id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
060831_orion_contract_fz
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2006/09/060831_orion_contract_fz
خلائی سفر کے لیئے نئے اورین طیارے
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا نے طیارہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی سربراہی میں قائم مختلف کمپنیوں کے ایک گروپ کو نئے خلائی طیارے بنانے کے لیئے کئی ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا ہے۔
نیا خلائی طیارہ جسے اورین کا نام دیا گیا ہے خلاء بازوں کو چاند اور اس سے آگے خلاء میں لے جانے کے لیئے استعمال کیا جائے گا۔ نئے خلائی طیارے خلائی شٹل کی جگہ لیں گے جو سن دو ہزار دس میں اپنی عمر پوری کر لیں گے۔ اورین طیاروں کی شکل پرانے اپالو طیاروں جیسی ہو گی جو انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستر کی دہائی میں خلاء میں جانے کے لیئے استعمال کیئے جاتے تھے۔ خلائی جہاز شٹیل کے برعکس ان نئے خلائی طیاروں کے پر نہیں ہوں گے اور خلا سے واپسی پر یہ طیارے زمین پر اترنے کے لیئے پیرا شوٹ استعمال کریں گے۔
world-52866087
https://www.bbc.com/urdu/world-52866087
جارج فلائیڈ کی موت پر امریکہ میں کالے گورے کی سیاست گرم
امریکہ کے شہر مینیاپولس سمیت متعدد مقامات پر ایک ویڈیو کلپ کے منظر عام پر آنے کے بعد سڑکوں پر غم و غصہ پھوٹ پڑا ہے۔
اس ویڈیو کلپ میں ایک سفید فام پولیس آفیسر ایک غیر مسلح جارج فلوئیڈ نامی سیاہ فام آدمی کی گردن پر گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس واقعے کے چند منٹ بعد 46 سالہ جارج فلوئیڈ کی موت ہو جاتی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جارج اور اس کے آس پاس موجود لوگ پولیس افسر سے اسے چھوڑنے کی التجا کر رہے ہیں۔ جارج مرنے سے قبل پولیس افسر کے گھٹنے کے نیچے بار بار کہتا ہے کہ 'پلیز، آئی کانٹ برید' یعنی میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔ پولیس افسر ڈیریک چاون کو جارج کی گردن پر گھٹنا رکھے دیکھا گیا ہے اور انھیں اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بہت سے لوگ صدمے میں ہیں اور بہت ناراض ہیں جبکہ منی سوٹا شہر سمیت امریکہ کے متعدد علاقوں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکہ بھر میں مظاہرے، انصاف کا مطالبہ ٹوئٹر کا صدر ٹرمپ پر ’تشدد کو ہوا دینے‘ کا الزام امریکہ میں سفید فام نسل پرستی فروغ پا رہی ہے؟ نیشنل ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل نامی تنظیم نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے 'ان کے اعمال نے ہمارے معاشرے میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف ایک خطرناک نظیر قائم کی ہے جو نسلی امتیاز، زینو فوبیا اور تعصب پر مبنی ہے۔' اس میں کہا گیا ہے کہ 'ہم اب مرنا نہیں چاہتے ہیں۔' جارج فلوئیڈ اس واقعے کے بعد امریکہ میں نسلی تشدد کی تاریخ پر بحث ہونے لگی ہے۔ پولیس کی بربریت کے ختم نہ ہونے والے سلسلے کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ پولیس کے ذریعہ ہونے والے تشدد کے واقعات کی نگرانی کرنے والی ایک ویب سائٹ 'میپنگ پولیس وائلنس ڈاٹ او آر جی' کے مطابق: 'سنہ 2013 سے 2019 کے درمیان ہونے والے 99 فیصد قتل میں افسران کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔' صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جارج فلوئیڈ کے کنبے کی 'دل کی گہرائیوں سے تعزیت' کی دی ہے۔ لیکن ان کے ایک تبصرے کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ 'جب لوٹ شروع ہوتی ہے تو پھر شوٹ (گولی مارنا) بھی شروع ہوجاتی ہے۔' بہر حال بعد میں انھوں نے اس کی وضاحت بھی کی۔ اس سے قبل اسی طرح سے کئی سیاہ فام افراد کی جان بھی گئی ہے۔ اس سے قبل 23 فروری کو مبینہ طور پر مسلح سفید فام لوگوں نے 25 سالہ احمد آربیری کا پیچھا کیا اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسی طرح 13 مارچ کو بریونا ٹیلر کو اس وقت ہلاک کردیا گیا جب ان کے گھر پر ایک سفید فام پولیس افسر نے مبینہ طور پر چھاپہ مارا۔ مینیا پولس کے میئر جیکب فرائی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ 'امریکہ میں سیاہ فام برادری سے تعلق رکھنے کا مطلب سزائے موت نہیں ہونا چاہیے۔' سوشل میڈیا پر 'بلیک لائوز میٹر' اور 'جسٹس فرار جارج فلوئیڈ' جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں کے لیے جارج فلوئیڈ کے آخری الفاظ 'میں سانس نہیں لے سکتا' ایک متاثر کن نعرہ بن گیا ہے۔ پرانے واقعات سابق صدر اور پہلے سیاہ فام امریکی صدر براک اوباما نے اپنے بیان میں ایک درمیانی عمر کے افریقی-امریکی تاجر کے بیان کو نقل کرتے ہوئے لکھا: 'دوست، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ منی سوٹا میں جارج فلوئیڈ کے ساتھ پیش آنے والا واقعے نے تکلیف پہنچائی ہے۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی اور میں رو پڑا۔ اس ویڈیو نے مجھے ایک طرح سے توڑ دیا ہے۔' اوباما نے کہا: 2020 کے امریکہ میں یہ معمول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کسی بھی صورت میں معمول نہیں ہوسکتا ہے۔' اس واقعے نے ایک بار پھر امریکی معاشرے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں نسلی امتیاز کی گہری جڑوں کے متعلق بحث کو جنم دیا ہے جس کے تحت پولیس کی طرز عمل، وفاقی حکومت کے کردار اور فوجداری مقدمات کے نظام پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک میں کورونا کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور چار کروڑ افراد کی ملازمت ختم ہو گئی ہے۔ اور اس نے سماج کی اقلیتی برادری اور بطور خاص سیاہ فام لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ امریکہ میں ایک طویل عرصے سے پولیس کے ہاتھوں ہلاکتیں ایک بڑا مسئلہ رہی ہیں۔ مائیکل براؤن کے قتل کے ایک سال بعد میسوری کے فرگیوسن میں ایک مخصوص تقریب کا انعقاد کیا گیا اس مخصوص طبقہ کے لوگوں کے خلاف پولیس کی بربریت کو چیلنج کرنے کے لیے سنہ 1966 میں آکلینڈ میں بلیک پینتھر پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مائیکل براؤن کے قتل اور 'بلیک لائوز میٹر' کے وجود میں آنے کے بعد اس مہم میں تیزی سے اضافہ ہوا - اس احتجاجی تحریک کا مقصد 'سفید فام بالادستی کا خاتمہ اور سیاہ فام لوگوں کی برادری کے خلاف تشدد کے معاملات میں مداخلت کرنا تھا۔' سنہ 2014 میں ایک سفید فام پولیس افسر نے فرگوسن میں 18 سالہ غیر مسلح مائیکل براؤن کو گولی مار دی تھی۔ اس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ مرنے والوں کی اس فہرست میں جیمار کلارک، جیریمی میکڈول، ولیم چیپمین دوم، والٹر سکاٹ سمیت متعدد نام شامل ہیں۔ سن کر دینے والے اعدادوشمار جنوری 2015 میں واشنگٹن پوسٹ نے پولیس فائرنگ کا ایک ڈیٹا بیس بنانا شروع کیا۔ اس ڈیٹا بیس میں اب تک چار ہزار 400 مہلک فائرنگ کے واقعات درج ہیں۔ اس ڈیٹا بیس کے ذریعے 'پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکیوں کی بے دردی کے ساتھ ہلاکت' کی بات سامنے آئی ہے۔ اس کے مطابق’سیاہ فام افراد امریکہ کی کل آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں لیکن اگر ہم پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد پر نظر ڈالیں تو وہ کل اموات کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ اور غیر مسلح افراد کی ہلاکت کی صورت میں یہ امتیازی سلوک اور بھی کھل کر سامنے آتا ہے کیونکہ سیاہ فام کل اموات کا ایک تہائی حصہ ہوتے ہیں۔' ڈیٹا بیس میں مندرجہ ذیل چیزیں سامنے آئیں: میپنگ پولیس وائلنس نامی سائٹ کے مطابق 'پولیس نے سنہ صرف 2019 میں ایک ہزار 99 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق: 'ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہونے کے باوجود مرنے والے 24 فیصد لوگ سیاہ فام لوگ تھے۔ سنہ 2019 میں صرف 27 دن ایسے تھے جب پولیس نے کسی کو نہیں مارا تھا۔' زمینی حقیقت بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے متعلق محکمہ انصاف کی سنہ 2016 کی ایک رپورٹ زمینی سطح پر بڑے پیمانے پر نسلی امتیاز کو بے نقاب کرتی ہے۔ 'افریقی امریکیوں کے خلاف امتیازی سلوک' کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی امریکیوں کو سڑک کے کنارے چلنے سے روکتی ہے۔' 'ایک درمیانی عمر کے افریقی نژاد امریکی شخص کو چار سالوں میں تقریبا 30 بار روکا گیا تھا۔ بار بار روکے جانے کے باوجود کبھی بھی ان 30 بار روکے جانے کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے۔ 'سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ غیر متناسب طور پر افریقی نژاد امریکیوں کو روکتا ہے۔ بالٹیمور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جن پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں ان میں 86 فیصد افراد افریقی نژاد امریکی ہیں۔ اگر چہ وہ بالٹیمور کی کل آبادی کا صرف 63 فیصد ہیں۔' سیاہ فام شہریوں کے ساتھ نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک کے علاوہ پولیس کے ہاتھوں قتل کے وجوہات میں زیادہ عسکریت پسندی، شفافیت کا فقدان اور احتساب کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ ماہرین امریکی پولیس میں نسلی تنوع کی کمی کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ سنہ 2016 کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سات لاکھ ایک ہزار کل وقتی پولیس افسران میں سے 71 فیصد سفید فام تھے جبکہ 27 فیصد افسران دوسرے تھے۔ اس سے 2017 میں ہونے والی ایک تحقیق کو سمجھنے میں کس طرح مدد ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران سیاہ فام لوگوں سے زیادہ گوروں کا احترام کرتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق سنہ 2016 میں سیاہ فام اور سفید فام امریکی ایک ہی شرح سے منشیات کی فروخت اور استعمال میں ملوث ہیں لیکن سیاہ فام لوگوں کو اس طرح کے معاملات میں گرفتار کیے جانے کا امکان 2.7 گنا زیادہ ہے۔ تاہم بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی زیادتی کے معاملات کا نسلی امتیاز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسے لوگ ڈینیئل شیور کی مثال دیتے ہیں جنھیں ایک پولیس آفیسر نے سنہ 2016 میں قتل کیا تھا۔ 30 مئی کے مناظر جب جارج کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا مصنف ریڈلی بالکو نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا: 'جب سفید فام کسی سفید فام کے خلاف پولیس تشدد والی ویڈیو دیکھتے ہیں تو اس پر ہمیں غصہ آتا ہے، ہم اداس اور بے چین ہو جاتے ہیں لیکن ہم سے زیادہ تر لوگ خود کو اس سفید فام کی جگہ نہیں دیکھتے ہیں۔ 'ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم سنجیدہ اور باوقار ہوں گے تو اس بات کا کم امکان ہے کہ ہم پولیس کے ساتھ جھڑپ میں شامل ہوں گے۔ اور اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ ہماری حالت ڈینیل شیور جیسی ہو۔ 'لیکن جب کوئی سیاہ فام شخص کوئی ویڈیو دیکھتا ہے جس میں ڈیریک چاون جیسا افسر جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا ٹیک کر بیٹھا ہو تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ فلوئیڈ کی جگہ وہ سکتا تھا یا اس کا بیٹا، بھائی یا دوست ہوسکتا ہے۔' امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں ممکنہ امیدوار کے لیے جو بائیڈن کی حمایت سیاہ فام لوگوں کے ووٹوں سے ہوئی ہے۔ اور صدارتی انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی پولیس تشدد کا یہ معاملہ انتخابی مہم کے اہم مسائل کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
041128_sharon_abbas
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/11/041128_sharon_abbas
محمود عباس سے ملنے کو تیار: شیرون
اسرائیلی وزیراعظم ایریئل شیرون نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی رہنما محمود عباس سے ملاقات کے لیے تیار ہیں تاکہ غزہ سے یہودی آبادکاروں کی واپسی کو منظم بنایا جاسکے۔
انگریزی ہفتہ وار نیوز ویک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیرون نے کہا کہ وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اسرائیل کے خالی کردہ علاقوں پر فلسطینی قیادت کنٹرول حاصل کرلے۔ فلسطینی رہنما محمود عباس نے بھی نیوز ویک کو بتایا کہ فلسطینی انتخابات کے بعد وہ ایریئل شیرون سے کبھی بھی ملنے کے لیے تیار ہیں۔ مبصرین کے مطابق جنووری کے انتخابات میں محمود عباسی کا فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے منتخب ہونا یقینی ہے۔ تاہم محمود عباس نے یہ بھی کہا کہ یہودی آبادکاروں کی غزہ سے واپسی سے قبل اسرائیل فلسطینی انتظامیہ کو غزہ میں سکیورٹی کا ڈھانچہ بنانے کا موقع فراہم کرے۔ محمود عباس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انہوں نے فلسطینی وزیراعظم کی حیثیت سے فائربندی شروع کرائی تھی لیکن اسرائیل نے جواب میں کوئی اقدام نہیں کیے۔
pakistan-49264063
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49264063
چپلی کباب: روایتی ذائقہ مگر ایک ’ٹوئسٹ‘ کے ساتھ
عیدالاضحیٰ اور گوشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بڑی عید ہو اور گوشت نہ پکایا اور کھایا جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟
چونکہ تہوار ہے تو کھانا بھی کچھ ذرا ہٹ کے ہونا چاہیے۔ بیشتر لوگ تو گوشت بنانے کے نت نئے طریقوں سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن بعض کو شاید یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہو کہ اس عید پر گوشت کی کون سے ڈش بنائی جائے۔ آپ کی اسی مشکل کے پیش نظر بی بی سی اس سیریز میں گوشت کے پکوان بنانے کی مختلف ترکیبیں اپنے صارفین کے لیے لائی ہے۔ دیکھیے اور اپنی پسند کے پکوان کی ترکیب آزمائیے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک ایسا تجربہ چپلی کباب پر بھی کیا گیا۔ دیکھیے محمد نبیل کی رپورٹ۔
070519_gaza_attacks_violence_sq
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/05/070519_gaza_attacks_violence_sq
غزہ پراسرائیلی حملے، تصادم جاری
غزہ پر حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے پانچ کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس عمارت پر حملے میں مارے گئے جو اس کے بقول حماس کا ہیڈکوارٹر تھا۔
دوسری جانب الفتح اور حماس کے دھڑوں میں پرتشدد تصادم بھی جاری ہے۔ اس سے قبل کی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ حماس کے دو کارکن اور ایک راہگیراس وقت ہلاک ہوئے جب شمالی غزہ میں حماس کے ایک ٹھکانے کے قریب ایک ویگن کو نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ بدھ سے غزہ شہر اور غزہ کی پٹّی پر اسرائیل راکٹوں اور میزائیلوں سے تیرہ حملے کر چکا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں میں اس کے جنوبی علاقوں میں کم سے کم ایک سو راکٹ داغے جا چکے ہیں جن میں سے کم و بیش دس جمعہ کو ایک قصبے میں گرے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر راکٹ حملوں کا مقصد اسرائیل کو فلسطینیوں کی اندرونی لڑائی میں گھسیٹنا ہے۔ جمعرات کو اسرائیلی حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے چار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق حماس سے تھا۔ اس دوران حماس سے تعلق رکھنے والے فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے ایک بار پھر فلسطینیوں کے مخلتف دھڑوں میں اتحاد پر زور دیا ہے، لیکن گزشتہ دنوں کے دوران الفتح اور حماس کے درمیان تصادم روکنے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور اب تک اس تصادم میں چالیس افراد مارے جا چکے ہیں۔
070519_mira_interview_rs
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/05/070519_mira_interview_rs
’فلموں میں انسانی جذبات ندارد ہو رہے ہیں‘
فلمی حلقوں میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ تین پنجابی خواتین کامیاب’کراس اوور‘ سنیما بنانے میں اپنی شناخت بنا چکی ہیں۔ باقی رہا سوال ہم عصروں کا، سو وہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لندن میں مقیم گُرندر چڈّھا نے ’بینڈ اِٹ لائک بیکہم‘ اور’ بِرائڈ اینڈ پِِرُجِڈِس‘ جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ فلموں کے بعد مزاحیہ ’کراس اوور‘ سنیما کی صِنف میں اپنا مُنفرِد مقام بنا لیا ہے۔ کینیڈا جا کر بسنے والی دیپا مہتہ نے ’ارتھ‘، ’فائر‘ اور ’واٹر‘ جیسی سنجیدہ فلمیں بناکر آسکر ایوارڈز کے دروازے پر دستک دی ہے۔ لیکن نیو یارک میں مقیم میرا نائر ہر اس فلم ساز کے لیے مثال ہیں جو کراس اوور سنیما کے میدان میں اپنے جوہر دکھانا چاہتا ہے۔ وجہ بہت واضح ہے۔ میرا نائر نے نہ صرف یہ کہ ’سلام بامبے‘ اور ’مونسون ویڈنگ‘ جیسی دیسی و عمدہ فلمیں بنا کر بین الاقوامی مُقابلوں میں اِعزازات حاصل کیے ہیں بلکہ انہوں نے امریکہ، کینیڈا، یو روپ اور بھارت کے باکس آفِس پر بھی اچھا بزنس کیا ہے، اور یہی کامیاب کراس اوور سنیما کی پہلی اور آخری پہچان ہے۔ ’میں اپنی فلموں میں مکالموں سے کم اور جذبات سے زیادہ کام لیتی ہوں۔ایسی بات نہیں کہ میری فلموں میں سکرین پلے (منظر نامہ) نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے، لیکن جب میں شوٹنگ کرتی ہوں تو پھر کم سے کم مکالموں کا استعمال کرتی ہوں۔ میرے خیال میں سنیما خود اپنے آپ میں ایک عالمی زبان ہے اور بنا لفّاظی کے بھی اس کے ذریعے بات خوبصورت طریقے سے کہی جاسکتی ہے۔ فلم میں کس طرح آپ چلتے ہیں، آنکھوں میں کس طرح جھانکتے ہیں، کس طرح اشارے کرتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جن سے غضب کا سنیما بنایا جا سکتا ہے‘۔ میرا نائر کی پیدائش 1957 میں بھارت میں ہوئی۔ دِلّی اور ہارورڈ میں تعلیم مکمل کی اور امریکہ میں مقیم ہونے کے بعد ڈاکومنٹری فلموں کے ساتھ انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ 1988 میں بمبئی شہر کی سڑکوں پر بڑے ہونے والے بچوں کے گِرد ڈاکومنٹری کی طرز پر فیچر فلم بنا کر اُنہوں نے جو شہرت حاصل کی وہ بہت کم فلم سازوں کے حصے میں آتی ہے۔’سلام بامبے‘ آسکر کے لیے نامزد کی گئی۔ ’کان فلم فسٹیول‘ اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں اسے اعزازات سے نوازا گیا۔ 1991 میں ’مِسیسِپی مصالحہ‘، 1995 میں ’پِیریز فیملی‘، 1996 میں ’کام سُوترا‘ اور پِھر 2000 میں ’مونسون ویڈنگ‘ بناکر میرا نائر ہر اس فلمساز کے لیے قابلِ رشک ہوگئیں جو کم رقم میں دیسی کہانی پر فلم بنا کر عالمی شُہرت کا خواہاں تھا۔ میرا نائر کی فلموں کو مثال مان کر کئی فلمساز اپنی کہانی کا انتِخاب کرتے ہیں، لیکن خود میرا نائر اپنی فلموں کا تھیم کس طرح چُنتی ہیں۔ ظاہر ہے پہلے آڈیئنس یعنی ناظرین کے بارے میں سوچتی ہوں گی کہ اُن کو کیا پسند آئےگا۔ ’یقین کیجیے میں تھیم چنتے وقت آڈئینس کے بار ے میں قطعی نہیں سوچتی۔ میں صرف دِل کی سنتی ہوں۔ میں خود سے سوال کرتی ہوں ’میرا نائر کیا تم بغیر یہ فلم بنائے زندہ رہ سکتی ہو؟‘ جواب اگر ہاں ہے تو قصہ ختم اور اگر فلم کا بنانا میرے وجود کے لیے لازمی ہے تو پھر میرا نیا فلم پروجیکٹ شروع ہوجاتا ہے۔ اِس مرحلہ پر میں سارے سوالات پر غور کرتی ہوں جیسے سکرین پلے، کاسٹنگ، آڈئینس وغیرہ۔ کیا فلاں قصہ یا لطیفہ غیر ملکی لوگوں کی سمجھ میں آئےگا؟ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے پیغام کو ہی بدل لیں‘۔ سال 2007 میں میرا نائر کی فلم ’دا نیم سیک‘ ریلیز ہوئی جس میں بالی وڈ سٹار تبّو اور عِرفان خان کے علاوہ ہالی وڈ کے اداکار بھی شامل ہیں۔ فلم کی کہانی کلکتّہ کے ایک ایسے بنگالی خاندان کے گِرد گھومتی ہے جو وطن سے دور امریکہ کے شہر نیو یارک میں آ کر بس گیا ہے۔ جوان بیٹا اور بیٹی امریکی طرزِ زندگی اختیار کرتے ہیں اور ماں باپ آج بھی دیسی سوچ کے حامل ہیں۔ فلم اسی تضاد کی بخوبی عکاسی کرتی ہے۔ ’کراس اوور‘ سنیما کے کئی فلم ساز یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ اگر فلم میں دیسی کِرداروں کے ساتھ گورے کرداروں کو بھی protoganist یعنی ڈرامے کے خاص کرداروں کا درجہ دیا جائے تو پھر گورے لوگ بھی شوق سے فلم دیکھنے جاتے ہیں۔ برطانیہ کے معروف فلم ساز رِچرڈ ایٹنبرا نے اپنی دو فلموں ’گاندھی‘ اور ’کرائی فریڈم‘ میں یہی کیا۔ دیسی کہانی آپ گوروں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گُرندر چڈّھا کی ’بینڈ اِٹ لائک بیکہم‘ اور ’بِرائڈ اینڈ پِِرُجِڈِس‘ میں بھی گورے کردار حاوی ہیں۔ میرا نائر سے میرا اگلا سوال کہ کیا دیسی کرداروں کے ساتھ گورے کرداروں کو شامل کرنے سے ایک کراس اوور فلم امریکہ و یوروپ وغیرہ میں زیادہ شوق سے دیکھی جاتی ہے؟۔ ’میں اِس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ سنیما لوگوں کو ایک الگ دنیا میں پنہچا دیتا ہے جہاں ان کا تعارف مختلف قسم کے کرداروں سے ہوتا ہے اور ان ہی کرداروں کے ذریعے نہ یہ کہ وہ خود کو پہچانتے ہیں بلکہ تمام دنیا کو محسوس کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے کہ کالے لوگوں کی دنیا تک رسائی کے لیے آپ کو کسی گورے کردار کی ضرورت پڑے۔ مثلاً میری فلم ’دا نیم سیک‘ کی روح دیسی ہے اور پوری کہانی آپ دیسی نقطۂ نظر سے ہی دیکھتے ہیں‘۔ واضح رہے کہ گورے کردار پِروٹیگینِسٹ نہیں ہیں پھر بھی ’دا نیم سیک‘ نے امریکہ اور دوسرے مُمالِک میں بہت عمدہ بزنس کیا ہے۔ اس لیے کہ ’دا نیم سیک‘ اُن لاکھوں لوگوں کی کہانی بیان کرتی ہے جنہیں مجبوریوں اور خاص حالات کے تحت ترکِ وطن پر آمادہ ہونا پڑا۔ ’ایک صبح آپ سو کر اُٹھتے ہیں اور اپنی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں تو پاتے ہیں کہ باہر گنگا نہیں ہڈسن ندی بہہ رہی ہے کیونکہ آپ کلکتّہ میں نہیں نیو یارک میں ہیں۔ یہ تبدیلی آپ کی دنیا بدل کر رکھ دیتی ہے‘، میرا نائر یہ کہتے ہوئے خاصی جذباتی ہوجاتی ہیں۔ شاید میری گورے کرداروں والی بات انہیں ناگوار گزری ہے۔ وہ ایک لمبا سانس بھرتی ہیں اور پھر مُجھے ماپتے ہوئے پوچھتی ہیں ’آپ نے مونسون ویڈنگ دیکھی ہے؟‘۔ میں کہنا چاہتا ہوں نہ صرف دیکھی ہے بلکہ یہ میری فیورٹ فلم ہے مگر میں صرف گردن ہلادیتا ہوں۔ میرا نائر کو میری گردن پر شاید بھروسہ نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ’جنہوں نے ’مونسون ویڈنگ‘ دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ میرے ہر دِلّی اور میری پنجابیت کے تئیں ایک پیار کا نغمہ ہے۔ خراجِ عقیدت ہے۔ بھارتی لوگوں کے لیے یہ ایک دیسی فلم ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا نے اسے بے انتہا شوق سے دیکھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ فلم بہت پیار اور محبت سے بنائی گئی ہے‘۔ جنوبی ایشیا کے ان فلم سازوں میں جو کراس اوور سنیما بنا رہے ہیں۔ میرانائر اس وقت سب سے مصروف اور کامیاب فلم ساز ہیں۔ ہالی وڈ میں بڑے سٹوڈیو ان کی کئ فلموں میں کروڑوں ڈالر کی رقم لگا رہے ہیں۔ ان کی فلم کمپنی میرا بائی فلمز ہالی وُڈ ادا کار کِرس ٹکر کے ساتھ ہندی فلم ’مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘ کا انگریزی اڈاپٹیشن بنا رہی ہے۔ وہ خود اس وقت انگریزی کے ناول ’شانتارام‘ پر مبنی فلم کی ہدایت کاری کر رہی ہیں جو بالی وڈ اداکار امیتابھ بچّن کی پہلی ہالی وڈ فلم ہوگی۔ اس کے علاوہ میرانائر ایڈز کی بیماری کے حوالے سے کئی ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنا رہی ہیں اور ساتھ میں افریقی ملک یوگینڈا میں ایک فلم نسٹیٹیوٹ بھی چلاتی ہیں۔ میرا نائر کا کہنا ہے: ’فلمیں ہمیں سفر پر لے جاتی ہیں اور اس سفر میں ہم اپنے جیسے، اپنے سے مختلف، اور بہت بار عجیب و غریب کرداروں سے ملتے ہیں۔ یہ کردار سچّے ہونے چاہیں تو ہی ہمیں لگتا ہے کہ ہم بے انتہا ایمانداری سے بنائی گئی فلم دیکھ رہے ہیں۔ فلم کو جذباتی سطح پر ہم سے رشتہ قائم کرنا چاہیے مگر افسوس یہ کہ سنیما میں آج کل جذباتیت کچھ ندارد سی ہوتی جا رہی ہے۔ سپیشل افیکٹس اور کرتب بازی پر زیادہ زور ہے اور ان سب میں ہم انسان اور اُس کے حالات کو کہیں فراموش کر تے چلے جا رہے ہیں‘۔
080128_us_troops
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/01/080128_us_troops
عراق: پانچ امریکی فوجی ہلاک
امریکی فوج نے کہا ہے کہ عراق کے شہر موصل میں سڑک کے کنارے ایک بم پھٹنے سے پانچ امریکی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایک امریکی فوجی کارواں بم کا نشانہ بنا اور پھر اس پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد امریکی اور عراقی افواج نے وہاں پہنچ کر اسے تحفظ فراہم کیا۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے جمعہ کو شدت پسندوں کے خلاف بڑی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ موصل میں گزشتہ سال تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ موصل میں بدھ کو ایک جگہ پر فلیٹوں میں دھماکے میں چونتیس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ جمعرات کو پولیس کے تین افسران ان فلیٹوں کا معائنہ کرتے ہوئے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔
040619_us_falluja_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040619_us_falluja_rza
امریکہ: فضائی کارروائی کا دفاع
امریکی فوج نے کہا ہے کہ اس نے ہفتے کو عراق کے شہر فالوجہ میں اس سیف ہاؤس کو نشانہ بنایا تھا جسے شدت پسند القاعدہ کے رہنما الزرقاوی کی سرپرستی میں اپنی کارروائیوں کے لئے استعمال کر رہے تھے۔
ہفتے کے ہونے والی اس کارروائی میں بیس عراق مارے گئے تھے ۔ فالوجہ سے ٹیلی وژن پر دکھائی جانے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی میزائلوں کے حملے سے وہاں کافی زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس سال اپریل میں یہاں امریکی فوج اور عراقیوں کے درمیان سخت لڑائی ہوئی تھی۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اہم خفیہ اطلاع تھی کہ الزرقاوی کا نیٹ ورک اس مقام پر موجود تھے جسے نشانہ بنایا گیا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جس جگہ کو ہدف بنایا گیا تھا وہاں کتنے شدت پسند تھے اور کیا خود الزرقاوی جنہیں امریکہ عراق میں کئی بم حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، وہاں پر موجود تھے یا نہیں۔ ہسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فلوجہ میں امریکی کارروائی کا نشانہ بننے والوں میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ امریکی فضائی حملے سے کئی دھماکے ہوئے کیونکہ سڑک کے کنارے رکھا ہوا دھماکہ خیز مواد پھٹ پڑا۔اپریل کے بعد سے فالوجہ کی صورتِ حال نسبتاً بہتر ہے لیکن امریکی فوج ابھی تک وہاں سے شدت پسندوں کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
