں میں پگھلا ہو سیسہ ڈال دیتا ہے ۔ ان رہنمائوں کی حیثیت سٹریٹ لائٹ سے زیادہ نہیں ہوتی کہ چلنے والا راستہ دیکھ سکے‘‘۔ +سوال و جواب کا سلسلہ کافی دیرتک چلتا رہا جب مجلس ختم ہوئی اور سب لوگ جا نے لگے تو آقا قافا نے میرے اور سائیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا +’’تم نے دونوں ابھی بیٹھو۔ تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں‘‘ ۔ +سب لوگوں کے چلے جانے کے بعدآقا قافا بولے +’’نکاح جوانی کا محافظ ہوتا ہے میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں آپس میں نکاح کرلو، شاید یہی تمہاری تقدیر میں لکھا ہے ‘‘۔ +سائیکی نے عجیب نظروں سے آقا قافا کی طرف دیکھا اور کہا +’’حضور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ درست کہہ رہے ہیں مگر میں نکاح کو ایک غیر فطر�� فعل سمجھتی ہوں۔ ایک ہی شخص کے ساتھ زندگی گزارنا انسانی جبلت کے خلاف ہے انسانی فطرت میں اکتاہٹ ایک اہم عنصر ہے۔ایک ہی کھونٹے کے ساتھ ساری زندگی بندھے رہنا کسی بیل یا بکری کا کام ہے اس کے مقابلے میں طلاق ایک فطری شے ہے ۔انسان روز ایک طرح کا کھانا نہیں کھا سکتا ایک طرح کا لباس نہیں پہنتا۔وہ تبدیلی چاہتا ہے اور تبدیلی فطرت کا ایک روپ ہے‘‘ +آقا قافا سائیکی کی طرف اس طرح دیکھتے رہے جیسے کوئی بچی بات کر رہی ہو اور سائیکی کی بات ختم ہو نے پر کہنے لگے ’’مجھے تمہاری کسی بات سے بھی اختلاف نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نکاح کا عمل انسانی جبلت سے مطابقت نہیں رکھتا مگر انسانی معاشرت کی تشکیل فطرت کے ٹکرائو سے ہوتی ہے۔ فطرت یہ ہے کہ انسان ننگا ہے لباس غیر فطری شے ہے مگر ہر معاشرت کیلئے جزو لازم ہے ایک اور بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ انسان فطرت کا حصہ نہیں فطرت انسان کے لئے ہے اور انسانی جبلتوں میں خیر کے ساتھ ساتھ شر بھی ہے ان سب سے جو چیز بلند تر ہے وہ انسانی دماغ ہے اور ہاں تم نے طلاق کی بات کی ہے طلاق اللہ تعالی کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے مگر گناہ نہیں ۔ ‘‘ +سائیکی نے آقا قافا کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا +’’آپ خود کیوں نہیں شادی کرتے؟ ‘‘ +آقا قافا بولے’’ اس موضوع پر تم سے پہلے بات ہو چکی ہے ، +’’اب تم دونوں جا سکتے ہو‘‘ +اور ہم دونوں آکر گاڑی میں بیٹھ گئے ۔کچھ دیر کے بعد سائیکی نے پوچھا +’’کیا تمہیں بھی آقا قافا کی یہ بات پسند نہیں آئی ؟‘‘ +’’نہیں میں نے تو کل رات ہی تمہارے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا‘‘۔ +سائیکی نے گاڑی ایک طرف سڑک پر روک دی اور میری طرف اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے ایسے دیکھنے لگی جیسے میرے جملے کو تولنے کی کوشش کر رہی ہو۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سائیکی نے گاڑی آگے بڑھادی مگر بولی کچھ نہیں ۔ میں نے خاصی دیر کی خاموشی کے بعد کہا +’’تم مغرب میں ہو تم اگر کوئی مشرق میںہوتیں تو میںتمہاری خاموشی کا مفہوم ’’رضامندی ‘‘لے سکتا تھا مگریہ اکیسویں صدی ہے تمہیں اپنی مرضی کا اپنی زبان سے اظہار کرناہوگا‘‘ +’’ بات دراصل یہ ہے کہ میں انکار بھی نہیں کرناچاہتی اور اقرار بھی نہیں کر سکتی۔کوشش کروں گی کہ جلدی اس الجھن سے نکل آئوں ۔ ہاں وہ میں نے تم سے پوچھنا تھا کہ تمہیں رنگ کونسا پسند ہے‘‘میں نے ہنس کر پوچھا’’رنگ۔۔اتنی سطحی بات تم نے پہلے کبھی نہیں پوچھی۔‘‘ +’’17جنوری کو تمہاری سالگرہ ہے اس موقع پر سوچ رہی تھی کہ تمہارے لئے ایک سوٹ خریدوں اس لئے تم سے پوچھ لیا ہے کہ تمہیں کونسا رنگ پسند ہے ‘‘ +’’رنگ تو مجھے نیلا پسند ہے مگر خدا کیلئے نیلے رنگ کا سوٹ نہ لے لینا ۔‘‘ +سائیکی نے بیزاری سے کہا +’’میں سب سے زیادہ اسی رنگ سے الرجک ہوںیہ بھی کوئی اچھا لگنے والا رنگ ہے ‘‘ +سائیکی ایسے شکایت کر رہی تھی جیسے وہ ایک دوست سے زیادہ میری کچھ لگنے لگی ہے ۔میں نے سوچا کہ سائیکی نے ذہنی طور پر مجھ سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے سو میں نے مسکراتے ہوئے بہت شوخی بھرے لہجہ میں کہہ دیا +’’نیلا رنگ تو بہت خوبصورت رنگ ہے یہ روح کا رنگ ہے سمندر کا رنگ ہے آسمان کا رنگ ہے طاقت کا رنگ ہے جنس کا رنگ ہے ،آنکھوں کی آخری حد کا رنگ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمہاری آنکھوں کا بھی تو یہی رنگ ہے‘‘ +سائیکی حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی +’’حیرت انگیز۔۔آقا قافا کو بھی نیلا رنگ پسند ہے اور میں نے ان سے اس کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی تھی تو انہوں نے بھی مج��ے یہی جواب دیا تھا مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ان کے بھی یہی الفاظ تھے‘‘ +مجھے اچانک کچھ خیال آیا ۔میں نے سائیکی سے کہا +’’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے کبھی تم کو اپنی تاریخ پیدائش نہیں بتائی ۔۔تمہیں کیسے علم ہوا کہ میں 17 جنوری کو پیدا ہوا تھا۔اور تمہیں علم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کاغذی طور پر میری تاریخ پیدائش 17فروری ہے ۔ اور اس ملک میں کوئی یہ بات نہیں جانتا ؟‘‘ +’’مجھے تمہاری تاریخ پیدائش آقاقافا نے بتائی تھی ‘‘ +میں نے حیرت سے کہا +’’ حیران ہونے کی ضرورت نہیں آقا قافا کی تاریخ پیدائش بھی 17جنوری ہے اور ایک اور پریشان کن حد تک حیران ہونے والی بات یہ ہے کہ آقا قافا اور تمہاری انگلیوں کے نشانات میں بھی کوئی فرق نہیں اور شاید یہ انسانی تاریخ پہلا واقعہ ہے‘‘ +میں نے پریشان کن لہجے میں کہا +’’میں یقین نہیں کر سکتا اس بات میں تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے‘‘۔ +’’ وہ میری دوست کیتھی ہے نا وہ جس دفتر میں کام کرتی ہے وہاں فنگر پرنٹس ہی چیک ہوتے ہیں ۔ میںنے تصدیق کے لئے دو مرتبہ تمہارے اور آقا قافا کے فنگر پرنٹ اٹھائے تھے‘‘ +’’ تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ‘‘ +’’آقا قافا نے اس طرف متوجہ کیا تھا مجھے‘‘ +میں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا +’’آقاقافا کو سمجھنا اب بہت ضروری ہو گیا ہے‘‘ ۔ +اس دن سائیکی اور میںرات دیر گئے تک گھومتے رہے ، دنیا کی جتنی خوبصورت باتیں ہو سکتی تھیں وہ ہونٹوں اور کانوں کی وساطت سے ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہے تتلیوں کے پروں پر خوشبو کے نقش و نگار بناتے رہے ، رنگوں کے کینوس پر خواب بکھیرتے رہے باری باری ایک دوسرے کے راستے میں روشنی اور پھول لے کر کھڑے ہوتے رہے اور پھر اپنے اپنے راستوں پر جانے کا وقت ہو گیا یعنی رات بہت بیت گئی۔ میں نے سائیکی سے کہا +’’میں صرف اتنا معلوم کرنا چاہوں گا ۔۔گھر جانے سے پہلے۔۔کہ وہ کونسی بات ہے جو تمہیں میرے ساتھ شادی کرنے سے روک رہی ہے ‘‘۔ +سائیکی کچھ دیر سوچنے کے بعد ٹھہر ٹھہر کر بولی +’’میں شادی کرنے پر تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے ‘‘ +’’میں تم سے جب کہوں گی تم سبب معلوم کئے بغیر مجھے طلاق دے دو گے‘‘ +اس عجیب و غریب شرط پر میں پریشان ہو گیا ۔میں کچھ دیر کیلئے خاموش ہو گیا اچانک میرے دماغ میں ایک بات آئی اور میں نے سائیکی سے پوچھا +’’کیاتم کسی اور سے محبت کرتی ہو ‘‘ +سائیکی نے دھیمے لہجے میں مردہ سی آواز کے ساتھ کہا +’’کیا میں اسے جانتا ہوں ؟‘‘ +تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا اور میرے ذہن میں فوراًآقا قافا کا نام آیا میں نے بے اختیار کہہ دیا +سائیکی خاموش رہی مگر اس کی خاموشی چیخ چیخ کر آقا قافا کے ساتھ اسکی محبت کی داستان سنا رہی تھی ۔ میں نے صورت احوال سے مکمل آشنا ہو جانے والے انداز میں سائیکی سے پوچھا +’’ کیا تم ان کے سامنے اس بات کا اظہار کر چکی ہو ‘‘ +’’ہاں ۔۔ مگروہ کہتے ہیں میں نے کبھی شادی نہیں کرنی۔اور اگر زندگی میں کبھی شادی کی تو تمہارے ساتھ کروں گا۔ میں نے اسی لئے وہ شرط لگائی تھی کہ اگر کبھی وہ میرے ساتھ شادی کرنے پر تیار ہو گئے تو تم رکاوٹ نہیں بنو گے ‘‘ +یہ بات سن کر نجانے کیوں مجھے سائیکی پر ترس آنے لگامیں نے سائیکی سے کہا +’’ایک بات ذہن میں رکھو کہ جب تم میرے ساتھ شادی کرلو گی تو ان کے ساتھ شادی کے امکانات اور کم ہو جائیں گے‘‘ +’’ نہیں انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اور وہ جو بات کرتے ہیں اس سے پھرتے نہیں‘‘ +میں نے سائیکی سے کہا +’’پھر تو تمہیں ایک سچے محبت کرنے والے شخص کی طرح انتظار کرنا چاہئے ‘‘۔ +سائیکی بے ساختہ ہنس پڑی اور ہنستے ہنستے کہنے لگی +’’تو تم نے میرے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ بدل لیا ہے صرف یہ بات سن کر کہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ کیا اتنی ہی محبت تمہارے دل میں میرے لئے اٹھی تھی‘‘ +میں نے سائیکی سے کہا +’’ نہیں سائیکی میں نے شادی کا ارادہ تبدیل نہیں کیا۔ دراصل میری محبت ایسی خود غرضی پر مبنی نہیں ہو سکتی جس میں صرف ’’حاصل‘‘ ہی محبت کا مقصد ہوتا ہے میرے خیال میں لا حاصلی بھی محبت میں کوئی کم شے نہیں‘‘۔ +سائیکی کے چہرے پر خوشی کا تاثرابھرا اور وہ بولی +’’فلسفوں کو چھوڑو اگر تمہیںواقعی مجھ سے محبت ہے تو پھر تم مجھے حاصل کر سکتے ہو ‘‘ +’’ اس میں ترمیم ممکن نہیں ‘‘ +’’ایک بات کی ذراسی وضاحت کرو۔ ایک طرف تم اتنی مشرقی اور مذہبی ہوکہ تمہیں میرا ہاتھ بھی لگ جائے تو ناراض ہو جاتی ہو ۔۔ دوسری طرف تم ایک مرد کے ساتھ زندگی گزارنے کے فلسفے کو غیر فطرتی سمجھتی ہو۔ایسے نظریات رکھنے والی لڑکی کو کسی وقت بھی کسی کے ساتھ سو جانا چاہئے‘‘ +سائیکی بڑی سنجیدگی سے بولی +’’ بس ایسی ہی ہوں ۔۔ سوچتی کچھ ہوں اور کرتی کچھ ہوں‘‘اور پھر ہم نے رات بھر شادی کے مسئلہ پر سوچنے کے لئے اپنی راہیں مختلف کر لیںاور اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ +میں نے بستر پر کچھ دیر کے لئے سائیکی کو سوچااور پھر اسے ذہن سے جھٹک کر بہلول کی طرف جا نکلا۔ +قافلہ ابھی تک پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھابہلول نے ایک پہاڑی درے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا +’’یہ ڈھک کی پہاڑی ہے۔ یہ پہاڑ صرف یہیں سے عبور کرنے کے قابل ہیں دہن کوٹ سے دہنی کے علاقے میں جانے والوں کو یہیں سے آکر پہاڑ عبور کرناپڑتا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دوسری سمت ایک جھیل ہے اور اس کے ساتھ بڑی بڑی غاریں ہیں۔ہزاروں سال پرانی غاریں ۔۔مادھو چند نے مجھے بتایا تھا کہ +قدیم کاہنوں کے خیال میں بھگوان نے جو پہلا جوڑا بنایا تھاوہ انہی غاروں میں سے کسی غار میں رہتے تھے‘‘ +’’ تمہارا کیا خیال ہے بھگوان نے پہلا جوڑا کس چیز سے بنایا تھا‘‘ +’’اس حوالے سے دو رواتیں سننے میں ملی ہیں پہلی یہ ہے کہ بھگوان نے بندر اور بندریا کو بلا کر ان پر پھونک ماری اور وہ مرد اور عورت میں تبدیل ہو گئے ۔دوسری روایت بھی اسی سے ملتی چلتی ہے وہ یہ ہے کہ بھگوان نے مٹی سے عورت اور مرد بنائے اور پھر ان میں اپنی روح پھونک دی۔ عورت اور مرد کے درمیان یہ جو محبت کا رشتہ ہے اس کا سبب بھگوان کی وہی روح ہے۔ +’’یہ محبت کیا شے ہے ‘‘ +’’یہ جو محبت ہوتی ہے نااس کی لاکھوں کروڑوں قسمیں ہیںیہ ہمارا سفر بھی محبت کی ایک شکل ہے ہم جسے حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی تلاش میں مشکل راستوںکو عبور کر رہے ہیںاس سے یقینا ہمیں محبت ہے لیکن ہر محبت کا آغاز اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ حسن یا حسن ِکل سے یعنی بھگوان سے محبت بھی اصل میں اپنی ذات سے محبت ہے ۔ہم اپنی تکمیل کی جستجو میں بھٹک رہے ہیںاور یہی محبت ہے یہی کائنات کا سب سے عظیم جذبہ ہے‘‘ +میں نے بہلول سے کہا +’’کیا یہ ہمیشہ سے ہوتی ہے اور ہمیشہ رہتی ہے ‘‘ تو کہنے لگا +’’نہیں اس کا اظہار وہاںہوتا ہے جب کسی روح میںحسن سے ہم آغوش ہونے کاجذبہ اتنا توانا ہو جائے کہ اس کے ادراک کو اپنی گرفت میں لے لے۔حسن کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں ایک حسنِ خالص اور دوسرا حسنِ مجسم ، تجسیم شدہ حسن بھی حسنِ مطلق ہی کا اظہار ہوتا ہے ،یہ زیریں حسن محبت کرنے والے کو اس بالا ئی حسن کی طرف لے کر جاتا ہے جس کے ساتھ اس کا تعلق قدیم ہے یعنی یہ بھی روح کا روحِ کل کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ ہے ، مجاز سے متاثر ہونا انسانی سرشت میں شامل ہے لیکن اس سفر میں حقیقت تک اس کی رسائی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب وہ وارداتِ محبت کے باطنی اسرار سے واقف ہو جاتا ہے‘‘ +مجھے یاد نہیں کہ بہلول کے ساتھ چلتے چلتے میں کس وقت سو گیا تھا اور کب میرا تصور خواب کی دنیا میں داخل ہوگیا تھا مگر اچانک مجھے احساس ہوا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی نے مجھے نیند سے جگا دیا ہے ۔میری نظر گھڑیال کی طرف گئی تو وہاں رات کے تین بج رہے تھے میں بیڈ سے اٹھا فون کا ریسور اٹھایا تو دوسری طرف سائیکی تھی اس کی آواز پہچانتے ہی میں نے پوچھا +’’ہاں مگر تم نے کچھ اتنا الجھا دیا ہے کہ ابھی تک نیند نہیں آئی میں نے سوچا کہ اگر میں جاگ رہی ہوں تو پھر تمہیں بھی میرے ساتھ جاگنا چاہئے اپنے اپنے گھروں میں ہی سہی ۔ کم ازکم اتنا توہو گا کہ صرف میں ہی نہیں میرے ساتھ کہیں کوئی اور بھی جاگ رہا ہے ‘‘ +میں نے ہنس کر کہا +’’ اپنے اپنے گھروں میں جاگنے کا کیا فائدہ ۔اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو۔۔ فقط نو دس کلومیٹر پہ میں ہوں ۔۔۔یا کہو تومیں ادھر ہی آجاتا ہوں ‘‘ +’’نہیں اس وقت ہمارا ملناہم دونوں کے لئے ٹھیک نہیں ۔جوانی میں بہکنے کی کچھ خبر نہیں ہوتی ۔ میں دراصل تمہیں ایک اور بات بتانا چاہتی تھی میرے بارے میں کچھ سوچتے ہوئے اسے بھی ذہن میں رکھنا‘‘ +’’ ذرا ٹھہرو میں چائے کا ایک کپ بنالوں ‘‘ +اور پھر ریسیور کان سے لگائے ہوئے میں نے کیٹل کا بٹن آن کیا اور چائے بناتے ہوئے اس سے کہا +’’ میں تمہیں یہ بتانا چاہتی تھی کہ میری اور تمہاری ملاقات اتفاقیہ نہیں ہوئی تھی مجھے آقا قافا نے تمہارے طرف متوجہ کیا تھا ۔۔اور میں نے پروفیسر رضا ملال کو کہا تھا کہ تمہیں لیڈز یونیورسٹی میں لیکچر کیلئے بلائیں ۔۔ ہوا یہ تھا کہ ایک دن میں آقافاقا کے ساتھ کہیں جا رہی تھی کہ انہوں اچانک مجھے فوراً گاڑی روکنے کیلئے کہا اور میںنے گاڑی ڈبل ییلو لائن پر روک دی انہوں نے مجھے کہا کہ گاڑی یہیں رہنے دو اور میرے ساتھ آئو۔میں نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ گاڑی ڈبل ییلو لائن پر کھڑی کی ہوئی ہے تو کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں اترو اگر آج بھی وہ نکل گیا تو شاید پھر اسے ڈھونڈنے میں نجانے کتنا عرصہ لگ جائے ۔ آقا قافا بہت تیز تیز چل رہے تھے مجھے ان کا ساتھ دینے کیلئے تقریباً بھاگنا پڑ رہا تھا کہ ایک جگہ وہ رک گئے سامنے ایک کافی شاپ تھی جس کے باہر بھی بنچ رکھے ہوئے تھے لوگ ان بنچوںپر بیٹھے ہوئے کافی پی رہے تھے ہم بھی ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گئے میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھاتو انہوں نے ساتھ والے بنچ پر اکیلے بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا اور کہاکہ یہ تمہارا ہونے والا شوہر ہے تم اس کی سائیکی ہو میں نے حیرت سے پوچھاکہ سائیکی تو کہنے لگے ، ہاں آج سے تمہارا نام سائیکی ہے ۔میر اصلی نام تو نور ہے مگر میں نے ان کے کہے کے مطابق اپنا نام بدل لیا ہے۔پھر انہوں نے مجھے جانے کے لئے کہا اور میں آقاقافا کو وہیں چھوڑ کر اکیلی واپس آگئی ۔جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟ ‘‘ +سائیکی محبت بھرے لہجہ کا شہد ٹپکا رہی تھی میرے کان میں اور میں اس مٹھاس کے حسن کو مجسم دیکھ رہا تھا ۔میں نے پوچھا +جب میں نے سائیکی سے دن ، وقت اور جگہ معلوم کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔میں نے سائیکی سے کہا +’’ تم مجھے پریشان کرتی چلی جا رہی ہو آقا قافاکو سمجھنے کا تجسس اور بڑھتا جا رہا ہے‘‘ +’’ مگر میرے اندر آقا قافا سے زیادہ تمہیں سمجھنے اور جاننے کا تجسس ہے یقین کرو جو چیز مجھے سب سے زیادہ تمہارے قریب لے آئی ہے وہ یہی تمہارے بارے میں جاننے کا تجسس ہے میں جاننا چاہتی ہوں کہ آقا قافا کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے تمہاری آواز تمہارا لہجہ آقا قافا سے ملتا جلتا ہے تم دونوں کی تاریخ پیدائش ایک ہے تمہارے قد ایک جتنے ہیں تم دونوں کی آنکھیں ایک جیسی ہیںمیں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے کمپوٹر پرتصویروں سے تم دونوں کی آنکھیں نکال کر ملائی ہیںیقین کرو ان میں ذرا بھر بھی کوئی فرق نہیں اور میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں انسانی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ کہ تم دونوں کے فنگر پرنٹس ایک جیسے ہیں ۔میں اگر یہ بات دنیا کو بتا دوں تو تم دونوں کو یہاں کے سائنس دان اٹھا کر اپنی تجربہ گاہوں میں لے جائیں گے ‘‘ +میں اس کی گفتگو سن کر پریشان ہوتا رہا اور بولا +’’میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک اتفاق ہے ‘‘ +’’ نہیں یہ اتفاق نہیں ہو سکتا اگر یہ ایک اتفاق ہے تو آقا قافا تمہاری تلاش میں کیوںتھا ‘‘ +’’ کیااتنے عرصہ میں آقاقافا نے اپنے ماضی کے بارے میں کبھی کوئی بھی بات نہیں کی کہ وہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور یہ اتنا بڑا محل نما جس مکان میں رہتے ہیںیہ انہوں نے کیسے خریدا ہے ،اس کے بل کیسے ادا ہوتے ہیں ملازموں کی تنخواہیں کہاں سے آتی ہیں، وہ کوئی بھی کام نہیں کرتے ، ان کے اتنے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ یہ جو اتنے سارے سوال ہیں تم نے ان پر کبھی غور نہیںکیا ‘‘ +’’ کچھ سوالوں کے جواب تو میں جانتی ہوں لیکن کچھ سوال ایسے ہیں جن کامجھے کوئی جواب نہیں مل سکا یہ کوئی نہیں جانتا کہ آقا قافا کون ہیں ، کہاں سے آئے ہیں ۔ ان کے ماں باپ کون تھے کہاں پڑھے وغیرہ وغیرہ ، میں نے اس سلسلے میں آقا قافا سے پوچھا بھی ہے صرف میں نے ہی نہیں ان کی محفل میں شریک ہونے والے دوسرے لوگوں نے ۔۔۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ مجھے کسی شخص کا انتظار ہے جب وہ آجائے گاتو میں اپنی کہانی تم لوگوں کو سنا ئوں گا اور مجھے پورا یقین ہے کہ انہیں جس شخص کا انتظار تھا وہ تم ہو ۔ اس دِن محفل میں وہ اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں‘‘ +’’ جن سوالوں کے جواب تم جانتی ہو وہ تو مجھے بتا دو ‘‘ +’’اس کے لئے تمہیں ایک اور کہانی سننی پڑے گی جو بہت طویل ہے ‘‘ +’’میرا خیال ہے میں تمہارے پاس اُدھر ہی آجاتا ہوں اب نیند آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اتنی لمبی کہانی فون پر سنی بھی نہیں جا سکتی‘‘ +’ نہیں اتنی رات گئے بالکل نہیں اب تم بہلول سے دل بہلائو ‘‘ +اور ایک طویل ہنسی کے ساتھ اس نے فون بند کردیا ۔ + + +وہم آبادمیں الجھنیں کچھ نئے گھروندے بنا رہی ہیں ۔ دماغ کی پرانی نسوں میں نئی تعمیر شروع ہے ۔ +واہموں کی محراب دار کوٹھیوں کی دیواروں پرآتی جاتی ہوئی سرخ رنگ کی کوچیوں سے خون ٹپک رہا ہے۔ +چھٹی حس کے سنگنل الٹے سیدھے میسج بھیج رہے ہیں۔ +حواس کے پانچوں سرکٹ کسی نامعلوم ستارے سے آتی ہوئی برقی لہروں سے شاٹ ہو چکے ہیں﴾ +اب تومیں سچ مچ پریشان ہو گیا تھا آقاقافا کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتا جا رہا تھا میری پریشانی اتنی بڑھتی جارہی تھی میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ان نہ سمجھ آنے والوں سے بھاگ کربہلول کے پاس چلا جایا جائے ۔۔۔۔۔بہلول اور میں مسلسل چلتے جا رہے تھے۔پہاڑ ایک طرف رہ گئے تھے اب ہمارے چاروں طرف ریت ہی ریت تھی۔اچانک دور کہیں کچھ درختوں کے جھنڈ نظر آنے لگے۔ بہلول نے مجھ سے کہا +’’میرے ��ندازے کے مطابق ہم لوگوں نے راستے کا چوتھا حصہ طے کر لیا ہے ۔ابھی دو دریا اور ہم نے عبور کرنے ہیں دریائے چناب اور دریائے جہلم اس کے بعد دریائے راوی رہ جائے گا راوی تک پہنچ گئے تو سمجھو لہوارر پہنچ گئے کیونکہ لہوارر اسی کے کنارے پر آباد ہے۔ +میں نے اس سے پوچھا +’’تم تو پہلی مرتبہ سفر کر رہے ہو تمہیں کیسے معلوم ہو گیا ہے کہ کتنا طے ہو چکا ہے؟ ‘‘ +تو اس نے ہنس کر کہا +’’میں جب کسی خارجی یا باطنی سفر پر نکلتا ہوں تو سب سے پہلے راستے کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہوں کسی عظیم روشنی کے سفر پر نکلنے سے پہلے راستے کابنیادی علم رکھنا بڑا ضروری ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم سفر کرتے ہیں تو اپنے پہلے محدود علم کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس سے کہیں بہت آگے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی حاصل ہونے والے علم سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔سفر میں ایسی منزلیں بھی آتی جب علم اور علم جس کا احاطہ کر سکے وہ دونوں آگے بڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں وہ مقام آجاتے ہیں جن پر ان کے پرجلنے لگتے ہیں ۔ تم جب نروان کے راستے پر آگے بڑھوگے تو تمہیں ان حقیقتوں کا ادراک ہو گا‘‘ +ہم درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچ گئے ۔ ایک دائرے کی صورت میںکھجور کے سینکڑوں درخت دکھائی دے رہے تھے۔ ہم جب درختوں کے اندر داخل ہوئے توان کے درمیان پانی کا ایک بڑا ساتالاب موجود تھا۔صدیوں پرانے فراش کیکر اور شیشم کے درختوں کے تنے پانی کے ادگرد زمین پربکھرے ہوئے تھے اورتنوں سے لے کر پانی تک زمین پر کچھ کائی تھی اور کچھ سبز رنگ کی روئیدگی۔۔۔یہ دوپہر کا وقت تھا ۔وہاں پڑائو ڈال دیا گیا اونٹوں اور آدمیوں نے ایک ہی گھاٹ سے جی بھر کر پانی پیا،پانی کی خالی مشکیں پھر سے بھر لی گئیںمیںنے اس لق و دق صحرا میںدرختوں اور پانی کے اس ذخیرے کودیکھ کربہلول سے کہا +’’یہ بھگوان ہے یہ روح ِکل ہے جو ہمیں قدم قدم پر اپنے معجزے دکھاتی ہے۔ پتہ نہیں یہ سب لوگوں کو نظرکیوںنہیں آتے ‘‘ +’’کائنات کی ہر شے روحِ کائنات کی جلوہ گری ہے مگر اس فرق کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ادراک ، مادے اور روح کے درمیان جو تعلق ہے اس کو سمجھا جائے ۔انسانی تفہیم کے تمام سلسلے اسی شعور کے مراحل ہیں ۔ جوشخص جس مرحلے پر ہوتا ہے اس کی آنکھ اسی سطح تک دیکھ سکتی ہے اور جب اس سے آگے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تو اسرار جنم لیتے ہیں‘‘ ۔ +’’مادہ اور روح کے تعلق تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ادارک تو دونوں کے ملنے کے بعد وجود میں آتا ہے +’’میرے نزدیک ادراک اس پھونک کو کہتے ہیں جو بھگوان نے بندر اور بندریا پر پھونکی تھی ۔ بندر اور بندریا میں مادہ یعنی پٹی پانی اور ہوابھی موجود تھی اور روح بھی۔روح اور مادے کے ساتھ ادارک کا کیا تعلق ہے یہ بہت اہم سوال ہے‘‘ +اچانک میں نے دیکھا کہ مجھے ایک تیز روشنی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہے رفتہ رفتہ روشنی کم ہونے لگتی ہے اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ میں ایک حجرے میں بیٹھا ہوا ہوں وہی مولوی صاحب جنہوں نے مجھے مسلمان کیا تھا وہ میرے سامنے بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں +’’اسرار صرف اسی وقت تک اسرار ہوتے ہیں جب تک ذہن انہیں کھول نہیںدیتا ۔۔ آقا قافا سے مت ڈرو ۔ ۔ وہ تمہارا ہی ایک روپ ہے ۔ تمہاری روشنی ہے ۔۔وہ روشنی جوبندہ کو خدا سے ملاتی ہے مگر نماز کا دامن تمہارے ہاتھ نہیں چھوٹنا چاہئے کیونکہ نامعلوم کے اندھیروں میں نماز اس چراغ کی طرح ہے جو کبھی طور کے پہاڑ پر روشن ہوا تھا۔۔۔۔‘‘ +اور اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ مجھے سوئے ہوئے صرف دو گھنٹے ہی ہونگے۔ اب صبح کی نماز کا وقت ہے۔ میں بیڈپر پڑے پڑے سوچنے لگا کہ ایک طویل عرصہ کے بعد میرے مولوی صاحب نے میری خبر لی ہے یقینا اس وقت مجھے ان کی رہنمائی کی ضرورت تھی ، اٹھ کر نماز پڑھی اور پھر سو گیا۔دوپہر کو بارہ بجے آنکھ کھلی دروازے کی گھنٹی بج رہی تھی ۔اٹھا دروازہ کھولا تو ورما سامنے کھڑا تھا پریشان حال ۔۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا +’’گھر کانمبر مسلسل انگیج ہے شاید تم نے ریسیور اتار رکھا ہے اور موبائل فون بند کیا ہوا ہے ۔پھریہ کہ پہلے اگر کسی دن تم نے دفتر نہیں آنا ہوتا تھا تو تم فون ضرور کرتے تھے ایسی صورت میں میرا پریشان ہونا بنتا تھا‘‘ +ہم دونوں لِونگ روم سے سیدھے کچن میں چلے گئے ۔میں نے چائے کیلئے کیٹل آن کی اور اسے کہا +’’یار میں کسی وجہ سے بہت پریشان ہوں تم کوئی مشورہ دو‘‘ +ورما کے پوچھنے پر میں نے اسے آقاقافا کی تمام کہانی سنا دی ۔ ورما ہندو تھااس کے بارے میں ہمیشہ سے میرا یہی خیال تھا کہ جتنا میں مسلمان ہوں ورمااس سے کہیں کم ہندو ہے ۔وہ میری کہانی سن کر بولا +’’ تم جانتے ہو مذاہب پر میرا ایمان نہ ہونے کے برابر ہے ہندو مت سے بھی اب صرف میرا اتنا تعلق رہ گیا ہے کہ ایک بزرگ ہیں میرے۔۔۔ بہت بڑے سادھو ہیںکبھی کبھار انہیں ملنے چلا جاتا ہوں لیکن ہیں وہ بہت ہی حیرت انگیز آدمی ۔۔ وہاں جا کر مجھے یہ بتانے کی ضرورت کبھی نہیں پیش آئی کہ میں کیوں آیا ہوں وہ سوال کرنے سے پہلے ہی جواب دے دیتے ہیں۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں تمہیں ان کے پاس لے جا سکتا ہوں ممکن ہے تمہیں آقا قافا کو سمجھنے میں کچھ مدد مل جائے ‘‘ +میں نے ورما سے پوچھا +’’ کیا وہ اسی شہر میں رہتے ہیں؟ ‘‘ +ورمانے ہاں میں سر ہلا تے ہوئے کہا +’’یہیں لیڈز روڈ والے مندر میں رہتے ہیں ‘‘ +’’ کیا اس وقت ان سے ملا جا سکتا ہے‘‘ +’’کسی بھی وقت ۔۔چاہے آدھی رات ہو یا دن انہوں نے مجھے ہر وقت ملنے کی اجازت دی ہوئی ہے ‘‘ +’’ اچھا تو پھر میں تیار ہوتا ہوں ان کے پاس چلتے ہیں ‘‘ +اور تھوڑی دیر کے بعد ورما ایک مندر کے باہر کار روک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔لیڈر روڈ کی مصروف ترین سڑک پر یہ ایک چھوٹا سا مندر تھاباہر سے اس عمارت کی واحد شناخت اس کا پیلا رنگ تھا ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو کچھ گھنٹیاں لگی ہوئی نظر آئیں جنہیں ورمانے ہلایااور اس شور میں ہم آگے بڑھ گئے۔ ورما پوجا پاٹ والے بڑے کمرے کی طرف جانے کی بجائے مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میںلے گیا۔کمرے میں کوئی چیز بھی نہیں تھی پتھریلے فرش پر ایک بہت بوڑھا سادھو آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم دونوں پورے احترام کے ساتھ ایک طرف کھڑے ہو گئے ۔سادھو ہماری طرف متوجہ نہیں ہوا ہمیں کھڑے کھڑے اتنی دیر ہو گئی کہ میں ورما سے کہنے ہی والا تھا کہ اب مجھ سے اور کھڑا نہیں رہا جا سکتا کہ سادھو کے لب کھلے اور اس نے مجھے مخاطب ہو کرکہا +’’اتنی بے صبری سائل کو زیب نہیں دیتی ‘‘ +’’ بابا یہ میرا پارنٹر آفاق ہے ہم آپ سے آقا قافا کے بارے میں پوچھنے آئے ہیں‘‘۔۔ +’’آقا قافا کے بارے میں ‘‘ +اور پھر خاموش ہو گیا تقریباً دو منٹ لے بعد ور ما سے کہنے لگا +’’جو شخص تمہارا پارنٹر تھا اب یہ وہ نہیں ہے۔ اسے یہاں سے لے جائو اب بہت دیر ہو چکی ہے، اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا ۔شاید اب کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ‘‘۔۔ +’’رحم بابارحم میں تو تباہ ہوجائوں گا میرا سارا کاروبار اسی کے دم سے ہے ‘‘ +’’ میں نے تمہیں کہا ہے اسے یہاں سے لے جائو پہلے اس کی وجہ سے ایک بہت بڑے گیانی کی زندگی بھر کی تپسیاضائع ہو چکی ہے ۔ میںاس کے معاملے میں نہیں آسکتا‘‘۔۔ +’’بابا کچھ کیجئے جب میں نے اس کے ساتھ پارنٹر شپ کی تھی تو آپ سے پوچھا تھا ‘‘ +’’اس وقت یہ آفاق تھااب قافاہے آقا قافا‘‘ +’’بابا یہ آقا قافا کون ہے؟ ‘‘ +تو بابا غصہ سے بولا +’’ یہی تمہارا دوست تمہارا پارنٹر۔۔۔میں کہہ رہا ہوں لے جائو اسے یہاں سے۔۔‘‘ +میں نے ورما کو باہر کی طرف کھینچا اس کا چہرہ زرد تھا۔ میں نے اسے ہنس کر کہا +’’ دیکھنا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگامیرے سرپربھی کسی بہت ہی پہنچے ہوئے شخص کا ہاتھ ہے اور مجھے آقا قافا سے بھی کوئی خوف نہیں‘‘ +ورما نے مجھ سے پوچھا +’’ کیا تمہارا پہلے بھی کسی سادھو سے واسطہ پڑا ہے؟‘‘ +’’پھربابا کیسے کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے کسی بڑے سادھو کی تپسیا ضائع ہوئی ہے ‘‘ +ورماکے چہرے پر اتنی گہری تشویش دیکھ کر میں نے کہا +’’ مجھے وہ بھی کوئی آقا قافا کا چکر لگتا ہے تم نے دیکھا تھا نا سادھو جی مجھے آقا قافا کہہ رہے تھے‘‘ +’’ میں تو بہت الجھ گیا ہوں بھگوان خیر کرے۔۔۔۔پتہ نہیں تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘‘ +میری الجھنیں بڑھتی جا رہی تھیں ۔سادھو بابا نے میری پریشانی بھی بڑھا دی تھی میں نے اپنے حالات پر غور کرتے ہوئے ورماسے کہا +’’ میرا دل کہتا ہے کہ آقا قافا کوئی براشخص نہیں ہے اس کے ساتھ میرا کوئی روحانی رشتہ ہے مجھے ایسا لگتا ہے کوئی اسرار کھلنے والا ہے‘‘ +موبائل فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سائیکی تھی ، کہہ رہی تھی کہ وہ آقاقافا کے گھر میں ہے کیا میرے لئے ممکن ہے کہ میں بھی وہاں پہنچ جائوں۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے میں ادھر ہی آرہاہوں۔ فون پر بات ختم کر کے میں نے ورما سے کہا +’’مجھے آقا قافا کے گھر اتار دو ‘‘ +’’ کیا میں بھی تمہارے ساتھ آقا قافا کو مل سکتا ہوں ‘‘ +’’ کیوں نہیں آئو دونوں ملتے ہیں تم بھی اندازہ کرنا کہ وہ کیا چیز ہیں ‘‘ +اورہم دونوں آقا قافا کے گھر آگئے۔ لِونگ روم میں صرف سائیکی اور آقاقافا موجود تھے ۔آقاقافا مجھے اور ورما کو بہت محبت کے ساتھ ملے ۔ ورما سے کہنے لگے +’’تمہیں تقدیر میرے پاس لے آئی ہے شاید تمہارے لئے بھی مجھے پھر وہ جنگ شروع کرنا ہوگی جسے میں ہمالیہ کے غاروں میں چھوڑ آیا تھا۔‘‘ +ورما نے آقا قافا کی طرف دیکھا پھر میری طرف اس طرح دیکھا جیسے یہ پوچھنا چاہ رہا ہو کہ کچھ بولوں یا نہیں۔ مجھے ورما کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو گیا تھا اور سادھو بابا کے ساتھ اس کی گفتگو سن کرمیں یہ بھی جان چکا تھا کہ ورما کے بارے میں میرا خیال غلط ہے، وہ مکمل طور پر اپنے مذہب کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ میں نے ورما سے کہا +’’ ورما اگر تم آقا قافا سے کچھ پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھ لو یہاں ایک دنیا اسی مقصد کیلئے آتی ہے ‘‘۔ +ورمانے آقا قافا کی طرف دیکھتے ہوئے احترام سے کہا +’’میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکاآپ کچھ وضاحت کرنا پسند کریں گے‘‘ +’’ہاںمیں یہ کہہ رہا تھا کہ تمہارے اندر تجسس کی جوشمع جل رہی ہے وہ تمہیں میرے پاس لے آئی ہے۔ یہی روشنی کا راستہ ہے میں جانتا ہوں کہ تم ہندو ماں باپ کے بیٹے ہواور ہندو مت سے بہت دور چلے گئے تھے مگر رام ورما یعنی تمہارے سادھو بابا پھر تمہیں اپنے مذہب پر واپس لے آئے ہیںتمہیں یاد ہوگا جب تم پہلی بار سادھو بابا کے پاس گئے تھے‘‘۔۔ +’’ اس میں کوئی شک نہیںکہ سادھو بابا کے پاس جو طاقتیں ہیں وہ کم انسانوں کے پاس ہوتی ہیں مگران سے میر�� اختلاف اُن طاقتوں کے سر چشمے کے حوالے سے ہے ۔تم جب پہلی بار وہاں گئے تھے تو تم نے دیکھا تھا کہ اس کمرے میں رکھے ہوئے تمام دیویوں اوردیوتائوں کے بت سرخ تھے اور سرخ رنگ کا سیال فرش تک پھیلا ہوا تھا۔ تم نے اس وقت سوچا تھا کہ شاید کسی جانور کی قربانی دی گئی ہے وہ کسی جانور کا خون نہیں انسانی خون تھا اور اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ جس شخص کا خون تھااس شخص کو کسی نے قربانی کیلئے مجبور نہیں کیا تھامگر خیر کے عمل میں کسی طرح کی خودکشی جائز نہیں ہو سکتی ‘‘ +ورمانے بڑے احترام سے کہا +’’کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ وہ شخص کون تھا اور اس کی لاش کا کیا کیا گیا تھا، وہ اس وقت کہاں تھی؟ ‘‘ +’’وہ بت اور وہ سادھو بابا جو تمہیں اس وقت نظر آرہے تھے وہ وہاں نہیں تھے وہ سب کچھ ہمالیہ کے ایک غار میں ہورہا تھا تم اس اصل کا ایک روپ دیکھ رہے تھے جو سادھو بابا نے پتہ نہیں کیوں اپنایا ہوا ہے ‘‘ +’’یہ تو میں نے اور بھی کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ اس مندر میں خود سادھو بابا نہیں رہتے یہاںان کا ایک روپ دکھائی دیتا ہے خود سادھو بابا ہمالیہ کے ایک غار میں پچھلے ستر برس سے بھگوان کی تپسیا کررہے ہیںمگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ سادھو بابا کا نام رام ورما ہے ‘‘ +’’ تم نے ٹھیک سنا ہے اور وہ پہلی مرتبہ تمہاری طرف بھی اسی لئے متوجہ ہوئے تھے کہ تمہارا نام ورما ہے‘‘ +’’ مگرمندر کے بڑے پنڈت بھی سادھو بابا کے خلاف ہیں ان کے خیال کے مطابق ان کی ذہنی حالت درست نہیں رہی۔ پنڈت بتا رہے تھے کہ وہ کہتے ہیں کہ انہیںزندگی کے کسی دوسرے جنم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی انہیں کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ اُن کی کوئی خواہش ہے حتیٰ کہ کبھی کبھی وہ پوچا پاٹ کو بھی لالچ اور خوف کا روپ کہہ کررد کر دیتے ہیں ۔وہ مندر کے ایک کمرے میں رہتے ہیں مگر اس حصے میں کبھی نہیں گئے جہاں پوجا ہوتی ہے ۔اس دن تو میں خود وہاں موجود تھا جب انہوں نے اپنے کمرے سے تمام دیویوں اوردیوتائوں کے بت اٹھوادئیے تھے ‘‘ +’’ ہاں سادھو بابا جس منزل پر ہیں وہاںدیوتائوں کی پتھر اور مٹی کی شبہیںپیچھے رہ جاتی ہیںمگر سادھو بابا کی اپنی کہانی بھی بڑی حیرت انگیز ہے ‘‘ +’’سادھو بابا کی کوئی کہانی بھی ہے ‘‘ +’’ہر شخص کی ایک کہانی ہوتی ہے ، کچھ کہانیاں سیدھی سادی ہوتی ہیں اور کچھ پیچ دار ۔ہر لمحہ کوئی نیا موڑ کسی کی زندگی کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے‘‘ +لِونگ روم میںلوگ داخل ہونے لگے آقا قافا کی مجلس کا وقت ہوگیا تھا ۔چند لمحوں میں بیس پچیس لوگ جمع ہو گئے اورنماز کی تیاری ہونے لگی۔ آقا قافا اٹھ کر اندر چلے گئے ۔میں نے ورما سے کہا +’’ورما تم اگر جانا چاہتے ہو تو چلے جائو میں سائیکی کے ساتھ آجائو ںگا ، +ورما کا چہرہ بتا رہا تھا کہ آقا قافا نے اسے بہت زیادہ پریشان کردیا ہے ۔اس نے کہا +’’ نہیں آپ لوگ نماز پڑھ لیں میں انتظار کرتا ہوں ۔ میں نے آقا قافا کی مجلس میں شریک ہونا ہے‘‘ +نماز کے بعد آقا قافا اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں +’’تم سب میرے بھائی ہومیرے جیسے ہو۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی بھی اجنبی نہیں ،میں نے کبھی زبانوں کے لفظی و معنوی اختلافات ،رنگ ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر خود سے اپنا کوئی بھائی جدا نہیں کیا،کائنات میرا وطن ہے، آدمیت میری قومیت ہے ،محبت میری زبان ہے اور انسانیت میرامذہب ہے اور حواس خمسہ یعنی علم کے پانچ دروازے میرے لئے سچائی کے پانچ راستے ہیں مگر میں چھٹے دروازے کی بھی بات کرتا ہوں۔۔ علم کا چھٹا ��روازہ ہزاروں راتوں کی ریاضت کھولتی ہے ۔ایسی ہزاروں راتیں کہ جن کی ہر رات ہزار مہینوں پر بھاری ہوتی ہے ان راتوں کا قصہ میری سرگزشت ہے ۔تم مجھ سے میرے بارے میں پو چھتے تھے نا اور میں کہا کرتا تھا کہ مجھے کسی کا انتظار ہے میرا انتظار مکمل ہو گیا ہے۔ جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے ۔میںاب تمہیں اپنی کہانی ضرور سنائوں گا مگر اسے جتنا آہستگی سے سنو گے اتنی دیر تمہارا اور میرا رابطہ بر قرار رہے گا کیونکہ اس کے بعد مجھے جانا ہو گا۔ وہیں جہاں سے میں آیا ہو ں‘‘ ۔ +ایک نوجوان نے اٹھ کر کہا +’’ ہم ایسی کوئی کہانی نہیں سننا چاہتے جو ہمیں آپ سے جدا کردے ‘‘ +’’ تقدیر اٹل ہے اس میں کوئی ترمیم میرے جیسا ناموجود شخص نہیں کر سکتا ‘‘۔ +میں نے اٹھ کر کہا +’’ مجھے یقین ہے کہ آپ کو جس کا انتظار تھا وہ میں ہی ہوں مجھے آپ سے آپ کی کہانی نہیں پوچھنی صرف اتنی استدعا ہے کہ یہ بتا دیجئے کہ آپ کا مجھ سے کیا رشتہ ہے ‘‘ +آقا قافا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور بولے +’’میں بائیں طرف سے آفاق ہوں تم دائیں طرف سے قافا ہو ۔تمہارے اور میرے درمیان صرف دائیں اور بائیں کا فرق ہے ۔اپنے نام کے حروف الٹا کر دیکھ لو بات تمہاری سمجھ میں آجائے گی ۔۔۔۔لیکن مجھے اپنی کہانی سنانی ہے وگرنہ میری زندگی کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔میں مکمل نہیں ہو سکوں گا۔چلو آج کا دن اور اسے سنائے بغیر گزار دیتے ہیں۔۔جدائی کا ایک دن اور سہی ۔۔۔آج کی مجلس ختم اب کل ملیں گے ‘‘ +اسی لمحے ایک شخص اندر آیا اور کہا +’’حضور آپ کے شاعر دوست جاوید اختر بیدی انتقال کر گئے ہیں ۔‘‘ +آقا قافا اناللہ واناراجعون کہہ کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بے خود ہو کرکہنے لگے +’’بریڈفورڈ کاایک شاعر مر گیا ہے ۔ ایک رات گئے تک جاگنے والے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں۔ اب کبھی بے وقت میرے گھر کی بیل نہیں بجے گی۔ اب مجھے کون دریا کی طرح بہتے ہوئے نغمے سنائے گا۔اب میں کس کی گفتگو سے دانش کے موتی چُنا کروں گا۔اب کون مجھے کہے گا آقاقافا تم کچھ نہیں جانتے تم کچھ بھی نہیں جانتے۔وہ رات کے دکھ بانٹنے والا ۔وہ صبح کا پر نورنوائوں سے بھرا ہوا مسافر ۔وہ میرا شاعروہ میرا بیدی نجانے کس خوبصورت نظم کا تعاقب کرتے ہوئے کہیں بہت دور چلا گیا ہے وہاں چلا گیا ہے جہاں سے کوئی صدا پلٹ کر نہیں آتی ۔۔۔مجھے شاعری کا بدن تابوت میں لیٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔۔ اس کے خاموش لبوں سے اس گیت کی گنگناہٹ سنائی دے رہی ہے +موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی +جیون کاٹھ کباڑ مکاں کا اور دکھوں کا گھر +موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی +جیون ایک پہاڑ سے بوجھل ، کون اٹھائے بوجھ +جاوید اختر کون تھا ؟ کیا تھا ؟ کب پیدا ہوا ؟ کیوں مر گیا ؟میں کچھ بھی نہیں جانتا اور نہ ہی جاننا چاہتاہوں میرے یہی بہت ہے کہ وہ ایک شاعر تھا اس کی دوستی سے میرے حسنِ ذدق کے پھول مہکتے تھے اس کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل تھا ۔ ہمدرد دل ۔ وہ انسانیت کے زخم زخم بدن کو دیکھ کر چیخ اٹھتا تھااور اس کی چیخ ایک لے کی صورت میں بدل جاتی تھی ایک ایسی لے جس میں گداز تھا جو اس کے مصرعوں میں پروئے ہوئے لفظوں کو نرم و ملائم بنا دیتی تھی ۔ طبعیت کی سادگی اور فقیرانہ مزاج نے شہر ِ سخن میں شہرت کی ہوس کو اس کے قرب و جوار میں کبھی آباد نہیں ہونے دیا تھا وہ زندگی کے ساتھ دیر تک اس کٹیا میں بیٹھ کر میاں محمد بخش کی گفتگو کرتا رہتا تھا جس کٹیا کے ماتھے لکھا ہوا ہے ’’سب مایا ہے ‘‘جس کا دروازہ توصیف وتنقیص کی چاپ سن کر کبھی نہیں کھلا۔جس کی دیواروں پر جھوٹی شان و شوکت کی کوئی پینٹنگ موجود نہیںجس کے کچے فرش سے صرف مٹی کی سچی خوشبو آتی ہے۔ سچائی کی خوشبو۔۔جو اِن دنوں مٹی سے بھی آنی بند ہوگئی ہے اور اب پورے بریڈفورڈ میںکون رہ گیا ہے جس کے نواح میں اس خوشبوکی فراوانی ہے اللہ مجھے ہمیشہ اس خوشبو سے سرشار رکھے۔۔۔ یہی خوشبو مجھے زندگی کا مرثیہ نہیں لکھنے دیتی میں جب بھی اس خوشبوسے کہتا ہوں کہ موت ایک آفاقی حقیقت ہے تو ادھرسے جواب آتا ہے ہمارا تو زندگی پر ایمان ہے۔۔ نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پر۔۔۔ +پچاس سال کوئی عمر تو نہیں ہوتی جاوید اخترکو جانے کی اتنی بھی کیا جلدی تھی دس بیس سال اور زندہ رہ جاتا تو قضا کا کیا جاتا ۔ اس سے قضا کو کیا دشمنی تھی وہ تو خواب لکھنے والا شخص تھا گیت بننے والے ہاتھوں پر زندگی کی اتنی مختصر لکیر نہیں ہونی چاہئے ۔مجھے توہمیشہ اس پار سے آتی ہوئی کشتیوں سے آنسوئوں بھرے گیت سنائی دیتے ہیں سنا ہے ان آنسوئوں کے موتیوں میں کوئی جنت چھپی ہوئی ہے مگر اس جنت تک پہنچنے کے لئے آنکھ کے نمکین پانیوں کا سمندر عبور کرنا ضروری ہے ﴿جاوید اختر نیدی زیادہ دیرتم جنت میں تنہائی نہیں محسوس کرو گے کیونکہ ہر شخص نے اپنی باری پر اس سمندر کو عبور کرنا ہے ‘‘ +افسردہ و غمگین آقاقافا یہ گفتگوکر اندر چلے گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں اس شاعر دوست کی موت کا بہت دکھ ہوا ہے۔ سائیکی،ورما اور میں بھی باہر آگئے ۔ہمارے درمیان کچھ زیادہ گفتگو نہیں ہوئی ۔سائیکی کے پاس اسوقت اپنی کار نہیں تھی اس نے معمول کے مطابق ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ سنبھال لی ورما پیچھے بیٹھ گیا۔میں نے کار میں بیٹھتے ہی کہا +’’ آج کے سائنسی دور میں یہ قصوں کہانیوں والی باتوں کو حقیقت تسلیم کرنا بہت مشکل کام ہے اگرچہ ہم یہ آقا قافا کی کرشمہ سازی نہیں سمجھ پا رہے مگرمیں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں کہ سادھو بابا ہمالیہ کی غاروں میں بھی موجود ہوتا ہے اور ہزاروں میل دور یہاں برطانیہ میں ۔۔نہیں یہ ممکن نہیں ہو سکتا ‘‘ +’’کیوں نہیں ممکن ہو سکتا ۔ٹیلی ویزن کی نشریات دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھیجی جا سکتی ہیں۔پروجیکٹر سے ہم فضا میں چلتے پھرتے لوگ بنا سکتے ہیں ۔ دکھا سکتے ہیںتو یہ کیوں ممکن نہیں ‘‘ +یہ سائنس ہے ۔۔اورہمیں معلوم ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے ۔مگر ایک سادھو اس طرح کے شعبدے کابغیر کسی سائنسی قوت سے اس سے کہیں زیادہ مکمل اور بھرپور اظہار کر سکتا ہے۔‘‘ +’’ جو بات دماغ میںنہیں آتی اس مطلب یہ نہیں کہ وہ ہو سکتی ۔ اب بے شمار باتیں ایسی جن کے متعلق سائنس خاموش ہے ۔ہماری آنکھ ایک حد تک دیکھ سکتی ہے اور ہمارا ذہن ایک حد تک سوچ سکتا ہے۔ میری سہیلی کرس ہے نا وہ اس ٹیم کا حصہ ہے جو’برمود ٹرائی اینگل ‘ پر ریسرچ کر رہی ہے وہ مجھے بتا رہی تھی کہ بحر اوقیانوس کی آسیبی مثلث میں اس وقت تک ایک سو سے زیادہ بحری اور ہوائی جہاز عرق ہو چکے ہیں ۔ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں فزکس کا کوئی قانون کام نہیں کرتا۔اتنی ترقی کے باوجود آج تک سائنس اس جگہ عرق ہونے والے بحری یا ہوائی جہازوں کا کوئی نشان تلاش نہیں کر سکی۔وہاں عجیب غریب روشنیوں کا ہجوم رہتا ہے جو ہوائی جہاز وہاں گم ہوئے ہیں ان کا آخری پیغام صرف یہ ریکارڈ ہوا تھا کہ ہم سفید پانی پر آگئے ہیں ۔بے شمار لوگوں نے وہاں بہت سی حیرت انگیز اور مافوق الفطرت باتوں کا مشاہدہ کیاجب لوگ اس کے قریب جانے لگتے ہیں تو ان کی گھڑیوں میں تعطل پ��دا ہونے لگتا ہے مشینیں بند ہونے لگتی ہیں۔ جہازوں کا کنٹرول پائلٹوں اور ملاحوں کے اختیار میں نہیں رہتا۔جہاز تو جہاز وہاں امریکی اٹیمی آبدوز ’’اسکارپین ‘‘غائب ہو گئی تھی۔۔اب سائنس اس مثلث کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہے ۔ کیا تم اس سچائی پر یقین نہیں کروگے ‘‘ +میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا +’’ ہاں میں نے سن رکھا ہے اس جگہ کے بارے میں ۔۔اور دین اسلام کے حوالے سے بھی بہت سی مافوق الفطرت باتوں پر میرا یقین ہے۔تمہیں خانہ کعبہ کے متعلق ایک بات بتائوں ۔ جسے ناسا والوں نے اپنی ویب سائیٹ پر آویزاں کیا تھا مگر پندرہ بیس دنوں کے بعد اتار دیاجب امریکی خلا باز نیل آرم سٹرانگ خلا کی طرف جا رہا تھا تو اس نے زمین کی کچھ تصویریں بنائی تھیںاس نے دیکھا زمین سے ایک خاص مقام سے کچھ شعاعیں نکل رہی تھیں اور مسلسل آگے جارہی تھیں ۔ وہ انہیں کیپچر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس نے اپنے کیمروں کو اس مقام پر فوکس کیا جہاں سے وہ شعاعیں نکل رہی تھیں تو اس نے دیکھا کہ وہ مسلمانوں کا سب سے مقدس مقام خانہ کعبہ ہے‘‘ +’’ یہ بھی بات ثابت شدہ ہے کہ خانہ کعبہ جہاں ہے وہ جگہ زمین کا مرکز ہے ‘‘ +’’یہاں گلاسکو میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں سڑک بلندی کی طرف جا رہی ہے مگرجب وہاں گاڑی کو روک کر بند کردیا تو پھر بھی گاڑی بلندی کی طرف چلتی رہتی ہے۔ میں نے خود جا کر اس بات کا تجربہ کیا تھا یقین کرو جب میں گاڑی کو بند کیا اور بریک سے پائوں اٹھایا تو مجھے یقین تھا کہ گاڑی پیچھے کی طرف جائے گی کیونکہ پیچھے اترائی تھی اور آفے چڑھائی مگر معاملہ اس کے برعکس ہواایسا لگا کہ کوئی نادیدہ قوت گاڑی کو بلندی کی طرف دھکیلتی چلی جارہی ہے ۔‘‘ +’’اس وقت دنیا میں تین ایسی جہگیں دریافت ہو چکی ہیں ایک مدنیہ منورہ کے قریب ایک کہیں کینڈا ،میں اور ایک ۔۔ جس کا تم ذکر رہے ہو ۔سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین کی کشش خود بخود پڑھ جاتی ہے۔کیوں بڑھ جاتی ہے اس پر ابھی تحقیق ہورہی ہے‘‘ +ہم تینوں کھانا کھانے کیلئے ایک ایستوران میں پہنچ گئے تھے ورما کہنے لگا۔ +’’ اسی طرح کے دو اوربالکل سچے واقعات بھی مجھ سے سن لو۔ ان واقعات کو ایک دنیا نے تسلیم کیاہے۔ایک واقعہ تو یہ ہے کہاخبار بوسٹن گلوب کی خبریں وصول کرنے والا رپورٹر ربیٹھے بیٹھے سو گیا رات تین بجے اچانک اس کی آنکھ کھلی اس نے بھیانک خواب دیکھا تھا اس نے اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ خواب اثر کچھ زائل ہوا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس خواب کو لکھا جائے اس نے ایک کاغذ پر وہ خواب کو تحریر کیا کہ لوگوں کی چیخیں صاف سنائی دے رہی تھیں جو سمندر کے کھولتے ہوئے پانی میں گرتے جا رہے تھے ۔ وہ بری طرح تڑپ رہے تھے چیخ رہے تھے پگھلا ہوا چٹانوں کا لاوا لوگوں کے سروں پر گر رہا تھاکھیت اور گائوں فنا ہوتے جا رہے تھے۔ آتش فشاں پہاڑ کے ایک زبردست دھماکے نے جزیرہ پیر لیب کو ہوا میں اچھال دیا تھا فضا میں آگ دھکتے ہوئے کیچڑ اور خون آلودہ انسانی گوشت کے مرغولے اڑ رہے تھے۔ جزیرہ پگھلا ہوا بن کر سمندر میں عرق ہو گیا۔‘‘ +یہاں پہنچ کر ورما نے کہا +’’ میں نے تو بس ذرا سی نقشہ کشی کی ہے اس نے بڑی باریک سے تباہی کا ایک ایک منظر کاغذ پر رکھ دیا تھا‘‘ +’’ آگے بتائو پھر کیا ہوا ‘‘ +’’صبح وہ اس کاغذ کو اسی طرح ٹیبل پر چھوڑ کر گھر چلا گیا اخبار کا ایڈیٹر آیا تو اس نے اسے خبر سمجھ کر شائع کردیا۔خبر اخبار کیلئے درد سر بن گئی لوگوں نے تفصیل طلب کرنی شروع کردی ۔رپوٹر نیکہا وہ خواب تھا ۔ اسی طرح دو دن گزر گئے اور اخبار اس سلسلے میں معذرت نامہ شائع کرنے پر تیار ہو گیاکہ امریکہ کے مغربی ساحل سے اسی طرح کی تباہی کی ایک خبر موصول ہوئی جس کامکمل منظر نامہ وہی تھا جو اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وقت بھی وہی تھا۔صرف اتنا فرق تھا کہ خواب میں اس جزیرہ کا نام پیرلیب تھا جب کہ اس جزیرے کانام کراٹووا تھا لیکن جب تحقیق کی گئی تو پچاس سال پہلے اس جزیرے کا نام پیر لیب ہی تھا بعد میں بدل کر اس کا نام اکاٹووا رکھ دیا گیا تھا۔۔اب اسی چیز کو آپ کیا کہیں گے اسی طرح کا ایک واقعہ انڈیا میں پیش آیاَوہ واقعہ بھی سائنس کی سمجھ سے بالاتر ہے۔شانتی دیوی دہلی میں پیدا ہوئی جب وہ سات برس کی ہوئی تو اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے متھرا نامی قصبے میں زندگی گزار چکی ہے۔اس نے ماں اپنے گھر کا محل وقوع بھی بتایا جب اس نے اس طرح کی باتیں زیادہ کرنی شروع کیں تو ماں اسے ڈاکٹر کے پاس لی گئی۔ ڈاکٹروں کو بھی کچھ نہ آیا۔جب وہ کچھ اور بڑی ہوئی تو ایک متھرا سے ایک شخص اس کے باپ سے ملنے آیا تو اس نے کہا یہ میرے خاوند کا چچازاد بھائی ہے اس کا یہ نام ہے اس نے بتایا کہ اس کے دوبچے تھے اس کانام لدگی تھا ۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا میرے کزن کی بیوی کا یہی تھا وہ بچے کی پیدائش کے دوران مرگئی تھی۔پریشان حال والدین کی خواہش کر وہ آدمی اپنے کزن کو متھرا سے دہلی لے کر آیا کہ شانتی اس کو پہنچاتی ہے یا نہیں وہ آدمی جیسا ان کے گھر آیاتو شانتی اس سے لپٹ گئی کہ یہ میرا شوہر ہے۔شانتی دہلی میں صرف اردو زبان سکھائی گئی تھی مگر وہ اپنے خاوند کے ساتھ متھرا کی زبان میں گفتگو کرنے لگی۔شانتی کے باپ کے اعلی حکام کے ساتھ اس لئے بات کی انہوں نے سائنس دانوں کی ایک کمیٹی بنادی جہنوں نے شانتی دیوی پر بہت ریسرچ کی مگر کچھ سمجھ میں آیا ۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے متھرا لے جایا گیا اس نے وہاں ایک ایک بات ایک ایک نشانی درست بتائی ۔ اپنے بچوں اپنے رشتہ داروں کو پہچانا۔وہ عورت آج بھی زندہ ہے ا ور انڈیا میں اچھی بھلی ملازمت کرتی ہے اگر تم اس سے ملنا چاہو تو مل بھی سکتے ۔مگر تمہارے یہ مسئلہ ہے کہ تمہارا مذہب دوسرے جنم کو تسلیم نہیں کرتا‘‘ +میں نے ہنس کر کہا +’’ جس عجیب و غریب چکر میں ہم پھنس گئے ہیں ۔ اس میں مذہب اور نا مذہب کی کوئی بات نہیں ۔مجھے تو صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ دنیا میں اگر کوئی مافوق الفطرت کام ہوا ہے یا ہونا ہے تو اس کا شکار ہم کیوں ہو رہے ہیں۔‘‘ +سائیکی نے کہیں جانا تھاوہ ریستوران سے ٹیکسی لے کر چلی گئی ورماکومیں نے گھر چھوڑ دیا ۔اور یونہی کار چلانی شروع کردی ۔مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہاں جا رہا ہوں ۔میں مسلسل آقا قافا کے بارے میں سوچے جا رہا تھااچانک مجھے احساس ہوا کہ میری کار ایم سکس او سکس پر موڑ گئی ہے ۔اب مجھے ایم ون سے مڑ کر واپس آنا تھاایم سکس او سکس چار میل لمبا ایک موٹر وے ہے جسے بریڈ فورڈ کو ایم ون سے ملانے کیلئے بنایا گیا ہے ۔میں نے کار کی سپیڈ بڑھا دی۔مجھے کچھ یاد آگیا تھا + + +اباجان ایک مردِ قلندر کی شان کے ساتھ اس دنیا میں رہے اور قلندرانہ شان ہی کے ساتھ ایک صبح چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ +سوگ کے ان تین دنوں میں فیس بک Face Book پر بچوں کے خیالات پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے گہرے احساسات، اتنے معنی خیز، اتنے نازک اور اتنے مضبوط و مربوط۔۔ +ایک پوتے نے لکھا۔’’ آج فضا مسموم ہوگئی ہے، ایک نسل چلی گئی۔۔۔ ۔۔۔ اے کاش کوئی ہمیں بکھرنے سے بچالے۔۔۔ آج تو ہماری چیخیں بہرے کانوں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہیں۔‘‘ +ایک اور پوتے نے لکھا۔’’ آج میں پھر سے یتیم ہوگیا۔‘‘ +ایک بہو نے لکھا۔’’ آج میرا ایک اور سائبان کھوگیا۔‘‘ +ایک پوتی نے کینیڈا سے لکھا۔’’ میرے ویلینٹائن ، میرے دادا ابّا۔‘‘ +ایک بچی نے لکھا ’’ لوگ اس دنیا سے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ +ایک اور بچی نے لکھا۔’’ جانے والے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ریسٹ ان پیس دادا ابا۔‘‘ +ایک اور بچی کہتی ہے’’ اے کاش میں گزرے ہوئے وقت کو واپس لا سکتی۔‘‘ +یہ محبت نامے اور یہ عشقیہ ڈائیلاگ دراصل اس فاتحِ عالم محبت کا جواب ہیں جو اباجان نے ہمیشہ ان بچوں کے ساتھ روا رکھی۔ +میرے مرحوم بھائی نے ایک دن ہنس کر اباجان سے کہا تھا ، ’’ اباجان آپ ہم سے زیادہ ہمارے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ سچ ہے، سود اصل سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔‘‘ +لاہور سے سرور چچا نے جو بوجوہ ضعیفی اور ناسازی طبیعت کراچی تشریف نہیں لاسکے، فون پر مجھ سے کہا، ’’ ہم سب انھیں چھوٹے بھائی کہتے تھے لیکن وہ چھوٹے نہیں تھے، وہ تو بہت بڑے تھے۔‘‘ +اباجان کا نام محمد اسمٰعیل اور تخلص آزاد، والد کا نام شیخ احمد تھا، ۱۹۲۴ میں سی پی برار کی ایک تحصیل باسم ضلع آکولا) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم باسم ہی میں حاصل کی، وہیں ایک دینی استاد مولانا غفور محمد حضرت سے تعلق پیدا ہوا جو دیو بندی عقیدے کے سیدھے سادے عالم تھے، جنھوں نے انھیں ساری زندگی کے لیے ایک پختہ عقیدہ اور لائحہ عمل عطا کیا۔ اللہ تب العزت کی وحدانیت اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت، ختمِ رسالت، حرمت اور معصومیت پر پختہ یقین اور بدعات سے بریت، اس عقیدے کے خاص جزو تھے۔ نوجوانی میںحیدرآباد آگئے، اور ایک پیر صاحب کی مریدی اختیار کی۔ دینی استاد کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیر صاحب کا سات سالہ ساتھ بھی انھیں اس عقیدے سے متزلزل نہیں کرسکا۔ اس عقیدے کا شاخسانہ سرسید احمد خان کے خیالات سے ہم آہنگی اور مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی ہمدردی تھا جو مرتے دم تک ان کے ساتھ رہا۔ صوبہ سرحد میں وقتاً فوقتاً قیام کے دوران تبلیغ کے ساتھ ساتھ تحریک ِ پاکستان کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا۔ +اللہ رب العزت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی انسان( جس میں ان کی اولاد بھی شامل ہے) کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ جو ملا صبر و شکر کے ساتھ کھایا، نہیں ملا تو بھوکے رہے۔ ایامِ طفولیت میں راقم الحروف کے ٹائیفائڈ جیسے موذی مرض میں بھی ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لیتے وقت جب کمپاوئنڈر نے یہ کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی طرف سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور چلے آئے۔ +اک طرفہ تماشا تھی حضرت کی طبیعت بھی +انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں اور خصوصاً شمال مغربی سرحدی صوبے میں ان گنت تبلیغی دورے کیے اور بے شمار جلسوں اور مناظروں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو مسلمان کیا۔ +اردو کے علاوہ انگریزی ، عربی، فارسی، سنسکرت، پشتو، بریل Braille اور مرہٹی پر عبور حاصل تھا، گویا ہفت زبان تھے۔ شاعری بھی کی اور اس ناطے شعری ذوق بھی بدرجہ اتّم موجود تھا۔ طبیعت میں شوخی و شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اظہار اکثر ہوتا۔ +خود ہی سناتے تھے کہ بازار میں چلتے ہوئے کسی شخص کی ہیئت کذائی دیکھ کر بے اختیار ہنسی آگئی، اگلے ہی لمحے زمین پر پڑے ہوئے کیلے کے چھلکے سے پھسلے تو چاروں خانے چت، زمین پر پڑے تھے۔ فوراً ہی اٹھے اور بھرے بازار می�� کان پکڑ کر تین دفعہ اٹھک بیٹھک کی ، اللہ رب العزت سے توبہ کی اور سکون سے آگے چلدیئے۔ +۱۹۴۸ میں سقوطِ حیدرآباد کے موقعے پر ایک ہندو غنڈے نانا پٹیل عرف پتری سرکار کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ بیس ماہ کی جیل کاٹ کر ہندوستان کی جیل سے رہا ہوئے تو پاکستان کی جستجو کی۔ اونٹ پر سوار ہوکر سرحد پار کی اور میر پور خاص پہنچے۔ پاکستان آکر پشاور میں سکونت اختیار کی لیکن بے قرار طبیعت نے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو یہاں سے بھی صوبہ سرحد کے قبائیلی علاقوں کے کئی یادگار دورے کیے۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان آتے ہی پیر صاحب اور پھر ۱۹۵۴ میں کراچی آکر تبلیغی کام دونوں کو خیر باد کہہ کر پرانی نمائش پر نابیناوں کے ایک اسکول IDA REU میں استاد ہوگئے۔ ۱۹۶۰ میں معلمی چھوڑکر نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ میں بریل پریس کے مینیجر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔ نمایاں کارناموں میں معیاری اردو بریل کا قاعدہ اور بریل میں قرآن شریف کیطباعت شامل ہیں۔ اس سے پہلے اردن اور سعودی عرب سے بریل قرآن شائع ہوچکا تھا لیکن اردن والے نسخے میں Punctuations انگلش والے استعمال ہوئے تھے اور سعودی نسخے میں سرے سے اعراب ہی نہیں تھے، جبکہ اباجان والے نسخے میں اردو بریل کے اعراب استعمال کیے گئے ۔ ۱۹۷۰ میں بریل قرآن مکمل کرچکے تھے جسکی تصحیح مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب نے فرمائی۔ تقریباً بیس سال نیشنل فیڈریشن فار دی ویلفیئر آف دی بلائینڈ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۹ میں نیشنل بک فاونڈیشن میں بریل پریس کے مینیجر مقرر ہوئے۔ +کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا ۔ مطالعے کا شوق جنون کی حد تک تھا، جسکی ابتدا اپنے ماموں کی ذاتی لائبریری سے ہوئی اور پھر قیامِ حیدرآباد کے دنوں میں وہاں کی مشہور پبلک لائبریریوں سے خاطر خواہ اکتساب کیا۔ وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل، سامنے والے پڑوسی نے ایک رات تقریباً ڈھائی بجے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بلا کر کھڑکی سے دکھایا، اباجان بڑے مزے سے اپنے بستر پر بیٹھے ، دنیا و مافیہا سے بے خبر، کتاب کا مطالعہ کررہے تھے اور نوٹس بنارہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نظارہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے تھا۔ کئی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں جن میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی کتاب ’’ خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ جو بعد میں ماہنامہ تعمیرِ افکار کے سیرت نمبر میں بھی شایع ہوئی، ’’ اسلامی معاشرہ اور نابینا افراد‘‘ ، ’’ حضرت ابوزر غفاری‘‘ اور مذاہبِ عالم کے تقابلی مطالعے پر کئی قابلِ ذکر مضامین جو شش ماہی جریدہ السیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے) شامل ہیں۔ +اباجان نے ایک اسلامی عالم، داعی حق، بہترین مقرر، بہترین استاد، مضمون نگار اور comparative religion کے طالب علم کی حیثیت سے ایک بھر پور زندگی گزاری، وہ اقبال کے شعر +جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں +کی عملی تشریح و تفسیر بن کر رہے اور نسیمِ صبح کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہمارے درمیان سے گزر گئے، جسکی خوشبو، تازگی اور صباحت مدتوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی، رلاتی رہے گی اور تڑپاتی رہے گی۔ +حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا +( ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو اباجان کی وفات پر یہ مضمون لکھا اور پھر ان کی سوانح لکھنی شروع کی + + +[[محمد اشفاق چغتائی کی کتابیں]] +اے طالبِ تہذیب ِ عدم اوڑھ الف +اے شام بدن، قریہ ئ غم اوڑھ الف +پھر تجھ میں سمٹ آئیں گے دونوں عالم +تُو میم پہن، میرے قلم اوڑھ الف +اے لالہ و گل ، برگ و سمن میم پہن +اشفاق کہے نور کی معراج اسے +اے حسن صفت، حمد بدن میم پہن +اے دیدہ ٔ زر تار سحر اوڑھ الف +اے رات کی بے نور نظر اوڑھ الف +اک موسمِ گل پوش ازل تک ہوگا +موہوم بہاروں کے شجر اوڑھ الف +تخلیق و عدم ، لوح و قلم صرف خیال +ہر سمت جہاں میں ہے بہم صرف خیال +محسوس کرو خود کو نہ اشفاق یہاں +موجود کوئی اور ہے ہم صرف خیال +ہر لمحہ ہوا آپ (ص) کا توحید بدست +مخلوق ہوئی آپ (ص) سے تمجید بدست +توصیف کریں آپ (ص) کی دونوں عالم +آفاق نماآپ(ص) ہیں خورشید بدست +اس رات کے ڈھلنے میں بڑی دیر ہوئی +سورج کے نکلنے میں بڑی دیر ہوئی +اشفاق کئی توڑے ہیں ایٹم دل نے +پتھر کو پگھلنے میں بڑی دیر ہوئی +الحمد کے پرُشوق مسافر مجھ میں +لاہوتی فضائوں کے ہیں طائر مجھ میں +صحرائے عرب دل میں ہے میرے اشفاق +اونٹوں کی قطاروں کے مناظر مجھ میں +ہے علم مجھے ٹوٹ گیا ہوں اس سے +ہے مجھ میں کہیں، اور جدا ہوں اس سے +اشفاق اسے میری ضرورت کب ہے +میں اپنے لیے بول رہا ہوں اس سے +تقدیر کے پابند کو معلوم نہیں +کچھ پیرِ خرد مند کو معلوم نہیں +یہ اپنی بصارت ہے فسانہ اشفاق +کچھ چشم ِ نظربند کو معلوم نہیں +یہ چاک گریبانی یہ دامن پہ لکیر +کافی نہیں یہ وقت کے جوبن پہ لکیر +تُو نے تو پہن رکھا ہے صوفی کا لباس +اب کوئی لگا سرخ سی گردن پہ لکیر +تسلیم یہاں جام بھی ساقی بھی ہے +تحقیق تری دید فراقی بھی ہے +تعمیر تُو کر آئینہ خانہ لیکن +یہ دیکھ کہ کچھ آنکھ میں باقی بھی ہے +اک حسن ِ دل آویز پہ مر لیں ہم لوگ +اک خوابِ ابد آنکھ میں بھرلیں ہم لوگ +وہ پھونک نہ دے صورِ سرافیل کہیں +کچھ دیر چلو نیند ہی کر لیں ہم لوگ +کس ذات کے بازار میں ہم رہتے ہیں +یوں لگتا ہے دیوار میںہم رہتے ہیں +معلوم نہیں ہوتا یہ صدیوں ہم کو +تہذیب کی کس غار میں ہم رہتے ہیں +اس عالمِ ناسوت میں آئی کیوں ہے +اس قریہ ٔ مبہوت میں آئی کیوں ہے +اشفاق کوئی روح سے پوچھے اتنا +اس جسم کے تابوت میں آئی کیوں ہے +ہر ایک گھڑی کن کی روانی کیا ہے +یہ آدمی کی نقل مکانی کیا ہے +اشفاق فقط رزق کا ہے یہ قصہ +تہذیب و تمدن کی کہانی کیا ہے +افلاک کی تنویر نظر آتی ہے +ادراک میں تقدیر نظر آتی ہے +جب شکل بناتی نہیں منطق تو پھر +کیوں ذہن میں تصویر نظر آتی ہے +اپنے دلِ ناکام سے کیا بات کریں +غم ہائے سیہ فام سے کیا بات کریں +اشفاق یہ خاموش ہے اپنے دکھ سے +اس درد بھری شام سے کیا بات کریں +آنکھوں نے کوئی خواب گنوایا کب ہے +دنیا کو لہو اپنا دکھایا کب ہے +چہرے پہ لکھی میں نے رباعی اشفاق +کاغذ پہ کوئی نقش بنایا کب ہے +اک چاند ستارہ سا علم میں رکھنا +آزاد خیالی کو دھرم میں رکھنا +اشفاق تجھے ربِ محمد(ص)(ص) کی قسم +سچائی کی طاقت کو قلم میں رکھنا +اسلام وہی اور رسالت ہے وہی +جو ایک ہو دنیا میںحکومت ہے وہی +اشفاق مدینہ ہے وفاقی مرکز +اس امتِ مسلم کی ضرورت ہے وہی +کیا قوم کہیں حاملِ تہذیب ہوئی +بارودی سرنگوں کی ہے تنصیب ہوئی +پھر امن کا بندوق سے پرچار ہوا +تعمیر کے پھر نام پہ تخریب ہوئی +نیکی کے ، عبادت کے خزینے کو کہیں +جیون میں سعادت کے قرینے کو کہیں +ہے تزکیۂ نفس کی جنت اشفاق +رمضان ثوابوں کے مہینے کو کہیں +برسات میں ، اشکوں کے مہینے میں آ +دھڑکن کی طرح درد کے سینے میں آ +اشفاق نکل کفر سے باہر کچھ دیر +آ اپنی محبت کے مدینے میں آ +سچائی نظربند نہیں ہے کوئی +اللہ کا فرزند نہیں ہے کوئی +فرعون ہو عیسیٰ ہو کہ مریم اشفاق +انسان خداوند نہیں ہے کوئی +کچھ اور نہیں ، کہیں کوئی سایہ تھا +کہتی ��ے ز میں ، کہیں کوئی سایہ تھا +سورج سے بھری ہوئی گلی ہے اشفاق +کل رات یہیں کہیں کوئی سایہ تھا +برسات ہے اور جسم بھی گیلا سا ہے +بارش کا ثمر کڑوا کسیلا سا ہے +کشمیر کی وادی میں ہوں زندہ اشفاق +سردی سے بدن شام کا نیلا سا ہے +اعجازِ طلب کس میں ہے طالب ہے کون +عرفان کسے چاہیے ، کاذب ہے کون +میں دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق +میں سوچتا ہوں میرا مخاطب ہے کون +مجبور قوانین کی ، قدرت کی غلام +ہے ردِ عمل کوئی نہ طاقت کی غلام +آزاد ہے یہ ذہن ازل سے اشفاق +انسان کی حرکت نہیں فطرت کی غلام +ہر چیز کے انکار میں موجود ہے وہ +اس روح کے اسرار میں موجود ہے وہ +اشفاق عدم سے ہوئی وارد تخلیق +موجود کے اظہار میں موجود ہے وہ +اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی +اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی +انسان جو اس جسم سے باہر نکلا +تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی +احساس کے تمثال سے باہر دیکھا +افعال سے اعمال سے باہر دیکھا +مطلوبِ حقیقی ہے جو اپنا اشفاق +اس حسن کو اشکال سے باہر دیکھا +کیا گیت میں سنگیت میں ڈھالا جائے +کیا پھول سے چہرے کو اچھالا جائے +اعمال نظر آتے ہیں خال و خد سے +کیا حسن، تناسب سے نکالا جائے +کیا عرشِ علیٰ طور پہ دیکھا جائے +کیا خواب نیا طور پہ دیکھا جائے +کہسار سیہ آگ سے ہیں وہ اب تک +اللہ کو کیا طور پہ دیکھا جائے +ہے خاک سے کچھ بیر مجھے لگتا ہے +یہ میرا حرم دیر مجھے لگتا ہے +اشفاق جدا اصل سے کرنے والا +یہ جسم کوئی غیر مجھے لگتا ہے +احساس کی یکسوئی ضروری تو نہیں +شعلے کے لیے روئی ضروری تو نہیں +اشفاق بدن خاک بنا لے اپنا +ہونے کے لیے دوئی ضروری تو نہیں +پانی میں کوئی شمع جلائی تو نہیں +پھر طورکی تحریک چلائی تو نہیں +اشفاق کسی تازہ تجلی کے لیے +سورج کی طرف آنکھ اٹھائی تو نہیں +امید ، سیہ خاکِ قفس چھونے لگی +وہ رات کے تاریک محل کی چھت پر +موسیٰ نے کہیں طور کا جلوہ دیکھا +امت نے اترتا من و سلوی دیکھا +روٹی کے لیے شہر میں شب بھر اشفاق +کب خون میں ڈوبا ہوا بلوہ دیکھا +رنگوں سے کبھی درد کو تصویر کریں +تیشے سے کبھی خواب کی تعبیر کریں +تخلیق کریں جب کوئی خوش کن نغمہ +غمگین خیالات کی تشہیر کریں +سچائی پہ موہوم سی کچھ بات ہوئی +بس موت پہ ہی بزمِ سوالات ہوئی +یہ بات الگ میں نہیں یونان گیا +سقراط سے کچھ دیر ملاقات ہوئی +میں حرف ہوں الفاظ سے چھڑائے کوئی +میں لفظ ہوں جملوں سے بچائے کوئی +اشفاق عمارات بھری ہیں لیکن +مفہوم کتابوں کا بتائے کوئی +دنیا کو نیا نصاب دینا ہوگا +ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہو گا +کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں +تاریخ تجھے جواب دینا ہوگا +خورشید سے آشکار ہے کس کا عکس +ہر پھول میں نو بہار ہے کس کا عکس +اشفاق نہیں کوئی اگر تو پھر بول +آئینے میں بے قرار ہے کس کا عکس +اس میری زمیں کو تُو نے آفاق کیا +اس ذہنِ رسا کو پل میں براق کیا +تجسیم خیالوں کو دی، کچھ خواب بنے +اشفاق کو تُونے ہی تو اشفاق کیا +وہ نقل مکانی تو مجھے یاد نہیں +جنت کی کہانی تو مجھے یاد نہیں +ہے یادشِ مختصر یہی خاک نژاد +ماضی کی نشانی تو مجھے یاد نہیں +صورت ہو بے صورت کی ناممکن ہے +اک دید شہادت کی ناممکن ہے +ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں +تسخیر اس وحدت کی ناممکن ہے +یہ پھول ، پرندے اور دریا ہیں کون +کس کی ہیں ہوائیں ، یہ صحرا ہیں کون +ہم لوگ نہیں لگتے ان سے اشفاق +اب اپنے بزرگوں کا ورثہ ہیں کون +ظلمت کے پگھلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اس رات کے ڈھلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اشفاق قیامت ہے وہ زلفِ تیرہ +اب دن کے نکلنے کی صورت ہی نہیں ہے +دل پہ دیم�� سا تبصرہ کون کرے +اپنے دکھ کا مقابلہ کون کرے +مجھ کو قسطوں میں زندگی بخش نہیں +دھیرے دھیرے معاملہ کون کرے +ناقہ تیرے غبار پہ لاکھوں سلام +صحرا تیری بہار پہ لاکھوں سلام +ریتوں سے اٹھ رہی ہے وہ صبح ِ شعور +صدیوں کے غم گسار پہ لاکھوں سلام +راتوں میں تاروں کی چمک کب سے ہے +سورج میں گرمی کی لپک کب سے ہے +اشکوں کی پیدائش کی تاریخ ہے کیا +میں کیسا ہوں ، جسم کا مایا ہے کیسا +کیسی ہے یہ روح ، یہ سایہ ہے کیسا +مٹی ، پانی اور ہوا سے اشفاق +کوزہ گر نے نقش بنایا ہے کیسا +تیروں کی تحریر تجھے یاد نہیں +پانی کی تصویر تجھے یاد نہیں +بادل کے قالین پہ سونے والے +کربل کا شبیر تجھے یاد نہیں +فریادی کا شوخی ٔ تحریر سے پوچھ +اور خالق کا پیکرِ تصویر سے پوچھ +مولائے لاہور ہے اب کون فقیر +ہجویری سے پوچھ، میاں میر سے پوچھ +جگ ہیرہ منڈی ہے آہستہ چل +پستی میں گر جانے کا خطرہ ہے +کچی پگڈنڈی ہے آہستہ چل +آنکھوں میں نیندیں تھیں، نیندوں میں خواب +خوابوں میں یادیں تھیں یادوں میں خواب +ٹوٹے پھوٹے کرچی کرچی ،پُر آب +شیشے کے ٹکڑے تھے ٹکڑوں میں خواب +پنجرے میں طوطا تھا ۔۔ کچھ یاد نہیں +شہزادہ روتا تھا ۔۔ کچھ یاد نہیں +اک دوجے میں ہوتی تھی جان مگر +پہلے کیا ہوتا تھا ۔۔ کچھ یاد نہیں +مکھن کی چاٹی کو موجود نہ جان +اس زر زن کی گھاٹی کو موجود نہ جان +اُس من کی لاہوتی آغوش میں ڈوب +اس تن کی ماٹی کو موجود نہ جان +تزئین گل و لالہ پہ پابندی تھی +بس مہر بلب رہنا خرد مندی تھی +حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی دنیا +میں بول پڑا تھا کہ زباں بندی تھی +یہ زنگ زدہ کالی صراحی تیری +یہ خواب سمے والی صراحی تیری +کچھ ِاس کے لیے ڈھونڈھ شرابِ کہنہ +پھر بول پڑی خالی صراحی تیری +ٹوٹے ہوئے نیزے کا قلم تھام لیا +مردوں کی طرح دامنِ غم تھام لیا +سچائی کی تحریر پہن لی میں نے +ہارے ہوئے لشکر کا علم تھام لیا +اک صبح صدا آئی یہ مے خانے سے +اب چھین ہی لو درد کو دیوانے سے +اشفاق یہ ہے آخری امیدِ کرم +شاید کہ علاج اس کا ہو مرجانے سے +سیلاب ِ سفر آنکھ کے اندر بھی ہے +پتوار بھی کشتی بھی سمندر بھی ہے +معلوم ہے منزل ہے گریزاں پھر بھی +اشفاق مقدر کا سکندر بھی ہے +پرواز کا اعجاز کہاں سے لائوں +معصوم سا انداز کہاں سے لائوں +تصویر تو کاغذپہ بنا دی میں نے +چڑیا تیری آواز کہاں سے لائوں +وحشت زدہ انسان ابھی ہے شاید +ظلمات کا سامان ابھی ہے شاید +جس روز اتر آئے گا چھت پر سورج +اس صبح کا امکان ابھی ہے شاید +چہرہ کہیں شاداب نہیں ہے کوئی +خوش دیدہ ٔ اعصاب نہیں ہے کوئی +اشفاق عجب دور میں پہنچیں آنکھیں +نیندیں ہیںجہاں خواب نہیں ہے کوئی +برکت بھرے لب، حمد وثنا سی باتیں +خوشبو بھرے الفاظ ، صبا سی باتیں +اشفاق تہجد کی گلی میں ہر روز +آتی ہیں کہاں سے یہ دعا سی باتیں +وحشت کے ہیں آثار ابھی تک مجھ میں +گرتی ہوئی دیوار ابھی تک مجھ میں +اثبات کا امکانِ مسلسل اشفاق +ہر چیز سے انکار ابھی تک مجھ میں +مایوس زمانوں کی ہوا میں صدیوں +ہم سرد جہنم کی سزا میں صدیوں +اک پل کے سویرے کی طلب میں اشفاق +رہتے رہے تاریک فضا میں صدیوں +الفاظ میں اعجازِ ہنر کیسا ہے +افکار میں سورج کا سفر کیسا ہے +اتری ہے کہاں سے تری تازہ منطق +اشفاق یہ اندازِ نظر کیسا ہے +ہم عابد و معبود جہاں سے پہلے +ہم ساجد و مسجود جہاں سے پہلے +اشفاق چمکتا تھا کہیں کوئی ستارہ +ہم لوگ تھے موجود جہاں سے پہلے +اک عرصہ ٔ امکان صراحی میں ہے +افلاک کا عرفان صراحی میں ہے +اک بار اتر روح کے اندر اشفاق +لاہوت کا دالان صراحی میں ہے +اک ��طرتِ ادراک پہن لی ہم نے +اک دانشِ چالاک پہن لی ہم نے +مٹی کی کثافت میں کرامت کیا تھی +افلاک پہ ہی خاک پہن لی ہم نے +ہے نور کی پہچان سحر ہونے تک +ہے آس کا سامان سحر ہونے تک +تم دن کے اندھیروں سے شناسا کب ہو +ہے صبح کا امکان سحر ہونے تک +تحقیق غلط میرا تھا اندازہ بھی +کچھ میں نے سنا شہر کا آوازہ بھی +اشفاق مجھے بھی ، گھر جانے کی جلدی +زنجیر بکف، یار کا دروازہ بھی +آدم میں، کھلونے میں کوئی فرق نہیں +اس جاگنے سونے میں کوئی فرق نہیں +ہے ایک طرح کثرت و وحدت اشفاق +ہونے میں نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں +شیخ فریدالدین عطار کے نام +ہر تخم مرادوں کا ثمر بار سہی +تعبیر کا ہر خواب سزاوار سہی +جنت سے تعاقب میں چلی آتی ہے +اشفاق تجھے موت سے انکار سہی +یہ آگ بھرا نسخہ ٔ شر ، حرف ِ غلط +یہ خیر کا مجموعہ ٔ زر حرف ِغلط +اک لفظِ نفس سے ہے عبارت تخلیق +میر تقی میر کے لیے +ہر عصر کا ہم ذات رہا ہوں برسوں +میں منزل ِآیات رہا ہوں برسوں +غالب سے مراسم ہیں زیادہ لیکن +میں میر کے بھی ساتھ رہا ہوں برسوں +اک شمع تھی ۔۔ تعبیر پڑی تھی دن کی +اک موم میں تنویر پڑی تھی دن کی +اشفاق اندھیرے سے بھرا تھا کمرہ +بس میز پہ تصویر پڑی تھی دن کی +ویران تھی یادوں کی گلی خالی تھی +ٹوٹے ہوئے وعدوں کی گلی خالی تھی +میں رات بڑی دیر تلک پھرتا رہا +وہ خواب نژادوں کی گلی خالی تھی +کچھ اور ملا رنگِ کفن سے موسم +آباد رہا دار و رسن سے موسم +اشفاق پرندوں کی گرفتاری کا +جاتا ہی نہیں اپنے وطن سے موسم +اس کھیل میں ہم مات بڑی دیر سے ہیں +ٹوٹے ہوئے یہ ہاتھ بڑی دیر سے ہیں +مجذوب بدلتا ہی نہیں ہے کپڑے +موسم کے یہ حالات بڑی دیر سے ہیں +کچھ خواب مرے ساتھ بڑی دیر سے ہیں +وحشت کے خیالات بڑی دیر سے ہیں +کترا کے نکل جاتی ہے دنیا مجھ سے +آنکھوں میں سوالات بڑی دیر سے ہیں +تحریر کرے صبحِ غزل، خواب سفر +کچھ اور کرے تیز عمل، خواب سفر +فردوس چنبیلی میں سمٹ آئے ہیں +آفاق، حویلی میں سمٹ آئے ہیں +طیبہ کے فقیروں کے عمل سے اشفاق +افلاک ہتھیلی میں سمٹ آئے ہیں +چھیدوں بھری جھولی کا تدارک ہی نہیں +بندوق کی بولی کا تدارک ہی نہیں +الفاظ برت سوچ سمجھ کر اشفاق +نکلی ہوئی گولی کا تدارک ہی نہیں +اس آگ کے صندوق کو پھٹنا کب ہے +خورشید کو نیزے پہ پلٹنا کب ہے +اشفاق قیامت کو ابھی دیر ہے کتنی +بھونچال سے دھرتی کو الٹنا کب ہے +جھونکوں سے درختوں کی جھڑائی نہیں ہوتی +بس شور مچانے سے بڑائی نہیں ہوتی +اشفاق سے کہنا کہ کوئی فوج بنائے +دوچار پیادوں سے لڑائی نہیں ہوتی +اک چاہئے سانسوں میں خرام ِ عالم +اک روح میں رکھنا ہے قیام ِ عالم +کچھ پاس نہیں دیدہ ٔ بینا کے سوا +تشکیل کروں کیسے نظامِ عالم +آنکھوں کو کوئی میت دکھائی دیتا +اعجاز بکف گیت دکھائی دیتا +سُر بانسری سے ایسا نکلتا کوئی +اشفاق کا سنگیت دکھائی دیتا +پانی میں کوئی شخص دکھائی دیتا +سورج پہ کوئی عکس دکھائی دیتا +اشفاق بگولوں کی طرح دامنِ دل میں +طوفان نما رقص دکھائی دیتا +تشکیک و یقیں حدِ نفس تک محدود +یہ کفر یہ دیں حدِ نفس تک محدود +اشفاق اسی سانس میں رکھ جنتِ ارضی +ہے عمر ِحسیں حدِ نفس تک محدود +یہ خاک سے آزاد بدن کیسے ہیں +یہ دار پہ بھی شاد بدن کیسے ہیں +یہ کیسا تعلق ہے فلک سے ان کا +یہ فرش پہ آباد بدن کیسے ہیں +لکھتی ہے ہوا خاک پہ موسم کی خبر +تحریر کرے اوس شبِ غم کی خبر +مژگاں پہ رقم کیوں نہیں کرتے اشفاق +بے چہرگی ٔذات کے ماتم کی خبر +انداز یہ تجسیم کرامت کے ہیں +اعجاز عجب نغمہ ٔ قامت کے ہیں +دنیا مری، جلوئوں سے بھری ہے لیکن +تیرے لب و رخسار قیامت کے ہیں +اک حسنِ دل آویز کی رعنائی میں +اک زلف ِ سیہ کار کی برکھائی میں +اشفاق نہیں اور دکھائی دیتا +آباد ہمی عرش کی تنہائی میں +صبحوں سے عداوت کا مقدمہ ہم پر +سورج سے بغاوت کا مقدمہ ہم پر +بازار لگا رکھا ہے جج نے لیکن +توہین عدالت کا مقدمہ ہم پر +اک جراتِ انکار سے نکلا ہوا دن +ظلمات کے انبار سے نکلا ہوا دن +اشفاق اندھیروں سے بھرا ہوتا ہے +اک جیل کی دیوار سے نکلا ہوا دن +تخلیق کی تفصیل ہے قَابَ قوسین +بس آخری تمثیل ہے قَابَ قوسین +کچھ اور بڑھی جسم کی عظمت اشفاق +انسان کی تکمیل ہے قَابَ قوسین +اک صبح ِ ہدایت سے بھر ی ہیں آنکھیں +اک جلوہ ئ رحمت سے بھری ہیں آنکھیں +تکمیل میں انسان کہاں تک پہنچا +کثرت کی بھی وحدت سے بھری ہیں آنکھیں +اظہار صداقت کا بھلا کون کرے +انکار عبادت کا بھلا کون کرے +اشفاق خیالات تلک ہیں محکوم +اعلان بغاوت کا بھلا کون کرے +احساس میں اک چشم ِغزالی کا مزار +انوار میں اک صبح جمالی کا مزار +اس خاک کا معراج یہی ہے اشفاق +ہے خاک پہ کونین کے والی کا مزار +فردوس بدن ، لال گلابی موسم +سجدوں بھرے ، پُر حمد کتابی موسم +ویران ہے مے خانۂ وحدت اشفاق +رندوں کے کہاں کھوئے شرابی موسم +اس پر یہ دستار نئی ہے شاید +اس ہاتھ میں تلوار نئی ہے شاید +ہے پائوں کی زنجیر پرانی لیکن +انکار کی جھنکار نئی ہے شاید +ہر روز یونہی ہاتھ ہلانے سے ملا +کچھ دیکھنے سے اور دکھانے سے ملا +اس وصل کے پیچھے ہیں ہزاروں سجدے +اشفاق کوئی ملنے ملانے سے ملا +گرتے ہوئے پاتال کہاں آ پہنچے +مٹی کے یہ سُر تال کہاں آ پہنچے +ممکن ہے الٹ جائے یہ میری دھرتی +اشفاق یہ بھونچال کہاں آ پہنچے +اِترائی ہوئی خاک سے کہہ دے کوئی +افلاک کے تیراک سے کہہ دے کوئی +فرعون ہے عبرت کا نمونہ اشفاق +یہ طاقتِ سفاک سے کہہ دے کوئی +شاہوں کے محلات کہاں تک موجود +بابل کے وہ باغات کہاں تک موجود +اس وقت کے اعجاز کو سمجھو اشفاق +اک طرح کے حالات کہاں تک موجود +اک صبحِ مدارات نہ ہونے دینا +تنویر کی برسات نہ ہونے دینا +دے اور شبِ غم کو طوالت کچھ روز +سورج سے ملاقات نہ ہونے دینا + + +اے عدد اے کم نظر اے تنگ دل اے فتنہ خو +شرم آتی ہے مجھے ہوتا ہے جب تو روبرو +تجھ کو کیوں اکسارہی ہے تیری یہ زخمی انا +چاند پر جو تھوکتا ہے خود بھی ہوتا ہے فنا +تو انا کا زخم خوردہ ہے بڑا بیمار ہے +تیری ساری شاعری ہر دور میں بے کار ہے +شعر وہ کہتا ہے جو ہو درد دل سے آشنا +جس کی پلکوں پر سجا ہو کوئی اشک دلربا +اور بھی بہت سے شعر تھے آخر ی شعر یہ تھا ۔ +جس کی سب سسکاریاں یادوں کی ہوجائیں امیں +اس سے بہتر تو مری جاں کوئی کہہ سکتا نہیں +میں نے جب فسٹ ائیرمیں داخلہ لیا تو وہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے ۔ انہوں میری دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے مضامین فلسفہ اور اردو اعلیٰ رکھوا دئیے۔ فلسفے کے پروفیسر ان دنوں میانوالی سے اپنا تبادلہ کرانا چاہ رہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی فلسفے کا مضمون کوئی طالب علم نہیں لے گا اور ان کا کسی او رکالج میں تبادلہ ہوجائے گا مگر مجھے دیکھ کر ان کی امیدوں پر پانی پھرگیا ۔ انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بہت مشکل مضمون ہے ،میرے بس سے باہر کی بات ہے مگر مجھے تو سچ مچ فلسفے سے دلچسپی تھی سو میں نے ڈرنے سے انکار کر دیا ۔ اورانہوں نے غصے میں آکر کورس کی تینوں کتابیں مبادیات ِ نفسیات ، منطق ِاستخراجیہ اور منطق ِاستقرار یہ ایک ساتھ پڑھانی شروع ک��دیں ۔ منطق سے درسِ نظامی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ میری واقفیت تھی مگر نفسیات میرے لیے بالکل نیا موضوع تھا۔ اشفاق بھائی نے یہ تینوں کتابیں مجھے پڑھانی شروع کیں اور میں حیران رہ گیا کہ اشفاق بھائی کا یہ کبھی سبجیکٹ نہیںرہا تھا، مگر وہ جس انداز میںمجھے گھر میں پڑھا دیتے تھے ،میرے پروفیسر کو پریشانی لاحق ہوجاتی تھی اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب میرے پروفیسر کو کہا گیا کہ آپ کا تبادلہ ممکن ہے تو انہوں نے کہا میں اپنے اکلوتے طلب علم کو راستے میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔میری زندگی میں ایسا عجیب و غریب طالب علم کبھی نہیں آیا کہ جسے میں جو بھی پڑھانے لگتاہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ پہلے ہی اسے معلوم ہے ۔ انہیں کیا علم کہ یہ سب میرا نہیں، اشفاق بھائی کا کمال تھا۔ میں نے کالج کے دنوں، اشفاق بھائی کے ساتھ مل کر ایک رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ’’ پیغامِ سروش ‘‘ تھا۔ اس رسالے کی کچھ کاپیاں ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں ۔یقین کیجئے میں اس رسالے کو اب بھی دیکھتا ہوں تو وہ مجھے کسی بڑے علمی و ادبی میگزین سے کم نہیں لگتا ۔ پھر اشفاق بھائی ایم اے اردو کرنے پنجاب یونیورسٹی لاہور چلے گئے۔ وہاں طلبا کی ایک تنظیم ﴿ انجمن طلبائے اسلام ﴾ کے پنجاب کے ناظم اعلیٰ بنا دئیے گئے مگر طالب علمی کی سیاست میں بھی لکھنے پڑھانے کا رجحان کبھی کم نہیں ہوا ۔ +اقبال کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی، جس طرح اقبال مولانا رومی کو اپنا مرشد قرار دیتے تھے اسی طرح اشفاق بھائی اقبال کو اپنا روحانی مرشد سمجھتے تھے ۔انہیں فارسی اور اردو کا تقریبا ً تمام کلام زبانی یا دتھا۔ اقبال کے حوالے سے اپنی ایک غزل کے قطعہ بند میں کہتے ہیں ۔ +میرے منصور وہاں آتے ہیں سر مد میرے +پیر رومی سے بھی کچھ دیر وہاں بات ہوئی +بولتے مجھ سے رہے ہیں جدِ امجد میرے +کہہ دیا میں نے بھی جو کہنا نہیں تھا مجھ کو +کیا کر وں حضرت اقبال ہیں مرشد میرے +ایم اے اردواور ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد انہوں نے ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا ۔ ان دنوں وہاں ان کے پرانے دوست پروفیسر طاہر القادری پڑھایا کرتے تھے۔ طاہر القادری سے ان کی اس زمانے کی دوستی تھی جب وہ گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں پڑھاتے تھے ۔ وہ جب بھی جھنگ سے میانوالی آتے تھے تو ہمارے گھر میں قیام کیا کرتے تھے ۔۔۔ انہی دنوں جب طاہر القادر ی لائ کالج میں پڑھاتے تھے تو ان کی دوستی نواز شریف کے والد میاں شریف سے ہوگئی اور انہوں نے ان کے گھرکے قریب اتفاق مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہاں اتفاق اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی۔ اشفاق بھائی اس سارے عمل میں طاہر القادری کے ساتھ تھے۔ اشفاق بھائی اتفاق اکیڈمی کے پہلے ناظم اعلیٰ بنائے دیے گئے ۔ انہوں نے وہ تمام بنیادیں رکھیں جن پر طاہر القادری نے بعد میں ’’ منہاج القران‘‘ کی عمارت استوار کی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہی میں جب میانوالی سے ان کے پاس لاہور جاتا تھا تو وہ ایک بڑے سے دفتر میں بیٹھے ہوتے تھے۔ نواز شریف جوان دنوں پنجاب کے وزیر خزانہ تھے عصر کی نماز کے بعد روز ان کے پاس آکر بیٹھتے تھے اور دیر تک اشفاق بھائی کی گفتگو سنتے رہتے تھے ۔ میاں شریف سے تو ان کی بہت دوستی تھی لیکن رفتہ رفتہ اشفاق بھائی پر شریف فیملی کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کھلتی چلی گئی اور وہ ان کے مخالف ہوتے چلے گئے ۔ اشفاق بھائی کو غصہ کچھ زیادہ آتا تھا۔ ایک دن میاں شریف سے سرمایہ ومحنت کے موضوع پر گفتگو ہوئی کہ﴿ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات﴾ میاں شریف کا اس سلسلہ میں یہ نظریہ تھا کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد جتنی دولت ہووہ جائز ہے جب کہ اشفاق بھائی قران کی زبان میں کہتے تھے ﴿اپنی اوسط ضروریات سے زائد جو کچھ ہے دے دوان کو جن کا حق ہے ﴾ اور انہیں ایسی آیتیں سناتے تھے ۔ ﴿ اور جو لوگ مال و دولت جمع کر تے ہیں انہیں خوشخبری سنا دو ایک عظیم عذاب کی جس دن تپائی جائیں گی ان کی پیٹھیں کر وٹیں اور پیشانیاں کہ پس چکھو مزا دولت کو سینت سینت کر رکھنے کا ﴾ اور پھر اسی بحث میں ایک دن بات گالی گلوچ تک چلی گئی ۔ اشفاق نے اتفاق اکیڈمی چھوڑ دی اور پھر ادھر کبھی نہیں گئے ۔ جن دنوں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے تھے ۔ان دونوں میری ان سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ میں اشفاق چغتائی کا بھائی ہوں اس پر انہوں نے مجھے بہت عزت دی اور کہا کسی بھی صورت میں اشفاق بھائی کو لے کر میرے پاس آئو۔ میں نے اشفاق بھائی کی بہت منتیں کی مگر انہوں نے اقبال کی زبان میںیہ کہہ کہ انکار کر دیا ۔ +دولت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول +جب کہا اس نے کہ ہے میری خدائی کی زکواۃ +اشفاق بھائی کی مولانا عبدالستار خان نیازی سے بھی بڑی عقید ت تھی۔ ان کے ساتھ اشفاق بھائی کا بہت وقت گزرا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر جب وہ کام کرانا چاہتے تھے تو انہوں نے اشفاق بھائی سے کہا اور اشفاق بھائی نے تمام کام کر کے دیا۔ مولانا نیاز ی کی وہ کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ مولانا نیازی، اشفاق بھائی کے علم وفضل کے بہت مداح تھے۔ انہوں نے اپنی کئی کتابوں کے دیباچے بھی اشفاق بھائی سے لکھوائے ۔مولانا نیازی جب نواز شریف کی حکومت میں منسٹر بن گئے تو اشفاق بھائی کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے مولانا نیازی کو کہا ’’ ہم دنیا میں اپنا رہبر ور راہنما آپ کو سمجھتے تھے مگر آپ نے اپنا رہنما نواز شریف کو بنالیا ہے ۔اب بتائیے کہ ہم کیا کریں ‘‘ مولانا نیازی کے پاس ان کی بات کاکوئی جواب نہیں تھا سو وہ خاموش ہو گئے تھے ۔ اشفاق بھائی فوت ہوئے تو مولانا نیازی نے ان کانماز جنازہ پڑھایا اور نماز جنازہ سے پہلے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک عاشق رسول کے نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز مل رہا ہے۔ مولانا نیازی کے ساتھ اشفاق بھائی کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انہیں بہت دنوں تک اس بات کا دکھ رہا کہ میں الیکشن میں مولانا نیازی کے مقابلے میں ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ تھا ۔ تصوف سے اشفاق بھائی کو صرف مطالعہ کی حدتک رغبت نہیں تھی ۔ وہ دنیائے تصوف کی عملی شخصیت تھے ۔محی الدین ابن عربی سے بہت متاثر تھے ۔انہوں نے ایک بار محی الدین ابن عربی کی ایک کتاب شاید ’’ فتوحات مکیہ ‘‘ مجھے پڑھنے کیلئے دی ۔ میں نے جب کتاب پڑھ کر انہیں واپس دی تو پوچھا ‘‘ کچھ حاصل ہوا ‘‘ تو میںنے کہا ’’ اور تو خیر کچھ سمجھ میں نہیں آیا، البتہ ایک شعر اس کتاب کی وجہ سے ضرور ہوا ہے ۔ +مجھے پسند ہے عورت نماز اور خوشبو +انہی کو چھینا گیا ہے مرے حوالوں سے +تو کہنے لگے ’’ جو جس نیت سے کچھ پڑھتا ہے اسے وہی کچھ حاصل ہوتا ہے اور تمہارے ذہن سے ابھی عورت ہی نہیں اتری ‘‘ ساتھ ہی علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ دیا ۔ +ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس +ہائے بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار +اور جب سید نصیر شاہ نے مجھے مکمل طور پر اپنے رنگ میں رنگ لیا یعنی میں بھی دھریت کی منزل پر پہنچ گیا تو اشفاق بھائی نے ایک دن مجھے کہا ’’ تم پپلاں جاتے رہتے ہو۔اب کبھی جانا تو مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ میں نے وہاں کسی سے ملنا ہے۔ ���‘ ﴿ پپلاں میانوالی سے تیس میل دور ایک شہر ہے ﴾ اور پھر ایک جمعہ کے روز میں اشفاق بھائی کو ساتھ لے کر پپلاں گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم نے مولانا حضرت مظہر قیوم کی محفل میں بیٹھنا ہے ۔سو میں صبح ساڑھے نوبجے وہاں پہنچ گیا۔ تقریبا ً آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم وہاں سے اٹھے تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے، یہ کیا ہوا، ایک شخص کی محفل میں تین گھنٹے گزرے اور مجھے یوں لگا کہ میں وہاں صرف آدھا گھنٹہ رہا ہوں۔ میرے لیے بہت حیران کن تھا ۔ یوں میری اس شخص میں دلچسپی بڑھ گئی اور پھر کئی ایسے مافوق الفطرت واقعات ہوئے کہ جو میری زندگی کا حاصل ہیں اور میں مسلما ن ہوگیا ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اشفاق بھائی اس محفل میں اس روز مجھے ہی لے گئے تھے ۔ ان کا وہاں اور کوئی کام نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہی ایک شخص ہیں جو مجھ سے جیسے گم کردہ راہ کو راستے پر واپس لاسکتے ہیں بقول اشفاق بھائی ۔ +عجیب لوگ ہیں بس اک نگاہ سے دل کو +مقام عرش علیٰ میں بدل کے دیکھتے ہیں +اشفاق بھائی کے ایک دوست غازی غلام رسول سیالوی ہوتے تھے ۔ وہ کسی زمانے میں میانوالی بہت آتے تھے ۔ ان کا قیام بھی ہمارے گھر ہوا کر تا تھا ۔فلسفہ وحدت الوجود کے بڑے پر جوش حامی تھے ۔ ایک دن اشفاق بھائی نے مجھ سے کہا ’’ غازی صاحب سے کوئی سوال کرو ‘‘ میں نے غازی صاحب سے بہت سے سوال کیے۔ وہ ہر سوال کا جواب اتنی آسانی سے دیتے تھے کہ آدمی حیران رہ جاتا تھا کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے منصور حلاج کی کتاب طاسین کے کئی باب پڑھ دئیے ہیں ۔ اشفاق بھائی کی ذات میں تصوف کا عملی رجحان بڑھانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا ۔بحیثیت انسان بھی غازی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ نماز پڑھا کرو ۔ایک دن میں نے کہہ دیا کہ آج میں بھی نماز پڑھتا ہوں تو فوراً پانی کا لوٹا لے کر آگئے اور خود مجھے وضو کرایا اور ان کی دوستی میں اشفاق بھائی کے دل و دماغ پر فلسفہ وحدت الوجود کے جواثرات مرتب ہوئے، زندگی بھر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اشفاق بھائی ہمیشہ ایک پرجوش وجودی رہے۔ اپنی تحریروں میں بھی اور اپنے عمل میں بھی ۔ ان کے دوشعر دیکھئے ۔ +بے شکل جلوہ گہ کا ٹھکانہ ملے مجھے +اشفاق مرا آئینہ خانہ ملے مجھے +تُو اپنی اصل سے اشفاق کیوں گریزاں ہے +تجھے خدا سے محبت نہیں تعجب ہے +عربی شاعری میں اشفاق بھائی کو ابولعلائ معری بہت پسند تھے معری کی کتاب ’’ الزومیات ‘ ‘ ان کی پسندیدہ کتاب تھی۔ کہا کرتے تھے کہ اس کتاب میں معری نے بڑی جرات مندی کے ساتھ بہت سے الوہی سچ بولے ہیں۔ انہیں معری کا وہ شعر بہت اچھا لگتا تھا جس میں معری کہتے ہیں کہ یہ زندگی ایک کوفت اور تھکن سے بھری ہوئی ہے مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو طویل عمری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات عربی زبان کا یہی شعر گنگنا یا کرتے تھے۔ عربی زبان کا ایک اور شاعر زہیر بھی انہیں پسند تھا میرے نوجوان شاعر دوست سلیم شہزاد کو صرف اس لئے پسند کرتے تھے کہ وہ عربی نہیں جانتا اور اسکا خیال عربی زبان کے عظیم شاعر زہیر سے جاٹکرایا ہے ۔زہیر کا کوئی شعر ہے جس میں وہ موت کو اندھی اور پاگل اونٹنی قرار دیتا ہے اور سلیم شہزاد نے بھی تقریباً اردو زبان میں یہی کچھ کہا ہے ۔ +دشت جاں میں تعاقب کر ے کیوں مرا +موت و حشت زدہ اونٹنی کی طرح +فارسی زبان کے شعرائ میں سے اشفاق بھائی کو حافظ شیرازی سے بہت شغف تھا انہوں نے مجھے حافظ کی ایک غزل کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے دیا تھا جامی کی بھی کئی نعتوں کے انہوں نے اردو زبان میں منظوم تراجم کئے تھے۔ جامی کے ایک نعتیہ کا ترجمہ مجھے یاد آرہا ہے ۔ +جس نے دیکھے لب لعلیں تو پکارا دل سے +حق نے کیا خوب تراشا ہے عقیق یمنی +خیام کی رباعیاں انہیں بہت پسند تھیں کہتے تھے کہ رباعی کا وزن ایسا ہے کہ اس سے لطف اٹھانا آسان نہیں ہوتا مگر عمر خیام کی رباعیوں میں ایسی لذت ہے کہ آدمی یک لخت ایک انجانے سرور سے بھر جاتا ہے ۔ خود اشفاق بھائی نے بھی بہت خوبصورت رباعیاں کہی ہیں ۔ سعدی ، فردوسی اور رومی کے بہت قائل تھے۔ رومی کے بارے میں کبھی کبھی سوچتے تھے کہ مولائے روم نے مثنوی معنوی میں جب کہیں کوئی جنسی کہانی پیش کی ہے تو بات بہت لطف لے لے کر کیوں کی ہے ۔ +روسی نژاد افسانہ نگار چیخوف اور گورکی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مارکس ازم نے دنیا کو اور کچھ دیا ہے یا نہیں ادب عالیہ کے بہت بڑے بڑے شاہکار ضرور دئیے ہیں۔ مارکس کے بارے میں وہ اپنے مرشد علامہ اقبال کے ہم خیال تھے کہ نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب ۔یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر سوشلزم میں خدا کو شامل کر لیا جائے تو وہ اسلام بن جاتا ہے ۔ یونانی فلسفے کے ساتھ ساتھ یونانی دیو مالائی کرداروں سے بھی انہیں بہت شغف تھا ۔وہ افلاطون کی فکر میں قدیم اعتقادات کے ماخذ تلاش کرتے ہوئے، اکثر اوقات یونانی دیو مالائی کرداروں پر بحث کیا کرتے تھے ۔ اشفاق بھائی انتہائی سچے اور کھرے آدمی تھے ۔ جن دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکوں کو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پسند نہ آئی اور انہوں نے اشفاق بھائی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اشفاق بھائی خاصے زخمی ہوگئے مگر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ۔ میں اس وقت میانوالی میں ہوتا تھا۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمعیت طلبہ کے دو لڑکوں کو جواباً میانوالی میں بری طرح زدوکوب کیا۔ جب اس بات کا اشفاق بھائی کو پتہ چلا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور ہمیں مجبور کیا کہ ہم ان لڑکوں کے پاس جائیں اور ان سے معافی مانگیں جو ہمیں مانگنی پڑی ۔ +سچ یہ ہے کہ میں بچپن ہی سے ان سے بہت زیادہ متاثر تھا ۔85 ئ میں جب میں نے اپنی پہلی کتاب ’’ چہرہ نماشائع کی تو اس میں ان کے متعلق بھی ایک مضمون شامل کیا میں نے اس میں لکھا تھا ‘‘ +’’ میرا عہد اپنے اردگرد بیسیوں زندگیاں بنتا رہتا ہے چہروں پر تہہ در تہہ خول چڑھانے والے لوگ اتنے صورت آشنا ہوچکے ہیں کہ اب ایک ایک غلاظت آلود پتھر خالص سونے کا ڈھلا ہوا معلوم ہوتاہے لیکن یہ مصنوعی تقدس ماب چہرے اپنی قماش کے دوستوں سے اپنا باطن نہیں چھپاسکتے اور میں نے تو اشفاق بھائی کے ساتھ لڑکپن کو جوانی میں بدلا ہے، ان کی پوری زندگی میرے ساتھ بے نقاب ہے ۔ اس دوہری اور دوغلی زندگی بسر کرنے والے ظاہر وباطن کے ہولناک تضاد کا شکار عہد میں پھر کوئی ایسی شخصیت جو اندر اور باہر سے ایک ہوتو وہ دور سے نظر آجاتی ہے سو اس صورت حال میں مجبور ہوں کہ اپنے بھائی محمد اشفاق چغتائی کو ایک عظیم شخص قراردوں۔ بچپن سے اب تک اس کی رفاقت صداقتوں کی علمبردار رہی ہے ۔ ہمیشہ اس سے مل کر ایک فرحت کا احساس ہوا ہے ۔ +جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ +آ پ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں +میں نے اس کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالی ہے ۔وہ مجھے محبوب تر نظر آیا ہے ۔اس کی شخصیت کی بے پناہ جاذبیت اسے ہر محفل میں ممتاز رکھتی ہے ۔ اس کی شہد آمیز گفتگو کانوں میں رس گھولتی ہے ۔ لیکن اس کی آواز میں شراب ناب کا خمار نہیں۔ خوابیدہ ذہنوں کو جگانے و��لی پکار ہے ۔ اشفاق بھائی ایک اچھا شاعر اور خوبصورت ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سحربیاں مقرر بھی ہے ۔اس کی گھمبیر آواز چھا جانے کے فن سے پوری طرح آگاہ ہے۔ مت پوچھیے اندازِ گل افشانی گفتار ۔وہ جب بولتا ہے تو شعلہ سالپک جاتا ہے اس کے باطن میں مراقبوں اور کشفوں کی کیفیات مکمل طور پر دھڑکتی ہیں۔ مضبوط ارادوں اور سچے عملوں والے اس شخص کی آنکھیں ہر وقت مجھے اپنے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ وہ زندگی سے بھر پور چہرہ زندگی کو کچھ سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔ وقت اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹھہر سکتا ہے۔ لمحے رک سکتے ہیں ۔ وہ اپنے اندر جذبوں کے طوفان رکھتا ہے۔ اس میںکچھ کر گزرنے کی طاقت ہے ۔میں اس کی روح میں اترنا چاہتا ہوں ۔ مگر جہاں وہ نجانے کب سے جاگ رہا ہے ۔ جاگتی آنکھوں اور جاگتے خوابوں کی بستی میں رہنے والا وہاں جاگ رہا ہے جہاں کا رزار حیات کو پہچاننے والے حیات کا زنداں توڑنے میںمصروف عمل ہیں ۔جہاں سوچ کے مجاہدے زندگی بن کر بکھررہے ہیں ۔ وہ محبت کرنے والا آدمی ہے جب کبھی مجھ سے بغل گیر ہوتا ہے تو مجھے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ہے ۔ ۔ وہ میرا بھائی ہے ۔ میرا ساتھی ہے ۔ میرا ہم سفر ہے ۔ میرا دوست ہے۔ ‘‘ +اپنی سچائی کی وجہ سے اشفاق بھائی نے بے شمار نقصان اٹھائے اگر وہ تھوڑے سے بھی دنیا دار ہوتے تو بہت بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوسکتے تھے مگر ساری زندگی کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں طالب علموں کو پڑھاتے رہے ۔میں نے انہیں ایک بار کہا کہ آپ میرے ساتھ ڈاکٹر شیرا فگن کے پاس چلے آئیں، وہ آپ کو حکومت میں کوئی اچھا عہدہ لے دیں گے۔ میری ان سے بات ہوئی ہے تواقبال کا یہ شعر پڑھ کر مجھے خاموش کر دیا ۔ +اے طاہر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی +جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی +میں نے جب اپنا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’ آفاق نما‘‘ شائع کر ایا تو ان سے بھی ایک فلیپ لکھوایا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا ۔ +’’ نعت اگر رسمانہ لکھی گئی ہو بلکہ کسی باطنی کر ب کے اظہار کا ذریعہ کر سامنے آئے تو پڑھنے والے پر ایک جداتاثر چھوڑتی ہے۔ ایسی نعت داغ محبت رکھنے والے ہر دل کو وہی کیفیت عطا کرتی ہے جو اس کے خالق پر لمحات تخلیق میں طاری ہوتی ہے۔ محمد منصور آفاق کی نعتیں اس کے طواف عقیدت کا سلسلہ جمیل ہیں۔ تحدیثِ نعمت کا دلکش اسلوب ہیں ۔ سنت اللہ کا حسین اتباع ہیں ۔ اپنی احتیاج وضرورت کا خوبصورت اظہار ہیں اور اس کے ساتھ عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآب میں استغاثہ ہیں۔ یہی میری نگاہ میں اس کتاب کی نمایاں ترین خصوصیت ہے ۔۔ آفاق نمادنیائے شعر و ادب میں منصور آفاق کی اولین پہچان بن کر آرہی ہے۔ میری دعاہے کہ رب کریم اسی نسبت کواس کی دائمی پہچان بنادے ۔ امین ثم امین‘‘ +اشفاق بھائی کی فکر کا جومیری نعتیہ شاعری پر سب سے زیادہ اثر تھا، وہ انہی کی زبان میں ﴿ عصر حاضر کی اذیت رسانیوں کے خلاف بارگاہ رسالت مآب میں استغاثہ ہے ﴾ حضور درود کے حضور دنیا کے غم بیان کرنے کا انداز میں نے انہی سے سیکھا تھا اس کے بعدتو پھر ایک عہد نے اسی انداز میں نعتیہ شاعری کی ۔۔۔ اشفاق بھائی کے دونعتیہ شعر دیکھیے +ہیں سجدہ ریز کہاں کجکلاہ امت کے +غلام آپ کے ہوتے تھے شاہ امت کے +حضور (ص)پائوں میں رکھ لیجئے خیال و خواب +بھٹکتے پھرتے ہیں قلب و نگاہ امت کے +نیکی کے عبادت کے خزینے کو کہیں +جیون میں سعادت کے قرینے کو کہیں +ہے تزکیۂ نفس کی جنت اشفاق +رمضان ثوابوں کے مہینے کو کہیں +ثوابوں کا یہ مہینہ جب بھی آتا ہے مجھے اشفاق بھائی شدت سے یاد آنے لگتے ہیں۔ وہ بھائی جس نے اپنی تمام زندگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے صرف کردی ۔ اسلام کے حوالے سے ایسی زندہ جاوید شاعری کی کہ ان کے اشعار کے مصرعے جب نعروں کی صورت میں مسجدوں میں گونج رہے ہوتے ہیں تو میرا سرفخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔ یہ نعتیہ شاعری اس دور کی ہے جب اشفاق بھائی نوجوان تھے اور انجمن طلبائے اسلام پنجاب کے ناظم ہوا کرتے تھے ۔ +یہ سانس اک فریب ہے یہ جان ایک بھول ہے +جو عشق مصطفی نہ ہوتو زندگی فضول ہے +یہ جاہ اور جلال کیا ، یہ مال اور منال کیا +غلامی ئ رسول میں تو موت بھی قبول ہے +بتول کے ، نواسہ ئ رسول کے غلام کے ہیں +مدنیہ تیرے ایک ایک پھول کے غلام ہیں +جبیں پہ داغ دین کے ، گلے میں طوقِ مصطفی +غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں +اس وقت میرا موضوع اشفاق بھائی کی نعتیہ شاعری ہے مگر تمام نعتیہ شاعری کا احاطہ کرنے کے لئے تو کئی دفتر درکارہوں گے میں صرف ان کی غیر منقوط نعتیہ شاعری کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہاہوں غیر منقوط شاعری کا سب سے زیادہ رواج نعت کے باب میں ہوا ، جب جب یہ سوچا گیا کہ : +بے عیب شاہکار ہے ربِ جلیل کا +نقطہ بھی ناگوار محمد (ص) کے نام پر +طلسم اسم ِ محمد (ص) کا دائرہ ہے کوئی +مری دعا کی کمائی کا سلسلہ ہے کوئی +کرم کی راہ سے آئے کسی سحر کی طرح +اسے کہو در امکاں کھلا ہوا ہے کوئی +وصال و وصل کی گرمی اسی کے دم سے ہے +طلوع مہر مسلسل کا آسرا ہے کوئی +دکھائی دے کسی صحرا سے گل کدہ کس کا +ہوا کمال کی ہے اور ہرا ہرا ہے کوئی +کہا کہ ہے مرا اللہ احد و واحد +گلی گلی کہے ، لولاک صدا ہے کوئی +سوائے سرورِ عالم کے اور اے عالم +مرا سوال ہے کہ درد کی دوا ہے کوئی +اللہ کے احساس کا احساں کوئی کم ہے +سارا ہی کم اس در ِ والا کا کرم ہے +حاصل ہے اسی محرم اسرار کے دم سے +وہ سرورِ لولاک ہے ، سردار امم ہے +ہے ورد ِ مہ و سال وہی اسم گرامی +ہر عہدِ سحر اسم محمد (ص) کا کرم ہے +اک درد کا لمحہ اسے سرکار عطا کر +دل سادہ و معصوم ہے ، محروم الم ہے +دل کہے حوصلے والا ہے، سحر کا موسم +وہ مگر کس لیے کالا ہے سحر کاموسم +اے مری حدِ گماں مہر مسلسل ہے ادھر +کہ محمد (ص) کا حوالہ ہے سحر کا موسم +آسماں اور سحر اور کوئی اور سحر +اک سما وار رسالہ ہے سحر کا موسم +ہے کوئی ردِ عمل کہ کوئی معصوم طلوع +ہاں مگر حاصل ئ لالہ ہے سحر کا موسم +اشفاق بھائی کی وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ انہیں کوئی شعر سنایا جاتا تو وہ اسی خیال کے عربی ، فارسی اور اردو میں جتنے شعرکہے گئے ہوتے تھے ،سب سناد یتے تھے۔ میرے کہنے پر ایک بار انہوں نے ‘‘ مسافر خیال ‘‘ کے نام سے ’’ فنون ‘‘ میں ایسا ایک مضمون بھی لکھا تھا جس میں ایک خیال کے بہت سے بڑے شاعروں کے شعردرج کیے تھے۔ وہ اس موضوع پر ’’ مسافر خیال ‘‘ کے نام سے ایک پوری کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر ہم سب اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانتے ہیں ۔ جب انہوں نے یہ شعر کہا تھا تو مجھے اس خیال کے بہت سے دوسرے شعر سنائے : +کوئی گزر ہو میرا محمد (ص) کے دور سے +اے کاش روشنی کا زمانہ ملے مجھے +ان میں سے عربی اور فارسی کا توکوئی شعر یاد نہیں رہا اردو کے بھی تمام اشعار یاد نہیں رہے جو دوشعر یادرہ گئے ہیں درج کرتا ہوں: +تونے کس دور میں کھولی ہیں ظہوری آنکھیں +ان کو دیکھا نہ انہیں دیکھنے والے دیکھے +گل نے تو دیدہ ئ بلبل کے ہی نالے دیکھے +تجھ کو دیکھا نہ ترے چاہنے والے دیکھے +اس کے علاوہ شاید اشفاق بھائی نے مجھے اسی خیا�� کے ابو نواس ، بیدل ، محسن کا کوروی اور ایک دو اور شاعروں کے شعر سنائے تھے ۔ پچھلے دنوں زاہد فخری نے بھی اسی خیال کو بہت ہی خوبصورت انداز میں ادا کیا ہے ۔ +ساری صدیوں پہ جو بھاری ہے وہ لمحہ ملتا +کاش سرکار دو عالم کا زمانہ ملتا +قدرت نے اشفاق بھائی کوئی ایسی چیز ضرور دے رکھی تھی جو ہم عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتی ۔اس کا ایک تجربہ تو مجھے یہ ہوا کہ زندگی میں جب بھی انہوں نے مجھے کسی شخص کے متعلق یہ کہہ دیا کہ یہ اچھا آدمی نہیں ہے تو وقت نے ثابت کیا کہ وہ آدمی اچھا نہیں تھا اور خاص طور پر جس بات نے ان کی روحانیت سے پردہ اٹھا دیا ہے وہ ان کا وہ آخری خط ہے جو انہوں نے مرنے سے تقریباً ایک ماہ پہلے مجھے لکھاتھا۔اس میں اشفاق بھائی لکھتے ہیں ’’ مجھے لگ رہا ہے کہ اب میں دنیا سے جانے والا ہوں شاید یہ سال میری زندگی کا آخری سال ہو۔ میں نے اپنا ایک قطعہ تاریخ نکالا ہے ۔ہوسکتا ہے دوسرا نکالنے کی ضرورت پیش نہ آئے : +سفر نہیں ہے ہمارا بہار سے آگے +چلے نہ سانس سن دو ہزار سے آگے +میں کہہ رہا ہوں خود اپنا یہ قطعہ ئ تاریخ +حیات غوث کی ہم ’’ ہم مزار سے آگے +میں نے خط پڑھ کر سوچا تھا کہ اشفاق بھائی شاید ذہنی اعتبار سے بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں مگر جب وہ ہسپتال میں داخل ہوئے تو میرے دل میں ہول اٹھنے لگا کہ کہیں یہ قطعہ ئ تاریخ درست ہی ثابت نہ ہو ا اور وہ انتقال فرماگئے ۔ اپنی موت سے پہلے یہ کہنا کہ اب میرا وقت پورا ہے ۔ وہ حیرت انگیز بات جسے اتفاق کہنے پر جی نہیں مانتا کیونکہ اگر کوئی ستر،اسی سال کا آدمی ایسی بات کرتا ہے اور وہ صحیح ثابت ہوتی ہے ۔ تو اسے اتفاق کہا جاسکتا ہے ۔ مگر ایک شخص جس کی عمر چوالیس برس ہو، اس کی طرف سے اپنی موت کی پیش گوئی اتفاق نہیں کہی جا سکتی ۔ پھر انکی شاعرانہ عظمت کا مجھے اس وقت اور زیادہ احساس ہوا جب میں نے ان کا قطعہ تاریخ نکالا ۔ میرے نکالے ہوئے دونوں قطعاتِ تاریخ لفظی بازگری دکھائی دیتے ہیں ۔ مگر ان کے قطعۂ تاریخ میں روانی ، سادگی اور وہ سب کچھ ہے جو کسی سرزد ہوجانے والی شاعری میں ہوتا ہے ۔ مگر قطعۂ تاریخ سرزد نہیں ہوسکتا۔ یہ طے شدہ بات ہے میرے کہے ہوئے قطعات یہ ہیں۔ +گونجتا ہے نغمۂ اسم محمد +ہو رہی ہے وسعت ِ آفاق فرخ +منتظر ہیں صاحبِ مکی و مدنی +آسماں تک ’’ رحلتِ اشفاق فرخ ‘‘ +تجھے دیکھا نہیں ہے آخری پل +یہی دکھ ہے قیامت زاد اشفاق +مرے دل میں رہے گی زندگی بھر +یہی ظالم ’’ خلش آباد اشفاق ‘‘ +ایک بات کامجھے بہت دکھ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنا شعری مجموعہ مرتب نہیں کیا ۔میرے پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ ان کی چیزیں بھی مکمل طور پر جمع نہیں ہوسکیں۔ اس سلسلے اسد مصطفی نے بہت کام کیا ہے لیکن ابھی ان کی بہت سی چیزیں نہیں ملیں۔ کچھ غزلوں کے ایک یا دو تین شعر درج کر رہاہوں۔ +حاصل حیات کا ہے فقط عشق مصطفی +باقی جو ہے کباڑ ہے ٹوٹے مکان کا +سینے کے بیچ رکھا ہوا ہے خیال ہے +ٹکڑا ہے ایک پاس مرے آسمان کا +ہے ایک پل صراط پہ چلنے کا واقعہ +کردار گر پڑا تھا مری داستان کا +پھر رہا ہوں بستیوں میں دیر سے +آدمی سے بات کرنا چاہتا ہوں +آپ کی ذات سے آگے نہیں سپنے میرے +میرے ماں باپ فدا آپ پہ بچے میرے +میرا ظاہر میرے باطن سے ملا جاتا ہے +ملتے جاتے ہیں یہ آپس میں کنارے میرے +میں مدینے کا گداہوں میں محمد کا فقیر +سنگ باری نہ کرو مجھ پہ خرد مندی کی +چاک دامان وفا آنکھ سے سینے کو چلیں +فصل گل آئی ہے ہم آئو مدینے کو چلیں +گنبد خضرا کا اشفاق کریں مل کے طواف +جامِ عرفان چلو دوستو پینے کو چلیں +عین ممکن تھا کہ مل جاتی مجھے میری مراد +اس مسافت پہ طبعیت نہیں آئی میری +مجھے گلوں کا نہیں تجربہ ذرا اشفاق +بہار میرے گلستان سے دور رہتی ہے +یہ سچ ہے مل گئی تھی بہاروں کی سلطنت +یہ اور بات خار حکومت میں آگئے +حواس ِ خمسہ معطل تھے ہر طرف اشفاق +عجیب لالہ و گل تھے عجیب خوشبو تھی +کنارِ خواب مچلتی تھیں خواہشیں لیکن +مجھے خیال تھا اشفاق رتجگوں کا بہت +مسافتیں تو زیادہ نہیں تھیں منزل کی +میں ہم سفر رہا پر بیچ راستوں کا بہت +فصیل شہر گرائی بڑے طریقے سے +کہیں دریچے کہیں در بنا دئیے ہم نے +خبر مل تھی طلسمی سپاہ کی اشفاق +گھروں کو خوف سے تالے لگا دئیے ہم نے +اجل کے شہر میں رہنے کا یہ قرینہ تھا +قیام گاہ فنا کو بنا لیا میں نے +کسی سے ملنے گئے اور خود مل آئے +شب وصال عجب واقعہ ہوا ہم میں +تمام بوجھ اتارے ہیں پھر بھی وحشت ہے +نجانے کون ابھی ہے پڑا ہوا ہم میں +دیار دوست کی صورت کسی بلا سی تھی +کہیں ملال کہیں غم کہیں اداسی تھی +تمنا تھی کہ اسے سوچتے کبھی اشفاق +خیال و خواب کی وسعت مگر ذراسی تھی +موت کا خواب آرہا ہے کوئی +زندگی زہر لگ رہی ہے مجھے +محی الدین ابن عربی اشفاق بھائی کی سب سے پسندیدہ شخصیت تھے۔ وہ اکثر اوقات مجھے ان کی زندگی کے واقعات سناتے رہتے تھے ۔ جن میں تمثیلی انداز میں فکر کا ایک جہاں آباد ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ ان سے میاں محمد بخش کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی تو میں نے انہیں کہا کہ میاں صاحب کے اس شعر: +خاصاں دی گل عاما ں اگے نئیں مناسب کرنی +مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی +اعجاز طلب کس میں ہے طالب ہے کون +عرفان کسے چاہئے ، کاذب ہے کون +پس دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق +یہ سوچتاہوں میرا مخاطب ہے کون +ابن عربی کے ساتھ ساتھ یونانی فلاسفر فلوطینس سے اشفاق بھائی متاثر تھے۔ مجھے اشفاق بھائی کی رباعیوں میںفلوطینس کا فلسفہ بہت نظر آتا ہے ۔ فلوطینس سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں نے طے کرلیا تھا کہ افلاطون نے الوہیت اعلیٰ اور مادیت کے درمیان رابطے کا نظریہ قدیم اعتقادات سے اخذ کیا ہے اور اس موضوع پر پاکستان میں عربی زبان کے سب سے بڑے نثر نگار اور یونانی فلسفے کے ایک بڑے ماہر سید نصیر شاہ سے طویل گفتگو کی تھی ۔ انہوں نے میری توجہ فلوطینس کی طرف مبذول کر ائی اور جب میںنے فلوطینس کی کتاب نورتن سے تفصیلی بات چیت کی ﴿ فلو طینس کے چون مقالوں پر مشتمل یہ کتاب مجھے اس کے شاگرد پار فری سے مستعار ملی تھی ﴾ تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ جدید افلاطونیت کا بانی ہے ۔اس نے افلاطون کے فلسفے کو ایک ایسی تفہیم دی ہے کہ اس کی تعلیم تشکیک سے نکل کر ایک نئے مذہبی خیال میں ڈھل گئی ہے۔ وہ مجھے اہل تشکیک کی اس بات سے بھی متفق نظر آیا کہ افلاطون کی وہ تعلیم جو مادیت سے مبرا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ابھی اور علم کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ انسان کے پاس وہ علم موجود ہے لیکن اس علم سے آگاہی کے لیے روح کو آسمانوں سے آگے کے کچھ سفر درپیش ہیں ۔ اس کے نزدیک نظریات کوئی جامد شے نہیں بلکہ مسلسل ارتقائی عمل کا نام ہیں۔ اس نے اپنے نظریاتی ارتقائ کا ایک نظام وضع کیا ہے ۔میں نے اس کے نظریاتی ارتقائ کی روشنی میں اس کو بڑے غور سے دیکھنے کی کوشش کی تووہ مجھے اور بھی خوبصورت لگا ۔مجھے اس کے نظریاتی ارتقائ میں وحدتِ کل کی جانب سے قدرت کاملہ کی مخلوق تک مختلف وسیلوں سے مسلسل اور مستقل ترسیل دکھائی دی اور وسیلۂ اول یعنی ادراک عظیم ﴿ الوہی وباطنی خرد﴾ سے روحِ کائنات رواں ہوتی ہوئی نظر آئی جہاں سے انسان وحیوان کی روحیں خارج ہورہی ہیں اور مادہ وجود میں آرہا ہے۔ فلوطینس نے روحانی آفاقیات کا جو پیچیدہ نظام پیش کیا ہے وہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ وحدتِ کل ، فہم و ادراک اور روح ۔ اور وہ ان تینوں کے اتصال کا نتیجہ وجود یا ہستی کو قرار دیتا ہے ۔ اپنے اس روحانی نظام میں ادراک کے استغراق یعنی مراقبے کو اس نے ایک بار آور اصول کی حیثیت دی ہے جس کے باعث ہر موجود ایک مطلق حقیقت بن جاتا ہے یعنی کثر ت وحدت میں بدل جاتی ہے ۔اس کے نزدیک الوہیت ظاہر فطرت میںموجود ہے۔ اگرچہ وہ نظریہ ئ وحدت الوجود کو حتمی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ان سے زیادہ دور بھی نہیں بس اتنا بنیادی فرق ہے کہ اس کا نظریاتی نظام عدم سے تخلیق کے خیال کی اجازت نہیںدیتا ۔ وہ کہتا ہے ’’ جب انسان وجود سے بھی ترقی کر کے آگے نکل آتا ہے تب اس میں ذاتِ حق کا نور جھلکنے لگتا ہے ۔یہی اس کی تنہائی اور یکجائی کا نور ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تنہائی تنہائی سے ہم آغوش ہوتی ہے ۔ اور ایک دن جب اشفاق بھائی نے مجھے اپنی یہ رباعی سنائی : +اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی +اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی +انسان جو اس جسم سے باہر نکلا +تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی +تو میں نے انہیں کہا یہ تو فلوطینس ہے تو کہنے لگے ’’ ہاں یہ بھی اپنے ہی مزاج کا شخص تھا۔ اس پر تھوڑا کام کرو۔اردو کی کسی کتاب میں اس کے متعلق کہیں مکمل معلومات موجود نہیں کہ وہ کب پیدا ہوا تھا، کہاں پیدا ہوا تھا وغیرہ وغیرہ ،اور فلوطینس سے میری دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں نے کئی ماہ اس کے ساتھ لائبریریوں میں گزارے تو پتہ چلا کہ وہ رومن فلاسفر نہیں مصری فلاسفر تھا۔ اس نے 204 عیسوی میں مصر میں جنم لیا تھا ۔چوبیس پچیس سال کی عمر میں اسکندریہ چلا گیا تھا ،جہاں اس وقت کے معروف فلسفی ’’ عمونیئس ساکس ‘‘ نے اس کی علم کے لیے تڑپتی ہوئی بے چین روح کو سیراب کرنے کی کوشش کی مگر علم کے پیاسے فلوطینس نے بادشاہ کے ہمراہ ایران کا سفراختیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں کے فلسفیوں سے استفادہ کیا جائے۔ بادشاہ کو راستے میں قتل کر دیا گیا تو فلوطینس ایران جانے کی بجائے واپس روم آگیا جہاں اس نے اپنا ایک فلسفے کا سکول قائم کیا ۔ وہ بہت سحرا نگیز گفتگو کر تاتھا۔ اس کے سننے والوں پر اس کی گفتگو کا اس قدر گہرا اثر ہوتا تھا کہ لوگ اپنی دولت غریبوں میں تقسیم کردیتے تھے ۔ غلاموں کو آزاد کردیتے تھے اور زندگی زہد وتقویٰ کے لیے وقف کر دیتے تھے ۔اس وقت کا رومن بادشاہ بھی اس کی گفتگو کے اسیروں میں سے تھا۔ اس نے بادشاہ کی اجازت سے اشتراکی سماج قائم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا تھاجو بادشاہ کے مشیروں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ اس نے روم ہی میں 270 عیسوی میں انتقال کیا۔ وہ آخری سانس تک لوگوں کو اپنے الوہی فلسفے سے سیراب کرتا رہا۔ اس کا تحریری کام اس کے مرنے کے بعد اس کے شاگرد ’’ پار فری ‘‘ نے مرتب کیا۔ چھ حصوں پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی اور ہر حصے میں نوباب شامل کیے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی کتاب کے متعلق یہ ترتیب خود فلوطینس کی اپنی ہے ۔ میں نے جب یہ تمام معلومات جمع کرکے اشفاق بھائی کو دیں تو انہوں نے میری طرف شاہد غزنوی کی ایک کتاب بڑھادی جس میںفلوطنیس کے بارے میں اردو زبان میں سب کچھ موجود تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا اور میںنے کہا میں اتنے دن لائبریریوں کی خاک کیوں چھانتا رہا ہوں۔ آپ یہ کتاب پہلے مجھے نہیں دے سکتے تھے تو کہنے لگے ’’ لائبریریوں کی خاک نہیں چھانتے رہے ،کتابوں کی گرد صاف کرتے رہے ہو تمہیں تو پتہ ہے کہ یہاں اور کون ہے جو الماری سے کتاب نکالنے کا سلیقہ بھی جانتا ہو۔ +پچھلے دنوں فلوطینس سے میری تیسری ملاقات برطانیہ میںسید حسن عسکری کی وساطت سے ہوئی تو مجھے اشفاق بھائی بہت شدت سے یاد آئے ۔سید حسن عسکری کی کتاب مراقبۂ ذات ‘‘ فلوطینس کی تصنیف کے اقتباسات کے حوالے سے تالیف و ترجمہ پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی ’’ ہمدمِ دیرینہ ‘‘ یعنی اشفاق بھائی سے ملاقات ہوگئی ہو۔کہتے ہیں کہ ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات ِ مسیحا و خضر سے ۔ وہ بھی بڑی باکمال کتاب ہے۔ میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے یوں احساس ہوا جیسے میں 250 عیسوی میں روم کی گلیوں میں فلوطینس کے ساتھ پھر رہا ہوں اور وہ اپنی جادو بھری آواز میں میرے ساتھ محوِ گفتگو ہے ۔راز کن فکاں کھولنے کی کوشش جاری ہے ۔ The One کی تفہیم کے لیے الفاظ نہیں مل رہے ۔ ماہیتِ روح زیرِ بحث ہے روح کے حصۂ زیریں اور حصہ ئ بالا کے درمیان رابطے کی صورت دکھائی دے رہی ہے ۔ خیر مطلق کے قربِ مسلسل کے احساس کا اظہار ہو رہاہے ۔ صاحب ِمعرفت کی خبر مل رہی ہے ۔ اور سب سے بڑی بات جو سید حسن عسکری کی کتاب سے طلوع ہورہی ہے ۔ اس کا فلوطینس کے مراقبۂ ذاتِ احد کو اسلام کے توحیدی مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہے ۔ان کی کتاب پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کتاب میںفکر سے مراقبے تک کہیں کوئی ایسی فلسفیانہ بات موجود ہے جو دائرہِ اسلام سے باہر ہو اور یہی با ت اشفاق بھائی کہا کرتے تھے۔ مجھے اشفاق بھائی کی جن جن رباعیوں میں فلوطینس کی فکر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہیں : +اس عالم ناسوت میں آئی کیوں ہے +اس قریۂ طاغوت میں آئی کیوں ہے +اشفاق کوئی روح سے پوچھے اتنا +اس جسم کے تابوت میں آئی کیوں ہے +ہے خاک سے کچھ بیر ، مجھے لگتا ہے +یہ میرا حرم دیر مجھے لگتا ہے +اشفاق جدا اصل سے کرنے والا +یہ جسم کوئی غیر مجھے لگتا ہے +اشفاق بھائی برٹینڈ رسل کے بھی بہت قائل تھے، لیکن اس کی دہریت کی بنیاد پر کبھی اسے مکمل طور پر مسترد کر دیتے تھے ۔ کہا کرتے تھے کہ رسل کا یہ خیال کہ ’’ انسان قدرت کا ایک حصہ ہے ۔ قدرت سے مخالفت میںنہیں ۔ اسکی سوچ اور جسمانی حرکات اسی انداز میں ہیں جس طرح ستاروں اور ایٹموں کی حرکت ہے۔ انسانی سوچ اور جسمانی حرکات بھی انہی قوانین کے تحت متحرک ہیں قطعاً درست نہیں اور خود اس کے بنائے ہوئے نظام فکر کی نفی کرتا ہے ۔برٹینڈرسل کے پاس فطرت ایک مادر مشین کی طرح ہے سواس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان یا کوئی دوسری مخلوق آزاد ہے ۔میکانکی قوانین، آزادی کو مصلوب کردیتے ہیں اور آزادی کے بغیر انسان کا علم دماغ کے کیمیائی ردعمل کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اچھائی اور برائی محض لفظ ہیں جنہیں انسانی دماغ نے کسی ردعمل کے طور پر زبان پر جاری کر دیا ہے ۔رسل ہمیں خدا سے محروم اور جس دنیا سے آشنا کرتا ہے اس میں آزادی ، اخلاقیات او رجوازِ علم کا کوئی امکان موجود نہیں۔ حالانکہ خود رسل آزادی ، اخلاقیات اور علم کا علمبردار ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اشفاق بھائی مجھ سے یہ باتیں 1990 کے اردگرد کیا کرتے تھے ۔ جب وہ سرگودھا کے ایک کالج میں پڑھایا کرتے تھے اور میں میانوالی سے لاہور ہجرت کرنے پر پرتول رہا تھا لیکن 1996 میں رالف اے سمتھ نے برٹینڈ رسل کے 1925 میں لکھے ہوئے مضمون ’’ میں کس بات پر یقین رکھتا ہوں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے تقریباً یہی بات لکھی ہے ۔اشفاق بھائی نے شاید 1990 ہی میں یہ رباعی بھی کہی تھی ۔ +مجبور قوانین کی ، قدرت کی غلام +ہے ردِ عمل کوئی نہ طاقت کی غلام +آزاد ہے یہ ذہن ازل سے اشفاق +انسان کی حرکت نہیں فطرت کی غلام +اشفاق بھائی کا خیال تھا کہ خدا کو ماننے والے لوگ درست علم کی ایک ہی قسم ﴿ عقلی ذہانت پر یقین رکھتے ہیں ۔حالانکہ علم کی تین اقسام ہوتی ہیں ۔کہتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ علم کی پہلی قسم یہی عقلی ذھانت کی قسم ہے جسے عقلیت پسندی کہا جاتا ہے ۔یہ علم معلومات اور حقائق کو جمع کرکے کسی عقلی نتیجے کانام ہے۔ ان کے خیال میں علم کی دوسری قسم مختلف حالتوں کاعلم ہے جس میں جذباتی احساسات اور ایسی ذہنی حالتیں بھی شامل ہیں جب انسان یہ سوچتا ہے کہ اسے کوئی بہت بڑی چیز حاصل ہورہی ہے ۔ مگر وہ اس چیز کومکمل طور پر سمجھنے ، حاصل کرنے اور استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہ اس علم کو جذباتیت کا نام دیتے تھے ۔ +علم کی تیسری قسم کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اصل علم ہے اور اسے ’’ اصل کے علم ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ان کے نزدیک علم کی یہ قسم انسانی سوچ اور انسانی حسیات سے ماورایعنی ان کی حدود سے باہر سچ اور صحیح کے حصول اور پہچان کی قدرت کا نام ہے۔ اس کی وضاحت یوں کرتے تھے ۔عالم اور سائنس دان عقلیت پسندی کو فکر کا حاصل سمجھتے تھے ۔تجربہ کارلوگ علم ،جذباتیت اور عقلیت کو مل کر ایک متبادل علم کی صورت میں استعمال کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جن پر حق ظاہر ہوجاتا ہے اور جنہیں سب سے بڑی سچائی کے ساتھ اپنے آپ کو ملانے کی قدرت حاصل ہوتی ہے وہ پہلی دونوں اقسام سے بلند ہوجاتے ہیں اور یہی لوگ صوفی اور درویش کہلاتے ہیں ۔ جنہیں حقیقت میں اپنی منزل مل جاتی ہے ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ علم کی یہ تینوں اقسام مجھے محی الدین ابن العربی نے بتائی ہیں کچھ اور باتیں بھی مجھے ان کی یاد ہیں جن کے بارے میں کہا تھا کہ یہ باتیں میں نے ابن عربی سے لی ہیں ۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں تک ابن عربی کی باتیں ہیں اور کہاں سے ان میں اشفاق بھائی کی فکر شامل ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے ایک قطعہ کہا تھا : +جل بجھی فصل کی تلاش میں ہوں +گمشدہ وصل کی تلاش میں ہوں +ڈھونڈتا ہے خدا مجھے اشفاق +اور میں اصل کی تلاش میں ہوں +جب میں نے اس قطعہ کی وضاحت چاہی تو کہنے لگے ابن عربی نے کہا ہے عام محبت کرنے والا اپنے ثانوی ادراک کو محترم جانتا ہے مگر میںاصل سے محبت کرتا ہوں ۔ ابن عربی کے حوالے ایک اور بات جو انہوں نے ایک دن تقریر میں سنائی تھی ۔اللہ تعالی کی شان بیان کرتے ہوئے مجھے وہ آج بھی یاد ہے۔ فرمایا تھا اس کے حسن کے سامنے ہر حسن و خوبصورتی خاموش ہے ۔اس کے بارے میں سوچنا بھی اس کی نزاکت اور لطافت سے بھری ہوئی پر سراریت کو گزند پہنچاتا ہے ۔عقل ویسے ہی کھردری نفاست سے عاری جھوٹی اور کم تر شے ہے۔ وہ اس کے ادراک کی کس طرح متحمل ہوسکتی ہے ۔اسے ایک بھونڈی سی بھدی سی آنکھ جیسی چیز کیسے دیکھ سکتی ہے۔ اس کے حیران کرنے والے کمالات سوچ کی گرفت سے باہر ہیں نظر کی وسعت اسے مقید نہیںکر سکتی اس کے بارے میں وضاحت کی ہر کوشش اس کے سامنے مغلوب ہوجاتی ہے کیونکہ ایسا کرنا تحدید کے مترادف ہے اس کی وسعت کو کم کرنے کے مترادف ہے اسے محدود کرنا ہے اگر کوئی اس کی تلاش میں عام محبت کے انداز میں اسے چھونے کی خواہش میں اپنی امنگ اور اپنے اشتیاق کو کم درجہ کا بناتا ہے تو اسکی قسمت مگر ایسے بھی بہت سے موجود ہیں جوایسا کبھی نہیں کریں گے ۔ رباعیات کی دنیا میں بھی اشفاق بھائی کسی سے کم نہیں ۔ رباعی بہت پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ایک پسندیدہ صنفِ ادب ہے۔ آج کے دور میں کم ہی شاعررباعی لکھتے ہیں ۔ فارسی زبان سے شغف رکھنے والوں کی اس میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے ۔ رباعی لفظ تو عربی زبان کا ہے مگر عربی زبان میں اس نام کی کوئی صنفِ ادب موجود نہیں ، رباعی کی ابتدا فارسی زبان سے ہوئی اور اس کی صنف کو سب سے زیادہ شہرت عمر خیام کی وجہ سے ہوئی ۔ عیش پسندی کے پس منظر میں اس کی انسان دوستی اس کی رباعیات کی مقبولیت کا سبب سمجھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کے تقریباً تمام بڑے شعرائے کرام نے اس صنف میں کچھ نہ کچھ اظہارخیال ضرور کیا ہے لیکن شیخ سعدی(رح) ، قاشانی اور فرید الدین عطار نے اس صنف میں خاصا کام کیا ۔ فرید الدین عطار نے چھ ہزار رباعیات کہی ہیں۔ ہندوستان میںامیر خسرو نے فارسی زبان میںبہت لازوال رباعیات لکھیں اگر تسلسل سے دیکھا جائے تو رباعی کے حوالے سے ایک بات یہ نظر آتی ہے کہ اس صنف میں زیادہ ترفلسفیانہ انداز میں شاعری کی گئی ہے یعنی مسائل ِ تصوف ہی زیر بحث رہے ہیں گرچہ بظاہر ساغر و بادہ کی گفتگو ہے مگر حقیقت میں مشاہدہ حق کا مضمون باندھا گیا وہی غالب والی بات : +ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو +بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر +اردو زبان میں اس صنف کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اس کے وجہ شاید ایک تو اس کے مشکل اوزان ہیں دوسرا اردو زبان پرغزل کی گرفت بہت زیادہ مضبوط ہے۔ اس صنف میں انہی لوگوں نے زیادہ تر شاعری کی جو فن شاعری کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف تھے ۔ ولی دکنی ، سودا ، حسرت، انیس ودبیر، مصحفی ، میرتقی میرا ور مومن خان مومن کے ہاں رباعیاں ملتی ہیں ، اقبال نے کچھ رباعیات کہیں مگر زیادہ ترفارسی زبان میں اوران کے اوزان کے حوالے سے ایک بحث بھی ہے کہ یہ قطعات ہیں یار باعیات۔ ماضی قریب میں جوش اور فراق کے پاس بھی رباعیاں نظر آتی ہیں مگر کہیں رباعیات کی تعداد اتنی نہیں کہ انہیں اس حوالے سے کوئی بڑی اہمیت حاصل ہو۔ سید نصیر الدین گولڑی نے رباعی کے میدان میں بہت کام کیا ہے ۔اشفاق بھائی نے بھی اپنی رباعیات میں ان تمام لوازامات کا پوری طرح خیال رکھا ہے جو اعلیٰ درجہ کی رباعی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں ۔ان کی رباعیات کے زیادہ تر موضوعات تصوف فلسفہ اور منطق سے تعلق رکھتے ہیں جو ان کے فکری رجحان کی عکاسی کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنی رباعیات میں اپنے نظریات کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے اور انتہائی الجھے ہوئے فلسفیانہ موضوعات کو اس طرح شاعری میں تبدیل کر دیا کہ کہیں اس بات کا احساس نہیںہوتا کہ نظریہ ابھر کر سامنے آگیا ہے اور شاعری کہیں پیچھے رہ گئی ہے ۔ وہ عمر خیام کی رباعیات کے بہت مداح تھے اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے اس صنف کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ان کی یہ رباعی مجھے عمر خیام کے بہت قریب محسوس ہوتی ہے ۔ +امید ، سیہ خاکِ قفس چھونے لگی +کیا قوم کہیں حامل تہذیب ہوئی +بارودی سرنگوں کی ہے تنصیب ہوئی +پھر امن کا بندوق سے پرچار کیا +تعمیر کے پھر نام پہ تخریب ہوئی +اشفاق بھائی نے بھوک اور مفلسی کی گپھائوں میں ڈوبی ہوئی دنیا کا بھی مشاہدہ کیا تھا۔ روٹی کے لیے ہوتے ہوئے بلوے بھی ان کی نگاہ میں تھے اور وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ ان کے لیے آسمانوں سے من و سلویٰ کیوں نہیں اترتا ان کی ایک رباعی دیکھئے : +موسیٰ نے کہیں طور کا جلوہ دیکھا +لوگوں نے اترتا من وسلویٰ دیکھا +ر��ٹی کے لیے شہر میں شب بھر اشفاق +کب خون میں ڈوبا ہوا بلوہ دیکھا +بارودی سرنگیں دنیا کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں۔ اس وقت دنیا میں معصوموں کے مارنے کے لیے اتنی باردوی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں کہ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل طور پر صاف کرنے لیے تقریباً نصف صدی درکار ہے مگر اس طرح کی اندھیروں بھری صورتحال میں اشفاق بھائی نا امید کہیں نظر نہیں آتے ۔ امید اشفاق بھائی کے ہاں بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔ وہ دکھ کی بات کرتے ہیں، رات کا قصہ بیان کرتے ہیں مگر سویروں سے ہم آغوش ہونے کے واقعات بھی سناتے ہیں بلکہ موت جیسے ہولناک موضوع پر اتنی خوف صورتی سے بات کرتے ہیں کہ اس میں بھی گلیمر پیدا ہوجاتا ہے، ان کی رباعی دیکھئے : +اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی +اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی +انسان جو اس جسم سے باہر نکلا +تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی +تخلیق کے بارے میں ان کا رویہ بھی علامہ اقبال سے ملتا جلتا ہے کہ خون جگر سے تربیت پاتی ہے سخنوری مگر اشفاق نے اس موضوع پر بہت کھل کر سیدھی سیدھی بات کی ہے کہ اعلیٰ معیار کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ ایسے موضوعات پر اظہار خیال کیا جائے جن میں دکھ کی فراوانی ہو۔ اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں ۔ +رنگوں سے کبھی درد کو تصویر کریں +تیشے سے کبھی خواب کی تعبیر کریں +تخلیق کریں جب کوئی خوش کن نغمہ +غمگین خیالات کی تشہیر کریں +انگلش زبان میں اس بات کو تقریبا ً ہر بڑے شاعرنے کہا ہوا ہے بلکہ انگریزی کا مقولہ ہے کہ عظیم شاعری ٹریجڈی سے نمودار ہوتی ہے، کامیڈی سے نہیں ۔ غالب نے بھی کہا تھا +زندگی اورموت کے بارے میں محمد اشفاق چغتائی کا نظریہ بھی بحث طلب ہے۔ وہ سقراط سے سچائی کی بات کرنے میں دلچسپی نہیںرکھتے بلکہ موت کے بارے میں اس کے ساتھ بزم سوالات منعقد کرتے ہیں ان کی ایک رباعی ریکھئے ۔ +سچائی پہ موہوم سی کچھ بات ہوئی +بس موت پہ ہی بزم سوالات ہوئی +یہ بات الگ میں نہیں یونان گیا +سقراط سے کچھ دیر ملاقات ہوئی +سقراط کے ساتھ موت کے موضوع پر گفتگو کیوں ؟ اس کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے کہ جب سقراط کو سزائے موت سنائی گئی تھی تو قانون کے مطابق سقراط کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر زہر کا پیالہ پینا تھا مگر مقدس دیوتائوں کا جہاز دوسرے جزیروں کے دورے پر گیا ہوا تھا سو اس کی واپسی تک انتظار ضروری تھا۔ سقراط کو مہینہ بھر جیل میں رکھا گیا ۔مہینہ بھر جیل میں محفلیں سجتی رہیں ۔سقراط کے دوستوں نے جیل سے فرار کا منصوبہ بھی بنایا مگر سقراط نے انکار کر دیا اور موت اور روح کی لافانیت پر گفتگو کرتا رہا ۔ سقراط کے شاگردوں نے اس گفتگو کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے مگر بہت سے سوال اور بھی ہیں جنہیں شاید اشفاق سقراط سے پوچھنا چاہتے تھے ۔ محمد اشفاق چغتائی کو شاید علم ریاضی سے بھی دلچسپی تھی۔ ریاضی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریاضی کا آغاز خارجی دنیا پر عددی تبصرے اور معروض کی گنتی اور پیمائش سے ہوتا لیکن ریاضی چونکہ ایک قائم بالذات زبان کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے مکمل طور معروضی دنیا یعنی فطرت کی پابند نہیں رہتی اور ادب جو امکانی وسیلوں سے آگے بڑھتا ہے۔ اسے ریاضی پر منتج نہیں کیا جاسکتا مگر اشفاق بھائی نے اپنی ایک رباعی میں ادب اور ریاضی کو آپس میں ہم آغوش کر دیا ہے ۔ کہتے ہیں ۔ +اقلیدس سے علم ریاضی سے پوچھا +منصور سے کی گفتگو قاضی سے پوچھا +ہوتی ہے محبت میں مثلث آخر کیوں +پوچھا خدا سے ، عشق کے ماضی سے پوچھا +ریاضی کے موضوع پر میری نظر س�� اس سے پہلے صرف صادقین کی ایک رباعی گزری ہے ۔صادقین نے ریاضی اور خطاطی کے باہمی رشتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، وہ رباعی کہی ہے ۔وہ کہتے ہیں ۔ +کچھ وصلیاں اور سجا لایا ہوں +بالکل ہی نئے جوڑے بنا لایا ہوں +استادوں کی قید ریا ضی میں تھے وہ +اس قید سے ابجد کو چھڑا لایا ہوں +صادقین کی رباعی سے اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی یاد آگئی ہے۔ بظاہر تو ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ، قافیے کی مناسبت کے سوا مگر میںسمجھتا ہوں کہ ان دونوں رباعیوں کے درمیان کوئی مزاج کی ہم آہنگی ایسی ہے جس سے مجھے یہ رباعی یاد ہوگئی ہے ۔ +میں حرف ہوں الفاظ سے چھڑائے کوئی +میں لفظ ہوں جملے سے بچائے کوئی +اشفاق عمارات بھری ہیں لیکن +مفہوم کتابوں کا بتائے کوئی +رباعی کے چوبیس وزن ہیں اور ان میں کئی بہت مشکل بھی ہیں ۔ میرے علم میں اردو زبان کا کوئی ایسا شاعر نہیں جس نے رباعی کے تمام اوزان کو استعمال کیا ہو، سوائے اشفاق بھائی کے ۔ میرے اس دعویٰ کا سبب میرے مطالعہ کی کمی بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ۔ +اساتذئہ فن اوزانِ رباعی کے دوشجرے بناتے ہیں ۔ پہلا شجرہ اخرب اور دوسرا شجرہ اخرم۔ دونوں شجروں میں بارہ بارہ بحریں ہیں ۔شجرہ اخرب کا پہلا رکن مفعول ہے ۔اس کی پہلی بحر مقبوض ابترہے جس کے ارکان ہیں ﴿ مفعول ، مفاعلن ، مفاعیلن ، فع ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے ۔ +دنیا کو نیا نصاب دینا ہوگا +ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہوگا +کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں +تاریخ تجھے جواب دینا ہوگا +اس رباعی سے ایک اور بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اشفاق بھائی کو تاریخ سے بھی خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے تاریخ کے سمند ر میں اتر کر اس بات کا بھی ادراک کرلیا تھا کہ تاریخ سچائی کے ساتھ ساتھ جھوٹ کا ایک پلندہ بھی ہے ۔تاریخ کو جانچنے کے لیے اب جو پیمانے بنائے گئے ہیں انہوں نے بہت سے تاریخی مسلمات کو غلط ثابت کیا ہے اور اس میدان میں ہونے والی ترقی یقینا آنے والے ادوار میں اور بہت سی تاریخی سچائیوں کو غلط ثابت کردے گی ۔شجرہ اخرب کی دوسری بحر مقبوض زلل ہے ۔اس کے ارکان ہیں﴿ مفعول ، مفاعلن ، مفاعیلن، فاع﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے ۔ +خورشید سے آشکار ہے کس کا عکس +ہر پھول میں نوبہار ہے کس کا عکس +اشفاق نہیں کوئی اگر تو پھر بول +آئینے میں بے قرار ہے کس کا عکس +خدا کے وجود کے حوالے سے یہ کیا عجیب رباعی ہے ۔ اپنے ہونے کو جس طرح اشفاق بھائی نے خداکے ہونے کا ثبوت بنایا ہے، اس کی مثال پہلے کہیں کم ہی نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ وہ علم کے پانچ دروازوں یعنی حواس خمسہ پر گفتگو کررہے تھے کہ افق پر زمین اور آسمان کا ملاپ جو نظر آتا ہے ،ویسا نہیں ہے یعنی حسِ بصارت جھوٹ بولتی ہے۔ گاڑی کے شور میں ہم سفر کی گفتگو صحیح سنائی نہیں دیتی یعنی حسِ سماعت بھی ناقابلِ اعتبارہے ۔ رس بھرے گلاب جامن کھانے کے بعد میٹھی چائے کی پیالی بھی پھیکی لگنے لگتی ہے ،جیسے حسِ ذائقہ ختم کررہ گئی ہو۔ بخار میں تپتا ہوا ہاتھ نسبتاً کم حدتوں کو خنکیاں ٹھہرا جاتا ہے جیسے حسِ لامسہ مفلوج ہوگئی ہواور رات کی رانی کی خوشبو جب صحن میں گھلتی ہے تو باقی پھول فقط رنگ ہوکر رہ جاتے ہیں یعنی حس شامہ پر بھی یقین نہیں رکھا جاسکتا ۔ تو میں نے پوچھا تھا کہ اگر ہمارے حواس سچ نہیں بولتے ہیںتو پھر سچائی کیا ہے اور کہاں سے آتی ہے توانہوں نے کہا تھا ’’ ہاں یہ علم کے پانچ دروازے نہیں ظن و تخمین کی تشکیک آور کھڑکیاں ہیں ۔��چائی علم کا چھٹا دروازہ ہے جو باہر کو نہیں اندر کو کھلتا ہے یعنی ہر انسان کے باطن میں ہوتا ہے۔ اسی سے انسان کو اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے ۔وہی اپنے اندر کسی اور کی موجودگی کی خبر دیتا ہے۔ آئینہ ئ ذات میں کسی کا عکس دکھائی دیتا ہے جو ایک طرح سے ہماری اپنی صورت بھی ہوتی ہے مگر اسے اپنی صورت پرتشبیہ دینا کفر ہے کہ وہ ذات حدود و قیود سے ماور اہے اور اسے کسی شے میں مقید کرنا شرکِ عظیم ہے ۔ شجرہ اخرب کی تیسری بحر مقبوض مکفوف مجبوب ہے۔ اس کے ارکان یوں ہیں ﴿ مفعول ، مفاعلن، مفاعیل فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی نے یہ حمدیہ رباعی کہی ہے ۔ +اس میری زمیں کو تونے آفاق کیا +اس ذہن رسا کو پل میں براق کیا +تجسیم خیالوں کودی کچھ خواب بنے +اشفاق کو تونے ہی تو اشفاق کیا +اس رباعی سے اشفاق بھائی کے نظریۂ حیات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ وہ زندگی کو کیا سمجھتے تھے ۔ اشفاق کا اشفاق ہونا ان کے نزدیک کیا تھا یہی کہ خیالوں کو تجسیم کرنا اور خوابوں کو بننا۔ یعنی اشفاق بھائی کے خیال میں زندگی کی حقیقت خیال و خواب میںپنہاں ہے ، فر و آگہی ہے ، سوچنے کے عمل کانام ہے ۔سوچنے کے عمل کو وہ براق سے تشبیہ دیتے ہیں ۔براق تو انسانی معراج کی سوار ی ہے ۔ شجرہ اخرب کی چوتھی بحر مقبوض مکفوف اہتم ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿مفعول، مفاعلن ، مفاعیل ، فعول ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی نے ابتدائے آفر ینش کی یاداشت کا مرثیہ کہتے ہوئے یہ رباعی کہی: +وہ نقل مکانی تو مجھے یاد نہیں ہے +جنت کی کہانی تو مجھے یاد نہیں ہے +ہے یادشِ مختصر یہی خاک نژاد +ماضی کی کہانی تو مجھے یاد نہیں ہے +یہ بحث صدیوں سے ہوتی چلی آرہی ہے کہ انسان کی ابتدائی کیا تھی ۔ اس سلسلے میں صوفیائے کرام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ انسان پہلے جمادات تھا پھر نباتات میںتبدیل ہوا پھر حیوانات کی شکل اختیار کی اور اس کے بعد انسان کی صورت میں وارد ہوا۔ مولانا روم نے مثنوی معنوی میں یہ ساری باتیں لکھی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر قرآن حکیم میں جو قصۂ ابلیس و آدم آیا تھا ۔ وہ کیا ہے۔ صوفیا کا اس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے تمثیلی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو یاداشت خاک نژادوں کو حاصل ہوسکی ہے ۔ اس میں صوفیائے کرام کی کہی ہوئی بات سچ دکھائی دیتی ہے ۔ یعنی ڈارون وغیرہ کا نظریہ مگر بحث کہیں ختم نہیں ہوتی ۔ اشفاق بھائی کی یہ رباعی اسی کہانی کو بیان کرتی ہے ۔ کہ میرے پاس تو وہی مختصر سی خاک نژاد یا موجود ہے ۔ باقی سب کچھ میں بھول گیا ہوں۔ میںنے اسی موضوع پر ایک نظم کہی تھی عنوان تھا ’’ صرف خواص کے لیے ‘‘۔ +ہست قرآں درزبان پہلوی کی ایک آیت اورہم +ابتدائے آفر ینش کی کوئی ساعت۔۔۔ جماداتی زمانہ +نیلم و الماس کے ڈھیروں میں حرکت کی طلسماتی نمو +پہلے نباتاتی تغیر کا فسوں +پہلے وجودیت کی پھر تجسیم کا ری +جسم حیوان کے مسلسل ارتقائ کی آخری حد +فکری و ذہنی سفر کے راستوں پر گامزن +آدمی مٹی کی کچھ تبدیل ہوتی حالتوں کا اک ظہور +آدم وحوا کا قصہ ایک تمثیلی شعور +اشفاق بھائی نے یہ نظم سن کر مجھے کہا تھا کہ تم نے فتویٰ صادر کر دیا ہے۔ آدم و حوا کے قصے کے بارے میں ۔ اور تم یہ فتویٰ دینے کی حیثیت نہیں رکھتے کوئی نہیں رکھتا حتی کہ صوفیا ئے کرام بھی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ بے شک ہم اسے سمجھنے کی کوشش میں غلطی بھی کرسکتے ہیں کیونکہ انسان ہیں مگر اس کلام کے بارے میں کوئی ایسی بات حرف آخرکے طور پر نہیں کہہ سکتے جس سے اس کی سچائی پر کہیں ذراسا بھی حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ +شجرہ اخرب کی پانچویں بحر احزم ابتر ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول، مفاعیلن ، مفعولن، فع﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجودہے +صورت ہو بے صورت کی ناممکن ہے +اک دید شہادت کی ناممکن ہے +ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں +تسخیر اس وحدت کی ناممکن ہے +اس رباعی میں بہت سی باتیں جمع ہوگئی ہیں۔ ایک بار میںنے ایک نعتیہ شعر کہا تھا۔ +مجھے معلوم ہے تسخیرِ یزداں کا عمل منصور +کرم خاک مدینہ کا مری دیدہ وری پرہے +تواشفاق نے اس میں سے دوغلطیاںنکالی تھیں۔ ایک تو یہاں دیدہ کی ’’ ہ ‘‘ نہیں بولنی چاہئے، دوسرا کہنے لگے کہ اقبال نے جو تسخیر یزداں کی بات کی ہے وہاں اس کے کہنے کا وہ مفہوم نہیں تھا جو تمہارے یہاں پیدا ہورہا ہے اس پر تھوڑی سی محنت اور کرو کیونکہ وحدت کی تسخیر ناممکن ہے ۔دوسری بات جو اس رباعی میںحیرت انگیزدکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں ۔میرے خیال میں یہ مصرعہ کہتے ہوئے ان کے مدنظر ور فعنا والی آیت تھی کہ ہم نے تیرے ذکر کو بلند کر دیا۔ یقینا یہ بات قدوس ذوالجلال عرش پر کہہ رہا ہے توحضور �ö کا ذکر عرش سے بلند ہو رہا ہے۔ قَابَ قوسین کا مقام یقینا عرش سے بہت بلند تر ہے جہاں حضور (ص) معراج کی رات کو پہنچے۔ +اشفاق بھائی کی رباعیات پڑھ کر اس بات پر یقین آجاتا ہے کہ بحیثیت ایک فنکار شاعری ان کے گھر کی کھیتی تھی، مگر وہ ہمیشہ اپنے عجز کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’ اظہار عجز ہوگئی ہے میرے فن کی بات ‘‘میںنے پوچھا کیوں کیا ہوا، ’’ تو انہوں نے کسی کا نام لیا جو مجھے اب یاد نہیں اور کہا کہ اس کی ایک بات بہت اچھی لگی تھی مگر رباعی کے اوزان میں نہیں لا سکا اور میںنے بھی تمہاری طرح ایک آزاد نظم کہہ دی ہے اور یہ بات کہ وہ آزاد نظم شاید مجھے کبھی نہ بھولے نظم کا عنوان رکھا تھا ‘‘ تین حواس ‘‘ اور اس میں یہ چھ لائنیں تھیں: +ہر بات سنو ہرا ٓن سنو +دو پردہ دار نگاہوں کی تفہیم کہے +دیکھو لیکن ہر لمحہ ہر چیز نہ دیکھو +اور دو، دروازوں کے پیچھے ایک چھپی خاموش زبان کہے +ہونٹوں اور دانتوں کے سخت کو اڑمقفل رہنے دو +لیکن آزاد نظم انہوں نے بہت کم کہی ۔ایک طویل آزاد نظم انہوں نے کہی تھی جس میں سر کارِ دو عالم کی آمد سے پہلے عرب معاشرہ کا نقشہ کھینچا گیا تھا ۔وہ کہیں شائع شدہ ہے مگر ابھی تک مجھے مل نہیں سکی اور کچھ آزاد نظمیں انہوں نے قرآن حکیم کی آیتوں کے تراجم کرتے ہوئے کہی تھیں ہاں تو بات رباعیات کے حوالے سے ہورہی تھی رباعی کے شجرہ اخرب کی چھٹی بحراحزم زلل ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیلن ، مفعولن، فاع ﴾ اس بحر میں بھی اشفاق نے کچھ رباعیایت کہی ہوئی ہیں ۔مثال کے طور پر +یہ پھول پرندے اور دریا ہیں کون +کس کی ہیں ہوائیں ، یہ صحراہیں کون +ہم لوگ نہیں لگتے ان سے اشفاق +اب اپنے بزرگوں کا ورثہ ہیں کون +اس رباعی سے ایک اور عجیب بات سامنے آرہی ہے کہ یہ پھول پرندے دریا ہوائیں اور صحرا ہمارے بزرگوں کا ورثہ ہیں۔ فطرت یقینا ہمیں وارثت میںملتی ہے ۔ بلکہ آنے والی نسلوں کا قرض ہوتی ہے اور یہ ہمارے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ جس حالت میں یہ ہمیں ملی ہے ۔ اسی حالت میں اسے اپنے بچوں تک پہنچائیں ۔یہاں اشفاق بھائی نے یہ نقطہ اٹھایا کہ ہم اپنے بزرگوں جیسے نہیں ہیں یعنی ہمارے کام ان جیسے نہیں رہے ، وہ کچھ اور تھے ہم کچھ اور ہیں اس صورت میں اب ہمارے بزرگوں کا ورثہ کون ہیں ۔اب یہ پھول پرندے کون ہیں ،کس کے رشتہ دار ہیں۔ ان ہوائوں کا وراث کون ہے۔ دریا وصحرا کون ہیں ،کچھ لگتے ہیں ہمارے یا نہیں ۔ بہر حال اس عجیب رباعی کے کئی اور بھی مفہوم ہوسکتے ہیں مگر میرے خیال میں قریب ترین مفہوم یہی ہے ۔ +شجرہ اخرب کی ساتویں بحر مجبوب ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیلن ، مفعول فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے ۔ +لمحہ بھر کی ہستی ہے کچھ سوچ سمجھ +کہنے کو یہ مستی ہے کچھ سوچ سمجھ +اشفاق جسے دنیا ہم لوگ کہیں +پستی ہی بس پستی ہے کچھ سوچ سمجھ +یہ رباعی اشفاق بھائی کی زندگی کی مکمل طور پر عکاس ہے۔ انہوں نے ساری زندگی دنیا داری نہیں کی۔ دنیا کو پستی سمجھا ۔ دوزخ کی پستی ۔ کہتے تھے حضرت علی جب خلیفہ بنے اورانہوں نے پہلا خطبہ دیا تو اس میں کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ گھرانوں میں زرکا ارتکاز ہورہا ہے ۔ میں یہ ساری دولت ان سے چھین کرامتِ مرحومہ کے افراد میں تقسیم کر دوں گا یہ نہ سمجھنا کہ ابو طالب کے بیٹے نے کوئی زمانے سے نرالا جرم کیا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ اس نے تمہیں دوزخ کی پستیوں سے اٹھایا ہے ۔ شجرہ اخرب کی آٹھویں بحرآہتم ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیلن، مفعول ، فعول ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی نے زلفِ سیاہ کے موضوع پررباعی کہی ہے اور زلف سیاہ کا مفہوم بدل دیا ہے ۔ +ظلمت کے پگھلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اس رات کے ڈھلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اشفاق قیامت ہے وہ زلف سیاہ +اب دن کے نکلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اشفاق بھائی نے اس رباعی میں زلفِ سیاہ کو انسانیت کی مظلومیت سے بھری ہوئی صدیوں میں رکھنے والے ظالم میں بدل دیا ہے یعنی اس نظام زرکو زلفِ سیاہ سے تشبیہ دی ہے۔ سرمایہ دارنہ نظام سے انہیں بہت نفرت تھی ۔بہت پرانی بات ہے شاید ان دنوں میں کالج میں پڑھتاتھا میں نے ایک نعتیہ نظم کہی تھی ۔ ’’یہ دورنگی ہے کربِ جاں مولا ‘‘ اس میں چار پانچ بند تھے جن میں رسول اللہ کے عمل اور عہد موجود میں مسلمانوں کے عمل میںجو تفاوت ہے اس کا اظہارتھا کہ +تم نے چکی جہیز میں دی تھی +عہد میرا فلور مل مانگے +تم نے برتن دئیے تھے پانی کے +یہ فرج اور زرکی سل مانگے +مگر نظم کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی تھی ۔اشفاق بھائی نے نظم سن کر فوراً اس میں آخری بند کا اضافہ کردیا اور وہ نظم اسی آخری بند کی وجہ سے نظم قرار دی جاسکتی ہے ۔ وہ آخری بندیہ تھا +تم مساوات کے پیمبر ہو +تم تفاوت مٹانے آئے ہو +اور تقسیم رزق کا مولا +ایک دلکش نظام لائے ہو +واعظوں کا مگر لبِ اظہار +ساری تعلیم مسخ کرتا ہے +روز وشب یہ فرازِ منبر ہے +حق میں باطل کا رنگ بھرتا ہے +کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام کو تقسیم رزق کا بہترین نظام سمجھتے تھے اوروہ نظام ان کے نزدیک مساوات محمدی تھا کہ جنہوں نے زندگی پر موت کو سرفراز فرماتے ہوئے ،یہ یادگار الفاظ کہے تھے کہ’’ اے خدا تو گواہ رہ کہ محمد جب تم سے ملنے آیا تو اس کے گھر میں درہم و دینار نہیں تھے‘‘ ان کے خیال کے مطابق تقسیم رزق ہی خوبصورت زندگی کی بنیاد ہے اور یہی مقصود حقیقی بھی ہے اور یہی انسانی سرشت بھی کہ بیشتر اعمال کے پس منظر میں رزق کا فلسفہ دھڑک رہا ہوتا ہے۔ اشفاق بھائی کی اس موضوع پر ایک رباعی ہے +ہر ایک گھڑی کن کی روانی کیا ہے +یہ آدمی کی نقل مکانی کیا ہے +اشفاق فقط رزق کا ہے یہ قصہ +تہذیب و تمدن کی کہانی کیا ہے +شاید اسی طرح کی کوئی بات بیدل نے بھی کہیں کی ہوئی ہے ۔فارسی زبان سے زیادہ شدبدنہ ہونے کی وجہ سے فارسی کے شعر م��ھے بہت بھول جاتے ہیں ،جب تک اشفاق بھائی کے ساتھ ہوتا تھا فارسی شعر کے زبردستی یاد رکھنے پڑتے تھے ۔ان کا یہ خیال تھا کہ اگر میں نے شاعر بننا ہے تو مجھے فارسی زبان سیکھنی ہوگی۔ فارسی کے ہزاروں شعر یاد کرنے ہونگے مگر ایک حد سے زیادہ فارسی سے میرا تعلق شاید میری قسمت میںنہ تھا ۔ شجرہ اخرب کی نویں بحر مکفوف ابتر ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیل ، مفاعیلن ، فع﴾اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے ۔ +کیا ذات کے بازار میں ہم رہتے ہیں +یوں لگتا ہے دیوار میں ہم رہتے ہیں +معلوم نہیں ہوتا ہے صدیوں ہم کو +تہذیب کی کس غاز میں ہم رہتے ہیں +اس رباعی میں روح کی جس بے کراں تنہائی اور جس تعجب خیز بے بیگانی کا اظہار فرد سے ہوتا ہوا پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے ،اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے جو صوفیائے کرام لیتے ہیں۔ خود اشفاق بھائی نے بھی کئی جگہ پر تنہائی کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے مگر اس رباعی میں یہ صدیوں کی تنہائی ،یہ قرنوں کی خاموشی اور یہ تعجب بھری بیگانگی مثبت نہیںمنفی ہے اور اپنے متعلق اشفاق بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ معلوم نہیں صدیوں سے ہم تہذیب کی کس غار میں رہتے ہیں۔ یہ اپنے تہذیبی زوال پر نوحہ خواں ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تہذیبی زوال کس کا ہے۔ پاکستانی تہذیب کا یا اسلامی تہذیب کا ۔اس سلسلے اشفاق بھائی کا نقطہ ٔ نظر بہت واضح ہے ۔وہ ایک شعر میں کہہ چکے ہیں۔ +کچھ کہو حسن ترتیب میں کیا ہوا +یہ محمد (ص) کی تہذیب میں کیا ہو +اسلامی تہذیب کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل ہے ۔میں اس سلسلے میں یہاں اشفاق بھائی کی ایک اور رباعی کو ڈکرتاہوں حالانکہ بظاہر اس رباعی کا اس موضوع سے کوئی واسطہ نہیں لیکن میرے خیال میں اشفاق بھائی کے نزدیک اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب وہی ہے : +اسلام وہی اور رسالت ہے وہی +جو ایک ہو دنیا میں حکومت ہے وہی +اشفاق مدینہ ہے وفاقی مرکز +اس امتِ مسلم کی ضرورت ہے وہی +اعجاز طلب کس میں ہے طالب ہے کون +عرفان کسے چاہئے کا ذب ہے کون +میں دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق +میں سوچتاہوں میرا مخاطب ہے کون +شجرہ اخرب کی گیارہویں بحرمکفوف مجبوب ہے اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیل ، فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی یہ رباعی موجود ہے : +اپنے دل ناکام سے کیا بات کریں +غم ہائے سیہ فام سے کیا بات کریں +اشفاق یہ خاموش ہے اپنے دکھ سے +اسی درد بھری شام سے کیا بات کریں +شام کا درد اور دلِ ناکام کا درد جب ایک ہوجاتا ہے تو خاموشی ہی گفتگو بن جاتی ہے۔ اشفاق بھائی نے اپنی اس درد بھری رباعی میں شام کے سکوت پر باطنی خود کلامی کا بوجھ محسوس کرتے ہوئے چپ رہنے کا جو فیصلہ کیا ہے کیایہ وہی فیصلہ نہیں لگتا جس کے تحت انہوں نے اپنا قطعۂ تاریخ وفات کہہ دیا تھا ۔ شجرہ اخرب کی آخری یعنی بارہویں بحر مکفوف اہتم ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعول ، مفاعیل ، مفاعیل ، فعول ﴾ اس بحر میںاشفاق بھائی نے وحدت الوجود کے موضوع پر بہت سی رباعیات کہی ہیں: +تخلیق و عدم ، لو ح و قلم صرف خیال +ہر سمت جہاں میں ہے بہم صرف خیال +محسوس کرو خود کونہ اشفاق جہاں میں +موجود کوئی اور ہے ہم صرف خیال +کثرت میں وحدت کا جوجلوہ اس رباعی میں دکھائی دے رہا ہے وہ ہر آنکھ کی قسمت میں نہیں ہوسکتا ۔لوح جہاں پر ازل سے ابد تک جو کچھ ہونا ہے وہ لکھا ہواہے اور قلم جس نے لکھا ہے وہ صرف خیال ہے تخلیق جو کن کے عمل سے جاری ہوئی اور عدم جو نہیں بھی ہے اور ہے بھی ، صرف خیال ہے جہاں میںجوشے بھی بہم ہے۔ وہ صرف خیال ہے اور موجود صرف خد اکی ذات ہے۔ اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہ سب کس کا خیال ہے تو یقینا یہی کہا جائے گاکہ اللہ کا خیال ہے مگر یہاں یہ نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کا خیال ہوسکتا ہے تو پھر اللہ کا قلم بھی ہوسکتا ہے ۔ پھر اللہ کی لوح بھی ہوسکتی ہے یعنی یہاں خیال کا مطلب اللہ کا خیال نہیں بلکہ صرف یہ وہم ہے، عکس ہے ،ہیولا ہے یعنی موجودگی نہیں ہے ۔ اور اب رباعی کا دوسرا شجرہ یعنی شجرہ اخرم اس شجرے کا پہلا رکن مفعولن ہے اس میں بھی بارہ بحریں ہیں اور یہ تمام بھی رباعیات اشفاق میں ملتی ہیں۔ +شجرہ اخرم کی پہلی بحرکانام اشترابتر ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، فاعلن، مفاعیلن ، فع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے +اس دل سے تو جدا نہیں لگتی وہ +خوابوں سے بھی خفا نہیں لگتی وہ +اس کی کوئی ہوسکتی ہے مجبوری +مجھ کو توبے وفا نہیں لگتی وہ +بظاہر تو یہ ایک عام سی اور عامیانہ سی رباعی ہے مگر غور کیا جائے تو اس میں ایک نزاکت ایسی موجود ہے جو پہلی بار پڑھنے پر ہاتھ نہیں آتی ۔ اور اسی چیز کو شاعری کہتے ہیں کہ کسی بات کی سطح کو اس طرح بلند کرنا کہ وہ عام سی بات بھی رہے اور اس میں گہرائی بھی آجائے۔ مجھے یا د آتا ہے کہ بات کو شاعری میں کیسے بدل دیا جاتا ہے، اس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ دیکھو اگر تمہارے ذہن میں صرف اتنی سی بات ہے کہ انہیں بھول جانا بھی مشکل ہے اور یہ بھی نہیں لگتا کہ کبھی ہم بھی انہیں یاد آئیں گے تو اسے شعر میں ڈھالنے کے لیے اس بات پر غور کرو کہ اس میں ذومعنی بات کونسی ہوسکتی ہے اور کیسے ہوسکتی ہے مثال کے طور پر ﴿ ہم ان کو بھول جائیں ﴾ اب اس جملے میں دوطرح کی بات موجود ہے یہ پتہ چل رہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم خود ہی ان کو بھول جائیں یا کہ ان کے ذہن سے ہم محو ہوجائیں ۔ اب اگر اس جملے کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ اس سے دونوں مفہوم برآمد ہوں تو یہ شاعری ہوگی مثال کے طور پر +کیسے بھلا ہے ممکن ہم ان کو بھول جائیں +اشفاق بھائی نے اس چھوٹی سی بحر میں مجھے شاعری سمجھاتے ہوئے جو شعر کہا تھا غور کیا جائے تو اس میں ایک اچھے شعر کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ ہمیں بھول سکیں اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کو بھول جائیں ۔ +شجرہ اخرم کی دوسری بحر کانام اشترزلل ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، فاعلن ، مفاعیلن ، فاع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے : +عریاں عریاں سا جسم تہذیب طلسم +طاقت ورکا ہے اسم تہذیب طلسم +کتنی صدیوں گم رہتے ہیں ہوش و حواس +ایسا ویسا طلسم تہذیب طلسم +شجرہ اخرم کی تیسری بحرکانام مکفوف مجبوب ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، فاعلن ، مفاعیل فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : +دل پہ دیمک سا تبصرہ کون کرے +اپنے دکھ کا مقابلہ کون کرے +مجھ کو قسطوں میں زندگی بخش نہیں +دھیرے دھیرے معاملہ کون کرے +اس رباعی میں قسطوں میں زندگی کی بات سے مجھے بیدل حیدر ی کی ایک نظم یاد آگئی ہے۔ وہ کہتے ہیں : +آج کے اس سماج میں بیدل +یعنی ظلمت کے راج میں بیدل +میرے جیسے مڈل کلاس کے لوگ +دورکے لوگ ، آس پاس کے لوگ +چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے +کبھی کاغذ کبھی خطوں کے لیے +اور کبھی سِگرٹوں کے لیے +کبھی دوگھونٹ چائے کی خاطر +کبھی بس کے کرائے کی خاطر +خون میں انگلیاں ڈبوتے ہیں +روز قسطوں میں قتل ہوتے ہیں +بیدل حیدری کی یہ جذباتی نظم زندگی کی تلخیوں کا احاطہ کرتی ہے مگر اشفاق بھائی کی رباعی میں توکوئی اور دھیرے دھیرے ہونے والا معاملہ دکھائی دیتاہے یہ اوربات ہے کہ اس معاملہ کو مجاز سے حقیقت تک پھیلایا جاسکتا ہے ۔ +شجرہ اخرم کی چوتھی بحرکانام مکفوف اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں﴿ مفعولن، فاعلن، مفاعیل ، فعول ﴾ اس میں اشفاق بھائی کی نعتیہ رباعی نہ صرف ان کے فنکارانہ کمال کی عکاس ہے بلکہ نعتیہ شاعری میں بھی اس رباعی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا : +ناقہ تیرے غبار پہ لاکھوں سلام +صحرا تیری بہار پہ لاکھوں سلام +ریتوں سے اٹھ رہی ہے وہ صبح شعور +صدیوں کے غم گسار پہ لاکھوں سلام +اس کی فنی خوبصورتی تویہ ہے کہ اس میںچاروں مصرعوں میں مفعولن فاعلن مفاعیلن فعول بھی باندھا ہوا اور مفاعیل فعول بھی ۔۔ لیکن اس رباعی کی شاعرانہ حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اردو دنیا ئے نعت میں اعلیٰ حضر ت احمد رضا خان بریلوی کی جمیل و جلیل نعت ’’ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘ سے زیادہ مقبولیت کسی نعت کو حاصل نہیں ہوئی ۔اس کے سامنے رکھتے ہوئے جب آدمی اس رباعی کو پڑھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اشفاق بھائی کادل بھی محبت رسول کی کمیں گاہ تھا۔ +شجرہ اخرم کی پانچویں بحر کانام اخرب ابتر ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں﴿ مفعولن، مفعول مفاعیلن ،فع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : +راتوں میں تاروں کی چمک کب سے ہے +سورج میں گرمی کی لپک کب سے ہے +ہے غم کی تاریخِ پیدائش کیا +شجرہ اخرم کی چھٹی بحر کا نام اخرب زلل ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، مفعولن مفاعیلن فاع﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی دیکھئے ۔ +میں کیسا ہوں جسم کا مایا ہے کیسا +کیسی ہے یہ روح یہ سایہ ہے کیسا +مٹی ، پانی اور ہوا سے اشفاق +کوزہ گر نے نقش بنایا ہے کیسا +اس رباعی سے مجھے اس کی ایک بات یاد آتی ہے۔ انہیں پیٹنگ میں بھی خاص دلچسپی تھی ۔صادقین کی کوئی پیٹنگ دیکھ رہے تھے ۔کہنے لگے دیکھ صادقین صاحب نے مٹی پانی اور ہوا کو کس طرح تجسیم کیا ہے ۔ شاید روح کی شکل بنانے کی کوشش کی ہے ۔پینٹنگ کے حوالے مغرب سے قطعاً متاثر نہیں تھے ۔ جب نظم کی وساطت سے مونالیز ا کی پیٹنگ کا ذکر ہوا تو کہنے لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تصویر بہت خوبصورت ہے مگر وہ ورلڈ کلاس کی چیز نہیں۔ اگر کسی مشرقی یا ایشائی مصوروں کی بنائی ہوتی توشاید کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اس حوالے سے وہ استاد اللہ بخش کے کام کے بہت معترف تھے اور انہیں دنیا کے چند بڑے مصوروں میں شمار کرتے تھے ۔ مونالیزا کے حوالے سے ان کے ساتھ بڑی لمبی گفتگو ہوئی تھی مگر اس سے پہلے میری وہ نظم جس کی وجہ سے مونالیزازیر بحث آئی ہے: +آج ہی کی بات ہے یہ دس بجے کا وقت تھا +اور میں بالکل اکیلا تھا ڈرائنگ روم میں +ایک فوٹو پر اچانک پڑگئی میری نظر +فکر کی آوارگی پر راستے کھلتے گئے +ذہن ماضی کی گپھائوں میں ہوا تحلیل یوں +اک تھکے سورج کی کرنیں استراحت کے لیے +رات کے بستر پہ جیسے جسم اپنا پھینک دیں +اور میں بہتا گیا پھر ماضی ٔ مرحوم میں +چار بھیڑیں ، ایک بکری ، ایک گائے ، ایک بھینس +ان کی رکھوالی کو چوراہی کی آشفتہ نگاہ +سندھ کے ساحل کی مر مر ساز ریشم ریت میں +بن رہی تھی ہر قدم پر نور کا اک دائرہ +اور دائیں ہاتھ میں شیشم کی کومل شاخ تھی +گم تھے سرگم لاکھ اس کے چہر ہ معصوم میں +میری خواہش تھی کہ اس تصویر کو اب چوم لوں +میں بڑھا آگے بڑے دلبر نما انداز میں +پھر مگر میرے قدم پتھرا گئے یہ دیکھ کر +آگئی ہے کوئی چرواہی ڈرائنگ روم میں +اشفاق بھائی کا یہ خیال تھا کہ مونالیزا کی اس تصویر پر نظم کہنے کا مفہوم یہ ہوا کہ اس تصویر کے بارے میں مغرب کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈا کا ہم لوگ بھی شکار ہوگئے ۔ یہ تصویر کسی طرح بھی اتنی بڑی تصویر نہیں جتنا اسے ثابت کیا جارہا ہے ۔ کہاں سے بات کہاں آنکلی ہے ۔میرا خیال ہے رباعیات کی طرف واپس جانا چاہئے ۔ +شجرہ اخرم کی ساتویں بحر کانام اخرب مکفوف مجبوب ہے اور ا سکے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، مفعول ، مفاعیل ، فعل ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی کر بلا کے حوالے سے ہے : +تیروں کی تحریر تجھے یاد نہیں +پانی کی تصویر تجھے یاد نہیں +بادل کے قالین پہ سونے والے +کربل میں شبیر تجھے یاد نہیں +شجرہ اخرم کی آٹھویں بحر کانام اخرب مکفوف اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، مفعول مفاعیل ، فعول ﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی شاید ان دنوں کی ہے جب وہ لاہور ہوتے تھے : +فریادی کا شوخیٔ تحریر سے پوچھ +اور خالق کا پیکرِ تصویر سے پوچھ +مولائے لاہور ہے اب کون فقیر +ہجویری سے پوچھ میاں میرے پوچھ +اس رباعی کے پہلے دنوں مصرعے دیوانِ غالب کے پہلے شعر سے نکالے گئے ہیں ۔ کیوں ؟ میرا ذہن اس کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی کوئی بات ضرور ہے ۔ ورنہ اشفاق بھائی کے لیے دو مصرعے کہنا کوئی بات ہی نہیں تھی ۔پھر رباعی کا موضوع اس کا بھی غالب سے کوئی تعلق نہیں بنتا کیونکہ رباعی تو اس موضوع پر ہے کہ اس وقت مولائے لاہور یعنی لاہور میں اس زمانے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت کونسی ہے ۔ لگتا ہے +اس رباعی میں وہ کسی کو کسی سوال کا جواب دے رہے ہیں ۔ یقینا ان سے کسی نے پوچھا ہے کہ مولائے لاہور ہے اب کون فقیر ۔ تب ہی تووہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بتانامیرا کام نہیں تو داتا گنج بخش سے پوچھ یا میاں میر سے سوال کر ۔ یہاں ایک اور سوال یہ ابھرتا ہے کہ کچھ لوگ اشفاق بھائی کے بارے میں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے اگر یہ سوال کیا جائے تو وہ اس کا جواب دینے کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی روحانی طور پر اتنے بلند ہیں ۔ شجرہ اخرم کی ناویں بحر کانام ابتر ہے اور ا سکے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، مفعولن مفعولن ، فع ﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : +جگ ہیرہ منڈی ہے آہستہ چل +پستی میں گرنے کا خطرہ بھی ہے +کچی پگڈنڈی ہے آہستہ چل +اس رباعی میں دنیا کے بارے میں وہی بات کی ہے جو پہلے بھی ایک رباعی میں کر چکے ہیں مگراس میں دنیا کے خلاف بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ اور زیادہ جارحانہ لیا ہے ۔ یہ دراصل تقویٰ کی منزل ہے حضرت عمر فاروق نے کہا تھا دنیا کانٹوں بھر ا،ایک راستہ ہے اور اس ے دامن بچا کر چلنا تقویٰ ہے ۔شجرہ اخرم کی دسویں بحر کا نام زلل ہے اوراس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن ، مفعولن ، مفعولن ، فاع﴾ اس میں اشفاق کی رباعی ان کے مزاج سے مختلف ہے بلکہ رباعی کے مزاج ہی سے لگا نہیں کھاتی مگر رباعی کے مروجہ قوانین کے مطابق ہے۔ شاید انہوں نے یہ رباعی اس لئے کہی ہے کہ رباعی یوں بھی کہی جاسکتی ہے : +آنکھوں میں نیندیں تھیں نیندوں میں خواب +خوابوں میں یادیں تھیں یادوں میں خواب +ٹوٹے پھوٹے کرچی کرچی پر آب +شیشے کے ٹکڑے تھے ٹکڑوں میں خواب +شجرہ ازم کی گیارہوں بحر کانام اخرب مجبوب ہے اوراس کے ارکان یہ ہیں ﴿ مفعولن، مفعولن مفعولن ، فعل ﴾ اس میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے : +پنجرے میں توتا تھا کچھ یاد نہیں +شہزادہ روتا تھا کچھ یاد نہیں +اک دوجے میں ہوتی تھی جان مگر +پہلے کیا ہوتا تھا کچھ یاد نہیں +اردو زبان میں الف لیلوی کہانیوں کو بنیاد بنا کر تو شاعری کی گئی مگر اپنی لوک داستانوں کے پس منظر میں کچھ نہیں کہا گیا ۔اس رب��عی میں لوگ کہانیوں کی ایک خاص بات کہ فلاں کی جان فلاں تو تے میں تھی یا فلاں مینا میں تھی کو اشفاق بھائی نے علامتی سطح پر لیا ہے کہ یہ بات ان کی آپس میں محبت کو ظاہر کرتی ہے یہ ہمارے زمانے میں ختم ہوچکی ہے ۔ شجرہ اخرم کی بارہویں بحرکانام اخرب اہتم ہے اور اس کے ارکان یہ ہیں ﴿مفعولن ، مفعولن مفعولن ، فعول﴾ اس بحر میں اشفاق بھائی کی رباعی ہے +مکھن کی چاٹی کو دیوار نہ جان +اس زرزن گھاٹی کو دیوارنہ جان +اس من کی لاہوتی آغوش میں ڈوب +اس تن کی ماٹی کو دیوار نہ جان +یہ رباعی یہ پیغام دے رہی ہے کہ فنافی الذات ہونے میں جسم یا دنیا کوئی رکاوٹ نہیں ہے دنیا میں رہتے ہوئے دنیا داری کرتے ہوئے بھی آپ اللہ کی ذات میں اپنی ذات کو گم کر سکتے ہیں اور یہی اسلام کا صحیح فلسفہ ہے ۔وہ کہتے تھے کہ منصو رحلاج بھی یہی کہتے ہیں مگر ان کی فکر کو کچھ مورخین نے صحیح پیش نہیں کیا کیونکہ اس دور کے زیادہ مورخین بادشاہوں کے درباروں سے منسلک رہے ہیں ۔اشفاق بھائی نے منصور حلاج کے متعلق جو کچھ مجھے بتایا وہ بالکل اس سے مختلف جو اکثر سنتے ہیں ۔میں نے انہی سے سنی ہوئی معلومات کو بنیاد بنا کر منصور حلاج کے بارے میں لکھا تھا ۔ ’’بغداد میں صدیوں پہلے میرے ایک ہم نام شاعر کو سولی چڑھایا گیا تھا مگر تاریخ آج تک اس منصور کی لاش پر بین کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میںنجانے کتنے منصوروں کی لاشیں بغداد کی گلیوںسے اٹھائی گئی ہیں ۔ پتہ نہیں تاریخ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔ منصور حلاج کے بارے میں بے شمار کتابوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کی صوفیانہ سرمستی حدِ نبوت اور مقام ربوبیت کو چھونے کی مرتکب ہوئی مگر وقت نے ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور آنے والے ادوار میں حق کیلئے قربان ہونے والوں میں سقراط ، عیسیٰ اور حسین کے بعد منصور کا نام لیا جانے لگا۔ +ممکن ہے کہ اکیسویں صد ی کا بغداد تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ اور نام بھی دے جائے۔ بش سے بلیئر تک اور اسامہ سے صدام تک ناموں کی کوئی کمی نہیں بقول اشفاق بھائی: +تاریخ کو ہے پھر کسی منصور کی تلاش +پھر دار ڈھونڈتی ہے کوئی اور زندگی +اشفاق بھائی کی تحقیق کے مطابق وہ ایک مزدور باپ کا بیٹاتھا جب اس نے تمام علوم و فنون خاص طور پر قرآن ، حدیث ، فقہ اور تصوف پر مکمل دسترس حاصل کر لی توشاہی دربار میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی بجائے استحصال زدہ غریب مسلمانوں کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا ۔ کر نبائی قبیلے کے غلاموں کی قیادت سنبھال لی ۔ غلاموں کے مظاہرے فوجی قوت کے ساتھ کچل دئیے گئے ۔منصور کو گرفتار کر لیا گیا اور ہزاروں افراد بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کر دئیے گئے۔ منصور کی اس پہلی بغاوت کے ہولناک انجام نے منصور کے حوصلوں اور ارادوں کو اور زیادہ مضبوط کیا ۔ حکومتی اہلکاروں کی تبدیلی کے ساتھ منصور کو رہائی ملی اور وہ حج کی نیت سے مکہ روانہ ہوگیا جہاں ایک سال تک روزہ ،خاموشی ، تنہائی اور عمرہ کا عمل جاری رکھا۔منصور کہا کرتاتھا میرا ناپسندیدہ فعل سونا، کھانا اور بولناہیں ’’ باطنی دنیا کے اس پہلے سفر میں منصور پر انسان ، کائنات خارجی اور خدا کے ارتباط کے کچھ نئے راز منکشف ہوئے ۔منصور جب مکہ سے واپس بغداد آیا تو اس نے بغداد کے نچلے طبقے کی پسماندہ آبادی میں قیام کیا اور عباسی حکمرانوں کے خلاف اپنی روحانی تحریک شروع کردی ۔ وہ شخصی بادشاہت کو نہیں مانتا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب پولیس نے حضرت جنید (رض) بغدادی کے آستانے کی بھی نگرانی شروع کی ہوئی تھی۔ بہت کم وقت میںعوام منصور کے اردگرد جمع ہوگئے مگر ریاستی اقتدار کے جبر کا شکار ہوکر اسے تقریباًپانچ سال جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی ۔ وہ پانچ سال کے بعد ’’ اہواز‘‘ میں اسوقت وارد ہوا،جب ریاستی اداروں کے نگران بدل چکے تھے لیکن بغداد آنے کے بجائے اس نے اپنے چارسوپیروکاروں سمیت مکہ جانے کا فیصلہ کیا ۔یہ منصور کا سب سے طویل سفر تھا ۔وہ وسطی ایشیا سے ہندوستان کی طرف آیا۔ دریائے سندھ کے کنارے پر چلتا ہوا ملتا ن پہنچااور پھر ملتا ن سے کشمیر تک آیا جہاں سے تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ شمال مشرق میں اس نے دیوارِ چین عبور کی اور ایک بڑا عرصہ چین میںقیام کیا ۔ اس دوران منصور نے جین مت، بدھ مت ، ہندوازم اور کنفیوشس کا مطالعہ کیا۔ وہاں سے مکہ آیا، تیسرا جج کیا ، کچھ باطنی فیصلے ہوئے اور منصور واپس بغداد آگیا۔ وہاں منصور کے خلاف مقدمے کی کاروائی شروع ہو گئی مگر قاضی ابن صریح کے فتویٰ کی وجہ سے وہ قتل ہونے سے بچ گیا مگر زیادہ عرصہ تک بغداد میں سکون سے نہ رہ سکا ۔ بادشاہتیں اسے اپنے اقتدار کے لیے ہمیشہ سے ایک خطرہ سمجھتی چلی آرہی تھیں۔حالات نے پلٹا کھایا اور منصور کو پھر روپوش ہونا پڑا تین سال کی روپوشی کے بعد حکومتی اہل کاروں نے اسے تلاش کرلیا۔ ا س کے بعد تقریباً نوسال تک منصور بغداد کی جیل میں رہا اس عرصہ میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ عوام نے بغادت کردی اور جیل پر قبضہ کرکے اس کے دروازے منصور پر کھول دئیے مگر منصور نے باہرنکلنے سے انکار کر دیا اور پھر حکمرانوں نے زیادہ انتظار نہیں کیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد منصور کو خانہ کعبہ کو تباہ وبرباد کرنے کی سازش میںملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت دے دی۔ جس ثبوت پر اسے سزا سنائی گئی وہ اس کی ایک تحریر تھی جس میںلکھا ہوا تھا کہ ’’ کعبہ اللہ دل کے کعبے میں ہے ،اس کے اردگرد انسان کوہروقت طواف کرناچاہئے ‘‘ منصور نے اپنے گھر میں خانہ کعبہ کی ایک تصویر بھی لگائی ہوئی تھی ، جس کے بارے میں کہا گیا کہ منصور نے اپنے گھر میں اپنا کعبہ بنایا ہوا ہے ۔ بقول اشفاق بھائی : +تھا راکھ راکھ اس کو منانے کے جرم میں +منصور دل کو کعبہ بنانے کے جرم میں +اشفاق بھائی کے خیال میں منصور کی باتوں کی غلط تشریحیں کی گئیں۔ اس کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ وہ کہتا ہے ’’ میرے اندر دو روحیں ہیں۔ ایک میری اور ایک میرے خدا کی ‘‘ ۔ حالانکہ سچ یہ نہیں وہ اس بات کا علمبر دار تھا کہ ہر شخص کو اپنے اندر خدا کو محسوس کرنا چاہئے۔ اس لیے وہ کہتا تھا میں اپنے اندر اپنے خدا کو محسوس کرتا ہوں۔ میرے وجود میں میرا خدا موجود ہے۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اس نے جب انا الحق کہا تو شور برپا ہوگیا کہ منصور نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے حالانکہ حق کا مفہوم سچ ہے یعنی وہ کہتا تھا میں سچ ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ منصور سچ تھا ۔اسی لیے تو آج منصور کے لفظ کا مترادف ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی کرامات دیکھ کر دشمن اسے جادو گرکہتے تھے لیکن چشم دیدگواہوں کا کہنا ہے کہ جب اس کا سرکاٹ دیا گیا تو اسکے جسم سے انا الحق کی آواز آتی تھی پھر جسم کے کئی ٹکڑے کئے گئے مگر ہر ٹکڑے سے وہی آواز سنائی دیتی تھی پھر تمام ٹکڑوں کو آگ لگا دی گئی اور منصور کی راکھ کو اس خوف سے دریا میں بہا دیا گیا کہ کہیں اس راکھ سے بھی انالحق کی آواز نہ آنے لگے ۔ میں نے اپنے ایک ماہر نفسیات دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے، تو کہنے لگا اگر وہ کچھ دیر اور راکھ دریا میں نہ بہاتے توانہیں اس راکھ سے بھی اناالحق کی صدا سنائی دینے لگتی ۔دراصل وہ آواز انہیں منصور کے جسم کے ٹکڑوں سے نہیں آتی تھی۔ منصور کے مارنے والوں ، ماننے والوں دونوں کو اس کی سچائی پر اتنا یقین تھا کہ انہیں خود اپنے دماغوں سے وہ آواز سنائی دینے لگتی تھی ۔ بقول اشفاق بھائی +سچائی پر یقین کی ہے دسترس وہی +جو سوچتا ہے آدمی ہوتا ہے بس وہی +صوفیوں میں بھی منصور کوزیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس نے صوفی ازم کے مروجہ قوانین سے بغاوت کی تھی جوانی ہی میں ’’ خرقہ‘‘ ﴿ صوفیوں کا لباس ﴾ اتار کر عام لوگوں کا لباس پہنا شروع کر دیا تھا۔ صوفی ہر شخص کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتے کہ وہ معرفت حاصل کر سکتا ہے ۔اس کے برعکس منصور چاہتا تھا کہ ہر شخص اللہ کی ذات میں جذب ہوکر اس مقام تک پہنچے جو انسان کی معراج ہے۔ اس کے خیال میں واقعہ ٔ معراج صرف اس لیے ہی نہیں ہے کہ اس سے حضور (ص) کی اس سنت پر عمل پیرا ہوکر قاب قوسین کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ منصور نے جب اللہ کی وحدانیت میںگم ہوجانے کی بات کی تھی تو اس وقت صوفیانے کہا تھا کہ وہ روحانی اسرار سے پردے اٹھانے لگاتھا۔ اس لیے اسے ماردیا گیا مگر اس کے بعد محی الدین ابن عربی نے ہمہ اوست کے اسی فلسفے کو صوفی ازم کا اہم ترین حصہ بنادیا ۔ بقول اشفاق بھائی +جس پہ منصور چڑھایا گیا سولی اشفاق +ہم نے وہ راز ہمہ اوست میں تبدیل کیا +اشفاق بھائی کا منصور حلاج کی شاعری بھی بہت پسند تھی ۔وہ اس کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے لیکن عمر نے وفانہ کی۔ منصور حلاج کا شعری مجموعہ ’’ دیوانِ منصور ‘‘ ہے سنا ہے۔ اب کسی نے اس کا ترجمہ کرد یا ہے ۔ +منصور سے میری دوستی بچپن سے ہے۔ گھر والوں نے میرا نام ہی محمد منصور آفاق رکھا تھا ۔میں جب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا تو میں نے امی سے پوچھا کہ آپ نے میرا نام منصور کیوں رکھا ہے تو امی نے مجھے منصور حلاج کی کہانی سنائی تھی۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ منصور حلاج کی جو کہانی میں نے آپ لوگوں کو سنائی ہے۔ اس کہانی میں اورامی کی کہانی میں بہت فرق تھا ۔اس منصور حلاج نے شہزادے کے مردہ طوطے کو زندہ کردیا تھا ۔ بادشاہ برسوں سے ایک بخار میں مبتلا تھا ،منصو رنے ایک دن کے علاج میں اس کے بخار کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا تھا ۔وہ منصور ایک لمحہ میں ہزاروں میل کا سفر طے کر لیتا تھا اور اس کو شش میں تھا کہ وقت کو روک دے۔ اچانک ایک دن اسے علم ہوا کہ وہ مرنے والا ہے تو اس نے اسی مجذوبانہ کیفیت میں شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ لوگو! مجھے بچائو میرا خدا مجھے ماردینا چاہتا ہے۔ مگر جب اسے خبر ہوئی کہ موت قربِ خداوندی کی آخری انتہا ہے تو بادشاہ نے جو سولی اس کے لیے سجائی تھی وہ اس پر خوشی کے ساتھ چڑھ گیا وہ زندہ رہنا چاہتا تھا سوخدا نے اسے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے کتابوں سے لے کر دماغوں تک ہر جگہ اس کی روح موجود ہے ،وہ ہر سچے آدمی کے جسم میں دل کی طرح دھڑکتاہے۔ ۔ تم جب بڑے ہو جائو گے تو تمہیں بھی وہ اپنے دل کے قریب محسوس ہوگا ۔ ‘‘یہ وہ کہانی تھی جو منصور کے بارے میں میرے اور اشفاق بھائی کے درمیان ایک لکیر کی طرح تھی۔ میں کہتا تھا کہ امی کی کہانی میرے نزدیک سچی ہے کیونکہ کسی تاریخ پر اعتبار نہیں کرتا خود تاریخ کے بارے میں اشفاق بھائی کی ایک رباعی ہے : +دنیا کو نیا نصاب دینا ہوگا +ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہوگا +کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں +تاریخ! تجھے جواب دینا ہوگا +��ور وہ یہ سمجھتے تھے کہ تاریخ ایک سائنس ہے۔ صحیح تحقیق کرنے کہ بعد آدمی سچائی تک پہنچ سکتا ہے کہ تاریخ میں کونسی بات درست لکھی ہوئی ہے اور کونسی جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ + + +[[محمد اشفاق چغتائی کی کتابیں]] +اے طالبِ تہذیب ِ عدم اوڑھ الف +اے شام بدن، قریہ ئ غم اوڑھ الف +پھر تجھ میں سمٹ آئیں گے دونوں عالم +تُو میم پہن، میرے قلم اوڑھ الف +اے لالہ و گل ، برگ و سمن میم پہن +اشفاق کہے نور کی معراج اسے +اے حسن صفت، حمد بدن میم پہن +اے دیدہ ٔ زر تار سحر اوڑھ الف +اے رات کی بے نور نظر اوڑھ الف +اک موسمِ گل پوش ازل تک ہوگا +موہوم بہاروں کے شجر اوڑھ الف +تخلیق و عدم ، لوح و قلم صرف خیال +ہر سمت جہاں میں ہے بہم صرف خیال +محسوس کرو خود کو نہ اشفاق یہاں +موجود کوئی اور ہے ہم صرف خیال +ہر لمحہ ہوا آپ (ص) کا توحید بدست +مخلوق ہوئی آپ (ص) سے تمجید بدست +توصیف کریں آپ (ص) کی دونوں عالم +آفاق نماآپ(ص) ہیں خورشید بدست +اس رات کے ڈھلنے میں بڑی دیر ہوئی +سورج کے نکلنے میں بڑی دیر ہوئی +اشفاق کئی توڑے ہیں ایٹم دل نے +پتھر کو پگھلنے میں بڑی دیر ہوئی +الحمد کے پرُشوق مسافر مجھ میں +لاہوتی فضائوں کے ہیں طائر مجھ میں +صحرائے عرب دل میں ہے میرے اشفاق +اونٹوں کی قطاروں کے مناظر مجھ میں +ہے علم مجھے ٹوٹ گیا ہوں اس سے +ہے مجھ میں کہیں، اور جدا ہوں اس سے +اشفاق اسے میری ضرورت کب ہے +میں اپنے لیے بول رہا ہوں اس سے +تقدیر کے پابند کو معلوم نہیں +کچھ پیرِ خرد مند کو معلوم نہیں +یہ اپنی بصارت ہے فسانہ اشفاق +کچھ چشم ِ نظربند کو معلوم نہیں +یہ چاک گریبانی یہ دامن پہ لکیر +کافی نہیں یہ وقت کے جوبن پہ لکیر +تُو نے تو پہن رکھا ہے صوفی کا لباس +اب کوئی لگا سرخ سی گردن پہ لکیر +تسلیم یہاں جام بھی ساقی بھی ہے +تحقیق تری دید فراقی بھی ہے +تعمیر تُو کر آئینہ خانہ لیکن +یہ دیکھ کہ کچھ آنکھ میں باقی بھی ہے +اک حسن ِ دل آویز پہ مر لیں ہم لوگ +اک خوابِ ابد آنکھ میں بھرلیں ہم لوگ +وہ پھونک نہ دے صورِ سرافیل کہیں +کچھ دیر چلو نیند ہی کر لیں ہم لوگ +کس ذات کے بازار میں ہم رہتے ہیں +یوں لگتا ہے دیوار میںہم رہتے ہیں +معلوم نہیں ہوتا یہ صدیوں ہم کو +تہذیب کی کس غار میں ہم رہتے ہیں +اس عالمِ ناسوت میں آئی کیوں ہے +اس قریہ ٔ مبہوت میں آئی کیوں ہے +اشفاق کوئی روح سے پوچھے اتنا +اس جسم کے تابوت میں آئی کیوں ہے +ہر ایک گھڑی کن کی روانی کیا ہے +یہ آدمی کی نقل مکانی کیا ہے +اشفاق فقط رزق کا ہے یہ قصہ +تہذیب و تمدن کی کہانی کیا ہے +افلاک کی تنویر نظر آتی ہے +ادراک میں تقدیر نظر آتی ہے +جب شکل بناتی نہیں منطق تو پھر +کیوں ذہن میں تصویر نظر آتی ہے +اپنے دلِ ناکام سے کیا بات کریں +غم ہائے سیہ فام سے کیا بات کریں +اشفاق یہ خاموش ہے اپنے دکھ سے +اس درد بھری شام سے کیا بات کریں +آنکھوں نے کوئی خواب گنوایا کب ہے +دنیا کو لہو اپنا دکھایا کب ہے +چہرے پہ لکھی میں نے رباعی اشفاق +کاغذ پہ کوئی نقش بنایا کب ہے +اک چاند ستارہ سا علم میں رکھنا +آزاد خیالی کو دھرم میں رکھنا +اشفاق تجھے ربِ محمد(ص)(ص) کی قسم +سچائی کی طاقت کو قلم میں رکھنا +اسلام وہی اور رسالت ہے وہی +جو ایک ہو دنیا میںحکومت ہے وہی +اشفاق مدینہ ہے وفاقی مرکز +اس امتِ مسلم کی ضرورت ہے وہی +کیا قوم کہیں حاملِ تہذیب ہوئی +بارودی سرنگوں کی ہے تنصیب ہوئی +پھر امن کا بندوق سے پرچار ہوا +تعمیر کے پھر نام پہ تخریب ہوئی +نیکی کے ، عبادت کے خزینے کو کہیں +جیون میں سعادت کے قرینے کو کہیں +ہے تزکیۂ نفس کی جن�� اشفاق +رمضان ثوابوں کے مہینے کو کہیں +برسات میں ، اشکوں کے مہینے میں آ +دھڑکن کی طرح درد کے سینے میں آ +اشفاق نکل کفر سے باہر کچھ دیر +آ اپنی محبت کے مدینے میں آ +سچائی نظربند نہیں ہے کوئی +اللہ کا فرزند نہیں ہے کوئی +فرعون ہو عیسیٰ ہو کہ مریم اشفاق +انسان خداوند نہیں ہے کوئی +کچھ اور نہیں ، کہیں کوئی سایہ تھا +کہتی ہے ز میں ، کہیں کوئی سایہ تھا +سورج سے بھری ہوئی گلی ہے اشفاق +کل رات یہیں کہیں کوئی سایہ تھا +برسات ہے اور جسم بھی گیلا سا ہے +بارش کا ثمر کڑوا کسیلا سا ہے +کشمیر کی وادی میں ہوں زندہ اشفاق +سردی سے بدن شام کا نیلا سا ہے +اعجازِ طلب کس میں ہے طالب ہے کون +عرفان کسے چاہیے ، کاذب ہے کون +میں دیکھتا ہوں ظرف کی وسعت اشفاق +میں سوچتا ہوں میرا مخاطب ہے کون +مجبور قوانین کی ، قدرت کی غلام +ہے ردِ عمل کوئی نہ طاقت کی غلام +آزاد ہے یہ ذہن ازل سے اشفاق +انسان کی حرکت نہیں فطرت کی غلام +ہر چیز کے انکار میں موجود ہے وہ +اس روح کے اسرار میں موجود ہے وہ +اشفاق عدم سے ہوئی وارد تخلیق +موجود کے اظہار میں موجود ہے وہ +اک نور کی یکجائی ہم آغوش ہوئی +اس ذات کی رعنائی ہم آغوش ہوئی +انسان جو اس جسم سے باہر نکلا +تنہائی سے تنہائی ہم آغوش ہوئی +احساس کے تمثال سے باہر دیکھا +افعال سے اعمال سے باہر دیکھا +مطلوبِ حقیقی ہے جو اپنا اشفاق +اس حسن کو اشکال سے باہر دیکھا +کیا گیت میں سنگیت میں ڈھالا جائے +کیا پھول سے چہرے کو اچھالا جائے +اعمال نظر آتے ہیں خال و خد سے +کیا حسن، تناسب سے نکالا جائے +کیا عرشِ علیٰ طور پہ دیکھا جائے +کیا خواب نیا طور پہ دیکھا جائے +کہسار سیہ آگ سے ہیں وہ اب تک +اللہ کو کیا طور پہ دیکھا جائے +ہے خاک سے کچھ بیر مجھے لگتا ہے +یہ میرا حرم دیر مجھے لگتا ہے +اشفاق جدا اصل سے کرنے والا +یہ جسم کوئی غیر مجھے لگتا ہے +احساس کی یکسوئی ضروری تو نہیں +شعلے کے لیے روئی ضروری تو نہیں +اشفاق بدن خاک بنا لے اپنا +ہونے کیلئے دوئی ضروری تو نہیں +پانی میں کوئی شمع جلائی تو نہیں +پھر طورکی تحریک چلائی تو نہیں +اشفاق کسی تازہ تجلی کے لیے +سورج کی طرف آنکھ اٹھائی تو نہیں +امید ، سیہ خاکِ قفس چھونے لگی +وہ رات کے تاریک محل کی چھت پر +موسیٰ نے کہیں طور کا جلوہ دیکھا +امت نے اترتا من و سلوی دیکھا +روٹی کیلئے شہر میں شب بھر اشفاق +کب خون میں ڈوبا ہوا بلوہ دیکھا +رنگوں سے کبھی درد کو تصویر کریں +تیشے سے کبھی خواب کی تعبیر کریں +تخلیق کریں جب کوئی خوش کن نغمہ +غمگین خیالات کی تشہیر کریں +سچائی پہ موہوم سی کچھ بات ہوئی +بس موت پہ ہی بزمِ سوالات ہوئی +یہ بات الگ میں نہیں یونان گیا +سقراط سے کچھ دیر ملاقات ہوئی +میں حرف ہوں لفظوں سے چھڑائے کوئی +میں لفظ ہوں جملوں سے بچائے کوئی +اشفاق عمارات بھری ہیں لیکن +مفہوم کتابوں کا بتائے کوئی +دنیا کو نیا نصاب دینا ہوگا +ہر جھوٹ کا اب حساب دینا ہو گا +کس نے ہے بھرا دروغ اتنا تجھ میں +تاریخ تجھے جواب دینا ہوگا +خورشید سے آشکار ہے کس کا عکس +ہر پھول میں نو بہار ہے کس کا عکس +اشفاق نہیں کوئی اگر تو پھر بول +آئینے میں بے قرار ہے کس کا عکس +اس میری زمیں کو تُو نے آفاق کیا +اس ذہنِ رسا کو پل میں براق کیا +تجسیم خیالوں کو دی، کچھ خواب بنے +اشفاق کو تُونے ہی تو اشفاق کیا +وہ نقل مکانی تو مجھے یاد نہیں +جنت کی کہانی تو مجھے یاد نہیں +ہے یادشِ مختصر یہی خاک نژاد +ماضی کی نشانی تو مجھے یاد نہیں +صورت ہو بے صورت کی ناممکن ہے +اک دید شہادت کی ناممکن ہے +ہم عرش سے اونچے بھی ہوسکتے ہیں +تسخیر اس وحدت کی ناممکن ہے +یہ پھول ، پرندے اور دریا ہیں کون +کس کی ہیں ہوائیں ، یہ صحرا ہیں کون +ہم لوگ نہیں لگتے ان سے اشفاق +اب اپنے بزرگوں کا ورثہ ہیں کون +ظلمت کے پگھلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اس رات کے ڈھلنے کی صورت ہی نہیں ہے +اشفاق قیامت ہے وہ زلفِ تیرہ +اب دن کے نکلنے کی صورت ہی نہیں ہے +دل پہ دیمک سا تبصرہ کون کرے +اپنے دکھ کا مقابلہ کون کرے +مجھ کو قسطوں میں زندگی بخش نہیں +دھیرے دھیرے معاملہ کون کرے +ناقہ تیرے غبار پہ لاکھوں سلام +صحرا تیری بہار پہ لاکھوں سلام +ریتوں سے اٹھ رہی ہے وہ صبح ِ شعور +صدیوں کے غم گسار پہ لاکھوں سلام +راتوں میں تاروں کی چمک کب سے ہے +سورج میں گرمی کی لپک کب سے ہے +اشکوں کی پیدائش کی تاریخ ہے کیا +میں کیسا ہوں ، جسم کا مایا ہے کیسا +کیسی ہے یہ روح ، یہ سایہ ہے کیسا +مٹی ، پانی اور ہوا سے اشفاق +کوزہ گر نے نقش بنایا ہے کیسا +تیروں کی تحریر تجھے یاد نہیں +پانی کی تصویر تجھے یاد نہیں +بادل کے قالین پہ سونے والے +کربل کا شبیر تجھے یاد نہیں +فریادی کا شوخی ٔ تحریر سے پوچھ +اور خالق کا پیکرِ تصویر سے پوچھ +مولائے لاہور ہے اب کون فقیر +ہجویری سے پوچھ، میاں میر سے پوچھ +جگ ہیرہ منڈی ہے آہستہ چل +پستی میں گر جانے کا خطرہ ہے +کچی پگڈنڈی ہے آہستہ چل +آنکھوں میں نیندیں تھیں، نیندوں میں خواب +خوابوں میں یادیں تھیں یادوں میں خواب +ٹوٹے پھوٹے کرچی کرچی ،پُر آب +شیشے کے ٹکڑے تھے ٹکڑوں میں خواب +پنجرے میں طوطا تھا ۔۔ کچھ یاد نہیں +شہزادہ روتا تھا ۔۔ کچھ یاد نہیں +اک دوجے میں ہوتی تھی جان مگر +پہلے کیا ہوتا تھا ۔۔ کچھ یاد نہیں +مکھن کی چاٹی کو موجود نہ جان +اس زر زن کی گھاٹی کو موجود نہ جان +اُس من کی لاہوتی آغوش میں ڈوب +اس تن کی ماٹی کو موجود نہ جان +تزئین گل و لالہ پہ پابندی تھی +بس مہر بلب رہنا خرد مندی تھی +حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی دنیا +میں بول پڑا تھا کہ زباں بندی تھی +یہ زنگ زدہ کالی صراحی تیری +یہ خواب سمے والی صراحی تیری +کچھ ِاس کے لیے ڈھونڈھ شرابِ کہنہ +پھر بول پڑی خالی صراحی تیری +ٹوٹے ہوئے نیزے کا قلم تھام لیا +مردوں کی طرح دامنِ غم تھام لیا +سچائی کی تحریر پہن لی میں نے +ہارے ہوئے لشکر کا علم تھام لیا +اک صبح صدا آئی یہ مے خانے سے +اب چھین ہی لو درد کو دیوانے سے +اشفاق یہ ہے آخری امیدِ کرم +شاید کہ علاج اس کا ہو مرجانے سے +سیلاب ِ سفر آنکھ کے اندر بھی ہے +پتوار بھی کشتی بھی سمندر بھی ہے +معلوم ہے منزل ہے گریزاں پھر بھی +اشفاق مقدر کا سکندر بھی ہے +پرواز کا اعجاز کہاں سے لائوں +معصوم سا انداز کہاں سے لائوں +تصویر تو کاغذپہ بنا دی میں نے +چڑیا تیری آواز کہاں سے لائوں +وحشت زدہ انسان ابھی ہے شاید +ظلمات کا سامان ابھی ہے شاید +جس روز اتر آئے گا چھت پر سورج +اس صبح کا امکان ابھی ہے شاید +چہرہ کہیں شاداب نہیں ہے کوئی +خوش دیدہ ٔ اعصاب نہیں ہے کوئی +اشفاق عجب دور میں پہنچیں آنکھیں +نیندیں ہیںجہاں خواب نہیں ہے کوئی +برکت بھرے لب، حمد وثنا سی باتیں +خوشبو بھرے الفاظ ، صبا سی باتیں +اشفاق تہجد کی گلی میں ہر روز +آتی ہیں کہاں سے یہ دعا سی باتیں +وحشت کے ہیں آثار ابھی تک مجھ میں +گرتی ہوئی دیوار ابھی تک مجھ میں +اثبات کا امکانِ مسلسل اشفاق +ہر چیز سے انکار ابھی تک مجھ میں +مایوس زمانوں کی ہوا میں صدیوں +ہم سرد جہنم کی سزا میں صدیوں +اک پل کے سویرے کی طلب میں اشفاق +رہتے رہے تاریک فضا میں صدیوں +الفاظ میں اعجازِ ہنر کیسا ہے +افکار میں سورج کا سفر کیسا ہے +اتری ہے کہاں سے تری تازہ منطق +اشفاق یہ اندازِ نظر کیسا ہے +ہم عابد و معبود جہاں سے پہلے +ہم ساجد و مسجود جہاں سے پہلے +اشفاق چمکتا تھا کہیں کوئی ستارہ +ہم لوگ تھے موجود جہاں سے پہلے +اک عرصہ ٔ امکان صراحی میں ہے +افلاک کا عرفان صراحی میں ہے +اک بار اتر روح کے اندر اشفاق +لاہوت کا دالان صراحی میں ہے +اک فطرتِ ادراک پہن لی ہم نے +اک دانشِ چالاک پہن لی ہم نے +مٹی کی کثافت میں کرامت کیا تھی +افلاک پہ ہی خاک پہن لی ہم نے +ہے نور کی پہچان سحر ہونے تک +ہے آس کا سامان سحر ہونے تک +تم دن کے اندھیروں سے شناسا کب ہو +ہے صبح کا امکان سحر ہونے تک +تحقیق غلط میرا تھا اندازہ بھی +کچھ میں نے سنا شہر کا آوازہ بھی +اشفاق مجھے بھی ، گھر جانے کی جلدی +زنجیر بکف، یار کا دروازہ بھی +آدم میں، کھلونے میں کوئی فرق نہیں +اس جاگنے سونے میں کوئی فرق نہیں +ہے ایک طرح کثرت و وحدت اشفاق +ہونے میں نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں +شیخ فریدالدین عطار کے نام +ہر تخم مرادوں کا ثمر بار سہی +تعبیر کا ہر خواب سزاوار سہی +جنت سے تعاقب میں چلی آتی ہے +اشفاق تجھے موت سے انکار سہی +یہ آگ بھرا نسخہ ٔ شر ، حرف ِ غلط +یہ خیر کا مجموعہ ٔ زر حرف ِغلط +اک لفظِ نفس سے ہے عبارت تخلیق +میر تقی میر کے لیے +ہر عصر کا ہم ذات رہا ہوں برسوں +میں منزل ِآیات رہا ہوں برسوں +غالب سے مراسم ہیں زیادہ لیکن +میں میر کے بھی ساتھ رہا ہوں برسوں +اک شمع تھی ۔۔ تعبیر پڑی تھی دن کی +اک موم میں تنویر پڑی تھی دن کی +اشفاق اندھیرے سے بھرا تھا کمرہ +بس میز پہ تصویر پڑی تھی دن کی +ویران تھی یادوں کی گلی خالی تھی +ٹوٹے ہوئے وعدوں کی گلی خالی تھی +میں رات بڑی دیر تلک پھرتا رہا +وہ خواب نژادوں کی گلی خالی تھی +کچھ اور ملا رنگِ کفن سے موسم +آباد رہا دار و رسن سے موسم +اشفاق پرندوں کی گرفتاری کا +جاتا ہی نہیں اپنے وطن سے موسم +اس کھیل میں ہم مات بڑی دیر سے ہیں +ٹوٹے ہوئے یہ ہاتھ بڑی دیر سے ہیں +مجذوب بدلتا ہی نہیں ہے کپڑے +موسم کے یہ حالات بڑی دیر سے ہیں +کچھ خواب مرے ساتھ بڑی دیر سے ہیں +وحشت کے خیالات بڑی دیر سے ہیں +کترا کے نکل جاتی ہے دنیا مجھ سے +آنکھوں میں سوالات بڑی دیر سے ہیں +تحریر کرے صبحِ غزل، خواب سفر +کچھ اور کرے تیز عمل، خواب سفر +فردوس چنبیلی میں سمٹ آئے ہیں +آفاق، حویلی میں سمٹ آئے ہیں +طیبہ کے فقیروں کے عمل سے اشفاق +افلاک ہتھیلی میں سمٹ آئے ہیں +چھیدوں بھری جھولی کا تدارک ہی نہیں +بندوق کی بولی کا تدارک ہی نہیں +الفاظ برت سوچ سمجھ کر اشفاق +نکلی ہوئی گولی کا تدارک ہی نہیں +اس آگ کے صندوق کو پھٹنا کب ہے +خورشید کو نیزے پہ پلٹنا کب ہے +اشفاق قیامت کو ابھی دیر ہے کتنی +بھونچال سے دھرتی کو الٹنا کب ہے +جھونکوں سے درختوں کی جھڑائی نہیں ہوتی +بس شور مچانے سے بڑائی نہیں ہوتی +اشفاق سے کہنا کہ کوئی فوج بنائے +دوچار پیادوں سے لڑائی نہیں ہوتی +اک چاہئے سانسوں میں خرام ِ عالم +اک روح میں رکھنا ہے قیام ِ عالم +کچھ پاس نہیں دیدہ ٔ بینا کے سوا +تشکیل کروں کیسے نظامِ عالم +آنکھوں کو کوئی میت دکھائی دیتا +اعجاز بکف گیت دکھائی دیتا +سُر بانسری سے ایسا نکلتا کوئی +اشفاق کا سنگیت دکھائی دیتا +پانی میں کوئی شخص دکھائی دیتا +سورج پہ کوئی عکس دکھائی دیتا +اشفاق بگولوں کی طرح دامنِ دل میں +طوفان نما رقص دکھائی دیتا +تشکیک و یقیں حدِ نفس تک محدود +یہ کفر یہ دیں حدِ نفس تک محدود +اشفاق اسی سانس میں رکھ جنتِ ارضی +ہے عمر ِحسیں حدِ نفس تک محدود +یہ خاک سے آ��اد بدن کیسے ہیں +یہ دار پہ بھی شاد بدن کیسے ہیں +یہ کیسا تعلق ہے فلک سے ان کا +یہ فرش پہ آباد بدن کیسے ہیں +لکھتی ہے ہوا خاک پہ موسم کی خبر +تحریر کرے اوس شبِ غم کی خبر +مژگاں پہ رقم کیوں نہیں کرتے اشفاق +بے چہرگی ٔذات کے ماتم کی خبر +انداز یہ تجسیم کرامت کے ہیں +اعجاز عجب نغمہ ٔ قامت کے ہیں +دنیا مری، جلوئوں سے بھری ہے لیکن +تیرے لب و رخسار قیامت کے ہیں +اک حسنِ دل آویز کی رعنائی میں +اک زلف ِ سیہ کار کی برکھائی میں +اشفاق نہیں اور دکھائی دیتا +آباد ہمی عرش کی تنہائی میں +صبحوں سے عداوت کا مقدمہ ہم پر +سورج سے بغاوت کا مقدمہ ہم پر +بازار لگا رکھا ہے جج نے لیکن +توہین عدالت کا مقدمہ ہم پر +اک جراتِ انکار سے نکلا ہوا دن +ظلمات کے انبار سے نکلا ہوا دن +اشفاق اندھیروں سے بھرا ہوتا ہے +اک جیل کی دیوار سے نکلا ہوا دن +تخلیق کی تفصیل ہے قَابَ قوسین +بس آخری تمثیل ہے قَابَ قوسین +کچھ اور بڑھی جسم کی عظمت اشفاق +انسان کی تکمیل ہے قَابَ قوسین +اک صبح ِ ہدایت سے بھر ی ہیں آنکھیں +اک جلوہ ئ رحمت سے بھری ہیں آنکھیں +تکمیل میں انسان کہاں تک پہنچا +کثرت کی بھی وحدت سے بھری ہیں آنکھیں +اظہار صداقت کا بھلا کون کرے +انکار عبادت کا بھلا کون کرے +اشفاق خیالات تلک ہیں محکوم +اعلان بغاوت کا بھلا کون کرے +احساس میں اک چشم ِغزالی کا مزار +انوار میں اک صبح جمالی کا مزار +اس خاک کا معراج یہی ہے اشفاق +ہے خاک پہ کونین کے والی کا مزار +فردوس بدن ، لال گلابی موسم +سجدوں بھرے ، پُر حمد کتابی موسم +ویران ہے مے خانۂ وحدت اشفاق +رندوں کے کہاں کھوئے شرابی موسم +اس پر یہ دستار نئی ہے شاید +اس ہاتھ میں تلوار نئی ہے شاید +ہے پائوں کی زنجیر پرانی لیکن +انکار کی جھنکار نئی ہے شاید +ہر روز یونہی ہاتھ ہلانے سے ملا +کچھ دیکھنے سے اور دکھانے سے ملا +اس وصل کے پیچھے ہیں ہزاروں سجدے +اشفاق کوئی ملنے ملانے سے ملا +گرتے ہوئے پاتال کہاں آ پہنچے +مٹی کے یہ سُر تال کہاں آ پہنچے +ممکن ہے الٹ جائے یہ میری دھرتی +اشفاق یہ بھونچال کہاں آ پہنچے +اِترائی ہوئی خاک سے کہہ دے کوئی +افلاک کے تیراک سے کہہ دے کوئی +فرعون ہے عبرت کا نمونہ اشفاق +یہ طاقتِ سفاک سے کہہ دے کوئی +شاہوں کے محلات کہاں تک موجود +بابل کے وہ باغات کہاں تک موجود +اس وقت کے اعجاز کو سمجھو اشفاق +اک طرح کے حالات کہاں تک موجود +اک صبحِ مدارات نہ ہونے دینا +تنویر کی برسات نہ ہونے دینا +دے اور شبِ غم کو طوالت کچھ روز +سورج سے ملاقات نہ ہونے دینا + + + پھر نئے صفحہ میں اپنی تحریر نامزدگی وغیرہ لکھیں۔ + + +: آپ کے لیے پیغام ہے ۔۔ تبادلہ خیال کے صفحے پر نورالدین کی جانب سے ۔ + + +الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اما بعد +جناب رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہر جھت سے کامل و مکمل ہے اسمیں عقاید و عبادات اخلاق و آداب العرض انسانی زندگی کے تمام ہی شعبوں کے متعلق واضح ہدایات دی گئی ہیں انسان کی تعمیر اس کی بچپن کی تعلیم پر منحصر ہے ہر والدین کا یہ ایک اسلامی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کی تربیت کرے جو نومولود کا بنیادی حق اور والدین کی ابتدائی ذمہ داری ہے لھذا ہم ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریوں کے سلسلے میں آپ حضرات کے سامنے چند احادیث رسولﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ عزوجل ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔۔۔آمین +ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں +نومولود بچہ کے کان میں اذان +(۱) عن ابی رافع قال رایت رسول الله ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی حین ولدته فاطمة ۔ رواہ الترمذی و ابوداؤد +ترجمہ :۔ رسول اللہ ﷺ کے آذاد کردہ غلام حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں نماز والی اذان پڑھتے ہوئے دیکھا جب آپ کی صاجزادی فاطمہ کے ہاں ان کی ولادت ہوئی جامع ترمذی سنن ابی داؤد ) +تشریح :۔ حضرت ابو رافع ؓ کی اس حدیث میں حضرت حسنؓ کے کان میں اذان پڑھنے کا ذکر ہے لیکن ایک دوسری حدیث سے جو ’’ کنز العمال ‘‘ میں مسند ابي یعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی ؓ سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ ام الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے ۔ +رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرام ؓ کو آپ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپ کی خدمت میں لائے جاتے تھے تا کہ آپ ان کیلئے خیر و برکت کی دعا فرماویں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منھ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو اس عمل کو تخنیک کہتے ہیں +(۲) عن عائشة ان رسول الله ﷺ کان یوتی بالصبیان فیبرک عليهم و یحنكهم رواہ مسلم +ترجمہ :۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ ان کیلئے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے اور تحنیک فرماتے تھے +(۳)عن اسماء بنت ابی بکر انھا حملت بعبد اللہ بن الزبیر بمکۃ قالت فولدت بقباء ثم اتیت بہ رسول اللہ ﷺ فوضعتہ فی حجرہ ثم دعا بتمرۃ فمضغھا ثم تفل فی فیہ ثم حنکہ ثم دعا لہ و برک علیہ و کان اول مولد و لد فی الاسلام رواہ بخاری و مسلم. +(تشریح صحیح بخاری کی اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے پیدا ہونے سے مسلمانوں کو خاص کر اسلئے بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ یہودیوں نے مسلمانوں پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان کے بچے پیدا ہی نہ ہوں گے عبداللہ بن زبیر ؓ کی پیدائش نے اس کو غلط ثابت کر دیا اور مسلمانوں کے جو دشمن یہ جادو والی بات مشہور کر رہے تھے وہ ذلیل ہوئے کتب حدیث میں ’’ تحنیک ‘‘ کے بہت سے واقعات مروی ہیں ان سے +معلوم ہوا کہ جب کسی گھر انے میں بچہ پیدا ہو تو چاہئے کہ اللہ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں اس کے لئے خیروبرکت کی دعا بھی کرائیں اور ’’ تحنيک ‘‘ بھی کرائیں یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے عقیقہ دنیا کے قریب قریب سب ہی قوموں اور ملتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے یا انسانی فطرت کا تقاضہ بھی ہے اور اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے نہایت لطیف اور خوبصورت طریقے پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ سمجھتا ہے اور اس بارے میں اس کو اپنی بیوی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے اس سے بہت سے فتنوں کا داروازہ بند ہو جاتا ہے عربوں میں اس کیلئے جاہلیت میں بھی عقیقہ کا رواج تھا دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود بچے کے سر کے وہ بال جو وہ ماں کے پیٹ سے لیکے پیدا ہوا ہے صاف کرا دیئے جاتے اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کی جاتی جو ملت ابراہیمی کی نشانیوں میں سے ہے رسول اللہ ﷺ نے اصولی طور پر اس کو باقی رکھتے ہوئے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بارے میں مناسب ہدایات دیں اور خود عقیقے کر کے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا +(۴) عن بریدہ قال کنا فی الجاھلیۃ اذا ولد لاحدنا غلام ذبح شاۃ ولطخ راسہ بدمھا فلما جاع الاسلام کنا نذبح شاۃ یوم السابع و نحلق راسہ ونلطخہ بزعفران رواہ ابوداؤد . +ترجمہ :۔ حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا پھر جب ایلام آیا تو رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق ہمارا یہ طریقہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں سنن ابی داؤد ) +اور اسی حدیث کی رزین کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہم بچے کا نام بھی رکھتے ہیں +(۵) عن عائشہ قالت کانوا فی الجاھلیۃ اذا عقوا عن الصبی خصبوا قطنۃ بدم العقیقۃ فاذا حلقوا راس الصبی و ضعوھا علی راسہ فقال النبی ﷺ اجعلوا مکان الدم خلوقا رواہ ابن حبان فی صحیحہ +ترجمہ :۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ بچے کا عقیقہ کرتے تور روئی کے ایک پھوئے میں عقیقہ کے جانور کا خون بھر لیتے پھر جب بچے کا سرمنڈوا دیتے تو وہ خون بھرا پھویا اس کے سر پہ رکھ دیتے اور اس کے سر کو عقیقہ کے خون سے رنگین کر دیتے یہ ایک جاہلانہ رسم تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ ’’ بچے کے سر پر خون نہیں بلکہ اس کی جگہ خلوق لگایا کرو ‘‘ (صحیح حبان +(تشریح) خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار کیجاتی ہے حضرت بریدہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا رواج عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی تھا چونکہ اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے اور یہ بنیادی طور شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق تھا اور غالباً مناسک حج کی طرح ملت ابراہیمی کے بقایا میں سے تھا اسلئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصل کو باقی رکھا اور جاہلانہ رسوم کی اصلاح فرمائی اسی طرح بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کا رواج یہود میں بھی تھا لیکن وہ صرف لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرتے تھے لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے تھے جس کی وجہ غالباً لڑکیوں کی ناقدری تھی رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے (۱) البتہ دونوں صنفوں میں جو قدرتی اور فطری فرق ہے جس کا لحاظ میراث اور قانون شہادت وغیرہ میں بھی کیا گیا ہے اس کی بنا پر آپ نے فرمایا کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں اگر استطاعت اور وسعت ہو تو دو بکریوں کی قربانی کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ +(6) عن ام کرز قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول عن الغلام شاتان وعن الجاریۃ شاۃ ولا یضرکم ذکرانا کن او اناثا رواہ الترمذی ۃ النسائی +ترجمہ :۔ ام کرز ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ عقیقہ کے بارے میں فرما رہے تھے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ عقیقہ کے جانور نر ہوں یا مادہ جامع ترمذی سنن نسائی +(۷) عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ ولد فا��ب ان ینسک عنہ فلینسک عن الغلام شاتین وعن الجاریۃ شاۃ ۔۔۔رواہ ابو داود و النسائی +ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ :۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے بچے پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے سنن ابی داؤد سنن نسائی +تشریح )اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ فرائض و واجبات کی طرح کوئی لازمی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا درجہ استحاب کا ہے جیسا کہ حدیث کے خط کشیدہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم اسی طرح لڑکے کے عقیقہ میں بکریاں کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے ہاں اگر وسعت ہو تو دۃ کی قربانی بہتر ہے ورنہ ایک بھی کافی ہے ۔ آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے عقیقہ میں ایک ہی ایک بکری کی قربانی کی تھی +(۸) عن الحسن عن سمرۃ بن جندب ان رسول اللہ ﷺ قال کل غلام رھینۃ بعقیقۃ تذبح عنہ یوم سابعہ و یحلق و یسمی رواہ ابو داؤد و الترمذی و النسائی +ترجمہ :۔ حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اور اس کا سر منڈوادیا جائے اور نام رکھا جائے (سنن ابی داود ‘ جامع ترمذی ‘ سنن نسائی ) +(تشریح )عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں اس عاجز کے نزدیک دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اللہ نعالی کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کیلئے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے جب تک یہ شکریہ پیش نہ کیا جائے اور فدیہ ادا نہ کر دیا جائے وہ باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا +پیدائش ہی کے دن عقیقہ کرنے کا حکم غالیا اسلئے نہیں دیا گیا کہ اس وقت گھر والوں کو زچہ کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی ہے علاوہ ازیں اسی دن بچے کا سر صاف کرادینے میں طبی اصول پر ضرر کا بھی خطرہ ہے ایک ہفتہ کی مدت ایسی ہے کہ اس میں زچہ بھی عموما ٹھیک ہو جاتی ہے اور بچہ بھی سات دن تک اس دنیا کی ہوا کھا کے ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا سر صاف کرادینے میں ضرر کا خطرہ نہیں رہتا واللہ اعلم +اس حدیث سے اور بعض دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے لیکن بغض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کا نام پیدائش کے دن ہی رکھ دیا تھا اسلئے ساتویں دن سے پہلے نام رکھ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ہاں اگر پہلے نام نہ رکھا گیا ہو تو ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام بھی رکھ دیا جائے جن حدیثوں میں ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام رکھنے کا ذکر ہے ان کا مطلب یہی سمجھنا چاہئے +(۹) عن سلمان بن عامر الضبی قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول مع الغلام عققہ فاھر یقوا عنہ دما امیطوا عنہ الاذی رواہ البخاری +ترجمہ :۔ حضرت سلمان بن عامر الضبی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے یعنی اللہ تعالی جس کو بچہ عطا فرمائے وہ عقیقہ کرے )لہذا بچے کی طرف سے قربانی کرو اور اس کا سر صاف کرا دو (صحیح بخاری ) +(تشریح عقیقہ میں جیسا کہ ان حدیثوں سے ظاہر ہے دو ہی کام ہوتے ہیں ایک بچے کا سر منڈوا دینا اور دوسرا اس کی طرف سے شکرانہ اور فدیہ کے طور پر جانور قربان کر دینا ان دونوں عملوں میں ایک خاص ربط اور مناسبت ہے اور یہ ملت ابراہیمی کے شعائر میں سے ہیں حج میں بھی ان دونوں کا اسی طرح جوڑ ہے اور حاجی قربانی کرنے کے بعد سر صاف کراتا ہے اس لحاظ سے عقیقہ عملی طور پر اس کا بھی اعلان ہے کہ ہمارا رابطہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور بچے بھی ملت ابراہیمی ہی کا ایک فرد ہے +(۱۰) عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ عق عن الحسن و الحسین کبشاً کبشاً رواہ ابو داود +ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسوں حسن اور حسین کا عقیقہ کیا اور ایک ایک مینڈھا ذبح کیا (سنن ابی داود ) +(تشریح حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے عقیقہ میں رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک ایک مینڈھے کی قربانی غالباً اسلئے کی کہ اس وقت اتنی ہی وسعت تھی اور اسی طرح ان لوگوں کیلئے جن کو زیادہ وسعت حاصل نہ ہو ایک نظیر بھی قائم ہو گئی اس حدیث کی بعض روایات میں بجائے ایک ایک مینڈھے کے دو دو مینڈھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک سنن ابی داؤد کی یہی روایت قابل ترجیح ہے جس میں ایک ایک مینڈھے کا ذکر کیا گیا ہے . +(۱۱) عن علی بن ابی طالب قال غق رسول اللہ ﷺ عن الحسن بشارۃ و قال یا فاطمہ احلقی راسہ و تصدقی بزنۃ شعرہ فضۃ فوزناہ فکان وزنہ درھما او بعض درھم رواہ الترمذی +ترجمہ :۔ حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ نے اپنی صاجزادی سیدہ فاطمہ سے سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کردو اور بالوں کے وزن بھر چاندی صدقہ کر دو ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے جامع ترمذی ) +(تشریح )اس حدیث میں عقیقہ کے سلسلہ میں قربانی کے علاوہ بچے کے بالوں کے وزن بھی چاندی صدقہ کرنے کا بھی ذکر ہے یہ بھی مستحب ہے اس حدیث کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صاجزادہ حسنؓ کے بالوں بھر وزن بھر چاندی صدقہ کرنے کا حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو جو حکم دیا تھا بعض حضرات نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ حضرت حسن ؓ کی پیدائش کے دنوں میں ان کے ماں باپ حضرت فاطمہ اور حضرت علی ؓ کے ہاں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہ عقیقہ کی قربانی کر سکتے اسلئے رسول اللہ ﷺ نے بکری کی قربانی تو اپنی طرف سے کر دی لیکن حضرت فاطمہؓ سے فرما دیا کہ بچے کے بالوں کے وزن بھر چاندی وہ صدقہ کر دیں تاکہ ان کی طرف سے بھی کچھ شکرانہ صدقے کی شکل میں اللہ کے حضور میں گزر جائے +بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے احادیث نبوی ؐ میں اس بارے میں بھی واضح ہدایات وارد ہوئی ہیں . +(۱۲) عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و یحسن ادبہ ۔۔۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان . +ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ :۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔ باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے (شعب الایمان للبیہقی +(۱۳)عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ اول ما ینحل الرجل ولدہ اسمہ فلیحسن اسمہ رواہ ابو الشیخ . +ترجمہ :۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام دیتا ہے اسلئے چاہئے کہ اس کا نام اچھا رکھے (ابو الشیخ) +(۱۴)عن ابی الدرداء قال قال رسول اللہ ﷺ تدعون یوم القیمۃ باسمائکم و اسماء آبا ئکم فاحسنو اسمائکم رواہ احمد و ابو داؤد +ترجمہ:۔ حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں لہذا تم اچھے نام رکھا کرو( مسند احمد ‘ سنن ابی داؤد +(۱۵)عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ ان احب اسمائکم الی اللہ عبداللہ و عبد الرحمن رواہ مسلم +ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے ناموں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں +(تشریح) عبداللہ اور عبدالرحمن کے زیادہ پسندیدہ ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور یہ چیز اللہ کو پسند ہے اسی انبیاء علیہم السلام کے نام بھی ناموں میں سے ہیں وہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نسبت کو ظاہر کرتے ہیں چنانچہ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے صاجزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا اور سنن داود وغیرہ میں آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے :۔ ’’ سموا باسماء الانبیاء ‘‘ یعنی پیغمبروں کے ناموں پہ نام رکھو اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کے نام ایسے بھی رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہیں اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں مثلا اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا اور ایک انصاری صحابی کے بچے کا نام منزر رکھا الغرض اس باب میں رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل اور آپ کے ارسادات سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھے یا اپنے کسی بزرگ سے رکھوائے حسن ادب اور دینی تربیت اللہ کے سارے پیغمبروں نے اور ان سب کے آخر میں ان کے خاتم سیدنا حضرت محمد ﷺ نے اس چند روزہ دنیوی زندگی کے بارے میں یہی بتایا جائے کہ یہ دراصل آنے والی اس اخروی زندگی کی تمہید اور اس کی تیاری کیلئے ہے جو اصلی اور حقیقی زندگی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہو گی اس نقطہ نظر کا قدرتی اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کے سارے مسئلوں سے زیادہ آخرت کو بنانے اور وہاں فوزو فلاح حاصل کرنے کی فکر کی جائے اسلئے رسول اللہ ﷺ نے ہر صاحب اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وع بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصوروار ہو گا اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے +(۱۶) عن ابی عباس ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ افتحوا علی صبیانکم اول کلمۃ بلا ’’الہ الا اللہ‘‘ ولقنوھم عند الموت’’ لاالہ الا اللہ ‘‘ رواہ البیہقی +ترجمہ :۔ اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘کہلواؤ اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو (شعب الایمان للبیہقی +(تشریح) انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اب گویا تسلیم کر لی گئی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے اس سے اثر لے اور وہ اثر لیتا ہے رسول اللہ ﷺ نے پیدا ہونے کے بعد ہی بچے کے کان میں (خاص کان میں )اذان و اقامت پڑھنے کی جو ہدایت فرمائی ہے (جیسا کہ حضرت ابو رافع اور حضرت حسین بن علی کی متذکرہ بالا روایات سے معلوم ہو چکا ہے اس سے بھی یہ صاف اشارہ ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بچے کی زبان جب بولنے کیلئے کھلنے لگے تو سب سے پہلے اس کو کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کی جائے اور اسی سے زبانی تعلیم و تلقین کا افتتاح ہو ۔۔۔ ۔۔۔ آگے یہ بھی ہدایت فرمائی گئی کہ جب آدمی کا وقت آخر آئے تو اس وقت بھی اس کو اسی کلمہ کی تلقین کی جائے۔۔۔۔۔۔ +بڑا خوش نصیب ہے اللہ کا وہ بندہ جس کی زبان سے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمہ نکلے اور دنیا سے جاتے وقت یہی اس کا آخری کلمہ ہو ۔۔۔ اللہ تعالی نصیب فرمائے +(۱۷)عن سعید بن العاص قال قال رسول اللہ ﷺ ما نحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن۔۔۔ رواہ الترمذی +ترجمہ :۔ حضرت سعید بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :۔ کسی باپ نے اپنی الاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا (جامع ترمذی) +(تشریح) یعنی باپ کی طرف سے اولاد کیلئے سب سے اعلی اور بیش بہا تحفہ یہی ہے کہ ان کی ایسی تربیت کرے کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں +(۱۸)عن افس قال قال رسول اللہ ﷺ اکرموا اولادکم واحسنوا ادابھم ۔۔۔۔۔۔ رواہ ابن ماجہ +ترجمہ :۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کا اکرام کرو اور (اچھی تربیت کے ذریعہ )ان کو حسن ادب سے آراستہ کرو سنن ابن ماجہ +(تشریح)اولاد کا اکرام یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالی کا عطیہ اور اس کی امانت سمجھ کر ان کی قدر اور ان کا لحاظ کیا جائے حسب استطاعت ان کی ضروریات حیات کا بندوبست کیا جائے ان کو بوجھ اور مصیبت نہ سمجھا جائے + + +ایک عظیم اسلامی اسکالر ہیں + + +اردو پاکستان کی سرکاری زبان +ہےــ پاکستان کے علاوہ یہ بھارت میں بھی بولی جاتی ہےــ معیاری اردو بولنے والوں کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ اردو دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی پانچویں زبان ہے۔ + + +ميرا نام طاهر محمود ہے ۔ ميرا تعلق لاهور پاكستان سے ہے ۔ ميں جده سعودي عرب ميں مقيم هوں + + +نستعلیق عربی، اردو اور فارسی حروف تہجی لکھنے کے لئے ایک مخصوص انداز ہے۔ یہ اردو لکھنے کے لئے ترجیحی انداز ہے۔ + + +لفظ انسان کے منہ سے نکلنے والی مختلف آرازیں ہیں۔ گو کہ جو کچھ انسان بولتا ہے سب الفاظ (جمع: لفظ) ہیں۔ +لفظ کی دو اقسام ہیں۔ +کلمہ ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کہ کچھ نہ کچھ معنی ہوں۔ مثلاْ کتاب، بانی، روٹی +مہمل ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کے سننے سے کچھ معنی سمجھ نہ آئیں مثلاْ وتاب، وانی، ووٹی +ہر کلمہ لفظ ہوتا ہے۔ مگر ہر کلمہ کو لفظ نہیں کہ سکتے۔ +کلمہ یعنی با معنی لفظ کی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ +مستقل الفاظ وہ الفاظ ہیں جو بذات خود پورے معنی دیں۔ مثلاْ قلم، کتاب، سورج وغیرہ وغیرہ +غیر مستقل الفاظ وہ الفاظ ہیں جو بذات خود پورے معنی نہ دیں بلکہ اظہار مطلب کے لیے دوسرے الفاظ کے محتاج ہوں۔ ایسے الفاظ کو حروف کہتے ہیں۔ پر، تک، لیے، پھر، ہرگز وغیرہ +کلمہ کی تین اقسام ہیں۔ + + +اسم وہ کلمہ ہے جو اکیلا اپنے معنی دیتا ہے۔ اسم کسی انسان، حیوان، چیز یا جگہ وغیرہ کا نام ہے۔ اسم میں وقت شامل نہیں ہوتا۔ +بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی تین اقسام ہیں۔ +جامد وہ اسم ہے کس سے کوئی دوسرا لفظ نہ نکلے، اور نہ ہی وہ کسی لفظ سے نکلتا ہو۔ +مصدر وہ اسم ہے جو خود تو کسی سے نہ نکلا ہو لیکن اور الفاظ اس سے نکلیں۔ مصدر کی تعریف اس طرح بھی کی جاتی ہے۔ "مصدر وہ اسم ہے جس میں ہونا یا کرنا یا سہنا زمانے کے تعلق کے بغیر سمجھا جائے" +مصدر کی علامت یہ ہے کہ اس کے آخر میں ہمیشہ نا آتا ہے۔ لیکن مندرجہ ذیل مصدر نہیں بلکہ جامد ہیں۔ +مشتق وہ کلمہ ہے جو مصدر سے نکلے۔ +جیسے لکھنا سے لکھنے والا، +یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تمام مشتقات اسم ہے ہوتے ہیں۔ بعض افعال بھی مشتق ہوتے ہیں۔ +اسم جامد کی تین اقسام ہیں۔ +اسم معرفہ وہ اسم ہے جو کسی خاص شخص یا چیز کے لیے بولا جائے۔ +مثلاْ احمد، ندا، تاج محل، شالامار باغ، دیال سنگھ کالج، لاہور، پاکستان، دریائے نیل، جبل نور +اسم نکرہ وہ اسم ہے جو کسی عام شخص یا چیز کے لیے بولا جائے۔ +بناوٹ کے لحاظ سے مصدر کی دو اقسام ہیں۔ +وہ مصدر ہے جو خاص مصدری معنوں کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ +وہ مصدر ہے جو غیر زبانوں کے الفاظ پر مصدر ہوں۔ یا اسم جامد یا حاصل مصدر یا علامت مصدر زیادہ کر کے مصدر بنائیں۔ مرکب مصدر کو جعلی مصدر بھی کہا جاتا ہے۔ +مثلاْ برق سے برقیانا، لالچ سے للچانا، شرم سے شرمانا، اپنا سے اپنانا، تشریف لانا، روشن کرنا۔ + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا دیس کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا +بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا +نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا +دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے +سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا +جگہ جگہ پہ دراڑیں تھیں ندی نالے تھے +سوادِ چشم میں پانی کا رِسم ایسا تھا +کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ +تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا +ہر ایک چیز برہنہ تھی بے کے نقطے میں +الف فروزاں تھا جس میں وہ بسم ایسا تھا +یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور +چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا +اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا +مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا +نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے +مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا +بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں +اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا +یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں پلکوں پر +کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا +گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور +تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا +(جس دوست جہاں کے بعد ’’پر‘‘ کے استعمال اعتراض ہو وہ مصرعہ یوں پڑھ لیں۔۔۔ +یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا +یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا +مجھ سے لپٹی جا رہی ہے اک حسیں آکاس بیل +یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا +موت کی ٹھنڈی گلی سے بھاگ کر آیا ہوں میں +کھڑکیوں کو بند کر ، جلدی سے اور ہیٹر لگا +بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی +روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر ، پتھر لگا +کیا بلندی بخش دی بس ایک لمحے نے اسے +جیسے ہی سجدے سے اٹھا ، آسماں سے سر لگا +پھیر مت بالوں میرے ، اب سلگتی انگلیاں +مت کفِ افسوس میرے ، مردہ چہرے پر لگا +ہے محبت گر تماشا تو تماشا ہی سہی +چل مکانِ یار کے فٹ پاتھ پر بستر لگا +بہہ رہی ہے جوئے غم ، سایہ فگن ہے شاخِ درد +باغِ ہجراں کو نہ اتنا آبِ چشمِ تر لگا +اتنے ویراں خواب میں تتلی کہاں سے آئے گی +پھول کی تصویر کے پیچھے کوئی منظر لگا +اک قیامت خیز بوسہ اس نے بخشا ہے تجھے +آج دن ہے ، لاٹری کے آج چل نمبر لگا +ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا +آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا +بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ +دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا +کہیں ایسا نہ ہو کچھ ٹوٹ گیا ہو ہم میں +اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا +لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا +ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا +قوس در قوس کوئی گھوم رہا ہے کیا ہے +رقص کرتی کسی لڑکی ک�� غرارے جیسا +کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور +اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا +پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا +صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا +وہ بھی تھی لپٹی ہوئی کچھ واہموں میں +رات کا پھر ایک بھی تو بج گیا تھا +کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے +شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا +پہلے پہلے لوٹ جاتا تھا گلی سے +رفتہ رفتہ بانکپن کا کج گیا تھا +مکہ کی ویران گلیاں ہو گئی تھیں +کربلا کیا موسم ِ ذوالحج گیا تھا +تُو اسے بھی چھوڑ آیا ہے اسے بھی +تیری خاطر وہ جو مذہب تج گیا تھا +وہ مرے سینے میں شاید مر رہا ہے +جو مجھے دے کر بڑی دھیرج گیا تھا +کتنی آوازوں کے رستوں سے گزر کر +گیت نیلی بار سے ستلج گیا تھا +تازہ تازہ باغ میں اسوج گیا تھا +وہ جہاں چاہے کرے منتج ، گیا تھا +رات کی محفل میں کل سورج گیا تھا +تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا +میں ایک شیش محل میں قیام رکھتے ہوئے +کسی فقیر کی کٹیا کے خاروخس میں رہا +سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی +سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا +کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں +کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا +گنہ نہیں ہے فروغ بدن کہ جنت سے +یہ آبِ زندگی ، بس چشمہ ء ہوس میں رہا +مرے افق پہ رکی ہے زوال کی ساعت +یونہی ستارہ مرا ، حرکت ء عبث میں رہا +کنارے ٹوٹ کے گرتے رہے ہیں پانی میں +عجب فشار مرے موجہ ء نفس میں رہا +وہی جو نکھرا ہوا ہے ہر ایک موسم میں +وہی برش میں وہی میرے کینوس میں رہا +قدم قدم پہ کہانی تھی حسن کی لیکن +ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے قصص میں رہا +جسے مزاج جہاں گرد کا ملا منصور +تمام عمر پرندہ وہی قفس میں رہا +موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا +بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا +اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ +گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا +بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں +ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا +شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ +دیکھا تو میں نے آنکھ کر پتھر بنا لیا +ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ +اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا +پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں +میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا +شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی +مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا +کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر +اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا +پھر عرصہ ء دراز گزارا اسی کے بیچ +اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا +بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر +اپنا دماغ گنبد ِ بے در بنا لیا +باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے +لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا +گم کرب ِ ذات میں کیا یوں کرب ِ کائنات +آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا +منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں +دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا +اِس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا +ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا +دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف +اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا +آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی +اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا +اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب +تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا +ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو +دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا +گربہ صفت گلی میں کسی کھونسلے کے بیچ +میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا +ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول +لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا +پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے +کمرے میں ہے میڈونا کا بستربنا ہوا +یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف +اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا +ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع +تھا انگ ا��گ جسم کا محشر بنا ہوا +دیواروں پر تمام دروں پر بنا ہوا +ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا +بس زندگی ہے آخری لمحوں کے آس پاس +محشر کوئی ہے چارہ گروں پر بنا ہوا +آتا ہے ذہن میں یہی دستار دیکھ کر +اک سانپ کاہے نقش سروں پر بنا ہوا +ناقابلِ بیاں ہوئے کیوں اس کے خدو خال +یہ مسٗلہ ہے دیدہ وروں پر بنا ہوا +کیا جانے کیا لکھا ہے کسی نے زمین کو +اک خط ہے بوجھ نامہ بروں پر بنا ہوا +اک نقش رہ گیا ہے مری انگلیوں کے بیچ +منصور تتلیوں کے پروں پر بنا ہوا +آئے نظر جو روحِ مناظر بنا ہوا +ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا +یہ کون جا رہا ہے مدینے سے دشت کو +ہے شہر سارا حامی و ناصر بنا ہوا +پر تولنے لگا ہے مرے کینوس پہ کیوں +امکان کے درخت پہ طائر بنا ہوا +یہ اور بات کھلتا نہیں ہے کسی طرف +ہے ذہن میں دریچہ بظاہر بنا ہوا +آغوش خاک میں جسے صدیاں گزر گئیں +وہ پھررہا ہے جگ میں مسافر بنا ہوا +فتوی دو میرے قتل کا فوراً جنابِ شیخ +میں ہوں کسی کے عشق میں کافر بنا ہوا +کیا قریہ ء کلام میں قحط الرجال ہے +منصور بھی ہے دوستو شاعر بنا ہوا +گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا +اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے +بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا +پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں +آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا +اور پھر تازہ ہوا کے واسطے +ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا +ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر +پائوں میں اس کے مقدر رکھ دیا +دیکھ کر افسوس تارے کی چمک +اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا +ایک ہی آواز پہنی کان میں +ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا +نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر +خواب کو بسترسے باہر رکھ دیا +دیدہ ء تر میں سمندر دیکھ کر +اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا +زندگی کا استعارہ جان کر +ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا +رکھتے رکھتے شہر میں عزت کا پاس +ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا +میری مٹی کا دیا تھا سو اسے +میں نے سورج کے برابر رکھ دیا +خانہ ء دل سے اٹھا کر وقت نے +بے سرو ساماں ،سڑک پر رکھ دیا +جو پہن کر آتی ہے زخموں کے پھول +نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا +کچھ کہا منصور اس نے اور پھر +میز پر لاکے دسمبر رکھ دیا +ہر روئیں پر ایک تارہ رکھ دیا +رات کا قیدی بنایا اور پھر +آنکھ میں شوقِ نظارہ رکھ دیا +خاک پر بھیجا مجھے اور چاند پر +میری قسمت کا ستارہ رکھ دیا +بچ بچا کر کوزہ گر کی آنکھ سے +چاک پر خود کو دوبارہ رکھ دیا +دیکھ کر بارود صحنِ ذات میں +اس نے خواہش کا شرارہ رکھ دیا +میں نے کشتی میں کنارہ رکھ دیا +تری طلب نے ترے اشتیاق نے کیا کیا +فروزاں خواب کئے تیرہ طاق نے کیا کیا +میں جا رہا تھا کہیں اور عمر بھر کے لیے +بدل دیا ہے بس اک اتفاق نے کیا کیا +عشائے غم کی تلاوت رہے تہجد تک +سکھا دیا ہے یہ دینِ فراق نے کیا کیا +خراب و خستہ ہیں عاشق مزاج آنکھیں بھی +دکھائے غم ہیں دلِ چست و چاق نے کیا کیا +وہ لب کھلے تو فسانہ بنا لیا دل نے +گماں دئیے ترے حسن ِ مذاق نے کیا کیا +مقامِ خوک ہوئے دونوں آستانِ وفا +ستم کیے ہیں دلوں پر نفاق نے کیا کیا +ہر ایک دور میں چنگیزیت مقابل تھی +لہو کے دیپ جلائے عراق نے کیا کیا +ہر اک شجر ہے کسی قبر پر کھڑا منصور +چھپا رکھا ہے زمیں کے طباق نے کیا کیا +خواب ِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا +گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا +میں نے شب ِ فراق کی تصویر پینٹ کی +کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا +کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً +افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا +رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دبائو سے +اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا +اس نرس کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں +سارا ب��ار روح و بدن کا اتر گیا +کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے +ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا +منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی +پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا +زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا +فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا +میں تشنہ لب پلٹ آیا کہیں سے +کنویں میں کوئی کتا گر پڑا تھا +سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن +ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا +مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر +کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا +رکابی تھی ذرا سی ، اور اس پر +کوئی چاول کا دانہ گر پڑا تھا +مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں +اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا +مری سچائی میں دہشت بڑی تھی +کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا +بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے +ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا +مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں +نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا +اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں +بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا +اٹھایا میں نے پلکوں سے تھا سپنا +اٹھاتے ہی دوبارہ گر پڑا تھا +نظر منصور گولی بن گئی تھی +ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا +اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا +میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا +پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا +کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا +یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے +انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا +ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل +آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا +اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے +پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا +اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو +وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا +یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے +تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا +موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی +دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا +عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو +کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا +میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور +محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا +تمہیں یہ پائوں سہلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا +سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا +مجھے لگتا ہے میری آخری حد آنے والی ہے +جہاں آنکھیں نہیں ہوں گی دھڑکتادل نہیں ہوگا +محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے +وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا +مری جاں ویری سوری اب کبھی چشم ِ تمنا سے +یہ اظہار ِ محبت بھی سرِمحفل نہیں ہو گا +سکوت ِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقش ِ پا ہوں گے +کوئی ناقہ نہیں ہو گا کہیں محمل نہیں ہو گا +ذرا تکلیف تو ہو گی مگر اے جانِ تنہائی +تجھے دل سے بھلا دینا بہت مشکل نہیں ہو گا +یہی لگتا ہے بس وہ شورش ِ دل کا سبب منصور +کبھی ہنگامہ ء تخلیق میں شامل نہیں ہو گا +کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا +یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا +پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں +مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا +میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے +جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا +لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے +’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا +جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں +ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا +جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت +سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا +ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور +یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا +پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا +وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا +آپھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ +پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا +جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی +حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے +منظر جو آنک�� کو نظر آتا کہیں کا تھا +جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا +میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا +حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا +سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار +پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا +بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے +دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا +وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں +چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں +وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا +میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے +لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا +صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب +بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی +کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا +کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے +وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا +جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم +پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا +پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر +تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا +جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا +برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا +جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی +اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا +میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی +اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا +ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے +اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا +ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار +لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا +منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے +ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا +کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے +یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا +سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس +منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا +اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا +میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا +صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند +جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا +جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی +موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا +ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں +تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا +سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی +گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا +میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول +جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا +پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا +اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا +رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی +اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا +نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے +کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا +خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے +رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا +لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر +والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا +صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ +جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا +وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے +اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا +زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن +چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا +ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں +یہ خرابہ تو مری جان گلستاں نکلا +زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا +تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا +رتجگے ا��ڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور +جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا +آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا +ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا +اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی +آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا +محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر +آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا +آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی +چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا +ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟ +شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا +جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور +غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا +درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا +شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا +اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے +ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا +پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں +اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا +شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے +بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا +ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا +پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا +مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری +ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا +وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی +کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا +ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے +بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا +میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا +باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا +ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا +اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا +میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں +ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ +ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر +شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا +پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا +ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا +عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے +صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا +سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن +یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا +جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی +میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا +لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے +شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا +تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر +سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا +سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن +رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا +ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا +آسمانوں سے آگے سفر رات کا +بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں +میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا +صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی +جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا +چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں +آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا +پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے +کتنا احسان ہے شہر پر رات کا +میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا +مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا +مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک +میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا +میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ +یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا +کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس +کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا +میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں +کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا +مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے +میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا +شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک +کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا +مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں +میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا +مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا +مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا +انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے +ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا +تری ہر پرت میں کوئی پرت نہیں چاہتا +میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا +اسے رقص گاہ میں دیکھنا کبھی مست مست +مرے دوستو میں اسے غلط نہیں چاہتا +کسی ذہن میں ، کسی خاک پر یا کتاب میں +میں یزید کی کہیں سلطنت نہیں چاہتا +مرے چشم و لب میں کرختگی ہے شعور کی +میں سدھارتھا، ترے خال وخط نہیں چاہتا +فقط ایک جام پہ گفتگو مری شان میں +سرِ شام ایسی منافقت نہیں چاہتا +مرے ساتھ شہر نے جو کیا مجھے یاد ہے +میں کسی کی کوئی بھی معذرت نہیں چاہتا +شکست ِجاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا +ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا +یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے +لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا +قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی +اسی قرابت ِ مے نے قسم کو توڑ دیا +قدم قدم پہ دل ِمصلحت زدہ رکھ کر +کسی نے راہ ِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا +ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے +دعا کی ضرب سے دست ِستم کو توڑ دیا +سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر +وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا +یہ انتہائے کمالِ شعور ہے منصور +یہی کہ کعبہ ء دل کے صنم کو توڑ دیا +وہ بات نہیں کرتا، دشنام نہیں دیتا +کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا +بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکا +میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا +کچھ ایسے بھی اندھے ہیں کہتے ہیں خدا اپنا +پیشانی پہ سورج کی کیوں نام نہیں دیتا +رستے پہ بقا کے بس قائم ہے منافع بخش +اُس پیڑ نے کٹنا ہے جو آم نہیں دیتا +اب سامنے سورج کے یہ اشکِ مسلسل کی +برسات نہیں چلتی ،غم کام نہیں دیتا +جو پہلے پہل مجھ کو بازار میں ملتے تھے +کوئی بھی خریدار اب وہ دام نہیں دیتا +بیڈ اپنا بدل لینا منصور ضروری ہے +یہ خواب دکھاتا ہے ، آرام نہیں دیتا +کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا +نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا +خواہشیں خالی گھڑے سر پہ اٹھا لائی ہیں +کوئی دریا کوئی تالاب دکھائی دیتا +ڈوبنے کو نہ سمندر نہ کوئی چشم ِ سیہ +جام ہی میں کوئی گرداب دکھائی دتیا +توُ وہ ریشم کہ مرا ٹاٹ کا معمولی بدن +تیرے پیوند سے کمخواب دکھائی دیتا +دوستو آگ بھری رات کہاں لے جائوں +کوئی خس خانہ و برفاب دکھائی دیتا +دل میں چونا پھری قبروں کے اِمٰج ہیں منصور +کیسے میں زندہ و شاداب دکھائی دیتا +گھر سے سفید داڑھی حاجی پہن کے نکلا +پھر سود خور کیسی نیکی پہن کے نکلا +خوشبو پہن کے نکلامیں دل کے موسموں میں +اور جنگ کے رُتوں میں وردی پہن کے نکلا +کیسا یہ’’گے ادب ‘‘کا افتی مباحثہ تھا +ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا +لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر +ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا +شہوت عروج پر تھی آنکھوںمیں ڈاکیے کی +چلمن سے ہاتھ کیا وہ مہندی پہن کے نکلا +بازار ِجسم و جاں میں کہرا جما ہوا تھا +میں لمس کی دکاں سے گرمی پہن کے نکلا +کہتے ہیں چشم ولب کی بارش میں وسوسے ہیں +منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا +موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا +پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا +اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمرآور ہوئے +پیڑ کو ٹہنی ملی مجھ پر قلم نازل ہوا +اوس کی مانند اُترا رات بھر مژگاں پہ میں +پھر کرن کا دکھ پہن کر صبح دم نازل ہوا +میں نے مٹی سے نکالے چند آوارہ خیال +آسمانوں سے کلامِ محترم نازل ہوا +یوں ہوا منصور کمرہ بھر گیا کرنوں کے ساتھ +مجھ پہ سورج رات کو الٹے قدم نازل ہوا +میری آنکھوں پر مرا حسن نظر ��ازل ہوا +دیکھنا کیا ہے مگر یہ سوچ کر نازل ہوا +اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن +مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا +کوئی رانجھے کی خبردیتی نہیں تھی لالٹین +ایک بیلے کا اندھیرا ہیر پر نازل ہوا +اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ +اک گلی میں زندگی بھر کا سفر نازل ہوا +وقت کی اسٹیج پربے شکل ہوجانے کا خوف +مختلف شکلیں بدل کر عمربھر نازل ہوا +جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک +یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا +کیا خواب تھا ، پیکر مرا ہونٹوں سے بھرا تھا +انگ انگ محبت بھرے بوسوں سے بھرا تھا +کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر +اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا +ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی +مسجد کا سپیکر تھا صدائوں سے بھرا تھا +اونچائی سے یک لخت کوئی لفٹ گری تھی +اور لوہے کا کمرہ بھی امنگوں سے بھرا تھا +اک ،پائوں کسی جنگ میں کام آئے ہوئے تھے +اک راستہ بارودی سرنگوں سے بھرا تھا +آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی +منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا +یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا +نیند کی نوٹ بک میں تھا ، کچھ تھا +میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا +ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا +چاند کچھ اور کہہ رہا تھا کچھ +دل ِ وحشی پکارتا کچھ تھا +اس کی پائوں کی چاپ تھی شاید +یہ یونہی کان میں بجا کچھ تھا +میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے +میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا +کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی +یاد پڑتا ہے کچھ ، کہا کچھ تھا +آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور +خواب میں تو معاملہ کچھ تھا +سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا +سفید رنگ کا دستور کجکلاہ ہوا +زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں +ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا +کئی دنوں سے زمیںدھل رہا ہے بارش سے +امیرِ شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا +شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے +دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا +وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد +سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا +جلے جو خیمے تو اتنا اٹھا دھواں منصور +ہمیشہ کے لئے رنگ ِعلم سیاہ ہوا +دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا +پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا +رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی +برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا +سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں +پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا +’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں +ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا +رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک +ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا +کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل +کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا +پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو +دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا +وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے +یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا +پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا +اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا +چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے +وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا +وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے +میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا +میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے +اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا +لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر +وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا +چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور +آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا +کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا +میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے +کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا +ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں +خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا +کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں +کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا +لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر +تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا +کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے +کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا +پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا +شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا +پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں +مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا +ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ +میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا +لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر +قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا +دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر +دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا +منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر +پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا +مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا +وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا +مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی +مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا +مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو +کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا +ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی +کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا +میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے +کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا +وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا +وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا +ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو +آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا +کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے +پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا +صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی +ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا +منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی +سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا +خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا +قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا +یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے +یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا +مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں +محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘ +سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا +کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا +سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج +لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا +یہی منصور حاصل زندگی کا +خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا +مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا +لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا +رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر +دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا +جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی +اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا +پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند +آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا +تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ +لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا +تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق +منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا +ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا +میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا +اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں +ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا +دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن +کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا +اے بجھتی ہوئی شام محبت کے سفرمیں +اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا +نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے +ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا +شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد +لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا +منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن +اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا +عرش تک میانوا��ی بے کنار لگتا تھا +دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا +بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی +اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا +منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی +کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا +ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر +بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا +ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی +اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا +ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں +لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا +قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی +جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا +باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی +ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا +ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور +اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا +شہد ٹپکا ، ذرا سپاس ملا +اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا +سوکھ جائیں گی اسکی آنکھیں بھی +جا کے دریا میں میری پیاس ملا +خشک پتے مرا قبیلہ ہیں +دل جلوں میں نہ سبز گھا س ملا +آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور +بس مرے خوف میں ہراس ملا +آ ، مرے راستے معطر کر +آ ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا +نسخہ ء دل بنا مگر پہلے +اس میں امید ڈال آس ملا +ہے سسی خان کے لیے منصور +سو غزل میں ذرا سپاس ملا +{سسی کا صحیح تلفظ یہی ہے} +خاک کا ایک اقتباس ملا +آسماں کے مگر ہے پاس ملا +اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں +جن کو وکٹوریہ کراس ملا +دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو +اپنے ہی قتل کا قصاص ملا +جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے +ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا +میز پر اہلِ علم و دانش کی +اپنے بھائی کا صرف ماس ملا +کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو +کیا نگر کا نگر خلاص ملا +اس میں خود میں سما نہیں سکتا +کیسا یہ دامنِ حواس ملا +چاند پر رات بھی بسر کی ہے +ہر طرف آسمانِ یاس ملا +گھر میں صحرا دکھائی دیتا ہے +شلیف سے کیا ابونواس ملا +وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا +جب مجھے حسنِ التماس ملا +تیرا فیضان بے قیاس ملا +جب بھی کعبہ کو ڈھونڈنا چاہا +تیرے قدموں کے آس پاس ملا +تیری رحمت تڑپ تڑپ اٹھی +جب کہیں کوئی بھی اداس ملا +تیری توصیف رب پہ چھوڑی ہے +بس وہی مرتبہ شناس ملا +یوں بدن میں سلام لہرایا +جیسے کوثر کا اک گلاس ملا +تیری کملی کی روشنائی سے +زندگی کو حسیں لباس ملا +ابن عربی کی بزم میں منصور +کیوں مجھے احترامِ خاص ملا +بجا ہے دوستو منصور کا گلہ کرنا +مگر کچھ اس کے مسائل کا بھی پتہ کرنا +بڑا ضروری ہے عشقِ مجاز میں منصور +خود اپنے آپ پہ خود کو فریفتہ کرنا +نگارِ لوح و قلم کا ہے مشورہ منصور +ہر ایک شے کا مکمل مطالعہ کرنا +بھلا دیا ہے جہنم نے وقت کے منصور +لبوں سے قوسِ قزح کا تبادلہ کرنا +بس اپنی آنکھ سے اک بار دیکھنا منصور +پھر اس کے حسنِ مکمل پہ تبصرہ کرنا +یہ عمر ایک ہی پہلو میں کاٹ دے منصور +غلط ہے روز تعلق کا تجربہ کرنا +بس ایک کام نہیں آ سکا مجھے منصور +شبِ فراقِ مسلسل کا خاتمہ کرنا +پھر اس کے بعد بدلنا اسے عجب منصور +تمام عمر میں بس ایک فیصلہ کرنا +جلا کے راکھ نہ کردے کہیں تجھے منصور +یہ برقِ طور سے شب بھر معانقہ کرنا +مرے رسول کی سنت مرے لئے منصور +زمیں پہ رہ کے فلک سے مکالمہ کرنا +جنابِ شیخ کو اچھا نہیں لگا منصور +خدا کی ذات سے اپنا مصافحہ کرنا +یہ پانچ وقت جماعت کہے مجھے منصور +نماز کیا ہے زمانے سے رابطہ کرنا +یہ کیا کہ وہ جو دھڑکتا بدن میں ہے منصور +اس ایک شخص کا ہر شخص سے پتہ کرنا +شعورِ عشقِ محمد مری نماز ہوا +گماں یقین کی ساعت سے سرفراز ہوا +تُو کائنات کا خالق ہے مانتا ہوں مگر +مرا وجود تری ذات کا جواز ہوا +ترے لبوں کی کرم بار مسکراہٹ سے +نیاز مند خدائی سے بے نیاز ہو +میں رک گیا تھا جدائی کے جس جہنم میں +وہ انتظارِ قیامت سے بھی دراز ہوا +مرے سجود کی منزل ہے میری تنہائی +میں اپنی ذات کا خود ہی حریمِ ناز ہوا +مری مژہ پہ سجاتا ہے آنسوئوں کے چراغ +مزاجِ یار عجب روشنی نواز ہوا +مری جمال پرستی بھی تجھ سے ہے منصور +مرا حبیب ترا چہرہ ئ مجاز ہوا +کبھی بارشوں سے بہنا ، کبھی بادلوں میں رہنا +یہی زندگی ہے اپنی ، یونہی آنسوئوں میں رہنا +کبھی یونہی بیٹھے رہنا تری یاد کے کنارے +کبھی رات رات بہتے ہوئے پانیوں میں رہنا +کبھی سات رنگ بننا کسی ابرِ خوشنما کے +کبھی شاخ شاخ گرتی ہوئی بجلیوں میں رہنا +مجھے یاد آ رہا ہے ترے ساتھ ساتھ شب بھر +یونہی اپنے اپنے گھر کی کھلی کھڑکیوں میں رہنا +مجھے لگ رہا ہے جیسے کہ تمام عمر میں نے +ہے اداس موسموں کے گھنے جنگلوں میں رہنا +یہ کرم ہے دلبروں کا ،یہ عطا ہے دوستوں کی +مرا زاویوں سے ملنا یہ مثلثوں میں رہنا +ابھی اور بھی ہے گھلنا مجھے ہجر کے نمک میں +ابھی اور آنسوئوں کے ہے سمندروں میں رہنا +اپنے بت ، اپنے خدا کا درد تھا +یعنی اپنے بے وفا کا درد تھا +موت کی ہچکی مسیحا بن گئی +رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا +ننگے پائوں تھی ہوا کی اونٹنی +ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا +کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں +عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا +میں جسے سمجھا تھا ہجراں کا سبب +زخم پرودہ انا کا درد تھا +رات کی کالک افق پر تھوپ دی +مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا +پہلی پہلی ابتلا کا درد تھا +اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا +اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی +مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا +اب تلک احساس میں موجود ہے +کتنا حرف ِبرملا کا درد تھا +دور کا بے شک تعلق تھا مگر +خاک کو عرش علیٰ کا درد تھا +رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ +ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا +اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے وہ +ایسا ظالم کربلا کا درد تھا +مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا +خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا +جان لیوا بس وہی ثابت ہوا +جو مسیحا کی دوا کا درد تھا +رک گیا ، آہیں ُسروں پر دیکھ کر +ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا +کچھ برس پہلے مرے احساس میں +تھا ، سلوکِ ناروا کا درد تھا +مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا +اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا +اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا +اس کی آنکھوں میں نزع کا درد تھا +وقت کی قربان گاہ تھی دور تک +اور ازل بستہ قضا کا درد تھا +اس کی مجبوری پہ چپ تھا میں مگر +مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا +ہجر کی کالک بھری برسات سے +مجھ کو صحبت کو سزا کا درد تھا +اک طرف شہد و شراب و لمس تھے +اک طرف روزِ جزا کا درد تھا +اعتبارِ باختہ کا درد تھا +ساختہ پر داختہ کا درد تھا +امن پیشہ مورچوں کے پیٹ میں +پھڑپھڑاتی فاختہ کا درد تھا +جلوہ ئ خودساختہ کا درد تھا +اک امانت کی طرح ہے لمس میں +جو کسی دو شاختہ کا درد تھا +جس کی لذت حاصل ئ احساس ہے +ایک دوشیزہ خطا کا درد تھا — +آخرش ہجراں کے مہتابوں کا مد فن ہوگیا +آنکھ کا تالاب بدروحوں کامسکن ہو گیا +دھوپ در آئی اچانک رات کو برسات میں +اس کا چہرہ آنسوئوں میں عکس افگن ہو گیا +دل چرا کر جا رہا تھا میں دبے پائوں مگر +چاند نکلا اور سارا شہر روشن ہو گیا +رو پڑا تھا جا کے داتا گنج کے دربار پر +یوں ہوا پھرراہ میں سانول کا درشن ہوگیا +بجلیاں ہیں بادلوں کے بین ہیں کمرے کے بیچ +اور کیلنڈر کہے ہے ، ختم ساون ہو گیا +کیوں سلگتی ریت نے سہلا دئیے تلووں کے پھول +یہ اذیت کیش دل صحرا کا دشمن ہو گیا +جھلملا اٹھتا تھا برتن مانجھنے پر جھاگ سے +اس کلائی سے جو روٹھا زرد کنگن ہو گیا +تیری میری زندگی کی خوبصورت ساعتیں +تیرا بچپن ہو گیا یا میرا بچپن ہو گیا +ایک جلوے کی قیامت میں نے دیکھی طور پر +دھوپ تھی ایسی کہ سورج سوختہ تن ہو گیا +بے خدا ہوں سوچتا ہوں شکر کس کا ہو ادا +میں نے جو چاہا وہی منصور فوراً ہو گیا +مرکوز رکھ نگاہ کو ، پھر نین مت لگا +فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا +زردار! یہ جو تُونے کئے ہیں ہزار حج +اس پر امیدِ رحمتِ دارین مت لگا +جس سے تُو دیکھتا ہے ابو جہل کے قدم +اُس آنکھ سے رسول کے نعلین مت لگا +خطرہ ہے انعدام کا میرے وجود کو +باہوں سے اپنی محفلِ قوسین مت لگا +دونوں طرف ہی دشمنِ جاں ہیں خیال رکھ +اتنے قریب حدِ فریقین مت لگا +کوئی تماشا اے مرے جدت طراز ذہن +تُو عرش اور فرش کے مابین مت لگا +جائز ہر ایک آنکھ پہ جلوے بہار کے +اپنی کتابِ حسن پہ تُو بین مت لگا +دیوارِ قوس رکھ نہ شعاعوں کے سامنے +لفظِ طلو کے بعد کبھی عین مت لگا +دشمن کے ہارنے پہ بھی ناراض مجھ سے ہے +مجھ کو تو اپنا دل بھی کوئی’ جین مت‘ لگا +ادارک سلسلہ ہے ، اسے مختصر نہ کر +اپنے سکوتِ فہم کو بے چین ’مت‘ لگا +جس نے تمام زندگی بجلی چرائی ہے +اس کو تو واپڈا کا چیئرمین مت لگا +لگتا ہے یہ مقدمہ یک طرفہ عشق کا +منصور شرطِ شرکتِ طرفین مت لگا +مرے نصیب پہ رو دے ،کسی کا گھر نہ دکھا +تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج۔۔ اور در نہ دکھا +تُو اپنی شام کے بارے کلام کر مجھ سے +کسی کے بام پہ ابھری ہوئی سحر نہ دکھا +ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں +شبِ فراق! ابھی سے یہ چشمِ تر نہ دکھا +گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے +فریبِ وقت! مجھے شاخِ بے ثمر نہ دکھا +میں جانتا ہوں قیامت ہے بیچ میں منصور +مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا +آسرا کس وقت مٹی کے کھلونے پر رکھا +وقت پر پائوں کہانی ختم ہونے پر رکھا +دیکھتا کیا دو جہاں میں کہ فراقِ یار میں +دیدہ و دل کو ہمیشہ وقف رونے پر رکھا +پانیوں کو ساحلوں میں قید کر دینے کے بعد +موج کو پابند ساحل کے ڈبونے پر رکھا +چاہتا تو وقت کا ہم رقص بن سکتا تھا میں +خود سے ڈر کر خود کو لیکن ایک کونے پر رکھا +اپنی آنکھیں چھوڑ آیا اس کے دروازے کے پاس +اور اس کے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا +سونپ کر منصور دل کو آگ سلگانے کا کام +آنکھ کو مصروف دامن کے بھگونے پر رکھا +ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آلیا +آوارگی کی شام مجھے گھر نے آلیا +میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لئے بغیر +پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آلیا +میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں +کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آلیا +گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں +یادش بخیر یادِ ستم گر نے آلیا +وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی +پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آلیا +منصور چل رہا تھاابھی کہکشاں کے پاس +یہ کیا ہوا کہ پائوں کی ٹھوکر نے آلیا +یوں خیالوں نے بدحواس کیا +ہجر کو وصل پر قیاس کیا +اپنی پہچان کے عمل نے مجھے +روئے جاناں سے روشناس کیا +کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن +آسماں نے بہت اداس کیا +ہم نے ہر ایک نماز سے پہلے +زیبِ تن خاک کا لباس کیا +بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور +کیا بسرا کسی کے پاس کیا +اے چاند پتہ تیرا کسی سے نہیں ملتا +رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا +او پچھلے پہر رات کے ،جا نیند سے کہہ دے +اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا +کیوں وقتِ مقرر پہ ٹرام آتی نہیں ہے +کیوں وقت ترا میری گھڑی سے نہیں ملتا +میں جس کے لیے عمر گزار آیا ہوں غم میں +افسوس مجھے وہ بھی خوشی سے نہیں ملتا +یہ ایک ریاضت ہے خموشی کی گپھا میں +یہ بخت ِہنر نام وری سے نہیں ملتا +وہ تجھ میں کسی روز ضرور آکے گرے گی +دریا تو کبھی جا کے ندی سے نہیں ملتا +دھلیز پہ رکھ جاتی ہے ہر شام جو آنکھیں +منصور عجب ہے کہ اسی سے نہیں ملتا +مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا +رنگ بکھرا دئیے پھر تازہ ہوانے کیا کیا +کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے +پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرھانے کیا کیا +میں تجھے کیسے بتائوں مری نازک اندام +مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا +میری خاموشی پہ الزام لگانے والی +کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا +کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی +شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا +میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے +مجھ کو شاداب کیادستِ دعا نے کیا کیا +یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن +پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا +سینہ ء ہجر میں پھر چیر لگا +رات بھر نعرہ ئ تکبیر لگا +دھجیاں اس کی بکھیریں کیا کیا +ہاتھ جب دامنِ تقدیر لگا +وہ تو بے وقت بھی آ سکتا ہے +خانہ ئ دل پہ نہ زنجیر لگا +میں نے کھینچی جو کماں مٹی کی +چاند کی آنکھ میں جا تیر لگا +اس سفیدی کا کوئی توڑ نکال +خالی دیوار پہ تصویر لگا +کیوں سرِ آئینہ اپنا چہرہ +کبھی کابل کبھی کشمیر لگا +سر ہتھیلی پہ تجھے پیش کیا +اب تو آوازہ ئ تسخیر لگا +آسماں گر نہ پڑے ، جلدی سے +اٹھ دعا کا کوئی شہتر لگا +رہ گئی ہے یہی غارت گر سے +دائو پہ حسرت ِ تعمیر لگا +پھر قیامت کا کوئی قصہ کر +زخم سے سینہ ئ شمشیر لگا +بند کر پاپ کے سرگم منصور +کوئی اب نغمہ دلگیر لگا +کنارِ صبح ِمکاں اک تبسم بار چہرہ تھا +سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا +مری نظریں اٹھیں توپھر پلٹ کر ہی نہیں آئیں +عجب سندرسی آنکھیں تھی عجب دلدار چہرہ تھا +سنا ہے اس لئے اس نے تراشے خال و خد میرے +اسے پہچان کو اپنی کوئی درکار چہرہ تھا +ہوا کی آیتوں جیسی تکلم کی بہشتیں تھیں +شراب و شہدبہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا +جہاں پردھوپ کھلتی تھی وہیں بادل برستے تھے +جہاں پُرخواب آنکھیں تھیں وہیں بیدار چہرہ تھا +شفق کی سر خ اندامی لب و رخسار جیسی تھی +چناروں کے بدن پر شام کا گلنار چہرہ تھا +جسے بتیس برسوں سے مری آنکھیں تلاشے ہیں +بس اتنا جانتا ہوں وہ بہت شہکار چہرہ تھا +جہاں پر شمع داں رکھا ہوا ہے یاد کا منصور +یہاں اس طاقچے میں کوئی پچھلی بار چہرہ تھا +میں زندگی ہوں وہ جانے لگا تواس نے کہا +وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا +مجھے زمین سے رکھنے ہیں اب مراسم بس +جب آسماں نے فسردہ کیا تو اس نے کہا +میں تتلیوں کے تعاقب میں جانے والا ہوں +کسی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تو اس نے کہا +اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی +گلی میں اس کی کوئی مرگیا تو اس نے کہا +مجھے بھی شام کی تنہائی اچھی لگتی ہے +مری اداسی کا قصہ سنا تو اس نے کہا +خیال رکھنا تجھے دل کا عارضہ بھی ہے +جب اس کے سامنے میں رو پڑا اس نے کہا +مجھے تو رات کی نیت خراب لگتی ہے +چراغ ہاتھ سے میرے گرا تو اس نے کہا +کوئی فرشتوں کی مجھ سے تھی دشمنی منصور +پڑھا نصیب کا لکھا ہوا تو اس نے کہا +پھیلا ہوا ہے گھر میں جو ملبہ ، کہیں کا تھا +وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا +پھر اک فریبِ راہ ہوا اپنا شاٹ کٹ +پہنچے کہیں پہ اور ہیں سوچا کہیں کا تھا +جبہ تھا دہ خدا کا تو دستار سیٹھ کی +حجرے کی وارڈروب بھی کاسہ کہیں کا تھا +آخر خبر ہوئی کہ وہ اپنا مکان ہے +منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا +جو دشت آشنا تھا ستارہ کہیں کا تھا +میں جس سے سمت پوچھ رہا تھا کہیں کا تھا +حیرت ہے ج�� رہا ہے ترے شہر کی طرف +کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ ، کہیں کا تھا +سوکھے ہوئے شجر کو دکھاتی تھی بار بار +پاگل ہوا کے ہاتھ میں پتا کہیں کا تھا +بس دوپہر کی دھوپ نے رکھا تھا جوڑ کے +دیوارِ جاں کہیں کی تھی سایہ کہیں کا تھا +وہ آئینہ بھی میرا تھا، آنکھیں بھی اپنی تھیں +چہرے پہ عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا +کیا پوچھتے ہو کتنی کشش روشنی میں ہے +آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا +شاید میں رہ رہا تھا کسی اور وقت میں +وہ سال وہ مہینہ وہ ہفتہ کہیں کا تھا +میڈ اِن فرانس لکھا تھا پیکج پہ وصل کے +لیکن بدن کے بام پہ جلوہ کہیں کا تھا +صحرا مزاج ڈیم کی تعمیر کے سبب +بہنا کہیں پڑا اسے ، دریا کہیں کا تھا +کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے رات کی +کچھ اس کا انتظار بھی کتا کہیں کا تھا +کچھ کچھ شبِ وصال تھی کچھ کچھ شبِ فراق +آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا +اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان +منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا + + +جس نے دل میں عشق محمد بسا لیا اس نے اپنا مقدر چمکا لیا وہ سرکار دو عالم رحمت العالمین ہیں وہ سرور کو نین خاتم النبین ہیں یہ نام اتنا عظیم ہے ہاشم جس نے جو مانگا وہ در حضور سے پالیا..‏‎ ‎‏ ‏‎.‎وہ شاہوں کا شاہ ‏‎ ,‎وہ امام الاانبیا‎, ‎خاتم المرسلین>وہ محمد مصطفی..میں ایک بندہ حقیر پر تفسیر ہوں ان کے آگے ہے میری کیا مجال>میں گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا عاصی گنہگار نہ تدبیر بدل سکتی ہے تقدیر کو،تقدیر میں جو لکھا ہو،وہی ملتا ہے ہر سو وہ قوم میں کھبی منزل کو پایا نھیں جوگھبراتی طوفانوں سے، برے وقت میں جو بھاگ جاتی ہیں میدانوں سے + + +بات کی تو جاَئے گی'' + + +لیڈرشپ ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فردِ واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہیں + + +یہ کتاب القلم کے معزز رکن عظیم احمد نے القلم کے قارئین کے لیے ترتیب دی ہے اور انہوں نے اس کتاب میں موجود مواد مختلف مستند کتابوں سے کشید کیا ہے اس کتاب کا خصوصی موضوع لیڈرشپ ہے ۔ یہ کتاب خاص طور پر القلم کے قارئین کے لیے مرتب کی گئی ہے ۔یوں اس کتاب کی اولین طباعت و اشاعت القلم ہی کے زیر اہتمام ہو رہی ہے۔ + + +اس کتاب کا ضابطہ صرف اتنا ہی کہ یہ کتاب افادہ عامہ کے لئے ہے۔ جو دوست اس سے مستفید ہونا چاہیں یا اس میں اضافہ و تدوین وغیرہ کر کے اسے بہتر بنانا چاہیں، انہیں ایسا کرنے کی پوری اجازت ہے۔ البتہ وہ اس کتاب کا ترمیم شدہ ایڈیشن القلم کو فراہم کرنے کے پابند ہونگے۔ نیز القلم کے واٹر مارک کو برقرار رکھیں گے یا کم از کم بطور ناشر القلم ریسرچ لائبریری کا ذکر کریں گے۔ +القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں +==القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں +اردو ادب کو انٹرنیٹ پر ایک منفرد مقام دلانے اور اسے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانے میں ہمارا ساتھ دیں ہمیں ضرورت ہے ایسے رضاکاروں کی جو اپنی زبان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں جو اپنی زبان کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں مل رہا ہمارا ساتھ دیں +آپ ا پنی شائع شدہ یا غیر شائع شدہ کتابیں ہمیں بھیج سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ برقی کتاب یا ای بک کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کم از کم سو صفحات کی کتاب ہی تیار کریں۔ بیس پچیس غزلوں نظموں یا پانچ سات افسانوں یا مضامین کی بھی ای بک تیار کی جا سکتی ہے۔ یا ایک بڑی کتاب کی دو تین مختصر ای بکس بنا کر برقی اشاعت (ای پبلشنگ) کی جا سکتی ہے۔۔ +اپنی کتابوں کی سافٹ کاپی (کمپیوٹر فائل) ان پیج یا اردو تحریر۔ ورڈ یا ٹیکسٹ (یو ٹی ایف۸) فارمیٹ میں ہمیں ای میل کریں۔ + + +ویبسٹر کی ڈکشنری کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ سے مراد ’’رہنمائی کرنے کی اہلیت‘‘ ہے۔ میرین کورز (Marine Corps) کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فردِ واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ +لیڈرشپ کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ کوئی لیڈر اپنے کام میں کتنا بھی ماہر کیوں نہ نظر آئے، اس کی راہ ہمیشہ چیلنجز اور حیرتوں سے پُر ہوتی ہے۔ تاہم، لیڈر چیلنج کا مقابلے کبھی بھی تنہا نہیں کرتا۔ قیادت کی تعریف ہی یہی ہے کہ قائد کے ساتھ ایک گروہ یا تنظیم ضرور ہوتی ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہر ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہوتی ہے۔ لیڈر کا کام بھی ہر مسئلے کو تن تنہا حل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی اقتداء کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے تحریک فراہم کرنا ہوتا ہے۔ +اچھے لیڈروں کو علم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے اور وہ اپنے کام کے حوالے سے مسلسل سیکھتے رہتے اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ماں کے پیٹ سے لیڈر بن کر کوئی نہیں آتا، سب اپنے ہاتھوں سے اپنی قائدانہ صلاحیت کو تعمیر کرتے ہیں۔ ان صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سوچتے رہئے کہ یہاں بتائے گئے اصولوں کو آپ خود اپنی ذات پر کیسے منطبق کر سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ اصول صرف سیاسی لیڈروں پر لاگو نہیں ہوتے، ہر طرح کے لیڈر کے لئے ان کی افادیت یکساں ہے۔ آپ کسی کاروبار کی قیادت کر رہے ہوں، کسی حکومتی شعبے کا انتظام و انصرام کر رہے ہوں یا محض ان اصولوں کو اپنے گھر کی حد تک آزمانا چاہتے ہوں، یہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔ +جب ہم کامیاب، اعلیٰ مرتبے کے حامل قائدین بارے میں سوچتے ہیں تو ہم ابراہم لنکن یا قائداعظم محمد علی جناح جیسے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں، جنہوں نے مشکل ادوار میں اپنی قوم کی رہنمائی کی، یا پھر بل گیٹس کے بارے میں جو کالج کی تعلیم مکمل کئے بغیر مائیکروسافٹ کا بانی بنا اور دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا۔ +اپنے ذاتی میدان یا شعبے کے حوالے سے شاید آپ بھی ایک دو ایسے افراد کے نام گنوا سکیں جو کامیاب لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں، ایسے لوگ جو نابغہ روزگار معلوم ہوتے ہیں اور جن میں معاملات کو سدھارنے اور اپنے ماتحتوں کو متحرک کرنے کا ایک غیرمحسوس وصف ہوتا ہے۔ +لیڈروں میں یہ اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہدف کا تعین کریں، اس ہدف کو حاصل کرنے میں دوسروں کو اپنی اعانت کرنے پر آمادہ کریں، اور پھر اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے اسے فتح سے ہمکنار کرا دیں۔ مگر قیادت کی تعریف ہے کیا؟ +قیادت کی کوئی ایک متعینہ تعریف نہیں ہے۔ ایک مؤثر لیڈر بننے کے لئے اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قیادت کے بارے میں چند عمومی تصورات اور تعریفات کچھ یوں ہیں: +٭ کسی گروہ، ٹیم یا تنظیم کا مقررہ سربراہ ایک لیڈر ہوتا ہے۔ +٭ لیڈر ایک کرشماتی فرد ہوتا ہے جو عمدہ فیصلے کرنے اور دوسروں کو ایک مشترکہ مقصد حاصل کرنے کے لئے متحرک کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ +٭ بھرپور انداز میں دوسروں کو اپنی بات سمجھانے اور انہیں متحرک کرنے کا نام قیادت ہے۔ +٭ دوسروں پر اثر ڈالنے کی صلاحیت کا نام قیادت ہے۔ +یہ تمام تعریفات اپ��ی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ تاہم ان سب میں ایک بات مشترک ہے: قیادت میں صرف ایک ہی فرد کارفرما نہیں ہوتا۔ +اگر افراد کا ایک گروہ آپ کی پیروی نہ کررہا ہو، آپ کی ہدایات پر عمل نہ کر رہا ہو اور آپ پر اعتماد نہ کر رہا ہو تو آپ لیڈر نہیں ہو سکتے۔ یاد رکھئے کہ ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنے ماتحتوں، اپنی ٹیم، اپنی تنظیم، اپنے گروہ یا اپنی جماعت کو منصفانہ طور پر اور اخلاقی اصولوں کے ماتحت چلانے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ’’باس‘‘ یا ’’چیئرمین‘‘ کا خطاب مل جانے سے آپ لیڈر نہیں بن جائیں گے۔ +اچھا لیڈر بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ قیادت کے نئے رجحانات کا مطالعہ کر کے اور دوسروں لیڈروں کا مشاہدہ کر کے (بشمول ان کے جو آپ کی اپنی جماعت میں موجود ہیں اور ان کے جو کہ خبروں میں نظر آتے ہیں) اپنی ذات کو مستحکم کریں اور یہ بات تسلیم کریں کہ تجربہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی قیادت کا انداز بھی بدلتا جائے گا۔ +مقصدیت اور مقصد، کامیاب لیڈر شپ کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ تمام تعاریف سے قطع نظر لیڈر کے پاس ایک قابل اعتناء مقصد کا ہونا ناگزیر ہے۔ واضح مقصد کی عدم موجودی میں، لیڈرشپ اپنی سطح سے گر کر ذاتی جاہ و عظمت کے حصول کی کوشش کا روپ اختیار کر سکتی ہے۔ مثلاً پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنے سے آپ کا مقصد محض ایک اہم سیاسی لیڈر کی حیثیت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے بجائے، آپ کے پاس کوئی واضح مقصد ہونا چاہئے جیسا کہ حکومت کا حجم کم کرنا یا ایسی پالیسیوں کو ختم کرنا جو کہ عوام کے لئے ضرر رساں ثابت ہو رہی ہیں۔ +’’تلوار کی دھار‘‘ میں ڈیگال لکھتے ہیں کہ ایک لیڈر میں اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ اس کے ماتحت افراد اس پر اعتماد کر سکیں۔ اسے اپنا تحکم و اختیار منوانے کے قابل ہونا چاہئے۔ +لیڈرشپ کی ایک قسم وہ بھی ہے جسے ’’باہم اتفاقِ رائے کی لیڈرشپ‘‘ بھی ہوتی ہے۔ اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنے سے پہلے میں ’’باہم اتفاقِ رائے‘‘ کی تعریف کا تعین کرنا چاہوں گا۔ کیا سیاسی حلقوں کے اندر اور ان سے باہر اس تصور کے اطلاق میں کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ جب کوئی تجارتی لیڈر یا کوئی سیاسی لیڈر ’’اتفاقِ رائے پیدا کرنے والا‘‘ کہہ کر پکارا جائے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ +اولاً، لیڈر وہ ہوتا ہے جس کی پیروی دوسرے کریں۔ یہ ایک ایسا فرد ہو سکتا ہے جس کی ذات سے وہ اپنے فیصلوں کے لئے رہنمائی طلب کریں یا جس کی ہدایات پر وہ عمل کریں۔ +ثانیاً، لیڈر کو متحرک اور قوت آفریں ہونا چاہئے۔ ایک عظیم لیڈر وہ ہوتا ہے جو خود راستے سے ہٹنے اور دوسروں کو رہنمائی کرنے کا موقع دینے کے ہنر سے واقف ہوتا ہے۔ لیڈر شپ کا مطلب ہمیشہ عنانِ اختیار سنبھالے رہنا نہیں ہوتا، اس کا مطلب اجتماع، نظریئے اور حقیقت کے ماتحت کام کرنا ہوتا ہے۔ نکسن کا کہنا ہے کہ بعض عظیم لیڈر ایسے بھی ہوتے ہیں جو پس منظر میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ وہ قوت آفریں ہوتے ہیں کیونکہ راہِ حیات کوئی ہموار رستہ نہیں بلکہ ایک ہمیشہ متغیر رہنے والی صورتِ حال ہے جسے ہینڈل کرنے کے لئے حالات کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں اٹھائے جانے والے قدم پہلے سے سوچے سمجھے نہیں ہوتے، صرف ’’عمل کرنے کا انداز‘‘ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ تجسس اور تیقن اس ضمن میں بہترین مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ +ثالثاً، ایک لیڈر کو ان کی خدمت کرنے پر کمربستہ ہونا چاہئے جو اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان کے تجربے اور سوچ کو استعمال کرنا اور انہیں ضروری وسائل فرا��م کرنا، سب سے اہم ہے۔ +تمام سیاسی جماعتیں اور متعلقہ تنظیموں کو چاہئے کہ اپنے ارکان کے وعدوں اور ان وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی فہرست تیار کریں۔ تب اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے گا کہ آیا وہ مختلف اوقات میں کئے گئے اپنے وعدوں پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ +ایسا کرنے سے ہر جماعت مستقبل کے لئے اپنی صلاحیتوں اور کمزوریوں کا تعین کرنے کے قابل ہو سکے گی اور اس کے ساتھ ساتھ کرنے کے کاموں کے ناممکن ہونے یا نظرانداز کئے جانے کی وجوہات کا پتہ چلانے کے بھی۔ اگر عوام کو وسیع پیمانے پر ان اوامر سے آگاہ کیا جا سکے تو یہ کسی بھی سیاسی جماعت کے مستقبل کے لئے نفع مند ہوگا۔ +==حقیقی لیڈر کون ہوتے ہیں؟== +حقیقی لیڈر وہ ہوتے ہیں جن میں کسی معاشرے کے انفرادی ارکان کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کا پتہ چلانے کے لئے ضروری مگر کمیاب ذہانت اور دوراندیشی کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں، تب وہ انفرادی مفادات کو ازسرنو ترتیب دے کر انہیں اجتماعی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں شامل کرنے اور میڈیا کے ذریعے انہیں معاشرے کے مختلف طبقات کے سامنے ایسے انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں جس سے ان کے جذبات کو تحریک ملے اور وہ اس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ +کسی مضبوط لیڈر کا تصور کرتے ہی ہمارے پردئہ تخیل پر ایک ایسے فرد کی تصویر ابھرتی ہے جو لوگوں کو مختلف گروہوں میں منقسم نہیں کرتا یا جو زورِ خطابت یا دوسرے جذباتی حربوں سے لوگوں کو اپنے مقام کا قائل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ لیکن اس کے بجائے، مضبوط لیڈر دیانتداری، باہمی ہمدردی اور ایک بہترین سامع ہونے کی اہلیت کو استعمال کرتا ہے تاکہ وہ مسائل کے ایسے حل نکال سکے جو عوام کے ایک بڑے حصے کے لئے قابل قبول ٹھہریں۔ +لیڈر شپ کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے معاشرتی فرائض قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں خود کو اور اپنے منتخب کردہ اہلکاروں کو شہریوں کے نمائندہ کی حیثیت سے کئے گئے فیصلوں کے لئے قابل مواخذہ سمجھنا چاہئے۔ جب کسی مسئلے کے پیدا ہونے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے کسی کی تلاش ہو تو آئینہ دیکھئے اور خود سے پوچھئے۔ ’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ +آنے والے لیڈروں کے پاس مستقبل کے لئے ایک تصور، اس خطے کے حسن اور انفرادیت کا گہرا احساس، دوسروں کے ساتھ افہام و تفہیم پیدا کرنے اور مل کر کام کرنے کی اہلیت، اپنے پیروئوں کے لئے احترام کا ہونا لازم ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ حیثیت میں ایسی قربانیاں دینے پر آمادہ ہونا چاہئے جو کہ لیڈر بننے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ +یہ سب تصورات زمانہ ماضی سے لے کر زمانہ حال تک رائے دہندگان کے حمایت کردہ خیالات اور اقدار کی بڑی فصاحت سے نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم یہ واحد کلئے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ لیڈر شپ ان سے آگے بڑھ کر، رائے دہندگان کے خیالات اور اقدار سے اکتساب کرنے اور ان کی نمائندگی کرنے کا نام ہے۔ +’’قائدانہ صلاحیت‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا تو بہت زیادہ جاتا ہے لیکن یہ حقیقت میں ہے کیا؟ لیڈر ایسا کیا کرتے ہیں جو انہیں لیڈر بنا دیتا ہے؟ کیا قائدانہ صلاحیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں؟ +جی ہاں، قائدانہ صلاحیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں یعنی لیڈر شپ سیکھی جا سکتی ہے۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کیونکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں حقیقی لیڈروں کی جتنی سخت ضرورت ہے، اتنی ہی سخت قلت بھی ہے۔ +اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے اپنی تنظیم کے مقاصد کے حصول سے ہٹ کر، ایک لیڈر کی سب سے بڑی ذمہ داری نئے لیڈر تیار کرنا ہوتی ہے۔ حقیقی قیادت کا تقاضا ہی یہی ہے کہ آپ اپنے ماتحتوں کو بھی لیڈر بنا دیں۔ +ایک قائد کی حیثیت سے آپ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اپنے ماتحتوں کی سرپرستی اور ان کی نمو کرنا ہے تاکہ کسی وقت، ضرورت پڑنے پر، وہ آپ کی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو آ پ کی تنظیم یا جماعت شاید اس وقت تک ہی زندہ رہ پائے جب تک کہ آپ اس کے لیڈر ہیں۔ +آپ سے تربیت پانے والے افراد، وہاں سے کام کا آغاز کریں گے، جہاں آپ چھوڑ کر جائیں گے اور آپ کے مقصد کو اتنی آگے لے جائیں گے، جہاں تک آپ اسے تن تنہا پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کی جماعت یا تحریک کو زندہ رہنا اور پھلنا پھولنا ہے تو آپ کو اس کے ارکان کو بھی لیڈر بننے کی تربیت دینا ہوگی۔ +کمتر درجہ کے لیڈر، دوسروں کی قائدانہ صلاحیتوں کی نمو نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر نئے لیڈر ان کی اپنی حیثیت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ اپنی جماعت، اپنے مقصد اور خود اپنی بہبود کے لئے اس اندیشے سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ ویسے بھی، خود سوچئے کہ ایک جماعت کے لئے کون زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے، ایک لیڈر یا ایک ایسا لیڈر جو دوسروں کو بھی لیڈر بنانے کا اہل ہو؟ +لہٰذا جب آپ خود لیڈر بن جائیں تو لیڈرشپ کو وسعت دیں۔ اسے اپنی ترجیح بنائیں۔ +نہرو اپنی کتاب ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ایک فرد اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بدولت ترقی کر سکتا ہے لیکن یہ قابلیت اور صلاحیت اسے حاصل کیسے ہو؟ ایک لڑکا یا لڑکی بہت ذہین ہو سکتے ہیں اور مناسب تعلیم اور تربیت کی مدد سے ایک ہوشیار اور دانا فرد کا روپ اختیار کر سکتے ہیں لیکن اگر تعلیم یا تربیت ہی دستیاب نہ ہوگی تو وہ بیچارہ لڑکا یا لڑکی کیا کریں گے؟‘‘ +آیئے، ہم اس لیڈر پر تبادلہ خیال کریں جو ہم سب کی ذات میں موجود ہے۔ ہم ان صلاحیتوں کی نمو کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم ان سے فائدہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ +ہم اپنے نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کیسے کر سکتے ہیں؟ +ہم اپنے علاقے، شہر، ریاست اور قوم پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے کیسے اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ میرا یقین ہے کہ عدم مرکزیت کے اس دور میں، ہم میں سے ہر ایک میں اتنی قوت اور اہلیت موجود ہے کہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ اپنی توقع اور امید سے بڑھ کر کر سکیں۔ +نظریاتی تعریف کے مطابق، قیادت ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کی وہ اہلیت ہے جو انہیں عوام کو متاثر کرنے اور ان کے تجویز کردہ راستے کو درست سمجھنے پر آمادہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے، ماسوائے اس صورت کے کہ جب ایک لیڈر اپنی حیثیت و مرتبے کے غرور میں اتنا مست ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو اپنی جماعت یا انتخاب کنندگان کے سامنے جوابدہ قرار دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ بعض رومانی یا فسطائی فلسفوں کے مطابق، قیادت ایک خصوصی حیثیت حاصل کر سکتی ہے لیکن عام جمہوری سیاست میں اسے سیاسی عمل کا ایک عمومی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ +بعض اوقات کسی پارٹی کا حکمران طبقہ لیڈر تصور کر لیا جاتا ہے۔ سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی اپنی اجتماعی لیڈر شپ پر زور دیتی رہی۔ بہت سے ملکوں میں، خصوصاً ایسے ممالک جنہوں نے حال ہی میں آزادی حاصل کی ہے اور جن کی جدید تاریخ میں قومیت پرستانہ جدوجہد شامل ہے، لیڈر کو عوام اور قوم ��ی اجتماعی شکل تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم تیسری دنیا کے ممالک میں، پائیدار سیاسی اداروں اور معاشی ترقی کی عدم موجودی میں لیڈرشپ کو طویل عرصے تک برقرار رکھنا اکثر ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں، رقبے کی وسعت، آبادی کے حجم اور ملک کے مختلف حصوں میں مختلف زبانیں رائج ہونے کے باوجود بھارت میں ہمیں سیاسی عمل، قیادتوں، سسٹم اور حکومتوں کی کامیابی کے تسلسل کی ایک عمدہ مثال نظر آتی ہے۔ +ماہرین عمرانیات عموماً سیاسی قیادت کو ایک ’’تابع متغیر‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مخصوص دور اور جگہ میں ممکنہ قیادت معاشی، معاشرتی اور سماجی حالات کے تحت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ جزوی طور پر اس تعریف کو درست قرار دیا جا سکتا ہے اور سیاسی لیڈر وں کو حالات کی پیداوار قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ مفروضہ سیاسی عمل کی ایک اور حقیقت کو نظرانداز کرتا ہوا نظر آتا ہے، وہ یہ کہ بعض اوقات سیاسی قیادت ایک ’’خودمختار متغیر‘‘ کی حیثیت بھی حاصل کر لیتی ہے۔ایسی قیادت معاشرے میں ایک عمل انگیز کا کام کرتے ہوئے معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا سبب بنتی ہے۔ہوچی منھ اور مائوزے تنگ جیسے لیڈروں نے اپنے معاشروں کو ایک واضح سمت اور صورت دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ قیادت کو ایک خودمختار متغیر قرار دینے کے نظریئے پر یقین رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ تاریخ کا رخ بدلنے میں لیڈروں کا کردار فیصلہ کن حیثیت رکھتا نظر آتا ہے۔ +سیاست جدید میں، سیاسی قیادت اور طرزِ حکومت کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے، مشہور جرمن ماہر عمرانیات ماکس ویبر کی متعین کردہ درجہ بندی بے حد کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ویبر نے یہ کلیہ اخذ کیا کہ بعض افراد محض عادت کی بناء پر سیاسی قیادت کا اتباع کرتے ہیں، بعض کسی مخصوص شخصیت سے وابستگی کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں اور بعض اس لئے کہ سیاسی قیادت ان کے کسی نجی یا عوامی مفاد کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں یہ تینوں طرزہائے حکومت، مختلف انداز میں نظر آتے ہیں لیکن ویبر کی تشخیص کے مطابق، ان میں سے کوئی ایک، کسی ایک معاشرے میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ +لہٰذا ویبر کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ہمیں لیڈرشپ کی تین منطقی اور مثالی اقسام نظر آتی ہیں۔ ایسے افراد جو محض عادت کی بناء پر کسی روایتی قیادت کو قانونی حیثیت دیتے ہیں، ایسے افراد جو کسی پُرکشش شخصیت سے وابستگی اور اعتماد کی بناء پر اسے قانونی حیثیت دیتے ہیں اور ایسے افراد جو اپنے مفادات کی بناء پر کسی قیادت کو منطقی اور قانونی قرار دیتے ہیں۔ جدید سیاست میں، پہلی درجہ بندی پر پورا اترنے والے قائدین میں ہمیں مذہبی لیڈر، قبیلے کے سردار، بادشاہ، جاگیردار اور اس قبیل کے دوسرے افراد نظر آتے ہیں۔ دوسری درجہ بندی میں ہمیں مائوزے تنگ، سوئیکارنو، کوامے انکروما، فیڈل کاسترو اور قائداعظم محمد علی جناح جیسی ممتاز شخصیات ملتی ہیں اور تیسری درجہ بندی میں جدید بیوروکریسی کی مختلف اشکال کے روپ قیادت و اختیار کے مراکز نظر آتے ہیں۔ ایسا عموماً ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ +آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک میں قیادت کی کون سی قسم زیادہ مروج و مقبول رہی ہے۔ +ویبر کے بیان کردہ طرز ہائے قیادت کو درست تسلیم کرنے کے باوجود، پاکستان کے معاملے میں ان میں چند ترامیم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جاگیردار، اپنے وجود کے لئے نوآبادیاتی آقائوں کے شرمندئہ احسان تھے اور بنیادی طور پر سسٹم میں اپنی موجودی اور کردار کے لئے ’’ریاستی ڈھانچے‘‘ پر انحصار کرتے تھے۔ اپنے ’’مقامی سیاق و سباق‘‘ میں وہ روایتی حکومت و اختیار کی نمائندگی کرتے تھے لیکن قومی سطح پر اپنی اہمیت منوانے کی اہلیت ان میں بہت ہی کم تھی۔ عموماً نوآبادیاتی حکمران اس طبقے کو اپنے اشاروں پر نچاتے تھے اور نوآبادیاتی نظام کے ختم ہو جانے کے باوجود یہ نظام العمل کم و بیش اپنی ابتدائی حالت میں آج بھی برقرار ہے۔ +اسی طرح مذہبی عمائدین اور پیر حضرات اپنے لوگوں کے درمیان بے حد اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور مختلف سطحوں پر اس رسوخ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے قائدین نے اپنے زبان و بیان کے جواہر کے ذریعے عوام پر اثرانداز ہو کر سیاسی لیڈروں کو کافی مدد پہنچائی ہے لیکن آج تک پاکستان میں کسی مذہبی لیڈر نے اعلیٰ قیادت و اختیار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ قبائلی سرداروں کو یا تو ساتھ ملا لیا جاتا ہے یا حکومتی عوامل کی مداخلت و نفوذ کی مزاحمت کرنے کی پاداش میں مستوجب سزا ٹھہرایا جاتا ہے۔ (روایتی اقتدار، قوت کا خودمختار مرکز نہیں ہوتا۔) +چونکہ پاکستان کو اپنے قیام کے ابتدائی سالوں کے دوران ہی دو اہم سیاسی شخصیات سے محروم ہونا پڑا، لہٰذا کوئی ایسی شخصیت سامنے نہ آ سکی جو اپنی کشش کی بدولت پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہو سکتی۔بعد ازاں، ایک کرشماتی شخصیت کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ سامنے آئی۔ ان کی کوششیں ’’ممکنات کے فن‘‘ کی حیثیت سے سیاسیات کی جانب جانے والی درست راہ پر اگرچہ ایک قدم تھیں لیکن ان کے دورِ حکومت کے اختصار نے پاکستانی نظامِ حکومت پر کہیں زیادہ دور رس اثرات مرتب کئے۔ +جہاں تک ویبر کی بیان کردہ تیسری حکومتی قسم یعنی منطقی قانونی طرزِ حکومت کا تعلق ہے، ہمارے ملکی سیاق و سباق میں بیوروکریسی کی موجودی کو ویبر کے نظریئے سے یکسر مختلف انداز میں دیکھنا پڑے گا۔ نوآبادیاتی حکمرانوں نے سول اور ملٹری اداروں کو بنیادی طور پر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے قائم کیا تھا۔ یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ سول بیوروکریسی نے اپنے قیام کے مقاصد بڑی خوش اسلوبی سے پورے کئے اور یہاں قیام کے 150 سالوں کے دوران نوآبادیاتی حکمرانوں کو کبھی پورے ملک میں مارشل لاء لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ جن عقائد و نظریات پر بیوروکریسی کے اس قلعے کی بنیاد رکھی گئی تھی، انہیں ایک ’’آزاد ملک‘‘ کی ضروریات اور توقعات کے مطابق تبدیل کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہ کی گئی۔ درحقیقت، مختلف عوامل کے زیراثر بیوروکریسی اپنے کردار کو وسعت دیتی رہی اور مارشل لاء پاکستان میں ایک معمول بن کر رہ گیا۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی بار بار مسند اقتدار پر پر قابض ہوتی رہی اور ایسا کرنے میں منطقی قانونی طرزِ حکومت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئی۔ (قوت و اختیار کے حقیقی حاملین کی حیثیت سے بیوروکریسی کے کردار کو خصوصی پاکستانی سیاق و سباق میں سمجھنا ہوگا)۔ +ہمیں ویبر کے پیش کردہ مثالی طرز ہائے حکومت سے پرے ہٹ کر پاکستانی سیاسی تھیٹر کے اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا تاکہ ہم بڑے سیاسی لیڈروں (درحقیقت حکمرانوں) کی شناخت کر سکیں۔ +پاکستان کو وائسریگل سسٹم ورثے میں ملا اور 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں ترمیم کے بعد اسی نظام نے کام کرنا شروع کر دیا۔ ابتدائی سالوں میں، مغربی پاکستان میں تین حکومتیں برطانوی آئی سی ایس افسران نے تشکیل دیں۔ مشرقی پاکستان میں ’’چیف سیکرٹری‘‘ گورنر جنرل کے نمائندے کی حیثیت سے منتخب وزیراعلیٰ کی سرگرمیوں کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ برطانوی راج کے معمولات اب بھی برقرار تھے۔ دو بڑے سیاسی لیڈروں کی رحلت کے بعد، بیوروکریسی اس پوزیشن میں آ گئی کہ دوسروں کو اپنے اشاروں پر نچا سکے۔ 1951ء سے 1956ء کے دورانئے میں، غلام محمد (بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی، چوہدری محمد علی (بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے 1956ء کا آئین پیش کیا، سکندر مرزا (بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے ایوب خان کو مارشل لاء لگانے کا موقع دیا اور ایوب خان (فوجی بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے اکتوبر 1958ء میں اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ +صاف نظر آتا ہے کہ 50ء کی دہائی میں کلیدی عہدوں پر فائز بیوروکریٹ اقتدار میں رہے اور وہی ایسے فیصلے کرنے کے سب سے بڑے ذمہ دار تھے جنہوں نے ملکی مستقبل پر دوررس اثرات مرتب کئے۔ ان بیوروکریٹس کے پاس اقتدار تو تھا لیکن سیاسی قیادت کے حامل ہونے کے ضمن میں ان کا دعویٰ خاصا مشکوک تھا۔ چوہدری محمد علی کبھی کسی گروہ یا گروہوں کے لیڈر نہیں رہے نہ ہی نظامِ اسلام پارٹی کی مرکزی قیادت نے کبھی انہیں اپنا لیڈر تسلیم کیا۔ چونکہ یہ بیوروکریٹ کسی طرح سے بھی سیاسی قوتوں کے نمائندہ نہیں تھے، اس لئے انہیں پاکستانی سیاست کے ڈھانچے سے غیرمتعلق قرار دے دیا گیا۔ +60ء کی دہائی میں ملٹری بیوروکریٹس کی حکمرانی رہی جنہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین فیصلے کئے۔ ایوب اور یحییٰ دونوں کے پاس بے پناہ قوت و اختیار موجود تھے لیکن انہیں سیاسی لیڈر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ +ضیاء کا دورِ حکومت بھی ایک ایسے ملٹری بیوروکریٹ کا دورِ حکومت تھا جس نے 1973ء کے آئین کے تحت قائم ہونے والے سیاسی نظام میں خلل اندازی کی۔ محمد خان جونیجو محض ضیاء کے ہاتھوں برخواست ہو کر گھر جانے کے لئے وزیراعظم بنے۔ 1988ء کے انتخابات کے نتائج نے غلام اسحاق خان (بیوروکریٹ) کو ملک کا صدر بنوایا۔ آٹھویں ترمیم کی پشت پناہی اور اعانت کے ذریعے، انہوں نے اسمبلیاں توڑیں اور وزیراعظم کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں، محترم نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی حکومتیں بھی تحلیل کی گئیں اور بالآخر 1999ء میں فوج نے پرویز مشرف کے زیرسربراہی دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔ +اس کے بعد 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں عوامی جذبات کا ایک طوفان اٹھا جس نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو ختم کر دیا اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھر جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ اگرچہ پاکستان کے منظرنامے پر ابھی کوئی ایسا لیڈر نمایاں نظر نہیں آتا جو پوری قوم کو ایک جھنڈے تلے متحد کر سکے تاہم بعض ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے کوئی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔ کسی کا نام لینا نامناسب ہوگا، اس کا فیصلہ ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ + + +* لیڈر شپ کی تعریف +* حقیقی لیڈر کون ہوتے ہیں؟ +* قائدانہ صلاحیتوں کی نمو +* اپنے آپ پر اعتماد +* حکمت اور معاملہ فہمی +* اس حوالے سے چند مشورے حسب ذیل ہیں +* اپنی ٹیم کی کامیابی کی تشہیر کرنے کے چند طریقے یہ ہیں +* نصب العین کا تعین +* نصب العین کی تشریح +* ٹیم ورک کی اہمیت سمجھئے +* دوسروں کو ذمہ داری لینا سکھایئے +* دوسروں پر اعتماد کیجئے، چاہے تھوڑا سا ہی سہی +* ضروری علوم حاصل کیجئے +* خود کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھئے +* ساتھیوں کا خیال رکھئے +* بروقت فیصلہ کرنا سیکھئے +* کام اسے دیجیے جو اس کا اہل ہے +* ک��دار نہایت اہم ہے +* لیڈر کیسا ہونا چاہئے؟ +* فخر کا ایک اجتماعی احساس +* منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں؟ +* یاد رکھنے کے لئے چند باتیں +* لیڈرشپ خواتین کے لئے +* خواتین میں لیڈرشپ کی نمو +* وہ جن سے سبق لیا جا سکتا ہے +* نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم +* قائداعظم محمد علی جناح +* محترمہ بے نظیر بھٹو شہید +* ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور + + +لیڈر وہ ہوتا ہے جو متحرک کرتا ہے، جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کی جماعت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں، اور جو کہ مختلف النوع افراد کی ایک ٹیم کو ایک مشترکہ مقصد کے لئے کام کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے۔ لیکن اگر سب مینیجر لیڈر نہیں ہوتے تو پھر ایک لیڈر میں وہ کون سی خاصیت ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے؟ +شخصی کشش ایک ایسی خاصیت ہے جسے غلط فہمی کی بناء پر اکثر سب سے زیادہ ضروری لازمہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ تاہم، اگر آپ مندرجہ ذیل اوصاف کو پیدا کرنے کے لئے محنت کریں تو شخصی کشش زیادہ آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے: +اپنے کام کے متعلق حقائق سے باخبر رہئے اور انہیں استعمال کیجئے۔ ضروری ہے کہ ایک لیڈر کو اپنے کام کی تفصیلات کا علم ہو تاکہ وہ پوری تنظیم کے لئے کام کر سکے۔ +جزئیات پر زور مت ڈالئے، مطلب یہ کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بہت زیادہ توجہ دینے پر اصرار نہ کیجئے۔ اگر آپ کے ماتحتوں کو ایسا لگے کہ آپ ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتے ہیں تو اس سے عدم اعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا۔ اس بات سے ضرور باخبر رہئے کہ دوسرے کیا کام کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ احساس مت دلایئے کہ آپ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ +اگر کسی لیڈر کے ماتحت، اورا س کے بالادست حکام، اس پر اعتماد نہیں کرتے تو وہ ناکام ثابت ہوگا۔ ٹیم کے لوگ جلد ہی ایسے شخص سے کترا کر کام کرنا سیکھ لیتے ہیں جس پر وہ اعتماد نہیں کرتے یا جو اپنے وعدے پورے نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر، اگر ایک لیڈر اپنے ماتحت کے سامنے کوئی اور بات کرے اور اس کا عمل کوئی اور ہو تو اس پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا، خواہ بات دیکھنے میں کتنی معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ +ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کی عوامی اور نجی زندگی کو قابل تقلید ہونا چاہئے۔ خود کو ایک مثال بنئے۔ اگر آپ اپنے ماتحتوں سے ایک خاص طرح کے رویئے کی توقع کرتے ہیں مگر خود ویسے رویئے کا مظاہرہ نہیں کرتے تو آپ کا وقار مجروح ہوگا۔ اگر کارکن لیڈر پر اعتماد نہیں کرے گا تو کام کا معیار یقینا متاثر ہوگا۔ +فیصلہ کرنے کی اہلیت، خصوصاً انتہائی دبائو کے عالم میں فیصلہ کرنا ایک لیڈر کا نہایت قابل قدر وصف ہوتا ہے۔ جب کوئی مشکل فیصلہ درپیش ہو تو اس ہدایت کو ذہن میں رکھئے جو آپ کو شروع میں دی گئی ہے۔ آپ کے پاس کام کے بارے میں مکمل حقائق ہونے چاہئیں، تبھی آپ صحیح اور آسان فیصلہ کر پائیں گے۔ +لیڈر اس لئے منتخب کئے جاتے ہیں تاکہ وہ ایک ٹیم، ایک تنظیم یا ایک جماعت کی قیادت کریں۔ اکثر آپ کو ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوگا جہاں آپ کے ساتھی آپ کے ہمراہ نہ ہوں گے، مثال کے طور پر، جماعتی سطح پر کوئی اعلیٰ سطحی میٹنگ۔ یہاں آپ کا شخصی تحکم ان کارکنوں کا نمائندہ اور آئینہ دار ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کی ذات پر اعتماد کیا ہے۔ +حقیقت پسندی کا دامن مت چھوڑیئے، مگر ہر کام تقدیر پر مت چھوڑ دیجیے۔ اگر آپ ہر معاملے میں قنوطیت یا منفی سوچ کا مظاہرہ کریں گے تو آپ کے ماتحت اور بالادست دونوں کا آپ پر اعتماد جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ صورتِ حال ہمیشہ مثالی نہیں ہوتی، مگر لیڈر کی حیثیت سے آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ صورتِ حال کو بہتر سے بہتر انداز میں تبدیل کر سکیں۔ اسے پوری طرح سے سمجھئے اور اس کے مثبت پہلوئوں پر توجہ مرکوز کیجئے۔ +لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے اہداف مقرر کرے جن کو حاصل کرتے ہوئے ٹیم ایک خاص سمت میں پیش قدمی کرتی جائے۔ لیڈر کی سوچ وسیع ہونی چاہئے تاکہ وہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اہداف کا تعین کر سکے اور اس کی بدولت اس کی ٹیم درست سمت پر اور قابل اطمینان رفتار پر نمو پائے۔ +اب جبکہ آپ نے پڑھ لیا ہے کہ ایک لیڈر میں کیا اوصاف ہونے چاہئیں، اب جلدی سے ایک نگاہ ان اوصاف پر ڈالتے ہیں جو ایک لیڈر میں نہیں ہونے چاہئیں۔ +جیسا کہ پہلے ذکر کیا جائے، ہر چھوٹی چھوٹی بات کو اپنا دردِ سر مت بنایئے۔ +آپ نے ماتحتوں میں بہت زیادہ گھلنے ملنے سے گریز کیجئے۔ آپ ایک لیڈر ہیں، اپنے کارکن کے ’’بہترین دوست‘‘ نہیں۔ اپنے دوست پر تنقید کرنا یا اس کی سرزنش کرنا مشکل کام ہوتا ہے اور ایک ماتحت کے لئے ایسے کسی فرد کی طرف سے ہونے والی تنقید کو منصفانہ سمجھنا اور بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ +اپنے منفی جذبات کو ایک طرف رکھ دیجئے۔ ہم سب انسان ہیں، مگر ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو چاہئے کہ منفی غصے کا مظاہرہ کرنے یا اپنے کارکن یا رفقاء کی ذات پر حملے کرنے سے گریز کریں۔ +آپ ایک مافوق البشر شے نہیں ہیں۔ یاد رکھئے کہ اگر کارکن نہیں ہوں گے تو آپ لیڈر بھی نہیں ہوں گے۔ آمرانہ رویہ اپنانے سے گریز کیجئے۔ +یہ یاد رکھئے کہ مینجمنٹ اور چیز ہوتی ہے اور لیڈر شپ اور چیز۔ مینجمنٹ میں بجٹ بنانے اور کوئی خاص نتیجہ برآمد کرنے جیسے انتظامی کام شامل ہوتے ہیں۔ لیڈرشپ مینجمنٹ کا ایک حصہ ہے جس میں یہ طے پاتا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں سے ابلاغ کیسے کرتے ہیں۔ +بعض لوگ آپ کو یہ یقین دلانا چاہیں گے کہ اچھے لیڈر پیدائشی طور پر ہی ایسے ہوتے ہیں اور اگر شروع سے ہی آپ میں قائدانہ اوصاف موجود نہیں تھے تو آئندہ بھی کبھی ان کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ +تاہم، بہت سے اچھے لیڈر آپ کو بتائیں گے کہ سکول کے زمانے میں ان کی کارکردگی اچھی نہ تھی، اور بعض اوقات تو وہ کالج میں بھی نکمے تصور کئے جاتے رہے۔ عموماً زندگی کا کوئی خاص واقعہ یا زندگی میں آنے والا کوئی خاص فرد ان کی شخصیت کو بدل دینے کا موجب بنا اور ہجوم سے الگ ہو کر لیڈر بن گئے۔ +اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لیڈر صرف پیدا ہی نہیں ہوتے بلکہ بنائے بھی جاتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسے اقدامات دیئے جا رہے ہیں جن پر عمل کر کے آپ بھی لیڈر بن سکتے ہیں۔ انہیں اپنے ذاتی اوصاف اور گرد و پیش کے ماحول کے مطابق استعمال کیجئے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے چند آپ کے لئے اتنے مفید ثابت نہ ہوں جتنے کہ دوسرے، کیونکہ یہ نہایت عمومی اصول و ضوابط ہیں، ہر کسی کی ذات پر ان کا منطبق ہونا لازمی نہیں۔ +ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ جب آپ نے ورلڈ کپ جیتنے والے کسی کپتان کے منہ سے میچ سے پہلے یہ سنا ہو۔ ’’میرا خیال ہے ہم جیت نہیں سکتے۔ یہ بڑی دور کی بات ہوگی۔ اگر ہم جیت گئے تو مجھ سے زیادہ حیرت کسی کو نہیں ہوگی۔‘‘ +سپورٹس ٹیموں نے مثبت سوچ رکھنے اور مثبت باتیں کرنے کے عمل کو ایک فن کی حیثیت دے دی ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کپتان کے منہ سے آپ یہ سنیں گے۔ ’’ہم جانتے ہیں کہ کام مشکل ہوگا، مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم اس سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ ہم ایک اعلیٰ معیار کی ٹیم ہیں، اور اس سال میرے کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں پر خصوصی محنت کی ہے۔ یہ چیز ان کے کھیل میں نظر آتی ہے۔‘‘ +ایک لیڈر کے عمل میں مثبت سوچ اور مثبت بات کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ کو مسابقت، اپنی اہلیتوں اور اپنی ٹیم یا گروپ کی اہلیتوں سے وابستہ ہر خوف کا ڈٹ کر سامنا کرے پڑے گا۔ تب ہی آپ کی جیت کے عمل کا آغاز ہو سکتا ہے اور آپ کی ٹیم کی کارکردگی کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ +جیتنے والی ٹیم کے کپتان کی طرح، آپ کو اپنی جیت کا تصور کرنا ہوگا۔ جیت کا تصور کر لینے سے آپ کو ان اقدامات کا تعین کرنے میں مدد ملے گی جو جیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ +مثبت سوچ کے حوالے سے چند ضروری باتیں حسب ذیل ہیں: +کسی بھی مسئلے کو اس کے بنیادی اجزاء میں تقسیم کر کے دیکھئے اور ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ حل کیجئے۔ اگر آپ کسی چیز کو منفی سمجھتے ہیں تو یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ آپ کی اس سوچ کی وجہ کیا ہے۔ کیا ایسا تجربے کی کمی کی وجہ سے ہے؟ کیا ماضی کی کوئی ناکامی اس کی وجہ ہے؟ یہ پتہ لگایئے کہ کامیابی کے امکانات میں اضافہ کرنے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ تجربے کی کمی کی وجہ سے خوفزدہ ہیں تو کیا آپ اس حوالے سے کسی ساتھی کا تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا کسی مخصوص جگہ پر اس حوالے سے تربیت حاصل کر سکتے ہیں؟ سامنے آنے والے ہر چیلنج کو اپنی کامیابیوں کی فہرست میں اضافہ کرنے کا ایک موقع تصور کیجئے۔ +مثبت سوچ سے آپ کو کامیابی کا ایک تصور قائم کرنے اور کامیاب ہونے کے امکانات میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم اپنی ذاتی صلاحیتوں اور اپنی ٹیم کی صلاحیتوں میں اسی اعتماد کو اجاگر کرنے کے لئے آپ کو مثبت انداز میں بات کرنا بھی سیکھنا پڑے گا۔ +ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کی مثال کو ایک بار پھر سامنے رکھئے۔ وہ صرف یہ محسوس ہی نہیں کرتا کہ اس کی ٹیم جیت سکتی ہے بلکہ یہی بات صحافیوں کے سامنے بات کرتے ہوئے دہراتا بھی ہے اور جیت پر اپنے یقین کی وجہ بھی بیان کرتا ہے۔ +یہ الفاظ اس کی اپنی کپتانی اور اس کے کھلاڑیوں کے مورال پر جو مثبت اثر ڈالیں گے، اس سے قطع نظر، یہ ٹیم کے سپورٹرز کے اعتماد میں بھی اضافہ کریں گے۔ +قیادت کا ایک اور اہم وصف بصیرت یعنی ویژن ہوتا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بصیرت رکھے بغیر کسی بھی گروہ یا جماعت کا لیڈر بننا ممکن نہیں… اور بصیرت کا براہِ راست تعلق مثبت سوچ اور مثبت بات کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بصیرت میں ہم اپنی مثبت سوچ اور بات کو اگلے درجے تک لے جاتے ہیں۔ +صاحب بصیرت لیڈر اکثر اپنی تنظیم یا میدان میں جدت پیدا کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اس اعتبار سے ایک صاحب بصیرت لیڈر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات محسوس کر لی کہ سیاست کو ڈرائنگ روموں سے نکال کر عوام تک لایا جا سکتا ہے۔ یہ ان کی بصیرت تھی، اور انہوں نے اسے حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے جدوجہد کی اور اسی بات نے انہیں ایک بڑا لیڈر بنا دیا۔ اس بات کے لئے انہیں ہمیشہ احترام کے ساتھ یاد رکھا جانا چاہئے۔ +لیڈر کی بصیرت نہایت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی کی بدولت لوگوں کو جدوجہد کے لئے کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے۔ ایک ایسا مقصد جس کا تعلق حال سے نہیں بلکہ مستقبل سے ہوتا ہے۔ +قیادت کا ایک اور اہم رخ اپنی بصیرت کو اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کے ساتھ شیئر کرنا ہے۔ اپنی ٹیم کے ساتھ اپنی بصیرت شیئر کر کے آپ انہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک ایسا لیڈر ہے جو جماعت کے (یا ادارے کے) مستقبل کے ساتھ ساتھ، ان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے۔ جب آپ اپنے بڑوں کے ساتھ اپنی بصیرت بانٹتے کرتے ہیں تو انہیں احساس دلاتے ہیں کہ آپ ایک نئی سوچ رکھنے والے فرد ہیں جو موجودہ صورتِ حال سے مطمئن نہیں۔ +مثبت سوچ اور سوچا سمجھا نصب العین آپ کے اعتماد میں اضافہ کرنے کے موجب ہوں گے۔ تاہم اپنی ذات پر قابل ذکر اعتماد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کو قابل ذکر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ +شخصی اعتماد کی آبیاری کرنے کے لئے آپ اپنے اثاثوں اور گذشتہ کامیابیوں کی ایک فہرست بنا سکتے ہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ آپ کی تعلیم یا کوئی خصوصی تربیت بھی آپ کے اثاثوں میں شامل ہے، دوسروں تک اپنی بات اچھے طریقے سے پہنچانے کا فن بھی ایک اثاثہ ہے، اور ایک عمدہ حس مزاح بھی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ +جیسے برف کے دو گالے ایک جیسے نہیں ہوتے، اسی طرح دو لیڈروں کا طرزِ قیادت بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ تاہم یہ سبق لیڈر شپ کے کئی عمومی اندازوں کا ایک خاکہ پیش کرتا ہے۔ +جس گروپ یا جماعت کی اس نے قیادت کرنی ہے، اس کے حوالے سے ایک لیڈر کسی ایک طرح کی لیڈر شپ کے اصول و ضوابط کی پابندی کر سکتا ہے یا کئی مختلف طرح کے طرز ہائے قیادت کے اوصاف کا ایک امتزاج استعمال کر سکتا ہے۔ +لیڈر شپ کے مختلف طریقوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے ان نظریات کے بارے میں نوٹس بناتے جائیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں یا جو آپ کے خیال میں آپ کی صورتِ حال سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی ایک طریقے کی ہی پابندی کریں۔ لچک کی گنجائش ہر حال میں موجود رہنی چاہئے۔ +جس پہلے انداز یا طریقے کا میں ذکر کرنا چاہوں گا، یہ وہ ہے جسے میں ’’تقریباً جمہوری‘‘ کا نام دیتا ہوں۔ میں نے اس کا یہ نام اس لئے رکھا ہے کیونکہ آمریت کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ لچک کا حامل ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں لیڈر یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی جماعت کو زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں اور وہ یکجا ہو کر ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کام کرے۔ اس انداز کے اوصاف حسب ذیل ہیں: +٭ لیڈر اپنی جماعت یا گروہ کو اپنے کام کے زیادہ سے زیادہ حصوں سے باخبر رکھتا ہے اور یہ بات یقینی بناتا ہے کہ ہر کارکن پوری جماعت میں ہونے والے ہر کام سے باخبر ہو۔ +٭ لیڈر بحث مباحثے اور مسابقت کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور جماعت کے لئے نئی راہیں متعین کرنے کے حوالے سے آراء پیش کرنے میں اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ +٭ لیڈر کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ طرزِ قیادت ’’تقریباً جمہوری‘‘ کہلاتا ہے۔ اگرچہ لیڈر شراکت کار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مگر تمام اہم معاملات میں حتمی فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ +یہ طرزِ قیادت اس وقت بہتر رہتا ہے جب لیڈر کو کسی ایسے گروہ کی قیادت کرنا ہو جس کے کارکنان جدت طراز اور ذہین تو ہوں مگر ان کے پاس ابھی کوئی مخصوص سمت موجود نہ ہو۔ ان کے پاس خیالات اور تجاویز تو بے شمار ہوتی ہیں لیکن ان سب خیالات اور تجاویز کا معیاری ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ لیڈر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان خیالات کے حسن و قبح کا تعین کرے۔ +دوسرے انداز کو ’’شراکت‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ طرزِ قیادت اپنی نوعیت میں بڑا مختلف ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت سے مختلف ہوتا ہے اور آمریت سے بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان دونوں طرز ہائے قیادت میں لیڈر اور کارکن کے درمیان ایک واضح حد حائل ہوتی ہے۔ تاہم شراکت میں یہ حد پھیکی پڑ جاتی ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ لیڈر اپنے کارکنوں جیسی ہی حیثیت اختیار کر جائے۔ اس کے اوصاف حسب ذیل ہیں: +٭ لیڈر گروپ کا محض ایک رکن بن جاتا ہے جس کے پاس تجربہ تو شاید زیادہ ہوتا ہے مگر اس کی رائے کی وقعت دوسرے کارکنان سے زیادہ نہیں ہوتی۔ +٭ فیصلہ سازی کے عمل میں تمام کارکنان حصہ لیتے ہیں اور اپنے لئے ایک راہِ عمل کا تعین کرتے ہیں۔ +٭ ٹیم کے کام کے نتائج و عواقب کی ذمہ داری تمام کارکنان پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ +یہ طرزِ قیادت وہاں موزوں رہتا ہے جہاں کام کرنے والا گروہ چھوٹا سا ہو اور اس کے سارے ارکان نہایت تجربہ کار اور باصلاحیت ہوں۔ اس طرزِ قیادت کے کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اعتماد، دیانتداری اور ٹیم کی اہلیت پر یقین کے اوصاف پورے گروہ میں بہ حیثیت مجموعی موجود ہوں۔ یہ طرزِ قیادت نہایت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں آپ نہ صرف قیادت کرتے ہیں بلکہ ٹیم کے ارکان کے ساتھ آپ کا تعامل برابری کی سطح پر ہوتا ہے۔ تاہم اگر آپ اپنے اختیار کو منوانے کی خواہش رکھتے ہوں تو پھر یہ طرزِ قیادت آپ کے لئے موزوں نہیں رہے گا۔ +تیسرا طرزِ قیادت وہ ہے جسے پوری دنیا میں ’’انقلاب انگیز قیادت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر کی توجہ اپنے ارکان سے مروجہ معیارات کے مطابق کام لینے پر نہیں ہوتی۔ انقلاب انگیز لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے ادارے یا جماعت میں ایک مجموعی تبدیلی لانے کا خواہشمند ہوتا ہے اور اس کے لئے کام کرتا ہے۔ ایسے لیڈروں کو ممیز و ممتاز کرنے والے اوصاف حسب ذیل ہیں: +٭ انقلاب انگیز لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے پاس اپنی پارٹی کے حوالے سے ایک ویژن ہوتا ہے اور وہ یہ ویژن نہایت کامیابی سے اپنے کارکنان کے ذہن نشین کرا سکتا ہے۔ +٭ انقلاب انگیز لیڈر کا شعور نہایت ترقی یافتہ ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فیصلوں کا پارٹی پر کیا اثر پڑے گا۔ ایسا لیڈر زیادہ اعتماد سے کام کر سکتا ہے اور اس کے کارکنان کو اس پر اعتماد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ +٭ انقلاب انگیز لیڈر اپنے ہر کارکن کو انفرادی سطح پر اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور اس طرح تمام کارکنوں کا احترام اور وفاداری کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ +٭ انقلاب انگیز لیڈر اکثر کارکنوں کو انفرادی سطح پر تحسین سے نوازتا ہے اور اچھے کام پر پوری ٹیم کی کارکردگی کی بھی تعریف کرتا ہے۔ جب کارکنوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ انہوں نے کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو وہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ زیادہ عزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ +٭ انقلاب انگیز لیڈر میں یہ خصوصی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کارکنوں کو ایسا کام کرنے کی تحریک دے سکتا ہے جس میں وہ اپنی کامیابی کے لئے پُریقین نہ ہوں۔ یہ تحریک تعریفی کلمات اور حوصلہ افزائی کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ +کسی فرد، گروہ، ادارے یا جماعت کی کارکردگی میں فوری اور صحتمند اضافہ مطلوب ہو تو انقلاب انگیز طرزِ قیادت سے بہتر اور کوئی نہیں۔ مگر یہ طرزِ قیادت نہایت مشقت طلب اور کٹھن ہوتا ہے۔ آپ کے ویژن کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور اس ویژن کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے استعمال ہونے والے وسائل و ذرائع کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے حصے میں اتی ہے۔ انقلاب انگیز لیڈر کسی حد تک جواری بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ یہ جوا کھیلتا ہے کہ اسی کا ویژن درست ہے۔ اگر اس سے اندازے کی چھوٹی سی غلطی بھی ہو جائے تو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے جس کی ساری ذمہ داری اسی پر ہوگی۔ +یہ جاننے کے لئے کون سا طرزِ قیادت آپ کے لئے موزوں ہے، دو فہرستیں بنایئے۔ ایک میں قیادت کے وہ اوصاف لکھئے جو قدرتی طور پر آپ میں موجود ہیں اور دوسری میں وہ اہداف لکھئے جو آپ اپنی ٹیم یا جماعت کے ہمراہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ +پہلی فہرست میں آپ حس مزاح، اپنی بات سمجھانے کی اہلیت، شخصی تحکم یا جدت پسندانہ سوچ جیسے اوصاف شامل کر سکتے ہیں۔ جب آپ کی فہرست مکمل ہو جائے تو پھر یہ دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ کون سا طرزِ قیادت آپ کے شخصی اوصاف سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ اس طرزِ قیادت کو نکتہ آغاز کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ +دوسری فہرست میں وہ اہداف لکھئے جو آپ اپنی ٹیم یا جماعت کے ہمراہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عملی طور پر کام کرتے ہوئے آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ مختلف طرز ہائے قیادت کے اوصاف کا ایک امتزاج استعمال کر سکتے ہیں، ایسے اوصاف جو آپ کی ذاتی خصوصیات اور صلاحیتوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس طرح آپ کا ایک منفرد طرزِ قیادت تشکیل پائے گا جو آپ کی صورتِ حال اور صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ +آپ کے طرزِ قیادت کا فیصلہ صرف آپ ہی نہیں کرتے، اس کا فیصلہ آپ کی ٹیم بھی کرتی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا، اگر کوئی آپ کی اقتداء نہیں کر رہا تو آپ قائد ہیں ہی نہیں۔ ان چیلنجز سے باخبر رہئے جو آپ کے کارکنوں کو انفرادی سطح پر درپیش ہوتے ہیں۔ +اپنے ساتھیوں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں کے متعلق بھی اپنے علم کا اظہار کریں۔ البتہ اتنا ضرور ذہن میں رکھیں کہ سیکھنا ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اپنے علم کو بڑھانے اور اس کا اظہار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ: +٭ اپنے کام کے ذریعے ماتحتوں کو دکھایئے کہ انہیں اپنا کام کیسے کرنا چاہئے۔ +٭ دوسروں کی غیرمعیاری کارکردگی کا نوٹس لیجئے اور اس کی تصحیح کیجئے، خصوصاً ان کی جو آپ کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ +٭ کسی طرح کی غیریقینی کیفیت پیدا ہونے کی صورت میں سوال پوچھنے سے مت ہچکچایئے۔ +٭ تجربہ کار لوگوں کی باتیں سن کر اور ان کے طریق ہائے کار کا مشاہدہ کر کے اپنے علم کو وسعت دیجیے۔ +حضرت علی کرم اللہ وجہہ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: +’’جو علم کی مختلف شاخوں پر مکمل عبور حاصل کر لے گا وہ زندگی سے سبق حاصل کرے گا اور جو زندگی سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ درحقیقت گذشتہ تہذیبوں کے عروج اور زوال کے اسباب کا مطالعہ کرتا ہے۔‘‘ +علم طاقت ہے اور کسی بھی طرح کی لیڈر شپ کے لئے غایت درجہ کی اہمیت کا حامل۔ نظریاتی اور عملی دونوں طرح کے علوم اہم ہیں۔ دنیا میں بے شمار ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اپنے طور پر تعلیم حاصل کی، ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے بڑے لیڈروں کی صفوں میں بھی اپنے لئے ایک امتیازی مقام حاصل کیا۔ مثلاً ہم سبھی جانتے ہیں کہ آئن سٹائن کی طرح چرچل بھی ابتداء میں ایک اوسط درجے کے طالبعلم تھے اور ان کے اساتذہ کی رائے ان کے متعلق کچھ اچھی نہ تھی۔ ان کے ایک استاد کا کہنا تھا۔ ’’یہ لڑکا مکتب سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا، سوائے تکلیف اور پریشانی کے۔‘‘ +ہمارے اپنے ملک میں زیادہ تر پرانے لیڈر خود آموختہ ہیں۔ مشہور سیاسی لیڈر نواب زادہ نصر اللہ خان برصغیر پاک و ہند کی جمہوری دنیا کے سینئرترین اور نہایت صاحب علم لیڈروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو خود ہی زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ ریاست، حکومت اور بیرونِ ملک سفارت کاری سے متعلق شعبہ ہائے علم پر انہیں کامل عبور حاصل ہے۔ +علم حاصل کرنے کے لئے تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف طریقے بشمول بنیادی تعلیم، تجربہ اور مباحث استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ قدیم یونان کی تاریخ کے دانشمند افراد میں سے ایک، سقراط ہے، جس کے شاگردوں میں سے افلاطون جیسے دانشور نکلے اور جنہوں نے کئی کتابیں لکھیں، اور ان کے بعد سکندرِ اعظم کا سرپرست اور اتالیق ارسطو جو کہ افلاطون کا شاگرد تھا۔ سقراط ایک فلسفی تھا جو ہمیشہ حقیقی علم کا متلاشی رہتا تھا۔ اس کی تلاش کا طریقہ کار ’’مباحثہ‘‘ تھا جسے وہ ’’ڈائیلاگ (مکالمہ)‘‘ کا نام دیتا تھا، اور یہ اس کی عقل و دانش کا اعتراف ہے کہ آج بھی تحصیل علم کے لئے یہی طریقہ سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ +کوئی حکومت ایسے متجسس افراد کو پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ اسے پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اپنے مباحث اور حقیقی علم کی تلاش ترک کر دے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ سقراط نے انکار کر دیا۔ اس پر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی۔ ایتھنز کے باسیوں اور قاضیوں کی ایک عدالت نے اسے سزا سنائی جن سے خطاب کرتے ہوئے اس نے زہر کے پیالے کو ترجیح دی۔ اس نے کہا: +’’اگر تم مجھے اس شرط پر چھوڑنا چاہتے ہو کہ میں سچائی کی تلاش ترک کر دوں تو میں کہوں گا، اے ایتھنز والو، تمہارا شکریہ! لیکن میں خدا کی فرمانبرداری کروں گا جس نے تمہارے بجائے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے اور جب تک میری سانس چل رہی ہے اور میرے بدن میں جان ہے، میں اپنی یہ تلاش ترک نہیں کروں گا۔ جو بھی میرے رستے میں آئے گا، میں اس کی طرف بڑھوں گا اور اس سے پوچھوں گا۔ ’’کیا تم اپنے قلب و ذہن کو دنیاوی دولت و اکرام کی طرف مائل کرنے پر شرمندہ نہیں ہو جبکہ اپنی روح کو بہتر بنانے کی خاطر دانش اور سچ حاصل کرنے کی تمہیں کوئی پروا نہیں؟‘‘ میں نہیں جانتا کہ موت کیا ہے۔ یہ ایک اچھی چیز بھی ہو سکتی ہے اور میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مورچہ چھوڑ کر بھاگ جانا بری بات ہے اور جسے میں درست سمجھتا ہوں، اسے اس پر ہمیشہ ترجیح دوں گا جسے میں غلط سمجھتا ہوں۔‘‘ +نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اپنی زندگی میں سقراط نے سچ اور علم کے کاز کی بہتر خدمت کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کی خدمت بہترین ہو گئی۔‘‘ +اسی کتاب میں ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’اعتقاد اور سائنس اور تحصیل علم کا ساتھ ساتھ چلنا آسان نہیں ہوتا۔ علم اور تحصیل علم لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اور شکوک اور سوالات اعتقاد کے لئے ایک مشکل ساتھی ثابت ہوتے ہیں۔ اور سائنس کا رستہ تحقیق اور تجربے کا راستہ ہے جو کہ اعتقاد کا راستہ نہیں ہے۔‘‘ (اندرا کے نام خط 21 جون، 1932ء) +رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جب سیاسی لیڈر بننے کی تمنا رکھنے والے نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں اس مقصد کے لئے خود کو کیسے تیار کرنا چاہئے تو میں کبھی انہیں سیاسیات پڑھنے کا مشورہ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ فلسفہ، تاریخ اور ادب پڑھیں، اپنے اذہان کو جس قدر ہو سکے وسعت دیں۔ سیاست ہو یا حکومت، اس کے قواعد و ضوابط اور طریق ہائے کار کا بہترین علم تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن مطالعہ کی عادت، منظم سوچ، گہرے تجزیئے کی تیکنیکس، اقدار کا بنیادی ڈھانچہ، فلسفیانہ اساس، یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ایک لیڈر کو اپنے تعلیمی عمل کی ابتدا سے ہی اپنانا اور جذب کرنا چاہئے اور ساری عمر جاری رکھنا چاہئے… جتنے عظیم لیڈروں سے میں واقف ہوں، تقریباً ان سب میں ایک مشترکہ خصوصیت نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ سب کے سب مطالعے کے عادی تھے… ٹی وی دیکھنا ایک مجہول اور جامد سرگرمی ہے لیکن مطالعہ ایک متحرک سرگرمی ہے۔‘‘ +ا��صاف پسند ہونے کا مطلب ہے غیرجانبدار ہونا۔ ذاتی احساسات، جذبات اور تعصبات کو اپنے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی اجازت مت دیجئے۔ انصاف پسندی کی خصوصیت کو فروغ دینے کے لئے مندرجہ ذیل کی مشق کیجئے۔ +٭ اپنی راہ میں روڑے اٹکانے والے ذاتی تعصبات کا پتہ چلایئے اور ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ +٭ کسی معاملے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تمام فریقین کا نکتہ نظر سنئے۔ +٭ اچھے کام پر انعام دینے اور برے کام پر سرزنش کرنے کو اپنا مستقل شعار بنایئے۔ +انصاف کسی معاشرے کا حسن اور اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے ایسے حکمرانوں کو پسند کرتے آئے ہیں جنہوں نے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنایا خواہ وہ بادشاہ تھے یا جمہوری حکمران۔ آج دنیا کے تمام آئینوں کی بنیاد معاشی، معاشرتی اور سیاسی انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کے لیڈروں سے بھی انصاف کی فراہمی کے لئے ہرممکن کوشش کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یورپ پر ہٹلر کے حملوں کے دوران انگلستان کے مختلف طبقات میں ملکی تحفظ کے متعلق سنگین قسم کے خدشات جنم لے رہے تھے۔ جب یہ خدشات چرچل تک پہنچائے گئے تو جواباً اس نے پوچھا۔ ’’کیا ہمارے ملک میں عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں؟‘‘ جواب اثبات میں ملا تو چرچل نے کہا۔ ’’اگر ہماری عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمارے ملکی تحفظ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔‘‘ +انصاف کی فراہمی تمام لیڈروں کے لئے ایک بے حد اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے اور ماضی کی تاریخ میں لیڈروں کی مقبولیت یا عدم مقبولیت میں اس کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب و عقائد نے ایک نصب العین کی حیثیت سے انصاف کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ خدا کے تمام پیغمبروں نے اس کی تائید کی ہے۔ آج کے جدید دور میں تمام ملکوں کے آئینوں کی بنیاد اسی پر رکھی جاتی ہے۔ +بابل کی قدیم تہذیب کے مشہور بادشاہ حموربی (1792 ق م تا 1750 ق م) نے آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے تحریری شکل میں قانونی ضابطہ تیار کیا۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا آئین بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضابطے کو سنگ سیاہ کی الواح پر تحریر کیا گیا (یہ الواح 1902ء میں کھدائی کے دوران برآمد ہوئیں اور آج پیرس کے لوور میوزیم میں موجود ہیں)۔ حموربی اس ضابطے کے تعارف یا دیباچے میں بڑی وضاحت سے لکھتا ہے کہ اسے دیوتائوں کی طرف سے ’’سرزمین میں انصاف قائم کرنے، بدکاروں اور شریروں کو سزا دینے‘‘ کا حکم ملا۔ وہ اپنے تجمیع کردہ قوانین کو ’’قوم کو اچھی اور مضبوط حکومت فراہم کرنے والے‘‘ کہہ کر پکارتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس نے اپنے احکام ایک ستون پر کھدوائے تاکہ ’’طاقتور کمزور کو دبائے نہیں، یتیموں اور بیوائوں کو بھی انصاف ملے۔‘‘ اس کے پیش کردہ انصاف کی بنیاد ’’آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کے اصول پر تھی۔ اس کے پیش کردہ قوانین بابلی معاشرے کے تمام طبقات کی خیروعافیت کے ضامن تھے اور غریبوں اور کمزوروں بشمول عورتوں، بچوں اور غلاموں کو طاقتوروں اور دولتمندوں کی ناانصافیوں سے خصوصی تحفظ فراہم کرتے تھے۔ شاہ حموربی نے اس ضمن میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے جھوٹے الزاموں، جھوٹی گواہیوں اور قاضیوں کی طرف سے ہونے والی کسی طرح کی ناانصافی کے لئے بھی سزائیں تجویز کیں۔ +قدیم جاپان کے حکمران اپنے محلات کے باہر بڑے بڑے نقارچے رکھوایا کرتے تھے جنہیں انصاف کے طالب آ کر بجایا کرتے تھے۔ تاریخ میں ہمیں ایسی بہت سی قابل تقلید مثال��ں ملتی ہیں۔ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے بیٹے کو خود سزا سنائی۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید رات کو بھیس بدل کر بغداد کی گلیوں میں پھرا کرتا تھا تاکہ شہریوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ خاندانِ غلاماں کے سلطان غیاث الدین بلبن نے غیرجانبدارانہ انصاف کی فراہمی کی خاطر اپنے بیٹے کو اتنی سخت سزا سنائی کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ خاندانِ مغلیہ کے شہنشاہ جہانگیر نے اپنے محل کے جھروکے سے ایک گھنٹی کے ساتھ بندھی ہوئی زنجیر لٹکا رکھی تھی۔ اسے زنجیر عدل کا نام دیا جاتا تھا اور عدل مانگنے والے آ کر اس زنجیر کو کھینچتے اور گھنٹی کو بجاتے تھے۔ ایسے بہت سے لیڈروں کی مثالیں بھی ملتی ہیں جو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے کے لئے عام آدمیوں کی طرح عدالت میں پیش ہوئے تاکہ انصاف کی عملی شکل تاریخ کے مشاہدے کے لئے پیش کی جا سکے۔ 21 ویں صدی میں سابق صدرِ امریکہ بل کلنٹن نے بھی ایسی ہی ایک مثال قائم کی۔ آج کے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہ آئین، قانون اور انصاف کا دور ہے۔ +مکمل دیانتداری، بھروسہ مندی، منصف مزاجی، مضبوط کردار اور اعلیٰ اخلاقی کردار۔ ان سب کو مجتمع کیا جائے تو حاصل کیا ہوگا؟ راست بازی۔ راست بازی مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ +٭ اپنے اختیار کو اپنی جماعت کے مقاصد کے حصول یا اپنے رفقاء کی بہبود کے لئے ضرور استعمال کیجئے، لیکن اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں۔ +٭ جس بات اور جس چیز پر آپ پکا یقین رکھتے ہوں، اس سے کبھی ہٹیں نہیں خواہ دوسرے اسے ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ +٭ اپنے حکام اور اپنے ماتحتوں کے سامنے ہمیشہ سچ بولیں۔ +جانچ اور پرکھ سے مراد ہے حقائق کو منطق کے ترازو میں تولنے، ہر ممکنہ حل پر غور و فکر اوردرست فیصلے کرنے کی اہلیت۔ اس میں عقل سلیم یعنی کامن سنس اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس خصوصیت کو اجاگر کرنے کے لئے آپ مندرجہ ذیل نکات پر عمل کر سکتے ہیں۔ +٭ کسی بات پر شک و شبہ کا شکار ہونے کی صورت میں کسی اچھے مشیر سے مشورہ طلب کریں۔ +٭ صورتِ حال کو دوسرے فریق کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ +٭ وقتی اضطراری کیفیت کے تحت کبھی فیصلہ نہ کریں۔ جو کچھ بھی کریں، اس کے ممکنہ اثرات کے متعلق پہلے اچھی طرح سوچ لیں۔ +رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جو خصوصیات ایک بڑے لیڈر کو چھوٹے لیڈروں سے ممتاز بناتی ہیں، وہ یہ ہیں۔ بڑا لیڈر زیادہ پُراثر ہوتا ہے، زیادہ مؤثر انداز میں کام کر سکتا ہے اور اس کے پاس معاملات کو جانچنے اور پرکھنے کی وہ اہلیت ہوتی ہے جو اسے مہلک غلطیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور اسے آنے والے مواقع کو پہچاننے کے قابل بناتی ہے۔‘‘ +جب مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے برصغیر پر حملہ کیا اور اس وقت کے سلطانِ ہند ابراہیم لودھی کے مدمقابل ہوا تو اس وقت بابر کی افواج، ابراہیم لودھی کی افواج کے مقابلے میں بہت کم تھیں لیکن بابر بذاتِ خود فنونِ حرب میں ماہر تھا۔ میدانِ جنگ میں اس نے اپنی کمی کو پورا کرتے ہوئے اپنی جانچنے اور پرکھنے کی اہلیت کو صورتِ حال کا تجزیہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس نے اپنی فوج کو اس انداز میں پھیلایا کہ وہ اپنی حقیقی تعداد سے کہیں زیادہ نظر آنے لگی اور انہیں اطراف سے محفوظ آڑ بھی میسر رہی۔ جنگی حکمت عملی کے طور پر بابر نے لودھی کے ہاتھیوں کو نشانہ بنایا جو کہ زنجیروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور بابر کی فوج کے گھوڑوں کو خوفزدہ کر رہے تھے۔ بابر نے اپنی قوت کا زیادہ تر حصہ ہاتھیوں کو ہراساں کرنے پر استعمال کیا اور نتیجے میں ہاتھیوں نے بے قابو ہو کر اپنی ہی فوجوں کو کچل دیا۔ انجام کار بابر فتح یاب ٹھہرا اور ہند کا شہنشاہ بنا۔ +سیاست میں بھی صورتِ حال کا درست تجزیہ کرنا اور اسے سمجھنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ احتجاج، جلوس اور عوامی اجلاس کے انعقاد کے لئے صورتِ حال کا درست تجزیہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اپریل 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آرہی تھیں تو چند بزرگ دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ عوامی اجلاس (پبلک میٹنگ) کا انعقاد چوبرجی میں ہیلی کالج آف کامرس کے بالمقابل پنجاب یونیورسٹی کی گرائونڈ میں کروں۔ میں نے ان کی تجویز کو نامنظور کرتے ہوئے، اپنی لیڈر کے عوامی اجلاس کے لئے مینار پاکستان کی گرائونڈ کا انتخاب کیا۔ اجلاس کے انعقاد کے بعد، میرا تجزیہ درست ثابت ہوا کیونکہ اگر مینار پاکستان کے علاوہ کسی اور جگہ اس اجلاس کو منعقد کیا جاتا تو لوگ کبھی اتنی بڑی تعداد میں اس میں شریک نہ ہوتے۔ +جن افراد سے آپ ملتے ہیں، جن معاملات کو آپ ہینڈل کرتے ہیں اور جن صورتِ حالات سے آپ کا سابقہ پڑتا ہے، ان کا درست تجزیہ کرنا، انہیں جانچنا، ان کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ درست اندازہ لگانا اور فیصلہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ لیکن مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد بتدریج ایسے اندازے لگانے کی اہلیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں چرچل کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’اپنے مقاصد اور اہداف کے درست ہونے کے متعلق اس کے اندازے اکثر درست ہوا کرتے تھے، اور یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ وہ اس وقت تک زندہ رہا جب اس کے ملک کو اس تجربے اور قیادت کی ضرورت پڑی جو اس وقت 1940ء میں) صرف وہی فراہم کر سکتا تھا۔‘‘ +وفاداری نام ہے اپنے اصولوں، اپنے ملک، اپنی جماعت، اپنے حکام اور اپنے ماتحتوں کے اعتماد پر ہمیشہ پورا اترنا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ایک ’’یس مین‘‘ بن کر رہ جائیں۔ مورٹن کے پبلک پالیسی پراسیس کے 21 ویں قانون کا کہنا ہے۔ ’’وفاداری کا ایک اونس ہوشیاری کے ایک پائونڈ سے بہتر ہے۔‘‘ وفاداری کی خصوصیت مندرجہ ذیل نکات پر عمل کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ +٭ اپنے جماعتی مسائل اور رفقائے کار کے مسائل کے متعلق صرف ان لوگوں کے ساتھ گفتگو کریں جو ان مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ غیرمتعلقہ لوگوں کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کریں۔ +٭ اگر آپ کی جماعت یا اس کے ارکان کو غیرمنصفانہ نکتہ چینی اور حملوں کا نشانہ بنایا جائے تو ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ +٭ یاد رکھئے کہ وفاداری ایک دو رویہ راستہ ہے۔ اپنے حکام اور اپنے ماتحت، دونوں کے ساتھ وفادار رہیں۔ +حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے۔ +’’جنہوں نے اپنی وفاداری ثابت کر دی ہو ان پر اعتماد کرو۔ جو بے وفائی کے مرتکب ہو چکے ہوں، ان پر اعتماد کرو نہ ان کی تائید و حمایت کا یقین رکھو۔‘‘ +مضبوط لیڈر شپ کے لئے وفاداری ایک اہم عنصر اور ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ مذہبی اور روحانی قائدین کو بھی اس کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کی دعائوں کے صلے میں مذہب اور سلطنت کو پھیلانے اور بڑھانے کے مشکل فریضے کی انجام دہی کے لئے وفادار اور قابل اعتماد ساتھی عطا ہوئے۔ ان کی دعائوں کے نتیجے میں ان کے بہادر چچا حضرت حمزہؓ اور خلیفہ حضرت عمرؓ اور چند دوسرے وفاد��ر دوستوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت اور اسلامی عقائد، دونوں حیران کن تیزی سے پھیلے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ بے وفا اور ناقابل اعتماد ساتھی بڑی بڑی سلطنتوں کے زوال کا سبب بنے۔ ’’بروٹس، تم بھی۔‘‘ وہ تاریخی جملہ ہے جو جولیس سیزر کے ہونٹوں سے اس وقت نکلا جب اس کے وفادار دوست نے اس پر خنجر سے وار کیا۔ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی عظیم الشان سلطنت کا سقوط خلیفہ کے وزیراعظم کی غداری کے سبب ممکن ہو سکا۔ سیاہ فام غلام یاقوت نے رضیہ سلطانہ کی خاطر اپنی جان قربان کی۔ چندرگپت موریہ اور چانکیہ کوٹلیہ کے مابین وفادارانہ تعلق نے برصغیر پاک و ہند میں پہلی بڑی مرکزی سلطنت کا قیام ممکن بنایا۔ انگریزوں کے ہاتھوں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ساتھیوں کی غداریوں اور سازشوں کے باعث ہوا۔ میر جعفر، جس کی غداری نے سراج الدولہ کو شکست سے دوچار کرایا، ہندوستان کی تاریخ میں غداری اور بے وفائی کی علامت بن چکا ہے۔ ٹیپو سلطان کو اس کے قریبی ساتھی میرصادق کی غداری نے شہید کرایا۔ +محفوظ تاریخ میں سے یہ چند مثالیں یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی گئی ہیں کہ لیڈروں کی زندگی میں وفادار دوست ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ +نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک سپاہی کا سب سے عمدہ جوہر اپنے سالار اور اپنے ساتھیوں سے وفاداری ہے… اپنے ساتھیوں یا اپنے نصب العین سے وفادار رہنا یقینا ایک قابل قدر صفت ہے۔‘‘ (اندرا کے نام خط 8 مئی 1932ء) +بے غرضی کا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیجئے۔ بے غرضی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دوسروں کا نقصان کر کے اپنا فائدہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ بے غرضی کی صفت کو فروغ دینے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: +٭ معاملات کو دوسرے فریق کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی دیانتدارانہ کوشش کیجئے۔ +٭ روزمرہ کے کاموں میں اپنے ماتحتوں کی مدد کیجئے۔ ایسے کاموں میں ان کے ساتھ شریک ہونے پر آپ کو جو عزت و احترام ملے گا، وہ خود آپ کے لئے بھی حیران کن ہوگا۔ +٭ اپنے رفقائے کار کو ان کے اچھے کاموں کا کریڈٹ دیجیے اور حکامِ بالا کی طرف سے ملنے والی کسی بھی طرح کی تعریف و توصیف کو مستحق فرد تک ضرور پہنچایئے۔ +دسویں صدی عیسوی کے دوران سلطان محمد غزنوی نے ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کئے۔ ایاز نامی ایک غلام اس کی ذاتی خدمت پر خصوصی طور پر مامور تھا۔ ایاز کے ساتھ سلطان کے قریبی تعلق پر بہت سے درباری امراء حسد کا شکار ہونے لگے۔ ہندوستان کے مختلف حصوں پر اپنے سترہ حملوں کے دوران سلطان محمود غزنوی نے بہت سی دولت اکٹھی کی خصوصاً سومنات سے بے بہا مال غنیمت اس کے ہاتھ آیاتھا۔ درباری امراء نے سلطان سے شکایت کی کہ ایاز کی تحویل میں ایک صندوق ہے جس کا وہ باقاعدگی سے جائزہ لیا کرتا ہے۔ انہوں نے اس شک کا اظہار کیا کہ یہ صندوق قیمتی جواہرات اور دولت سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے امراء کو مطمئن کرنے کی غرض سے ایک روز سلطان ایاز کے ذاتی کمرے میں پہنچا اور اسے سب کے سامنے صندوق کھولنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل میں ایاز نے اس مشتبہ صندوق کو کھول کر اس کے اجزاء سب کے سامنے عیاں کئے تو معلوم ہوا کہ اس صندوق میں اس کے پرانے وقتوں کے پھٹے ادھڑے کپڑے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر ایاز نے امراء پر واضح کیا کہ اسے دولت جمع کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سلطان کے لئے اس کی وفاداری اور خدمت بے غرض و بے لوث ہے۔ ان کپڑوں کو اس نے صرف اپنے ماضی کو یاد رکھنے کے لئے سنبھال رکھا ہے۔ +حوصلہ وہ صفت ہے جو خوف کی موجودی میں بھی اطمینان اور استحکام کے ساتھ مخالفتوں اور خطرات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔ ذاتی نفع نقصان کی پروا نہ کرتے ہوئے حق بات کی سربلندی کے لئے کھڑے کر آپ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمت و حوصلے کی نمو اس وقت ہوتی ہے جب آپ: +٭ اپنی غلطیوں کے لئے دوسروں کو الزام نہیں دیتے۔ +٭ مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے حق سچ کی حمایت کرتے ہیں۔ +٭ ذمہ داریاں تلاش کرتے ہیں اور رضاکارانہ طور پر انہیں قبول کرتے ہیں۔ +٭ اپنے فرض اور جماعت کے مشن سے اپنی وابستگی کو ذاتی احساسات اور خواہشات سے بالاتر رکھتے ہیں۔ +حوصلہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ اول جسمانی، دوم اخلاقی۔ دونوں اعتبار سے یہ بنیادی جبلت سے الگ ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے انسانی عناصر کی طرح اسے بڑھایا بھی جا سکتا ہے اور کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک لیڈر کو دلیرانہ مگر سوچے سمجھے خطرے مول لینے پر ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے۔ دیگر سب باتوں سے بڑھ کر، اسے قسمت کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ذمہ داری کو حاصل کرنے اور اس کے لئے ضروری قیمت چکانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ +فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال کا کہنا ہے کہ جب حالات کے چیلنج کا سامنا ہو تو صاحب کردار لیڈر کا اپنے باطن کا رخ کرتا ہے اور صرف اپنے آپ پر تکیہ کرتا ہے۔ خودانحصاری کے خوگر لیڈر کو مشکلات میں ایک خاص کشش محسوس ہوتی ہے کیونکہ صرف مشکلات کا مقابلہ کر کے ہی وہ اپنی صلاحیتوں کی آزمائش اور افزائش کر سکتا ہے۔ فیصلے کی گھڑی میں وہ گھبراتا نہیں، بلکہ پہل کاری سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتا ہے۔ +سیاست میں خطرات مول لینے سے مراد حوصلہ مندی اور درست وقت پر فیصلہ کرنے کا ارادہ اور اہلیت ہے۔ یہ کچھ حاصل کرنے کے لئے سب کچھ دائو پر لگا دینے کا نام ہے۔ آپ کو شکست ، ناکامی اور خوفِ زیاں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ +حوصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک مرتبہ ونسٹن چرچل نے کہا۔ ’’ہمت و حوصلے کے بغیر دوسری تمام اچھی خصوصیات بے معنی ہو جاتی ہیں۔‘‘ +جواہر لعل نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’زندگی سے لطف اندوز ہونے کا واحد طریقہ بے خوفی اور شکست و بربادی کی پروا نہ کرنا ہے، کیونکہ شکست اور بربادی ان لوگوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں جو بے خوف ہوتے ہیں۔‘‘ +اسی کتاب میں نہرو اپنے آخری خط میں لکھتے ہیں۔ ’’لوگ اکثر نتائج سے خوفزدہ ہو کر حرکت میں آنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ حرکت میں آنے کا مطلب خطرات مول لینا ہے۔ دور سے دیکھو تو خطرہ بہت خوفناک معلوم ہوتا ہے لیکن پاس جا کر دیکھو تو یہ اتنی بری چیز بھی نہیں۔‘‘ +چینی رہنما چو این لائی نے ایک مرتبہ رچرڈ نکسن سے کہا کہ ساری زندگی ہموار راستوں پر سفر کرنے والوں کی ذات میں قوت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ ایک بڑا لیڈر بہائو کے ساتھ تیرنے کے بجائے مخالف رخ تیر کر اپنی قوت بڑھاتا ہے۔ +تاریخ لیڈروں خصوصاً فوجی لیڈروں کی بہادری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جب موت اور زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار ملنے پر لیڈروں نے اپنے مؤقف کی سربلندی کے لئے اپنی زندگی قربان کرنا قبول کر لیا۔ +بھروسہ مند لیڈر وہ ہے جو اپنے فرائض کو بحسن و خوبی پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ پریذیڈنٹ مورٹن بلیک ویل نے کہا۔ ’’سیاست میں، آپ کے پاس اپنا قول اور اپنے دوست ہوتے ہیں۔ کسی ایک سے بھی روگردانی کریں گے تو سیاسی طور پر مارے جائیں گے۔���‘ بھروسہ مندی اور قابل انحصاری کی خصوصیت کو مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ +٭ اپنے دوستوں اور اپنے حمایت کنندگان کے ساتھ وفادار رہیں۔ +٭ وعدے نبھانے کے معاملے میں اپنی ساکھ بنائیں۔ +٭ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنی ذمہ داریاں پوری طرح سے مکمل کریں۔ +حکمت نام ہے دوسروں کو اس انداز میں ہینڈل کرنے کا کہ ان کی دلآزاری نہ ہو۔ معاملہ فہمی سے مراد ہے درست موقعے پر درست بات کہنے کے ہنر سے آشنائی۔ ان صفات کی نمو کے لئے آپ کو چاہئے کہ: +٭ اپنے صبر و برداشت کا تجزیہ کریں۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ میں صبر و برداشت کا مادہ کم ہے تو خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ +٭ سنہرے اصول پر عمل کرنے کا شعار اپنائیں یعنی دوسروں سے بھی ویسا ہی سلوک کریں جیسے سلوک کی توقع آپ ان سے کرتے ہیں۔ +حکمت و معاملہ فہمی کسی کو دھوکا دینے، منافقت سے کام لینے یا جھوٹ بولنے کا نام نہیں۔ یہ سیاست کا ایک فن ہے۔ میرے نظریئے کے مطابق ’’حکمت و معاملہ فہمی‘‘ ایک فرد کی عقل و دانش کی باڈی لینگوئج (Body Language) ہوتی ہے۔دھوکہ دینا حکمت نہیں بلکہ غداری اور بے وفائی ہے۔ افراد یا صورتِ حالات کو مناسب انداز میں ہینڈل کرنے کے فن کا نام حکمت اور معاملہ فہمی ہے۔ اس کا تعلق دوسروں کے احساسات کے لطیف ادراک سے ہے۔ قدیم زمانوں میں مستقبل کے حکمرانوں کو اس فن کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ بچپن سے ہی انہیں مختلف مزاج کے حامل لوگوں سے بات چیت اور معاملت کرنا سکھایا جاتا تھا۔ بعض حکمرانوں نے اسے بتدریج عمل سے گزر کر سیکھا۔ اس ضمن میں بہترین مثال سکندر اعظم کی پیش کی جا سکتی ہے جس کی تربیت اس کے باپ نے کی اور اس نے اپنے طور پر مختلف لوگوں سے معاملت کرنے کا ہنر سیکھا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت کے بانی ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر حملہ آور ہونے سے پہلے ایران کے کچھ حصوں کو فتح کرنے کی کوشش کی، وہاں کے حکمران کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور معذرت طلب کرنے پر رہا کر دیا گیا۔ ایران کے رقبے پر قابض ہونے کی دو کوششوں کی ناکامی کے بعد اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی، ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور ابراہیم لودھی کو شکست دے کر یہاں کا حکمران بن گیا۔ +فرنچ وار کالج کے ایک انسٹرکٹر نے ڈیگال کے بارے میںلکھا کہ ’’اس کا رویہ کسی جلاوطن بادشاہ کا سا ہے۔‘‘ دوسری جنگ عظیم میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود چرچل کی طرح ڈیگال کو بھی منصب اقتدار سے معزول ہونا پڑا۔ ڈیگال نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے خود کو تمام معاملات سے لاتعلق کر لیا۔ 1958ء میں وہ دوبارہ نمودار ہوئے اور ملک کے صدر کے طور پر منتخب ہو گئے لیکن اس مرتبہ ملک کو بحران سے نکالنے کے انہوں نے پہلے سے زیادہ اختیارات کا تقاضا کیا۔ انہوں نے اسمبلی سے ان اختیارات کی فراہمی کے لئے درخواست کی اور بصورتِ دیگر مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی۔ ان کی ذات میں چھپے ہوئے سیاسی مکینک کو احساس تھا کہ اگر اس مشین کو تیل لگایا جائے تو یہ زیادہ ہمواری اور تیزرفتاری سے چلے گی لہٰذا جب بھی وہ چیمبر میں آتے تو پارلیمانی ارکان سے بڑے خوشدلانہ انداز میں ہلکی پھلکی گفتگو کرتے۔ اسمبلی کے وقفوں کے دوران اپنے حریفوں سے بھی بڑے خلیقانہ انداز میں پیش آتے۔ انہوں نے تمام ارکان کو یقین دلایا کہ ان کے تمام اقدامات ملک کو مضبوط، مؤثر اور ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ہوں گے۔ اور یہ کہہ کر ان کے دل جیت لئے کہ ’’میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج اس موقعے پر یہاں آپ سب کے درمیان ہونا میرے لئے کتنی خوشی اور فخر کی بات ہے۔‘‘ یہ بات سن کر ان تمام اراکین پارلیمنٹ کے منہ کھلے رہ گئے جو ان کی واپسی کی مخالفت میں پورا زور لگاتے رہے تھے۔ ایوان تالیوں سے گونج اٹھا اور ڈیگال کو وہ اختیارات دے دیئے گئے جو وہ چاہتے تھے۔ +اسی کا نام حکمت اور معاملہ فہمی ہے۔ سابق صدر امریکہ ابراہم لنکن نے حکمت و معاملہ فہمی کی تعریف کچھ یوں کی تھی۔ ’’دوسروں کو ویسے ہی بیان کرنا جیسا کہ وہ خود کو سمجھتے ہیں، حکمت اور معاملہ فہمی ہے۔‘‘ +پہل کاری سے مراد کرنے کے کاموں کو ڈھونڈنا اور پھر کسی کے کہے بغیر انہیں کر گزرنا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جسے ہمیں صرف اپنے آپ میں ہی نہیں بلکہ اپنے ماتحتوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پہل کاری کو فروغ دینے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے۔ +٭ کاموں کو کرنے کے زیادہ بہتر طریقے تلاش کیجئے۔ +٭ ایسے کام ڈھونڈیئے جن کے کرنے کی ضرورت ہو اور جب مل جائیں تو کسی کی ہدایت کا انتظار کئے بغیر کر گزریئے۔ +میرے نزدیک پہل کاری دوسروں کی رہنمائی کرنے کی تحریک اور ایک ایسا کردار ادا کرنے کا نام ہے جس میں دوسروں کو آپ کی پیروی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہ آئے۔ پاکستان کی تحریک آزادی میں محمد علی جناح کے علاوہ اور مسلمان لیڈر بھی شامل تھے جو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے یا اپنے ذاتی پلیٹ فارم سے اپنے اپنے طور پر جدوجہد کر رہے تھے لیکن قائداعظم نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ سامنے لانے میںپہل کی اور بابائے قوم قائداعظم کہلائے اور تاریخ عالم میں ایک نئے ملک، پاکستان، کی بنیاد رکھنے والے واحد فرد کی حیثیت حاصل کی۔ +قوتِ فیصلہ سے مراد ہے تمام حقائق کی جانچ پڑتال کر کے بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت۔ قوتِ فیصلہ حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے۔ +٭ یاد رکھئے کہ بروقت کیا ہوا اچھا فیصلہ، تاخیر سے کئے ہوئے بہت اچھے فیصلے سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ +٭ فیصلہ کرنے کے وقت کو پہچان لینا کافی نہیں، آپ کو اس وقت کی بھی پہچان ہونی چاہئے جب کوئی فیصلہ نہ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ +٭ ہر مسئلے کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینے اور پھر مناسب ترین فیصلہ کرنے کی عادت اپنایئے۔ +سابق صدرِ امریکہ بل کلنٹن اپنی کتاب ’’امید اور تاریخ کے درمیان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ +’’ایک پرانے گیت کے بول ہیں۔ ’ہر آدمی اور ہر قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن گھڑی آتی ہے…‘ انجیل ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جہاں بصیرت نہیں ہوتی، وہاں لوگ مبتلائے مصیبت ہوتے ہیں۔ میری سوچ حکومت کو بڑھاوا دینے کی نہیں بلکہ اسے کامل و اکمل اور عوام کا ایک بہتر خادم بنانے کی ہے۔‘‘ +مشکل اور صبر آزما حالات میں طویل وقفوں کے لئے اپنی جسمانی اور ذہنی قوتِ کار کو برقرار رکھنے اور اپنے فرائض انجام دیتے رہنے کا نام برداشت ہے۔ اس خصوصیت کو مندرجہ ذیل نکات پر عمل پیرا ہونے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ +٭ جتنی بھی رکاوٹیں حائل ہوں، کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر دم نہ لیں۔ +٭ مناسب غذا اور باقاعدہ ورزش کا معمول اپنائیں۔ +٭ ایسی سرگرمیوں سے گریز کریں جو آپ کی جسمانی اور ذہنی قوتِ کار کو متاثر کرنے کا سبب بنیں۔ رات گئے تک جاگنے اور ’’غیرنصابی تقریبات‘‘ میں حصہ لینے سے احتراز کریں۔ +چرچل جیسے متحرک فرد کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی (80) سال کی عمر میں بھی فارغ رہنا کوئی خوش کن بات نہ تھی۔ جب آئزن ہاور 1955ء میں جنیوا سمٹ سے واپس لوٹے تو انہیں چرچل کی طرف سے ایک ��ط موصول ہوا جس میں چرچل نے لکھا تھا کہ اگرچہ ذمہ داریوں سے نجات میرے لئے کسی قدر سکون کا باعث ہے، لیکن جب اہم سفارتی کانفرنسز میرے بغیر منعقد ہوتی ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں برہنہ ہو گیا ہوں۔ +اگر کوئی بوڑھا سیاسی لیڈر کسی طرح کے سنگین مرض میںمبتلا نہ ہو تو بڑھتی ہوئی عمر کے باعث اس کی قوتِ کار، جوش و خروش اور ذہنی سرعت میں جو کمی واقع ہوتی ہے، وہ اسے اپنے علم اور قوتِ تجزیہ سے پورا کر لیتا ہے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جب 1972ء میں میری ملاقات چو این لائی سے ہوئی تو اس کی عمر 73برس تھی، 1969ء میں ڈیگال سے ہوئی تو اس کی عمر 78 برس تھی، 1959ء میں کونراڈ ایڈنائور سے ہوئی تو اس کی عمر 83 برس تھی۔ وہ سب اس وقت تک مسند اقتدار پر براجمان تھے کیونکہ وہ اپنی حکومت کے نوجوانوں سے زیادہ مضبوط اور قابل تھے۔‘‘ +رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’چرچل سیاست سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ان کی عمر اسی سال سے زائد تھی جب یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو سے ان کی آخری دفعہ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ٹیٹو کو مشروبات اور سگار کی پیشکش کی۔ بڈھے ٹیٹو نے سگار کا دھواں بھی اڑایا اور اپنے حصے کی سکاچ ختم کرنے کے بعد چرچل کے حصے پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ چرچل نے کسی قدر تاسف آمیز انداز میں ٹیٹو کا چہرہ دیکھا اور کہا۔ ’’تم اپنے آپ کو اتنا جوان کیسے رکھتے ہو؟‘‘ جیسا کہ ٹیٹو سے ملنے والا ہر فرد جانتا ہے، ٹیٹو کے اپنی عمر سے کم نظر آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے بال رنگتے تھے۔ ٹیٹو کے جواب کا انتظار کئے بغیر چرچل نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ اقتدار ہے۔ اقتدار ہی ایک آدمی کو ہمیشہ جوان رکھتا ہے۔‘‘ +جوش و ولولے سے مراد ہے اپنے کام کو کرنے میں پورے خلوص اور جذبے کا مظاہرہ کرنا۔ دوسروں میں جوش و ولولے کی نمو کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: +٭ فرائض کی انجام دہی میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ +٭ اپنے ماتحتوں کی کامیابیوں پر زور دیجئے۔ +٭ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ مثبت رویئے کا مظاہرہ کیجئے۔ +دوسری جنگ عظیم کے دوران، جب ہٹلر فتح پہ فتح حاصل کر رہا تھا، یورپ کے ملک اس کے سامنے سرنگوں ہوتے جا رہے تھے اور انگلینڈ کا وجود خطرے میں پڑا ہوا تھا، چرچل کی تقریر اور اس کا ولولہ برطانوی باشندوں کے لئے ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے تاریک دنوں میں یہ اس کی مشہور ترین تقریر تھی۔ ’’ہم جھکیں گے نہ کمزور پڑیں گے۔ ہم آخر تک جائیں گے۔ ہم فرانس میں لڑیں۔ ہمارے بحر اور بحیروں میں لڑیں گے۔ ہم بڑھتے ہوئے اعتماد اور بڑھتی ہوئی قوت کے ساتھ ہوا میں لڑیں گے۔ ہم اپنے جزیرے کی حفاظت کریں گے خواہ اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانا پڑے۔ ہم ساحلوں پر لڑیں گے۔ ہم زمین پر لڑیں گے۔ ہم میدانوں اور گلیوں میں لڑیں گے۔ ہم پہاڑوں میں لڑیں گے۔ ہم کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘‘ +نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کسی شخص کے لئے محض اپنی طاقتور ذہانت کی بدولت لیڈر بن جانا، کروڑوں افراد کو متاثر کرنا اور تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑ جانا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ بڑے بڑے سپاہی اور فاتحین تاریخ میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ لوگوں میں مقبول بھی ہوئے اور بدنام بھی، اور بعض اوقات انہوں نے تاریخ کا حلیہ ہی بدل دیا۔ بڑے بڑے مذہبی قائدین نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور ان میں ولولے کی آگ بھڑکائی لیکن ایسا کرنے میں انہوں نے ہمیش�� اعتقاد کو بنیاد بنایا۔ لوگوں کے جذبات کو چھیڑا گیا اور متاثر کیا گیا۔‘‘ +طرزِعمل سے مراد آپ کی عمومی ظاہری وضع قطع، چال ڈھال اور انداز و اطوار ہیں۔ کسی بے چین گروہ کی بے چینی ختم کرنے میں ایک ایسے لیڈر سے زیادہ کامیاب اور کوئی نہیں ہو سکتا جو اپنے چہرے یا اپنے اطوار سے کسی طرح کی پریشانی کا اظہار نہ ہونے دے۔ طرزِ عمل کا مظاہرہ مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ +٭ دوسروں کے سامنے کبھی اپنے کارکنوں کو ڈانٹئے ڈپٹئے مت۔ +٭ اپنی آواز اور حرکات و سکنات کو قابو میں رکھئے تاکہ ان سے کسی طرح کے شدید جذبات کا اظہار نہ ہونے پائے۔ بعض اوقات تھوڑا سا غصہ ظاہر کر دینا مناسب ہوتا ہے لیکن بالکل ہی بے قابو ہو جانا کبھی مناسب نہیں ہوتا۔ +٭ بیہودہ الفاظ اور ناشائستہ گفتگو سے ہمیشہ پرہیز کریں۔ +رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کسی لیڈر کی حیثیت کا تعین کرنے میں اس کے شخصی رویوں کے متعلق کلیدی سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کے رویئے پسندیدہ ہیںیا غیرپسندیدہ، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مفید ہیں یا غیرمفید۔ زمانہ سازی، خودپرستی، ظاہرداری جیسے رویئے بعض حالات میں ناپسندیدہ قرار دیئے جا سکتے ہیں لیکن ایک لیڈر کے لئے یہ بنیادی اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ مختلف مفادات کے حامل اور باہم مخالف گروہوں کے تغیر پذیر اتحادات کو مجتمع رکھنے کے لئے اسے زمانہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کے سامنے اپنے متعلق درست شخصی تاثر بنانے کے لئے اسے کسی حد تک خودپرستی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ بعض اوقات اہم معاملات پر اثرانداز ہونے کے لئے اسے ظاہرداری سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔‘‘ +ڈیگال کا کہنا ہے کہ ایک لیڈر کو ’’معلوم ہونا چاہئے کہ کب اسے ظاہرداری سے کام لینا ہونا اور کب بے تکلفی سے۔‘‘ اور یہ کہ ’’ہر متحرک اور سرگرم آدمی میں انانیت، فخر، سخت گیری اور مکاری کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے لیکن ان سب عیوب کے لئے اسے معاف کر دینا چاہئے بلکہ انہیں اس کی خوبیاں سمجھا جانا چاہئے، اگر وہ انہیں کار ہائے نمایاں کے لئے انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو۔‘‘ +کیا ان سب خصائل کا حصول دشوار دکھائی دیتا ہے؟ دکھائی دینا چاہئے کیونکہ یہ حقیقتاً مشکل ہے۔ تمام عظیم لیڈر جو مروجہ معیارات پر پورے اترے ان خصوصیات کے حامل تھے۔ +اگر ہم ان تمام لیڈروں کے متعلق سوچیں جو ناکام ہوئے یا جو عوام کو ناامید کرنے کا سبب بنے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی ناکامیوں کی وجہ انہی خصوصیات کی کمی تھی۔ +لہٰذا ایک لیڈر کو باوقار، خوش اطوار اور خصوصاً صابر و متحمل ہونا چاہئے۔ اسے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’کامیاب لیڈر کبھی لوگوں سے حقارت آمیز سرپرستانہ انداز میں گفتگو نہیں کرتا۔ وہ انہیں اوپر اٹھاتا ہے۔ اسے ’’احمقوں کو برداشت کرنے کے لئے‘‘ آمادہ اور تیار ہونا چاہئے۔ اسے دکھانا چاہئے کہ جن عوام کی تائید و حمایت کی اسے ضرورت ہے وہ ان کا احترام کرتا ہے۔ لیکن اسے باہمی فرق کی وہ خصوصیت بھی برقرار رکھنی چاہئے جو اسے اس قابل بناتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں… لیڈر کو نہ صرف یہ سیکھنا چاہئے کہ بولنا کیسے چاہئے بلکہ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے، اور یہ بہت زیادہ اہم ہے، کہ کب بولنا بند کر دینا چاہئے۔‘‘ ڈیگال نے اس نکتے کی نشاندہی بڑی عمدگی سے ان الفاظ میں کی ہے کہ خاموشی ایک لیڈر کے لئے طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم بولنے کے بجائے سنتے ہیں، تب ہی ہمیں کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ +صبر و برداشت، مستقل اور مستحکم رہنے اور نامساعد حالات کو خود پر غالب نہ آنے دینے کی ایک خصوصی اہلیت کا عطیہ ہیں۔ صبر و برداشت کمزوری کی علامت نہیں بلکہ استقلال و استحکام سے حاصل ہونے والی قوت کی نشانیاں ہیں۔ +صبر و برداشت حاصل کرنے اور بڑھانے کے لئے ایک نہایت زبردست قسم کے جوش و خروش کی ضرورت ہوتی ہے۔ تلاش کرنے کا جوش و جذبہ، اور جس کا جوش جتنا بڑھا ہوا ہوگا، وہ حالات کی سختیوں کو یقینا اتنی ہی آسانی سے برداشت کر سکے گا۔ +حضرت علی کرم اللہ وجہہ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں۔ ’’صبر بہادری کی ایک قسم ہے۔ صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔ اول جو تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرنا اور دوم جس چیز کا تمہیں لالچ ہو اس پر صبر کرنا۔‘‘ +ان سب سے قطع نظر، بعض اوصاف ایسے ہوتے ہیں جو ہر ایک لیڈر میں ہونے چاہئیں، خواہ اس کا طرزِ قیادت کچھ بھی ہو۔ یہ اوصاف ہیں، انصاف پسندی، دیانتداری، اصول پسندی اور دوسروں کا خیال رکھنے کی عادت۔ +کسی لیڈر کا سب سے اہم وصف دوسروں کو اپنی بات اچھی طرح سمجھانے کی اہلیت یعنی ابلاغ (communication) ہوتی ہے۔ یہ معلوم ہونا کہ کون سی بات کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے، ایک ایسا وصف ہے جو آپ کی قیادت اور جماعت کو بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ +ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اپنے پاس موجود معلومات اور تجاویز اچھی طرح دوسروں تک پہنچا سکیں، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ آپ یہ بات ایسے انداز میں کریں کہ حسب خواہ نتائج بھی حاصل ہو سکیں یعنی کسی کو قائل کرنا، تحریک دینا یا سمجھانا۔ +ابلاغ کے لئے سب سے پہلا لازمہ یہ ہے کہ آپ کو زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ اس بات کی مشق کیجئے کہ آپ اپنے خیالات کو واضح، مختصر اور قابل فہم الفاظ میں پیش کر سکیں۔ بے سوچے سمجھے بولنا، بڑبڑانا یا معموں میں باتیں کرنا کوئی مؤثر طریقہ نہیں ہوتا۔ +کوشش کیجئے کہ بات کرتے وقت آپ کی آواز واضح اور بلند ہو اور آپ ایک ہموار لہجے اور پُرزور انداز میں بات کریں۔ پُرزور انداز میں بات کرنے سے سننے والے کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی قوت ہے، اگر وہی بات آپ کمزور انداز میں کریں گے تو الٹا تاثر مرتب ہوگا۔ +یہ بات کہنے سے کیا فائدہ کہ ’’اس سال ہماری کارکردگی اچھی رہی‘‘ جبکہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ’’اس سال ہماری کارکردگی توقعات سے بڑھ کر رہی ‘‘؟ آپ کے الفاظ کا انتخاب آپ کے سننے والوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ +لیڈروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو تحریک دیں اور عمل پر اکسائیں، لہٰذا لیڈر جو الفاظ استعمال کرتا ہے، وہ نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسے الفاظ استعمال کیجئے جو آپ کی تقریر میں زور پیدا کریں اور سننے والوں پر ایک ولولہ انگیز اثر ڈالیں۔ +لیڈروں کو تقریر اکثر کرنا پڑتی ہے۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ ہوگا کہ آپ کتنے مؤثر طریقے سے ابلاغ کر سکتے ہیں، محض ذاتی ملاقاتوں میں نہیں، بلکہ بڑے بڑے اجتماعات کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بھی۔ +عوام کے سامنے تقریر کرنے کی ضرورت کئی مواقع پر پیش آ سکتی ہے مثلاً: +اپنی ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے تاکہ ان کو مزید جوش سے کام کرنے کی تحریک دی جا سکے یا کسی نئے اقدام کے متعلق انہیں بتایا جا سکے۔ +اپنے رفقاء اور بڑوں کے سامنے کوئی تجویز پیش کرتے ہوئے۔ +اپنی جماعت کی طرف سے اجلاسوں میں خطاب کرتے ہوئے۔ +اگر آپ قیادت کے منصب پر فائز ہیں تو امکان یہی ہے کہ آپ مندرجہ بالا ہر صورتِ حال سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند بنیادی باتیں ایسی ہیں جن کا خیال رکھنا آپ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا: +٭ بوائے سکائوٹ کا نعرہ صرف تقریروں کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ اکثر جگہوں پر کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ ’’تیار رہو۔‘‘ اپنی تقریر کے لئے تیاری کرتے ہوئے یہ خیال رکھئے کہ جو ضروری نکات آپ لوگوں کے علم میں لانا چاہتے ہیں، ان سب کا ذکر ہو۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بغیر تیاری کئے کسی بھی وقت تقریر کر سکتے ہیں۔ تاہم، بغیر تیاری کے تقریر کرتے ہوئے عین ممکن ہے کہ مقرر مرکزی نکات سے ہٹ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ضروری معلومات کا تذکرہ کرنا ہی اس کے ذہن سے نکل جائے۔ ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہے جن کا تقریر کرنے کے معاملے میں تجربہ کم ہو۔ +٭ ضروری نہیں کہ آپ اپنی تقریر کا ایک تفصیلی خاکہ بنائیں لیکن اگر آپ مرکزی نکات کا ایک ہلکا پھلکا خاکہ ساتھ رکھ لیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ +٭ آئینے کے سامنے تقریر کرنے کی مشق کیجئے۔ اس امر کا خیال رکھئے کہ تقریر کرتے وقت آپ کا سر بلند ہو، نوٹس کی طرف جھکا ہوا نہ ہو۔ آپ کا انداز پُرزور ہو اور آپ نے اپنے بولنے کے لئے وقت کا ایک دورانیہ مقرر کر رکھا ہو۔ +٭ تقریر کرنے سے پہلے تھوڑا وقت لے کر خود کو پُرسکون کیجئے۔ گھبراہٹ ہو تو ممکن ہے کہ آپ کی آواز کمزور پڑ جائے یا آپ تیزی تیزی سے بولنے لگیں۔ یہ دونوں باتیں آپ کی ساکھ پر برا اثر ڈالیں گی۔ بولتے وقت چند سننے والوں کو براہِ راست دیکھنے کا حربہ بھی آزمایئے۔ سامعین کا ردِعمل جاننے کے لئے ان سے ایک ربط پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ +٭ تمام حقائق سے آگاہی حاصل کیجئے اور سوالات کے لئے تیار رہئے یا اگر آپ کو محسوس ہو کہ کوئی خاص نکتہ مطلوبہ اثر ڈالنے میں ناکام ہے تو اپنی تقریر میں ترمیم کر لیجئے۔ اگر آپ کو نفس مضمون پر عبور حاصل ہے، موضوع سے تھوڑا بہت انحراف کرنے میں آپ کو کوئی مشکل پیش نہیںآ ئے گی۔ +اگر کوئی تقریر لمبی ہو تو ضروری نہیں کہ وہ اچھی بھی ہو۔ خواہ مقرر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر وہ ایک ہی موضوع پر دیر تک بات کرتا رہے تو سننے والے اکثر بے چینی کے شکار ہونے لگتے ہیں۔ آپ اپنا نکتہ جتنی جلد مکمل کر لیں گے، اتنی ہی جلد سننے والوں کو قائل بھی کر لیں گے۔ +اگر آپ کو تقریر کرنے سے پہلے کبھی ٹھنڈے پسینے آئے ہوں یا آپ کی زبان لڑکھڑانے لگی ہو تو پریشان مت ہوں۔ ایسا محسوس کرنے والے آپ اکیلے نہیں ہیں۔ جن لوگو ںکو عوام کے سامنے بولنے کی مشق نہ ہو، انہیں اس تجربے سے اکثر گزرنا پڑتا ہے۔ +یہ یاد رکھئے کہ گھبراہٹ کا یہ دورا پہلے چند منٹ سے زیادہ برقرار نہیں رہتا۔ جب سننے والے آپ کی تقریر پر ردِعمل کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو آپ خودبخود پُرسکون ہو جاتے ہیں۔ +اس حوالے سے چند مشورے حسب ذیل ہیں +٭ کوشش کیجئے کہ آپ کو کسی ایسے موضوع پر تقریر نہ کرنا پڑے جو آپ کے لئے اجنبی ہو۔ اگر آپ اپنے موضوع پر دسترس رکھتے ہیں تو آپ کے علم کے بل بوتے پر گھبراہٹ کے پہلے چند منٹ آسانی سے گزر جائیں گے۔ +٭ بات شروع کرنے سے پہلے گہری سانس لیجئے اور تیز تیز بات کرنے کی کوشش مت کیجئے۔ اگر وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے تو تیز بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ +٭ جتنی مرتبہ ممکن ہو، بڑے اور چھوٹے اجتماعات کے سامنے تقریر کرنے کی مشق کیجئے۔ مثال کے طور پر، آپ آئینے کے سامنے یا اپنے گھر والوں کے سامنے تقریر کرنے کی مشق کر سکتے ہیں یا اس سے بھی بہتر بات یہ کہ گاہے بہ گاہے اپنے کارکنوں کے سامنے ہلکی پھلکی تقریر کیجئے۔ اس سے آپ کو تقریر کرنے کے لئے ضروری اعتماد حاصل ہوگا۔ +اگرچہ اپنے کارکنوں کی کارکردگی پر ردِعمل ظاہر کرنے کے معاملے میں، فیڈ بیک اور انعام دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن اکثر یہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں۔ فیڈ بیک کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کارکن کے علم میں یہ بات لائیں کہ آپ اس کے کام سے خوش یا ناخوش ہیں۔ انعام یہ ہے کہ کوئی اچھا کام کرنے پر اسے مناسب صلہ دیا جائے۔ +فیڈ بیک اور انعام دونوں آپ کے کارکنوں کو اس بات کا شعور بخشتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیڈر کی نظر میں اپنا کام کتنے اچھے انداز میں انجام دیا ہے۔ +کسی بھی ٹیم کی صحت کے لئے فیڈ بیک ایک ضروری چیز ہے۔ لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں تک اپنا فیڈ بیک اچھے انداز میں پہنچاتا رہے تاکہ مستقبل میں ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے۔ +ایک لیڈر اور منتظم کی حیثیت سے آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ مثبت اور منفی دونوں طرح کا فیڈ بیک دیں۔ دونوں ضروری ہیں اگرچہ مقابلتاً مثبت فیڈ بیک دینا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ +مثبت فیڈ بیک اس وقت دیا جانا چاہئے جب کوئی کارکن اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہو، کامیابی سے جدت طرازی کر رہا ہو یا گذشتہ کام سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہا ہو۔ +اس بات کا خیال رکھئے کہ آپ کے فیڈ بیک میں نہایت واضح انداز سے یہ بات نظر آئے کہ آپ کا یہ ردِعمل کس وجہ سے ہے۔ عمومی بیان دینے سے گریز کیجئے کہ ’’آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔‘‘ ایسی بات زیادہ قابل یقین معلوم نہیں ہوتی، اور اس سے کام کرنے والے کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون سا کام اچھا کر رہا ہے۔ +ٹیم یا فرد کی کارکردگی کو درست کرنے کے لئے منفی فیڈ بیک بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں بھی عمومیت سے کام لینے سے گریز کیجئے اور کسی فرد کے کام یا رویئے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے واضح الفاظ میں بتایئے کہ آپ کو کس بات پر اعتراض ہے ۔ کسی فرد کی شخصی خصوصیات پر نکتہ چینی کرنے سے گریز کیجئے۔ +یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے کارکنوں سے فیڈ بیک حاصل کیجئے۔ اس طرح ٹیم ورک کا ماحول پیدا ہوگا اور آپ کے کارکنوں میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ آپ ان کی رائے کو وقعت دیتے ہیں۔ +آپ کو رسمی اور غیررسمی فیڈ بیک کے درمیان واضح فرق بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔ رسمی فیڈ بیک ان تحریری سالانہ جائزوں کی شکل میں نظر آتا ہے جن میں کسی کارکن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور جن کا تعلق اس کارکن کی ترقی سے ہوتا ہے۔ غیررسمی فیڈ بیک اکثر زبانی تبصروں کی شکل میں رونما ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی کارکن کو یہ بتانا کہ اس نے کسی خاص کام میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپنے کارکنوں کو مطلوبہ انداز میں کام کرنے پر لگائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ انہیں مثبت اور منفی فیڈ بیک فراہم کرتے رہیں۔ +عمدہ کارکردگی دکھانے پر انعام کئی شکلوں میں دیا جا سکتا ہے۔ فیڈ بیک کے ساتھ ساتھ، انعام کے ذریعے آپ اپنے کارکن کو بتاتے ہیں کہ اس نے اپنا کام اچھے اندا ز میں کیا ہے۔ +عمدہ کارکردگی پر انعام دینے سے کارکنوں کو مزید عمدہ کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ جب انعام ملتا ہے تو آپ کے کارکنوں کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنا اور غیرمعمولی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ +آپ کی ٹیم کی کارکردگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی قیادت، اپنے اہداف، اور اپنے ذاتی کام پر کتنا اعتماد رکھتے ہیں۔ اپنی ٹیم میں اعتماد پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بے ساختہ انداز میں گاہے بہ گاہے ان پ�� اعتماد کا اظہار کرتے رہیں۔ اعتماد پیدا کرنے کے کئی اور طریقے بھی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں: +٭ اگر آپ کو یقین ہے کوئی کارکن کوئی مخصوص کام کر سکتا ہے مگر اسے خود اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تو اس کی صلاحیتوں کا زبانی اعتراف کیجئے۔ مثال کے طور پر، آپ یوں بات کا آغاز کر سکتے ہیں: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ یہ کام بہت اچھے طریقے سے کریں گے کیونکہ…‘‘ +٭ لیڈر کو اچھے کام پر اپنے کارکنوں کی ہمیشہ ستائش کرنی چاہئے۔ کام خواہ کتنا چھوٹا یا کتنا بڑا کیوں نہ ہو، اس پر تبصرہ ضروری ہے۔ +٭ اپنے کسی کارکن کو ایسے چھوٹے چھوٹے کام دیجیے جن سے اس کی ذمہ داری میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے۔ کام چھوٹے ہونے کی بدولت کارکن کے لئے کامیابی حاصل کرنا آسان ہوگا، اور یوں اس کا اعتماد بڑھتا جائے گا۔ +٭ لوگ صرف اعتماد کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتے۔ اعتماد کے ساتھ ساتھ انہیں بونس اور ترقی کی شکل میں یا (سیاسی جماعت ہونے کی صورت میں) عوام کے سامنے ان کی محنت کا اعتراف کر کے انہیں انعام سے بھی نوازیئے۔ +٭ اپنی ٹیم کو جیتنے والی ٹیم کہہ کر اپنے کارکنوں کو یہ احساس دلایئے کہ وہ ایک جیتنے والی ٹیم کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر، انہیں جتلایئے کہ ان کی وجہ سے آپ کا شخصی تاثر اچھا ہوتا ہے اور یہ کہ ان کی محنت ضائع نہیں جا رہی۔ اس سے ہر فرد میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ وہ پہلے سے زیادہ محنت کرے اور اپنی ٹیم کا سر نیچا نہ ہونے دے۔ +٭ اپنی ٹیم کا اعتماد بڑھانے پر توجہ دیجیے لیکن حقیقت پسندی کا دامن نہ چھوڑیئے۔ کسی شخص کو اس غلط فہمی میں نہ ڈالئے کہ وہ ناقابل عمل کام بھی کر سکتا ہے۔ اگر کوئی فرد ناکام ہوگیا تو آپ کے اعتماد بڑھانے والے بیانات کا اثر الٹا ہوگا اور اس کا اعتماد ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ +آپ کی ٹیم یا ادارے کی کامیابی کے لئے ذمہ داریوں کی تفویض ایک ضروری عمل ہے۔ لیڈر یا منتظم کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ سارا کام اکیلے ہاتھ نہیں کر سکتا۔ +اس نکتے کو سمجھنے کے لئے ایک ہی ادارے کی دو ٹیموں پر نگاہ ڈالئے۔ دونوں لیڈروں کے سامنے ایک کٹھن ڈیڈ لائن ہے جس سے پہلے پہلے انہیں ادارے کے لئے ایک پروجیکٹ مکمل کرنا ہے۔ +پہلے لیڈر کو یہ وقت کی اہمیت کا احساس ہے۔ چونکہ وقت بہت کم ہے، اس لئے بعد ازاں اس کے پاس کام کو دوبارہ چیک کرنے یا اس پر دوبارہ غور کرنے کی مہلت نہ ہوگی۔ اس نے اپنی ٹیم کے کارکنوں کی ماضی کی چند غلطیاں نوٹس کی ہیں لہٰذا وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ پروجیکٹ کا زیادہ تر کام خود ہی انجام دے گا۔ +دوسرا لیڈر بھی وقت کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہ بھی کہ پروجیکٹ کو پیش کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لینے کے لئے زیادہ وقت میسر نہ ہوگا۔ تاہم، اسے احساس ہے کہ وہ پروجیکٹ کو مخصوص اجزاء میں تقسیم کر کے اور ہر جزو اپنے گروپ کے کسی ایک رکن کے حوالے کر کے زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح اسے کام کو چیک کرنے کے لئے مہلت مل جاتی ہے کیونکہ اس نے بھی ماضی میں اپنے کارکنوں کے کام میں چند غلطیاں دیکھی ہیں۔ +دونوں لیڈر اپنا پروجیکٹ ایک ہی وقت پر مکمل کر لیتے ہیں تاہم پہلے کے مقابلے میں دوسرے لیڈر کا پروجیکٹ زیادہ بہتر، سوچا سمجھا اور مؤثر نظر آتا ہے کیونکہ پہلے نے خود پر بساط سے زیادہ بوجھ ڈال لیا اور محض کام مکمل کرنے میں اس کے معیار کو خراب کر بیٹھا۔ +زیادہ تر لیڈروں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروپ میں ذمہ داریاں پہلے ہی تقسیم کر چکے ہیں۔ تاہم، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو ذمہ داریاں انہوں نے دوسروں کو ��ی ہوتی ہیں، وہ عام اور غیراہم، دقت طلب یا نہایت مشکل ہوتی ہیں۔ +اپنے کارکنوں کی دلچسپی کا گراف بلند رکھنے کے لئے، انہیں چند ایسی ذمہ داریاں دیجیے جو زیادہ دلچسپ اور ولولہ خیز ہوں۔ اس کا مطلب یقینا یہ ہوگا کہ آپ کو کوئی ایسا کام چھوڑنا ہوگا جسے آپ خود کرنے کی خواہش رکھتے ہوں گے لیکن اس طرح آپ اپنی ٹیم کو یہ دکھا کر کہ آپ بہتر کام بھی ان کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں، ان کا مورال بلند کریں گے۔ +لیڈر اکثر کسی نئے منصب پر اپنا ایک منصوبہ لے کر فائز ہوتے ہیں اور اپنی افرادی قوت کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، کسی نئے دفتر میں کارکنوں کی درجہ بندی کو تسلیم نہ کر کے اور وہاں پہلے سے موجود کارکنوں کے تجربے سے استفادہ نہ کر کے وہ اپنے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ +اپنے سینئر کارکنوں کو دوست بنایئے، دشمن نہیں۔ +اکثر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارٹی میں کوئی ایک ٹیم زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہے یا پارٹی کی کامیابی میں زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آپ اپنی کامیابی کی تشہیر نہیں کریں گے تو وہ روزمرہ کے کام کی بھیڑ کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔ اپنی ٹیم کی کامیابیوں کی تشہیر کرنے سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ مجموعی طور پر آپ کے کارکن بھی فائدے میں رہتے ہیں۔ +اپنی ٹیم کی کامیابی کی تشہیر کرنے کے چند طریقے یہ ہیں +٭ اپنے کسی بڑے کے ساتھ ملیں تو اسے یہ بتائیں کہ آپ کی ٹیم نے حال ہی میں کیا کامیابی حاصل کی ہے۔ +٭ اپنی ٹیم کے ان کارکنوں کا ذکر خاص طور پر کیجئے جنہوں نے اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کے بڑے اور آپ کے کارکن اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ آپ ساری کامیابی کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں نہیں ڈال رہے۔ +٭ خط یا ای میل کے ذریعے کسی فرد یا ٹیم کے کام کا اعتراف کرتے ہوئے، اس پیغام کی ایک نقل اپنے بڑوں کو ضرور بھجوایئے۔ +مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ اپنے بڑوں سے ہر ملاقات میں اپنی کامیابی کا ڈھنڈورہ پیٹنا ضروری نہیں۔ اس سے ان پر یہ تاثر پڑے گا کہ آپ کو شیخیاں مارنے کی عادت ہے یا پھر آپ اپنی ٹیم کے بارے میں عدم تحفظ کے احساس کے شکار ہیں۔ کسی بھی لیڈر کے لئے یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔ مگر بعض غلطیاں اس سے بھی بڑی ہوتی ہیں۔ ذیل میں چند ایسی غلطیاں ملاحظہ کیجئے: +ایک لیڈر کسی ٹیم یا ادارے کی سربراہی پر فائز کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس ادارے کو رہنمائی اور سمت فراہم کر سکے۔ تاہم، چند لیڈر غلط فہمی کے تحت اپنی ٹیم کے ساتھ بہت زیادہ دوستانہ روابط استوار کر لیتے ہیں۔ اگرچہ آپس میں خلیقانہ تعلقاتِ کار استوار کرنا ضروری ہے مگر ضرورت سے زیادہ دوستانہ تعلقات کئی اعتبار سے خرابیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ +اگر ٹیم کے ارکان آپ کو اپنے ہی جیسا سمجھیں گے تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ آپ کے فیصلے کو قبول کرنا ان کے لئے دشوار ہو جائے گا۔ +ٹیم کے اہداف حاصل کرنے میں کارکنوں کی سرگرمی کم ہو جائے گی اور روزمرہ کے معمولی کام بھی التواء کے شکار ہونے لگیں گے۔ اگر آپ ان کے ’’دوست‘‘ ہیں تو آپ کو متاثر کرنے کے لئے وہ محنت کیوں کریں؟ +دوستی اور نامناسب تعلق کار کے درمیان پائی جانے والی لکیر بڑی مبہم سی ہوتی ہے اور ہمیشہ تغیر پذیر رہتی ہے۔ کسی بھی اعتبار سے ضرورت سے زیادہ دوستانہ مزاج اپنانا، ’’فلرٹیشن‘‘ کے زمرے میں بھی داخل کیا جا سکتا ہے۔ +کوئی لیڈر یہ بات فراموش کر سکتا ہے کہ اس کی جگہ سربراہی کے منصب پر ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ ٹیم کے کسی نہ کسی رکن کو یہ بات ضرور یاد رہے گی اور ممکن ہے کہ وہ خاموشی سے اپنے طور پر کوئی بڑا پراجیکٹ مکمل کر ڈالے۔ یہ بات بڑوں کی نگاہ میں لیڈر کی ساکھ خراب کر دے گی۔ +یہ بات طے ہے کہ کسی عفریت کے لئے کوئی بھی کام کرنا نہیں چاہتا، مگر ماتحت کسی ایسے فرد کے لئے کام کر کے زیادہ خوش رہیں گے جو حدود متعین کرتا ہے اور ان کا ’’بہترین دوست‘‘ بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ +ایک لیڈر کے طور پر آپ کے اوصاف میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ آپ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے ماورا رہیں۔ کسی بھی بات کو ذاتی طور پر نہ لیں خواہ آپ کے کارکن طنزیہ باتیں کر کے یا بدتمیزانہ رویہ اپنا کر آپ کو اشتعال دلانے کی کوشش ہی کیوں نہ کریں۔ ایک لیڈر کے طور پر تعلقات بنائے رکھنا آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کبھی کسی ماتحت کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ آپ کو غصہ دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ +ایک لیڈر کو ان اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جو وہ اپنی ٹیم کے لئے مقرر کرتا ہے۔ اپنی ٹیم سے زیادہ کام کرنے کے لئے یا کسی خاص معیار کو برقرار رکھنے کے لئے کہنا بے معنی ہوگا، اگر آپ خود بھی زیادہ کام کر کے یا ان معیارات کو برقرار رکھ کر نہیں دکھائیں گے۔ +بعض اوقات جو بہترین سبق لیڈر دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود کام کو ہاتھ میں لے اور اپنی ٹیم کو کر کے دکھائے کہ وہ ان سے کیسے کام کی توقع رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کو انہیں یہ بتانے کی ضرورت بھی نہ پڑے کہ آپ ان سے بھی ویسی ہی کارکردگی حاصل کرنے کی توقع کر رہے ہیں۔ اکثر مثال خودبخود قابل تقلید بن جاتی ہے۔ +اگر کوئی ویٹر آپ کو اچھی سروس فراہم کرے تو تہذیب کا تقاضا ہے کہ آپ اسے اچھی ٹپ سے نوازیں۔ اسی اصول کا اطلاق آپ کی ٹیم کے کئے ہوئے کام پر بھی ہوتا ہے۔ کام کرنے کے مطلوبہ طریقوں کی وضاحت کی جائے اور جب کام ان کے مطابق ہو تو پھر اس کا انعام بھی دیا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کارکن عمدہ نتائج حاصل کرنے کے لئے جان مارتے رہتے ہیں اور بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس کا صلہ نہیں ملے گا۔ +ایک دفعہ ماتحت کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اسے صلہ نہیں ملے گا یا یہ کہ آپ انہیں ایک ہی کام پر لگائے رکھ کر ان کے کیریئر کو محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو وہ آپ کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لے گا۔ +بعض اوقات لیڈر کلیدی کارکنوں کی جگہ ان لوگوں کو لے آتے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ماضی میں کام کیا ہوتا ہے۔ +ٹھیک ہے کہ آپ نے کسی کے ساتھ کام کیا ہے، اس لئے آپ کو پتہ ہے کہ وہ محنت کرے گا اور غالباً ان اہداف کو بھی حاصل کر لے گا جو آپ مقرر کریں گے۔ +تاہم، اگر آپ کے ہاتھ میں کسی نئی ٹیم کی سربراہی آئے اور آپ پہلے سے موجود لوگوں کو ہٹا کر اپنے من چاہے لوگ لانے لگیں یا ان لوگوں کے لئے نئے مناصب تشکیل دینے لگیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ پوری ٹیم آپ کے خلاف ہو جائے گی۔ +کوئی نیا منصب سنبھالنے پر اگر ممکن ہو تو اپنی سربراہی میں آنے والے گروپ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے کچھ وقت صرف کیجئے۔ ممکن ہے کہ آپ کو ایسا گروپ یا افراد ملیں جو محنت کرتے ہیں اور اپنی کارکردگی کو مزید بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ +بعض لیڈر اپنے گروپ کے ارکان کو حریف سمجھ لینے کی مہلک غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے لیڈر ہمیشہ اہم معلومات خود تک محدود رکھتے ہیں اور کارکنوں کو وقت گزر جانے پر ہی ان سے آگاہ کرتے ہیں، ان کا خیال ہوتا ہے کہ ایسا کر کے وہ کارکنوں پر اپنی برتری برقرار رکھ سکیں گے۔ +اپنی ٹیم میں اپنے کارکنوں کے ساتھ آپ جو رشتہ بناتے ہیں، اس کا ایک حصہ آپ کے کارکن کا یہ احساس ہے کہ وہ آپ کے بڑے کے لئے نہیں بلکہ آپ کے لئے کام کر رہا ہے۔ +انہیں آگاہ کیجئے کہ ان کا کام ٹیم کے اہداف حاصل کرنا ہے، ذاتی اہداف حاصل کرنا نہیں۔ آپ کا اپنا کام بھی یہی ہے۔ +اور اگر آپ کو محسوس ہو کہ کوئی کارکن اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر رہا ہے اور ترقی کا حقدار ہے تو ترقی حاصل کرنے میں اسے اعانت فراہم کیجئے۔ یوں آپ کے ساتھ آپ کو ایک حقیقی لیڈر سمجھیں گے، وہموں کا مارا ہوا کوئی ڈکٹیٹر نہیں۔ +ٹیم کی صلاحیتوں کی نمو کرنے کے لئے نہایت اہم ہے کہ ارکان کی تخلیقی قوت کی نمو کی جاتی رہے۔ وہ پرانی کہاوت سچ ہے کہ ایک کے مقابلے میں دو بہتر ہوتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب انہیں تخلیقی انداز میں سوچنے کی آزادی حاصل ہو۔ +تخلیقی قوت کسی بھی ادارے کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مختلف ارکان کی طرف سے آنے والے نت نئے خیالات سے ٹیم کی تخلیقی دانش متحرک ہو جاتی ہے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے خیالات پر بحث و تمحیص سے بہترین نتائج حاصل ہوتے ہیں جس سے جماعت کو فائدہ ہوتا ہے۔ +’’سٹرٹیجک لیڈر شپ فورم‘‘ کی طرف سے کی جانے والی ایک سٹڈی سے معلوم ہوا کہ سوچنے کے چار مخصوص انداز ہوتے ہیں: +جاننے والے: یہ لوگ حقائق سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور ڈیٹا کی ترتیب لگانے میں ماہر۔ ایسے لوگ اعداد و شمار اور ٹیکنیکل سسٹم میں عمدہ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ +مفاہمت کرنے والے: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو الفاظ کا سہارا لئے بغیر دوسروں کی ذات، کام کی نوعیت اور کام کرنے کے بہترین طریقے کے بارے میں جبلی طور پر سمجھ جاتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر ایسے کام میں نہایت عمدہ کارکردگی دکھاتے ہیں جو انہیں خود پسند ہوتا ہے، مگر ایسے لوگوں میں ڈسپلن کی کمی ہوتی ہے اور پروجیکٹ مکمل کرنے میں انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ +سوچنے والے: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی کام کو کرنے کا ایسا منطقی طریقہ ڈھونڈ نکالتے ہیں جو سننے میں بعید از فہم معلوم ہوتا ہے اور پھر یہ دوسروں کو اس پر قائل کرتے ہیں۔ اگر ان لوگوں میں شخصی ڈسپلن خاطر خواہ حد تک موجود ہو تو یہ نئی راہیں نکال سکتے ہیں۔ +غور و خوض کرنے والے: اداروں کے زیادہ تر سربراہ غور و خوض کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ روزمرہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ یہ درپیش منصوبوںکو بھی منطقی انداز میں سنبھال سکتے ہیں۔ +جب آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کے کارکنوں کے مثبت پہلو کون سے ہیں تو پھر انہیں تخلیقی انداز میں سوچنے کی اجازت دے کر آپ ان کے طرز ہائے فکر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ مختلف انداز میں سوچنے والے افراد کو ایک ہی گروپ میں اکٹھا کر دیں۔ اپنے اپنے منفرد طرزِ فکر کی بدولت یہ لوگ ایک بہترین ٹیم بناتے ہیں۔ +ایک لیڈر کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے ماتحت کے طرزِ فکر کو پہچانیں مگر نہایت بہتر ہوگا کہ آپ اپنے طرزِ فکر سے بھی واقف ہوں۔ اگر آپ کو پتہ چلے کہ زیادہ تر لیڈروں کی طرح آپ بھی غور و خوض کرنے والے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ زیادہ تر وقت جاننے والوں اور سوچنے والوں کی تخلیقی صلاحیت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ +اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مختلف طرزِ فکر کے حامل افراد کو ٹیم کی مجموعی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کیسے کام میں لایا جائے کہ ان کی انفرادیت بھی مجروح نہ ہو؟ بہ الفاظِ دیگر، ان کی تخلیقی قوت کی نمو کیسے کی جائے؟ +سب سے پہلے تو آپ کو اپنے کارکنوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ قو��عد و ضوابط تبدیل ہو رہے ہیں۔ ان کی تجاویز مانگ کر یا ان سے یہ کہہ کر کہ وہ کسی موجودہ کام کو کرنے کے نئے طریقے سوچیں، آپ یہ اعتراف کر لیتے ہیں کہ آپ بھی انسان ہیں، ہر سوال کا جواب آپ کے پاس نہیں، اور آپ مدد کی درخواست کرنے پر آمادہ ہیں۔ +زیادہ تر حالات میں اس سے مورال میں اضافہ ہونے کا اضافی فائدہ بھی حاصل ہوگا۔ تخلیقی قوت کی نمو کی جائے تو کارکنوں میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ بہ حیثیت فرد ان کی قدر کی جا رہی ہے۔ اب آپ کو یہ بتانے کے لئے کہ آپ نے درست فیصلہ کیا ہے، وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت سے کام کریں گے۔ +اپنے ماتحتوں کے ساتھ آپ کے تعلق کو مزید لچک دار اور وسیع بھی ہونا پڑے گا۔ آپ کے کارکنوں کو یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ نئی تجاویز لے کر آپ کے پاس آ سکتے ہیں۔ +اپنی ٹیم کو تخلیقی انداز میں سوچنے پر آمادہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات نظر میں رکھئے: +ایک عمومی سا موضوع رکھ کر اس پر نئی تجاویز حاصل کرنے کے عمل سے آغاز کیجئے۔ مثال کے طور پر، تمام کارکنوں سے رائے مانگئے کہ ان کے خیال میں ٹیم کے کام کو کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ +اپنے کارکنوں سے کہئے کہ وہ ذہن پر زور ڈال کر ہر ہفتے ایک نئی تجویز پیش کریں، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی یا بڑی کیوں نہ ہو۔ ایک لیڈر نے (جس کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا) ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ مجھے اس قابل ہونا چاہئے کہ مہینے میں کم از کم ایک نیا کام ضرور ایسا بتا سکوں جس کی بدولت میری ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ +اپنے کارکنوں کو اس بات سے باخبر رکھئے کہ ٹیم کو کیا کیا چیلنجز درپیش ہیں۔ ان سے یہ پوچھتے رہئے کہ کسی خاص مسئلے کو حل کرنے کے لئے وہ کیا طریقہ اپنائیں گے۔ +اپنے کارکنوں پر یہ بات واضح کر دیجیے کہ کوئی بھی تجویز انوکھی یا غیرمعمولی نہیں۔ بعض اوقات کارکن اپنی تجویز اس لئے آپ کے سامنے پیش نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بات بہت زیادہ خلافِ معمول اور خلافِ روایت یا احمقانہ ہے۔ انہیں یہ بھی بتایئے کہ غلطیاں کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر تجویز، خواہ وہ سننے میں کتنی عمدہ اور قابل عمل کیوں نہ ہو، خاطر خواہ نتائج بھی برآمد کرے۔ +جب بھی کسی کارکن کی نئی تجویز پر عملدرآمد ہو تو ساری ٹیم کو اس کے بارے میں آگاہ کیجئے لیکن انہیں یہ بھی ذہن نشین کرایئے کہ کسی تجویز پر گفتگو کرنے میں اور اس تجویز پر عملدرآمد کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے کہ لیڈر کے علم میں لائے بغیر اور اس کی اجازت حاصل کئے بغیر کارکن اپنے طور پر کوئی تجویز آزمانے کی کوشش کر بیٹھیں۔ +روزمرہ کے تھکا دینے والے کام میں مزاح اور ہنسی کا اضافہ نہایت خوشگوار رہتا ہے۔ جب لوگ مل کر ہنستے ہیں تو ان کے تعلقات میں تکلف کا عنصر قدرے کم ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی معیت میں زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ جائے کار کے ساتھ ہنسی اور خوشی کا تصور وابستہ ہو تو کام خوشگوار اور پُرلطف ہو جاتا ہے۔ +لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ زیادہ تر مواقع پر مزاح ایک اچھی چیز ہے لیکن بعض مزاحیہ باتیں جائے کار کے لئے موزوں نہیں ہوتیں۔ آزمانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جائے کار پر کوئی لطیفہ سنانے سے پہلے سوچئے کہ اگر یہی لطیفہ بچوں کے سامنے سنایا جائے تو کیسا رہے۔ کیا بچوں کے لئے یہ مناسب رہے گا؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماتحت بچے ہوتے ہیں مگر اکثر جو باتیں بچوں کے لئے موزوں نہیں ہوتیں، +وہ جائے کار کے لئے بھی موزوں نہیں ہوتیں۔ +مندرجہ ذیل موضوعات ایسے ہیں جن سے جائے کار پر پرہیز کیا جانا چاہئے: +٭ جنسی نوعیت کے لطیفے +٭ ایسے لطیفے جو کسی خاص صنف یا جنسی رویئے کے متعلق ہوں۔ +٭ کسی نسل یا ذات پر حملہ کرنے والا مزاح۔ +٭ کسی کے مذہب پر حملہ کرنے والا مزاح۔ +ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو اپنے کارکنوں سے یہی توقع ہونی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض انجام دیں اور ہم آہنگ ہو کر کام کریں۔ اگر آپ کو رک کر یہ جملہ دوبارہ پڑھنا پڑے تو غالباً اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ انتظام و انصرام یا لیڈرشپ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تجربہ رکھتے ہیں۔ کارکنوں کو ہم آہنگ ہو کر کام کرنے پر آمادہ کرنا کہنے میں جتنا آسان ہے، کرنے میں اتنا ہی مشکل ہے۔ +اپنی ٹیم کا مزاج خوشگوار رکھنے کا ایک طریقہ مزاح کا استعمال ہے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو انفرادی حیثیت میں دیکھیں اور یہ سمجھیں کہ کام کے علاوہ ان کی ایک ذاتی زندگی بھی ہے۔ +یہ کام کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنے کارکنوں کے لئے گاہے بہ گاہے مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کریں۔ اگر آپ صرف اتنا ہی کر ڈالیں کہ اعلان کر دیں کہ ہر جمعے کی صبح کو سب کو برگر کھلائے جائیں گے تو اس سے بھی بہت فرق پڑے گا۔ اگر آپ کے کارکنوں کو اجازت ہو کہ وہ اپنے کام سے ہٹ کر بھی تھوڑی بہت بات چیت کر سکتے ہیں تو اس سے ہم آہنگی کا احساس پیدا ہوگا اور کام کا ماحول بہتر ہو جائے گا۔ +اپنی ٹیم میں ایک منظم انداز میں غیررسمی تعلقات پیدا کرنے کے لئے چند تجاویز حسب ذیل ہیں: +٭ ہفتے میں یا مہینے میں ایک مرتبہ اپنے کارکنوں کو ناشتہ یا دوپہر کا کھانا کھلانے کے لئے باہر لے جایئے۔ +٭ ہر مہینے تھوڑا سا وقت کسی ایسے فرد کے لیے نکالئے جس کی سالگرہ اس مہینے میں آتی ہو۔ +٭ سینئر کارکنوں کو تحریک دیجیے کہ وہ جونیئر کارکنوں میں کسی ایک کو اپنے ساتھ دوپہر کا کھانا کھلانے لے جائیں۔ جونیئر کارکن اکثر خود کو ’’باہر کا آدمی‘‘ سمجھتے ہیں۔ دیگر کارکنوں کے ساتھ دوستی استوار کرنے کا موقع دے کر انہیں ٹیم کا حصہ بننے کا موقع فراہم کیجئے۔ +اگرچہ تقاریب وغیرہ اچھی باتیں ہیں لیکن خیال رکھئے کہ ایسی تقاریب باقاعدگی اختیار نہ کرنے پائیں۔ نہایت ضروری ہے کہ آپ کی ٹیم جائے کار کو کام کی جگہ ہی سمجھے، تفریح کا میدان نہیں۔ +ایک لیڈر کا سب سے مؤثر ہتھیار دوسروں کو قائل کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں لیڈرشپ نام ہی اس بات کا ہے کہ لوگوں کو ایسا کام کرنے پر آمادہ کیجئے جو وہ عام حالات میں نہ کریں۔ اگرچہ لیڈرشپ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، مگر اپنے سٹاف اپنی مرضی کے مطابق چلانا بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ +لیڈر کی حیثیت سے اہداف کا تعین آپ کرتے ہیں۔ وہ آپ ہی ہیں جس کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، اور لیڈر کی حیثیت سے وہ آپ ہی ہیں جس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ٹیم کو ان اہداف کو حاصل کرنے اور اس ویژن کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ کریں۔ +لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا ایک ایسا کام ہے جسے اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور برا سمجھا جاتا ہے، اور یہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ تاہم، اگر آپ کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر آمادہ کر لیں جس میں صرف ادارے کا ہی نہیں اس کا اپنا بھی فائدہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ +اپنی ٹیم کے کسی رکن کو کسی بات پر قائل یا آمادہ کرنا ہو تو اس کے لئے چند طریقے حسب ذیل ہیں: +٭ اسے یہ احساس دلایئے کہ کوئی کام یا پروجیکٹ ادارے کے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی کام میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس کام ک�� مجموعی اہمیت کیا ہے۔ +٭ اگر کوئی کارکن کسی ڈیڈ لائن پر کام کو مکمل نہ کر سکے یا وہ کام کو صحیح طور پر انجام نہ دے رہا ہو تو یوں ظاہر کیجئے جیسے آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کر کیا رہا ہے اور آپ کام کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ خفت سے بچ جائے گا اور اگلی مرتبہ کام کو درست انداز میں مکمل کرنے کا ارادہ کر لے گا۔ +٭ فیصلہ سازی کے عمل میں کارکنوں کو بھی شریک کیجئے مگر غیرمحسوس انداز میں ان کی رہنمائی اسی سمت میں کیجئے جسے اپنانے کا فیصلہ آپ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، علی چاہتا ہے کہ اپنی ٹیم کے لئے ایک ایسا مینوئل بنایا جائے جس میں کام کرنے کے درست طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہو۔ وہ جانتا ہے کہ بلال یہ کام کرنے کے لئے بہت مناسب رہے گا، مگر بلال کو یہ بات پسند نہیں کہ اسے کوئی کام کرنے کے لئے ’’حکم‘‘ دیا جائے۔ ایک روز علی، بلال سے کہتا ہے کہ وہ ایک قابل تقلید کارکن ہے اور ہر کارکن کو اس کے تجربے سے مستفید ہونا چاہئے۔ ایسے میں بلال ایسا مینوئل لکھنے کی تجویز خود ہی پیش کر دے گا۔ +٭ اپنے کارکن کو احساس دلایئے کہ اگر وہ کسی کام پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا تو اسے انعام میں بونس، تنخواہ میں اضافہ، زیادہ ذمہ داری یا ترقی بھی مل سکتی ہے۔ +یاد رکھئے کہ ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنے کارکنوں کا اعتماد حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ دوسروں کو قائل کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی صلاحیت کو تعمیری انداز میں استعمال کیجئے۔ اس سے کارکنوں اور جماعت دونوں کو فائدہ ہوگا۔ +لیڈر کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مبرا من الخطا ہیں اور اپنی ٹیم کے سارے کام کا ادراک رکھتے ہیں۔ تاہم اپنی ٹیم کے کام سے واقف ہونے اور ٹیم کے ارکان کے لئے دردِ سر بن جانے میں بڑا باریک فرق ہے۔ اگر اس فقرے کا دوسرا حصہ آپ کو جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی عادت میں مبتلا ہیں۔ +چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی عادت یا مائیکرو مینجمنٹ ہمیشہ نقصان دہ رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا پھندہ ہے جس کی بدولت لیڈر روزمرہ کے معمولی کاموں میں پھنس کر رہ جاتا ہے، یوں سمجھئے کہ آم کھانے کے بجائے وہ پیڑ گننے کے کام میں لگ جاتا ہے۔ لیڈر کو ہونے والے کام کا مجموعی ادراک ہونا چاہئے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی عادت میں مبتلا ہیں یا صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ اس عادت سے بچا کیسے جائے تو مندرجہ ذیل باتوں پر نگاہ رکھئے۔ +٭ آپ کسی کارکن کے ذمے کوئی کام لگاتے ہیں۔ ہر شام گھر جانے سے پہلے آپ اس کارکن کے پاس رکتے ہیں اور اس کام کے حوالے سے اس سے لمبے چوڑے سوالات پوچھتے ہیں۔ +٭ آپ مسلسل اپنے کارکنوں کے کام کو چیک کرتے رہتے ہیں کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ وہ اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کریں گے۔ آپ ہمیشہ انہیں یہ بتاتے رہتے ہیں کہ کسی کام کو کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ +٭ آپ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی کارکن کس وقت کام پر آتا ہے اور کب رخصت ہوتا ہے، اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ دوپہر کا کھانا کھانے گیا تو کتنا وقت لگا کر آیا۔ +٭ آپ میٹنگز کے دوران اپنے کارکنوں کی رائے بہت کم پوچھتے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ کی ٹیم کے کسی فرد کی بدولت کوئی نیا کام کب شروع ہوا تھا؟ +٭ آپ کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بچوں کی ایک ٹولی کی ذمہ داری تنہا آپ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ یہ لوگ کون ہیں اور ایسے نالائق آپ کے پلے کیسے پڑ گئے؟ آخر یہ آپ کی طرح کیوں نہیں سوچتے؟ +چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے والے یقینا جزئیات پر بہت نگاہ رکھتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی لیڈر کے لئے ہونے والے کام کی جزئیات سے واقف ہونا اچھی بات ہے یا بری بات ہے۔ مگر جب کسی لیڈر کی توجہ مجموعی کام سے ہٹ کر جزئیات پر ہی مرکوز ہو جائے تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔ +تو پھر یہ عادت کیسے تبدیل کی جائے اور اپنی ٹیم کی کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اپنی یہ عادت بدلنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقوں میں سے چند ایک کو آزما کر دیکھئے۔ +شروع میں ایسا کرنا مشکل ہوگا لیکن اس عادت سے چھٹکارا پانے کے لئے آہستہ آہستہ خود کو ان جزئیات سے الگ کر لیجئے جن پر آپ اتنی توجہ دیتے چلے آ رہے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ہر کام آپ خود نہیں کر سکتے۔ +آپ ایک منتظم ہیں، ایک لیڈر ہیں، ٹیم کے عام رکن نہیں ہیں۔ آپ کی توجہ کا مرکز دوسروں میں کام بانٹنا اور ان کا انتظام و انصرام کرنا ہونا چاہئے، چاہے آپ خود ان کاموں میں کتنی ہی مہارت کیوں نہ رکھتے ہوں۔ +اگر آپ کو یہ عادت ہو کہ آپ روزانہ اپنے کارکنوں کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کی فطری عاداتِ کار کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر آپ کویہ سیکھنا ہوگا کہ انہیں ان کے حال پر کیسے چھوڑا جائے۔ اگر آپ ان کے سر پر ضرورت سے زیادہ سوار رہیں تو وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو کام میں لانے کے بجائے محض یہ سوچنا شروع کر دیں گے کہ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ اس سے ان کی اپنی صلاحیتوں کی نشوونما رک جائے گی اور ان کی تخلیقی قوت ماند پڑ جائے گی۔ +کام کے دوران غلطیاں تو آپ سے بھی ہوئی ہوں گی۔ ان غلطیوں سے آپ کے کیریئر کو نقصان پہنچنے کے بجائے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ان سے آپ کو گرانقدر سبق حاصل ہوئے ہوں گے۔ غلطیاں ایسے سبق فراہم کرتی ہیں جو کامیابیوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک یاد رہتے ہیں۔ +اپنے کارکنوں کو بھی غلطیاں کرنے کی اجازت دیجیے۔ اس سے آپ کے کارکنوں کو صحیح اور غلط کا شعور حاصل ہوگا اور مستقبل میں ان کی کارکردگی بہتر ہوگی، بالکل ویسے ہی جیسے آپ کی اپنی ہوئی تھی۔ درحقیقت غلطیوں سے ایک لیڈر کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ خود آگے آئے اور ایک ایسے کارکن کو اعانت فراہم کرے جسے اپنا کام کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہو۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر توجہ دینے والے کو جہاں لوگ بار بار غلطیاں نکال کر رعب جمانے والا سمجھتے ہیں، وہاں غلطی کی اصلاح کرنے والے لیڈر کو ایسا معلم سمجھا جاتا ہے جو اس وقت مدد کو آتا ہے جب کارکن کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ +مائیکرو مینجمنٹ کرنے والے تمام افراد میں یہ خاصیت مشترک ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر کام کو دوسروں سے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس سے کارکنوں کے اعتماد نہایت برا اثر پڑتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اعتماد سازی افراد اور بہ حیثیت مجموعی ٹیم کی نمو اور کامیابی میں نہایت اہم حیثیت رکھتی ہے۔ +مائیکرو مینجمنٹ کو ختم کرنے کی کلید یہی ہے کہ اپنے کارکنوں کا اعتماد حاصل کیا جائے اور یہ جانا جائے کہ ان میں کام کیسے بانٹے جائیں یا یہ کہ میکرو مینجمنٹ (macro- management) کیسے کی جائے۔ +جب آپ کام بانٹنا شروع کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اب قیادت کے زیادہ اہم فرائض پر توجہ دینے کے لئے آپ کے پاس زیادہ وقت آ گیا ہے مثلاً یہ کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں اپنی جماعت کے لئے راہِ عمل کیسے متعین کی جائے۔ +جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، انقلاب انگیز لیڈر شپ وہ طریقہ ہے جو کوئی لیڈر اس وقت استعمال کرتا ہے جب اس کی خواہش ہو کہ اس کی ٹیم معمول سے ہٹ کر اور حدود سے ماورا ہو کر کام کرے یا اعلیٰ تر جماعتی اہداف حاصل کر لے۔ انقلاب انگیز لیڈر کے اوصاف میں مندرجہ ذیل کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے لیکن یہاں دوبارہ دہرائے جا رہے ہیں تاکہ ان کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔ +انقلاب انگیز لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے پاس جماعت کے لئے ایک واضح ویژن ہوتا ہے اور جو اس ویژن کو آسانی کے ساتھ اپنے رفقاء کے ذہن نشین کرا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، انقلاب انگیز لیڈر کے لئے یہ جاننا بہت آسان ہوتا ہے کہ افراد کے لئے، اور مجموعی طور پر جماعت کے لئے، سب سے اہم چیز کیا ہے۔ +انقلاب انگیز لیڈر کا شعور ترقی یافتہ ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کس فیصلے کا جماعت پر مثبت اثر پڑے گا۔ ایسا لیڈر زیادہ اعتماد سے کام کر سکتا ہے اور اس کے کارکنان کو اس پر اعتماد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ +انقلاب انگیز لیڈر اپنے ہر کارکن کو انفرادی سطح پر اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور اس طرح تمام کارکنوں کا احترام اور وفاداری کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ +انقلاب انگیز لیڈر اکثر کارکنوں کو انفرادی سطح پر تحسین سے نوازتا ہے اور اچھے کام پر پوری ٹیم کی کارکردگی کی بھی تعریف کرتا ہے۔ جب کارکنوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ انہوں نے کسی کامیابی میں کیا کردار ادا کیا ہے تو وہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ زیادہ عزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ +انقلاب انگیز لیڈر میں یہ خصوصی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کارکنوں کو ایسا کام کرنے کی تحریک دے سکتا ہے جس میں وہ اپنی کامیابی کے لئے پُریقین نہ ہوں۔ یہ تحریک تعریفی کلمات اور حوصلہ افزائی کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ +کوئی لیڈر خواہ کتنا ہی کرشماتی یا جدت طراز کیوں نہ ہو، ایک پوری جماعت یا محض ایک گروہ کو ہی انقلاب آشنا کرنے کا کام جلد مکمل نہیں ہوتا۔ ایسی تبدیلیوں میں زیادہ تر پہلی ضرورت کام کرنے کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ہوتی ہے یعنی لوگ اکتائے ہوئے انداز میں گھڑی کو دیکھ کر کام کرنے اور رسک لینے سے گھبرانے کے بجائے جدت طرازی، تھوڑے بہت رسک اور مسابقت کے جذبے کے ساتھ کام کریں۔ +ایک ٹیم کے کام کرنے اور سوچنے کے انداز کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس سے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ آپ ایک میٹنگ بلائیں اور سب کو ایک ہی بار بتا دیں کہ انہیں اپنے طور طریقوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ پوری جماعت کو بدلنے کے لئے انقلاب انگیز لیڈر کو کام کا آغاز بنیادی اکائیوں سے کرنا ہوتا ہے یعنی وہ افراد جن سے مل کر وہ جماعت تشکیل پاتی ہے۔ آپ کے پاس اپنی ٹیم کے مستقبل کے لئے ایک ویژن ہے اور آپ کے ساتھی اس ویژن سے آگاہ ہیں مگر آپ کا مقصد خواہ کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو، متوقع کامیابی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، محض تقریریں کر کے آپ اپنے ساتھیوں کو متحرک نہیں کر پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فرد ہمیشہ اس وقت متحرک ہوتا ہے جب اسے خود اپنا فائدہ نظر آ رہا ہو، پورے گروپ کے فائدے کے لئے متحرک ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ +انقلاب انگیز لیڈر کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ٹیم کے ارکان کی انفرادی محنت کا تخمینہ لگائے اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کرے کہ ان کی ذاتی دلچسپی سے فائدہ اٹھا کر انہیں کس طرح متحرک کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کے ساتھ دو ہزار افراد کام کر رہے ہیں تو آپ کو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اکیلے اکیلے بات کرنا ہوگی اور پتہ چلانا ہوگا کہ ان کا جوش کیسے بھڑکایا جائے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ آپ ایسے ��فراد سے ملیں جو اپنی ذات میں پورے گروہ کی نمائندگی کرتے ہوں۔ +یہ بھی ہے کہ اگر واقعی آپ کے ساتھ دو ہزار افراد کام کرتے ہیں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ ان کو سنبھالنے والے آپ اکیلے نہیں ہوں گے، آپ سے نیچے بھی کوئی منتظم ضرور موجود ہوگا جو خود بھی تحریک کا حاجتمند ہوگا۔ اگر آپ اسے متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اپنے تحت کام کرنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک متحرک کر پائے گا۔ +جب آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ذاتی دلچسپی کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ اپنی ٹیم کو کیسے متحرک کر سکتے ہیں تو پھر انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ ان کے کام کا پوری جماعت پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ +اکثر جب کسی فرد کو یہ احساس ہو جائے کہ اس کے کام کی واقعی کوئی اہمیت ہے تو وہ اپنے مقام اور مرتبے کا احترام کرنے لگتا ہے۔ اس احترام کی بدولت افراد نہ صرف ذاتی فائدے کے لئے بلکہ جماعت کے فائدے کے لئے بھی کام کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ +اپنی ٹیم میں شامل افراد کو سمجھ کر صرف آدھی جنگ جیتی جاتی ہے۔ کامیاب انقلاب انگیز لیڈر کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جماعت کی دیگر ٹیموں کے ساتھ کیسے ربط پیدا کیا جائے اور ان تک اپنا ویژن اور تبدیلی کی ضرورت کا احساس کیسے پہنچایا جائے۔ +ایسا کرنے کے لئے لیڈر مندرجہ ذیل تحریکی اقدامات کر سکتا ہے: +لیڈر گروہ میں یہ احساس پیدا کر سکتا ہے کہ مثبت تبدیلی لانے کے فوائد کیا کیا ہوں گے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کے ہاں نعامات دینے کا کوئی رسمی نظام موجود ہے تو اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے کارکن اس نظام کی پالیسی سے واقف ہوں۔ ارکان پر یہ بھی واضح کیا جا سکتا ہے کہ ان کی کامیابی جماعت کی مجموعی کامیابی میں حصہ ڈالے گی جس کا نتیجہ ان کے لئے فوائد کی صورت میں نکلے گا۔ +جماعتی سطح پر تبدیلی لانے کے لئے ایک ضروری قدم یہ ہے کہ اپنی ٹیم میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ یہ تبدیلی اشد ضروری ہے۔ لیڈر یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر جماعتی سطح پر اب تبدیلی نہیں لائے گی تو مستقبل میں اس کا وقت نہیں رہے گا۔ مثال کے طور پر، 1990ء کی دہائی کے وسط میں زیادہ تر کمپنیوں کو ضرورت پیش آئی کہ وہ انٹرنیٹ پر توجہ دیں اور اپنے کسٹمرز کے ساتھ رابطے کے لئے انٹرنیٹ کو بھی استعمال کریں۔ جن کمپنیوں کا میڈیا یا کمیونی کیشنز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، انہوں نے بھی انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی وضع کر لی ہے۔ +جماعتی سطح پر تبدیلی کے لئے، انقلاب انگیز لیڈر کو یہ بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ایک جماعتی تبدیلی کا حصہ بننے پر افراد میں ولولے کا احساس پیدا کریں، مثال کے طور پر، افراد کو یہ بات سمجھائی جائے کہ ان کی کوشش کے نتیجے میں ملکی سطح پر تبدیلی پیدا ہوگی۔ +لیڈر اپنے طور پر خواہ کتنا ہی تیار کیوں نہ ہو، اس کا ویژن کتنا عظیم الشان اور اس کا کام کتنا ہی ولولہ انگیز کیوں نہ ہو، مسائل پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیڈر کے کام کا حلقہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کا واسطہ پڑتا لوگوں یعنی عوام سے ہی ہے۔ عموماً کسی بھی کام کا سب سے پُرخطر اور ناقابل اعتبار حصہ وہ افراد اور ٹیمیں ہوتی ہیں جو کہ کسی جماعت یا تنظیم میں شامل ہوتی ہیں۔ +خود کو الزام مت دیجیے۔ اگر آپ کے منصوبے ہموار انداز میں آگے نہیں بڑھ رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایک اچھے لیڈر نہیں۔ یاد رکھئے کہ لوگوں پر حتمی طو رپر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی کارکردگی ہمیشہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہوتی۔ +جب آپ کے کارکنوں کو یہ علم ہو جائے کہ ان سے کس بات کی ��وقع کی جاتی ہے تو اس پیغام کو مزید پختہ کرنے کے لئے اس پر مبنی پوسٹر بنوایئے اور انہیں جائے کار میں لگوا دیجیے۔ یہ کارکنوں کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ انہیں کیسا کام کرنا ہے۔ +ازحد کوشش کے باوجود، کسی بھی ٹیم یا تنظیم میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ آپ کو یہ سیکھنا ہوگا کہ ان مسائل کو ابتدائی مراحل میں کیسے شناخت کیا جائے۔ جو لیڈر ٹیم میں پیدا ہوتے مسائل کو محسوس کرنے میں ناکام رہتا ہے، وہ نہ صرف جماعتی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے بلکہ اکثر اختیار کا حق بھی کھو بیٹھتا ہے۔ +آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ مسئلے کا پھیلائو کہاں تک ہے۔ یہ انفرادی ہے یا انتظامی؟ انفرادی مسائل کا تعلق ایک فرد کی ذات سے ہوتا ہے، مثال کے طور پر کوئی ایسا کارکن جو کام کا کوئی بنیادی تصور سمجھنے میں ناکام رہے۔ +اس کے مقابلے میں، انتظامی مسائل میں ایک سے زیادہ افراد ملوث ہوتے ہیں اور یہ اکثر بڑی تیزی سے پھیل جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کسی جماعت میں پھیلنے والی اور مورال پر منفی اثر ڈالنے والی غلط معلومات ہو سکتی ہیں یا یہ کہ کارکنوں کا ایک گروہ جماعتی وسائل کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے لگے۔ +مسائل کے ساتھ چند علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ ذیل میں ایسی علامات کا ایک جائزہ دیا جا رہا ہے جو انفرادی اور انتظامی دونوں طرح کے مسائل میں نظر آ سکتی ہیں: +کارکنوں میں ایک منفی رویہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر، ممکن ہے کہ کوئی کارکن سب کے سامنے کہہ دے۔ ’’یہ کام میں کبھی وقت پر ختم نہیں کر پائوں گا۔ یہ میری سمجھ میں ہی نہیں آ رہا۔‘‘ +اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو رہا ہو تو یقینا ٹیم میں ایک سے زیادہ افراد اس سے واقف ہوں گے۔ غلطی انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور یہ بھی اس کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی انسان یا کسی تنظیم کی خامیوں پر گفتگو کرے۔ +جب کوئی فرد یا کوئی ٹیم مسائل کی شکار ہو تو ان کی پیداواری صلاحیت عموماً کم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر مورال گرا ہوا ہو تو کارکنوں کے رویئے منفی ہو جاتے ہیں جن سے کام کا معیار اور مقدار متاثر ہوتے ہیں۔ +اگر کارکنوں کو ایسا لگے کہ کوئی مسئلہ ہے تو وہ اکثر اس کی ذمہ داری اپنے لیڈروں پر ڈال دیتے ہیں۔ لیڈر وہ ہوتے ہیں جن کے پاس ویژن ہوتا ہے اور جو جماعتی اہداف کا تعین کرتے ہیں، لہٰذا جب بڑے پیمانے پر مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کارکن جماعت کی لیڈر شپ پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے بعد کارکن ایسے لیڈر کو چیلنج کرنے لگتے ہیں جسے وہ غیرمؤثر سمجھتے ہیں۔ +اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ بات چیت کے راستے کھلے رکھئے۔ ارکان اکثر لیڈر کے ساتھ رواروی کی بات چیت میں بھی اپنے شکوک، اندیشوں اور پھیلتی ہوئی افواہوں کا تذکرہ کر بیٹھتے ہیں۔ +جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، منفی رویئے، غیبت اور پیداواری صلاحیت میں کمی کسی مسئلے کی علامات ہوتی ہیں۔ مگر خیال رکھئے کہ علامت بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں ہوتی۔ لیڈر کے پاس اتنا وقت ہونا چاہئے کہ وہ اس علامت کے پس پردہ حقیقی مسئلے کو شناخت کرنے کے لئے تیار رہے۔ علامت کا علاج مت کیجئے۔ اگر آپ کو پیداوار یا مورال میں کوئی کمی نظر آئے تو کچھ وقت لگا کر پتہ لگایئے کہ اس کی حقیقی وجہ کیا ہے۔ اگر آپ شارٹ کٹ اپناتے ہوئے صرف علامت کا ہی علاج کریں گے تو مسئلہ پھر سے پیدا ہو جائے گا۔ +یاد رکھئے کہ جائے کار کے مسائل تعداد میں ان گنت اور نوعیت میں رنگارنگ ہوتے ہیں لہٰذا آپ کو ان کا تخمینہ لگانے اور ان سے نمٹنے کا کام انفرادی سطح پر کر��ا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، جس بات سے کوئی ایک کارکن تحریک پاتا ہے، اس کا اثر کسی دوسرے کارکن پر بالکل الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ +ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں درج کی جا رہی ہیں: +اگر آپ کی ٹیم میں منفی رویئے اور گفتگو نظر آ رہی ہے تو پہلے پتہ لگایئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کے بعد مسئلے کا تجزیہ کیجئے اور رویوں کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی مثبت نکتہ تلاش کیجئے۔ مثال کے طور پر، اگر جماعت کسی سطح پر شکست سے دوچار ہو رہی ہے تو ایسے میں اپنی ٹیم کے کام کے مثبت پہلوئوں کی نشاندہی کیجئے اور اس بات پر زور دیجیے کہ چند معمولی تبدیلیاں کر کے اگلی مرتبہ کتنی آسانی سے فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ +کسی بھی تنظیم میں غیبت ایک بہت بڑا مسئلہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ مورال پر برا اثر ڈالتی ہے۔ تاہم، غیبت محض اس بات کی ایک علامت ہو سکتی ہے کہ کارکنوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ لیڈر شپ کسی خفیہ کارروائی میں مصروف ہے اور انہیں اعتماد میں نہیں لے رہی۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے تحت کام کرنے والے کارکنوں کے سامنے حساس معلومات یا حکمت عملیاں افشا کئے بغیر باقی سب باتیں ان کے علم میں لے آیئے۔ انہیں یہ علم ہونا چاہئے کہ آپ ان سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھے ہوئے۔ +پیداوار میں کمی اکثر اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ آپ کی ٹیم طریقہ کار کے حوالے سے غیریقینی کیفیت کی شکار ہے یا یہ شعور نہیں رکھتی کہ جماعتی اہداف کیا ہیں اور ان کا کام ان اہداف کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ پہلے تو انہیں اس بات کا احساس دلایئے کہ ان کی محنت، تخلیقی قوت اور بھروسہ مندی جماعت کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور جماعت کے بڑوں کی نظر میں ہیں۔ اس کے بعد ہدف کو چھوٹے چھوٹے، آسان مراحل میں تقسیم کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس طرح کارکنوں میں تکمیل کار پر اطمینان کا احساس پیدا ہوگا اور وہ اس رفتار کو بھی پکڑ لیں گے جس پر کہ کام کرنے کی انہیں ضرورت ہے۔ +اگر کارکن قنوطیت کے شکار ہیں اور احکامات پر درست طرح سے عمل نہیں کر رہے تو ان کی عارضی خواہشات اور مطالبات کے سامنے ہتھیار مت ڈالئے۔ ہر ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا لیڈر مضبوط ہو، خواہ اس وقت وہ اس کی مضبوطی کو پسند نہ کر رہی ہو۔ +یہ بھی یاد رکھئے کہ تمام مسائل قابل حل نہیں ہوتے۔ اگر کوئی کارکن مسلسل مسائل پیدا کر رہا ہو اور آپ کی بھرپور کوشش کے باوجود کوئی بہتری رونما نہ ہو رہی ہو تو شاید بہتر یہی ہوگا کہ آپ اسے خیرباد کہہ دیں۔ لیڈر کو وقتاً وقتاً ایسی کارروائی کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ جماعت کی صحت اور پیداواری صلاحیت برقرار رہے۔ +مسائل کے حل کرنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ اس حوالے سے تفصیلی نوٹس بنا کے رکھیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ ہر کارکن کے حوالے سے ایک فائل بنائیں اور جب کبھی بھی وہ کارکن کسی مسئلے کو حل کرنے یا اسے پیدا کرنے میں ملوث ہو تو فائل میں اس کا نوٹ شامل کریں۔ اس طرح آپ کے پاس ہر کارکن کے رویئے کا ایک ٹریک ریکارڈ بن جائے گا جو بوقت ضرورت کام میں لایا جا سکے گا۔ +تعلیم دینے اور رول ماڈل بننے کے علاوہ، یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ بعض کارکنوں کے لئے لیڈر ایک سرپرست کا کردار ادا کرے۔ +لیڈر کو مسلسل ایسے کارکنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے جو ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں یا جنہیں ترقی ملنی چاہئے۔ کبھی اس وہم میں مت پھنسئے کہ کوئی اچھا کارکن کسی روز آپ سے آگے نکل جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بات اس کے الٹ ہوتی ہے: اچھے کارکنوں کو سامنے لا کر آپ دنیا کی نظر میں ایک سچے اور ��ہتر لیڈر ہونے کا مقام حاصل کرتے ہیں۔ +ایسے کارکن کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں جس کی سرپرستی کی جانی چاہئے۔ آپ کو ایک ایسے کارکن کی تلاش ہے جو مسلسل دوسروں سے بڑھ کر کارکردگی دکھاتا ہے، تخلیقی سوچ رکھتا ہے اور نئی تجاویز پیش کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ +مثال کے طور پر، علی اوسط درجے کی ایک کمپنی میں ایک بڑے یونٹ کا سربراہ ہے۔ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بیس سے زائد ملازموں کا ذمہ دار ہے۔ اس کا یونٹ اپنے اعلیٰ معیار کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جس کا کریڈٹ وہ محنتی ملازمین کے ایک گروہ کو دیتا ہے جو ٹیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ تاہم، کچھ عرصہ سے وہ دیکھ رہا ہے کہ ان میں سے ایک ملازم، بکر، دوسروں سے آگے نکل گیا ہے۔ +بکر نئی اختراعات کرتا ہے، شکایت کئے بغیر تا دیر کام کرتا رہتا ہے اور خندہ پیشانی کے ساتھ دیگر ملازمین کی اعانت بھی کرتا ہے جو اکثر اس کے پاس مدد کی درخواست لے کر آتے ہیں۔ علی کو یقین ہو جاتا ہے کہ اگر بکر کی سرپرستی کی جائے تو نتیجہ اچھا نکلے گا۔ +کسی بھی ترقی پذیر کارکن کے لئے ایک سرپرست نہایت گرانقدر اعانت فراہم کر سکتا ہے۔ پرانے وقتوں کی استادی شاگردی کی طرح، کوئی تجربہ کار، کامیاب لیڈر اپنی سرپرستی میں آنے والے کارکن کو نہایت اہم ’’آن دا جاب‘‘ علم فراہم کر سکتا ہے۔ +ایک اچھا سرپرست، اپنے شاگرد کے لئے مندرجہ ذیل کردار ادا کرتا ہے: +سرپرست کو شاگرد کے ساتھ گہرے رابطے میں رہنا چاہئے تاکہ وہ روزمرہ کے کاموں میں پائی جانے والی باریکیوں کے بارے میں اسے آگاہ کر سکے۔ یہ مسلسل مشورے شاگرد کو ایسا علم اور تجربہ فراہم کرتے ہیں جسے کسی اور صورت میں حاصل کرنے کے لئے اسے سعی و خطا کے عمل سے گزرنا پڑتا۔ +سرپرست، ہمیشہ اپنے شاگرد کے لئے نیا اور ہیجان انگیز کام ڈھونڈتا رہتا ہے۔ ایسے چیلنج شاگرد کو نئی مہارتیں حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ +جب آپ کسی کے سرپرست کا کردار ادا کرنے لگیں، تو یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اسے مسلسل فیڈ بیک فراہم کرتے رہیں۔ +سرپرست کو اپنے شاگرد کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اس کی ناکامیوں کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ کوشش کیجئے کہ وہ ان ناکامیوں سے سبق حاصل کرے اور دل گرفتہ نہ ہو۔ +ایک تیزرفتار اور مسابقت آمیز ماحول میں، سرپرست شاگرد کے لئے ایک ڈھال کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے ایسے اعلیٰ حکام یا صورتِ حالات سے محفوظ رکھ سکتا ہے جن سے واسطہ اس کے کام کے لئے نامناسب ہو۔ +ایک سرپرست کی حیثیت سے آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ آپ اپنے شاگرد کی اچھی خصوصیات کی تشہیر کرنے میں اعانت فراہم کریں۔ +اپنے ساتھیوں اور حکام کے علم میں یہ بات لایئے کہ آپ کو اپنے شاگرد پر کتنا اعتماد ہے اور آپ کو اس کے مستقبل سے کیسی درخشاں امیدیں وابستہ ہیں۔ اس سے آپ کے شاگرد کو دوسروں کا احترام حاصل ہوگا اور اس کی ترقی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ +گذشتہ باب میں ہم نے ایک لیڈر کے اوصاف پر مختصر سی بحث کی۔ اب اس باب میں ہم دیکھیں گے کہ ان اوصاف کی روشنی میں لیڈرشپ کے لئے کیا اصول مرتب کئے جا سکتے ہیں۔ +لیڈرشپ کے اصول ایک لیڈر کے قول و فعل کے لئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ کبھی کسی مشکل صورتِ حال میں پھنس جائیں اور سمجھ نہ پا رہے ہوں کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے تو قیادت کے مندرجہ ذیل اصولوں سے مدد لیجئے۔ درست سمت کا تعین کرنے میں یہ آپ کے معاون ہوں گے۔ ان اصولوں پر پوری طرح عمل کرنے سے آپ ایک اچھا لیڈر بننے کی راہ ��ر کامیابی سے گامزن ہو سکیں گے۔ +کسی واضح نصب العین کا تعین کئے بغیر آپ کسی واضح مقام پر نہیں پہنچ سکتے۔ اس ضمن میں آپ کی سوچ بالکل واضح ہونی چاہئے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور آگے چل کر آپ کو کیا کرنا ہے۔ اس اصول کا اطلاق آپ کی جماعت پر بھی ہوتا ہے۔ آپ کے پاس طویل مدتی جماعتی مقاصد ہونے چاہئیں اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک صریح منصوبہ بھی ہونا چاہئے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ اپنے مقاصد کو ایک ٹائم ٹیبل کے تحت منضبط کیجئے۔ اس طرح آپ عمل کرنے پر مجبور ہوں گے اور خود اپنے سامنے جواب دہ بھی ٹھہریں گے۔ +٭ اپنے ہر روز کے مقاصد کی فہرست بنایئے اور بعد میں پوری دیانتداری سے خود سے پوچھئے کہ آج کے دن میں آپ نے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کیا کیا۔ +جب ہم کہتے ہیں کہ ایک لیڈر کے پاس ایک واضح نصب العین یا احساسِ حقیقت موجود ہے، تو یہ کہنے سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لیڈر جبلی طور پر اشیاء کے افعال اور وقوع کے طریق کار سے واقف ہے۔ جبلت یا فطرتِ حیوانی کے متعلق فرانسیسی لیڈر ڈیگال لکھتے ہیں: ’’(جبلت) لیڈر کو کسی معاملے کی گہرائی میں اترنے کے قابل بناتی ہے۔‘‘ +عظیم قیادت کو عظیم نصب العین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا نصب العین جو لیڈر کو کام کرنے کی تحریک دے اور اسے پوری قوم کو تحریک دینے کے قابل بنائے۔ لوگوں ایسے لیڈروں سے محبت بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی، ان کے متعلق کوئی معتدل رویہ اپنانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ایک لیڈر کے لئے صرف اچھائی سے واقف ہونا کافی نہیں۔ اسے اچھائی پر عمل کرنے کے قابل بھی ہونا چاہئے۔ درست فیصلے کرنے کی قوت سے عاری اور نصب العین سے محروم کوئی فرد کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ ایک عظیم قائد کو بصیرت اور درست مقاصد حاصل کرنے کی اہلیت، دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ +ایک مینیجر آج اور آنے والے کل کے متعلق سوچتا ہے۔ ایک لیڈر کو آنے والے پرسوں کے متعلق بھی سوچنا چاہئے۔ مینیجر ایک عمل کی نمائندگی کرتا ہے، لیڈر تاریخ کے رخ کی نمائندگی کرتا ہے۔ +سابق صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ بل کلنٹن اپنی کتاب ’’امید اور تاریخ کے درمیان‘‘ میں لکھتے ہیں: +’’تاریخ ہمیں بہ حیثیت ایک فرد اور بہ حیثیت ایک قوم کے آزماتی ہے، وہ ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی امیدوں اور اپنے اندیشوں، اور جو ہونا چاہئے اور جوہے اس کی قبولیت، میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں… میں جانتا تھا کہ اگر مجھے 21 ویں صدی میں امریکہ کی حیثیت کے متعلق اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینا ہے تو ہمیں گذشتہ کل کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا اور مستقبل کے لئے ایک نئے اور دلیرانہ راستے پر چلنا ہوگا، ایک ایسی حکمت عملی کے ساتھ جس کی جڑیں بنیادی امریکی اقدار میں پوشیدہ ہوں، اس امر کو یقینی بناتے ہوئے کہ تمام شہریوں کو اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے مواقع میسر ہوں، اس توقع کے ساتھ کہ ہر شہری ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ذمہ داری میں حصہ بٹائے گا، اور بہ حیثیت ایک قوم اپنے آپ کو ایک مقام تک لے جانے کے لئے ہم سب مل کر کام کریں گے۔ ان تین اقدار نے ہماری قوم کے کردار کی تشکیل کی ہے اور ایک قوم کی حیثیت سے ہماری کامیابی اور دنیا میں ہماری سیادت کو ممکن بنایا ہے۔ یہ اقدار امریکہ کا بنیادی معاہدہ ہیں۔‘‘ +فن تقریر سے آشنائی حاصل کیجئے تاکہ آپ اپنے مقاصد اور منصوبوں کو فصاحت اور وضاحت سے بیان کر سکیں۔ دوسروں کو بتایئے کہ آپ کی جماعت کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سے انہیں کیا فائدہ ہوگا۔ اگر آپ اپنے مقاصد کے متعلق دوسروں میں جوش و ولولہ پیدا کر سکیں، تو غالب امکان ہے کہ آپ ان کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اس سے آپ کی جماعت کو تقویت ملے گی۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ تقریر کرنے کی مشق کیجئے۔ اپنے دوستوں یا رفقائے کار سے درخواست کیجئے کہ وہ آپ کے زورِ بیان کے متعلق دیانتدارانہ اور تعمیری رائے دیں۔ +٭ فن تحریر میں مہارت حاصل کیجئے تاکہ آپ کے لکھے ہوئے خطوط پڑھنے اور سمجھنے میں آسان ہوں۔ +سابق صدرِ امریکہ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1952ء کے ری پبلکن کنونشن میں پہلی دفعہ میری ملاقات چرچل کے بیٹے رینڈولف سے ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے والد کی شاندار فی البدیہہ تقریروں سے کتنا متاثر ہوں۔ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’شاندار ہونی ہی چاہئے تھیں۔ انہوں نے ان تقریروں کو لکھنے اور یاد کرنے پر اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کیا تھا۔‘‘ +یہ بھی یاد رکھئے کہ جن کے پاس قوت و اختیار کا اعلیٰ ترین منصب ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ان کے پاس سب سے زیادہ تجربہ، سب سے بہتر ذہانت، اعلیٰ دوراندیشی اور قابل اعتماد فطری تحریک بھی ہو۔ +نہرو اور شاستری کی وفات کے بعد، بھارت کے وزیراعظم کا انتخاب کانگریس کے لئے ایک بڑے مسئلے کی حیثیت رکھتا تھا۔ کانگریس کے صدر کامراج کو اس کے لئے ایک بہترین چوائس سمجھا جا رہا تھا۔ +کامراج کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بننے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے خود اپنے حق امیدواری کو منسوخ کر دیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی تعلیم حاصل کی تھی، اپنے طور پر کی تھی اور اپنی مادری زبان تانت کے علاوہ کوئی دوسری زبان انہیں نہ آتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ بھارت جیسے کثیر اللسانی ملک میں، جہاں اکثریت ہندی بولتی یا سمجھتی ہے، ایک تانت وزیراعظم کو عوام سے مخاطب ہونے میں دشواری پیش آئے گی۔ لہٰذا انہوں نے اپنے طور پر اندرا گاندھی کو امیدواری کے لئے منتخب کر لیا۔ ان کا نکتہ نظر تھا کہ صرف اندرا گاندھی ہی جماعت کے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کے لئے ایک مضبوط حکومت قائم کر سکتی ہیں۔ اندرا گاندھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر معروف تھیں، ان کے مخالفین نہ ہونے کے برابر تھے اور انہیں ایک ’’بھارتیہ‘‘ علامت کے طور پر جانا جاتا تھا۔وہ انگریزی اور ہندی بول سکتی تھیں اور انہیں کسی مخصوص ذات، علاقے، مذہب یا فرقے سے وابستہ خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ وہ مسلمانوں، ہریجنوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ساتھ غریبوں میں بھی یکساں طور پر مقبول تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ نہرو خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ +لوگوں سے متعارف ہونا اور خود کو متعارف کرانا سیکھئے۔ ضروری نہیں کہ آپ تعلقات کا ایک وسیع حلقہ ورثے میں لے کر آئیں لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے، اپنی جان پہچان کے حلقے کو وسعت دیں۔ ایولین میک فیل نے امریکہ کی ری پبلکن نیشنل کمیٹی کی شریک چیئرمین کی حیثیت سے لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نوجوان سیاستدان جو سیاسی تحاریک میں لیڈر کی حیثیت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنے علاقوں میں مختلف ذرائع سے اپنی پہچان بنائیں تاکہ بعد ازاں جب وہ منصب اقتدار کے حصول کی کوشش کریں تو ان کے پاس عوامی حمایت کی ایک بنیاد موجود ہو۔ +اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ ہم خیال لوگوں کے ساتھ ذاتی اور جماعتی سطح پر تعلقات پیدا کیجئے۔ +٭ دوسروں کو جانن�� اوران کی مدد کرنے کی دیانتدارانہ کوشش کیجئے۔ +٭ مختلف کلبوں کی رکنیت حاصل کر کے دوسروں کی خدمت کیجئے۔ +٭ اپنے تعلقات کی ایک منضبط فہرست تیار کیجئے اور خط و کتابت اور ملاقاتوں کے ذریعے انہیں مضبوط بنایئے۔ +ذمہ داری لینا بھی ضروری ہے +جب کسی کام کی انجام دہی کی ضرورت ہو تو اسے کرنے کے لئے ہدایات کا انتظار مت کیجئے بلکہ کر گزریئے۔ آپ کا گروپ جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ نہیں کرتا، اس کی آخری اور بنیادی ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ بہ حیثیت ایک لیڈر، آپ اختیارات تفویض کر سکتے ہیں لیکن ذمہ داریاں کبھی تفویض نہیں کی جا سکتیں۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ اپنے سے ایک درجہ اوپر آنے والے نگرانوں کے فرائض سے آشنائی حاصل کیجئے اور ان ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے خود کو تیار کیجئے۔ +٭ مزید ذمہ داریاں حاصل کرنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ +٭ ہر کام، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، بہتر سے بہتر انداز میں انجام دیجیے۔ اس طرح آپ کو زیادہ اہم کام کرنے کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔ +٭ کسی ماتحت کی ناکامی پر کوئی ایکشن لینے سے پہلے معاملے کی اچھی طرح چھان پھٹک کیجئے۔ اچھی طرح اطمینان کر لیجئے کہ یہ ظاہری ناکامی آپ کی اپنی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں ہے۔ ممکن ہو تو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ان کی مشکلات سے نجات دلایئے اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آیئے۔ +٭ کسی طرح کی ہدایات کی عدم موجودی میں، خود پہل کرتے ہوئے، ایسے متوقع اقدامات کیجئے جن کے کرنے کی ہدایت آپ کو اپنے سپروائزر کی طرف سے مل سکتی ہے۔ +جب طارق بن زیاد کو اندلس کی مہم کا سالار بنا کر بھیجا گیا تو اس وقت موسیٰ بن نصیر مسلمان فوج کا سالارِ اعلیٰ تھا۔ طارق بن زیاد کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ساحل سمندر میں ایک مخصوص مقام پر (جسے بعد ازاں جبرالٹر یا جبل الطارق کے نام سے موسوم کیا گیا) پہنچ کر اپنے سالارِ اعلیٰ کے احکامات کا انتظار کرے۔ جب طارق بن زیادہ وہاں پہنچا تو اسے اطلاع ملی کہ اس وقت کا ماحول براہِ راست حملے کے لئے سازگار ہے اور مزید فوج، جو کہ سالارِ اعلیٰ کی قیادت میں وہاں پہنچنے والی تھی، کی آمد کا انتظار کئے بغیر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ طارق بن زیاد نے ایک حیران کن تاریخی اقدام کرتے ہوئے اپنی کشتیاں جلا دیں، فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور پیش قدمی کرتے ہوئے اندلس فتح کر لیا۔ جیسا کہ تاریخ کا کہنا ہے، اگر طارق بن زیاد فوج کی آمد کا انتظار کرتا، اور اس دورانئے میں یورپ کے حکمران اور بادشاہ، اندلس کے شاہ راڈرک کی امداد کے لئے اپنی فوجیں بھیجنا شروع کر دیتے تو شاید اندلس کبھی فتح نہ ہو پاتا۔ +نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’خیال کی وقعت ثابت کرنے کے لئے اسے عمل کا روپ دینا ضروری ہے۔ عمل، سوچ کا نکتہ انجام ہوتا ہے۔‘‘ +ٹیم ورک کی اہمیت سمجھئے +اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے رفقائے کار نہ صرف اپنی ذاتی صلاحیتوں پر بلکہ بحیثیت ایک گروپ اپنی اجتماعی صلاحیتوں پر بھی اعتماد رکھتے ہوں۔ سب ارکان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی انفرادی کارکردگی، سب کی اجتماعی کارکردگی پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ ٹیم سپرٹ موجود ہو تو مشکل کام بھی آسان ہو جاتے ہیں۔ ٹیم ورک کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے: +٭ تفریحی سرگرمیوں میں ایک گروپ کے طور پر شریک ہونے کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ +٭ گروپ کی کسی ناکامی پر کسی ایک فرد کو کھلے بندوں موردِ الزام مت ٹھہرایئے اور نہ ہی گروپ کی ��امیابی پر کسی ایک فرد کی تعریف و توصیف کیجئے۔ +٭ جب بھی ممکن ہو تو رفقائے کار کو ایک دوسرے کی تربیت کرنے کا موقع دیجیے۔ اس طرح ان میں ایک دوسرے سے تعاون اور معاونت کرنے کا احساس تقویت پاتا ہے۔ +٭ اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے بعد دوسروں کی معاونت کرنے میں کارکنان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ +٭ جب بھی موقع ملے، بہ حیثیت مجموعی پورے گروپ کی کارکردگی کی تعریف کیجئے۔ +دوسروں کو ذمہ داری لینا سکھایئے +جب آپ کے ماتحت کسی کام کو اچھے طریقے سے کرنے میں مہارت حاصل کر لیں اور ذہنی طور پر اسے کرنے پر آمادہ بھی ہوں تو انہیں اپنے طور پر یہ کام نپٹانے دیجیے۔ یہ نکتہ اچھی طرح ان کے ذہن نشین کرا دیجیے کہ کسی کام کو کرنے کا اختیار قبول کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس کام کو درست انداز میں انجام دینے کی ذمہ داری بھی قبول کرنا ہوگی۔ +ماتحتوں کو مختلف ذمہ داریاں، فرائض اور اختیارات تفویض کرنے سے ان میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے پہل کاری اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے جذبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یاد رکھئے کہ کسی کو اتنی ہی ذمہ داری دی جانی چاہئے جتنی کہ اس میں قوت اور اہلیت ہے، اور یہ بھی کہ ہم میں سے کوئی بھی کامل و اکمل نہیں ہوتا۔ کسی کی ایک غلطی اس کی ذات میں تعمیری تبدیلیاں پیدا کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ +اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ اپنے ماتحتوں کو بتایئے کہ انہیں کیا کرنا ہے، یہ نہیں کہ کیسے کرنا ہے۔ ان کے کام کے اچھے یا برے نتائج کے لئے انہیں ذمہ دار ٹھہرایئے۔ +٭ اپنے ماتحتوں کو ایسے کام کرنے کے مواقع اکثر و بیشتر فراہم کیجئے جنہیں عموماً ان سے برتر عہدوں پر فائز افراد انجام دیتے ہیں۔ +٭ اپنے ماتحتوں کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے میں تاخیر کبھی نہ کیجئے۔ +٭ ماتحتوں کے فیصلوں اور آراء میں تصحیح کرنے سے ان کی پہل کاری اور دوبارہ کوشش کرنے کے جذبے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ +٭ اگر ماتحت آپ سے مدد کے لئے درخواست کریں تو کبھی انکار مت کیجئے۔ +٭ اپنے ماتحتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیجیے کہ ان کی دیانتدارانہ غلطیوں پر انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ +٭ اگر ضرورت کے وقت کوئی بری خبر فوراً آپ تک پہنچا دی جائے تو اس کے لئے اپنے ماتحت کو توصیفی کلمات سے نوازیئے۔ +٭ اس بات پر زور دیجیے کہ آپ کے ماتحت آپ کے براہِ راست سوالوں کے ہمیشہ براہِ راست جواب دیں۔ +٭ ذمہ داری ہنسی خوشی قبول کیجئے اور ماتحتوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت کیجئے۔ +بہ حیثیت ایک لیڈر آپ کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے ماتحتوں کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کرنا ہے۔ اگر آپ اپنے کام، اپنے اطوار، اپنی وضع قطع اور اپنے رویئے میں اعلیٰ معیارات قائم کریں گے تو بدلے میں آپ کو اپنے ماتحتوں سے بھی اس کی توقع کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر آپ دوسروں سے کوئی کام کروانا چاہتے ہیں تو خود بھی اس کام کو اسی اعلیٰ معیار کے مطابق کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ و تیار رہئے جس کی توقع آپ دوسروں سے کرتے ہیں۔ یہ غالباً لیڈرشپ کا طاقتور ترین حربہ ہے۔ ایک اچھی مثال قائم کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: +٭ اپنے ماتحتوں کو باور کرایئے کہ جو کام کرنے کے لئے آپ انہیں کہتے ہیں، انہیں کرنے کے لئے خود بھی تیار ہیں۔ +٭ اپنی ظاہری وضع قطع صاف ستھری اور قابل قبول رکھئے۔ +٭ اپنی سوچ اور رویئے مثبت رکھئے۔ +٭ اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کی ذاتی عادات ایسی نہ ہوں کہ دوسرے ان پر نکتہ چینی کر سکیں۔ +٭ خود بھی پہل کاری سے کام لیجئے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیجیے۔ +٭ کسی بھی ماتحت کو دوسروں سے پسندیدہ قرار دینے سے احتراز کیجئے۔ +فتح فلسطین کے موقع پر، دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمرؓ کو یروشلم کے باسیوں اور افواج کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ اگر امیرالمومنینؓ خود فلسطین تشریف لائیں تو وہ لڑے بغیر شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے۔ خلیفتہ المسلمینؓ نے اپنے غلام کے ساتھ فلسطین کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ ان کے پاس صرف ایک اونٹ تھا جس پر دونوں باری باری سوار ہوتے تھے۔ جس وقت وہ شہر کے دروازے کے سامنے پہنچے، اس وقت غلام کی باری سوار ہونے کی اور حضرت عمرؓ کی باری اونٹ کی مہار پکڑ کر چلنے کی تھی۔ غلام نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ ہم شہر پہنچنے والے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ اونٹ پر سوار ہو جائیں لیکن حضرت عمرؓ نے ایک تاریخی مثال قائم کرتے ہوئے اونٹ پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور اس کی مہار پکڑے شہر تک پہنچے جہاں بغیر لڑے شہر کی چابیاں ان کے حوالے کر دی گئیں۔ +دوسروں پر اعتماد کیجئے، چاہے تھوڑا سا ہی سہی +لوگ فطرتاً متجسس اور اچھی بری ہر دو طرح کی افواہیں پھیلانے کے خوگر ہوتے ہیں۔ مورال کو بڑھانے اور غلط افواہوں کے سدباب کے لئے اپنے رفقائے کار کو معاملات کی پیش رفت اور صورتِ حال سے باخبر رکھئے۔ ان کے سامنے صورتِ حال کی وضاحت کرنے کے عمل میں آپ انہیں ٹیم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ باخبر لوگ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ براہِ راست نگرانی کی عدم موجودی میں زیادہ کام انجام دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اپنے رفقائے کار کو کم از کم اس حد تک ضرور باخبر رکھئے کہ وہ اپنے فرائض کو دانشمندی سے انجام دے سکیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی جھجک ان کے مانع نہ ہو۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: +٭ اپنے رفقاء کو بتایئے کہ کسی کام کا کرنا کیوںضروری ہے اور آپ اسے کس طرح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ +٭ اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے براہِ راست ماتحت خود اپنے ماتحتوں تک بھی آپ کی فراہم کردہ ضروری اطلاعات پہنچاتے رہیں۔ +٭ غلط افواہوں سے ہوشیار رہئے اور کسی افواہ کے پھیلنے کی صورت میں رفقائے کار کو حقیقت سے باخبر کیجئے۔ +٭ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اپنے رفقائے کار کی کھلے بندوں تعریف کر کے ان کے مورال کو بڑھاوا دیجیے۔ +اس سے پہلے کہ آپ دوسروں سے کسی طرح کی کارکردگی کی توقعات وابستہ کریں، ان پر اپنی توقعات واضح کریں۔ ان سے اس زبان میں، ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اور اس انداز سے گفتگو کریں جسے سمجھنا ان کے لئے آسان ہو۔ گفتگو کرتے ہوئے کبھی سرپرستانہ انداز اختیار نہ کریں۔ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنے ماتحتوں کو اس کے متعلق سوالات پوچھنے کا موقع دیجیے۔ ان کی نگرانی کرتے رہنا ضروری ہے، اس لئے وقتاً فوقتاً اپنے ماتحتوں کا کام چیک کرتے رہیں تاکہ ان کے ذہن میں یہ نکات اچھی طرح بیٹھ جائیں کہ: +ا۔ ضرورت پڑنے پر آپ ان کی مدد کرنے کے لئے دستیاب ہیں۔ +ب۔ آپ ان سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔ +البتہ، اپنی نگرانی کو حد سے تجاوز نہ کرنے دیجیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی کڑی نگرانی رکھنے سے ان کی پہل کاری کی قوت اور مورال پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ +ماتحتوں کو ان کے اپنے انداز میں کام کرنے کا موقع دیجیے اور پھر ان کی پیش رفت کا جائزہ لیجئے۔ ایسا کرنے کے لئے آپ کو چاہئے کہ: +٭ ہر کام کے لئے واضح، جامع اور خاطرخواہ ہدایات جاری کیجئے۔ +٭ سوالات پوچھنے کے ضمن میں ماتحتوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ +٭ ماتحتوں کے ذہن میںپائے جانے والے کسی بھی شک، غلط فہمی یا ابہام کا پتہ چلانے کے لئے خود بھی ان سے سوالات پوچھئے۔ +٭ اس بات کی نگرانی رکھئے کہ آپ کی جاری کردہ ہدایات پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ +٭ اس امر کو یقینی بنایئے کہ آپ کے ماتحتوں کو اپنے فرائض انجام دینے کے لئے خاطرخواہ وسائل میسر ہوں۔ +٭ نگرانی کے عمل کو متوازن رکھئے۔ ضرورت سے زیادہ یا کم نگرانی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ +اپنے کام کو بہتر سے بہتر انداز میں انجام دینے کے لئے ہر ضروری مہارت حاصل کیجئے۔ اپنے فرائض اور ان کی انجام دہی کے لئے درکار بنیادی مہارتوں سے کامل واقفیت حاصل کیجئے۔ اس کے بعد جماعت کی دوسری ذمہ داریوں کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیجئے اور یہ بھی کہ آپ کے کام سے ان کا ربط کیسے بنتا ہے۔ ضروری سیاسی اصولوں اور طریق ہائے کار سے واقفیت حاصل کیجئے تاکہ ضرورت پڑنے پر آپ دوسروں کی تربیت کر سکیں۔ اپنے علم کو اتنی وسعت دیجیے کہ دوسرے مشورے اور رہنمائی کے لئے آپ کی طرف دیکھیں۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ: +٭ سیاسی اصولوں اور طریق ہائے کار کی تعلیم حاصل کریں۔ +٭ تازہ ترین حالات و واقعات اور اپنے کام پر ان کے اثرات سے باخبر رہیں۔ +٭ اچھے لیڈروں کو تلاش کریں اور ان کے ساتھ تعلقات بنائیں۔ ان کے افعال و اقوال اور انداز و اطوار کا مشاہدہ کریں اور ان سے سیکھیں۔ +رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’تکنیکس اگرچہ ضروری ہیں لیکن لیڈرشپ صرف تکنیک کا نام نہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو تنظیم کاری نثر ہے اور لیڈر شپ شاعری۔‘‘ +لوگوں کو منطق سے قائل کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں متحرک کرنے کے لئے جذباتی انگیخت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک لیڈر کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ منطقی دلائل بھی دے سکے اور جذباتی انگیخت بھی فراہم کر سکے۔ لوگوں کو برانگیختہ کرنے کے لئے لیڈر کو پہلے خود برانگیختہ ہونا پڑتا ہے۔ ہر قول اور فعل اس کے ذہن بالکل واضح اور روشن ہونا چاہئے۔ +اپنے شعبے سے باہر کے لوگوں کے ساتھ رابطے بنا کر اپنے علم کو وسیع کیجئے۔ دوسرے شعبوں کے لیڈروں کے نظریات و ادراکات سے واقفیت حاصل کر کے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ +لیڈر شپ کے عہدوں کے ذریعے اپنے علم کا عملی اطلاق کرنے کے مواقع حاصل کیجئے۔ +اپنے سے بالاتر عہدوں پر فائز افراد کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آشنائی حاصل کیجئے اور ضرورت پڑنے پر خود ان ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رکھئے۔ +خود کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھئے +دیانتداری سے اپنا تجزیہ کیجئے اور اپنی کمزوریوں کا پتہ چلایئے۔ اپنے آپ سے سوال کیجئے: ’’میں کیا بہتر کر سکتا ہوں؟‘‘ اپنی خامیوں کو دور کرنے اور اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کیجئے۔ اپنے دوستوں اور رفقائے کار سے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا دیانتدارانہ تجزیہ کرنے کو کہئے۔ اس طرح آپ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے زیادہ بہتر انداز میں واقف ہو سکیں گے۔ آپ کو چاہئے کہ: +٭ دوسرے لیڈروں کی کامیابی یا ناکامی کی وجوہات کا مطالعہ کیجئے۔ +٭ عمدگی سے بولنے اور لکھنے کے فن میں مہارت حاصل کیجئے۔ +٭ ایک واضح مقصد کا تعین کیجئے اور اسے حاصل کرنے کے لئے واضح منصوبہ بندی کیجئے۔ +٭ اپنے متعلق معروضی اور منطقی نکتہ نگاہ اپنایئے۔ +سکندراعظم ایک ایسا لیڈر تھا جس نے شروع سے ہی مختلف اقدامات کے ذریعے اپنے علم کو بڑھانے اور اپنے آپ ک�� بہتر بنانے کی کوشش کا آغاز کر دیا تھا مثلاً ایک عالمی حکمران کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے روانہ ہونے سے پہلے، اس نے آبی اور بحری ہر دو راستوں، ان کی آب و ہوا اور ان سے متعلقہ ضروریات سے واقفیت حاصل کی۔ کسی مخصوص مقام پر پہنچنے کے بعد وہ وہاں کے رہنے والوں، ان کی ثقافت اور وہاں دستیاب علوم کا مطالعہ کرتا۔ اس نے جغرافیہ اور راستوں کے علم میں مہارت حاصل کی۔ جب کبھی اسے اپنے علم کو بہتر بنانے یا وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی، وہ یونانی دانشوروں سے مدد حاصل کرتا۔ مصر، ایران اور ہندوستان، ہر جگہ پر اس نے یہی وطیرہ اپنائے رکھا۔ خود کو بہتر بنانا اس کا ایک ایسا شوق تھا جو دمِ آخر تک اسے فائدہ پہنچاتا رہا۔ مشکل ترین حالات سے پالا پڑنے کے باوجود وہ بغیر کسی ناکامی کے اپنے مطلوبہ مقامات پر پہنچتا رہا۔ یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ دورانِ سفر کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کے بعض فوجیوں کو گھر کی یاد ستانے لگی اور انہوں نے وطن واپسی کی خواہش ظاہر کر دی۔ ایسے ہر موقع پر سکندر نے ان کی راہ میں مزاحم ہونے کے بجائے ہنسی خوشی انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی اور فوج میں ہونے والی کمی کو مفتوح ایشیائی ملکوں سے رنگروٹ شامل کر کے پورا کیا۔ ہندوستان میں راجہ پورس پر فتح پانے کے بعد، افواج کی غالب اکثریت نے واپس جانے کی اجازت طلب کر لی۔ اگرچہ سکندر کی خواہش ہندوستان کے انتہائی جنوب تک پہنچنے کی تھی، لیکن پھر بھی اس نے اپنے فوجیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں اجازت دے دی کہ وہ جب چاہیں واپس چلے جائیں اور اپنے طور پر ایشیائی افواج پر انحصار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب ان فوجیوں نے واپسی کا سفر شروع کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یونان واپسی کا راستہ معلوم ہو اور صرف لیڈر یعنی سکندراعظم اس قابل تھا کہ انہیں واپس وطن لے جا سکے۔ لہٰذا وہ سب اس کے شانہ بشانہ ہو کر بڑے جوش و جذبے سے لڑے، نہ صرف فتح کے لئے بلکہ خود سکندر اعظم کی زندگی کی حفاظت کے لئے بھی تاکہ وہ واپسی کے راستے پر ان کی رہنمائی کرنے کے لئے زندہ رہے۔ +آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کے رفقائے کار کی شخصی کیفیت کیا ہے اور مختلف صورتِ حالات میں ان کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔ ان کی پسندیدگیوں اور ناپسندیدگیوں سے واقفیت حاصل کیجئے، پتہ چلایئے کہ کون سی چیز انہیں تحریک دیتی ہے اور کون سی چیز انہیں مایوس کرنے کا سبب بنتی ہے۔ کہاں انہیں تقویت ملتی ہے اور کہاں وہ کھل کر اپنی اہلیت کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر، خوداعتمادی سے عاری کسی گھبرائے ہوئے فرد کو کبھی کسی ایسے عہدے پر فائز نہیں کیا جانا چاہئے جہاں فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہو۔ اپنے ماتحتوں اور رفقاء کی شخصی خصوصیات سے واقف ہونے کے بعد آپ کسی کام کے لئے موزوں ترین فرد کا انتخاب کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ اپنا رویہ دوستانہ رکھئے۔ آپ کے ماتحتوں کو آپ تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی غیرضروری رکاوٹ مانع نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے ماتحتوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے خواہ آپ کا عہدہ کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو۔ +٭ اپنے ماتحتوں کی کیفیت اور کام کرنے کے ماحول پر دھیان رکھئے۔ اس امر کو یقینی بنایئے کہ انہیں ضروری تربیت اور تائید دستیاب ہو۔ +٭ انعامات کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کو یقینی بنایئے۔ +٭ انفرادی ترقی و بہتری کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں اختیارات کے تفویض کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہ لیجئے۔ +٭ مشکل کاموں میں رفقائے کار کو بھی اپنے ساتھ شریک کیجئے۔ +کسی کام کا فوری کرنا ضروری ہو تو بھی امکانات اور متبادل راستوں کا جائزہ لینے کے لئے وقت ضرور نکالئے لیکن جب فیصلہ کرنے کا وقت آ جائے تو پھر تاخیر مت کیجئے۔ یاد رکھئے کہ بروقت کیا ہوا ایک اچھا فیصلہ تاخیر سے کئے ہوئے ایک بہت اچھے فیصلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک سے زائد مواقع پر فرمایا۔ ’’فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچو مگر جب فیصلہ کر لو تو اس پر جمے رہو۔‘‘ +بروقت اور بے عیب فیصلے کرنے کے لئے: +٭ صورتِ حال کا معروضی جائزہ لینے کی مشق سے اپنی سوچوں کو منطقی اور منضبط انداز میں ترتیب دیجئے۔ +٭ ممکنہ حالات و واقعات، جن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہو، ان کے لئے اگر وقت ملے تو پہلے سے تیاری کر کے رکھئے۔ +٭ جب وقت اجازت دے تو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ماتحتوں کی آراء اور مشورے طلب کیجئے۔ +٭ فیصلوں کا اطلاق کرنے سے پہلے اپنے ماتحتوں کو ان کے متعلق بتایئے اور انہیں کم از کم اتنا وقت ضرور دیجئے کہ انہیں ضروری تیاریاں کرنے کا موقع مل سکے۔ +٭ اپنے ماتحتوں کی حوصلہ افزائی کیجئے کہ وہ بھی آپ کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ اپنے منصوبے بنائیں۔ +٭ گروپ کے تمام ارکان پر اپنے فیصلوں سے مرتب ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھئے۔ +رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اہم بات یہ نہیں کہ لیڈر اپنی میز پر (یعنی اپنے عہدے پر) کتنا وقت کام کرتا ہے یا اس کا میز کہاں پڑا ہوا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے وہ بڑے بڑے فیصلے کس انداز میں کرتا ہے۔ اگر گولف کا ایک گیم اس کے ذہن کو فیصلہ کرنے کے لئے موزوں حالت میں لا سکتا ہے، تو اسے چاہئے کہ کاغذی کارروائیوں کو ایک طرف رکھ دے، اور گولف کورس کی طرف روانہ ہو جائے… کسی لیڈر کی کامیابی میں خوش نصیبی کے جتنے عناصر نظر آتے ہیں، ان میں درست ٹائمنگ کی خوش نصیبی شاید سب سے اہم ہے۔‘‘ +کام اسے دیجیے جو اس کا اہل ہے +ممکن ہو تو کبھی بھی کسی کو کوئی ایسی ذمہ داری تفویض نہ کریں جسے نبھانے کے لئے اس کے پاس مناسب تربیت موجود نہ ہو۔ دس آدمیوں کا کام کرنے کے لئے تین آدمی مامور کر کے اچھے نتائج کی توقع نہ لگائیں۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کو بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے کے مواقع دینے سے کبھی انکار مت کریں۔ اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ درست کام کے لئے درست فرد کا انتخاب کریں۔ آپ کسی کم آمیز اور کم گو فرد کو اپنا رابطہ افسر یا ترجمان مقرر نہیں کر سکتے۔ اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے: +٭ کبھی کسی پر کوئی ایسا فریضہ عائد نہ کریں جسے ادا کرنا ناممکن ہو۔ ایسے فرائض مورال کے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ +٭ تفویض کئے جانے والے کام معقول اور منطقی ہونے چاہئیں۔ +٭ اگر آپ کے وسائل ناکافی ہوں تو ضروری تائید اور وسائل حاصل کرنے کے لئے ضروری اقدامات کریں یا اپنے منصوبوں کو حقیقت پسندی کی حدود میں رکھتے ہوئے اس امر کا تعین کریں کہ ایسا کرنے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔ +٭ سب کو مساوی ذمہ داریاں دیں۔ کسی پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالیں اور کسی کو بہت کم ذمہ داریاں نہ دیں۔ +٭ اعانت طلب کرنے سے پہلے اپنی حد تک پوری کوشش کر کے دیکھ لیں۔ +درست کام کے لئے درست فرد کا انتخاب ایک ایسا اصول ہے جسے نظرانداز کرنے والا نہ صرف اپنے مقاصد اور اپنے اہداف کو خطرے میں ڈال دیتا ہے بلکہ اپنے ذاتی یا اجتماعی تاثر کو خراب کرنے کا موجب بھی بنتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کم علمی ایک خطرناک چیز ہے۔ بہ الفاظِ دیگر نیم حکیم خطرئہ جان۔ اسی طرح کم اہلیت رکھنے والے کو بڑی ذمہ داری سونپ دینا بھی ایک خطرناک حرکت ہے۔ سیاست میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ لیڈر کو عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہوتے ہیں اور اس ضمن میں کسی طرح کی غفلت سخت نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے اہم اصولوں پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ ایسے اہم فیصلے کرتے ہوئے بھی، جن میں کسی طرح کی غلطی کسی فرد یا جماعت کا کیریئر معرضِ خطر میں ڈال سکتی ہے، متعلقہ لیڈران اپنی سہولت اور ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے نہیں ہو پاتے اور مستقبل کے لئے صحیح سمت کا تعین کرنا ممکن نہیں رہتا۔ +مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے اس اصول کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ ہمیشہ کسی فرد کو وہی ذمہ داری سونپی جائے جسے نبھانے کی اہلیت اس میں موجود ہے۔ اس اصول پر عمل کرنے سے آخری فتح حاصل کرنے کے لئے بہتر ٹیم تشکیل دی جا سکتی ہے۔ درست کام کے لئے درست فرد کا انتخاب کرنے سے مراد ایسے فرد کا انتخاب کرنا ہے جو اس کام کے تمام تقاضوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہونے کی قوت رکھتا ہو۔ +ایک کامیاب لیڈر بننے سے پہلے یہ سمجھنا ازبس ضروری ہے کہ لیڈر شپ کیا ہے اور ایک لیڈر کی بنیادی خصوصیات کیا ہوتی ہیں۔ بعض موجودہ سیاسی قیاس آرائیوں کے برعکس، لیڈرشپ کا کردار سے گہرا اور اٹوٹ تعلق ہوتا ہے۔ کردار کے بغیر کوئی بھی لیڈر حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ +کہاوت ہے کہ اگر ساری دولت چلی جائے تو سمجھو کچھ نہیں گیا۔ اگر صحت چلی جائے تو سمجھو کچھ چلا گیا۔ اور اگر کردار چلا جائے تو سمجھو سب کچھ چلا گیا۔ +تاریخ اس اصول کی حقانیت کی شاہد ہے کہ کہ عوامی کردار ادا کرنے کے لئے عمدہ اخلاقی کردار سے بہتر اور قابل اعتماد خوبی اور کوئی نہیں۔ کسی فرد کا اخلاقی کردار ایک مسلمہ اور ناقابل تقسیم چیز ہے۔ آپ اسے ٹکڑوں میں نہیں بانٹ سکتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کے کردار کا ایک حصہ خالص اور عمدہ ہو اور دوسرا نخالص اور گھٹیا۔ ممکن ہے کہ کوئی فرد ایک وقت میں کسی ایک برائی میں مبتلا ہو اور دوسری برائیوں سے احتراز کرتا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر کردار کی عمارت میں کوئی ایک دراڑ پڑ جائے تو اس کی راہ تمام برائیاں قطار باندھ کر اندر گھس آتی ہیں۔ کسی فرد کو صراطِ مستقیم سے بہکانے کے لئے پہلے پہل بڑی طاقتور تحریص کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ایک دفعہ جب اس کے قدم پھسل جائیں تو پھسلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جو ایک دفعہ راہ سے بھٹک گیا، اسے دوبارہ بھٹکانا بہت آسان ہوتا ہے۔ +اخلاقی بگاڑ کی رفتار پہلے ہی خاصی تیز ہوتی ہے اور جب اس میں ’’سرکاری‘‘ ترغیب بھی شامل ہو جائے تو معاملہ ناقابل بیان حد تک بگڑ جاتا ہے۔ امریکیوں نے انجیل سے یہ سبق بہت پہلے ہی حاصل کر لیا تھا کہ کسی بھی ملک میں حکومت کی خرابی یا اچھائی کا انحصار قاعدے قانون کے بجائے لیڈروں کی اچھائی یا برائی پر ہوتا ہے۔ امریکی آئین کے گواہ اور سپریم کورٹ کے جسٹس ولیم پیٹرسن ان بانیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے شہریوں کے سامنے انجیل کا یہ حصہ پڑھ کر سنایا۔ ’’نیکوکاروں کی حکومت میں لوگوں کو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں اور بدکاروں کی حکومت میں آلام۔‘‘ +آج دنیا میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کی سب سے طاقتور حکومت سمجھا جاتا ہے اور امریکہ کا چیف مجسٹریٹ (یعنی صدر امریکہ) وہ آخری فرد ہونا چاہئے جو اس کی ترقی پر کسی طرح سے اثرانداز ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حالیہ تاریخ میں صدرِ امریکہ بل کلنٹن کو جھوٹی گواہی دینے کے الزام میں عدالت عالیہ میں گھسیٹا گیا تاکہ لیڈر شپ کے اعلیٰ معیارات پر کوئی آنچ نہ آئے۔ عدالت کے سامنے اپنے دفاع میں جوابدہ ہونے سے کلنٹن کی شخضیت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ نکھر گئی اور قانون کی بالادستی، لغوی اور معنوی، دونوں اعتبار سے ابھر کر سامنے آئی۔ امریکہ کے آئین میں درج ہے کہ ’’تمام انسان برابر ہیں‘‘ اور صدر امریکہ کی طرف سے اس برابری اور مساوات کا عملی مظاہرہ جمہوریت پر مبنی اس نظام کے لئے گہرے احترام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ کے دور میں ہمیں ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ پوری دنیا کے لئے ایک گرانقدر پیغام ہے کہ دیکھو، لیڈر کیسے بنا جاتا ہے۔ +سیموئیل ایڈمز نے جب مندرجہ ذیل سطور لکھیں تو وہ اسی انجیلی اصول کی تصریح و تفصیل کر رہے تھے: +جو شخص اپنی ذاتی زندگی میں نیکوکاری کی طرف راغب نہ ہو، جلد یا بدیر وہ اپنے ملک و قوم سے بھی لاتعلق ہو جاتا ہے۔ ایسی مثال کم دیکھنے کو ملے گی کہ جب کسی فرد نے اپنے ملک سے غداری کرنے سے پہلے ذاتی زندگی میں اپنی تمام اخلاقی ذمہ داریوں سے نجات حاصل نہ کر لی ہو۔ (ذاتی اور عوامی برائیاں درحقیقت ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں)۔ +کسی بھی حکومت کے اطوار کے استحکام کے لئے اس سے اہم بات اور کوئی نہیں کہ اس کے تمام کلیدی عہدوں پر فائز افراد امتیازی کردار کے مالک ہوں۔ +ہم لیڈروں کو صرف ان کے کئے ہوئے کاموں کے حوالے سے یاد نہیں رکھتے، بلکہ ان کی ذاتی شخصیت اور ان کے کردار کے حوالے سے بھی یاد رکھتے ہیں۔ زیادہ تر افراد کردار کو اخلاقی قوت اور صبر و برداشت سے تعبیر کرتے ہیں۔ +چارلس ڈیگال نے ایک لیڈر میں کردار کو بے چین خواہش اور اپنی بات منوانے کے لئے درکار باطنی قوت کا نام دیا۔ ان کا کہنا ہے۔ ’’کسی فرد کو دوسروں سے بالاتر قرار دینا صرف اسی صورت تسلیم کیا جا سکتا ہے جب وہ مشترکہ مقصد کو وہی تحریک اور تیقن عطا کر سکے جو مضبوط کردار کا خاصہ ہوتی ہے۔‘‘ +اگر کسی کو اچھے کردار کے ساتھ ساتھ اچھا، صاف ستھرا اور باوقار ماحول بھی میسر آئے، تو اس کی زندگی اخلاقی جرأت اور نیکوکاری کی صفات سے عبارت ہوگی۔ یہ ایک باوقار اور ممتاز زندگی ہوگی۔ +مقدس صحائف سے لئے جانے والے ایسے اقتباسات جن میں شہری اور مذہبی قائدین کی خصوصیات کا تذکرہ ہو، اس نکتے کو واضح طور پر بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بے داغ کردار اور بے عیب اخلاقی زندگی ایک لیڈر کے لئے ناگزیر حیثیت رکھتی ہیں۔ +تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قدرت نے بھی لیڈروں میں ذاتی کردار کی اہمیت پر نہایت زور دیا ہے۔ تمام روحانی اور مذہبی کتابوں کے مطابق، انسانیت کا آغاز اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت آدم نے کچھ عرصہ تک تنہا رہے اور اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرتے رہے۔ انہیں رفاقت کی طلب تھی لہٰذا اللہ نے ان کے لئے بی بی حوا کو تخلیق کیا جو حضرت آدم کے لئے خوشی اور تسکین کا موجب بنیں۔ انہیں جنت میں ہر جگہ جانے اور ہر میوے کا لطف اٹھانے کی اجازت تھی سوائے ایک شجر کے، جس کے پھل کو چکھنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ +تم سب ایک ساتھ نیچے اتر جائو۔ (بقرہ۔ 38) +اگلا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ آدم و حوا نے جنت سے نکلنے کے بعد زمین کے کس حصے پر پہلا قدم رکھا۔ بعض روایتوں کے مطابق حضرت آدم برصغیر پاک و ہند کے کسی حصے میں اترے (سری لنکا بمطابق ورلڈ انسائیکلوپیڈیا) اور حوا جدہ کے نزدیک۔ بعد میں دونوں کی ملاقات (بعض روایات کے مطابق سات سال بعد) حجاز یا عرفات میں ہوئی۔ میدانِ عرفات کے اس نام سے موسوم ہونے کی وجہ ہی یہی ہے کہ یہیں حضرت آدم اور بی بی حوا ایک دوسرے سے ملے اور ایک دوسرے کو پہچانا۔ کئی سال تک دونوں ایک دوسرے کو تلاش کرتے رہے۔ +تمام انبیاء کرام نے پیامِ الٰہی کی تبلیغ کرنے سے پہلے اپنی اپنی قوم میں اپنے کردار اور اخلاق کے حوالے سے ایک بے داغ ساکھ قائم کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کی رہنمائی کرنے سے پہلے، ان کا لیڈر بننے سے پہلے، اچھا کردار حاصل کرنا کتنا اہم ہے۔ کسی کے خیالات، افعال اور اقوال کی بناء پر ہمیشہ اس کے کردار کا تجزیہ کیا جاتا رہتا ہے۔ جب حضور پاکﷺ نے اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا تو اس سے پہلے وہ ایک سچے، قابل اعتماد اور دیانتدار فرد کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک نہایت مشکل کام کا آغاز کیا اور انجام کار اس میں کامیاب ٹھہرے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی تاریخ میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب بھی مذہبی یا سیاسی قیادت کے اقدامات پر انفرادی یا اجتماعی طو رپر حرف زنی کی گئی تو انہوں نے عدالتوں میں اور عوام کے سامنے اپنے آپ کو درست اور صراطِ مستقیم پر قائم ثابت کیا۔ مختلف مسلمان خلفاء اور حکمرانوں نے قاضیوں کے سامنے پیش ہو کر عام شہریوں کی طرح اپنا دفاع کیا۔ +اس ضمن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنے دامن عفت کو زلیخا اور دیگر شاہی خواتین کے ہاتھوں آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے اسیری قبول کی۔ وہ کئی سال تک زنداں میں رہے اور بالآخر خدائے عز و جل کی نصرت سے مصر کے دینی و دنیاوی رہنما بنے۔ قرآن پاک میں اس قصے کا تذکرہ 26 جگہوں پر آیا ہے۔ 24 مرتبہ سورئہ یوسف میں اور ایک ایک مرتبہ سورئہ الانعام اور سورئہ غافر میں۔ حضرت یوسف کو یہ اعزاز بھی ملا کہ ان کے پردادا حضرت ابراہیم کی طرح ان کے نام پر بھی علم و حکمت کے خزانوں سے مزین ایک پوری سورہ قرآن پاک میں شامل ہے۔ حضرت یوسف، حضرت یعقوب کے فرزند تھے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے۔ +حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا ان کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا اور حسد کی بناء پر ان کے سوتیلے بھائیوں نے انہیں باپ کی شفقت و محبت سے بھی محروم کر دیا۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک خشک کنویں میںپھینک کر ان کی خون آلودہ قمیص حضرت یعقوب کو لا دکھائی اور کہا کہ حضرت یوسف کو بھیڑیا اٹھا لے گیا ہے۔ قمیص پر لگا ہوا خون کسی جانور کا تھا۔ بہرحال، وہاں سے گزرنے والے ایک قافلے نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال لیا اور اپنا غلام بنا کر ساتھ رکھ لیا۔ +ذرا اپنے تخیل کی آنکھ کھولئے اور حضرت یوسف کے کردار کی پختگی کو دیکھئے۔ ایسے مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ روئے نہیں، گڑگڑائے نہیں، چیخے چلائے نہیں، غم و اندوہ کا اظہار نہیں کیا اور کوئی شکایت نہیں کی۔ وہ تقدیر کی تمام ستم ظریفیوں پر بھی اللہ کے شکرگزار تھے، اپنی تکالیف پر صابر تھے اور اللہ کے فیصلوں کے تابع تھے۔ انہیں مصر کے بازار میں لے جا کر بیچ دیا گیا مگر ان کا سر اللہ کے حضور جھکا رہا۔ +جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر پہنچے تو بنو عمالقہ وہاں کے حاکم تھے اور رعمیسس وہاں کا دارالخلافہ۔ عزیز مصر کے محافظوں کے سالار پوتیفر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک حقیر سی قیمت کے عوض خرید لیا۔ +اس زمانے میں مصری خود کو دنیا کے سب سے مہذب اور شائستہ افراد سمجھتے ہوئے صحرائی قبائل سے تعلق رکھنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ مصر کے قصبوں اور شہروں میں ان افراد سے اچھوتوں کا سا سلوک ہوتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خاندان کنعان میں رہائش پذیر تھا اور اس اعتبار سے انہی صحرائی قبیلوں کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا۔کنعان میں شہری تمدن کا کوئی تصور نہ پایا جاتا تھا۔ ان کے ہاں دولت گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور بھیڑ بکریوں کے گلوںکا نام تھی اور بقائے حیات کا سب سے بڑا ذریعہ شکار تھا۔ +دیکھئے، اللہ کے منصوبے اور ارادے کیسے معجزاتی انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں! ایک صحرائی بدو، ایک غلام کی حیثیت سے ایک امیر آدمی اور ایک عہدیدار کے گھر تک پہنچتا ہے اور اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار، وسعت علم، باوقار شخصیت اور بھروسہ مندی کی بدولت اس کا دل جیت لیتا ہے اور اس کی آنکھ کا تارہ بن جاتا ہے۔ پوتیفر جس روز حضرت یوسف علیہ السلام کو گھر لایا تھا، اسی روز اس نے اپنی بیوی کو بتا دیا تھا کہ یہ لڑکا کوئی معمولی لڑکا نہیں۔ +پوتیفر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک غلام کے بجائے اپنی اولاد کی مانند جانا اور انہیں عزت و وقعت دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تمام گھریلو ذمہ داریاں حضرت یوسف علیہ السلام کو سونپ دی گئیں اور اس کی دولت و اختیارات حضرت یوسف علیہ السلام کے تصرف میں آ گئے۔ +اب تقدیر کا دوسرا دور شروع ہوا۔ شباب آیا تو حضرت یوسف علیہ السلام ایک نہایت حسین و جمیل نوجوان کے روپ میں سامنے آئے۔ مردانہ حسن و جمال کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو ان کی ذات میں موجود نہ ہو۔ وہ نہایت وجیہہ تھے۔ ان کے چہرے کی درخشندگی آفتاب و ماہتاب کو شرماتی تھی۔ ان کا دامن ان کے حسن کی طرح بے داغ تھا لیکن ان سب نعمتوں کے ساتھ ساتھ آقا کی بیوی کے روپ میں ایک مصیبت بھی ان کے سر پر مسلط تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھ کر بے قابو ہوئی جا رہی تھی اور انہیں دعوتِ گناہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی۔ +لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کوئی معمولی نوجوان نہ تھے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، پیغمبروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آگے چل کر انہیں بھی منصب نبوت پر فائز ہونا تھا۔ بھلا کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک عورت کے ترغیبی حربوں سے متاثر ہو جاتے اور اپنے دامن کو آلودہ کر بیٹھتے؟ +اپنے تمام حربوں کو بے اثر جاتے دیکھ کر، ایک روز حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک کمرے میں تنہا پا کر اس عورت نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور انہیں آمادئہ گناہ ہونے پر مجبور کرنے لگی۔ یہ بے حد مشکل مرحلہ تھا۔ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت، نسائی حسن و جمال سے بھرپور، بہکا دینے والے تمام ہتھیاروں سے آراستہ ، سولہ سنگھار کئے، بند کمرے کی تنہائی میں، بلا خوف و خطر، ہر ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار اور ہر حد سے گزرنے پر آمادہ کھڑی تھی۔ اس دعوت کو ٹھکرانے کے لئے لوہے کا جگر اور پتھر کا کلیجہ درکار تھا۔ +لیکن حضرت یوسف علیہ السلام ایک لمحے کو بھی نہیں ہچکچائے۔ ان کے قدموں میں گھڑی بھر کو بھی لغزش پیدا نہ ہوئی۔ اس عورت کے بہکاوے ان کے نزدیک پرکاہ کی حیثیت بھی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اسے بتانے کی کوشش کی کہ جو وہ چاہتی ہے وہ ناممکن ہے۔ وہ دو عالم کے پروردگار کے احکام سے سرتابی کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ آقا نے ان پر جو اعتماد کیا ہے، اس میں کسی طرح کی دھوکہ دہی کا مرتکب ہونا ظلم ہوگا۔ آقا نے انہیں کبھی غلام نہیں سمجھا بلکہ انہیں ایک باوقار مقام دیا ہے۔ اگر وہ اس کی خواہش پوری کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ ظالم ٹھہریں گے اور ظالموں کا انجام کبھی بخیر نہیں ہوتا۔ +اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے کردار پر حرف نہ آنے دیا اور اس کا صلہ یہ ملا کہ آخر کو مصر کی حکمرانی کے تخت پر بیٹھے۔ خدا کی طرف سے نبوت کامنصب تو انہیں پہلے ہی عطا کیا جا چکا تھا۔ یعنی وہ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے سرخرو رہے۔ +حضرت یوسف کو یہ اعزاز و اکرام، لطف و عنایات اور عزت و شہرت ان کے کردار کی مضبوطی کی بدولت ہی میسر آئی۔ ایک لیڈر کے لئے کردار کی اہمیت کی اس سے بڑی گواہی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ +اس باب میں دیے گئے اصول و ضوابط کا مطالعہ کرنے سے پہلے ذیل میں دیے گئے شذرے کو اچھی طرح، خوب سوچ سمجھ کر پڑھئے اور خود سے سوال کیجئے۔ ’’کیا میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں؟‘‘ اگر جواب نفی میں ملے تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ آپ کی کمزوریاں کہاں پوشیدہ ہیں اور کہاں بہتری کی ضرورت ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ محض اجمالی نصائح ہیں، لیڈر شپ کے تقاضوں کا انسائیکلو پیڈیا نہیں۔ +’’میرے افعال مجھے لیڈر کی حیثیت عطا کرتے ہیں۔ میں اپنی طاقت اور اپنی کمزوری سے واقف ہوں، اور میں ہمیشہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میں ایک اخلاقی ضابطے کے تحت زندگی گزارتا ہوں اور دوسروں کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کرتا ہوں۔ میں اپنے کام سے واقف ہوں اور میں انہیں موصولہ ہدایات کے عین مطابق انجام دیتا ہوں۔ +’’میں پہل کاری کرتا ہوں اور ذمہ داریاں تلاش کرتا ہوں اور میں حالات کا دلیری اور اعتماد سے سامنا کرتا ہوں۔ میں صورتِ حال کا تجزیہ کرتا ہوں اور حالات کے مطابق بہتر سے بہتر انداز میں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں۔ تقاضے خواہ کچھ بھی ہوں، میں اپنے کام کو مکمل کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹتا۔ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، میں ان کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ +’’میں اپنے رفقائے کار کو ایک ٹیم کے طور پر تربیت دیتا ہوں اور پُرحکمت، پُرجوش اور منصفانہ انداز میں ان کی قیادت کرتا ہوں۔ مجھے اس معاملے میں ان کی وفاداری اور اعتماد حاصل ہے کہ میں انہیں ایسا کوئی کام کرنے کو نہیں کہوں گا جسے اپنے ہاتھ سے کرنے میں مجھے کوئی عذر درپیش ہو۔ میں اس امر کو یقینی بناتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوں اور یہ کہ وہ اپنے فرائض کو بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ میں انہیں باخبر رکھتا ہوں اور میں ان کی بہبود کو اپنی مرکزی ذمہ داریوں میں شامل تصور کرتا ہوں۔ +’’یہ کام میں لیڈر شپ کے تقاضوں کی تکمیل اور جماعتی مقاصد کی تحصیل کی خاطر بے غرضی سے انجام دیتا ہوں۔‘‘ +فرض کیجئے کہ آپ کو ایک مستحکم جماعت کا انچارج مقرر کیا جاتا ہے۔ آپ گذشتہ لیڈرشپ کی اہلیت اور پُراثری کا اندازہ کیسے کریں گے؟ آپ کو کیسے علم ہوگا کہ کن شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے؟ ذیل کی سطور میں لیڈر شپ کی چار مفید نشانیاں پیش کی جا رہی ہیں جن کی مدد سے آپ کسی بھی تنظیم کی لیڈر شپ کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ +مورال کسی گروپ کے اعتماد اور خوش مزاجی سے متعلقہ ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ +کسی جماعت کا مورال بنانے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ رفقائے کار کے ایک دوسرے کے مت��لق، اپنے حکام کے متعلق، اپنے فرائض اور اپنی جماعت کے متعلق احساسات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ کسی جماعت کے مؤثرانداز میں کام کرنے اور اپنے فرائض عمدگی سے انجام دینے کے لئے مورال کا بلند ہونا بہت ضروری ہے۔ اپنے رفقائے کار کا مشاہدہ کر کے ان کے مورال کا اندازہ بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ مورال کا تعین کرنے کے لئے جن چیزوں کے نوٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں:- +٭ ذاتی اطوار اور ایک دوسرے کے ساتھ سلوک۔ +٭ بحث مباحثے اور تکرار کی شرح۔ +٭ نقصان دہ افواہوں کی موجودی اور شرح۔ +٭ دفتر اور ساز و سامان کی حالت۔ +٭ ہدایات کے متعلق کارکنوں کا رویہ۔ +٭ اچھے طریقے سے فرائض انجام دینے کی اہلیت۔ +٭ حکام اور عمومی طریقہ کار کے متعلق پیدا ہونے والی شکایات کے اسباب۔ +مورال کی خبر دینے والی دیگر علامات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:- +٭ کام سے غیرحاضری کی شرح۔ +٭ کلیدی عہدوں پر فائز افراد کے برقرار رہنے کی شرح۔ +مورال کو بلند کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے:- +٭ اپنے رفقائے کار کو جماعت کے مشن پر یقین رکھنا اور اعتماد کرنا سکھایئے۔ +٭ اپنے رفقائے کار میں ان کے لیڈروں، ان کی تربیت اور ان کی ذات کے متعلق اعتماد پیدا کیجئے۔ +٭ ذمہ داریوں کی تفویض میں ضروری غور و تدبر سے کام لیجئے تاکہ ہر کام کرنے والا اپنے کام سے مطمئن رہے۔ +٭ اپنے رفقائے کار کو باور کرایئے کہ آپ ان کے متعلق فکرمند رہتے ہیں اور ان کی پروا کرتے ہیں۔ +٭ اچھی کارکردگی پر انعام دینے کا ایک عمدہ نظام قائم کیجئے۔ +٭ اپنے رفقائے کار میں یہ احساس پیدا کیجئے کہ وہ جماعت کے لئے کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ +٭ ایک پیشہ ورانہ ماحول برقرار رکھئے۔ +مورال سے مراد ایک لیڈر کا اعتماد اور ایک فرد یا گروہ کی امید ہے۔ بلند مورال لیڈر اور گروپ کا حوصلہ برقرار رکھتا ہے اور جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نہ صرف بلند مورال رکھنے والوں کو قوت دیتا ہے بلکہ خصوصی طور پر ان کے پیروئوں، بہی خواہوں اور رفقاء کی ہمت بندھاتا ہے۔ قدیم تاریخ میں جب سکندراعظم نے دریائے جہلم پر ایک جنگ میں فتح حاصل کر کے راجہ پورس کو بری طرح زخمی حالت میں گرفتار کر لیا تو راجہ نے شاہی طبی امداد قبول کرنے سے انکار کر دیا، یہ کہہ کر وہ ادھار کی زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے بلند مورال نے سکندرِ اعظم کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے راجہ پورس سے مستقل دوستی کا پیمان کر کے اس کا تخت اور اس کا اکرام اسے واپس لوٹا دیا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں، جب سکندرِ اعظم ملتان کے نزدیک پہنچا تو ایک لڑائی میں، ایک تیر اس کے دل کے بالکل نزدیک آ لگا۔ اس کاری زخم نے سکندر کو قریب المرگ کر دیا۔ زخم کی کامیاب جراحی کے باوجود سکندر کی فوجوں کا مورال بری طرح پست ہو گیا۔ لشکر میں اس کی موت کی افواہیں پھیل رہی تھیں کہ اچانک، معالجوں کی ہدایات کے برخلاف، سکندر اپنے گھوڑے پر بیٹھا ہوا شاہی خیمے سے نمودار ہوا اور پورے لشکر کی خیمہ گاہ کا چکر لگایا۔ اس کے اس اقدام نے لشکر کے مورال کو دوبارہ بلند کر دیا۔ افواہیں دم توڑ گئیں اور صحت یاب ہونے کے بعد اس نے مزید علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کئے۔ +فخر کا ایک اجتماعی احساس +ایک جماعت سے وابستہ کارکنوں کا اپنی جماعت کی تاریخ، روایات، ساکھ اور مشن پر فخر رکھنا، فخر کا ایک اجتماعی احساس کہلاتا ہے۔ اس کی نشانیاں حسب ذیل ہیں:- +٭ کارکنوں کا اپنی جماعت پر فخر کا کھلم کھلا اظہار کرنا۔ +٭ دوسری جماعتوں ک�� نزدیک ایک اچھی ساکھ کا حامل ہونا۔ +٭ ذاتی بغض و عناد سے پاک ایک طاقتور مسابقانہ جذبہ۔ +٭ کارکنوں کی تمام سرگرمیوں میں رضاکارانہ شرکت۔ +٭ رفقائے کار کی ایک دوسرے کی مدد پر رضاکارانہ آمادگی۔ +٭ یہ یقین کہ ہماری جماعت، اس جیسی دوسری یا مد مقابل جماعتوں سے بہتر ہے۔ +اجتماعی احساسِ فخر کی نمو کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے:- +٭ نئے کارکنوں کا خیرمقدم کیجئے، انہیں احساس دلایئے کہ ان کی آمد آپ کے لئے باعث مسرت ہے اور ان کے سامنے جماعت کی تاریخ، مشن اور موجودہ مقام کی وضاحت کیجئے۔ +٭ کارکنوں کی اچھی انفرادی اور اجتماعی کارکردگی کی تعریف سب کے سامنے کیجئے۔ +٭ ٹیم ورک پیدا کرنے کے لئے جذبۂ مسابقت کو فروغ دیجیے۔ +* نقاطی فہرست کی مَد +ں میں یہ احساس پیدا کیجئے کہ جماعت کو محض قائم نہیں رہنا بلکہ ترقی بھی کرنا ہے۔ +نظم و ضبط یعنی ڈسپلن وہ رویہ ہے جو احکامات کی فوری تعمیل اور احکامات کی عدم موجودی میں فوری ضروری اقدامات کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، ڈسپلن نام ہے وہ کرنے کا جس کے کرنے کی آپ کو ہدایت کی گئی ہے اور وہ کرنے کا جس کا کرنا ضروری ہے۔ ڈسپلن کی علامات حسب ذیل ہیں:- +٭ سینئرز اور جونیئرز کے درمیان مناسب تعلقات۔ +٭ معیار بہتر بنانے میں انفرادی اور اجتماعی کوششیں۔ +ڈسپلن کی حوصلہ افزائی کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیا جا سکتا ہے:- +٭ اپنے طرزِعمل کے ذریعے دوسروں پر ذاتی طور پر ڈسپلن کی پابندی کا اظہار کیجئے۔ +٭ کارکنوں میں ذاتی ڈسپلن کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ +٭ اچھے کام پر انعام اور غلطی پر سرزنش کا ایک منصفانہ نظام رائج کیجئے۔ +استعداد و مہارت انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے فرائض انجام دینے میں مہارت کے مظاہرے کا نام ہے۔ استعداد و مہارت کا تعین کرنے کے لئے مندرجہ ذیل معیارات بروئے کار لائے جا سکتے ہیں:- +٭ فرائض کی انجام دہی میں کس قدر مہارت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ +٭ ماتحتوں کی استعدادِ قیادت ۔ +٭ پیشہ ورانہ رویئے کا مظاہرہ۔ +٭ ہدایات اور اطلاعات کے جاری کرنے میں سرعت اور درستی کا مظاہرہ۔ +٭ بدلتے ہوئے حالات کے مقابلے میں فوری ردِعمل ظاہر کرنے کی اہلیت۔ +استعداد و لیاقت کی حوصلہ افزائی کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کیجئے:- +٭ ہر فرد کو اس کی ذمہ داری کے لئے مکمل تربیت دیجیے۔ +٭ ٹیم ورک اور باہمی تعاون پر زور دیجیے۔ +٭ ماتحتوں کو ان کے اپنے فرائض کے علاوہ دیگر افراد کی ذمہ داریوں کے متعلق بھی تربیت دیجیے۔ +٭ ماتحتوں کو اپنے حکام اور نگرانوں کی ذمہ داریوں کی تربیت حاصل کرنے کی ہدایت کیجئے۔ +٭ استعداد و لیاقت کے مندرجہ صدر معیارات کو وقتاً فوقتاً چیک کرتے اور آزماتے رہئے۔ +منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں؟ +میں آپ کو یہ مشورہ دینے کی کوشش نہیں کروں گا کہ آپ کو کس جماعت میں شامل ہونا چاہئے۔ ذیل کی سطور میں جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ درجہ بدرجہ پارٹی لیڈر کی حیثیت حاصل کرنے ایک پروگرام ہے خواہ آپ کا آغاز ایک معمولی ورکر کی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہوا ہو اور پارٹی چاہے کوئی بھی ہو۔ +اپنے جماعت کے نامزد امیدواروں کی انتخابی مہمات میں کام کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کیجئے۔ اپنی کارکردگی کے متعلق زیادہ بلند بانگ دعوے مت کیجئے لیکن سب کی توقع سے بڑھ کر کام کر کے دکھایئے۔ +بعض علاقے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں جماعت کی مقامی کمیٹیاں قریب المرگ ہوتی ہیں یا بالکل ہی سرد پڑ چکی ہوتی ہیں۔ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت کے مختلف عہدیدارو�� کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے وہ سست ہوں یا ممکن ہے یکسر نااہل ہوں۔ وہ ایسے باصلاحیت لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مسلسل محنت کر کر کے تھک چکے ہیں اور اب ان میں مزید بوجھ اٹھانے کی تاب نہیں رہی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محض اپنا ٹہکا جمائے رکھنے کے لئے عہدیداری کی کرسی پر متمکن رہنے کے خواہشمند ہوں، او ریہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کے اصولوں سے کھلا اور مبنی بر بغض اختلاف رکھتے ہوں۔ +وجہ کچھ بھی ہو، اگر پارٹی لیڈران کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تو آپ کو ان کی اصلاح کرنے، ان کی جگہ دوسرے افراد لانے یا خود ان کی جگہ لینے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ +جماعت کی چند اضافی گروہی سرگرمیوں میں حصہ لیجئے مثلاً یوتھ گروپ، خواتین گروپ وغیرہ۔ اگر آپ کے علاقے میں ایسی کوئی سرگرمی موجود نہیں تو اس کے آغاز کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیجئے۔ +اگر آپ اپنی جماعت کے تنظیمی ڈھانچے اور قواعد و ضوابط سے پوری طرح واقف نہیں، تو پارٹی کے ضوابط کی نقل حاصل کیجئے، ان کا مطالعہ کیجئے اور ان کی پابندی کیجئے۔ +اس کے بعد پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کیجئے۔ وہاں آپ کو پارٹی کے موجودہ لیڈروں اور سرگرم کارکنوں سے ملاقات کرنے کا موقع میسر آئے گا، اور وہ بھی آپ سے واقف ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی جماعت کی مقامی کمیٹی میں کوئی جگہ خالی ہو اور آپ کو اس کے لئے پیشکش کی جائے تو قبول کرنے میں ردوقدح نہ کیجئے۔ ایسے اجلاسوں کے دوران اپنی آنکھیں اور کان کھلے، اور منہ بند رکھئے اور جب تک تمام طریق ہائے کار سے مکمل واقفیت حاصل نہ ہو جائے، غیرضروری جوش اور سرگرمی کا مظاہرہ مت کیجئے۔ عموماً یہ اجلاس بہت زیادہ دلچسپی کے حامل نہیں ہوتے۔ بوریت سے بچنے کے لئے اپنے ساتھ پڑھنے یا لکھنے کا کوئی کام لے جایئے اور اجلاس کے غیردلچسپ حصوں کے دوران خود کو اس میں مصروف رکھئے۔ +زیادہ تر علاقوں میں جماعتی عہدیداروں میں خاصی تیزی سے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایسے میں اپنے لئے کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ مت کیجئے۔ اگر آپ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو غالب امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی خود ہی آپ سے کوئی ذمہ داری سنبھالنے کی درخواست کر دے گا۔ ایسے ذمہ داریوں کو قبول کر لیجئے اور انہیں اچھے طریقے سے نبھایئے۔ جلد ہی آپ کو جماعت کے مقامی دفتر میں کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ دیا جائے گا لیکن یاد رکھئے کہ جماعت میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے لئے آپ کا دفتری عہدیدار ہونا ضروری نہیں۔ +اپنی جماعت کے اچھے امیدواروں کے فنڈ میں چندہ دیجیے۔ مالی معاونت آپ کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ جماعت کی چندہ جمع کرنے کی مہمات میں حصہ لیجئے۔ اپنی مقامی جماعتی کمیٹیوں کو مالی معاونت فراہم کیجئے۔ +جماعتی سرگرمیوں کے دوران کسی بھی اچھے کارکن سے ملاقات ہو تو اس کے ساتھ مضبوط عملی تعلقات استوار کیجئے۔ +لیڈر وہ ہوتا ہے جس کی پیروی کرنے والے، خواہ تھوڑے بہت ہی سہی، موجود ہوں، یعنی ایک ایسا فرد جو دوسروں پر رسوخ رکھتا ہو۔ اپنے علاقے کے ایسے افراد کی فہرست کا جائزہ لیجئے جنہیں آپ جانتے ہیں، جو آپ کی جماعت میں سرگرم حیثیت میں شامل ہیں یا ایسے جنہیں شامل ہونا چاہئے۔ +اپنے علاقے کے چیدہ چیدہ افراد کو کسی روز رازداری سے اپنے گھر جمع کیجئے اور ان کے ساتھ اپنے علاقے کی سیاست کے مستقبل، مسائل اور دیگر سماجی سرگرمیوں پر گفتگو کیجئے۔ بعد ازاں دیگر شرکاء بھی ایسے اجلاسوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اجلاس کے دوران ہلکی پھلکی تواضع کا اہتمام رکھئے۔ +ایسے ہر اجلاس میں دیگر بااثر افراد سے اس ضمن میں مشورے طلب کیجئے کہ اور کس کس کو اس اجلاس میں مدعو کیا جانا چاہئے۔ یہ البتہ ذہن نشین رکھئے کہ ایسے اجلاسوں میں شامل ہونے والے تمام افراد قابل اعتماد اور بااصول ہوں اور سیاسی و مالی وسائل کے مالک ہوں۔ موجودہ شرکاء کے اتفاقِ رائے سے نئے شرکاء کو مدعو کیجئے۔ ایسے معزز اور بارسوخ افراد پر اپنی توجہ مرکوز رکھئے جن میں معاملات کو حرکت میں لانے اور ان پر اثرانداز ہونے کی اہلیت موجود ہو۔ ایسے اجلاسوں میں اپنی جان پہچان کے دیگر لیڈروں کو بھی مدعو کیجئے۔ +ذاتی مرکزی مفادات سے قطع نظر، آپ کے اجلاس میں شامل ہونے والے ہر فرد کو متفق علیہ نکات پر باہم مل کر کام کرنے کے لئے آمادہ اور رضامند ہونا چاہئے۔ +ہر دو یا چار سال کے بعد جماعتی کمیٹیوں کو اپنی تجدید کرنی چاہئے۔ +عوامی امیدواروں کے انتخاب پر جماعتی کمیٹیاں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہیں لیکن بعض اوقات اس ضمن میں وہ فیصلہ کن قوت کی حامل ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں نامزد امیدواروں کے انتخاب میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ +مقامی اور قومی انتخابات کی آمد سے قبل اپنی مقامی جماعتی کمیٹیوں کی سرگرمیوں کے شیڈول کے ذریعے ان کے کردار کے متعلق معلومات حاصل کیجئے۔ +براہِ راست پُراثر خط و کتابت اور رابطے کے اصولوں سے واقفیت حاصل کیجئے اور مقامی کارکنوں اور عطیات دینے والوں کے پتوں اور ٹیلی فون نمبرز کی فہرست تیار کیجئے۔ +اپنے علاقے میں غیرجماعتی سرگرمیوں میں شامل لیڈروں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کیجئے۔ مثلاً شہری تنظیمیں۔ مسجد کمیٹیاں۔ کام کرنے کے حقوق کے حامی گروپ۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی ایسوسی ایشنز۔ ریٹائرڈ ملازمین کے گروپ۔ ثقافتی اور نسلی گروپ۔ روایتی اقدار کی پاسداری کی جدوجہد کرنے والے گروپ۔ +قومی سطح کے گروہوں کے ساتھ رابطے قائم کیجئے تاکہ اپنے علاقے میں ان کے کارکنوں کو تلاش کرنے اور اپنی جماعت میں شامل کرنے میں آمادہ کرنے پر کام کیا جا سکے۔ +ان سب کو اپنی اپنی اہلیت کے مطابق مختلف مواقع پر جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے تیار رکھئے۔ سب سے آخر میں، ایک اجلاس بلایئے جس میں سب جماعت کے فیصلوں کی پُرجوش تائید و حمایت کرنے کا عہد کریں۔ جماعت کی قیادت کو مختلف مشورے اور تجاویز ارسال کی جا سکتی ہیں۔ +ایسے اجلاس کے اختتام پر، ہر ایک کو یاد دلایئے کہ اس نے اپنے اتحاد کے امیدواروں کی کامیابی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کرنے کا عہد کیا ہے۔ +فون اور خط و کتابت کے ذریعے حمایت کنندگان (سپورٹرز) کی ایک ممتاز فہرست تیار کیجئے۔ یہ وہ افراد ہوں گے جنہوں نے آپ کے منعقد کردہ اجلاسوں میں حصہ لیا ہے، اس کے علاوہ جماعت کے دیگر کارکن، عطیات دہندگان، عوامی نمائندے اور علاقائی سرگرمیوں کے حوالے سے ممتاز لیڈر۔ ایسے افراد سے مختلف جماعتی معاملات پر رابطہ قائم کیا جائے تو اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ +مقامی یا عام انتخابات اور جماعتی کنونشنز کے عمومی شرکاء سے خط و کتابت کیجئے اور ان سے حمایت کے لئے درخواست کیجئے۔ لوگ ایسی درخواستوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اپنے خط میں ووٹ دینے کے وقت اور مقام کی نشاندہی وضاحت سے کیجئے۔ +خط کے ساتھ ایک جوابی لفافہ اور جوابی فارم یا کارڈ بھی شامل کیجئے جس کے ذریعے لوگ اپنی سیاسی وابستگی کی یقین دہانی کرا سکیں اور مالی عطیات کے ذریعے بھی حصہ ڈال سکیں۔ +آپ کی پارٹی کے چند ارکان کے پاس ایسی فہرستیں موجود ہونی چاہئیں۔ لیڈروں کو اپنی فہرست میں موجود افراد کو ذاتی طو رپر خصوصی خط روانہ کرنے چاہئیں جن میں انہیں جماعتی کنونشنز، سیاسی اجلاس، عوامی میٹنگز اور مظاہروں میں شرکت کرنے کی دعوت دی جائے۔ ان خطوط میں اپنی تمام سرگرمیوں کے لئے حمایت کی درخواست کیجئے۔ اپنی درخواست کو دہرانے سے ہچکچایئے مت۔ لوگوں سے مختلف انداز میں ایک سے زائد بار درخواست کی جائے تو وہ زیادہ بہتر ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ +یاد رکھنے کے لئے چند باتیں +انتخابات انفرادی لیڈروں یا سیاسی جماعتوں کے لئے ان کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کا نکتہ عروج ہوتے ہیں۔ جمہوری دنیا کا سب سے اہم عامل انتخابات ہی ہیں۔ یہ آپ کے خیالات، نظریات، افعال، جان توڑ محنت اور خصوصاً عام آدمی یا ووٹر کے ساتھ آپ نے اپنی زندگی میں جو تعلق قائم کیا ہے، اس کی واپسی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی فرد دوسروں کا دل جیتنے میں کس قدر پُراعتماد ہے۔ تاریخ عالم میں ایسی جمہوریت سب سے پہلے قدیم یونان میں متعارف کرائی گئی جس میں ملک کے شہری براہِ راست شریک ہوتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی یونانی ریاستوں میں اس نظام کا اطلاق اور اہتمام کرنا خاصا آسان تھا۔ لیکن آج کے بڑے بڑے ملکوں میں شہریوں کی اکثریت براہِ راست شرکت کے بجائے اپنے نمائندے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے۔ +انتخابات جمہوری نظام کا اہم ترین جزو ہیں۔ انتخابات کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی، اس کے متعلق تاریخ خاموش ہے لیکن قدیم دنیا میں بھی یہ تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔ ابتداء میں ووٹ دینے یا رائے کا اظہار کرنے کا نظام خفیہ نہ رکھا جاتا تھا یعنی رائے شماری کھلے عام منعقد کی جاتی تھی۔ جان سٹوارٹ مل اور چند دوسرے یورپی فلاسفر بھی اسی نظام کی حمایت کرتے رہے۔ ڈنمارک میں یہ نظام 1910ء تک عملی صورت میں قائم رہا اور امریکہ اور برطانیہ میں 1870ء تک۔ اس کے بعد ان تمام ملکوں میں ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کا طریقہ اپنا لیا جو کہ اب پوری دنیا میں جمہوری انتخابات اور غیرجمہوری موضوعات کے علاوہ دیگر کسی بھی طرح کی رائے شماری کے نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ تجربات شاہد ہیں کہ انتخابات کا باقاعدگی اور تسلسل سے انعقاد عوام کے سیاسی شعور کی پختگی اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ +قانونی نکتہ نظر سے، جیورس پروڈنس (Jurisprudence) قانون کی سائنس ہے اور سیاست خصوصاً جمہوری سیاست میں، انتخابات سے مراد تمام سیاسی جدوجہد، محنت، ذاتی نظریات کی مقبولیت اور پسندیدگی کا ماحصل ہے اور اس امر کی علامت ہے کہ ایک عام آدمی کی نگاہ میں آپ کس حد تک قابل اعتماد ہیں۔ لیکن ان سب باتوں میں کامیابی حاصل کر لینے کا مطلب کامیابی نہیں ہوتا۔ انتخابات سے پہلے مہم چلانے، منشور بانٹنے اور لوگوں کو تحریک دینے کا وقت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے دن کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر انتخابی مہم اور مقررہ دن کے لئے پوری طرح تیاری نہ کی جائے تو غلطیاں اس تمام محنت کو لاحاصل بنا سکتی ہیں جو آپ نے کئی سالوں میں لوگوں کو حرکت میں لانے اور اپنی پہچان بنانے کے لئے کی ہے۔ بہت سے ایسے مقامی لیڈروں کی مثال دیکھنے میں آتی ہے جو دوسروں کو اپنے مؤقف پر قائل کرنے کی عمدہ صلاحیتوں کے مالک نہ تھے لیکن انتخابی مہم چلانے کے ہنر سے پوری طرح واقف تھے، جانتے تھے کہ کس وقت کس حربے کا استعمال مناسب رہے گا اور کون سی ترکیب صرف انتخابات کے دن ہی قابل استعمال اور نفع بخش ہوگی۔ ایسے لیڈروں کی کامیابی کا تناسب دوسروں سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔ +لیڈرشپ خصوصاً سیاسی لیڈرشپ میں اپنے آپ کو منوانے کے لئے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے دو ہی صورتوں میں نکلے گا۔ آپ کی فتح یا آپ کی شکست۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جیتنے کی صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ +جیتنے کے بعد آپ ضرور پہلے سے زیادہ عقلمند ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ تقریباً ہر کوئی آپ کو بتاتا ہوا ملے گا کہ آپ کتنے عقلمند اور ذہین ہیں۔ ویسے بتائیں گے سبھی اور ایسے انداز میں کہ آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ حتیٰ کہ آپ کے پرانے دوست بھی آپ کے لطیفوں پر زیادہ زور سے قہقہے لگائیں گے… لیکن آپ کو عقلمند کہہ دینے سے آپ عقلمند بن نہیں جائیں گے۔ +آپ کی عقلمندی کی وجہ یہ ہوگی کہ اب آپ امیدوار نہیں رہے۔ ہر امیدوار، امیدوار بنتے ہی اپنے آئی کیو میں سے تقریباً 30 پوائنٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیتنے کے بعد زیادہ تر افراد ان میں سے چند پوائنٹ واپس حاصل کر لیتے ہیں۔ اور ہارنے والے، جیتنے والوں سے کہیں زیادہ تیزی سے اپنی کھوئی ہوئی عقل بحال کر لیتے ہیں۔ +جیتنے والے کی حیثیت سے اب آپ کو نئے مسائل اور نئے مواقع کا سامنا ہے، اور ایک پرانے دوست اور قریبی اتحادی کی حیثیت سے، اب جبکہ امکانات کے سارے در کھلے ہیں، مجھے امید ہے کہ میری نصیحت آپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ +اس وقت آپ جو فیصلے کریں گے ان میں سب سے اہم فیصلے اپنے سٹاف کے متعلق ہوں گے۔ آپ کا سٹاف آپ کی پالیسی ہے۔ اگر آپ ایک ایسا سٹاف منتخب کرتے ہیں جو آپ کی پالیسی کی ترجیحات میں آپ کا ہم خیال ہے تو آپ اپنے ایجنڈا کے زیادہ تر نکات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو آپ ایسے بہت سے اہم کام کرنے سے محروم رہ جائیں گے جنہیں مکمل کرنے کی توقع اس وقت آپ لگائے ہوئے ہیں۔ +جن لوگوں کو آپ منتخب کریں گے انہیں اپنے طور پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر ان کی جگہ تمام فیصلے آپ کر سکتے تو انہیں کبھی منتخب نہ کرتے۔ ایک پرانی کہاوت ہے ’’اگر بھونکنا بھی خود ہی ہے تو کتا پالنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ +بااصول نااہلی ایک خطرناک چیز ہے اور یقینا آپ کے لئے کسی صورت مفید نہیں۔ لیکن بے اصول اہلیت ہلاکت خیز ہے۔ ایسے لوگوں کو منتخب کیجئے جن کی آپ سے وفاداری کی بنیاد آپ کے اصولوں پر ہو، آپ کی منفعت انگیزی پر نہیں۔ +اگر آپ اپنے انتخاب کی بنیاد غلط سوچ پر رکھیں گے تو آپ کا سٹاف یقینا آپ کو غلط سمت میں گھسیٹ لے جائے گا۔ آپ اپنی سیاسی بنیاد تباہ کر بیٹھیں گے اور اپنے مقرر کردہ اہداف میں سے زیادہ تر کو حاصل نہیں کر سکیں گے۔ +آپ کے منتخب کردہ تمام لوگ عین آپ جیسے عقائد کے حامل نہیں ہو سکتے۔ دو افراد کے درمیان حقیقی اتفاقِ رائے کبھی ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اختلاف نکل ہی آتا ہے۔ دائیں بازو سے بھی اتنے ہی لوگوں کو منتخب کریں جتنے لوگوں کو آپ بائیں بازو سے منتخب کرتے ہیں۔ +گورننگ مختلف ذرائع سے چلائے جانے والی مہم کا نام ہے۔ آپ کو ہمیشہ ایک محفوظ بنیادی حلقہ تیار کرنا چاہئے۔ جن لوگوں کو آپ امورِ حکومت کی انجام دہی کی منتخب کرتے ہیں انہیں ان عوام کا نمائندہ ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ منتخب کرنے والی جماعت اور عوام کے لئے اس سے زیادہ کوئی امر باعث اطمینان نہیں ہوتا کہ آپ کے سٹاف میں ان کی خاطرخواہ نمائندگی موجود ہے۔ +اگر مخصوص سیاسی قوتیں جنہوں نے انتخابات میں آپ کی حمایت کی تھی، اب آپ کے سر سے اپنا دست شفقت ہٹانے کا فیصلہ کر لیں تو وہ آپ پر دبائو ڈالنا شروع کر دیں گی۔ اور جب کبھی آپ کسی طرح کے مسائل سے دوچار ہوئے (ہر منتخب فرد کو مسائل سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے) تو وہ خودبخود آپ کی مدد کو نہیں دوڑیں گی بلکہ خود سے سوال کریں گی۔ ’’زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ +اپنے یقین کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ دوستوں کو دشمن بنا کر آپ دشمنوں کو دوست نہیں بنا سکتے۔ اس حقیقت کے ساتھ زندہ رہنا سیکھئے کہ اگر آپ اپنے فرائض کو دیانتداری سے انجام دیں گے تو بعض لوگوں کے نزدیک یقینا ناپسندیدہ ٹھہریں گے۔ +آپ خواہ کچھ بھی کر لیں کوئی نہ کوئی آپ کا دشمن ضرور بنے گا۔ ایسے لوگ کبھی آپ کو اپنی نظرکرم کا سزاوار نہیں سمجھیں گے لہٰذا ان کی نظرکرم حاصل کرنے کی فکر بھی مت کیجئے۔ البتہ آپ ان میں سے زیادہ تر کو اپنا احترام کرنے پر ضرور مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کوشش کریں گے تو ناخوشگوار باتوں کو خوشگوار انداز میں کہنے کے فن سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے وعدوں کو نبھانے سے آپ اپنے دوستوں کی دوستی برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے زیادہ تر دشمنوں سے کم ازکم احترام ضرور حاصل کر سکتے ہیں۔ +آپ کی جماعت کی زیادہ تر ارکان کے نزدیک آپ اتنی اہمیت کے حامل نہیں کہ وہ آپ کو مرکز کائنات سمجھنے لگیں۔ آپ کی حیثیت ایک مقصد کی سی ہے جس کے لئے انہوں نے لڑنا اور جدوجہد کرنا گوارا کیالیکن ان میں سے زیادہ تر اس سے پہلے بھی دیگر اچھے مقاصد کے لئے جدوجہد کر چکے ہیں اور آپ کے عرصۂ اقتدار کے دوران اور اس کے بہت بعد میں بھی، مزید اچھے مقاصد کے لئے جدوجہد کرنے کی نیت بھی رکھتے ہیں۔ +وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک طویل کھیل میں حصہ لے رہے ہیں۔ ممکن ہے کھیل میں اس وقت گیند آپ کے پاس ہو لیکن ان کی طویل مدتی دلچسپی کھیل میں فتح حاصل کرنے سے ہے، گیند قبضے میں رکھنے سے نہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے افعال سے ان پر ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کی دلچسپی کا مرکز بھی کھیل میں فتح حاصل کرنا ہے، محض اخباروں میں تصویر چھپوانے والا چمکتا دمکتا ستارہ بننا نہیں۔ میڈیا نے آپ کو منتخب نہیں کیا، بھلے وہ اپنے تئیں ایسا ہی کیوں نہ سمجھتے ہیں۔ آپ کو آپ کے ووٹرز نے، خصوصاً آپ کے اتحاد نے، منتخب کیا ہے۔ آپ اپنے ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے میڈیا پر انحصار نہیں کر سکتے۔ اپنے رائے دہندگان اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ کمیونیکیٹ کرنے کے لئے ایسے ذرائع اختیار کریں جنہیں میڈیا کے فلٹر لگانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ +اپنے بنیادی حلقے پر توجہ مرکوز رکھئے۔ اس کے ارکان کو خط لکھئے، ان سے ملاقاتیں کیجئے، انہیں احترام دیجیے، ان پر فخر کا اظہار کیجئے، ان کی سرگرمیوں کو سپورٹ کیجئے، ان کے اہم مواقع میں شرکت کیجئے، ان کی ترجیحات میں شریک ہونے والے دوسرے سیاستدانوں اور کارکنوں کی مدد کیجئے۔ لوگ سیاستدانوں سے خودغرض ہونے کی توقع رکھتے ہیں لہٰذا ایسے سیاستدان ان کی توجہ اور محبت کا خصوصی مرکز بنتے ہیں جن کے افعال ان کی بے غرضی کے مظہر ہوں۔ +ہر ایسا نکتہ جو آپ کے سیاسی اتحاد کے نزدیک کسی اہم معاملے میں کلیدی ترجیح کی حیثیت رکھتا ہو، وہ آپ کی ترجیحات میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ +زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگا کہ چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کی علیحدگی کے اس نظام میں آپ ہر کام اپنے حسب خواہش انجام نہیں دے سکتے۔ لیکن آپ کو ہر وہ بات کہنی اور کرنی چاہئے جوثابت کرے کہ آ�� اپنے سپورٹرز کی معقول توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ +مکمل فتح بڑی فرحت انگیز لیکن بڑی کمیاب ہے۔ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ چھوٹی چھوٹی فتوحات کی سیڑھیاں چڑھ کر بڑی فتح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور بعض اوقات آپ کو اچھے مقاصد کے لئے ہاری ہوئی جنگیں بھی لڑنا پڑیں گی۔ سیاست میں کامیابی سے پہلے یا بعد مثالی حالات کی توقع رکھنا اکثر خیال و خواب کی حد تک ہی رہتا ہے، حقیقت کے روپ میں اس کا ظہور بہت کم ہوتا ہے۔ +بات اگرچہ کسی قدر انوکھی ہے لیکن سچ ہے کہ جب کوئی سیاستدان بااصول انداز میں کسی مقصد کے لئے جنگ لڑے اور ہار جائے، یا کسی مقصد کے خلاف جدوجہد کرے اور جیت جائے تو اسے نقصان کا سامنا بہت کم کرنا پڑتا ہے۔ +وعدے کرنے میں محتاط رہئے لیکن جب وعدہ کر لیں تو پھر ہر حال میں اسے پورا کیجئے۔ آپ کے پاس دو اثاثے ہوتے ہیں، آپ کے وعدے اور آپ کی دوستیاں۔ دونوں میں سے کسی ایک کو نبھانے میں کوتاہی کریں تو اپنی سیاسی موت کا سبب بنیں گے۔ +سیاست سیکھنے کا ایک مسلسل عمل ہے لیکن دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کیجئے۔ مختلف معاملات پر اپنے سینئرز کی ماہرانہ رائے حاصل کیجئے۔ +اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان کاموں پر جو ایک ہارنے والے لیڈر کو کرنے چاہئیں۔ +بعض امیدوار اس لئے ہارتے ہیں کہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کے لئے خاطرخواہ پیسہ نہیں ہوتا اور پوری کوشش کرنے کے باوجود وہ مناسب مالی وسائل کا انتظام نہیں کر پاتے۔ بعض اس لئے ہارتے ہیں کہ وہ کسی غلط انتخابی حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں مثلاً ایسا حلقہ جہاں کی سیاسی روایات ان کی پارٹی کے حق میں نہ ہوں یا ایسا حلقہ جس کے رائے دہندگان ان کے نظریات سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ +لیکن بہت سے ہارنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جیت سکتے تھے، اگر وہ مندرجہ ذیل غلطیوں میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کے مرتکب نہ ہوتے: +1۔ اپنی انتخابی مہمات خود نہ چلانا +اگر کوئی امیدوار اپنی انتخابی مہم کا انتظام و انصرام خود کرنے کے بجائے ’’انتظام کاروں‘‘ کے سپرد کر دے، تو خواہ وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، انتخابی مہم کا انتظام اور متعلقہ ضروریات دوسروں کے ہاتھوں میں چلی جائیں گی اور توقع سے مختلف نتائج برآمد کرنے کا سبب بنیں گی۔ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم اپنے زیر نگرانی چلانی چاہئے اور ضروریات کے مطابق انتظامات کرنے چاہئیں۔ بعض نہایت مقبول لیڈروں کو انتخابات میں اسی لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے اور تمام انتخابی مہمات کا بیک وقت انتظام کرنے سے قاصر تھے۔ +برطانیہ میں چرچل اور فرانس میں ڈیگال بے حد مقبول اور بااثر لیڈر تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اپنے ملک کو ہٹلر نامی طوفان سے بچانے میں کامیابی حاصل کرنے پر اپنے اپنے ملک میں انہیں ہیرو کا مقام دیا جا رہا تھا۔ لیکن دونوں لیڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی مضبوط پوزیشن کو مضبوط تر بنانے میں کامیاب نہ رہ سکے۔ جو ساکھ انہوں نے بنائی تھی، اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے اور انتخابات میں ہار گئے۔ 25 جولائی 1945ء کو چرچل روس کے سٹالن اور امریکہ کے ٹرومین کو جرمنی میں چھوڑ کر جنگ کے بعد منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کے لئے لندن واپس پہنچے۔ انتخابی نتائج چرچل اور پوری دنیا کے لئے ایک غیرمتوقع دھچکا ثابت ہوئے۔ لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ چرچل کی کنزرویٹو پارٹی کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور کلیمنٹ ایٹلی برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے۔ +2۔ پیسہ اکٹھا کرنے یا ووٹ مانگنے کے لئے خود باہر نکلنے کے بجائے زیادہ تر وقت ہیڈکوارٹر میں بند رہنا۔ +کسی بھی امیدوار کے لئے حتی الوسع حد تک متحرک رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جو لوگ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے نقشوں، برادریوں کی پوزیشن اور فہرستوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور عوام سے ذاتی طور پر رابطہ کرنے کے لئے کم وقت نکالتے ہیں، اپنی کامیابی کو اپنے ہاتھوں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں جاگیردار ووٹرز کو زیادہ تر اپنی حویلیوں میں بلایا کرتے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ، امیدوار اور کارکنان گھر گھر جا کر مہم چلا رہے تھے۔ طریقہ کار کے اس فرق کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کے عام ورکرز کے مقابلے میں روایتی بڑوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں۔ +3۔ انتخابی مہم کے لئے پیشگی جامع منصوبہ بنانے اور ایک ٹائم ٹیبل اور ایک حقیقت پسندانہ بجٹ تیار کرنے میں ناکامی۔ +سیاست میں کام کے آغاز میں تاخیر ممکن ہے لیکن تقدیم نہیں یعنی کام تاخیر پذیر ہو سکتے ہیں لیکن کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وقت سے پہلے شروع کر دیا گیا ہے۔ ہارنے والوں کی انتخابی مہمات میں تقریباً ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب غلط ہوتی ہے اور وہ ایسے نکات پر بہت زیادہ زور صرف کر دیتے ہیں جو انتخابات کے نتائج پر بہت کم اثر ڈالتے ہیں۔ +انتخابات نام ہیں ’’گنتی‘‘ کا، اور آخری بیلنس شیٹ کے لئے اعداد کی جمع تفریق کی سائنس کا نام ریاضی ہے۔جب یہ جمع تفریق منظم انداز اور درست ترتیب کے ساتھ کی جائے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح انتخابات بھی اپنی سیاسی تائید و حمایت کی گنتی کرنے کی سائنس ہیں۔ یہ گنتی منظم انداز اور درست ترتیب کے ساتھ کی جانی چاہئے۔ کسی ہاری ہوئی انتخابی مہم میں کود پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اپنی انتخابی مہم کی معروضی صورتِ حال کا جائزہ لے کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔ اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھئے کہ اپنی ’’گنتی‘‘ بڑھانا کسی بھی انتخابی مہم کا اہم ترین جزو ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ اچھا سالار کبھی ہاری ہوئی جنگ نہیں لڑتا۔ ونسٹن چرچل نے ایک موقعے پر کہا تھا۔ ’’سیاست بھی کم و بیش جنگ کے جیسی ہیجان انگیز ہے اور اتنی ہی خطرناک بھی۔ جنگ میں تو آپ کو صرف ایک دفعہ مرنا پڑتا ہے لیکن سیاست میں کئی دفعہ موت آتی ہے۔‘‘ +4۔ ایسے مشیروں کی خدمات حاصل کرنا جو بجٹ کا زیادہ تر حصہ اپنی ذات پر صرف کر دیں۔ +5۔ مہم کے لئے مختص کردہ بجٹ کا زیادہ تر حصہ متعلقہ سرگرمیوں کے لئے ایک بڑی تنظیم بنانے کے بجائے میڈیا اور پولنگ پر خرچ کر دینا۔ +اگر امیدوار میڈیا مہم پر بہت زیادہ خرچ کر دے لیکن افراد کی تنظیم اور انتخابات کے مقررہ دن کے لئے مہم کی سرگرمیوں پر توجہ نہ دے تو وہ یقینا ہار جائے گا۔ الیکشن کے دن کے لئے کارکنوں کی تنظیم کرنا کسی بھی انتخابی مہم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک لے جانے اور رہنمائی کی سہولت فراہم نہ کی جائے تو ووٹ ڈالنے کی شرح گر جاتی ہے اور جن لوگوں نے اس مخصوص دن کے لئے تیاریاں نہیں کی ہوتیں، سب سے زیادہ نقصان میں رہتے ہیں۔ +6۔ سپورٹرز کے مرکزی حصے کے لئے باعث تحرک معاملات پر زور دینے میں ناکامی۔ +1970ء کے عام انتخابات میں، پرانے اور تجربہ کار لیڈروں اور جماعتوں کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کی کامیابی کا ایک بڑا سبب یہی تھا کہ انہوں نے ایسے معاملات اور مسائل پر بار بار زور دیا جو عوامی اہمیت کے حامل تھے۔ روزمرہ کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو انہوں نے ایک انتخابی نعرے میں جمع کر دیا تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان۔ انہوں نے عوام کے سامنے ان مسائل کو حل کرنے کا عزم ظاہر کیا جبکہ دوسرے لیڈر عوام کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً عوامی دھارے کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف مڑ گیا اور فتح بھٹو کے حصے میں آئی۔ +7۔ عوامی رائے شماریوں سے غلط تاثر لے لینا۔ ایسی رائے شماریاں ترجیحات تو ظاہر کر دیتی ہیں لیکن ان کی شدت کا تعین کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ سیاست میں لوگوں کو تحریک شدت سے ملتی ہے، ترجیحات سے نہیں۔ +8۔ مختلف طرف سے پڑنے والے دبائو کی وجہ سے ایشوز پر کوئی ایک پوزیشن اپنا لینا (یا بعض اوقات اپنی پوزیشن تبدیل کر لینا) +9۔ اپنی انتخابی مہم کے مرکزی حصوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے معمولی تنقیدوں پر ردِعمل ظاہر کرتے رہنا۔ جو امیدوار ہر وقت اپنا دفاع کرتا رہے، وہ اکثر ہار جاتا ہے۔ +10۔ مخالفین، میڈیا یا دونوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی منفی اطلاعات پر مناسب ردِعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہنا۔ یاد رکھئے کہ کسی منفی ایشو کو نظرانداز کر دینے سے اس کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ +لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کی زحمت بڑی باقاعدگی سے دی جاتی رہتی ہے اور انتخاب کنندگان، سامنے آنے والے مختلف افراد یا مختلف جماعتوں کی طرف سے پیش کئے پروگرامز یا پالیسیز کے حق میں اپنا ووٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو ’’مینڈیٹ دینے‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر منتخب ہونے والے عوام کے اعتماد پر پورے نہ اتر سکیں تو اگلے انتخابات میں مینڈیٹ واپس لے لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت، خواہ وہ اقتدار میں ہو یا اختلاف میں، مستقبل میں پوشیدہ انتخابات کو بھلانے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ آخری اپیل کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور برسراقتدار جماعت کو ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہئے جو اسے اقتدار میں لائے ہیں۔ عوام کے سامنے جواب دہ اور ذمہ دار ہونے کا خیال حکومت کو ہمیشہ چوکس رکھتا ہے اور ذاتی فائدے کے لئے اختیارات کے استعمال کے امکانات ختم کر دیتا ہے۔ +منتخب ہونے والے کسی امیدوار کی اہلیت کے متعلق کسی عمومی اصول کا وجود نہیں ہے۔ صرف جمہوریت میں عام آدمی کے دل کی آواز کو احترام دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اختلاف کے نتائج کو مناسب و موزوں انداز میں جانچا جاتا ہے۔ +ملک چلانے کے لئے ذمہ دار افراد کا انتخاب کرنے میں ہمیں غیرمتعلق خصوصیات سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر، کسی کی پُرکشش شخصیت اور دل جیت لینے والی مسکراہٹ اس کی قابلیت کی ضمانت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، بزنس کے لئے رنگروٹوں کا انتخاب کرنے والے کبھی کسی ایسے فرد کا انتخاب نہیں کریں گے جس کا واحد ٹیلنٹ الیکشن میں منتخب ہونا ہو۔ +اچھی انتظامیہ کی خدمات حاصل کرنے کے لئے کسی بھی بزنس میں ٹیلنٹ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ تجارتی ادارے اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ کسی عہدے کے لئے زیادہ سے زیادہ اچھے امیدواروں سے ملاقات کریں اور بعض اوقات حتمیفیصلہ کرنے سے پہلے وہ امیدواروں سے تین تین چار چار ملاقاتیں کرتے ہیں۔ +اس طریقہ کار کا موازنہ لیڈر شپ ریس سے کیجئے جہاں شخصی کشش اور جماعت کی فوری رکنیت کو تجربے اور اہلیت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک دفعہ کسی نے مجھے بتایا تھا کہ کینیڈا میں منتخب ہونے کے لئے درکار خصوصیات، اپنے عہدے کو دانشمندی سے استعمال کرنے کے لئے درکار خ��وصیات سے بالکل متضاد ہیں۔ +لیڈر شپ کے مباحث یا انتخابی مہم کے دنوں میں عموماً ووٹر اسی امیدوار کو دیکھ پاتا ہے جو اچھے تعلقات رکھتا ہو اور اپنے وسائل کو عمدگی سے استعمال کرنے کا اہل ہو۔ +کہا جاتا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری خصوصیات میں شخصی کشش، ایک دل جیت والی مسکراہٹ ، روکھی پھیکی باتیں ہلکے پھلکے انداز میں کرنے اور ہموار انداز میں گفتگو کرنے کی اہلیت شامل ہیں۔ یہ ریکروٹنگ کی ایک کلاسیکی غلطی ہے۔ ہم امیدواروں کا انٹرویو ایک غلط جاب کے لئے کر رہے ہیں۔ جاب تو سیاسی عزائم رکھنے والے ایک فرد کی ہے نہ کہ کسی قومی لیڈر کی۔ مندرجہ صدر خصوصیات شاید کسی ٹی وی نیوز کاسٹر کے لئے بہت اچھی ہوں لیکن کسی سیاست دان کی ذمہ داریوں میں کیمرے کے سامنے مسکرانے کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔ +ان سے ہٹ کر دیکھیں تو عمدہ لیڈر شپ کے لئے درکار صفات سامنے آتی ہیں۔ بصیرت، واضح نظر، عمدہ ٹیم جمع کرنے اور ہر ایک کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں سونپنے کی اہلیت، سمجھوتے کرنے کی قابلیت اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کا عزم۔ +ایک عام ووٹر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہ جاتا ہے کہ میرے ٹی وی پر دکھائی دینے والے امیدوار میں یہ صفات موجود ہیں یا نہیں۔ جب زور پالیسی کے بجائے ظاہری شخصیت پر دیا جا رہا ہو تو امیدواروں میں امتیاز کرنا یا ان کی پوزیشن کا تعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ +ظاہری سٹائل اور عملی اقدار کی باہمی جنگ میں، انتخابی عمل کسی نوکری کے لئے دیے جانے والے انٹرویو کی بگڑی ہوئی شکل بن جاتا ہے۔ ٹی وی پر آپ کے سامنے ایک امیدوار آتا ہے جو مہذب اور قابل نظر آنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا فرد ہے جو بڑی چالاکی سے اس کے دفاع میں گھس کر اس کے اندر چھپی ہوئی حقیقی کمزوریوں اور قوتوں کو باہر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ +الیکشن میں انٹرویو لینے والے کو ایسے سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں دی جاتی جو کسی فرد کی شخصیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ ایسا کرنا تہذیب میں داخل نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے علاوہ، پیچیدہ معاملات پر واضح تجاویز پیش کرنے کا عمل طویل اور الجھا ہوا ہوتا ہے۔ ٹی وی پر ایسی باتیں پیش نہیں کی جا سکتیں۔ +ایسی باتوں کی جگہ، لباس، سٹائل اور اطوار پر زور دیا جاتا ہے۔ امیدوار کو پہلی نظر میں چمکتا دمکتا……یا بجھا ہوا…… نظر آنا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں، کسی نوکری کے لئے انٹرویو دینے والے امیدوار کو اپنا تاثر مرتب کرنے کے لئے کم از کم 15 سیکنڈ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اور اگر انٹرویو لینے والے کی سوچ اور رویہ پیشہ ورانہ نہ ہو، تو وہ انٹرویو دینے والے کے کپڑوں کے رنگ یا چہرے کے تاثر کو دیکھ کر فوری فیصلہ کر لیتا ہے۔ +کسی بھی فرد کو پُرسکون ہونے اور اپنا آپ دکھانے میں وقت لگتا ہے، اور جب وہ اس نہج پر پہنچ جائے تو تب انٹرویو لینے والے کے لئے وقت ہوتا ہے کہ وہ اچھے طریقے سے انٹرویو دینے میں امیدوار کی اہلیت کا اندازہ لگانے کے بجائے اصلی کام انجام دے یعنی امیدوار کی اہلیت کا کھوج لگانے کی بے باکانہ کوشش کرے۔ بہت سے انٹرویو دینے والے انٹرویو کے دوران بڑے گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بعد ازاں بڑے باصلاحیت اور مؤثر مینیجر ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو اگر انتخابی مہم سے متعلقہ انٹرویو کے لئے ٹی وی پر بلایا جائے تو یقینا ٹی وی دیکھنے والے کی نگاہ میں بالکل ناکام اور نااہل ٹھہریں گے۔ +ووٹرز کو تجارتی اداروں میں نوکریاں دینے والوں کے اصول و ضوابط کے ایک حصے کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ عوامی خدمات انجام دینے کے متمنی امیدواروں کا جائزہ ایسے لیجئے جیسے آپ اپنی فرم میں نوکری کے لئے درخواست دینے والے افراد کا جائزہ لیتے ہیں۔ نقل کو اصل سے ممیز کرنے کے لئے، اپنے آپ سے وہ سوال پوچھئے جو حقیقی پیشہ ورانہ انداز میں انٹرویو لینے کے ذہن میں سرِفہرست ہوتا ہے۔ ’’جس کام کے لئے اس بندے کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، اس کی حقیقی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں انجام دینے کے لئے اس کی قابلیت کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟‘‘ +اگر اپنی فرم کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے آپ کو مارکیٹنگ وائس پریذیڈنٹ کی ضرورت ہو تو ممکنہ طور پر آپ کو متناسب جسم، عمدہ لباس، دھمکتی ہوئی آواز اور موتیوں کی لڑی جیسے چمکتے ہوئے دانت رکھنے والے فرد کی تلاش ہو سکتی ہے۔ لیکن ان جسمانی خصوصیات کے علاوہ عملی تجربہ اور مسائل کا اندازہ لگانے اور حل کرنے میں اچھا ریکارڈ بھی ضروری خصوصیات ہیں۔ +جسمانی خصوصیات تو پہلی نظر میں دکھائی دے جاتی ہیں لیکن ایسی خصوصیات کا سراغ لگانے کے لئے آپ کو گہرائی میں اتر کر کھوجنا پڑتا ہے۔ +حقیقت یہ ہے کہ نوکری کے لئے انٹرویو لینے والوں کے سوال سیاسی امیدواروں سے لئے جانے والے انٹرویو کے سوالات میں بھی شامل کئے جا سکتے ہیں مثلاً امیدواروں نے کون سی قائدانہ خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ متعلقہ ذمہ داری کے لئے ان کا تجربہ کس قدر کارآمد ثابت ہو سکتا ہے؟ ان کی کون سی کامیابیاں اس ذمہ داری کے حوالے سے کوئی اہمیت رکھتی ہیں؟ کیا یہ اتفاقِ رائے حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا یہ دبائو کے مقابلے میں کسی طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟ کیا یہ تنقید قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ +رچرڈ نکسن ’’لیڈرز‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر کامیاب لیڈر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کب سمجھوتہ کرنا ہے، تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کب اپنی بات منوانی ہے۔ آج کل بہت سے لیڈر رائے شماریوں کے گھوڑے پر سوار اپنی ’’منزل‘‘ کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ رائے شماریوں کو مدنگاہ رکھنے والے امیدوار شاید انتخابات میں کامیاب ہو جائیں، لیکن لیڈر کی حیثیت سے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ رائے شماریاں ایسے معاملات کی نشاندہی کرنے میں مفید ثابت ہو سکتی ہیں جن میں لوگوں کو کسی ایک بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہو لیکن اگر کوئی لیڈر صرف انہی کی مدد سے اپنے لائحہ عمل کا تعین کرتا ہے تو وہ اپنی لیڈری کی خود ہی نفی کر دیتا ہے۔ لیڈر کا کام رائے شماریوں کی پیروی کرنا نہیں بلکہ رائے شماریوں کو اپنی پیروی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ انتخابات کے کھردرے اور روایت شکن عمل میں، اسے اپنے پیروئوں کو آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے اور یہ جاننے کا بھی کہ اس کے اپنے پاس آگے بڑھنے کی کتنی گنجائش ہے۔ اگر شاہِ ایران نے بھی اپنی مہم چلائی ہوتی تو شاید اپنی شاہی سے محروم نہ ہوتا۔‘‘ +اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک دفعہ ونسٹن چرچل رات کے وقت ایک خاکروب کے گھر پہنچا اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے خاکروب کی آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ +’’تم ووٹ لینے کے لئے آئے ہو! یہ آنے کے لئے کوئی مناسب وقت نہیں۔‘‘ خاکروب نے جواب دیا اور مطالبہ کیا کہ چرچل اگلے روز صبح سویرے اس وقت آئے جب وہ اپنے کام پر جانے کے لئے تیار ہو۔اگلی صبح، دیئے ہوئے وقت سے پانچ منٹ پہلے، خاکروب کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اندر سے ایک بلند آواز آئی۔ ’’چرچل ہو؟‘‘ +’’جی جناب، میں چرچل ہی ہوں۔‘‘ +خاکروب نے جلدی سے د��وازہ کھولا، بڑے احترام سے چرچل کو گھر کے اندر لایا اور اسے نہ صرف اپنے ووٹ بلکہ دلی تائید و حمایت کا یقین بھی دلایا۔ بعد ازاں اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے چرچل نے کہا۔ ’’عزت ہمیشہ بے عزتی سہہ کر ہی حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ +نوکری کے لئے درخواست دینے والوں کو مختصر دورانئے کے سرسری سے بیانات دینے کی ہدایت کرنے کے بجائے، انٹرویو لینے والے انہیں بولنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اپنی امیدوں اور اندیشوں، قوتوں اور کمزوریوں کے متعلق گفتگو کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سچ ذرا آہستہ آہستہ ہی باہر آتا ہے۔ +موجودہ ڈھانچے کے پیش نظر، سیاست اس طرح کے تجزیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے لیکن میرے ہم وطنوں کو ایسے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی، اگر وہ صرف ایسے سیاستدانوں کو منتخب نہیں کرنا چاہتے جن کا واحد ٹیلنٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ +لیڈرشپ کی تھیوریاں ہمیں بتاتی ہیں جو لیڈر بنے، وہ پیدا ہی قیادت کرنے کے لئے ہوئے تھے اور جب موقع آیا تو لیڈر بن گئے۔ صدیوں سے یہی عقیدہ چلا آرہا تھا کہ کچھ لوگوں میں لیڈرشپ کی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں اور لہٰذا وہ ایسے انداز اور ایسے مناصب پر قیادت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں جو کہ عام آدمی کے بس سے باہر ہیں۔ تقریباً ہر معاشرے میں قیادت کی منسوبہ اور اعلیٰ شکلیں ’’خدائی بادشاہوں‘‘ سے لے کر سرداروں تک کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ آج بھی، ’’پیدائشی قائد‘‘ کا تصور قبولِ عام کی سند رکھتا ہے، خصوصاً اس لئے کہ لیڈر اکثر منفرد اور اعلیٰ افراد کی حیثیت سے دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ خواتین ہمیشہ سے اس خیال کی بھینٹ چڑھتی رہی ہیں کیونکہ شروع سے یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ’’فطری‘‘ طور پر عورتیں لیڈر نہیں بن سکتیں۔ بے بنیاد ثابت ہو جانے کے باوجود، تاریخ میں یہ نظریہ بار بار زندہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی اس پر ایمان رکھنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ +لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں، مختلف ادوار میں ان گنت خواتین حکومتوں، سلطنتوں، قبیلوں اور یہاں تک کہ افواج کی بھی قیادت کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے جنگوں کا آغاز اور اختتام کیا ہے، نہایت عمدگی سے اور نہایت وحشت سے بھی، مملکتوں کا انتظام و انصرام کیا ہے، بعض خواتین کی قیادت وہاں کامیاب رہی جہاں دوسرے ناکام ہو گئے۔ تاریخ میں بعض خواتین لیڈر گمنام رہیں اور اس بارے میں بحث ہوتی رہی کہ ان کا کوئی وجود تھا بھی یا وہ محض افسانوں اور دیومالائی قصوں کی پیداوار تھیں۔ +مگر خواتین حکمرانوں اور سربراہانِ مملکت کے کارنامے ہمیں معلوم تاریخ کی ابتداء سے نظر آتے ہیں اور قابل آباد براعظموں، اور بے شمار ثقافتوں اور ممالک میں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جانا چاہئے کہ خواتین حکمرانوں کو ایک استثناء کی حیثیت حاصل رہی ہے، انتظام و انصرام کے حوالے سے بنی نوع انسان کے مجموعی تجربے اور قیادت، انتظام و انصرام اور اصناف کے حوالے سے غالب نظریات کے تناظر میں، جن میں مردوں کو ہمیشہ بالادستی حاصل رہی اور جو تاریخ اور تہذیبوں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ +خواتین لیڈروں کے مطالعے کا آغاز غالباً قدیم مصر سے کیا جا سکتا ہے جو کہ براعظم پر اتنا عرصہ غالب رہا کہ جس کی مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔ 31 ویں صدی قبل مسیح میں ممکنہ طور پر پہلی معلوم خاتون حکمران میریت نت سے لے کر دوسری صدی قبل مسیح میں قلوپطرہ کی حکمرانی تک، مصر میں خواتین بااثر عہدوں اور بعض اوقات حکمرانی کے مناصب پر فائز رہی ہیں۔ قدیم مصر میں ملکائوں کو ہمیشہ ’’خدا‘‘ کی بیویاں ہونے کے اعتبار سے تقدیس و تحریم حاصل رہی اور ان کے پاس نہ صرف عزت و وقار اور اثر و رسوخ ہوتا تھا بلکہ بعض خاتون حکمرانوں کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔ ان خواتین لیڈروں میں سے بعض نے مصری ثقافت پر قابل ذکر اثرات مرتب کئے جیسا کہ پندرھویں صدی قبل مسیح میں تھیبس کی ملکہ ایہوتپ جس نے نہ صرف حکمرانی کی بلکہ مصر کے تین آئندہ حکمرانوں کو جنم بھی دیا جن میں سے ایک، اہموس نوفریتاری، لڑکی تھی۔ اس کے علاوہ براعظم افریقہ کے ذیلی صحرائی حصے میں، حکمرانوں کی بیویاں اور ان کی مائیں اکثر مشترکہ حکمران ہوتی تھیں۔ تاریخی اعتبار سے مشرقی اور وسطی افریقہ میں کئی قبیلوں اور سلطنتوں میں نسل ماں سے چلتی تھی اور وقتاً فوقتاً خواتین حکمران بھی رہیں۔ +دیگر براعظموں میں بھی خواتین حکمرانوں کی ویسی ہی تاریخ نظر آتی ہے۔ تاریخ میں عرب کی ایسی ملکائوں کا تذکرہ ملتا ہے جو حکمران رہیں۔ اسی طرح، اگرچہ قدیم چین میں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا، مگر کنفیوشس کے زمانے کی محفوظ تاریخ میں شہنشاہوں کی داشتائوں کی غیررسمی حکومت کا تذکرہ ملتا ہے اور بعض ایسی خواتین کا بھی جو قانونی حکمران تھیں۔ یورپ میں ہمیں اس کی مزید مثالیں نظر آتی ہیں جہاں خواتین نے اپنے شوہروں کی جگہ حکمرانی کے فرائض انجام دیے جو کہ جنگوں پر گئے ہوئے تھے، اور انہوں نے نشاۃ ثانیہ میں حصہ ڈالا۔ مثال کے طور پر، کیتھرین عظمیٰ نے کارہائے نمایاں سے بھرپور زندگی گزاری اور روسی، یورپی بلکہ عالمی تاریخ کے طویل ترین دورِ حکمرانی کے حامل اور مقبول ترین حکمرانوں کی فہرست میں اس کا نام آتا ہے۔ اگرچہ کوئی تحریری ریکارڈ موجود نہیں مگر زبانی تاریخ کی بدولت ہمیں پولی نیشیا اور براعظم شمالی امریکہ و جنوبی امریکہ میں خواتین حکمرانوں کا احوال سننے کو ملتا ہے۔ +اس وقت پوری دنیا میں متعدد خواتین تخت شاہی سنبھالے ہوئے ہیں جن میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم شامل ہے جن کا متاثر کن دورِ حکمرانی 1952ء سے شروع ہوا۔ ڈنمارک کی ملکہ مارگریتھ دوم اور مائوری ملکہ کونی۔ ایسی ملکائوں کی حکمرانی پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ قدیم زمانے میں کسی قوم پر حکمرانی کرنے کا پیمانہ موجودہ دور سے خاصا مختلف ہے۔ مگر کئی جدید ااقوام پر منتخب خواتین قائدین حکمران رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ +اگرچہ نصابی کتابوں میں اس پر تفصیلی بحث نہیں کی جاتی مگر خواتین اور قیادت کی ایک طویل اور بھرپور تاریخ موجود ہے، ایسی قیادت جو سرکاری اختیار سے ماوراء تھی۔ جون آف آرک اور ماری انطوینت متاثر کن قائدین تھیں مگر سربراہِ حکومت نہیں تھیں، یہی معاملہ سماجی تحریکات، انقلابات اور سیاسی تحریکات میں قیادت کرنے والی کئی خواتین کا رہا ہے۔ بچوں کے حقوق اور بھوک کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے لے کر انسانی حقوق اور تحریک برائے امن تک، بے شمار سیاسی مہمات میں خواتین نے سپاہیوں کا کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہیں۔ امریکہ میں غلامی کے خاتمے میں، یورپ کے بڑے حصے میں سب کے لئے طبی سہولیات کی فراہمی میں خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا، اور خواتین زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ خاندان کی غذائیت اور صحت کی نگہداشت کے حوالے سے بڑا حصہ ڈالتی رہی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے، عورتوں کے لئے سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ شادی تھی۔ سچ یہ ہے کہ ایلی نور روزویلٹ کی حقیقی معنوں میں غیرمعمولی زندگی اور کیریئر اپنی جگہ، مگر اس کا اثر و رسوخ، جس کی بدولت اسے انصاف، شہری حقوق، سماجی بہبود اور دیگر کئی میدانوں میں زبردست مہمیں چلانے کا موقع ملا، امریکہ کے 32 ویں صدر کے ساتھ اس کی شادی پر استوار تھا۔ امریکہ میں اور دیگر ممالک میں کئی خواتین نے اقتدار اس راہ سے حاصل کیا ہے جسے طنزیہ طور پر ’’بیوہ کا مینڈیٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس میں کسی مرحوم لیڈر کی بیوی کو شوہر کی جگہ کارِ منصبی انجام دینے کے لئے تعینات کر دیا جاتا تھا۔ دیکھا جائے تو قیادت کے مناصب سے خاندانی رشتہ استوار ہونے کی بدولت مردوں نے ہمیشہ فوائد حاصل کئے ہیں، اور ایک حد تک عورتوں کو بھی اس میں حصہ ملا ہے۔ کئی خواتین لیڈر، جن میں جدید دور کی پہلی خاتون صدر، ارجنٹائن کی ازابیل ایوا پیرون شامل ہیں، اپنے شوہر کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔ آج کے دور میں امریکہ میں ایلزبتھ ڈول اور ہلیری کلنٹن دونوں کو امریکی سینیٹ میں جگہ ملی اور انہیں امریکی صدارت کے امیدواروں میں شامل کیا گیا۔ 1996ء میں دونوں خواتین صدارتی امیدواروں کی بیویاں تھیں۔ حکومتوں کی سربراہی خواتین کے لئے سیاسی رسوخ حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے اور کئی اقوام میں ان کے لئے یہ راستہ حال ہی میں کھلا ہے جب بیسویں صدی میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا اور انتخابی حوالے سے اصلاحات عمل میں لائی گئیں۔ +1996ء میں فیلڈر کی طرف سے کی جانے والی ایک سٹڈی میں تاریخ کی سب سے بااثر 100 خواتین کا پتہ چلانے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ ایسی درجہ بندی ہمیشہ تنقید کی زد میں آتی ہے اور کئی لوگوں کو فیلڈر کی درجہ بندی پر اعتراض ہوگا، مگر ایسی فہرستیں خواتین کی اس بڑی تعداد کی طرف توجہ دلانے کی موجب بنتی ہیں جنہوں نے قابل ذکر کردار ادا کئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ، تہذیب اور پیشوں میں خواتین کو رسوخ حاصل رہا، اور بہت سے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن کے حوالے سے خواتین نے اپنے اثرات مرتب کئے۔ مثال کے طور پر فیلڈر کی لسٹ میں خواتین کا ایک وسیع انتخاب شامل ہے جن میں دو نوبل انعام پانے والی خواتین، سائنسدان، سماجی مصلحین اور امریکہ کی مرحوم اداکارہ لوسیل بال بھی شامل ہیں۔ فہرست میں ایک، دو اور تین کے درجے پر بالترتیب ایلی نور روزویلٹ، ماری کیوری، اور مارگریٹ سینگر شامل ہیں۔ فیلڈر کی فہرست میں کئی سیاسی قائدین مثلاً میری وولن سٹون کرافٹ، سوزان بی انتھونی اور ایلزبتھ کیڈی سٹانٹن کے علاوہ نو ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے حکومتوں کی سربراہی کی۔ +سیاست میں موجود خواتین کے بارے میں بہت سا مواد میسر ہے۔ مثال کے طور پر کئی مطالعات میں ان چیلنجز کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو خواتین کو سیاست میں درپیش ہوتے ہیں خواہ وہ جنسی تعصب ہو، پیسے کی فراہمی ہو، سرپرستی کی کمی ہو یا پارٹی کی سپورٹ یا اس کے علاوہ کوئی اور۔ تحقیق کرنے والوں نے خواتین میں رائے شماری کے رویوں، مختلف متنازعہ فیہ موضوعات پر ان کے مؤقف (مردوں کے مقابلے میں)، اور جماعتوں کے ساتھ ان کی وابستگی کا بھی جائزہ لیا ہے۔ سیاسی مناصب پر فائز خواتین کے خاکے تیار کئے گئے ہیں اور ان کا موازنہ مردوں سے کیا گیا ہے۔ ان مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاسی مناصب پر فائز خواتین عموماً بہتر تعلیم یافتہ یا اعلیٰ سماجی مرتبہ رکھتی ہیں اور شاید دیگر خواتین کے مقابلے میں زیادہ آرزو مند ہوتی ہیں، اور اپنے خاکے میں کسی حد تک مردوں سے مماثل نظر آتی ہیں، فرق اس بات کا ہوتا ہے ��ہ وہ اپنے کیریئر کا آغاز نسبتاً دیر سے کرتی ہیں اور کسی اعلیٰ تر منصب پر پہنچنے کی کوشش کم کرتی ہیں مگر اکثر ان میں تعلیم کا معیار بلند ہوتا ہے۔ تاہم، انتظامی عہدوں پر فائز خواتین کے بارے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔ اگرچہ صنف اور قیادت کے حوالے سے مطالعات موجود ہیں، مگر عالمی خواتین رہنمائوں کی انفرادیت پر نہایت ناکافی تحقیق کی گئی ہے۔ انتظامی عہدہ بہرحال دیگر تمام سیاسی مناصب کے معاملے میں زیادہ ’’صنفی‘‘ ہوتا ہے۔ لیڈر شپ کے مطالعات میں زیادہ توجہ لیڈروں کی پرورش اور اوصاف، فیصلہ سازی، نفسیات اور ایسی ہی دیگر چیزوں پر دی گئی ہے مگر قیادت پر صنف کے اثر کا مطالعہ بہت کم کیا گیا ہے۔ +سیاسی قیادت کے دیگر مطالعات میں خواتین اور مردوں کے میل جول کا مطالعہ کیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صنف کے بارے میں مخصوص تصورات یہاں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، مرد سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہوتے ہیں، انہیں سیاست میں دلچسپی لینے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے اور انہیں ایسے اوصاف کی تربیت بھی دی جاتی ہے جو قیادت کے موجودہ تصورات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں سیاسی رویوں کا جائزہ لینے والا صف اول کا ادارہ، نیشنل الیکشن سٹڈی، عموماً یہی رپورٹ جاری کرتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو سیاست میں کم دلچسپی ہوتی ہے اور اس بارے میں ان کی معلومات بھی کم ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے اعداد و شمار میں بہتری تو پیدا ہو رہی ہے مگر خواتین اب بھی اس میدان میں پیچھے ہیں۔ +مطالعات میں خواتین کے منتخب ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو پانچ بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: اول، مخصوص صنفی تصورات۔ دوم، کیریئر کا انتخاب اور تیاری۔ سوم، گھریلو تقاضے۔ چہارم، جنسی امتیاز اور پنجم، سیاسی نظام جس میں پیسے یا فنڈز کی فراہمی کی ضرورت، جماعت کی تنظیم اور سپورٹ، عہدہ حاصل کرلینے کا فائدہ، اور انتخابی نظام کی مخصوص باریکیوں جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ سیاست کے میدان میں مساوات بڑی آہستہ روی سے داخل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں کئی مغربی اقوام نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا، بیسویں صدی کے اختتام پر بھی، ہر سیاسی منصب، ریاست یا قوم کے بارے میں کیا جانے والا تقریباً ہر تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ انتخابی کامیابی اور نمائندگی کے معاملے میں خواتین مردوں سے پیچھے ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں کی جانے والی رائے شماریوں سے پتہ چلا کہ آبادی کا قابل ذکر حصہ اعتراف کرتا ہے کہ انہیں خواتین کو ووٹ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ ممکنہ خواتین لیڈروں کے لئے اعداد و شمار میں بہتری پیدا ہو رہی ہے مگر بہترین رائے شماریوں میں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ آبادی کا چھ سے 20 فیصد حصہ خواتین کو محض ان کی صنف کی بناء پر ووٹ دینے میں تامل کرتا ہے۔ اسی طرح ان رائے شماریوں میں بھی بہتری نظر آئی ہے جن میں یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا مرد سیاست کے لئے زیادہ موزوں ہیں یا نہیں۔ یقینا عوام کا ایک حصہ کئی وجوہات کی بناء پر خواتین کے سیاست میں آنے کا مخالف رہا ہے۔ انتظامی عہدہ سیاست میں سب سے زیادہ ’’صنفی‘‘ ہوتا ہے اور یوں خواتین پر مزید چیلنجز مسلط کر دیتا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر مردوں کو فائز دیکھنے کے عادی معاشرے میں خواتین کی مضبوطی، مشکل فیصلے کرنے کی اہلیت، سربراہ کی حیثیت سے رسوخ اور معاشیات کی تفہیم کے بارے میں سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے عورتوں کی راہ میں ایک اور رکاوٹ آتی ہے۔ رائے شماریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2000ء میں عوام کے نوے فیصد حصے کا خیال یہ تھا کہ خواتین معاشی پالیسی بنانے میں مردوں جیسی ہی مہارت رکھتی ہیں۔ صدارت (یا اس کے مساوی عہدے) کے لئے ووٹ دینے والوں کے لئے اہمیت رکھنے والے ایشوز میں خواتین کے لئے اعداد و شمار اور بھی کم تھے۔ 80 فیصد کا خیال تھا کہ خواتین سفارت کاری کے معاملے میں مردوں کے برابر باصلاحیت ہیں اور 85 فیصد کا خیال تھا کہ خواتین فوج کی قیادت کر سکتی ہیں۔ +مگر ان سب کا خلاصہ ایک سوال میں کیا جا سکتا ہے جو ایک عام آدمی کے ذہن میں اکثر اٹھ کھڑا ہوتا ہے: کیا خواتین قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ ایک دلچسپ مطالعے میں اس سوال کا جواب دیا گیا۔ یہ مطالعہ پرنسٹن میں قائم ایک مینجمنٹ کنسلٹنگ فرم کیلی پر (جس نے پوری دنیا میں پچیس ہزار سے زائد کمپنیوں کے بیس لاکھ سے زائد درخواست گزاروں اور ملازموں کی اہلیت کا تخمینہ لگایا) اور آرورا (لندن میں قائم ایک تنظیم جو عورتوں کی ترقی پر کام کرتی ہے اور جس میں بیس ہزار کاروباری خواتین پر مشتمل ایک نیٹ ورک شامل ہے) کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اس مطالعے کے مطابق خواتین میں کام مکمل کرنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور ایک نئے مطالعے کے مطابق، وہ مرد لیڈروں کے مقابلے میں خطرات مول لینے پر زیادہ آمادہ ہوتی ہیں۔ +مرد لیڈروں کے مقابلے میں خواتین لیڈر زیادہ پُرزور اور لچک دار ہونے کے ساتھ ساتھ شخصی تعلقات کے حوالے سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ کیلی پر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور صدر، ہرب گرین برگ پی ایچ ڈی کا کہنا ہے کہ ’’یہ اوصاف ملنے سے ایک ایسا طرزِ قیادت وجود میں آتا ہے جس کی نمایاں خصوصیات میں تنوع، کشادگی، اجتماعی اتفاقِ رائے کا قیام، اشتراکِ کار اور اختیارات میں اشتراک شامل ہیں۔ ہم پورے زور سے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اس مطالعے میں شامل مرد لیڈروں میں بھی یہ خصوصیات نہایت اعلیٰ درجے کی تھیں، مگر خواتین لیڈروں نے ایک نیا معیار قائم کر دیا۔‘‘ +برسبیل تذکرہ، برطانیہ اور امریکہ میں خاتون لیڈروں کے خاکے ایک دوسرے سے نہایت مماثل اور نہایت جاندار ہوتے ہیں۔ بیسیوں اعلیٰ عہدیداروں اور دانشوروں نے یہ تخمینہ لگانے کی کوشش کی کہ عمدہ لیڈر بننے کے لئے کیا درکار ہوتا ہے، مطالعے میں شامل ایک خاتون کونی جیکسن نے، جو سینٹ بارتھولومیو اینڈ رائل لنڈن چیری ٹیبل فائونڈیشن کی سربراہ ہیںنے ایک شاندار عملی تعریف فراہم کی: ’’مضبوط لیڈر شپ کا آغاز ہوتا ہے افراد کے ایک گروہ کو جمع کر لینے سے جن میں شاید کوئی صفت مشترک نہ ہو، اور پھر انہیں یہ احساس دلانے سے کہ وہ ایک ٹیم ہیں جو کہ غیرمعمولی نتائج حاصل کر سکتی ہے۔‘‘ +جو معیارات، طریق ہائے کار اور خاکہ سازی کا نظام انہوں نے استعمال کیا، اس کے مطابق اس مطالعے کے مرکزی انکشافات حسب ذیل ہیں: +1۔ خواتین لیڈر، مردوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی قائل کر لیتی ہیں۔ +انانیت کو متحرک کرنے، بات منوانے، خطرات مول لینے، دوسروں کے جذبات کو محسوس کرنے، معاملات کو جلد نپٹانے کی خواہش رکھنے، لچک دکھانے اور تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں خواتین لیڈروں کا سکور مردوں کے مقابلے میں قابل ذکر حد تک زیادہ رہا۔ افراد کو ہینڈل کرنے کے معاملے میں ان کی بہتر صلاحیت خواتین لیڈروں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ صورتِ حال کا درست جائزہ لیں اور تمام طرف سے معلومات حاصل کریں۔ کسی صورتِ حال کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے پر آمادگی ظاہر ��رنے سے ان کی دوسروں کو قائل کر لینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ +وہ کسی کے اعتراضات یا تشویشات پر غور کر سکتی ہیں، ان کا مناسب تخمینہ لگا سکتی ہیں، مؤثر انداز میں ان کی وضاحت کر سکتی ہیں اور جب مناسب ہو، وسیع تر معاملات میں انہیں شامل کر سکتی ہیں۔ ان خواتین لیڈروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ صورتِ حال کے مطابق اور حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر وہ دوسروں کو اپنے نکتہ نظر پر قائل کر سکیں یا خود اپنا نکتہ نظر تبدیل کر لیں۔ وہ ایسا اس لئے کر سکتی ہیں کیونکہ انہیں دوسروں کے خیالات اور نکتہ نظر کی حقیقی معنوں میں پروا ہوتی ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کا نکتہ نظر، خود کو ان کی جگہ پر رکھ کر دیکھ سکتی ہیں، یوں ان کی پیروی کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کی بات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھا گیا ہے، سپورٹ کیا گیا ہے اور قدر سے نوازا گیا ہے۔ +’’دوسری طرف جن مرد لیڈروں کا ہم نے مطالعہ کیا، ان میں اپنے نکتہ نظر سے بات شروع کرنے کا رجحان پایا گیا۔‘‘ ڈاکٹر گرین برگ وضاحت کرتے ہیں۔ ’’اور چونکہ وہ دوسروں کے ساتھ تعامل کرنے کے معاملے میں اتنے لچکدار یا آمادہ نہیں ہوتے، اس لئے مرد لیڈر حقیقی معنوں میں دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے ان پر اپنا نکتہ نظر مسلط کرنے یا اپنے عہدے کے زور پر اپنی بات منوانے کی عادت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جن مرد لیڈروں کا ہم نے مطالعہ کیا ان میں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے اپنا نکتہ نظر مسلط کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘ +2۔ مسترد کر دیئے جانے کی تکلیف محسوس کرنا، مخاصمت سے سبق حاصل کرنا اور کچھ کر دکھانے کے عزم کے ساتھ جدوجہد کو جاری رکھنا۔ +انانیت کی قوت (لچک) کے معاملے میں خواتین لیڈر اوسط درجے پر تھیں جو کہ مرد لیڈروں سے کسی حد تک کم تھا۔ مگر ان میں شخصی تعلقات کے حوالے سے جاندار صلاحیتیں (دوسروں کے محسوسات سمجھنا، لچک دکھانا اور تعلقات استوار کرنا) جلد پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے مرد رفقاء کے مقابلے میں زیادہ بااعتماد ہوتی ہیں۔ +اوصاف کا یہ امتزاج خواتین کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مایوسی، استرداد یا ناکامی کا سامنا ہونے پر ان معاملات کو بہتر انداز میں ہینڈل کر سکیں۔ ڈاکٹر گرین برگ کا کہنا ہے: ’’نقصان اٹھانے کی تکلیف انہیں محسوس ہوگی۔ وہ اس پر کڑھ بھی سکتی ہیں، اور خود پر تھوڑی بہت تنقید بھی کر سکتی ہیں۔ مگر پھر وہ اپنا اعتماد مجتمع کریں گی، منفی احساسات سے نجات حاصل کریں گی، آگے بڑھنے کے لئے ضروری اسباق حاصل کریں گی اور ان کے ذہن میں یہ نعرہ گونجے گا۔ ’’میں کر کے دکھائوں گی۔‘‘ وہ اضافہ کرتے ہیں۔ ’’بنیادی طور پر، جب کسی خاتون میں آگے بڑھنے کی صلاحیت اور آرزو ہو اور پھر بھی اسے دوسروں کی طرف سے ڈھکے چھپے یا کھلے اشارے موصول ہوں کہ ان کے خیال میں وہ کامیاب نہیں ہو پائے گی تو اس سے ان کے جوش و جذبے میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ +3۔ مسائل کو سلجھانے اور فیصلے کرنے کا، ایک سب کو ساتھ لے کر چلنے والا اور ٹیم بنانے والا طرزِ قیادت۔ +اگرچہ مرد لیڈروں میں دوسروں کے محسوسات سمجھنے، لچک دکھانے، تعلقات استوار کرنے اور معاملات کو جلد از جلد سلجھانے کی خواہش جیسی خصوصیات اعلیٰ طورپر نظر آتی ہیں مگر خواتین لیڈروں کا سکور ان شعبوں میں مردوں سے زیادہ رہا۔ دونوں اصناف کے لیڈروں میں تجریدی سوچ اور ارتکازِ فکر کی شرح اوسط سے زیادہ ہوتی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کام کو ہر طرح سے مکمل کرنے کے اعتبار سے خواتین مردوں سے پیچھے رہ گئی��۔ +محققین کے مطابق، جن خواتین لیڈروں کا مطالعہ کیا گیا وہ تمام نکات ہائے نظر کو سننے اور پھر بہترین امکانی فیصلہ کرنے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ آخری فیصلہ ان کے اپنے ابتدائی نکتہ نظر کے مطابق ہی ہو۔ ان میں یہ صلاحیت تھی کہ صورتِ حال کو درست طور پر پڑھ سکیں اور تمام پہلوئوں سے معلومات حاصل کر کے پھر سب سے سوچا سمجھا فیصلہ کریں۔ +عورتوں اور مردوں کے طرزِ قیادت میں فرق کا آغاز ’’سننے‘‘ سے ہوتا ہے۔ محض جواب دینے کے لئے سننا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں سننا، سیکھنا، غور و فکر کرنا اور پھر ایسے منصوبے پر عملدرآمد کرنا جس میں ہر ایک کی تجاویز کا بہترین حصہ شامل ہو۔ +لائڈز ٹی ایس بی کونسل کی چیف ایگزیکٹو سوزن رائس کے مطابق، سب کو ساتھ لے کر چلنے والا یہ طرزِ قیادت تبادلہ خیال کی راہیں کھلی رکھنے کے اصول پر استوار ہوتا ہے۔ ’’سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سوال پوچھتے رہیں۔ ساری بات ہی سوال پوچھنے کی ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، وہ کہیں گے کہ میرے سوالات پوچھنے سے انہیں خود اپنی سوچ واضح کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ زیادہ باریک بینی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔ ایسا اعتماد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ میرے نزدیک میرا کام یہ ہے کہ میں ایک واضح حکمت عملی کا تعین کروں، درست سوال پوچھوں اور اپنے مینیجرز کی حوصلہ افزائی کروں کہ وہ اپنے کام میں ماہر بن سکیں۔‘‘ +چونکہ خواتین لیڈرز معلومات بانٹنے کے معاملے میں زیادہ فراخدل ہوتی ہیں، اس لئے مرد لیڈروں کے مقابلے میں وہ فیصلہ کرنے سے پہلے زیادہ لوگوں سے گفتگو کرتی ہیں۔ ڈاکٹر گرین برگ کا اندازہ ہے کہ ’’سب کو ساتھ لے کر چلنے والا، حتی الوسع حقائق اور نکات ہائے نظر کو شامل کرنے والا یہ طرزِ قیادت خواتین لیڈروں کو مستقبل کے لئے زیادہ بہتر پوزیشن میں لاتا ہے کیونکہ ’’انفارمیشن ایج‘‘ بتدریج ارتقاء پا رہی ہے۔‘‘ +4۔ خواتین لیڈروں میں قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنے اور خطرات مول لینے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ +قواعد و ضوابط کی پابندی اور احتیاط پسندی کے معاملے میں خواتین لیڈر، مردوں کے مقابلے میں خاصی پیچھے رہ گئیں۔ معاملات کو جلد از جلد نپٹانے اور خطرات مول لینے کے معاملے میں وہ ان سے خاصی آگے نکل گئیں، اور تجریدی سوچ میں ان کا سکور خاصا بلند رہا۔ کونی جیکسن کے مطابق: ’’بہ حیثیت لیڈر، ایسے وقت آتے ہیں جب آپ کو ایک ایسی راہ پر قدم رکھنے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے جس پر پہلے کوئی نہیں چلا ہوتا۔ آپ کو اس راستے پر چلنا ہی پڑتا ہے جو آپ کے خیال میں صحیح ہے۔‘‘ +اگر قواعد و ضوابط راہ میں حائل ہوں تو ان کی خلاف ورزی کرنے، خطرات مول لینے اور نت نئے حل نکالنے کا رجحان خواتین لیڈروں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں معاملات کو نپٹانے کی خواہش ان میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے ان کے ہچکچانے یا چھوٹی چھوٹی جزئیات پر توجہ کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ +ڈاکٹر گرین برگ کا کہنا ہے کہ: ’’خواتین لیڈرز مہم جو ہوتی ہیں، انہیں اس میں کم دلچسپی ہوتی ہے کہ پہلے کیا تھا، نسبتاً اس کے کہ اب کیا ہو سکتا ہے… اور اپنی عمدہ تجریدی قوتِ فکر کی بدولت، وہ کسی بھی غلطی سے سبق حاصل کر کے اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔‘‘ +دل میں خودبخود یہ سوال اٹھتا ہے: کیا خواتین قیادت کے لئے ایک نیا نمونہ تشکیل دے رہی ہیں؟ +اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہو سکتا ہے۔ +خواتین میں لیڈرشپ کی نمو +لیڈرشپ کا تعلق ان افراد سے بھی ہوتا ہے جو پہلا قدم اٹھاتے ہیں اور کسی گروہ کی مجموعی صلاحیت سے بھی ہوتا ہے جبکہ ایک کمیونٹی، تحریک، تنظیم یا قوم یا اقوام کوئی تبدیلی لانے کے لئے کام کرتی ہیں۔ اجتماعی لیڈرشپ کے نمودار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے افراد موجود ہوں جو ایک ویژن قائم کرنے کی، لوگوں کو متحرک کرنے اور دوسروں کو دعوتِ عمل دینے کی اور اس تنوع کو سنبھالنے کی ذمہ داری اٹھائیں جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک سے زیادہ افراد کسی کام میں شامل ہوتے ہیں۔ +لیڈرشپ کا گہرا تعلق، لوگوں کو تبدیلی کے عمل پر آمادہ کرنے کے لئے قوت استعمال کرنے کی اہلیت سے ہے۔ لوگوں کے پاس مختلف طرح کی قوت ہوتی ہے۔ کلاس کے مقبول طالب علم کے پاس اپنے ساتھیوں کو متاثر کرنے کی قوت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی ذات میں کوئی نہ کوئی بات پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح، منتخب افراد کے پاس قوت ہوتی ہے اس اعتماد کی بدولت جو انہیں منتخب کرنے والوں نے ان پر کیا ہے۔ لیڈر شپ کا عمل متاثر کرنے کا ایک تعلق ہوتا ہے جو ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے افراد کے مابین استوار ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنی لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنے کے لئے مواقع چاہئے ہوتے ہیں۔ اپنی لیڈرشپ کو نمایاں کرنے کے لئے انہیں کمیونٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیڈرشپ خلا میں وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ +جب ہم ’’خواتین کی لیڈرشپ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا اشارہ ان خواتین کی طرف بھی ہوتا ہے جو قیادت کرتی ہیں اور اس مخصوص سیاسی اور فلسفیانہ تناظر کی طرف بھی جو خواتین کی بدولت لیڈرشپ سے وابستہ ہوتا ہے۔ دونوں باتیں اہم ہیں اگرچہ ان میں خاصا فرق ہے۔ عورت کی لیڈرشپ کو تسلیم کیا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ لیڈرشپ کی اقسام، انداز اور میدان ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات اہم ہے کہ خواتین لیڈرشپ میں تنوع کا ادراک کریں، خواتین کی لیڈرشپ سیاسی طور پر مساوی حیثیت رکھنے والے افراد کے بیچ ایک تعلق کی متلاشی ہوتی ہے۔ ان مختلف باتوں کو مدنظر رکھنے سے ہمیں لیڈرشپ کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے میں مدد ملتی ہے اور یہ بات خواتین کی لیڈرشپ بحث کرنے کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ +گذشتہ زمانوں میں خواتین کی لیڈرشپ زیادہ تر نگاہوں سے اوجھل رہی کیونکہ لیڈرشپ کے سوال کا معائنہ آنکھوں پر جنسی تعصب کی عینک چڑھا کر کیا جاتا تھا۔ کون سی بات اہم ہے اور لیڈرشپ کہاں انجام پا رہی ہے جیسے سوالوں کے متعلق قائم کئے جانے والے مفروضات میں سے وہ مقامات خارج ہو جاتے تھے جہاں خواتین لیڈرشپ فراہم کر رہی ہوتی تھیں۔ اکثر خواتین اس حوالے سے قیادت فراہم کرتی ہیں کہ کنبے درست طرح سے پھلیں پھولیں اور انہیں نشوونما پانے کے لوازم دستیاب ہوں۔ عورتیں بیماروں، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کی دیکھ بھال کر کے ’’نگہداشت کی صنعت‘‘ چلا رہی ہیں۔ عورتیں برادریوں میں تنازعات حل کر رہی ہیں اور حل تلاش کر رہی ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی گائوں میں صاف پانی حاصل کرنے سے ہو یا گلی میں کوئی روشنی لگوانے سے تاکہ بچے اور پیدل چلنے والے گاڑیوں کی زد میں نہ آئیں۔ پوری تاریخ میں عورتیں ہمیشہ ترجیحات کا تعین کرتی رہی ہیں، بجٹ بناتی رہی ہیں اور عملی منصوبے تیار کرتی رہی ہیں۔ عورتیں ہمیشہ کوئی تبدیلی لانے کے لئے ایک ساتھ ہو کر کام کرتی رہی ہیں، مگر ان سب باتوں کو عام اور گھریلو کام سمجھا جاتا رہا ہے جس کا تعلق ایک نجی حلقے سے ہے جو کہ لیڈرشپ میں شامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا پہلا چیلنج یہ ہے کہ عورتوں کی لیڈرشپ کو نمایاں اور عیاں کیا جائے۔ +لیڈرشپ کے حوالے سے جنسی امتیا�� کو ملحوظِ خاطر رکھنے والا ایک مؤقف اس وقت تشکیل پاتا ہے جب عورتوں کی لیڈرشپ نمایاں ہو اور لیڈر شپ چلانے کے مختلف طریقوں کی تصدیق کی جائے۔ اس کے لئے تدبیراتی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہم خواتین کو ان جگہوں تک محدود رکھنے کی غلطی سے بچ سکیں جہاں انہیں پہلے ہی مخصوص رول دے کر مالک بنا دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے ہم نجی اور عوامی دونوں حلقوں میں خواتین کی شراکت کو تسلیم کر کے ان کی لیڈرشپ کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہاں کرنے کا اہم کام یہ ہے کہ اس دوعملی کو ختم کر دیا جائے جس کے تحت گھریلو زندگی عوامی زندگی سے الگ ہو جاتی ہے اور ان اہم ترین حیات بخش اور حیات ساز ضروریات کی قدر کم ہو جاتی ہے جن کا تعلق نگہداشت اور آبیاری کے کاموں سے ہے۔ بچپن کی نشوونما یا بیماروں اور بوڑھوں کی پیاربھری نگہداشت کی قدر نہ کی جائے تو یہ جہالت اور فرسودہ سوچ ہی کہلائے گی۔ +عورتوں کی لیڈرشپ کو نمایاں کرنے کے لئے کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے تو یہ کہ لیڈرشپ میں غیرموجود خواتین کو درست جگہوں پر تلاش کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ یہ تسلیم کر کے کہ عورتیں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لئے گرانقدر اور مرکزی اہمیت کا حامل کام انجام دے رہی ہیں، ان کی لیڈرشپ کی تصدیق کی جائے۔ یہ اعتراف بنیاد بنے گا اس دلیل کی کہ لیڈرشپ کے حوالے سے خواتین کا تجربہ ان میدانوں میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے جہاں وہ نسبتاً نووارد ہیں مثلاً عالمی سیاسی لیڈرشپ۔ تیسرا قدم یہ ہوگا کہ عورتوں کو خاندانوں اور کمیونٹیز کی منتظمین کی حیثیت سے جو تجربہ حاصل ہوا ہے، اسے ہماری اقوام، ہمارے کاروباروں، مذہبی اداروں اور ہماری دنیا کے انتظام و انصرام تک منتقل کیا جائے۔ یعنی ذاتی بات کو عوامی اور نجی بات کو سیاسی بنا دیا جائے۔ دوہرے پن اور امتیاز کی دیواریں گرا دی جائیں۔ عورتوں کو کنڈرگارٹن سے لے کر پارلیمان، کاروبار اور اقوامِ متحدہ تک عوامی انتظام و انصرام کی ہر سطح پر نمائندگی دینے کے لئے ضروری ہے کہ عورتوں کی سربراہی میں سیاسی مقاصد کے تحت معاشرے اپنی لیڈروں کو سپورٹ کریں اور انہیں اپنا جوابدہ بھی رکھیں۔ عورتوں کو ہر جگہ نمائندگی دینے کے لئے ہمیں ان رکاوٹوں پر کام کرنا ہوگا جو انہیں محدود، مقید اور مرکز سے دور رکھتی ہیں۔ بعض رکاوٹیں ثقافتی اور سماجی ہیں۔ خیالات کی تشہیر سے یہ ظاہر ہو کہ عورتوں اور مردوں کو مشترکہ بہبود کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیم اور شعور کا فروغ نہایت اہمیت رکھتا ہے اور اس لئے جنسی تعصبات جو لڑکیوں کو سکول سے دور رکھتے ہیں یا انہیں سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ جنسی مساوات پید اکرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دنیا میں بلاامتیاز اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ عورتوں کی ترقی کئی شکلوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ +ان میں سے بعض میں ضروری ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے بنائے ہوئے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے کام کرتے ہوئے انہیں مقامی سطح پر قابل عمل بنایا جائے۔ایسے اداروں میں تمام اقسام کے امتیازات کے خاتمے کا کنونشن (CEDAW) شامل ہے جسے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک نے 1979ء میں اختیار کیا۔ ایک زیادہ نیا ادارہ بیجنگ پلیٹ فارم برائے عمل (1995ء) ہے اور ایک اور ملینیم ڈیولپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) ہے جسے نیویارک میں منعقد ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ملینیم سمٹ میں 2000ء میں اختیار کیا گیا۔ ان ایم ڈی جیز میں 2015ء تک دنیا میں نظر آنے والی چند نمایاں ترین ناانصافیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔ ایک ہدف یہ بھی ہے کہ 2015ء تک جنسی مساوات حاصل کر لی جائے۔ مہم چلا کر سپورٹ حاصل کرنے کے لئے یہ نہایت عمدہ وسائل ہیں۔ مہمات بھی افادیت رکھتی ہیں کیونکہ ان میں بیک وقت تعلیم، تبلیغ اور اتحاد کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی تحریک ان ایشوز کو کروڑوں لوگوں کے سامنے زندہ رکھتی ہے۔ +پدرسری کا لغوی معنی یہ ہے کہ باپ کی حکومت۔ جنسی تعصب کی عینک سے دیکھا جائے تو لیڈرشپ ’’عوامی حلقے‘‘ میں وقوع پذیر ہوتی نظر آتی ہے جو کہ نسلوں تک، اور کسی حد تک آج بھی، مردوں کا میدان رہا ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ عورتیں بھی اس تعصب کو درست سمجھتی ہیں اور اب بھی اسے تقویت پہنچاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سماجی تربیت جیسی ہوتی ہے، ہم ویسے ہی سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑا چیلنج اس بات کا احساس کرنا ہے کہ معاملات کو مختلف نظر سے دیکھنے کے لئے ہمیں ایک مختلف چشمے کی ضرورت ہے۔ +نسوانی قیادت کا ایک انداز یہ ہے کہ دنیا کو شعور حاصل کرنے میں مدد دی جائے اور ان اقدار پر اصولی مؤقف اپنایا جائے جو حقیقت میں اہمیت رکھتی ہیں۔ نہایت اہم بات یہ ہے کہ عورتیں ان عوامی مناصب پر بڑی تعداد میں فائز ہوں جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں تاکہ ان جگہوں پر ان اقدار کا کوئی اثر دیکھنے میں آئے جو نسلوں سے انہی جگہوں تک محدود ہیں جہاں عورتوں کو قیادت میسر آتی ہے۔ اعلیٰ منصب پر محض کسی ایک یا چند خواتین کا تقرر خواتین لیڈرز کی صلاحیتوں کا ایک رسمی سا اعتراف ہے۔ بہت سی عورتیں جابجا بکھری ہوئی ہوں مگر کسی ایک جگہ پر یکجا نہ ہوں تو اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ رسمی اعتراف سے صرف یہ ہوتا ہے کہ عورتیں اپنی ذاتی اقدار ترک کر کے دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے اور خود کو منوانے کی کوشش شروع کر دیتی ہیں۔ لیڈرشپ میں عورتوں کی یکجائی ضروری ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی رفیق بن سکیں اور خود کو وہ بنائیں جو وہ بننا چاہتی ہیں اور انہیں خود کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ +اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے لئے بند دروازے کھلوانے کی کوشش کرنا جو لیڈرشپ کے مناصب سنبھالنے کے لئے تیار ہیں، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور چیلنج ہے۔ جن لوگوں میں لیڈرشپ کی خداداد صلاحیت موجود ہو، ان کے لئے بھی دوسروں کو لیڈرشپ کے لئے تیار کرنا اور تعلیم دینا ضروری ہے تاکہ معیاری لیڈرشپ حاصل کی جا سکے۔ ضروری ہے کہ نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو لیڈرشپ کی تربیت دی جائے تاکہ خواتین کی لیڈرشپ کو تسلیم کیا جائے، فروغ دیا جائے اور نسل در نسل لیڈرشپ کی تیاری ممکن بنائی جا سکے۔ +تیار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لیڈرشپ کے کام میں انہیں شامل کیا جائے۔ شامل ہونے کے بعد وہ رفقاء اور سرپرستوں سے وہ کچھ سیکھتی ہیں، جو کسی رسمی تعلیم سے سیکھا نہیں جا سکتا۔ ہمیں چاہئے کہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن میں خواتین کو موجودہ دور کی لیڈرشپ میں شامل کیا جائے اور یوں ان کی لیڈرشپ نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ نوجوان نسل آج کی لیڈر ہے اور ان لوگوں کی مخالفت کی جانی چاہئے جو یہی گھسی پٹی بات دہراتے رہتے ہیں کہ نوجوان نسل آنے والے کل کی لیڈر ہے اور ایسا کہہ کے وہ نوجوانوں کی لیڈرشپ کو پس منظر میں دھکیل دیتے ہیں۔ +خواتین کی لیڈرشپ میں نوجوانوں کی لیڈرشپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے عالمی سطح پر جنس اور عمر کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک کلیدی حیثیت دی جاتی ہے تاکہ خواتین، زائد العمر افراد، نوجوانوں اور بچوں کو مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ +کامیابی کی پہلی نشانی اس وقت نظر آئے گی جب لیڈرشپ میں بانی خواتین کو ان کا مقام اور آواز میسر آئے گی اور وہ اپنے طور پر نمایاں ہوں گی اور اپنی صلاحیتوں کے شایانِ شان مناصب پر خدمات انجام دیں گی۔ لوگ اس بات پر بحث کرتے ہی رہتے ہیں کہ کیا خواتین لیڈرشپ میں مردوں سے مختلف ہیں۔ زیادہ تر خواتین اپنی لیڈرشپ کو مردوں سے کافی مختلف سمجھتی ہیں جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا تجزیئے میں مشاہدہ کیا۔ +بہت سی خواتین کے لئے ایک اور عامل بے حد اہمیت رکھتا ہے جسے شراکت انتظام یا مشترکہ لیڈرشپ کہا جا سکتا ہے۔ مشترکہ لیڈرشپ ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق لیڈرشپ کوئی جامد چیز نہیں اور مل کر سوچنے سے ہمیں زیادہ وسعت نظر میسر آتی ہے۔ کام کے ساتھ لیڈرشپ کا کردار اکثر تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی ادارے میں جب ادارے کے تسلیم شدہ مینیجر کی بات ہو تو اس کا چیف ایگزیکٹو آفیسر لیڈر کے طور پر سامنے آئے گا لیکن کردار بدل جاتے ہیں اور جب حساب کتاب اور بجٹ کی بات آئے گی تو یہاں لیڈر کا رول فائنانس مینیجر کو مل جائے گا۔ مشترکہ لیڈرشپ میں معلومات بھی شیئر کی جاتی ہیں، دوسروں کی آراء بھی سنی جاتی ہیں چاہے وہ اختلافی ہی کیوں نہ ہوں، اور تنوع کو سنبھالا جاتا ہے۔ جہاں خواتین کو نسوانی لیڈرشپ کا تجربہ کرنے کا موقع ملے، مثلاً وہ حربے آزمانے کا جنہیں مائیں آپس میں لڑنے والے بچوں کو سنبھالنے کے لئے استعمال کرتی ہیں تو نئے آغاز کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ کامیابی کی نشانیوں میں مسابقت کے بجائے امن، عزم، دوستی اور تعاون شامل ہونے چاہئیں۔ خواتین کی لیڈرشپ میں ہمیں یہی اوصاف نظر آتے ہیں۔ جب خواتین کو کسی ایسے ماحول میں کام کرنا پڑے جو ان اوصاف کے لئے سازگار نہ ہو تو انہیں خود کو ثابت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ بھی پدرسری طرزِ قیادت آزمانے پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور پھر اس میں بھی اتنی مہارت حاصل کر لیتی ہیں کہ سسٹم انہیں قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مسلسل چیلنج ہے اور ہم سب کو دعوت دیتا ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں اور خواتین کو اور ایسے اداروں کو سپورٹ کریں جو اس مشن کو زندہ اور نمایاں رکھے ہوئے ہیں + + +گذشتہ چند دہائیوں میں، جائے کار کے حوالے سے خواتین نے غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں انہیں پہلے سے کہیں زیادہ مساوی مواقع میسر ہیں۔ عورتیں زیادہ کامیابی حاصل کر رہی ہیں اور قیادت کے ایوانوں میں زیادہ جگہ پا رہی ہیں۔ اس کی مثالیں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیاسی میدان سے ہٹ کر، خواتین بزنس اور فنونِ لطیفہ کے میدانوں میں شاندار ترقی کر رہی ہیں۔ +اگرچہ صنفی حوالے سے قیادت کے میدان میں تبدیلی آ رہی ہے مگر کامیاب خواتین لیڈرز آج بھی اصول کے بجائے استثناء کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر اس ’’استثناء‘‘ سے ثابت کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ خاطرخواہ محنت، کوشش، جدوجہد، خلوص اور ذہانت سے کام لیں تو آپ بھی ایک کامیاب خاتون لیڈر بن سکتی ہیں۔ +اگر آپ خاتون لیڈر بننا چاہتی ہیں تو دیگر خواتین لیڈرز کے بارے میں جاننے کے لئے وقت نکالنا شروع کیجئے۔ مخصوص خواتین لیڈرز کے بارے میں خبروں اور لیڈرشپ اور صنف کے حوالے سے ہونے والے مطالعات سے آگاہ رہئے۔ ممکن ہے آپ کوئی ایسی چیز سیکھ لیں جو آگے چل کر آپ کے کام آئے۔ +عورتیں اب لیڈرشپ کے ان مناصب پر پہلے سے زیادہ نظر آ رہی ہیں جو پہلے صرف مردوں سے مخصوص تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، مارگریٹ تھیچر، ہلیری کلنٹن اور آنگ سان سوکی جیسی خواتین کی کوششوں کی بدولت اب اس حقیقت کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ خواتین کو اہم ذمہ داریاں دی جا سکتی ہیں اور دی جانی چاہئیں۔ +تاہم، پھر بھی لیڈرشپ کے زمرے میں شمار ہونے کے لئے چند باتیں ایسی ہیں جنہیں آپ کو اپنانا پڑے گا۔ انہیں ذیل میں پیراگرافس کی شکل میں تقسیم کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ +یہ توقع مت رکھئے کہ محض آپ کے عورت ہونے کی بناء پر آپ کو صدر بنا دیا جائے گا۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کو مساوی سمجھا جائے تو مساوی بن کر دکھایئے۔ مطلب یہ کہ اپنے کام میں ڈوب جایئے اور جہاں موقع ملے خود کو بہتر بنایئے۔ +جو بات مردوں کے لئے سچ ہے، وہ خواتین کے لئے بھی سچ ہے۔ عورتوں کے لئے کامیابی کی راہ کچھ زیادہ مختلف نہیں، اس لئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو صیقل کرنے کے لئے ہر دستیاب وسیلہ استعمال کیجئے۔ مثال کے طور پر، اس باب کے شروع میں دیے گئے مشورے تمام لیڈروں اور ممکنہ لیڈروں کے لئے ہیں، صرف مردوں کے لئے نہیں۔ +جب آپ اعلیٰ عہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہوں تو سرپرست ایک بیش بہا استاد، کوچ اور ساتھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے لئے سرپرست تلاش کیجئے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا سرپرست مرد ہے یا عورت۔ اس طرح آپ خطرناک غلطیاں کرنے سے بچی رہیں گی۔ +لیڈرشپ کا منصب کسی شرمیلے مرد یا عورت کو نہیں ملتا۔ بے باک بنئے۔ آواز اٹھایئے اور اپنے ساتھیوں اور بڑوں پر واضح کر دیجیے کہ آپ پُرعزم اور جدت طراز ہیں۔ +اگر آپ مزید ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار ہیں مگر محسوس کرتی ہیں کہ آپ کے بڑے اس بات سے آگاہ نہیں یا آپ کی اہلیت کے بارے میں پُریقین نہیں تو خود انہیں یہ بتا کر کہ آپ نہ صرف قیادت کے لئے تیار ہیں بلکہ کامیاب ہونے کے لئے بھی تیار ہیں، ان کے اندیشوں کو شروع میں ہی ختم کر دیجیے۔ اپنی اہلیت کے بارے میں آپ جتنی زیادہ پُراعتماد ہوں گی، دوسرے بھی آپ کے متعلق اتنے ہی زیادہ پُراعتماد ہوں گے۔ +جب کسی خاتون کو ترقی یا اقتدار کے ایوانوں میں جگہ مل جائے تو اس کی فتح آدھی ہوتی ہے۔ انفرادی حیثیت میں اس کا گذشتہ ریکارڈ شاندار ہو سکتا ہے، اپنی ٹیم، ادارے یا جماعت کے لئے اس کا ویژن عظیم الشان ہو سکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود کو قیادت کے چیلنج کے لئے تیار سمجھتی ہو تاہم کسی بھی خاتون کو ایسے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جن کا تعلق براہِ راست اس کی جنس سے ہے مثلاً: +شاید آپ کی ٹیم کو ایک عورت کے لئے کام کرنے کی عادت نہ ہو۔ انہیں تھوڑا وقت دیجیے تاکہ وہ اس تصور کے ساتھ ہم آہنگی حاصل کر سکیں کہ انہیں نہ صرف ایک نئے طرزِ قیادت کی حامل ایک نئی لیڈر کے ساتھ، بلکہ ایک عورت کے ساتھ کام کرنا ہے۔ +ابتداء میں بعض کارکنوں کو شاید ایک عورت سے ہدایات وصول کرنا اچھا نہ لگے۔ ہمارے معاشرے نے صدیوں سے مرد کو خاندان کا سربراہ بنا رکھا ہے اور عورتوں کے بارے میں ماتحت ہونے اور فیصلہ سازی کی اہل نہ ہونے کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ بھی ہے کہ چونکہ خواتین لیڈرز اب بھی اقلیت میں ہیں، تو ممکن ہے کہ آپ کارکنوں کے تجربے میں آنے والی پہلی خاتون لیڈر ہوں۔ جو پالیسیاں اور کام آپ اپنی ٹیم کے سپرد کریں، خیال رکھیں کہ وہ اختتام تک پہنچیں۔ اس طرح آپ کے کارکنوں کو پتہ چلے گا کہ وہ اپنے کام کو ختم کرنے کے سلسلے میں آپ کے سامنے جوابدہ ہیں اور وہ آپ کے اختیار کا احترام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ +اور اپنے لئے مسائل پیدا ��ت کیجئے۔ یہ فرض مت کیجئے کہ لوگوں کو آپ کے ساتھ کام کرنے میں مشکل صرف اس لئے پیش آئے گی کہ آپ ایک خاتون ہیں۔ کبھی اس وہم کا شکار مت ہوں کہ کسی مسئلے کا تعلق صرف آپ کی جنس سے ہے۔ اکثر لیڈروں کو اپنے اختیار کے حوالے سے چیلنج پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ +اگر سارے حربے آزما لینے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی مسئلہ واقعی آپ کی جنس سے ہی تعلق رکھتا ہے تو اس مسئلے کی حقیقی نوعیت اور اس سلجھانے کی تمام کوششوں کو تحریری شکل میں ضروری لایئے۔ +اگر کوئی مرد رفیق ٹیم کے اہداف سے کھلے طور پر منحرف ہو رہا ہو اور آپ کی جنس کے متعلق طنزیہ باتیں کر رہا ہو تو پھر آپ واقعی جنسی امتیاز کا نشانہ بن رہی ہیں۔ +پہلے آپ اس شخص سے خود بات کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ خیال رکھئے کہ ایسی ملاقات رسمی ماحول میں ہو مثلاً آپ کے دفتر یا کانفرنس روم میں، اور نشست و برخواست میں آپ کے عہدوں کا فرق ملحوظِ خاطر رہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ آپ اپنی میز کے پیچھے بیٹھی ہوں اور متعلقہ شخص آپ کے سامنے کھڑا ہو یا دوسری طرف بیٹھا ہو۔ +اسے بتایئے کہ آپ اس کے رویئے کو غیرپیشہ ورانہ سمجھتی ہیں اور اس سے وضاحت طلب کیجئے۔ ممکن ہے کہ اس کے اس رویئے کی کوئی اور وجہ رہی ہو۔ اگر گفت و شنید درست انداز میں انجام پاتی ہے، تو شاید آپ کو مزید کوئی ایکشن لینے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ +تاہم اگر یہ رویہ برقرار رہے تو اس کا ذکر اپنے سرپرست کے سامنے کیجئے اور دیکھئے کہ کیا اس کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ حکامِ بالا سے رابطہ کیجئے۔ +بہترین حل وہی ہوگا جو جلد از جلد عمل میں آ جائے۔ انجام خوشگوار ہو یا ناگوار، مسئلہ ختم کرنے میں تاخیر مت کیجئے۔ اگر ایسے مسئلے لٹکتے رہنے دیے جائیں تو ٹیم کے مجموعی کام پر ان کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ + + +==وہ جن سے سبق لیا جا سکتا ہے== +اس باب میں ہم ایسی شخصیات کی زندگیوں اور طرز ہائے قیادت پر مختصر سی نظر ڈالیں گے جنہوں نے لیڈرشپ کے میدان میں نئی تاریخ رقم کی اور اپنے عہد کا عنوان بن گئے۔ اس کا آغاز ہم اس مبارک ہستی کے نام سے کر رہے ہیں جسے بلاشبہ تاریخ عالم کا ہی نہیں بلکہ کائنات کا سب سے بڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ +نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم +قائدین کی ایک پوری جمعیت تشکیل دینا نہایت مشکل کام ہے اور اس کے لئے ایک مسلسل عمل کی ضرورت پڑتی ہے جس سے گزرنے والا ارتقاء کے مختلف مراحل سے آشنا ہوتا ہے۔ جو لوگ لیڈر بننا چاہتے ہیں یا جن سے لیڈرشپ کی توقع رکھی جاتی ہے، ان کا اس عمل سے گزرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسا کرنا اور ہونا عین ممکن ہے۔ اس کی بنیادی ضرورت ’’تعلیم ‘‘ ہے جس کا آغاز پڑھنے، لکھنے اور بولنے (یعنی اظہارِ خیال) سے ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ انبیاء کو بھی تعلیم حاصل کرنے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ عالم کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے غایت درجہ کی کامیابی حاصل کی۔ انہیں نبوت و رسالت کی اہم ترین ذمہ داری سونپنے سے پہلے خدائے عزوجل نے انہیں علم عطا کیا۔ +نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام انسان کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا اور پھر دنیا کے عظیم ترین مذہب کے بانی مبانی بننے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت طاقتور سیاسی لیڈر بھی بنے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ عرب کے بدو قبیلے ان کے زیرقیادت متحد ہوئے اور خدا کی وحدانیت کا پیغام لئے، ایمان کے نشے میں سرشار، پوری دنیا پر چھا گئے۔ ایک چھوٹے سے جزیرہ نما سے نکلنے والے توحید پرستوں نے انسانی تاریخ کی سب سے حیران کن فتوحات کے سلسلے کی بنیاد رکھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کی ایمانی قوت کے جواہر کی درخشندگی آج بھی روزِ اول کی طرح تاباں و فروزاں ہے۔ غیرمسلم مؤرخین بھی انہیں تاریخ عالم کے بااثر ترین لیڈرز میں شمار کرتے ہیں۔ +نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک جنوبی عرب کے شہر مکہ میں 571 عیسوی میں ہوئی جو کہ اس زمانے میں دنیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل تھا۔ تجارت، فنون لطیفہ اور علم کے مراکز سے دور، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے ذریعے تعلیم حاصل کی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس جو پہلی وحی لے کر آئے، اس کے الفاظ ہی یہی تھے کہ: +’’پڑھ، اپنے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا۔‘‘ (العلق:1) +اس وحی کا پہلا لفظ ’’اقرا‘‘ تھا جس کے معنی پڑھنا، تلاوت کرنا یا بلند آواز میں کہنا کے ہیں۔ یہی اللہ کا پہلا پیغام تھا۔ اس خدائی حکم کا ایک مطلب یہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اللہ کا پیغام پڑھا جائے اور پوری دنیا میں پھیلایا جائے۔ +مکتبی تعلیم کے حوالے سے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کچھ نہ تھا لیکن ان کے ذہن اور دل کو روحانی علوم سے مالامال کر دیا گیا اور اب وہ وقت آ گیا تھا کہ وہ دنیا کے سامنے کھڑے ہو کر خدا کی حقانیت اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیں۔ شہر العلم بننے سے پہلے انہوں نے براہِ راست خدا سے تعلیم حاصل کی تھی۔ +آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ تعلیم انسانوں کا اثاثہ اور ان کا موروثی حق ہے۔ اسے تباہ نہیں کرنا چاہئے اور اسے حاصل کرنا فرض ہے۔ +لہٰذا ایک لیڈر کی شخصی تعمیر کے لئے تعلیم یعنی علم کا حاصل کرنا لازم ہے۔ علم کا مطلب ہے بنیادی تعلیم، تجربہ اور مشاہدہ۔ اپنی پہچان بنانے کے لئے علم کا اظہار کرنا ضروری ہے اور اظہارِ علم، توسیع علم کا ایک طریقہ بھی ہے۔ +روحانی قیادت سے قطع نظر، تاریخ ایسے جنگجوئوں، حکمرانوں اور لیڈروں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے جنہوں نے تربیت و ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنی شخصیت کی تعمیر کی۔ قدیم طرزِ حکومت میں مذہب، عدل و انصاف اور بوقت ضرورت افواج کی کمان ایک بادشاہ کے مشترکہ فرائض میں شامل ہوتے تھے۔ شاہی خاندان کے بچوں، خصوصاً ولی عہد کو، مستقبل میں انتظامِ سلطنت یا کلیدی عہدے سنبھالنے کے لئے ان علوم و فنون کی تربیت دینا شاہی روایت کا حصہ تھا۔ ان کی پرورش کا بنیادی مقصد ہی انہیں مستقبل کے قائدوں کے روپ میں ڈھالنا ہوتا تھا اور انہیں ہر اس علم و فن کی تربیت دی جاتی تھی جس کا ایک قائد کی ذات میں ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے مذہبی اور دیگر علماء نے مختلف ادوار میں قیادت کی امتیازی خصوصیات کی تشریح کی ہے جو ہر دور میں بہ حیثیت مجموعی کم و بیش ایک جیسی ہی سمجھی جاتی رہی ہیں۔ جہاں تک مذہبی قائدین کا تعلق ہے، انہیں ہمیشہ خدائی برکات حاصل ہوتی تھیں اور ان کی تربیت تقدیر خود کرتی تھی۔ یہ تربیت عموماً گوناگوں آزمائشوں سے بھری ہوتی تھی اور خدا کے منتخب کردہ بندوں کے لئے بھی اس راستہ پر چلنا کچھ آسان نہ ہوتا تھا۔ +’’چند دوسرے مذاہب کے بانیوں کی مانند، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی اپنے وقت کے سماجی رسوم و رواج کے باغی تھے۔ جس دین کی انہوں نے تبلیغ کی، وہ اپن�� سادگی، سلاست، صراحت اور مساوات و جمہوریت کی چاشنی کی بدولت، قرب و جوار کے ملکوں کے عوام کے لئے بے پناہ کشش کا حامل تھا جو ایک عرصے سے مطلق العنان بادشاہوں اور مطلق العنان مذہبی عمائدین کے ہاتھوں پستے چلے آ رہے تھے۔ وہ پرانے نظام سے بیزار ہو چکے تھے اور تبدیلی کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ اسلام نے ان کے سامنے یہ تبدیلی پیش کی اور لوگوں نے اسے بڑی خوشی سے قبول کر لیا، کیونکہ اس تبدیلی نے ان کے طرزِ زندگی میں بہتری پیدا کی اور بہت سی کہنہ ناانصافیوں کو ختم کر دیا۔‘‘ +نہرو مزید لکھتے ہیں: ’’عربوں کی کہانی اور ایشیا، یورپ، افریقہ کے ملکوں پر ان کے تیزی سے چھا جانے اور نئی ثقافتوں اور تہذیبوں کو جنم دینے کی داستان، تاریخ کے کرشموں میں سے ایک ہے۔‘‘ +تاریخ کے یہ ’’کرشمے‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کا اعجاز تھے اور ان کی قدر و وقعت کا اندازہ صرف اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب ہم ان مشکلات اور مصائب کا مطالعہ کریں جن سے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گزرنا پڑا، جس صبر کا انہوں نے مظاہرہ کیا، جن آزمائشوں میں وہ پورے اترے اور اپنے ہمراہیوں سمیت جو پُرصعوبت وقت انہوں نے گزارا۔ ان سب کی گہرائی میں اترے بغیر ہم اس انقلاب کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان اصحاب کا سب سے بڑا اثاثہ ان کا ایمان اور یقین تھا۔ اسلام نے انہیں اخوت اور بھائی چارے سے بھی آشنا کیا۔ انہیں تمام مسلمانوں کی برابری کا پیغام دیا اور اس طرح جمہوریت کی ایک شکل لوگوں کے سامنے رکھ دی۔ +حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد، پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکرؓ صدیق اور دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ فاروق دونوں کے ادوارِ خلافت زیادہ طویل نہ تھے لیکن اس مختصر سے عرصے میں عربوں نے مشرقی رومی سلطنت اور ایران کی ساسانی حکومت کو شکست سے دوچار کیا، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس شہر یروشلم کو فتح کیا اور پورا مصر، عراق اور ایران مسلمانوں کی نئی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ +محمد علی جناح کراچی کے علاقے کھارادر میں وزیرمینشن میں کرسمس یعنی 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے۔ (ان کی پیدائش کے حتمی سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں)۔ ان کے والد جناح پونجا خوجہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک خوشحال تاجر تھے۔ +قائداعظم نے ابتدائی تعلیم کریسنٹ مدرسہ میں حاصل کی اور اس کے بعد کراچی کے مشن سکول میں پڑھتے رہے۔ پندرہ سال کی چھوٹی سی عمر میں ہی وہ اپنے سے دگنی عمر کے افراد کے سامنے کراچی کے مقامی واقعات کے حسن و قبح کے متعلق تقاریر کرنے اور انہیں اپنی خطابت کے سحر میں جکڑے رکھنے کے فن کے لئے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ ان کے آس پاس کی چھوٹی سی دنیا ان کی دلچسپیوں کا محور تھی اور روزمرہ کے واقعات ان کے لئے کتابوں کی حیثیت رکھتے تھے جن کا وہ مطالعہ کیا کرتے تھے۔ +خوجہ برادری کی روایات کے مطابق نوجوان محمد علی کے بڑوں کی خواہش تھی کہ وہ بھی آگے چل کر اپنے والد کا سہارا بنیں اور کاروبار میں شریک ہوں۔ +1892ء میں سولہ سال کی عمر میں وہ لندن میں تجارتی روابط استوار کرنے کا بنیادی مقصد لے کر انگلستان روانہ ہوئے لیکن ان کی اپنی خواہشات اس مقصد سے مختلف تھیں۔ وہ کسی بڑے، زیادہ بلند نصب العین تک رسائی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اپنے طور پر فیصلہ کرنے میں انہیں مشکل پیش آئی تو انہوں نے اپنے والد سے رابطہ قائم کیا جو اس وقت تک سخت کاروباری مشکلات کے شکار ہو چکے تھے اور انہیں واپس بلانا چاہتے تھے۔ واپس آنے کے بج��ئے انہوں نے اپنے والد سے لندن میں قیام کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ +لندن جیسے بڑے شہر میں وہ تنہا تھے۔ کسی وسیلہ و تعلق کے بغیر اور ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے گوناگوں مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود، انہوں نے وہاں اپنی جگہ بنانے کے لئے جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ انہیں خود پر اور اپنی تقدیر پر اعتماد تھا۔ ان کی زندگی اور جدوجہد ایسے تمام افراد کے لئے ایک حوصلہ افزا مثال ہے جو آج وکالت یا سیاست کے شعبوں میں جدوجہد کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ لندن ان کے لئے ایک مختلف اور اجنبی جگہ تھی لیکن یہ جگہ ان کی اپنی سوچ کے عین مطابق بھی تھی۔ +انہوں نے بار کی رکنیت کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی انہوں نے لندن کے تعلیمی ادارے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا اور بار کے لئے پڑھائی شروع کر دی۔ انہوں نے کسی یونیورسٹی میں داخلہ نہ لیا اور پڑھائی سے جو وقت بچ رہتا، اس میں برٹش میوزیم کی لائبریری میں جا کر عظیم افراد کی سوانح عمریاں پڑھنے کا شغل اپنا لیا۔ پڑھائی کے علاوہ ان کی دیگر سرگرمیاں بھی قابل ذکر تھیں۔ یہ امر خود ان کے لئے، اور ان کے ملک کے لئے بھی خوش قسمتی کا باعث بنا کہ اس کچی عمر میں بھی جو تعلقات انہوں نے استوار کئے وہ نہایت صحتمندانہ نوعیت کے تھے اور ان کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے کے موجب بنے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے تجربات اور مشاہدات نے ہی آگے چل کر انہیں قائداعظم بنایا۔ ان کے بعض مداح اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ایسے ذہین فرد کو یونیورسٹی کی تعلیم کیوں نہ مل سکی۔ +یونیورسٹی کی تعلیم تو میسر نہ آئی لیکن اس کی جگہ انہیں دادا بھائی نورو جی کا سنہرا ساتھ میسر آ گیا جو لندن انڈین سوسائٹی کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ لندن میں ہندوستانی طالب علموں کے سب سے بڑے سرپرست اور مربی بھی تھے۔ محمد علی جناح کی خوش قسمتی تھی کہ سیاسی تربیت میں پہلا سبق انہوں نے دادا بھائی جیسے جانے پہچانے محب وطن سے حاصل کیا۔ دادا بھائی نے لندن کے ہندوستانی طالب علموں کے لئے ایک گائیڈ، فلسفی اور دوست کا کردار بڑی خوبی سے نبھایا۔ دادا بھائی کی رہنمائی میں محمد علی جناح نے سیاسی اقدار اور منصفا نہ رویوں کا گہرا شعور حاصل کیا۔ +انگلستان میں گزرنے والے طالب علمی کے پانچ یا چھ سالوں نے محمد علی جناح کو ہندوستانی طالب علموں کی بہبود کے کاموں میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا۔ (اپنے بعد کے دوروں میں بھی انہوں نے کبھی طالب علموں کو فراموش نہیں کیا)۔ دادا بھائی کی قربت اور تربیت کے اثرات ان پر ہمیشہ برقرار رہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محمد علی جناح نے جن اصولوں کی تعلیم حاصل کی، انہی کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ہندوستانی طالب علموں کی رہنمائی کی۔ اور یہ امر بھی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ انگلستان میں اپنے قیام کو انہوں نے ہندوستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لئے استعمال کیا۔ +1896ء میں 21 سا ل کی چھوٹی سی عمر میں انہیں بار کا رکن منتخب کر لیا گیا اور اسی سال وہ ہندوستان واپس لوٹ گئے۔ زندگی کی سختیاں اور تلخ حقائق انہیں اپنا مزا چکھانے کو تیار کھڑے تھے۔ واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ ان کا خاندان مالی مشکلات کے بھنور میں غوطے کھا رہا ہے۔ وہ پُرسکون اور آرام دہ زندگی خواب و خیال ہو چکی جس کے وہ لندن جانے سے پہلے عادی ہو چکے تھے۔ اپنی عملی زندگی کے ابتدائی سال انہوں نے کٹھنائیوں کے عالم میں گزارے۔ کاروبار ڈوبنے سے پہلے ��حمد علی جناح کے والد نے ان کے نام سے چند کاروباری سودے کئے تھے۔ یہ بھی کوئی مثبت نتیجہ نہ دے سکے بلکہ قانونی مسائل کھڑے کرنے کا سبب بن گئے۔ لہٰذا ہندوستان پہنچ کر جناح کو نہ صرف مالی مشکلات سے واسطہ پڑا بلکہ مقدمے بازی سے بھی عہدہ برآ ہونا پڑا۔ وہ بالکل نہ گھبرائے۔ انہوں نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور مخالفوں پر فتح حاصل کر کے وکالت کی پریکٹس میں اپنی پہلی کامیابی درج کرائی۔ +اپنی بے پناہ آرزو مندی کے سبب کراچی کا شہر انہیں اپنی پریکٹس کے لئے بہت چھوٹا معلوم ہوا اور 1897ء میں وہ اپنی جوانی، حوصلہ مندی اور کچھ کر دکھانے کی دھن کے جادوئی ہتھیار لے کر بمبئی منتقل ہو گئے۔ +بمبئی میں گزرنے والے پہلے تین سال ان کے لئے خاصے کٹھن ثابت ہوئے۔ جناح نے ایک دوست کے ذریعے، اس وقت کے بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن سے تعارف حاصل کیا۔ مسٹر میکفرسن نے نوجوان جناح سے مشفقانہ سلوک کیا اور انہیں اپنے چیمبرز میں آ کر مطالعہ کرنے کی اجازت دے دی۔ کسی یورپین بیرسٹر کی طرف سے کسی ہندوستانی کو ایسی اجازت دینے کی کوئی مثال اس سے پہلے نظر نہیں آتی۔ چھوٹے موٹے مقدمات ان کے پاس آنے لگے اور ان کی عمدہ کارکردگی کی بدولت ان کی ساکھ روزبروز پھیلنے اور مستحکم ہونے لگی۔ آہستہ آہستہ جناح نے بار میں ایک لیڈر کی حیثیت حاصل کر لی۔ 1906ء میں انہیں بمبئی ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا۔ ان کی پریکٹس کا دائرہ بے انتہا وسیع ہو گیا اور وہ بمبئی بار میں بھی ایک شاندار عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ +عملی دنیا کے جھگڑوں اور سازشوں سے انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ لاتعلق رکھا۔ پیچیدہ حقائق کو بھی سادہ اور قابل فہم بنا دینے میں ان کی قابلیت غیرمعمولی تھی۔ اپنے آداب و اطوار کے معاملے میں ان کا طرزِ عمل فنکارانہ خوبصورتی کا حامل تھا۔ اس کے علاوہ ان کی سوچ بڑی واضح تھی اور کامن سنس جیسی کمیاب خصوصیت ان کے پاس وافر مقدار میں موجود تھی۔ ایک وکیل اور ماہر قانون کی حیثیت سے ان کی قابلیت اور صلاحیت کا احترام تمام قانونی حلقوں میں کیا جاتا تھا۔ +جن صلاحیتوں نے انہیں قانونی دنیا میں کامیاب بنایا، وہی ان کے سیاسی کیریئر کے لئے بھی نہایت کارآمد ثابت ہوئیں۔ ان میں دو نایاب خصوصیات کا بڑا طاقتور امتزاج موجود تھا۔ ولولے اور خلوص سے دہکتا دھمکتا دل اور ایک گہری بصیرت و دانشمندی۔ کہا جا سکتا ہے کہ تقدیر نے انہیں سیاست کی دنیا میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے لئے منتخب کر لیا تھا۔ ان کا طرزِ گفتگو نہایت دلکش اور سحر انگیز تھا اور اس قدرتی تحفے کو انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر بڑی خوبی سے استعمال کیا۔ ان کے پاس مقناطیسی کشش، متاثر کن طرزِ بیان اور دل چھو لینے والی آواز کے تہرے اثاثے موجود تھے۔ دوسروں کو قائل کرنے کی غیرمعمولی قوت، موضوع کی باریکیوں کو اجاگر کر دینے والی گفتگو، ٹھوس اور معنی خیز دلائل اور گہرائی میں اتر کر حقائق تک رسائی حاصل کرنے والی نگاہ کی بدولت انہوں نے جلد ہی ایک عظیم مناظر کے طور پر ایک قابل رشک ساکھ بنا لی۔ +جناح ابتداً کانگریسی نظریات کے حامی تھے۔ ان کے سیاسی نظریات کی تشکیل گوکھلے، دادا بھائی نوروجی، سریندر ناتھ بینر جی اور چت رنجن داس جیسے لیڈروں کے ساتھ ربط ضبط کی بدولت ہوئی تھی۔ لجسلیٹو اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایک موقعے پر انہوں نے کہا:- +’’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے سیاست میں اپنا پہلا سبق سریندر ناتھ بینر جی کی ہمراہی میں حاصل کیا۔ میں ایک مقتدی کی حیثیت سے ان کے ساتھ تھا اور انہیں اپنا لیڈر سمجھتا تھا۔ اپنے ملک میں انہیں عوام کے ایک عظیم اجتماع کی حمایت اور احترام حاصل تھا اور میں بھی اس اجتماع میں شامل تھا۔ جہاں تک مسٹر داس کا تعلق ہے، وہ میرے ذاتی دوست تھے۔ میں نے ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا ہے اور ہم دونوں نے کئی سال اکٹھے کام کیا ہے۔‘‘ +جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر دادا بھائی نورو جی سے متاثر ہونے کے حوالے سے ابتداً جناح ایک پکے کانگریسی تھے۔ جب دادا بھائی نوروجی کو دارالعوام کا رکن منتخب کیا گیا تو جناح نے ان کی پہلی تقریر دارالعوام کی بالکنی میں بیٹھ کر سنی۔ 1906ء میں کانگریس کے کلکتہ میں منعقد ہونے والے تاریخی اجلاس میں جناح نے خاصی توجہ حاصل کی۔ اس اجلاس میں دادا بھائی نوروجی نے صدر کی حیثیت سے ہندوستان کے لئے سوراج یعنی خود مختار حکومت کا نظریہ پیش کیا۔ جناح اس سالانہ اجلاس میں کئی سال سے شرکت کرتے چلے آ رہے تھے۔ اس اجلاس میں انہوں نے پہلی دفعہ تقریر کی۔ اسی سال انہیں بمبئی ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر چن لیا گیا۔ +قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کا ایک اور رخ، جس سے کم افراد آشنا ہیں، یہ ہے کہ وہ ایک مزدور بھی تھے اور کام کرنے والوں کے نصب العین کے حمایتی تھے۔ 1925ء میں انہیں آل انڈیا پوسٹل سٹاف یونین کا صدر منتخب کیا گیا۔ حکومت ہندوستان کے شعبہ ڈاک کے ملازمین کی نمائندگی کرنے والی یہ یونین ستر ہزار ارکان پر مشتمل تھی۔ 35 سال سے زائد عرصے تک انڈین لجسلیٹو اسمبلی کے رکن رہتے ہوئے قائداعظم نے اسمبلی کے اندر اور باہر مزدور پیشہ طبقے کے مفادات کی مسلسل پاسبانی کی۔ یہ ایک معلومہ حقیقت ہے کہ قائداعظم نے برصغیر میں مزدور پیشہ طبقے سے متعلق قوانین بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یونین سازی کو قانونی تحفظ دلواتے ہوئے منتشر مزدوروں کو متحد کیا اور ان کے مشترکہ مفادات کے لئے جدوجہد کی۔ +ماضی پر نگاہ ڈالیں تو یہ امر باعث دلچسپی دکھائی دیتا ہے کہ 1906ء میں تیس سالہ جناح ایک معتدل مزاج رہنما تھے اور سترہ سالہ نہرو انتہاپسندوں کے مداح تھے۔ اس وقت وہ لندن میں سکول طالبعلم تھے۔ سیاست ان کے لئے محض ایک ضمنی دلچسپی کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ ان کے اپنے والد پنڈت موتی لعل نہرو خود اس سمندر میں زیادہ گہرائی تک اترنے کے متعلق شش و پنج کے شکار تھے۔ لہٰذا جہاں جناح اپنے پہلے اجلاس کے تجربے سے متاثر ہو کر ہندو مسلم اتحاد کی تبلیغ کر رہے تھے، وہاں جواہر لعل اپنی کرسمس کی تعطیلات منانے کے لئے پیرس روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ +1910ء کے موسم خزاں میں جب جناح کو بمبئی کے مسلمانوں کی پریذیڈنسی کی طرف سے وائسرائے کی سنٹرل لجسلیٹو کونسل (سپریم لجسلیٹو کونسل میں نمائندے کی حیثیت سے منتخب کیا گیا تو ان کے عملی سیاسی کیریئر کا آغاز ہو گیا۔ اس کونسل کے ارکان میں کانگریس کے سابق صدر گوپال کرشن گوکھلے بھی شامل تھے جنہیں مہاتما گاندھی نے اپنا سیاسی گرو قرار دیا تھا۔ جناح کی اصول پسندی، ذہانت اور اعتدال پسندی کے لئے گوکھلے کی پسندیدگی کا اظہار اس لقب سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے جونیئر رفیق کار کے لئے منتخب کیا۔ ’’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر۔‘‘ پیچیدہ اور متنازعہ کاموں کو خوش اسلوبی سے نمٹانا اور وقف کے بل کو کامیابی سے پاس کروانا جناح کی غیرمعمولی کامیابی اور کارکردگی کا بین ثبوت ہے۔ +ایک کانگریسی ہونے کی حیثیت سے جناح مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے اس کے کاموں میں کسی طرح کی شرکت کرنے سے محروم رہے لیکن ان کی ہمدردیاں مسلمانوں اور لیگ کے اہداف کے ساتھ تھیں۔ لیگ کی درخواست پر (جو جناح کی عدم شمولیت کے باوجود ان کے لئے احترام کے گہرے جذبات رکھتی تھی) جناح نے 1910ء میں الہ آباد میں سر ولیم ویڈربرن کے زیرسربراہی منعقد ہونے والی ہندو مسلم رہنمائوں کی کانفرنس میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ ہندومسلم اتحاد کے لئے ان کا کام جاری رہا حالانکہ اس وقت کے حالات ان کے حق میں نہ تھے۔ +1912ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کو ترقی پسندانہ اور حب الوطنی کی اقدار کے حوالے سے ازسرنو تشکیل دینے کے ضمن میں کلکتہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ دسمبر میں پیش کی جانے والی تجاویز کا جائزہ لینے کے لئے لیگ نے ایک سپیشل کونسل میٹنگ منعقد کی اور لیگ کے رکن نہ ہونے کے باوجود جناح سے درخواست کی گئی کہ وہ اس میٹنگ میں شریک ہوں اور اپنے مشوروں سے نوازیں۔ سر آغا خان اس میٹنگ کے صدر تھے۔ ایک بالکل نئے آئین کا مسودہ تیار کیا گیا اور 22 مارچ 1913ء کو لکھنؤ میں لیگ کے خصوصی اجلاس میں بڑے جوش و خروش سے اس آئین کو اپنا لیا گیا۔ لکھنؤ کی اس میٹنگ میں جناح جو ابھی تک لیگ کے رکن نہ تھے، نے نئے آئین کی شق D کو اپنی خصوصی اور قابل قدر تائید سے نوازا جس کی رو سے کانگریس کے نظریہ ’’تاجِ برطانیہ کے زیر حفاظت ہندوستان کے لئے آئینی ذرائع سے نظامِ انتظامیہ میں مسلسل اصلاحات سے، اتحاد کو فروغ دیتے ہوئے، عوامی جذبے کی نمو کرتے ہوئے اور تمام طبقات کے باہمی تعاون سے ایک خودمختار حکومت کا قیام‘‘ کی تائید ہوتی تھی۔ +1913ء کے سال سے جناح کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ لجسلیٹو کونسل کے رکن کی حیثیت سے وہ تین سال گزار چکے تھے۔ اس سال انہوں نے بڑی کامیابی سے وقف کا بل پیش کیا اور منظور کرایا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک پرائیویٹ رکن کی طرف سے پیش کئے گئے بل کو قانونی حیثیت دی گئی۔ 1913ء میں مسلم لیگ کو نیا آئین ملا اور مسلم لیگ کے مالی معاونوں محمد علی اور سید وزیر حسین نے جناح کو مسلم لیگ میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ 1913ء میں جس روز وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبر بنے، اسی روز انگلستان کے لئے روانہ ہو گئے۔ اپنے احساسِ وقار کے تحفظ کے لئے انہوں نے مسلم لیگ کی رکنیت کے لئے شرط پیش کی کہ مسلم لیگ اور مسلم مفادات کے لئے ان کی وفاداری کو کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی وقت پر اعلیٰ قومی مقصد سے، جس کے لئے وہ اپنی زندگی وقف کر چکے تھے، بے وفائی کے ساتھ مشروط نہیں کیا جائے گا۔ +اپریل 1913ء کے وسط میں جناح، گوکھلے کی معیت میں ایک طویل چھٹی گزارنے کے لئے انگلستان روانہ ہوئے۔ انگلستان پہنچ کر بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھے۔ وہاں انہوں نے لندن انڈین ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی اور ایک ایسے ملک میں جہاں ذاتی کردار اس طرح کی عوامی کامیابی کا ناگزیر حصہ ہوتا ہے، جناح کو برطانوی پارلیمنٹ اور برطانوی عوام کے نمائندوں کے سامنے ہندوستانی نکتہ نظر پیش کرنے کے لئے ترجمان منتخب کیا جانا ان کی ذہنی اور سماجی اہلیتوں کا بہت بڑا اعتراف تھا۔ +انہوں نے ہندوستانی طلبہ پر لگی پابندیوں کے ہٹائے جانے کے لئے جدوجہد کی اور انڈین کونسل کے طریقہ عمل کا مشاہدہ کیا۔ +1915ء میں گوکھلے کی وفات کے بعد جناح ایک مرتبہ پھر سیاست میں متحرک ہوئے۔ 1916ء کے کرسمس ویک میں انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل (اکتوبر میں) میں انہوں نے احمد آباد میں بمبئی صوبائی کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ احمد آباد میں اپنے خطاب میں انہوں نے انتظامیہ کے سامنے ان اصلاحات کی تجاویز پیش کیں جو وہ اپنے صوبے میں کرنا چاہتے تھے۔ اختیارات کی تقسیم اور عدم ارتکاز ان اصلاحات کے مرکزی اجزاء تھے۔ +جناح ہمیشہ سے ہندوستانی سیاست کے دو اہم عناصر، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک حقیقی اور دیرپا افہام و تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے چلے آئے تھے اور دسمبر 1916ء میں وہ ان دونوں جماعتوں، انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے میں کامیاب رہے جب میثاقِ لکھنؤ کے تحت دونوں جماعتوں نے حکومت سے پہلی جنگ عظیم کے بعد ایک جیسی نمائندہ اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ میثاقِ لکھنؤ کا مسودہ جناح نے خود لکھا تھا۔ +جنگ عظیم اول سے پہلے جناح برٹش انڈیا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ممتاز ترین نوجوان لیڈر تھے اور وائسرائے اور آئی سی ایس کابینہ کے نزدیک انہیں خصوصی قدر و منزلت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ جنگ کے بعد بمبئی کے انتہائی قدامت پرست گورنر لارڈ ویلنگٹن کی مخالفت کرنے پر انہیں بمبئی کے نوجوان طبقے میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ +جنگ عظیم اول کے بعد ہندوستان کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہ ہوئی۔ رولٹ ایکٹ کی شکل میں کالے قوانین کی ایک تلوار ہندوستانیوں کے سر پر مسلط کر دی گئی جن کی رو سے جنگ کے زمانے کے مارشل لاء قوانین کو زمانۂ امن میں بھی جاری رکھا گیا۔ جناح وائسرائے کی کونسل کے پہلے رکن تھے جنہوں نے اس ایکٹ کے اجراء پر احتجاجاً یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ حکومت کی ضرورت سے زیادہ پریشان اور نااہل نوکر شاہی ان قوانین کے ذریعے عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ +جناح قانون کا بے حد احترام کرتے تھے لہٰذا انہوں نے گاندھی کی طرح ان قوانین کے خلاف یا اپریل 1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی طرف سے بے قصور عوام کے بے رحمانہ قتل عام کے خلاف احتجاج میں ’’ستیہ گرہ‘‘ جیسی کوئی انقلابی تحریک شروع کرنے کی کوشش نہ کی۔ 1920ء میں ناگپور میں منعقد ہونے والے کانگریس کے اجلاس میں انہوں نے گاندھی کے ایسے فیصلوں کے خلاف دلائل دیئے اور باور کرایا کہ یہ اقدامات مزید تشدد پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہ کریں گے لیکن جوش میں بھرے کانگریسی منطقی باتیں سننے کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے بھاری اکثریت میں جناح کے دلائل کے خلاف ووٹ دیئے اور ان پر آوازے کسے۔ ان کے رویئے سے دلبرداشتہ ہو کر جناح نے کانگریس چھوڑ دی اور انگلستان چلے گئے اور اس طرح کانگریس کی لیڈرشپ بلاشراکت غیرے گاندھی کے حصے میں آ گئی۔ +1915ء میں مسلم لیگ اور کانگریس، دونوں کے سالانہ اجلاس پہلی مرتبہ ایک ہی شہر ، بمبئی میں منعقد کئے گئے۔ کانگریس کے اجلاس کی صدارت ستیندرا پرسنا سنہا کر رہے تھے (جو بعد ازاں رائے پور کے تعلقہ دار بنے اور دارالامراء میں 1919ء کا ایکٹ بڑی کامیابی سے پیش کیا اور پاس کروایا) جناح کی پیش کردہ تجاویز کو اس اجلاس میں بڑی آسانی سے منظور کر لیا گیا لیکن مسلم لیگ کے اجلاس میں مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت بیرسٹر مظہر الحق کر رہے تھے جو بذاتِ خود کانگریس کے ساتھ باہمی تعاون کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحاد پیدا ہونے کی صورت میں ہی حقیقی اور دیرپا قومی ترقی ممکن ہو سکے گی لیکن اردو بولنے والی لابی خصوصی طور پر ایسی کسی بھی ’’قومی ترقی‘‘ کے مخالف تھی۔ لہٰذا جناح کی پیش کردہ تجاویز کو م��ترد کر دیا گیا۔ +جناح تشدد اور لاقانونیت کا راستہ اپنانے کے بجائے آئینی ذرائع اختیار کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ خواہ نصب العین کچھ بھی ہو، وہ قانون کو توڑنے کے بجائے اس کا تحفظ کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت تحریک خلافت اور گاندھی کی سول نافرمانی کی تحریک جناح کے نظریات کے بالکل متضاد راستوں پر عمل پیرا تھیں۔ ناگپور کے اجلاس میں ہونے والا سلوک ان کے لئے آخری تنکا ثابت ہوا اور انہوں نے ہندوستانی سیاست سے لاتعلق ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ +ابتداً انہوں نے دارالعوام میں نشست حاصل کرنے کے لئے برطانوی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد اپنے مسلم دوستوں کی مسلسل درخواستوں اور اپیلوں سے مجبور ہو کر وطن واپس آنے اور بے قائد و رہنما مسلم لیگ کے تن نیم مردہ میں نئی روح پھونکنے پر رضامند ہو گئے۔ انہیں ایک مرتبہ پھر توسیعی قومی اسمبلی کا رکن منتخب کر لیا گیا جس کا پہلا اجلاس جنوری 1924ء میں دہلی میں ہوا۔ +1922ء میں لکھنؤ میں مولانا آزاد، پنڈت موتی لعل نہرو اور دیش بندھو سی آر داس کے زیر قیادت سوراج پارٹی قائم کی گئی جس کے ارکان نے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مختلف قانونی سطحوں پر دستیاب مواقع کو نظرانداز نہ کرنے کا عہد کیا۔ انہی خطوط پر چلتے ہوئے دوسری جماعت نیشنل پارٹی کے نام سے پنڈت مدن موہن مالویہ نے اور تیسری پارٹی جناح نے قائم کی جو کہ ایک مرکزی جماعت کی حیثیت سے ان کی قیادت تلے ایک خودمختار حیثیت رکھتی تھی۔ اسمبلی میں جناح نے ایک خودمختار نکتہ نظر اختیار کیا۔ بعض اوقات ان کا ووٹ آزادی پسندوں کے حق میں ہوتا اور بعض اوقات سوراجیوں کے حق میں۔ جناح اسمبلی میں مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکمرانوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کا ایک عظیم موقع بالآخر سامنے آیا تھا۔ لیڈران کے درمیان ابتدائی ملاقاتوں کے بعد یونائیٹڈ نیشنلسٹ پارٹی قائم کی گئی جو 76 ارکان کی واضح اکثریت پر مشتمل تھی۔ اس کا بنیادی مقصد حکومت کو مفلوج کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ اتحاد زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔ +کانگریس کے ناگپور کے اجلاس میں جناح کے واک آئوٹ سے لے کر 1923ء میں مونٹیگ اصلاحات کے تحت منعقد ہونے والے عام انتخابات کے درمیانی تین سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ حالات میں رونما ہونے والی سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ کانگریس کا اہم ترین حصہ آئینی ذرائع سے احتجاج کرنے کی پالیسی کی طرف پلٹ آیا تھا۔ +صوبوں میں مشترکہ یا جداگانہ انتخابی نظام میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ گذشتہ ناکامیوں کے باوجود جناح مسلسل ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کر رہے تھے۔ 1924ء، 25ء اور 26ء کے اجلاسوں میں جناح نے ہندوستانی آئین میں رونما ہونے والی کسی بھی طرح کی تبدیلیوں کے نتیجے میں مسلمانوں کی پوزیشن کی وضاحت کی۔ ان کی پیش کردہ تجاویز نہایت معتدل اور منصفانہ تھیں۔ کانگریس اور ہندو مہاسبھا کی طرف سے جداگانہ انتخاب کی تجویز کی سخت مخالفت کی گئی۔ لہٰذا 1927ء میں مسلم رہنمائوں نے جناح کی درخواست پر دہلی میں ملاقات کی اور اس شرط پر مشترکہ انتخابات کی تجویز منظور کرنے کی حامی بھر لی کہ سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے علاحدہ کر کے الگ صوبہ بنا دیا جائے۔ دسمبر 1928ء میں جناح نے مسلم لیگ کو آل پارٹیز کانفرنس میں اپنا وفد بھیجنے پر رضامند کر لیا تاکہ مشترکہ انتخابات کی بنیاد پر مسلمانوں کے منصفانہ مطالبے پیش کئے جا سکیں۔ کانگریس کی طرف سے یہ مطالبے رد کر دیے گئے اور مسلم لیگ نے مزید بحث میں حصہ لئے بغیر واپسی کی راہ اختیار کر لی۔ +جناح کو مشترکہ انتخابات کے معاملے میں لیگ کے اندر بھی اختلافی آراء کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اس مسئلے پر مسلم لیگ میں دو گروہ بن گئے جن میں سے ایک کو جناح لیگ اور دوسرے کو شفیع لیگ کا نام دیا گیا۔ جنرل سیکرٹری کے طور پر علامہ اقبال شفیع لیگ کے ساتھ آ گئے۔ دوسرا متنازع فیہ مسئلہ سائمن کمیشن کا تھا۔ چند سالوں بعد دونوں لیگیں جناح کے زیر قیادت پھر متحد ہو گئیں۔ +جناح اپنی بیٹی دینا اور بہن فاطمہ کے ساتھ لندن چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے نہایت کامیابی سے وکالت کی پریکٹس شروع کر دی اور دارالعوام کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے جس میں انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ +1936ء میں مسلم لیگ ابھی تک خوابِ گراں میں مبتلا تھی۔ 1927ء میں اس کے ارکان کی تعداد صرف 1330 تھی اور 1933ء میں بھی اس کی سرگرمیاں اس قدر محدود تھیں کہ جماعت کا سالانہ خرچہ تین ہزار روپے سے متجاوز نہ ہو پاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس سے وابستہ اور غیروابستہ افراد کو کسی معاملے کی کوئی پروا نہیں رہی۔ کونسل کے اجلاس کا کورم پورا کرنے کے لئے 310 ارکان میں سے صرف 10 کی موجودی کافی سمجھی جاتی تھی کیونکہ اس سے زیادہ ارکان کو شرکت پر آمادہ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا تھا۔ ’’فیاضانہ ‘‘ کمیونل ایوارڈ نے مسلم مفادات کے لئے کسی طرح کے مطالبے کی کسر بھی کم ہی چھوڑی تھی۔ دیگر مسلم جماعتیں مثلاً مجلس احرار وغیرہ جن کے پاس زیادہ انقلابی نوعیت کے معاشی پروگرام تھے، زیادہ تر اثر و رسوخ شمالی ہندوستان خصوصاً بہار میں رکھتی تھیں۔ لیگ کے باقیماندہ لیڈران کو اچھی طرح احساس ہو چکا تھا کہ اس جماعت کی بقاء اب صرف جناح کو انگلستان سے واپس لانے اور جماعت ان کے حوالے کر دینے سے ہی ممکن ہے۔ یکم اور 2 اپریل 1934ء کو لیگ کونسل کے کم و بیش چالیس ارکان نے بڑی گرمجوشی سے اس تجویز کو منظور کر لیا اور جناح سے درخواست کی کہ وہ آئندہ اجلاس کے لئے تاریخ، جگہ اور ایجنڈے کا تعین کر دیں۔ 23 اپریل کو جناح لندن واپس لوٹ گئے جہاں ان کی پریکٹس انہیں سالانہ دو ہزار پائونڈ سے زیادہ کی آمدن دے رہی تھی۔ دسمبر میں وہ بمبئی واپس لوٹ آئے لیکن لیگ کی ازسرنو تنظیم کا کام انہوں نے اکتوبر 1935ء سے پہلے شروع نہ کیا۔ اپریل 1936ء میں بالآخر بمبئی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا اور جناح کو تاحیات اس کا صدر قرار دے دیا گیا۔ +یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ کا وجود جناح کے وجود کے ہی مرہونِ منت تھا۔ یہ جماعت ان کے ساتھ ہی زندہ رہی اور پاکستان جیسا وسیع و عریض ورثہ چھوڑنے کے باوجود ان کے ساتھ ہی مر گئی۔ اب مسلم لیگ کے فیصلے جناح کی نموپذیر خواہشات کی عکاسی کرتے تھے۔ جس منطق، قوتِ ارادی اور مستقل مزاجی کے لئے جناح کو شہرت ملی، اب وہ ان کی سیاست کے واحد عناصر نہ رہے تھے۔ اس میں گاندھی اور اس کے نہرو اور ابوالکلام آزاد جیسے چیلوں کے خلاف، جو انہیں عوام کا نمائندہ ماننے سے مسلسل انکار کرتے رہے تھے، ایک خاموش، سرد لیکن بے حد گھمبیر غصے کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔ جناح نے اپنے لئے نئے سیاسی شاگردوں کا انتخاب کیا۔ بنگال کے حسین شہید سہروردی، متحدہ صوبوں کے لیاقت علی خان، بمبئی کے اسماعیل ابراہیم چندریگر، کلکتہ کے صنعت کار مرزا ابوالحسین اصفہانی، محمود آباد کے نئے راجہ امیر احمد خان۔ +3 جنوری 1937ء کو کلکتہ میں ایک عوامی اجلاس میں جناح نے ملک میں ایک تیسری جماعت کی موجودی کا دعویٰ کیا اور کہا کہ انگریز اور ہندو کے علاوہ ہندوستان کے مسئلے کا ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ ہے مسلمان۔ +جناح کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے 34 ارکان میں سے 11 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ صرف دو ان میں سے ایسے تھے جو 1937ء کے انتخابات میں قائداعظم کی نمائندگی کرنے پر آمادہ ہوئے اور ان میں سے ایک جلد ہی یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا۔ جناح یہ قسم کھا کر پنجاب سے روانہ ہوئے کہ میں اب دوبارہ کبھی پنجاب نہیں آئوں گا۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ عظیم حسین نے فضل الحسین کی سوانح عمری میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ +سائمن کمیشن آیا اور عوامی احتجاج اور ایجی ٹیشن کی ایک لہر پیدا کر کے گزر گیا۔ مسٹر گاندھی اور کانگریس نے حکومت کو مفلوج کرنے کے لئے دوسری مرتبہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ ہندو اور مسلم ایک دفعہ پھر حکومت برطانیہ کے خلاف نفرت کے مشترکہ جذبات کے زیراثر متحد ہو گئے۔ گولیاں چلیں، لاٹھی چارج ہوئے، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئیں اور بہت سے ہندو اور مسلمان لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ +حکومت برطانیہ کو ہندوستانیوں کے جذبات کی گہرائی کا اندازہ ہونے لگا اور انہوں نے لندن میں تمام پارٹیوں کی گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ ہندوستان کے لئے نیا آئین بنایا جا سکے۔ گاندھی اور کانگریس نے پہلی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا لیکن لارڈ ارون کے ساتھ معاہدہ ہو جانے پر گاندھی کانگریس کے واحد نمائندے کی حیثیت سے دوسری کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن چلے گئے۔ +صوبائی خودمختاری کے حصول سے قبل کے مشکل دور میں جناح نے مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کر کے نئی بنیادوں پر استوار کیا۔ مسلم لیگ سال میں ایک دفعہ ملنے اور مسلمانوں کی حالت زار پر شور و غوغا بلند کرنے والے ’’آرگن ‘‘ کے بجائے ایک عوامی جماعت بن گئی جس کے پاس ایک پالیسی بھی تھی اور ایک پروگرام بھی۔ جناح نے لندن میں شیکسپئر کے ڈراموں میں اداکاری کے ذریعے جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے اپنے سیاسی کیریئر میں عوام کی توجہ حاصل کرنے اور ان میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں بڑی خوبی سے استعمال کیا۔ نشریاتی تقریریں کرنے میں ان کا طریقۂ کار بڑی حد تک چرچل سے ملتا جلتا تھا۔ چرچل کی طرح وہ بھی اپنی ریڈیائی تقریروں میں مسلمانوں کو جدوجہد آزادی کے لئے آمادہ و بیدار کرنے کے لئے الفاظ پر زور دیا کرتے تھے۔ ان کا انداز سنجیدہ مگر مؤثر ہوتا تھا۔ ان کے خطاب کی تاثیر کا راز الفاظ و تراکیب کے موزوں و مناسب انتخاب اور استعمال میں پوشیدہ تھا۔ ان کی تقاریر ڈرامائی وقفوں اور آواز کے اتار چڑھائو سے بھرپور ہوتی تھی۔ +گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت 1937ء میں پورے برٹش انڈیا میں انتخابات کا انعقاد کروایا گیا اور جواہر لعل نہرو کی زبردست انتخابی مہم کے نتیجے میں زیادہ تر صوبوں میں کانگریس واضح اکثریت سے جیت گئی۔ مسلم لیگ جسے مختلف صوبوں میں علاقائی مسلم جماعتوں کی مسابقت کا بھی سامنا تھا، کسی بھی صوبے میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور کانگریس کی 716 نشستوں کے مقابلے میں صرف 109 نشستیں اس کے حصے میں آئیں۔ اپنی کامیابی کے نتیجے میں نہرو نے دوبارہ اس امر پر زور دینا شروع کر دیا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہی موجود ہیں، کانگریس اور برطانیہ، باقی سب کو چاہئے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو جائیں۔ صرف قائداعظم تھے جنہوں نے کھلے لفظوں میں اعلان کیا کہ مسلم لیگ ہندوستان کی تیسری قوت ہے۔ +کانگریس نے متکبرانہ انداز میں قائداعظم کی طرف سے مخلوط وزارتیں بنانے کی تجویز مسترد کر دی۔ کٹھ پتلی مسلمانوں کو وزیر کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ مختصر سے عرصے میں کانگریس پر ہندو عناصر کا غلبہ ہو گیا۔ +1940ء میں لاہور کے شالامار باغ میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے ایک لاکھ پُرجوش پیروکاروں کے سامنے ببانگ دہل اعلان کیا۔ ’’مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔ ہندوستان کا مسئلہ محض داخلی نہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے اور اسے اسی حیثیت سے حل کیا جانا چاہئے۔‘‘ اس سے اگلے روز 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی جس میں واضح الفاظ میں اعلان کر دیا گیا کہ حکومت برطانیہ کا کوئی آئندہ آئینی منصوبہ اس وقت تک قابل عمل یا مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگا جب تک کہ اس میں ہندوستان کے شمال مشرقی اور مشرقی حصوں میں واقع مسلم اکثریتی علاقوں کو علیحدہ خودمختار ریاست کی حیثیت نہ دے دی جائے۔ لاہور کا مینارِ پاکستان آج بھی اس قرار داد کی پختگی اور استحکام کا اعلان کر رہا ہے۔ +قرارداد میں لفظ ’’پاکستان‘‘ کا ذکر نہیں کیا گیا تھا اور یہ سمجھنے کے لئے ٹھوس وجوہات موجود ہیں کہ بنگال کے فضل الحق کے زیر سربراہی قرار داد کا مسودہ لکھنے والی کمیٹی کے سامنے دو آزاد ریاستوں کا تصور تھا، پاکستان مغرب میں اور 1971ء کے بعد بنگلہ دیش کا نام اختیار کرنے والی ریاست مشرق میں۔ لیکن جب صحافیوں نے جناح سے سوال کیا کہ ان کے ذہن میں ایک ریاست کا تصور ہے یا دو ریاستوں کا تو انہوں بڑے پختہ لہجے میں جواب دیا۔ ’’ایک۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ اگلے روز تمام اخبارات کی شہ سرخیوں میں اس قرار داد کو ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کے نام سے پکارا گیا۔ +کانگریس کے زیادہ تر لیڈروں اور کئی برطانوی عہدیداروں کا خیال تھا کہ جناح محض وائسرائے کی سنٹرل کونسل میں زیادہ قوت حاصل کرنے یا ہر صوبائی کابینہ میں مسلم لیگ کے ارکان کے لئے علیحدہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال، جناح نے اپنے مطالبوں میں کسی طرح کی ترمیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ کونسل کے لئے منتخب کئے جانے والے سارے مسلمان ارکان ان کی جماعت کے نامزد کردہ ہوں، اس طرح کانگریس کے مولانا آزاد جیسے قوم پرست مسلمانوں کو اس زمرے سے خارج کر دیا۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کو انگریزوں کے جانے کے بعد پاکستان کے نام سے علیحدہ مملکت کا روپ دے دیا جائے۔ +جنگ عظیم دوم کے اختتام کے بعد، ایٹلی کے زیر سربراہی لیبر پارٹی کی حکومت نے ہندوستان میں کابینہ مشن بھیجا جنہوں نے ایک سہ جہتی وفاقی منصوبہ پیش کیا جس کی رُو سے شمال مشرق اور شمال مغرب کے صوبوں کی خودمختاری کی صورت میں پاکستان ہر اعتبار سے حاصل ہو جاتا، سوائے نام کے اور پھر اس کشت و خون کا ظہور بھی نہ ہوتا جو تقسیم کے موقع پر ہوا۔ جناح جن کے پھیپھڑے تیزی سے جواب دیتے جا رہے تھے، ایک ہچکچاہٹ کے عالم میں رضامند ہو گیا اور کانگریس نے بھی آمادگی ظاہر کر دی۔ +جولائی 1946ء میں نہرو نے، جنگ کے دوران جیل میں گزرنے والے سالوں کے درمیان کانگریس کی جو صدارت چھوڑ دی، دوبارہ حاصل کر لی اور اپنے پہلے انٹرویو میں پریس کو اطلاع دی کہ ہندوستان کی آئندہ منتخب اسمبلی ایک آزاد اور مکمل طور پر خودمختار ادارہ ہوگی اور اس میں کسی مشن کا بنایا ہوا ’’صوبائی اتحادوں‘‘ کا کوئی فا��مولا شامل نہ ہوگا۔ +نہرو کے اس بیان کے جواب میں قائداعظم نے نہایت سخت لہجے میں ’’آئین اور آئینی طریقوں کو خداحافظ‘‘ کہہ دیا۔ اگست کے وسط میں قائداعظم نے مسلم قوم سے راست اقدام کرنے کی درخواست کی۔ کلکتہ میں ایک سال طویل خونریز خانہ جنگی شروع ہو گئی، جلد ہی اس آگ کے شعلے بہار اور بنگال سے ہوتے ہوئے پنجاب اور سرحد تک پہنچنے لگے۔ 14 اگست 1947ء کے بعد برطانوی راج کے آخری سپاہی کی یہاں سے روانگی کے بعد بھی ایک عرصے تک پورے جنوبی ایشیا میں خون کی ندیاں بہتی رہیں۔ +جب اپریل 1947ء میں مائونٹ بیٹن کی ملاقات گاندھی سے ہوئی تو مائونٹ بیٹن نے پوچھا کہ امن عامہ کی بحالی کے لئے کیا اقدام کیا جا سکتا ہے، اس پر گاندھی نے اسے پُرزور مشورہ دیا کہ محمد علی جناح کو وزیراعظم مقرر کر دیا جائے۔ (یہ عہدہ اس وقت نہرو کے پاس تھا)۔ بدقسمتی سے وائسرائے نے کبھی محمد علی جناح کو ایسی پیشکش نہ کی اور نہرو کی بات مان لی جس کا کہنا تھا کہ بیچارہ گاندھی دہلی سے اتنا عرصہ دور رہنے کے بعد ملکی معاملات سے اس قدر الگ تھگ ہو گیا ہے کہ اب اس کی بات کو سنجیدگی سے لینا ممکن نہیں رہا۔ +کرشن مینن اور نہرو کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے مائونٹ بیٹن نے ملک تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مائونٹ بیٹن نے نہرو کو بڑی آسانی سے اس بات پر رضامند کر لیا کہ وہ اسے اور اس کی بیوی کو کچھ عرصہ مزید ریاست ہندوستان میں گورنر جنرل کی حیثیت سے ٹھہرنے کی پیشکش کرے، البتہ قائداعظم سے بھی ایسی ہی پیشکش کے لئے کہنے اور آمادہ کرنے کی پوری کوشش کرنے کے باوجود ان سے ہاں کہلوانے میں ناکام رہا۔ اس کے بجائے جناح نے خود گورنر جنرل بن کر مائونٹ بیٹن کے برابر کا عہدہ سنبھالنے کا راستہ چنا۔ پاکستان کے بانی کے لئے یہ اعزاز اس کی شان کے شایان تھا لیکن قائداعظم اس اعزاز سے اپنی زندگی کے آخری تکلیف بھرے سال تک ہی لطف اندوز ہو سکے۔ +بھٹو 1978ء میں سزائے موت کی کوٹھری سے بے نظیر کے نام لکھے جانے والے خط میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک وقت میں قائداعظم کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بعد ازاں ہندو کے تنگ نظری پر مبنی قوم پرستانہ نکتہ نظر سے سابقہ پڑنے کے بعد جس کی بنیاد سیاست اور معیشت میں ہندوئوں کے غلبے پر رکھی گئی تھی، قائداعظم نے غیرمعمولی عزم کے ساتھ اپنی توجہ علامہ اقبال کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کی طرف مبذول کر دی۔ پاکستان کی تعمیر کے خلاف ہونے والی مزاحمت پہاڑ کی ناقابل تسخیر چوٹی کی طرح تھی۔ مزاحمت انڈین کانگریس کی طرف سے ہوئی، قوم پرست مسلمانوں کی طرف سے ہوئی جن میں مودودی اور اس کی جماعت اسلامی بھی شامل تھے۔ گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ مادرِ ہندوستان کے ٹکڑے کبھی نہیں ہونے دے گا۔ مسلم اکثریت کے صوبوں میں، مزاحمت پنجاب کے وزیراعلیٰ خضر حیات ٹوانہ اور مفاد پرست لیڈروں کی طرف سے ہوئی۔ بنگال میں یہ مزاحمت شیربنگال فضل الحق کی سیماب صفت سیاست کی طرف سے ہوئی۔ (مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاست بہت سے شیر پیدا کر دیتی ہے لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو یہ شیر، بلیاں ثابت ہوتے ہیں)۔ سندھ میں مخالفتی دستے کی سرکردگی اللہ بخش کر رہے تھے لیکن 1943ء میں انہیں قتل کر دیا گیا اور جی ایم سید نے ان کی چھوڑی ہوئی جگہ سنبھال لی۔ سرحد میں مخالفوں کے سرغنہ، سرحدی گاندھی، عبدالغفار خان تھے اور یہاں مخالفت اتنی شدید تھی کہ سرحد کی مستقبل کی وابستگی کا تعین کرنے کے لئے یہاں ریفرنڈم کروانا پڑا۔ بلوچستان کے زیادہ تر بااثر سردار پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ وابستگی کا فیصلہ کرنے کے لئے شاہی جرگے کا انعقاد کیا گیا۔ ریاست جموں و کشمیر میں اس معاملے کو بہت زیادہ ہوم ورک کی ضرورت پڑی کیونکہ شیخ محمد عبداللہ دو قومی نظریئے کے خلاف تھے۔ +’’پھر پاکستان کیسے معرضِ وجود میں آ گیا؟ عوام پاکستان چاہتے تھے۔ مسلم عوام قائداعظم کے پیچھے جمع ہو گئے، اپنے روایتی لیڈروں کو چھوڑ دیا اور خون میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں سے پاکستان حاصل کیا۔ انڈین کانگریس کی معاندانہ پالیسیاں اور حکومت برطانیہ کا منفی رویہ ان کے حوصلے کو مزید بلند کرنے کا باعث بنے۔ یہ مسلم عوام کے جذبے اور عزم کی فتح تھی جن کی قیادت ایک ناقابل شکست لیڈر (قائداعظم) کر رہا تھا۔‘‘ +قدیم دنیا کا سب سے مشہور فاتح سکندرِاعظم تاریخ کے غیرمعمولی ترین افراد میں سے ایک تھا۔ وہ مقدونیہ (یونان) کے دارالحکومت پیلا میں 356 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ، فلپ دوم، شاہِ مقدونیہ، ممتاز قابلیت اور غیرمعمولی دانش کا حامل انسان تھا۔ فلپ نے مقدونیہ کی فوج کو وسعت دی اور ازسرنو منظم کر کے ایک اعلیٰ ترین حربی قوت بنا دیا۔ پہلے اس نے اپنی فوج کو یونان کے شمال میں موجود علاقے فتح کرنے کے لئے استعمال کیا، پھر جنوب کی طرف مڑا اور یونان کا زیادہ تر حصہ بھی فتح کر لیا۔ اس کے بعد اس نے یونان کی شہری ریاستوں ایک وفاق تشکیل دیا اور خود اس کا حکمران بنا۔ وہ وسیع ایرانی سلطنت پر حملہ آور ہونے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ 336 قبل مسیح میں، جب اس کی عمر صرف 46 سال تھی، اسے قتل کر دیا گیا، اور محض 20 سال کی عمر میں، کسی دشواری کے بغیر، سکندر مقدونیہ کے تخت پر براجمان ہو گیا۔ +سکندر نے ایک ایسی سلطنت تشکیل دی جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ اس وقت کی زیادہ تر معلوم دنیا اس کے زیر نگیں ہوئی اور 30 سال کی چھوٹی سی عمر میں وہ ایک زبردست لیڈر بن کر سامنے آیا۔ اسے قدیم دنیا کا ’’سپرمین‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ کہنے والے اسے غیرمعمولی دانش رکھنے والا سیاستدان بھی کہتے ہیں اور ایک جابر حکمران بھی قرار دیتے ہیں۔ فلپ نے اپنے بیٹے کی تربیت بڑی احتیاط اور بڑی کامیابی سے کی۔ سکندر غیرمعمولی اہلیت کے حامل فوجی سالار کے طور پر سامنے آیا، شاید تاریخ کا سب سے عظیم جرنیل۔ وہ ایک بے حد حوصلہ مند شخص بھی تھا۔ +قدیم تاریخ میں، میری رائے میں اور بہت سے دوسرے لوگوں کی رائے میں بھی، ایسی لیڈرشپ تشکیل دینے میں سکندرِ اعظم ایک ولولہ خیز، موزوں ترین اور دلچسپ مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ سکندر کی زندگی تاریخ میں ایک موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے نہ صرف ایک عظیم سلطنت قائم کی بلکہ ایک عظیم ثقافت بھی تخلیق کی۔ بہرحال، میری گفتگو کا محور اس کی لیڈرشپ تک محدود رہے گا۔ +پہلی نظر میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ سکندر کا باپ فلپ، شاہِ مقدونیہ، سکندر کے بچپن سے ہی اپنے ولی عہد کی حیثیت سے اس کی تربیت کرنے پر خصوصی توجہ دینے لگا تھا۔ لیکن سکندر کی ماں کی توجہ اس سے زیادہ خصوصی تھی۔ سکندر خوش قسمت تھا کہ اولمپیاس جیسی خاتون اس کی ماں تھی۔ سکندر کی ماں، اولمپیاس، البانیہ کے سرحد پر واقع ایک پہاڑی ریاست ایپیرس کی شہزادی تھی۔ ایک آفاقی حکمران کی حیثیت سے سکندر کی تربیت میں اس نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک تاریخی دور تھا جب قدیم تاریخ کے دانشمند ترین افراد یونان میں پیدا ہو رہے تھے۔ دانشور، فلسفی، خطیب، سائنس دان، ماہرین ریاضیات، ماہرین تعلیم وغیرہ۔ اس دور کے افراد آج بھی مشرق و مغرب کے تحق��قی اور تعلیمی شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ان میں سقراط، افلاطون، ارسطو، فیثاغورث، انیکسا غورث، ارشمیدس اور اسی مرتبے کے اور بہت سے افراد شامل تھے۔ +سکندر کی ماں ملکہ اولمپیاس نے شہر ایتھنز کے نو بہترین دانشوروں کو اپنے بیٹے کے اتالیق کے طور پر منتخب کیا۔ یہ سب علم کے مختلف میدانوں کے شہسوار تھے۔ ان میں ملکہ کے ایک عزیز لانیڈس کو بھی شامل کر لیجئے۔ لانیڈس بہترین شخصی نظم و ضبط کا حامل تھا۔ سکندر کے معاملے میں وہ خاصا سخت گیر تھا۔ بہت سی باتوں پر سکندر کو اس کی سرزنش کا نشانہ بننا پڑتا۔ سکندر کا ذاتی ساز و سامان اس کی نگرانی میں رہتا تھا۔ وہ نہ صرف یہ کہ سکندر کو رنگ برنگ شاہی لباس نہ پہننے دیتا بلکہ طرح طرح کے لذیذ اور مرغن کھانے کھانے کی اجازت بھی نہ دیتا۔ سکندر کی روز کی سرگرمیاں اس کی ماں خود ترتیب دیا کرتی تھی۔ بیٹے کی تربیت کا شیڈول اس نے خود تیار کیا جس کی پابندی تمام متعلقہ افراد پر لازم تھی۔ اس کے مطابق لانیڈس سکندر کو طلوعِ صبح سے پہلے بیدار کر دیتا اور ایک غلام کے ساتھ اس کی دوڑ لگواتا۔ محل واپس آنے سے پہلے سکندر مذہبی رسومات میں شریک ہوتا، اس کے بعد اسے ناشتہ ملتا۔ اسے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا گوشت، ہڈیاں اور شوربہ وغیرہ کھانے کو دیا جاتا تاکہ اس کا جسم مضبوط ہو۔ +’’میزا‘‘ دراصل یونان کے عظیم دانشور ارسطو کی اکیڈمی تھی۔ سکندر کو یہاں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ خطابت، فلسفہ اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کرے جو کہ انتظامِ حکومت کی تدریس کے روایتی حصے تھے۔ (ارسطو بذاتِ خود یونانی نہیں تھا بلکہ افلاطون سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہاں آیا تھا)۔ بادشاہ کا مقصد تھا کہ سکندر کو یہاں مستقبل میں مقدونیہ یا یونانی وفاق کی بادشاہت کے لئے تیار کیا جائے۔ لیکن ملکہ کا ہدف یہ نہیں تھا۔ ارسطو سے سکندر کو تعلیم دلوانا تو اس کی بھی خواہش تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتی تھی کہ سکندر کو سیاسیات کی سائنس کی تعلیم دی جائے اور اسے وہ تمام علوم سکھائے جائیں جو کہ وسیع و عریض اور متنوع مقاصد و اہداف کی حامل سلطنت پر حکمرانی کے لئے ضروری ہیں۔ اس نے یہاں بھی سکندر کے پیچھے اپنے مخبر بھیج دیے تاکہ پتہ چلتا رہے کہ سکندر کی تعلیم و تربیت اس کی خواہشات کے مطابق ہو رہی ہے یا نہیں۔ +جغرافیہ کا علم یونانیوں کی ایجاد ہے۔ ابتدائی نقشہ جات انہوں نے ہی تیار کئے تھے (چھٹی صدی قبل مسیح میں) اور نقشہ سازی ان کے جہاز رانوں کی سیاحتوں اور جائزوں کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ نقشہ سازی میں سکندر کو بھی خصوصی دلچسپی تھی اور اپنے بنائے ہوئے نقشوں کو درست حالت میں رکھنے کے لئے وہ دنیا کے مختلف حصوں کو آنے جانے والے تمام راستوں کا علم رکھنا ضروری سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر بہت سے فاتحین کے برعکس جو ہندوستان میں درئہ خیبر کے راستے داخل ہوئے، سکندر واحد فاتح تھا جس نے اپنی زیادہ تر فوجیں درئہ خیبر کی طرف بھیجیں اور خود درئہ ہندوکش کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا۔ مختلف دریائوں کی گزرگاہوں اور ڈیلٹائوں کے متعلق جاننے کا اسے شوق تھا اور وہ سمندروں کی وسعت کے متعلق حتمی معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ +تربیت کے دوران سکندر کو سٹائی نامی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی جس کے ساتھ اس کی راستے میں ملاقات ہوئی تھی۔ ملکہ کو اس کا پتہ چلا تو وہ برافروختہ ہو گئی اور اس نے اپنے آدمیوں کے ذریعے لڑکی کو ایسے خفیہ طریقے سے اغوا کروایا کہ سکندر کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ اس وقت سکندر کی عمر سترہ سال تھی۔ محبوبہ کی جدائی سے دلبرداشتہ ہو کر تعلیم میں اس کی دلچسپی کم ہونے لگی۔ اس وقت تک میزا میں اس کی تعلیم و تربیت کا دورانیہ تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔ اس کے باپ نے اس کی عملی تربیت کرنے کے نکتہ نظر سے اسے واپس بلوا کر ہیلاس پورٹ (موجودہ ڈارانیلس) بھیج دیا جہاں اس کی عملی فوجی تربیت کی جانی تھی۔ +میدانِ عمل میں سکندر تین چیزوں کے ساتھ داخل ہوا۔ ایک خنجر، اس کا پالتو گھوڑا اور قدیم یونانی شاعر ہومر کی کتاب جو اس کے اتالیق ارسطو نے اسے پیش کی تھی۔ اب وہ وقت شروع ہوا جب اس نے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے اپنی تربیت خود کرنے کے عمل کا آغاز کیا۔ اسے فوج کے کچھ حصے کی کمان دے دی گئی اور مستقبل کے سپہ سالار کی حیثیت سے اس کی تربیت شروع ہو گئی۔ جب وہ بادشاہت کی تربیت حاصل کرنے کے عمل میں داخل ہوا تو ذہنی و جسمانی اعتبار سے پوری طرح تیار ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ وقت آ پہنچا ہے کہ جب اسے اپنی زندگی کا آغاز کر دینا چاہئے۔ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں اس کے سب سے بڑے ہتھیار اس کا حوصلہ، علم اور دانش تھے۔ وہ نہایت بہادر اور سخت محنت و مشقت کا عادی تھا۔ +سکندر کو شاید تاریخ کی سب سے ڈرامائی شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ اس کی زندگی اور اس کی شخصیت روزِ اول سے دلچسپی اور کشش کا محور رہی ہے۔ اس کی زندگی کے حقیقی واقعات بھی اپنی نوعیت میں نہایت متاثر کن ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ اس کے متعلق بہت سی اسطوری روایات بھی مشہور ہو چکی ہیں۔ وہ تاریخ کا سب سے عظیم جنگجو بننے کا عزم کر چکا تھا اور وہ اس اعزاز کا مستحق بھی نظر آتا ہے۔ ایک انفرادی جنگجو کے طور پر اس کی کارکردگی ہمت اور مہارت کا دلکش امتزاج تھی۔ اپنی زندگی میں اسے کبھی کسی ایک لڑائی میں بھی شکست نہیں ہوئی۔ +اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا بھی مالک تھا۔ مسلسل محنت کرنا اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔ مناسب تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال نے اس کی صلاحیتوں کی نمو کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ارسطو جیسا شخص اس کا اتالیق تھا جس نے اسے ایک عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار کیا۔ ایک دفعہ جب ارسطو کو پتہ چلا کہ سکندر ایک عورت کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے تو اس نے بڑی سختی سے اسے روک دیا۔ سکندر کو اس کا حکم ماننا پڑا کیونکہ ارسطو جیسے اتالیق کو ناراض کر کے وہ اپنی تعلیم سے ہاتھ دھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ +جب سکندر نے اس عورت سے ملنا جلنا ترک کر دیا تو وہ حیران ہوئی۔ تفتیش کرنے پر اسے سکندر کے استاد کے حکم کا پتہ چلا۔ اس سے اگلے روز یہ پیغام بھیج کر اس نے سکندر کو براہِ راست اپنے کمرے میں بلوا لیا کہ وہ اسے ایک بڑی اہم چیز دکھانا چاہتی ہے۔ مقررہ وقت پر جب سکندر وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ عورت کسی مرد کو گھوڑا بنائے ہوئے اس کی کمر پر سوار ہے۔ وہ مرد اس کا استاد ارسطو تھا اور وہ عورت اس کی کمر پر سواری کر رہی تھی۔ +سکندر کو دیکھ کر ارسطو بالکل پریشان نہ ہوا۔ اس نے سکندر سے صرف اتنا کہا کہ اگر ایسی عورت ارسطو جیسے بوڑھے کو یہ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے تو سکندر جیسے نوجوان کو وہ کیا کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی! اس نے سکندر کو خبردار کیا کہ اس کا سفر طویل ہے اور اسے ایسی رکاوٹوں سے بچ کر چلنا چاہئے۔ اس طرح سکندر بگڑنے سے محفوظ اور زندگی میں آگے بڑھنے میں کامیاب رہا۔ +سکندر بھی اس یونانی مفروضے کا قائل تھا کہ ساری تہذیب مشرق سے مغرب تک ��ہنچی اور ابتداً ایشیا مختلف میدانوں میں اعلیٰ معیارات کا مرکز تھا۔ مصر کی فتح کے دوران بھی سکندر نے بہت سا علم حاصل کیا کیونکہ وہ ہمیشہ تحصیل علم کا متمنی رہتا تھا۔ وہ ارسطو کا شاگرد تھا جسے سقراط نے تعلیم دی تھی۔ لہٰذا سکندر بھی سقراط کے اس نظریئے پر یقین رکھتا تھا کہ ایک فلسفی کو بادشاہ ہونا چاہئے یا بادشاہ کو فلسفی ہونا چاہئے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام عمر اس کی دلچسپیوں کا محور حصولِ علم ہی رہا۔ وہ حقیقی معنوں میں سقراط کے نظریات کا فلسفی تھا اور اس اعتبار سے حکومت کرنے کا حق رکھتا تھا۔ تاہم ارسطو نے سکندر کو مشورہ دیا کہ وہ یونانیوں کا سیاسی لیڈر بنا رہے اور انہیں ایک دوست کی حیثیت دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ وہ غیرمتمدن قبیلوں تک تہذیب کی روشنی پہنچانے کے لئے مشعل بردار کا کردار ادا کرے۔ سکندر نے اپنے اتالیق کے مشوروں پر دل و جان سے عمل کیا۔ +ایتھنز میں سکندر نے ایریوپگاس نامی تاریخی مقام کا دورہ کیا جو کہ ایک قدیم دربار تھا اور جہاں بہت سے تاریخی واقعات پیش آئے اور فیصلے کئے گئے تھے۔ یونانی تاریخ میں یہ جگہ ایک منفرد مقام کی حامل تھی۔ وہاں اس کی ملاقات قدیم تاریخ کے عظیم ڈرامہ نگاروں سے ہوئی۔ درحقیقت شاہ فلپ ایتھنز کو فتح کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے بجائے سکندر کے زیرسربراہی اس نے ایک خیرسگالی وفد بھیج دیا۔ سکندر نے یہاں آ کر بہت کچھ سیکھا۔ اس کی ملاقات سوپوکلنگ، پارٹاناس اور امپیڈوکلپس جیسے بڑے ڈرامہ نگاروں سے ہوئی۔ سکندر ہی تھا جس نے اپنے باپ کو ’’متحدہ یونان‘‘ کی تنظیم بنانے کی تجویز دی جس پر عمل کرتے ہوئے فلپ کے زیرقیادت یونانی ریاستوں کا وفاق تشکیل دیا گیا۔ +سکندر نے سیاسی تعلیم اور خطابت میں مہارتِ تامہ رکھنے والے سوفسطائیوں سے ملاقات کی تاکہ ان سے کچھ سیکھ سکے۔ وہ اپنے وقت کے بڑے بڑے دانشوروں اور فلسفیوں سے ملا۔ ان میں دیوجانس بھی شامل تھا جو سکندر کی شان و شوکت سے ذرہ برابر متاثر نہ ہوا۔ +سکندر کی کامیابی کا سب سے اہم نتیجہ یونانی اور مشرقِ وسطیٰ کی تہذیبوں کا باہم ملاپ تھا جس نے دونوں تہذیبوں اور ثقافتوں کو پہلے سے زیادہ متنوع اور بھرپور بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ سکندر کی زندگی کے دوران اور اس کے فوراً بعد یونانی ثقافت ایران، میسوپوٹیمیا، شام، جوڈیا اور مصر میں پھیل گئی۔ سکندر یونانی اثرات کو ہندوستان اور وسطی ایشیا تک لے گیا۔ لیکن ثقافتی اثرات کا معاملہ یک طرفہ ہرگز نہ تھا۔ سکندر کی موت کے فوراً بعد شروع ہونے والے ہیلنستانی دور میں مشرقی خیالات، خصوصاً مذہبی عقائد و نظریات یونانی دنیا میں پھیل گئے۔ ہیلنستانی ثقافت نے، جو اصلاً یونانی ہونے کے باوجود مشرقی عقائد و روایات کا گہرا اثر لئے ہوئے تھی، بعد ازاں روم کو بھی متاثر کیا۔ +زیادہ تر مؤرخین نے سکندر کی عظیم فتوحات اور کامیابیوں کی بنیادی وجوہات میں دو کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا ہے۔ اول، وہ بنیادی طور پر ایک بہادر اور بے خوف شخص تھا۔ دوم، علم کے لئے اس میں فطری تشنگی اور طلب موجود تھی جو تمام عمر برقرار رہی۔ وہ ایک دانشور اور ایک فلسفی بادشاہ تھا جس کے سر پر غیرمعمولی حوصلہ مندی اور دلیری کا تاج تھا۔ ہر جنگ میں فیصلہ کن حملے کی کمان وہ خود کیا کرتا تھا۔ یہ ایک نہایت پُرخطر کام تھا اور ایسے حملوں کے دوران وہ کئی مرتبہ زخمی بھی ہوا۔ لیکن اس کے فوجی دستے سکندر کو اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دیکھتے اور انہیں پتہ چلتا کہ سکندر نے انہیں کوئی ایسا کام کرنے کے لئے نہیں کہا، جو وہ خود نہیں کرنا چاہتا۔ اس طرح ان کا مورال آسمان کو چھونے لگتا۔ +سکندر اپنے اتالیق ارسطو کے لئے محبت اور احترام کے گہرے جذبات رکھتا تھا اور علم حاصل کرنے کی راہ میں ہمیشہ اس کی نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا رہا۔ تعلیمی زمانے میں، ایک روز وہ ارسطو کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ ان کا گزر ایک خطرناک پہاڑی ندی پر سے ہوا۔ سکندر نے پہلے خود اس ندی کو عبور کیا اور اس کے بعد ارسطو کے گزرنے کا راستہ بنایا۔ بعد ازاں جب ارسطو نے پوچھا کہ اس نے پہلے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالی تو سکندر نے جواب دیا۔ ’’اگر ارسطو زندہ رہے تو وہ سینکڑوں سکندر اور بنا دے گا لیکن ہزاروں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو نہیں بنا سکتے۔‘‘ +334 قبل مسیح میں سکندر ایشیائے کوچک میں داخل ہوا۔ 333 قبل مسیح میں اس نے ایران کے حکمران شاہ دارا سوم کو شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ بعد ازاں دونوں میں دوبارہ جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں دارا ایک دفعہ پھر اپنی فوجیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ طائر اور غزہ کو فتح کرنے کے بعد سکندر نے مصر کا رخ کیا۔ مصر اس دور میں ایران کے زیر نگیں تھا لہٰذا مصریوں نے بخوشی سکندر کی حکومت کو قبول کر لیا اس یقین کے ساتھ کہ سکندر ان کے دیوتا آمن کا اوتار ہے۔ سکندر نے سکندریہ کا شہر تعمیر کیا جو کہ بعد ازاں تجارت اور علم کا مرکز بنا۔ اس کے بعد اس نے ایک دفعہ پھر دارا کو شکست دی اور سوسا، بابل اور پیری پولیس کے شہر فتح کر لئے۔ شاہ دارا کو اس کے مقرر کردہ باختر کے گورنر بیسس نے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ اس کے فوراً بعد سکندر باختر پر حملہ آور ہوا اور 327 قبل مسیح میں اس نے مساگا جو کة موجودہ ضلع دیر بمقام تالاش ﴿ مچو غونڈیٴ﴾ ملاکنڈ ڈویژن کو فتح کر کے ارنونس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ +سکندر نے ارنونس کی بیٹی رخسانہ سے شادی کی تاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ اچھے روابط استوار کئے جا سکیں۔ بعد ازاں اس نے دارا کی ایک بیٹی کو بھی اپنے عقد میں لیا۔ +ایرانی سلطنت پر مکمل فتح حاصل کرنے کے بعد سکندر نے درئہ ہندوکش کے راستے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ +ایک مرتبہ سکندر نے اپنے درباریوں کے سامنے کہا کہ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن میرا استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ یہ مقولہ علم کے لئے سکندر کی محبت اور طلب کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اس کے لئے سرگرم رہا اور جب اور جہاں ضرورت پڑی اپنے استاد ارسطو کے ذریعے اپنے علم کو وسیع اور مؤثر بناتا رہا۔ اس نے زمین کے وسط اور چاند سورج کی حرکت کے بارے میں اپنے نظریات پیش کئے۔ ایتھنز کی دانش نے اس کے علم اور ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ مصر پہنچ کر اس نے مختلف علوم سے کسب فیض کیا۔ اس نے اپنے مفتوحہ علاقوں کے پرانے رسوم و رواج کو بدلنے کی کوشش کبھی نہ کی اور ہمیشہ اپنے استاد ارسطو کی نصیحت پر کاربند رہا کہ ’’جب تم کسی جگہ کو فتح کرتے ہو اور مفتوحین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، تو فتح کے ثمرات ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘ +ایران کی قدیم سلطنت کو ختم کرنے کے بعد، سکندر کی طلبِ علم دوبارہ عود کر آئی اور اس نے ارسطو سے رابطہ قائم کیا۔ جواباً ارسطو نے اس کے پاس اپنے چار شاگرد، کیلس تھینکس، اینگا کینکس، آنیسکٹریوس اور سٹرابیو، بھیجے۔ +سکندر نے ان چاروں کے علم سے بھرپور انداز میں اکتساب کیا۔ سکندر ہی مشرقی لوگوں کو مغربیوں سے اور مغربی لوگوں کو مشرقیوں سے متعارف کرانے کا باعث بنا۔ اس نے یوروایشیائی ثقافت کی بنیاد رکھی ا��ر ایک وقت میں اس کی زیادہ تر فوج اس کے مفتوحہ علاقوں سے حاصل کئے گئے فوجیوں پر ہی مشتمل تھی کیونکہ اس کے پرانے یونانی فوجیوں میں سے اکثر واپس چلے گئے تھے۔ اس کے پاس دانشوروں، انجینئروں، فلکیات کے ماہروں اور پیش گوئوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس نے مقدونی اور ایشیائی بچوں کی مشترکہ تعلیم کے لئے ایک اکیڈمی بنائی جس میں پچاس ہزار طلبہ کی گنجائش تھی اور ان بچوں کی تعلیم پر اپنی سلطنت کے اعلیٰ ترین دماغ مامور کئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی عسکری تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ +سکندر کے ہندوستان پر حملے کے کچھ عرصے بعد اس کی فوج کے زیادہ تر سپاہیوں اور سالاروں نے تھکن کے ہاتھوں مجبور ہو کر وطن واپسی کے لئے اصرار کرنا شروع کر دیا۔ سکندر اتنا لمبا سفر طے کر کے اور صعوبتیں جھیل کر ہندوستان تک اس لئے نہیں پہنچا تھا کہ اتنی جلدی واپس لوٹ جاتا۔ وہ ہندوستانی برصغیر کا آخری کونہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی لیکن ان میں سے کوئی بھی واپس نہ جا سکا کیونکہ کسی کو بھی واپسی کے رستوں کا علم نہ تھا۔ بہرحال، جب سکندر دریائے بیاس تک پہنچا تو اس کی فوج نے مزید آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور بالآخر اسے واپسی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ +بابل میں جب اس کی وفات ہوئی تو مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ اس کی میت کا تابوت لے جاتے وقت اس کے دونوں ہاتھ تابوت سے باہر نکال دیے جائیں تاکہ اس کے انجام کو دیکھ لوگ سبق حاصل کر سکیں کہ انجام کار سب کو اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔ +سکندر نے ایشیائے کوچک کے ساتھ ساتھ شام، مصر، بابل اور ایران کی سلطنتیں بھی فتح کیں اور دریائے نیل کی وادی تک پہنچا۔ 332 قبل مسیح میں اس نے مصر کو فتح کیا اور سکندریہ کے شہر کی بنیاد رکھی۔ اس نے ایرانی سلطنت پر چڑھائی کی اور اسے بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ باختر کو فتح کرنے کے بعدوہ مئی 327 قبل مسیح میں اس نے درئہ ہندوکش کا رخ کیا اور 326 قبل مسیح کے موسم گرما میں ہندوستان کی سرحدوں پر آ پہنچا۔ ٹیکسلا کے حکمران راجہ امبی اور دیگر چھوٹے راجائوں نے اسے خوش آمدید کہا اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیانی علاقے کے حکمران راجہ پورس نے بڑی بہادری سے اس کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ سکندر پورس کی دلیری سے بہت متاثر ہوا اور اس کی حکومت اسے واپس لوٹا دی۔ اگست 326 قبل مسیح میں اس نے دریائے راوی عبور کیا اور اس کے مشرق میں واقع سارے علاقے فتح کر لئے۔ 323 قبل مسیح میں صرف 33 سال کی عمر میں شدید بخار میں مبتلا ہو کر اس نے وفات پائی۔ اس کی شخصیت نے مشرق اور مغرب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ +زیادہ تر لکھنے والوں نے اشوک، جسے اشوکِ اعظم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، کے کارناموں کو سراہا ہے اور ان پر بحث کی ہے۔ وجہ یہ کہ اس نے ایک وسیع و عریض سلطنت پر چالیس سال تک تن تنہا حکمرانی کی اور بدھ مت کے فروغ اور پھیلائو کے لئے بے پناہ کام کیا۔ تاریخ عالم کے پُراثر ترین افراد کی فہرست میں اشوک کو 52 واں نمبر دیا گیا جس سے اس کے مقام کا پتہ چلتا ہے جبکہ ہندوستان کی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے کاموں پر آج بھی گفتگو کی جاتی ہو۔ +میرا موضوع اثرات اور مرتبے اور وسیع سلطنت نہیں، میرا موضوع وہ عمل ہے جس سے گزر کر کوئی فرد اس مقام کا لیڈر بنتا ہے۔ میری مراد تقدیر کے اس سفر سے ہے جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اس سفر کے ارتقائی مراحل اور اس کے ادب آداب کو ایسے لوگوں کے لئے پیش کرنا میرا مقصد ہے جن کے عزائم بلند لیکن وسائل قلیل ہیں۔ اس بناء پر میں نے یہاں پیش کرنے کے لئے اشوک کے دادا چندر گپت موریہ کا انتخاب کیا ہے جس سے یہ وسیع سلطنت اشوک کے باپ بندوسرا کو ملی اور اس کے 32 سالہ دورِ حکمرانی کے بعد بالآخر چندر گپت کے پوتے اشوک کے حصے میں آئی۔ +اشوک کو ملنے والی سلطنت کی سرحدیں ہرات سے لے کر آسام، کشمیر، نیپال، میسور اور مدراس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اشوک نے اس سلطنت میں صرف کالنگا (اڑیسہ) کا اضافہ کیا جس کے نتیجے میں خلیج بنگال کا تمام ساحلی علاقہ اس کے تصرف میں آ گیا۔ +گوتم بدھ کی زندگی میں اور اس کے بعد کے ادوار میں ہمیں ایسی کوئی اور حکومت نظر نہیں آتی جو پورے برصغیر پاک و ہند پر سیاسی حکمرانی کا دعویٰ کر سکے۔ اس وقت سب سے بڑی سلطنت مگدھ (بہار) کی تھی، اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں جو اس پورے رقبے پر بکھری ہوئی تھیں اور ان پر مختلف خاندان قابض تھے۔ مگدھ کی ریاست کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھ رہا تھا۔ جب سکندرِ اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت نند خاندان اس پر حکمران تھا۔ +چندر گپت موریہ کے متعلق حتمی اور مصدقہ تاریخی مواد بہت کم ملتا ہے لیکن مختلف ذرائع اور تحقیق سے منکشف ہوتا ہے کہ وہ ایک خانہ بدوش قبیلے ’’موریہ‘‘ سے تعلق رکھتا تھا جو دریائے سندھ کے کناروں پر آباد تھا۔ اس کے خاندان کا پیشہ ملاحی تھا۔ وہ پہیلوان یا پیلان (موجودہ پپلان) ضلع میانوالی میں پیدا ہوا۔ پپلان میں موجود وسیع و عریض جنگل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ممکنہ طور پر ماضی میں کسی وقت میں دریائے سندھ اس جگہ کے قریب سے گزرتا تھا۔ پپلان موجودہ دور میں، دریائے سندھ پر تعمیر کئے گئے چشمہ بیراج سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ +چندرگپت کی پیدائش کے چند سال بعد اس کے باپ کو ایک جھگڑے میں قتل کر دیا گیا اور اس کی بیوہ ماں اپنے ننھے بیٹے کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ چندر کا ماموں ان دونوں کو پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) لے گیا جہاں اسے ایک چرواہے کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ اس کہانی کو اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے باپ کے قتل کے وقت چندر گپت پیدا نہیں ہوا تھا اور اس کی پیدائش پاٹلی پتر پہنچنے کے بعد ہوئی۔ چونکہ ماموں یا اس کی ماں اس کی پرورش کی سکت نہ رکھتے تھے، اس لئے اسے ایک چرواہے کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ (یہ امر قابل ذکر نہیں کہ اسے پیسے لے کر بیچا گیا یا مفت دے دیا گیا)۔ موریہ لوگ ذات کے اعتبار سے اچھوت یعنی شودر تھے جو کہ ہندو ذات پات کے نظام میں سب سے اسفل طبقہ ہے۔ +چرواہے نے کچھ عرصہ چندر گپت کی پرورش کی، اس کے بعد کسی نامعلوم وجہ کی بناء پر اسے ایک شکاری کے ہاتھ بیچ دیا جس نے چندر گپت کو اپنے جانوروں کی دیکھ بھال پر لگا دیا۔ چندر گپت ابھی ایک بچہ ہی تھا جب چانکیہ کوٹلیہ نے اسے دیکھ لیا۔ چندر گپت کی ذہانت اور جسمانی ساخت سے متاثر ہو کر اس نے اسے خرید لیا اور اپنے ساتھ ٹیکسلا لے گیا جہاں اس نے کئی سال تک چندر گپت کی تربیت کی اور اسے ٹیکسلا یونیورسٹی میں داخل کروایا جو اس وقت اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے کی حیثیت رکھتی تھی۔ چانکیہ کوٹلیہ خود بھی اس یونیورسٹی میں استاد تھا۔ چانکیہ کو قدیم تاریخ کے دانشمند ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ +ٹیکسلا کی یونیورسٹی کا مرکزی حصہ ان شاہی امراء کے بچوں کے لئے مخصوص تھا جو اس کی مالی امداد کرتے تھے۔ ایک وقت میں اس میں 103 شہزادے تعلیم حاصل کر رہے تھے، ��ور ایک اور وقت میں یہ تعداد 500 تک جا پہنچی۔ اس یونیورسٹی میں داخلے کی کم از کم عمر 16 سال تھی تاکہ آنے والے طالب علم بنیادی تعلیم حاصل کر کے آئیں۔ یہاں کا ہر استاد اعلیٰ قابلیت اور اپنے موضوع کا ماہر خیال کیا جاتا تھا۔ ان استادوں کو گرو جبکہ ان کے شاگردوں کو چیلے کہا جاتا تھا۔ تمام استاد نہایت قابل تھے اور چانکیہ ان میں سب سے عقلمند، ہوشیار، دور اندیش اور پُرعزم تھا۔ معاشیات، ڈپلومیسی اور سیاسیات پر اس کی گہری نظر تھی۔ وہ خود بھی اسی یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔ بہت سے شہزادے، بادشاہ، بڑے بڑے جراح اور طبیب اور سپہ سالار یہاں سے پڑھ کر نکلے تھے۔ یہاں پر داخل ہونا نہایت مشکل تھا اور بہت سے طالب علم بڑے بڑے راجائوں کی سفارشیں لے کر آتے تھے۔ چندر گپت کو چانکیہ نے یہاں داخل کروایا اور اس کے اخراجات بھرنے کی ذمہ داری لی۔ یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے موضوعات میں تیراندازی، شکار، فیل بانی، سیاسیات، قانون، ترتیب لغات، گرامر، تاریخ، ریاضی، نجوم، فلکیات، محاسبات (اکائونٹنگ)، ہندو مذہب اور دیومالا، ادب، مابعد الطبیعات، فلسفہ، کیمیا، طبابت، جراحی اور علم الادویہ وغیرہ شامل تھے۔ +چانکیہ نے چندر گپت کے لئے ایک دوست، ایک فلسفی اور ایک رہنما کے فرائض انجام دیے۔ ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ چانکیہ کو مگدھ (بہار) کے نند راجہ نے اپنے دربار میں مدعو کیا۔ وہاں پر کوئی واقعہ ایسا پیش آیا جس سے چانکیہ کی ہتک ہوئی اور اس نے قسم کھائی کہ ایک روز وہ نند خاندان کی حکومت کو برباد کر کے چھوڑے گا۔ ٹیکسلا میں پیدا ہونے والا چانکیہ بذاتِ خود ایک غریب اور بدصورت برہمن تھا۔ اسے کوٹلیہ کہے جانے کی وجہ اس کی کٹ نیتی یعنی ڈپلومیسی کا فن تھا جو کہ اس نے اپنی تعلیم، تجربات اور ذہانت کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ +نند خاندان کا بانی بھی ایک شودر تھا۔ پہلے نند راجہ کی حکومت کا سراغ 393 قبل مسیح کے آس پاس ملتا ہے۔ یہ راجہ ایک شاہی سازش کے ذریعے برسراقتدار آیا۔ چندر گپت نند خاندان کے رشتے داروں میں شامل تھا اور اس کا تعلق بھی اسی شودر خاندان سے تھا جو کہ بعد ازاں نند کہلایا۔ +کہا جا سکتا ہے کہ نند خاندان کی حکومت نیچ ذاتوں کی قوت کے بل پر آنے والے ایک انقلاب کی بدولت ممکن ہوئی۔ اس انقلاب کی قیادت نندوں نے کی۔ بہت سے مؤرخین اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ چندر گپت موریہ بھی نند خاندان کے ورثاء میں شامل تھا لیکن آخری نند راجہ نے (جو اس سلسلے کا 9 واں راجہ تھا) اس سے لاتعلقی اختیار کر کے، مگدھ میں اس کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ ممکن ہے کہ دونوں رشتے دار ہوں، اور ممکن ہے نہ ہوں، لیکن دونوں میں ایک مرکزی خصوصیت مشترک تھی۔ وہ یہ کہ دونوں بنیادی طور پر شودر طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ +چانکیہ نند خاندان کی تاریخ سے واقف تھا اور اچھی طرح جانتا تھا کہ نند خاندان کے آخری راجہ اور چندر گپت کا شجرئہ نسب ایک ہی ہے۔ چانکیہ کا اصلی نام وشنو گپت تھا۔ اس نے چندر گپت کی پرورش اور تربیت ایک لیڈر کے طور پر کی بالکل ویسے ہی جیسے ارسطو نے سکندر کی تربیت کی تھی۔ لیکن چانکیہ کا کام ارسطو سے زیادہ مشکل تھا کیونکہ اس کا شاگرد چندر گپت، سکندر کی طرح، کسی شاہی خاندان چشم و چراغ نہ تھا بلکہ ایک عام اور ارذل شودر تھا۔ زیادہ تر لکھنے والے ایک استاد کے طور پر چانکیہ کو بھی ارسطو کے برابر مقام اور مرتبہ دیتے ہیں۔ دونوں ہم عصر تھے۔ چانکیہ نے ’’ارتھ شاستر‘‘ تحریر کی جسے برصغیر پاک و ہند میں کسی ریاست کا پہلا تحریری آئین یا مجموعۂ ضوابط قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں درج قاعدے اور ضابطے موریہ سلطنت کے انتظام و انصرام کے حوالے سے تحریر کئے گئے تھے۔ +جب سکندر ٹیکسلا پہنچا تو یہاں کے راجہ امبی نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ ٹیکسلا یونیورسٹی کے دانشوروں اور استادوں نے اس استقبال کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھا۔ چانکیہ بھی ان میں شامل تھا۔ چندر گپت ان دنوں میں ٹیکسلا یونیورسٹی کے طلبہ کا قائد تھا۔ اس کے جذبات بھی اپنے اساتذہ سے ملتے جلتے تھے۔ بعض مؤرخوں کا کہنا ہے کہ چندر گپت اور چانکیہ، سکندر سے ملے اور اس کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ چانکیہ کی ذہانت نے سکندر کو متاثر کیا اور اس نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اس کے دانشوروں کے گروہ میں شامل ہو جائے۔ مشہور مؤرخ بدھ پرکاش کا کہنا ہے کہ چندر گپت نے سکندر کو مگدھ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی۔ ایک اور مشہور مؤرخ پلوٹارک لکھتا ہے کہ چندر گپت نے سکندر کو نند خاندان کی حکومت پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ لاطینی مؤرخ، جسٹن کا کہنا ہے کہ چندر گپت نے سکندر سے ملاقات کی۔ اس کی تقریر پر سکندر برافروختہ ہو گیا اور چندر گپت کے قتل کا حکم صادر کر دیا۔ جان بچانے کے لئے چندر گپت اور چانکیہ وہاں سے نکل بھاگے۔ بعض لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جس وقت سکندر اپنے لائو لشکر کے ساتھ ٹیکسلا میں داخل ہوا تو اس وقت چندر گپت اور چانکیہ بھی وہاں موجود تھے اور اس کے استقبال کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ +یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکندر نے چندر گپت کے قتل کا حکم دیا اور چانکیہ کو اپنے دانشوروں میں شامل کرنا چاہا۔ بہرحال، یہ امر یقینی ہے کہ چندر گپت اور چانکیہ اپنی زندگیاں بچانے کے لئے وہاں سے کوہِ نمک کے کہستانی سلسلے کی طرف نکل بھاگے۔ +چندر گپت کے سامنے بے شمار اہداف تھے لیکن چانکیہ نے اسے تین اہداف پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔ پہلا، ایک فوج تشکیل دینا۔ دوسرا، اقتدار یعنی مگدھ کی حکومت حاصل کرنا۔ تیسرا، پنجاب اور افغانستان سے یونانیوں کو نکال کر یہاں کے باشندوں کو ان کے تسلط سے نجات دلانا۔ چانکیہ نے چندر گپت کے دل میں عزائم کی جوت جگائی اور اس کی آتش شوق کو ہوا دیتا رہا یہاں تک کہ چندر گپت مگدھ کے تخت پر ملکیت کا دعوے دار بن گیا۔ +جب سکندر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو تمام راجہ، راجکمار، خودمختار ریاستوں کے حکمران اور شاہی خاندان اپنی اپنی ریاستوں اور علاقوں کی آزادی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔ بہت سے مؤرخوں نے اس جدوجہد کا ذکر کیا ہے جس کا آغاز چندر گپت نے چانکیہ کے سکھائے ہوئے اصولوں اور نظریات یعنی ارتھ شاستر کی بنیاد پر کیا۔ چانکیہ نے اعلان کیا کہ غیرملکی حکومت تمام برائیوں سے بڑی برائی ہے۔ اس برائی کے خاتمے کے لئے چندر گپت نے اپنی فوج تیار کرنا شروع کر دی۔ اس نے اپنی فوج میں شامل کرنے کے لئے ایسے افراد کو ترجیح دی جو خود بھی اس کی طرح نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک ممکنہ انقلاب کا قائد بن گیا۔ سکندر کے جانے کے فوراً بعد اس نے ایک مرکزی حیثیت کی حامل سلطنت کے قیام اور اتحاد کے لئے شروع کی جانے والی مہم کی سیاسی اور فوجی قیادت سنبھال لی۔ +اپنی فوج اس نے بڑی کامیابی سے تیار کر لی۔ اس کی فوج کا زیادہ تر حصہ تمام طرح کے اچھوتوں پر مشتمل تھا جن میں چور ڈاکو اور دوسرے مجرم بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ پرانے یونانی بھی تھے جو سکندرِ اعظم سے پہلے یہاں آئے تھے۔ چانکیہ نے اسے ضروری تعلیم اور تربیت فراہم کی۔ +مؤرخین کی اس بارے میں مختلف آراء ملتی ہیں کہ چندر گپت نے پہلے یونانیوں کے قبضے سے پنجاب چھینا یا پہلے مگدھ پر نند خاندان کی حکومت ختم کی۔ مؤرخ اوم پرکاش کا کہنا ہے کہ پہلے پنجاب کو آزادی دلائی گئی، اس کے بعد دوسرے علاقوں کی باری آئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چندر گپت نے اپنی فوج کوہِ نمک کے سلسلے میں اکٹھی کی۔ اس کام میں اسے چار سے پانچ سال لگ گئے۔ 322 قبل مسیح میں مگدھ کو فتح کرنے کے بعد ، وہ سکندر کی باقیات کی طرف متوجہ ہوا۔ ایک طویل جدوجہد اور ہنگامہ آرائی کے بعد وہ ایک وسیع سلطنت قائم کرنے میں کامیاب رہا جسے ’’موریہ سلطنت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سلطنت ہندوکش سے اتر پردیش تک پھیلی ہوئی تھی اور بہار، سندھ، بلوچستان اور افغانستان اس میں شامل تھے۔ ہندوستان پر اس خاندان کی حکومت 130 سال یعنی 187 قبل مسیح تک رہی۔ یہی سلطنت بعد ازاں اشوک اعظم کے حصے میں آئی۔ +سکندر کے حملے کے بعد ہندوستانیوں کو بھی ایک مرکزی ریاست تشکیل دینے کی تحریک ملی۔ چندر گپت نے شمال مغربی علاقوں کے مقدونی حکمران سیلوکس نکاتر کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور اسے شکست دے کر وہ علاقے واپس حاصل کر لئے جو سکندرِ اعظم نے فتح کئے تھے۔ +چانکیہ کے دانشمندانہ مشوروں کی روشنی میں، چندر گپت نے پنجاب، کابل، قندھار، گندھارا اور ایران بھی سیلوکس سے چھین لئے۔ بعد ازاں سیلوکس کی بیٹی کی شادی چندر گپت سے ہوئی۔ +’’سیلوکس اپنی حکومت کے تحفظ میں ناکام رہا اور اسے چندر گپت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا جس کی رُو سے اس نے اپنی سلطنت کا ایک بڑا حصہ صرف 500ہاتھیوں کے عوض چندر گپت کے حوالے کر دیا جس میں پروپنی سدائی (کابل)، آریا (ہرات)، ارچوسیہ (قندھار) اور گدروسیہ (بلوچستان) شامل تھے۔ اس معاہدے کو راسخ کرنے میں غالباً سیلوکس کی بیٹی کے ساتھ چندر گپت کی شادی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایک یونانی سفارتی وفد کو پاٹلی پتر کے دربار میں بھیجا گیا۔‘‘ (ہندوستان کی تاریخ اعلیٰ از آر سی موجمدار، ایچ سی رے چودھری اور کالنکر دتہ)۔ اس معاہدے کا سب سے اہم نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ چندر گپت کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور مغربی ممالک میں اس کی سلطنت کو ایک بڑی قوت کے طور پر جانا جانے لگا۔ مصر اور شام کے بادشاہوں نے موریہ دربار میں اپنے سفیر بھیج دیئے۔ +چند دوسری روایات کے مطابق چندر گپت موریہ ایک نندشہزادے اور مورا نامی ایک داسی کا بیٹا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چندر گپت کا تعلق کھشتریوں کے موریہ قبیلے سے رہا ہو۔ +موریہ سلطنت ہندوستان کی تاریخ کی پہلی حقیقی، بڑی، طاقتور اور مرکز کے زیرانتظام چلائی جانے والی حکومت تھی۔ بالائی طبقوں میں ایک محدود امارت اور شہری اور دیہاتی سطح پر جمہوریت کے نظام کے ذریعے اس کا انتظام و انصرام بڑی خوبی سے چلایا گیا۔ +پاٹلی پتر میں چندر گپت کے دربار میں یونان کے سفیر میگس تھینز نے ایسی وسیع سلطنت کے ایسے ماہرانہ انتظام پر تحسین و ستائش کا اظہار کیا۔ اس کی کتاب ’’انڈیکا‘‘ دوسرے رومی اور یونانی سیاحوں کی آراء اور تبصروں کا مجموعہ ہے۔ میگس تھینز نے موریہ سلطنت کے شہروں کی خوشحالی کے متعلق بھی لکھا ہے۔ اس کے کہنے کے مطابق، زراعت پھل پھول رہی تھی، پانی وافر تھا اور معدنی خزانے بھی بے شمار تھے۔ +عام خوشحالی کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے میگس تھینز لکھتا ہے۔ ’’ہندوستانی شوخ اور متنوع رنگوں کے کپڑے پہنتے ہیں اور زیورات اور ہیروں کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس نے پیشوں کے اعتبار سے معاشرتی تقسیم کا ذکر بھی کیا او�� سلطنت میں بڑی تعداد میں موجود مذہبی فرقوں اور غیرملکیوں کا آمد کا بھی۔ +چندر گپت جیسے قائد کا ظہور اسی وقت ممکن ہو سکا جب وہ اس طول طویل عمل سے گزرا جو ایک لیڈر کی تشکیل کرتا ہے اور تب وہ ایسی وسیع سلطنت قائم کرنے اور اسے ایسے اعلیٰ طریقے سے چلانے کے قابل ہو سکا۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے بندوسرا نے یہ سلطنت سنبھالی اور ہندوکش، نرمدا، وندھیا، میسور، بہار، بنگال، آسام، بلوچستان اور افغانستان پر حکومت کرتا رہا۔ بندوسرا کے بعد یہ سلطنت اشوک کے پاس آئی۔ +نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’چندر گپت کو موریہ کہہ کر پکارے جانے کی کوئی حتمی اور واضح وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ اس کی ماں کا نام مورا تھا، کچھ کہتے ہیں کہ اس کا نانا راجہ کے پالتو مور کا رکھوالا تھا اور سنسکرت میں مور کو میورا کہا جاتا ہے…… تاہم ہندوستان کی تاریخ میں ایک وسیع اور مضبوط سلطنت کی پہلی مثال ہمیں چندر گپت کی سلطنت کی شکل میں ملتی ہے۔‘‘ +وہ مزید لکھتے ہیں۔ ’’میگس تھینز نے ہمارے لئے ان ایام کی ایک دلچسپ روداد چھوڑی ہے لیکن ہمارے پاس اس سے زیادہ دلچسپ روداد موجود ہے جو چندر گپت کی حکومت کی تمام تفصیلات بیان کرتی ہے۔ وہ ہے چانکیہ کوٹلیہ کی ارتھ شاستر۔ ارتھ شاستر کا مطلب ہے ’’دولت کی سائنس‘‘۔ راجہ کو لوگوں کی طرف سے حکومت کا اختیار ملنے پر، ہمیشہ لوگوں کی خدمت کرتے رہنا کا حلف اٹھانا پڑتا تھا۔ اسے لوگوں کے سامنے کہنا پڑتا تھا کہ اگر میں تم پر جبر کروں تو میں جنت، زندگی اور اپنی اولاد سے محروم ہو جائوں۔‘‘ +ارتھ شاستر کے حوالے سے نہرو بہ حیثیت راجہ چندر گپت کی لیڈر شپ کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’اپنے ماتحت کی خوشی میں اس کی خوشی پوشیدہ ہے…… جو کچھ بھی اس کے ماتحت کو خوش کرے گا، وہ اسے اچھا سمجھے گا… تاہم یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ قدیم ہندوستان میں راج پاٹ کے بنیادی تصور کا مفہوم عوام کی خدمت تھا۔‘‘ +نپولین اول (1769-1821)، جسے نپولین بونا پارٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے فرانس کی شہنشاہیت کا تاج بزورِ بازو حاصل کیا۔ وہ اپنے وقت کا بہترین فوجی دماغ تھا اور شاید تاریخ کا سب سے عظیم جرنیل۔ اس کی تعمیر کردہ سلطنت مغربی اور وسطی یورپ کے زیادہ تر حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔ +نپولین ایک بہترین منتظم بھی تھا۔ اس نے اپنے ملک میں کئی مفید اصلاحات متعارف کرائیں جن میں ایک مضبوط اور متحرک مرکزی حکومت کا قیام بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ اس نے فرانسیسی قوانین کو ازسرنو ترتیب دیا اور ضوابط کا ایک نیا مجموعہ تیار کیا۔ آج بھی فرانس اور ماضی میں فرانس کے زیر تسلط رہنے والے علاقوں کے آئین میں نپولین کی متعارف کردہ بہت سی اصلاحات نظر آتی ہیں۔ +اپنے وقت اور ماحول کے اعتبار سے نپولین کا قد اپنے ہمعصروں سے کافی چھوٹا تھا۔ 1796ء میں میلان، اٹلی کے نزدیک ہونے والی لوڈی کی جنگ میں اسے ’’ننھے کارپورل‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اگرچہ نپولین اس جنگ میں جرنیل کی حیثیت سے حصہ لے رہا تھا لیکن اس نے توپ چلانے جیسا پُرخطر کام جو کہ عموماً کارپورل انجام دیا کرتے تھے، خود کر کے اپنے فوجیوں کو چونکا دیا اور بدلے میں یہ عرفیت حاصل کی۔ +نپولین ایک بے حد متاثر کن اور ڈرامائی انداز کا حامل لیڈر تھا۔ وقت پڑنے میں وہ خاصا منہ پھٹ اور سخت گیر بھی ثابت ہو سکتا تھا لیکن عموماً اس کے کردار کا یہ رخ عوام کی نظروں سے اوجھل رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بے پنا�� توانائی اور آرزومندی کا حامل تھا۔ پیچیدہ فوجی مہمات کی نگرانی خود کرنے کے ساتھ ساتھ وہ فرانسیسی پریس، پولیس سسٹم، بیرونِ ملک حکمت عملی اور اندرونِ ملک معاملات کو بھی خود ہینڈل کیا کرتا تھا۔ اپنے زیر سربراہی کام کرنے کے لئے اس نے قابل ماتحتوں کا انتخاب کیا اور پھر تمغوں، انعام و اکرام، عہدوں اور اعزازات سے انہیں بڑی سخاوت سے نوازا۔ +نپولین کی آرزو مندی بالآخر اسے اپنی قوت و اختیار کو مقررہ حدود سے متجاوز کرانے تک لے گئی۔ اس کے زوال کے اسباب میں مفتوحہ علاقوں میں اٹھنے والی قوم پرستی کے لہر کے ساتھ ساتھ وہ معاشی بوجھ بھی شامل تھا جو برطانیہ کی مصنوعات کو یورپ سے نکلوانے کے چکر میں نپولین نے فرانس کی معیشت پر ڈال دیا تھا۔ جہاں اس کے لگائے ہوئے محصولات اور فوج میں جبری بھرتی کے قانون نے فرانس کی عوام میں بے چینی پیدا کی، وہیں یورپ کے مختلف بادشاہوں کے ساتھ اس کی محاذ آرائی نے بھی اسے شکست سے دوچار کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ +نپولین 15 اگست 1769ء کو بحیرئہ روم کے جزیرے کورسیکا کے قصبے اجاکیو میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش سے ایک سال قبل فرانس نے کورسیکاکو اطالوی شہری ریاست جینوا سے خرید لیا تھا۔ نپولین اپنے والدین کی چوتھی اولاد اور دوسرا بیٹا تھا۔ اس کے والدین کا تعلق اٹلی کے اعلیٰ طبقے کے خاندانوں سے تھا۔ اس کا باپ، کارلو بونا پارٹ، ایک بہترین وکیل ہونے کی حیثیت سے کورسیکا کے شہریوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی ماں، لیٹی زیا بونا پارٹ، ایک حسین و جمیل اور مضبوط شخصیت کی حامل خاتون تھی۔ +1779ء میں 9 سال کی عمر میں نپولین کو فرانس کے نزدیکی قصبے برائن لا شیتو کے فرانسیسی ملٹری سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ زیادہ تر مضامین میں نپولین ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا لیکن ریاضیات میں اسے ید طولیٰ حاصل تھا۔ 1784ء میں اسے پیرس کی اعلیٰ ملٹری اکیڈمی ایکول ملی ٹیئر کے لئے منتخب کیا گیا، جہاں سے ایک سال بعد وہ گریجویشن کر کے نکلا۔ +جنوری 1785ء میں، 16 سال کی عمر میں، نپولین کو فرانسیسی فوج میں آرٹلری کے سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے کمیشن دے دیا گیا۔ کچھ عرصہ اس نے ڈول کے نزدیکی قصبے آکسون کے شاہی آرٹلری سکول میں بھی تربیت حاصل کی۔ 1791ء میں اسے ترقی دے کر فرسٹ لیفٹیننٹ اور 1792ء میں کیپٹن بنا دیا گیا۔ +1789ء میں انقلابِ فرانس کا آغاز ہوا۔ 1790ء کی دہائی کی ابتداء میں نپولین نے فوج سے چھٹی لے کر کئی مہینے کورسیکا میں گزارے۔ وہاں وہ کورسیکان نیشنل گارڈ میں خدمات انجام دیتا رہا۔ تاہم فرانس میں وہ ایک انقلاب پسند سیاسی جماعت جیکوبنز میں شامل ہو چکا تھا۔ اس جماعت کے زیادہ تر ارکان فرانس کو ایک جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے۔ اس جماعت میں میں نپولین کی شمولیت کورسیکا کے گورنر پاسکوئیل پائولی کے ساتھ اس کی چپقلش کا باعث بن گئی۔ پائولی فرانس کے شاہی خاندان کی حکومت کا حامی تھا۔ جنوری 1793ء میں فرانس کی انقلابی حکومت کے ہاتھوں شاہ لوئی شش دہم کے قتل کے بعد، پائولی نے بونا پارٹ خاندان کو گردن زدنی قرار دے دیا اور وہ سب اپنی جانیں بچانے کے لئے فرانس بھاگ آئے۔ اس کے بعد نپولین فرانسیسی فوج میں شامل ہو گیا۔ +جون 1793ء میں، جیکوبنز کے ارکان کے ایک گروپ نے میکسی ملین روبزپائر کے زیرقیادت فرانس کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ فرانس کے کئی شہروں میں اس قبضے کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔ طولون میں باغیوں کی امداد کے لئے برطانوی بحری بیڑا بھی موجود تھا۔ جب طولون میں فرانسیسی آرٹلری کمانڈر زخمی ہو گیا تو نپولین کو اس کی جگہ لینے کے لئے بھیجا گیا۔ دسمبر 1793ء میں نپولین نے آرٹلری کو بلند مقامات پر تعینات کر کے طولون کی بندرگاہ کو زد میں لے لیا اور برطانوی بحری جہازوں پر گولہ باری شروع کر دی۔ برطانوی بحری جہاز اس کی تاب نہ لاتے ہوئے واپس ہو گئے اور فرانسیسی افواج نے طولون کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس فتح میں نپولین کے کردار کے نتیجے میں صرف 24 سال کی عمر میں اسے بریگیڈیئر جنرل بنا دیا گیا۔ +نپولین کا ستارہ عروج کی طرف گامزن تھا لیکن پھر ایک دم زوال پذیر ہونے لگا۔ جولائی 1794ء میں روبزپائر کے خلاف بغاوت ہوئی اور اسے اقتدار سے معزول کر کے قتل کر دیا گیا۔ اگست میں نپولین کو ایک ہفتہ قیدخانے میں گزارنا پڑا۔ رہائی کے بعد وہ دوبارہ فوج میں واپس آ گیا۔ +1795ء میں پیرس میں نپولین کے قیام کے دوران عوام کے مشتعل گروہوں نے شاہی محل میں مقیم حکومتی نیشنل کنونشن پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ ان گروہوں کی پشت پناہی شاہی حکومت کے حامی کر رہے تھے جن کا مقصد تھا کہ کسی معتدل حکومت کے قیام سے قبل کنونشن کو ختم کر دیا جائے تاکہ شاہی حکومت دوبارہ بحال کی جا سکے۔ کنونشن کے محافظوں کا سربراہ وائی تھا جو طولون میں نپولین کے کارناموں کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ اس نے مدد کے لئے نپولین کو بلا بھیجا۔ نپولین نے محل کی حفاظت کے لئے حملہ آوروں پر توپوں کی براہِ راست گولہ باری کروا دی۔ سینکڑوں لوگ اس گولہ باری کی زد میں آکر ہلاک یا زخمی ہوئے اور باقی بچنے والوں میں سے جس کا جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلا۔ نپولین کو ایک ہیرو قرار دے کر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ نئی حکومت کو ڈائریکٹری کا نام دے کر قائم کر دیا گیا۔ اس کے پانچ ڈائریکٹرز میں سے ایک کومتے پال دباراس بھی تھا۔ +1796ء میں نپولین نے ویسٹ انڈیز سے آنے والی ایک فرانسیسی نژاد حسینہ جوزیفائن دی بیوہارنس سے شادی کر لی۔ جوزیفائن کے پہلے شوہر، وائی کومتے الیگزینڈر دبیوہارنس کو انقلابِ فرانس کے دورِ وحشت کے دوران گلوٹین کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ جب نپولین سے جوزیفائن کی ملاقات ہوئی تو فرانس کی فیشن ایبل سوسائٹی میں وہ ایک لیڈر کا مقام رکھتی تھی۔ عمر میں وہ نپولین سے چھ سال بڑی تھی اور پہلی شادی سے اس کے دو بچے بھی تھے۔ +1792ء سے لے کر 1795ء تک یورپ کے مختلف ملکوں کے ساتھ فرانس کی جنگیں ہوتی رہیں۔ 1796ء تک آسٹریا فرانس کے مرکزی دشمن کی حیثیت سے سامنے آ چکا تھا۔ جوزیفائن سے شادی کرنے کے چند ہی دن بعد نپولین پیرس سے فرانس اور اٹلی کے سرحد کی طرف روانہ ہو گیا جہاں 38,000 بھوکے ننگے سپاہیوں کی ایک جمعیت اس کے آنے اور کمان سنبھالنے کا انتظا رکر رہی تھی۔ حکومت کو امید تھی کہ نپولین آسٹریائی فوجوں کو اٹلی میں روکے رکھے گا اور اس دوران فرانس کی فوج کا بڑا حصہ جرمنی سے گزر کر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا تک پہنچنے اور اسے فتح کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ +نپولین نے ان کی توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔ صرف فوجوں کو روکے رکھنے کے بجائے اس نے جنگ جیتنے میں کامیابی حاصل کی۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس نے 4 لشکروں کو شکست سے دوچار کیا جن میں سے ہر ایک اس کی اپنی فوج سے تعداد میں کہیں زیادہ تھا۔ 1797ء میں وہ کوہِ الپس عبور کر کے ویانا کے نزدیک جا پہنچا۔ اپنے دارالحکومت کو خطرے میں دیکھ کر آسٹریا والے صلح کرنے پر رضامند ہو گئے اور فرانسیسی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے نتیجے میں فرانس کے رقبے میں مزید اضافہ ہو گیا۔ یوں آخری فتح نپولین کے حصے میں آئی اور وہ ایک ہیرو کی حیثیت سے پیرس واپس لوٹا۔ +اس وقت تک نپولین ایک نہایت عمدہ اور کامیاب جنگی حکمت عملی ترتیب دے چکا تھا جو کہ آگے چل کر اس کے لئے مزید فتوحات کی بنیاد بنی۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ جنگ چھیڑ کر وہ فوج کا زیادہ سے زیادہ حصہ محفوظے کے طور پر رکھتا۔ اس کے بعد دشمن کی صفوں کے کمزور ترین حصے کو ڈھونڈتا اور فیصلہ کن مرحلے پر اپنی تمام قوت اس حصے پر لگا دیتا۔ حملہ کرنے کے لئے بہترین وقت کا انتخاب کرنے میں نپولین کو غیرمعمولی مہارت حاصل تھی۔ +آسٹریا کو شکست دینے کے بعد جب نپولین پیرس واپس آیا تو اس وقت تک اس کے سیاسی عزائم خاصا واضح روپ اختیار کر چکے تھے۔ تاہم اسے احساس تھا کہ ابھی اس کا اثر و رسوخ اتنا نہیں بڑھا کہ وہ حکومت سنبھالنے کے بارے میں سوچ سکے۔ لہٰذا اس نے اپنی فوجی ساکھ بہتر بنانے پر پورا زور لگا دیا۔ 1797ء میں ڈائریکٹری نے اسے انگلینڈ پر کئے جانے والے ایک حملے کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی لیکن نپولین نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور تجویز پیش کی کہ انگلینڈ کے بجائے مصر پر حملہ کیا جائے تاکہ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ انگلینڈ کی تجارت برباد کی جا سکے۔ ڈائریکٹری نے اس کی تجویز منظور کر لی۔ مئی 1798ء میں نپولین تقریباً 38000 فوجیوں کے ہمراہ مصر کی طرف روانہ ہو گیا۔ +جولائی میں وہ مصر پہنچا۔ وہاں اس نے قاہرہ کے نزدیک اہرام کی جنگ میں مصر کے فوجی حکمران مملوکوں کو شکست دی۔ تاہم یکم اگست کو جنگ نیل میں لارڈ ہوریشو نیلسن کے زیرسربراہی برطانوی بحری بیڑے نے خلیج ابوقیر میں لنگر انداز فرانسیسی بحری بیڑے کو حملہ آور ہو کر ڈبو دیا۔ نتیجتاً مصر میں نپولین کی فوج تنہا رہ گئی۔ تب سلطنت عثمانیہ نے برطانیہ اور روس کے ساتھ اتحاد کر کے فرانس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ 1799ء میں نپولین کی افواج نے عثمانی شام پر حملہ کر دیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے عقر کے قلعے تک پہنچ گئے۔ نپولین اس قلعے پر قابض ہونے میں ناکام رہا۔ اسی اثناء میں اسے اطلاع ملی کہ عثمانی فوجیں مصر پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہی ہیں۔ پسپائی اختیار کر کے وہ دوبارہ مصر کو پلٹا اور ابوقیر میں ایک جنگ میں عثمانی افواج کو شکست دی۔ اب تک نپولین کو پتہ چل چکا تھا کہ آسٹریا، برطانیہ اور روس نے فرانس کے خلاف اتحاد کر لیا ہے اور اٹلی میں فرانسیسی فوجوں کو شکست سے دوچار کر چکے ہیں۔ اس نے اپنی فوج کو جنرل ژاں کلیبر کی کمان میں چھوڑا اور فرانس واپس آ گیا۔ +نپولین کی آمد کے ساتھ ابو قیر میں اس کی فتح کی خبریں بھی پیرس پہنچ گئی تھیں۔ فرانسیسی عوام نے، جو ڈائریکٹری پر اعتماد کھو چکے تھے، اپنے نوجوان ہیرو کا والہانہ استقبال کیا۔ نپولین نے کلیدی سیاسی اتحاد بنائے اور 9 نومبر 1799ء کو فوجی بغاوت کے ذریعے فرانس کا اقتدار حاصل کر لیا۔ فرانسیسی عوام کی زبردست حمایت کے ذریعے ایک نیا آئین بنا کر ڈائریکٹری کو ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ تین افراد پر مشتمل ایک قونصلیٹ تشکیل دیا گیا۔ نپولین فرسٹ قونصل بنا۔ دوسرے دو قونصلز کی ذمہ داری صرف نپولین کو مشورے دینے تک محدود تھی۔ 10 سال کا انقلاب اور ملکی بدامنی بھگتنے کے بعد فرانسیسی عوام ایک مضبوط لیڈر کے خواہاں تھے اور ایک آمر کی حیثیت سے فرانس پر حکومت کرنے کے لئے نپولین کا راستہ ہموار ہو چکا تھا۔ +فرسٹ قونصل کی حیثیت سے نپولین کی خواہش تھی کہ جتنی جلد ہو سکے امن بحال ہو جائے۔ مئی 1800ء میں وہ ایک مارچ کی قیادت کرتا ہوا، کوہِ الپس کو عبور کر کے سینٹ برنارڈ کے پاس سے گزرا اور شمالی اٹلی میں وادیٔ پو میں جا پہنچا۔ جون میں اس کی افواج نے اچانک حملہ کر کے مرینگو کی جنگ میں آسٹریائی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس شکست کے نتیجے میں 1801ء میں آسٹریائی حکومت نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کر کے گذشتہ معاہدے کی توثیق کر دی اور جنگ سے باہر نکل گئے۔ انگلینڈ والے پہلے ہی جنگ کر کر کے مضمحل ہو چکے تھے لہٰذا انہوں نے امن کی خواہش ظاہر کی اور 1802ء میں معاہدئہ امیئنز پر دستخط کر دیے گئے۔ روس پہلے ہی 1799ء میں اس اتحاد کو چھوڑ چکا تھا لہٰذا دس سال میں پہلی مرتبہ براعظم یورپ کو امن کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔ +ملکی انتظام کاری میں بھی نپولین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کے بڑے کارناموں میں سے ایک فرانسیسی آئین کی ازسرنو ترتیب اور اصلاح ہے۔ اس نے سات نئے قانونی ضابطے تشکیل دیے جن کے نتیجے میں فرانسیسی عوام نے انقلاب کے ذریعے جو آزادیاں حاصل کی تھیں، ان میں سے کچھ برقرار رکھی گئیں، مذہبی رواداری کو فروغ دیا گیا اور غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ان میں سب سے مشہور ضابطہ جسے کوڈ نپولین یا کوڈ سول کے نام سے جانا جاتا ہے، آج بھی فرانس کے سول لاء کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ نپولین نے فرانس کو مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم کر کے ان پر اپنے منتظم مقرر کئے اور یوں فرانس کی حکومت کو ایک مرکزی شکل دے دی۔ +صرف فرانس پر حکومت نپولین کے اطمینان کو کافی نہ تھی۔ اس کی ذہنی رو جلد ہی دوبارہ فتوحات کی طرف مڑ گئی۔ ابتداً وہ مغربی نصف کرے میں فرانس کا اثر و رسوخ بڑھانے کا خواہش مند تھا۔ 1800ء میں نپولین نے ہسپانیہ پر دبائو ڈال کر شمالی امریکہ میں لوئیسیانا کا حصہ حاصل کر لیا لیکن اس علاقے پر قبضے کے لئے جو فوج اس نے بھیجی وہ فرانسیسی نوآبادی ہیٹی میں غلاموں کی بغاوت اور وبائی بیماریوں کی زد میں آ کر ماری گئی۔ ذہنی طور پر الجھ کر نپولین نے مغربی نصف کرے کا خیال ذہن سے نکالا اور ایک دفعہ پھر اپنی توجہ یورپ کی طرف موڑ دی۔ 1803ء تک فرانس نے شمالی اٹلی کے علاقے پیڈمانٹ کو اپنا حصہ بنا لیا اور نپولین نے اس حصے کو جمہوریہ اٹلی کا نام دے کر اس کی صدارت سنبھال لی۔ برطانیہ کی بحری قوت کے خوف کے زیراثر، نپولین نے بقیہ یورپ سے برطانوی تجارت کے سلسلے منقطع کرنے کی کوشش بھی کی۔ اسے توقع تھی کہ جلد ہی اسے دوبارہ برطانیہ کے ساتھ جنگ لڑنا پڑے گی اور اس متوقع جنگ کے لئے پیسہ اکٹھا کرنے کی غرض سے 1803ء میں اس نے لوئیسیانا کا رقبہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اسی سال کے اواخر میں برطانیہ کے ساتھ جنگ کا آغاز ہو گیا۔ +1802ء میں فرانسیسی عوام کی اکثریتی حمایت کی بدولت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے نپولین کو تاحیات فرانس کا فرسٹ قونصل بنا دیا گیا تھا۔ مئی 1804ء میں فرانسیسی سینیٹ اور عوام نے بذریعہ ووٹ اسے اپنا شہنشاہ منتخب کر لیا۔ 2 دسمبر کو پیرس کے نوٹرے ڈیم چرچ میں منعقد ہونے والی تقاریب میں نپولین نے اپنے ہاتھ سے شہنشاہی کا تاج اپنے سر پر رکھا۔ +1805ء تک آسٹریا، روس اور سوئیڈن برطانیہ کے ساتھ مل کر فرانس کے خلاف ایک نیا اتحاد بنا چکے تھے۔ ستمبر 1805ء میں نپولین اپنی افواج کی قیادت کرتا ہوا جرمنی میں داخل ہو گیا۔ اکتوبر میں اس نے اولم کے مقام پر ایک آسٹریائی لشکر کو شکست دی۔ دسمبر میں اس نے آسٹرلٹز کے مقام پر آسٹریا اور روس کی افواج کو ہزیمت سے دوچار کیا لیکن اس سال کے آغاز میں لارڈ نیلسن نے ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر فرانس کے اتحادی ہسپانیہ اور فرانس کے مشترکہ بحری بیڑے کو ڈبو دیا۔ اس فتح کے نتیجے میں سمندر کا کنٹرول برطانوی افواج کے ہاتھ میںآ گیا اور نپولین کے انگلینڈ پر حملہ آور ہونے کے امکانات ختم ہو گئے۔ +1806ء میں پروشیہ اور روس نے مل کر فرانس کے خلاف ایک نئی جنگی مہم کی تیاری شروع کر دی۔ اکتوبر میں نپولین نے جینا اور پھر اس کے نزدیک آسٹرٹیٹ کے مقام پر پروشیائی فوجوں کو شکست دی اور جون 1807ء میں فریڈلینڈ کے مقام پر روسی افواج کو کچل کر رکھ دیا۔ 1809ء میں اس نے ایک دفعہ پھر ویانا کے نزدیک ویگرام کے مقام پر آسٹریائی افواج کو شکست سے دوچار کیا۔ +نپولین کی ہر فتح کے نتیجے میں اس کی سلطنت کے رقبے میں مزید اضافہ ہوا۔ 1806ء میں اس نے اپنی سرپرستی میں کنفیڈریشن آف رائن کی بنیاد ڈالی جس میں مغربی جرمنی کی کئی ریاستیں شامل تھیں۔ اس نے جرمنی اور اٹلی کو بھی جاگیروں کی شکل دے کر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تحفے کے طور پر بخش دیا۔ 1806ء میں اس نے اپنے بھائی جوزف کو نیپلز کا اور دوسرے بھائی لوئی کو ہالینڈ کا بادشاہ بنایا۔ 1807ء میں اس نے اپنے بھائی جیروم کو ویسٹ فیلیا کا بادشاہ بنایا اور پروشیا کے آدھے رقبے کو ایک معاہدے کے تحت گرانڈ ڈوچی آف وارسا کے نام سے فرانس میں شامل کر لیا۔ 1809ء میں اس نے ٹسکانی کی جاگیر اپنی بہن ایلیسا کے حوالے کر دی اور الیرین کے صوبوں کو فرانس کا حصہ بنا لیا جو کہ آج کل سلووینیا اور کروشیا کا حصہ ہیں۔ 1810ء میں اس نے جرمنی کے زیادہ تر رقبے کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کو بھی فرانس کا حصہ بنا کر اپنی سلطنت کو وسعت کے عروج پر پہنچا دیا۔ +سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ نپولین کو یہ خدشات بھی لاحق ہونے لگے تھے کہ اس کی موت کے بعد اس کی سلطنت کا کیا بنے گا۔ جوزیفائن جس کی عمر اس وقت 46 برس ہو چکی تھی، کوئی اولاد پیدا نہ کر سکی لہٰذا نپولین اپنی اولاد کی صورت میں کوئی وارث حاصل کرنے سے محروم تھا۔ دسمبر 1809ء میں اس نے جوزیفائن کو طلاق دے کر ایک نوجوان خاتون سے شادی کر لی۔ اپریل 1810ء میں اس نے شاہِ آسٹریا فرانسس اول کی اٹھارہ سالہ بیٹی آرچ ڈچس میری لوئس کو بھی زوجیت میں لیا۔ 1811ء میں اس بیوی سے اس کا بیٹا پیدا ہوا جسے نپولین دوم کا نام اور شاہِ روم کا لقب دیا گیا۔ +1806ء میں نپولین نے برلن ڈیکری کے نام سے ایک قانون جاری کیا جس کی رو سے فرانسیسی انتظام کے تحت آنے والی بندرگاہوں پر برطانوی مال کی نقل و حمل ممنوع قرار دے دی گئی۔ 1807ء میں اس نے ایک اور قانون میلان ڈیکری کے نام سے جاری کیا جس کا بنیادی مقصد غیرجانبدار ممالک کے بحری جہازوں کو یورپ میں برطانوی مصنوعات لانے اور لے جانے سے روکنا تھا۔ ایسے بحری جہازوں کو فرانسیسی شاہی بحری جہازوں کے حملے کا نشانہ بننا پڑتا۔ برلن اور میلان ڈیکریز کے ذریعے برطانوی تجارت کو روکنے کے لئے تیار کئے جانے والے نظام کو براعظمی نظام کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ +برطانیہ کے پرانے دوست پرتگال نے برلن ڈیکری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ 1807ء میں فرانس نے پرتگال کے ساتھ ساتھ ہسپانیہ کے بعض حصوں پر قبضہ کر لیا۔ 1808ء میں فرانسیسی افواج مارشل جوکہم میوراٹ کی سرکردگی میں سپین کے دارالحکومت میڈرڈ تک جا پہنچیں اور شہر کو زیرنگیں کرنے میں کامیاب رہیں۔ نپولین نے ہسپانیہ کے بادشاہ فرڈیننڈ ہفتم کو تخت سے اتار کر اس کی جگہ اپنے بھائی جوزف کو بادشاہ بنا دیا۔ جوزف کی جگہ شاہِ نیپلز کا تخت سنبھالنے کے لئے مارشل میوراٹ کا انتخاب کیا گیا۔ +1808ء میں ہسپانوی اور پرتگالی فوجوں نے فرانسیسی افواج کے خلاف بغاوت کر دی اور جنگ جزیرہ نما کا آغازہوا۔ جلد ہی برطانوی افواج بھی اس جنگ میں شامل ہو گئیں۔ اپریل 1814ء تک فرانسیسی افواج کو ہسپانیہ اور پرتگال پر مشتمل جزیرہ نما سے نکال دیا گیا۔ ہزاروں فرانسیسی سپاہی اس جنگ میں مارے گئے اور ہسپانیہ اور پرتگال کے ہاتھ سے نکل جانے سے نپولین کے وقار پر بھاری ضرب آئی۔ +31 دسمبر 1810ء کو زارِ روس الیگزینڈر اول نے براعظمی نظام سے علیحدگی اختیار کر لی۔ نپولین نے زار کی علیحدگی کو فرانس کے لئے خطرہ خیال کیا اور روس پر حملہ آور ہونے کے لئے ایک نئی فوج تیار کر لی۔ کئی سالوں سے جاری جنگوں نے فرانس کی حربی قوت کو خاصا کمزور کر دیا تھا تاہم نپولین چھ لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فوج تیار کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کی اتحادی اور محکوم اقوام بھی اس ضمن میں خاصی معاون ثابت ہوئیں۔ اس وقت روسی افواج کی تعداد تقریباً دو لاکھ تھی۔ +جون 1812ء میں نپولین کی آرمی دریائے نیمن کو عبور کر کے روس میں داخل ہو گئی۔ روسیوں نے نپولین کو فیصلہ کن جنگ لڑنے کا موقع دیے بغیر پسپائی کی حکمت عملی اختیار کر لی۔ ستمبر میں ماسکو کے نزدیک بوروڈینو کے مقام پر روسی اور فرانسیسی افواج کا ایک معرکہ ہوا۔ دونوں اطراف کو خاصا نقصان پہنچا لیکن اس جنگ میں بھی کوئی واضح فاتح سامنے نہ آ سکا اور روسی ایک مرتبہ پھر پسپا ہو گئے۔ +نپولین ماسکو میں داخل ہوا تو اس نے شہر کو لوگوں سے تقریباً خالی پایا۔ فرانسیسی افواج کے شہر میں داخل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد شہر کا زیادہ تر حصہ پسپا ہوتے ہوئے روسیوں کی لگائی ہوئی آگوں کے نتیجے میں بھسم ہو گیا۔ نپولین ماسکو میں رک کر انتظار کرنے لگا کہ کب الیگزینڈر کی طرف سے صلح کی درخواست موصول ہوتی ہے لیکن اس کی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ الیگزینڈر کی طرف سے ایسی کوئی درخواست سامنے نہ آئی۔ دوسری طرف روس کا خوفناک موسم سرما سر پر آچڑھا۔ اکتوبر کے وسط میں نپولین نے مجبوری کے عالم میں ماسکو سے ایک طویل پسپائی کا آغاز کیا۔ نقطہ انجماد کو پہنچنے والے درجۂ حرارت اور برفانی طوفانوں کی زد میں آ کر اس کے کئی سپاہی مارے گئے۔ رسد کی کمی کے نتیجے میں بھوک نے بھی بہت سوں کو نشانہ بنایا۔ روسی فوجی ہر لمحہ ان کی گھات میں رہتے اور اگر سپاہیوں کا کوئی دستہ کسی وجہ سے مرکزی کانوائے سے الگ ہو جاتا تو پھر زندہ نہ ملتا۔ چھ لاکھ کی فوج میں سے تقریباً پانچ لاکھ مارے گئے، بھاگ گئے یا پسپائی کے دوران روسیوں کے ہتھے چڑھ کر قیدی بن گئے۔ +پیرس واپس پہنچ کر نپولین نے اپنے مشہور ’’29ویں بلیٹن‘‘ میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔ فرانسیسیوں نے اس کی تائید و حمایت کرنا جاری رکھا لیکن نپولین کی اس تباہ کن ناکامی کی خبروں نے پورے یورپ میں اس کے دشمنوں کے حوصلے بلند کر دیے۔ +ماسکو سے واپسی پر نپولین کا واسطہ آسٹریا، برطانیہ، روس، پروشیہ اور سویڈن کے اتحاد سے پڑا۔ اپریل 1813ء میں نپولین ایک نئی فوج کے ساتھ جرمنی پہنچا اور اپنے متحدہ دشمنوں پر حملہ کر دیا۔ لٹزن، باٹزن اور ڈریسڈن کی ابتدائی جنگوں میں اسے فتوحات حاصل ہوئیں لیکن دشمن کے مقابلے میں اس کی فوجوں کی تعداد بہت قلیل تھی۔ اکتوبر میں لائپ سگ کے مقام پر دونوں فریقوں کی جنگ ہوئی جس میں نپولین کو شکست ہوئی اور اسے واپس فرانس پسپا ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ اتحادیوں نے اس کا پیچھا کیا اور مارچ 1814ء میں پیرس پر قبضہ کر لیا۔ +11 اپریل 1814ء کو فونٹین بلیو میں نپولین نے تخت چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اتحادیوں نے بوربن خاندان کے بادشاہ کو تخت فرانس دینے کی ٹھانی اور یوں لوئی شش دہم کے بھائی لوئی ہشت دہم کو فرانس کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ نپولین کو فرانس سے جلاوطن کر کے اٹلی کے شمال مغربی ساحل کے نزدیک واقع جزیرہ البا کی حکومت دے دی گئی۔ اس کی بیوی کو بچے سمیت اس کے باپ شاہِ آسٹریا کے پاس بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد زندگی میں کبھی نپولین کو اپنی بیوی یا بیٹے کی صورت دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ +البا میں رہتے ہوئے نپولین نے اپنی فرانس واپسی کی منصوبہ بندی کی۔ فروری 1815ء میں وہ اپنے 1100 ہمراہیوں کے ساتھ، جنہیں اس کے ساتھ ہی جلاوطن کیا گیا تھا، البا سے روانہ ہوا۔ راستے میں اپنے حمایتیوں کو اکٹھا کرتا ہوا وہ یکم مارچ کو کینز کے ساحل پر پہنچا اور پیرس کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ پیرس سے مارشل مچل نی کی سربراہی میں نپولین کی گرفتاری کے لئے فوجی دستے روانہ کئے گئے لیکن اپنے پرانے قائد کی شکل دوبارہ دیکھ کر یہ فوجی بھی بڑی خوشی سے نپولین کی فوج میں شامل ہو گئے اور اسے اپنے شہنشاہ تسلیم کر لیا۔ نپولین کی آمد کی خبر پا کر لوئی ہشت دہم پیرس سے فرار ہو گیا۔ 20 مارچ کے روز نپولین پیرس میں داخل ہوا اور نعرے لگاتے ہوئے عوام نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے شاہی محل تک پہنچا دیا۔ +تخت سنبھالتے ہی نپولین نے ایک نیا آئین جاری کر دیا جس کی رو سے اس کے اختیارات محدود ہو گئے۔ اس نے اتحادیوں سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے خلاف جنگ نہیں چھیڑے گا لیکن اتحادی قائدین نپولین کو ایک ’’دشمن اور عالمی امن کو خراب کرنے والا‘‘ سمجھتے تھے۔ لہٰذا ایک دفعہ پھر دونوں فریقین نے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ +نپولین ایک لاکھ پچیس ہزار سپاہیوں کی فوج لے کر اس امید پر بلجیم میں داخل ہوا کہ وہ برطانیہ کے ڈیوک آف ویلنگٹن اور پروشیائی مارشل گیب ہارڈ وان بلچر کی افواج کو علیحدہ علیحدہ شکست سے دوچار کر سکے گا۔ 16 جون کو فلیورس کے نزدیک لگنی کے مقام پر اس نے مارشل بلچر کو شکست دی اور 18 جون کو واٹر لو کے مقام پر ویلنگٹن کی افواج پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ تاریخ عالم کی مشہور ترین جنگوں میں شمار کی جاتی ہے۔ فرانسیسی سپاہیوں نے اس جنگ میں شجاعت و بہادری کا نہایت اعلیٰ مظاہرہ کیا اور ایک موقعے پر یوں معلوم ہونے لگا تھا کہ ویلنگٹن کو شکست ہو جائے گی لیکن اسی وقت بلچر کی افواج مدد کو آپہنچیں اور اپنی قلیل تعداد کے ہاتھوں فرانسیسی افواج کو ایک تباہ کن شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ +نپولین ایک دفعہ پھر پیرس کو بھاگا اور 22 جون کو ایک دفعہ پھر تخت چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ البا سے نپولین کی پیرس واپسی سے لے کر اس کے دوسرے اعلان تک کے عرصے کو ’’سو دن‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نپولین نے امریکہ فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور بالآخر روچ فورٹ کے مقام پر اس نے برطانوی جنگی بحری جہاز بیلروفون کے کپتان فریڈرک لیوس میٹ لینڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اگست میں اسے جنوبی بحراوقیانوس میں برطانیہ کے زیرملکیت سینٹ ہیلینا کے بنجر جزیرے پر قیدی بنا کر بھیج دیا گیا۔ +سینٹ ہیلینا میں نپولین نے اپنی بقیہ زندگی کا زیادہ تر حصہ اپنے دوستوں کو خطوط کی شکل میں اپنی زندگی کی کہانی لکھنے میں گزارا۔ 5 مئی 1821ء کو معدے کے السر کے نتیجے میں (جو غالباً سرطانی تھا) اس کی وفات ہو گئی۔ ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ اسے سنکھیا کھلا کر مارا گیا تھا لیکن زیادہ تر مؤرخوں نے اس روایت کو غلط قرار دیا ہے۔ نپولین کو اسی ج��یرے پر دفن کیا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ اپنی وصیت میں نپولین نے درخواست کی تھی کہ اسے ’’دریائے سین کے کنارے پر، ان فرانسیسی عوام کے درمیان‘‘ دفن کیا جائے ’’جن سے میں نے اتنی محبت کی ہے۔‘‘ 1840ء میں برطا نوی اور فرانسیسی حکومتوں نے اس کی باقیات کو پیرس لانے کا اہتمام کیا۔ یہاں چرچ آف ڈوم کے قبرستان میں اسے سپردِ خاک کر دیا گیا۔ +پنڈت جواہر لعل نہرو ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں نپولین کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’اپنی ذاتی زندگی میں وہ ایک نہایت سادہ انسان تھا اور اس نے کسی طرح کی انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے کی کوشش کبھی نہیں کی ما سوائے کام میں انتہاپسندی کے۔ اس کا کہنا تھا کہ کوئی آدمی خواہ کتنا کم کیوں نہ کھائے، اس کا کھانا ہمیشہ بہت زیادہ ہوتا ہے، زیادہ کھانے سے انسان بیمار پڑ سکتا ہے لیکن کم کھانے سے کوئی بیمار نہیں پڑتا۔ اس کے سادہ طرزِ زندگی نے اسے شاندار صحت اور بے پناہ توانائی سے نوازا۔ وہ جب چاہتا، اور جتنا کم چاہتا، سو سکتا تھا۔ صبح سے لے کر سہ پہر تک کے درمیانی وقفے سے 100 میل کی گھڑسواری کرنا اس کے نزدیک معمول کی بات تھی۔‘‘ +نہرو مزید لکھتے ہیں۔ ’’عظیم اور غیرمعمولی آدمیوں کے متعلق کوئی فیصلہ صادر کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی جگہ نپولین بھی ایک عظیم اور غیرمعمولی انسان تھا۔ اپنی حیثیت میں وہ ایک قدرتی جوہر کے مشابہ تھا۔ بے پناہ قوتِ تخیل و ادراک رکھنے کے باوجود وہ مثالیات اور بے غرضانہ محرکات کی قدر سے ناواقف تھا۔ اس نے دولت اور شان و شوکت پیش کر کے لوگوں کے دل جیتنے اور انہیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ مذہب اس کے نزدیک محض غرباء و مساکین کو مطمئن رکھنے کا ایک ذریعہ تھا۔ ایک دفعہ اس نے عیسائیت کے متعلق لکھا۔ ’’میں کسی ایسے مذہب کو کیسے قبول کر سکتا ہوں جو سقراط اور افلاطون کو گردن زدنی قرار دیتا ہے؟‘‘ اس کا کہنا تھا کہ مذہب جنت کے ساتھ مساوات کا ایک ایسا تصور وابستہ کرتا ہے جو غریبوں کو امیروں کا قتل عام کرنے سے روکے رکھتا ہے۔ مذہب کی حیثیت وہی ہے جو بیماری سے بچائو کے لئے لگائے جانے والے ٹیکے کی ہے۔ یہ معجزوں کے لئے ہماری طلب کی تسکین کرتا ہے اور ہمیں عطائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ معاشی عدم مساوات کے بغیر معاشرے کا قائم رہنا ممکن نہیں اور مذہب کے بغیر معاشی عدم مساوات کا قائم رہنا ممکن نہیں۔‘‘ +آگے چل کر وہ لکھتے ہیں۔ ’’اس میں عظیم آدمیوں والی شخصی مقناطیسیت موجود تھی اور وہ بہت سوں کی وفاداری حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ بادشاہ اکبر کی طرح، اس کی نظر بھی دل کھینچ لینے والی تھی۔ ایک دفعہ اس نے کہا۔ ’’میری تلوار نیام سے بہت کم باہر آتی ہے۔ میں جنگیں اپنے ہتھیاروں سے نہیں اپنی آنکھوں سے جیتتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ سب سے بڑھ کر کون سی چیز میرے لئے باعث حیرت بنتی ہے؟ انتظام کاری میں طاقت کا غیرمؤثر رہنا۔ اس دنیا میں صرف دو طاقتیں ہیں۔ جذبہ اور تلوار۔ اور جلد یا بدیر جذبہ ہمیشہ تلوار پر غالب آنے میں کامیاب رہتا ہے۔‘‘ +ایک اور جگہ پر انہوں نے لکھا۔ ’’اس نے اپنی آخری وصیت میں اپنے ننھے بیٹے کے نام ایک پیغام چھوڑا جسے اس نے شاہِ روم کا لقب دیا تھا، اور جس کے متعلق کسی خبر کو بھی اس تک پہنچنے سے نہایت بے رحمانہ انداز میں روک دیا جاتا تھا۔ اسے امید تھی کہ ایک روز اس کا بیٹا بھی حکمران بنے گا اور اس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ وہ تشدد کی طرف رجوع کئے بغیر امن و آشت�� سے حکمرانی کرے۔ اس نے کہا کہ یورپ کو مسلح طاقت سے دھمکانا میری مجبوری تھی لیکن آج کے دور میں کسی کو قائل کرنے کا راستہ دلائل سے ہو کر گزرتا ہے۔‘‘ لیکن اس کے بیٹے کے نصیب میں حکمرانی کرنا نہیں لکھا تھا۔ +ذوالفقار علی بھٹو نے 1978ء میں سزائے موت کی کوٹھری سے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا۔ ’’تم جانتی ہو کہ میں نے نپولین بونا پارٹ کو ہمیشہ سراہا ہے۔ تم انقلابِ فرانس اور نپولین کے دور کے ساتھ میری رومانی وابستگی سے بھی واقف ہو۔ انقلابیوں نے نہ صرف اپنے بادشاہ کو قتل کیا بلکہ یہی انقلاب خود انہیں بھی نگل گیا۔ روبز پائر اور ڈنٹن جیسے انقلابیوں کو تختۂ مرگ پر چڑھنا پڑا۔ بدلوں پر بدلے چکائے گئے، انتقام پر انتقام لیا گیا۔ +’’نپولین جیسے جینئس کو، کاروانِ تہذیب کے سالار کو، پہلے البا اور پھر سینٹ ہیلینا میں مقید رکھا گیا۔ نپولین کو جلاوطن کس نے کیا؟ فرانس کے عوام نے نہیں کیا۔ انقلابِ فرانس دو صدیاں پہلے وقوع پذیر ہوا لیکن انتقام اور انتقام کے بدلے انتقام کے جنون کا شکار ہو کر یہ اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ گیا۔ اس کا مقصد داخلی اور اس کا رویہ منتقم ہوتا گیا اور فرانس کے عوام، جنہوں نے انقلاب سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، انقلاب اور انقلابیوں پر اپنا اعتماد کھو بیٹھے۔ فرانس مادرِ انقلاب ہے۔ اس نے انقلاب کے بچے کو جنم دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک فرانس کے محنت کشوں نے فرانس کو انقلاب کے بچے سے کئی بار حاملہ کیا ہے لیکن ہر مرتبہ عین وقت پر حمل ساقط کر دیتے رہے ہیں۔ ہمیں ماضی میں زیادہ دور تک جانے کی ضرورت نہیں۔ مئی 1958ء، مئی 1968ء اور مارچ 1978ء میں بھی فرانس میں انقلاب کا اسقاطِ حمل ہوا۔ اس کی کچھ وضاحت اس تجربے کی روشنی میں کی جا سکتی ہے جو آج سے دو سو سال پہلے فرانسیسیوں کو انقلاب کی اولاد کے معاملے میں ہوا۔ اس بچے نے جتنی تعمیر کی، اتنی ہی تخریب بھی کی۔ قولِ متناقض یہ ہے کہ نیا نظام تشکیل دینے کے لئے اسے پرانے نظام کو تباہ کرنا پڑتا ہے۔ انقلابی ’’آزادی، مساوات اور مشترکہ مفاد‘‘ کے مثالیوں کو ٹھوس اداروں کی شکل دینے میں ناکام رہے۔ انقلاب نے امراء کو ختم کر دیا لیکن امارت دوبارہ نمودار ہو گئی۔ انقلاب نے بادشاہ اور ملکہ کو ختم کر دیا لیکن بادشاہ اور ملکہ پلٹ کر دوبارہ تخت فرانس پر آ بیٹھے۔‘‘ +رضیہ الدین (پیدائش 1205ء وفات 1240ء) کو تاریخ میں رضیہ سلطان یا رضیہ سلطانہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 1236ء سے 1240ء تک دہلی کے تخت پر حکمران رہی۔ وہ سلجوقی ترکوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس وقت کی چند دیگر مسلمان شہزادیوں کی طرح اسے بھی ضرورت پڑنے پر افواج کی کمان کرنے اور مملکت کا نطام سنبھالنے کی تربیت دی گئی تھی۔ مسلمانوں اور ترکوں کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ پہلی خاتون حکمران تھی۔ +رضیہ 1236ء میں اپنے والد سلطان شمس الدین التمش کے انتقال کے بعد تخت پر بیٹھی۔ سلطان التمش پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے اپنی بیٹی کو ولیہ عہد کے مرتبے پر فائز کیا۔ اس سے پہلے التمش کے بڑے بیٹے کی تربیت ولی عہد کی حیثیت سے کی جا رہی تھی لیکن اس کا انتقال نوعمری میں ہی ہو گیا۔ درباری امراء التمش کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ایک خاتون کو اپنا حکمران تسلیم کر لینے پر آمادہ نہ تھے لہٰذا 29 اپریل 1236ء کے روز سلطان التمش کے انتقال کے بعد، اس کے بھائی رکن الدین فیروز شاہ کو رضیہ کی جگہ تخت پر بٹھا دیا گیا۔ +رکن الدین زیادہ عرصے تک اس منصب پر نہ رہ سکا۔ امورِ مملکت کی تمام تر ذمہ داری اس کی ماں شاہ ترکان نے سنبھال رکھی تھی اور وہ خود وہ رنگ رلیوں میں کھویا ہوا تھا۔ یہ صورتِ حال جلد ہی عوام میں اشتعال پیدا کرنے کا سبب بن گئی۔ 9 نومبر 1236ء کے روز، اقتدار سنبھالنے کے محض چھ ماہ بعد، رکن الدین اور شاہ ترکان دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ +گہرے تامل کے بعد، امراء رضیہ کو تخت پر بٹھانے پر آمادہ ہو گئے۔ بچپن اور لڑکپن میں خواتین کے ساتھ رضیہ کا اٹھنا بیٹھنا بہت کم رہا تھا، لہٰذا وہ معاشرے کے نسوانی آداب اور رکھ رکھائو سے بہت کم واقفیت رکھتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ بننے سے پہلے بھی، اپنے والد کی زندگی میں وہ امورِ مملکت میں گہری دلچسپی لیا کرتی تھی۔ سلطانہ بننے کے بعد، رضیہ نے نسوانی لباس کے بجائے مردانہ کپڑے پہننا شروع کر دیے، اور روایت کے خلاف، میدانِ جنگ میں فوج کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنا چہرہ بے نقاب رکھتی تھی۔ +کاروبارِ حکومت کی گہری سوجھ بوجھ اور ذہانت کی بدولت رضیہ درباری امراء کو قابو میں رکھنے اور فوج اور عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ سیاسی محاذ پر اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے اپنے خلاف اٹھنے والے باغی گروہوں کو آپس میں الجھا دیا۔ اس مرحلے پر ایسا لگتا تھا کہ رضیہ سلطانہ تخت دہلی کی تاریخ میں سب سے طاقتور حکمران بن کر ابھرے گی۔ +بغاوت کے نتیجے میں ہونے والی جنگ میں رضیہ کو شکست ہوئی، یاقوت مارا گیا اور رضیہ کو قیدی بنا لیا گیا۔ دوسری طرف رضیہ کی غیرموجودگی میں اس کے بھائی معز الدین بہرام نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ حالات کا پانسہ اپنے حق میں پلٹنے کے لئے رضیہ نے ملک التونیہ سے شادی کر لی اور دہلی کا تخت واپس حاصل کرنے کے لئے اپنے بھائی پر فوج کشی کر دی۔ +24 ربیع الاول 638ہجری (اکتوبر 1240ء) کے روز ہونے والی جنگ میں رضیہ اور ملک التونیہ کی فوج کو شکست ہوئی اور انہیں میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ راستے میں ان کی باقی ماندہ افواج بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ اگلے روز ان کے دشمنوں نے انہیں آ لیا اور 25 ربیع الاول 638 ہجری کے روز انہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عیسوی کیلنڈر میں یہ تاریخ 14 اکتوبر 1240ء بنتی ہے۔ معزالدین بہرام کا انجام یہ ہوا کہ کچھ ہی عرصے بعد اسے بھی نااہلی کے الزام میں تخت سے اتار دیا گیا۔ +کہا جاتا ہے کہ اپنے دورِ حکومت میں رضیہ سلطانہ نے غیرمسلموں پر عائد ٹیکس ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ امراء کی جانب سے مخالفت ہونے پر اس نے کہا کہ دین کی روح، اس کے اجزاء سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی غیرمسلموں پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک اور موقعے پر ایک نومسلم کو دربار میں عہدہ دینا چاہا مگر امراء نے ایک دفعہ پھر مخالفت شروع کر دی۔ ان دو مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے مختصر سے دورِ حکومت میں رضیہ سلطانہ کو اپنے امراء کی تنگ نظری کا کیسے قدم قدم پر سامنا کرنا پڑا۔ +رضیہ اپنی سلطنت اور عوام کی فلاح و بہبود میں گہری دلچسپی رکھتی تھی۔ ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جس سے پتہ چلے کہ وہ اپنے ماتحتوں سے پرے رہنے کو ترجیح دیتی تھی بلکہ اس کے برعکس یہ روایات ملتی ہیں کہ وہ اپنے غلاموں میں گھل مل کر رہتی تھی۔ +رضیہ نے اپنی مملکت میں مدرسے، دارالعلوم، دارالتحقیق اور عوامی کتب خانے تعمیر کرائے جن میں قرآن و حدیث کی کتب کے ساتھ ساتھ قدیم فلاسفہ کی کتب بھی رکھی گئیں۔ مدرسوں میں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ سائن��، فلسفہ، علم فلکیات اور ادب میں ہندو مصنفین کی کاوشوں کو بھی پڑھایا جا تا تھا۔ +رضیہ کی قبر نئی دہلی میں ترکمان گیٹ کے پاس بلبل خانہ نامی گلی میں واقع ہے۔ اس شکستہ اور گرد و غبار سے اٹی عمارت کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جا رہی۔ قبر کے چاروں طرف بے ہنگم رہائشی عمارات پھیلی ہوئی ہیں۔ +تیرہویں صدی میں اس مقام پر ایک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کوئی نہیں جانتا کہ رضیہ کا جسد خاکی اس جگہ تک کیسے پہنچا۔ پاس ہی ایک اور قبر ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اس کی بہن شازیہ کی ہے۔ علاقے کے مسلمان رہائشیوں نے اس مقبرے کے ایک حصے کو مسجد کی شکل دے دی ہے جہاں باقاعدگی سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ +عظیم منگول فاتح چنگیر خان 1162ء میں پیدا ہوا۔ لفظ منگول ’’منگ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی بہادر اور دلیر کے ہیں۔ منگولوں کی اصل کے متعلق مؤرخوں کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مسلم مؤرخوں کا کہنا ہے کہ منگول بھی ترک وحشی قبیلوں کی ہی ایک شاخ ہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ چنگیز خان تقریباً تمام منگول قبیلوں کو ایک جھنڈے تلے متحد کرنے میں کامیاب رہا اور ان کی رہنمائی کرتا ہوا پوری دنیا پر چھا گیا۔ منگولوں کا طرزِ عمل اس امر کا شاہد ہے کہ انہیں شہروں اور شہری زندگی سے نفرت تھی۔ انہوں نے اپنا طرزِ زندگی خود بنایا اور ان کا نظم و ضبط بڑا گہرا اور مثالی تھا۔ ان کی فتوحات کا باعث ان کی کثیر تعداد نہیں بلکہ ان کا ڈسپلن اور نظم و ضبط تھا۔ اس کا سارا کریڈٹ چنگیز خان کو جاتا ہے کیونکہ منگولوں کی تنظیم اور نظم اسی کی شاندار قیادت کے سبب ممکن ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بہترین حربی دماغ کا مالک اور ایک زبردست لیڈر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے کئی جرنیلوں کی بھی تربیت کی اور انہیں بھی عظیم لیڈر بنا دیا۔ اگرچہ منگولیا کے یہ وحشی قبائل جسمانی طور پر بڑے مضبوط لوگ تھے اور سختیاں اور کٹھنائیاں جھیلنا ان کے لئے معمول کی بات تھی لیکن چنگیز خان جیسے قائد کی عدم موجودی میں وہ ایسا اہم مقام حاصل کرنے میں شاید کبھی کامیاب نہ ہو پاتے۔ +چنگیز خان کا باپ یسوجی بتاغر ایک معمولی منگول سردار تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام تموجن (یا تموچن) رکھا۔ چنگیر خان کی عمر نو سال تھی جب اس کے باپ کو دشمن سرداروں نے قتل کر دیا۔ ان قبیلوں کی زندگی جنگلی جانوروں کے شکار اور موسم کی سختی سے محفوظ رہنے کے لئے ان کی کھال کو اپنا لباس بنانے تک محدود تھی۔ پیٹ بھرنے کے لئے شکار کرنا ازبس ضروری تھا۔ قبیلے کی قیادت حاصل کرنے کے لئے ایک اور اہم کام مویشیوں خصوصاً گھوڑوں کی چوری تھی۔ ایک بچے کی حیثیت سے چنگیز خان کو یہ سب سیکھنا پڑا اور باپ کی موت کے بعد قبیلے کے رواج کے مطابق سرداری کا بوجھ اس کے شانوں پر آ گیا۔ اس اعتبار سے وہ خوش قسمت تھا کہ اپنی سرداری کے پہلے ہی دن وہ دو پتھروں سے دو ہرنوں کا شکار کرنے میں کامیاب رہا اور واپس آتے ہوئے رستے میں اس نے ایک گیڈر کو شکار کر کے اس کی کھال حاصل کر لی۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ جلد ہی دولت کا انبار لگانے میں کامیاب رہا۔ ان دنوں میں مویشی اور کھالیں دولت کا نشان تھیں۔ چنگیز خان نے بتدریج اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا شروع کیا لیکن اسے شکار اور کھیلوں میں آزادانہ حصہ لینے کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس کے باپ کے موت کے بعد بھی خطرہ ٹلا نہیں تھا۔ صورتِ حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب ایک دشمن قبیلے نے نوجوان تموجن کو گرفتار کر لیا۔ فرار ہون�� سے روکنے کے لئے اس کی گردن میں لکڑی کا طوق ڈال دیا گیا۔ بے بسی اور لاچارگی کی اس انتہائی حالت سے، ایک بنجر اور پسماندہ سرزمین میں ایک گنوار قیدی کے مقام سے، چنگیز خان دنیا کا سب سے طاقتور آدمی بن کر ابھرا۔ +وہ قید سے فرار ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے باپ کے ایک دوست طغرل سے، جو ایک مقامی قبیلے کا سردار تھا، رابطہ قائم کیا۔ ان دنوں مختلف قبیلوں کے درمیان مختلف وجوہاتِ نزاع کی بنیاد پر خونریز لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ ان لڑائیوں میں حصہ لے لے کر چنگیز خان نے اپنی تربیت کی اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے قوت و اقتدار کی بلند ترین چوٹی تک پہنچا۔ +مذہبی اعتبار سے چنگیز خان شمان مت سے تعلق رکھتا تھا جس کے عقائد میں ’’جاودانی نیلے آسمان‘‘ کی عبادت شامل ہے۔ وہ تائو ازم کے چینی راہبوں کے ساتھ طول طویل گفت و شنید کیا کرتا تھا لیکن بذاتِ خود شمان مت پر کاربند رہا اور دشواری کے عالم میں ہمیشہ آسمانوں سے رہنمائی طلب کرتا رہا۔ وہ اور اس کے پیرو، سبھی ناخواندہ تھے۔ غالباً ایک طویل عرصے تک اسے یہ بھی علم نہ رہا ہوگا کہ دنیا میں تحریر نام کی کوئی شے بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے پیغامات زبانی اور عموماً منظوم تمثیلات و ضرب الامثال کی شکل میں ہوتے تھے۔ سوچیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایسی وسیع سلطنت کا انتظام و انصرام محض زبانی پیغامات کے بل بوتے پر کیسے چلایا جاتا رہا۔ جب چنگیز خان کو پتہ چلا کہ تحریر بھی کوئی شے ہے تو اس نے فوری طور پر اس کی افادیت اور وقعت کا ادراک کرتے ہوئے اپنے بیٹوں اور اعلیٰ افسران کو اس کے سیکھنے کا حکم دیا۔ اس نے یہ فرمان بھی صادر کیا کہ منگولوں کے قدیم مروجہ قوانین کو بمعہ اس کے اقوال، تحریری شکل میں منضبط کیا جائے تاکہ اسے ایک ضابطے کی حیثیت سے سب پر لاگو کیا جا سکے۔ شہنشاہ خود بھی اس ضابطے کا پابند تھا لیکن منگول اس کے پابند نہ رہ سکے۔ +تموجن کے عروج سے قبل، جنگجو منگول قبیلے اپنی توانائی کا بڑا حصہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے پر صرف کیا کرتے تھے۔ اپنی کم عمری کے باوجود چنگیز خان نے جدوجہد جاری رکھی اور درجہ بدرجہ اس مقام تک پہنچ گیا کہ اس کی درخواست پر منگول اجتماع ’’قرولتائی‘‘ بلایا گیا اور اس کے ارکان نے متفقہ طور پر اسے اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ حربی مہارت، ڈپلومیسی، بے رحمی اور انتظام کاری جیسی صلاحیتوں کے امتزاج کی بدولت تموجن تمام قبائل کو اپنی قیادت کے جھنڈے تلے متحد کرنے میں کامیاب رہا اور چند سال بعد 1206ء میں منگول سرداروں کے ایک اجتماع میں اسے چنگیز خان (شہنشاہِ آفاق) کا خطاب دے دیا گیا۔ +جواہر لعل نہرو اپنی کتاب ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں منگولوں کی ایک خفیہ تاریخ کا ذکر کرتے ہیں جو 13 ویں صدی میں لکھی گئی اور 14 ویں صدی میں چین میں شائع ہوئی۔اس میں چنگیز خان کے انتخاب کی نقشہ کشی کچھ اس طرح کی گئی ہے: +’’اور اس طرح، چیتے کے سال میں، جب خیموں میں رہنے والی تمام نسلیں ایک قیادت کے تحت متحد ہو گئیں، تو وہ اونن کے سرچشموں کے نزدیک اکٹھے ہوئے اور 9 ٹانگوں والا سفید پرچم بلند کر کے چنگیز کو قاآن کا خطاب دیا۔‘‘ اس وقت چنگیز خان کی عمر 51 سال تھی اور یہاں سے اس کی فتوحات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ چنگیز خان کی عمر رسیدگی بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے کیونکہ زیادہ تر فاتحین نے اپنی فتوحات کا آغاز نوجوانی کے عالم میں کیا تھا۔ +1219ء میں چنگیز خان کی قیادت میں منگول افواج نے وسطی ایشیا اور ایران کو روند ڈالا۔ ایک منگول لشکر روس پر حملہ آور ہوا جبکہ چنگیز خان نے بذاتِ خود افغانستان اور شمالی ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ 1225ء میں وہ منگولیا واپس پلٹا جہاں 1227ء میں اس کی موت ہوئی۔ اس نے منگولوں کو منظم کرکے ایک ایسی قوت بنا دیا کہ 1279ء تک چین، روس اور وسطی ایشیا، ایران اور جنوب مغربی ایشیا کا زیادہ تر حصہ منگول سلطنت میں شامل ہو گئے۔ جب چنگیز خان کے پوتے قبلائی خان نے چین کی فتح مکمل کی تو منگول سلطنت روئے زمین اور تاریخ عالم کی سب سے بڑی سلطنت قرار پائی اور قبلائی خان کی بادشاہت کو کوریا، تبت اور جنوب مغربی ایشیا کے بعض حصوں میں تسلیم کیا جاتا رہا۔ +چنگیز خان نے اپنی فتوحات کو ایسی عمدگی سے ترتیب دیا تھا اور اس کے بیٹے اور پوتے ایسے قابل جانشین ثابت ہوئے کہ اس کی موت کے بعد بھی کئی صدیوں تک ایشیا کے وسیع حصوں پر منگول حکومت برقرار رہی۔ منگول فتوحات کے نتیجے میں عارضی طور پر پورا ایشیا متحد ہو کر بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہا۔ اس سے چین اور یورپ کے درمیان تجارت کو فروغ ملا۔ +چنگیز خان نہ ہوتا تو 13 ویں صدی میں منگولوں کی فتوحات کا سیلاب شاید کبھی شروع نہ ہوتا۔ اس کی وفات کے بعد منگول قبیلے دوبارہ کبھی متحد نہ ہو سکے۔ اس اعتبار سے چنگیز خان انسانی تاریخ کے حقیقی مرکزی متحرکین میں شامل نظر آتا ہے۔ +اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل چنگیز خان نے اپنے تیسرے بیٹے اوغدائی کو اپنا جانشین قرار دینے کی درخواست کی۔ چنگیز خان کا یہ انتخاب بھی دانشمندانہ ثابت ہوا کیونکہ آگے چل کر اوغدائی اپنی حیثیت میں ایک نہایت شاندار جرنیل بنا۔ اس کی قیادت میں چین میں منگول افواج کی پیش قدمی جاری رہی، روس مکمل طور پر فتح کر لیا گیا اور منگول لشکروں کے قدم یورپ تک جا پہنچے۔ 1241ء میں منگولوں نے پولینڈ، جرمنی اور ہنگری کی افواج کو تباہ کن شکستوں سے دوچار کیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ سے بھی آگے نکل گئے۔ تاہم اوغدائی کی وفات کے بعد منگول یورپ سے واپس ہو گئے اور دوبارہ کبھی ادھر کا رخ نہ کیا۔ +ذوالفقار علی بھٹو نے سزائے موت کی کوٹھری سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام ایک خط میں لکھا۔ ’’تاریخ میں ایسے بہت سے افراد کی مثالیں ملتی ہیں جو تباہی مچانے کا ارادہ لے کر گھر سے نکلے لیکن اس کے بجائے تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوئے۔ ایسے افراد کی مثالیں بھی موجود ہیں جو تعمیر کے ارادے سے آگے بڑھے لیکن تخریب کا باعث ثابت ہوئے۔ جب چنگیز خان اپنی چھوٹی سی فوج لے کر منگولیا کے ایک دور افتادہ گائوں سے نکلا تو کیا اس نے سوچا ہوگا کہ وہ اور اس کی اولاد یورپ، روس، چین اور ہندوستان میں دور تک گھسنے میں کامیاب رہیں گے اور ایک ایسا نظام بھی تشکیل دیں گے جو کئی نسلوں تک برقرار رہے گا؟‘‘ +مائوزے تنگ نے اپنی رہنمائی میں چین میں کمیونسٹ پارٹی کو اقتدار تک پہنچایا اور آئندہ 20 سال تک اس وسیع و عریض ملک کے سب سے اہم اور دوررس انقلاب کی سربراہی کرتے رہے۔ +مائوزے تنگ 1893ء میں چین کے صوبہ ہونان کے قصبے شائوشان میں ایک مزدور کے گھر میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری سے ان کے خیالات میں بائیں بازو کی طرف جھکائو کا رجحان پایا جاتا تھا اور 1920ء تک وہ پورے طور پر مارکسسٹ بن چکے تھے۔ 1921ء میں وہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے 12 حقیقی بانیوں میں سے ایک بنے۔ 1935ء میں وہ پارٹی کے اعلیٰ سطحی لیڈر بن گئے۔ 14 سال کے اس دورانئے میں انہیں ایک بڑا لیڈر بننے کے تمام ارتقائی مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس دوران انہوں نے مختلف موضوعات پر کئی لیکچرز میں شرکت کی، معروضی حالات کا مطالعہ کیا، اور مستقبل کی لیڈر شپ کے لئے خود کو تربیت دیتے رہے۔ اقتدار تک پہنچنے کے لئے کمیونسٹ پارٹی نے جو راستہ اپنایا تھا وہ بڑا غیرہموار، طویل اور سست ہونے کے باوجود بے حد ٹھوس تھا۔ مائو کی باعلم اور تربیت یافتہ لیڈر شپ کے تحت پارٹی کی قوت میں بتدریج اضافہ ہوا، کامیابیاں حاصل ہوئیں اور 1949ء میں بالآخر کمیونسٹ پارٹی چین کا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ +بچپن سے ہی مائوزے تنگ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی زندگی غربت اور وطن کی خاطر کٹھنائیاں جھیلنے سے عبارت ہے۔ چین میں 1911ء میں مانچوخاندان کی شاہی حکومت ختم کرنے کا سبب بننے والے انقلاب کے ایک سال بعد مائو انقلابی سرگرمیوں میں سرگرم ہوئے۔ سوویت روس میں 1918ء میں لینن کے زیر قیادت کمیونسٹ حکومت قائم ہونے کے بعد، مائو نے 1921ء میں چین میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1927ء میں انہوں نے ہونان میں ’’خزاں کی بغاوت‘‘ کروائی۔ 1930ء میں انہوں نے کیانگسی میں چائنیز سوویت ری پبلک قائم کی۔ تاہم حکومتی دبائو کے زیر اثر انہیں ری پبلک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 1934ء میں وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ نکلے اور 3000میل کا پُرصعوبت سفر طے کر کے چین کے شمال مغرب میں واقع ینان تک پہنچے۔ چین کی تاریخ میں اس سفر کو ’’لانگ مارچ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ینان پہنچ کر انہوں نے مزدور پیشہ افراد کی مدد سے گوریلا فوج تیار کی اور حکومتی فوجوں پر حملے شروع کر دیئے۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کر دیا۔ مائوزے تنگ کے زیرسربراہی کمیونسٹ پارٹی نے اس مرحلے پر چینی حکومت کا ساتھ دیا اور جاپان کے خلاف جنگوں میں شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ بیرونی حملے کے بعد ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک کی حفاظت کے لئے کمربستہ ہو جانے کا فیصلہ ان کی دانشمندی کا بین ثبوت ہے۔ +دوسری جنگ عظیم میں 1945ء میں جاپان کو شکست ہوئی اور چین کے لئے اس طرف سے کھڑی ہونے والی مشکلات کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن اب چیانگ کائی شیک کی کیومن تانگ اور مائوزے تنگ کی ریڈ آرمی کے درمیان ہونے والی چپقلش کے نتیجے میں چین ایک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس کے نتیجے میں مائوزے تنگ نے چیانگ کائی شیک کو شکست دے کر 1949ء میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھ دی۔ +مائوزے تنگ کی زندگی میں ان کے ہم وطن ایک دیوتا کی طرح ان کی پوجا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک پسماندہ اور نیم جاگیردارانہ ملک کو جدید اور دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں سے ایک بنایا۔ کمیونسٹ چین کی بحالی کے لئے ان کی جدوجہد کئی عشروں پر محیط ہے۔ اپنے ملک میں انہیں ’’چیئرمین مائو‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ سربراہِ مملکت بھی تھے۔ ’’سرخ کتاب‘‘ جو کہ مائو کی تعلیمات اور مشہور اقوال پر مشتمل ہے، چینیوں کے لئے انجیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مائو کمیونزم کے حوالے سے بھی ایک الگ نظریاتی سوچ رکھتے تھے اور انہوں نے مارکس اور لینن کے نظریات میں چند اہم تبدیلیاں کر کے ایک نیا نظام تشکیل دیا جسے مائوازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ +جس وقت مائو نے منصب اقتدار سنبھالا، اس وقت چین غربت و افلاس کا مارا پسماندہ ملک تھا جس کی وسیع و عریض آبادی کا زیادہ تر حصہ ناخواندہ کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل تھا۔ مائو کی اپنی عمر اس وقت 56 سال تھی اور لگتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا سنہرا دور گزار چکے ہیں۔ +لیکن حقیقت یہ تھی کہ مائو کی زندگی کا سب سے اہم دور اب شروع ہو رہا تھا۔ 1976ء میں ان کی وفات کے وقت تک ان کی حکمت عملیاں چین کو مکمل طور پر انقلاب آشنا کر چکی تھیں۔ اس انقلاب کا ایک پہلو پورے ملک کو جدید تقاضوں سے روشناس کرانا تھا۔ ملک کو صنعتی بنایا گیا، عوامی تعلیم میں بے پناہ اضافہ کیا گیا اور عوامی صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ +مائو نہ صرف سیاسی اور معاشی سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی انقلاب لانے میں کامیاب رہے۔ 1949ء سے لے کر اپنی وفات تک وہ چینی حکومت کی سب سے اہم شخصیت رہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب ’’آگے کو بڑا قدم‘‘ نامی مہم کا آغاز ہوا تو مائو کی عمر ساٹھ پینسٹھ کے لگ بھگ ہو چکی تھی، جب ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کا آغاز ہوا وہ تو 70 کے ہندسے خاصے آگے نکل چکے تھے اور جب امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہوا تو وہ تقریباً 80 سال کے تھے۔ +ابتداً، کارل مارکس کی سوچ کے عین مطابق، مائو کو بھی یقین تھا کہ شہروں کے صنعتی کارکن کمیونسٹ پارٹی کی سب سے مضبوط بنیاد بنیں گے لیکن بعد ازاں ان کے خیالات تبدیل ہو گئے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پارٹی کو مرکزی سپورٹ مزدور پیشہ طبقے سے ہی مل سکتی ہے۔ چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران، مائو کی قوت کا مرکز ہمیشہ دیہی علاقوں میں رہا۔ جہاں روس میں سٹالن صنعتی ترقی پر زیادہ زور دیتا تھا، وہاں چین میں مائو زرعی اور چھوٹی صنعتوں کی ترقی پر توجہ دیتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس کے باوجود مائو کے زیرقیادت، چین کی صنعتی پیداوار میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ جتنے وسیع علاقے اور جتنی بڑی آبادی پر مائو نے حکومت کی ہے، وہ تاریخ کی کسی اور شخصیت کے حصے میں نہیں آئی۔ +اس عظیم انقلابی کا انتقال 9 مارچ 1976ء کو 83 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے مخالفوں نے چین میں مائو کی لائی ہوئی تبدیلیوں کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا لیکن مائو نے چین کے لئے جو عظیم خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک تاریخی حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ +جیفرسن 13 اپریل 1743ء کو ورجینیا کی ایک کائونٹی شیڈویل میں پیدا ہوئے۔ 1776ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی آزادی کا اعلان انہوں نے تحریر کیا۔ ان کے والد ایک سرویئر اور پلانٹر تھے اور اپنے بیٹے کے لئے ایک وسیع جائیداد چھوڑ کر گئے۔ دو سال تک انہوں نے کالج آف ولیم اینڈ میری میں تعلیم حاصل کی لیکن ڈگری حاصل کئے بغیر وہاں سے نکل آئے۔ بعد ازاں انہوں نے کئی سال قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1767ء میں ورجینیا کے بار میں داخل کر لئے گئے۔ اگلے سات سال انہوں نے ایک وکیل اور ایک پلانٹر کی حیثیت سے گزارے تاوقتیکہ 1774ء میں امریکی انقلاب کے نتیجے میں عدالتیں بند ہو گئیں۔ +تھامس جیفرسن کو ورثے میں مادی دولت ملی تھی اور یکم جنوری 1772ء کو مارتھا ویلز سکیلٹن کو رفیقہ حیات بنا کر انہوں نے محبت کی دولت بھی حاصل کر لی۔ 25 سال کی عمر میں انہیں اسمبلی کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ 1769ء سے 1774ء تک وہ رکن اسمبلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے خود کو ایک عمدہ کمیٹی مین اور ڈرافٹس مین ثابت کیا لیکن ایک عمدہ مقرر کے طور پر اپنا لوہا منوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ +مادر مملکت (برطانیہ) کے ساتھ جدوجہد کے آغاز سے ہی جیفرسن کی حمایت پیٹریاٹس (امریکہ کی الگ حیثیت کے خواہاں افراد کا گروہ) کے ساتھ تھی۔ انہوں نے اپنی پوزیشن کا تعین بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا اور اس کی بنیاد برطانوی تاریخ اور فلسفۂ سیاسی کے وسیع مطالعے پر رکھی تھی۔ پیٹریاٹس کے نصب العین میں ان کی سب سے اہم ابتدائی شرکت ایک نہایت متاثر کن پمفلٹ کی صورت میں تھی جس کا عنوان تھا: ’’برطانوی امریکہ کے حقوق کا ایک خلاصہ۔‘‘ یہ پمفلٹ 1774ء میں شائع ہوا۔ اسے اس سال ورجینیا کے کنونشن کے سامنے پیش کرنے کے لئے تحریر کیا گیا تھا۔ اس پمفلٹ میں انہوں نے فطری حقوق بشمول حق ہجرت پر زور دیا اور نوآبادیوں پر پارلیمنٹ کے اقتدار کو مسترد کر دیا اور مادر مملکت یعنی برطانیہ کے ساتھ بادشاہ کے علاوہ کسی طرح کا تعلق رکھنے سے انکار کر دیا۔ +جیفرسن 1789ء کے اواخر میں امریکہ واپس لوٹے اور جلد ہی پہلے سیکرٹری آف سٹیٹ کے طور پر چن لئے گئے۔ کابینہ میں جیفرسن اور الیگزینڈر ہملٹن کے مابین ایک نظریاتی تصادم چھڑ گیا۔ ملک بھر میں ہملٹن کی پالیسیوں کے حمایتیوں نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر فیڈرل پارٹی تشکیل دے دی۔ جیفرسن کی پالیسیوں کے حمایتی اکٹھے ہوئے اور نتیجے میں ڈیموکریٹک ری پبلکن پارٹی وجود میں آئی جو کہ آگے چل کر ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے جانی گئی۔ +1796ء میں جیفرسن نے صدارت کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ منتخب ہونے والے صدر جان ایڈمز کے بعد وہ دوسرے نمبر پر آئے۔ اس وقت کے آئینی ضوابط کے مطابق وہ انہیں نائب امریکی صدر چن لیا گیا۔ +جیفرسن اور ان کے انتخابی ساتھی آرون بر نے 1800ء کے صدارتی انتخابات میں جان ایڈمز کو شکست سے دوچار کیا۔ جیفرسن کی صدارت کا اعلان کچھ ہفتوں تک نہ کیا جا سکا کیونکہ انتخابی ضوابط کے مطابق وہ اپنے انتخابی ساتھی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو صدرِ امریکہ چنا جانا تھا۔ انتخاب کا فیصلہ دارالاراکین کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ فیڈرل پارٹی کے رائے دہندگان نے کئی غیرفیصلہ کن رائے شماریوں میں مسلسل بر کے حق میں ووٹ ڈالے۔ لیکن کوئی صورت کارگر ہوتے نہ دیکھ کر ان میں سے بہت سے پیچھے ہٹ گئے۔ اکثریت کا فیصلہ بالآخر غالب آیا اور جیفرسن کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تیسرے صدر کے طور پر چن لیا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ انتخاب مکمل طور پر آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کیا گیا اور جیفرسن نے اپنے پہلے صدارتی انتخاب میں اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ +بہ حیثیت صدر ان کا پہلا دور خاصا کامیاب رہا۔ اس کی مختلف وجوہات تھیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ ایک ایسی پارٹی کے غیرمتنازعہ لیڈر تھے جس نے حزبِ اختلاف کی حیثیت سے گزارے جانے والے وقت میں خود کو بڑی اچھی طرح متحد کر لیا تھا۔ +کانٹی نینٹل کانگریس کے رکن کے طور پر (1775ء تا 1776ء)، جیفرسن کو 1776ء میں جان ایڈمز، بنجامن فرینکلن، رابرٹ لیونگ سٹون اور راجر شرمین کے ساتھ اعلانِ آزادی کا مسودہ تحریر کرنے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ پورا مسودہ انہوں نے خود لکھا، بعد ازاں جان ایڈمز اور بنجامن فرینکلن نے اس میں ضروری ترامیم کیں۔ جیفرسن نے 1776ء کے موسم خزاں میں کانگریس کی رکنیت چھوڑ دی اور ورجینیا کے مقننہ میں 1779ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 1779ء میں انہیں گورنر منتخب کر لیا گیا اور 1779ء سے 1781ء تک وہ گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ +1781ء سے 1783ء تک کے مختصر ذاتی وقفے میں انہوں نے ریاست ورجینیا کے متعلق اپنے نوٹس کی تالیف کا کام شروع کیا۔ یہ نوٹس 1785ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئے۔ اس دستاویز میں غلامی کے مسئلے کے متعلق ان کے چند ذاتی خیالات و عقائد موجود ہیں۔ 1783ء سے لے کر 1784ء تک وہ کانٹی نینٹل کانگریس کے رکن رہے۔ 1782ء میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔ (ان کی شادی کو تقریباً دس سال ہو چکے تھے اور وہ چھ بچوں کے والدین تھے)۔ اگرچہ بیوی کی وفات کے وقت ان کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی لیکن انہوں نے دوسری شادی نہ کی۔ +جیفرسن جلد ہی ریٹائرمنٹ سے باہر آ کر دوبارہ کانگریس میں داخل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے سکوں کی تیاری کے لئے ایک اعشاری نظام کی تجویز پیش کی جو کہ قبول کر لی گئی۔ تاہم انہوں نے اوزان اور پیمانوں کے لئے بھی ایسی ہی ایک تجویز پیش کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔ انہوں نے ایک مزید تجویز پیش کی جس کی رُو سے تمام نئی ریاستوں میں غلامی کو ممنوع قرار دے دیا جاتا لیکن صرف ایک ووٹ کی کمی سے اسے منظور کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ +1784ء سے 1789ء تک جیفرسن فرانس میں مقیم رہے۔ یہاں پہلے انہوں نے تجارتی معاہدوں کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں، اس کے بعد بنجامن فرینکلن کی جگہ وزارت سنبھالی۔ کئی اعتبار سے یہ ان کی زندگی کا سب سے بھرپور دور ہے۔ ان کی یہ رائے پختہ اور حتمی ہو گئی کہ فرانس امریکہ کا ایک فطری دوست ہے جبکہ اس مرحلے پر برطانیہ ایک فطری رقیب۔ +اپنے عہدے کی معیاد کے اختتام پر انہوں نے بڑے غور و فکر اور احتیاط سے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں فرانس میں رونما ہوتے ہوئے انقلاب کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ فرانسیسی انقلاب کی انتہا پسندیوں نے انہیں اس سے متنفر ہونے پر مجبور کر دیا اور جب نپولین کی سرکردگی میں انقلاب بھی ایک شاہی حکومت کا روپ اختیار کر گیا تو انہوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ +ان کے پہلے دورِ صدارت کی کامیابی کی ایک اور وجہ ان کے وفادار اور قابل ساتھی تھے جن میں ریاستی امور کے سیکرٹری جیمز میڈیسن اور سیکرٹری خزانہ البرٹ گیلاٹن شامل تھے۔ آخری اور غالباً اہم ترین وجہ یہ تھی کہ اپنی معاشی پالیسیوں اور محصولات میں تخفیف کی وجہ سے انہیں عامتہ الناس میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ +سول سروس میں جیفرسن جماعتی توازن بحال کرنے میں کامیاب رہے لیکن عدلیہ کے معاملے میں انہیں اتنی کامیابی حاصل نہ ہو سکی کیونکہ جان ایڈمز کی مدتِ صدارت کے آخری دنوں میں عدلیہ میں فیڈرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو شامل کر دیا گیا تھا۔ جانبدار ججوں کو مختلف الزامات کے تحت ہٹانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی اور فیڈرلسٹ بدستور عدلیہ میں موجود رہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ ان کی جانبداری میں پہلے کی نسبت خاصی کمی واقع ہو گئی۔ +جیفرسن کی مدتِ صدارت کا سب سے قابل ذکر کارنامہ 1803ء میں لوئیسیانا کی خریداری ہے۔ رابرٹ لیونگ سٹون اور جیمز منرو کو اس سلسلے میں نپولین کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے فرانس بھیجا گیا۔ جو معاہدہ انہوں نے توثیق کے لئے امریکہ بھجوایا، اسے پڑھ کر جیفرسن کے ذہن میں اخلاقی حوالے سے کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں نظر آ رہا تھا کہ اس وسیع و عریض رقبے کی خریداری یونین (یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ) کا کردار بدل کر رکھ دے گی۔ لیکن انہیں یہ بھی احساس تھا کہ اس مرحلے پر سستی سے کام لینا غلط ہے۔ کسی بھی طرح کی تاخیر اس سودے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ لہٰذا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کے عوض لوئیسیانا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا حصہ بن گئی۔ +1804ء کے صدارتی انتخابات میں انہیں دوسری مرتبہ صدر منتخب کر لیا گیا تاہم جارج واشنگٹن کی قائم کردہ مثال کی تقلید کرتے ہوئے انہوں نے 1809ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ +اگرچہ اب بھی وہ اپنی پارٹی کے غیرمتنازعہ لیڈر تھے ، اس کے باوجود اپنی دوسری مدتِ صدارت میں اندرون اور بیرونِ ملک دونوں محاذوں پر انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اندرونِ ملک کھڑے ہونے والے مسائل میں سے ایک وہ سازش تھی جو ’’بر سازش‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ سابق نائب صدر آرون بر کو اس سازش کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور اس پر غداری کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ لیکن جج جان مارشل کے فیصلوں کی بدولت اسے مجرم قرار نہ دلوایا جا سکا۔ غلطی جیفرسن سے بھی ہوئی کہ انہوں نے مقدمے کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی ایک بیان میں کہہ دیا کہ آرون بر کا مجرم ہونا شک و شبے سے بالاتر ہے۔ +بیرونِ ملک محاذ پر جو اہم مشکلات انہیں پیش آئیں ان میں سے ایک 1807ء میں لگایا جانے والا امتناعِ تجارت کا حکم تھا۔ جنگ اور محکومی سے بچنے کے لئے جیفرسن کو اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس کو کسی بھی طرح کے تجارتی سامان کی برآمد بند کر دی گئی لیکن بیرونِ ملک اس فیصلے کے وہ اثرات مرتب نہ ہو سکے جن کی توقع کی گئی تھی اور ملکی معاشی صورتِ حال میں دشواریاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں انہوں نے یہ حکم واپس لے لیا اور اس کی جگہ زیادہ معتدل اور نرم اقدامات کئے لیکن اس کے باوجود 1812ء میں برطانیہ کے ساتھ امریکہ کی جنگ ہو کر رہی۔ +1809ء میں جیفرسن کے وفادار ساتھی جیمز میڈیسن نے ان کی جگہ صدارت کی کرسی سنبھالی۔ اپنی زندگی کے آخری سترہ سالوں میں جیفرسن ورجینیا میں مقیم رہے۔ ان کے وقت کا زیادہ تر حصہ جان ایڈمز اور دیگر رفقائے کار کے ساتھ لمبی چوڑی اور فکر انگیز خط و کتابت میں صرف ہوتا رہا۔ ان کی آخری عظیم عوامی خدمت 1819ء میں یونیورسٹی آف ورجینیا کا قیام تھی۔ 4 جولائی 1826ء کو اعلانِ آزادی کی 50 ویں سالگرہ کے موقعے پر ان کی وفات ہوئی۔ مرنے سے پہلے جیفرسن کو اس تعلیمی پروگرام کے ایک حصے پر عملدرآمد ہوتے دیکھنا نصیب ہو گیا جس کی تجویز انہوں نے 43 سال قبل ورجینیا کے مقننہ کے سامنے پیش کی تھی۔ +مارگریٹ رابرٹس 13 اکتوبر 1925ء کو برطانوی قصبے گرینتھم میں ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کے اوپری کمرے میں الفریڈ اور بیٹرس رابرٹس کے ہاں پیدا ہوئیں۔ جیسا کہ لیڈی تھیچر اپنی کتاب ’’شاہراہِ اقتدار‘‘ مطبوعہ1995ء) میں لکھتی ہیں۔ ’’میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئی جو عملیت پسند، سنجیدہ اور نہایت مذہبی تھا۔‘‘ +مارگریٹ ایک بہترین طالبہ تھیں۔ پرائمری سکول میں اپنی جماعت کی اعلیٰ طالبات میں شامل ہونے کے علاوہ انہوں نے گوناگوں دلچسپیاں اور شوق بھی پال رکھے تھے جن میں موسیقی اور شاعری شامل تھے۔ پانچ سال کی عمر سے والدین نے مارگریٹ کو ان کی والدہ کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے پیانو بجانے کے اسباق دلوانے شروع کئے۔ انہیں ادب کا بھی بے انتہا شوق تھا خصوصاً رڈیارڈ کپلنگ کی کتابیں انہیں بے حد پسند تھیں جن کا وہ ہر سال کرسمس کے تحفے کے طور پر مطالبہ کیا کرتی تھیں۔ دس سال کی عمر میں انہوں نے گرینتھم کے سالانہ مقابلے میں اپنے والد کی طرف سے ملنے والی شاندار خطیبانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاعری پڑھنے کا پہلا انعام حاصل کیا۔ گمانِ غالب ہے کہ مارگریٹ کی ابتدائی زندگی کے کئی واقعات ان کی آئندہ زندگی کے عقائد و نظریات کی ترتیب و تشکیل کو متاثر کرنے کا باعث بنے اور ان عقائد و نظریات نے آگے چل کر نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے رویئے اور نکات ہائے نظر تبدیل کر دیئے۔ وہ ’’شاہراہِ اقتدار‘‘ میں لکھتی ہیں۔ ’’بیٹھ کر دن میں خواب دیکھنے کے بجائے ہمارے ہاں ہمیشہ سرگرم رہنے پر زور دیا جاتا تھا۔‘‘ یہی زور غالباً وہ کلیدی عامل تھا جس کی بناء پر مارگریٹ تھیچر کا نعرہ ’’اٹھو اور آگے بڑھو برطانیہ۔ بیٹھ کر انتظار مت کرو برطانیہ‘‘ وجود میں آیا۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا۔ ’’کسی دن کے اختتام پر جب آپ بہت زیادہ مطمئن اور خوش ہوں تو اس کا جائزہ لیجئے۔ یہ کوئی ایسا دن نہ ہوگا جس میں آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے وقت ٹالتے رہے ہوں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب آپ کے پاس کرنے کو بہت سے کام تھے اور آپ نے وہ سب کام انجام دے ڈالے۔‘‘ اسی طرح سوشلزم کے متعلق مسز تھیچر کے نظریات سے واضح طور پر عیاں ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنی روزی اپنی محنت سے حاصل کرنی چاہئے، حکومت کو ایسا سہارا نہیں بننا چاہئے جس پر لوگ اپنی روزی کے لئے کام نہ کرنے کے باوجود ٹیک لگانے کی توقع کر سکیں۔ +ابتدائے عمر سے ہی مارگریٹ کسی نہ کسی حد تک سیاست میں سرگرم رہیں۔ اپنے ذاتی نظریئے اور خاندانی روایات کے زیراثر وہ خود کو ایک پکا قدامت پسند (کنزرویٹو) تصور کرتی تھیں۔ وہ ’’شاہراہِ اقتدار‘‘ میں لکھتی ہیں۔ ’’میں ہمیشہ سے قدامت پرست رہی ہوں۔ مجھے اس امر میں کبھی کوئی شبہ نہیں رہا کہ میری سیاسی وفاداریاں کن کے ساتھ ہیں۔ ذاتی نیک خصلت سیاسی حقیقت پسندی کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔‘‘ 1945ء اور 1946ء میں مارگریٹ کے والد الفریڈ رابرٹس گرینتھم کے میئر منتخب ہوئے اور اس طرح مارگریٹ کو نئی سیاسی خبروں سے باخبر رہنے کا موقع ملتا رہا۔ جب 1952ء میں لیبر پارٹی نے مقامی کونسلز میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تو مسٹر رابرٹس کو بھی اپنی کرسی سے محروم ہونا پڑا کیونکہ ووٹ دینے والوں نے کمیونٹی پر پارٹی کو ترجیح دی تھی۔ بہرحال، مارگریٹ کے والد نے اپنا عہدہ بڑے وقار اور امتیاز کے ساتھ چھوڑا۔ ایک ایسے دور میں جب ایٹم کو کچھ ہی عرصہ پہلے تقسیم کیا گیا تھا، جب پلاسٹک کی تیاری کا عمل شروع ہو رہا تھا اور جب ایک نئی سائنسی دنیا ابھر کر سامنے آ رہی تھی اور نوجوان لڑکیوں کے لئے سائنس کی تعلیم حاصل کرنا کوئی عجوبہ نہ رہا تھا، مارگریٹ رابرٹس کی دلچسپیوں کا محور کیمسٹری کا مضمون بن گیا۔ جب مارگریٹ کو اوکسفرڈ یونیورسٹی کے سمرویل کالج کی طرف سے سکالرشپ کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے کیمسٹری میں سپیشلائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ +سخت محنت میں منہمک ہونے کے باوجود مارگریٹ میتھوڈسٹ سٹڈی گروپ کی رکن رہیں اور گروپ کی طرف سے منعقد کی جانے والی دعوتوں میں شریک ہوتی رہیں۔ موسیقی کے شوق کی تسکین کے لئے انہوں نے باخ کوائر میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ وہ اوکسفرڈ یونیورسٹی کنزرویٹو ایسوسی ایشن میں بھی شامل ہوئیں اور مارچ 1945ء میں اس کے خزانچی کا عہدہ سنبھال لیا۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی تیسری خاتون تھیں۔ +1947ء میں اوکسفرڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد مارگریٹ رابرٹس پہلے برٹش زائلونائٹ اور بعد ازاں ایف ایس لیونز میں ریسرچ کیمسٹ کے طور پر کام کرتی رہیں۔ 1949ء میں انہیں ڈارٹ فورڈ، کینٹ سے ٹوری پارٹی کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا لیکن انتخابات میں وہ سیٹ جیتنے میں ناکام رہیں۔ 1950ء میں مارگریٹ کی ملاقات دولتمند اور کامیاب بزنس مین ڈینس تھیچر سے ہوئی اور اگلے سال دونوں کی شادی ہو گئی۔ 1951ء میں ٹوری پارٹی نے ایک دفعہ پھر انہیں ڈارٹ فورڈ سے نامزد کیا اور مارگریٹ ایک دفعہ پھر ناکام رہیں۔ اگست 1953ء میں مارگریٹ تھیچر نے جڑواں بیٹے اور بیٹی مارک اور کیرول کو جنم دیا۔ اسی سال دسمبر میں انہوں نے بار کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اور اگلے سال کے اوائل میں بار کی رکن بن گئیں۔ اب مارگریٹ تھیچر ایک کل وقتی ٹیکس بیرسٹر بن چکی تھیں۔ +1959ء کے عام انتخابات نزدیک آئے تو مارگریٹ تھیچر کو فنچلے کی ’’محفوظ‘‘ سیٹ کے لئے ٹوری پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔ مارگریٹ نے یہ سیٹ بھاری اکثریت سے جیتی۔ اس سے اگلے سال کے اوائل میں مارگریٹ نے دارالعوام میں عوامی اداروں کے موضوع پر اپنی پہلی تقریر کی۔ خلافِ معمول، ان کا پیش کیا ہوا بل پاس کر کے قانون بنا دیا گیا جس پر ایک مقامی اخبار نے شہ سرخی لگائی۔ ’’ایک ستارے کا جنم۔‘‘ 1960ء میں وزیراعظم نے مارگریٹ تھیچر کو پنشنز اور نیشنل انشورنس کے لئے جوائنٹ پارلیمانی سیکرٹری مقرر کر دیا۔ +1975ء میں مارگریٹ 130 ووٹ لے کر ٹوری پارٹی کی قیادت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس وقت کے سربراہِ جماعت اور سابق وزیراعظم برطانیہ ایڈورڈ ہیتھ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ +1976ء میں ضمنی انتخابات کے ایک سلسلے کے بعدلیبر پارٹی اپنے کئی مضبوط قلعوں سے محروم ہو گئی اور دارالعوام میں ان کی حتمی اکثریت ختم ہو گئی۔ +1978ء کے موسم سرما میں لاری ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی۔ ان کا مطالبہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں خاکروب، گورکن اور ایمرجنسی سروس فراہم کرنے والے ارکان بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے اور برطانیہ میں عدم اطمینانی پھیلنے لگی۔ +28 مارچ کو لیبر حکومت پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور 3 مئی 1979ء کو عام انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کر دیا گیا۔ +1979ء کی فتح سے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے برطانوی سیاست میں چلی آنے والی روایت کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ اس وقت تک برطانوی سیاست میں ’’اجتماعی اتفاق رائے‘‘ کی روایت چلی آ رہی تھی لیکن جس کھیل کو کھیلنے کا عزم مارگریٹ نے کر رکھا تھا، اس میں اجتماعی اتفاقِ رائے کا نام و نشان تک نہ تھا۔ +1974ء میں برسراقتدار آنے والی لیبر حکومت محض ایک ہلکی سی اکثریت کے بل بوتے پر کامیابی تک رسائی حاصل کر سکی تھی۔ اس حکومت کو اپنے دورِ اقتدار میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح کا جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد کی شرح تک پہنچتا ہوا گراف اس امر کا بین ثبوت تھا کہ آئندہ عام انتخابات میں معاشیات مرکزی کردار ادا کرے گی۔ اپریل 1976ء تک وزیراعظم نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا اور وزارتِ عظمیٰ کے اختیارات لیبر پارٹی کے لیڈر جیمز کیلاہان کے حوالے کر دیے گئے۔ لیکن اس وقت تک لیبر پارٹی دو ضمنی انتخابات ہار چکی تھی اور نتیجتاً پارلیمنٹ میں اس کی سادہ اکثریت ختم ہو چکی تھی۔ کیلاہان کو علم تھا کہ عام انتخابات سر پر چڑھے چلے آ رہے ہیں لیکن لیبر کابینہ میں اس ضمن میں بہت سی متضاد آراء موجود تھیں کہ عام انتخابات کا انعقاد کب ہونا چاہئے۔ اگرچہ معیشت میں بحالی کے ہلکے ہلکے آثار نمودار ہو رہے تھے لیکن ووٹرز کے لئے یہ آثار خاطر خواہ حد تک حوصلہ افزا نہ تھے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیلاہان نے 1978ء کے بجائے 1979ء میں انتخابات منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ تنخواہوں کے متعلق اس کی پالیسی ووٹرز کو پولنگ کے دن تک مطمئن رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ اس کی توقعات پوری نہ ہو سکیں اور صنعتی بے چینی پھیلنا شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سے ہر چیز کیلاہان کے خلاف گئی۔ اس نے پبلک سیکٹر کی تنخواہوں میں اضافے کو 5 فیصد سے نیچے رکھنے کا حلف اٹھایا لیکن جب ٹینکر ڈرائیورز نے حکومت کو 14 فیصد اضافہ کرنے پر مجبور کر دیا تو گویا سیلاب کے راستے کھل گئے اور کیلاہان ڈوبنے لگا۔ جنوری 1979ء تک واٹر ورکرز، ایمبولینس ڈرائیورز، سیوریج ورکرز، خاکروب اور کئی دیگر شعبوں نے ہڑتال کر دی اور انتظامی بدنظمی پھیلنا شروع ہو گئی۔ +یکم مارچ کو ایک اور ضمنی انتخاب میں لیبر پارٹی، ٹوری پارٹی کے ہاتھوں دو سیٹیں مزید ہار گئی۔ مسز تھیچر نے اپنا پلڑا بھاری دیکھتے ہوئے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی اور 28 مارچ کو جیمز کیلاہان اس امتحان میں بھی ناکام ثابت ہوا۔ 3 مئی کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا اور انتخابی مہم شروع ہو گئی۔ +لیبر پارٹی کی شکست اور پولنگ کے دن کے درمیان صرف پانچ ہفتوں کا وقفہ آیا، اس کے باوجود یہ مہم برطانوی تاریخ کی سب سے زیادہ مشتہر کی جانے والی انتخابی مہموں میں شامل ہو گئی۔ میڈیا کوریج پوری مہم کے دوران غالب رہی اور مسز تھیچر نے اس کوریج کو بڑی عمدگی سے اپنے حق میں استعمال کیا۔ +لیکن یہ مہم عملی اقدار سے یکسر خالی نہ تھی بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ میڈیا کے استعمال کے باوجود عملی اقدار نے اس مہم میں سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ مسز تھیچر ماہر معاشیات تھیں اور مہنگائی ان کی اعلانیہ دشمن تھی۔ 1974ء سے لے کر 1979ء تک مہنگائی نے حکومت پر وہ حملے کئے تھے جو کسی دشمن نے نہ کئے ہوں گے اور پورے ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھا کر رکھ دیا تھا۔ مسز تھیچر اس گڑبڑ کی ساری ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ڈالنے کا تہیہ کئے ہوئے تھیں۔ +جب انتخابات ہوئے تو نتائج سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ملکی اکثریت اب جیمز کیلاہان کو حکومت کرنے کے لئے موزوں خیال نہیں کرتی اور مارگریٹ تھیچر یورپ کی پہلی خاتون وزیراعظم کی حیثیت سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ٹوری پارٹی کی قیادت کریں گی۔ +اس وقت برطانیہ کی معیشت کی حالت بہت بری تھی اور اپنے پہلے دور میں انہوں نے اور ان کے چانسلر نے ’’مانیٹری ازم‘‘ نامی معاشی نظریئے کو اپنایا اور کاروبار اور سب سڈیز پر حکومتی ریگولیشنز میں کمی کی۔ اس کے نتیجے میں کئی ایسے کاروبار ڈوب گئے جو خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھا رہے تھے۔ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور شرحِ افراطِ زر دوگنا ہو گئی۔ اس کے جواب میں انہوں نے ٹیکسوں میں اضافہ کیا اور پیسے کی فراہم میں تبدیلی لائیں جس سے افراطِ زر میں فوری کمی آئی اور عوام اور ماہرین معیشت کی مخالفت بھی مدہم پڑ گئی۔ +اس وقت میں تھیچر حکومت نہایت غیرمقبول ہو چکی تھی لہٰذا موقع مناسب دیکھتے ہوئے ارجنٹائن نے جنوبی نیم کرے میں واقع ایک برطانوی جزیرے فاک لینڈز پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں چھڑنے والی جنگ میں حب الوطنی کے زبردست تام جھام کے شور میں تھیچر حکومت نے فتح حاصل کی اور اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی میں تفرقہ پڑ جانے کی بدولت 1983ء کے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کو بھاری مارجن سے فتح حاصل ہوئی۔ +تھیچر حکومت نے اپنی نگرانی میں چلنے والی زیادہ تر صنعتوں کی نجکاری کر دی جن میں پانی، بجلی اور ریلوے شامل تھیں اور انہیں نسبتاً ارزاں نرخوں پر پرائیویٹ کمپنیوں کو بیچ دیا۔ انہوں نے ٹریڈ یونینز کو تہذیب کے دائرے میں لانے کے لئے سخت اقدامات کئے اور ہڑتالوں، بند دکانوں اور ’’ہمدردانہ‘‘ ہڑتالوں کو کنٹرول کرنے کے لئے قوانین پاس کئے۔ +ان کی حکومت کا ایک اہم ترین واقعہ 1984ء میں پیش آیا جن کان کنوں نے ہڑتال کر دی۔ برطانیہ کے کان کن حکومت کی طرف سے ان کانوں کو بند کرنے پر احتجاج کر رہے تھے جنہیں ’’غیراقتصادی‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ تھیچر نے رائے عامہ کو ہڑتال کرنے والے کان کنوں کے خلاف منظم کیا اور کوئی رعایت دیئے بغیر انہیں کام پر واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ تھیچر ازم کے تحت کئے دیگر اقدامات میں کونسل ہائوسز کرایہ داروں کو بیچ دیئے گئے، سوشل سروسز پر اٹھنے والے اخراجات کم کئے گئے، چھپے ہوئے پیسے کی حد مقرر کی گئی اور یورپ میں بڑھتے ہوئے ’’فیڈرل ازم‘‘ کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے ٹیکس بھی گھٹا دیئے۔ +امریکی صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر کے تھیچر نے کمیونزم اور سوویت یونین کو ایسی برائیاں قرار دیا جن کے آگے بند باندھا جانا ضروری تھا۔ ایسا رویہ اپنا کر گوربا چوف کے برسراقتدار آنے تک سرد جنگ کو زندہ رکھنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم گوربا چوف کا استقبال انہوں نے گرمجوشی سے کیا۔ 1976ء میں وزیراعظم بننے سے پہلے کی ایک تقریر پر، جس میں انہوں نے کمیونزم کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی تھی، انہیں سوویت میڈیا میں ’’آئرن لیڈی‘‘ کا خطاب دیا گیا اور مغربی میڈیا نے بھی جلد ہی انہیں اس نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔ +1984ء میں مارگریٹ تھیچر برائٹن کے ایک ہوٹل میں آئرش ری پبلک آرمی کے لگائے گئے بم سے بال بال بچ نکلیں۔ یہ بم اس بڑی مہم کا ایک حصہ تھا جو آئی آر اے نے ایک متحدہ اور خودمختار آئرلینڈ کے قیام کے لئے چلا رکھی تھی اور جس کے نتیجے میں برطانیہ کے زیرانتظام شمالی آئرلینڈ شورشوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں برطانوی عوام میں ان کے لئے کسی نہ کسی حد تک ہمدردانہ جذبات پیدا ہوئے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں رائے عامہ ان کے خلاف گہری تقسیم کی شکار تھی اور 1987ء کے عام انتخابات میں ان کی فتح سے عوامی رائے کے تضاد کا کھل کر اظہار ہوا جب اندرونی شہروں میں کنزرویٹو پارٹی کے امیدواروں کو بری طرح ناکامی ہوئی۔ ان کے تیسرے دورِ حکومت میں دو نکات گمبھیر چپقلش کا باعث بنے رہے: یورپین یونین کی پرزور مخالفت جس پر ان کی پارٹی میں بھی پھوٹ پیدا ہو گئی، اور ’’کمیونٹی چارج‘‘ جسے دوسرے لفظوں میں ’’پول ٹیکس‘‘ کہا جاتا تھا جو اتنا غیرمقبول تھا کہ سڑکوں پر فسادات کرانے کا موجب بن گیا۔ +1989-90ء میں اقتصادی صورتِ حال خراب ہو گئی، کساد بازاری اور بلند شرحِ بے روزگاری نے برطانوی قوم کو گھیر لیا، اور پول ٹیکس نے تھیچر کی عدم مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ جماعت کے اندر شبہات پیدا ہونے لگے کہ کیا تھیچر چوتھی مرتبہ کامیابی حاصل کر پائیں گی۔ یورپی یونین کی حمایت کرنے والے ایک پارٹی ممبر مائیکل ہسٹ لائن نے تھیچر کو پارٹی کی قیادت کے لئے چیلنج کر دیا۔ تھیچر کو ہسٹ لائن سے زیادہ ووٹ ملے لیکن چار ووٹوں کے فرق سے انہیں واضح کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور پارٹی کے دبائو پر انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 1992ء میں انہوں نے اپنی پارلیمانی نشست چھوڑ دی اور بیرونس آف کسٹیوان کے خطاب کے ساتھ دارالامراء میں شمولیت اختیار کر کے دنیا بھر میں عوامی اجتماعات سے خطاب کا کام شروع کر دیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک ان کا اثر محسوس کیا جاتا رہا جس سے ان کے بعد آنے والوں کو کسی قدر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1995ء میں وہ ’’آرڈر آف گارٹر‘‘ کی رکن بن گئیں۔ فالج کے ہلکے حملوں کے ایک سلسلے کے بعد 2002ء میں انہوں نے عوامی خطابات کرنے کا سلسلہ ترک کر دیا۔ +یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ زندگی کا ہر حصہ تھیچر کے دورِ حکومت میں اپنائی گئی پالیسیوں سے متاثر ہوا اور برطانیہ کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کے خدوخال تبدیل ہو گئے۔ یہ تبدیلی مثبت تھی یا منفی، اس کا انحصار آپ کے سیاسی نظریات پر ہے، اور اب بھی تھیچر کے بارے میں لوگوں کے خیالات میں خاصا تصادم پایا جاتا ہے۔ کچھ ان پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے برطانیہ کے سماجی قلب پر ضرب لگائی اور دوسرے کہتے ہیں کہ انہوں نے قوم کو جدیدیت سے آشنا کیا۔ لوگ ان سے پیار بھی کرتے ہیں اور ان سے نفرت بھی۔ +14 نومبر 1889ء کو رات ساڑھے گیارہ بجے پنڈت موتی لعل نہرو کی بیوی سواروپ رانی نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ موتی لعل نے اپنے بیٹے کو جواہر لعل کا نام دیا۔ ایک ایسا نام جو اس کے بیٹے کو ساری عمر پسند نہ آیا۔ +اس وقت موتی لعل نہرو ہندوستان کے معروف ترین وکلاء میں شمار ہوتے تھے اور اپنی زندگی کے تمام تر سامانِ تعیش سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جتنا وہ خرچ کرتے تھے، اس سے کہیں زیادہ کماتے تھے۔ پیدائش سے پہلے وہ باپ کے سائے سے محروم ہو گئے اور ان کی ابتدائی زندگی مشکلات سے بھرپور رہی۔ ان کی پہلی رہائش گاہ الٰہ آباد کے گنجان آباد علاقے مری گنج میں تھی لیکن کامیابی حاصل ہوتے ہی وہ سول لائنز میں 9 الجن روڈ پر ایک وسیع و عریض بنگلے میں منتقل ہو گئے۔ یہ علاقہ سفید فام اور یوریشین خاندانوں کی رہائش کے لئے مخصوص تھا۔ ایک وقت میں ہندوستانیوں کو وہاں رہنے کی اجازت بھی نہ تھی اور رات 9 بجے سے لے کر صبح 6 بجے تک ہندوستانیوں کو اس علاقے میں گھسنے بھی نہ دیا جاتا تھا۔ +یہاں منتقل ہونے کے بعد بھی موتی لعل کے خواب پورے نہ ہوئے تھے۔ بالآخر مراد آباد کے راجہ پرم آنند سے 1۔ چرچ روڈ پر واقع عظیم الشان گھر خرید کر انہوں نے اپنے سپنوں کا محل حاصل کر لیا۔ موتی لعل کو زندگی میں بہترین سے کم کسی چیز کی طلب نہ تھی۔ اس گھر کا نام انہوں نے ’’آنند بھون‘‘ رکھا یعنی جائے سکون۔ یہ الٰہ آباد کا پہلا گھر تھا جس میں سوئمنگ پول کے ساتھ بجلی اور پانی کی سہولیات بھی موجود تھیں۔ +یورپ کی کوئی نئی ایجاد اتنی مہنگی نہ تھی کہ موتی لعل کی قوتِ خرید سے باہر ہو۔ روز بروز بڑھتی ہوئی نت نئی اختراعات کے جدید ترین ماڈل، بائی سائیکل اور ٹرائی سائیکل جواہر لعل کے لئے راجہ رام موتی لعل گذدار اینڈ کمپنی کے ذریعے منگوائے گئے۔ (موتی لعل اس فرم کے حصہ داروں میں شامل تھے)۔ 1904ء میں موتی لعل کے طفیل الٰہ آباد کی سڑکوں نے پہلی دفعہ کار کا منہ دیکھا۔ ایک مشہور تصویر میں وہ کوٹ اور ٹویڈ کیپ پہنے اپنی ہیٹ پوش بیٹیوں کے ساتھ اس کار میں نظر آ رہے ہیں۔ جب 1905ء میں وہ اپنے بیٹے کو لندن کے مشہورومعروف سکول ہیرو (Harrow) میں داخل کرانے کے لئے لے گئے تو وہاں انہوں نے ایک اور کار خریدی۔ 1909ء میں دوبارہ یورپ جا کر انہوں نے دو مزید کاریں خریدیں۔ ایک لانسیا اور ایک فیاٹ۔ ان کے پاس بہترین عربی گھوڑوں کا پورا اصطبل موجود تھا اور بچوں نے بڑی چھوٹی سی عمر میں ہی گھڑ سواری سیکھ لی۔ بچپن میں گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے یا کوٹ پتلون کسے ہیٹ لگائے، 1929ء میں کانگریس کے صدر کی حیثیت سے گہرے رنگ کی شیروانی کے ساتھ کالی ٹوپی اور سفید چوڑی دار پاجامہ پہنے، اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے مشہور و معروف لمبے کوٹ کے دوسرے کاج میں گلاب کا پھول لگائے اور چوڑی دار پاجامے کے ساتھ سفید کھادی ٹوپی پہنے جواہر لعل ہندوستانیوں کے لئے ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔ آنند بھون کے اردگرد پھیلی زمینوں کا ایک گوشہ موتی لعل کے پسندیدہ کھیل، کشتی، کے لئے مخصوص تھا۔ وہ ملک کے بہترین پہلوانوں کو اپنے اکھاڑے میں مدعو کرتے اور بعد ازاں ان کے ساتھ مل کر سردائی سے لطف اندوز ہوتے۔ ایک دفعہ وہ ایک پہلوان کو اپنے ساتھ یورپ بھی لے گئے اور وہاں اس کے لئے نمائشی مقابلوں کا انعقاد کرایا۔ +موتی لعل کی دولت اب اعداد و شمار کی حدوں سے باہر نکلتی جا رہی تھی۔ نہرو خاندان کا امیرانہ طرزِ زندگی اور ان کی شاندار ضیافتیں بہت سے ہندوستانی شہزادوں اور وائسرائے کے علاوہ حکومت برطانیہ کے تمام اہلکاروں سے کوسوں آگے تھیں۔ غربت کا کسمپرسی کا پرانا دور اب قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ موتی لال اور اس کے تینوں بچے، بیٹا جواہر لعل اور بیٹیاں وجے لکشمی (جسے پیار سے نن کہا جاتا تھا) اور کرشنا (عرف بٹی) کے ساتھ مغربی طرز کی ایسی تعیش پسندانہ زندگی گزار رہے تھے جس پر روایتی ہندوستانی اقدار کا ملمع چڑھا ہوا تھا۔ آنند بھون میں ابھی قوم پرستی کے جراثیم نمودار نہیں ہوئے تھے۔ +نہرو خاندان نے اپنی کشمیری پہچان کو کبھی فراموش نہ کیا حالانکہ انہیں کشمیر سے آئے 200 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔ جواہر لعل کی بہن نہرو خاندان کی پہلی فرد تھی جس نے برادری سے باہر شادی کی۔ اس کے بعد جواہر لعل کے ورثاء نے اس خاندان کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی امتزاج میں بدل دیا۔ اس سے پہلے نہرو خاندان میں برادری سے باہر شادی کا کوئی تصور نہ تھا۔ +آنند بھون انگریزی اور ہندوستانی طرز ہائے زندگی کے شانہ بشانہ چلنے کی ایک خوشگوار مثال تھا۔ موتی لعل کو انگریزی طرزِ زندگی پسند تھا جبکہ ان کی بیوی ہندوستانی طرزِ زندگی کو ترجیح دیتی تھی اور بچے دونوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ +بچوں کو تعلیم گھر پر ہی دی جاتی تھی۔ جواہر لعل کے لئے دو گورنسیں تعینات کی گئی تھیں اور کچھ عرصہ انہوں نے اپنے کزن شری دھر کے ساتھ مقامی سینٹ میری کانونٹ سکول میں بھی گزارا۔ موتی لعل کو کانونٹ حسب خواہ معلوم نہ ہوا لہٰذا انہوں نے جواہر لعل کو وہاں سے اٹھا کر گھر میں پڑھوانا شروع کر دیا۔ فطری بات تھی کہ ان کے لئے بہترین سے کم کوئی چیز منتخب نہ کی گئی۔ سنسکرت پڑھانے کے لئے بلند پایہ دانشور پنڈت گنگا ناتھ جھا آتے تھے۔ نیم آئرش، نیم انگریز اور مکمل ہندوستانی قوم پرست اینی بسنٹ کی سفارش پر فرڈیننڈ ٹی بروکس نامی تھیوسوفی کے علمبردار ایک آئرش فرنچ استاد کو جواہر لعل نہرو کا ٹیوٹر مقرر کیا گیا۔ اس وقت جواہر لعل کی عمر گیارہ سال تھی۔ فرڈیننڈ سے انہوں نے تین برس تک تعلیم حاصل کی۔ موتی لعل کا ارادہ تھا کہ ان کا بیٹا بجائے کتابی کیڑا بن کر رہ جانے کے، ایک متوازن شخصیت لے کر بڑا ہو لیکن جواہر لعل کے میلانات عملی میدانوں کی طرف تھے۔ انہیں سائنس میں دلچسپی تھی اور وہ گھر میں ہی بنائی ہوئی چھوٹی سی لیبارٹری میں فزکس اور کیمسٹری کے تجربات میں مگن رہا کرتے تھے۔ (بعد ازاں کیمبرج میں انہوں نے نیچرل سائنس کو بھی توجہ کا مرکز بنایا)۔ البتہ ان کے ابتدائی ایام کا سب سے دلچسپ اثر سائنس یا ادب کے بجائے تھیوسوفی کے حوالے سے ہوا۔ جہاز اڑانے کا انہیں بہت شوق تھا اور ہیرو میں گزرنے والے دنوں میں اس میں اور بھی پختگی آ گئی۔ ان دنوں ہوابازی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور نہرو اس کے حوالے سے بڑی سنسنی کے شکار تھے۔ ان کے پوتے راجیو گاندھی نے ہوابازی کو ایک پیشے کے طور پر اپنایا اور یہی شوق ان کے دوسرے پوتے سنجے گاندھی کے المیہ انجام کا سبب بنا۔ +دوسری طرف موتی لعل کی ساکھ نئی بلندیوں کو چھو رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ سیاست کو زیادہ سے زیادہ وقت دینے کے لئے دبائو بھی بڑھ رہا تھا۔ تاہم ان کی توجہ سب سے بہتر اور سب سے مہنگا بیرسٹر بننے پر مرکوز رہی۔ جواہر لعل نے بعد ازاں اس دور میں موتی لعل کے سیاست سے احتراز کرنے کو اپنے مشاہدے کی رو سے بڑی خوبی سے ان الفاظ میں بیان کیا۔ ’’انہیں کسی ایسی تحریک یا جماعت میں شامل ہونے کی خواہش نہ تھی جہاں ان کا شمار دوسرے درجے میں کیا جائے۔‘‘ صف اول میں رہنے اور اختیار حاصل کرنے کی خواہش ایک اور شخصی خصوصیت تھی جو موتی لعل سے آگے ان کی نسلوں کو منتقل ہوئی۔ +جواہر لعل نہرو کے ساتھ انڈین نیشنل کانگریس بھی عمر کی منازل طے کرتے ہوئے عنفوانِ شباب میں داخل ہو گئی۔ اس کی عمر نہرو سے صرف چار سال زیادہ تھی۔ +1888ء میں الٰہ آباد کانگریس کا اجلاس ہوا۔ آنے والے 1400 مندوبین میں ’’پنڈت موتی لعل، ہندو، برہمن، وکیل ہائی کورٹ، شمال مغربی صوبہ‘‘ بھی شامل تھے۔ 1888ء میں اپنی بڑھتی ہوئی شہرت کی بدولت انہیں سبجیکٹس کمیٹی میں جگہ مل گئی۔ 1892ء میں ایک دفعہ الٰہ آباد میں کانگریس کا اجلاس ہوا، اس وقت موتی لعل استقبالیہ کمیٹی کے سیکرٹری بن چکے تھے۔ لیکن اس کے بعد تقریباً دس سالوں تک وہ کانگریس کے معاملات سے الگ تھلگ رہے اور اپنے کام اور خاندان کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے رکھا۔ 1899ء میں وہ یورپ کے دورے پر گئے۔ غالباً اسی دورے کے دوران انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے بیٹے کو سلطنت انگلشیہ کے سب سے بہترین سکول میں پڑھنا چاہئے۔ یہ سکول ہیرو تھا۔ +سات سال تک جواہر لعل نہرو ملک سے باہر رہے اور اس دوران باپ بیٹے کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔ اس دوران دو مرتبہ جواہر لعل مختصر عرصے کے لئے وطن واپس آئے۔ ایک مرتبہ 1906ء کے موسم گرما میں اور دوسری مرتبہ 1908ء کے موسم گرما میں۔ موتی لعل کے دل میں اپنے بیٹے کے لئے جو بے پناہ پیار تھا، اس نے ان خطوط کو انسانی تعلقات کی عظیم دستاویز کا روپ دے دیا۔ بلکہ 1905ء میں بھیجے جانے والے ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعے موتی لعل نے اپنے بیٹے سے وابستگی کا بڑی صراحت سے اظہار کیا۔ یہ پوسٹ کارڈ کانگریسی لیڈروں کی تصاویر کے سلسلے پر مشتمل تھے۔ 1899ء کے صدرِ کانگریس رمیش چندر دت کی تصویر والے پوسٹ کارڈ میں تصویر کے نیچے موتی لعل نے لکھا۔ ’’مستقبل کا جواہر لعل نہرو۔‘‘ دت کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو تعلیمی، ادبی اور سرکاری خدمات کے میدان میں نمایاں مقام کا حامل تھا۔ 1869ء میں صرف اکیس سال کی عمر میں اس نے انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا اور بار کا رکن بھی بنا۔ موتی لعل کی بڑی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی انڈین سول سروس میں شامل ہو۔ +جواہر لعل نے ایک سکول طالبعلم کے لئے ضروری تمام سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ کرکٹ، فٹ بال، کراس کنٹری گھڑ دوڑ، لمبی لمبی دوڑیں، سکیٹنگ، جمنازیم کی مشقیں وغیرہ وغیرہ۔ البتہ بائبل کے مطالعے کے حوالے سے ان کی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہ رہی۔ +ان کے ہیڈماسٹر جوزف ووڈ ان کی تعلیمی کارکردگی سے کافی خوش تھے۔ 19 مئی 1906ء کو انہوں نے موتی لعل کو لکھا۔ ’’آپ کو اپنے بیٹے پر فخر ہونا چاہئے۔ اس کی کارکردگی بڑی شاندار ہے اور یہ سکول میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔��‘ البتہ جواہر لعل کے رویئے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ہیرو سے اکتاتے جا رہے ہیں۔ زیادہ بڑا مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اپنے ہم جماعتوں سے زیادہ دلچسپی سیاست میں تھی اور ان کا کہنا تھا کہ ’’ہیرو میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس سے میں اس موضوع پر گفتگو کر سکوں۔ ایسی گفتگو کے لئے ہیرو خاصی چھوٹی جگہ معلوم ہوتی ہے ، اس لئے میں یونیورسٹی کے وسیع حلقے میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔‘‘ ہیرو میں تعلیم حاصل کرنے کا ایک غیرمتوقع فائدہ ضرور تھا۔ وہ یہ کہ بیوروکریسی یہاں کے طالب علموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرتی تھی۔ +ہیرو سے نکلنے والے طالب علموں میں ایسے افراد شامل تھے جنہوں نے سلطنتیں تعمیر کیں اور ایسے بھی جو سلطنتوں کی تباہی کا باعث بنے۔ ہیرو میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی جواہر لعل نہرو کے سیاسی نظریات بڑے قوم پرستانہ تھے بلکہ اسی موضوع پر اپنے والد کا ساتھ ان کا پہلا اختلاف ہوا کیونکہ وہ اپنے والد کو حکومت برطانیہ کے ضرورت سے زیادہ پُرجوش حامی سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے جواہر لعل نے اپنے والد سے تھوڑی بہت بدتمیزی بھی کی اور نتیجے میں پیار کرنے والے باپ کی ڈانٹ سہی۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ ہلچل کا دور تھا اور اس کے اثرات کسی بھی نوجوان کا سر گھمانے کو کافی تھے۔ +سیاست میں جواہر لعل کی دلچسپی صرف ہندوستان تک محدود نہ تھی۔ انہوں نے 1906ء میں ہونے والے برطانوی عام انتخابات کا بھی بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ سکول میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ کی طرز پر ایک ’’نقلی پارلیمنٹ‘‘ بھی بنائی۔ (ان انتخابات میں قدامت پرست فتح یاب رہے تھے)۔ ان دنوں موتی لعل بھی سیاست میں زیادہ حصہ لینے کے بجائے مشاہدہ کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ 1906ء میں جواہر لعل کلکتہ کانگریس کے اجلاس میں گئے جہاں انہوں نے اس خطاب کا متن پڑھا جو ان کے والد نے مارچ میں صوبائی کانگریس سے کیا تھا۔ +19 جون 1912ء میں جواہر لعل کو قانونی تعلیم کے مشہور ادارے انر ٹیمپل میں داخلہ مل گیا۔ موتی لعل نے بڑے فخر سے اپنے بیٹے کی تصاویر کا ایک البم تیار کیا اور اس کا نام رکھا۔ ’’پنگھوڑے سے بار تک۔‘‘ +جواہر لعل نے انر ٹیمپل میں پڑھائی کا آغاز تو کر دیا لیکن اس کے لئے انہیں اپنے والد کے ساتھ تھوڑی سی بحث کرنا پڑی۔ موتی لعل کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا انڈین سول سروس میں شامل ہو جو کہ اس وقت کے ہندوستان میں کامیابی کے نکتۂ منتہا کا درجہ رکھتی تھی۔ موتی لعل کے نزدیک آئی سی ایس دنیا کی بہترین سروس کی حیثیت رکھتی تھی۔ جب جواہر لعل نے ٹرینٹی میں داخلہ لیا تو موتی لعل کو بڑی خوشی ہوئی لیکن یہاں جواہر لعل کی اوسط کارکردگی نے انہیں یقین دلا دیا کہ ان کا بیٹا آئی سی ایس کے سخت امتحان میں کبھی کامیابی حاصل نہ کر سکے گا۔ اس کے علاوہ دونوں میاں بیوی کی یہ بھی خواہش تھی کہ ان کا لاڈلا بیٹا مختلف تحصیلوں اور ضلعوں میں تعیناتی پر ساری عمر صرف کرنے کے بجائے ان کے ساتھ رہے۔ جہاں تک بار کے امتحان میں جواہر لعل کی کامیابی کا تعلق تھا، اپنی ذات پر موتی لعل کا اعتماد یقینا اپنے بیٹے پر اعتماد سے کہیں زیادہ تھا۔ +برطانیہ میں سات سال گزارنے کے بعد جواہر لعل نے اور کچھ حاصل کیا ہو یا نہ کیا ہو، کم از کم ایک عمدہ لائبریری اور ایک نہایت وسیع ذہن ضرور حاصل کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں گزرنے والے وقت نے حکومت برطانیہ کے خلاف ان کی ناپسندیدگی کو پختہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ +ایک وکیل کے طور پر پریکٹس کے آغاز کے پہلے دن موتی لعل نے جواہر لعل کو چند نصیحتیں کیں اور اسے تمام ضروری اہلیتیں حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ کیریکٹر سرٹیفکیٹس، انگلستانی ہائی کورٹ کی رسمی رکنیت، وکیلوں والی وگ اور گائون وغیرہ وغیرہ۔ واپسی کے سفر کے لئے درکار رقم بذریعہ تار بھیج دی گئی۔ +ایک وکیل کے طور پر جواہر لعل کو اپنی پہلی فیس 500 روپے کی معقول رقم کی شکل میں ملی۔ اور ابھی وہ واپسی کے بعد مسوری میں چھٹیاں ہی گزار رہے تھے، پریکٹس کا حقیقی آغاز نہ کیا تھا۔ یہ رقم رائو مہاراج سنگھ نامی ایک مؤکل کی طرف سے ایڈوانس کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ یہ دراصل بیٹے کی اہلیت کو نہیں بلکہ باپ کی شہرت کو دیا جانے والا خراجِ تحسین تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد فروری 1916ء میں ان کی شادی کملا نامی لڑکی سے کر دی گئی۔ +1919ء میں جواہر لعل انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے۔ اس دور میں موہن داس گاندھی کانگریس کی تنظیم نو کر رہے تھے اور نئے افراد کو شامل کیا جا رہا تھا۔ جواہر لعل بھی ان نئے افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنے والد کو بھی گاندھی کے ساتھ عملی تعاون کرنے پر آمادہ کر لیا اور 1920ء کی دہائی میں باپ بیٹا دونوں قومی مقاصد کے لئے کام کرتے رہے۔ +اپنے قوم پرستانہ جذبات کو تسکین دینے اور اپنی وکالت کو بچائے رکھنے کے لئے جواہر لعل نہرو نے صحافت کے میدان کا انتخاب کیا۔ آزادیٔ صحافت کے لئے ان کی عمر بھر کی جدوجہد کو مدنظر رکھا جائے تو یہ امر کچھ زیادہ تعجب خیز معلوم نہیں ہوتا۔ 20 جون 1916ء کو ہارڈنگ تھیٹر میں ان کی پہلی عوامی تقریر اس قدر تاثر انگیز تھی کہ تقریر کے بعد سر تیج بہادر نے جذبات سے مغلوب ہو کر انہیں گلے سے لگا لیا۔ +اپنی خودنوشت سوانح عمری میں جواہر لعل اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’1915ء سے 1917ء تک وہ کچھ کرنے نہ کرنے کے متعلق غیریقینی کیفیات کے شکار تھے، ان کی غیریقینی سوچ اور میرے متعلق ان کے تفکرات کی بدولت اس دور کے عوامی مسائل کے متعلق کھل کر گفتگو کرنا ان کے لئے بہت مشکل ہوتا تھا۔ اکثر اوقات ہماری گفتگو ان کے اچانک بھڑک اٹھنے پر ختم ہو جاتی تھی۔‘‘ اپریل 1916ء میں جناح اور موتی لعل نے آنند بھون میں اکٹھے بیٹھ کر ’’میثاقِ آزادی‘‘ کا مسودہ لکھا۔ یہ نام بڑا مناسب تھا کیونکہ دونوں لیڈر جانتے تھے کہ اگر وہ برصغیر کے ہندو مسلم عوام میں یکجہتی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو کوئی طاقت برصغیر کو آزادی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔ +کانگریس میں صرف موتی لعل ہی ایک ایسے فرد تھے جو جناح کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کے لئے مناسب و موزوں اہلیت کے مالک تھے۔ +1912ء سے 1920ء تک آٹھ سالوں کے لئے جواہر لعل بار میں پریکٹس کرتے رہے۔ ان کی وکالت غیرمعمولی نہ تھی لیکن پھر بھی ان کا کام ہمیشہ منجھا ہوا اور ان کی تحقیق ہمیشہ تفصیلی اور مکمل ہوتی تھی۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں منہمک ہونے کے باوجود جواہر لعل سیاست اور نظریاتی جدوجہد کے متعلق خبروں سے واقف رہنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ +1916ء میں نہرو نے انڈین نیشنل کانگریس کے لکھنؤ اجلاس میں گاندھی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ گاندھی نے جواہر لعل نہرو پر بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ نہرو کی قوم پرستی کے جذبات ایسی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے کہ معتدل نظریات کے حامل موتی لعل پریشان ہو کر رہ گئے۔ ایک طرح سے گاندھی جلد ہی جواہر لعل کے لئے والد اور موتی لعل کے لئے رقیب کی سی حیثیت اختیار کر گئے جو نہ صرف انہیں اپنی ذاتی حی��یت کے لئے خطرہ تصور کرتے تھے بلکہ ان کے سیاسی نظریات کے متعلق بھی شبہات کے شکار تھے۔ +مارچ 1919ء میں حکومت برطانیہ نے رولٹ ایکٹ کی معیاد میں اضافہ کر دیا جس کی رو سے کسی کو حکومت کے خلاف بغاوت کے شبے میں گرفتار کرنے اور بغیر مقدمے کے حراست میں رکھنے کے پہلی جنگ عظیم کے دوران لاگو کئے جانے والے اختیارات برقرار رہے۔ موتی لعل بذاتِ خود رولٹ ایکٹ کے حامی کسی صورت نہ تھے لیکن اس معاملے میں ان کی حیثیت کم و بیش جناح سے ملتی جلتی تھی۔ ایک باقاعدہ وکیل اور قانون پر یقین رکھنے والے کی حیثیت سے قانون شکنی ان کے نزدیک ہر انداز میں ناقابل قبول تھی۔ +3 اپریل 1919ء کو لیڈر نے خبر دی کہ جواہر لعل نے رولٹ ایکٹ کی نافرمانی کے سلسلے میں ستیہ گرہ تحریک کی قرارداد پر دستخط کر دیے ہیں اور دوسرے اضلاع میں اس تحریک کا پروپیگنڈہ کرنے والی کمیٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ موتی لعل نے جیل جانے کے خیال کو واہیات قرار دے کر مسترد کر دیا اور باپ بیٹے میں اس موضوع پر بڑی طویل بحثیں ہوئیں کہ انہیں گاندھی کا ساتھ کس حد تک دینا چاہئے۔ گاندھی نے جواہر لعل کو یہ کہہ کر ستیہ گرہ کی تحریک میں حصہ لینے سے روک دیا کہ اس مرحلے پر اپنے والد کے ساتھ ان کا تعلق تحریک میں حصہ لینے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ +اس وقت جواہر لعل ایک طرح سے گاندھی کے چیلے بن چکے تھے اور بڈھے مہاتما نے بھی جواباً انہیں ایک باپ کی شفقت سے نوازا تھا۔ فروری 1920ء میں جواہر لعل نے کانگریس کی ایک ضلعی کانفرنس میں شرکت کی اور جولائی تک الٰہ آباد یونٹ کے نائب صدر بن گئے۔ موتی لعل کو اپنے بیٹے کے سیاست میں داخل ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ صوبائی کونسل میں جواہر لعل کو شامل کرانے کے لئے ایک انتخابی حلقے پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ ان کا اعتراض گاندھی کے طرزِ سیاست پر تھا جو حکومت کے ساتھ مکمل عدم تعاون کرنے پر زور دیتے تھے۔ اس عدم تعاون میں عدالتوں کا بائیکاٹ بھی شامل تھا۔ +الٰہ آباد میں ایک مزدور احتجاج میں شمولیت کے دوران پہلی دفعہ انہیں مزدوروں کے دیہاتوں کی غربت اور افلاس کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس تجربے نے ان کی زندگی بدل دی۔ سارے شبہات اور غیریقینی کیفیات ختم ہو گئیں۔ جیسا کہ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں۔ ’’سوچتا ہوں کہ اگر مجھے مسوری سے نکالا نہ گیا ہوتا اور میں اس وقت فراغت کے عالم میں الٰہ آباد میں موجود نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔‘‘ +حقیقی ہندوستان کے پہلے اور اتفاقیہ نظارے نے جواہر لعل کی شخصیت میں ڈرامائی تبدیلیاں پیدا کیں۔ غربت کا نظارہ ایک ایسا انکشاف تھا جو ان کے لاشعور پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ 1920ء ویسے بھی ان کے لئے ایک فیصلہ کن سال تھا۔ مزدوروں کا جوش و جذبہ، ان کی خستہ حالی اور امیدوں کی درخشندگی نے نہرو کو بے پناہ متاثر کیا۔ پتہ چلا کہ چیتھڑوں میں ملبوس سینکڑوں مزدوروں نے راتوں رات یہاں سڑکیں تعمیر کی ہیں تاکہ ان کی گاڑی کو ان دور دراز علاقوں میں پہنچنے میں دقت نہ ہو اور ایک موقع پر جب ان کی گاڑی ایک جگہ کیچڑ میں پھنس گئی تو مزدوروں نے گاڑی کو کندھوں پر اٹھا کر باہر نکال دیا۔ ان باتوں نے گویا ان کے دل کو چھو لیا۔ +اس وقت سے یہ جذبہ ان کے سیاسی قلب و ذہن کا مرکزی جز بن گیا۔ ان کا سوشلزم کارل مارکس یا کسی دوسرے نظریئے سے متاثر ہونے کے بجائے اس غربت کو ختم کرنے کی شدید خواہش کے زیراثر ابھرا تھا۔ +تین دہائیوں کے بعد جب وہ وزیراعظم بنے تو ان کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک ’’تعلقہ داری‘‘ یعنی جاگیرداری کا خاتمہ تھا۔ +جواہر لعل مزدوروں کے حقوق کے عظیم حامی بن کر ابھرے۔ اپنے والد کے اخبار ’’انڈی پنڈنٹ‘‘ میں انہوں نے مزدوروں کے نصب العین کا بڑی فصاحت سے چرچا کیا اور پورے صوبے کے دورے کئے۔ حکومت نے ان کی صحافت اور تقاریر پر قدغن لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ حکومت کی پابندیاں توڑنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ وہ نکال ہی لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بھٹی نامی مقام پر انہیں ایک اجلاس سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا۔ جواہر لعل سارے شرکاء کو مارچ کراتے ہوئے وہاں سے ساڑھے چار میل دور کے ضلع میں لے گئے جہاں پابندی کی حدود ختم ہو جاتی تھیں۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے تقریر کی۔ +جواہر لعل کو گرفتار ہونے کی اتنی جلدی تھی کہ وائسرائے ہند بھی انہیں روکنے میں ناکام رہے۔ لارڈ ریڈنگ ایک مرتبہ متحدہ صوبوں کی حکومت کو انڈی پنڈنٹ میں شرانگیز مضامین لکھنے پر جواہر لعل پر مقدمہ چلانے سے روک چکے تھے لیکن نومبر تک جواہر لعل کے رضاکار دستے بڑی کامیابی سے ایک کے بعد ایک قصبے میں ہڑتال کے ذریعے نظامِ زندگی کو معطل کرتے چلے جا رہے تھے۔ پرنس آف ویلز کے دورے نے جواہر لعل کو مزید انٹی گورنمنٹ سرگرمیوں کے لئے تحریک دی۔ یہ حکومت کے لئے یکسر ناقابل قبول تھا۔ جواہر لعل کی بدولت الٰہ آباد میں یہ تحریک نہایت کامیاب رہی۔ 6 دسمبر 1921ء کو زندگی میں پہلی مرتبہ باپ بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک وقت میں ہچکچاہٹ کا شکار رہنے والا موتی لعل اس گرفتاری پر اپنے بیٹے کی طرح خوش ہوا۔ +جواہر لعل اور موتی لعل دونوں نے عدالتوں میں اپنا دفاع کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں جرمانے کے ساتھ سزائے قید سنائی گئی لیکن انہوں نے جرمانہ بھرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں پولیس آنند بھون جا گھسی اور جرمانے کی رقم پوری کرنے کے لئے قیمتی اشیاء اٹھا لے گئی۔ +جواہر لعل اور موتی لعل اب ہیرو بن چکے تھے اور خصوصی طور پر نوجوانوں نے جواہر لعل کی شکل میں اپنا آئیڈیل ڈھونڈ لیا تھا۔ یہ نہرو کے جیل جانے کا پہلا اتفاق تھا اور آزادی تک پہنچنے کے ربع صدی طویل سفر میں انہیں کئی بار اس تجربے سے گزرنا پڑا۔ دسمبر 1921ء اور اگست 1942ء کے درمیان جواہر لعل کو 9 مرتبہ سزائے قید سنائی گئی۔ اپنی زندگی کے 3262 دن انہوں نے متحدہ صوبوں میں لکھنؤ، نینی (الٰہ آباد)، بریلی، دہرہ دون، الموڑا اور گورکھ پور کی جیلوں میں، ریاست بمبئی کے قلعہ احمد نگر کی جیل میں اور ان سب سے بدتر، شاہی ریاست نابھہ کی جیل میں گزارے۔ پہلی قید 87 دنوں پر محیط تھی (6 دسمبر 1921ء سے لے کر 2 مارچ 1922ء تک)۔ دوسری 11 مئی 1922ء سے لے کر 31 جنوری 1923ء تک رہی۔ تیسری، نابھہ میں، 22 ستمبر سے 4 اکتوبر 1930ء تک بارہ دنوں کے مختصر وقفے کے لئے تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد چوتھی مرتبہ 10 اکتوبر 1930ء سے لے کر 26 جنوری 1931ء تک۔ چھٹی قید طویل تھی جو کہ 26 دسمبر 1931ء سے لے کر 30 اگست 1932ء تک گئی۔ ساتویں مرتبہ انہوں نے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا (12 فروری 1934ء سے لے کر 4 ستمبر 1935ء تک)۔ آٹھویں دوسری جنگ عظیم کے چھڑنے کے بعد شروع ہوئی۔ اس مرتبہ وہ 31 اکتوبر 1940ء سے لے کر 3 دسمبر 1941ء تک مقید رہے۔ آخری قید باقی تمام سے کہیں زیادہ طویل تھی۔ کانگریس کی طرف سے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ نامی تحریک کے آغاز کے بعد 9 اگست 1942ء سے لے کر 15 جون 1945ء تک جواہر لعل کو آزادی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ان کی زندگی کے نو سنہرے سال برطانوی قید خانوں میں گزرے لیکن اس دوران ایک مرتبہ بھی وہ اپنی راہ سے نہیں ہٹے۔ ان وقتوں ��یں بھی نہیں جب ناکامی در ناکامی کے علاوہ کوئی چیز ممکن نظر نہ آتی تھی۔ بالآخر تھک ہار کر برطانویوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ +جواہر لعل نے 45 سال کی عمر میں اپنی سوانح عمری لکھی۔ انہوں کہا کہ میری جدوجہد تاریخ کے بجائے میری ذہنی نشوونما کا احاطہ کرے گی۔ 1936ء کے موسم بہار میں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو فوراً ہی اسے عصر حاضر کے عظیم ترین ذہنوں میں سے ایک کے متعلق ایک بیش قدر دستاویز قرار دے دیا گیا۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن چھپے اور فروخت ہوئے۔ +نہرو نے جیل کو دنیا کا سب سے منتخب سکول قرار دیا۔ اس سکول میں انہوں نے بہت پڑھا اور بہت لکھا۔ ان کی تین بہترین کتابیں جیل میں گزرنے والے دنوں کا عطیہ ہیں۔ تاریخ عالم کی جھلکیاں (1934-35ء)، ایک سوانح عمری اور ہندوستان کی دریافت (1946ء)۔ تاریخ عالم کی جھلکیاں ایک ہمیشہ سفر میں رہنے والے باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو دیا جانے والا بہترین تحفہ تھا۔ +دسمبر 1922ء میں جواہر لعل کی رہائی سے چند دن قبل، موتی لعل اور الٰہ آباد کے ایک بنگالی وکیل سی آر داس نے مل کر نیشنل کانگریس کے اندر ہی ایک جماعت سوراج پارٹی کے نام سے تشکیل دے دی۔ سوراج پارٹی تحریک عدم تعاون کے تعطل کے موضوع پر گاندھی اور ان کے پیروکاروں سے الگ نکتہ نظر رکھتی تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ سوراج پارٹی کے ارکان کانگریس کی طرف سے کیا جانے والا قانونی اداروں کا بائیکاٹ ختم کرنا چاہتے تھے۔ جنگ کو دشمن کے کیمپ تک لے جانے کے لئے وہ صوبائی مقننہ میں شمولیت کے خواہشمند تھے جس کی سہولت 1919ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں فراہم کر دی گئی تھی۔ +جواہر لعل نہرو اب ایک مشکل میں گرفتار ہو گئے کیونکہ وہ اپنے دونوں والدوں سے اختلافِ رائے کرنے پر مجبور تھے۔ تحریک عدم تعاون کے تعطل کے معاملے میں وہ گاندھی کے مخالف تھے لیکن برطانوی نظام پر اندر سے حملہ آور ہونے کے سوراج پارٹی کے منصوبے کے بھی خلاف تھے۔ باپ بیٹے کی چپقلش سے آنند بھون کی فضا میں ایک دفعہ پھر تنائو پیدا ہو گیا۔ +تحریک عدم تعاون کے تعطل کے باوجود جواہر لعل نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ دوبارہ وکالت نہیں کریں گے کیونکہ ہندوستانی قانون اب بھی حکومت برطانیہ کا قانون تھا۔ بمبئی کے کاروباری ادارے ٹاٹا نے غالباً گاندھی کی ہدایت پر انہیں ایک ملازمت کی پیشکش کی لیکن جواہر لعل نے قبول نہ کیا۔ +جب نہرو نے یہ قرارداد پیش کی کہ ’’کانگریس اعلان کرتی ہے کہ ہندوستانی عوام کی منزل مکمل قومی خودمختاری ہے‘‘ تو اس وقت ہجوم میں ان کی بیٹی اندرا بھی موجود تھیں۔ فروری 1928ء میں موتی لعل یورپ سے واپس ہندوستان پہنچے۔ آنند بھون کا طرزِ حیات ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو گیا کیونکہ موتی لعل کا ذوق مغرب کی طرف مائل ہو رہا تھا۔ جواہر لعل کے اعتراضات کے باوجود آنند بھون میں مغربی طور طریقے ایک دفعہ پھر رواج پانے لگے۔ +دسمبر 1928ء میں کلکتہ میں منعقد ہونے والے آل انڈیا کانگریس کے اجلاس میں موتی لعل کو کانگریس کا صدر چن لیا گیا۔ پوری فیملی ٹرین کے ذریعے کلکتہ پہنچی۔ کانگریس کے افتتاحی اجلاس میں وہ ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پہنچے۔ +1929ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے کانگریس کے سالانہ اجلاس کا سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ صدر کانگریس کی حیثیت سے موتی لعل کا جانشین کون ہوگا۔ اگلے سال سے حکومت برطانیہ کی طرف سے کانگریسیوں کے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں نئے صدر کو سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرنا تھا۔ سب کی نگاہ گاندھی پر تھی لیکن گاندھی نے اپنے بجائے بڑی گرمجوشی سے نہرو کی حمایت شروع کر دی اور نہرو کو جانشین کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا۔ +اجلاس کے شامیانے دریائے راوی کے کنارے پر لگائے گئے تھے۔ جواہر لعل تین لاکھ دیگر مندوبین کے ساتھ وہیں ٹھہرے۔ چھ دن تک یہیں ان کا کھانا پینا اور سونا جاگنا ہوا۔ نہرو کے سامنے تجویز پیش کی گئی کہ وہ ایک سفید گھوڑے پر سوار ہو کر لاہور کی گلیوں میں سے گزریں۔ نہرو نے یہ تجویز قبول کر لی اور ہر جگہ نعرے لگاتے اور جھنڈے لہراتے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے منتظر لوگ گلیوں میں کھڑے اور راستے کی چھتوں اور درختوں پر چڑھے نظر آتے۔ جلوس انارکلی بازار سے گزرا اور اندرا اور کملا نے بھلہ شوز کی بالکنی میں کھڑے ہو کر اس کا نظارہ کیا۔ کانگریس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ایک بیٹے نے باپ کی جگہ صدارت کی گدی سنبھالی تھی۔ (اجلاس میں مکمل خودمختاری کی قرارداد بھی منظور کی گئی)۔ +جب نہرو خاندان الٰہ آباد واپس پہنچا تو ان کی شہرت ملک گیر ہو چکی تھی۔ آنند بھون ایک نجی رہائش گاہ نہ رہا تھا۔ جواہر لعل محض کانگریس کے صدر نہ تھے، وہ ایک قومی ہیرو تھے اور ان کے تمام قریبی افراد کو ان کی شان و عظمت کا تھوڑا بہت حصہ دے دیا گیا تھا۔ +کانگریس کی طرف سے حکومت کو دیا جانے والا مہلت کا سال ختم ہو گیا اور 1930ء میں سول نافرمانی کی تحریک ازسرنو شروع کرنے کا بار جواہر لعل نہرو کے کندھوں پر آ گیا۔ اس تحریک میں ہندوستانی خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ +اپریل 1930ء میں حکومت نے ایک ملک گیر کریک ڈائون کے ذریعے سول نافرمانی کی تحریک کا سیلاب روکنے کی کوشش کی۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا اور اس کے ارکان گرفتار کر لئے گئے۔ 14 اپریل کو نہرو کو گرفتار کر کے چھ مہینے کے لئے نینی جیل میں ڈال دیا گیا۔ 5 مئی کو گاندھی کی گرفتاری عمل میں آئی اور 30 جون کو موتی لعل کی۔ +8 ستمبر کو شدید بیماری کے سبب موتی لعل کو رہا کر دیا گیا۔ جواہر لعل کی رہائی 11 ستمبر کو عمل میں آئی اور جیل سے باہر آتے ہی وہ کملا اور اندرا کو لے کر موتی لعل سے ملنے کے لئے مسوری پہنچ گئے۔ 19 ستمبر کو انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس مرتبہ ان پر فتنہ انگیزی، لوگوں کو نمک سازی کی طرف راغب کرنے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اکتوبر 1930ء کو وہ تقریباً تین سال طویل سزائے قید کاٹنے کے لئے واپس نینی جیل پہنچ گئے۔ +26 جنوری 1931ء کو حکومت برطانیہ نے اعلان کیا کہ جواہر لعل سمیت کانگریس ورکنگ کمیٹی کے دیگر اراکین کو فوراً رہا کر دیا جائے گا۔ کملا اور جواہر لعل رہائی پا کر آنند بھون پہنچے جو بیت المرگ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ شدید بیمار موتی لعل اب زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے۔ 4 فروری کو انہیں لکھنؤ لے جایا گیا جہاں ہسپتال میں 6 فروری 1931ء کے روز علی الصبح ان کا انتقال ہو گیا۔ جواہر لعل اور سواروپ رانی اس وقت ان کے سرہانے موجود تھے۔ بعد ازاں اسی روز وہ بذریعہ کار ان کا جسد خاکی الٰہ آباد واپس لے آئے۔ +1933ء میں آزادی کے مختصر سے دور میں نہرو نے خاندان کے مالی معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جوکہ دو سال قبل موتی لعل کی وفات کے بعد سے بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ نہرو کو دو وجوہات کے باعث پیسے کی ضرورت تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بڑھاپے میں ان کی ماں مفلوک الحالی کی زندگی گزارے اور اس کے علاوہ وہ اندرا کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اندرا کسی برطانوی یا یورپی ادارے س�� ڈگری حاصل کرے۔ انہوں نے اور کملا نے خاندانی اثاثوں کا حساب لگایا اور فیصلہ کیا کہ تمام موروثی اثاثے اور دیگر قیمتی اشیاء جو حکومت برطانیہ کے جرمانوں کی دست برد سے بچ رہی ہیں، بیچ دی جائیں۔ +جب نہرو کو کانگریس کا نیا صدر منتخب کیا گیا تو وہ یورپ میں اپنی قریب المرگ بیوی کملا کے سرہانے موجود تھے۔ کملا کے ساتھ ملاقات کے بعد انہیں یہ فیصلہ کرنے میں بڑی دشواری ہوئی کہ وہ یہاں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے پارٹی کی صدارت قبول کرنے سے انکار کر دیں یا اسے چھوڑ کر ہندوستان واپس چلے جائیں اور کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کریں۔ کملا نے ان کے جانے پر زور دیا اور دلیل پیش کی کہ وہ اجلاس میںشرکت کرنے کے بعد بھی واپس آ سکتے ہیں۔ بڑی ہچکچاہٹ کے عالم میں نہرو نے 28 فروری کے لئے جہاز میں اپنی سیٹ بک کرا لی مگر بعد ازاں کملا کے ڈاکٹروں کے مشورے پر نہرو نے اپنی سیٹ کینسل کرا دی لیکن اس وقت تک کملا دیکھ بھال اور تیمار داری کی حدود سے پرے جا چکی تھی۔ 28 فروری کی صبح 5 بجے اس کا انتقال ہو گیا۔ +ہندوستان کی سیاسی صورتِ حال بھی بے طرح تبدیل ہو چکی تھی۔ کانگریس نے فروری کے صوبائی انتخابات میں متاثر کن کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ وجے لکشمی پنڈت اور اس کا شوہر رنجیت متحدہ صوبوں سے منتخب ہو چکے تھے بلکہ وجے لکشمی پنڈت نے تو برطانوی سلطنت کی پہلی خاتون وزیر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ نہرو البتہ تھکے ہوئے اور منتشر سے تھے۔ انتخابی مہم کے لئے جولائی 1936ء سے لے کر فروری 1937ء تک انہوں نے ہندوستان کے ہر صوبے کا دورہ کیا تھا، اور ریل، کار، بیل گاڑی اور پاپیادہ تقریباً پچاس ہزار میل کا سفر کیا تھا، ایک ایک دن میں تیس تیس جلسوں سے خطاب کیا تھا اور ایک کروڑ لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا تھا۔ پھر انتخابات کے بعد کانگریس کی فتح کے نتیجے میں اقتدار و اختیارات کی کشمکش شروع ہو گئی جس سے پارٹی میں کشیدگی اور افتراق پیدا ہونے لگا۔ نتیجتاً نہرو کی عموماً عمدہ رہنے والی صحت ایک دم جواب دے گئی اور انہیں بستر کا قیدی بننا پڑا۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ انہیں ہندوستان اور ہندوستانی سیاست سے کچھ عرصہ کے لئے نجات کی ضرورت تھی۔ +31 اکتوبر 1940ء کو نہرو کو شرانگیز تقریریں کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے مقدمے کی کارروائی بڑی تیزی سے مکمل ہوئی اور انہیں ان کی آٹھویں سزائے قید سنا کر چار سال کے لئے گورکھ پور جیل بھیج دیا گیا۔ +جولائی 1942ء میں کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ نامی تحریک کا آغاز کر دیا۔ سیدھے سادھے لفظوں میں اس تحریک کا معنی یہ تھا کہ ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے حوالے کر دی جائے۔ 8 اگست کو گووالیہ ٹینک کے مقام پر جب جواہر لعل نہرو نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد پیش کی تو دیگر سینکڑوں افراد کے ساتھ اندرا اور اس کے نئے نویلے شوہر فیروز بھی وہاں موجود تھے۔ قرارداد بڑے جوش و خوش سے منظور کر لی گئی اور گاندھی کی قیادت میں آزادی کی عوامی جدوجہد کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔ جیسا کہ گاندھی نے اجلاس میں اعلان کیا تھا، اب کچھ ’’کرنے یا مرنے‘‘ کا وقت آ گیا تھا۔ نہرونے اسے پوری دنیا میں ایک مہم کا لمحہ آغاز قرار دیا۔ قرارداد پیش کرنے کے چند ہی گھنٹے بعد 9 اگست کی صبح نہرو کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس مرتبہ وہ دو سال دس ماہ جیل میں رہے جو ان کی طویل ترین قید تھی۔ +نہرو کی رہائی سے ایک دن قبل ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول نے عارضی حکومت کے قیام ��ا اعلان کیا جس میں وائسرائے اور کمانڈر انچیف کے علاوہ تمام ارکان ہندوستان سے ہی شامل کئے جانے تھے۔ +نہرو اور گاندھی کے لئے خصوصاً یہ ایک دل شکن تصور تھا۔ اس کے باوجود 2 ستمبر 1946ء کو نئی عبوری ہندوستانی حکومت کی حلف برداری کی صورت میں اختیارات کی منتقلی کے عمل کا پہلا مرحلہ انجام پا گیا۔ نہرو سربراہِ حکومت تھے اور ان کے پاس وزیراعظم کے تمام اختیارات موجود تھے اگرچہ ان کی حیثیت ایگزیکٹو کونسل کے نائب صدر کی تھی۔ نہرو نے وزارتِ خارجہ کا قلمدان بھی اپنے ذمے لیا۔ +مئی 1947ء میں نہرو اور کرشنا مینن مائونٹ بیٹن اور اس کی بیگم کے ساتھ شملہ گئے۔ مائونٹ بیٹن کے ریفارمز کمشنر وی پی مینن کو صورتِ حال سلجھانے کے لئے بلایا گیا اور تین گھنٹوں کی گفت و شنید کے بعد اس نے مینن پلان کے نام سے تقسیم ہند کا ایک منصوبہ پیش کیا۔ اب ہندوستان کا اقتدار دو مرکزی حکومتوں کو منتقل کیا جانا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان۔ جناح کو ان کا مسلم وطن مل رہا تھا لیکن یہ وطن کٹا پھٹا تھا۔ پنجاب اور بنگال کو نصانصف کاٹ دیا گیا تھا۔ 3جون کو دہلی میں کانگریسی لیڈروں نے مینن پلان منظور کر لیا۔ اگلے روز مائونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ 15 اگست 1947ء کو ہندوستان اور پاکستان دو آزاد مملکتوں کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آ جائیں گے۔ +نہرو نے نئے ملک کے پہلے وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا۔ نہرو کا شیڈول نہایت سخت تھا اور انہیں روزانہ سترہ گھنٹے تک کام کرنا پڑتا۔ 1951ء سے لے کر 1954ء تک وہ وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ وزارتِ خارجہ، پلاننگ کمیشن کی چیئرمین شپ اور کانگریس کی صدارت بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ تقریباً ہر روز وہ کہیں نہ کہیں تقریر کرتے، پورے بھارت کے دورے کرتے اور باقاعدگی سے غیرملکی دوروں پر بھی جاتے۔ 50ء کے عشرے کے اوائل میں انہوں نے تقریباً ہر سال امریکہ، کینیڈا، انڈونیشیا، برما، یورپ اور برطانیہ کا دورہ کیا۔ +1963ء میں کانگریس میں لیڈروں کا ایک چھوٹا سا گروہ تشکیل پا چکا تھا جسے عرفِ عام میں ’’سنڈیکیٹ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اس گروہ میں کام راج (وزیر اعلیٰ مدراس)، مغربی بنگال کے اتلیہ گھوش، بمبئی کے ایس کے پٹیل، سنجیو ریڈی (وزیر اعلیٰ آندھرا پردیش) اور ایس نجلنگپا (وزیر اعلیٰ میسور) شامل تھے۔ +نہرو کی عمر اب 74 برس ہو چکی تھی اور ان کی صحت بھی ٹھیک نہ رہتی تھی۔ اب ان کے جانشین کا انتخاب ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنتا جا رہا تھا۔ عوامی رائے اکٹھی کرنے والے ایک ادارے نے اس وقت اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ایک سروے کیا۔ اس سروے کے نتیجے میں پہلے نمبر پر لال بہادر شاستری آئے، دوسرے پر کام راج، تیسرے پر اندرا اور چوتھے پر مرارجی ڈیسائی۔ +27 مئی 1964ء کو دوپہر ایک بج کر چوالیس منٹ پر نہرو کا انتقال ہو گیا۔ اپنے والد کی خواہشات کے برعکس اندرا نے ہندوانہ رسوم پر عمل کرتے ہوئے ان کی نعش کو جلانے کا اہتمام کیا کیونکہ مذہبی اور سیاسی لیڈروں کا کہنا تھا کہ سیکولر طرز کی آخری رسوم عوام پر اچھا اثر مرتب نہ کریں گی۔ نہرو کے جسم کو صندل کی لکڑیوں سے بنی چتا پر رکھا گیا اور ان کے سترہ سالہ پوتے سنجے نے انہیں آگ دکھا دی۔ (راجیو اس وقت انگلستان میں تھا)۔ نہرو کی راکھ کے ایک حصے کو الٰہ آباد میں سنگم کے مقام پر مقدس پانیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس راکھ کے ساتھ کملا کی بھی راکھ شامل تھی جو نہرو تین دہائیاں قبل سوئٹزر لینڈ سے اپنے ساتھ واپس لائے تھے اور پھر جہاں جہاں رہے یہ راکھ ان کے ساتھ رہی۔ بہرحال، نہرو نے اپنی وصیت میں خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کی راکھ کا زیادہ تر حصہ ریاست ہندوستان کی ہوائوں میں بکھیرا جائے۔ کشمیر کے حصے میں آنے والی راکھ کو بکھیرنے کا کام اندرا نے خود کیا۔ وہ سری نگر پہنچیں۔ ایک چھوٹے طیارے پر سوار ہوئیں اور اپنے اجداد کی جنم بھومی کی فضائوں میں اپنے والد کی راکھ اڑا دی۔ +جب ہندوستان کی آزادی کے بعد کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو 1964ء میں فالج کے حملے کے شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے تو اندرا کو سنجیدگی سے ان کی جانشین کے طور پر نہیں لیا گیا۔ تاہم دو سال بعد نئے وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی اچانک انتقال کر گئے اور ملک میں قیادت کا خلا پُر کرنے کے لئے اندرا گاندھی کا انتخاب کر لیا گیا۔ راتوں رات وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی لیڈر اور شاید دنیا کی سب سے طاقتور خاتون بن گئیں۔ +اندرا گاندھی 19 نومبر 1917ء کے روز الہ آباد میں جواہرلعل اور کملا نہرو کے ہاں پیدا ہوئیں۔ 1919ء میں ان کی زندگی میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی آئی جب موہن داس گاندھی ان کے دولتمند اور ممتاز خاندان سے ملنے کے لئے آئے۔ جنوبی افریقہ میں جلاوطنی سے حال ہی میں واپس آنے والے گاندھی نے ان کے والدین کو ہندوستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے پر آمادہ کر لیا۔ نہرو خاندان نے اپنی تمام تر مغربی املاک ترک کر دیں اور ان کا گھر تحریک آزادی کا مرکز بن گیا۔ سیاسی ہماہمی اور والدین کی مسلسل عدم موجودی کے نتیجے میں اندرا گاندھی کو ایک نارمل بچپن میسر نہ آ سکا۔ اگرچہ ان کے دادا موتی لعل نہرو نے ان کے خوب لاڈ اٹھائے، مگر آگے چل کر اس دور کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ انہیں عدم تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ جب ان کے والد اور دادا کو ان کی سرگرمیوں پر پہلی مرتبہ جیل میں ڈالا گیا تو اندرا کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کے بعد قید و بند کا یہ سلسلہ جاری رہا اور اس میں ان کی والدہ بھی شامل ہو گئیں۔ +گاندھی کی عمر سترہ برس تھی کہ کینسر سے ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اس صدمے کی حالت میں انہوں نے ہندوستان اور یورپ میں، ظاہراً کسی سمت کے بغیر، تعلیم کے پانچ سالہ دور کا آغاز کیا۔ اگرچہ انہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ عمر بھر شادی نہیں کریں گی مگر بعد ازاں انہوں نے پارسی النسل فیروز گاندھی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چونکہ نہرو خاندان برہمن تھا اس لئے شوہر کے انتخاب کو لے کر گاندھی پر خاصی تنقید ہوئی، نہ صرف ان کے والد کی طرف سے بلکہ عوام کی طرف سے بھی۔ بہرحال، مخالفت کے باوجود 1942ء میں انہوں نے شادی کر لی۔ +شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد گاندھی کو نو ماہ کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں گاندھی نے اسے اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ قرار دیا۔ رہائی کے بعد سیاست میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اسی دوران انہوں نے دو بیٹوں راجیو اور سنجے کو جنم دیا۔ 1947ء میں جب ہندوستان کو آزادی ملی تو گاندھی کے والد پنڈت جواہر لعل نہرو اس کے پہلے وزیراعظم بنے۔ چونکہ نہرو کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے سرکاری تقاریب میں مہمان داری کا فریضہ اندرا گاندھی کے حصے میں آ گیا۔ رفتہ رفتہ ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان دوریاں پیدا ہو گئیںاور اگرچہ ان کے درمیان کبھی باقاعدہ طور پر طلاق نہیں ہوئی تاہم 1960ء میں فیروز گاندھی کے انتقال تک دونوں الگ الگ رہتے رہے۔ گاندھی نے ایک عمر نہرو کے سائے میں گزاری مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی انتخابی مہمات اور ایسی تقاریب میں تقاریر شروع کر دیں جہاں ان کے والد موجود نہ ہوتے تھے۔ 1959ء کا سورج طلوع ہونے تک وہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔ نہرو کے اشتراکی رجحانات کے اثر کے تحت انہوں نے پارٹی میں تازہ سوچ پیدا کی اور سیاست میں خواتین کی سرگرمی بڑھانے کے لئے اقدامات کئے۔ +1966ء میں وزیراعظم شاستری کی اچانک موت کے بعد، گاندھی کانگریس پارٹی کی لیڈر بنیں اور بعد ازاں ہندوستان کی وزیراعظم بن گئیں۔ تاہم اپنی اس کامیابی کے لئے گاندھی کو خاصی بھاری قیمت چکانا پڑی کیونکہ ان کے عہدہ سنبھالتے ہی مشکلات کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ پارٹی کا رجعت پسند طبقہ سابق وزیر مالیات مرارجی ڈیسائی کے زیر قیادت ان کے اقتدار کو مسلسل چیلنج کرتا رہا۔ 1967ء کے انتخابات میں انہیں اتنے کم مارجن سے فتح ملی کہ انہیں مرارجی ڈیسائی کو نائب وزیراعظم کے طور پر قبول کرنا پڑا۔ گاندھی کی مشکلات میں ان کی اپنی شخصیت کا بھی خاصا کردار تھا۔ ایک خلوت پسند خاتون ہونے کے ناطے وہ ہجوم سے گھبراتی تھیں اور سادہ اور خاموش انداز میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ سیاسی چکربازیوں پر ان کے عدم اعتماد نے انہیں اپنے قریبی حلقے سے اور بھی دور کر دیا اور لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ وہ وہم و خوف کی شکار رہتی ہیں۔ اسی رویئے کی بدولت 1970ء کی دہائی میں انہیں معزولی کا سامنا کرنا پڑا۔ +1971ء کے انتخابات میں گاندھی کو اپنے رجعت پسند مخالفوں پر معقول مارجن سے فتح حاصل ہوئی۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دنوں میں ہندوستان غذائی پیداوار اور صنعتی بنیاد کی تعمیر کے میدانوں میں تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ تاہم سیاسی طور پر فضا شورش زدہ ہی رہی۔ 1971ء کے اواخر میں گاندھی نے بنگلہ دیش کے علیحدگی پسندوں کو پاکستان کے خلاف عسکری اعانت فراہم کر کے پاکستان کے مشرقی بازو کو جدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس مناقشے کے بعد 1972ء کے انتخابات میں انہیں بھاری مارجن سے فتح ملی لیکن مخالفین نے الزام لگایا کہ انہوں نے انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ الٰہ آباد کی ہائیکورٹ نے 1975ء میں ان کے خلاف فیصلہ دیا اور امکان پیدا ہو گیا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ سے نہ صرف ہٹا دیا جائے بلکہ ان کے سیاست میں حصہ لینے پر چھ سال کی پابندی عائد کر دی جائے۔ +عدالت کا فیصلہ ماننے کے بجائے، گاندھی نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا، اپنے مخالفین کو جیل میں ڈال دیا اور شہری آزادیاں معطل کر دیں۔ آنے والے سالوں میں ان کی سیاسی تقدیر نے کئی کروٹیں بدلیں اور 1977ء میں ان کی جماعت اقتدار سے محروم ہو گئی۔ 1978ء میں ان کے حامیوں نے کانگریس (آئی) تشکیل دی۔ انہوں نے اپنی ذاتی نشست پر کامیابی حاصل کر لی اور اس کے دو سال بعد وہ چوتھی مرتبہ ہندوستان کی وزیراعظم بن گئیں۔ ان کا بیٹا سنجے ان کا مرکزی سیاسی مشیر بن گیا اور گاندھی خاندان کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات واپس لے لئے گئے۔ 1980ء میں ایک ہوائی حادثے میں سنجے کی ہلاکت کے بعد، انہوں نے اپنے بیٹے راجیو کو پارٹی کی قیادت کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ +1980ء کی دہائی میں کئی ہندوستانی ریاستیں وفاق سے علیحدگی کی طلبگار ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ پُرتشدد مزاحمت پنجاب میں دیکھنے میں آئی۔ جون 1984ء میں گاندھی نے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ امرتسر کے گولڈن ٹیمپل سے سکھ مزاحمت کاروں کو نکالنے کے لئے فوج بھیج دی۔ اس واقعے میں چھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 31 اکتوبر 1984ء کو گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے انہیں اس وقت قتل کر دیا جب وہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہی تھیں۔ +د��یا کی گنجان آباد ترین جمہوریت کے اعلیٰ ترین عہدے تک ایک خاتون، اندرا گاندھی، کی رسائی بھارتی خواتین کے لئے خصوصی اہمیت کی حامل تھی جو روایتی طور پر مردوں کی محکوم سمجھی جاتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تیسری دنیا کی تمام اقوام کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتی تھیں۔ +ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک موہنجوڈارو کی سرزمین لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستانی سیاست کی ایک روایت کے مطابق، انہوں نے نچلے طبقات کے لئے سیاست کا دروازہ کھول دیا۔ انہوں نے عوام میں بنیادی حقوق کا شعور اور حقیقی مساوات و آزادی کی محبت پیدا کی۔ اپنی جدوجہد کے نتیجے میں وہ پاکستانی سیاست کی ماہیئت اور کیفیت میں انقلابی تبدیلیاں رونما کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے سیاست کے پرانے جاگیرداری کلچر کو عوامی بنا دیا یعنی عوامی سیاست، عوام کے ذریعے، عوام کے لئے۔ ان سے پہلے پاکستان میں ایسے کسی تصور کا وجود نہ تھا۔ اسے پاکستان کی بنیادی سیاست کی کیفیت میں آنے والی تبدیلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماہیئت میں آنے والی تبدیلی اس اعتبار سے وقوع پذیر ہوئی کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہنے والی ایک خاموش اکثریت ان کی شخصیت کے زیراثر متحرک ہو کر عملی سیاست کے دھارے میں شامل ہو گئی۔ یہ کام، خصوصاً اس دور کے معروضی ملکی حالات کے زیر نظر، آسان نہ تھا۔ اسے ایک ذہین، صاحب بصیرت، صاحب علم، بہادر، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لیڈر ہی انجام دے سکتا تھا اور بھٹو ان اوصاف کی عمدہ مثال بن کر سامنے آئے۔ بچپن سے ہی وہ شخصی ارتقاء کے مراحل سے گزرتے چلے آ رہے تھے۔ اپنے والد کے گھر میں وہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے جس میں سیاست رچی بسی ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک جاگیردار خاندان کا نوجوان بنے رہنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ آگے بڑھتے رہے اور سیکھنے کے عمل، آزمائشوں اور صعوبتوں کے ناگزیر مراحل سے گزر کر ایک اعلیٰ معیار کے بین الاقوامی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ +زمانۂ طالب علمی سے ہی بھٹو شاہی نظام کے مخالف بن چکے تھے۔ وہ معاشی خود انحصاری اور سیاسی خودمختاری پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’آزادی کی داستان‘‘ میں انہوں نے انہی نظریات کا مفصل بیان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا کے ان لیڈروں میں جگہ بنا چکے ہیں جنہوں نے نوآبادیاتی اور شاہی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد کے ثمرے میں لافانی شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ انہیں 20 ویں صدی میں اٹھنے والی تحاریک آزادی کے بہت سے ممتاز لیڈروں مثلاً مائوزے تنگ، احمد سوئیکارنو، چو این لائی، جواہر لعل نہرو، جمال عبدالناصر اور سیلواڈور اینڈے سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے لے کر سرد جنگ کے انجام تک دنیا دو بلاکوں میں بٹی رہی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا حامی مغرب اور سوشلزم کا علمبردار مشرق۔ متذکرہ بالا تمام لیڈر معاشیات کے ایک سوشلسٹ نظام کے حامی تھے۔ بھٹو بھی ان کے ہم خیال تھے اور خود انحصاری کے ایک وسیلے کی حیثیت سے پبلک سیکٹر کے قائدانہ کردار پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے سیاست کے پرانے جاگیرداری کلچر کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا اور ایک نئے سیاسی کلچر کو جنم دیا جس میں ووٹ کی طاقت غریب طبقات کے ہاتھ میں تھی اور جن کی اہمیت آج پاکستان کی سیاست میں تسلیم کی جاتی ہے۔ +بھٹو نے 1937ء سے 1947ء کے دوران بمبئی کے کیتھڈرل میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی فیملی اس وقت کارمائیکل روڈ پر گھیا مینشن میں رہائش پذیر تھی۔ ان کی تعلیم کا آغاز نو سال کی عمر سے پہلے نہ ہو سکا۔ اگلے نو سالوں تک انہیں اس تعلیمی کمی کا مسلسل سامنا کرنا پڑا۔ عام طور پر لوگ ایسی کمیوں کا ازالہ کبھی نہیں کر پاتے لیکن بھٹو نے اپنی محنت کی بدولت اس رکاوٹ پر قابو پا لیا اور تعلیمی میدان میں امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ گھر کا ماحول، آزادی اور انہیں ملنے والی دیکھ بھال ایک ایڈوانٹیج کی حیثیت ضرور رکھتے تھے لیکن اپنی تعمیر میں ان کے ذاتی ٹیلنٹ اور محنت کا کردار نمایاں رہا۔ +بچپن ہی سے انہیں کرکٹ کا بڑا شوق تھا۔ وہ فرسٹ کلاس کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے پہلے سکول کی جونیئر اور پھر سینئر ٹیم کی طرف سے کرکٹ کھیلی۔ سکول لائف کے دوران ہی چودہ سال کی عمر میں ان کی شادی ان کی کزن پچیس سالہ امیر بیگم سے کر دی گئی۔ یہ شادی خاندان والوں کی طے کر دہ تھی اور شادی کے روز ان کی خواہش پر ان کے والد نے انہیں کرکٹ کے بیٹ کا تحفہ دیا۔ کرکٹ کا شوق رکھنے کی بدولت بھٹو اکثر کرکٹرز کی دعوتیں کیا کرتے اور ان کی میزبانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ اس دور کے تقریباً سبھی مشہور کرکٹروں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ ان میں مشتاق علی بھی شامل تھے جو اس وقت ہندوستانی کرکٹ میں اعلیٰ ترین مقام کے حامل تھے اور سکول کے ہر طالب علم اور ہر کرکٹر کے لئے ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ عمر قریشی جو آگے چل کر کرکٹ کے بہترین کمنٹیٹر بنے، بھٹو کے دوستوں میں شامل تھے۔ اس وقت بھٹو کی عمر سولہ سال تھی اور مشتاق علی ان سے غالباً دس سال بڑے تھے۔ پیلو موڈی کی کتاب ’’مائی فرینڈ زلفی‘‘ میں ایک جگہ مشتاق علی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’زلفی اس وقت بھی بہت سمارٹ تھے۔ وہ اچھی انگلش بولتے تھے اور کرکٹ، کپڑوں اور اچھے کھانوں کے ساتھ ساتھ فلموں کے بھی بڑے شوقین تھے۔ وہ بے حد حساس تھے اور چھوٹی سی بات پر بھی افسردہ ہو جاتے تھے۔‘‘ پیلو موڈی کا کہنا ہے کہ 1946ء میں ہزاری باغ سٹیڈیم میں ہونے والے میچ میں مشتاق علی، ثروت اور نمبالکر کے ساتھ ساتھ زلفی (بھٹو) بھی شامل تھے۔ لیکن کرکٹ کا بھرپور شوق رکھنے کے باوجود وہ اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ پڑھائی کو دیتے رہے اور دسمبر 1946ء میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کر لیا۔ ہائی سکول کے آخری سال کی چھٹیوں کے دوران انہوں نے پہلے ٹینس، اور بعد ازاں بیڈمنٹن، سکواش اور پیراکی کو اپنے روزمرہ معمول کا حصہ بنا لیا۔ پیلو موڈی جو سکول میں بھٹو کے ہم جماعت اور دوست رہ چکے ہیں ’’زلفی مائی فرینڈ‘‘ میں انکشاف کرتے ہیں کہ وہ دونوں مل کر فلموں کے میٹنی شوز اور کلب میں جایا کرتے تھے۔ +1947 میں بھٹو نے لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف سائودرن کیلیفورنیا میں داخلہ لیا اور سائوتھ فلاور سٹریٹ میں مسز بیس جونز کی لاجنگز میں مقیم ہوئے۔ وہ ڈبیٹنگ ٹیم کے ممبر تھے۔ ان کے ہم جماعت عمر قریشی کے بقول، بھٹو اپنے مباحث میں سماجی انصاف پر زور دیتے اور ’’ہر آنکھ سے آنسو پونچھ دینے‘‘ کا عزم ظاہر کرتے۔ ان کا یہ عزم مسلسل ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ بعد ازاں سزائے موت کی کوٹھڑی سے بے نظیر بھٹو کے نام اپنے خط میں انہوں نے اسی سیاسی عقیدے پر زور دیا۔ ’’برصغیر کی عوامی زندگی میں میرے نام سے کئی کارنامے منسوب ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے اہم کارنامے وہ ہیں جنہوں نے کسی غریب کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق پیدا کی ہے، کسی دیہاتی کی آنکھ میں روشنی جگائی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں کی طرف سے ملنے والے خراجِ تحسین کی جگہ، مجھے اس کوٹ��ڑی کی چاردیواری میں وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جو ایک غریب بیوہ نے اس وقت مجھ سے کہے جب میں نے اس کے مزدور بیٹے کو وظیفے پر باہر بھجوایا تھا۔ ’’صدقے واریاں سولہڑ سائیں۔‘‘ +جنوری 1949ء میں بھٹو یونیورسٹی آف سائودرن کیلی فورنیا سے برکلے میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں سیاسیات کے میجر کی حیثیت سے داخل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے 1800 آسٹن وے پر واقع گھر میں رہائش اختیار کی جو کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ سے آٹھ بلاک کے فاصلے پر تھا۔ اس جگہ میں ہر ایک حصے میں آنے والے کاموں کا پہلے سے ہی تعین کر دیا جاتا تھا۔ بھٹو کے ذمے گھر کی صفائی اور بستر بچھانے کا کام آیا۔ قابل پروفیسر ہانس کیلسن کی رہنمائی میں بھٹو ہر سال اپنے تعلیمی مدارج کو بہتر بناتے رہے اور ہر کورس میں بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا، اپنے ذہن کو وسعت دی اور پاکستان میں اپنے سیاسی مستقبل کے لئے خود کو تیار کرتے رہے۔ +بھٹو نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں طلبہ کے معاملات کی منتظم سٹوڈنٹس یونین کونسل کی 12 نشستوں میں سے ایک کے لئے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب رہے۔ پیلو موڈی اپنی کتاب میں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’وہ پہلے ایشین تھے جو اس مقابلے میں کامیاب رہے اور تمام ایشیائیوں کے لئے باعث فخر بنے۔‘‘ +برکلے میں گزرنے والے وقت کے دوران بھٹو کو احساس ہوا کہ انہیں امورِ حکومت اور انتظام کاری کے معاملات میں کچھ عملی تجربے کی ضرورت ہے لہٰذا انہوں نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں اپرنٹس کی حیثیت سے تربیت لینے کا فیصلہ کیا۔ کیلی فورنیا میں انہیں مطالعے کا بڑا شوق تھا اور تاریخ سے انہیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انہوں نے تاریخ، فلسفۂ سیاست اور معاشیات پر بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے بہت سے مباحث میں حصہ لیا اور ایک بہترین مباحث نگار کے طور پر سامنے آئے۔ +1950ء میں انہوں نے آنررز کے ساتھ سیاسیات میں گریجویٹ کیا۔ اسی سال وہ اوکسفرڈ پہنچے اور وہاں کرائسٹ چرچ کالج میں داخل لے لیا۔ کرائسٹ چرچ اوکسفرڈ یونیورسٹی کے تمام کالجز میں سب سے بہتر تصور کیا جاتا ہے اور بہت کم کسی ایشیائی کو وہاں داخلہ نصیب ہوتا تھا۔ بھٹو نے تین سال کا کورس دو سال میں امتیاز کے ساتھ مکمل کیا۔ 1952ء میں اوکسفرڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھٹو لندن چلے گئے تاکہ لنکنز ان سے بار کا امتحان پاس کر سکیں۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں انہیں بار کا رکن منتخب کر لیا گیا اور یونیورسٹی آف سائوتھمپٹن میں انٹرنیشنل لاء کی پروفیسری کا تقرری نامہ دے دیا گیا۔ یونیورسٹی میں ان کی تقرری ایک اور ریکارڈ تھی کیونکہ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی ایشیائی کو اس عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ بہرحال ان کے والدین ان کے انگلینڈ میں مستقل قیام کے خیال سے خوش نہ تھے اور انہوں نے بھٹو کو کراچی واپس آنے پر آمادہ کرنے کے لئے دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔ امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد بھٹو نے مشہور و معروف سرکاری وکیل ایش لنکن کے زیر نگرانی قانون کی تربیت لینا شروع کر دی۔ نومبر 1953ء میں وہ پاکستان واپس آ گئے۔ کراچی آمد پر انہوں نے اپنے والدین کو اطلاع دی کہ وہ نصرت اصفہانی سے شادی کرنا چاہتے ہیں، اور یہ شادی ہو گئی۔ +بھٹو سے شادی کے بعد بیگم نصرت بھٹو کی لاڑکانہ آمد پر انہیں برقعہ پہننے کی ہدایت کی گئی تاکہ خاندان کی پرانی روایت برقرار رہے۔ بھٹو نے بیگم نصرت بھٹو کو اس پابندی سے آزاد قرار دیتے ہوئے انہیں برقعہ اتارنے کی اجازت دے دی۔ بھٹو کی پہلی بیگم کے والد، ان کے چچا احمد خان بھٹو سیاست میں تھے۔ وہ ایک حقیقت پسند آدمی تھے اور بھٹو کی دوسری شادی پر انہوں نے کراچی کلب میں ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ +ان کے دوست بہت کم تھے۔ بیگم بھٹو نے انہیں خیال رکھنے والا شوہر اور نہایت صبر و برداشت کا حامل ایک پیار کرنے والا فرد پایا۔ +بچوں کی پرورش کرنے میں ان کا انداز غیر ضروری سختی سے پاک اور تعلیمی تھا۔ بھٹو کے متعلق ایک حیران کن بات بیگم بھٹو نے یہ بتائی کہ وہ پانچ دس منٹ کی گہری نیند لینے کے بعد بھی جب اٹھتے تھے تو بالکل تروتازہ ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اس بارے میں بیگم بھٹو کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا۔ ’’میرا ضمیر بے داغ ہے، اسی لئے میں اس طرح سو سکتا ہوں۔‘‘ ایسا وہ اکثر کیا کرتے تھے کیونکہ ان کا تمام وقت طرح طرح کی مصروفیات میں گزرتا تھا۔ تھک جاتے تو تھوڑی دیر کے لئے سو لیتے۔ رات تین بجے سو کر وہ صبح آٹھ بجے اٹھ جاتے اور پھر سے اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے۔ وہ بہت کم سوتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک فرد کی بہترین خصوصیات مہربانی، صداقت اور راست بازی تھیں۔ یہی تعلیم انہوں نے اپنے بچوں کو دی۔ +اوریانا فلاشی بھٹو کے ساتھ اپنے انٹرویو کے متعلق لکھتی ہے۔ ’’وہ تضادات سے بھرپور تھے۔ امیر ہونے کے باوجود وہ غریبوں کی پروا کرتے تھے۔ جاگیردار ہونے کے باوجود وہ سوشلزم کے حامی تھے۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ آزاد خیالی پر بھی یقین رکھتے تھے۔‘‘ +پیلو موڈی ’’زلفی مائی فرینڈ‘‘ میں بھٹو کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’نوجوانی کے دور میں کپڑوں اور اپنی وضع قطع کے متعلق ان کا ذوق نہایت عمدہ تھا۔ عمدگی سے سلی ہوئی پتلونیں، کھلے گلے کی شرٹیں ، چمکتے دمکتے جوتے اور بالوں میں ہلکی سی زائد چمک۔ یونیورسٹی میں زلفی ہمیشہ سپورٹس کوٹ اور ٹائی کے ساتھ نظر آتے۔ کبھی کبھی ’’بو ٹائی‘‘ بھی لگا لیتے لیکن یہ ان پر اس قدر جچتی نہیں تھی۔ ان کا عمومی لباس خاصا سنجیدہ ہوتا تھا۔‘‘ بیگم بھٹو بتاتی ہیں کہ بھٹو کو بوسکی کی قمیصیں پہننے کا بڑا شوق تھا۔ +جولائی 1953ء میں بھٹو، سر شاہنواز بھٹو کے قریبی دوست بیرسٹر ڈنگومل رام چندانی کی فرم میں شامل ہو گئے۔ 12 نومبر 1953ء کو انہیں سندھ چیف کورٹ کا ایڈووکیٹ منتخب کر لیا گیا۔ بین الاقوامی اور آئینی قوانین میں بھٹو کو خصوصی مہارت حاصل تھی۔ ایک وکیل کے طور پر ان کی اہلیت کا بہترین اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے نہایت اہم ’’مقدمۂ تقدیر‘‘ میں سپریم کورٹ کے سامنے اپنی نظرثانی کی درخواست انہوں نے خود پیش کی اور اس پر بحث کرتے ہوئے دلائل دیئے۔ اگرچہ وہ بیس سال کے وقفے کے بعد کسی عدالت کے سامنے پیش ہو رہے تھے، لیکن ان کی پیش کاری، دلائل کی فراہمی اور متعلقہ قوانین سے ان کی گہری واقفیت سپریم کورٹ کی تاریخ میں سامنے آنے والی بہترین کارکردگی تھی جس کا بعد ازاں اعتراف بھی کیا گیا۔ ان کی اخلاقی جرأت کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے جب اس امر کو مدنگاہ رکھا جائے کہ جب وہ اپنے مقدمے میں دلائل دینے کے لئے پیش ہوئے تو اس وقت ان کے سر پر سزائے موت کی تلوار مسلط تھی لیکن جس انداز میں انہوں نے پیشانی پر شکن ڈالے بغیر اپنی جان بچانے کے بجائے اس نصب العین کی سربلندی کے لئے جنگ لڑی جس کے لئے وہ ربع صدی سے جدوجہد کر رہے تھے، اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 1954ء میں انہوں نے کراچی کے سندھ مسلم لاء کالج میں پڑھانا شروع کر دیا اور جلد ہی اپنا علیحدہ آف�� قائم کر لیا۔ +بھٹو پہلی مرتبہ سندھ کی چیف کورٹ میں جو پاکستانی عدلیہ کی ہائی کورٹ تھی میں پیش ہوئے جس کی سربراہی اس وقت کانسٹرنٹائن نامی انگریز کر رہا تھا۔ جب بھٹو نے اپنے دلائل مکمل کئے تو چیف جسٹس نے انہیں بھرپور تعریفی کلمات سے نوازا۔ بھٹو نے کئی دیگر پیچیدہ مقدمات جن میں قتل کے مقدمات کی اپیلیں بھی شامل تھیں، بڑی خوبی سے نمٹائے۔ انہیں سندھ یوتھ فرنٹ کا صدر بھی منتخب کر لیا گیا۔ انہوں نے ون یونٹ سسٹم پر کڑی نکتہ چینی کی اور ایک پمفلٹ بھی لکھا جس کا عنوان تھا۔ ’’پاکستان ایک جاگیرداری یا ایک ون یونٹ ریاست۔‘‘ اس پر حکومت سندھ کے سربراہ مسٹر کھوڑو نے بڑی سنجیدگی سے انہیں گرفتار کرنے کے متعلق سوچا لیکن چونکہ بھٹو ایک ممتاز لیڈر اور سندھ کی علیحدگی کے کارفرما افراد میں سے ایک کے فرزند تھے، اس لئے اس سوچ کو حقیقت کا روپ نہ دیا جا سکا۔ بھٹو کے والد اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک نہ ایک روز بھٹو کا سیاست میں آنا اور اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھٹو کو یہ مشورہ دینا ضروری سمجھا کہ وہ انتظار کریں، سیاسیات کے فن میں ٹائمنگ بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی رائے میں اس وقت بھٹو کا سیاست میں کود پڑنا قبل از وقت تھا۔ اپنے والد کے مشورے کو مدنظر رکھتے ہوئے بھٹو صوبائی انتخابات سے باہر رہے اور دیگر سیاسی سرگرمیوں سے بھی الگ ہو گئے۔ البتہ وہ اس اقدام پر خوش نہ تھے کیونکہ ذہنی طور پر وہ سیاست میں حصہ لینے کے لئے پوری طرح آمادہ و تیار تھے۔ 1956ء تک بھٹو اپنی تمام تر توجہ اپنی زمینوں اور پیشے کو دیتے رہے اور سندھ مسلم لاء کالج میں آئینی قانون پڑھاتے رہے۔ +سکندر مرزا کے ساتھ بھٹو خاندان کے قدیمی خاندانی تعلقات تھے۔ جب شاہنواز حکومت بمبئی میں وزیر تھے، اس وقت سکندر مرزا کے انکل وہاں انجینئر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ دونوں قریبی دوست تھے۔ بھٹو خاندان لاڑکانہ میں، جہاں بھٹو کے چچا نے ایک بہترین شکار گاہ قائم کر رکھی تھی، سکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کی میزبانی کیا کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر 1955ء میں سکندر مرزا بھٹو کے طول طویل مباحث سے متاثر ہوئے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے انہیں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سامنے بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ +5 مارچ 1956ء کو گورنر جنرل سکندر مرزا کو عبوری دور کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بلامقابلہ منتخب کر لیا گیا اور 23 مارچ کو 1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد انہوں نے پاکستان کے پہلے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ نومبر 1957ء میں سر شاہنواز بھٹو کا انتقال ہو گیا۔ +اس دوران ستمبر 1957ء میں بالآخر بھٹو کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھیجے جانے والے وفد میں رکن کی حیثیت سے شامل کر دیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 29 برس تھی۔ چھٹی کمیٹی میں انہوں نے ’’جارحیت‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ وہ اقوامِ متحدہ میں ہی تھے جب 19 نومبر 1957ء کو ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور وہ واپس پاکستان لوٹ آئے۔ مارچ 1958ء میں بھٹو کو پاکستانی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے اقوامِ متحدہ کی بحری قوانین کی کانفرنس میں شرکت کے لئے جنیوا بھیجا گیا جس کے بعد بہت سی حکومتوں نے حکومت پاکستان کو بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں اور مہارت کے متعلق تعریفی خطوط لکھے۔ خصوصاً امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان فاسٹر ڈلس نے ان کی بے حد تعریف کی۔ +1958ء تک بھٹو بڑے شوق سے فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ وہ کراچی کے ریکس سنیما میں بیگم بھٹو کے ساتھ فلم دیکھ رہے تھے جب سکرین پر پیغام نمودار ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو گورنمنٹ ہائوس میں یاد کیا جا رہا ہے۔ بعد میں انہیں پتہ چلا کہ سکندر مرزا نے انہیں حکومت پاکستان کا وزیر اقتصادیات مقرر کر دیا ہے (70 کلفٹن سے سکندر مرزا کو اطلاع ملی تھی کہ وہ اس وقت فلاں سنیما میں موجود ہیں)۔ لوگوں کا خیال تھا کہ سکندر مرزا نے بھٹو کو وزیر بنا کر سر شاہنواز بھٹو کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھایا ہے۔ +بہرحال، سکندر مرزا نے اپنا وعدہ نبھایا اور بھٹو کو 1958ء میں وزیر اقتصادیات بنا دیا۔ تب چیف آف آرمی سٹاف ایوب خان نے سکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے اور ان کی خواہش تھی کہ بھٹو وزیر کے طور پر ان کے ساتھ موجود رہیں۔ بھٹو کی والدہ اور بیگم بھٹو نے انہیں اس پیشکش کو قبول کر لینے کا مشورہ دیا لہٰذا وہ راضی ہو گئے۔ ایوب خان کی کابینہ میں وہ سب سے کم عمر، سب سے تعلیم یافتہ اور اظہارِ رائے میں سب سے مؤثر فردتھے۔ 1959ء اور 60ء کے سالوں میں انہیں قومی تعمیر نو، ایندھن، قوت اور قدرتی وسائل کی وزارتوں کے قلمدان بھی سونپے گئے۔ 1959ء، 1960ء، 1963ء، 1965ء میں اقوامِ متحدہ میں بھیجے جانے والے پاکستانی وفود کے وہ سربراہ رہے۔ 1959ء میں انہوں نے اقوامِ متحدہ میں الجزائر پر فرانس کے تسلط کے خلاف بیان دیا۔ 1960ء میں انہوں نے سوویت یونین کے ساتھ بارہ کروڑ روبل کے کریڈٹ کے ساتھ تیل اور گیس کی تلاش کا معاہدہ کیا۔ 1960ء میں ہی وہ پاکستانی وفد کے سربراہ بن کر اقوامِ متحدہ گئے اور وہاں امریکی رائے کی مخالفت کرتے ہوئے چین کو اقوامِ متحدہ کا رکن بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ 1963ء سے 65ء تک وہ پاکستان کے وزیر خارجہ رہے۔ +اپنے سیاسی اور سماجی پس منظر کے ساتھ اور بھٹو خاندان کا چشم و چراغ ہونے کی حیثیت سے بھٹو ایک نہایت فطری پس منظر کے مالک تھے اور نظریاتی اور پیشہ ورانہ ہر دو حیثیت سے نہایت ہوشیار اور مستعد تھے۔ ان کے پاس تمام بنیادی اہلیتیں موجود تھیں۔ ایوب حکومت کو سندھ کے بااثر خاندانوں میں سے کسی نمائندے کی تلاش تھی۔ بھٹو ان کا قدرتی اور واضح انتخاب تھے۔ وہ ایسے لوگوں میں شامل نہ تھے جو آگے آنے کے لئے دوسروں کو دھکے دیتے پھرتے ہیں۔ اپنی تربیت اور مزاج کے حوالے سے وہ ہمیشہ اپنے سینئرز کا احترام کرتے، ان کی باتیں غور سے سنتے اور ان کی معاونت کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے۔ ان تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی قابلیت، ذاتی جوہر اور اقوامِ متحدہ میں شاندار کارکردگی کی بدولت بھٹو ایوب کی کابینہ میں وزیر اقتصادیات کی حیثیت سے جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ بھٹو نے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا ہو جس کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار ثابت نہ ہو چکے ہوں۔ 1957ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن تحلیل کر دی گئی اور صدر سکندر مرزا نے بھٹو کے سامنے خواہش ظاہر کی کہ وہ میونسپل کارپوریشن کی سربراہی سنبھال کر کراچی کے میئر کے طور پر کام کریں۔ لیکن بھٹو نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ مقررہ شرائط پوری کئے بغیر وہ کوئی بھی ایسا عہدہ قبول نہیں کر سکتے جس پر فائز ہونے والے کے انتخاب کا حق عوام کے پاس ہو۔ بہرحال، یہ ایک حقیقت ہے کہ بھٹو کے سکندر مرزا اور ایوب خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، اس لئے انہیں کابینہ میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لئے ان لوگوں کو زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی۔ +اس دن کے لئے بھٹو نے اپنی تعلیم کے پہلے دن سے خود کو بہتر سے بہتر بنانے کا، زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا۔ وہ مسلسل اپنے ذہن کو وسعت دیتے رہے اور خود کو ایک ایسے سیاسی مستقبل کے لئے تیار کرتے رہے جس کے لئے ان کے ذہن میں ہچکچاہٹ اور تامل کا شائبہ تک نہ تھا۔ تاہم ان کی بنیادی دلچسپی امورِ خارجہ کے میدان میں تھی اور جب جنوری 1963ء میں انہیں وزیر خارجہ بنا دیا گیا تو وہ حقیقی معنوں میں اپنے متعین کردہ مقام پر پہنچ گئے۔ +بھٹو عالمی سٹیج پر ایک لیڈر کی حیثیت سے 31 سال کی عمر میں اقوامِ متحدہ میں آنے والے پاکستانی وفد کے سربراہ کے طور پر نمودار ہوئے۔ مسئلۂ کشمیر پر حمایت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے چین، برطانیہ، مصر اور آئرلینڈ کے کامیاب دورے کئے۔ انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ بہ حیثیت وزیر خارجہ، 1963ء سے لے کر جون 1965ء میں استعفیٰ دینے تک، بھٹو نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل میں عالمی برادری پر اپنی خطیبانہ مہارت کے ذریعے گہرے نقوش چھوڑے۔ یہ انہی کی بصیرت کا اعجاز تھا کہ چین کے ساتھ دفاعی حکمت عملی پر مبنی تعلقات ایک ایسے وقت استوار کئے گئے جب چین کو دنیا میں تنہا کر دیا گیا تھا۔ بھٹو ایک خودمختار خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے تھے جو کہ اس وقت تک مغربی طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا بنی رہی تھی۔ ان کی وزارتِ خارجہ کے دور میں ایران اور پاکستان کے تعلقات انتہائی مضبوط ہو گئے۔ +ایک دوسرے سے متضاد مفادات رکھنے والی اتنی بہت سی قوموں کو کامیابی سے ہینڈل کرنے میں انہوں نے بہت سی دشواریوں کا سامنا کیا۔ یہ یقینا ان کی ڈپلومیسی کی کامیابی تھی کہ بھارت کی سوویت یونین سے قربت کے باوجود، بھٹو پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان تیل اور گیس کی تلاش کا معاہدہ کرانے میں کامیاب رہے۔ چین کے دورے پر جانے سے قبل اچانک محمد علی بوگرہ کا انتقال ہو گیا، بھٹو نے ان کی جگہ لی اور چین کے ساتھ مذاکرات کر کے پاکستان کے لئے 750 مربع میل کا رقبہ حاصل کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک لازوال دوستی کی بنیاد بھی رکھ دی۔ جب رچرڈ نکسن کو اپنے خصوصی سفیر ہنری کسنجر کی مائوزے تنگ سے ملاقات کروانے کے لئے کسی واسطے کی ضرورت پڑی تو بھٹو نے ہی یہاں پل کا کام دیا۔ +اپنی تمام وزارتوں کے دوران بھٹو نے نہایت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، مسلسل سیکھتے رہے اور اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بڑے جوش و خروش، حقیقی احترام، خلوص اور وفاداری کے ساتھ ایوب خان کا ساتھ دیا۔ لیکن دونوں کے درمیان اختلافات کا آتش فشاں یقینا پک رہا تھا اور یہ آتش فشاں 1965ء کی جنگ کے چھڑنے اور پھر تاشقند میں اختتام پذیر ہونے کے بعد پھٹ پڑا۔ اس کے بعد ایوب خان نے انہیں دھمکانے اور اذیتیں پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ انٹیلی جنس، پولیس اور دیگر سرکاری ایجنسیاں بھٹو، ان کے خاندان اور ان کے دوستوں پر کھلی چھوڑ دی گئیں۔ بھٹو خاندان کے آتشیں ہتھیاروں کے ذخیرے اور ان کی زمینوں کی ساتھ ساتھ ان کے عزیزوں اور قریبی دوستوں کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ +پاکستان واپسی سے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے تک کا عرصہ انہوں نے جدوجہد اور کڑی مشقت کے عالم میں گزارا۔ جو سلوک ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ ہوا، اس سے انہیں انسانی کردار اور عوامی نفسیات کے متعلق گہرے اسباق حاصل ہوئے۔ وہ سیاسی سرگرمیوں کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے لیکن انہوں نے اپنی تحریک کا آغاز قبل ازوقت نہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف ایوب خان کو شکست دی بلکہ پوری حزبِ اختلاف، جس کے لیڈر ان سے کہیں زیادہ کہنہ مشق سیاستدان تھے، کی طرف سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ +1965ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر وہ ایک وفد کے سربراہ کی حیثیت سے اقوامِ متحدہ گئے اور وہاں اپنی مشہورِ زمانہ تقریر کی۔ ’’ہم ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔‘‘ (22-23 ستمبر 1965ء)۔ روس کی دعوت پر، جنوبی روس کے شہر تاشقندمیں دونوں ملکوں کی قیادتوں کے درمیان بحالی ٔ امن کے مذاکرات شروع ہو گئے۔ اور یہاں صدرِ پاکستان ایوب خان نے وزیر اعظم ہندوستان لال بہادر شاستری کے ساتھ ’’اعلانِ تاشقند‘‘ پر دستخط کر دیئے جس کی رو سے دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں گذشتہ پوزیشنوں پر واپس بلا لیں۔ یہ بھٹو اور پاکستان کی عوام کی خواہشات کے عین برعکس ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں ملکی مفاد کے بالکل خلاف تھا۔ بھٹو ایک دو فریقی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے تھے جس میں کوئی ملک، دوسرے ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں دخل انداز نہ ہو سکے۔ اعلانِ تاشقند کی مخالفت کے نتیجے میں انہوں نے ایوب کابینہ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اعلانِ تاشقند پر دستخط کرنے کے اگلے روز لال بہادر شاستری کا انتقال ہو گیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کی موت خوشی کے باعث ہوئی ہے کیونکہ جو جنگ انڈیا میدان میں ہار گیا تھا، وہ اس نے میز پر جیت لی۔ +اعلانِ تاشقند کے بعد اب بھٹو بھی ایوب خان کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے نتیجے میں بے چین ہو رہے تھے۔ اب ملک کے لئے ان کے ذہن میں نئے مثالئے جنم لے چکے تھے۔ وہ ذہنی طور پر، اخلاقی طورپر، قابلیت اور تجربے کے اعتبار سے کسی بڑی مہم میں کودنے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ اس بڑی ذمہ داری کے لئے وہ ہر اعتبار سے موزوں و مناسب تھے۔ 10 جون 1966ء کو بھٹو نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھٹو کو لمبی رخصت پر بھیجنے کا اعلان کیا۔ یہ ایک بڑی خبر تھی اور بین الاقوامی میڈیا میں اسے بھرپور کوریج ملی۔ اگلے روز آل انڈیا ریڈیو نے وزارتِ خارجہ سے بھٹو کی رخصت کو خوش آمدید کہا۔ برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ نے اس پر تبصرہ کیا کہ چاہے بھٹو نے استعفیٰ دیا ہے یا انہیں رخصت پر بھیجا گیا ہے، امریکی امداد کی بحالی کے صرف دو دن بعد ایوب خان عوامی جذبات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے مخالفین اس اقدام کا خیرمقدم کریں گے۔ نیویارک کے ہیرالڈ ٹربیون نے لکھا۔ ’’بھٹو کی کابینہ سے علیحدگی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جنوبی ایشیا کی سیاست سے بھی الگ ہو جائیں گے۔ حزبِ اختلاف کے لیڈر کے طور پر بھٹو کے سامنے آنے کے امکانات روشن ہیں۔ بھٹو ایوب خان کو چیلنج کرنے کے اہل ہیں۔‘‘ +ایوب خان اور اس کی حکومت کو چھوڑنے کے بعد، بھٹو نے 21 ستمبر 1968ء کو پیپلز پارٹی سندھ کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے اور ایوب خان کے مابین پائے جانے والے اختلافات بتدریج بڑھ رہے تھے لیکن 1965ء میں معاہدئہ تاشقند کے بعد اچانک پھٹ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ایوب خان کی پالیسی قوم کے وسیع مفادات کے برعکس تھی۔ بھٹو نے انکشاف کیا کہ ایوب خان کے ساتھ ان کی آخری میٹنگ میں دونوں کے خیالات اور پالیسیوں میں موجود واضح فرق کی بناء پر انہوں نے وزارت سے سبکدوش ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ یہ بھی کہ وہ اپنے عقائد و نظریات سے محبت رکھتے ہیں لہٰذا کوئی سرکاری عہدہ سنبھالے رکھنے کے لئے ان کی قربانی دینے پر ہرگز رضامند نہ ہوں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب ایوب خان نے انہیں سیاست میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کرنے کے حوالے سے دھمکایا تو انہوں نے جواب دیا۔ ’’دنیا کی کوئی طاقت مجھے میرے عوام سے دور نہیں رکھ سکتی۔ اگر قوم کو کسی بھی مرحلے پر میری خدمات کی ضرورت پڑی اور لوگوں نے مدد کے لئے میری طرف دیکھا تو میں ہر قیمت پر ان کی مدد کو آئوں گا۔ مجھے سیاست میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں، اس کا فیصلہ نہ میں کر سکتا ہوں نہ ایوب خان۔ صرف عوام اس کا فیصلہ کریں گے۔ سیاست میں آنے والے کسی بھی فرد کا مستقبل عوام کی خواہشات اور حمایت سے بندھا ہوتا ہے۔ اگر عوام مجھے سیاست میں رکھنا چاہیں گے تو ایوب خان مجھے پاکستانی عوام کے خواہش کے مطابق عمل کرنے سے روک نہیں سکیں گے۔‘‘ +ایوب خان کی کابینہ سے ان کے استعفے کی منظوری اور آخری ملاقات کے بعد بھٹو 22 جون 1966ء کو بذریعہ ٹرین راولپنڈی سے لاہور روانہ ہو گئے۔ عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ راستے کے تمام اسٹیشنوں پر عوام خصوصاً طلبہ اور وکلاء نے بڑی گرمجوشی سے ان کا خیرمقدم کیا۔ لاہور سٹیشن پر ہزاروں کے مجمعے نے، جن میں نوجوانوں کی کثیر تعداد شامل تھی، ان کا استقبال کیا۔ انہیں کندھوں پر اٹھا کر اسٹیشن سے باہر لایا گیا اور ایک جلوس کے ساتھ سینکڑوں گاڑیوں، ٹانگوں، ٹیکسیوں، رکشائوں اور ہزاروں لوگوں کی معیت میں مال روڈ کے فلیٹیز ہوٹل لے جایا گیا۔ یہ ایک حیران کن نظارہ تھا۔ یہ پاکستان میں سیاست کی ایک نئی طرز کی ابتداء تھی۔ عوام کی سیاست، عوام کے لئے، عوام کے ذریعے۔ 24 جون 1966ء کو وہ کراچی روانہ ہوئے اور ایک مرتبہ پھر ہر اسٹیشن پر عوام نے اسی جوش و خروش کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ +یہ روایتی سیاست میں جاگیرداروں، وڈیروں اور شہری امراء کی اجارہ داری میں پڑنے والی دراڑ کا آغاز تھا۔ روزنامہ نوائے وقت نے اپنی 28 جون کی اشاعت میں ان نئی روایات کی ابتداء کا مشاہدہ کرتے ہوئے لکھا: +’’لوگوں نے بھٹو کو اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے۔ انہیں ایسا خصوصی امتیاز کیوں دیا گیا؟ کیونکہ وہ پاکستان میں آزادی، وقار اور عزتِ نفس کی علامت بن کر سامنے آئے ہیں۔ بھٹو نوجوان، ذہین، تجربہ کار، محب الوطن اور تعلیم یافتہ ہیں۔ عوام نے ان سے جو توقعات وابستہ کی ہیں، انہیں ان کا حق ادا کرنا ہوگا۔ جس کے معنی ہیں مستقبل میں پاکستانی عوام کے لئے قربانی کی ضرورت پیش آنے پر وہ قربانی دے کر اس کا بدلہ چکائیں۔‘‘ +یہ ایک طویل اور دقت طلب جدوجہد کا آغاز تھا جس کے نتیجے میں بالآخر ایک بے بصر اور بے مہر آمر، جس نے عوام کی خواہشات کے برعکس، تمام جمہوری ضوابط کے خلاف اور قومی مفادات کے برعکس، پاکستان پر اپنی مطلق العنان حکومت مسلط کر رکھی تھی، اقتدار سے رخصت ہو گیا۔ تاریخ نے بھٹو کو اس منفرد کردار کے لئے منتخب کیا تھا۔ یہ کردار انہیں انتہائی نامساعد حالات میں ادا کرنا تھا۔ ہر طرف سے ان پر دبائو پڑ رہا تھا۔ صنعتی سلطنت، متکبر طبقۂ امراء اور نوآبادیاتی طرز کی نوکر شاہی۔ لیکن عوام ان کے ساتھ تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے لئے باعث تقویت تھے۔ یہ راستہ آسان نہ تھا۔ بہت سے لوگ حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ بھٹو عوام کی ایسی قیادت کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے جبکہ بہت سے تجربہ کار سیاستدان ناکام ہو چکے تھے۔ وہ اس لئے کامیاب ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے پُرآسائش ڈرائنگ روم تک محدود رہنے اور وقتاً فوقتاً اخبارات کو بلند بانگ بیانات جاری کرنے پر اکتفا نہ کیا۔ وہ گلیوں میں نکل آئے۔ انہوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا، لمحہ ٔ موجود کو گرفت میں لیا۔ لوگ انقلاب کے لئے تیار تھے۔ بھٹو نے انقلاب تک ان کی رہنمائی کی۔ وہ لوگوں کے احساسات کا گہرا شعور رکھتے تھے اور ان سے ان کی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ وہ ان کی دل کی بات اپنی زبان پر لائے، انہیں تاریک سرنگ کے دوسرے کنارے پر نظر آنے والی روشنی دکھائی۔ انہوں نے فضا میں چمکنے والی دھنک اور آسمان میں دمکنے والے ستاروں کو دیکھا۔ یہ بھٹو کا جادو تھا۔ یہ بھٹو کی کشش تھی۔ یہ بھٹو کی اثرانگیزی تھی۔ وہ اس لئے کامیاب رہے کیونکہ انہوں نے ایک مرحلہ وار عمل سے گزر کر خود کو زیورِ علم سے آراستہ کیا تھا۔ +15 جنوری کو وہ عمرے کی ادائی کے لئے سعودی عرب گئے اور وہاں سے لندن روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے کئی عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ 13 اگست کو انہوں نے کانوائے ہال لندن میں خطاب کیا۔ لندن میں ان کی مثبت سرگرمیوں سے متاثر ہو کر 15 اگست کو مشہورِ عالم فلسفی برٹرینڈ رسل نے کئی سربراہانِ مملکت کو خطوط لکھے جن میں اس بناء پر بھٹو کی اعانت کرنے کی استدعا کی گئی تھی کہ وہ بھی انہی قومی روایات کی پاسداری کر رہے تھے جو بابائے قوم قائداعظم نے قائم کی تھیں۔ +بھٹو کی پاکستان میں عدم موجودی کے دوران متحرک سیاست زیادہ تر یونیورسٹیوں، کالجوں اور بار ایسوسی ایشنز تک محدود تھی۔ ان کے علاوہ مزدوروں کی یونینوں کی بھی مقامی سطحوں پر تھوڑی بہت سرگرمیاں تھیں۔ تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کی اجارہ داری تھی۔ یہ لوگ بے حد منظم تھے، مالی وسائل رکھتے تھے اور اپنی ڈنڈا فورس جسے وہ یوتھ فورس کے نام سے پکارتے تھے، کی مدد سے ’’زورِ بازو کی سیاست‘‘ بھی کرتے تھے۔ بھٹو کے مخالف سیاستدانوں کے ساتھ بھی ان کے روابط تھے۔ رجعت پسند ہونے کے ناطے وہ ہر ابھرتی ہوئی نئی قوت خصوصاً ترقی پسندانہ قوتوں کے سخت مخالف تھے۔ بھٹو کے لئے ان کی مخالفت فطری بھی تھی اور تحرکی بھی۔ +بھٹو نے اپنا مشن جاری رکھا۔ 7 فروری کو لاہور میں انہوں نے ایک عوامی اجلاس سے خطاب کیا، 25 فروری کو لاہور کے ینگ لائیرز سرکل سے خطاب کیا اور 26 فروری 1967ء کو وائی ایم سی اے میں نوائے وقت کے حمید نظامی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ابتدائی کام کے بعد انہوں نے کنونشن مسلم لیگ سے مکمل علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے عوام میں خصوصاً طلبہ، وکلاء، مزدوروں، دانشوروں اور تمام شعبوں کے عوام میں اپنا سیاسی حلقہ پیدا کر لیا تھا۔ +1967ء کا سال بھٹو کے لئے خاصا مصروف اور پاکستانی عوام کے لئے خاصا ہیجان انگیز ثابت ہوا۔ کنونشن مسلم لیگ سے وہ پوری طرح لاتعلق ہو چکے تھے اور انہوں نے وزیر داخلہ کو ان کے حق انتخاب پر لاہور یا لاڑکانہ میں سے کسی جگہ بھی کھلے مباحثے کا چیلنج دیا۔ 23 اپریل کو بھٹو نے راولپنڈی میں افرو ایشین سالیڈیریٹی کمیٹی کے عوامی اجلاس سے خطاب کیا اور معاشیات، خوراک اور صنعتی سیکٹر میں حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے خودکفیل پاکستان کی ضرورت پر زور دیا۔ 24 اپریل کو انہوں نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا اور امریکہ کے خلاف ویت نامیوں کی جدوجہد کی حمایت کی۔ 20 جون کو انہوں نے اپنے اعزاز میں دیے جانے والے پاکستان لیبر فیڈریشن اور پی ڈبلیو آر یونین کے مشترکہ استقبالئے سے خطاب کیا اور سماجی اور معاشی عدل کے نصب العین کے لئے تمام مزدور طبقات کے لئے اپنی تائید و حمایت کا اظہار کیا۔ +23 جون 1967ء ایک ہیجان خیز، چیلنجز اور سرگرمیوں سے بھرپور دن تھا۔ اس روز بھٹو نے گول باغ (ناصر باغ) لاہور میں ایک عوامی اجلاس سے خطاب کیا۔ باغ لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ پورے شہر سے لاہوریئے انہیں سننے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ حکومت نے باغ کی گھاس کو پانی لگانے کے بہانے بڑے بڑے ٹیوب ویل کھول دیے۔ میں بھی اس وقت سٹیج پر تھا۔ سٹیج سے عوام کے اجتماع کو پوری طرح کنٹرول میں رکھا گیا۔ بھٹو کی آمد پر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا لیکن جونہی انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا، سرکاری غنڈوں نے سٹیج پر حملہ کر دیا۔ سٹیج پر موجود طلبہ نے، جن میں، میں بھی شامل تھا، انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن دس پندرہ منٹ بعد انہوں نے بجلی کی تاریں کاٹ کر زمین پر پھینک دیں۔ پہلے ہی ہر طرف پانی پھیلا ہوا تھا، پورے باغ میں برقی رو دوڑ گئی۔ ہراس اور بے چینی کے زیراثر لوگ منتشر ہونے لگے۔ سٹیج کے عقب میں سرونٹس کوارٹر کے رہائشیوں نے ایک سیڑھی لا کر لگائی اور بھٹو کو اس چوک میں لے آیا گیا جو گورنمنٹ کالج کی سڑک کو زمزمہ چوک سے ملاتا ہے۔ انہیں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل، مشہور ماہر تعلیم پروفیسر رشید کی رہائش گاہ میں لے جایا گیا۔ یہاں سے بھٹو کو ایک آٹو رکشہ میں بٹھا کر منزلِ مقصود کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد حکومت نے پروفیسر رشید کا تبادلہ کر دیا۔ ان کی رہائش گاہ کالج کی عمارت کے ساتھ متصل تھی۔ اس واقعے کے اگلے روز مغربی پاکستان کی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے جلسے میں گڑبڑ پھیلانے میں حکومت کے کردار پر شدید نکتہ چینی کی کیونکہ یہ اجلاس عربوں کی حمایت میں منعقد کیا جا رہا تھا۔ +بھٹو نے اس واقعے کے بعد بھی ہمت نہ ہاری اور اپنی سرگرمیاں پہلے کی سی برق رفتاری سے جاری رکھیں۔ انہوں نے اپنا ہوم ورک مکمل کیا اور ملک کے تمام گوشوں سے طلبہ، وکلاء، مزدوروں اور دانشوروں کی حمایت حاصل کر کے عوام کو متحرک کر دیا۔ ستمبر میں انہوں نے ایک نئی جماعت کی بنیاد جلد ہی ڈالنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنی جماعت میں نوجوانوں کو جگہ دینے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ 17 ستمبر کو حیدرآباد میں ایک میٹنگ کے دوران انہوں نے اخبارات اور طلبہ کو بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت بڑے بڑے ناموں کی اعانت سے طاقت حاصل نہیں کرے گی بلکہ یہ ایک ایسی جماعت ہوگی جو ایک تاریخی عمل سے گزر کر بڑے بڑے ناموں کو جنم دے گی۔ ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کرنے سے پہلے انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی آئندہ سیاست کے لئے زندگی کے ہر حلقے اور ہر شعبے سے نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی۔ اگر ہم آج کی تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوگاکہ ان میں سے زیادہ تر اسی دور کی پیداوار ہیں جو بھٹو کی حمایت یا مخالفت کرنے کے نتیجے میں سامنے آئے۔ +بھٹو جانتے تھے کہ پاکستان کے عوام کو ایک نئی جماعت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کا ایک پروگرام ہو، ایک منشور ہو، جو صداقت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو اور روایتی بڑوں کو للکارنے کی ہمت رکھتی ہو۔ تبدیلی اور انقلاب کی جماعت۔ کچلے مسلے ہوئے عام آدمی کا دن بالآخر آپہنچا تھا اور بھٹو نے ایک نئی عوامی قوت تشکیل دے دی تھی۔ +30 نومبر 1967ء کو بھٹو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لائے اور اس کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔ افتتاحی تقریب میں ہی 25 قراردادیں پاس کی گئیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی 10 بنیادی دستاویزات جاری کی گئیں۔ قراردادوں میں مسلح افواج اور محترمہ فاطمہ جناح کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی کی تقریب کو روکنے کی کوششوں کی مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ کشمیر، آسام، فوجی معاہدوں، قومی دفاع، کسانوں کے مسائل، صنعتی کارکنوں کے مطالبے، بنیادی حقوق کے لئے حزبِ اختلاف سے تعاون، دفاعِ پاکستان کے قوانین کے خاتمے، یونیورسٹی آرڈیننس کے خاتمے، آزاد جموں و کشمیر میں جمہوریت، تعلیمی آزادی، ویت نام، مشرقِ وسطیٰ، تیسری دنیا کی یکجہتی، پریس ٹرسٹ کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق، پناہ گزینوں کی آباد کاری وغیرہ وغیرہ کے متعلق قراردادیں پیش کی گئیں۔ +3 دسمبر کو لاہور میں ایک عوامی جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ حکومت نے پہلے جلسے کا مقامِ انعقاد موچی گیٹ سے بدل کر شاہی قلعے کے نزدیک علی پارک میں منتقل کر دیا، اس کے بعد اس جگہ کو تاروں اور پولیس کے نرغے میں لے لیا۔ حکومت نے اس جلسے کو درہم برہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ 9 دسمبر کو 70۔ کلفٹن کراچی سے 72 صفحات پر مشتمل پارٹی کے منشور کا اعلان کر دیا گیا۔ اس طرح 1967ء کے اختتام پر پاکستانی عوام کو سیلف گورننس کے حصول کے لئے سیاسی جدوجہد کرنے کا ایک پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ یہ بھٹو کی دانشمندی اور سخت محنت کا عطیہ تھا۔ +1968ء بھی سیاسی سرگرمیوں سے بھرپور تھا۔ بھٹو کے زیر سربراہی پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا اہتمام کیا۔ بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں زیادہ تر کامیابی پیپلز پارٹی سے وابستہ اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے وکلاء کے حصے میں آئی۔ خیبر سے کراچی تک زیادہ تر طلبہ یونینز میں ترقی پسند طالب علم کامیاب ہوئے۔ جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ جماعت، اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف ترقی پسند عناصر کی یہ پہلی کامیابی تھی۔ +بھٹو نے ملتان کا سفر کر کے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا اور اس کے بعد خانیوال بار ایسوسی ایشن کا دورہ کیا۔ ملتان سے خانیوال جاتے ہوئے قادر پور روان کے مقام پر پولیس کے زیرنگرانی تیزدھار ہتھیاروں سے مسلح تک تقریباً دو درجن افراد نے ان کی گاڑی کے ٹائر کاٹ کر انہیں خانیوال پہنچنے سے روکنے کی ناکام کوشش کی۔ +صحافت میں حکومت کے بغل بچے نئی جماعت کا مذاق اڑا رہے تھے۔ بھٹو کے مخالفین اور حکومت دونوں مل کر پیپلز پارٹی کے اجتماعات کے زیادہ تر ویگن والوں، رکشہ والوں، ڈرائیوروں، عام مزدوروں، بے زمین مزارعوں، ناپختہ طالب علموں پر مشتمل ہونے کا مضحکہ اڑانے میں مصروف تھے۔ +بھٹو ان سے استحصال اور ناانصافی کے متعلق گفتگو کرتے۔ وہ انہیں بیس خاندانوں کی معاشی اجارہ داری کے متعلق بتاتے۔ وہ انہیں بتاتے کہ کیوں ان کے بچے سکول نہیں جا سکتے، ان کے بیماروں کو ہسپتال میں جگہ نہیں ملتی اور کیوں روشنیوں کے شہر میں، امراء کی روشنی میں، ان کی بیٹیوں کے لئے شادی کی گھنٹیاں نہیں بجتیں۔ بھٹو نے انہیں بتایا اور سب جان گئے کہ جب ساری دنیا میں خوشحالی پھیل رہی ہے تو ہمیشہ غربت کے قعر مذلت میں پڑے رہنا ان کی تقدیر نہیں۔ +9 جنوری کو انہوں نے ملتان بار سے خطاب کیا۔ انہیں قاسم باغ ملتان میں بھی تقریر کرنا تھی لیکن ان کی تقریر کے دوران ہنگامہ شروع ہو گیا اور پولیس کے علاوہ چند نامعلوم افراد کی کارستانیوں کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ ان افراد کو یقینا حکومت نے بھیجا تھا۔ ساہیوال میں 21 جنوری کو انہوں نے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کیا۔ 23کو انہوں نے سرگودھا میں ایک عوامی جلسے میں تقریر کی۔ 24 کو چوہڑ کاہنہ (شیخوپورہ) میں، 25 کو فیصل آباد میں پہلے بار ایسوسی ایشن میں اور پھر 26 کو موسلادھار بارش کے دوران ایک عظیم عوامی جلسے کے سامنے تقریر کی۔ 27 جنوری کو وہ گجرات پہنچے اور بار سے خطاب کیا۔ 28 کو تیز بارش اور سخت سردی کے باوجود وہ لاہور پہنچے اور موچی گیٹ میں ایک وسیع و عریض مجمعے سے خطاب کیا۔ 29 کو انہوں نے لاہور کی خواتین کے سامنے تقریر کی۔ تاریخ وار ان سب واقعات کی تفصیل لکھنے سے میرا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ ایک بڑا لیڈر بننا اور بنے رہنا کتنا مشکل کام ہے۔ بھٹو کے کئے ہوئے دوروں پر نگاہ ڈالئے۔ اسی جوش و جذبے کے ساتھ انہوں نے فروری اور مارچ میں سندھ میں یہی سلسلہ جاری رکھا، تقریباً تمام بار ایسوسی ایشنز، ورکرز، کنونشنز اور بڑے بڑے عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ اپریل کا مہینہ انہوں نے ایسی ہی سرگرمیوں میں مشرقی پاکستان میں گزارا۔ مشرقی پاکستان سے واپسی پر انہوں نے اسی انداز میں ملک کے دوسرے حصوں کے دورے شروع کر دیے۔ +21 ستمبر 1968ء کو حیدر آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے تمام کارکنان کا ایک کنونشن بلایا گیا اور اکتوبر میں انہوں نے سرحد کا دورہ کیا جہاں 25 اکتوبر کو انہوں نے کوہاٹ میں ایک جلسے سے خطاب کیا، 26 کو ورکرز کنونشن سے اور 27 کو چار سدہ میں ایک جلسہ منعقد کیا، 28 کو انہوں نے لائوڈ سپیکرز کے بغیر پشاور میں ایک جلسے میں تقریر کی، 29 کو ایبٹ آباد میں، 30 کو مانسہرہ اور کیمبل پور (موجودہ اٹک) میں۔ یکم نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے دورے کے دوران ان پر ایک مرتبہ پھر حملہ ہوا اور انہیں روکنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے بڑی دلیری سے مزاحمت کرتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی۔ 3 نومبر کو شیرپائو میں پاکستان پیپلز پارٹی سرحد کا کنونشن منعقد ہوا اور 5 نومبر کو بھٹو نے پشاور میں تالیوں کی زبردست گونج میں ایک وسیع جلسہ عام سے خطاب کیا۔ +اس کے بعد شروع ہونے والا دور ایسے واقعات کے تسلسل سے پُر ہے جو ایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ +3 نومبر 1968ء کو، دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے تربیلا ڈیم کے ایوب خان کے ہاتھوں تاریخی افتتاح سے ایک روز پہلے، اٹک کے نزدیک جی ٹی روڈ سے تربیلا ڈیم کی طرف جانے والی سڑک پر، چیک پوسٹ پر کسٹم کے اہلکاروں اور طلبہ کے درمیان ایک جھگڑا ہو گیا۔ گورڈن کالج راولپنڈی کے کچھ طلبہ ٹور کر کے واپس آ رہے تھے۔ ٹور کے دوران انہوں نے کچھ اشیاء خریدی تھیں۔ یہ اشیاء چیک پوسٹ پر ضبط کر لی گئیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے زیادہ تر کے خلاف ایک مقدمہ بھی بنا دیا گیا۔ 7 نومبر کو بھٹو کے استقبال کے لئے آنے والے پولی ٹیکنیک کالج کے طلبہ کے آ ملنے سے یہ طلبہ تشدد پر اتر آئے۔ حسب معمول پولیس حرکت میں آئی اور پولیس فائرنگ کی زد میں آ کر عبدالحمید نامی ایک طالب علم جاں بحق ہو گیا۔ 8 نومبر کو طالب علموں نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے جو پولیس کے قابو سے باہر ہو گئے۔ شہر میں کرفیو لگا دیا گیا اور تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ 9 ستمبر کو کراچی، لاہور، پشاور اور کئی دیگر شہروں کے طلبہ نے راولپنڈی کالج کے طلبہ کی حمایت میں جلوس نکالے۔ انہوں نے یونیورسٹی آرڈیننس کے اٹھائے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی روز راولپنڈی میں دو مزید نوجوان پولیس فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ اگلے روز 10 نومبر کو محمد ہاشم نامی ایک شخص نے صدر ایوب خان پر پشاور میں جلسہ عام کے دوران گولی چلا دی اور گرفتار ہو گیا۔ 8 نومبر کو راولپنڈی کی انتظامیہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے تقریباً پچاس لیڈروں اور ورکرز کو گرفتار کر لیا۔ ان ہنگاموں میں بھٹو تیزگام کے ذریعے 9 نومبر کو پن��ی سے لاہور کے لئے روانہ ہو گئے۔ تمام اسٹیشنوں پر ایوب حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ لاہور کا اسٹیشن عوام خصوصاً طلبہ سے بھرا ہوا تھا، لوگ نعرے لگا رہے تھے اور پولیس کے لاٹھی چارج کا مقابلہ کر رہے تھے، پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی اور ریلوے اسٹیشن کا پورا علاقہ نرغے میں لے لیا۔ ٹرین ڈھائی گھنٹے لیٹ پہنچی۔ بھٹو نے اپنے دورے کے دوران ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن لاہور سے خطاب کیا۔ انہوں نے کارکنوں کے اجتماعات بھی منعقد کئے۔ 12 نومبر کو ینگ لائیرز سرکل نے ان کے اعزاز میں لاہور کے دانشوروں، طلبہ اور سیاسی کارکنوں کے مرکز اور جائے ملاقات چائنیز لنچ ہوم میں ایک استقبالیہ دیا۔ بھٹو کی تیز نقل و حرکت اور ہر جگہ عوام کے بڑے بڑے اجتماعات نے حکومت کو چکرا کر رکھ دیا۔ 13 نومبر کی رات دفعہ 33(i) B کے تحت حکومت نے لاہور سے بھٹو کو گرفتار کر لیا اور انہیں سنٹرل جیل میانوالی بھیج دیا گیا۔ پوری دنیا کے نیوز میڈیا نے ان کی گرفتاری کو خبر کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ برطانیہ کے اخبار گارجین نے شہ سرخی اور مرکزی ادارتی شذرے کے طور پر لکھا۔ ’’کیا ایوب خان نے اپنے جانشین کو گرفتار کر لیا ہے؟‘‘ فیچر رائٹر نے بھٹو کا موازنہ غریبوں اور نچلے طبقات کے حقوق کے لئے جدوجہد کے حوالے سے پنڈت جواہر لعل نہرو سے کیا۔ بیگم بھٹو نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی۔ ہائی کورٹ تک انہیں ایک جلوس کی شکل میں لے جایا گیا۔ وہ ایک ٹانگے میں بیٹھی ہوئیں مال روڈ پر جلوس کی قیادت کر رہی تھیں۔ ان کے ساتھ طلبہ لیڈروں اور سینکڑوں لوگوں کا جم غفیر تھا جو ان کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ +ٹائم میگزین نے ان واقعات کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پیش گوئی کی کہ ’’مسٹر بھٹو، جن کے پروگرام میں نیشنلزم اور سوشلزم ایک ساتھ موجود ہیں، زیادہ روشن مستقبل رکھتے ہیں کیونکہ ان کی عمر صرف چالیس سال ہے اور ان کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایوب خان کی عمر 61 سال ہے اور ان کی مقبولیت روز بروز کم ہو رہی ہے۔‘‘ +طلبہ تحریک بتدریج ملک کے دونوں بازوئوں میں پھیل گئی۔ کوئی ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہ رہا جو اس تحریک میں شامل نہ ہو۔ لاہور میں اگرچہ تمام تعلیمی ادارے بند تھے لیکن طلبہ نے ہوسٹل چھوڑنے سے انکار کر دیا اور روزانہ سڑکوں پر حکومت کے خلاف طلبہ کے احتجاجی جلوس نکلتے رہے۔ پھر وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز نے مختلف شہروں میں عدالتوں کے اندر اور باہر ریلیاں منعقد کرنا شروع کر دیں۔ آگے چل کر حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے ایوب خان کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد بنایا جس کے زیر اہتمام مغربی پاکستان کے کئی شہروں میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ سرحد میں پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی نے مشترکہ جلوس نکالے اور دسمبر 1968ء میں ڈھاکہ میں صحافیوں نے سخت گیر پریس قوانین کے خلاف پہلا مظاہرہ منعقد کیا۔ +7 دسمبر 1968ء کو حزبِ اختلاف کے اراکین نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران، اسمبلی میں ملکی بدامنی پر بحث کی اجازت نہ ملنے پر، اسمبلی کی عمارت کے باہر ایک واک کا اہتمام کیا۔ اس روز ایوب خان بھی ڈھاکہ میں موجود تھے۔ +13 دسمبر کو مشرقی پاکستان کے تمام شہروں میں ہڑتال ہوئی۔ اسی روز سے لاہور کے طلبہ اور وکلاء نے وقتاً فوقتاً م��ترکہ جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ 28 دسمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی نے اگلے صدارتی انتخابات کے لئے بھٹو کو امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کر دیا۔ جماعت اسلامی اور پی ڈی ایم کی چند دوسری جماعتوں نے اس نامزدگی کی مخالفت کی۔ اس دوران بھٹو کو ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا۔ اور 7 جنوری 1969ء کو عدالت کے حکم پر انہیں لاہور جیل لے آیا گیا۔ کیمپ جیل لاہور میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک سپیشل بنچ نے جیل کے اندر بیگم نصرت بھٹو کی دائر کردہ رٹ پٹیشن پر کارروائی کا آغاز کیا ۔ یہ کارروائی 9 سے 15 جنوری تک جاری رہی۔ اس کے بعد 4 فروری سے لے کر 12 فروری تک ایک مرتبہ پھر اس کی سماعت ہوئی۔ بھٹو نے تمام حقائق کا ایک حلف نامہ داخل کیا۔ اپنے حلف نامے میں انہوں نے جیل کے اندر بدترین رہائشی سہولیات کا تذکرہ کیا اور ان حربوں کے متعلق بھی بتایا جو انہیں اذیت دینے کے لئے آزمائے گئے۔ عدالت کے حکم پر 11 فروری کو بھٹو کو جیل سے نکال کر لاڑکانہ میں ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ 12 فروری کو وہ لاڑکانہ پہنچے۔ +13 فروری 1969ء کو نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد بھٹو نے بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا۔ پورے پاکستان میں سینکڑوں پارٹی ورکروں اور سیاسی عقیدت مندوں نے ان کے اس اقدام کی پیروی کی۔ اس سے اگلے روز حکومت نے انہیں رہا کر دیا۔ لاڑکانہ میں بھٹو کے زیر قیادت ایک عظیم الشان اجتماع کا اہتمام ہوا۔ میونسپلٹی کے نزدیک کسی نے ان پر گولی چلانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ اس دوران ڈھاکہ میں 8 جنوری کو حزبِ اختلاف کی 8 پارٹیوں نے مل کر پی ڈی ایم کے سربراہ نواب زادہ نصر اللہ خان کے زیر قیادت ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی کے نام سے پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کرنے کے لئے اتحاد بنایا۔ 18 فروری کو بھٹو کے کراچی پہنچنے پر ایک بڑے جلوس کی ہمراہی میں انہیں مزارِ قائداعظم پر لے جایا گیا۔ اس شام انہوں نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کیا۔ اس دوران لاہور اور دیگر شہروں میں طلبہ کے مظاہرے مسلسل جاری تھے۔ اب مزدور بھی اپنے مطالبات لے کر اس تحریک میں شامل ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے نیشنل بنک ایمپلائز یونین آگے آئی۔ اس کے بعد پاکستان ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین شامل ہوئی۔ پی ڈبلیو آر کے ورکرز کی شمولیت کے بعد تحریک کی رفتار میں اور اضافہ ہو گیا۔ 19 فروری 1969ء کو ایوب خان نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ایک گول میز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے جیل سے اس کانفرنس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اگرتلہ کیس واپس لیا جائے۔ بھٹو نے بھی شیخ مجیب الرحمن کی رہائی تک کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ ایوب نے کانفرنس ملتوی کر دی۔ اسی روز کراچی میں کرفیو میں توسیع کر دی گئی۔ 21 فروری کو ایوب خان نے قوم سے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ وہ اگلے صدارتی انتخابات میں کھڑے نہیں ہوں گے۔ +22 فروری کو اگرتلہ سازش کیس واپس لے لیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر دیا گیا۔ +24 فروری 1969ء کو بھٹو ڈھاکہ کا دورہ کرنے کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر پہنچے۔ ہزاروں افراد کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا اور جلوس کی صورت میں انہیں ایک ٹرک پر مال روڈ کی طرف لے جایا گیا۔ اس روز جلوس کے اختتام پر انہوں نے اپنا اعزاز ’’ہلالِ پاکستان‘‘ جو انہیں وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاندار کارکردگی دکھانے پر دیا گیا تھا، ایوب حکومت کو واپس کر دیا۔ 25 فروری کو انہوں نے موچی گیٹ لاہور میں ایک بڑے عوامی اجتماع کا انعقاد کیا اور گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے اپنی شرائط پیش کیں۔ گول میز کانفرنس کا انعقاد 26 فروری کو ہوا، بھٹو نے اس میں شرکت نہ کی اور کانفرنس کو ایک مرتبہ پھر 10 مارچ تک مؤخر کر دیا گیا۔ 26 فروری کو بھٹو نے لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایوب خان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ 8 جون کو بہاولپور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ایوب خان صدارت سے مستعفی ہو جائیں تو وہ گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے تیار ہیں۔ 10 مارچ کو گول میز کانفرنس منعقد ہوئی، بھٹو اور مولانا بھاشانی نے اس میں شرکت نہ کی۔ 13 تاریخ کو ڈی اے سی الائنس ختم ہو گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مولانا بھاشانی کی این اے پی نے 16 مارچ کو مستقبل کے لئے ایک نیا اتحاد بنایا۔ بالآخر ایوب خان نے اقتدار چیف آف آرمی سٹاف یحییٰ خان کے حوالے کر دیا جس نے 25 مارچ 1969ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ +مارشل لاء کے نفاذ کے بعد، 31 مارچ کو عہدئہ صدارت سنبھالتے ہی یحییٰ خان نے تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ سرگرمیوں کے مرکز اور بنیادی قوت فراہم کرنے والے تعلیمی ادارے تھے۔ یحییٰ خان نے دھونس دھاندلی اور پیار پچکار سے طلبہ پر اثرانداز ہونا چاہا۔ بذاتِ خود اس نے جماعت اسلامی کی ذیلی جماعت اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور اپنی چاہت کا اظہار ایک سرکاری تقریب میں اپنی وردی پر اسلامی جمعیت طلبہ کا لوگو لگا کر کیا۔ اس طرح تعلیمی اداروں میں ترقی پسند طلبہ اور عمومی سیاست میں بھٹو کی سرگرمیوں کو انتظامیہ کے ذریعے دبانے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ ترقی پسند پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے تمام طلبہ عہدیداران کو دھمکی آمیز اور ادارے سے نکال دیے جانے والے انتباہات کے خطوط بھیجے گئے لیکن بھٹو نے ثابت قدم طلبہ یونینوں، بار ایسوسی ایشنز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ اپنے روابط کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپریل میں انہوں نے سیلاب کے دوران مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ مئی کے اوائل میں انہوں نے کیمبل پور (اٹک) بار سے خطاب کیا جبکہ جون میں لاہور میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ورکرز سے روم میٹنگز کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جون میں انہوں نے سیاسی موضوعات پر حیدر آباد بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا اور جولائی میں ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کا دورہ کیا۔ جولائی کے اواخر میں یحییٰ خان نے محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی اور بھٹو نے جیکب آباد میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ اگست میں انہوں نے پہلے مشرقی پاکستان میں اور پھر ناظم آباد کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کنونشن کا اہتمام کیا۔ ستمبر میں وہ بیرون ملک گئے اور کئی ملکوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شاخیں قائم کیں اور بریڈ فورڈ میں پاکستانی کمیونٹی کے زیراہتمام ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا۔ نومبر میں پاکستان پہنچ کربھٹو نے کراچی سے رابطہ عوامی مہم کا آغاز کیا اور پنجاب کے شہروں کا دورہ کیا جہاں ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور حکومت نے گھبراہٹ کے عالم میں ملتان کے نزدیک ان پر حملہ کروا دیا۔ ان کے چند ساتھی انہیں بچاتے ہوئے زخمی ہوگئے۔ بہرحال، انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور بہاولپور میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ +اپنے اطمینان اور اپنے سامعین کی حوصلہ افزائی حاصل کرنے کے لئے وہ پاکستان کے ایسے ایسے دور دراز دیہاتوں میں گئے جہاں اس سے پہلے کسی لیڈر کے قدم نہیں پہنچے تھے۔ یہاں تک پہنچنے ک�� انہوں نے ہر دستیاب ذریعۂ نقل و حمل استعمال کیا بشمول بیل گاڑیوں اور چھکڑوں کے۔ +انتخابی سال کی حیثیت سے 1970ء کا آغاز سیاسی سرگرمیوں سے پابندی اٹھانے سے ہوا اور بھٹو نے نشتر پارک کراچی میں 4 جنوری کو ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے کے بعد 11 جنوری کو راولپنڈی میں ایک زبردست پبلک ریلی کا اہتمام کیا۔ +ان سیاسی سرگرمیوں کے شانہ بشانہ تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ کی سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔ ہر روز زیادہ سے زیادہ طلبہ بھٹو کی سرگرمیوں کے مقامات پر پہنچ کر ان کے ساتھ شامل ہو رہے تھے۔ زیادہ تر بڑے تعلیمی اداروں میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا، یونیورسٹی آرڈیننس اٹھا لیا گیا اور تمام یونیورسٹیوں میں یونینز پر پابندی ختم کر دی گئی۔ +ایک سال بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات کے دوران یحییٰ خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چند لیڈروں اور ورکروں مثلاً رانا مختار، مولانا کوثر نیازی، ملک غلام نبی وغیرہ کو گرفتار کر کے بھٹو کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی لیکن بھٹو کی جدوجہد اس انداز میں جاری رہی کہ پاکستانی سیاست میں کوئی لیڈر آج تک اس انداز کو اپنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ انہوں نے جیل میں پڑے ہوئے لیڈروں کو بھی ٹکٹ دے دیے جو جیل میں ہی الیکشن جیت گئے۔ ان کی رفتار بے حد تیز تھی۔ فن سیاست میں انہیں غایت درجے کی مہارت حاصل تھی اور وہ پوری طرح تجربہ کار بھی تھے۔ انہیں کسی کی سرپرستی کی ضرورت نہ تھی۔ وہ سب کے سرپرست تھے کیونکہ سارے ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مرتبے تک پہنچے تھے۔ مزاج کے اعتبار سے فارغ بیٹھنا ان کے لئے ممکن نہ تھا۔ قائداعظم کی طرح ان کا قول بھی کام، کام اور کام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے میدان میں موجود سارے ایسے سیاستدانوں کو شکست سے دوچار کر دیا جو ان کی آمد سے کہیں پہلے سے خارزارِ سیاست میں قدم رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس لیڈر شپ کا حقیقی معنوں میں مستحق ثابت کیا۔ سابق صدر امریکہ جان ایف کینیڈی نے ایک موقعے پر بھٹو سے کہا کہ اگر وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہوتے تو کابینہ کے وزیر بن جاتے۔ بھٹو نے خوشگوار لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں آپ کی جگہ بھی لے سکتا تھا۔‘‘ +بقول چرچل ’’سیاست بھی جنگ کے جیسی ہیجان خیز ہے اور ویسی ہی خطرناک بھی۔‘‘ پاکستان کی روایتی سیاست میں، سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کا یہ کلچر کبھی نہیں رہا کہ اپنے عقائد و تصورات کو عملی شکل میں پیش کرنے کے لئے ایسے تھکا دینے والے انداز میں کام کریں۔ بہت کم سیاسی لیڈر اتنی قوتِ کار کے مالک ہوتے ہیں۔ ونسٹن چرچل کو ایسا ایک لیڈر قرار دیا جا سکتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب برصغیر میں سیاسی جماعتوں کا جنم ہوا، تو ان کے کارپردازان ڈرائنگ رومز میں ملاقاتیں کیا کرتے تھے، ان کا کنونشن سال میں صرف ایک دفعہ منعقد ہوتا جس میں وہ اپنے اہم فیصلوں اور آئندہ راہِ عمل کا ہلکا پھلکا تعین کیا کرتے تھے۔ 1934ء تک مسلم لیگ کا اجلاس بھی سال میں ایک ہی دفعہ ہوتا تھا۔ اس سے قطع نظر، صرف مقامی سطح پر سرگرمیاں جاری رہتیں اور فیصلے کئے جاتے۔ عوام اور ان کے مسائل کے ساتھ ان کا تعامل بہت ہی کم تھا۔ 1937ء کے انتخابات میں قائداعظم، جو پہلے سیاسی لیڈر تھے، لیگ کو گلیوں میں لے گئے اور عوام کے ساتھ ہم آہنگی قائم کی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اگر یہ ضرورت پوری نہ کی گئی تو شاید مسلمانانِ ہند اپنی جنگ آزادی ہار جائیں۔ قائداعظم کے بعد بھٹو دوسرے لیڈر تھے جو سیاست کو چند افراد کی غلام گردشوں سے نکال کر عام آدمی کے دروازے تک لے گئے۔ اس راہ میں انہوں نے بہت سے عوامی جلسوں سے خطاب کیا، بار ایسوسی ایشنز کے سامنے تقریریں کیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے کنونشنز کا اہتمام کیا، جو روابط انہوں نے استوار کئے وہ پاکستان کے سیاسی لیڈر صرف خواب میں ہی بنا سکتے ہیں۔ عوامی خطابت کے فن میں مہارت رکھنے والے لیڈروں کو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ بھٹو کی تحاریر بڑی معنی خیز ہیں اور ان کے الفاظ کی خوبصورتی ان کے مقصد کی معروضیت سے اجاگر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 13 اپریل 1978ء کو جبکہ وہ سزائے موت کی کوٹھڑی میں تھے اور ابھی سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل پر گفتگو کرنے کے لئے اپنے وکیل یحییٰ بختیار سے ان کی ملاقات نہ ہوئی تھی، کوٹ لکھپت جیل لاہور سے انہوں نے یحییٰ بختیار کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جو کہ آمر ضیاء کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر بھی مقرر کئے گئے تھے،کے بارے میں لکھا۔ بھٹو نے لکھا۔ ’’عدالتی آراء اس قدر احمقانہ ہیں کہ صرف مارشل لاء حکومت کا مقرر کردہ چیف الیکشن کمشنر ہی ایسے حلقے کی حدود کا تعین کر سکتا تھا۔ اس نے عدل کو صداقت سے یوں الگ کیا جیسے وہ حقیقی مسلمانوں کو غیرمسلموں سے علیحدہ کر رہا ہو اور ان میں وہ مسلمان بھی شامل ہوں جنہیں وہ صرف نام کا مسلمان سمجھتا ہے۔‘‘ +بہرحال، 1970ء کی طرف واپس چلتے ہیں، وہ سال جب عام انتخابات منعقد ہوئے اور مجھے جیل بھگتنا پڑی۔ بھٹو روزانہ بڑے بڑے جلسہ ہائے عام میں شرکت کر رہے تھے، بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کر رہے تھے اور پریس کانفرنسز منعقد کر رہے تھے۔ ملک کے چھوٹے بڑے حصوں میں ان کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کئی کئی میل لمبے جلوس نکل رہے تھے۔ ان سرگرمیوں کے دوران ان پر حملے بھی ہوئے، ان کے رفقاء کو گرفتار بھی کیا گیا اور ان کی جگہ دوسروں نے سنبھالی، ان کے علاوہ انہیں دھمکانے کے اور بھی کئی حربے اختیار کئے گئے۔ اس مہم کے دوران 113 سیاسی ملائوں نے مفاد پرست طبقے کے اشارے اور بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں پر ان کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ پاکستانی عوام نے ان کے فتوے کی دھجیاں اڑا دیں، ان کے علاوہ اعلیٰ سطح کے علماء کرام نے اس فتوے کی مخالفت کرتے ہوئے مدلل انداز میں اسے جھوٹا قرار دیا اور اعلان کیا کہ یہ ایک سیاسی فتویٰ ہے اور مذہبی اعتبار سے بے بنیاد۔ پاک و ہند کی تاریخ میں پیشہ ور ملائوں کی طرف سے جاری کیا جانے والا یہ ایسا تیسرا فتویٰ تھا۔ پہلا سرسید احمد خان کے خلاف جاری کیا گیا اور دوسرا قائداعظم کے خلاف۔ ان لوگوں نے قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا۔ اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جماعتوں اور افراد کے خلاف جاری کئے جانے والے ایسے تمام فتووں کو عوام نے ہمیشہ مسترد کر دیا۔ +بھٹو کا اوج قابل دید تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات کے دن تک، جب انہوں نے پورے مغربی پاکستان میں انتخابی حریفوں کا صفایا کر دیا، ان کے دشمن انہیں مٹھی بھر نشستوں سے زیادہ کا کریڈٹ دینے کو کسی صورت تیار نہ تھے۔ بھٹو نے ان سب کو غلط ثابت کر دیا۔ +پورے 1970ء کے دوران، بھٹو نے ایک دن بھی ضائع نہ کیا۔ انہوں نے سیاسی سرگرمیوں کو منظم کیا، بڑے بڑے جلسہ ہائے عام اور جلوسوں کا اہتمام کیا، بار ایسوسی ایشنز اور استقبالیوں سے خطاب کیا۔ ہر روز ایک سے زائد جگہوں پر ان کا خطاب ہوتا تھا۔ انسانی اعتبار سے یہ ناممکن نظر آتا ہے لیکن انہوں نے مسلسل محنت اور لگن سے پورے ملک کے نان سٹاپ دورے کئے مثلاً 4 جنوری 1970ء کو کراچی میں جلسہ عام، 7 جنوری کو بار ایسوسی ایشن سے خطاب، 11 جنوری کو راولپنڈی میں، 14 سے 17 تک پیودن، تھارو شاہ، مرو میں، 17 جنوری کو پھر کراچی، 18 سے 20 تک پشاور/سرحد، 21 تا 23 جنوری گوجر خان، دینہ، جہلم، میرپور، سرگودھا، سیالکوٹ، سادھوکے، فیصل آباد وغیرہ۔ انہوں نے یہاں پر عوامی اجلاس منعقد کئے اور جمہوریت، بنیادی حقوق اور سیاسی صورتِ حال پر تقریریں کیں۔ اسی طرح فروری میں انہوں نے سندھ اور سرحد کے دورے کئے۔ یہی سرگرمیاں مارچ میں جاری رہیں اور انہوں نے پنجاب کے دورے شروع کر دیے۔ جہلم، سرائے عالمگیر، جنڈوالا ، لالہ موسیٰ میں جلسہ ہائے عام ہوئے اور آخر میں گجرات میں ہارس شو گرائونڈ میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا گیا۔ 2 مارچ کو انہوں نے حافظ آباد میں ایک جلسے سے خطاب کیا، 3 کو لاہور پریس کلب میں تقریر کی، 5 کو کراچی کے پریس کلب میں، 7 کو لاہور میں طلبہ برادری سے خطاب کیا۔ 8 مارچ کو پورا لاہور ایک دفعہ پھر ان کے اعزاز میں موچی گیٹ میں اکٹھا ہوا جہاں انہوں نے مسلسل تین گھنٹے تقریر کی۔ 11 کو انہوں نے فیصل آباد اور دیگر شہروں میں مارشل لاء حکومت کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لئے اکٹھے ہونے والے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ 22 سے 30 تک انہوں نے سندھ گھرو، کوٹھری، بدین، میرپور خاص، عمر کوٹ، ٹنڈو الٰہ یار، ٹنڈو آدم میں جلسوں اور تقریروں کا سلسلہ جاری رکھا اور 30 کو شہدا پور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ 31 کو وہ سنگھر کے لئے روانہ ہوئے جہاں مسلح افراد نے ان پر حملہ کیا اور وہ بال بال بچے۔ اسی شام انہوں نے حیدر آباد میونسپل پارک میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ +یہ ان عوامی خطبات اور اس محنت کی چند جھلکیاں ہیں جو انہوں نے 1970ء میں عوام کو ان کی اپنی حکومت دلوانے کے لئے کی۔ اپنی محنت اور جوش و جذبے سے انہوں نے پورے معاشرے کو سیاسی رنگ میں رنگ دیا۔ ان سے پہلے یا بعد، پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔ وہ تاریخ کی پیداوار تھے۔ ان کا ظہور مسلسل سیاسی عمل اور ان کی سخت محنت کا ایک منطقی اور فطری نتیجہ تھا۔ 1970ء کے انتخابات کے انعقاد تک وہ بلا تعطل اسی رفتار کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ہم اپریل 19 سے 29 تک سرحد میں ان کی سرگرمیوں پر مزید ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے کیمبل پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، صوابی، چارسدہ، ہتیا اور شاہ منصور میں عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ سرحد کا دورہ مکمل کرنے کے بعد انہوں نے راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ 1970ء میں انہوں نے اپنی تمام تقاریر میں پاکستانی عوام کے سامنے سیاسی سرگرمی، خطابت، دلیری، ذہانت، فلاسفی اور منطق کی بہترین شکل پیش کی۔ وہ تمام محاذوں پر اپنے سیاسی دشمنوں کے ساتھ لڑے اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ افراد اور میڈیا میں ان کے حمایتیوں کا مقابلہ کیا۔ کڑی مشقت کے ان دنوں میں وہ اپنا ذاتی اخبار ’’مساوات‘‘ نکالنے کا بھی اہتمام کرتے رہے۔ 7-7-1977 کو اس اخبار کی پہلی اشاعت منظر عام پر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پاکستان کے مقبول ترین اخباروں میں شامل ہو گیا۔ +بھٹو نے عوام سے قوت حاصل کی۔ انہوں نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوان کارکنوں کو پارٹی کے ٹکٹ دیئے۔ انہوں نے ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر نچلے طبقات کے ساتھ اپنی سیاست بانٹی۔ یہ لوگ بغیر پیسہ خرچ کئے انتخابات میں کامیاب ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ کے لئے افلاس ز��ہ عوام کے دلوں میں اتر گئی۔ پہلی مرتبہ پاکستان کی سیاست میں ایک ایسی کھڑکی کھلی جو گلی کے عام آدمی کو اس کی قوت کا احساس دلاتی ہوئی اور اس میں سیاسی شراکت کا شعور پیدا کرتی ہوئی نظر آتی تھی۔ بھٹو سے کمتر کوئی فرد یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ انہوں نے عام آدمی کو جاگیرداروں اور انفرادی سیاسی وڈیروں کو ان کے اپنے میدان میں شکست دینے کے قابل بنانے کے لئے ساڑھے چار سال تک دن رات کام کیا اور بہ حیثیت مجموعی اعلیٰ طبقات کو مجبور کر دیا کہ اگر وہ پاکستانی سیاست میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو غریب آدمی کے دروازے پر جا کر اس سے حمایت کی بھیک مانگیں۔ یہ وہ سیاسی اثاثہ ہے جو انہوں نے عوام کو دیا، ان کے ووٹ کی طاقت اور ان کی وقعت کا احساس۔ وہ اپنے مشن کو پورا کرنے کے لئے تندہی سے کام کر رہے تھے تاکہ غریب طبقے کو سماجی اور معاشی انصاف فراہم ہو سکے۔ ان کے حلیف اور حریف، ہر دو طرح کے سیاستدانوں اور مفکروں نے عام آدمی کو آگے بڑھانے میں ان کی جدوجہد کا اعتراف کیا ہے۔ +مشرقی پاکستان کے بحران پر بحث کرتے ہوئے پیلو موڈی ’’زلفی مائی فرینڈ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بچپن سے ہی ذوالفقار علی بھٹو ایک متحدہ پاکستان کا خواب دیکھتے چلے آئے تھے اور حالیہ واقعات ان کے اس خواب کو پارہ پارہ کرنے کی طرف گامزن تھے۔ ان حالات میں انہوں نے جو لائحہ عمل اپنایا وہ بالکل فطری اور قدرتی تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے ان کے تحمل، برداشت اور صبر پر حیرت ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ پاکستان کے اتحاد پر جنون کی حد تک یقین رکھتے تھے، اس کے باوجود مشرقی بازو کے عوام کے جائز غم و غصے کی طرف سے انہوں بالکل ہی آنکھیں بند نہ کر رکھی تھیں۔‘‘ بھٹو نے اپنی کتاب ’’عظیم المیہ‘‘ میں، جو 29 ستمبر 1971ء کو اس وقت شائع ہوئی جب یہ عظیم المیہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا تھا، پیلو موڈی کے خیالات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا: +’’میرے اور مجیب الرحمن کے درمیان پایا جانے والا اختلاف اصولی تھا۔ یہ متضاد مساواتوں کی ایک کشمکش تھی۔ مجیب الرحمن کے نزدیک مساوات خودمختار بنگال میں پوشیدہ تھی اور میرے نزدیک پاکستان کی بقاء میں۔‘‘ +سقوطِ ڈھاکہ کے چار روز بعد، 20 دسمبر 1971ء کو عوامی غم و غصے نے یحییٰ خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا، اور ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سب سے بڑے پارلیمانی گروپ کے منتخب سربراہ کی حیثیت سے نئے صدر بن گئے۔ تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی آئین نہ تھا۔ بھٹو 13 سال میں آنے والے پہلے سویلین بنے جنہوں نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے عہدئہ صدارت کا حلف اٹھایا۔ 13 سال میں وہ پہلے سویلین صدر تھے۔ قوم سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے مرتے دم تک اسی جوش و جذبے سے پاکستان کی خدمت کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ +جون 1966ء میں ایوب خان سے راستے الگ کر لینے کے بعد بھٹو نے سیاست میں بے پناہ تجربہ حاصل کیا۔ اپنے اعلیٰ عہدے کی قربانی دے کر انہوں نے سیاسی عمل سے گزرتے ہوئے پاکستانی عوام کے ذریعے اس عہدے تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ چنا۔ اپنی روزانہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہوئے بھی انہوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ پاک و ہند کی تاریخ میں اور کسی لیڈر نے ایسی مصروف سیاسی زندگی نہیں گزاری۔ کسی لیڈر نے سیاسی تصورات کے ساتھ اپنے رومان کی خاطر اتنا وقت اور پیسہ صرف نہیں کیا اور اتنی بڑی قربانیاں نہیں دیں۔ پاکستانی لیڈر علم حاصل کئے بغیر، مقررہ وقت میں مقررہ عمل سے گزرے ��غیر بہت کچھ حاصل کر لینے کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ راتوں رات ہر چیز حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں۔ +اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر دیا۔ ان کے سامنے سب سے اولین کام بھارت کے جنگی قیدی بننے والے پاکستانی فوجیوں کی رہائی، قوم کے لئے ایک قابل قبول آئین کی تیاری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا عملی اطلاق تھے۔ لہٰذا عہدئہ صدارت سنبھالنے کے بعد ابتدائی مہینوں میں سب سے پہلے انہوں نے اداروں کو قومیانے، عمومی معاشی پالیسی، مزدور، اراضی، تعلیم، صحت، پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کا کام شروع کر دیا۔ +بڑے کاموں کو شروع کرنے میں تمام بڑے لیڈروں کے لئے اجتماعی اتفاقِ رائے حاصل کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ جنگی قیدیوں کی رہائی اور مقبوضہ رقبہ واگزار کرانے کے سلسلے میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں بھٹو نے نہایت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہ تمام مذہبی مکاتب فکر، تمام سیاسی جماعتوں، سیاسی رہنمائوں، وکلاء، مزدور یونینز، طالب علم رہنما، دانشوروں، صحافیوں غرضیکہ ہر شعبہ کے نمائندوں سے ملے، قطع نظر ان کی سیاسی وابستگیوں اور ان کی وفاداریوں کے۔ انہوں نے سب کے ساتھ ان مسائل پر گفتگو کی اور ان سب کا اعتماد حاصل کر کے شملہ روانہ ہونے کی تیاری کی جہاں وزیراعظم ہندوستان اندرا گاندھی کے ساتھ جون 1972ء میں ان کی ملاقات طے تھی۔ +اسی طرح پاکستان کا آئین بنانے کے لئے انہوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے تمام رہنمائوں اور ان کی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے ممتاز ماہرین قانون اور ججوں کو اعتماد میں لیا اور آئین کی تشکیل کے لئے کمیٹی قائم کی۔ وہ ایسا کرنے کے اہل تھے۔ 17 اپریل 1972ء کو انہوں نے مارشل لاء ختم کر دیا اور اسمبلی نے 14 اگست 1972ء تک کے لئے ایک عبوری آئین کی منظوری دے کر قومی اسمبلی کو آئینی اسمبلی میں بدل دیا۔ +بھٹو 28 جون 1972ء کو ایک وفد کے ساتھ پاک بھارت اعلیٰ سطحی کانفرنس کے لئے شملہ پہنچے۔ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے، ابتدایئے کے طور پر دونوں ملکوں کی حکومتوں نے ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا بند کرنے پر اتفاق رائے کیا تاکہ مذاکرات کے لئے مناسب ماحول پیدا کیا جا سکے۔ کانفرنس میں ہندوستانیوں کو بالادستی حاصل تھی۔ وہ ایسا معاہدہ چاہتے تھے جو ہندوستان کے لئے فائدہ مند ہو۔ اس مقصد کے لئے 25 جون کو نئی دہلی میں سیاسی امور کی میٹنگ میں اندرا گاندھی نے سیاسی امور کی کمیٹی کے تمام ارکان سے درخواست کی کہ وہ کانفرنس کے موقع پر شملہ میں موجود رہیں تاکہ ضرور ت پڑنے پر فوری مشورہ کیا جا سکے۔ +شملہ مذاکرات ناکامی کے واضح آثار کے ساتھ تقریباً اختتام کو پہنچ چکے تھے اور شرکاء اس امید میں گھر واپسی کی تیاریاں کر رہے تھے کہ شاید آگے چل کر کسی اور کانفرنس میں اس قضئے کو نمٹایا جا سکے۔ بھٹو نے وزیر خارجہ عزیز احمد کو حکومت ہندوستان کو اطلاع کرنے کی ہدایت کی کہ پاکستانی وفد واپس جانے کے لئے تیار ہے۔ غروبِ آفتاب سے کچھ دیر قبل بھٹو کو اندرا گاندھی کے ساتھ چائے پر ملاقات کرنا تھی اور وہ اس ملاقات میں اپنی ڈپلومیسی کو ایک دفعہ پھر آزمانے کا عزم کئے ہوئے تھے۔ حیرت انگیز طور پر، اس ملاقات میں بالآخر وہ اندرا گاندھی کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ انہیں پوری قوم کا اعتماد حاصل ہے اور ان مذاکرات کی ناکامی دونوں ملکوں کے عوام کے لئے ضرر رساں ثابت ہوگی۔ پوری دنیا کے میڈیا نے ایک مرتبہ پھر بھٹو کی اہلیت، خصوصاً امورِ خارجہ میں ان کی مہارت کا اعتراف کیا۔ زیادہ تر کا تبصرہ یہ تھا کہ شملہ معاہدہ ایک ایسی دانشمندانہ تزویراتی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے بھٹو نے پاکستان کو ہونے والی فوجی شکست کے جبڑوں سے سیاسی فتح کھینچ لی ہے۔ ہمایوں گوہر، اطالوی صحافی اوریانا فلاشی کے سامنے بھٹو کے مندرجہ ذیل الفاظ نقل کرتے ہوئے، اس تبصرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ’’سیاست میں کسی وقت آپ کو بے حد نرم اور لچک دار انگلیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی آپ نے کسی پرندے کو انڈوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے؟ ایک سیاستدان کو ایسی نرم اور لچک دار انگلیوں کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں وہ پرندے کے نیچے گھسا کر اس طرح انڈے نکال لے کہ پرندے کو اس کا احساس تک نہ ہو۔‘‘ +اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان نے ہندوستان کے قبضے میں آیا ہوا تقریباً پانچ ہزار میل کا رقبہ واگزار کرا لیا، نوے ہزار فوجی دشمن کی قید سے نکال لئے گئے اور اس کے بدلے میں پاکستان نے صرف اتنا کیا کہ آئندہ کے لئے ہندوستان کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات رکھنے کا وعدہ کر لیا۔ +یہ معرکہ مارنے کے بعد، تمام سیاسی پارٹیوں اور آزاد ارکان کا اتفاقِ رائے حاصل کر کے بعد بھٹو پاکستان کی تاریخ کا پہلا متفقہ آئین منظور کرانے میں کامیاب رہے۔ آئین سازی کا کام بھاری اکثریت سے انجام پایا۔ 11 اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی نے یہ آئین منظور کر لیا۔ حزبِ اختلاف نے اپنا بائیکاٹ ختم کر دیا۔ 8 متنازعہ دفعات میں ترمیم کر دی گئی اور 13 اگست کو ذوالفقار علی بھٹو آئینی انداز میں منتخب ہونے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے۔ 1974ء میں انہوں نے اسلامک سمٹ کانفرنس کی میزبانی کی۔ +اگست 1976ء میں وزیراعظم بھٹو نے لاہور میں ڈاکٹر ہنری کسنجر کا استقبال کیا تھا۔ 10 اگست کے روز ہنری کسنجر نے انہیں فرانس سے ایٹمی پلانٹ خریدنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ لیکن قومی مفاد کی خاطر وزیراعظم بھٹو نے حب الوطنی کی مثال قائم کر دی اور 12 اگست کو بیان دیا۔ ’’فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ خریدنے کا معاہدہ منسوخ نہیں کیا جائے گا۔‘‘ فرانسیسی وزیراعظم جیکوئس شیراک نے امریکہ کی طرف سے آنے والی سہ فریقی سیٹلمنٹ کی تجاویز مسترد کر دیں اور 8 اکتوبر 1976ء کو صدرِ فرانس گسکارڈ ڈایسٹنگ نے ایک بیان دے کر پاکستان کو نیوکلیئر پلانٹ فروخت کرنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا۔ اکتوبر کے مہینے میں سعودی عرب کے شاہ خالد ایک ہفتے کے لئے پاکستان آئے اور بعض بین الاقوامی معاملات پر بھٹو کے ساتھ گفتگو کی۔ اظہارِ محبت کے طور پر انہوں نے بھٹو کے ذاتی استعمال کے لئے ایک نہایت قیمتی کار تحفے میں دی لیکن بھٹو نے یہ کار حکومت پاکستان کے حوالے کر دی۔ مادی منفعت سے انہیں کبھی بھی دلچسپی نہ رہی تھی۔ ان کی محبت اپنے ملک اور اپنی عوام کے ساتھ تھی۔ بذاتِ خود وہ اسلحہ اور اسلحہ سازی میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے۔ ان کے ذہن اور روح پر صرف پاکستان کے مستقبل سے متعلق خیالات کا قبضہ تھا۔ بعد میں پیش آنے والے واقعات نے ان کی دانشمندی اور دور اندیشی کی تصدیق کی۔ آج پاکستان کے تحفظ کے ضامن ایک بڑے ڈیٹرنٹ کی موجودی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، اگرچہ اس کی قیمت انہوں نے اپنی جان دے کر چکائی۔ +4 جنوری 1977ء کو بھٹو نے مقررہ وقت سے ایک سال قبل عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ بصورتِ دیگر یہ انتخابات اگلے سال 7/8 مارچ کو منعقد ہونا تھے۔ انتخابی مہم کے دوران، بھٹو مخالف قوتوں نے 11 جنوری کو ایک سیاسی اتحاد بنایا اور اس کا نام پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) رکھا۔ اس اتحاد میں 9 سیاسی جماعتیں شامل تھیں اور مفتی محمود اس کے سربراہ تھے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی لیکن پی این اے نے دھاندلی کا بہانہ بنا کر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی حکومت کے خلاف مہم چلانا شروع کر دی۔ وزیراعظم بھٹو نے ایک مرتبہ پھر اپنی وسیع دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی این اے کے ساتھ مذاکرات کئے اور ان کے تمام مطالبات منظور کر لئے۔ انہوں نے سمجھوتہ کر لیا اور 5 جولائی کو نئے انتخابات کے انعقاد کے لئے معاہدے پر دستخط ہونا تھے لیکن 4 اور 5 جولائی کے درمیان، آدھی رات کے وقت جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگا دیا اور پیپلز پارٹی اور پی این اے دونوں کے سرکردہ لیڈروں کو گرفتار کر لیا جن میں وزیراعظم بھٹو بھی شامل تھے۔ انہیں مری میں رکھا گیا۔ بھٹو کے ایک قریبی ساتھی نے انہیں جنرل ضیاء کا پیغام پہنچایا کہ اس وقت ان کی اور ان کے خاندان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ ملک چھوڑ جائیں۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ 20 جولائی کو تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے گئے اور بھٹو لاڑکانہ پہنچ گئے۔ 4 اگست کو جنرل ضیاء کی طرف سے محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہوئے 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا۔ +6 اگست کو بھٹو ملتان پہنچے جہاں ایک تین میل لمبے جلوس نے ان کا استقبال کیا۔ 8 اگست کو وہ لاہور پہنچے اور یہاں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ شہر کی تمام سڑکوں کا رخ جیسے ایئرپورٹ کی طرف ہو گیا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ، گاڑیوں پر، ٹانگوں پر اور پیدل ایئرپورٹ کی طرف جا رہے تھے۔ پولیس نے تمام علاقوں اور ایئرپورٹ کی طرف جانے والی سڑکوں کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ صرف مخصوص کاروں کو ہی آگے جانے کی اجازت دی جا رہی تھی۔ تمام پابندیوں کے باوجود ہزاروں لوگ ایئرپورٹ کے اندر تک جا پہنچے اور تمام انتظامات درہم برہم کر دیے۔ بھٹو، پولیس جیپ میں بیٹھے، ایک بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے، کئی گھنٹوں بعد شادمان میں سابق وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ +8 اگست 1977ء کو بھٹو کے سندھ سے تعلق رکھنے والے چند قریبی ساتھی جو ان کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے تھے پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پی این اے میں شامل ہو گئے۔ ان میں علی احمد تالپور، رسول بخش تالپور، حاجی ملا بخش سومرو، عبدالحمید جتوئی وغیرہ شامل تھے۔ لیکن بھٹو کا سفر جاری رہا اور 11 اگست پشاور میں ان کا عظیم الشان استقبال ہوا جسے پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کے ذریعے منتشر کرنے کی ناکام کوشش کی۔ +3 ستمبر کو 70۔ کلفٹن سے بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ گرفتاری قصور سے تعلق رکھنے والے، بھٹو کے ایک سابق منظورِ نظر کے والد، نواب محمد احمد خان کے قتل کے سلسلے میں ہے۔ اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی کے دو مرکزی لیڈر، دونوں غلام مصطفی، ایک جتوئی اور دوسرا کھر، ایک سندھ سے اور ایک پنجاب سے، جنرل ضیاء کی حکومت میں سیاسی امور کے انچارج جنرل فیاض احمد چشتی سے ملے۔ بھٹو کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ضیاء حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ +13 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا لیکن 17 ستمبر کو انہیں ایک دفعہ پھر LMO-12 کے تحت تمام صوبوں سے پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈروں سمیت گرفتارکر لیا گیا۔ ان سب کو کوٹ ��کھپت جیل لاہور میں رکھا گیا۔ کارکنوں کا احتجاج جاری رہا، کئی افراد گرفتار کئے جا رہے تھے اور فوجی عدالتوں کی طرف سے روزانہ انہیں سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ ان سزائوں میں کوڑے لگائے جانے کی سزائیں بھی شامل تھیں۔ تمام لیڈروں کو چند روز بعد ایک ایک کر کے رہا کر دیا گیا سوائے بھٹو کے۔ کیوں اور کیسے؟ کوئی نہیں جانتا۔ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو میدانِ عمل میں آ گئیں اور انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی رہنمائی کرنے لگیں۔ 23 اکتوبر 1977ء کو ناصر باغ میں ایک جلسہ عام میں دونوں خواتین نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لئے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ اس عظیم الشان جلسے کی صدارت بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی اور انہوں نے اس موقعے پر خطاب بھی کیا۔ امنڈتی ہوئی سیاسی لہر سب کو نظر آ رہی تھی اور حکومت کو اس کے اثرات خصوصی طور پر محسوس ہو رہے تھے۔ بھٹو خاندان کی دونوں خواتین اپنی حیثیت میں بڑے لیڈروں کی طور پر سامنے آ رہی تھیں۔ بھٹو مخالف قوتوں اور ضیاء کی فوجی حکومت کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ پی این اے نے کوئٹہ میں ایک جلسہ کیا اور انتخابات سے پہلے احتساب کا مطالبہ کیا۔ بے نظیر بھٹو نے کمہار پورہ (مغلپورہ) لاہور میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا جو کہ نہایت وسیع و عریض ثابت ہوا۔ اسی طرح 29 ستمبر کو اوکاڑہ میں بھی ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا لیکن پولیس نے ساہیوال میں پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر کے گھر سے انہیں گرفتار کر لیا۔ بیگم بھٹو بھی مختلف جگہوں پر عوامی جلسوں سے خطاب کر رہی تھیں۔ ان کی سرگرمیوں کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ یکم اکتوبر کو جنرل ضیاء نے تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور انتخابات ملتوی کر دیے کیونکہ پیپلز پارٹی سب جماعتوں سے اوپر جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ +11 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے بھٹو اور ان کے چار ساتھیوں پر فردِ جرم عائد کر دی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے یہ مہینہ آزمائشوں سے بھرپور ثابت ہوا۔ زیادہ تر لیڈر جو بھٹو کے بڑے قریب رہے تھے اور اقتدار و اختیار سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے، ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن کارکن اور مڈل کلاس سے آنے والی لیڈرشپ پوری ثابت قدمی سے ان کے ساتھ رہی۔ بھٹو بے حد اناپرست تھے اور انہوں نے کبھی یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی جان بچانے کے لئے کسی لیڈر یا کسی فرد سے آگے بڑھنے اور جدوجہد کرنے کی درخواست کریں۔ اکتوبر میں روزانہ کارکنوں کی گرفتاریاں ہوتیں، انہیں کوڑوں کی سزائیں سنائی جاتیں اور اسی روز سزا پر عملدرآمد بھی کر دیا جاتا۔ فوجی عدالتیں ان کاموں میں رات نو نو بجے تک مصروف رہتیں۔ نہایت عجیب بات یہ تھی کہ فوجی عدالت کا فیصلہ ٹی وی اور ریڈیو پر، عدالت کے اعلان سے دو تین گھنٹے پہلے ہی سنا دیا جاتا۔21 اور 22 اکتوبر 1977ء کو بھٹو کو سپریم کورٹ لے جایا گیا جہاں انہوں نے تین گھنٹے تک اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ایک فرد کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دینا ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ +30 نومبر 1977ء پاکستان پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس تھا۔ اس موقعے پر سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی ایک میٹنگ ہوئی جس کی صدارت بیگم نصرت بھٹو نے کی۔ غلام مصطفی جتوئی اور مولانا کوثر نیازی اس میٹنگ میں شریک نہ ہوئے۔ لیڈر ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے لیکن بھٹو خواتین اس بدترین آمریت اور جابرانہ طرزِ حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھیں۔ 16 دسمبر 1977ء کو دونوں خواتین قذافی سٹیڈیم لاہور پہنچیں جہاں اس وقت پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ ان کی آمد پر ایک بڑے ہجوم نے حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ پولیس نے ہجوم پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ شروع کر دی۔ بیگم بھٹو بری طرح زخمی ہوئیں خصوصاً ان کے سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور بے نظیر بھٹو کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ زیادہ تر لیڈروں اور کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ +5 جنوری 1978ء کو بھٹو کی سالگرہ کا دن تھا۔ پیپلز پارٹی اور بیگم بھٹو کی طرف سے اس دن کو ’’یومِ جمہوریت‘‘ قرار دیا گیا۔ جماعت کے جلسہ عام کو روکنے کے لئے حکومت نے تمام صوبوں سے بڑی تعداد میں گرفتاریاں کیں۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز کی لیبر یونین 5 جنوری کے لئے انتظامات کرنے میں مصروف تھی کہ 2 جنوری کو پولیس نے مرکزی گیٹ بند کر کے مزدوروں پر فائر کھول دیا۔ دو سو سے تین سو مزدور اس فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ یہ حکومت کا ایک نہایت بے رحمانہ اقدام تھا۔ اور جیل میں پڑے ہوئے لیڈر کے لئے عوام کی طرف سے یہ ایک بہت بڑی قربانی تھی۔ +14 فروری 1978ء کو جیل سے رہا ہونے کے بعد بے نظیر نے سندھ میں حیدر آباد، ٹھٹہ، تھرپارکر اور سنگھر کے دورے کئے۔ نواب شاہ میں وہ ایک جلسے سے خطاب کرنے والی تھیں کہ حکومت نے ان کے بولنے پر پابندی عائد کر کے انہیں واپس کراچی بھیج دیا۔ 18 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کے لئے سزائے موت کا اعلان کیا اور اس اعلان سے پہلے حکومت نے بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ اس کے باوجود تمام مقامات پر احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ 25 مارچ 1978ء کو بے نظیر کو کراچی سے حراست سے نکال کر کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ان کے والد سے ملوانے کے لئے لایا گیا۔ ملاقات کے بعد انہیں واپس کراچی میں بھیج دیا گیا جہاں انہیں 70۔کلفٹن میں زیر حراست رکھا جا رہا تھا۔ 10 جنوری کے بعد سے تقریباً تین ماہ تک بھٹو کو اپنے وکلاء سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی۔ +28 اگست 1978ء کو حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی جزوی طور پر ختم کر دی۔ ’’چار دیواری کے اندر‘‘ میٹنگز منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی طاقت دکھانے کی کھلی دعوت بھی تھی اور چیلنج بھی۔ بے نظیر نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔ اس وقت تک بے نظیر پاکستان میں بھٹو خاندان کی واحد ایسی فرد رہ گئی تھیں جو آزاد اور سیاسی طور پر سرگرم تھیں، اور اپنے والد کی طرف سے پیپلز پارٹی کی ترجمانی کرنے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آپڑی۔ +10 ستمبر کو بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر صوبہ سرحد پہنچیں۔ آخری مرتبہ وہ اس صوبے میں اپنی والدہ کے ساتھ محض ان کی ساتھی کی حیثیت سے آئی تھیں۔ اس مرتبہ وہ تقاریر کر رہی تھیں۔ انہوں نے مردان، شیرپائو، ایبٹ آباد، سوات، کوہاٹ اور پشاور کے دورے کئے۔ عوام کی طرف سے ملنے والا ردِعمل بے ساختہ، پُرجوش اور دل گرما دینے والا تھا۔ بے نظیر اپنے والد کی ٹوپی سے ملتی جلتی ٹوپی پہنتیں اور تپتے سورج کے تلے ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہونے والے افراد ان کی تقریر پر تالیوں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا نشان ’’تلوار‘‘ تھی اور بہت سوں کو یقین تھا کہ ’’ذوالفقار علی‘‘ جن کے نام کا معنی ’’علی کی تلوار‘‘ ہے، ایک مرتبہ پھر برسرپیکار ہوں گے اور عوام کو فتح تک لے جائیں گے۔ +بعد ازاں بھٹو کے قتل کے متعلق کئی حقا��ق روشنی میں آئے۔ میجر جنرل راحت لطیف، جو راولپنڈی ڈویژن کا ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہا تھا، کے متعلق کہا گیا کہ اس نے بھٹو کی پھانسی کی رات ان سے سقوطِ ڈھاکہ کے المئے اور ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے متعلق چند دستاویزات پر دستخط کروانے کے لئے ان پر تشدد کیا تھا اور پھانسی سے پہلے ہی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بھٹو نے دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں پھاڑ کر پھینک دیا اور چند تند و تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد جنرل نے اپنی دلی خواہشات کی تسکین کے لئے ان پر اتنا تشدد کیا کہ ان کی موت واقع ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں رات ایک سے دو بجے کے درمیان سٹریچر پر ڈال کر پھانسی گھاٹ تک لے جایا گیا حالانکہ پھانسی کا وقت صبح پانچ بجے کا مقرر کیا گیا تھا۔ +بھٹو کے کریڈٹ پر متعدد تاریخی کارنامے موجود ہیں۔ ان کی طرف سے پیپلز پارٹی کا قیام، ایک طویل عرصے سے دائیں بازو کے زیر فرمان رہنے والے اس ملک کی رجعت پسند قوتوں کے لئے ایک دھچکا تھا۔ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے نے پاکستانی سیاست کا رخ مذہب سے ہٹا کر معاش کی طرف موڑ دیا۔ یہ رخ دوبارہ کبھی تبدیل نہیںہوا۔ بھٹو نے معاش کی بلند چوٹیوں کو قومیا کر سرمایہ پرست مغرب کو ایک اور دھچکا پہنچایا۔ ان کے دورِ حکومت میں زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر وسائل کا رخ دیہی اکثریت کی طرف موڑ دیا گیا۔ 1973ء میں متفقہ طور پر منظور ہونے والا آئین بھی بھٹو کا ایک باقی رہنے والا ورثہ ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ اس آئین کو ہٹا کر اس کی جگہ کوئی دوسرا آئین نہیں لایا جا سکتا۔ پاکستان کے قیام سے ہی آئین سازی کا کام تین متنازع فیہ مسئلوں کی بدولت بری طرح الجھا ہوا تھا۔ (i) ریاست میں اسلام کا کردار۔ (ii) صوبائی خودمختاری کی حدود اور (iii) سربراہِ مملکت کی نوعیت۔ بھٹو تمام بڑی جماعتوں میں، جن میں اسلامی ریاست کا مطالبہ کرنے والی جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان اور صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرنے والی سرحد اور بلوچستان کی عوامی نیشنل پارٹی شامل تھیں، آئین پر اجتماعی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں کامیاب رہے اور اس طرح ہمیشہ کے لئے ان تینوں مسائل کا جھگڑا چکا دیا۔ +انہوں نے پاکستان سٹیل ملز، ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا، پورٹ قاسم اتھارٹی، قائداعظم یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کی بنیاد رکھی اور پاکستان کی خوشحالی اور سالمیت کو تقویت بخشی۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے حاصل ہونے والے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے افروایشین اور اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے روابط مضبوط بنائے اور 1976ء تک تیسری دنیا کے لیڈر کے مقام پر فائز ہو گئے۔ ایک مصنف کی حیثیت سے انہوں نے تیسری دنیا کے مزدوروں کی شاندار وکالت کی۔ انہوں نے نہایت کامیابی سے اسلامک سمٹ کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تقریباً تمام اسلامی مملکتوں کے سربراہ شریک ہوئے۔ مختلف سربراہانِ مملکت، مختلف معاملات خصوصاً امورِ خارجہ میں باقاعدگی سے ان سے مشورے کیا کرتے تھے۔ بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے۔ ایندھن، قوت اور قدرتی وسائل کے وزیر، صدر اور وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی رہنمائی اور قیادت میںپاکستان واحد ایٹمی اسلامی قوت بن کر ابھرا اور اس کی قیمت انہوں نے اپنی جان دے کر چکائی۔ سزائے موت کی کوٹھڑی میں لکھی جانے والی اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں شہید ذوالفقار ��لی بھٹو بیان کرتے ہیں کہ کیسے ڈاکٹر ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ’’ہم تمہیں عبرت کی مثال بنائیں گے۔‘‘ +جس باعزت راستے کا انتخاب انہوں نے کیا، اور جس بے لوث انداز میں پاکستانی عوام کی خدمت کی، اور جس دھج سے انہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کر دی، اس سے ہر آرزومند فرد کو ایک قابل تقلید مثال ملتی ہے کہ لیڈر کیسا ہوتا ہے۔ +محترمہ بے نظیر بھٹو شہید +محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کئی اعتبار سے متاثر کن ہے۔ ان کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو نے پاکستان میں اداروں کی تعمیر کے عمل پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی سیاسی زندگی کا ہر پہلو اور ہر مرحلہ وسیع اور تجزیاتی مطالعے کا متقاضی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرچہ وقتاً فوقتاً ملک کی ہیئت مقتدرہ اور دائیں بازو کی سیاسی قیادت ان کی مخالفت کرتی رہی لیکن ان کی شہادت کے بعد تقریباً ہر ایک نے پاکستان میں سیاسی شعور اور استحکام کی ترقی و ترویج میں ان کے کردار اور ان کے حصے کی تعریف کی۔ جمہوری سیٹ اپ کی بحالی کے لئے بے نظیر بھٹو کی جدوجہد اور مختلف آمروں اور جنرلوں سے معاملت کرنے میں ان کی مشکلات جو بالآخر ان کی اقتدار سے معزولی کا سبب بنیں، پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر خوب جانی پہچانی ہیں۔ +بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کے روز کراچی میں، جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا، سندھ کے ایک ممتاز خاندان میں پاکستان کے مستقبل کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے ہاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے کراچی کے لیڈی جننگز نرسری اور کانونٹ آف جیزس اینڈ میری میں تعلیم حاصل کی۔ دو سال تک راولپنڈی کے پریزنٹیشن کانونٹ میں پڑھنے کے بعد انہیں مری کے جیزس اینڈ میری کانونٹ میں بھیج دیا گیا۔ او لیول کا امتحان انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کراچی گرامر سکول سے اے لیول تک تعلیم حاصل کی۔ +پاکستان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1969ء سے 1973ء تک وہ ہارورڈ کے ریڈکلف کالج میں پڑھیں جہاں سے انہوں نے بی اے کی ڈگری، تقابل حکومت کے مضمون میں اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ انہوں نے فائی بیٹا کاپا کی سوسائٹی میں بھی منتخب کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے ہارورڈ میں گزرے ہوئے وقت کو ’’میری زندگی کے چار پُرمسرت ترین سال‘‘ قرار دیااور کہا کہ یہی سے جمہوریت پر ان کے یقین کی بنیاد پڑی۔ جون 2006ء میں انہیں ٹورنٹو یونیورسٹی کی طرف سے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ +تعلیم کا اگلا مرحلہ انہوں نے برطانیہ میں طے کیا۔ 1973 ء سے 1977ء تک آپ آکسفورڈ کے لیڈی مارگریٹ ہال میں فلسفہ، سیاسیات اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران آپ نے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی میں اضافی کورس بھی کئے۔ لیڈی مارگریٹ ہال کے بعد آپ آکسفورڈ کے سینٹ کیتھرینز کالج میں داخل ہوئیں اور دسمبر 1976ء میں آپ کو آکسفورڈ یونین کی صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس پُروقار ڈی بیٹنگ سوسائٹی کی صدر بننے والی آپ پہلی ایشیائی خاتون تھیں۔ +سیاسی تحرکات کی تعلیم بے نظیر بھٹو نے اپنے عظیم المرتبت باپ ذوالفقار علی بھٹو سے حاصل کی تھی۔ تاہم جب تک ذوالفقار علی بھٹو خود اقتدار میں رہے، وہ سیاسی شخصیت کے طور پر نگاہ میں نہیں آئیں لیکن پاکستان کی سیاست میں ان کی شمولیت سے پہلے، انہیں پاکستان، جنوبی ایشیاء، امن کے حوالے سے تاریخی مواقع پر اور امت مسلمہ کی یکجہتی کے حوالے سے ہونے والی تقاریب میں وقتاً فوقتاً دیکھا جاتا تھا۔ +اپنے طالب ��لمی کے زمانے میں انہیں بین الاقوامی سفارت کاری کے بارے میں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں جب بھارت کی افواج مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں، فوجی آمر یحییٰ خان اور اس کی حکومت نے حزبِ اختلاف میں ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی تاریخ کے اس نہایت نازک موڑ پر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کریں۔ انہیں اپنے ملک کو مزید نقصان سے بچانا تھا۔ اس موقع بے نظیر کے والد نے انہیں بلایا اور انہیں اعلیٰ ترین سطح پر روزمرہ کی سفارتی سرگرمیوں اور ملاقاتوں میں اپنے والد کی معاونت کرنے کا موقع ملا۔ جولائی 1972ء میں ایک بار پھر، جب ان کے والد پاکستان خے صدر تھے، پاکستان کے نوے ہزار فوجی اور آٹھ ہزار مربع میل کا رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ شہید بھٹو خالی ہاتھ پاکستان کے اثاثوں کی واپسی کے مذاکرات کرنے کے لئے بھارت گئے۔ مذاکرات کا انعقاد شملہ میں ہوا۔ اس عمل میں آنے والے وقفوں کے دوران شملہ کی سڑکوں پر بھارت کی عوام اور میڈیا نے بے نظیر بھٹو کا نہایت پُرتپاک استقبال کیا۔ ان سے انٹرویوز کے لئے رابطہ کیا گیا اور عوام نے ان کی خاطرداری کی۔ ایک عام آدمی کے لئے ان کی ذات میں پائی جانے والی کشش کا یہ پہلا مظہر تھا۔ +ان مذاکرات کے دوران انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ کیسے منٹوں میں صورتِ حال بدل جاتی ہے۔ جب سامان بندھ چکا تھا اور وفد خالی ہاتھ پاکستان واپس آنے والا تھا تو صدر بھٹو نے چائے پر آخری میٹنگ کے دوران وزیراعظم اندرا گاندھی سے چند منٹ تنہائی میں بات کرنا چاہی۔ تنہائی کی اس ملاقات میں چند جملوں کا تبادلہ ہوا اور دنیا نے اپنی طرز کی سب سے ماہرانہ اور مؤثر سیاست کا نظارہ کیا۔ واپسی کے انتظامات منسوخ کر دیے گئے اور ایک معاہدہ تیار کر کے اس پر دستخط ثبت کر دیے گئے۔ اسے شملہ معاہدہ کا نام دیا گیا جو کہ پاکستان کے لئے ایک بڑی کامیابی تھا اور جس سے پاکستان کے فوجیوں اور زمین کی واپسی ممکن ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو کے لئے یہ ایک نہایت سبق آموز تجربہ تھا۔ +ایک بار پھر 1974ء میں انہیں سیکھنے کا موقع ملا جب لاہور میں اسلامک سمٹ کانفرنس منعقد ہوئی اور انہیں اپنے والد کی اعانت کے دوران کئی مسلم ممالک کے سربراہوں سے ملنے اور گفت و شنید کرنے کا موقع ملا۔ 1976-77ء میں اپنی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد انہوں نے دفتر خارجہ میں کچھ عرصہ باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ ان سب تجربات نے خارجہ امور اور سفارت کاری میں ان کی دلچسپی کو مزید بڑھاوا دیا۔ +لیکن 5 جولائی 1977ء کے روز ان کے والد کے ساتھ، اور ان کے ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے ان کی زندگی ہمیشہ کے لئے بدل گئی۔ انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ عوامی جلسوں میں جانا شروع کر دیا اور آمر جنرل ضیاء کے اعلان کردہ انتخابات کی مہم کے دوران انہوں نے چند جلسوں سے خطاب بھی کیا۔ وہ یہ سوچ لے کر ایک کٹھن مہم پر روانہ ہوئیں کہ جلد یا بدیر ان کے والد جیل سے رہا ہو جائیں گے اور ان کے لئے حالات پھر سے معمول پر آ جائیں گے۔ مگر آمر نے انتخابات کو ملتوی کر دیا اور پی پی پی کے خلاف ایک ظلم و جبر کے ایک دور کا آغاز کر دیا۔ اس نے پی پی پی کو ختم کرنے کے لئے ریاستی مشینری اور عدلیہ کا بے دریغ استعمال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے فیصلے میں موت کی سزا سنائی دی گئی جس کی نظیر آج تک پاکستان کی کسی عدالت میں دوبارہ نہیں دی گئی۔ چند مخصوص سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوششوں میں شامل ہو گئیں۔ پیپلز پارٹی کے احتجاج کرنے والے کارکنوں دوسری پارٹیوں کے ورکر (بلکہ غنڈے) بری طرح مارتے تھے۔ پارٹی کے کئی لیڈر اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان بھاگ گئے۔ ان میں سے بعض خاموشی سے کھسک گئے۔ دوسرے حکومت کے ایجنٹ بن گئے اور پارٹی کو اندر سے تباہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یوں بے نظیر بھٹو کی تقدیر، ان کا مشن ان پر مسلط ہو گیا اور ان کی زندگی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جو جہد مسلسل اور کٹھنائیوں سے عبارت ہے۔ +انہیں اپنے والد شہید بھٹو کی طرف سے جیل کی کوٹھڑی سے سیاست کا ایک سبق ملا اور وہ ساری عمر اس پر عمل پیرا رہیں۔ شہید بھٹو ’’میری سب سے پیاری بیٹی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی۔ تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست سکھائی۔ اس آمیزش کے لئے میں دونوں کا احسان مند ہوں۔ میری پیاری بیٹی، تمہیں میں صرف ایک پیغام دیتا ہوں۔ یہ تاریخ کا پیغام ہے۔ صرف عوام پر یقین رکھنا، صرف نجات اور مساوات کے لئے کام کرنا۔ خدا کی جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے۔ سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔‘‘ انہوں نے مزید نصیحت کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اس کوٹھڑی سے جس میں سے میرا ہاتھ گزر نہیں سکتا، میں تمہیں کیا تحفہ دیتا ہوں؟ میں تمہیں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں۔‘‘ +اپنے والد کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد بے نظیر بھٹو نے اگلے اٹھارہ ماہ نظربندی اور رہائی کے مراحل میں گزارے اور اپنے والد کے خلاف قتل کے الزامات ختم کرانے کے لئے سیاسی حمایت مجتمع کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس میں ناکامی اور اپنے والد کی سزائے موت کے بعد انہیں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا تاہم مقامی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد ضیاء نے قومی انتخابات کو غیرمعینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دیا اور بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ کو کراچی سے لاڑکانہ منتقل کر دیا۔ فوجی حکومت کے دو سالوں میں ساتویں مرتبہ بے نظیر بھٹو کو گرفتار کیا گیا۔ بار بار کی نظربندیوں کے بعد بالآخر حکومت نے 1981ء کے موسم گرما میں سندھ کے ایک صحرائی قید خانے میں انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا۔ اپنی کتاب ’’دختر تقدیر‘‘ میں انہوں نے اپنے بے دیوار پنجرے کے حالات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: +’’گرما کی تپش نے میری کوٹھڑی کو تنور میں بدل دیا۔ میری کھال چٹخ چٹخ کر میرے ہاتھوں سے چادر کی طرح اترنے لگی۔ میرے چہرے پر آبلے پڑ گئے۔ میرے بال جو ہمیشہ سے بڑے گھنے رہے تھے، مٹھیاں بھر بھر کے اترنے لگے۔ حشرات الارض فوج درفوج حملہ آور ہونے لگے۔ ٹڈے، مچھر، کاٹنے والی مکھیاں، شہد کی مکھیاں اور مکوڑے فرش میں پڑی دراڑوں سے اور صحن کی طرف کھلی سلاخوں سے اندر آ جاتے۔ بڑے بڑے سیاہ چیونٹے، لال بیگ، سرخ چیونٹوں کے ابلتے ہوئے دستے اور مکڑیاں۔ ان کے کاٹنے سے بچنے کے لئے چادر سر پر لے لیتی اور جب گرمی بہت زیادہ بڑھ جاتی تو اسے اتار دیتی۔‘‘ +سکھر جیل میں چھ ماہ گزارنے کے بعد انہیں کئی ماہ ہسپتال میں گزارنا پڑے جس کے بعد انہیں کراچی کی سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا جہاں وہ 11 دسمبر 1981ء تک مقید رہیں۔ اس کے بعد انہیں لاڑکانہ اور کراچی میں بالترتیب گیارہ اور چودہ ماہ تک نظر بند رکھا گیا۔ +پریس اور میڈیا پر پابندیاں اور سیاسی کارکنوں پر سختیاں بڑھیں تو بے نظیر کو احساس ہوا کہ ضیاء کی آمریت کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت بحال کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ تفرقہ ختم کر دیا جائے اور انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کی جماعتوں کو 1980ء کے آخری ماہ میں 70 کلفٹن میں تعزیت کے لئے آنے کی اجازت دے دی۔ یہ جماعتیں اب ضیاء کی حمایت کرنے کی اپنی غلطی کا ادراک کر رہی تھیں جس کی بدولت وہ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کی حد تک جا پہنچا تھا۔ لہٰذا پی این اے کی طرف سے مشترکہ اتحاد کے لئے مذاکرات کی پیشکش چیئرپرسن بیگم بھٹو نے پارٹی ورکروں کے شدید دبائو کے باوجود قبول کر لی۔ ان کی سوچ تھی کہ سیاسی قوتوں کا اتحاد عوام کو آمریت سے نجات دلا سکتا ہے۔ لہٰذا موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) نامی نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ پاکستان کے عوام نے اس کی وسیع پیمانے پر حمایت کی اور فوجی حکومت نے بے رحمی سے اسے کچلنے کی کوشش کی۔ ایم آر ڈی میں پاکستانی معاشرے کے وہ طبقات شامل تھے جو ضیاء کی ’’اسلامائزیشن‘‘ کے دائرے میں نہیں آتے تھے مثلاً شیعہ، بلوچ، پٹھان اور سندھی جیسی نسلی اقلیتیں اور بھٹو کی اپنی پی پی پی۔ ایم آر ڈی نے 1981ء کے اوائل میں جمہوریت کے لئے تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کو روکنے کے لئے آمر نے بلاامتیاز سب افراد کو بوڑھے بچے عورت مرد کی تخصیص کئے بغیر ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ بے نظیر کا زیادہ تر عرصہ اس دوران نظربندی یا جیل میں گزرا جبکہ ایم آر ڈی کی تحریک نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ پی پی پی کے ہزاروں ورکر شہید ہوئے اور ضیاء کے کریک ڈائون میں چالیس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک کے درمیان افراد سیاسی قیدیوں کے طور پر جیلوں میں گئے۔ +چھ سال کی سخت ترین قید، نظربندی اور دیگر اذیتوں کے بعد جنوری 1984ء میں ضیاء نے بین الاقوامی دبائو کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور بے نظیر بھٹو کو طبی وجوہات کی بناء پر بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دے دی۔ سرجری کروانے کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اور پاکستان میں ضیاء حکومت کے ایما پر سیاسی قیدیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے لگیں۔ دبائو بڑھا تو اپنی حکومت کو قانونی جواز دلانے کے لئے ضیاء کو ریفرنڈم کرانا پڑا۔ یکم دسمبر 1984ء کے روز منعقد ہونے والا ریفرنڈم ایک ڈرامہ ثابت ہوا اور ریاستی مشینری کے استعمال کے باوجود صرف دس فیصد ووٹر گھروں سے باہر آئے۔ +1985ء میں بے نظیر بھٹو کے بھائی شاہنواز کو پراسرار حالات میں فرانس میں قتل کر دیا گیا۔ انہیں زہر دیا گیا تھا اور اس جرم کے مرتکب آج تک پردئہ اخفا میں ہیں۔ بے نظیر ان کی لاش لے کر پاکستان آئیں اور ان کے غم میں شریک لاکھوں افراد نے موہنجو ڈارو ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔ تدفین کے بعد ضیاء حکومت نے انہیں ایک بار پھر حراست میں لے کر ملک سے باہر بھجوا دیا۔ +بین الاقوامی برادری کے مزید دبائو نے ضیاء کو یک ایوانی قانون ساز اسمبلی کے لئے غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا۔ ایم آرڈی کے جزو کی حیثیت سے پیپلز پارٹی نے اس کے فیصلے کی پابندی کی اور یہ کہہ کر الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا کہ انہیں پاکستان کے آئین کے مطابق منعقد نہیں کرایا جا رہا۔ بے نظیر بھٹو نے فوجی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1985ء میں سٹراس برگ میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: +’’جب دنیا کا ضمیر نہایت جائز طور پر نسلی امتیاز کے خلاف اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بیدار ہوتا ہے… تب اس ضمیر کو فوجی عدالتوں کے ہاتھوں ہونے والے ان قتلوں پر بھی آنکھ بند نہیں کرنی چاہئے جو ایک ایسے ملک میں رونما ہوتے ہیں جو خود مغرب سے امداد وصول کرتا ہے۔‘‘ +ضیاء حکومت نے اس کا جواب لاہور کی ایک فوجی عدالت میں پی پی پی کے 54 ورکروں کو موت کی سزا سنا کر دیا۔ +10 اپریل 1986ء کے روز بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں۔ جب انہوں نے لاہور کے ایئرپورٹ پر قدم رکھا تو دس لاکھ افراد کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا۔ ان لمحات کو انہوں نے اپنی سوانح عمری میں یاد رکھا: +’’ایئرپورٹ سے مینارِ پاکستان تک آٹھ میل کا راستہ طے کرنے میں پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ 10 اپریل 1986ء کے اس ناقابل یقین دن کو ہمیں یہ فاصلہ طے کرنے میں دس گھنٹے لگے۔ ایئرپورٹ پر موجود دس لاکھ افراد کی تعداد بیس لاکھ ہوئی اور مینارِ پاکستان پہنچنے تک تیس لاکھ ہو گئی۔‘‘ +ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ ایک کامل فتح تھی اور روم میں سیزروں کی واپسی کی یاد دلاتی تھی۔ +’’لگتا تھا کہ اس روز لاہور کے رنگ صرف پی پی پی کے سیاہ، سبز اور سرخ رنگ ہیں۔ پی پی پی کے جھنڈے اور بینر گرم و خشک ہوا میں یوں لہرا رہے تھے کہ وہ ایک مستقل سائبان کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ لوگوں نے سرخ، سبز اور سیاہ جیکٹس، دوپٹے، شلوار قمیصیں اور ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ گدھوں اور بھینسوں کی ایال اور دموں پر پی پی پی کے ربن لپٹے ہوئے تھے۔‘‘ +بعد ازاں انہوں نے اقبال پارک میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے لوگوں سے خطاب کیا: ’’لائوڈ سپیکر سسٹم ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا تھا اور ہمارے تخمینے سے دس گنا تعداد میں آنے والے لوگوں تک یقینا نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لیکن گویا جیسے ٹیلی پیتھی سے میرے ہاتھ ایک اشارے پر سب خاموش ہو گئے۔ ’’ابھی اور اسی وقت، میں حلف اٹھاتی ہوں کہ میں عوام کے حقوق کی پاسداری کے لئے ہر قربانی دوں گی۔‘‘ میں نے بلند آواز میں کہا۔ ’’کیا تمہیں آزادی چاہئے؟ کیا تمہیں جمہوریت چاہئے؟ کیا تمہیں انقلاب چاہئے؟ ہاں، ہر مرتبہ گرج کی صورت میں جواب آیا، تیس لاکھ صدائیں ایک آواز کی صورت میں۔ ’’میں عوام کی خدمت کرنے واپس آئی ہوں، انتقام لینے نہیں۔‘‘ میں نے ان سے کہا۔ ’’میں انتقام کا سلسلہ ختم کرتی ہوں۔ میرے دل میں ایسا کوئی جذبہ نہیں۔ میں پاکستان کو تعمیر کرنا چاہتی ہوں لیکن پہلے مجھے تم سے ایک ریفرنڈم چاہئے۔ کیا تم ضیاء کو برقرار رکھنا چاہتے ہو؟ نہیں، آواز کی موج امڈی۔ ’’کیا تم ضیاء کو ہٹانا چاہتے ہو؟‘‘ ہاں، گرج اور بلند ہو گئی۔ ’’تو پھر فیصلہ ہے کہ ضیاء جاوے!‘‘ میں نے آواز بلند کی۔ ’’ضیاء کو جانا چاہئے۔‘‘ ’’جاوے! جاوے! جاوے!‘‘ تاریک ہوتے آسمان تلے لاکھوں آوازیں گونجیں۔‘‘ +1986ء کے دوران انہیں ایک مرتبہ پھر کراچی میں جمہوریت کے لئے اٹھنے والی اگست کی تحریک کے دوران لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا نشانہ بنایا گیا اور لاہور میں پی پی پی کی کم و بیش دس کارکنان شہید ہو گئے، سینکڑوں زخمی ہوئے اور ہزاروں کو ایم آرڈی کے جلسے روکنے کے لئے گرفتار کر لیا گیا۔ +18 دسمبر 1987ء کے روز کراچی میں آصف علی زرداری سے بے نظیر کی شادی ہو گئی۔ ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے: دو بیٹیاں بختاور اور آصفہ، اور ایک بیٹا، بلاول، جو کہ اس وقت تیسری نسل میں پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین ہے۔ +مئی 1988ء میں جنرل ضیاء نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں کرپشن کے الزامات لگا کر توڑ دیں اور نومبر 1988ء میں الیکشن منعقد کرانے کا اعلان کیا۔ غالباً اس کا ارادہ تھا کہ اپنی نگرانی میں الیکشن کرائے اور اپنی تابع فرمان حکومت کو اوپر لائے لیکن تقدیر نے اپنا کھیل دکھایا۔ 17 اگست 1988ء کے روز کئی قومی اور غیرملکی زعماء کو لئے ایک جہاز بہاولپور کے نزدیک کریش ہو گیا۔ اس کی حکومت حقیقی معنوں میں جل کر راکھ ہو گئی۔ چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان نے صدارت کا عہدہ سنبھالا اور شیڈول کے مطابق تین ماہ بعد الیکشن ہو گئے۔ +جس نشست سے بے نظیر بھٹو نے الیکشن لڑا، وہ وہی تھی جس سے ان کے والد نے حصہ لیا تھا یعنی این اے 207۔ اس سیٹ پر سب سے پہلے مرحوم سردار واحد بخش بھٹو نے 1926ء میں سندھ میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخاب لڑا تھا۔ سردار واحد بخش کو فتح حاصل ہوئی، اور وہ نہ صرف ایک جمہوری طور پر منتخب کردہ پارلیمنٹ میں سندھ کے پہلے منتخب نمائندہ بنے بلکہ صرف ستائیس سال کی عمر میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے کم عمر ترین رکن بھی بنے۔ واحد بخش کے کارنامے تاریخی نوعیت کے تھے کیونکہ وہ حکومت میں شامل ہونے والے بھٹو خاندان کے پہلے فرد تھے۔ وہ ایک ایسی سیٹ سے جیتے جہاں ان کے بعد سے ہمیشہ ان کے خاندان کے افراد کھڑے ہوتے رہے۔ لہٰذا اس سلسلے کا آغاز کرنے کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ سردار واحد بخش اس کے بعد بمبئی کونسل کیرکن بھی بنے۔ 33 سال کی عمر میں ان کی بے وقت موت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی نواب نبی بخش بھٹو نے اسی سیٹ سے الیکشن لڑا اور اپنی ریٹائرمنٹ تک ناقابل شکست رہے۔ وہی تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو الیکشن لڑنے کے لئے یہ سیٹ دی تھی۔ +انتخابی مہم کے دوران بے نظیر خواتین کے معاشرتی اور صحت کے مسائل کے بارے میں بشمول خواتین سے امتیازی سلوک کے مسئلے کے بارے میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے خواتین کے پولیس سٹیشن، عدالتیں اور خواتین کے لئے ڈیویلپمنٹ بینک قائم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان میں سے کئی منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچے مگر ان کی حکومت ختم ہو جانے کی وجہ سے پوری طرح پروان نہ چڑھ سکے۔ +16 نومبر 1988ء کے روز ایک دہائی سے زائد عرصہ بعد پہلے آزاد انتخابات منعقد ہوئے اور پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ 2 دسمبر کے روز بے نظیر بھٹو کو ایک مخلوط حکومت کی سربراہ کے طور پر وزیراعظم کا حلف دلوایا گیا۔ 35 سال کی عمر میں وہ کم عمر ترین اور مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ +حلف اٹھانے کے فوراً بعد وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اعلان کیا کہ طلبہ یونینز اور ٹریڈ یونینز پر لگائی گئی پابندی ختم کر دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دسمبر 1988ء میں چوتھی سارک سمٹ کانفرنس کی میزبانی کی۔ کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن کے تین معاہدے پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ +مگر جلد ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو سیاسی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہونے لگا۔ اے این پی نے پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا اور یکم نومبر 1989ء کے روز حزبِ اختلاف نے بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر دی۔ بے نظیر بھٹو 12 ووٹوں کی اکثریت سے اس قرارداد کو شکست دینے میں کامیاب رہیں۔ پیپلز پارٹی کی اتحادی بننے والی ایم کیو ایم بھی الگ ہو گئی اور سندھ میں مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔ +1989ء میں بے نظیر بھٹو کو لبرل انٹرنیشنل کی طرف سے پرائز فار فریڈم دیا گیا۔ بھٹو اسقاطِ حمل کے خلاف تھیں اور اس کے خلاف آواز بلند کرتی رہتی تھیں جس میں قابل ذکر قاہرہ میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس برائے آبادی و ترقی میں ان کی تقریر جہاں انہوں نے مغرب کو الزام دیا کہ ’’وہ ایسے افراد، اور معاشروں اور مذہب پر ناجائز تعلقات، اسقاطِ حمل، جنسی تعلیم اور ایسے دیگر معاملات ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے جو اپنی ذاتی معاشرتی مکارمِ اخلاق رکھتے ہیں۔‘‘ +بے نظیر بھٹو موجودہ اور سابقہ خاتون وزرائے اعظم اور صدور کی تنظیم کونسل آف ویمن ورلڈ لیڈرز کی سرگرم اور بانی رکن تھیں۔ +پیپلز پارٹی کی حکومت اور ہیئت مقتدرہ کے درمیان سنگین نظریاتی اختلافات پیدا ہو گئے۔ دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد 6 اگست 1990ء کے روز ان کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات لگا کر برطرف کر دیا جنہوں نے یہ اختیار آئین کی متنازعہ آٹھویں ترمیم کے تحت استعمال کیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ہیئت مقتدرہ کے مابین تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ +اکتوبر 1990ء کے الیکشن کے بعد نواز شریف اقتدار میں آ گئے۔ اگلے تین سال وہ وزیراعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو حزبِ اختلاف کی قائد رہیں۔ +بے نظیر بھٹو 18 جولائی 1993ء کے روز صدر اور وزیراعظم دونوں کے استعفوں کے بعد دوبارہ اقتدار میں آ گئیں۔ یہ اس وقت ہوا جب جعلی انتخابات کے بارے میں میاں نواز شریف کے اپنے اتحادیوں کی طرف سے کہانیاں اور ایسی دیگر باتیں سامنے آئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’لانگ مارچ‘‘ یعنی نئے انتخابات کے لئے تحریک شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ صدر اور وزیراعظم دونوں کی رخصتی کی صورت میں نکلا۔ اس کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ یہ انتخابات بالترتیب 6 اور 9 نومبر 1993ء کو منعقد ہوئے۔ +انتخابات میں کسی پارٹی کو حتمی اکثریت نہ ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ بے نظیر بھٹو نے 19 اکتوبر 1993ء کے روز وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار فاروق احمد خان لغاری قائم مقام صدر وسیم سجاد کے 168 ووٹوں کے مقابلے 274 ووٹ لے کر صدر بن گئے۔ +اپنی دوسری مدتِ اقتدار کے دوران بے نظیر کو حزبِ اختلاف کی طرف سے ایک بار پھر مشکلات کا سامنا رہا ۔ اس دور کا ایک نمایاں واقعہ امریکی خاتونِ اول ہلیری کلنٹن اور ان کی بیٹی چیلسی کا 1995ء میں دورئہ پاکستان تھا۔ ہلیری کلنٹن کے دورے سے پاکستان کے بارے میں دنیا کا تاثر بہت حد تک بدل گیا اور پاکستان ایک روشن خیال، جدید اور ترقی پسند ملک کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اپریل 1994ء میں بے نظیر بھٹو نے امریکہ کا دورہ کیا اور ادائیگی کے باوجود امریکہ کی طرف سے روکے گئے ایف سولہ طیاروں کے بارے میں اپنی حکومت کا مؤقف واضح کیا۔ ان کے دورے کے نتیجے میں 21 ستمبر 1995ء کو امریکی سینیٹ سے برائون ترمیم پاس کی جس کے نتیجے میں پاکستان پر لگی پابندیاں نرم ہو گئیں۔ اس سے ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد میں بھی مدد ملی۔ تمام تر سیاسی کوششوں کے باوجود حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان ہموار تعلقات استوار نہ ہو سکے۔ +20 ستمبر 1996ء کے روز بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو پراسرار حالات میں ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ انہی کے دورِ حکومت میں ان کے بھائی کے اس ہائی پروفائل سے ان کے سیاسی کیریئر کو خاصا نقصان پہنچا۔ +صدر اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو رہے تھے۔ اختلافات اس وقت ابھرے جب حکومت کو محسوس ہوا کہ صدر حکومتی سیاسی معاملات میںدخل د ے رہے ہیں۔ 5 نومبر 1995ء کے روز صدر فاروق لغاری نے بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات کے تحت آٹھویں ترمیم کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے ذریعے ان کی حکومت ختم کر دی۔ +6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق کے ہاتھوں بدعنوانی کے الزامات پر ان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت پاکستان نے انٹیلی جنس اداروں کو ہدایات جاری کیں کہ ان الزامات کی تفتیش کی جائے۔ چوتھے قومی انتخابات کے بعد نواز شریف وزیراعظم بنے اور انہیں بے نظیر بھٹو کے خلاف عدالتی کارروائی تیز کر دی۔ پورے مغربی یورپ میں، فرانس، سوئٹزر لینڈ، سپین، پولینڈ اور برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانوں کو ہدایات دی گئیں کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کریں۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف کئی مقدمات قائم ہوئے۔ اگرچہ الزامات کبھی ثابت نہ ہو سکے لیکن ان کے تحت آصف علی زرداری نے کم و بیش آٹھ سال کا عرصہ جیل میں گزارا۔ +بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ یہ مؤقف رکھا کہ ان کے اور ان کے شوہر کے خلاف لگائے گئے الزامات سراسر سیاسی ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ نے ان کے دعوے کی تصدیق کی۔ اس رپورٹ سے ایسی معلومات سامنے آئیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی 1990ء کی حکومت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی انتقامی پالیسی کا نتیجہ تھی۔ اے جی پی رپورٹ میں درج ہے کہ غلام اسحاق خان نے 1990ء سے 1992ء کے دوران قانونی مشیروں کو بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف کرپشن کے 19 مقدمات دائر کرنے کے لئے غیرقانونی طور پر پونے تین کروڑ روپے سے زائد رقم ادا کی۔ +1996ء سے 1999ء تک میاں نواز شریف کی طرف سے اور 1999ء سے 2008ء تک پرویز مشرف کی طرف سے بے نظیر بھٹو کے خلاف بے شمار کیسوں اور کرپشن کے الزامات کے باوجود بارہ سال کا عرصہ گزر کر کیسوں کے زائد المعیاد ہو جانے تک انہیں کسی ایک کیس میں بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ +1999ء میں بے نظیر بھٹو ایک بار پھر خودساختہ جلاوطنی میں چلی گئیں۔ ان کی غیرموجودگی میں میاں نواز شریف کی بھاری مینڈیٹ والی گورنمنٹ کا تختہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے الٹ دیا جنہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے روز پاکستان کے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کا عہدہ اختیار کر لیا۔ +دبئی میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنے تین بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی دیکھ بھال کی جو الزائمر کی مریضہ تھیں اور اس دوران لیکچر دینے اور پیپلز پارٹی کے ورکروں سے رابطے میں رہنے کے لئے مسلسل سفر بھی کرتی رہیں۔ +2002ء کے وسط میں مشرف نے وزرائے اعظم کے لئے دو مرتبہ سے زائد منتخب ہونے پر پابندی لگا دی۔ بے نظیر بھٹو اور مشرف کے دوسرے بڑے حریف میاں نواز شریف دو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو چکے تھے۔ عام رائے یہی تھی کہ ان دونوں کو حکومت سے باہر رکھنے کے لئے یہ پابندی لگائی گئی ہے۔ +مئی 2006ء میں پاکستان کی تاریخ کا ایک عدیم المثال واقعہ رونما ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی لندن میں ملاقات ہوئی اور لمبے چوڑے مباحث کے بعد انہوں نے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کے نام سے ایک دستاویز پر دستخط کئے۔ دیکھتے ہیں کہ بی بی سی نے اس واقعے کو کس انداز میں رپورٹ کیا۔ +’’پاکستان کی سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے 2007ء کے انتخابات سے قبل ایک ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے ہیں۔ +’’دونوں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لئے ملک واپس جائیں گے اور جنرل مشرف کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے کام کریں گے۔ +’’دونوں سابق وزرائے اعظم نے لندن میں ہونے والی ایک تقریب میں اس میثاق پردستخط کئے۔ اس میں پاکستان کے مستقبل کے لئے کئی اقدامات کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں سے کچھ آئینی ہیں۔ +’’مسز بھٹو کی پاکست��ن پیپلز پارٹی اور مسٹر شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے 2002ء کے انتخابات میں مشترکہ طور پر ایک کروڑ کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے تھے۔ پاکستان میں ان کی ذاتی موجودگی کے بغیر ان کی جماعتوں کی پرویز مشرف کی حکومت کے سنجیدہ چیلنج کا مقابلہ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ +’1999ء میں فوجی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کے کئی ساتھیوں کے بھاگ کر پرویز مشرف کی وفادار پارٹی میں جا ملنے سے ان کی جماعتوں کو سخت نقصان پہنچا۔ +’’بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مسز بھٹو نے ماضی میں دونوں جماعتوں کے مابین پائی جانے والی تلخی کو غیر اہم قرار دے دیا۔ ’’یہ سچ ہے کہ ماضی میں ہم دونوں کی جماعتوں کے درمیان بڑے اختلاف رہے ہیں لیکن اب ہم دونوں فوجی آمریت کے ڈسے ہوئے ہیں اور اس لئے ہمیں وسیع تر منظرنامے کی تفہیم حاصل ہو گئی ہے۔‘‘ +بے نظیر بھٹو 2007ء میں پاکستان واپس آنے کے ارادے کا اظہار کر چکی تھیں، مئی 2007ء میں انہیں انتخابات سے پہلے وطن واپس آنے کی اجازت نہ دینے کے مشرف کے بیان کے باوجود جس پر انہوں نے عمل کیا۔ +جولائی 2007ء میں ان کے منجمد کردہ اثاثوں میں سے کچھ ریلیز کر دیے گئے۔ ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بدستور جاری رہے۔ 29 اگست 2007ء کے روز بے نظیر بھٹو نے اعلان کیا کہ مشرف آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ یکم ستمبر 2007ء کو انہوں نے مشرف کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ اختیارات کی تقسیم اور جمہوری اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بن کر پاکستان کو بحران میں دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار کی ہموار منتقلی اور سویلین اقتدار کی واپسی پر زور دیا اور جنرل پرویز مشرف سے مطالبہ کیا کہ وہ وردی اتار دیں۔ +2 اکتوبر 2007ء کے روز مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے استعفیٰ دے کر ایک سویلین رول میں آنے کی تیاری شروع کر دی۔ 5 اکتوبر 2007ء کو انہوں نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) پر دستخط کئے جس کے تحت بے نظیر بھٹو اور دیگر سیاسی لیڈروں کو ان کے خلاف دائر کئے گئے تمام مقدمات سے رہائی مل گئی۔ یہ آرڈیننس مشرف کے نہایت اہم صدارتی انتخاب سے ایک دن پہلے جاری ہوا۔ پیپلز پارٹی نے اس انتخاب میں ووٹ دینے سے احتراز کیا۔ تاہم پرویز مشرف کو صدر منتخب کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے یہ اعلان کیا کہ جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیا جائے کہ آیا آرمی جنرل رہتے ہوئے پرویز مشرف کا صدارت کے انتخاب میں حصہ لینا قانونی تھا یا نہیں، کسی کو فاتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ +بے نظیر اس خطرے سے بخوبی واقف تھیں جو پاکستان واپس آ کر انتخابی مہم میں شریک ہونے کی صورت میں ان کی جان کو لاحق ہوتا۔ 28 ستمبر 2007ء کو سی این این کے رپورٹر وولف بلٹزر کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ +دبئی اور لندن میں جلاوطنی کے آٹھ سال گزارنے کے بعد 18 اکتوبر 2007ء کے روز وہ 2008ء کے قومی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے وطن واپس آئیں۔ اس روز ایک جلسے میں شریک ہونے کے لئے کراچی جاتے ہوئے، ان کے جناح ایئرپورٹ سے نکلنے کے کچھ دیر بعد دو دھماکے ہوئے۔ وہ خود زخمی نہ ہوئیں لیکن ان دھماکوں میں جو بعد میں خودکش ثابت ہوئے 176 افراد جاں بحق ہوئے اور کم از کم 450 زخمی ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے متعدد سینئر کارکن شدید زخمی ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کراچی میں تقریباً دس گھنٹوں کی پریڈ کے بعد اپنے سوجے ہوئے پیروں سے سینڈل اتارنے کے لئے ٹرک کے آہنی کمانڈ سنٹر میں اتری ہی تھیں کہ دھماکے ہو گئے۔ انہیں جائے وقوعہ سے بحفاظت محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔ +3 نومبر 2007ء کو صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے اقدامات اور ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے بہانوں کا سہارا لے کر ایمرجنسی نافذ کر دی۔ بے نظیر بھٹو اس وقت اپنی فیملی سے ملنے دبئی گئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنا دورہ مختصر کیا اور وطن واپس آ گئیں۔ ایئرپورٹ پر نعرے لگاتے کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔ کئی گھنٹوں تک طیارے میں بیٹھے رہنے کے بعد انہیں لاہور میں سینکڑوں کارکنوں کی ہمراہی میں ان کے گھر تک پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ پاکستان کو اس وقت سیاسی بحران کا سامنا ہے لیکن یہ بھی کہا کہ اگر ایمرجنسی نہ اٹھائی گئی تو منصفانہ انتخابات کا انعقاد محال ہو جائے گا۔ +8 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے خلاف ایک ریلی سے خطاب اور اس کی قیادت کرنے سے چند گھنٹے پہلے نظربند کر دیا گیا۔ +امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو کو ٹیلی فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا۔ ’’مجھے گھر کے اندر نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ گھر سے باہر نکلنے کی آزادی نہیں۔ انہوں نے گھر کے اند رپولیس کی بھاری نفری تعینات کر رکھی ہے اور گھر کے باہر چاروں طرف چار ہزار پولیس والے موجود ہیں یعنی ہر دیوار پر ایک ہزار پولیس والے۔ وہ پڑوسیوں کے گھروں میں بھی داخل ہو گئے ہیں اور میں ابھی ابھی ایک پولیس والے سے بات کر رہی تھی، میں نے کہا۔ ’’کیا تمہیں یہاں ہمارے پیچھے ہونا چاہئے؟ کیا تمہیں اسامہ بن لادن کی تلاش میں نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اور اس نے کہا۔ ’’معافی چاہتا ہوں بیگم صاحبہ، یہ ہمارا کام ہے۔ ہم وہی کر رہے ہیں جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔‘‘ +اگلے روز پاکستانی حکومت نے اعلان کیا کہ بے نظیر بھٹو کی گرفتاری کے وارنٹ واپس لے لئے گئے ہیں اور انہیں سفر کرنے اور عوامی اجتماعات میں شریک ہونے کی اجازت ہوگی۔ تاہم، حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں کے قائدوں کے عوامی اجتماعات میں تقریر کرنے پر لگی پابندی برقرار رہی۔ +24 نومبر 2007ء کے روز بے نظیر بھٹو نے جنوری کے پارلیمانی انتخابات کے لئے اپنی نامزدگی کے کاغذات جمع کرائے۔ دو دن بعد انہوں نے لاڑکانہ کے حلقے سے دو باقاعدہ نشستوں کے لئے کاغذات جمع کرائے۔ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے نہایت دشوار مرحلے سے گزر کر پاکستان آ سکیں اور امیدواری کے کاغذات جمع کرا سکیں۔ +30 نومبر 2007ء کو فوج کے چیف کے منصب سے استعفیٰ دے دینے کے بعد پرویز مشرف نے ایک سویلین صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو انہوں نے 16 دسمبر 2007ء کو ایمرجنسی اٹھا لینے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ بے نظیر بھٹو نے اس اعلان کو خوش آمدید کہہ کے ایک منشور جاری کیا جس میں داخلی محاذ پر پارٹی کے ایشوز کا خاکہ درج تھا۔ +4 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو نے نواز شریف سے ملاقات کی تاکہ جنوری کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے ایمرجنسی اٹھانے کے لئے پرویز مشرف سے مشترکہ مطالبہ کیا جائے اور مطالبہ منظور نہ ہونے کی صورت میں انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی جائے۔ انہوں نے ایک کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا جو کہ پرویز مشرف کو ان کے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے شرائط پر مبنی ایک فہرست پیش کرے گی۔ +27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ سے پیپلز پارٹی کی ایک ریلی سے خطاب کرنے کے بعد نکل رہی تھیں۔ اس روز انہوں نے جنوری 2008ء کے انتخابات سے پہلے اپنے کارکنوں سے خطاب کیا تھا۔ اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنے کے بعد، وہ ہجوم کے نعروں کا جواب دین�� کے لئے گاڑی کی سن روف سے باہر نکلیں۔ اس وقت ایک بندوق بردار نے ان پر گولیاں چلائیں اور اس کے گاڑی کے نزدیک دھماکے ہوئے جن میں کم و بیش 20 افراد جاں بحق ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو شدید زخمی ہوئیں اور انہیں فوراً راولپنڈی کے جنرل ہسپتال پہنچایا گیا۔ 5 بج کر 35 منٹ پر انہیں سرجری میں لے جایا گیا اور 6 بج کو 16 منٹ پر ان کی شہادت کا اعلان کر دیا گیا۔ +آصف علی زرداری اور ان کے بچے جمعرات کو رات گئے دبئی سے واپس پہنچے اور ان کے جسد خاکی کو فوج کے خصوصی طیارے میں لے کر راولپنڈی سے لے کر سندھ میں ان کے آبائی گائوں گڑھی خدابخش میں پہنچے۔ لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں ان کے والد کے پہلو میں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ +ان کی شہادت کے فوراً بعد فسادات شروع ہو گئے جن میں قریباً بیس افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے تین پولیس والے تھے۔ ڈھائی سو کے لگ بھگ کاریں جلائی گئیں۔ غم و غصے کے مارے ہوئے بے نظیر کے حامیوں نے اس ہسپتال پر پتھرائو کیا جہاں انہیں رکھا گیا تھا۔ 29 دسمبر 2007ء کے روز حکومت پاکستان نے کہا کہ بلوائیوں نے نو الیکشن آفس، 176 بینک، 34 گیس سٹیشن، ریل کی 72 بوگیاں، 18 ریلوے سٹیشن، اور سینکڑوں کاریں اور دکانیں جلا دیں۔ صدر مشرف نے تین دن کا سوگ منانے کا اعلان کیا۔ +بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے پُرزور مذمتی بیانات جاری کئے گئے۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ہنگامی میٹنگ کا انعقاد کیا اور ان کے قتل کی بالاتفاق مذمت کی۔ +حکومت پاکستان نے بے نظیر بھٹو کی سالگرہ پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام دے کر ان کی یاد کو عزت بخشی۔ سندھ کے شہر نواب شاہ کا نام ان کے اعزاز میں بے نظیر آباد رکھ دیا گیا۔ پاکستان کے غریب ترین طبقات کو مالی اعانت فراہم کرنے والے پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 2009ء میں چھ دیگر افراد کے ہمراہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے انہیں انسانی حقوق کے شعبہ میں یونائیٹڈ نیشنز پرائز دیا گیا۔ +بے نظیر بھٹو نے تین کتابیں اور متعدد مضامین لکھے۔ شہادت کے وقت تک ان کی تیسری کتاب ’’مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب‘‘ کا مسودہ ہارپرکولنز پبلشرز کو موصول ہو چکا تھا۔ مارک سیگل کے ساتھ مل کر لکھی جانے والی اس کتاب کو فروری 2008ء میں شائع کیا گیا۔ +ارسطو، یونانی دانشور، فلسفی اور سائنسدان، قدیم تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں شامل تھا۔ فلسفیانہ اور سائنسی نظام ہائے عمل کی ترقی و ترویج میں اس کے کردار نے مغربی دانشورانہ سوچ کے لئے معیارات کا تعین کیا۔ +سائنسی دنیا میں اس کی اہمیت بے مثال ہے۔ ارسطو نے روایتی منطق کے مطالعہ کی ایجاد کی اور اس کے اصولوں کا اطلاق طبیعیات، کیمیا، حیاتیات اور حیوانیات پر کیا۔ اس کے علاوہ، انسانی وجود کے مظہر پر اس کی نگاہ نفسیات اور ادب کے شعبوں تک محیط تھی۔ سیاسی اور اخلاقی نظریات پر ارسطو کی تحاریر اور تقاریر کو جدید فلسفہ میں آج بھی پڑھا جاتا ہے اور ان پر بحث کی جاتی ہے۔ +سپاہی، مصنف اور سربراہِ مملکت چارلس ڈیگال نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی مزاحمت کی علامت کے طور پر عالمگیر شہرت حاصل کی۔ وہ فرانس کی پانچویں جمہوریہ کے بانی صدر بنے اور 1958ء سے لے کر 1969ء تک خدمات انجام دیں۔ +پہلی جنگ عظیم میں ایک لیفٹیننٹ کی حیثیت سے حصہ لیتے ہوئے ڈیگال تین مرتبہ زخمی ہوئے اور جنگی قیدی کی حیثیت سے تین سال دشمن کے اسیر ��ہے۔ دوسری جنگ عظیم چھڑنے کے بعد ڈیگال کو ترقی دے کر انڈر سیکرٹری آف وار بنا دیا گیا۔ جرمنوں کی حمایتی وچی گورنمنٹ کے قیام پر ڈیگال انگلینڈ چلے گئے۔ ریڈیو پر فرانسیسی عوام سے مزاحمت اور جدوجہد جاری رکھنے کی اپیلیں کرنے پر ان کی غیرحاضری میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔ اس کے باوجود، ڈیگال نے فرانس کی آزادی اور مزاحمتی قوتوں کی تیاری کا کام جاری رکھا۔ +بالآخر ڈیگال اتحادی افواج کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور 1944ء میں انہیں عارضی حکومت کا صدر بنا دیا گیا۔ 1958ء میں ایک مرتبہ پھر نئی حکومت بنانے کے لئے ان کی طرف رجوع کیا گیا اور وہ پانچویں جمہوریہ کے صدر بنے۔۔ +کنفیوشس چین کے مشہور ترین استاد، فلسفی اور سیاسیاتی نظریہ ساز تھا۔ اس کے تصورات اور نظریات نے پورے مشرقی ایشیا کی تہذیبوں کو متاثر کیا۔ +کنفیوشس 551 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور کم عمری میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہو گیا۔ تعلیم کا زیادہ تر حصہ خود آموختگی پر مشتمل ہونے کے باوجود، وہ اپنے دور کا سب سے صاحب علم شخص بنا۔ اپنے وقت کے معاشرتی حالات نے اس پر گہرا اثر چھوڑا اور اس نے اپنی زندگی سماجی اصلاحات کے لئے وقف کر دی۔ اس نے بنیادی طور پر خلوص کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی تمام تر تعلیم اخلاقیات کے گرد گھومتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ایک حکومت کی ذمہ داری حکمرانوں کے سامانِ تعیش کا اہتمام نہیں بلکہ عوام کی خوشحالی ہے۔ +کنفیوشس کوئی ایسا سرکاری عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جس پر رہتے ہوئے وہ اپنے اصلاحی تصورات و نظریات کا اطلاق کرنے کی کوشش کر سکتا لہٰذا اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اس نے شاگردوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کو تعلیم دیتے ہوئے گزارا۔ اس کی موت کے بعد اس کے شاگردوں نے اس کی تعلیمات کو جمع کیا جنہیں ’’ملفوظات‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تعلیمات چین کے علاوہ کوریا، جاپان اور ہند چینی (میانمر، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، لائوس اور مالے پر مشتمل خطہ) کے سماجی طرزِ زندگی کی بنیاد بنیں۔ اس اعتبار سے کنفیوشس کو غالباً دنیا کی سب سے پُراثر شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ +ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 34 ویں صدر اور جنگ عظیم دوم میں اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر کے طور پر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کی کامیابی کا راز دیانتداری، انکساری اور مستقل مزاجی کی خصوصیات کے امتزاج میں پوشیدہ ہے۔ +آئزن ہاور نے ویسٹ پوائنٹ سے گریجویشن کی اور پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک ٹینک ٹریننگ سنٹر کی کمانڈ کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم چھڑنے کے بعد، آئزن ہاور کو آرمی کے جنگی منصوبہ بندی کے ڈویژن میں تعینات کر دیا گیا جہاں انہوں نے یورپ پر اتحادی افواج کے حملے کی حکمت عملی تیار کی۔ بعد ازاں انہیں یورپ میں امریکی افواج کے کمانڈر کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ +فوج سے ریٹائر ہو کر انہوں نے یونیورسٹی آف کولمبیا کی صدارت سنبھالی اور جنگ کے متعلق اپنی مقبول ترین روئیداد تحریر کی۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹک، کی خواہش تھی کہ آئزن ہاور ان کی طرف سے صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر حصہ لیں۔ آئزن ہاور نے ری پبلکن پارٹی کا انتخاب کرتے ہوئے 1952ء اور 1956ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور دونوں مرتبہ فتح حاصل کی۔ امریکی عوام میں انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ انہوں نے معاضوں کی کم از کم حد کو بڑھانے اور سوشل سیکیورٹی کا دائرہ وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ صحت، تعلیم، عوام�� فلاح اور ناسا کے ادارے بھی قائم کئے۔ +ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 22 ویں صدر فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ نے 12 سال سے زائد عرصے تک بہ حیثیت صدر خدمات انجام دیں۔ یہ مدت امریکی تاریخ کے کسی بھی صدر کی مدتِ صدارت سے زیادہ ہے۔ امریکی معاشی انحطاط کے مشہور دور ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ کے دوران انہوں نے معاشی بحالی پر اثرانداز ہونے کے لئے وفاقی قوت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک مرکزی اتحادی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ +روزویلٹ نے ہارورڈ یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی سکول آف لاء میں تعلیم حاصل کی۔ 1910ء میں نیویارک سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور تین سال بعد انہیں بحری افواج کا اسسٹنٹ سیکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ پولیو کا شکار ہونے کے باوجود وہ ڈیموکریٹک سیاست میں سرگرم رہے اور 1928ء میں نیویارک کے گورنر منتخب ہوئے۔ +1933ء میں صدرِ امریکہ منتخب ہونے کے بعد، انہوں نے بڑی تیزی سے ایک معاشرتی پروگرام منظور کروایا جسے ’’نیو ڈیل‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت مختلف وفاقی اداروں کے ذریعے عوام کو ریلیف، قرضے اور ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ روزویلٹ نے فوجی مصنوعات کی صنعت کو متحرک کیا اور برطانیہ کو فراہم کی جانے والی امداد میں اضافہ کیا۔ انہوں نے برطانیہ اور سوویت یونین کے ساتھ مل کر وہ اتحاد بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا جو دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب رہا۔ +امریکی جنرل، امریکی انقلاب کے دوران نوآبادیاتی افواج کے کمانڈر انچیف اور بعد ازاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن کو امریکہ میں بابائے قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ +واشنگٹن ریاست ورجینیا کے ایک دولتمند گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتداً انہوں نے ایک سرویئر کے طور پر کام کیا اور بعد ازاں فرنچ انڈین جنگ میں حصہ لے کر جنگی تجربہ حاصل کیا۔ ملک کے سر پر کھڑا امریکی انقلاب بعد ازاں انہیں قوم کی مدد کو لانے کا موجب بنا۔ +1775ء میں واشنگٹن کو تمام نوآبادیوں کی افواج کا کمانڈر انچیف منتخب کر لیا گیا۔ اگلے پانچ سال کے دوران، وادیٔ فورج کے یخ بستہ موسم سرما میں بھی، واشنگٹن نے امریکی افواج کو محض اپنی قوتِ کردار کے بل بوتے پر مربوط و منضبط رکھا۔ 1781ء میں یارک ٹائون کے مقام پر کارنوالس کو گرفتار کر کے انہوں نے جنگ کے اختتام پر مہر ثبت کر دی۔ +دونوں جماعتوں کی تائید و احترام کے مشترکہ اور واحد سزاوار ہونے کی بناء پر، واشنگٹن کو بلامقابلہ کانسٹی ٹیوشنل کنونشن کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ 1789ء میں انہیں پہلی مرتبہ صدرِ امریکہ چنا گیا اور 4 سال بعد ایک دفعہ پھر اس عہدے کے لئے انہی کو مناسب سمجھا گیا۔ +جان ایف کینیڈی صرف 43 سال کی عمر میں صدرِ امریکہ منتخب ہوئے۔ امریکی تاریخ کے کم عمر ترین صدر ہونے کے علاوہ وہ پہلے رومن کیتھولک تھے جو اس عہدے تک پہنچے۔ +کینیڈی نے 1936ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور دوسری جنگ عظیم سے کچھ عرصہ قبل امریکی بحریہ میں شامل ہو گئے۔ بحرالکاہل میں فرائض کی انجام دہی کے دوران جاپانیوں نے ان کی کشتی PT 109 کو ڈبو دیا۔ زخمی ہونے کے باوجود کینیڈی نے اپنی کشتی کے عملے کو بچانے میں بہادرانہ کردار ادا کیا۔ +کانگریس اور سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد، 1960ء میں کینیڈی کو صدرِ امریکہ منتخب کیا گیا۔ اپنے سٹائل، شخصی کشش اور خطیبانہ اہلیت کی بدولت وہ اندرون و بیرون ملک داد و تحسین کے مستحق ٹھہرے، لیکن 1963ء میں ایک قاتل کی گولی نے ان کی زندگی کو المیہ انجام سے دوچار کر دیا۔ ان کے کارہائے نمایاں میں امریکی امن افواج کا قیام اور کیوبن میزائل بحران سے عمدگی سے عہدہ برآ ہونا شامل ہیں۔ ان کی کتاب ’’حوصلہ مندی کے خاکے (Profiles in Courage)‘‘ نے 1957ء میں پلٹزر پرائز حاصل کیا۔ +برٹش راج کے خلاف ہندوستانی قوم پرست تحریک کے رہنما، موہن داس ’’مہاتما‘‘ گاندھی کو ان کے ملک میں بابائے قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سیاسی اور سماجی ترقی کے حصول کے لئے اہنسا (عدم تشدد) کا نظریہ پیش کرنے پر انہیں بین الاقوامی سطح پر عزت و احترام حاصل ہوا۔ +1888ء میں انگلستان میں قانون کی تعلیم شروع کرنے سے پہلے گاندھی نے ابتدائی تعلیم ہندوستان میں حاصل کی۔ جنوبی افریقہ میں کلرک کی ملازمت حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران، وہاں پائی جانے والی نسلی منافرت اور عصبیت نے انہیں بری طرح متاثر کیا۔ وہ اپنے ہم وطن ہندوستانیوں کے ترجمان بن گئے اور حکومت کو للکارنے کی پاداش میں سزائے قید کے مستحق ٹھہرائے گئے۔ +1919ء میں شرانگیزی کے متعلق برطانوی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے وہ ہندوستانی سیاست میں داخل ہوئے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ کے طور پر ابھرے اور انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے غیرمتشددانہ احتجاج کی پالیسی اپنانے پر زور دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران گوناگوں سختیوں اور دبائو کا شکار ہونے کے باوجود 1947ء میں گاندھی ایک خودمختار ہندوستانی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے ایک سال بعد انہیں قتل کر دیا گیا۔ +مصنف، خطیب اور سربراہِ مملکت، سر ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران وزیراعظم کی حیثیت سے برطانیہ کو شکست کے دہانے سے فتح تک لانے کی مہم کی قیادت کی۔ وہ 1874ء میں انگلینڈ کے قصبے اوکسفرڈ شائر میں پیدا ہوئے اور پہلی جنگ عظیم میں ایک حربی قائد کے طور پر اپنے ملک کے لئے خدمات انجام دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ رکن پارلیمنٹ کے طور پر، ہٹلر کے جرمنی کی طرف سے درپیش خطرات کے متعلق مسلسل انتباہات کرنے کے نتیجے میں انہیں 1939ء میں برطانیہ کا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ +1940ء میں انہوں نے فرینکلن ڈی روزویلٹ اور جوزف سٹالن کے ساتھ مل کر دوسری جنگ عظیم کے لئے متحدہ حکمت عملی ترتیب دینے کا کام شروع کیا۔ ایک زبردست محب وطن اور اپنے ملک کی عظمت پر رومانوی یقین رکھنے والے فرد کی حیثیت سے چرچل نے اپنے عوام کو وہ مضبوط قیادت اور خلوص فراہم کیا جو کہ بالآخر برطانیہ کی حربی نجات کا سبب بنا۔ +1953ء میں انہیں ان کی کتاب ’’ورلڈ وار‘‘ کے لئے ادب کا نوبل پرائز ملا اور اسی سال انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ +سابق صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ 19 اگست 1946ء کو ولیم جیفرسن بلائتھ چہارم کا نام لے کر ریاست ارکنساس کے شہر ہوپ میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدائشی یتیم تھے کیونکہ ان کی پیدائش سے تین ماہ قبل ایک ٹریفک حادثے میں ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی عمر چار سال تھی جب ان کی والدہ نے راجر کلنٹن سے شادی کر لی۔ ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے اپنے خاندانی نام کے طور پر کلنٹن اختیار کر لیا۔ +ایک طالب علم کے طور پر انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ انہیں سیکسو فون بجانے میں بھی مہارت حاصل تھی اور ایک موقع پر وہ سنجیدگی سے پیشہ ور موسیقار بننے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ ہائی سکول میں بوائز نیشن کو بھیجے جانے والے وفد کے رکن کی حیثیت سے ان کی ملاقات وائٹ ہائوس میں صدرِ امریکہ جان کینیڈی سے ��وئی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں انہوں نے پبلک سروس کے شعبے میں داخل ہونے کا تہیہ کر لیا۔ +کلنٹن نے جارج ٹائون یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور 1968ء میں اوکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے رہوڈز سکالر شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1973ء میں انہوں نے ییل یونیورسٹی سے لاء کی ڈگری حاصل کی اور ارکنساس کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ +1976ء میں انہیں ارکنساس کا اٹارنی جنرل اور 1978ء میں گورنر منتخب کر لیا گیا۔ دوسری مدت کے لئے گورنر کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے کے 4 سال بعد انہوں نے ایک دفعہ پھر انتخابات میں حصہ لیا اور دوسری مرتبہ ارکنساس کے گورنر بننے میں کامیاب رہے۔ 1992ء کے انتخابات میں ری پبلکن امیدوار اور اس وقت کے صدرِ امریکہ جارج بش اور تیسرے امیدوار راس پیرو کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے وہ امریکی سیاسی قیادت کی نئی نسل کے نمائندہ بن کر سامنے آئے۔ +1998ء میں ایک نوجوان خاتون کے ساتھ نامناسب تعلقات کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے تنازعے کے سبب صدرِ امریکہ ولیم کلنٹن، امریکی تاریخ میں دار النمائندگان کی طرف سے الزامات کا سامنے کرنے والے دوسرے صدر ثابت ہوئے۔ ان پر سینیٹ میں مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر لگائے جانے والے الزامات ثابت نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنے افعال کے لئے پوری قوم سے معافی مانگی جس سے ان کی مقبولیت کی شرح میں عدیم المثال اضافہ ہوا اور وہ صدرِ امریکہ کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ + + +میرزا اسد اللہ خان غالب دہلوی +غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لا ولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو ان کی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگی پر غالب کی ایک رثائی غزل ان کے دیوان میں موجود ہے۔ +ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف +کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور +اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کے لیے غالب نے 'مثنوی قادر نامہ' لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنے والوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالب +جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا +اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں +اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کس طرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔ +گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کے لیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیئے۔ +قادر اور اللہ اور یزداں، خدا +پیشوائے دیں کو کہتے ہیں" امام" +وہ رسول اللہؐ کا قائم مقام +ہے "صحابی" دوست، خالص" ناب" ہے +جمع اس کی یاد رکھ "اصحاب" ہے +بندگی کا ہاں" عبادت "نام ہے +نیک بختی کا" سعادت" نام ہے +کھولنا "افطار "ہے اور روزہ" صوم" +"لیل "یعنی رات، دن اور روز، یوم" +ہے "صلوٰۃ" اے مہرباں اسمِ نماز +جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نارز +جا نماز اور پھر "مصلّا "ہے وہی +اور "سجّادہ" بھی گویا ہے وہی +"اسم" وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام +"کعبہ، مکّہ" وہ جو ہے بیت الحرام" +گرد پھرنے کو کہیں گے ہم" طواف" +بیٹھ رہنا گوشے میں ہے اعتکاف" +پھر "فلک، چرخ "اور" گردوں" اور" سپر " +آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر +ہے محبت" مہر"، لازم ہے نباہ +"غرب "پچھّم اور پورب "شرق "ہے +ابر" بدلی اور بجلی" برق" ہے " +آگ کا "آتش" اور "آذر" نام ہے +اور انگارے کا" اخگر" نام ہے +تیغ "کی ہندی اگر تلوار ہے " +فارسی پگڑی کی بھی" دستار" ہے +نیولا "راسُو" ہے اور" طاؤس" مور +"کبک" کو ہندی میں کہتے ہیں چکور +"خُم" ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے "سبو" +"چاہ "کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں +"دُود" کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں +دودھ جو پینے کا ہے وہ" شیر" ہے +"طفل" لڑکا اور بوڑھا "پری "ہے +"سینہ" چھاتی، "دست" ہاتھ اور "پائے پاؤں +"ماہ" چاند، "اختر"ہیں تارے ، رات" شب" +دانت" دنداں"، ہونٹ کو کہتے ہیں" لب" +"استخواں" ہڈّی ہے اور ہے پوست" کھال +سگ" ہے کتّا اور گیدڑ ہے "شغال"" +تِل کو" کنجد" اور" رُخ "کو گال کہہ +گال پر جو تل ہو اس کو" خال" کہہ +کیکڑا "سرطان ہے "، کچھوا "سنگ پشت" +"ساق "پنڈلی، فارسی مٹھی کی" مشت" +ہے "شکم "پیٹ، اور بغل "آغوش "ہے +کہنی "آرنج "اور کندھا "دوش" ہے +ہندی میں "عقرب" کا بچھّو نام ہے +فارسی میں بھوں کا "ابرو" نام ہے +ہے وہی "کژدُم "جسے "عقرب "کہیں +"نیش" ہے وہ ڈنک جس کو سب کہیں +ہے لڑائی، حرب "اور" جنگ" ایک چیز +کعب"، ٹخنہ اور "شتالنگ" ایک چیز" +کان کی لو" نرمہ" ہے ، اے مہربان +"چشم "ہے آنکھ اور "مژگاں" ہے پَلک +آنکھ کی پتلی کو کہیے "مردمک" +منہ پر گر جھُری پڑے "آژنگ" جان +فارسی چھینکے کی تو "آونگ" جان +اور ہے دائی، جنائی، قابلہ" +اونٹ "اُشتر" اور" اُشغر "سیّہ ہے +گوشت ہے لحم "اور چربی "پیّہ "ہے +ہے "زنخ "ٹھوڑی، گلا ہے "خنجرہ" +سانپ ہے مار" اور جھینگر" زنجرہ" +ہے زنخ" ٹھوڑی، "ذقن" بھی ہے وہی +"خاد" ہے چیل اور "زغن" بھی ہے وہی +پھر "غلیواز" اس کو کہیے جو ہے چیل +چیونٹی ہے "مور" اور ہاتھی ہے "پیل" +لومڑی" روباہ" اور" آہو" ہرن +"شمس "سورج اور" شعاع" اس کی کرن +"اسپ "جب ہندی میں گھوڑا نام پائے +"تازیانہ "کیوں نہ کوڑا نام پائے +"خر" گدھا اور اس کو کہتے ہیں "اُلاغ" +"دیگداں" چولہا جسے کہیے اُجاغ" +ہندی چڑیا، فارسی "کنجشک" ہے +مینگنی جس کو کہیں وہ "پشک" ہے +"تابہ" ہے بھائی توے کی فارسی +اور تیہو "ہے لوے کی فارسی +نام مکڑی کا" کلاش" اور "عنکبوت" +کہتے ہیں مچھلی کو" ماہی" اور "حوت" +"پشّہ" مچھّر، اور مکھّی ہے "مگس" +بھیڑیا "گرگ" اور بکری "گوسپند" +"میش" کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند +نام "گُل" کا پھول، "شبنم" اوس ہے +جس کو نقّارہ کہیں وہ "کوس" ہے +خار کانٹا، داغ دھبّا، نغمہ راگ +"سقف" چھت ہے ، سنگ" پتھّر، اینٹ "خشت" +جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں "زشت" +"زر" ہے سونا اور "زرگر" ہے سنار +موز "کیلا اور ککڑی ہے خیار"" +احمق اور نادان کو کہتے ہیں" اُوت" +زندگانی ہے "حیات" اور" مرگ "موت +شوے خاوند اور ہے "انباغ" سَوت" +جملہ سب، اور نصف آدھا، ربع پاؤ +ہے "جراحت" اور "زخم" اور گھاؤ" ریش" +بھینس کو کہتے ہیں بھائی "گاؤمیش" +"ہفت" سات اور "ہشت" آٹھ اور" بست" بیس +"سی" اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس +ہے چہل" چالیس اور "پنجہ" پچاس +"ناامیدی" یاس، اور "اُمّید" آس +"دوش" کل کی رات اور "امروز" آج +"آرد" آٹا اور "غلّہ" ہے اناج +چاہیے ہے ماں کو "مادر "جاننا +اور بھائی کو "برادر "جاننا +پھاؤڑا "بیل" اور درانتی" واس" ہے +فارسی "کاہ" اور ہندی گھاس ہے +سبز ہو جب تک اسے کہیے گیاہ" +خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں" کاہ" +"چکسہ" پڑیا، "کیسہ" کا تھیلی ہے نام +فارسی میں دھپّے کا "سیلی "ہے نام +"اخلگندو "جھجھنا، "نیرو "ہے زور +"بادفر"، پھِرکی اور ہے "دُزد" چور +"انگبیں" شہد اور "عسل"، یہ اے عزیز +نام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز +"آجُل" اور "آروغ" کی ہندی ڈکار +"مے شراب اور پینے والا "میگسار" +روئی کو کہتے ہیں "پنبہ" سن رکھو +آم کو کہتے ہیں "انبہ" سن رکھو +"خانہ" گھر ہے اور کوٹھا" بام" ہے +قلعہ" دژ"، کھائی کا "خندق" نام ہے +گر "دریچہ" فارسی کھڑکی کی ہے +"سرزنش" بھی فارسی جھڑکی کی ہے +ہے بنولا، "پنبہ دانہ" لا کلام +اور تربُز، "ہندوانہ"، لا کلام +ہے کہانی کی" فسانہ" فارسی +اور شعلہ کی "زبانہ" فارسی +"نعل در آتش" اسی کا نام ہے +جو کہ بے چین اور بے آرام ہے +"پست" اور ستّو کو کہتے ہیں "سویق" +"ژرف" اور گہرے کو کہتے ہیں" عمیق" +"یوسہ"، مچھّی، چاہنا ہے "خواستن" +کم ہے اندک" اور گھٹنا "کاستن" +خوش رہو، ہنسنے کو" خندیدن" کہو +گر ڈرو، ڈرنے کو "ترسیدن" کہو +ہے "ہراسیدن" بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟ +اور "جنگیدن" ہے لڑنا، کیوں لڑو؟ +ہے گزرنے کی "گزشتن" فارسی +اور پھرنے کی ہے "گشتن "فارسی +وہ "سرودن "ہے جسے گانا کہیں +ہے وہ "آوردن" جسے لانا کہیں +"زیستن" کو جانِ من جینا کہو +اور "نوشیدن" کو تم پینا کہو +دوڑنے کی فارسی ہے تاختن" +کھیلنے کی فارسی ہے باختن" +"کاشتن "بونا ہے ، "رُفتن" جھاڑنا +"کاشتن" بونا ہے اور "کشتن "بھی ہے +کاتنے کی فارسی "رِشتن" بھی ہے +ہے ٹپکنے کی" چکیدن" فارسی +اور سننے کی "شنیدن" فارسی +اور "لیسیدن" کی ہندی چاٹنا +ڈھونڈنا "جستن" ہے ، پانا "یافتن" +جان لو، "بیدار بودن"، جاگنا +"داشتن" رکھنا ہے ، "سُختن" تولنا +تولنے کو اور جو "سنجیدن" کہو +پھر خفا ہونے کو "رنجیدن" کہو +فارسی سونے کی "خفتن" جانیے +منہ سے کچھ کہنے کو "گفتن" جانیے +کھینچنے کی ہے "کشیدن" فارسی +اور اُگنے کی" دمیدن" فارسی +ہے قلم کا فارسی میں" خامہ" نام +ہے غزل کا فارسی میں" چامہ" نام +کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو +ہاں غزل پڑھیے ، سبق گر یاد ہو +صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا +جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا +وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے +پھاند جانا یاد ہو دیوار کا +پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ +ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا +شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے بھیڑ +آج عالم اور ہے بازار کا +لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا؟ +پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا +گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں +کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا +واہ بے !لڑکے ، پڑھی اچھّی غزل +شوق، ابھی سے ہے تجھے ، اشعار کا +لو سنو کل کا سبق، آ جاؤ تم +"پوزی" افسار اور دمچی "پاردم" +چھید کو تم "رخنہ" اور" روزن" کہو +"چہ "کے معنی کیا، "چگویم" کیا کہوں +"من شَوَم خاموش"، میں چُپ ہو رہوں +"بازخواہم رفت"، میں پھر جاؤں گا +"نان خواہم خورد"، روٹی کھاؤں گا +فارسی کیوں کی" چرا "ہے یاد رکھ +اور گھنٹالا "درا "ہے یاد رکھ +"دشت، صحرا "اور جنگل ایک ہے +پھر "سہ شنبہ" اور منگل ایک ہے +جس کو "ناداں "کہیے وہ انجان ہے +فارسی بینگن کی" بادنجان "ہے +جس کو کہتے ہیں جمائی" فازہ "ہے +جو ہے انگڑائی، وہی "خمیازہ "ہے +"بارہ "کہتے ہیں کڑے کو، ہم سے پوچھ +پاڑ ہے "تالار"، اک عالم سے پوچھ +بھِڑ کی بھائی، فارسی "زنبور" ہے +دسپنا" اُنبر" ہے اور "انبور "ہے +اور ہے کنگھے کی" شانہ" فارسی +ہینگ" انگوزہ" ہے اور "ارزیر" رانگ +"ساز" باجا اور ہے آواز" بانگ" +"زوجہ" جورو، یزنہ "بہنوئی کو جان +"خشم" غصے اور بدخوئی کو جان +لوہے کو کہتے ہیں "آہن" اور "حدید" +جو نئی ہے چیز اسے کہیے "جدید" +ہے "نوا "آواز، ساماں اور اُول +"نرخ"، قیمت اور" بہا"، یہ سب ہیں مول +روئی کی پونی کا ہے پاغُند" نام +"دُ��ک" تکلے کو کہیں گے ، لا کلام +"گیتی" اور "گیہاں" ہے دنیا یاد رکھ +اور ہے "ندّاف"، دھُنیا یاد رکھ +"کوہ "کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ +فارسی "گلخن" ہے اور ہندی ہے بھاڑ +تکیہ" بالش" اور بچھونا بسترا +اصل "بستر" ہے سمجھ لو تم ذرا +بسترا بولیں سپاہی اور فقیر +ورنہ "بستر "کہتے ہیں برنا و پیر +"پیر "بوڑھا اور" برنا "ہے جواں +جان کو البتہ کہتے ہیں" رواں" +اینٹ کے گارے کا نام "آژند" ہے +ہے نصیحت بھی وہی جو "پند" ہے +"ارض" ہے ، پر، "مرز" بھی کہتے ہیں ہاں +کیا ہے ارض" اور" مرز" تم سمجھے ؟ زمیں +"عنق" گردن اور پیشانی "جبیں" +"آس" چکّی، "آسیا "مشہور ہے +اور "فَوفل "چھالیا مشہور ہے +بانسلی "نے "اور" جلاجل" جانجھ ہے +پھر "ستَروَن" اور "عقیمہ" بانجھ ہے +"کُحل" سرمہ اور سلائی" مِیل" ہے +جس کو جھولی کہیے ، وہ زنبیل" ہے +پایا قادر نامے نے آج اختتام +اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام! +شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں +مانتا لیکن ہمارا دل، نہیں +علم ہی سے قدر ہے انسان کی +ہے وہی انسان جو جاہل نہیں +کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟ +آج ہنستے آپ جو کھِل کھِل نہیں +ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں +جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا +اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں + + +السلام و علیکم نعیم صاحب : +کیا آپ اس وکی کتب کے منتظم ہیں ؟ +مجھے بھی منصوبے کا حصہ بننا ہے ۔ +جس کے لیے میں پہلے مرحلے میں انگریزي وکی پیڈیا کے تمام سانچے اس اردو وکی پر ڈھالنا چاہتا ہوں ۔ +مگر اس کے لیے میرے صارف کے کھاتے کو امپورٹ کے اختیارات درکار ہیں ۔ +کیا آپ یہ مجھے عنایت کر سکتے ہيں ؟ + + +# غزل 1 ـ مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے +# غزل 2 ـ اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا +# غزل 3 ـ اس دنیا میں اپنا کیا ہے +# غزل 4 ـ اپنی دھن میں رہتا ہوں +# غزل 5 ـ برف گرتی رہے آگ جلتی رہے +# غزل 6 ـ جرمِ انکار کی سزا ہی دے +# غزل 7 ـ جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنادوں گا +# غزل 8 ـ حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو +# غزل 9 ـ درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے +# غزل 10 ـ ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر +# غزل 11 ـ تو ہے یا تیرا سایا ہے +# غزل 12 ـ جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے +# غزل 13 ـ آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو +# غزل 14 ـ اس سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے +# غزل 15 ـ ایسا بھی کوئی سپنا جاگے +# غزل 16 ـ بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں +# غزل 17 ـ بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جانکلے +# غزل 18 ـ تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش +# غزل 19 ـ تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں +# غزل 20 ـ تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہیں +# غزل 21 ـ درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے +# غزل 22 ـ جنت ماہی گیروں کی +# غزل 23 ـ جب تک لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے +# غزل 24 ـ دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ +# غزل 25 ـ دل میں اور تو کیا رکھا ہے +# غزل 26 ـ دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی +# غزل 27 ـ دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے +# غزل 28 ـ دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا +# غزل 29 ـ دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر +# غزل 30 ـ دھوپ نکلی دن سہانےہو گئے +# غزل 31 ـ دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا +# غزل 32 ـ دیس سبز جھلیوں کا +# غزل 33 ـ رات ڈھل رہی ہے +# غزل 34 ـ رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں +# غزل 35 ـ رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر +# غزل 36 ـ زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا +# غزل 37 ـ زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی +# غزل 38 ـ سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے +# غزل 39 ـ سناتا ہے کوئی بھولی کہانی +# غزل 40 ـ سو گئی شہر کی ہر ایک گلی +# غزل 41 ـ شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی +# غزل 42 ـ شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا +# غزل 43 ـ شہر سنسان ہے کدھر جائیں +# غزل 44 ـ صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا +# غزل 45 ـ غم ہے یا خوشی ہے تو +# غزل 46 ـ ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے +# غزل 47 ـ میں ہوں رات کا ایک بجا ہے +# غزل 48 ـ قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے +# غزل 49 ـ موسمِ گلزارِ ہستی ان دنوں کیا ہے نہ پوچھ +# غزل 50 ـ نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے +# غزل 51 ـ ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے +# غزل 52 ـ نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں +# غزل 53 ـ وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے +# غزل 54 ـ پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے +# غزل 55 ـ پھر لہو بول رہا ہے دل میں +# غزل 56 ـ پھر نئی فصل کے عنواں چمکے +# غزل 57 ـ پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے +# غزل 58 ـ چند گھرانوں نے مل جل کر +# غزل 59 ـ چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں +# غزل 60 ـ چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو +# غزل 61 ـ کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں +# غزل 62 ـ کل جنہیں زندگی تھی راس بہت +# غزل 63 ـ کُنج کُنج نغمہ زن بسنت آگئی +# غزل 64 ـ کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں +# غزل 65 ـ کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے +# غزل 66 ـ کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی +# غزل 67 ـ گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ +# غزل 68 ـ گا رہا تھا کوئی درختوں میں +# غزل 69 ـ گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں +# غزل 70 ـ گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل +# غزل 71 ـ ہنستے گاتے روتے پھول +# غزل 72 ـ یہ خوابِ سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی +# غزل 73 ـ یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی +# غزل 74 ـ کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در +# غزل 75 ـ کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے + + +اس زمرے میں درج ذیل تحاریر شامل ہیں : + + +اس زمرے میں درج ذیل تحاریر شامل ہیں : + + +دیگر وکی پیڈيا پر فعال ہونے کی وجہ سے یہاں وکی کتب سے بھی واقفیت ہوئی +اس کا صفحہ اول دیکھ کر افسوس ہوا کہ بہت بے ترتیبی تھی ۔ سو اس کا حلیہ ٹھیک کرنے کی شروعات کی ۔ +انگریزي وکی کتب سے سانچے اٹھا اٹھا کر کاپی کرتا رہا ۔ مگر کوڈنگ سے کھیلنا بہت دماغی کام ہے ۔ +اس لیے یہ کام ادھورا چھوڑ دیا ۔ +اب ایک نئے آپشن کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ کسی اور وکی سے تمام سہولیات و خصوصیات ایکسپورٹ کر کے اپنے مطلوبہ وکی پر امپورٹ کیا جا سکتا ہے +اب میں ایکسپورٹ تو کر سکتا ہوں ۔ مگر امپورٹ کے اختیارات میرے پاس نہيں سو ۔ یہ کام ابھی اختیارات ملنے تک روک رکھا ہے تب تک کتابوں پر کام کر رہا ہوں ۔ +جیسے کہ دیوان ناصر کاظمی]] + + +سن سن کے مجھ سے وصف ترے اختیار کا +دل کانپتا ہے گردش ِ لیل و نہار کا +لاریب لا شریک شہنشاہِ کل ہے تو ! +سر خم ہے تیرے در پہ ہر اک تاجدار کا +محمود تیری ذات محمدؐ ترا رسول ! +رکھا ہے نام چھانٹ کے مختارِ کار کا +ہوتا ہے حکم تِرا صید کے لیئے +صیاد چھوڑ دیتا ہے پیچھا شکار کا +بنوا کے باغ خْلد تیرے حکم کے بغیر +شدّاد منہ نہ دیکھنے پایا بہار کا +جاتی ہے تیرے کہنے سے گلزار سے خزاں +آتا ہے تیرے حکم سے موسم بہار کا +رزاق تجھ کو مذہب و ملت سے کیا غرض ! +خالق تو ہی ہے کافر و ایماندار کا +کہنا پڑے گا لاکھ عبادت گزار ہو +بندہ گنہ گار ہے پروردگار کا +منزل تو شے ہے دوسری لاکھوں گزر گئے +اب تک پتہ چلا نہ تری رہگزار کا +پایا جو پھل تو شاخِ ثمر دار جھک گئی +کہتی ہوئی کہ شکر ہے پروردگار کا +تجھ سے پہلے کوئی شے حق نے نہ اَصلا دیکھی +خُوب جب دیکھ لیا تجھ کو تو دنیا د��کھی +تو نے قبل از دو جہاں شان تجلّیٰ دیکھی +عرش سجتا ہوا بنتی ہوئی دنیا دیکھی +تیرے سجدے سے جھکی سارے رسولوں کی جبیں +سب نے اللہ کو مانا تری دیکھا دیکھی +میزباں خالق کو نین بنا خود تیرا +تیری توقیر سرِ عرشِ معلےٰ دیکھی +آپ چپ ہو گئے ارمانِ زیارت سن کر +میری حالت پہ نظر کی نہ تمنا دیکھی +حق کے دیدار کی بابت جو کہا فرمایا ! +اِک جھلک دیکھنے پر حالتِ موسیٰ ؑ دیکھی +اے قمر شق ہوا مہتاب پیمبر کے لیے +ہم نے دو ہوتے چاند کی دنیا دیکھی +غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی +قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی +تمھیں رستے میں رہبر چھوڑ دیں گے قافلے والو +اگر ہمت تمھاری دوریِ منزل سے ٹوٹے گی +جو یہ کار نمایاں تو میری سخت جانی کا +بھلا تلوار زورِ بازوئے قاتل سے ٹوٹے گی +نگاہِ قیس ٹکراتی رہے سارباں کب تک +یہ بندش بھی کسی دن پردۂ محمل سے ٹوٹے گی +غرورِ نا خدائی سامنے آ جائے گا اک دن +یہ کشتی یک بہ یک ٹکرا کے جب ساحل سے ٹوٹے گی +قمر اختر شماری کے لئے تیار ہو جاؤ +کہ اب رسمِ محبت اس مہِ کامل سے ٹوٹے گی +بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو کیا خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی +مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی +شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی +کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی +گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں ہے +خدا تم کو رکھے جوانی کے دن ہیں تمھارا زمانہ تمھاری خدائی +ہر اک نے دیے میرے اشکوں پہ طعنے تیرے ظلم لیکن کسی نے نہ پوچھے +میری بات پر بول اٹھا زمانہ تری بات دنیا زباں پر نہ لائی +سرِ شام آنے کا وعدہ کیا تھا مگر رات اب تو ڈھلی جا رہی ہے +نہ جانے کہاں راہ میں رک گئے وہ نہ جانے کہاں اتنی دیر لگائی +یہی ہوتی ہے شرکتِ بزمِ تماشہ سمجھ کر کھڑے ہو گئے تم +نہ حالات مرنے کے پوچھے کسی سے نہ آنسو بہائے نہ میت اٹھائی +آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی +وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی +پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی +تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی +کیا ان آہوں سے شبِ غم مختصر ہو جائے گی +یہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی ؟ +آ تو جائیں گے وہ میری آہِ پر تاثیر سے +محفلِ دشمن میں رسوائی مگر ہو جائے گی +کس سے پوچھیں کے وہ میرے رات کے مرنے کا حال +تو بھی اب خاموش اے شمعِ سحر ہو جائے گی +یہ بہت اچھا ہوا آئیں گے وہ پہلے پہر +چاندنی بھی ختم جب تک اے قمر ہو جائے گی +نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے +یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے +محبت ہو تو جوئے شِیر کو اِک ضرب کافی ہے +کوئی پوچھے کہ تو نے کتنے تیشے کوہکن بدلے +سہولت اس سے بڑھ کر کارواں کو اور کیا ہو گی +نئی راہیں نکل آئیں پرانے راہزن بدلے +ہوا آخر نہ ہمر کوئی ان کے روئے روشن کا +تراشے گل بھی شمعوں کے چراغِ انجمن بدلے +لباس نَو عدم والوں کو یوں احباب دیتے ہیں +کہ اب ان کے قیامت تک نہ جائیں گے کفن بدلے +قمر مابینِ عرش و فرش لاکھو انقلاب آئے +مگر اپنا خدا بدلا نہ اپنے پنجتنؑ بدلے +نہ طے کرتا تو رہتا قصۂ تیغوں گلوں برسوں +خدا رکھے تجھے قاتل رہے دنیا میں تو برسوں +خدا کی شان واعظ بھی ہجوِئے مئے کرے مجھ سے +کہ جس نے ایک اک ساغر پہ توڑا ہے وضو برسوں +بہارِ گل میں نکلے خوب ارماں دشتِ وحشت کے +رفو گر نے کیا دامن کی کلیوں پر رفو برسوں +قفس کی راحتوں نے یاد گلشن کی بھلا ڈالی +نہ کی صیاد کے گھر آشیاں کی آرزو برسوں +قفس میں خوا�� جب دیکھ کوئی دیکھا بہاروں کا +دماغِ اہلِ گلشن میں رہی گلشن کی بو برسوں +قمر یہ کیا خبر تھی وہ ہمارے دل میں رہتے ہیں +رہی جن کے لیئے دیر و حرم میں جستجو برسوں +دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لیئے ہوئے +دل کو ہے درد ،درد کو ہے دل لیئے ہوئے +دیکھا خدا پہ چھوڑ کہ کشتی کو نا خدا +جیسے خود آگیا کوئی ساحل لیئے ہوئے +دیکھ ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے +تم رات دن ستاؤ مگر دل لیئے ہوئے +وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں ! +اور تم اٹھے تھے رونق محفل لیئے ہوئے +اپنی ضروریات ہیں اپنی ضروریات +آنا پڑا مطلب تمہیں دل لیئے ہوئے +بیٹھا جو دل تو چاند دکھا کر کہا قمر ! +وہ سامنے چراغ ہے منزل لیئے ہوئے +عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے +ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے +چھاننے دو دیوانہ ان کا خاک جو در در چھانے ہے +کوئی کسی کو کیا سمجھائے کون کسی کی مانے ہے +میں اور مے خانے میں بیٹھا شیخ ارے ٹک توبہ کر +مردِ خدا میں جانوں نہ تانوں مجھ کو تو کیوں سانے ہے +مے خانے میں دنیا دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں +جام اسی کو ے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے +جام نہ دینے کی باتیں ہیں ورنہ مجھ کو ویسے تو +ساقی جانے میکش جانے مے خانہ بھر جانے ہے +کون قمر سے ہے بیگانہ اہل زمیں یا اہل فلک +ذرہ ذرہ اس سے واقف تارا تارا جانے ہے +آہ کیا دل کے دھڑکنے کی جو آواز نہ ہو +نغمہ ہو جاتا ہے بے کیف اگر ساز نہ ہو +میں نے منزل کے لیے راہ بدل دی ورنہ +روک لے دیر جو کعبہ خلل انداز نہ ہو +مرتے مرتے بھی کہا کچھ نہ مریض غم نے +پاس یہ تھا کہ مسیحا کا عیاں راز نہ ہو +ساقیا جام ہے ٹوٹے گا صدا آئے گی +یہ مرا دل تو نہیں ہے کہ جو آواز نہ ہو +اے دعائے دلِ مجبور وہاں جا تو سہی +لوٹ آنا درِ مقبول اگر باز نہ ہو +کیا ہو انجامِ شب ہجر خدا ہی جانے +اے قمر شام سے تاروں کا جو آغاز نہ ہو +ایک جا رہنا نہیں لکھا میری تقدیر میں +آج گر صحرا میں ہوں کل خانۂ زنجیر میں +اقربا نا خوش وہ بزمِ دشمنِ بے پیر میں +موت ہی لکھی ہی کیا بیمار کی تقدیر میں +بات کر میری لحد پر غیر ہی سے بات کر +یہ سنا ہے پھول جھڑتے ہیں تری تقریر میں +سیکھ اب میری نظر سے حسن کی زیبائشیں +سینکڑوں رنگینیاں بھر دیں تری تصویر میں +پاسِ آدابِ اسیری تیرے دیوانے کو ہے +ورنہ یہ زنجیر کچھ زنجیر ہے زنجیر میں +ڈھونڈتا پھرتا ہوں ان کو وہ قمر ملتے نہیں +شام کی رنگینیوں میں، صبح کی تنویر میں +بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں +وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں +اس نے کس جملے کو سن کر کہہ دیا تجھ سے کہ خیر +نامہ بر میں یہ جوابِ مختصر سمجھا نہیں +اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے +میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں +تہمتیں ہیں مجھ پہ گمرآ ہی کی گستاخی معاف +خضر سا رہبر تمہاری رہگزر سمجھا نہیں +ہے مرض وہ کون سا جس کا نہیں ہوتا علاج +بس یہ کہئیے دردِ دل کو چارہ گر سمجھا نہیں +داغِ دل اس سے نہ پوچھا حالِ شامِ غم کے ساتھ +تم کو صورت سے وہ شاید اے قمر سمجھا نہیں +سوزِ غمِ فراق سے دل کو بچائے کون +ظالم تری لگائی ہوئی کو بجھائے کون +مٹی مریضِ غم کی ٹھکانے لگائے کون +دنیا تو ان کے ساتھ ہے میت اٹھائے کون +تیور چڑھا کے پوچھ رہے ہیں وہ حالِ دل +رودادِ غم تو یاد ہے لیکن سنائے کون +ہم آج کہہ رہے ہیں یہاں داستانِ قیس +کل دیکھئے ہمارا فسانہ سنائے کون +اے ناخدا، خدا پہ مجھے چھوڑ کر تو دیکھ +ساحل پہ کون جا کے لگے ڈوب جائے کون +رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمر +اس چاندنی میں ان کو بلا��ے کو جائے کون +ہے سخاوت میں مجھے اتنا اندازۂ گل +بند ہوتا نہیں کھل کر کبھی دروازۂ گل +برق پر پھول پنسے برق نشیمن پہ گری +میرے تنکوں کو بھگتنا پڑا خمیازۂ گل +خیر گلشن میں اڑا تھا مری وحشت کا مذاق +اب وہ آوازۂ بلبل ہو کہ آوازۂ گل +کوششیں کرتی ہوئی پھرتی گلشن میں نسیم +جمع ہوتا نہیں بھکرا ہو شیرازۂ گل +اے صبا کس کی یہ سازش تھی کہ نکہت نکلی +تو نے کھولا تھا کہ خود کھل گیا دروازۂ گل +زینتِ گل ہے قمر ان کی صبا رفتاری +پاؤ سے گر اڑی بھی تو بنی غازۂ گل +گر پڑی ہے جب سے بجلی دشتِ ایمن کے قریب +مدتیں گزریں نہیں آتے وہ چلمن کے قریب +میرا گھر جلنا لکھا تھا ورنہ تھی پھولوں پہ اداس +ہر طرف پانی ہی پانی تھا نشیمن کے قریب +اب سے ذرا فاصلے پر ہے حدِ دستِ جنوں +آ گیا چاکِ گریباں بڑھ کے دامن کے قریب +وہ تو یوں کہیئے سرِ محشر خیال آ ہی گیا +ہاتھ جا پہنچا تھا ورنہ ان کے دامن کے قریب +میں قفس سے چھٹ کے جب آیا تو اتنا فرق تھا +برق تھی گلشن کے اندر میں تھا گلشن کے قریب +کیا کہی گی اے قمر تاروں کی دنیا دیکھ کر +چاندنی شب میں وہ کیوں روتے ہیں مدفن کے قریب +حرم کی راہ کو نقصان بت خانے سے کیا ہوگا +خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہوگا +کسے سمجھا رہے ہیں آپ سمجھانے سے کیا ہوگا +بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہوگا +ارے کافر سمجھ لے انقلاب آنے سے کیا ہوگا +بنا کعبہ سے بت خانہ تو بت خانے کو کیا ہوگا +نمازی سوئے مسجد جا رہے ہیں شیخ ابھی تھم جا +نکلتے کوئی دیکھے گا جو مے خانے سے کیا ہوگا +خدا آباد رکھے میکدہ یہ تو سمجھ ساقی +ہزاروں بادہ کش ہیں ایک پیمانے سے کیا ہوگا +تم اپنی ٹھوکریں کا ہے کو روکو دل کو کیوں مارو +ہمیں جب مٹ گئے تو قبر مٹ جانے سے کیا ہو گا +قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے +اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے +مجھے صورت دیکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے +دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے +چلو بیٹھو شبِ فرقت کو دعا دو ضبط کو ورنہ +مرے نالوں کو سنتے اور تم دشمن کے گر ہوتے +علاجِ دردِ شامِ غم مسیحا ہو چکا جاؤ +مریضِ ہجر کی میت اٹھا دینا سحر ہوتے +مداوا جب دلِ صد چاک کا ہوتا شبِ فرقت +رفو کے واسطے تارے گریبانِ سحر ہوتے +قمر اللہ جانے کون تھا کیا تھا شبِ وعدہ +مثالِ درد جو پہلو سے اٹھا تھا سحر ہوتے +ارماں ہو مجھے نزع میں کیا چارہ گری کا +گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا +اِک وہ بھی ہے بیمار تری کم نظر کا +مر جائے مگر نام نہ لے چارہ گری کا +برہم ہوئے کیوں سن کے مرا حالِ محبت +شِکوہ نہ تھا آپ کی بیداد گری کا +بیگانۂ احساس یہاں تک ہوں جنوں میں +اب گھر کی خبر ہے نہ پتہ دربدری کا +اور اس کے سوا پھول کی تعریف ہی کیا ہے +احسان فراموش نسیمِ سحری کا +دنیا پہ قمر داغِ جگر ہے مرا روشن +لیکن نہ لیا نام کبھی چارہ گری کا +گو دورِ جام بزم میں تا ختمِ شب رہا +لیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا +پروانہ میری طرح مصیبت میں کب رہا +بس رات بھر جلا تری محفل میں جب رہا +ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا +جس نے اٹھائی آنکھ وہی تشنہ لب رہا +سرکار پوچھتے ہیں کہ خفا ہو کے حالِ دل +بندہ نواز میں تو بتانے سے ادب رہا +بحر جہاں میں ساحل خاموش بن کے دیکھ +موجیں پڑیں گی پاؤں جو تو تشنہ لب رہا +وہ چودھویں کا چاند نہ آیا نظر قمر +میں اشتیاقِ دید میں تا ختمِ شب رہا +خدا معلوم کیا سے کیا کیا ہو گا بیاں تو نے +لفافے میں نہ رکھ لی نامہ بر میری زباں تو نے +مٹا کر رکھ دیے ہیں یوں ہزاروں بے زباں تو نے +نہ رکھا اپنے عہدِ ظلم کا کوئی نشاں تو نے +تجھ فوراََ ہی میرا قصہ روک دینا تھا +ترا دکھتا تھا دل تو کیوں سنی تھی داستاں تو نے +ہرے پھر کر دیے زخمِ جگر صیاد بلبل کے +قفس کے سامنے کہہ کر گلوں کی داستاں تو نے +اسی وعدے پہ کھائی تھی قسم روئے کتابی کی +اسی صورت میں قرآں کو رکھا تھا درمیاں تو نے +عدو کہتے ہیں اب سہرا فصاحت کا ترے سر ہے +قمر بالکل بنا دی ہے تو نے دلھن اردو زباں تو نے +نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے +کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے +اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو +ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تم نے +مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا +مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تم نے +یہ کہو پیش خدا حشر میں منثا کیا تھا +میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تم نے +ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے +وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں کہ دغا دی تم نے +کھلبلی مچ گئی تاروں میں قمر نے دیکھا +شب کو یہ چاند سی صورت جو دکھا دی تم نے +اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے +آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے +دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر تیلی پر ہیں +ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے +دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد +پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے +اے چمن والو! جنوں کی عظمت دیکھ لی +اِن گلوں کو واقفِ چاکِ گریباں کر چلے +اپنے دیوانوں کو تم روکو بہاریں آ گئیں +اب کنارہ بابِ زنداں سے نگہباں کر چلے +اے قمر حالِ شبِ فرقت نہ ہم سے چھپ سکا +داغِ دِل سارے زمانے میں نمایاں کر چلے +انھیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں +وہ شاخِ گل کی صورت ناز سے بل کھائے جاتے ہیں +اگر ہم سے خوشی کے دن بھی وہ گھبرائے جاتے ہیں +تو کیا اب عید ملنے کو فرشتے آئے جاتے ہیں +رقیبوں سے نہ ملیے عید اتنی گرم جوشی سے +تمھارے پھول سے رخ پر پسینے آئے جاتے ہیں +وہ ہنس کہہ رہے ہیں مجھ سے سن کر غیر کے شکوے +یہ کب کب کے فسانے عید میں دوہرائے جاتے ہیں +نہ چھیڑ اتنا انھیں اے وعدۂ شب کی پشیمانی +کہ اب تو عید ملنے پر بھی وہ شرمائے جاتے ہیں +قمر افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقے سے +ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں +جوں ہو کر زباں تیری بتِ بے پیر بگڑی ہے +دعا کتنی حسیں تھی جس کی یہ تاثیر بگڑی ہے +وہ میرا نام لکھتے وقت روئے ہوں گے اے قاصد +یہاں آنسو گرے ہوں گے جہاں تحریر بگڑی ہے +مصور اپنی صورت مجھ سے پہچانی نہیں جاتی +میں ایسا ہو گیا ہوں یا مری تصویر بگڑی ہے +چلا میں توڑ کر جب بابِ زنداں غل مچا ڈالے +متی باتوں پہ کیا کیا پاؤں کی زنجیریں بگڑی ہیں +لٹا ہے کارواں جب آ چکی ہے سامنے منزل +کہاں ٹوٹیں امیدیں اور کہاں تقدیر بگڑی ہے +کیا ہے ہر کڑی کو میں نے ٹیڑھا جوشِ وحشت میں +مرے ہاتھوں ہی میرے پاؤں کی زنجیریں بگڑی ہیں +قمر اچھا نہیں گیسو رخِ روشن پہ آ جانا +گہن جب بھی لگا ہے چاند کی تنویر بگڑی ہے +سن کے نامِ عشق برہم وہ بتِ خود کام ہے +میں نہ سمجھا تھا محبت اس قدر بدنام ہے +نامہ بر ان سے کہنا نزع کا ہنگام ہے +ابتدائے خط نہیں یہ آخری پیغام ہے +چارہ گر میرے سکوں پر یہ نہ کہہ آرام ہے +اضطرابِ دل نہ ہونا موت کا پیغام ہے +ان کے جاتے ہی مری آنکھوں میں دنیا ہے سیاہ +اب نہیں معلوم ہوتا صبح ہے یا شام ہے +قافلے سے چھوٹنے والے ابھی منزل کہاں +دور تک سنسان جنگل ہے پھر آگے شام ہے +آپ کیوں پردے سے نکلے آپ پردے میں رہیں +آپ کو مشہور کر دینا ہمارا کام ہے +دیدۂ بیمار میں ہے اشکِ آخر کی جھلک +اے قمر تارا نکل آنا دلیلِ شام ہے +نہ جانے ساغر و مینا پہ پیمانے پہ کی�� گزری +جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری +بڑی رنگینیاں تھیں اولِ شب ان کی محفل میں +بتاؤ بزم والو رات ڈھل جانے پر کیا گزری +چھپائیں گے کہاں تک رازِ محفل شمع کے آنسو +کہے گی خاکِ پروانہ کہ پروانے پہ کیا گزری +مرا دل جانتا ہے دونوں منظر میں نے دیکھے ہیں +ترے آنے پہ کیا گزری ترے جانے پہ کیا گزر ی +بگولے مجھ سے کوسوں دور بھاگے دشتِ وحشت میں +بس اتنا میں نے پوچھا تھا کہ دیوانے پہ کیا گزری +گری فصلِ چمن پر برق دیوانے یہ کیا جانیں +مصیبت باغ پر گزری تھی ویرانے پر کیا گزری +قمر جھیلے دِلِ صد چاک نے الفت میں دکھ کیا کیا +کوئی زلفوں سے اتنا پوچھ لے شانے پہ کیا گزری +وہ فتنہ ساز دے کے گیا ہے یہ دم ابھی +آتا ہوں ہے کے گھر سے تیری قسم ابھی +ظالم وہ دیکھ پاس سے اٹھتے ہیں چارہ گر +تیرے مریضِ ہجر نے توڑا ہے دم ابھی +ان کے لیئے تو کھیل ہے دنیا کا انقلاب +چاہیں تو بتکدے کو بنا دیں حرم ابھی +کیا آپ سا کوئی نہیں ہے جہاں میں +اچھا حضور آئینہ لاتے ہیں ہم ابھی +کوچے سے ان کے اٹھتے ہی یوں بدحواس ہوں +آیا ہوں جیسے چھوڑ کے باغِ ارم ابھی +ذوق الم میں حق سے دعا مانگتا ہوں میں +جتنے بھی مجھ کو دینے ہیں دے دے الم ابھی +شکوے فضول گردشِ دوراں کے اے قمر +یہ آسماں نہ چھوڑے گا جورو ستم کبھی +مے کدے میں جو کوئی جام بدل جاتا ہے +عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے +شامِ فرقت وہ قیامت ہے کہ اللہ بچائے +صبح کو آدمی کا نام بدل جاتا ہے +ہم اسے پہلی محبت کی نظر کہتے ہیں +جس کے آغاز کا انجام بدل جاتا ہے +نامہ بر ان کی زباں کے تو یہ الفاظ نہیں +راستے میں کہیں پیغام بدل جاتا ہے +خواب میں رخ پہ آ جاتے ہیں ان کے گیسو +انتظامِ سحر و شام بدل جاتا ہے +تم جواں ہے کے وہی غنچہ دہن ہو یہ کیا +جب کلی کھلتی ہے تو نام بدل جاتا ہے +اے قمر ہجر کی شب کاٹ تو لیتا ہوں مگر +رنگ چہرے کا سرِ شام بدل جاتا ہے +پاس اس کا بھی تو کر اے بتِ مغرور کبھی +تجھ سے سائے کی طرح جو نہ ہوا دور کبھی +شکوۂ حسن نہ کرنا دلِ رنجور کبھی +عشق والوں نے یہ بدلا نہیں دستور کبھی +خود ہی آ جائے تو آ جائے ترا نور کبھی +ورنہ اب موسیٰ نہ جائیں گے سرِ طور کبھی +حق کی کہنا انا الحق کی صدا سے پہلے +ایسی معراج ملی تھی تجھے منصور کبھی +دیکھو آئینے نے آخر کو سکھا دی وہی بات +ہم نہ کہتے تھے کہ ہو جائے گا مغرور کبھی +جانے کب کب کے لیئے دھوپ نے بدلے مجھ سے +تیری دیوار کا سایہ جو ہوا دور کبھی +چاندنی ایسے کھلی ہو گئے ذرے روشن +داغ سینے سے قمر کے نہ ہوا دور کبھی +وہ ستا کر مجھے کہتے ہیں کہ غم ہوتا ہے +یہ ستم اور بھی بالائے ستم ہوتا ہے +جل کر مرنا بھی بڑا کارِ اہم ہوتا ہے +یہ تو اک چھوٹے سے پروانے کا دم ہوتا ہے +قصۂ برہمن و شیخ کو بس رہنے دو +آج تک فیصلۂ دیر و حرم ہوتا ہے +گر حسیں دل میں نہ ہوں عظمت دل بڑھ جائے +بت کدہ تو انھیں باتوں سے حرم ہوتا ہے +پھونک اے آتشِ گل ورنہ تری بات گئی +آشیاں برق کا ممنونِ کرم ہوتا ہے +چارہ گر میں تری خاطر سے کہے دیتا ہوں +درد ہوتا ہے مگر پہلے سے کم ہوتا ہے +ہجر کی رات بھی ہوتی ہے عجب رات قمر +تارے ہنستے ہیں فلک پر مجھے غم ہوتا ہے +یہ جفائیں تو وہی ہیں وہی بیداد بھی ہے +آپ کیا کہہ کہ ہمیں لائے تھے کچھ یاد بھی ہے +کیوں قفس والوں پہ الزامِ فغاں ہے ناحق +ان میں صیاد کوئی قابلِ فریاد بھی ہے +آشیاں کی خبر تجھ کو نہیں ہے نہ سہی +یہ تو صیاد بتا دے چمن آباد بھی ہے +اپنے رہنے کو مکاں لے لیئے تم نے لیکن +یہ نہ سوچا کہ کوئی خانماں برباد بھی ہے +کارواں لے کے تو چلتا ہے مگر ی�� تو بتا +راہِ منزل تجھے اے راہ نما یاد بھی ہے +تو حقارت سے جنہیں دیکھ رہا ساقی +کچھ انھیں لوگوں سے یہ میکدہ آباد بھی ہے +اِک تو حق دارِ نوازش ہے قمر خانہ خراب +دوسرے مملکتِ پاکِ خدا داد بھی ہے +آخر ہے وقت دیکھ لو بھر کر نظر مجھے +بیٹھو نہ ذبح کرنے کو منہ پھیر کر مجھے +کوسوں دکھائی دیتی نہیں رہگزر مجھے +لے جا رہی ہے آج یہ وحشت کدھر مجھے +ایسا بھی ایک وقت پڑا تھا شبِ الم +حسرت سے دیکھنے لگے دیوار و در مجھے +اے ہم قفس نہ مانگ دعائیں بہار کی +آتے نہیں ہیں راس مرے بال و پر مجھے +عذرِ گناہ حشر میں اور میرے سامنے +انکارِ قتل کیجئے پہچان کر مجھے +تعریف حسن کی جو کبھی ان کے سامنے +بولے کہ لگ نہ جائے تمھاری نظر مجھے +لی دی سی اِک نگاہ ستاروں پہ ڈال کہ +شرما گئے کہ دیکھ رہا ہے قمر مجھے +مریضِ محبت انہیں کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے +مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے +انھیں خط میں لکھا تھا کے دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا محبت کرتے +تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے +مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے +کہیں پائے نازک میں موچ آنہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے +بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو +قیامت کا دن آگیا رفتہ رفتہ ملاقات کا دن بدلتے بدلتے +ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسم میں پھر آ گئے ہم +ابھی کھا کہ ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے +بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے +اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے ادھر تھک جائیں گے پاؤں چلتے چلتے +وہ مہمان میری ہوئے بھی تو کب تک ہوئی شمع گل اور نہ ڈوبے ستارے +قمر اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے +حسن سے رسوا نہ ہو گا اپنے دیوانے کا نام +شمع رو دے گی مگر نہ لے گی پروانے کا نام +ہو گئی توبہ کو اک مدت کسے اب یاد ہے +اصطلاحاً ہم نے کیا رکھا تھا پیمانے کا نام +میتِ پروانہ بے گور و کفن دیکھا کئے +اہلِ محفل نے لیا لیکن نہ دفنانے کا نام +یہ بھی ہے کوئی عیادت دو گھڑی بیٹھے نہ وہ +حال پوچھا چل دیے گھر کر گئے آنے کا نام +لاکھ دیوانے کھلائیں گل چمن کہہ دے گا کون +عارضی پھولوں سے بدلے گا نہ ویرانے کا نام +ان کو کوسے دے رہے، ہو خود، ہیں جو جینے سے تنگ +زندگی رکھا ہے جن لوگوں نے مر جانے کا نام +اِس ہوا میں قوتِ پرواز سے آگے نہ بڑھ +ہے قفس آزادیوں کی حد گزر جانے کا نام +آج کے دن صاف ہو جاتا ہے دل اغیار کا +آؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کا +رخ پہ گیسو ڈال کر کہنا بتِ عیار کا +وقت دونوں مل گئے منہ کھول دو بیمار کا +جاں کنی کا وقت ہے پھِرتی نہ دیکھو پتلیاں +تم ذرا ہٹ جاؤ دم نکلے گا اب بیمار کا +حرج ہی کیا ہے الگ بیٹھا ہوں محفل میں خموش +تم سمجھ لینا کہ یہ بھی نقش ہے دیوار کا +اس قفس والے کی قسمت قابل اِفسوس ہے +چھوٹ کر جو بھول جائے راستہ گلزار کا +بات رہ جائے گی دیکھ آؤ گھڑی بھر کے لیئے +لوگ کہتے ہی کے حال اچھا نہیں بیمار کا +کس طرح گزری شبِ فرقت قمر سے یہ نہ پوچھ +رات بھر ڈھونڈا ہے تارہ صبح کے آثار کا +میں تماشا تو دکھا دوں ستم آرائی کا +کیا کروں حشر میں ڈر ہے تری رسوائی کا +یہ نتیجہ ہو آخر جَبَل آرائی کا +بن گیا ایک تماشا سا تماشائی کا +آپ نے محفلِ اغیار کی رونق تو کہی +مجھ سے کچھ حال نہ پوچھا شبِ تنہائی کا +چارہ گر کا ہے کو لوں چارہ گری کا احساس +تو کوئی ٹالنے والا ہے مری آئی کا +طور پر طالبِ دیدار ہزاروں آتے +تم تماشہ جو نہ بناتے نہ تماشائی کا +ہاتھ اٹھائے تھے کہ ہاروں کی لڑیں ٹوٹ پڑیں +صدقہ پھول نے اتارا تری انگڑائی کا +شمع گل ہو گئی تارے بھی قمر ڈوب گئے +کوئی مونس نہ رہا اب شبِ تنہائی کا +پیشِ ساحل اِک ہجومِ موجِ دریا ہو گیا +وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا +کاٹنی ہی کیا شبِ ہستی سَرائے دہر میں +اِک ذرا سی آنکھ جھپکائی سویرا ہو گیا +کچھ مری خاموشیاں ان کی سمجھ میں آ گئیں +کچھ میری آنکھوں سے اظہارِ تمنا ہو گیا +نزع کے عالم میں قاصد لے کے جب آیا جواب +ڈوبنے والوں کو تنکے کا سہارا ہو گیا +آپنے سر پر موجِ طوفاں بڑھا کہ لیتی ہے قدم +میرا بیڑا قابلِ تعظیمِ دریا ہو گا +دیکھ لینا یہ ستم اک دن مٹا دیں گے مجھے +تم یہ کہتے ہوے رہ جاؤ گے کیا ہو گیا +ساحلِ امید وعدہ اب تو چھوڑو اے قمر +غرقِ بحرِ آسماں ایک ایک تارا ہو گیا +تم چلے آئے تو رونق پر مزار آ ہی گیا +شمع روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا +ہم نہ کہتے تھے ہنسی میں غیر سے وعدہ نہ کر +دیکھنے والوں کو آخر اعتبار آ ہی گیا +کہتے تھے اہلِ قفس گلشن کا اب لیں گے نہ نام +باتوں باتوں میں مگر ذکرِ بہار آ ہی گیا +کتنا سمجھایا تھا تجھ کو دیکھ بڑھ جائے گی بات +فیصلہ آخر کو پیشِ کردگار آ ہی گیا +گو بظاہر میرے افسانے پہ وہ ہنستے رہے +آنکھ میں آنسو مگر بے اختیار آ ہی گیا +گو مری صورت سے نفرت تھی مگر مرنے کے بعد +جب مری تصویر دیکھی ان کو پیار آ ہی گیا +اے قمر قسمت چمک اٹھی اندھیری رات میں +چاندنی چھپتے ہی کوئی پردہ دار آ ہی گیا +اگر چھوٹا بھی اس سے آئینہ خانہ تو کیا ہوگا +وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہوگا +بھلا اہلِ جنوں سے ترکِ ویرانہ تو کیا ہوگا +خبر آئے گی ان کی ان کا اب آنا تو کیا ہوگا +سنے جاؤ جہاں تک سن سکو جن نیند آئی گی +وہیں ہم چھوڑ دیں گے ختم افسانہ تو کیا ہوگا +اندھیری رات، زِنداں، پاؤں میں زنجیریں، تنہائی +اِس عالم میں نہ مر جائے گا دیوانہ تو کیا ہوگا +ابھی تو مطمئن ہو ظلم کا پردہ ہے خاموشی +اگر منہ سے بول اٹھا یہ دیوانہ تو کیا ہوگا +جنابِ شیخ ہم تو رند ہیں چلو سلامت ہے +جو تم نے توڑ ڈالا یہ پیمانہ تو کیا ہوگا +یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے +قمر اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا +یہ تو نے کیا کہا خونِ تمنا ہو نہیں سکتا +تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا +پڑھے گر لاکھ ماہِ چرخ تم سا ہو نہیں سکتا +یہ صورت ہو نہیں سکتی یہ نقشہ ہو نہیں سکتا +کروں سجدے میں اے بت مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا +خدا تو ہو نہیں سکتا میں بندہ ہو نہیں سکتا +قفس سے چھوٹ کر صیاد جائیں تو کیا جائیں +ہمیں تو آشیاں بھی اب مہیا ہو نہیں سکتا +گناہ گاروں کا مجمع سب سے آگے ہو گا اے واعظ +تجھے دیدار بھی پہلے خدا کا نہیں سکتا +نہ دینا آشیاں کو آگ ورنہ جان دے دیں گے +ہمارے سامنے صیاد ایسا ہو نہیں سکتا +انہیں پر منحصر کیا آزما بیٹھے زمانے کو +قمر سچ تو یہ ہے کوئی کسی کا ہو نہیں سکتا +پھول سب اچھی طرح تھے باغباں اچھی طرح +میرے آنے تک تھا سارا گلستاں اچھی طرح +ان کے دھوکے میں نہ دے آنا کس ی دشمن کو خط +یاد کر نامہ بر نام و نشان اچھی طرح +کیا کہا یہ تو نے اے صیاد تنکا تک نہیں +چھوڑ کر آیا ہوں اپنا آشیاں اچھی طرح +پھر خدا جانے رہائی ہو قفس سے یا نہ ہو +دیکھ لوں صیاد اپنا آشیاں اچھی طرح +صبح کو آئی تھی گلشن میں دبے پاؤں نسیم +دیکھ لے نا غنچہ و گل باغباں اچھی طرح +دیکھیئے قسمت کہ ان کو شام سے نیند آ گئی +وہ نہ سننے پائیں میری داستاں اچھی طرح +دیکھ کر مجھ کو اتر آئے قمر وہ بام سے +دیکھنے پائیں نہ سیرِ آسمان اچھی طرح +دیکھو پھر دیکھ لو دیوار کی دَر کی صورت +تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت +خیر ہو آپ کے بیمارِ شبِ فرقت کی +آج اتری نظر آتی ہے سحر کی صورت +اے کلی اپنی طرف دیکھ کہ خاموش ہے کیوں +کل کو ہو جائے گی تو بھی گلِ تر کی صورت +جام خالی ہوئے محفل میں ہمارے آگے +ہم بھرے بیٹھے رہے دیدۂ تر کی صورت +پوچھتا ہوں ترے حالات بتاتے ہی نہیں +غیر کہتے نہیں مجھ سے ترے ِدر کی صورت +اس نے قدموں میں بھی رکھا سرِمحفل نہ ہمیں +جس کہ ہم ساتھ رہے گردِ سفر کی صورت +رات کی رات مجھے بزم میں رہنے دیجئے +آپ دیکھیں گے سحر کو نہ قمر کی صورت +بیٹھیے شوق سے دشمن کی طرف داروں میں +رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں +آنکھ نرگس سے لڑاتے ہو جو گلزاروں میں +کیوں لیئے پھرتے ہو بیمار کو بیماروں میں +عشق نے قدر کی نظروں سے نہ جب تک دیکھا +حسن بکتا ہی پھرا مصر کے بازاروں میں +دل کی ہمت ہے جو ہے جنبشِ ابرو پہ نثار +ورنہ کون آتا ہے چلتی ہوئی تلواروں میں +جو پر رحمتِ معبود جو دیکھی سرِ حشر +آملے حضرتِ واعظ بھی گنہ گاروں میں +جب وہ آتے ہیں تو مدھم سے پڑ جاتے ہیں چراغ +چاند سی روشنی ہو جاتی ہے کم تاروں میں +وہ بھی کیا دن تھے کہ قسمت کا ستارہ تھا بلند +اے قمر رات گزر جاتی تھی مہ پاروں میں +اب تو منہ سے بول مجھ کو دیکھ دن بھر ہو گیا +اے بتِ خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا +اب تو چپ ہو باغ میں نالوں سے محشر ہو گیا +یہ بھی اے بلبل کوئی صیاد کا گھر ہو گیا +التماسِ قتل پر کہتے ہو فرصت ہی نہیں +اب تمہیں اتنا غرور اللہ اکبر ہو گیا +محفلِ دشمن میں جو گزری وہ میرے دل سے پوچھ +ہر اشارہ جنبشِ ابرو کا خنجر ہو گیا +آشیانے کا کیا بتائیں کیا پتہ خانہ بدوش +چار تنکے رکھ لئے جس شاخ پر گھر ہو گیا +حرس تو دیکھ فلک بھی مجھ پہ کرتا ہے ظلم +کوئی پوچھے تو بھی کیا ان کے برابر ہو گیا +سوختہ دل میں نہ ملتا تیر کا خوں اے قمر +یہ بھی کچھ مہماں کی قسمت سے میسر ہو گیا +شکوہ شکستِ دل کا ہو کیا دستِ ناز سے +آئینے ٹوٹ جاتے ہیں آئینہ ساز سے +اب التماسِ دید کروں تو گناہ گار +واقف میں ہو گیا ترے پردے کے راز سے +ہر شے انہیں کی شکل میں آنے لگی نظر +شاید گزر گیا میں حدِ امتیاز سے +خود آئیں پوچھنے وہ مرے پاس حالِ دل +کچھ دور تو نہیں ہے مرے کار ساز سے +اے شیخ مے کدے سے نکل دیکھ بال کے +واپس نہ آ رہے ہوں نمازی نماز سے +اللہ ان کو عشق کی کیونکر خبر ہوتی +واقف نہ تھا کوئی بھی مرے دل کے راز سے +بھیدی ہوں گھر کا مجھ سے نہ چل چال اے فلک +واقف قمر ہے خوب تری سازباز سے +مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی +کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی +مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا +ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی +میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے +یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی +مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی +یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی +میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا +مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی +یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا +وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی +شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے +ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی +ان کی تجلیوں کا اشر کچھ نہ پوچھیے +وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پ��چھیے +از شامِ ہجر تا بہ سحر کچھ نہ پوچھیے +کٹتے ہیں کیسے چار پہر کچھ نہ پوچھیے +بجلی جو شاخ، گل پہ گری اس کا غم نہیں +لیکن وہ اک غریب کا گھر کچھ نہ پوچھیے +ہو ایک راستہ تو کوئی ڈھونڈے انھیں +کتنی ہے ان کی راہگزر کچھ نہ پوچھیے +تنکے وہ نرم نرم سے پھولوں کی چھاؤں میں +کیسا بنا تھا باغ میں گھر کچھ نہ پوچھیے +بس آپ دیکھ جایئے صورت مریض کی +نبضوں کا حال دردِ جگر کچھ نہ پوچھیے +جب چاندنی میں آ کے ہوئے تو وہ میہماں +تاروں بھری وہ رات قمر کچھ نہ پوچھیے +کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں +غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں +اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو +جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں +جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے +دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں +بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے، انکو شبِ فرقت والوں سے +وہ رات بڑھا دینے کے لئے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں +پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینیِ حسن کو بڑھنے دو +سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں +کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، ہے بھی تو فقط رسوائی کا +تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں +تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو +پھولوں کو دیکھ کانٹوں میں ہنس ہنس کے گذارا کرتے ہیں +سانس ان کے مریضِ حسرت کی رک رک کے چلی جاتی ہے +مایوس نظر ہے در کی طرف اور جان نکلی جاتی ہے +چہرے سے سرکتی جاتی ہے زلف ان کی خواب کے عالم میں +وہ ہیں کہ ابھی تک ہوش نہیں اور شب ہے کہ ڈھلی جاتی ہے +اللہ خبر بجلی کو نہ ہو گلچیں کی نگاہِ بد نہ پڑے +جس شاخ پہ تنکے رکھے ہیں وہ پھولتی پھلتی جاتی ہے +عارض پہ نمایاں خال ہوئے پھر سبزۂ خط آغاز ہوا +قرآں تو حقیقت میں ہے وہی تفسیر بدلتی جاتی ہے +توہینِ محبت بھی نہ رہی وہ جورو ستم بھی چھوٹ گئے +پہلے کی بہ نسبت حسن کی اب ہر بات بدلتی جاتی ہے +لاج اپنی مسیحا نے رکھ لی مرنے نہ دیا بیماروں کو +جو موت نہ ٹلنے والی تھی وہ موت بھی ٹلتی جاتی ہے +ہے بزمِ جہاں میں ناممکن بے عشق سلامت حسن رہے +پروانے تو جل کر خاک ہوئے اب شمع بھی جلتی جاتی ہے +شکوہ بھی اگر میں کرتا ہوں تو جورِ فلک کا کرتا ہوں +بے وجہ قمر تاروں کی نظر کیوں مجھ سے بدلتی جاتی ہے +بارش میں عہد توڑ کے گر مئے کشی ہوئی +توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی +پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی +پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی +اچھا تو دونوں وقت ملے کو سئے حضور +پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی +اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ +بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی +دیکھو چراغِ قبر اسے کیا جواب دے +آئے گی شامِ ہجر مجھے پوچھتی ہوئی +قاصد انھیں کو جا کہ دیا تھا ہمارا خط +وہ مل گئے تھے، ان سے کوئی بات بھی ہوئی +جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام +ساقی رہے گی گردشِ دوراں رکی ہوئی +مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمر +کیسے وہ آسکیں گے اگر چاندنی ہوئی +باغباں برق کا جب طور بدل جاتا ہے +یہ نشیمن تو ہے کیا طور بھی جل جاتا ہے +کچھ وہ کہہ دیتے ہیں بیمار سنبھل جاتا ہے +وقت کا ٹالنے والا ہو تو ٹل جاتا ہے +عشق اور حسن سے مانوس یہ کیسے مانیں +شمع کو دیکھ کہ پروانہ تو جل جاتا ہے +کون ساحل پہ دعا مانگ رہا ہے یا رب +بچ کے طوفان مری کشتی سے نکل جاتا ہے +اب بھی سنبھلا نہیں او ٹھوکریں کھانے والے +ٹھوکریں کھا کہ تو انسان سنبھل جاتا ہے +ہجر کی رات ہے وہ رات کہ یا رب توبہ +شام سے صبح تک انسان بدل جاتا ہے +یاس و امید کا عالم ہے یہ شامِ وعدہ +کبھی بجھتا ہے چراغ اور کبھی جل جاتا ہے +عہد کرتے ہیں کہ اب ان سے ملیں گے نہ قمر +کیا کریں دیکھ کہ دل ان کو مچل جاتا ہے +دیکھو محشر میں کس کی بات رکھی جائے ہے +تجھ سے میں شرماؤں یا تو مجھ سے شرمائے ہے +ہجر سے تنگ آنے والے ایسا کیوں گھبرائے ہے +موت سے پہلے کیا تجھے موت آئی جائے ہے +تو نے تڑپایا مجھے دشمن تجھے تڑپائے ہے +میں تو یہ جانوں ہوں جو جیسے کرے ہے پائے ہے +میں کسی سے بولوں چالوں بھی تو ہے میری خطا +کیا بگاڑوں ہوں تری محفل کا کیوں اٹھوائے ہے +ناصحا مجھ سے نہ کہیو یار کے گھر کو نہ جا +میں تری سمجھوں ہوں باتیں کیوں مجھے سمجھائے ہے +غیر کے کہنے پہ مت آ، ٹک مری حالت تو دیکھ +کیا تری محفل سے اٹھوں دل تو بیٹھا جائے ہے +اور بھرنی ہیں تصور میں ابھی رنگینیاں +دردِ دل تھم جا کہ اب تصویر بگڑی جائے ہے +کِن خیالوں سے یہ کاٹے ہے قمر فرقت کی رات +روتا بھی جائے ہے اور تارے بھی گنتا جائے ہے +سرخیاں کیا ڈھونڈ کر لاؤں فسانے کے لئے +بس تمھارا نام کافی زمانے کے لئے +موجیں ساحل سے ہٹاتیں ہیں حبابوں کا ہجوم +وہ چلے آئے ہیں ساحل پر نہانے کے لئے +سوچتا ہوں اب کہیں بجلی گری تو کیوں گری +تنکے لایا تھا کہاں سے آشیانے کے لئے +چھوڑ کر بستی یہ دیوانے کہاں سے آ گئے +دشت کی بیٹھی بٹھائی خاک اڑانے کے لئے +ہنس کر کہتے ہو زمانہ بھر مجھی پہ جان دے +رہ گئے ہو کیا تمھیں سارے زمانے کے لئے +شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام +گیسوؤ کو کھل دو سورج چھپانے کے لئے +کائناتِ عشق اک دل کے سوا کچھ بھی نہیں +وہ ہی آنے کے لئے ہے وہ ہی جانے کے لئے +اے زمانے بھر کو خوشیاں دینے والے یہ بتا +کیا قمر ہی رہ گیا ہے غم اٹھانے کے لئے +تاثیر پسِ مرگ دکھائی ہے وفا نے +جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے وہ روتے ہیں سرہانے +کیا کہہ دیا چپکے سے نہ معلوم قضا میں +کوٹ بھی نہ بدلی ترے بیمارِ جفا نے +ہستی مری کیا جاؤں اس بت کو منانے +وہ ضد پہ جو آئے تو فرشتوں کی نہ مانے +اوراقِ گلِ تر جو کبھی کھولے صبا نے +تحریر تھے لاکھوں مری وحشت کے فسانے +رخ دیکھ کہ خود بن گیا آئینے کی صورت +بیٹھا جو مصور تری تصویر بنانے +نالے نہیں کھیل اسیرانِ قفس کے +صیاد کے آ جائیں گے سب ہوش ٹھکانے +ہمسائے بھی جلنے لگے جلتے ہی نشیمن +بھڑکا دیا اور آگ کو پتوں کی ہوا نے +پہلی سی قمر چشمِ عنایت ہی نہیں +رخ پھیر دیا ان کا زمانے کی ہوا نے +بہار آ جائے گر وہ ساقی گلفام آ جائے +ہر اک شاخِ چمن پر پھول بن کر جام آ جائے +بہار ایسی کوئی اے گردشِ ایام آ جائے +بجائے صید خود صیاد زیرِ دام آ جائے +مرا دل ٹوٹ جانے کی صدا رسوا نہ ہو یا رب +کوئی ایسے میں شکستِ جام آ جائے +تماشہ دیکھنے کیوں جا رہے ہو خونِ ناحق کا +حنائی ہاتھ ہیں تم پر نہ کچھ الزام آ جائے +ہمارا آشیانہ اے باغباں غارت نہ کر دینا +ہمارے بعد ممکن ہے کسی کے کام آ جائے +خدا کے سامنے یوں تک رہا ہے سب کے منہ قاتل +کسی پر بے خطا جیسے کوئی الزام آ جائے +ستم والوں سے پرسش ہو رہی ہے میں یہ ڈرتا ہوں +کہیں ایسا نہ ہو تم پر کوئی الزام آ جائے +قمر اس آبلہ پا راہ رو کی بے بسی توبہ +کہ منزل سامنے ہو اور سر پر شام آ جائے +سب نے کیے ہیں باغ ان پر نثار پھول +اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں پھول +لاتا نہیں کوئی مری تربت پہ چار پھول +نا پیدا ایسے ہو گئے پروردگار پھول +جاتی نہیں شباب میں بھی کم سِنی کی بو +ہاروں میں ان کے چار ہیں کلیاں تو چار پھول +کب حلق کٹ گیا مجھے معلوم بھی نہیں +قاتل کچھ ایسی ہو گئے خنجر کی دھار پھول +یہ ہو نہ ہو مزار کسی مضطرب کا ہے +جب سے چڑھے ہیں قبر پہ ہیں بے قرار پھول +یا رب یہ ہار ٹوٹ گیا کس کا راہ میں +اڑ اڑ کے آ رہے ہیں جو سوئے مزار پھول +او محوِ بزمِ غیر تجھے کچھ خبر بھی ہے +گلشن میں کر رہے ہیں ترا انتظار پھول +اتنے ہوئے ہیں جمع مری قبر پر قمر +تاروں کی طرح ہو نہیں سکتے شمار پھول +پھونک ڈالا برق نے گھر بلبلِ لاچار کا +واہ کا کیا کہنا ہے اس پہلے پہل کے وار کا +میں ترے قربان قبضہ چوم لے تلوار کا +بڑھ تو جاؤ خون بھی کرنا کسی لاچار کا +تم تو اتنے بھی نہیں جتنا ہے قد تلوار کا +آگ تھی یا خونِ شہ رگ تھا کسی لاچار کا +عید بھی کل ہو گئی آیا نہ قاصد یار کا +اب بھلا ابھریں گے کیا بحرِ شہادت کے غریق +سر سے اونچا ہو گیا پانی تری تلوار کا +شمع گل، ڈوبے ہوئے تارے، اندھیرا، بے کسی +دیکھ کر چاروں طرف منا ترے بیمار کا +کس قدر بیکار تھی آہِ شبِ فرقت قمر +ہر ستارہ مسکرایا چرخ کنج رفتار کا +میں خود ہی فلک کا ستایا ہوا ہوں مجھے تم ستانے کی کوشش نہ کرنا +بہاروں کی آخر کوئی انتہا ہے کہ پھولوں سے شاخیں جھکی جا رہی ہیں +یہی وقت ہے بجلیاں ٹوٹنے کا، نشیمن بنانے کی کوشش نہ کرنا +میں حالاتِ شامِ الم کہہ رہا ہوں ذرا غیرتِ عشق ملحوظِ خاطر +تمھیں عمر بھر مجھ کو رونا پڑے گا کہیں مسکرانے کی کوشش نہ کرنا +تجھے باغباں پھر میں سمجھا رہا ہوں ہواؤں کے اور کچھ کہہ رہے ہیں +کہیں آگ پھیلے نہ سارے چمن میں مرا گھر جلانے کی کوشش نہ کرنا +دلِ مضطرب سن کہ افسانۂ غم وہ ناراض ہو کر ابھی سو گئے ہیں +جو چونکے تو اک حشر کر دیں گے برپا انھیں تو جگانے کی کوشش نہ کرنا +یہ محفل ہے بیٹھے ہیں اپنے پرائے بھلے کے لئے دیکھو سمجھا رہا ہوں +کہ حرف آئے گا آپ کی آبرو پر یہاں پر رلانے کی کوشش نہ کرنا +تمنائے دیدار رہنے دو سب کی نہیں ہے کسی میں بھی تابِ نظارہ +ابھی طور کا حادثہ ہو چکا ہے تجلی دکھانے کی کوشش نہ کرنا +عدو شب کو ملتے ہیں ہر راستے میں نتیجہ ہی کیا ان کی رسوائیاں ہوں +قمر چاندنی آج پھیلی ہوئی ہے انھیں تم بلانے کی کوشش نہ کرنا +مرا خاموش رہ کر بھی انھیں سب کچھ سنا دینا +زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا +نشیمن ہو نہ ہو یہ تو فلک کا مشغلہ ٹھہرا +کہ دو تنکے جہاں پر دیکھنا بجلی گرا دینا +میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے +کوئی فریاد والا آ رہا ہے راستہ دینا +اجازت ہو تو کہہ دوں قصۂ الفت سرِ محفل +مگر پہلے خطا پر غور کر لو پھر سزا دینا +ہٹا کر رخ سے گیسو صبح کر دینا تو ممکن ہے +مگر سرکار کے بس میں نہیں تارے چھپا دینا +یہ تہذیبِ چمن بدلی ہے بیرونی ہواؤں نے +گریباں چاک پھولوں پر کلی کا مسکرا دینا +قمر وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے +کہوں کس سے کہ میری شمع تربت اب بجھا دینا +خدا کی شان تجھے یوں مری فغاں سے گریز +کہ جس طرح کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز +وہ چاہے سجدہ کیا ہو نہ دیر و کعبہ میں +مگر ہوا نہ کبھی تیرے آستاں سے گریز +دلِ شکستہ سے جا رہی ہے ان کی یاد +مکیں کو جیسے ہو ٹوٹے ہوئے مکاں سے گریز +جہاں بھی چاہیں وہاں شوق سے شریک ہوں آپ +مگر حضور ذرا بزمِ دشمناں سے گریز +کچھ اس میں سازشِ بادِ خلاف تھی ورنہ +مرے ریاض کے تنکے اور آشیاں سے گریز +خطا معاف وہ دیوانگی کا عالم تھا +جسے حور سمجھتے ہیں آستاں سے گریز +خطا بہار میں کچھ باغباں کی ہو تو کہوں +مرے نصیب میں لکھا تھا گلستاں سے گریز +جہاں وہ چاہیں قمر شوق سے ہمیں رکھیں +زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز +برباد طور بھی ہے موسیٰؑ ہیں بے خودی میں +بس اے ظہورِ جلوہ اب دم نہیں کسی میں +آنسو بھر آئے ان کی پرسش پہ جاں کنی میں +اب اور کیا بتاتے ان کی روا روی میں +جا تو رہے ہو موسیٰؑ دیدار کی خوشی میں +اوپر نظر نہ اٹھے بس خیر ہے اسی میں +اب تک ہے یاد دے کر دل ان کو دل لگی میں +رونا پڑا تھا برسوں مجھ کو ہنسی ہنسی میں +قیدِ قفس میں مجھ سے ارماں کا پوچھنا کیا +صیاد اب تو جو کچھ آئے تری خوشی میں +کوزے میں بھر گیا ہے جیسے تمام دریا +یوں اس نے بن سنور کر دیکھا ہے آرسی میں +ہر صبح آ کے گلچیں گلشن کو دیکھتا ہے +یہ وقت بھی ہے نازک پھولوں کی زندگی میں +دیکھیں قمر کچھ افشاں اس مہ جبیں کے رخ پر +کتنے حسین تارے ہوتے ہیں چاندنی میں +یہ کہہ کر حشر میں وہ رو دیا کچھ بد گماں ہو کر +کہ ایسی بھیڑ میں جاؤ گے پیشِ حق کہاں ہو کر +یہ بچپن ہے جو پیش آتے ہو مجھ سے مہرباں ہو کر +نگاہیں کہہ رہیں ہیں آنکھ بدلو گے جواں ہو کر +کیا دستِ جنوں کو پیرہن نے جا بجا رسوا +گلی کوچوں میں دامن اڑ رہے ہیں دھجیاں ہو کر +چلا تھا توڑ کر زنجیر کو جب تیرا سودائی +خیالِ حلقۂ گیسو نے روکا بیڑیاں ہو کر +خدا رکھے تمھیں رنگِ حنا سے اتنا ڈرتے ہو +ابھی تو سینکڑوں کے خوں بہانے ہیں جواں ہو کر +خرامِ راز میں پنہاں نہ جانے کیسے محشر ہیں +وہیں اِک حشر ہوتا ہے نکلتے ہوں جہاں ہو کر +پریشاں بال، آنسو آنکھ میں، اتری ہوئی صورت +نصیبِ دشمناں ایسے میں آئے ہو کہاں ہو کر +قمر دل کو بچا کر لے گئے تھے تیر مژگاں سے +مگر ترچھی نگاہیں کام آئیں برچھیاں ہو کر +قیامت اب جہاں ہو گی ستم تیرا باں ہو گا +یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا +نہ گھبرا اے مریضِ عشق دونوں آنے والے ہیں +قضا بھی مہماں ہو گی وہ بت بھی مہماں ہو گا +بہار آخر ہے پی لی بیٹھ کر اے شیخ رندوں میں +یہ محفل پھر کہاں ہو گی یہ جلسہ پھر کہاں ہو گا +چمن میں توڑ ڈالی باغباں نے مجھ سے یہ کہہ کر +نہ شاخِ آشیاں ہو گی نہ تیرا آشیاں ہو گا +کدھر ڈھونڈے گا اپنے قافلے سے چھوٹنے والے +نہ گردِ کارواں ہو گی نہ شورِ کارواں ہو گا +مجھے معلوم ہے اپنی کہانی، ماجرا اپنا +نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا +وہ چہرے سے سمجھ لیں گے مری حالت مرا ارماں +نہ محتاجِ بیاں ہو گی نہ محتاجِ بیں ہو گا +تم اپنے در پہ دیتے ہو اجازت دفنِ دشمن کی +مری تربت کہاں ہو گی مرا مرقد کہاں ہو گا +ابھی کیا ہے قمر ان ی ذرا نظریں تو پھرنے دو +زمیں نا مہرباں ہو گی فلک نا مہرباں ہو گا +تمھاری رسوائیوں کے ڈر سے نہ کیں جنوں آشکار باتیں +اگر گریباں پہ ہاتھ جاتا تمھیں سناتے ہزار باتیں +مری محبت سے جلنے والے لگاتے ہیں دو چار باتیں +یقین کس کس کا تم کرو گے ہزار منہ ہیں ہزار باتیں +شراب منہ تک رہی ہے تیرا، نہ شیخ کرنا گوار باتیں +کوئی قیامت ابھی رکھی ہے یہ چھوڑ دے میرے یار باتیں +یہ بات دیگر ہے شکوہ ہائے ستم پر تم مسکرا رہے ہو +مگر نگاہیں بتا رہیں ہیں کہ ہو گئیں نا گوار باتیں +قمر شبِ انتظار ہم نے سحرا انھیں وحشتوں میں کر دی +کبھی چراغوں سے چار باتیں کبھی ستاروں سے چار باتیں +گِلہ بزمِ عدو میں کیونکر اس کے رو برو ہو گا +خدا معلوم و کس کس سے محوِ گفتگو ہو گا +بہار اپنی سمجھ کر اور ہنس لیں یہ چمن والے +بہت روئیں گے جب ظاہر فریبِ رنگ و بو ہو گا +گرے گی برق اے صیاد یہ میں بھی سمجھتا ہوں +مگر میرا قفس کب آشیاں کے رو برو ہو گا +بڑھے اور پھر بڑھے، ضد دیکھ لینا حشر میں قاتل +خدا کے سامنے خاموش ہم ہوں گے نہ تو ہو گا +سحر کو کیوں نگاہوں سے گرانے کو بلاتے ہو +مرے سرکار آئینہ تمھارے رو برو ہو گا +لگا بیٹھے ہی�� اپنے پاؤں میں وہ شام سے مہندی +انھیں معلوم کیا کس کس کا خونِ آرزو ہو گا +گریباں کو تو سی دے گا رفو گر تارِ داماں سے +مگر چاکِ دلِ مجروح پھر کیونکر رفو ہو گا +ترے دامن پہ چھینٹے، آستینوں پر لہو ہو گا +قمر سے انتظامِ روشنی کو پوچھنے والے +چراغوں کی ضرورت کیا ہے جب محفل میں تو ہوگا +میں ڈھونڈ لوں تجھے میری بس کی بات کہاں +نہ جانے چھوڑ دے مجھ کو مری حیات کہاں +قفس میں یاد نہ کر آشیاں کی آزادی +وہ اپنا گھر تھا یہاں اپنے گھر کی بات کہاں +شباب آنے سے تجھ سے عبث امیدِ وفا +رہے گی تیرے زمانے میں کائنات کہاں +تلاش کرنے کو آئے گا کون صحرا میں +مرے جنوں کے ہیں ایسے تعلقات کہاں +قمر وہ رات کو بہرِ عیادت آئیں گے +مگر مریض کی قسمت میں آج، رات کہاں +ہوا شب کو عبث مئے کے لئے جانا تو کیا ہو گا +اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا +چمن والو قفس کی قید بے میعاد ہوتی ہے +تمھیں آؤ تو آ جانا میرا آنا تو کیا ہو گا +گرا ہے جام خود ساقی سے اس پر حشر برپا ہے +مرے ہاتھوں سے چھوتے گا پیمانہ تو کیا ہو گا +جگہ تبدیل کرنے کو تو کر لوں ساقی میں +وہاں بھی آ سکا مجھ تک نہ پیمانہ تو کیا ہو گا +بہارِ گل بنے بیٹھے ہو تم غیروں کی محفل میں +کوئی ایسے میں ہو جائے دیوانہ تو کیا ہو گا +سرِ محشر مجھے دیکھا تو وہ دل میں یہ سوچیں گے +جو پہچانا تو کیا ہو گا نہ پہچانا تو کیا ہو گا +حفاظت کے لئے اجڑی ہوئی محفل میں بیٹھے ہیں +اڑا دی گر کسی نے خاکِ پروانہ تو کیا ہو گا +زباں تو بند کرواتے ہو تم اللہ کے آگے +کہا ہم نے اگر آنکھوں سے افسانہ تو کیا ہو گا +قمر اس اجنبی محفل میں تم جاتے تو ہو لیکن +وہاں تم کو کسی نے بھی نہ پہچانا تو کیا ہو گا +کیا کوئی باغ میں ہم مفت رہا کرتے ہیں +ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں +رخ اِدھر آنکھ ادھر آپ یہ کیا کرتے ہیں +پھر نہ کہنا مرے تیر خطا کرتے ہیں +اب تو پردے کو اٹھا دو مری لاش اٹھتی ہے +دیکھو اس وقت میں منہ دیکھ لیا کرتے ہیں +تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی +اب تو احباب بھی مرنے کی دعا کرتے ہیں +صبحِ فرقت بھی قمر آنکھ کے آنسو رکے +یہ وہ تارے ہیں جو دن میں بھی گرا کرتے ہیں +کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر +میں تو تہِ مزار ہوں تم تو ہو مزار پر +یہ دیکھنے، قفس میں بنی کیا ہزار پر +نکہت چلی ہے دوشِ نسیم بہار پر +گر یہ ہی جور و ظلم رہے خاکسار پر +منہ ڈھک کے روئے گا تو کسی دن مزار پر +ابرو چڑھے ہوئے ہیں دلِ بے قرار پر +دو دو کھنچی ہوئی ہیں کمانیں شکار پر +رہ رہ گئی ہیں ضعف سے وحشت میں حسرتیں +رک رک گیا ہے دستِ جنوں تار تار پر +شاید چمن میں فصلِ بہاری قریب ہے +گرتے ہیں بازوؤں سے مرے بار بار پر +یاد آئے تم کو اور پھر آئے مری وفا +تم آؤ رونے اور پھر آؤ مزار پر +کس نے کئے یہ جور، حضور آپ نے کئے +کس پر ہوئے یہ جور، دلِ بے قرار پر +سمجھا تھا اے قمر یہ تجلی انھیں کی ہے +میں چونک اٹھا جو چاندنی آئی مزار پر +چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرتِ دیدار میں +اک تماشا بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں +دم نکل جائے گا حسرت نہ دیکھ اے نا خدا +اب مری قسمت پہ کشتی چھوڑ دے منجدھار میں +دیکھ بھی آ بات کہنے کے لئے ہو جائے گی +صرف گنتی کی ہیں سانسیں اب ترے بیمار میں +فصلِ گل میں کس قدر منحوس ہے رونا مرا +میں نے جب نالے کئے بجلی گری گلزار میں +جل گیا میرا نشیمن یہ تو میں نے سن لیا +باغباں تو خیریت سے ہے صبا گلزار میں +اب وہ عالم ہے مرا اس بزمِ عشرت کے بغیر +حال تھا جو حضرتِ آدم کا جنت کے بغیر +اصل کی امید ہے بے کار فرقت کے بغیر +آدم راح�� نہیں پاتا مصیبت کے بغیر +مجھ کو شکوہ ہے ستم کا تم کو انکارِ ستم +فیصلہ یہ ہو نہیں سکتا قیامت کے بغیر +دے دعا مجھ کو کہ تیرا نام دنیا بھر میں ہے +حسن کی شہرت نہیں ہوتی محبت کے بغیر +حضرتِ ناصح بجا ارشاد، گستاخی معاف +آپ سمجھاتے تو ہیں لیکن محبت کے بغیر +یہ سمجھ کر دل میں رکھا ہے تمھارے تیر کو +کوئی شے قائم نہیں رہتی حفاظت کے بغیر +راستے میں وہ اگر مل بھی گئے تقدیر سے +ل دیے منہ پھیر کر صاحب سلامت کے بغیر +سن رہا ہوں طعنہ اخیار لیکن کیا کروں +میں تری محفل میں آیا ہوں اجازت کے بغیر +دل ہی پر موقوف کیا او نا شناسِ دردِ دل! +کوئی بھی تڑپا نہیں کرتا اذیت کے بغیر +کیوں روٹھ کے مجھ سے کہتے ہو ملنا تجھ سے منظور نہیں +تم خود ہی منانے آؤ گے سرکار وہ دن بھی دور نہیں +تم روز جفا و جور کرو، نالے نہ سنو، تسکین نہ دو +ہم اس دنیا میں رہتے ہیں شکووں کا جہاں دستور نہیں +واپس جانا معیوب سا ہے جب میت کے ساتھ آئے ہو +دو چار قدم کی بات ہے بس، ایسی کوئی منزل دور نہیں +آزاد ہیں ہم تو اے زاہد ارمان و تمنا کیا جانیں +جنت کا تصور کون کرے جب دل میں خیالِ حور نہیں +میں شام سے لے جر تا بہ سحر دل میں یہ کہتا رہتا ہوں +ہے چاند بے شک نور قمر لیکن ان کا سا نور نہیں +کہا تو ہے کہ قفس میں نہیں اماں صیاد +خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد +قفس سے ہٹ کے ذرا سن مری فغاں صیاد +لرز رہی ہے ترے سامنے زباں صیاد +بہارِ گل میں مجھے تو کہیں چین نہیں +مرے خلاف وہاں باغباں یہاں صیاد +جو پر کتر دیے دنیا میں ہو گی رسوائی +پر اڑ کے جائیں گے جانے کہاں کہاں صیاد +قفس میں کانپ رہا ہوں کہیں فریب نہ ہو +بہارِ گل میں ہوا ہے جو مہرباں صیاد +میں کوئی دم کا ہوں مہمان تیلیاں نہ بدل +کہ جائے گی تری محنت یہ رائیگاں صیاد +تری نظر پہ ترانے تری نظر پہ فغاں +ملے گا تجھ کو نہ مجھ سا مزاج داں صیاد +جفائے چرخ پہ چھوڑا تھا آشیاں میں نے +ترے قفس میں بھی سر پہ ہے آسماں صیاد +قمر کی روشنی میں کیسے پھول کھلتے ہیں +پسِ نقاب رخِ لاجواب کیا ہوتا +ذرا سے ابر میں گم آفتاب کیا ہوتا +ہمیں تو جو بھی گیا وہ فریب دے کہ گیا +ہوئے نہ کم سنی اپنی شباب کیا ہوتا +وگرنہ ذوقِ نظر کامیاب کیا ہوتا +قفس کے سے چھوٹ کے آئے تو خاک تک نہ ملی +چمن اور نشیمن خراب کیا ہوتا +تمھارے اور بھی وعدوں کی شب یوں ہی کاٹی +یقین ہی نہ ہوا اضطراب کیا ہوتا +لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے +یہاں دھوپ آ نہیں سکتی وہاں سائے نہیں جاتے +کسی محفل میں بھی ایسے چلن پائے نہیں جاتے +کہ بلوائے ہوئے مہماں اٹھوائے نہیں جاتے +زمیں پر پاؤں رکھنے دے انھیں اے نازِ یکتائی +کہ اب نقشِ قدم ان کے کہیں پائے نہیں جاتے +تجھے اے دیدہ فکر کیوں ہے دل کے زخموں کی +کہ بے شبنم کے بھی یہ پھول مرجھائے نہیں جاتے +جنوں والوں کو کیا سمجھاؤ گے یہ وہ زمانہ ہے +خِرد والے خِرد والوں سے سمجھائے نہیں جاتے +وقارِ عشق یوں بھی شمع کی نظروں میں کچھ کم ہے +پتنگے خود چلے آتے ہیں بلوائے نہیں جاتے +فضیلت ہے یہ انساں کی وہاں تک پہنچاتا ہے +فرشتے کیا فرشتوں کے جہاں سائے نہیں جاتے +بس اتنی بات پر چھینی گئی ہے رہبری ہم سے +کہ ہم سے کارواں منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے +قمر کی صبح پوچھئے سورج کی کرنوں سے +ستارے تو گوآ ہی کے لیے آئے نہیں جاتے +سکوں بہر محبت میں ہمیں حاصل تو کیا ہوگا +کوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہوگا +ترے کہنے سے تیرا نام بھی لوں گا محشر میں +مگر مجھ سے اگر پوچھا گیا قاتل تو کیا ہوگا +قفس سے چھوٹ کر صیاد دیکھ آئینگے گلش�� بھی +ہمارا آشیاں رہنے کے اب قابل تو کیا ہوگا +سرِ محشر میں اپنے خون سے انکار تو کر دوں +مگر چھینٹے ہوئے تلوار پر قاتل تو کیا ہوگا +قمر کے نام سے شرمانے والے سیر تاروں کی +نکل آیا جو ایسے میں مہِ کامل تو کیا ہوگا +یوں تمھارے ناتوان منزل بھر چلے +کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے +چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے +دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے +ہو گیا صیاد برہم ہے اے اسیرانِ قفس +بند اب یہ نالہ و فریاد، ورنہ پر چلے +کس طرح طے کی ہے منزل عشق کی ہم نے نہ پوچھ +تھک گئے جب پاؤں ترا نام لے لے کر چلے +آ رہے ہیں اشک آنکھوں میں اب اے ساقی نہ چھیڑ +بس چھلکنے کی کسر باقی ہے ساغر بھر چلے +جب بھی خالی ہاتھ تھے اور اب بھی خالی ہاتھ ہیں +لے کے کیا آئے تھے اور لے کر کیا چلے +حسن کو غم گین دیکھے عشق یہ ممکن نہیں +روک لے اے شمع آنسو اب پتنگے مر چلے +اس طرف بھی اک نظر ہم بھی کھڑے ہیں دیر سے +مانگنے والے تمھارے در سے جھولی بھر چلے +اے قمر شب ختم ہونے کو ہے انتظار +ساحلِ شب سے ستارے بھی کنارہ کر چلے +موسیٰؑ سمجھے تھے ارماں نکل جائے گا +یہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گا +میری بالیں پہ رونے سے کیا فائدہ +کی مری موت کس وقت ٹل جائے گا +کیا عیادت کو اس وقت آؤ گے تم +جب ہمارا جنازہ نکل جائے گا +کم سنی میں ہی کہتی تھی تیری نظر +تو جواں ہو کے آنکھیں بدل جائے گا +سب کو دنیا سے جانا ہے اک دن قمر +رہ گیا آج کوئی تو کل جائے گا +یہ جو چَھلکے ہیں، نہیں قطرے مئے گلفام کے +میری قسمت پر نکل آئے ہیں آنسو جام کے +کس سے شکوہ کر رہے ہیں آ دامن تھام کے +بندہ پرور سینکڑون ہوتے ہیں اک اک نام کے +ہیں ہمارے قتل میں بدنام کتنے نام کے +جو کہ قاتل ہے وہ بیٹھا ہے ہے کلیجہ تھام کے +یہ سمجھ لو رکھنی بات مجھے صیاد کی +ورنہ میں نے سینکڑوں توڑے ہیں حلقے دام کے +غفلت خوابِ جوانی عہدِ پیری میں کیا +صبح کو اٹھ بیٹھتے ہیں سونے والے شام کے +رہبروں کی کشمکش میں ہے ہمارا قافلہ +منزلوں سے بڑھ گئے ہیں فاصلے دو گام کے +دیدہ میگوں نہ دکھلا روئے روشن کھول کر +صبح کو پیتے نہیں ہیں پینے والے شام کے +مرگِ عاشق پر تعجب اس تعجب کے نثار +مرتکب جیسے نہیں سرکار اس الزام کے +اے قمر بزمِ حسیناں کی وہ ختمِ شب نہ پوچھ +صبح کو چھپ جائیں جیسے چاند تارے شام کے +رہا الم سے دلِ داغ دار کیا ہو گا +جو بیڑا ڈوب چکا ہو وہ پار کیا ہو گا +جلا جلا گے پسِ مرگ کیا ملے گا تمھیں +بجھا بجھا کے چراغِ مزار کیا ہو گا +وہ خوب ناز سے انگڑائی لے کے چونکے ہیں +سحر قریب ہے پروردگار کیا ہو گا +اگر ملیں گے یہی پھل تری محبت میں +نہال پھر کوئی امید وار کیا ہو گا +قمر نثار ہو یہ سادگی بھی کیا کم ہے +گلے میں ڈال کے پھولوں کا ہار کیا ہو گا +کسی نو گرفتارِ الفت کے دل پر یہ آفت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +سرِ بزم پہلو میں بیٹھا ہے دشمن قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +عدو کی شکایت سنے جا رہے ہو نہ برہم طبیعت نہ بل ابروؤں پر +نظر نیچی نیچی لبوں پر تبسم محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +مری قبر ٹھوکر سے ٹھکرا رہا ہے پسِ مرگ ہوتی ہے برباد مٹی +ترے دل میں میری طرف سے سِتمگر کدورت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +بتِ خود نما اور کیا چاہتا ہے تجھے اب بھی شک ہے خدا ماننے میں +ترے سنگِ در پر جبیں میں نے رکھ دی عبادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +رقیبوں نے کی اور تمھاری شکایت خدا سے ڈرو جھوٹ کیوں بولتے ہو +رقیبوں کے گھر میرا آنا نہ جانا یہ تہمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +کبھی ہے جگر میں خلش، ہلکی ہلکی، کب��ی درد پہلو میں ہے میٹھا میٹھا +میں پہروں شبِ غم یہی سوچتا ہوں محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +کوئی دم کا مہماں ہے بیمارِ فرقت تم ایسے میں بیکار بیٹھے ہوئے ہو +پھر اس پر یہ کہتے ہو فرصت نہیں ہے یہ فرصت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +ترے در پہ بے گور کب سے پڑا ہوں نہ فکرِ کفن ہے نہ سامانِ ماتم +اٹھاتا نہیں کوئی بھی میری میت یہ غربت نہیں تو پھر اور کیا ہے +میں ان سب میں اک امتیازی نشان ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے +قمر بزمِ انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے +ہم اہلِ عشق آساں عشق کی منزل سمجھتے ہیں +نہ جب مشکل سمجھتے تھے نہ اب شکل سمھتے ہیں +ہم اس مشکل سے بچنا ناخدا مشکل سمجھتے ہیں +ادھر طوفان ہوتا ہے جدھر ساحل سمجھتے ہیں +یہ کہہ دے دل کی مجبوری ہمیں اٹھنے نہیں دیتی +اشارے ورنہ ہم اے بانیِ محفل سمجھتے ہیں +تعلق جب نہیں ہے آپ کی محفل میں کیوں آؤں +مجھے سرکار کیا پروانۂ محفل سمجھتے ہیں +ہماری وضع داری ہے جو ہم خاموش ہیں ورنہ +یہ رہزن ہی جنھیں ہم رہبرِ منزل سمجھتے ہیں +اس تفکر میں سرِ بزم سحر ہوتی ہے +کس کو وہ دیکھتے ہیں کس پہ نظر ہوتی ہے +مسکرا کر مجھے یوں دیکھ کے دھوکا تو دو +جانتا ہوں جو محبت کی نظر ہوتی ہے +تم کیا چیز ہو کونین سمٹ آتے ہیں +ایک وہ بھی کششِ ذوقِ نظر ہوتی ہے +آئینہ دیکھنے والے یہ خبر ہے تجھ کو +کبھی انسان پہ اپنی ہی نظر ہوتی ہے +تم مرے سامنے گیسو کو سنوارا نہ کرو +تم تو اٹھ جاتے ہو دنیا مرے سر ہوتی ہے +عشق میں وجہ تباہی نہیں ہوتا کوئی +اپنا دل ہوتا ہے یا اپنی نظر ہوتی ہے +نزع میں سامنے بیمار کے تم بھی آؤ +یہ وہ عالم ہے اک اک پہ نظر ہوتی ہے +دل تڑپتا ہے تو پھر جاتی ہے موت آنکھوں میں +کس غضب کی خلشِ تیرِ نظر ہوتی ہے +جان دے دیں گے کسی دامنِ صحرا میں قمر +مر گیا کون کہاں کس کو خبر ہوتی ہے +دل کو خبر نہیں ہے اور درد ہے جگر میں +ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں +اتنا سبک نہ کیجئے احباب کی نظر میں +اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں +رسوائیوں کا ڈر بھی میری قضا کا غم ہے +میت سے کچھ الگ ہیں آنسو ہیں چشمِ تر میں +حالانکہ اور بھی تھے نغمہ طرازِ گلشن +اک میں کھٹک رہا تھا صیاد کی نظر میں +دیکھا جو صبح فرقت اترا سا منہ قمر کا +بولے کہ ہو گیا ہے کیا حال رات بھر میں +انھیں پردے کی اب سوجھی ہے اب صورت چھپائی ہے +نگاہِ شوق جب تصویر ان کی کھینچ لائی ہے +وہ یکتا حسن میں ہو کر کہیں آگے نہ بڑھ جائیں +خدا بننے میں کیا ہے جب کہ قبضہ میں خدائی ہے +خبر بھی ہے زمانہ اب سلامت رہ نہیں سکتا +جوانی تجھ پہ او ظالم قیامت بن کے آئی ہے +یہی دن تھے یہی عالم تھا بجلی ٹوٹ پڑنے کا +چمن کی خیر ہو یا رب ہنسی پھولوں کو آئی ہے +ہمارا آشیاں دیکھو بلندیِ فلک دیکھو +کہاں سے چار تنکے پھونکنے کو برق آئی ہے +یہاں تک پڑ چکے ہیں وقت مایوسِ تمنا پر +تری تصویر کو رودادِ شامِ غم سنائی ہے +اڑا لے ہم غریبوں کا مذاق آخر کو زر والے +ترے رونے پہ اے شبنم ہنسی پھولوں کو آئی ہے +تم اپنا حسن دیکھو اپنی فطرت پہ نظر ڈالو +گریباں دیکھ کر کہتے ہو کیا صورت بنائی ہے +قمر ان کو تو مستحکم ہے وعدہ شب کو آنے کا +نہ جانے کیوں اداسی شام سے تاروں پہ چھائی ہے +آنسو کسی کا دیکھ کہ بیمار مر گیا +جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا +چھوڑو وفا کا نام وفادار مر گیا +تم جس ہوا میں ہو وہ زمانہ بدل گیا +صیاد دیکھ لی کششِ موش بہار کی +اڑ اڑ کے باغ میں مرا ایک ایک پر گیا +دیکھا نہ تم نے آنک اٹھا کر بزم میں +آنسو تو میں نے تھا نظر سے اتر گیا +وقت آگیا ہے یار کے وعدے کا اے قمر +دیکھو وہ آسمان ستاروں سے بھر گیا +کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے +خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے +باغباں کچھ سوچ کہ ہم قید سے چھوٹے نہ تھے +ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار، پر ٹوٹے نہ تھے +خار جب اہلِ جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے +دامنِ صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے +رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار +کیا کریں قیدِ زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے +اس جوانی سے تو اچھی تھی تمھاری کم سنی +بھول تو جاتے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے +اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے +جب فقط ذکرِ چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے +کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا +جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے +چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر +رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے +کس قدر آنسو بہائے تم نے شامِ غم قمر +اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے +فصلِ گلشن وہی فصلِ گلشن رہی لاکھ گلچیں ستم روز ڈھاتے رہے +رونق گلستاں میں نہ آئی کمی پھول آتے رہے پھول جاتے رہے +یوں نہ اہلِ محبت کو برباد کر ختم ہو جائیں گی حسن کی منتیں +کون پھر تیرے قدموں پہ رکھے گا سر ہم اگر تیرے ہاتھوں سے جاتے رہے +جرأتِ عشقِ گلشن ذرا دیکھئے سر پہ دیکھی بلا اور پرو نہ کی +برق ادھر آسماں پر چمکتی رہی ہم ادھر آشیانہ بناتے رہے +اف پسِ قتل وہ عالمِ بے کسی کوئی مصروفِ ماتم نہ گور و کفن +لاش جب تک مری رہگزر میں رہی راستہ چھوڑ کر لوگ جاتے رہے +ہجر کی رات ہے مانگئے یہ دعا ابر چھا جائے اندازۂ شب نہ ہو +اے قمر صبح دشوار ہو جائے گی یہ ستارے اگر جگمگاتے رہے +وہ مہتمم ہیں جہاں بھی گئے دیوانے +صراحی جھک گئی اٹھے ادب سے پیمانے +جب آئے تھے مجھے وحشت میں لوگ سمجھانے +نہ جانے آپ کو کیا کیا کہا تھا دنیا نے +سنائے کوئی کہاں تک جنوں کے افسانے +نہ جانے ہو گئے آباد کتنے ویرانے +زمینِ عشق میں ہیں دفن وہ بھی دیوانے +نہ جن کے نام کی شہرت نہ جن کے افسانے +کمالِ حسن بناتا ہے عشق کو دشمن +فروغِ شمع سے جلنے لگے ہیں پروانے +نہ رکھ قفس میں مگر طعنۂ قفس تو نہ دے +کہ ہم بھی چھوڑ کر آئیں ہیں اپنے خس خانے +یہ عشق ہے جسے پرواہ حسن کی بھی نہیں +کہ شمع روتی ہے اور سو رہے ہیں پروانے +جہاں سے عشق نے رودادِ غم کو چھوڑ دیا +شروع میں نے وہاں سے کئے ہیں افسانے +وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمر +کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے +اگر زندہ رہیں تو آئیں گے اے باغباں پھر بھی +اسی گلشن اسی ڈالی پہ ہو گا آشیاں پھر بھی +سمجھتا ہے کہ اب میں پا شکستہ اٹھ نہیں سکتا +مگر مڑ مڑ کہ تکتا جا رہا ہے کارواں پھر بھی +بہت کچھ یاد کرتا ہوں کہ یا رب ماجرا کیا ہے +وہ مجھ کو بھول بیٹھے آ رہے ہیں ہچکیاں پھر بھی +سمجھتا ہوں انھیں نیند آ گئی ہے اب نہ چونکیں گے +مگر میں ہوں سنائے جا رہا ہوں داستاں پھر بھی +قمر حالانکہ طعنے روز دیتا ہوں جفاؤں کے +جدا کرتا نہیں سینہ سے مجھ کو آسماں پھر بھی +ہم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک +شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک +دیکھیے محفلِ ساقی کا نتیجہ کیا ہوا +بات شیشے کی پہنچنے لگی پیمانے تک +صبح ہوئی نہیں اے عشق یہ کیسی شب ہے +قیس و فرہاد کے دہرا لئے افسانے تک +پھر نہ طوفان اٹھیں گے نہ گرے گی بجلی +یہ حوادث ہیں غریبوں ہی کے مٹ جانے تک +میں نے ہر چند بلا ٹالنی چآ ہی لیکن +شیخ نے ساتھ نہ چھوڑا مرا میخانے تک +وہ بھی کیا دن تھے گھر سے کہیں جاتے ہی نہ تھے +اور گئے بھی تو فقط شام کو میخانے تک +میں وہاں کیسے حقیقت کو سلامت رکھوں +جس جگہ رد و بدل ہو گئے افسانے تک +باغباں فصلِ بہار آنے کا وعدہ تو قبول +اور اگر ہم نے رہے فصلِ بہار آنے تک +اور تو کیا کہیں اے شیخ تری ہمت پر +کوئی کافر ہی گیا ہو ترے میخانے تک +اے قمر شام کا وعدہ ہے وہ آتے ہوں گے +شام کہلاتی ہے تاروں کے نکل آنے کے بعد +نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی +بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی +خدائی کی ہے یہ ضد اے بت یہ نادانی نہیں جاتی +زبردستی کی منوائی ہوئی مانی نہیں جاتی +ہزاروں بار مانی حسن نے ان کی وفاداری +مگر اہلِ محبت ہیں کہ قربانی نہیں جاتی +سحر کے وقت منہ کلیوں نے کھولا ہے پئے شبنم +ہوا ٹھنڈی ہے مگر پیاس بے پانی نہیں جاتی +قمر کل ان کے ہونے سے ستارے کتنے روشن تھے +وہی یہ رات ہے