filename
stringlengths 6
6
| text
stringlengths 7
299
| audio
audioduration (s) 2.34
40.7
|
---|---|---|
LJ0005 | انشا جی ان چاہنے والی آنکھوں نے، دیکھنے والی آنکھوں نے، ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، کیسا کیسا دیکھا چاند، ہر ایک چاند کے اپنی دھج تھی، ہر ایک چاند کا اپنا روپ، لیکن ایسا ایسا روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند۔ | |
LJ0006 | درد کے ٹیس تو اٹھتی تھی، پر اتنی بھی، بھرپور کبھی؟ آج سے پہلے کب اترا تھا دل میں اتنا گہرا چاند! | |
LJ0007 | ہم نے تو قسمت کے ڈر سے جب پائے اندھیارے پائے، یہ بھی چاند کا سپنا ہو گا، کیسا چاند، کہاں کا چاند؟ | |
LJ0008 | انشا جی دنیا والوں میں بے ساتھی بے دوست رہے۔ | |
LJ0009 | جیسے تاروں کے جھرمٹ میں تنہا چاند، اکیلا چاند۔ | |
LJ0010 | ان کا دامن اس دولت سے خالی رہا، خالی کاخالی ہی رہا۔ | |
LJ0011 | ورنہ تھا دنیا میں کتنے چاندی چاند اور سونا چاند۔ | |
LJ0012 | جگ کے چاروں کوٹ میں گھوما، سیلانی حیران ہوا، اس بستی کے اس کوچے کے، اس آنگن، میں ایسا چاند؟ آنکھوں میں بھی چتون میں بھی چاند ہی چاند جھلکتے ہیں، چاند ہی ٹیکا، چاند ہی جھومر، چہرہ چاند اور ماتھا چاند۔ | |
LJ0013 | ایک یہ چاند نگر کا باسی جس سے دور رہا سنجوگ، ورنہ اس دنیا میں سب نے چاہا، چاند اور پایا، چاند۔ | |
LJ0014 | عنبر نے دھرتی پر پھینکی نور کی چِھینٹ اُداس اُداس، آج کی شب تو اندھی شب تھی، آج کدھر سے نکلا چاند؟ انشا جی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی ریت یہی ہے، سب کے اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند۔ اپنے سینے کے مطلع پر جو چمکا وہ چاند ہوا، جس نے من کے اندھیارے میں آن کیا اُجیارا، چاند۔ | |
LJ0015 | چنچل مسکاتی مسکاتی گوری کا مکھڑا مہتاب، پت جھڑ کے پیروں میں اٹکا پیلا سا اِک پتّا، چاند۔ | |
LJ0016 | دکھ کا دریا، سکھ کا ساگر، اس کے دم سے دیکھ لیا، ہم کو اپنے ساتھ ہی لے کر ڈوبا، اور ابھرا چاند۔ | |
LJ0017 | جھکی جھکی پلکوں کے نیچے نمنگی کا نام نہ تھا، یہ کانٹا جو ہمیں چبھا ہے کاش تجھے بھی چبھتا چاند۔ | |
LJ0018 | روشنیوں کی پیلی کرچیں، پورب پچھم پھیل گئیں، تو نے کس شے کے دھوکے میں پتھر پہ دے ٹپکا چاند۔ | |
LJ0019 | ہم نے تو دونوں کو دیکھا، دونوں ہی بے درد خطور، دھرتی والا، عنبر والا، پہلا چاند اور دوجا چاند۔ | |
LJ0020 | چاند کسی کا ہو نہیں سکتا۔ | |
LJ0021 | چاند کسی کا ہوتا ہے؟ چاند کے خاطر زِند نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشا، چاند۔ | |
LJ0022 | اور کچھ دیر میں جب پھر میرے تنہا دل کو۔ | |
LJ0023 | فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے۔ | |
LJ0024 | درد آئے گا دبے پاؤں، لیے سرخ چراغ، وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں، دل سے پرے۔ | |
LJ0025 | شعلۂ درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا، دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا، حلقۂ زلف کہیں گوشۂ رخسار کہیں، ہجر کا دشت کہیں، گلشن دیدار کہیں، لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں۔ | |
LJ0026 | دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل، یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا چلا جائے گا، اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا، مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے، یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے، رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا۔ | |
LJ0027 | جنگ ٹھہری ہے، کوئی کھیل نہیں ہے اے دل، دشمن جاں ہیں سبھی سارے کے سارے قاتل یہ کڑی رات بھی یہ سائے بھی تنہائی بھی درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل، لاؤ سلگاؤ کوئی جوش غضب کا انگار طیش کی آتش جرار کہاں ہے لاؤ وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ، جس میں گرمی بھی ہے حرکت بھی توانائی بھی۔ | |
LJ0028 | ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر، منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے ادھر۔ | |
LJ0029 | ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے، خیر ہم تک وہ نہ پہنچے بھی صدا تو دیں گے۔ | |
LJ0030 | دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے۔ | |
LJ0031 | راشد صاحب کی ایک انوکھی نظم۔ | |
LJ0032 | ہم جسم۔ | |
LJ0033 | درپیش ہمیں چشم و لب و گوشت کے پیرائے رہے ہیں۔ | |
LJ0034 | کل رات جو ہم چاند میں اس سبزے پہ ان سائیوں میں غزلائے رہے ہیں، کس آس میں کجلائے رہے ہیں۔ | |
LJ0035 | اس میں کو، جو ہم جسموں کو محبوس ہے آزاد کریں، کیسے ہم آزاد کریں، کون کرے، ہم؟ ہم جسم؟ ہم جسم کے کل رات اسی چاند میں اس سبزے پہ ان سائیوں پہ خود اپنے کو دہرائے رہے ہیں۔ | |
LJ0036 | کچھ روشنیاں کرتی رہیں ہم سے وہ سرگوشیاں، جو حرف سے یا صوت سے آزاد ہیں، کہہ سکتی ہیں جو کتنی زبانوں میں وہی بات، ہر ایک بات صدا جسم جسے سننے کو گوشائے رہے ہیں۔ | |