060803_lahore_blast_hr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/08/060803_lahore_blast_hr
دھماکہ:لاہورچھاؤنی میں متعدد زخمی
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رات گئے ایک دھماکے سے بیس سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکہ کا مقام چھاؤنی کے علاقے آر اے بازار کے قریب ایک فوجی یونٹ بتایا جاتا ہے۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیئے سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا ہے۔ دھماکے کی وجہ ابھی واضع نہیں ہوسکی ہیں۔ مزید تفصیلات بہت جلد۔
vert-fut-56672140
https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-56672140
خلا بازی کا اصل مشن بتائے بغیر چُنے گئے روسی فوجی پائلٹس کی ذہنی و جسمانی تربیت کیسے کی گئی؟
13 اپریل 1961 کو سویت اخبار ازویستیا کے نمائندہ خصوصی جارجی اوستروموف نے خلا میں جانے والے پہلے شخص سے ملاقات کی۔ زمین پر لوٹنے کے ایک دن بعد خلائی پائلٹ یوری گاگارن ہشاش بشاش، صحت مند اور چہرے پر ایک حیران کن مسکراہٹ لیے ہوئے تھے جس سے ان کا چہرہ جگمگا رہا تھا۔
سوویت یونین نے خلائی پروگرام میں بے پناہ وسائل خرچ کیے لیکن یہ باضابطہ طور پر وجود نہیں رکھتا تھا ہر تھوڑی دیر بعد ان کے چہرے پر ایک ڈمپل نمودار ہوتا۔ اوستروموف لکھتے ہیں ’انھوں نے لوگوں کے تجسس پر خلا میں گزارے اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے دواران جو کچھ دیکھا وہ تفصیل سے بتایا۔‘ ایک کتابچے ’سوویت مین ان سپین‘ یعنی سوویت آدمی خلا میں کے نام سے شائع ہونے والے اس متعدد صفحات پر مبنی انٹرویو میں خلا نورد کا اپنے اس تجربے کے بارے میں کہنا تھا ’افق بہت ہی نایاب اور غیر معمولی طور خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔‘ انھوں نے سوویت یونین کی تعریف کی ’میں اپنی پرواز ان تمام لوگوں کے نام کرتا ہوں جو انسانیت کے لیے پیش پیش ہیں اور ایک نیا معاشرہ تخلیق دے رہے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے خلا سے زمین کی مسحور کن تصاویر کتا شاید انسان کا سب سے پرانا ساتھی ہے آواز کی رفتار سے تیز سوویت طیارہ جو ’کونکورڈ‘ کا مقابلہ نہیں کر پایا انڈیا کے پہلے خلا باز کا پاکستان کے خلاف جنگ سے لے کر خلا تک کا سفر ایسے سیاسی نظام میں جہاں صحافت اصل واقعات کی نمائندگی کے بجائے پروپیگینڈا کا حصہ ہو وہاں ممکن ہے کہ گاگارن کی یہ بات من گھڑت ہوں۔ شاید ان الفاظ کو سنسرشپ سے گزارا گیا ہو گا تاہم یہ عین ممکن ہے کہ یہ گاگارن کے اصل الفاظ ہی ہوں۔ روس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پرورش پانے والے گاگارن خاندان کے پسندیدہ شخص تھے۔ وہ یقیناً ایک خوش شکل، وجہیہ اور کمیونسٹ پارٹی کے ایک وفادار رکن تھے۔ یوری گاگارِن بائیں سے دوسرے نمبر پر اگرچہ انسان کے خلا میں جانے کے ڈرامائی واقعات کو ناسا کی جانب سے عوامی سطح پر بیان کیا گیا لیکن حال ہی میں اس بات کا علم ہوا ہے کہ کس طرح سوویت یونین نے اپنے خلا بازوں کو چنا اور ان کی تربیت کی گئی۔ کمیونسٹ حکومت اس خیال کو فروغ دینا چاہتی تھی کہ پہلے خلا باز مرد اور عورت ویلنٹینا تریشکووا کا چناؤ آزادانہ تھا اور یہ دونوں رضا کار تھے، لیکن یہ مکمل طور پر سچ بات نہیں ہے۔ فائٹر پائلٹ کے طور پر کوالیفائی کرنے کے بعد گاگارن کو ناروے کے ساتھ روسی سرحد پر تعینات کیا گیا۔ وہ سرد جنگ کے دوران مغربی سرحد پر مگ 15 جیٹ جنگی طیاروں کی ایئر فیلڈ میں تعینات تھے۔ سنہ 1959 کے موسم گرما کے اواخر میں دو ڈاکٹر اس اڈے میں آئے اور پہلے سے چنے ہوئے چند ہوا بازوں کا انٹرویو کیا۔ اس مقصد کے لیے پہلے 3500 ممکنہ امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے پہلے ہی مغربی روس سے 300 پائلٹس کو الگ کر لیا تھا۔ برسوں تک روسی آرکائیوز کو کھنگالنے کے بعد گاگارن کی مکمل کہانی لکھنے والے سٹیفن واکر کا کہنا ہے کہ ’ان نوجوانوں کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کا انٹرویو کیوں لیا جا رہا ہے۔‘ انٹرویو میں ان سے کریئر، خاندان اور مستقبل کے خوابوں سے متعلق بہت غیر رسمی سی گپ شپ کی گئی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو دوبارہ بات چیت کے لیے بلوایا گیا۔ اگرچہ ڈاکٹروں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ انھیں ایک نئی اڑنے والی مشین کے لیے امیدواروں کی تلاش ہے تاہم انھوں نے کبھی بھی صحیح مقصد نہیں بتایا۔ واکر کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ فوجی پائلٹس تلاش کر رہے تھے جو پہلے سے ملک کی خاطر جان دینے کے عہد نامے پر دستخط کر چکے تھے کیونکہ اس مشن سے زندہ واپسی کے امکان زیادہ روشن نہیں تھے۔‘ اس سخت ٹریننگ میں ناسا کے برعکس خلائی جہاز اڑانے کی تربیت پر کم توجہ دی گئی تھی جہاں ناسا نے اپنے مرکری خلائی جہاز کو اڑانے کے لیے خلا بازوں کے طور پر تربیت یافتہ فوجی پائلٹس کو بھرتی کیا وہیں سوویت خلائی جہاز ’ووسٹوک‘ کو زمین سے کنٹرول کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ صرف ہنگامی حالت میں ہی پائلٹس اسے چلاتے ورنہ ان کا پرواز سے زیادہ لینا دینا نہیں تھا۔ واکر کا کہنا تھا کہ ’انھیں بہت زیادہ تجربہ کار لوگوں کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف کتے کا انسانی متبادل چاہیے تھا، ایسا فرد جو وہاں بیٹھے اور مشن پورا کرے، بڑھتے دباؤ سے نمٹے اور زندہ واپس لوٹ آئے۔‘ سوویت سائنسدانوں کی جانب سے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے خلا میں بھیجے جانے والے کتوں کی طرح ان خلابازوں کو بھی صحت مند، فرماں بردار اور اتنا چھوٹا ہونا تھا کہ وہ اس تنگ کیپسول میں سما سکیں۔ بالآخر 134 نوجوان پائلٹس کو چنا گیا جن کا قد پانچ فٹ سات انچ کے اندر تھا۔ انھیں رضا کارانہ طور پر ایک انتہائی خفیہ مشن سر انجام دینے کا موقع دیا گیا۔ کچھ کو بتایا گیا کہ اس دوران انھیں خلائی جہاز اڑانا ہو گا، کچھ کا خیال تھا یہ ہیلی کاپٹر کا کوئی نیا ماڈل ہے۔ کسی بھی پائلٹ کو اپنے ساتھیوں یا خاندان والوں سے اس بابت بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی اثنا میں اپریل سنہ 1959 میں امریکہ نے مرکری کے لیے اپنے سات خلا بازوں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ ان امیدواروں کو کڑے جسمانی، طبی اور نفسیاتی امتحانوں سے گزرنا پڑا جن کی تفصیل ٹام وولف کی کتاب ’دی رائٹ سٹف‘ میں موجود ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں امریکہ کے خلابازی کے امیدوار جان گلین سے جب ان امتحانات کے تجربے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ان میں سے کسی ایک کا انتخاب مشکل ہے کیونکہ اگر آپ اس بات کا تعین کر سکیں کہ انسانی جسم کے کتنے داخلی راستے ہیں اور آپ کسی میں سے بھی کتنا اندر تک جا سکتے ہیں ۔۔۔ تو آپ کا کیا جواب ہو گا کہ ان میں سے کون سا سب سے زیادہ مشکل ہو گا۔‘ لیکن زیادہ تر سوال اس حوالے سے ہیں کہ انسان خلائی سفر کی سختیاں، دباؤ، بے وزنی پن اور تنہائی سے کیسے نمٹے گا اس لیے جسمانی اور نفسیاتی طور پر سب سے اہل شخص کا انتخاب کرنا تھا۔ ماسکو کے انسٹیٹیوٹ آف ایوی ایشن اور سپیس میڈیسن کے پروفیسر ولادیمر یزدووسکی کو سوویت امیدواروں کے امتحانات لینے کے لیے متعین کیا گیا تھا۔ وہ اس سے قبل خلا میں کتے بھیجنے کے پروگرام کے سربراہان میں سے تھے اور انھیں ان کے ساتھیوں کی جانب سے (نجی محفلوں میں) سخت گیر اور متکبر قرار دیا جاتا تھا۔ واکر کہتے ہیں کہ ’وہ جیمز بانڈ کی فلموں میں سامنے آنے والی ڈراؤنے کرداروں جیسے تھے اور وہ ان لڑکوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتے تھے۔‘ ان خلابازوں کو ناسا کے خلابازوں کی طرح کی کئی ٹریننگز کرنی پڑیں جس میں بے وزنی کی کیفیت سے خود کو ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے سوویت خلابازوں کو جن امتحانات سے گزارا گیا وہ ہر اعتبار سے امریکی خلابازوں کے امتحانات سے زیادہ سخت گیر اور مشکل تھے۔ ایک مہینے کے دوران امیدواروں سے متعدد سوالات پوچھے جاتے، انھیں انجیکشنز لگائے جاتے اور انھیں مختلف جسمانی ورزشیں کروائی گئیں۔ انھیں مختلف کمروں میں رکھ کر درجہ حرارت 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا دیا گیا، انھیں ایسے چیمبرز میں بھی رکھا گیا جہاں آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہوتی اور ایسی سیٹوں پر بٹھایا گیا جو مسلسل لرز رہی ہوتیں۔ کچھ امیدوار ان امتحانات کے باعث بے ہوش ہو جاتے، کچھ پر سکون انداز میں ان میں سے گزر آتے۔ ان تمام مراحل کے دوران ان امیدواروں کو اپنے گھر والوں کو یہ بتانے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اس ایک ماہ کے دوران بھی اکثر امیدواروں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا کس چیز کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ آخر ان امتحانات کے آخر میں 20 نوجوانوں کو ٹریننگ کے لیے نئے خلابازی کے مرکز لے جایا گیا۔ اسے بعد میں سٹار سٹی کا نام دیا گیا لیکن شروعات میں یہ ماسکو کے قریب ایک جنگل میں چند فوجی کمروں پر مشتمل تھا۔ اس حوالے سے کوئی پریس کانفرنس یا اعلان نہیں کیا گیا یعنی سرکاری طور پر اس دوران سوویت یونین کا انسانوں کو خلا میں بھیجنے کا پروگرام سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ واکر کے مطابق ’اگر وہ اس مرکز کو چھوڑتے تو انھیں کسی کو بھی اس بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا اس جگہ کیوں موجود ہیں۔ اگر کوئی پوچھتا تو وہ کہتے کہ ہم ایک کھیلوں کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ سب کچھ کنٹرولڈ اور خفیہ رکھا گیا تھا۔ سب کچھ بند دروازوں کے پیچھے ہو رہا تھا۔‘ یہ ٹریننگ پروگرام امریکی پروگرام سے خاصی مماثلت رکھتا تھا، لیکن اس میں خلائی جہاز کو کنٹرول کرنے پر کم توجہ دی گئی تھی۔ خلا میں بھیجے جانے والے کتوں کی طرح ان امیدواروں کو بھی انتہائی تیز رفتاری سے گول گھمایا جاتا، انھیں کئی کئی دن ایسے چیمبرز میں بند کیا جاتا جن میں آواز داخل نہ ہو سکے اور پھر ان کے مسلسل جسمانی اور ذہنی امتحانات لیے جاتے۔ ایک بڑا فرق جو ان دونوں پروگرامز میں تھا، وہ یہ کہ روسی خلابازوں کو پیراشوٹ کی ٹریننگ بہت زیادہ کروائی گئی تھی۔ یہ اس لیے تھا کیونکہ انھیں واپسی پر خلائی جہاز سے نکل کر پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر اترنا تھا تاکہ وہ لینڈنگ کے دوران شدید زخمی ہونے سے بچ سکیں۔ یہ تفصیل کہ کیپسول اور پائلٹ علیحدہ لینڈ کریں گے اسے بھی کافی سالوں بعد منظر عام پر لایا گیا۔ ان 20 میں سے بھی اکثر امیدوار امتحانات میں ناکام ہوتے گئے اور یوں صرف چھ خلاباز باقی رہ گئے اور انھیں پہلے خلائی سفر کے لیے چنا گیا۔ ناسا کی جانب سے جب اس حوالے سے عوامی طور پر اعلان کیا گیا کہ وہ خلا میں پہلا شخص 1961 میں بھیجے گا تو سوویت خلائی پروگرام کے سربراہ سرگی کورولیف کو معلوم تھا کہ ان پاس وقت بہت کم ہے۔ پانچ اپریل 1961 کو یہ تمام امیدوار قزاقستان کے صحرا میں قائم بیکونور کوسموڈروم پہنچے جہاں کورولیف کا آر سیون راکٹ ان کا منتظر تھا۔ ابھی تک کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ کون سب سے پہلے خلا میں جائے گا۔ لانچ سے کچھ ہی روز قبل گاگارن کو خلا میں جانے کی اجازت مل گئی۔ گاگارن جب زمین کے اوپر موجود مدار میں پہنچے تو ہی اس پروگرام سے منسلک افراد کے علاوہ لوگوں کو ایک سرکاری اعلان کے باعث ان کا نام معلوم ہوا۔ ازویسیتیا کے خصوصی نمائندے کے مطابق 12 اپریل کی صبح گاگارن نے ’اپنے ساتھیوں اور اہلکاروں کو آخری مرتبہ ہاتھ ہلایا اور خلائی جہاز میں بیٹھ گئے۔ کچھ ہی سیکنڈز کے بعد کمانڈ دے دی گئی اور یہ دیوہیکل جہاز ستاروں اور بادلوں کی جانب سے لپکا۔‘ وہ جب زمین پر واپس پہنچے تو وہ سوویت یونین کے ’پوسٹر بوائے‘ تھے ایک ایسا خلائی پائلٹ جو صیحیح معنوں میں روسی تھا۔
sport-55282744
https://www.bbc.com/urdu/sport-55282744
اکرم پہلوان نے کیا صرف خاندانی وقار کی خاطرانوکی سے کُشتی لڑی؟
12 دسمبر1976 کو مشہور بھولو خاندان سے تعلق رکھنے والے اکرم پہلوان جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں جاپانی پہلوان انتونیو انوکی سے مقابلے کے لیے رنگ میں اترے تھے تو ہزاروں کی تعداد میں وہاں موجود جذباتی شائقین کو صرف اس منظر کا شدت سے انتظار تھا کہ اکرم پہلوان ایک ہی داؤ میں اپنے جاپانی حریف کو ِچت کر دیں گے لیکن کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ اکرم پہلوان جسمانی اور ذہنی طور پر اس قابل ہی نہ تھے کہ وہ انوکی کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرتے۔ یہ بھی پڑھیے
انڈیا کا دل جیتنے والا پاکستانی صادق پہلوان ساؤتھ ایشین گیمز: پاکستانی پہلوانوں کے طلائی تمغے ’مٹی کے اکھاڑوں سے میٹ ریسلنگ کا سفر آسان نہیں‘ سومو پہلوان سانس کیسے لیتے ہیں اکرم پہلوان کے بھتیجے اور بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو اس واقعے کو 44 سال گزر جانے کے بعد یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹمیرے چچا یہ کشتی طے ہو جانے کے بعد سخت بیمار ہوگئے تھے۔ ان کی شوگر خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی۔ میرے والد بھولو پہلوان نے بھی یہ بات واضح طور پر محسوس کی تھی کہ اکرم پہلوان سے اس کشتی کی وہ تیاری نہیں ہو پا رہی جو ہونی چاہیے۔ وہ پوری توانائی سے ورزشیں نہیں کر پا رہے تھے۔‘ کشتی لڑنے سے روکا کیوں نہیں؟ ناصر بھولو سے سوال تھا کہ اگر اکرم پہلوان کی ایسی حالت ہوگئی تھی تو انہیں کشتی سے روکا کیوں نہیں گیا اور یہ مقابلہ منسوخ کردیا جاتا۔ ناصر بھولو کہتے ہیں ʹدراصل انوکی اور باکسر محمد علی کے درمیان ہونے والے مقابلے کے بعد میرے چچا نے انوکی کو لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ اب اگر وہ مقابلہ کرنے سے منع کر دیتے تو یہ ہماری خاندانی روایات کے منافی بات ہوتی۔ وہ اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے اسی لیے مکمل صحت مند نہ ہونے کے باوجود انھوں نے رنگ میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن سچ تو بہرحال سچ ہوتا ہے، حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ میرے چچا اس وقت وہ کشتی لڑنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ʹ ناصر بھولو اس بات کو بہرحال فخریہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا نے اس حالت میں بھی انوکی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور مقابلے کو تیسرے راؤنڈ تک لے جانے میں کامیاب رہے تھے۔ کیا یہ بے جوڑ کشتی تھی؟ عام خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کشتی میں دونوں پہلوان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت انوکی کی عمر 33 سال تھی جبکہ اکرم پہلوان 43 سال کے ہوچکے تھے۔ رستم زماں گاماں پہلوان پر 1962 میں شائع ہونے والی کتاب میں فہیم الدین فہمی اکرم پہلوان کی تاریخ پیدائش 1933 بتاتے ہیں لیکن ناصر بھولو کا کہنا ہے کہ انوکی سے لڑتے وقت اکرم پہلوان تقریباً پچاس سال کے ہوچکے تھے۔ کشتی میں کیا ہوا؟ اکرم پہلوان اور انوکی کے درمیان ہونے والی یہ کشتی چھ راؤنڈ پر مشتمل تھی۔ دونوں پہلوانوں نے محتاط انداز میں ابتدا کی اور ایک دوسرے پر داؤ آزمانے شروع کیے۔ اس دوران ایک دوسرے کو نیچے بھی گرایا لیکن فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ دو راؤنڈ میں دونوں کی طرف سے کوئی خطرناک داؤ نظر نہیں آیا۔ تیسرے راؤنڈ کا آغاز ہوا لیکن دوسرے ہی منٹ میں مقابلہ اس وقت روک دیا گیا جب انوکی کے آرم لاک نے اکرم پہلوان کو بچ نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ اس دوران اکرم کے کارنر سے ان کے بھائی اور دیگر ساتھی رنگ میں داخل ہوگئے۔ اس موقعے پر دونوں جانب سے خاصی گرما گرمی دیکھنے میں آئی جس پر انوکی نے جو خاصے ُپرسکون نظر آرہے تھے اشارے سے اپنے ساتھیوں کو رنگ سے باہر جانے کے لیے کہا۔ انوکی ہاتھ فضا میں بلند کرکے اپنی جیت کا اعلان کر رہے تھے اور اس کے بعد شائقین کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے وہ رنگ سے نیچے اترے اور چلے گئے۔ دوسری جانب اکرم پہلوان ٹی وی کیمرے کے سامنے انوکی پر منفی انداز اختیار کرنے کا الزام عائد کر رہے تھے۔ ناصر بھولو جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں کہتے ہیں ’انوکی نے اکرم کو آرم لاک لگایا جس سے ان کا بازو ُاتر گیا۔ دراصل ان کا بازو پہلے بھی ُاتر چکا تھا اور جب یہ ایک بار اتر جائے تو پھر یہ بار بار ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اس کشتی کی ویڈیو دیکھی ہو تو انوکی مسلسل اکرم پہلوان کی آنکھوں کو مسل رہے تھے اور جہاں انہیں موقع ملتا وہ انگوٹھا بھی آنکھوں میں مار رہے تھے جو قواعد و ضوابط کے خلاف بات تھی۔‘ ٹیلی ویژن پر براہ راست کوریج انوکی اور اکرم پہلوان کی یہ کشتی ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی۔ اس کوریج کے نگراں پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئر پروڈیوسر اطہر وقار عظیم تھے۔ اطہر وقار عظیم کہتے ہیں ’ایس ایم نقی کے علاوہ ہمارے ڈائریکٹرز مصلح الدین اور زبیر صاحب اس مقابلے کی کمنٹری کر رہے تھے۔ اس موقعے پر جاپانی ٹیلی وژن کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ انہیں ہم نے لائیو کوریج فراہم کی تھی۔ یہ کوریج چھ کیمروں سے کی گئی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ کوئی بھی لمحہ نظر سے نہ رہ جائے لیکن یہ مقابلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا تھا۔‘ اکرم پہلوان نے یوگنڈا کے صدر کو بھی ہرایا تھا۔ اکرم پہلوان کے چچا رستم زماں گاماں پہلوان تھے جبکہ ان کے والد امام بخش پہلوان رستم ہند تھے۔ اکرم پہلوان نے اپنے کریئر میں کئی مشہور کشتیاں لڑیں اور اپنے دور کے کئی بڑے پہلوانوں کو شکست دی۔ جس نیشنل سٹیڈیم کراچی میں انہیں انوکی نے شکست دی اسی میدان میں انھوں نے 1965 میں انڈین پہلوان ہردم سنگھ کو ہرایا تھا۔ اکرم پہلوان نے 1953 میں افریقہ کے دورے میں کئی یادگار مقابلے جیتے تھے۔ کینیا میں انھوں نے وہاں کے چیمپئن مہندر سنگھ کو شکست دی۔ اسی دورے میں اکرم پہلوان نے یوگنڈا کے سب سے طاقتور پہلوان عیدی امین کو بھی شکست سے دوچار کیا جو بعد میں یوگنڈا کے صدر بنے تھے۔ اکرم پہلوان اپنے کریئر میں صرف چار پہلوانوں سے ہارے جن میں لاہور کے کالا پہلوان، آسٹریلیا کے بگ ِبل ورنا، ڈنمارک کے اینٹن گِیزنک اور جاپان کے انوکی شامل ہیں۔ انوکی سے ہونے والی کشتی ان کے کریئر کا آخری مقابلہ ثابت ہوئی۔ اکرم پہلوان نے اپنے آخری ایام بہت تکلیف میں گزارے۔ علاج کے لیے انہیں انگلینڈ اور انڈیا کے ہسپتالوں میں بھی داخل ہونا پڑا لیکن شوگر کا مرض اتنا بڑھ گیا کہ ان کی ان کی ٹانگ بھی کاٹ دی گئی تھی۔ ان کی وفات 12 اپریل 1987 کو لاہور میں ہوئی۔ ناصر بھولو کہتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا کہ شوگر کی وجہ سے ان کے گردے خراب ہوگئے تھے۔ خاندان کے ان مشہور پہلوانوں نے کبھی بھی اپنے علاج معالجے پر توجہ نہیں دی جس کا انہیں افسوس ہے۔ انوکی کی جھارا سے کُشتی اکرم پہلوان کی انوکی سے شکست کے بعد ان کے خاندان کی دوسری نسل بھی انوکی کے مدمقابل آئی۔ سترہ جون 1979 کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہونے والے اس مقابلے میں انوکی کے مقابلے پر زبیر عرف جھارا پہلوان تھے جو بھولو پہلوان کے چھوٹے بھائی اسلم پہلوان کے بیٹے تھے۔ پانچ راؤنڈ کی یہ کشتی برابر رہی تھی لیکن اختتام پر انوکی نے جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کیا جس پر جھارا کے ساتھیوں نے جشن منانا شروع کردیا تھا۔ اس کشتی کے ریفری نے بعد میں کمنٹری باکس میں آکر یہ بتایا کہ انوکی کی جانب سے جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جھارا اس کُشتی کے فاتح ہیں۔ انوکی جھارا کے بھتیجے کو جاپان لے گئے انوکی نے اکرم پہلوان کو ہرانے کے بعد بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو کو جاپان آنے کی دعوت دی تھی اور اس سلسلے میں ان کے پروموٹر کو خط بھی لکھے تھے لیکن بھولو پہلوان نے اپنے بیٹے کو اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن بعد میں انوکی جھارا پہلوان کے بھتیجے اور اسلم پہلوان کے پوتے ہارون عابد کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کرسکیں۔
world-52515317
https://www.bbc.com/urdu/world-52515317
کووڈ 19: ہم جنگ کے زمانے کی کوششوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
عام طور پر جنگ کے وقت کے لیے موزوں زبان کو کووڈ 19 کے وبائی امراض کے لیے زندہ کیا جا رہا ہے لیکن کیا ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ماضی کے معرکوں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
جنوری 1941 میں ونسٹن چرچل نے برطانیہ کی پارلیمنٹ کے دارالعوام سے ایک بہت ہی اداس کرنے والا خطاب کیا۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے ایک انتہائی تاریک دور میں کہا: 'ہماری سلطنت اور در حقیت انگریزی بولنے والی دنیا ایک انتہائی تاریک اور مہلک وادی سے گزر رہی ہے۔ لیکن میں اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام رہوں گا اگر میں آپ کو صحیح صورتحال سے آگاہ نہ کر سکوں کہ ایک عظیم قوم کو جنگ کا سامنا ہے۔' دوسری جنگ عظیم اور موجودہ کورونا وائرس کی وبائی بیماری کے مابین ان دنوں بہت موازنہ ہو رہا ہے۔ نیویارک کے گورنر اینڈریو کوومو، جنھیں جنگ کے وقت کے صدر سے موازنہ کیا گیا ہے، نے اپنی روزانہ کی بریفنگ کو جنگی زبان میں تیار کیا ہے۔ جس میں انھوں نے بیماری کے گراف کے خط کو 'پہاڑ کی چوٹی پر اگلی جنگ' کہا ہے جبکہ 'وینٹیلیٹرز کی اہمیت کو دوسری جنگ عظیم کے دوران بم کی اہیمت' کے مترادف قرار دیا ہے۔ دریں اثنا یورپی رہنما ایک ناگزیر 'ڈی ڈے' کی بات کر رہے ہیں جبکہ وبائی مرض کے سامنے ہسپتال بے بس نظر آئیں گے اور اس کے خلاف جنگ کو ایک نہ نظر آنے والے دشمن کے خلاف جنگ کہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن محاذوں پر ہیں، سائنس دان نئے جرنیل ہیں، ماہرین معاشیات جنگی منصوبے تیار کر رہے ہیں، سیاست دان موبیلائیزیشن کی اپیل کر رہے ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے ملکہ الزبتھ دوم نے برطانوی عوام سے وہی نظم و ضبط اپنانے اور اسی جذبے کی تاکید کی جو لوگوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران دکھایا تھا۔ ملکہ نے ایک نادر ٹیلی ویژن خطاب کے دوران یاد کرتے ہوئے کہا: 'اس سے مجھے میری پہلی براڈکاسٹ یاد آ رہی ہے جو میں نے اپنی بہن کی مدد سے سنہ 1940 میں کی تھی۔' مشکل وقت میں خوش رہنے کے چند کارگر نسخے لاک ڈاؤن میں ایک حاملہ خاتون پر کیا گزرتی ہے؟ کورونا وائرس: ٹیلی کلینک آپ کے لیے کیسے مددگار؟ کووڈ 19 کے مردوں اور عورتوں پر اثرات مختلف کیوں؟ آن لائن ڈیٹنگ اور چھت پر ڈِنر، لاک ڈاؤن میں ڈیٹنگ کی کہانیاں اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے والوں کا دکھ کیا لاک ڈاؤن کے دوران کھانے پینے کی عادات تبدیل ہونے پر پریشان ہونا چاہیے؟ اگر چہ کورونا وبائی مرض بہت سے اہم معاملات میں جنگ سے مختلف ہے لیکن یہ انھی اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ کسی عالمی ہنگامی صورتحال کے دوران استعمال کیے جاتے ہیں۔ پیداوار میں اضافے سے لے کر وسائل کی تیز بحالی، سرکاری نگرانی میں اضافے کے ساتھ ترغیبی منصوبوں یہاں تک کہ راشننگ وغیرہ جیسے اقدامات سنہ 2020 میں وائرس کے خلاف جنگ میں بڑے ملکوں کو ایک بار پھر سے جنگی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کیا دوسری جنگ عظیم کے دوران نظر آنے والے اجتماعی اضطراب، ہنگامی اقدامات، قومی ہم آہنگی کی ضرورتوں اور معاشرے میں آنے والی ڈرامائی تبدیلیوں سے اس ضمن میں کوئی سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا 'متحدہ محاذ' کے جدید تصور میں کوئی غلط فہمی ہے؟ یعنی ایک ایسی غلط فہمی جو وبائی امراض کے پس منظر کے خلاف کام کرے گی؟ مشترکہ قربانی کیسی ہوگی اور اس بار یہ ہمارے مستقبل کی تشکیل کیسے کرے گی؟ جنگ کے وقت کی نفسیات کی طرح کورونا وائرس وبائی امراض کے بارے میں جتنی ہماری سمجھ ہے یعنی جس طرح اس بیماری کی اپنے آپ میں سمت و رفتار ہے جو کہ غیر واضح ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جب سیاست دان (یا صحافی) وبائی مرض اور جنگ کے درمیان آسان مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خطرناک مفروضے قائم کر سکتے ہیں۔ وہ موازنے جو عسکریت پسندی، منظم تشدد یا سویلین کے بے قابو ہونے کے خطرے پر منبی ہیں وہ کارآمد نہیں ہیں۔ یہ توجہیات نقصان دہ بھی ہوسکتی ہیں بطور خاص ایسی صورت حال میں جب ہر لمحے نئی معلومات آ رہی ہیں اور ڈیٹا میں مسلسل تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نارتھ کیرولینا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مارک آر ولسن کا کہنا ہے کہ 'مثال کے طور کورونا وائرس کے خلاف جنگ سے ہماری صحت کا نظام یا عالمی تجارت میں بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ ہم اپنے تخیل کو قلیل مدت تک جاری رہنے والی سرگرمی تک محدود کر دیتے ہیں۔' سازوسامان کی کمی، صحت کی دیکھ بھال میں عدم مساوات، ہنگامی پروٹوکول کی غیر موجودگی، وفاقی اور مقامی پالیسیوں کے درمیان ٹکراؤ، غربت اور معاشرتی عدم مساوات جیسے بڑے عالمی سطح کے مسائل کووڈ کے خلاف جنگ سے حل نہیں ہوتے اگرچہ یہ جنگ مجازی یا استعاری ہی کیوں نہ ہو۔ ولسن کا مزید کہنا ہے کہ 'بحران کے دوران اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے اس کے لیے کوئی خودکار فارمولا موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کو ماضی میں دلچسپی لینا چاہیے اور وہ ماضی میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔' دوسری جنگ عظیم کے دوران جہازوں، ٹینکوں اور بمباروں جیسی اشیا کی پیداوار میں اچانک تیز رفتاری لانے کی اشد ضرورت کی وجہ سے ایک متحرک معاشی نظام کی صورت پیدا ہوئی۔ امریکہ اور عظیم برطانیہ نے بطور خاص سویلین مصنوعات بنانے والی اپنی فیکٹریوں کو جنگی سازوسامان بنانے والی فیکٹریوں میں تبدیل کر دیا۔ کار بنانے والوں نے اس کے بجائے فوجی ٹرک بنانا شروع کر دیا۔ گھڑی ساز کمپنیاں اور پلمبنگ صنعت کاروں نے گولہ بارود کارتوس ڈیزائن کرنا شروع کردیا۔ ریشمی موزوں کو پیراشوٹ بنانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ پچھلے مہینے سے ہم ایک بار پھر تبدیلی کے اس رجحان کو دیکھ رہے کہ پوری دنیا میں کمپنیاں اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش میں اپنی صنعت کو تبدیل کر رہی ہیں۔ پرتعیش برانڈ لوئس ووٹن نے صرف 72 گھنٹوں میں اپنی پرفیوم ڈسٹلری میں عام طور پر استعمال ہونے والے الکحل سے ہینڈ سینیٹائزرز تیار کرنا شروع کر دیا اور اس کے بعد اسے فرانس بھر کے ہسپتالوں میں تقسیم کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر جنگی ٹینک تیار کرنے والی امریکی آٹو موبل کمپنی ایک بار پھر سامنے آئی ہے اور اس بار وہ ہزاروں وینٹیلیٹرز تیار کر رہی ہے جبکہ برطانیہ میں لباس کے تاجروں نے فیشن کی دنیا سے رخ موڑ کر این 95 ماسک بنانے شروع کر دیے ہیں جس کی دنیا بھر میں طلب بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر کی ایئر لائنز نے بیرون ملک پھنسے ہوئے شہریوں کی وطن واپسی اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور طبی سازو سامان کو شدید طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچانے کے لیے چارٹرڈ پروازیں شروع کردی ہیں۔ یو ایس این ایس کمفرٹ جیسے بحری ہسپتال جو کہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاج کے لیے تھے اب وہ دوسرے ہسپتالوں کے لیے امدادی کام کر رہے ہیں جو کہ کووڈ 19 کے مریضوں سے بھر گئے ہیں۔ از سر نو تعیناتی کا یہ حساب کتاب صرف سازوسامان اور خدمات پر ہی نہیں بلکہ انسانی سرمائے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ نیورو سرجنز، دل کے امراض کے ماہرین، طبی طالبہ و طالبات سبھی کو ہنگامی علاج کے وراڈز اور انتہائی نگہداشت والے وارڈز میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ استقبالیہ پر عام طور پر بِلنگ کا معاملہ دیکھنے والوں کو اچانک کورونا وائرس کے مریضوں کی اسکریننگ کرنے کا کام سونپ دیا گیا ہے تاکہ کام کرنے والوں کی شدید قلت کو کسی حد تک پورا کیا جائے۔ ریستوران کے کارکنان ہنگامی دیکھ بھال کرنے والی نرسوں کے لیے بڑے پیمانے پر کھانا بنانے پر مامور ہیں جبکہ والدین اپنے بچوں کے کل وقتی اساتذہ بن چکے ہیں، جب کہ ہوٹل کے مینیجر کو صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے طور پر تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ کس طرح ہیلتھ کیئر سے منسلک لوگوں کے دروازے کھولیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران پیداوار میں اضافے کے لیے طے کیے جانے والے اقدامات پر عمل درآمد میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ لیکن آج ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہمارے پاس مہینے نہیں بلکہ ہفتے ہی ہیں۔ اور ہماری موجودہ کوششیں بس پیوندکاری ہی لگ رہی ہیں۔ اس کے برعکس دوسری عالمی جنگ کی موبیلائیزیشن کی بے مثال کوششوں مثلاً اس کی ڈرامائی پیداوار، منافع پر قابو پانے اور وفاقی ضابطہ بندی وغیرہ سے کورونا وائرس کے اگلے مرحلے کے متعلق سبق لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے جنگ کے دوران کیا اسی طرح اہلکار بالکل نئی فیکٹریوں کو فنڈ دینے اور انھیں مشینری اور اوزار (اس معاملے میں، وینٹیلیٹرز یا ذاتی حفاظتی پوشاک) سے آراستہ کرسکتے ہیں۔ موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کے بجائے کووڈ 19 کے لیے نئی مختص سہولیات کے قیام سے حکومتیں صلاحیت میں اضافہ کر سکتی ہیں اور اس سے خطرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ آئندہ کئی مہینوں تک یہ فیکٹریاں اینٹی باڈی ٹیسٹ اور ایک ویکسین بنانے میں تیزی لانے کا کام کر سکتی ہیں اور حکام بحران کے معیار کی مزید ضابطہ بندیاں کر سکتے ہیں جیسے کہ خاص مریض کے لیے کسی علاج کی تفویض یا پھر طبی آلات یہاں تک کہ کھانے کے معاملے میں راشننگ بھی کر سکتے ہیں۔ ان اقدامات کی قلیل مدتی مالی لاگت بہت زیادہ ہوگی لیکن اس کا فائدہ بھی ہوگا ہے۔ در حقیقت کورونا وائرس پھیلاؤ کے بعد کے مہینوں میں تیز حکومتی اقدامات کے بہتر نتائج بھی نظر آئے ہیں۔ مثال کے طور پر چین میں ہزاروں کارکنوں نے سرکاری احکامات پر فیلڈ ہسپتال بنایا۔ ماڈیولر تعمیر اور تیز موبیلائیزیشن کا مطلب تھا کہ کچھ ہی دنوں میں ہزاروں مزید کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی طور پر نافذ کی جانے والی سماجی دوری نے بھی ٹائم لائن کو کم کرنے کا کام کیا ہے۔ یہ ایک طرح کی انفرادی قربانی ہے جو گھر کی سطح پر جنگ کے وقت کے تناؤ کی یاد دلاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے 'قربانی میں برابری' کے پیغام پر مزدور رہنماؤں اور یونین کے عہدیداروں نے زور دیا جبکہ زیادہ ترقی پسند ٹیکسوں اور حکومتی ضابطوں کے ذریعہ اس کو پھیلایا گیا۔ لیکن یہ آج کے سیاسی اور مالی تناظر میں ناقابل عمل ہے۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں لوگوں نے تعمیل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ یہاں تک کہ زیادہ بھلائی کے لیے ذاتی قربانیاں بھی دیں۔ امریکی تاریخ میں جنگ کے وقت کے تصور پر وسیع پیمانے پر لکھنے والی ایموری یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر میری ایل ڈڈزیاک کا کہنا ہے کہ 'جنگ کے موبیلائیزیشن کے پہلوؤں کی وجہ سے لوگ جنگ کو ایک استعارے کے طور پر لے رہے ہیں۔ لیکن 'وبائی مرض' کوئی 'جنگ' نہیں ہے۔ کوئی ملک جنگ کا جواب لوگوں کو ہلاک کر کے دیتا ہے۔ لیکن کسی وبا میں رد عمل دوسرے لوگوں کو مارنا نہیں بلکہ ان کی زندگی کو بچانا ہے۔' تعمیل کرنے کی خواہش، ذاتی قربانیاں دینا یہ سب چیزیں اس وبا کی تناظر میں تباہی کے مقصد کے لیے نہیں ہیں بلکہ اس بڑی اچھائی کے لیے ہیں جو کہ واقعی اچھائی ہے یعنی مختلف ملکوں کے درمیان آپسی تعاون اور انسانی زندگی کا تحفظ۔ ولسن کا کہنا ہے کہ 'بحران کے لمحے اصلاح کے مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔' دوسری جنگ عظیم کے سبب قومی صحت کی دیکھ بھال میں اصلاحات آئیں اور اقوام متحدہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسی بین الاقوامی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ اور امریکہ میں اس کے سبب جی آئی بل متعارف ہوا جس میں جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں کے لیے اہم فوائد کا ذکر تھا۔ کورونا کی وبا کے بعد معمول پر واپسی نہیں ہوگی اس وقت کی جانے والی تمام اصلاحات اپنے دائرہ کار میں عمومی نہیں ہیں۔ہر چند کہ برطانیہ کا صحت کا آفاقی نظام نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) دوسری عالمی جنگ کے بطن سے پیدا ہوا لیکن امریکہ کا کم مضبوط طبی نظام سامنے آیا جس میں سب کا بیمہ نہیں تھا۔ کورونا وائرس کے بحران میں ایسی ہی اصلاحات آ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں یا گروسری اسٹور پر کام کرنے والے عملے کے لیے معاوضے کے پیکیجز، یا اس سے پوری طرح سے معیشت کی تنظیم نو کو فروغ مل سکتا ہے، جس کے نتیجے میں آفاقی صحت کی دیکھ بھال یا ملازمت کے تحفظ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ہم توقع کرسکتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سیاسی قائدین اور مفکرین کی ایک نئی نسل سامنے آئے گی۔ سائنسی ماہرین کو آپ پیش پیش دیکھ سکتے ہیں۔ جس طرح جرنیل جنگ کے وقت میں روزانہ بریفنگ دینے میں آگے آگے ہوتے تھے اب انتھونی فوکی جیسے طبی ماہرین مائکروفون پر وبائی خطوط کے اتار چڑھاؤ، سماجی فاصلے اور دواؤں کے دوسرے استعمال جیسے پیچیدہ نظریات کی وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور شاید جنگ کے نئے جرنیل ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ اور ایشیا کا بیشتر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ان اعداد و شمار پر یقین کرنا بھی مشکل ہے کہ تقریبا چھ کروڑ افراد کی موت ہوئی تھی۔ در حقیقت سنہ 1945 کو اکثر صفر کے سال کے نام سے جانا جاتا ہے یعنی جنگ کی تباہی سے پہلے اور بعد کی مدت کو بیان کرنے کے نئے طریقے کے طور پر۔ دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا جس پر دنیا بھر کے لوگوں میں تنازع رہا۔ اسے محرومیوں کے ساتھ امید کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ حکومتی اخراجات نے کاروبار کو سنبھالنے میں مدد دی جس نے صدر روزویلٹ کی نئی ڈیل کو دور ہی رکھا۔ پورے امریکہ اور یورپ میں جنگ کے وقت کے موبیلائیزیشن اور اختراع پسندی نے روزگار کو تحفظ فراہم کیا اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم کو فروغ دیا جبکہ انسانی ہنر سے منسلک بالکل ہی نئی ٹیکنالوجی اور صنعت کو پیدا کیا۔ پرانی نظریاتی رکاوٹیں منہدم ہو گئیں لیکن سرمایہ، کاروبار اور معاشرتی تعلقات کے نئے خیالات سامنے آئے۔ شہری اور وفاقی، ملک و بیرون ملک جیسی غیر معمولی اور حوصلہ مند کوششوں کا مطلب یہ تھا کہ قومیں بالآخر سنبھل سکتی ہیں۔ جنگ کے بعد کے ایک امریکی صدارتی امیدوار کے بیان کو غلط تناظر میں پیش کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس وبائی امراض کے بعد 'معمول کی طرف لوٹنا' نہیں ہو سکے گا۔ اپنے گھروں کی آرام و آسائش میں بیٹھ کر تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے ہم اس سے کئی قسم کے سبق حاصل کرنے پر غور کر سکتے ہیں لیکن ہم یقین سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔ تاہم اس بحران نے بین الاقوامی سطح پر موبیلائز کیا ہے جو کہ جنگ کے بعد کے 80 سال میں نظر نہیں آیا ہے۔ اس وبا کا تقاضا ہے کہ زیادہ خطرات والی تیز اور فوری کوششیں کی جائیں۔ اس وبا نے دنیا کے لوگوں کو متحد کر دیا ہے، زلزلہ کی صورت میں پیدا ہونے والی عالمی تبدیلی کو مہمیز لگا دی ہے جو کہ آنے والے کئی سالوں تک رہے گا۔ پہلے کی طرح ہم آج بھی ملکہ برطانیہ کے جنگ کے زمانے کے عہد سے کچھ ہمت حاصل کر سکتے ہیں کہ 'ہم پھر سے اپنے دوستوں کے ساتھ ہوں گے۔ ہم پھر سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوں گے۔ ہم پھر ملیں گے۔'
080531_democratic_usa
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/05/080531_democratic_usa
امریکہ:ڈیموکریٹک پارٹی کا اہم اجلاس
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی سنیچر کو ایک اجلاس میں فیصلہ کرے گی کہ آیا فلوریڈا اور مِشیگن میں ڈالے گئے ووٹوں کو پارٹی کا صدارتی امیدوار منتخب کرنے کی دوڑ میں شامل کیا جائے گا۔ پارٹی نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان دونوں ریاستوں سے امیدوار منتخب کرنے کے عمل میں شامل ہونےکاحق چھین لیاتھا۔
فلوریڈا اور مشیگن میں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری میں ووٹنگ کروائی گئی تھی۔ ہلری کلنٹن چاہتی ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنا فیصلہ بدل دے گی کیونکہ انہیں ان ریاستوں میں کافی حمایت حاصل ہے۔ وہ صدارتی امیدوار کی دوڑ میں اس وقت تک اپنے مخالف بارک اوباما سے پیچھے ہیں اور یہ مہم آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ ہلری کلنٹن کو امید ہے کہ پارٹی کی تیس رکنی کمیٹی فلوریڈا اور مشیگن سے منتخب ہونے والے ارکان کو پارٹی کے اگست میں ہونے والے کنونشن میں ووٹ ڈالنے کا حق دے گی۔ ان دونوں ریاستوں کے نتائج کے مطابق وہاں ہلری کلنٹن کو زیادہ ووٹ ملے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کلنٹن نے اور نہ ہی اوباما نے وہاں انتخابی مہم چلائی اور مشیگن میں تو اوباما کا نام بھی بیلٹ پیپر پر نہیں تھا۔ ہلری کلنٹن اس وقت ووٹوں کی گنتی میں اوباما سے کچھ پیچھے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اگر فلوریڈا اور مشیگن کے ووٹ گنتی میں شامل کیے گئے تو ان کا اوباما سے فرق کم ہو جائےگا اور وہ اگست میں پارٹی کے ان رہنماؤں کو اپنی حمایت پر قائل کر سکیں گی جن کی وابستگی ابھی طے نہیں ہوئی۔
pakistan-54308801
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54308801
پائلٹس کے ’مشتبہ اور جعلی لائسنسز‘ کا معاملہ: کیا ایئر لائنز کی جانب سے ’غلط تفصیلات‘ کی فراہمی متعدد پاکستانی پائلٹس کو ’مشتبہ‘ قرار دینے کی وجہ بنی؟
وفاقی حکومت اور وزارتِ ہوا بازی کی جانب سے پاکستان میں ’جعلی اور مشتبہ لائسنس کے حامل پائلٹس‘ کے معاملے پر چوتھا مؤقف سامنے آیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایئر لائنز نے اپنے پائلٹس کے حوالے سے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 'غلط تفصیلات' فراہم کیں جن کی بنیاد پر متعدد پائلٹس کو غلطی سے ’مشتبہ لائسنس یافتہ‘ قرار دیا گیا۔
چند ماہ قبل جعلی اور مشکوک لائسنسز کے اجرا سے شروع ہونے والا یہ معاملہ اب بالآخر ‘پائلٹس کی غلط تفصیلات کی فراہمی‘ پر پہنچ چکا ہے اور سی اے اے کی جانب سے غلط معلومات کی فراہمی کا ذمہ دار ایئرلائنز کو قرار دیا گیا ہے اس حقیقت سے قطع نظر کہ ایئرلائنز کا پائلٹس کی لائسنسنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں شہری ہوا بازی کے نگراں ادارے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ نے ملک کی تین ایئرلائنز کو لکھے گئے ایک خط میں دعویٰ کیا ہے کہ ’(اس حوالے سے قائم ہونے والے) بورڈ آف انویسٹیگیشن کے جواب کے مطابق یہ رائے قائم ہوئی کہ ایئرلائنز نے پائلٹس کا خامیوں والا اور غلط ڈیٹا بورڈ آف انویسٹیگیشن کو فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں سول ایوی ایشن ریکارڈ کے فرانزک آڈٹ کے دوران 262 مشتبہ پائلٹس کی فہرستوں میں متعدد پائلٹس کی غلط نشاندہی کی گئی تھی اور انھیں اس معاملے میں ملوث کیا گیا۔‘ یہ بھی پڑھیے پی آئی اے نے ’مشتبہ لائسنس‘ کے حامل 141 پائلٹس گراؤنڈ کر دیے پاکستان میں پائلٹس کو لائسنس کے اجرا کا عمل معطل ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟ ’مشکوک پائلٹس نے امتحانات کے نظام تک غیر مستند طریقے سے رسائی حاصل کی‘ ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ خالد محمود نے مزید لکھا کہ ’ایئرلائن آپریٹرز سے پائلٹس کے نظرثانی شدہ ڈیٹا کی وصولی کے بعد بورڈ آف انویسٹیگیشن کو درخواست کی گئی تھی کہ مذکورہ پائلٹس کے کمپیوٹرائزڈ پائلٹ لائسنس امتحان کے ریکارڈ کی دوبارہ تصدیق کی جائے۔ ’اس کے مطابق بورڈ آف انویسٹیگیشن نے ایئرلائن کی جانب سے فراہم کردہ نظرثانی شدہ ڈیٹا کی دوبارہ تصدیق کی اور یہ بتایا کہ 30 پائلٹس کے امتحانی ریکارڈ درست نکلے ہیں۔ اس سے قبل جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی وہ پائلٹس کے غلط شناختی نمبرز کی وجہ سے ہوا جو ایئرلائن آپریٹرز کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔‘ اس خط میں سی اے اے کی جانب سے ایئرلائنز کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ اُن حکام کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے پائلٹس کا غلط ڈیٹا فراہم کیا، جس کے نتیجے میں ان پائلٹس کو غلط انداز میں اس معاملے میں ملوث کرتے ہوئے مشتبہ قرار دیا گیا۔ چند روز قبل پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی جواب داخل کروایا جس میں ان وجوہات کی نشاندہی کی گئی جن کی وجہ سے لائسنسنگ کے معاملے میں یہ گڑبڑ ہوئی۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے لائسنسنگ کے معاملے پر یہ بورڈ آف انویسٹیگیشن 22 فروری 2019 کو تشکیل دیا تھا۔ اس بورڈ کی جانب سے جاری کی گئی فہرستوں کو بنیاد بنا کر وفاقی وزیر برائے ہوابازی نے پارلیمان میں بیان دیا تھا کہ پاکستان میں ڈھائی سو سے زیادہ پائلٹس مشتبہ یا جعلی لائسنس کے حامل ہیں۔ وفاقی حکومت اور ادارے اب تک کیا کیا مؤقف اختیار کر چکے ہیں؟ کراچی میں پیش آئے طیارہ حادثے کے بعد رواں برس 24 جون کو وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے پارلیمان میں دعویٰ کیا تھا کہ ’پاکستان میں 860 فعال پائلٹس میں سے 262 ایسے پائلٹس ہیں جنھوں نے خود امتحان نہیں دیا بلکہ ان کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا، پیسے دے کر ڈمی امیدوار بٹھائے گئے جبکہ چار پائلٹس کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں۔‘ اِس بیان کے دو دن بعد یعنی 26 جون کو غلام سرور خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام 262 پائلٹس ’مشتبہ لائسنس کے حامل ہیں۔‘ تاہم اس پریس کانفرنس کے بعد 13 جولائی کو ڈائریکٹر جنرل سی اے اے حسن ناصر جامی، جو سیکریٹری ایوی ایشن بھی ہیں، کا ایک خط منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے عمان کے سول ایوی ایشن حکام کو لکھا تھا کہ پاکستان سول ایوی ایشن کی جانب سے جاری کیے گئے تمام لائسنس درست ہیں۔ ’پاکستان میں 860 فعال پائلٹس میں سے 262 ایسے پائلٹس ہیں جنھوں نے خود امتحان نہیں دیا بلکہ ان کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا، پیسے دے کر ڈمی امیدوار بٹھائے گئے جبکہ چار پائلٹس کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں‘ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ 'جتنی بھی ناکامی ہوئی ہے اس سے بہت بڑی ناکامی ہونی تھی اگر ہمیں یہ پتا چل جاتا کہ ہمارے پاس ایک انکوائری رپورٹ میں آ گیا ہے کہ 160 پائلٹس کے مشکوک لائسنس ہیں۔ جیسے ہم نے اس معاملے کو پیش کیا وہ بہتر ہو سکتا تھا، بدقسمتی سے ہم نے اس طرح پیش نہیں کیا۔' عمران خان نے وزیر ہوا بازی کو اس معاملے کو غلط انداز میں پیش کرنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انھوں نے تفصیلی رپورٹ دی جو سات، آٹھ مہینے میں تیار ہوئی۔ جو رپورٹ سامنے آئی وہ بڑی خوفناک تھی۔ یہ میں اپنی حکومت کی کمزوری مانتا ہوں کہ اس کو ایسے بھی پیش کر سکتے تھے کہ اتنا برا ردِ عمل نہ آتا۔‘ اس صورتحال کے بعد سے اب تک پاکستان سول ایوی ایشن نے خاموشی سے تقریباً 100 سے زیادہ پائلٹس کے لائسنسوں کو کلیئر کر دیا ہے جنھیں ابتدا میں مشکوک قرار دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے حتمی صورتحال واضح اس لیے نہیں کہ کیونکہ لائسنسوں کی معطلی کی احکامات جاری کرتے وقت ساری خط و کتابت ایئرلائنز کے ساتھ کی گئی تھی۔ تاہم اب پائلٹس کی کلیئرنس کے خطوط براہِ راست بھجوائے جا رہے ہیں۔ ’ڈیٹا درست فراہم نہیں کیا گیا‘ اس دعوے میں کتنی جان ہے؟ پائلٹس کے ڈیٹا کا مرکز سی اے اے اور خصوصاً اِس کی لائسنسنگ برانچ ہوتی ہے۔ اور ایئر لائنز کو غلط ڈیٹا فراہم کرنے کا خط بھی اسی برانچ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے لکھا ہے۔ اس سے یہ امکان بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سی اے اے نے مبینہ طور پر اپنے ڈیٹا بیس کو دیکھنے کی بجائے ایئرلائنز کی جانب سے ملنے والے ڈیٹا پر مکمل انحصار کیا اور یہ زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ایئرلائنز سے ملنے والے ڈیٹا کی تصدیق اپنے ڈیٹا بیس سے کی جائے۔ صحافی طاہر عمران سے بات کرتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے ترجمان عبداللہ خان نے کہا ہے کہ ’سول ایوی ایشن نے ہم (پی آئی اے) سے جو بھی ڈیٹا مانگا وہ انھیں مطلوبہ فارمیٹ کے تحت مہیا کیا گیا۔ اپریل 2020 میں مانگے گئے ڈیٹا فارمیٹ میں صرف نام، ملازمت کا نمبر اور لاگز مانگے گئے جو سی اے اے کو فراہم کر دیے گئے تھے۔ لیکن درحقیقت لائسنسنگ سے متعلقہ معلومات بشمول پائلٹس کے لائسنسنگ نمبرز بھی مانگے جانے چاہییں تھے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پی آئی اے انکوائری کی اصل سمت یا تفصیلات سے واقف نہیں تھا لہٰذا سی اے اے کی جانب سے جو تفصیلات طلب کی گئی تھیں وہ فراہم کر دی گئیں۔ ’اب اس معاملے پر پی آئی اے یا دیگر آپریٹرز (ایئرلائنز) کو ذمہ دار ٹھہرانا صحیح نہیں ہو گا۔ لائسنس سول ایوی ایشن کے فرائض میں سے ایک ہے اور پی آئی اے اور دیگر ائیرلائنز کے پائلٹس اور دیگر عملہ لائسنس کے اجرا یا تجدید یا کیٹیگری کی بہتری کے لیے اُن ہی سے رجوع کرتے ہیں۔‘ ایک نجی ایئرلائن کے سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پائلٹس کا سارا ریکارڈ سول ایوی ایشن کے پاس ہوتا ہے، ایئرلائنز کو اس سلسلے میں موردِ الزام ٹھہرانا جائز نہیں ہے۔‘ اب تک ڈیڑھ سو سے زائد ایسے پائلٹس اپنا نام کلیئر کروا چکے ہیں جنھیں پہلے مشکوک اور مشتبہ قرار دیا گیا تھا جبکہ بہت سے پائلٹس ایسے ہیں جو اپنا کیس عدالتوں میں لے جا چکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی اس سارے معاملے پر بہت سے سوالات اٹھا چکا ہے اور اب سوال یہ ہے کہ سی اے اے کی جانب سے لکھے گئے اس نئے وضاحتی خط اور اس میں سامنے آنے والے نئے دعوے کے بعد صورتحال کیا نیا موڑ اختیار کرے گی؟ سی اے اے کا مؤقف سی اے اے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سول ایوی ایشن کے پاس بہت سارا ڈیٹا ہوتا ہے مگر ایئرلائنز کے پاس بھی اس کے علاوہ بہت سارا ایسا ڈیٹا ہوتا ہے جو سول ایوی ایشن تک نہیں پہنچتا جیسا کہ ڈیوٹی روسٹر، فلائنگ آورز، شیڈول، اور یہی معلومات حاصل کرنے کے یہ ساری کارروائی کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ڈیٹا اس لیے بھی حاصل کیا جانا ضروری تھا تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ پائلٹس کو امتحانات کی تیاری کے لیے وقت کیوں نہیں دیا گیا۔ یہ سب ڈیٹا پائلٹس سے نہیں، ایئرلائن سے حاصل کیا جانا تھا۔‘ اس کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ ’ایئرلائنز ڈیٹا دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھیں اور بار بار کہنے پر ڈیٹا فراہم کیا گیا جو کہ براہِ راست وزیراعظم کی مداخلت پر بلآخر سول ایوی ایشن کو دیا گیا۔‘ پی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ایئرلائن نے ڈیٹا سب سے پہلے فراہم کیا اور سب سے پہلے تعاون کیا۔
081114_pakwindies_scorecard
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/11/081114_pakwindies_scorecard
پاکستان: ٹاس جیت کر بیٹنگ
پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ابو ظہبی میں ہونے والے دوسرے ایک روزہ میچ میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے سلمان بٹ اور خرم منظور نے بیٹنگ کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے جیروم ٹیلر اور ڈیرن پاؤل نے بالنگ کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان: سلمان بٹ، خرم منظور، یونس خان، مصباح الحق، شعیب ملک (کپتان)، شاہد آفریدی، کامران اکمل،سہیل تنویر، عمر گل، افتخار انجم اور سعید اجمل۔ ویسٹ انڈیز: کرس گیل (کپتان)، ایس چیٹرگُون، مارشل، ساروان، چندرپال، ایس ای فِنڈلے، سی ایس بوغ، جیروم ٹیلر، ملر، ڈیرن پاؤل، بیکر۔
040415_eu_reaction_on_osama_uj
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/04/040415_eu_reaction_on_osama_uj
’اسامہ کی پیشکش نامنظور‘
یورپی یونین کے رکن ممالک نے اسامہ بن لادن کے آڈیو ٹیپ میں یورپی ممالک کے ساتھ القاعدہ سے کسی بھی قسم کے ممکنہ امن مذاکرات کی تجویز کو یکسر رد کر دیا ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے یہ رد عمل اسامہ کے اُس ٹیپ کے جواب میں سامنے آیا جس میں بن لادن نے کہا تھا کہ یورپی ممالک کے ساتھ القاعدہ امن کے سلسلے میں مذاکرات پر تیار ہو سکتی ہے بشرطیکہ ان میں واشنگٹن کو شامل نہ کیا جائے۔ فرانس کے صدر ژاک شیراک نے جرمنی کی حکومت کا موقف اختیار کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کی اس پیشکش پر کہا کہ فرانس کے لیے دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا نہ ممکن ہے۔ اسی ٹیپ پر برطانوی حکومت نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ پیش کش سچ پر مبنی بھی ہے تو اس کے ذریعے امریکہ اور یورپ کو جُدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘۔ اطالوی وزیر خارجہ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایسا سوچنا بھی ممکن نہیں کہ اسامہ بن لادن کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات ہو سکتے ہیں جبکہ اسی ٹیپ والی پیشکش پر سپین کے نئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی تجاویز کو نظرانداز کردینا چاہیے۔
040522_bangladesh_arrest_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/05/040522_bangladesh_arrest_sen
سلہٹ دھماکے کے چار ملزم گرفتار
بنگلہ دیش کے شمال مشرقی شہر سلہٹ میں ایک مزار سے ملحق مسجد میں بم دھماکے میں زخمی ہونے والوں میں سے برطانوی ہائی کمشنر کے محافظ سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور پولیس نے اس سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔
دھماکہ حضرت شاہ جلال کے مزار سے ملحقہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت ہوا۔ اس دھماکے میں چالیس افراد زخمی ہوئے تھے جن میں برطانوی ہائی کمشنر سمیت کئی اعلی پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ برطانوی وزیرخارجہ جیک سٹرا نے اس بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ برطانوی ہائی کمشنر انور چوہدری پہلے مسلمان ہیں جنہیں کسی ملک میں برطانوی سفارت کاری کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ انور چوہدری کے تقرر سے برطانیہ اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں اہم پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔ انور چوہدری بنگلہ دیشی نژاد برطانوی ہیں اور انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔ مزار پر اسی سال جنوری میں بھی دھماکہ ہوا تھا جس میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دھماکے کے بعد فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انور چوہدری کو ڈھاکہ منتقل کر دیا گیاتھا۔
060513_communists_w_bengal
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/05/060513_communists_w_bengal
مغربی بنگال: ناقابل شکست بایاں محاذ
ہندوستان کے ریاستی انتخابات میں ایک بار پھر کمیونسٹ جماعتیں ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ مغربی بنگال میں گزشتہ 29 برسوں میں سی پی ایم یعنی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسِسٹ) کی یہ ساتویں جیت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی مغربی بنگال میں اگلے پانچ سالوں تک اقتدار میں رہے گی اور اسکے ساتھ ہی اقتدار میں اس کے 35 برس پورے ہوجائیں گے۔