جو آج پہچانی نہیں جاتی +بیمار کو کیا خاک ہوا امید سحر کی +وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی +مہماں ہے کبھی میری کبھی غیر کے گھر کی +تو اے شبِ فرقت ادھر کی نہ ادھر کی +اللہ رے الفت بتِ کافر ترے در کی +منت مجھے درباں کی نہ کرنی تھی مگر کی +بیمار شبِ ہجر کی ہو خیر الٰہی +اتری ہوئی صورت نظر آتی ہے سحر کی +اس وعدہ فراموش کے آنسو نکل گئے +بیمار نے جو چہرے پر حسرت سے نظر کی +اے شمع مرے حال پہ تو روئے گی کب تک +مجھ پر تو مصیبت ہے ابھی چار پہل کی +یہ وقت وہ ہے غیر بھی اٹھ کر نہیں جاتے +آنکھوں میں مرا دم ہے تمہیں سوجھی ہے گھر کی +دم توڑنے والا ہے مریضِ خمِ گیسو +سوجھی ہے مسافر کو سرِ شام سفر کی +جاؤ بھی شبِ وعدہ رکھا خوب پریشاں +رہنے دو قسم کھا گئے جھوٹی مرے سر کی +ہر اک سے کہتے ہو کہ وہ مرتا مجھ پر +چاہے کبھی صورت بھی نہ دیکھی ہو قمر کی +ہوا کسی کی بھی اے باغباں نہیں رہتی +تری بہار تو کیا ہے خزاں نہیں رہتی +سنے جو حشر میں شکوے نظر بدل کئے +کہیں بھی بند تمھاری زباں نہیں رہتی +نہ دے تسلیاں صیاد برق گرنے پر +یہ بے جلائے ہوئے آشیاں نہیں رہتی +کئے جو سجدے تو دیر و حرم پکار اٹھے +خدا کی ذات مقید یہاں نہیں رہتی +قمر وہاں سے میں کشتی بچا کہ لایا ہوں +کسی کی ناؤ سلامت جہاں نہیں رہتی +سامنے تصویر رکھ کر اس ستم ایجاد کی +داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی +کیا کروں چونکے نہ وہ قسمت دلِ نا شاد کی +جس قدر فریاد مجھ سے ہو سی فریاد کی +اس قدر رویا کہ ہچکی بندھ گئے صیاد کی +لاش جب نکلی قفس سے بلبلِ نا شاد کی +دفن سے پہلے اعزا ان سے جا کر پوچھ لیں +اور تو حسرت کوئی باقی نہیں بے دار کی +کاٹتا ہے پر کے نالوں پر بڑھا دیتا ہے قید +اے اسیرانِ قفس عادت ہے کیا صیاد کی +شام کا ہے وقت قبروں کو نہ ٹھکرا کر چلو +جانے کس عالم میں ہے میت کسی ناشاد کی +دور بیٹھا ہوں ثبوتِ خون چھپائے حشر میں +پاس اتنا ہے کہ رسوائی نہ ہو جلاد کی +کیا مجھی کم بخت کی تربت تھی ٹھوکر کے لئے +تم نے جب دیکھا مجھے مٹی مری برباد کی +کھیل اس کمسنے کا دیکھو نام لے لے کر مرا +ہاتھ سے تربت بنائی پاؤں سے برباد کی +کہہ رہے ہو اب قمر سابا وفا ملتا نہیں +خاک میں مجھ کو ملا بیٹھے تو میری یاد میں +مٹ مٹ کے اب دل میں کوئی حسرت نہیں رہی +لٹ لٹ کے اب خزانے میں دولت نہیں رہی +ہو کر عزیز مجھ کو ملاتے ہیں خاک میں +دنیا میں نام کو بھی محبت نہیں رہی +اے درد تو ہی اٹھ کہ وہ آئیں ہیں دیکھنے +تعظیم کے مریض میں طاقت نہیں رہی +کیونکر نبھے گی بعد مرے یہ خیال ہے +غیروں کے گھر کبھی شبِ فرقت نہیں رہی +دیکھا تھا آج ہم نے قمر کو خدا گواہ +پہلی سی اب غریبوں کی صورت نہیں رہی +وفائے وعدہ میں اچھا تمھاری بات ہی سہی +نہیں دن کو جو فرصت تم��یں تو رات ہی سہی +مگر ہمیں تو نگاہِ عتاب سے ہی نواز +عدہ کی سمت تری چشمِ التفات سہی +جو چاہو کہہ لو کہ مجبورِ عشق ہوں ورنہ +تمھیں بتاؤ کہ کس کی بات سہی +تو پھر بتاؤ کہ یہ آنکھوں میں سر خیال کیوں ہیں +غلط وہ محفل دشمن کی واردات سہی +رقیب چھائے ہوئے ہیں مثال ابرِ ان پر +قمر نہ آئیں گے وہ لاکھ چاند رات سہی +اگر وہ صبح کو آئے تو کس سے گفتگو ہو گی +کہ اے شمعِ فرقت نہ ہم ہونگے نہ تو ہو گی +حقیقت جب تجھے معلوم اے دیوانہ خو ہو گی +جب ان کی جستجو کے بعد اپنی جستجو ہو گی +ملیں گے ہو بہو تجھ سے حسیں آئینہ خانے میں +کسی سے کچھ نہ کہنا ورنہ تم سے دو بدو ہو گی +مآلِ گل کو جب تک آنکھ سے دیکھا نہیں ہو گا +کلی کو پھول بن جانے کی کیا کیا آرزو ہو گی +دلِ مضطرب تو اس محفل میں نالے ضبط کر لے گا +مگر اے چشمِ گریاں تو بہت بے آبرو ہو گی +حریمِ ناز تک تو آگیا ہوں کس سے کیا پوچھوں +یہاں جلوہ دکھایا جائے گا یا گفتگو ہو گی +جنھیں اے راہبر لٹوا رہے ہیں راہِ منزل میں +خدا معلوم ان کے دل میں کیا کیا آرزو ہو گی +ہمارا کیا ہے ارمانِ وفا میں جان دے دیں گے +مگر تم کیا کرو گے جب تمھیں یہ آرزو ہو گی +یہ بلبل جس کی آوازیں خزاں میں اتنی دلکش ہیں +بہاروں میں خدا معلوم کتنی خوش گلو ہو گی +قمر سنتے ہیں تو شیخ صاحب آج توڑیں گے +سجے گا میکدہ آرائشِ جام و سبو ہو گی +میں کون ہوں بتا دوں او بھولنے کی عادی +تو نے جسے ستایا تو نے جسے دغا دی +مجھ تشنہ لب کی ساقی تشنہ لبی بڑھا دی +دے کر ذرا سا پانی اک آگ سی لگا دی +ایسی بھی کیا جفائیں برہم ہو نظمِ الفت +تو نے تو فقرِ دل کی بنیاد ہی ہلا دی +جب چاہا رخ پہ چن لی اس سے مہ جبیں نے افشاں +جب چاہا دن میں دنیا تاروں سے جگمگا دی +اہلِ چمن نے اتنا پوچھا نہ بوئے گل سے +آوارہ پھر رہی ہے کیوں اے حسین زادی +مجھے پھول صبر کر لیں مجھے باغباں بھلا دے +کہ قفس میں تنگ آ کر مرے اور ہیں ارادے +مرے بعد گر کے بجلی نہ قفس میں دل دکھا دے +مجھے قید کرنے والے مرا آشیاں جلا دے +میرا منہ کفن سے کھولا مجھے دیکھ کر وہ بولے +یہ نیا لباس کیوں ہے یہ کہاں ے ہیں ارادے +میں قفس میں مطمئن ہوں کہ سمجھ لیا ہے میں نے +یہ چمن نہیں کہ بجلی مرا آشیاں جلا دے +مجھے پھول سے زیادہ ہے قفس میں یادِ شبنم +جو چمن میں چار آنسو مِرے نام پر بہا دے +نہیں ہم ہی جب چمن میں تو چمن سے پھر غرض کیا +کوئی پھول توڑ ڈالے کوئی آشیاں جلا دے +مری زندگی ہی کیا ہے میں چراغِ رہگزر ہوں +جسے اک ہوا کا جھونکا ابھی آئے ابھی بجھا دے +وہ ہر اک سے پوچھتے ہیں کہ فدا ہے کیوں زمانہ +انہیں حسن کی خبر کیا کوئی آئینہ دکھا دے +تجھے خود خبر ہے ظالم کہ جہانِ رنگ و بو میں +ترے حسن کے ہیں چرچے مرے عِشق کو دعا دے +شبِ ہجر بات جب ہے کہ قمر کو وہ نالے +کوئی توڑ دے ستارے کوئی آسماں ہلا دے +قیدِ قفس سے چھٹ کے پہنچ جاؤں گھر ابھی +اتنے کہاں ہوئے ہیں مرے بال و پر ابھی +بیمارِ ہجر آئی کہاں سے سحر ابھی +تارہ کوئی نہیں ہے ادھر سے ادھر ابھی +صیاد صرف پاسِ وفا ہے جو ہوں خموش +ورنہ خدا کے فضل سے ہیں بال و پر ابھی +کیا آ رہے ہو واقعی تم میرے ساتھ ساتھ +یہ کام کر رہا ہے فریبِ نظر ابھی +کیوں روتے روتے ہو گئے چپ شامِ غم قمر +تارے بتا رہے ہیں نہیں ہے سحر ابھی +ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کیے +سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے +دل کو وہ کیا دیکھتے سوزِ جگر دیکھا کیے +لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کے +ان کی محفل میں انھیں سب رات بھر دیکھا کیے +ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے +تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لیئے منہ پھیر لو +دم نہ نکلے گا مری صورت اگر دیکھا کیے +میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ +گو مری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کیے +فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں +تم ادھر دیکھا کیے اور ہم ادھر دیکھا کیے +شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ +رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کیے +بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے ہی کیا صیاد سے +یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کیے +موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو +دیکھئے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کیے +رات بھر تڑپا کیا ہے دردِ فرقت سے قمر +پوچھ تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کیے +یہ نا ممکن ہو تیرا ستم مجھ سے عیاں کوئی +وہاں فریاد کرتا ہوں نہیں ہوتا جہاں کوئی +شکایت وہ نہ کرنے دیں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں +سرِ محشر کسی کی روک سکتا ہے زباں کوئی +عبث ہے حشر کا وعدہ ملے بھی تم تو کیا حاصل +یہ سنتے ہیں کہ پہچانا نہیں جاتا وہاں کوئی +انھیں دیرو حرم میں جب کبھی آواز دیتا ہوں +پکار اٹھتی ہے خاموشی نہیں رہتا یہاں کوئی +لحد میں چین دم بھر کو کسی پہلو نہیں ملتا +قمر ہوتا ہے کیا زیرِ زمیں بھی آسماں کوئی +صبر آگیا یہ کہہ کر دل سے غمِ وطن میں +سب پھول ہی نہیں کانٹے بھی تھے چمن میں +بلبل ہے گلستاں میں پروانہ انجمن میں +سب اپنے اپنے گھر ہیں اک ہم نہیں وطن میں +صیاد باغباں کی ہم سے کبھی نہ کھٹکی +جیسے رہے قفس میں ویسے رہے چمن میں +دامانِ آسماں کو تاروں سے کیا تعلق +ٹانکے لگے ہوئے ہیں بوسیدہ پیرہن میں +سنتے ہیں اب وہاں بھی چھائی ہوئی ہے ظلمت +ہم تو چراغ جلتے چھوڑ آئے تھے وطن میں +کچھ اتنے مختلف ہیں احباب جب اور اب کے +ہوتا ہے فرق جتنا رہبر میں راہزن میں +صیاد آج کل میں شاید قفس بدل دے +خوشبو بتا رہی ہے پھول آ گئے چمن میں +اے باغباں تجھے بھی اتنی خبر تو ہو گی +جب ہم چمن میں آئے کچھ بھی نہ تھا چمن میں +سونی پڑی ہے محفل، محفل میں جا کے بیٹھو +آتے نہیں پتنگے بے شمع انجمن میں +دیدار آخری پر روئے قمر وہ کیا کیا +یاد آئیں گی وفائیں منہ دیکھ کر کفن میں +تیرے طعنے سنے سہے غم بھی +ہم نے مارا نہ آج تک دم بھی +میری میت تو کیا اٹھاؤ گے +تم نہ ہو گے شریکِ ماتم بھی +باغباں برق کیا گلوں پہ گری +ترے گلشن میں لٹ گئے ہم بھی +جلتے رہتے ہیں تری محفل میں +یہ پتنگے بھی، شمع بھی، ہم بھی +ٹھہرو کپڑے بدل چکے ہیں ہم بھی +عمر بھر خاک ہی کیا چھانتے ویرانوں کی +بات تھی آئی گئی ہو گئی دیوانوں کی +کون کہہ دے گا کہ باتیں ہیں دیوانوں کی +دھجیاں جیب میں رکھی ہیں گریبانوں کی +جا چکے چھوڑ کر آزادیاں ویرانوں کی +اب تو بستی میں خبر جائے گی دیوانوں کی +یادگاریں نہیں کچھ اور تو دیوانوں کی +دھجیاں ملتی ہیں صحرا میں گریبانوں کی +خیر محفل میں نہیں حسن کے دیوانوں کی +شمع کے بھیس میں موت آئی ہے پروانوں کی +تو بھی کب توڑنے کو پھول چلا ہے گلچیں +آنکھ جب کھل گئی گلشن کے نگہبانوں کی +صرف اک اپنی نمودِ سرِ محفل کے لئے +لاکھوں قربانیاں دیں شمع نے پروانوں کی +شمع کے بعد پتنگوں نے کسی کو پوچھا +کہیں پرسش ہوئی ان سوختہ سامانوں کی +لنگر اٹھتا تھا کہ اس طرح سے کشتی بیٹھی +جیسے ساحل سے حدیں مل گئیں طوفانوں کی +اے قمر رات کو مے خانے میں اتنا تھا ہجوم +قسمتیں کھل گئیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی +بلا سے ہو شام کی سیآ ہی کہیں تو منزل مری ملے گی +ادھر اندھیرے میں چل پڑوں گا جدھر مجھے روشنی ملے گی +ہجومِ محشر میں کیسا ملنا نظر فریبی بڑی ملے گی +کسی سے صورت تری ملے گی کسی سے صورت مری ملے گی +تم��اری فرقت میں تنگ آ کر یہ مرنے والوں کا فیصلہ ہے +قضا سے جو ہمکنار ہو گا اسے نئی زندگی ملے گی +قفس سے جب چھٹ کے جائیں گے ہم تو سب ملین گے بجز نشیمن +چمن کا ایک ایک گل ملے گا چمن کی اک اک کلی ملے گی +تمھاری فرقت میں کیا ملے گا، تمھارے ملنے سے کیا ملے گا +قمر کے ہوں گے ہزار ہا غم رقیب کو اک خوشی ملے گی +باز آگیا شاید اب فلک ستانے سے +بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے +خاک لے گئی بجلی میرے آشیانے سے +صرف چار چھ تنکے وہ بھی کچھ پرانے سے +کچھ نظر نہیں آتا ان کے منہ چھپانے سے +ہر طرف اندھیرا ہے چاند ڈوب جانے سے +حالِ باغ اے گلچیں فائدہ چھپانے سے +ہم تو ہاتھ دھو بیٹھے اپنے آشیانے سے +باغ ہو کہ صحرا ہو جی کہیں نہیں لگتا +آپ سے ملے کیا ہم چھٹ گئے زمانے سے +صبح سے یہ وقت آیا وہ ہیں بزمِ دشمن ہے +مٹ گئیں ہیں کیا یا رب گردشیں زمانے سے +یہ سوال پھر کا ہے کب قیامت آئی گی +پہلے بچ تو لے دنیا آپ کے زمانے سے +ان کے حسن پر تہمت رکھ نہ اپنے مرنے کی +وہ تو موت آنے تھی اک نہ اک بہانے سے +آگ لگ کے تنکوں میں کیا بہار آئی ہے +پھول سے برستے ہیں میرے آشیانے سے +جو جفائیں پہلی تھیں وہ جفائیں اب بھی ہیں +انقلاب کیا یا رب اٹھ گئے زمانے سے +مبتلا ہوئے ایسے آسماں کی گردش میں +اے قمر نہ بیٹھے ہم آج تک ٹھکانے سے +حکم بے سوچے جو سرکار دیے دیتے ہیں +کیوں مجھے جرأتِ گفتار دیے دیتے ہیں +خانہ بربادوں کو سائے میں بٹھانے کے لئے +آپ گرتی ہوئے دیوار دیئے دیتے ہیں +عشق اور ابروئے خمدار کا اس دل کے سپرد +آپ تو دیوانے کو تلوار دیے دیتے ہیں +آپ اک پھول بھی دیں گے تو اس احسان کے ساتھ +جیسے گلزار کا گلزار دئیے دیتے ہیں +گیسو ہیں ان کے عارضِ تاباں کے ساتھ ساتھ +کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ +سامان خاک آیا تھا انساں کے ساتھ ساتھ +صرف ایک روح تھی تنِ عریاں کے ساتھ ساتھ +اے ناخدا وہ حکمِ خدا تھا جو بچ گئی +کشتی کو اب تو چھوڑ دے دے طوفاں کے ساتھ ساتھ +اے باغباں گلوں پہ ہی بجلی نہیں گری +ہم بھی لٹے ہیں تیرے گلستاں کے ساتھ ساتھ +جب لطف ہو جنوں تو کہیں زنداں سے لے اڑے +وہ ڈھونڈتے پھریں مجھے درباں کے ساتھ ساتھ +دو چار ٹانکے اور لگے ہاتھ بخیر گر +دامن بھی کچھ پھٹا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ +تم میرا خوں چھپا تو رہے ہو خبر بھی ہے +دو دو فرشتے رہتے ہیں انساں کے ساتھ ساتھ +اہلِ قفس کا اور تو کچھ بس نہ چل سکا +آہیں بھریں نسیمِ گلستاں کے ساتھ ساتھ +دیوانے شاد ہیں کہ وہ آئے ہیں دیکھنے +تقدیر کھل گئے درِ زنداں کے ساتھ ساتھ +واعظ مٹے گا تجھ سے غمِ روزگار کیا +ساغر چلے گا گردشِ دوراں کے ساتھ ساتھ +اک شمع کیا کوئی شبِ فرقت نہیں قمر +تارے بھی چھپ گئے ہیں مہِ تاباں کے ساتھ ساتھ +بجا ہے حکم کی تعمیل مانتا ہوں میں +اگر حضور نے کہہ دیا کل خدا ہوں میں +پڑے گا اور بھی کیا وقت میری کشتی پر +کہ ناخدا نہیں کہتا کہ ناخدا ہوں میں +تمھارے تیرِ نظر نے غریب کی نہ سنی +ہزار دل نے پکارا کہ بے خطا ہوں میں +سمجھ رہا ہوں قمر راہزن بجھا دے گا +چراغِ راہ ہوں رستے میں جل رہا ہوں میں +یہاں تنگیِ قفس ہے وہاں فکرِ آشیانہ +نہ یہاں مرا ٹھکانہ نہ وہاں مرا ٹھکانہ +مجھے یاد ہے ابھی تک ترے جور کا فسانہ +جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ +نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ +فقط ایک برق چمکی کہ بدل گیا زمانہ +یہ رقیب اور تم سے رہ و رسمِ دوستانہ +ابھی جس ہوا میں تم ہو وہ بدل گیا زمانہ +مرے سامنے چمن کا نہ فسانہ چھیڑ ہمدم +مجھے یاد آ نہ جائے کہیں اپنا آشیانہ +سرِ راہ کی��ے سوجھی تجھے ہجوِ مئے کی واعظ +نہ یہاں ہے تیری نہ مرا شراب خانہ +کسی سر نگوں سی ڈالی پہ رکھیں گے چار تنکے +نہ بلند شاخ ہو گی نہ جلے گا آشیانہ +نہ سنا سکے مسلسل غمِ دوریِ وطن کو +کبھی رو لئے گھڑی بھر کبھی کہہ دیا فسانہ +مرے روٹھ جانے والے تجھے یوں منا رہا ہوں +کہ قضا کے واسطے بھی کوئی چاہئیے بہانہ +کہیں میکشوں سے ساقی نہ نگاہ پھیر لینا +کہ انھیں کے دم سے قائم ہے ترا شراب خانہ +قمر اپنے داغِ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی +کہ سنا کیے ستارے مرا رات بھر فسانہ +ہم بھی انھیں کے ساتھ چلے وہ جہاں چلے +جیسے غبارِ راہ پسِ کارواں چلے +چاہوں تو میرے ساتھ تصور میں تا قفس +اے راہبر یقیں جو تری راہبری میں ہو +مڑ مڑ کے دیکھتا ہوا کیوں کارواں چلے +میری طرح وہ رات کو تارے گِنا کریں +اب کے کچھ ایسی چال آسماں چلے +متفق کیونکر ہوں ایسے مشورے پر دل سے ہم +راہبر تو لوٹ لے شکوہ کریں منزل سے ہم +راہبر کا ہو بھلا پہلے ہی گھر لٹو دئیے +لوٹ کر جائیں تو جائیں بھی کہاں منزل سے ہم +شمع گل کر دینے والے ہو گئی روشن یہ بات +ٹھوکریں کھاتے ہوئے نکلیں تری محفل سے ہم +ہم کو دریا برد کرنے والے وہ دن یاد کر +تجھ کو طوفاں میں بچانے آئے تھے ساحل سے ہم +یہ نہیں کہتے کہ دولت رات میں لٹ جائے گی +ہم پہ احساں ہے کہ سوتے ہیں بڑی مشکل سے ہم +ہی نہ کہئیے غم ہوا کشتی کا یوں فرمائیے +اک تماشہ تھا جسے دیکھا کیے ساحل سے ہم +اب تو قتلِ عام اس صورت سے روکا جائے گا +بڑھ کے خنجر چھین کیں گے پنجۂ قاتل سے ہم +رسمِ حسن و عشق میں ہوتی ہیں کیا پابندیاں +آپ پوچھیں شمع سے پروانۂ محفل سے ہم +کس خطا پر خوں کیئے اے مالکِ روزِ جزا +تو اگر کہہ دے تو اتنا پوچھ لیں قاتل سے ہم +موجِ طوفاں سے بچا لانے پہ اتنا خوش نہ ہو +اور اگر اے ناخدا ٹکرا گئے ساحل سے ہم +نام تو اپنا چھپا سکتے ہیں لیکن کیا کریں +اے قمر مجبور ہو جاتے ہیں داغِ دل سے ہم +یہ آئینے کی سازش تھی کچھ خطا بھی نہ تھی میری +ترے منہ پر کہی تیری مرے منہ پر کہی میری +تعلق مجھ سے کیا اے درد کیوں مجھ کو ستاتا ہے +نہ تجھ سے دوستی میری نہ تجھ سے دشمنی میری +لڑکپن دیکھئے گلگشت میں وہ مجھ سے کہتے ہیں +چمن میں پھول جتنے ہیں وہ سب تیرے کلی میری +کوئی اتنا نہیں ہے آ کے جو دو پھول رکھ جائے +قمر تربت پر بیٹھی رو رہی ہے بے کسی میری +اب مجھے دشمن سے کیا جب زیرِ دام آ ہی گیا +اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا +سن مآلِ سوزِ الفت جب یہ نام آ ہی گیا +شمع آخر جل بجھی پروانہ کام آ ہی گیا +طالبِ دیدار کا اصرار کام آ ہی گیا +سامنے کوئی بحسنِ انتظام آ ہی گیا +ہم نہ کہتے تھے کہ صبح شام کے وعدے نہ کر +اک مریضِ غم قریبِ صبح شام آ ہی گیا +کوششِ منزل سے تو اچھی رہی دیوانگی +چلتے پھرتے ان سے ملنے کا مقام آ ہی گیا +رازِ الفت مرنے والے نے چھپایا تو بہت +دم نکلتے وقت لب پر ان کا نام آ ہی گیا +کر دیا مشہور پردے میں تجھے زحمت نہ دی +آج کا ہونا ہمارا تیرے کام آ ہی گیا +جب اٹھا ساقی تو واعظ کی نہ کچھ بھی چل سکی +میری قسمت کی طرح گردش میں جام آ ہی گیا +حسن کو بھی عشق کی ضد رکھنی پڑتی ہے کبھی +طور پر موسیٰ سے ملنے کا پیام آ ہی گیا +دیر تک بابِ حرم پر رک کے اک مجبورِ عشق +سوئے بت خانہ خدا کا لے کے نام آ ہی گیا +رات بھر مانگی دعا ان کے نہ جانے کی قمر +صبح کا تارہ مگر لے کر پیام آ ہی گیا +بلا بلائے حسینوں کا آنا جانا تھا +قمر خدا کی قسم وہ بھی کیا زمانہ تھا +قفس میں رو دیے یہ کہہ کر ذکرِ گلشن پر +کبھی چمن میں ہمارا بھی آشیانہ تھا +نہ روکیے مجھے نالوں سے کہ اب محشر ہے +یہ میرا وقت ہے وہ آپ کا زمانہ تھا +نہ کہتے تھے کہ نہ دے دیکھ دل حسینوں کو +قمر یہ اس کی سزا ہے جو تو نہ مانا تھا +منزلیں غربت میں مجھ کو آفتِ جاں ہو گئیں +وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں +چارہ گر کیونکر نکالے دل میں پنہاں ہو گئیں +ٹوٹ کر نوکیں ترے تیروں کی ارماں ہو گئیں +کیا کروں جو آہیں رسوائی کا ساماں ہو گئیں +مشکلیں ایسی مجھے کیوں دیں جو آساں ہو گئیں +ہم نفس صیاد کی عادت کو میں سمجھتا نہ تھا +بھول کر نظریں مری سوئے گلستاں ہو گئیں +آشیاں اپنا اٹھاتے ہیں سلام اے باغباں +بجلیاں اب دشمنِ جانِ گلستاں ہو گئیں +میری حسرت کی نظر سے رازِ الفت کھل گیا +آرزوئیں اشک بن بن کر نمایا ہو گئیں +کیا نہیں معلوم کون آیا عیادت کے لئے +اسی بند آنکھیں تری بیمارِ ہجراں ہو گئیں +پھول غارت ہو گئے برباد کلیں ہو گئیں +وہ اٹھی عاشق کی میت لے مبارک ہو تجھے +اب تو پوری حسرتیں او دشمنِ جاں ہو گئیں +کائناتِ دل ہی کیا تھی چار بوندیں خون کی +دو غذائے غم ہوئیں دو نذرِ پیکاں ہو گئیں +آسماں پر ڈھونڈتا ہوں ان دعاؤں کو قمر +صبح کو جو ڈوبتے تاروں میں پنہاں ہو گئیں +ہمیں کیا جبکہ رہنا ہی منظور نہیں گلشن میں +گرے بجلی چمن پر آگ لگ جائے نشیمن میں +جنوں میں بھی یہاں تک ہے کسی کا پاسِ رسوائی +گریباں پھاڑتا ہوں اور رکھ لیتا ہوں دامن میں +ہمارا گھر جلا کہ تجھ کو کیا ملے گا اے بجلی +زیادہ سے زیادہ چار تنکے ہیں نشیمن میں +قمر جن کو بڑے مجھ سے وفاداری کے دعوے تھے +وہی احباب تنہا چھوڑ کر جاتے ہیں مدفن میں +بنتا نہیں ہے حسن ستمگر شباب میں +ہوتے ہیں ابتدا ہی سے کانٹے گلاب میں +جلوے ہوئے نہ جذب رخِ بے نقاب میں +کرنیں سمٹ کے آ نہ سکیں آفتاب میں +بچپن میں یہ سوال قیامت کب آئے گی +بندہ نواز آپ کے عہدِ شباب میں +صیاد آج میرے نشیمن کی خیر ہو +بجلی قفس پہ ٹوٹتی دیکھی ہے خواب میں +آغازِ شوق دید میں اتنی خطا ہوئی +انجام پر نگاہ نہ کی اضطراب میں +اب چھپ رہے ہو سامنے آ کر خبر بھی ہے +تصویر کھنچ گئی نگہِ انتخاب میں +کشتی کسی غریب کی ڈوبی ضرور ہے +آنسو دکھائے دیتا ہے چشمِ حباب میں +محشر میں ایک اشکِ ندامت نے دھو دیئے +جتنے گناہ تھے مری فردِ حساب میں +اس وقت تک رہے گی قیامت رکی ہوئی +جب تک رہے گا آپ کا چہرہ نقاب میں +ایسے میں وہ ہوں، باغ ہو، ساقی ہو اے قمر +لگ جائیں چار چاند شبِ ماہتاب میں +خشکی و تری پر قادر ہے آسان مری مشکل کر دے +ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے +تو اپنی خوشی کا مالک ہے، کیا تاب کسی کی اف جو کرے +محفل کو بنا دے ویرانہ ویرانے کو بنا دے محفل +اس رہروِ راہِ الفت کو دیکھے کوئی شام کے عالم میں +جب اٹھ کے غبارِ راہگذر نظروں سے نہاں منزل کر دے +گر ذوقِ طلب ہی دیکھنا ہے منظور تجھے دیوانے کا +ہر نقش بنے زنجیرِ قدم اتنی تو کڑی منزل کر دے +ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ +عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ +چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخِ گل کی جنبش پر +یہ گلشن ہے ذرا بادِ سحر آہستہ آہستہ +قفس میں دیکھ کر بازو اسیر آپس میں کہتے ہیں +بہارِ گل تک آ جائیں گے پر آہستہ آہستہ +کوئی چھپ جائے گا بیمارِ شامِ ہجر کا مرنا +پہنچ جائے گی ان تک بھی خبر آہستہ آہستہ +غمِ تبدیلی گلشن کہاں تک پھر یہ گلشن ہے +قفس بھی ہو تو بن جاتا ہے گھر آہستہ آہستہ +ہمارے باغباں نے کہہ دیا گلچیں کے شکوے پر +نئے اشجار بھی دیں گے ثمر آہستہ آہستہ +الٰہی کو نسا وقت آگیا بیمارِ فرقت پر +نہ جانے کیوں نہ آیا ورنہ اب تک کب کا آ جاتا +اگر چلتا نامہ بر وہاں سے آہستہ آہستہ +خفا بھی ہیں ارادہ بھی ہے شاید بات کرنے کا +وہ چل نکلیں ہیں مجھ کو دیکھ کر آہستہ آہستہ +جوانی آ گئی دل چھیدنے کی بڑھ گئیں مشقیں +چلانا آگیا تیرِ نظر آہستہ آہستہ +جسے اب دیکھ کر اک جان پڑتی ہے محبت میں +یہی بن جائے گی قاتل نظر آہستہ آہستہ +ابھی تک یاد ہے کل کی شبِ غم اور تنہائی +پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر آہستہ آہستہ +نگاہِ دنیائے عاشقی میں وجودِ دل محترم نہ ہوتا +اگر خدائی بتوں کی ہوتی تو دیر ہوتا حرم نہ ہوتا +رہِ محبت میں دل کو کب تک فریبِ دیرو حرم نہ ہوتا +ہزاروں سجدے بھٹکتے پھرتے جو تیرا نقشِ قدم نہ ہوتا +نہ پوچھ صیاد حال مجھ سے کہ کیوں مقدر پہ رو رہا ہوں +قفس میں گر بال و پر نہ کٹتے مجھے اسیری کا غم نہ ہوتا +ہمارے بعد جو چھوڑے ستم تو کیا ہوگا +خجل ہوئے پہ یہ توڑی قسم تو کیا ہوگا +یہ سوچتا ہوں سر جھکاتے ہیں پئے سجدہ +سمٹ کے آ گئے دیرو حرم تو کیا ہوگا +یہ بزمِ غیر ہے کچھ آبروئے عشق کا پاس +تھمے نہ اشک اے چشمِ نم تو کیا ہوگا +سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا +تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو +غنچے کے چٹکنے پہ نہ گلشن میں خفا ہو +ممکن ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہو +کھا اس کی قسم جو نہ تجھے دیکھ چکا ہو +تیرے تو فرشتوں سے بھی وعدہ نہ وفا ہو +انسان کسی فطرت پہ تو قائم ہو کم از کم +اچھا ہو تو اچھا ہو برا ہو تو برا ہو +اس حشر میں کچھ داد نہ فریاد کسی کی +جو حشر کے ظالم ترے کوچے سے اٹھا ہو +اترا کہ یہ رفتارِ جوانی نہیں اچھی +چال ایسی چلا کرتے ہیں جیسے کہ ہوا ہو +میخانے میں جب ہم سے فقیروں کو نہ پوچھا +یہ کہتے ہوئے چل دیئے ساقی کا بھلا ہو +اللہ رے او دشمنِ اظہارِ محبت +وہ درد دیا ہے جو کسی سے نہ دوا ہو +تنہا وہ مری قبر پہ ہیں چاکِ گریباں +جیسے کسی صحرا میں کوئی پھول کھلا ہو +منصور سے کہتی ہے یہی دارِ محبت +اس کی یہ سزا ہے جو گنہگارِ وفا ہو +جب لطف ہو اللہ ستم والوں سے پوچھے +تو یاس کی نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہو +فرماتے ہیں وہ سن کے شبِ غم کی شکایت +کس نے یہ کہا تھا کہ قمر تم ہمیں چاہو +فکریں تمام ہو گئیں برقِ تپاں سے دور +مژگاں کہاں ہیں ابروئے چشمِ بتاں سے دور +یہ تیر وہ ہیں جو نہیں ہوتے کماں سے دور +یادِ شباب یوں ہے دلِ ناتواں سے دور +جیسے کوئی غریب مسافر مکاں سے دور +دیر و حرم میں شیخ و برہمن سے پوچھ لے +سجدے اگر کئے ہوں ترے آستاں سے دور +اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں کسے راہ میں غبار +کوئی شکستہ پا تو نہیں کارواں سے دور +جب گھر سے چل کھڑے ہوئے پھر پوچھنا ہی کیا +منزل کہاں ہے پاس پڑے گی کہاں سے دور +ہو جاؤ آج کل کے وعدے سے منحرف +یہ بھی نہیں حضور تمھاری زباں سے دور +خوشبو کا ساتھ چھٹ نہ سکا تا حیات گل +لے بھی گئی شمیم تو کیا گلستاں سے دور +شعلے نظر نہ آئے یہ کہنے کی بات ہے +اتنا تو آشیانہ تھا باغباں سے دور +دیر و حرم سے ان کا برابر ہے فاصلہ +جتنے یہاں سے دور ہیں اتنے وہاں سے دور +صیاد یہ جلے ہوئے تنکے کہاں ہیں +بجلی اگر گری ہے میرے آشیاں سے دور +مجھ پر ہی اے قمر نہیں پابندیِ فلک +تارے بھی جا سکے نہ حدِ آسماں سے دور +تو کہتا ہے قبضہ ہے یہاں میرا وہاں میرا +تو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرا +چلے آؤ یہاں گورِ غریباں میں نہیں کوئی +فقط اک بے کسی ہے جو بتاتی ہے نشاں میرا +قمر میں شاہِ شب ہوں فوق رکھتا ہوں ستاروں پر +زمانے بھر پہ روشن ہے کہ ہے تخت آسماں میرا +چھوٹ سکتے ہیں نہیں طوفاں کی شکل سے ہم +جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے تم ساحل سے ہم +جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم +تو نہ رہ جانا کہیں اٹھیں اگر محفل سے ہم +وہ سبق آئیں ہیں لے کر اضطرابِ دل سے ہم +یاد رکھیں گے کہ اٹھتے تھے تری محفل سے ہم +اب نہ آوازِ جرس ہے اور نہ گردِ کارواں +یا تو منزل رہ گئی یا رہ گئے منزل سے ہم +روکتا تھا نا خدا کشتی کہ طوفاں آگیا +تم جہاں پر ہو بس اتنی دور تھے ساحل سے ہم +شکریہ اے قمر تک پہنچانے والو شکریہ +اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم +لاکھ کوشش کی مگر پھر بھی نکل کر ہی رہے +گھر سے یوسفؑ خلد سے آدمؑ تری محفل سے ہم +ڈب جانے کی خبر لائی تھیں موجیں تم نہ تھے +یہ گوآ ہی بھی دلا دیں گے لبِ ساحل سے ہم +شام کی باتیں سحر تک خواب میں دیکھا کیے +جیسے سچ مچ اٹھ رہے ہیں آپ کی محفل سے ہم +کیسی دریا کی شکایت کیسا طوفاں گلہ +اپنی کشتی آپ لے کر آئے تھے ساحل سے ہم +جور میں رازِ کرم طرزِ کرم میں رازِ جور +آپ کی نظروں کو سمجھے ہیں بڑی مشکل سے ہم +وہ نہیں تو اے قمر ان کی نشانی ہی سہی +داغِ فرقت کو لگائے دل سے پھر رہے ہیں ہم +دیکھتے ہیں رقص میں دن رات پیمانے کو ہم +ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم +لے کے اپنے ساتھ اک خاموش دیوانے کو ہم +جا رہے ہیں حضرتِ ناصح کو سمجھانے کو ہم +یاد رکھیں گے تمھاری بزم میں آنے کو ہم +بیٹھنے کے واسطے اغیار اٹھ جانے کو ہم +حسن مجبورِ ستم ہے عشق مجبورِ وفا +شمع کو سمجھائیں یا سمجھائیں پروانے کو ہم +رکھ کے تنکے ڈر رہے ہیں کیا کہے گا باغباں +دیکھتے ہیں آشیاں کی شاخ جھک جانے کو ہم +الجھنیں طولِ شبِ فرقت کی آگے آ گئیں +جب کبھی بیٹھے کسی کی زلف سلجھانے کو ہم +راستے میں رات کو مڈ بھیڑ ساقی کچھ نا پوچھ +مڑ رہے تھے شیخ جی مسجد کو بت خانے کو ہم +شیخ جی ہوتا ہے اپنا کام اپنے ہاتھ سے +اپنی مسجد کو سنبھالیں آپ بت خانے کو ہم +دو گھڑی کے واسطے تکلیف غیروں کو نہ دے +خود ہی بیٹھے ہیں تری محفل سے اٹھ جانے کو ہم +آپ قاتل سے مسیحا بن گئے اچھا ہوا +ورنہ اپنی زندگی سمجھے تھے مر جانے کو ہم +سن کہ شکوہ حشر میں کہتے ہوئے شرماتے نہیں +تم ستم کرتے پھرو دنیا پہ شرمانے کو ہم +اے قمر ڈر تو یہ اغیار دیکھیں گے انھیں +چاندنی شب میں بلا لائیں بلا لانے کو ہم +ان کے لبوں پہ آج محبت کی بات ہے +اللہ خیر ہو کہ نئی واردات ہے +صرف اک امیدِ وعدہ پہ قائم حیات ہے +محشر میں تم ملو گے قیامت کی بات ہے +آخر بشر ہوں ہو گیا جرمِ وفا تو کیا +کوئی خطا نہ ہو یہ فرشتے کی بات ہے +بس اتنا کہہ دو کہ دلائیں تمھیں کیا یاد +جب تم یہ کہو ہم کو نہیں عہدِ وفا یاد +بیمار تجھے نزؑ میں وہ بت ہی رہا یاد +کافر کو بھی آ جاتا ہے ایسے میں خدا یاد +جب تک رہا بیمار میں دم تم کو کیا یاد +تھی اور کسے دردِ محبت کی دوا یاد +بیاں جو حشر میں ہم وجہ آرزو کرتے +وی کیا ہیں ان کے فرشتے بھی گفتگو کرتے +تری گلی میں بیاں کس سے آرزو کرتے +کسی کو جانتے ہوئے تو گفتگو کرتے +لحد میں جا کر بھی ہم مئے کی جستجو کرتے +فرشتے پوچھتے کچھ، ہم سبو سبو کرتے +حفاظتِ گل و غنچہ نہ چار سو کرتے +اگر یہ خار نہ احساسِ رنگ و بو کرتے +قفس میں کیسے بیاں حالِ رنگ و بو کرتے +پروں کی خیر مناتے کہ گفتگو کرتے +یہاں نمازِ جنازہ ہے ختم ہونے کو +حضور ہیں کہ ابھی تک نہیں وضو کرتے +بہار دیکھ کے کیا کیا ہنسے ہیں دیوانے +کہ پھول چاک گریباں نہیں، رفو کرتے +جنوں میں جب ہوش آیا تو ہوش ہی نہ رہا +کہ اپنے چاکِ گریباں کو ہم رفو کرتے +نہ ملتی خاک میں دامن سے گر کے یوں شبنم +چمن کے پھول اگر پاسِ آبرو کرتے +یہ کہہ رہ گیا ہو گا کوئی ستم ورنہ +حضور اور میری جینے ک�� آرزو کرتے +یں سخت جاں کہ قاتل کا ہاتھ نازک ہے +یہ کل کو فیصلہ خود خنجر و گلو کرتے +قمر یقین جو کرتے ہم ان کے وعدے پر +تمام رات ستاروں سے گفتگو کرتے +ممکن ہے کوئی موج ہو ساحل ادھر نہ ہو +اے نا خدا کہیں یہ فریبِ نظر نہ ہو +یہ تو نہیں آہ میں کچھ بھی اثر نہ ہو +ممکن آج رات کوئی اپنے گھر نہ ہو +تاروں کی سیر دیکھ رہے ہیں نقاب سے +ڈر بھی رہے ہیں مجھ پہ قمر کی نظر نہ ہو +لحد والے امیدِ فاتحہ اور تجھ کو قاتل سے +کہیں ڈوبی ہوئی کشتی ملا کرتی ہے ساحل سے +یہ تم نے کیا کہا مجھپر زمانہ ہے فدا دل سے +ہزاروں میں وفا والا ملا کرتا ہے دل سے +نہ تھے جب آپ تو یہ حال تھا بیتابیِ دل سے +کبھی جاتا تھا محفل میں کبھی آتا تھا محفل سے +نگاہیں ان کو دیکھیں دیکھ کر یہ کہہ دیا دل سے +جو تو بیٹھا تو فتنے سینکڑوں اٹھیں گے محفل سے +دلوں میں آگئے جب فرق تو جاتے نہیں دل سے +کہ یہ ٹوٹے ہوئے شیشے جڑا کرتے ہیں مشکل سے +چمن مل جائے گا اہلِ چمن مل جائیں گے چھٹ کر +مگر تنکے نشیمن کے ملیں گے مجھ کو مشکل سے +ہماری کچھ نہ پوچھو ہم بری تقدیر والے ہیں +کہ جیتے ہیں تو مشکل سے جو مرتے ہیں تو مشکل سے +بگولا جب اٹھا میں راہ گم کردہ یہی سمجھا +کوئی رستہ بتانے آرہا ہے مجھ کو منزل سے +خموشی پر یہ حالت ہے خدا معلوم کیا کرتا +کوئی آواز آ جاتی اگر مجنوں کو محمل سے +صدا سن کر نہ طوفاں میں کسی نے دستگیری کی +کھڑے دیکھا کیے سب ڈوبنے والے کو ساحل سے +نہ ہو بیزار مجھ سے یکھ لینا ورنہ اے دنیا +نہ آؤں گا کبھی ایسا اٹھوں گا تیری محفل سے +قمر کے سامنے شب بھر سنوارو شوق سے گیسو +وہ آئینہ نہیں ہے کہ ہٹ جائے مقابل سے +مری وحشت کی شہرت جب زمانے میں کہیں ہوتی +گریباں پاؤں میں ہوتا گلے میں آستیں ہوتی +مشیت اے بتو، اللہ کی خالی نہیں ہوتی +خدائی تم نہ کر لیتے اگر دنیا حسیں ہوتی +کوئی ضد نہ تھی کوچے میں در ہی کے قریں، ہوتی +جہاں پر آپ کہہ دیتے مری تربت وہیں ہوتی +پسِ مردن مجھے تڑپانے والے دل یہ بہتر تھا +تری تربت کہیں ہوتی مری تربت کہیں ہوتی +اثر ہے کس قدر قاتل تری نیچی نگاہوں کا +شکایت تک خدا کے سامنے مجھ سے نہیں ہوتی +ہمیشہ کا تعلق اور اس پر غیر کی محفل +یہاں تو پردہ پوشِ چشمِ گریاں آستیں ہوتی +نہ رو اے بلبل ناشاد مجھ کمبخت کے آگے +کہ تابِ ضبط اب دکھے ہوئے دل سے نہیں ہوتی +شبِ فرقت یہ کہہ کر آسماں سے مر گیا کوئی +سحر اب اس طرح ہو گی اگر ایسے نہیں ہوتی +قسم کھاتے ہو میرے سامنے وعدے پہ آنے کی +چلو بیٹھو وفا داروں کی یہ صورت نہیں ہوتی +بجا ہے آپ بزمِ عدو سے اٹھ کے آ جاتے +اگر نالے نہ کرتا میں تو ساری شب وہیں ہوتی +ترے کوچے کے باہر یہ سمجھ کر جان دیتا ہوں +کہ مرتا ہے جہاں کوئی وہیں تربت نہیں ہوتی +شبِ مہتاب بھی تاریک ہو جاتی ہے آنکھوں میں +قمر جب میرے گھر وہ چاند سی صورت نہیں ہوتی +کسی کو دل مجھے دینا تو ناگوار نہیں +مگر حضور زمانے کا اعتبار نہیں +وہ آئیں فاتحہ پڑھنے اب اعتبار تو نہیں +کہ رات ہو گئی دیکھا ہوا مزار نہیں +کفن ہٹا کر وہ منہ بار بار دیکھتے ہیں +ابھی انھیں مرے مرنے کا اعتبار نہیں +داستاں اوراقِ گل پر تھی مجھی ناشاد کی +بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی +مجھ سے روٹھا ہے خودی دیکھو بتِ جلاد کی +مدعا یہ ہے کہ کیوں اللہ سے فریاد کی +قبر ٹھوکر سے مٹا دی عاشقِ ناشاد کی +یہ بھی اک تاریخ تھی ظالم تری بیداد کی +کیا ملے دیکھیں اسیروں کو سزا فریاد کی +آج کچھ بدلی ہوئی سی ہے نظر صیاد کی +رات میں بلبل تجھے سوجھی تو ہے فریاد کی +آنکھ سوتے سے نہ کھل جائے ک��یں صیاد کی +اب ہمیں امید بھی جاتی رہی بیداد کی +جس جگہ پہنچا وہیں آمد سنی صیاد کی +کیا بری تقدیر ہے مجھے خانماں برباد کی +فصلِ گل آتے ہی میرے چار تنکوں کے لیے +بجلیاں بے تاب ہیں چرخِ ستم ایجاد کی +ہو گیا بیمار کا دو ہچکیوں میں فیصلہ +ایک ہچکی موت کی اور اک تمھاری یاد کی +جاؤ بس رہنے بھی دو آئے نہ تم تو کیا ہوا +کیا کوئی میت نہ اٹھی عاشقِ ناشاد کی +اب مرے اجڑے نشیمن کی الٰہی خیر ہو +آج پھر دیکھی ہے صورت خواب میں صیاد کی +کس طرح گزری شبِ فرقت قمر سے یہ نہ پوچھ +کچھ ستارے گن لئے، کچھ روئے، کچھ فریاد کی +ڈھونڈنے پر بھی نہ دل پایا گیا +سوچتا ہوں کون کون آیا گیا +بت کے میں مدتوں کھائے فریب +بارہا کعبہ میں بہکایا گیا +ناصحا میں یہ نا سمجھا آج تک +کیا سمجھ کر مجھ کو سمجھایا گیا +مجھ پر ہے یہ نزع کا عالم اور +پھر سوچ لو باقی تو نہیں کوئی ستم اور +ہے وعدہ خلافی کے علاوہ بھی ستم اور +گر تم نہ خفا ہو تو بتا دیں تمھیں ہم اور +یہ مئے ہے ذرا سوچ لے اے شیخِ حرم اور +تو پہلے پہل پیتا ہے کم اور ارے کم اور +وہ پوچھتے ہیں دیکھئے یہ طرفہ ستم اور +کس کس نے ستایا ہے تجھے ایک تو ہم اور +وہ دیکھ لو احباب لیے جاتے ہیں میت +لو کھاؤ مریضِ غم فرقت کی قسم اور +اب قبر بھی کیا دور ہے جاتے ہو جو واپس +جب اتنے چلے آئے ہو دو چار قدم اور +قاصد یہ جواب ان کا ہے کس طرح یقین ہو +تو اور بیاں کرتا ہے خط میں ہے رقم اور +موسیٰؑ سے ضرور آج کوئی بات ہوئی ہے +جاتے میں قدم اور تھے آتے میں قدم اور +تربت میں رکے ہیں کہ کمر سیدھی تو کر لیں +منزل ہے بہت دور کی لے لیں ذرا دم اور +یہ بات ابھی کل کی ہے جو کچھ تھے ہمیں تھے +اللہ تری شان کہ اب ہو گئے ہم اور +بے وقت عیادت کا نتیجہ یہی ہو گا +دوچار گھڑی کے لیے رک جائے گا دم اور +اچھا ہوا میں رک گیا آ کر تہِ تربت +پھر آگے قیامت تھی جو بڑھ جاتے قدم اور +ہوتا قمر کثرت و وحدت میں بڑا فرق +بت خانے بہت سے ہیں نہیں ہے تو حرم اور +یہ مانا برق کے شعلے مرا گھر پھونک کر جاتے +مگر کچھ حادثے پھولوں کے اوپر بھی گزر جاتے +مرے کہنے سے گر اے ہم قفس خاموش ہو جاتا +نہ تیرے بال و پَر جاتے نہ میرے بال و پر جاتے +کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا +کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا +مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا +جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا +بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا +ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا +پسینہ، اشکِ حسرت، بے قراری، آخری ہچکی +اکھٹا کر رہا ہوں آج سامانِ سفر اپنا +یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے +قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا +دمِ آخر علاجِ سوزِ غم کہنے کی باتیں ہیں +مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا +نشاناتِ جبیں جوشِ عقیدت خود بتائیں گے +نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگِ در اپنا +جوابِ خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے +بتاتے ہیں پتہ میری بجائے نامہ بر اپنا +مجھ اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی +چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا +شکن آلود بستر، ہر شکن پر خون کے دھبے +یہ حالِ شامِ غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا +یہی تیر نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے +جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا +قمر ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہو نے تک +شبِ وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا +توبہ کیجئے اب فریبِ دوستی کھائیں گے کیا +آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا +خود سمجھے ذبح ہونے والے سمجھائیں گے کیا +بات پہنچے کی کہاں تک آپ کہلائیں گے کیا +بزمِ کثرت میں یہ کیوں ہوتا ہے ان کا انتظار +پردۂ وحدت سے باہر نکل آئیں گے کیا +کل بہار آئے گی یہ سن کر قفس بدلو نہ تم +رات بھر میں قیدیوں کے پر نکل آئیں گے کیا +اے دلِ مضطر انھیں باتوں سے چھوٹا تھا چمن +اب ترے نالے قفس سے بھی نکلوائیں گے کیا +اے قفس والو رہائی کی تمنا ہے فضول +فصلِ گل آنے سے پہلے پر نہ کٹ جائیں گے کیا +شامِ غم جل جل کے مثلِ شمع ہو جاؤں گا ختم +صبح کو احباب آئیں گے تو تو دفنائیں گے کیا +جانتا ہوں پھونک دے گا تیرے گھر کو باغباں +آشیاں کے پاس والے پھول رہ جائیں گے کیا +ان کی محفل میں چلا آیا ہے دشمن خیر ہو +مثلِ آدم ہم بھی جنت سے نکل جائیں گے کیا +ناخدا موجوں میں کشتی ہے تو ہم کو نہ دیکھ +جن کو طوفانوں نے پالا ہے وہ گھبرائیں گے کیا +تو نے طوفاں دیکھتے ہی کیوں نگاہیں پھیر لیں +ناخدا یہ اہل کشتی ڈوب ہی جائیں گے کیا +کیوں یہ بیرونِ چمن جلتے ہوئے تنکے گئے +میرے گھر کی دنیا بھر میں پھیلائیں گے کیا +کوئی تو مونوس رہے گا اے قمر شامِ فراق +شمع گل ہوگی تو یہ تارے بھی چھپ جائیں گے کیا +ضد ہے ساقی سے کہ بھر دے میرا پیمانہ ابھی +شیخ صاحب سیکھیئے آدابِ میخانہ ابھی +باغباں توہینِ گلشن چار تنکوں کے لئے +برق سے کہہ دے بنا جاتا ہے کاشانہ ابھی +ہم خیالِ قیس ہوں ہم مشربِ فرہاد ہوں +حسن اتنا سوچ لے دو بیکسوں کی یاد ہوں +پاشکستہ، دل حزیں، شوریدہ سر، برباد ہوں +سر سے لے کر پاؤں تک فریاد ہی فریاد ہوں +حالِ گلشن کیا ہے اے نوواردِ کنجِ قفس +میں مدت سے اسیرِ خانۂ صیاد ہوں +خیریت سن لی گل و غنچے کی لیکن اے صبا +یاد ہیں مجھ کو تو سب میں بھی کسی کو یاد ہوں +تم سرِ محفل جو چھیڑو گے مجھے پچھتاؤ گے +جس کو سن سکتا نہیں کوئی میں وہ فریاد ہوں +تجھ سے میں واقف تو تھا گندم نما اوجَو فروش +فطرتاً کھانا پڑا دھکا کہ آدم زاد ہوں +گُلشنِ عالم میں اپنوں وے تو اچھے غیر ہیں +پھول ہیں بھولے، ہوئے کانٹوں کو لیکن یاد ہوں +قید میں صیاد کی پھر بھی ہیں نغمے رات دن +اس قدر پابندیوں پر کس قدر آزاد ہوں +بولنے کی دیر ہے میری ہر اک تصویر ہیں +میں زمانے کا ہوں مانی وقت کا بہزاد ہوں +صفحۂ ہستی سے کیا دنیا مٹائے گی مجھے +میں کوئے نقش و نگار مانی و بہزاد ہوں +فصلِ گل آنے کی کیا خوشیاں نشیمن جب نہ ہو +باغ کا مالک ہوں لیکن خانماں برباد ہوں +میں نے دانستہ چھپائے تھے ترے جور و ستم +تو نے یہ سمجھا کہ میں نا واقفِ فریاد ہوں +کیا پتہ پوچھو ہو میرا نام روشن ہے قمر +جس جگہ تاروں کی بستی ہے وہاں آباد ہوں +تم نے دیکھا تھا قمر کو بزم میں وقتِ سحر +جس کا منہ اترا ہوا تھا میں وہی ناشاد ہوں +منانے کو مجھے آئے ہو دشمن سے خفا ہو کر +وفاداری کے وعدے کر رہے ہو بے وفا ہو کر +نہ ابھری گردشِ تقدیر سے یہ ڈوبتی کشتی +میں خود شرما گیا منت گزارِ ناخدا ہو کر +اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی +دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی +ستم گر حشر میں وہ بھی قیامت کی گھڑی ہو گی +ترے دامن پہ ہوگا ہاتھ دنیا دیکھتی ہو گی +مجھے شکوے بھی آتے ہیں مجھے نالے بھی آتے ہیں +مگر یہ سوچ کر چپ ہوں کی رسوا عاشقی ہو گی +تو ہی انصاف کر جلوہ ترا دیکھا نہیں جاتا +نظر کا جب یہ عالم ہے تو دل پر کیا بنی ہو گی +اگر آ جائے پہلو میں قمر وہ ماہِ کامل بھی +دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہو گی +کیا سے کیا یہ او دشمن جاں تیرا پیکاں ہو گیا +تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا +باغباں کیوں سست ہے غنچہ و گل کی دعا +اک مرے جانے سے کیا خالی گلستان ہو ��یا +کیا خبر تھی یہ بلائیں سامنے آ جائیں گی +میری شامت مائلِ زلفِ پریشاں ہو گیا +کچھ گلوں کو ہیں نہیں میری اسیری کا الم +سوکھ کر کانٹا ہر اک خارِ گلستاں ہو گیا +ہیں یہ بت خانے میں بیٹھا کر رہا کیا قمر +ہم تو سنتے تھے تجھے ظالم مسلماں ہو گیا +سرِ شام تجھ سے ملنے ترے در پہ آ گئے ہیں +یہ وہیں ہیں لوگ شاید جو فریب کھا گئے ہیں +میں اگر قفس سے چھوٹا تو چلے گی باغباں سے +جہاں میرا آشیاں تھا وہاں پھول آ گئے +کوئی ان سے جا کہ کہہ دے سرِ بام پھر تجلی +جنہیں کر چکے ہو بے خود انھیں ہوش آ گئے ہیں +یہ پتہ بتا رہے ہیں رہِ عشق کے بگولے +کہ ہزاروں تم سے پہلے یہاں خاک اڑا گئے ہیں +شبِ ہجرِ شمع گل ہے مجھے اس سے کیا تعلق +قمر آسماں کے تارے کہاں منہ چھپا گئے ہیں +دل انھیں کیا دیا قرار نہیں +عشق کو حسن ساز گار نہیں +دل کے اوپر نگاہِ یار نہیں +تیر منت کشِ شکار نہیں +اب انھیں انتظار ہے میرا +جب مجھے ان کا انتظار نہیں +شکوۂ بزمِ غیر ان سے عبث +اب انھیں اپنا اعتبار نہیں +منتظرِ شام کے رہو نہ قمر +ان کے آنے کا اعتبار نہیں +کچھ تو کہہ دے کیا کریں اے ساقیِ مے خانہ ہم +اپنی توبہ توڑ دیں یا توڑ دیں پیمانہ ہم +دل عجب شے ہے یہ پھر کہتے ہیں آزادانہ ہم +چاہے جب کعبہ بنا لیں چاہے جب بت خانہ ہم +داستانِ غم پہ وہ کہتے ہیں یوں ہے یوں نہیں +بھول جاتے ہیں جو دانستہ کہیں افسانہ ہم +اپنے در سے آ جائے ساقی ہمیں خالی نہ پھیر +مے کدے کی خیر ہو آتے نہیں روزانہ ہم +مسکرا دیتا ہے ہر تارا ہماری یاد پر +بھول جاتے ہیں قمر اپنا اگر افسانہ ہم +تدوین اور ای بک: اعجاز عبید + + +وکی کتب میں خوش آمدید، +یہ مؤسسہ وکی میڈیا کی طرف سے قائم کیا گیا ایک منصوبہ ہے جس کا مقصد ہر خاص و عام کے لیے کتاب لکھنے اور اسے طبع عام کرنے کی سہولت فراہم کرنا ہے ۔ + + +صفحہ اول پر نمایاں کرنے کےلیے منتخب موضوعات + + +بچوں کے لیے موزوں کتب و عنوانات + + +مرزا اسد اللہ خان غالب + + +بچوں کی تعلیم کے لیے لکھی گئی غالب کی ایک یادگار مثنوی + + +صفحہ اول سے متعلق صفحات ، سانچے ، منصوبہ جات وغیرہ + + +کچھ ایسی کشمکش میں میری زندگی رہی +سب کچھ کیا نصیب میں لا حاصلی رہی +اک عمر اس کی یاد میں ھم نے گزار دی +پھر بھی مزاج یار میں ایک برہمی رہی +وہ لمحے گرد ہو گئے لمحوں کے ساتھ ساتھ +کچھ روز تیرے ساتھ جب وابستگی رہی +یہ اور بات‘تم کو بھلاتے رھے ہیں ھم +تم سے بچھڑ کے عمر بھر اک بے کلی رہی +فرزانؔ ہمارا جینا بھی ‘ کار محال تھا +مرنے کی جستجو بھی نہ ليکن کبھی رہی +اس کی ادا کو ديکھيئے اقرار ديکھيئے +اور ساتھ ساتھ پيارا سا انکار ديکھيئے +ہو زندہ دِل تو اس کی تعريف کيجئے +آنکھيں اگر ہيں تو عکس رخ يار ديکھيئے +آےٌ شب وصال وہ اول تو دير سے +آتے ہی ان کا جانے پہ اصرار ديکھيئے +اظہار اگر چہ سب کا ہی والہانہ لگے گا +مرا طرزِ پذيرائی سب سے جداگانہ لگے گا +پاس محبت تو فقط احساسِ وفا ہے فرزان +وہ روٹھے گا بھی تو بے وفا نہ لگے گا + + +* اس کی ادا کو ديکھيئے اقرار ديکھيئے +* اور ساتھ ساتھ پيارا سا انکار ديکھيئے +* ہو زندہ دِل تو اس کی تعريف کيجئے +* آنکھيں اگر ہيں تو عکس رخ يار ديکھيئے +* آےٌ شب وصال وہ اول تو دير سے +* آتے ہی ان کا جانے پہ اصرار ديکھيئے +* اظہار اگر چہ سب کا ہی والہانہ لگے گا +* مرا طرزِ پذيرائی سب سے جداگانہ لگے گا +* پاس محبت تو فقط احساسِ وفا ہے فرزان +* وہ روٹھے گا بھی تو بے وفا نہ لگے گا +* جيسے منصف مجرم کی تعزير بدل ديتا ہے +* خدا يوں ميرے ہاتھ کی لکير بدل ديتا ہے +* گاہے گاہے وہ ظالم اسير بدل ديتا ہے +* عادتاً بھی وہ غم کی تفسير بدل دیتا ہے +* عجب ہرجائی ہے وہ کہ ميرے جاتے ہی +* دل کی ديوار سے تصوير بدل ديتا ہے +* وہ معمار ہےميرے دل کے تاج محل کا +* جب بھی دل کرتا ہے‘ تعمير بدل ديتا ہے +* بڑے اہتمام سے لکھتا ہے اظہار محبت +* پھر بڑے شوق سے تحرير بدل ديتا ہے +* کتنا غريب ھو گيا ھوں دوستوں کے شہر ميں +* ايک دوست مانگتا ھوں دشمنوں کے شہر ميں +* فرصت نہيں کسی کو‘ سلام بھی کر سکيں يہاں +* اتنے مصروف ہيں لوگ فرصتوں کے شہر ميں +* یہ الميہ بھی اب عام ھوا جا رہا ہے آج کل +* ھدايت بھٹک رہی ہے ھدايتوں کے شہر ميں +* عمر خضر بھی لے کر‘ نہ مل سکی کہيں پر +* قحط وفا تھی اور وہ بھی محبتوں کے شہر ميں +* عشق دربدر تھا صحرائے فراق ميں کہيں +* نيلام حسن جاری تھا‘ نفرتوں کے شہر ميں +* سر منبر جو دے رہا تھا‘ درس امن سب کو +* وہی شخص مر گيا ‘ حفاظتوں کے شہر ميں +* مثل آفتاب چمک رہا تھا ‘ سر آسمان جو کل +* بے نام مر گيا ‘ آج شہرتوں کے شہر ميں +* اپنی ذات کے کربلا ميں مثل حسينﷻ تھا فرزان +* تشنہ لب تھا ميں ‘ اور بارشوں کے شہر ميں +* سنہری دھوپ سے ‘بارش سے واسطہ رکھنا +* ہمارا شيوہ ہے ہر رت سے رابطہ رکھنا +* ميں جانتا ہوں غم ہجر لا دوا ہے ‘مگر +* جو ہو سکے تو ‘ميری جان !حوصلہ رکھنا +* رفاقتوں کا یہ موسم گزر نہ جاے کہيں +* کبھی کبھی کوئی ملنے کا سلسلہ رکھنا +* بہت سے لوگ تمہارے قريب ہيں ‘ليکن +* ہماری ذات کو اوروں سے تم جدا رکھنا +* کہيں ميں بھول نہ جاوٗں تمہارے گھر کا پتہ +* ديا منڈير پہ اپنی تم ايک جلا رکھنا +* ہمارا عشق بھی فرزان ہے پاگلوں جيسا +* کہ خود کو بھول کے دنيا کو آشنا رکھنا +* اتنا ہمارے درمياں بس اختلاف تھا +* وہ مصلحت کا قائل اور ميں خلاف تھا +* جو لب پہ بات تھی وہ کوئی اور بات تھی +* آنکھوں ميں اس کی جھانکتا اک إنحراف تھا +* مضمون اس کی نيچی نظروں نے کہہ ديا +* دل کا معاملہ تھا اور بہت صاف صاف تھا +* دشمن کے سب بياں حمايت ميں تھے مری +* ہاں شہر دوستاں مگر ميرے خلاف تھا +* کيوں مجھ کو ملے غم‘ہجر‘آہ‘جدائی‘آنسو +* راہِ عشق ميں تو سب کو جنوں معاف تھا +* پر وانے کی سر ِ محفل جب بھی نمائش ہو گی +* شمع کو عشق سے تمنائے ستائش ہو گی +* موقوف نہيں بس دنيا ميں تيری چاہت +* مر کے بھی اس دل کو تری ہی خواہش ہو گی +* اِغيار پہ اب الزام ميں رکھ نہيں سکتا +* پسِ پشت سے تو اپنوں ہی کی سازش ہو گی +* کب یہ سوچا تھا کہ تم سے بچھڑ جائيں گے +* کب یہ سوچا تھا کہ تم سے بھی رنجش ہو گی +* اسُ وقت سے ڈرتا ہوں عشق ميں جاناں +* جب لب پہ ترے بچھڑنے کی گذارش ہو گی +* جسے دنيا ميری موت سے منسوب کرے گی +* وہ تجھے بھولنے کی ناکام سی کوشش ہو گی +* برسوں جو منتظر رہا اک ساعتِ سعيد کا +* جانبر نہ ہو سکا وہ وصالِ نويد کا +* نہ گلُ و نغمہ ‘نہ رنگِ محفل نہ جشنِ خوشبو +* کوئی بہانہ ہی نہيں اب کے تيری ديد کا +* تيرے بن تو ہر خوشی خواب لگتی ہے +* تيرے بن تو زہر لگتا ہے چاند عيد کا +* لب نہ کھلے وقتِ رخصت فرزان +* دامن ميں گر گيا ايک آنسو تاکيد کا +* وہ اک نگاہ ميں دِل کی بات کر گيا +* ميں سوچتا رہا برسوں حرف تمہيد کا +* ميں سر ہتھيلی پہ رکھ کےنہ لاتا تو کرتا +* وہ يقين کر رہا تھا گفتگوئے شنيد کا +* کيسے بھلاؤں ا ُس کو ميں دِل سے اپنے +* وہ چراغ جلا گيا ہے دِل ميں اُميد کا + + +جيسے منصف مجرم کی تعزير بدل ديتا ہے +خدا يوں ميرے ہاتھ کی لکير بدل ديتا ہے +گاہے گاہے و�� ظالم اسير بدل ديتا ہے +عادتاً بھی وہ غم کی تفسير بدل دیتا ہے +عجب ہرجائی ہے وہ کہ ميرے جاتے ہی +دل کی ديوار سے تصوير بدل ديتا ہے +وہ معمار ہےميرے دل کے تاج محل کا +جب بھی دل کرتا ہے‘ تعمير بدل ديتا ہے +بڑے اہتمام سے لکھتا ہے اظہار محبت +پھر بڑے شوق سے تحرير بدل ديتا ہے +کتنا غريب ھو گيا ھوں دوستوں کے شہر ميں +ايک دوست مانگتا ھوں دشمنوں کے شہر ميں +فرصت نہيں کسی کو‘ سلام بھی کر سکيں يہاں +اتنے مصروف ہيں لوگ فرصتوں کے شہر ميں +یہ الميہ بھی اب عام ھوا جا رہا ہے آج کل +ھدايت بھٹک رہی ہے ھدايتوں کے شہر ميں +عمر خضر بھی لے کر‘ نہ مل سکی کہيں پر +قحط وفا تھی اور وہ بھی محبتوں کے شہر ميں +عشق دربدر تھا صحرائے فراق ميں کہيں +نيلام حسن جاری تھا‘ نفرتوں کے شہر ميں +سر منبر جو دے رہا تھا‘ درس امن سب کو +وہی شخص مر گيا ‘ حفاظتوں کے شہر ميں +مثل آفتاب چمک رہا تھا ‘ سر آسمان جو کل +بے نام مر گيا ‘ آج شہرتوں کے شہر ميں +اپنی ذات کے کربلا ميں مثل حسينﷻ تھا فرزان +تشنہ لب تھا ميں ‘ اور بارشوں کے شہر ميں +سنہری دھوپ سے ‘بارش سے واسطہ رکھنا +ہمارا شيوہ ہے ہر رت سے رابطہ رکھنا +ميں جانتا ہوں غم ہجر لا دوا ہے ‘مگر +جو ہو سکے تو ‘ميری جان !حوصلہ رکھنا +رفاقتوں کا یہ موسم گزر نہ جاے کہيں +کبھی کبھی کوئی ملنے کا سلسلہ رکھنا +بہت سے لوگ تمہارے قريب ہيں ‘ليکن +ہماری ذات کو اوروں سے تم جدا رکھنا +کہيں ميں بھول نہ جاوٗں تمہارے گھر کا پتہ +ديا منڈير پہ اپنی تم ايک جلا رکھنا +ہمارا عشق بھی فرزان ہے پاگلوں جيسا +کہ خود کو بھول کے دنيا کو آشنا رکھنا +اتنا ہمارے درمياں بس اختلاف تھا +وہ مصلحت کا قائل اور ميں خلاف تھا +جو لب پہ بات تھی وہ کوئی اور بات تھی +آنکھوں ميں اس کی جھانکتا اک إنحراف تھا +مضمون اس کی نيچی نظروں نے کہہ ديا +دل کا معاملہ تھا اور بہت صاف صاف تھا +دشمن کے سب بياں حمايت ميں تھے مری +ہاں شہر دوستاں مگر ميرے خلاف تھا +کيوں مجھ کو ملے غم‘ہجر‘آہ‘جدائی‘آنسو +راہِ عشق ميں تو سب کو جنوں معاف تھا +پر وانے کی سر ِ محفل جب بھی نمائش ہو گی +شمع کو عشق سے تمنائے ستائش ہو گی +موقوف نہيں بس دنيا ميں تيری چاہت +مر کے بھی اس دل کو تری ہی خواہش ہو گی +اِغيار پہ اب الزام ميں رکھ نہيں سکتا +پسِ پشت سے تو اپنوں ہی کی سازش ہو گی +کب یہ سوچا تھا کہ تم سے بچھڑ جائيں گے +کب یہ سوچا تھا کہ تم سے بھی رنجش ہو گی +اسُ وقت سے ڈرتا ہوں عشق ميں جاناں +جب لب پہ ترے بچھڑنے کی گذارش ہو گی +جسے دنيا ميری موت سے منسوب کرے گی +وہ تجھے بھولنے کی ناکام سی کوشش ہو گی +برسوں جو منتظر رہا اک ساعتِ سعيد کا +جانبر نہ ہو سکا وہ وصالِ نويد کا +نہ گلُ و نغمہ ‘نہ رنگِ محفل نہ جشنِ خوشبو +کوئی بہانہ ہی نہيں اب کے تيری ديد کا +تيرے بن تو ہر خوشی خواب لگتی ہے +تيرے بن تو زہر لگتا ہے چاند عيد کا +لب نہ کھلے وقتِ رخصت فرزان +دامن ميں گر گيا ايک آنسو تاکيد کا +وہ اک نگاہ ميں دِل کی بات کر گيا +ميں سوچتا رہا برسوں حرف تمہيد کا +ميں سر ہتھيلی پہ رکھ کےنہ لاتا تو کرتا +وہ يقين کر رہا تھا گفتگوئے شنيد کا +کيسے بھلاؤں ا ُس کو ميں دِل سے اپنے +وہ چراغ جلا گيا ہے دِل ميں اُميد کا + + +جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا +دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا +آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر +اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا +ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک +پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی ک��ارا ہوا +جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر +اک سفرزاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا +زندگی اک جوا خانہ ہے جسکی فٹ پاتھ پر اپنا دل +اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا +تم جسے چاند کا چاند کہتے ہو منصور آفاق وہ +ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا + + +میں ہر کسی سے محبت کروں کسی کے لیے +یہ دِل تو کب کا سو چُکا ” ردائے خواب” اوڑھ کر +ردائے خواب ایک مسافر کی ” خُود کلامی ” ہے ، جو دِن بھر خواب بُنتا ہے ، خواہشوں کے ریزے چُنتا اور پلکوں پر سجا کر اپنی ذات کے صحرا میں خیالوں کا خیمہ نصب کر کے سو جاتا ہے ۔ +اُس نے جِس راہ کو لہو بخشا +میں بھی اُس راہ کا مُسافر تھا +وہ سرِ دار میں سرِ مقتل +وہ پیمبر تھا اور میں شاعر تھا +اب کے تُو اس طرح سے یاد آیا +جِس طرح دشت میں گھنے سائے +جیسے دھُندلے سے آئینے کے نقوش +جیسے صدیوں کی بات یاد آئے +موسمِ غم ہے مہرباں اب کے +ہم پہ تنہائیوں کا سایا ہے +بعض اوقات رات یُوں گُزری، +تُو بھی کم کم ہی یاد آیا ہے +عِشق، منزل کے رُخ کا غازہ ہے +عقل، رستے کو صاف کرتی ہے +زندگی پر جو لوگ چھا جائیں +مَوت اُن کا طواف کرتی ہے +کیا بتاؤں کہ رُوٹھ کر تُجھ سے +آج تک تجربوں میں کھو یا ہُوں +تُو مجھے بھُول کر بھی خُوش ہوگا +میں تُجھے یاد کر کے رویا ہُوں +مَیں سجاتا ہوں پیاس ہونٹوں پر +تُم گھٹا بن کے دِل پہ چھا جاؤ ! +اے رگِ جاں میں گونجنے والو!! +اور بھی کُچھ قریب آ جاؤ +ہم نے سچ بولنے کی جرات کی +تیرے بارے میں اور کیا کہتے +غیرتِ جاں کی بات تھی ورنہ +ہم ترے سامنے بھی چُپ رہتے +جو کبھی زندگی کا محور تھے! +کاش اب بھی وہ دوست کہلاتے +جو بھُلائے نہ جا رہے تھے کبھی! +اب وہی یاد بھی نہیں آتے +جب ہوا چار سُو بِکھر جائے +آدمی امن کو ترستا ہے +جب زمیں تیرگی سے اَٹ جائے +آسماں سے لہو برستا ہے +جی میں آئی تو بیچ کر شیشے! +شُعلۂ جامِ جم خریدیں گے +ہم وہ تاجر ہیں جو سرِ محفل +قہقہے دے کے غم خریدیں گے +تُو وہ کج بیں کہ تُجھ کو منزل پر +رہگزاروں کے بَل دکھائی دیں +میں وہ خوش فہم ہوں کہ مُجھ کو سدا +آبلے بھی کنول دکھائی دیں +صِرف ہرجائی پَن کی بات نہیں +اب ہمیں لوگ کیا نہیں کہتے! +اس قدر ظلم سہہ کے بھی اے دوست +ہم تجھے بے وفا نہیں کہتے +غم کو زُلفوں کا بَل نہیں کہتا +زخمِ جاں کو کنول نہیں کہتا +وہ جو اِک پَل کو رُوٹھ جاتا ہے +مدّتوں میں غزل نہیں کہتا +سُن لو جہان بھر کی جگر دار گردشو! +کہہ دو ہوائے دہر کی رفتار ٹوک کر +میں سو رہا ہوں زیرِ زمیں اس کی تاک میں +گُزرے اِدھر سے میرا عدو سانس روک ک +چند لمحے جو غم کو ٹل آئے +کِتنے خوش بخت و خُوش خیال آئے +لوگ یُوں مطمئن سے ہیں جیسے +آسماں پر کمند ڈال آئے +خواہشوں کی جوان دیوی ہے +وحشیوں کے نگر کی ناگن ہے +بانجھ دھرتی کی ہچکیوں پہ نہ جا +زندگی تُو سَدا سُہاگن ہے +فِکر کی ہر کَسک شعُوری ہے +عقل کی ہَر ادا ادھُوری ہے +دِل کی دُنیا سنوارنے کے لئے +عِشق کرنا بہت ضروری ہے +سیرتیں بے قیاس ہوتی ہیں +صُورتیں ، غم شناس ہوتی ہیں +جِن کے ہونٹوں پہ مُسکراہٹ ہو +اُن کی آنکھیں اُداس ہوتی ہیں +سُکوتِ شامِ غریباں میں سُن سکو تو سُنو! +کہ مَقتلوں سے ابھی تک صَدائیں آتی ہیں +لہُو سے جِن کو منوّر کرے دماغِ بَشر، +ہوائیں ایسے چَراغوں سے خَوف کھاتی ہیں +جو مِری یادوں سے زِندہ تھا کبھی +مَدّتوں سے اُس کا خَط آیا نہیں +میں مگر کہتا ہُوں اپنے آپ سے +وہ بہت مصروف ہوگا ۔ یا کہیں …. ؟ +سِتارے چُومتے ہیں گردِ پَا کو +خراجِ خُود کلامی لے رہی ہے +وہ رَستے میں کھڑی ہے یُوں کہ جیسے +دو عالَم کی سَلامی لے رہی ہے +غَم کے غُبار میں ہیں سِتارے اَٹے ہُوئے +خواہش کی کرچیوں میں ہیں چہرے بٹے ہُوئے +اَب کیا تلاشِ اَمن میں نکلیں کہ ہر طرف +مُدّت سے فاختاؤں کے ہیں پر کٹے ہُوئے +جَوانی کے کٹھن رستوں پہ ہَر سُو +فریبِ آرزو کھانا پڑے گا! +بِچھڑ جاؤ، مگر یہ سوچ لینا +تمہیں اِک روز پچھتانا پڑے گا +دفن ہیں مُجھ میں شورشیں کِتنی +دِل کی صُورت خموش وادی ہُوں +شوق سے ترکِ دوستی کر لے +مَیں تِری نفرتوں کا عادی ہُوں +اِک فسانہ ہے زندگی لیکن +کتنے عنواں ہیں اس فسانے کے +چاکِ داماں کی خیر ہو یا ربّ +ہاتھ گُستاخ ہیں زمانے کے +ماتمی رُت کا راج ہے ہَر سُو +پھُول مُرجھا گئے ہیں سہروں کے +اِک ترے غم کی روشنی کے سِوا +بُجھ گئے سَب چراغ چہروں کے +شہر کے سب لوگ ٹھہرے اجنبی +زِندگی تُو کب مُجھے راس آئے گی +اَب تو صَحرا میں بھی جی لگتا نہیں +دِل کی ویرانی کہاں لے جائیگی؟ +سَب فَسانے ہیں دُنیا داری کے +کِس نے کِس کا سُکون لُوٹا ہے؟ +سَچ تو یہ ہے کہ اِس زمانے میں +میں بھی جھُوٹا ہُوں تُو بھی جھُوٹا ہے +اُڑ گیا رنگ رہگزاروں کا +قافلہ بُجھ گیا چناروں کا +اَوڑھ کر زرد موسموں کی رِدا +آؤ ماتم کریں بہاروں کا +بھنور نے کاٹ دئیے سِلسلے کِناروں کے +خزاں نے رنگ چُرا ہی لئے بہاروں کے +عجیب قحط پڑا ہے کہ پیٹ بھرنے کو +میں راز بیچتا پھرتا ہُوں اپنے یاروں کے +کہاں ہے اَرض و سَما کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کُریدے! +ہَوس کی سُرخی رُخِ بَشر کا حَسین غازہ بنی ہُوئی ہے +کوئی مَسیحا اِدھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اُترے +اُفق کا چہرہ لہُو میں تَر ہے، زمیں جنازہ بنی ہُوئی ہے +وہ کہ جلتی رُتوں کا بادل تھا، +کیا خبر کب برس گیا ہوگا؟ +لیکن اندر کی آگ میں جل کر +اُس کا چہرہ جھُلس گیا ہوگا +ہمارے دِل نے بھی محفل سجائی ہے کیا کیا! +حیات ہم پہ مگر مُسکرائی ہے کیا کیا! +ہَوائے گردشِ دوراں کے ایک جھونکے سے +تمہاری یاد کی لَو تھر تھرائی ہے کیا کیا +کیا جانے کب سے دھُوپ میں بیٹھی تھی سانولی؟ +اُبھری ہُوئی اَنا کی شِکن سی جَبِیں پر +دیکھا فضا میں اُڑتے پرندوں کو ایک بار +پھر کھینچنے لگی وہ لکیریں زمین پر +اپنے ہمسائے کے چراغوں سے +بام و دَر کو سنوار لیتا ہُوں +اِتنا مُفلِس کیا اندھیروں نے +روشنی تک اُدھار لیتا ہُوں +بارہا خُود سے ہر داستاں کہہ گئے +لفظ آنسُو بنے، آنکھ سے بہہ گئے +لوگ جاں سے گزرتے رہے اور ہم +خُود کشی کے لئے سوچتے رہ گئے +اُس کو تھے راس بھیگتی پلکوں کے ذائقے، +دریا رَواں تھے اُس کے دِل حشر خیز میں +کرتی تھی بے دریغ اُنہیں خرچ اس لئے +لائی تھی اپنے ساتھ وہ آنسو جہیز میں +دَور کے چاند کی کرنوں میں نہایا ہوں کہ یُوں +میرے ماتھے پہ مُحبت کا پَسینہ آئے +اِس لے ٹُوٹ کے رویا ہوں میں اکثر محسن +مُجھ کو دِل کھول کر ہنسنے کا قرینہ آئے +آنکھوں میں بَھر کے سَادہ مُحبت کی ڈوریاں +مُٹّھی میں بند کر کے دِل و جاں کی چوریاں +دَھرتی کو لُوٹتی ہیں تبسُم کی اَوٹ سے +چالاک کِس قدر ہیں یہ گاؤں کی گوریاں +خُود بھی اُترا ہے آسمانوں سے +مُجھ کو پستی میں ڈالنے کے لئے +خُود بھی بدنام ہو گیا کوئی؟ +مُجھ پہ تہمت اُچھالنے کے لئے +دُور تک وَادیاں ہیں پھُولوں کی +میری آنکھوں میں عکس تیرا ہے +چاند گھُلنے لگا ہے پانی میں +ہَر طرف سانولا سویرا ہے +یُوں تو محفل میں جانِ محفل تھا +رہگُزر میں چَراغِ منزل تھا +دل کی باتیں نہ کہہ سکا تُجھ سے +تیرا شاعرِ غَضَب کا ” بُزدل” تھا +اَے زمیں کے عظیم اِنسانو! +بھید پاؤ کبھی اُڑانوں کا!! +تُم تو دَھرتی سنوار لو گے مگر +کون وارِث ہے آسمانوں کا +دَرد یُوں بے حِساب لگتا ہے +جِس میں اُڑتے تھے قہقہے اپنے +اَب وہ ماحَول خواب لگتا ہے +ہاتھوں میں دوستی کی لکیریں سَجا کے مِل +آنکھوں میں احتیاط کی شمعیں جَلا کے مِل +دِل میں کدورتیں ہیں تو ہوتی رہیں مگر +بازار میں مِلا ہے ذرا مُسکرا کے مِل +زِندگانی کی کج اَدائی پر +تبصرے سب فضول ہوتے ہیں +اپنی اپنی بساط ہے سب کی +اپنے اپنے اصُول ہوتے ہیں +ہم تبسُم سجا کے ہونٹوں پر +غَم بقدرِ مزاج لیتے ہیں +جیسے ہنستے دِیے مزاروں کے +آندھیوں سے خِراج لیتے ہیں +شُعلۂ گُل سے چَمن جَلتا ہے +شہر کے شور سے بَن جلتا ہے +اَب” گھٹا” دِل کو گھٹا دیتی ہے +اَبر تن جائے تو تَن جَلتا ہے +دِل کا عالَم نِکھارتے رہنا +اِک نظر دیکھ لو زمانے کو +پھر یہ زُلفیں سَنوانتے رہنا +چند کپڑے ہیں سادہ گھٹڑی میں +چند زیور چھُپا کے لائی ہے +ایک ” پگلی” ” پیا” سے مِلنے کو +ہِیر کے مقبرے میں آئی ہے +کون رَوتا ہے تمہارے بِجر میں ؟ +ڈُوبتے دِل کی صَدا سے پُوچھنا +کون پِھرتا ہے گلی میں رات بھر؟ +دستکیں دیتی ہوا سے پُوچھنا +وہ تَشبیہیں پہن کر آ رہی ہے +حقیقت بَر محل کہنا پڑے گی +خِراج اَب اور کیا دینا ہے اُس کو +مُجھے تازہ ” غزل” کہنا پڑے گی! +وقفِ خوف و ہراس لگتا ہے +دِل، مصائب شناس لگتا ہے +تُو جو اَوجھل ہُوا نگاہوں سے +شہر سارا اُداس لگتا ہے +اِن کو دِل میں سنبھال کر رکھو! +اِن کو سَوچو بہت قرینوں سے +چند سانسوں سے ٹُوٹ جاتے ہیں +” لفظ” نازک ہیں آبگینوں سے +سَنولاگئے ہیں رنگ رُخِ ماہتاب کے +مُرجھا گئے کلائی میں گجرے گُلاب کے +اَب کے برس بھی تُو جو نہ آیا تو دیکھنا +مُجھ کو تو مار ڈالیں کے طعنے چناب کے +تُم، کہ عُہدوں پہ جان دیتے ہو +ہَم پہ بھی اعتبار کر دیکھو، +آدمیّت بھی ایک مَنصب ہے، +آدمی سے بھی پیار کر دیکھو +آنکھوں میں آنسوؤں کی حِنا سی ہے اِن دِنوں +دِل کو بھی شوقِ دَرد شناسی ہے اِن دِنوں +گر ہو سکے تو آ کہ مری جاں ترے بغیر! +ماحول میں شدِید اُداسی ہے اِن دِنوں +تُجھ کو تو مِل گیا ترا دِلدارِ جاں نواز! +پِھر کیوں ترا وجود رہینِ ہَراس ہے +پِھر شرمسار کیوں ہے یہ جوڑا سُہاگ کا +پِھر کِس لئے یہ سُرخ دوپٹّہ اُداس ہے +نَرم کر دیتی ہیں دِل کو دُوریاں +نَفرتیں بھی کھیلتی ہیں پیار سے +اَجنبی بن کر جو ملتا تھا کبھی +اُس کا خَط آیا سمندر پار سے +یہ سِتمگر یہ دِلنشیں دُنیا +سَب کو لگتی ہے مہ جبیں دُنیا +میری آنکھیں غریب ہیں ورنہ +اِس قدر قیمتی نہیں دنیا +اَب کے ہَر سُو وہ اُداسی ہے کہ دل کہتا ہے +کوئی بھٹکا ہُوا رَہرَو ہی سفر میں اُترے +کوئی رُوٹھا ہوا جُگنو ہی بُلائے مُجھ کو! +کوئی ٹُوٹا ہُوا تارہ میرے گھر میں اُترے +ترے خیال سے دامن بچا کے دیکھا ہے +دِل و نظر کو بہت آزما کے دیکھا ہے +نِشاطِ جاں کی قسم، تُو نہیں تو کُچھ بھی نہیں +بہت دِنوں تُجھے ہم نے بھُلا کے دیکھا ہے +دِل، ترے اِنتظار میں اکثر +تیرے آہٹ سے ڈرنے لگتا ہے +جیسے پانی مین پھُول کاغذ کا +تیرتے ہی بِکھرنے لگتا ہے +تِیرگی رُوح پر مسلّط ہو! +رو پڑے یہ بہار کا موسم! +وہ اگر سوگوار ہو جائے +دستکیں جِس کے دَر پہ دیتا ہوں +یُوں بھی وہ مُجھ کو ٹال دیتا ہے! +اپنے دامن کی نفرتیں چُن کر +میری جھولی میں ڈال دیتا ہے +کوئی مکاں نہ کوئی مکیں ، کون آشنا؟ +ہم اپنے شہر میں بھی مُسافر سے رہ گئے +یا سُرخ آندھیوں کی نظر کھا گئی اُنہیں +یا اَب کی بارشوں میں گھروندے ہی بہہ گئے +سینے میں دَرد، لب پہ تبسّم کے ذائقے +دُنیا کی گردشوں سے سَدا بے نیاز ہیں +بُجھتے ہُوئے دِلوں پہ چھڑکتے ہیں روشنی +روہی کے لوگ کِتنے مُسافر نواز ہیں +کہیں دَھرتی نہاتی ہے لہُو دَریا کی مَوجوں میں +کہیں بارُود کی بارش ہے اِنسانی ریاست پر +ستارے اشک بن کر ہٹ گئے معصُوم بچّوں میں +فرشتے ہنس رہے ہیں ابنِ آدم کی سِیاست پر +موت تاریک وادیوں کا سفر +زندگی نُور کی علامت ہے +سانس بھی اِک قیامت ہے +موت تاریک وادیوں کا سفر +زندگی نُور کی علامت ہے +سانس بھی اِک قیامت ہے +اب یہی مصلحت مناسب ہے +اب اِسی طور زندگی کر لیں ، +میں بھی یاروں کا زخم خوردہ ہوں +دشمنو، آؤ دوستی کر لیں +دل کو بُجھنا تھا… ! +تِیرگی کے اُداس چہرے پر +رات بھر ایک دَاغ کیا جَلتا؟ +دِل کو بُجھنا تھا، بُجھ گیا آخِر +آندھیوں میں چَراغ کیا جَلتا؟ +غَم کے سنجوگ اَچھے لگتے ہیں +مُستقل روگ اچھے لگتے ہیں +کوئی وعدہ وَفا نہ کر، کہ مُجھے +بے وفا لوگ اَچھّے لگتے ہیں +اُس سے کہہ دو… ! +اُس کے ہونٹوں پہ خموشی کے شرارے بھر دو +جِس نے سیکھا نہ ہو شیشے کو بھی پتھر کہنا +اُس سے کہہ دو کہ وہ آنکھوں میں سیاہی بھر لے! +جِس کو آتا نہ ہو صحرا کو سَمندر کہنا +اُس کے چہرے پہ گردِ محرومی! +اُس کی آنکھوں کے شہرِ ویراں ہیں ، +مُسکرا بھی دے اے غمِ دوراں ! +اُس کی زُلفیں بہت پریشاں ہیں +عُمر گذری عذابِ جاں سہتے +دھُوپ میں زیرِ آسماں رہتے +ہم ہیں سُنسان راستوں کے شَجر +جو کِسی کو بھی کُچھ نہیں کہتے +تُجھ کو یہ وَہم ہے کہ کیوں مُجھ کو +تیری رعنائیوں سے پیار نہیں +میں یہی سَوچ کر ہُوں چُپ کہ ابھی +یُوں بھی ہے اب کہ سوچ کر تُجھ کو +دِل ترے دَرد میں پِگھل جائے +بے خیالی میں آگ کو چھُو کر +جیسے بچّے کا ہاتھ جَل جائے +ساعتِ حشر کی اذّیت تک +اور کتنی اذّیتیں ہوں گی +اُس قیامت سے پیشتر یا رَبّ! +اور کتنی قیامتیں ہوں گی ! +سُخن، میزان میں تو لو نہ تولو ! +مگر نزدیک آ کر بَھید کھولو +کہیں خُوشبو نہ سُن لے بات کوئی +مِری جاں ، اور بھی آہستہ بولو +دَرد، دِل کی اساس ہو شاید +غَم، جَوانی کو راس ہو شاید +کہہ رہی ہے فَضا کی خاموشی +اِن دِنوں تُم اُداس ہو شَاید +ایک فلسطینی بچّے کی سالگرہ +اَب کہاں وہ گیت گاتی محفلیں +اَب کہاں عُود و عبیرہ و آبنوس؟ +چند شمعوں کی بجائے مَیز پر +رکھ دِئیے ہیں ماں نے خالی کارتُوس +مُجھ سے مَت پُوچھ کہ احساس کی حِدّت کیا ہے؟ +دھُوپ ایسی تھی کہ سائے کو بھی جَلتے دیکھا +شدتِ غم میں مرے دیدۂ تَر نے محسن +پتّھروں کو بھی کئی بار پِگھلتے دیکھا +کیا ہُوئے وہ دِن وہ رَسمیں کیا ہُوئیں ؟ +کھیلتے تھے جب غمِ دَوراں سے لوگ +بانٹتے پِھرتے تھے ہر سُو زِندگی +کُچھ سخی کُچھ بے سرو ساماں سے لوگ +تسخیر کر رہا ہوں زمانے کی گردشیں +غم کو سِکھا رہا ہوں مناجات عِید کی +گُم سُم ہے کائنات، ستارے ہیں دَم بخود +جب بھی سَاون کی شوخ راتوں میں +کوئی وارث کی ” ہِیر” گاتا ہے +سَوچتا ہوں کہ اُس گھڑی مُجھ کو +کیوں ترا شہر یاد آتا ہے +تُم کُچھ ایسے بِچھڑ گئے مُجھ سے +غَم کے سائے ڈھلے نہیں ڈھلتے +آ بھی جاؤ کہ اَب منڈیروں پر +مُدّتوں سے دِیے نہیں جَلتے +یُوں بھی ہم دُور دُور رہتے تھے +یُوں بھی سِینوں میں اِک کُدورت تھی +تُم نے رسماً بھُلا دیا ورنہ! +اِس تکلّف کی کیا ضُرورت تھی ؟ +چُومتی تھیں جِس کے پاؤں مَنزلیں +قافلہ وہ کِن بیا بانوں میں ہے ؟ +جِس کی حِدّت سے پِگھلتے تھے پہاڑ +وہ لہُو کِن گرم شریانوں میں ہے ؟ +اِس طرح دِل کے زَرد آنگن میں +تیری یادوں کے داغ جَلتے ہیں +جیسے آ��دھی میں ٹُوٹی قبروں پر +سہمے سہمے چراغ جلتے ہیں +غَم، وہ سَفّاک سَم کا قَطرہ ہے +جو رگوں میں اُتر کے بَس جائے +” زِندگی” وہ اُداس ” جوگن” ہے +جِس کو سَاون میں سانپ ڈَس جائے +ہر طرف جبر ہو تو کیا کیجئے +ہر طرف ظُلم ہو تو کیا کہیئے +کِتنے احباب کا گِلہ کیجئے +کِتنے اعداء کو مرحبا کہیئے +کِس کی شَب بے مَلال کٹتی ہے؟ +کِس کا دِن چَین سے گذرتا ہے ؟ +مِل گئے ہو تو مُسکرا کے مِلو! +کوب پھر کِس کو یاد کرتا ہے؟ +شفَق ہَونٹوں میں سُرخ آنچل دَبائے +وہ گوری اِس طرح شرما رَہی ہے!! +ضمیرِ دو جہاں میں زلزلے ہیں +مُجھے تازہ غزل یاد آ رہی ہے +یا مَقتلوں کا رِزق ہُوئی آبروئے جاں +یا گردِشوں کی نذر ہُوئے سرفراز لوگ +اَب کیوں مُسافروں کے ٹھکانے ہیں دھُوپ میں +اَب کیا ہُوئے وہ شہر کے مہماں نواز لوگ؟ +یُوں تِری یاد، دِل میں اُتری ہے +جیسے جُگنو ہَوا میں کھو جائے +جیسے ” روہی” کے سر ٹیلوں میں +اِک مُسافر کو رات ہو جائے +غَم کی زَد میں اگر بِگڑ جائیں +پھر کہاں قِسمتیں سنورتی ہیں ؟ +اَب یہ باتیں گراں گذرتی ہیں +کہیں سُورج سے ذرّے کی ٹھنی ہے +کہیں تِتلی سے بھنورا لڑ گیا ہے +پڑی ہے اوس رِشتوں پر کُچھ ایسی +لہُو کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے +آنکھوں میں گھول کر نئے موسم کے ذائقے +باہوں میں رَوشنی کے سمندر کو گھیر کر +خوابوں کی سرزمیں پہ خیالوں سے بے نیاز +سو جاؤ اپنی رشیمی زُلفیں بکھیر کر +تُجھ کو سوچوں تو ایسے لگتا ہے +جیسے خوشبُو سے رنگ مِلتے ہیں +جیسے صحرا میں آگ جلتی ہے ؟ +جیسے بارش میں پھُول کِھلتے ہیں +چُبھتے ہُوئے وہ لفظ وہ جلتے ہُوئے حروف +شہ رگ میں اب بھی ہیں وہی کانٹے اڑے ہُوئے +اِک بار سَچ کہا تھا مگر اُس کی آگ سے +اَب تک مِری زباں پہ ہیں چَھالے پڑے ہوئے +بات بنتی رَہے خُوئے دلدار کی +رات چمکی رہے حُسنِ بازار کی +دشت کی چاندنی میں نہاتی رہیں +شہر کی سَسّیاں ، سوہنیاں پیار کی +پلکوں پہ آنسوؤں کو سجاتی ہے رات بھر +دِل میں رَواں ہے رُوح کے اندر ہے چاندنی +اُبھرا ہے کون اِس کے تلاطُم میں ڈُوب کر؟ +آوارگی کا ایک سمندر ہے چاندنی +دَدر کی دھُوپ سے بَھرے بَن میں +اپنے سائے سے ڈر کے پچھتایا! +اے مِرا نام بھُولنے والے!! +مَیں تجھے یاد کر کے پچھتایا +پھالیہ سے علی رضا نے ۷ مارچ ۲۰۱۴ کو مجموعہ کلام محسن نقوی مرتب کیا۔ + + +خود توثیق شدہ صارفین اُن کو کہتے ہیں جن کا کھاتہ ۴ دن پرانہ ہو اور کم از کم ۱۰ ترامیم ہوں ــ یہ صارفین Files آپلوڈ کر سکتے ہیں اور مضامین کے عنوان بھی بدلنے کا اختیار اِن کے پاس ہوتا ہے(اگر مضمون محفوظ نہ کیا ہو)ــ + + +رہروؤں کا مطلب کیا ہے ؟ + + +منتظم و مامور اداری اردو ویکیپیڈیا +سابق منتظم اردو ویکی کتب + + +یہ جم کاربٹ کی کتاب Jungle Lore کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں جم کاربٹ نے اپنے بچپن سے لے کر ادھیڑ عمری تک جنگل کی زبان سیکھنے کے بارے بتایا ہے کہ کب کیسے اور کیا سیکھا گیا ہے + + +ڈینسی آئرش النسل تھا اور جن بھوتوں پر پوری طرح اعتقاد رکھتا تھا۔ اس لیے جب وہ ایسی کہانیاں سناتا تو سماں باندھ دیتا تھا۔ اس رات کی کہانیاں بگڑے چہروں، کڑکڑاتی ہڈیوں، دروازوں کا پراسرار طور پر کھلنا بند ہونا اور پرانی عمارتوں میں سے سیڑھیوں سے خودبخود آوازیں آنا شامل تھیں۔ چونکہ میں نے کبھی آسیب زدہ پرانی عمارتیں نہیں دیکھی تھیں، اس لیے مجھے ڈینسی کی کہانیوں سے کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جب ڈینسی نے رگوں میں خون جما دینے والی ایک کہانی پوری کی ہی تھی کہ ہمارے سروں کے اوپر سے ایک بوڑھا اُلو ہو ہو کرتا ہوا شکار کی تلاش میں نکلا۔ یہ الو سارا دن بیلوں سے گھرے درخت پر اونگھتا رہتا تھا جہاں اسے کوے اور دیگر پرندے تنگ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ درخت ہلدو کا تھا جو برسوں پہلے آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا اور ہم سب جو تتلیاں پکڑنے یا غلیل سے شکار کھیلنے آتے تھے، اسے بخوبی پہچانتے تھے۔ اُلو کی آواز کو بعض ناواقف افراد شیر کی دھاڑ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اُلو کی آواز کا جواب نہر کے دوسرے کنارے پر موجود اس کی مادہ نے دیا۔ افزائش نسل کے علاوہ دونوں اُلو الگ الگ رہتے تھے۔ اُلو کی آواز سنتے ہی ڈینسی نے جن بھوتوں کی کہانیاں ختم کر دیں اور بنشی کی کہانیاں شروع کر دیں۔ ڈینسی کو جن بھوت سے بھی زیادہ اعتقاد بنشی پر تھا۔ ڈینسی کے مطابق بنشی ایک عورت کی بدروح ہے جو گھنے جنگلوں میں رہتی ہے اور اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ محض اس کی آواز سُننے سے سُننے والے اور اس کے پورے خاندان پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر بنشی پر نظر پڑ جائے تو پھر اس بدقسمت فرد کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ بنشی سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ جنگلوں میں پائی جاتی تھی اور تتلیوں اور پرندوں کے انڈوں کی تلاش میں میں جنگلوں میں مٹرگشت کرتا تھا۔ +مجھے یہ تو علم نہیں کہ آئرلینڈ میں پائی جانی والی بنشیاں کیسی ہوتی ہیں لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ دو کیسی بنشیاں ہیں جن کی آواز اس نے کالاڈھنگی کے جنگلوں میں سنی تھی۔ ایک بنشی کے بارے بعد میں بات کرتے ہیں۔ دوسری بنشی کو ہمالیہ کے دامن اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے چڑیل کے نام سے جانتے ہیں۔ بد ارواح میں چڑیل کو سب سے برا سمجھا جاتا ہے اور یہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ الٹے پیروں والی یہ چڑیل کسی انسان کو اپنا شکار چن لیتی ہے اور پھر سانپ کی طرح اسے مسمرائز کر کے اس کا شکار کرتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ سے آنکھوں کو ڈھک کر اور اگر گھر کے اندر ہوں تو کمبل کو سر تک تان لیا جائے۔ +غار میں رہنے والے انسان چاہے جیسے بھی ہوں، موجودہ دور کا انسان دن کی مخلوق ہے۔ دن کی روشنی میں ہمیں آسانی رہتی ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں چند گھنٹے قبل والی تاریکی کی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔ جب دن کی روشنی ختم ہوتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر طرف چھا جاتا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تو ہمارا تخیل عجب تماشے دکھانے لگ جاتا ہے۔ جب تخیل کے ساتھ مافوق الفطرت عناصر پر اندھا اعتقاد بھی ساتھ شامل ہو تو عجب نہیں کہ گھنے جنگلوں سے گھرے دیہاتوں میں رات کے وقت لوگوں کا خون خشک ہونے لگ جاتا ہے کہ ان کے پاس سواری کے نام پر اپنی ٹانگیں اور روشنی کے نام پر محض مشعلیں ہوتی ہیں۔ +کئی کئی ماہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کی زبان بولنے کے سبب ڈینسی کے اپنے توہمات پر مقامی پہاڑی لوگوں کے توہمات کا گہرا غلاف بھی چڑھ چکا تھا۔ ہمارے دیہاتی ہوں یا کہ ڈینسی، ان کی بہادری میں کوئی شک نہیں لیکن مافوق الفطرت پر ان کا اعتقاد انہیں چڑیل یا بنشی کے بارے تحقیق کرنے سے روکتا ہے۔ +برسوں میں کماؤں میں رہا اور جنگل میں سینکڑوں راتیں گذاریں، مجھے چڑیل کی آواز تین بار سنائی دی ہے جو ہمیشہ رات کو آتی تھی اور ایک بار اسے دیکھا بھی ہے۔ +مارچ کا مہینہ تھا۔ سرسوں کی بہترین فصل کٹ چکی تھی اور ہماری جھونپڑی کے آس پاس پورا گاؤں خوش تھا۔ سارے مرد، عورتیں اور بچے گا بجا رہے تھے۔ چاند کی گیار��ویں یا بارہویں تاریخ تھی اور رات کو بھی دن جیسا سماں تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے، میگی اور میں رات کا کھانا کھانے ہی لگے تھے پرسکون رات میں اچانک چڑیل کی آواز آئی اور اسے سنتے ہی دیگر تمام آوازیں تھم گئیں۔ صحن کے دائیں کونے پر، ہماری جھونپڑی سے پچاس گز دور ہلدو کا درخت ہے۔ نسل در نسل گدھوں، عقابوں، بازوں، چیلوں، کوؤں اور دیگر پرندوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوپری شاخوں کی کھال اتر گئی ہے اور اوپری شاخیں مر چکی ہیں۔ ہمارا بیرونی دروازہ جو شمالی سرد ہوا سے بچاؤ کی خاطر بند تھا، کو کھول کر میں اور میگی برآمدے میں نکلے اور عین اسی وقت چڑیل پھر بولی۔ یہ آواز ہلدو کے درخت سے آئی تھی اور اس کی سب سے بلند شاخ پر چڑیل بیٹھی تھی۔ +* اس پرندے کی جسامت سنہرے عقاب سے تھوڑی سی چھوٹی تھی +* نسبتاً لمبی ٹانگوں پر سیدھا کھڑا تھا +* دم نسبتاً چھوٹی لیکن الو سے بڑی تھی +* الو جیسا گول سر نہیں تھا اور نہ ہی الو جیسی چھوٹی گردن +* سر پر کوئی تاج یا سینگ نہیں تھے +* جب یہ بولا، جیسا کہ ہر نصف منٹ بعد بولتا تھا، سر کو آسمان کی جانب بلند کر کے اور پوری چونچ کھول کر بولتا تھا +* پورا جسم کالے رنگ کا تھا لیکن عین ممکن ہے کہ گہرا بھورا ہو جو چاندنی میں مجھے سیاہ دکھائی دیا +میرے پاس 28 بور کی شاٹ گن رکھی تھی لیکن یہ پرندہ اس کی مار سے دور بیٹھا تھا اور رائفل استعمال کرنے سے مجھے جھجھک ہو رہی تھی کہ چاندنی رات میں رائفل کا نشانہ اس طرح کے پرندے پر لینا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر نشانہ خطا جاتا تو جہاں تک رائفل کی آواز جاتی، لوگوں کو یقین ہو جاتا کہ چڑیل پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ بیس بار بولنے کے بعد اس پرندے نے پر کھولے او راڑ کر اندھیرے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔ +ساری رات گاؤں پر خاموشی رہی اور اگلے دن کسی نے بھی چڑیل کا ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ مجھے بچپن میں کنور سنگھ نے سمجھایا تھا کہ جنگل میں شیر کا نام کبھی مت لینا، ورنہ شیر سے لازمی ٹاکرا ہوگا۔ اسی وجہ سے پہاڑی علاقے کے لوگ چڑیل کا ذکر نہیں کرتے۔ +کالا ڈھنگی میں سردیاں بسر کرنے والے دونوں خاندانوں کے بچوں کی کل تعداد 14 تھی۔ میرا چھوٹا بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر سے باہر رات کو بون فائر یا تالاب میں نہانے کے لیے نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اسے شمار کرنا فضول ہے۔ میں ان 14 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے چھوٹا لڑکا ہونے کی وجہ سے مجھے ہر وہ کام کرنا پڑتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھے۔ مثلاً ہمارے بچپن میں لڑکیاں جب ہماری جاگیر کے کنارے والی نہر پر نہانے جاتیں تو کسی لڑکے کو ساتھ لازمی جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں اتوار چھوڑ ہر روز نہانے جاتی تھیں۔ اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتوار کو کیوں نہ نہایا جائے۔ لڑکیوں کے شب خوابی کے لباس اور تولیے اٹھانا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی کیونکہ اُن دنوں تیراکی کے لباس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب لڑکیاں نہا رہی ہوں تو نزدیکی پگڈنڈی سے گذرتے ہوئے مردوں سے انہیں خبردار کرنا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ نہر پختہ تھی اور دس فٹ چوڑی اور تین فٹ گہری تھی۔ جہاں اس نہر سے ہماری جاگیر کو آبپاشی کا پانی جاتا، اس جگہ سر ہنری ریمزے کے حکم پر نہر کو کھود کر چند گز کے لیے چھ فٹ گہرا کر دیا گیا تھا۔ ہر روز جب لڑکیاں نہانے کو جاتیں تو مجھے حکم ملتا کہ کسی لڑکی اس گہری جگہ ڈوبنے نہ دوں۔ کاٹن کے پتلے شب خوابی کے لباس پہن کر جب تین فٹ گہرے پانی میں پیر پھسلے یا اچانک بیٹھنا ہو تو سارا لب��س ہوا بھرنے کے بعد سطح پر تیرنے لگ جاتا تھا اور ہر لڑکی پانی میں پہنچتے ہی یہی کچھ کرتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا، اور یہ بار بار ہوتا تھا، مجھے سخت حکم تھا کہ دوسری جانب دیکھنے لگ جاؤں۔ +جب میں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوتا اور بوقتِ ضرورت دوسری جانب دیکھتا تو اس وقت دوسرے لڑکے نہر کے ایک سرے پر موجود گہرے تالاب میں نہا رہے ہوتے اور غلیل سے درختوں سے پھول گراتے یا پرندوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتے۔ سیمل کے درختوں پر پرندے اور گلہریاں کھانے سے زیادہ پھول نیچے گراتے جو بعد میں جنگلی سور اور ہرن کھانتے۔ پیپل کے درخت پر بیٹھا الو ہمیشہ اتنا محتاط رہتا کہ کبھی بھی اس پر غلیل سے حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا پھر بھی لڑکے اس پر غلہ چلا دیتے۔ بڑے تالاب پر پہنچتے ہی مقابلہ شروع ہو جاتا کہ کون سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گھر میں بنی دستی بنسیاں اور دھاگوں کی ریلیں استعمال ہوتی تھیں۔ جب مچھلی پکڑنے والی پیسٹ ساری ختم ہو جاتی یا پانی میں گر جاتی اور چند ہی مچھلیاں پکڑی گئی ہوتیں تو پھر کپڑے اتار کر سارے ہی تالاب میں نہانے کے لیے چھلانگیں مارتے اور مقابلہ ہوتا کہ دوسرے کنارے کو پہلے کون پہنچے گا۔ جب سارے لڑکے ان دلچسپ مشغلوں میں مصروف ہوتے، میں ان سے ایک میل دور بیٹھا لڑکیوں کی جھڑکیان سن رہا ہوتا کہ اپنے خیالات میں مگن ہونے کی وجہ سے میں لڑکیوں کو پاس سے گذرتے ہوئے کسی دیہاتی کا بتانا بھول جاتا تھا۔ تاہم اس بیگار کا ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے لڑکیوں کے سارے خفیہ منصوبے پہلے سے پتہ چل جاتے جو وہ لڑکوں کے خلاف بالعموم اور ڈینسی اور نیل فلیمنگ کے خلاف بالخصوص بناتیں۔ +ڈینسی اور نیل دونوں ہی آئرش النسل تھے اور یہی ان کی واحد مشترکہ خاصیت تھی۔ ڈینسی پستہ قد، بالوں سے بھرا اور کسی ریچھ کی مانند طاقتور تھا تو نیل بید مجنون کی مانند نازک اور پھول کی مانند کمزور تھا۔ ڈینسی رائفل ہاتھ میں لیے جنگل میں پیدل شیروں کا تعاقب کر کے شکار کرتا تھا تو نیل کو جنگل کے نام سے ہی بخار چڑھ جاتا تھا اور اس نے کبھی بندوق بھی نہیں چلائی تھی۔ ان میں ایک اور مشترکہ بات بھی تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے پوری طرح نفرت کرتے تھے کہ دونوں ہی بیک وقت ساری لڑکیوں پر عاشق تھے۔ ڈینسی کا باپ ایک جنرل تھا جس کی خواہش تھی کہ ڈینسی فوج میں جائے اور ڈینسی کے انکار پر اسے عاق کر دیا تھا۔ ڈینسی میرے بڑے بھائیوں کے ساتھ سرکاریاسکول میں پڑھتا تھا اور ابھی اس کی محکمہ جنگلات کی ملازمت کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور اسے توقع تھی کہ جلد ہی پولیٹکل سروس میں اسے جگہ مل جائے گی۔ نیل میرے بڑے بھائی ٹام کے ماتحت ڈاکخانے میں کام کرتا تھا۔ اگرچہ دونوں ہی کسی لڑکی سے شادی کے قابل نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی باہمی نفرت اور لڑکیوں سے محبت عروج پر تھیں۔ +نہر کنارے بیٹھ کر لڑکیوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ نیل پچھلی بار جب کالاڈھنگی آیا تو بہت مغرور ہو گیا تھا اور اس نے خوامخواہ فرض کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ڈینسی بہت شرمیلا اور جھجھک رہا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے نیل کو بے عزت کرنا اور ڈینسی کو آگے لانا ضروری تھا لیکن تھوڑا سا۔ اگر زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی تو ڈینسی بھی فرض کرنے لگ جائے گا۔ اب فرض کرنے سے کیا مراد تھی، مجھے نہ تو پتہ تھا اور نہ ہی مجھے اچھا لگا کہ پوچھتا۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی نیت سے انہوں نے سوچا کہ دونوں کےساتھ کوئی حرکت کی جائے۔ کئی منصوبے بنے لیکن آخر ج�� منصوبے پر اتفاق ہوا، اس میں میرے بڑے بھائی ٹام کی مدد درکار تھی۔ سردیوں میں نینی تال کے ڈاکخانے میں کام بہت ہلکا ہوتا تھا اور ٹام کی عادت تھی کہ وہ نیل کو ہر دوسرے ہفتے ہفتے کی شام سے پیر کی صبح تک کی چھٹی دے دیا کرتا تھا۔ یہ چھٹی وہ کالاڈھنگی میں موجود دونوں میں سے کسی ایک خاندان کے ساتھ گذارتا تھا اور اپنی طبعیت اور اچھی آواز کی وجہ سے ہمیشہ اسے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ٹام کو بذریعہ خط یہ کہا گیا کہ نیل کو ہفتے کی شام کو کسی نہ کسی بہانے سے دیر تک روک کر بھیجا جائے تاکہ پندرہ میل کا سفر طے کر کے جب وہ کالاڈھنگی پہنچے تو رات ہو رہی ہو۔ مزید ٹام نیل کو یہ بھی بتائے کہ اس کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے وہ اسے بتا دے کہ عین ممکن ہے کہ لڑکیاں اس کی تاخیر سے پریشان ہو کر شاید اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوں۔ مزید یہ بھی طے کیا گیا کہ ڈینسی اپنے شکار کردہ ریچھوں میں سے ایک کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ نینی تال کی طرف دو میل جا کر سڑک کے ایک تنگ موڑ کے پیچھے جا کر چھپ جائے۔ جب نیل پہنچے تو ڈینسی اس پر کسی ریچھ کی طرح حملہ کرے گا اور ریچھ کو دیکھتے ہی نیل بھاگ کر سیدھا لڑکیوں کی بانہوں میں جا سمائے گا جو اس کی کہانی سن کر اس کی بزدلی پر ہنسیں گی اور جب ڈینسی بھی اپنی کھال اتار کر آن پہنچے گا تو خوب لطف رہے گا۔ ڈینسی نے اس منصوبے پر اعتراض کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے سینڈوچ میں دو ہفتے قبل جو لال رنگ کی دھجی نکلی تھی اور جس کی وجہ سے اسےپکنک پر سخت شرمندگی ہوئی تھی، وہ نیل نے تجویز کی تھی۔ +کالاڈھنگی سے نینی تال کی سڑک پر آمد و رفت سورج غروب ہوتے ہی رک جاتی تھی اور مطلوبہ دن ڈینسی ایک ریچھ کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ مطلوبہ مقام کو چل دیا۔ راستے میں کبھی وہ دو پیروں تو کبھی چاروں پر چلتا۔ چونکہ شام کافی گرم تھی اور ڈینسی نے اپنے کپڑوں کے اوپر کھال پہنی تھی اس لیے بے چارہ پسینے میں شرابور تھا۔ دوسری طرف نینی تال میں نیل کو ایک کے بعد دوسرا کام دیا جا رہا تھا حتیٰ کہ اس کے عام طور پر روانگی کا وقت بھی گزر گیا۔ کافی دیر بعد جب ٹام نے اسے اجازت دی تو جانے سے قبل ٹام نے اس کے ہاتھ میں ایک دو نالی بندوق اور دو کارتوس بھی پکڑا دیے اور بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کام آئیں گے۔ نینی تال سے کالاڈھنگی کا راستہ سارا بالعموم اترائی ہے اور ابتدائی آٹھ میل مزروعہ زمینوں سے ہو کر گذرتے ہیں اور پھر اس سے آگے عین کالاڈھنگی تک سارا راستہ گھنے جنگل سے گذرتا ہے۔ ڈینسی اور لڑکیاں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئیں اور جب روشنی کم ہونے لگی تھی کہ سڑک سے نیل کے گانے کی آواز آئی۔ شاید اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ گا رہا تھا۔ آواز قریب سے قریب ہوتی چلی آئی اور لڑکیوں نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے نیل کو کبھی اتنا اچھا گاتے نہیں سنا تھا۔ جب نیل اس موڑ پر پہنچا جس کے پیچھے ڈینسی اس کا منتظر تھا، ڈینسی نے پیروں پر کھڑا ہو کر ریچھ کی طرح آواز نکالی۔ عین اسی وقت نیل نے بندوق چھتیائی اور سیدھا ڈینسی پر دو فائر کر دیے۔ دھوئیں کے بادل نے نیل کے سامنے پردہ سا تان دیا اور جب وہ بھاگا تو اسے "ریچھ" کے نیچے کھائی میں لڑھکنے کی آواز آنے لگی تھی۔ عین اسی وقت لڑکیاں بھاگ پر اس جگہ پہنچیں۔ لڑکیوں کو دیکھتے ہی نیل نے اپنی بندوق لہرائی اور بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بہت بڑے ریچھ کو مار ڈالا ہے جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔ جب لڑکیوں نے پوچھا کہ ریچھ کہاں گیا تو نیل نے بے پروائی سے نیچے کھا��ی کی طرف بندوق سے اشارہ کیا کہ ادھر ہے۔ پھر اپنے شکار کو دیکھنے کے لیے نیل نے نیچے اترنے کا سوچا اور لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں کہ ریچھ تو کب کا مرچکا ہے۔ تاہم لڑکیوں نے سختی سے انکار کیا اور کہا کہ اسے اکیلے ہی جانا ہوگا۔ لڑکیوں کے بہتے آنسوؤں سے نیل کو بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیاں اس کے بچ نکلنے پر کتنی خوش ہو رہی ہیں۔ خیر وہ نیچے اترا۔ ڈینسی نے نیل سے اور نیل نے ڈینسی سے کیا کہا اور کیا نہیں، اس بارے کوئی معلومات نہیں لیکن جب کافی دیر بعد دونوں اوپر پہنچے تو ڈینسی نے بندوق جبکہ نیل نے ریچھ کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈینسی بے چارہ سینے پر دو گولیاں کھا کر سیدھا نیچے گرا لیکن ریچھ کی کھال نے اسے چوٹوں سے بچا لیا۔ جب نیل سے پوچھا گیا کہ بھئی تمہارے پاس بندوق کیسے آئی کہ جس سے ایک مہلک حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے بتایا کہ یہ بندوق اور کارتوس اسے ٹام نے دیے تھے۔ ساری ذمہ داری ٹام کی غائب دماغی پر ڈال دی گئی۔ +چونکہ سوموار کو سرکاری تعطیل تھی اس لیے ٹام اتوار کی رات کو آن پہنچا تاکہ چھٹی گھر پر گزار سکے۔ فوراً ہی اسے ناراض لڑکیوں نے گھیر لیا کہ اس نے نیل کو بندوق اور کارتوس کیوں دیے تھے جس سے ڈینسی کی زندگی خطرے میں پڑی۔ ٹام نے آرام سے ساری باتیں سنیں۔ جب لڑکیاں اس جگہ پہنچیں جب نیل کے فائر سے ڈینسی کھائی میں جا گرا تو لڑکیاں اس کی بے وقت موت پر رونے لگیں تھیں کہ ٹام قہقہے لگانے لگا اور پھر اس نے بتایا کہ جب اسے خط ملا تو اسے احساس ہوا کہ شرارت ہونے لگی ہے۔ اس لیے اس نے کارتوسوں سے گولیاں نکال کر آٹا بھر دیا تھا۔ اس سارے مذاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینسی مزید شرمیلا ہو گیا جبکہ نیل کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ + + +ڈینسی والے واقعے کے بعد کچھ وقت ہی گذرا ہوگا کہ میرے بڑے بھائی ٹام نے والدہ کو بتایا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ ریچھ کے شکار پر لے جا رہا ہے۔ میں چار سال کا تھا کہ میرے والد کا انتقال ہوا اور ٹام نے اس وقت سے گھر کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ والدہ کو یہ بات بالکل نہ بھائی کیونکہ تمام تر بہادری کے باوجود وہ نرم دل تھیں۔ میں پوری توجہ سے ٹام اور والدہ کی باتیں سنتا رہا اور ٹام نے والدہ کو پوری طرح یقین دلایا کہ وہ میرا پورا خیال رکھے گا اور ہرگز کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ جب والدہ نے اجازت دی تو میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ ہر طرح کے نقصان سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ بھائی کے ساتھ چپکا رہوں۔ +اس شام ہم روانہ ہوئے تو ٹام نے اپنی رائفل اور میری بندوق اٹھائی ہوئی تھی۔ ہم لوگ پہاڑ پر متوازی ایک راستے پر چل پڑے۔ یہاں نصف فاصلے پر ہمیں ایک انتہائی خوفناک اور گہری کھائی دکھائی دی۔ اس جگہ ٹام نے رک کر مجھے بتایا کہ ریچھ کے شکار کے لیے یہ بہترین جگہ ہے کیونکہ ریچھ اوپر جا رہے ہوں یا نیچے اتر رہے ہوں، ہر صورت میں یہاں سے گذریں گے۔ پھر اس نے مجھے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ دکھائی اور بندوق اور گولی کے دو کارتوس مجھے تھمائے اور ہدایت کی کہ ریچھ کو زخمی کرنے کی بجائے ہلاک کروں۔ پھر 800 گز دور پہاڑ کے کنارے پر ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے اس نے بتایا کہ وہ ادھر جا کر بیٹھے گا۔ اگر کوئی ریچھ ایسی جگہ سے گذرا کہ جو میرے خیال میں اس کی نظروں سے اوجھل ہو تو میں بھاگ کر اسے ریچھ کے بارے بتاؤں۔ یہ کہہ کر ٹام چل دیا۔ +تیز ہوا چل رہی تھی اور خشک گھاس اور سوکھے پتے عجیب آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ میرے تخیل نے میرے آس پاس کے سارے جنگل کو بھوکے اور خوانخوار ریچھوں سے بھر دیا تھا (واضح رہے کہ اس موسم سرما میں اسی پہاڑ پر 9 ریچھ شکار ہوئے تھے)۔ مجھے اس بات پر قطعی کوئی شبہ نہیں تھا کہ ریچھ مجھے پھاڑ کھائیں گے، مجھے صرف یہ فکر ستا رہی تھی کہ مجھے کتنی تکلیف ہوگی۔ وقت انتہائی آہستگی سے گذرتا رہا اور ہر لمحہ میری دہشت بڑھتی گئی۔ سورج ڈوبتے جب پہاڑوں پر ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی تو میں نے ٹام کے درخت سے چند سو گز اوپر ایک ریچھ کو آہستگی سے نیچے اترتے دیکھا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ٹام نے ریچھ کو دیکھا یا نہیں دیکھا، میری دعا قبول ہو گئی تھی کہ مجھے اس خوفناک جگہ سے بھاگنے کا بہانہ مل گیا تھا۔ بندوق کندھے پر لاد کر میں ٹام کو ریچھ کے بارے بتانے چل پڑا۔ ڈینسی والے حالیہ واقعے کی وجہ سے بندوق بھرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ +ہمارے علاقوں میں ہمالیہ کا کالا ریچھ بلوط کے پھل پر زندہ رہتا ہے۔ چونکہ ریچھ بہت بھاری ہوتے ہیں اور پھل درختوں پر بلندی پر اگتا ہے تو ریچھ نازک شاخوں کو موڑ کر پھل توڑ لیتے ہیں۔ کچھ شاخیں ٹوٹنے کے باوجود درخت سے لگی سالوں تک سرسبز رہتی ہیں جبکہ کئی شاخیں ٹوٹ کر نیچے گر جاتی ہیں یا محض چھال کے سہارے لٹکی ہوتی ہیں۔ جب کھائی عبور کر کے میں دوسرے کنارے پر چڑھا تو مجھے زور کی آواز آئی۔ دہشت کے مارے میں وہیں رک گیا اور آواز لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی گئی اور دھچکے کے ساتھ کوئی بڑی چیز میرے عین سامنے گری۔ یہ شاخ کسی ریچھ نے توڑی تھی جو محض چھال کے سہارے لٹک رہی تھی اور ابھی تیز ہوا کی وجہ سے ٹوٹ کرعین اسی وقت نیچے گری جب میں وہاں سے گذرنے لگا تھا۔ اس وقت مجھے جتنا ڈر لگا، اگر میرے سامنے ایشیاء کا سب سے بڑا ریچھ بھی آ جاتا تو بھی اس سے زیادہ نہ ڈرتا۔ ٹام کے پاس جانے کا سارا حوصلہ ختم ہو چکا تھا اور میں واپس اپنی جگہ جا کر بیٹھ گیا۔ اگر کوئی انسان محض دہشت سے مرسکتا ہو تو پھر اس رات اور اس کے بعد بھی بے شمار مرتبہ میں مر چکا ہوتا۔ +شفق کی لالی پہاڑوں کے اوپر سے غائب ہو رہی تھی کہ تاریکی سے ٹام کا سایہ سامنے نمودار ہوا۔ "تمہیں ڈر تو نہیں لگا؟" بندوق لیتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اب مجھے ڈر نہیں لگ رہا تو اس نے کمال مہربانی سے بات گول کر دی۔ +جب بھی ہم شکار کو جاتے تو ٹام ہمیشہ علی الصبح روانہ ہونے کو تیار ہو جاتا۔ ایک دن جب ہم موروں کا شکار کرنے صبح 4 بجے نکلنے لگے تو اس نے خاموشی سے میرا ہاتھ منہ دھو کر میرے کپڑے بدلے تاکہ دیگر لوگ نہ جاگ جائیں اور پھر نصف گھنٹے بعد گرما گرم چائے اور بسکٹوں سے پیٹ بھر کر ہم سات میل دور گروپو کے جنگل کو روانہ ہو گئے۔ +اپنی زندگی میں میں نے جنگلوں میں بے انتہائی تبدیلیاں ہوتے دیکھی ہیں۔ کئی تبدیلیاں انسانی مداخلت سے جبکہ دیگر قدرتی طور پر واقع ہوئیں۔ گھنے جنگل کی جگہ گھاس پھونس اور جھاڑیوں کی جگہ گھنا جنگل اگتے دیکھا ہے۔ گروپو کے جنگل کے جنوب مشرقی سرے پر جس کا میں بتا رہا ہوں، اس وقت اونچی گھاس اور آلو بخارے کی جھاڑیاں تھیں۔ اس جگہ کے لیے ہم روانہ ہوئے تھے کہ آلو بخارے پک چکے تھے اور نہ صرف ہرن اور سور بلکہ مور بھی اسے کھانے کو دور دور سے آتے تھے۔ +جب ہم گروپو پہنچے تو ابھی اندھیرا باقی تھا۔ کنویں کے پاس بیٹھ کر ہم نے تاریکی ختم ہوتے اور روشنی نمودار ہوتے دیکھی۔ ساتھ ہی ہم جنگل کے بیدار ہونے کی آوازیں بھی سنتے رہے۔ ہر طرف سرخ جنگلی مرغوں کی بانگیں سنائی دے رہی تھیں جو نیند سے بیدار ہو کر صبح کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ سیمل کے اونچے درخت پر بیٹھے ایک مور نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ جب سورج درختوں کی چوٹیوں تک بلند ہوا تو سیمل کی شاخیں ہمیں دکھائی دینے لگ گئیں۔ اس درخت سے بیس سے بھی زیادہ مور نیچے اترے۔ اپنے پائپ کو بجھا کر ٹام نے مجھے اپنے ساتھ اٹھنے کا اشارہ کیا اور بتایا کہ اب جنگل میں داخل ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ کہرا گہرا تھا اور تیس فٹ کی بلندی تک چھایا ہوا تھا۔ درختوں کے پتوں سے شبنم کے قطرے اس طرح ٹپک رہے تھے جیسے بوندا باندی ہو رہی ہو۔ یہاں گھاس میری تھوڑی تک جبکہ ٹام کی کمر تک آتی تھی۔ ابھی ہم یہاں چند گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ہمارے کپڑے پوری طرح گیلے ہو کر ہمارے جسموں سے چپک گئے اور سردی ناقابل برداشت ہو گئی۔ دسمبر کی یہ صبح کافی سرد تھی۔ +سیمل کے درخت کی سمت گئے تو ہمیں دس بارہ مور دکھائی دیے جو نیچے گھاس میں اتر آئے۔ ایک نر مور سیدھا اوپر درخت کی اونچی شاخ پر جا کر بیٹھ گیا۔ بارہ بور کی بندوق میرے ہاتھ دے کر جب ٹام نے مجھے کارتوس تھمائے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے ہدایت کی کہ آگے بڑھ کر اس نر مور کو شکار کرو۔ ابھی ڈیڑھ سو گز دور جا کر مجھے شکار کرنا تھا۔ چالیس گز جتنا چل کر میں رکا تاکہ بندوق کو بھر سکوں۔ جونہی میں رکا تو مجھے ٹام کی سیٹی سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ مجھے واپس بلا رہا تھا۔ جب میں واپس ٹام تک پہنچا تو اس نے بتایا کہ مور ابھی بندوق کی مار سے دور تھا۔ میں نے بتایا کہ میں بندوق بھر رہا تھا، چلا نہیں رہا تھا۔ اس نے مجھے ہدایت کی کہ بھری ہوئی بندوق ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ گھاس میں گڑھے وغیرہ سے اگر پاؤں رپٹ جائے تو بندوق چل سکتی ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ اب دوبارہ کوشش کرو۔ آلوبخارے کی جھاڑی سے چھپتا ہوا میں آگے بڑھا اور آسانی سے مور بندوق کی مار میں آ گیا۔ سیمل کا درخت پتوں کے بغیر لیکن بڑے بڑے سرخ پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور سورج کی روشنی میں اس سے زیادہ خوبصورت مور میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اب بندوق بھرنے کا وقت تو آ گیا تھا لیکن جوش اور سردی سے جمی ہوئی انگلیوں کی وجہ سے گھوڑے نہ چڑھا سکا۔ ابھی میں کوشش کر ہی رہا تھا کہ مور اڑ گیا۔ جب واپس پہنچا تو ٹام نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اگلی بار سہی۔ تاہم اس روز میری قسمت میں کوئی شکار نہیں لکھا تھا اور جب ٹام نے ایک سرخ جنگلی مرغ اور تین مور مار لیے تو ہم گھر کو واپس لوٹے تاکہ ناشتا کر سکیں۔ + + +ابھی تک میں نے جنگل کی تربیت کے جو تین واقعات بیان کئے ہیں، پر میری تربیت ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ بندوق کو کیسے سنبھالنا اور چلانا ہے، شیر اور ریچھوں کے جنگل میں لے جا کر مجھے دکھایا گیا کہ جب تک یہ جانور زخمی نہ ہوں، ان سے خطرہ نہیں ہوتا۔ کم عمری میں اگر سبق اچھی طرح سیکھ لیے جائیں تو وہ ساری زندگی نہیں بھولتے۔ اب اگر ان اسباق سے میں کوئی فائدہ اٹھاتا یا نہ اٹھاتا، یہ میری مرضی تھی۔ اب میں تھا اور شکار تھا۔ مجھےخوشی ہے کہ کسی نے زبردستی مجھے کچھ کرنے کو نہیں کہا۔ +لڑکوں کو اگر اپنی مرضی سے کام کرنے دیا جائے اور شکار کے مواقع بھی ہوں تو وہ اپنی مرضی کے شکار کو آسانی سے اپنا لیتے ہیں جس کے لیے وہ جسمانی اور ذہنی، دونوں طور پرمناسب ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر انہیں کسی ایسے مشغلے میں لگا دیا جائے جو انہیں پسند نہ ہو تو یہ ظلم ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے شکار سے وہ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ +میری والدہ اور بہنوں کی مدد کے لیے ٹام سامنے آیا اور جب میں نمونیہ کے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور زندگی کی ڈوریں میرے ہاتھ سے نکلنے ہی والی تھیں کہ اس نے مجھے پہلی غلیل دی۔ بستر پر میرے پاس بیٹھ کر اس نے اپنی جیب سے غلیل نکالی اور میرے ہاتھوں دینے کے بعدساتھ میز سے گائے کی یخنی کا پیالہ اٹھایا اور مجھے کہنے لگا کہ یخنی پیو تاکہ تمہارے اندر طاقت آئے اور تم غلیل چلانے کے قابل ہو جاؤ۔ اس دن سے میں نے زندگی میں پھر سے دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اسی دوران میں گھر والے مجھے نہ صرف جنگل کے بارےبتاتے رہے بلکہ یہ بھی کہ غلیل کو کیسے چلانا چاہیے۔ +ٹام کے پاس دو کتے تھے۔ا یک کا نام پوپی تھا جو اس نے دوسری افغان جنگ کے دوران میں کابل کی سڑکوں پر پھرتے دیکھا تھا۔ یہ لال رنگ کا عام دیہاتی کتا تھا جسے ٹام اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔ دوسرا کتا سپینئل نسل کا کلیجی اور سفید رنگ کا تھا اور اتنا مضبوط تھا کہ مجھے کچھ فاصلے تک لاد کر بھی لے جاتا تھا۔ نہ صرف وہ میرا محافظ بن جاتا تھا بلکہ اس کی ساری توجہ میری ہی جانب رہتی تھی۔ میگگ سے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی کہ گھنی جھاڑیوں سے ہمیشہ دور سے گزرنا چاہئے کہ ان میں لیٹے جانور آپ کی موجوددگی سے ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ میگگ سے ہی مجھے یہ بات پتہ چلی کہ جنگل میں کتا بھی اتنی ہی خاموشی سے چل سکتا ہے جتنی خاموشی سے بلی۔ میگگ کی مدد سے ہی میں جنگل کے ان حصوں میں مٹرگشت کے قابل ہوا جہاں میں اکیلا جانے سے ڈرتا تھا۔ میرے غلیل والے دنوں کا ایک یادگار واقعہ درج ذیل ہے جس میں میگگ مرتے مرتے بچا تھا۔ +اس روز ہم ڈینسی کے لیے ایک پرندہ تلاش کرنے گھر سے نکلے تھے۔ ہمارے ساتھ اس کا سکاٹش کتا بھی تھا جس کا نام تھسل تھا۔ دونوں کتے ایک ودسرے کو ناپسند کرتے تھے لیکن لڑنے پرہیز کرتے تھے۔ ابھی ہم تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ تھسل نے ایک خارپشت یعنی سیہی کو بھگایا۔ میرے منع کرنے کے باوجود میگگ اس کے پیچھے لگ گیا۔ ڈینسی کے پاس مزل لوڈنگ بندوق تھی لیکن اگر وہ گولی چلاتا تو کتوں کے زخمی ہونے کا اندیشہ تھا کہ دونوں کتے سیہی کے دائیں بائیں بھاگتے ہوئے اسے کاٹ رہے تھے۔ ڈینسی بھاگنے میں کمزور تھا اور بھاری بندوق کے وزن سے وہ ہم سے کافی پیچھے رہ گیا۔ خارپشت یا سیہی سے مقابلہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ا گرچہ سیہی اپنے کانٹے پھینک نہیں سکتی لیکن اس کے کانٹے بہت سخت اور بھاگنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ دفاع کی نیت سے سیہی عموماً اپنے کانٹے کھڑے کر کے پیچھے کو ہٹنا شروع کر دیتی ہے۔ +تعاقب کرنے سے قبل میں نے غلیل کو جیب میں ڈالا اور ایک مضبوط ڈنڈا اٹھا لیا۔ تاہم اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا کہ جونہی میں اس کے قریب پہنچتا، سیہی کانٹے کھڑے کر کے مجھ پر حملہ آور ہو جاتی۔ کئی بار کتوں نے مجھے بچایا۔ یہ تعاقب نصف میل تک جاری رہا اور ہم ایک گہری کھائی کے کنارے جا پہنچے۔ اسی کھائی میں کئی سیہوں کے بل تھے۔ اچانک میگگ نے سیہی کے ناک سے اور تھسل نے گلے سے پکڑ لیا۔ جب ڈینسی پہنچا تو ساری کشمکش ختم ہو چکی تھی۔ تاہم اپنے اطمینان کےلیے اس نے سیہی پر کارتوس چلا دیا۔ دونوں کتے خون سے نہائے ہوئے تھے اور پھر جتنے کانٹے ہم نکال سکتے تھے، نکالنے کے بعد گھر روانہ ہوئے۔ ڈینسی نے مردہ سیہی کو اپنے کاندھے سے لٹکایا ہوا تھا۔ چونکہ کتوں کے جسم میں کئی کانٹے ٹوٹ کر پھنس گئے تھے، اس لیے ہمارا خیال تھا کہ انہیں چمٹیوں کی مدد سے نکالیں گے۔ سیہی کے کانٹے خاردار ہوتے ہیں اور انہیں نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ +ساری رات میگگ نے تکلیف سے گذاری اور مسلسل چھینکتا رہا۔ ہر چھینک کے ساتھ خون کا لوتھڑا بھی گرتا تھا۔ اگلے دن اتوار تھا اور میرا بھائی ٹام خوش قسمتی سے نینی تال سے گھر آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کانٹا میگگ کی ناک میں ٹوٹ کر پھنس گیا ہے۔ کئی بار کی کوشش کے بعد ٹام نے چمٹی سے چھ انچ لمبا کانٹا نکالا۔ اس کی موٹائی پین ہولڈر جتنی ہوگی۔ کانٹا نکلتے ہی خون کی دھار بہہ نکلی۔ چونکہ ہمارے پاس خون روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لیے ہم کچھ نہ کر سکے۔ تاہم اس کی دیکھ بھال جاری رہی اور آخرکار وہ تندرست ہو گیا۔ تھسل کو زیادہ زخم نہیں لگے تھے اس لیے وہ سستا چھوٹ گیا۔ +جب مجھے مزل لوڈنگ بندوق ملی، جس کے بارے میں آگے چل کر بات کروں گا، تو میگگ اور میں دو بار بہت سنسنی خیز واقعات سے دوچار ہوئے۔ ایک واقعہ کالاڈھنگی جبکہ دوسرا نینی تال میں پیش آیا۔ نیا گاؤں دیہات جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس وقت پوری طرح زیرکاشت تھا اور مزروعہ زمینوں اور دھونیگر ندی کے درمیان میں جنگل کی ایک پٹی سی تھی جس میں جگہ جگہ کھلے قطعے بھی تھے۔ چوتھائی میل لمبی اور نصف میل چوڑی اس پٹی میں جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی گذرتی تھی۔ ندی کے دونوں کناروں پر گھنا جنگل شکار کے قابل جانوروں اور پرندوں سے بھرا ہوا تھا۔ سرخ جنگلی مرغ، مور، ہرن اور سور، بے شمار پائے جاتے تھے۔ یہ سارے جانور اسی پگڈنڈی سے گزر کر ہی فصلوں کو کھانے جاتے تھے۔ اسی پگڈنڈی پر پہلا واقعہ مجھے اور میگگ کو پیش آیا۔ +نیا گاؤں کالاڈھنگی میں ہمارے گھر سے تین میل دور تھا اور علی الصبح میں اور میگگ مور شکار کرنے کی نیت سے نکلے۔ کھلی پگڈنڈی کے عین درمیان میں چلتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں جنگلی جانوروں کے زیراستعمال ایک پگڈنڈی آن ملتی تھی۔ درمیان میں چلنے کی وجہ یہ تھی کہ ابھی روشنی بہت کم تھی اور اس جگہ شیر اور تیندوے بکثرت تھے۔ اس جگہ میں نے بندوق کو بھرنا شروع کیا۔ مزل لوڈنگ بندوق کو بھرنا طویل کام ہوتا ہے کہ پہلے ماپ کر بارود نال میں ڈالنا، پھر کپڑے کی دھجی سے اسے جمانا اور پھر چھرے ڈال موٹے کاغذ کا ٹکڑا اس پر جمانا اور پھر موٹی سلاخ کی مدد سے انہیں ٹھونک کر جمانا۔ پھر گھوڑے کو نصف اٹھا کر بارودی ٹوپی اس پر جمانا۔ جب میرے خیال سے یہ سب کچھ بہترین طور پرہو گیا تو سامان بیگ میں ڈال کر میں اور میگگ چل پڑے۔ اس دوران میں بہت سارے جنگلی مرغ اور مور سڑک سے گذرے لیکن کوئی بھی اتنی دیر نہیں رکا کہ میں اس پر گولی چلا سکتا۔ ابھی ہم نصف میل ہی گئے ہوں گے کہ ایک کھلا قطعہ آیا اور 7 مور ہمارے سامنے اس قطعے کو عبور کر کے دوسری جانب گم ہو گئے۔ چند لمحے رک کر میں نے میگگ کو بھیجا تاکہ وہ انہیں جا کر اڑائے۔ +جب کسی کتے کی وجہ سے مور اڑیں تو ہمیشہ کسی درخت کی شاخ پر جا بیٹھتے ہیں۔ ان دنوں میرے لیے بیٹھا پرندہ شکار کرنا بھی مشکل ہوتا تھا اور اکثر میگگ اور میری مشترکہ کوششوں سے ہی جا کر مور شکار ہوتا تھا۔ میگگ کو شکار میں مور سب سے زیادہ پسند تھے اور جب مور درخت پر بیٹھے تو وہ ان پر بھونکتا رہتا۔ موروں کی ساری توجہ میگگ کی طرف ہوتی اور مجھے چھپ کر پاس آنے اور گولی چلانے کا موقع مل جاتا۔ +شاید موروں نے میگگ کو دیکھ کر دوڑ لگا دی ہوگی کہ سو گز دور جا کر مجھے موروں کے اڑنے کی آواز سنائی دی۔ اسی وقت میگگ کی چیخیں اور شیر کی دھاڑ بھی سنائی دی۔مور شاید میگگ کو جان بوجھ کر سوئے ہوئے شیر تک لے گئے تھے اور اب مور، کتا اور شیر، سب ہی اپنے اپنے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ میگگ نے خوف سے چیخ ماری اور دوڑتا ہوا میری طرف آیا۔ اس کے پیچھے شیر دھاڑتا ہوا آ رہا تھا۔ اس�� الجھن میں موروں نے خطرے کی آواز نکالی اور سیدھا اڑتے ہوئے میرے اوپر موجود درخت پر آن کر بیٹھ گئے۔ اس وقت تک مجھے موروں کا ہوش بھی نہیں رہا تھا اور میری واحد خواہش یہ تھی کہ میں کہیں ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں شیر دور دور تک نہ ہوں۔ چونکہ میری دو ٹانگوں کی نسبت میگگ کی چار ٹانگیں تھیں، اس لیے اس کی فکر چھوڑ کر میں بھاگ نکلا۔ اتنا تیز کہ کبھی اتنا تیز نہیں بھاگا ہوں گا۔ اتنی دیر میں میگگ مجھ سے آگے نکل گیا اور شیر کی دھاڑیں بھی تہم گئیں۔ +اُس وقت تو میرےلیے یہ جاننا ممکن نہیں تھا لیکن اب میں چشم تصور میں دیکھ سکتا ہوں کہ شیر اپنی پچھلی ٹانگوں پر بیٹھا ہنس رہا ہوگا کہ اس کے سامنے ایک چھوٹا بچہ اور ایک کتا سر پر پیر رکھ کر بھاگے جا رہے ہیں حالانکہ اس نے تو کتے کو محض ڈرایا تھا کیونکہ اس کی نیند میں کتا مخل ہوا تھا۔ +گرمیوں میں کالاڈھنگی سے نینی تال منتقل ہونے سے قبل دوسرا واقعہ پیش آیا۔ اس بار میں اکیلا تھا کہ میگگ میرے ساتھ نہیں تھا۔ کچھ عرصے سے میں گھنی جھاڑیوں سے بچ کر چلتا تھا اور اس بار میں گروپو روڈ پر جنگلی مرغ کی تلاش میں نکلا۔ پرندے تو بہت دکھائی دیے جو زمین پر چر چگ رہے تھے لیکن کسی کے نزدیک نہ پہنچ سکا۔ پھر میں سڑک سے اتر کر جنگل میں داخل ہوا۔ اس جگہ ادکا دکا جھاڑیاں اور بکثرت درخت اور چھوٹی گھاس تھی۔ سڑک سے اترنے سے قبل میں نے جرابیں اور جوتے اتار دیے۔ تھوڑی دور جا کر مجھے سرخ جنگلی مرغ دکھائی دیے۔ +جب جنگلی مرغ سوکھے پتے کرید رہے ہوں تو بار بار سر اٹھا کر خطرے کو بھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر چگنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ میں ننگے پیر تھا اور مور بندوق کی مار سے باہر تو میں نے چھپ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جب مرغ سر نیچے کرتا تو میں ایک یا دو گز آگے بڑھ جاتا اور جب اس کا سر اٹھتا تو میں وہیں تہم جاتا۔ جب میں بندوق کی مار تک پہنچنے والا تھا کہ میرے سامنے ایک گہرا گڑھا آیا۔ ایک قدم گڑھے میں اور پھر دو قدم مزید آگے، اور جنگلی مرغ مار میں آ جاتا۔ اس کے علاوہ سامنے ایک چھوٹا سا درخت بھی موجود تھا جس پر میں اپنی بھاری بندوق رکھ کر اور اطمینان سے نشانہ لے کر کارتوس چلا سکتا تھا۔ جونہی مرغ کا سر نیچے ہوا، میں نے گڑھے میں قدم رکھا جو سیدھا ایک اژدھے کے بل کھائے جسم پر پڑا۔ چند دن قبل میگگ اور میں شیر کے آگے اتنا تیز بھاگے کہ شاید ہی اتنا تیز بھاگے ہوں اور اب میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے جست کر کے نکلا اور اژدھے پر کارتوس چلاتے ہی بھاگ پڑا اور سیدھا سڑک پر ہی جا کر دم لیا۔ +شمالی ہندوستان کے جنگلوں میں میں اتنے برسوں سے شکار کھیل رہا ہوں اور کبھی میں نے نہیں سنا کہ اژدھے نے کسی انسان کو مارا ہو۔ تاہم مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ میں خوش قسمتی سے بچ گیا کہ اژدہا سویا ہوا تھا ورنہ مجھے ٹانگ سے پکڑ لیتا۔ چاہے پھر اژدہا مجھے نہ بھی جکڑتا، پھر بھی میں دہشت سے مر جاتا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ مادہ چیتل کو اژدھے نے دم سے پکڑا اور وہ دہشت کے مارے مر گئی۔ اس اژدھے کو مارنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ اژدہا کتنا لمبا تھا اور یہ کہ میرے کارتوس سے وہ مرا بھی کہ نہیں، مجھے علم نہیں۔ میں دوبارہ اس جگہ نہیں گیا۔ تاہم اس علاقے میں اٹھارہ فٹ لمبے اژدھے بھی میں نے دیکھے ہیں۔ ایک بار ایک اژدھے نے چیتل جبکہ دوسرے نے سالم کاکڑ نگل لیے تھے۔ +میگگ اور میرے ساتھ دوسرا واقعہ نینی تال سے کالاڈھنگی واپس آنے کے فوراً بعد پیش آیا۔ نینی تال کے آس پاس کے جنگل مرغ زریں اور دیگر شکاری جانوروں اور پرندے سے پٹے پڑے تھے اور کم شکاری ہونے کی وجہ سے شکار پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔ اس لئےاسکول کے بعد میں اور میگگ اکثر جا کر رات کے کھانے کے لیے مرغ زریں یا تیتر وغیرہ شکار کرنے جاتے تھے۔ +ایک شام میگگ اور میں کالاڈھنگی کی سڑک پر نکلے۔ اگرچہ میگگ نے کئی مرغ زریں اڑائے لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنی دیر درخت پر نہیں بیٹھا کہ اس پر گولی چلائی جا سکتی۔ سریا تال نامی جھیل جو وادی کے سرے پر ہے، سے ہم بائیں مڑے اور جنگل میں داخل ہو گئے۔ ارادہ یہ تھا کہ پیچھے سے ہم وادی کے اوپر کی طرف جائیں گے۔ جھیل کے پاس میں نے ایک مرغ زریں شکار کیا۔ گھنی جھاڑیوں اور پتھروں کے ڈھیروں سے گذرتے ہوئے ابھی ہم سڑک سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ ایک جھاڑی پر لگی بیریاں کھاتے ہوئے کئی مرغ زریں دکھائی دیے جو مسلسل اچھل رہے تھے۔ جب وہ اوپر اچھلتے تو مجھے دکھائی دیتے۔ ابھی میں اتنا ماہر نہیں ہوا تھا کہ متحرک چیز پر نشانہ لگا سکوں، میں زمین پر بیٹھ گیا اور میگگ میرے ساتھ لیٹ گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ جب بھی کوئی پرندہ ہمارے سامنے نمودار ہوا تو شکار کر لوں گا۔ +ابھی ہمیں یہاں رکے کچھ ہی دیر ہوئی تھی اور پرندوں کی اچھل کود جاری تھی کہ سڑک کی جانب سے کئی بندوں کے بات کرنے اور ہنسنے کی آواز آئی۔ یہ سڑک پہاڑ کے سامنے سے گذرتی تھی۔ ان کے ٹین کے ڈبوں کی آواز سے مجھے پتہ چل گیا کہ یہ گوالے ہیں جو نینی تال اپنا دودھ بیچ کر آ رہے ہیں۔ ان کے گھر سریا تال سے نیچے تھے۔ ابھی یہ بندے ہم سے چار سو گز دور تھے کہ مجھے ان کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ ایک موڑ مڑ کر اچانک انہوں نے مل کر شور مچایا اور جیسے وہ کسی جانور کو راستے سے ہٹا رہے ہوں۔ اگلے منٹ میں ہمارے اوپر کے جنگل سے کسی بڑے جانور کے بھاگنے کی آواز آئی۔ یہاں جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا تاہم اس نے سارے مرغ زریں اڑا دیے۔ اچانک ہمارے سامنے کھلے قطعے میں ایک تیندوا نمودار ہوا۔ ابھی تیندوا ہوا میں ہی تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا۔ جونہی وہ نیچے زمین پر پہنچا، وہیں لیٹ کر بے حس و حرکت ہو گیا۔ یہ قطعہ تقریباً 30 ڈگری بلند ہوگا۔ تیندوا ہم سے دس گز دور رہا ہوگا اور اس کے جسم کا ہر حصہ، سر سے دم تک ہمارے سامنے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ جونہی تیندوا سامنے پہنچا تھا تو میں نے بندوق سے ہاتھ ہٹا کر میگگ پر رکھ دیا تھا۔ میگگ کے رونگٹے کھڑے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور میرا بھی عین یہی حال تھا۔ +میگگ اور میرا یہ پہلا تیندوا تھا۔ ہوا چونکہ ہماری جانب سے تیندوے کو جا رہی تھی۔ میں انتہائی پرجوش تھا لیکن مجھے ڈر بالکل نہیں لگا۔ اب زندگی بھر کے تجربے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ تیندوا ہماری طرف بری نیت نہیں رکھتا تھا، اس لیے مجھے ڈر نہیں لگا۔ سڑک سے بھگائے جانے کے بعد تیندوا انہی پتھروں کی طرف بھاگا جہاں سے ہم آ رہے تھے اور ہمارے سامنے پہنچتے ہی اس نے ایک چھوٹے بچے اور ایک کتے کو دیکھا جو عین اس کی راہ فرار پر بیٹھے تھے۔ اس نے وہیں رک کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ ایک نظر میں تیندوے نے بھانپ لیا کہ اسے ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہمارے جنگلوں میں تیندوا صورتحال کا سب سے زیادہ تیزی سے ادراک کر لیتا ہے۔جب وہ ہماری جانب سے مطمئن ہوا کہ ہمارے پیچھے اور کوئی انسان نہیں جو اس کا راستہ روک سکے، تیندوا اٹھا اور نہایت نفاست اور پھرتی سے ہمارے پیچھے جنگل میں گم ہو گیا۔ جب ہوا نے تیندوے کی بو میگگ تک پہنچائی تو اسے احساس ہوا کہ ابھی تک بلا خوف وہ جس خوبصورت جانور کو دیکھ رہا تھا، وہ اس کی جان بھی لے سکتا تھا۔ میگگ کی بڑی جسامت بھی تیندوے کے لیے مسئلہ نہیں تھی کہ ہمارے جنگلوں میں تیندوے سے زیادہ ماہر شکاری اور کوئی نہیں۔ + + +چمپاوت کی آدم خور شیرنی +کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/1]] +کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/2]] +کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/3]] +کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/4]] +کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/5]] +کماؤں کے آدم خور/موہن کا آدم خور/6]] +کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/1]] +کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/2]] +کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/3]] +کماؤں کے آدم خور/چوگڑھ کے شیر/4]] +کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/1]] +کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/2]] +کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/3]] +کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/4]] +کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/5]] +کماؤں کے آدم خور/ٹھاک کا آدم خور/6]] +کماؤں کے آدم خور/صرف شیر]] + + +چونکہ اس کتاب کے بیشتر واقعات آدم خور شیروں سے متعلق ہیں اس لئے یہ بتانا بہتر ہے کہ ان جانوروں میں آدم خوری کی عادت کیسے پیدا ہوتی ہیں۔ +آدم خور شیر ایک ایسا شیر ہوتا ہے جو حالات و واقعات سے مجبور ہو کر اُس خوراک کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اُس کے لئے نئی ہوتی ہے۔ ایسے واقعات میں نوے فیصد شیر زخمی ہو کر اور بقیہ دس فیصد واقعات میں عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آدم خور بنتے ہیں۔ زخمی ہونے کی ایک وجہ اناڑی شکاری کی چلائی ہوئی اوچھی گولی اور پھر زخمی شیر کا پیچھا نہ کرنا یا سیہی کےشکار میں بے احتیاطی ہوتی ہے۔ چونکہ انسان شیروں کی قدرتی خوراک نہیں ، اس لئے شیر عمر یا زخموں سے مجبور ہو کر انسان کا انتخاب بطور خوراک کرتا ہے۔ +شکار کی تلاش میں گھات لگا کر یا پھر چھپ کر، دونوں طرح شیر کی کامیابی کا سارا دار و مدار اس کی رفتار پر اور کسی حد تک اس کے دانتوں اور پنجوں کی حالت پر بھی ہوتا ہے۔ زخموں کے باعث یا دانتوں کے گھس جانے یا ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے شیر اپنے شکار کو پکڑنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ بھوک سے مجبور ہو کر وہ انسانی شکار پر اتر آتا ہے۔ جانوروں کے شکار سے انسانی شکار پر اس کا مائل ہونا میرے خیال میں محض واقعاتی ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں مکتسر کی شیرنی پیش کروں گا۔ یہ شیرنی نسبتاً نوجوان مادہ تھی۔ سیہی کے شکار میں اس نے نہ صرف ایک آنکھ گنوائی بلکہ اس کے بازو اور اگلے پنجے میں ایک سے نو انچ تک لمبے پچاس کانٹے پیوست تھے۔ کچھ کانٹے ہڈی سے ٹکرا کر واپس مڑ کر انگریزی کے حرف یو کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جہاں سے شیرنی نے ان کانٹوں کو اپنے دانتوں کی مدد سے نکالنے کی کوشش کی، وہاں زخم بن گئے جن میں پیپ پڑ گئی۔ ایک دن جب یہ شیرنی گھاس کے ایک قطعے میں بیٹھی اپنے زخم چاٹ رہی تھی تو ایک عورت نے اسی قطعے سے گھاس کاٹنا شروع کی۔ شیرنی نے پہلے پہل تو کوئی توجہ نہ دی۔ جب عورت گھاس کاٹتے کاٹتے بالکل نزدیک پہنچ گئی تو شیرنی نے جست لگائی اور پنجہ عورت کے سر پر مارا۔ بیچاری عورت کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔ اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ اگلے دن جب اس کی لاش ملی تو اس کے ایک ہاتھ میں درانتی اور دوسرے میں وہ گھاس تھی جسے وہ کاٹنے والی تھی۔ عورت کی لاش کو چھوڑ کر شیرنی میل بھر دور ایک گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے لنگڑاتی ہوئی پہنچی اور لیٹ گئی۔ اگلے دن ایک آدمی آگ کے لئے اس گرے ہوئے درخت کو کاٹنے آیا۔ شیرنی جو درخت کی دوسری جانب لیٹی ہوئی تھی، نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ چونکہ یہ آدمی اپنی صدری اور قمیض اتار چکا تھا، شیرنی کے حملے سے درخت پر گرا۔ شیرنی کے پنجوں سے اس کی کمر پر گہری خراشیں آئیں۔ ان خراشوں سے بہنے والے خون نے شیرنی کو شاید یہ خیال دلایا کہ وہ اس لاش سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ خیر وجہ کوئی بھی ہو، شیرنی نے کہیں اور جانے سے قبل اس شخص کی کمر کا کچھ حصہ کھا لیا۔ ایک دن بعد اس نے تیسرے بندے کو مارا۔ اس بار اس نے باقاعدہ گھات لگائی تھی۔ اس دن سے اس شیرنی نے باقاعدہ طور پر آدم خوری شروع کر دی تھی۔ ہلاک ہونے سے قبل اس شیرنی نے کل چوبیس افراد مارے تھے۔ +تازہ کئے گئے شکار پر موجود شیر، زخمی شیر یا بچوں والی شیرنی بھی اتفاق سے آدمی کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ یہ شیر کسی بھی لحاظ سے آدم خور نہیں کہلائے جا سکتے اگرچہ اکثر لوگ انہیں بھی آدم خور گردانتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں کسی بھی شیر کو آدم خور کہنے سے قبل کم از کم دو ہلاکتوں کا انتظار کرتا ہوں اور جہاں ممکن ہو، لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی کراتا ہوں۔ اس کے بعد میں اس جانور کو آدم خور شمار کرتا ہوں۔ پہاڑی علاقوں میں بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں کہ قتل کر کے الزام شیر، تیندوے، لگڑ بگڑ یا بھیڑیوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تفصیل یہاں بتانا مناسب نہیں ہوگی۔ +عام خیال ہے کہ آدم خور ہمیشہ بوڑھا اور خارش زدہ جانور ہوتا ہے۔ خارش زدہ اس لئے کہ انسانی جسم میں موجود نمک کی مقدار اسے خارش زدہ بنا دیتی ہے۔ میں انسانوں یا جانوروں کے گوشت میں موجود نمک کی مقدار پر رائے دینے کا حق تو نہیں رکھتا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ تمام آدم خوروں کی کھال نہایت نرم اور ریشمی ہوتی ہے۔ یعنی عام خیال کے برعکس انسانی گوشت کا آدم خور کی کھال پر کم از کم کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔ +ایک اور عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ تمام آدم خوروں کی اولاد بھی خود بخود آدم خور بن جاتی ہے۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ یہ جانور چونکہ انسانی گوشت پر پلتے ہیں تو ان کا آدم خور بن جانا فطری سی بات ہے۔ قدرتی طور پر انسان تیندوے یا شیر کی خوراک نہیں ہوتے۔ +عام طور پر بچہ وہی کچھ کھاتا ہے جو اس کی ماں اسے لا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کئی بار بڑے ہو کر یہ بچے انسانی شکار میں اپنی ماں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ تاہم ماں کو چھوڑنے کے بعد یا ماں کی ہلاکت کے بعد کسی بھی بچے نے آدم خوری کو جاری نہیں رکھا۔ +جب درندے انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ جانور شیر ہے یا تیندوا؟ میرے اصول کے مطابق ہر وہ ہلاکت جو دن کی روشنی میں ہو، شیر کے باعث اور ہر وہ ہلاکت جو رات کی تاریکی میں ہو، تیندوے کی طرف سے ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس اصول سے کسی جانور کو انحراف کرتے نہیں دیکھا۔ دونوں جانور نیم شب بیدار ہوتے ہیں، شکارکو مارنے یا گھات لگانے کا طریقہ بھی دونوں میں یکساں، دائرہ عمل بھی ایک ہی اور دونوں ہی انسانی شکار کو دور تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی عموماً پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے شکار کا وقت بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ دونوں جانوروں کی ہمت اور حوصلہ فرق ہوتا ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو اس کے دل سے انسان کا خوف جاتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دن میں انسان زیادہ آسانی سے اور زیادہ تعداد میں گھر سے باہر ہوتے ہیں تو اس میں شیروں کو سہولت رہتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس تیندوا یا چیتا چاہے کتنے بندے مار چکا ہو، کے دل سے انسان کی دہشت نہیں زائل ہو پاتی۔ اس لئے یہ دن کی روشنی کی بجائے رات کی تاریکی میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس لئے وہ رات کو گاؤں میں گھومتا یا رات کو ہی جھونپڑے توڑ کر شکار کرتا ہے۔ یہ حقیقت دیکھتے ہوئے کہ انسانی خوف زائل ہونے کے سبب شیر کیونکہ دن میں عام دکھائی دیتا ہے، اس کا شکار آدم خور تیندوے کی نسبت بہت آسان ہوتا ہے۔ +آدم خور سے ہونے والی ہلاکتوں کی رفتار عموماً درج ذیل تین عوامل پر ہوتی ہے: +• اس کے شکار کے دائرے میں قدرتی شکار کتنا ہے +• اس کی معذوری کی نوعیت، جس نے اسے آدم خور بنایا +• آیا آدم خور نر شیر ہے یا بچوں والی مادہ شیرنی +ہم میں سے وہ افراد جو حقیقی صورتحال سے ناواقف اور سنی سنائی اور پر بھروسہ کرتے ہیں، میں ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میں شیروں کی بات کروں گا کہ آدم خور شیر محض ایک انتہائی مختصر اقلیت ہوتے ہیں۔ جس مصنف نے سب سے پہلے "شیر جیسا خون کا پیاسا" یا "شیر جیسا سفاک" کی اصطلاح استعمال کی تھی، اس نے بظاہر ولن کے لئے یہ الفاظ چنے ہوں گے۔ اس طرح اس نے نہ صرف شیر جیسے شاندار جانورکی شہرت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی بلکہ شیر کی شہرت کو بھی گہنا دیا۔ اس کی بنائی ہوئی یہ اصطلاحات اب پوری دنیا میں عام استعمال ہوتی ہیں۔ وہ شخص جو اس غلط العام رائے کا ذمہ دار ہے جس پر تقریباً پوری دنیا یقین رکھتی ہے۔ +جب میں "شیر جیسا خون کا پیاسا" یا "شیر جیسا سفاک" کے الفاظ سنتا یا پڑھتا ہوں تو مجھے وہ ننھا لڑکا یاد آ جاتا ہے جس کے پاس ایک پرانی توڑے دار بندوق تھی۔ اس بندوق کی دائیں نال میں چھ انچ لمبا شگاف تھا۔ نالیوں اور کندے کو تانبے کی تاروں سے باندھا ہوا تھا تاکہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں۔ یہ لڑکا ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں بے فکر گھومتا پھرتا تھا۔ ان دنوں آج کی نسبت کم از کم دس گنا زیادہ شیر یہاں پائے جاتے تھے۔ یہ لڑکا جہاں بھی رات پڑے، سو جاتا تھا۔ اس کی نگرانی وہ چھوٹی سی آگ کرتی تھی جو وہ گرمی حاصل کرنے کو جلا لیتا تھا۔ اس کی نیند بار بار شیروں کی دھاڑ سن کر اکھڑ جاتی تھی جو بعض اوقات دور اور بعض اوقات بالکل نزدیک ہوتے تھے۔ یہ لڑکا آگ پر مزید ایک یا دو لکڑیاں ڈال کر پھر سونے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے شیروں سے ڈر نہ لگتا تھا۔ اسے اپنے مختصر تجربے اور دوسرے لوگوں کی باتوں سے یہ علم ہو چکا تھا کہ جب تک شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ کوئی نقصان نہیں دیتا۔ اسی طرح دن کی روشنی میں شیر کو دیکھتے ہی وہ لڑکا اس کے راستے سے ہٹ جاتا۔ اگر ہٹنا ممکن نہ ہوتا تو بے حس و حرکت کھڑا ہو جاتا۔ شیر اس کے پاس سے ہو کر گذر جاتا اور لڑکا اپنا سفر جاری رکھتا۔ اسی طرح ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ جب وہ لڑکا جنگلی مرغیوں پر گھات لگاتے ہوئے آلو بخارے کی جھاڑی میں چھپا ہوا تھا کہ اس جھاڑی کی دوسری طرف سے شیر نکلا۔ اس نے حیرت سے لڑکے کو دیکھا اور جیسے زبان حال سے پوچھا "ارے، تم یہاں کہاں؟" جواب نہ ملنے پر شیر خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح مجھے وہ لاکھوں افراد یاد آتے ہیں جو ہر روز جنگل میں جاتے ہیں اور ان کی مڈبھیڑ شیروں سے ہوتی ہے۔ ان میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص بحفاظت گھر واپس لوٹتا ہے۔ اکثر کو تو شیر کی موجودگی کا علم تک نہیں ہو پاتا۔ +جب وہ شیر اس آلو بخارے کی جھاڑی سے نکلا تھا، نصف صدی گذر چکی ہے ۔ گذشتہ بتیس سالوں میں میں نے بے شمار آدم خوروں کا سامنا بھی کیا ہے، ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جو پتھر کو بھی موم کر دیں، میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ شیر نے بلا وجہ شکار کیا ہو۔ ان کا کام ہمیشہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکار تک محدود ہوتا ہے چاہے یہ شکار انسانی شکل میں ہو یا پھر جانور کی شکل میں۔ +شکاری عموماً فطرت پسند ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے اس کا سالوں کا تجربہ ہوتا ہے جو اس نے جنگل میں گزارے ہوتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہو سکتا ہے لیکن اکثریت کی رائے تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی میری رائے سے لفظ بلفظ اتفاق کرے گا۔ لیکن خیالات ضرور ملتے جلتے ہوں گے۔ +تاہم ایک بات سے تمام شکاری اتفاق کریں گے چاہے وہ ہاتھی پر سوار ہو کر شکار کرتے ہوں،، مچان پر بیٹھ کر یا پھر زمین پر شیر کے دو بدو ہو کر، شیر ایک نہایت شریف النفس اور بے جگر درندہ ہے۔ جب یہ معدوم ہوا، جیسا کہ یہ اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے، ہندوستان اپنے سب سے خوبصورت جانور سے محروم ہو جائے گا۔ +شیر کے برعکس تیندوے کسی حد تک مردار خور ہوتے ہیں۔ جب انسان اس کے قدرتی شکار کو ختم کر دیں تو یہ بھی آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ +ہمارے پہاڑوں کے باشندے عموماً ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ یہ رسم ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی ہے تاکہ راکھ بہتی ہوئی دریائے گنگا تک جا سکے اور پھر اس سے آگے سمندر تک۔ چونکہ ان پہاڑوں کی ندیاں اور دریا وغیرہ بہت دور ہوتے ہیں اور اتنی دور تک لاش کو لے جانے میں مزدوروں کے اخراجات بہت مہنگے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات کی اموات اتنی مہنگی نہیں پڑتیں لیکن وبا کی صورت میں یہ لوگ زیادہ اموات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح ہر مردے کو جلانا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں یہ لوگ مردے کے منہ پر جلتا ہوا کوئلہ رکھ کر اسے کھائی میں پھینک دیتے ہیں۔ +تیندوے کے علاقے میں ایسی لاشیں اسے انسانی گوشت مہیا کرتی ہیں۔ وبا کے اختتام پر جب تیندوے کو یہ مفت کی لاشیں ملنا بند ہو جاتی ہیں تو وہ آدم خوری شروع کر دیتا ہے۔ +کماؤں کے دو تیندووں نے کل 525 افراد ہلاک کئے تھے۔ پہلا تیندوا ہیضے کی وبا سے اور دوسرا "جنگی بخار" سے 1918 میں آدم خور بنا تھا۔ + + +کرنل جم کاربٹ کی کتاب کماؤں کے آدم خور + + +اس شیرنی کے متعلق میں نے پہلی بار تب سنا تھا جب میں ایڈی نولس کے ہمراہ مالانی میں شکار کھیل رہا تھا۔ اس شیرنی کو سرکاری طور پر بعد میں "چمپاوت کی آدم خور" کا نام دیا گیا تھا۔ +ایڈی کو اس صوبے میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ فطرت سے ان کی محبت اور شکار کا شوق اپنی انتہا پر تھے۔ وہ ان چند خوش نصیب افراد میں سے ایک تھے جن کے پاس نہ صرف ہر چیز بلکہ ہر قسم کی بہترین چیز ہوتی ہے۔ ان کی رائفل کی نشانے کی درستگی اور ان کی گولی کی طاقت کا جوڑ نہیں تھا۔ ان کا ایک بھائی ہندوستان کی فوج کا سب سے بہترین نشانچی تھا۔ ان کا دوسرا بھائی ہندوستانی فوج کا سب سے بہترین ٹینس کا کھلاڑی تھا۔جب ایڈی نے مجھے بتایا کہ ان کے بہنوئی کو حکومت نے "چمپاوت کی آدم خور شیرنی" کو مارنے کے لئے مقرر کیا ہے تو مجھے یقین تھا کہ اس شیرنی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ +تاہم چند نامعلوم وجوہات کی بناء پر شیرنی ہلاک نہ ہو سکی۔ چار سال بعد جب میں نینی تال پہنچا تو وہ شیرنی حکومت کا درد سر بن چکی تھی۔ اس کی ہلاکت پر انعامات مقرر ہو چکے تھے۔ خصوصی شکاری بھیجے گئے تھے۔ گورکھوں کی جماعتیں بھی اسے نہ مار سکیں۔ انسانی ہلاکتیں بڑھتی چلی گئیں۔ +یہ شیرنی، جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا، کماؤں آنے سے قبل ہی آدم خور بن چکی تھی۔ کماؤں پہنچنے سے قبل وہ نیپال میں بھی دو سو افراد ہلاک کر چکی تھی۔ مسلح نیپالیوں کے دستے نے اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کماؤں میں اس نے مزید دو سو چونتیس ہلاکتیں کی تھیں۔ +نینی تال پہنچنے کے فوراً بعد برتھوڈ مجھ سے ملنے آئے۔ اس وقت برتھوڈ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اپنی ناگہانی موت کے بعد وہ ہلدوانی میں ہی دفن ہوئے۔ ان کے سارے جاننے والے ان سے محبت کرتے ہیں۔ جب انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ضلع کے لوگ اس شیرنی سے کتنے تنگ آ چکے ہیں تو مجھے حیرت نہ ہوئی۔ لوگوں کا درد ان کا درد تھا۔ جانے سے قبل انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ اگلی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی میں اس شیرنی کا پیچھا کروں گا۔ +تاہم میں نے دو شرائط رکھیں۔ پہلی تو یہ کہ تمام حکومتی انعامات جو اب تک مقرر ہو چکے ہیں، واپس لے لئے جائیں۔ دوسرا یہ کہ تمام شکاریوں اور الموڑہ کے گورکھوں کو واپس بلا لیا جائے۔ ان شرائط کی وجوہات بھی ظاہر تھیں۔ کوئی بھی اچھا شکاری انعام کے لالچ میں شکار نہیں کرتا۔ دوسرا جب اتنے ڈھیر سارے شکاری ایک ہی جگہ ہوں تو ان کی گولیوں سے بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے میری دونوں شرائط منظور کر لیں۔ اگلے ہفتے برتھوڈ میرے پاس آئے اور بتایا کہ انہیں گذشتہ رات ہرکارے نے پالی کے مقام پر ایک عورت کی ہلاکت کی اطلاع پہنچائی ہے۔ یہ گاؤں دیبی دھورا اور دھونا گھاٹ کے درمیان واقع ہے۔ +اس گاؤں کی کل آبادی پچاس نفوس پر مشتمل تھی جن میں عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے سب شامل تھے۔ یہ لوگ انتہائی خوف و ہراس کا شکار تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو سورج ابھی کافی بلند تھا مگر وہ لوگ بند دروازوں کے پیچھے ہی خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے۔ جب ہم لوگ گاؤں کے درمیان میں رک کر آگ جلا کر چائے تیار کرنے لگے تو اکا دکا دروازے کھلنے لگے۔ +لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ پانچ روز سے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں گئے۔ نتیجتاً صفائی کی صورتحال بہت ناگفتہ بہ تھی اور خوراک بھی ختم ہونے والی تھی۔ اگر شیرنی کو مارا یا بھگایا نہ جاتا تو یہ لوگ عن قریب بھوک سے مر سکتے تھے۔ +شیرنی کی اس علاقے میں موجودگی صاف ظاہر تھی۔ گذشتہ تین راتوں سے وہ گاؤں کے پاس سڑک سے ہوتی ہوئی گذری تھی۔ یہ سڑک گاؤں سے بمشکل سو گز دور ہوگی۔ دن کی روشنی میں یہ شیرنی کئی بار گاؤں سے متصل کھیتوں میں بھی دیکھی گئی تھی۔ +نمبردار نے مجھے ایک کمرہ دیا۔ ہم کل آٹھ افراد تھے۔ اس کمرے کا دروازہ اس طرف کھلتا تھا جہاں سارے گاؤں کی غلاظت پھینکی جاتی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں رات کھلے آسمان کے نیچے گذاروں گا۔ +رات کا کھانا جلدی جلدی کھا کر میرے آدمی اس کمرے میں محفوظ ہو کر بیٹھ گئے تو میں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹیک لگا لی۔ چونکہ دیہاتیوں نے بتایا تھا کہ شیرنی اس سڑک سے ہو کر گذرتی ہے تو اگر میں اسے پہلے دیکھ پاتا تو اسے مار سکتا تھا۔ رات روشن تھی کیونکہ چودہویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔ +گاؤں میں میری بحفاظت واپسی پر گاؤں والے پریشان تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ مجھے ان جگہوں پر لے جائیں جہاں شیرنی نے انسانی ہلاکتیں کی ہوں۔انہوں نے محض اپنی دہلیز سے ہی ہاتھوں کے اشارے سے بتانے کی کوشش کی۔ آخری ہلاکت جس کے بعد میں ادھر آیا تھا، گاؤں کے بالکل کنارے پر ہوئی تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں جن کی تعداد بیس تھی، مویشیوں کے لئے درختوں سے پتے توڑنے گئی ہوئی تھیں۔ یہ عورتیں دن چڑھے گاؤں سے بمشکل نصف میل دور جا کر درختوں پر چڑھی تھیں تاکہ پتے توڑ سکیں۔ متوفیہ اور اس کے ہمراہ دو اور عورتوں نے کھڈ کے کنارے ایک درخت چنا۔ یہ کھڈ چار فٹ گہری اور دس یا بارہ فٹ چوڑی تھی۔ متوفیہ نے سب سے پہلے مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ لئے تھے اور نیچے اترنے لگی۔ شیرنی جو کہ انتہائی خاموشی سے کھڈ تک پہنچی تھی، نے باہر نکل کر عورت کا پیر منہ میں دبا لیا۔ عورت کے ہاتھ سے درخت کی ٹہنی چھوٹ گئی۔ اسے کھڈ میں گھسیٹ کر شیرنی نے پاؤں چھوڑا اور اسے گلے سے دبوچ لیا۔ ہلاک کرنے کے بعد شیرنی نے اسے اٹھائے ہوئے جست لگائی اور گھاس میں گم ہو گئی۔ +چونکہ یہ سارا واقعہ دیگر دو عورتوں کے سامنے پیش آیا تھا، انہوں نے یہ سب کچھ تفصیل سے دیکھا۔ شیرنی اور اس کے شکار کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی دہشت سے سہمی ہوئی ساری عورتیں اور لڑکیاں گاؤں کو لوٹیں۔ اسی وقت سارے گاؤں کے مرد دوپہر کا کھانا کھانے واپس آئے تھے۔ سب نے فوراً ہی ڈھول، ڈرم، دھاتی پتیلیاں، غرض ہر وہ چیز اٹھا لی جسے بجا کر شور کیا جا سکتا۔ سارے مدد کے لئے روانہ ہوئے۔ مرد آگے آگے اور عورتیں پیچھے پیچھے تھیں۔ +جائے حادثہ پر پہنچ کر یہ سوال آ کھڑا ہوا کہ "اب کیا کریں؟" ابھی وہ یہ بحث کر ہی رہے تھے کہ شیرنی نے پاس والی جھاڑی سے نکل کر زور دار بھبھکی دی۔ تمام افراد سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور گاؤں پہنچ کر ہی دم لیا۔ جب سانس بحال ہوئی تو ہر ایک دوسرے کو الزام دینے لگاکہ وہ پہلے بھاگا تھا۔ جب تو تو میں میں اور تکرار کی نوبت آئی تو ایک شخص نے کہا کہ اگر کوئی سارے ہی اپنے دعوؤں کے مطابق اتنے سچے اور بہادر ہیں تو کیوں نہ دوبارہ جا کر اس عورت کی جان بچائیں؟ تین بار یہ پارٹی کھڈ تک جا کر لوٹ آئی۔ چوتھی بار جس شخص کے پاس بندوق تھی، نے ہوا میں گولی چلائی۔ شیرنی فوراً ہی جھاڑیوں سے غرائی۔ غرض یہ پارٹی اب مدد کا خیال دل سے نکال کر واپس لوٹ آئی۔ میں نے بندوقچی سے کہا کہ اس نے ہوا میں گولی چلانے کی بجائے جھاڑی میں کیوں نہیں گولی چلائی۔ وہ بولا کہ شیرنی پہلے ہی غضب ناک ہو رہی تھی۔ اگر بدقسمتی سے کوئی چھرا اسے لگ جاتا تو وہ اسے زندہ نہ چھوڑتی۔ +اگلی صبح میں تین گھنٹے تک شیرنی کے نشانات تلاش کرتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے شیرنی سے اچانک مڈبھیڑ کا خطرہ بھی رہا۔ ایک جگہ جہاں گھنی جھاڑیاں تھیں، تلاش کے دوران تیتروں کا جھنڈ پھڑپھڑاتا ہوا اڑا تو مجھے لگا کہ میرا دل دھڑکنا بھول گیا ہے۔ +میرے آدمیوں نے اخروٹ کے درخت تلے زمین صاف کر کے ناشتے کے لئے جگہ بنائی تھی۔ ناشتے کے بعد نمبردار نے مجھے کہا کہ اگر میں رائفل لے کر نگرانی کروں تو وہ لوگ گندم کی تیار فصل کاٹ لیں۔ اس نے کہا کہ اگر یہ فصل آج نہ کاٹی گئی تو بعد میں اسے کوئی نہیں کاٹنے والا۔ لوگ اتنے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ نصف گھنٹے بعد پورا گاؤں بمع میرے آدمیوں کے کٹائی پر لگ گئے۔ میں رائفل لئے نگران کھڑا رہا۔ شام ہوتے ہوتے پانچ بڑے کھیتوں کی کٹائی مکمل ہو گئی۔ بقیہ دو کھیت چھوٹے اور گاؤں سے متصل تھے۔ نمبردار کے بقول یہ کھیت کٹائی کے لئے محفوظ تھے۔ +گاؤں کی صفائی کی صورتحال اب کافی بہتر ہو چلی تھی۔ اب کے گاؤں والوں نے میرے لئے دوسرا کمرہ خالی کر دیا تھا۔ اس رات ہم نے اس کمرے کے دروازے کی جگہ کانٹے دار جھاڑیاں لگا دیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت تو جاری رہے لیکن شیرنی نہ گذر پائے۔ یہ رات میں نے اچھی طرح نیند پوری کی جو کہ سابقہ رات کی ادھار تھی۔ +اب میری موجودگی سے گاؤں والوں کی ہمت کافی بڑھ چکی تھی۔ ان کی نقل و حمل بھی نسبتاً بڑھ گئی تھی۔ تاہم ابھی بھی وہ مجھ پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے کہ میرے ساتھ چل کر آخری واردات کی جگہ دکھائیں یا جنگل میں میرے ساتھ مٹر گشت کر سک��ں۔ یہ لوگ پورے جنگل سے اچھی طرح واقف تھے اور مجھے ان جگہوں تک لے جا سکتے تھے جہاں شیرنی کی موجودگی کا امکان ہوتا یا کم از کم میں شیرنی کے پنجوں کے نشانات تو دیکھ سکتا۔ اس وقت تک مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ آیا یہ آدم خور نر ہے یا مادہ، نوعمر ہے یا بوڑھا شیر۔ ان سب معلومات کا حصول اس کے پنجوں کے نشانات یعنی پگوں کو دیکھ کر ہی ہو سکتا تھا۔ +اس صبح چائے کے بعد میں نے گاؤں والوں سے کہا کہ میں اپنے آدمیوں کے لئے گوشت چاہتا ہوں۔ کیا کوئی دیہاتی میرے ساتھ چل سکتا ہے کہ میں گڑھل یعنی پہاڑی بکرے کا شکار کر سکوں۔ یہ پورا گاؤں شرقاً غرباً ایک لمبی کھائی کے کنارے پہاڑ کی بلندی پرواقع تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سڑک گذرتی تھی جہاں میں نے پہلی رات شیرنی کا انتظار کیا تھا۔ یہ سڑک بہت ساری ڈھلوانوں سے ہو کر گذرتی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں گڑھل بہت ملتے ہیں۔ میں نے اپنی خوشی ظاہر کئے بغیر تین افراد کا چناؤ کیا۔ میں نے نمبردار سے وعدہ کیا کہ اگر گڑھل بکثرت ہوئے تو میں ایک اپنے آدمیوں کے لئے اور دو گاؤں والوں کے لئے ماروں گا۔ +سڑک عبور کر کے ہم گہری ڈھلوان کھائی میں نیچے اترے۔ میں ہر طرف اچھی طرح دیکھ بھال کر چل رہا تھا تاکہ کسی گڑھل کو دیکھ سکوں۔ نصف میل بعد کھائیاں ختم ہو رہی تھیں۔ ان کی جڑ سے پوری وادی کے دائیں جانب کا بہترین نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ میں وہاں موجود صنوبر کے اکلوتے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اچانک میری آنکھ کے گوشے سے کسی حرکت کا احساس ہوا۔ میں نے اس طرف اپنی پوری توجہ مرکوز کر دی۔ حرکت دوبارہ ہوئی۔ یہ گڑھل کا سر تھا جس کے کان ہلے تھے۔ اس کا سر گھاس سے باہر نکلا ہوا تھا جبکہ پورا جسم گھاس میں چھپا ہوا تھا۔ دیگر ہمراہیوں نے کچھ بھی نہ دیکھا تھا کیونکہ سر اب بالکل پس منظر سے مل گیا تھا۔ انہیں اندازے سے بتا کر میں نے انہیں کہا کہ وہ بیٹھ کر دیکھتے رہیں۔ میرے پاس اس وقت ہنری مارٹینی رائفل تھی جو اپنے نشانے کی درستی اور گولی کے دھکے کی وجہ سے مشہورہے۔ اس میں کالے بارود کا کارتوس استعمال ہوتا تھا۔ گڑھل سے میری موجودہ جگہ کا فاصلہ کوئی دو سو گز رہا ہوگا جو کہ اس رائفل کے لئے معمولی بات تھی۔ میں نے رائفل کو اس درخت کی ایک ابھری ہوئی جڑ پر جما کر نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ +کالے بارود کے دھوئیں نے میرے سامنے ایک پردہ سا تان دیا۔ میرے آدمیوں کا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید میں نے پتھروں یا پتوں کے ڈھیر پر گولی چلائی تھی۔ دھواں مدھم ہوا تو میں نے اس جگہ سے ذرا نیچے گھاس ہلتی ہوئی دیکھی۔ پھر لڑھکتے ہوئے گڑھل کی پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جب گڑھل گھاس سے آزاد ہوا تو نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ جوں جوں وہ نیچے آتا گیا اس کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔ نصف فاصلے پر وہ اس جگہ سے گذرا جہاں مزید دو گڑھل لیٹے ہوئے تھے۔ لڑھکتے گڑھل سے خبردار ہو کر یہ اٹھے اور سیدھا اوپر کی طرف بھاگے۔ میں نے کارتوس بدل کر دوبارہ نشانہ درست کیا اور جونہی بڑا گڑھل ذرا سا رکا، میں نے اس کی کمر میں اور دوسرے کے کندھے میں گولیاں اتار دیں۔ +بعض اوقات ہم سے ایسے کام ہو جاتے ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ سخت زمین پر لیٹ کر ساٹھ ڈگری کے زاویے پر دو سو گز دور گڑھل کی گردن کے سفید نشان پر گولی چلانا، چاہے گولی کے درست جگہ لگنے کے لاکھوں میں سے ایک امکان ہونے کے باوجود بھی گولی بال برابر بھی اپنے نشانے سے نہ ہٹی۔ کالے بارود نے گولی کو ٹھیک نشانے پر پہنچایا۔ گڑھل اسی وقت مر چکا تھا۔ پھر اس سخت ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا گڑھل اس جگہ پہنچا جہاں پہلے سے دو اور گڑھل موجود تھے۔ ابھی یہ گڑھل اس جگہ سے نیچے نہ آیا تھا کہ دوسرے دونوں گڑھل بھی اس کے پیچھے لڑھکنے لگ گئے۔ جونہی یہ تینوں جانور ہمارے قدموں میں آ کر رکے، دیہاتیوں کی حیرت قابل دید تھی۔ انہوں نے آج تک رائفل کا استعمال دیکھا تک نہ تھا۔ آدم خور کا خیال بھلا کر وہ صرف ان جانوروں کو اٹھانے لپکے۔ +کئی اعتبار سے یہ مہم کامیاب رہی۔ اس سے نہ صرف گاؤں بھر کے لئے گوشت ملا بلکہ پورے گاؤں کا اعتماد بھی مجھے ملا۔ شکار کی داستانیں ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔ میں ناشتہ کرنے لگا تو بقیہ گاؤں والے مردہ گڑھلوں کے گرد جمع ہو گئے۔ گڑھلوں کی کھال اتارنے اور گوشت کی تقسیم کے دوران ان تینوں افراد نے نہایت فیاضی سے میرے کارنامے پر روشنی ڈالی۔ میں نے بخوبی سنا کہ کس طرح میں نے میل بھر دور سے گڑھل پر گولی چلائی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان جادوئی گولیوں نے گڑھلوں کو کھینچ کر صاحب کے قدموں میں لا کر ڈال دیا۔ +دوپہر کے کھانے کے بعد نمبردار میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کتنے افراد درکار ہیں اور یہ کہ میں کس طرف جنگل میں جانا چاہتا ہوں۔ ایک با رپھر اپنی مسرت کو دباتے ہوئے میں نے خاموشی سے دو افراد کو چنا جو گڑھلوں والی مہم میں میرے ساتھ تھے۔ اب ہم اس طرف روانہ ہوئے جہاں آخری واردات ہوئی تھی۔ +چونکہ ہمارے پہاڑوں کے لوگ ہندو ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ آدم خور کے شکار کی صورت میں وہ کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ باقیات لازماً مل جائیں۔ چاہے وہ ہڈیوں کے محض چند ریزے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس مردہ خاتون کی رسومات ابھی ہونی باقی تھیں۔ اس کے لواحقین نے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو میں کچھ نہ کچھ باقیات لازماً اپنے ساتھ واپس لاؤں۔ +لڑکپن سے ہی میں نے جنگل کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ موجودہ واردات کے بارے مجھے عینی شاہدین نے بھی معلومات دی تھیں۔ عینی شاہدین ہمیشہ درست معلومات نہیں دیتے۔ لیکن جنگل میں موجود شواہد کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جائے حادثہ پر پہنچ کر مجھے پہلی ہی نظر میں اندازہ ہو گیا کہ شیرنی یہاں چھپ کر کھڈ کے راستے ہی پہنچ سکتی ہے۔ کھڈ میں سو گز دور جا کر اور پھر اوپر لوٹتے ہوئے ایک جگہ میں نے نرم ریت پر شیرنی کے پنجوں کے واضح نشانات دیکھے۔ یہ ایک مادہ شیرنی تھی جو اپنی جوانی گذار چکی تھی۔ مزید اوپر جا کر درخت سے دس گز پہلے شیرنی ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر عورتوں کے نیچے اترنے کا انتظار کرنے بیٹھی تھی۔ متوفیہ درخت سے اترنے والی پہلی عورت تھی۔ ابھی وہ پوری طرح نیچے اترنے بھی نہ پائی تھی کہ شیرنی نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اسے دبوچ لیا۔ اس بدقسمت عورت نے شاخ کو کتنی مضبوطی سے پکڑا ہوگا کہ اس پر ہتھیلی اور انگلیوں سے اتری ہوئی کھال ابھی تک موجود تھی۔ جہاں شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا، وہاں مزاحمت کے نشانات تھے اور خون کا ایک بڑا سا دھبہ بھی۔ یہاں سے خون کی خشک لکیر کھڈ ے ہوتی ہوئی دوسرے کنارے تک جا پہنچی۔ کھڈ سے نکلتے ہی وہ جھاڑیاں سامنے تھیں جہاں شیرنی نے اسے کھایا تھا۔ +عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدم خور شیر کھوپڑی، پنجے اور پیروں کو نہیں کھاتے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ اگر آدم خور شیر کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ سب کچھ کھا لیتے ہیں حتٰی کہ خون آلودہ کپڑے بھی۔ ایک بار میں نے ایک آدم خور کے پیٹ سے خون سے رنگے ہوئے کپڑے خود نکالے تھے۔ تاہم یہ قصہ کسی دوسرے وقت کے ��ئے اٹھا رکھتے ہیں۔ +اس وقت ہم نے عورت نے خون آلود کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے پائے۔ ہم نے انہیں اپنے ساتھ لائے گئے سفید کپڑے میں احتیاط سے باندھ لیا۔ چاہے باقیات کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہوں، یہ آخری رسومات کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ انہیں جلا کر گنگا دریا ڈال دیا جاتا ہے۔ +اس کے بعد میں نے دوسری مگر پرانی واردات کی جگہ کا چکر لگایا۔ گاؤں سے ہٹ کر سڑک کے پار چند ایکڑ کا ایک کھیت تھا۔ اس کے مالک نے سڑک کے کنارے اپنا گھر بھی بنایا ہوا تھا۔ اس کی بیوی دو بچوں کی ماں تھی جن میں سے ایک چھ سالہ لڑکا اور ایک چار سالہ لڑکی تھے۔ اس کی بڑی بہن بھی اس کے ہمراہ رہتی تھی۔ ایک روز یہ دونوں بہنیں مکان کے اوپر والی پہاڑی پر گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک شیرنی نمودار ہوئی اور بڑی بہن کو اٹھا کر چلتی بنی۔ چھوٹی بہن درانتی لہراتی ہوئی سو گز تک ان کے پیچھے بھاگی تاکہ شیرنی سے اپنی بہن کو چھڑا کر خود کو اس کے حوالے کر دے۔ اس جرأت کا سارے گاؤں والوں نے نظارہ دیکھا۔ سو گز کے بعد شیرنی نے متوفیہ کو زمین پر ڈالا اور دوسری بہن کی طرف پلٹی۔ غراہٹ کے ساتھ اس نے دوسری بہن پر چھلانگ لگائی جو اب گاؤں کی طرف بھاگتی ہوئی جا رہی تھی تاکہ گاؤں والوں کو اس واردات کے بارے بتا سکے۔ اسے علم نہ تھا کہ گاؤں والے یہ سب پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت اس عورت کی بے معنی غوں غاں کو گھبراہٹ، خوف اور جوش کی وجہ سے سمجھا گیا۔ جب تمام افراد شیرنی کے پیچھے جا کر ناکام پلٹے تو انہیں علم ہوا کہ یہ عورت اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے۔ مجھے گاؤں میں یہ کہانی سنائی گئی اور جب میں سڑک عبور کر کے اس کے گھر پہنچا تو وہ بیچاری کپڑے دھو رہی تھی۔ اسے گونگی ہوئے پورا ایک سال ہو چکا تھا۔ +آنکھوں سے اس کی بے چینی کے اظہار کے سوا وہ عورت بالکل تندرست لگ رہی تھی۔ جب میں اس کے پاس رک کر اسے یہ بتانے لگا کہ میں اس کی بہن کے قاتل کو ہلاک کرنے آیا ہوں تو اس نے جھک کر میرے پیروں کو چھوا۔ یقیناً میں اس علاقے میں آدم خور کو ہی ہلاک کرنے آیا تھا لیکن ایسا آدم خور جو کبھی ایک علاقے میں دوبارہ شکار نہ کرتا ہو، شکار کھانے بھی دوبارہ نہ پلٹتا ہو اور جو کئی سو مربع میل کے علاقے میں سرگرم ہو، کا شکار میرے لئے اتنا ہی دشوار ہوتا جتنا کہ بھوسے کے ایک نہیں بلکہ دو ڈھیروں سے ایک سوئی کو تلاش کرنا۔ +نینی تال سے آتے ہوئے میں نے بے شمار منصوبے تیار کئے تھے۔ ایک منصوبہ تو جنگلی گھوڑوں کی وجہ سے ناقابل عمل تھا۔ موجودہ صورتحال میں دیگر تمام منصوبے بیکار لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی ایسا آدمی نہ تھا کہ جس سے میں مدد مانگ سکتا۔ یہ اس علاقے کا پہلا آدم خور تھا۔ اگلے تین دن تک میں سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج ڈوبنے تک جنگلات میں گھومتا رہا اور بالخصوص ان جگہوں پر زیادہ توجہ دی جہاں گاؤں والوں کے اندازے کے مطابق شیرنی سے مڈبھیڑ کے زیادہ امکانات تھے۔ +یہاں میں تھوڑا سا توقف کروں گا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ غلط فہمی ان پہاڑی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ اس بار اور دیگر کوئی مواقع پر میں نے دیہاتی عورت کا سا لباس پہن کر آدم خوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور کلہاڑی یا درانتی سے انہیں ہلاک بھی کیا ہے۔ حقیقتاً اس افواہ میں اتنی صداقت ہے کہ میں نے محض اپنے لباس پر ساڑھی مانگ کر لیپیٹ لی اور گھاس کاٹی ہے یا درخت پر چڑھ کر میں نے پتے توڑے ہیں۔ میرے علم میں صرف دو بار آدم خور میری طرف متوجہ ہوئے تھے۔ انہوں نے گھات بھی لگائی، ایک بار ایک بڑے پتھ�� کے پیچھے چھپ کر اور دوسری بار گرے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے چھپ کر۔ دونوں بار مجھے گولی چلانے کا موقع نہیں مل سکا۔ +اب میں اصل واقعہ جاری رکھتا ہوں۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی ادھر سے چلی گئی ہے۔ لوگوں کی مایوسی کے باوجود میں نے چمپاوت منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ چمپاوت یہاں سے پندرہ میل دور تھا۔ صبح سویرے ہم روانہ ہوئے۔ دھونا گھاٹ پر ناشتہ کرنے رکے اور چمپاوت ہم سورج غروب ہوتے وقت جا پہنچے۔ اس علاقے کی سڑکیں بالکل غیر محفوظ تصور کی جاتی تھیں۔ آدمی بڑے بڑے گروہوں میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا بازاروں کو آتے جاتے تھے۔ دھونا گھاٹ سے روانہ ہوتے وقت ہم آٹھ افراد تھے کہ ہمارے ساتھ بائیس مزید دیہاتی بھی آن ملے۔ہمارا کل تیس افراد کا گروہ چمپاوت پہنچا۔ ان نئے ہمراہیوں میں سے کچھ افراد دو ماہ قبل بیس آدمیوں کے ایک اور گروہ کے ساتھ شامل ہو کر چمپاوت پہنچے تھے۔ انہوں نے اس کی داستان کچھ یوں بیان کی۔ +میں نے کہا کہ تم بیس آدمی ہو کر بھی کچھ نہ کر پائے؟ +نہیں صاحب۔ ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ کچھ نہ کر سکے۔ آدمی جب خوفزدہ ہو تو کیا کر سکتا ہے؟ مزید یہ کہ اگر ہم شیرنی سے اس عورت کو چھڑا بھی لیتے اور شیرنی ہم پر حملہ بھی نہ کرتی تو بھی عورت اتنی زخمی تھی کہ اس کا بچنا ناممکن ہوتا۔ +مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ عورت چمپاوت کے نزدیک ایک گاؤں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے شیرنی اس وقت اٹھا کر لے گئی جب وہ خشک لکڑیاں چن رہی تھی۔ اس کی ساتھیوں نے بھاگ کر گاؤں والوں کو خبردار کیا۔ ابھی امدادی جماعت تیار ہو ہی رہی تھی کہ یہ بیس افراد بھی آن پہنچے۔ اس طرح امدادی جماعت کو شیرنی کے جانے کا راستہ معلوم ہوا اور یہ سب اکٹھے ہو کر شیرنی کے پیچھے چلے۔ آگے کی کہانی کچھ یوں تھی: +ہم لوگ کوئی پچاس یا ساٹھ مضبوط و توانا مرد تھے جو اس عورت کو بچانے نکلے۔ ہمارے ساتھ کئی افراد بندقوں سے مسلح تھے۔ ایک فرلانگ دور اس عورت کی جمع شدہ لکڑیاں موجود تھیں۔ پاس ہی اس عورت کے تار تار کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ یہاں سے ڈھول بجانے اور بندوقیں چلانے لگے۔ میل بھر دور جا کر انہوں نے ایک جگہ اس نوعمر عورت کی لاش ایک پتھر پر پڑی پائی۔ شیرنی نے اس کے جسم سے سارا خون چاٹ کر صاف کر دیا تھا لیکن ابھی اسے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ چونکہ یہ سارے مرد تھے انہوں نے منہ پھیر کر لاش کر کپڑے سے ڈھک دیا۔ بیچاری عورت اس طرح پڑی تھی جیسے وہ تھک کر سو گئی ہو اور ہلکی سی آہٹ ہوتے ہی جاگ جاتی۔ +اس طرح کی داستانیں بند دروازوں کے پیچھے اور آتش دان میں جلتے انگاروں کی موجودگی میں سنائی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدم خور کی موجودگی سے اس علاقے کے لوگوں کا رویہ اور احساسات کیسے بدل جاتے ہیں۔ اس کا حقیقی اندازہ گھر سے باہر تاریکی میں نکل کر لگایا جا سکتا ہے جہاں ان درندوں کی حکومت ہوتی ہے۔ جہاں لوگ ان کی موجودگی اور ان کی دہشت کے سائے میں جیتے ہیں۔ ان دنوں میں بالکل ناتجربہ کار تھا پھر بھی مجھے بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ آدم خور کی موجودگی کے باعث کتنی دہشت ان علاقوں پر چھا جاتی ہے۔ بعد کے میرے تئیس سال کے تجربے سے بھی یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ +چمپاوت کا تحصیلدار اس رات مجھ سے ملنے آیا۔ میرے پاس اس کے لئے ایک تعارفی خط موجود تھا۔ اس نے مجھے رائے دی کہ میں چند میل دور ایک اور بنگلے میں منتقل ہو جاؤں۔ اُس جگہ کے آس پاس کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔ +اگلی صبح جلدی سے تحصیلدار کے ہمراہ میں اس بنگلے میں پہنچا۔ وہاں میں برآمدے میں بیٹھا ن��شتہ کر ہی رہا تھا کہ دو بندوں نے مجھے آ کر اطلاع دی کہ شیر نے گاؤں سے دس میل دور ایک گائے کو ہلاک کر دیا ہے۔ تحصیلدار نے معذرت کی کہ اسے چمپاوت میں چند اہم کام نمٹانے ہیں اور یہ کہ وہ شام کو میرے ساتھ آ کر بنگلے میں ہی رات گذارے گا۔ وہ چلا گیا۔ میرے رہنما دونوں ہی مضبوط افراد تھے۔ ہم نے دس میل کا فاصلہ رکارڈ وقت میں طے کیا۔ گاؤں آ کر ہم مویشیوں کے باڑے میں گئے۔ یہاں ایک کافی بڑا بچھڑا مرا ہوا تھا اور اسے تیندوے نے کھایا تھا۔ میرے پاس اس تیندوے سے مقابلہ کرنے کا نہ تو وقت تھا اور نہ ہی کوئی ارادہ۔ میں نے دونوں افراد کو مناسب انعام دیا اور واپس چل پڑا۔ بنگلے پہنچ کر میں نے دیکھا کہ تحصیلدار ابھی تک نہ لوٹا تھا۔ سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ میں چوکیدار کے ساتھ اس طرف چل دیا جہاں بقول چوکیدار شیرنی اکثر پانی پینے آیا کرتی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے بنگلے کے باغیچے کو پانی آتا تھا۔ یہاں نرم مٹی میں شیر کے بے شمار پگ دکھائی دیے جو کئی دن پرانے تھے۔ یہ نشانات آدم خور کے پگوں سے یکسر مختلف تھے۔ +بنگلے لوٹ کر میں نے تحصیلدار کو موجود پایا۔ برآمدے میں بیٹھ کر میں نے دن بھر کی روداد سنائی۔ اس ے میری ناکامی پر ہمدردی کا اظہار کی۔ پھر اچانک ہی وہ اٹھا اور بولا کہ اس کی واپسی کا سفر کافی لمبا ہے اس لئے اسے فوراً ہی روانہ ہو جانا چاہیئے۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئی۔ آج صبح دو بار اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ رات گذارے گا۔ مجھے اس کے رکنے یا نہ رکنے سے کوئی غرض نہ تھی۔ میں محض اس طرح اس کی واپسی کے خیال سے اور اس کی حفاظت کے لئے پریشان ہو رہا تھا۔ تاہم اس نے تمام باتیں سنی ان سنی کرتے ہوئے واپسی اختیار کی۔ اس کے پیچھے ایک مقامی بندہ لالٹین اٹھائے ہوئے تھا۔ اس مدھم روشنی میں اسے ان چار میلوں کا سفر طے کرنا تھا جو دن دیہاڑے لوگ بڑے بڑے گروہوں میں طے کرتے ہوئے کتراتے تھے۔ میں نے اس بہادر شخص کو سلام کیااور اسے نظروں سے دور ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔ +اس بنگلے کے متعلق بھی مجھے ایک داستان سنانی ہے لیکن اس کتاب میں نہیں۔ یہ کتاب جنگل سے متعلق ہے۔ جنگل سے ہٹ کر مافوق الفطرت باتیں اس کتاب میں کرنا مناسب نہیں۔ +اگلی صبح میں نے بنگلے کے پھلوں اور پھولوں سے بھرے باغ کا چکر لگایا اور چشمے پر نہا یا۔ دوپہر کو میں نے تحصیلدارکو واپس آتے دیکھا تو اطمینان کا سانس لیا۔ +ابھی میں وہیں کھڑا اس سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ میں نے ڈھلوان سے اوپرکی طرف آتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کبھی چلتا اور کبھی دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔ بظاہر وہ خاصی جلدی میں لگ رہا تھا۔ تحصیلدار سے کہہ کر کہ میں ابھی واپس آتا ہوں، نیچے اترا اور اس شخص کی طرف بھاگا۔ مجھے آتے دیکھ کر وہ شخص رک گیا اور سانس لینے بیٹھ گیا۔ جونہی میں اس کے قریب ہوا، وہ چلایا کہ "صاحب، جلدی کریں۔ شیرنی نے لڑکی کو مار ڈالا ہے۔" میں چلایا "وہیں بیٹھو" اور واپس بنگلے کی طرف بھاگا۔ تحصیلدار کو یہ بات بتائے ہوئے میں نے رائفل اٹھائی اور چند اضافی گولیاں جب میں ڈالیں اور واپس پلٹا۔ تحصیلدار کوپیچھے آنے کا کہتے ہوئے میں چل پڑا۔ +جو شخص خبر لایا تھا، وہ کچھ اس طرح کا بندہ تھا کہ اس کی ٹانگیں اور زبان بیک وقت کام نہیں کر سکتی تھیں۔ منہ کھلتا تو اس کی ٹانگیں رک جاتیں اور جب چلتا تو منہ بند ہو جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ خاموشی سے میرے پیچھے آئے اور ہم پہاڑی سے نیچے اترے۔ +گاؤں میں مردوں، عورتوں اور بچوں کا ہجوم جمع تھا اور وہ سب نہایت پرجوش ہو رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی سب کے سب ایک ساتھ بولنا شروع ہو گئے۔ انہیں ایک شخص چپ کرا رہا تھا۔ میں اس شخص کو الگ لے گیا اور اس سے ماجرا دریافت کیا۔ گاؤں کے ایک جانب چند درختوں کے جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے بتایا جہاں ایک فرلانگ لمبی ڈھلوان تھی۔ یہاں درجن بھر افراد لکڑیاں جمع کر رہے تھے کہ اچانک آدم خور نمودار ہوئی اور ایک سولہ سالہ لڑکی کو اٹھا کر لے گئی۔ بقیہ افراد گاؤں کی طرف بھاگے اور چونکہ میری آمد کی خبر سب کو تھی، انہوں نے میری طرف فوراً ایک بندہ دوڑا دیا۔ +جس بندے سے میں گفتگو کر رہا تھا، اس کی بیوی بھی ان درجن افراد میں شامل تھی۔اس نے پہاڑ کے کنارے والے درخت کی طرف اشارہ کیا کہ شیرنی نے وہاں سے لڑکی کو اٹھایا ہے۔ کسی فرد کو اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ مڑ کر یہ دیکھتا کہ شیرنی اس لڑکی کو لے کر کس طرف گئی ہے۔ +سب کو یہ ہدایت کر کے کہ جب تک میں واپس نہ آ جاؤں، کوئی بھی گاؤں سے باہر نہ نکلے اور نہ ہی شور کرے۔ میں اب اس درخت کی طرف بڑھا۔ سارا علاقہ ہموار تھا اور کہیں بھی شیرنی کے چھپنے کی جگہ نہیں تھی۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس طرح شیرنی چھپ کر لڑکی تک پہنچی۔ دیگر افراد کو تب علم ہوا جب انہوں نے لڑکی کے دم گھٹنے کی آوازیں سنیں۔ +اس جگہ پر جہاں شیرنی نے لڑکی کو ہلاک کیا تھا، خون کا تالاب سا بنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی لڑکی کا گلوبند موجود تھا جو نیلے موتیوں کا تھا۔ یہاں سے نشانات پہاڑی کی طرف بڑھے۔ +راستے کے ایک طرف خون کی لکیر اور دوسری طرف لڑکی کے پیروں کے گھسٹنے کے نشانات موجود تھے۔ پہاڑی پر نصف میل دور جا کر مجھے لڑکی کی ساڑھی ملی۔ ایک بار پھر شیرنی ایک برہنہ لاش اٹھائے جا رہی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بار اس کا شکار مر چکا تھا۔ +پہاڑ کی چوٹی پر نشانات ایک کانٹے دار جھاڑی سے گذرے جہاں لڑکی کے بال الجھے ہوئے تھے۔ یہاں ایک اور بہت دشوار گذار کانٹے دار جھاڑی سے شیرنی گذری تھی۔ ابھی میں اس جھاڑی سے بچ کر گذرنے کی کوشش میں تھا کہ میں نے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص رائفل اٹھائے میری طرف آ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ میری واضح ہدایات کے باوجود اس نے گاؤں سے کیسے قدم باہر نکالا؟ اس نے کہا کہ اسے تحصیلدار نے میرا ساتھ دینے کو کہا تھا۔ اسے تحصیلدار کی حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔ چونکہ وہ واپس جانے والا نہیں تھا، میں نے اس سے بحث نہ کی کہ مفت میں وقت برباد ہوتا۔ میں نے اسے بھاری بوٹ اتارنے اور جھاڑیوں میں چھپا دینے کو کہا۔ پھر اسے ہدایت کی کہ وہ میرے بالکل قریب عقب میں چلے اور پیچھے سے پوری طرح خبردار رہے۔ +میں پتلی جرابیں ، نیکر اور ربر سول والے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ اس جھاڑی سے بچنے کا راستہ نہ تھا۔ اس لئے اس میں سے ہو کر گذرا جو کافی تکلیف دہ تھا۔ +جھاڑیاں عبور کرتے ہی خون کے نشانات اچانک ہی بائیں طرف مڑ گئے اور آگے چل کر نیچے ایک بہت عمودی ڈھلوان سے گذرے جہاں پہاڑی بانس کے درخت موجود تھے۔ سو گز دور خون کی یہ لکیر ایک عمودی نالے سے گذری۔ یہاں شیرنی نے کسی قدر دقت سے اسے عبور کیا۔ کنارے پر کافی پتھر وغیرہ اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے تھے۔ پانچ یا چھ سو گز تک میں اسی طرح آگے بڑھا۔ میرا ہمراہی بیچارہ ہیجان کا شکار ہو رہا تھا۔ بہت بار اس نے مجھے روک کر کہا کہ اسے نزدیک سے شیرنی کی آواز آ رہی ہے۔ نصف ڈھلوان پر ہمیں ایک اونچی چٹان ملی جو کم از کم تیس فٹ بلند تھی۔ میرا ساتھی چونکہ آدم خور کے مزید شکار کی ہمت نہ رکھتا تھا، میں نے اسے کہا کہ وہ اس چٹان پر چڑھ جائے اور میری واپسی کا انتظار کرے۔ وہ بخوشی اس چٹان پر چڑھ گیا۔ جب وہ اپنی جگہ پر چھپ کر بیٹھ گیا تو میں نے نالے میں اپنا سفر جاری رکھا۔ سو گز دور یہ ایک گہری کھائی سے ہو کر گذری۔ کھائی اور ندی کے ملاپ پر ایک تالاب سا بنا ہوا تھا۔ خون کی لکیر اس تالاب کے کنارے سے گذری۔ +اس ٹانگ کو دیکھتے ہوئے میں شیرنی کو بھول گیا۔ اچانک ہی خطرے کی لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ رائفل اٹھائے ہوئے میں نے اپنی دونوں انگلیاں لبلبی پر رکھیں اور سر اٹھایا تو پندرہ فٹ دور میں نے پتھر لڑھکتے ہوئے دیکھے جو اب تالاب میں گرنا شروع ہو گئے تھے۔ مجھے آدم خور کے شکار کا ابھی تک کوئی تجربہ نہ تھا ورنہ میں خود کو اس طرح خطرے میں نہ ڈالتا۔ رائفل اٹھانے کی وجہ سے شیرنی نے چھلانگ لگانے کا ارادہ بدلا اور بھاگ گئی۔ اس کے قدموں سے پتھر لڑھکے اور تالاب میں گرنے لگے۔ +کنارہ بہت عمودی تھا۔ اس پر چڑھنے کا واحد ذریعہ دوڑ کر اس پر چڑھنا ہی تھا۔ تالاب کی طرف جا کر میں بھاگا اور چھلانگ لگا کر اس پر چڑھتے ہوئے جھاڑی کا سہارا لے کر اوپر پہنچ گیا۔ یہاں جھاڑیوں کی جھکی ہوئی شاخیں اب آہستہ آہستہ اپنی جگہ لوٹ رہی تھیں کہ شیرنی ابھی ابھی ادھر سے گذری تھی۔ یہاں ایک جھکی ہوئی چٹان کے نیچے وہ لڑکی کی لاش چھوڑ کر مجھے دیکھنے آئی تھی۔ +یہاں سے وہ لڑکی کی لاش کو لے کر اس حصے میں گھسی جہاں بڑے بڑے پتھر موجود تھے۔ یہ علاقہ کئی ایکڑ پر مشتمل تھا اور یہاں گھسنا خطرناک اور دشوار ہوتا۔ پتھروں کے درمیان بیلیں اور جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ ایک غلط قدم آسانی سے ہاتھ پیر تڑوا سکتا تھا یا پھر سیدھا موت کے منہ میں لے جاتا۔ اس صورتحال میں پیش قدمی بہت مشکل اور آہستہ تھی۔ شیرنی اس سے پورا فائدہ اٹھا رہی تھی۔ درجن بھر جگہوں پر میں نے اس کے رکنے کے نشانات دیکھے۔ ہر بار خون کی لکیر کم سے کم ہوتی گئی۔ +یہ اس شیرنی کا 436 واں شکار تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس کا پیچھا کر کے لاش لے جانے کے لئے لوگ کیسے آتے ہیں۔ شاید یہ پہلی بار تھا کہ کوئی اس کا پیچھا اتنی مستقل مزاجی سے کر رہا تھا۔ اب اس نے غرانا شروع کر دیا تھا۔ شیرنی کی اس غراہٹ کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ جب آپ اس پتھریلے علاقے میں اور جھاڑیوں اور بیلوں سے بھری ہوئی جگہ پر ہوں، جہاں ہر قدم رکھنے سے پہلے یہ تسلی کرنا لازمی ہو کہ آپ کسی اندھے غار میں نہیں گریں گے۔ +مجھے توقع تھی نہیں کہ آپ گھر میں آتش دان کے پاس بیٹھ کر میری کیفیت کا درست اندازہ لگا سکیں۔ شیرنی کی غراہٹ اس سے اس کے حملے کا امکان قوی سے قوی تر ہوتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی یہ امیدیں بھی کہ حملے کی صورت میں گولی مار سکوں گا۔ اس طرح میں اس سے بدلہ لینے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ +تاہم اس کی غراہٹ محض گیدڑ بھبھکی ہی نکلی۔ اسے جونہی اندازہ ہوا کہ اس دھمکی سے میں ڈرنے والا نہیں بلکہ اور تیزی سے اس کا پیچھا جاری رکھے ہوئے ہوں تو وہ خاموش ہو گئی۔ +تعاقب کرتے ہوئے اب چار گھنٹے سے زیادہ ہو گئے تھے۔ اگرچہ اس کی حرکت سے ہلتی ہوئی گھاس تو مجھے دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کا بال بھی مجھے دکھائی نہیں دے سکا تھا۔ پہاڑیوں پر بلند ہوتے سائے مجھے اشارہ کر رہے تھے کہ اگر میں بخیریت واپسی چاہتا ہوں تو یہیں سے واپس مڑ جاؤں۔ +چونکہ شکار ہونے والی یہ عورت ہندو تھی، اس کی رسومات کے لئے کچھ نہ کچھ باقیات لازمی درکار ہوتیں۔ تالاب سے گذرتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگ نرم زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دی۔ یہاں وہ شیرنی اور دیگر جانوروں ��ے بھی محفوظ تھی اور جب چاہتے اسے نکال سکتے تھے۔ +چٹان پر موجود میرا ساتھی مجھے زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ میری طویل غیر حاضری اور شیرنی کی غراہٹوں سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ شیرنی مجھے ہلاک کر چکی ہے۔ اب اسے گاؤں واپس جانے کی فکر ہو رہی تھی۔ اس نے یہ سب مجھے خود بتایا۔ +نالے سے نیچے اترتے ہوئے میں نے سوچا کہ کسی گھبرائے ہوئے بندے، جس کے ہاتھ میں بھری ہوئی رائفل بھی ہو، کے آگے چلنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جب وہ گرا تو اس کی اعشاریہ 450 بور کی رائفل جو سیٖفٹی کیچ کے بغیر تھی، کا رخ دیکھ کر میں نے یہ طے کر لیا کہ آئیندہ ایبٹسن کے علاوہ کسی اور شخص کے ہمراہ آدم خور کے شکار میں نہیں جانا۔ اگر ہمراہی غیر مسلح ہو تو اس کی جان بچانا اور اگر وہ مسلح ہو تو اپنی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ +پہاڑی پر اس جگہ پہنچ کر جہاں میرے ساتھی نے اپنے بوٹ چھپائے تھے، میں بیٹھ کر پائپ پینے اور اگلے دن کے منصوبے بنانے لگا۔ +لازماً شیرنی آج رات متوفیہ کو مکمل ہڑپ کر لے گی اور کل کا دن وہ انہی پہاڑیوں میں گذارے گی۔ +جس علاقے میں وہ اب تھی، وہاں اس پر گھات لگانا بہت مشکل تھا۔ اسی طرح اس کو گولی مارے بغیر چھیڑا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ وہ یہ علاقہ ہی چھوڑ جاتی۔ اس لئے ہانکا ہی وہ واحد راستہ تھا جس سے کامیابی کے امکانات زیادہ تھے۔ شرط یہ تھی کہ میں اتنے افراد اکٹھے کر لیتا۔ +میں اس وقت پہاڑی کے جنوبی سرے پر ایک جگہ بیٹھا تھا۔ تاحد نگاہ کسی قسم کا سبزہ نہ تھا۔ یہاں مغرب سے آنے والی ندی گذرتی تھی۔ یہ ندی وادی کو گہرائی میں کاٹتی ہوئی گذرتی تھی۔ مشرق میں یہ ندی ایک چٹان سے ٹکرا کر اپنا رخ بدل دیتی تھی اور اس جگہ سے ذرا ہٹ کر گذرتی تھی جہاں میں اب بیٹھا ہوا تھا۔ +میرے سامنے والی پہاڑی کوئی دو ہزار فٹ بلند ہوگی۔ اس پر چھدری گھاس اور اکا دکا صنوبر کے درخت تھے۔ مشرق میں یہ اتنی ڈھلوان ہو گئی تھی کہ گڑھل کے سوا کوئی ادھر نہ جا سکتا۔ اگر میں اتنے افراد اکٹھے کر لیتا جو اس ندی سے اس پہاڑی کی ڈھلوان والے سرے تک جمع ہو جاتے اور شیرنی کو بھگا پاتا تو شیرنی کے فرار کا فطری راستہ اسی جگہ سے ہو کر گذرتا جہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔ +یقیناً یہ ہانکا کافی مشکل ہوتا کیونکہ ڈھلوان والا سرا شمال کی جانب تھا جہاں میں نے شیرنی کو چھوڑا تھا۔ یہ درختوں سے بھرا ہوا تھا اور پون میل طویل اور نصف میل چوڑا تھا۔ تاہم اگر ہانکے والے میری ہدایات پر عمل کرتے تو شیرنی کو مارنے کا عمدہ موقع مل سکتا تھا۔ +تحصیلدار گاؤں میں میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے ساری صورتحال سمجھائی اور کہا کہ وہ فوراً ہانکے کے لئے بندوں کا انتظام شروع کر دے۔ میں نے اسے اگلی صبح دس بجے اس درخت کے پاس آنے کو کہا جہاں شیرنی نے لڑکی کو ہلاک کیا تھا۔ وہ اپنی پوری کوشش کرنے کا وعدہ کر کے چمپاوت لوٹ گیا اور میں پہاڑی پر چڑھ کر بنگلے میں چلا گیا۔ +اگلی صبح پو پھٹتے ہی میں جاگا اور ناشتہ کر کے میں نے اپنے بندوں سے کہا کہ وہ واپسی کی تیاریاں کریں اور میری واپسی کا انتظار چمپاوت میں رک کر کریں۔ میں اب اس جگہ گیا جہاں ہانکا ہونا تھا تاکہ اپنے منصوبے پر ایک اور تنقیدی نظر ڈال سکوں۔ مجھے کوئی غلطی نہ دکھائی دی۔ نو بجے صبح میں اس جگہ پہنچا جہاں تحصیلدار سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ +تحصیلدار نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ ہانکے کے دوران ہر جائز و نا جائز اسلحے سے چشم پوشی کرے گا اور یہ بھی کہ ہر فرد کو کارتوس اور گولیاں بھی سرکاری طور پر مہیا کی جائیں گی۔ اس روز اتنے بھانت بھانت کے ہتھیار جمع ہوئے کہ پورا عجائب خانہ بن سکتا تھا۔ +مجھے یقین ہے کہ تحصیلدار نے بندوں کو کس مشکل سے اکٹھا کیا ہوگا کیونکہ آدم خور کا خوف ان لوگوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ تحصیلدار کے خوف سے زیادہ شیرنی کا خوف انہیں ستا رہا ہوگا۔ دس بجے تحصیلدار اور ایک اور بندہ آیا۔ پھر دو دو، پانچ پانچ اور دس دس کی ٹولیوں میں بندے آئے۔ دوپہر تک 298 افراد جمع ہو گئے۔ +جب سارے آدمی جمع ہو چکے اور اسلحہ بھی تقسیم ہو چکا تو میں انہیں پہاڑی کے سرے تک لے گیا جہاں لڑکی کی قمیض پڑی تھی، میں نے سامنے والی پہاڑی پر موجود صنوبر کے درخت کی اشارہ کیا جو آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ سرے پر قطار بنائیں اور جب وہ مجھے اس درخت کے نیچے رومال ہلاتا ہوا دیکھیں تو جس کے پاس اسلحہ ہو وہ اسے چلانا شروع کر دے جبکہ باقی افراد ڈھول تاشے وغیرہ بجائیں اور پتھر نیچے لڑھکائیں۔ کسی بھی صورت میں وہ نیچے قدم نہ رکھیں جب تک میں خود انہیں لینے نہ آؤں۔ جب مجھے اچھی طرح یقین ہو گیا کہ ہر کسی نے میری ہدایات کو سن اور سمجھ لیا ہے، میں تحصیلدار کے ہمراہ چل پڑا۔ تحصیلدار خود کو میرے ساتھ زیادہ محفوظ تصور کرتا تھا کیونکہ مقامی تیار کردہ اسلحہ زیادہ خطرناک ہوتا۔ +وادی کا لمبا چکر کاٹ کر میں دوسری طرف کی پہاڑی پر چڑھ گیا اور درخت کی طرف گیا۔ یہاں پہاڑی انتہائی ڈھلوان ہو گئی تھی اور تحصیلدار جو پیٹنٹ لیدر کے بوٹ پہنے ہوئے تھا، بولا کہ اس کے لئے آگے جانا ممکن نہیں۔ اس نے بیٹھ کر اپنے جوتے اتارے اور اپنے چھالوں کو دیکھنے لگا۔ ہانکے والے افراد شاید طے شدہ اشارہ بھول گئے اور انہوں نے ہانکا شروع کر دیا۔ اپنی مجوزہ جگہ سے میں ابھی ڈیڑھ سو گز دور تھا۔ میں اتنی تیزی سے اس طرف بھاگا کہ مجھے اب حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کم از کم درجن بھر مرتبہ میرے گردن ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔ +بھاگتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس جگہ گھاس کا ایک قطعہ موجود ہے۔ چونکہ اس وقت اس سے بہتر جگہ کی تلاش ممکن نہیں تھی، میں وہیں جم گیا۔ میری پیٹھ اس طرف تھی جہاں سے میں آیا تھا۔ گھاس دو فٹ بلند تھی اور اگر میں غیر متحرک رہتا تو میرا آدھا جسم گھاس میں چھپ جاتا اور دکھائی نہ دیتا۔ میرے سامنے وہ پہاڑی تھی جہاں ہانکہ ہو رہا تھا۔ شیرنی کے گذرنے کی متوقع جگہ میرے پیچھے بائیں جانب تھی۔ +پہاڑی کا سرا کٹا پھٹا تھا اور بندوقوں کے ساتھ ساتھ ڈھول تاشوں کی آوازیں قیامت برپا کر رہی تھیں۔ یہ سب اپنے عروج پر تھا کہ میں نے تیس گز دور دائیں جانب گھاس کے ایک اور قطعے سے شیرنی کو نکلتے دیکھا۔ تحصیلدار نے درخت کے نیچے سے ہی اپنی بندوق کی دونوں نالیاں چلا دیں۔ یہ آواز سنتے ہی شیرنی مڑی اور اسی طرف چل دی جہاں سے وہ آئی تھی۔ نا امیدی اور مایوسی سے میں نے بھی ایک گولی چلا دی۔ +پہاڑی پر موجود ہانکے والوں نے جب تین گولیوں کی آواز سنی تو قدرتی طور پر یہ سمجھے کہ شیرنی ماری گئی ہے۔ انہوں نے آخری بار بندوقیں چلا کر اور چلا کر اجتماعی شور پیدا کیا۔ میں سانس روکے ان چیخوں کا منتظر تھا جب ان کی نظر شیرنی پر پڑتی۔ اسی وقت میری بائیں جانب شیرنی نکلی اور ایک ہی چھلانگ میں ندی عبور کر کے سیدھا میری طرف آئی جہاں میں اس کا منتظر تھا۔ میری تبدیل شدہ اعشاریہ 500 بور کی کارڈائیٹ رائفل جو کہ سطح سمندر پر نشانہ درست کئے ہوئے تھی، سے نکلنے والی گولی شیرنی کی کمر پر تھوڑا اوپر لگی۔ میں سمجھا کہ شیرنی کو گولی نہیں لگی اور اب وہ چھلانگ لگا کر غائب ہو جائے گی۔ حقیقتاً میری گولی اسے لگی تھی لیکن نشانے سے ذرا پیچھے۔ سر جھکا کر وہ میری طرف تھوڑی سی مڑی اور یہاں تیس گز سے بھی کم فاصلے پر اس نے مجھے شانے پر گولی چلانے کا سنہری موقع دیا۔ گولی لگتے ہی وہ تھوڑا سا ڈگمگائی مگر چلتے ہوئے میری طرف بڑھتی رہی۔ میں رائفل کندھے سے لگائے سوچ رہا تھا کہ حملے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ میرے پاس یہی تین کارتوس ہی تھے اور اب میں خالی رائفل لئے ہوئے تھا۔ میرے پاس کل تین گولیاں تھیں۔ شیر پر دو گولیاں ہی کافی سمجھتے ہوئے میں نے تیسری گولی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے رکھی ہوئی تھی۔ +خوش قسمتی سے زخمی شیرنی نے حملے کا ارادہ بدل دیا۔ بہت آہستگی سے وہ مڑی اور اپنے دائیں طرف موجود ندی کو عبور کر کے چند گری ہوئی چٹانوں پر چڑھی اور اس جگہ پہنچی جہاں ایک بہت بڑی چپٹی چٹان موجود تھی۔جہاں یہ چٹان پہاڑی سے ملی ہوئی تھی، وہاں ایک جھاڑی موجود تھی۔ شیرنی نے اس جھاڑی کو نوچنا شروع کر دیا۔ میں نے فوراً تحصیلدار سے چلا کر کہا کہ وہ اپنی بندوق لائے۔ اس نے لمبا سا جواب دیا جس میں سے مجھے صرف ایک لفظ سمجھ آیا "پاؤں"۔ اپنی رائفل زمین پر رکھ کر میں اس کی طرف بھاگا اور اس کی بندوق چھین کر واپس لوٹا۔ +جب میں پہنچا تو شیرنی اب جھاڑی سے ہٹ کر چٹان کے سرے پر آ کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ بیس فٹ کے فاصلے سے میں نے بندوق اٹھائی۔ اس کی نالی اور دستے کے درمیان کوئی چوتھائی انچ گہرا شگاف تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر تحصیلدار کے فائر کرتے وقت نالی نہیں پھٹی تو اب بھی نہیں پھٹے گی۔ البتہ اندھا ہونے کے "روشن" امکانات تھے۔تاہم چونکہ اور کوئی چارہ نہیں تھا، میں نے بندوق سے شیرنی کے کھلے منہ کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ شاید میرا نشانہ غلط تھا یا پھر میرا ہاتھ بہک گیا تھا یا شاید بندوق میں گولی کو بیس فٹ دور تک پھینکنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ گولی شیرنی کے اگلے دائیں پنجے میں لگی۔ بعد ازاں یہ گولی میں نے ناخن سے کھرچ کر نکالی تھی۔ خیر خوش قسمتی سے شیرنی کا دم لبوں پر تھا اور یہ آخری دھکا اس کے لئے کافی ثابت ہوا۔ اس کا سر پنجوں پر آ کر ٹک گیا۔ +جس وقت میں نے شیرنی کو دوسری بار اپنی بائیں جانب ندی عبور کرتے دیکھا، میں ہانکے والوں کی موجودگی کو یکسر بھلا چکا تھا۔اچانک مجھے اس چٹان سے آواز آئی "وہ رہی چٹان پر۔ اسے نیچے گراؤ اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔" مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ "ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو" تاہم یہ سچ تھا۔ اب دوسروں نے بھی شیرنی کو دیکھ لیا تھا اور ان کے منہ سے بھی یہی فقرہ نکلا۔ +خوش قسمتی سے شیرنی جہاں تھی، وہ چٹان دوسری پہاڑی سے الگ تھی اور یہ لوگ چھلانگ لگا کر نہ آ سکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف سے جہاں میں تھا، چڑھنا بہت آسان تھا۔ میں نے اوپر چڑھ کر شیرنی پر پاؤں رکھ دیا۔ مجھے امید تھی کہ شیرنی مردہ ہی ہوگی۔ ہانکے والے افراد جمع ہو کر اپنے اپنے ہتھیار لہرانے لگے۔ +جب شیرنی چٹان پر جھکی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی تو مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ جیسے اس کا منہ کچھ خراب ہو۔ اب اس کا معائینہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اوپر اور نیچے والے دائیں بڑے دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ اوپر والا آدھا اور نیچے والا جبڑے کی ہڈی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ اس مستقل نوعیت کی چوٹ سے جو بندوق کی گولی سے لگی تھی، نے شیرنی کو اس کے قدرتی شکار سے معذور کر دیا تھا اور وہ آدم خور بن گئی تھی۔ +ان افراد نے درخواست کی کہ میں اس شیرنی کی کھال یہاں نہ ��تاروں۔ وہ اسے اپنے گاؤں لے جانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی عورتیں اور بچے شیرنی کو مردہ دیکھے بغیر یقین نہیں کریں گے۔ +انہوں نے دو چھوٹے درخت کاٹ کر شیرنی کے اطراف میں رکھے اور پگڑیوں اور صافوں کی مدد سے شیرنی کو احتیاط اور مضبوطی سے باندھا۔ جب وہ تیار ہو گئے تو ہم شیرنی کو نیچے لے چلے۔ ہانکے والے شیرنی کو لے کر سیدھا پہاڑ پر چڑھے اور دوسری طرف والے گاؤں لے چلے۔ ہر آدمی اگلے آدمی کو سہارا دیے ہوئے تھا۔ اس طرح یہ قطاریں آگے بڑھیں۔ دور سے یہ چیونٹیوں کی قطاریں لگ رہی تھیں جو کسی کھٹمل کو لے کر جا رہی ہوں۔ اگر یہ انسانی زنجیر ٹوٹ جاتی تو بے شمار لوگ مر سکتے تھے۔ خوش قسمتی سے یہ زنجیر نہ ٹوٹی۔ وہ لوگ اب پہاڑ پر چڑھ چکے تھے۔ وہ ناچتے اور گاتے جا رہے تھے۔ میں اور تحصیلدار چمپاوت لوٹے۔ +پہاڑی پر چڑھ کر میں نے ایک بار اس وادی پر الوداعی نظر ڈالی۔ یہاں وہ جھاڑی تھی جہاں لڑکی کے سر کے بال الجھے ہوئے دیکھے تھے اور اسی جگہ شیرنی کا اختتام ہوا۔ +نیچے اترتے ہوئے ہانکے والوں کو لڑکی کا سر ملا۔ اب وادی سے دھوئیں کی لکیر بلند ہو رہی تھی کہ اس لڑکی کے رشتہ دار اس کی آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ یہ سب اسی جگہ ہو رہا تھا جس جگہ شیرنی نے آخری سانس لیا۔ +رات کا کھانا کھا کر ہم تحصیل کے صحن میں ہی کھڑے تھے کہ ہم نے صنوبر کی مشعلیں آتے ہوئے دیکھیں جو سامنے والی پہاڑی پر تھیں۔ گھنٹہ بھر بعد وہ لوگ آن پہنچے۔ +اتنے بڑے مجمع کے سامنے کھال اتارنا کافی مشکل تھا۔ میں نے کام شروع کرنے کی نیت سے اس کا سر گردن اور پنجے کاٹ کر جسم سے کھال سے ہی لگے رہنے دیے۔ بقیہ کھال اگلے دن صبح کو اتارنے کا سوچا۔ رات بھر کے لئے پولیس کا ایک سپاہی پہرے پر کھڑا کر کے ہم سو گئے۔ اگلے دن جب مجمع اکٹھا ہوا تو جسم، ٹانگیں، دم کو کاٹ کر لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور انہیں تقسیم کر دیا۔ دیگر فوائد کے علاوہ یہ ٹکڑے بچوں کو بطور تعویذ دیے گئے تھے کہ اس طرح وہ بہادر بنیں گے۔ بعد ازاں شیرنی کے معدے سے نکلی ہوئی لڑکی کی ثابت انگلیاں تحصیلدار نے مجھے سپرٹ میں ڈال کر نینی تال بھیجیں جو میں نے جھیل کے کنارے دفن کر دیں۔ یہ جگہ نندا دیوی کے مندر کے پاس ہے۔ +کھال اتارنے کے دوران تحصیلدار، نمبردار اور مقامی تاجر وغیرہ ایک بڑی دعوت کا پروگرام بنا رہے تھے۔ مجھے انہوں نے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ رات گئے یہ سب لوگ چلے گئے۔ اب گاؤں اور پہاڑ محفوظ تھے۔ وہ دن یا رات کسی بھی وقت کہیں بھی آ جا سکتے تھے۔ میں نے تحصیلدار کے ساتھ آخری بار پائپ پیتے ہوئے اسے بتایا کہ میرا رکنا ممکن نہیں۔ وہ میری جگہ دعوت میں میری نیابت کر لے۔ ہمارے پاس اب دو دن اور پچہتر میل کا سفر تھا۔ +سورج نکلتے ہی ہم لوگ روانہ ہوئے۔ شیرنی کی کھال میرے گھوڑے کی زین پر تھی۔ میں اپنے آدمیوں سے جلدی نکلا تاکہ اگلے چند گھنٹے اس کی کھال کی صفائی پر صرف کر سکوں۔ میرا ارادہ تھا کہ دیبی دھورا جا کر رات بھی گذارتا اور کھال کی صفائی بھی ہو جاتی۔ پالی سے گذرتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس گونگی عورت کو شیرنی کی کھال دکھاتا چلوں۔ شاید اسے صبر آ جائے۔ گھوڑے کو برف پر چھوڑ کر میں پہاڑ پر چڑھا اور گھر تک پہنچ گیا۔ بچے میرے آس پاس جمع ہو کر مجھے کھال زمین پر بچھاتا ہوا دیکھنے لگے۔ بچوں کا شور سن کر کھانا بناتی ان کی ماں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ +میں صدمے اور جوابی صدمے کے بارے نہ تو کچھ جانتا ہوں اور نہ ہی کچھ کہوں گا۔ مجھے صرف اتنا علم ہے کہ وہ عورت جو بارہ ماہ سے گونگی تھی، اب اچانک گاؤں والوں کو چلا چلا کر بتانے لگی کہ آؤ دیکھو صاحب کیا لائے ہیں۔ بچے اپنی ماں کو بولتا دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔ +میں نے آرام کرتے ہوئے اور چائے پیتے ہوئے گاؤں والوں کو شیرنی کی ہلاکت کی داستان سنائی۔ وہاں سے نکل کر میں نصف میل دور سے بھی گاؤں والوں کی خوشی بھری آوازیں سنتا رہا۔ +اگلی صبح میرا سامنا ایک تیندوے سے ہوا جو بہت دلچسپ رہا۔ یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ میں دیبی دھورا سے دیر سے کیوں نکلا۔ اب میرے گھوڑے کا وزن پھر بڑھ چکا تھا۔ میدان میں اس پر سوار اور اترائی چڑھائی پر اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم نے 45 میل کا سفرصبح نو بجے سے شام 6 بجے کے دوران طے کیا اور نینی تال پہنچے۔ +چند ماہ بعد نینی تال میں ایک بڑا دربار لگا۔ یہاں سر جان ہیوٹ جو کہ گورنر جنرل تھے، نے تحصیلدار کو ایک بندوق اور میرے دوسرے ہمراہی کو جو میرے ساتھ لڑکی کی ہلاکت کے بعد شیرنی کے پیچھے آیا تھا، ایک خوبصورت شکاری چاقو دیا۔ یہ خوبصورت ہتھیار نسل در نسل ان کے لئے باعث فخر رہیں گے۔ یہ انعامات ان کی بہادری کو تسلیم کر کے دیے تھے۔ + + +==پی ڈی ایف اپ لوڈ== + + +بے شک ہم لوگ دوسروں کی توہم پرستی کا جتنا بھی مذاق اڑا لیں مثلاً کھانے کی میز پر تیرہ افراد کا اکٹھا ہونا، کھانے میں شراب آگے بڑھانا، سیڑھیوں کے نیچے چلنا وغیرہ وغیرہ، تاہم ہماری ذاتی توہم پرستی ہمارے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔ +میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا شکاری عام افراد کی نسبت زیادہ توہم پرست ہوتے ہیں یا نہیں۔ لیکن میرے علم میں یہ ہے کہ وہ شکاری اپنے توہمات کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ میرا ایک دوست جب بھی شیروں کے شکار پر جاتا ہے، ہمیشہ پانچ کارتوس لے کر جاتا ہے۔ نہ پانچ سے کم نہ پانچ سے زیادہ۔ ایک اور دوست سات کارتوس لے جاتا ہے۔ ایک اور دوست جو شمالی ہندوستان کا شیر وغیرہ کا بہترین شکاری کہلاتا ہے، شکار کے سیزن کا آغاز ہمیشہ مہاشیر مچھلی کے شکار سے کرتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ سانپوں سے متعلق ہے۔ یہ میرا بہت طویل تجربہ ہے کہ چاہے میں آدم خور کے پیچھے کتنا ہی خوار کیوں نہ ہو لوں، اگر میں پہلے ایک سانپ نہیں مارلیتا، میں آدم خور کو مارنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ +یہ گاؤں اس چٹانی چھجے کی دوسری طرف تھا جہاں بنگلہ تھا۔ اکیلا گاؤں ہر طرف سے گھنے جنگلات سے گھرا ہوا تھا اور آدم خور کا سب سے زیادہ یہی نشانہ بنا۔ آدم خور کے حالیہ شکار دو عورتیں اور ایک مرد تھے۔ +اگلی صبح میں نے گاؤں کے گرد چکر لگایا۔ دوسرے چکر کا بڑا حصہ بھی طے ہو چکا تھا جو پہلے چکر سے چوتھائی میل دور تھا۔ ایک ڈھلوان سامنے آئی جو پتھروں اور چکنی مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک برساتی نالہ ملا جو پہاڑی سے سیدھا نیچے اترتا تھا۔ میں نے نالے میں اترنے سے قبل دونوں کناروں کا بغور جائزہ لیا تاکہ شیر کی عدم موجودگی کا اطمینان ہو۔ اچانک پچیس فٹ دور میں نے کچھ حرکت سی محسوس کی۔ یہاں باتھ ٹب سائز کا تالاب موجود تھا۔ اس کے دوسرے کنارے ایک سانپ پانی پی رہا تھا۔ اس نے سر اٹھایا تھا جو میری توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا سبب بنا۔ اس نے دو یا تین فٹ بلند ہو کر پھن پھیلایا تو معلوم ہوا کہ ہی کنگ کوبرا ہے۔ میں نے آج تک اتنا خوبصورت سانپ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا گلا میری طرف تھا جو خوبصورت گہرے نارنجی رنگ کا تھا اور بتدریج سرخ ہوتا ہوا باقی بدن سے جا ملتا تھا۔ اس کی پشت زیتونی سبز رنگ کی تھی۔ اس پر چاندی جیسے چانے بنے ہوئے تھے۔ یہ چانے دم سے چار فٹ اوپر کی طرف تھے۔ بقیہ پشت ساری کی ساری چمکدار کالے رنگ کی تھی۔ اس کی لمبائی تیرہ سے پندرہ فٹ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ +اکثر لوگ قصے سنتے ہیں کہ کنگ کوبرا کو اگر چھیڑا جائے تو وہ کتنے خطرناک ہو جاتے ہیں اور ان کی رفتار تیز بھی۔ اگر یہ سچ ہوتا تو میرے پاس بھاگنے کے لئے اوپر یا نیچے خطرہ ہی خطرہ تھا۔ میں نے اس پانی کے تالاب کے دوسرے کنارے پر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے چھوٹی تھالی کے برابر پھن پر گولی چلا کر میں اس کا خاتمہ کر سکتا تھا لیکن اس طرح بھاری رائفل کے دھماکے سے خطرہ تھا کہ آدم خور ڈر کر بھاگ جاتا۔ منٹ بھر توقف کے بعد جس دوران سانپ اپنی زبان مسلسل اندر باہر کرتا رہا، سانپ نے پھن گرایا اور سڑک پر چل پڑا۔ اس سے نگاہیں ہٹائے بغیر میں نے ٹٹول کر زمین سے ایک پتھر اٹھایا جو کرکٹ کی گیند کے برابر حجم کا ہوگا۔ سانپ ابھی بمشکل ڈھلوان کے سرے تک پہنچا ہوگا کہ پوری طاقت سے پھینکا ہوا میرا پتھر اس کے سر پر لگا۔ کسی بھی دوسرے سانپ کو مارنے کے لئے یہ کافی ہوتا لیکن یہ سانپ پتھر کھاتے ہی مڑا اور میری طرف لپکا۔ میں نے دوسرا اور بڑا پتھر اٹھایا اور اس کی گردن پر مارا۔ اس دوران سانپ آدھا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ دوسرا پتھر لگتے ہی سانپ وہیں تڑپنے لگا۔ اب اسے مارنا بہت آسان تھا۔ اب میں نے انتہائی مطمئن ہو کر دوسرا چکر پورا کیا۔ یہ بھی لاحاصل نکلا۔ چونکہ میں سانپ کو مار چکا تھا، میرا حوصلہ بہت بلند تھا اور بہت دن کے بعد مجھے اب اپنی کامیابی کا یقین ہو چکا تھا۔ +اگلے دن میں نے پھر اس گاؤں کے گرد چکر لگایا اور گذشتہ شام کےوقت شیر کے پگ ایک تازہ ہل چلے کھیت میں دیکھے۔ اس گاؤں کے کل باشندے سو کے لگ بھگ ہوں گے اور وہ سب کے سب پوری طرح خبردار تھے۔ انہیں اگلے دن واپسی کا کہہ کر میں نکلا اور فارسٹ بنگلے تک چار میل کے اکیلے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ +جنگل سے یا ویران سڑکوں سے آدم خور کی موجودگی کے دوران گذرنا بہت زیادہ مشکل اور احتیاط طلب کام ہے۔ اس دوران بہت سارے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے۔ آدم خوروں کا تجربہ کار شکاری ان اصولوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اس کی تمام تر صلاحیتیں مرکوز ہوتی ہیں۔ اس دوران کوئی بھی غلطی اسے آدم خور کا تر نوالہ بنا سکتی ہے۔ +قارئین پوچھ سکتے ہیں کہ میں اکیلا ہی سفر پر کیوں نکلا جبکہ میرے پاس کافی آدمی بھی تھے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر بندہ اکیلا نہ ہو تو وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے اور اس طرح غیر محتاط ہو جاتا ہے۔ دوسرا شیر سے مڈبھیڑ اکیلے ہو تو اسے مار لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ +اگلی صبح میں گاؤں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں۔ جب میں کچھ قریب ہوا تو وہ سب کے سب چلائے "شیر ایک بھینس لے گیا ہے۔" شیر نے بھینس کو گاؤں میں ہی مارا اور پھر اٹھا کر وادی کے نچلے سرے میں داخل ہوا۔ میں نے اندازے سے اس کا پیچھا کر کے اس جگہ پہنچنے کا سوچا جہاں بھینس کی لاش ہو سکتی تھی۔ +میں نے ایک ابھری ہوئی چٹان سے وادی کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وادی میں شیر کے راستے سے گھسنا خطرناک ہے۔ اس کی بجائے بہتر یہ تھا کہ میں ایک لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف سے پہنچتا اور پھر نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا۔ +میں چکر کاٹ کر کامیابی سے دوپہر کے وقت اس جگہ پہنچا جہاں میں نے اوپر کھڑے ہو کر جائزہ لیا تھا۔ یہاں وادی سو گز متوازی تھی اور پھر تین سو گز جتنی بلند ہوگئی تھی۔ میرے اندازےکے مطابق اس ہموار جگہ کے اوپری سرے پر بھینس کی لاش اور ممکن تھا کہ شیر بھی موجود ہوتا۔ اس تنگ اور دشوار وادی میں جھاڑیوں اور بانس کے جھنڈوں سے گذر کر میں پسینے میں شرابور ہو چلا تھا۔ جب فائر کرنے کا وقت نزدیک ہو تو پسینے والے ہاتھوں سے گولی چلانا غلط ہے۔ اس لئے میں پسینہ سکھانے اور سیگرٹ پینے کے لئے بیٹھ گیا۔ +میرے سامنے کی زمین پر بڑے بڑے پتھر موجود تھے اور ان سے گذرتی ہوئی ندی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے تالاب بناتی تھی۔ ان پتھروں پر چلتے ہوئے جانا ہی میرے لئے بہتر رہتا کیونکہ میں نے نہایت باریک ربر سول کے جوتے پہن رکھے تھے۔ جب میں پسینہ سکھا چکا تو آگے بڑھا کہ شاید سوتے ہوئے شیر پر نظر پڑ جائے۔ جب میں تین چوتھائی فاصلہ طے کر چکا تو میری نظر بھینس کی لاش پر پڑی جو جھاڑیوں میں موجود تھی۔ اس سے پچیس گز دور پہاڑی اچانک بلند ہوتی گئی تھی۔ شیر سامنے نہ تھا اور میں نے رک کر بہت احتیاط سےسامنے موجود ہر چیز کا جائزہ لیا۔ +بڑھتے ہوئے خطرے کے اچانک پیدا ہونے والے احساسا سے تو سب ہی واقف ہیں۔ میں یہاں تین چار منٹ تک بالکل آرام سے رکا رہا۔ پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ شیر بہت نزدیک سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میری چھٹی حس نے مجھے شیر کی اور شیر کی چھٹی حس نے اسے نیند سے جگا کر میری موجودگی کا احساس دلایا۔ میری بائیں جانب کچھ گھنی جھاڑیاں ایک ہموار جگہ پر اگی ہوئی تھیں۔ میری تمام تر توجہ ان جھاڑیوں پر مرکوز ہو گئی۔ یہ جھاڑیاں میری جگہ سے کوئی پندرہ یا بیس فٹ ہی دور رہی ہوں گی۔ جھاڑیوں میں اچانک معمولی سی حرکت ہوئی اور اگلے لمحے مجھے شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ میں رائفل سیدھی کر پاتا، شیر ایک گھنے درخت کے پیچھے گم ہو گیا۔ دوبارہ مجھے شیر ساٹھ گز دور دکھائی دیا جب وہ جست لگا کر ایک پتھر پر چڑھ رہا تھا۔ میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور گولی لگتے ہی شیر گر کر نیچے کی طرف لڑھکنے لگا۔ اس کے ساتھ بے شمار چھوٹے بڑے پتھر بھی لڑھک رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ شیر کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جب چند لمحوں بعد شیر اور یہ سب پتھر وغیرہ میرے قدموں میں آ کر رکیں گے تو مجھے کیا کرنا چاہیئے، اچانک ہی شیر کی غراہٹیں بند ہو گئیں۔ اگلے لمحے وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھ گیا۔ ایک لمحے کے لئے ہی وہ دکھائی دیا اور پھر اتنی تیزی سے گم ہو گیا کہ میں گولی نہ چلا سکا۔ +بعد ازاں میں نے دیکھا کہ میری پچہتر ڈگری کے زاویے پر چلائی ہوئی گولی شیر کی بائیں کہنی پر لگی۔ اس جگہ سے ہڈی کا چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر گرا۔ اسے انگریزی میں "فنی بون" کہتے ہیں۔ پھر گولی پتھر سے ٹکرا کر واپس پلٹی اور اس کے جبڑے کے سرے پر لگی۔ دونوں زخم تکلیف دہ تو ضرور تھے مگر مہلک نہیں ثابت ہو سکتے تھے۔ اس کے زخم سے بہتے ہوئے خون کی دھار کا پیچھا کرتے ہوئے میں اگلی وادی میں گھسا تو کانٹے دار جھاڑیوں کے ایک قطعے سے شیر کی غراہٹیں آنے لگیں۔ ان جھاڑیوں میں گھسنا خود کشی کے مترادف ہوتا۔ +میری چلائی ہوئی گولی کی آواز گاؤں تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جمع ہو کر چٹانی سرے پر میرے منتظر تھے۔ وہ یہ جان کر مجھ سے بھی زیادہ مایوس ہوئے کہ اتنی احتیاط اور مہارت دکھانے کے باوجود میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ +اگلی صبح لاش کی طرف جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر گذشتہ رات واپس آیا تھا اور اس نے لاش کو مزید کچھ کھایا بھی تھا۔ اب میرے لئے مچان پر بیٹھ کر گولی چلانے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔مشکل یہ آن کھڑی ہوئی کہ اس جگہ آس پاس کوئی بھی مناسب درخت نہ تھا۔ ��ابقہ تجربے کے باعث آدم خور کا انتظار زمین پر بیٹھ کرکرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ نیچے وادی سے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔یہ وہی جگہ تھی جہاں میں کل گیا تھا۔ اس آواز سے مجھے وہ طریقہ سوجھ گیا جو شیروں کو مارنے کے لئے کار آمد ہو سکتا ہے۔ شیر کو جن صورتوں میں اپنی طرف بلایا جا سکتا ہے وہ کچھ یوں ہیں: 1۔ جب وہ ملاپ کے لئے ساتھی کی تلاش میں ہوں، 2۔ جب وہ معمولی زخمی ہوں۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ شکاری شیر کی آواز کی بخوبی نقالی کر سکتا ہو۔ دوسرا یہ آواز کسی ایسی جگہ سے نکالی جائے جہاں شیر کو دوسرے شیر کی موجودگی کا امکان بھی محسوس ہوا، مثلاً گھنی جھاڑیاں یا گھنی گھاس کا قطعہ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ شکاری کو بہت ہی کم فاصلے سے گولی چلانے کے لئے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیئے۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ شکاری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ معمولی زخمی شیر اس طرح کی آواز پر آ سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جب تک وہ خود نہ آزما لیں، اس سے انکار نہ کریں۔ موجودہ صورتحال میں اگرچہ شیر نے میری ہر آواز کا جواب دیا تھا اور گھنٹے بھر سے ہم آوازوں کا تبادلہ کر رہے تھے، شیر ذرا سا بھی نزدیک نہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ شیر شاید اس وجہ سے کترا رہا ہے کہ کل وہ اسی جگہ پر معمولی زخمی ہوا تھا۔ میں نے آخر کار ڈھلوان کے کنارے ایک درخت چنا اور اس کی آٹھ فٹ بلند شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہاں میں نالے کی تہہ سے تیس فٹ بلند تھا جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر نمودار ہوتا۔ درخت کا مسئلہ حل ہوا تو میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ صبح ناشتے کے ساتھ آئیں۔ +شام چار بجے میں آرام سے بیٹھ گیا۔ مین نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ اگلی صبح نالے کے دوسرے کنارے سے "کووئی" کی آواز نکال کر مجھے مطلع کریں۔ اگر جواب میں تیندوے کی آواز آئے تو وہ وہیں رک جائیں اور اگر میری طرف سے جواب نہ ملے تو فوراً بھاگ کر گاؤں جائیں اور زیادہ سے زیادہ افراد جمع کر کے میری تلاش میں نکلیں۔ ساتھ ہی شور مچاتے اور پتھر پھینکتے آئیں۔ +میں نے خود کو ہر طرح کی حالت میں سونے کے لئے عادی کیا ہوا ہے۔ چونکہ میں تھکا ہوا تھا، اس لئے نیند میں شام ڈھلنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی اور پھر لنگور کی آواز سن کر میں مکمل طور پر بیدار ہو گیا۔ میں نے فوراً ہی اس لنگور کو دیکھ بھی لیا۔ وہ وادی کے دوسرے سرے پر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بیٹھا میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھا کہ وہ مجھے تیندوا سمجھ کر شور مچا رہا ہے۔ یہ آواز چند ہی بار آئی اور پھر سورج ڈوبنے کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئی۔ +گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے اور اچانک پتھروں کا سیلاب سا بہتا ہوا میرے درخت سے آ ٹکرایا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بھاری جسامت اور نرم گدیوں والے جانور کی آواز سنی جو بلا شبہ شیر ہی تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اتفاقاً شیر نیچے نالے سے آنے کی بجائے اوپر سے آ رہا ہے۔ جلد ہی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی جب شیر نے میرے بالکل عقب سے غرانا شروع کر دیا۔ بظاہر شیر اس وقت یہاں پہنچا جب میں اپنے بندوں سے باتیں کر رہا تھا اور یہیں چھپ گیا۔ اسے دیکھ کر ہی لنگور چلا رہا تھا۔ شیر نے مجھے درخت پر چڑھتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اب اس صورتحال کے لئے میں بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ خاصی احتیاط کی ضرورت تھی۔ روشنی میں تو یہ شاخ بہت آرام دہ تھی لیکن اندھیرا چھاتے ہی اس پر حرکت کرنا مشکل ہوتا گیا۔ میں ہوائی فائر کر کے شیر کو بھگا سکتا تھا لیکن اس طرح شیر اتنا خوف زدہ ہو جات�� کہ پھر شاید ہی اس سے دوبارہ مڈبھیڑ ہوتی۔ میری رائفل اعشاریہ 400/450 بور کی بھاری رائفل تھی۔ +مجھے معلوم تھا کہ شیر چھلانگ نہیں لگائے گا کہ اس طرح وہ تیس فٹ گہرے کھڈ میں گر سکتا تھا۔ لیکن اسے چھلانگ کی ضرورت بھی کیا تھی۔ آرام سے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر وہ مجھے دبوچ سکتا تھا۔رائفل کو اٹھا کر الٹا پکڑا اور نالی کو پیروں کے بیچ لے آیا اور سیفٹی کیچ ہٹا دیا۔ اس بار زیادہ زور سے غراہٹ کی آواز آئی۔ اب اگر شیر حملہ کرتا تو وہ پہلے رائفل کی نال سے ٹکراتا۔ اس وقت میں انگلیاں لبلبیوں پر تھیں۔ اگر اس کے حملے پر گولی چلا کر میں اسے مار نہ بھی سکتا تو بھی میرے پاس اتنا وقت ہوتا کہ میں مزید اوپر چڑھ سکتا۔ وقت انتہائی سستی سے گذرتا رہا۔ آخر کار شیر نے چھلانگ لگا کر میری بائیں جانب ایک چھوٹی کھڈ عبور کی اور جلد ہی میں نے ہڈیاں چبانے کی آواز سنی۔ میں کافی مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ بقیہ رات شیر کے کھانے کی آواز آتی رہی۔ +سورج نکلے ہوئے ابھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے اور وادی ابھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میرے آدمیوں کی "کووئی" کی آواز آئی۔ اسی وقت شیر نے میری بائیں جانب چھلانگ لگائی اور بھاگنے لگا۔ کم روشنی اور تھکے ہوئے اعصاب کے ساتھ میں نے اس پر گولی چلائی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ گولی اسے لگی۔ زور سے دھاڑ کر وہ مڑا اور سیدھا میری طرف پلٹا۔ ابھی وہ درخت کے ساتھ پہنچ کر چھلانگ لگانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میری دوسری گولی اس کے سینے میں لگی۔ بھاری گولی کھاتے ہی اس کا رخ بدلا اور مجھ سے ذرا نیچے تنے سے ٹکرا کر گرا۔ گرتے ہی وہ پھر اٹھا اور چھلانگ لگا کر بھاگا۔ چند ہی گز دور جا کر وہ ایک تالاب کے کنارے گرا۔ وہ پانی اچھالتا رہا اور پورا تالاب دیکھتے ہی دیکھتے خون سے سرخ ہو گیا۔ پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ +شاخ پر پندرہ گھنٹے ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے میرے سارے پٹھے اکڑ گئے تھے اور نیچے اترتے ہوئے میرے کپڑے خون میں تر ہو گئے۔ شیر جہاں تنے سے آ کر ٹکرایا تھا، اس جگہ خون کے کافی نشانات چھوڑ گیا تھا۔ اب میں نے اپنے پٹھوں کو ہلایا جلایا اور پھر اس کے پیچھے لپکا۔ وہ تھوڑی دور ہی جا سکا تھا اور ایک اور تالاب کے کنارے مردہ پڑا ہوا تھا۔ +میرے احکامات کے برعکس میرے ساتھیوں نے گولی کی آواز اور شیر کی دھاڑ سنی اور پھر دوسری گولی کی آواز سن کر بھاگے بھاگے آئے۔ خون سے لت پت درخت کے نیچے آ کر انہوں نے میرا ہیٹ پڑا دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ شیر مجھے لے گیا ہے۔ ان کے چلانے کی آوازیں سن کر میں نے انہیں آواز دی۔ میرے کپڑوں پر خون دیکھ کر پھر ان کی ہمت پست ہو گئی۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ یہ خون شیر کا ہے میرا نہیں۔پھر انہوں نے ایک چھوٹا درخت کاٹا اور اس پر شیر کو لاد کر خوشی سے ناچتے گاتے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ +ان دور دراز علاقوں میں جہاں آدم خور طویل عرصے سے سرگرم ہو، بعض اوقات بہادری کے نایاب نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واقعات ان دیہاتیوں کے لئے معمولی بات ہوتے ہیں اور بیرونی دنیا ان کے بارے کبھی بھی نہیں جان پاتی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جو کنڈا کے آدم خور سے متعلق ہے، میں بیان کرتا ہوں۔ یہ اس آدم خور کے آخری انسانی شکارسے متعلق ہے۔ میں اس جگہ واقعے کے رونما ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پہنچا تھا۔ مجھے کچھ معلومات گاؤں والوں سے اور کچھ معلومات جائے وقوعہ کے بغور معائینے سے ملی تھیں۔ یہ کہانی کچھ اس طرح سے تھی۔ +جہاں میں نے کنڈا کے آدم خور کو ہلاک کیا، اس کے پاس ہی ایک گاؤں میں ��یک بوڑھا شخص اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ 1914 سے 1918 کے دوران تک باپ نے رائل گڑھوال رائفلز میں خدمات سر انجام دی تھیں۔ ان دنوں یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور نہ ہی آج کل کی طرح چند ملازمتیں اور بے شمار امیدوار۔ باپ کا خیال تھا کہ وہ بیٹے کو اسی فوج میں بھرتی کرائے۔ لڑکے اٹھارہ سال کا ہوتے ہی لانس ڈاؤن کی ایک جماعت ادھر سے گذری۔ لڑکا ان کے ساتھ ہو لیا اور سیدھا بھرتی دفتر پہنچ کر پیش ہو گیا۔ اس کے باپ نے بیٹے کو فوجی انداز میں سلام کرنا اور افسر کے سامنے پیش ہونے کے سارے آداب سکھا دیے تھے۔ اس لئے بغیر کسی دقت کے وہ فوراً ہی منتخب ہو گیا۔ نام لکھے جانے کے بعد اسے اجازت دی گئی کہ وہ گھر جا کر اپنے کام وغیرہ نمٹا لے۔ +لڑکا اس روز دوپہر کو گھر پہنچا۔ اسے گئے ہوئے پانچ دن ہو گئے تھے۔ اسے دوستوں نے فوراً گھیر لیا اور اسے بتایا کہ اس کا باپ کھیت میں ہل چلا رہا ہے اور مغرب سے قبل نہ لوٹے گا۔ (یہ وہی کھیت تھا جہاں میں نے شیر کے نشانات دیکھے تھے اور اسی دن کنگ کوبرا مارا تھا)۔ +لڑکے نےمویشیوں کو چارہ وغیرہ ڈالا اور دوپہر کا کھانا ہمسائے کے گھر سے کھا کر دیگر بیس افراد کے ساتھ پتے جمع کرنے نکل کھڑا ہوا۔ +جیسا کہ میں نے پہلےبتایا، یہ گاؤں چٹانی سرے پر بنا ہوا ہے اور اس کے ہر طرف جنگل ہی جنگل ہیں۔ انہی جنگلوں میں حالیہ واقعات میں دو عورتیں ماری گئی تھیں اور کئی ماہ سے مویشیوں کو پتے وغیرہ کھلا کر گذارا کیا جا رہا تھا۔ ہر روز عورتوں کو زیادہ دور جا کر پتے لانا پڑتے تھے۔ اس روز اکیس بندے مزروعہ زمین کو عبور کر کے ایک گہری کھائی میں چوتھائی میل اندر گئے۔ یہ وادی شرقاً غرباً آٹھ میل تک پھیلی ہوئی ہے اور تاریک جنگلوں سے گذرتی ہے۔ ڈھکالہ جا کر یہ رام گنگا دریا سے جا ملتی ہے۔ +وادی کا سرا کم و بیش متوازی زمین ہے اور ہر طرف گھنی گھاس اور بڑے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ہر شخص یہاں الگ ہو کر اپنی مرضی کے درخت پر چڑھ گیا اور مطلوبہ مقدار میں پتے توڑ کر اور رسیوں سے ڈھیریاں بنا کر گاؤں کی طرف دو دو یا تین تین کی ٹولیوں میں چلا جاتا۔ +آنے اور جانے کے وقت یہ تمام افراد زور زور سے چلاتے اور شور کرتے رہے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں اور شیر کو پاس آنے کا موقع نہ ملے۔ اسی طرح درختوں پر چڑھے ہوئے بھی وہ برابر شور کرتے رہے۔ معلوم نہیں کس وقت ان کے شور سے خبردار ہو کر ہو کر شیر بیدار ہوا جو اس وقت یہاں سے نصف میل دور جنگل میں سو رہا تھا۔ یہاں سے جہاں اس نے چار روز قبل ایک سانبھر ہلاک کر کے کھایا تھا، نکلا اور ندی عبور کر کے پگڈنڈی پر چلتا ہوا ان لوگوں کی طرف آیا۔ (شیر کے پچھلے اور اگلے پنجوں سے بننے والے پگوں کے بغور مشاہدے سے اس کی رفتار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے) +اس مذکورہ لڑکے نے بیری کے درخت کا انتحاب کیا تھا جو اس پگڈنڈی سے بیس گز دور تھا اور اس کی اوپری شاخیں ایک کھڈ میں جھکی ہوئی تھیں جہاں دو بڑے پتھر موجود تھے۔ اس پگڈنڈی کے ایک موڑ سے شیر نے اس لڑکے کو دیکھا۔ شیر چند منٹ تک اس لڑکے کا جائزہ لیتا رہا پھر پگڈنڈی سے ہٹ کرکھڈ سے تیس گز دور ایک اور گرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ لڑکے نے پتے توڑے اور انہیں اکٹھا کر کے باندھنے لگا۔ اس جگہ وہ بالکل محفوظ تھا۔ اچانک اس کی نظر ان دو شاخوں پر پڑی جو کھڈ میں گر گئی تھیں۔ وہ کھڈ میں داخل ہوا اور اس طرح اس نے اپنی قسمت پر خود ہی مہر لگا دی۔ جونہی وہ شیر کی نظروں سے اوجھل ہوا، شیر نے اپنی جگہ چھوڑی اور رینگتا ہوا کھڈ میں پہنچا۔ جونہی لڑکا شاخیں اٹھانے جھکا، شیر نے جست لگائی اور اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ شیر کے حملے کے وقت دیگر افراد ادھر درختوں پر موجود تھے یا گاؤں چلے گئے تھے۔ +سورج غروب ہوتے وقت باپ گاؤں پہنچا۔ اسے لوگوں نے گھیر لیا اور یہ خوش خبری سنائی کہ کس طرح اس کا بیٹا فوج کے لئے منتخب ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ اسے مختصر چھٹی ملی ہے اور وہ گھر آیا ہوا ہے۔ باپ نے پوچھا کہ لڑکا کہاں ہے تو جواب ملا کہ وہ دیگر افراد کے ہمراہ مویشیوں کے لئے پتے توڑنے گیا ہوا تھا۔ لوگوں نے الٹا حیرت سے سوال کیا کہ کیا اسے بیٹا گھر پر نہیں ملا؟ اس نے باری باری ان تمام لوگوں سے پوچھا جو لڑکے کے ساتھ جنگل میں گئے تھے۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ وادی کے سرے پر سب ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گئے تھے۔ کسی کو بھی یاد نہیں کہ اس کے بعد لڑکا کہاں گیا۔ +باپ مزروعہ زمین عبور کر کے کنارے پر گیا اور بار بار لڑکے کو آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ +اندھیرا چھانا شروع ہو چکا تھا۔ بیچارہ باپ گھر لوٹا اور چھوٹا سا لالٹین جلا کر باہر نکلا۔ لالٹین دھوئیں کے باعث بالکل دھندلا چکا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں جا رہا ہے۔ گاؤں والے سکتے میں آ گئے اور اسے یاد دلایا کہ آدم خور آس پاس ہی کہیں موجود ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ آدم خور کے ادھر ہونے کے سبب اسے ڈر لگ رہا ہے کہ اسے بیٹے کی تلاش کے لئے نکلنا چاہیئے۔ شاید وہ درخت سے گر کر زخمی ہو گیا ہو اور آدم خور کے ڈر سے کوئی آواز نہ نکال رہا ہو۔ +اس نے کسی سے ساتھ چلنے کو کہا نہ ہی کسی نے خود سے حامی بھری۔ یاد رہے کہ یہ وہی وادی ہے جہاں آدم خور کے ظہور کے بعد سے کوئی شخص قدم رکھنے کی بھی جرأت نہیں کرتا تھا۔ میں نے اس کے قدموں کے نشان سے دیکھا کہ اس رات چار مرتبہ وہ بیچارہ مویشیوں کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس جگہ سے دس فٹ دور گذرا جہاں شیر اس کا بیٹا کھا رہا تھا۔ +کانپتے ہوئے اور کمزور دل کے ساتھ وہ دو چٹانوں پر چڑھا۔ روشنی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر کے لئے دم لینے کو رکا۔ اس جگہ سے کھڈ کے اندر تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سورج نکلنے پر اس نے کھڈ میں پتھروں کے درمیان خون دیکھا۔ بھاگتا ہوا نیچے اترا تو اس نے اپنے بیٹے کی باقیات دیکھیں۔ اس نے انہیں احتیاط سے جمع کیا اور گھر لایا۔ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اس کی مدد کی۔ انہوں نے باقیات کو دریائے منڈل کے کنارے شمشان گھاٹ میں جلا دیا۔ +میرا اندازہ ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ یہ اشخاص ان خطرات سے واقف نہیں ہوتے جو انہیں لاحق ہوں۔ یہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور ہر پہاڑی موڑ، ہر چٹان، غار وغیرہ کو انہوں نے کسی نہ کسی بدروح سے منسوب کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کی توہم پرستی ہے۔ یہ تمام بدروحیں شیطانی اور اندھیرے کی پیداوار سمجھی جاتی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں پلا بڑھا شخص جو سالوں سے آدم خور کے وجود سے خوف زدہ ہو، اکیلا اور نہتا ان جگہوں سے گذرے اور رات بھر گھومتا رہے جہاں ہر قدم پر آدم خور سے مڈبھیڑ ہونے کا امکان ہو، میرے نزدیک اتنا نڈر شخص لاکھوں میں ایک ہی ہوگا۔ تاہم اسے بیٹے کی تلاش میں ساری رات گھنے اور تاریک جنگل میں گھومتے رہنا ذرا سا بھی بہادری کا کارنامہ نہ لگا۔ جب میں نے اسے آدم خور کی لاش کے پاس بیٹھ کر تصویر کھینچوانے کا کہا تو اس نے مضبوط لہجے اور پر سکون آواز میں کہا "میں اب مطمئن ہوں۔ صاحب آپ نے میرے بیٹے کا بدلہ لے لیا ہے۔" +کماؤں کی ضلعی کانفرنس میں میں نے جن تین آدم خوروں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اس آدم خور کی ہلاکت کے ساتھ پورا ہوا۔ + + +ویکی کتب کا مقامی لوگو + + +ہمالیہ میں ہمارے گرمائی گھر سے اٹھارہ میل دور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو شرقاً غرباً نو ہزار فٹ کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے مشرقی سرے پر ڈھلوانیں گھاس سے بھری ہوئی ہیں۔ اس گھاس کے بعد یہ پہاڑی سلسلہ تیزی سے نیچے گرتا ہوا دریائے کوسی تک جا پہنچتا ہے۔ +ایک دن اس جگہ کے شمالی طرف واقع گاؤں سے عورتیں اور لڑکیاں گھاس کاٹ رہی تھیں کہ اچانک ایک شیر نمودار ہوا۔ بھگدڑ کے دوران ایک عورت کا پیر پھسلا اور وہ ڈھلوان سے لڑھکتی ہوئی چٹان سے نیچے جا گری۔ ان عورتوں کی بھاگ دوڑ اور چیخوں سے پریشان ہو کر شیر جتنی خاموشی سے آیا تھا، اتنی ہی خاموشی سے غائب ہو گیا۔ جب یہ سب کچھ پرسکون ہوئیں تو انہوں نے اکٹھے ہو کر چٹان سے نیچے جھانکا۔ ان کی ساتھی ذرا نیچے ایک اور چٹان پر پڑی تھی۔ +اس عورت نے بتایا کہ وہ سخت زخمی ہے اور حرکت نہیں کر سکتی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کی ایک ٹانگ اور کئی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ کافی غور و خوض کے بعد انہوں نے طے کیا کہ یہ مردوں کا کام ہے۔ انہوں نے زخمی عورت سے کہا کہ وہ گاؤں جا کر مدد لاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی زخمی عورت کے پاس رکنے کو تیار نہیں۔ زخمی عورت نے منتیں کیں کہ کوئی تو رک جائے۔ اس کی بے بسی پر ترس کھاتے ہوئے ایک سولہ سالہ لڑکی رک گئی۔ باقی تمام عورتیں گاؤں روانہ ہو گئیں جبکہ یہ لڑکی راستہ تلاش کر کے نیچے اتری۔ +یہ چٹان پہاڑی سے ذرا سا باہر نکلی ہوئی تھی۔ جس جگہ عورت لیٹی تھی، اس کے پاس ہی ایک گڑھا سا تھا۔ زخمی عورت کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ نیچے نہ گر جائے۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے کنارے سے ہٹا کر اس گڑھے میں لے جائے۔ اس لڑکی نے بمشکل تمام زخمی عورت کو گڑھے تک پہنچایا۔ گڑھا اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں لڑکی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ مشکل سے سکڑ کر بیٹھ گئی۔ +گاؤں چار میل دور تھا۔ دونوں بار بار اندازہ لگاتیں کہ کتنی دیر بعد مدد پہنچ سکے گی۔ عورتوں کو کتنا وقت لگے گا کہ وہ گاؤں پہنچیں اور کتنی دیر میں مرد وغیرہ اکٹھے ہو کر آئیں گے۔ +یہ ساری گفتگو سرگوشیوں میں ہو رہی تھی کہ کہیں شیر آس پاس ہو اور ان کی آواز سن کر آ جائے۔ اچانک زخمی عورت نے لڑکی کو سختی سے جکڑ لیا۔ اس عورت کے چہرے پر دہشت کے آثار دیکھ کرلڑکی نے اپنے کندھے کے اوپر سے دیکھا تو کانپ کر رہ گئی۔ شیر نیچے اتر کر ان کی طرف ہی آ رہا تھا۔ +میرا خیال ہے کہ ہم میں سے چند ایک ہی ان خوفناک بھیانک خوابوں سے جاگے ہوں گے جب دہشت کے مارے ان کے اعضاء اور حلق بیکار ہو جاتے ہیں۔ بھیانک بلائیں ان کا پیچھا کر رہی ہوتی ہیں۔ خوف ہمارے مسامات سے پسینے کی شکل میں بہہ رہا ہوتا ہے۔ بیدار ہونے پر ہم خدا کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بے چاری بدقسمت لڑکی کے بس میں اس بھیانک حقیقت سے فرار ممکن نہ تھا۔ اس منظر کا اندازہ کرنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا۔ پہاڑی سے نکلی ہوئی چٹان کا سرا جو کہ ایک گڑھے پر جا کر ختم ہوتا ہے، پر دو عورتیں موجود ہیں۔ خوف کے مارے حرکت کرنا بھول جاتی ہیں۔ شیر ان کی طرف آہستگی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ فرار کے تمام راستے مسدود ہیں۔ +میرا پرانا دوست موٹھی سنگھ اس وقت اسی گاؤں میں اپنی بیمار بیٹی کی تیمارداری کرنے آیا ہوا تھا کہ یہ عورتیں آن پہنچیں۔ وہ بطور سربراہ امدادی جماعت کے ساتھ گیا۔ جب یہ سب لوگ چٹان پر جا کر جھکے تو ��یچے صرف بے ہوش عورت اور خون کے نشانات ہی باقی تھے۔ +زخمی عورت کو احتیاط سے اٹھا کر یہ لوگ گاؤں واپس لائے۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنی بپتا سنائی۔ موٹھی سنگھ اسی وقت میری طرف روانہ ہو گیا۔ وہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا تھا۔ میرے پاس اٹھارہ میل چل کر جب وہ پہنچا تو یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے آرام کرنا ہے یا وہ تھکا ہوا ہے۔ ہم اسی وقت روانہ ہو گئے۔ حادثے کو ہوئے چوبیس گھنٹے گذر چکے تھے کہ ہم جائے واردات پر پہنچے۔ میں اب کچھ بھی نہ کر سکتا تھا۔ شیر نے اس بہادر لڑکی کے جسم کی چند ہڈیاں ہی باقی چھوڑی تھیں یا پھر خون آلود کپڑے۔ +یہ اس شیر کی پہلی واردات تھی۔ بعد ازاں اسے "موہن کا آدم خور" کا سرکاری نام دیا گیا۔ +لڑکی کو مارنے کے بعد شیر سردیوں میں نیچے کوسی وادی چلا گیا اور جاتے ہوئے راستے بھر میں ہلاکتیں کرتا گیا۔ ان میں پبلک ورکس ڈیمپارٹمنٹ کے دو بندے اور ہماری اسمبلی کے ممبر کی بہو بھی شامل تھے۔ گرمیوں میں یہ واپس لوٹ کر اس جگہ آیا جہاں سے اس نے آدم خوری شروع کی تھی۔ اس کے کئی سال بعد تک اس کی شکار گاہ کوسی وادی سے ککری کھاٹ اور گرگیا تک وسیع رہی۔ یہ کل اندازاً چالیس میل بنتے ہیں۔ بعد ازاں یہ موہن کے اوپر کی طرف بھی شکار کرنے لگا۔ +اس ضلعی کانفرنس میں جو میں نے چوگڑھ کے شیروں میں بیان کی تھی، کماؤں کے ضلع میں سرگرم آدم خوروں کی یہ ترجیحی فہرست بنائی گئی: 1۔ چوگڑھ کے شیر، 2۔ موہن، ضلع الموڑا، 3۔ کنڈا، ضلع گڑھوال +چوگڑھ کے شیروں کا خاتمہ کر کے جب میں فارغ ہوا تو بینز نے مجھے یاد دلایا کہ ابھی اس فہرست کا ایک حصہ پورا ہوا ہے۔ موہن کا یہ آدم خور اگلے نمبر پر اپنی باری کا منتظر ہے۔ بینز الموڑہ کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کی سرگرمیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے اس نے مزید تین انسانی شکار کئے ہیں جو کہ تکنولا گاؤں سے تھے۔ بینز نے مشورہ دیا کہ میں اس گاؤں سے ابتداء کروں۔ +میں جب چوگڑھ کے شیروں کے پیچھے تھا تو بینز نے پیشہ ور کئی شکاری اس شیر کے پیچھے لگائے تھے۔ انہوں نے انسانی لاشوں پر بیٹھ کر شیر کا انتظار کیا تھا لیکن انہیں ناکامی ہوتی رہی کیونکہ یہ شیر واپس نہ لوٹتا تھا۔ آخر کار یہ سب واپس لوٹ گئے۔ بینز نے مجھے بتایا کہ اب میں اس شیر کے پیچھے جا سکتا ہوں کہ دیگر تمام شکاری مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ آدم خور کے تعاقب میں ایک سے زیادہ شکاری نہ جائیں۔ آدم خور کا تعاقب کرتے وقت انتہائی گھبراہٹ میں ایک شکاری غلطی سے دوسرے شکاری کو بھی ہلاک کر سکتا ہے۔ + + +مئی کی ایک جھلساتی دوپہر تھی جب میں اپنے دو ملازموں اور چھ گڑھوالیوں کے ہمراہ نینی تال سے آنے والی ٹرین سے رام نگر کے سٹیشن پر اترا۔ یہاں سے ہم چوبیس میل کے پیدل سفر پر کرتکالہ کو روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل سات میل دور گرگیا تھی جہاں ہم شام کو پہنچے۔ بینز کا خط کچھ اس وقت ملا تھا کہ روانہ ہونے سے قبل مجھے ڈاک بنگلہ استعمال کرنے کی اجازت لینے کا وقت نہ ملا۔ اس وجہ سے ہم لوگ کھلی جگہ خیمہ لگا کر سو گئے۔ +گرگیا میں دریائے کوسی کے کنارے کئی سو فٹ بلند ایک چٹان موجود ہے۔ جب میں سونے لگا تو اس طرف پتھر لڑھکنے کی آوازیں آنے لگیں جیسے پتھر لڑھکتے ہوئے دوسرے پتھروں سے ٹکرا رہے ہوں۔ کچھ دیر بعد مجھے اس آواز سے تشویش ہونے لگی۔ جب چاند نکلا اور اتنی روشنی ہو گئی کہ میں سانپ وغیرہ کو دیکھ کر ان سے بچ کر چل سکتا تھا تو میں آواز کی جانب بڑھا۔ آگے چل کر علم ہوا کہ ��ہ آواز سڑک کے کنارے ایک دلدل کے مینڈک پیدا کر رہے ہیں۔ میں نے خشکی، پانی حتٰی کہ درخت پر رہنے والے دنیا کے مختلف حصوں میں مینڈکوں کی آوازیں سنی ہیں لیکن جتنی عجیب آوازیں گرگیا کے مینڈک مئی کے مہینے میں پیدا کر رہے تھے، کہیں اور نہیں سنی۔ +دوپہر کو ہم مزید سفر کے لئے تیار تھے۔ پورا گاؤں اکھٹا ہو کر ہمیں الوداع کہنے اور خبردار کرنے آیا۔ ان کے خیال کے مطابق گھنے جنگل میں آدم خور ہمارا منتظر ہوگا۔ ہم اب کرتکالہ کی جانب چار ہزار فٹ کی چڑھائی کے لئے روانہ ہو گئے۔ +ہماری پیش قدمی کافی سست تھی کیونکہ میرے ساتھی بھاری سامان اٹھائے ہوئے تھے اور چڑھائی بہت سخت تھی۔ گرمی کا تو پوچھئے مت۔ اس جگہ کچھ عرصہ قبل بدامنی پھیل گئی تھی اور اسے رفع کرنے کے لئے پولیس کا ایک چھوٹا سا دستہ بھیجنا پڑا تھا۔ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے ساتھ ہی لے کر چلوں کیونکہ شورش کے باعث شاید مجھے کوئی چیز بھی مقامی طور پر نہ مل سکے۔ یہی وہ بوجھ تھا جس سے میرے ساتھی ہانپ رہے تھے۔ +کئی جگہوں پر رکتے رکتے ہم لوگ سہہ پہر کے بعد ایک مزروعہ قطعے تک پہنچ گئے۔ ابھی چونکہ ہم آدم خور کے علاقے سے باہر تھے، میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بے خطر اس جھونپڑے کی طرف چل دیا جو موہن سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے فارسٹ گارڈ نے بتایا تھا کہ یہ میرے قیام کے لئے بہترین جگہ ہوگی۔ +یہ جھونپڑا موہن پر جھکی چٹان پر بنا ہوا تھا۔ میں عام راستے سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔ ایک کھڈ سے بچتے ہوئے جونہی میں مڑا تو ایک عورت دکھائی دی جو چشمے سے گھڑا بھر رہی تھی۔ چونکہ میں بے آواز چلتا ہوا اس سے کافی قریب پہنچ گیا تھا اور میرا اچانک اسے مخاطب کرنا خوفزدہ کر دیتا، میں ہلکا سا کھانسا اور چند گز دور رک کر سیگرٹ سلگانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے منہ دوسری طرف کئے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا اس وقت اور اس جگہ کسی فرد کا اکیلا پانی بھرنے کا فیصلہ دانش مندی ہے؟ چند لمحے رک کر اس نے جواب دیا کہ واقعی یہ محفوظ جگہ نہیں۔ لیکن پانی بھرنا لازمی تھا اور گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تو اسے اکیلے ہی آنا پْڑا۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی گھر میں کوئی مرد نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ مرد تو ہے لیکن وہ کھیت میں ہل چلا رہا ہے۔ دوسرا پانی بھرنا عورتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پھر گھڑا بھرنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے، بمشکل چند منٹ۔ اب یہ عورت اپنی جھجھک اور گھبراہٹ پر قابو پا چکی تھی اس لئے اب اس نے سوالات کرنے کا سوچا۔ +کیا آپ پولیس والے ہیں؟ +کیا آپ محکمہ جنگلات کے افسر ہیں؟ +آدم خور کے بارے مجھے کیسے علم ہوا؟ +میرے دوسرے ساتھی کہاں ہیں؟ +وہ کل کتنے افراد ہیں؟ +میں کب تک رکوں گا؟ +اس عورت نے جب تک یہ تمام سوالات نہ کر لئے، اس نے گھڑا بھرے جانے کے بارے نہیں بتایا۔ پھر اس نے میرے پیچھے چلتے ہوئے مجھے بتایا کہ پہاڑی کی جنوبی طرف ڈھلان پر ایک درخت کے نیچے سے آدم خور تین روز قبل ایک عورت کو لے گیا تھا۔ اس نے مجھے وہ درخت دکھایا۔ یہ جگہ فارسٹرز ہٹ سے بمشکل دو یا تین سو گز دور ہوگی۔ اب ہم پہاڑ کے اوپر جانے والی پگڈنڈی پر آ گئے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ اگلے موڑ پر ہی اس کا گاؤں ہے۔ +آپ میں سے وہ افراد جو ہندوستانی خواتین کو جانتے ہیں، بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے کتنا بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔ خصؤصاً اس بات کے حوالے سے کہ حال ہی میں مقامی افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایک عورت کو خوفزدہ کئے بغیر، ورنہ میں پورے گاؤں کو اپنا دشمن بنا لیتا، گھڑا بھرتے ہوئے اس کے پاس رک کر اور چند سوالات کے جواب دے کر میں نے ایک ایسا دوست بنا لیا تھا جو پورے گاؤں میں کچھ ہی دیر میں میری آمد سے آگاہ کر دے گا کہ میں کوئی افسر نہیں بلکہ میرے آنے کا واحد مقصد آدم خور سے ان لوگوں کی جان چھڑانا ہے۔ + + +فارسٹرز ہٹ سڑک سے بیس گز دور بائیں جانب ایک چھجے نما چٹان پر تھا۔ اس کا دروازہ زنجیر لگا کر بند کیا گیا تھا۔ میں اسے کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمرہ دس مربع فٹ ہوگا اور بالکل صاف ستھرا تھا۔ البتہ اس سے پھپھوندی کی بو آ رہی تھی۔ مجھے بعد ازاں علم ہوا کہ ڈیڑھ سال قبل آدم خور کے اس طرف آنے کے وقت سے اب تک اسے استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کمرے کے دونوں اطراف میں دو راہداری نما کمرے تھے۔ ایک بطور باورچی خانہ استعمال ہوتا تھا اور دوسرا بطور ایندھن کا گودام۔ یہ جھونپڑا میرے آدمیوں کے لئے قطعی محفوظ ثابت ہوتا۔ پچھلا دروازہ کھول کر میں نے ہوا کی گردش بحال کی۔ پھر باہر نکل کر میں نے سڑک اور اس ہٹ کے درمیان ایک جگہ اپنے چالیس پاؤنڈ وزنی خیمے کے لئے منتخب کی۔ چونکہ یہاں فرنیچر نہ تھا، میں ایک پتھر پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ +یہاں چٹانی چھجا پچاس گز چوڑا تھا اور ہٹ اس کے بالکل جنوبی سرے پر تھا۔ گاؤں پہاڑی کی شمالی سرے پر تھا۔ اس لئے گاؤں سے ہٹ کو دیکھا جانا ممکن نہ تھا۔ ابھی پتھر پر بیٹھے ہوئے مجھے دس منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ گاؤں کی جانب والی ڈھلوان سے ایک سر نمودار ہوا، پھر دوسرا پھر تیسرا۔ اس خاتون نے فوراً ہی میری آمد کے بارے پورے گاؤں کو بتا دیا تھا۔ +ہندوستان میں جب اجنبی ملتے ہیں تو رسم یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے اصل موضوع سے ہٹ کر دنیا بھر کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ اس میں گھریلو، ذاتی معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔ آخر جب کوئی موضوع نہ باقی بچے تو پھر وہ اصل بات شروع کرتے ہیں۔ وہ سوالات جو دنیا بھر میں معیوب سمجھے جاتے ہوں، جیسے کہ شادی شدہ ہیں؟ اگر ہاں تو کتنے بچے ہیں اور لڑکے کتنے اور لڑکیاں کتنی، اگر شادی نہیں کی تو کیوں؟ پیشہ اور تنخواہ۔ صرف اس رسم سے واقف افراد ہی اسے برداشت کر سکتے ہیں۔ +اکثر سوالات کے جوابات میں نے اس عورت کوپہلے ہی دے چکا تھا اور بقیہ سوالات جو کسی عورت کو مرد سے پوچھنے میں جھجھک ہو سکتی ہے، وہ انہوں نے اب پوچھ لئے۔ اب میرے ساتھی بھی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے چشمے سے پانی بھرا اور خشک لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی اور چائے بنانے لگے۔ اب میں نے ڈبے بند دودھ کھولا۔ میں نے سنا کہ دیہاتی میرے آدمیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ہم خشک دودھ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ تازہ دودھ میں کیا برائی ہے؟ میرے آدمیوں نے انہیں بتایا کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے تازہ دودھ کا ملنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہم لوگ ڈبہ بند دودھ ساتھ لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ لوگ ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔ نمبردار نے مجھ سے کہا کہ ڈبہ بند دودھ لانا ان کی ہتک کے مترادف ہے کیونکہ گاؤں بھر کے دودھ میری ملکیت ہیں۔ میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں چونکہ اس علاقے میں اجنبی ہوں اور پہلی بار آیا ہوں تو مجھے علم نہ تھا۔ اگر وہ لوگ ہماری ضروریات کے لئے تھوڑا سا دودھ الگ کر سکیں تو میں اسے خریدوں گا۔ دودھ کے علاوہ اور کچھ بھی درکار نہیں۔ +میرا سامان اب کھل چکا تھا اور اس دوران گاؤں سے مزید افراد بھی آ گئے۔ میں نے اپنے آدمیوں کو بتایا کہ وہ کس جگہ میرا خیمہ نصب کریں۔ سارے دیہاتی دہشت اور خوف سے ایک ساتھ چلائے "خیمے میں رہیں گے؟" +"کیا میں آدم خور کی موجودگی کو بھلا چکا ہوں جو ہر رات اس سڑک سے باقاعدگی سے گذرتا ہے؟ اگر مجھے ان کے الفاظ پر یقین نہیں تو میں خود چل کر گاؤں کے گھروں کی دیواریں دیکھ لوں جو سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ شیر اکثر انہیں کھرچتا رہتا ہے۔ اگر شیر نے خیمے کے اندر مجھ پر حملہ نہ بھی کیا تو وہ میرے آدمیوں کو لازمی کھا جائے گا کیونکہ وہ اکیلے ہوں گے۔" +اس بات سے میرے ساتھیوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی گاؤں والوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ آخر کار میں کمرے میں سونے پر تیار ہو گیا۔ میرے دونوں ملازمین باورچی خانے اور چھ گڑھوالی ایندھن والے سٹور روم میں سونے تھے۔ +چونکہ آدم خور کی بات شروع ہو چکی تھی اس لئے اب میں اس پر مزید بات کر سکتا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ درخت دکھایا جس کے نیچے شیر نے اپنا آخری شکار مارا تھا۔ ساتھ ہی وقت اور وہ حالات بتائے جن کے تحت اس عورت کی ہلاکت ہوئی تھی۔ وہ سڑک بھی دکھائی جہاں سے شیر ہر روز رات کو گذرتا تھا۔ یہ سڑک مشرق کی طرف بیتل گھاٹ کی طرف جاتی تھی۔ اس کی ایک شاخ موہن کی طرف جاتی تھی۔ مغرب کی طرف یہ سڑک چکنا کل کی طرف جو دریائے رام گنگا پر واقع تھا۔ سڑک کے مغرب والے حصے کا کچھ ٹکڑا گاؤں سے گذرتا تھا اور پھر نصف میل مزروعہ زمین سے ہوتا ہوا جنوب کی طرف مڑتا تھا اور پہاڑ کے پاس سے ہو کر اس ہٹ کے ساتھ سے گذرتا تھا جہاں ہم اب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سڑک سیدھی چکنا کل جاتی تھی۔ کرتکانولہ اور چکنا کل کے درمیان چھ میل کا یہ حصہ خصوصاً انتہائی خطرناک شمار ہوتا تھا اور آدم خور کی آمد کے بعد سے اسے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک گھنے جنگل سے ہو کر گذرتی ہے۔ یہ جنگل دریا تک پھیلا ہوا تھا۔ +کرتکانولہ کی مزروعہ زمین پہاڑی کے شمالی طرف تھی۔ اس کے بعد کئی جگہوں پر چھجے سے بنے ہوئے تھے لیکن درمیان میں گہری کھائیاں بھی تھیں۔ ان میں سب سے نزدیکی چھجا ہٹ سے ہزار گز دور تھا اور وہاں صنوبر کا ایک درخت موجود تھا۔ دس دن قبل اس درخت کے پاس سے آدم خور نے ایک عورت کو ہلاک کر کے جزوی طور پر کھایا تھا۔ یہاں سے چار میل دور فارسٹ بنگلے میں تین شکاری موجود تھے۔ جب وہ صنوبر کے درخت پر نہ چڑھ سکے تو مقامی لوگوں نے تین الگ الگ درختوں پر ان کی مچانیں باندھ دیں۔ ہر ایک درخت دوسرے سے سو گز اور لاش سے پچاس گز دور تھا۔ رات ہونے سے قبل یہ شکاری اپنی ملازمین کے ہمراہ مچانوں پر جا بیٹھے۔ چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں۔ چاند کے غروب ہو جانے کے بعد دیہاتیوں نے گولیوں کی کئی آوازیں سنیں۔ اگلی صبح جب انہوں نے نوکروں سے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی کہ انہوں نے خود بھی کسی چیز کو نہیں دیکھا تھا کہ جس پر گولیاں چلائی گئی ہوں۔ دو دن بعد ایک گائے ماری گئی۔ یہ شکاری اس پر بھی مچان بنا کر بیٹھے۔ اس بار بھی انہوں نے چاند غروب ہو جانے کے بعد گولیوں کی آوازیں سنیں۔ اس طرح کی ناکام کوششیں شیروں کو مزید محتاط بنا دیتی ہیں اور وہ جب تک زندہ رہتے ہیں، ان کا مارا جانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ +ان دیہاتیوں نے شیر کے بارے ایک عجیب بات بھی بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ شیر کی آمد سے پہلے جان لیتے ہیں کہ شیر آ رہا ہے۔ اس کی آمد سے قبل ہلکی سی غراہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ مزید سوالات سے علم ہوا کہ شیر یہ آواز تب نکالتا ہے جب وہ گھروں کے درمیان سے گذرتا ہے۔ بعض اوقات یہ آواز کچھ دیر کے لئے ��ک بھی جاتی ہے۔ +اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: +2 زخم اس نوعیت کا ہے کہ صرف چلتے وقت تکلیف دیتا ہے۔ اس لئے کہ +3 یہ زخم اس کے کسی پاؤں یا ٹانگ میں ہے +مجھے بتایا گیا کہ شیر کو کسی مقامی شکاری نے زخمی نہیں کیا اور نہ ہی رانی کھیت کے کسی شکاری نے۔ چونکہ آدم خور کئی سال سے سرگرم تھا اس لئے یہ اندازہ تھا کہ یہ زخم ہی اس کے آدم خور بننے کا سبب ہوگا۔ یہ ایک ایسا نکتہ تھا جس کی تصدیق تب ہی ہو پاتی جب شیر مارا جاتا۔ +ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں اس آواز کے بارے اتنا متجسس کیوں ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ شیر کا ایک پاؤں زخمی ہے جو کسی گولی یا سیہی کے کانٹے کے سبب ہوا ہے تو انہوں نے سختی سے تردید کی اور کہ انہوں نے شیر کو کئی بار دیکھا ہے اور ہر بار شیر بالکل تندرست اور صحت مند دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جتنی آسانی سے شکار کو ہلاک کر کے لے جاتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ شیر ہرگز معذور نہیں۔ تاہم میری بات انہوں نے یاد رکھی اور جب شیر مارا گیا تو انہوں نے مجھے غیب کے حال جاننے والا گردانا۔ + + +رام نگر سے گذرتے ہوئے میں نے تحصیلدار سے کہا تھا کہ وہ میرے لئے دو بچھڑے خرید کر موہن بھجوا دے۔ وہاں سے میرے آدمی انہیں وصول کر لیں گے۔ +میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں ان میں سے ایک بچھڑے کو اس جگہ باندھوں گا جہاں تین روز قبل ایک عورت ہلاک ہوئی تھی اور دوسرا چکنا کل۔ انہوں نے بھی اتفاق کیا کہ ان کے خیال میں اس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اندھیرا چھانے والا تھا اور روانگی سے قبل نمبردار نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی صبح آس پاس کے تمام دیہاتوں میں میری آمد کی اطلاع بھجوا دے گا۔ وجہ یہ تھی کہ کسی بھی واردات کی صورت میں وقت ضائع کئے بنا وہ مجھے اس کے بارے بتا سکیں۔ +کمرے میں پھپھوندی کی بو اب کافی کم ہو گئی تھی لیکن پھر بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ تاہم میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور نہا کر کھانا کھانے کے بعد دروازے کے سامنے دو پتھر رکھ کر اسے بند کیا اور تھکن کی وجہ سے فوراً سو گیا۔ میں بہت ہلکی نیند سوتا ہوں اور دو یا تین گھنٹے بعد ہی جنگل میں سے گذرتے ہوئے کسی جانور کی آواز سے جاگ گیا۔ یہ آواز پچھلے دروازے سے آئی تھی۔ میں نے رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور پاؤں سے پتھر ہٹا کر باہر نکلا۔ پتھر کے ہٹنے کی آواز سے وہ جانور بھاگ گیا۔ یہ آواز شیر کی بھی ہو سکتی تھی، تیندوے یا سیہی کی بھی۔ تاہم جنگل اتنا گھنا تھا کہ رات کے وقت مجھے کچھ نہ دکھائی دیتا۔ کمرے میں واپس لؤٹ کر میں نے دوبارہ پتھر دروازے کے سامنے رکھے تو مجھے اپنا گلا کچھ خراب سا محسوس ہوا۔ اگلی صبح جب میرے ملازم میرے لئے چائے لے کر آئے تو میں نے دیکھا میرا گلا واقعی خراب تھا۔ اس کی وجہ شاید اس غیر آباد جگہ رہنا تھا۔ یہاں چمگادڑیں چھت سے بکثرت لٹک رہی تھیں۔ میرے نوکر نے بتایا کہ وہ اور اس کا ساتھی تو گلے کی خرابی سے بچ گئے ہیں لیکن چھ گڑھوالی اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ میرے پاس دوائی کے نام پر دو اونس آئیوڈین اور چند کونین کی گولیاں تھیں۔ رائفل کے بکسے میں البتہ کچھ پوٹاشیم پرمیگنیٹ یعنی پنکی کا ایک چھوٹا پیکٹ موجود تھا جو میری بہن نے پچھلی مہم کے لئے دیا تھا۔ یہ پیکٹ رائفل کے تیل سے چکنا ہو رہا تھا لیکن اس میں موجود ڈلیاں قابل استعمال تھیں۔ میں نے برتن میں پانی ابالا اور اس میں کافی ساری ڈلیاں ڈال دیں اور کچھ آئیوڈین بھی ملا دی۔ نتیجتاً جو ملغوبہ بنا، اس سے غرارے کرنے سے ہمارے دانت تو سیاہ ہوئے لیکن گلے کافی بہتر ہو گئے۔ +ناشتہ کر کے میں نے موہن کی طرف چار بندے بھیجے تاکہ بچھڑوں کو لے آئیں اور میں خود آخری واردات کی جگہ کی طرف چل دیا۔ کل رات مجھے جو معلومات ملی تھیں ان کی روشنی مٰں شیر کے حملے کی جگہ تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ عورت پر حملہ اس وقت ہوا تھا جب وہ کٹی ہوئی گھاس کا گھٹڑ بنا رہی تھی۔ گھاس اور اسے باندھنے والی رسی وہیں پڑی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کی دیگر ہمراہیوں کی گھاس بھی ادھر ہی موجود تھی جو شیر کے حملے سے گھبرا کر گاؤں کی طرف بھاگی تھیں۔ مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ عورت کی لاش نہیں مل سکی۔ میرا خیال تھا کہ انہوں نے تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ گھاس کے گٹھڑ اور درانتیاں ابھی تک جائے واردات پر موجود تھے۔ +یہ عورت ایک لینڈ سلائیڈ کے اوپری حصے پر ماری گئی تھی۔ شیر اسے مارنے کے بعد نیچے اتر کر گھنی گھاس کے قطعے میں گھسا۔ یہاں شیر کچھ دیر رکا۔ شاید وہ دیگر عورتوں کے دور چلے جانے کا منتظر ہو۔ یہاں سے شیر اس چھجے سے گذرا جو ہٹ سے دکھائی دیتا تھا۔ پھر ایک میل دور جا کر وہ گھنے جنگل میں گھس گیا۔ یہ نشانات اب چار دن پرانے تھے اور ان کا پیچھا کرنے سے کچھ نہ ملتا۔ اس لئے میں ہٹ کی طرف واپس چلا آیا۔ واپسی کی چڑھائی کافی دشوار تھی۔ دوپہر کو جب میں ہٹ میں واپس پہنچا تو میں نے برآمدے میں مختلف حجم کے بے شمار برتن دیکھے۔ یہ سب برتن دودھ سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ عجیب اتفاق تھا کہ پہلے دودھ کی اتنی شدید قلت تھی اور اب اتنی کثرت۔ دودھ اتنی مقدار میں تھا کہ میں اس سے با آسانی نہا سکتا تھا۔ میرے ملازمین نے بتایا کہ ان کے احتجاج کے باوجود ہر شخص دودھ کا برتن رکھتا ہی چلا گیا اور سب نے یہی کہا کہ وہ ہمیں ڈبے کے دودھ سے بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ادھر ہیں، وہ ہمیں ڈبے کا دودھ استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ +مجھے علم تھا کہ میرے آدمی بچھڑوں کو لے کر موہن سے مغرب کے بعد ہی واپس آئیں گے۔ دوپہر کا کھانا کھا کر میں چکنا کل کی سڑک کو دیکھنے چل دیا۔ +ہٹ سے پہاڑی بتدریج بلند ہوتی ہوئی پانچ سو فٹ کے قریب اونچی ہو گئی تھی۔ اس کی شکل مثلث نما تھی۔ مزروعہ زمین سے نکل کر یہ سڑک بائیں مڑتی ہے اور ایک بہت عمودی ڈھلوان پہاڑی سے ہوتی ہوئی دوبارہ چھجے نما جگہ پر آ کر دائیں مڑتی ہے اور پھر سیدھی چکنا کل تک اترائی ہے۔ چھجے سے باہر نکل کر سڑک کچھ فاصلے تک ہموار تھی۔ پھر اچانک ڈھلوان سے گذرتی ہوئی نیچے اترتی ہے۔ موڑوں پر یہ البتہ کشادہ ہو جاتی ہے۔ +چونکہ میرے پاس پوری سہ پہر باقی تھی تو میں نے اس سڑک کا تین میل تک بغور جائزہ لیا۔ جب شیر کسی سڑک یا گذرگاہ کو بکثرت استعمال کرتا ہے تو وہ اس کے کنارے اپنے ناخنوں سے گہری خراشیں ڈالتا رہتا ہے۔ یہ نشان ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے گھریلو بلیاں ڈالتی ہیں۔ یہ نشانات ایک شکاری کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان سے درج ذیل معلومات مل سکتی ہیں: +1۔ یہ جانور نر ہے یا مادہ؟ +2۔ اس کا رخ کس طرف تھا؟ +3۔ اسے یہاں سے گذرے کتنا وقت ہو چکا ہے؟ +4۔ اس کی جائے رہائش کا اندازاً فاصلہ اور سمت؟ +5۔اس کے شکار کی نوعیت +6۔کیا اس جانور نے حال ہی میں انسانی گوشت کھایا ہے؟ +آسانی سے ملنے والی ان معلومات سے اجنبی علاقے میں آدم خور کے بارے جاننے کے لئے بہت مدد ملتی ہے۔ شیر کے سڑک سے گذرتے وقت کے پگ بھی اہم ہوتے ہیں۔ ان سے کئی طرح کی معلومات مثلاً جانور کی سمت، رفتار، جنس، عمر اور یہ بھی کہ آیا جانور کے تمام پیر سلامت ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو کس پیر میں نق�� ہے۔ +یہ سڑک لمبے عرصے سے استعمال نہیں ہوئی تھی اور اس پر چھؤٹی اور سخت گھاس اگ آئی تھی۔ ایک دو نم جگہیں چھوڑ کر کہیں بھی پگ نہ دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک نم جگہ چھجے کے نیچے سے گذرتی ہوئی سڑک سے دو یا تین گز دور تھی۔ اس کے پاس ٹھہرے ہوئے سبز رنگ کے پانی کا تالاب تھا۔ ایسے تالاب سانبھر کے پانی پینے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ +موڑ کے فوراً بعد ہی میں نے بہت ساری کھرچنے کے نشانات دیکھے۔ یہاں سڑک مڑ کر مزروعہ زمین سے باہر چلی جاتی ہے۔ یہاں سے دو سو گز دور سڑک کافی تنگ ہو کر اس لٹکی ہوئی چٹان کے نیچے سے گذرتی ہے۔ یہ چٹان دس فٹ بلند تھی اور اس کے اوپر دو یا تین گز کا ہموار قطعہ سا تھا۔ اگر گاؤں کی طرف سے آئیں تو یہ جگہ صاف دکھائی دیتی ہے لیکن دوسری طرف سے یہ نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔ یہاں بھی کئی جگہوں پر کھرچنے کے نشان تھے۔ ابھی تک مجھے پنجوں کے نشانات نہیں مل سکے تھے۔ پہلے موڑ پر آ کر میں نے شیر کے پگ دیکھے۔ یہاں سے شیر چھلانگ لگا کر گذرا تھا اور نرم مٹی پر اس کے پگ موجود تھے۔ یہ نشانات کل کے تھے اور کچھ مٹ سے گئے تھے۔ تاہم یہ واضح تھا کہ یہ نشانات ایک بڑے اور پرانے نر شیر کے ہیں۔ +جب آپ ایسے علاقے میں ہوں جہاں آدم خور مصروف عمل ہو تو پیش قدمی بہت سست ہو جاتی ہے۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ چاہے وہ جھاڑی ہو، پتھر یا زمین میں موجود کوئی چھوٹا سا گڑھا جس میں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہونے کا امکان ہو، بغور دیکھ بھال کر عبور کئے جاتے ہیں۔ اگر ہوا نہ چل رہی ہو، جیسا کہ اب تھا، تو سامنے کے علاوہ پیچھے اور دائیں بائیں بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ مزید برآں مجھے یہاں مئی کے وسط میں چار سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پھولوں کے بے شمار غنچے دکھائی دیے جو میرے لئے دل چسپی کا خاص مرکز تھے۔ ہر دوسرا درخت ایسے لگتا تھا جیسے وہ ان پھولوں کو چیر کر باہر نکلا ہوا ہو۔ +یہاں میں نے پہلی بار ایک ایسا پرندہ دیکھا جو بعد ازاں بمبئی نیچر ہسٹری میوزیم کے عملے نے پہاڑی گریگ ماؤنٹین کے نام سے شناخت کیا۔ یہ پرندہ خاکستری رنگ کا ہے۔ سینے پر گلابی رنگ کا ہلکا سا نشان ہے۔ اس کی جسامت روزی پیسٹر سے ذرا سی چھوٹی ہے۔ اس کے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ ہر بالغ کے ساتھ چار بچے اونچے درخت کی خشک ٹہنیوں پر قطار بنائے بیٹھے تھے۔ والدین بار بار دو دو تین تین سو گز کی لمبی اڑان بھر کر کیڑے پکڑ لاتے۔ ان کی اڑان کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں کوئی اور پرندہ بشمول مہاجر پرندے جو سردیوں میں ادھر آٹے ہیں، اس سے زیادہ تیز نہیں اڑ سکتے۔ ان کی ایک اور دل چسپ خوبی ان کی قوت بصارت تھی۔ کئی بار یہ کئی سو گز تک سیدھی لائن میں اڑتے اور پھر کیڑے پکڑ کر لوٹتے تھے۔ ان کی تیز رفتار کے باعث یہ بھی کہنا ممکن نہیں کہ یہ پرندے کسی کیڑے کا پتنگے کے پیچھے اتنی دور تک گئے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پرندے جتنے فاصلے سے کیڑے دیکھ پاتے ہیں، کوئی انسان طاقتور ترین دور بین سے بھی نہیں دیکھ پاتا۔ +ہٹ میں پہنچا تو دونوں بچھڑے پہنچ چکے تھے۔ لیکن اندھیرا ہونے کے سبب میں نے انہیں بندھوانا اگلے دن تک کے لئے ملتوی کر دیا۔ +میرے ملازمین نے کمرے میں سارا دن آگ جلائے رکھی تھی جس سے کمرے کی ہوا میٹھی اور صاف ہو گئی تھی۔ پھر بھی میں نے دوبارہ اسی بند کمرے میں رات گذارنے کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ سونے سے قبل دو بڑی جھاڑیاں کاٹ کر دروازے میں لگا دیں۔ اس رات جنگل بالکل خاموش رہا۔ اگلی صبح پرسکون نیند سے بیدار ہوا تو میرا گلا کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ +صبح کا وقت میں نے مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے گذارا۔ وہ مجھے آدم خور کی کہانیاں سناتے رہے اور یہ بھی کہ کس کس طرح مختلف شکاریوں نے اسے مارنے کی کوششیں کی تھیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد میں اٹھا اور پہلا بچھڑا لا کر اس جگہ باندھا جہاں سے شیر عورت کو اٹھائے ہوئے گذرا تھا۔ دوسرے بچھڑے کو اس موڑ پر جہاں شیر گذرا تھا۔ +اگلی صبح دونوں بچھڑے آرام سے سو رہے تھے اور میری ڈالی ہوئی گھاس کا بڑا حصہ صاف ہو چکا تھا۔ میں نے ان کے گلے میں گھنٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ ان تک پہنچتے ہوئے جب میں نے کوئی آواز نہ سنی تو سمجھا کہ وہ مارے گئے ہیں۔ لیکن وہ سو رہے تھے۔ اس شام میں نے موڑ پر بندھے ہوئے دوسرے بچھڑے کو اس جگہ باندھا جہاں سڑک چٹانی چھجے سے باہر آتی تھی۔ کھڑے پانی کا چھوٹا سا تالاب بھی یہاں سے نزدیک تھا۔ +شیر کو مارنے کے عمومی طریقے یہ ہیں: +دونوں صورتوں میں نو عمر بچھڑے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس علاقے کا تعین کیا جاتا ہے جو مچان یا ہانکے کے لئے موزوں ہو۔ شام ڈھلے اس جگہ بچھڑا باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ رسی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ بچھڑا نہیں توڑ پاتا لیکن شیر اسے با آسانی توڑ لیتا ہے۔ اس کے بعد جب شیر شکار کو لے جاتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ آیا مچان بہتر رہے گی یا پھر ہانکا۔ +موجودہ صورت میں یہ دونوں ہی طریقے ناقابل عمل تھے۔ میرا گلا کافی بہتر ہو چکا تھا لیکن اب بھی زیادہ دیر کھانسے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس گھنے جنگل میں ہانکے کے لئے ہزار آدمی بھی ناکافی رہتے۔ میں نے سوچا کہ براہ راست ہی گھات لگائی جائے۔ اس لئے میں نے دونوں بچھڑوں کو ایک ایک انچ موٹی رسی سے باندھا اور اگلے چوبیس گھنٹے کے لئے انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ +صبح کے وقت جب اتنی روشنی ہو جاتی کہ میں گولی چلا سکتا، باری باری دونوں بچھڑوں کی طرف چھپ کر جاتا۔ ان علاقوں میں شیر چاہے وہ آدم خور یا عام، دن اور رات، یکساں شکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آس پاس کے گاؤں سے بھی کسی خبر کا انتظار رہتا، گلے کی دیکھ بھال کرتا اور آرام بھی جاری رہتا۔ میرے چھ گڑھوالی ساتھی بچھڑوں کی دیکھ بھال اور ان کے چارے پانی کا خیال رکھتے۔ +چوتھی شام سورج غروب ہوتے وقت میں واپس آ رہا تھا تو جب میں اس چٹانی چھجے سے تیس گز دور پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں خطرے میں ہوں۔ یہاں آمد کے بعد پہلی بار مجھے خطرہ محسوس ہوا تھا۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ خطرہ اسی چٹانی چھجے پر موجود ہے۔ پانچ منٹ تک میں رکا رہا۔ میری آنکھیں چھجے پر کسی بھی حرکت کو دیکھنے کے لئے تیار تھیں۔ اس فاصلے سے پلک بھی جھپکنے کا عمل میری نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکتا تھا لیکن وہاں اتنی سی بھی حرکت نہ دکھائی دی۔ میں دس قدم مزید بڑھا اور پھر کئی منٹ کے لئے رک گیا۔ کسی بھی حرکت کا دکھائی نہ دینا اس بات کی ضمانت نہ تھا کہ شیر وہاں موجود نہیں۔ اصل سوال یہ تھا کہ اب کیا کرنا ہوگا؟ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا، یہ کافی ڈھلوان پہاڑی تھی۔ اس میں جگہ جگہ بڑی چٹانیں جھکی ہوئی تھیں۔ ہر طرف گھنی اور لمبی گھاس اور درختوں کے گھنے جھنڈ موجود تھے۔ اگر ابھی کچھ دن باقی ہوتا تو میں قدرے پیچھے جا کر شیر کے اوپر سے اس پر گولی چلانے کی کوشش کرتا۔ ابھی اس وقت میرے پاس صرف نصف گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور میل بھر کا سفر بھی۔ اس وقت سڑک کو چھوڑنا سخت نادانی ہوتی۔ سیفٹی کیچ ہٹا کر اور رائفل کو کندھے سے لگا کر میں آگے بڑھا۔ +یہاں سڑک تقر��باً آٹھ فٹ چوڑی تھی۔ میں نے اس کے بیرونی سرے پر کیکڑے کی طرح چلنا شروع کر دیا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اگر شیر اسی جگہ لیٹا رہا جہاں وہ تھا تو چھجے سے آگے جا کر میں اسے دیکھ بھی لیتا اور ممکن تھا کہ گولی بھی چلا سکتا۔ تاہم جب شیر میری محتاط پیش قدمی کی وجہ سے حملہ نہ کر سکا تو میرے چھجے سے نکلتے ہی اوپر سے غراہٹ کی آواز آئی اور پھر نزدیکی موڑ سے دو سانبھر بولے۔ +شیر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ تاہم میں بھی اپنی جان بچا چکا تھا۔ پچھتانے کا کیا سوال۔ جہاں سانبھر بولا تھا، مجھے یقین تھا کہ اس جگہ سے شیر نے بچھڑے کی گھنٹی ضرور سنی ہوگی۔ یہ بچھڑا کھڑے پانی کے تالاب کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ +جب میں مزروعہ زمین تک پہنچا تو دیکھا کہ کافی لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کاکڑ اور سانبھر کی آوازیں سنی تھیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں شیر کو نہیں دیکھ سکا تو وہ کافی مایوس ہوئے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ کل صبح کافی بہتر امکانات موجود ہیں۔ + + +رات کو آندھی آئی اور پھر بارش بھی ہوئی تھی۔ ہمارے ہٹ کی چھت رستی تھی۔ تاہم میں نے ایک ایسی جگہ تلاش کر لی جہاں سے پانی کم رس رہا تھا۔ اس جگہ اپنا بستر گھسیٹ کر میں آرام سے سو گیا۔ اگلی صبح جب بیدار ہوا تو مطلع بالکل صاف تھا۔ بارش نے حدت اور گرد و غبار سب دھو دیا تھا۔ گھاس اور پتے سب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ +عام حالات میں میں پہلے بچھڑے کی طرف چکر لگاتا لیکن اب مجھے دوسرے بچھڑے کی طرف جانا تھا۔ میں نے اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ روشنی اچھی طرح پھیل جانے کے بعد وہ نزدیکی بچھڑے کی دیکھ بھال کے لئے جائیں۔ پھر میں نے اپنی اعشاریہ 400/450 بور کی رائفل کو اچھی طرح صاف کیا اور تیل وغیرہ دے کر پھر میں چکنا کل کی طرف نکلا۔ یہ رائفل میری برسوں کی رفیق اور قابل اعتماد تھی۔ +کل شام مجھے چھجے کے نیچے سے گذرتے ہوئے جو دقت ہوئی تھی، اس کا عشر عشیر بھی مجھے اب نہ محسوس ہوئی۔ میں یہاں سے آرام سے گذر گیا۔ اب میں نے شیر کے پگوں کی تلاش شروع کر دی کیونکہ بارش کی وجہ سے زمین نرم ہو چکی تھی۔ سب سے پہلی نم جگہ پر مجھے کوئی پگ نہ ملا۔ یہ جگہ دوسرے بچھڑے سے نزدیک تھی۔ یہاں نرم مٹی پر میں نے شیر کے پگ دیکھے جو رات کے طوفان سے پہلے کے تھے۔ یہ نشانات اسی چھجے کی طرف جا رہے تھے۔ اس جگہ کے پاس کھڈ کی طرف ایک تین فٹ بڑا پتھر تھا۔ پچھلی بارمیں نے سوچا تھا کہ اگر میں اس پتھر پر چڑھوں تو مجھے دوسرا بچھڑا موڑ کے پار دکھائی دے سکتا ہے۔ یہاں سے بچھڑا چالیس گز دور باندھا گیا تھا۔ اس بار اس پتھر پر چڑھ کر میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھا۔ بچھڑا غائب تھا۔ یہ نئی صورتحال میرے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ میں نے شیر کو بچھڑا لے جانے سے روکنے کے لئے ایک انچ موٹی رسی استعمال کی تھی تاکہ درخت پر یا زمین پر چھپ کر شیر کو ہلاک کر سکوں۔ تاہم شیر بچھڑے کو لے گیا تھا۔ +میں بہت باریک تلے والے ربر سول کے جوتے پہنے ہوئے تھا۔ آہستگی سے چلتے ہوئے میں اس درخت تک پہنچا جہاں بچھڑا بندھا ہوا تھا۔ یہاں میں نے زمین کا بغور جائزہ لیا۔ بچھڑا طوفان سے قبل مارا گیا تھا۔ تاہم شیر اسے بارش تھمنے کے بعد اٹھا لے گیا تھا۔ لے جانے سے قبل شیر نے لاش کو چکھا تک نہ تھا۔ میں نے چار رسیوں کو بل دے کر بچھڑا باندھا تھا۔ شیر نے تین رسیاں کتر ڈالی تھیں اور ایک رسی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اب اس کا رخ موہن کے سامنے والی پہاڑی کی طرف تھا۔ میرے سارے منصوبے الٹ پلٹ ہوگئے تاہم بارش کی وجہ س�� بہت مدد ملی۔ کل تک خشک پتوں کا انبار اب بالکل نرم قالین بن چکا تھا۔ ان پر چلتے ہوئے بالکل بھی آواز نہ پیدا ہوتی تھی۔ اگر میں احتیاط سے کام لیتا تو شیر کے نزدیک آرام سے پہنچ کر اسے ٹھکانے لگا سکتا تھا۔ +ایسی صورتحال میں جنگل داخل ہوتے وقت جب متواتر کئی گولیاں چلانے کی ضرورت پڑے، میں ہمیشہ رائفل کو اچھی طرح چیک کر لیتا ہوں کہ بھری ہوئی ہے یا نہیں۔ خطرے کے وقت لبلبی دبا کر یہ دیکھنا آیا رائفل بھری ہوئی ہے یا نہیں، مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چٹانی چھجے سے گذرتے ہوئے میں نے رائفل بھر لی تھی۔ پھر بھی میں نے کارتوس نکالے۔ ایک کارتوس کا رنگ کچھ اڑا ہوا تھا اور اس پر گڑھے سے پڑے تھے۔ میں نے اسے دوسرے کارتوس سے بدلا اور پھر سے رائفل کو بھرا۔ پھر سیفٹی کیچ کو کئی بار اوپر نیچے کر کےتسلی کی اور پھر چل پڑا۔ میں کبھی بھی بھرا ہوا ہتھیار سیفٹی کیچ کے بغیر اٹھا کر نہیں چلتا۔ اب میں گھسیٹنے کے نشانات کے تعاقب میں تھا۔ +"گھسیٹ" لفظ سے شاید کچھ غلط فہمی پیدا ہو۔ گھسیٹنے سے مراد وہ نشانات ہوتے ہیں جو شیر اپنے شکار کو لے جاتے وقت بناتا ہے (ایک بار میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو ایک پوری طرح جوان گائے اٹھا کر چار میل دور لے جاتے دیکھا ہے)۔ شیر جانور کو حقیقتاً گھسیٹ کر نہیں لے جاتا بلکہ عموماً اٹھا کر لے جاتا ہے۔ تاہم اگر لاش بہت بھاری ہو تو شیر اسے چھوڑ جاتا ہے۔ جانور کے حجم اور اس کے اٹھانے کے طریقے سے بننے والے نشانات مدھم بھی ہو سکتے ہیں اور واضح بھی۔ مثلاً اگر شیر کا شکار سانبھر ہے اور شیر نے اسے گردن سے پکڑا ہوا ہے تو سانبھر کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑتی ہیں۔ اسی طرح اگر سانبھر کو شیر کمر سے اٹھائے تو عموماً بہت مدھم نشانات بنتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نشان نہ بنے۔ +موجودہ صورتحال میں شیر بچھڑے کو گردن سے پکڑ کر لے گیا تھا۔ اس طرح بچھڑے کی پچھلی ٹانگیں زمین پر گھسٹنے کے صاف نشانات چھوڑ گئی تھیں۔ سو گز تک شیر سیدھا پہاڑی پر چڑھا۔ آگے چل کر چکنی مٹی کا ایک کنارہ آیا۔ اس کنارے کو پھلانگنے کی کوشش میں شیر کا پاؤں پھسلا اور بچھڑا اس کی گرفت سے نکل کر تیس یا چالیس گز نیچے ایک درخت سے ٹکرا کر رک گیا۔ اس بار شیر نے اسے کمر سے اٹھایا۔ اب بچھڑے کا پیر کبھی کبھار ہی زمین سے لگتا تھا۔ تاہم اس کا پیچھا کرنا اب بھی مشکل نہ تھا۔ اس طرح گرنے سے عارضی طور پر شیر کو سمتیں بھول گئیں۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے شیر کو علم نہ ہو کہ اسے کس طرف جانا ہے۔ پہلے وہ دو سو گز دائیں طرف چلا پھر سو گز سیدھا نیچے اتر کر بانس کے جھنڈ میں پہنچا۔ یہاں وہ کافی وقت گذار کر پھر بائیں جانب اترا اور سیدھا پہاڑی کی طرف چند سو گز چلا حتٰی کہ ایک بڑی چٹان اس کے سامنے آ گئی۔ یہ چٹان اوپری طرف سے زمین سے ملی ہوئی اور دوسری طرف بیس فٹ گہری کھڈ سے جڑی تھی۔ اگر یہاں کوئی غار یا گڑھا ہوتا تو بلا شبہ شیر شکار کو لے کر سیدھا یہاں آ رکتا۔ اب میں گھسٹنے کے نشانات سے ہٹ کر براہ راست اس چٹان پر چڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ میں دائیں بائیں بھی بغور دیکھتا رہا۔ چٹان کے دوسرے سرے پر پہنچ کر مجھے مایوسی ہوئی کہ یہاں چٹان سیدھی پہاڑی سے ملی ہوئی تھی۔ یہاں کوئی غار یا گڑھا نہ تھا کہ جہاں شیر ہوتا۔ +یہاں سے جنگل کا اچھا منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ یہ جگہ شیر کے اچانک حملے سے بھی محفوظ تھی۔ میں بیٹھ گیا۔ جونہی میں بیٹھا، چالیس یا پچاس گز دور مجھے ایک سرخ اور سفید رنگ کی چیز گھاس میں چھپی ہوئی دکھائی دی۔ اگر آپ جنگل میں شیر کی تلاش میں ہیں تو ہر سرخ چیز جو نظر آئے، شیر لگتی ہے۔ یہاں تو مجھے نہ صرف شیر کا لال رنگ بلکہ اس کی سفید دھاریاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کافی دیر تک میں سے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی انکشاف ہوا کہ یہ شیر نہیں بلکہ بچھڑے کی لاش ہے۔ سرخ رنگ خون کی وجہ سے اور سفید دھاریاں اس کی پسلیاں تھیں جو کھال کو پھاڑ کر باہر نکل آئی تھیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے عجلت میں گولی نہ چلا دی تھی۔ میرے ایک دوست نے ایک بہت عمدہ شیر کو مارنے کا سنہری موقع اسی طرح کی صورتحال میں بچھڑے کی لاش پر دو گولیاں چلا کر ضائع کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے ان کا نشانہ بہت درست تھا۔ ان کے دو بندے جو مچان باندھنے اس جگہ کے قریب تھے، بچ گئے۔ +اگر شیر کو چھیڑا نہ گیا ہو اور اس کا شکار کھلے عام پڑا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شیر کہیں قریب ہی چھپ کر لیٹا ہوا ہے تاکہ گدھوں اور دوسرے مردار خوروں کو دور رکھ سکے۔ اگر شیر دکھائی نہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیر موجود ہی نہیں۔ +نصف گھنٹے تک میں اسی طرح بیٹھا رہا کہ کسی بھی حرکت کو دیکھ سکوں اور جانوروں کی آوازیں سن سکوں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر موجود نہیں تو میں چٹان سے نیچے اتر کر بچھڑے کی طرف بڑھا۔ + + +میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک وقت میں شیر کتنا کھا سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ شیر سانبھر کو دو دن میں، بھینس کو تین دن میں ختم کر سکتا ہے۔ شاید چوتھے دن کے لئے بھی کچھ بچ جائے۔ +یہ بچھڑا پوری طرح جوان تو نہ تھا لیکن اسے کسی بھی طرح چھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ شیر نے اسے تقریباً نصف کھا لیا تھا۔ اتنا پیٹ بھرنے کے بعد میرے اندازے کے مطابق شیر زیادہ دور نہ جا پاتا۔ زمین ابھی گھنٹہ دو گھنٹے نم رہتی اور شیر کا پیچھا کرنا آسان ہوتا۔ +لاش کے آس پاس بے شمار پگ تھے۔ ایک لمبا چکر لگا کر میں نے شیر کی روانگی کے پگ دیکھ لئے۔ نرم پنجوں سے بننے والے پگ کھروں سے مدہم ہوتے ہیں۔ تاہم لمبے تجربے کے بعد یہ اتنا ہی آسان ہو جاتا ہے جتنا کہ شکاری کتا شکار کی بو پر چلتا ہے۔ میں سائے کی طرح خاموشی اور احتیاط سے آگے بڑھا۔ سو گز دور جا کر مجھے ایک ہموار قطعہ دکھائی دیا۔ یہ بیس فٹ چوڑا اور بیس فٹ ہی لمبا تھا۔ اس پر خوش بو دار گھاس اگی ہوئی تھی۔ گھاس ان جگہوں سے دبی ہوئی تھی جس پر شیر لیٹا ہوا تھا۔ +ابھی میں یہ نشان دیکھ ہی رہا تھا کہ شیر کے قد و قامت کا اندازہ لگا سکوں کہ گھاس پھر سے سیدھی ہونے لگی۔ یقیناً شیر منٹ بھر ہی پہلے یہاں سے اٹھا تھا۔ +شیر شکار کو شمال سے نیچے لایا تھا۔ اسے چھوڑ کر وہ مغرب کی طرف گیا۔ یہاں وہ چٹان، شکار اور میری موجودہ پوزیشن ایک تکون کی طرح تھیں۔ ایک سرا چالیس گز اور باقی دو سرے دو دو سو گز کے تھے۔ +گھاس کو اٹھتے دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ شیر مجھے آتا دیکھ کر اٹھا ہے۔ تاہم یہاں سے وہ چٹان اور بچھڑے کی لاش دکھائی نہ دیتی تھی اور میں نے پیش قدمی میں خاصی احتیاط کی تھی۔ پھر شیر کیوں اٹھا؟ میری پشت پر چمکتا ہوا سورج اس کا جواب تھا اور اب صبح نو بجے ہی سے اس کی گرمی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ سورج درختوں سے چند ہی منٹ پہلے اوپر آیا تھا اور اس جگہ اس کی دھوپ پڑنے لگی تھی۔ شیر کو جب گرمی لگی اور وہ میری آمد سے ذرا پہلے اٹھ کر کسی چھاؤں کی تلاش میں چلا گیا۔ +جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، گھاس کا یہ قطعہ بیس مربع فٹ کا تھا۔ اس کے ایک طرف شمالاً جنوباً درخت گرا ہوا تھا جس کا رخ میرے سامنے کی طرف تھا۔ یہ درخت چار فٹ موٹا اور گھاس کے سرے پر تھا۔ میں اس وقت گھاس کے درمیان میں موجود تھا۔ درخت مجھ سے دس فٹ دور تھا۔ جڑوں کا رخ پہاڑی کی طرف اور شاخیں میری طرف تھیں۔ اس کے پیچھے پہاڑی تقریباً زاویہ قائمہ بنا رہی تھی۔ یہاں سے تیس گز دور پہاڑی میں کھڈ تھا جو گھنے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ +اگر میرا یہ اندازہ درست تھا کہ شیر دھوپ اور گرمی کی وجہ سے اٹھا ہے تو وہ لازما سائے کی تلاش میں اس درخت کے پیچھے گیا ہوگا۔ اس کی تصدیق کرنے کے لئے مجھے تھوڑا سا آگے بڑھ کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا۔ کئی سال پرانی "پنچ" نامی رسالے میں چھپی ہوئی ایک تصویر مجھے یاد آ گئی۔ ایک شکاری شیر کی تلاش میں چٹان کے نیچے سے گذر رہا تھا۔ سر اوپر اٹھاتے ہی اس نے دیکھا کہ شیر اسے گھور رہا ہے۔ تصویر کے نیچے درج تھا کہ "شیر کی تلاش میں جاتے وقت توقع رکھیں کہ کسی بھی وقت شیر سے ملاقات ہو سکتی ہے"۔ یہاں فرق صرف اتنا سا تھا کہ مجھے اوپر کی بجائے نیچے دیکھنا تھا۔ باقی سب کچھ مشترک تھا۔ +انچ انچ کر کے میں درخت کی طرف بڑھا۔ پانچ فٹ آگے جا کر میں نے دیکھا کہ ایک کالی اور پیلی سی چیز دکھائی دے رہی ہے۔ تین انچ لمبی یہ چیز چٹانی سرے کی طرف تھی جو کہ جنگلی جانوروں کی بنائی ہوئی پگڈنڈی تھی۔ منٹ بھر میں اسے دیکھتا رہا۔ یہ ساکت تھی۔ حتٰی کہ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ شیر کی دم کا سرا ہے۔ +اگر دم کا سرا میری مخالف سمت تھا تو یقیناً سر میری طرف ہوتا۔ دم کا یہ سرا کوئی بیس فٹ دور تھا۔ شیر کی آٹھ فٹ کی جسامت ملا کر اس کا جسم مجھ سے بارہ فٹ دور ہوتا۔ یعنی شیر درخت کے پیچھے چھپا ہوا جست لگانے کے لئے تیار ہوگا۔ پھر بھی مجھے بہت آگے جا کر درخت کے اوپر سے جھانک کر دیکھنا پڑتا کہ کس جگہ شیر کو گولی مارنا بہتر رہے گا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے سیفٹی کیچ استعمال کرنے کی عادت پر غصہ آیا۔ میری اعشاریہ 400/450 بور کی رائفل کا سیفٹی کیچ حرکت کرتے وقت واضح طور پر کلک کی آواز پیدا کرتا تھا۔ اس وقت ہلکی سی آہٹ سے بھی شیر حملہ کرنے کی بجائے دوسری جانب سے فرار ہو جاتا۔ +انچ انچ کر کے میں آگے بڑھتا رہا حتٰی کہ شیر اس کی پوری دم اور پھر پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں۔ جونہی اس کا پچھلا دھڑ دکھائی دیا، میرا دل چاہا کہ خوشی سے نعرہ لگاؤں۔ شیر چھلانگ لگانے کے لئے تیار نہیں بلکہ آرام سے سو رہا تھا۔ چونکہ درخت پر اس کے لئے دو فٹ جتنی ہی جگہ تھی، اس نے پچھلی ٹانگیں پھیلا کر پیچھے موجود درخت سے ٹکائی ہوئی تھیں۔ ایک فٹ اور آگے بڑھا تو مجھے شیر کا پیٹ دکھائی دیا۔ اس کی حرکت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ شیر آرام سے سو رہا ہے۔ اب میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا اور پھر میں نے اس کے کندھے اور پھر سارا جسم دیکھا۔ اس کے سر کی پشت گھاس کے ٹکڑے پر تھی اور درخت کے تنے سے تین چار فٹ دور۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ناک آسمان کی طرف تھا۔ +رائفل سے اس کی پیشانی کا نشانہ لیتے ہوئے میں نے لبلبی دباتے ہوئے سیفٹی کیچ ہٹایا۔ مجھے قطعی اندازہ نہ تھا کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔ تاہم تجربہ کامیاب رہا۔ اتنے قریب سے بھاری رائفل کی گولی لگی مگر اس کا رواں بھی نہ ہلا۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ شیر اسی حالت میں رہا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے پیٹ کا پھولنا پچکنا بند ہو گیا تھا اور ماتھے کے دو ننھے ننھے سوراخوں سے خون بہہ رہا تھا۔ +مجھے اندازہ نہیں کہ شیر کا قرب دوسروں پر کیسے اثر کرتا ہے لیکن میرا سانس ہمیشہ پھول جاتا ہے۔ اس کی وجہ خوف اور جوش دونوں ہی ہیں۔ اس کے فوراً ب��د آرام کی طلب ہوتی ہے۔ میں اسی ٹوٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا اور سیگرٹ سلگا لیا۔ گلا خراب ہونے کی وجہ سے کئی دن سے میں سیگرٹ پینا چھوڑے ہوئے تھا۔ اب میں نے ذہن کو آزاد چھوڑ دیا۔ جب کام اچھے طریقے سے مکمل ہو جائے تو بہت اطمینان ملتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میری یہاں آمد کی وجہ آدم خور کی ہلاکت تھی۔ دو گھنٹے قبل سڑک چھوڑنے سے لے کر سیفٹی کیچ ہٹانے تک بشمول لنگور کی آواز، سب کام بالکل بہترین انداز میں ہوئے تھے۔ اس وقت میں وہی کیفیت محسوس کر رہا تھا جو کیفیت کوئی مصنف اپنی کتاب کی تکمیل پر محسوس کرتا ہے۔ ایسی کتاب جس کا باب در باب اس کی توقع کے مطابق آگے بڑھتا چلا گیا ہو۔ تاہم میری موجودہ صورتحال میں اختتام اتنا تسلی بخش نہ تھا کیونکہ میں نے اس جانور کو سوتی ہوئی حالت میں پانچ فٹ دور سے ہلاک کیا تھا۔ +میرے ذاتی احساسات شاید آپ کو دل چسپ نہ محسوس ہوں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ آدم خور کا شکار کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں۔ میں آپ کے سامنے وہ دلائل پیش کرتا ہوں جو میں نے خود کو مطمئن کرنے کے لئے دیے۔ امید ہے کہ آپ کو بھی یہ دلائل قائل کر لیں گے: +1۔ شیر آدم خور تھا، اس کی زندگی سے زیادہ اس کی موت مطلوب تھی +2۔ شیر کا نیند یا بیداری کی حالت سے قطع نظر، مارا جانا ہی بہتر تھا +3۔ اگر میں اسے سوتی حالت میں چھوڑ کر چلا جاتا تو بعد میں ہونے والی تمام اموات کا میں براہ راست ذمہ دار ہوتا۔ +تاہم یہ تمام دلائل بھی میرے دل سے یہ خلش نہ نکال پائے کہ میں نے شیر کو ایک بار جگا کر فرار کا موقع دیتے ہوئے گولی کیوں نہ چلائی۔ +شیر مر چکا تھا اور یہ میرا انعام تھا۔ اسے نیچے گرنے اور پھر خراب ہونے سے بچانے کے لئے اسے جتنا جلد ممکن ہوتا، اس جگہ سے ہٹانا بہتر تھا۔ میں نے رائفل کو اسی گرے ہوئے درخت سے ٹکا دیا کیونکہ ابھی اس کا مزید فوری استعمال ضروری نہیں تھا۔ پھر میں سڑک پر پہنچا اور دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ کر "کوووئی" کی آواز نکالی۔ مجھے دوسری بار آواز پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ میرے ساتھی ابھی پہلے بچھڑے سے ہو کر لوٹ رہے تھے کہ انہوں نے گولیوں کی آواز سنی۔ آواز سنتے ہی وہ بھاگ کر ہٹ کی طرف گئے اور دیہاتیوں کو اکٹھا کیا اور میری کوئی سنتے ہی بھاگم بھاگ ادھر آن پہنچے۔ +جب رسیاں اور کلہاڑیاں آ گئیں تو میں انہیں ساتھ لے کر لوٹا۔ شیر کو رسیوں سے باندھ کر اور کچھ اٹھائے اور کچھ گھسیٹتے ہوئے نیچے اتارا۔ ابھی میں اس کی کھال اتارنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ لوگوں نے درخواست کی کہ میں اس کام کو کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دوں۔ کرتکالہ اور دیگر دیہاتوں کے لوگ اگر اپنے دشمن کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پاتے تو بہت مایوس ہوتے۔اس دشمن کو جس کے خوف کے سائے تلے وہ کئی سالوں سے جی رہے تھے۔ +دو چھوٹے چھوٹے درختوں کو کاٹ کر اس پر شیر کو لادا اور پھر ہم ہٹ تک پہنچے۔ میں نے دیکھا کہ کئی لوگ شیر کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر کر میری بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہٹ کے سامنے میں نے شیر کو رکھوایا اور لوگوں سے کہا کہ دو بجے میں کھال اتارنا شروع کر دوں گا کہ دن بہت گرم تھے اور دیر کرتا تو بال جھڑنے لگ جاتے اور کھال خراب ہو سکتی تھی۔ +دو بجے سے قبل اس شیر کا میں تفصیلی معائینہ نہ کر سکا۔ پھر میں نے شیر کو پشت کے بل لٹایا اور کھال اتارنا شروع کی۔ میں نے محسوس کیا کہ اگلے بائیں پنچے کے اندر والی طرف سے زیادہ تر بال گم ہیں اور اس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں جن سے زرد مواد نکل رہا تھا۔ میں نے اس ٹانگ کو وہیں چھوڑا اور باقی کھال اتارنا شروع کی۔ یہ ٹانگ دوسری ٹانگوں کی نسبت پتلی تھی۔ جب باقی کھال اتر چکی تو میں نے سینے سے لے کر اس کے بائیں ٹانگ کے پنجے کی گدی تک گہرا شگاف لگایا۔ جونہی میں نے کھال اتارنا شروع کی اور گوشت سامنے آیا، اس میں چبھے ہوئے سیہی کے کانٹے میں نے یکے بعد دیگرے نکالنا شروع کر دیے۔ میرے ساتھ کھڑے دیہاتی اسے بطور سوغات قبول کرتے گئے۔ ان میں سب سے بڑا کانٹا پانچ انچ لمبا تھا۔ کل کانٹے پچیس سے تیس کے درمیان تھے۔ کھال کے نیچے شیر کے سینے سے لے کر پاؤں تک گوشت صابن کی طرح نرم تھا اور اس کا رنگ گہرا زرد ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیر چلتے ہوئے آواز پیدا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ہی وہ آدم خور بنا۔ سیہی کے کانٹے چاہے جتنے عرصے تک شیر کی کھال یا گوشت میں پیوست رہیں، گلتے نہیں۔ +میں نے اب تک سیہی کے قریب دو سو کانٹے اپنے شکار کردہ آدم خوروں کے جسم سے نکالے ہیں۔ اکثر کانٹے نو انچ تک لمبے اور پینسل جتنے موٹے تھے۔ اکثریت مضبوط پٹھوں میں گھسی ہوئی تھی اور کھال سے ذرا نیچے سے ٹوٹے ہوئے تھے۔ +ظاہر ہے کہ یہ کانٹے سیہی کے شکار کے دوران لگتے ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیر جیسے چالاک اور عقل مند جانور سے اتنی غفلت کیسے ہو سکتی ہے کہ سیہی اپنے کانٹے پھینک سکے۔ سیہی ایسا پیچھے ہٹتے ہوئے ہی کرتی ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کانٹے ٹوٹ کیوں جاتے ہیں کیونکہ وہ بھربھرے نہیں ہوتے؟ مجھے افسوس ہے کہ ان سوالات کا کوئی بھی تسلی بخش جواب میرے پاس نہیں۔ +تیندوے شیروں کی طرح سیہی کو شوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ کانٹوں سے ہمیشہ بچ نکلتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ تیندوے سیہی کو سر سے پکڑ کر ہلاک کرتے ہیں۔ شیر یہ طریقہ کیوں نہیں اپناتے؟ +یہاں اس ضلعی کانفرنس کے دوران مجھے تفویض کردہ تین آدم خوروں میں سے دوسرا بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ موقع ملتے ہی میں آپ کو کنڈا کے آدم خور کی ہلاکت کا واقعہ بھی سناؤں گا۔ + + +مشرقی کماؤں کا جو نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے، اس پر جا بجا کانٹے لگے ہیں۔ ہر کانٹے کے نیچے ایک تاریخ بھی درج ہے۔کانٹا اس علاقے کو اور تاریخ اس دن کو ظاہر کرتی ہے کہ جب سرکاری اطلاع کے مطابق اس جگہ چوگڑھ کے آدم خور نے انسانی جان لی تھی۔ نقشے پر کل چونسٹھ نشانات ہیں۔ میں نقشے کے درست ہونے پر اصرار نہیں کرتا کیونکہ یہ نقشہ میں نے صرف دو سال میں بنایا تھا۔ جو ہلاکتیں میرے علم میں نہ آئیں یا وہ اشخاص جو گھائل ہو کر بعد ازاں ہلاک ہو گئے، وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔ +پہلا کانٹا 15 دسمبر 1925 کا ہے اور آخری 21 مارچ 1930 کا ہے۔ شمالاً جنوباً دو کانٹوں کا انتہائی فاصلہ پچاس میل ہے اور شرقاً غرباً تیس میل۔ یہ علاقہ پندرہ سو مربع میل پر پھیلا ہوا اور پہاڑی ہے۔ یہاں سردیوں میں بہت برف پڑتی ہے اور گرمیوں میں وادیاں جھلسا دینے والی گرمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں چوگڑھ کے آدم خور نے اپنی سلطنت اور دہشت طاری کر رکھی تھی۔ اس پورے علاقے میں بکھرے ہوئے گاؤں اکا دکا گھرانوں سے لے کر سو افراد تک کی آبادی رکھتے تھے۔ سخت پگڈنڈیاں ان دیہاتوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ جب آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث یہ راستے مخدوش ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ رابطے کے لئے آواز سے کام لیتے ہیں۔ کسی اونچی جگہ مثلاً پتھر یا گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر کوئی بھی شخص "کوووئی" کی آواز نکالتا ہے تاکہ پاس والے دیہات کے لوگ خبردار ہو جائیں۔ جب اس کا جواب ملتا ہے تو پہلا شخص تیز اور اونچی آواز میں چلا کر پیغام سنا دیتا ہے۔ ایک دیہات سے دوسرے اور پھر اس سے آگے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پیغام نہایت مختصر وقت میں پورے علاقے میں پہنچ جاتا ہے۔ +اس آدم خور پر قسمت آزمائی کے لئے میں نے اپنا نام ڈسٹرکٹ کانفرنس میں فروری 1929 میں پیش کیا۔ اس وقت کماؤں کے ڈویژن میں تین آدم خور سرگرم تھے۔ چونکہ چوگڑھ کے آدم خور سب سے زیادہ تباہی پھیلا رہا تھا، میں نے پہلے اسی کو چنا۔ +سرکاری طور پر کانٹوں اور تاریخوں سے بھرا نقشہ میرے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے مطابق آدم خور کالا آگر کے شمالی اور مشرقی سرے پر زیادہ سرگرم تھا۔ یہ پہاڑ کوئی چالیس میل لمبا اور ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کے شمالی سرے سے سڑک گذرتی ہے اور کئی جگہ میلوں تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ بعض جگہ یہ سڑک جنگل اور مزروعہ زمین کے درمیان حد بندی کا کام بھی دیتی ہے۔ ایک جگہ سڑک بل کھاتی ہے جو کالا آگر کے فارسٹ بنگلے سے نزدیک ہے۔ یہ بنگلہ ہی میری منزل تھا اور چار دن کے پیدل سفر اور چار ہزار فٹ کی عمودی چڑھائی کے بعد اپریل 1929 کی ایک شام میں اس تک پہنچا۔ اس جگہ آخری انسانی شکار ایک بائیس سالہ نوجوان تھا جو مویشیوں کو چراتے وقت مارا گیا تھا۔ پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو اس جوان کی دادی مجھے دیکھنے آئی۔ +اس نے مجھے بتایا کہ آدم خور نے اس کے واحد رشتہ دار کو ہلاک کر ڈالا ہے۔ جب وہ رو کر کچھ چپ ہوئی تو اس نے اپنی تینوں بھینسیں مجھے بطور چارہ استعمال کرنے کی پیش کش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کی بھینسوں کی مدد سے میں آدم خور کو مار سکا تو اسے سکون اور اطمینان مل جائے گا کہ اس کے پوتے کا بدلہ لیا جا چکا ہے۔ یہ بھینسیں پوری طرح جوان اور میرے لئے بیکار تھیں۔ تاہم براہ راست انکار کرنے سے اس کا دل ٹوٹ جاتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اپنے ساتھ نینی تال سے لائے ہوئے نوجوان بھینسے پہلے باندھوں گا۔ اس کے بعد اس کی بھینسوں کی باری آئے گی۔ اس دوران آس پاس کے دیہاتوں کے نمبردار بھی میرے گرد جمع ہو چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور کو آخری بار دس دن قبل اور بیس میل دور ایک گاؤں میں دیکھا گیا تھا جہاں آدم خور نے میاں بیوی کو مار کر کھایا تھا۔ +دس دن پرانے نشانات کا پیچھا کرنا بے کار تھا۔ نمبرداروں سے کافی دیر تک بات کے بعد جب میں فارغ ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی سرے کے گاؤں ڈلکانیہ کا چکر لگا لوں۔ ڈلکانیہ کالا آگر سے دس میل دور تھا اور آدم خور کی آخری واردات والے گاؤں سے دس میل دور۔ +نقشے پر ڈلکانیہ اور اس کے آس پاس کے گاؤں پر لگے کانٹوں کی کثرت سے معلوم ہوتا تھا کہ آدم خور کا مستقل ٹھکانہ یہیں آس پاس ہی کہیں ہے۔ +اگلی صبح ناشتہ کر کے میں کالا آگر کی طرف فارسٹ روڈ پر چلتا ہوا بڑھا۔ یہ سڑک مجھے پہاڑ کے آخر تک لے جائے گی اور جہاں سے مجھے اس سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا اور دو میل چل کر میں ڈلکانیہ پہنچ جاؤں گا۔ یہ سڑک جو کہ گھنے جنگلات سے گذرتی ہے، کم ہی استعمال ہوتی تھی۔ اس پر پگ تلاش کرتا ہوا میں آگے بڑھا۔ دو بجے میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے سڑک کو چھوڑ کر نیچے اترنا تھا۔ یہاں میں ڈلکانیہ کے بہت سارے بندوں سے ملا۔ یہ لوگ "کوووئی" کی وجہ سے جان چکے تھے کہ میں اس جگہ کیمپ لگانے آ رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس صبح آدم خور نے عورتوں کی ایک جماعت پر حملہ کیا تھا جو ڈلکانیہ سے دس میل دور ایک اور گاؤں کے پاس فصل کاٹ رہی تھیں۔ +میرے ساتھی آٹھ میل سے میرا کیمپ اٹھائے آ رہے تھے۔ وہ بخوشی دس میل اور چلنے کے لئے تیار تھے لیکن جب میں نے یہ سنا کہ اس گاؤں کا راستہ خاصا مشکل اور گھنے جنگلات سے گذرتا ہے، میں نے آدمیوں کو ڈلکانیہ بھیج دیا اور خود اکیلے اس جگہ جا کر شیر کے حملے کا معائینہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ملازم نے فوراً ہی کھانا بنانا شروع کر دیا۔ تین بجے کھانا کھا کر میں دس میل کے سفر پر چل دیا۔ عام حالات میں دس میل اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے لیکن یہاں صورتحال برعکس تھی۔ مشرقی سرے سے گذرتا ہوا راستہ کئی گہری کھائیوں، بڑی بڑی چٹانوں، گھنی جھاڑیوں اور درختوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہر اس طرح کی رکاوٹ جہاں آدم خور کی شکل میں موت چھپی ہو، سے پوری طرح محتاط ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ پیش قدمی ظاہراً بہت سست ہو جاتی ہے۔ ابھی میں کافی دور تھا کہ ڈھلے سائیوں نے مجھے رکنے کا عندیہ دیا۔ +کسی بھی دوسرے علاقے میں رات کو کھلے آسمان تلے خشک پتوں پر سو جانا بہت آرام دہ ہوتا لیکن یہاں اس طرح سونا یقینی موت ہوتا۔ عرصہ دراز سے شب بسری کے لئے مناسب درخت کے انتخاب اور اس پر آرام سے سو جانے کی عادت نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا تھا کہ کہاں اور کیسے سویا جائے۔ اس بار میں نے برگد کا درخت چنا۔ ابھی میں چند ہی گھنٹے سویا ہوں گا کہ درخت کے نیچے چند جانوروں کی آوازیں سن کر جاگ گیا۔ میری رائفل شاخ سے بندھی ہوئی تھی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ریچھوں کا غول "کارپھل" کے درختوں کی طرف جا رہا تھا۔ یہ درخت نزدیک ہی تھے۔ کھاتے وقت ریچھ بہت شور کرتے ہیں۔ جب تک وہ پیٹ بھر کر چلے نہ گئے، میرے لئے سونا ممکن نہ تھا۔ +سورج ابھرے دو گھنٹے گذر چکے تھے کہ میں اس گاؤں پہنچا۔ پانچ ایکڑ کے خالی رقبے میں دو جھونپڑے اور مویشیوں کا ایک باڑہ تھا۔ اس کے ہر طرف جنگل تھا۔ اس گاؤں سے چند ہی گز دور گندم کا وہ کھیت تھا جہاں تین موقعوں پر گھات لگاتا آدم خور بروقت دکھائی دے گیا تھا۔ مجھے وہ جگہ دکھائی گئی۔ جس شخص نے شیر کو دیکھ کر عورتوں کو خبردار کیا تھا، نے بتایا کہ ناکام ہونے پر آدم خور جنگل کی طرف پلٹا اور وہاں دوسرے شیر کے ساتھ مل کر پہاڑی سے نیچے اترا۔ ان دونوں جھونپڑوں کے مکینوں کو رات بھر نیند نہ آئی کیوں کہ شیر رات بھر بولتے رہے اور میری آمد سے ذرا دیر پہلے ہی چپ ہوئے۔ دو شیروں والی بات نے تصدیق کی کہ آدم خور کے ساتھ اس کا بچہ بھی ہے۔ +ہمارے دیہاتی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ جب انہیں علم ہوا کہ میرا کیمپ ڈلکانیہ میں ہے اور میں نے رات جنگل میں گذاری تھی، انہوں نے فوراً کھانا تیار کرنے کی پیش کش کی۔ میں جانتا تھا کہ اس طرح ان لوگوں پر غیر ضروری بار پڑتا۔ میں نے انہیں چائے کا کہا۔ چائے تو موجود نہ تھی لیکن دودھ کا گلاس مل گیا جو بہت زیادہ گڑ کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی میٹھا تھا۔ اگر اس کی عادت ہو جائے تو یہ بہت مزہ دیتا ہے۔ +میزبانوں کی درخواست پر میں رائفل لے کر نگرانی کرتا رہا اور وہ لوگ باقی بچی ہوئی فصل کاٹ کر جلد ہی فارغ ہو گئے۔ دوپہر کو ان لوگوں کی دعائیں لے کر میں اس طرف روانہ ہوا جہاں وادی سے انہوں نے شیروں کی آوازیں سنی تھیں۔ +یہ وادی تین دریاؤں نندھور، لدھیا اور مشرقی گوالا کے ملاپ سے شروع ہو کر جنوب مغرب کی طرف بیس میل جتنی پھیلی ہوئی ہے اور خوب گھنے جنگلات سے بھری ہوئی ہے۔ نشانات کا کھوج لگانا تو ممکن نہ تھا۔ میرے لئے واحد ممکنہ راستہ یا تو ان جانوروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا یا پھر جنگلی جانوروں کی آوازوں کی مدد سے ان کا پیچھا کرنا تھا۔ +آپ میں سے وہ لوگ جو زمین پر رہ کر آدم خوروں کا شکار کرتے ہیں، بخوبی جانتے ��یں کہ جانوروں اور پرندوں کی آوازیں اور ہوا کا رخ اس طرز کے شکار میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس جگہ ان جانوروں اور پرندوں کی تفصیل بتانا تو مناسب نہیں کیوں کہ اس جگہ تین یا چار میل کا مطلب کئی ہزار فٹ کی بلندی یا پستی ہوتا۔ اسی نسبت سے جانور اور پرندے بھی بدل جاتے ہیں کہ جن پر شکاری بھروسہ کرتا ہے اور جن کی مدد سے اس کو اپنی حفاظت اور شکار کی حرکات کے بارے علم ہوتا ہے۔ تاہم ہر سطح یا بلندی اور پستی ، ہر جگہ ہوا کے رخ کی اہمیت یکساں ہی رہتی ہے۔ اس بارے چند الفاظ شاید بے محل نہ ہوں۔ +شیروں کو علم نہیں ہوتا کہ انسانوں میں سونگھنے کی طاقت یعنی قوت شامہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ شیر جب آدم خور بنتا ہے تو وہ انسان پر حملہ کرتے وقت وہی طریقہ اپناتا ہے جو وہ دیگر جنگلی جانوروں کے شکار کے لئے آزماتا ہے۔ یعنی یا تو ہوا کے رخ کی مخالف سمت سے حملہ یا پھر ہوا کے رخ پر لیٹ کر۔ +اس بات کی اہمیت تب واضح ہوتی ہے جب شکاری آدم خور کی تلاش کر رہا ہو تو کس طرف شیر کی موجودگی کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ یعنی کہ شیر گھات لگا رہا ہے یا پھر شکاری کے انتظار میں لیٹا ہوا ہے۔ اگر ہوا شیر سے شکاری کی طرف چل رہی ہو تو شیر کی جسامت، رنگ، بے آواز حرکت کرنے کی صلاحیت بھی فائدہ نہیں دے سکتی۔ +چاہے شیر چھپ کر حملہ کرے یا پھر گھات لگا کر، دونوں صورتوں میں حملہ پشت کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ اس لئے آدم خور کی تلاش میں نکلے شکاری کا ہوا کا رخ جانے بغیر گھنے جنگل میں گھسنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً اگر شکاری کسی ایسی جگہ گھسے جہاں ہوا مخالف سمت میں چل رہی ہو تو شیر کی موجودگی عقب میں ہی ممکن ہے جہاں شکاری کی کم سے کم توجہ ہو سکتی ہے۔ تاہم بار بار ہوا کے رخ سے آگے پیچھے ہو کر وہ خطرے کو عقب کی بجائے دائیں یا بائیں لا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان صفحات پر آپ کو یہ تجویز اتنی بھلی نہ لگے لیکن حقیقی زندگی میں یہ بالکل بہترین کام کرتی ہے۔ جب بھوکا آدم خور گھنے جنگل میں گھات لگائے ہوئے ہو تو پیچھے کے رخ چلنے سے زیادہ بہتر اور محفوظ طریقہ اور کوئی نہیں۔ +شام ہوتے ہوتے میں وادی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ اس دوران نہ تو شیروں کو دیکھا اور نہ ہی کسی پرندے یا جانور کی آواز سے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔ اس جگہ سے نظر آنے والی واحد آبادی پہاڑ کے شمالی سرے پر موجود ایک مویشی خانہ ہی تھا۔ +اس بار شب بسری کے لئے درخت کے چناؤ کے وقت میں کافی محتاط تھا۔ اس لئے رات بغیر کسی پریشانی کے گذری۔ تاریکی چھانے کے کچھ دیر بعد ہی شیروں کی آواز آئی اور پھر چند منٹ بعد مزل لوڈنگ بندوق سے دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد مویشی خانے کے لوگوں کا شور وادی میں گونجا۔ بقیہ رات پر سکون گذری۔ +اگلے دن دوپہر تک میں نے پوری وادی چھان ماری اور اب میں اس ڈھلوان پر چڑھ رہا تھا کہ ڈلکانیہ اپنے بندوں سے جا ملوں کہ میں نے مویشی خانے سے ایک لمبی سی "کوووئی" سنی۔ یہ آواز دوبارہ آئی۔ میرے جواب پر ایک شخص چٹان پر چڑھا اور اس نے چلا کر پوچھا کہ کیا میں وہی صاحب ہوں جو نینی تال سے آدم خور کو مارنے آیا ہوا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں وہی صاحب ہوں۔ اس پر اس نے بتایا کہ دوپہر کو اس کے مویشی وادی میں اس طرف جہاں میں ابھی تھا، والی کھائی میں نکل گئے تھے۔ واپسی پر اس نے گنا تو ایک سفید گائے گم تھی۔ +اس کا خیال تھا کہ اس گائے کو انہی شیروں نے مارا ہے جو گذشتہ رات اسی جگہ سے بول رہے تھے جہاں میں اب کھڑا تھا۔ اس اطلاع پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا او�� کھائی میں تفتیش کی نیت سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی میں اس کھائی کے سرے پر تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ مجھے مویشیوں کے کھروں کے نشانات دکھائی دیے۔ ان نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے مجھے وہ جگہ مل گئی جہاں شیروں نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور پھر کھائی میں لے گئے تھے۔ گھیسٹنے کے نشانات سے پیچھا کرنا عقلمندی نہ ہوتا۔ میں نے وادی کا ایک لمبا چکر لگایا اور اس جگہ دوسرے کنارے سے پہنچا جہاں میری توقع کے مطابق شیر گائے کو لے جاتے۔یہ کنارہ کم ڈھلوان تھا اور اس نوعیت کا تھا کہ اس سے گھات لگانا آسان تھی۔ قدم بقدم اور سائے کی طرح چھپ کر میں آگے بڑھتا رہا۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک تھی۔ ابھی میں تیس گز ہی بڑھا ہوں گا کہ سامنے سے کچھ حرکت دکھائی دی۔ ایک سفید ٹانگ اوپر کو اٹھی اور پھر زور سے غراہٹ سنائی دی۔شاید دونوں شیروں کے درمیان گوشت کے کسی خاص ٹکڑے پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ +کئی منٹ تک میں بالکل خاموش کھڑا رہا۔ ٹانگ بار بار ہلتی رہی لیکن غراہٹ کی آواز دوبارہ نہ آئی۔ اگر میں کسی طرح تیس گز اور آگے بڑھ سکتا اور ایک شیر کو ہلاک کر بھی لیتا تو دوسرا چڑھ دوڑتا۔ اس جگہ تحفظ ناممکن تھا۔ مجھ سے بیس گز دور اور شیروں سے بھی اتنے ہی فاصلے پر ایک بڑا پتھر تھا جو دس یا پندرہ فٹ بلند ہوگا۔ اگر میں اس تک پہنچ پاتا تو میرے لئے گولی چلانا نسبتاً آسان ہو جاتا۔ گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چلتا اور رائفل کو دھکیلتا ہوا میں اس پتھر کے پیچھے پہنچا۔ منٹ بھر رک کر سانس بحال کی اور رائفل بھر کر چٹان پر چڑھا۔ جب میری آنکھیں پتھر کی اوپری سطح کے برابر آئیں، میں نے جھانکا تو دو شیر دکھائی دیے۔ +ایک شیر گائے کا پچھلا حصہ کھا رہا تھا اور دوسرا ساتھ ہی لیٹا ہوا پنجے چاٹ رہا تھا۔ دونوں بظاہر ایک ہی جسامت کے حامل تھ۔ جو پنجے چاٹ رہا تھا، اس کا رنگ کچھ مدھم سا تھا۔ میں نے سوچا کہ بڑی عمر کی وجہ سے کھال کا رنگ مدھم پڑ گیا ہوگا۔ پوری احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ گولی لگتے ہی وہ اچھلا اور نیچے گرا جبکہ دوسرے نے اتنی تیزی سے چھلانگ لگائی کہ مجھے دوسری لبلبی دبانے کا وقت بھی نہیں ملا۔ جس شیر کو گولی لگی تھی، وہ بے حس و حرکت تھا۔ اسے پتھر وغیرہ مار کر میں نے تسلی کی اور پھر اس کی طرف گیا۔ اسے دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ میں نے غلطی سے شیرنی کی بچی کو مار دیا تھا۔ اس غلطی کا خمیازہ مجھے مزید بارہ ماہ کی اضافی محنت اور ضلع کو پندرہ مزید انسانی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ میں خود بھی مرتے مرتے بچا۔ +یہ سوچ کر میری مایوسی کچھ کم ہوئی کہ اگرچہ اس شیرنی نے ابھی تک کوئی انسان نہیں مارا تھا لیکن انسانی ہلاکتوں میں اس نے اپنی ماں کی مدد تو کی ہوگی (یہ اندازہ بعد ازاں درست نکلا)۔ بہرحال اس کی پرورش تو انسانی گوشت پر ہی ہوئی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آگے چل کر یہ بھی آدم خور ہی بنتی۔ +کھلے میدان میں بیٹھ کر اور مناسب اوزاروں کی مدد سے شیر کی کھال اتارنا مشکل نہیں۔ لیکن یہاں میں اکیلا، چاروں طرف گھنی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ میرے پاس اوزار کے نام پر پینسل تراشنے والا ایک چاقو تھا۔ شیر بلاوجہ شکار نہیں کرتے۔ بظاہر مجھے آدم خور سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تاہم میرے ذہن میں کسی جگہ یہ خیال موجود تھا کہ شیرنی لوٹ آئی ہے اور میری ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ +سورج ڈوبنے سے ذرا قبل یہ کام پورا ہوا۔ چونکہ دوسری رات بھی مجھے جنگل میں ہی گذارنی تھی، میں نے اسی جگہ ہی رہنے کا سوچا۔ شیرنی کے پگ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بوڑھی شیرنی ہے اور اس نے ساری زندگی اسی جنگل میں گذاری ہے جہاں تقریباً ہر شخص کے پاس آتشیں اسلحہ ہوتا ہے۔ اسے آدمیوں کے طور طریقوں کا بھی علم ہے۔ اس کے باوجود امکان تھا کہ وہ رات کو کسی وقت دوبارہ گائے کو کھانے آتی اور سورج نکلنے تک ادھر ہی رہتی۔ +درختوں کی تعداد خاصی محدود تھی اور اس رات جو درخت میں نے شب بسری کے لئے چنا، میں نے زندگی بھر اس سے زیادہ تکلیف دہ درخت نہیں دیکھا۔ شیرنی ساری رات وقفے وقفے سے بولتی رہی لیکن صبح ہوتے وقت اس کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔ بالآخر اس کی آواز پہاڑ کے اوپر غائب ہو گئی۔ +میرا جسم اکڑا ہوا، سخت بدن اور بھوک سے بد حال تھا۔ سابقہ چونسٹھ گھنٹوں سے میں نے کچھ نہ کھایا تھا۔ رات کو گھنٹہ بھر بارش بھی ہوئی تھی اور میں اچھی طرح بھیگ چکا تھا۔ صبح کو جب ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی تو میں نیچے اترا۔ شیرنی کی کھال کو میں نے کوٹ میں باندھا اور ڈلکانیہ چلا۔میں نے شیر کی تازہ اتری ہوئی کھال کا کبھی وزن نہیں کیا۔ اگر کھال، پنجے اور سر ملا کر کل وزن چالیس پاؤنڈ ہوتا ہو تو اس پندرہ میل کے اختتام پر یہ وزن کوئی دو سو پاؤنڈ ہو چکا تھا۔ +درجن بھر گھروں کا مشترکہ صحن، جس پر سلیٹ کے پتھر لگے ہوئے تھے، میں میرے آدمی سو سے زیادہ دیہاتیوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میری آمد کا اس وقت تک کسی علم نہ ہوا جب تک کہ میں خون میں لت پت، بھوکا اور ٹھوکریں کھاتا لوگوں کے درمیان میں نہ پہنچ گیا۔ یہ منظر مجھے تادم مرگ یاد رہے گا۔ +میرا چالیس پاؤنڈ کا خیمہ کھیت کے بیچوں بیچ نصب تھا اور گاؤں سے سو گز دور۔ ابھی میں اس تک پہنچا ہی تھا کہ میرے سامنے چائے لا کر رکھ دی گئی۔ میز کی جگہ دو اٹیچی تھے۔ بعد ازاں مجھے دیہاتیوں نے بتایا کہ میرے ہمراہی جو برسوں سے اس طرح کی مہمات میں میرے ساتھ تھے، نے یہ ماننے سے انکار کیا تھا کہ میں آدم خور کا لقمہ بن چکا ہوں۔ دن ہو یا رات، وہ چائے کی کیتلی آگ پر رکھے میرے منتظر رہے۔ انہوں نے ڈلکانیہ اور دیگر دیہاتوں کے نمبرداروں وک الموڑہ یہ اطلاع بھیجنے سے بھی روکے رکھا کہ میں گم ہو چکا ہوں۔ +انتہائی مجبور ہو کر میں نے سارے گاؤں کے سامنے ہی گرم غسل کیا کیونکہ میں بہت گندا اور تھکا ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے کھانا کھایا۔ ابھی میں سونے ہی جا رہا تھا کہ زور سے آسمانی بجلی چمکی اور پھر گرج سنائی دی۔ کھیت میں خیمے کے لئے کیل زیادہ مضبوط نہیں گاڑے جا سکتے۔ ہم نے گاؤں سے کھونٹے منگوائے اور ان کی مدد سے خیمہ پھر سے گاڑا۔ مزید حفاظت کے لئے ہم نے اضافی رسیاں خیمے پر ہر طرف سے لپیٹ کر کھونٹوں سے باندھ دیں۔ آندھی اور طوفان گھنٹہ بھر جاری رہا اور میرے خیمے نے اتنا شدید طوفان پہلے کبھی نہیں جھیلا تھا۔ خیمے کی اپنی کئی رسیاں کینوس سے ٹوٹ کر الگ ہو گئیں لیکن کھونٹے اور اضافی رسیاں اپنی جگہ قائم رہیں۔ اکثر اشیاء بھیگ گئیں اور کئی انچ گہری ندی خیمے کے آر پار بہہ رہی تھی۔ تاہم خوش قسمتی سے میرا بستر نسبتاً خشک تھا۔ دس بجے جب میرے آدمی گاؤں میں اپنے لئے مختص کردہ کمرے میں دروازہ بند کر کے سو گئے تو میں نے بھی رائفل بھری اور سو گیا۔ بارہ گھنٹے بعد میں اٹھا۔ +اگلا دن سامان سکھانے اور شیرنی کی کھال صاف کرنے اور سیدھا کرنے میں گذارا۔ یہ سارا منظر گاؤں والوں نے دیکھا جو اس دن اپنے کاموں سے چھٹی کر کے میری داستان سننے کو آئے ہوئے تھے۔ ہر وہ شخص موجود تھا جس کا ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ دار شیرنی کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔ کئی لوگوں کے جسموں پر شیرنی کے پنجوں اور ��انتوں کے نشانات تادم مرگ ثبت رہیں گے۔ان لوگوں نے میری معذرت کو قبول نہ کیا کہ میں نے شیرنی کی بجائے غلطی سے اس کے بچے کو مار دیا ہے۔ اصل میں آدم خور ایک ہی تھا لیکن گذشتہ کئی ماہ سے لاشیں لانے والے امدادی جماعتوں نے ہمیشہ دو ہی شیرنیاں دیکھی تھیں۔ دو ہفتے قبل ہی میاں بیوی کا ایک ساتھ مارا جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ دونوں شیرنیاں ہی آدم خور تھیں۔ +میرا خیمہ پہاڑ کی بلندی پر تھا اور کافی وسیع علاقہ میرے سامنے تھا۔ میرے بالکل سامنے دریائے نندھور کی وادی تھی جس میں ہر طرح کے جھاڑ جھنکار سے پاک پہاڑی تھی جو دوسری طرف سے نو ہزار فٹ بلند تھی۔ شام کو میں اس جگہ دوربین لے کر بیٹھا اور با آسانی وہ تمام جگہیں تلاش کر لیں جہاں آدم خور نے سرکاری نقشے کے مطابق وارداتیں کی تھیں۔ تین سال میں یہ وارداتیں چالیس مربع میل پر پھیلی ہوئی تھیں۔ +اس علاقے کے جنگل مویشیوں کے لئے وقف تھے۔ مویشیوں کے راستے پر میں نے اپنے چاروں نوعمر بھینسے باندھنے کا سوچا۔ +دس دن تک شیرنی کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ میں ہر روز صبح سویرے بھینسوں کی طرف چکر لگاتا۔ دن بھر جنگل میں ہوتا اور شام کو بھینسوں کو جا کر دوبارہ باندھتا۔ گیارہویں دن مجھے اطلاع ملی کہ میرے خیمے سے اوپر والے پہاڑ پر ایک کھڈ میں ایک گائے ماری گئی ہے۔ میری امیدیں دوبارہ تازہ ہو گئیں۔ جا کر دیکھا تو یہ ایک پرانے تیندوے کا شکار تھی جس کے پگ اکثر یہاں دکھائی دیتے تھے۔ دیہاتیوں نے شکایت کی کہ اس تیندوے نے ان کے ڈھیروں جانور مارے ہیں۔ میں مردہ گائے کے نزدیک ہی ایک کھوہ میں چھپ گیا۔ جلد ہی تیندوا مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا۔ ابھی میں گولی چلانے کے لئے رائفل سیدھی کر ہی رہا تھا کہ گاؤں سے ایک بے چین آواز سنی جو مجھے بلا رہی تھی۔ +اس ہنگامی بلاوے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا تھا۔ ہیٹ اٹھائے میں کھوہ سے نکلا۔ تیندوا پہلے تو حیرت سے اچھل کر چت گرا، پھر غصیلی آواز نکالتے ہوئے فرار ہو گیا۔ میں نے کھڈ سے نکل کر اس آدمی کو چلا کر بتایا کہ میں آ رہا ہوں، اور اس طرف بھاگا۔ +وہ آدمی چڑھائی کا پورا راستہ بھاگتے ہوئے آیا تھا۔ جب اس کا سانس بحال ہوا تو پتہ چلا کہ شیرنی نے گاؤں سے نصف میل دور ایک عورت کو ہلاک کیا ہے۔ راستے میں ہی میں نے صحن میں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ کسی نے میری آمد کا نوٹس بھی نہ لیا۔ ان کے سروں پر سے جھانک کر دیکھا کہ ایک لڑکی زمین پر بیٹھی ہے۔ +جلد ہی لوگوں نے میری آمد کو محسوس کیا اور مجھے راستے دینے کو ہٹنے لگے۔ لڑکی کے پاس پہنچ کر اس کے زخموں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے لوگوں نے بتایا کہ نسبتاً کھلے میدان میں شیرنی نے اس پر حملہ کیا تھا اور بہت سارے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ لڑکی کا شوہر بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ان لوگوں کے شور سے شیرنی بھاگ گئی اور لڑکی وہیں کی وہیں پڑی رہی۔ اس کے ساتھی بھاگ کر گاؤں آئے تاکہ مجھے اطلاع ہو سکے۔ بعد میں جب لڑکی کو ہوش آیا تو وہ خود چل کر گاؤں پہنچی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ لڑکی جلد ہی مرنے والی ہے۔ اس لئے اسے اٹھا کر ہم جائے واردات پر لے چلتے ہیں۔ جب یہ مر جائے گی تو اس کی لاش پر میں چھپ کر شیرنی کو مار سکتا ہوں۔ +ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں اور لڑکی کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ زخمی اور بے بس جانور کا سا تائثر اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا۔ لوگ اتنے جمع تھے کہ مجھے لڑکی کے سانس لینے کے لئے جگہ بنانی پڑی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے کافی غیر مہذب انداز میں لوگوں کو ہٹایا۔ جب سارے مرد چلے گئے تو عورتیں سامنے ��ئیں جو ابھی تک پیچھے تھیں۔ میں نے انہیں گرم پانی لانے کو بھیجا اور اپنی نسبتاً صاف قمیض کو پھاڑ کر پٹیاں بنائیں۔ ایک لڑکی جو تقریباً ہسٹیریائی انداز میں چیخ رہی تھی، کو قینچی لانے بھیجا۔ اس کی واپسی سے قبل ہی پٹیاں بن چکی تھیں اور گرم پانی بھی آ چکا تھا۔ لڑکی گاؤں کی واحد قینچی لے آئی۔ اس کا مالک درزی کافی عرصے پہلے مر چکا تھا۔ درزی کی بیوہ اس قینچی سے آلو اکھاڑتی تھی۔ قینچی زنگ آلود تھی اور اس کے آٹھ انچ لمبے پھل کسی بھی جگہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔ ناکام ہو کر میں نے خون آلود بالوں کو ویسے ہی رہنے دیا۔ +اس لڑکی کو دو بڑے زخم آئے تھے جو شیرنی کے پنجوں سے بنے تھے۔ ایک زخم آنکھوں کے درمیان سے شروع ہو کر سر سے ہوتا ہوا پیچھے گدی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ دوسرا زخم پہلے کے قریب سے شروع ہو کر دائیں کان تک جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بے شمار گہری خراشیں دائیں چھاتی، دائیں کندھے اور گرن پر تھیں۔ ایک گہرا زخم دائیں ہاتھ کی پشت پر بھی تھا جو بظاہر سر کو بچاتے ہوئے لگا۔ +ایک بار میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو شیر کے پیدل شکار پر لے گیا تھا۔ واپسی پر انہوں نے مجھے دو اونس جتنا کوئی زرد رنگ کے محلول کی ایک شیشی دی تھی۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ میں اسے ہمیشہ اپنی شکاری مہمات پر ساتھ رکھوں۔ میری اندرونی جیب میں رکھے رکھے اس شیشی کو ایک سال ہو چکا تھا۔ اس کا کچھ حصہ تو عمل تبخیر سے اڑ چکا تھا لیکن ابھی بھی تین چوتھائی دوائی باقی تھی۔ اس لڑکی کا سر اور جسم دھو کر میں نے اس شیشی کا ڈھکن اتارا اور اس میں موجود آخری قطرہ تک اس لڑکی کے زخموں پر انڈیل دیا۔ اس کے بعد میں نے اس انداز میں سر پر پٹی باندھی کہ اس کی جلد جڑی رہے۔ اس کے بعد میں اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گیا۔ گھر میں ایک ہی کمرہ تھا جو بیک وقت باورچی خانے، سونے کے کمرے وغیرہ کا کام دیتا تھا۔ بقیہ عورتیں میرے پیچھے پیچھے آئیں۔ +اس کے تمام زخم ما سوائے گدی والے زخم کے (جہاں شیرنی کے پنجے زیادہ گہرے گڑے تھے) بھر چکے تھے۔ اس نے اپنے کالے سیاہ بال ہٹا کر مجھے زخم دکھایا جو بالکل ہی بھر چکا تھا اور کھال بھی مل چکی تھی۔ مسکراتے ہوئے اس نے بتایا کہ اسے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ اس کی بہن درزی کے گھر سے غلط قینچی لے کر آئی تھی (ہندوستان میں کٹے ہوئے بال یا گنجی عورت بیوگی کی علامت ہوتی ہے) اگر میرے ڈاکٹر دوست یہ سطریں پڑھ رہے ہوں تو میں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی دی ہوئی زرد محلول کی شیشی نے ایک نوجوان بہادر ماں کی جان بچا لی ہے۔ +جب میں لڑکی کی مرہم پٹی کر رہا تھا تو میرے آدمیوں نے ایک بکری لی اور خون کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں شیرنی نے لڑکی پر حملہ کیا تھا۔ بکری کو ایک جھاڑی سے باندھ کر میں یہاں موجود اکلوتے درخت پر چڑھ گیا۔ سونے کا خیال ہی بے کار تھا کیونکہ میں زمین سے چند ہی فٹ اوپر تھا اور شیرنی ابھی تک بھوکی تھی۔ تاہم اس رات نہ تو شیرنی کی آواز سنائی دی اور نہ وہ ادھر آئی۔ +اگلی صبح زمین کا جائزہ لیتے ہوئے، جس کا مجھے گذشتہ شام وقت نہ مل سکا تھا، میں نے دیکھا کہ لڑکی پر حملے کے بعد شیرنی وادی میں نصف میل وہاں تک گئی تھی جہاں مویشیوں کا راستہ دریائے نندھور سے ہو کر گذرتا ہے۔ اس راستے پر وہ دو میل گئی جہاں سڑک ڈلکانیہ کے اوپر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہاں زمین سخت تھی اور میں اس کے نشانات کھو بیٹھا۔ +دو دن تک ارد گرد کے دیہاتیوں نے اپنے گھروں سے باہر قدم نہ رکھا۔ تیسرے دن مجھے چار ہرکاروں نے آ کر اطلاع دی کہ شیرنی نے ڈلکانیہ سے جنوب میں ایک شکار کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فارسٹ روڈ سے راستہ دس میل ہے اور شارٹ کٹ سے یہ فاصلہ کوئی پانچ میل رہ جاتا ہے۔ جلد ہی میں تیار ہو گیا اور دوپہر کے ذرا بعد میں ان کے ہمراہ چل پڑا۔ +دو میل کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ڈلکانیہ کے جنوب میں پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گئے۔ ہمارے سامنے تین میل چوڑی وادی تھی جہاں شیرنی نے شکار کیا تھا۔ +ہرکارے اس سے زیادہ کچھ نہ جانتے تھے۔ وہ خود موہالی والی طرف اس جگہ سے میل بھر دور رہتے تھے۔ دس بجے انہیں پیغام ملا کہ لوہالی میں ایک عورت کو شیرنی نے مار ڈالا ہے اور وہ مجھے ڈلکانیہ جا کر اس کے بارے اطلاع دیں۔ انہیں یہ اطلاع بذریعہ "کوووئی" ملی تھی۔ +یہ چوٹی جہاں ہم اس وقت کھڑے تھے، بالکل بنجر تھی اور میں یہاں سانس لینے اور سیگرٹ پینے کے لئے رکا۔ اس دوران میرے ساتھی مجھے اس علاقے کے بارے بتاتے رہے۔ اس جگہ سے نزدیک، جہاں ہم کھڑے تھے، ایک پرانا بوسیدہ جھونپڑا تھا جو ایک بڑی چٹان کے نیچے تھا۔ اس کے گرد کانٹوں کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ اس جھونپڑے کے بارے میں سوال کا جواب کچھ یوں ملا کہ یہ جھونپڑا چار سال پہلے ایک بھوٹیا نے بنایا تھا تاکہ وہ اپنی بکریاں گرمیوں اور برسات میں ادھر لا سکے۔ وہ گڑ اور نمک وغیرہ کو ادھر سے ادھر لاتا لے جاتا تھا۔ چند ہفتے بعد اس کی بکریاں انہی لوگوں کے کھیت میں گھس گئیں۔ یہ لوگ جب شکایت کرنے آئے تو دیکھا کہ جھونپڑا خالی تھا۔ اس طرح کے لوگوں کے پاس رکھوالی کے خونخوار کتے ہوتے ہیں۔ اس بھوٹیا کا اسی طرح کا کتا زنجیر سے بندھا مرا ہوا تھا۔ انہیں شک پڑا اور اگلے دن آس پاس کے دیہاتوں کے لوگوں نے مل کر تلاش شروع کی۔ چار سو گز دور آسمانی بجلی سے جلا ہوا ایک برگد کا درخت تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس کے نیچے بھوٹیا کی باقیات میں کھوپڑی اور ہڈیوں کے چند ریزے اور خون آلود کپڑے ملے۔ چوگڑھ کی آدم خور کا یہ پہلا شکار تھا۔ +جہاں ہم ابھی بیٹھے تھے، یہاں سے نیچے اترنا ناممکن تھا۔ انہون نے بتایا کہ نصف میل آگے چل کر ہم اس جگہ پہنچیں گے جہاں ایک مشکل راستہ ہمیں سیدھا نیچے لے جائے گا۔ ان کے گاؤں سے گذر کر یہ راستہ لوہالی جاتا ہے۔ لوہالی یہاں سے دکھائی دے رہا تھا۔ نصف راستہ طے کرنے کے بعد اچانک میں نے بغیر کسی وجہ سے محسوس کیا کہ ہمارا تعاقب ہو رہا ہے۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ اس علاقے میں ایک ہی آدم خور ہے اور اس نے تین میل دور ایک شکار مارا ہے اور وہ اب اس کے پاس ہی موجود ہوگی۔ تاہم یہ مجھے مسلسل یہی محسوس ہوتا رہا۔ ابھی چونکہ ہم گھاس کے قطعے پر تھے، میں نے ساتھیوں کو نیچے بیٹھنے اور میری واپسی تک کوئی حرکت نہ کرنے کا کہا۔ اب میں واپس مڑا تاکہ کچھ تفتیش کر سکوں۔ الٹے قدموں میں واپس چلا اور اس جگہ پہنچا جہاں سے ہم اس کنارے پر چڑھے تھے۔ یہاں سے میں جنگل میں گھس گیا اور اس کھلے علاقے کا جائزہ لے کر واپس اپنے آدمیوں کے پاس پہنچا۔ کسی جانور یا پرندے نے مجھے شیر کی موجودگی کے بارے نہیں بتایا تھا لیکن اب میں نے چاروں ساتھیوں کو اپنے آگے چلنے کا کہا اور سفیٹی کیچ پر انگلی رکھے میں مستقل پیچھے کی طرف نگران رہا۔ +جب ہم اس گاؤں پہنچے جہاں سے میرے ساتھیوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا، انہوں نے رخصت چاہی۔ بخوشی میں نے انہیں اجازت دی۔ ابھی میں نے میل بھر گھنے جنگل سے گذرنا تھا اور اگرچہ تعاقب کا احساس کافی دیر سے غائب ہو چکا تھا، پھر بھی اکیلی جان کی حفاظت کرنا نسبتا�� زیادہ آسان ہوتا۔ چھجے نما کھیتوں سے ذرا نیچے میں نے صاف شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا جہاں سے گاؤں کے لوگ پانی بھرتے تھے۔ اس جگہ نرم کیچڑ میں شیرنی کے بالکل تازہ پگ دکھائی دیے۔ +یہ پگ اسی گاؤں سے آ رہے تھے جہاں میں جا رہا تھا۔ پگ اور تعاقب کے احساس سے مجھے یقین ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے اور یہ میرا یہ چکر بے کار رہے گا۔ میں جنگل سے نکل کر لوہالی کے سامنے پہنچا۔ یہ پانچ یا چھ چھوٹے چھوٹے گھروں کا گاؤں گا۔ ان میں سے ایک مکان کے دروازے کے سامنے کئی افراد جمع تھے۔ +کھلی ڈھلوان سے انہوں نے مجھے کافی دور سے دیکھ لیا اور ان میں سے چند افراد میری طرف بڑھے۔ ان میں سے ایک شخص جو کافی معمر تھا، نے جھک کر میرے پیر چھوئے اور بہتے آنسوؤں سے درخواست کی کہ میں اس کی بیٹی کو بچا لوں۔ اس کی کہانی مختصر مگر دردناک تھی۔ اس کی بیوہ بیٹی جو اس کی واحد رشتہ دار تھی، دس بجے خشک لکڑیاں جمع کرنے گئی تاکہ دوپہر کا کھانا بنا سکے۔ وادی کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی گذرتی ہے اور اس نے ندی کے دوسرے سرے سے پہاڑی اچانک ہی اوپر کو اٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس پہاڑی کے نچلے سرے پر کئی چھجے نما کھیت ہیں۔ سب سب نچلے کھیت کے کنارے جو کہ گھر سے ڈیڑھ سو گز دور تھا، اس نے لکڑیاں چننا شروع کیں۔ تھوڑی دیر بعد دیگر عورتوں نے جو ندی پر کپڑے دھو رہی تھیں، نے چیخ سنی۔ اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیرنی عورت کو اٹھائے جنگل میں غائب ہو رہی تھی۔ یہ جنگل اسی کھیت کے نچلے کنارے سے شروع ہو جاتا تھا۔ بھاگم بھاگ ان عورتوں نے گاؤں پہنچ کر اطلاع دی۔ اس بستی کے لوگ اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ مدد کی کوشش بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اوپر والے گاؤں میں پیغام بھیجا جہاں سے چار افراد مجھے اطلاع دینے آئے۔ پیغام بھیجنے کے نصف گھنٹے بعد زخمی عورت رینگتی ہوئی گھر آن پہنچی۔ اس نے بتایا کہ اس نے شیرنی کو اس وقت دیکھا جب وہ اس پر جست لگانے والی تھی۔ اسے بھاگنے کا کوئی موقع نہ ملا۔ اس نے کھیت سے نیچے چھلانگ لگائی اور شیرنی نے اسے ہوا میں ہی دبوچ لیا۔ دونوں اکھٹے نیچے گریں۔ اس کے بعد اسے ہوش نہ رہا۔ دوبارہ ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ ندی کے پاس پڑی ہے۔ مدد کے لئے وہ کوئی آواز نہ نکال پائی اور مجبوراً گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل گھسٹتی ہوئی وہ گھر واپس آئی۔ +اب کیمپ واپس جانے کا وقت نہ بچا تھا۔ رات گذرانے کے لئے مناسب جگہ کا انتظام بھی لازمی تھا۔ ندی سے ذرا اوپر جہاں عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، پیپل کا ایک بڑا درخت تھا۔ اس درخت کے گرد ایک فٹ اونچا چبوترا تھا جو گاؤں والوں کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے کام آتا تھا۔ +اس درخت کے نیچے میں نے کپڑے اتار کر غسل کیا۔ جب ہوا سے میرا بدن خشک ہو گیا تو میں نے کپڑے دوبارہ پہنے اور رائفل تیار حالت میں لئے شب بسری کے لئے تیار ہو گیا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اتنی اچھی یا محفوظ جگہ نہیں تھی لیکن گاؤں سے بہت بہتر تھی جہاں تاریک اور مکھیوں سے بھرے کمرے میں ایک زخمی عورت سانس لینے کے لئے کوشاں تھی۔ +رات کو عورتوں کے بین سے علم ہوا کہ اس زخمی عورت کی مشکل حل ہو چکی ہے۔ اگلی صبح ادھر سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں اس عورت کی آخری رسومات کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ +اس بدنصیب عورت اور ڈلکانیہ کی لڑکی کے واقعات سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بوڑھی شیرنی کے شکار کا زیادہ تر دارومدار اس کی جوان بچی پر تھا۔ آدم خور کے حملے میں عموماً سو میں سے ایک آدمی بچتا ہے لیکن اس وقت آدم خور ہلاکتوں سے زیادہ گھائل کر رہی تھی۔ یہاں سے نزدیکی ہسپتال کوئی پچاس میل دور تھا۔ جب میں نینی تال لوٹا تو حکومت سے درخواست کی کہ آدم خور کے علاقے میں ہر گاؤں کے نمبردار کو جراثیم کش ادویات اور پٹیاں بھجوا دے۔ اگلے چکر پر میں نے دیکھا کہ میری درخواست قبول ہو گئی تھی اور جراثیم کش ادویات کے سبب بہت ساری جانیں بچ گئی تھیں۔ +میں ڈلکانیہ مزید ایک ہفتہ رکا۔ اس کے بعد میں نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ میں پیر کے دن واپس جا رہا ہوں۔ اس آدم خور کے پیچھے میں ایک ماہ سے لگا ہوا تھا اور کھلی فضاء میں خیمے میں سونا، سارا دن میلوں بے تکان چلنا، ہر قدم کو آخری قدم سمجھنا میرے اعصاب پر اب بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ گاؤں والے میرے جانے کی خبر سن کر بہت پریشان ہوئے۔ لیکن جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں جلد ہی واپس لوٹ آؤں گا، انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش نہ کی۔ +اتوار کو ناشتے کے بعد ڈلکانیہ کا نمبردار میرے پاس آیا۔ اس نے درخواست کی کہ میں گاؤں والوں کے کھانے کے لئے کوئی جانور مار دوں۔ میں نے بخوشی آمادگی ظاہر کی۔ نصف گھنٹے بعد چار مقامی اور اپنے ایک ساتھی کو ساتھ لے کر نکلا۔ میرے پاس اعشاریہ 275 کی رائفل تھی اور کارتوسوں کا ایک کلپ۔ ہم دریائے نندھور کی دوسری طرف سے آگے بڑھے جہاں کیمپ سے میں نے پہاڑی ڈھلوان پر بکثرت گڑھل چرتے دیکھے تھے۔ +میرے ہمراہی دیہاتیوں میں ایک طویل القامت، جناتی جثے اور بگڑے چہرے والا ایک شخص تھا۔ وہ میرے کیمپ میں اکثر آتا تھا۔ چونکہ میں اس کے لئے اچھا سامع نکلا، اس نے مجھے اپنی کہانی اتنی بار سنائی کہ نیند میں بھی میں اسے دہرا سکتا ہوں۔ چار سال قبل اس کی مڈبھیڑ آدم خور سے ہوئی تھی۔ بقیہ کہانی اس کی زبانی سنیں: +صاحب، وہ سامنے صنوبر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟ وہی جو پہاڑی کے سرے والی ڈھلوان کے نچلے کنارے پر ہے؟ جی، وہی صنوبر کا درخت اور اس کے ساتھ وہ سفید بڑی چٹان۔ اسی ڈھلوان کے اوپری سرے پر آدم خور نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ یہ ڈھلوان مکان کی دیوار کی طرح سیدھی ہے۔ ہم پہاڑیوں کے سوا اس پر کوئی نہیں قدم جما سکتا۔ میرا بیٹا جو اس وقت آٹھ سال کا تھا، میرے ساتھ ہی گھاس کاٹنے آیا ہوا تھا۔ ہم گھاس کاٹ کر ان درختوں تک لے جاتے جہاں زمین ہموار ہے۔ +میں اس چٹان کے سرے پر گھاس کو بڑے گٹھڑ کی شکل میں باندھ رہا تھا کہ شیرنی مجھ پر جھپٹی۔ اس کا ایک دانت میری دائیں آنکھ اور ایک میری تھوڑی کے نیچے جبکہ بقیہ دو گردن کے پیچھے گڑ گئے۔ شیرنی کے حملے اور اس کے منہ سے لگنے والی ٹکر سے میں نیچے گرا۔ شیرنی اور میں سینہ بہ سینہ تھے۔ اس کا پیٹ میری ٹانگوں کے درمیان تھا۔ نیچے گرتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ آزاد کئے اور اتفاق سے پیپل کا ایک چھوٹا درخت میرے ہاتھ آ گیا۔ جونہی میں نے اس درخت کو پکڑا، میرے ذہن میں خیال آیا۔ میری ٹانگیں آزاد تھیں اور انہیں سکیڑ کر میں شیرنی کے پیٹ سے ٹکا کر اسے دور پھینک کر بھاگ سکتا تھا۔ شیرنی کی گرفت سے میرے چہرے کے دائیں جانب کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور بے پناہ درد ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے اوسان بحال رکھے۔ صاحب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جوانی میں میرا مقابل کوئی نہ تھا۔ آہستہ آہستہ اور شیرنی کو غصہ دلائے بغیر میں نے اپنے پاؤں اس کے پیٹ پر جما دیے۔ بائیں ہاتھ کو اس کے سینے پر جما کر میں نے جو زور لگایا تو شیرنی کو اٹھا لیا۔ ہم اس وقت بالکل کنارے پر تھے۔ اگر میں نے درخت کو نہ پکڑا ہوا ہوتا تو ہم دونوں ہی نیچے گرتے۔ اس طرح شیرنی نیچے جا گری۔ +میرا بیٹا اتنا گھبرا گیا تھا کہ وہ بھاگ بھی نہ سکا۔ جب شی��نی بھاگ گئی تو میں نے اس کی دھوتی اتاری اور اپنے چہرے اورمنہ کے گرد باندھ لی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گاؤں لوٹا۔ گھر آ کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ میرے سارے دوستوں کو اکٹھا کرے۔ میں مرنے سے قبل ان کو ایک بار دیکھنا چاہتا تھا۔ جب میرے دوست جمع ہوئے اور انہوں نے میری حالت دیکھی تو مجھے چارپائی پر ڈال کر پچاس میل دور الموڑہ لے جانے کو تیار ہو گئے۔ میری مصیبت اور تکلیف بے انتہا تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جہاں پلا بڑھا ہوں، وہیں مروں۔ میں پیاسا بھی تھا۔ انہوں نے پانی میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ گردن کے سوراخوں سے بہہ گیا۔ میرے سر میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ بعد ازاں بہت عرصے تک بے حد تکلیف اور درد کے ساتھ میں موت کا انتظار کرتا رہا۔ موت تو نہ آئی لیکن ایک دن میں ٹھیک ہو گیا۔ +صاحب، اب میں بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہوں۔ میرے بال کھچڑی ہو گئے ہیں اور میرے چہرے پر کوئی شخص کراہت کے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ میری دشمن زندہ ہے اور مسلسل انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے۔ آپ اسے شیر نہ سمجھیں۔ یہ ایک بد روح ہے جو کبھی کبھار شیر کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ صاحب، لوگ کہتے ہیں آپ سادھو ہیں۔ سادھوؤں کی حفاظت پر مامور روحیں بد روحوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ تین دن جنگل میں رہ کر واپس آئے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے آدمیوں نے کہا تھا، بالکل محفوظ اور زندہ سلامت لوٹے ہیں۔ +اس شخص کے جناتی قد کاٹھ سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ جوانی میں وہ کس جسامت اور طاقت کا حامل ہوگا۔ اس طرح کی جناتی قوت کا حامل شخص شیرنی کو اٹھا کر، اپنے سر کو اس کی گرفت سے چھڑا کر نیچے پھینک سکتا ہے جبکہ اس کا آدھا چہرہ شیرنی کے منہ میں ہی رہ گیا تھا۔ +اس شخص نے بطور کھوجی ساتھ چلنے کی پیش کش کی۔ اس کے پاس بہت خوبصورت اور پالش شدہ کلہاڑی تھی جس کا دستہ لمبا تھا۔ اس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی اور ہمارے آگے چلتا ہوا ڈھلوان سے نیچے اترا۔ دریائے نندہ عبور کر کے ہم کئی کھیتوں سے گذرے جو آدم خور کی دہشت کے سبب ویران تھے۔ پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر پتہ چلا کہ انتہائی سخت چڑھائی اور گھاس سے بھری ڈھلوانوں کا سامنا ہے۔ میرا یہ دیوزاد دوست بہت سخت جان تھا۔ میں جگہ جگہ رک کر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ +جنگل سے نکل کر ہم سیدھا گھاس والی پہاڑی ڈھلوان کو ترچھے رخ سے عبور کرتے ہوئے پہاڑی کی طرف بڑھے۔ یہ تقریباً ہزار فٹ بلند تھی۔ اس پہاڑ پر جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی گھاس تھی جہاں میں نے اپنے کیمپ سے گڑھل چرتے دیکھے تھے۔ ابھی ہم چند سو گز ہی بڑھے ہوں گے کہ گڑھل کھڈ سے نکلا اور اوپر کی طرف بھاگا۔ گولی لگتے ہی وہ نیچے گرا اور اسی جگہ گم ہو گیا جہاں سے نکلا تھا۔ گولی کی آواز سن کر ایک دوسرا گڑھل اچھلا اور سیدھا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بھاگا جو انتہائی مشکل چڑھائی تھی۔ جونہی وہ اوپر کی طرف بڑھا، میں نے لیٹ کر رائفل کی شست کو دو سو گز پر درست کیا اور اس کے رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ ابھری ہوئی چٹان کے پیچھے سے نکل کر وہ ہمیں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی۔ وہ گولی لگتے ہی لڑکھڑایا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف چڑھنے لگا۔ دوسری گولی لگتے ہی وہ ہوا میں معلق ہوا اور پھر لڑھکتا ہوا نیچے بڑھا۔ ہم سے سو گز دور ہوتا ہوا وہ ڈیڑھ سو گز نیچے جا رکا۔ +اس بار میں نے جو منظر دیکھا، وہ ایک بار پہلے بھی ایک تیندوے کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔ +جتنی دیر میں میرے ساتھی دونوں گڑھلوں کو اٹھاتے، میں نے نیچے اتر کر خون کے نشانات کا جائزہ لیا۔ راستے پر خون کی بڑی مقدار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گولی کسی نازک جگہ لگی ہے۔ ریچھ عام صورتحال میں بھی کافی خطرناک ہوتا ہے اور زخمی ریچھ کا سامنا نہتے ہو کر کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ +جب میرے ساتھی آن پہنچے تو ہم نے صلاح مشورہ کیا۔ کیمپ ساڑھے تین میل دور تھا۔ ابھی دو بج رہے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ ہم کیمپ جا کر مزید گولیاں لاتے اور پھر ریچھ کو تلاش کرتے اور اسے مار کر اندھیرا ہونے سے قبل کیمپ بھی پہنچ پاتے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ریچھ کا تعاقب کر کے اسے پتھروں اور کلہاڑی سے ہلاک کریں۔ +پہاڑی کافی ڈھلوان تھی اور گھاس پھونس نہ ہونے کے برابر۔ ریچھ کے اوپر رہتے ہوئے ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم اپنا کام کسی دشواری کے بغیر پورا کر لیتے۔ اس طرح ہم آگے بڑھے۔ میں آگے آگے اور پھر تین آدمی میرے پیچھے اور ان کے پیچھے وہ افراد جو اپنی کمر پر مردہ گڑھل اٹھائے ہوئے تھے۔ جہاں میں نے آخری گولی چلائی تھی، اس جگہ پہنچ کر خون کے مزید نشانات دیکھ کر ہمارا حوصلہ اور بلند ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر خون کی لکیر ایک کھڈ میں مڑ گئی۔ یہاں میں اور کلہاڑی والا ساتھی ایک طرف جبکہ بقیہ تین افراد دوسری طرف ہو گئے۔ گڑھل اٹھانے والے افراد ہمارے پیچھے تھے۔ جب ہم دونوں طرف سے تیار ہو گئے تو ہم نے پہاڑی سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہم سے پچاس گز نیچے کھائی کی تہہ میں بانسوں کا ایک جھنڈ تھا۔ اس جھنڈ میں پتھر پھینکنے سے ریچھ کی چیخ سنائی دی۔ ہم چھ کے چھ افراد سر پر پیر رکھ کر اوپر کو بھاگے۔ میں اس طرح کی صورتحال کے لئے ظاہر ہے کہ تیار نہ تھا۔ مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ریچھ ہماری مخالف سمت یعنی نیچے کی طرف بھاگ رہا ہے۔ میں نے چلا کر اپنے ساتھیوں کو صورتحال بتائی۔ پھر ہم نے رخ بدلا اور ریچھ کی طرف بھاگنے لگے۔ ہم میں سے چند ساتھیوں کے پتھر بھی ریچھ کو لگے۔ پتھر مارنے والے کا خوشی کا نعرہ اور ریچھ کی چیخ آئی۔ پھر اس کھائی میں ایک موڑ آیا۔ احتیاط کی وجہ سے ریچھ ہم سے آگے نکل گیا۔ خون کے نشانات کا پیچھا کرنا آسان تھا لیکن یہ پورا علاقہ بڑے بڑے پتھروں سے بھرا ہوا تھا اور ریچھ کسی بھی پتھر کے پیچھے چھپا ہوا ہو سکتا تھا۔ جتنی دیر میرے ساتھی آرام کرنے بیٹھے، میں نے کھائی کے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میرا ساتھی آگے بڑھا تاکہ کھائی میں جھانک سکے۔ میں اس پہاڑی کنگورے پر چڑھا جو کوئی دو سو فٹ نیچے تک دیوار کی طرح سیدھا تھا۔ درخت کو پکڑ کر میں نیچے جھکا تو دیکھا کہ چالیس فٹ نیچے ریچھ ایک غار نما کھڈ میں موجود ہے۔ تیس پاؤنڈ وزنی ایک پتھر اٹھا کر اتنا آگے بڑھا کہ خود میرے اپنے نیچے گرنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے پتھر سر سے اونچا کر کے میں نے پھینکا۔ +پتھر ریچھ کے سر سے چند انچ دور گرا۔ ریچھ ہڑبڑا کر اٹھا اور فرار ہو گیا۔ منٹ بھر بعد وہ پہاڑی کے سرے پر نکلا۔ ایک بار پھر تعاقب شروع ہو گیا۔ زمین مسطح اور نسبتاً خالی تھی۔ ہم چاروں افراد جو کہ خالی ہاتھ تھے، برابر بھاگ رہے تھے۔ میل بھر ہم لوگ پوری رفتار سے بھاگے ہوں گے کہ جنگل سے نکل کر کھیتوں تک آن پہنچے۔ بارش کے پانی سے یہاں کئی گہری کھائیاں بن چکی تھیں۔ انہی میں سے ایک میں ریچھ چھپا ہوا تھا۔ ہم نے اپنے بگڑے چہرے والا ساتھی جو کہ کلہاڑی سے مسلح تھا، کو ریچھ مارنے کے لئے چنا۔ بڑی احتیاط سے وہ ریچھ تک پہنچا اور اپنی خوبصورت کلہاڑی گھا کر اس نے سیدھی ریچھ کے سر پر ماری۔ نتیجہ ہماری توقعات کے بالکل الٹ نکلا۔ کلہاڑی کا پھل ریچھ کے سر سے ٹکرا کر اس طرح پلٹا جیسے وہ کسی ربر سے ٹکرایا ہو۔ غصے سے چیخ کر ریچھ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا۔ ہم لوگ بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے الجھ کر گرے۔ خوش قسمتی سے ریچھ نے ہمارا پیچھا نہ کیا۔ +بظاہر ریچھ کو یہ کھلا علاقہ پسند نہ آیا تھا اور تھوڑی دور جا کر وہ پھر اوٹ میں ہو گیا۔ اس بار کلہاڑی کے استعمال کی باری میری تھی۔ تاہم ریچھ ایک بار کلہاڑی کا اوچھا وار سہہ چکا تھا، میری بو محسوس کر کے محتاط ہو گیا۔ بڑی محنت کے بعد میں اس قابل ہوا کہ ریچھ پر وار کر سکوں۔ بچپن میں میرا خواب تھا کہ میں کینیڈا میں جا کر لکڑہارا بنوں۔ اس لئے میں نے اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ کلہاڑی سے ماچس کی تیلی چیر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے یہ ڈر بھی نہ تھا کہ اگر وار خطا ہوا تو کلہاڑی پتھروں سے ٹکرا کر خراب ہو جائے گی۔ جونہی میں ریچھ سے نزدیک ہوا، میں نے کلہاڑی کا پورا پھل ریچھ کے سر میں گاڑ دیا۔ +ہمارے پہاڑوں میں ریچھ کی کھال بیش قیمت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے جب کلہاڑی کے مالک سے کہا کہ وہ گڑھل کا دگنا گوشت اور ریچھ کی کھال بھی لے سکتا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ گاؤں سے کئی بندے اب ادھر پہنچ چکے تھے۔ وہ لوگ گوشت بانٹنے اور ریچھ کی کھال اتارنے میں مشغول ہو گئے اور میں اوپر چڑھ کر گاؤں میں اس زخمی لڑکی سے آخری ملاقات کرنے چلا گیا جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ اگر اس رات آدم خور میرے خیمے پر حملہ کرتی تو مجھے با آسانی نیند میں ہی ہڑپ کر جاتی۔ +ڈلکانیہ سے آتے ہوئے راستے میں بہت ساری ننگی پہاڑیاں آتی ہیں اور جب میں نے اس مشکل راستے کا ذکر گاؤں والوں سے کیا تو وہ بولے کہ میں ہیرا خان کی طرف سے واپس جاؤں۔ اس کے لئے مجھے اس گاؤں کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا ہوتا اور باقی سارا راستہ اترائی ہی اترائی تھی۔ رانی باغ سے میں بذریعہ کار نینی تال پہنچ سکتا تھا۔ +میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اگلی صبح روانگی کے لئے تیار رہیں۔ سورج نکلنے سے ذرا قبل میں انہیں سامان وغیرہ باندھتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تاکہ میں جب تک ڈلکانیہ کے لوگوں کو الوداع کہہ لوں، میرے ساتھی مجھے آن ملیں۔ پھر میں نے دو میل کی چڑھائی شروع کی۔ جو پگڈنڈی میں نے چنی تھی، وہ نہ تھی جس سے ہم لوگ آئے تھے۔ بلکہ یہ راستہ دیہاتی بازاروں وغیرہ کو آنے جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ +راستہ گہری کھائیوں سے ہو کر گذرتا تھا اور گھنے جنگل، جھاڑیاں وغیرہ بھی راستے میں آتے تھے۔ ایک ہفتے سے شیرنی کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ اس غیر موجودگی کی بنا پر میں زیادہ محتاط ہو چلا تھا۔ کیمپ سے نکلنے کے گھنٹے بھر بعد میں پہاڑ کے اوپری سرے تک بغیر کسی دقت کے پہنچ گیا۔ یہ جگہ بنجر تھی اور چوٹی کے پاس۔ فارسٹ روڈ یہاں سے سو گز دور سے گذرتی تھی۔ یہ بنجر قطعہ ناشپاتی کی شکل جیسا تھا۔ اندازاً سو گز لمبا اور پچاس گز چوڑا۔ اس کے درمیان میں بارش کے پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔ سانبھر وغیرہ یہاں سے پانی پیتے تھے۔ اس پر پگ دیکھنے کے خیال سے میں راستے سے مڑ کر اس طرف آیا جو راستہ اس قطعے سے بائیں ہو کر گذرتا تھا اور ایک ایسی چٹان کے نیچے سے گذرتا تھا جو راستے پر سائبان کی طرح معلق تھی۔ جونہی میں اس تالاب پر پہنچا، میں نے شیرنی کے بالکل تازہ پگ نرم زمین پر ثبت دیکھے۔ وہ اسی طرف سے تالاب پر آئی تھی جہاں سے میں ابھی آیا۔ میری وجہ سے وہ یہاں سے تالاب کو عبور کر کے دائیں طرف کے گھنے جنگل میں گھس گئی۔ اگر میں سامنے کی طرف بھی ا��نا ہی محتاط ہوتا جتنا کہ عقب کی طرف سے تھا، یقیناً میں شیرنی کو پہلے دیکھ لیتا۔ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم اگرچہ یہ موقع تو ضائع ہوا لیکن پھر بھی صورتحال میرے حق میں تھی۔ +اگر شیرنی مجھے نہ دیکھتی تو تالاب عبور کر کے جنگل میں چھپنے کے لئے ہرگز جلدی نہ کرتی۔ اس کے پگوں سے اس کی رفتار ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے چھپ کر مجھے دیکھا تھا کہ میں اکیلا ہوں اور اس کی طرح پانی بھی پینے آؤں گا۔ اس مقام تک میری حرکات قطعی عام سی تھیں۔ اگر میں اسی طرح رویہ اختیار کرتا کہ جیسے مجھے شیرنی کی موجودگی کا علم نہیں، ہو سکتا ہے کہ مجھے دوبارہ موقع ملتا۔ پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے میں نے ہیٹ کے نچلے گوشے سے ہر طرف گہری نظر رکھی۔ کئی بار کھانسا، پانی کو اچھالتا رہا اور پھر بہت آہستگی سے خشک لکڑیاں چننے لگا۔ میرا رخ اب اس عمودی چٹان کی طرف تھا۔ یہاں میں نے مختصر سی آگ جلائی اور چٹان سے ٹیک لگا کر سیگرٹ سلگا لی۔ جب سیگرٹ پی چکا اور آگ بھی ختم ہو گئی تو میں لیٹ گیا۔ بائیں ہاتھ سے تکیہ بنایا اور رائفل کی لبلبی پر ہاتھ رکھے اسے بھی سامنے رکھ لیا۔ +میرے عقب میں موجود چٹان بہت عمودی تھی اور اس پر کوئی بھی جانور نہ چڑھ سکتا تھا۔ میرے سامنے کم از کم بیس گز تک جھاڑ جھنکار وغیرہ سے پاک زمین تھی۔ میں نسبتاً محفوظ تھا۔ اس دوران میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا لیکن پھر بھی مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی مجھے دیکھ رہی ہے۔ میرے ہیٹ کا کنارہ اگرچہ میری آنکھوں پر جھکا ہوا تھا لیکن میری نظروں کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ نہ بن رہا تھا۔ میں نے سامنے موجود جنگل کا انچ انچ چھانا۔ ہلکی سی ہوا بھی نہ چل رہی تھی اور نہ ہی گھاس کا کوئی تنکا تک ہلا۔ میرا اندازہ تھا کہ شیرنی اب اس وقفے میں اپنی جگہ سے نکل کر یا تو گھات لگائے گی یا پھر براہ راست ہلہ بول دے گی۔ +بعض اوقات وقت نہیں گذر پاتا اور بعض اوقات اسے پر لگ جاتے ہیں۔ سر کے نیچے بائیاں ہاتھ کافی دیر پہلے سن ہو چکا تھا۔ پر بھی نیچے وادی سے میرے آدمیوں کی گانے کی آواز بہت جلد ہی ادھر آن پہنچی۔ آواز اونچی ہوتی چلی گئی اور پھر میں نے موڑ پر اپنے ساتھیوں کو آتا دیکھا۔ شاید اسی جگہ پر شیرنی نے مجھے دیکھا تھا اور پانی پی کر فرار ہو گئی تھی۔ ایک اور ناکامی اور اس دورے کا آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ +جب میرے ساتھی آرام کر چکے تو ہم سڑک پر چڑھے اور فارسٹ روڈ کی مدد سے ہیرا خان کی طرف کا بائیس میل کا سفر شروع ہوا۔ دو سو گز آگے جا کر سڑک کھلے قطعے سے اچانک گھنے جنگل میں مڑ گئی۔ یہاں میں نے اپنے ساتھیوں کو آگے چلنے کا کہا اور خود عقب سنبھالا۔ دو میل اسی طرح چل کر ہم نے موڑ پر ایک شخص کو بیٹھے دیکھا جو اپنی بھینسوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ +ناشتے کا وقت ہو چکا تھا۔ میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ پانی کہاں سے ملے گا۔ اس نے سیدھا نیچے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہاں ایک چشمہ موجود ہے جہاں سے گاؤں والے پانی بھرتے ہیں۔ تاہم اگر ہم سیدھا چلتے جائیں تو تھوڑا آگے جا کر ایک چشمہ سڑک ہی سے گذرتا ہے۔ +لوہالی گاؤں وادی کے اوپری سرے پر واقع تھا جہاں گذشتہ ہفتے شیرنی نے عورت کو ہلاک کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے شیرنی کی کوئی اطلاع نہیں۔ اس نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ شیرنی اب ضلع کے دوسرے سرے پر ہو۔ میں نے اس بات کی تردید کی اور اسے ان تازہ پگوں کے بارے بتایا جو میں نے کچھ دیر قبل دیکھے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ بھینسوں کو اکٹھا کر کے گاؤں چلا جائے۔ اس کی دس بھی��سیں تھیں جو اب سڑک کی طرف چر رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ جہاں وہ بیٹھا ہے، جونہی بھینیسں اس جگہ کو چر لیں، وہ انہیں لے کر چلا جائے گا۔ میں نے اسے ایک سیگرٹ دی اور تنبیہہ کر کے چل پڑا۔ اس کے بعد کیا ہوا، مجھے اس کے گاؤں والوں نے کئی ماہ بعد میرے اگلے چکر پر بتایا۔ +اس دن جب وہ آدمی گھر پہنچا تو اس نے جمع شدہ لوگوں کو بتایا کہ کس طرح وہ مجھ سے ملا تھا اور میری تنبیہہ کے بارے بھی بتایا۔ اس نے مجھے موڑ مڑ کر اوجھل ہوتے دیکھا تو وہ سیگرٹ جلانے لگا۔ ہوا چل رہی تھی اور ماچس کی تیلی کو بجھنے سے بچانے کے لئے وہ جھکا۔ ابھی دوبارہ سیدھا نہ ہوا تھا کہ کسی نے اسے دائیں کندھے سے پکڑ کر پیچھے کو کھینچا۔ اس کے ذہن میں فوراً ہی ہمارا خیال آیا۔ بدقسمتی سے ہم اس کی چیخ نہ سن سکے۔ تاہم مدد زیادہ دور نہ تھی۔ اس کی چیخ سنتے ہی اس کی بھینسیں جمع ہو کر شیرنی کی طرف بڑھیں اور اسے بھگا دیا۔ اس کا کندھا اور بازو ٹوٹ چکے تھے۔ بمشکل وہ اپنی ایک بھینس پر سوار ہوا اور بقیہ بھینسوں کے گھیرے میں گاؤں پہنچا۔ اس کے گاؤں والوں نے اس کے زخم باندھ کر اسے بغیر رکے اٹھا کر تیس میل دور ہلدوانی ہسپتال پہنچایا جہاں وہ داخلے کے کچھ دیر بعد مر گیا۔ +قدرت بعض اوقات سامنے آنے والی زندگی کی ڈور چھوڑ کر دوسری کاٹ دیتی ہے۔ کس ڈور کو کٹنا چاہیئے اور کس کو نہیں، اس کی ذمہ داری ہم قسمت، نصیب یا جو چاہے کہہ لیں، پر ڈال دیتے ہیں۔ +ایک ماہ تک میں کھلے میدان میں انسانوں سے کم از کم سو گز دور خیمے میں سوتا رہا۔ صبح سے شام تک جنگلوں میں پھرتا رہا، کئی بار عورت کا بھیس بھی بدلا اور ان جگہوں پر گھاس کاٹی جہاں کوئی انسان جانے کی ہمت نہ کرتا تھا۔ اس دوران شیرنی نے مجھے ہضم کرنے کے کئی نادر مواقع ضائع کئے۔ آخری موقع پر قسمت نے میری بجائے اس بدقسمت شخص کو شیرنی کے سامنے پیش کر دیا۔ + + +فروری میں میں ڈلکانیہ لوٹا۔ بہت سارے آدمی مارے جا چکے تھے اور ان سے بھی کہیں زیادہ گھائل ہوئے تھے۔ چونکہ شیرنی کے بارے ابھی کوئی تازہ اطلاع نہ تھی، ہر جگہ اس کی موجودگی کے یکساں امکانات تھے۔ میں نے اس جگہ ہی کیمپ لگانے کا سوچا جس جگہ سے میں زیادہ واقف تھا۔ +ڈلکانیہ پہنچتے ہی مجھے اطلاع ملی کہ جہاں ہم پچھلی مرتبہ ریچھ کا شکار کیا تھا، اس جگہ ایک گائے ماری گئی ہے۔ جو آدمی گایوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا، اسے یقین تھا کہ یہ کام شیرنی کا ہی ہے۔ اب اس گائے کی لاش ایک غیر آباد کھیت کے کنارے موجود ہے اور اس جگہ سے صاف دکھائی دے رہی ہے جہاں میرا خیمہ لگنے والا ہے۔ گدھ اس جگہ بار بار چکر لگا رہے تھے اور دور بین سے دیکھنے پر میں نے بہت سارے گدھوں کو اس درخت پر بیٹھے دیکھا جو لاش کے بائیں جانب تھا۔ چونکہ لاش کھلی فضاء میں تھی اور گدھ نیچے نہ اترے تھے، میں نے یہ نتائج نکالے: +1۔ گائے کو تیندوے نے مارا ہے +2۔ تینداو شکار کے پاس ہی چھپا ہوا ہے +اس لاش والے کھیت سے نچلا کھیت کافی ڈھلوان اور جھاڑ جھنکار سے بھرپور تھا۔ آدم خور ابھی زندہ تھی اس لئے اس جگہ سے پیش قدمی کرنا مناسب نہ تھا۔ +دائیں طرف گھاس سے بھری ہوئی ڈھلوان تھی لیکن علاقہ کھلا تھا اور دکھائی دیے بغیر میرا ادھر سے جانا ممکن نہ تھا۔ پہاڑ سے ایک گہری اور درختوں سے بھری ہوئی کھائی شروع ہو کر دریائے نندھور کو جاتی تھی۔ راستے میں یہ کھائی لاش کے قریب سے گذرتی تھی۔ وہ درخت جو کھائی کے کنارے پر تھا، اب گدھوں کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا۔ میں نے کھائی سے ہی آگے بڑھنے کا سوچا۔ جتنی دیر میں م��ں اس علاقے سے بخوبی واقف دیہاتیوں سے پیش قدمی کا پروگرام بنا رہا تھا کہ میرے ملازمین نے چائے تیار کر دی۔ دن ڈھل رہا تھا۔ اگر میں عجلت کرتا تو اس جگہ کا جائزہ لے کر اندھیرا ہونے سے پہلے واپس آ سکتا تھا۔ +نکلنے سے قبل میں نے اپنے آدمیوں سے خبردار رہنے کا کہا۔ یہ بھی کہا کہ اگر وہ گولی چلنے کے بعد مجھے اس جگہ دیکھیں تو تین چار بندے سیدھے اس کھلے علاقے سے ہو کر میری طرف آئیں۔ اگر گولی نہ چلتی اور صبح تک میں واپس نہ آتا تو میری تلاش شروع کرتے۔ +کھائی رس بھری کی جھاڑیوں سے پٹی پڑی تھی۔ ہوا پہاڑی سے نیچے کی طرف آ رہی تھی اور میں بہت آہستگی سے بڑھ رہا تھا۔ سخت چڑھائی کے بعد میں گدھوں کے درخت تک پہنچ گیا۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ لاش یہاں سے دکھائی نہیں دیتی۔ دوربین سے دیکھنے پر یہ جگہ ہموار دکھائی دی تھی لیکن نزدیک آ کر پتہ چلا کہ یہ ہلالی شکل میں ہے اور درمیان میں کم از کم دس گز چوڑی اور سروں پر پتلی ہے۔ اس کا بیرونی کنارہ گھنی جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے اندورنی سرے پر پہاڑی تیزی سے نیچی ہوتی جاتی تھی۔ یہاں سے دو تہائی جگہ تو دکھائی دے رہی تھی۔ بقیہ ایک تہائی جہاں گائے کی لاش تھی، دیکھنے کے لئے مجھے یا تو دور سے لمبا چکر لگانا پڑتا یا پھر گدھوں والے درخت پر چڑھتا۔ +میں نے سوچا کہ درخت پر چڑھتا ہوں۔ میرے اندازے سے گائے بیس گز دور تھی۔ یہ بھی عین ممکن تھا کہ تیندوا اس سے بھی کم فاصلے پر ہوتا۔ اگر گدھ اس درخت پر نہ ہوتے تو میں تیندوے کو خبردار کئے بناء اس پر نہ چڑھ پاتا۔ درخت پر بیس کے قریب گدھ جمع تھے اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ اوپری شاخوں پر جگہ کم پڑ رہی تھی، اس لئے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور لڑائی میں شدت آتی جا رہی تھی۔ درخت پہاڑ سے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا اور کھائی کے اوپر ایک شاخ زمین سے دس فٹ کی بلندی پر پھیلی ہوئی تھی۔ رائفل اٹھائے میں احتیاط سے اس شاخ تک پہنچا۔ جونہی گدھوں نے دوبارہ لڑائی شروع کی، میں اس شاخ پر چڑھ گیا۔ اس جگہ غلط قدم یا پیر پھسلنے کا مطلب سو فٹ نیچے چٹانوں پر گرنا تھا۔ میں ایک دوشاخے پر پہنچ کر بیٹھ گیا۔ +گائے کی لاش اب صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے چند لقمے ہی کھائے گئے تھے۔ دس منٹ میں اسی جگہ پر رکا کیونکہ میری نشست کافی آرام دہ تھی۔ میں نے دو گدھ اس جگہ اترتے ہوئے دیکھے کہ شاید ان کے لئے درخت پر ناکافی جگہ تھی۔ ابھی وہ بمشکل رکے ہی ہوں گے کہ دوبارہ اڑے۔ اسی وقت میری طرف کی جھاڑیاں ہلیں اور اس سے ایک عمدہ نر تیندوا نکل کر باہر آیا۔ +ہماری زندگی میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی وجہ پتہ نہیں چلتی۔ جس گائے کی لاش پر میں نے تیندوے کو مارا، اس کے مالک ہی کے بارے سوچیں۔ یہ آٹھ سالہ لڑکا تھا اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ دو سال قبل اس کی ماں کو اسی گائے کے لئے چارہ کاٹتے ہوئے آدم خور نے ہلاک کیا تھا۔ بارہ ماہ بعد اس کے باپ کا یہی حشر ہوا۔ گھر کے چند برتن جو تھے وہ باپ کے قرض چکانے میں لگ گئے۔ اس لڑکے نے اپنی زندگی کا آغاز گائے کے مالک کے طور پر کیا۔ اس تیندوے نے اس گاؤں کی دو یا تین سو گایوں کو چھوڑ کر صرف اسی کی گائے کو چنا (مجھے ڈر ہے کہ میں نے جو لال رنگ کی بہترین نسل کی بہترین گائے اسے دی، سے اس کی تشفی نہ ہو پائی۔ اس گائے سے اس لڑکی کی پوری زندگی وابستہ تھی۔) +میرے نوجوان بھینسے جو میں پچھلے چکر پر ایک دیہاتی کی نگرانی میں دے کر گیا تھا، نے ان کا خوب خیال رکھا تھا۔ اپنی آمد کے اگلے دن میں نے انہیں باندھنا شروع کر دیا۔ آدم خور کی طرف سے موہوم سی امید تھی کہ وہ انہیں ہلاک کرے۔ +وادی نندھور سے پانچ میل نیچے ایک بڑی چٹان کی جڑ میں ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ آدم خور نے سابقہ چند مہینوں میں اس جگہ سے چار افراد ہلاک کئے تھے۔ تیندوے کی ہلاکت کے بعد اسی گاؤں سے چند اشخاص آئے کہ میں اپنا کیمپ ان کے گاؤں کے پاس لگاؤں۔ انہوں نے بتایا کہ آدم خور اس بڑی چٹان پر اکثر دکھائی دیتی ہے اور غالب امکان ہے کہ وہ اسی جگہ کسی غار میں رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی صبح چند عورتوں نے گھاس کاٹتے وقت شیرنی کو دیکھا تھا۔ اب گاؤں والے انتہائی دہشت زدہ تھے اور گھر سے نکلنا دوبھر ہو چکا تھا۔ ان سے ہر ممکن مدد کا وعدہ کر کے اگلی صبح میں گاؤں کی مخالف سمت سے پہاڑی پر چڑھا اور دوربین سے اس پوری چٹان کا جائزہ ڈیڑھ گھنٹے تک لیتا رہا۔ پھر میں نے وادی عبور کی اور گہری کھائی کی مدد سے اوپر گاؤں پر موجود چٹان پر چڑھا۔ یہاں راستہ بہت مشکل اور میری امید کے خلاف تھا۔ اس میں نیچے گرنے کا بھی اندیشہ تھا جو براہ راست گردن ٹوٹنے پر ہی منتج ہوتا۔ اس جگہ اپنا دفاع کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ +دو بجے تک میں نے ہر وہ جگہ دیکھ لی جس کی مجھے ضرورت پڑ سکتی تھی اور کیمپ کا رخ کر چکا تھا تاکہ جا کر ناشتہ کر سکوں۔ ایک بار مڑ کر دیکھنے پر پتہ چلا کہ دو آدمی میری طرف بھاگتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ان سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ اسی صبح شیرنی نے اس کھائی میں ایک بیل ہلاک کیا ہے۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں سے میں صبح کو اوپر گیا تھا۔ ایک آدمی سے یہ کہہ کر کہ وہ میرے کیمپ جا کر میرے ملازمین کو کھانا اور چائے بھیجنے کا کہے، میں دوسرے آدمی کے ساتھ الٹے قدموں وادی کی جانب مڑا۔ +یہ کھائی دو سو فٹ گہری اور سو فٹ چوڑی تھی۔ نزدیک پہنچے تو گدھ اڑنے لگ گئے۔ افسوس کہ گدھوں نے کھال اور ہڈیوں کے سوا سب کچھ ہڑپ کر لیا تھا۔ ان ہڈیوں سے گاؤں بمشکل سو گز ہی دور تھا لیکن چٹان ناقابل عبور تھی۔ میرا رہنما مجھے کھائی میں چوتھائی میل نیچے لے گیا جہاں مویشیوں کی پگ ڈنڈی گذرتی تھی۔ بلند ہو کر یہ راستہ گھنے جنگلوں سے بار بار گذرتا ہوا آخر کار گاؤں جا ختم ہوتا تھا۔ گاؤں پہنچ کر میں نے نمبردار سے کہا کہ گدھوں نے بیل کی لاش کو ختم کر دیا ہے اور یہ بھی وہ ایک نو عمر بھینسا اور ایک چھوٹی مگر مضبوط رسی مہیا کرے۔ جتنی دیر میں یہ چیزیں ملتیں، میرے دو آدمی کھانا اور چائے لے کر دوسرے دیہاتی کے ہمراہ پہنچ گئے۔ +جب میں اس کھائی میں داخل ہوا تو سورج ڈوبنے والا تھا۔ میرے پیچھے کئی آدمی تھے جو ایک جوان اور قوی الجثہ بھینسے کو لا رہے تھے۔ یہ بھینسا نمبردار نے میرے لئے نزدیکی گاؤں سے خریدا تھا۔ جہاں بیل ہلاک ہوا تھا، سے پچاس گز دور صنوبر کا ایک درخت پہاڑ سے اکھڑ کر نیچے گرا تھا اور اس کا ایک سرا کھائی کی زمین میں دفن تھا۔ بھینسے کو اس درخت سے باندھ کر سارے افراد واپس چلے گئے۔ اس علاقے میں درخت نہیں تھے۔ میری نشست کی ممکنہ جگہ اس کھڈ میں گاؤں والے کنارے پر موجود ایک دراڑ تھی۔ بہت مشکل کے ساتھ میں اس دراڑ تک پہنچا جو دو فٹ چوڑی اور پانچ فٹ لمبی تھی۔ کھائی کی تہہ یہاں سے بیس فٹ نیچے تھے۔ دراڑ نیچے جا کر کچھ اس طرح کی ہو گئی تھی مجھے وہ حصہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دراڑ کچھ اس زاویے پر تھی کہ جب میں اس میں بیٹھتا تو شیرنی کی متوقع آمد میرے عقب سے ہوتی جبکہ بھینسا میرے سامنے تیس گز دور تھا۔ +ابھی سورج ڈوبا ہی تھا کہ بھینسا اچانک ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا رخ دراڑ کی طرف تھا۔ اسی وقت ایک پتھر لڑھکتا ہوا نیچے آیا۔ جس طرف سے آواز آئی تھی، اس طرف گولی چلانا ممکن نہ تھا۔ دیکھے جانے کے ڈر سے میں بالکل چپ چاپ اور ساکت ہو کر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد بھینسے کا رخ آہستہ آہستہ بائیں جانب میری طرف ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ ہے، وہ میرے بالکل نیچے ہے۔ پھر شیر کا سر میرے نیچے سے نکلا۔ شیر کے سر پر گولی چلانا صرف انتہائی ہنگامی حالت میں ہی بہتر ہے۔ دوسرا اس وقت میری ہلکی سی بھی حرکت شیر کو میری جگہ سے با خبر کر دیتی۔ ایک یا دو منٹ تک یہ سر بالکل ساکت رہا پھر اچانک ہی یہ آگے بڑھا۔ ایک ہی چھلانگ میں شیر بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر ایک ہی چھلانگ میں بھینسے پر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بھینسا شیر کی طرف رخ کئے ہوئے تھا۔ شیر اس تیز رفتاری سے بھینسے کے پہلو میں پہنچا اور ایک ہی چھلانگ میں اسے زاویہ قائمہ پر جا لیا۔ سامنے سے نہ جانے کی وجہ سینگوں سے زخمی ہونے کا ڈر تھا۔ نہ تو دانت جمانے کے لئے شیر کو کوشش کرنا پڑی اور نہ ہی کوئی جد و جہد۔ دو بھاری جسموں کے ٹکراؤ کی آواز آئی اور بس۔ اب شیر بھینسے پر لیٹا ہوا اس کے گلے کو دبوچے ہوئے تھا۔ عام خیال کیا جاتا ہے کہ شیر گردن توڑ کر جانور کو مارتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ شیر دانتوں سے مارتے ہیں۔ +شیر کا دائیاں پہلو میری طرف تھا۔ اپنی اعشاریہ 275 کی رائفل سے میں نے احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔ بھینسے کو چھوڑ کر شیر بغیر کوئی آواز نکالے جست لگا کر یہ جا وہ جا۔ یقیناً شیر کو گولی نہیں لگی۔ بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی کہ نشانہ کیوں خطا ہوا۔ اگر شیر نے مجھے نہیں دیکھا یا رائفل کا شعلہ اسے نہیں دکھائی دیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ پلٹے۔ اس لئے رائفل کو دوبارہ بھر کر میں تیار ہو بیٹھا۔ +شیر کے فرار کے بعد بھینسا بالکل ہی ساکت رہا۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید گولی شیر کی بجائے بھینسے کو لگی ہے۔ دس یا پندرہ منٹ بہت طویل ہو کر گذرے۔ اس کے بعد شیر کا سر دوبارہ اسی جگہ میرے نیچے سے نمودار ہوا۔ پھر وقفہ، پھر شیر آہستہ آہستہ سامنے آیا۔ بھیہنسے کے پاس جا کر وہ رکا اور اس نے بھینسے کو دیکھنا شروع کیا۔ شیر کا پورا جسم اس جگہ سے میرے سامنے تھا۔ دوسری بار مجھ سے وہی غلطی نہ ہوتی۔ اس بار میں نے بہت احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلائی۔ میری توقع کے بالکل الٹ، شیر گرنے کی بجائے جست لگا کر بائیں جانب عمودی ڈھلوان پر چڑھ گیا اور پتھر نیچے لڑھکنے لگے۔ +تیس گز کے فاصلے سے اور نسبتاً بہتر روشنی میں شیر پر چلائی گئی دو گولیاں جو میلوں دور تک دیہاتوں میں سنی گئی ہوں گی، اور میرے سامنے بھینسے کی لاش تھی جس پر ایک یا دو گولیوں کے سوراخ ہوں گے۔ یقیناً میری نظر میں فرق آ گیا تھا۔ یا چڑھائی میں رائفل کے دیدبان ہل گئے تھے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نگاہ جمانے سے بصارت کی کمزوری نہ نکلی۔ رائفل کے دیدبان بھی بظاہر ٹھیک تھے۔ واحد امکان یہی تھا کہ میرا نشانہ خراب تھا۔ +شیرنی کی تیسری بار آمد کا کوئی امکان نہ تھا۔ اگر وہ آتی بھی تو اتنی کم روشنی میں گولی چلانا یا اسے زخمی کرنا بیکار ہوتا جبکہ بہتر روشنی میں میں اس پر دو گولیاں ضائع کر چکا تھا۔ اب میرا یہاں رکنا بے کار تھا۔ +سارے دن کی مشقت سے میرے کپڑے ابھی تک گیلے تھے اور بتدریج ٹھنڈی ہوتی ہوا مزید ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی۔ میری نیکر پتلے خاکی کپڑے کی تھی اور چٹان سخت اور ٹھن��ی۔ گاؤں میں چائے کا گرم گرم کپ میرا منتظر تھا۔ یہ تمام وجوہات چاہے جتنی عمدہ ہی کیوں نہ ہوں، مجھے آدم خور کی وجہ سے ادھر ہی رکنا تھا۔ اندھیرا گہرا ہوا چلا تھا۔ پون میل کا سفر گہری کھائیوں، بڑے بڑے پتھروں اور گھنے جنگل سے ہو کر گذرتا تھا۔ باوجود اس کے کہ گاؤں والوں نے کل شیرنی دیکھی تھی، باوجود اس کے کہ میں نے بظاہر آدم خور پر دو گولیاں چلائی تھیں، مجھے شیرنی کی اصل موجودگی کا کوئی علم نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس میل دور ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ پچاس گز دور سے مجھے دیکھ رہی ہو۔میری نشست جتنی بھی غیر آرام دہ تھی، بہتر یہی تھا کہ میں اسی جگہ صبح ہونے تک رہتا۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا، مجھے یہ خیال تنگ کرتا رہا کہ رات کے اندھیرے میں شیرنی پر گولی چلانا اتنا آسان کام نہیں تھا جتنا کہ میں نے فرض کر لیا تھا۔ اگر یہ جانور دن کی روشنی میں نہ مارا جا سکا تو پھر اسے قدرتی موت مرنے کے لئے چھوڑ دینا پڑے گا۔ صبح کی روشنی ہوتے ہوتے یہ خیال اچھی طرح میرے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے میں پھسلا اور زمین پر کمر کے بل گرا۔ میری ٹانگیں آسمان کی طرف ہو گئیں۔ ساری رات کی سردی نے مجھے اکڑا دیا تھا۔ خوش قسمتی سے میں ریت پر گرا اور مجھے یا رائفل کو خراش تک نہ آئی۔ +اتنی صبح کے وقت پورا گاؤں بیدار تھا۔ فوراً ہی انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان کے سوالات کے جواب میں میں نے صرف اتنا کہا کہ میں فرضی شیر پر خالی کارتوس چلا رہا تھا۔ +بھڑکتی آگ کے پاس بیٹھ کر اور چائے دانی خالی کرنے کے بعد میری ہمت کچھ بحال ہو گئی۔ اب گاؤں بھر کے مردوں اور لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر میں دوبارہ اسی جگہ لوٹا اور اس جگہ کھائی کے اوپر کھڑا ہوا جس جگہ میں نے رات بسر کی تھی۔ اب میں نے لوگوں کو بتایا کہ کس طرح شیر اس جگہ سے نکلا اور میرے گولی چلانے پر وہ اس طرف بھاگا۔ جونہی میں نے کھائی کی طرف اشارہ کیا، سارا ہجوم چلایا کہ "صاحب، شیر وہاں مردہ پڑا ہوا ہے۔" رات بھر جاگنے کے بعد شاید میری آنکھیں تھک گئی تھیں، لیکن بار بار دیکھنے پر بھی شیر غائب نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں نے پوچھا کہ بیس یا تیس منٹ بعد میں نے دوبارہ کیوں گولی چلائی؟ میں نے بتایا کہ کس طرح شیر دوبارہ اسی جگہ سے نکلا اور کس طرح میں نے اس پر گولی چلائی جب وہ بھینسے کے پاس کھڑا تھا اور گولی لگتے ہی وہ کیسے بھاگ کر بائیں جانب چڑھا۔ فوراً ہی غلغلہ بلند ہوا "صاحب، دوسرا شیر وہاں مردہ پڑا ہے۔" اس بار آوازوں میں گاؤں بھر کی لڑکیاں اور عورتیں بھی شامل تھیں جو دیر سے پہنچی تھیں۔ دونوں شیر ایک ہی جسامت کے تھے اور ساٹھ گز دور مردہ پڑے تھے۔ +دوسرے شیر کے بارے پوچھنے پر دیہاتیوں نے بتایا کہ سابقہ چار ہلاکتوں کے مواقع اور پھر بیل کی لاش کے پاس کھوجی جماعت کو ہمیشہ ایک ہی شیر دکھائی دیا تھا۔ شیروں کے ملاپ کا موسم نومبر سے اپریل تک پھیلا ہوتا ہے۔ اگر دونوں شیروں میں سے ایک آدم خور ہوتی تو لازماً اس نے اپنا ساتھی تلاش کر لیا تھا۔ +جہاں میں بیٹھا تھا، اس سے دو سو گز دور نیچے ایک عمودی راستہ تلاش کر لیا گیا اور سارے گاؤں والے میرے پیچھے چل پڑے۔ نزدیک جانے پر میری امیدیں اچانک بڑھ گئیں کہ یہ ایک بوڑھی شیرنی تھی۔ نزدیکی بندے کو رائفل تھما کر میں گھٹنوں کے بل جھکا اور اس کے پنجوں کو دیکھا۔ جس دن شیرنی نے گھاس کاٹتی عورتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ اپنے پیروں کے بہت خوبصورت نشانات چھوڑ گئی تھی۔ یہ پہلے پگ تھے جو میں نے اس آدم خور کے دیکھے تھے۔ میں نے ان ��و بغور دیکھا تھا۔ ان سے ہی علم ہوا تھا کہ شیرنی ایک بہت پرانی مادہ ہے جس کے ناخن اتنے بڑھ چکے ہیں کہ میں نے زندگی بھر کسی شیر کے اتنے بڑے ناخن نہیں دیکھے۔ ان وجوہات کی بنا پر آدم خور کو سو مردہ شیروں میں سے با آسانی پہچانا جا سکتا تھا۔ میری مایوسی کی انتہا دیکھیں، یہ مردہ بوڑھی شیرنی آدم خور نہیں تھی۔ جب میں نے یہ بات گاؤں والوں کو بتائی تو انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پچھلے موقع پر میں نے خود کہا تھا کہ آدم خور ایک بہت پرانی شیرنی ہے اور اب جب وہ میرے سامنے مردہ پڑی ہے تو میں اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ حالانکہ جس جگہ سے مری پڑی ہے، اس سے نزدیک ہی ان کے چار آدمی مختصر وقت میں مارے گئے ہیں۔ ان سب دلائل کے باوجود میرے پاس شیرنی کی پاؤں کی زیادہ اہمیت ہے جبکہ سب شیروں کے پاؤں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ +ان حالات میں دوسرا شیر نر ہی ہو سکتا تھا۔ جب میں شیرنی کی کھال اتارنے کی تیاری میں تھا تو ایک جماعت جا کر نر کو لے آئی۔ اس طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی۔ کافی مشقت کے بعد وہ لوگ ایک خوبصورت نر شیر کو میرے پاس لائے۔ +دس گھنٹے قبل مردہ اور اکڑے ہوئے شیروں کی کھال ایسے وقت اتارنا جب ارد گرد لوگ جمع ہوں اور سورج پشت جلا رہا ہو، ،میری زندگی کے تلخ ترین تجربات میں سے ایک ہے۔ دوپہر کو جا کر یہ کام مکمل ہوا۔ میرے آدمیوں نے بہت احتیاط سے ان کھالوں کو لپیٹا اور ہم پانچ میل دور کیمپ جانے کو تیار ہو گئے۔ +صبح کے دوران میں نے ارد گرد کے دیہاتوں کے نمبرداروں کو بتایا کہ چوگڑھ کی شیرنی زندہ ہے۔ انہیں تمام ممکنہ احتیاط کرنی ہوگی ورنہ شیرنی لازماً فائدہ اٹھائے گی۔ اگر میری ہدایات پر عمل کیا جاتا تو آگلے مہینوں میں آدم خور اتنے شکار نہ کر پاتی۔ +اگلے چند ہفتے تک آدم خور کی کوئی اطلاع نہ ملی۔ اس کے بعد میں ڈلکانیہ سے روانہ ہو گیا تاکہ ترائی میں ہونے والی سرکاری میٹنگ میں شریک ہو سکوں۔ +مارچ 1930 میں ہمارے ضلع کے کمشنر ویوان آدم خور کے علاقے سے گذر رہے تھے۔ بائیس کو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وہ کالا آگر میں میرے منتظر ہیں، فوراً پہنچوں۔ نینی تال سے کالا آگر تک پچاس میل کا سفر ہے۔ خط کے دو دن بعد میں کالا آگر کے فارسٹ بنگلے میں مسٹر اور مسز ویوان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا جہاں یہ لوگ مقیم تھے۔ +ناشتے کے بعد ویوان نے بتایا کہ اکیس تاریخ کو ان کی آمد کے بعد، جب وہ لوگ برآمدے میں چائے پی رہے تھے، آدم خور نے بنگلے کے صحن میں گھاس کاٹتی ایک عورت کو ہلاک کر دیا اور اٹھا کر لے گئی۔ انہوں نے فوراً رائفلیں اٹھائیں اور اپنے چند ملازمین کے ہمراہ پیچھے روانہ ہوئے۔ عورت کی لاش انہیں ایک بڑے درخت کے نیچے جھاڑی میں ملی۔ بعد ازاں میں نے اس جگہ کا معائینہ کیا تو پتہ چلا کہ شیرنی ویوان وغیرہ کی آمد پر لاش کو چھوڑ کر نیچے اتری اور لاش کی جگہ سے پچاس گز دور رس بھری کی ایک جھاڑی میں چھپ گئی۔ اس بڑے درخت پر ویوان کے لئے اور دو دیگر درختوں پر دوسرے افراد کے لئے مچانیں باندھی گئیں۔ جونہی مچانیں تیار ہوئیں، یہ لوگ ان پر بیٹھ گئے۔ تاہم پوری رات شیرنی واپس نہ آئی۔ +اگلی صبح لاش کو مذہبی رسومات کے لئے لے جایا گیا۔ انہوں نے اس جگہ ایک نو عمر بھینسا باندھ دیا جسے شیرنی نے اسی رات مار دیا۔ یہ جگہ بنگلے سے نصف میل دور تھی۔ اگلی شام کو دونوں میاں بیوی مچان بندھوا کر بیٹھے۔ چاند نہ نکلا تھا اور دن کی روشنی مدھم ہو چکی تھی کہ انہوں نے کسی جانور کو آتے سنا۔ پھر وہ جانور دکھائی بھی دیا۔ ناکافی روشنی کی وجہ سے وہ اسے ریچھ سمجھے۔ بدقسمتی سے یہ شیرنی ہی تھی۔ اگر وہ لوگ غلطی نہ کرتے تو یقیناً آدم خور اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ دونوں میاں بیوی اچھے نشانچی ہیں۔ +یہ لوگ پچیس تاریخ کو کالا آگر سے نکلے اور اسی دن میرے چار نو عمر بھینسے ڈلکانیہ سے آن پہنچے۔ چونکہ شیرنی اب چارے کے لئے تیار تھی، میں نے یہ چاروں فارسٹ روڈ سے چند سو گز دور بندھوا دیے۔ تین راتیں مسلسل شیرنی ان بھینسوں سے چند فٹ کے فاصلے سے گذرتی رہی لیکن انہیں چھوؤا تک نہیں۔ چوتھی رات بنگلے کے نزدیک والا بھینسا مارا گیا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ اسے تیندوؤں کے ایک جوڑے نے ہلاک کیا ہے جو گذشتہ رات بنگلے کے اوپر بول رہے تھے۔ میں اس علاقے میں گولی نہ چلانا چاہتا تھا کہ شیرنی فرار ہو جاتی۔ لیکن اگر انہیں نہ مارا جاتا تو وہ میرے سارے بھینسے مار ڈالتے۔ میں نے ان کا پیچھا کیا اور بھینسے کی لاش سے ذرا دور دھوپ سینکتے ہوئے گھات لگا کر ہلاک کر دیا۔ +کالا آگر بنگلے سے فارسٹ روڈ کئی میل تک گھنے جنگلات سے گذرتی ہے۔ کماؤں کے دیگر حصوں کے مقابلے یہاں سانبھر، کاکڑ، سور وغیرہ اور پرندے بھی بکثرت ہیں۔ دو بار میں نے ان جنگلات میں خون کے نشانات دیکھے اور اندازہ لگایا کہ شیرنی نے سانبھر مارا ہے لیکن تلاش نہ کر پایا۔ +اگلے دو ہفتوں تک میں دن کا وقت اسی فارسٹ روڈ کے دونوں اطراف گشت میں گذارا۔ دو بار میں شیرنی کے نزدیک بھی پہنچا۔ پہلی بار جب میں کالا آگر کے سرے پر واقع ایک غیر آباد گاؤں گیا تھا۔ یہ گاؤں آدم خور کی سرگرمیوں کی وجہ سے خالی ہو چکا تھا۔ واپسی پر میں نے مویشیوں کی گذرگاہ پکڑی جو گھوم کر فارسٹ روڈ کی طرف جاتی ہے۔ یہاں پتھروں کے ڈھیر کے پاس پہنچ کر میں ٹھٹھک کر رک گیا۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا۔ اس جگہ فارسٹ روڈ تقریباً تین سو گز دور ہوگی۔ یہاں کنارے سے راستہ ہٹ کر چند گز سخت ڈھلوان اختیار کرتا ہوا دائیں مڑتا ہے اور پہاڑی پر سو گز تک جاتا ہے۔ اس راستے پر دائیں جانب درمیان میں پتھروں کا یہ ڈھیر تھا۔ ان پتھروں کے ڈھیر کے بعد راستہ ایک تنگ سا موڑ کاٹ کر ان پتھروں کے بائیں آ جاتا ہے۔ آگے چل کر ایک اور تنگ موڑ اور پھر یہ فارسٹ روڈ سے جا ملتا ہے۔ +اس راستے سے میں پہلے بھی کئی بار آ چکا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے پتھروں کے ڈھیر سے گذرتے ہوئے جھجھک محسوس ہوئی۔ ان سے بچنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ میں کئی سو گز گھنے جنگل سے گذرتا یا پتھروں کے اوپر سے لمبا چکر کاٹ کر گذرتا۔ میرے پاس لمبے چکر کا وقت نہ تھا کہ سورج ڈوبنے والا ہی تھا اور مجھے دو میل مزید چلنا تھا۔ اگر میں پہلا راستہ اختیار کرتا تو مجھے شدید خطرے سے دو چار ہونا پڑتا۔ چاہے مجھے کتنا ہی برا لگے، مجھے انہی پتھروں سے قریب سے ہو کر ہی جانا تھا۔ چونکہ ہوا پہاڑی کے نیچے سے اوپر کی طرف چل رہی تھی، میں بائیں جانب موجود گھنی گھاس کا قطعہ نظر انداز کر کے ساری توجہ دائیں طرف پتھروں پر ہی مرکوز رکھ سکتا تھا۔ سو فٹ کے بعد میں خطرے سے باہر ہوتا۔ یہ فاصلہ میں نے قدم بقدم طے کیا۔ میرا چہرہ ان پتھروں کی طرف اور رائفل شانے سے لگی ہوئی تھی۔ اگر کوئی مجھے دیکھتا تو ہنسی نہ روک پاتا۔ +ان پتھروں سے تیس گز دور ایک کھلا قطعہ تھا جو راستے کے دائیں جانب سے شروع ہو کر پہاڑی پر پچاس یا ساٹھ گز تک چلا جاتا تھا اور اس کے اور ان پتھروں کے ڈھیر کے درمیان ایک گھنی جھاڑی حائل تھی۔ اس قطعے میں ایک کاکڑ چر رہا تھا۔ میں نے اسے پہلے دیکھا۔ اسے براہ راست دیکھنے کی بجائے میں نے آنکھوں کے گوشے سے دیکھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے سر اٹھایا لیکن اپنی طرف متوجہ نہ پا کر اس نے ساکت ہی کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔ عموماً جب ان جانوروں کو احساس ہو کہ ان پر توجہ نہیں دی جا رہی تو وہ بھاگتے نہیں۔ پہلے موڑ پر پہنچ کر میں نے کنکھیوں سے دیکھا تو کاکڑ دوبارہ گھاس چرنے لگ گیا تھا۔ +ابھی اس موڑ سے میں تھوڑا سا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا سیدھا پہاڑی کے اوپر کی طرف بھاگا۔ چند ہی قدموں میں واپس موڑ پر تا۔ اسی وقت میں نے راستے کی نچلی طرف والی جھاڑیاں ہلتی دیکھیں۔ لازماً کاکڑ نے اسے دیکھا تھا اور جس جگہ جھاڑیاں ہل رہی تھیں، واحد جگہ تھی جہاں سے کاکڑ شیرنی کو دیکھ سکتا تھا۔ جھاڑی میں حرکت کا سبب پرندہ بھی ہو سکتا تھا اور شیرنی بھی۔ تاہم آگے جانے سے قبل ذرا سی تفتیش لازمی ہو گئی تھی۔ +راستے پر پتھروں سے نکلنے والے چھوٹے سے چشمے کے سبب لال مٹی کیچڑ کی شکل میں تھی۔ اس جگہ قدموں کے نشانات بالکل واضح تھے۔ اس سے گذرتے ہوئے میں نے بھی اپنے نشانات چھوڑے تھے۔ یہاں اب پتھروں سے شیرنی کے کودنے اور اس وقت تک میرے پیچھے آنے کے نشانات تھے جب تک کہ کاکڑ نے بول کر اسے خبردار نہ کر دیا۔ یقیناً شیرنی اس پورے علاقے سے بخوبی واقف تھی۔ پتھروں پر مجھے شکار نہ کر سکنے کے بعد اب وہ اگلے موڑ پر گھات لگانے جا رہی تھی کہ کاکڑ نے اس کا کھیل بگاڑ دیا۔ شاید اب وہ گھاس میں چھپ کر اگلے موڑ پر مجھے جا لینے کی کوشش کرے۔ +اب راستے پر مزید چلنا بے وقوفی تھی۔ میں نے کاکڑ کے فرار کے راستے کو ترجیح دی۔ بائیں مڑ کر نیچے اترا اور کھلے میدان سے ہو کر میں فارسٹ روڈ تک جا پہنچا۔ اگر اس وقت دن کی روشنی باقی ہوتی تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی نہ بچ پاتی۔ پتھروں سے نکلنے کے بعد سے سارے حالات میری موافقت میں تھے۔ اس علاقے سے ہم دونوں ہی بخوبی واقف تھے۔ شیرنی کو میرے ارادے کا علم نہ تھا جبکہ میں اس کے ارادے سے بخوبی واقف تھا۔ تاہم یہ سب باتیں بیکار تھیں کیونکہ تاریکی چھانے میں اب کم ہی وقت رہ گیا تھا۔ +میں نے پہلے بھی بتایا کہ خطرے کے وقت میری چھٹی حس بیدار ہو کر اپنا کام کرتی ہے۔ مزید اس بارے کچھ کہنا کہ یہ کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ، موضوع سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس موقع پر میں نے نہ تو شیرنی کو دیکھا اور نہ ہی اس کی آواز سنی، نہ ہی پرندوں یا چرندوں نے کوئی اطلاع دی لیکن پھر بھی مجھے صاف اور بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ پتھروں کے پیچھے موجود ہے۔ اس دن میں بہت دیر سے جنگل میں تھا، کئی میل کا سفر بھی طے کیا اور بالکل کوئی خطرہ نہ محسوس کیا۔ جونہی پتھروں کے نزدیک پہنچا مجھے اچانک ہی علم ہو گیا کہ یہاں میرے لئے خطرہ ہے۔ چند منٹ بعد کاکڑ نے مجھے اور آس پاس کے جنگل کو شیرنی کی موجودگی سے خبردار کر دیا۔ مڑ کر تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ شیرنی کے پگ میرے اپنے قدموں کے نشانات کے اوپر موجود تھے۔ + + +غلیل اور مزل لوڈر بندوق کے درمیان میں ایک مختصر عرصہ میں نے تیر کمان سے بھی شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اس دوران میں کبھی شکار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا پھر بھی مجھے ان دنوں کے بارے سوچ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے۔ تاہم میں نے فطرت سے اپنا تعلق جوڑ لیا اور اس سے سیکھی ہوئی چیزیں میرے لیے ساری زندگی ہی مسرت کا سبب بنی ہیں۔ +تاہم یہ علم میں نے سیکھا نہیں بلکہ جذب کیا ہے۔ یہ وہ علم نہیں جو آپ کو کسی کتاب میں ملے، یہ علم آپ کو مسلسل اور تھوڑا تھوڑا کر کے سیکھتے ہیں او�� اس میں آپ کی دلچسپی کبھی کم نہیں ہوتی اور یہ علم کبھی نہ تو پرانا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل ہوتا ہے۔ ساری زندگی سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ +آج بہار ہے اور آپ کے سامنے درخت پر پھول کھلے ہوئے ہیں۔ پھولوں کی کشش سے مختلف پرندے اس پر منڈلا رہے ہوں گے، بعض ان پھولوں کا رس پی رہے ہوں گے تو کئی ایسے بھی ہوں گے جو ان پھولوں پر منڈلاتی شہد کی مکھیوں کو شکار کر رہے ہوں گے، بعض پھولوں کی پتیوں سے پیٹ بھر رہے ہوں گے تو شہد کی مکھیاں شہد کی تیاری میں جٹی ہوئی ہوں گی۔ کل پھولوں کی جگہ پھل لے لیں گے اور مزید مختلف نوعیت کے پرندے اس درخت پر آئے ہوئے ہوں گے۔ ہر قسم کے پرندے کا قدرت میں اپنا کام ہوتا ہے۔ ایک قسم کے پرندے اگر فطرت کی خوبصورتی کا حصہ ہوتے ہیں تو دوسرے پرندے اپنی خوش کن آواز سے رس بھرتے ہیں تو دیگر کا کام قدرت کے باغ کی ترویج میں حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ +موسم در موسم، سال بہ سال منظر بدلتا رہتا ہے۔ ہر بار پرندوں کی اگلی نسل اپنے پرکھوں کا کام سنبھالتی ہے اور ان کی نسل اور تعداد بدلتی رہتی ہے۔ طوفان سے درخت کی شاخیں ٹوٹتی ہیں یا درخت مر جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا درخت لے لیتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ +راستے میں آپ کے سامنے شاید گھنٹہ بھر قبل ایک سانپ گذرا ہے۔ یہ سانپ راستے کے دائیں کنارے سے بائیں کو جا رہا تھا اور اس کی موٹائی تین انچ کے لگ بھگ ہوگی اور آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سانپ زہریلا ہے۔ کل اسی راستے پر یا کسی اور راستے پر آپ کسی اور سانپ کے نشان دیکھیں گے جو آپ سے پانچ منٹ ہی قبل بائیں سے دائیں گذرا ہوگا اور اس کی موٹائی شاید 5 انچ رہی ہو اور زہریلا نہ ہو۔ +اسی طرح جو کچھ آپ نے آج سیکھا، وہ آپ کے آئندہ سیکھے جانے والے علم کا اضافہ ہوگا۔ سیکھے جانے والے علم کی مقدار کا انحصار آپ کے سیکھنے کی صلاحیت پر ہوگا اور یہ کہ آپ زیادہ سے زیادہ کتنا سیکھ سکتے ہیں۔ علم جمع کرنے کے عمل کے بعد، چاہے وہ ایک برس پر محیط ہو یا پھر 50 برس پر، آپ کو ہمیشہ یہی لگے گا کہ آپ ابھی علم سیکھنے کے پہلے مرحلے پر ہی ہیں اور فطرت کا پورا مضمون آپ کے سامنے آپ کا منتظر ہے کہ آپ کب اسے جذب کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اگر آپ کو سیکھنے میں دلچسپی نہ ہو یا آپ سیکھنا نہ چاہتے ہوں تو آپ کچھ بھی نہیں سیکھ سکیں گے۔ +ایک بار میں ایک بندے کے ساتھ خوبصورت جنگل میں ایک کیمپ سے دوسرے کی طرف جاتے ہوئے 12 میل چلا۔ اپریل کا مہینہ چل رہا تھا اور چاروں طرف بہار ہی بہار چھائی ہوئی تھی۔ درخت، جھاڑیاں اور بیلیں، سب ہی پوری طرح سبز اور پھولوں سے ڈھکی تھیں۔ پھولوں پر تتلیاں منڈلا رہی تھیں اور پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ سفر کے خاتمے پر میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ سفر کیسا رہا اور کیا وہ لطف اندوز ہوا؟ جواب ملا کہ "نہیں، راستہ انتہائی دشوار تھا"۔ +پہلی جنگ عظیم کے بعد میں برٹش انڈیا کے بحری جہاز کاراگولا سے بمبئی سے ممباسہ جا رہا تھا۔ ہم میں سے پانچ افراد اوپری منزل پر تھے۔ میرا ارادہ تھا کہ ٹانگانیکا جا کر ایک گھر بناؤں جبکہ دیگر چار افراد کینیاجا رہے تھے۔ ایک بندے کا ارادہ تھا کہ وہ وہاں اپنے خریدے ہوئے فارم ہاؤس کی دیکھ بھال کرے گا جبکہ دیگر تین افراد شکار کے لیے جا رہے تھے۔ چونکہ مجھے بحری سفر راس نہیں آتا، اس لیے میں نے زیادہ تر وقت تمباکو نوشی کے کمرے کے ایک کونے میں اونگھتے ہوئے گذارا۔ باقی لوگ ساتھ بیٹھے تاش کھیلتے رہے تھے۔ ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو ان میں سب سے کم عمر ساتھی دوسروں سے کہہ رہا تھا کہ "پچھلے سال میں نے دو ہفتے فارسٹ آفیسر کے ساتھ سینٹرل پراونس میں گذارے تھے اور مجھے شیروں کے بارے سب کچھ پتہ ہے۔" +ظاہر ہے کہ یہ دو انتہائی مختلف مثالیں ہیں تاہم ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب تک آپ کو دلچسپی نہ ہو، تب تک آپ جس راہ پر چل رہے ہوں، آپ کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا اور اسی طرح اگر آپ سیکھنا نہ چاہیں اور فرض کر لیں کہ دو ہفتوں میں آپ وہ سب کچھ سیکھ سکتے ہیں جو پوری زندگی میں بھی سیکھنا ممکن نہ ہو، تو آپ کو اس کے بارے کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔ + + +ویکی کتب پر اختیارات کی درخواست دینے کے لیے اس صفحہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ + + +بہت سے دیگر ویکی کتب بھی موجود ہیں؛ جن میں سے کچھ بڑے ویکی کتب درج ذیل ہیں: + + +میں عثمان خان ہوں، صوبہ پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھتا ہوں لیکن ریاض سعودی عرب میں مقیم ہوں۔ + + +ان تمام صفحات کی فہرست جو حذف کے لیے نامزد کیے گئے ہیں۔ + + +اس کتاب کی تحریر کو (بغیر تبدیل کیے, مصنف کا حوالہ دے کر) کوئی بھی شائع کر سکتا ہے۔تدوین یا کسی بھی قسم کی تشریح، وضاحت یا اضافہ شامل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ۔ +==واقعہ ذبح اسماعیل یا اسحاق== + + +اگر آپ خود مصور یا تصویر ساز ہیں تو درج ذیل اجازت ناموں میں سے کسی ایک اجازہ کے منتخب کرسکتے ہیں: +خالق جملہ حقوق سے دستبردار ہوچکا ہے: +حقوق تصنیف واشاعت کی مدت ختم ہوچکی ہے: + + +مصنف اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے تحریر لکھتا ہے کہ میری اس کتاب کی تحریر کو (بغیر تبدیل کیے, مصنف کا حوالہ دے کر)کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔تدوین یا کسی بھی قسم کی تشریح، وضاحت یا اضافہ شامل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ۔ + + +معاشرتی قوانین کا نفاذ بذریعہ قوت؟ +سوال: کیا اسلامی حکومت لباس کے حوالے سے طاقت یا جبر کا استعمال کر سکتی ہے کہ کسی مخصوص لباس کو پہننے سے روکنے کے لیے سزا دے؟ +جواب:جی ہاں ایسا بالکل کیا جا سکتا ہے۔ +سوال: جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کا نہیں کہا تو اسلامی حکومت کیسے کسی کو زبردستی ایک مخصوص لباس پہننے پر مجبور کر سکتی ہے؟ کوئی ایک آیت دکھائیں کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو لباس کے حوالے سے مجبور کر سکتا ہے؟ +جواب: اسلامی حکومت کسی کو زبردستی ایک مخصوص لباس یا یونیفارم پہننے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کے چند خواص بتا دئیے ہیں یعنی جو شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اس کے مطابق کوئی بھی لباس چاہے مشرقی ہو یا مغربی پہنا جا سکتا ہے۔ +اسلامی حکومت کسی کو ایسا لباس پہننے سے روک سکتی ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا موجب بن سکتا ہو۔ ایسا لباس جو شرم کے حصوں کو نہ چھپائے۔اس حوالے سے قرآن کریم کی ایک آیت ہے کہ +”تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواه طلب کرو، اگر وه گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے“ (ترجمہ: محمد جونا گڑھی) +آیت میں لفظ الْفَاحِشَةَ آیا ہے۔ اس کی عام سی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ +فحشاء ایسی تمام برائیاں ہیں جو کھلی ہوئی اور صریح ہوں۔ ان کا ارتکاب عوام میں ہو۔ جس کے لیے باآسانی گواہ میسر آ سکیں ۔ اس کے اندر وہ تمام برائیاں آ گئیں، جو قوتِ شہویہ کی زیادتی سے پی��ا ہوتی ہیں یا جن سے قوت شہویہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔معاشرے میں بگاڑ کا خدشہ ہو۔ +اس کے ساتھ ساتھ منکرات کی تعریف بھی دیکھ لیں۔ +منکر ات ہر وہ کام جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو، جس کا ضرر دوسروں یعنی معاشرے کو پہنچے(اس لحاظ سے فحشاء بھی منکرات میں شامل ہے) +غیر مناسب لباس بھی فحشاء اور منکرات کے زمرے میں آتا ہے۔جہاں تک سوال کا تعلق ہے کہ کسی کو ”اسلامی حکومت“ میں زبردستی غیر مناسب لباس پہنے سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں تو اس کے لیے اسی آیت یعنی سورۃ النساء کی آیت 15 میں فحشاء کی سزا گھروں میں روک دینا قرار دی گئی ہے۔ یعنی فحشاء پھیلانے والی کے لیے اس کا گھر ہی سب جیل (Sub Jail) قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس کی فحاشی کی نوعیت غیر مناسب لباس ہو گا تو اسلامی حکومت اسے بزور طاقت گھر تک محدود کر سکتی ہے۔ایسی صورت میں یہ گھر تک محدود کرنا غیرمناسب لباس پہننے سےبذریعہ قوت روکنا ہی تو ہوگا ، اس روکنے کا حکم اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں ،اسلامی حکومت تو بس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہے۔ +سوال ہمارے مطابق قرآن پاک میں حجاب ایک تجویز ہے جو صرف بُرے لوگوں سے بچاؤ کے لیے ہیں۔ ہم کسی کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کر سکتے نہ ہی حجاب پر بین لگا سکتے ہیں۔ +جواب: چلیں مان لیا کہ حجاب صرف بُرے لوگوں سے بچاؤ کے لیے صرف ایک تجویز ہے۔ اب اگر کوئی اس تجویز پر عمل نہ کرے اور برے لوگ تنگ کرے تو کیا اللہ تعالیٰ سے گلہ کیا جائے گا کہ کیسا اسلام ہے جس میں برے لوگ تنگ کرتے ہیں؟ ڈاکٹر علاج کے لیے تجاویز دیتا ہے کہ یہ پرہیز نہ کیا تو نقصان ہو گا۔ اب اگر بدپرہیزی کی تو ڈاکٹر کا کیا قصور؟ اللہ تعالیٰ کو تو خواتین کی عزت و ناموس کا اتنا خیال ہے کہ عورتوں کے بارے میں بُری افواہ پھیلانے والوں اور تنگ کرنے والوں کے لیے موت کی سزا تک بھی مقرر کر دی ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات میں درج ہے۔ +”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ +”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے“ +سخت فتنے کے دور میں اسلامی قوانین نافذ کرتے ہوئے جب تک پہلے اقدام(آیت 59) یعنی عورتوں کے چادرلینے پر عمل درآمد نہیں ہو گا کیسے دوسرے حصے پر عمل کیا جائے کہ صرف فتنہ پردازوں ہی سزا دی جائے؟(آیت 61 اور 61)۔اسلام پورے معاشرے کی تربیت کرتا ہے۔ وہ مردوں کو عورتوں سے پہلے نگاہیں نیچے رکھنے کی ہدایت کرتا ہے ، جو مرد اس ہدایت پر عمل نہیں کرے گا وہ جلد ہی دوسرے اقدامات کے ذریعے ،جیسے عورتوں کے چادر لینے کے بعد، سب کے سامنے آ جائے گا اور سخت سزا پائے گا۔ +غیر اسلامی ملک میں پردے کے احکام +سوال: اگر کوئی ایسا ملک ہو جہاں اسلامی حکومت نہیں توکیا وہاں کوئی کسی پر لباس کے حوالے سے زبردستی کر سکتا ہے؟ +جواب: جی نہیں،ایسی صورت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔مسلمان صرف خود پر ہی انفرادی حیثیت میں کوئی چیز لاگو کر سکتے ہیں مگردوسرے کو صرف نصیحت کی جاسکتی ہے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے مکی دور میں صرف نصیحت کی اور اس دور میں جو آیات وحی ہوئیں ان کا تعلق بھی انہی وعظ و نصیحت سے تھا۔ مدینہ میں جب نبی کریم ﷺ کو حکومت ملی تو انہوں نے اجتماعی قوانین کا نفاذ فرمایا۔ +قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿الأعراف: ٣٣﴾ +”اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے“ (۷: ۳۳) +قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿الأنعام: ١٥١﴾ +”اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو“ (۶: ۱۵۱) +یعنی فواحش کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلامی نظام میں حکومت اس سے روکے گی اور غیر اسلامی نظام میں مسلمان خود ہی خود کو روکے گا۔ +سوال اسلامی حکومت کو لباس کے حوالے سے زبردستی کا اختیار کس نے دیا؟ +جواب: اسلای حکومت کسی بھی غیر مناسب لباس کو بذریعہ طاقت روک کر سزا دے سکتی ہے جیسا کہ اوپر سوال کے جواب میں بھی بتایا گیا ہے۔اب اسے یہ اختیار کس نے دیا اس کے لیے چند آیات دیکھیں۔ +دنیا میں جو سزا دینی ہے وہ بھی قرآن کریم میں کوڑوں کی صورت میں موجود ہے۔آخرت میں اس کی سزا اللہ تعالیٰ بھی دیں گے۔ دنیا میں وہ لوگ سزا نافذ کریں گے جن کو اللہ زمین کا اقتدار دے اور وہ زمین پر اللہ کے نام کی حکومت قائم کریں گے۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ +الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿الحج:٤١﴾ +”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے“ (۲۲: ۴۱) +یہاں منکرات سے منع کرنا طاقت کے ذریعے ہو گا، نصیحت کے ذریعے نہیں۔ نصیحت کے ذریعے منکرات سے منع کرنا ہر مسلمان نبی غیر نبی کا فرض ہے، چاہے وہ محکوم ہی کیوں نہ ہو۔نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی نصیحت کرتے ہی گذری ہے۔ کتنے لوگوں نے شرک سے توبہ کی؟ کتنے لوگوں نے کعبہ کا برہنہ طواف کرنا بند کر دیا؟ صرف ایمان لانے والے ہی منع ہو��ے ۔ جو پکے کافر تھے، وہ نہ ایمان لائے اور نہ اسلامی احکامات پر عمل کیا۔ فتح مکہ کے بعد بزور قوت کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا۔تمام مکے والے تو اس کے بعد ایمان لائے تھے۔ اگر وہ ایمان نہ بھی لاتے تو اللہ تعالیٰ کے گھر کو بتوں سے پاک تو کرنا ہی کرنا تھا۔ +سوال: اسلامی حکومت کا کام نہیں کہ کسی کو زبردستی کوئی مخصوص لباس پہنائے، نماز کے لیے مجبور کرے، داڑھی رکھنے پر مجبور کرے۔ حکومت کا کام صرف نصیحت کرنا ہوتا ہے۔ +جواب: جی بالکل اسلامی حکومت کا کام نہیں کہ کسی کو زبردستی عبادات کے لیے مجبور کرے، نہ ہی کسی کو ایک مخصوص یونیفارم پہننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت میں دینی معاملات پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ دین میں جبر نہیں۔مگر دوسرے معاشرتی معاملات کہ جن کی خلاف ورزی چاہے مسلمان کرے یا غیر مسلم خلاف ورزی پر سزا پائے گا، جیسے چوری ڈاکہ وغیرہ۔ لباس کا تعلق بھی معاشرت سے ہے۔اسلامی حکومت کسی کے گھروں میں گھس کر نہیں دیکھ سکتی کہ وہاں کس نے کیا پہنا ہوا ہے۔ باہر کے لیے لباس اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے کہ شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ نیز باہر کے لوگوں کے سامنے خواتین کو کس قسم کا لباس پہننا چاہیے اس کی تفصیل بھی اوپر آ چکی ہے۔مردوں کے لیے بھی یہی شرط ہے کہ شرم کے حصوں کو چھپانے والا اور باعث زینت لباس زیب تن کرے۔ +”اے آدم (علیہ السلام) کی اولادہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں“ +سوال کیا سر پر چادر لینا حجاب کا حصہ ہے؟ +جواب:اس کے جواب کے لیے یہ آیت دیکھیں +”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ +جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔اوپر ڈالنے سے مراد سر پر ڈالنا ہی ہے۔ اس طرح کے اقدامات تعزیر کے طور پر اس وقت نافذ کیے جائیں گے جب اسلامی حکومت قائم ہو رہی ہو۔حکم نہ ماننے کی صورت میں مشاورت کے ذریعے اس کی خلاف ورزی پر کوئی بھی سزا تجویز کی جا سکتی ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ قائم کیے بہت عرصہ ہو چکا ہو اور خواتین کے حوالے سے کوئی جرائم بھی سامنے نہیں آتے ہوںتو حکومت چاہے تو سر پر چادر لینے کے حکم میں نرمی بھی کر سکتی ہے۔ غیر اسلامی ملک میں خواتین کو کوئی مسلمان چادر لینے پر مجبور نہیں کر سکتا، صرف نصیحت کر سکتا ہے۔ +سوال: اسلام نے چہرے کے نقاب سے منع نہیں کیا مگر بعض لوگوں کو چہرے سے ہی شہوت محسوس ہوتی ہے۔ قصور مردوں کا ہے، عورتیں چہرہ کیوں ڈھانپیں؟ +جواب: وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] +اس آیت کے مطابق اگر چہرہ قدرتی طور پر خوبصورت ہو یا اسے مصنوعی طور پر خوبصورت بنایا گیا ہو تو اس کا چھپانا ضروری ہے، کیونکہ زیب و زینت اور سنگھار کو محرمات کے سامنے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ +اسلامی معاشرہ میں جیسے حالات ہونگے ویسے ہی احکامات نافذ ہونگے۔ اسلامی حکومت، جو کہ ظاہری بات ہے معاشرے کے حالات سے باخبر ہوگی، کواگر لگے کا کہ چند ایک نہیں بلکہ بہت سے لوگ چہرے سےہی شہوت محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پہلے کافی خراب معاشرہ تھا، اسے سنوارنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہنگامی اقدامات میں چہرے کا پردہ یعنی جلابیب (اوپری چادروں) سے سر اور چہرے کو ڈھانپا جائےگا اور پھر خواتین کے خلاف جرائم پر انتہائی سزاؤں کا نفاذ ہو گا۔ اگر اسلامی حکومت کو محسوس ہو معاشرہ بہت حد تک نیک اور صالح ہے اور معاشرے میں اخلاقی جرائم نہیں تو وہ چہرے کے نقاب کے حوالے سے قوانین میں نرمی کر سکتی ہے۔غیر اسلامی ملک میں کوئی کسی کو چہرے ڈھاپنے پر مجبور نہیں کر سکتا، صرف نصیحت کر سکتا ہے۔ +کام کے دوران چہرے کا پردہ ہونے کے حوالے سے یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے کہ +يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] +”نبیؐ کی عورتوں (اہل بیت خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو “ +اس آیت میں مخاطب تو امہات المومنین ہیں مگر تعلیم سب کے لیے یہی ہے کہ اجنبی جن کا پتا نہ ہو کہ دل کا کیسا ہے اُن سے نرم لہجے میں بات نہ کرو، یعنی ٹو دی پوائنٹ بات سیدھے سادھے انداز میں جس سے اگلا کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔ یعنی ہر کسی کو بھائی کہہ کر مخاطب کرنا وغیرہ۔اس آیت کے مطابق تو کسی کو بھی نہیں پتہ کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص کون ہے، بس حفاظتی اقدامات کے طور پر بتا دیا گیا ہے کہ نرم آواز سے کوئی بھی دل کی خرابی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی بھی شخص آواز(نرم آواز) تو وہ بعد میں سنے گا پہلے تو چہرے سے ہی مزید دل کی خرابی میں مبتلا ہو گا۔اس لیے چہرہ بھی ڈھانپ لینا چاہیے۔جو شخص آواز سے ہی دل کی خرابی میں مبتلا ہو جائے کیا وہ چہرہ دیکھ کر نہیں ہو سکتا۔اگر مرد نگاہیں نیچے کرنے کے حکم پر عمل نہیں کر رہے تو عورتیں پردے کے احکامات پر عمل کریں، مردوں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہےا ور عورتوں نے اپنے اعمال کا۔ +کام کے دوران چہرے کا پردہ نہ ہونے کے حوالے سے ایک دلیل اس آیت سے بھی دی جا سکتی ہے کہ +وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا [٤:٣] +”اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے “(ترجمہ:احمد علی) +اگر سب عورتوں نے چہرہ چھپایا ہو تو عورتوں میں سے اپنی پسند کی عورت سے شادی کیسے ہو، جب تک کہ عورتوں کو دیکھ نہ لیا جائے۔عورت کو پسند کرنے میں چہرے کی پسندیدگی بھی شامل ہے۔ +اس لیے اس حوالے سے حالات کو دیکھتے ہوئےاسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت میں عوام خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ چہرے کا پردہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ +سکارف نہ پہننے کی سزا کیا ہو سکتی ہے؟ +سوال: اسلامی حکومت میں اگر حکومت سکارف پہنے کا کہے اور نہ پہنا جائے تو اس کی سزا کیا ہو گی؟ +جواب کسی بھی حکومت کو ایسے فیصلے کرنے ہی نہیں چاہیے جن پر وہ عمل دراآمد نہ کرا سکے یا اپنی رٹ قائم نہ کر سکے۔ سکارف کے حوالے سے احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت مشاورت سے کوئی بھی سزا تجویز کر سکتی ہے۔ پہلی دفعہ زبانی تنبیہ اور سب سے آخری حد کے طور پر گھر کو ہی سب جیل یا پھر جیل۔ +سوال: غیر مسلم حکومت اگر سکارف نہ پہننے دے تو کیا کریں؟ +جواب: آپ ایک غیر اسلامی ملک میں رہتے ہوں اور وہاں آپ کو غیر شرعی احکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو آپ کو دیکھنا ہو گا کہ اس غیر شرعی احکامات پر کہاں تک عمل کیا جا سکتا ہے۔ایسے معاشرے میں رہنا اگر ضروری ہو تو سکارف نہ لینے کی پابندی برداشت کی جا سکتی ہے لیکن اگر اس سے بڑھ کر آپ کو ایسے احکامات پر عمل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جو فحشاء اور منکرات میں آتے ہیں تو اس پر آپ عمل نہیں کر سکتے۔ +إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا [٤:٩٧] +”جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے “ +سوال کوئی ایسی مثال دیجیے جس میں تاریخ میں کسی نے کسی عورت کو سکارف نہ پہننے پر سزا دی ہو۔ +جواب مسئلہ تاریخ کے حوالےکا نہیں۔ اسلامی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین اور اس کے نفاذ کا ہے۔ اگر حکومت یہ قانون بنا دیتی ہے تو سکارف نہ لینا جرم ہے تو اس کی سزا بھی وہی دے گی۔ معاشرے کے حالات کے مطابق اسلامی حکومت کسی بھی طرح کے قوانین بنا سکتی ہےا ور وہی اسے نافذ کرے گی اور وہی ان پر عمل درآمد کرائے گی۔ +جب اسلامی حکومت کہہ دے گی کہ آج سے خواتین سروں پر چادر لیں تو بس لیں۔ اس بارے میں قرآن کی آیت پہلے آ چکی ہے کہ اگر مرد عورتوں کے چادر لینے کے باوجود بھی اُن کو تنگ کریں تو انہیں جلاوطنی سے لیکر موت تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کا دوسرا رخ یہ کہ ایسی عورت جو ان احکامات کے نافذ ہونے کے بعد بھی ان پر عمل نہ کرے تووہ بھی سزا کی حق دار ہو گی۔جب مرد اسلامی حکومت کا فیصلہ نہ مانتے ہوئے سکارف پہننے والی عورتوں کو تنگ کرے تو اسے تو حکومت سزائے موت تک کی سزا دے، اور جو عورت اسلامی حکومت کا کہا نہ مانتے ہوئے سکارف نہ پہنے تو اسے سزا کیوں نہ دی جائے؟ اسلامی حکومت عورت کو سزا سکارف کے پہننے نہ پہننے پر نہیں بلکہ اصل سزا تو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر دے گی۔ سزا کا فیصلہ خود حکومت کرے گی۔ +سوال: چادر یا ڈوپٹہ نہ لینا کوئی تعزیری جرم نہیں کہ اس کے نہ لینے سے کسی کا نقصان ہو۔ ملاوٹ چوری جرائم ہیں اس لیے اس کی سزا ہیں۔ ڈوپٹہ نہ لینے کی سزا کیوں۔اگر قرآن نے اسے تعزیری جرم نہیں کہا تو آپ کیوں کہہ رہے ہیں؟ +جواب کوئی چیز تعزیری جرم ہے یا نہیں اس کا فیصلہ حکومت مختلف حالات دیکھتے ہوئے کرتی ہے۔ ایک چیز جو آج ایک جرم ہے ہو سکتا ہے کل کو نہ ہو، جیسے جنگ کے زمانے میں راشن محدود تعداد میں مخصوص کارڈ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ جب جنگ ختم ہو جاتی ہے تو یہ عمل جو جنگ کے زمانے میں جرم تھا اب جرم نہیں رہا۔ یہی حال پردے کے حوالے سے قوانین کا ہو گا، جب حکومت دیکھے کہ حالات اتنے خراب ہیں عورتوں پر حملے زیادہ ہو رہے ہیں تو ایسے حالات میں عورتوں کو سروں پر ڈوپٹہ لینے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔ جب حکومت دیکھے کہ معاشرہ اچھے اور نیک لوگوں کا ہے تو حکومت کو ایسی کسی پابندی لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ نیک عورتوں خود ہی پردے کے احکام پر عمل کریں گی، مرد خود نگاہ نیچی رکھیں گے۔ جرم ڈوپٹہ نہ لینا نہیں حکم کی خلاف ورزی ہو گا۔ +سوال: اگر کسی عورت نے کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں مگر ڈوپٹہ نہیں لیا ہوا ، ایسی عورت کو دیکھ کر اگر کسی کی شہوت بڑھتی ہے تو اس میں قصور اس مرد کا ہے، اس کی سوچ کا ہے نہ کہ اس عورت کا۔قرآن نے تو اسے کہا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھو۔ اس نگاہوں کے نیچے رکھنے میں شہوانی خیالات کا دل میں نہ آنے دینا بھی ہے۔خراب شخص تو سر تاپا کپڑے میں ملبوس عورت کو بھی بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چادر کا لینا ایک نصیحت ہے جو عورتوں کو پاکستان جیسے ملک میں برے لوگوں سے بچنے کے لیے لینی چاہیے مگر یہ فرض نہیں ہے۔یہ ایسا قدام ہے جو حالات پر منحصر ہے۔ اسلام کسی کو زبردستی چادر لینے پر مجبور نہیں کر تا۔ +جواب: اللہ تعالیٰ نے مردوں کے دلوں میں عورتوں کے لیے کشش رکھی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے دل میں سجنے سنورنے اور خوبصورت نظر آنے کی خواہش رکھی ہے۔اس فطرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو حکم دیا کہ اپنی خواہشات کی تکمیل نا جائز ذرائع سے نہیں کرنی۔ آپ نے درست کہا کہ خراب شخص تو سرتا پا کپڑے میں ملبوس عورت کو بھی بری نظر سے ہی دیکھے گا، مگر ایسے خراب شخص کو سامنے بھی تو لانا ہے، تاکہ اسے سزا دے کر معاشرے کو اس سے پاک کریں۔ اسے سامنے لانے کا طریقہ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ مومن عورتوں چادریں لے کر نکلا کریں، خراب شخص جلدی سے باز نہیں آئے گا، اس لیے جلد ہی پکڑا جائے گا۔پکڑنے کے بعد اس کی سزا بھی تو دیکھیں کتنی سخت ہے، علاقہ بدر سے لےکر قتل تک۔کسی بھی عام بندے کو پکڑ کر یہ سزا نہیں دی جا سکتی۔ مجرم کو ہی دی جائے گی نا۔یہ Cause اور Effect والی ہے۔ اسلام پہلے کاز پر توجہ دیتا ہے، اسی لیے تو عورتوں کو پردے میں باہر نکلنے کا حکم دیا، تاکہ بے پردگی کے ایفکٹس ظاہر نہ ہوں۔ اگر اس کے باوجود ایفکٹس سامنے آئیں تو وہ معاشرے میں فساد ہو گا جس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قحظ کے زمانے میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا منسوخ کر دی تھی،جب قحط ختم تو سزائیں بحال۔ مرد کا نگاہیں نیچی رکھنے کے احکامات پر عمل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ عورتیں بھی اپنے پردہ کے احکام پر عمل نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تو دونوں کو حکم دیا ہے، دونوں سےا لگ الگ حساب کتاب ہو گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں عورتوں کا یہ عذر قابل قبول ہو گا کہ مردوں کو پہلے حکم تھا، انہیں عمل کرنا چاہیے تھا؟ قرآن کریم میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں پہلے مردوں کا نام ہے اور پھر عورتوں کا،جیسے مومن، مومنہ، اچھائی کرنے والے مرد، اچھائی کرنے والی عورتیں وغیرہ۔ کہیں پر بھی کوئی حکم اس وجہ سے ساقط نہیں کہ پہلے ایک کرے گا تو دوسرا کرے گا۔ یہ سی ٹی بی ٹی کا معاہدہ تو ہے نہیں کہ پہلے بھارت دستخط کرے پھر پاکستان کرے گا۔ +سوال فحاشی کیا ہے؟ کیا زنا فحاشی ہے؟ کیا بغیر سکارف کے گھومنا فحاشی ہے؟ +جواب: فحاشی کیا ہے سے متعلق عرض ہے کہ ایسی تمام برائیاں ہیں جو کھلی ہوئی اور صریح ہوں۔ ان کا ارتکاب عوام میں ہو۔ جس کے لیے باآسانی گواہ میسر آ سکیں ۔ اس کے اندر وہ تمام برائیاں آ گئیں، جو قوتِ شہویہ کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہیں یا جن سے قوت شہویہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔معاشرے میں بگاڑ کا خدشہ ہو۔ اس کی شروعات ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں سے شروع ہو جاتی ہے۔سر منہ ڈھانپ کر کسی کو غیر اخلاقی اشارے کرنا بھی فحاشی ہے۔کھلی بدکاری بھی فحاشی ہے۔فحاشی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کم کپڑے پہنے ہوں بلہ سرتاپا جسم ڈھانپ کر غیر اخلاقی گفتگو وحرکات بھی فحاشی میں شامل ہونگی۔ زنا باقاعدہ الگ اصطلاح ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ فواحش کی اگلی منزل زنا ہوتا ہے۔زنا میں فحاشی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کی سزا فحاشی کی سزا سے بڑھ کر ہے۔ بغیر سکارف کے گھومنا فحاشی ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ معاشرے کے حالات دیکھ کر کیا جائے گا۔اصل سوال یوں ہونا چاہیے کہ بغیر سکارف کے گھومنا جرم ہے یا نہیں؟ اگر حکومت اسلامی ہے تو اس کا فیصلہ حکومت کرے گی، اگر غیر اسلامی حکومت ہے تو معاشرے کےحالات دیکھتے ہوئے، لوگ خود بھی اندازہ کر سکتےہیں کہ سکارف نہ لینے سے معاشرے میں فحاشی میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں، اگر ہوتا ہے تو اس حوالے سے سکارف نہ لینے والیوں کو صرف نصیحت کی جا سکتی ہے اور بس۔ +جن لوگوں کے پاس اقتدار ہو گا وہ جیسے چاہیں فحاشی سے منع کریں، چاہیں تو کوئی قانون بنا لیں۔ فرانس اور بہت سے مغربی ممالک نے پردے کے خلاف قانون بنا لیے ہیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، اللہ کے لوگوں کو جب اقتدار ملے گا تو اُن کی مرضی ہے کہ سکارف پہننا ضروری قرار دیں یا نہیں، جیسے معاشرے کے حالات ویسے ہی معاشرتی قوانین۔اللہ سے محبت کرنے والے زنا کی جو سزا ہے وہ دیں گے اور فواحش سے روکنے کے لیے جو مناسب ہو اقدامات کریں گے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فواحش کا تعلق صرف سکارف پہننے یا نہ پہننے سے نہیں۔ فواحش کی حد میں تو سر تا پا پردے میں لپٹی ہوئی یا داڑھی رکھے ہوئے بندے بھی اپنے اعمال کی وجہ سے آ جائیں گے۔اس کی سزا پر عمل درآمد کے لیے چار گواہ ضروری ہیں ۔ +فواحش کی سزا قرآن مجید میں اس طرح سے ہے۔ +”تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواه طلب کرو، اگر وه گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے “ +یعنی غیر اخلاقی حرکتوں کی سزا ساری زندگی گھروں میں قید ہو سکتی ہے۔ یعنی کوئی چہرہ ہی نہ دیکھ سکے۔ +سوال: کیا سکارف نہ پہننے والی عورتیں فحاشی کی مرتکب ہوتی ہیں؟قرآن میں سکارف کا ذکر کہاں کیا گیا ہے؟ +جواب سکار�� نہ پہنے والی عورتیں قرآن کی درج ذیل آیت کے مطابق حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتیں ہے۔ +”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے “ +”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے “ +سورۃ احزاب آیت 59 میں ہی سکارف کا ذکر ہے۔ +سوال: فحاشی (vulgarity)کا تعلق ظاہری لباس سے نہیں۔ اس کا تعلق دل سے ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ظاہری لباس کو۔ اگر فحاشی کا تعلق لباس سے ہے تو کیا برصغیر کی عورتیں جو صدیوں سے ساڑھی پہنتی ہیں جس میں پیٹ نظر آتا ہے ، تو کیا وہ فحاشائیں ہیں؟ +جواب فحاشی یا vulgarity کا تعلق دل سے ہی نہیں بلکہ اس میں ظاہری لباس، غیر اخلاقی حرکات اور بھی بہت کچھ شامل ہیں۔ اگر اس کا تعلق صرف دل سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کے لیے چار گواہوں کا ہونا شرط کیوں رکھتے۔چار گواہوں کا ہونا یہ بیان کر رہا ہے کہ یہ ایسا فعل ہے جس کے لیے چار گواہ ملنا ممکن ہیں۔ اگر اس کا تعلق ”صرف“ دل سے ہے تو دل کے بھید اور غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، پھر سزا کس بات کی؟ پھر تو فحاشی پر دنیاوی سزا کا تو تعلق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ۔ +جہاں تک بات ہے ساڑھی کی تو اسلام نے کسی بھی لباس کا نام لے کر اسے جائز اور ناجائز نہیں کہا۔ اسلام نے لباس کی خصوصیات بتا دی ہے۔ ان کے مطابق جو بھی لباس ہو گا وہ جائز ہو گا چاہے اس کا جو بھی نام ہو، قسم ہو۔ چاہے شلوار قمیض ہو یا ساڑھی یا کسی اور تہذیب یا کلچر کا لباس ہو۔ وہ خصوصیات ہیں شرم کے حصوں کو چھپانے والا اور باعث زینت۔جو ساڑھی آپ کے شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت بھی ہو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔اب ساڑھی پہننے کے بعد اپنی زینت کس کس کے سامنے ظاہر کرنی ہے وہ بھی قرآن نے بیان کر دیا ہے۔قرآن کریم کی شریعت برصغیر پاک وہند کی عورتوں اور مردوں کے لباس کے مطابق نہیں ہو گی بلکہ برصغیر پاک و ہند کی عورتوں اور مردوں کو اپنا لباس قرآن کریم کی شریعت کے مطابق بنانا ہوگا۔ +نامحرم لوگوں سے بات کرنا +سوال: کیا خواتین پبلک مقامات پر کسی سے بات کر سکتی ہیں؟ +جواب:قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے کہ +يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] +”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ +اس آیت میں نبی کریم ﷺ کے گھر کی خواتین کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کا مقام عام مومن عورتوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ لیڈر اور رہنما کا گھرانہ عام عوام کی نظروں میں ہوتا ہے، اس لیے اس بات کا حکم دیا جا رہاہے کہ تمہاری حیثیت ، دیگر کے مقابلے میں زیادہ احساس ذمہ داری کی متقاضی ہے ۔ معاشرے کے عام فرد کی غلطی اس کی اپنی ذات تک ہی محدود رہتی ہے ۔ مگر لیڈرا��ر رہنما کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتا پڑتا ہے ۔اس لیے نبی ﷺ کے گھرانے کی خواتین کی ذمہ داری بھی دوگُنا ہے ۔ اسی وجہ سے کسی غلطی کی صورت میں سزا بھی دو گُنا ہے، اور اچھائی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام بھی دوگنا ہے۔ اس آیت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عام عورت تو کیا ، نبیﷺ کی گھرانے کی عورت بھی ، گھر سے باہر جا سکتی ہے ، غیر محروموں سے بات کر سکتی ہے ۔ آیت مبارکہ کا آخری جملہ ” وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا” [٣٣:٣٢] ۔معروف اسے کہتے ہیں جو معاشرے میں اچھے معنوں میں تسلیم شدہ ہو ۔ یہ حکم خواتین کو بدتمیزی یاسختی سے بات کرنے کی ترغیب نہیں دے رہا بلکہ معروف طریقے سے بات کرنے کا کہہ رہاہے ۔یعنی فارمل انداز سے بات چیت ۔ بات کرتے ہوئے سامنے والے کو بھائی جان وغیرہ کہہ کر مخاطب کرنا، ناز نخرے یا بے جا قہقہہ وغیرہ سے اجتناب کرتے ہوئے بس ٹو دی پوانئنٹ بات کرنا۔ +کیا حجاب صرف ایک تجویز ہے ؟ +سوال: قرآن میں حجاب صرف ایک نصیحت ہے جس سے برے لوگوں سے بچا جا سکے۔ اس کے نہ پہننے پر سزا نہیں دی جا سکتی۔یہ صرف ایک نصیحت ہے اور بس۔ جامعہ الازہر نے فتویٰ دیا ہے کہ حجاب اسلامی لباس کا حصہ نہیں۔ +يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [٤:٥٩] +”اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے “ +تو اس آیت کے مطابق اگر حاکم ہنگامی حالات کے تحت یا فتنہ کو روکنے کے لیے سکارف یا پردے کی پابندی کو لازم قرار دیتا ہے تو اس کا ماننا فرض ہے۔ +پردے کا حکم دائمی یا وقتی؟ +سوال پردے کا حکم ایک عارضی حکم تھا، مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے تھے، اُن سے بچنے کے لیے عارضی طور پر دیا گیا تھا۔کیا بعد کے زمانوں کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں؟ +جواب: میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی فہمی ہے کہ پردے کا حکم ایک عارضی حکم تھا۔قرآن کریم کے کچھ احکامات ایسے تھے جو مخصوص لوگوں کے لیے تھے، جیسے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد کوئی ازواج مطہرات سے شادی نہ کرے، اس حکم کا تعلق آخری ام المومنین کی وفات کے بعد ختم ہو گیا۔ اسی طرح قرآن کریم کے بعض احکامات ایسے ہیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق چلتے ہیں، جیسے جنگ کے لیے تیاری کرو گھوڑوں سے۔ یہاں گھوڑوں سے مراد اسلحہ اور ذرائع جنگ ہیں نہ کہ جنس گھوڑا۔ آج کے دور میں ہم ٹینک ، گولہ بارود سے جنگی تیاری کر کے اس حکم کی پیروی کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر آیت کے نزول کا کچھ نہ کچھ دنیاوی پس منظر ضرور ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو احکامات یاد ہو جائے، اُن کو پتہ چل جائے کہ اس کا نفاذ کس طرح ہو گا۔ جیسے ایک آیت ہے +قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [٥٨:١] +”یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے“ +اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس حکم کا پس منظر یا شان نزول بیان کیا ہے جو اس سے اگلی آیت میں درج ہے۔ اس حکم کے بارے میں ہم یوں نہیں کہہ سکتے کہ اگر کوئی عورت اس طرح کی بات پر اعتراض کرے تو ہی نافذ ہو گا۔ یا وہ حکم وقتی حکم تھا کہ قرآن کے مطابق کوئی عورت نبی کریم ﷺ کے پاس گئی، اعتراض کیا اور پھر نبی کریم ﷺ نے حکم صادر فرمایا۔ اب نبی کریم ﷺ تو ہیں نہیں لہٰذا یہ حکم کالعدم ہوا۔ ایسی بات بالکل نہیں۔ یہ حکم بھی تاقیامت لاگو رہے گا۔ اسی طرح پردے کے حوالے سے حکم ہے۔ اس کا پس منظر بے شک یہود کی سازشیں تھیں مگر اس کا اطلاق تا قیامت رہے گا۔ اگر موجودہ دور کے حالات دیکھے جائیں تو یہ بھی اسی طرح کے حالات ہیں جیسے نبی کریم ﷺ کے دور میں اس حکم کے نزول کے وقت تھے، آج بھی یہودی میڈیا اور اس کے حامی میڈیا کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں فحاشی پھیلے تو اس پس منظر میں بھی پردے کے حکم کا اطلاق ضروری ہے۔ +قرآن کریم کی ایک اور آیت مبارکہ دیکھیں +يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] +”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ +اگر وقتی حکم کا فتویٰ لگانا ہے تو اس آیت پر بھی لگا دیں جس کی مخاطب صرف نبی کریم ﷺ سے متعلق عورتیں ہیں، اب وہ سب وفات پا چکی ہیں اس لیے شاید آپ آج یہ سوال کر دیں کہ آج کے دور میں خواتین نرم لہجے میں بھی بات کر سکتی ہیں۔ اس طرح تو قرآن کریم کی اکثر محکم آیات وقتی قرار پا جائیں گی۔ +مولانا امین احسن اصلاحی پردے کی اس آیت کے حوالے سے اپنی تفسیر تدبر القرآن میں فرماتے ہیں کہ: +”اس ٹکڑے}ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ{سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اَشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔“ +پینٹ شرٹ اور عیسائیت سے مشابہت +سوال: کیا پینٹ شرٹ پہننا جائز ہے؟ ایک حدیث ہے کہ جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اُن میں سے ہو گا۔ پینٹ شرٹ پہن کر کیا ہم عیسائیت سے مشابہت اختیار نہیں کر رہے؟ +جواب: پینٹ شرٹ صرف ایک لباس ہے، استعمال کی چیز ہے اور بس۔یہ بذات خود نہ ہندو ہے نہ مسلمان اور نہ عیسائی۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اسلام نے اس لباس کے پہننے کی اجازت دی ہے جس میں دو خصوصیات ہوں، ایک یہ کہ وہ ستر کو چھپائے اور دوسرا وہ باعث زینت بھی ہو۔اب اگر کوئی اتنی چست پینٹ اور شرٹ پہنے کہ شرم کے حصوں کو ظاہر کے تو اس کی اجازت اسلام میں نہیں، ہاں بیگی طرز کی کھلی ڈلی پینٹ پہنی جا سکتی ہیں۔ +اب جہاں تک عیسائیت سے مشابہت کی بات ہے تو یہ مشابہت اعمال میں ہے نہ کہ لباس میں۔اسلام صرف عرب کا دین نہیں، یہ ساری دنیا کے لیے آیا ہے۔ پوری دنیا میں طرح طرح کے خطے ہیں، ہر خطے کی لباس کے حوالے سے اپنی ضروریات ہیں۔ مثال کے طور پر شلوار قمیض ہندوستان کا لباس ہے، یہاں کا علاقائی لباس ہے، اس کا عرب سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاچن میں فرائض سرانجام دینے والے فوجی ایک مخصوص طرز کا لباس پہنے ہیں جو مشابہت میں کسی طرح عرب سے نہیں ملتا۔ اگر لباس میں مشابہت کی وجہ سے کوئی مسلمان نہ ہو سکے تو اس سے بڑی بد بختی کی کیا بات ہو گی۔ اسلام اگر انٹارکٹکا کی مشرک قوم کے پاس پہنچے تو کیا لباس کے معاملے میں وہ صرف اس وجہ سے وہاں کا اپنا آبائی لباس پہننا چھوڑ دیں کہ مشرک قوم سے مشابہت ہو جائے گی۔ اس کو اسلام لانے کا کیا فائدہ ہو گا؟ وہ دو سرے دن ہی سردی سے مر جائےگا۔سیاچن کے محاذ پر کیا کوئی فوجی جا سکے گا؟ اگر سعودی لباس پہن کر جائے گا تو سردی سے اس کی تو قلفی جم جائے گی ۔اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے لیے لباس نازل کیا ہے جو ہمیں موسموں سے بچاتا ہے۔ +وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ [١٦:٨٠] +”اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو اُس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں“ +وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ [١٦:٨١] +”اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرماں بردار بنو“ +اسلام میں برتری تقویٰ کی بنیاد پر ہے ، نہ کہ مخصوص قوم کے لباس کی۔ اور ہم ظاہری لباس سے برتری ظاہر کرنے لگے۔شلوار قمیض ہندوستان کا علاقائی لباس ہے۔ پینٹ شرٹ یورپ کا لباس ہے۔ ٹائی چینوں کی ایجاد ہے کہ شرٹ کا سب سے اوپری بٹن کو بند کیے بغیر ٹائی کی مددسے گریبان بند کرنا۔ ان لباسوں کا کسی مذہب سےکوئی تعلق نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ ایک خاص پہچان بنانے کے چکر میں اسلام سے زیادہ کسی مخصوص فرقے کی یونیفارم بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ فلاں رنگ کی پگڑی ہو اور اس طرح کا کرتا اور پاجامہ۔ + + +عرف عام میں لباس یا پوشاک (clothing)، پہناوے کو کہا جاتا ہے مگر ہم لباس کسی بھی ایسی چیز کو کہہ سکتے ہیں جو انسانی جسم کے ڈھانپنے،زیب و زینت اور موسمی اثرات سے بچانے کے کام آئے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت 26 میں لباس کی دو خصوصیات بتائی ہیں۔پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ لباس جسم کے شرم والے حصوں کو چھپاتا ہے۔ دوسری یہ کہ ��باس باعث زینت بھی ہوتا ہے۔اس آیت میں لباس کی جو خصوصیات بتائی گئیں ہیں وہ صرف مردوں یا عورتوں کے لیے الگ الگ مخصوص نہیں، بلکہ یہ مجموعی معیار ہے جو لباس کے حوالے سے ہر زمانے کے لیے متعین کر دیا گیا ہے۔ +لباس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جسے لوگ اپنے رسم و رواج اور علاقائی موسموں کے مطابق پہنتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہرقسم کے علاقے یا خطے کے حوالے سے لباس کا مخصوص معیار بیان کر دیا ہے۔اس سے دوسرے ادیان کی طرح لباس مذہب کی علامت نہیں بلکہ صرف اور صرف استعمال کی چیز بن گیا ہے جو انسانوں (مردوں اور عورتوں) کی شرم کے حصوں کو ڈھانپے اور زینت کے کام آتا ہے ۔اب عورتیں اپنی لباس کی زینت اور دوسری زینت کس کس پر ظاہر کر سکتی ہیں اس کی تفصیل ہم اگلے صفحات میں دیکھیں گے۔ +جس طرح لباس کی اقسام ہوتی ہیں اسی طرح زینت کی بھی اقسام ہوتی ہیں۔بنیادی طور پر زینت دو طرح کی ہوتی ہیں۔ قدرتی زینت اور مصنوعی زینت۔قدرتی زینت میں اچھے خدوخال، اچھے نین نقش، اچھے بال، جلد کا رنگ وغیرہ شامل ہیں۔مصنوعی زینت وہ ہے جو قدرتی طور پر نہ ہو مگر اس کمی(انسانی معیار حسن کے لحاظ سے) کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی ذرائع، جیسا کہ میک اپ وغیرہ ، کو اختیار کیا جائے۔زینت کیوں اختیار کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت میں سجنے سنورنے اور اچھا نظر آنے کی فطری جبلت رکھ دی ہے، قدرتی طور پر حسین ہونے کے باوجود مزید اچھا لگنے کے لیے سنگھار کرنا اسی فطری جبلت کی وجہ سے ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حسن میں مردوں کے لیے کشش رکھ دی ہے(سورۃ ال عمران آیت 14)۔ +اسلام میں صفائی کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ مسجد میں حاضری کے وقت زینت اختیار کر کے آنا چاہیے۔ یعنی مسجد میں پانچ ٹائم نماز کے دوران اچھا لباس پہنا ہوا ہو۔جیسا کہ اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ +اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۷: ۳۱) +بنی آدم میں چونکہ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں اس لیے اگر عورتوں کی مسجد ہے تو انہیں بھی وہاں اچھا لباس زیب تن کر کے جانا چاہیے اور مردوں کو بھی۔زینت یا آرائش کے حوالے سے اب اگر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دیکھا جائے تو مردوں کے لیے اپنی زینت چھپانے کے حوالے سے کوئی خاص حکم نہیں، مردوں کے لیے بنیادی حکم اپنی شرم گاہوں کی حفاظت ہی ہے، مگر عورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات کے مطابق وہ اپنی آرائش مخصوص لوگوں کو ہی دکھا سکتی ہیں۔ +عورتوں کے پردے کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات اور میرے خیال میں اُن کی تشریح درج ذیل ہے۔ +”اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں “ +تفسیر ابن کثیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لباس الگ نازل کیا اور ریش کو الگ نازل کیا، اس تفسیر کو پڑھ کر چند دوستوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا لباس پہننا فرض ہے جس سے ستر چھپایا جائے، جبکہ ریش ایک الگ اعزازی چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی،لباس ضروریات زندگی ہے اور ریش زیادتی ہے۔میرے خیال میں آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس نازل کیا، آگے اس لباس کی وضاحت کی کہ لباس میں دو خصوصیات ہونی ضروری ہیں، ست�� چھپائے اور باعث زینت ہو۔نہ کہ اس کا مطلب یہ کہ لباس الگ نازل ہوا اور ریش الگ۔اس سے جوگیانہ اور راہبانہ تصور کی نفی ہوتی ہے جو صرف ستر چھپا کر جنگل میں رہتے ہیں اور باعث زینت لباس کے پہننے کو گناہ محسوس کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ احسان فرما رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ لباس وہی ہے جس میں دو خصوصیات ہو ں گی۔ اگر یہ خصوصیات نہیں تو وہ لباس نہیں۔ایسا لباس جو ستر تو چھپائے مگر ایسامیلا کچیلا ہو کہ دیکھنے پر کراہت آئے تو وہ لباس اسلامی لباس نہیں ہو گا۔ ایسا لباس جس میں بے شک سونے اور ہیرے جڑے ہوں مگر ستر نہ چھپائے وہ بھی اسلامی لباس نہیں ہوگا۔ +آیت میں جو آگے تقویٰ کے لباس کا ذکر ہے اس مراد کچھ مفسر نے ظاہری لباس کے مقابلے میں باطنی لباس سے لی ہے، مگر میرے خیال میں تقویٰ کے لباس سے مراد یہی ظاہری لباس ہے جو ستر کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اگر لباس کو پہنتے ہوئے یہ خیال ہو کہ کہیں غلطی سے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی نافرمانی نہ ہو جائے تو یہی لباس تقویٰ کا ہو گا۔درج ذیل آیات سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ +ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿الحج: ٣٢﴾ +”یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے“ (۲۲: ۳۲) +لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ﴿الحج: ٣٧﴾ +”نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو“ (۲۲: ۳۷) +ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنا ہی تقویٰ ہے۔ +”اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ +اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ انسان ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نوازے اور انسان کنجوسی کرے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہر عبادت میں وہ بہترین اور صاف ستھرالباس پہنو جو میں نے تمہیں عطا کیا ہے۔ کنجوسی نہ کیا کرو کہ اچھے کپڑوں کی بجائے میلے کچیلے کپڑے پہن کر عبادت گاہ میں آؤ۔یہ جو حد سے بڑھنے کا ذکر ہے یہ کھانے پینے کے علاوہ زینت کےمعاملے میں بھی ہے کہ حد سے بڑھتے ہوئے لاکھوں روپے صرف لباس پر ہی برباد کر دو۔ باعث زینت لباس سے مراد صاف ستھرا اچھا لباس ہے نہ کہ حد سے زیادہ قیمتی۔ +”اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں “ +یعنی لباس توا للہ تعالیٰ نے اتارا ہے،وہ لباس جو شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہےاور باعث زینت ہے ، اسے کس نے حرام کیا ہے؟ کوئی بھی کپڑا جس میں انسان اچھا لگے اس کپڑے کا لباس انسان کو حلال ہے، چاہے وہ کپڑا روئی سے بنا ہو یا ریشم سے۔ اسے حرام قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ سوالیہ انداز میں پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تو سہی کون ہے وہ جس نے انہیں حرام کیا۔ جب میں نے(اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا تو دوسرا حرام کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ تو خود حضرت محمد ﷺ کی زبانی لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ تو ذرا کون ہے جس نے فلاں لباس حرام کیا ہے؟ مگر اس آیت کے برخلاف الٹا بہت سے لوگ حضرت محمد ﷺ کی طرف منسوب کر کے مختلف لباسوں کومختلف قوموں سے منسوب کر کے حرام قرار دے رہے ہیں۔اسی طرح ریشم کے لباس ، غیر عرب قوموں کے لباس کے حرام ہونے کو بھی نبی کریم ﷺ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت اسی بات کی نفی کر رہی ہے۔ اسلامی لباس کی صرف دو خصوصیات بتا دی ہیں یعنی شرم کے حصوں کو چھپانا اور باعث زینت۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کا حرام قرار دینا اپنی خواہش کی وجہ سے ہے۔ عورتوں کا سنگھار کرنا کہیں حرام نہیں ہے، خوبصورت نظر آنے کے لیے خوبصورت لباس اور زیورات پہننا بھی کہیں حرام نہیں ہے، ہاں ان کی سب کچھ حدود ہیں جو آگے آئیں گی۔ فطری طور پر جو سجنے سنورنے کی خواہش ہے وہ بُری نہیں۔ +يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [٢٤:٢٧] +”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو(اس وقت تک) جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے“ +اس آیت میں دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ اجازت لینی اس لیے ضروری ہے کہ اجازت کے دوران میں خواتین پردہ وغیرہ کر لیں۔ +”پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے “ +کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی بالکل اجازت نہیں ۔گھر کا کوئی بھی فرد جیسے خاتون خانہ، مردوں کی غیر موجودگی میں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی اجازت نہ دے یا بیٹھنے کا نہ کہے تو واپس چلے جانا چاہیے۔بعض دفعہ گھر کے افراد ہی اندر سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ جا کر بیٹھو میں ابھی آیا تو اس صورت میں بھی، اس آیت کے مطابق، وہاں کھڑے ہونے کی ممانعت ہے۔ +لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ [٢٤:٢٩] +”البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے “ +صرف گودام وغیرہ میں بغیر اجازت داخل ہو جا سکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہاں پر آپ کا سامان پڑا ہوا ہو اور کوئی رہتا نہ ہو۔ +قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ [٢٤:٣٠] +”اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہت�� ہے“ +اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومن مردوں کو نبی کریمﷺ کے ذریعے ہدایات دے رہے ہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔نظروں کی حفاظت کاحکم اس لیے ہے کہ کسی بھی برائی کا آغاز دیکھنے سے ہی ہوتاہے۔ اگرکوئی نظر پر کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیاتو سب برائیوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔نظر کی حفاظت کا حکم، شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم سے پہلے آیا ہے، اس لیے کہ بد نظری سے پرہیز بہت سی اخلاقی برائیوں سے بچاؤ کاذریعہ ہے۔جسم کے بعض حصوں کی طرف جان بوجھ کرنظر کرنا ویسے ہی ناجائز ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو دیکھنا پڑ ہی جائے تو نظر بد یا شہوت کے ساتھ نہ دیکھیں، جیسے ڈاکٹر کا مریض کو دیکھنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اگر بغیر ارادہ نظر پڑھ جائے تو اس کا گناہ نہیں، اسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ پہلی نظر معاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی نظر ہی جان بوجھ کر طویل کر لی جائے کہ یہ معاف ہےیعنی اگر بغیر ارادہ نظر پڑ ہی گئی ہے تو اپنے دل میں کوئی برا خیال نہ آنے دو۔اس طریقہ سے مومن پاکباز رہتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں یہ جائز ہے کہ مرد عورت کو دیکھ لے، جیسے نکاح سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو دیکھ لینا(اور بات چیت کر لینا) اسی طرح لڑکی کا لڑکے کو دیکھ لینا، عدالت میں گواہی یا تصدیق کے لیے جج کا یا کسی گواہ کا عورت کو دیکھنا، یا پھر ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا(علاج کی غرض سے) +شرم گاہوں کی حفاظت والی بات دو طرف جاتی ہے۔ کسی سے غیر شرعی تعلقات نہ بناؤ، دوسرا اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھو۔ ایسے لباس نہ پہنو جو شرم کی جگہوں کو ظاہر کرتے ہو۔جیسے آجکل بازاروں میں اچھے خاصے انسان نیکر پہنے گھومتے ہیں۔ شرم گاہوں اور نظر کی حفاظت کے حکم میں تمام برائیوں سے بچنے کی ہدایت شامل ہو گئی یعنی افسانے، ڈرامے، فلمیں، تصویر سب کو دیکھتے ہوئے ان احکامات کا خیال رکھنا ہو گا۔ +ہر بدنظر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بد نظری کرتے ہوئے اسے کوئی دیکھ نہ لے، اسی لیے اللہ تعالیٰ آیت کے آخر میں فرما رہا ہے کہ بدکاری، بد نظری، پاکباز اور تقویٰ، انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ +وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] +آیت کے ترجمے کو الگ الگ کر کے اس کی تفصیل دیکھتے ہیں۔ +”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں “ +جیسے مومن مردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں ویسے ہی مومن عورتوں کے لیے حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں۔ یعنی حرام منکرات کی طرف نظر پڑ جائے تو فوراً ہی ہٹا لیں۔ م��دوں کی طرف خواہ مخواہ نظر نہ کریں۔ اس آیت سے بہت سی خواتین و حضرات یہ استدلال کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب پہلے مردوں کو نظریں نیچے کرنے کاحکم ہے اس لیے زیادہ فرض مردوں کا ہے کہ اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی تو مرد اس کی طرف نہ دیکھے، اس میں عورتوں کا کیا قصور؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اللہ کے حکم کی خلاف ورذی کرتے ہوئے اپنی نظریں نہیں بچاتا، نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو اس سے یہ کہیں فرض نہیں ہوتا کہ عورتوں پر سے پردہ کا حکم ساقط ہو گیا ہے۔ نظریں نیچے رکھنے کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی ۔ قرآن میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کا ذکر ہے وہاں پہلے مرد لکھا ہوا ہے اور بعد میں عورت، جیسے مومن ،مومنہ، مسلمان مرد، مسلمان عورتوں، چور اور چورنی وغیرہ، اس پہلے اور بعد میں خطاب کرنے سے کرنے سے کسی پر بھی حکم میں نرمی نہیں۔ اگر مرد اللہ کا حکم نہیں مان رہا تو عورت مانے ، مرد اپنےاعمال کا خود جواب دہ ہو گا اور عورت اپنے اعمال کی خود ذمے دار ہو گی۔سورۃ 55 آیت 56 کے مطابق نیچے نگاہیں رکھنا جتنی حوروں کی نشانی ہے۔ +”اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“ +شرم گاہوں کی حفاظت ایک تو اس طرح کہ اپنے شریک حیات کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچیں بھی نا۔ دوسرا اس طرح کہ اس قسم کے کپڑے نہ پہنیں جو ان کےاعضا کو چھپانے کی بجائے ظاہر کریں۔ ڈوپٹوں کو گریبان پر ڈالنے کا حکم اسی وجہ سے ہے یعنی شرم کی جگہوں کو چھپانے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو ڈوپٹہ یا چادر سینے پر ڈالی جاتی ہے وہ لباس کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہے کہ وہ شرم کے حصوں کو چھپاتی ہے،اسے اعزازی زینت کہہ کر لباس سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ لباس کی ایک خصوصیت شرم کی جگہوں کا چھپانا بھی ہےاور ڈوپٹہ یہ کام کرتا ہے۔ +” اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں“ +زینت کا مطلب آراستہ کرنا ، خوشنما بنا کر دکھانا ، بناؤ سنگھار ، آرائش و زیبائش کے ہیں۔بناؤ سنگھار یا زینت کا نہ دکھانا عام لوگوں یا نا محرموں کے لیےہے۔ جن لوگوں پر بناؤ سنگھار یا زینت ظاہر کی جا سکتی ہے ان کی تفصیل آگےسورۃ احزاب کی آیت میں آئے گی۔ کوئی قدرتی یا مصنوعی زینت جو کسی کو بھی عورت کی طرف رغبت اور التفات بڑھا دے وہ اگر چھپائی جا سکے تو چھپا کر رکھنی چاہیے۔خواتین کی زینت میں لباس بھی شامل ہے اور زیورات بھی۔اس کے علاوہ قدرتی طور پر جو زینت کسی بھی عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس میں اچھی رنگت، مناسب قد و قامت اور خدوخال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں سے ہر چیز کو چھپانا ممکن نہیں۔، لمبا قد ، گوری رنگت اور اچھی آواز چھپائی نہیں جا سکتی، لباس کا ظاہری حصہ، بعض زیورات جیسے ہاتھوں کی انگھوٹھیاں وغیرہ بھی اُن چیزوں میں شامل ہیں جوبہت ہی زحمت کے ساتھ چھپائی جا سکتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے صرف اُن زینتوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے جس کو چھپانے کےلیے بہت زیادہ زحمت نہیں کرنی پڑتی۔اوڑھنے والی چادر،جو باعث زینت بھی ہوتی ہے، کو مزید کسی دوسری چادر سے چھپانے کی ضرورت نہیں۔قمیض کے نچلے حصے کی کشیدہ کاری وغیرہ بھی وہ زنیت ہے جو مشکل سے چھپائی جائے۔ گھریلو خواتین کے لیے گھروں میں دودھ سبزی لیتےہوئے ہاتھوں کی زینت (زیور، مہندی) کا چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ +مصنوعی آرائش کے زیورات، لپ اسٹک وغیرہ سب سنگھار میں شامل ہیں۔یہ سب ہی نہیں دکھانا چاہیے۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ چہرے جو قدرتی طور پر خوبصورت ہوں یا جن کو میک اپ سے خوبصورت بنایا گیا ہو ان کا پردہ کرنا ضروری ہے۔جو چیز آسانی سے چھپائی جا سکے اور جو آسانی سے نہ چھپائی جا سکے اس کا فیصلہ وہ خواتین خود ہی کر سکتی ہیں جو ان آیات پر عمل کر رہی ہو۔ +” بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے“ +گورارنگ، لمبا قد، سمارٹ نس، اچھی آواز اوربعض مواقع پر چہرہ وغیرہ کا چھپانا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہ رعایت اسی لیے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ جو دوسری صورتیں ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ کسی اجنبی سے کچھ سامان لیتے یا دیتے ہوئے ہاتھ کے زیورات یا مہندی اجنبی کے سامنے آ جائے تو یہ خودبخود ظاہر ہونا ہو گا۔راہ چلتے ہوئے آنکھوں کا میک اپ ظاہر ہو جانا ، جوتے کے ڈیزائن، چادر وغیرہ کے ڈیزائن سب اسی میں شامل ہیں۔ +”وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے:“ +عورتیں بناؤ سنگھار کرنے کے بعدگھر میں جن لوگوں کو ظاہری بناؤ سنگھار میں دکھا سکتی ہیں اُن کی تفصیل اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے۔ +” شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے“ +یہ سب عزیز جو اس آیت میں آئے ہیں محرم کہلاتے ہیں۔ ان کی بھی دو اقسام ہیں۔ +ابدی محرم ساری زندگی محرم ہی رہتے ہیں جیسے باپ، بیٹا ،بھائی، چچا، تایا، ماموں اور خالو وغیرہ۔ یعنی جن سے ساری زندگی شادی نہ ہو سکے۔ +محرم وصی یا وصفی وہ محرم ہوتے ہیں جو مخصوص حالات میں محرم ہوتے ہیں مگر جیسے ہی وہ حالات ختم ہو جائیں گے وہ لوگ محرمات کی فہرست میں شامل نہیں رہیں گے اور اجنبی یا غیر محرم ہو جائیں گے۔مثال کے طور پر شوہر طلاق کے بعد نا محرم، مملوک آزاد ہونے کے بعد، بچہ جوان ہونےکے بعد نا محرم ہو گا۔ +”اپنے میل جول کی عورتیں“ +اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے اچھی طرح جان پہچان ہو، جیسے محلے والیاں۔ یعنی اجنبی عورتوں کو بھی زینت نہیں دکھانی۔عورتوں میں جو قابل اعتبار ہوں اُن عورتوں کے سامنے ہی زینت دکھانی چاہیے، دوسری عورتیں جن کا معلوم ہی نہیں کون ہیں ، کس قماش کی ہیں، یا ایسی تو نہیں جو باہر جا کردوسروں کے سامنے تذکرہ کریں، یا باہر جا کر تذکرہ کر کے لگائی بجھائی کریں۔ اُن سے پردے میں، صرف چہرہ کھول کر، ملنا ہی بہتر ہے۔ +میرے خیال میں یہاں مراد لونڈیاں ہو گا۔ غلاموں میں ایسے غلام بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق مثال دے کر ہی اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مشرک سے غلام بہتر ہے، تو جس سے نکاح ہو سکتا ہے وہ نامحرم ہی ہوا۔ آج کل کے دور میں اس سے مراد گھریلو ملازمائیں ہو نگی۔ توان گھریلو ملازموں سے بھی آرائش چھپانی چاہیے۔ +" وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں“ +زیر کفالت یا غلام یا ملازم جو بوڑھے ہوں۔ اس میں ملازم زنخے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وہ اگر زینت دیکھ لیں تو کوئی بات نہیں۔ +” اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں“ +ان تمام محرمات کے سامنے سوائے شوہر (جس سے کسی قسم کا پردہ نہیں)کے جو زینت ظاہر کی جا سکتی ہے وہ سب خمار یعنی ڈوپٹہ کے ساتھ ہیں۔ جلابیب (ڈوپٹے سے اوپر کی چادر) گھر سے باہر کے لیے ہے۔ +”وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے“ +یہ احتیاط تو گھر میں بھی کرنی چاہیے کہ جن لوگوں کا ذکر اوپر آ گیا ہے کہ ان کے سامنے بھی پاؤں بجا کر پازیب وغیرہ جھنکاتی نہ رہیں۔لیکن بازار میں تو یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ وہاں بہتر تو یہی ہے کہ اس طرح کے زیورات پہن کر نہ جایا جائے اگر پہن ہی ل��ے ہیں تو کوشش کی جائے کہ احتیاط سے چلا جائے۔اس آیت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اس طرح کوشش کی جائے کہ کسی بھی وجہ سے پوشیدہ زینت سامنے نہ آجائے یعنی اگر ایک آدمی ایک طرف منہ کر کے کھڑا ہے اور پیچھے سے پازیب کی آواز آ رہی ہو تو وہ بھی دیکھنا چاہے گا۔ اس لیے احتیاط کرتے ہوئے بازاروں میں چوڑیاں بھی نہ کھنکائی جائے۔ جب آواز سے کوئی متوجہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح تیز خوشبو یا عطریا پرفیوم سے بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ بازار میں اس سے بھی پرہیز کیا جائے، عطر اور پرفیوم کا حکم بھی زیور چھنکانے میں ہو گا یعنی جو کسی اور طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے شخص کو متوجہ کر سکے۔ +” اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے“ +اگر ماضی میں ایسا نہیں کرتے رہے تو اب مستقبل کے لیے پکا ارادہ کرو کہ ان احکامات پر عمل کرو گے۔اس پر عمل کرنے سے ذاتی طور پر بھی اور معاشرتی طورپر بھی فلاح پاؤ گے۔معاشرے میں غیر اخلاقی جرائم نہیں ہونگے۔ توبہ اس لیے بھی کہ اگر غلطی سے، انجانے میں ، کچھ ہو گیا ہو تو اس گناہ سے معافی مانگتے رہا جائے۔ +وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [٢٤:٦٠] +”اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “ +اس آیت کا آیت 31 سےتعلق ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ چادروں سے اپنے گریبان ڈھانپ لیں۔یہاں ایسی بوڑھی عورتوں کوجو بہت بوڑھی ہو گئی ہو کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔یہاں بعض کے نزدیک بوڑھی سے مراد وہ عورت جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو مگر میرے خیال میں اولاد تو اللہ تعالیٰ جسے دینا چاہے اسے بڑھاپے میں بھی دے دیتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کو بوڑھی بیویوں سےہی اولاد دی۔ اس بات کا فیصلہ کا چادر اوڑھنے والی خاتون خود ہی کرے گی کہ اب اس میں مردوں وغیرہ کے لیے کوئی رغبت نہیں یا اس کی بے پردگی سے فتنہ کا احتمال تو نہیں۔اگر خود فیصلہ نہیں کر سکتی تو دوسری خواتین کے مشورے کے مطابق چادر لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کر لے۔یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ عورتیں ایسی ہونی چاہیے جن کو زینت دکھانے کا شوق نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت غالباً اس لیے دی ہے کہ بوڑھی عورتوں کو چادر وغیرہ سنبھالنے سے جو تکلیف ہوتی ہے وہ نہ ہو۔اگر کوئی بوڑھی عورت اس آیت کی رو سے چادر تو اتار دے مگر زینت دکھانے کی نیت رکھے اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔آیت میں يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ آیا ہے، جس کا مطلب”اپنے کپڑے اتار دیں“ بھی ہوتا ہے مگریہاں اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کیونکہ آیت کے اگلے حصے میں کہا جا رہا ہے کہ زینت دکھانے والی نہ ہو تو اس سے مراد پردے کے لیے استعمال ہونے والی چادریا کپڑےہو گا۔آیت کے اس حصہ کی ایک تفسیر کچھ اس طرح بھی ہے کہ بڑی بوڑھی عورتیں جو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مرد سے ملاپ کی خواہش نہیں رکھتیں تو کپڑے نقاب وغیرہ اتار دینے میں ان پر گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں اور اصل بات تو یہ ہے ک�� اس سے بھی احتیاط رکھنا ان کے لیے بہتر ہے کہ کیونکہ عربی میں ایک مثال ہے۔ لکل ساققتہ قطتہ (ہر گری ہوئی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے) ۔ایسی عورتوں کو گو خود خواہش نہ ہو مگر ممکن ہے کوئی ایسا بھی ہو جو محض اپنی خواہش سے ان پر بری نظر ڈالے۔ آیت کے اس حصے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جوان عورتوں کو پردے وغیرہ کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔بعض فقہاء کے نزدیک پرفتن دور اور معاشرے میں فتنہ کے ڈر سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں جو ستر میں شامل نہیں وہ بھی پردے کے حکم میں داخل ہو جاتی ہیں۔ +لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ [٢٤:٦١] +”کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے “ +اس آیت میں پہلے تو مخاطب معذور لوگ ہیں، اسلامی معاشرے میں پورا معاشرہ ہی اُن کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے، کسی کے گھر سے بھی کچھ لے کر کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد مخاطب آیت پڑھنے والے ہیں یعنی عام عوام۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین قریبی رشتے داروں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ہیں، یعنی قریبی رشتے داروں جیسے دیور جیٹھ وغیرہ سے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ +ایک محترم عالم دین صاحب کسی پردے دار خاتون کو دیور سے پردے کا حکم سمجھاتے ہوئے ایک حدیث کے بارے میں بتا رہے تھے وہ کچھ یوں ہے کہ نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: +" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو " +تو ايك انصارى شخص نے عرض كیا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ذرا خاوند كے قریبی مرد ديور كے متعلق تو بتائيں ؟ +تو رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: +" دیور تو موت ہے " +الحمو خاوند كے بھائى یعنی ديور اور دوسرے قریبی رشتہ دار مرد مثلا چچا كے بيٹے وغیرہ كو كہا جاتا ہے. +اس حدیث میں غالبا تنہائی میں باربار اور بنا ضرورت کے ملنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 61 کو دیکھیں جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنے جن رشتے داروں کے گھروں میں کھانا کھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں بھائی بھی شامل ہے۔ اب بھائی کے گھر میں بھابھی ہوتی ہے اور بچے، اب مل کر کھاؤ یا الگ الگ کو دیکھا جائے توپہلی صور ت مل کر کھانے کی جو صورت بنتی ہے وہ یوں کہ دونوں بھائی، بھابھی اور سب بچے مل کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں، یہ صورت حال بھی بالکل جائز اور قابل قبول ہے۔ دوسری صورت میں مل کر اور الگ الگ کھانے کی ایک صورت یوں بنتی ہے کہ دونوں بھائی ایک جگہ مل کر کھائیں اور باقی گھروالے الگ، یہ صورت حال بھی جائز اور قابل قبول ہے، دوستوں کے گھروں میں کھانے کے لیے یہ صورت حال بہترین ہے ۔ اب ایک صورت یہ بچتی ہے کہ دونوں بھائی ہی الگ الگ کونوں یا کمروں میں بیٹھ کر اکیلے اکیلے کھائیں یا دونوں مل کر ایک جگہ ۔ مگر جناب اس طرح تو معاشرتی روابط مزید منقطع ہونگے، کیونکہ جو شخص اپنے بھائی کے گھر کھانا کھانے جا رہا ہےوہ اس سے روابط بڑھانے کے لیے جا رہا ہے، ورنہ کھانا تو اس کے اپنے گھر میں بھی پکتا ہے۔میرے خیال میں تو پہلی صورت اور دوسری صورت حال ہی درست ہیں۔ آیت کا مرکزی سبق تو یہ ہے کہ ان رشتے داروں میں سے جن کے گھروں میں بھی جاؤ وہاں سلام کر کے جاؤ۔ اس آیت میں کھانے کی حد تک بات ہو رہی ہے، زیب و زینت جن جن لوگوں کو دکھایا جا سکتا ہے اُن کی تفصیل پہلے ہی آ چکی ہے۔اسی آیت سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ فسٹ کزن وغیرہ کا چہرے کا پردہ بھی ضروری نہیں اور دیور وغیرہ سے چہرے کا پردہ کیے بغیر بھی ایک گھریعنی مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا قرآن نے منع نہیں کیا۔ اس آیت کے مطابق فسٹ کزن محرمات میں شامل نہیں ہوتے ، اسکے باوجود کھانے کے دوران ان سے چہرے کا پردہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ +يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] +”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ +اس آیت کی مخاطب نِسَاءَ النَّبِيِّ ہیں جس میں بیویاں، بیٹیاں اور دیگر خواتین شامل ہیں۔اس آیت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اُس دور یعنی دور نبوی ﷺ کے منافقین کی کوشش یہ تھی کسی نہ کسی طرح ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوائیں یا نکل جائے کہ جسے کسی دوسرے رنگ میں پیش کر کے وہ منافق فتنہ و فساد کھڑا کر سکیں۔ ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا اپنی عادت کے مطابق ہر کسی کے سوالوں کا جواب آرام سے ،عام اور نرم لہجے میں دیتی تھیں۔اس سے منافق پر امید تھے کہ جلد ہی وہ کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایسے حالات میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ آپ بہت خاص ہو، بلند مرتبہ ہو، فضیلت میں سب خواتین سے بڑھ کر ہو۔ یعنی تمام مسلمان خواتین کی رول ماڈل ہو ۔ آپ کے حوالے سے کہی ہوئی یا پھیلائی ہوئی کسی بھی بُری بات کے برے اور دور رس نتائج ہونگے، اگر آپ سے متعلق لوگوں کو یا خواتین کواچھ�� باتیں معلوم ہونگی تو وہ اُن کے لیے مشعل راہ ہو گی۔ اس وجہ سے اُن کو کہا گیا ہے کہ وہ اجنبی یا عام لوگوں سے نرم لہجے میں بات نہ کریں کہ کوئی منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ +اس آیت کی مخاطب تو ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین ہیں کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ عام عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ دوسروں سے نرم لہجے میں بات کریں۔ آیت کا مخاطب خاص ہے مگر حکم عام ہے۔اللہ تعالیٰ کے سمجھانے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کوسمجھائے کہ آوارہ لڑکوں کی طرح گالیاں مت دینا، حالانکہ اُس شخص کو سب بچوں کا گالیاں دینا ناپسند ہوتا ہے۔ +جس کسی کے دل میں بھی مرض، روگ یا طمع ہوتا ہے کسی کے میٹھے لہجے کا غلط مطلب لے کر دوسرے لوگوں میں خاتون کی طرف سے بدگمانی پھیلا سکتا ہےیا اُن کے دل میں مزید کسی قسم کا طمع پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خاتون کو متاثر کرنے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرے ۔مردوں کو چاہیے کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یا خواتین سے بات کرتے ہوئے اپنا لہجہ نرم رکھیں۔ مگر خواتین جب بھی بات کریں تو سیدھے سادھے ، سپاٹ انداز میں ٹو دی پوائنٹ بات کریں بلا ضرورت بات کو نہ بڑھائیں۔ جب کوئی خاتون سیدھے سادھے انداز میں صاف اور سیدھی بات کرے گی تو لوگ دوبارہ بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔خواتین کو اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ زیور کی آواز بھی اجنبی کے سننے کےلیے منع کر دی ہے، اسی طرح اصل لہجہ یا بول چال کا انداز جو خاتون گھر میں محرمات سے گھل مل کر بات کرتی ہیں ویسے ہی اجنبیوں سے بات نہ کرو۔ اچھی آواز بھی زینت ہے مگر یہ مشکل سے چھپانے والی زینت میں آتی ہے۔ +وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [٣٣:٣٣] +اس آیت میں اہل بیت کا لفظ ثابت کر رہا ہے کہ پچھلی آیت میں مخاطب صرف ازواج مطہرات ہی نہیں تمام خواتین ہیں جن کا تعلق نبی کریم ﷺ سے ہے۔ ان تمام کو کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہو۔ بلا ضرورت باہر نہ نکلو۔ +نبی کریم ﷺ کے مقام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سب اہل بیت کو نیک رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیںَ +”اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو“ +” نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور“ +یعنی اہل بیت خواتین اور تمام مسلمان عورتیں گھروں میں یا ایسی جگہوں پر جہاں مخلوط اختلاط نہ ہو وہاں عبادت کا بندوبست بھی رکھیں اور کوئی کام کاج کرنا چاہیں تو وہ بھی کریں۔ آیت میں زکواۃ دو آیا ہے جو اس سے پہلے بھی ہر جگہ نماز قائم کرو کے ساتھ لازمی قرآن میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام کاج ہو گا، آمدن ہو گی تو زکوٰۃ دی جا سکے گی۔اس کا مطلب ہے کہ حجاب کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے خواتین ملازمت اور کاروبار کر سکتی ہیں۔بہ امر مجبوری مخلوط ماحول میں بھی کام کیا جا سکتا ہے چاہے چہرہ پر حجاب ہو یا نہ ہو، جیسے مجبوری کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی اپنی بہنوں کے ساتھ بکریاں چراتی تھیں، مگر موقع ملتے ہیں انہوں نے ملازم کا بندوبست کر لیا۔ +” اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو“ +اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو ساری امت پر فرض ہے۔ یہاں ازواج مطہرات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں دنیا اور آخرت میں کامیابی ہے۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت یہی ہے کہ ان احکامات پر عمل کیا جائے۔ +پوری طرح پاک کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے کچھ ناپاکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ساری امت کے لیے گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی طرح الگ سے ازواج مطہرات کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اُن کو خصوصی مخاطب کرنے کا مقصد اُن کی خصوصی رہنمائی ہے تاکہ وہ ساری امت کی خواتین کے لیے رول ماڈل بنیں۔ +يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا [٣٣:٥٣] +”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے “۔ +اس آیت کو آیت حجاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں حجاب سے مراد ویوارکی طرح یعنی مکمل پردے کے ہیں۔ اس سے پہلے مسلمان مردوخواتین کےبارے میں پردے کے کافی احکامات آ چکے ہیں۔ یہاں خصوصی طور پر حضور ﷺ کے گھر کا ذکر ہے، چونکہ نبی کریم ﷺ کا گھرانہ تمام مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے اس لیے یہ آداب تمام مسلمانوں کے لیے موجودہ دور کے لیے بھی ہیں۔آیت کے بنیادی مخاطب عام مسلمان ہی ہیں۔ +اس آیت میں صحابہ کرام کو صاف صاف منع کر دیا گیا ہے کہ بغیر اجازت کے وہ امہات المومنین کے گھروں میں نہیں جا سکتے۔ بغیر اجازت کے صرف وہ محرمات جا سکتے ہیں جس کی تفصیل آگے آیات میں آئے گی۔اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے، فوراً بعد ہی مدینے کے ہر گھر میں پردے لٹک گئے، وہ حکم جس میں عام لوگوں کو مخاطب کیا گیا تھا کہ امہات المومنین سے پردے کے پیچھے سے کوئی چیز مانگا کریں، اس پر تمام مسلمان عمل کرنے لگے، امہمات المومنین سے ہی نہیں دوسرے مسلمان گھروں میں بھی یہی دستور اپنا لیا گیا۔مزید ایک بات اور اس آیت میں قابل غور ہے کہ امہات المومنین کو عام لوگوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔عام لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہو پردے کے پیچھے سے مانگیں۔ امہات المومنین جو درجہ میں سب مسلمانوں کی مائیں ہیں، قرآن کریم ��ے مطابق نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی اُن سے شادی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود اُن کو پردے کا حکم دینا پردے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، تو آج کے پر فتن دور میں گھر سے باہر پردے کی کس قدر پابندی کرنی چاہیےاُس کا اندازہ خود لگا لیں۔ +لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [٣٣:٥٥] +”ازواج نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں (اے عورتو) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہیے اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے“۔ +یہی احکامات عام عورتوں کے لیے بھی ہیں، یہ وہی رشتے ہیں جن پر زینت ظاہر کی جا سکتی ہے، یہ لوگ بغیر اجازت بھی گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔صرف گھروں میں آ جا سکتے ہیں، خواب گاہ میں اجازت لے کر جانا چاہیے، خاص کر اُن تین اوقات میں جن کا ذکر قرآن کی آیت ٢٤:٥٨ میں بھی ہے کہ یہ تین اوقات پردے کےہیں۔ +”اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے“ +اس اذیت سے مراد ذہنی اذیت بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی اذیت بھی۔دین اسلام تو وہ دین ہے جس میں ناحق جانوروں کو تکلیف پہچانا حرام ہے ، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اذیت کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ زانی یا آوارہ مردوں کا شریف عورتوں کے پیچھے جانا، جھوٹے الزامات لگانا، جھوٹی افواہیں پھیلانا بھی مومن عورتوں کو تکلیف دیتا ہے۔ +”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ +جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔ ایسی چادر کو گھروں میں تو لینے کا حکم نہیں کیونکہ گھروں میں دوسرے گھر والوں کے سامنے جو چادر لینے کا حکم ہے اسے خمار کہتے ہیں جس سے سر ڈھانپے کے علاوہ سینہ وغیرہ ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے خمار کا ذکر پیچھے سورۃ النور کی آیت 31 میں آ چکا ہے۔ ڈوپٹے کو بھی خمار کہا جا سکتا ہے ۔ گھر سے باہر جہاں عام لوگوں کی نظر پڑنے کا اندیشہ ہو اسے ڈوپٹے کے اوپر لینا چاہیے۔ موجودہ دور میں برقعہ یا سکارف جلابیب کا نعم البدل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں یہود کی لونڈیوں بشمول خواتین کی اخلاقی حالت بہت پست تھی اورپردہ کا رواج اتنا زیادہ نہ تھا۔ کفار زیادہ تر لونڈیوں کو ستاتے تھے۔ مسلمان عورتوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے وہ مسلمانوں کی عورتوں پر آوازے کستے تھے۔ اس پر جب اُن کی باز پرس کی جاتی تو کہتے کہ میں تو اپنی لونڈی سمجھا تھا یا فلاں کی لونڈی یا پھر یہ کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ عورت جو جا رہی ہے مسلمان ہے اور اس (بُرے)قماش کی نہیں۔اس آیت میں ایسی کسی بھی صورتحال پیدا ہونے کے مواقع ختم کر دئیے کہ مسلمان عورتیں یا شریف عورتیں ڈوپٹے کے اوپر چادر لیں تاکہ سب کہ پتہ چل جائے کہ مسلمان اور شریف عورت ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن کے مطابق پردہ کرنا یا سر پر چادر لینا شریف عورت ہونے کی نشانی ہے ۔اس آیت میں مسلمان خواتین کو کفار کی خواتین اور لونڈیوں سے الگ نظر آنے کا حکم دیا گیا ہے۔مسلمانوں کی لونڈیاں بھی چونکہ اہل ایمان تھی اس لیے وہ بھی لازماً اس حکم کے نازل ہونے کے بعد چادریں لیتی ہونگی، اس آیت میں فرق مسلمان اور کفار کی خواتین(بشمول لونڈیاں اور عام خواتین) کے درمیان بتایا گیا ہے۔ +”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے“ +جیسا کہ پچھلی آیت میں مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا کہ اپنی شناخت پردے کی صورت میں کفار کی خواتین اور بدقماش خواتین سے الگ کر لیں تو اس کے بعد کفار اور یہود کے لیے یہ بہانہ تو ختم ہو گیا کہ وہ مسلمان خواتین کو پہچان نہیں سکے تھے اس لیے آواز لگا دی۔ جن کفار کے دلوں میں اب بھی مرض تھا وہ مسلمان خواتین اور مسلمانوں کے خلاف افواہیں پھیلانے لگے۔ یہ افواہیں اس طرح کی ہوتی تھی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے، مسلمان جنگ ہار گئے یا فلاں مسلمان خاتون ایسی ویسی ہے۔ ان مفافقین کا مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو خراب کرنا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حتیٰ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی بُری افواہیں پھیلائی گئی۔ اب وارننگ انہی لوگوں کے لیے تھی ۔ان کے جرائم کی کم سے کم سزا جلاوطنی بتائی گئی ہے۔ یہ جلا وطنی اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے کسی کے بارے میں بُری افواہیں پھیلائیں مگر ان کے نتیجے میں کوئی فتنہ نہ پھیل سکا، جیسے ہی انہوں نے بولا، فوراً پتہ چل گیا کہ یہ افواہ پھیلا رہا ہے تو ایسے شخص کی کم سے کم سزا جلاوطنی تجویز کی گئی۔ +پچھلی آیت میں کم سے کم سزا تجویز کی تھی۔ اب یہاں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی جا رہی ہے۔ یعنی اگر کسی کی افواہ یا باتوں کی وجہ سے کسی مسلمان کے گھر میں ناچاقی ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو افواہ تھی تو افواہ پھیلانے والے کو زیادہ سے زیادہ سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ان کا بائیکاٹ یا جسمانی سزا یا موت جو کہ قاضی جرم کو دیکھتے ہوئے صادر کر سکتا ہے۔ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف بدگمانی پھیلانا یا پھیلانے کی کوشش کرنا سنگین جرائم ہیں۔ +سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [٣٣:٦٢] +”یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے“ +یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے۔ پرانی شریعتوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر یہ منافق یہودی اپنی کتاب پڑھیں تو اس میں بھی ایسی ہی سزائیں ہیں۔ +بائبل میں بھی اس طرح کے احکام ہیںَ۔ جھوٹے الزام پر طلاق نہیں دی جا سکتی۔ بدنام کرنے والوں کی بھی سزا کا ذکر ہے۔ قرآن کی یہ آیت بتا رہی ہے کہ ایسی سزا نئی نہیں پرانی ہے۔ ان منافق یہودیوں کی کتابوں میں بھی درج ہے۔یہودیوں میں تو اگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں بُری باتیں پھیلائے تو اس کی جسمانی سزا میں کوڑے، مالی سزا میں جرمانہ اور اس کے علاوہ تمام عمر طلاق پر پابندی کی سزا بھی تھی۔ جیسا کہ ان آیات میں درج ہے۔ +”اِستِشنا: باب22:13۔اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیاہے (نکاح کرے)اور اُسکے پاس جائے اور بعد اُسکے اُس سے نفرت کر کے۔14۔شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اِس عورت سے بیاہ کیا اور جب میں اُسکے پاس گیا تو میں نے کنوارے پن کے نشان اُس میں نہیں پائے۔15۔تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کنوارے پن کے نشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزرگوں کے پاس لے جائیں۔16۔اور اُس لڑکی کا باپ بزرگوں سے کہے کہ میں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔17۔اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے تیری بیٹی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کنوارے پن کے نشان یہ موجود ہیں۔ پھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزرگوں کے آگے پھیلا دیں۔18۔تب شہر کے بزرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔19۔اور اُس سے چاندی کی سو مثقال جرمانہ لیکر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اس لیے کہ اُس نے ایک اسرائیلی کنواری کو بدنام کیا اور وہ اُس کی بیوی بنی رہے اور وہ زندگی بھر اُسکو طلاق نہ دینے پائے۔“ +اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی مقتدر قوم بنا کر بھیجا ہے۔ زمین کا اقتدار انسان کے پاس ہی ہے۔ ان سب انسانوں میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے والے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک معاشرے میں قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری وہاں کی پولیس کا کام ہے اسی طرح اللہ کی زمین پر اللہ کے قوانین کا نٖفاذ، نظام عدل کا قیام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ہر مسلمان کا مقصد یہ ہی ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق حکومت کو چلائے، اگر حکومت نہیں چلا سکتے تو کم از کم اپنی زندگی پر ان احکامات کو لاگو کرے۔ باطل حکومت اور باطل نظام کے سامنے سینہ سپر ہوکر یا کسی بھی طریقے سے اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کو کاروائی، جنگ، جہاد اور قتال، کی اجازت بھی دی ہوئی ہے۔انسانوں میں مسلمانوں کا غلبہ صرف اُس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کو خود پر اور معاشرے پر لاگو کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت ہر قسم کی اخلاقی خوبیوں پر قائم رہیں۔اس کے برعکس شروع سے ہی شیطانی قوتوں یعنی باطل نظام نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نظام کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ماضی میں بھی اور موجودہ دور میں بھی اس طرح کی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی جن سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ نظام باطل کو اصل تکلیف مسلمانوں یعنی اللہ تعالیٰ کے نظام کو قائم کرنے والوں سے ہے اور مسلمانوں کے نظام حق سے ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر کے ستی کی رسم کو جرم قرار دے دیا اور ہندوؤں میں بچپن کی شادی پر پابندی لگا دی تو انہیں انسانیت اور ہندوستان کے محسن گردانا گیا۔ اگر معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلمان کوئی بھی قدم اٹھائے تو کفار کے نزدیک انسانیت کے خلاف جرم ہو جاتا ہے۔افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر اسلامی حکومت کے خلاف کارووائی ہوئی، مگر مصر میں جمہوریت کے ذریعے قائم کسی اسلامی کہلانے والی جماعت کی جمہوری طریقے سے قائم حکومت بھی نامنظور۔مسلمان اگر کسی بگڑے ہوئے معاشرے میں انفرادی طور پر پردہ کریں تو دقیانوسی اور اجتماعی طور پر انسانوں کی فلاح کے لیے عوامی مقامات پر پردے کولازم قرار دے دیں تو ظالم بن جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور مومنوں کو کفار کی کسی بات سے رنجیدہ ہوئے بغیر صرف وہی کرنا چاہیے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہ��۔ +عورت کے پردے کا مقصد +کوئی بھی ایسی حرکت ، جو معاشرے میں فساد پھیلائے یا معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بنے، ایسی حرکات کرنے والا خواہ مرد ہو یا عورت ، ایسی حرکات پراسلامی معاشرے میں پابندی ہے۔ کسی بھی عورت کا بازار میں چست یعنی جسم کے خدوخال کو نمایاں کرنے والا لباس، میک اپ زدہ چہرہ، کھلے بال، کھنکھناتے ہوئے زیورات کے ساتھ پھرنا معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کی کوشش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کے سامنے پوشیدہ زیور کے ظاہر ہونے (بذریعہ آواز) کو ناپسند فرمایا ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہےکہ آواز سے کوئی بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔اسی طرح تیز خوشبو سے بھی کوئی بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔یعنی نا محرم لوگوں کے سامنے کسی بھی طرح کی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مٹر کر دیکھنا چاہے۔اسلامی معاشرے میں زینت دکھانے کا مطلب عام لوگوں کے سامنے نمائش نہیں۔ اسے صرف مخصوص محرموں کو ہی دکھایا جا سکتا ہے، اور باہرعام لوگوں کے پاس اسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑی چادر سے چھپایا جائے یا برقعہ یا سکارف سے۔جو چیز چھپائی نہ جا سکے یعنی آواز، قد، رنگ وغیرہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔یہ ساری آزمائش اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو فطری طور پر مرد کے لئے باعث کشش اور باعث رغبت بنایا ہے، اسی لیے عورت کو کچھ زیب و زینت چھپانے کا زیادہ حکم دیا گیا ہے۔ یہ فطری رغبت اللہ تعالیٰ ہی نے مرد میں رکھی ہے، مقصود اس کا یہ ہے کہ کون اللہ کی بیان کی ہوئی حدود کو قائم رکھتا ہے اور کون حدود پار کرتا ہے۔ +پردے کے احکامات اور معاشرہ +حجاب یا پردے سے متعلق قرآن کریم کی آیات پر تو ہم نے بات کر لی، اب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سے ان احکامات اور قوانین کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ +اسلامی معاشرے میں قوانین کا نفاذ +کسی بھی وقت، کسی بھی ملک میں ،کسی بھی حالات میں جب ہم اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کریں گے تو ہمیں اس کے لیے نبی کریم ﷺ کی زندگی کو مثال بنانا ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نبوت ملنے کے 13 سال بعد تک مکے میں رہے۔ وہاں انہوں نے لوگوں کو نصیحت کی۔ چاہے پردہ کا معاملہ ہو ، دین کا یا دنیا کا، ہر کام میں نصیحت کی۔ بزور قوت تو وہاں وہ کسی بھی قسم کے معاملات میں سزاؤں کا نفاذ کرہی نہیں سکتے تھے کہ کفار اکثریت میں تھے اور ایمان والے چند لوگ، مگر وہ چند ایمان والے ایسے تھے کہ جن کی فضیلت قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے وہ اس کے بعد ایمان لانے والوں سے افضل ہیں [٥٧:١٠] ، ایسے ایمان والوں کو تو صرف اللہ کا حکم معلوم ہونے کی دیر تھی اور انہوں نے فوراً اپنی زندگی کو اِن احکامات کے مطابق ڈھال لیا۔اُن لوگوں کے لیے ستر پوشی کا معاملہ ہو(سورۃ اعراف آیت 26) یا دوسرے دنیاوی معاملات، انہوں نے دل و جان سے اس پر عمل کیا ۔اس لیے جب بھی کہیں دنیا میں ایسے حالات ہو کہ مسلمان چند لوگ ہو اور کفار کی اکثریت یا اسلامی قوانین حکومتی طور پر نافذ نہ ہو سکیں تو وہاں تمام مسلمان قرآن کریم کے احکام کو ذاتی حیثیت میں خود پر لاگو کریں گے۔دوسرے لوگوں ،چاہے وہ اُن کا ملازم ہو یا ہمسایہ، وہ صرف نصیحت کر سکتے ہیں، زور زبردستی کسی معاملے میں نہیں۔مکی سورتوں میں بھی نبی کریم ﷺ کو صرف نصیحت کرنے کے متعلق کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان سورتوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کفار یا کوئی دوسرا بات نہ مانے تو اس کو اللہ تعالیٰ سزا دے گا، وہ چاہےدنیا میں یا آخرت میں دے۔ +اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی زندگی کا آخری دور یعنی مدنی دور، مدینہ میں نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے تو حکومت کے استحکام کےلیے کوششیں کی۔ اس سلسلے میں غیر مسلموں تک سے معاہدے ہوئے۔ اس کے بعد جب طاقت حاصل ہو گئی تو برائی ،جو حد سے بڑھ گئی تھی، کی بیج کنی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں پردے کے احکام بھی شامل ہیں۔سب سےپہلے تو اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ چہرے کا بھی پردہ کریں، یعنی سر پر بھی چادریں لٹکا لیں۔یعنی فاسقوں پر حجت اتمام ہو جائے۔ اس کے بعد شر پسند عناصر کے لیے کڑی سزائیں تجویز کی گئیں۔ اس لیے تا قیامت جب مسلمانوں کو اپنی ایک ریاست ملےتو وہ وہاں پر حکومتی سطح پر اسلامی احکامات رائج کر سکتے ہیں۔کسی غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے دوران پردے کے احکامات بھی بتدریج نافذ کیے جائیں گے۔ مرد وزن کے آزانہ اختلاط کی اجازت اسلامی معاشرے میں نہیں دی جاسکتی۔ اسلامی معاشرے میں گھر کے باہر معاشرے میں پردے کے احکامات پر مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی عمل کریں گے۔قوانین کی خلاف ورزی پر معاشرے کے حالات کے مطابق سزائیں نافذ کی جا سکتی ہیں اور نہ ماننے والوں کو بھی اسلامی حکومت جو چاہے سزا دے سکتی ہے۔یہ سزا ایک تو اسلامی حکم نہ ماننے کی ہو گی اور دوسرا حکومت کی رٹ کو نہ ماننے کی۔اگر بعد میں حکومت دیکھے کہ لوگ اتنے نیک ہو گئے ہیں تو پردہ کے یا کسی طرح کے بھی قوانین میں نرمی کر دے۔لوگوں کے ایمان کی حالت کا اندازہ اخلاقی حالت اور جرائم کی تعداد سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ +غیراسلامی معاشرے میں قوانین کا نفاذ +اگر معاشرہ اسلامی نہ ہو جیسے کہ ہمارا ملک پاکستان، جو صرف اپنے سرکاری نام کی حد تک اسلامی ہے، میں پردے کے اسلامی احکامات پر انفرادی طور پر عمل کیا جائے گا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو نصیحت کر سکتا ہے مگر زبردستی نہیں کر سکتا۔ معاشرے کے بُرے عناصر سے بچنے کے لیے ، جن کو نہ خدا کا خوف ہے اور نہ سزاؤں کا ڈر، خواتین کو لازماً پردہ کے احکامات پر انفرادی طور پر عمل کرنا چاہیے۔ +معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا کردار +کسی بھی معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔بہترین مثالی معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں مرد کمائے اور عورت گھر کو سنبھالے اور بچوں کی تربیت کرے۔ مگر اس مثالی معاشرے میں بھی تمام کام مرد ہی سرانجام نہیں دے سکتے۔ بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے ہی مناسب ہیں، خاص طور رپر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں۔موجودہ دور میں ہر شعبے کی ترقی میں عورتوں کا کردار مثالی ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر عورتوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے، تعلیم سمیت ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں یا کر سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ضروری ہے کہ تمام خواتین بھی اپنی تعلیم اور صلاحیت سے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہیں ۔ اس کے علاوہ بوقت ضرورت خواتین ہرشعبے میں کام کر سکتی ہیں۔ڈاکٹری کے شعبے میں عورتوں کی سخت ضرورت ہے۔بہت سے لوگ عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں مگرجب اپنی عورتوں کا علاج کرانا ہو تو کسی خاتون ڈاکٹر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اللہ کے بندو! اگر بچیوں کو تعلیم نہیں دلاؤ گے، اُن کی تعلیم کی مخالفت کرو گے ، اُن کو ڈاکٹر نہیں بناؤ گے تو پھر پردہ دار عورتوں کا علاج کیسے کراؤ گے؟بریسٹ سرجری، گائناکالوجسٹ کے لیے عورتوں کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے۔ع��رتوں کے کپڑوں کی سلائی، چوڑی مہندی، بیوٹیشن کے شعبے بھی عورتوں کےہی ہیں۔عورت مرد کی نسبت اچھی ٹیچر ہوتی ہیں۔ +عورتوں کے کام کرنے کے حوالے سے، ملازمت کے حوالے سے قرآن کریم میں کہیں بھی ممانعت نہیں۔ قرآن کریم میں خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات اور عام طور پر امت کی خواتین کے متعلق حکم نازل ہوا ہے کہ گھروں میں رہو اور زکواۃ دیتی رہو۔ +وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [٣٣:٣٣] +اس آیت میں اگرچہ زکواۃ دینے کا ذکر عمومی طور پر اسی طرح کیا گیا ہے جیسے کہ نمازکی ہر آیت میں نماز کے ساتھ آیا ہے ، اس کے باوجود اس سے پتہ چلتا ہے کہ نما ز کی طرح زکواۃ بھی ہر کسی پر فرض ہے۔ اب زکواۃ تو وہی دے گا جو کچھ کماتا ہو۔چاہے کمائی کاروبار کی ہو یا زمینوں کی۔ +کام کرنے کے ماحول کے حوالے سے دیکھا جائے تو اگر معاشرہ اسلامی ہو تو حکومت خود ہی ایسے اقدامات کرے گی جس سے خواتین کو کام کرنے کے لیے ایسا ماحول میسر آئے جہاں وہ آزادی اور حجاب کے ساتھ کام کر سکیں۔ عورتوں کو کام کرتے ہوئے پردے کا خیال رکھنا چاہے۔ کام کے دوران چہرے کے پردے کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق کام کے دوران چہرے کا پردہ ضروری نہیں جبکہ کچھ کے نزدیک پردہ ضروری ہے۔ +حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے مدین پہنچے تو ان کی ملاقات چند لڑکیوں سے ہوئی جو اپنے باپ کے بڑھاپے کی مجبوری کے سبب سے گلہ بانی کا کام خود کرتی تھیں۔ معاشرے کی خراب حالت کے باعث انہیں گلہ بانی میں دشواری کا سامنا تھا۔ موقع ملتے ہی انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھ لیا۔ اس سے پہلے جب ایک لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے گئی تو بہت شرماتی ہوئی گئیں۔ اُن کی یہ شرماہٹ اللہ تعالیٰ کو اتنی بھائی کہ اب قرآن کریم میں تاقیامت اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔ +فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [٢٨:٢٥] +”(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی "میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں" موسیٰؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا "کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالموں سے بچ نکلے ہو“ +یعنی مجبوری میں مخلوط ماحول میں کام کرنا پڑ جائے تو ایسے کریں جیسے حضرت موسیٰ کی بیوی اور بیوی کی بہنیں شادی سے پہلے کرتی تھیں، اگرچہ وہ معاشرہ اچھا نہیں تھا، اچھے معاشرے میں عورتوں کو انصاف کے ساتھ برابری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ + + +اس کتاب کی تیاری میں جو قرآن کریم کی آیات پیش کی گئی ہیں، اُن پرغور و فکر کرتے ہوئے درج ذیل تفاسیر بھی زیر مطالعہ رہیں۔ +*تفسیر ماجدی: از، عبدالماجد دریا آبادی +*تدبر القرآن:از، امین احسن اصلاحی +*تفہیم القرآن: از، مولانا مودودی +*بیان للناس: از خواجہ احمد دین +*تفسیر ثنائی: از، مولانا ثنا اللہ امرتسری +*تفسی�� مدارک از عبداللہ بن احمد بن محمود +*جواہر القرآن:از، مولانا حسین علی +میں محمد حنیف بھائی کا مشکورہوں جن کے ساتھ اس موضوع پر کافی مفید تبادلۂ خیال رہا۔محمد شعیب بھائی کا بھی شکریہ جنہوں نے اس کتاب کی کمپوزنگ اور ڈیزائنگ میں کافی معاونت کی۔ + + +معراج کے بارے میں قرآن پاک میں دو جگہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ النجم میں ذکر آیا ہے۔ +ترجمہ از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی +”پاکی ہے اس شخص کوکہ لے گیابندے اپنے کورات کو مسجد حرام سے طرف مسجداقصیٰ کی وہ جو برکت دی ہم نے گرد اس کے کو تو کہ دکھلا ویں ہم اس کو نشانیوں اپنی سے تحقیق وہ ہے سننے والا دیکھنے والا“ (سورۃ بنی اسرائیل 17 1) +” قسم ہے تارے کی جب گرے۔1۔نہیں بہک گیا یا ر تمہارا اور نہ راہ سے پھر گیا ۔2۔اور نہیں بولتا خواہش اپنی سے۔3۔ نہیں وہ مگر وحی کہ بھیجی جاتی ہے۔4۔سکھایا اس کوسخت قوتوں والے نے ۔5۔صاحب قوت ہے پس پورا نظر آیا ۔6۔ اور وہ بیچ کنارے بلندکے تھا ۔7۔پھر نزدیک ہوا پس اُتر آیا ۔8۔ پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک ۔9۔پس وحی پہنچائی ہم نے طرف بندے اپنے کے جو پہنچائی ۔ 10۔نہیں جھوٹ بولا دل نے جو کچھ دیکھا۔ 11۔کیا پس جھگڑتے ہو تم اس سے اُوپر اس چیز کے کہ دیکھا ہے ۔ 12۔اور البتہ تحقیق دیکھا ہے اس نے اس کو ایک بار اور ۔13۔نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے۔14۔ نزدیک اس کے ہے جنت الماویٰ ۔15۔جس وقت کہ ڈھانکا تھا بیری کو جو کچھ ڈھانک رہا تھا ۔16۔ نہیں کجی کی نظر نے اور نہ زیادہ بڑھ گئی ۔ 17۔تحقیق دیکھا اس نے نشانیوں پروردگار اپنے کی سے بڑی کو ۔18“ (سورۃ النجم 53 1تا 18) +سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر1 میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ راستے میں کیا کیا ہوا اور پھر مسجد اقصیٰ سے آسمان پر لے جایا گیا اس بارے میں پڑھنے والوں کو بہت مواد اور تفصیل مل جاتی ہے۔یہ بندہ صرف سورۃ النجم کی آیت نمبر1تا 18 کی تشریح اورتفسیر لکھنا چاہتا ہے۔ ان آیات کی تشریح اور تفسیر لکھنے سے پہلے یہ بھی بہت ضروری سمجھتاہے کہ ان آیات کا ترجمہ از شاہ عبدالقادر شاہ صاحب محدث دہلوی بھی ضرور لکھا جائے۔لہٰذا پیش خدمت ہے۔ +”قسم ہے تارے کی جب گرے۔1۔ بہکا نہیں تمہارا رفیق، اور بے راہ نہیں چلا ۔2۔ اور نہیں بولتا اپنی چاؤ سے۔3۔یہ تو حکم ہے جوپہنچتا ہے۔4۔ اس کوسکھایا سخت قوتوں والے نے۔5۔ زور آور نے پھرسیدھا بیٹھا (سیدھا کھڑا ہو گیاتھا)۔ 6۔ اور وہ تھااونچے کنارے آسمان کے۔ 7۔ پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا۔8۔پھر رہ گیا فرق دوکمان کامیانہ یا اس سے بھی نزدیک ۔ 9۔ پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا۔ 10۔جھوٹ نہ دیکھا دل نے جودیکھا۔11۔اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا؟۔ 12۔اور اس کو اس نے دیکھا ہے ایک دوسرے اتارے میں۔13۔پرلی حد کی بیری پاس۔14۔ اس پاس ہے بہشت رہنے کی۔ 15۔جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا۔16۔بہکی نہیں نگاہ اور حد سے نہیں بڑھی۔ 17۔ بے شک دیکھے اپنے رب کے بڑے نمونے۔ 18“ (سورۃ النجم 53 1تا 18) +”قسم ہے تارے کی جب گرے۔1“ +اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم کھائی ۔کونسے ستارے کی قسم کھائی یا کسی چیز کو ستارہ کہہ کر قسم کھائی؟ کچھ پتہ نہیں چلتا ۔اللہ کے راز اللہ جانے لیکن یہ صاف معلوم ہوتاہے کہ قسم کھا کر جو بات کی جارہی ہے وہ بات خاص اور وزن والی ہے۔ ایک سمجھنے والے نے ستارے سے مراد قرآن پاک لیامگر مجھے تو قرآن پاک کی تمام آیات ہی ستارے نظر آتے ہیں بلکہ ایک ایک آیت ��یں بھی کئی کئی ستارے موجود ہیں۔ +”نہیں بہک گیا یا ر تمہارا اور نہ راہ سے پھر گیا ۔2۔اور نہیں بولتا خواہش اپنی سے۔3۔نہیں وہ مگر وحی کہ بھیجی جاتی ہے۔4۔سکھایا اس کوسخت قوتوں والے نے۔5“ +قرآن پاک کی آیات کا ترجمہ خود ہی مفہوم تشریح اور تفسیر ہوتا ہے کہ اس کی تشریح یا تفسیر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ان آیات میں صاف بتلایا جا رہا ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی معراج سے متعلق جو بھی باتیں کر رہے ہیں یا کیں یہ بہکی ہوئی باتیں نہیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس سخت قوتوں والے سے مرادحضرت جبرائیل امین علیہ السلام ہے۔ +”صاحب قوت ہے پس پورا نظر آیا۔6۔ اور وہ بیچ کنارے بلندکہ تھا۔7۔پھر نزدیک ہوا پس اُتر آیا۔8۔ پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک ۔9۔پس وحی پہنچائی ہم نے طرف بندے اپنے کے جو پہنچائی۔ 10۔نہیں جھوٹ بولا دل نے جو کچھ دیکھا۔ 11“ +صاحب قو ت ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے صاحب قوت ہونے کا مظاہرہ دیکھلا یا گیایوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا وجود پورا نظر آیا یعنی اتنا بڑا ہوتا چلا گیاکہ جس سے پورا آسمان حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود سے بھر گیااور حضرت جبرائیل علیہ السلام بلندی میں اس کنارے تک پہنچ گئے کہ جہاں سے اللہ تعالیٰ سے وحی حاصل کرتے تھے۔ وحی حاصل کرنے کے بعد پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ہونا شروع ہوئے اور واپس ہوتے ہوئے اتر آئے۔ شاہ عبدالقادر شاہ صاحب کے ترجمہ کے مطابق لٹک آئے۔ دونوں ہی ترجمے بہت بہترین لکھے ہوئے ہیں۔ +”پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک ۔9“ +اس آیت سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس بندہ کو ایک خاص سمجھ عطا فرمائی ہے کہ جو آج تک کسی کو بھی نہ آئی۔ اس آیت سے علماء آج تک جو مطلب لیتے رہے وہ یوں کہ پھر یوں ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا اور حضور پاک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس میں پاؤں سے پاؤں کا فاصلہ دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا ۔یہ مفہوم غلط ہے۔ عالم دنیا میں بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام بہت دفعہ وحی لے کر آئے اور کئی بار ایسا ہوا ہو گاکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس میں زمین سے زمین تک کا فاصلہ دو کمان یاا س سے بھی کم ہو گالیکن قرآن پاک کی معراج والی آیات میں یہ فرمایا کہ ”پس تھا قد ردو کمان کے یازیادہ نزدیک“ اس کا اصل مفہوم یہ کہ پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی حاصل کرنے کے لیے اتنے بڑے وجود کے بن گئے کہ ان کے وجود سے آسمان بھر گیا پھر وحی حاصل کرنے کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اترنا شروع ہو ئے اور لٹک آئے اور اپنا اتنا وجود بنا لیا کہ انکا قد زمین پاؤں سے بلندی کی طرف دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا مطلب وہ انسانی قد کاٹھ میں آ گئے اور انسانی قد کاٹھ میں آنے کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی پہنچائی۔ یہ لکھا جانا کہ ”پس تھا قد ردو کمان کے“اس سے مراد زمین سے بلندی کی طرف کا فاصلہ ہے نہ کہ زمین سے زمین کی طرف کا فاصلہ۔ +یہ مفہوم جو کہ اس بندہ نے لکھا ہے یہ بندہ انتہائی یقین اور دعوے سے کہتا ہے کہ یہ اس آیت کا مفہوم صحیح اور سچ لکھا ہے جو کہ آج تک کسی نے نہیں لکھا۔ +قریب المرگ لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے فرشتوں کو اس طرح سے دیکھا ہے کہ ان کے قد آسمان کے برابر تھے اور پھر اتنے چھوٹے ہوئے کہ ایک بالشت یا ایک فٹ کے بن گئے۔ +اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ معراج میں حضرت جبرائیل امین علی�� السلام نے یہ عمل صرف ایک بار کیا یا کئی بار؟ جیسے کہ مشہور ہے کہ پچاس نمازیں فرض ہوئیں اور کم ہوتے ہوئیں پانچ رہ گئیں۔ اس کامطلب ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ بار بار کیا یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام اللہ تعالیٰ تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی وحی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچائی۔ ان آیات سے یہ کہنا بھی غلط ہو جاتا ہے کہ معراج پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پر جلنے لگے اور وہ آگے نہ جا سکے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے چلے گئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام باتیں اور وحی جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے سے ہوئیں۔ +”کیا پس جھگڑتے ہو تم اس سے اُوپر اس چیز کے کہ دیکھا ہے۔ 12“ +معراج کے بارے میں کفاریہ جھگڑا کرتے تھے کہ یہ بہکی ہوئی باتیں ہیں اور جھوٹ باتیں ہیں ایسا ہو نہیں سکتا لیکن یہ بندہ مسلمانوں میں بھی اس معراج کے معاملہ میں جھگڑا سنتا ہے اور ایسے مسلمان کہ جن کے دلوں میں کجی(مرض ٹیڑھا پن)پڑ چکا ہے وہ اِن معراج والی آیات کی غلط تشریح کرنے لگ جاتے ہیں۔وہ یوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ سے براہ راست آمنے سامنے باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ اور حضر ت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپس کا فاصلہ دو کمان کے برابر تھا اور یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ہی شکل میں دیکھا(نعوز باللہ)اور ان باتوں کو شعرو شاعری میں ڈھال رکھا ہے کہ سننے والوں پر گہرا اثر پڑے۔ اس بندے نے ان باتوں کا لوگوں پر گہرا اثر پڑتے ہوئے دیکھاہے ۔ +”پس وحی پہنچائی ہم نے طرف بندے اپنے کے جو پہنچائی“ (سورۃ النجم 53 10 ترجمہ از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی۔ +”پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا“(سورۃ النجم 53 10 ترجمہ از شاہ عبدالقادر شاہ صاحب +لفظ ’’پہنچائی یا بھیجا‘‘واضح ثبوت ہے کہ کسی کے ذریعے پہنچائی یا بھیجی اور ذریعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔ بھیجی بمطابق قرآن پاک کے +”نہیں پاتیں اس کو نظریں اور وہ پاتا ہے سب نظروں کو“ (سورۃ الانعام 6 103) +قرآن پاک کی یہ آیت واضح ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی نظریں نہیں دیکھ سکتی۔ یہی سوال ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا گیا کہ کیا حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قرآن پاک کی یہی آیت پڑھی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو بہت بڑی ذات ہے۔ بھلا اس ذات کو دو کمان کے فاصلے سے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی پہاڑ کو بھی دو کمان کے فاصلے سے دیکھے تو پہاڑ کا ذرا سا حصہ دیکھا جا سکے گا اور کسی کو ہاتھی ایک انچ کے فاصلے سے دیکھا یا جائے تو اسے کالے رنگ کی ایک دیوار کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ +یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی شکل میں دیکھا اس کی حقیقت یہ ہے کہ ساتویں آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ جن کی شکل صورت بالکل حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی تھی۔ آپ جناب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ جناب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل میں پیدا کیا۔ +”اور البتہ تحقیق دیکھا ہے اس نے اس کو ایک بار اور۔13۔نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے 14۔ نزدیک اس کے ہے جنت الماویٰ۔15“ +مفہوم ان آیات کا یہ ہے کہ دیکھا ہے اس نے اسکو ایک بار جیسا کہ دیکھا ہے۔ نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے جو جنت(بہشت)کے قریب ہے۔اللہ تعالیٰ کا ایک انداز بیاں ہے کہ درمیان میں کہیں ایک لفظ اور کہیں پورے فقرے چھوڑ دددیئے جاتے ہیں۔ اس بندہ نے اس بارے میں ”قرآن پاک کاسمجھنا “کے عنوان سے ایک تحریر لکھی ہے جس میں اس بات کا ثبوت فراہم کیا گیا ہے ۔ +معراج کے موقع کی آیات میں کہا جا رہا ہے کہ دیکھا ہے اس کو ایک بار اور اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ دیکھنا معراج سے پہلے کا ہے۔ وہ کون سا موقع ہے؟ اس بارے میں دیکھتے ہیں۔جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے وحی اتری ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک“تو اس وقت پہلی وحی کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضر ت جبرائیل علیہ السلام کو پہلی دفعہ دیکھا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے دجود سے پورا آسمان بھرا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت غار حرا میں تھے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوف زدہ ہو کر گھر کی طرف بھاگے اور گھر جا کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ میں نے ایسا دیکھاکہ ایک شخص کے وجودسے آسمان بھرا ہوا تھا اور اس مجھ سے یوں کہا”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک“ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات بتلائی اور فرمایا کہ شاید میں اب جلد فوت ہو جاؤں او ر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخار ہو گیا۔ حضر ت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی وغیرہ دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوا پنے پھوپھی زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کا عالم تھا ۔تمام واقعہ اور وحی کے الفاظ بتائے تو ورقہ بن نوفل نے بتایا کہ یہ تو فرشتہ تھا اور یہ کہ آپ جناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے لیے چن لیے گئے ہیں اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہونگے اور ہجرت بھی کرنی پڑے گی اور جہاد کا حکم بھی ہو گا۔کاش کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں۔ ورقہ بن نوفل اس وقت بوڑھا ضیعف تھا۔ اس لیے ورقہ بن فوفل کو پہلا مسلمان کہا جا سکتاہے کہ اس نے سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی کہ جس وقت آپ جناب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی علم نہیں تھاکہ میں نبی ہوں۔ +سدرۃ المنتیٰ وہ حد ہے جہاں تک حضر ت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے جایا گیاکہ جس کے قریب جنت ہے۔ +”جس وقت کہ ڈھانکا تھا بیری کو جو کچھ ڈھانک رہا تھا۔16۔ نہیں کجی کی نظر نے اور نہ زیادہ بڑھ گئی۔ 17۔تحقیق دیکھا اس نے نشانیوں پروردگار اپنے کی سے بڑی کو ۔18“ +اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ سکنے کے بارے میں مزید دلائل:۔ +”توریت:خُروج:باب 33 20۔اور یہ بھی کہاتُو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہ رہے گا“ +اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسان تھے۔ +”انجیل مقدس:یُوحنا:باب 1 18۔خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا“ +”اور جب آیا موسیٰ واسطے وعدے ہمارے کے اور کلام کیا اس سے رب اس کے نے کہا اے رب میرے دکھلا دے تو مجھ کو دیکھوں میں طرف تیر ی کہا اللہ نے ہر گز نہ دیکھ سکے گا تومجھ کو“ (سورۃ الاعراف 7 143) +تفسیر ابنِ کثیر سورۃ النجم سے اقتباس:۔ +”ایک مرتبہ حضرت مسروق رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تُونے ایسی بات کہہ دی کہ جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ میں نے کہا مائی صاحبہ قرآن کریم فرماتا ہے ک�� آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہاں جا رہے ہوـ؟ سنو! اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام کا دیکھنا ہے‘‘ +سوال جب حضور اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج پر آسمانوں کا سفر کیاتو کیا وہ سفر اپنے بدن سمیت کیا یا وہ خواب میں کیا ؟ +جواب آپ جنا ب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفر خواب میں دیکھا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا +”اور نہیں کیا ہم نے وہ نمود یعنی خواب جو دکھلائی تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے“ (سورۃ بنی اسرائیل 17 60) +قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ خواب تھا لیکن یا د رہے کہ نبی کا یہ خوا ب سچا تھا۔ بدن سمیت معراج نہ ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بدن کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے جو اوپر خلامیں نہیں ہے ۔ +توجہ قرآن پاک کی اس آیت کی طرف +”اورنہیں طاقت کسی آدمی کو کہ بات کرے اُ س سے اللہ مگر جی میں ڈالنے کر یا پیچھے پردے کے سے یا بھیجے فرشتہ پیغام لانے والا پس جی میں ڈال دیوے ساتھ حکم اسکے کے جو کچھ چاہتا ہے تحقیق وہ بلند مرتبہ حکمت والا ہے “ (سورۃ الشورا 42 51) +اس آیت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آمنے سامنے سے دیکھنے کی بات کوئی انسان نہیں کر سکتا۔دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر تجلی ڈالی تو 70انسان فوت ہو گئے تھے ۔ توجہ کریں قرآن کی اس آیت کی طرف فرمایا کہ +”نہیں پاتیں اس کو نظریں اور وہ پاتا ہے سب نظروں کو“ (سورۃ الانعام 6 103) +مطلب یہ کسی بھی انسان یا حیوان کی نظر اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتی لہٰذا جس کے دیکھنے کی بات کی گئی وہ جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ +معراج سابقہ دور میں بھی کسی نبی کو ہواہے کہ انجیل مقدس میں تحریر ملتی ہے کہ +”2۔ کرنتھیوں: باب 12 2۔میں مسیح میں ایک شخص کو جانتا ہوں۔چودہ برس ہوئے کہ وہ یکایک تیسرے آسمان تک اْٹھا لیا گیا۔ نہ مجھے یہ معلوم کہ بدن سمیت نہ یہ معلوم کہ بغیر بدن کے۔ یہ خدا کو معلوم ہے۔ 3۔ اورمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اْس شخص نے (بدن سمیت یا بغیر بدن کے یہ مجھے معلوم نہیں۔ خدا کو معلوم ہے۔)۔4۔ یکایک فردوس میں پہنچ کر ایسی باتیں سنِیں جو کہنے کی نہیں اور جن کا کہنا آدمِی کو روا نہیں۔ “ +معراج کے بارے میں ایک بات مشہور کر دی گئی کہ پہلے پچاس نمازیں فرض تھیں اور بار بار آنے جانے میں پانچ پانچ کم ہوتی رہیں اور پانچ باقی بچیں ۔یہ واقعہ بائبل کے واقعہ سے متا ثر ہو کر بنایا گیا ہے کہ بائبل میں تحریر ہے جس کا پس منظر یوں ہے کہ جب فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے جب گائے کا بچھڑا تل کر اُن کے سامنے رکھا اور خوشخبری دی ۔ جب اُن فرشتوں سے پوچھا کہ تمہاری اور کیا مہم ہے تو انہوں نے بتلایا کہ ہم سدوم حضرت لوط علیہ السلام کی بستی یا شہر تباہ کرنے جا رہے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن فرشتوں میں یوں مکالمہ ہو ا +”پَیدایش:باب 18 28۔ شاید پچاس (50)راستباز وں میں پانچ(5) کم ہوں۔ کیا اُن پانچ کی کمی کے سبب سے تُوتمام شہر کو نیست کریگا؟ اُس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس(45) ملیں تو میں اُسے نیست نہیں کرونگا ۔29۔پھر اُس نے اُس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس(40) ملیں تب اُس نے کہا کہ میں چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کرونگا۔30۔ پھر اُس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس(30) ملیں۔ اُس نے کہا ۔ اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی ایسا نہیں کرونگا۔31۔ پھر اُس نے کہا دیکھئے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرات کی۔ شاید وہاں بیس(20) ملیں۔ اُس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اُسے نیست نہیں کرونگا۔32۔ تب اُس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس(10) ملیں۔ اُس نے کہا میں دس کی خاطر بھی اُسے نیست نہیں کرونگا۔33۔جب خداوند ابراہام سے باتیں کر چکا تو چلا گیااور ابراہیم اپنے مکان کو لوٹا ۔“ +یہ ساری اوپر بیان کی گئی باتیں یا کہانیاں بنائی گئی ہیں، یہ تو غیر مقلدین یا ہوابی عقائد ہیں، باقی امت اہل سنت والے کیا ۱۴۰۰ سال سے جھوٹ بولتے آرہے ہیں یا سنتے سناتے آرہے ہیں، تمام دیگر تصانیف اور کتب کیا سب کچھ غلط بیان کرتے رہیں اتنا عرصہ، یا روایات ہی جھوٹی ہوگئیں ان نئے مذاہب بنانے والے ہوابیوں کی وجہ سے؟؟؟ + + +”اے رب میرے بخش مجھ کو اولاد صالحوں میں سے٭ پس بشارت دی ہم نے اس کو ساتھ ایک لڑکے تحمل والے کے٭ پس جس وقت پہنچا ساتھ اس کے دوڑنے کو کہا اے چھوٹے بیٹے میرے تحقیق میں دیکھتا ہوں بیچ خواب کے کہ تحقیق میں ذبح کرتا ہوں تجھ کو پس دیکھ کیا دیکھتا ہے تو کہا اے باپ میرے کر جو کچھ حکم کیا جاتاہے تو شتاب پاوے گا تومجھ کو اگر چاہا اللہ نے صبر کرنے والوں سے٭ پس جب مطیع ہوئے دونوں حکم الٰہی کے پچھاڑ اس کو ماتھے پر٭ اور پکارا ہم نے اس کو اے ابراہیم ٭تحقیق سچ کیا تو نے خواب کو تحقیق ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو٭ تحقیق یہ با ت وہی ہے آزمائش ظاہر٭ اور چھٹا لیا ہم نے اس کو بدلے قربانی بڑی کے٭ اور چھوڑا ہم نے اوپر اس کے بیچ پچھلوں کے٭ سلامتی ہوجیو اوپر ابراہیم کے ٭اسی طرح جزا دیتے ہیں ہم احسان کر نے والوں کو٭ تحقیق وہ بندوں ہمارے ایمان والوں سے تھا٭ اور بشارت دی ہم نے اس کو ساتھ اسحاق کے جو نبی تھا صالحوں سے ٭اور برکت دی ہم نے اوپر اس کے اور اوپر اسحاق کے اور اولاد ان دونوں کی سے احسان کرنے والے بھی ہیں اور ظلم کرنے والے بھی ہیں اپنی جان پر ظاہر٭“ (سورۃ الصافات 37 100 تا 113) +ذبح سے متعلق اختلاف پایا جاتاہے۔ بائبل میں حضرت اسحاق علیہ السلام کا نام لکھا ہے۔ +”پیدائش:باب22 2۔تب اُس نے کہا کہ تُو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے ساتھ لیکر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤنگا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا“ +”عِبرانیوں: باب 11: 17۔اِیمان ہی سے ابرہام نے آزمایش کے وقت اِضحاق کونذر گْذرانا اور جِس نے وعدوں کو سَچ مان لِیا تھا وہ اْس اِکلوتے کو نذر کرنے لگا“ +مسلمان علماء حضرت اسماعیل علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی اس بارے میں چپقلش پائی گئی ہے کہ کچھ صحابہ کرام نے بھی حضرت اسحاق علیہ السلام کہا۔ اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کی اللہ جانے۔ شاہ رفیع الدین نے ترجمے میں اسے چھوٹے بیٹے لکھا ہے چھوٹا بیٹا تو حضرت اسحاق علیہ السلام تھے اور ان آیات میں ذکر حضرت اسحاق علیہ السلام کا ہے ۔ +توجہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اماں حاجرہ سے پیدا ہوئے تھے جو لونڈی (غلام تھیں جبکہ حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت ساحرہ بی بی سے تھے۔ +”گلتیوں: باب 4 22۔ یہ لکھا ہے کہ ابرہام کے دو بیٹے تھے۔ ایک لونڈی سے۔ دوسرا آزاد سے“ +حقیقی وارث اولاد او ر غلام اولاد سے محبت میں فرق ہوتا ہے۔ امتحان حقیقی اولاد کے بارے میں ہو گا یا غلام کے بارے میں۔ +بہرحال اس واقعہ سے سبق دیا گیا ہے۔ کہ قربانی (صدقہ) موت کو ٹال دیتی ہے۔ یہ قربانی کرنا نوری عملیات میں سے بہت بڑا عمل ہے۔ + + +محمد حنیف صاحب آتش احساس کے عنوان سے شاعری کرتے ہیں۔ +اس شاعری کو مصنف کے نام اور حوالے کے ساتھ، بغیر کوئی تبدیلی کیے شیئر کیا جا سکتا ہے۔ + + +جانے ھوئی تھی کیا خطا کچھ بات تو کریں + + +اپنوں کی وفاؤں کا بھرم ٹوٹ نہ جائے ، +تعزیر جفا خود پہ لگا کیوں نہیں دیتے + + +اس کتاب کی تحریر کو (بغیر تبدیل کیے, مصنف کا حوالہ دے کر) کوئی بھی شائع کر سکتا ہے۔تدوین یا کسی بھی قسم کی تشریح، وضاحت یا اضافہ شامل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ۔ + + +مصنف اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے تحریر لکھتا ہے کہ میری تحریر کو (بغیر تبدیل کیے, مصنف کا حوالہ دے کر)کوئی بھی شائع کر سکتا ہے۔تدوین یا کسی بھی قسم کی تشریح، وضاحت یا اضافہ شامل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ۔ + + +وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا [٦٥:٤] +ترجمہ:اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اگر ان کے یائسہ ہونے میں شک ہو تو ان کا عدہ تین مہینے ہے اور اسی طرح وہ عورتیں جن کے یہاں حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ عورتوں کا عدہ وضع حمل تک ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے امر میں آسانی پیدا کردیتا ہے (ترجمہ:از سید ذیشان حیدر جوادی) +ترجمہ:اور تمہاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں (باوجود حیض کے سن و سال میں ہو نے کے کسی وجہ سے) حیض نہ آتا ہو اور حاملہ عورتوں کی میعاد وضعِ حمل ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ (ترجمہ:آیت اللہ محمد حسین نجفی) +میرے خیال میں اس آیت کا ترجمہ و مفہوم اس طرح ہے: +ترجمہ ومفہوم:اور تمہاری عورتوں میں سے جن عورتوں کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تم (مردوں کو اُن عورتوں کے حیض سے مایوسی کے بیان پر) شبہ ہو تو ان(عورتوں) کی عدت تین مہینے ہیں اور ان (عورتوں)کی بھی جن کوحیض نہیں آتا(اور اس نہ آنے پر سب کو یقین ہے، عورتوں کا اپنے بارے میںکہنا، کہ حیض نہیں آتا، ہی کافی ہے۔ مردوں کے شبے کی کوئی اہمیت نہیں) اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے اور جو الله سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے ۔ +ان تراجم اور مفہوم ساری بات قارئین کی سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں کیا فرما رہے ہیں۔مزید بات کرنے سے پہلے ہم چند طبی حقائق دیکھ لیتے ہیں۔ +عورت کا نظام تولیدکچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ ہر مہینے عورت کی بیضہ دانی میں انڈا تیار ہوتا ہے۔ وہاں پر اگر اس انڈا کا مرد کے سپرم سے ملاپ ہو جائے تو ٹھیک ورنہ انڈا ماہواری کے خون کے ساتھ خارج ہو جاتا ہے۔ماہواری کا خون بچہ کی ابتدائی نشوونما کے لیے ہوتا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ اس کی ابتدائی خوراک ہوتا ہے۔ 45 سے 50 سا ل کی عمر میں عورت کے انڈا بنانے کی صلاحیت میں نقص پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہے یا یہ صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ اسی نقص کی وجہ سے ماہواری یا حیض کا نظام شروع میں کم اور بعد کے سالوں میں زیادہ متاثر ہوتے ہوئے بتدریج ختم ہو جاتا ہے۔ماہواری کے نظام کے اختتام کے لیے کوئی طے شدہ عمر نہیں ہے۔مختلف ہارمونز میں تبدیلی کی وجہ سے یہ عم�� کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ +ماہوار ی کے نظام کی ابتدا کے حوالے سے دیکھا جائے تومختلف ممالک کی مختلف آب و ہوا ، خاندانی اثرات یعنی جینز اور خوراک وغیرہ کی وجہ سے ماہواری کےنظام کی ابتدا کی عمر میں فرق ہوتا ہے۔عام حالات میں یہ عمر گیارہ یا بارہ سال ہوتی ہے مگر کچھ لڑکیوں میں یہ عمر نو یا دس سال بھی ہو سکتی ہے، یعنی کوئی طے شدہ عمر یا قانون نہیں ہے کہ اس عمر میں ماہواری شروع ہو۔گرم ممالک میں یہ عمر کم ہوتی ہے اور سرد ممالک میں زیادہ۔ +عدت یا تو طلاق یا خلع کی صورت میں فرض ہوتی ہے یا پھر خاوند کے وفات پانے کی صورت میں ۔اگر حیض آتا ہو اور طلاق ہو جائے تو عدت کی مدت تین حیض ہوتی ہے(2:228) یعنی یہ مدت 64 دن سے لے کر 96 دن تک ہو سکتی ہے۔اگرکوئی عورت بیوہ ہو جائے، اسے چاہے حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو، اس کی عدت کی مدت چار مہینے اور دس دن ہے(2:234)۔ +اس سورۃ الطلاق کی آیت چار میں طلاق کے بعد کی صورت حال کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ پہلے تو ایسی عورتوں کا ذکر ہے جن کی عمر 45 سے 65 یا کچھ اور ہو اور اُن کو حیض نہ آتا ہو، کسی بیماری کی صورت میں یا عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے۔ اگر وہ طلاق کے بعد یہ بیان دیں کہ اُن کو حیض نہیں آتا تو ان کی عدت کی مدت تین ماہ ہے۔ تین حیض کی مدت نہیں۔یہ جو شبہ یا شک کی بات کی گئی ہے، یہ عدت کی مدت میں شک و شبہ نہیں بلکہ حیض کے آنے یا نہ آنے پر ہے۔ یعنی مرد کو عورت پر اعتبار نہیں، وہ عورت کے بیان کو جھوٹا سمجھ رہا ہو وغیرہ۔اگر یہاں عدت کی مدت کے بارے میں شک کا اظہار ہوتا تو آیت کے اگلے حصے کا لفظی ترجمہ ہی یہ ہے کہ جن عورتوں کو حیض نہیں آتا۔ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ پہلے حصے میں حیض کے بارے میں شک کی بات ہو رہی ہے نہ کہ عدت کی مدت کے بارے میں ۔آیت کے اگلے حصے میں جو ذکر ہے وہ اُن عورتوں کا ہے جن کے بارے میں سب کو یقین ہے کہ اُن کو حیض نہیں آتا، یہ یقین عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہو یا سب کو پتہ ہو کہ اس عورت کو کوئی ایسی بیماری ہے جس میں حیض نہیں آتا تو اُن عورتوں کی عدت کی مدت بھی تین ماہ ہی ہے ، اورطلاق یافتہ حاملہ کی عدت کی مدت ایک دن سے لیکر نو ماہ تک ہے۔ بیوہ حاملہ کی عدت کی مدت چار ماہ دس دن ہی ہے (2:234)۔ +آیت کے آخری حصے میں جو ذکر ہے کہ ”اور جو الله سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے “ اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے حمل، حیض کے بارے میں درست بیان دینا۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے ہر کام اللہ تعالیٰ آسان کر دیتے ہیں۔ +اس آیت سے یہ پتا چلتا ہے کہ عورت کا اپنے بارے میں یہ کہہ دینا کہ اسے حیض نہیں آتا کافی ہے، مرد کے شبہے کی اس حوالے سے کوئی اہمیت نہیں۔ +بہت سے لوگ اس آیت سے کم عمر میں شادی اور خلوت کے جواز کو ثابت کرتے ہیں۔جن عورتوں کو حیض نہیں آتا کا ترجمہ ”حیض شروع نہیں ہوا“ کرتے ہیں، اصل لفظی ترجمہ ہے جن کو حیض نہیں آتا۔ یعنی پہلے حصے میں شک کی بات تھی اور یہاں یقین کی صورت میں حکم ہے۔اس آیت کا کم عمری کی شادی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے، بس حیض کے بارے میں شبہ، یقین اور حاملہ مطلقہ کی عدت کا بیان ہے۔ +آیت عورتوں یعنی نِّسَا کے بارے میں ہے۔ نِّسَا کا لفظ عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، کم عمر لڑکیوں کے لیے نہیں ۔ +قرآن کریم کی دوسری محکم آیات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کم عمر ی میں کم عقل میں شادی نہیں ہو سکتی۔ شادی کے لیے عاقل ہونا ضروری ہے۔ اس عاقل کو بھی آزمانے کا حکم ہے(4:6)۔نکاح کا معاہدہ ایک عام معاہدہ نہیں ، قرآن کریم نے اسے بہت مضبوط معاہدے یعنی مِّيثَا��ًا غَلِيظًا کا نام دیا ہے۔ ایک عام معاہدہ بھی دو عقل مند انسانوں کے درمیان ہوتا ہے تو نکاح جیسا مضبوط معاہدہ کیسے کم عمری میں کیا جا سکتا ہے۔یعنی نکاح کےلیے جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی ضروری ہے۔کم عمری میں کوئی لڑکی جسمانی طور پر بالغ ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ ہو گئی ہے کہ نکاح جیسا مضبوط معاہدہ کر سکے۔ لڑکے کی طرح اس کی عقل بھی دیکھنی چاہیے۔ + + +اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۷: ۳۱) +اسلام میں صفائی کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ مسجد میں حاضری کے وقت زینت اختیار کر کے آنا چاہیے۔ یعنی مسجد میں پانچ ٹائم نماز کے دوران اچھا لباس پہنا ہوا ہو۔جیسا کہ اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔بنی آدم میں چونکہ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں اس لیے اگر عورتوں کی مسجد ہے تو انہیں بھی وہاں اچھا لباس زیب تن کر کے جانا چاہیے اور مردوں کو بھی۔زینت یا آرائش کے حوالے سے اب اگر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دیکھا جائے تو مردوں کے لیے اپنی زینت چھپانے کے حوالے سے کوئی خاص حکم نہیں، مردوں کے لیے بنیادی حکم اپنی شرم گاہوں کی حفاظت ہی ہے، مگر عورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات کے مطابق وہ اپنی آرائش مخصوص لوگوں کو ہی دکھا سکتی ہیں۔ +”اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا “ +اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ انسان ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نوازے اور انسان کنجوسی کرے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہر عبادت میں وہ بہترین اور صاف ستھرالباس پہنو جو میں نے تمہیں عطا کیا ہے۔ کنجوسی نہ کیا کرو کہ اچھے کپڑوں کی بجائے میلے کچیلے کپڑے پہن کر عبادت گاہ میں آؤ۔یہ جو حد سے بڑھنے کا ذکر ہے یہ کھانے پینے کے علاوہ زینت کےمعاملے میں بھی ہے کہ حد سے بڑھتے ہوئے لاکھوں روپے صرف لباس پر ہی برباد کر دو۔ باعث زینت لباس سے مراد صاف ستھرا اچھا لباس ہے نہ کہ حد سے زیادہ قیمتی۔ + + +”اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں “ +تفسیر ابن کثیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لباس الگ نازل کیا اور ریش کو الگ نازل کیا، اس تفسیر کو پڑھ کر چند دوستوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا لباس پہننا فرض ہے جس سے ستر چھپایا جائے، جبکہ ریش ایک الگ اعزازی چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی،لباس ضروریات زندگی ہے اور ریش زیادتی ہے۔میرے خیال میں آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس نازل کیا، آگے اس لباس کی وضاحت کی کہ لباس میں دو خصوصیات ہونی ضروری ہیں، ستر چھپائے اور باعث زینت ہو۔نہ کہ اس کا مطلب یہ کہ لباس الگ نازل ہوا اور ریش الگ۔اس سے جوگیانہ اور راہبانہ تصور کی نفی ہوتی ہے جو صرف ستر چھپا کر جنگل میں رہتے ہیں اور باعث زینت لباس کے پہننے کو گناہ محسوس کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ احسان فرما رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ لباس وہی ہے جس میں دو خصوصیات ہو ں گی۔ اگر یہ خصوصیات نہیں تو وہ لباس نہیں۔ایسا لباس جو ستر تو چھپائ�� مگر ایسامیلا کچیلا ہو کہ دیکھنے پر کراہت آئے تو وہ لباس اسلامی لباس نہیں ہو گا۔ ایسا لباس جس میں بے شک سونے اور ہیرے جڑے ہوں مگر ستر نہ چھپائے وہ بھی اسلامی لباس نہیں ہوگا۔ +آیت میں جو آگے تقویٰ کے لباس کا ذکر ہے اس مراد کچھ مفسر نے ظاہری لباس کے مقابلے میں باطنی لباس سے لی ہے، مگر میرے خیال میں تقویٰ کے لباس سے مراد یہی ظاہری لباس ہے جو ستر کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اگر لباس کو پہنتے ہوئے یہ خیال ہو کہ کہیں غلطی سے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی نافرمانی نہ ہو جائے تو یہی لباس تقویٰ کا ہو گا۔درج ذیل آیات سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ +ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿الحج: ٣٢﴾ +”یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے“ (۲۲: ۳۲) +لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ﴿الحج: ٣٧﴾ +”نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو“ (۲۲: ۳۷) +ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنا ہی تقویٰ ہے۔ + + +”اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں “ +یعنی لباس توا للہ تعالیٰ نے اتارا ہے،وہ لباس جو شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہےاور باعث زینت ہے ، اسے کس نے حرام کیا ہے؟ کوئی بھی کپڑا جس میں انسان اچھا لگے اس کپڑے کا لباس انسان کو حلال ہے، چاہے وہ کپڑا روئی سے بنا ہو یا ریشم سے۔ اسے حرام قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ سوالیہ انداز میں پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تو سہی کون ہے وہ جس نے انہیں حرام کیا۔ جب میں نے(اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا تو دوسرا حرام کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ تو خود حضرت محمد ﷺ کی زبانی لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ تو ذرا کون ہے جس نے فلاں لباس حرام کیا ہے؟ مگر اس آیت کے برخلاف الٹا بہت سے لوگ حضرت محمد ﷺ کی طرف منسوب کر کے مختلف لباسوں کومختلف قوموں سے منسوب کر کے حرام قرار دے رہے ہیں۔اسی طرح ریشم کے لباس ، غیر عرب قوموں کے لباس کے حرام ہونے کو بھی نبی کریم ﷺ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت اسی بات کی نفی کر رہی ہے۔ اسلامی لباس کی صرف دو خصوصیات بتا دی ہیں یعنی شرم کے حصوں کو چھپانا اور باعث زینت۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کا حرام قرار دینا اپنی خواہش کی وجہ سے ہے۔ عورتوں کا سنگھار کرنا کہیں حرام نہیں ہے، خوبصورت نظر آنے کے لیے خوبصورت لباس اور زیورات پہننا بھی کہیں حرام نہیں ہے، ہاں ان کی سب کچھ حدود ہیں جو آگے آئیں گی۔ فطری طور پر جو سجنے سنورنے کی خواہش ہے وہ بُری نہیں۔ + + +يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْ��َ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [٢٤:٢٧] +”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو(اس وقت تک) جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے“ +اس آیت میں دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ اجازت لینی اس لیے ضروری ہے کہ اجازت کے دوران میں خواتین پردہ وغیرہ کر لیں۔ + + +”پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے “ +کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی بالکل اجازت نہیں ۔گھر کا کوئی بھی فرد جیسے خاتون خانہ، مردوں کی غیر موجودگی میں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی اجازت نہ دے یا بیٹھنے کا نہ کہے تو واپس چلے جانا چاہیے۔بعض دفعہ گھر کے افراد ہی اندر سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ جا کر بیٹھو میں ابھی آیا تو اس صورت میں بھی، اس آیت کے مطابق، وہاں کھڑے ہونے کی ممانعت ہے۔ + + +لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ [٢٤:٢٩] +”البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے “ +صرف گودام وغیرہ میں بغیر اجازت داخل ہو جا سکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہاں پر آپ کا سامان پڑا ہوا ہو اور کوئی رہتا نہ ہو۔ + + +قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ [٢٤:٣٠] +”اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے“ +اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومن مردوں کو نبی کریمﷺ کے ذریعے ہدایات دے رہے ہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔نظروں کی حفاظت کاحکم اس لیے ہے کہ کسی بھی برائی کا آغاز دیکھنے سے ہی ہوتاہے۔ اگرکوئی نظر پر کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیاتو سب برائیوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔نظر کی حفاظت کا حکم، شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم سے پہلے آیا ہے، اس لیے کہ بد نظری سے پرہیز بہت سی اخلاقی برائیوں سے بچاؤ کاذریعہ ہے۔جسم کے بعض حصوں کی طرف جان بوجھ کرنظر کرنا ویسے ہی ناجائز ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو دیکھنا پڑ ہی جائے تو نظر بد یا شہوت کے ساتھ نہ دیکھیں، جیسے ڈاکٹر کا مریض کو دیکھنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اگر بغیر ارادہ نظر پڑھ جائے تو اس کا گناہ نہیں، اسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ پہلی نظر معاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی نظر ہی جان بوجھ کر طویل کر لی جائے کہ یہ معاف ہےیعنی اگر بغیر ارادہ نظر پڑ ہی گئی ہے تو اپنے دل میں کوئی برا خیال نہ آنے دو۔اس طریقہ سے مومن پاکباز رہتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں یہ جائز ہے کہ مرد عورت کو دیکھ لے، جیسے نکاح سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو دیکھ لینا(اور بات چیت کر لینا) اسی طرح لڑکی کا لڑکے کو دیکھ لینا، عدالت میں گواہی یا تصدیق کے لیے جج کا یا کسی گواہ کا عورت کو دیکھنا، یا پھر ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا(علاج کی غرض سے) +شرم گاہوں کی حفاظت والی بات دو طرف جاتی ہے۔ کسی سے غیر شرعی تعلقات نہ بناؤ، دوسرا اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھو۔ ایسے لباس نہ پہنو جو شرم کی جگہوں کو ظاہر کرتے ہو۔جیسے آجکل بازاروں میں اچھے خاصے انسان نیکر پہنے گھومتے ہیں۔ شرم گاہوں اور نظر کی حفاظت کے حکم میں تمام برائیوں سے بچنے کی ہدایت شامل ہو گئی یعنی افسانے، ڈرامے، فلمیں، تصویر سب کو دیکھتے ہوئے ان احکامات کا خیال رکھنا ہو گا۔ +ہر بدنظر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بد نظری کرتے ہوئے اسے کوئی دیکھ نہ لے، اسی لیے اللہ تعالیٰ آیت کے آخر میں فرما رہا ہے کہ بدکاری، بد نظری، پاکباز اور تقویٰ، انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ + + +وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [٢٤:٣١] +آیت کے ترجمے کو الگ الگ کر کے اس کی تفصیل دیکھتے ہیں۔ +”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں “ +جیسے مومن مردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں ویسے ہی مومن عورتوں کے لیے حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں۔ یعنی حرام منکرات کی طرف نظر پڑ جائے تو فوراً ہی ہٹا لیں۔ مردوں کی طرف خواہ مخواہ نظر نہ کریں۔ اس آیت سے بہت سی خواتین و حضرات یہ استدلال کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب پہلے مردوں کو نظریں نیچے کرنے کاحکم ہے اس لیے زیادہ فرض مردوں کا ہے کہ اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی تو مرد اس کی طرف نہ دیکھے، اس میں عورتوں کا کیا قصور؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اللہ کے حکم کی خلاف ورذی کرتے ہوئے اپنی نظریں نہیں بچاتا، نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو اس سے یہ کہیں فرض نہیں ہوتا کہ عورتوں پر سے پردہ کا حکم ساقط ہو گیا ہے۔ نظریں نیچے رکھنے کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی ۔ قرآن میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کا ذکر ہے وہاں پہلے مرد لکھا ہوا ہے اور بعد میں عورت، جیسے مومن ،مومنہ، مسلمان مرد، مسلمان عورتوں، چور اور چورنی وغیرہ، اس پہلے اور بعد میں خطاب کرنے سے کرنے سے کسی پر بھی حکم میں نرمی نہیں۔ اگر مرد اللہ کا حکم نہیں مان رہا تو عورت مانے ، مرد اپنےاعمال کا خود جواب دہ ہو گا اور عورت اپنے اعمال کی خود ذمے دار ہو گی۔سورۃ 55 آیت 56 کے مطابق نیچے نگاہیں رکھنا جتنی حوروں کی نشانی ہے۔ +”اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“ +شرم گاہوں کی حفاظت ایک تو اس طرح کہ اپنے شریک حیات کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچیں بھی نا۔ دوسرا اس طرح کہ اس قسم کے کپڑے نہ پہنیں جو ان کےاعضا کو چھپانے کی بجائے ظاہر کریں۔ ڈوپٹوں کو گریبان پر ڈالنے کا حکم اسی وجہ سے ہے یعنی شرم کی جگہوں کو چھپانے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو ڈوپٹہ یا چادر سینے پر ڈالی جاتی ہے وہ لباس کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہے کہ وہ شرم کے حصوں کو چھپاتی ہے،اسے اعزازی زینت کہہ کر لباس سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ لباس کی ایک خصوصیت شرم کی جگہوں کا چھپانا بھی ہےاور ڈوپٹہ یہ کام کرتا ہے۔ +” اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں“ +زینت کا مطلب آراستہ کرنا ، خوشنما بنا کر دکھانا ، بناؤ سنگھار ، آرائش و زیبائش کے ہیں۔بناؤ سنگھار یا زینت کا نہ دکھانا عام لوگوں یا نا محرموں کے لیےہے۔ جن لوگوں پر بناؤ سنگھار یا زینت ظاہر کی جا سکتی ہے ان کی تفصیل آگےسورۃ احزاب کی آیت میں آئے گی۔ کوئی قدرتی یا مصنوعی زینت جو کسی کو بھی عورت کی طرف رغبت اور التفات بڑھا دے وہ اگر چھپائی جا سکے تو چھپا کر رکھنی چاہیے۔خواتین کی زینت میں لباس بھی شامل ہے اور زیورات بھی۔اس کے علاوہ قدرتی طور پر جو زینت کسی بھی عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس میں اچھی رنگت، مناسب قد و قامت اور خدوخال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں سے ہر چیز کو چھپانا ممکن نہیں۔، لمبا قد ، گوری رنگت اور اچھی آواز چھپائی نہیں جا سکتی، لباس کا ظاہری حصہ، بعض زیورات جیسے ہاتھوں کی انگھوٹھیاں وغیرہ بھی اُن چیزوں میں شامل ہیں جوبہت ہی زحمت کے ساتھ چھپائی جا سکتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے صرف اُن زینتوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے جس کو چھپانے کےلیے بہت زیادہ زحمت نہیں کرنی پڑتی۔اوڑھنے والی چادر،جو باعث زینت بھی ہوتی ہے، کو مزید کسی دوسری چادر سے چھپانے کی ضرورت نہیں۔قمیض کے نچلے حصے کی کشیدہ کاری وغیرہ بھی وہ زنیت ہے جو مشکل سے چھپائی جائے۔ گھریلو خواتین کے لیے گھروں میں دودھ سبزی لیتےہوئے ہاتھوں کی زینت (زیور، مہندی) کا چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ +مصنوعی آرائش کے زیورات، لپ اسٹک وغیرہ سب سنگھار میں شامل ہیں۔یہ سب ہی نہیں دکھانا چاہیے۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ چہرے جو قدرتی طور پر خوبصورت ہوں یا جن کو میک اپ سے خوبصورت بنایا گیا ہو ان کا پردہ کرنا ضروری ہے۔جو چیز آسانی سے چھپائی جا سکے اور جو آسانی سے نہ چھپائی جا سکے اس کا فیصلہ وہ خواتین خود ہی کر سکتی ہیں جو ان آیات پر عمل کر رہی ہو۔ +” بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے“ +گورارنگ، لمبا قد، سمارٹ نس، اچھی آواز اوربعض مواقع پر چہرہ وغیرہ کا چھپانا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہ رعایت اسی لیے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ جو دوسری صورتیں ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ کسی اجنبی سے کچھ سامان لیتے یا دیتے ہوئے ہاتھ کے زیورات یا مہندی اجنبی کے سامنے آ جائے تو یہ خودبخود ظاہر ہونا ہو گا۔راہ چلتے ہوئے آنکھوں کا میک اپ ظاہر ہو جانا ، جوتے کے ڈیزائن، چادر وغیرہ کے ڈیزائن سب اسی میں شامل ہیں۔ +”وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے:“ +عورتیں بناؤ سنگھار کرنے کے بعدگھر میں جن لوگوں کو ظاہری بناؤ سنگھار میں دکھا سکتی ہیں اُن کی تفصیل اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے۔ +” شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے“ +یہ سب عزیز جو اس آیت میں آئے ہیں محرم کہلات�� ہیں۔ ان کی بھی دو اقسام ہیں۔ +ابدی محرم ساری زندگی محرم ہی رہتے ہیں جیسے باپ، بیٹا ،بھائی، چچا، تایا، ماموں اور خالو وغیرہ۔ یعنی جن سے ساری زندگی شادی نہ ہو سکے۔ +محرم وصی یا وصفی وہ محرم ہوتے ہیں جو مخصوص حالات میں محرم ہوتے ہیں مگر جیسے ہی وہ حالات ختم ہو جائیں گے وہ لوگ محرمات کی فہرست میں شامل نہیں رہیں گے اور اجنبی یا غیر محرم ہو جائیں گے۔مثال کے طور پر شوہر طلاق کے بعد نا محرم، مملوک آزاد ہونے کے بعد، بچہ جوان ہونےکے بعد نا محرم ہو گا۔ +”اپنے میل جول کی عورتیں“ +اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے اچھی طرح جان پہچان ہو، جیسے محلے والیاں۔ یعنی اجنبی عورتوں کو بھی زینت نہیں دکھانی۔عورتوں میں جو قابل اعتبار ہوں اُن عورتوں کے سامنے ہی زینت دکھانی چاہیے، دوسری عورتیں جن کا معلوم ہی نہیں کون ہیں ، کس قماش کی ہیں، یا ایسی تو نہیں جو باہر جا کردوسروں کے سامنے تذکرہ کریں، یا باہر جا کر تذکرہ کر کے لگائی بجھائی کریں۔ اُن سے پردے میں، صرف چہرہ کھول کر، ملنا ہی بہتر ہے۔ +میرے خیال میں یہاں مراد لونڈیاں ہو گا۔ غلاموں میں ایسے غلام بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق مثال دے کر ہی اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مشرک سے غلام بہتر ہے، تو جس سے نکاح ہو سکتا ہے وہ نامحرم ہی ہوا۔ آج کل کے دور میں اس سے مراد گھریلو ملازمائیں ہو نگی۔ توان گھریلو ملازموں سے بھی آرائش چھپانی چاہیے۔ +" وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں“ +زیر کفالت یا غلام یا ملازم جو بوڑھے ہوں۔ اس میں ملازم زنخے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وہ اگر زینت دیکھ لیں تو کوئی بات نہیں۔ +” اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں“ +ان تمام محرمات کے سامنے سوائے شوہر (جس سے کسی قسم کا پردہ نہیں)کے جو زینت ظاہر کی جا سکتی ہے وہ سب خمار یعنی ڈوپٹہ کے ساتھ ہیں۔ جلابیب (ڈوپٹے سے اوپر کی چادر) گھر سے باہر کے لیے ہے۔ +”وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے“ +یہ احتیاط تو گھر میں بھی کرنی چاہیے کہ جن لوگوں کا ذکر اوپر آ گیا ہے کہ ان کے سامنے بھی پاؤں بجا کر پازیب وغیرہ جھنکاتی نہ رہیں۔لیکن بازار میں تو یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ وہاں بہتر تو یہی ہے کہ اس طرح کے زیورات پہن کر نہ جایا جائے اگر پہن ہی لیے ہیں تو کوشش کی جائے کہ احتیاط سے چلا جائے۔اس آیت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اس طرح کوشش کی جائے کہ کسی بھی وجہ سے پوشیدہ زینت سامنے نہ آجائے یعنی اگر ایک آدمی ایک طرف منہ کر کے کھڑا ہے اور پیچھے سے پازیب کی آواز آ رہی ہو تو وہ بھی دیکھنا چاہے گا۔ اس لیے احتیاط کرتے ہوئے بازاروں میں چوڑیاں بھی نہ کھنکائی جائے۔ جب آواز سے کوئی متوجہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح تیز خوشبو یا عطریا پرفیوم سے بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ بازار میں اس سے بھی پرہیز کیا جائے، عطر اور پرفیوم کا حکم بھی زیور چھنکانے میں ہو گا یعنی جو کسی اور طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے شخص کو متوجہ کر سکے۔ +” اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے“ +اگر ماضی میں ایسا نہیں کرتے رہے تو اب مستقبل کے لیے پکا ارادہ کرو کہ ان احکامات پر عمل کرو گے۔اس پر عمل کرنے سے ذاتی طور پر بھی اور معاشرتی طورپر بھی فلاح پاؤ گے۔معاشرے میں غیر اخلاقی جرائم نہیں ہونگے۔ توبہ اس لیے بھی کہ اگر غلطی سے، انجانے میں ، کچھ ہو گیا ہو تو اس گناہ سے معافی مانگتے رہا جائے۔ + + +وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [٢٤:٦٠] +”اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “ +اس آیت کا آیت 31 سےتعلق ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ چادروں سے اپنے گریبان ڈھانپ لیں۔یہاں ایسی بوڑھی عورتوں کوجو بہت بوڑھی ہو گئی ہو کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔یہاں بعض کے نزدیک بوڑھی سے مراد وہ عورت جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو مگر میرے خیال میں اولاد تو اللہ تعالیٰ جسے دینا چاہے اسے بڑھاپے میں بھی دے دیتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کو بوڑھی بیویوں سےہی اولاد دی۔ اس بات کا فیصلہ کا چادر اوڑھنے والی خاتون خود ہی کرے گی کہ اب اس میں مردوں وغیرہ کے لیے کوئی رغبت نہیں یا اس کی بے پردگی سے فتنہ کا احتمال تو نہیں۔اگر خود فیصلہ نہیں کر سکتی تو دوسری خواتین کے مشورے کے مطابق چادر لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کر لے۔یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ عورتیں ایسی ہونی چاہیے جن کو زینت دکھانے کا شوق نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت غالباً اس لیے دی ہے کہ بوڑھی عورتوں کو چادر وغیرہ سنبھالنے سے جو تکلیف ہوتی ہے وہ نہ ہو۔اگر کوئی بوڑھی عورت اس آیت کی رو سے چادر تو اتار دے مگر زینت دکھانے کی نیت رکھے اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔آیت میں يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ آیا ہے، جس کا مطلب”اپنے کپڑے اتار دیں“ بھی ہوتا ہے مگریہاں اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کیونکہ آیت کے اگلے حصے میں کہا جا رہا ہے کہ زینت دکھانے والی نہ ہو تو اس سے مراد پردے کے لیے استعمال ہونے والی چادریا کپڑےہو گا۔آیت کے اس حصہ کی ایک تفسیر کچھ اس طرح بھی ہے کہ بڑی بوڑھی عورتیں جو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مرد سے ملاپ کی خواہش نہیں رکھتیں تو کپڑے نقاب وغیرہ اتار دینے میں ان پر گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں اور اصل بات تو یہ ہے کہ اس سے بھی احتیاط رکھنا ان کے لیے بہتر ہے کہ کیونکہ عربی میں ایک مثال ہے۔ لکل ساققتہ قطتہ (ہر گری ہوئی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے) ۔ایسی عورتوں کو گو خود خواہش نہ ہو مگر ممکن ہے کوئی ایسا بھی ہو جو محض اپنی خواہش سے ان پر بری نظر ڈالے۔ آیت کے اس حصے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جوان عورتوں کو پردے وغیرہ کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔بعض فقہاء کے نزدیک پرفتن دور اور معاشرے میں فتنہ کے ڈر سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں جو ستر میں شامل نہیں وہ بھی پردے کے حکم میں داخل ہو جاتی ہیں۔ + + +لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أ��وْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ [٢٤:٦١] +”کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے “ +اس آیت میں پہلے تو مخاطب معذور لوگ ہیں، اسلامی معاشرے میں پورا معاشرہ ہی اُن کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے، کسی کے گھر سے بھی کچھ لے کر کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد مخاطب آیت پڑھنے والے ہیں یعنی عام عوام۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین قریبی رشتے داروں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ہیں، یعنی قریبی رشتے داروں جیسے دیور جیٹھ وغیرہ سے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ +ایک محترم عالم دین صاحب کسی پردے دار خاتون کو دیور سے پردے کا حکم سمجھاتے ہوئے ایک حدیث کے بارے میں بتا رہے تھے وہ کچھ یوں ہے کہ نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: +" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو " +تو ايك انصارى شخص نے عرض كیا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ذرا خاوند كے قریبی مرد ديور كے متعلق تو بتائيں ؟ +تو رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: +" دیور تو موت ہے " +الحمو خاوند كے بھائى یعنی ديور اور دوسرے قریبی رشتہ دار مرد مثلا چچا كے بيٹے وغیرہ كو كہا جاتا ہے. +اس حدیث میں غالبا تنہائی میں باربار اور بنا ضرورت کے ملنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 61 کو دیکھیں جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنے جن رشتے داروں کے گھروں میں کھانا کھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں بھائی بھی شامل ہے۔ اب بھائی کے گھر میں بھابھی ہوتی ہے اور بچے، اب مل کر کھاؤ یا الگ الگ کو دیکھا جائے توپہلی صور ت مل کر کھانے کی جو صورت بنتی ہے وہ یوں کہ دونوں بھائی، بھابھی اور سب بچے مل کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں، یہ صورت حال بھی بالکل جائز اور قابل قبول ہے۔ دوسری صورت میں مل کر اور الگ الگ کھانے کی ایک صورت یوں بنتی ہے کہ دونوں بھائی ایک جگہ مل کر کھائیں اور باقی گھروالے الگ، یہ صورت حال بھی جائز اور قابل قبول ہے، دوستوں کے گھروں میں کھانے کے لیے یہ صورت حال بہترین ہے ۔ اب ایک صورت یہ بچتی ہے کہ دونوں بھائی ہی الگ الگ کونوں یا کمروں میں بیٹھ کر اکیلے اکیلے کھائیں یا دونوں مل کر ایک جگہ ۔ مگر جناب اس طرح تو معاشرتی روابط مزید منقطع ہونگے، کیونکہ جو شخص اپنے بھائی کے گھر کھانا کھانے جا رہا ہےوہ اس سے روابط بڑھانے کے لیے جا رہا ہے، ورنہ کھانا تو اس کے اپنے گھر میں بھی پکتا ہے۔میرے خیال میں تو پہلی صورت اور دوسری صورت حال ہی درست ہیں۔ آیت کا مرکزی سبق تو یہ ہے کہ ان رشتے داروں میں سے جن کے گھروں میں بھی جاؤ وہاں سلام کر کے جاؤ۔ اس آیت میں کھانے کی حد تک بات ہو رہی ہے، زیب و زینت جن جن لوگوں کو دکھایا جا سکتا ہے اُن کی تفصیل پہلے ہی آ چکی ہے۔اسی آیت سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ فسٹ کزن وغیرہ کا چہرے کا پردہ بھی ضروری نہیں اور دیور وغیرہ سے چہرے کا پردہ کیے بغیر بھی ایک گھریعنی مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا قرآن نے منع نہیں کیا۔ اس آیت کے مطابق فسٹ کزن محرمات میں شامل نہیں ہوتے ، اسکے باوجود کھانے کے دوران ان سے چہرے کا پردہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ + + +يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [٣٣:٣٢] +”نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو“ +اس آیت کی مخاطب نِسَاءَ النَّبِيِّ ہیں جس میں بیویاں، بیٹیاں اور دیگر خواتین شامل ہیں۔اس آیت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اُس دور یعنی دور نبوی ﷺ کے منافقین کی کوشش یہ تھی کسی نہ کسی طرح ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوائیں یا نکل جائے کہ جسے کسی دوسرے رنگ میں پیش کر کے وہ منافق فتنہ و فساد کھڑا کر سکیں۔ ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا اپنی عادت کے مطابق ہر کسی کے سوالوں کا جواب آرام سے ،عام اور نرم لہجے میں دیتی تھیں۔اس سے منافق پر امید تھے کہ جلد ہی وہ کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایسے حالات میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ آپ بہت خاص ہو، بلند مرتبہ ہو، فضیلت میں سب خواتین سے بڑھ کر ہو۔ یعنی تمام مسلمان خواتین کی رول ماڈل ہو ۔ آپ کے حوالے سے کہی ہوئی یا پھیلائی ہوئی کسی بھی بُری بات کے برے اور دور رس نتائج ہونگے، اگر آپ سے متعلق لوگوں کو یا خواتین کواچھی باتیں معلوم ہونگی تو وہ اُن کے لیے مشعل راہ ہو گی۔ اس وجہ سے اُن کو کہا گیا ہے کہ وہ اجنبی یا عام لوگوں سے نرم لہجے میں بات نہ کریں کہ کوئی منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ +اس آیت کی مخاطب تو ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین ہیں کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ عام عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ دوسروں سے نرم لہجے میں بات کریں۔ آیت کا مخاطب خاص ہے مگر حکم عام ہے۔اللہ تعالیٰ کے سمجھانے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کوسمجھائے کہ آوارہ لڑکوں کی طرح گالیاں مت دینا، حالانکہ اُس شخص کو سب بچوں کا گالیاں دینا ناپسند ہوتا ہے۔ +جس کسی کے دل میں بھی مرض، روگ یا طمع ہوتا ہے کسی کے میٹھے لہجے کا غلط مطلب لے کر دوسرے لوگوں میں خاتون کی طرف سے بدگمانی پھیلا سکتا ہےیا اُن کے دل میں مزید کسی قسم کا طمع پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خاتون کو متاثر کرنے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرے ۔مردوں کو چاہیے کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یا خواتین سے بات کرتے ہوئے ا��نا لہجہ نرم رکھیں۔ مگر خواتین جب بھی بات کریں تو سیدھے سادھے ، سپاٹ انداز میں ٹو دی پوائنٹ بات کریں بلا ضرورت بات کو نہ بڑھائیں۔ جب کوئی خاتون سیدھے سادھے انداز میں صاف اور سیدھی بات کرے گی تو لوگ دوبارہ بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔خواتین کو اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ زیور کی آواز بھی اجنبی کے سننے کےلیے منع کر دی ہے، اسی طرح اصل لہجہ یا بول چال کا انداز جو خاتون گھر میں محرمات سے گھل مل کر بات کرتی ہیں ویسے ہی اجنبیوں سے بات نہ کرو۔ اچھی آواز بھی زینت ہے مگر یہ مشکل سے چھپانے والی زینت میں آتی ہے۔ + + +وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [٣٣:٣٣] +اس آیت میں اہل بیت کا لفظ ثابت کر رہا ہے کہ پچھلی آیت میں مخاطب صرف ازواج مطہرات ہی نہیں تمام خواتین ہیں جن کا تعلق نبی کریم ﷺ سے ہے۔ ان تمام کو کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہو۔ بلا ضرورت باہر نہ نکلو۔ +نبی کریم ﷺ کے مقام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سب اہل بیت کو نیک رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیںَ +”اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو“ +” نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور“ +یعنی اہل بیت خواتین اور تمام مسلمان عورتیں گھروں میں یا ایسی جگہوں پر جہاں مخلوط اختلاط نہ ہو وہاں عبادت کا بندوبست بھی رکھیں اور کوئی کام کاج کرنا چاہیں تو وہ بھی کریں۔ آیت میں زکواۃ دو آیا ہے جو اس سے پہلے بھی ہر جگہ نماز قائم کرو کے ساتھ لازمی قرآن میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام کاج ہو گا، آمدن ہو گی تو زکوٰۃ دی جا سکے گی۔اس کا مطلب ہے کہ حجاب کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے خواتین ملازمت اور کاروبار کر سکتی ہیں۔بہ امر مجبوری مخلوط ماحول میں بھی کام کیا جا سکتا ہے چاہے چہرہ پر حجاب ہو یا نہ ہو، جیسے مجبوری کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی اپنی بہنوں کے ساتھ بکریاں چراتی تھیں، مگر موقع ملتے ہیں انہوں نے ملازم کا بندوبست کر لیا۔ +” اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو“ +اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو ساری امت پر فرض ہے۔ یہاں ازواج مطہرات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں دنیا اور آخرت میں کامیابی ہے۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت یہی ہے کہ ان احکامات پر عمل کیا جائے۔ +پوری طرح پاک کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے کچھ ناپاکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ساری امت کے لیے گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی طرح الگ سے ازواج مطہرات کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اُن کو خصوصی مخاطب کرنے کا مقصد اُن کی خصوصی رہنمائی ہے تاکہ وہ ساری امت کی خواتین کے لیے رول ماڈل بنیں۔ + + +يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا [٣٣:٥٣] +”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے “۔ +اس آیت کو آیت حجاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں حجاب سے مراد ویوارکی طرح یعنی مکمل پردے کے ہیں۔ اس سے پہلے مسلمان مردوخواتین کےبارے میں پردے کے کافی احکامات آ چکے ہیں۔ یہاں خصوصی طور پر حضور ﷺ کے گھر کا ذکر ہے، چونکہ نبی کریم ﷺ کا گھرانہ تمام مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے اس لیے یہ آداب تمام مسلمانوں کے لیے موجودہ دور کے لیے بھی ہیں۔آیت کے بنیادی مخاطب عام مسلمان ہی ہیں۔ +اس آیت میں صحابہ کرام کو صاف صاف منع کر دیا گیا ہے کہ بغیر اجازت کے وہ امہات المومنین کے گھروں میں نہیں جا سکتے۔ بغیر اجازت کے صرف وہ محرمات جا سکتے ہیں جس کی تفصیل آگے آیات میں آئے گی۔اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم ﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے، فوراً بعد ہی مدینے کے ہر گھر میں پردے لٹک گئے، وہ حکم جس میں عام لوگوں کو مخاطب کیا گیا تھا کہ امہات المومنین سے پردے کے پیچھے سے کوئی چیز مانگا کریں، اس پر تمام مسلمان عمل کرنے لگے، امہمات المومنین سے ہی نہیں دوسرے مسلمان گھروں میں بھی یہی دستور اپنا لیا گیا۔مزید ایک بات اور اس آیت میں قابل غور ہے کہ امہات المومنین کو عام لوگوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔عام لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہو پردے کے پیچھے سے مانگیں۔ امہات المومنین جو درجہ میں سب مسلمانوں کی مائیں ہیں، قرآن کریم کے مطابق نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی اُن سے شادی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود اُن کو پردے کا حکم دینا پردے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، تو آج کے پر فتن دور میں گھر سے باہر پردے کی کس قدر پابندی کرنی چاہیےاُس کا اندازہ خود لگا لیں۔ + + +لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا [٣٣:٥٥] +”ازواج نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں (اے عورتو) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہیے اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے“۔ +یہی احکامات عام عورتوں کے لیے بھی ہیں، یہ وہی رشتے ہیں جن پر زینت ظاہر کی جا سکتی ہے، یہ لوگ بغیر اجازت بھی گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔صرف گھروں میں آ جا سکتے ہیں، خواب گاہ میں اجازت لے کر جانا چاہیے، خاص کر اُن تین اوقات میں جن کا ذکر قرآن کی آیت ٢٤:٥٨ میں بھی ہے کہ یہ تین اوقات پردے کےہیں۔ + + +”اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے“ +اس اذیت سے مراد ذہنی اذیت بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی اذیت بھی۔دین اسلام تو وہ دین ہے جس میں ناحق جانوروں کو تکلیف پہچانا حرام ہے ، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اذیت کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ زانی یا آوارہ مردوں کا شریف عورتوں کے پیچھے جانا، جھوٹے الزامات لگانا، جھوٹی افواہیں پھیلانا بھی مومن عورتوں کو تکلیف دیتا ہے۔ + + +”اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے“ +جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔ ایسی چادر کو گھروں میں تو لینے کا حکم نہیں کیونکہ گھروں میں دوسرے گھر والوں کے سامنے جو چادر لینے کا حکم ہے اسے خمار کہتے ہیں جس سے سر ڈھانپے کے علاوہ سینہ وغیرہ ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے خمار کا ذکر پیچھے سورۃ النور کی آیت 31 میں آ چکا ہے۔ ڈوپٹے کو بھی خمار کہا جا سکتا ہے ۔ گھر سے باہر جہاں عام لوگوں کی نظر پڑنے کا اندیشہ ہو اسے ڈوپٹے کے اوپر لینا چاہیے۔ موجودہ دور میں برقعہ یا سکارف جلابیب کا نعم البدل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں یہود کی لونڈیوں بشمول خواتین کی اخلاقی حالت بہت پست تھی اورپردہ کا رواج اتنا زیادہ نہ تھا۔ کفار زیادہ تر لونڈیوں کو ستاتے تھے۔ مسلمان عورتوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے وہ مسلمانوں کی عورتوں پر آوازے کستے تھے۔ اس پر جب اُن کی باز پرس کی جاتی تو کہتے کہ میں تو اپنی لونڈی سمجھا تھا یا فلاں کی لونڈی یا پھر یہ کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ عورت جو جا رہی ہے مسلمان ہے اور اس (بُرے)قماش کی نہیں۔اس آیت میں ایسی کسی بھی صورتحال پیدا ہونے کے مواقع ختم کر دئیے کہ مسلمان عورتیں یا شریف عورتیں ڈوپٹے کے اوپر چادر لیں تاکہ سب کہ پتہ چل جائے کہ مسلمان اور شریف عورت ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن کے مطابق پردہ کرنا یا سر پر چادر لینا شریف عورت ہونے کی نشانی ہے ۔اس آیت میں مسلمان خواتین کو کفار کی خواتین اور لونڈیوں سے الگ نظر آنے کا حکم دیا گیا ہے۔مسلمانوں کی لونڈیاں بھی چونکہ اہل ایمان تھی اس لیے وہ بھی لازماً اس حکم کے نازل ہونے کے بعد چادریں لیتی ہونگی، اس آیت میں فرق مسلمان اور کفار کی خواتین(بشمول لونڈیاں اور عام خواتین) کے درمیان بتایا گیا ہے۔ + + +”اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے“ +جیسا کہ پچھلی آیت میں مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا کہ اپنی شناخت پردے کی صورت میں کفار کی خواتین اور بدقماش خواتین سے الگ کر لیں تو اس کے بعد کفار اور یہود کے لیے یہ بہانہ تو ختم ہو گیا کہ وہ مسلمان خواتین کو پہچان نہیں سکے تھے اس لیے آواز لگا دی۔ جن کفار کے دلوں میں اب بھی مرض تھا وہ مسلمان خواتین اور مسلمانوں کے خلاف افواہیں پھیلانے لگے۔ یہ افواہیں اس طرح کی ہوتی تھی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے، مسلمان جنگ ہار گئے یا فلاں مسلمان خاتون ایسی ویسی ہے۔ ان مفافقین کا مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو خراب کرنا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، حتیٰ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی بُری افواہیں پھیلائی گئی۔ اب وارننگ انہی لوگوں کے لیے تھی ۔ان کے جرائم کی کم سے کم سزا جلاوطنی بتائی گئی ہے۔ یہ جلا وطنی اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے کسی کے بارے میں بُری افواہیں پھیلائیں مگر ان کے نتیجے میں کوئی فتنہ نہ پھیل سکا، جیسے ہی انہوں نے بولا، فوراً پتہ چل گیا کہ یہ افواہ پھیلا رہا ہے تو ایسے شخص کی کم سے کم سزا جلاوطنی تجویز کی گئی۔ + + +پچھلی آیت میں کم سے کم سزا تجویز کی تھی۔ اب یہاں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی جا رہی ہے۔ یعنی اگر کسی کی افواہ یا باتوں کی وجہ سے کسی مسلمان کے گھر میں ناچاقی ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو افواہ تھی تو افواہ پھیلانے والے کو زیادہ سے زیادہ سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ان کا بائیکاٹ یا جسمانی سزا یا موت جو کہ قاضی جرم کو دیکھتے ہوئے صادر کر سکتا ہے۔ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف بدگمانی پھیلانا یا پھیلانے کی کوشش کرنا سنگین جرائم ہیں۔ + + +سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [٣٣:٦٢] +”یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے“ +یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے۔ پرانی شریعتوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر یہ منافق یہودی اپنی کتاب پڑھیں تو اس میں بھی ایسی ہی سزائیں ہیں۔ +بائبل میں بھی اس طرح کے احکام ہیںَ۔ جھوٹے الزام پر طلاق نہیں دی جا سکتی۔ بدنام کرنے والوں کی بھی سزا کا ذکر ہے۔ قرآن کی یہ آیت بتا رہی ہے کہ ایسی سزا نئی نہیں پرانی ہے۔ ان منافق یہودیوں کی کتابوں میں بھی درج ہے۔یہودیوں میں تو اگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں بُری باتیں پھیلائے تو اس کی جسمانی سزا میں کوڑے، مالی سزا میں جرمانہ اور اس کے علاوہ تمام عمر طلاق پر پابندی کی سزا بھی تھی۔ جیسا کہ ان آیات میں درج ہے۔ +”اِستِشنا: باب22:13۔اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیاہے (نکاح کرے)اور اُسکے پاس جائے اور بعد اُسکے اُس سے نفرت کر کے۔14۔شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اِس عورت سے بیاہ کیا اور جب میں اُسکے پاس گیا تو میں نے کنوارے پن کے نشان اُس میں نہیں پائے۔15۔تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کنوارے پن کے نشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزرگوں کے پاس لے جائیں۔16۔اور اُس لڑکی کا باپ بزرگوں سے کہے کہ میں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔17۔اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے تیری بیٹی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کنوارے پن کے نشان یہ موجود ہیں۔ پھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزرگوں کے آگے پھیلا دیں۔18۔تب شہر کے بزرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔19۔اور اُس سے چاندی کی سو مثقال جرمانہ لیکر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اس لیے کہ اُس نے ایک اسرائیلی کنواری کو بدنام کیا اور وہ اُس کی بیوی بنی رہے اور وہ زندگی بھر اُسکو طلاق نہ دینے پائے۔“ + + +(ہمسٹرنگ کرنا یعنی ٹانگوں کے پٹھے کاٹ کر جانور کو کھڑے ہونے یا بھاگنے سے معذور کر دینا) +بچپن کے دن اور وہ سال جو میں نےاسکول میں گذارے اور پھر جب میں بنگال میں کام کر رہا تھا یا پھر دونوں عالمی جنگوں کے درمیان، میں نے اپنی ساری چھٹیاں ہمیشہ کالاڈھنگی اور اس کے آس پاس کے جنگلوں میں گذاریں۔ ان برسوں کے دوران میں اگر میں اتنا نہیں سیکھ سکا جتنا کہ مجھے سیکھنا چاہیے تھا تو یہ میری غلطی شمار ہوگی کیونکہ میرے پاس یہ سب سیکھنے کے بے شمار مواقع تھے۔ یہ مواقع اب شاید ہی کسی کو ملیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کی وجہ سے وہ جگہیں بھی کاشت کاری کے لیے استعمال ہو رہی ہیں جو میرے وقتوں میں جنگلی جانوروں کی آماج گاہیں ہوتی تھیں۔ میرے خیال میں اس تباہی کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بندر جنگل سے نکل کر آباد زمینوں میں گھس گئے ہیں اور اب حکومتی سطح پر بھی ان سے نمٹنا مشکل ہو گیا ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک دن ایسا آئے گا کہ ان بندروں سے چھٹکارا پانا ضروری ہو جائے گا کہ محض وسطی صوبوں میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم ایک کروڑ بندر ہیں۔ جب یہ ایک کروڑ بندر فصلوں اور باغات کے پھلوں پر گذارا کر رہے ہوں تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ +اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا کہ میں یہ کتاب لکھوں گا تو میں کہیں زیادہ ذوق و شوق سے سیکھتا کیونکہ جنگل میں گھومنے پھرنے سے مجھے ہمیشہ دلی خوشی ملتی ہے اور وہی خوشی میں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ میری خوشی اس وجہ سے ہے کہ جنگلی جانور اپنے فطری ماحول میں ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔فطرت میں اداسی یا تاسف نہیں ہوتا۔ پرندوں کے غول سے ایک پرندہ اگر باز پکڑ لے جائے یا جانوروں میں سے ایک کو کوئی درندہ مار کھائے تو باقی یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ شکر ہے کہ آج ان کی باری نہیں تھی اور کل کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ جب میں نادان تھا تو میں باز اور عقاب کے شکار کردہ پرندوں اور درندوں کے شکار کردہ جانور کو بچانے کی کوشش کرتا تھا۔ تاہم ایک جان بچانے کی کوشش میں ہمیشہ دو جانیں ہی ضائع ہوتی تھیں۔ باز، عقاب اور درندوں کے پنجوں میں گلا سڑا گوشت لگا ہوتا ہے اور ان سے لگنے والے زخم کا فوری علاج نہ کیا جائے تو شاید ہی سو میں سے ایک جانور یا پرندہ بچ سکے۔ مزید برآں، اپنے شکار سے ہاتھ دھونے کے بعد یہی پرندے یا جانور اپنی یا اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے فوراً دوسرا شکار کر لیتے تھے۔ +چند مخصوص پرندے اور جانور فطرت میں توازن کا کام دیتے ہیں۔ اس کام کو سرانجام دینے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے وہ شکار کرتے ہیں کیونکہ ان کا معدہ محض گوشت ہضم کرتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو، شکار انتہائی تیزی اور مہارت سے ہوتا ہے۔ شکار کو ہر ممکن جلدی ہلاک کرنے میں شکاری کا یہ مفاد ہوتا ہے کہ اس طرح دیگر جانوروں کو اس کا پتہ نہیں چلتا جبکہ شکار کو زیادہ تکلیف کے بغیر موت آ جاتی ہے۔ +ہر نسل کے شکاری کے شکار کا اپنا طریقہ ہوتا ہے اور زیادہ تر یہ شکاری اور شکار کی جسامت پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شکرا ہمیشہ زمین پر شکار کرتا اور وہیں کھاتا ہے لیکن بعض اوقات اڑتے ہوئے ہوا میں ہی چھوٹا پرندہ پکڑ کر وہیں چٹ کر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات شیر پنجے کی ایک ہی ضرب سے جانور مار لیتا ہے تو بعض اوقات اسے پہلے جانور کو ہمسٹرنگ کر کے پھر مارنا پڑتا ہے۔ +درندے ہوں یا پرندے، کبھی اپنی ضرورت سے زی��دہ شکار نہیں کرتے۔ تاہم محض شکار کی نیت سے زیادہ شکار کرنے کا کام چند ہی جانور انتہائی مخصوص حالات میں کرتے ہیں۔ ان کی مثال پائن مارٹن، جنگلی بلی اور نیولے ہیں۔ شکار انتہائی وسیع موضوع ہے اور ذیل کے دو واقعات سے وضاحت کرتا ہوں۔ +جب پرسی ونڈہم کماؤں کے کمشنر تھے تو سر ہارکورٹ بٹلر، صوبجات متحدہ کے گورنر نے ان سے فرمائش کی کہ لکھنؤ کے نئے چڑیا گھر کے لیے ایک اژدہا تلاش کریں۔ ونڈہم اس وقت اپنے سرمائی دورے پر نکلے تھے اور کالاڈھنگی پہنچ کر انہوں نے مجھے اس بارے بتایا۔ اس وقت مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہی ایک اژدہا پاس ہی رہتا ہے۔ اگلے دن ونڈہم اور ان کے دو شکاریوں کو ساتھ لے کر میں ہاتھی پر نکلا۔ میں اس اژدہے کو برسوں سے ایک ہی علاقے میں دیکھ رہا تھا اس لیے اس کی تلاش آسان تھی۔ +جب ہم اس جگہ پہنچے تو اس وقت اژدہا ندی کی تہہ میں لیٹا ہوا تھا اور ایک یا دو انچ جتنا شفاف پانی اس کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ دور سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی عجائب گھر کے شیشے کے ڈبے میں بند ہو۔ جونہی ونڈہم کی نظر پڑی، وہ فوراً بولے کہ یہی اژدہا چاہیے۔ انہوں نے فوراً اپنے شکاریوں کو ہاتھی سے بندھی رسی کھولنے کا حکم دیا۔ پھر انہوں نے خود رسی کے ایک طرف پھندا بنایا اور شکاریوں کو نیچے اتر کر اژدہے کو اس پھندے میں پھنسانے کا حکم دیا۔ دونوں شکاری ہکا بکا رہ گئے اور بولے کہ یہ تو ممکن نہیں۔ ونڈہم نے انہیں تسلی دی کہ "فکر نہ کرو، اگر اس نے حملہ کیا تو رائفل سے اسے گولی مار دوں گا"۔ تاہم شکاریوں نے پھر بھی انکار کیا۔ ونڈہم نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں یہ کام کرنا چاہوں۔ میں نے پورے خلوص دل سے انہیں بتایا کہ کسی بھی قیمت پر میں یہ کام نہیں کرنے والا۔ خیر، رائفل مجھے پکڑا کر ونڈہم ہاتھی سے نیچے اترے۔ +مجھے ابھی تک افسوس ہے کہ اس وقت میرے ہاتھ میں رائفل کی بجائے وڈیو کیمرا نہیں تھا ورنہ اگلے چند منٹ جو کچھ میں نے دیکھا، اس سے زیادہ ہنسی مجھے کبھی نہیں آئی۔ ونڈہم کا ارادہ تھا کہ اژدہے کی دم کو پھندے میں پھنسا کر اسے خشکی پر گھسیٹ کر باندھ لیں گے اور ہاتھی پر لاد کر گھر روانہ ہو جائیں گے۔ جب ونڈہم نے یہ منصوبہ شکاریوں کو بتایا تو وہ بولے کہ آپ اژدہے کی دم میں پھندا ڈال دیں، ہم اسے گھسیٹ کر خشکی پر لائیں گے۔ تاہم ونڈہم کے خیال میں شکاری یہ کام بہتر کر سکتے تھے۔ آخرکار آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے تینوں بندے پانی میں اترے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ رسی کو پھندے سے سب سے دور سے پکڑیں۔ جب وہ اژدہے کے بالکل قریب پہنچ گئے تو انہوں نے اس بات پر بحث شروع کر دی کہ ان میں سے کون اژدہے کی دم پھندے میں ڈالے گا۔ ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ اژدہے نے اپنا سر پانی سے ایک یا دو فٹ جتنا اوپر اٹھایا اور ان کی طرف سرکنے لگا۔ "بھاگو صاحب" کا نعرہ لگا کر تینوں ہی پانی سے نکل بھاگے۔ جتنی دیر تک وہ کنارے پر جھاڑیوں تک پہنچتے، اژدہا جامن کے درخت کی جڑوں کے نیچے سے ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا جبکہ میں اور مہاوت ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔ +ایک ماہ بعد مجھے ونڈہم کا خط ملا کہ وہ اگلے روز کالا ڈھنگی پہنچ رہے ہیں اور ایک بار پھر سے وہ اژدہے کو پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ جیف ہاپکنز اور ان کا ایک دوست انہی دنوں انگلینڈ سے آئے ہوئے تھے، بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم تینوں اسی اژدہے کو تلاش کرنے نکلے۔ اس کی رہائش گاہ کے نزدیک سانبھروں کی ایک گذرگاہ تھی۔ اس جگہ سانبھروں کے کھروں کے کٹاؤ سے زمین پر انتہائی باریک مٹی جمع ہو گئی تھی۔ اسی جگہ ہم نے اژدہا دیکھا جو چند منٹ ہی قبل مارا گیا تھا۔ اسے اودبلاؤ کے جوڑے نے مارا تھا۔ +اژدہے یا مگرمچھ کو اود بلاؤ ہمیشہ شکار کی نیت سے مارتے ہیں اور انہیں کبھی چکھتے تک نہیں۔ عام طور پر نر اور مادہ دونوں طرف سے اپنے شکار کو گھیر لیتے ہیں۔ جب اژدہا یا مگرمچھ ایک طرف اپنا بچاؤ کرنے کے لیے مڑتا ہے تو دوسری جانب کا اودبلاؤ جست کر کے سر کے نزدیک سے ایک بوٹی کاٹ لیتا ہے۔ جتنی دیر میں شکار اس جانب مڑے، دوسری جانب والا اودبلاؤ یہی کچھ کرتا ہے۔ اس طرح گوشت کترتے کترتے گردن کی ہڈی تک پہنچ جاتے ہیں تو شکار جا کر ہلاک ہوتا ہے کیونکہ مگرمچھ ہو یا اژدہا، دونوں بہت سخت جان ہوتے ہیں۔ +یہ والا اژدہا ساڑھے 17 فٹ لمبا اور کم از کم 26 انچ موٹا تھا۔ اسے مارنے میں اودبلاؤ کے جوڑے کو کافی مشکل پیش آئی ہوگی۔ تاہم اودبلاؤ بہت بہادر ہوتے ہیں اور شکار میں خطرے کی مقدار جتنی زیادہ ہو، اسے اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ +دوسرے واقعے میں ایک بڑے نر ہاتھی اور شیروں کے جوڑے کے درمیان میں جنگ ہوئی تھی۔ اگر اسے ہم شکار برائے شکار نہ سمجھیں تو پھر میرے پاس کوئی اور وجہ نہیں کہ یہ لڑائی کیوں ہوئی تھی۔ اس واقعے کو ہندوستانی پریس میں کئی بار پیش کیا گیا اور مشہور شکاریوں نے دی پائنیر اور دی سٹیٹس مین کو خط لکھے۔ مشہور مفروضے یہ تھے کہ شیروں نے بدلہ لینے کے لیے ہاتھی کو ہلاک کیا کہ ہاتھی نے ان کا بچہ مارا تھا، پرانی دشمنی اور پیٹ بھرنے کے لیے شکار کیا گیا۔ تاہم کسی بھی لکھاری یا شکاری نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اس طرح کا واقعہ کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آیا، اس لیے یہ نظریات محض مفروضات ہی ہیں۔ +پہلی بار میں نے ہاتھی اور شیروں کے اس مقابلے کے بارے تب سنا جب مجھ سے ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا 200 گیلن مٹی کا تیل ایک ہاتھی کی لاش کو جلانے کے لیے کافی ہے؟ جب انہوں نے مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ شیروں کے جوڑے نے ہاتھی کو تنک پور میں پتھریلی زمین پر ہلاک کیا ہے اور اسے دفن کرنا ممکن نہیں۔ ہاتھی کی لاش جلانے والے اب اپنے اخراجات وصول کرنا چاہ رہے تھے۔ مجھے یہ سارا معاملہ بہت دلچسپ لگا لیکن دس دن پرانا واقعہ ہونے کی وجہ سے نشانات مٹ گئے تھے اور جو باقی بچے تھے، وہ آگ لگنے اور تیز بارش کی وجہ سے ختم ہو گئے تھے۔ +تنک پور کا نائب تحصیلدار میرا دوست ہے اور اس نے اگرچہ یہ سارا واقعہ دیکھا تو نہیں لیکن اپنے کانوں سے سنا تھا۔ اس نے مجھے یہ واقعہ بتایا: +تنک پور چونکہ اودھ سے ترہٹ جانے والی ریلوے کا آخری سٹیشن اور تجارتی مرکز ہے، اس لیے اس کی اپنی اہمیت ہے اور یہ دریائے سردا کے دائیں کنارے عین اس جگہ واقع ہے جہاں دریا پہاڑوں سے نکلتا ہے۔ 30 سال قبل دریا تنک پور کے ساتھ سے گذرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رخ بدلتا رہا اور مندرجہ بالا واقعے کے وقت تنک پور سے دریا دو میل دور بہتا تھا۔ دریا کا کنارہ تو سو فٹ بلند ہے لیکن دریا کی کئی شاخیں گذرتی ہیں جن میں بنے جزیروں پر درخت اور دیگر جھاڑ جھنکار اگ آئے ہیں۔ +ایک دن دو ملاح جو تنک پور رہتے تھے، سردا سے مچھلیاں پکڑنے گئے۔ اس دن وہ کچھ زیادہ دیر تک رکے رہے اور جب واپسی کا رخ کیا تو سورج ڈوبنے لگا تھا اور ان کے سامنے دو میل کا سفر باقی تھا۔ سو فٹ اونچے کنارے اور ان کے درمیان میں دریا کی ایک چھوٹی سی شاخ بہہ رہی تھی اور جب وہ گھاس کے گھنے قطعے سے نکلے تو ان کے سامنے دوسرے کنارے پر دو شیر کھڑے دکھائی دیے۔ یہ شاخ کوئی 40 گز چوڑی ہوگی اور تھوڑا سا پانی اس میں بہہ رہا تھا۔ چونکہ شیر عین ان کے راستے پر کھڑے تھے، اس لیے یہ دونوں وہیں گھاس میں ہی چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ کچھ دیر میں شیر کہیں چل دیں۔ چونکہ ان جنگلوں میں شیر دکھائی دینا عام بات تھی اس لیے ملاحوں نے زیادہ فکر نہ کی۔ اب جو افراد جنگل سے زیادہ واقف نہیں ہیں، ان کی سہولت کے لیے میں بتاتا ہوں کہ سورج ڈوب چکا تھا اور ہلکی روشنی باقی تھی کہ پورا چاند طلوع ہو گیا۔ دونوں شیر اچھی روشنی میں سامنے دکھائی دے رہے تھے۔ جس جانب سے یہ ملاح آئے تھے، اسی طرف گھاس ہلی اور اس میں سے ایک ہاتھی نکلا۔ یہ ہاتھی تنک پور کے جنگلوں میں کافی بدنام تھا کہ وہ فارسٹ بنگلے کی چھت کے ستون اکھاڑتا رہتا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی مست یا دیوانہ نہیں تھا اور اس نے کبھی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ +جب ہاتھی پانی کے پاس پہنچا تو سامنے دو شیروں کو دیکھ کر اس نے اپنی سونڈ اونچی کی اور زور سے آواز نکال کر ان کی طرف بڑھا۔ شیروں نے اب ہاتھی کا رخ کیا۔ جب ہاتھی ان کے پاس پہنچا تو ایک شیر ہاتھی کے سامنے دھاڑنے لگا جبکہ دوسرا شیر چکر کاٹ کر پیچھے جا پہنچا۔ اب اس نے جست لگائی اور ہاتھی کی پیٹھ پر چڑھ گیا۔ جھومتے ہوئے ہاتھی نے اس شیر کو پیٹھ سے ہٹانے کے لیے سونڈ ہلائی تو سامنے والا شیر اس کے سر پر جھپٹ پڑا۔ غصے سے ہاتھی چلا رہا تھا اور دونوں شیر پوری قوت سے دھاڑ رہے تھے۔ جب شیر غصے سے دھاڑے تو بہت دہشت ناک آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب اس شور و غل میں ہاتھی کی چنگھاڑیں شامل ہوئیں تو ملاحوں کی ہمت جواب دے گئی اور اپنے جال اور مچھلیاں چھوڑ کر وہ سیدھے تنک پور کو بھاگے۔ +تنک پور میں رات کے کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ انہیں یہ شور سنائی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد دونوں ملاح بھی آن پہنچے اور پوری کہانی سنائی۔ کئی منچلے لڑائی دیکھنے دریا کے سو فٹ بلند کنارے پر جا پہنچے۔ تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ لڑائی کی آوازیں لحظہ بہ لحظہ قریب تر ہوتی جا رہی ہیں تو ہر کوئی سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سارے گھروں کے دروازے بند ہو گئے۔ لڑائی کے دورانیہ کے بارے متضاد بیانات ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لڑائی ساری رات جاری رہی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نصف شب تک لڑائی ختم ہو گئی تھی۔ مسٹر میتھیسن جن کا بنگلہ اسی اونچے کنارے کے پاس ہی تھا، کے بقول یہ لڑائی کئی گھنٹے جاری رہی اور ان کے مطابق انہوں نے کبھی اس سے زیادہ خوفناک آوازیں نہیں سنیں۔ رات کی خاموشی میں کئی بار گولیوں کی آوازیں سنائی دیں لیکن یہ بات واضح نہیں کہ گولیاں پولیس نے چلائی تھیں یا پھر مسٹر میتھیسن نے، لیکن لڑائی پر کوئی فرق نہ پڑا اور وہ پوری شدت سے جاری رہی۔ +صبح جب تنک پور کے باشندے دریا کے اونچے کنارے پر جمع ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہاتھی مر چکا تھا۔ نائب تحصیلدار کی بتائی ہوئی تفصیل سے میرا اندازا ہے کہ ہاتھی جریان خون سے مرا۔ شیروں نے ایک لقمہ تک ہاتھی کی لاش سے نہ کھایا اور ہاتھی کے پاس یا تنک پور کے گرد و نواح میں زخمی یا مردہ کوئی شیر بھی نہ دکھائی دیا۔ +میرا خیال ہے کہ لڑائی کے شروع میں شیروں کی نیت ہاتھی کو ہلاک کرنے کی ہرگز نہیں تھی۔ پرانی دشمنی، بچے کا بدلہ وغیرہ سب غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نر ہاتھی جس کے بیرونی دانتوں کا وزن 90 پاؤنڈ سے زیادہ تھا، کو دو شیروں نے ہلاک کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ جب دو شیروں کے ملاپ کے وقت ہاتھی نے انہیں دھمکانے کی کوشش کی تو اصل لڑائی شروع ہو گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جب دوسرا شیر ہاتھی کے ��ر پر جھپٹا تو اس نے فوراً ہی ہاتھی کی آنکھیں نکال دی ہوں گی۔ درد سے بے تاب ہو کر ہاتھی جب دریا کے کنارے گول پتھروں پر پہنچا تو وہیں پھنس گیا کہ اندھا ہونے اور پھسلوان زمین کی وجہ سے وہ بھاگ نہ سکا اور پھر شیروں نے اسے مار ڈالا۔ +تمام درندے اپنے شکار کو اپنے دانتوں سے ہلاک کرتے ہیں اور وہ درندے جو پنجوں سے شکار کو ہلاک کرتے ہیں، وہ بھی بعض اوقات شکار کو پکڑنے اور ہلاک کرنے سے قبل قابو کرنے کے لیے دانت استعمال کرتے ہیں۔ اگر شکار کا پیچھا کر کے اسے ہلاک نہ کیا جائے تو درندے جب شکار پر جھپٹتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب کیا ہوا۔ بیسیوں بار بھی یہ مناظر دیکھ کر میں آج تک ان کی درست حرکات و سکنات کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ صرف ایک بار میں نے ایک مادہ چیتل پر ہوا کی مخالف سمت سے اور سیدھا سامنے سے ہوتا ہوا حملہ میں نے دیکھا ہے۔ شیر اور تیندوے جن جانوروں کو شکار کرتے ہیں، ان کے سینگ درندوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ باقی تمام حملے جو میں نے دیکھے، وہ پہلو سے یا عقب سے کئے گئے تھے اور ایک جست اور چند قدم کی دوڑ اور پھر حملہ کر کے پنجوں سے شکار کو گرا کر اس کا گلا دبوچ لینا، بجلی کی سی رفتار سے ہوتا ہے۔ +چرندوں کو شکار کرتے وقت درندوں کو کافی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ سانبھر یا چیتل کے کھر کی ایک ہی ضرب درندے کی آنتیں باہر نکال سکتی ہے۔ چوٹ سے بچنے اور جانور کو کھڑے ہونے سے روکنے کے لیے درندے شکار کے سر کو پکڑ کر نیچے موڑتے ہوئے گھما دیتے ہیں جس سے جانور نہ تو اٹھ کر بھاگ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے کھر درندے کو کوئی نقصان دے سکتے ہیں۔ اگر جانور اٹھنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ بہت بڑا جانور ہو تو گرتے ہی اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض اوقات درندوں کے بڑے دانت بھی گردن توڑ دیتے ہیں۔ تاہم اگر گردن نہ ٹوٹے تو پھر شکار کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کیا جاتا ہے۔ +میرے مشاہدے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تیندوے نے اپنے شکار کو ہلاک کرنے سے قبل اس کو ہمسٹرنگ کیا ہو لیکن شیروں کو کئی بار ایسا کرتے دیکھا ہے۔ تاہم ان تمام مشاہدات میں ہمسٹرنگ یا کام دانتوں کی بجائے پنجوں سے کیا گیا تھا۔ ایک بار میرے ایک دوست نے بتایا کہ ان کی ایک گائے کو نینی تال سے چھ میل دور ہلاک کیا گیا ہے۔ ان کے پاس مویشیوں کا بہت بڑا ریوڑ تھا اور انہوں نے بہت بار اپنے مویشی شیروں اور تیندوؤں سے ہلاک ہوتے دیکھے تھے۔ مذکورہ واقعے میں گردن پر دانتوں کے نشانات کی عدم موجودگی اور جس طریقے سے گوشت نوچا گیا تھا، اس سے انہوں نے اندازا لگایا کہ یہ کسی نامعلوم جانور کا کام ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو دن کافی باقی تھا، اس لیے دو گھنٹے بعد ہم جائے وقوعہ پر جا پہنچے۔ پوری طرح جوان گائے کو 50 فٹ چوڑے فائر ٹریک کے عین درمیان میں ہلاک کیا گیا تھا اور اسے گھسیٹ کر لے جانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جب مجھے اس واردات کی اطلاع ملی تو تفصیل سے میں نے اندازا لگایا کہ کسی ریچھ نے گائے کو ہلاک کیا ہوگا۔ اگرچہ ریچھ باقاعدہ گوشت خور جانور نہیں لیکن کبھی کبھار وہ جانور مار کر کھا بھی لیتے ہیں۔ چونکہ ان کی جسمانی ساخت جانوروں کا شکار کرنے کے لیے مناسب نہیں، اس لیے وہ بہت برے شکاری ہوتے ہیں۔ تاہم اس گائے کو ریچھ نے نہیں بلکہ شیر نے انتہائی عجیب طریقے سے ہلاک کیا تھا۔ شیر نے پہلے ہمسٹرنگ کیا اور پھر پیٹ پھاڑ کر گائے کو ہلاک کیا۔ ہلاک کرنے کے بعد شیر نے پنجوں سے گائے کے پچھلے حصے سے گوشت نوچ نوچ کر کھایا۔ چونکہ سخت زمین پر ک��وج لگانا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے باقی کا سارا دن اس شیر کو تلاش کر کے شکار کرنے کی کوشش میں صرف کیا۔ مغرب کے وقت میں گائے کی لاش پر لوٹا اور ساری رات ایک درخت پر بیٹھ کر گذاری۔ شیر نہ تو اس شکار پر واپس آیا اور نہ ہی اپنے شکار کردہ اگلے نو جانوروں پر۔ یہ جانور بھی عین اسی طرح ہلاک کئے گئے تھے جن میں تین کم عمر بھینسے اور 6 گائیں تھیں۔ +انسانی نکتہ نظر سے جانور ہلاک کرنے کا یہ طریقہ انتہائی ظالمانہ تھا لیکن شیر کے لیے یہ بات بیکار ہے۔ چونکہ شیر اپنی خوراک خود مار کر کھاتا ہے تو اس کا شکار کرنے کا طریقہ اس کی جسمانی حالت پر منحصر ہے۔ جانور کو پنجوں کی مدد سے مارنا، اسے گھسیٹ کر منتقل نہ کرنا اور پھر پنجوں سے گوشت نوچ نوچ کر کھانا، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ شیر کو کوئی نہ کوئی جسمانی نقص تھا۔ میرے خیال میں یہ جسمانی نقص کسی رائفل کی گولی سے پیدا ہوا تھا جو اس کے نچلے جبڑے کا کچھ حصہ اڑا لے گئی ہوگی۔ میں نے یہ رائے پہلے شکار کو دیکھ کر قائم کی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط ہوتی گئی کہ شیر نے اگلا ہر شکار نسبتاً زیادہ وقفے سے کیا اور نسبتاً کم گوشت کھایا۔ شاید اپنے شکار پر واپس آتے وقت اسے یہ گولی لگی ہوگی اور اسی وجہ سے وہ واپس کبھی اپنے شکار پر نہ لوٹا۔ چونکہ اس علاقے میں ان دنوں نہ تو کوئی شیر شکار ہوا اور نہ ہی کوئی مردہ شیر دکھائی دیا، میرا اندازا ہے کہ یہ شیر پاس ہی موجود پہاڑوں کی کسی غار میں سسک سسک کر مر گیا ہوگا۔ +ظاہر ہے کہ یہ واقعہ نوعیت کے اعتبار سے غیر معمولی ہے لیکن میں نے اس کے علاوہ بھی ہمسٹرنگ ہوتی دیکھی ہے۔ شیروں کے شکار کئے ہوئے دو سب سے بڑے بھینسے بھی اسی طرح ہمسٹرنگ کر کے شکار کئے گئے تھے۔ + + +ٹام کی دی ہوئی غلیل کا ربڑ جب ختم ہو گیا تو میں نے ایک کمان بنائی۔ یہ کمان تیر کی بجائے غلہ پھینک سکتی تھی۔ عام کمان کی نسبت اس کا حجم چھوٹا اور سخت تھا۔ ربڑ کی دو لڑیوں کے درمیان میں غلہ رکھنے کی جگہ تھی۔ تاہم اسے چلانے میں کافی احتیاط کرنی پڑتی تھی کہ اگر غلہ چھوڑتے وقت دوسرے ہاتھ کی کلائی عین وقت پر حرکت نہ کرے تو انگوٹھے پر سخت چوٹ لگ سکتی ہے۔ غلیل کی نسبت کمان سے غلہ دو گنا تیزی سے پھینکا جاتا ہے لیکن نشانہ اتنا پکا نہیں ہوتا۔ ہمارے گرمائی گھر کے عین سامنے نینی تال کا خزانہ تھا جس پر گورکھے سرکاری طور پر متعین تھے۔ وہ مقابلے کے لیے مجھے بلاتے تھے۔ میدان کے عین وسط میں گھنٹہ نصب تھا جو ہر گھنٹے بعد بجایا جاتا تھا۔ اس جگہ ماچس کی ڈبیا رکھ کر بیس گز کے فاصلے سے اس پر نشانے لگائے جاتے تھے۔ گٹھے جسم کا حوالدار ان کا بہترین نشانچی تھا لیکن وہ کبھی مجھے ہرا نہ سکا۔ +اگرچہ غلیل کے بعد کمان میری مجبوری تھی اور میں نے اچھا نشانہ بنا لیا تھا اور اس سے پرندے بھی مار سکتا تھا لیکن کبھی اس نے غلیل کی طرح میری توجہ نہیں حاصل کی۔ بعد میں فینی مور کوپر کی کتب پڑھ کر میں نے غلے کی کمان کی بجائے تیر والی کمان بنا لی۔ اگر کوپر کی کتب والے ریڈ انڈین تیر کمان سے شکار کر سکتے تھے تو میں کیوں نہیں؟ تاہم انڈیا میں ہمارے علاقوں میں لوگ تیر کمان استعمال نہیں کرتے، اس لیے میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کئی بار کی ناکام کوشش کے بعد میں نے ایک اچھی کمان اور دو تیر بنا لیے جن کی نوکوں میں کیل لگے تھے۔ اب ریڈ انڈین کی نقالی کرنا میرا مشغلہ بن گیا۔ مجھے ان تیروں کی ہلاکت خیزی پر پورا یقین تھا اور اب میں جنگل میں بلا جھجھک جا سکتا تھا جہاں شکار کے قابل جانور اور پرندے تو بہت تھے لیکن ایسے جانور بھی جن سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ جانوروں پر گھات لگانے اور خطرے کے وقت درخت پر چڑھنے کی آسانی کی خاطر میں جوتے اتار دیا کرتا تھا۔ ان دنوں ربر کے پتلے سول والے جوتے نہیں ہوتے تھے، اس لیے بھاری جوتے چھوڑنے پڑے کہ وہ نہ تو جانوروں پر گھات لگانے اور نہ ہی درخت پر چڑھنے میں کوئی مدد دیتے تھے۔ +ہماری جائداد کے نچلے سرے پر دو آبی گذرگاہیں ملتی تھیں جو بارش کے وقت ہی پانی کی شکل دیکھتی تھیں۔ ان کی تہہ ریتلی تھی اور ان کے درمیان میں گھنا جنگل تھا جو نچلے سرے پر نصف میل جبکہ اوپری سرے پر دو میل چوڑا اور ایک میل لمبا تھا۔ یہاں ہر قسم کے جانور اور پرندے رہتے تھے۔ جس نہر میں لڑکیاں نہاتی تھیں، وہ ہماری جائداد اور جنگل کے درمیان میں سرحد کا کام دیتی تھی۔ نہر پر درخت کے تنے سے بنے پل کو عبور کرتے ہی شکار میرے سامنے ہوتا تھا۔ بعد ازاں جب میرے پاس وڈیو کیمرا تھا تو میں نے نہر پر ہماری طرف والے درخت پر کئی دن گذارے تاکہ نہر سے پانی پیتے جانوروں کی وڈیو بنا سکوں۔ اسی جنگل میں میں نے ہٹلر کی جنگ کے بعد اپنا آخری شیر مارا۔ یہ شیر مختلف اوقات میں گھوڑا، بچھڑا اور دو بیل مار چکا تھا۔ اسے بھگانے کی جب تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں تو میں نے اسے گولی مار دی۔ میری بہن میگی کا خیال تھا کہ میرا ہاتھ کانپ جائے گا کیونکہ مجھے ان دنوں ملیریا بخار بہت زیادہ ہوتا تھا۔ تاہم میں نے شیر کو بلایا، اسے مجرم پایا اور چند فٹ کے فاصلے سے، جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا تو میں نے اس کی آنکھ میں گولی اتار دی۔ اگرچہ یہ شیر کا قتل تھا لیکن اس قتل کا جواز کافی معقول تھا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ شیر گاؤں سے 200 گز دور خاردار جھاڑیوں تک رہے اور اس کے شکار کردہ جانوروں کی قیمت بھی میں اپنی جیب سے ادا کرتا رہا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے ملک بھر میں مویشیوں کی قلت تھی اور شیر نے یہ جگہ چھوڑنے سے قطعی انکار کر دیا تھا۔ +میگگ کی مدد سے میں نے دونوں آبی گذرگاہوں کے درمیانی جنگل کو اچھی طرح چھانا تھا اور مجھے بخوبی علم تھا کہ کس جگہ نہیں جانا۔ اس کے باوجود بھی مور اور جنگلی مرغ کا شکار کرنے کے لیے نہر عبور کرنے سے قبل میں دیکھ لیا کرتا تھا کہ کوئی شیر تو یہاں سے نہیں گذرا۔ جنگل میں بائیں جانب نہر کے کنارے میں بغور شیر کے پگ دیکھتا تھا جہاں سے شیر غروب آفتاب کے بعد شکار کے لیے آتے تھے اور سورج طلوع ہونے سے قبل واپس چلے جاتے تھے۔ نہر کے کنارے ریتلی زمین کا بغور جائزہ لینے سے اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ کیا کوئی شیر تو نہیں یہاں نہیں آیا، اور اگر آیا ہے تو کیا واپس لوٹا یا ابھی تک جنگل میں ہی ہے؟ اگر شیروں کے صرف جانے کے نشانات ملتے تو وہ دن میں کہیں اور شکار کھیلنے میں گذارتا تھا۔ +یہ آبی گذرگاہیں میرے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث تھیں۔ شیروں کے علاوہ ہر جانور اور ہر گزندہ چاہے وہ اس جگہ سے کئی میل دور بھی کیوں نہ رہتا ہوں، یہاں سے گذرتے وقت اپنے نشان چھوڑ جاتا تھا۔ اسی جگہ پہلے پہل غلیل، پھر کمان، پھر مزل لوڈر اور پھر جدید رائفل سے مسلح ہو کر میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے جنگل کی زبان سیکھی ہے۔ طلوعِ آفتاب کے وقت روانہ ہو کر اور جنگل میں ننگے پیر خاموشی سے چلتے ہوئے میں نے تمام جانوروں اور گزندوں کو گذرتے دیکھا۔ آخر وہ وقت آیا کہ جب ان کے گذرنے کے نشان سے میں ان تمام جانوروں اور گزندوں کو پہچاننا سیکھ گیا۔ تاہم یہ محض ابتداء تھی کہ میں نے ابھی جانوروں کی عادات، ان کی زبان اور فطرت میں ان کے کردار کو سمجھنا تھا۔ ان علوم کو سیکھنے کے ساتھ ہی ساتھ میں نے پرندوں کی زبان بھی سیکھی اور فطرت میں ان کے کردار کو بھی جانا۔ +سب سے پہلے تو میں نے پرندوں، جانوروں اور گزندوں کو درجِ ذیل چھ گروہوں میں بانٹا: +# پرندے جو فطرت کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ ان میں Minivets, Oriols, sunbirds شامل کئے +# ایسے پرندے جو پودوں کی افزائش نسل میں مدد دیتے ہیں، ان میں بلبل، ہارن بل اور barbetsشامل ہیں +# خطرے سے آگاہی دینے والے پرندے، جن میں Drongo، سرخ جنگلی مرغ، بیبلرز شامل ہیں +# فطرت میں توازن قائم رکھنے والے پرندے، جن میں عقاب، باز اور الو شامل ہیں +# مردار خور پرندے جن میں گدھ، چیل اور کوے شامل ہیں +جانوروں کو میں نے 5 گروہوں میں تقسیم کیا: +# فطرت کی خوبصورت بڑھانے والے جانور جیسا کہ مختلف اقسام کے ہرن اور بندر +# ایسے جانور جو مٹی اکھاڑنے کا کام کرتے ہیں جیسا کہ ریچھ، سور اور سیہی +# خطرے کی اطلاع دینے والے جانور مثلاً ہرن، بندر اور گلہریاں +# فطری توازن برقرار رکھنے والے جانور جیسا کہ شیر، تیندوے اور جنگلی کتے +# مردار خور جیسا کہ لگڑبگڑ، گیدڑ اور سور +رینگے والے جانور یعنی گزندوں کی محض دو اقسام بنائیں: +# زہریلے سانپ جن میں کوبرا، کریٹ اور وائپر شامل ہیں +# غیر زہریلے سانپ جیسا کہ دھامن، عام سانپ اور اژدہے +تمام اہم جانوروں اور پرندوں کو بنیادی گروہوں میں بانٹنے کے بعد ہر نئے جانور کو ان کے کام کے اعتبار سے مناسب گروہ میں رکھنا آسان ہو گیا۔ اگلے مرحلے میں میں نے جنگلی جانوروں کی زبان سیکھنے اور پھر انسان کے لیے ممکن آوازوں کی نقالی کرنے کا کام سیکھا۔ اگرچہ چند اقسام کو چھوڑ کر دیگر تمام جنگلی جانور اور پرندے ایک دوسری کی بولی نہیں بول سکتے لیکن وہ ایک دوسرے کی بولی سمجھ ضرور لیتے ہیں۔ ان چند اقسام کے پرندوں میں Racket-tailed drongo, rufous-backed shrike اور gold-fronted green bulbul ہیں۔ پرندوں کے شائقین کے لیے racket-tailed drongo نہ ختم ہونے والی خوشی کا خزانہ ہوتے ہیں۔ ہمارے جنگلوں کا یہ پرندہ صرف انتہائی دلیر ہوتا ہے بلکہ زیادہ تر پرندوں اور چیتل کی آواز کی نقالی بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پرندہ بہت ستم ظریف بھی ہے۔ زمین پر دانا دنکا چگتے کسی بھی قسم کے پرندوں کے غول کے ساتھ ہو جاتا ہے اور اپنے گانوں کے ساتھ ساتھ دیگر پرندوں کی بولیوں کی نقالی کرتے ہوئے بازوں، بلیوں، سانپوں اور غلیل والے لڑکوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ اس کی طرف سے دی جانے والے خطرے کی آواز کبھی بھی نظرانداز نہیں ہوتی۔ تاہم اس ذمہ داری کے بدلے اسے خوراک بھی چاہیے ہوتی ہے۔ اس کی تیز نظروں سے کچھ بھی نہیں بچ سکتا۔ جونہی کوئی پرندہ زمین یا پتے کھود کر موٹی سنڈی یا بچھو نکالتے ہیں، یہ فوراً باز کی آواز نکال کر یا نیچے موجود پرندوں میں سے کسی ایک کی ایسی آواز نکال کر کہ جیسے اسے کوئی باز پکڑ رہا ہو، سیدھا اس سنڈی یا کیچوے کو پکڑ کر واپس اسی شاخ پر آ بیٹھتا ہے۔ اپنا گانا دوبارہ سے شروع کر کے اپنے شکار کو ہلاک کر کے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ دس میں سے نو بار یہ پرندہ اس طرح شکار چھیننے میں کامیاب رہتا ہے۔ +Racket-tailed drongo چیتل کے گروہ سے بھی مل جاتا ہے اور ان کے گذرنے سے اڑنے والے ٹڈیاں وغیرہ کھاتا جاتا ہے۔ جب کبھی چیتل تیندوے کو دیکھ کر خطرے کی آواز نکالیں تو یہ بھی سیکھ جاتا ہے۔ ایک بار میں ایسے ہی موقع پر موجود تھا جب تیندوے نے ایک سال کی عمر کے چیتل کو مارا۔ تیندوے کو کچھ دور بھگا کر میں نے چیتل کو ایک چھوٹی جھ��ڑی سے باندھ دیا اور خود وڈیو کیمرا لے کر ایک جھاڑی کے پاس بیٹھ گیا۔ اسی اثناء میں Racket-tailed drongo دیگر پرندوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ مردہ چیتل کو دیکھتے ہی اس نے اڑان بھری اور قریب سے آن کر جائزہ لینے لگا۔ تیندوے کا شکار اس کے لیے عام سی بات تھی لیکن جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو ہوشیار ہو گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ اسے میری طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو اس نے پھر اڑان بھری اور دیگر پرندوں کے ساتھ چگنے میں مصروف ہو گیا۔ اچانک اس نے چیتل کی خطرے کی آواز نکالی اور سارے پرندے اڑ کر درختوں پر جا بیٹھے۔ اس کی حرکات و سکنات دیکھ کر مجھے تیندوے کی نقل و حرکت کا بالکل درست اندازا ہوتا رہا۔ شور سے تنگ آ کر تیندوا گھومتے ہوئے میرے عین پیچھے پہنچ گیا۔ بدقسمتی سے جھاڑی زیادہ گھنی نہیں تھی اس لیے تیندوے نے مجھے دیکھا اور غصے سے غرا کر جنگل میں گھس گیا۔ Drongo ابھی تک چیتل کی خطرے کی آواز نکالے جا رہا تھا۔ اگرچہ میں بھی چیتل کی خطرے کی آواز کی کامیاب نقالی کر سکتا ہوں لیکن جتنی تیزی اور جتنی آسانی سے وہ مختلف عمر کے چیتلوں کی آواز نکال رہا تھا، مجھے اس پر شدید حیرت ہوئی۔ +اس جگہ بیٹھتے ہوئے مجھے علم تھا کہ واپس لوٹتے ہوئے تیندوا مجھے دیکھ لے گا۔ تاہم میرا خیال تھا کہ جتنی دیر وہ اپنے شکار کو گھسیٹنے میں لگائے گا، میں وڈیو بنا لوں گا۔ تاہم ان پرندوں سے پیچھا چھڑا کر تیندا واپس لوٹا تو اس کے غصے اور غرانے کے باوجود جتنی دیر وہ اپنا بندھا ہوا شکار کھینچنے کی کوشش کرتا رہا، میں نے بیس گز کی دوری سے پچاس فٹ جتنی فلم بنا لی۔ شاید میری موجودگی اور کیمرے کی آواز سے اسے غصہ آیا ہوا تھا۔ +مجھے علم نہیں کہ یہ پرندے بولنا بھی سیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن انہیں مختلف گانوں کی دھن پر سیٹی بجانا سکھایا جا سکتا ہے۔ کئی سال قبل مانک پور کے ریلوے سٹیشن پر جہاں بنگال اور نارتھ ویسٹرن ریلوے کا جنکشن تھا، کا اینگلو انڈین سٹیشن ماسٹران پرندوں کو گانوں کی دھن پر سیٹی بجانا سکھا کر ان کو فروخت کرتا تھا۔ جونہی ناشتے یا دوپہر کے کھانے کے لیے ٹرین رکتی، مسافر بھاگتے ہوئے سٹیشن ماسٹر کے کمرے کو جاتے اور واپسی پر ان کے ہاتھوں میں پنجرے ہوتے جس میں ان کی مرضی کے گانے کی دھن پر سیٹی بجانے والے پرندے ہوتے۔ پرندے اور پنجرے دونوں کی اکٹھی قیمت 30 روپے تھی۔ + + +ابتداء میں مجھے ان جانوروں کی شناخت میں الجھن ہوتی تھی جن کے پنجوں کے نشانات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے تھے۔ مثلاً نو عمر سانبھر اور نو عمر نیل گائے کے پگ بڑے سور کے پگ سے بہت مماثل ہوتے ہیں۔ تاہم ان جانوروں کو باری باری آبی گذرگاہ عبور کرتے اور پھر فوراً ہی ان کے کھروں کے نشانات دیکھنے سے جلد ہی مجھے اندازا ہو گیا کہ ایک نظر ڈال کر میں کیسے ان جانوروں کے نشانات میں فرق کر سکتا ہوں۔ سور کے کھروں میں ہرنوں کی مانند اگلے دو سموں کے علاوہ پیچھے دو چھوٹے کھر بھی ہوتے ہیں۔ تاہم سور میں یہ کھر ہرنوں کی نسبت زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ اگر سور کسی سخت زمین پر نہ چل رہا ہو تو یہ چھوٹے کھر لازمی طور پر نشان چھوڑتے ہیں۔ ہرنوں میں ان کھروں کے نشانات تب دکھائی دیتے ہیں جب زمین اتنی نرم ہو کہ ان کے کھر پوری طرح زمین میں کھب جائیں۔ اسی طرح شیر کے بچے یا تیندوے کے کھروں کے نشانات کا فرق جاننا ایک مبتدی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں کا رقبہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ دونوں کا فرق جاننے کے لیے ان کے ناخنوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ شیر کے بچے کے پگوں میں ناخن نسبتاً کافی زیادہ بڑے اور لمبے ہوتے ہیں۔ +اسی طرح لگڑبگڑ اور جنگلی کتوں کے پنجوں کے نشان بھی اکثر مشکل ہو جاتے ہیں۔ یہاں دو بنیادی اصول آپ کے گوش گزار کرتا ہوں جن سے آپ ان کی پہچان کر سکتے ہیں: +# وہ جانور جو اپنے شکار کو دوڑا کر شکار کرتے ہیں، ان کی انگلیاں ان کے پنجوں کی گدی سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں جبکہ شکار پر گھات لگانے والے جانوروں کے پیروں کی انگلیاں ان کے پنجوں کی گدیوں کی نسبت زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ +# شکار کا پیچھا کرنے والے جانوروں کے ناخن ہمیشہ زمین پر لگتے ہیں جبکہ گھات لگانے والے جانور جب اچانک گھبرا جائیں یا اپنے شکار پر جست کرنے لگیں تو ان کے ناخن کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔ +اگر آپ بلی اور کتے کے پنجوں کے نشانات دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بڑی گدیاں اور چھوٹی انگلیاں اور چھوٹی گدیاں اور بڑی انگلیاں کیسے دکھائی دیتی ہیں۔ +جب آپ ایسے علاقے میں رہتے ہوں جہاں سانپ بکثرت ہوں تو ان کے گذرنے کے نشانات سے یہ بڑی حد تک درستی کے ساتھ جان لینا اہم ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سے سانپ زہریلے تھے اور کون سے غیر زہریلے۔ اس نشان سے سانپ کی موٹائی بھی جانچی جا سکتی ہے۔ باری باری ان پر میں روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں: +سمت سب سے پہلے تو آپ یہ فرض کر لیں کہ کسی کھیت میں چھ انچ اونچی انتہائی گھنی برسیم اگی ہوئی ہے۔ اب اگر آپ اس پر کوئی وزنی رولر پھیرتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رولر کے پھرنے کی سمت برسیم کچلی یا گری ہوئی ہوگی۔ اب اگر رولر پھرنے کے وقت آپ موجود نہ بھی ہوں تو بھی گری اور کچلی ہوئی برسیم کو دیکھ کر آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ رولر کس سمت کو گیا ہے۔ اگر آپ کی نظر تیز نہیں تو محدب عدسہ لے لیں اور پھر قریب بیٹھ کر سانپ کے گذرنے کے نشان کا جائزہ لیں۔ اب آپ دیکھیں گے کہ مٹی یا ریت میں بہت سارے ذرے عمودی کھڑے ہوتے ہیں۔ جب سانپ گذرتا ہے تو وہ ان ذروں کو گراتا جاتا ہے۔ عین برسیم کی طرح آپ راکھ، ریت یا مٹی کے ذروں کو دیکھ کر اندازا لگا سکتے ہیں سانپ کس سمت گیا ہوگا۔ +زہریلا یا غیر زہریلا جیسا کہ میں نے اوپر کہا، بڑی حد تک درستی کے ساتھ سانپ کے زہریلے یا غیر زہریلے ہونے کے بارے جاننا۔ سمت کے بارے جاننے والا اصول ہمیشہ درست ہوتا ہے لیکن سانپ کے زہریلے ہونے کے بارے آپ اندازا لگا سکتے ہیں۔ اگرچہ میں نے انڈیا میں سامنپوں کی کل 300 اقسام میں سے چند ایک ہی کے نشانات دیکھے ہیں لیکن میرا اصول ان تمام پر لاگو ہوتا ہے اور اس میں محض دو استثنائی سانپ ہوتے ہیں۔ ایک صورت زہریلے سانپ شیش ناگ اور دوسری صورت غیر زہریلے پائتھن کی ہے۔ شیش ناگ کو چھوڑ کر باقی تمام زہریلے سانپ اپنے شکار کی تلاش میں یا تو چھپ کر بیٹھتے ہیں یا پھر چھپ چھپا کر شکار تک پہنچتے ہیں۔ اس لیے ان کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہوتی۔ جب کم رفتار والا سانپ کسی جگہ سے گذرتا ہے تو اس کے نشانات پر کافی زیادہ بل دکھائی دیتے ہیں یعنی سانپ لہرا کر چل رہا ہوتا ہے۔ کریٹ یا وائپر نسل کے سانپ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں اور جب ان کے گذرنے کے نشانات دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ سانپ بہت لہرا کر چل رہا ہے۔ جب بھی نشانات سے ایسا لگے کہ سانپ لہرا کر چل رہا ہے تو یہ تقریباً یقینی بات ہوتی ہے کہ زہریلا سانپ ہوگا۔ شیش ناگ چونکہ دوسرے سانپوں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں، اس لیے ان کی تیز رفتاری ہی انہیں شکار میں مدد دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیش ناگ کی رفتار گھوڑے جتنی تیز ہوتی ہے۔ اگرچہ کبھی گھڑ سواری کرتے ہوئے نہ میں نے شیش ناگ کا پیچھا کیا اور نہ ہی شیش ناگ نے میرا، اس لیے اس کہاوت کے بارے تو کچھ کہنا ممکن نہیں۔ شیش ناگ 17 فٹ تک لمبا ہو سکتا ہے اور میں نے 14 فٹ لمبے کئی شیش ناگ مارے ہیں، اس لیے مجھے علم ہے کہ وہ کافی تیز رفتار ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں چونکہ شیش ناگ دیگر سانپوں کو کھا کر زندہ رہتا ہے تو اس لیے اس کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے تاکہ دیگر سانپوں کو پکڑ سکے۔ بے ضرر سانپ ماسوائے پائتھن یعنی اژدہے کے، ہمیشہ پتلے، تیز اور متحرک رہتے ہیں۔ ان کی تیزی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کو شکار پکڑنے میں آسانی رہے۔ دوسری یہ بھی اہم وجہ ہے کہ ان کے دشمن بہت ہوتے ہیں، رفتار کی مدد سے ان سے پیچھا چھڑانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ جب سانپ تیزی سے چلے تو اس کے گذرنے کے نشانات میں بل کم ہوتے ہیں اور کم و بیش سیدھی لکیر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ یعنی نسبتاً سیدھا نشان بے ضرر سانپ سے بنتا ہے۔ جب زمین غیر ہموار ہو تو سانپ کا پیٹ محض اونچائی سے لگے گا، نشیب میں نہیں۔ بے ضرر سانپ کے نشانات سے مشابہت صرف شیش ناگ کی ہوتی ہے اور شیش ناگ کم یاب سانپ ہے اور مخصوص علاقوں میں ہی ملتا ہے۔ +موٹائی کسی بھی سانپ کی موٹائی کا اندازا اس کے گذرنے کے نشان سے لگانا ہو تو اس کے نشان کو کئی جگہ پر ماپ کر اوسط نکال لیں۔ اوسط کو 4 سے ضرب دے دیں تو اس سے آپ کو سانپ کی موٹائی کا اندازا ہو جائے گا۔ اندازا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ نرم مٹی کی ہلکی تہہ پر بننا والا نشان اور ریتلی زمین پر بننے والے نشان ایک دوسرے سے بہت فرق ہوتے ہیں اور پیمائش پر بھی فرق جواب آ سکتا ہے۔ +ہندوستان میں ہر سال سانپ کے کاٹنے سے 20٫000 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان میں سے نصف افراد سانپ کے زہر سے اور نصف افراد محض سانپ کے خوف سے جان دے دیتے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کے لوگ ہزاروں سال سے سانپوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہیں سانپوں کے بارے کتنی کم معلومات ہیں۔ چند ایک افراد کو چھوڑ کر تقریباً سب ہی سانپوں کو زہریلا سمجھتے ہیں۔ بڑے سانپ کے کاٹنے سے پہنچنے والا صدمہ کافی ہوتا ہے اور جب مضروب کو یہ بھی یقین ہو کہ سانپ زہریلا ہے تو پھر اس کے بچنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ +ہندوستان کے زیادہ تر دیہاتوں میں سانپ کے کاٹے کا دم کرنے والے بندے مل جاتے ہیں۔ چونکہ ہندوستان میں پائے جانے والے سانپوں میں سے محض دس فیصد ہی زہریلے ہوتے ہیں، اس لیے ایسے افراد بہت مشہور ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی خدمات مفت ہوتی ہیں اس لیے لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اپنے دم وغیرہ سے بہت سارے لوگوں کی جان بچا لیتے ہیں۔ +ہندوستان کے زیادہ تر ہسپتالوں میں سانپ کے کاٹے کی ادویات موجود ہوتی ہیں لیکن غریب آدمی بے چارہ یا تو خود چل کر جائے یا پھر اس کے رشتہ دار اسے اٹھا کر ہسپتال تک لے جائیں تو اکثر اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ سانپ کا زہر پھیل چکا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں زہریلے سانپوں کی تصاویر موجود ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اندھیرے میں ننگے پاؤں پھرتے ہوئے سانپ کا شکار ہوتے ہیں اس لیے ان تصاویر سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی عام سوچ ہے کہ اگر مارگزیدہ سانپ کو مار دے تو سانپ کا زہر اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔ اس لیے چند ہی لوگ سانپ کے کاٹے کے بعد مردہ سانپ لے کر ہسپتال پہنچتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ سانپ زہریلا تھا کہ بے ضرر۔ +میرا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی شک ہو تو میں سانپ کو مار کر اس کا منہ کھول کر دیکھتا ہوں۔ اگر سانپ کے منہ میں دانت��ں کی دو رو ہوں تو وہ بے ضرر ہوتا ہے اور اگر اس کے اوپری جبڑے میں دو دانت ہوں تو زہریلا۔ کوبرے کے خاندان کے سانپوں میں یہ دانت جبڑے میں گڑے ہوتے ہیں جبکہ وائپر نسل میں یہ دانت جبڑے میں نہیں گڑے ہوتے۔ بے ضرر سانپ کے کاٹے کے مقام پر دانتوں کی دو رو دکھائی دیں گی جبکہ زہریلے سانپ کے کاٹے کی جگہ پر ایک یا دو سوراخ دکھائی دیں گے کہ بعض اوقات سانپ اطراف سے حملہ کرتا ہے یا انگلی وغیرہ جیسی جگہ پر دونوں دانتوں کی گرفت نہیں ہو پاتی۔ + + +جنگلی مخلوق کی زبان سیکھنا مشکل نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے کچھ پرندوں اور چند جانوروں کی آواز کی نقالی کرنا، کہ میری قوت سماعت بہت اچھی تھی اور اچھا گلا بھی۔ ہر پرندے اور جانور کو اس کی آواز سے پہچان لینا کوئی خاص بات نہیں کیونکہ چند ہی پرندے ایسے ہیں جو ہر وقت چہچہاتے ہیں۔ دیگر تمام پرندے اور جانور کبھی بھی بغیر کسی وجہ سے آواز نہیں نکالتے۔ ہر وجہ کی آواز مختلف ہوتی ہے۔ +ایک بار میں جنگل میں ایک درخت پر بیٹھا چیتل کے ایک جھنڈ کو دیکھ رہا تھا جس میں پندرہ بالغ اور پانچ بچے اسی قطعے میں موجود تھے۔ ایک بچہ جب نیند سے بیدار ہوا تو کھڑا ہو کر اس نے پہلے انگڑائی لی اور پھر قطعے کے ایک سرے پر گرے ہوئے درخت کی طرف بھاگا۔ شاید یہ دیگر بچوں کے لیے اشارہ تھا کہ آؤ کھیلیں۔ پانچوں بچے ایک دوسرے کے تعاقب میں درخت کی طرف بھاگے اور اس کے گرد گھوم کر واپس آئے اور پھر درخت کی جانب گئے۔ دوسرے چکر پر آگے والے بچے نے سیدھا جنگل کا رخ کیا اور دیگر بچے اس کے پیچھے پیچھے۔ ایک مادہ جو ابھی تک لیٹی ہوئی تھی، اٹھی اور اس نے بچوں کی سمت کے جنگل کو دیکھا اور تیز آواز نکالی۔ سارے بچے اسی وقت بھاگتے ہوئے واپس لوٹ آئے لیکن سوئے ہوئے یا چرتے ہوئے دیگر جانوروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لکڑہاروں کی ایک پگڈنڈی اسی قطعے کے پاس سے گذرتی تھی جس پر مجھے درخت کی بلندی پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے ایک لکڑہارا آتا دکھائی دیا جس نے کندھے پر کلہاڑی رکھی تھی۔ جہاں سے وہ آ رہا تھا، جنگل نسبتاً چھدرا تھا۔ جب وہ بندہ قطعے سے سو گز دوری پر پہنچا تو ایک مادہ نے اسے دیکھ لیا اور اس نے آواز نکالی اور سارے جانور بلا جھجھک گھنے جنگل کو بھاگ گئے۔ +پریشان ماں کی آواز ہو یا پھر انسان کو دیکھ کر نکالی گئی خطرے کی آواز، میرے لیے اس وقت بالکل ایک جیسی ہی تھیں۔ بعد میں جب میں اس قابل ہوا کہ جانوروں اور پرندوں کی آواز کو سن کر یہ جان سکوں کہ آواز کیوں نکالی گئی ہے، تو مجھے معلوم ہوا کہ فرق آواز کا نہیں بلکہ ادائیگی میں ہوتا ہے۔ پالتو کتوں کو آپ نے بہت بار بھونکتے سنا ہوگا، کبھی آپ کے گھر واپس آنے پر، کبھی درخت پر چڑھی کسی بلی پر یا کبھی کسی اور وجہ سے، کتے کی بھونک ایک ہی ہوتی ہے لیکن ادائیگی کا طریقہ بدل جاتا ہے اور آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ کتا کیوں بھونک رہا ہوگا۔ +جب میں نے جنگل کی زبان اتنی سیکھ لی کہ ساری جنگلی مخلوق کو ان کی آواز سے پہچان سکوں، ان کی آواز کی وجہ جان سکوں، کئی ایک کی کامیاب نقالی کر سکوں کہ وہ میری طرف آئیں یا میرا پیچھا کریں تو جنگل میں میری دلچسپی نے ایک نیا موڑ لے لیا۔ اب جنگل کو میں دیکھ بھی سکتا تھا اور سن بھی سکتا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں ایک اور اہم مرحلہ باقی تھا۔ آواز کو سن کر اس کی سمت اور فاصلے کا درست اندازا لگانا۔ وہ جانور جو جنگل میں مسلسل خوف کے ساتھ زندہ رہتے ہیں، آسانی سے آواز کی سمت اور فاصلے کو جان سکتے ہیں۔ خوف ہی انسان کو بھی ��ہ فن سکھا سکتا ہے۔ ایسی آوازیں جو مسلسل آتی رہیں جیسا کہ تیندوے کو دیکھ کر لنگور کے بھونکنے کی آواز ہو یا کسی بات پر مشکوک ہو کر چیتل آواز نکالے یا شیر کو دیکھ کر مور کا بولنا، ان کی سمت اور فاصلہ جاننا مشکل نہیں ہوتا۔ تاہم ایسی آوازیں جو صرف ایک ہی بار سنائی دیں، جیسا کہ کسی خشک ٹہنی کا ٹوٹنا، ہلکی غراہٹ یا کسی پرندے یا جانور کی محض ایک آواز، ان کی سمت اور فاصلہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہی آوازیں فوری خطرے اور فوری ردِ عمل کی متقاضی ہوتی ہیں۔ جب خوف کی وجہ سے میں نے یہ فن بھی سیکھ لیا تو چاہے دن ہو یا رات، میں جنگل میں ہوں یا جنگل کے قریب بنے اپنے گھر میں، مجھے ہر تیندوے اور شیر کی حرکات و سکنات کا پتہ چلتا رہا۔ +سٹیفن ڈیز نے میرے جمع کردہ پرندوں کے بدلے مجھے جو بندوق دی تھی، اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ دو نالی مزل لوڈر بندوق کسی وقت بہت عمدہ ہتھیار رہی ہوگی لیکن بہت زیادہ بارود ڈالے جانے کی وجہ سے اس کی ایک نالی میں شگاف پڑ چکا تھا۔ بظاہر اس دھماکے کی وجہ سے کندہ بھی ٹوٹ گیا ہوگا جسے تانبے کی تاروں سے نالی کے ساتھ جوڑا ہوا تھا۔ تاہم کنور سنگھ نے جب میری بندوق دیکھی تو بائیں نال کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہ نالی بالکل ٹھیک اور اچھی حالت میں ہے۔ کنور سنگھ کی پیشین گوئی بالکل درست نکلی اور دو سال تک میں نے گھر کے کھانے کے لیے مور اور جنگلی مرغیوں کا مسلسل شکار کئے رکھا اور ایک بار تو میں نے 4 نمبر کارتوس سے بہت قریب پہنچ کر ایک چیتل بھی مارا تھا۔ +مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ سارے پرندے جو میں نے ان دو سالوں میں شکار کئے، سارے کے سارے ہی بیٹھی حالت میں مارے تھے۔ بارود ان دنوں کمیاب تھا اور ہر فائر پر مجھے شکار کرنا ہوتا تھا۔ جس روز میں نے دو یا تین بار بندوق چلائی ہوتی تھی، اس روز میں دو یا تین پرندے ہی گھر لایا کرتا تھا۔ شکار کا کوئی اور طریقہ شاید ہی مجھے اتنا مزہ دیتا۔ +ایک بار شام کو اوپر بیان کردہ آبی گذرگاہوں کے درمیان موجود جنگل کے اوپری سرے سے میں گھر روانہ ہوا۔ کئی ہفتوں سے بارش نہیں ہوئی تھی اور جنگل خشک ہونے کے سبب چھپ کر جانوروں یا پرندوں کے نزدیک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت تک میں ایک مرغِ زریں اور ایک جنگلی مرغ شکار کر چکا تھا۔ جب گہری وادی سے نکلا تو ہوا تو پہاڑ کے سرے سے گہرے جامنی بادل دکھائی دینے لگ گئے تھے۔ خشک موسم کے بعد اس طرح کے بادل دکھائی دینا اور ہوا کا بالکل تہم جانا اس بات کی واضح علامت تھے کہ اولے پڑنے والے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں انسان ہوں یا جانور، سبھی ژالہ باری سے خوف کھاتے ہیں۔ چند منٹ کی ژالہ باری سے چوتھائی میل سے لے کر دس میل تک کی کھڑی فصل تباہ ہو سکتی ہے۔ اگر بچے یا مویشی اگر کھلے آسمان تلے ہوں تو وہ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم میں نے اولوں سے کبھی کوئی جنگلی جانور مرا نہیں دیکھا۔ البتہ پرندے بشمول گدھ اور مور بکثرت مرتے ہیں۔ +ابھی تین میل کا سفر باقی تھا لیکن اگر میں سیدھا گھر جاتا تو نصف میل بچ سکتا تھا۔ اب بادلوں میں مسلسل بجلی چمکنے لگ گئی تھی۔ پرندے اور جانوروں کی آوازیں تہم گئی تھیں اور گھنے جنگل میں گھسا تو دور سے تیز بارش کی آواز سنائی دینے لگ گئی تھی۔ گھنے درختوں کی وجہ سے اندھیرا بھی چھایا ہوا تھا اور ننگے پیر بھاگتے ہوئے مجھے احتیاط کرنی پڑ رہی تھی۔ اچانک مجھے وہ آواز سنائی دی جو طوفان سے قبل ہوا پیدا کرتی ہے۔ ابھی نصف جنگل عبور کیا ہوگا کہ جنگل کے دوسرے سرے تک ہوا پہنچ گئی۔ خشک پتوں کا قالین اڑنے لگا اور تیز بارش کی آواز سنائی دی۔ عین اسی وقت مجھے ڈینسی کی بینشی یا چڑیل کی آواز سنائی دی جو ہلکی آواز سے شروع ہو کر انتہائی بلند چیخ میں بدلنے کے بعد آہستہ آہستہ سسکی کی طرح گم ہو گئی۔ بعض آوازیں آپ کو ایک دم سے روکتی ہیں اور بعض آوازیں آپ کو اچانک بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔ چند ہفتے قبل میگگ کے ساتھ شیر سے بھاگتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ اس سے زیادہ تیز بھاگنا ممکن نہیں اور چڑیل کی آواز سنتے ہی اب مجھے اندازا ہوا کہ دہشت کی وجہ سے بھی انسان کتنا تیز بھاگ سکتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بندوق، شکار اور بارود کا تھیلا میں نے کیوں نہ پھینک دیا۔ ٹھوکروں اور کانٹوں کی پروا کئے بناء میں نے گھر پہنچ کر ہی سانس لیا۔ عین سر پر بادل گرج رہے تھے اور اس جگہ اولے گرنا شروع ہوئے تھے کہ میں سیڑھیاں چڑھ کر گھر کے اندر داخل ہوا۔ چونکہ سارے گھر والے کھڑکیاں دروازے بند کرنے میں مصروف تھے، اس لیے کسی نے میری حالت پر توجہ نہ دی۔ +ڈینسی نے بتایا تھا کہ چڑیل کی آواز سننے والے اور اس کے گھر والوں پر مصیبت نازل ہوتی ہے۔ اس ڈر سے کہ کہیں گھر والے مجھے الزام نہ دیں، میں نے چڑیل کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ کسی بھی قسم کا خطرہ ہو، ہر کسی کے لیے کچھ نہ کچھ کشش رکھتا ہے، چاہے وہ چھوٹے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ بہت دن تک میں چڑیل والی جگہ جانے سے گریز کرتا رہا۔ ایک دن ایسا آیا کہ میں اسی جنگل میں جا گھسا۔ اس جگہ کے پاس ایک درخت سے ٹیک لگائے مجھے ابھی کچھ دیر ہی گذری ہوگی کہ مجھے پھر وہی چیخ سنائی دی۔ بھاگنے کی خواہش پر قابو پاتے ہوئے میں کانپتا ہوا درخت کے پیچھے چھپا رہا۔ چند بار چیخ سننے کے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں چھپ کر چڑیل کو دیکھوں تو کیسا رہے گا؟ کچھ دن قبل چڑیل کی آواز سننے سے اگر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو اب اگر چڑیل مجھے دیکھ بھی لے تو ایک چھوٹا سا بچہ سمجھ کر معاف کر دے گی۔ انتہائی آہستگی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے میں نے آخر کار ڈینسی کی چڑیل دیکھ ہی لی۔ +بہت عرصہ قبل کسی طوفان کی وجہ سے ایک بہت تناور درخت جزوی طور پر اکھڑ کر ایک اور نسبتاً چھوٹے تناور درخت پر جا کر ٹک گیا تھا۔ بڑے درخت کا وزن اتنا تھا کہ چھوٹا درخت بھی جھک گیا۔ جب ہوا سے بڑا درخت جھولتا تو پھر چھوٹے درخت پر جا گرتا۔ ان کی باہمی رگڑ کی وجہ سے دونوں درختوں کے تنے اس جگہ پر مردہ اور شیشے کی طرح چکنے اور ہموار ہو گئے تھے۔ جب بھی ہوا چلتی تو ان دونوں تنوں کی رگڑ کی وجہ سے یہ آواز پیدا ہوتی تھی۔ جب بندوق نیچے رکھ کر میں بڑے درخت پر چڑھا اور اچھل کود کر چڑیل کی آوازیں کئی بار سنیں تو مجھے معلوم ہوا کہ جنگل میں اکیلے جاتے وقت ہمیشہ مجھے اسی چڑیل کا خوف ستاتا تھا۔ اُس روز سے آج تک، ہمیشہ جنگل میں جب مجھے کچھ عجیب دکھائی یا سنائی دے تو میں ہمیشہ اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس بات کے لیے ڈینسی کا شکریہ کہ اسی کے دیے ہوئے ڈر کی وجہ سے میں نے تجسس اور تحقیق کی عادت ڈالی اور جنگل میں ایک طرح سے جاسوسی کہانیاں جمع کرنا شروع کر دیں۔ +عام طور پر افسانوی جاسوسی کہانیاں کسی جرم یا اس کی کوشش سے شروع ہوتی ہیں اور پرتجسس صورتحال سے ہوتے ہوئے آخرکار پولیس مجرم تک جا پہنچتی ہے اور اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتی ہے۔ میری جنگلی جاسوسی کہانیاں اس سے ہٹ کر شروع ہوتی ہیں اور ہمیشہ کامیابی پر ختم بھی نہیں ہوتیں۔ اپنی انہی کہانیوں میں سے دو کہانیاں چن کر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں: +1۔ کالا ڈھن��ی سے دس میل دور میں محکمہ جنگلات کے ڈاک بنگلے میں مقیم تھا۔ ایک دن علی الصبح نکلا تاکہ ناشتے کے لیے جنگلی مرغ یا مور مار لاؤں۔ جس راستے پر میں چل رہا تھا، اس کے بائیں جانب چھوٹی پہاڑی تھی جس پر گھنا جنگل اگا ہوا تھا اور ہر طرح کے جانور ملتے تھے۔ دائیں جانب کھیت تھے اور کھیتوں اور راستے کے درمیان میں جھاڑیوں کی ایک پٹی سی تھی۔ جب کسان کھیتوں میں کام شروع کرتے تو کھیتوں سے دانا دنکا چگتے پرندے اڑ کر اسی راستے پر سے گذرتے اور ان کو شکار کرنا آسان ہوتا۔ تاہم اس بار میری قسمت کہ سارے پرندے ہی میری چھوٹی بندوق کی مار سے دور اڑتے رہے حتیٰ کہ میں اس راستے کے دوسرے سرے تک پہنچ گیا۔ +پرندوں پر نظر رکھنے کے علاوہ میں نے راستے پر بھی نگاہ رکھی۔ جس جگہ پرندوں کے ملنے کے امکانات ختم ہوئے، اس سے سو گز مزید آگے میں نے ایک تیندوے کے پگ دیکھے جو بائیں جانب سے اس راستے پر آیا اور چند گز چل کر دائیں جانب دبک کر لیٹ گیا۔ یہاں سے پھر بیس گز آگے جا کر تیندوا ایک اور جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔ ظاہر تھا کہ اس کی توجہ کسی جانور پر ہے اور وہ جانور سڑک پر نہیں، ورنہ تیندوا سڑک عبور کرنے کی بجائے جھاڑیوں میں سے ہوتا ہوا جاتا۔ تیندوے کے لیٹنے کی پہلی جگہ واپس جا کر میں نے دیکھا کہ وہاں سے کیا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں سامنے مجھے جھاڑیوں کے پیچھے ایک کھلا قطعہ دکھائی دیا جس پر سے گاؤں والے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ گئے تھے۔ تیندوے کے چھپنے کی پہلی اور دوسری، دونوں جگہوں سے یہ قطعہ دکھائی دیتا تھا۔ یعنی تیندوے کی توجہ اسی قطعے پر مرکوز تھی۔ +جھاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے تیندوا پچاس گز مزید آگے اس جگہ پہنچا جہاں جھاڑیاں ختم ہوئی تھیں اور ایک نشیب تھا جو سڑک سے شروع ہو کر اسی قطعے تک جاتا تھا۔ جھاڑیوں کے ختم ہونے کے مقام پر تیندوا کچھ دیر لیٹا رہا اور کئی بار اس نے اپنی جگہ بھی بدلی۔ آخرکار آگے بڑھ کر نشیب سے ہوتا ہوا رکتے، دبکتے اور پھر دوبارہ چلتے آگے بڑھتا رہا۔ تیس گز آگے جا کر ریت ختم ہوئی اور ہلکی گھاس اگی ہوئی تھی۔ تیندوے کے پنجوں سے چپکی ہوئی ریت اور مٹی یہاں گھاس پر ثبت تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ تیندوا شبنم گرنے کے بعد گذرا تھا۔ یہ وقت شام 7 بجے کے بعد کا ہوگا۔ یہ گھاس محض چند گز دور جا کر ختم ہو گئی اور چونکہ دوسرے کنارے پر تیندوے کے پگ دکھائی نہیں دیے، اس کا یہی مطلب نکلتا تھا کہ تیندوا یہاں گڑھے سے نکل گیا تھا۔ کھلے قطعے میں تو پگ دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن گڑھے سے نکل کر تیندوا ایک یا دو فٹ اونچی گھاس کے چند ٹکڑوں کی طرف گیا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ دس فٹ دور سانبھر کے کھروں کے گہرے نشانات ثبت تھے۔ یہاں سے آگے قریب 30 گز تک بار بار سانبھر کے چاروں سم زمین پر گہرے ثبت دکھائی دیتے رہے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ سانبھر نے اپنی کمر سے کسی چیز کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ 30 گز کے بعد سانبھر نے بائیں جانب مڑ کر سیدھا گڑھے کے دوسرے جانب موجود درخت کا رخ کیا۔ درخت کے تنے پر چار فٹ کی اونچائی پر سانبھر کے بال اور خون کے دھبے دکھائی دیے۔ +اب میں پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ پہاڑی سے اترتے وقت تیندوے نے سانبھر کو کھلے قطعے میں چرتا دیکھا اور مختلف جگہوں سے جائزہ لے کر اس نے گھات لگائی اور اس کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ اب تیندوا سانبھر کی پیٹھ پر پنجے جمائے صبر سے انتظار کر رہا ہوگا کہ سانبھر جونہی کسی تنہا جگہ پہنچے تو اسے ہلاک کر لے۔ سانبھر کے سموں کے نشانات بتا رہے تھے کہ جوان سانبھر ہے اور تیندوا چاہتا تو اسے وہیں ہلاک کر لیتا لیکن دن نکلتے ہی تیندوے کو اس جگہ اپنے شکار سے ہاتھ دھونے پڑتے کیونکہ اتنے بڑے جانور کو تیندوا آسانی سے گھسیٹ کر کہیں نہ لے جا سکتا۔ آگے چل کر سانبھر نے مزید تین درختوں سے رگڑ کر تیندوے کو اتارنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ آخر اس نے 200 گز دور جنگل کا رخ کیا تاکہ جھاڑیوں میں تیندوے کو الجھا کر اپنی جان بچا سکے۔ جھاڑیوں میں بیس گز اندر جا کر تیندوے نے اس مادہ سانبھر کے گلے میں اپنے دانت پیوست کر دیے اور پنجوں کی مدد سے سانبھر کو گرا کر ہلاک کیا اور پھر اپنا پیٹ بھرا۔ اس جگہ تیندوے کو نہ تو انسانی مداخلت کا ڈر تھا اور نہ ہی گدھوں سے۔ تیندوا سانبھر کے پاس ہی سو رہا تھا کہ میری مداخلت سے اسے ہٹنا پڑا۔ تاہم میرے پاس چونکہ پرندوں کے شکار کے لیے 28 بور کی بندوق اور 8 بور کے کارتوس تھے، اس لیے تیندوے کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ میں نے تیندوؤں کو بہت بار سانبھروں، چیتلوں اور ایک بار تو گھوڑے کی پشت پر اسی نیت سے سوار دیکھا ہے کہ وہ کہیں دور جا کر اسے ہلاک کریں لیکن میرے علم میں صرف ایک بار شیر نے ایسا کیا۔ +اس موقعے پر میں منگولیا کھٹہ کے پاس کیمپ لگائے تھا جہاں کالاڈھنگی سے 12 میل دور مویشیوں کا باڑہ تھا۔ ایک دن ناشتے کے بعد میں نے دور سے بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز سنی۔ اس سے پہلے صبح ایک تیندوے کی وڈیو بنانے کی نیت سے میں جب نکلا تو میں نے لگ بھگ ڈیڑھ سو پالتو بھینسوں کا ایک غول دیکھا تھا جو ایک نالے کے کنارے چر رہا تھا۔ نالے میں تھوڑا سا پانی بھی تھا۔ اسی نالے میں مجھے شیر اور شیرنی کے تازہ پگ بھی دکھائی دیے تھے۔ اب گھنٹیوں کے شور و غل سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ ساری بھینسیں اپنے باڑے کی طرف بھاگی آ رہی ہیں۔ گھنٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک بھینس کے ڈکرانے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ باڑے میں دس افراد موجود تھے جو بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے پر مامور تھے۔ انہوں نے شور مچانا اور ٹین کھڑکانا شروع کر دیے۔ اب بھینس کے ڈکرانے کی آواز تو رک گئی لیکن مویشی بھاگتے ہوئے پہنچے۔ +شور تھمنے کے کچھ دیر بعد میں نے دو گولیوں کی آواز سنی اور جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک نوجوان یورپی بندوق اٹھائے ایک مردہ بھینس کے ساتھ مقامی لوگوں کے دائرے میں کھڑا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ عزت نگر کی انڈین وُڈ پراڈکٹس کا ملازم ہے اور ابھی وہ ان لوگوں سے بات ہی کر رہا تھا کہ اس نے بھینسوں کا شور سنا۔ جب شور قریب پہنچا تو انہوں نے ایک بھینس کے ڈکرانے اور ایک شیر کے دھاڑیں بھی سنیں (چونکہ میں زیادہ دور تھا اس لیے مجھے شیر کی دھاڑیں نہیں سنائی دیں)۔ انہیں ڈر ہوا کہ شیر ان کی طرف ہی آ رہا ہے تو انہوں نے خوب زور سے شور مچایا۔ جب مویشی پہنچے تو ایک بھینس انہیں خون میں نہائی دکھائی دی۔ چونکہ رکھوالوں نے بھینس کو دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اس کا بچنا ممکن نہیں تو اس نے اجازت لے کر بھینس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ +یہ بھینس بہت خوبصورت اور ہٹی کٹی تھی اور مجھے رکھوالوں کے اس دعوے پر کوئی شک نہیں کہ یہ پورے ریوڑ کی بہترین بھینس تھی۔ چونکہ میں نے اس سے قبل کسی جانور کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا، اس لیے میں نے پوری توجہ سے معائنہ کیا۔ +بھینس کی گردن یا گلے پر دانتوں یا پنجوں کا کوئی نشان نہیں تھا لیکن اس کی پشت پر کم از کم 50 خراشیں تھیں۔ کچھ کا رخ پیچھے سے آگے اور کچھ کا آگے سے پیچھے کی طرف تھا۔ بھینس کی پشت پر سوار حالت میں شیر نے پشت سے تقریباً پانچ پاؤنڈ اور پچھلی رانوں سے کوئی پندرہ پاؤنڈ جتنا گوشت نوچ کر کھا لیا تھا۔ کیمپ واپس جا کر میں نے بھاری رائفل اٹھائی اور سیدھا اس جگہ کا رخ کیا جہاں سے بھینسیں آئی تھیں۔ نالے کے کنارے سے مجھے شیر کے پگ دکھائی دیے۔ اس جگہ گھاس سینے تک اونچی تھی اور میرے لیے اس سارے واقعے کی تفصیل جاننا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میں یہ نہ جان سکا کہ شیر اس بھینس کی پشت پر کیوں سوار ہوا جسے مارنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اگر شیر مارنے کی نیت سے حملہ کرتا تو بھینس کے گلے پر اور گردن پر زخموں کے نشانات ہوتے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس واردات کی کڑیاں نہ ملا سکا لیکن میرے علم میں یہ واحد واقعہ ہے جب شیر کسی جانور کی پشت پر سوار ہو کر اپنا پیٹ زندہ جانور کے گوشت سے بھرتا رہا ہو۔ +نالے کے کنارے کے پگ بتاتے تھے کہ دونوں شیر پوری طرح جوان ہیں۔ دوسرا اگر کوئی نوجوان شیر ہوتا تو کبھی بھی عین دوپہر کو یا کبھی بھی ڈیڑھ سو بھینسوں کے غول کے پاس بھی پھٹکتا۔ +2۔ میرے پرانے دوست ہیری گل کے بیٹے ایولن گل کو تتلیاں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار جب وہ نینی تال مختصر چھٹیوں پر آیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں نے پوال گڑھ کی سڑک پر ایک نایاب تتلی دیکھی ہے جس کے پروں کے اوپری حصے پر شوخ سرخ رنگ کے دھبے تھے۔ اس نے فوراً درخواست کی کہ اسے ایک ایسی تتلی پکڑ دوں۔ +کئی ماہ بعد میں پوال گڑھ سے تین میل دور سانڈنی گگا میں کیمپ لگائے تھا اور میرا ارادہ تھا کہ نر چیتلوں کی لڑائی کی وڈیو بناؤں گا۔ ان دنوں یہ منظر عام دکھائی دیتا تھا۔ ایک صبح ناشتے کے بعد میں تتلیاں پکڑنے والا جال لے کر نکلا تاکہ ایولن کے لیے تتلی پکڑ سکوں۔ میرے خیمے سے سو گز دور سے وہ جنگلی سڑک گذرتی ہے جو کالاڈھنگی کو پوال گڑھ سے ملاتی ہے۔ اسی سڑک پر ایک میل کے فاصلے پر سانبھروں کے لوٹنے کی نشیبی جگہ تھی جہاں میرا خیال تھا کہ تتلی مل جائے گی۔ +فارسٹ روڈ کو کم ہی انسان استعمال کرتے ہیں اور جس جنگل سے یہ سڑک گذرتی ہے، ہر طرح کے جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ صبح سویرے اس سڑک پر چلنا بہت دلچسپ ہوتا ہے کہ سڑک پر باریک مٹی کی ہلکی سی تہہ ہوتی ہے اور اس پر رات کو گذرنے والے ہر جانور کے پگ محفوظ ہوتے ہیں۔ جب آپ خاطرخواہ مہارت پا لیں تو ہر نشان پر رک کر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ایک نظر ڈالتے ہی لاشعوری طور پر جانور، اس کی جنس، جسامت، حرکات وغیرہ سب کچھ پتہ چل جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں میں سڑک پر چڑھا، اس سے کچھ آگے ایک سیہی سڑک تک آئی اور پھر واپس لوٹ گئی کہ شاید جنگل میں اسے کچھ خطرناک دکھائی دیا ہوگا۔ چند گز آگے سڑک کو دائیں سے بائیں عبور کرنے والے ریچھ کے نشانات تھے جس سے سیہی ڈری تھی۔ سڑک عبور کرتے ہی ریچھ نے جھاڑیوں میں چھپے سوروں اور چیتلوں کو ڈرا دیا جو بھاگ کر سڑک سے ہوتے ہوئے دائیں جانب والے جنگل کو چلے گئے۔ کچھ اور آگے جا کر ایک سانبھر سڑک پر آیا اور ایک جھاڑی سے پیٹ بھرنے کے بعد پچاس گز آگے ایک درخت پر اپنے سینگ رگڑنے کے بعد واپس جنگل کو چلا گیا۔ تھوڑا آگے ایک چوسنگھا اپنے بچے کے ساتھ سڑک پر آیا۔ اس بچے کے کھر انسانی بچے کے انگلی کے ناخن سے زیادہ بڑے نہیں تھے۔ تھوڑا آگے چل کر ماں کو کسی چیز سے خطرہ محسوس ہوا تو ماں اور بچہ چند گز بھاگ کر جنگل میں گھس گئے۔ آگے سڑک پر موڑ آتا ہے اور یہاں ایک لگڑبگڑ موڑ تک آ کر لوٹ گیا۔ +سڑک پر نشانات پڑھتے ہوئے میں پرندوں کی چہچہاوٹ سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا کیونکہ سو میل کے دائرے میں س��نڈنی گگا سب سے خوبصورت مقام تھا اور یہاں بے شمار اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ نصف میل آگے چل کر سڑک ایک پہاڑی کے کنارے کو کاٹتی ہوئی گذرتی ہے۔ اس جگہ زمین بہت سخت ہے اور کسی قسم کے پگ دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں اچانک میری توجہ ایک عجیب نشان کی طرف مبذول ہوئی۔ یہ نشانات ایک تین انچ لمبی اور ایک سرے پر کم از کم دو انچ گہری خراش تھی۔ یہ خراش سڑک سے زاویہ قائمہ پر تھی۔ عین ممکن تھا کہ یہ خراش کسی لاٹھی کے لوہے کے سرے سے بنی ہو لیکن پچھلے 24 گھنٹوں میں یہاں سے کوئی انسان نہیں گذرا۔ دوسرا اگر انسان بھی یہ نشان بناتا تو بھی وہ سڑک کے متوازی ہوتی۔ اس جگہ سڑک کا دائیں کنارہ دس فٹ اونچا اور بائیں جانب ڈھلوان تھی۔ اس خراش سے نکلی ہوئی مٹی کا رخ بتاتا تھا کہ جس نے بھی یہ نشان بنایا، وہ دائیں سے بائیں جانب جا رہا تھا۔ +جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ نشان کسی انسان نے نہیں بنایا تو میرے پاس صرف ایک ہی جواب باقی بچا تھا۔ یہ نشان چیتل یا پھر نوعمر سانبھر کے سینگ سے بنا ہوگا۔ اگر یہ جانور اونچے کنارے سے چھلانگ لگا کر غلط طریقے سے نیچے گرا ہوتا تو بھی اس کے کھروں کے نشانات اس سخت مٹی پر بھی صاف دکھائی دیتے لیکن اس نشان کے آس پاس کوئی نشان نہیں تھا۔ آخری جواب یہی تھا کہ شیر نے چیتل یا سانبھر کو ہلاک کرنے کے بعد اسی راستے سے کہیں جا چھپایا ہوگا اور اونچے کنارے سے چھلانگ لگاتے وقت سینگ سے یہ نشان بنا۔ سڑک عبور کرتے وقت شیر اور تیندوے اپنے شکار کو ہوا میں اٹھا لیتے ہیں تاکہ لاش کی بو نہ پھیلے، بصورتِ دیگر گیدڑ، ریچھ اور لگڑبگڑ پیچھا کر سکتے ہیں۔ +اپنے نظریئے کی تصدیق کے لیے میں نے بائیں جانب والی ڈھلوان دیکھی تو وہاں بھی کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ تاہم 20 گز دور جھاڑی پر 4 فٹ کی بلندی پر کوئی چیز چمکتی دکھائی دی۔ پاس جا کر دیکھا تو وہ خون کا موٹا قطرہ تھا جو ابھی خشک بھی نہیں ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ پچاس گز آگے جا کر ایک چھوٹے درخت کے نیچے جھاڑیوں میں میں نے ایک نر چیتل کی لاش دیکھی جس کے سینگ بہت خوبصورت تھے۔ پچھلا حصہ کھانے کے بعد شیر نے کافی فاصلے سے پتے اور خس و خاشاک جمع کر کے لاش کو ڈھانپ دیا تھا تاکہ پرندے یا جانور اسے نہ تلاش کر سکیں۔ جب شیر اپنے شکار کو چھپا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں پاس موجود نہیں۔ +فریڈ اینڈرسن اور ہیوش ایڈی مجھے بتا چکے تھے کہ اس جگہ وہ مشہور شیر رہتا ہے جسے بیچلر آف پوال گڑھ کہا جاتا ہے۔ اس مشہور شیر کو دیکھنے کا مجھے بہت شوق تھا کیونکہ پورے صوبے کے شکاری اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ مجھے علم تھا کہ جہاں میں جا رہا ہوں، وہاں ایک کھائی میں یہ شیر رہتا ہے۔ چیتل کے پاس کوئی پگ دکھائی نہیں دیے لیکن مجھے گمان ہوا کہ ہو نہ ہو یہ شکار اسی بیچلر کا ہے۔ مجھے یہ موقع اچھا لگا کہ جا کر دیکھوں کہ آیا یہ شیر واقعی اتنا بڑا ہے۔ +لاش کے ساتھ ہی ایک تنگ سا قطعہ شروع ہوتا تھا جو سیدھا سو گز آگے ایک ندی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ اس ندی کے دوسرے سرے پر ایک گھنا جھنڈ تھا۔ اگر بیچلر واپس اپنی کھائی کو نہ گیا ہوتا تو یہی جھنڈ اس کے سونے کے لیے عمدہ جگہ ہوگی۔ میں نے سوچا کہ بیچلر کو بلاتا ہوں۔ پھر میں نے واپس سڑک کے کنارے جا کر تتلیاں پکڑنے والا سفید جال خشک پتوں میں دبایا اور واپس لوٹا۔ قطعے کا اوپری سرا دس فٹ چوڑا تھا اور لاش اس کے دائیں سرے سے دس فٹ دور ایک درخت کے نیچے تھی۔ قطعے کے بائیں جانب اور لاش کے عین مخالف سمت میں ایک مردہ درخت تھا جس پر بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پہلے تو میں نے جائزہ لیا کہ درخت کے تنے میں سانپوں کے بل یا سوراخ تو نہیں، پھر زمین پر موجود پتے ہٹا کر تسلی کی کہ بچھو وغیرہ نہ چھپے ہوں، میں درخت سے کمر لگا کر بیٹھ گیا۔ یہاں سے لاش میرے سامنے 30 فٹ دور تھی اور مجھے پورا قطعہ اور نہر بھی دکھائی دے رہی تھی اور نہر کے پار پیپل کے درخت پر سرخ بندروں کا غول اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔ +جب میری ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو میں نے تنیدوے کی آواز نکالی۔ جب بھی ممکن ہو تیندوے شیر کے شکار پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں اور شیر اس بات سے بہت چڑتے ہیں۔ اگر شیر بہت دور نہ ہوتا تو یہ آواز سنتے ہی اس کا آنا لازمی امر تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ نزدیک پہنچے گا تو میں اسے اپنی شکل دکھا کر بھگا دوں اور خود اپنی راہ لوں گا۔ بندروں نے میری آواز پر فوری ردِعمل ظاہر کیا۔ تین بندر فوراً چالیس فٹ کی بلندی سے ہر طرف دیکھ کر شور مچانے لگے۔ چونکہ ابھی تک انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا اس لیے ایک منٹ تک شور مچاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ اگر شیر کہیں نزدیک ہوتا تو اسے پورا یقین ہو جاتا کہ تیندوا اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرنے کے چکر میں ہے۔ میں ان تین بندروں کو غور سے دیکھتا رہا۔ اچانک ایک بندر نے رخ بدلا اور اپنے عقب کی طرف رخ کر کے خطرے کی آواز نکالنے لگا۔ فوراً ہی دیگر دو بندروں نے اس کا ساتھ دیا۔ مجھے شدید افسوس ہے کہ میرے پاس کیمرا نہیں تھا ورنہ شیر کی بہترین وڈیو تیار ہوتی کہ چمکتی ندی کے سامنے گھاس پر شیر خراماں خراماں چلا آ رہا ہے اور پیچھے لال بندر شور مچا رہے تھے۔ +جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، شیر نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ مجھے شک ہوا کہ وہ میرے عقب سے نہ آ جائے۔ شیر نے ندی عبور کرتے ہی دائیں جانب کا رخ کیا مبادا کہ تیندوا اسے قطعے پر آتا دیکھ کر بھاگ نہ جائے۔ مجھے اس بات پر اعتراض تو نہیں تھا لیکن اس طرح شیر میری مرضی کے خلاف زیادہ قریب پہنچ جاتا۔ +اگرچہ یہ پورا علاقہ خشک پتوں سے بھرا ہوا تھا لیکن بغیر کوئی آواز نکالے شیر پہنچ گیا۔ تاہم میری مشکل کا اندازا کیجئے کہ میرے سامنے بیچلر نہیں بلکہ ایک شیرنی چیتل کی لاش کے اوپر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ شیرنیوں کا مزاج کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت تو میں اس کے شکار کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اگر شیرنی کے بچے بھی اسی جھنڈ میں ہوتے جہاں سے وہ آئی تھی تو معاملہ اور بھی خطرناک ہو جاتا۔ تاہم اگر شیرنی واپس لوٹ جاتی تو مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن شیرنی نے اپنا رخ بدلا اور مجھ سے پندرہ فٹ کے فاصلے پر آ کر رک گئی۔ تھوڑی دیر تک وہ کھڑی کچھ سوچتی رہی اور میں آنکھوں میں ہلکی سی درز کئے اور سانس روکے اسے دیکھتا رہا حتیٰ کہ شیرنی نے قطعے کا رخ کیا اور ندی پر پہنچ کر اس نے اپنی پیاس بجھائی اور دوسرے کنارے پر جا کر جنگل میں گم ہو گئی۔ +متذکرہ بالا دونوں واقعات میں مجھے شروع میں بالکل علم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے لیکن ملنے والا ہلکا سا نشان بھی انتہائی دلچسپ واقعے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ +جاسوسی کہانیاں لکھنے کی اہلیت چند افراد ہی رکھتے ہیں لیکن جنگل کی جاسوسی کہانیاں ہر اس انسان کے لیے ممکن ہیں آنکھیں کھلی رکھتا ہو اور تحقیق شروع کرنے سے قبل ہی ذہن نہ بنا لے کہ اسے سب کچھ معلوم ہے، حالانکہ اسے کچھ بھی پتہ نہ ہو۔ + + +جب میں دس سال کا تھا تو گھر والوں کے خیال میں میں اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ نینی تال والنٹیئر رائفلز کی کیڈٹ کمپنی میں شریک ہو سکوں۔ ان دنوں ہر طرف رضاکاری کا جنون پھیلا ہوا تھا اور تمام صحت مند لڑکے اور مرد شمولیت کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔ ہماری بٹالین میں چار کیڈٹ اور ایک بالغوں کی کمپنیاں تھیں اور کل افراد کی تعداد 500 تھی۔ چونکہ ہمارے علاقے کی کل آبادی ہی 6000 تھی تو 500 افراد کا مطلب ہر بارہویں فرد کی شمولیت تھی۔ 72 طلباء کے ہمارے اسکول کا پرنسپل ہمارے 500 کیڈٹوں والی کمپنی کا کیپٹن بھی تھا۔ اس کے نزدیک اس کمپنی کو بٹالین کی بہترین کمپنی بننا تھا۔ اس کا یہ خیال تو بہت عمدہ اور قابل تعریف تھا لیکن اسی وجہ سے ہم لڑکوں کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر ہفتے دو بار ہم اسکول کے کھیل کے میدان میں ڈرل کرتے تھے اور ہر ہفتے ایک بار نینی تال کے اوپر موجود کھلے میدانوں میں دیگر کمپنیوں کے ساتھ ہمیں ڈرل کرنی پڑتی تھی۔ +ہمارے کیپٹن کی نظروں سے کوئی بھی غلطی اوجھل نہیں رہ سکتی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی کسی غلطی کو معاف کیا۔ ڈرل سے فارغ ہو کر جب ہم اسکول آتے تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ مطلوبہ طالبعلم سے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر چار فٹ لمبے ڈنڈے سے غلطی کی اصلاح کیا کرتا تھا۔ کیپٹن خود سے شرط لگاتا ہو یا نہ لیکن نئے آنے والے طلباء شرط لگا کر ہار جاتے تھے کہ ہر بار کیپٹن کی ضرب ہاتھ کے اس حصے پر لگتی تھی جو پہلے سے ڈنڈے کے تکلیف دہ وار سہہ چکا ہوتا تھا۔ نئے طلباء انہی شرطوں پر کنچے، لٹو، چاقو اور بسکٹ بھی ہار جاتے تھے۔ دوسری کمپنیوں والے ہمارے ڈرل پر تو اعتراض کرتے تھے لیکن کبھی اس بات کے وہ ہمیشہ معترف رہے تھے کہ ہماری کمپنی سب سے زیادہ بہتر نکلی ہے۔ یہ بات بجا تھی کیونکہ ڈرل سے قبل دیگر کمپنیوں کی طرح ہمارا بھی جائزہ لیا جاتا تھا کہ لباس پر کہیں کوئی داغ نہ ہو اور نہ ہی ناخن کے نیچے میل ہو۔ +ہماری وردی نیلے سرج کی بنی ہوئی تھی اور ہمارے بڑے بھائیوں سے ہم تک پہنچی۔ یہ کپڑا نہ صرف زیادہ عرصہ چلتا تھا بلکہ جسم کے ہر نازک حصے کو رگڑنا اس کی خوبی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہر قسم کا داغ دھبہ اس پر دور سے دکھائی دیتا تھا۔ وردی انتہائی تکلیف دہ اور گرم تھی لیکن ہمارا ہیلمٹ اس سے دو ہاتھ آگے ہوتا تھا۔ کسی سخت دھات کا بنا ہوا ہیلمٹ تھا جس پر چار انچ لمبا ایک فولادی کیل تھا۔ یہ کیل ہیلمٹ سے گزر کر ایک انچ نیچے تک آتا تھا۔ اس کیل کو دماغ تک سوراخ کرنے سے روکنے کے لیے اس پر کاغذ لگائے جاتے تھے اور پھر سخت چمڑے کی پٹی سے اسے باندھا جاتا تھا۔ شدید گرم سورج کے نیچے تین گھنٹے کی ڈرل کے بعد شام کو سبق یاد کرتے وقت سر درد سے پھٹ رہا ہوتا تھا۔ نتیجتاً ڈرل کے اگلے روز چار فٹ لمبا ڈنڈا روز سے کہیں زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ +ایک بار ڈرل کے وقت ایک مہمان افسر ہمارا معائنہ کرنے آیا ہوا تھا۔ ایک گھنٹے کی پریڈ کے بعد بٹالین کو سوکھا تال میں چاند ماری کے لیے لے جایا گیا۔ یہاں کیڈٹ کمپنیوں سے کہا گیا کہ ایک جگہ ہتھیار ڈھیر کر کے بیٹھ جائیں جبکہ بالغوں کی کمپنی ہمارے مہمان افسر کو اعشاریہ 450 کی ہنری مارٹینی رائفل سے اپنا نشانہ دکھائیں گے۔ ہماری بٹالین میں پورے ہندوستان کے چند بہترین نشانہ باز بھی شامل تھے جس پر پوری بٹالین کو ناز تھا۔ نشانے کے طور پر پختہ چبوترے پر موٹے لوہے سے نشانہ بنایا گیا تھا اور اس پر لگنے والی گولی کی آواز سے صاف پتہ چلتا تھا کہ گولی کنارے پر لگی ہے کہ درمیان میں۔ +ہر کیڈٹ کا بالغوں کی کمپنی میں ایک نہ ایک ہیرو تھا اور ایک دوسرے کے ہیروز کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال عام سی بات تھی اور اگر وردی میں لڑ��ئی کرنا منع نہ ہوتا تو بہت لڑائیں ہوتیں۔ جب ہر نشانچی کے حاصل کردہ نمبروں کا اعلان ہو چکا تو سب کو جمع کر کے پانچ سو گز کے نشانے سے پھر دو سو گز کے نشانے تک مارچ کرایا گیا۔ یہاں پہنچ کر ہم نے پھر اپنی رائفلیں ڈھیر کیں اور پیچھے بیٹھ کر نشانہ بازی دیکھنے لگے۔ +بین المدارس مقابلے ہمیشہ کانٹے دار ہوتے ہیں اور اس بار تو نشانے بازی کے اس مقابلے پر ہر طالبعلم نے پوری توجہ دی اور ہر اچھے اور برے نشانے پر غیر جانبدارانہ تبصرے بھی ہوئے۔ دونوں کمپنیوں کے پاس بہترین نشانے باز تھے اس لیے مقابلہ بہت سخت جا رہا تھا۔ جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ ہماری ٹیم نے دوسری پوزیشن لی تھی جبکہ پہلی پوزیشن والااسکول ہم سے تین گنا زیادہ طلباء والا تھا، پھر بھی وہ محض ایک پوائنٹ سے جیتے۔ +دو سو گز کے نشانے والی جگہ پر پہنچ کر جو طلباء نشانے بازی میں حصہ نہیں لے رہے تھے، انہوں نے اپنی رائفلیں ایک جگہ ڈھیر کر دی تھیں اور میری رائفل اور چند دیگر رائفلوں کے ساتھ اس ڈھیر کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ کاربین نکالتے ہوئے سارا ڈھیر زمین پر گرا اور ابھی میں ساری رائفلیں پھر جمع کر رہا تھا کہ سارجنٹ میجر دھاڑا،"رائفلوں کو دفع کرو اور اپنی رائفل کو لے کر یہاں آؤ۔ رائفل اٹھاؤ، دائیں مڑو، کوئیک مارچ" یہ احکامات سنائی دیے۔ کسی میمنے سے بھی زیادہ خوفزدہ حالت میں میں سیدھا فائرنگ پوائنٹ پر پہنچا تو سارجنٹ میجر نے سرگوشی کی "مجھے شرمندہ مت کرنا۔" +فائرنگ پوائنٹ پر مہمان افسر نے پوچھا کہ کیا میں اس کمپنی کا سب سے کم عمر کیڈٹ ہوں۔ تصدیق ہوئی تو پھر اس نے مجھے کہا کہ میں اسے چند فائر کر کے دکھاؤں۔ اس بات کو کہنے کا انداز دوستانہ اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آس پاس موجود تمام افسران میں سے مجھے یہ واحد فرد ایسا لگا جسے اس بات کا علم ہو کہ اس طرح بہت بڑے مجمعے کے سامنے اچانک پیشی پر میرے جیسا بچہ کتنا پریشان، گھبرایا ہوا اور تنہا محسوس کر رہا ہوگا۔ +ہم کیڈٹس کو دی جانے والی اعشاریہ 450 بور کی ہنری مارٹینی رائفل کا چھوٹے اسلحے میں سب سے زیادہ ہوتا تھا اور حالیہ ڈرل وغیرہ سے میں ویسے بھی تھکا ہوا تھا اور میرے ناتواں اور سوکھے کندھوں میں بہت تکلیف ہو رہی تھی اور اب مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ اب مجھے کندھے پر مزید دھکے سہنے پڑیں گے۔ تاہم سب سے چھوٹا کیڈٹ ہونے کی سزا بھگتنی ہی تھی۔ سارجنٹ میجر کے حکم پر میں لیٹا اور سامنے رکھی گئی گولیوں میں سے پانچ کو اٹھایا اور رائفل میں ڈال کر آرام سے میں نے رائفل اٹھائی اور خوب اچھی طرح نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ تاہم نشانے کی طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ پھر مہمان افسر نے آرام سے کہا "سارجنٹ میجر۔ اب میں دیکھتا ہوں۔" اپنی بے داغ وردی سمیت وہ افسر میرے ساتھ تیل سے چیکٹ بوری پر لیٹ گیا اور بولا،"رائفل مجھے دو"۔ جب میں نے اسے رائفل پکڑائی تو اس نے نشانے کو دو سو گز پر ٹھیک کیا جو میں خود کرنا بھول گیا تھا، پھر اس نے رائفل مجھے پکڑائی اور کہا کہ جلدی مت کرو، آرام سے نشانہ لے کر گولی چلاؤ۔ اگلی چاروں گولیاں نشانے پر لگیں۔ کندھے پر تھپکی دے کر اس نے پوچھا کہ میرا سکور کتنا ہے۔ بتایا گیا کہ بیس میں سے دس نمبر، کیونکہ پہلی گولی خطا ہوئی تھی۔ "بہترین۔ عمدہ نشانہ" اس نے کہا۔ پھر جب وہ دیگر افسران سے باتیں کرنے لگا تو میں واپس اپنی کیڈٹ کمپنی کی گیا تو جیسے ہوا میں تیر رہا ہوں۔ تاہم میری خوشی اسی وقت ختم ہو گئی جب دیگر لڑکوں نے کہنا شروع کر ��یا کہ "برا نشانہ تھا"، "کمپنی کے لیے باعث شرم" اور "بند آنکھوں سے میں زیادہ بہتر نشانہ لگا سکتا تھا" اور یہ کہ "پہلی گولی دیکھی کہ کہاں جا لگی"؟ لڑکے ہمیشہ سے ایسے ہوتے ہیں۔ سوچے بنا اپنی بات کہہ دیتے ہیں چاہے وہ دوسروں کے لیے کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ +اس دن سوکھا تال میں جب میں بہت پریشان اور تنہا تھا تو جس مہربان افسر نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ کیا، بعد میں قومی ہیرو بنا اور فیلڈ مارشل ارل رابرٹس کے نام سے جانا گیا۔ بعد میں جب بھی کسی فیصلے کے وقت یا شکار میں گولی چلاتے وقت، مجھے جب بھی عجلت محسوس ہوئی تو میں نے اسی مشورے کو آزمایا اور ہمیشہ مشورے کے لیے شکر گزار رہا ہوں۔ +سارجنٹ میجر نے برسوں تک نینی تال کے رضاکاروں پر ڈنڈے کے زور پر حکومت کی تھی، پستہ قد اور موٹی گردن والا بندہ تھا لیکن اس کا دل سونے کا تھا۔ اس دن ہماری آخری ڈرل کے بعد اس نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا مجھے رائفل چاہئے؟ حیرت اور خوشی کے مارے میرے منہ سے آواز نہ نکلی تو اس نے کہا کہ "چھٹیوں پر جانے سے قبل مجھے مل لینا۔ میں تمہیں سروس رائفل اور جتنے کارتوس چاہو گے، دوں گا بشرطیکہ خالی کارتوس مجھے واپس کرنے ہوں گے اور رائفل کو صاف رکھو گے"۔ +اس بار کالا ڈھنگی جاتے وقت میرے پاس نہ صرف رائفل بلکہ وافر مقدار میں کارتوس بھی تھے۔ سارجنٹ میجر کی دی ہوئی رائفل انتہائی درست نشانے کی حامل تھی اور اگرچہ بچے کو اس رائفل پر تربیت دینا اچھا نہیں لیکن میرے لیے یہ نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی۔ غلیل کے بعد تیر کمان اور تیر کمان کے بعد مزل لوڈر نے مجھے جنگل میں مزید دور تک جانے کا حوصلہ دیا تھا اور اب رائفل کے ساتھ تو میں جہاں جانا چاہتا، مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ +خوف کا جذبہ جانوروں کی حسیں تیز رکھتا ہے اور ہر وقت وہ خبردار رہتے ہیں اور یہی انسان کے ساتھ بھی معاملہ ہے۔ خوف کی وجہ سے میں جنگل میں خاموشی سے گھومنا، درختوں پر چڑھنا، آواز سنتے ہی اس کے ماخذ، سمت اور فاصلے کا درست اندازا لگانے کے قابل ہو گیا تھا اور اب جنگل کے دور افتادہ کونوں میں گھسنے کے لیے ضروری تھا کہ میں اب اپنی آنکھوں کو اور رائفل کو درست طور پر استعمال کرنا سیکھوں۔ +انسان کے دیکھنے کی صلاحیت 180 ڈگری تک ہوتی ہے اور جب آپ ایسے جنگل میں پھر رہے ہوں جہاں نہ صرف ہر قسم کی جنگلی حیات بشمول زہریلے سانپ، دوسروں کے زخمی کئے ہوئے درندے وغیرہ بھی پائے جاتے ہوں، آنکھوں کی تربیت لازمی ہو جاتی ہے تاکہ پورے 180 ڈگری کو دیکھا جا سکے۔ ہمارے سامنے ہوئی کوئی بھی حرکت کو دیکھنا اور اس سے نمٹنا آسان ہوتا ہے لیکن وہ حرکات کو ہماری بصارت کے انتہائی کناروں پر ہو رہی ہوں، عموماً ان کو دیکھنا مشکل ہوتا ہے اور یہی حرکات ہی سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں اور انہی سے ڈرنا چاہئے۔ جنگل میں کوئی بھی جاندار بلا وجہ حملہ نہیں کرتا لیکن بعض حالات ایسے بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ کچھ مخلوقات حملہ کر بیٹھیں۔ اسی سے نمٹنے کے لیے آنکھوں کی تربیت لازمی ہوتی ہے۔ ایک بار کھوکھلے تنے میں چھپے کوبرے کی دو شاخہ زبان اور دوسری مرتبہ ایک جھاڑی کے پیچھے چھپے تیندوے کی دم کی حرکت نے مجھے عین وقت پر خبردار کیا کہ دونوں حملہ کرنے لگے تھے۔ دونوں بار ہی میں سامنے دیکھ رہا تھا اور دونوں ہی حرکات میری بصارت کے انتہائی کناروں پر ہوئی تھیں۔ +مزل لوڈر نے مجھے گولیاں احتیاط سے چلانا سکھایا تھا اور اب رائفل کے ساتھ میں نے سوچا کہ کسی چیز پر نشانے کی خاطر گولی ضائع کرنا اچھی بات نہیں۔ اس لیے میں نے اب موروں اور جنگلی مرغیوں پر ہاتھ آزمانا شروع کر دیا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا کہ پرندہ اتنا خراب ہو گیا کہ اسے پھینکنا پڑا۔ گولی چلانے سے قبل چاہے مجھے جتنا انتظار کرنا پڑتا یا مشکل ہوتی، مجھے اس پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ تاہم جب مجھے اتنی مہارت ہو گئی کہ میں جہاں چاہتا، گولی مار سکتا تھا تو مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ اب میں جنگل کے ان حصوں میں بھی جا سکتا تھا جہاں جاتے ہوئے مجھے شدید خوف ہوتا تھا۔ +جنگل کا ایک حصہ ہم لوگ فارم یارڈ کے نام سے پکارتے تھے جہاں درختوں اور جھاڑیوں کا گھنا سلسلہ کئی میل تک پھیلا ہوا تھا اور اس کے بارے مشہور تھا کہ یہ حصہ جنگلی مرغیوں اور شیروں سے اٹا ہوا ہے۔ اس بات کی میں گواہی دیتا ہوں کہ جنگلی مرغیاں واقعی جتنی یہاں دیکھیں، اتنی دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملیں۔ کوٹا سے کالا ڈھنگی جانے والی سڑک کا کچھ حصہ اسی فارم یارڈ سے گذرتا تھا اور اسی سڑک سے گذرنے والے ڈاک کے ہرکارے نے مجھے کئی سال بعد بتایا تھا کہ اس نے "بیچلر آف پوال گڑھ" کے پگ دیکھے تھے۔ +تیر کمان اور مزل لوڈر کے دنوں میں میں ہمیشہ فارم یارڈ سے کنی کترا کر نکلتا تھا۔ تاہم اب اعشاریہ 450 بور کی طاقتور رائفل سے مجھے اتنا حوصلہ ملا کہ فارم یارڈ کو جا کر دیکھوں۔ جنگل میں سے ایک گہری اور پتلی سی کھائی گذرتی تھی اور شام کو اسی کھائی کے پاس جا کر میں کھانے کے لیے کوئی پرندہ یا گاؤں والوں کے لیے سؤر مارنے نکلا تھا۔ اچانک مجھے اپنی دائیں جانب جنگلی مرغیوں کی آواز سنائی دی جو خشک پتے الٹ پلٹ رہی تھیں۔ کھائی میں ایک پتھر پر میں بیٹھ گیا اور آہستہ سے سر کو کنارے کے اوپر نکالا تو دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر 20 سے 30 کے لگ بھگ جنگلی مرغیاں چر چگ رہی تھیں۔ ان کا رخ میری طرف تھا اور ان کی سربراہی ایک پرانا خرانٹ نر کر رہا تھا۔ اس نر کو نشانے پر لے کر میں منتظر رہا کہ کب نشانے کی لائن کے عین پیچھے کوئی درخت آئے کہ میں گولی چلاؤں۔ جب تک پرندے پر چلائی گئی گولی کو روکنے کے لیے پیچھے کوئی ٹھوس رکاوٹ نہ ہو، میں نے کبھی گولی نہیں چلائی۔ اچانک مجھے اپنی بائیں جانب کسی بھاری جانور کے چلنے کی آواز آئی۔ سر گھما کر دیکھا تو ایک بڑا تیندوا پہاڑی سے سیدھا میری طرف بھاگا آ رہا تھا۔ کوٹا کی سڑک میرے بائیں دو سو گز اوپر پہاڑ سے گذرتی تھی اور شاید تیندوا سڑک پر کسی چیز سے بھاگ کر ادھر پناہ لینے آ رہا تھا۔ جنگلی مرغیوں نے بھی تیندوے کو آتے دیکھا تو شور مچا کر اڑ گئیں۔ میں نے فوراً رخ بدلا تاکہ تیندوے کا سامنا کر سکوں۔ بظاہر تیندوے کی توجہ بٹی ہوئی تھی کہ وہ میری حرکت نہ دیکھ سکا اور سیدھا عین کھائی کے کنارے آن رکا۔ +کھائی تقریباً 15 فٹ چوڑی تھی اور اس کے عمودی کنارے بائیں جانب 12 فٹ جبکہ دائیں جانب 8 فٹ اونچے تھے۔ دائیں کنارے پر دو فٹ نیچے پتھر تھا جہاں میں بیٹھا تھا۔ اس طرح تیندوا مجھ سے دو فٹ اونچا اور پندرہ فٹ دور تھا۔ جب رک کر تیندوے نے گردن موڑی اور اپنے پیچھے دیکھنے لگا تو مجھے رائفل اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اس کے سینے کا اچھی طرح نشانہ لے کر جب میں نے گولی چلائی تو تیندوا اپنا سر میری جانب موڑ رہا تھا۔ کالے بارود کے دھوئیں سے میرے سامنے گہرا پردہ سا تن گیا تاہم مجھے اپنے اوپر سے جست لگا کر گذرتے تیندوے کی جھلک دکھائی دی۔ گذرتے وقت تیندوا خون کے چھینٹے ڈالتا گیا۔ +رائفل اور اپنے نشانے پر مجھے پورا بھروسا تھا کہ تیندوا گولی کھاتے ہی اسی جگہ مر جائے گا اور اب یہ دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی کہ تیندوا محض زخمی ہوا ہے۔ خون کی مقدار سے پتہ چل رہا تھا کہ تیندوا شدید زخمی ہوا ہے لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا یہ زخم مہلک ہے یا نہیں۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ اگر میں نے فوری پیچھا نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ تیندوا کہیں دور جا کر کسی غار یا کھائی میں چپ چاپ مر جائے گا اور میں اسے تلاش نہیں کر پاؤں گا۔ اس لیے میں نے رائفل کو دوبارہ بھرا اور خون کے نشانات پر پیچھا کرنے لگا۔ +100 گز جتنا فاصلہ بالکل ہموار تھا اور چند ہی درخت یا جھاڑیاں تھیں۔ اگلے پچاس گز تک فاصلہ کافی ڈھلوان تھا اور پھر زمین ہموار ہو گئی۔ پہاڑ کے کنارے اس جگہ پر بہت سارے جھاڑیاں اور بڑے پتھر پڑے تھے جن میں سے کسی کے پیچھے بھی تیندوا چھپ سکتا تھا۔ ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے میں آگے بڑھتا گیا۔ ابھی نصف فاصلہ طے کیا ہوگا کہ بیس گز دور مجھے تیندوے کی دم اور پچھلی ٹانگ ایک پتھر کے پیچھے سے جھانکتی دکھائی دی۔ چونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ تیندوا زندہ ہے یا مر گیا ہے، اس لیے میں وہیں کھڑا ہو کر دیکھتا رہا حتیٰ کہ تیندوے نے حرکت کی اور اس کی ٹانگ پتھر کے پیچھے غائب ہو گئی۔ اب صرف دم دکھائی دے رہی تھی۔ تیندوا زندہ تھا اور اس پر گولی چلانے کے لیے مجھے دائیں یا بائیں چلنا تھا۔ چونکہ اس کے جسم پر گولی چلا کر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تھی اس لیے میں نے سوچا کہ اب کی بار اس کے سر کو نشانہ بناتا ہوں۔ انچ انچ کر کے میں بائیں جانب کھسکتا گیا حتیٰ کہ تیندوے کا سر سامنے آ گیا۔ پتھر سے کمر لگائے تیندوا لیٹا دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے کوئی آواز تو نہیں پیدا کی تھی لیکن پھر بھی تیندوے کو میری موجودگی کا احساس ہو گیا۔ جب وہ اپنا سر میری جانب موڑ رہا تھا کہ میں نے گولی اس کے کان میں اتار دی۔ فاصلہ کم تھا اور میں نے عجلت نہیں کی تھی اس لیے تیندا اب میرے سامنے مردہ پڑا تھا۔ بھاگ کر میں نے اس کو دم سے پکڑا اور اسے وہاں سے ہٹا دیا کہ وہاں خون جمع ہو رہا تھا۔ +جب میں نے تیندے کے پاس کھڑے ہو کر اسے دیکھا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ میرے کیا جذبات رہے ہوں گے۔ تیندوے کو اپنی طرف آتے دیکھنے سے لے کر جب میں نے تیندوے کو خون سے کھینچ کر ایک طرف کیا، میرے اعصاب مکمل طور پر میرے کنٹرول میں تھے۔ اب نہ صرف میرے ہاتھ بلکہ پورا جسم لرز رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تیندوا میرے سامنے مخالف کنارے پر رکنے کی بجائے عین میرے سر پر آن رکتا تو کیا ہوتا۔ اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اتنا خوبصورت جانور میں نے شکار کیا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کو جان کر کہ اب جب میں گھر جا کر دوسروں کو اس کے بارے بتاؤں گا تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔ میں چاہتا تو خوشی سے چیختا، چلاتا، گاتا، ناچتا، لیکن میں اپنی جگہ خوشی کی شدت سے چپکا کھڑا رہا۔ میری خوشی اتنی شدید تھی کہ جب تک دوسروں کو نہ بتاتا، مجھے سکون نہ ملتا۔ +مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازا نہیں تھا کہ تیندوا کتنا بھاری ہوگا لیکن میں ہر قیمت پر تیندوے اٹھا کر گھر لے جانا چاہتا تھا۔ رائفل کو نیچے رکھ کر میں نیچے کھائی میں اترا اور مختلف بیلوں اور درخت کی چھالوں کو جمع کر کے اوپر لایا اور پھر اس سے مضبوط رسی بنائی اور تیندوے کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں ایک ساتھ باندھ دیں۔ پھر نیچے جھک کر میں نے رسی اپنے کندھوں پر جما کر اٹھنے کی کوشش کی تو ناکامی ہوئی۔ پھر میں نے تیندوے کو گھسیٹ کر چٹان پر رکھا اور پھر اٹھانے کی ناکام کوشش کی۔ جب مجھے اندازا ہوا کہ میں اکیلا تیندوا نہیں اٹھا سکوں گا تو میں نے مختلف شاخیں وغیرہ توڑ کر تیندوے کو ڈھانپا اور تین میل دور گھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔ گھر پہنچ کر میں نے جونہی یہ خوشخبری سنائی، ہر کوئی خوش دکھائی دیا۔ چند منٹ بعد ہی میری بہن میگی اور میں اپنے ساتھ دو ہٹے کٹے ملازموں کو لے کر واپس فارم یارڈ پہنچے تاکہ میرا پہلا تیندوا گھر لایا جا سکے۔ +قسمت اناڑیوں کا ساتھ دیتی ہے ورنہ تیندوے سے یہ میری پہلی ملاقات میری زندگی کی آخری ملاقات ہو سکتی تھی۔ اپنے اوپر اور نزدیک موجود تیندوے پر میں نے یہ جانے بغیر گولی چلا دی تھی کہ کہاں گولی لگنے سے تیندوا فوری موت کا شکار ہو جاتا۔ اس وقت تک میرے شکار کردہ جانوروں کی کل تعداد ایک مزل لوڈر سے مارا گیا چیتل اور اعشاریہ 450 رائفل سے مارے گئے تین سور اور ایک کاکڑ تھے۔ چونکہ سور اور کاکڑ کو میں نے سینے میں ایک گولی سے مار لیا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ تیندوا بھی اسی طرح سینے میں گولی مارنے سے فوری مر جائے گا اور غلطی کر بیٹھا۔ اگرچہ بعد میں میں نے سیکھا کہ تیندوے کو ایک گولی سے فوری کیسے مارا جا سکتا ہے لیکن یہ کام سینے میں گولی مارنے سے شاید ہی ہو پائے۔ +جب بھی تیندوے کو جسم پر ایسا زخم لگے کہ جس سے وہ نہ تو فوری طور پر مرے اور نہ ہی مفلوج ہو تو وہ اندھا دھند جست لگا کر بھاگتا ہے۔ تیندوے پر گولی چلائی جائے تو وہ کبھی بھی جان بوجھ کر حملہ نہیں کرتا تاہم اتفاقیہ طور پر شکاری راستے میں کھڑا ہو اور مزید یہ کہ تیندوے کو شکاری کے مقام کا بھی اندازا نہ ہو تو حادثات کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ گولی کھاتے ہی تیندوے جست لگا کر میری خوش قسمتی سے میرے پیچھے کنارے پر پہنچا کیونکہ اسے میرے مقام کا علم نہیں تھا اور اگر وہ میرے اوپر آن گرتا تو بھی میرے لیے شدید خطرہ ہوتا۔ +سینے پر چلائی گئی گولی کتنی غیر یقینی ہوتی ہے، اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ میگی اور میں منگولیا کھٹہ نامی جگہ پر کیمپ لگائے ہوئے تھے۔ اس جگہ ہمارے گاؤں کے مویشی چرنے کو بھیجے جاتے تھے کہ کالا ڈھنگی کے جنگلات میں بعض اوقات چارہ ختم ہو جاتا تھا۔ ایک صبح ہم ناشتا کر رہے تھے کہ مجھے چیتل کے ایک غول کی آواز آئی۔ بظاہر ان کے سامنے تیندوا ان کے کسی ساتھی کو ہلاک کر رہا تھا۔ منگولیا کھٹہ آنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ایک تیندوا ہمارے مویشی ہلاک کر رہا تھا اور میں اسے ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اب چونکہ شکار کا موقع ملا تو میں نے ناشتا ادھورا چھوڑا اور اعشاریہ 275 کی رائفل اٹھا کر روانہ ہو گیا۔ +چیتل ہمارے کیمپ سے چار سو گز مغرب کی جانب تھے جب ان کی آواز آئی۔ میں نے چکر کاٹ کر اس جگہ کا رخ کیا تاکہ ایک تو ہوا کی سمت موافق ہو جائے اور دوسرا براہِ راست والے راستے میں بانسوں کا ایک جھنڈ اور دلدلی قطعہ بھی آتا تھا۔ جب میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ 50 کے قریب چیتل کھلے قطعے میں کھڑے بانسوں کے جھنڈ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دلدلے قطعے اور بانسوں کے جھنڈ کے درمیان میں دو سو گز چوڑی گھاس کی پٹی ہے۔ مجھ سے ساٹھ گز دور ایک تیندوا نر چیتل کو گھسیٹ رہا تھا۔ مزید آگے جاتا تو تیندوے یا چیتل مجھے دیکھ لیتے، اس لیے وہیں بیٹھ کر میں نے رائفل اٹھائی اور انتظار کرنے لگا کہ تیندوا کب گولی چلانے کا موقع دیتا ہے۔ +نر کافی بڑا اور وزنی تھا اور تیندوے کو گھسیٹنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی۔ ایک بار جب اس نے چیتل کو چھوڑا اور میری جانب رخ کر کے کھڑا ہوا۔ ساٹھ گز کے فاصلے سے تیندوے کے سفید سینے پر بنے کالے دھبے گولی چلانے کے لیے بہترین مقام ��وتے ہیں۔ جب میں نے لبلبی دبائی تو مجھے معلوم تھا کہ گولی میری مطلوبہ جگہ پر لگی ہے۔ گولی لگتے ہی تیندوا ہوا میں اونچا اچھلا اور نیچے آتے ہی سیدھا گھاس میں گھس گیا۔ جہاں گولی لگتے وقت تیندوا کھڑا تھا، وہاں جا کر دیکھا تو وہاں سے خون کے نشانات گھاس تک جاتے دکھائی دیے۔ اس جگہ گھاس میری کمر تک اونچی تھی۔ پاس موجود درخت سے چند شاخیں توڑ کر میں نے چیتل کو ڈھانپا۔ یہ چیتل بہترین حالت میں خوب فربہ تھا اور ہمارے ملازمین اسے پا کر بہت خوش ہوتے۔ پھر کیمپ جا کر میں نے ناشتا کھایا اور پھر چار ساتھیوں کے ہمراہ تیندوے کو ہلاک کرنے لوٹا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں نے گولی چلائی تھی تو ایک ساتھی نے سامنے دائیں جانب اشارہ کیا۔ اس جگہ جلی ہوئی گھاس ختم ہوتی تھی اور گھاس کا قطعہ شروع ہو رہا تھا۔ اس جگہ تقریباً اڑھائی سو گز دور تیندوا کھڑا تھا۔ +جب ہمارے مزارعین ہمارے ساتھ شکاری مہمات پر جاتے ہیں تو وہ کسی بھی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے۔ تاہم جب ہم جنگل میں پہنچیں تو ہمارا مقابلہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے قابلِ شکار جانور کو کون دیکھتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے پہلے دیکھیں تو میں بطور جرمانہ انہیں ایک روپیہ ادا کرتا ہوں۔ ایک روپیہ میں نے دو بندوں میں تقسیم کیا کیونکہ دونوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایک ہی وقت میں تیندوا دیکھا تھا۔ پھر دیکھا تو تیندوا ہماری جانب آ رہا تھا تو ہم وہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔ ظاہر تھا کہ یہ زخمی تیندوے کا جوڑا ہوگا اور یہ دیکھنے آیا ہوگا کہ اس کے ساتھی نے کیا شکار کیا ہے۔ ہم سے سو گز کے فاصلے پر پہنچ کر تیندوا کئی منٹ کے لیے رک گیا۔ گولی چلانے کا موقع تو تھا لیکن پہلے ہی میں ایک تیندوے کو سینے میں گولی مار کر زخمی کئے بیٹھا تھا، اس لیے میں نے اتنی دور گولی چلانے کی بجائے صبر کیا۔ +چیتل کی لاش پر پڑی شاخوں سے تیندوے کو کافی الجھن ہوئی اور اِدھر اُدھر دیکھ کر تیندوا لاش تک پہنچا۔ جب وہ میرے سامنے آڑا کھڑا تھا تو میں نے اس کے بائیں کندھے سے ایک یا دو انچ پیچھے گولی اتار دی۔ گولی کھاتے ہی تیندوا اسی جگہ گرا اور ہلے بغیر مر گیا۔ پاس جا کر تسلی کی اور پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بانس سے تیندوے کو باندھ کر کیمپ پہنچا کر پھر چیتل کو بھی لے جائیں۔ اب میں کمر تک اونچی گھاس میں زخمی تیندوے کا پیچھا کرنے کو تیار تھا۔ یہ ایسا کام ہے جو مجھے شدید ناپسند ہے۔ +شکاریات کا اٹل قانون ہے کہ زخمی جانور کو ہر حال میں تلاش کر کے ہلاک کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ہر شکاری اس ناخوشگوار کام کو اپنی مرضی کے طریقے سے سرانجام دیتا ہے۔ جن شکاریوں کے پاس ہاتھی ہوں، ان کے لیے یہ کام بہت آسان ہے۔ لیکن میری طرح کے شکاری جو پیدل ہی زخمی درندے کی تکلیف ختم کرنا چاہتے ہوں، انہیں اپنے بچاؤ کے لیے بہترین طریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔ زخمی جانور کے شکار کے لیے جنگل کو آگ لگانا انتہائی ظالمانہ اور بیکار فعل ہے کہ اگر جانور کم زخمی ہو تو جنگل چھوڑ کر دور نکل جائے اور اگر شدید زخمی ہو تو زندہ جل کر مر جائے گا۔ +اونچی گھاس میں کسی زخمی جانور کا پیچھا اس کے خون کے نشانات سے کرنا خطرناک ہوتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں میرا طریقہ یہ ہے کہ میں زخمی جانور کے خون کے نشانات کو نظر انداز کر کے قدم بقدم احتیاط سے آگے بڑھتا ہوں اور دعا یہی ہوتی ہے کہ مشکل نہ ہو لیکن بری صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہوں۔ کسی قسم کی آواز سنتے ہی زخمی جانور یا تو حملہ کرے گا یا پھر اپنی جگہ سے حرک�� کرے گا جس سے اس کے مقام کا اندازا ہو جائے گا۔ اگر زخمی جانور حملہ نہ کرے اور حرکت سے اس کے مقام کا پتہ چل جائے تو پتھر، لکڑی کا ٹکڑا یا ہیٹ پھینکتے ہیں اور اس پر حملہ کرتے درندے کو شکار کر لیتے ہیں۔ تاہم اس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ایک تو ہوا بالکل نہ ہو تاکہ گھاس کی سرسراہٹ نہ سنائی دے، دوسرا شکاری کو گھاس میں شکار کا کچھ نہ کچھ تجربہ ہونا چاہئے۔ اگرچہ زخمی جانور تنگ ہونے پر بہت شور کرتا ہے لیکن حملے کے دوران میں آخری وقت تک وہ زمین کے قریب ہی جھکا رہتا ہے۔ +اس روز ہوا نہیں چل رہی تھی اس لیے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر میں خون کے نشانات پر چلتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں نشانات گھاس میں گم ہو رہے تھے۔ رائفل کا معائینہ کر کے کہ بھری ہوئی ہے اور درست کام کر رہی ہے، میں انتہائی احتیاط کے ساتھ گھاس میں داخل ہوا۔ جونہی میں گھاس تو پیچھے سے میرے ساتھیوں نے مجھے واپس آنے کا اشارہ دیا۔ واپس پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ تیندوے کو بانس پر باندھتے ہوئے انہیں گولیوں کے تین سوراخ دکھائی دیے۔ ایک گولی بائیں کندھے کے پیچھے لگی اور تیندوے کو ہلاک کر گئی جبکہ دوسرا سوراخ سینے کے وسط میں تھا جبکہ تیسرا سوراخ دم کی جڑ سے دو انچ کے فاصلے پر۔ +مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس تیندوے کے پاس اپنے شکار پر واپس آنا کی بڑی معقول وجہ تھی اور جب مجھے علم ہوا تو شدید پشیمان ہوا تھا۔ تیندوے کے بچے بہت چھوٹی عمر سے ہی پرندے، چوہے، مینڈک اور دیگر جانور شکار کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اس بہادر مادہ تیندوے کے زخمی ہونے کے بعد واپس لوٹنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسے بچوں کے لیے شکار چاہئے تھا۔ میں نے بچوں کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی لیکن نہیں ملے۔ میری دعا ہے کہ وہ اتنے بڑے ہوں کہ اپنا خیال رکھ سکتے ہوں۔ +ابھی جیسا کہ میں نے بتایا کہ گھاس میں داخل ہوتے وقت میں نے اپنی تسلی کی تھی کہ رائفل بھری ہوئی ہے، شاید کئی شکاریوں کو حیران کن لگے کہ ابھی میں نے ایک تیندوے پر گولی چلا کر اسے ہلاک کیا اور اسے دیکھنے قریب پہنچا تو ظاہر ہے کہ خالی رائفل کے ساتھ تو نہیں گیا ہوں گا کیونکہ مجھے پوری طرح یقین نہیں تھا کہ آیا تیندوا زندہ ہے کہ مر چکا ہے۔ پھر میں نے تسلی کیوں کی کہ آیا رائفل بھری ہے کہ خالی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نہ صرف اس مرتبہ بلکہ ہر بار جب ایسا موقع آیا کہ میری زندگی کا انحصار رائفل کے بھرے ہونے پر تھا، میں یہ تسلی کر لیتا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں نے اپنا سبق کم عمری میں ہی سیکھ لیا تھا اور شاید اسی وجہ سے ہی ابھی تک زندہ ہوں۔ +سو گز دور ایک فائر ٹریک کا رخ کیا اور ابھی تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ دو گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ واپس لوٹے تو تیندوا ایک جگہ گم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ سلور کو یقین نہیں تھا کہ آیا تیندوا زخمی بھی ہوا ہے کہ نہیں۔ اس لیے ہم اس جگہ گئے جہاں گولی چلاتے وقت تیندوا کھڑا تھا۔ اس جگہ ہمیں خون کے نشانات دکھائی دیے۔ اپنے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا کہہ کر میں آگے بڑھا تاکہ اکیلا تیندوے کا سامنا کروں۔ یہ کوئی ایسی بہادری نہیں تھی کہ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ زخمی درندے کے شکار میں پوری توجہ تلاش پر مرکوز رکھنی ہوتی ہے اور اگر ساتھی بھی ہمراہ ہوں تو بھری ہوئی رائفلیں اور تنے ہوئے اعصاب اچھا نتیجہ نہیں نکالتے۔ +ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سلور آن ملا تاکہ میرے ساتھ جا سکے۔ میں نے اسے نرمی سے روکا تو اس نے درخواست کی کہ اس کی بھاری رائفل لے لوں کیونکہ میرے پاس ہلکی رائفل تھی ورنہ اس کے دل میں ہمیشہ پھانس رہ جائے گی۔ اسے خوش کرنے کی نیت سے میں نے رائفل بدل لی۔ جب سلور واپس گیا تو میں آگے بڑھا۔ آگے بڑھنے سے قبل میں نے نال اتنی کھولی کہ اندر کارتوس دکھائی دیے۔ +سو گز تک فاصلہ نسبتاً آسان تھا اور اس کے بعد خون کے نشانات گھنی جھاڑیوں میں گم ہو گئے۔ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے تیندوے کی حرکت کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو میں سمجھا کہ تیندوا حملہ کرنے والا ہے لیکن پھر دوبارہ آواز نہ آئی۔ بیس گز اندر جا کر میں نے وہ جگہ دیکھی جہاں تیندوا لیٹا تھا اور یہاں سے جب اٹھا تو مجھے اس کی حرکت کی آواز سنائی تھی۔ اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت تھی اور ڈیڑھ سو گز آگے جا کر جب نسبتاً کھلی زمین آئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس جگہ میں نسبتاً تیزی سے آگے بڑھا۔ مزید سو گز دور جا کر ہلدو کے ایک بڑے درخت کے دائیں جانب سے تیندوے کی دم کا سرا دکھائی دیا۔ پیچھا ہوتے دیکھ کر اس نے سوچا کہ چھپ کر حملہ کرے گا۔ +مجھے اندازا تھا کہ سامنے سے تیندوے کے حملے کا سامنا کرنا میرے لیے مفید رہے گا اس لیے میں درخت کے بائیں جانب کو بڑھا۔ جب سر دکھائی دیا تو وہ زمین پر میری سمت تھا اور تھوڑی آگے کو نکلے پنجوں پر ٹکی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور کانوں کے سرے اور مونچھیں لرز رہی تھیں۔ عام حالات میں جونہی میں سامنے آیا، تیندوا حملہ کر دیتا۔ چونکہ اس تیندوے نے حملہ نہیں کیا تھا اس لیے میں نے گولی نہیں چلائی۔ اگر چند فٹ سے اعشاریہ 500 بور کی بھاری گولی چلاتا تو اس کی کھوپڑی برباد ہو جاتی اور اگر جسم پر گولی چلاتا تو سلور کی ٹرافی خراب ہو جاتی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے تیندوے کی آنکھیں بند ہوئیں اور مر گیا۔ مزید اطمینان کے لیے میں کھانسا اور پھر تیندوے کی کھوپڑی پر ایک چھوٹا کنکر پھینکا۔ +میرے بلانے پر سلور اور مین بھی پہنچ گئے۔ سلور کو رائفل واپس کرنے سے قبل میں نے رائفل کو کھول کر کارتوس نکالے تو میری دہشت کا اندازا کیجئے کہ دونوں کارتوس چلے ہوئے تھے۔ بہت سارے شکاری عین وقت پر خالی رائفل کی لبلبی دبا کر اپنی زندگی گنواتے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے میری پیش رفت سست تھی ورنہ میں بھی ایسے ہی شکاریوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا۔ اس دن میں نے اپنا سبق بغیر کسی نقصان کے پوری طرح سیکھ لیا۔ اب کسی بھی خطرناک جنگل یا جگہ پر جاتے ہوئے میں ہمیشہ رائفل کے بھرے ہونے کا اطمینان کر لیتا ہوں۔ اگر دو نالی رائفل ہو تو دونوں نالوں کی گولیوں کی جگہ بدل دیتا ہوں اور اگر ایک نالی رائفل ہو تو کارتوس نکال کر اور بولٹ کے کام کرنے کو اچھی طرح دیکھ کر نکلا ہوا کارتوس واپس چیمبر میں ڈال دیتا ہوں۔ + + +کنور سنگھ کے بارے میں "مائی انڈیا" میں بتا چکا ہوں کہ کالاڈھنگی اور اس کے آس پاس کے جنگلوں میں شکار سے انتہائی حد تک گریز کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہاں اتنی زیادہ بیلیں ہوتی ہیں کہ اگر فارسٹ گارڈ کا سامنا ہو تو فرار ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے چوری شکار کھیلنے کا سارا شغل اس نے گروپو کے جنگل تک محدود کر رکھا تھا۔ اچھا شکاری اور اچھا نشانے باز ہونے کی وجہ سے میں اس کی عزت کرتا تھا لیکن اس میں عمدہ شکاری ہونے کی کمی تھی۔ اسے جنگل کے ہر قطعے، کھلے میدان اور ہر مقام کا بخوبی علم تھا کہ ہرن کہاں ملتے ہیں۔ اس لیے وہ بغیر کسی احتیاط یا خاموشی کے سیدھا آگے بڑھتا اور اگر ہرن اس کی آہٹ سن کر بھاگ جاتے تو کہتا کہ کوئی بات نہیں، ابھی اگلے میدان میں اور ہرن مل جائی�� گے۔ اس کے باوجود میں نے کنور سنگھ سے بہت کچھ سیکھا اور ہمیشہ اس کا شکر گزار رہا ہوں۔ اسی نے میرے دل کی تہہ میں چھپے نامعلوم چیزوں سے متعلق بعض خوف نکالے ہیں۔ مجھے جنگل کی آگ سے ہمیشہ ہی ڈر لگتا تھا۔ اس کے بارے بہت کچھ سنا اور اس سے ہوئی تباہی جنگلوں میں بہت بار دیکھی تھی۔ ہمیشہ میرے ذہن میں اس کا خوف رہتا تھا کہ کسی دن میں اس آگ کی لپیٹ میں آ کر زندہ جل جاؤں گا۔ کنور سنگھ سے یہ خوف دور کیا۔ +کماؤں کی وادی کے دیہاتی ہمیشہ اپنے ہمسائیوں کے بارے باخبر رہتے ہیں۔ چونکہ انہیں اخبار وغیرہ بھی نہیں ملتے، اس لیے ایک دوسرے کے بارے زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے اور بعینہٖ آگے منتقل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ اس لیے ابھی میرا شکار کردہ تیندوا ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھا کہ کنور سنگھ کو اطلاع مل گئی اور اچھا شکاری ہونے کے ناطے مبارکباد دینے فوراً آن پہنچا۔ اسے سارجنٹ میجر کی دی ہوئی رائفل کا تو علم تھا لیکن شاید اسے میرے رائفل چلانے پر اعتبار نہیں تھا۔ اب تیندوے کی لاش کو سامنے دیکھ کر اس کے سارے شکوک ختم ہو گئے اور اس نے پوری توجہ سے میری بات سنی اور رائفل کا بغور جائزہ لیا اور جانے سے قبل وعدہ لیتا گیا کہ اگلے دن صبح کو پانچ بجے ہم گروپو کی سڑک کے پانچویں سنگ میل پر ملیں گے۔ +ابھی اندھیرا گہرا تھا جب میگی نے مجھے چائے بنا کر دی۔ چائے پی کر چار بجے میں گھر سے نکلا۔ چونکہ اس سڑک پر میں بے شمار مرتبہ سفر کر چکا تھا اس لیے مجھے کوئی ڈر نہیں تھا۔ جب میں منزل پر پہنچا تو وہاں کنور سنگھ مجھ سے پہلے پہنچ کر آگ جلائے بیٹھا تھا۔ جب میں ہاتھ تاپنے بیٹھا تو اس نے کہا کہ "دیکھو، کتنی جلدی میں آئے ہو کہ پائجامہ پہننا بھی بھول گئے"۔ اسے یہ بات سمجھنا دشوار ہو گئی کہ میں پائجامہ بھولا نہیں بلکہ پہلی بار میں نے نیکر پہنی تھی۔ اگرچہ اس نے منہ سے اتنا کہا کہ جانگیہ جنگل کے لیے مناسب نہیں لیکن اس کی نظروں سے واضح تھا کہ یہ لباس مناسب نہیں اور اگر کسی نے مجھے اس کے ساتھ دیکھ لیا تو اس کی بہت بے عزتی ہوگی۔ اس بدمزگی کے بعد ساتھ والے درخت سے ایک جنگلی مرغ بولا تو کنور سنگھ اٹھا اور آگ بجھانے کے بعد ہم چل پڑے۔ +جب ہم روانہ ہوئے تو جنگل بیدار ہونے لگ گیا تھا۔ پہلے مرغ نے ہمارے پاس کے درخت سے جو آواز لگائی تو آوازوں کا تسلسل اب پورے جنگل میں پھیل گیا تھا۔ چھوٹا بڑا ہر قسم کا پرندہ نیند سے بیدار ہو کر حمد و ثناء میں مصروف تھا۔ اگرچہ جنگلی مرغ سب سے پہلے بیدار ہوتا ہے لیکن نیچے اترنے اور اولین کیڑے پکڑنے کا کام سب سے پہلے ایک اور پرندہ کرتا ہے جسے انگریزی میں Himalayan whistling-thrush یا whistling-schoolboy کہا جاتا ہے۔ دن ہو یا رات، یہ پرندے اڑتے ہوئے خوبصورت دھنیں گاتا جاتا ہے جسے سننے کے بعد بھولنا ممکن نہیں۔ اس کے بعد Racket-tailed drongo اور پھر مور کی باری آتی ہے۔ مور کی چبھتی ہوئی آواز کے بعد کسی جاندار کے لیے سونا ممکن نہیں اور پورے جنگل میں پھر مختلف اقسام کے پرندوں کی آواز بھر جاتی ہے۔ +پرندوں کے علاوہ جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے چیتل کا ایک چھوٹا غول سڑک کو پار کر گیا اور پھر تھوڑا آگے ایک مادہ سانبھر اپنے بچے کے ساتھ چر رہی تھی۔ اب مشرق سے شیر کے بولنے کی آواز آئی اور جس جس مور کو بھی یہ آواز سنائی دی، اس نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کنور سنگھ کا خیال تھا کہ شیر ہم سے چار گولیوں کے فاصلے پر ریتلے نالے میں ہے جہاں ہار سنگھ کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا اور وہ مرتے مرتے بچا تھا۔ شیر شاید ��یٹ بھرنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا اور اسے اس بات کی پروا نہیں تھی کہ جنگلی جانور اسے دیکھ یا سن کر بھاگ جائیں گے۔ پہلے کاکڑ، پھر دو سانبھر اور پھر چیتلوں کے غول کی آوازیں آئیں جو جنگل کے جانوروں کو شیر کی آمد کے بارے بتا رہے تھے۔ جب ہم گروپو پہنچے تو سورج اب درختوں کی چوٹیوں تک بلند ہو گیا تھا۔ چوبی پُل عبور کر تے ہوئے پچاس سے زیادہ جنگلی مرغیاں ہمیں دیکھ کر اڑ گئیں۔ پھر ہم نے وہ پگڈنڈی پکڑی جو ریتلے نالے سے ہو کر گذرتی تھی۔ یہ نالہ اسی پل کے نیچے سے گذرتا ہے جو ہم نے ابھی عبور کیا تھا۔ یہ نالہ برسات میں ہی بھرتا ہے اور جنگل کے سارے جانور اسی نالے میں تین میل دور نکلنے والے شفاف پانی کے چشمے سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ بعد ازاں رائفل اور کیمرے، دونوں کے استعمال کے وقت یہ نالہ میری پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ایک بن گیا۔ نالہ جس جنگل سے گذرتا تھا، وہاں جنگلی جانور بے شمار تھے اورانسانی مداخلت نہ ہونے کے برابر۔ +نصف میل تک نالہ گھنی جھاڑیوں سے گذرتا ہوا پھر ایک قسم کی گھاس سے گذرتا ہے۔ اس گھاس کو نال کہتے ہیں اور یہ گھاس چوتھائی میل چوڑائی اور کئی میل لمبائی میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ گھاس کھوکھلے تنے والی ہوتی ہے اور بانس کی طرح گرہیں پڑی ہوتی ہیں۔ اس کی اونچائی 14 فٹ تک ہوتی ہے اور دیہاتوں میں اس کی مدد سے جھونپڑے بنائے جاتے ہیں۔ جب بھی گروپو کے گرد و نواح میں مویشیوں کے چارے کے لیے جنگل کو آگ لگائی جاتی ہے تو سارے جانور اسی گھاس کے قطعے میں پناہ لیتے ہیں۔ چونکہ یہ گھاس نمدار جگہ پر اگتی ہے اس لیے سارا سال ہی سبز رہتی ہے اور اسے آگ نہیں لگتی۔ تاہم انتہائی خشک سالی کے دوران یہ گھاس بھی سوکھ جاتی ہے اور جب اسے آگ لگے تو یہ آگ بہت پھیل جاتی ہے۔ اس گھاس میں بیلیں بکثرت ہوتی ہیں اور جب اس کے جوڑ آگ سے پھٹتے ہیں تو ایسی آواز نکلتی ہے جیسے کسی نے پستول چلایا ہو۔ اندازا کیجئے کہ جب لاکھوں کی تعداد میں ایسے جوڑ پھٹنے لگیں تو میل بھر سے ہی شور سنائی دے جاتا ہے۔ +جب کنور سنگھ اور میں نالے میں اترے تو دور سے اٹھتے دھوئیں کے کالے بادل آسمان کو جاتے دکھائی دیے اور دور سے آگ سے گھاس چٹخنے کی آوازیں بھی آنے لگ گئیں۔ نالے کا رخ جنوب کی طرف تھا اور آگ اس کے مشرقی یا بائیں کنارے پر لگی تھی جسے تیز ہوا پھیلا رہی تھی۔ میرے آگے چلتے کنور سنگھ نے سر موڑ کر صرف اتنا کہا کہ "دس سال بعد نال گھاس کو آگ لگی ہے" اور چلتا گیا۔ ایک موڑ مڑتے ہی ہمارے سامنے آگ دکھائی دی جو نالے سے 100 گز دور رہی ہوگی۔ بڑے بڑے شعلے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی شکل اختیار کر رہے تھے اور اس کے سرے پر سینکڑوں پرندے جمع تھے جو آگ سے بچ نکلنے والے کیڑے مکوڑے اور پتنگوں کو کھا رہے تھے۔ یہ پتنگے اور کیڑے مکوڑے گرم ہوا میں پھنس کر بلند ہو رہے تھے۔ جو پتنگے بچ کر نالے کی تہہ میں اترتے، انہیں کھانے کے لیے مور، جنگلی مرغ اور کالے تیتر جمع تھے۔ اس کے علاوہ 20 چیتل بھی سیمل کے درخت کے سرخ سرخ پھول کھانے کو جمع تھے۔ +اس جگہ میں نے پہلی بار جنگل کی آگ دیکھی تھی اور میرے خوف کی وجہ یہی ہے کہ انسان عموماً نامعلوم سے ڈرتا ہے۔ موڑ مڑنے کے بعد جب ہم سیدھا آگ کے سامنے پہنچے تو دیکھا کہ بہت بڑی تعداد میں پرندے آگ کے پاس سے ہی پتنگوں کو پکڑ پکڑ کر کھا رہے تھے۔ اس سے مجھے اندازا ہوا کہ صرف میں ہی اس آگ سے ڈرتا ہوں اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے۔ نالے کے ساتھ چل کر یہاں آنے تک میں نے بہت بار واپس مڑ کر بھاگنے کا سوچا تھا لیکن ہر بار یہ سوچ کر رک جاتا کہ کنور سنگھ مجھے بزدل سمجھے گا۔ پچاس گز چوڑے نالے کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر جب ہم نال گھاس سے نکلنے والے کسی جانور کا انتظار کرنے رکے تو سامنے آگ کی چادر بڑھتی ہوئی نظر آئی اور دھوئیں کے بادل سر پر چھا رہے تھے۔ اس جگہ رکنے کے بعد میرا ڈر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ آگ کے قریب آنے پر تپش کی وجہ سے سارے جانور اور پرندے دوسرے کنارے پر چڑھ کر جنگل میں گم ہو گئے اور ہم نے بھی گروپو کی راہ لی۔ +بعد کے برسوں میں گھاس کو لگنے والی آگ سے مجھے بہت اچھے شکاری تجربات حاصل ہوئے۔ تاہم ایک واقعہ کا ذکر کرنے سے قبل بتاتا چلوں کہ ہم میں سے وہ افراد جو ہمالیہ کے دامن میں زمین کاشت کرتے ہیں، کو حکومت کی طرف سے اجازت ہے کہ غیر محفوظ جنگلوں میں موجود گھاس کو آگ لگا سکتے ہیں تاکہ ہمارے مویشیوں کے لیے چارہ میسر ہو سکے۔ ان جنگلات میں گھاس کی بہت ساری اقسام پائی جاتی ہیں اور چونکہ ہر قسم کی گھاس الگ وقت پر خشک ہوتی ہے، اس لیے آگ لگانے کا عمل فروری سے جون تک چلتا رہتا ہے۔ اس دوران میں جب بھی کوئی بندہ کسی گھاس کے خشک قطعے سے گذرے تو اسے آگ لگاتا جاتا ہے۔ +ترائی میں بندوکھیڑا کے مقام پر میں ونڈہم کے ساتھ کالے تیتر کے شکار پر نکلا ہوا تھا اور ایک صبح میرا دوست بہادر اور میں 25 میل کے گھر کے سفر پر کالاڈھنگی روانہ ہوئے۔ بہادر 30 سال سے اپنے گاؤں کے پٹیل کی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ ابھی ہم دس میل ہی چلے ہوں گے کہ ہمارے سامنے جلی ہوئی گھاس کا قطعہ آیا جس میں جگہ جگہ گھاس ابھی سبز تھی۔ +ایک قطعے کے پاس سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ ایک جانور نکل کر ہماری پگڈنڈی پر آڑا آن کھڑا ہوا۔ سورج اس کے مخالف سمت سے چمک رہا تھا اور اس کے رنگ اور حجم سے میں نے اندازا لگایا کہ یہ شیر ہے۔ تاہم جب یہ جانور پگڈنڈی عبور کر کے دوسری جانب کی گھاس میں داخل ہوا تو اس کی دم کی لمبائی سے مجھے پتہ چلا کہ یہ تیندوا ہے۔ تیندوے کو دیکھتے ہی بہادر بولا "افسوس کی بات ہے کہ کمشنر صاحب اور ان کے ہاتھی دس میل دور ہیں۔ یہ تیندوا ترائی کا سب سے بڑا تیندوا ہے اور اس کا شکار ہونا چاہیے"۔ تیندوے کے حجم کے بارے کوئی شک نہیں تھا اور اگرچہ ونڈہم اور ہاتھی دس میل دور تھے، پھر بھی میں نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا کہ تیندوا ایک مویشی خانے کی سمت سے آ رہا تھا اور دن دیہاڑے اس کا اس طرح حرکت کرنا صاف بتا رہا تھا کہ اس نے رات مویشی خانے سے شکار کیا ہوگا۔ میں نے بہادر کو بتایا کہ میں آگ لگا کر اس تیندوے کو گھاس سے نکالتا ہوں تو اس نے میری مدد کی حامی تو بھری لیکن منصوبے کی کامیابی کے بارے کافی مشکوک لگ رہا تھا۔ پہلا کام تو یہ کرنا تھا کہ گھاس کے قطعے کی وسعت کا اندازا لگایا جائے۔ اس لیے ہم پگڈنڈی سے اتر کر اس کے گرد چکر لگایا تو پتہ چلا کہ دس ایکڑ چوڑا قطعہ ہے اور کون نما شکل میں ہے۔ پگڈنڈی اس کے نچلے سرے سے گذرتی تھی۔ +ہوا موافق تھی اور 200 گز دور دوسرے سرے پر جا کر میں نے گھاس کے دو مٹھے توڑے اور انہیں آگ لگا کر بہادر کو دائیں جانب بھیجا جبکہ خود بائیں جانب آگ لگاتا چلا۔ یہ گھاس ایلیفنٹ گھاس کے نام سے موسوم ہے اور اس کی اونچائی بارہ فٹ اور انتہائی خشک تھی۔ شعلہ دکھاتے ہی اس نے آگ پکڑی اور دھڑادھڑ جلنے لگ گئی۔ دوڑتے ہوئے پگڈنڈی پر پہنچ کر میں اپنی اعشاریہ 275 بور کی رگبی رائفل کے ساتھ نیچے لیٹ گیا اور رائفل کو شانے سے لگا کر راستے کے دوسرے سرے کا نشانہ لے لیا۔ جونہی تیندوا پگڈنڈی عبور کرتا، میں گولی چلا دیتا۔ میں گھاس سے دس گز ��ور لیٹا تھا اور جہاں تیندوا گھاس میں گھسا تھا، وہ یہاں سے 50 گز دور تھی۔ اس جگہ راستہ 10 فٹ چوڑا تھا اور میری کامیابی اسی میں ہوتی کہ تیندوے کو دیکھتے ہی گولی چلا دیتا۔ مجھے یقین تھا کہ تیندوا راستے کو آخری وقت پر اور انتہائی تیزی سے عبور کرے گا۔ بہادر میرے نشانے کی سیدھ سے بہت دور اور ایک اونچے درخت پر چڑھا ہوا تھا، اس لیے گولی سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا +گھاس آدھی جل چکی تھی اور اب اس کے شور سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایکسپریس ٹرین کسی پُل سے گزر رہی ہو کہ میرے پاس ایک انسانی پیر دکھائی دیا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو حلیے سے پتہ چلا کہ ایک مسلمان گاڑی بان شاید اپنے گمشدہ بیل کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔ فوراً اس کو نیچے لٹا کر میں نے اس کے کان میں کہا کہ آرام سے لیٹے رہو، اور اپنی ٹانگ اس کے اوپر رکھ دی تاکہ وہ اٹھ نہ سکے۔ آگ بڑھتے بڑھتے ہم سے محض 25 گز تک آن پہنچی کہ اچانک تیندوے نے جست لگا کر راستہ عبور کیا۔ اس کی جھلک دیکھتے ہی میں نے گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی تیندوے کی دم اوپر کو اٹھی۔ بائیں جانب کے قطعے کو کچھ دن قبل آگ لگائی گئی تھی اور ادھ جلے گھاس کے ٹانڈوں کی وجہ سے پتہ نہ چلا کہ میری گولی کا کیا اثر ہوا ہے۔ تاہم تیندوے کی دم جس طرح اوپر اٹھی، اس سے مجھے یقین تھا کہ تیندوے کو مہلک زخم پہنچا ہے۔ فوراً ہی اٹھتے ہوئے میں نے اپنے ساتھی کو بھی اٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑے سیدھا راستے پر بھاگا۔ آگ کے شعلے اب ہمارے سروں کے اوپر سے گزر رہے تھے اور جب ہم بالکل قریب پہنچے تو تیندوا دکھائی دیا۔ شدید تپش کی وجہ سے تاخیر ممکن نہ تھی اور اپنے ساتھی کا ہاتھ تیندوے کی دم پر رکھ کر اسے پکڑا اور تیندوے کو گھسیٹا تو اندازا کیجئے کہ تیندوے نے منہ کھول کر غرانا شروع کر دیا۔ خوش قسمتی سے گولی کی وجہ سے اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی اور فوری خطرہ نہیں تھا۔ جب ہم آگ سے 50 گز دور پہنچے تو تیندوا مر چکا تھا۔ جونہی میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ چھوڑا تو اس نے ایسے دوڑ لگائی جیسے میں نے اسے کاٹ کھایا ہو۔ کھلی ہوئی پگڑی اس کے پیچھے زمین سے رگڑتی جا رہی تھی۔ +افسوس کہ میں وہاں نہیں پہنچ سکا جہاں یہ بندہ بھاگ کر پہنچا ہوگا، کیونکہ ہندوستانی لوگ بہت اچھے داستان گو ہوتے ہیں اور اس نے تو خوب مرچ مسالا لگا کر بتایا ہوگا کہ کیسے وہ ایک پاگل انگریز کے ہاتھ سے بچ کر نکلا ہے۔ بہادر نے یہ سب اپنے درخت سے دیکھا اور جب وہ میرے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ "یہ بندہ اب کئی سال تک مشہور داستان گو رہے گا، اگرچہ لوگ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔" +جب کسی خطرناک درندے کے شکار پر پیدل جانا ممکن نہ ہو تو عام طور پر ہاتھیوں، انسانوں یا ان دونوں کی مدد سے ہانکا کرا کے درندے کا شکار کیا جاتا ہے۔ میری یاداشت میں تین ایسے ہانکے ہیں جن میں سے دو کے لیے انتہائی کم افراد تھے جبکہ تیسرے کے بارے سوچنے پر ہر بار میرا دل رُک سا جاتا ہے۔ +روبن ہمارے کتے کا نام تھا اور ایک بار جب اس کے ساتھ میں صبح کی سیر کو نکلا تو میرا رخ آدھا میل دور دریائے بور پر بنے پل والے فائر ٹریک کی جانب تھا۔ حسبِ معمول روبن آگے اور میں پیچھے تھا۔ جب راستے پر ایک جگہ چھدری گھاس آئی تو روبن رکا اور گھاس سونگھ کر اس نے میری جانب دیکھا۔ میں آگے بڑھا تو پگ دکھائی نہ دیے، اس لیے میں نے اسے تعاقب جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ فوراً ہی وہ بائیں جانب مڑا اور کنارے پر موجود گھاس کے ایک پتے کو بغور سونگھا اور پھر میری طرف مڑ کر اشارہ کیا کہ اسے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ پھر وہ اسی جانب کی گھاس میں داخل ہو گیا جو ڈیڑھ فٹ اونچی تھی۔ سو گز تک محتاط انداز میں چلتے ہوئے ہم ایک چھوٹے سے گڑھے تک پہنچے جہاں کی نرم مٹی پر شیر کے پگ دکھائی دیے۔ گڑھے کے دوسرے سرے پر روبن نے گھاس کے ایک پتے کو بغور سونگھا۔ میں آگے بڑھا تو خون کا ایک دھبہ دکھائی دیا۔ جنگل میں دوسروں کے زخمی کیے درندوں سے میں بہت محتاط رہتا ہوں اور شیر کے پگ کے ساتھ جب خون دکھائی دے تو فطری طور پر مزید محتاط ہو جاتا ہوں۔ تاہم خون کا یہ نشان بالکل تازہ تھا اور صبح سے اس علاقے میں کوئی فائر نہیں ہوا تھا۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ شیر نے چیتل یا شاید ایک بڑا سور مارا ہے اور اسے لے کر جا رہا تھا۔ چند گز آگے چل کر 50 مربع گز پر پھیلی ہوئی ایک گھنی جھاڑی کے پاس جا کر روبن رک کر میری جانب دیکھنے لگ گیا۔ +پگوں کے مشاہدے سے مجھے پتہ چل چکا تھا کہ یہ وہی بڑا شیر ہے جس نے دریائے بور کے دوسرے کنارے پر گھنے جنگل میں رہائش رکھی ہوئی ہے اور تین ماہ سے، جب سے ہم پہاڑ سے نیچے اترے تھے، یہ شیر میرے لیے سر درد بنا ہوا تھا۔ دو سڑکوں اور ایک فائر ٹریک جہاں میں اور میگی صبح اور شام کی سیر کے لیے گھنے جنگل سے گذرتے تھے اور کئی بار جب میں گھر نہیں تھا تو میگی اور روبن کی سیر کے دوران میں اس شیر نے ان کا راستہ روکا تھا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میگی اور روبن کے لیے یہ راستے محفوظ نہیں رہے تھے اور پل عبور کرنے کے بعد روبن اکیلے میگی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا تھا۔ کسی ناگہانی حادثے سے بچنے کے لیے میں نے پہلا موقع ملتے ہی اس شیر کو مار دینے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اب اگر شیر اس جھاڑی میں اپنے شکار کے ساتھ لیٹا ہوتا تو میرے لیے یہ عمدہ موقع تھا۔ چونکہ ہم نے ہوا کے رخ پر شیر کا پیچھا کیا تھا، اس لیے لمبا چکر کاٹ کر ہم دوسری جانب جا پہنچے اور روبن نے سونگھ کر تسلی کی کہ شیر اسی جھاڑی میں موجود ہے۔ پھر ہم فائر ٹریک کے راستے گھر کو روانہ ہو گئے۔ ناشتے کے بعد میں نے بہادر کو بلایا اور اسے شیر کے بارے بتاتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ دھنبن اور دھرمانند کو لے آئے۔ دونوں افراد میری ہدایات پر من و عن عمل کرتے اور ہم چاروں افراد درختوں پر چڑھنے کے ماہر تھے۔ دوپہر کو تینوں افراد کھانا کھا کر ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ان کی جیبوں سے آواز پیدا کرنے والی تمام چیزیں نکال کر میں نے ان کے جوتے اتروائے اور اعشاریہ 450/400 بور کی رائفل کے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں میں نے ساتھیوں کو منصوبہ بتایا کہ ہانکا کیسے کرنا ہے۔ ہم سب اس جنگل سے بخوبی واقف تھے اور میں نے انہیں بتایا کہ شیر کس جگہ موجود ہے اور ہانکا کس طرح کرنا ہے تو ان کا جوش دیدنی تھا۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ یہ تین افراد تین جانب سے جھاڑی کے کنارے درختوں پر چڑھ کر شیر کو نکالتے اور میں چوتھی جانب شیر کا منتظر ہوتا۔ بہادر درمیان میں ہوتا اور تیندوے کی آواز کا میرا اشارہ پاتے ہی بہادر درخت کی شاخ پر لکڑی مارتا۔ اگر شیر کسی جانب سے نکلنے کی کوشش کرتا تو اس جانب والا بندہ تالی بجا کر شیر کا رخ موڑ دیتا۔ اس سارے منصوبے کی کامیابی کا راز خاموشی میں مضمر تھا کہ درخت کو جاتے، درخت پر چڑھتے یا میرے اشارے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے اگر ذرا سی بھی آواز پیدا ہوتی تو شیر فرار ہو جاتا کہ ہمارا فاصلہ شیر سے 30 سے 40 گز تھا۔ +جہاں روبن نے شیر کی بو سونگھی تھی، اس جگہ پہنچ کر میں نے بہادر کو ساتھ لیا اور باقی دو ساتھی وہیں بٹھا دیے۔ جھاڑی سے بیس گز دور میں نے بہادر کو ایک درخت پر چڑھا دیا۔ پھر باری باری باقی دونوں افراد کو مطلوبہ درختوں پر چڑھا دیا۔ تینوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور گھاس کے اندر بھی۔ تاہم میں بہادر کے عین مخالف سمت جا کر بیٹھتا اور یہ تینوں افراد درختوں کی وجہ سے میری نظر سے اوجھل ہوتے۔ ساتھیوں کو بٹھا کر واپس اسی جگہ لوٹ کر میں نے فائر ٹریک پکڑا اور سو گز دور پہنچا جہاں ایک اور فائر ٹریک گذرتا تھا۔ یہ راستہ جھاڑی کی چوتھی جانب تھا۔ بہادر کے درخت کے مخالف سمت ایک کھائی پہاڑی کے پہلو کی جانب جاتی تھی اور اس میں جانوروں کی عام گذرگاہ تھی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ شیر مداخلت کی بو سونگھتے ہی اسی کھائی کے راستے فرار ہوگا۔ کھائی کے دائیں جانب دس گز دور جامن کا ایک بڑا درخت تھا۔ ہانکے کا منصوبہ بناتے وقت میرا خیال تھا کہ میں اسی درخت پر بیٹھوں گا اور جونہی شیر نیچے کھائی سے گذرے گا تو اسے شکار کر لوں گا۔ تاہم پاس پہنچا تو دیکھا کہ بھاری رائفل کے ساتھ اس درخت پر چڑھنا ممکن نہیں تھا۔ چونکہ آس پاس کوئی اور درخت نہیں تھا، اس لیے میں نے زمین پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ درخت کے نیچے خشک پتے ہٹا کر تنے سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔ +تیندوے کی آواز والے اشارے کے دو فائدے تھے۔ پہلا یہ کہ بہادر اس اشارے کو سمجھ کر درخت پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرتا اور دوسرا یہ کہ شیر کو احساس ہوتا کہ اس طرف جانا محفوظ ہے۔ اسے یہ احساس نہ ہوتا کہ اسے خطرناک جگہ بھیجا جا رہا ہے۔ آرام سے بیٹھ کر میں نے رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور رائفل شانے سے لگا کر میں نے تیندوے کی آواز نکالی۔ چند لمحے بعد بہادر نے درخت پر لکڑی مار کر آواز پیدا کرنا شروع کی۔ چند ہی سیکنڈ بعد فائر ٹریک کے کنارے کی جھاڑیوں سے شیر نکلا اور وہیں رک گیا۔ دس سال سے میں شیر کی اس حالت میں وڈیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور ہر بار ناکام رہا۔ اب یہ شیر میرے سامنے عین اسی پوز میں کھڑا تھا۔ مجھ سے بیس گز دور بالکل سامنے شیر کھڑا تھا اور سورج کی روشنی میں اس کی سرمائی کھال چمک رہی تھی۔ اس شیر کی تصویر کی خاطر میں دنیا کے کسی بھی کنارے جانے اور کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار تھا۔ بہت بار میں نے کسی درندے کا پیچھا کر کے اس کے پاس پہنچ کر احتیاط سے نشانہ لے کر رائفل جھکائی اور پھر ہیٹ لہرا کر اس جانور کو اپنی موجودگی سے آگاہ کیا۔ جب وہ زندہ سلامت بھاگ جاتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ اس شیر کے ساتھ بھی ایسا کر کے مجھے بہت خوشی ہوتی لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ محض میگی ہی نہیں بلکہ شیر سنگھ اور دیگر لڑکے بالے اور عورتیں جنگل سے لکڑیاں جمع کرنے جاتی تھیں۔ اگرچہ اس شیر نے ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا لیکن اس کا رویہ بہت خوفناک تھا اور عین ممکن تھا کہ کسی دن کوئی حادثہ ہو جاتا۔ +فائر ٹریک پر پہنچ کر شیر ایک یا دو منٹ رک کر اپنے دائیں، بائیں اور بہادر کی سمت دیکھتا رہا اور پھر آرام سے فائر ٹریک عبور کر کے کھائی کی بائیں جانب پہاڑی کے اوپر چڑھنے لگا۔ جونہی شیر جھاڑیوں سے نکلا، میں نے اس کا نشانہ لے لیا تھا اور جب وہ میری سیدھ پر پہنچا تو میں نے گولی چلا دی۔ گولی لگتے ہی اس کی ٹانگیں مڑیں اور شیر پھسلتا ہوا سیدھا میرے قدموں میں آن رکا۔ مرنے سے قبل اس نے شاید اس گولی کی آواز تک نہ سنی ہوگی۔ +جب مہاراجہ جند کا انتقال ہوا تو ان کی عمر کافی ہو چکی تھی۔ ان کے انتقال سے ہندوستان کے ایک بہترین شکاری کا دور ختم ہوا۔ ان کی سلطنت کل 1299 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی اور آبادی 3٫24٫700 پر مشتمل تھی۔ ان س�� ملاقات میری خوش قسمتی تھی۔ ان کے مشاغل میں شکاری کتوں کو تربیت دینا اور شیروں کا شکار کرنا شامل تھے اور ان دونوں میں ان کا ثانی دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو ان کے پاس 400 کتے تھے اور کتوں کو تربیت دیےئ اور پھر شکار کے دوران میں عملی تربیت صبر اور نرمی کا عمدہ نمونہ تھی۔ صرف ایک بار میں نے انہیں چلاتے یا چابک استعمال کرتے دیکھا۔ اس رات مہارانی نے کھانے کے دوران میں پوچھا کہ کتوں کی تربیت کیسی رہی تو مہاراجہ نے بتایا کہ سینڈی بہت بدتمیز ہے اور اسی وجہ سے اس نے خوب مار کھائی ہے۔ +"خوب مار" کی وضاحت کرتا چلوں۔ مہاراجہ اور میں اس روز پرندوں کے شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ جنگل اور گھاس کی لمبی پٹی کا ہانکا کیا جا رہا تھا اور ہانکے میں آدمی اور ہاتھی، دونوں شامل تھے۔ دوسرے سرے پر 50 گز چوڑا ایک کھلا قطعہ تھا جہاں مہاراجہ اور میں ایک دوسرے سے چند گز دور کھڑے تھے۔ مہاراجہ کے بائیں جانب قطار میں تین لیبریڈور نسل کے کتے تھے۔ سینڈی سنہرا جبکہ دیگر دو کالے تھے۔ ایک کالا تیتر اڑا تو مہاراجہ نے اسے شکار کر کے ایک کالے کتے کو بھیجا تاکہ وہ تیتر اٹھا لائے۔ پھر ایک جنگلی مرغ نکلا جسے میں نے شکار کیا تو مہاراجہ نے دوسرے کالے کتے کو اسے اٹھانے بھیجا۔ کئی مور بھی اڑے لیکن سامنے فائر ہوتے دیکھ کر وہ مڑ کر اونچے ہو گئے۔ اچانک ہمارے سامنے ایک خرگوش نکلا اور مہاراجہ کی طرف دوڑا۔ مہاراجہ اس وقت مڑ کر اپنے ملازم سے کوئی بات کر رہے تھے۔ پھر خرگوش نے رخ بدلا اور میرے سامنے سے گذرا۔ جب وہ مجھ سے کافی دور ہوا تو میں نے اس پر گولی چلائی اور خرگوش مڑ کر دوڑا اور مہاراجہ سے تیس گز دور پہنچ کر گر گیا۔ جونہی خرگوش گرا تو سینڈی اس کے پیچھے لپکا۔ مہاراجہ چلائے "سینڈی۔ سینڈی" لیکن سینڈی نے سنی ان سنی کر دی۔ دوسرے دونوں کتے اپنا اپنا شکار لا چکے تھے اور اب اس کی باری تھی اور اسے کون روک سکتا تھا۔ اس نے خرگوش اٹھایا اور میرے پاس لا کر رکھ دیا۔ جب سینڈی اپنی جگہ واپس جا کر بیٹھ گیا تو مہاراجہ نے اسے خرگوش لانے کا حکم دیا۔ جب سینڈی نے خرگوش کو اٹھایا تو مہاراجہ نے ہاتھ ہلا کر سینڈی کو دور جانے کو کہا۔ ہوتے ہوتے جب سینڈی اس جگہ پہنچا جہاں اس نے خرگوش کو پہلی بار اٹھایا تھا، مہاراجہ نے اسے وہیں ڈال کر واپس آنے کا حکم دیا۔ لٹکی دم اور جھکے کانوں کے ساتھ سینڈی واپس مہاراجہ کے پاس جا پہنچا۔ پھر انہوں نے ایک اور کتے کو خرگوش لانے کو بھیجا۔ پھر مہاراجہ نے اپنی بندوق ملازم کو دے کر اس سے چابک لیا اور سینڈی کو گردن کے پاس سے پکڑ کر "خوب مارا"۔ تاہم چابک سینڈی پر نہیں بلکہ اس کے دائیں اور بائیں زمین پر پڑتے رہے۔ جب مہاراجہ نے مہارانی کو اس بارے بتایا تو میں نے ایک ملازم سے پرچی لی کہ مہاراجہ کی قوتِ سماعت سے محروم تھے، اور اس پر لکھا کہ "اگرچہ سینڈی بہادر نے آج غلطی کی تھی لیکن وہ پورے ہندوستان کا بہترین کتا ہے اور اگلے سالانہ مقابلے میں جیتے گا۔" بعد میں اس سال مجھے ایک دن مہاراجہ کا تار ملا کہ "آپ نے درست کہا تھا۔ سینڈی نے مقابلہ جیت لیا ہے۔" +دن لمبے اور گرم ہو رہے تھے، اس لیے میں علی الصبح دس میل دور موہن میں مہاراجہ کے کیمپ جانے کو نکلا اور ناشتے کے وقت جا پہنچا۔ جونہی میں ناشتے کی میز پر بیٹھا، مہاراجہ بولے کہ "آپ بروقت پہنچے ہیں۔ ہم آج اس بوڑھے شیر کے پیچھے جانے والے ہیں جو تین سال سے مسلسل بچ رہا ہے۔" اس شیر کا تذکرہ میں بہت بار سن چکا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ ��ہاراجہ اسے شکار کرنے کو کتنے بے چین ہیں۔ اس لیے جب مہاراجہ نے بہترین مچان اور رائفل دینے کی پیشکش کی تو میں نے بہت نرمی سے انکار کر دیا کہ میں محض تماشائی رہوں گا۔ دس بجے مہاراجہ اور مہارانی اپنی دو بیٹیوں، ایک خاتون دوست اور میں کاروں پر سوار ہو کر اس جگہ روانہ ہوئے جہاں ہانکے والے ہمارے منتطر تھے۔ +ہانکے کی جگہ وادی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی اور اس میں ایک بل کھاتی ندی گذرتی تھی اور دو اطراف پر 300 فٹ اونچی پہاڑیاں تھیں۔ اس کے نچلے سرے پر جہاں سے سڑک گذرتی ہے، وادی کی چوڑائی 50 گز تھی اور نصف میل اوپر جا کر پھر اتنی ہی رہ جاتی تھی۔ درمیان میں وادی کی چوڑائی 300 سے 400 گز تھی اور ایک جگہ کئی سو ایکڑ پر محیط گھنی جھاڑیوں کے قطعہ تھا جہاں شکاریوں کے خیال میں شیر پچھلے دن کے شکار کردہ بھینسے کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔ وادی کے اوپری سرے پر ایک چھجا سا تھا جس پر موجود درخت پر مچان بنی تھی۔ اس جگہ سے پوری وادی کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ چھجے کے پیچھے جہاں ندی زاویہ قائمہ پر مڑتی تھی، دو اور مچانیں تیس تیس گز کے فاصلے پر بنی تھیں۔ +سڑک پر کاروں سے نکل کر ہم میرِ شکار اور سیکریٹری کے ساتھ شیر کی کمین گاہ کے بائیں جانب سے ہو کر آگے بڑھے۔ جب مہاراجہ اور ان کے بندوق بردار نے مچان پر اپنی جگہ سنبھال لی تو چاروں خواتین اور میں دوسری مچانوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ پھر میرِ شکار اور سیکریٹری سڑک کو واپس لوٹے تاکہ ہانکا شروع کیا جا سکے۔ +میرے ساتھ مچان پر دو شہزادیاں بھی بیٹھی تھیں اور انتہائی مضبوط مچان پر موٹا قالین اور ریشمی گدے بچھے تھے۔ مجھے درخت کی سخت شاخوں پر بیٹھے کی عادت تھی، اس لیے صبح جلدی اٹھنے اور پھر لمبا پیدل سفر کرنے کے بعد مجھے اب اس آرام دہ مچان پر اونگھنے لگا کہ دور سے بگل کی آواز سنائی دی اور ہانکا شروع ہو گیا۔ ہانکے میں میرِ شکار، سیکریٹری، مہاراجہ کے گھریلو ملازمین، مہاراجہ کے نائبین، اے ڈی سیز، اور نزدیکی دیہاتوں سے دو سو افراد کے علاوہ 10 ہاتھی بھی شامل تھے۔ نیچے موجود گھنی جھاڑیوں کے ہانکے کے واسطے ہاتھی تھے جن پر مہاراجہ کے عملے کے افراد سوار تھے جبکہ باقی ہانکا دو سو دیہاتی کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ افراد دونوں اطراف قطار بنا کر ہانکے سے آگے چل رہے تھے تاکہ شیر ادھر سے فرار نہ ہو سکے۔ +ہانکے کے نظام اور ہانکے کا مشاہدہ کرنا میرے لیے بہت دلچسپی کا باعث تھا کیونکہ ابھی تک میں ہانکے کے دوران میں شکار کے لیے بیٹھتا رہا تھا اور اب تماشائی بن کر دیکھ رہا تھا۔ ہانکے کے بندوبست یا ہانکے میں کوئی کمی یا خامی نہیں تھی۔ دن کا بہترین وقت چنا گیا تھا اور ہم لوگ انتہائی خاموشی سے مچانوں پر جا بیٹھے تھے اور ہانکے سے نکلنے والے جانوروں اور پرندوں کی تعداد سے اس کی کامیابی کا بخوبی اندازا لگایا جا سکتا تھا۔ ہانکا ہمیشہ پُر تجسس ہوتا ہے کہ انسانوں کی آواز سنتے ہی شیر چل پڑتا ہے۔ مہاراجہ کی وقتِ سماعت تو کام نہیں کر رہی تھی لیکن ان کے پاس ایک بندہ اسی لیے موجود تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس بندے سے دائیں جانب اشارہ کیا۔ مہاراجہ اس جانب ایک یا دو لمحے دیکھتے رہے اور پھر سر ہلایا۔ فوراً ہی ایک سانبھر اسی جانب سے نکلا اور ندی عبور کر کے مہاراجہ کے پاس سے گزر کر غائب ہو گیا۔ +بائیں پہاڑی پر ہانکے والوں کی قطار دکھائی دے رہی تھی اور شیر کسی وقت بھی سامنے آ سکتا تھا۔ ہر بندہ شور مچاتا اور تالیاں بجاتا ہوا بڑھتا آیا اور ہر قدم پر شیر کے نکلنے کی توقعات ��م ہوتی گئیں کیونکہ کسی جانور یا پرندے سے شیر کی موجودگی کی اطلاع نہیں آئی تھی۔ میری مچان پر موجود شہزادیاں چوکنی ہو گئی تھیں اور مہاراجہ رائفل تانے گولی چلانے کو تیار بیٹھے تھے۔ تاہم شیر اس جگہ موجود نہیں تھا۔ سیڑھیاں آئیں اور ہم سب انتہائی مایوس ہو کر نیچے اتر آئے۔ کسی کو بھی شیر دکھائی نہ دیا تھا اور کوئی بھی یہ نہ بتا سکا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی غلطی تو ہوئی تھی کیونکہ ہماری آمد سے ذرا دیر قبل شیر اسی وادی میں دھاڑا تھا۔ مجھے شک تھا کہ شاید میں اس ناکامی کا سبب جانتا ہوں، مگر تماشائی ہونے کی وجہ سے میں خاموش ہی رہا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر ہم لوگ کیمپ لوٹے اور بقیہ وقت دریائے کوسی پر مچھلیاں پکڑتے اور آرام کرتے گذارا۔ اپریل کا اختتام چل رہا تھا اور مچھلی کے شکار کا بہترین وقت تھا۔ +رات کو کھانا کھاتے وقت انتہائی باریک بینی کے ساتھ اس ہانکے اور سابقہ تمام ہانکوں اور ان کی ناکامیوں اور ممکنہ وجوہات پر تفصیلی بحث کی گئی۔ پہلی بار اس وادی میں ہانکے پر شیر مہاراجہ کی مچان کو گیا تھا اور مشکل زاویے سے چلائی گئی گولی خطا گئی تھی۔ تین سال کے دیگر ہانکوں پر شیر کبھی بھی دکھائی نہ دیا، اگرچہ ہانکا شروع ہونے سے قبل وہ وادی میں موجود ہوتا تھا۔ جتنی دیر دیگر افراد یہ بحث کرتے رہے، میرے ذہن میں ایک منصوبہ تیار ہوتا رہا۔ میں نے اس شیر کے شکار میں مہاراجہ کی مدد کرنےکا فیصلہ کر لیا۔ جب ہم شیر کی ممکنہ کمین گاہ سے ہو کر مچان کو گئے تو ایک غلطی سرزد ہوئی تھی۔ لیکن ہانکے کی ناکامی کی وجہ یہ غلطی نہیں تھی کیونکہ جس وقت ہم لوگ وادی میں داخل ہوئے تھے، عین اسی وقت شیر وادی سے نکل گیا تھا۔ کاروں سے اترنے کے کچھ دیر بعد وادی کے دوسرے سرے سے کاکڑ کی آواز میرے تجربے کے مطابق شیر کی روانگی کو ظاہر کرتی تھی۔ ہانکے کی ناکامی کے بعد میں نے وادی پر طائرانہ نگاہ ڈالی کہ مچان سے بچ نکلنے کا کوئی اور راستہ تو نہیں۔ مچان کے پیچھے پہاڑی پر ایک لینڈ سلائیڈ شروع ہوتی تھی۔ کاکڑ اسی لینڈ سلائیڈ کے اوپری سرے پر بولا تھا۔ اگر اس جگہ سے جانوروں کی کوئی گذرگاہ نیچے اس جگہ جاتی ہو جہاں شیر اپنے شکار سمیت موجود تھا، تو ظاہر ہے کہ شیر ہر بار اسی راستے سے ہی بچ نکلتا ہوگا۔ +جتنی دیر دیگر لوگ بحث کرتے رہے، میں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مہاراجہ کو پہاڑی پر لینڈ سلائیڈ کے اوپری سرے پر اسی جگہ بٹھا دوں جہاں کاکڑ بولا تھا اور پھر ہانکا کروں۔ سارے ہی شرکاء اگلے دن ہانکے کے خلاف تھے کہ جب شیر تازہ شکار پر موجود نہیں تھا تو اگلے دن ہانکے کی کیا تُک۔ اگر میرا منصوبہ ناکام بھی رہتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کہ کسی قسم کا انتظام نہیں کرنا تھا۔ سیکریٹری سے ایک پرچی لے کر اس پر میں نے لکھا کہ "اگر آپ کل صبح 5 تیار ہوں تو میں اکیلا ہانکا کر کے دکھاؤں گا کہ آج والا ہانکا کیوں کر ناکام رہا۔" میری امید کے عین مطابق سارے عملے نے اس کی شدید مخالفت کی۔ تاہم مہاراجہ نے میرے منصوبے پر عمل کی حامی بھر لی اور طے پایا کہ صبح وہ دو بندوق برداروں کے ساتھ تیار ہوں گے۔ +ٹھیک 5 بجے مہاراجہ، ان کے دو ملازمین اور میں کار پر بیٹھ کر تین میل دور اس جگہ پہنچے جہاں ایک ہاتھی پر ایک چھوٹی مچان لگی ہوئی تھی۔ مہاراجہ اور ان کے ملازمین کو ہاتھی پر سوار کر کے میں انہیں کئی میل کے ایسے سفر پر لے کر نکل پڑا جس کے راستے کے بارے مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے اندھیرے میں بھی سمتوں اور فاصلوں کے تعین میں مشکل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اگرچہ ہم اندھیرے میں ہی روانہ ہوئے لیکن سورج طلوع ہونے تک ہم لینڈ سلائیڈ تک پہنچ گئے تھے۔ اس جگہ مجھے جنگلی جانوروں کی پگڈنڈی دکھائی دی جو سیدھا لینڈ سلائیڈ سے ہوتی ہوئی نیچے جنگل کو جا رہی تھی۔ اس راستے کے پاس میں نے ایک درخت پر مچان باندھی۔ مہاراجہ اور ان کے ایک بندوق بردار کو مچان پر بٹھا کر میں نے ہاتھی کو واپس بھیج دیا اور دوسرے ملازم کو دوسرے کنارے کے درخت پر چڑھا دیا۔ جب یہ کام پورا ہو گیا تو میں اکیلا ہانکے کو نکلا۔ +وادی میں نیچے اترنے کا راستہ انتہائی ڈھلوان اور مشکل تھا لیکن چونکہ میں خالی ہاتھ تھا، اس لیے بحفاظت نیچے پہنچ گیا۔ پچھلے روز والی مچانوں کے پاس سے گزر کر میں انتہائی خاموشی سے وادی میں اترا۔ اس جگہ سے 200 گز آگے جا کر کہ جہاں میرے اندازے کے مطابق شیر لیٹا ہوگا، میں نے واپسی کا رخ کیا اور ہلکی آواز میں خود کلامی شروع کر دی۔ جہاں شیر نے بھینسے کو گھسیٹ کر گھنی جھاڑیوں میں چھپایا تھا، اس جگہ ایک درخت گرا ہوا تھا۔ اس درخت پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ سلگائی اور بغور جنگل کی طرف کان لگا دیے۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ چند بار کھانس کر میں نے کھوکھلے درخت کے تنے سے ایڑیاں بجائیں اور پھر آگے بڑھا تاکہ دیکھ سکوں کہ آیا شیر واپس لوٹا تھا یا نہیں۔ گھنی جھاڑیوں میں چھپی بھینسے کی لاش سے شیر چند منٹ قبل ہی گوشت کھا رہا تھا۔ جس جگہ وہ لیٹا تھا، وہ جگہ ابھی تک گرم تھی۔ واپس گرے ہوئے درخت کو لوٹ کر میں نے پتھر سے تنے کو زور زور سے بجایا اور چیخ کر مہاراجہ کے ملازم کو اطلاع دی کہ شیر آ رہا ہے۔ ایک یا دو منٹ بعد ہی اوپر سے گولی کی آواز سنائی دی۔ جب میں واپس اوپر پہنچا تو دیکھا کہ مہاراجہ شیر کی لاش کے پاس کھڑے تھے۔ +جند کے محل میں، جس پر اب مہارجہ کے بیٹے کی حکومت ہے، میں ایک شیر کی کھال لٹکی ہے جس پر لکھا ہے "جم کا شیر"۔ مہاراجہ کی شکار کی ڈائری میں اس شیر کے شکار کی تاریخ مقام اور حالات کا تفصیلی ذکر ہے۔ +یادگار شکار کا آخری دن تھا۔ یادگار صرف ان کے لیے نہیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا بلکہ یہ ملکی انتظامیہ کے لیے بھی یادگار رہا کہ پہلی بار وائسرائے نے معمول سے انحراف کر کے چند دن کالاڈھنگی میں گذارے تھے۔ +ایک عام انسان کے طور پر مجھے حکومتی اداروں کے اندر کام کا طریقہ نہیں معلوم۔ مارچ کے اختتام پر ایک دن کالاڈھنگی اپنے گھر سے میں مچھلی پکڑنے کے لیے نکل ہی رہا تھا کہ رام سنگھ تار لیے آن پہنچا۔ رام سنگھ کی ذمہ داری تھی کہ روزانہ دو میل دور ڈاکخانے سے ہماری ڈاک لے آئے۔ اس نے بتایا کہ پوسٹ ماسٹر نے اسے تاکید کی ہے کہ یہ بہت اہم تار ہے۔ وائسرائے کے ملٹری سیکریٹری ہف سٹیبل کا یہ تار نینی تال سے ہو کر ادھر آیا تھا۔ تار میں درج تھا کہ وائسرائے کا جنوبی ہند کا دورہ منسوخ ہو گیا ہے اور کیا میں وائسرائے کے دس روزہ قیام اور ہلکے پھلکے شکار کے لیے کوئی تجویز دے سکتا ہوں؟ آخر میں یہ بھی درج تھا کہ وقت کم ہے اور فوری جواب درکار ہے۔ اگرچہ رام سنگھ انگریزی نہیں بول سکتا لیکن 30 سال سے ہمارا ملازم ہے اور اچھی خاصی انگریزی سمجھ لیتا ہے۔ جب میں نے تار میگی کو سنایا، رام سنگھ بولا کہ وہ اپنا کھانا کھا کر چند منٹ میں میرا جواب ہلدوانی کو لے جانے کو تیار ہو جائے گا۔ ہلدوانی کا تار گھر یہاں سے 14 میل دور تھا۔ اگر رام سنگھ میرا جواب لے جاتا تو مجھے ڈاک کے ہرکارے سے بھیجنے کی ضرورت نہ پڑتی اور 24 گھنٹے بچ ج��تے۔ میں نے تار لکھا کہ "کل صبح گیارہ بجے ہلدوانی کے فون پر رابطہ کریں"۔ جب رام سنگھ چلا گیا تو میں نے پھر اپنا راڈ اٹھایا اور مچھلی کے شکار کو روانہ ہو گیا۔ مچھلی کے شکار کے دوران میں سوچنے کا عمدہ موقع ملتا ہے اور ویسے بھی رات کے کھانے کے لیے مچھلی بھی پکڑنی تھی۔ ہف کا تار ہنگامی امداد کی درخواست لیے ہوئے تھا اور یہ مجھ پر منحصر تھا کہ میں کیسے مدد کرتا ہوں۔ +کوٹا روڈ پر دو میل دور پہنچ کر میں نے فارم یارڈ کے نچلے سرے کا رخ کیا جہاں میں نے اپنا پہلا تیندوا مارا تھا اور دریا پر بنے ایک تالاب پر جا پہنچا جہاں تین پاؤنڈ وزنی مہاشیر مچھلیاں عام مل جاتی تھیں۔ پہنچتے ہی میں نے ریت پر صبح کو گذرنے والے ایک شیر کے پگوں کے نشانات دیکھے۔ تالاب کے سرے پر جہاں پانی گہرا اور تیز ہو جاتا تھا، پر تین بڑی چٹانیں ہیں اور پانی سے اڑتی جھاگ ان پر مسلسل پڑتی رہتی ہے اور یہ چٹانیں شیشے کی طرح پھسلوان ہیں۔ دریا عبور کرنے کے لیے تیندوے ان چٹانوں سے کودتے ہوئے گذرتے ہیں۔ ایک دن ایک شیر کو بھی میں نے اسی طرح دریا عبور کرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ میں اس شیر کے پیچھے تقریباً ایک میل سے لگا ہوا تھا اور دو بار اس کے اتنے قریب پہنچ گیا کہ گولی چلا سکتا تھا لیکن اس وجہ سے گولی نہیں چلائی کہ مجھے اس کی فوری موت کا یقین نہیں تھا۔ شیر کو میرے تعاقب کا علم نہیں ہو سکا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ شیر کا رخ دریا کی جانب ہے تو مجھے اطمینان ہوا کہ دریا عبور کرتے شیر پر گولی چلانا آسان ہو جائے گا۔ دریا پر پہنچتے ہی واضح ہو گیا کہ شیر تیرنے کی بجائے ان پتھریلی چٹانوں کی مدد سے دریا کو عبور کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات میرے منصوبے کے مطابق تھی کہ میری جانب دریا تک جانے کے لیے 20 فٹ کی کٹائی تھی۔ جب شیر اس سے نیچے اترنے لگا تو میں دوڑ کر اونچے کنارے پر لیٹ گیا۔ +پانی میں تین چٹانیں اتنے فاصلے پر موجود تھیں کہ تیز دوڑنے والا بندہ کچھ فاصلے سے دوڑے تو اسے چھلانگ لگا کر عبور کر سکتا تھا۔ ایک بار میں نے تیندوے کو آرام سے چھلانگیں لگا کر انہیں عبور کرتے دیکھا تھا۔ جب میں نے کنارے سے سر ابھار کر دیکھا کہ شیر نے بھی پہلی چٹان آرام سے عبور کی اور دوسری پر پہنچتے ہی اس کے پیر پھسلے اور شیر سیدھا دریا میں جا گرا۔ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے مجھے یہ تو سنائی نہ دیا کہ شیر نے کیا تبصرہ کیا ہوگا لیکن میں خود عین اسی پتھر پر ایک دفعہ پھسل چکا تھا۔ اس لیے مجھے شیر کے احساسات کا علم تھا۔ دوسرے کنارے پر مختصر سا ریتلا ساحل تھا۔ وہاں پہنچ کر شیر نے جھرجھری لی اور پھر ریت میں لوٹنے لگا تاکہ اس کی خوبصورت کھال گرم ریت میں خشک ہو جائے۔ فارغ ہو کر اس نے ایک اور جھرجھری لی اور پھر اپنی منزل کو روانہ ہو گیا کہ اسے مجھ سے اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جنگل میں آپ کو محظوظ کرنے والے جانور کو نقصان پہنچانا شرافت نہیں۔ اس بار پگ خشک تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ شیر نے ان چٹانوں پر بحفاظت دریا عبور کر لیا ہے۔ +ان پتھروں کے نیچے ایک چٹان دوسرے کنارے سے نکلی ہوئی تھی جس کے نیچے پانی میں زیادہ تر مہاشیر مچھلیاں ہوتی تھیں۔ دو بار قبل بھی میں یہاں تین پاؤنڈ وزنی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔ تاہم درخت کی جھکی ہوئی ٹہنی اور مہاشیر کی احتیاط پسند طبعیت کی وجہ سے یہ کام قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ خیر، ریتلے کنارے سے آگے جا کر میں نے ڈوری پانی میں ڈالی اور اپنا پائپ نکال کر پینے لگ گیا۔ فوراً ہی مچھلی نے کانٹا نگل لیا۔ ہلکی بنسی کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ جب مچھلی کانٹا نگل کر بھاگتی ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ تاہم انتہائی احتیاط سے زور لگاتے ہوئے آپ مچھلی کو اس کی مطلوبہ پناہ گاہ تک جانے سے روک سکتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ پناہ گاہ آپ کے مخالف کنارے پر ہو۔ جہاں مچھلی نے کانٹا نگلا تھا، اس سے 30 گز نیچے درخت کی ایک جڑ نکلی ہوئی ہے۔ دو بار پہلے بھی عین اسی جگہ مچھلیاں کانٹا توڑ کر نکل گئی تھیں۔ تاہم اس بار چند انچ کی دوری سے میں مچھلی کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک بار تالاب میں پہنچنے کے بعد مچھلی محفوظ ہو گئی تھی اور کچھ دیر اسے تھکانے کے بعد میں اسے ہاتھ سے پکڑ کر کنارے پر لے آیا۔ تین پاؤنڈ کی بجائے ساڑھے تین پاؤنڈ کی یہ مچھلی نہ صرف گھر بھر کے لیے کافی رہتی بلکہ میگی جس بیمار لڑکے کی نگہداشت کر رہی تھی، اس کے لیے بھی یخنی بن جاتی۔ +بچپن میں رائفل کے حوالے سے مجھے جو مشورہ دیا گیا تھا کہ کسی بھی اہم فیصلے کے وقت عجلت نہیں کرنی چاہئے، اس لیے میں نے ہف سٹیبل کو گول مول سا پیغام بھیجنے کے بعد خوب سوچ بچار کرنے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ کالاڈھنگی ہی وائسرائے کی چھٹیوں کا بہترین مقام ہو سکتا ہے۔ برآمدے میں میگی کی بنائی چائے پینے کے دوران میں ابھی ہم اس فیصلے پر گفتگو کر رہے تھے کہ بہادر آن پہنچا۔ بہادر پیٹ کا ہلکا نہیں اس لیے میں نے اسے بتایا کہ تار میں کیا لکھا تھا۔ جب بہادر خوش ہوتا ہے تو اس کے چہرے سے صاف دکھائی دیتا ہے لیکن اس بار خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ کالاڈھنگی جیسے مقام پر وائسرائے کی آمد؟ کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ اس بارے عظیم بندوبست کرنا تھا اور خوش قسمتی سے سال کا بہترین وقت تھا جب انتظامات کرنا آسان تھے۔ فصلیں کٹ چکی تھیں اور پورے کا پورا گاؤں مدد کے لیے فارغ ہوتا۔ بعد میں جب یہ خبر پھیلی تو نہ صرف ہمارے مزارع بلکہ پورے گاؤں کے مرد ہر ممکن مدد کے لیے تیار تھے اور ان کی خوشی بہادر کی خوشی سے کم نہیں تھی۔ اس سے انہیں کوئی مالی فائدہ تو نہیں ملنا تھا لیکن ان کی محبت تھی کہ وہ اس دورے کو ہر ممکن طور پر کامیاب بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ +اگلی صبح ہلدوانی کے لیے جب میں نکلا تو ابھی اندھیرا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں فتح پور میں جیف ہاپکنز سے ملتا اور ہف سٹیبل سے بات کرنے سے قبل ان سے بھی مشورہ لیتا۔ سات میل تک سڑک جنگل سے ہی گذرتی ہے اور اس وقت اس سڑک پر میں اور جنگلی جانور ہی تھے۔ کالاڈھنگی بازار سے ایک میل دوری پر جب روشنی ہونے لگی تو میں نے گرد میں ایک نر تیندوے کے تازہ پگ دیکھے جو اسی سمت جا رہا تھا۔ ایک موڑ پر دیکھا کہ تیندوا مجھ سے دو سو گز دور تھا۔ اسے میری موجودگی کا فوراً علم ہو گیا اور میرے موڑ مڑتے ہی تیندوے نے گردن گھما کر میری جانب دیکھا۔ تاہم سڑک پر چلتے ہوئے اور وقتاً فوقتاً مڑ کر دیکھتے ہوئے تیندوا اسی طرح چلتا رہا۔ جب ہمارا درمیانی فاصلہ گھٹ کر پچاس گز رہ گیا تو تیندوے نے چھلانگ لگائی اور سڑک کنارے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ سیدھا چلتے اور سر کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کنکھیوں سے دیکھا کہ تیندوا سڑک سے محض چند گز دور دبکا بیٹھا تھا۔ سو گز دور جا کر جب میں نے سر گھما کر دیکھا تو تیندوا اب میرے پیچھے چل رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے میں محض ایک مسافر تھا اور چند سو گز آگے جا کر تیندوا ایک کھائی میں گھس گیا۔ میل بھر تک اکیلے چلنے کے بعد جنگل کے دائیں جانب سے پانچ سرخ جنگلی کتے بھاگتے ہوئے نکلے۔ سبک رفتار اور نڈر یہ جانور جنگل میں بہ آسانی گھومتے ہیں اور جب بھوک لگے تو بہترین جانور شکار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ہندوستانی سرخ جنگلی کتوں سے بہتر زندگی اور کوئی جانور نہیں گذارتا۔ +جیف اور زلا ہاپکنز ناشتا کرنے بیٹھ ہی رہے تھے کہ میں جا پہنچا۔ جب میں نے اپنے منصوبے کے بارے انہیں بتایا تو وہ بہت خوش اور پرجوش ہو گئے۔ جیف ان دنوں ترائی اور بھابھر کی ریاستوں کے جنگلات کے خصوصی افسر تھے اور ان کی مدد اور مشورے کے بغیر میں ہف کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا تھا۔ شکار کی نیت سے مجھے جنگل کے دو بلاک درکار تھے اور دونوں ہی اس وقت فارغ تھے اور جیف نے وعدہ کر لیا کہ وہ اس شکار کے لیے مختص ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمسائیہ جنگل کے داچوری بلاک کی بھی پیشکش کی جو انہوں نے اپنے شکار کے لیے الگ کیا ہوا تھا۔ شیر کے پگ دیکھنے، مہاشیر پکڑنے سے لے کر اب تک ہر چیز بہترین طریقے سے جا رہی تھی۔ جیف سے ہو کر میں سیدھا ہلدوانی کو روانہ ہو گیا۔ +ہف نے ٹھیک گیارہ بجے مجھے فون کیا اور 300 میل طویل فون لائن پر کسی مداخلت کے بغیر اگلے ایک گھنٹے تک ہم گفتگو کرتے رہے۔ اس دوران میں نے ہف کو بتایا کہ ہمالیہ کے دامن میں کالاڈھنگی نامی ایک چھوٹا سا دیہات ہے جس کے جنگلات ہر قسم کی جنگلی حیات سے بھرے ہوئے ہیں اور میرے خیال میں پورے ہندوستان میں وائسرائے کی تعطیلات کے لیے اس سے بہتر جگہ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ہف نے مجھے بتایا کہ وائسرائے کی پارٹی میں وائسرائے اور ان کی بیوی، ان کی تین بیٹیاں این، جون اور ڈورین بھی شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ وائسرائے کا ذاتی عملہ بھی ساتھ آئے گا کیونکہ چھٹی پر ہونے کے باوجود وائسرائے ہند کو روزمرہ کے دفتری امور بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ آخری بات یہ پتہ چلی کہ مجھے تمام تر انتظامات کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت ہے۔ وائسرائے کے گھریلو عملے کا سربراہ ماؤس میکسوئل دہلی سے کالاڈھنگی اپنی کار پر اگلے روز آن پہنچا۔ اس کے بعد پولیس کا سربراہ، خفیہ پولیس کا سربراہ، سول انتظامیہ کا سربراہ، محکمہ جنگلات کا سربراہ اور پتہ نہیں کون کون سے سربراہ بھی آن پہنچے۔ سب سے خوفناک وہ فوجی افسر تھا جو وائسرائے کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ ہمراہ لانے پر تیار تھا۔ +بہادر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ وائسرائے کے لیے ہمیں عظیم بندوبست کرنا ہوگا۔ تاہم کتنا عظیم، یہ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ خیر، سارا گاؤں ہی پوری طرح مدد کے لیے تیار اور آمادہ تھا، اس لیے بغیر کسی مشکل کے ہر کام پورا ہوتا چلا گیا۔ چار ہانکے ہوئے اور چار گولیوں پر چار شیر شکار ہوئے اور ان کے شکاری وہ افراد تھے جنہوں نے پہلی بار جنگل میں شیر دیکھے تھے۔ اس دورے کے آخری دن اب وائسرائے کی سب سے چھوٹی بیٹی کی باری تھی جو ابھی تک خالی ہاتھ تھی۔ اس بار ہانکا نیم دائرے کی شکل میں ہونا تھا جہاں کبھی دریائے بور گذرتا تھا۔ اس وقت یہاں کافی گھنی جھاڑیاں اور درخت موجود تھے اور جگہ جگہ نال گھاس بھی پائی جاتی تھی اور اکا دکا نارنگیوں کے جھنڈ بھی تھے۔ پرانے دریا کے کنارے درختوں پر پانچ مچان باندھے گئے تھے اور ارادہ تھا کہ شیر کو ہانک کر انہی مچانوں کی طرف بھیجا جائے۔ +لمبا چکر کاٹ کر ہم لوگ مچانوں تک پہنچے اور میں نے باری باری تمام افراد کو مچان پر بٹھایا۔ چکر کاٹنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے ہانکے اسی وجہ سے خالی جاتے ہیں کہ شکاری اسی جنگل سے گزر کر مچان کو جاتے ہیں جہاں شیر پہلے سے چھپا ہوتا ہے۔ ہانکے کے سٹاپ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جتنی دیر وہ پہلے سے مختص کردہ درختوں پر بیٹھ��ے، میں نے بہادر اور وائسرائے کے ایک اے ڈی سی پیٹر بوروک کے ساتھ شکاری پارٹی کو مچانوں پر بٹھانا شروع کر دیا۔ پہلی مچان پر میں نے این، دوسری پر وائسرائے، تیسری مچان ایک ٹنڈ منڈ جنگلی آلو بخارے کے درخت پر تھی اور میرا ارادہ تھا کہ بہادر اس پر بیٹھ کر سٹاپ کے فرائض سر انجام دے گا کیونکہ میرے خیال میں یہاں روکے جانے پر شیر بائیں جانب کا رخ کرتا اور وہاں موجود چوتھی مچان پر بنٹی ہوتی اور اس طرح وہ بھی شیر مار لیتی۔ +جس جگہ شیر چھپا ہوا تھا، وہاں سے ایک پگڈنڈی سیدھی کنارے پر چڑھ کر مچان نمبر تین کے نیچے سے گذرتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ شیر اسی راستے پر چلتا ہوا سیدھا اس مچان تک پہنچے گا جو محض چھ فٹ بلندی پر تھی، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ تجربہ کار سٹاپ کے لیے تو یہ مچان ٹھیک ہے لیکن شکاری کے لیے خطرناک ہو جائے گی۔ تاہم جب پیٹر، بہادر اور دو لڑکیوں کے ساتھ میں اس مچان تک پہنچا تو عین وقت پر نجانے کس خیال سے میں نے پروگرام بدل دیا اور بنٹی کو سرگوشی میں بتایا کہ یہ مچان اس کے لیے ہے۔ تاہم میں نے اسے ممکنہ خطرے کے بارے بھی بتا دیا اور یہ بھی کہ میں اس کے ساتھ پیٹر کو بٹھاؤں گا۔ بے جھجھک اس نے فوراً حامی بھر لی۔ میں نے زور دیا کہ ایک تو شیر پر تب تک گولی نہ چلائے جب تک شیر میرے لگائے نشان تک نہ پہنچ جائے، اور دوسرا یہ بھی کہ احتیاط سے شیر کے گلے کا نشانہ لینا ہے۔ جب اس نے دونوں باتوں کی حامی بھر لی تو پیٹر کے ساتھ مل کر میں نے اسے مچان پر بٹھایا اور پھر پیٹر کو سہارا دیا تاکہ وہ بھی مچان پر سوار ہو جائے۔ پھر اسے میں نے اپنی 400/450 بور کی ڈبل بیرل رائفل تھما دی۔ بنٹی کے پاس بھی اسی طرح کی رائفل تھی۔ پھر کنارے سے اتر کر میں نے ایک خشک لکڑی اٹھائی اور اسے ایک جگہ رکھ کر بنٹی کی طرف دیکھا تو اس نے سر ہلایا۔ +لیڈی جون، بہادر اور میں اب چوتھی مچان کی طرف بڑھے۔ یہ مچان زمین سے 20 فٹ بلندی پر تھی اور یہاں سے 30 گز دور مچان نمبر 3 صاف دکھائی دیتی تھی۔ جون کو مچان پر بٹھا کر جب میں رائفل دینے اوپر گیا تو میں نے درخواست کی کہ اگر بنٹی اور پیٹر ناکام بھی ہو جائیں تو بھی شیر مچان نمبر 3 تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ جواب ملا کہ "فکر مت کریں، پوری کوشش کروں گی"۔ کنارے پر جھاڑیاں بالکل نہیں تھیں اور اکا دکا درختوں کی وجہ سے شیر جب جنگل سے نکلتا تو کم از کم 60 گز تک دونوں مچانوں کے بالکل سامنے رہتا۔ مجھے پوری امید تھی کہ بنٹی اسے مار لے گی۔ بہادر کو پانچویں مچان پر بٹھانے کے بعد لمبا چکر کاٹ کر میں پھر دریائے بور پہنچ گیا۔ +جہاں میں نے مہاشیر پکڑی تھی، اس تالاب کے کنارے 16 ہاتھی جمع تھے جو ہانکے کے کام آتے۔ ان کی نگرانی موہن کر رہا تھا جو میرا پرانا دوست ہے اور 30 سال تک ونڈہم کا میرِ شکار رہ چکا ہے۔ ہندوستان بھر میں اس سے زیادہ شیروں کے بارے کوئی نہیں جانتا۔ موہن میرا منتظر تھا اور جونہی میں نے جنگل سے نکل کر ہیٹ لہرایا، موہن نے ہانکا شروع کرا دیا۔ پتھروں سے اٹے جنگل میں ہاتھیوں کو چوتھائی میل کا فاصلہ طے کرتے کرتے کافی وقت لگا اور اس دوران میں پتھر پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ پیتے جتنا سوچا، میری پریشانی اتنا ہی بڑھتی گئی۔ زندگی میں پہلی بار میں نے کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالا تھا۔ کالاڈھنگی آنے سے قبل لارڈ لِن لتھ گو نے مجھ سے کہا تھا کہ اصول و ضوابط واضح کر دوں۔ ہر فرد نے ان اصولوں پر پوری طرح عمل کیا تھا اور اگرچہ ہم جنگل میں کیمپ لگائے ہوئے تھے اور شکار کے سلسلے میں دور دور تک گئے تھے لیکن ابھی تک کسی کو خراش تک نہ پہنچی تھی۔ اب آخری دن میں نے ایک غلطی کر دی تھی جبکہ ہر کوئی مجھ پر اندھا اعتبار کرتا تھا۔ ہلکی سی مچان پر جو زمین سے بمشکل چھ فٹ اونچی تھی، پر میں نے ایک کم عمر بچی کو بٹھا دیا تھا جبکہ عام حالات میں میں نے کبھی بھی کسی کو نہ بیٹھنے دیا ہوتا اور اس جگہ سے اس نے سیدھے اپنی طرف آتے شیر پر گولی چلانی تھی جو بذاتِ خود انتہائی خطرناک فعل ہے۔ مجھے ان کی بہادری پر کوئی شبہ نہیں تھا کیونکہ میرے انتباہ کے باوجود اس نے بنا جھجھکے مچان پر بیٹھنے کی حامی بھر لی تھی۔ تاہم محض بہادری سے کام نہیں چلنا تھا بلکہ نشانے کی درستی بھی اہم تھی اور مجھے ان کے نشانے کا بالکل بھی علم نہیں تھا۔ ابھی میں اسی تذبذب میں تھا کہ آیا ہانکا روک دوں یا چلنے دوں کہ موہن میرے پاس آیا۔ میری بات سن کر اس نے ایک لمحے کو سانس روک کر آنکھیں بھینچیں اور پھر آنکھیں کھول کر بولا کہ "مت گھبراؤ صاحب۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" +مہاوتوں کو بلا کر میں نے انہیں بتایا کہ شیر کو خوفزدہ کئے بنا نکالنا ہے۔ اس لیے کنارے پر پہنچ کر سب ایک سیدھی قطار میں رک جائیں اور میرے اشارے پر عمل کریں۔ جب میں اپنا ہیٹ اتاروں تو سارے ایک نعرہ لگا کر تالیاں بجانے لگ جائیں۔ جب میں ہیٹ پہن لوں تو پھر خاموش ہو جائیں۔ وقفے وقفے سے یہی عمل دہرایا جائے گا جب تک شیر حرکت نہ کرے۔ اگر پھر بھی کامیابی نہ ہو تو میں آگے بڑھنے کا اشارہ دوں گا اور انتہائی خاموشی اور آہستگی سے آگے بڑھنا ہے۔ پہلے نعرے کے دو فائدے ہوتے، اول تو یہ کہ شیر جاگ جاتا، دوسرا یہ کہ مچانوں پر بیٹھے شکاریوں کو اطلاع ہو جاتی۔ +ہانکے کا میدان 300 گز چوڑا اور 500 گز لمبا تھا اور جب سارے ہاتھی میرے دائیں بائیں قطار میں کھڑے ہوگئے تو میں نے ہیٹ اتار کر لہرایا۔ نعرہ لگا کر سب نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ تین یا چار منٹ بعد میں نے ہیٹ سر پر رکھ دیا۔ اس قطعے میں سانبھر، کاکڑ، چیتل، مور اور جنگلی مرغ بکثرت تھے اور میں ان کی آواز سننے کے لیے بے چین تھا مگر خاموشی رہی۔ پانچ منٹ بعد ہم نے پھر ایک یا دو منٹ کے لیے تالیاں بجائیں کہ رائفل کی آواز آئی۔ میں نے بے چینی سے سیکنڈ گننے شروع کر دیے کہ ہانکے میں رائفل چلنے کے درمیانی وقفے سے بہت کچھ پتہ چل سکتا ہے۔ پانچ سیکنڈ بعد یکے بعد دیگر دو بار رائفل چلی۔ چار سیکنڈ بعد پھر ایک رائفل چلی۔ پہلی اور چوتھی گولی جس رائفل سے چلی، اس کا رخ میری جانب تھا جبکہ دوسری اور تیسری گولی جس رائفل سے چلی، اس کا رخ میری جانب نہیں تھا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ گڑبڑ ہو چکی اور جون کو گولیاں چلانی پڑی تھیں۔ وائسرائے کی مچان سے بنٹی کی مچان دکھائی نہیں دیتی تھی۔ +دھڑکتے دل اور واہموں کو دباتے ہوئے میں نے موہن کو ہانکے کی نگرانی سونپی اور اجمت سے کہا کہ سیدھا مچانوں کی طرف ہاتھی دوڑائے۔ اجمت ونڈہم کا تربیت یافتہ، انتہائی نڈر اور بہترین انسان تھا اور اس کا ہاتھی بھی اسی کی مانند نڈر۔ خاردار جھاڑیاں، بڑے پتھر، غیر ہموار زمین، جھکی شاخوں کی پروا کئے بغیر ہم سیدھا آگے بڑھے۔ جب ہمارے سامنے بارہ فٹ اونچی نال گھاس کا قطعہ آیا تو ہتھنی جھجھک کر پھر آگے بڑھی۔ اجمت نے مڑ کر سرگوشی کی کہ "ہتھنی کو شیر کی بو آ رہی ہے۔ آپ خبردار ہو کر بیٹھیں کہ آپ نہتے ہیں۔" سو گز کا فاصلہ رہ گیا تھا اور ابھی تک مچانوں کی طرف خاموشی تھی۔ اگرچہ میں نے ہر شکاری کو ایک سیٹی دی ہوئی تھی کہ مدد درکار ہو تو سیٹی بجا دیں۔ تاہم سیٹی کی آواز آنا کوئی ب��ی بات نہیں تھی کہ عجلت اور گھبراہٹ میں مچان سے اس سے بڑی چیزیں بھی گر جاتی ہیں۔ جب درختوں کے درمیان میں سے جون کی مچان دکھائی دی تو مجھے بہت سکون ہوا کہ وہ مچان پر آرام سے بیٹھی تھیں اور رائفل ان کے گھٹنوں پر رکھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اشارہ کیا کہ "بہت بڑا شیر ہے" اور پھر انہوں نے بنٹی کی مچان کے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔ +بقیہ کہانی مجھے جلد ہی پتہ چلی اور آج بھی، پندرہ برس گذرنے کے بعد بھی اس کی یاد سے میرے دل کی دھڑکن لمحے بھر کو رک جاتی ہے۔ اگر تین نوجوانوں کی ہمت اور ان کا نشانہ ساتھ نہ دیتا تو انجام سانحہ ہوتا۔ +ہمارے نعرے اور تالیوں کی مدہم آواز مچانوں تک آئی تھی۔ ہماری خاموشی کے بعد شیر جنگل سے نکلا اور آہستہ آہستہ پگڈنڈی پر چلتا ہوا آگے کو بڑھا۔ جب وہ کنارے پر پہنچا تو ہماری طرف سے دوبارہ شور ہوا تو شیر نے رک کر سر موڑ کر ہماری سمت دیکھا اور خطرہ نہ پا کر ایک یا دو منٹ کو رک کر پھر کنارے پر چڑھا۔ جب شیر میری رکھی ہوئی لکڑی پر پہنچا تو بنٹی نے شیر کے سینے پر گولی چلائی کہ اس وقت شیر کا سر نیچے کو تھا اور گلا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گولی چلتے ہی شیر نے اتنی تیزی سے مچان پر حملہ کیا کہ بنٹی یا پیٹر کو دوسری گولی چلانے کا موقع نہ مل سکا۔ جب یہ کمزور سی مچان شیر کے حملے سے کانپ رہی تھی اور پیٹر اور بنٹی شیر پر گولی چلانے کی تگ و دو میں تھے تو تیس گز دور سے جون نے شیر پر گولی چلائی۔ جب شیر نیچے گرا تو انہوں نے دوسری گولی بھی چلائی۔ اب شیر کا رخ جنگل کی طرف ہو گیا کہ وہ شاید پناہ لینا چاہ رہا تھا۔ اسی وقت بنٹی نے شیر کی گُدی میں گولی اتار دی۔ +یہ تھا وائسرائے کا کالاڈھنگی کا پہلا دورہ، تاہم یہ آخری نہیں تھا۔ ان کے دیگر تمام دوروں پر مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی کہ میں نے اس حماقت کو کبھی نہیں دہرایا۔ + + +نومبر سے مارچ تک ہمالیہ کے دامن میں موسم کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی اور ان میں فروری سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔ فروری میں آب و ہوا انتہائی خوشگوار ہوتی ہے اور پرندے جو اونچے پہاڑوں سے موسم سرما کی شدت سے بچنے اور خوراک کی تلاش میں نیچے آئے ہوئے ہوتے ہیں، ابھی تک واپس نہیں گئے ہوتے۔ خزاں اور سرما میں ٹنڈ منڈ درختوں پر اب نئے سرے سے کونپلیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں جو سبز یا گلابی رنگوں کی ہوتی ہیں۔ فروری کے مہینے میں بہار ہر طرف اور ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ چاہے شمالی پہاڑ ہوں یا جنوبی میدان یا پہاڑوں کا دامن، ہر جگہ بہار راتوں رات آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ رات کو بندہ جب سونے لگتا ہے تو سردیاں چل رہی ہوتی ہیں اور صبح بیدار ہوتے ہی بہار دکھائی دیتی ہے اور ہر جاندار بہار کی آمد کی خوشی مناتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر جاندار کو پتہ چل چکا ہوتا ہے کہ آنے والا وقت کتنا خوشگوار ہوگا کہ ڈھیر ساری خوراک، افزائش نسل اور حدت ان کی منتظر ہوتی ہے۔ مہاجر پرندے چھوٹے چھوٹے غولوں میں شامل ہونے لگتے ہیں جو آگے بڑے غولوں میں مل جائیں گے اور کسی خاص دن اپنے رہنما کے اشارے پر ہر غول شمال کے اونچے پہاڑوں کا رخ کرے گا۔ ان پرندوں میں کبوتر، طوطے، چڑیاں اور مینائیں سبھی شامل ہوتی ہیں۔ ان میں پھل اور پھول کھانے والے پرندے بھی اور حشرات اور پتنگے کھانے والے پرندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنے لیے جوڑے چن کر مخصوص جگہ پر جا کر گھونسلا بناتا اور افزائش نسل کا کام کرتا ہے۔ اس طرح پرندوں کی دنیا میں ہر روز ایک میلے کی مانند ہوتا ہے جو سورج نکلنے سے سورج ڈوبنے تک لگاتار جاری رہتا ہے۔ اس میلے میں شکاری پرندے بھی حصہ لیتے ہیں۔ سب سے اونچا اڑنے والا سرپنٹ ایگل یعنی سانپ کھانے والا عقاب ہوتا ہے جو اڑتے ہوئے آسمان پر بمشکل دکھائی دیتا ہے البتہ اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ +ایک دن جب میں وسط ہند میں فوجیوں کو جنگل میں لڑائی کی تربیت دے رہا تھا تو ان میں سے کئی پرندوں کے شوقین بھی تھے۔ ہمارے اوپر ایک سرپنٹ ایگل انتہائی بلندی پر اڑ رہا تھا۔ ان فوجیوں میں پورے برطانیہ سے آئے ہوئے رنگروٹ شامل تھے جو برما جانے والے تھے۔ کسی نے بھی سرپنٹ ایگل نہیں دیکھا تھا۔ جب ہم کھلے میدان میں پہنچے تو میں نے انہیں آسمان پر اڑتے دھبے کی طرف متوجہ کیا۔ اگرچہ سب کے پاس دوربینیں تھیں لیکن سب افسوس کر رہے تھے کہ عقاب اتنی بلندی پر ہے کہ اسے پوری طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔ انہیں خاموشی سے ایک جگہ رکنے کا کہہ کر میں نے تین انچ لمبی سیٹی پر ایک آواز نکالی۔ یہ سیٹی ایک جنگلی پودے کے تنے سے بنی تھی جس کے ایک سرے پر شگاف تھا۔ اس سے نکلنے والی آواز مرتے ہوئے ہرن کی آواز سے مشابہہ لیکن اس سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ میں اسے جنگل میں تربیت کے دوران میں استعمال کرتا تھا کیونکہ یہ واحد قدرتی آواز ہے جو دن ہو یا رات، جنگلوں میں کہیں بھی سنائی دے سکتی ہے اور اس بات کے کم امکانات ہوتے ہیں کہ دشمن اس سے خبردار ہو۔ اگرچہ یہ عقاب سانپ کھاتا ہے لیکن اسے دوسرے گوشت سے بھی رغبت ہوتی ہے۔ میری آواز سنتے ہی عقاب نے خاموش ہو کر پر سمیٹے اور چند سو فٹ نیچے کا رخ کیا اور پھر چکر کاٹنے شروع کر دیے۔ ہر بار میری آواز پر یہ عقاب نیچے آتا گیا اور آخرکار درخت کی پھننگ جتنی بلندی پر پہنچا تو سب فوجیوں نے اسے پورے اطمینان سے دیکھا۔ اگر اس جماعت کا کوئی فرد برما سے بخیریت واپس آیا ہو اور ابھی یہ کتاب پڑھ رہا ہو تو اسے یاد ہوگا کہ انہیں اس بات پر کتنی مایوسی ہوئی تھی کہ میں عقاب کو کسی درخت پر بٹھانے میں ناکام رہا تھا ورنہ وہ تصویر کھینچ لیتے۔ خیر، اس بات کو بھول کر اب ہم جنگل کی دیگر دلچسپیوں کو دیکھتے ہیں۔ +اس جنگل والے واقعے کے بعد آپ کی معلومات میں اب تک خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہوگا۔ اپنے بچاؤ کے احساس نے آپ کو بتایا ہوگا کہ انسانی آنکھ 180 ڈگری تک دیکھ سکتی ہے۔ پہلے کسی آواز کو سن کر اس کے ماخذ کا اندازا لگانا کتنا مشکل ہوتا تھا اور اب آپ کے لیے بچوں کا کھیل ہوگی۔ اس کے علاوہ آپ کسی پھول کی خوشبو سے اس کو جان سکتے ہیں چاہے وہ پھول درخت کی چوٹی پر ہو یا جنگل میں کچھ فاصلے پر پوشیدہ ہو۔ چاہے آپ جتنا بھی سیکھ چکے ہوں اور اس سے خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا تحفظ کرتے ہوں، پھر بھی بہت کچھ سیکھنے کو ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ آئیے ابھی علم میں تھوڑا سا مزید اضافہ کرتے ہیں۔ +ہماری زمینوں کی شمالی حد پر سے گذرنے والی نہر جہاں لڑکیاں نہانے جاتی تھیں، ایک کھالے کی شکل میں پرانے دریا سے گذرتی ہے۔ اسے بجلی دنت یعنی بجلی والی نہر کہتے ہیں۔ سر ہنری ریمزے کی بنوائی ہوئی اصل نہر تو کئی برس قبل آسمانی بجلی گرنے سے تباہ ہو گئی تھی۔ چونکہ لوگوں کی توہم پرستی کے مطابق کسی جگہ آسمانی بجلی تبھی گرتی ہے جب کوئی شیطانی روح سانپ کی شکل میں اسے اپنی جانب بلائے، اس لیے پرانی نہر کے ستون وغیرہ کو چھوڑ کر اس کے ساتھ نئی نہر بنائی گئی جو نصف صدی سے ٹھیک جا رہی ہے۔ ہمارے دیہات کو آنے والے جنگلی جانور جو پانی سے گزرنا پسند نہیں کرتے، اس دس فٹ چوڑی نہر کے نیچے سے گذرتے ہیں۔ آئیے اسی جگہ سے چہل قدمی شروع کرتے ہیں۔ +نہر کے نیچے ریت پر خرگوش، کاکڑ، سور، سیہی، لگڑبگڑ اور گیدڑ کے پگ ہیں۔ تاہم ہم صرف سیہی پر توجہ دیں گے۔ چونکہ ان پر ریت نہیں موجود، اس لیے یہ نشان اس وقت بنے جب رات کو ہوا تہم جاتی ہے۔ ہر پگ پر 5 انگلیاں اور ہتھیلی کا نشان واضح ہے۔ چونکہ سیہی دوسرے جانوروں کو شکار نہیں کرتی، اس لیے اس کے پچھلے پنجے اگلے پنجوں کے نشان کے اوپر نہیں پڑتے۔ ہر انگلی کے آگے ایک چھوٹا سا سوراخ دکھائی دیتا ہے جو سیہی کے مضبوط ناخن سے بنا ہے۔ سیہی کے پچھلے پیر نسبتاً لمبے ہوتے ہیں۔ تاہم ریچھ کے برعکس سیہی کے پچھلے پیر کی ایڑی پر کم لکیریں ہوتی ہیں۔ تاہم سیہی کے پچھلے پیر کی لکیریں دوسرے جانوروں سے فرق ہوتی ہیں۔ اگر آپ ریت پر جھک کر دیکھیں تو پگ کے پیچھے آپ کو سیہی کے کانٹوں سے بنی پتلی پتلی متوازی لکیریں بھی دکھائی دیں گی۔ سیہی اپنے کانٹے نہ تو پھینک سکتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے جھاڑ سکتی ہے، اس لیے دفاع کے وقت سیہی اپنے کانٹے کھڑے کر کے پیچھے کو بھاگتی ہے۔ سیہی کے کانٹے خاردار ہوتے ہیں اور دم پر موجود کانٹے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ انہی کانٹوں کو کھڑکھڑا کر سیہی اپنے دشمنوں کو ڈراتی ہے اور انہیں پانی میں ڈبو کر بھرنے کے بعد سیہی اپنے بل تک پانی لے جاتی ہے تاکہ اسے ٹھنڈا کر کے مٹی سے پاک رکھے۔ سیہی عموماً سبزی خور ہوتی ہے اور پھلوں، جڑوں اور فصلوں پر گذارا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہرنوں کے اتارے ہوئے یا جنگلی کتوں، تیندوؤں اور شیر کے مارے ہوئے ہرنوں کے سینگ بھی کھاتی ہے۔ شاید اس سے اسے کوئی ایسے غذائی اجزاء ملتے ہوں جو وہ عام طور پر نہیں کھا پاتی۔ چھوٹی جسامت کے باوجود سیہی انتہائی بہادر ہوتی ہے اور ہر صورت اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ +نہر سے چند سو گز آگے تک یہ گذرگاہ پتھریلی ہے اور کسی قسم کے پگ مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم آگے چل کر باریک مٹی کا ایک میدان آتا ہے جہاں ہمیں پھر پگ دکھائی دیں گے۔ اس جگہ راستے کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں موجود ہیں جہاں سور، مور، ہرن اور جنگلی مرغ دن کے وقت چھپے ہوتے ہیں اور رات کو تیندوے، شیر اور سیہی خوراک کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ دن کے وقت آپ یہاں جنگلی مرغیوں کو چگتے دیکھ سکتے ہیں اور ان سے سو گز دور ان کا جانی دشمن عقاب سیمل کے ٹنڈمنڈ درخت پر بیٹھا ہے۔ یہ عقاب نہ صرف جنگلی مرغیوں بلکہ موروں کا بھی دشمن ہے۔ تاہم جنگل میں چوزوں اور بڑی عمر کے پرندوں کی تعداد میں یکسانیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پرندے اپنا بچاؤ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے کبھی ان پرندوں کے شکار میں مداخلت نہیں کی۔ تاہم ایک دن میں نے ہرن کی چیخ سنی تو دیکھا کہ ایک ماہ کی عمر کا چیتل کا بچہ عقاب کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور عقاب اس کے سر پر ٹھونگے مار رہا تھا۔ بچے کی ماں بار بار حملہ کر رہی تھی لیکن اس کے منہ پر لگے زخموں سے اندازا ہو رہا تھا کہ عقاب اس کے بس کی بات نہیں۔ اگرچہ عقاب کو تو میں نے مار دیا لیکن بچے کو بچانا بھی ممکن نہیں تھا کہ کیونکہ نہ صرف وہ بہت زخمی تھا بلکہ اس کی دونوں آنکھیں بھی عقاب نے نوچ لی تھیں۔ اس لیے بچے کو بھی مارنا پڑا۔ اس دن کے بعد سے کئی بار یہ عقاب میرے ہاتھوں شکار ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کے اتنا پاس پہنچنا مشکل ہوتا ہے کہ بندوق سے مارا جا سکے لیکن رائفل پر اچھا نشانہ ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم ابھی ہم چونکہ سیر پر نکلے ہیں، اس لیے اس عقاب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ میرے غلیل سے شکار والے دنوں میں میں نے اس نسل ک�� عقاب کی ایک خونخوار لڑائی دیکھی تھی۔ شاید عقاب نے غلطی سے ایک جنگلی بلی کو خرگوش سمجھ کر حملہ کیا تھا۔ پھر یہ جدوجہد زندگی اور موت کی جنگ بن گئی۔ بدقسمتی سے اس وقت تصویر کشی محض سٹوڈیو تک محدود رہتی تھی اور وڈیو بنانا ممکن نہیں تھا، ورنہ اس جنگ کی بہترین وڈیو بنتی۔ دونوں کے پاس اس جنگ جیتنے کے بہترین ہتھیار تھے۔ اگر بلی کی نو زندگیاں ہوتی ہیں تو عقاب کے پاس دس زندگیاں۔ اس لڑائی کا اختتام بھی کچھ ایسے ہی ہوا۔ آخرکار عقاب لڑائی جیت گیا اور دریا پر بنے ایک تالاب سے اپنی پیاس بجھانے کے بعد اس نے اپنی جان دے دی۔ +ان خاردار جھاڑیوں سے کئی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔ جتنی دیر ہم عقاب کو دیکھتے رہے، ایک چھوٹا کاکڑ ان جھاڑیوں سے نکلا اور آبی گذرگاہ کو روانہ ہوا۔ اس کھلی جگہ پر بھی کھروں کے بل چلتا ہوا کاکڑ ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کو تیار تھا اور خطرہ دیکھتے، سنتے یا بھانپتے دوڑ پڑتا۔ بعض اوقات شکاری کاکڑ کو کمینہ اور بزدل جانور گردانتے ہیں اور اس کی آواز پر بھروسا نہیں کرتے۔ میں اس بارے ان شکاریوں سے اختلاف کرتا ہوں۔ ویسے بھی کمینگی خالص انسانی برائی ہے اور یہ بھی کہ انتہائی گھنے جنگل میں کاکڑ کی نسبت اور کوئی جانور شیروں کے قریب نہیں رہتا۔ جنگل میں پیدل شکار کرنے کے لیے کاکڑ سے بہتر مخبر کوئی نہیں۔ چھوٹا اور بے ضرر ہونے کی وجہ سے اس کے بے شمار دشمن ہیں۔ اگر ہانکے میں شیر کی بجائے جنگلی بلی یا اژدہے کو بھی دیکھ کر یہ کاکڑ بھونکے تو ہمیں اس پر ترس کھانا چاہیے نہ کہ اسے بزدل اور کمینہ گردانیں۔ اس کے لیے اژدہا اور جنگلی بلی بھی جانی دشمن ہیں اور انہیں دیکھ کر بھونکنا اس کی مجبوری ہے۔ +کاکڑ کے دو لمبے اور تیز دانت بالائی جبڑے سے باہر نکلے ہوتے ہیں جو کاکڑ کے دفاع کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس کے سینگ مڑے ہوئے اور چھوٹے ہوتے ہیں اور دفاع میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ہندوستانی اخبارات میں کافی عرصہ کاکڑ کی اس آواز پر بحث چلتی رہی جو دو ہڈیوں کے ٹکرانے سے مشابہہ ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ مانتے تھے کہ کاکڑ کی ٹانگوں میں دہرے جوڑ ہوتے ہیں اور بھاگتے ہوئے یہ آواز نکلتی ہے جبکہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی وجہ سے اس کے لمبے دانت دیگر دانتوں سے ٹکرا کر یہ آواز نکالتے ہیں۔ تاہم یہ سارے خیالات غلط ہیں۔ یہ آواز کاکڑ اسی طرح نکالتا ہے جیسے دیگر آوازیں، چاہے یہ آواز کسی انجانی چیز کو دیکھنے پر ہو، کتے کو دیکھ کر یا اپنے جوڑے کے ساتھ ہو۔ خطرے کے وقت کاکڑ کی آواز اوسط جسامت کے کتے کے بھونکنے سے مشابہہ ہوتی ہے۔ +جتنی دیر کاکڑ یہ راستہ عبور کرتا، ہمارے دائیں جانب سے پھل اور کیڑے کھانے والے پرندوں کا ایک جھنڈ آن پہنچا۔ اس جھنڈ میں مقامی اور مہاجر، دونوں ہی اقسام شامل تھیں۔ جتنی دیر یہ ہمارے اوپر اڑتے اور آس پاس درختوں پر بیٹھتے رہے، مشاہدے کا عمدہ موقع تھا۔ جب پرندے بالکل قریب نہ ہوں تو ان کے بیٹھنے پر ان کی شناخت یا رنگوں کی پہچان میں اکثر مسئلہ ہوتا ہے۔ تاہم اڑتے ہوئے پرندوں کی شناخت بہت آسان ہوتی ہے جو پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور ان کی شکل پر منحصر ہوتی ہے۔ چہچہاتے اور شور مچاتے پرندے آن پہنچے۔ کچھ اقسام کے پرندے ایسی جگہوں پر بیٹھ گئے جہاں وہ دیگر پرندوں کی چھیڑ چھاڑ سے اڑنے والے پتنگے بخوبی دیکھ سکتے تھے اور بار بار اڑ کر اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ +دو تین سو پرندے ہوں گے۔ خیر، یہ سارے پرندے اب ہمارے بائیں جانب جنگل میں گم ہو گئے ہیں اور اب ہمیں محض جنگلی مرغیوں کے دانا دنکا چگنے کی آوازیں آ رہی ہیں اور واحد پرندہ جو دکھائی دے رہا ہے، وہ سیمل کے درخت پر بیٹھا عقاب ہے جو انتہائی صابر اور شاکر پرندہ ہوتا ہے۔ +خاردار جھاڑیوں کے پرے پارک نما منظر ہے اور جنگلی آلو بخارے کے بڑے بڑے درخت ہیں۔ اس سمت سے ہمیں سرخ بندروں کی خطرے کی آواز آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیندوا دکھائی دیا ہے۔ اس طرح کھلے میں پھرنے کی وجہ شاید یہ ہو کہ تیندوا شکار کی تلاش میں نہیں بلکہ دن کا گرم وقت گذارے کسی کھائی کو جا رہا ہے۔ آلو بخارے کے درختوں کے پاس گذرنے والی پگڈنڈی انسانوں اور جانوروں، دونوں کے استعمال میں ہے۔ ہمارے موجودہ مقام سے دو سو گز دور یہ راستہ اس آبی گذرگاہ سے گذرتا ہے اور میں تقریباً یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قدم بڑھا کر ڈیڑھ سو گز دور بائیں جانب چھپ کر بیٹھ جائیں تو تیندوا لازمی دکھائی دے جائے گا۔ آبی گذرگاہ پچاس گز چوڑی ہے اور بائیں جانب کے کنارے پر گھنے درختوں پر لنگور موجود ہیں۔ سرخ بندروں کی طرف سے خطرے کی اطلاع سن کر سب لنگوروں نے اپنے بچوں چھپا لیے ہیں اور ان کی آنکھیں اسی جانب ہیں جہاں سے خطرے کی اطلاع آئی تھی۔ +ہمیں تیندوے کے انتظار میں آنکھیں تھکانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ چھوٹا لنگور جو درخت پر سب سے نمایاں جگہ پر بیٹھا ہے، ہمیں تیندوے کی آمد کی خبر دے گا۔ سرخ بندروں کی نسبت لنگور تیندوے کو دیکھنے پر مختلف ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ان کا منظم ہونا یا پھر بہادری ہو۔ سرخ بندر ہمیشہ تیندوے کو دیکھتے ہی شور مچاتے اور چیختے ہوئے درختوں پر ہر ممکن حد تک تیندوے کا پیچھا کرتے ہیں۔ تاہم لنگوروں ایسا کچھ نہیں کرتے۔ جب چھوٹا لنگور تیندوے کو دیکھتا ہے تو "کھوک، کھوک، کھوک" کی آواز نکالتا ہے۔ جب غول کا سربراہ چھوٹے لنگور کی مدد سے تیندوے کو دیکھ لیتا ہے تو خطرے کی آواز خود نکالتا ہے جبکہ چھوٹا لنگور چپ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد صرف سربراہ اور غول کی سب سے بوڑھی مادہ ہی آواز نکالے ہیں۔ بوڑھی مادہ کی آواز چھینک سے مشابہہ ہوتی ہے اور تیندوے کا پیچھا نہیں کیا جاتا۔ اب آپ دیکھیں کہ چھوٹا لنگور گردن بڑھا کر مختلف سمتوں میں دیکھ رہا ہے۔ جب اس نے تیندوے کو دیکھ لیا تو پھر بھونکتا ہے۔ ایک دو ساتھی بھی جوش کے مارے آواز نکالتے ہیں۔ اتنی دیر میں سربراہ بھی تیندوے کو دیکھ لیتا ہے اور شور کرتا ہے۔ اگلے ہی لمحے بوڑھی مادہ بھی شامل ہو جاتی ہے جو "چھ، چھ، چھ" چھینک سے مماثل ہے۔ سارے چھوٹے لنگور اب چپ ہو کر محض سر ہلانے اور مختلف شکلیں بنانے میں مصروف ہیں۔ تاہم انہیں یہ تسلی ہے کہ تیندوا بھوکا نہیں، ورنہ اس طرح کھلے میں نہ دکھائی دیتا بلکہ چھپ کر ان تک پہنچتا۔ چست اور نسبتاً وزنی ہونے کی وجہ سے تیندوے کو لنگور پکڑنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی۔ سرخ لنگور ہمیشہ شاخوں کے انتہائی سرے پر آرام کرتے ہیں جہاں تیندوے کو اپنے وزن کی وجہ سے جاتے ہوئے جھجھک ہوتی ہے۔ +پچاس گز دور، سر اٹھا کر شان سے چلتے ہوئے تیندوا لنگوروں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا۔ سورج اس کے پیچھے چمک رہا ہے اور اس کی کھال پر موجود چتیاں دلفریب دکھائی دیتی ہیں۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے ایک بار دائیں اور بائیں دیکھا اور ہمیں نہ دیکھ سکا اور آرام سے چلتا گیا۔ دوسرے کنارے پر چڑھ کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا لیکن لنگوروں نے خطرے کی آواز سے جنگل کو آگاہی دینے کا کام جاری رکھا۔ +آئیے تیندوے کے پگ دیکھتے ہیں۔ تھوڑی دور پگڈنڈی سرخ مٹی سے گذرتی ہے جو ننگے انسانی پیروں تلے خوب سخت ہو چکی ہے۔ اس مٹی پر گرد کی ہلکی سی تہہ موجود ہے۔ فرض کر لیں کہ ہم نے تیندوے کو گذرتے نہیں دیکھا اور اتفاق سے ہم تیندوے کے پگ پر آن پہنچے ہیں۔ دیکھتے ہی ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ پگ بالکل تازہ ہیں اور تیندوا ابھی ابھی یہاں سے گذرا ہے۔ تازہ ہونے کے بارے ہمیں اس طرح پتہ چلا ہے کہ پگ کے کنارے بالکل سیدھے کھڑے ہیں اور تلوے والی جگہ مسطح ہے۔ جوں جوں وقت گذرتا جائے گا، سورج کی روشنی اور ہوا کی وجہ سے پگوں کے کنارے ٹوٹے جائیں گے۔ کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں بھی پگ سے گذریں گی اور ہوا سے مٹی بھی اس پر آن گرے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ نشان مٹ جائیں گے۔ تیندوے، شیر، سانپ یا ہرن وغیرہ کے پگ سے ان کی "عمر" کا اندازا لگانے کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ تاہم چند باتیں اہم ہوتی ہیں جیسا کہ آیا پگ کسی پوشیدہ جگہ پر ہیں کہ کھلےمیں، دن اور رات کو کون کون سے کیڑے مکوڑے کس وقت حرکت کرتے ہیں، ہوا کے چلنے کے عام اوقات کیا ہیں، شبنم کس وقت گرتی ہے وغیرہ وغیرہ کی مدد سے ہمیں تقریباً درست اندازا ہو سکتا ہے کہ یہ پگ کتنے پرانے ہیں۔ ابھی ہم نے پگ دیکھ کر اس کے تازہ ہونے کے بارے اطمینان کر لیا ہے۔ تاہم پگ سے اور بھی کئی معلومات پتہ چل سکتی ہیں، جیسا کہ یہ تیندوا نر تھا یا مادہ، نوجوان تھا کہ بوڑھا اور یہ بھی کہ آیا چھوٹی جسامت کا حامل تھا کہ بڑی جسامت کا۔ پگ کی گول شکل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ پگ نر تیندوے کے ہیں۔ پنجے کے تلوے پر کسی قسم کی سلوٹوں اور لکیروں کے نہ ہونے سے ہمیں تسلی ہو گئی کہ یہ تیندوا نوجوان ہے۔ جسامت کے بارے ہم محض اندازا ہی لگا سکتے ہیں اور اندازے کے لیے ہمارے پاس مشاہدہ اور تجربہ ہونا چاہیے۔ تجربے اور مشاہدے سے آپ تیندوے یا شیر کی لمبائی کے بارے اس حد تک درست اندازا لگا سکتے ہیں جو ایک یا دو انچ ہی غلط ہوگا۔ مرزا پور کے کول لوگوں سے شیر کے پگ دکھا کر جب شیر کی لمبائی پوچھی جائے تو وہ گھاس کا ایک تنکا لے کر پگ کی پیمائش کرتے ہیں اور پھر تنکا زمین پر رکھ کر اپنی انگلیوں کی چوڑائی سے ماپتے ہیں۔ تاہم اس پیمائش کی درستی کے بارے میں کچھ کہنے سے معذور ہوں۔ میں خود پگ کی شکل سے ہی اندازا لگاتا ہوں چاہے جو بھی طریقہ آزمایا جائے، اندازا اندازا ہی رہتا ہے، سو فیصد یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ +جہاں راستہ نالے سے گذرتا ہے اس سے تھوڑا آگے جا کر راستہ ریت کی تنگ سی پٹی سے گذرتا ہے اور اس کے ایک جانب اونچا کنارہ جبکہ دوسری جانب چٹان ہے۔ اس جگہ ریت سے چیتل کا غول گذرا ہے۔ جنگل میں کسی غول کے جانوروں کی کل تعداد اور اس کے مختلف اراکین کے بارے دیگر معلومات جاننا کافی مفید ہوتا ہے اور اگلی بار جب آپ اس غول کو دیکھتے ہیں تو آپ اس کے اراکین کے بارے زیادہ جان سکتے ہیں۔ اگر غول کھلے میدان میں ہو تو آپ ان کے نروں کے سینگوں کی لمبائی، مادہ اور بچوں کی تعداد کے بارے اچھا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر کبھی ایسا ہو کہ کچھ جانور تو سامنے ہوں اور کچھ جنگل یا جھاڑیوں میں چھپے ہوں تو ان سب کو سامنے لانے کا ایک طریقہ بتاتا ہوں جو دس میں سے نو بار کامیاب رہتا ہے۔ چیتلوں سے مناسب فاصلے پر پہنچ کر کہ جہاں سے آپ کی آواز جا سکے، کسی درخت یا جھاڑی کے پیچھے چھپ کر تیندوے کی آواز نکالیں۔ سارے ہی جانور آواز کے ماخذ کو فوراً جان لیتے ہیں۔ جب سامنے موجود چیتل آپ کی سمت دیکھنے لگیں تو درخت کے تنے کے پیچھے سے اپنا کندھا نکال کر یا جھاڑی کے کچھ پتوں کو ہلائیں تو چیتل فوراً خطرے کی آواز نکالے گا اور فور��ً ہی اس کے ساتھی جھاڑیوں سے نکل کر دائیں بائیں جمع ہو کر آپ کی طرف دیکھنے لگیں گے۔ اس طرح ایک بار میں نے پچاس چیتل ایک ساتھ دیکھے اور آرام سے ان کی تصاویر اور وڈیو لی تھی۔ تاہم ایک ضروری احتیاط کیجئے گا کہ پورا اطمینان کر لیں کہ اس جنگل دوسرا کوئی شکاری موجود نہ ہو۔ اس کے بعد بھی اپنی تسلی کے لیے مسلسل چاروں طرف سے خبردار رہیئے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے یہ واقعہ دیکھیں۔ ایک بار رات کو میں نے تیندوے کی آواز بار بار سنی۔ آواز سے اندازا ہوتا تھا کہ تیندوا کسی تکلیف میں ہے۔ اگلی صبح روشنی ہونے سے قبل ہی میں تیندوے کی تلاش میں نکلا کہ دیکھوں تو سہی کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ تیندوے نے رات کو اپنی جگہ بدل لی تھی اور اب کچھ دور کی پہاڑی پر چلا گیا تھا تاہم اس کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔ ایک جگہ جہاں راستہ کھلے میدان میں داخل ہوتا تھا، میں نے ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر تیندوے کی آواز نکالی۔ اگر تیندوا آتا تو میں اسے فوراً دیکھ لیتا۔ ہمارے درمیان میں آوازوں کا مسلسل تبادلہ ہوتا رہا اور صاف لگ رہا تھا کہ تیندوا انتہائی احتیاط سے آ رہا ہے۔ جب تیندوا تقریباً سو گز دور رہ گیا تو میں خاموش ہو گیا۔ کہنیوں کے بل میں لیٹا ہوا تیندوے کا منتظر تھا کہ پیچھے پتوں کے سرکنے کی آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک رائفل کی نال سیدھی میری جانب تھی۔ گذشتہ شام میری لاعلمی میں نینی تال کے ڈپٹی کمشنر کیسلز اور کرنل وارڈ فارسٹ بنگلے آن پہنچے تھے اور انہوں نے تیندوے کا ایک بچہ شکار کیا تھا۔ رات بھر اس کی ماں اپنے بچے کو بلاتی رہی۔ صبح کو وارڈ نے ہاتھی پر سوار ہو کر مادہ تیندوے کی تلاش شروع کی۔ شبنم گری ہوئی تھی اور مہاوت اپنے کام میں ماہر تھا، اس لیے وہ میری لاعلمی میں بغیر آواز نکالے انتہائی قریب پہنچ گئے۔ تاہم وارڈ کی نظر کمزور تھی اس لیے کم روشنی میں دس گز کی دوری سے وہ نشانہ نہ لے سکا۔ مہاوت نے ہاتھی کو آگے بڑھایا اور ہاتھی نے سونڈ سے کچھ شاخیں ہٹا دیں۔ خوش قسمتی سے ہاتھی نے ایک شاخ چھوڑی تو اس کی آواز سن کر میں مڑا تو وارڈ کو بھاری رائفل سے نشانہ لیتے پایا۔ +ابھی ہم پچھلی شام یہاں ریت کی پٹی پر سے گذرنے والے چیتلوں کے پگ کو دیکھ رہے ہیں۔ پگوں کے اوپر ثبت شب بیدار کیڑوں کے گذرنے اور اوس کے نشانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پگ گذشتہ شام کے ہیں۔ اگرچہ یہ غول اب نجانے کہاں ہوگا، لیکن پھر بھی میں آپ کو ان کی تعداد کے بارے بتاتا ہوں کہ کیسے پتہ چلے گی۔ فرض کیجئے کہ چیتل کھڑا ہے۔ اس کے اگلے اور پچھلے کھروں کا درمیانی فاصلہ اڑھائی فٹ ہے۔ اب ایک لکڑی لے کر آپ راستے کے آر پار ایک لکیر لگا دیں۔ پھر اس سے اڑھائی فٹ کے فاصلے پر دوسری لکیر لگا دیں۔ اب آپ چھڑی کی مدد سے تمام پگ شمار کرتے جائیں۔ جو جواب آئے، اسے دو پر تقسیم کریں۔ مثلاً 30 کھر گنے ہیں تو انہیں دو پر تقسیم کرنے سے 15 جواب آئے گا۔ یہی تعداد اس غول میں چیتلوں کی ہے۔ اس طریقے سے چاہے پالتو جانور ہوں یا جنگلی، ان کی تعداد اگر دس یا اس سے کم ہو تو بالکل درست اور اگر دس سے زیادہ ہو تو تقریباً درست پتہ چلتی ہے۔ تاہم اگلے اور پچھلے کھروں کا فاصلہ لازمی معلوم ہونا چاہئے۔ یاد رہے کہ جنگلی کتے، سور اور بھیڑ بکری میں یہ فاصلہ اڑھائی فٹ سے کم جبکہ بڑے جانوروں جیسا کہ گائے بیل اور سانبھر وغیرہ میں اڑھائی فٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ +جو افراد میرے ساتھ جنگل میں فوجی تربیت میں شامل نہیں رہے، ان کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ جنگل میں انسانی نقشِ پا دیکھ کر بہت سی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، چاہے یہ نشان سڑک پر ہوں، پگڈنڈی یا کسی گذرگاہ پر یا کسی بھی ایسی جگہ پر جہاں کہ یہ نشان بن سکیں۔ +فرض کیجئے کہ ہم کسی ایسے جنگل میں ہیں جو دشمن کے قبضے میں ہے۔ یہاں ایک جگہ ہمیں انسانی قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کی شکل صورت، کیلوں کی موجودگی یا عدم موجودگی، حجم، لوہے کی پتری یا ہموار ایڑی، چمڑے یا ربر کے تلوے وغیرہ سے بخوبی اندازا ہو سکتا ہے کہ یہ نشان ہمارے ساتھیوں کے نہیں بلکہ دشمن کے ہیں۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نشان کب بنے اور اس جماعت میں کتنے افراد تھے۔ وقت کا تعین کرنا آپ سیکھ چکے ہیں۔ اب آپ ایک نشان کی ایڑی کے ساتھ راستے پر لکیر کھینچ دیں۔ پھر اڑھائی فٹ آگے ایک اور لکیر لگا دیں۔ اس فاصلے میں موجود ایڑیوں کے نشان سے مطلوبہ افراد کی تعداد کا پتہ چل جائے گا۔ ان نشانات سے بہت مفید معلومات مل سکتی ہیں لیکن سب سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ان افراد کے حرکت کرنے کی رفتار کا علم ہو جاتا ہے۔ عام رفتار سے چلنے سے وزن ایڑی اور پنجوں پر برابر ہوتا ہے۔ جوں جوں رفتار تیز ہوتی جائے گی، ایڑی پر کم اور پنجوں پر زیادہ وزن آتا جائے گا اور دونوں پیروں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا جائے گا۔ پوری رفتار سے دوڑنے پر ایڑی کا معمولی سا نشان بنتا ہے جبکہ پنجے کا نشان بہت گہرا ہوتا ہے۔ اگر دس یا بارہ افراد کی جماعت ہو تو خون یا لنگڑانے کے نشانات سے ان کے زخمی ہونے کا بھی اندازا ہو سکتا ہے۔ +اگر آپ جنگل میں زخمی ہو جائیں تو میں آپ کو ایک جنگلی پودا دکھاؤں گا جو عام سا دکھائی دیتا ہے لیکن خون روکنے اور زخم بھرنے میں اس کا مقابلہ کوئی دوائی بھی نہیں کر سکتی۔ یہ پودا ہر جنگل میں ملتا ہے اور ایک فٹ لمبائی تک پہنچتا ہے۔ اس کا پھول گلِ داؤدی سے مماثل ہے اور لمبا اور باریک تنا ہوتا ہے۔ اس کے پتے بھرے بھرے اور ان پر رگیں بنی ہوتی ہیں۔ طریقہ استعمال یہ ہے کہ اس بوٹی کے چند پتے توڑ کر اگر ممکن ہو تو پانی سے دھو کر گرد وغیرہ صاف کر لیں اور انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے ان کا رس زخم پر اچھی طرح نچوڑیں۔ مزید کسی دوا کی ضرورت نہیں۔ اگر زخم گہرا نہ ہوا تو ایک یا دو دن میں بھر جائے گا۔ عرفِ عام میں اس بوٹی کو "برہم بوٹی" یا خدائی پھول کہتے ہیں۔ +ہندوستان اور برما کے جنگلوں میں جنگ کے برسوں میں آپ میں سے بہت سارے لوگ میرے اچھے ساتھی تھے اور چونکہ وقت کم تھا تو آپ کی تربیت کے لیے مجھے بہت زیادہ سختی کرنی پڑی تھی۔ امید ہے کہ آپ لوگ اس وقت کی مشکلات کو بھول چکے ہوں گے۔ یہ بھی امید کرتا ہوں کہ ہم نے جو کچھ سیکھا تھا، وہ آپ کو یاد ہوگا مثلاً جنگل میں کون سے پھول، پھل اور جڑیں کھائی جا سکتی ہیں، چائے اور کافی کے متبادل کن کن اجزاء سے تیار ہوتے ہیں، بخار، چھالوں اور گلے کی خرابی کے لیے کون سے پودے، چھال اور پتے فائدہ مند ہیں، کون سی چھالوں اور بیلوں کی مدد سے سٹریچر بنایا جا سکتا ہے، بھاری سامان اور ہتھیار دریا یا کھائی پار لے جانے کے لیے رسیاں کیسے بنائی جاتی ہیں، خندق میں پیروں کو کیسےمحفوظ رکھنا ہے، گرمی سے بچاؤ، آگ جلانا، گیلے جنگل میں خشک لکڑی کا حصول، آتشیں اسلحے کے بناء جنگلی جانوروں کا شکار کرنا، دھاتی برتنوں کے بغیر چائے بنانا، نمک کا متبادل، سانپ کے کاٹے، زخموں اور پیٹ خرابی کا علاج کیسے کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل میں جنگلی حیات کو چھیڑے بغیر کیسے تندرست رہنا ہے۔ یہ سب اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جو ہم نے ہندوستان کے پہاڑوں اور میدانوں سے لے کر برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکا سے لے کر کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر جگہوں پر ایک ساتھ سیکھا تھا۔ تاہم یہ سب سیکھنے کا مقصد جنگل میں بقیہ زندگی گذارنا نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد آپ کو جنگل میں محفوظ طریقے سے کچھ عرصہ گذارنے اور دشمنوں کو یہ بتانا ہے کہ آپ ان سے بہتر ہیں۔ تاہم اس دوران میں ہم نے جو کچھ بھی سیکھا ہے، وہ محض ابتداء ہی ہے، کیونکہ کتابِ قدرت کا نہ تو کوئی آغاز ہے اور نہ ہی کوئی انجام۔ +ابھی کافی وقت باقی ہے۔ اب ہم پہاڑ پر اتنی بلندی پر پہنچ گئے ہیں کہ نباتات بدل گئی ہیں۔ جگہ جگہ انجیر اور آلو بخارے کے درخت موجود ہیں اور ان پر کئی اقسام کے پرندے موجود ہیں۔ آئیے اس بڑی چونچ والے ہارن بِل کو دیکھتے ہیں۔ ہارن بِل اپنے گھونسلے کھوکھلے درختوں میں بناتے ہیں اور انڈے سینے کے اوقات میں اپنی مادہ کو گھونسلے کے اندر قید کر دیتے ہیں۔ مادہ اپنے پرانے پر جھاڑ دیتی ہے اور بہت موٹی ہو جاتی ہے۔ جب انڈوں سے بچے نکلتے ہیں، جو عموماً دو ہوتے ہیں، تو مادہ اڑنے کے قابل نہیں ہوتی۔ مادہ عموماً دو انڈے دیتی ہے۔ نر کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے پورے خاندان کو کھانا پہنچانا ہوتا ہے۔ ہارن بِل کی چونچ بہت بڑی اور آواز بھی اسی مناسبت سے اونچی ہوتی ہے۔ اڑنے میں پیش آنے والی مشکلات سے ایسا لگتا ہے کہ ہارن بِل ارتقاء کے کچھ مراحل سے نہیں گزر پایا۔ عرصہ دراز قبل شاید ہارن بِل کے دشمن بہت ہوتے تھے، اس لیے وہ اپنی مادہ کو درخت میں قید کر کے مٹی سے سوراخ بند کر دیتا ہے۔ محض اتنی سی جِھری باقی رہتی ہے کہ مادہ اپنی چونچ سے نر سے خوراک وصول کر سکے۔ تاہم تمام پرندے جو کھوکھلے درختوں میں رہتے ہیں، کے دشمن ایک جیسے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے پرندے تو چھوٹے اور بے بس بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ماداؤں کو قید نہیں کرتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی طاقتور اور بڑی چونچ کے باوجود ہارن بِل اپنی مادہ کو درخت میں کیوں قید کرتا ہے؟ اس کے علاوہ ہارن بِل کی ایک اور عادت بھی ہے جو کسی اور پرندے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ اپنے پروں پر رنگ بکھیرتا ہے۔ پیلا رنگ اس کی دم کے اوپر ایک تھیلی نما جھلی میں ہوتا ہے اور ہارن بل اپنے پروں کے بیرونی کنارے پر موجود سفید پٹی پر اپنی چونچ سے بکھیرتا ہے۔ اب ہارن بِل ایسا رنگ کیوں ڈالتا ہے جو ہر بار بارش کے بعد دھل جائے؟ شاید کیموفلاج کی وجہ سے ایسا کرتا ہو؟ تاہم موجودہ دور میں ہارن بل کے لیے خطرہ صرف تیندوے سے ہی ہوتا ہے اور تیندوے کے سامنے اس کیموفلاج کی کوئی حیثیت نہیں۔ +ہارن بِل کے علاوہ بھی کئی اقسام کے پرندے انجیر اور آلو بخارے کھا رہے ہیں۔ ان میں دو اقسام کے ہریل، بلبل، طوطے اور کئی اقسام کی چڑیاں ہیں۔ +انجیر کے درخت کے پاس سے فائر ٹریک گذرتا ہے اور اسے عبور کرتے ہی جنگلی جانوروں کی ایک گذرگاہ سامنے آتی ہے۔ یہ گذرگاہ سیدھا پہاڑی کو جاتی ہے جہاں نمک ملتا ہے (جنگل میں ایسی جگہ کو چاٹن کہتے ہیں) اور پانی کا ایک مختصر سا چشمہ بھی ہے۔ چشمے اور نمک کے درمیان میں ایک کٹا ہوا درخت ہے۔ اس درخت پر بہت عرصے تک چور شکاری مچانیں باندھ کر شکار کرتے رہے تھے۔ چاٹن اور پانی کے پاس بیٹھ کر شکار کرنا منع ہوتا ہے لیکن چور شکاری اس کی پروا نہیں کرتے۔ بار بار مچان اتارنے سے فرق نہیں پڑا تو میں نے درخت ہی کٹوا دیا تھا۔ تاہم درندے شکار کے سلسلے میں اس بات کی پروا نہیں کرتے اور انہیں زیادہ تر شکار ملتا ہی چاٹن اور پانی کے قریب ہے۔ ایسی جگہوں پر آپ کو مختلف مردہ جانوروں کی ادھ کھائی ہڈیاں اور سینگ ملیں گے جو سیہی چھوڑ جاتی ہے۔ چاٹن اور پانی کے آس پاس گھنا جنگل ہوتا ہے جہاں بندر اور ہرن رہتے ہیں۔ +آئیے اب پہاڑی پر چڑھتے ہیں جو چاٹن کے بعد سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے تاکہ پورے علاقے پر طائرانہ نگاہ ڈالیں۔ ہمارے سامنے موجود جنگل میں وہ نہر موجود ہے جہاں سے ہماری مٹرگشت شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگل قدرتی ہے اور اس میں لکڑی بیکار نوعیت کی ہے اور اسی وجہ سے یہ انسانی دست و برد سے محفوظ رہا ہے۔ سامنے موجود سبز دھبے شیشم کے پودے ہیں جن کے بیج سیلاب میں بہہ کر یہاں تک پہنچے تھے۔ جب یہ پودے جوان درخت بنیں گے تو ان سے بیل گاڑی کے بہترین پہیئے اور عمدہ فرنیچر بنے گا۔ گہرے سبز رنگ کے دھبے رونی کے درخت ہیں جن کے نیچے رس بھری کی جھاڑیاں موجود ہیں۔ ان درختوں کے پھل سے کمالا پاؤڈر بنتا ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مکھن رنگنے کے کام آتا تھا۔ یہ پاؤڈر مختلف ادویات میں بھی کام آتا ہے اور جب رونی کے پھل کو سرسوں کے تیل میں ابالتے ہیں، تو یہ تیل گٹھیا کے مرض میں مفید ہے۔ +شیشم اور رونی کے درختوں کے ساتھ ساتھ ملائم پتوں والے کھیر کے درخت بھی ہیں۔ اس درخت کی لکڑی سے ہل بھی بنتا ہے اور علاقے کے ہزاروں غریب افراد کو روزی کمانے کا وسیلہ بھی مہیا کرتا ہے۔ تاہم یہ صنعت محض سرمائی ہے اور کاجو پیدا کرتی ہے اور چار ماہ کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اضافی پیداوار کے طور پر خاکی رنگ بھی پیدا ہوتا ہے جو میرے علم کے مطابق میرے دوست مرزا نامی ایک شخص نے اتفاقاً دریافت کیا تھا۔ سنا ہے کہ ایک دن کھیر کے ابلتے ہوئے کڑہاؤ میں مرزا کا سفید رومال گر گیا۔ لکڑی سے اس نے رومال نکال کر دھلنے بھیجا تو واپسی پر رنگ جوں کا توں ملا۔ جب اس نے دھوبی کو بلا کر ڈانٹا تو دھوبی نے ہاتھ جوڑے کہ اس نے ہر ممکن طریقے سے رنگ اتارنے کی کوشش کی ہے لیکن ناکام رہا۔ اب یہ رنگ عزت نگر کی فیکٹری میں بنتا ہے اور مرزا دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ +سبز رنگ کے کئی شیڈز کے ساتھ ساتھ ہر درخت کا اپنا رنگ ہے۔ سبز کے علاوہ نارنجی، سنہرے، سفید، گلابی اور لال رنگ کے درخت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مالٹائی رنگ والے پھولوں کا درخت دھنک ہے۔ تین فٹ لمبے سنہرے پھولوں والا درخت املتاس کا ہے۔ دو فٹ لمبی املتاس کی پھلیوں میں نرم گودا ہوتا ہے جو کماؤں کے علاقے میں قبض کشا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بڑے اور خوبصورت پھولوں والا درخت کچنار کا ہے۔ گلابی رنگ والے درخت کسم کے ہیں۔ گلابی رنگ پھولوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کونپلوں کا ہے۔ سرخ رنگ کے درخت سیمل کے ہیں جس سے پرندے رس چوسنے آتے ہیں۔ طوطے اور بندر اس کے پھول کھاتے ہیں اور گرنے والے پھول بعد میں ہرنوں اور سوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ بعد میں پھولوں کی جگہ بیجوں بھری پھلیاں بن جائیں گی۔ اپریل میں گرم ہوا لگنے سے جب یہ پھلیاں پھٹیں گی تو اس سے سفید کاٹن کے بادل نکلیں گے اور ہوا کے ساتھ ساتھ اڑتے ہوئے دور دور جا گریں گے۔ چونکہ ہر بیج پرندوں اور جانوروں کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں پہنچ سکتا، اس لیے ان میں مختلف اقسام کے پر وغیرہ لگے ہوتے ہیں جو پانی یا ہوا کی مدد سے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ +نہر سے آگے ہمارا گاؤں ہے جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا۔ شوخ سبز اور سنہرے دھبے کھیتوں میں اگتی گندم اور جوان سرسوں کے ہیں۔ گاؤں کے نیچے سفید لکیر گاؤں کی دیوار کو ظاہر کرتی ہے۔ اس دیوار کو تعمیر کرنے پر دس سال لگے تھے۔ اس ک�� بعد پھر مسلسل گھنے جنگلوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو افق کے پار تک چلا جاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک، تاحدِ گاہ جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے پیچھے اونچی ہوتی ہوئی پہاڑیوں کا سلسلہ آخرکار مستقل برف پوش پہاڑوں تک جا پہنچتا ہے۔ +ہمالیہ کے دامن میں اس خوبصورت اور پرسکون جگہ جہاں ہم بیٹھے ہیں، کے ہر طرف جنگل پر بہار چھائی ہے۔ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ مختلف پھولوں کی خوشبو آتی ہے۔ ہر جگہ پرندے چہچہا رہے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر ہمیں دنیا کے غم اور فکریں بھول جاتی ہیں۔ یہاں جنگل کا قانون ہے جو انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے کہیں بہتر اور کہیں قدیم ہے۔ یہ قانون ہر جاندار کو اپنی زندگی گذارنے کے پورے مواقع دیتا ہے اور مستقبل کی کوئی فکر نہیں دیتا۔ ہر جاندار کے لیے بے شک خطرات ہر جگہ موجود ہیں لیکن ان سے زندگی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ہر جاندار خبردار اور محتاط رہتا ہے لیکن اس سے زندگی کی خوشیاں کم نہیں ہوتیں۔ یہاں ہمارے آس پاس خوشیاں بکھری ہیں۔ یہاں ہم ہر آواز کو سن کر اس کے مقام، جانور یا پرندے کی شناخت اور اس آواز کی وجہ جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے بائیں جانب مور کی ملاپ کے لیے آواز آ رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مور نے رقص شروع کر دیا ہے اور دم کے لمبے پر پھیلائے ہوئے ہے تاکہ مادائیں متائثر ہوں۔ اس سے نزدیک جنگلی مرغ کی آواز آ رہی ہے جس کا ساتھ دینے کو دیگر جنگلی مرغ بھی بولنے لگ گئے ہیں۔ تاہم ان کی لڑائی کے امکانات کم ہیں کیونکہ جنگل میں لڑائی کا مطلب خطرات کا بڑھنا ہوتا ہے۔ ہمارے دائیں جانب سے نر سانبھر کی آواز جنگل کے باسیوں کو اس تیندوے کے بارے بتا رہی ہے جو اس وقت مزے سے کھلے میں لیٹا دھوپ سینک رہا ہے۔ اسی تیندوے کو ہم نے لگ بھگ گھنٹہ قبل دیکھا تھا۔ سانبھر اس وقت تک چپ نہیں کرے گا جب تک تیندوا اٹھ کر گھنے جنگل میں نہ روپوش ہو جائے۔ ہمارے نیچے بلبلیں اور کئی دیگر پرندے ایک الو کے بچے کو اونگھتا دیکھ کر دوسرے پرندوں کو بتا رہے ہیں کہ یہاں خطرہ ہے۔ اگرچہ انہیں بخوبی علم ہے کہ پاس بیٹھا الو کا بچہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتا کیونکہ نابالغ الو شاذ ہی دن میں شکار کی ہمت کرتے ہیں۔ اسی طرح الو کے بچے کو بھی علم ہے کہ یہ پرندے چاہے جتنا شور مچا لیں، اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے۔ جب تھک جائیں گے تو اسے سوتا چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں گے۔ ہمارے اردگرد ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں اور ہر آواز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ ادھر کٹھ پھوڑے کی آواز آ رہی ہے جو درخت میں سوراخ کر رہا ہے تو دوسری طرف نر چیتل دوسرے نر کو دعوتِ مبارزت دے رہا ہے۔ اوپر آسمان سے سرپنٹ ایگل کی آواز آ رہی ہے۔ مزید اوپر گدھ کسی مردار کی تلاش میں اڑ رہے ہیں۔ کل انہیں پہلے کوؤں اور پھر میگ پائیوں نے بتایا تھا کہ شیر کا شکار کردہ جانور اُس جھاڑی میں پوشیدہ ہے جہاں مور ناچ رہا ہے۔ آج وہ مزید خوراک کی تلاش میں ہیں۔ +اپنے دوست کے ساتھ یہاں بیٹھ کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ جنگل کی زبان جاننا کتنا مفید ہے اور اس سے آپ کو کتنا اعتماد ملا ہے۔ اسی وجہ سے جنگل سے آپ کو اب کوئی ڈر نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جنگل میں آپ محفوظ ہیں۔ اگر آپ کو کبھی جنگل میں قیام کرنا پڑے تو آپ کو پتہ ہے کہ آپ بلا خوف و خطر کہیں بھی لیٹ یا سو سکتے ہیں۔ آپ کے پاس سمتوں کو جاننے کا علم ہے اور ہر وقت ہوا کے رخ کا خیال بھی رکھتے ہیں اور اب چاہے دن ہو یا رات، جنگل میں آپ کبھی بھی راستہ نہیں بھولیں گے۔ شروع میں 180 درجے کی بصارت کتنی مش��ل لگتی تھی اور اب اس زاویے میں ہونے والی ہر حرکت آپ کو دکھائی دیتی ہے۔ جنگلی جانوروں کی آواز سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے آپ اب جانوروں کی زندگی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی آواز کے مقام کی نشاندہی کرنا، بالکل درست نشانہ لگانا بھی آپ کو آ گیا ہے۔ اگر کبھی جنگل میں آپ کو دشمن کا سامنا کرنا پڑا تو آپ کامیاب رہیں گے کیونکہ آپ نے جنگل کی زبان سیکھی ہوئی ہے اور آپ کو اس سے نہیں بلکہ دشمن کو آپ سے ڈرنا چاہیے۔ +اب ہمیں واپس جانا چاہیے کہ میگی ناشتے پر ہماری منتظر ہوگی۔ واپسی کے لیے ہم اسی رستے پر جاتے ہیں جہاں سے آئے تھے اور ہمارے ہاتھ میں درخت کی ایک شاخ ہے جس سے ہم اپنے اور دیگر تمام جانوروں کے پگ مٹاتے جاتے ہیں۔ اگلی بار جب ہم آئیں گے تو ہر نشان نیا ہوگا۔ + + +جنگل کی زبان سیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ آپ میں ایک اور حس پیدا ہو جائے جو زمانہ قدیم کے انسانوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ میں اسے "جنگل سے حساسیت" کا نام دیتا ہوں۔ یہ حس اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ جنگل میں جنگلی حیات کے قریب رہ رہے ہوں۔ اس حس کی وجہ سے آپ غیر شعوری طور پر خطرے سے پیشگی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ +بہت سارے لوگوں نے اس وقت اپنی جانیں بچائی ہوں گی جب انہوں نے کسی خطرے کو غیرشعوری طور پر بھانپ لیا ہوگا۔ مثلاً کسی ایسی سڑک کو چھوڑ دینا جہاں چند لمحے بعد بم پھٹنے والا ہو، یا پھر کسی ایسی عمارت سے دور چلے جانا کہ جہاں چند منٹ بعد ہی بم گرنا ہو یا پھر کسی ایسے درخت کے نیچے سے ہٹ جانا جہاں چند لمحے بعد آسمانی بجلی گرنی ہو۔ خطرہ چاہے جو بھی ہو، اس سے بچاؤ کا خیال ہمیں آتا ہے اور ہم خطرے سے بچ جاتے ہیں۔ چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں والے واقعے میں میں نے دو مواقع پر شعوری انتباہ کے بارے بات کی تھی۔ جونہی مجھے انتباہ ملا، میری پوری توجہ اس سے بچاؤ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ پہلی بار پتھروں کے ڈھیر کے پیچھے سے اور دوسری بار راستے پر جھکی ہوئی چٹان کے پیچھے شیرنی کی موجودگی کے بارے جاننا قطعی فطری ہے۔ آئیے، اب ایک مثال ایسی دیکھتے ہیں جس میں خطرے کا احساس اور اس سے بچاؤ کا عمل بالکل غیر اختیاری طور پر ہوا تھا۔ اس کی وجہ محض یہی ہو سکتی ہے کہ جنگل سے حساسیت انتہائی بڑھی ہوئی تھی۔ +سردیوں میں جب ہم کالاڈھنگی جاتے تھے تو میری عادت تھی کہ اکثر اپنے مزارعین کے لیے سانبھر یا چیتل مارا کرتا تھا۔ ایک روز یہ لوگ میرے پاس وفد کی شکل میں آئے کہ بہت دن سے میں نے کوئی شکار نہیں کیا اور اگلے دن دعوت کے لیے اگر میں کوئی شکار کروں تو بہت اچھا ہوگا۔ جنگل بالکل خشک تھے اور گھات لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ سورج ڈوب چکا تھا جب میں نے نر چیتل کو شکار کیا۔ چونکہ رات ہو رہی تھی تو چیتل کو واپس لانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اسے تیندووں، ریچھوں اور سور وغیرہ سے بچانے کے لیے چھپا دیا اور گھر روانہ ہوا تاکہ اگلے روز علی الصبح مزارعین کے ساتھ جا کر لے آؤں۔ +میرے فائر کی آواز ہمارے دیہات تک پہنچ گئی تھی اور جب میں واپس لوٹا تو ہمارے کاٹیج کی سیڑھیوں پر دس بارہ افراد رسے اور بانس وغیرہ لیے موجود تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کا مطلوبہ شکار ہو چکا ہے اور اسے میں چھپا کر آیا ہوں۔ اب صبح سویرے پو پھٹنے سے قبل اگر وہ چاہیں تو میں ان کے ساتھ اٹھانے کو تیار ہوں۔ مگر یہ افراد چیتل اسی وقت لانے کو تیار ہو کر آئے تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ میں انہیں جگہ بتا دوں، وہ خود ہی ڈھونڈ لائیں گے۔ اس سے قبل جب بھی میں ان کے لیے شکار کر کے آتا تھا تو میں راستے پر نشانات لگاتے آتا تھا کہ کس جگہ شکار چھپا ہوگا۔ تاہم ابھی چونکہ مجھے علم تھا کہ شکار صبح اٹھایا جائے گا، اس لیے میں نے کوئی نشانی نہیں لگائی تھی۔ یہ افراد جنگل سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میری لگائی اور بتائی گئی نشانیوں سے ہمیشہ ہی وہ شکار پا لیتے تھے۔ اس بار شکار شام کو ہوا تھا اور چاند نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کوئی نشانیاں بھی نہیں لگائی تھیں۔ یہ لوگ اس بات پر بضد تھے کہ آج ہی وہ چیتل کو لا کر اسے صبح کی دعوت کے لیے تیار کر لیں۔ ان لوگوں کے خیال سے میں نے ساتھ جانے کی حامی بھر لی اور کہا کہ پوال گڑھ کی سڑک پر اڑھائی میل جا کر ہلدو کے مشہور درخت کے نیچے میرا انتظار کریں۔ جب یہ لوگ روانہ ہو گئے تو میں نے میگی کے تیار کردہ چائے کا کپ پینا شروع کر دیا۔ +جب اکیلا آدمی سفر کرتا ہے تو اس کی رفتار عام ہندوستانی افراد کی جماعت کے سفر کرنے سے کافی تیز ہوتی ہے۔ اس لیے آرام سے چائے پی کر میں نے رائفل اٹھائی اور روانہ ہوا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس روز اگرچہ میں کافی سفر کر چکا تھا لیکن مزید پانچ یا چھ میل کا سفر میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگرچہ میں دیر سے نکلا تھا پھر بھی ہلدو کے درخت سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ جلد ہی ہم چیتل کی لاش تک پہنچ گئے اور میرے ہمراہی چیتل کو رسیوں اور بانسوں سے باندھنے کے بعد چلنے کو تیار ہو گئے۔ پھر ایک مختصر راستے کی مدد سے ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا اور رات کے کھانے کے وقت میں کاٹیج جا پہنچا۔ میں نے میگی کو بتایا کہ میں رات کو سوتے وقت نہاؤں گا اور جب تک وہ کھانا تیار کرے، میں ہاتھ منہ دھو لوں۔ +رات کو نہانے کے لیے جب میں نے کپڑے اتارے تو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ میرے ربر سول جوتے سرخ رنگ کی مٹی سے اٹے ہوئے تھے اور میرے پیروں پر بھی سرخ مٹی لگی ہوئی تھی۔ اپنے پیروں کے متعلق میں ہمیشہ ہی محتاط رہتا ہوں اور اسی وجہ سے میرے پیروں کو کبھی کوئی مرض نہیں لاحق ہوا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیسے اتنا لاپروا ہوا کہ میرے پیر مٹی سے بھر گئے۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری یاداشت کو اور ہماری یاداشت ہمارے دماغ کو کچوکے لگاتی رہتی ہے اور کسی شعوری کوشش کے بغیر ہمیں بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں چاہے وہ کسی کا نام ہو یا کوئی اور معلومات۔ +جب کاٹھ گودام کے لیے ریل کی پٹڑی نہیں بچھائی گئی تھی تو ساری آمد و رفت پرانی ٹرنک روڈ سے ہوتی تھی۔ ہمارے گیٹ سے دریائے بور کے پل تک یہ سڑک سیدھی جاتی تھی اور پل سے تین سو گز دوری پر سڑک بائیں مڑتی تھی۔ موڑ کے دائیں جانب پوال گڑھ والا فائر ٹریک راستے سے آن ملتا تھا۔ پل سے پچاس گز دور ٹرنک روڈ اور کوٹا روڈ آن ملتے تھے۔ ان دونوں جگہوں کے درمیان میں سڑک ایک نشیب سے گذرتی ہے۔ بیل گاڑیوں کی آمد و رفت سے اس جگہ کی مٹی انتہائی باریک ہو چکی ہے اور چھ انچ موٹی تہہ موجود ہے۔ اس مٹی سے بچنے کے لیے پیدل چلنے والے افراد نے جنگل اور سڑک کے درمیان میں ایک پتلی سی پگڈنڈی بنا لی ہے۔ موڑ سے تیس گز قبل یہ پگڈنڈی اور سڑک دونوں ہی ایک آبی گذرگاہ کے اوپر چڑھتے ہیں اور اس پر ڈیڑھ فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیواریں بنی ہوئی ہیں تاکہ بیل گاڑیاں سڑک سے اتر نہ جائیں۔ یہ گذرگاہ کبھی کی متروک ہو چکی اور اس کے نچلے سرے پر سڑک کی سطح کے برابر آٹھ یا دس مربع فٹ کا ریتلا ٹکڑا ہے۔ +مٹی سے اٹے پیروں کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ چائے پینے کے بعد جب میں ان لوگوں کی جانب روانہ ہوا تو اس آبی گذرگاہ سے چند گز قبل میں نے پگڈنڈی چ��وڑ کر سڑک عبور کی اور سیدھا چلتے ہوئے گذرگاہ کے بعد دوبارہ پگڈنڈی پر جا پہنچا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ میں نے سڑک کیوں عبور کی؟ جب میں اپنے گھر سے نکلا تو ساتھیوں سے ملنے تک میں نے کوئی ایسی آواز نہیں سنی جس سے مجھے خطرے کا احساس ہوتا اور تاریک رات میں کسی چیز کو دیکھ پانا ویسے بھی ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجھے الجھن ہوئی کہ میں نے دو بار سڑک کیوں عبور کی؟ +اس کتاب کے شروع میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ جب میں نے ڈینسی کی بنشی یا چڑیل کی آواز کے بارے جانا کہ وہ دو درختوں کی باہمی رگڑ سے پیدا ہو رہی تھی، اس دن سے میں نے عادت بنا لی کہ جنگل میں ہونے والی ہر غیر معمولی بات کی تحقیق کروں۔ اب یہ غیر معمولی بات ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اگلے روز صبح آمد و رفت شروع ہونے سے قبل جا کر پتہ لگاؤں گا کہ ایسا کیوں ہوا۔ +میرے ساتھی ہمارے گھر سے نکلے تو گیٹ پر تین مزید افراد ان سے آن ملے۔ کل 14 افراد کی یہ جماعت سیدھی چلتی ہوئی ہلدو کے درخت تک جا پہنچی۔ ان کے گذرنے کے فوراً بعد کوٹا روڈ سے ایک شیر آیا، اس نے موڑ کے پاس زمین کھرچی اور پگڈنڈی پر آگے بڑھ گیا۔ اس کے پگ میرے ساتھیوں کے پیروں کے نشانات پر ثبت تھے۔ جب شیر پگڈنڈی پر 30 گز چلا تو میں پل پر پہنچا۔ +یہ پل فولادی ہے اور ظاہر ہے کہ میرے گذرنے کی آواز سن کر شیر نے مجھے دیکھا ہوگا کیونکہ مجھے کافی جلدی تھی۔ جب شیر نے دیکھا کہ میں کوٹا روڈ پر نہیں بلکہ اسی کی جانب آ رہا ہوں تو اس نے سڑک گذرگاہ سے آگے ریتلے قطعے کا رخ کیا اور وہاں پگڈنڈی سے ایک گز دوری پر لیٹ گیا۔ جب میں گذرگاہ سے پانچ گز دور رہا ہوں گا تو میں نے پگڈنڈی چھوڑ کر سڑک عبور کی اور سیدھا چلتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر سڑک عبور کر کے پگڈنڈی پر جا پہنچا۔ لاشعوری طور پر میں نے شیر سے ایک گز کی دوری سے گذرنے سے بچنے کے لیے ایسا کیا حالانکہ مجھے شیر کی موجودگی کا علم بھی نہیں تھا۔ +مجھے پورا یقین ہے کہ اگر میں سیدھا چلتا جاتا تو بھی مجھے شیر سے کوئی خطرہ نہ ہوتا اگر 1) میں سیدھا اپنے راستے پر چلتا 2) کسی قسم کی آواز نہ کرتا 3) کسی قسم کی ہیجانی حرکت نہ ہوتی۔ شیر اگرچہ مجھے ہلاک کرنے کو نہیں لیٹا تھا لیکن اس کے پاس گذرتے وقت اگر میں کوئی آواز سننے رکتا، کھانستا، ناک صاف کرتا، چھینکتا یا رائفل کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتا تو عین ممکن ہے کہ شیر گھبرا کر حملہ کر دیتا۔ میرا لاشعور اس خطرے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا اس لیے جنگل سے حساسیت نے مجھے بتائے بغیر اس ممکنہ خطرے سے نکال لیا۔ میری ساری زندگی میں اس صلاحیت نے کتنی بار میری جان بچائی، یہ کہنا ممکن نہیں۔ لیکن اتنے برسوں تک جنگل میں رہنے کے باوجود صرف ایک بار میں ایک جنگلی جانور سے دو بدو ہوا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگل سے حساسیت، محافظ فرشتہ یا جو بھی کہہ لیں، ہمیشہ عین وقت پر مجھے بچاتے تھے۔ + + +شروع سے ہی حضرت انسان پر بحث جاری ہے تاریخ کے اعتبار سائنسی لحاظ سے اور مختلف مذاہب کی رو سے تخلیق انسان ایک حیرت کن بات ہے اور بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت انسان کی تخلیق کا مقصد اور ابتداء و انتہا کیا ہے مقصد:حضرت انسان کی حیات کا مقصد مذہبی اعتبار سے عبادت الہی ہے ہر مذہب حضرت انسان کو ترغیب دلاتا ہے اپنے خالق کو پہچانا جاۓ اور اسکی عبادت اور ذکر کو نصب العین بنایا جاۓ یعنی سونے سے جانگنے تک کهانے سے خروج فضلہ تک اپنے خالق کی ہدایات پر عمل کیا جاۓ پیدائش سے رخصتی تک خالق کی متعین کی ہوئ ر��ہ پر استوار ہوا جاۓ. +سائنسی نقطہ نگاہ تخلیق حضرت انسان کو اس مد میں لیتا ہے کہ دنیاۓ مادی کو بهر پور طریقے سے پرکها جاۓ اور مقصد حیات کچهہ نہی ہے یعنی پیدائش حضرت انسان ایک فطری عمل ہے اور انسان بندر(حیوان) کی ارتقائ شکل ہے انسان بندر کی جدید شکل ہے نر مادہ کے ملاپ سے نۓ انسان کی پیدائش عمل میں آتی ہے +تاریخ کے لحاظ سے حضرت انسان کی حیات بہت اہم مقصد کے لیے ہے انسان نائب من خالق ہے اور وسیع و عریض کائنات کے لیے نائب بننا ہے مگر اس کے لیے اسے ثابت کرنا ہے کہ وہ لائق منصب ہے + + +لفظ دہشت گردی فارسی زُبان کا لفظ ہے۔اس کے درست تلفظ دَہشَت گَردی ‘کے ہیں، دہشت گردی کے اردو میں معانی ’خوف وہراس پھیلانا‘کہ ہیں۔لفظ دَہشَت گَردی ۰۸۹۱ءکو PTV سے نشر کیے جانے والے ڈرامہ سیریل ’وارث‘ میں مستعمل ملتا ہے۔ دہشت گردی کا شمار ان الفاظ میں ہوتا ہے جن کی اصل مغربی لغت میں پائی جاتی ہے لہذا اس وجہ سے اہل لغت کی قدیم کتابوں میں یہ لفظ نہیں ملتا ، لیکن معاصرکے بعض لغت دانوں نے اس لفظ کو اپنی لغات میں بیان کیا ہے ، منجملہ لغت نامہ دہخدا نے ”دہشت گردی“ کی تعریف میں لکھا ہے ”ٹرور“ Terreur سے ماخوذ ہے جس کے معنی فارسی میں اسلحہ کے ذریعہ سیاسی قتل کے رائج ہوگئے ہیں اورآج عربی لفظ ”اھراق“ کو ٹرور کے مقابلہ میں استعمال کرتے ہیں ، فرانسیسی لغت میں یہ لفظ خوف و وحشت کے معنی میں آیا ہے۔ +دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف کرنا کہ جو ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائے سے لاگو کی جا سکے، اگر ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور اس معاشرے کے حالات کو یکسر نظرانداز کردیا جائے تو پھر اس لفظ کی لغوی تشریح یوں ہوسکتی ہے کہ ” خوف اور ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسے نپے تلے طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا کہ جس سے قصوروار اور بےقصور کی تمیز کے بغیر، (عام شہریوں سمیت) ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے، وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب (جسمانی نہ سہی نفسیاتی) پھیلایا جائے۔“ +نفسیات کے پروفیسر کلارک آر میکاولی نے اپنے مضمون میں دہشت گردی کی تعریف کچھ یوں کی ہے۔ میکاولی لکھتے ہیں کہ عموماً دہشت گردی کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ کسی سیاسی یا ذاتی مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال یا استعمار کی دھمکی ایک بڑے گروپ کے خلاف چھوٹے گروپ کی جانب سے ہو تو دہشت گردی کہلاتی ہے۔ اس میں چھوٹے گروپ کے لوگ بڑے گروپ کے غیر مسلح افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ میکاولی نے دہشت گردی کی تعریف واضح کرتے ہوئے صرف امریکی و یہودی مفادات کو پیش نظر رکھا ہے۔ +اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈو کا خیال ہے کہ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ اور آرام دہ دنیا کو خارزار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ پروفیسر زمباڈو مزید کہتے ہیں کہ دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔ +میر ے نزدیک دہشت گردی کی مختصر تعریف ”انسان خواہ کو ئی بھی ہو، جس میں یہ تین شرائط پائی جاتی ہوں، دانستہ کارروائی، قانونی لحاظ سے ناحق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو وہ اقدام دہشت گردی ہے۔ +دہشت گردی ایک اختلافی ن��ریہ ہے جس کی بہترین وضاحت اس قدیم کہاوت سے ہوتی ہے۔”ایک شخص کا دہشت گرد دوسرے کے نزدیک آزادی کا مجاہد ہے۔“ +دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف موجود نہیں جس سے سب اتفاق کریں، اور اکثر یہ مسئلہ کہ دہشت گرد کون ہے بعض گروہوں کی غیر قانونی حیثیت اور ان کی سیاست سے جڑجاتا ہے- اسی لیے، دہشت گردی کی ایک فعال تعریف کے بغیر، اگر سیکیورٹی اداروں کو مزید اختیارات دے دیئے جائیں تو ان کا غلط استعمال ہوسکتا ہے- +’دہشت گرد‘ کی اصطلاح کو بہت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اس کی اہمیت گھٹ جائیگی اور بالاخر یہ اپنا مفہوم کھو بیٹھے گا۔ +۱۔دہشت پسند ‘پاگل’ نہیں ہیں اور نہ ہی صرف وہی مجبور اور مظلوم ہیں۔ +۲۔عموماً جنھیں نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اصلی ہدف نہیں ہوتے، بلکہ اصلی ہدف تو بچے رہتے ہیں۔ +۳۔دہشت پسند چاہتے ہیں کہ انھیں بہت سے لوگ دیکھیں نہ کہ بہت سے لوگ مر جائیں۔یہ لوگ قابل نفرت ہیں۔ بھتہ خوری، اغوا اور قتل مجرمانہ افعال ہیں، دہشت گردی نہیں۔ +بہتر آگہی اور وضاحت کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم کراچی اور بلوچستان کے بعض حصوں میں ہونے والے جرائم اور علیحدگی پسندی کا تجزیہ کریں اور انھیں دہشت پسندی کے دائرہ سے باہر رکھیں۔ +جہاں تک حقیقی خطرے کا تعلق ہے جو کم سے کم ریاست کا نقشہ بدلنا یا پھر اسے بالکل تباہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی بڑے پیمانے پر ابہام پایا جاتا ہے۔ +دہشت گردی کے ساتھ ساتھ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینا، عسکریت پسندی، فرقہ وارانہ تشدد اور اقلیتوں کے خلاف تشدد ایک ہی نظریاتی فکر کے مختلف پہلو ہیں۔ دہشت گردی کی جڑ میں بنیادی مسائل چھپے ہیں جو اپنا جواب مانگتے ہیں۔ +اسلام کے مطابق ‘مرتد’ کون ہے؟ +کیا ریاست کسی شہری یا گروہ کو کافر قرار دے سکتی ہے؟ +کیا واقعی کوئی شہری یا گروہ کسی شہری یا گروہ کو کافر قرار دے سکتا ہے؟ +اگر ایسا ہوتا ہے تو ریاست کا رد عمل کیا ہونا چاہئیے؟ +تکفیری تحریک کیا ہے اور پاکستان جیسی جدید ریاست اس کے تشدد کے عنصر کو کس طرح روک سکتی ہے؟ +کیا موجودہ قوانین اور عمل درآمد کا نظام اس کی روک تھام کرنے کے لیئے کافی ہے؟ +سلافی آئیڈیالوجی سے کیا مراد ہے اور ہمارے معاشرے میں سلافی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے اور وہ کیا تبلیغ کرتے ہیں؟ کیا ان کی مساجد اور مدرسوں کے اعدادوشمار اکٹھا کیئے گئے ہیں؟ +القاعدہ کی نظریاتی شکائتیں کیا ہیں اوریہ تنظیم انہیں تشدد کے ذریعہ دور کرنے کا کیا جواز پیش کرتی ہے؟ +ان کے اس طرز فکر نے ان عام پاکستانیوں کو جو ابھی تک انتہا پسند نہیں ہوئے ہیں لیکن جو ذرا سی کوشش سے ان کا آلہ کاربن سکتے ہیں، کیوں متاثرکیا ہے؟ +پاکستان کی ریاست کو چاہیئے کہ اس بم کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ میں قدرتی طور پر ایک نظام موجود ہوتا ہے جو اپنی انا کا دفاع کرتا ہے اور تمام حقائق کی نفی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں دماغ پر اتنا دباو پڑتا ہے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتا۔اس کیفیت کو ‘انکاری’ (Denial) کیفیت کہتے ہیں. +اپنے اردگرد جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان مسائل پر عوامی اور سیاسی سطح پر جو بحث ہو رہی ہے اس کا معیار بہت پست ہے۔ علمی سطح پر تو ایسی کوئی کوشش نظر ہی نہیں آتی۔پارلیمنٹ میں بھی شاذ و نادر ہی انھیں موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ مثلا ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں عسکریت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں۔ کوئی فاترالعقل شخص ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے۔ان دونوں کے درمیان کسی تعلق کا کوئی صاف ثبوت موجود نہیں۔ +9/11کے بعد دہشت گردی کے اسباب، میکانزم اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیئے جو کام ہوا ہے اس کی معلومات حاصل کرنے کے لئے میں نے گوگل اسکالر پر”دہشت گردی کے اسباب” ٹائپ کیا۔ اس کے دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے پہلے آٹھ صفحات کا جائزہ لیں تو آپ کو بہت کچھ مل جائے گا۔ +تحققات کافی گہرائی سے کی گئی ہیں اور جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں کتنے بڑے بڑے نام، اسکالرز، یونیورسٹیاں، دانشور اور تحقیقاتی ادارے، علمی جرائد اور نگارشات شامل ہیں اور پھر آپ ان کا تجزیہ کرتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے کا سارا کام اٹلانٹک کے دونوں طرف مغرب میں ہوا ہے۔ +اسرائیل، سنگاپور اور آسٹریلیا میں بھی کچھ رمق نظر آئیگی جبکہ باقی ساری دنیا سو رہی ہے- البتہ مغرب کے تحقیق دانوں کو افسوس ہے کہ اعداد و شمار بکھرے پڑے ہیں اور جنگ زدہ علاقوں سے انھیں حاصل کرنا مشکل ہے۔ یہ کہ ماحول میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے۔ انٹیلیجنس ایجنسیاں اور دہشت گردوں کی تنظیمیں پر فریب ہیں اور عوام تک پہنچ کر ان سے بات کرنا کارے دارد اور اگر تحقیق دان ان تک پہنچ بھی جائیں تو بجائے اس کے کہ وہ ان کی مدد کریں ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ +جیسیکا اسٹرن کی کتاب، خدا کے نام پر دہشت: مذہبی عسکریت پسند کیوں قتل کرتے ہیں (Terror in the Name of God: Why Religious Militants Kill) ایک قابل ذکر کتاب ہے- ڈاکٹر اسٹرن ہارورڈ کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں پڑھاتی ہیں اور دہشت گردی کے موضوع کی ممتاز ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ ایک نقاد نے ان کی کتاب کو غیر معمولی قرار دیا ہے کیونکہ وہ ایک تربیت یافتہ عالم سماجیات ہیں جنھوں نے چار سال تک بنیادی اعداد و شمار اکٹھا کئے، جس کے دوران مشتبہ دہشت پسندوں سے بھی ان کے رابطے ہوئے اگرچہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق تھا۔ +عموما اس قسم کا کام انٹیلیجنس کے اہلکار یا صحافی کرتے ہیں نہ کہ ان کے پایہ کے لوگ ان کے خیال میں مذہبی دہشت گرد آج کی دنیا میں خطرناک ترین لوگ ہیں۔ان کی تصنیف ایک ایسا آئینہ ہے جو ہمیں بہت ہی کم وقت میں معاملہ کی تہہ تک پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں اور سیکیورٹی کے اداروں کو چاہئے کہ اس کا مطالعہ کریں۔ +دہشت گردی (اور اس کا مقابلہ) کا مطالعہ بہت سے علوم کا موضوع ہے۔ اس کا بڑا حصہ تو علم سیاست سے متعلق ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے جنگی علم، مواصلات، سماجی نفسیات، جرائم اور قانون کے علوم سے واقفیت ضروری ہے۔ +ہزار میل کے اس لمبے سفر کے لئے اس سے کہیں زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہے جو اب تک ہو چکی ہے- لیکن فی الحال دہشت گردی کی صحیح تعریف بیان کرنا اگلا اہم قدم ہے۔ + + +’’ تحقیق نازل کیا ہم نے اس قرآن کو بیچ رات قدر کے٭اور کیا جانے تو کیا ہے رات قدر کی٭ رات قدر کی بہتر ہے ہزار مہینے سے٭ اترتے ہیں فرشتے اور روح پاک بیچ اس کے ساتھ حکم پروردگار اپنے کے واسطے ہر کام کے ٭ سلامتی ہے وہ یہاں تک کہ طلوع ہو فجر٭ ” (سورۃ القدر 97 1تا5) +حدیثوں سے ظاہر ہے کہ یہ رات ماہ رمضان شریف کے آخری دہے (دہائی) میں آتی ہے اور اس بات کا ثبوت قرآن پاک میں بھی ہے کہ فرمایا گیا +’’قسم ہے فجر کی٭ اور راتوں دس کی٭ اور جفت کی اور طاق کی٭ اور رات کی جب چلنے لگے ‘‘ (سورۃ الفجر 1:89تا 4) +قرآن پاک کی ان آیات میں بھی سارا ذکر قدر کی رات کا ہے کہ فجر کا ذکر آیا ، دس راتوں کا ذکر آیا جو رمضان شریف کا آخری دہا (دہائی عشرہ)ہے اور جفت اور طاق کا ذکر بتلا رہا ہے کہ وہ رات جفت رات یا طاق راتوں کا پابندنہیں ہے کوئی بھی رات قدرکی ہو سکتی ہے چاہے وہ جفت رات ہو یا طاق ۔ +توجہ ایسا مشاہدہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب سعودی عرب میں چاند نظر آجاتاہے تو مشرق میں پاکستان میں چاند اگلے دن نظرا ٓتا ہے ۔اس طریقے سے رات ایک ہی چلتی ہے اگر سعودی عرب میں طاق رات ہو گی تو پاکستا ن میں اگر اگلے دن چاند نظر آیا ہو وہ رات جفت ہو گی ۔اگر قدر کی رات سعودی عرب میں طاق رات میں آئے گی تو پاکستان میں جفت رات میں آئے گی اس لیے اللہ تعالیٰ دس راتوں کے ساتھ جفت اور طاق بھی کہا “اور رات کی جب چلنے لگے”سے مراد رات کے آخری حصہ تک ۔ +لیکن توجہ سورۃ القدر کی اس آیت کی طرف “اترتے ہیں فرشتے اور روح پاک بیچ اس کے ٭ساتھ حکم پروردگار اپنے کے واسطے ہر کام کے” الفاظ “مِّن کُلِّ أَمْرٍ” واسطے ہر کام کے مطلب یہ کہ تمام کام کے لیے اس رات یعنی قدر کی رات حکم دئیے جاتے ہیں اور لکھے جاتے ہیں وغیرہ یہ کُلِّ أَمْر واسطے ہر کام کے۔ یہ ہر کام کون کون سے ہیں؟ جب واسطے ہر کام کا الفاظ آئے تو پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ تمام کام آگئے زندگی کے موت کے رزق کے روزی کے وغیرہ۔ +توجہ جب ہر کام کا حکم اس رات دے دیا گیا تو پھر کسی اور رات کے لیے کوئی بھی کام نہ بچا کہ کسی اور رات کے لیے بقایا بچایا گیا ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے احکام پرعمل درآمد کرا رہا ہے اور سورۃ القدر میں اس آیت میں فرما یا کہ “ اترتے ہیں فرشتے اور روح پاک بیچ اس کے ” یہ الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ واقعی اسی رات فرشتوں کو تمام کام احکام بتلا دئیے جا تے ہیں زندگی دینے کے ، موت کے، روزی کے، رزق کے اور اس کے علاوہ اور کوئی رات نہیں کہ جس میں یہ کام ہو اگر دوسری راتوں میں اسی قسم کے احکام دئیے جاتے تو پھر یہ رات افضل نہ ہوتی ۔ + + +شبِ ضرب ابن ملجم اشعث ابنِ قیس کے پاس آیا اور دونوں علٰیحدگی میں مسجد کے ایک گوشہ میں جا کر بیٹھ گئے کہ اُدھر سے حجر ابن عد ی کا گزر ہوا, تو انہوں نے سنا کہ اشعث ابن ملجم سے کہہ رہا ہے کہ بس اب جلدی کرو, ورنہ پو پھوٹ کر تمہیں رسوا کر دے گی. حجر نے یہ سنا تو اشعث سے کہا کہ اے کانے تو علی کے قتل کا سروسامان کر رہا ہے اور پھر تیزی سے علی ابن ابی طالب کی طرف گئے. مگر جب امیر المومنین علیہ السّلام کو نہ پا کر پلٹے تو ابنِ ملجم اپنا کام کر چکا تھا اور لوگ کہہ رہے تھے کہ امیر المومنین قتل کر دیے گئے. +ا س کی بیٹی جعدہ نے حضرت امام حسن علیہ السّلام کو زہر دے کر ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا. چنانچہ امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ امام حسن اپنے اہلبیت سے فرمایا کرتے تھے کہ میں بھی زہر سے اسی طرح شہید کیا جاؤں گا جس طرح رسول ِ خدا ۔ لوگوں نے پوچھا ایسا کام کون کرے گا ۔آپ نے فرمایا میری زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس۔ معاویہ اس کے پاس پوشیدہ طریقے سے زہر بھجوائے گا اور حکم دے گا کہ وہ مجھ کو کھلا دے۔(جلاءالعیون ۔قطب راوندی)جعدہ سے یہ معاویہ نے وعدہ کیا تھا کہ تجھ کو ایک لاکھ درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید سے تیری شادی کر دوں گا۔ (مروج الذہب مسعودی +مسعودی نے لکھا ہے کہ اپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کندی نے آپ کو زہر دیا اور معاویہ نے اس سے یہ ساز باز کی تھی کہ اگر تم کسی طریقہ سے حسن ؑکو زہر دے دو. تو میں تمہیں ایک لاکھ درہم دوں گا اور یزید سے تمہارا عقد کر دوں گا. + + +کھوار: کھوار ویکی کتابہ خوشان گیور، کھوار چھیچیکو بچین ہیہ ای مخت وا نصابی کتاب! کھوار پاکستانو صوبہ خیبر پختونخواہہ و گلگت بلتستانہ استعمال باک واران موژار ای وار۔ جام کھوار لو دیاکن اشماریکار اچی پتا ہوئی کہ ہیتان تعداد ایک میلین شیر۔ کھوار خیبر پختونخواہہ جوو لمبرا شیر وا گلگت بلتستانہ ترویو لمبرا شیر۔ +نیویشک و ہوازا انگیک (یعنی تلفظ + + +لفظ انسانو اپاکار نیسیرو لووانتے لفظ رونو بویان۔ انسان کیہ لو دی کہ پرائے ہیت الفاظ (جمع: لفظ)شینی۔ +ہر کھلمہ لفظ بویان، مگر ہر کھلموتے لفظ نو رینی۔ +کھلمہ یعنی مطلبو بش لو۔ لفظان جو قسم شینی۔ + + +نستعلیق عربی، اردو، فارسی، پنجابی، شینا، کھوار، بروشسکی وا خور ہے قسمہ وارا نیویشیکو ای مخصوص اندازو نام شیر۔ یہ کھوارو نیویشیکوتے ای شیلی و جام انداز شیر۔ + + +سوانح عمری ملا ابوالحسن دوپیازہ +ابوالمحاسن بے وطن ہو گیا]] +ابوالحسن ملا دوپیازہ بنتا ہے]] +ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے]] +ملا دوپیازہ اور دربار اکبری]] +ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری]] +خاک شفا اور خون شہیداں]] +محمد عمر یا خادم علی]] +ان کا نام ہی ان کی ہجو ہے]] +یک نہ شد دو شد]] +ملا دوپیازہ کا ایک عجیب فیصلہ]] +ایک عورت پر اہل دربار کی رائے]] +ملا اور بیربر کی پگڑی]] +نہ ملا مرغ ہوتا نہ بیربر سی مرغی انڈے دیتی]] +ملا صاحب کی ایک عجیب لغت]] +ملا کی اٹ البحر، اٹ الہدیٰ اور بھینسۃ الرکاب]] +شاہ دہلی کا رعب ایران میں]] +باری کے بخار کی تعریف]] +انڈا گرتے ہی بچہ بولنے لگا]] +عاشق اور خدا کی یاد]] +ملا صاحب کی قیافہ شناسی]] +ملا صاحب کا لاجواب نصیحت نامہ]] +گنجینۂ نصیحت و حکمت (یعنی النامۂ ملا دوپیازہ)‏]] +شہنشاہ اقلیم ظرافت کی رحلت]] + + +یہ کتاب اور ہر قسم کی کتابیں حکیم رام کشن کتب فروش شاہ عالمی دروازہ لاہور سے طلب کرو +شہنشاہِ اقلیمِ لطافت و ظرافت والئ ملکِ زندہ دلی و خوش طبعی خداوندِ مملکتِ بذلہ سنجی و حاضر جوابی سریر آرائے سلطنتِ شوخی و دل لگی +مؤلف حالات راجہ بیربل، حیات نورجہاں و جہانگیر، شہنشاہ معظم یعنی حضور ایڈورڈ ہفتم کی سوانعمری، حیات راجہ ٹوڈرمل، انارکلی، فاتحِ ملتان کی سوانحعمری، شالامار باغ لاہور کی سیر وغیرہ +بعد حصول جملہ حقوق مدامی از مترجم +رام کشن مالک کارخانہ جڑی بوٹی پنجاب شاہ عالمی دروازہ لاہور +عام کی دلچسپی کے لیے +ہندوستان سٹیم پریس لاہور میں باہتمام لالہ بوٹا رام کے طبع کرائی + + +ابوالحسن کے والدین کی نسبت تو سب متفق ہیں کہ ان کے والد کا نام ابوالمحاسن اور ان کی والدہ کا نام سراج النسا تھا۔ مگر ان کے وطن کی نسبت اختلاف ہے۔ کوئی انہیں عربی کوئی عجمی کہتا ہے۔ بعض صاحب ذات کی نسبت شیخ صدیقی اور خواجہ زادہ فاروقی لکھتے ہیں۔ مگر اس مسخروں کے گرو گھنٹال کے سوانحات کے اوراق الٹ پلٹ کرنے سے اس قدر ضرور معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب کے رہنے والے تھے۔ اور ان کا وطن طایف ایک قصبہ تھا۔ ابوالحسن کی ماں سراج النسا نہ صرف کم زبان، اشراف پرہیزگار اور خوبصورت بی بی ہی تھی بلکہ وہ پرلے درجہ کی کفایت شعار اور دوراندیش تھی۔ اور کاروبار تجارت کے حسن انتظام میں اسے یہاں تک ملکہ حاصل تھا کہ قدردان خاوند کا داہنا بازو سمجھی جاتی تھی۔ +ابوالمحاسن کی نسبت بھی یہی لکھا دیکھا ہے کہ وہ اپنے قبیلہ میں ایک معزز بااقتدار متمول شخص تھا۔ تجارت کا کاروبار کرتا تھا۔ اور اس کام میں اس کی عاقلہ اور لئیق بیوی اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ ابوالمحاسن کی عمر تیس سال کی تھی اور شادی کو تین سال گزر چکے تھے۔ دونوں میاں بیوی اولاد کے خواہشمند تھے کہ 13 رجب المرجب 946 ہجری کو ملا ابوالحسن دوپیازہ کے پیدا ونے سے یہ دیرینہ آرزو بھی بر آئی۔ جس کا ظہور ہونے پر کئی منتیں مانی تھیں۔ ابوالمحاسن کے صاحبزادہ کا نام مسجد کے امام نے ابوالحسن رکھا، جس کو ایک ہزار درم عطا کیا گیا۔ +ابوالحسن کچھ تو یونہی خوبصورت تھا، اس پر ناز و نعمت کی پرورش نے اور بھی چار چاند لگا دیے۔ پانچ سال پانچ ماہ کی عمر میں ابوالحسن جو ماں باپ کے بے انتہا لاڈ و پیار کی وجہ سے نہایت شوخ و شریر ہو گیا تھا، ملا عبدالرحمٰن کے مکتب میں بٹھایا گیا۔ +اگلا صفحہ بچپن کی شوخیاں]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ والدین اور وفات]] +ابوالحسن جانے کو تو مکتب چلا جاتا تھا۔ مگر وہاں صرف دل لگی اور لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نہ کہ پڑھنے کے شوق کی خاطر۔ کسی کو سناتا کسی سے چار سنتا کسی کو مارتا کسی سے مار کھاتا۔ غرض انہی دلچسپیوں میں مدرسہ کا وقت گزار دیتا۔ +ماں باپ کا لاڈلا شوخی و شرارت میں طاق تھا۔ پانچ سات برس کا لڑکا ابتدا ہی میں اس قسم کی شرارتیں اور شوخیاں کرتا تھا کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کی طرح اس کی آئندہ زندگی کے مذاق کا بہت کچھ اندازا ہو جاتا تھا۔ استاد کے لائق اور سعادت مند شاگرد نے بسم اللہ استاد ہی پر شروع کی چنانچہ مندرجہ ذیل دو چٹکلے ان کی نسبت مشہور ہیں جو چھوٹی سی عمر میں ان سے ظہور میں آئے۔ +ان کے استاد ملا عبدالرحمٰن صاحب ہر ایک کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے یعنی یک چشم تھے جب انہوں نے ابوالحسن کو کہا کہ پڑھو الف خالی، ب کے نیچے ایک نقطہ، ت کے اوپر دو نقطے تو سعادتمند شاگرد پڑھتے ہیں، ب کے نیچے دو نقطے اور ت کے اوپر چار۔ استاد نے کہا نامعقول میں ایک اور دو نقطے کہتا ہوں تو دو اور چار کہاں سے لے آیا؟ ہونہار شاگرد نے جواب دیا استاد جی صاحب، آپ تو ایک آنکھ سے دیکھ کر ایک اور دو نقطے کہتے ہیں، مجھے خدا نے دو آنکھیں دی ہیں، اس لیے میں دو اور چار کہتا ہوں۔ یہ سن کر استاد صاحب نہایت خفیف ہوئے اور مکتب کے لڑکوں نے جو مذاق اڑایا وہ اس پر مستزاد تھا۔ +مصرع: ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر +ایک دفعہ مکتب کے لڑکے جب کھانا کھانے کو گئے تو حضرت کو ایک شرارت سوجھی۔ روٹی کچھ نہ کھائی، غرض زہرمار کر کے جلد مکتب میں آئے آتے ہی ایک لڑکے کے جزدان سے ایک کتاب نکال کر استاد کے جزدان میں رکھ دی اور پھر چلے گئے۔ جب سمجھے کہ اب اکثر لڑکے آ چکے ہوں گے، آپ بھی پہنچے جس لڑکے کی کتاب چوری گئی تھی اس نے استاد سے شکایت کی۔ ملا عبدالرحمٰن بھی سخت گیر تھے حسب عادت انہوں نے خشم گیں ہو کر حکم دیا کہ سب کے جزدان دیکھو اور جس نالائق کے بستہ سے نکلے اس کا منہ کالا کر کے اس کو خوب ذلیل کرو۔ ادھر تو جزدانوں کی تلاشی ہونے لگی اور ادھر ابوالحسن نے چور کا منہ کالا کرنے کے لیے سیاہی اور تیل حاضر کر دیا۔ کتاب باوجود تلاش کے بھی نہ ملنی تھی، نہ ملی۔ ابوالحسن نے اس لڑکے کو کہا کہ اب استاد جی رہ گئے ہیں ان کی تلاشی بھی لے لو، تلاشی لینے پر کتاب نکل آئی (جیسی کہ امید تھی) ابوالحسن سیاہی اور تیل لے کر دست بستہ کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اب صرف ارشاد کی دیر ہے، غلام تعمیل کو حاضر ہے۔ استاد صاحب شرمندہ ہو گئے۔ +اگلا صفحہ سراج النسا کا انتقال]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ بچپن کی شوخیاں]] +جب ا��والحسن نے ملا عبدالرحمٰن کو تنگ کرنا شروع کیا تو مجبوراً ابوالمحاسن نے اپنے لاڈلے بیٹے کو کسی اور کے سپرد کیا۔ دوسرے ملا صاحب گو اس کی شرارتوں اور شوخیوں سے ہمیشہ تنگ اور شاکی رہتے تھے مگر اس کی ذہانت اور یادداشت اور حافظہ قوت سے بہت متاثر ہوتے تھے، ان کا خیال تھا۔ کہ اگر یہ لڑکا ظرافت اور شرارت کو ترک کر دے تو کسی دن ایسا عالم و فاضل ہو گا کہ لوگ اسے عالم متبحر کے نام سے پکارا کریں گے۔ اور دراصل وہ ٹھیک کہتے تھے۔ +ابوالحسن کی والدہ چونکہ لکھی پڑھی تھی اس لیے وہ اس کو گھر پر ہی اکثر پڑھایا کرتی تھی بلکہ پوچھو تو جو کچھ اس نے برا بھلا علم حاصل کیا وہ اپنی مہربان ماں کی بدولت ہی تھا۔ +ابوالحسن کی عمر نو اور دس سال کے درمیان میں تھی کہ اس پر ایک ایسی آفت سماوی نازل ہوئی جس نے ناصرف اس کی علمی لیاقت کے راستے ہی بند کر دیے بلکہ اس کو ایک ایسی سخت مصیبت دیکھنی پڑی جس سے سارے اس کی بے وطنی اور تباہی ظہور میں آئی کہ اس کی پیاری ماں سراج النسا کا 956ء میں انتقال ہو گیا۔ +نادان بچے کو کیا خبر تھی کہ ماں کے مرتے ہی ناصرف میری بلکہ میرے باپ کی زندگی بھی تلخ ہو جائے گی۔ لیکن اسے کیا خبر تھی کہ ان کے رخصت ہوتے ہی دولت و اقبال جاہ و حشمت اور عزت و آبرو بھی رخصت ہو جائے گی۔ +اگلا صفحہ شادی خانہ بربادی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ سراج النسا کا انتقال]] +سراج النسا کی وفات کے بعد جب نوکروں نے دیکھا کہ اب اندھی مرغی جال میں پھنسی ہوئی ہے تو انہوں نے دونوں ہاتھوں سے غریب ابوالمحاسن کو لوٹنا شروع کیا۔ ابوالمحاسن کو کاروبار سے کچھ واقفیت نہ تھی اور نہ ہی بیوی کی موجودگی میں اسے کچھ ضرورت تھی کیونکہ لائق اور دیانتدار بی بی سب کام اپنے ہی ہاتھوں سے سرانجام دیا کرتی تھی۔ ابوالمحاسن کو بی‏بی کے باعث سخت رنج ہوا، کاروبار تباہ ہو گیا۔ لڑکے کی عادتیں بگڑ رہی تھیں۔ انہی وجوہات سے اس نے سراج النسا کی وفات کے چھ ماہ بعد دوسری شادی کر لی۔ یہ شادی خانہ آبادی نہ ہوئی، کیونکہ ابوالمحاسن کی نئی بیوی نے آتے ہی گھر میں جھاڑو پھیر دی۔ +ابوالمحاسن کی نئی بیوی اور ابوالحسن کی سوتیلی ماں خصمیہ گو شکل و صورت میں چنداں قابل اعتراض نہ تھی، مگر سو عیبوں کا عیب اس میں یہ تھا کہ پرلے درجے کی سخت مزاج، خودپسند اور نافرمانبردار اور بدسلیقہ تھی۔ ابوالمحاسن شادی کر کے کفِ افسوس مل رہا تھا، مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ +سودا گلے پڑے کا ہے اچھا ہے یا برا +ناچار ساتھ دیتے ہیں بختِ سیاہ کا +اگلا صفحہ ابوالحسن اور خصمیہ]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ شادی خانہ بربادی]] +ابوالحسن کو جب اس کی سوتیلی ماں خصمیہ نے حد سے زیادہ تنگ کیا اور اس کو رات دن گالی گلوچ اور مارپیٹ کے علاوہ بھوکا بھی رکھنے لگی تو اس نے بھی ایک ایسی چال چلی کہ خصمیہ پیٹتی رہ گئی اور پتہ بھی نہ لگا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ابوالحسن نے ایک دن موقع پا کر سوتیلی ماں کے تمام کپڑوں کو چوہوں کی طرح کتر ڈالا تھوڑے دنوں کے بعد جب خصمیہ ایک شادی کی تقریب پر میکے جانے کے لیے کپڑے بدلنے لگی تو کپڑوں کو دیکھ کر حیران ہو گئی۔ ایک کپڑا بھی ایسا نہ نکلا جو پہننے کے قابل ہو۔ چوہوں کو گالیاں نکالنی اور بددعائیں دیتی چلی گئی اور ساتھ ہی ابوالحسن کو بھی لے گئی۔ +ابوالحسن کو اس شرارت پر بہت فخر تھا کیونکہ اول تو اس کی یہ شرارت ظاہر ہی نہ ہو چکی، اور دوسرے اس نے اپنا دل خوش اور کلیجا ٹھنڈا کرنے کے لیے خصمیہ کو ستا بھی لیا۔ +خصمیہ میکے رہ کر بھی ابوالحسن سے اچھی طرح پیش نہ آئی، بلکہ پہلے کی نسبت بھی زیادہ تنگ اور دق کرنا شروع کیا۔ ابوالحسن نہایت رنج و الم کے ساتھ خصمیہ کو اطلاع دینے کے بغیر ہی والد کے پاس چلا آیا۔ اور یہاں آ کر ایک ایسی شرارت کی جس سے اس کو اور اس کے والد کو علاحدہ علاحدہ بے وطن ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ پھر باپ بیٹا مرنے تک بھی نہیں مل سکے۔ +اگلا صفحہ ابوالمحاسن بے وطن ہو گیا]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ابوالحسن اور خصمیہ]] +اللہ اکبر۔ ایک بھرے گھر کا مالک شریف خاندان کا چراغ محض نالائق لڑکے اور بدسلیقہ بیوی کے ہاتھوں تنگ ہوتا ہے اور ایسا کہ اس کا کچھ پتہ نہیں ملتا۔ ابوالمحاسن نے جو بیوی کے ہاتھوں سے تنگ ہو کر کئی دفعہ غریب الوطن ہونے کا عزم کیا، اسی خیال سے کہ اب سمجھ جائے گی، اس ارادے سے ملتوی رہا۔ ابوالمحاسن اس دفعہ ایسا بے خانماں ہوا اور ایسا غریب النصیب کہ اس کی مسافرت کے حالات آج تک تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں۔ +اب کا یہ وہ سفر ہے کہ نہ دیکھوں گا پھر وطن +یوں تو میں لاکھ بار غریب الوطن ہوا +ابوالحسن گھر پہنچا تو اس کے ذہن شریف میں ایک ایسی عجیب شرارت آئی جو درج ذیل ہے۔ +طایف میں ایک دیوانی سی عورت ثمینہ نامی گلی کوچوں میں پھرا کرتی تھی۔ وہ موٹی تازی اور جسیم تھی۔ ابوالحسن روٹی ٹکڑے کا لالچ دے کر اسے اپنے گھر لے آئے اور حویلی کے اندر چھوڑ باہر سے دروازہ لگا خود روتے ہوئے خصمیہ کے پاس جا پہنچے اور جاتے ہی اوس کے گلے لپٹ زار زار رونے اور بڑی دردمندی کے ساتھ کہنے لگے۔ کہ ابّا جان نے ایک اور عورت سے نکاح کر لیا ہے، اسے گھر میں لے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بڑی خاندانی اور شریف ہے۔ اس کی خوبصورتی اور خوش مزاجی کی بھی تعریف کرتے ہیں، مگر اماں جان خدا کی قسم وہ آپ کی جوتی کے برابر بھی نہیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے اس سے بھی کہدیا اور آپ کی بہت تعریف کی، اس پر وہ مجھ پر ناراض ہو گئی، اور جب میں نے کھانا مانگا تو آپ کو گالیاں نکال کر کہنے لگی کہ جا اسی مالزادی سے جا کر کھا۔ اتنا کہہ کر ابوالحسن اور بھی چیخیں مار مار کر رونے لگے۔ +یہ سن کر خصمیہ نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ مارے غصے کے لال پیلی ہو گئی ابوالمحاسن اور ثمینہ دونوں کو وہ صلواتیں سنائیں کہ الامان۔ پھر ابوالحسن کو ساتھ لے کر سیدھی گھر پہنچی، یہاں درحقیقت ایک موٹی تازی عورت موجود تھی۔ اس لیے اور زیادہ تحقیق کی ضرورت نہ تھی۔ پاؤں سے جوتی نکال کر اس بے خبر کی خبر لینی شروع کی۔ ادھر ثمینہ بھی کم نہ تھی، اس نے بھی پاؤں نکالے غرض ابوالمحاسن کا گھر خاصہ میدان کارزار بن گیا۔ +ابوالحسن صاحب اس وقت یہ تماشہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے، مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ اس خوشی کا نشہ بالکل عارضی ہے۔ چنانچہ اس ہنگامے کو دیکھ کر محلے کے لوگ جمع ہو گئے اور ان میں سے کسی نے ابوالمحاسن صاحب کو بھی خبر کی۔ وہ آئے تو عجیب کیفیت دیکھی اور اندر سے دروازہ بند پا کر حیران ہوئے۔ بہتیرا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر دروازہ نہ کھلا۔ مجبوراً ایک پڑوسی کی دیوار پھاند کر اندر گئے تو خصمیہ ثمینہ کو چھوڑ کر ان کے سر ہوئی اور بے تکلف ان کے سر پر جوتیاں برسانی شروع کیں۔ اس پر ثمینہ نے بھی ادھر توجہ کی اور دونوں نے مل کر انہیں مار مار کر الو بنا دیا۔ ناچار وہ گھر سے نکل بھاگے۔ گھر بار مال و اسباب بیوی بچے کاروبار اور وطن کی پروا نہ کر کے ایسے گئے کہ پھر کسی سے پتہ نہ ملا کہ کہاں گئے اور ان کے ساتھ کیا بیتی اور وہ کیونکر جاں بحق ہوئے۔ +اگلا صفحہ ابوالحسن کی آوارہ گردی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ابوالمحاسن بے وطن ہو گیا]] +ابوالحسن کو یہ خبر نہیں تھی کہ اس شرارت کا نتیجہ خاندان کے حق میں نہایت زہریلا ہو گا۔ اس کا مدعا صرف یہ تھا کہ خصمیہ کو جلا اور ستا کر دل کا بخار نکالے مگر یہاں لینے کے دینے پڑ گئے۔ ابوالمحاسن کے جانے کے بعد خاوندکش عورت مال و اسباب لے کر میکے چلی گئی اور ابوالحسن باپ کی تلاش میں گردش ایّام کے زیر سایہ ہو کر خراب و خستہ ہونے لگا۔ +گردش ایّام سے بے خطر رہنے والو، سوچو اور غور کرو وہ ابوالحسن جو والدین کی گودی میں نہایت ناز سے پلا تھا، جس کے آرام و آسائش کے لیے لاکھوں سامان موجود تھے، جس کے بچپن کا زمانہ بادشاہی زمانہ تھا، آج شہر بہ شہر اور در بدر خراب و خستہ ہو رہا ہے۔ کپڑے جو بدن پر میلے کچیلے اور پھٹے پرانے ہیں وہ تو ہیں ہی، مگر کھانے کو ایک حبہ بھی پاس نہیں کسی نے ترس کھا کر دے دیا تو کھایا لیا، ورنہ اللہ اللہ خیر سلا۔ +سب سے پہلے مکّہ میں باپ کی تلاش کی، مگر گوہرِ مقصود وہاں سے بھی دامنِ امید میں نہ آیا۔ اسی آوارہ گردی میں ایک ایرانی قافلہ ملا، قافلے والے تو اس کی زبان سے ناواقف تھے، مگر سپہ سالار قافلہ عربی سے واقف تھا۔ اس نے ابوالحسن سے جب ساری کیفیت سنی تو اس کے دل میں ایرانی مہمان نوازی اور شیرازی دعوت نے جوش مارا، اس کے کپڑے بدلوائے اور کھانے کو دیا۔ اور اپنے ہمراہ لے کر طہران جو ایران کا دارالخلافہ ہے، پہنچا۔ +اگلا صفحہ قسمت نے پلٹا کھایا]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +ابوالمحاسن بے وطن ہو گیا]] +ابوالحسن ملا دوپیازہ بنتا ہے]] +ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے]] +ملا دوپیازہ اور دربار اکبری]] +ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری]] +خاک شفا اور خون شہیداں]] +محمد عمر یا خادم علی]] +ان کا نام ہی ان کی ہجو ہے]] +یک نہ شد دو شد]] +ملا دوپیازہ کا ایک عجیب فیصلہ]] +ایک عورت پر اہل دربار کی رائے]] +ملا اور بیربر کی پگڑی]] +نہ ملا مرغ ہوتا نہ بیربر سی مرغی انڈے دیتی]] +ملا صاحب کی ایک عجیب لغت]] +ملا کی اٹ البحر، اٹ الہدیٰ اور بھینسۃ الرکاب]] +شاہ دہلی کا رعب ایران میں]] +باری کے بخار کی تعریف]] +انڈا گرتے ہی بچہ بولنے لگا]] +عاشق اور خدا کی یاد]] +ملا صاحب کی قیافہ شناسی]] +ملا صاحب کا لاجواب نصیحت نامہ]] +گنجینۂ نصیحت و حکمت (یعنی النامۂ ملا دوپیازہ)‏]] +شہنشاہ اقلیم ظرافت کی رحلت]] + + +گزشتہ صفحہ ابوالحسن کی آوارہ گردی]] +مگر ہمایوں کے اسی ادبار و افلاس میں ایک ایسا چمکتا ہوا جوہر تھا جس کی قدر و منزلت سے گو اہل عالم بے خبر تھے، مگر تقدیر دست بستہ التماس کر رہی تھی کہ اے افلاس و چار اور مصیبت و نکبت کے زمانے میں ہونے والے بچے اپنے باپ ہمایوں کو یہ مژدہ سنا کہ میری یہ ریگستان جنگل کی پیدائش تمام ہندوستان پر اس رعب و جلال سے حکومت کرے گی کہ ایک عالم دنگ رہ جائے گا اور عدل و انصاف کے سکے تمام دنیا میں بیٹھ جائیں گے۔ معزز ناظرین یہ چمکتا ہوا جوہر اکبر بادشاہ تھا جو راجپوتانہ کے جنگلوں میں جبکہ ہمایوں مارا مارا پھر رہا تھا، پیدا ہوا۔ +شاہ ایران نے بے ملک بادشاہ (ہمایوں) کی نہایت خاطرداری کی اور کئی سال تک بے سروسامان مہمان کو شاہی مہمان بنا کر رکھا۔ ہمایوں کے پانچ دس گنتی کے نمک حلال وفاداروں میں سے ایک مرزا اللہ بخش خان بھی تھے جو بادشاہت کے زمانہ میں فوج کے سپہ سالار تھے۔ امیر قافلہ جو ابوالحسن کو ساتھ لائے تھے، جرنیل اکبر علی خان سے ان کی اچھی دوستی بلکہ محبت تھی۔ مرزا اللہ بخش خان ابوالحسن کے لطائف و ظرافت سن کر نہایت خوش ہوتے تھے۔ چنانچہ جب ہمایوں ایران سے کافی مدد لے کر واپس ہوا ہے تو ابوالحسن کو بھی مرزا نے ساتھ لے لیا تھا۔ +اگلا صفحہ ابوالحسن ہندوستان آتا ہے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ قسمت نے پلٹا کھایا]] +دہلی میں آ کر ایک مسجد کی امامت کی، عربی وضع کے آدمی، اس پر ظریف طبعیت اور خوش مذاق اور پھر خوش آوازی نے سونے پر سہاگا کیا ہوا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اسلامی سلطنت اور امارت و فراغت کا زمانہ تھا۔ ابوالحسن کی قدر ایسی لگی کہ وہ ضیافت اور مجلس پھیکی اور نکمّی سمجھی جاتی تھی جو ابوالحسن کی شمولیت سے محروم ہوتی تھی۔ شہرت اور قدردانی کے نظاروں کی آواز عوام اور غربا سے گزر کر خواص اور امرا کے کانوں تک پہنچنے لگی اور تھوڑے ہی دنوں میں ابوالحسن امرائے شاہی کی دعوتوں اور مجلسوں میں بھی نظر آنے لگا۔ +اگلا صفحہ ابوالحسن ملا دوپیازہ بنتا ہے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ابوالحسن ہندوستان آتا ہے]] +جب اکبری اقبال نے منتخب روزگار اور برگزیدہ اشخاص دارالسطنت میں اکٹھے کر دیے تو مجلس میں علامہ ابوالفضل کا بھائی ملک الشعراء شیخ ابوالفضل فیضی بھی تھا۔ فیضی نے بھی ابوالحسن کی دعوت میں بلایا اور دوپیازہ جو اس زمانے میں نہایت لذیذ اور نفیس کھانا سمجھا جاتا تھا، خاص ابوالحسن کے لیے تیار کرایا۔ ابوالحسن نے اس شوق اور رغبت سے دوپیازہ پر ہاتھ مارے کہ سب کھانوں کو بھول گیا۔ بے چین ہو کر پوچھا، اس کھانے کا نام کیا ہے۔ فیضی نے کہا دوپیازہ۔ ابوالحسن نے عہد کر لیا کہ جس دعوت میں آئندہ دوپیازہ نہ ہوا کرے گا، بندہ کے لیے وہ دعوت عداوت ہو جائے گی۔ +ملا صاحب واقعی بات کے پکے نکلے۔ جس طرح دعوت اور ملا لازم اور ملزوم ہو گئے تھے، اسی طرح دعوت اور دوپیازہ بھی علت و معلول تھے۔ یہ بات دہلی میں یہاں تک مشہور ہو گئی کہ پبلک نے خود بخود بغیر کسی تحریک و تائید کے ابوالحسن کو ملا دوپیازہ کا خطاب دے دیا۔ یہ نام ایسا مشہور ہوا کہ لوگ ملا کا اصلی نام ہی فراموش ہو گئے، اور اب بھی کم لوگ ایسے ہیں جو پیازہ کے نام سے واقف ہیں۔ پچھلے دنوں 'ملا دوپیازہ' کے نام سے لاہور سے اخبار بھی نکلتا تھا۔ +اگلا صفحہ ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ابوالحسن ملا دوپیازہ بنتا ہے]] +ملا صاحب صرف امامت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ جس طرح خود ملا عبدالرحمٰن کے مکتب میں پڑھے تھے، اسی طرح انہوں نے بھی ایک مکتب قائم کیا ہوا تھا اور لڑکوں کو فقہ و حدیث اور دیگر علوم دینیات کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ +ملا صاحب کا ایک شاگرد عبدالجبّار نامی لطائف اور شوخی و شرارت میں ان کا فرزند معنوی تھا۔ طبعیت ذرا موزوں تھی۔ ملا سے کہا، استاد! غزل کہنے کو جی چاہتا ہے، کوئی مصرع طرح دیجیے۔ انہوں نے مصرع طرح دیا؛ +سعادت مند شاگرد نے مندرجہ ذیل اشعار لکھے؛ +استاد کو میدان میں آج ہم نے پچھاڑا +چھاتی پہ چڑھے کود کے داڑھی کو اکھاڑا +استاد کے مصرع پہ لگاتے ہیں گرہ ہم +شاعر ہمیں کر دیجیے یا پیر بخارا +یہ طرفہ غزل ہم نے کہی مولوی صاحب +اصلاح سے دل کیجیے خورسند ہمارا +اپنی ہی غزل پر میں ہوا داد کا خواہاں +ملا صاحب یہ غزل سن کر نہایت چیں بہ جبیں ہوئے۔ بظاہر تو کچھ نہ کہا مگر دل میں کہتے تھے، کہ واقعی جائے استاد خالی است۔ یہ تو اب ہمارے بھی کان کترنے لگا، آخر غصہ کو ضبط کیا، اور فرمایا؛ غزل تو بہت اچھی کہی۔ اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں مگر ایک شعر کی کمی ہے وہ ہم خود لکھے دیتے ہیں۔ قلم دوات لے کر چار شعر غزل میں ذیل کا یہ شعر ایزاد کر دیا؛ +یہ طرفہ غزل لائے ہو استاد کے آگے +اگلا صفحہ ملا دوپیازہ اور دربار اکبری]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے]] +ملا دوپیاز کس طرح دربار اکبری میں داخل ہوا، اس کی نسبت مندرجہ ذیل دو روایتیں بیان کی جاتی ہیں؛ +کہتے ہیں کہ ایک نہایت بدصورت عورت نے دربار شاہی میں استغاثہ پیش کیا کہ اس کے ساتھ ایک شخص نے زبردستی فعلِ بد کیا ہے۔ اہل دربار نے تو اس بات کو قابل اعتبار نہ جان کر ہنسی میں اڑا دینا چاہا، مگر بادشاہ کا دل جو رنگارنگ کا نمونہ تھا، اس بات پر مائل ہوا کہ تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ یا تو مجرم کا پتہ لگا کر اسے سزا دی جائے، یا اس عورت کے استغاثے کی کوئی وجہ معلوم ہو۔ چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا کہ جو شخص مجرم کا پتہ لگائے گا، اسے بڑا بھاری انعام دیا جائے گا۔ +اس حکم کو سن کر انعام کے شائق بدصورت اور بدشکل آدمیوں کو پکڑ کر حضور میں پیش کرنے لگے۔ مگر جو آدمی پیش ہوتا اسے دیکھ کر وہ عورت کہہ دیا کرتی کہ یہ نہیں ہے۔ حصولِ انعام کے شوق نے ملا صاحب کو بھی مجرم کی تلاش کی طرف مائل کیا اور آخر کار ایک شکیل و حسین نوجوان کو پکڑ کر دربار شاہی میں لے پہونچے۔ سب لوگ دیکھ کر متحیر ہوئے اور کہنے لگے کہ ایسے بھولے بھالے خوبصورت اور قدآور جوان سے ایسا فعل وقوع میں آنا بظاہر ناممکن ہے۔ مگر یونہی اس عورت کی اس جوان پر نظر پڑی، کہنے لگی کہ ہاں فی الواقع یہی شخص ہے جو ایسے فعل شنیعہ کا مرتکب ہوا ہے۔ بادشاہ نے کہا اسے پیش کرو جو اس شخص کو پکڑ کر لایا ہے۔ چنانچہ ملا صاحب حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان سے پوچھا، تمہیں اس نوجوان پر کیونکر شک ہوا۔ انہوں نے کہا قبلۂ عالم میں نے دیکھا کہ یہ شخص بہ ایں شکل و صورت ایک پرنالے کے نیچے بیٹھا ہاتھ دھو اور کلیاں کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ جسے اس غلیظ پانی سے ہاتھ منہ دھونے میں کراہت نہیں، اسے اس مستقیہ بننے سے کیا نفرت ہو سکتی ہے۔ غالباً یہی شخص مجرم ہو گا۔ +اس تقریر کو سن کر بادشاہ نے ان کے ذہنِ رسا کی داد دی موعودہ انعام کے علاوہ بیش قیمت خلعت عطا کیا، اور فرمایا کہ آج سے تم ہر روز دربارِ عام ہو یا دربارِ خاص، بے تکلف آیا کرو۔ +اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ مفتی محمد زکریا ان دنوں لاہور کے مفتی تھے، جس کو حدیث و تفسیر فقہ اصول میں نہایت عمدہ دستگاہ حاصل تھی، مگر ساتھ ہی اس کے تکبر و غرور کے نشہ میں بھی سرمست تھے۔ ان کی علمی چھیڑ چھاڑ ہمیشہ ابوالفضل اور فیضی سے رہا کرتی تھی۔ جزئیات فقہ میں وہ ہمیشہ ان دونوں بھائیوں پر فوقیت لے جاتے تھے۔ مگر صرف و نحو میں ان کو پوری مہارت نہ تھی۔ فیضی نے ایک روز ملا سے مفتی صاحب کی شکایت کی۔ ملا نے کہا آپ مجھے بے چین میں خدا کے فضل سے مفتی صاحب کا ناطقہ بند کر دوں گا۔ فیضی نے ایک روز موقع پا کر اکبر کے حضور میں ملا کی حاضرجوابی اور ظریفانہ گفتگو کا تذکرہ کیا۔ اکبر نے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دوسرے روز جب قاضی صاحب بھی دربار میں موجود تھے، ملا صاحب نے سو گز کا عمامہ سر پر باندھا اور پچاس گز کا شملہ پس پشت چھوڑا، جس کو ایک طشت کلاں میں دھر نوکر لا رہا تھا۔ غرض ملا صاحب بایں ہیئت کذائی داخلِ دربار ہوئے۔ بادشاہ تو دیکھ کر مسکرائے، مگر حاضرین آداب مجلس اور رعب شاہی کی وجہ سے ہنس نہ سکے مگر سب نے اپنے منہ میں رومال ٹھونس لیے۔ ملا صاحب آداب شاہی بجا لائے اور قاضی صاحب کے پہلو میں جا بیٹھے۔ قاضی صاحب نے پوچھا، ملا صاحب آپ کا ملازم پشت طشت میں کیا چیز اٹھائے کھڑا ہے۔ ملا صاحب نے کمال برجستگی سے جواب دیا، شملہ۔ قاضی صاحب نے کہا، شملہ اور اس قدر۔ ملا نے کہا شاید آپ نے نہیں سنا کہ شملہ بمقدار علم۔ اس پر تمام ناظرین دربار ہنس پڑے، اور خود بادشاہ ضبط نہ کر سکا۔ +اگلا صفحہ ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا دوپیازہ اور دربار اکبری]] +تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ ملا دوپیازہ کا ذکر کسی معتبر تواریخ میں نہیں ملتا۔ ایسا مشہور شخص کہ بچہ بچہ اس کے نام سے واقف ہو اور مؤرخ لوگ اس کا نام تک بھی نہ لکھیں۔ ملا عبدالقادر بدایونی اور دیگر مؤرخوں نے بھی نہ لکھا۔ اور موجودہ زمانہ کے زبردست اہل قلم پروفیسر آزاد نے بھی ان کے حالات سے اغماز کیا۔ دربار اکبری اور قصص ہند کا ایک ایک ورق چھان مارا، مگر کہیں ملا کا نام بھی نہیں دکھائی دیا۔ غالباً وجہ اس کی یہ ہو گی کہ پروفیسر آزاد نے چونکہ ملا عبدالقادر اور لتھرج صاحب وغیرہ کی تتبیع کی ہے اور چونکہ انہوں نے ملا کے حالات نہیں لکھے۔ اس لیے انہوں نے بھی نہ لکھے ہوں گے۔ ہرچند ملا دوپیازہ دربار اکبری کے دل بہلاؤ کا ایک مشغلہ تھے، مکر پھر بھی چونکہ روزانہ حاضر باشوں میں تھے، اس لیے اس قدر بخل ناروا نہیں تھا کہ ان کا نام ہی لکھا جاتا۔ +مختلف کتابوں اور روایتوں سے اس قدر پتہ چلتا ہے کہ ابوالفضل اور فیضی ملا کی شوخئ طبع اور ظرافت سے بہت خوش رہتے تھے اور جب کبھی مہمان ملکی پر جاتے تھے تو خط و کتابت سے ہی دل بہلایا کرتے۔ عبدالرحمٰن خانخانان، مرزا کوکلتاش، حکیم ہمام، حکیم ابوالفتح، ابوالفضل فیضی، راجہ مان سنگھ وغیرہ لطافت و ظرافت میں ملا کا پاسنگ بھی نہیں تھے۔ مگر راجہ بیربر اس کے مقابلہ کا تھا۔ اور ان میں باہم چوٹیں ہوا کرتی تھیں۔ +اگلا صفحہ لطیفوں کے متعلق مبالغہ]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا دوپیازہ اور نو رتن اکبری]] +ملا دوپیازہ دربار میں پہنچ کر چند ہی دنوں کے بعد اپنی خداد لیاقت (ظرافت) کے باعث یہاں تک بےتکلف اور بے دھڑک ہو گیا تھا کہ نورتن اکبری کے علاوہ خود شاہ سلامت سے مذاق کرنے سے بھی نہیں چوکتا تھا۔ اکبر بھی چونکہ زندہ دل اور خوش طبع بادشاہ تھا، اس لیے شیشۂ دل پر ملال نہیں لاتا تھا۔ بلکہ شیخ سعدی کے اس مقولہ کی طرح بادشاہ کبھی تعریفوں سے ناراض ہوتے ہیں اور کبھی گالیوں سے خوش، انعام و اکرام سے مالا مال کرتا تھا۔ +اکبر بادشاہ کے متعلق ایک اور بار لوگوں نے اس طرح تراشا ہے جس کے ماننے میں گو ایک عالم متفق ہو، مگر نیازمند فوق کو بہت کچھ تامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ؛ +فوق عقلِ سلیم باور نہیں کرتی کہ اکبر بادشاہ نے، جس کے جلو میں ہر وقت ابوالفضل اور فیضی جیسے ارسطو و افلاطون رہتے ہوں، ایسی ناشائستہ حرکت کی ہو۔ +اگلا صفحہ ملا دوپیازہ کی شاعری]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ لطیفوں کے متعلق مبالغہ]] +ملا صاحب کا ایک شعر تو شاگرد کی غزل میں جا چکا ہے، باقی جو ��علوم ہو سکے ہیں، ہدیۂ ناظرین کیے جاتے ہیں۔ خواجۂ حافظ کے مصرع پر مصرع لگاتے ہیں؛ +بہ پہلویم رسید امروز دلدارم بہ ناچاقی +ادرکاساً و ناولہا الا یا ایّہاالسّاقی +ایک دفعہ اکبر بادشاہ نے یہ مصرع دیا، +بیا اے محتسب ساغر مکش دینِ الٰہی شد +ملا صاحب فرماتے ہیں کہ مصرع؛ +نکاحِ دُختِ زر جائز کنوں از مہرِ شاہی شد +دو اشعار اور بھی ملاحظہ ہوں؛ +مصحفِ رخسار در بمسجد می روم +کافرم معشوق خواند لیک قرآں در بغل +می نوشتم نامہ و بر نامہ بر بردم حسد +ایں چرا پیش از منِ مہجور بیند روئے دوست +اگلا صفحہ خاک شفا اور خون شہیداں]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا دوپیازہ کی شاعری]] +ایک دن اکبر بادشاہ نے تحفہ و تحائف کے چند صندوق مقفل کر کے راجہ بیربر سے کہ کہ ان کو شاہ ایران کی خدمت میں لے جاؤ۔ بیربر نے منظور کیا، ان کو لے گیا اور گھر جا کر یہ استادی کی کہ قفل توڑ کر تمام چیز نکال لی اور بجائے ان کے استنجے کے ڈلے اور حیض کے آلودہ کپڑے مقفل کر کے بادشاہ کی خدمت میں پھر واپس آیا کہ حضور وہاں جانے سے بہت بڑا نقصان ہو گا، بہتر ہو گا کہ آپ ملا کو بھیجیں۔ بیربر کا مطلب اس سے یہ تھا کہ شاہ ایران ان چیزوں کو دیکھے گا تو ملا کو ہلاک کر ڈالے گا اور اس طرح پر یہ بلا میرے سر سے ٹل جائے گی۔ بادشاہ نے اسے منظور کر لیا اور صندوق ملا کے حوالہ کیے۔ وہ بیچارہ اصل بھید سے ناواقف تھا کہ ان میں کیا بھرا پڑا ہے۔ ان کو لے کر فوراً ایران کو روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر پہلے دن تو بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اکبر کا سلام دیا۔ دوسرے تیسرے روز با فراغت وہ صندوق جو ہندوستان سے لے گیا تھا، شاہ ایران کی خدمت میں پیش کیے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ صندوق کھولے جائیں۔ حسب الحکم صندوق دربار میں کھولے گئے تو وہ چیزیں جو بیربر کی شرارت سے اس میں رکھی ہوئی تھیں، برآمد ہوئیں۔ ملا ان کو دیکھ کر حیران و پشیمان اور نہایت شرمندہ ہوا، مگر اس کے ذہن رسا کا کیا کہنافوراً ایک نیا فقرہ گھڑ کر کہنے لگا کہ تحفہ تو یہ ارسال کیا ہے، اور زبانی بھی کچھ ارشاد فرمایا تھا، اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ بادشاہ نے کہا کہ ہاں ہاں کہو۔ ملا نے عرض کیا کہ کربلائے معلیٰ سے خاک شفا اور خون شہیداں بادشاہ کے پاس آیا تھا، لیکن اس باعث سے کہ ہندوستان میں ایسے بیش قیمت تحفہ کی قدر نہیں ہے، انہوں نے آپ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس برجستہ تقریر کو سن کر بادشاہ اور دیگر اہل دربار نہایت محظوظ ہوئے اور بادشاہ کہنے لگا، کہ اگر تمام دنیا کی دولت میرے پاس بھیجی جاتی تو بھی ایسا خوش نہ ہوتا۔ الغرض اس تحفہ کو تمام شہر طہران میں تقسیم کر دیا گیا، جس کو لوگوں نے بڑے اشتیاق سے قبول کیا۔ +اگلا صفحہ نعلین تخت العین]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ خاک شفا اور خون شہیداں]] +ایک روز ملا جوتی سمیت دربار میں چلے آئے۔ اہل دربار نے افسوس کیا اور اس گستاخی پر بادشاہ کو توجہ دلائی۔ جب بادشاہ نے ملا کی یہ حرکتِ لایعنی دیکھی تو ارشاد فرمایا کہ ملا چہ کار کردۂ۔ ملا گفت، ہیچ نہ کردہ، بر حدیثِ احمدی عمل کردہ۔ پادشاہ گفت، او چگونہ است، گفت (اپنی جوتی کی طرف اشارہ کر کے) اینست کہ نعلین تخت العین۔ +اگلا صفحہ بدر اور ہلال]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ نعلین تخت العین]] +ملا نے جب ایران میں پہنچ کر مذہبی دلائل سے ایرانی مولویوں کو تنگ کرنا شروع کیا ت�� وہ اس کی ہلاکت کی تدبیریں سوچنے لگے۔ آخر انہوں نے صلاح کی کہ بادشاہ کے مشورہ سے اس کا قصہ پاک کر دینا چاہیے۔ چنانچہ یہ تجویز قرار پائی کہ ملا سے سرِ دربار دریافت کیا جائے کہ آیا تیرا بادشاہ اچھا ہے کہ ہمارا۔ اگر اس نے حضور کی تعریف کی تو اکبر اسے زندہ نہ چھوڑے گا۔ اور جو اکبر کی تعریف میں زبان کھولی تو اس گستاخی کی تہمت سے مجرم قرار دے کر مار ڈالنا کچھ دشوار نہیں ہے۔ بادشاہ کو بات نہایت پسند آئی۔ دربار عام میں ملا کو بلوایا اور خیر خواہان دربار نے دریافت کیا کہ ملا صاحب آپ کے بادشاہ سلامت اچھے ہیں یا ہمارے حضورِ پرنور۔ ملا نے یہ بات سن کر خاموشی اختیار کی اور مکرر جو دریافت کیا گیا تو بھی جواب نہ دیا۔ جب بادشاہ نے دیکھا کہ ملا سن کر خاموش ہو گئے تو خاص اپنی زبان فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا کہ ملا صاحب فرمائیے، جواب تو دیجیے۔ جب تو ملا صاحب ہوش میں آ گئے اور یوں گویا ہوئے، کہ حضور کے قربان جاؤں۔ آپ ماشاءاللہ بدر ہیں تو وہ ہلال۔ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور علاوہ بہت سے انعاموں کے خلعت بیش قیمت مرحمت کیا اور اسی وقت یہ خبر اکبر کو روانہ ہوئی۔ اکبر بادشاہ یہ خبر سن کر نہایت برافروختہ ہوئے اور فوراً ملا کی طلبی کا حکم روانہ فرمایا۔ بفور پہنچنے پروانہ کے ملا صاحب کو آنا پڑا۔ بادشاہ نے فرمایا، کیوں صاحب، یہ غیروں کے سامنے ہماری برائیاں، گویا جس برتن میں کھانا اسی میں سوراخ کرنا۔ بس تمہاری یہی سزا ہے کہ کل ہلاک کیے جاؤ گے۔ ملا نے دست بستہ عرض کی حضور پہلے خاکسار کو قصور سے مطلع فرمائیں۔ بادشاہ نے وہ خبر جو ایران سے آئی تھی، ملا صاحب کو سنائی۔ ملا نے سن کر زمین خدمت چومی اور عرض کیا، کہ اول حضور اس کا مطلب سوچیں۔ بادشاہ نے خشم آلودہ ہو کر فرمایا کہ اچھا آپ ہی بتلائیے، چنانچہ ملا نے گزارش کیا کہ خاکسار نے جو حضور کو ہلال بتایا، یعنی اول شب کا چاند سو درست ہے۔ کیونکہ آپ کو ہر روز عروج ہے۔ اور ان کو بدر یعنی چودہویں رات کا کہا، تو ان کو دن بدن تنزل ہے۔ بھلا کہاں حضور اور کہاں وہ۔ کہاں ذرّہ کہاں خورشید عالم۔ اکبر بادشاہ کو یہ بات بہت پسند آئی اور بہ نسبت شاہ ایران کے بہت کچھ انعام و اکرام عطا فرمایا اور حکم دیا کہ ملا صاحب یہاں سے کہیں تشریف نہ لے جائیں۔ +اگلا صفحہ محمد عمر یا خادم علی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ بدر اور ہلال]] +ایک دفعہ ملا صاحب ایران میں حمام کو جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک سپاہی نے ان کا ریش و فَش دیکھ کر پوچھا، جناب چہ نام میدارید۔ ملا صاحب نے جواب دیا محمد عمر۔ سپاہی نے غصہ میں آ کر تلوار کھینچ لی اور ملا صاحب پر ہاتھ لگانا چاہا۔ مگر وہ جھٹ سے ایک حمام کے اندر گھس گئے۔ سپاہی مذکور ان کے انتظار میں باہر تلوار لیے کھڑا رہا جب ملا صاحب غسل کر کے حمام سے برآمد ہوئے تو اس نے پھر پوچھا، ملا چہ نام داری۔ انہوں نے کہا خادم علی۔ وہ سن کر کہنے لگا۔ اول چرا دروغ گفتہ بودی۔ آپ نے ارشاد کیا۔ در آنوقت ناپاک بودم، وقتیکہ پاک شدم نام علی را بزباں آوردم۔ سپاہی یہ سن کر پاؤں گر پڑا اور معافی کا خواستگار ہوا۔ +اگلا صفحہ ان کا نام ہی ان کی ہجو ہے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ محمد عمر یا خادم علی]] +پایۂ تخت اکبری میں مرزا نورالعین بڑے رتبہ کے شاعر تھے۔ ان کی اور ملا صاحب کی باہم چشمک تھی۔ مرزا ایک دفعہ ملا کی ہجو کہہ کر لائے، اور دربار میں سنائی۔ بادشاہ نے ملا کی طرف اشارہ کیا کہ تم بھی ان کی ہجو لکھو۔ ملا نے کہا، حضور میں ان کی کیا ہجو لکھوں، ان کا نام ہی ان کی ہجو ہے۔ یعنی نورالعین۔ +اگلا صفحہ یک نہ شد دو شد]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ان کا نام ہی ان کی ہجو ہے]] +مرزا عزیز کوکلتاش نے جب نیا مکان تعمیر کرایا اور اپنے احباب کی اس تقریب پر دعوت کی تو اس میں بیربر اور ملا دوپیازہ بھی مدعو تھے۔ تمام اہل دعوت نے مکان کی تعریف کی۔ بیربر کہنے لگا، مکان تو واقعی اچھا ہے۔ مگر دروازہ اس قدر تنگ ہے کہ مردہ کی چارپائی مشکل سے نکل سکے گی۔ مرزا عزیز کوکلتاش کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ انہوں نے ملا صاحب سے اس بات کی شکایت کی، ملا کہنے لگا، راجہ جی کو کیا عقل ہے، مکان کا دروازہ تو اتنا بڑا ہے کہ اگر آپ کا سارے کا سارا کنبہ مر جائے تو تمام مردے بافراغت نکل سکتے ہیں۔ مرزا عزیز کہنے لگے آپ تو راجہ جی سے بھی بڑھ گئے۔ ملا جی نے کہا یہ آپ کا حسن ظن ہے، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ +اگلا صفحہ ملا دوپیازہ کا ایک عجیب فیصلہ]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ یک نہ شد دو شد]] +ایک عورت بادشاہ کے حضور آ کر دادخواہ ہوئی کہ فلاں شخص نے مجھ سے جبراً فعل بد کیا ہے۔ بادشاہ نے ملا کی طرف اشارہ کیا۔ ملا نے کہا حضور آدمی کو بھی طلب کیا جائے تاکہ فریقین کی حاضری میں مقدمہ کا فیصلہ کیا جائے۔ جب وہ شخص آیا تو اس سے دریافت کیا گیا، وہ انکاری ہوا۔ ملا نے کہا حضور اس شخص سے پچاس روپیہ بطور جرمانہ دلوائے جائیں۔ جس وقت وہ عورت روپیہ لے کر باہر نکلی، ملا نے اس آدمی سے کہا تم اپنا روپیہ اس عورت سے چھین لاؤ۔ وہ باہر جا کر اس سے روپیہ چھیننے لگا۔ مگر عورت نے روپے ہاتھ سے نہ چھوڑے اور بادشاہ کے آ کر فریاد کرنے لگی کہ یہ شخص مجھ سے روپیہ چھیننا چاہتا ہے۔ ملا نے کہا جب وہ روپیہ تم سے نہیں چھین سکتا تو زبردستی تیری عصمت کیونکر لے سکتا ہے۔ یہ بالکل تیرا فریب ہے۔ بادشاہ نہایت خوش ہوا۔ +اگلا صفحہ ایک عورت پر اہل دربار کی رائے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا دوپیازہ کا ایک عجیب فیصلہ]] +دربار اکبری کے اندرونی خصائل، ملا صاحب کی زبان سے +بادشاہ نے بھی ملا کی قیافہ شناسی پر صاد کیا اور فرمایا کہ اب اہالیان دربار کے خصائل بیان کرو۔ ملا نے عرض کیا کہ حضور لطف تو جب ہے کہ میں بیان کروں اور یہ لوگ بھی تصدیق کریں۔ بادشاہ نے فرمایا ہاں، ضرور تصدیق کریں گے۔ ورنہ ہم تحقیقات کا حکم دیں گے۔ ملا نے عرض کیا کہ اب توجہ بندگان عالی کمترین کی طرف مبذول ہو۔ بادشاہ نے فرمایا ہاں۔ ملا نے دوزانو بیٹھ کر مؤدبانہ عرض کیا، حضور؛ +# جس شخص کا سر لمبا بال باریک اور چہرہ گول بدن فربہ سینہ کشادہ اور بازو دراز ہوں وہ سریع الاعتقاد اور عقل سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ بادشاہ مسکرانے لگا کہ اس نے مجھ کو بھی نہ چھوڑا۔ +# جس کے بال بھورے ہوں، وہ حیلہ باز، چغلخور، حاسد اور دو رویہ ہوتا ہے۔ کیا ابوالفضل صاحب ٹھیک ہے۔ +# جو کوئی بات کرنے میں نگاہ سے نگاہ نہ ملائے، اور دزدیدہ نگاہ سے دیکھے، اس نے بچپن میں ضرور اغلام کرایا ہو گا۔ بیربر صاحب غور فرمائیں۔ +# جس کے سر اور داڑھی کے بال گھنے اور بھنویں ملی ہوئی ہوں، ناک اونچی ہو، مگر آگے سے جھکی ہوئی ہو، بڑا شہوت پرست ہوتا ہے۔ کیوں مولانا عبدالقادر صاحب۔ +# جس کے سینہ پر بال ہوں، چھریرا بدن اور سوکھی ٹانگیں ہوں، وہ خبطی اور بکواسی ہوتا ہے۔ حکیم ہمام۔ +# جس کی ناک بڑی اور پستہ قد ہو، وہ زن مرید ہوتا ہے۔ کیوں خان خاناں سچ ہے۔ +# جس کی پیشانی تنگ اور گردن موٹی ہو، وہ سخت بخیل ہوتا ہے۔ مرزا عزیز کوکلیاش۔ +اگلا صفحہ ملا اور بیربر کی پگڑی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ایک عورت پر اہل دربار کی رائے]] +ملا صاحب دربار شاہی میں بڑے تکلف سے پگڑی باندھ کر جاتے تھے۔ مگر راجہ بیربر کے سر پر ٹوپی ہوا کرتی تھی۔ ایک دن ملا صاحب اپنی پگڑی کی بے حد تعریف کر رہے تھے، جسے سن کر راجہ صاحب نہ رہ سکے اور بادشاہ سے کہنے لگے، جہاں پناہ یہ یونہی اپنی پگڑی کی گپیں ہانک رہے ہیں، کل میں بھی پگڑی باندھ کر آؤں گا، جس سے ظاہر ہو جائے گا کہ ان کے دعوے محض فضول ہیں۔ دوسرے دن راجہ شیشہ سامنے رکھ کر ایسی عمدہ پگڑی باندھ کر حاضر دربار ہوئے کہ بادشاہ نے کہا واقعی بیربر نے ملا سے اچھی پگڑی باندھی ہے۔ ملا نے جواب دیا کہ جہاں پناہ اس نے تو اپنی جورو سے بندھوائی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا، اس کا کیا ثبوت، ملا جی نے جھٹ اپنی پگڑی اتار کر کہا، یہ بھی اتار دیں اور پھر دونوں حضور کے سامنے باندھیں اس سے معلوم ہو جائے گا کہ میں تو خود پگڑی باندھتا ہوں اور یہ اپنی جورو سے بندھوا کر لایا ہے۔ بادشاہ نے کہا بہت خوب۔ راجہ صاحب بھی پگڑی اتاریں اور دونوں پھر ہمارے سامنے باندھیں۔ اب میدان تو ملا جی کے ہاتھ تھا ہی، انہوں نے تو جیسی پگڑی باندھتے تھے، ویسی ہی باندھ لی، مگر راجہ صاحب شیشہ دیکھ کر پگڑی باندھنے والے رہ گئے۔ اس سے بغیر آئینہ پگڑی بندھ ہی نہ سکی۔ اس پر بادشاہ نے خوب قہقہہ لگایا اور بیربر کو شرمندہ ہونا پڑا۔ +اگلا صفحہ سچ کہتے ہو مہربان]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا اور بیربر کی پگڑی]] +ایک دفعہ راجہ بیربر فیلبان کی شکایت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جس کے نام کے آگے بان آتا ہے وہ بڑے ہی شریر ہوتے ہیں۔ مثلاً فیلبان، شتربان، ملا صاحب سے رہا نہ گیا، شوخئ طبع و حاضر جوابی کے نشتر دل میں چٹکیاں لینے لگے، بے اختیار ہو کر فرمایا، سچ کہتے ہو مہربان۔ +اگلا صفحہ سارا آپ کا]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ سچ کہتے ہو مہربان]] +ایک دن شہنشاہ اقلیم و ظرافت متفکر و ملول ہو کر منہ نیچا کیے ہوئے چپ چاپ آ رہے تھے۔ راستہ میں راجہ بیربر مل گئے۔ انہوں نے پوچھا، یا حضرت کس کی تلاش ہے۔ ملا صاحب جواب میں فرماتے ہیں، بھائی صاحب بچپن سے میرا باپ گم ہو گیا ہے۔ اس کی تلاش کر رہا ہوں۔ راجہ نے کہا اگر میں بتا دوں تو کیا دو گے، ملا نے کہا اگر مل جائے تو سارا آپ کا۔ +اگلا صفحہ نہ ملا مرغ ہوتا نہ بیربر سی مرغی انڈے دیتی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ سارا آپ کا]] +ایک دن ملا کو زک دینے کے واسطے بیربر کے مشورے سے بادشاہ نے یہ انتظام کیا کہ مینہہ سے بھرے ہوئے تالاب کی تہہ میں خاص خاص موقعوں پر کچھ آدمیوں کی تعداد کے موافق ان سے انڈے رکھوا دیے۔ پھر ملا کوبلوایا، اور ان آدمیوں کو حکم دیا کہ تالاب میں انڈے ہیں، نکال لو چنانچہ ہر آدمی ایک ایک انڈا نکال لایا۔ جب سب انڈے نکل چکے، بادشاہ نے ملا صاحب سے کہا تم بھی انڈا نکال لاؤ۔ یہ بھی کپڑے اتار کر تالاب میں کودے، بہتیرا جتن کیا مگر کوئی انڈا ہاتھ نہ آیا۔ آخر کار تالاب سے نکل بال چھاڑ کر زور سے کہا ککڑوں کوں۔ بادشاہ نے کہا یہ کیا کرتے ہو۔ ملا صاحب ��ے جواب دیا، نہ ملا مرغ ہوتا نہ بیربر سی مرغی انڈے دیتی۔ یہ سن کر بیربر جی تو شرمندہ ہوئے مگر بادشاہ خوش ہوئے، اور ملا کو بہت سا انعام دیا۔ +اگلا صفحہ ملا صاحب کی ایک عجیب لغت]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ نہ ملا مرغ ہوتا نہ بیربر سی مرغی انڈے دیتی]] +؏ در خویشتن گم است، کرا رہبری کند +بادشاہ نے اس کی التماس کو قبول کر کے علما کو رخصت کر دیا اور ملا صاحب سے تخلیے میں پوچھا کہ اس لغت سے واقف کر دیجیے۔ انہوں نے با ادب کہا، عالی جاہ جب میں ایران سے آتا تھا، اثنائے راہ میں ایک سرائے میں اتراں وہاں گول گھیے کی بیل کے نیچے بکری بندھی تھی، اتفاقاً ایک گھئیا تن کر کے ٹوٹا اور سوکھے پتوں میں سے تسر کرتا ہوا بکری کی پیٹھ پر پہنچا۔ جہاں ہوئی بھد اس پر بکری میں کر بولی۔ میں۔ سو میں نے وہاں اس لغت کو یوں موزوں کیا کہ "تن تسر بھد میں" یہ سن کر بادشاہ بہت محظوظ ہوئے اور ملا جی کو بھی عطائے انعام سے مسرور کیا۔ +اگلا صفحہ ملا کی اٹ البحر، اٹ الہدیٰ اور بھینسۃ الرکاب]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا صاحب کی ایک عجیب لغت]] +اگلا صفحہ اپنی اپنی سمجھ ہے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا کی اٹ البحر، اٹ الہدیٰ اور بھینسۃ الرکاب]] +اہل مجلس کو تو اس سبائی گفتگو کا مطلب خاک بھی سمجھ نہ آیا، بلکہ دربار اکبری تک ہی نہیں بلکہ شاہ ایران تک بھی اس مباحثے کی دھوم مچی۔ چنانچہ پہلے تو اکبر بادشاہ نے ملا دوپیازہ صاحب کو بلوا کر مباحثے کی کیفیت دریافت کی تو ملا صاحب نے کتب خانہ وغیرہ کی حقیقت بیان کر کے کہا جب اس نے مجھے ایک انگلی دکھائی تو میں نے سمجھا کہ وہ کہتا ہے کہ میں اس انگلی سے تیری آنکھ پھوڑ دوں گا۔ اس لیے میں نے دو انگلیاں دکھا کر سمجھایا کہ تو میری آنکھ پھوڑے گا تو میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا۔ پھر اس نے تین انگلیاں دکھا کر سمجھایا کہ تجھے مار ڈالوں گا۔ میں نے چار انگلیاں دکھا کر اسے کہہ دیا کہ میں تجھے پہلے ہی چاروں شانے چت کراؤں گا۔ اس کے بعد اس نے پانچوں انگلیوں سے تھپڑ بنا کر دکھایا تو میں نے گھونسا بنا کر آگے کر دیا۔ جب اس نے انڈا سامنے رکھا تو میں نے اس کا لوازمہ بڑھا کر بتا دیا کہ اسے اس کے ساتھ ملا کر بھون کر کھاؤں گا۔ اکبر بادشاہ ملا جی کی اس تقریر سے ایسے ہنسے کہ پیٹ میں بل پڑ گئے۔ +اب ایرانی صاحب کی طبعِ رسا کے خیالات سے بھی آگاہی حاصل کر لو۔ جب وہ ایران میں پہنچے اور کجکلاہ نے دربار میں بلا کر اس مباحثے کی کیفیت پوچھی تو اس نے کتب خانے وغیرہ کی تعریف کر کے کہا میں نے اسے ایک انگلی دکھا کر کہا، کہ خدا ایک ہے تو اس نے دو انگلیاں دکھا کر جتایا کہ اس کا رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی تو ہے۔ میں نے تین انگلیاں بڑھا کر اصحابِ ثلاثہ کی طرف اشارہ کیا تو اس نے نے چار دکھا کر سمجھایا کہ نہیں وہ تو چار ہیں۔ پھر میں نے پانچوں انگلیوں سے پنجتن کا خیال دلایا، تو اس نے گھونسا دکھا کر مجھے آگاہ کیا کہ خدا سب پر غالب ہے۔ میں نے انڈا آگے رکھ کر زمین کے گول ہونے کی توجہ دلائی تو اس نے پیاز دکھا کر مجھے متنبہ کیا کہ زمین و آسمان کے طبقے پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک دوسرے پر ہیں۔ +اگلا صفحہ شاہ دہلی کا رعب ایران میں]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ اپنی اپنی سمجھ ہے]] +جن دنوں ملا صاحب ایران کی سفارت پر گئے تھے، شاہ ایران نے ان کی آمد کی خبر پا کر اس خیال سے شاہ دہلی کی تصویر اپنے بیت الخلا میں لگا دی کہ وہ اسے دیکھ کر بہت جھنجھلائے گا۔ چنانچہ جب یہ حضور حاضر ہوئے شہنشاہ نے پہلے اپنے محل کی تصویریں انہیں دکھائیں۔ پھر پایخانے میں لے گئے اور کہا یہاں کی تصویر بھی ملاحظہ ہو۔ جب وہ دیکھ چکے تو بادشاہ نے کہا اسے بھی پہچانا۔ ملا جی نے کہا ہاں۔ پوچھا پھر بتاؤ تو یہ کس کی تصویر ہے۔ انہوں نے کہا جہاں پناہ یہ اس شخص کی تصویر ہے جس کے رعب کے مارے آپ کا پائخانہ خطا ہوتا ہے۔ اور معلوم کہ آپ نے اسی واسطے بنایا ہے کہ کبھی قبض کی شکایت نہ رہے۔ یہ سن کر بادشاہ اپنا منہ لے کر رہ گیا۔ +اگلا صفحہ باری کے بخار کی تعریف]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ شاہ دہلی کا رعب ایران میں]] +اگلا صفحہ انڈا گرتے ہی بچہ بولنے لگا]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ باری کے بخار کی تعریف]] +اگلا صفحہ عاشق اور خدا کی یاد]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ انڈا گرتے ہی بچہ بولنے لگا]] +ملا صاحب ایک دن نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک عورت ان کے سامنے سے ہو کر گزری۔ نماز سے فارغ ہو کر ملا جی نے بڑی خفگی کے ساتھ اس عورت کو کہا تمہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، میں نماز پڑھ رہا تھا تو کیوں میرے سامنے سے ہو کر نکلی۔ اس نے جواب دیا، میں نہیں جانتی تم کس کی نماز پڑھ رہے تھے۔ میں تو اس وقت اپنے عاشق کی یاد میں ایسی اندھی ہو رہی تھی کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ تم تو خدا کی عبادت میں مصروف تھے، مجھے کیونکر دیکھ لیا۔ کیا نماز میں ہی غیرمحرم عورتوں کو تاڑا کرتے ہو۔ یہ سن کر ملا صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ +اگلا صفحہ ملا صاحب کی قیافہ شناسی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ عاشق اور خدا کی یاد]] +اگلا صفحہ مونچھیں صاف کر لیجیے]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا صاحب کی قیافہ شناسی]] +کسی امیر کے پاس ملا دوپیازہ اور چند آدمی اور بیٹھے تھے۔ امیر حد درجہ کے کنجوس تھے۔ پاخانہ پھرنے کے بہانے اندر کھانا کھانے کو تشریف لے گئے، مگر جب باہر آئے تو کھانے میں سے ایک چاول مونچھ میں لگا ہوا رہ گیا تھا۔ ملا صاحب دیکھتے ہی بول اٹھے کہ جناب عالی آپ کی مونچھ میں پاخانہ لگا ہوا ہے۔ امیر صاحب نکتہ کو سمجھ کر نہایت شرمندہ ہوئے اور ناظرین میں قہقہہ مچ گیا۔ +اگلا صفحہ بیوقوفوں کی فہرست]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ مونچھیں صاف کر لیجیے]] +اگلا صفحہ نیکی کا بدلہ بدی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ بیوقوفوں کی فہرست]] +اکبر بادشاہ نے ملا دوپیازہ سے دریافت کیا کہ وہ کون سا کام ہے کہ نیکی کے عوض بدی حاصل ہو۔ ملا دوپیازہ نے عرض کی، میں بخوبی جانتا ہوں، مگر بسبب بھوک کے میں بیان نہیں کر سکتا۔ طاقت گفتار نہیں۔ بادشاہ نے باورچی کو حکم دیا کہ ملا دوپیازہ کو نفیس کھانا دیا جائے۔ ملا صاحب کے لیے کھانا چنا گیا۔ ملا صاحب کی صلاح تھی کہ باہر جا کر کھاؤں، مگر بادشاہ کے حکم سے مجبوراً وہیں کھانا پڑا۔ کھا چکنے کے بعد بادشاہ نے پوچھا وہ کون سا کام ہے۔ ملا دوپیازہ بولا حضور کو تو پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ بادشاہ متحیر ہوئے اور کہا ہم نہیں سمجھے، تو نے کیا کہا ہے۔ تب ملا نے عرض کی آپ نے اس جگہ کھانے کو کہا، تو بہ باعثِ شرم کھانا نہیں کھایا۔ بلکہ خون جگر پیا ہے۔ بادشاہ نے سن کر کہا، بیشک نیکی کے بدلے بدی ہے۔ +اگلا صفحہ ملا صاحب کا لاجواب نصیحت نامہ]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ نیکی کا بدلہ بدی]] +اہل دربار نے ملا کو خفیف کرنے اور بادشاہ کی نظروں سے گرا دینے کے لیے یہ تجویز کہ کہ ہر ایک درباری اپنی اپنی تصنیف پیش کرے۔ ملا صاحب کو اس وقت خبر کی جب ایک دن تصانیف پیش کرنے میں باقی تھا، ملا بہت گھبرائے کہ اب بھانڈا پھوٹنے والا ہے۔ مگر تھے گرگِ باراں دیدہ۔ بیٹھے، اور اس وقت اٹھےجب جنگ مہملات المعروف بہ النامہ تیار کر لیا۔ دربار میں آئے اور اس شان سے آئے گویا دستارِ فضیلت انہی کے سر رہے گی۔ اور واقعی بات بھی ایسی ہی ہوئی۔ النامہ جو حکمت و نصیحت کا ایک مخزن اور گنجینہ ہے، ناظرین کی تفریح طبع کے لیے درج ذیل ہے۔ +اگلا صفحہ گنجینۂ نصیحت و حکمت (یعنی النامۂ ملا دوپیازہ +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ ملا صاحب کا لاجواب نصیحت نامہ]] +الوزیر ہدف تیر آہ بیچارگان +الجستی با ہمہ در تلخی +الواقع نویس گربہ منتظر سوراخ موش +الچوکی نویس گلہ گوئے مردم +الشقہ دار بعد از تغیری مردمک +المحرر ناکردہ کار واجب الشلاق +القدیمی کنہ لنگ یا پولے پس طویلہ +المیاہیانہ دار عمر کوتاہ خواہ +الخانہ خراب زن طبع خوش در خانہ +البد مذہب متعصب در مذہب +الخاطر جمع قمار بازی با زن خود +الابتر دختر در ہمسائیگئ مادر +القلیاق آنکہ در پیری زن جوان خواہد +القلبیاں آنکہ دختر خود با پیر دہد +البے حیثیت در پے سفارش نویسانیدن +البے تعظیم داماد بے خوش دامن +المرتد برادر در خانۂ خواہر +البہشت آں جا کہ مگس و ملا نباشد +البلا النسل مشہور زن شدن +البنگ اگر بادشاہ خورد مفرح یاقوت است، و اگر در برخورد ترک مسیحائی است، اگر قاضی خورد فلاسفہ است، و اگر مفتی خورد مقوی دماغ است، و اگر ملا خورد بنگ است۔ +المتوکل خاص نویس دفتر عزرائیل +العذر فتحبہ مہر کوتوال شکست +النفس امارہ علامت تنہا خوری +الآفت سماوی بر خلائق حاکم خلوت نشین +المطیع الکالر سلمان ریش تراشیدہ، نماز گزار +الشمشیر خدائی گرسنگی بر سر روزگاراں +القبلہ حاجات صاحب حکومت بیدریاں +المع الاخلاص الحمد للہ کہ ملائے مکتب در بیماری افتاد +الحمد للہ کہ قانون گو بے نسل گردید +الکیمیا گر خاک در کاسۂ خام طبع +الدشمنی بکسے چیزے بکیرای زندہی +السلام علیک یعنی شما برخیزید مرا تعظیم کند +البیوہ نوحہ گر شوہر زود طلب +الآواز دوزخیاں در آخر شب فریاد شتر +الموذن در خواب کاہلاں خلل انگیز +الیار وفادار روپیہ غیر سال +البے غیرت خود فربہ و اسپش لاغر +المفتی نوشت بہر چہ گفتی +البدی تعریف جوئے زن خود +البے ایمان زر در کمیہ +الریش دراز دست آویز مکر +المیوہ فروش شغال بے دندان در فالتیر +الراست گو دشمن ہمہ کس +الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی +المشاط خزانۂ حسن و جہیز +الحماقت خود را از ہمہ تن دانا شمردن +الوکیل مطلق خرابہ کن مؤکل +النمک حرام باورچی گندہ پز +الپشت انداز ہمیشہ دولت مند +الکذب در ہر سخن اللہ +المہمل راگ ہندی کہ مغل خواندہ +الکد زبان گلہ بان مردم +الہفت ہزاری باش یعنی ہر گہے کی خواہی بخور +المال مفت دل بے رحم +الحاکم ظالم اعمال مجسم عدل +اگلا صفحہ دوپیازہ اور ہانڈی]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گز��تہ صفحہ گنجینۂ نصیحت و حکمت (یعنی النامۂ ملا دوپیازہ +شہنشاہ اکبر کے ہمرکاب ملا دوپیازہ احمد آباد گجرات پہنچے، مگر ہانڈی ایک قصبہ میں جب وارد ہوئے تو طبعیت علیل ہو گئی اور کہہ بھی دیا کہ اب ہم یہیں مریں گے کیونکہ ہم دوپیازہ ہیں اور اس گاؤں کا نام ہانڈی ہے۔ دوپیازہ ہانڈی سے باہر کہاں جائے گا۔ دوپیازہ بیمار ہے اور نقاہت و ضعف زیادہ ہوتا گیا۔ +اگلا صفحہ شہنشاہ اقلیم ظرافت کی رحلت]] +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +گزشتہ صفحہ دوپیازہ اور ہانڈی]] +سن شریف بھی 60 سال کے قریب تھا اس پر بیماری، بس بالکل ہی رہ گئے۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر ہی خوش طبعی و لطیفہ گوئی کا ملک ویران ہو گیا۔ زندہ دلی کے چمنستان پر خزاں نے دخل کر لیا۔ یعنی ملا صاحب عالم جاودانی کو چل دیے۔ جہاں جاتے تھے، شہرت و ناموری پاؤں چومتی تھی۔ لوگ موت کی خبر سن کر دوڑے آئے۔ دیکھا تو ملا صاحب ٹانگیں پھیلائے بیٹھے ہیں۔ ایک شخص نے ٹانگ اٹھائی، سر نیچا ہو گیا اور ٹانگیں بلند ہو گئیں، پھر نیچا کیا تو ایک عجیب مضحکہ خیز شکل بن گئی۔ قدردان بادشاہ بھی موت کی خبر سن کر پہنچا، حکم دیا کہ ان کو سیدھا کیا جائے۔ جب ملا صاحب کو سیدھا کیا گیا تو ٹانگیں نیچے ہو گئیں، ٹانگیں اٹھائیں تو سر نیچا ہو گیا، اتنے میں بیربر نے ٹانگ پر لات ماری، حضرت سلامت فوراً بادشاہ کی تعظیم کو سروقد کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ ہنسے اور خوش کمال ہوئے کہ واہ ملا مرتے مرتے بھی ہنسا گیا۔ غرض اکبر نے بڑی شان و شوکت سے 1600 عیسوی میں بمقام ہانڈی (دکن) اس کو دفن کر دیا۔ +رجوع بہ فہرست مضامین سوانح عمری ملا دوپیازہ]] + + +میرا نام محمد اسد حیات ہے اور میں یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا سے سول انجینرنگ میں بی ایس سی کر رہا ہوں- + + +مرزا غالب (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ +اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ + + +کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا +صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا +سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا +مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا +موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا +مبارک باد اسد، غمخوارِ جانِ دردمند آیا +ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا +جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا +لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا +میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا +سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا +دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا +درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا +آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا +حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا +خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا +ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا +آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا +ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا +آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا +آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا +میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا +کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا +اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا +دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا +قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا +تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا +جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا +کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا +سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا +آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا +''نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر +آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا +اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا +مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا +اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا +دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا +زنداں میں بھی خیال، ببایاں نورد تھا +حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا +تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا +کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا +کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ*بسمل پسند آیا +* اصل نسخۂ نظامی میں ’غلتیدن‘ ہے جو سہوِ کتابت ہے +ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا +یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا +وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا +گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا +گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا +ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا +ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا +مجھ سا کافرکہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا +وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا +کہ ہر یک قطرہء خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا +لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نَیَستاں کا +مِرا ہر داغِ دل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا +کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنمستاں کا +ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا +مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا +چراغِ مُردہ ہوں ، میں بے زباں ، گورِ غریباں کا +دلِ افسردہ ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا +قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا +کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا +* نسخۂ حسرت موہانی میں ’سرگشتہ‘ +حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا +کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا +عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا +جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا +یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا +یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا +میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا +طُعمہ ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا +ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا +ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا +سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا +رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا +اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا +آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا +پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا +خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا +زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا +جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا +آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا +نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا +واسطے جس شہ کے غالب! گنبدِ بے در کھلا + + +شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا +گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا +یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا +یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا +واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا +جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا +یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا +دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا + + +تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا +جوہرِ آئینہ کو طوطئ بسمل باندھا +عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا +گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا +گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟ +وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا +جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا +بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا +کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا +کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا +ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا +نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا +وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا +یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا +کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا +کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا +تِریاکئِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا +پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا +یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا +ابرِ بہار خمکدہ کِس کے دماغ کا! +رازِ مکتوب بہ بے ربطئِ عنواں سمجھا +چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا +اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا +رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا +نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا +ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا +دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا +غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا +دل، جگر تشنۂ فریاد آیا +پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا +پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا +نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا +کیوں ترا راہ گزر یاد آیا +گھر ترا خلد میں گر یاد آیا +دل سے تنگ آکے جگر یاد آیا +دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا +سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا +آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا +اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا +کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا +ہاں! کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا +بات کرتے، کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا +گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا +نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا +ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا +آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا +آدمی کوئی ہمارا َدمِ تحریر بھی تھا؟ +کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا +زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا +میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا +اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا +خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا +آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا +میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا +یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا +میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا +آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا +رشتۂٴ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا +صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا +اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا +اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا +نہیں رفتارِ عمرِ تیز رو پابندِ مطلب ہا +جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا +ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا +شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا +یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا +غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا +لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا +حاصل سواے حسرتِ حاصل نہیں رہا +جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا + + +عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا +گردشِ مجنوں بہ چشمک‌ہاے لیلیٰ آشنا +ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا +عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا" +میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا +سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا +بن گیا رقیب آخر۔ تھا جو رازداں اپنا +آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا +عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا +بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا +انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا +ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا +دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا +بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا +کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا +تیرے چہرے سے ہو ظاہر غمِ پنہاں میرا +بے شانۂ صبا نہیں طُرّہ گیاہ کا +صید ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا +شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا +پُرگل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا +پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا +کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا +ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا +جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا +یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا +آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا +مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا +کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا +چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ ب��اری کا +جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا +درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا +تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا +مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا +اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا +باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا +ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا +روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا +کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا +دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا +چشم کو چاہۓ ہر رنگ میں وا ہو جانا +رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہواداروں کا +غالب ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا +رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہواداروں کا +جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا +زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا +گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا +تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا +آدمی واں نہ جا سکے یاں کا +وہی رونا تن و دل و جاں کا +سوزشِ داغ ہاۓ پنہاں کا +ماجرا دیدہ ہاۓ گریاں کا +کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا +نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اس کا +کہ داغِ آرزوۓ بوسہ دیتا ہے پیام اس کا +مبادا ہو عناں گیرِ تغافل لطفِ عام اس کا +نقص پر اپنے ہوا جو مطلعِ، کامل ہوا +شوخئِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا +ناخنِ غم یاں سرِ تارِ نفس مضراب تھا +وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمع، ماتم خانہ تھا +غالب ایسے کنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا + + +# دیوانِ غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ +# نواۓ سروش از مولانا غلام رسول مہر(نسخۂ مہر) +# شرحِ دیوانِ غالبؔ از علامہ عبدالباری آسی نسخۂ آسی) +# دیوانِ غالبؔ (فرہنگ کے ساتھ) +# دیوانِ غالبؔ نسخۂ طاہر + + +دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب +سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب +سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب +موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب +دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب +شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب +رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب +پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب +جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت +خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت +تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت +*نسخۂ نظامی میں اگرچہ ’دیداں‘ ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ’دنداں‘ مناسب ہے، دیداں سہوِ کتابت ممکن ہے۔ +دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور نسخہ علامہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخہ حمیدیہ (شایع کردہ مجلسِ ترقی ادب لاہور 1983 میں لفظ دندان آیا ہے +پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت +لکھے ہے ’خداوندِ نعمت سلامت‘ +کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست +صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست +کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست +دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست +بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست +مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست +سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست +ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست +یار لائے مری بالیں پہ اسے، پر کس وقت +قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج +تارِ نفس کمندِ شکارِ اثر ہے آج +سیلابِ گریہ در پےِ دیوار و در ہے آج +چشمِ کشودہ حلقۂ بیرونِ در ہے آج +اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!! +اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ +بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ +کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بسترکھینچ +بہ کورئ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ +نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ + + +السلام و علیکم صفحہ}}، اور ویکی کتب میں خوش آمدید ــ خاص:شراکتیں صفحہ آپ کی ترامیم کا شکریہ ــ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو یہ جگہ پسند آئی ہوگی اور آپ نے یہاں رکنے کا فیصلہ کیا ہوگا ــ اِدھر کچھ صفحے ہیں جن پر آپ نظر ڈالیں تو شاید آپ کے لیے (وکی کتب) میں بہتر ثابت ہوں: +اور نئی کتاب لکھنے کے لیے جائیں: +آپ وکی کتب میں ترامیم کریں، اور ترامیم کرنے میں کوتاہی محسوس نہ کریں ــ اور اگر آپ (وکی کتب) میں کہیں پیغام دیں تو آپ کو یاد رہے کہ اپنے ہر پیغام کے آخر میں دستخط کرنا ضروری ہے، اور دستخط (وکی کتب) میں اِس طرح کرتے ہیں ‌~‌~‌~‌)ــ + + +حیاتیات ایک علم ہے، جس میں ہم زندگی کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں ــ لفظ حیاتیات کا مطلب "زندگی کو پڑھنا" یا "زندگی کو سمجھنا" ہوتا ہےــ لفظ حیاتیات "حیاہ" اور "تیات" کا مرکب ہےــ +حیاتیات کی کئی شاخیں ہیں: +نباتات ، جسے عموماً "بوٹنی" بھی کہا جاتا ہےــ +حیوانات ، جسے عموماً "زولوجی" بھی کہا جاتا ہےــ +نباتات (پودے) حیاتیات کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، اور اِس میں پودوں کے بارے میں پڑھا جاتا ہےــ +حیوانات (جانور) حیاتیات کی ایک شاخ ہے، اور اِس میں جانور]]وں کے بارے میں پڑھا جاتا ہےــ +مائیکرو بائولوجی حیاتیات کی ایک شاخ ہے، جس میں بہت چھوٹے جاندار (جیسے:بیکٹیریا، وغیرہ…) کے بارے میں پڑھا جاتا ہےــ +حیاتیات کی بہت سی ذیلی شاخیں ہیں: +[[جاندار ایسی چیز کو کہتے ہیں جو ہلتی جلتی ہو، زندہ ہو، جو وقت کے ساتھ بڑھتی رہے اور اس میں تبدیلیاں وقوع پزیر ہوتی رہیں اور اس سے اس جیسی اور بھی حیاتیات بن سکیں روح جسم میں ہو، وغیرہ… +[[زمین میں مختلف قسم کے جاندار پائے جاتے ہیں، (مثلاً بکرا]]، گھوڑا]]، وغیرہ)ــ +جانداروں کی مختلف اقسام ہیں، اور اُن کا رہن سہن بھی مختلف ہوتا ہےــ پودے زمین میں ایک ہی جگہ رہتے ہیں جبکہ جانور چلتے پھرتے ہیں ــ +[[آٹو ٹرافس ان کو خود کار یا پیداکندگان بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں مثال: پودے) +[[ہیٹرو ٹرافس ان کو غیر خودکار جاندار کہا جاتا ہے یہ اپنی خوراک خود پیدا نہیں کر سکتے بلکہ دوسرے جانداروں سے خوراک حاصل کرتے ہیں مثال: انسان-جانور) + + +حیاتیات ایک علم ہے، جس میں ہم زندگی کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں ــ لفظ حیاتیات کا مطلب "زندگی کو پڑھنا" یا "زندگی کو سمجھنا" ہوتا ہےــ لفظ حیاتیات "حیاہ" اور "تیات" کا مرکب ہےــ +حیاتیات کی کئی شاخیں ہیں: +نباتات ، جسے عموماً "بوٹنی" بھی کہا جاتا ہےــ +حیوانات ، جسے عموماً "زولوجی" بھی کہا جاتا ہےــ +نباتات (پودے) حیاتیات کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، اور اِس میں پودوں کے بارے میں پڑھا جاتا ہےــ +حیوانات (جانور) حیاتیات کی ایک شاخ ہے، اور اِس میں جانور]]وں کے بارے میں پڑھا جاتا ہےــ +مائیکرو بائولوجی حیاتیات کی ایک شاخ ہے، جس میں بہت چھوٹے جاندار (جیسے:بیکٹیریا، وغیرہ…) کے بارے میں پڑھا جاتا ہےــ +حیاتیات کی بہت سی زیلی شاخیں ہیں: +[[جاندار ایسی چیز کو کہتے ہیں جو ہلتی جلتی ہو، زندہ ہو، روح جسم میں ہو، وغیرہ… +[[زمین میں مختلف قسم کے جاندار پائے جاتے ہیں، (مثلاً بکرا]]، گھوڑا]]، وغیرہ)ــ +جانداروں کی مختلف اقسام ہیں، اور اُن کا رہن سہن بھی مختلف ہوتا ہےــ پودے زمین میں ایک ہی جگہ رہتے ہیں جبکہ جانور چلتے پھرتے ہیں ــ + + +صارفین اُن کو کہا جاتا ہے، جنہوں نے کھاتہ بنایا ہوں ــ + + +* کتاب لکھنے سے پہلے یہ صفحہ پڑھ لیں وکی کتب:کتاب کیسے لکھیں؟؟]] +* نئی کتاب لکھنے کے لیے پہلے کتاب کا نام درج کری�� اور پھر نیچے والے بٹن کو دبائیں ــ + + +:اس صفحہ میں اردو ویکی کتب کی حکمت عملی بیان کی گئی ہے، جسے ویکی نویسوں میں انتہائی مقبولیت حاصل ہے نیز یہ تمام صارفین کے لیے واجب الاتباع معیار بھی ہے۔ آپ اس صفحہ میں ترمیم کرسکتے ہیں، لیکن خیال رہے کہ آپ کی کوئی ترمیم کسی اتفاق رائے کے خلاف نہ ہو ــ font> + + +علم کی وہ شاخ جس میں ماضی کی خالات و واقعات بیان کی گئ ہوں تاریخ کہلاتا ہے۔ + + +اِس کے دو طریقے ہیں ــ +اِس میں بھی اوپر دی گئی ہدایات پر عمل کریں ــ + + +اس پر کام کرنا ضروری ہے + + +السلام و علیکم صفحہ}}، اور ویکی کتب میں خوش آمدید ــ خاص:شراکتیں صفحہ آپ کی ترامیم کا شکریہ ــ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو یہ جگہ پسند آئی ہوگی اور آپ نے یہاں رکنے کا فیصلہ کیا ہوگا ــ اِدھر کچھ صفحے ہیں جن پر آپ نظر ڈالیں تو شاید آپ کے لیے (وکی کتب) میں بہتر ثابت ہوں: +اور نئی کتاب لکھنے کے لیے جائیں: +آپ وکی کتب میں ترامیم کریں، اور ترامیم کرنے میں کُتاہی محسوس نہ کریں ــ اور اگر آپ (وکی کتب) میں کہیں پیغام دیں تو آپ کو یاد رہے کہ اپنے ہر پیغام کے آخر میں دستخط کرنا ضروری ہے، اور دستخط (وکی کتب) میں اِس طرح کرتے ہیں ‌~‌~‌~‌)ــ + + +مختصرحالات زندگی حافظ اظہرعطاء نام و نسب اپ کا نام اظہرعطاء،کنیت ابو عبداللہ اورلقب سنگی ہے اوراظہرعطاءکے عرف سے مشہورہیں سلسلہ نسب یوں ہے اظہرعطاء بن عطاءاللہ بن عزیزالدین بن زین العابدین بن السماعیل بن عبدالوحید بن عبدالمجید خان ولادت اپ کی پیدایش۱۴۱۲ رجب ھ]۱۹۹۲[میںدانی پٹی بستی میں ہویی۔یہ بستی ازادکشمیر کے مشہوروادی نیلم کے اطراف میں واقع ہے اپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم وچراغ تہے۔ اپ کے والد ماجد حاجی عطاءاللہ اس بستی کے امام تھے ۔ابھی اپ نے عمر کی صرف سولہ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ والد کے سایہ شفقت سے محروم ہو گے تو اپ کے بھایی طاہرعطاء نے اپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بیڑااڑھایاجوخودبھی ایک جید عالم دین اور ممتاز مدرس تھے + + +منور علی ملک میانوالی کے قصبہ داؤد خیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ بچپن عیسیٰ خیل میں گذرا۔ ابتدا ئی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول عیسیٰ خیل سے اور گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کرنے کے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ایڈ کیا۔ گورنمنٹ مڈل سکول ٹھٹھی میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ پرائیویٹ ایم اے انگلش کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگریزی کے لیکچرر تعینات ہوئے۔ پاکستان ٹائمز اور دی نیشن میں انگریزی کے مزاحیہ کالم لکھتے رہے۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی کی سانح درد کا سفیر لکھی اور عمومی سطح پر متعارف ہوئے۔۔۔ اردو سرائیکی کے عمدہ شاعر ہیں۔ سرائیکی گیت عیسیٰ خیلوی نے گائے ہیں۔ اردو شعری مجموعہ چھپ چکا ہے۔ انگریزی ادب کی متعدد امدادی کتابیں ان کی تالیف ہیں۔۔۔۔۔ + + +السلام و علیکم صفحہ}}، اور ویکی کتب میں خوش آمدید ــ خاص:شراکتیں صفحہ آپ کی ترامیم کا شکریہ ــ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو یہ جگہ پسند آئی ہوگی اور آپ نے یہاں رکنے کا فیصلہ کیا ہوگا ــ اِدھر کچھ صفحے ہیں جن پر آپ نظر ڈالیں تو شاید آپ کے لیے (وکی کتب) میں بہتر ثابت ہوں: +اور نئی کتاب لکھنے کے لیے جائیں: +آپ وکی کتب میں ترامیم کریں، اور ترامیم کرنے میں کُتاہی محسوس نہ کریں ــ اور اگر آپ (وکی کتب) میں کہیں پیغام دیں تو آپ کو یاد رہے کہ اپنے ہر پیغام کے آخر میں دستخط کرنا ضروری ہے، اور دستخط (وکی کتب) میں اِس طرح کرتے ہیں ‌~‌~‌~‌)ــ + + +اس سانچے کو اس طرح استعمال کریں: +"وجہ لکھیں" کی جگہ وجہ تحریر کریں کہ اس صفحہ کو کیوں حذف کیا جائے۔ + + +قرآن کا سماجی شعور کیا ہے؟]] + + +اس میں تمام ہندوستان کے ہر زبان کے (640) اخبارات اور رسالجات کا نام مع مقام۔ زبان، میعادِ اشاعت۔ اغراض و مقدارِ قیمت وغیرہ ضروری امور سمیت درج ہیں +کارخانہ پیسہ اخبار کے خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور میں منشی محمد عبدالعزیز مینجر کے اہتمام سے طبع ہوئی۔ +بعض اوقات اہل ملک کو کوئی اخبار خریدنے کے لیے اپنے مطلب کا اچھا اخبار یا رسالہ انتخاب کرنے کے واسطے اور بعض اوقات سوداگروں کو اخبارات میں اشتہار دینے کے لئے یا عوام الناس کو ملک کے اخبارات کی واقفیت پیدا کرنے کے لیے ہندوستان میں ہر زبان میں چھپنے والے اخبارات کی فہست کی ضرورت پڑتی ہے مگر ایسی مستقل فہرست کہیں نہیں ملتی۔ خریداران پیسہ اخبار نے بارہا مجھے دریافت کیا۔ کہ اخبارات کی فہرست کہاں سے ملسکتی ہے۔ اور متواتر میں نے اُنہیں بتلایا ہے کہ یا تو تھیکر ڈائریکٹری جس کی قیمت چھبیس روپے ہیں۔ ایسی فہرست انگریزی میں چھپتی ہے۔ اور یا کارخانہ پیسہ اخبار کی نادر جنتری بابت 18ءۓ میں اخبارات کی فہست اُردو میں چھپی تھی۔ کہ جس کی قیمت ایک روپیہ ہے۔اس لئے میں نے ارادہ کیا ۔ کہ ایک جدید فہرست اخبارات ہند اُردو میں چھاپی جائے کہ جس سے اخبار کا نام مقام پتا نشان زبان قیمت اور مقصد معلوم ہوسکے۔ چنانچہ یہ چند اوراق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے۔ یہ خدمت حسب اطمینان ناظرین انجام دے سکینگے۔ کیونکہ ان میں بڑی احتیاط سے اخبارات و رسالہجات کے نام درج کرنے کی کوشش کیگئی ہے۔ +اور اگر اسے کبھی دوبارہ چھپنے کا موقع ملا۔ تو اس میں مختلف اخبارات کی عمر اور مالک یا منیجر کا نام بھی لکھنے کی کوشش کیجائیگی۔ +ہندوستان میں اخبار نویسی کی حالت آج کل عجیب انقلاب کی ہے۔ جیسا کہ ہر ملک میں تہذیب کی ابتدائی حالت میں ہوتا ہوگا۔ اخبارات بہت کم سرمایہ سے جاری کیے جاتے ہیں۔ معمولی لیاقت اور تجربہ کے آدمی بلا کسی خاص اصُصول کے عموماً اخبار جاری کرتے ہیں۔ اس لئے اخبارات کامیاب کم ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے ۔ کہ اُن کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ ایک اخبارجو آج جاری ہے۔ کل خاموشی سے بند ہ جائے۔ ایک نیا اخبار پرسوں جاری ہو جائے۔ اور دس بیس برس کے جاری اخبارا کا ہمپلہ سمجھا جائے۔ اور ایک تیسرا اخبار جو دس پانچ سال سے بند تھا۔ +یکایک دوبارہ یا سہ بارہ جاری ہو جائے۔ جبکہ ملک کے اخبارات کی یہ حالت ہے تو ان کی ایسی فہرست تیار کرسکنا کہ جو ہر لحاظ سے مکمل ہو بہت مشکل ہے، چنانچہ منسلکہ فہرست میں کہ جس کے مکمل کرنے کی ہر طرح سے کوشش کی گئی ہے؛ ممکن ہے۔ +بعض اخبارات جو بند ہیں وہ جاری دکھائی گئے ہوں، اور چند دوسرے جو بھی جاری ہوئے ہیں یا دیر سے جاری ہیں مگر مشہور نہیں ہیں اُن کے نام درج نہ ہوسکے ہوں، تاہم بہیئت مجمموعی سے مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ +ابزرور۔ (انگریزی بیرون دہلی دروازہ لاہور سے ہر بدھ اور ہفتہ کے روز شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ برٹش انڈیا کے 12 روپے۔ برٹش انڈیا سے باہر ایک پونڈ۔ مقصد مسلمانوں کی ترقی اور بہبود۔ +اُیا ہرا (بنگالی راجہ نوبو کرشن سٹریٹ کلکتہ سے ماہوار شائع ہوتا ہے۔ قیمت دو روپیہ سالانہ۔ اس میں کہانیاں، نظمیں، علمی اور سائنٹفک مضامین ہوتے ہیں�� +اپربرہماگزٹ (انگریزی مانڈلے سے ہر شام کو شائع ہوتا ہے۔ قیمت ماہوار تین روپے، بلا محصول۔ مقصد کونسرویٹیو خبریں۔ +اُنیازلویز (ہندی الہاری پریس بنارس شہر سے شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ دو روپیہ پیشگی۔ خالص قومی، مذہبی اور عموماً افسانے بھی اس میں درج ہوتے ہیں۔ +اتفاق (اُردو ساڈھورہ سے ہر مہینے میں چار بار شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ عوام سے تین روپیہ۔ مقاصد عام خبریں اور مختلف واقعات۔ +اچکنی رینپگ: مقام گاروتوا (واقع کوہ کارو آسام) سے ماہوار شائع ہوتا ہے۔ چندہ چار آنے۔ مقاصد: مذہبی اور تعلیمی۔ +اُچتیا وکتا۔ (ہندی کلکتہ سے پانزدہ روز شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ تین روپے۔ مع محصول ڈاک۔ مقاصد:۔ قومی، ملکی اور مذہبی۔ +اخبار اسلام (گجراتی بمبی سے روزانہ شائع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ چار روپیہ۔ مقصد:۔ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت وغیرہ۔ +اخبار انجمن ہند (اُردو لکھنؤ سےہفتہ وار شائع ہوتا ہے۔ سالانہ چندہ دس روپے۔ محصول ڈاک 12 آنے۔ مقصد:۔ سوشل اور مارل +اخبار دارالسلطنت و اردو گائیڈ (اردو) 1881ء سے ہر جمعرات کو نمبر 16 دھرم ٹالہ لین۔ کولوٹولہ کلکتہ سے شائع ہوتا تھا۔ (اب کچھ عرصہ سے بند ہے۔ چندہ سالانہ 6روپے۔ مقصد حکمرانوں اور رعایا کے درمیان اچھے خیالات پھیلانا۔ +اخبار سرِرشتہ تعلیم اودہ۔ 'ایجوکیشنل گزٹ“ (اردو) ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو نوِل کشور پریس لکھنو سے شائع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ ایک روپیہ دو آنے۔ مقاصد :مضامین مفید۔ صیغہ تعلیم کے قواعد +اخبار سوداگر سماچار بمبئی (گجراتی) بمبئی سے سوائے اتوار کے ہر روز شائع ہوتا ہے۔ چند:۔ لوکل خریداروں کے لیے 10روپیہ اور بیرونی خریداروں کے لیے 16 روپے 13 آنے۔ مقاصد:۔ تجارتی اور عام تعلیم +اخبار عام۔ (اُردو) 1871 سے شہر لاہور سے روزانہ اور ہفتہ وار شائع ہوتا ہے۔ سالانہ چندہ:۔14 روپیہ۔ ہفتہ وار دو روپے 8 آنے۔ مقاصد پولیٹکل، سوشل اور عام خبریں۔ +اخبار قیصری۔ (اُردو) جالندھر شہر سے ہفتہ وار شائع ہوتا تھا۔(کچھ عرصہ سے بند ہے) چندہ:۔18 روپیہ، 8 روپے۔ اور 4 روپے 13 آنے۔ مختلف مدارک کے خریداروں کے لیے۔ مقصد:۔ مضامین۔ خبریں اور نوٹ +اخبار ہفتہ وار۔ (اُردو) ہرہفتہ کو لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ (اب چار پانچ سال سےبند ہے) سالانہ چندہ پانچ روپے۔ مقصد تعلیمی اور تجارتی ترقی +ارکان ٹائمز۔ (انگریزی) اکیاب آرفن پریس اکیاب سے ہر سہ شنبہ پنشنبہ اور شنبہ کو شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ لاوکل خریداروں سے 16 اور بیرونجات کے خریداروں سے 18 روپے ہے۔ اس کا مقصد عام خبروں کا بہم پہنچانا ہے۔ +ارکان نیوز۔ (انگریزی) اکیاب سے ایک روپیہ ماہوار چندہ پر شائع ہوتا ہے۔ +اردو اخبار (اردو) ہر انگریزی مہینے میں 4 دفعہ لاہور سے شائع +ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ ایک روپئہ 8 آنے۔ مقاصد:۔ ملکی اور عام مضامین اور خبریں +اردوئے معلیٰ (اُردو) علی گڑھ سے ہر انگریزی مہینے کی پہلی تاریخ کو شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ مع محصول 4 روپے۔ مقاصد:۔ لٹریچری۔ تاریخی۔ علمی۔ اخلاقی وغیرہ مضامین اور اُردو لیٹریچر کی ترقی۔ +اروڑبنس پرکاش (اُردو) لاہور سے ماہوار شائع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ ایک روپیہ ہے۔ مقصد:۔ سوشل ریفارم۔ +آرہ (انگریزی) نمبر 10 ہٹینگر سٹریٹ کلکتہ۔ ہر مہینے کی سولھویں تاریخ کو شائع یوتا ہے۔ چندہ سالانہ 3 روپے 8 آنے۔ مقصد۔ آرمنیئں لٹریچر اور پالٹکس (ملکی معاملات) پر بحث۔ +آریہ (انگریزی) مدراس سے ہر مہینہ کے آخری ہفتے میں شائع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ تین روپے۔ مقصد:۔ مذہب فلسفہ علم اد�� اور سائنس کی ترقی۔ +آریہ پترا۔(اُردو) آریہ سماج آرفنج(یتیم خانہ) بریلی سے ہر مہینے کی 30 تاریخ کو شائع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ ایک روپیہ 14 آنے۔ آریہ سماج آفنیج کو چندہ دینے والوں کو یہ رسالہ مفت دیا جاتا ہے۔ مقاصد:۔ مذہبی۔ سوشل ۔ اخلاقی وغیرہ۔ +آرمی نیوز (اُردو) ہر دوشنبہ کو شہر لودیانہ سے شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ ہندوستان۔ برہما۔ عدن و بلوچستان میں معمولی کاغذ پر تین روپے چار آنے ممالک غیر سے اعلیٰ کاغذ پر 4 روپے چار آنہ۔ مقاصد:۔ صنعت و حرفت۔ زراعت فوجی اور سول خبریں۔ وغیرہ۔ +آریہ پترکا (انگریزی) لاہور سے ہر ہفتے کی شام کو شائع یوتا ہے۔ سالانہ چندہ پانچ روپے۔ مقاصد مذہبی۔ سوشل اور اخلاقی وغیرہ۔ +آریہ درپن (اردوو ہندی) شاہجہانپور سے ماہوار شایع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ 2 روپئے۔ یہ ایک مذہبی اور سوشل رسالہ ہے۔ اور اہل ہنود کی شادی بیوگان +آریہ دھرم پرکاش (گجراتی) بمبئی سے ماہوار شایع ہوتا ہے چندہ سالانہ ایک روپیہ آٹھ آنے ہے۔ مقصد ہندو دھرم کووید کے مطابق ظاہر کرنا۔ +آریہ سماچار(اُردو) میرٹھ سے ہر مہینے کے آخیر میں شایع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ ایک روپیئہ 14 آنے۔ آریہ سماج ک ے اصول اور ویدک کی صداقت کو ظاہرو ثابت کرنا +آریہ ورت (ہندی) رانچی سے ہر ہفتے کو شایع ہوتا ہے۔ چندہ تین روپے آٹھ آنے سالانہ۔ مقصد:۔ مذہبی۔ سوشل۔ مارل۔ وغیرہ وغیرہ۔ +آزاد (اردو) لاہور سے ماہوار شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ اعلٰے کاغذ دو روپے۔ معمولی کاغذ ایک روپیہ۔ مقاصد:۔ علمی۔ اخلاقی ۔ اور تاریخی مضامین +اُڑیہ اینڈ نباسمبند (اُڑیہ) بالاسور سے ہر بدھ کو شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ دو روپئے۔ مقصد:۔ پالیٹکس وغیرہ۔ +آسام (آسامی اور انگریزی) گوہٹی سے شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ تین روپے ہے۔ مقصد:۔ آسامی علم ادب کو بڑھانا اور رعایا کے حالات سے گورنمنٹ کو آگاہ کرنا۔ +آسام سول لسٹ۔ ہر چار ماہی بعد شائع ہوتا ہے۔ قیمت ایک روپیہ ہے۔ +آسام گورنمنٹ گزٹ۔ ہر ہفتہ کو آسام سیکریٹریٹ شلانگ سے انگریزی۔ بنگالی اور آسامی زبانوں میں چھپ کر شایع ہوتا ہے۔ سالانہ چند مع محصول نو روپے۔ +اسائلیم پریس المینک ڈائرکٹری اینڈ کمپینڈئیم آف انٹیلیجنس:۔ (انگریزی) ہر جنوری کے پہلے ہفتے میں مونٹ روڈ مدراس سے شایع ہوتا ہے۔ چندہ پانچ سے سات روپے فی کاپی (جلد کے مطابق) مقاصد:۔ ہر قسم کی واقفیت بہم پہنچانا۔ +اشتسن گہریدے یابھاگوت (سنسگرت) پانچ کاٹؤلی اسٹریٹ +کلکتہ سے شایع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ بارہ روپے۔ مقصد:۔ آیورویدک طریقہ سے ادویات کے استعمال پر بحث وغیرہ۔ +اسوئیررس اینڈ ٹریولرس گزٹ (انگریزی) تیرہ۔ڈیوڈ جوزف لین کلکتہ سے ہفتہ وار شایع ہوتا ہے۔ قیمت:سالانہ پانچ روپے ہے۔ مقصد۔: ؐمحققوں اور سیاحون کے انٹرسٹ کو ترقی دینا۔ +آصف الاخبار۔ (اُردو) دہلی سے ہفتہ وار شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ عوام سے تین روپیہ، مستند شعرائے سے دوروپے آٹھ آنے مقاصد: مغربی اور مشرقی تاریخی مضامین۔ ملکی اور سوشل معاملات۔ اخلاقی۔ انگریزی فسانوں کے تراجم وغیرہ۔ +اصلا (اُردو) ماہوار رسالہ کجھوہ سے شایع ہوتا ہے۔ اغارض مذہبی اسلامی۔ خصوصاً اہل تشیع کی تائید۔ قیمت ۔۔ +آفتاب پنجاب اور خالصہ پرکاش: سر سوموار کو لاہور سے اُردو میں شایع ہوتا تھا (کچھ عرصے سے بند ہے) سالانہ چندہ تین روپے ہے۔ مقاصد: خبریں پولیٹیکل اخلاقی اور سوشل +آفتاب ہند (اُردو) شہر جالندہر سے ہفتہ وار شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ بمع محصول ڈاک تین روپے۔ رؤسا سے بارہ روپے۔ مقصد عام خبریں اور مضامین +افسانہ (اردو) ہر انگریزی مہینے کی پہلی تاریخ کو حیدر آباد دکن سے شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ تین روپے۔ سکہ انگریزی و تین روپے آٹھ آنے سکہ حالی۔ مقصد:۔ انگریزی ناولوں کا ترجمہ سلسلہ وار شایع کرنا۔ +افضل الاخبار۔ دہلی سے ہفتہ وار اردو میں شایع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ تین روپے۔ مقاصد پولیٹیکل اور سوشل مضامین +اکسپرس (انگریزی) قیصر باغ لکھنئو سے ہر جمعرات کو شایع ہوتا ہے۔ سالانہ چندہ چھ روپے۔ لوکل اور آٹھ روپے مفصلات۔ مقصد:۔ بی آئی ۔ ایسوسی ایشن اودہ کے تعلقداروں کا آرگن۔ +اکسچینج پرائیس کرنٹ مارکٹ رپورٹ (انگریزی) بمبئی سے ہر ہفتہ شایع ہوتی ہے۔ چندہ سالانہ گیا روپے دس آنے۔ فی کاپی چار آنے مقاصد:۔ عام سوداگری خبریں اور نرخ وغیرہ +آگرہ اخبار (اُردو) آگرہ سے ہفتہ وار شایع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ بارہ روپے۔ مقصد:۔ خبریں اور لٹریچر (علم و ادب) +اگرہ اڈورٹائیزر اینڈ ایجوکیشنل ہیرلڈ چند پانچ روپے سالانہ مع محصولڈاک۔ مقصد:۔ تعلیمی۔ اشتہارات کا عمدہ ذریعہ ہے۔ +آگرہ کالج میگزین۔ (انگریزی) ہر مہینے کے اخیر میں آگرہ کالج سے شایع ہوتا ہے۔ چندہ سالانہ۔ کالج کے طلباء کے لیے ایک روپیہ۔ اور عوام کےلیے ایک روپیہ آٹھ آنے۔ مقاصد:۔ تعلیمی اور علمی۔ یہ اخبار کالج اور اُک کے طلباء کے لیے مخصوص ہے۔ +آگرہ کمرشل میسنجر۔ (انگریزی) ہر مہینے کی پانچویں اور بیسیویں تاریخ کو پرتاب پور چھاؤنی سے شایع ہوتا ہے۔ سالانہ چندہ دو روپے ہے۔ مقصد مذہبی۔ تجارتی اور اخلاقی وغیرہ وغیرہ +آگرہ گائیڈ اینڈ ڈائرکٹری (انگریزی) آگرہ سے شایع ہوتا ہے چندہ آٹھ آنے۔ یا ایک شلنگ۔ مقصد:۔ آگرہ اور اُس کے باشندوں اور بیرونی تاگروں اور ساداگروں کے متعلق دلچسپ واقفیت بہم پہنچانا۔ +آگرہ میڈیکل جرنل۔ انگریزی اور اُردو میں وکٹوریہ پریس آگرہ سے ماہوار شایع ہوتا ہے۔ سالانہ چندہ دو روپے چار آنے۔ مقاصد:۔ جراحی دایہ گری اور حفظان صحت وغیرہ۔ +الاحسان (اردو) ہر اسلامی مہینے میں ایک بار قصبہ کٹرا ضلع الہٰ باد سے شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ دو روپے پیشگی۔ مقاصد:۔ تصوف اور اخلاق کے متعلق مضامین۔ +البدر اُردو) ہر جمعہ قادیان سے شایع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ ہندوستان میں دو روپے چھ آنے، ہندوستان سے باہر تین روپے چھ آنے۔ معتقدیان +وائس آف انڈیا (انگریزی بمبئی سے ہر ہفتے کو شائع ہوتا ہے۔ قیمت چھ روپے سالانہ۔ مقصد: ہندوستان کے دیسی اخبارات سے ضروری مضامین اقتباس کرنا وغیرہ۔ +وچار ریفلکش (مرہٹی دباردار بمبئی سے ماہوار شائع ہوتا ہے۔ قیمت سالانہ گیارہ آنہ مع محصول۔ مقصد: مشرقی لٹریچر، فلسفہ، آرٹ، سائنس اور پالیٹکس وغیرہ۔ + + +1)انسوؤں کو انکھوں کی دہلیزپرلایا نہ کرو +اپنےدل کی حالت کسی کو بتایا نا کرو +لوگ مٹھی بھر نمک لیے گھوم رہے ھیں +اپنے زخم کسی کو دکھایا نہ کرو +2)نکل کے دل سے تیرے واسطےصدا آۓ +کہ تیری عمر کو دنیا کی عمر لگ جاۓ +کہ وقت سال گنےاورگن کےتھک جاۓ + + +ویکی کتب کی منتظمی پر آپ کو بے حد مبارک باد! +امید کہ آپ کی رہ نمائی میں منصوبہ ایک فعال اور جامع شکل اختیار کرے!! + + +میرا نام عمیرہ علی ہے۔ + + +مائیکرو یعنی چھوٹا بائیالوجی یعنی زندگی کا مطالعہ پس اس کا مطلب ہے چھوٹے جاندار مثلا مائیکرو کی حد تک چھوٹے جانداروں کا مطالعہ +اس میں بہت چھوٹے جانداروں مثلا بیکٹیریا وائرس اور دیگر طفیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے + + +آہ کو چاہئے اک عمر ��ثر ہونے تک +کون جیتاھے تیری زلف کے سر ہونے تک +ہم نے ماناکے غافل نا کروگےلیکن +خاک ہوجائیں گےہم تم کوخبرہونےتک + + +نباتات کو انگریزی میں باٹنی بھی کہتے ہیں- +تعریف: سائنس کی وہ شاخ جس میں پودوں کے متعلق علم کا کا مطالعہ کیا جاتا ہے- + + + + +ربط مکمل فہرست بذیل بین الویکی روابط در صفحہ اول +LTR تبدیلیٔ سمت برائے ریاضی فارمولے بطرف +صفحہ میں مستعمل سانچوں کی فہرست کا سمٹنا +آلات برائے خودکار درستی املا +شارٹ کٹ کلیدیں برائے تدوین +خلاصہ ترمیم کے خانہ میں انٹر کلید کے ذریعہ صفحہ محفوظ + + +autoCorrect("اسلام و علیکم السلام علیکم + + +ویکی خانہ ترمیم میں درستی املا کی بٹن کا اضافہ +s)اعلی s\d ،۔؛؟ g اعلٰی +s)اعلیٰ s\d ،۔؛؟ g اعلٰی +s)ادنی s\d ،۔؛؟ g ادنٰی +s)مصطفی s\d ،۔؛؟ g مصطفٰی +s)مصطفیٰ s\d ،۔؛؟ g مصطفٰی +s)افریقہ s\d ،۔؛؟ g افریقہ +s)آزمایش s\d ،۔؛؟ g آزمائش +s)آزمایشات s\d ،۔؛؟ g آزمائشیں +s)آزمایشیں s\d ،۔؛؟ g آزمائشیں +s)استعفیٰ s\d ،۔؛؟ g استعفا +s)اذدہا s\d ،۔؛؟ g اژدہا +s)اذدھا s\d ،۔؛؟ g اژدہا +s)افوا s\d ،۔؛؟ g افواہ +s)اژدہام s\d ،۔؛؟ g ازدحام +s)اژدھا s\d ،۔؛؟ g اژدہا +s)ازدہام s\d ،۔؛؟ g ازدحام +s)الجبرہ s\d ،۔؛؟ g الجبرا +s)اھمیت s\d ،۔؛؟ g اہمیت +s)اهمیت s\d ،۔؛؟ g اہمیت +s)استعفہ s\d ،۔؛؟ g استعفی +s)انکساری s\d ،۔؛؟ g انکسار +s)بالمشافہ s\d ،۔؛؟ g بالمشافہہ +s)بچگانہ s\d ،۔؛؟ g بچکانہ +s)برائے مہربانی s\d ،۔؛؟ g براہ مہربانی +s)برائے کرم s\d ،۔؛؟ g براہ کرم +s)بقایہ s\d ،۔؛؟ g بقایا +s)بلآخر s\d ،۔؛؟ g بالآخر +s)بلکل s\d ،۔؛؟ g بالکل +s)بلترتیب s\d ،۔؛؟ g بالترتیب +s)بھائ s\d ،۔؛؟ g بھائی +s)بھروسہ s\d ،۔؛؟ g بھروسا +s)بھوسہ s\d ،۔؛؟ g بھُوسا +s)پشیمانگی s\d ،۔؛؟ g پشیمانی +s)پهنچایا s\d ،۔؛؟ g پہنچایا +s)پاکپٹان s\d ،۔؛؟ g پاکپتن +s)پٹاخہ s\d ،۔؛؟ g پٹاخا +s)پٹارہ s\d ،۔؛؟ g پٹارا +s)پھیپھڑہ s\d ،۔؛؟ g پھیپھڑا +s)پیداہش s\d ،۔؛؟ g پیدائش +s)پھندہ s\d ،۔؛؟ g پھندا +s)ٹھیکہ s\d ،۔؛؟ g ٹھیکا +s)پزمردہ s\d ،۔؛؟ g پژمردہ +s)پزمردگی s\d ،۔؛؟ g پژمردگی +s)جنهوں s\d ،۔؛؟ g جنہوں +s)ترجیہات s\d ،۔؛؟ g ترجیحات +s)تسانیف s\d ،۔؛؟ g تصانیف +s)تسنیف s\d ،۔؛؟ g تصنیف +s)تقاضہ s\d ،۔؛؟ g تقاضا +s)تماشہ s\d ،۔؛؟ g تماشا +s)تمانچہ s\d ،۔؛؟ g طمانچہ +s)تمبورہ s\d ،۔؛؟ g تنبورہ +s)تنباکو s\d ،۔؛؟ g تمباکو +s)تنبولی s\d ،۔؛؟ g تمبولی +s)توبڑہ s\d ،۔؛؟ g توبڑا +s)تقاضہ s\d ،۔؛؟ g تقاضا +s)ٹھیکہ s\d ،۔؛؟ g ٹھیکا +s)جائیداد s\d ،۔؛؟ g جائداد +s)چولہا s\d ،۔؛؟ g چولھا +s)چاہیئے s\d ،۔؛؟ g چاہیے +s)چبوترہ s\d ،۔؛؟ g چبوترا +s)چٹکلہ s\d ،۔؛؟ g چٹکلا +s)حیرانگی s\d ،۔؛؟ g حیرانی +s)خوائش s\d ،۔؛؟ g خواہش +s)خوردو نوش s\d ،۔؛؟ g خور و نوش +s)خرابہ s\d ،۔؛؟ g خرابا +s)خراٹہ s\d ،۔؛؟ g خراٹا +s)دھائی s\d ،۔؛؟ g دہائی +s)دوگنا s\d ،۔؛؟ g دگنا +s)دھماکہ s\d ،۔؛؟ g دھماکا +s)درستگی s\d ،۔؛؟ g درستی +s)درمیان\s میں g درمیان میں $1 +s)دھوکہ s\d ،۔؛؟ g دھوکا +s)دوران\s میں g دوران میں $1 +s)دھیلہ s\d ،۔؛؟ g دھیلا +s)دونو s\d ،۔؛؟ g دونوں +s)ڈرامہ s\d ،۔؛؟ g ڈراما +s)ڈاکیہ s\d ،۔؛؟ g ڈاکیا +s)رهنمائوں s\d ،۔؛؟ g رہنماؤں +s)روئیداد s\d ،۔؛؟ g روداد +s)زنانا s\d ،۔؛؟ g زنانہ +s)سونچنا s\d ،۔؛؟ g سوچنا +s)سندیسہ s\d ،۔؛؟ g سندیسا +s)سہولیت s\d ،۔؛؟ g سہولت +s)عیدالضحی s\d ،۔؛؟ g عید الاضحیٰ +s)غلتاں s\d ،۔؛؟ g غلطاں +s)غبارا s\d ،۔؛؟ g غبارہ +s)فاہدہ s\d ،۔؛؟ g فائدہ +s)فلحال s\d ،۔؛؟ g فی الحال +s)فلوقت s\d ،۔؛؟ g فی الوقت +s)فہارست s\d ،۔؛؟ g فہرستیں +s)فوتگی s\d ،۔؛؟ g وفات +s)قہقہ s\d ،۔؛؟ g قہقہہ +s)کھنبا s\d ،۔؛؟ g کھمبا +s)کیلیے s\d ،۔؛؟ g کے لیے +s)کیلیئے s\d ،۔؛؟ g کے لیے +s)کیمرہ s\d ،۔؛؟ g کیمرا +s)کٹورہ s\d ،۔؛؟ g کٹورا +s)کھاجہ s\d ،۔؛؟ g کھاجا +s)کمہار s\d ،۔؛؟ g کمھار +s)کاروائی s\d ،۔؛؟ g کارروائی +s)کولہو s\d ،۔؛؟ g کولھو +s)کھنڈرات s\d ،۔؛؟ g کھنڈر +s)کلھاڑا s\d ،۔؛؟ g کلہاڑا +s)کلیجہ s\d ،۔؛؟ g کلیجا +s)گزرراہ s\d ،۔؛؟ g گذر راہ +s)گذارہ s\d ،۔؛؟ g گزارہ +s)گذرنا s\d ،۔؛؟ g گزرنا +s)لاھور s\d ،۔؛؟ g لاہور +s)مالیدا s\d ،۔؛؟ g مالیدہ +s)مچلکہ s\d ،۔؛؟ g مچلکا +s)مذهبی s\d ،۔؛؟ g مذہبی +s)مزگاں s\d ،۔؛؟ g مژگاں +s)مسالہ s\d ،۔؛؟ g مسالا +s)مستفی s\d ،۔؛؟ g مستعفی +s)مصرعہ s\d ،۔؛؟ g مصرع +s)معاهدہ s\d ،۔؛؟ g معاہدہ +s)معرکۃ الآرا s\d ،۔؛؟ g معرکہ آرا +s)معرکۃ الآراء s\d ،۔؛؟ g معرکہ آرا +s)معرکہ الآراء s\d ،۔؛؟ g معرکہ آرا +s)مکتبۂ فکر s\d ،۔؛؟ g مکتب فکر +s)مھربانی s\d ،۔؛؟ g مہربانی +s)مہبوت s\d ،۔؛؟ g مبہوت +s)ناشتہ s\d ،۔؛؟ g ناشتا +s)نصیبہ s\d ،۔؛؟ g نصیبا +s)ناراضگی s\d ،۔؛؟ g ناراضی +s)وطیرہ s\d ،۔؛؟ g وتیرہ +s)وکیپیڈیا s\d ،۔؛؟ g ویکیپیڈیا +s)ھمارا s\d ،۔؛؟ g ہمارا +s)ھمارے s\d ،۔؛؟ g ہمارے +s)ھاتھی s\d ،۔؛؟ g ہاتھی +s)هزاروں s\d ،۔؛؟ g ہزاروں +s)ابولفضل s\d ،۔؛؟ g ابو الفضل +s)سرائیت s\d ،۔؛؟ g سرایت +انگریزی ختمہ اور وقفہ کی اردو علامتوں سے تبدیلی +انگریزی مہینوں کی اردو میں تبدیلی +اردو سے مغربی عربی اعداد میں تبدیلی +ویکی فہرست میں اور علامتوں کے بعد اسپیس کا اضافہ اور زائد اسپیس حذف +دو یا زائد اسپیس کا خاتمہ +//حوالہ جات اور ذیلی سرخیوں کی درستی +//قوسین میں موجود زائد اسپیس کا خاتمہ +//ویب پتوں میں موجود خامی کا حل +//واوین یعنی کی ربط سے باہر منتقلی + + +'۔ n\nترمیم کرنے کے لیے ٹھیک پر، یا اس ترمیم کو چھوڑنے کے لیے منسوخ پر کلک کریں۔ +'۔ n\nمنتقل کرنے کے لیے ٹھیک پر، یا اس منتقلی کو چھوڑنے کے لیے منسوخ پر کلک کریں۔ +'۔ n\حذف کرنے کے لیے ٹھیک پر، یا اس حذف کو چھوڑنے کے لیے منسوخ پر کلک کریں۔ + + +خبردار: یہ ایک عالمی آلہ کا اسکرپٹ ہے +اس صفحل پر ترامیم کئی صارفین کی ترجیحات کو متاثر کر سکتی ہے۔ +براہ مہربانی پہلے تبادلۂ خیال وکی کتب:پلک کے تبادلہ خیال صفحہ پر بحث کریں۔ + + +label خوش آمدید کی قسم +label مربوط مضمون (اگر سانچہ میں اس کی معاونت موجود ہو +description خوش‌آمد به کاربرانی با نام کاربری دارای نویسه‌های غیر لاتین", +description برای کسی که نخستین نوشتارش رهنمودهای ساخت نوشتار را رعایت نکرده‌است", +description خوش‌آمد همراه گفتگوی اضافی دربارهٔ سیاست‌های ضد هرزنگاری", +description برای کسی که نوشتاری خودزیست‌نامه‌ای ساخته‌است", +description برای کسی که اطلاعات را از نوشتارها حذف می‌کند", +description خوش‌آمد همراه اطلاعات اضافی دربارهٔ تصاویر (سیاست و روش +description برای کاربران ناشناسی که خرابکاری کرده‌اند یا ویرایش‌های نامفید داشته‌اند", +description برای کاربران ناشناسی که محتوا را از صفحه‌ها حذف کرده‌اند", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به استرالیا", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به کالیفرنیا", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های محافظه‌کاری", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های دوچرخه‌سواری", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به مانگای دراگون بال", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به استونی", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به آلمان", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به هند", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های پزشکی", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به پاکستان", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های فیزیک", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به لهستان", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های راگبی ۱۵ نفره", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های جنگ ستارگان", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به سوئیس", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های مربوط به اوکراین", +description خوش‌آمد به کاربرانی با علاقه‌ای آشکار در موضوع‌های جاده‌ها و بزرگ‌راه‌ها", +description از کاربر برای ماجراجویی ویکی‌پدیا دعوت کنید (الگوی خوش‌آمد نیست +غیر اردو پیغامات خوش آمدید +description عربی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description البانوی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description چینی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description ولندیزی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description فنّش زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description فرانسیسی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description جرمن زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description عبرانی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description جاپانی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description کوریائی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description مراٹھی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description ملیالم زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description اڑیہ زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description پرتگالی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description روسی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description ہسپانوی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description سویڈش زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", +description یوکرینی زبان کے صارفین کے لیے پیغام خوش آمدید", + + +label اس صفحہ سے مربوط تمام روابط حذف کریں', +label اس صفحہ کے رجوع مکررات حذف کریں', +label سب کا انتخاب ختم کریں", +alert("آپ کو وجہ تحریر کرنی ہوگی + + +label درجہ حفاظت میں تبدیلی', +tooltip محض موجود صفحات کے لیے۔', +label منتقلی صفحہ کی محفوظ شدگی میں تبدیلی', +tooltip محض موجود صفحات کے لیے۔', +label منتقلی صفحہ کی محفوظ شدگی +label تخلیق صفحہ کی محفوظ شدگی میں تبدیلی', +tooltip محض غیر موجود صفحات کے لیے۔', +alert("براہ کرم محفوظ کرنے کی وجہ تحریر کریں + + +label سب کا انتخاب ختم کریں", +alert("آپ کو وجہ درج کرنا ہوگا۔ + + +!confirm آپ اپنے کھاتے پر پابندی لگانے جا رہے ہیں! کیا آپ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ +label صارف پر پابندی لگائیں', +tooltip موجود اختیارات کی مدد سے متعلقہ صارف پر پابندی لگائیں۔', +label صارف کے تبادلۂ خیال صفحہ پر پابندی کا سانچہ لگائیں', +tooltip اگر پابندی لگانے والا منتظم ممنوع صارف کے تبادلۂ خیال صفحہ پر پابندی کا سانچہ لگانا بھول گیا ہو یا آپ ہی نے ابھی اس صارف پر پابندی عائد کی ہو اور اس کے تبادلۂ خیال صفحہ پر سانچہ نہ لگایا ہو تو مناسب سانچہ چسپاں کرنے کے لیے اس اختیار کو استعمال کر سکتے ہیں۔', +tooltip آپ اضافی وقتوں کو بھی استعمال کر سکتے ہیں، مثلاً «1 منٹ» یا «19 دن»، نیز مطلق وقت «yyyymmddhhmm» بھی درج کر سکتے ہیں (مثلاً: «200602011405» 1 فروری 2006ء 14:05 یوٹی سی ہوا)۔', +label پابندی کے دوران میں اس صارف کو اس کے اپنے تبادلۂ خیال صفحہ پر ترمیم کرنے سے باز رکھیں', +label مستعمل آئی پی پتوں پر خودکار پابندی لگائیں (سخت پابندی +label داخل شدہ صارفین کو اس آئی پی پتے کے ذریعہ ترمیم کاری سے باز رکھیں (سخت پابندی +label صارف کے صارف اور تبادلۂ خیال صفحات کو زیر نظر کریں', +label وجہ (نوشتہ پابندی میں اندراج کے لیے +label تبادلۂ خیال کا سانچہ منتخب کریں +tooltip اطلاع میں کسی مضمون کا ربط بھی درج کیا جا سکتا، خصوصاً اس وقت جب مضمون ہی خلل کا باعث ہو۔ ربط درج نہ کرنا ہو تو اسے خالی چھوڑ دیں۔' +tooltip صارف کی پابندی ختم ہونے کی مدت، مثلاً 24 گھنٹے، 2 ہفتے، دائمی وغیرہ۔۔۔' +tooltip وجہ درج کرنا اختیاری ہے، آپ کی درج کردہ وجہ عام ابتدائی وجہ کی جگہ پر رکھی جائے گی۔ یہ اختیار محض عام پاپندی کے سانچوں کے لیے دستیاب ہے۔', +label سانچہ میں مدت اختتام شامل نہ کریں', +tooltip مدت شامل کرنے کی بجائے سانچہ میں یہ عبارت شامل کریں «آپ پر عارضی پابندی عائد کی گئی ہے، اس کی وجہ۔۔۔»' +tooltip اس اختیار کو فعال کرنے پر سانچہ میں یہ اطلاع شامل ہو جائے گی کہ صارف کی تبادلۂ صفحہ تک رسائی کو ختم کر دیا گیا ہے۔' +summary آپ کے آئی پی پتے پر پابندی عائد کر دی گئی', +summary آپ نے اپنی ترامیم کے ذریعہ مصالحت کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے آپ پر پابندی لگا دی گئی' +summary آپ کی ترمیم کاری پر پابندی لگا دی گئی ہے', +summary آپ کی ترمیم کاری پر دائمی پابندی لگا دی گئی ہے', +summary آپ کی ترمیم کاری پر پابندی لگا دی گئی ہے نیز آپ کے اپنے تبادلۂ خیال صفحہ تک رسائی بھی ختم کر دی گئی ہے', +reason مواد کی مستقل صفائی', +summary آپ کے آئی پی پتے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ اسے سابقہ پابندی سے فرار حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔' +reason تبادلہ خیال صفحہ کی رسائی مسدود: پابندی کے دوران میں تبادلۂ خیال صفحہ کا نامناسب استعمال', +summary آپ کے اپنے تبادلۂ خیال صفحہ پر آپ کی رسائی کو مسدود کر دیا گیا ہے۔', +reason بلا حوالہ مواد کا مسلسل اندراج', +summary بلا حوالہ مواد کے مسلسل اندراج کے باعث آپ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔' +label پابندی کی عام وجوہات', +{ label پابندی کے دوران میں تبادلۂ خیال صفحہ کا نامناسب استعمال value uw-talkrevoked + + +alert("استرجع نہیں کیا جا سکا، اس دوران مین صفحہ کے مندرجات تبدیل ہوئے ہیں۔ + + +label مجوزہ حذف شدگی کی قسم' +tooltip وپ:مجوزہ حذف شدگی کے مطابق عام مجوزہ حذف شدگی' +label بقید حیات شخصیات کی سوانح عمری کی مجوزہ حذف شدگی (بلا حوالہ +tooltip وکی کتب:بحش محش کے مطابق بقید حیات شخصیات کی نئی اور مکمل بلا حوالہ سوانح عمری کی مجوزہ حذف شدگی' +label اگر ممکن ہو تو صفحہ ساز صارف کو اطلاع دیں', +tooltip اگر اس خانہ کو منتخب کریں تو صفحہ ساز صارف کے تبادلۂ خیال صفحہ میں اطلاعی سانچہ چسپاں کر دیا جائے گا۔", +label مجوزہ حذف شدگی کی وجہ +label اگر ممکن ہو تو صفحہ ساز صارف کو اطلاع دیں', +tooltip صفحہ ساز صارف کو اطلاع دے دی گئی ہے۔', +label ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون 23 فروری 2012ء سے قبل لکھا گیا ہے، لہذا اس کی حذف شدگی کی تجویز وکی کتب:مبح کے مطابق دیجیے۔' +var confirmtext اس مضمون میں مجوزہ حذف شدگی کا سانچہ موجود ہے۔ \nکیا آپ prod-2 مجوزہ حذف شدگی کی تصدیق) اپنی تشریح کے ساتھ چسپاں کرنا چاہتے ہیں؟"; +confirmtext اس مضمون میں غیر سوانحی مجوزہ حذف شدگی کا سانچہ موجود ہے۔ nکیا آپ مجوزہ حذف شدگی کی تصدیق سانچہ) مع تشریح «بقید حیات شخصیت کی بلا حوالہ سوانح عمری» درج کرنا چاہتے ہیں؟"; +if confirm ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون 23 فروری 2012ء سے قبل لکھا گیا ہے، لہذا یہ مضمون بقید حیات شخصیات کی سوانح عمری کی مجوزہ حذف شدگی کے شرائط کے موافق نہیں۔ کیا آپ واقعی اس میں یہ سانچہ چسپاں کرنا چاہیں گے؟ + + +!confirm آپ اپنے آپ کو انتباہ دے رہے ہیں! کیا آپ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ +label براہ کرم انتباہ/اطلاع کی قسم کا انتخاب کریں', +summary عمومی اطلاع: صفحہ سے مواد کا حذف" +label بقید حیات شخصیات کے متعلق بدون حوالہ متنازع معلومات کا اندراج", +summary عمومی اطلاع: بقید حیات شخصیات کے متعلق بدون حوالہ متنازع معلومات کا اندراج" +label افترا آمیز مواد کا اندراج", +summary عمومی اطلاع: افترا آمیر مواد کا اندراج" +summary عمومی اطلاع: مشتبہ معلومات کا اندراج" +label بدون اتفاق رائے یا حوالہ مکرر یا بڑی تعداد میں تبدیلیاں", +summary عمومی اطلاع: بدون اتفاق رائے یا حوالہ مکرر یا بڑی تعداد میں تبدیلیاں" +label کتابوں میں تصویر سے متعلق تخریب کاری", +summary عمومی اطلاع: کتابوں میں تصویر سے متعلق تخریب کاری" +label کتابوں میں نامناسب مزاح کا استعمال", +summary عمومی اطلاع: مضامین میں نامناسب مزاح" +summary عمومی اطلاع: مواد پر سینسرشپ" +summary عمومی اطلاع: ملکیت کتابیں" +summary عمومی اطلاع: حذف انتظامی سانچے" +label بدون حوالہ یا غلط طور پر درج شدہ حوالہ جاتی مواد کا اندراج", +summary عمومی اطلاع: بدون حوالہ یا غلط طور پر درج شدہ حوالہ جاتی مواد کا اندراج" +label اشتہاربازی یا تشہیر کے لیے وکی کتب کا استعمال", +summary عمومی اطلاع: اشتہاربازی یا تشہیر کے لیے ویکیپیڈیا کا استعمال" +summary عمومی اطلاع: غیرجانبدارانہ نقطہ نظر کی خلاف ورزی" +summary عمومی اطلاع: فاضل یا اسپیم روابط کا اندراج" +"دیگر صارفین کے تئیں رویہ +summary عمومی اطلاع: نیک نیتی سے متصف نہیں" +label دیگر صارفین کو ہراساں کرنا", +summary عمومی اطلاع: دیگر صارفین کو ہرساں کرنا" +label پابندی یا انتباہی سانچوں کا نامناسب استعمال", +summary عمومی اطلاع: پابندی یا انتباہی سانچوں کا نامناسب استعمال" +"حذف سانچہ جات حذف شدگی +summary عمومی اطلاع: حذف سانچہ جات حذف" +label حذف سانچہ جات مجوزہ حذف شدگی برائے زندہ اشخاص", +summary عمومی اطلاع: حذف سانچہ جات مجوزہ حذف شدگی برائے زندہ اشخاص" +label حذف سانچہ جات حذف برائے تصاویر", +summary عمومی اطلاع: حذف سانچہ جات حذف برائے تصاویر" +summary عمومی اطلاع: حذف سانچہ جات سریع حذف شدگی" +label تبادلۂ خیال صفحہ کا بطور چوپال استعمال", +summary عمومی اطلاع: تبادلۂ خیال صفحہ کا بطور چوپال استعمال" +summary عمومی اطلاع: تخلیق نامناسب صفحات" +label عناوین کے اصول یا اتفاق رائے کے خلاف منتقلی صفحات", +summary عمومی اطلاع: عناوین کے اصول یا اتفاق رائے کے خلاف منتقلی صفحات" +label دیگر صارفین کے تبادلۂ خیال صفحہ میں نامناسب اقدامات", +summary عمومی اطلاع: دیگر صارفین کے تبادلۂ خیال صفحہ میں نامناسب اقدامات" +summary عمومی اطلاع: غیر موسوعی تصاویر کی اپلوڈنگ" +label نامعلوم حق اشاعت کی حامل تص��ویر کی اپلوڈنگ", +summary عمومی اطلاع: نامعلوم حق اشاعت کی حامل تصاویر کی اپلوڈنگ" +summary عمومی اطلاع: بذریعہ تبصرہ مضمون آلہ نامناسب تبصروں کا اندراج" +summary احتیاط: صفحہ سے مواد کا حذف" +label بقید حیات شخصیات کے متعلق بدون حوالہ متنازع معلومات کا اندراج", +summary احتیاط: بقید حیات شخصیات کے متعلق بدون حوالہ متنازع معلومات کا اندراج" +label افترا آمیز مواد کا اندراج", +summary احتیاط: افترا آمیز مواد کا اندراج" +summary احتیاط: دانستہ حقیقی غلطیوں کا اندراج" +label بدون اتفاق رائے یا حوالہ مکرر یا بڑی تعداد میں تبدیلیاں", +summary احتیاط: بدون اتفاق رائے یا حوالہ مکرر یا بڑی تعداد میں تبدیلیاں" +label مضامین میں تصویر سے متعلق تخریب کاری", +summary احتیاط: مضامین میں تصویر سے متعلق تخریب کاری" +label مضامین میں نامناسب مزاح کا استعمال", +summary احتیاط: مضامین میں نامناسب مزاح کا استعمال" +summary احتیاط: حذف انتظامی سانچے" +label بدون حوالہ یا غلط طور پر درج شدہ حوالہ جاتی مواد کا اندراج", +summary احتیاط: بدون حوالہ یا غلط طور پر درج شدہ حوالہ جاتی مواد کا اندراج" +label اشتہاربازی یا تشہیر کے لیے ویکیپیڈیا کا استعمال", +summary احتیاط: اشتہاربازی یا تشہیر کے لیے ویکیپیڈیا کا استعمال" +summary احتیاط: غیرجانبدارانہ نقطہ نظر کی خلاف ورزی" +summary احتیاط: فاضل یا اسپیم روابط کا اندراج" +"دیگر صارفین کے تئیں رویہ +summary انتباہ: نیک نیتی سے متصف نہیں" +label دیگر صارفین کو ہراساں کرنا", +summary انتباہ: دیگر صارفین کو ہراساں کرنا" +label پابندی یا انتباہی سانچوں کا نامناسب استعمال", +summary احتیاط: پابندی یا انتباہی سانچوں کا نامناسب استعمال" +"حذف سانچہ جات حذف شدگی +summary احتیاط: حذف سانچہ جات حذف" +label حذف سانچہ جات مجوزہ حذف شدگی برائے زندہ اشخاص", +summary احتیاط: حذف سانچہ جات مجوزہ حذف شدگی برائے زندہ اشخاص" +label حذف سانچہ جات حذف برائے تصاویر", +summary احتیاط: حذف سانچہ جات حذف برائے تصاویر" +summary احتیاط: حذف سانچہ جات سریع حذف شدگی" +label تبادلۂ خیال صفحہ کا بطور چوپال استعمال", +summary احتیاط: تبادلۂ خیال صفحہ کا بطور چوپال استعمال" +label عناوین کے اصول یا اتفاق رائے کے خلاف منتقلی صفحات", +summary احتیاط: عناوین کے اصول یا اتفاق رائے کے خلاف منتقلی صفحات" +label دیگر صارفین کے تبادلۂ خیال صفحہ میں نامناسب اقدامات", +summary احتیاط: دیگر صارفین کے تبادلۂ خیال صفحہ میں نامناسب اقدامات" +summary احتیاط: غیر موسوعی تصاویر کی اپلوڈنگ" +label نامعلوم حق اشاعت کی حامل تصاویر کی اپلوڈنگ", +summary احتیاط: نامعلوم حق اشاعت کی حامل تصاویر کی اپلوڈنگ" +summary انتباہ: صفحہ سے مواد کا حذف" +label بقید حیات شخصیات کے متعلق بدون حوالہ متنازع معلومات کا اندراج", +summary انتباہ: بقید حیات شخصیات کے متعلق بدون حوالہ متنازع معلومات کا اندراج" +label افترا آمیز مواد کا اندراج", +summary انتباہ: افترا آمیز مواد کا اندراج" +summary انتباہ: دانستہ حقیقی غلطیوں کا اندراج" +label بدون اتفاق رائے یا حوالہ مکرر یا بڑی تعداد میں تبدیلیاں", +summary انتباہ: بدون اتفاق رائے یا حوالہ مکرر یا بڑی تعداد میں تبدیلیاں" +label مضامین میں تصویر سے متعلق تخریب کاری", +summary انتباہ: مضامین میں تصویر سے متعلق تخریب کاری" +label مضامین میں نامناسب مزاح کا استعمال", +summary مضامین میں نامناسب مزاح کا استعمال" +summary انتباہ: حذف انتظامی سانچے" +label بدون حوالہ یا غلط طور پر درج شدہ حوالہ جاتی مواد کا اندراج", +summary انتبا��: بدون حوالہ یا غلط طور پر درج شدہ حوالہ جاتی مواد کا اندراج" +label اشتہاربازی یا تشہیر کے لیے ویکیپیڈیا کا استعمال", +summary انتباہ: اشتہاربازی یا تشہیر کے لیے ویکیپیڈیا کا استعمال" +summary انتباہ: غیرجانبدارانہ نقطہ نظر کی خلاف ورزی" +summary انتباہ: فاضل یا اسپیم روابط کا اندراج" +"دیگر صارفین کے تئیں رویہ +summary انتباہ: نیک نیتی سے متصف نہیں" +label دیگر صارفین کو ہراساں کرنا", +summary انتباہ: دیگر صارفین کو ہراساں کرنا" +"حذف سانچہ جات حذف شدگی +label حذف سانچہ جات مجوزہ حذف شدگی برائے زندہ اشخاص", +summary انتباہ: حذف سانچہ جات مجوزہ حذف شدگی برائے زندہ اشخاص" +label حذف سانچہ جات حذف برائے تصاویر", +summary انتباہ: حذف سانچہ جات حذف برائے تصاویر" +summary انتباہ: حذف سانچہ جات سریع حذف شدگی" +label تبادلۂ خیال صفحہ کا بطور چوپال استعمال", +summary انتباہ: تبادلۂ خیال صفحہ کا بطور چوپال استعمال" +label عناوین کے اصول یا اتفاق رائے کے خلاف منتقلی صفحات", +summary انتباہ: عناوین کے اصول یا اتفاق رائے کے خلاف منتقلی صفحات" +label دیگر صارفین کے تبادلۂ خیال صفحہ میں نامناسب اقدامات", +summary انتباہ: دیگر صارفین کے تبادلۂ خیال صفحہ میں نامناسب اقدامات" +summary انتباہ: غیر موسوعی تصاویر کی اپلوڈنگ" +summary انتباہ: بذریعہ تبصرہ مضمون آلہ نامناسب تبصروں کا اندراج" +label نامعلوم حق اشاعت کی حامل تصاویر کی اپلوڈنگ", +summary انتباہ: نامعلوم حق اشاعت کی حامل تصاویر کی اپلوڈنگ" +summary هشدار نهایی: تغییرات مکرر یا عمده در محتوا بدون اجماع یا منبع" +summary هشدار نهایی: خرابکاری‌های مرتبط با تصاویر در مقاله‌ها" +"رفتار در برابر دیگر کاربران +summary هشدار نهایی: حمله‌های شخصی به سوی یک کاربر خاص" +label انتقال صفحه‌ها بر خلاف قواعد نام‌گذاری یا اجماع", +summary هشدار نهایی: انتقال صفحه‌ها بر خلاف قواعد نام‌گذاری یا اجماع" +summary هشدار نهایی: بازآرایی دیدگاه‌های صفحهٔ بحث دیگران" +summary هشدار نهایی: بارگذاری تصاویر نادانشنامه‌ای" +"رفتار در برابر دیگر کاربران +label انتقال صفحه‌ها بر خلاف قواعد نام‌گذاری یا اجماع", +summary تنها هشدار: بارگذاری تصاویر نادانشنامه‌ای" +summary آگاه‌سازی: ایجاد تغییرمسیر دوتایی بر اثر انتقال‌های نادرست" +summary آگاه‌سازی: افزودن اطلاعات حدسی یا تأیید نشده" +summary آگاه‌سازی: یک تصویر منصفانه از فضای نام کاربری شما زدوده شده است" +خطوط زیر برای تفاوت غیر ضروری میان انگلیسی و انگلیسی آمریکایی است که می‌تواند برای «فارسی» و «پارسی» استفاده شود +summary آگاه‌سازی: خرابکاری خواندن ویرایش‌هایی که خرابکاری نیستند" +summary آگاه‌سازی: صفحه‌های تازه را به عنوان گشت‌خورده زمانی که گشت می‌زنید علامت بزنید" +label ویکی‌پدیا یک شبکهٔ اجتماعی نیست", +summary آگاه‌سازی: ویکی‌پدیا یک شبکهٔ اجتماعی نیست" +label جسور باشید و اشکال‌ها را خودتان رفع کنید", +summary آگاه‌سازی: شما می‌توانید جسور باشید و اشکال‌ها را خودتان رفع کنید" +summary آگاه‌سازی: ارسال در بالای صفحه‌های بحث" +summary آگاه‌سازی: گزارش نام کاربری در وپ:تامنام پذیرفته نیست" +label زیرصفحه یا صفحهٔ کاربری مناسب فهرست‌شدن در موتور جستجو نیستند", +summary آگاه‌سازی: زیرصفحه یا صفحهٔ کاربری مناسب فهرست‌شدن در موتور جستجو نیستند" +label الگوهای هشدار به کاربر را زمانی که خرابکاری را واگردانی می‌کنید قرار دهید", +summary آگاه‌سازی: شما می‌توانید از الگوهای هشدار به کاربر زمانی که خرابکاری را واگردانی می‌کنید استفاده نمایید" +label استفاده از چند حساب کاربری (با فرض حسن نیت +summary انتباہ: ایجاد صفحه‌های حمله", +summary انتباہ: نام کاربری ربات" +summary انتباہ: الگوهای درازمدت خرابکاری" +summary انتباہ: خرابکاری در صفحهٔ کاربری" +summary انتباہ: نام کاربری شما ممکن است بر خلاف سیاست باشد", +summary انتباہ: نام خلاف سیاست نام کاربری و تعارض منافع", +summary انتباہ: صفحهٔ کاربری یا زیرصفحهٔ خلاف سیاست" +summary انتباہ: استفادهٔ نادقیق یا نادرست از خلاصه‌ویرایش" +summary دسترسی ویرایشی شما بسته شده است", +summary دسترسی ویرایشی شما بسته شده و صفحهٔ بحثتان غیرفعال است", +summary دسترسی ویرایشی شما به صورت نامعین بسته شده است", +summary دسترسی ویرایشی نشانی آی‌پی شما بسته شده است", +label قطع دسترسی سخت حساب ساخته‌شده برای خرابکاری و نام کاربری (بی‌پایان +label قطع دسترسی سخت، نام کاربری و حساب ساخته‌شده برای هرزنگاری (بی‌پایان +label دسترسی شما قطع شده است زیرا +tooltip یک دلیل اختیاری، برای جایگزین‌کردن دلیل کلی پیش‌فرض. فقط برای الگوهای بندایش عمومی موجود است.' +alert("باید دلیلی جهت درج در الگوی uw-username ذکر کنید + + +پلگ ان آلہ:آپ اسے دیکھ نہیں سکتے + + +فائدہ مند آلہ۔ آپ اسے دیکھ نہیں سکتے + + +پلگ ان آلہ:آپ اسے دیکھ نہیں سکتے + + +پلگ ان آلہ:آپ اسے دیکھ نہیں سکتے + + +label صرف ٹیگ چسپاں کریں، حذف نہ کریں', +tooltip اگر آپ حذف کرنے کی بجائے محض حذف کا ٹیگ چسپاں کرنا چاہیں', +label تبادلۂ خیال صفحہ بھی حذف کریں', +tooltip اس اختیار کو فعال کرنے سے تبادلۂ خیال صفحہ بھی حذف ہوگا۔ تاہم اگر آپ نے ف8 معیار (کامنز میں منتقل شدہ) منتخب کیا ہے تو اس صورت میں تبادلہ خیال صفحہ حذف *نہیں ہوگا*۔", +tooltip اس اختیار کو فعال کرنے سے رجوع مکررات بھی حذف ہو جائیں گے۔", +label اگر ممکن ہو تو صفحہ ساز کو مطلع کریں', +tooltip اگر آپ نے پلک کی ترجیحات میں اپنے منتخب کردہ معیار کے لیے اطلاعی سانچہ منتخب کیا ہے +"اور اس خانہ کو فعال کرتے ہیں تو اس صورت میں صفحہ ساز صارف کے تبادلۂ خیال پر اطلاعی سانچہ چسپاں کر دیا جائے گا، نیز ممکن ہے سانچہ خوش آمدید بھی لگایا جائے۔", +label بیک وقت متعدد معیارات کے ٹیگ چسپاں کریں', +tooltip اگر اسے منتخب کیا جائے تو آپ اس صفحہ کے لیے بیک وقت متعدد موزوں معیارات منتخب کر سکتے ہیں، مثلاً، ع11 اور م7 کے مشترکہ معیار مضامین کے لیے رائج ہیں۔", +label فوری حذف شدگی کا ماڈیول شروع نہیں ہو سکا، براہ کرم دوبارہ کوشش کریں یا پلک کے ترقی دہندگان کو مطلع کریں۔' +label جب معیارات کا انتخاب مکمل ہو جائے تو کلک کریں:' +tooltip اس اختیار کو فعال کرنے کے بعد ایسے تمام صفحات علاحدہ کر دیے جائیں گے جو منصوبہ کے لیے مفید ہوں خصوصاً صارف تبادلۂ خیال صفحات، ان کے وثائق اور کامنز میں موجود فائلوں کے تبادلۂ خیال صفحات۔' +label ف1 اردو ویکیپیڈیا اور کامنز دونوں میں موجود فائل', +tooltip «ملف:» سابقہ نہ لکھا جائے۔' +tooltip اس قسم کی فائلوں کو حذف کرنے سے پہلے اس بات کو جانچ لیں کہ میڈیاویکی سافٹ ویئر کا انجن اسے کہیں استعمال تو نہیں کر رہا ہے۔ اسی طرح اس میں کامنز کی خالی (مثلاً بغیر مواد کی) فائلوں کے صفحات وضاحت بھی شامل ہیں۔' +label ف2 کامنز پر موجود فائل کا غیر ضروری صفحہ وضاحت', +tooltip ایسی فائل جو کامنز پر اپلوڈ ہو چکی ہے لیکن اس کے ٹیگ اور دیگر معلومات اردو ویکیپیڈیا پر موجود ہوں اور ان کی اب ضرورت نہیں، مثلاً منتخب تصویر کے لیے نامزد شدہ تصویر جو مقابلے میں ناکام رہی ہو۔ +tooltip ایسی فائلیں جو «محض غیر تجارتی استعمال»، «غیر اشتقاقی استعمال» یا «اجازت نامہ کے ساتھ استعمال» جیسے اجازت ناموں کے تحت ہوں اور 19 مئی 2005ء کو یا اس سے قبل اپلوڈ کی گئی ہوں۔ ان میں وہ فائلیں شامل نہیں جو غیر آزاد مواد کے استعمال کے لیے محدود معیارات کے مطابق ہوں۔ اس اصول کے تحت وہ فائلیں شامل سمجھی جائیں گی جو «غیر تجارتی کریئیٹیو کامنز اجازت نامہ» کے تحت شائع کی گئی ہوں۔ تاہم اس طرح کی فائلیں اگر 19 مئی 2005ء سے قبل اپلوڈ کی گئی ہوں اور کسی مضمون میں مستعمل بھی نہ ہوں تو انہیں فی الفور حذف کیا جا سکتا ہے۔' +label ف4: اجازت ناموں کی معلومات کی کمی', +tooltip «تصاویر بدون حوالہ»، «نامعلوم کاپی رائٹ کی حامل تصویریں» یا «تصاویر بدون کاپی رائٹ ٹیگ» جیسے زمروں میں موجود تصویریں ان پر چسپاں ٹیگ کی بنا پر ان زمروں میں ایک ہفتے سے زائد عرصہ سے موجود ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ کب اپلوڈ ہوئیں۔ اطلاع: بسا اوقات صارفین اپلوڈ کے خلاصے میں ماخذ درج کرتے ہیں لہذا ان سب کو جانچ لیں۔', +tooltip ایسی فائلیں جو کسی آزاد اجازت نامے یا دائرہ عام میں نہ ہوں اور نہ کسی مضمون میں مستعمل ہوں نیز ان پر چسپاں سانچہ کی بنا پر «زمرہ:یتیم منصفانہ استعمال والی تصویریں» کے کسی ذیلی زمرے میں ایک ہفتے سے زائد عرصہ سے موجود ہو۔ البتہ ان فائلوں کو باقی رکھا جا سکتا ہے جو جلد ہی کسی مضمون میں استعمال ہونے والی ہوں۔ مستقبل میں حذف ہونے والی فائلوں پر ٹیگ چسپاں کرنے کے لیے پلک کے "حذف تصویر" اختیار میں "یتیم منصفانہ استعمال" کو استعمال کریں۔', +tooltip منصفانہ استعمال کے بغیر اپلوڈ کی جانے والی فائلیں ایک ہفتے بعد حذف ہو سکتی ہیں۔ 4 مئی 2006ء سے قبل اپلوڈ کردہ فائلوں کو فوراً حذف نہ کریں، بلکہ اپلوڈ کنندہ کو مطلع کیا جائے کہ فلاں فائل میں منصفانہ استعمال کی وضاحت درکار ہے۔ 4 مئی 2006ء کے بعد اپلوڈ کی جانے والی فائلوں پر پلک کے "حذف تصویر" ماڈیول میں موجود «منصفانہ استعمال کی وضاحت غیر موجود» اختیار کی مدد سے ٹیگ چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی فائلیں زمرہ:تصاویر کے مورخہ ذیلی زمرہ جات میں منصفانہ استعمال کی وضاحت غیر موجود کے ساتھ نظر آئے گی۔', +label ف7: واضح طور پر نادرست منصفانہ استعمال کا ٹیگ', +tooltip یہ ٹیگ محض ان فائلوں کے لیے ہے جن پر واضح طور پر نادرست منصفانہ استعمال کے ٹیگ چسپاں ہوں، مثلاً لوگو پر غیر آزاد لوگو کا ٹیگ۔ جن صورتوں میں کچھ انتظار کی نوبت آجائے (مثلاً قابل تبدیل تصویریں یا متنازع وضاحتیں وغیرہ) تو آپ پلک کے "حذف تصویر" ماڈیول میں موجود اختیارات کو استعمال کریں۔', +label ف7: منصفانہ استعمال کے تحت ایسی تجارتی تصویروں کا استعمال جو خود ماخذ کی معلومات سے عاری ہوں', +tooltip کسی ایسے تجارتی ماخذ (مثلاً اسوسیئیٹڈ پریس، گیٹی وغیرہ) سے ماخوذ غیر آزاد تصویریں یا میڈیا جہاں موجود فائلیں خود ماخذ کی معلومات سے عاری ہوں، منصفانہ استعمال کے لیے نادرست تصور کی جائے گی نیز "وپ:غیر آزاد مواد کے معیارات" کے تقاضوں کے مطابق نہ ہوگی۔', +label ف8: ایسی فائلیں جو مساوی یا زیادہ بہتر کیفیت میں ویکی کامنز پر بھی موجود ہوں', +tooltip بشرطیکہ درج ذیل شرائط پائی جائیں: 1: فائل کے دونوں نسخوں کی شکل یعنی فارمیٹ یکساں ہوں۔ 2: فائل کا اجازت نامہ اور ماخذی حالت کسی بھی شک و شبہ سے پرے ہو، نیز موجود اجازت نامہ بلا کسی شک و شبہ کے کامنز پر قابل قبول ہو۔ 3: فائل کے صفحۂ وضاحت میں درج معلومات کامنز کے صفحۂ وضاحت میں بھی موجود ہوں۔ اس میں اپلوڈ کا مکمل تاریخچہ مع اپلوڈ کنندہ کا مقامی صفحہ صارف کا ربط بھی شامل ہونا چاہیے۔ 4: فائل محفوظ نہ ہو، نیز فائل کے صفحۂ وضاحت پر اسے کامنز میں منتقل کرنے کی درخواست موجود نہ ہو۔ 5: اگر کامنز پر موجود نسخہ کسی مختلف نام سے موجود ہو تو تمام مقامی حوالہ جات کامنز پر مع مقامی نام کے درج کرنا لازمی ہے۔ 6 c-uploaded فائلوں کے لیے: انہیں جیسے ہی صفحہ اول سے ہٹایا جائے، فوراً حذف کر دیا جائے۔', +tooltip اگر کامنز پر موجود نسخے کا نام یکساں ہو تو اسے خالی چھوڑا جا سکتا ہے۔ "ملف کا سابقہ اختیاری ہے۔' +tooltip فائل ایسی ویب سائٹ یا ماخذ سے حاصل کی گئی ہو جو ویکیپیڈیا سے ہم آہنگ اجازت نامہ کے حامل نہ ہوں، نیز اپلوڈ کنندہ نے منصفانہ استعمال کا اظہار کیا ہو اور نہ منصفانہ استعمال کی اجازت درج کی ہو۔ ایسے مآخذ جو ویکیپیڈیا سے ہم آہنگ اجازت نامے نہیں رکھتے ان میں اسٹاک فوٹو لائبریریاں مثلاً گیٹی امیجز یا کوربیز شامل ہیں۔ کاپی رائٹ کی غیر واضح خلاف ورزیوں کے متعلق ویکیپیڈیا:فائلیں برائے حذف پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔', +tooltip اپلوڈ کردہ ایسی فائلیں جو تصویر ہوں، نہ آواز اور نہ ویڈیو (مثلاً .doc pdf, or .xls فائلیں) اور نہ کسی مضمون میں مستعمل ہوں اور نہ مستقبل میں کسی استعمال کا امکان ہو۔' +label ف11: اجازت کا ثبوت موجود نہیں', +tooltip اگر اپلوڈ کنندہ نے کسی اجازت نامے کا ذکر کیا اور صاحب کاپی رائٹ/ماخذ کے طور پر کسی تیسرے شخص کا نام درج کیا لیکن ایسی کوئی شہادت یا ثبوت فراہم نہیں کیا کہ وہ تیسرا شخص حقیقت میں اس سے متفق ہے تو اپلوڈ کنندہ کو مطلع کرنے کے ایک ہفتے بعد اس فائل کو حذف کیا جا سکتا ہے۔', +tooltip اسے محض اس وقت استعمال کیا جائے جب فائل موجود نہ ہو۔ کامنز پر موجود فائلوں کے مقامی صفحات وضاحت اور خراب فائلوں کے لیے ف2 معیار، ناقابل قبول رجوع مکررات کے لیے ر3 معیار، اور کامنز کے شکستہ روابط کے لیے ع6 معیار استعمال کریں۔' +label م1: غیر موجود متن – مضمون کے موضوع کی شناخت کے لیے درکار مواد کی قلت', +tooltip مثلاً: «سرخ کار کے ساتھ وہ ایک مسخرہ معلوم ہوتا ہے، اور لوگوں کو خوب ہنساتا ہے۔» یہ معیار محض انتہائی مختصر مضامین پر منطبق ہوتا ہے۔ مواد سے مختلف سیاق و سباق کے متعلق ذیل میں موجود م3 دیکھیے۔' +tooltip اگر مضمون کسی دوسری ویکی میں موجود نہیں تو اردو نہیں ٹیگ چسپاں کریں۔ غیر اردو مضامین جو اس معیار کے مطابق نہ ہوں (نیز وہ فوری حذف شدگی کے کسی دوسرے معیار کے مطابق بھی نہ ہوں) تو انہیں وپ:ترجمہ درکار مضامین میں نظرثانی اور ممکنہ ترجمہ کے لیے درج فرما دیں۔', +label دوسری ویکی کا بین الویکی ربط درج کریں +tooltip ایسا مضمون جس میں محض روابط (بشمول ہائپر روابط، زمرہ کے ٹیگ اور مزید دیکھیے قطعہ وغیرہ) موجود ہوں، مضمون کا عنوان درج ہو، اور/یا مضمون نویس سے رابطہ کے پتے موجود ہوں۔ اس میں ضدابہام صفحات شامل نہیں۔' +label م5: ماورائے ویکی کردہ مضمون', +tooltip ایسے مضامین جن پر وپ:مضامین برائے حذف میں گفتگو ہو چکی ہے اور یہ نتیجہ نکلا کہ مضمون کے مواد کو کسی دوسری ویکی میں منتقل کر کے ان معلومات کو محفوظ کر لیں اور منتقلی کے بعد حذف کر دیا جائے۔ اسی طرح ایسے مضامین جو محض فرہنگ کے اندراج کے مانند ہوں انہیں بھی ویکی لغت میں منتقل کرنے کے بعد حذف کر دیا جائے۔' +tooltip کسی شخص، حلقہ، طائفہ، مجلس، ک��ب، ویب مواد یا جانوروں کے متعلق ایسے مضامین جن کے موضوع قابل لحاظ نہ ہوں۔ اگر متعلقہ موضوع متنازع ہو یا ماضی میں وپ:مضامین برائے حذف میں اس پر ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں مضمون کے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہو تو اسے حذف کرنے کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے۔', +tooltip کسی غیر اہم اور غیر معروف شخص کے متعلق تحریر کردہ مضمون۔ اگر متعلقہ موضوع متنازع ہو یا ماضی میں وپ:مضامین برائے حذف میں اس پر ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں مضمون کے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہو تو اسے حذف کرنے کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے۔', +tooltip کسی غیر اہم اور غیر معروف گلوکار، موسیقار یا طائفہ پر تحریر کردہ مضمون جن کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو۔', +tooltip کسی غیر اہم اور غیر معروف کلب یا ادارہ پر تحریر کردہ مضمون جن کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو۔', +tooltip کسی غیر اہم اور غیر معروف کمپنی یا تنظیم پر تحریر کردہ مضمون جن کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو۔', +tooltip کسی غیر معروف ویب سائٹ، بلاگ، آن لائن فورم، ویب کامک، پوڈ کاسٹ یا دیگر ویب مواد پر تحریر کردہ مضمون جن کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو۔', +tooltip کسی غیر اہم اور غیر معروف جانور پر تحریر کردہ مضمون جن کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو۔', +tooltip کسی غیر معروف تقریب (سفر، جلسہ، نشست، دعوت وغیرہ) پر تحریر کردہ مضمون جن کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو۔', +tooltip ایسی کسی موسیقی ریکاڑ کے متعلق تحریر کردہ مضمون جس کا موضوع قابل لحاظ نہ ہو اور اس کے فنکاروں پر مضمون سرے سے موجود ہی نہ ہو یا اسے حذف کر دیا گیا ہو۔' +label م10: حالیہ تحریر کردہ مضمون جو دوسرے مضمون کی نقل ہو', +tooltip غیر متعلقہ تاریخچہ کے ساتھ حالیہ تحریر کردہ مضمون جس سے کسی موجود مضمون/مضامین میں معلومات کا اضافہ مقصود نہ ہو اور نہ اس عنوان سے رجوع مکرر بنانا معقول ہو۔ اس میں ایسا مضمون شامل نہیں جس کا مقصد موجود مضمون میں معلومات کا اضافہ ہو یا کسی ایک مضمون کو مختلف صفحات میں تقسیم کیا گیا ہو۔', +label دوہرے مضمون کا عنوان +label م11: واضح طور پر مضمون نویس کی ذہنی اپج ہو اور اس کی معروفیت اور اہمیت کا کوئی ذکر نہ ہو', +tooltip ایسا مضمون جو واضح طور پر اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہو کہ اس کا موضوع مضمون نویس کے ذہن کی تخلیق ہے نیز مضمون میں ایسا کوئی قابل اعتماد اشارہ موجود نہ ہو جس سے یہ واضح ہو سکے کہ یہ موضوع کتنا اہم اور معروف ہے۔' +tooltip وہ زمرہ جات جو کم از کم سات دن تک خالی رہیں۔ ان میں وہ زمرہ جات شامل نہیں جن پر وپ:زمرہ جات برائے حذف پر گفتگو ہو چکی ہے، نیز ضد ابہام زمرہ جات اور دیگر مخصوص زمرہ جات پر بھی یہ معیار منطبق نہیں ہوتا۔ اگر متعلقہ زمرہ نسبتاً نیا نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ اس میں پہلے کبھی مضامین موجود رہے ہوں چنانچہ گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔' +label ع8: وہ زمرہ جو حذف شدہ سانچوں سے پر ہو', +tooltip یہ معیار ایسے زمرہ جات کے لیے ہے جن میں سانچوں کے ذریعہ مضامین اور صفحات شامل ہوتے تھے لیکن اب وہ سانچے حذف ہو چکے۔ اس میں وہ زمرے شامل نہیں جو زیر استعمال ہوں۔' +tooltip صارفین کی درخواست پر ان کے ذاتی ذیلی صفحات۔ بعض نادر حالتوں میں اس بات کا امکان ہے کہ انتظامی ضرورت کے تحت ان صفحات کو باقی رکھنا ناگزیر ہو، نیز بسا اوقات اصل صارف صفحات بھی حذف کیے جا سکتے ہیں۔ مکمل تفصیلات اور اصول و ضوابط کے لیے وپ:صارف صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔', +label اس صارف صفحہ کے حذف کی وجہ درج کرنا ضروری ہے +tooltip صارف کے تبادلہ خیال صفحات کی حذف شدگی انتہائی نادر حالات میں عمل میں آتی ہے، تفصیل کے لیے وپ:حذف تبادلۂ خیال ملاحظہ فرمائیں۔', +tooltip غیر موجود صارفین کے صارف صفحات («خاص:فہرست صارفین» ملاحظہ فرمائیں +tooltip صارف نام فضا میں موجود ایسے نگارخانے جن میں زیادہ تر "منصفانہ استعمال" یا غیر آزاد فائلیں موجود ہوں۔ غیر آزاد مواد کے تعلق سے ویکیپیڈیا کی حکمت عملی غیر آزاد فائلوں کو اپلوڈ کرنے سے باز رکھتی ہے خواہ وہ صارف نام فضا میں ہوں۔ البتہ آزاد فائلوں، دائرہ عام کا مواد، جی ایف ڈی ایل فائلوں، کریئیٹیو کامنز اور اس جیسے دیگر اجازت ناموں کے تحت شائع کردہ فائلوں کی اجازت ہے لیکن منصفانہ استعمال والی فائلیں قابل قبول نہیں۔' +label ص5: وپ:ویب ہوسٹ نہیں کی واضح خلاف ورزیاں', +tooltip صارف نام فضا میں موجود وہ صفحات جن میں ویکیپیڈیا کے اہداف و مقاصد سے غیر متعلق تحریریں، معلومات، گفتگو اور/یا دیگر سرگرمیاں درج ہوں، نیز اس صارف صفحہ کے مالک نے صارف نام فضا سے باہر چند ترمیمیں کی ہوں یا نہ کی ہوں۔ البتہ ان میں معقول مسوادت اور ذاتی معلومات کے طرز پر تحریر کردہ صفحات شامل نہیں۔' +label ع11: اشتہاری صارف نام کے تحت اشتہاری صفحۂ صارف', +tooltip ایسے صارف نام کے تحت موجود صفحہ صارف جو کسی چیز کی تشہیر کا اشارہ دے۔ خیال رہے کہ کمپنی یا مصنوعات پر صارف نام فضا میں کسی مضمون کی موجودگی اسے قابل حذف نہیں بنا سکتی۔ اگر صارف صفحہ میں فاضل کاری کی گئی ہو لیکن صارف نام ایسا نہ ہو تو اس صورت میں ع11 کا ٹیگ ہی چسپاں کرنا کافی ہوگا۔', +tooltip ان میں «فوری حذف شدگی» کے وہ سانچے بھی شامل ہیں جو فوری حذف شدگی کے مسائل کے لیے بنائے گئے ہوں لیکن فوری حذف شدگی کے معیار نہ ہوں نیز ایسے اظہار لاتعلقی کے سانچے بھی جو مضامین میں استعمال کرنے کے لیے بنائے گئے ہوں۔' +tooltip وہ سانچے جو کسی دوسرے سانچے کا چربہ ہوں یا انہیں اس انداز میں بنایا گیا ہو کہ ان کے نتائج دیگر سانچوں سے مشابہ ہوں۔', +label جس سانچہ کاچربہ ہو اس کا نام +tooltip «سانچہ:» سابقہ ضروری نہیں۔' +tooltip اس کی مدد سے آپ وجہ درج کر سکتے ہیں۔ متعدد صورتوں میں دوسرے معیارات زیادہ مناسب ہوتے ہیں مثلاً ع1، ع2، ع6 یا ع8۔ لہذا ان صورتوں میں اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔', +tooltip وجہ درج کرنا ضروری ہے۔', +label ب1: باب اگر مضمون کی شکل میں ہو', +tooltip اس صورت میں مضمون کا معیار (م1، م3، م7 یا م10) درج کرنا لازمی ہے۔', +label مضمون کا موزوں فوری حذف شدگی کا معیار +tooltip اس موضوع سے متعلق باب جس پر کوئی غیر نامکمل دیباچہ مضمون نہ ہو نیز کم از کم تین ایسے غیر نامکمل مضامین نہ ہوں جو موضوع پر تفصیلی مواد فراہم کریں، مناسب ہوگا کہ اس باب کے عنوان کے تحت گفتگو کی جائے۔' +tooltip فوری حذف شدگی کے دیگر معیارات میں سے کم از کم ایک معیار اس صفحہ پر منطبق ہونا لازمی ہے، نیز وجہ لکھتے وقت اس معیار کو ضرور درج کریں۔', +label ع1: مہمل اور لغویات سے پر۔ وہ صفحات جو محض غیر متعلق متن یا بے کار اور مہمل نیز بے معنی مواد یا تاریخچہ پر مشتمل ہوں۔', +tooltip اس میں کمزور تحریر، جانبدار مضمون، بیہودہ تبصرے، تخریب کاری، افسانوی مواد، غیر اردو یا نادرست ترجمہ شدہ متن اور غیر معقول نظریات یا افواہیں شامل نہیں۔ الغرض ان پر ع1 معیار منطبق نہیں ہوگا۔' +tooltip ترمیم کاری یا ویکیپیڈیا کے دیگر کاموں کو جانچنے کے لیے بنایا گیا صفحہ۔ اس میں صارف نام فضا کے تحت بنایا گیا صفحہ نیز غیر مستعمل یا دوہرے سانچے شامل نہیں(البتہ س3 معیار منطبق ہو سکتا ہے)۔' +tooltip مکمل تخریب کاری (اس میں وہ رجوع مکررات بھی شامل ہیں جو منتقلی کی تخریب کاری کے وقت پیچھے رہ جاتے ہیں)۔' +tooltip تخریب کاری کی حد تک واضح افسانہ طرازی۔', +label ع4: وپ:مضامین برائے حذف پر گفتگو کے نتیجے میں حذف شدہ مواد کی باز تخلیق', +tooltip وپ:مضامین برائے حذف یا حذف کی دیگر کارروائیوں کے نتیجے میں حذف ہونے والے صفحہ کی نقل خواہ کسی بھی عنوان سے ہو۔ اس دفعہ میں وہ مواد شامل نہیں جو صارف صفحہ پر درج کیا گیا ہو یا حذف کی کارروائی کے بغیر حذف کیا گیا ہو، نیز اگر سابقہ حذف شدگیاں مجوزہ یا فوری تھیں تو فوری حذف شدگی کے دیگر معیار اس وقت بھی منطبق ہونگے۔', +label حذف کی گفتگو کا ربط +tooltip «ویکیپیڈیا:» سابقہ لازمی ہے۔', +tooltip وہ صفحات جو معطل یا ممنوع صارفین نے اپنے تعطل یا پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائے ہوں اور ان میں دیگر صارفین کی قابل لحاظ ترامیم نہ ہوں۔', +label معطل صارف کا نام درج کریں (اگر معلوم ہو +tooltip یہاں "صارف سابقہ درج نہ کریں' +tooltip تاریخچوں کو ضم کرنے کے لیے عارضی طور پر حذف', +label ضم کیے جانے والے صفحہ کا عنوان یہاں درج کریں +tooltip غیر متنازع منتقلی کی راہ ہموار کرنے مثلاً رجوع مکرر کو واپس پھیرنے کے لیے۔', +label منتقل کیے جانے والے صفحہ کا عنوان +tooltip کسی منتظم نے حذف کی رائے شماری کو «حذف پر عمل درآمد» کہہ کر بند کر دیا ہے لیکن اس نے متعلقہ مضمون حذف نہیں کیا۔', +label جس صفحہ پر حذف کی رائے شماری ہوئی ہے اس کا عنوان +label ع6: غیر ضروری ضد ابہام صفحہ', +tooltip یہ معیار محض ان یتیم ضد ابہام صفحات کے لیے ہے جن میں یہ شرائط موجود ہوں: 1) دو یا دو سے کم ویکیپیڈیا صفحات کی ضد ابہام سازی جن کے عنوان میں ضد ابہام موجود ہو۔ 2) عنوان سے قطع نظر غیر موجود ویکیپیڈیا صفحات کی ضد ابہام سازی۔', +label ع6: غلط ضد ابہام صفحہ کی جانب رجوع مکرر', +tooltip یہ محض ان رجوع مکررات کے لیے ہے جس کا عنوان (ضد ابہام) پر ختم ہونے والا ضد ابہام صفحہ ہو اور اصل موضوع موجود نہ ہو۔', +tooltip یہ محض اس نقل و چسپاں منتقلی کے لیے جسے عارضی طور پر حذف کرنا پڑے تاکہ صاف منتقلی صفحہ کے لیے جگہ بن سکے۔', +label اصل صفحہ کا عنوان جسے یہاں نقل و چسپاں کیا گیا ہے +tooltip صفائی نولکھائی کے دیگر غیر متنازع کام', +label ع7: مصنف نے حذف کرنے کی درخواست کی یا صفحہ کا مواد حذف کرکے اسے خالی کردیا', +tooltip وہ صفحہ جسے حذف کرنے کی درخواست نیک نیتی سے خود اس کا مصنف کرے، بشرطیکہ اس صفحہ کا اصل مواد اسی مصنف نے لکھا ہو۔ اگر مصنف صفحہ کا تمام مواد حذف کر کے اسے خالی کردے تو اسے بھی حذف کی درخواست ہی سمجھا جائے گا۔', +tooltip یہاں اس جگہ کا ربط رکھا جا سکتا ہے جہاں صارف نے درخواست کی ہو۔', +label ع8: حذف شدہ یا غیر موجود صفحہ سے مربوط صفحات', +tooltip مثلاً تبادلۂ خیال کے یتیم صفحات؛ اصل صفحہ کے بغیر ذیلی صفحات؛ متعلقہ فائل کے بغیر فائل کے صفحات؛ نادرست ہدف کی جانب رجوع مکررات مثلاً غیر موجود ہدف، قطار در قطار رجوع مکرر اور غلط عناوین؛ یا حذف شدہ اور مکرر سانچوں سے پُر زمرہ جات۔ اس معیار میں وہ صفحہ شامل نہیں جو منصوبے کے لیے مفید ہو، خصوصاً حذف شدگی کی گفتگو جن کا نوشتہ میں کہیں اندراج نہ ہو، صارف صفحات اور صارف کے تبادلۂ خیال صفحات اور ان کے وثائق، وہ معقول رجوع مکررات جنہیں درست اہداف کی جانب منتقل کیا جا سکے اور ان فائلوں کے صفحات اور تبادلہ خیال صفحات جو ویکیمیڈیا کامنز میں موجود ہوں۔', +label ع8: اصل صفحہ کے بغیر ذیلی صفحات', +tooltip اس معیار میں وہ صفحہ شامل نہیں جو منصوبے کے لیے مفید ہو، خصوصاً حذف شدگی کی گفتگو جن کا نوشتہ میں کہیں اندراج نہ ہو، صارف صفحات اور صارف کے تبادلۂ خیال صفحات اور ان کے وثائق، وہ معقول رجوع مکررات جنہیں درست اہداف کی جانب منتقل کیا جا سکے اور ان فائلوں کے صفحات اور تبادلہ خیال صفحات جو ویکیمیڈیا کامنز میں موجود ہوں۔', +label ع10: بقید حیات شخصیت کی مکمل منفی اور بلا حوالہ سوانح عمری', +tooltip بقید حیات شخصیت کی ایسی سوانح نگاری جو از اول تا آخر منفی اسلوب اور بلا حوالہ مواد پر مشتمل ہو نیز تاریخچہ میں معتدل نقطہ نظر کا کوئی نسخہ بھی موجود نہ ہو تاکہ اس کی جانب واپس پھیر دیا جائے۔', +tooltip وہ صفحات جو کسی کمپنی، حلقہ، خدمت، مصنوعات یا شخصیات کی تشہیر کریں اور انہیں ویکی اسلوب میں ڈھالنے کے لیے بنیاد سے از سر نو لکھنا ناگزیر ہو۔ واضح رہے کہ ایسا مضمون جو کسی کمپنی یا مصنوعات کے متعلق ہو اور معتدل نقطہ نظر کے ساتھ اپنے موضوع کو بیان کرے وہ اس معیار میں شامل نہیں؛ وہ مضمون جو واضح اشتہار بازی پر مشتمل ہو اس میں نامناسب مواد بھی موجود ہونا چاہیے۔' +tooltip خواہ 1) درج کردہ مواد کسی ایسی ویب سائٹ سے نقل کیا گیا ہو جو ویکیپیڈیا سے ہم آہنگ اجازت نامے کی حامل نہیں یا اسٹاک تصویر فروخت کنندگان (مثلاً گیٹی امیجز یا کوربس) سے ماخوذ تصویر ہو؛ (2) صفحہ کے تاریخچہ میں محفوظ رکھنے کے قابل کوئی مواد نہ ہو؛ یا (3) یہ خلاف ورزی بنیادی طور پر ویکی میں کرنے کی بجائے ویکیپیڈیا جیسی دوسری کسی ویب سائٹ پر کی گئی ہو اور وہاں سے نقل کر کے ایک ہی مرتبہ تنہا کسی صارف نے یہاں درج کر دیا ہو۔', +label ربط/یوآرایل (اگر دستیاب ہو +tooltip تخلیق مضمون کی کوئی بھی مسترد یا غیر تجویز کردہ درخواست جس میں 6 ماہ سے زائد عرصہ میں کوئی ترمیم نہ کی گئی ہو۔' +label ر2: مرکزی نام فضا سے کسی دوسری نام فضا کی جانب رجوع مکررات باستثنائے زمرہ:، سانچہ:، ویکیپیڈیا:، معاونت: اور باب +tooltip اس میں ویکیپیڈیا کی مشابہ نام فضا وپ: شامل نہیں ہے)۔ اگر یہ کسی منتقلی صفحہ کا نتیجہ تھا تو رجوع مکرر حذف کرنے سے قبل ایک یا دو دن انتظار کر لیں۔' +label ر3: وہ رجوع مکررات جو کسی غیر معقول املائی غلطی یا غلط ناموں سے حال ہی میں بنائے گئے ہوں', +tooltip اگرچہ عام املائی غلطیوں یا غلط ناموں سے رجوع مکررات مفید ہیں جیسا کہ دیگر زبانوں کے رجوع مکررات۔' +tooltip اس معیار میں وہ صفحہ شامل نہیں جو منصوبے کے لیے مفید ہو، خصوصاً حذف شدگی کی گفتگو جن کا نوشتہ میں کہیں اندراج نہ ہو، صارف صفحات اور صارف کے تبادلۂ خیال صفحات اور ان کے وثائق، وہ معقول رجوع مکررات جنہیں درست اہداف کی جانب منتقل کیا جا سکے اور ان فائلوں کے صفحات اور تبادلہ خیال صفحات جو ویکیمیڈیا کامنز میں موجود ہوں۔' +'repost وپ:مضامین برائے حذف کی بنا پر حذف ہونے والا مضمون دوبارہ بنایا گیا', +'histmerge تاریخچوں کو ضم کرنے کے لیے عارضی حذف شدگی', +'move منتقلی کی راہ ہموار کرنے کے لیے', +'disambig غیر ضروری ضد ابہام صفحہ', +'author صفحہ ساز صارف کی درخواست پر عمل درآمد', +'ع۸ غیر موجود یا حذف شدہ صفحہ سے مربوط صفحہ', +'imagepage غیر موجود فائل کا صفحۂ وضاحت', +'nocontext انتہائی مختصر مضمون اور موضوع کی شناخت کے لیے درکار مواد کی قلت', +'foreign دوسرے ویکی منصوبہ کا غیر ترجمہ شدہ مضمون', +'transwiki ساتھی منصوبے میں منتقل شدہ', +'م7 غیر معروف اور غیر اہم موضوع (شخصیت، ادارہ، تنظیم، جانور اور ویب مواد وغیرہ +'person غیر معروف اور غیر اہم موضوع (شخصیت +'web غیر معروف اور غیر اہ�� موضوع (ویب مواد +'club غیر معروف اور غیر اہم موضوع (کلب +'band غیر معروف اور غیر اہم موضوع (طائفہ +'animal غیر معروف اور غیر اہم موضوع (جانور +'event غیر معروف اور غیر اہم موضوع (تقریب +'م9 غیر معروف موسیقی ریکارڈ جس کے فنکاروں پر مضمون موجود نہیں', +'م10 حالیہ تحریر کردہ مضمون جو پہلے سے موجود ایک مضمون کا چربہ ہے', +'madeup واضح طور پر مضمون نویس یا اس کے ساتھیوں کی ذہنی اپج ہے اور اس کی معروفیت اور اہمیت کا کوئی ذکر نہیں', +'redundantimage ویکیپیڈیا یا کامنز میں اس کا دوسرا نسخہ موجود ہے', +'fpcfail کامنز پر موجود فائل کا غیر ضروری صفحہ وضاحت', +'unksource اجازت نامے کی ناکافی معلومات', +'norat غیر آزاد فائل جس کے منصفانہ استعمال کی وضاحت درج نہیں', +'badfiletype بے کار فائل (تصویر، آواز یا فلم نہیں +'userreq صارف کے اپنے نام فضا میں موجود صفحہ کے حذف کی درخواست پر عمل', +'nouser غیر موجود صارف کا صارف یا ذیلی صفحہ', +'policy واضح طور پر موجودہ اصول و ضوابط کی غلط تشریح پر مشتمل سانچہ', +'ب1 باب مضمون کی شکل میں', +'rediruser مرکزی نام فضا سے دوسری نام فضا کی جانب رجوع مکرر', +reason prompt("حذف کا خلاصہ درج کریں جو نوشتہ حذف شدگی میں محفوظ ہوگا +reason prompt("حذف کا خلاصہ درج کریں یا خودکار طور پر درج کیے جانے والے خلاصے کے لیے ٹھیک کی بٹن پر کلک کریں presetReason); +'text بے ربطی کا آلہ استعمال کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔', +'text روابط کو غیر مربوط کرنے اور فائل کے استعمال کے نمونوں کو ہٹانے کے لیے', +'text بے ربطی کا آلہ استعمال کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔', +'text روابط کو غیر مربوط کرنے کے لیے', +'text صارف user کا تبادلۂ خیال صفحہ کھولنے کے لیے یہاں کلک کریں', +'text صفحہ ساز کو اطلاع دینے کے لیے', +if( xfd confirm حذف کا ٹیگ xfd[1 صفحہ میں موجود ہے۔ کیا آپ حذف کا دوسرا ٹیگ بھی چسپاں کرنا چاہتے ہیں؟ +editsummary فوری حذف شدگی کی درخواست +editsummary فوری حذف شدگی کے لیے نامزد ہے۔'; +var editsummary اطلاع نامہ: فوری حذف شدگی کی نامزدگی"; +appendText n\nیہ نوشتہ پلک کی مدد سے کی جانے والی فوری حذف شدگیوں کا تعاقب نہیں کرے گا۔"; +alert شخصی وجہ: براہ کرم اس کی وجہ درج کریں۔ +alert فحش ص1: براہ کرم تبادلۂ خیال صفحات کو نامزد کرتے وقت وجہ ضرور درج کریں۔ +alert فحش ع4: حذف شدگی کی گفتگو کے صفحہ کا نام اگر درج کریں تو لازماً "ویکیپیڈیا سے شروع کریں۔ +alert فحش ع6 (ضم تاریخچہ براہ کرم ہدف صفحہ کا عنوان درج کریں۔ +alert فحش ع6 (منتقلی صفحہ براہ کرم منتقل کیے جانے والے صفحہ کا عنوان یہاں درج کریں۔ +alert فحش ع6 (منتقلی صفحہ براہ کرم منتقل کرنے کی وجہ درج کریں۔ +alert فحش ع6 (مبح حذف شدگی کی گفتگو کے صفحہ کا نام اگر درج کریں تو لازماً "ویکیپیڈیا سے شروع کریں۔ +alert فحش ع6 (نقل چسپاں براہ کرم ماخذی صفحہ کا عنوان درج کریں۔ +alert فحش ف1: براہ کرم دوسری فائل کا نام درج کریں۔ +alert فحش م2: براہ کرم اُس مضمون کا بین الویکی ربط درج کریں جس کی یہ نقل ہے۔ +alert فحش م10 براہ کرم مکرر مضمون کا عنوان درج کریں۔ +alert فحش س3: براہ کرم اس سانچہ کا نام درج کریں جس کا یہ چربہ ہے۔ +alert فحش س3: براہ کرم وجہ درج کریں۔ +alert فحش ب1: براہ کرم کوئی وجہ یا معیار درج کریں۔ +alert براہ کرم کسی ایک معیار کو منتخب کریں + + +'اس آلے کی مدد سے آپ اس صفحے سے مربوط تمام روابط کو غیر مربوط کر سکتے ہیں +"۔ مثلاً روابط اور تصویر +"نظر آئیں گے۔ لہذا اسے انتہائی احتیاط سے استعمال کریں۔" +alert("براہ کرم غیر مربوط کرنے کی وجہ تحریر کریں۔ +label سب کا انتخاب ختم کریں", +label سب ��ا انتخاب ختم کریں", + + +label اس صفحہ کو بطور مراجعت شدہ نشان زد کریں', +tooltip آپ پلک کی ترجیحات کے ذریعہ ابتدائی ترتیب کو تبدیل کر سکتے ہیں۔', +label اگر ممکن ہو تو سانچہ متعدد مسائل میں یکجا کریں', +tooltip اگر آپ تین سے زائد ایسے ٹیگ چسپاں کرنا چاہتے ہیں جنہیں متعدد مسائل معاونت فراہم کرتا ہے اور یہ خانہ نشان زد ہے تو تمام معاونت یافتہ ٹیگ متعدد مسائل میں یکجا نظر آئیں گے۔', +label صفائی نولکھائی درکار کی وجہ +label اس مضمون میں زبان کی درستی کی ضرورت ہے، وجہ +label متعلقہ ویکی منصوبہ کا نام +tooltip اختیاری، اس ویکی منصوبہ کا نام درج کریں جو اس معاملے میں کسی متعلقہ شخص کی مدد حاصل کر سکیں۔ ویکی منصوبہ سابقہ درج نہ کریں' +{ label عالمگیر یہ مضمون اپنے موضوع پر عالمی نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے value globalize +label عالمگیر کے خطے وار ذیلی سانچے", +{ label عالمگیر/انگریزی مضمون بنیادی طور پر انگریزی دانوں کے نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے value globalize/Eng +{ label عالمگیر/شمالی مضمون بنیادی طور پر نصف کرہ شمالی کے نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے value globalize/Northern +{ label عالمگیر/جنوبی مضمون بنیادی طور پر نصف کرہ جنوبی کے نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے value globalize/Southern +{ label عالمگیر/برطانیہ و کناڈا مضمون بنیادی طور پر برطانیہ اور کناڈا کے نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے value globalize/UK and Canada +{ label عالمگیر/ریاستہائے متحدہ امریکا مضمون بنیادی طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے value globalize/US +tooltip محض ایک مضمون کا عنوان درج کرنے پر دستیاب ہوگا۔' +label انضمام کی وجہ (تبادلہ خیال صفحہ میں +(tag انضمام در دیگر مضمون پیش نظر مضمون درج کی جائے گی +tooltip اختیاری، لیکن پرزور سفارش کی جاتی ہے۔ اگر نہ چاہیں تو خالی چھوڑ دیں۔ محض ایک مضمون کا عنوان درج کرنے پر دستیاب ہوگا۔' +label مضمون کی زبان (اگر معلوم ہو +tooltip مدد کے لیے وپ:لسانی شناخت ملاحظہ فرمائیں۔ اگر آپ وپ:ترجمہ درکار مضامین میں درخواست کر رہے ہیں تو اس خانے کو خالی نہ چھوڑیں، ہاں اگر آپ بالکل نہیں جانتے تو کوئی بات نہیں۔' +tooltip مضمون نویس کے تبادلہ خیال صفحہ پر اطلاع-اردو نہیں چسپاں کرے گا۔" +label اس مضمون کو وپ:ترجمہ درکار مضامین میں درج کریں', +label ترجمہ درکار صفحے پر درج کرنے کے لیے اضافی تبصرہ', +tooltip اختیاری، اور محض "اس مضمون کو۔۔۔" کے خانے سے متعلق متعلق ہے اگر وہ نشان زد ہو۔' +{ label معروفیت ممکن ہے مضمون کا موضوع معروفیت کے عمومی معیار کے مطابق نہ ہو value none +"اشتہار مضمون اشتہار بازی کی طرز پر لکھا گیا ہے", +"خودنوشت مضمون خود نوشت سوانح نگاری پر مشتمل ہے نیز معتدل نقطہ نظر سے ہٹ کر لکھا گیا ہے", +"زندہ اضافی مآخذ بقید حیات شخصیت کے سوانح پر مشتمل مضمون میں اضافی مآخذ کی ضرورت ہے", +"زندہ بدون حوالہ بقید حیات شخصیت کے سوانح پر مشتمل مضمون میں کوئی حوالہ موجود نہیں (نئے مضامین کے لیے وپ:بحش محش استعمال کریں +"طرز حوالہ مضمون میں غیر واضح یا نادرست طرز پر حوالہ جات درج کیے گئے ہیں", +"صفائی مضمون کی صفائی نولکھائی درکار ہے", +"بازتنظیم مضمون کو ویکی اسلوب کے مطابق بنانے کے لیے شاید اس میں باز تنظیم کاری کی ضرورت ہے", +"تفصیلی وضاحت یہ مضمون کسی غیر آزاد کاپی رائٹ شدہ ماخذ کی تفصیلی وضاحت پر مشتمل ہے", +"تصادم مضمون نویس یا مضمون نویسی میں بڑے پیمانے پر شرکت کرنے والا صارف مفادات کے تصادم کا شکار ہے", +"منجمد مضمون میں سرخیاں خاصی زیادہ تعداد میں موجود ہیں", +"پراگندہ مضمون کا مواد پراگندگی کا شکار اور بالکل غیر واضح ہے", +"سیاق مضمون میں سیاق و سباق ناکافی ہیں", +"درستی زبان مضمون میں قواعد، انشا، ہجے اور املائی غلطیوں کو درست کرنے کی خاصی گنجائش ہے", +"نقل چسپاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کا مواد کسی جگہ سے نقل و چسپاں کیا گیا ہے", +"مردہ اس مضمون میں دیگر مضامین کے روابط موجود نہیں", +"متنازع مضمون میں درج مواد حقیقت پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے", +"ذاتی نظریہ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ مضمون میں ذاتی نظریے اور رائیں درج کی گئی ہیں", +"توسیع از زبان اس مضمون میں دوسری زبان کے ویکیپیڈیا مضمون سے اضافہ کیا جا سکتا ہے", +"ماہر اس مضمون پر کسی ماہر کی نظر ثانی ضروری ہے", +"بیرونی روابط شاید مضمون کے بیرونی روابط میں ویکی اصول اور ہدایات کی پیروی نہیں کی گئی ہے", +"معتقدانہ مضمون معتقدانہ انداز میں لکھا گیا ہے", +"افسانہ مضمون میں حقیقت اور افسانے کو گڈمڈ کر دیا ہے", +"عالمگیر مضمون میں عالمی نقطہ نظر کی ترجمانی نہیں کی گئی ہے", +"فریب غالباً یہ مضمون از اول تا آخر فریب اور دھوکے پر مشتمل ہے", +"زمرے درکار اس مضمون میں مزید زمرہ جات درکار ہیں", +"ناقابل فہم مضمون کی زبان ناقابل فہم ہے", +"غیر حقیقت پسند مضمون افسانہ معلوم ہو رہا ہے، اسے از سر نو غیر افسانوی تناظر میں لکھنے کی ضرورت ہے", +"بے ربط مضمون کا مواد بے ربط محسوس ہو رہا ہے یا اسے سمجھنا از حد مشکل ہے", +"زیر ترمیم مضمون میں کچھ دیر کے لیے بڑی ترامیم کی جا رہی ہیں", +"دیباچہ درکار اس مضمون میں دیباچہ موجود نہیں", +"بازنویسی دیباچہ دیباچہ مضمون کو ویکی ہدایات اور معیار کے مطابق بنانے کے لیے اسے از سر نو لکھنے کی ضرورت ہے", +"طویل دیباچہ مضمون کا دیباچہ بہت بڑا ہے، اسے کچھ مختصر کرنے کی ضرورت ہے", +"مختصر دیباچہ مضمون کا دیباچہ بہت چھوٹا ہے، اس میں اضافہ کی ضرورت ہے", +"مردہ ربط مضمون میں حوالہ جات کے لیے ایسے روابط اور یوآرایل استعمال کیے گئے ہیں جو مردہ ہو سکتے ہیں", +"رہنما مضمون کسی رہنما یا ہدایتی کتاب کے اسلوب میں لکھا گیا ہے", +"ضم اس مضمون کو دوسرے مضمون میں ضم کرنے کی ضرورت ہے", +"انضمام از دوسرے مضمون کو اس مضمون میں ضم کرنے کی ضرورت ہے", +"انضمام در اس مضمون کو دوسرے مضمون میں ضم کرنا چاہیے", +"اعشاری-نظام درکار مضمون میں غیر معیاری اوزان اور پیمانے استعمال کیے گئے ہیں", +"مزید حواشی مضمون میں مزید حواشی کی ضرورت ہے، درج شدہ حواشی ناکافی ہیں", +"غیر مراجعت شدہ نیا مضمون مضمون کو بعد میں مراجعت کرنے کے لیے نشان زد کریں", +"نشریات مضمون کسی نشریات کے اسلوب میں لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے", +"بلا حواشی مضمون میں ماخذ درج ہے لیکن درون سطری حوالہ جات موجود نہیں", +"غیر-آزاد ممکن ہے کہ اس مضمون میں کاپی رائٹ شدہ مواد کا استعمال کیا گیا ہو", +"معروفیت شاید مضمون معروفیت کے معیار پر پورا نہ اترے", +"ترجمہ-درکار مضمون کسی اور زبان میں لکھا گیا ہے، اسے ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے", +"ایک ماخذ مکمل مضمون یا مضمون کا بڑا حصہ ایک ہی جگہ سے ماخوذ ہے", +"اصل تحقیق مضمون میں اصل تحقیق یا غیر تصدیق شدہ دعوے درج ہیں", +"یتیم کوئی مضمون اس مضمون سے مربوط نہیں", +"مبالغہ مضمون میں ایک یا زائد مخصوص خطوں کی معلومات بہم پہنچانے میں بے حد تعصب برتا گیا ہے یا از حد مبالغہ آرائی کی گئی ہے", +"کثرت روابط مضمون میں دوہرے یا غیر متعلق روابط کی بہتات ہے", +"زائد تفصیل مضمون میں زائد تفصیلات بیان کی گئی ہیں", +"نامناسب لفظ مضمون میں نامناسب الفاظ اور جملے استعمال کیے گئے ہیں جو موضوع سے غیر متعلق اور جانبدارانہ ہیں", +"پلاٹ مضمون میں درج پلاٹ کا خلاصہ انتہائی طویل ہے", +"جانبداری مضمون میں غیر جانبدارانہ نقطہ نظر نہیں اپنایا گیا ہے", +"اولین مآخذ مضمون میں اولین مآخذ کی بڑی تعداد موجود ہے، اور ثانوی مآخذ درکار ہیں", +"نثر فہرست کی شکل میں موجود یہ مضمون اگر نثر میں لکھا جاتا تو بہتر ہوتا", +"حالیہ مضمون میں حالیہ واقعات پر توجہ نہیں دی گئی ہے", +"مزید حوالہ مضمون میں درج مواد کی تصدیق کے لیے مزید حوالہ جات درکار ہیں", +"درستی ترجمہ مضمون کا ترجمہ درست نہیں، اسے درست کرنے اور صفائی نولکھائی کی ضرورت ہے", +"قطعہ بندی مضمون کو سرخیوں اور قطعوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے", +"خود شائع شدہ مضمون میں درج خود شائع شدہ مآخذ کے حوالہ جات میں درستی کی ضرورت ہے", +"تکنیکی مضمون کا مواد عام قارئیں کی فہم سے پرے اور از حد تکنیکی ہے", +"زمانہ مضمون میں زمانے کے مستعمل صیغے درست نہیں", +"ثلثی مضمون میں ملحقہ مآخذ کی بڑی تعداد موجود ہے، اور ثلثی مآخذ درکار ہیں", +"لہجہ مضمون کا لہجہ نامناسب ہے", +"کم آرا مضمون میں تمام اہم نقطہ ہائے نظر موجود نہیں", +"غیر زمرہ بند مضمون کی زمرہ بندی نہیں کی گئی ہے", +"زیر تعمیر مضمون میں اس وقت بڑی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے", +"قلت روابط مضمون میں مزید ویکی روابط درکار ہیں", +"بے حد مضمون میں کچھ مخصوص پہلوؤں پر زیادہ زور دیا گیا ہے جبکہ دوسرے پہلو تشنہ ہیں", +"بلا حوالہ مضمون میں کوئی حوالہ موجود نہیں", +"ناقابل اعتماد مآخذ مضمون کے حوالہ جات ناقابل اعتماد مآخذ معلوم ہوتے ہیں", +"تجدید درکار مضمون میں تازہ معلومات درج کرنے کی ضرورت ہے", +"مبہم اس مضمون میں مبہم معلومات درج کی گئی ہیں" +"غیر جانبداری، تعصب اور حقیقت پسندی +"غیر مراجعت شدہ نیا مضمون", +label فہرست کے اندراج سے رجوع مکرر فہرست میں درج کسی ایسے اندراج سے رجوع مکرر جس پر مکمل مضمون نہیں لکھا جا سکتا', +label علامت سے رجوع مکرر عنوان میں کسی متعلقہ علامت سے رجوع مکرر', +label تاریخی نام سے رجوع مکرر خطہ، علاقہ، شہر یا عمارت کے اس تاریخی نام سے رجوع مکرر جو ماضی میں معروف تھا لیکن اب متروک ہو چکا ہے', +label کہاوت سے رجوع مکرر موضوع سے متعلق یا مشہور کہاوت، ضرب المثل یا محاورے سے رجوع مکرر', +label سائنسی نام کا رجوع مکرر سائنسی یا علمی عنوان کا عام فہم اور رائج نام سے رجوع مکرر', +label متعلقہ زبان سے رجوع مکرر اردو عنوان کا متعلقہ زبان میں یا اس کے برعکس سے رجوع مکرر', +label اعراب سے رجوع مکرر مضمون کے عنوان کا اعراب اور حرکات سے رجوع مکرر', +label ضم سے رجوع مکرر ضم شدہ صفحہ کا تاریخچہ برقرار رکھنے کے لیے اس کے عنوان سے رجوع مکرر', +label ضدابہام صفحہ کا رجوع مکرر ضد ابہام صفحہ کا رجوع مکرر', +label دوہرے مضمون سے رجوع مکرر دوہرے مضمون کا تاریخچہ برقرار رکھنے کے لیے اس کے عنوان سے رجوع مکرر', +label دہائی سے رجوع مکرر کسی سال کا دہائی سے رجوع مکرر', +'غیر مراجعت شدہ نیا مضمون', +"یہ معلومات لازمی ہیں۔ توسیع از زبان کا درج نہ کرنا چاہیں تو منسوخ کر دیں۔ +var otherart prompt('براہ کرم دوسری ویکی میں موجود مضمون کا عنوان درج کریں (بین الویکی سابقہ کے بغیر)۔ n +"یہ معلومات لازمی ہیں۔ توسیع از زبان کا درج نہ کرنا چاہیں تو منسوخ کر دیں۔ +کا ٹیگ پہلے سے موجود ہے، لہذا درخواست منسوخ کی جا رہی ہے۔۔۔ +کا ٹیگ پہلے سے موجود ہے، لہذا درخواست م��سوخ کی جا رہی ہے۔۔۔ +'اولین مشارکت کنندہ initialContrib کو اطلاع دی جا رہی ہے +کامنز میں تصویر کا نام درج کریں (اگر اردو ویکی میں دوسرے نام سے ہو)، بغیر تصویر: یا File: سابقہ کے +alert کم از کم ایک ٹیگ منتخب کرنا لازمی ہے +alert براہ کرم ضم}}، انضمام از اور انضمام در میں سے کسی ایک کو منتخب کریں۔ اگر متعدد مضامین پر ضم کے ٹیگ چسپاں کرنا چاہتے ہیں تو ضم کا استعمال کریں اور ہر مضمون کے عنوان کو پائپ کی علامت سے علاحدہ کریں (گرچہ اس صورت میں پلک دوسرے مضامین خودکار طور پر ٹیگ چسپاں نہیں کرے گا)۔ +alert براہ کرم ترجمہ_درکار اور درستی ترجمہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ +alert صفائی کا ٹیگ درج کرنے کے لیے اس کی وجہ لکھنا ضروری ہے + + +tooltip صفحہ کو محفوظ کریں', +label صفحہ کو محفوظ کرنے کی درخواست دیں', +label صفحہ میں محفوظ شدگی کا سانچہ چسپاں کریں', +tooltip اگر محفوظ کرنے والے منتظم نے صفحہ محفوظ کرنے کے بعد اس میں مناسب سانچہ لگانا بھول گیا ہو یا آپ نے ابھی اس صفحہ کو محفوظ کیا ہو تو کوئی مناسب سانچہ چسپاں کریں', +label درجہ حفاظت میں تبدیلی', +tooltip اگر یہ غیر فعال ہو تو درجہ حفاظت کی تبدیلی اور مدت اختتام اپنی حالت پر چھوڑ دیے جائیں گے۔', +label حفاظت منتقلی میں تبدیلی', +tooltip اگر یہ غیر فعال ہو تو حفاظت منتقلی کا درجہ اور مدت اختتام اپنی حالت پر چھوڑ دیے جائیں گے۔', +label معلق تبدیلیوں کی حفاظت میں تبدیلی', +tooltip اگر یہ غیر فعال ہو تو معلق تبدیلیوں کا درجہ اور مدت اختتام اپنی حالت پر چھوڑ دیے جائیں گے۔', +label درجہ 2 (استعمال نہ کریں +label محفوظ کرنے کی وجہ (نوشتہ میں +tooltip سانچہ محفوظ کو <noinclude> میں رکھیں، تاکہ یہ صفحہ کے ساتھ شامل نہ ہو سکے', +var custom prompt('شخصی مدت اختتام درج کریں۔ nآپ اضافی وقتوں کو بھی استعمال کر سکتے ہیں، مثلاً «1 منٹ» یا «19 دن»، نیز مطلق وقت «yyyymmddhhmm» بھی درج کر سکتے ہیں (مثلاً: «200602011405» 1 فروری 2006ء 14:05 یوٹی سی ہوا +{ label بقید حیات شخصیات کی سوانح عمری کے ضوابط کی خلاف ورزی (نیم value pp-semi-blp +{ label بقید حیات شخصیات کی سوانح عمری کے ضوابط کی خلاف ورزی (معلق value pp-pc-blp +label کچھ نہیں (محفوظ شدگی کے موجود سانچے ہٹائیں +label کچھ نہیں (محفوظ شدگی کے موجود سانچے نہ ہٹائیں +{ label pp-blp بقید حیات شخصیات کی سوانح عمری کے ضوابط کی خلاف ورزیاں value pp-blp +label معلق تبدیلیوں کے سانچے', +alert("آپ کو محفوظ کرنے کی ایک وجہ درج کرنا لازمی ہے۔ یہ وجہ نوشتہ محفوظ شدگی میں درج ہوگی۔ +alert("آپ کو محفوظ کرنے کی ایک وجہ درج کرنا لازمی ہے۔ یہ وجہ نوشتہ محفوظ شدگی میں درج ہوگی۔ +alert("براہ کرم پلک کو کوئی کام دیں nاگر آپ صفحہ میں محض ٹیگ چسپاں کرنا چاہتے ہیں تو 'صفحہ میں محفوظ شدگی کا سانچہ چسپاں کریں' کو منتخب کریں۔ +typereason ممنوع صارف کی جانب سے تبادلۂ خیال صفحہ کا غلط استعمال'; +typereason عنوان پر مباحثہ/ترمیمی جنگ'; +typereason منتقلی صفحہ کی تخریب کاری'; +var rppName ویکیپیڈیا:درخواست حفاظت صفحہ'; +if (confirm re_result[1 میں موجود ہے۔ \nاسے ہٹانے کے لیے ٹھیک پر کلک کریں یا اسے یوں ہی چھوڑنا چاہیں تو منسوخ کر دیں۔ + + +حنوک بائبل کی کتابوں میں ایک شخصیت ہے۔حنوک ”آدم کی ساتویں نسل،“ ہے۔ ان کو کاتب راستباز بھی کہا جاتا ہےعبرانی بائبل کی کتاب پیدائش میں ظہور کے علاوہ، حنوک بہت سے یہودی اور مسیحی تحریروں کا موضوع ہے۔ +مسیح کے زمانہ یا ابتدائی رسولوں اور کلیسیا کے نزدیک یہ الہامی تصور کی جاتی تھی جس کا واضح ثبوت یہوداہ کے خط می�� اس کا دیا جانے والا حوالہ ہے نیز عہد جدید میں جابجا اس کے متعدد حوالہ جات موجود ہیں۔ + + +یہ ہیں حنوؔک کے کلماتِ برکات جن سے اُس نے چُنندہ اور راستباز وں کوبرکت دی ، جو مُصیبت کے روز حاضر ہوں گے جو بدکاروں اور خطاکاروں کے خاتمہ کیلئے مقرر ہوا ہے۔ +# اور حنوک نے اپنی کہانی شروع کی اور کہا ، ایک راستباز شخص تھا جس کی آنکھیں خداوند کی طرف سے کھولی گئیں اور آسمان میں فرشتوں نے مقدس رویا دیکھائی اور میں نے اُن سے سب کچھ سنا اور میں نے وہ سب سمجھا جو میں نے دیکھا تھا ، مگر اس پیڑی کیلئے نہیں بلکہ اگلی پیڑی کیلئے جو آنے والی ہے۔ +# اور چُنندہ کی بابت میں نے کہا اور میں نے اُنکی بابت ایک مثل کہی ، قدوس و عظیم اپنی سکونت گاہ سے باہر آئے گا۔ +# اور ابدی خدا اُنکی طرف سینا کے پہاڑ سے آئے گا اور اپنے لشکر سمیت اُن پر ظاہر ہوگا اور وہ آسمان سے اپنی توانائی کے زور سے اُن پر ظاہر ہوگا ۔ +# اور سب ڈر جائیں گے اور محافظین ہل جائیں گے اورزمین کی انتہا تک ڈر اور بڑی کپکپی اُن پر طاری ہوگی۔ +# اور بڑے پہاڑ ہل جائیں گے اور اُونچے چوٹیاں موم کی طرح بہہ کر زمین بوس ہوجائیں گی۔ +# اور زمین دھنس جائے گی اور جو کچھ زمین پر ہے تباہ ہوجائے گی اور سب پر عدالت ہوگی اور سب راستبازوں پر بھی ۔ + + +//خوش آمدید کے دوہرے پیغام کو روکنے کے لیے + + +ظفرالاسلام سیفی اردو ادب کے صاحب طرز ادیب اور البیلے قلمکار ہیں ۔آپ متعدد کتب کی تصنیف کے علاوہ نہایت تحقیقی مزاج رکھتے ہیں ۔جامعہ دارالعلوم کراچی سے فراغت کے بعد سے تشنگان علم کا ایک بڑا طبقہ آپکے علمی فیوض سے بہرہ ور ہورہا ہے۔شعر وشاعری اور تعلیم وتحقیق سے جنون کی حد تک لگاو رکھتے ہیں + + +جب غیر کی اُس دل میں تصویر نظر آئی +چپ چاپ ہی رہنے میں توقیر نظر آئی +دم لے جو گھڑی بھر تو میں بھی اسے سمجھوں کچھ +گردش میں ہمیشہ ہی تقدیر نظر آئی +وحشت میں سکوں پایا ہنگامہء دنیا میں +اکسیرِ محبت کی تاثیر نظر آئی +وہ دل میں اُتر کر میرے اتراۓ سے پھرتے ہیں +ان کو یہ زمیں اپنی جاگیر نظر آئی + + +السلام علیکم احباب گرامی! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہونگے۔ +اردو وکی کتب کافی عرصے سے بند ہے، اور منتظمین تو کیا یہاں عام صارفین بھی نہیں۔ یہ آزاد کتب کا منصوبہ بحال کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آرکائیو ڈاٹ آرگ سے آزاد کتب کو یہاں بذریعہ OCR منتقل کروں گا، میں بخاری سعید خود کو منتظمی کے لیے نامزد کر رہا ہوں۔ +; آپ تمام احباب سے اس رائے شماری میں حصہ لینے کی درخواست ہے۔ + + +مرزا رجب علی بیگ سرور کی کتاب فسانہ عجائب مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے۔ تھا جس کتاب کے متعلق تاریخی حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بعض حضرات جو رائے بھی ظاہر کریں اور اس پر جس قدر اعتراضات کریں؛ لیکن یہ واقع ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب سامنے آئی تھی، اس زمانے میں اس کی یکتائی کی دھوم مچ گئی تھی اور بہت جلد اس کو دبستان لکھنو کی نمائندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔ +صرف داستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی خامیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہی بات کہ داستان کا ہیرو ان صفات سے بڑی حد تک محروم ہے جو کسی مرکزی کردار میں دلکشی کی چمک پیدا کیا کرتی ہیں۔ کئی ضمنی کہانیوں کے جوڑ پیوند لگی ہوئی داستان کے بوجھ کو سہارنے کی سکت اس میں نظر نہیں آتی۔ سادہ لوحی میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جان عالم کی تخصیص نہیں ضمنی کہانیوں کے نمایاں افراد بھی ایسے ہی ہیں۔ مثلا وہ بادشاہ جو دانہ تامل کے بغیر اپنی بیوی کو ایک انجان سوداگر کے ساتھ بھیج دیتا ہے، جس نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور وہ سوداگر اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے۔ +معمولی سوج ہو چکا آدمی بھی اس قدر کم فہمی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اس کے لیے تو خود سرور نے لکھا ہے کہ یہ بیچارے اللہ کے ولی۔ یا مثلا وہ سودا گئے جس نے بندر کی صورت میں جان عالم کو اپنے ساتھ رکھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بادشاہ بندروں کو پکڑوا رہا ہے اور مروا رہا ہے ، اس کے باوجود وہ آنے جانے والوں کو بندر کی باتیں سنو آتا ہے۔ اتنا بڑا سوداگر اور اسکا در سادہ لوگ یا مثلا مجسٹن کا لڑکا کہ وہ بھی جان عالم کی طرح سادہ لوحی کا مارا ہوا ہے۔ اسے بھی سرور نے خود ہی بڑھاپے کی اولاد کہا ہے۔ یا وہ بادشاہ جس سے آخر میں جان عالم کی لڑائی ہوتی ہے۔ وہ تو اس قدر اہم ہے کہ اس کی فوج جاۓ علم سے مل گئی ہے، اکیلا رہ گیا ہے لیکن لڑنے چلاتا ہے تلوار چلاتا ہے اور قید کر لیا جاتا ہے۔ غرض کے نمایاں کردار کے مرد تقریبا سب کے سب جان علم ہی جیسے ہیں۔ +یہ بات اگر نظر کے سامنے ہو کہ فوج کی حکومت میں آصف الدولہ کے زمانے سے مجہولیت نے جس طرح چھاؤنی چھالی تھی اور شہزاد گانے کرام جس طرح حکمرانی کی صلاحیت اور صفات سے تہی دامن تھے تو پھر اس کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ سرور نے کہا نی کسی بھی خیالی دنیا کی کہی ہو داستان کی فضا اس کے کردار انھی کے زمانے کے ہیں، ان کے زمانے میں اکثر امراء اور ولی عہد صاحبان کا احوال یہی تھا۔ البتہ یہ دلچسپ بات ہے کہ اکثر عورتیں سوجھ بوجھ سے اس طرح خالی نہیں کی: بلکہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کی فعال اور طرار خواتین کی طرح ہیں۔ وجہ اسکی بھی اسی معاشرے کے احوال اور کردار میں باآسانی تلاش کی جاسکتی ہے۔ +زبان کے لحاظ سے بھی اس میں بہت سے جھول تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اکھڑے اکھڑے جملے تو اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے۔ +1 دہلی میں بھی مغلوں کی حکومت کے آخری زمانے میں یہی احوال تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ بجلی شاندار روایت کا عکس وہاں آنکھوں میں بسا ہوا اور دلوں میں سمایا ہوا تھا، جس کے اثر سے بیرونی سطح پر کچھ نہ کچھ بھرم رہ گیا تھا۔ لکھنؤ میں یہ بڑی کمی تھی یہاں ایسی کوئی روایت سایہ فگن نہیں تھی۔ اس کے اثرات کئی صورتوں میں نمایاں ہوئے۔ +اس نے بیان کا رنگ بھی کئی جگہ پڑا ہوا دکھائی دے گا۔ الفاظ کا بے محل صرف بھی ملے گا اور ایسا پیرایہ بیان بھی ملے گا جس کو بے کمالی کی نشانی کہا جاسکتا ہے۔ یہ سب مسلم اور برحق مگر بات وہی ہے کہ یہ کتاب محض ایک داستان نہیں صرف زبان کا نگارخانہ نہیں؛ یہ دراصل ایک اسلوب کا دوسرا نام ہے اور اصل حیثیت اس اسلوب کی تھی اور ہے۔ اعظم اپنے زمانے اور ذہن کے لحاظ سے جو بھی کہیں لیکن یہں خزانہ حقیقت ہے کے لکھنؤ کا وہ معاشرہ اسی انداز کا پرستار اور اسی اسلوب کا دلدادہ تھا۔ چکبست کے الفاظ میں "اودھ پنچ کے پہلے رجب علی بیگ سرور کی طرز تحریر کی پرستیش ہوتی تھی مضامین چک بست انڈین پریس علاوہ سال طبع 940 صفحہ 229 ( +زمانہ بدل گیا ذہن بدل گئے انداز نظر بدل گیا؛ ہم بہت سی تبدیلیوں کے باوصف یہ کتاب اپنی حیثیت کو اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے کلاسکی ادب کی شاعری سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے] اب یہ چھپتی رہتی ہے اور پچھلی تین دہائیوں میں تو اس کے متن کو نئے انداز سے پیش کرنے کی کی قابل ذکر کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔ مصنف کے زمانے سے اب تک یہ کتاب اتنی بار اہتمام کے ساتھ چھپی ہے کی داستانیں سلسلے کی کم کتابیں اسباب میں اس کی برابری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ باغوبہار سے مقابلہ کرنا مقصود نہیں رخ روشن کے آگے شمع کون رکھے گا؛ اسکو چھوڑ کر اس انداز کے باقی سبھی داستانی قصوں کو ادبی حیثیت سے بھی اس کے برابر شاید ہی رکھا جاسکے۔ +اس کتاب کو ایسے باقی قصص و کے مقابلے میں ایک اور فضیلت بھی حاصل ہے، کہ اس کی حیثیت صرف ادبی نہیں تاریخی بھی ہے اور یہ تاریخی حیثیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کی دبستانی بحث کے فروغ میں اس کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ سرور نے دیباچے میں میرامن ور دہلی دونوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس نے باضابطہ اعلان جنگ کا کام کیا۔ دنوں تک یہ بحث چلتی رہی اور اب بھی اس کی بازگشت سنائی دے جاتی ہے مثلا جوش ملی آبادی اور شاہد احمد دہلوی میں پچھلے دنوں جو بحث چلی تھی اس میں اس پرانے جھگڑے کا بھی حوالہ موجود ہے۔اس میں اس پرانے جھگڑے کا بھی حوالہ موجود ہے رسالہ نقوش )لاہور) کے "ادبی معرکے نمب"ر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے]۔ +یہاں ضمنی طور پر [اور بطور جملہ معترضہ] یہ وضاحت ضروری ہے کہ دہلی اور لکھنو کا جھگڑا فسانہ عجائب سے شروع نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ یہ کتاب نہ لکھی جاتی تب بھی اختلافات ابھر کر سامنے آتے ضرور۔ اصلاً یہ سیاسی قضیہ تھا۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے ہی سے اختلافات کی بنیاد گہری ہونے لگی تھی۔ پھر جب نواب غازی الدین حیدر نے انگریزوں کے اشارے پر بادشاہت کا اعلان کیا، اس وقت سے وہ جو ایک ظاہری پردہ سا تھا وہ بھی اٹھ گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اختلافات کی نمود شدت اور وسعت کے ساتھ تہذیبی اور ادبی سطح پر ہوئی۔ چونکہ سیاسی صدابند مقامی حکومت اگرچہ نام کی خود مختار تھی ، لیکن عملی طور پر وہ بے اختیاری کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی اور دوسری طرف وہ نیا معاشرہ اپنے امتیاز اور اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کا بے طرح آرزو مند تھا اسلئے تہذیبی اور ادبی سطح ہی پر ایسے اختلافات کی نشونما ہونا تھی اور یہی ہوا۔ ادبی سطح پر اختلافات میں زیادہ شہرت پائی دریائے لطافت میں سید انشاء نے جہاں دہلی اور لکھنو کا موازنہ کیا ہے، وہاں بین السطور بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ذہنوں میں کس طرح کے خیالات نشوونما پا رہے تھے]۔ +دہلی والوں کو اپنی زبان اور اپنی ادبی روایت پر بہت ناز تھا۔ اس وقت تک سند بھی وہیں سے لی جاتی تھی۔ اگرچہ اجڑی ہوئی دہلی سے ترک وطن کرکے اس شاد اور آباد مملکت میں بہت سے دہلی والوں کو پناہ لینا پڑی تھی اس کے باوجود وہ مہاجرین یہاں والوں کو پورب والے کہتے تھے، ان کی نظر میں نا یہاں کی تہذیبی روایت کی کوئی حیثیت تھی نہ یہاں کی زبان کی۔ اب تک اس مملکت کو اسی نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے ایک خودمختار سلطنت اپنے کسی زیرِ نگیں علاقے والوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مرزا غالب نے اپنی پنشن کے قضیے میں کلکتہ جاتے ہوئے لکھنؤ میں بھی قیام کیا تھا۔ اس وقت غازی الدین حیدر نواب وزیر نہیں اودھ کے بادشاہ تھے اور معتمد دولہ آغا میر ان کے وزیراعظم اور نائب السلطنت تھے۔ مرزا صاحب ان سے ملاقات کی خواہش مند ضرور تھے ان کی مدح میں قصیدہ بھی کہ رہے تھے، ایک فارسی نثر بھی لکھی تھی، اور ایک غزل میں تین شعر بھی مدھیہ انداز کے کہے تھے جس کے دو شعر یہ تھے: +لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی +ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو +لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید +جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو +غرض ملاقات طے ہوگئی لیکن ہو نہیں پائی۔ وجہ یہ ہوئی کہ مرزا صاحب نے ملاقات سے پہلے دو شرطیں ایسی پیش کی، جو منظور نہ ہوئیں: ایک تو یہ کہ نائب میری تعظیم دیں دوسرے نذر سے مجھے معاف رکھا جائے یادگار غالب، طبع اوّل ، ص 27 [ +یہ دراصل اسی روایتی احساس برتری کا مظاہرہ تھا۔ اب دیکھیے تو مرزا صاحب مالی امداد کے متمنی ہیں، چاہتی ہیں کہ صلہ ملے، ضرورت مند بھی ہیں؛ لیکن ملاقات کے لیئے اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ وزیراعظم ان کی تعظیم کریں۔ مورو وزیراعظم کی خدمت میں دستور کے مطابق نظر پیش نہیں کریں گے۔ نظر پیش کرنے کا مطلب ہوتا ہے بالادستی اور برتری کا اعتراف اور اظہار؛ مرزا صاحب اس کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ تھی نہ عجیب بلکہ عجیب تر بات! بات وہی تھی کہ دہلی والے آخر تک یہی سمجھتے رہے کہ بادشاہت تو دہلی میں تھی اور وہیں2 ہے۔ یہاں والوں کو تو سند حکومت اسی دروازے سے ملتی رہی ہے۔ +بادشاہت کی طرح زبان کا مرکز بھی دہلی کا مانا جاتا تھا، سند بھی دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔ اس کا ردعمل تو ہونا تھا۔ سرور نے دہلی اور میرامن کےمتعلق جو کچھ لکھا ، اس کو اس رد عمل کے فروغ میں بڑا حصہ مل گیا اور اسی نسبت سے شہرت ملی۔ یہ واقعہ ہے کہ سرور سے پہلے لکھنو کے کسی ادیب اور شاعر نے اور اس میں ناسخ بھی شامل ہیں دہلی اور اہل دہلی کی لسانی بالادستی اور وہاں کی یکتائی اور استناد سے اس طرح الاعلان انکار نہیں کیا تھا۔ احتشام صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ : +1 بعد میں مرزا صاحب نے اس مصرعے کواس طرح بدل دیا لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب۔ متداول دیوان میں یہ اسی طرح ہے۔ +2 میر مہدی مجروح نے مرزا غالب کو جو یہ لکھا تھا کہ اگر شرم آئی تو رجب علی سرور کو آئے ۔۔۔۔ ان سے کہا چاہیے کہ ارے بندہ خدا، خدا سے ڈر لکھنؤ کس بادشاہ کا دارالخلافہ رہا ہے؟" +[رجب علی بیگ سرور، ص 354 تو یہ اسی طرف اشارہ تھا۔ +3 "عہدِ دولت بابر شاہ سے تا سلطنت اکبر ثانی کہ مثل مشہور ہے: نہ چولھے آگ ، نہ گھڑے میں پانی ، دہلی کی آبادی ویران تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لطافت اور فصاحت اور بلاغت کبھی نہ تھی، نہ اب تک وہاں ہے ص 18) +یعنی قصہ ہی ختم کر دیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ +"تاریخی اعتبار سے سرور کی ادبی زندگی لکھنؤ کی اس عہد سے تعلق رکھتی ہے وہ برائے نام سہی، ایک خود مختار بادشاہت قائم ہو چکی تھی اور وہ اپنی زبان ادب معاشرت اور طرز فکر میں دہلی سے آزادی حاصل کر رہا تھا۔ لسانی اور ادبی خودمختاری کی خواہش نے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر لکھنو اور دہلی کے اس فرق کو اور زیادہ نمایاں کر دی جس کے ہلکے نقوش اس سے پہلے ہی ابھرنے لگے تھے۔ رجب علی بیگ سرور کو اس حیثیت سے میں لکھنوی ادب کا پہلا اہم نمائندہ کہا جا سکتا ہے، جس نے نہ صرف ایک مخصوص اسلوب پیش کرکے اس تفریق اور خودمختاری پر مہر لگا دی، بلکہ واضح طور پر دہلی کے ادبی انداز کو سخن گسترانہ چشمک کا موضوع بھی بنایا۔ اس حیثیت سے بھی سرور کا مطالعہ بڑی تنقیدی اہمیت رکھتا ہے۔" +[ رجب علی بیگ سرور، ص 14[ +جس طرح لاسک کی شاعری کے اندرونی فضا اور اس کا مزاج لکھنو کی حسنِ معاشرت کا آئینہ دار ہے اسی طرح سرور کی نثر آرائشیں پسندی کے وسیلے سے اس معاشرت کے انداز و اطوار کی آئینہ داری کرتی ہے نہ صرف سرور دونوں اپنے اسالیب بیان کے واسطے سے دبستان لکھنؤ کے نمائندہ افراد ہیں۔ ایک کی شاعری لکھنؤ کی نئی شاعری روایت کا نقطہ آغاز فنی اور دوسرے کینسر فسانہ عجائب کی صورت میں وہاں کا پہلا نقش بن کر سامنے آئی یہ دوسری بات ہے کہ شیریں روایت نے بھاگ کر وہ پایا اور وہ ایک زمانے تک معیار اور مثال بنی رہی۔ناصح نے کبھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن اس مملکت کے لیے جسے نہیں نہیں بادشاہت ملی تھی نئی شعری روایت اور نئے لسانی تصور کی بنیاد رکھی نئی حکومت کے لیے جس طرح نےاسکا ضروری ہوتا ہے اسی طرح اس نے معاشرے کو دینی ادبی روایت کی ضرورت تھی جس کی پہچان بھی ہو اور جو اس علاقے کو ایک دوسرے ادبی علاقے کی بالادستی سے بھی چھٹکارا د کر مستقل لسانی مرکز کی حیثیت دلاسکیں۔ +یہ ساری داستان تھا اس میں نہ صرف اور سرور دونوں شریک تھے البتہ ناسک کی حیثیت شریک غالب کی تھی +فسانہ عجاءب سے جس نثری روایت کا آغاز ہوا تھا اس نے شہرت تو بہت پائی صحیح معنی میں قبول عام بھی پایا مووی مسبوق بھی مثال اور معیار بن کر ذہنوں کو متاثر کرتی رہی۔لیکن شعری روایت کے مقابلے میں اس کے اثرات کی حکمرانی کی مدت کم رہی +اس فرق کے باوجود تاریخ میں ادب میں ان دونوں روایتوں کے اثرات ہمیشہ کے لیے اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں +کہ انکو معلوم کئے بغیر ان کو سمجھے بغیر ان کا جائزہ لیے بغیر تاریخ ادب کے اس باب کو نہیں سمجھا جا سکتا جو دبستان لکھنو سے متعلق ہے اس لحاظ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ فسانہ عجائب کی اہمیت اپنی جگہ پر برقرار ہے اور رہے گی۔ +پچھلے صفحے کے حاشیے کا بقیہ +اس سلسلے میں عام طور پر وہ عبارت نظر میں رہتی ہے جس میں میرامن کا نام آیا ہے اس ہیچ میرزا کو یارا نہیں کہ دعوی اردو زبان پر لائے ۔۔۔۔ اپنے منہ سے دھنا بائی ص 30 لیکن واقعہ یہ ہے کہ پورا بیان لکھنؤ اسی جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ جگہ جگہ یہ جذبہ جذبہ بے اختیار بنکر سطح پر ابھر آیا ہے اور بین السطور سے ابھرکر شامل سطور ہو گیا۔ مثلاً جب وہ لکھنؤ کی تعریف میں یہ لکھتے ہیں کہ جو گفتگو لکھنؤ میں کو بہ کو ہے؛ کسی نے کبھی سنی ہو سنائے۔ لکھی دیکھی ہو دکھائے۔ +"لکھی دیکھی ہو" اسے بھی صاف اشارہ میر امن کی طرف ہے۔ یا مسلم اور لکھنؤ کے جیسے بازاری ہی کسی شہر کے ایسے ہفت ہزاری ہیں۔ کسی شہر سے صاف صاف دہلی مراد ہے کہ ہفتہ ہزاری کا منصب وہیں سے ملا کرتا تھا۔ یا مثلا صفحہ 8 پر "گومتی میں غوطہ لگایا دیہاتی بن کے دھبے ہوگئے آدمی ہو گئے" میں بھی کنایہ موجود ہے۔ یہاں گومتی جمنا سے بڑھ گئی ہے۔ بیان لکھنؤ کا اصل مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ لباس کھانے وغیرہ معاشرت کی جملہ مظاہر میں لکھنؤ کی افضلیت اور یکتائی کو اس طرح بیان کیا جائے کہ یہ صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اب یہ شہر دہلی پر افضلیت رکھتا ہے اور یہ بھی فصاحت اور بلاغت کی ٹکسال ہیں اب یہیں ہے۔ ناسخ کے لیے انھوں نے جو یہ لکھا ہے کہ شیخ امام بخش ناسخ میں روزمرے کو ایسا فصیح و بلیغ کیا کے کلام سابقین منسوخ ہوا تو مطلب اس کا یہی ہے کہ وہ دور ختم ہوا جب زبان و شعر میں سند دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔ +جیسا کے میں نے کہا کہ قافیہ بندی سرور کی تحریر کا خواص چہار ہے ان کا پسندیدہ انداز کو یہ ہے کہ کبھی ایک فطری اور کبھی دو یا زیادہ ٹکڑوں کے بعد وہ ٹکرا آتا ہے جس پر کافیہ کی بنیاد ہوتی ہے اور یہ بھی ایک ہی جملے میں چھوٹا ہو یا بڑا قافیہ بندی کا حسن موجود ہے +یا کسی جملے کسی فصل کے بغیر قافیہ بندی کی بہار دکھاتے ہیں زیادہ مصالحوں کی کوئی گنجائش نہیں۔میں پہلے بار د کر چکرا پیش کرتا ہوں جس میں تینوں انداز موجود ہیں +یہاں نین�� کہاں جیسے سینے میں بے قرار پہلو میں خار ہر دم آہ سرد +دل پر درد سے بلند چشمہ چشم جاری فریاد و زاری دوچند جگر میں سوز فراق +نیا لفظ سے دو پنہاں آیا سینے میں دل و جگر وسفن یہ رباعی و زماں +پیلا ٹکرا مزا بھی ہے اور مفت ابھی ہے اور خوب ہی ٹکڑے کی بنیاد بنتا ہے +یہی اپنے لفظ بنیادی کافی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بعد ٹکڑے آتے ہیں +جو بیقرار خار کے واسطے سے ہم کافیا ہیں ان درمیانی دو ٹکڑوں کے بعد دوسرا ٹکڑا آتا ہے جس میں پہلے ٹکڑے کی ریاض سے بلند قافیہ بندی کا حسن چمکا رہا ہے +سے پہلے ٹکڑے میں پیار کا توازن جاری وزاری کے واسطے برقرار رکھا گیا ہے اس کے بعد ایک ٹکڑا آتا ہے تو دوچند پر ختم ہوتا ہے اور اس طرح بلند سے کافیہ بندی کا پہلو روشن کو اٹھتا ہے اس کے بعد دو ٹکڑوں کے آخر میں نہاں اور عیاں آتے ہیں جو بنیادی کافیہ کی طرف سے توجہ کو ختم نہیں ہونے دیتے +یہ بھی دیکھیے کہ سفارت کے پہلے ٹکڑے ہیں ہاں نیند کہاں کی عید سے ٹکڑے میں بھی وہی انداز موجود ہے جو پنہاں ایام یعنی دونوں لفظ ہم قافیہ ہیں یہ گویا وزن کو سنبھالنے اور بیان کے تناسب کو برقرار رکھنے کی نہایت کامیاب اور فنکارانہ کوشش ہے اس کے بعد اس کے بعد پھر وہ دو ٹکڑے آتے ہیں یہ دونوں ہم قافیہ نہیں مگر دوسرا "سپند پر ختم ہوتا ہے جو عبارت کے چوتھے ٹکڑے کے بلند اور چھٹے ٹکڑے دو چند کا ہم قافیہ ہے۔ +اور اس طرح بنیادی قافیے کا آہنگ ذہن کو تناسب اور توازن کے احساس سے خالی نہیں ہونے دیتا اور توجہ کو پوری طرح منعطف رکھتا ہے۔ اس عبارت کا اختتام جس ٹکڑے پر ہوتا ہے وہ پہلے ٹکڑوں کی طرح دو اجزا کا مجموعہ نہیں ہے، یہاں ایک ہی جز ہے، مگر اس کے آخر میں "برزباں" آتا ہے، جو پہلے ٹکڑے کے بنیادی لفظ کہاں کے آہنگ کو دہراتا ہے۔ اس ٹکڑے میں ایک ہی جز کا ہونا فنکارانہ انداز نگارش کا اچھا نمونہ ہے ، کیونکہ اس طرح ذہن میں ابتدائی اور بنیادی آہنگ کی جھنکار اچانک اور پورے دباؤ کے ساتھ گونج اٹھتی ہے۔ اگر یہاں بھی دو ٹکڑے ہوتے تو یہ جھنکار اس قرد پر شور نہ ہوپاتی تقسیم ہو کر کچھ ہلکا ہو جاتا۔ +ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھئے اور تو اور شہداء پیر بخارا ک، نماسا سیدالشہدا کا شیدا ص16 شُہٌدا "شہداء"، "شیدا" میں صنعت تجنیس میں بیان کا جو حان پیدا کیا ہے، اسے صحیح معنی میں اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب پڑھنے والا اس طرز ادا سے واقف ہو اور اس کا ذہن اس کے پیدا کیے ہوئے خوشی اور لطف کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہو۔ یحتوی ہوگا جب کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ہو۔ اسے ایک ٹکڑے میں تجنیس کے تین روپ نمایاں ہیں، انہیں معلوم اور محسوس کئے بغیر اس کو نہ تو پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ یہ احوال ہے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا اس صورتحال کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ +یہ ہی سرور کی نثر کا حسن۔ مزید مثالوں کی ضرورت نہیں کہ ایک تو یہاں گنجائش نہیں ، دوسرے یہ کہ اس اشارے کی روشنی میں پڑھنے والا خود ہی ایسی جگہ کو منتخب کرتا چلا جائے گا۔ یہ بھی اس کرو کے اس کتاب میں ایسے اجزاء ہیں کمی نہیں جن میں مرصع سازی کا کمال نقطہ عروج پر نظر آتا ہے؛ مگر بات وہی ہے کہ نگارش کے انداز اور ترصیع کے اس فن اور حسن کو سمجھنے کے لئے ذہن کا تربیت یافتہ ہونا اور کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ضروری ہے ورنہ یہ سب بے جان الفاظ کا کھیل نظر آئے گا۔ +معلوم نہیں یہ خیال ذہنوں میں کیسے سما گیا اور دلوں میں بیٹھ گیا ہے کہ فسانہ عجائب کی نثر بہت مشکل ہے۔ مشکل نثر کا معیار ا��ر نوطرزِمرصع کو مانا جائے، پھر اس کتاب کو آسان تر کہا جائے گا۔ مشکل نثر کی مثال میں اکثر اس کتاب کے وہ مقامات پیش کیے جاتے ہیں جہاں سے یہ کتاب شروع ہوتی ہے ، نظمیں کہانیاں یا نئے بیانات شروع ہوتے ہیں۔ یعنی تمہیدی مقامات اور یہ بڑی ناانصافی ہے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی تھی ، اس زمانے میں کسو کی تمہید بہت پر تکلف انداز کی ہوا کرتی تھی۔ طلسم ہوش ربا کی زبان کو کون مشکل کہے گا، لیکن تمہیدی مقامات اس میں بھی پرتکلف انداز بیان سے خالی ہے۔ +تمہیدی حصوں سے قطع نظر کو روا رکھا جائے ، تو پھر یہ معلوم ہوگا اس کتاب میں زبان اور بیان کے بطور عموم دو رنگ پائے جاتے ہیں۔ کہیں تو ایسا صاف سفاک بیان ہے کہ آج کے اوسط درجے کی استعداد رکھنے والے قاری کو بھی اس کے پڑھنے میں دقت نہیں ہو گی۔ خاص کر جہاں مکالمات ہیں وہ مقامات کو بیان کی شگفتگی اور زبان کی سلاست کے لحاظ سے کسی طرح کم رتبہ نہیں دوسرا اندازہ ہے جہاں علمیت کا رنگ ذرا گہرا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے مقامات پر بیان کند از وہی ہے جو متاثر ہندوستانی فارسی نثر نگاروں کے اثر سے رواج پا گیا تھا۔ ایسے مقامات اگر آج ہمیں کچھ مشکل نظر آتے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں کہ یہ بجائے خود مشکل ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے ہمارے دور کی عمومی کم استعدادی فارسی زبان سے ناواقفیت اور کلاسیکی اسالیب سے کم آشنائی۔ مصنف جس معاشرے کا فرد تھا اس معاشرے کے ان لوگوں کے لیے جو پڑھنے لکھنے سے تعلقات رکھتے تھے، یہ طرز ادا غیر معمولی نہیں تھا۔ مصنف نے اپنے زمانے کو پیش نظر رکھ کر یہ کتاب لکھی تھی، اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ +یہ بات بھی اسی سلسلے میں کہنے کی ہے کہ سرور نے جہاں شادی بیاہ کا یا شاہی جلوس کا احوال لکھا ہے، یا ایسی ہی اوربیانات لکھے ہیں جن میں مختلف اشیاء کے نام آتے ہیں؛ جہاں بھی اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ بیان میں کس طرح کی پیچیدگی یا زبان مغلق ہے؛ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ آج ہم ان بہت سی اشیاء سے واقف ہیں جن کے نام لکھے گئے ہیں اور جن سے متعلق تفصیلات لکھی گئی ہیں۔ یعنی یہ بھی حقیقی مشکل نہیں اس میں ہماری ناواقفیت کا عمل دخل ہے۔ +یہ تو بالکل درست ہے کہ زبان کے لحاظ سے باغوبہار کو اگر معیار مان لیا جائے تو پھر یہ کتاب اس معیار پر پوری نہیں اترے گی؛ لیکن یہ عمل بجائے خود سراسر مصنوعی ہوگا۔ دو مختلف چیزوں کو مقابل رکھ کر ایک کو برتر بتانا قرین انصاف نہیں ہوسکتا۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح باغ و بہار میں ایک اسلوب کی تشکیل دی تھی، اسی طرح فسانہ عجائب میں بھی ایک مختلف اسلوب کی تشکیل کی تھی۔ اپنے اپنے دائرے میں یہ دونوں اسالیب مستقل حیثیت کے مالک ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سرور کے زمانے میں لکھنؤ کے اس معاشرے میں معیاری حیثیت اسی اسلوب کو حاصل تھی جسے سرور نے اختیار کیا۔ یہاں محض ضمنی طور پر عرض کروں کے سرور نے جن مقامات پر روس کا احوال لکھا ہے، میں شادی بیاہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے ذیل میں رسموں ٹوٹکوں کا بیان آگیا ہے، کیا جیسے ابتدائی داستان میں جوتش کی اصطلاحوں کا مفصل تذکرہ آیا ہے جوتشیوں کی ہی زبان میں، یا مثلا چڑیمار اور اس کی بیوی کی گفتگو لکھی ہے جس میں اس پیشے کے بہت سے اصطلاحی لفظ بھی آگئے ہیں ، یا جہاں کوہ مطلب برآر کے جوگی کا بیان کیا ہے ؛ ایسے سارے مقامات پر دو تین باتیں بطور خاص توجہ طلب ہیں مثلا جہاں شاہی جلوس کا بیان ہے تو وہاں مختلف پوشاکوں ہتھیاروں عہدےداروں کہ اس قدر نام آئے ہیں اور ان سے متعلق اس قدر تفصیلات معرض بیان میں آئی ہیں کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے واقعتاً شاہی جلوس و دیکھے تھے اور ان کی تفصیلات کے عکس اس کی آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے۔ ان تفصیلات اور انکے داستانیں بیان میں مرقع نگاری کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جلوس کا وسیع اور عریض مرقع وجود میں آتا ہے، ہم جلوس کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں یہ معمولی کمال نہیں۔ پھر یہ بات کہ ایسے مقامات پر ہر جگہ زبان صاف اور بیان شفاف ہے۔ اخلاق اور اشکال کی پرچھائیاں بھی نہیں پڑی ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ آج ہماری ناواقفیت بلکہ آسان پسندی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جو کم فرصتی سے زیادہ عجلت پسندی کا رجحان ہمارے ذہنوں میں سما گیا ہے؛ یہ سب مل کر ہمیں اس مغالطے میں مبتلا کر سکتے ہیں کہ یہ تو بہت مشکل بیان ہے۔ عورتوں کے مکالمے تو ایسی شفاف زبان میں لکھے گئے ہیں کہ نواب مرزا شوق کی مثنوی کے کوٹ شعرر یاد آ جاتے ہیں جوگی کی کٹیا کا حال اور بیان لکھنؤ میں لکھنؤ کے فنکاروں اور پیشہ وروں کا بیان ایسے سارے مقامات پر انداز بیاں میں المیتۃ رنگ تو ہے مگر گہرا نہیں ایسا نہیں کہ اس جرگے کی صدارت والا ان کو نہ سمجھ سکے میں یہ نہیں کہتا کہ مشکل مقامات اس میں ہے ہی نہیں ہیں اور ضرور ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں +تیسری خاص بات جو ہمہ وقت نظر میں رکھنے کی ہے یہ ہے کہ سرور نے داستان لکھی تھی ناول نہیں لکھا تھا اور وہ داستان فورٹ ولیم کالج میں کل ٹرسٹ کے جدید ذہن اور نئے انداز سے نذر کے بنائے ہوئے خاکے کے تحت نہیں لکھی گئی تھی یہ داستان لکھنو کے اس معاشرے کے لئے لکھی گئی تھی جہاں داستان سرائیکی ظبعیت کو پسندیدگی کی سند حاصل ہورہی تھی اور جہاں مرصع سازی کو کمال فن سمجھا جانے لگا تھا یہ جو مثلا سردی کے بیان میں بہت سی تشبیہیں آگئی ہے یا ستارے آگئے ہیں یا مثلا کھانوں وغیرہ کے بیان میں بہت سے نام پے در پے آتے ہیں چلے جاتے ہیں تو یہ داستان سرائی کا خاص انداز ہے اس قسم کی وغیرہ سے مقامات کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جاسکتا +یہاں چونکہ لسانی تجزیہ مقصود نہیں اس لئے انہیں شہروں پر اکتفا کرتا ہوں ضرورت اس کی ہے کہ ایک مستقل موضوع کے طور پر کوئی واقف کار اس کتاب کی نثر کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں اور عیب و ہنر دونوں کی تفصیلات مرتب کرے میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں کوثر کا پلڑا بھاری نکلے گا جس زمانے میں نہیں زمانے میں کمال کی نشانی تھا اور جسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور جس کے تجزیے سے آج ہم میں سے بہت سے لوگ شاید سہی طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکے یہ ضمنی گفتگو ختم ہونے کو ایلک نسبت اسے ختم کرنے سے پہلے اسی سلسلے میں عزیز احمد کا اقتباس ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں +طلسماتی داستانوں کے دور میں اور اس کی پیداوار کے طور پر کم سے کم ایک کتاب ایسے ظہور میں آئی جو ناول سے بہت قریب ہے یہ مرزا رجب علی بیگ سرور کا فسانہ عجائب ہے تین خصوصتیں اسے طلسمی ہوشربا اور بوستان خیال جیسی داستانوں سے ممتاز کرتی ہے پی لی تو اس کا اختصار۔۔۔۔۔۔۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ گرد و پیش کے ماحول سے بھی متاثر ہے۔۔۔۔۔۔۔تیسری خصوصیت یہ کہ مصنف قصے سے زیادہ زبانوں سے اسلوب پر توجہ دیتا ہے اور زبان کی داد چاھتا ہے۔۔۔یہ خصوصیت بہت ہی اہم ہے کہ مصنف نے اسلوب کو کتاب کی دلچسپی کی جان بنانا چاہا ہے اور اسطرح رتن ناتھ سرشار کے لیے راستہ صا�� کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔سرشار کے یہاں بھی۔۔۔۔۔۔ +اصل دلچسپی زبان میں عمل سے زیادہ مکالمے میں ہے (ترقی پسند ادب والے رجب علی بیگ سرور صفحہ 231 ) +فسانہ عجائب کینسر میں بہت سے مقامات پر کچہ پن محسوس ہوتا ہے جو اور لفظی رعایتوں کیسر سروری پابندی نے بیٹنگ پر بھی پیدا کیا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے اس میں ان کی کم مشقیں کا دخل کچھ زیادہ معلوم ہوتا ہے ان کی دوسری کتاب ترجمہ اللہ کو دیکھئے جس کا نام شبستانوں رہے اس میں ایسی خامیاں اس طرح کا کچہ پن نہ ہونے کے برابر ہے۔ +رعایت لفظی سرور کینسر کا عام جوہر ہے اور قافیہ بند جملے لکھنا خاص انداز ہے اس میں بجائے خود کچھ ایسی خرابی نہ تھی؛ مگر نظیر حد تک شوق بے حد قافیہ بندی کے شوق بے نہایت میں کچھ مقامات پر عبارت میں خرابی پیدا کردی ہے۔ داستانی انداز یوں ہی تفصیل بلکہ طوالت کا طلبگار رہا ہے۔ داستان میں ایجاز اور اختصار کو دخل حاصل نہیں ہوت، اس کے بیان کا بڑا حصہ بھی مزہ بن کر رہ جائے اگر اس میں مختلف مناظر آسیہ زبان وغیرہ کے سلسلے میں تفسیر نگاری اور عیش پسندی سے کام نہ لیا جائے لیکن سرور کے یہاں تفسیر نگاری کے ذیل میں بعض اوقات لفظ یا اس کے ایسے پھٹے ٹکڑے بھی آجاتے ہیں جو عبارت کو بےکیف بنادیتے ہیں۔ مثالوں کی تو یہاں گنجائش کم سے کم ہے، آپ صرف بطور مثال اس سے وہ دیکھئے جہاں جان عالم انجمن آرا کو ساتھ لے کر بادشاہ سے رخصت لیتا ہے اور عازمِ وطن ہوتا ہے ص 178 سے ص 185 ] +رعایت لفظی اور قافیہ بندی کے شوق فضول نے کئی جگہ بدمزگی پیدا کردی ہے۔ صرف ایک مثال "پھر شکار کا سامان میرشکار لائے جیتے جی دشمنوں کا برا چیتے بلکہ لہو پیتے۔ سیاہ گوش در اوس ہرن لڑنے والے خانہ زاد گھر کے پالے ص 181] ایسے کئی جملے اس بیان میں مل سکتے ہیں اس کے باوجود اس بیان میں شاہی سازوسامان کا جیسا بیان ہے، مختلف شاہی کارخانوں کا جیسا احوال سامنے آتا ہے اور سامان سفر کا جس طرح بیان ہوا ہے؛ یہ سب بھی اپنی جگہ پر حیرت آفرین اور خوش ربا ہیں۔ شاہی سامان کا تو کیا ذکر، معمولی اشیاء اور افراد کا تذکرہ آج ہمارے لئے معلومات بخش بھی ہے اور اور حیرت آفرین بھی۔ مثلا سقوں کا بیان ان کے بعد ہزارہا سقا، خواجہ خضر کا دم بھرتا ، چھڑکاؤ کرتا ۔ کمر میں کھا روے کی لنگیاں ، شانوں پر بادلے کی جھنڈیاں ، مشکوں میں بید مشک بھرا ، دہانے میں ہزارے کا فوارہ چڑھا۔۔۔] +مسلم سردی کے بیان کو دیکھئے جو صفحہ 326 سے صفحہ 328 تک پھیلا ہوا ہے۔ اس بیان کے متعدد ٹکڑوں کو غیر ضروری اور غیر متناسب لفظی رعایتوں اور قافیہ بندی کے ہوکوں بے مزہ بلکہ بدمزہ بنا دیا ہے۔ صرف دو جملے بطور نمونہ کافی ہوں گے اشکِ شمع انجمن لگن تک گرتے گرتے اولا تھا، پروانوں نے پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا" +" بندوق میں لاگ نہ تھی چانپ کے پتھروں میں آگ نہ تھی، توڑا ہر ایک گل تھا، توتے کی جگہ شورِ بلبل تھا۔" + + +[[زمرہ:بچوں کے ویکیپیڈیا:حروف تہجی حروف]] + + +میرا نام اسماء طارق گجرات کی رہائشی عمر بیس سال ہے اور ماسڑز کی طالبعلم ہوں ۔میں شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر اخبارات اور ویب سائٹ کے لئے لکھتی ہوں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں ہوں ۔ + + +اچھی زبان اچھے کلچر کی پہچان +اچھی زبان اچھے کلچر کی پہچان +زبان کسی بھی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے اور لوگ اپنی زبان سے پہچانے جاتے ہیں، یہاں تک کہ زبان آپ کی سالمیت تک کے لیے بہت ضروری ہے۔اچھی زبان اعلی قدروقیمت کی حامل ہوتی ہے لوگوں کے بولنے کا انذار اور الفاظ کا چناؤ ان کی پہچان بن جاتا ہے۔اچھے اور باوقار لوگ اپنی گفتگو کے معیار کو بھی اچھا رکھتے ہیں وہ خوش گفتار ہوتے ہیں۔وہ اچھا بولتے ہیں اور معیاری الفاظ استعمال کرتے ہیں۔زبان کے استعمال سے آپ کافی حد تک بتا سکتے ہیں کہ فلاں بندہ کیسا ہے اور ان کے طور طریقے کیسے ہیں یا ان کا اخلاقیات کا معیار کیسا ہے ، اچھی زبان اچھے کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ +اچھی زبان کا استعمال یوں تو ہر ایک پر لازم ہوتا ہے مگر خاص طور پر جب آپ اپنے لیڈروں کی بات کرتے ہو تو انہیں تو اس معاملے میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کی اور آپ کے کلچر کی ہر جگہ نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جب یہی لوگ ایسی زبان استعمال کرنا شروع کر دیں کہ جسے سن کر آپ کو شرم آ جاتی ہے مگر بولنے والے کو ذرا فرق نہیں پڑتا تو وہاں صورتحال کا اندازہ لگائیے آپ ذرا ۔ +ایک دور تھا کہ جب سیاسی جماعتوں میں چاہے کتنے بھی اختلافات ہوتے اور وہ اپنے بیانات میں ایک دوسرے کی سیاسی پالیسیوں پر کھل کر اعتراضات کرتے تھے مگر ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرنے سے گریز رہتے ، جس کا یہ فائدہ ہوتا کہ وہ دکھ سکھ کے موقعوں پر اکٹھے دکھتے اور یہ بات ملک اور قوم کے لئے اچھی تھی۔ +مگر اب اس سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہمیں بے پناہ آزادی میسر ہوئی ہے کہ ہم کھل کر اپنی رائے کا جب چاہیں اظہار کر سکتے ہیں وہیں بد تہذیبی بھی بڑھ گئی ہے ۔ایک طرف تو لوگ بھی اس طرح کی زبان اور الفاظ کا استعمال کھلے عام کرنا شروع ہوگئے ہیں جس سے ہمارا کلچر مجروح ہو رہاہے اور ہماری تہذیب کی دھجیاں اڑ رہی ہیں ، ہر وقت ہر طرف گالم گلوچ ہورہی ہے جو تہذیب یافتہ معاشروں کا شیوہ نہیں ہوتا ۔ ہمارے لیڈر ،ہمارے نمائندے بھی اخلاقیات سے کنارہ کرتے نظرآتے ہیں۔آئے دن سوشل میڈیا پر مخالفین پر تیر اندازی کی جارہی ہے اور اس میں اخلاقیات کو تارتار کیا جاتاہے، ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اور اب تو پارلیمنٹ تک کو بخشا نہیں جاتا ،سجھ نہیں آتا کہ عوام تو پارلیمنٹ میں نمائندوں کو اپنی نمائندگی کےلئے بھیجی ہے تاکہ ان کہ مسائل پر بات ہوسکے مگر یہاں اس قدر غیر پارلیمانی رویہ رکھا جاتا ہے کہ آپ سوچنے لگ جاتے ہو ، اچھا آپ نے انہیں چنا تھا ،یہ تھے وہ جنہوں نے آپ کے مسائل کو حل کرنا ہے مگر مسائل کا حل کیسے ملے گا جب مسائل پر بات ہی نہیں ہوگی یہاں سارا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے ساتھ بحث میں گزار دیا جاتا ہے اور پھر سب گھر چلے جاتے ہیں اور مسائل ویسے کہ ویسے پڑے رہتے ہیں ایسے میں حل کہاں سے آئے ۔ ا جکل سیاسی فریقین اس طرح گتھم گتھا ہوتے ہیں جسے دیکھ کر لگتا ہے گلی کے ناسمجھ لڑکوں کی لڑائی ہورہی ہے، آج کل تو وہ بھی ایسے نہیں لڑتے اور یہ ہمارے لیڈر اس طرح گفتگو میں ایک دوسرے کی عزتوں کو نیلام کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔۔ +پارلیمان میں غیر پارلیمانی گفتگو عروج پر ہے، چور ڈاکو ،لٹیرے ، تیرے باپ ، میرے باپ جیسے الفاظ سے پارلیمان گونجتی ہے مگر افسوس کہ ان کو اس گفتگو پر ذرا افسوس نہیں ہوتا حتی کہ وہ یہ لوگ ایسی گفتگو کرکے مزہ لیتے ہیں ۔ خدا جانے کہاں گئے ان کے وہ مہذب سیاست کے دعوے، بڑے بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہونگے مگر زبان گلی محلوں سے بھی گھری ہوئی ۔اور ایک طرف تو غیر مہذب رویہ اور دوسرا اگر ان سے ان کے رویہ کے متعلق پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ میں واضح کرتاہوں کہ میں نے یہ غیر مہذب رویہ کون اختیار کیا ، مطلب کہ غیر مہذب رویہ بھ�� ڈیفنڈ کریں گے آپ ۔۔ حد ہے ۔ +اب تو یہ لگتا ہے سیاست دانوں نے خود ہی لڑتے رہنا ہے اور مسائل ویسے ہی پڑے رہنے ہیں ۔ جب تک اجلاس ہوتا رہتا ہے، گالیوں کی گاج گرج سنائی دیتی رہتی ہے مگر مسائل کی بات چھوڑئیے وہ ہمارے اور آپ کے ہیں ہماری طرح پڑے رہے گے ۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب اسمبلی میں لاقانونیت کی انتہا ہو گی تو اسمبلی کے باہر کیا قانون کی پیروی کی جائے گی ۔۔۔۔ ۔ جلسے جلوس ہوں ، تقاریر ہوں یا خطاب کیے جارہے ہوں افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سیاستدان ایسی ہی غلط زبان اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو اخلاقیات کے معیار سے گری ہوئی ہوتی ہے۔ افسوس کہ بڑے بڑے سینئر لوگ ہونگے ، جنہیں سیاست میں آئے عرصہ ہوگیا ہے جن کا ایک مقام ہے وہ بھی ایسے الفاظ استعمال کررہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو ،گدھا پاگل کہہ رہے ہیں ، ذاتیات پر تیر برسا رہے ہیں۔ پارٹیاں ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کر رہی ہیں، لیڈر ایک دوسرے کے خاندان تک انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔گالی گلوچ کی سیاست فروغ پا رہی ہے ،اب تو لگتا ہے یہاں مقابلہ ہوگا کون زیادہ بڑی گالی دیتا ہے اور جو کسر رہ جاتی ہے وہ میڈیا پوری کر دیتی ہے ۔ سب ہی تقریبا ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کسی طور پر مناسب نہیں ، ایک دوسرے کی پالیسیوں کو نشانہ بنانے کی بجائے ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ جب بڑے بڑے لیڈروں کی یہ حالت ہو گی تو وہاں چھوٹے نمائندوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑنی ، یہ سب دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ جمہوریت کی سیاست ہے یہاں تو ہر طرف بادشاہت نظر آتی ہے ۔ یوں لگتا ہے ہر پارٹی کے رکن اپنے اپنے بادشاہ کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے لیے مخالفین کو ہر طرح کی دھول چٹاتے ہیں، صد افسوس کہ یہ سب کرنے والے کوئی گلی محلے کے ان پڑھ لوگ نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگ ہیں، جنہیں سیاست میں آئے عرصہ ہو گیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر خوف آتا ہے کہ ہماری سیاست کس طرف جارہی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جارہی ہے گالی گلوچ کے علاوہ۔ +تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال +تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال +ہمارے پروفیسر اپنے ایک طالبعلم کی اکثر تعریف کرتے رہتے تھے مگر کچھ دنوں پہلے وہ اس کے ذکر پر افسردہ ہو گئے بتانے لگے کہ عرصے بعد پرسوں میری ملاقات فیضان سے ہوئی تو میں اس کو پہچان بھی نہیں پایا۔ میلے کچیلے کپڑے،پھٹی ہوئی چپل، گویا کہ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ فیضان تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہےتو وہ کہنےلگاکہ مجھے نشے نے تباہ و برباد کردیا ہے۔ میں کہا کہ کیا مطلب؟ کہنے لگا کہ میں ہیروئن کا نشہ کرتا ہوں ۔ +یہ سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ یہ تو ایک نوجوان کی کہانی تھی مگر اس کے علاوہ ایسے ان گنت نوجوانوں کہانیاں ہمارے آس پاس موجود ہیں جن کو منشیات نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جو منشیات استعمال کی جاتی ہیں ان میں شراب ، ہیروئن ،چرس،افیون،بھنگ،کرسٹل کے علاوہ کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ، نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات شامل ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں ۔ +اب ان عادی بچوں کو اس سب کے لئے پیسے بھی چاہیے مگر چونکہ اپنا کوئی وسیلہ معاش نہ ہونے کی وجہ یہ والدین پر ہی دپنڈ ہوتے ہیں اب والدین سے تو انہیں صحیح طریقے سے اس کام کے لیے پیسے کسی صورت نہیں مل سکتے سو وہ جھوٹ بولیں گے، ہیرہ پھیری کریں گے حتی کہ ایسے بچے اپنے ہی چوری اور ڈاکے ڈالنا شروع کر دیں گے اور اس میں دوستوں کو بھی ملا لیں گے اور والدین تو تب خبر ہوتی جب وہ عادی بن چکے ہوتے ہیں ۔ منشیات کسی ایک آدمی کی زندگی تباہ نہیں کرتی ہے بلکہ اس آدمی سے جڑے تمام لوگوں کی زندگیوں پر اپنا کالا سایہ چھوڑ جاتی ہے جو ان کی زندگیوں کو بھی اندھیر نگری بنا جاتا ہے ۔منشیات نسلوں کی نسلوں کو نگل جاتی ہے ، یہ ہماری پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے مستقبل کا معمار جنہوں نے ملک کو ترقی کی آنچائیوں پر لے کر جانا ہے وہ خود ایک زوال کا شکار ہیں ۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں ،انہیں کسی ایسی ویسی کمپنی کا حصہ نہ بننے دیں، نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کیسے مشاغل رکھتے ہیں تاکہ اگر ایسی کوئی حرکت ملے تو وقت رہتے اس کا سدباب ہو سکے ۔ +افسوسناک بات تو یہ ہے ہماری یہ نسل منشیات کو فیش سمجھتی ہے اور اسی فیش کے چکر میں وہ اسکے نقصانات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کر لیتے ہیں ۔ نوجوانوں میں اس بات کا شعور دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ منشیات در حقیقت کس تباہی کا نام ہے اور وہ انہیں کیا سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اس کےلیے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی کاونسلنگ کریں انہیں بیٹھا کر بتائیں کہ یہ کیا بیماری ہے اور اس کے کیا نقصانات وقتا فوقتا ان سے ان کے متعلق بات چیت کرتے رہا کریں اور ان کے مشاغل پوچھتے رہیے ۔ایک سروے کے مطابق بچوں میں اس کا استعمال تنہائی کی وجہ سے بھی پایا جاتا ہے انہیں والدین کی طرف سے وقت نہیں ملتا جس کے نتیجے میں وہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اس سب کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کو سنگینی سے لے اور عوام کو روشناس کرنے کے اقدامات کرے اور تمام منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی کریں تاکہ ایسے لوگوں کا صفایا ہو سکے ۔ + + +حرف کا معنی ہے طرف یا کنارہ +حرف کو حرف اس لئے کہتے ہیں کہ یہ جملے کے کنارے پر آتا ہے اور دو کلموں کے ملانے کا کام دیتاہے ۔ + + +اسم ضمیر وہ اسم ہے جس کے مخاطب ،حاضر یا غائب کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ +جیسے ۔کتابہ ۔(اس کی کتب) ۔کتابک ۔(آپ کی کتاب) + + +دانگلی پوٹھوہار کا دوسرا دارالخلافہ +شمالی ہندوستان کا اپنے دور کا سب سے مضبوط ترین قلعہ +یوں تو وادی پوٹھوہار جسے وادی سواں بھی کہا جاتا ہے اسکی تہذیب و تمدن ہزاروں سال پرانا ہے اور سواں،لنگ،کانسی، ہرو اور کورنگ کے پانیوں نے اپنے اندر ہزاروں راز چھپائے ہوئے ہیں، پانی کی بہتی لہروں نےبعض رازوں کو پانی کی گہرائوں میں چھپا لیا اور بعض کو اگل دیا، تاریخ کے غوطےخور ان سنہرے پانیوں کی گہرائیوں میں اُتر کر تاریخ کے نادر موتی نکال لاتے ہیں جنہیں قلمی صورت میں تاریخ ِ پوٹھوہارسے محبت رکھنے والوں کی نظر کیا جاتا ہے تاکہ وہ مستفید ہوسکیں،اس تہذیب پر مختلف وقتوں میں آنے والےبیرونی حملہ آوروں نے، بادشاہوں نے، تاجروں نے،اولیاء نے اپنے اثرات چھوڑے، فیض مندانِ پوٹھوہاراآج بھی ان اولیاء کے احسان مند ہیں اور ان کی آخری آرام گاہوں پر دُعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔وادیِ پوٹھوہار چونکہ اپنے چہار جانب جغرافیائی طور پرمرکزِ نگاہ تھی لہذا ہر حملہ آور کا اسی گزرگاہ سے گزرنا لازم تھا کیونکہ شمال کی طرف سے آنےوالے اولیاء و سپاہ کا یہی وا��د راستہ تھا۔ صدیاں گزر گئی لیکن آج بھی پوٹھوہار کی وادی بدھ بھکششؤں کی غاروں اُنکی قدیم تحریروں ، سفید ہنوں کے حملے، راجہ پورس کی دیدہ دلیریوں کے قصوں، راجہ امبھی، الیگزینڈر و راجہ ابھی سارس (ابی سار ککر)،گکھڑوں کی ساڑھے سات سو سالہ حکومت ، اور مغل اثرات سے مزین ہے، پوٹھوہار جنگجو اقوام کا وطن ہےاسکی تاریخ جنگ و جدل سے بھرپور ہے پوٹھوہار کی تاریخ لکھنے والے کوئی بھی مصنف کچھ انتہائی اہم مقامات کا ذکر کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،یہ جنگجوؤں کی سرزمین ہے اور یہاں کے بسنے والوں گکھڑوں میں خصوصاََ اور دوسری اقوام میں عموماََ یہ عسکری تیور آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، +دانگلی جسے تاریخ و تاریخ دان مختلف ناموں سے ذکر کرتے جیسے دھان گلی، ڈینگلی، صحافی آفتاب اقبال نےایک ٹی وی پروگرام میں اسے قلعہ رانگلی کے نام سے پکارا ، چونکہ رائے زادہ دونی چند نے کیگوہرنامہ میں دانگلی ہی لکھا ہے جبکہ رائے برجناتھ نے بھی وجہ تسمیہ دیہاتِ دانگلی تحریر کی تو ہم بھی دانگلی لفظ کو ہی درست مانتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔ +تاریخ میں اگر رائے اجر کھوکھر نامی کسے بندے کا وجود ہوتا تو اُسکی اولاد کا بھی وجود ہوتا، دانگلی گکھڑوں کا تھا اور آج بھی دانگلی گکھڑوں کا ہے، گکھڑ کل بھی دانگلی میں آباد تھے دانگلی میں آج بھی گکھڑ آباد ہیں، دانگلی میں گکھڑ سلطانوں کی قبریں ہیں یہاں گکھڑسلطان فیروز خان اور اُن کے بیٹوں شاہ دولت خان بانی دولتالہ (گوجرخان)،عیسیٰ خان،جھنڈا خان بانی جھنڈا گاؤں و راولپنڈی شہر،تاتار خان کی قبریں ہیں ہے، یہاں گکھڑ سلطان اللہ داد خان المعروف دودہ حقانی کا مزار ہے یہاں گکھڑخاکی شاہ کا مزار ہے یہاں رانی منگو کے محلات کے آثار ہیں یہاں رانی منگو کا مزار ہے یہاں گکھڑ سلطان راجڑ خان کی قبر ہے ، دانگلی میں گکھڑ وں کے موضعات ہیں دانگلی میں گکھڑ آج بھی پورے طمطراق کے ساتھ آباد ہیں سکرانہ و بناہل جیسے مشہور موضعات گکھڑوں کی ملکیت ہیں موجودہ یونین کونسل منیاندہ کے سابق چیئرمین جناب تاج کیانی صاحب تھے اُنکے صاحبزادے توفیق تاج کیانی موجودہ وائس چیئرمین ہیں، جبکہ سکرانہ کو آباد بھی سلطان آدم خان کے پوتے دیوان سکر خان ولد مرزا سلیم خان نے کیا انکی قبر بھی سکرانہ میں ہے۔ دانگلی کے 472 موضعات کے چبے چبے میں گکھڑ آباد تھے اور ہیں لہذا کسی ذی شعور کے لئے کھوکھروں نے اس بے بنیاد دعوے پر یقین کرنا ممکن نہیں۔ +دانگلی کا ذکر آتے ہی 2 نام فوراََ ذہن میں آتے ہیں جنکے بغیر دانگلی کا ذکر ادھورا ہے رانی منگو اور اُن کے خاوند قلندر منش انسان سلطان اللہ داد خان، +رانی منگو اور منگلا کو اکثر لوگ ایک ہی خیال کرتے ہیں جو کہ صریحاََ غلط ہے، منگلا اکثر تاریخوں میں ہندؤں کی دیوی کا نام ہے جب کے بعض جگہ الیگزینڈر (سکندر) کی بیٹی بھی لکھا ہوا ہے، جبکہ رانی منگو گکھڑوں کی رانی تھی جو کہ جنجوعہ ریاست مکھیالہ کہ جنجوعہ سردار کی بیٹی تھی انکا عقدگکھڑ سلطان اللہ داد خان سے ہوا تھا،اور انکی بیٹی شہزادی مہ پارہ کا عقد مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹےشہزادہ اکبر شاہ ثانی کے ساتھ ہوا تھا، رانی منگو ایک دلیر خاتون تھی جن میں حکمرانی کے ساتھ سماجی بہبودی کاموں کا جذبہ بھی تھا رانی منگو نے پوٹھوہار میں مختلف مساجد کی تعمیر کے ساتھ شاہ خاکی میں بند جسے پکا بن کہا جاتا ہے یہ بھی رانی منگو سے منسوب ہے جبکہ موجودہ آزاد کشمیر کے پوٹھوہاری علاقے جو کہ پرگنہ دانگلی میں شامل تھے کے قلعوں کی ��وسیع و مرمت بھی رانی منگو نے کروائی،اب سلطان اللہ داد خان گکھڑ کا ذکر ہوجائے ، +سلطان اللہ داد خان کا شجرہ سلطان آدم خان سے سلطان مقرب خان تک کچھ یوں بنتا ہے 1 سلطان آدم خان 2 محمد خان 3 سلطان جلال خان 4 سلطان اکبر قلی خان 5 سلطان مراد علی خان 6 سلطان نظر خان 7 سلطان اللہ داد خان خاوند رانی منگو 8 سلطان دلاور خان 9 سلطان معظم قلی خان 10 سلطان مقرب خان +سلطان اللہ داد خان ایک فقیرانہ منش انسان تھے ایک جنگ میں ہونے والے خون خرابے سے اُنکا دل حکمرانی سے اُچاٹ ہوگیا اور اُنہوں نے حکمرانی سلطان دلاور خان کے نابالغ ہونے کی وجہ سے اپنی زوجہ رانی منگو کے حوالے کردی اورخود فقیری اختیار کرلی اور پوٹھوہار سے عازم پاکپتن ہوئے وہاں عبادت و ریاضت کرنے کے بعد اُچ شریف چلے گئے جہاں انکی آتشِ عشقِ الہی کہ بڑھاوہ ملا اور وہاں سے واپس آکر اُنھوں نے دانگلی کی ایک قریبی پہاڑی پر ڈیرہ لگایا اور اللہ اللہ کرنے لگے اور کمال قلندرانہ شان سے رانی منگو سے مخاطب ہوئے کہ "گکھڑوں کی نوبت چند روزہ ہے جبکہ میری نوبت تاقیامت ہے" اسلیئے جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو رانی منگو نے اپنے درویش صفت خاوند سلطان اللہ داد خان کی شایانِ شان قبر و مقبرہ تعمیر کروایا جہاں ہر جمعرات کو دیا جلایا جاتا اور اللہ داد خاں کے نام کی نوبت بجائی جاتی چونکہ سلطان اللہ داد خان کو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے دودہ مرد حقانی (سچا خویش و اتبار مرد) کا خطاب دیا تھا لہذا وہ تاریخ میں دودہ مرد حقانی کے نام سے مشہور ہوگئے۔ +تحریر محمد فرحان خالد کیانی رہنمائی پرویز اختر کیانی + + +لدھیا وادی میں سکون بحال ہوئے کئی ماہ گذر چکے تھے کہ اچانک ستمبر 1938 کے ایک دن نینی تال میں اطلاع پہنچی کہ شیر نے کوٹ کندری میں ایک بارہ سالہ لڑکی کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ اطلاع مجھے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈونلڈ سٹیورٹ سے ملی جو اس بارے مزید کچھ تفصیل نہ بتا سکے۔ چند ہفتے بعد جب میں اس گاؤں پہنچا تو میں نے اس بارے حقائق جمع کئے۔ بظاہر دن دوپہر کا وقت تھا اور لڑکی گاؤں کے بالکل سامنے ایک آم کے درخت کے نیچے گرے ہوئے آم جمع کر رہی تھی جب اچانک شیر نمودار ہوا۔ قبل اس کے کہ نزدیکی کھیتوں میں کام کرنے والے افراد اس کی کوئی مدد کر سکیں، شیر اسے اٹھا لے گیا۔ شیر کے پیچھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور میری آمد سے بہت پہلے ہی خون اور دیگر نشانات ختم ہو چکے تھے۔ اس لئے میں باقیات تلاش کرنے سے معذور تھا۔ +کوٹ کندی چکا سے چار میل جنوب مغرب میں ہے اور ٹھاک سے مغرب کی طرف تین میل دور۔ یہ جگہ کوٹ کندری اور ٹھاک کے درمیان اس جگہ وادی میں تھی جہاں گذشتہ اپریل چکہ کا آدم خور مارا گیا تھا۔ +1938 کی گرمیوں میں محکمہ جنگلات نے اس علاقے کے تمام درختوں کو گرانے کے لئے نشان لگا دیئے۔ اندیشہ تھا کہ اگر نومبر سے پہلے پہلے آدم خور کا قصہ پاک نہ کیا گیا تو ٹھیکے دارمزدوروں کو اکٹھا نہ کر سکیں گے اور اس طرح انہیں دوبارہ ٹھیکے کی رقم ادا کرنی ہوگی۔ نومبر میں کٹائی شروع ہونی تھی۔ ڈونلڈ سٹیورٹ نے مجھے اسی وجہ سے لڑکی کے مار جانے کے فوراً بعد اطلاع بھجوائی تھی۔ جب میں نے کوٹ کندری جانے کا ان سے وعدہ کیا تو مجھے یہ بتانے میں کوئی تامل نہیں محسوس ہوتا کہ میری روانگی کا مقصد ٹھیکے داروں کو نقصان سے بچانے سے زیادہ علاقے کے لوگوں کو آدم خور سے بچانا تھا۔ +کوٹ کندری تک جانے کا براہ راست راستہ ٹرین سے بذریعہ تنگ پور تھاجہاں سے ہم پیدل کل ڈھنگہ اور چکا سے ہو کر جاتے۔ تاہم اس راستے پر چلتے ہوئے اگرچہ میں سو میل کا پیدل سفر بچا لیتا لیکن مجھے شمالی ہندوستان میں ملیریا کی مہلک پٹی سے گذرنا پڑتا۔ اس سے بچنے کی خاطر میں نے مورنالہ کی پہاڑیوں کے ذریعے جانے کا سوچا۔ یہاں سے ہم متروک شدہ شیرنگ روڈ پر چلتے جس کا اختتام کوٹ کندری پر ہوتا۔ +ابھی اس لمبے سفر کے لئے میں تیاریاں کر ہی رہا تھا کہ سیم میں دوسری ہلاکت کی اطلاع بھی نینی تال آ ملی۔ سیم لدھیا کے دائیں کنارے پر چھوٹا سا گاؤں تھا اور چکا سے نصف میل دور۔ +اس بار متوفیہ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اور سیم کے نمبردار کی ماں تھی۔یہ بدقسمت عورت دو کھیتوں کی درمیانی انتہائی ڈھلوان منڈیر سے لکڑیاں کاٹنے گئی تھی۔ اس نے پچاس گز لمبی منڈیر کے پرلے سرے سے کام شروع کیا۔ لکڑیاں کاٹتے کاٹتے وہ اپنے جھونپڑے سے گز بھر دور رہ گئی تھی کہ اوپر والے کھیت سے شیر نے اس پر جست لگائی۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ متوفیہ صرف ایک چیخ مار سکی اور شیر نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ پھر اسے لے کر شیر بارہ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا اور اوپر والے کھیت کو عبور کر کے اس کے پار جنگل میں گم ہو گیا۔ اس کا بیٹا جو بیس سال کا تھا، اس جگہ سے چند گز دور ایک اور کھیت میں کام کر رہا تھا۔ اس نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اتنا خوفزدہ ہو چکا تھا کہ مدد نہ کر سکا۔ لڑکے کی درخواست پر پٹواری دو دن بعد سیم پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ اسی افراد اکٹھے کر کے لایا تھا۔ شیر کی روانگی کی طرف تلاش شروع کرتے ہوئے انہوں نے متوفیہ کے کپڑے اور ہڈیوں کے چند ریزے ہی پائے۔ یہ ہلاکت دن دیہاڑے دو بجے ہوئی تھی اور شیر نے متوفیہ کو اس کے گھر سے ساٹھ گز دور بیٹھ کر کھایا تھا۔ +دوسری ہلاکت کی اطلاع ملنے پر میں نے ایبٹسن کے ساتھ مل کر صلاح مشورہ کیا۔ ایبٹسن الموڑہ، نینی تال اور گڑھوال کے تین اضلاع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس صلاح مشورے کے بعد ایبٹسن جو کہ تبت کی سرحد کے نزدیک زمین کے کسی تنازعے کا فیصلہ کرنے جا رہے تھے، نے اپنا پروگرام بدلا۔ وہ باگاشور کی بجائے میرے ساتھ سیم چلتے اور پھر وہاں سے اسکوٹ۔ +جو راستہ میں نے چنا تھا، چڑھائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ ہم پہلے نندھور وادی جا کر نندھور اور لدھیا کے درمیان دریا کو عبور کریں اور پھر لدھیا دریا کے ساتھ ساتھ اتر کر سیم پہنچیں۔ ایبٹسن بارہ اکتوبر کو نینی تال سے روانہ ہوئے۔ اس سے اگلے دن میں انہیں چار گلیا میں جا ملا۔ +نندھور دریا کے ساتھ ساتھ اوپر جاتے اور مچھلیاں پکڑتے ہوئے گئے۔ ہمارا ایک دن کا ریکارڈ ایک سو بیس مچھلیاں تھا۔ پانچویں دن ہم درگا پیپل پہنچے۔ یہاں ہم دریا سے الگ ہو کر اور ایک انتہائی سخت چڑھائی کے بعد رات کو دریا کے کنارے جا رکے۔ اگلے دن جلدی روانہ ہو کر ہم نے اپنا کیمپ لدھیا کے بائیں کنارے لگایا جو چلتی سے بارہ میل دور تھا۔ +مون سون اس بار قبل از وقت ہی ختم ہو گئی تھیں۔ یہ ہمارے لئے اچھا تھا۔ بلند چوٹیوں سے نیچے بہتا ہوا دریا ہر چوتھائی میل پر عبور کرنا پڑتا تھا۔ انہیں میں سے ایک جگہ میرا پانچ فٹ کا باورچی بہہ گیا اور ایک آدمی جو میرے کھانے کی ٹوکری لے کر جا رہا تھا، نے اسے بچایا۔ +چراگلیا سے روانہ ہونے کے دسویں دن ہم نے سیم کے ایک بنجر کھیت میں کیمپ لگایا۔ یہاں سے آدم خور کی پہلی شکار والا جھونپڑا دو سو گز دور تھا اور یہ جگہ لدھیا اور سردا دریاؤں کے سنگم سے سو گز دور تھی۔ +محکمہ پولیس کے گل وڈل سے ہماری ملاقات آتے ہوئے ہوئی جب وہ واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے سیم میں کئی دن کیمپ لگایا اور محکمہ جنگلات کے میک ڈونلڈ کی طرف سے دیئے گئے بھینسے بھی باندھے۔ انہوں نے از راہ کرم ہمیں وہ تمام بھینسے دے دیئے۔ اگرچہ وڈل کے قیام کے دوران آدم خور نے کئی بار ان کے باندھے ہوئے بھینسوں کی طرف چکر لگایا لیکن انہیں ہلاک نہیں کیا۔ +ہماری آمد کے اگلے دن جب ایبٹسن پٹواریوں، فارسٹ گارڈوں اور نمبرداروں سے سوال جواب کر رہے تھے، میں پگ دیکھنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ کیمپ اور سنگم کے درمیان اور لدھیا دریا کے دونوں کناروں پر نرم ریت موجود تھی۔ اس ریت پر میں نے ایک شیرنی، ایک نوجوان تیندوے اور ایک نوعمر نر شیر کے پگ دیکھے۔ شاید یہ انہی میں سے ایک بچہ تھا جو پچھلے اپریل میں نے دیکھا تھا۔ شیرنی نے دریا کو گذشتہ دنوں کئی بار عبور کیا تھا اور پچھلی رات بھی ہمارے خیموں کے سامنے سے گذری تھی۔ اسی شیرنی کو گاؤں والے آدم خور کے شبہے میں دیکھتے تھے۔ نمبردار کی ماں کی ہلاکت کے بعد سے یہی شیرنی مسلسل سیم کا چکر لگا رہی تھی، میرا خیال تھا کہ کسی حد تک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔ +اس شیرنی کے پگوں کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ درمیانی جسامت کی حامل شیرنی اور بھرپور جوان ہے۔ اس نے آدم خوری کا کیوں چناؤ کیا، اس کا جواب تو وقت ہی دیتا۔ لیکن ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے چکا کے آدم خور کے ساتھ پچھلے ملاپ کے موسم میں رہتے ہوئے انسانی گوشت کو چکھا ہو۔ اب چونکہ اس کا ساتھی زندہ نہ تھا، اسے خود آدم خور بننا پڑا۔ اگرچہ یہ صرف ایک اندازہ تھا اور بعد ازاں غلط نکلا۔ +نینی تال سے روانہ ہونے سے قبل میں نے تنک پور کے تحصیلدار کو خط لکھا تھا کہ وہ میرے لئے چار نو عمر بھینسے خرید کر سیم بھجوا دے۔ ان میں سے ایک راستے میں مر گیا جبکہ باقی کے تین چوبیس تاریخ کو پہنچ گئے۔ ہم نے انہیں میک ڈونلڈ کے دیئے ہوئے ایک بھینسے کے ساتھ باندھا۔ اگلی صبح ان بھینسوں کے جائزے کے لئے جب میں نکلا تو دیکھا کہ چکا کے باشندے بہت پرجوش ہیں۔ گاؤں کے گرد کھیتوں میں تازہ ہل چلے ہوئے تھے اور گذشتہ رات شیرنی ان تین خاندانوں کے پاس سے گذری جو اپنے مویشیوں کے ساتھ کھیت کے باہر سو رہے تھے۔ خوش قسمتی سے ہر خاندان کے مویشیوں نے شیرنی کی آمد کو محسوس کر کے اپنے مالکان کو بروقت خبردار کر دیا۔ ان کھیتوں سے نکل کر شیرنی کوٹ کندری کی طرف گئی اور ہمارے دو بھینسوں کے پاس سے انہیں کچھ بغیر گذری۔ +پٹواری، فارسٹ گارڈ اور دیہاتیوں نے ہمارے پہنچنے پر ہمیں بتایا تھا کہ بھینسے باندھنا محض وقت کا ضیاع ہوگا کیونکہ آدم خور انہیں ہلاک نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس طریقے سے کئی شکاریوں نے آدم خور کو مارنے کی کوشش کی تھی اور ہر شکاری کی ناکامی کے بعد اگر شیرنی بھینسے کھانا چاہتی تو وہ جنگلوں میں چرتے ہوئے مویشی بھی مار سکتی تھی۔ اس نصیحت کے باوجود میں نے بھینسے بندھوانا جاری رکھا اور اگلی دو راتوں میں شیرنی ان میں سے کسی نہ کسی کے پاس سے گذری لیکن انہیں کچھ کہا نہیں۔ +کی صبح جب ہم نے ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ ٹھاک کے نمبردار کا بھائی تیواری ہمارے کیمپ کئی دیگر افراد کے ساتھ پہنچا اور اطلاع دی کہ ان کے گاؤں کا ایک آدمی گم ہو گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آدمی دوپہر کے وقت بیوی کو یہ بتا کر گاؤں سے نکلا کہ وہ اپنے مویشیوں کو واپس لانے جا رہا ہے تاکہ وہ بھٹک کر گاؤں کے باہر نہ نکل جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ مویشیوں کو واپس نہ لایا تو ہو سکتا ہے کہ آدم خو�� انہیں کھا جائے۔ +جلدی جلدی ہم تیار ہو گئے اور دس بجے ایبٹسن اور میں ٹھاک کے لئے روانہ ہو گئے۔ ہمارے ساتھ تیواری اور اس کے دیگر ہمراہی بھی تھے۔ فاصلہ اگرچہ دس میل ہی تھا لیکن چڑھائی بہت زیادہ تھی۔ چونکہ ہم وقت نہ ضائع کرنا چاہتے تھے، ٹھاک کے قریب جب ہم پہنچے تو ہمارے سانس بے قابو اور پسینے میں شرابور بھی تھے۔ +جونہی ہم جھاڑ جھنکار سے نکل کر قدرے صاف جگہ پہنچے، ہم نے ایک عورت کے بین کی آواز سنی۔ اس جگہ کے بارے میں آگے چل کر مزید بتاؤں گا۔ ہندوستانی عورت کے اپنے مرے ہوئے شوہر کے لئے بین کی آواز ایسی نہیں کہ پہچانی نہ جا سکے۔ ہم جنگل سے نکل کر اس غم زدہ عورت تک پہنچے جو کہ گم شدہ بندے کی بیوی تھی، کوئی دس یا پندرہ افراد بھی اس کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے گھروں کے اوپر کی جانب انہوں نے سفید رنگ کی کوئی چیز دیکھی ہے۔ یہ چیز بظاہر مرحوم آدمی کے کپڑے کا کوئی حصہ لگتا تھا۔ جہاں ہم کھڑے تھے، سے یہ جگہ تیس گز دور گھنی جھاڑی میں تھی۔ ایبٹسن، تیواری اور میں اس سفید چیز کو دیکھنے چل پڑے جبکہ مسز ایبٹسن نے اس خاتون کو ساتھ لیا اور دیگر افراد کے ساتھ گاؤں کو چل دیں۔ +یہ کھیت جو کئی سال سے غیر آباد تھا، مختلف قسم کی کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اور جب تک ہم اس سفید چیز کے بالکل نزدیک نہ پہنچ گئے، تیواری اسے نہ پہچان پایا کہ یہ گم شدہ فرد کی دھوتی تھی۔ اس کے پاس ہی اس کی ٹوپی بھی پڑی ملی۔ اس جگہ کچھ جد و جہد کے آثار تھے لیکن خون کا کوئی قطرہ نہ دکھائی دیا۔ حملے کی جگہ اور اس سے کچھ دور تک خون کے نشانات کا نہ ملنا اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ شیرنی نے اپنی پہلی گرفت نہیں بدلی۔ اس طرح کی صورتحال میں جب تک جانور اپنی پہلی گرفت نہ تبدیل کرے، خون نہیں نکلتا۔ +ہمارے اوپر پہاڑی پر تیس گز دور جھاڑیوں کا گچھا سا تھا جس پر کچھ بیلوں نے گھنا سایہ کیا ہوا تھا۔ گھسیٹنے کے نشانات کا پیچھا کرنے سے قبل اس جگہ کو دیکھ لینا بہتر رہتا ورنہ ہو سکتا تھا کہ شیرنی ہمارے پیچھے ہوتی۔ اس جگہ نرم مٹی میں شیرنی کے بیٹھے اور پھر حملے کے لئے گھات لگانے کے نشانات تھے۔ +نکتہ آغاز پر پہنچ کر ہم نے یہ منصوبہ تیار کیا۔ ہماری پہلی ترجیح گھات لگا کر شیرنی کو اس کے شکار کے پاس ہی ہلاک کرنے کی کوشش تھا۔ اس لئے میں نے ان نشانات کا پیچھا کرنے اور سامنے کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ تیواری مجھ سے ایک گز پیچھے اور نہتا دائیں بائیں دیکھتا چلتا اور ایبٹسن اس سے مزید ایک گز پیچھے اور عقب کا دھیان رکھتے ہوئے چلتے۔ ہم نے طے کیا کہ اگر ایبٹسن کو یا مجھے شیرنی کا بال بھی نظر آ جاتا تو ہم گولی چلا دیتے۔ +ایک دن قبل اس جگہ سے مویشی چر کر گئے تھے اور انہوں نے زمین پر موجود نشانات کو مٹا دیا تھا۔ اب شیرنی کے گذرنے کے راستے پر کوئی خون نہیں تھا اور محض الٹا ہوا پتا، کچلی ہوئی گھاس ہی اس کی نشان دہی کرتی تھی۔ اس آدمی کو دو سو گز دور لے جانے کے بعد شیرنی نے اسے نیچے ڈالا اور ہلاک کر کے چلی گئی۔ کئی گھنٹے بعد وہ واپس آئی اور اسے اٹھا کر چل دی۔ مارنے کے فوراً بعد ہی وہ متوفی کو کیوں اٹھا کر نہ لے گئی، شاید اس کی وجہ مویشی ہوں جنہوں نے اسے آدمی کو ہلاک کرتا دیکھا اور اسے بھگا دیا ہو۔ +اس جگہ خون کا بڑا سا تالاب بنا ہوا تھا جہاں اس نے متوفی کو ڈالا تھا۔ چونکہ اب اس کے جسم سے خون بہنا بند ہو چکا تھا، شیرنی اسے دوبارہ اٹھا کر لے گئی۔ اس بار اس نے متوفی کو کمر سے پکڑا ہوا تھا۔ پہلے اس نے گلے سے متوفی کو اٹھایا ہوا تھا۔ اب پیچھا کرنا مزید مشکل ہو گیا تھا۔ شیرنی نے پہاڑی کے متوازی حرکت جاری رکھی اور چونکہ اس جگہ گھاس وغیرہ بہت گھنی تھی اور چند گز سے زیادہ دور دکھائی نہ دیتا تھا، ہماری پیش قدمی بہت سست ہو گئی۔ دو گھنٹوں میں ہم بمشکل نصف میل چل پائے اور اس کنارے پر پہنچے جہاں موجود وادی مین چھ ماہ قبل ہم نے چکا کے آدم خور کا پیچھا کر کے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ پتھر کی بہت بڑی سلیب تھی جو ہمارے سمت سے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ شیرنی کے نشانات اسی طرف گئے اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی کے نیچے یا پھر اس کے آس پاس ہی کہیں موجود ہوگی۔ +ایبٹسن اور میرے پیروں میں ہلکے ربر سول کے جوتے تھے جبکہ تیواری ننگے پاؤں گا اور ہم چٹان تک بغیر کسی آواز کے پہنچ گئے۔ دونوں ساتھیوں کو اشارے سے بتاتے ہوئے کہ وہ خاموش رہ کر ارد گرد کڑی نظر رکھیں، میں نے چٹان پر پیر رکھا اور انچ بہ انچ آگے بڑھا۔ چٹان کی پرلی طرف تھوڑی سی مسطح زمین تھی اور جونہی زیادہ حصہ میرے سامنے آتا گیا، شیرنی کے اس چٹان کے نیچے موجود ہونے کا شبہ مزید تقویت پکڑتا گیا۔ ابھی مجھے مزید ایک یا دو فٹ اور اوپر جانا تھا کہ میں نے بائیں جانب حرکت محسوس کی۔ ایک سنہرا سپرنگ جیسے دب کر کھلا ہو اور دوسرے لمحے جھاڑیوں کے پیچھے ہلکی سی حرکت دکھائی دی اور جھاڑیوں کے دوسرے سرے پر موجود ایک بندر نے آواز نکالی۔ +شیرنی نے بلاشبہ اپنے سونے کے لئے بہت عمدہ جگہ چنی تھی۔ ہماری بدقسمتی کہ شیرنی ابھی سوئی نہ تھی۔ چونکہ میں نے ہیٹ اتارا ہوا تھا تو جونہی شیرنی نے میرے سر کا اوپری حصہ ابھرتا دیکھا، اس نے ایک طرف ہٹتے ہوئے جست لگائی اور بلیک بیری کی جھاڑی میں گھس گئی۔ اگر وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتی جہاں وہ ابھی تھی، میرے گولی چلانے سے قبل اس کا فرار ہونا ناممکن ہوتا۔ ہماری اتنی محنت سے کی گئی کوشش عین آخری لمحے میں بےکار ہوگئی اور اب ہمارے پاس لاش کو تلاش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر لاش میں کچھ گوشت باقی بچا ہوا ہوتا تو ہم اس پر مچان باندھ سکتے تھے۔ اس جھاڑی کے پیچھے شیرنی کا پیچھا کرنا بے کار ہوتا اور بعد میں اس پر گولی چلانا بھی دشوار تر ہو جاتا۔ +شیرنی جہاں لیٹی تھی، کے نزدیک ہی لاش کو کھایا تھا۔ یہ کھلی جگہ تھی اور گدھوں سے بچانے کے لئے شیرنی نے اسے اٹھایا اور ایسی جگہ چھپا دیا جہاں گدھ اسے نہ دیکھ پاتے۔ اب خون کے نشانات موجود تھے اور لاش کو تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ اس لکیر کی مدد سے چلتے ہوئے پچاس گز دور ہم نے لاش کو پا لیا۔ +میں اس لاش کی تفصیل بتا کر آپ کے جذبات مجروح نہیں کروں گا کیونکہ متوفی کے کپڑے لیر لیر اور اس کا جسم کھایا جا چکا تھا۔ چند گھنٹے قبل یہ شخص دو بچوں کا باپ اور خاندان کا کفیل تھا۔ اب اس کی بیوی کی قسمت میں ہندوستانی بیوہ کہلایا جانا تھا۔ میں نے اس سے ملتی جلتی بے شمار لاشیں دیکھیں ہیں۔ میں بتیس سال سے آدم خوروں کا پیچھا اور ان سے مقابلہ کر رہا ہوں اور ہر بار جب میں کسی لاش پر پہنچتا ہوں تو میرا پہلا رد عمل یہی ہوتا ہے کہ لاش کو آدم خور کے لئے ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ ادھ کھائی لاش ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لواحقین کے اعصاب پر سوار رہتی ہے۔ خون کا بدلہ خون اور بدلے کی آگ جلتی رہتی ہے۔ اس قاتل آدم خور سے جان چھڑانے کے لئے بے تابی بڑھتی جاتی ہے۔ تاہم ہر بار یہ موہوم سی امید ہوتی ہے کہ شاید متوفی ابھی زندہ ہو اور اسے کسی مدد کی ضرورت ہو۔ +کسی ایسے جانور، جو کہ پہلے ہی اسی طرح کی صورتحال میں زخم کھا کر آدم خور بنا ہو، اس کے بعد ہونے والی ہر ناکام کوشش، چاہے اس کی وجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، جانور کو مزید سے مزید محتاط اور ہوشیار کرتے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ جانور یا تو شکار لاش پر لوٹنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا پھر اتنی خاموشی سے آتا ہے کہ جیسے وہ نظر نہ آنے والی پرچھائیں ہو، ہر پتے، ہر جھاڑی کو اچھی طرح چھان پھٹک کر گذرتا ہے کہ نہ جانے کہاں اس کا قاتل چھپا بیٹھا ہو، کی تلاش میں اس کے کئے گئے شکار پر بیٹھ کر گولی چلانے کے امکانات چاہے لاکھوں یا کروڑوں میں ایک ہی کیوں نہ ہو، ہم میں سے کون ہے جو پھر بھی اپنی قسمت نہ آزمانا چاہے گا۔ +یہ جھاڑی جہاں شیرنی چھپی ہوئی تھی، قریب چالیس مربع گز کی تھی اور شیرنی دوسرے سرے پر بیٹھے بندر کو خبردار کئے بغیر اس جھاڑی سے نہ نکل سکتی تھی۔ ہم پشت سے پشت ملا کربیٹھ گئے اور سیگرٹ پینے اور جنگل میں موجود کسی بھی آواز کو سننے اور اپنی اگلی حرکت کے بارے سوچنے لگے۔ +مچان بنانے کے لئے لازمی تھا کہ ہم گاؤں جاتے اور ہماری غیر موجودگی میں شیرنی شکار کو لازماً اٹھا کر کہیں اور لے جاتی۔ جب وہ پورے انسان کو لے کر جا رہی تھی تو اس کا پیچھا کرنا اتنا مشکل تھا تو جب لاش کافی حد تک کھائی جا چکی تھی اور شیرنی محتاط بھی ہو چکی ہو، پیچھا کرنا کتنا مشکل ہو جاتا۔ شیرنی لاش کو میلوں دور لے جاتی اور ہم اسے کبھی دوبارہ نہ پا سکتے۔ ہم میں سے ایک ادھر ہی رکتا اور دوسرے دو افراد گاؤں جا کر رسیاں وغیرہ لاتے۔ +ایبٹسن نے حسب معمول خطرے کو اہمیت دیئے بغیر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ اور تیواری یہاں سے براہ راست نیچے اترے تاکہ مشکل راستے سے بچ سکیں، میں ایک چھوٹے درخت پر چڑھ گیا جو لاش کے پاس ہی تھا۔ زمین سے چار فٹ اوپر جا کر یہ درخت دو شاخہ ہو جاتا تھا اور ایک شاخ پر کمر اور دوسرے پر پیر ٹکا کر میں جم گیا۔ اس جگہ سے میں شیرنی کی حرکات کو دور سے دیکھ سکتا تھا چاہے وہ لاش پر آتی چاہے وہ مجھ پر حملہ کرتی۔ میں اسے نزدیک پہنچنے سے قبل ہی دیکھ لیتا۔ +ایبٹسن کو گئے پندرہ یا بیس منٹ گذرے ہوں گے کہ میں نے ایک چٹان کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے گرنے کی آواز سنی۔ بظاہر یہ چٹان ایسی جگہ تھی جہاں ہلکا سا وزن بھی اسے متحرک کر دیتا۔ شیرنی نے جب اس پر اپنا پیر رکھا تو یہ اٹھ گئی۔ اسے اٹھتا محسوس کر کے شیرنی نے فوراً پیر ہٹا لیا اور چٹان واپس بیٹھ گئی۔ آواز میرے سامنے بائیں جانب بیس گز دور سے آئی تھی۔ یہ واحد سمت تھی جہاں میں گولی چلاتے وقت درخت سے نہ گرتا۔ +منٹ گذرتے گئے اور میری امیدیں اوپر نیچے ہوتی رہیں۔ جب میرے اعصاب پر دباؤ اور ہاتھوں پر رائفل کا بوجھ ناقابل برداشت ہونے لگا تو میں نے اس جھاڑی کے اوپری سرے پر ہلکی سی آواز سنی جیسے کوئی خشک لکڑی چٹخی ہو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیر جنگل میں کتنی خاموشی سے چلتے ہیں۔ جس لمحے شیرنی نے چٹان پر پیر رکھ کر آواز پیدا کی، مجھے اس کے بالکل درست مقام کا علم ہو گیا۔ میں نے اس طرف اپنی نگاہیں جما دیں اور پھر بھی شیرنی نہ صرف آئی، چند لمحے رک کر مجھے دیکھا اور پھر واپس بھی چل دی اور مجھے ایک تنکا یا گھاس کا پتہ تک نہ حرکت کرتا دکھائی دیا۔ +جب اعصابی تناؤ دور ہو اور تھکے ہوئے پٹھے فوری آرام مانگتے ہیں۔ ابھی مجھے صرف ہاتھ نیچے کر کے رائفل کو گھٹنوں پر رکھنا تھا، لیکن میں بتا نہیں سکتا کہ اس معمولی سی حرکت سے میرے پورے جسم کو کتنا سکون ملا۔ اس کے بعد شیرنی کی کوئی آواز نہ آئی۔ ایک یا دو گھنٹے بعد میں نے ایبٹسن کی آمد کی آواز سنی۔ +میں نے جتنے بھی افراد کے ساتھ شکار کھیلا ہے، ایبٹسن ان میں سے سب سے الگ اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف وہ شیر کا کلیجہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں ہر چیز کا بھی خیال رہتا ہے۔ شاید وہ سب سے زیادہ مخلص شکاری ہیں۔ ابھی گئے تو وہ مچان کے لئے رسیاں لانے تھے لیکن واپسی پر ان کے پاس کمبل، تکیئے اور گرم چائے بھی تھی اور گرم کھانا بھی۔ جب میں شکار سے ہٹ کر اس طرح بیٹھا کہ اس سے اٹھنے والی بو مجھے تنگ نہ کرے، ایبٹسن نے ایک آدمی کو چالیس گز دور ایک درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ شیرنی کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھے، خود وہ درخت پر چڑھ کر مچان باندھنے لگے۔ +جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن نے لاش کو گھسیٹ کر چند فٹ دور کر دیا اور اسے ایک نو عمر درخت کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے۔ چاند سورج ڈوبنے کے کم از کم دو گھنٹے بعد نکلتا۔ آخری کش لگا کر میں مچان پر چڑھا اور جب آرام سے بیٹھ گیا تو ایبٹسن نے دوسرے آدمی کو درخت سے اتارا اور ٹھاک روانہ ہو گئے تاکہ مسز ایبٹسن کو لے کر سیم میں کیمپ کو جا سکیں۔ +ابھی یہ لوگ بمشکل نظروں سے اوجھل ہوئے تھے لیکن ان کی آوازیں آ رہی تھیں کہ میں نے کسی بھاری جسامت والے جانور کو پتوں پر چلتے سنا۔ اسی وقت جھاڑیوں کے پرلے سرے سے بندر بھی چیخا جو اس سارے وقت خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں توقع سے زیادہ کامیابی ہوئی تھی۔ دوسرے درخت پر ایک بندے کو چڑھا دینے سے شیرنی کی توجہ یقیناً اس کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔ ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ تناؤ بھرا ایک منٹ گذرا، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ اس کے بعد ایک کاکڑ دیوانہ وار بھونکتا ہوا اس جانب سے آیا جہاں میں اس بڑی پتھر کی سلیب پر چڑھا تھا۔ شیرنی شکار پر آنے کی بجائے ایبٹسن کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب مجھے شدت سے ان لوگوں کی فکر ہو گئی کیونکہ بظاہر اب شیرنی پہلے شکار کو بھول کر نئے شکار کی تلاش میں جا رہی تھی۔ +روانگی سے قبل ایبٹسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ممکن احتیاط کریں گے۔ تاہم میری طرف سے بھونکتے کاکڑ کی آواز سن کر قدرتی طور پر وہ کچھ غیر محتاط ہو جاتے کہ شیرنی لاش پر جا رہی ہے تو شیرنی کو موقع مل سکتا تھا۔ دس منٹ بہت مشکل سے گذرے کہ ایک کاکڑ کی آواز ٹھاک کی جانب سے آئی۔ یقیناً شیرنی ابھی تک پیچھا کر رہی تھی لیکن اس جگہ زمین کچھ صاف تھی اور شیرنی کے حملے کے امکانات کم ہی تھے۔ تاہم ایبٹسن وغیرہ کو لاحق خطرہ ابھی دور نہیں ہوا تھا کیونکہ انہیں ابھی دو میل مزید گھنے جنگل سے ہو کر کیمپ تک جانا تھا۔ اسی طرح اگر وہ سورج ڈوبنے تک گولی کی آواز کا انتظار کرنے ٹھاک میں رک جاتے، جیسا کہ مجھے خطرہ تھا اور انہوں نے ایسا کیا بھی، انہیں واپسی کے راستے پر بہت بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا۔ تاہم خوش قسمتی سے ایبٹسن کو خطرے کا احساس ہو گیا تھا اور انہوں نے ہر ممکن احتیاط جاری رکھی۔ اگلے دن پگ دیکھنے سے پتہ چلا کہ شیرنی نے پورا راستہ ان کا پیچھا جاری رکھا تاہم وہ لوگ کیمپ تک بخیریت پہنچ گئے۔ +کاکڑ اور سانبھر کی آوازوں سے مجھے شیرنی کی حرکات کا بخوبی اندازہ ہوتا رہا۔ سورج غروب ہونے کے ایک گھنٹے بعد شیرنی دو میل دور وادی کے نچلے سرے پر تھی۔ ابھی پوری رات پڑی تھی کہ وہ اپنے شکار پر واپس لوٹ سکتی تھی اور اگرچہ اس کی واپسی لاکھوں میں ایک امکان ہی رکھتی تھی۔ میں نے اس امکان کو بھی ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نہایت سرد رات تھی اور اپنے گرد کمبل لپیٹ کر میں ایسی آرام دہ حالت میں ب��ٹھ گیا کہ گھنٹوں تک حرکت کی ضرورت نہ پڑتی۔ +میں مچان پر چار بجے شام کو بیٹھا اور دس بجے رات کو میں نے دو جانوروں کو آتے سنا۔ درختوں کے نیچے اتنی گہری تاریکی تھی کہ مجھے کچھ نہ دکھائی دیا۔ جب وہ نزدیک پہنچے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ سیہہ ہیں۔ کانٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز اتنی منفرد ہے کہ کوئی اور جانور یہ آواز نہیں نکال سکتا۔ وہ لاش تک پہنچے اور اس کے گرد کئی چکر لگا کر اپنی راہ چل دیئے۔ ایک گھنٹہ بعد، جب چاند نکلے کچھ وقت ہو چلا تھا، میں نے نیچے وادی میں کسی جانور کی آواز سنی۔ یہ کی حرکت مشرق سے مغرب کی جانب تھی اور جب وہ شکار سے ہو کر گذرتی ہوا کے راستے میں پہنچا، یہ جانور کافی دیر تک رکا رہا اور پھر احتیاط سے لاش کی طرف بڑھا۔ ابھی یہ کچھ دور تھا کہ میں نے اس کے سونگھنے کی آواز سنی، مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ ریچھ ہے۔ خون کی بو اسے بلا رہی تھی اور انسانی بو اسے دور بھاگنے پر مجبور کر رہی تھی اس لئے وہ بہت محتاط ہو کر بڑھ رہا تھا۔ ریچھ کی سونگھنے کی طاقت جنگل کے جانوروں میں سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ ابھی وہ وادی میں ہی تھا کہ اسے علم ہو گیا کہ یہ شکار شیر کا ہے۔ ہمالیہ کے ریچھ کسی سے نہیں ڈرتے اور میں نے بہت بار انہیں شیر کو اس کے شکار سے بھگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسے شیر کی بو سے نہیں بلکہ انسان، خون اور شیر کی بوؤں کی وجہ سے جھجھک ہو رہی تھی۔ +مسطح زمین پر پہنچ کر وہ پچھلے پیروں پر لاش سے چند گز دور ہو کر بیٹھا اور جب اس نے محسوس کیا کہ انسان کی بو سے اسے کوئی خطرہ نہیں، وہ پچھلے پیروں پر کھڑا ہوا اور اس نے ایک لمبی چیخ ماری۔ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ چیخ اس نے اپنے ساتھی کو بلانے کے لئے ماری ہے۔ یہ آواز وادی میں گونجتی رہی۔ پھر وہ بغیر کسی جھجھک کے لاش تک پہنچا اور جب وہ اسے سونگھ رہا تھا، میں نے رائفل سے اس کا نشانہ لے لیا۔ مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کسی ہمالیائی ریچھ نے انسانی گوشت کھایا تھا۔ یہ ایک عورت کی لاش تھی جو اونچی چوٹی پر گھاس کاٹتے ہوئے پیر پھسلنے سے گری اور مر گئی۔ اس کی لاش کو ریچھ اٹھا کر لے گیا اور اسے کھا گیا۔ میں نے اس ریچھ کے شانے کا نشانہ لیا ہوا تھا، تاہم ریچھ لاش کو چکھے بغیر واپس اپنے راستے پر مغرب کو چل دیا۔ جب اس کے جانے کی آوازیں ختم ہو گئیں تو صبح تک میں نے کوئی آواز نہ سنی۔ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد ایبٹسن پہنچے۔ +ایبٹسن کے ساتھ متوفی کا بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی آن پہنچے۔ انہوں نے ادھ کھائی لاش کو صاف سفید کپڑے میں لپیٹا اور دو درختوں کو کاٹ کر انہوں نے سٹریچر بنایا اور اس پر رکھ کر ساردا دریا کے کنارے یہ کہتے ہوئے چل دیئے "رام نام ست ہے" جواب میں یہ سنائی دیتا تھا "ستے بول گت ہے"۔ +اس سخت سرد رات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا تھا لیکن ایبٹسن کی لائی ہوئی گرم گرم چائے اور کھانے نے رات کا تائثر زائل کر دیا۔ +ستائیس کی رات کو ایبٹسن کا چکا تک پیچھا کرنے کے بعد شیرنی رات کو کسی وقت لدھیا کو عبور کر کے ہمارے کیمپ کے پیچھے موجود جنگل میں گھس گئی۔ اگرچہ اس جنگل میں باقاعدہ راستہ موجود تھا جسے دیہاتی استعمال کرتے تھے، تاہم آدم خور کے ظہور کے بعد سے یہ راستہ ویران تھا اور اسے خطرناک شمار کیا جاتا تھا۔ +اٹھائیس کو دو ہرکارے ایبٹسن کی ڈاک لے کر تنگ پور تاخیر سے روانہ ہوئے۔ وقت بچانے کے لئے انہوں نے اس جنگل سے گذرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے جو ہرکارہ آگے چل رہا تھا، بہت ہوشیار تھا اور اس نے شیرنی کو راستے میں چھپ کر بیٹ��تے دیکھ لیا۔ +ایبٹسن اور میں اسی وقت ٹھاک سے واپس آئے تھے کہ یہ دونوں افراد پہنچ گئے۔ رائفلیں ساتھ لئے ہم جائزہ لینے دوڑے۔ ہم نے پگوں کو دیکھا کہ شیرنی نے ان دونوں کا کچھ دور تک پیچھا بھی کیا تھا۔ تاہم جنگل بہت گھنا تھا اور ہم کچھ نہ دیکھ پائے اور ایک جگہ کسی جانور کے بھاگنے کی آواز سنی۔ +انتیس کی صبح کو ٹھاک سے ایک گروہ آیا کہ ان کا ایک بیل گذشتہ رات باڑے میں واپس نہ لوٹا تھا۔ تلاش کرنے پر جہاں اسے آخری بار دیکھا گیا تھا، خون ملا۔دو بجے ایبٹسن اور میں اس جگہ پر تھے اور ایک نظر دیکھنے سے پتہ چل گیا کہ شیر نے بیل کو مارا اور پھر اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ بعجلت دوپہر کا کھانا کھا کر ایبٹسن اور میں بمع دو آدمیوں کے گھیسٹنے کے نشانات کے پیچھے چلے۔ یہ دو آدمی مچان کے لئے رسیاں لا رہے تھے۔ سو گز تک یہ نشانات سیدھا پہاڑ کے درمیان متوازی چلے۔ یہ نشانات سیدھے اسی کھائی میں جا رہے تھے جہاں گذشتہ اپریل میں نے ایک بڑے شیر پر نشانہ خطا کیا تھا۔ چند سو گز بعد یہ بیل جو کہ بہت بڑی جسامت کا تھا، دو چٹانوں کے درمیان پھنس گیا۔ شیر جب اسے اٹھا کر آگے نہ لے جا سکا تو وہیں کچھ حصہ کھا کر اسے چھوڑ گیا۔ شیر کے پنچے اس بیل کے وزن سے اتنے پھیل گئے تھے کہ فرق کرنا مشکل تھا کہ آیا یہ عام شیر ہے یا آدم خور شیرنی۔ تاہم چونکہ ہم نے اس علاقے کے ہر شیر کو آدم خور سمجھ کر اس کا پیچھا کرنا تھا، میں نے یہاں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں لاش سے مناسب فاصلے پر ایک ہی درخت تھا اور جونہی آدمی مچان کے لئے رسیاں باندھنے اوپر چڑھے، نیچے وادی میں شیر نے بولنا شروع کر دیا۔ عجلت میں چند الٹی سیدھی رسیاں باندھ کر ایبٹسن نگرانی کو کھڑے ہوئے جبکہ میں مچان پر چڑھ گیا۔ یہ مچان جس پر میں اگلے چودہ گھنٹے بیٹھا رہا، میری زندگی کی سب سے بری اور سب سے خطرناک مچان تھی۔ درخت پہاڑی کے مخالف سمت جھکا ہوا تھا اور تین غیر متناسب رسیوں سے بنی ہوئی مچان پر میں بیٹھے ہوئے کھائی کے بالکل اوپر سو فٹ اوپر تھا۔ +جب میں درخت پر چڑھ رہا تھا تو شیر نے کئی بار آوازیں نکالیں اور لمبے وقفے کے بعد شام کو دوبارہ بولا اور اس کی آخری آواز چٹان کے سرے سے نصف میل دور سے آئی۔ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ شیر شکار کے قریب ہی لیٹا ہوا تھا اور اس نے ہمیں آتا اور پھر آدمیوں کو درخت پر چڑھتے دیکھا۔ سابقہ تجربے سے اسے معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہوگا، اس نے دور جا مداخلت پر ناراضگی ظاہر کی۔ چودہ گھنٹے بعد جب اگلے دن صبح کو ایبٹسن آئے، میں نے نہ تو کچھ دیکھا اور نہ ہی کچھ سنا۔ +چونکہ یہ کھائی گہری اور درختوں سے ڈھکی تھی، گدھ لاش کو کبھی بھی نہ دیکھ پاتے۔ بیل اتنا بڑا تھا کہ شیر کے لئے کئی بار خوراک فراہم کر سکتا تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پر تب تک دوبارہ نہ بیٹھیں جب تک کہ شیر اسے مزید کھا کر ہلکا نہ کر دے۔ جب شیر اسے یہاں سے منتقل کرے تو نئی جگہ گولی چلانے کے لئے بہتر موقع مل سکے گا۔ ہماری قسمت کہ شیر دوبارہ لاش پر واپس نہ آیا۔ +دو راتوں کے بعد وہ بھینسا مارا گیا جو ہمارے کیمپ کے پیچھے سیم میں بندھا ہوا تھا۔ چونکہ میرا دل اس وقت جانے کو نہیں چاہ رہا تھا، آدم خور کو مارنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ +جو آدمی بھینسے کو دیکھنے گئے تھے، نے بتایا کہ رسی ٹوٹی ہوئی تھی اور شیرنی شکار کو اسی کھائی میں نیچے لے گئی ہے جہاں وہ بندھا ہوا تھا۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں میک ڈونلڈ اور میں نے اپریل میں شیرنی کا پیچھا کیا تھا اور اس وقت شیرنی اپنے شکار کو لے کر کھائی میں کچھ دور گئی تھی۔ اس بار نہایت بے وقوفی سے میں نے فرض کر لیا کہ اس بار بھی شیرنی شکار کو وہیں لے جائے گی۔ +ناشتے کے بعد ایبٹسن اور میں بھینسے کی لاش کو ڈھونڈنے نکلے تاکہ اس پر مچان باندھنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔ +جس گہری کھائی میں بھینسا مارا گیا تھا، پچاس گز چوڑی اور سیدھی پہاڑ کے دامن تک چلی جاتی تھی۔ دو سو گز تک یہ کھائی سیدھی جاتی ہے اور پھر بائیں مڑتی ہے۔ موڑ کے فوراً بعد بائیں جانب نو عمر درختوں کا ایک جھنڈ ہے اور اس کے پیچھے سو فٹ چٹان ہے جس پر گھنی گھاس اگی ہوئی ہے۔ کھائی میں ان درختوں کے قریب پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ میں اپریل میں اس جگہ سے کئی بار گذرا تھا لیکن اندازہ نہ لگا سکا کہ یہ درخت کسی شیر کے لیٹنے کے لئے مناسب جگہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مڑتے وقت میں نے کوئی احتیاط نہیں کی۔ نتیجتاً شیرنی جو اس تالاب سے پانی پی رہی تھی، نے ہمیں پہلے دیکھا۔ اس کے پاس فرار کا ایک ہی راستہ تھا جو اس نے استعمال کیا۔ یہ راستہ درختوں کے پیچھے چٹان پر چڑھ کر سرے کو عبور کر کے پیچھے گھنے سال کا جنگل تھا۔ +پہاڑی ہمارے لئے ناقابل عبور تھی، سو ہم نے کھائی میں اوپر کی طرف سفر جاری رکھا جہاں ہمیں سانبھروں کی گذرگاہ ملی۔ اس راستے سے ہم سرے تک پہنچ گئے۔ شیرنی اب اس تکون جگہ میں تھی جس کا ایک سرا یہ کنارہ، دوسرا لدھیا اور تیسرا وہ چوٹی تھی جہاں سے کوئی جانور نہ گذر پاتا۔ یہ علاقہ زیادہ بڑا نہ تھا اور اس میں بہت سارے ہرن چر رہے تھے۔ وقتاً فوقتاً ان کی آوازوں سے ہمیں شیرنی کی حرکت کا اندازہ ہوتا رہا لیکن بدقسمتی سے اس جگہ بہت ساری گہری کھائیاں بھی تھیں اور شیرنی انہی میں سے ایک میں گم ہو گئی۔ +ابھی ہم نے بھینسے کو نہیں دیکھا تھا اس لئے دوبارہ سانبھروں کا راستہ لے کر کھائی میں پہنچے اور انہی نوعمر درختوں کے جھنڈ میں لاش پوشیدہ تھی۔ یہ درخت چھ انچ سے لے کر فٹ تک موٹے تنے والے تھے اور مچان کا بوجھ نہ سہار پاتے۔ اس لئے ہم نے مچان کا خیال دل سے نکال دیا۔ دھاتی سلاخ کی مدد سے ہم کسی بڑے پتھر کو اس کی جگہ سے نکال کر بیٹھ سکتے تھے لیکن آدم خور کے لئے یہ طریقہ خطرناک ہوتا۔ +اگلے دن واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ شیرنی لاش کو لے گئی ہے۔ تین سو گز تک وہ کھائی کی تہہ میں پتھروں پر پھدکتی بڑھتی چلی گئی اور کوئی گھسیٹنے کا نشان نہ چھوڑا۔ جہاں سے اس نے لاش کو اٹھایا تھا، سے تین سو گز دور اس جگہ ہم دھوکہ کھا گئے۔ یہاں گیلی زمین پر بہت سارے پگ تھے لیکن کوئی بھی پگ ایسا نہیں تھا کہ جو لاش کو اٹھائے ہوئے بنا ہوتا۔ آخر کار دائروں میں تلاش کرتے ہوئے ہم نے وہ جگہ تلاش کی جہاں وہ کھائی سے نکل کر بائیں جانب کی پہاڑی پر چڑھی تھی۔ +یہ پہاڑی جس پر شیرنی اپنے شکار کو لے کر چڑھی تھی، اس پر فرن اور گولڈن راڈ بکثرت اگی ہوئی تھی اور کھوج لگانا مشکل نہ تھا۔ تاہم چڑھائی بہت سخت تھی اور کئی جگہوں پر ہمیں لمبا چکر کاٹ کر دوبارہ کھوج جاری رکھنی پڑی۔ ہزار فٹ کی سخت چڑھائی کے بعد ہم ایک چھوٹے سے میدان تک آ پہنچے جس کے بائیں جانب ایک میل چوڑی چوٹی تھی۔ اس چوٹی کے نزدیک یہ میدان سیم کا شکار اور کٹا پھٹا تھا اور ان کٹی پھٹی جگہوں پر دو سے چھ فٹ اونچے سال کے بہت زیادہ درخت اگے ہوئے تھے۔ شیرنی اپنے شکار کو لے کر سیدھا اسی گھنے ذخیرے میں آئی تھی۔ یہ ذخیرہ اتنا گھنا تھا کہ جب تک ہم بھینسے کی لاش پر نہ پہنچ گئے، ہم اسے نہ دیکھ پائے۔ +ابھی ہم یہ دیکھنے کو رکے ہی تھے کہ بھینسے کی لاش میں کتنا کچھ بچا ہوا ہے، ہمارے دائیں جانب سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ رائفلیں اس طرف اٹھائے ہم نے منٹ بھر توقف کیا اور پھر جہاں سے آواز آئی تھی، سے ذرا آگے ہم نے حرکت کی آواز سنی۔ ہم ابھی ان گھنے درختوں میں دس گز ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک نسبتاً خالی قطعہ دکھائی دیا جہاں نرم گھاس پر شیرنی لیٹی ہوئی تھی۔ اس گھاس کے دوسرے سرے پر پہاڑی بیس گز بلند ہو کر ایک دوسرے میدان پر ختم ہوتی تھی۔ یہ آواز اسی میدان کی جانب سے آئی تھی جو ہم نے کچھ دیر قبل سنی تھی۔ اس چڑھائی پر ہر ممکن احتیاط اور خاموشی سے چڑھتے ہوئے ہم اوپر والے میدان تک پہنچے جو پچاس گز لمبا تھا۔ اسی وقت شیرنی اس میدان کے دوسرے سرے سے نیچے کھائی میں اتری اور چند کالے تیتر اور کاکڑ بولے۔ اس کا مزید پیچھا کرنا بے سود ہوتا۔ اس لئے ہم واپس شکار پر پہنچے اور دیکھا کہ ابھی بھی اس میں کافی گوشت باقی تھا۔ بیٹھنے کے لئے دو درخت چن کر ہم کیمپ کو واپس لوٹے۔ + + +میں اپنے تمام قارئین کا شکر گذار ہوں کہ وہ اب تک میری یہ داستان توجہ سے پڑھ رہے ہیں۔ اب میں تفصیل سے انہیں شیرنی سے اپنی پہلی اور آخری ملاقات کے بارے بتاتا ہوں۔ +یہ ملاقات 11 اپریل 1930 کو میرے کالا آگر آنے کے انیسویں دن دوپہر کو ہوئی۔ +جہاں ہم بیٹھے تھے، اس سے نزدیک والی پگ ڈنڈی لے کر ہم چل پڑے۔ یہ پگ ڈنڈی زگ زیگ ہوتی ہوئی نیچے وادی میں اترتی ہے اور دو میل آگے جا کر فارسٹ روڈ سے جا ملتی ہے۔ یہ راستے ایک کھلے قطعے سے گذرتا ہے جو ان درختوں کے جھنڈ کے کنارے واقع ہے۔ یہاں وہ لڑکا مارا گیا تھا۔ اس کھلے قطعے میں جو کہ تیس مربع گز کا تھا، چلغوزے کا ایک نوعمر درخت تھا۔ اسے میں نے کاٹ کر کٹے ہوئے تنے سے بھینسے کو باندھ دیا۔ ایک آدمی سے کہا کہ وہ اس کے لئے گھاس جمع کرے۔ دوسرا آدمی مادھو سنگھ تھا جو گڑھوالی رجمنٹ میں کام کر چکا تھا اور اب متحدہ صوبہ جات کی پولیس میں ملازم تھا، کو کہا کہ وہ درخت پر چڑھ کر کلہاڑی تنے پر مارے اور آواز پیدا کرتا رہے۔ یہ آواز مقامی افراد عموماً اکثر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد میں چار فٹ اونچے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس کا نچلا سرا زمین سے ملا ہوا تھا۔ اس پتھر کے پیچھے کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور گھنے جنگل سے بھری وادی تک جا رہی تھی۔ +پہلا آدمی گھاس کاٹ کاٹ کر بھینسے کے سامنے ڈال رہا تھا اور مادھو سنگھ مسلسل شور کر رہا تھا۔ میں پتھر پر بیٹھا سیگرٹ پی رہا تھااور رائفل میرے بائیں بازو میں دبی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے علم ہو گیا کہ شیرنی آ گئی ہے۔ زمین پر موجود پہلے آدمی کو اشارہ کیا کہ وہ میری طرف بھاگ کر آئے اور سیٹی بجا کر مادھو سنگھ کو بھی خاموش کرا دیا۔ تین اطراف سے زمین نسبتاً خالی تھی۔ مادھو سنگھ میرے سامنے بائیں جانب درخت پر تھا۔ گھاس کاٹنے والا بندہ اب میرے سامنے تھے۔ بھینسا ہمارے سامنے دائیں طرف تھا اور بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ اس علاقے میں شیرنی مجھے دکھائی دیئے بغیر نزدیک نہ آ سکتی تھی۔ ایک ہی امکان تھا کہ شیرنی میرے عقب اور نیچے سے آئی تھی جہاں میں اسے نہ دیکھ سکتا تھا۔ +اس پتھر کو چنتے وقت میں نے دیکھا تھا کہ اس کے عقبی طرف ڈھلوان بہت عمودی تھی اور اس کی جڑ چلغوزے کے درخت اور جھاڑیوں وغیرہ سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے زمین آٹھ یا دس فٹ نیچے تھے۔ شیرنی کا اوپر چڑھنا مشکل سہی لیکن ناممکن نہ تھا۔ میری حفاظت کا سارا دار و مدار شیرنی کی اس گھاس پھونس میں حرکت کی آواز سننے پر تھا۔ +مجھے یقین ہے کہ آدم خور مادھ�� سنگھ کے شور کی وجہ سے متوجہ ہوئی تھی۔ اس کی گھاس میں شیرنی اس پتھر تک پہنچی اور مجھے دیکھ کر اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے اس کی موجودگی کی خبر ہو گئی۔ میرے رخ بدلنے اور میرے آدمیوں کی طرف سے اچانک خاموش ہو جانے سے شیرنی کو شک ہو اہوگا۔ خیر چند منٹ بعد وادی کے نچلے سرے سے خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی اور بے چینی کی کیفیت اچانک ہی دور ہو گئی اور میں پر سکون ہو گیا۔ ایک موقع ضائع ہو گیا لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر واپس لوٹے گی اور بھینسے پر ہاتھ صاف کرے گی۔ ابھی چار یا پانچ گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی اور وادی سے ہو کر مخالف سمت میں پہاڑی پر چڑھنے سے مجھے بھینسا اور وادی کا بقیہ حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ سے اگر میں گولی چلاتا تو کم از کم دو یا تین سو گز دور ہوتا۔ لیکن میرے پاس موجود اعشاریہ 275 کی رائفل بہت عمدہ نشانے کی حامل تھی۔ اگر میں شیرنی کو زخمی بھی کر دیتا تو اس کا پیچھا کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا بجائے اس کے کہ میں اسے کئی سو مربع میل کے جنگل میں تلاش کرتا جو میں گذشتہ کئی ماہ سے کر رہا تھا۔ +میرے ساتھی میری مشکل تھے۔ انہیں اکیلا بنگلے بھیجنا قتل کے مترادف ہوتا۔ اس لئے انہیں ساتھ ہی رکھنا پڑا۔ +بھینسے کو تنے سے مضبوطی سے باندھ کر تاکہ شیرنی اسے نہ لے جا سکے، ہم اس کھلے قطعے سے نکل کر دوبارہ راستے پر چڑھے تاکہ سامنے والی پہاڑی سے گولی چلانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوں۔ +راستے سے سو گز دور میرے سامنے ایک کھائی آئی۔ اس کی دوسری طرف راستہ بہت گھنی جھاڑیوں سے ہو کر گذرتا تھا جہاں دو دیگر آدمیوں کے ہمراہ گذرنا نادانی ہوتی۔ میں نے سوچا کہ کھائی سے ہو کر نیچے اترتا ہوں اور پھر آگے چل کر اوپر کی طرف نکلیں گے اور جہاں یہ جھاڑیاں ختم ہو رہی ہیں، پر راستے پر دوبارہ آ جائیں گے۔ +کھائی دس گز چوڑی اور چار یا پانچ فٹ گہری ہوگی۔ جونہی میں اس میں اترا، ایک الو اس جگہ سے اڑا جہاں میں نے چٹان پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس جگہ غور کرتے ہی مجھے دو انڈے دکھائی دیئے۔ یہ انڈے زردی مائل تھے اور ان پر بھورے رنگ کے دھبے موجود تھے۔ ان کی شکل بہت عجیب تھی۔ ایک بہت لمبا اور نوکدار جبکہ دوسرا کسی سنگ مر مر کی گیند کی طرح گول۔ میرے مجموعے میں الو کے انڈے نہیں تھے اس لئے میں نے سوچا کہ ان انڈوں کو ساتھ لیتا چلوں۔میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ جس میں احتیاط سے انڈے لے جاتا۔ میں نے ہتھیلی کو گہرا کیا اور اس میں انڈے رکھ کر ارد گرد موس رکھ دی۔ +جونہی میں نیچے اترا، کھائی کے کنارے اونچے ہو گئے اور جہاں ہم نیچے اترے تھے، ساٹھ گز دور اچانک ہی راستہ بارہ یا چودہ فٹ نیچے کی طرف عمودی ڈھلان کی شکل میں تھا۔ ان پہاڑی کھائیوں میں بہنے والے تیز رفتار پانی نے اس پتھر کو کاٹ کر شیشے کی طرح ہموار اور چکنا بنا دیا تھا۔ چونکہ اس پر قدم جمانا مشکل تھا، میں نے رائفل اپنے ساتھیوں کو دے کر خود بیٹھا اور پھسل کر نیچے اترا۔ ابھی بمشکل میرے پیر زمین سے لگے ہوں گے کہ میرے ساتھی میرے دائیں بائیں غڑاپ سے اترے اور رائفل مجھے دیتے ہوئے چیخے کہ کیا میں نے شیرنی کی آواز سنی؟ حقیت میں میں نے پھسلتے ہوئے اپنے کپڑوں کی سر سراہٹ کے سوا اور کچھ نہ سنا تھا۔ سوال کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے زور دار دھاڑ کی آواز سنی تھی۔ یہ آواز بہت نزدیک سے آئی تھی لیکن وہ سمت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہے۔ شیر جب شکار کی نیت سے گھات لگا رہے ہوں تو وہ آواز نکال کر اپنی موجودگی کا راز نہیں فاش کرتے۔ اس کا بہت ہی غیر مطمئن کردہ جواب یہ تھا کہ شیرنی نے ہم تینوں میں سے شکار کے لئے مجھے چنا اور جونہی میں پھسل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہوا، اس نے آواز نکالی۔ ظاہرہے کہ یہ جواب کوئی معقول نہیں تھا کیونکہ بغیر کسی وجہ سے یہ فرض کرنا کہ شیرنی نے میرے ساتھیوں کو چھوڑ کر مجھے ہی منتخب کیا تھا، کیا اسے بقیہ دو انسانوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی؟ +جہاں ہم تینوں رکے ہوئے تھے، ہمارے عقب میں وہی ڈھلوان تھی جہاں سے ہم نیچے اترے تھے، دائیں جانب چٹانی دیوار جو کہ پندرہ فٹ بلند اور کھائی پر ہلکی سی جھکی ہوئی تھی اور ہمارے بائیں جانب چٹانی کنارہ تھا جو تیس یا چالیس فٹ بلند تھا۔ کھائی کا ریتلا پیندہ تھا جہاں ہم کھڑے تھے، کوئی چالیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس کے نچلے سرے پر چلغوزے کا ایک بڑا درخت گرا ہوا تھا اور اس نے بند سا قائم کیا ہوا تھا۔ اس جگہ ریت کی موجودگی اسی بند کی وجہ سے تھی۔ جھکی ہوئی چٹان درخت سے کوئی بارہ یا پندرہ فٹ قبل ہی ختم ہو جاتی تھی۔ میں اس تک بے آواز پہنچا۔ یہاں خوش قسمتی سے میں نے محسوس کیا کہ ریت اس چٹان کے دوسری طرف بھی موجود ہے۔ +یہ پتھریلی چٹان یوں سمجھیں کہ سکول والی ایک بہت بڑی سلیٹ کی مانند تھی۔ اس کا نچلا سرا دو فٹ موٹا اور یہ سیدھی کھڑی تھی۔ + + +جونہی میں اس سے آگے بڑھا، میں نے اپنے دائیں کندھے سے سر کو موڑ کر دیکھا تو میری آنکھیں براہ راست شیرنی کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔ +اب میں آپ کو اس ساری صورتحال کی واضح تصویر پیش کرتا ہوں۔ +ریتلا پیندا چٹان کی دوسری طرف تقریباًہموار تھا۔ اس کے دائیں جناب پندرہ فٹ بلند اور جھکی ہوئی چٹان تھی۔ اس کے بائیں جانب پندرہ فٹ بلند کنارہ تھا جو کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی پرلی طرف اسی طرح کی ڈھلوان تھی جیسی کہ ہم نے کچھ دیر پہلے دیکھی تھی تاہم یہ کچھ زیادہ بلند تھی۔ ریتلا پیندہ تین اطراف سے ان قدرتی دیواروں سے گھرا ہوا تھا اور بیس فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا تھا۔ اس پر شیرنی اگلے پنجے پھیلائے اور پچھلے پنجوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا فاصلہ مجھ سے آٹھ فٹ (بعد میں ماپا گیا) تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کوئی کتا اپنے مالک کو بہت دن بعد گھر آتا دیکھے تو اس کے چہرے پر ہوتی ہے۔ +میرے ذہن میں فوراً ہی دو سوچیں آئیں۔ پہلی تو یہ کہ مجھے کچھ کرنا ہوگا، دوسری یہ کہ جو کچھ کروں، ایسے انداز سے ہو کہ شیرنی کو خطرہ نہ محسوس ہو۔ +رائفل میرے دائیں ہاتھ میں اور دوسری طرف تھی۔ سیفٹی کیچ بند تھا اور شیرنی تک اس کو گھمانے کے لئے تین چوتھائی دائرہ طے کرنا ہوتا۔ +بہت آہستگی سے ایک ہاتھ سے رائفل کی نالی کو حرکت دینا شروع کیا لیکن اس کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ جب چوتھائی دائرہ طے ہوا، کندہ میرے پہلو سے لگا۔ اب مجھے اپنے بازو کو آگے بڑھا کر دائرہ پورا کرنا تھا۔ میں نے ہاتھ لمبا کر کے حرکت جاری رکھی۔ میرا بازو پوری طرح پھیلا ہوا تھا اور رائفل کا بوجھ بھاری پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ تھوڑا سا اور حرکت کرنی تھی۔ اس دوران شیرنی کی نگاہیں میری نگاہوں سے نہیں ہٹی اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔ +رائفل کو تین چوتھائی دائرہ طے کرنے میں کتنا وقت لگا، کہنا مشکل ہے۔ میرے لئے تو بس شیرنی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رائفل کو حرکت دینا اور رائفل کی حرکت کو نہ دیکھ سکنا، ہاتھ کا شل ہوتا ہوا محسوس کرنا، جیسے کہ یہ دائرہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔ تاہم بالآخر دائرہ مکمل ہوا اور جونہی رائفل شیرنی کے جسم کی طرف سیدھی ہوئی، میں نے لبلبی دبا دی۔ +جونہی رائفل چلی، اس کا دھکہ، اس تنگ جگہ میں اس کی گونجتی ہوئی دھمک سے مجھے رائفل کے چلنے کا احساس تو ہوا لیکن لبلبی دبانے سے رائفل چلنے تک ایسا لگا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ ایسا خواب کہ شدید خطرے کی حالت میں رائفل کی لبلبی تو بار بار دبائی جاتی ہے لیکن رائفل نہیں چلتی۔ +کچھ دیر تک شیرنی اپنی جگہ پر بے حس و حرکت رہی پھر بہت آہستگی سے اس کا سر اس کے پھیلے ہوئے اگلے پنجوں کی طرف جھکنے لگا۔ اسی وقت گولی کے سوراخ سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑتی ہوئی اس کے دل کے اوپری حصے کے چیتھڑے اڑا گئی۔ +میرے دونوں ساتھی جو چند گز پیچھے تھے، شیرنی کو سلیٹ نما چٹان کی وجہ سے نہ دیکھ سکے، مجھے رکتے دیکھ کر وہ بھی رک گئے۔ انہیں پتہ لگ گیا کہ میں نے شیرنی کو دیکھ لیا ہے اور میرے انداز سے جان گئے کہ شیرنی بہت نزدیک ہے۔ مادھو سنگھ نے بعد ازاں مجھے بتایا کہ وہ مجھ چلا کر بتانے والا تھا کہ میں انڈے پھینک کر دونوں ہاتھوں سے رائفل کو پکڑ لوں۔ جونہی میں نے گولی چلائی اور پھر کچھ دیر کے بعد رائفل کو نیچے کر کے اپنے پنجےپر رکھا، مادھو سنگھ، جو کہ نزدیک تھا، نے بڑھ کر رائفل کو مجھ سے لے لیا۔ میری ٹانگیں اچانک ہی جواب دے گئیں۔ بڑی مشکل سے میں اس گرے ہوئے درخت تک پہنچا اور بیٹھ گیا۔ شیرنی کے پنجوں کو دیکھنے سے قبل ہی مجھے یقین ہو گیا تھا کہ آدم خور اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ قسمت کی مدد سے اس نے سرکاری طور پر چونسٹھ اور ضلع کے لوگوں کے مطابق اس سے دگنی تعداد کے لوگوں کی زندگی کی ڈور کاٹی، اب اگرچہ سب کچھ اسی کے حق میں تھا، قسمت نے اس کی اپنی ڈور کاٹ دی۔ +آپ کو شاید ایسا لگے کہ تین چیزیں میری کمزوری تھیں جبکہ وہ تینوں میری موافقت میں تھیں۔ ان میں 1۔ بائیں ہاتھ میں انڈے 2۔ میرے پاس ہلکی رائفل کا ہونا 3۔ شیرنی کا آدم خور ہونا۔ اگر میرے ہاتھ میں انڈے نہ ہوتے تو شیرنی کو اتنا قریب دیکھتے ہی میں مڑتا اور رائفل کو اس کی طرف پھیرنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح شیرنی فوراً جست لگا دیتی جو کہ میری آہستہ آہستہ رائفل کا رخ بدلنے کی وجہ سے نہیں لگائی گئی۔اسی طرح اگر رائفل ہلکی نہ ہوتی تو میرے لئے ایک ہاتھ سے اس کا رخ بدلنا اور پھر ایک ہاتھ کو پوری طرح پھیلائے ہوئے اسے چلانا ناممکن ہوتا۔ آخری بات، اگر شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو جونہی اس نے خود کو گھرا ہوا دیکھا تھا، فوراً ہی جست لگا کر مجھے اپنی راہ سے ہٹاتی جاتی۔ شیروں کے اس طرح کسی کو ہٹانے کا مطلب عموماً یقنی موت ہوتا ہے۔ +جب تک میرے ساتھی لمبا چکر کاٹ کر بھینسے کو کھولنے اور رسی لانے گئے، جو ایک اور خوش گوار مقصد کے لئے تھا، میں چٹانوں پر چڑھا اور کھائی میں جا کر انڈوں کو ان کے جائز مالک کے پاس واپس کر آیا۔ بے شک آپ یا دیگر شکاری مجھے توہم پرست کہیں تو کہتے رہیں۔ تین مختلف مواقع پر، بہت لمبے عرصے تک، سال بھر تک شیرنی کا پیچھا کرتے رہنے کے باوجود، ہر ممکنہ کاوش کے باوجود، میں شیرنی پر ایک گولی بھی نہ چلا سکا۔ ان انڈوں کو چند منٹ تک اپنے ہاتھ میں لیتے ہی قسمت بدل گئی۔ +یہ انڈے جو اب تک میرے بائیں ہاتھ میں بالکل محفوظ اور ابھی تک گرم تھے، میں نے انہیں واپس ان کے گھونسلے میں رکھ دیا۔ نصف گھنٹے بعد جب ہم ادھر سے گذرے تو ان کی ماں ان پر بیٹھ چکی تھی اور اس کا رنگ آس پاس سے اتنا مل گیا تھا اصل جگہ کو جانتے ہوئے بھی میں اسے نہ دیکھ پایا۔ +مہینوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے بعد بھینسا اب ہم ��ے اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ کتے کی طرح ہمارے پیچھے چلتا ہوا آیا اور شیرنی کی لاش کو سونگھ کر اس کے پاس لیٹ کر جگالی کرنے لگا۔ ہم نے درخت کاٹ کر شیرنی کو اس پر لادا۔ +میں نے کوشش کی کہ مادھو سنگھ بنگلے میں جا کر کچھ اور افراد لائے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ آدم خورنی کو لے جانے کے فخر میں اس نے کسی اور شریک کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے بھی ان کی مدد کرنی پڑی کیونکہ دو بندوں کے لئے لاش بہت بھاری تھی۔ مادھو سنگھ کے خیال میں جگہ جگہ رکتے ہوئے ہم چلتے جائیں تو اتنا زیادہ مشکل نہ ثابت ہو۔ ہم تینوں بہت مضبوط جثے کے افراد تھے۔ دو بچپن سے کڑی محنت کے عادی اور تیسرے کو زندگی نے بہت سخت بنا دیا تھا۔ تاہم پھر بھی یہ کام کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ +جس راستے سے ہم آئے تھے، بہت تنگ اور بل کھاتا ہوا تھا کہ اس پر شیرنی والا درخت نہ گذر سکتا تھا۔ جگہ جگہ رک کر سانس بحال کرنے اور کپڑے کو اس طرح کندھوں پر رکھتے ہوئے کہ درخت ہمارے گوشت میں نہ کھب جائے، ہم سیدھے پہاڑی پر رس بھری اور دیگر جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے چڑھے۔ ان جھاڑیوں میں ہمارے چہرے اور جسموں کی کھال کا کچھ حصہ اٹکا رہ گیا۔ بعد ازاں کئی دن تک نہاتے ہوئے کافی تکلیف رہی۔ +سورج ابھی تک آس پاس کی پہاڑیوں پر چمک رہا تھا کہ تھکے ہوئے مگر انتہائی خوش ہم تین افراد کالا آگر کے بنگلے میں پہنچے۔ اس شام سے اب تک اس علاقے میں سینکڑوں مربع میل تک کے علاقے میں کوئی انسان نہیں مارا گیا یا زخمی ہوا جو چوگڑھ کی آدم خور شیرنی نے پانچ سال سے جاری رکھا ہوا تھا۔ +مشرقی کماؤں کے اس نقشے پر میں نے ایک اور کانٹا لگا دیا ہے۔ یہ نقشہ میرے سامنے دیوار پر لٹک رہا ہے۔ اس پر وہی تاریخ درج ہے جس تاریخ میں آدم خور ماری گئی۔ یہ کانٹا کالا آگر سے دو میل دور لگا ہے اور اس پر 11 اپریل 1930 کی تاریخ درج ہے۔ +شیرنی کے پنجے ٹوٹے اور گھسے ہوئے تھے۔ اس کا ایک بڑا دانت ٹوٹ چکا تھا اور سامنے والے دانت بھی جبڑے کی ہڈی تک گھسے ہوئے تھے۔ انہی معذوریوں کی وجہ سے ہی وہ اپنا فطری شکار نہ جاری رکھ سکی اور اسے آدم خور بننا پڑا تھا۔ وہ خود سے شکار کو فوراً ہلاک کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ خصوصاً جب سے میں نے پہلے چکر پر غلطی سے اس کے نوجوان بچی کو مار دیا تھا۔ + + +مجھ کو کرنا تھا صبر سو کر گیا صبر میں +ورنہ توڑ بھی سکتا تھا انگلیاں جو اٹھائیں گئی + + +سید بلو خان حریفال کا تعلق بلوچستان سے اور 2007 میں ہو تحریک انصاف کا کارکن بنا اور انہوں نے ہمیشہ عمران خان کے لئے سوشل میڈیا پر کام کیا ہے +بلو خان حریفال کبھی بھی تحریک انصاف کا کوئی عہدہ قبول نہیں کیا ہے انہوں نے ہمیشہ عہدہ ہمیشہ انسان کو کمزور بنا دیتا ہے +ہمارے پاکستانی قوم اور سیاسی جماعتوں کارکن ہمیشہ عہدہ کی شوقین ہیں اور عہدے کی فائدہ اٹھاتے اٹھائے پاکستان کو بند گلی تک پہنچ گیا 24 اپریل 2011 ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کا احتجاج ختم تو وقت یہ لینک اپنے پاس رکھ دیا میں میرا عمران خان پر اور بھی بھروسہ بڑ گیا تھا + + +خوبصورت بدصورت سے بہتر ہے +نہاں پنہاں سے بہتر ہے +سادہ پیچیدہ سے بہتر ہے +پیچیدہ الجھے ہوئے سے بہتر ہے +ہموار تہہ دار سے بہتر ہے +غیر گنجان گنجان سے بہتر ہے +پڑھنے میں آسانی اہم ہے +استثنائی واقعات کو بھی قواعد سے استثنا نہیں +گو عملیت برتر ہے خالصیت سے +غلطیاں خاموشی سے نظرانداز نہیں ہونی چاہیے +تاوقتیکہ اعلانیہ خاموش کروا دی جائیں +ابہام کی صورت میں گمان کی ترغیب مسترد +ایک اور صرف ایک ترجیحی طریقہ کام کرنے کے لیے +گو وہ طریقہ شروع میں اتنا نمایاں نہ ہو اگر آپ ڈچ نہیں +ابھی کبھی نہیں سے بہتر ہے +گو کبھی نہیں اکثر "بالکل" ابھی سے بہتر ہوتا ہے +اگر ترغیب کو واضح کرنا مشکل ہے تو یہ ایک برا خیال ہے +اگر ترغیب کو واضح کرنا آسان ہے تو یہ ایک اچھا خیال ہو سکتا ہے +نیم اسپیس(Namespace) ایک زوردار سوچ ہے ۔۔۔ اسے اور زیادہ سوچتے ہیں + + +پائتھون فلسفہ بیس اقوال پر مشتمل آسان اور دلچسپ مجموعہ ہے جس سے پائیدار اور عمدہ پروگرامنگ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ +خوبصورت بدصورت سے بہتر ہے +نہاں پنہاں سے بہتر ہے +سادہ پیچیدہ سے بہتر ہے +پیچیدہ الجھے ہوئے سے بہتر ہے +ہموار تہہ دار سے بہتر ہے +غیر گنجان گنجان سے بہتر ہے +پڑھنے میں آسانی اہم ہے +استثنائی واقعات کو بھی قواعد سے استثنا نہیں +گو عملیت برتر ہے خالصیت سے +غلطیاں خاموشی سے نظرانداز نہیں ہونی چاہیے +تاوقتیکہ اعلانیہ خاموش کروا دی جائیں +ابہام کی صورت میں گمان کی ترغیب مسترد +ایک اور صرف ایک ترجیحی طریقہ کام کرنے کے لیے +گو وہ طریقہ شروع میں اتنا نمایاں نہ ہو اگر آپ ڈچ نہیں +ابھی کبھی نہیں سے بہتر ہے +گو کبھی نہیں اکثر "بالکل" ابھی سے بہتر ہوتا ہے +اگر ترغیب کو واضح کرنا مشکل ہے تو یہ ایک برا خیال ہے +اگر ترغیب کو واضح کرنا آسان ہے تو یہ ایک اچھا خیال ہو سکتا ہے +نیم اسپیس(Namespace) ایک زوردار سوچ ہے ۔۔۔ اسے اور زیادہ سوچتے ہیں + + +پروگرامنگ سے نا واقف حضرات کے لیے + + +پروگرامنگ سے نا واقف حضرات کے لیے + + +پروگرامنگ سے نا واقف حضرات کے لیے + + +یہ ایک MSI فائل ہے۔ فائل ڈاؤن لوڈ ہو جائے تو اسے ڈبل کلک کرنے سے انسٹالیشن سیٹ اپ کھل جائے گا اب اس کی ہدایات کو دیکھتے جائیے اور Next کے بٹن پر کلک کرتے رہیے یہاں تک کہ انسٹالیشن ختم ہو جائے۔ +اب آپ اس پاتھ سے پائتھون IDLE تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ +یہ کچھ اس طرح کا ہوگا۔ +پائتھون IDLE Interactive Development Environment ہمیں پائتھون پروگرام لکھنے اسے چلانے اور ٹیسٹ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اسے پائتھون شیل بھی کہتے ہیں۔ +اینا کونڈا انسٹالر اور جوپیٹر نوٹ بک +اوپر موجود ڈاون لوڈ لنک پائتھون کی آفیشل ویب سائٹ کا تھا جس میں چند بنیادی لائبریریاں شامل ہوتی ہیں اور ساتھ میں IDLE  شیل بھی۔ اگر آپ ڈیٹا سائنس اور اس سے متعلقہ بہت سی لائبریریاں اکٹھی ایک انسٹالر میں چاہتے ہیں اور ساتھ میں جوپیٹر نوٹ بک اور چند اور بہتر پراگرامنگ ٹولز تو اس کے لیے اینا کونڈا کا انسٹالر ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ + + +ائتھون شیل (IDLE) سے مانوس (Familiar) ہونے کے لئے شیل کو بطورِ کیلکولیٹر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ +پہلی مثال میں کا نشان Operator کہلائے گا جب کہ 2 Operand کہلائے گا۔ +آپریٹرز کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ +پائتھون شیل حساب کا عمل ترجیحی بنیاد پر کرتا ہے۔ یعنی سب سے پہلے قوسین کو حل کیا جائے گا، پھر Exponents، اس کے بعد ضرب، پھر تقسیم، پھر جمع اور سب سے آخر میں تفریق۔ +اسے یاد کرنے کے لئے یہ لفظ PEMDAS یاد کر لیجے۔ +ترجیحی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ +ان سب چیزوں کی شیل پرمشق کریں تاکہ آپ اس سے مانوس ہو جائیں۔ کیلکولیٹر کا کوئی بھی آپریشن IDLE پر کیا جا سکتا ہے۔ + + +سالم تقسیم (Integer Division) یوں تو عام تقسیم کی طرح ہی ہوتی ہے تاہم یہ جواب میں صرف سالم اعداد Integer Values) ہی فراہم کرتی ہے۔ اور اگر اعشاریہ کے بعد کوئی رقم تو اُسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے لئ�� ہم 2 عدد سائن استعمال کرتے ہیں۔ +یہ آپریٹر ہمیں تقسیمی عمل سے بچ جانے والا عدد فراہم کرتا ہے۔ +مثلاً اگر ہم 5 کو 2 سے تقسیم کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ 5، 2 سے پورا پورا تقسیم نہیں ہوتا اور 1 بچ جاتا ہے۔بقایا (remainder) آپریٹر ہمیں یہی بچی ہوئی قدر 1 فراہم کرتا ہے۔ بقایا (remainder) کے لئے ہم کا نشان استعمال کرتے ہیں۔ + + +ویری ایبل (variable) ایک علامتی نام ہے جو کسی بھی مقدار یا ویلیو کو دیا جا سکتا ہے۔ ویری ایبل عموما کئی بار تبدیل ہوتا ہے اور اس کی کوئی مخصوص قیمت یا ویلیو نہیں ہوتی۔ یہ ایک شناخت ہے جو کسی ویلیو کو دے دی جاتی ہے اور پھر اس ویلیو کو اسی نام سے استعمال کیا جاتا ہے۔ +شناخت کنندہ (identifier) ایک نام ہے جو کسی کی شناخت یا نشاندہی کے لیے دیا جاتا ہے اور بعد میں اسی شناخت اور نشاندہی کی مدد سے اس نام کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی کے اس لفظ کا مطلب ہی اس کے مقصد کو ظاہر کرتا ہے ، تبدیل ہونے والا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ویری ایبل ، جس کی حالت بدلتی رہتی ہے۔ +ویری ایبل(variable) مختلف اقسام کے ڈیٹا کے لیے استعمال ہوتا ہے اور  ڈیٹا کی یہ قسم ڈیٹا ٹائپ(data type) کہلاتی ہیں۔ +آسان الفاظ میں ویری ایبل(variable) ایک نام ہے جو کسی بھی مقدار کا حوالہ کہلاتا ہے۔ یہ ایک صندوق کی طرح ہوتا ہے جس میں چیزیں رکھی جا سکتی ہیں ، نکالی جا سکتی ہیں اور تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ تفویضی بیان (assignment statement) سے نئے ویری ایبل(variable) بنائے جا سکتے ہیں اور انہیں مقدار مہیا کی جا سکتی ہے۔ +برابر کی علامت کے بائیں طرف ویری ایبل(variable) ہوگا ۔ +برابر کی علامت کے دائیں طرف جو کچھ بھی ہوگا وہ ویری ایبل (variable) کی قیمت بن جائے گا۔ +اسے ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ مختلف ویری ایبل کی حالت کو ایک تیر کے نشان سے اوپر والی تصویر میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس قسم کی تصویر نقشِ حالت (state diagram) کہلاتی ہے۔ +پرنٹ کے فنکشن کی مدد سے ویری ایبل کی ویلیو شائع کی جا سکتی ہے۔ +ویری ایبل کا نام حروف اور اعداد دونوں کے ملاپ سے بن سکتا ہے اور یہ کافی طویل بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ حروف کو استعمال نہیں کیا جا سکتا جیسے +ویری ایبل کا نام کا آغاز کسی حرف سے ہونا چاہے نہ کہ اعداد یا علامت سے ۔ +ویری ایبل کا نام کسی بھی پائتھون مختص الفاظ (keyword) سے متصادم نہیں ہونا چاہیے مثلا class ، if +اسی طرح ہم اپنے کوڈ میں درکار مختلف قیمتوں کو ویری ایبلز میں محفوظ کرواتے ہیں تاکہ اُنہیں وقت پر پڑنے پر استعمال کر سکیں۔ +ایک مثال یہ بھی دیکھیے: + + +حمد (تضمین) از مرزا حفیظ اوج +یہ نطقِ بشر ہے جو ترے در کے لئے ہے +فن کا یہ سفر ہے جو ترے در کے لئے ہے +یہ اوجِ ہنر ہے جو ترے در کے لئے ہے +اِک عجز کا سر کا جو ترے در کے لئے ہے +میرا یہی زر ہے جو ترے در کے لئے ہے +یہ حرک و تحرّک یہ سکوت اور سکوں کیا +یہ ظاہر و ابطان، یہ بیرون و دروں کیا +یہ گلشنِ امکاں کے دوائر کا فزوں کیا +جز عجز سبھی کچھ ہے ترا پیش کروں کیا +بس خاک پہ سر ہے جو ترے در کے لئے ہے +مولا مرے افکار کا ہر لمحہ ہے حامد +ہے سجدہ کناں تجھ کو مرا خامہء عابد +جیسے کہ مصلّے پہ جبیں سا کوئی زاہد +ہر حرف ہے راکع، مرے الفاظ بھی ساجد +یہ حمدِ ہنر ہے جو ترے در کے لئے ہے +بیٹھا ہوں لئے سر پہ یہ تذلیل کی گٹھڑی +بس نفس کے احکام کی تعمیل کی گٹھڑی +ہر چند گناہوں کی ہی تعجیل کی گٹھڑی +تسبیح کی زنبیل نہ تہلیل کی گٹھڑی +اِک آہِ سحر ہے جو ترے در کے لئے ہے +رحمت سے تری، غم سے گذر جاتا ہوں معبود +پھر عدل ترا دیکھ کے ڈر جاتا ہوں معبود +یوں ڈوبتا ہوں اور ابھر جاتا ہوں معبود +سوچوں تری تفرید، بکھر جاتا ہوں معبود +کیسا یہ سفر ہے جو ترے در کے لئے ہے +سوچوں سے ورا ہے تو ہی بالا ہے گماں سے +ہے ذات عیاں تیری ہر اک رمزِ نہاں سے +تو آپ چھلکتا ہے ہر اک نقشِ جہاں سے +تو پاک ہے ہر در سے دریچے سے مکاں سے +تمثیلِ بشر ہے جو ترے در کے لئے ہے +حمد از مرزا حفیظ اوج +مرا قلب جگمگایا، تجھے حمد ہے خدایا +ترا نام لب پہ آیا، تجھے حمد ہے خدایا +تری ذات ذاتِ واحد، تری شان شانِ عالی +تو ہی ہر جگہ سمایا، تجھے حمد ہے خدایا +تو زمیں، زماں کا خالق، تو ہی ہر مکاں کا مالک +تو نے ہر جہاں بنایا، تجھے حمد ہے خدایا +تو ہے لا شریک و واحد، ترا ذرّہ ذرّہ حامد +یہی نغمہ سب نے گایا تجھے حمد ہے خدایا +تری حرمتیں مسلّم، تری عظمتیں مسلّم +ترے در پہ سر جھکایا، تجھے حمد ہے خدایا +میں جو عیب سر بسر تھا، تری رحمتوں نے ڈھانپا +تجھے عیب پوش پایا، تجھے حمد ہے خدایا +تری رحمتوں کے قرباں، تری بخششوں کے قرباں +مجھے نار سے بچایا، تجھے حمد ہے خدایا +مری ماں نے اوجؔ مجھ کو، یہ سبق سدا پڑھایا +”تجھے حمد ہے خدایا، تجھے حمد ہے خدایا“ + + +تیرے کرم سے پہنچا ہے ذرا کمال کو +اظہار تو نے بخشا ہے ظرفِ خیال کو +مجھ کو شرابِ عشق کا اک جام ہو عطا +سوزِ جگر وہ بخش کہ پہنچوں وصال کو +یا رب تری کریمی سے مجھکو ہے واسطہ +نظرِ کرم ہی کافی ہے مجھ پُر ملال کو +میرے حواس نے ترا ادراک کر لیا +پہنچانتا ہوں اب ترے حسن و جمال کو +تیرے کرم نے عیب بھی کھلنے نہیں دئیے +میں خود کو دیکھتا کبھی اپنے مآل کو +تیری عطا ہے کون و مکاں میں بہر طرف +پل پل اچھالتی ترے جود و نوال کو +دامن میں چند اشکِ ندامت ہیں اوج بس +کس منہ سے منہ دکھاؤ گے اس ذوالجلال کو +یہ نطقِ بشر ہے جو ترے در کے لئے ہے +فن کا یہ سفر ہے جو ترے در کے لئے ہے +یہ اوجِ ہنر ہے جو ترے در کے لئے ہے +اِک عجز کا سر کا جو ترے در کے لئے ہے +میرا یہی زر ہے جو ترے در کے لئے ہے +یہ حرک و تحرّک یہ سکوت اور سکوں کیا +یہ ظاہر و ابطان، یہ بیرون و دروں کیا +یہ گلشنِ امکاں کے دوائر کا فزوں کیا +جز عجز سبھی کچھ ہے ترا پیش کروں کیا +بس خاک پہ سر ہے جو ترے در کے لئے ہے +مولا مرے افکار کا ہر لمحہ ہے حامد +ہے سجدہ کناں تجھ کو مرا خامہء عابد +جیسے کہ مصلّے پہ جبیں سا کوئی زاہد +ہر حرف ہے راکع، مرے الفاظ بھی ساجد +یہ حمدِ ہنر ہے جو ترے در کے لئے ہے +بیٹھا ہوں لئے سر پہ یہ تذلیل کی گٹھڑی +بس نفس کے احکام کی تعمیل کی گٹھڑی +ہر چند گناہوں کی ہی تعجیل کی گٹھڑی +تسبیح کی زنبیل نہ تہلیل کی گٹھڑی +اِک آہِ سحر ہے جو ترے در کے لئے ہے +رحمت سے تری، غم سے گذر جاتا ہوں معبود +پھر عدل ترا دیکھ کے ڈر جاتا ہوں معبود +یوں ڈوبتا ہوں اور ابھر جاتا ہوں معبود +سوچوں تری تفرید، بکھر جاتا ہوں معبود +کیسا یہ سفر ہے جو ترے در کے لئے ہے +سوچوں سے ورا ہے تو ہی بالا ہے گماں سے +ہے ذات عیاں تیری ہر اک رمزِ نہاں سے +تو آپ چھلکتا ہے ہر اک نقشِ جہاں سے +تو پاک ہے ہر در سے دریچے سے مکاں سے +تمثیلِ بشر ہے جو ترے در کے لئے ہے +مرا قلب جگمگایا، تجھے حمد ہے خدایا +ترا نام لب پہ آیا، تجھے حمد ہے خدایا +تری ذات ذاتِ واحد، تری شان شانِ عالی +تو ہی ہر جگہ سمایا، تجھے حمد ہے خدایا +تو زمیں، زماں کا خالق، تو ہی ہر مکاں کا مالک +تو نے ہر جہاں بنایا، تجھے حمد ہے خدایا +تو ہے لا شریک و واحد، ترا ذرّہ ذرّہ حامد +یہی نغمہ سب نے گایا تجھے حمد ہے خدایا +تری حرمتیں مسلّم، تری عظمتیں مسلّم +ترے در پہ سر جھکای��، تجھے حمد ہے خدایا +میں جو عیب سر بسر تھا، تری رحمتوں نے ڈھانپا +تجھے عیب پوش پایا، تجھے حمد ہے خدایا +تری رحمتوں کے قرباں، تری بخششوں کے قرباں +مجھے نار سے بچایا، تجھے حمد ہے خدایا +مری ماں نے اوجؔ مجھ کو، یہ سبق سدا پڑھایا +”تجھے حمد ہے خدایا، تجھے حمد ہے خدایا“ + + +یہ لوگ دلوں کو توڑتے ہیں اور پھر سکون +سجدوں میں تلاش کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +دوست بنانے کا موروثی شوق ہے ان کا +اور ہر بار ہی نیا تلاش کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +یہ جناب جناب کر کے ہم سے سیکھنے والے +جب ہمارا ہی شکار کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +میرے یار جو پیٹھ پر خنجر گھونپ ڈالیں +مگر مجھے بہت پیار بھی کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +میرے احباب کچھ تو بلائیں لیتے ہیں میری +کچھ دو دو ہاتھ بھی کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +ہائے ان کا یہ کہنا کہ خوب جانتے ہیں مجھے +پھر میرے متعلق ہی سوال کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں + + +یہ لوگ دلوں کو توڑتے ہیں اور پھر سکون +سجدوں میں تلاش کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +دوست بنانے کا موروثی شوق ہے ان کا +اور ہر بار ہی نیا تلاش کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +یہ جناب جناب کر کے ہم سے سیکھنے والے +جب ہمارا ہی شکار کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +میرے یار جو پیٹھ پر خنجر گھونپ ڈالیں +مگر مجھے بہت پیار بھی کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +میرے احباب کچھ تو بلائیں لیتے ہیں میری +کچھ دو دو ہاتھ بھی کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں +ہائے ان کا یہ کہنا کہ خوب جانتے ہیں مجھے +پھر میرے متعلق ہی سوال کرتے ہیں، کمال کرتے ہیں + + +فارسی زبان سیکھنے کے لیے اردو ویکی کتب میں خوش آمدید۔ +اس کورس میں فارسی کے پہلے کسی خاص علم کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف ونحو، الفاظ، عام جملے، مکالماتی زبان اور رسمی/ادبی فارسی سکھانا ہے۔ آخر تک، آپ فارسی پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہو جائیں گے لیکن سننے اور بولنے میں مدد کے لیے شاید کسی انسانی استاد کی ضرورت ہوگی۔ کتاب کا مقصد سبق 1 سے شروع کرنا اور آگے بڑھنا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ حرکت کرے گا۔ +فارسی (مقامی نام: پارسی ، فارسی یا دری) ایک ہند یورپی زبان ہے ، جو ہند ایرانی زبان کے خاندان کی غالب زبان ہے اور قدیم کی ایک بڑی زبان ہے۔ ساتویں صدی کے بعد فارسی نے بڑی تعداد میں عربی الفاظ کو جذب کیا۔ فارسی ایران، افغانستان اور تاجکستان کی سرکاری زبان ہے۔ فارسی تعلیمی اور کاروبار میں بھی ایک مقبول زبان ہے۔ متعلقہ زبانوں میں پشتو، کرد، آوستا اور بلوچی شامل ہیں۔ اردو اور ترکی میں بھی فارسی سے بڑی ذخیرہ الفاظ اخذ کیا گیا ہے۔ +فارسی کو اکثر سننا اور زبان کو استعمال کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ تلفظ کے رہنما صرف فارسی کی آوازوں کو قریب سے پہنچا سکتے ہیں لیکن کبھی بھی مکمل طور پر درست نہیں ہیں ، لہذا تلفظ مقامی بولنے والوں کو سننے سے بہت فائدہ اٹھاتا ہے۔ + + +روسی ویکی کتب روسی زبان سیکھنے والوں کے لیے ایک جامع نصابی کتاب بنانے کی مشترکہ کوشش ہے۔ روسی ایک مشرقی سلاوی زبان ہے ، جو یوکرینی اور بیلاروسی سے متعلق ہے ، اور اسے دنیا بھر میں 27 کروڑ سے زیادہ لوگ بولتے ہیں۔ اس کتاب میں چار حصے شامل ہیں: ایک اہم نصاب نصاب ، ایک گرائمر ضمیمہ ، ایک ضمیمہ ، اور ایک ذخیرہ الفاظ۔ اہم متن اسباق کے ذریعے طالب علم کی رہنمائی کرتا ہے اور ہر وہ متن فراہم کرتا ہے جو سمجھنے کے لیے ہے۔ گرائمر ضمیمہ سبق میں پیش کردہ تصورات کے بارے میں زیادہ تفصیل فراہم کرتا ہے۔ ضمیمہ استعمال اور دیگ�� متفرق تصورات کے لیے ہے۔ الفاظ الفاظ کو مطالعہ کے لیے تصور پر مبنی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ + + +روسی ویکی کتب کو ذہنی طور پر سازگار طریقوں سے سبق کے مواد کو پیش کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اسباق زیادہ سے زیادہ وسرجن دینے کے لیے بنائے گئے ہیں ، اور صرف کیریلی متن فراہم کریں گے۔ ابتدائی طور پر یہ مایوس کن ہوسکتا ہے ، لیکن حروف تہجی کو جلدی سیکھنا تیزی سے ترقی کی سہولت کے لیے پہلا قدم ہے۔ + + +ہندی ایک ہند یورپی زبان ہے جو شمالی ہندوستان کی اکثریتی ریاستوں میں پہلی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے اور بہت سے ممالک میں دوسری زبان ہے جہاں ان لوگوں نے ہجرت کی ہے۔ یہ سنسکرت کے دیوناگری رسم الخط کے ساتھ لکھا گیا ہے جو کہ زبان کے صوتیات کی کافی قریب سے پیروی کرتا ہے۔ بولی جانے والی ہندی، بولی جانے والی اردو سے بہت ملتی جلتی ہے کیوں کہ دونوں ہندوستانی کا حصہ ہیں۔ + + +اس صفحے میں دیوانگری رسم الخط کے کثرت سے ملنے والے ضمیر کی فہرست ہے۔ یہ صفحہ جس طرح دکھاتا ہے اس کا انحصار آپ کے براؤزر کی رینڈرنگ سپورٹ اور مناسب فونٹس کی دستیابی پر ہے۔ + + +دیوناگری (देवनागरी) رسم الخط بہت سی ہندوستانی اور نیپالی زبانیں لکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ہندی، کونکنی، سنسکرت ، مراٹھی، میتھلی ، بھوجپوری اور نیپالی۔ یہ ایک صوتی نظام ہے ، جس کا مطلب ہے اصولی طور پر ، ایک حرف ہمیشہ ایک ہی آواز کی نمائندگی کرتا ہے، جو نسبتاً آسان ہے۔ +کنزونینٹس کے بعد بطور حرف अ شوا آواز) طےشدو ہوتا ہے ، لیکن یہ باہر نہیں لکھا جاتا۔ نشانی ् اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے کہ کسی حرف کے بعد پہلے سے طے شدہ حرف نہیں ہوتا۔ دوسرے حروف میں سے ہر ایک میں حرف بدل سکتے ہیں اور اس صورت میں ، حرف کی منحصر شکل لکھی جاتی ہے۔ + + +دیوناگری ایک ابوگیدا نظام ہے ، جس میں 12 مصوت اور 34 ہم آہنگ ہیں۔ [1] +ابوگیدا ہونے کا بنیادی طور پر مطلب یہ ہے کہ جب ایک حرف کے بعد ایک حرف لکھتے ہیں ، ان کو دو حروف کے طور پر لکھنے کے بجائے ، حرف کو حرف میں "مخلوط" کیا جاتا ہے۔ +اس طرح ، دیوناگری میں لکھنے سے اظہار کا ایک بہت ہی پیچیدہ طریقہ پیدا ہوتا ہے ، جبکہ ایک ہی وقت میں پیچیدہ ساخت مرکب کی وجہ سے لکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے ، پہلے ، کم از کم۔ + + +عربی (ﺍﻟﹿﻌﹷﺮﹶﺑﻴﹽﺔ (العربیہ) یا محض ﻋﹷﺮﹶﺑﹻﻲﹾ (عربی بولنے والوں کے لحاظ سے سامی زبان کے خاندان کا سب سے بڑا زندہ رکن ہے۔ مرکزی سامی کے طور پر درجہ بندی ، یہ عبرانی اور ارامی سے گہرا تعلق رکھتا ہے ، اور اس کی جڑیں ایک پروٹو سامی مشترکہ اجداد میں ہیں۔ جدید عربی کو آئی ایس او 639-3 میں 27 ذیلی زبانوں کے ساتھ ایک مادری زبان کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے۔ یہ اقسام پوری عرب دنیا میں بولی جاتی ہیں ، اور معیاری عربی کا وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جاتا ہے اور پوری اسلامی دنیا میں جانا جاتا ہے۔ + + +جرمن زبان سیکھنے کے لیے ایک مفت درسی کتاب ، جرمن ویکی کتب میں خوش آمدید۔ چونکہ یہ کتاب اب بھی زیرتعمیر ہے ، آپ کو دعوت دی جاتی ہے کہ ہمارے ڈسکشن پیج میں کسی بھی قسم کی پریشانیوں/تجاویز سے آگاہ کریں۔ + + +سلام! میں ویکی کتب پر منتظم بنے کی درخواست دیتا ہوں۔ + + +آپ کو یہ پیغام اس لیے مل رہا ہے کیونکہ آپ ایک ویکیمیڈیا ویکی پر منتظمین ہیں۔ +آج جب کوئی ویکیمیڈیا ویکی میں بغیر داخل ہوئے ت��میم کرتا ہے تو ہم ان کا آئی پی پتہ دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ پہلے ہی جان چکے ہوں گے، ہم مستقبل میں ایسا نہیں کر پائیں گے۔ یہ وکیمیڈیا تنظیم کے قانونی شعبے کا فیصلہ ہے، کیونکہ آن لائن رازداری کے اصول اور ضوابط بدل چکے ہیں۔ + + +آپ کو یہ پیغام اس لیے مل رہا ہے کیونکہ آپ ایک ویکیمیڈیا ویکی پر منتظمین ہیں۔ +آج جب کوئی ویکیمیڈیا ویکی میں بغیر داخل ہوئے ترمیم کرتا ہے تو ہم ان کا آئی پی پتہ دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ پہلے ہی جان چکے ہوں گے، ہم مستقبل میں ایسا نہیں کر پائیں گے۔ یہ وکیمیڈیا تنظیم کے قانونی شعبے کا فیصلہ ہے، کیونکہ آن لائن رازداری کے اصول اور ضوابط بدل چکے ہیں۔ + + +اسم صفت وہ کلمہ ہے جس سے اسم کی کوئی حالت یا کیفیت معلوم ہو +مثلا علی بہت ذہین بچہ ہے +آج ہوا بہت ٹھنڈی ہے + + +ہو کے دور تجھ سے میں کیسے جی سکتا ہوں۔۔۔ +ہو کے دور تجھ سے میں کیسے جی سکتا ہوں ، +مجھ سے دور نہ جا میں مر بھی سکتا ہوں۔ +میں تجھ کو گلے تو نہیں لگا سکتا مگر جانِ تمنا، +میں تجھ کو آواز تو دے سکتا ہوں۔ +پھر یہ مرضی تیری تو آیے یا نہ آیے، +مگر میں تیرا انتظار تو کر سکتا ہوں۔ +ہاں تیری محبت کا یقین و اعتبار نہ رہا، +مگر میں اپنی محبت کا بھرم تو رکھ سکتا ہوں۔ +اِک نظر دیکھ تو لے میری طرف بھی، +میں تیرے خواب کا تعبیر بھی ہو سکتا ہوں۔ +تعجب ہے کہ اب تو جان دینے کا نہیں کہتی، +تعجب ہے کہ اب میں جان دے بھی سکتا ہوں۔۔ + + +شیخ الحدیث و العلوم حضرت مولانا محمداسحاق مرزا صاحب البونیری رح +اپ کا اسم گرامی السید محمداسحاق مرزا صاحب البونیری رح والد کا نام السید حافظ محمدنبی ڈیری رح پر دادا کا نام السید محمدابراہیم شاہ رزڑی تھا اپ رزڑ کے علاقہ نواکلے کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کا باپ ایک درویشی کا زندگی بسر کرتے تھے اسلے اس کو نارنجی میں حصہ میلا تھا اس نے نارنجی گاوں میں ایک مسجد کی بنیاد رکھا جو بابا جماعت سے منسوب ہے اور چاہتا تھا اپنے بچوں کو عالم فاضل دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ خود بھی ایک عالم اور برگزیدہ بزرگ تھے تو ان کے اولاد میں السید محمدابراہیم شاہ رزڑی سوات کے طرف گیے اور وہاں پر لوگوں کو شریعت مطہرہ کی درس دیتے تھے وہ ایک جلیل القدر بزرگ عالم اور فیقہیہ اصولی عالم تھے علاقہ بونیر میں ایک خان نے تپہ نسوزی حصار میں ایک ڈیری کا دامن زمین بطور سیری دیا اس نے اس میں ایک مسجد اور مدرسہ بنایا اور یہ سلسلہ تا حال اولاد نے جاری رکھا ہوا ہے تو حضرت مولانا محمداسحاق مرزا صاحب البونیری رح اس عظیم علمی گھرانے میں 1919ء کو پیدا ہوے ابتدای تعلیم اپنے بزرگان سے حاصل کیا اور بعد میں لاہور پھر دہلی چلے گیے اور ۱۹۳۷ء میں مدرسہ صدیقیہ محمد صدیق نجیب ابادی دیوبند میں داخلہ لیا مولانا محمد صدیق نجیب ابادی دیوبند اور مولانا حسین احمد مدنی سے کتب احادیث پڑھے دیگر علوم عقلیہ ونقلیہ پڑھے اپ جامعہ علوم معقول اور منقول تھے مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت صابری ہوے تھے بعد میں ولایت سید پور میں دیوبند کے طرف سے شیخ الحدیث مقرر ہوے ایک دفعہ میں دستار بندی کے لیے بمع چند ساتھیوں دیوبند ارہے تھے کہ راستے میں ایک پاٹک پر انگریزی دستوں سے تلخ کلامی ہوی اور انہوں نے نہیں چھوڑے اسلیے وہ بمع ساتھیوں واپس ہوکر کسی مضافاتی راستےسے دیوبند پہنچ گیے یہ وہی زمانہ تھا کہ برصغیر پر انگریز حکومت تھی دیوبند کے علماء نے انگریزی حکومت کی خلاف ایک کمیٹی بنائ تھی اس کا نام خلافت کمیٹی تھا مرزا صاحب اس کمیٹی کا میمبر بھی تھا 1947ء کے اوایل میں وطن واپس ہوکر اپنا تدریسی میشن جاری رکھا 1952ء میں سوات سٹیٹ میں بونیر سب ڈویزن کے محکمہ مال کے نگہداشت پر معمور ہوے ہر معاملہ شریعت مطہرہ سے حل کرتا تھا کیی تنازعات مصلا ایلی ڈب کا تنازعہ امبیلہ کنڈاو میں ریسٹ ہاوس کا تنازعہ اور ٹوپی چغرزی میں سرک کا تنازعہ بڑی خوش اصلوبی سے حل کردیے علاقے میں اسلامی اور دنیاوی دونوں علوم سے منور کیا 1978ء میں غالبا ریٹایر ہوے 1988ء حج پر گیے واپسی پر 1993ء میں شریعت محمدی بونیر کا امیر مقرر ہوے اور 1994ء میں امبیلہ کے مقام پر ان کے سربراہی میں ملاکنڈ میں شریعت نافظ کرنے کیلے احتجاج ہوا حضرت صاحب کو گرفتار کرکے ڈیرو جیل میں نظر بند کیا چند ایام نظر بندی کے بعد رہا ہوے اور اپنا تدریسی میشن جاری رکھا اور اپنا اخری عمر دین اسلام کو وقف کیا تھا 2010ء وفات پا گیے ان للہ وان الیہ راجعون۔ +اولاد میں دو صاحبزادے زادے چھوڑے محمداقبال جیلانی اور پرینسپل جاویداقبال چھوڑے ہیں۔ +شیخ السید غلام رسول دی مرزا صاحب کا چاچا تھا 1875ء میں پیدا ہوے تھے اور مردان بخشالی میں مدفون ہیں۔ +