LJ0037 | ہم جسم بھی کل رات کے ایک لمحے کو دل بن کے، اسی بات سے پھر سینوں کو گرمائے رہے ہیں۔ | |
LJ0038 | اس میں کو ہم آزاد کریں، رنگ کی خوشبوں کی، اُس ذات کو دل بن کے جسے ہم بھی ہر اک، رات عزیز آئے رہے ہیں۔ | |
LJ0039 | یا اپنے توامات کی زنجیروں میں الجھائے رہے ہیں، اس ذات کو، جس ذات کے ہم سائے رہے ہیں۔ | |
LJ0040 | راشد صاحب کی ایک نظم | |
LJ0041 | منہ قلم، ساز گلے تازہ، چھرکتے پاں۔ | |
LJ0042 | بات کرنے کے بہانیں ہیں بہت، آدمی کس سے مگر بات کرے؟ | |
LJ0043 | بات جب حیلۂ تقریبِ ملاقات نہ ہو، اور رسائی کی ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند، بات کی غایتِ غایت نہ ہو۔ | |
LJ0044 | ایک ذرہ کفِ خاکستر کا شرارِ جستہ کے مانند، کبھی کسی انجانی تمنا کی خلش سے مسرور، اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنور کی لو سے مجبور،ایک ذرہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور، کبھی نیرنگِ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے،آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی، اور بنتا ہے معنی کا خداوند کبھی، وہ خداوند جو پابستۂ عنات نہ ہو۔ | |
LJ0045 | اسی اک ذرّے کی تابانی سے، کانپ اٹھتے ہیں کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں، ماہ و سال کے نیلے گرداب۔ | |
LJ0046 | اسی اک ذرّے کی حیرانی سے، شعر بن جاتے ہیں ایک کُوزہ گرِ پیر کے خواب، اسی اک ذرۂ لافانی سے خشتِ بے مایہ کو ملتا ہے دوام، بام و در کو وہ سحر، وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو۔ | |
LJ0047 | آدمی کس سے مگر بات کرے؟ مُقلّم، ساز، گُلِ تازہ، تھرکتے پاؤں، آدمی سوچتا رہ جاتا ہے۔اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں .
| |
LJ0048 | اور پھر کس کے لیے بات کروں؟ | |
LJ0050 | فیض صاحب کی ایک نظم. رہ گزر, سائے شجر, منزل ادھر, حلق بام، بام پر سینہ مہتاب کھلا, آہستہ, جس طرح کھولے کوئی بند قبا, آہستہ. | |
LJ0051 | حلقے بام تلے سائیوں کا ٹھہرا ہوا نیل، نیل کی جھیل، جھیل میں چپ ک سی طائرہ کسی پتے کا ہباب، ایک پل طائرہ چلا, پھوٹ گیا آہستہ. | |
LJ0052 | بہت آہستہ، بہت ہلکا، خنک, رنگ شراب, میرے شیشے میں ڈھلا, آہستہ. | |
LJ0053 | شیشہ و جام سراحی ترحاثوں کے گلاب, جس طرح دور کسی خواب کا نقش آپ ہی آپ بنا اور مٹا, آہستہ. | |
LJ0054 | دل نے دورایا کوئی حرف وفا, آہستہ، تم نے کہا آہستہ؟ چاند نے جھک کے کہا، اور ذرا آہستہ۔ | |
LJ0057 | پھر کوئی آیا دل زار۔ | |
LJ0058 | نہیں، کوئی نہیں، راہ راہ ہو گا کہیں اور چلا جائے گا۔ | |
LJ0059 | ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار، لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خابیدہ چراغ، سو گئی راستہ تک تک کے ہر، راہ گزار، اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ۔ | |
LJ0060 | گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ، اپنے بے خواب کواڑوں کو، مقفل کر لو۔ | |
LJ0061 | اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔ | |
LJ0062 | فیض صاحب کی ایک نظم | |
LJ0063 | نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔ | |
LJ0064 | جو چاہنے والا طواف کو نکلے، نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے۔ | |
LJ0065 | ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد، کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔ | |
LJ0066 | بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے، جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں، بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی، منصف بھی، کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں، مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں، ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں۔ | |
LJ0067 | بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے، کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی، چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے، کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی، غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں، گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں۔ | |
LJ0068 | یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق، نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی، یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول نہ ان کی ہار نئی ہے، نہ اپنی جیت نئی، اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے، ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے۔ | |
LJ0069 | گر آج تجھ سے جدا ہیں، تو کل بہم ہوں گے۔ یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں، گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا، یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں، جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں، علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں۔ |