انٹرنیٹ پر عوامی اِنسائیکلوپیڈیا ’وکیپیڈیا‘ کی ایک ریسرچ کے مطابق مغربی بنگال میں جمہوری طریقے سے منتخب دنیا کی سب سے طویل المیعاد کمیونسٹ حکومت ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ صحافی اندرانی چکرورتی کا کہنا ہے کہ ’مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پارٹی نے امیر لوگوں کی زمین غریبوں میں تقسیم کی ہے اور یہ کام انہوں نے 80 کی دہائی میں کیا تھا۔‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دنیا کی دوسری کمیونسٹ پارٹیوں کی طرح مغربی بنگال میں بھی کمیونسٹ پارٹی اپنا بڑا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب رہی ہے۔کولکتہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سنجیو مکھرجی کا کہنا ہے ’کمیونسٹ پارٹی کی یونینز میں سماجی اور سیاسی اعتبار سے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ غریب مزدوروں سے لیکر ڈاکٹر، کالج پروفیسرز اور ٹیکسی ڈرائیور تک سبھی ان کی یونین کا حصہ ہیں۔ ایسی یونیینز کسی دوسری پارٹی میں نہیں پائی جاتی ہیں۔‘ مکھرجی نے مزید کہا کہ ’ریاست میں تقریبا پونے پانچ کروڑ ووٹرز ہیں جس میں سے تقریبا دو کروڑ رائے دہندگان کمیونسٹ پارٹی کی یونین کے رکن ہیں۔ اسی لیے ان کی جیت یقینی ہوجاتی ہے۔‘ مغربی بنگال میں تقریبا 20 فی صد مسلم رائے دہندگان ہیں اور روایتی طور پر مسلم بائیں محاذ کے حامی رہے ہیں۔ گزشتہ تیس برسوں میں یہاں ایک بار بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ کولکتہ میں الیکٹرانک سامان کی تجارت کرنے والے ضیا علی کا کہنا ہے کہ ’اترپردیش میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد فرقہ وارانہ فسادات اور گجرات میں مسلم کش فسادات کے بعد میرے بہت سے رشتہ دار اپنے شہر چھوڑ کر یہاں آئے اور سی پی آئی ایم کے ووٹرز بن گۓ۔‘ لیکن ضیا کو یہ بھی لگتا ہے کہ حال میں مسلم ووٹروں میں کمی آئی ہے۔ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ان کے سماجی اور معاشی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ ریاست میں کمیونسٹ پارٹی کی مضبوطی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی میں اختلافات کم ہوئے ہیں اور جماعت کبھی ٹوٹی بھی نہیں ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کوئی بھی پارٹی اگر اقتدار میں ہو تو وہ جلدی بکھرتی نہیں ہے۔ مغربی بنگال میں بیرونی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ اور بڑی کمپنیوں کے نہ ہونے سے روز گار کے مواقع کم ہیں۔ لیکن حکومت نے سڑک کے کنارے چھوٹی دکانیں اور ٹیکسی اسٹینڈ لگانےکی اجازت دے دی ہے۔ اس ریاست کی اقتصادی ترقی میں تو تیزی نہیں آئی ہے لیکن غریب طبقے کی روزی روٹی کا سہارا ضرور ہے۔ اس بار سی پی ایم کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ کی کرشماتی شخصیت بھی ہے جو لبرل پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی زبردست انتخابی مہم نے اچھا اثر چھوڑا ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی بنگال میں اپوزیشن بہت کمزور ہے اور اس بار تو کچھ زیادہ ہی کمزور ثابت ہوا ہے۔ ساتویں بار اقتدار میں آنے کے بعد بائیں محاذ کے سامنے سب سے بڑا چیلنچ یہ ہے کہ وہ غربت کا خاتمہ کیسے کرے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرسکے۔ ظاہر ہے بنگال کے عوام اب زیادہ دنوں تک مفلسی کی زندگی نہیں گزار سکتے ہیں۔
world-49950918
https://www.bbc.com/urdu/world-49950918
تیونس: قانونی سیکس ورکرز اپنے مستقبل کے لیے فکر مند
تیونس میں کئی دہائیوں تک سرکاری سرپرستی میں قحبہ خانے چلتے رہے ہیں۔ یہ اب بھی قانونی ہیں مگر جیسا کہ شیریں الفیکی رپورٹ کرتی ہیں، حقوقِ نسواں کی کارکنان اور قدامت پسند مذہبی حلقوں نے ان میں سے تقریباً تمام کو بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
تیونس کے بند ہوتے قحبہ خانوں میں زندگی کیسی ہے؟ اپنی زندگی کی دوسری دہائی جینے والی غیر شادی شدہ ماں عامرہ، تیونس کی کئی دیگر خواتین کی طرح اپنا پیٹ پالنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مگر عامرہ کا کام عمومی ملازمت سے کہیں مختلف ہے۔ وہ عرب دنیا کے باقی رہ جانے والے چند ہی قانونی سیکس ورکرز میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں صبح سات بجے اٹھتی ہوں، اپنا منہ دھوتی ہوں، میک اپ کرتی ہو، ہال میں جاتی ہوں، کافی پیتی ہوں اور پھر اپنا کام شروع ہونے کا انتظار کرتی ہوں۔‘ تیونس میں قحبہ گری کا پیشہ دو سطحوں پر قائم ہے۔ پہلے میں حکومت سے رجسٹرڈ قحبہ خانے ہیں جہاں خواتین سیکس ورکرز کو ریاست کی جانب سے اپنا کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ دوسری قسم غیر قانونی سیکس ورک کی ہے جس میں پکڑے جانے پر دو سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ یہ بھی پڑھیے نکاحِ متعہ:’کتنی بار شادی ہوئی صحیح تعداد یاد نہیں‘ سیکس سے ہونے والی چار نئی خطرناک بیماریاں کون سی ہیں؟ سیکس سکینڈل جس نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا 19 ویں صدی میں جب تیونس پر فرانس نے قبضہ کیا تو 'کلائنٹس' کو جنسی بیماریوں سے بچانے کے لیے احتیاط کے نام پر سیکس ورک کو قانونی ضوابط کے تحت کر دیا گیا۔ قانونی سیکس کے موجودہ قوانین سنہ 1940 کی دہائی میں نافذ کروائے گئے تھے اور سنہ 1958 میں تیونس کی آزادی کے بعد بھی یہ اپنی جگہ موجود رہے۔ مگر یہ کتنا عرصہ قائم رہیں گے؟ سنہ 2010 میں اٹھنے والی تحریکوں سے قبل تیونس بھر میں تقریباً ایک درجن جگہوں پر 300 سے زائد سیکس ورکرز موجود تھیں مگر آج صرف دو شہروں تونس اور صافقس میں مٹھی بھر قانونی قحبہ خانے موجود ہیں۔ تیونس میں قانونی سیکس کے موجودہ قوانین 1940 کی دہائی میں نافذ کروائے گئے تھے اور 1958 میں آزادی کے بعد بھی یہ اپنی جگہ موجود رہے مگر کہا نہیں جا سکتا کہ یہ کتنا عرصہ قائم رہیں گے۔ (فائل فوٹو) ’مجھے نکال دیے جانے کا ڈر ہے‘ 25 سالہ عامرہ نے جب پانچ سال قبل صفاقس میں کام شروع کیا تھا تو اس وقت 120 قانونی سیکس ورکرز تھیں۔ اب وہ ایک درجن ایسی خواتین میں سے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’وہ ایک ایک کر کے خواتین کو نکالتے جا رہے ہیں۔ انھیں چھوٹی سے چھوٹی غلطی کرنے پر نکال دیا جاتا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ ایک دن ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہو گا۔‘ کلائنٹ کے ساتھ جھگڑنا یا پھر اپنے کمرے میں شراب نوشی کرنا ملازمت سے فارغ کیے جانے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ہم اپنے بچوں کے لیے اور کرائے ادا کرنے کے لیے کافی رقم کما لیتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اصل میں تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر انھوں نے مجھے نکال دیا تو میں کہاں جاؤں گی؟‘ دوسری جانب تیونس میں لگ بھگ 40 برس کی طلاق یافتہ نادیہ کو اچھی طرح اس کا جواب معلوم ہے۔ وہ ملک کے قانونی قحبہ خانوں میں کام کرتی رہی تھیں اور جنوبی شہر قفصہ میں قیام پذیر تھیں۔ سنہ 2011 میں سلفی انتہاپسندوں کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کے بعد وہ قحبہ خانہ بند ہو گیا۔ اُس سال ملک بھر کے کئی قانونی قحبہ خانے بند ہوئے۔ نادیہ قفصہ میں ہونے والے حملے میں زخمی ہوگئی تھیں۔ جب وہ بہتر ہوئیں تو انھیں تنزلی کے شکار سرکاری نظام میں واپس آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ وہ سڑکوں پر ہونے والے غیر قانونی سیکس کی طرف چلی گئیں۔ ’مجھے بچانے والا کوئی نہیں تھا‘ وہ قانونی نظام میں اپنی پرانی زندگی کو یاد کرتی ہیں۔ ’یہ کسی محفوظ قحبہ خانے میں ہونے سے بالکل مختلف ہے۔ وہاں ہمارے پاس [ہفتہ وار طبی چیک اپ کے لیے] ڈاکٹر موجود ہوتا تھا، فیمیل کونڈم اور ایک میڈم موجود ہوتیں [جو معاملات پر نظر رکھتیں]۔‘ ’اب جب مجھے کوئی کلائنٹ ملتا ہے تو میں خوف کا شکار رہتی ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی نہیں جو میری حفاظت کرے یا میرے ساتھ کھڑا ہو۔‘ وہ زخموں کے نشانات کے حامل اپنے چہرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ایک مرتبہ میرے کلائنٹ نے میرے ساتھ سونے کے بعد میرے پیسے چرا لیے، مجھے مارا، اور میرا گلا دبایا۔ اب میرا جسم زخموں سے بھرا ہوا ہے اور جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، میری ناک بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔‘ کارتھیج یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور صفِ اول کے انسانی حقوق کے کارکن واحد فرشیشی کہتے ہیں کہ تیونس میں سیکس ورک کے مستقبل نے ملک میں حقوق کے کارکنان کو تقسیم کیے رکھا ہے۔ جب شخصی آزادیوں کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات، بشمول ہم جنس پرستی کی مجرمانہ حیثیت ختم کرنے کے لبرل طبقے کے مطالبات کے باوجود حقوقِ نسواں کے کئی کارکنان سیکس ورک پر لکیر کھینچ دیتے ہیں۔ پروفیسر فرشیشی کہتے ہیں ’سیاست اور سول سوسائٹی میں ایسے کئی لوگ ہیں جو [قانونی قحبہ خانوں کی] بندش کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ سیکس ورک نئی قسم کی غلامی یا انسانی سمگلنگ کے مترادف ہے۔‘ ’پر اگر ہم یہ تمام جگہیں بند کر دیں اور تیونس کی تعزیرات کا اطلاق کریں تو ہمیں ان تمام خواتین کو جیل میں ڈالنا ہوگا، تو حل کیا ہے؟‘ یہ بھی پڑھیے میا خلیفہ: ’پورن میں کوئی پیسے نہیں‘ ’شمالی کوریا کی خواتین چین میں جسم فروشی پر مجبور‘ عرب دنیا میں اب سیکس پر بات کرنا ممنوع نہیں سیکس ورک میں تنزلی ایک نئے مجوزہ قانون میں جیل کی بجائے 500 دینار (175 ڈالر یا 140 پاؤنڈ) کا جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ مگر خواتین کے لیے یہ جرمانہ بہت بھاری ہو گا اور جو خواتین اس سے متاثر ہوں گی انھیں اس حوالے سے خدشات ہیں۔ صفاقس میں سیکس ورکرز کی ایک تنظیم چلانے والی بوثینا آؤساوی کہتی ہیں ’ایسے وقت میں جب ملک میں پیسہ نہیں اور نہ ہی ملازمتیں ہیں، ایسا بالکل بھی معقول نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی سیکس میں اب کمائی کے مواقع گرتے جا رہے ہیں۔ سیکس ورک کو اس لیے بھی نقصان پہنچا ہے کیونکہ انھیں مذہبی حلقوں کی جانب سے مذمت کا ڈر ہوتا ہے۔ کئی سیکس ورکرز نے مسابقتی صورت حال کا بھی تذکرہ کیا ہے جس میں انھیں تیونس کی تارکِ وطن آبادی کی خواتین کی جانب سے مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آؤساوی کہتی ہیں '500 دینار بہت زیادہ ہیں۔ وہ اتنے پیسے کہاں سے لائیں گی جب انھیں فی کلائنٹ صرف 15 سے 20 دینار (5 سے 7 ڈالر) ملتے ہیں۔' پروفیسر فرشیشی انسانی حقوق کے ان چند کارکنوں میں سے ایک ہیں جو کھلے عام اسے قانونی قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ’سیکس کی تجارت جرم نہیں رہے گی اور تیونس کی حکومت ان تمام خواتین سے معافی مانگے گی جنھیں اس وجہ سے جیل میں ڈالا گیا ہے۔‘ مگر جب تک تیونس کی اسلام پسند سیاسی جماعت النھضۃ حکومت میں ہے، تب تک شاید یہ دن کچھ دور ہو۔ مہرضیا لبیدی قانونی قحبہ خانوں کو پسند نہیں کرتیں مگر اس کے باوجود انھیں وہاں رہنے والی خواتین کے لیے متبادل کی فکر ہے النھضۃ کی ایک نمایاں رکن مہرضیا لبیدی اسے قانونی قرار دینے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اگر ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار کی خلاف ورزی کی گئی تو ہمارے خاندانی نظام کی خلاف ورزی ہو گی اور جو اقدار ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر سیکھیں، یہ ان کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔‘ یہ سیاستدان تیونس میں ان سیکس ورکرز سے ملاقات کے لیے مشہور ہیں جو سنہ 2014 میں سوسہ کے ساحلی شہر میں اپنے قحبہ خانوں کے بند ہونے کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ وہ قانونی قحبہ خانوں کو پسند نہیں کرتیں مگر اس کے باوجود انھیں وہاں رہنے والی خواتین کے لیے متبادل کی فکر ہے۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں ’ہم کیسے ان کے لیے صحت، رہائش، خوراک اور زندگی کی دیگر سہولیات یقینی بنا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر ایسا انھیں کوئی ملازمت دے کر کیا جا سکتا ہے یا پھر معاشرے کو انھیں قبول کرنے پر آمادہ کر کے۔‘ وہ کہتی ہیں ’بات صرف قوانین اور سیاسی فیصلوں کی نہیں بلکہ ذہنیت تبدیل کرنے کی ہے۔‘ اگر سیکس ورک پر پابندیوں کا رجحان یوں ہی جاری رہا تو مسئلہ یہ ہو گا کہ اس پیشے سے منسلک خواتین کیا کریں گی۔ تیونس میں ملازمتیں تلاش کرنا مشکل کام ہے اور خاص طور پر یہ خواتین کے لیے اور زیادہ مشکل ہے جن کے لیے بے روزگاری کی شرح مردوں کے مقابلے میں دگنی ہے۔ ’معاف کیجیے، ہم آپ کو ملازمت نہیں دے سکتے‘ عفف ایک سابق میڈم ہیں جن کا قحبہ خانہ حال ہی میں بند ہو چکا ہے۔ وہ ان مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اگر [سابق سیکس ورکر] کسی ریستوران میں برتن دھونے بھی جاتی ہے تو ایک یا دو دن بعد وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خاتون تو قحبہ خانے میں کام کرتی رہی ہے جس پر باس نے کہنا ہے کہ ’معاف کیجیے، ہم آپ کو ملازمت نہیں دے سکتے۔‘ دوسری جانب عامرہ کے پاس مستقبل کے حوالے سے کم ہی امیدیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ہمارے خاندانوں کے لیے ہمیں اپنانا مشکل ہو گا۔ اگر مجھے قحبہ خانے سے نکال دیا تو میں سڑک پر آ جاؤں گی اور مسجد کے سامنے اپنے بچے کے لیے بھیک مانگوں گی۔ مجھے امید ہے کہ لوگ مجھ پر رحم کھا ہی لیں گے۔‘ شیریں الفیکی سیکس اینڈ دی سیٹاڈل نامی کتاب کی مصنفہ ہیں اور بی بی سی عربی کے لیے لکھتی ہیں۔
pakistan-55141127
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55141127
اسحاق ڈار: ’فوج بطور ادارہ نہیں، کچھ افراد جمہوری عمل کو کمزور کر رہے ہیں‘
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وہ فوج پر بطور ادارہ جمہوری عمل کو کمزور بنانے کا الزام عائد نہیں کرتے بلکہ ’یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے، وہی لوگ جو پاکستان میں مارشل لا نافذ کرتے ہیں۔‘
لندن میں مقیم مسلم لیگ نواز کے رہنما اسحاق ڈار نے بی بی سی کے شو ’ہارڈ ٹاک‘ میں پاکستان کو درپیش معاشی مسائل، اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے فوجی قیادت پر سنگین الزامات پر بات کی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اب ان کی حکمت عملی کیا ہو گی ایک ایسے وقت میں جب نواز شریف ہزاروں لوگوں کے سامنے ویڈیو لنک پر کہہ چکے کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی، انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے اور ملک میں معاشی بدحالی کے ذمہ دار ہیں؟‘ اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’یہ حقیقت ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے۔ ہیلری کلنٹن بھی ڈیپ سٹیٹ سے متعلق پاکستان کی مثال دے چکی ہیں۔ بات ڈان لیکس سے شروع ہوئی۔ نواز شریف جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔۔۔ کیا اس میں کوئی برائی ہے؟ برطانیہ بھی تو جمہوریت اور جمہوری اقدار کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آپ تو ہمارا ساتھ دیں گے۔‘ یاد رہے کہ ماضی قریب میں پاکستانی فوج کا شعبہ تعلقات عامہ اور حکمراں جماعت واضح انداز میں پاکستانی سیاست میں فوج کے مبینہ کردار اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ’کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی فوج اور آرمی چیف پاکستان میں تمام جمہوری عمل کو کمزور بنا رہے ہیں؟ اس پر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’یہی تو عالمی رپورٹس کہہ رہی ہیں۔ صرف ہم یہ نہیں کہہ رہے۔‘ یہ بھی پڑھیے عمران خان: مجھ پر فوج کا کوئی دباؤ نہیں ہے، ساری خارجہ پالیسی ہماری ہے نواز شریف کا جنرل باجوہ پر ن لیگ حکومت کو ’رخصت‘ کرانے کا الزام فوج سے بات ہو سکتی ہے لیکن عوام کے سامنے، چھپ چھپا کر نہیں: مریم نواز بلاول: یقین ہے نوازشریف نے بغیر ٹھوس ثبوت فوجی قیادت کے نام نہیں لیے ہوں گے فوج کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فوج کا پورا ادارہ نہیں، ہمیں کچھ افراد کی بات کرنی ہو گی۔ یہ پورے ادارے کی بات نہیں ہو رہی۔ ہمیں اس میں فرق کرنا ہو گا۔ یہ کچھ لوگوں کی خواہش اور منصوبہ ہے۔ جو پاکستان میں مارشل لا لگاتے ہیں۔‘ ان سے مزید وضاحت کے لیے پوچھا گیا کہ ’کیا آرمی چیف باجوہ کی قیادت میں جمہوری عمل کو کمزور کیا جا رہا ہے؟‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، اور اگر یہ بغیر کسی شبہ کے اب ثابت ہو گیا ہے۔۔۔ کوئی تو منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف کے اداروں اور ڈیپ سٹیٹ سے مسائل نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ وہ ایسا کیوں کہیں گے؟‘ اکتوبر 2018 اور نومبر 2019 میں دیے گئے اپنے انٹرویوز میں پاکستانی فوج کے اُس وقت کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے، فوج پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے مگر الزام لگانے والوں کو شواہد پیش کرنے چاہییں۔ انھوں نے کہا تھا کہ تاریخ سے ثابت ہو گا کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے، پاکستان میں میرا گھر ہے جو موجودہ حکومت نے مجھ سے چھین لیا ہے‘ ان سے سوال پوچھا کہ ’ان کے باس نواز شریف کئی سالوں تک ضیا کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اب ایسا کہہ رہے ہیں، کیا یہ منافقت کے مترادف ہے؟‘ اس پر ان کا جواب تھا کہ ’میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ یہ ارتقا کا عمل ہے۔‘ اینکر نے پوچھا کہ ’کیا یہ اس لیے ہے کہ اب وہ اقتدار میں نہیں؟‘ تو سابق وزیر خزانہ پاکستان ان کا جواب تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ’وہ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔‘ انھوں نے اس سوال پر دوبارہ وزیر داخلہ کے بیان کی مثال دی۔ اینکر سٹیفن سیکر نے سب سے پہلے ان سے سوال کیا کہ ’اسحاق ڈار صاحب آپ پاکستان میں اشتہاری اور مطلوب ہیں۔ تو کیا آپ قانون سے بچنے کے لیے لندن آئے ہیں؟‘ اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ ’نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ میرے خیال میں آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہوں گے کہ گذشتہ 73 برسوں کے دوران مختلف آمریت کے ادوار میں کرپشن کے بیانیے کو بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہ اس مرتبہ بھی اس سے کچھ مخلتف نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پوشیدہ آمریت ہے، ایک جوڈیشل مارشل لا ہے۔‘ رواں ماہ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے اعلان کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے سنہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔ اکتوبر میں سما نیوز کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف کبھی جمہوری نہیں تھے، انھیں فوجی جرنیلوں نے ہی سیاستدان بنایا تھا اور اب چونکہ وہ اور ان کی پارٹی حکومت سے باہر ہے اس لیے فوج ہو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کے رہنما 'باہر بیٹھ کر فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ دباؤ بڑھا کر کسی نہ کسی طرح بیٹھ کر مشرف کی طرح این آر او (بدعنوانی کے مقدمات سے نجات) مل جائے۔‘ اسحاق ڈار کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ میرے پر لگائے گئے الزام بے بنیاد ہیں، میرا نام پاناما پیپرز میں نہیں تھا۔ میں اپنے خلاف الزامات کے خلاف ثبوت پیش کر سکتا ہوں۔‘ اینکر نے سوال کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا نام پانامہ پیپرز میں نہیں تھا۔ لیکن سنہ 2016 میں جاری ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان سے بڑی تعداد میں پیسہ باہر منتقل کیا گیا اور اس میں ملک کے چند بااثر اور اعلیٰ خاندان ملوث تھے، تو ہمارے پاس یہ ماننے کی وجہ ہے کہ کیا اس میں صرف نواز شریف کا خاندان ہی نہیں بلکہ آپ کا خاندان بھی ملوث ہے؟ اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’میرا نام ان دستاویزات میں کہیں درج نہیں ہے۔‘ اس پر اینکر نے ان سے سوال کیا کہ ’لیکن پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے پانامہ دستاویزات جاری ہونے کے بعد بہت غور سے آپ کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ کے اکاؤنٹس کے ساتھ سنگین مسائل ہیں۔‘ سابق وزیر خزانہ کا جواب تھا کہ ’نہیں، بالکل بھی نہیں۔ آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام کیا گیا تھا، جو سپریم کورٹ کی جانب سے ماورائے عدالت اقدام تھا۔۔۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں دو فوجی افسران بھی شامل تھے جو دراصل اس پوری ٹیم کی نگرانی کر رہے تھے۔ نیب سے متعلق ایک جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اپنی اہمیت بہت پہلے ہی کھو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔۔۔ میں حکومت میں رہتے ہوئے بھی اس پر پریس کانفرنس کر چکا ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جے آئی ٹی میں میرے خلاف الزام یہ تھا کہ میں نے سنہ 1981 سے سنہ 2001 تک 20 سال کے عرصے میں پاکستان میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے۔ میں برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹننٹ ہوں، جب میں برطانیہ میں تھا تو میں نے کبھی اپنے گوشوارے جمع کروانے میں کوتاہی نہیں کی۔ لہذا میرے خلاف یہ نہایت غلط الزام ہے۔‘ اسحاق ڈار سے پوچھا گیا کہ ’آپ کی اور آپ کے خاندان کی کل کتنی جائیدادیں ہیں؟‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں شفافیت پر یقین رکھتا ہوں اور میں نے اپنے تمام اثاثے اپنے گوشواروں میں ظاہر کیے ہوئے ہیں۔ میرے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے، پاکستان میں میرا گھر ہے جو موجودہ حکومت نے مجھ سے چھین لیا ہے۔‘ اس پر ان سے پوچھا گیا کہ ’لیکن خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کی دبئی اور لندن میں جائیدادیں ہیں۔ کیا آپ اور آپ کے خاندان کے پاس صرف ایک پراپرٹی ہے؟‘ اس پر اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ ’یہ (الزامات) درست نہیں۔ میرے بچوں کا صرف ایک ولا ہے جو اُن کی ملکیت ہے کیونکہ وہ 17 سال سے کاروبار کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میرے بچے آزاد ہیں اور میری سرپرستی میں نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے تفتیش سے کوئی مسئلہ نہیں۔‘ پاکستان واپس آنے کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ تقریباً تین سال سے لندن میں ہیں اور ان کے وکلا پاکستان میں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ انسانی حقوق کہاں ہیں؟ نیب کی حراست میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ درجنوں لوگوں کو مار دیا گیا ہے۔‘ ’آپ ساری معلومات گوگل کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ (میرے اثاثوں سے متعلق) ساری معلومات ٹیکس دستاویزات میں درج ہیں اور یہ لاپتہ نہیں۔ تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ کچھ الگ ہے۔ نواز شریف سویلین بالادستی کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘ ’دونوں مقدمات جن میں نواز شریف کو سزا ہوئی ہے، دونوں فیصلوں میں لکھا گیا ہے کہ استغاثہ کوئی بدعنوانی ثابت نہیں کر سکی۔ تو اور کیا چاہیے؟‘ اس پر اینکر کی جانب سے ان سے کہا گیا کہ ’نواز شریف اور آپ سزا یافتہ ہیں اور علاج کی غرض سے لندن میں بیٹھے قبل از وقت انتخابات کی بات کر رہے ہیں، تو آپ دونوں کی کیا ساکھ ہے؟‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی حکومت کی کیا ساکھ ہے؟ دنیا دھاندلی اور چوری شدہ انتخابات دیکھ چکی ہے۔ ہم نے تجربہ کیا ہے، سنہ 2018 میں رائے عامہ کے تمام جائزوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسلم لیگ نواز جیت جائے گی۔ لیکن مبصرین اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انھیں تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہم سے الیکشن چُرایا گیا۔‘ سٹیفن سیکر نے ان کو بتایا کہ ’یورپی یونین مانیٹرنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں الیکشن کے دوران کچھ مخصوص جگہوں پر ایک نہیں بلکہ کئی جماعتوں کی جانب سے کی گئی خلاف وزریوں کا ذکر کیا تھا لیکن مجموعی طور پر نتائج کو قابل اعتماد قرار دیا تھا۔‘ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’شاید آپ نے تمام رپورٹس نہیں پڑھیں۔‘ تو انھیں بتایا گیا کہ ’آپ اپنی مرضی سے کوئی بھی رپورٹ دیکھ سکتے ہیں، ہم تو صرف آپ کو ایک آزاد اور انتہائی قابل احترام ادارے کی رپورٹ بتا رہے ہیں۔‘ ’فافین کا نیٹ ورک عالمی سطح پر کام کرتا ہے۔۔۔ (اس کے مطابق) اس الیکشن کو چُرایا گیا ہے۔ قبل از وقت دھاندلی ہوئی۔ نیب کا استعمال کر کے ہماری جماعت سے الیکٹیبلز ان کی جماعت (پی ٹی آئی) میں دھکیلے گئے۔ آر ٹی ایس سسٹم رُک گیا تھا اور اسے کئی گھنٹوں تک بند رکھا گیا۔‘ اینکر نے سوال کیا کہ ہو سکتا ہے ’عمران خان اس وقت اپنی پذیرائی کھو چکے ہوں لیکن جب انھوں نے گذشتہ ماہ جلسے میں نواز شریف کا بیان سنا تو انھوں نے فوراً کہا کہ نواز شریف کی جرات کیسے ہوئی کہ ایک جنرل پر انگلی اٹھائے اور اسے پاکستان کے حالات کا ذمہ دار قرار دے، نواز شریف تو خود کئی سالوں تک فوجیوں کے جوتے چمکاتے رہا۔۔۔ یعنی اس بیان نے پاکستانی عوام میں کافی حمایت حاصل کی ہو گی جو کہ منافقت جانچ لیتے ہیں۔‘ وزیر اعظم عمران خان کا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کا دورہ، جہاں ان کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید موجود ہیں اسحاق ڈار کا جواب: ’شاید آپ نے عمران خان کے 21 ویڈیو کلپس نہیں دیکھے جن میں وہ فوج، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کو بدنام کر رہے ہیں۔۔۔ گذشتہ سال امریکہ میں انھوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی اسامہ بن لادن کی ذمہ دار ہے۔ جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو انھیں ’طالبان خان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیا ہم یہاں ان کی کارکردگی اور ہماری کارکردگی کا موازنہ کرنے نہیں آئے؟‘ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف وزیر اعظم یا (عام شہری کی) حیثیت سے فوج کے مخالف نہیں۔ وہ کچھ افراد کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔۔۔ یہ چیز اعلیٰ قیادت میں شروع ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کی تاریخ سے آپ واقف ہوں گے۔ ہم نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا۔ مجھے لگتا ہے نواز شریف اگر حلف اور آئین کی خلاف وزری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم پاکستانیوں کے مفاد میں ہی یہ سب کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں دگنی آمدن جمع ہوئی، کم ترین مہنگائی، سب سے کم سود کی شرح، جنوبی ایشیا میں سٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی، سب سے مستحکم کرنسی، مجموعی قومی پیداوار کی بلند ترین سطح۔۔۔ مغربی اداروں نے ہماری تعریف ہی کی۔‘ ’پاکستان 2030 میں جی 20 کا حصہ بننے جا رہا تھا اور ہم جلد ایسا ممکن بنانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ’ہم پُرامید تھے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، ہم پاکستان میں دہشت گردی سے لڑ رہے تھے، میکرو اکانومک انڈیکیٹرز میں بہتری آئی تھی۔‘ اینکر نے ان کی توجہ اس طرف مرکوز کی کہ ’وہ صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس پانچ سال کا مینڈیٹ ہے۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ پاکستان جا کر اگلے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں یا لندن میں عمران خان کی حکومت کو کمزور کر سکتے ہیں۔ (اور ایسا کرنے سے) پاکستان میں نیا معاشی و سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں؟‘ اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ ’یہ سیاسی عدم استحکام کی بات نہیں۔ یہ نالائقی، کارکردگی نہ ہونے، دو سال میں پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کی بات ہے، وہ بھی کورونا سے پہلے۔۔۔ سنہ 1952 کے بعد پہلی بار پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار منفی ہوئی۔ 5.8 فیصد سے، (عمران خان حکومت کے) پہلے سال 1.9 فیصد اور رواں سال منفی 0.4 فیصد۔ (ملک میں) بیروزگاری ہے۔ ہم نے چھ فیصد لوگوں کو غربت سے نکالا، انھوں نے واپس چھ فیصد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا۔‘ ’عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن انھوں نے اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو بیروزگار بنا دیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اس وقت ایک فاشست حکومت ہے۔۔۔ ہمارا حتمی مقصد جمہوریت کی بالادستی، فری اینڈ فیئر الیکشن اور قانون پر عمل درآمد ہے۔‘ اس پر اینکر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ قانون پر عملدرآمد کے لیے پاکستان واپس جائیں گے، تو اسحاق ڈار کا جواب تھا کہ بالکل وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ’تمام اداروں کو پاکستان کے آئین کی حدود میں کام کرنا ہو گا۔ ہم اس سے بہت خوش ہوں گے۔۔۔ ایسا وزیر اعظم جو ڈی جی ایف آئی اے کو ناموں کی فہرست دے کر کہے کہ ’جاؤ انھیں گرفتار کرو‘۔ یہ کیسی گورننس ہے؟‘
060410_bollywood_diary
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2006/04/060410_bollywood_diary
ایش وِویک کاساتھ نہ رہا،اداکار چھٹی پر
مہنگے ستارےمیلبورن میں سیف علی خان، رانی مکھرجی، ایشوریہ رائے، لارا دتہ، پریانکا چوپڑہ۔دیگر بالی وڈ ستاروں کے ذریعہ گیارہ منٹ تک اپنے وطن کی تہذیب اور ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تو دھمال کردیا لیکن اس کے بعد یہاں وطن میں تنازعہ کھڑا ہوگیا ہمیں بتایا گیا کہ اس گیارہ منٹ کے پروگرام پر انتیس کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ ہر فنکار نے ایک سے دو کروڑ روپے لیے ہیں؟ اور اتنا ہی نہیں ان کی آمدورفت کے لیئے طیارہ اور قیام کے اخراجات بھی حکومت کے ہی ذمہ تھے۔ حکومت کے افسران اگر اکانومی کلاس میں سفر کر رہے تھے تو ان ستاروں کے لیئے بزنس کلاس کا ٹکٹ دیا گیا تھا۔
ایشوریہ کے سیکریٹری ہری سنگھ کا جواز تھا کہ ’ کیا ہوا یہ پروفیشنل فیس تھی، یہ جہاں بھی جاتے ہیں اسی طرح پروگرام کرنے کی فیس لی جاتی ہے پھر یہاں تو سب کچھ پہلے سے طے تھا۔، ارے بھئی اس میں اتنا بکھیڑا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آج کل کے بالی وڈ ستارے پروفیشنلز کی طرح کام کرتے ہیں اگر انہوں نے محنت کی اور پیسہ لیا تو کیا برا ہے؟ پھر یہ دھیان میں رکھیئے یہ چمک دمک کی دنیا ہے جہاں فلمی ستاروں کی ادائیں، ان کا وقت، ان کی ہنسی اور ان کے آنسو سب کچھ بکتے ہیں۔ گووندا فلموں میں واپس ممبر پارلیمنٹ گووندا نے آخر فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ ویسے وہ کامیڈی کنگ بھی کہلاتے ہیں، ڈیوڈ دھون کی فلموں میں ان کی کامیڈی ستائش کے قابل رہی ہے اور فلمساز دھون انہیں اپنا لکی اسٹار مانتے ہیں۔ خیر دھون کی فلم ’پارٹنر‘ سے انہوں نے اپنے فلمی کریئر کے دوسرے دور کی ابتدا کی۔ اس فلم میں ان کے مقابل خوبصورت ہیروئین قطرینہ کیف ہیں۔ قطرینہ کیف! کیا یہ بات آپ کو ہضم ہوئی؟ نہیں نہ، لیکن یہ بھی تو دیکھیئے فلم ہی کامیڈی پر مبنی ہے تو پھر ٹھیک ہی ہے۔ اف یہ گرمیگرمی آئی اور پورا بالی وڈ ممبئی چھوڑ کر ہر برس ورلڈ ٹور پر نکل جاتا ہے۔ اکشے کمار، سیف علی خان، پریتی زنٹا کا گروپ دو مہینوں کے لیئے یورپی ممالک میں اپنے پروگرام کرے گا تو سلمان خان، جان ابراہم، رانی مکھرجی، کرینہ کپور اور شاہد سمیت دوسرے فنکار خلیجی ممالک، امریکہ اور انگلینڈ میں چالیس دنوں تک وہاں کے لوگوں کا دل لبھاتے رہیں گے۔ اب بتائیے اس سے اچھی تفریح کسے کہیں گے کہ تفریح کے ساتھ بزنس بھی، جیب خالی ہونے کے بجائے بینک بیلنس بھی بڑھتا ہے۔ یہ ہے بالی وڈ میری جان! فلمی ستارے اور انڈےبیچارے فلمی ستارے، کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے اب دیکھیئے نا سنجے دت، سنیل شیٹی، فردین اور زید خان چکن بیچ رہے ہیں۔۔۔ ارے نہیں کھا رہے ہیں۔ جب ٹوتھ پیسٹ، چاکلیٹ اور کولڈ ڈرنکس کمپنیوں کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیئے نامی گرامی معروف ستاروں کا سہارا لینا پڑتا ہے تو کروڑوں روپے کا سالانہ کاروبار کرنے والی چکن اور ایگ انڈسٹری نے بھی برڈ فلو کے بعد خسارہ سے نمٹنے کے لیئے بالی وڈ ستاروں کا سہارا لیا۔ ان کے اشتہار میں پہلے تو ان ستاروں نے چکن اور انڈوں کو روزانہ کھانے کی بات کہی اور پھر اسے ثابت کرنے کے لیئے مرغ کی روسٹ کی ہوئی ٹانگ بھی کھا کر دکھانا پڑا۔ پرستار کی فرمائش بڑے میاں کے جلوے سپر اسٹار امیتابھ بچن اب اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے عشق کر رہے ہیں۔ ارے آپ تو گھبرا گئے ہم بات کر رہے ہیں رام گوپال ورما کی فلم ’نی شبدھ‘ ( بغیر الفاظ کے یا جب جذبوں کے اظہار کے لیئے لفظ ہی نہ رہیں)، دراصل انڈر ورلڈ اور ڈراؤنی سسپنس فلمیں بناتے بناتے رام گوپال ورما پر بھی اب عشق کا بھوت سوار ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی ڈگر سے ہٹ کر یہ سنجیدہ رومانوی فلم بنانے کا اعلان کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ امیت جی کی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے اس لیئے وہ ابھی ایکشن فلم شعلے نہیں بنا سکتے، اس لیئے امیت جی کی شخصیت کو نظر میں رکھ کر اس فلم کی کہانی لکھی گئی ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے، فلمی دنیا میں ایسے فنکار ابھی موجود ہیں جن کے لیئے کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ پردے کے پیچھےفلمی دنیا میں کاسٹنگ کاؤچ معاملہ پر کافی ہنگامہ ہوچکا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ بڑے بینر کی فلم یا فلموں میں بریک لینے کے لیئے ’کچھ قربان‘ کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اور بات ہے کہ اس کا اقرار کرنے کی کسی میں ہمت ہی نہیں۔ ہمیں یاد ہے انیس سو ساٹھ کی دہائی کی ایک خوبصورت اداکارہ نے ایک فلم میگزین کو انٹرویو دیا تھا کہ باصلاحیت ہونے کے باوجود انہیں فلموں میں ہیروئین کا رول اس لیئے نہیں ملتا کہ وہ فلم سائن کرنے کے لیئے فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے میں جانے سے انکار کر دیتی ہیں۔ خیر حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں کم لباسی اور بولڈ البم میں رقص کے لیئے مشہور راکھی ساونت اور پیج تھری فلم کی سائڈ ہیروئین سندھیا مردولا کاسٹنگ کاؤچ پر گفتگو کر رہی تھیں۔ ان دونوں سے سوال کیا گیا کہ اگر بڑی فلم کی پیشکش انہیں ملے لیکن ساتھ ’کچھ دینے‘ کی بات ہو تو کیا وہ اسے قبول کر لیں گی۔ سندھیا نے کچھ سوچنے کے بعد ’ کچھ دینے‘ کی بات سے انکار کر دیا لیکن راکھی ساونت کا جواب ہاں تھا۔ سندھیا نے فورا اس کی راست گوئی کی تعریف کی۔ راکھی ماننا پڑے گا جتنی آپ پردے پر بولڈ ہیں اتنی ہی نجی زندگی میں، سچی بھی۔ کم از کم آپ نے بولنے کی ہمت تو کی۔ چلتے چلتےکیا آپ جانتے ہیں کہ ممبئی کی ایک ہوٹل میں سنجے دت کے نام سے چکن ڈش فروخت ہوتی ہے کیونکہ اسے بنانے کی ترکیب بھی تو سنجو بابا نے ہی بتائی تھی۔ سنجو کو لذیذ کھانوں کا بہت شوق ہے۔ آج کل جاپان کی سوشی (sushi) ڈش انہیں بہت پسند ہے وہ جب بھی بنکاک میں ہوتے ہیں تو کھانے کے بعد اسے پیک کروا کر ممبئی تک لاتے ہیں۔ وہ تو وہ، ان کے دوست بھی سنجو بابا کا بہت خیال رکھتے ہیں اور وہ بنکاک سے اب سوشی کا تحفہ لاتے ہیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ کہیں یہ ڈش بھی سنجو کے نام نہ کر دی جائے۔ وویک اوبیرائے کے ستارے ابھی بھی گردش میں ہی ہیں۔ کیا کریں بہت دنوں کے بعد منی رتنم کی ایک فلم ملی تھی ’گرو‘ لیکن وویک نے فلم چھوڑ دی، پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ اس میں ایشوریہ رائے ہیروئین ہیں اور ان کے مقابل ابھیشیک بچن ہیرو ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے بیچارے فلم میں کام کریں تو کیسے؟ کیا اچھا لگے گا جب وہ اپنی ایش اور ابھی کو ایک ساتھ ہنسی مذاق کرتے دیکھیں، بیچارے وویک لڑکی کے ساتھ ساتھ فلم بھی ہاتھ سے گئی۔ اکشے کمار کی یکے بعد دیگرے تین فلمیں کامیاب رہیں اور اب قطرینہ اور بپاشا کے ساتھ فلم ’ہم کو دیوانہ کر گئے‘ آ رہی ہے۔ بس کیا تھا ایک کمپنی نے انہیں ایک ساتھ پندرہ کروڑ میں تین فلموں کی پیشکش کر دی۔ ہمیں لگا اکشے خوش ہوگئے ہوں گے لیکن یہ کیا انہوں نے اس سے بھی زیادہ کا مطالبہ کر دیا۔ اکشے جی اب اتنا اونچا بھی اڑنے کی کوشش مت کیجیئے کہیں اگر ایک بھی فلم فلاپ ہوئی اور آپ کا ریٹ گرا۔ ملکہ شیراوتآپ کہیں گے پھر ملکہ! کیا کریں ان کے بغیر ڈائری ادھوری سی لگتی ہے۔ ملکہ شعلے کی بسنتی بنیں گی اور سلمان خان گبر سنگھ۔ کیا کہا، یقین نہیں آرہا ہے ارے بھئی یہ سچ ہے لیکن آدھا۔ ورلڈ ٹور میں فلمی ستاروں کے رقص ہوں گے اور اسی میں شعلے کا رقص پیش کریں گی بسنتی یعنی ملکہ اور گبر سنگھ یعنی شاہ رخ بیٹھ کر ان کا رقص دیکھیں گے‘ ہے نہ چٹ پٹی خبر۔ سنا ہے فلم اجنبی میں امیتابھ کے ساتھ کام کر چکی خوبصورت پری زاد زورابین بومن ایرانی کے عشق میں گرفتار ہیں۔ بومن ایرانی! ہماری طرح چونکیئے مت، یہ بومن ایرانی ایک بلڈر ہیں، فلم منا بھائی ایم بی بی ایس کے مشہور ڈاکٹر استھانا نہیں۔ چلتے چلتے کچھ کھٹی میٹھی باتیں ہو جائیں۔ شو مین سبھاش گھئی نے اپنی فلم ’شادی سے پہلے‘ کی مہورت پارٹی رکھی اور اس پارٹی سے فلم کے تمام بڑے ستارے غائب تھے، یہ کیا گھئی جی کیا آپ کی مقبولیت اتنی کم ہو چکی ہے؟ فلم ٹام ڈک اینڈ ہیری کے سیٹ پر سیلینا جیٹلی کے ساتھ کافی مذاق ہوا، جب بھی فلم میں شراب پینے کا شاٹ فلمایا جاتا، جمی شیرگل اور ڈینو موریہ سیلینا اور انوج ساہنی کے کولڈ ڈرنکس میں واقعی شراب ملا دیتے اور دونوں پیتے ساتھ دونوں لڑکھڑانے لگتے ۔ سنجے دت کی سابقہ بیوی اور خوبصورت ماڈل ریہا پِلئی نے ایک خوبصورت بچی کو جنم دیا اور ٹینس اسٹار باپ لیئنڈر پیئس اتنے خوش ہیں کہ سارا وقت وہ بچی کی ویڈیو شوٹنگ ہی کرتے رہے۔ کسنگ کنگ، ارے بھئی ایک ہی تو ہے، عمران ہاشمی نے اب قسم کھا لی ہے کہ وہ پردے پر بوسوں کے مناظر نہیں کریں گے۔ ہمیں تو یقین نہیں آیا لیکن جب پتہ چلا کہ اب وہ اپنی پرانی گرل فرینڈ کے ساتھ منگنی کرنے جا رہے ہیں تو ان کی قسم پر یقین کرنا ہی پڑا۔
pakistan-53173727
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53173727
سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت کے خلاف باڑہ میں دوسرے دن بھی احتجاج
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں سکول ٹیچر عرفان اللہ آفریدی کی محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے ساتھ مبینہ مقابلے میں ہلاکت کے خلاف احتجاج جاری ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی شاہراہ دوسرے روز بھی صبح 10 سے شام چار بجے تک بند رہی۔
یاد رہے کہ چند روز قبل پشاور کے علاقے متنی میں ہونے والے اس مبینہ مقابلے میں عرفان اللہ سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سی ٹی ڈی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مبینہ مقابلے میں عرفان اللہ اور ان کے علاوہ ہلاک ہونے والے تین دیگر افراد دہشتگردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تاہم لواحقین کی جانب سے ان تمام الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔ بدھ کی شام باڑہ پریس کلب میں مذکورہ افراد کے قتل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد اور خیبر ایجنسی کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد اقبال کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ یہ بھی پڑھیے ’کاش نقیب اللہ کا نام احسان اللہ احسان ہوتا‘ ’راؤ انوار طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر‘ ساہیوال میں مبینہ پولیس مقابلہ: پانچ بڑے سوالات نقیب اللہ کے قتل کی عکاسی کرتے فن پارے پھر گرا دیے گئے مظاہرین کی قیادت کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنما خان ولی خان نے بتایا کہ مذاکرات اس وقت ناکام ہوگئے جب انھوں نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر خیبر سے مطالبہ کیا کہ وہ عرفان اللہ آفریدی کے قتل کا مقدمہ درج کریں۔ خان ولی خان کے مطابق ڈسٹرکٹ پولیس افسر خیبر نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے معذوری کا اظہار کیا جس پر ہمارے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوچکے ہیں۔ مذاکرات میں شریک عوامی نیشنل پارٹی خیبر کے رہنما صدیق شاہ کا کہنا تھا کہ اب ہمارا دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عرفان اللہ آفریدی کے قتل کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ عرفان اللہ پہلے ہی سے حکام کی حراست میں تھے اور ان کے والد نے ان کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے درخواستیں جمرود اور باڑہ تھانے میں دی ہوئی تھیں۔ صدیق شاہ نے کہا کہ عرفان اللہ کی تلاش کے لیے میڈیا سمیت سارے ذرائع استعمال کیے جا رہے تھے، ایسے میں عرفان اللہ کا اس طرح قتل ہونا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم روزانہ صبح 10 سے شام چار بجے تک دھرنا دیں گے اور ان کا یہ دھرنا اس وقت ختم ہوگا جب پولیس انھیں عرفان اللہ کے قتل کی ایف آئی آر لا کر دے گی۔ پولیس اور سی ٹی ڈی کا کیا کہنا ہے؟ ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد اقبال کے مطابق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مظاہرین کی جانب سے جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں، ان پر غور ہو رہا ہے اور دیکھا جائے گا کہ کون سا مطالبہ منظور ہوسکتا ہے اور کون سا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عرفان اللہ آفریدی سمیت ان چار لوگوں کے مقابلے میں مارے جانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ خیبر پولیس کا دائرہ کار اور اختیار نہیں ہے، تاہم اگر کسی کو کسی واقعہ پر کوئی شک و شبہ ہے تو عدلیہ کا فورم موجود ہے، وہاں پر جایا جاسکتا ہے۔‘ دوسری جانب سی ٹی ڈی کے ایک اہلکار کے مطابق عرفان اللہ سمیت یہ چاروں افراد پشاور کے ایک گھر میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کو اطلاع ملی تو ہمارے اہلکاروں نے چھاپہ مارا، اور جواب میں چاروں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں پر فائرنگ کردی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مقابلہ 40 منٹ تک جاری رہا، جس میں چاروں افراد مارے گئے تھے۔ انھوں نے مظاہرین کی جانب سے عائد کردہ تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی پہلے حراست میں نہیں لیا گیا تھا، اور اس واقعے سے قبل ہلاک ہونے والوں میں کوئی شخص سی ٹی ڈی کی حراست میں تھا۔ روزنامچے کا عکس جس میں عرفان اللہ کی گمشدگی کا ذکر موجود ہے لواحقین کا مؤقف سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے عرفان اللہ آفریدی کے والد لائق شاہ آفریدی نے بتایا کہ عرفان اللہ کی بحیثیت سرکاری استاد تقرری ہوئی تھی اور وہ یکم جون کو ضلع خیبر کے محکمہ تعلیم کے جمرود میں واقع ضلعی ہیڈ کوارٹر میں اپنی تقرری کا لیٹر لینے گئے تھے۔ انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس دن کے بعد سے لاپتہ ہوگئے۔ ’میں نے اس کی گمشدگی کی درخواست جمرود تھانے کے علاوہ باڑہ تھانے میں بھی جمع کروائی تھی۔ 12 جون کو باڑہ پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان ہی حالات میں 22 جون کو ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ پشاور کے علاقے متنی میں سی ٹی ڈی نے چار ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کیا ہے۔ ان افراد میں عرفان اللہ بھی شامل تھا اور اس کی لاش کے ساتھ اس کا شناختی کارڈ پڑا ہوا تھا۔‘ لائق شاہ آفریدی کا کہنا تھا کہ ’ہم انتہائی پر امن لوگ ہیں۔ دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں بھی سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیا تھا۔ اب ہم پر جو دہشت گردی کا لیبل لگایا گیا ہے، یہ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ہماری لیے گالی اور بدترین داغ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو بے گناہ قتل کیا گیا ہے، اور اگر وہ دہشت گرد تھے تو انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ ’اگر جرم ثابت ہوتا تو سزا دی جاتی، مجھے قطعاً افسوس نہ ہوتا، مگر اس طرح سے تو ہمارے پورے خاندان کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ یہ مجھے قبول نہیں ہے اور اس پر جتنا ممکن ہوگا ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔‘ ان کے مطابق عرفان اللہ آفریدی 12 سال سے مقامی تعلیمی ادارے غزالی پبلک سکول میں استاد کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے سوگواروں میں بیوہ اور ایک بچی چھوڑی ہے۔ مقابلے میں مارے جانے والے باقی کون تھے؟ عرفان اللہ آفریدی باڑہ کے رہائشی تھے اور ان کی ہلاکت پر باڑہ ہی میں احتجاج ہو رہا ہے۔ اس احتجاج میں پشاور کے علاقے متنی کے رہائشی منال خان بھی شریک تھے جن کا دعویٰ تھا کہ عرفان اللہ آفریدی کی لاش کے ہمراہ ان کے بیٹے اسد اللہ اور بھتیجے ثاقب اللہ کی لاشیں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ منال خان کا کہنا تھا کہ اسد اللہ کو رواں سال 14 مئی کو پولیس اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بھاری نفری کے ساتھ چھاپہ مار کر رات کے وقت گھر سے گرفتار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’پولیس نے اس موقع پر مجھ سے کہا تھا کہ تفتیش کرنی ہے، میں نے کہا کہ ٹھیک ہے تفتیش کرنی ہے تو کریں اور لے جائیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد سے اس کا کچھ اتا پتا نہیں چلا۔ پھر اس کے بعد دو جون کو میرے بھتیجے ثاقب اللہ کو بھی اسی انداز میں گرفتار کیا گیا جیسے اسداللہ کو اٹھایا گیا تھا۔ اس کے بعد ہم ہر جگہ مارے مارے پھرتے رہے، مگر 22 جون کو سوشل میڈیا سے اطلاعات ملیں کہ میرا بیٹا اور بھتیجا دہشت گرد ہیں اور مارے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کمال ہے کہ یہ دونوں سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے، تو پھر مقابلہ کیسے ہوا؟‘ منال خان نے دعویٰ کیا کہ ان کے دونوں رشتے داروں کی لاشوں پر تشدد کے بے پناہ نشانات تھے جو میتوں کو غسل دیتے وقت واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی عرفان اللہ کے رشتہ داروں سمیت اس احتجاج میں شریک ہیں اور انصاف کے متقاضی ہیں۔
031212_pia_indiaflights_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/12/031212_pia_indiaflights_uk
بھارت کے لئے پی آئی اے کی پروازیں
دو سال کے تعطل کے بعد پاکستان حکومت کی انٹرنیشنل ائیر لائینز (پی آئی اے) جنوری سے ہندوستان کے دو شہروں کے لیے ہر ہفتہ چھ پروازیں شروع کررہی ہے۔
پی آئی اے کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اگلے سال مارچ میں پی آئی اے کی ہندوستان کے لیے پروازوں کی تعداد چھ سے بڑھا کر بارہ کردی جائے گی اور پی آئی اے کے بیڑے میں شامل ہونے والے دو نۓ بوئنگ سات سو ستتر جہاز اس مقصد کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ پی آئی اے کے اہلکار کے مطابق شروع میں پی آئی اے ہر ہفتہ لاہور سے دہلی، کراچی سے دہلی اور کراچی سے بمبئی کے لیے اے تین سو دس اور ائیر بس جہاز کی دو دو پروازیں شروع کرے گی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان فضائی رابطے کھل جانے اور ایک دوسرے کی فضائی حدود استعمال کرنے پر اتفاق ہونے کے بعد پی آئی اے سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کے لیے اپنی ان پروازوں کو بھی دوبارہ شروع کررہا ہے جنھیں دو سال پہلے اس پابندی کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔
science-44135458
https://www.bbc.com/urdu/science-44135458
رمضان میں کیا کھائیں، کب سوئیں اور کیسے ورزش کریں؟
پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں آج پہلا روزہ ہے، بہترین حالات میں بھی ورزش کرنا اور صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن ذرا سوچیں کہ روزے میں کچھ کھائے بغیر ایسا کرنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے؟
رواں سال رمضان مئی اور جون کی گرمیوں میں پڑ رہا ہے ماہ رمضان میں دنیا بھر کے مسلمان مسلسل 30 دن تک صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کریں گے۔ رواں سال رمضان کا آغاز کی گرمیوں کے آغاز میں ہو رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں 18 گھنٹوں کا روزہ ہو گا جبکہ انڈیا پاکستان میں روزے کا دورانیے 15 گھنٹے سے ذرا زیادہ ہوگا۔ یہ بھی پڑھیے صرف چند راتوں کی خراب نیند صحت خراب کر سکتی ہے فیشن جو آپ کی صحت کے لیے اچھے نہیں! سی بی بیز کے شو 'گیٹ ول سُون' اور آئی ٹی وی کے شو 'دِس مارننگ' کے ڈاکٹر رنج سنگھ تین اہم اصولوں پر عمل پیرا رہنے کی تجویز پیش کرتے ہیں کہ روزے کے اوقات کے علاوہ صحیح چيزیں کھائیں، ہلکی ورزش کریں اور نیند کے خوب مزے لیں۔ نیند کی کمی کا مجھ پر برا اثر پڑتا ہے اچھی نیند صحت کے لیے مفید ہے کینٹ کی یاسمین خالد جم جانے اور فٹنس کی کلاسز لینا پسند کرتی ہیں لیکن رمضان کے دنوں میں ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی لازمی وجہ غذا اور پانی کی کمی نہیں بلکہ نیند کی کمی ہے۔ چار بچوں کی والدہ یاسمین کا کہنا ہے کہ 'نیند کی کمی مجھے لے ڈوبتی ہے۔‘ 'میں صبح چار بجے سحری کے لیے سامان تیار کرنے کے لیے جاگتی ہوں پھر نماز پڑھتی ہوں۔ پھر ایک آدھ گھنٹے آرام کرتی ہوں اور پھر بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی ہوں۔‘ یہ بھی پڑھیے ورزش نہ کرنے سے بڑھاپا جلدی آ سکتا ہے 'خواتین کے لیے فٹ رہنے کے انوکھے مشورے' 'اس کے بعد دن بھر کا کام ہوتا ہے، بچوں کو سکول سے لینا، گھریلو کام کھانا کاج اور اس کے بعد عام طور جم جاتی ہوں لیکن اس وقت تک میں بہت تھک چکی ہوتی ہوں۔ رمضان میں عام طور پر ہمیں تقریبا پانچ گھنٹے ہی سونا نصیب ہوتا ہے۔' ڈاکٹر رنج کہتے ہیں کہ جس طرح کھانے پینے کو اوّلیت دی جاتی ہے اسی طرح نیند کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا: 'اس بات کے شواہد ہیں کہ جو لوگ اچھی نیند لیتے ہیں وہ دن میں کم کھاتے پیتے ہیں، اس لیے روزے کے دوران اچھی نیند آپ کی کھانے کی خواہش کو کنٹرول کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔' میرا مینیجر میرے لیے میدان میں مٹھائی پھینکتا ہے امجد اقبال برطانیہ میں نیم پیشہ ورانہ فٹبال کھیلتے ہیں جبکہ وہ پاکستان کے لیے 10 میچ کھیل چکے ہیں 34 سالہ امجد اقبال لڑکپن سے اپنے گھریلو کلب بریڈ فورڈ سٹی کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد وہ نیم پیشہ ورانہ فٹبال کھیلنے کے لیے فارسلی سیلٹک اور بریڈفورڈ پارک اوینو کے ساتھ منسلک رہے۔ جب سورج غروب ہو رہا ہوتا ہے اس وقت امجد اکثر اپنے میچ کے درمیان میں ہوتے ہیں اور وہ وقت ان کے افطار کا وقت ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'میرا مینیجر صرف میرے لیے گھڑی پر نظر رکھتا اور کھیل کے دوران ہی میدان میں میرے افطار کے لیے مٹھائی پھینک دیتا۔' کشتی راں مو شیہی کی طرح بعض مسلم ایتھلیٹ رمضان میں ہونے والے مقابلے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے اور اس کے عوض میں وہ پیسے خیرات میں دیتے ہیں لیکن بعد میں وہ اس قضا کو ادا کر لیتے ہیں اور اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی پڑھیے نیند کی کمی سے زیادہ بھوک کیوں لگتی ہے صرف دس منٹ تیز واک، جلد موت سے دوری جبکہ پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان جسے لوگ عام طور پریکٹس کم کر دیتے ہیں۔ امجد رمضان میں روزہ رکھنے والے پیشہ ورانہ ایتھلیٹ ہیں، جنھیں اپنے کلب کی جانب سے ماہر غذائیات کی سہولت ہوتی ہے۔ 'ایک پیشہ ور کھلاڑی ہونے کی وجہ سے ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ روزہ رکھ رہے ہیں اس لیے آپ کا مینیجر آپ سے کہتا ہے کہ 'دیر سے آنا یا پھر اپنی ٹریننگ کے اوقات میں تبدیلی کر لینا۔‘ عامر خان کہتے ہیں کہ رمضان میں کمزوری محسوس ہوتی ہے اور آپ کو صبح چار بجے سحری کے لیے بیدار ہونا ہوتا ہےاور اس وقت آپ کے کھانے کی طبیعت نہیں ہوتی 'لیکن میرے جیسے عام آدمی کو ساڑھے سات بجے صبح سے شام پانچ بجے تک کام پر ہونا ہوتا ہے اس کے بعد ٹریننگ کے لیے جانا ہوتا ہے جہاں نو بجے تک رہنا پڑتا ہے۔' 'جو مزے کے لیے کھیلتا ہو وہ رمضان میں کیسے گزارا کرتا ہے۔ آپ کام پر جانا بند نہیں کر سکتے۔' امجد ہر ہفتے روزہ رکھتے ہوئے اپنی ٹیم کے لیے میچ کھیلتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ان پر اثر انداز ہوتا ہے اور مہینے کے آخر تک ان کا وزن پانچ کلو تک کم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’چکنائی خواتین سے زیادہ مردوں کے لیے مضر‘ امجد کہتے ہیں کہ کھیلنے کی خواہش کے باوجود وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی قوت کی سطح میں کب کمی آ رہی ہے اور اس وقت وہ متبادل کے لیے کہتے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ٹیم کو نقصان نہ ہو۔ سبک روی، ہلکی جاگننگ اور ہلکی پھلکی ورزش ڈاکٹر رنج کہتے ہیں صبح کی ورزش بہتر ہے اتنے گھنٹے کے روزے کے دوران جم جانا، سرگرم رہنا یا امجد کی طرح ٹیم کے لیے کھلینا آپ کی ورزش پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رنج کہتے ہیں: 'اپنے آپ کو فٹ اور صحت مندر رکھیں لیکن بہت زیادہ ورزش نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ بیمار ہو سکتے ہیں۔' ایسے میں آپ کس قسم کی ورزش کریں تاکہ آپ کے جسم پر بہت زیادہ دباؤ نہ پڑے؟ ایسے میں ڈاکٹر رنج تیز قدم کے ساتھ چلنے، نرم روی کے ساتھ دوڑنے اور ہلکی پھلکی ورزش کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس کے اوقات پر ان کا زیادہ زور ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'بہت سے لوگوں کو صبح سورج نکلنے سے قبل ورزش کرنا آسان لگتا ہے۔ اس طرح ان کے پاس رات بھر کی توانائی کے استعمال کا موقع ہوتا ہے۔ بہر حال وہ کہتے ہیں کہ اتنی صبح ورزش کرنا سبھی کے لیے مناسب نہیں ہو سکتا ہے۔ اب بہت سے جم دن رات کھلے رہتے ہیں اور اپنے مطابق وہاں جا کر ورزش کر سکتے ہیں یا پھر پانچ منٹ کی اس ورزش کو معمول بنا سکتے ہیں۔ گاڑی سے مغرب اور عشا کی نماز کے لیے مسجد جانے کے بجائے پیدل جانے اور لفٹ کے بجائے سیڑھیوں کے استعمال سے آپ اپنے معمول میں تھوڑی ورزش کو شامل کر لیں گے۔ ذرا غور کیجیے عام طور پر مسلمان مسجد میں یا گھروں میں ایک ساتھ افطار کرتے ہیں آپ کو صرف رات میں چھ سات گھنٹے کھانے پینے کے لیے ملتے ہیں۔ اس لیے آپ اس بات پر غور کریں کہ آپ سحری میں کیا کھاتے ہیں اور شام کو کیا تاکہ آپ اس بات کی یقین دہانی کر سکیں کہ دن بھر آپ میں کافی توانائی رہے۔ زیادہ تر مسلم خاندان ایک ساتھ افطار کرتے ہیں اور روایتی ایشیائی اور مشرق وسطی کی غذائيں کھاتے ہیں جو عام طور پر تلی ہوئی اور زیادہ مرغن ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر رنج کہتے ہیں کہ بہت زیادہ شکر، تیل اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کریں۔ 'پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے کھانے کو متنوع اور متناسب رکھیں جس میں غذائیت کی تمام اہم چيزیں کاربو ہائیڈریٹ، پروٹین اور چکنائی کے ساتھ بہت زیادہ پھل اور سبزیاں شامل ہوں۔‘ 'دوسرے ایسی چیزیں کھائیں جو آہستہ آہستہ توانائی دیتی ہیں تاکہ آپ صبح سے شام تک کم بھوک محسوس کریں اور آپ دن بھر کام کر سکیں۔ ایسے میں آپ اوٹس یا جئی، سالم اناج اور زیادہ فائبر والی غذائیں کھا سکتے ہیں۔ عام طور پر مسلمان کھجور سے یا پانی سے افطار کرتے ہیں 'تیسرے یہ کہ آپ بدن میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں اور خوب پانی پیئيں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانے کے اوقات میں آپ خوب سیر ہو جائیں تاکہ آپ ٹھیک رہیں۔ کیونکہ بدن میں پانی کی سطح ہی دن بھر آپ کو چست رکھے گی اور یہ بہت اہم ہے۔' وقفے وقفے سے روزے کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ جس میں بعض افراد وزن کم کرنے کے لیے چند گھنٹے تک کھانے سے پرہیز کرتے ہیں کے بارے میں ڈاکٹر رنج کا کہنا ہے کہ روزہ آپ کی صحت کے لیے بہتر ہو سکتا ہے اور اس سے آپ وزن کم کر سکتے ہیں۔ ہر چیز اعتدال کے ساتھ ڈاکٹر رنج کہتے ہیں کہ 'رمضان کا مہینہ بہت سے چیلنجز لے کر آتا ہے اور ہم کیا کھاتے ہیں کیا پیتے ہیں اور کتنی ورزش کرتے ہیں ان تمام چیزوں کے مد نظر اعتدال اہم اصول ہے۔' وہ اس مہینے کو مسلمانوں کی طرز زندگی میں مثبت تبدیلی کے موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'اگر آپ روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس پر بھی غور کریں کہ آپ کیا کھاتے ہیں اور اپنی غذا، طرز زندگی میں مثبت تبدیلی لائیں۔ مثلا سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔'
060511_sex_scandal_as
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/05/060511_sex_scandal_as
’تفتیش پر بھروسہ نہیں‘
سری نگر جنسی سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد سکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ریاستی پولیس، انتظامیہ اور نیم فوجی دستوں کے اعلی افسران کے نام ظاہر کرنےکے لیئے ریاستی حکومت پر عوام اور دیگر حلقوں سے دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ کئی حلقوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس سلسے میں مرکزی تفشیش بیورو کی طرف سے کی جارہی جانچ بے سود ثابت ہوگی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر وادی میں سرگرم خواتین کی علیحدگی پسند جماعت دختران ملت کی مانگ ہے کہ اس سکینڈل کی تحقیقات کا ذمہ ریاستی ہائی کورٹ کی فل ڈویثرن بینچ کو سونپا جائے۔ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے اس سلسلہ میں بی بی سی کو بتایا کہ کشمیری عوام کو سی بی آئی کے ذریعہ جانچ کرائے جانے پر اعتراض ہے کیونکہ بقول ان کے ماضي میں کئی کیسوں میں اس تفشیشی ادارے نے کشمیر کے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے فل بینچ میں اس کیس کی سماعت ہو۔ ہمیں عدالت کے باشعور وکلاء کی دیانت داری پر مکمل اعتماد ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پولیس نے اسکینڈل کے کئی اہم ثبوت پہلے ہی مٹا دیئے ہیں اور ہماری مانگ شاید ٹھکرائی جائے گی لیکن ہم اس سلسلے میں اپنی کوشش جاری رکھيں گے‘۔ علیحدگی پسند جماعت کی طرف سے ریاستی عدالت عالیہ پر بھروسے کی یہ پہلی مثال ہے۔ ریاستی حکومت کے ایک نوٹیفیکشن پر سی بی آئی کی ایک ٹیم وادی پہنچ رہی ہے۔ سکینڈل کے حوالے سے کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک درخواست دی تھی جسے وہ مفاد عامہ کے طور پر داخل کروانا چاہتی تھی لیکن ریاستی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس بشیر احمد خان نے دائر کردہ مفاد عامہ کے کیس کو ڈویژنل بنچ کے بجائے سنگل بنچ میں سماعت کے لیئے مقرر کیا ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے اس پر زبردست احتجاج کیا۔ وکلاء نے ریاستی حکومت اور پولیس کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور اس بات پر زور دیا کہ سکینڈل میں ملوث افسران کے نام لوگوں کے سامنے رکھے جائیں۔ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’سی بی آئی کی جانچ پر کشمیری عوام کو یقین نہیں ہے اور سکینڈل میں ملوث افسران کو سزا دلانے کے لیئے ریاستی عدالت عالیہ کی ہدایت پر فل ڈویژن بنچ کے ذریعہ تحقیقات کرائی جاۓ۔ ہمیں ریاستی پولیس اور مرکزی تفشیشی بیورو( سی بی آئی) پر بھروسہ نہیں ہے‘۔ دوسری جانب ریاستی عدالت عالیہ نے ریاست جموں کشمیر کے چیف سیکریٹری وجے بقایا اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس گوپال شرما کو جنسی سکینڈل کے سلسلے میں بارہ مئی کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس حکیم امتیاز حسین نے ریاست کے دو اعلیٰ افسران سے کہا ہے کہ سکینڈل کے حوالے سے سی بی آئی کو سونپے گئے تمام ثبوت اور دستاویزات سے عدالت کو آگاہ کیا جاۓ۔ علیحدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے کے سینیر لیڈر نعیم اللہ خان نے سکینڈل کے حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ کشمیر میں سماجی بدعات اور بے راہ روی کو، ان کے بقول، ریاست کے پشت پناہی حاصل ہے۔ اور اس لیئے کیس کی تحقیقات ’چاہے سی بی آئی سے کرائی جائے یا ہائی کورٹ کے ذریعہ نتیجہ کچھ نہیں ہوگا‘۔ اخباروں کے ذریعہ سیکس سکینڈل کا ایکسپوز ہونا کشمیری قوم کے لیئے شرمناک واقعہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں سماجی بدعات کو عام کرنے کے پیچھے سیدھے ریاستی حکومت اور پولیس کا ہاتھ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیکس سکینڈل کے خلاف عوام نے کئی روز تک احتجاجی مظاہرے کیئے اور اس کیس میں مبینہ طور پر اہم ملزم سبینہ کے گھر کو بھی جلایا گیا۔ علیحیدگی پسند تنظیموں مسلم لیگ ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی اور دختران ملت نے بھی احتجاجی مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
121103_sc_interm_order_karachi
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/11/121103_sc_interm_order_karachi
’حکومت طالبان کی موجودگی کو سنجیدگی سے لے‘
سپریم کورٹ نے کراچی کے امن وامان کے حوالے سے اپنے پرانے فیصلوں پر عمل درآمد کیس میں ایک عبوری حکم میں سندھ کی صوبائی حکومت اور سکیورٹی اداروں کو کراچی شہر میں طالبان کی موجودگی کو سنجیدگی سے لینے اور پے رول پر رہا ہونے والے ملزمان کو گرفتار کر کےعدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ کراچی میں طالبان کی موجودگی کو سنجیدگی سے لے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کراچی رجسٹری میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے سنیچر کو کراچی میں امن وامان کی صورت حال کے متعلق از خود کیس کے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کی۔ بنچ کی سر براہی جسٹس انور ظہیر جمالی نے کی جبکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس عارف حسن خلجی، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس امیر ہانی مسلم بنچ کے دیگر ممبران تھے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل عبوری حکم میں عدالت نے سندھ حکومت کو کراچی میں طالبان کی موجودگی کو سنجیدگی سے لینے کی ہدایت کی ہے اور عام شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ سے تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پہلے عدالت کے حکم پر انسپکٹر جنرل سندھ پولیس نے سات ہزار طالبان کے کراچی میں داخل ہونے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی تھی۔ عدالت نے سندھ حکومت کو آتشی اسلحہ کے تمام لائسنسوں کو تین مہینوں کے اندر کمپیوٹرائز کرنے اور پرانے لائسنسوں کو منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو شہر میں غیر رجسٹرڈ شدہ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا بھی کہا ہے اور حکومت کو تمام احکامات پر تین مہینوں کے اندر اندر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیر خارجہ رحمان ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی امن و امان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر عمل درآمد کیا جائے گا اور کراچی کی صورت حال کے حوالے سے سپریم کورٹ کے خدشات دور کیے جائیں گے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ طالبان کے خلاف کارروائی جاری رہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
080313_us_ozone_rza
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2008/03/080313_us_ozone_rza
ماحولیاتی تحفظ کے معیار سخت
امریکہ میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے) نے عوامی صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ماحولیاتی تحفظ کے معیارات کو سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے کے تحت نائٹروجن اوکسائڈ اور گاڑیوں سے نکلنے والے دیگر کیمائی کمپاؤنڈ کی مقدار میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سرگرم کارکنوں کا مطالبہ تھا کہ اس مقصد کے لیے زیادہ سخت معیارات مقرر کیے جائیں لیکن امریکی صنعتی اداروں نے اس کے خلاف کافی لابی کی تھی۔ صنعت سے متعلق رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نئے معیارات کافی مہنگے ثابت ہوں گے۔ اوزون سے لوگوں کے پھیپھڑے متاثر ہو جاتے ہیں، سانس کی نالی میں امراض پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کو دمے کی شکایت بڑھ جاتی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کی ایک کمیٹی کا کہنا تھا کہ فضا کی آلائش میں کمی سے چار ہزار کے قریب ہونے والی سالانہ اموات کو روکا جا سکے گا اور سات ہزار افراد کے ہسپتالوں کے چکر لگانے میں کمی آئے گی۔ ادارے کے منتظم سٹیفن جونسن کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے اوزون کے سخت ترین معیار پر دستخط کر کےصاف ہوا کے قانون کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صاف ہوا کے قانون کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں کانگریس کو سفارشات بھیجی جا رہی ہیں۔ تاہم سٹیفن جانسن کا کہنا تھا کہ نئے معیارات سے بھی قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ ’آج امریکہ کی ہوا گزشتہ نسل کے زمانے کی ہوا سے صاف تر ہے۔‘ ادارے کے مطابق نئے معیارات پر عمل درآمد پر سات اعشاریہ چھ بلین ڈالر سے آٹھ اعشاریہ پانچ بلین ڈالر تک اخراجات ہوں گے۔ بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن بیل کہتے ہیں کہ کئی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئے ضابطوں سے عوامی صحت کو لاحق خطرات میں خاطر خواہ کمی نہیں آئے گی۔
050924_senate_requ_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/09/050924_senate_requ_zs
اپوزیشن نے سینٹ کا اجلاس بلا لیا
حزب اختلاف نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی سمیت چھ نکاتی ایجنڈے پر بحث کے لیے پارلیمان کے ایوان بالا سینٹ کا اجلاس بلانے کے لیے سنیچر کے روز درخواست جمع کرادی ہے۔
حکومت کی جانب سے بلائے گئے اجلاس کے غیرمعینہ مدت تک ملتوی کیے جانے کے محض ایک دن بعد ہی حزب اختلاف نے دوبارہ اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ حکومتی اجلاس میں ان کے پیش کردہ مسائل پر بحث نہیں کرائی گئی اس لیے انہیں اجلاس ’رکیوزیشن‘ کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اجلاس بلانے کے لیے سینٹ سیکریٹریٹ میں دی گئی درخواست پر حزب مخالف کی مختلف جماعتوں کے انتالیس اراکین نے دستخط کیے ہیں۔ ان کے مطابق چھ نکاتی ایجنڈے میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی اور حکومتی مشینری کے استعمال، صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ، تیل کی قیمتوں میں اضافے، مرکز اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے فارمولے ’این ایف سی ایوارڈ‘ میں تاخیر، امن و امان کی صورتحال اور بے روزگاری کے معاملات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ قانون کے مطابق جب حزب اختلاف اجلاس بلانے کی درخواست دے تو حکومت اس کی وصولی کے چودہ دن تک اجلاس بلانے کی پابند ہے۔
050628_contempt_mai_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/06/050628_contempt_mai_as
مختار مائی توہین عدالت کی زد میں
پاکستان میں اجتماعی آبرو ریزی کا شکار ہونے والی مختار مائی کے معاملے میں ایک اور پیچ پڑا ہے اور آج لاہور ہائی کورٹ کا ملتان بینچ ان کے اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں کے عہدے داروں کے خلاف توہین عدالت کی ایک درخواست کی سماعت شروع کر رہا ہے جو ایک مقامی وکیل نے دائر کی تھی۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ میر والہ اجتماعی زیادتی کے کیس میں لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ملزامان کی بریت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر کے مختار مائی اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں نے عدالت کی توہین کی ہے۔ توہینِ عدالت کے اس مقدمے کی سماعت جسٹس نذیر احمد صدیقی اور جسٹس محمد نواز بھٹی پر مشتمل ڈویژن بینچ کر رہا ہے۔ میر والہ میں سن دو ہزار دو میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختار مائی کے کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چھ ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی۔ مگر لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ نے اس فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس سال تین مارچ کو چھ میں سے پانچ ملزمان کو بری کرنے کا حکم سنایا تھا۔ مختار مائی نے اس فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گیارہ مارچ کو ملک کی وفاقی شرعی عدالت نےاس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا اور ملزمان کی سزائیں بحال کرتے ہوئے ان سات ملزمان کو بھی طلب کر لیا تھا جن کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بری کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بھی معطل کر دیا تھا اور اس معاملے کی خود سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
070423_yeltsin_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/04/070423_yeltsin_sen
رنگا رنگ بورس یلسن چلے گئے
بورس یلسن اگرچہ سوویت نظام کی پیداوار تھے اور انکا شمار زوال آمادہ کیمونسٹ سلطنت کے آخری ادوار کے کلیدی رہنماؤں میں ہوتا تھا لیکن ایک روایتی، خشک اور بوڑھی کیمونسٹ قیادت کے برعکس یلسن رنگا رنگ جولانیِ طبع سے آراستہ تھے۔انکے بعض قریبی ساتھیوں کی رائے تھی کہ یلسن کی سب سے قریبی مشیر ووڈکا تھی اور انکے سیاسی فیصلوں میں جس طرح کا طوفانی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا اس سے یہ بات دل لگتی محسوس ہوتی ہے۔
مثلاً آخری سوویت رہنما میخائیل گورباچوف کو جب اگست انیس سو اکیانوے میں ریڈ آرمی کے چند طالع آزما جنرلوں نے کریمیا میں نظربند کردیا تو یہ بورس یلسن ہی تھے جنہوں نے ماسکو میں پرسترائیکا (تعمیرِ نو) اور گلاسنوسٹ ( کھلے پن) کی گورباچوف پالیسیوں کے دلدادہ عوام کو جرنیلوں کے بالمقابل کھڑا کردیا اور صرف تین روز میں فوجی بغاوت جھاگ کی طرح بیٹھ گئی لیکن یہی بورس یلسن تھے جنہوں نے صدر بننے کے بعد نئی نئی روسی پارلیمان کے اختلاف رائے کا علاج پارلیمنٹ کی عمارت پر ٹینکوں کے گولے برسا کر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ بورس یلسن نے نو آزاد روس میں پھیلے ہوئے انتشار کا کوئی پائیدار علاج ڈھونڈنے کے بجائے اپنے حاشیہ بردار سابق کیمونسٹوں اور دوستوں کو نہ صرف کلیدی عہدے بانٹے بلکہ سوویت دور کے بڑے بڑے صنعتی شعبے بخشش میں عطا کردیے۔ اس کے نتیجے میں روسی معیشت ایک طاقتور موقع پرست مافیا کے چنگل میں پھنس گئی۔ اس ظالمانہ، ناتجربہ کار نج کاری کے نتیجے میں جو نودولتیا کلچر پیدا ہوا اس نے پالنے سے قبر تک ہر ضرورت کے لیے ریاست کی جانب دیکھنے کے عادی عام روسی کو فٹ پاتھ پر کھڑا کردیا۔ یہ بات مغرب کے بھی مفاد میں تھی کہ ایک بڑی سلطنت کا ملبہ بکھرنے کے نتیجے میں روس مسائل کے جس گرداب میں پھنس گیا ہے اگلے کئی برس تک وہ اسی میں پھنسا رہے۔ پھر یلسن کی میڈیا میں اس طرح کی تصاویر آنے لگیں کہ ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے قریب سے گذرتی ہوئی ایک خاتون سے نازیبا حرکت کردی یا کسی تقریب میں بولتے بولتے سو گئے۔ دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے سبب بار بار ہسپتال جانے لگے۔ ان حالات میں انکے قریبی ساتھیوں کے پاس یہ مشورہ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ بورس یلسن کو سیاست سے کنارہ کش ہو کر آرام کرنا چاہیے۔ اقتدار سے سبکدوشی کے بعد میڈیا میں بورس یلسن کا تذکرہ بھی غائب ہوگیا اور پیر کو دنیا سے ان کی رخصتی کی خبر آگئی۔
060212_womenday_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/02/060212_womenday_sen
پاکستان: عورتوں کا دن 12 فروری کیوں؟
دنیا بھر میں عورتوں کا دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے مگر پاکستان میں یہ دن 12 فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ 1983 میں جنرل ضیا الحق نے اسلام کے نام پر 1862 کے قانون شہادت میں ترمیم کی تھی تو اس کے تحت عورتوں کی گواہی کو مردوں کے مقابلے میں آدھا قرار دے دیا تھا۔بارہ فروری 1983 کا دن، حبیب جالب کا بیان
ٹھیک تین برس پہلے فروری 1979 میں حدود قوانین کے نفاذ سے عورتوں کی قانونی، سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کو خاصا دھچکا پہنچا تھا۔ قانون شہادت میں تبدیلیوں سے عورتوں کی حیثیت میں مزید کمی کا سخت اندیشہ تھا۔ بظاہر 1979 کے حدود قوانین کا تعلق صرف جنسی بےراہروی سے تھا لیکن عملی طور پر حدود قوانین نے عورتوں کو انسان کے درجے سے گرا کر محض ایک جنسی شے کی حیثیت دے دی۔ عورتوں کی تعلیمی ترجیحات، پیشہ ورانہ انتخاب اور سیاسی رائے کو جنسی تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ حتٰی کہ عورتوں کا لباس بھی حدود قوانین کی زد میں آ گیا۔1979 میں قیدی عورتوں کی کل تعداد سو سے بھی کم تھی۔ اب یہ تعداد 6000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ 1983 میں قانون شہادت میں ترمیم کے موقع پر مذہب پسند حلقوں نے طفل تسلی دینے کی کوشش کی کہ قانون میں عورتوں کی نصف گواہی کا تعلق محض مالی معاملات سے ہو گا۔ گویا معاشیات کی تعلیم سے بہرہ ور خاتون بینک مینجر کے مقابلے میں اس کے نیم خواندہ مرد چپراسی کی گواہی کو فوقیت دی جائے گی۔ تاہم کچھ ہی برس بعد مالی معاملات کی یہ شرط بھی غائب ہو گئی جب رشیدہ پٹیل کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ قتل عمد کے مقدمات میں عورتوں کی گواہی آدھی مانی جائے گی۔ چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال تھے جن کی روشن خیالی کی بڑی دھوم تھی مگر فوجی آمریت کے مذہبی طوفان میں بڑے بڑے چراغ ٹمٹما رہے تھے۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ ہزاروں سیاسی کارکن جیل میں تھے۔ اخبارات پر کڑی سنسر شپ تھی۔ سندھ کے گاؤں فوج کے محاصرے میں تھے۔ اسی سال فوجی آمر نے محب وطن دانشوروں پر وطن کی چاندنی، ہوا اور پانی حرام کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پاکستانی تاریخ کا یہ پہلو دلچسپ ہے کہ ہر فوجی آمریت کا مقابلہ کرنے کے لیے عورت میدان میں اترتی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کو فاطمہ جناح نے للکارا تھا۔ 1983 میں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے لرزہ براندام تھے۔ کئی برس بعد فوجی اقتدار کے دن واپس آئے تو لاہور کی سڑکوں پر کرین سے لٹکتی گاڑی میں فوجی حکومت کا مقابلہ کرنے والی عورت کا نام کلثوم نواز تھا۔ 12 فروری 1983 کی شام لاہور کی عورتوں نے غیرمنصفانہ قانون کی مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والوں کی حد برداشت دو سو گز دور نہ جا سکی۔ ریگل چوک پر جلوس روک کر عورتوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ آنسو گیس پھینکی گئی۔ انہیں سڑک پر گھسیٹا گیا۔ زخمی عورتوں کو ننگی گالیاں دیتے ہوئے گرفتار کر کے ٹرکوں میں ڈالا گیا۔ اعلیٰ اخلاقیات اور عورتوں کے احترام کے دعویداروں نے اس پر زبان تک نہ ہلائی۔ 12 فروری کو پاکستان میں عورتوں کا دن اسی واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جسٹس منیر اس پر کہتے ہیں کہ مسلم اکثریتی معاشرے کی مجبوری یہ ہے کہ اسلام کا نام لینے پر کوئی سوال اٹھانے یا دلیل دینے کی ہمت نہیں کرتا۔ دانشور آرتھر کوئسلر نے ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا تھا کہ وہ معاشرے بد نصیب ہوتے ہیں جہاں شہریوں کی عمومی ذہنی صلاحیت کمزور اور جذبات منہ زور ہوتے ہیں۔ سماجیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بنیاد پرستی اپنی روح میں عورت دشمن ہے۔ یہاں ثقافت، رسومات اور مذہب کی من مانی تشریح سے ایسا گدلا پانی تیار کیا جاتا ہے جس میں تہذیب کا عکس دھندلا جاتا ہے۔ پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور حیثیت کی صورت حال ابھی تک نہیں بدلی۔ امتیازی قوانین آج بھی موجود ہیں۔ بدترین پسماندہ رسمیں جاری ہیں۔ غیر قانونی پنچایتوں میں اسمبلیوں کے ارکان اور وزرا تک شریک ہوتے ہیں۔ ہم مسلسل انکار کی کیفیت میں ہیں۔ دانشوروں کی بڑی تعداد ملک میں زنا بالجبر کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتی۔ گھریلو تشدد کے خوفناک اعداد و شمار کو جھٹلایا جاتا ہے۔ بچیوں کے سکول جلائے جانے کی گونج قانون ساز اداروں میں سنائی نہیں دیتی۔ حکومت کو محض یہ تشویش ہے کہ ان بدنما معاشرتی نمونوں کی خبر باہر کی دنیا تک کیوں پہنچتی ہے۔ اس کے ردعمل میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی کسی خاتون کو زبردستی ملک سے نکالا جاتا ہے تو کسی کو ملک سے باہر سفر کرنے سے روکا جاتا ہے۔ 12فروری 1983 کی سرد شام جب لاہور کی عورتیں آدھی گواہی کے خلاف سڑک پر نکلی تھیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ناانصافی کی یہ رات اس قدر طویل ہو جائے گی۔ فکری جبر معاشرے کے رگ و ریشے میں اتر جائے تو اجتماعی زوال کی بیماری روگ بن جاتی ہے۔ (وجاہت مسعود انسانی حقوق، صحافت اور تعلیم کے شعبوں میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ادبی اور سیاسی موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور آج کل برطانیہ میں بین الاقوامی قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔)
040908_iraq_helicopter_sen
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/09/040908_iraq_helicopter_sen
فلوجہ:امریکی فوجی ہیلی کاپٹر تباہ
فلوجہ میں جہاں بدھ کو امریکی حملے میں 100 عراقی ہلاک کیے گئے تھے ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا ہے۔
امریکی فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار عملے کے چار افراد کو بچا لیا گیا ہے اور انہیں ایسا کوئی زخم نہیں آیا جو ان کی زندگی کے لیے خطرناک ہو۔ ہیلی کاپٹر فلوجہ کے جنوب میں گر کر تباہ ہوا اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اور انہوں نے آگ کے شعلے بھی بلند ہوتے دیکھے۔ گزشتہ روز فلوجہ کے بارے میں امریکی فوج کا کہنا تھا کہ فصائی حملوں میں سو عراقی شورشی ہلاک کیے گئے ہیں۔ یہ حملہ پیر کو ایک کار بم دھماکے کے بعد کیا گیا جس میں سات امریکی اور تین عراقی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
pakistan-42250051
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-42250051
جاوید ہاشمی نے نہیں پوچھا کہ ’مجھے کیوں بلایا؟‘
مخدوم جاوید ہاشمی قومی سیاست کے ایک باعزت مِس فٹ بزرگ ہیں۔ ایسے بزرگ جن کے سبق آموز جرات مندانہ تجربات کی دھاک محلے میں ہر کسی پر ہوتی ہے۔ ان کی بات کو کوئی نہ نہیں کرتا اور دل ہی دل میں ہاں بھی نہیں کہتا۔ بابا جی کی نصیحت محلے کے بڑے چھوٹے سر جھکا کے کھڑے کھڑے سنتے ہیں اور پھر پیڈل مارتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
مخدوم صاحب میں 66 برس کی عمر میں بھی اتنی ہی توانائی ہے جتنی 45 برس پہلے کی پنجاب یونیورسٹی کے 21 سالہ طلبا یونین کے صدر میں تھی۔ سدابہار توانائی نے اگر کہیں ڈیرہ ڈالا ہے تو وہ جاوید ہاشمی کا ڈیرہ ہے۔ برین ہیمبرج کا حملہ بھی ان کی شعلہ صفتی نہ بجھا سکا۔ یہ بھی پڑھیں جاوید ہاشمی: سٹوڈنٹ یونین سے تحریکِ انصاف تک 'جاوید ہاشمی تحریکِ انصاف میں شامل' سنہ 1972 میں گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کو دو لڑکیوں کے اغوا کے شبہے میں رگیدنے سے لے کر اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقعے پر بنگلہ دیش نامنظور چیختے ہوئے لاہور میں شاہ فیصل کے قافلے کے سامنے سڑک پر آجانے تک، بھٹو دشمنی کے جوش میں ضیا الحق کی پہلی کابینہ میں چند ماہ کے لیے یوتھ منسٹر ہونے اور پھر سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار ایم این اے بننے اور پھر سنہ 1988 میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اور پھر 23 برس بعد پاکستان تحریکِ انصاف میں ڈھائی برس گزار کے دوبارہ مسلم لیگ ن میں واپسی پر اصولی رضامندی تک۔۔۔ اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی عام طور سے اگر کوئی بندہ اسلامی جمیعتِ طلبا سے چھلانگ مار کے تحریکِ استقلال اور پھر وہاں سے ضیا کے غیر جماعتی نظام اور پھر مسلم لیگ ن اور پھر تحریکِ انصاف اور پھر واپس نون لیگ کی طرف آجائے تو ایسے شخص کو پاکستانی سیاست میں ’لوٹا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر جاوید ہاشمی شاید واحد سیاستدان ہیں جنھیں دیکھ کر جہاندیدہ لوٹے بھی اپنا لوٹا پھینک کے نکل لیتے ہیں۔ اتنے راستے بدلنے کے باوجود بھی جاوید ہاشمی شاید اس لیے لوٹے کا خطاب نہ پا سکے کیونکہ انھوں نے اب تک جو بھی کامیاب یا ناکام سیاسی ہجرتیں یا فیصلے کیے وہ کسی ترغیب یا لالچ میں آ کر نہیں بلکہ طبیعت کے ہاتھوں کیے۔ لہذا انھیں لوٹا کہنا کسی کو شوبھا نہیں دے سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مصیبت کے وقت وہ اور لوگوں پر تکیہ کرتے ہیں اور راحت ملتی ہے تو تکیے بھی بدل جاتے ہیں۔ جیسے دورِ جلاوطنی میں انھیں جاوید ہاشمی پارٹی صدارت کے لیے موزوں دکھائی دیے اور پرویز مشرف نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں جاوید ہاشمی کو ساڑھے تین برس کے لیے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن جب شریفوں کے اچھے دن آئے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جاوید ہاشمی کی جگہ اسٹیبشلمنٹ نواز چوہدری نثار علی خان کو قائدِ حزبِ اختلاف چن لیا گیا۔ زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار جاوید ہاشمی کو بنانے کے بجائے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کو بنا دیا گیا۔ اب نواز شریف ایک بار پھر مصیبت میں ہیں اور جاوید ہاشمی کی کمزوری ہے کہ کسی گاؤں کی دور دراز دخانی چکی سے آتی کوک کوک کوک کی آواز بھی اگر انھیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ محسوس ہو تو دوڑے چلے جاتے ہیں۔ یہ جاوید ہاشمی کی بڑائی ہے کہ مجھے کیوں نکالا فیم نواز شریف سے سات برس بعد ہونے والی ملاقات میں انھوں نے نہیں پوچھا ’مجھے کیوں بلایا؟‘ مجھے انتظار ہے اس وقت کا جب نواز شریف کے برے دن ختم ہوں اور کوئی چوہدری نثار علی پھر معاملات خوش اسلوبی سے سنبھال لے اور جاوید ہاشمی ایک بار پھر ’ہاں میں باغی ہوں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سوٹا گھماتے ہوئے کسی پگڈنڈی پر چلتا جا رہا ہو۔ یہاں کون ہے تیرا مسافر جائے گا کہاں دم لے لے گھڑی بھر یہ چھئیاں پائے گا کہاں
130518_england_nzealand_3rd_day_rk
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/05/130518_england_nzealand_3rd_day_rk
لارڈز ٹیسٹ: انگلینڈ کی 205 رنز کی برتری
لارڈز ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل میں انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی دوسری اننگز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 180 رنز بنائے اور ان کی مجموعی برتری 205 رنز ہوگئی ہے۔
انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگز میں 232 رنز بنائے تھے انگلینڈ کی طرف سے جے ای روٹ اور ٹراٹ نمایا بیٹس مین رہے۔ انہوں نے بالترتیب 71 اور 56 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے سوتھی نے تین، بولٹ، ویگنر اور ویلیمسن نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ انگلینڈ کو205 رنز کی برتری حاصل ہے اور ان کے چار کھلاڑی باقی ہیں۔ میچ کا تفصلی سکور کارڈ اس سے پہلے نیوزی لینڈ اپنی پہلی اننگز میں 207 رنز بنا کر آؤٹ ہو چکی ہے۔ انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگز میں 232 رنز بنائے تھے۔ انگلینڈ کی جانب سے جونی بیر سٹو نے 41 جبکہ جو روٹ نے 40 رنز بنائے تھے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے سوتھی نے چار اور ویگنر نے تین وکٹیں حاصل کیں تھیں۔ جمعہ کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا۔
070724_abdullah_profile_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/07/070724_abdullah_profile_zs
عبداللہ محسود ۔ میڈیا فرینڈلی کمانڈر
بلوچستان کے ضلع ژوب میں ہلاک ہونے والے جنوبی وزیرستان کے جنگجوؤں کے سربراہ عبداللہ محسود کو شہرت اس وقت ملی جب انہوں نے اکتوبر دو ہزار چار میں گومل زام ڈیم منصوبے پر کام کرنے والے دو چینی انجنیئروں کو اغوا کیا جن میں سے ایک کو سکیورٹی فورسز نے کمانڈو کارروائی کے بعد بازیاب کرا لیا تھا جبکہ ایک چینی انجینئر اور پانچ مبینہ جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔
عبداللہ محسود اس واقعے کے بعد اور نیک محمد وزیر کی ہلاکت کے بعد جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان کے ایک فعال سربراہ کے طور پر سامنے آئے اور عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے۔ ڈی کام کرنے والے تیس سالہ عبداللہ محسود کو افغانستان اور گوانتنامو بے کے قیدخانوں میں وقت گزارنے کا بھی تجربہ تھا جہاں سے انہوں نے ڈیڑھ سال کی قید کاٹنے کے بعد مارچ سنہ دو ہزار چار میں رہائی پائی تھی۔ وہ طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کی دوران بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک ٹانگ بھی کھو چکے تھے اور اسی وجہ سے وزیرستان کے پہاڑوں میں گھوڑے پر گھومتے نظر آتے تھے۔ چینی انجینئروں کے اغواء کے بعد وہ حکومت کی جانب سے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہوگئے اور ان کی گرفتاری پر حکومت نے پچاس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیاتھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔ تاہم اس واقعے کے بعد رفتہ رفتہ وہ منظرِ عام سے غائب ہوتے گئے۔ بظاہر شہرت کے شوقین عبداللہ محسود کچھ عرصے تک ذرائع ابلاغ کے ساتھ رابطے میں رہے اور وزیرستان میں فوج کی موجودگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا امریکہ کا ساتھ دینے کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے مگر اس کے بعد وہ منظر عام سے غائب ہوگئے۔ چار ماہ تک خاموشی اختیار کرنے کے بعد وہ اس وقت دوبارہ نمودار ہوئے جب انہوں نے بی بی سی کے ساتھ رابطہ کر کے سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنی ہلاکت کی افواہ کی تردید کی۔ عبداللہ محسود کے منظر عام سے غائب ہوتے ہی ایک اور قدرے خاموش اور میڈیا سے دور رہنے والے محسود جنگجو بیت اللہ محسود مقامی طالبان کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے سات فروری دو ہزارپانچ میں سرہ روغہ کے مقام پر حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ پر بھی دستخط کیے تاہم عبداللہ محسود کو اس معاہدے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس معاہدے کے بعد عبداللہ محسود کا کہنا تھا کہ ’بیت اللہ کے حکومت کے ساتھ امن معاہدے سے ان کی مسلح جدوجہد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘۔ اس بیان کے بعد عبداللہ محسود روپوش ہوگئے اور انہوں نے میڈیا کے ساتھ تمام رابطے منقطع کر دیے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی انجینئروں کے اغواء کے بعد حکومت نےعبداللہ محسود کی خواہش کے باوجود ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکومتی دعوے کے مطابق سرہ روغہ کے معاہدے کے وقت بیت اللہ محسودنے خواہش ظاہر کی تھی کہ عبداللہ کو بھی معاہدے میں شامل کیا جائےتاہم حکومت نے اس مطالبے کو رد کر دیا تھا۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ عبداللہ مسعود کے درون خانہ بیت اللہ محسود کے ساتھ اختلافات موجود تھے اور وہ قبائلی علاقوں کی بجائے اتحادی افواج کے خلاف طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند چلے گئے تھے اور حال ہی میں وہاں سے واپس لوٹے تھے۔ ابتدائی دنوں میں ذرائع ابلاغ سے بلاخوف و خطر رابطہ رکھنے کے بارے میں جب عبداللہ محسود سے پوچھا گیا تھا کہ وہ احتیاط کیوں نہیں کرتے تو جواب میں انہوں نےکہا کہ ’راہِ حق میں خوف کیسا ڈر کیسا‘۔
pakistan-39627543
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-39627543
’تشدد بندے کو خوفزدہ کر سکتا ہے مگر اسے بدل نہیں سکتا‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی کسی ایک شق پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ بعض ماہرین اس کی وجہ پاکستان میں زیرحراست تشدد کو روکنے میں حکومتی ناکامی کو قرار دیتے ہیں جہاں ریاستی اداروں کی تحویل میں تشدد معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس تشدد کے لیے کیا طریقے استعمال کیے جاتے ہیں اس کی ایک جھلک ان تین افراد کی کہانیوں میں ملتی ہے جو حال ہی میں اس تشدد کا نشانہ بنے اور انھوں نے اپنے تجربات بی بی سی اردو سے شیئر کیے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں پانچ برسوں میں تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی کسی ایک شق پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا ’تشدد بندے کو خوف زدہ کر سکتا ہے مگر اسے بدل نہیں سکتا‘، احمد وقاص گورایہ تشدد اغوا کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے، کالے شیشوں والی گاڑی میں تھپڑ، مکے اور پھر ہتھوڑے وغیرہ۔ مجھے جس بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا اس کا آغاز تھکانے اور انسان کو نفسیاتی طور پر توڑ دینے والے تشدد سے ہوا۔ اغوا کاروں کے تشدد میں غصے اور خود لذتی کا عنصر اور اپنی طاقت کا اظہار غالب تھا۔ تشدد کے لیے مخصوص آلات اور پھر ٹارچر سیل میں جسمانی نفسیاتی تشدد کے علاوہ جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ تھا چوبیس گھنٹے میں سے 20 گھنٹے کھڑے رہنا ، چار گھنٹے سونا۔ 24 گھنٹے منہ پر کالا کپڑا۔ اور یہی نہیں بلکہ دوسروں پر ہوتے تشدد کی آوازیں، لوگوں کی چیخیں اور التجائیں ابھی تک مجھے یاد آتی ہیں اور میں سو نہیں پاتا۔ اور پھر آخری دو ہفتے کی قید تنہائی۔ جسمانی تشدد تو جیسے ہی بندہ باہر آتا ہے ختم ہو چکا ہوتا ہے مگر نفسیاتی اور معاشرتی تشدد کا سامنا کرنا زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ تشدد کی ایک اہم جہت یہ تھی کہ میرے خاندان پر کیا گزری۔ میری والدہ آج بھی اکثر رات کو چیخ مار کر اٹھ بیٹھتی ہیں۔ خاندان سے اور زندگی سے خوشی جیسے غائب کر دی گئی ہے۔ ارسطو (میرا بیٹا) جو تین سال کا ہے، اس کے رویے میں غصہ، بےاعتباری اور دوستوں، جاننے والوں کا سامنا کرنے سے کترانا اس کا ثبوت ہے۔ پھر 'بلاسفیمی' کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے جو معاشرتی دباؤ اور جان کا خطرہ رہا، تو کبھی کبھی بندہ کہتا ہے شاید اندر ہی محفوظ تھا، مار پیٹ رہے تھے مگر ماں باپ اور خاندان پر گزرنے والے عذاب کو تو نہیں دیکھ رہا تھا۔ تشدد آخر کیوں! اگر آپ کے اغوا کاروں نے آپ کو سیاسی یا نظریاتی اختلاف کی وجہ سے اٹھایا تو کیا تشدد سے انسان کے نظریات بدل جاتے ہیں؟ ہر طرح کے تشدد اور روزانہ کے درد کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ تشدد وقتی طور پر تو بندے کو خوف زدہ کر سکتا ہے مگر اس کو بدل نہیں سکتا۔ جبر کی دنیا، سلمان حیدر زندگی کا ہیولہ سرچ ٹاور پر گھومتے سورج کی طرح سیاہ پٹی سے ڈھکی آنکھوں کے سامنے رات جیسے دن میں کئی بار گزرتا ہے دن کو کرۂ ارض پر بچھی سرد ٹائلیں تلووں سے گننے میں صرف ہوتا ہے کرۂ ارض جس کا شمالی قطب اس کے جنوبی قطب سے نو قدم دور ہے رزق کا دروازہ مجھے کل تک زندہ رکھنے کے لیے دن میں تین بار کھولا جاتا ہے میں من و سلویٰ کی چھلکتی پلیٹ ہتھکڑی لگے ہاتھ سے سنبھالنے میں مہارت حاصل کر چکا ہوں مجھے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ شہادت کی انگلی گلے پر پھیری جائے تو پسینہ پیشانی سے پھوٹتا ہے پیشاب کی بوتل جس نل کے نیچے خالی کی جاتی ہے اس سے پینے کا پانی بھرنا مشکل ہوتا اگر گالیوں اور کراہوں کے بیچ کی خاموشی پر مجھے موت کا گمان نہ ہوتا انگلیوں کی پوریں دیوار پر کھدے وہ سب نام یاد کر چکی ہیں جنھوں نے جبر کی دنیا مجھ سے پہلے دریافت کی 'تلووں میں لگی چوٹ کا اثر دماغ پر ہوتا تھا'، تنویر بستر پر لیٹے، کمرے کی چھت کو مسلسل گھورنے والا تنویر (فرضی نام) بقول اس کے گوجرانوالہ کی ضلعی عدالتوں میں وثیقہ نویسی کا کام کرتا تھا اور اسے کچھ عرصہ قبل پڑوس میں ایک 80 سالہ خاتون کے قتل کے بعد 25 محلہ داروں سمیت حراست میں لیا گیا۔ ان افراد کو کسی تھانے میں یا پولیس کے تفتیش کے محکمے میں بھی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے لیے علاقے کے چوہدری کا ڈیرہ استمال کیا گیا جہاں پر مقامی تھانے کی پولیس ان افراد سے پوچھ گچھ کرتی تھی۔ تنویر نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ چونکہ چوہدری کا ڈیرہ آبادی سے زیادہ دور نہیں تھا اس لیے تفتیش کا مرحلہ دن کی بجائے رات نو بجے کے بعد شروع کیا جاتا تھا۔ اُنھوں نے بتایا کہ روزانہ رات کو پانچ افراد سے اس قتل کی تفتیش پنجاب پولیس کے 'روایتی' انداز میں کی جاتی تھی۔ تنویر کے بقول جب اُنھیں تفتیش کے لیے بلایا جانا تھا تو اُس سمیت دیگر پانچ افراد کو دن بھر بھوکا رکھا گیا۔ رات کو جب تفتیش کے لیے بلایا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے سامنے مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ تفتیشی اہلکار اس کے ساتھ بڑے پیار سے پیش آئے اور سب نے مل کر کھانا کھایا۔ تنویر کا کہنا تھا کہ اسے پولیس والوں کے رویے پر بڑی حیرانی ہوئی اور 'میں نے دل میں سوچا کہ پولیس کے محکمے میں بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔' تنویر کے مطابق کھانے سے فارغ ہونے کے بعد باقی افراد کو تو الگ کمرے میں بھیج دیا گیا مگر اسے تفتیش کے لیے بٹھا لیا گیا۔ 'دو منٹ تک تو پولیس اہلکار آرام سے بات کرتے رہے، پھر اچانک ایک پولیس والا اُٹھا اور اس نے تھپڑوں اور مکّوں کی برسات کر دی۔ معاملہ یہاں پر ہی نہیں رکا بلکہ تحقیقات کی نگرانی کرنے والے اہلکار نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ 'اینہوں لمیا پا لئو' (اس کو لٹا دو)۔' تنویر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد دو پولیس اہلکاروں نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں اور ایک پولیس اہلکار پاؤں کے تلووں پر چھتر(چمڑے کا بڑا سا ٹکڑا) مارنے لگا۔ تنویر کے بقول پاؤں کے تلووں پر لگنے والی چوٹ کا اثر دماغ تک پہنچتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سر پر کوئی ہتھوڑے برسا رہا ہے اور یہ عمل رات گئے تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔ تنویر کے بقول جب اُنھوں نے اعتراف جرم کرنے سے انکار کیا تو اگلی شب دو 'ہٹے کٹے' اہلکار لوہے کا ایک راڈ لائے اور اُن کی ٹانگوں پر رکھ کر اس پر اپنا پورا وزن ڈال کر اسے رولر کی طرح چلا دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس عمل کی تکلیف اتنی شدید تھی کہ وہ ہوش کھو بیٹھے۔ تنویر کے بقول پھر تین دن تک انھیں تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا اور جب دوبارہ باری آئی تو اہلکاروں کا ہدف ان کے بازو تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ لوہے کا راڈ اُنھی صحت مند پولیس اہلکاروں نے اسی طرح ان کے بازوؤں پر پھیرا جس سے بازوؤں کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ تنویر کے بقول حراست کے دوران ان کا علاج بھی ہوتا رہا اور پھر انھیں اور حراست میں لیے گئے دیگر افراد کو 40 دن کے بعد بےگناہ قرار دے کر رہا کر دیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کے بارے میں نہ تو متعلقہ تھانے میں کوئی رپورٹ درج کی گئی تھی اور نہ ہی متعلقہ عدالت کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔ تنویر کا کہنا تھا کہ انہوں نے رہائی کے بعد اپنی بساط کے مطابق علاج بھی کروایا لیکن بازو ٹھیک نہیں ہوئے۔
050309_baghdad_blast_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/050309_baghdad_blast_ra
عراقی تشدد میں 23 ہلاک
بغداد کے مرکز میں ایک زور دار دھماکہ ہوا ہے جس سے وزارت زراعت کی عمارت کو نقصان پہنچا ہے اور کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی۔ اس واقعہ کے نتیجے میں تین افراد کے ہلاک اور بیس کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
اس کے علاوہ شام کی سرحد کے قریب عراق کے شمال مغربی شہر القائم سے انیس شہریوں کی لاشیں ملی ہیں۔ القائم کے ہسپتال کے ذرائع کے مطابق، ان عراقیوں کے سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق دو خود کش حملہ آوروں نے جو کوڑا اکھٹا کرنے والے ٹرک میں سوار تھے، وزارت زراعت کی عمارت کےقریب حملہ کیا جہاں کئی ہوٹل موجود ہیں۔ دھماکے سے اردگرد کی عمارتیں ہل گئیں اور پورا علاقے پر دھواں چھا گیا۔ دھماکہ کے فوراً بعد خود کار اسلحہ سے فائرنگ شروع ہو گئی جس کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ دھماکہ اس ہوٹل کے پاس ہوا جہاں عراقی پولیس اہلکار اور ان کے غیر ملکی انسٹرکٹر رہائش پذیر تھے۔
regional-46839171
https://www.bbc.com/urdu/regional-46839171
مودی کی بالی وُڈ سیلفی، سوشل میڈیا پر ہلچل
اگر آپ بھی ہم جیسے ہیں تو دن میں اپنی ایک آدھ سیلفی تو ضرور بناتے ہوں گے۔ آخر سمارٹ فونز کا اور مقصد ہی کیا ہے! اور ہم آپ ہی نہیں آج کل تو سیاسی رہنماؤں سے لے کر بڑے بڑے کھلاڑیوں اور فلم سٹار تک، سب ہی سیلفی کے دیوانے ہیں۔ سب سیلفی لیتے ہیں، پوسٹ کرتے ہیں اور لائک اور ریٹویٹ کا لطف اٹھاتے ہیں۔
تو پھر اس ایک سیلفی میں آخر ایسا کیا تھا کہ بحث جو شروع ہوئی وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟ ہوا یہ کہ انڈین فلم ساز کرن جوہر نے یہ سیلفی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی۔۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس تصویر میں کرن جوہر کے علاوہ انڈین فلم انڈسٹری کے دوسرے بڑے نام بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جیسے کہ رنویر سنگھ، عالیہ بھٹ، رنبیر کپور، راج کمار راؤ اور آیوشمان کھرانا۔ تصویر کے ساتھ کرن جوہر نے لکھا، ’معزز وزیر اعظم نریندر مودی، شکریہ۔ آج ہم سب کو آپ سے بات کرنے کا غیر معمولی موقع ملا، دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا اور ساتھ مل کر ہم ایک نیا انڈیا بنانے کے لیے مثبت قدم اٹھانا چاہیں گے۔‘ یہی تصویر ٹی وی ڈرامے بنانے والی ایکتا کپور نے بھی پوسٹ کی اور اس کے ساتھ لکھا، ’اس ملاقات کے لیے شکریہ معزز وزیر اعظم نریندر مودی! ایک نوجوان وفد نے ایک دور اندیش رہنما سے ملاقات کی، تعلیم اور تفریح کو کس طرح ملایا جائے، اس بارے میں بات چیت کا آغاز کیا! میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی دور اندیشی اور شخصیت کے زور سے میں بہت متاثر ہوئی! جے ہند!‘ ان پوسٹس سے یہ بات تو ظاہر ہے کہ وفد میں موجود اداکار اور فلم ساز اس ملاقات سے کافی خوش اور مطمئن تھے، تاہم کچھ لوگوں کو یہ تصویر کچھ پسند نہیں آئی۔ اداکارہ نفیسہ علی سودھی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کرن جوہر کی پوسٹ کو ری پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، ’اپنی برادری کے لوگوں کو اس طرح وزیر اعظم کی سوچی سمجھی پبلسٹی مہم کا حصہ بنتے ہوئے دیکھ کر افسوس ہوا۔ میں دعا کروں گی کہ سچ سامنے آئے اور بند دروازوں کے پیچھے جو ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے وہ لوگوں کی سمجھ میں آئے۔ میں ہر انڈین شہری کے آئینی حقوق کے لیے فکر مند ہوں۔ میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے ٹھیک بعد وہاں موجود تھی اور اس حقیقت کو میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ میں انڈیا کے اتحاد کے لیے دعا گو ہوں۔‘ اسی طرح کے خیالات کا اظہار انسانی حقوق کی کارکن شبنم ہاشمی نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیا۔ انہوں نے لکھا، ’کیا یہ تصویر فوٹو شاپ کی گئی ہے؟ یا یہ لوگ پوری طرح سٹھیا گئے ہیں؟ اور تصویر کے بائیں طرف کیا یہ جے امیت شاہ ہے یا ان کے ہم شکل؟‘ اس کے جواب میں مشہور مورخ اور کارکن عرفان حبیب نے لکھا، ’شبنم، یہ نیا انڈیا ہے۔‘ اور اس کے جواب میں صحافی ساگریکا گھوس نے ٹویٹ کی، ’بالی وُڈ میڈیا کی طرح ہی ہے، بس نام کے لیے آزاد۔ ہماری فلم انڈسٹری پر حکومت کا کنٹرول غیر رسمی اور وسیع ہے۔ بھکت صحافیوں کی طرح ہمارے پاس بھکت فلم سٹار ہیں۔ میریل سٹریپ؟ روبرٹ ڈی نیرو؟ یہاں انڈیا میں نہیں! اسی وجہ سے میں ’بڑی ریاست‘ کے خلاف مزاحمت کے بارے میں بات کرتی ہوں۔‘ تو ظاہر ہے جہاں کچھ لوگ اس ملاقات سے خوش ہیں وہیں کچھ کو اس طرح وزیر اعظم کے ساتھ تصویر بنانا اچھا نہیں لگا۔ لیکن شاید سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی رہنما کے ساتھ اس طرح کی تصویر صرف ایک تصویر ہوتی ہے یا پھر اس رہنما کی پالیسیز، اس کے وِژن اور اس کی سیاست کی حمایت کے مترادف ہوتی ہے؟ کیونکہ، جیسا کہ کئی ٹوئٹر صارفین نے ہمیں یاد دلایا، وزیر اعظم کے ساتھ تصویر بنوانا انڈین فلم انڈسٹری کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔
080910_911_trade_nwfp_afghan
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/09/080910_911_trade_nwfp_afghan
افغان ٹیکس اور طالبان کے ظہور سے کاروبار مندہ
پاک افغان تجارت میں کمی دو ہزار چھ سات میں پاکستانی کی درآمدات گھٹ کر سات سو پچاس ملین ڈالر اور دو ہزار سات آٹھ جولائی کے مہینے تک چھ سو دس ملین ڈالر تک آپہنچی ہے۔انہوں سرور مومند، سرحد چیمبر آف کامرس امریکہ پر ہونےوالےگیارہ ستمبر کے حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے اور وہاں پر تعمیر نو کے عمل نے افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر تجارتی اور معاشی مواقع پیدا کردیئے تھے۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ ابتدائی چند سالوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت میں تاریخی اضافہ ہوا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دو ہزار پانچ چھ میں افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی جبکہ اس دوران افغانستان سے چار اعشاریہ سات ملین ڈالر کی اشیاء درآمد کی گئی تھیں۔ تاہم پاکستانی تاجر پاکستانی برآمدات کا حجم ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر بتاتے تھے۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور گزشتہ دو دھائیوں سے زائد عرصے سے پاک افغان تجارت سے وابستہ سرور مومند کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت میں اضافہ اور پاکستانی میں طالبان کے ظہور نے تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بنادیا ہے جسکی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی تجارت میں سال بہ سال کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان کے بقول دو ہزار چھ سات میں پاکستانی کی درآمدات گھٹ کر سات سو پچاس ملین ڈالر اور دو ہزار سات آٹھ جولائی کے مہینے تک چھ سو دس ملین ڈالر تک آپہنچی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کے آر پار بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے علاوہ پاکستانی برآمدات میں کمی کی بڑی وجہ افغان حکومت کی جانب سے پاکستانی اشیاء پر لگائے جانے والے ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرکاری طور پر ہونے والی زیادہ تر تجارت طورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے ہوتی ہے مگر پاکستان کے سات قبائلی ایجنسیوں کے لوگ سرحد پار افغانوں کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر تجارت کرنے کے لیے روایتی راستے استعمال کرتے ہیں۔ پاک افغان تجارت سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں بالخصوص پاکستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں نے ان کی تجارتی سرگرمیوں کو دھچکا پہنچایا ہے۔ ان کے بقول اس وقت سینکڑوں ٹرانسپورٹر پاکستان کے راستے افغانستان میں تعینات نیٹو اور امریکی فورسز کو روزمرہ ضروریات کی اشیاء اور تیل فراہم کرنے کے کاروبار سے منسلک ہیں مگر تجارتی راستوں پر مبینہ شدت پسندوں کی کاروائیوں نے ان تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بنادیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے ٹرانسپورٹ یونین کے صدر اختر نواز کا الزام ہے کہ خیبر ایجنسی میں متعدد تنظیموں کی سرگرمیوں نے ان کی تجارت پر منفی اثرات ڈالا ہے۔ ان کے بقول’ ہمارا کاروبار اس لیے روز بروز خراب ہورہا ہے کیونکہ مبینہ شدت پسند تنظیمیں ہم سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ایک ٹرک پر ہمیں دس ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کردیا تو مبینہ شدت پسند تنظیمیں ان کے ٹرکوں کو یہ کہتے ہوئے نذرِ آتش کرتے ہیں کہ ’ آپ لوگ افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو سامان پہنچا کر ایک طریقے سےیہودیوں کی مدد کررہےہیں۔‘ اگرچہ اختر نواز نے کسی مخصوص تنظیم یا گروپ کا نام نہیں لیا البتہ آج تک کسی بھی تنظیم نے باقاعدہ طور پر ان الزامات کی تردید بھی نہیں کی ہے۔ آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے رہنماء شاکر آفریدی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے لیے جنگی سازمان، روزمرہ استعمال کی اشیاء اورتیل کی ترسیل کے لیے چار سو کے قریب کنٹینر اور آئل ٹینکرروزانہ افغانستان جاتے ہیں تاہم بقول ان کے راستے میں سکیورٹی کی درپیش صورتحال نے انہیں سخت مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ ان کے مطابق’ کراچی سے طورخم کے راستے تیل افغانستان لیجاتے وقت راستے میں ہی نامعلوم مسلح افراد حملہ کرکے ڈرائیور کو ٹینکر سمیت اغواء کرلیتا ہے۔ہماری اب تک درجنوں ٹینکرز جلائے گئے ہیں جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ان واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہاہے مگر حکومت کی جانب سے ہمیں کسی قسم کی کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی جاتی ہے۔‘
050309_safrica_exhume_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/050309_safrica_exhume_am
جنوبی افریقہ کے گمنام سپاہی
جنوبی افریقہ میں تفتیش کاروں نے گمنام قبروں سے لاشوں کو نکالنے کا کام شروع کر دیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ نسلیت پسندی کے دور میں لاپتا ہو جانے والے سینکڑوں افراد پر اصل میں کیا گزری تھی؟
اس کام کا آغاز کو ازولو ناتل صوبے میں دو لاشوں کی کھدائی سے کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ نسلیت پسندی کے مخلاف وہ کارکن تھے جنہیں اطلاعات کے مطابق انیس سو اٹھاسی میں پولیس کے ساتھ ہونے والی فائرنگ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس چھان بین کے لیے خصوصی ٹیموں نے اب تک بیس سے زائد قبروں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ خصوصی ٹیمیں حقائق کی چھان بین کرنے والے ایک کمیشن کی رپورٹ کے بعد تشکیل دیئے گئے تھے۔ جنوبی افریقہ سے بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس واقعہ کا شکار ہوجانے والے افراد کے خاندان والوں کے دکھ کو ختم کرنے میں مددگار ہوں گے۔
pakistan-55509513
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55509513
’ایئر آف دی نرس اینڈ دی مڈوائفس 2020: پاکستان کی آٹھ نرسیں عالمی فہرست میں شامل، ملک میں اس شعبے کی بہتری کیسے ممکن؟
پاکستان کی آٹھ نرسوں اور ’مِڈوائفس‘ کو دنیا بھر میں موجود 100 ممتاز خواتین نرسوں اور مڈوائفس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے 43 ممالک سے 100 نرسوں اور مڈوائفس کو ویمن ان گلوبل ہیلتھ (ڈبلیو جی ایچ) کی جانب سے صحت عامہ کے معیارات کو بہتر بنانے کے لیے گراں قدر کام کرنے اور خصوصاً عالمی وبا جیسے مشکل حالات میں ان کی مسلسل خدمات کے اعتراف میں انھیں اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
پاکستان کی آٹھ نرسوں اور مڈوائفس کو دنیا بھر میں موجود 100 ممتاز خواتین نرسیں اور مڈوائفس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے یہ تنظیم عالمی ادارہ صحت )ڈبلیو ایچ او(، اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ، نرسنگ ناﺅ ، انٹرنیشنل کونسل آف نرسز اور انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف مڈوائفس کے ساتھ اشتراک میں کام کرتی ہے۔ 'ایئر آف دی نرس اینڈ دی مڈوائفس 2020` کی عالمی فہرست میں شامل تمام آٹھ پاکستانی خواتین آغا خان یونیورسٹی سکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری سے بطور اساتذہ منسلک ہیں یا فارغ التحصیل طالبات ہیں۔ یہ بھی پڑھیے نرس اریما نسرین کی یاد میں سکالرشپ کا آغاز ’کورونا کے خطرے کے باوجود وہ اپنے مریضوں کی خدمت کرتے رہے‘ آرمی پبلک سکول حملہ: ’اُس بچے کو آج بھی نہیں بھول پائی‘ یہ آٹھ پاکستانی خواتین کون ہیں؟ 'ایئر آف دی نرس اینڈ دی مڈوائفس 2020` کی فہرست میں پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر روزینہ کرملیانی، یاسمین پارپیو، ثمینہ ورتیجی، صائمہ سچوانی، مرینہ بیگ، شیلا ہیرانی، نیلم پنجانی اور صدف سلیم شامل ہیں۔ ڈاکٹر روزینہ کرملیانی آغا خان یونیورسٹی کے سکول آف نرسنگ کی ڈین ہیں ڈاکٹر روزینہ کرملیانی آغا خان یونیورسٹی کے سکول آف نرسنگ کی ڈین ہیں اور انھیں 'بورڈ اینڈ مینیجمنٹ' کیٹیگری کے تحت اعزاز دیا گیا ہے اور بالغ افراد کی صحت، نرسنگ کے شعبے میں تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اس تحقیق کو تعلیم اور عملی مشق میں ضم کرنے کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں شامل دوسری پاکستانی خاتون یاسمین پارپیو آغا خان یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان کی تحقیق بلوغت کے دوران ذہنی صحت پر ہے۔ انھیں اس فہرست میں 'کمیونٹی ہیرو' کیٹیگری کے تحت مقامی آبادی کی صحت اور نرسنگ خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ثمینہ ورتیجی کو 'کمیونٹی ہیرو' کیٹگری کے تحت مقامی آبادی کی صحت اور خصوصاً کورونا وبا کے دوران ملک کی بزرگ آبادی کی صحت عامہ کے لیے پالیسی سازی میں کردار ادا کرنے پر اعزاز دیا گیا۔ اس فہرست میں شامل ہونے والی تیسری پاکستانی خاتون ثمینہ ورتیجی ہیں انھیں بھی 'کمیونٹی ہیرو' کیٹگری کے تحت مقامی آبادی کی صحت اور خصوصاً کورونا وبا کے دوران ملک کی بزرگ آبادی کی صحت عامہ کے لیے پالیسی سازی میں کردار ادا کرنے پر اعزاز دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور پاکستانی خاتون صائمہ سچوانی کو 'ہیومن کیپیٹل ڈیویلپمنٹ' کیٹگری کے تحت موثر نصاب کی تیاری و تشکیل کے سلسلے میں دی جانے والی خدمات کے اعتراف میں اعزاز دیا گیا ہے۔ جبکہ مرینہ بیگ کو 'انوویٹیو، سائنس اینڈ ہیلتھ' کیٹگری کے تحت موبائل ہیلتھ ٹیکنالوجی کو ماﺅں کی صحت میں بہتری کے لیے استعمال کرنے کی کاوشوں کے اعتراف میں اعزاز دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شیلا ہیرانی کو کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کے فروغ، تحفظ اور معاونت کی سرگرمیوں پر ایوراڈ دیا گیا آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے سکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری سے فارغ التحصیل تین طالبات کو بھی 'کمیونٹی ہیرو' کیٹگری کے تحت اعزازات دیئے گئے جن میں ڈاکٹر شیلا ہیرانی کو کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کے فروغ، تحفظ اور معاونت کی سرگرمیوں پر، نیلم پنجانی کو جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کے حوالے سے بہتری اور معاونت پر اور صدف سلیم کو معمر افراد کی نرسنگ کے سلسلے میں خدمات کے حوالے سے اعزازات دیئے گئے۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے سکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری کی ڈین ڈاکٹر روزینہ کرملیانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ صحت عامہ اور نرسنگ کے بین الاقوامی ادارے کی جانب سے ہماری خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ سال صحت عامہ سے منسلک تمام افراد اور اداروں کے لیے خصوصاً مشکلات اور چیلنجز کا حامل تھا اور کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں سبھی نے اپنے اپنے کردار کو اچھے انداز میں نبھانے کے عہد کو پورا کیا ہے۔' نرسنگ کے شعبے کا انتخاب کرنے اور اس سفر کے مشکلات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر روزینہ کا کہنا تھا کہ 'مجھے بچپن سے نئی نئی دوائیاں بنانےکا شوق تھا، میرے ایک انکل تھے جو ایک بین الاقوامی دوا ساز کمپنی میں بطور فارمسسٹ کام کرتے تھے اور میں ان سے بہت متاثر تھی، جب میں نے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا تو میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن سنہ 1985 میں اس وقت صرف کراچی یونیورسٹی میں ہی فارمیسی کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن وہاں حالات ٹھیک نہیں تھے اور یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیاں بہت تھی لہذا میں نے وہاں داخلہ نہیں لیا اور ڈاکٹر مجھے بننا نہیں تھا کیونکہ اس وقت ملک میں ہر کوئی ڈاکٹر بن رہا تھا۔ اس وقت میں میری ایک دوست نے مجھے آغا خان یونیورسٹی کے سکول آف نرسنگ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ یہاں میں فارمیسی کے علاوہ دیگر بہت کچھ بھی پڑھ سکوں گی۔' ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے نرسنگ سکول میں داخلے لینے کے لیے والدین کو آمادہ کرنے میں وقت لگا کیونکہ اس وقت نرسنگ کا شعبہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور میرے والد نے مجھ سے کہا کہ تم اچھی سٹوڈنٹ ہو، کالج یا یونیورسٹی جاؤ کیوں نرسنگ کے شعبے کو اختیار کرنا چاہتی ہوں؟ کیونکہ اس وقت نرسنگ ایک کیرئیر نہیں سمجھا جاتا تھا۔' انھوں نے مزید بتایا کہ 'ایک مرتبہ میرے والد کا سکوٹر سڑک پر پھسل گیا اور انھیں مقامی ہسپتال میں لے جایا گیا وہاں وہ موجود ایک نرس کے کام سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے مجھے اس کو اختیار کرنے کی اجازت دے دی۔' صائمہ سیچوانی کہتی ہیں کہ معاشرے میں نرسنگ کو صرف خواتین کا شعبہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ’مجھے ڈاکٹر نہیں بننا، ڈاکٹر تو ٹیکہ لگاتے ہیں‘ ویمن ان گلوبل ہیلتھ کی فہرست میں شامل صائمہ سیچوانی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ' مجھے بچپن سے ہی نرسنگ کا شوق تھا، میرے خاندان میں نرسنگ کے شعبے کو پسند کیا جاتا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے بچپن میں جب بھی کوئی بیمار ہو کر ڈاکٹر کے پاس جاتا تو وہ اسے ٹیکہ لگاتے تھے اور بچے ٹیکہ لگوانے نہیں چاہتے تھے تو میں نے سوچا کہ مجھے ڈاکٹر نہیں بننا، ڈاکٹر تو ٹیکہ لگاتے ہیں۔ تب تک کسی کو ہسپتال میں کام کرتے دیکھا نہیں تھا بعد میں پتا چلا یہ کام تو سب سے زیادہ نرس ہی انجام دیتی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ بچپن میں معصومیت میں یہ خواہش پیدا ہوئی لیکن جب بڑی ہوئی تو مجھے یہ علم ہو چکا تھا کہ اس شعبے میں آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آپ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس شعبے کو اختیار کرنے میں میرے خاندان نے میرا ساتھ دیا۔ ’کیا باپ بھائی کماتے نہیں جو نرس بن گئی‘ اس شعبے میں خدمات انجام دینے کے دوران مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر روزینہ بتاتی ہے کہ 'جب میں نے نرسنگ کی تعلیم کے دوران ہسپتال میں کام کرنا شروع کیا تو اس وقت مریضں اور ان کے رشتہ دار کہتے تھے کہ کیا آپ کے بھائی یا والد کما کر کھلا نہیں سکتے جو نرسنگ میں آ گئی ہوں، آپ تو اچھے گھرانے کی لگتی ہیں کیا آپ کے والد اور بھائی آپ کی معاشی مدد نہیں کرتے جو نرس بن گئی۔' ان کا کہنا تھا کہ 'ان باتوں کی پرواہ کیے بنا میں نے یہ ٹھان لیا تھا کہ نرسنگ کے شعبے میں بہت آگے تک جاؤں گی اور پاکستان میں اس شعبے کو وہ ہی عزت دلواؤں گی جو اسلام کی تعلیمات میں ہمیں غزوات میں صحابہ کا علاج اور مدد کرنے والی خواتین کو ملتا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ سٹوڈنٹ لائف کے بعد میں نے ہسپتال میں کام کرنے کی بجائے کمیونٹی نرسنگ کو ترجیح دی کیونکہ ہسپتال میں اکثر ایسے بچے آتے تھے جو بار بار پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے تھے لہذا ایسے بچوں کی صحت کے لیے میں نے کمیونٹی میں جا کر حفظان صحت کی آگاہی اور ان پر عمل کروانے کے لیے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے نرسنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی تو مجھے لگا کہ ملک میں اس شعبے کے کردار کو پالیسی سازی تک لے جایا جائے۔ نرسنگ کا شعبہ کتنا اہم ہے؟ ڈاکٹر روزینہ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں 90 لاکھ نرسوں کی کمی ہے اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں تقریباً 13 لاکھ نرسوں کی ضرورت ہے۔ ملک میں تین ڈاکٹروں کے ساتھ ایک نرس موجود ہے۔ ایک نرس صرف ہسپتال میں مریضوں کا علاج ہی نہیں کرتی بلکہ کمیونٹی سروس کے ذریعے بیماریوں کی روک تھام کے لیے بھی کام کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ برس وبا کے دوران جب دنیا بھر نے اپنے دروازے سب کے لیے بند کر دیے تو نرسنگ وہ واحد پیشہ تھا جسے دنیا کے تمام ملکوں نے خوش آمدید کہا۔ صائمہ سیچوانی اس بارے میں کہتی ہیں کہ معاشرے میں نرسنگ کو صرف خواتین کا شعبہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شعبے سے منسلک خواتین کو مردوں کے مقابلے میں جن نظروں سے دیکھا جاتا ہے یہ رویہ دنیا بھر میں موجود ہے مگر اس کی شدت چند معاشروں میں زیادہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک عام خیال یہ ہے کہ نرس ایک ڈاکٹر کی اسسٹنٹ ہے، ان کے کام کو کم سمجھا جاتا تھا، لیکن اب پاکستان سمیت دنیا بھر یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ایک نرس اور ڈاکٹر ایک دوسرے کے تعاون سے کام کرتے ہیں اور ایک نرس کی تعلیم ڈاکٹر سے زیادہ یا اس کے برابر ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نرسنگ کا شعبہ لوگوں کو بیماری کا علاج نہیں بلکہ بیماری سے بچاؤ کے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے، بیماری کی وجوہات اور اسے کے تدارک پر کام کرتا ہے۔ اس لیے نرسوں کے کام کو کم سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ بہت سارا کام لوگوں کی صحت کو لمبے عرصے تک بہتر اور محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ پچیدگیوں سے بچانے کا کام کرتیں ہیں۔ ڈاکٹر روزینہ کورونا کی وبا کے آغاز کے بعد بہت سے ممالک نے نرسنگ سے منسلک افراد کو فوری خاندان سمیت اپنے ملک امیگریشن دی۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں اگر بات کی جائے تو اس شعبے سے پڑھ کے نکلنے والے بیروز گار نہیں رہتے کیونکہ نجی و سرکاری سطح پر نرسوں کی کمی ہے۔ کورونا کے وبا کے دوران اس شعبے کی خدمات کا حوالے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں نرسنگ کے شعبے سے منسلک افراد نے بے پناہ بہادری اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف معالجاتی اور علاقائی ماحول میں کام کیا۔ پاکستان میں اس شعبے کی بہتری کے لیے کیا کرنے کی ضرورت؟ ڈاکٹر روزینہ کہتی ہے کہ یہ بات درست ہے کہ آج بھی اس شعبے کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اسے دیگر پیشوں کے مقابلے میں کم تر تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا لیکن حکومت اور نجی اداروں کی معاونت سے اس شعبے کے متعلق تصور میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ خوش آئند اور حوصلہ افزا امر ہے کہ پاکستان کی حکومت اور صحت عامہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے ساتھ مل کر نرسنگ اور مڈوائفری کی تعلیم، پیشہ ورانہ مشق اور تحقیق کے لیے غورو فکر اور عملی کاوشیں کر رہے ہیں۔ صحت عامہ کے ایک مضبوط اور پائیدار نظام کے قیام میں نرسوں کے اہم ترین کردار اور خدمات کے اعتراف کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ شعبہ نرسنگ اور مڈوائفری کی خدمات کا اعتراف کر کے ڈبلیو جی ایچ نے ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک سے اپنے اس مطالبے کو نئی آواز دی ہے جس کے تحت انھیں ہسپتالوں میں نرسز اور مڈوائفس کے لیے موثر راہنمائی اور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل پوزیشنز تشکیل دینی چاہییں اور معاونت فراہم کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ نرسوں اور مڈوائفس کو اہم ذمہ داریاں دینی چاہییں، تعیناتی کے لیے تنوع کو مدنظر رکھنا چاہیے، دونوں اصناف کے درمیان تنخواہ کے فرق کو کم کرنا چاہیے اور عملے کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنانا چاہیے۔ صائمہ سیچوانی کا کہنا تھا کہ بدلتے وقت کے ساتھ اس شعبے کےمتعلق نظریہ بہتر ہو رہا ہے، اب نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکے بھی اس جانب آ رہے ہیں'لیکن یہ ایک لمبی لڑائی ہے اور ہمیں بہت دیر تک اس کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔'
031129_abu_salam_si
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2003/11/031129_abu_salam_si
ابوسالم کو پرتگال میں سزا
پرتگال کی ایک عدالت نے ہندوستان کے ایک سب سے مطلوب شخص کو جعلی شناختی دستاویزات استعمال کرنے اور اپنی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرنے کے الزام میں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی ہے۔
ابوسالم پرتگال سے ہندوستان بھیجی جانے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہا جہاں اسے سن انیس سو ترانوے میں بمبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کا ایک بڑا ملزم تصور کیا جا رہا ہے۔ ان بم دھماکوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابو سالم کی ساتھی مونیکا بیدی کو، بھارتی فلمی صنعت کا ایک جانا پہچانا نام رہ چکی ہے، جعلی دستاویزات استعمال کرنے کا مرتکب پایا گیا اور انہیں دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جمعہ کے روز ہونے والے عدالتی فیصلے کے بعد ہندوستانی کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے حکام نے کہا ہے کہ وہ ابوسالم اور ان ساتھی مونیکا بیدی کی ہندوستان منتقلی کے لئے قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ ابو سالم نے بمبئی میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہونے سے یکسر انکار کیا ہے۔
071217_palestine_aid_ns
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/12/071217_palestine_aid_ns
فرانس: فلسطین امدادی کانفرنس
فلسطینی معیشت کی بحالی کے لیے فرانسیسی حکومت پیرس میں ایک بین الاقوامی امدادی کانفرنس کر رہی ہے۔ کانفرنس کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالی و سیاسی حمایت حاصل کرنا ہے تاکہ ایک پائیدار ریاست کی بنیادیں رکھنے میں اس کی مدد ہو سکے۔
امریکی وزیر خارجہ کونڈلیزا رائس نے پیرس پہنچ کر فلسطینی وزیراعظم سلام فیاض سے ملاقات کی ہے۔ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کی ترقی کے لیے ساڑھے پانچ سو ملین ڈالر امداد دے گا۔ خدشہ ہے کہ غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں بگڑتا ہوا معاشی بحران امن کے قیام کی تمام امیدوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ پیرس کی ایک روزہ کانفرنس گزشتہ ماہ اناپلیز (میری لینڈ) میں امریکہ کی طرف سے کرائی جانے والی مشرقِ وسطیٰ کانفرنس کی کڑی ہے۔ اناپلیز میں اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرت اور فلسطینی صدر محمود عباس نے سال دو ہزار آٹھ کے اختتام سے پہلے امن معاہدہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ انسانی بحران فلسطینیوں کی معاشی بہتری کو کامیاب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا کہ فلسطینی صدر محمود عباس پانچ اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کرینگے، جس کی فراہمی میں عرب ریاستوں کا اہم کردار ہوگا۔ اس امداد کا ستر فیصد حصہ بجٹ بنانے اور ترقیاتی کاموں کے لیے بروئے کار لایا جائے گا۔
031013_cricket_forum_ta
https://www.bbc.com/urdu/forum/story/2003/10/031013_cricket_forum_ta
جنوبی افریقہ کا پاکستان دورہ
پاکستان کی ٹیم جو شارجہ، سری لنکا اور انگلینڈ کے بیرونی دوروں اور بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں حالیہ دنوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی، ایک روزہ سیریز میں جنوبی افریقہ سے دو کے مقابلے تین میچوں سے ہار گئی ہے۔
مبصرین کے مطابق جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ جہاں انضمام الحق نے کپتانی سنبھالی، وہیں وہ چھتیسویں بار رن آؤٹ ہوئے۔ اس سیریز میں شعیب اختر کی واپسی ہوئی، لیکن اس سے قبل راشد لطیف اور کرکٹ انتظامیہ کے درمیان چپقلش چلتی رہی۔ اس سیریز میں اوپننگ کا مسئلہ بھی ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ آپ کی نظر میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کیسی رہی؟ پاکستانی کھلاڑیوں کی بیٹِنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس سیریز میں کن کھلاڑیوں کی کارکردگی آپ کی نظر میں بہتر رہی؟ --------------یہ فورم اب بندہوچکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------------ احسان خان، پشاور میرے خیال میں عامر سہیل تجربہ کار شخص کی طرح نہیں پیش آرہے ہیں۔ انہیں جلد سیلیکشن کمیٹی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دینا چاہئے، ورنہ عوام کرکٹ دیکھنا بند کردیں گے۔ ایک بار پھر انہوں نے یونس خان اور عمر گل جیسے بہتر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل نہیں کیا ہے۔ نسیم عباس جعفری، قطر پی سی بی کو چاہئے کہ کرکٹ ٹیم کے کپتان کو بدل دیں اور ان کی جگہ پر کسی دوسرے کھلاڑی کو کپتان بنایا جائے۔ مجھے انضمام الحق بہت سست نظر آتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ سیلیکشن کمیٹی کے ارکان کو تبدیل کریں کیونکہ وہ اپنا کام صحیح نہیں کررہے ہیں، بالخصوص عامر سہیل۔ امجد محمود، کینیڈا امجد محمود، کینیڈا میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ سیلیکشن کمیٹی کے ارکان کو تبدیل کریں کیونکہ وہ اپنا کام صحیح نہیں کررہے ہیں، بالخصوص عامر سہیل۔ میرے خیال میں ٹیم کے کپتان اور کوچ کو کھلاڑیوں کے انتخاب کا حق ہونا چاہئے۔ پہلے ٹیسٹ میچ کے لئے سیلیشن کمیٹی نے یونس خان کو ٹیم میں یک روزہ میچ میں خراب کارکردگی کی وجہ سے شامل نہیں کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ٹیسٹ میچ کا کھلاڑی ہے۔ ذیشان حسن، اسلام آباد میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی ٹیم کو حفیظ کی جگہ شاہد آفریدی کی خدمات حاصل کرنی چاہئے۔ کامران، پاکستان میرے خیال میں انضمام الحق ایک اچھے کھلاڑی ہیں اور لکی کپتان ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انضمام اپنی صحت کے بارے میں توجہ نہیں دیتے ہیں۔ شعیب ایاز، اسلام آباد میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی ٹیم نے بہتر کاکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن زخمی ہونے کی وجہ سے اور اوپننگ کے کچھ مسائل تھے۔ میرے خیال میں عمران نظیر اور یاسر حمید اوپننگ کے لئے اچھے جوڑے ثابت ہورہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ راشد ہی بہتر کپتان تھے۔ یاسر نقوی، برطانیہ عمرگل اچھا باؤلر ہے، اسے مستقل طور پر موقع دیا جانا چاہئے۔ اور لگتا ہے کہ عامر سہیل حفیظ صاحب پر مہربان ہیں کیونکہ وہ ایک ہی کلب سے کھیلتے ہیں۔ عامر رفیق، لندن سب سے پہلے تو اس شخص کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جس نے عامر سہیل کو سیلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنادیا ہے۔ رہی سیلیکشن کی بات، تو جنید ضیاء تو توقیر ضیاء کا بیٹا ہے اس لئے اسے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن حفیظ کو مسلسل خراب کارکردگی کے باجود ٹیم میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟ پاکستان کی ناکامی کی وجہ ٹیم سیلیکشن بھی ہے۔ میرے خیال میں تیسرے باؤلر کو پانچ میچوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اوسامہ حنیف بھٹی، فیصل آباد اوسامہ حنیف بھٹی، فیصل آباد پاکستان کی ناکامی کی وجہ ٹیم سیلیکشن بھی ہے۔ میرے خیال میں تیسرے باؤلر کو پانچ میچوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ پہلے میچ میں مشتاق، دوسرے میں ثقلین، تیسرے میں عمرگل، چوتھے میں شبیر اور پانچویں میچ میں کنیریا کو کھیلایا گیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی مِڈل اننگ میں وکٹیں نہیں ملیں۔ عامر سہیل کو اب ریٹائر کردینا چاہئے۔ احمد نواز، کینیڈا میرے خیال میں اس سب کے لئے عامر سہیل ذمہ دار ہے، اور پی سی بی کے چیئرمین بھی جنہوں نے عامر سہیل کا سیلیکشن کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انتخاب کیا۔ ایک شخص جو اب بھی کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے اور جس نے اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی نہیں کیا ہے، کیسے ٹیم کا صحیح انتخاب کرسکتا ہے؟ بعض کھلاڑیوں کے ساتھ اس کے تعلقات خراب رہے ہیں، اور عامر سہیل سمجھتا ہے کہ یہ اس کے گلی کوچوں کی ٹیم ہے جس کا وہ انتخاب کررہا ہے۔ سید فرہاج، ابوظہبی سب سے پہلے تو ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ٹیم میں نیا خون چاہئے یا پرانا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں۔ مثال کے لئے انضمام، پہلے انہیں ٹیم میں شامل ہونا مشکل تھا اور اب وہ کپتان بن گئے ہیں۔ مشتاق؟ کوئی انہیں جانتا ہے؟ ثقلین؟ اگر یہ لوگوں کو ٹیم میں شامل ہونا ہے تو آفریدی اور وقار کیوں نہیں؟ ٹیم کا سیلیکشن اچھا نہیں ہے۔ نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے، ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے نعیم سرور خیام صغیر مغل، راولپنڈی، پاکستان انضمام اچھے کپتان ہیں لیکن ٹیم کو تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر حفیظ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ان کی جگہ عمران نذیر زیادہ بہتر ہوں گے۔ نعیم سرور، سعودی عرب میرے خیال میں کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ زیادہ تر کھلاڑی نئے ہونے کے باوجود بہت اچھا کھیلے۔ یہ تو ابھی ابتدائی میچز ہیں۔ ٹیم کو مستحکم ہونے کے لئے وقت درکار ہے لہٰذا ابھی زیادہ توقعات وابستہ کرنے کے بجائے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ عبدالرحیم احمد، واٹرلو، کینیڈا جلد ہی ہم دیکھیں گے کہ جنید ضیاء کو دس برس کے لئے پاکستانی ٹیم کا کپتان نامزد کر دیا جائے گا۔ فوج نے بالکل یہی سلوک پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔ پہلے سب پر سے لوگوں کا اعتماد ختم کر دیا جائے اور پھر خود کو واحد قابلِ قبول طاقت کے طور پر پیش کر دیا جائے۔ جلد ہی جنید ضیاء کو دس برس کے لئے پاکستانی ٹیم کا کپتان نامزد کر دیا جائے گا۔ فوج نے بالکل یہی سلوک پاکستان کے ساتھ کیا ہے عبدالرحیم احمد ہاشم رضا، ملتان، پاکستان ایک روزہ میچوں میں یوسف یوحنا اور یاسر حمید نے اچھی بلے بازی اور شعیب اختر اور عمر گل نے اچھی بولنگ کی۔ اگر انضمام پوری طرح فِٹ نہیں تھے تو انہیں پانچویں ایک روزہ میں کھیلنا ہی نہیں چاہئے تھا بلکہ کسی فِٹ کھلاڑی کو موقعہ دینا چاہئے تھا۔ مدثر اسحاق، لاہور، پاکستان پاکستانی ٹیم کا انتخاب درست نہیں ہے۔ بہت سارے اچھے کھلاڑیوں کو موقعہ ہی نہیں دیا جا رہا۔ اگر جاوید میانداد عمران نذیر کی تربیت کریں تو پاکستانی ٹیم ایک مضبوط ٹیم بن سکتی ہے۔ ہماری ٹیم اتنی بری نہیں ہے جتنا کہ کہا جا رہا ہے۔ بس اس میں جیت کا جذبہ ویسا نہیں رہا جیسا انیس سو بانوے کے عالمی مقابلوں میں تھا۔ اگر ہم پھر چیمپیئن بننا چاہتے ہیں تو ٹیم کو متحد ہو کر جاوید میاں داد کی کوچنگ میں کھیلنا ہوگا۔ ہماری ٹیم اتنی بری نہیں ہے بس اس میں جیت کا جذبہ نہیں رہا مدثر اسحاق طارق چوہدری، راولپنڈی، پاکستان پاکستان کی کارکردگی بہت بری ہے۔ عمران فرحت کو موقعہ دینا چاہئے۔ انضمام اچھے کپتان نہیں ہیں۔ کوئی سلیکشن کمیٹی نہیں ہونی چاہئے۔ کپتان اور کوچ کو کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا چاہئے اور شکست کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہئے۔ محمد مشتاق، کولون، ہانگ کانگ انضمام کی کپتانی ٹھیک ہے مگر سلیکٹر اچھے نہیں۔ حفیظ کو نکال کر سعید انور اور وقار یونس کو واپس لایا جائے۔ ہماری ٹیم کیسے جیتے گی جب ایک بابرکت رات کو کھلاڑی ماڈلوں کے ساتھ عیاشی میں مصروف رہیں گے۔ محمد اقبال اعوان، قائدآباد، پاکستان انضمام نے اپنی بہترین کوشش کی لیکن بد قسمتی ہے ان فٹ ہو گئے۔ یاسر اور یوحنا بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن باقی تمام بلے باز کسی کام کے نہیں، خاص طور پر حفیظ۔ راشد نے کوئی کوشش نہیں کی نہ تو بلے کے ساتھ اور نہ ہی کیپر کے طور پر۔ پاکستان اگر اپنی بلے بازی بہتر کر لے تو ابھی بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ عامر سہیل یا تو خود مستعفی ہو جائیں یا توقیر ضیاء انہیں برطرف کر دیں۔ مگر پھر جنید ضیاء کا کیا بنے گا؟ عظمت صدیقی عظمت صدیقی، مسی ساگا، کینیڈا عامر سہیل کی جنرل توقیر کی خوشامد پسندی نے پاکستان کی سنبھلتی ہوئی ٹیم کو ایک بار پھر ڈبو دیا۔ راشد لطیف کے ساتھ پی سی بی کی پالیسی ایک بار پھر اربابِ اختیار کی کراچی دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔ جب تک پی سی بی اپنے اقدامات سے صرف اور صرف ایک مکمل پاکستانی ادارہ ہونے کا ثبوت نہیں دے گا اور میرٹ کو نہیں اپنائے گا ہماری کرکٹ ٹیم یا کسی اور ادارے کی کارکردگی میں تسلسل نہیں ہوگا۔ عامر سہیل سلیکٹر کے طور پر اپنی پرانی دشمنیاں نکال رہے ہیں۔ یقیناً ان کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں کھلی چھٹی دے دی جائے۔ وہ یا تو خود مستعفی ہو جائیں یا توقیر ضیاء انہیں برطرف کر دیں۔ مگر پھر جنید ضیاء کا کیا بنے گا؟ محمود قریشی، فرانس انضمام اچھے کپتان ہیں لیکن کرکٹ بورڈ اور بلے باز اپنا کام نہیں کر رہے، خاص طور پر اوپنرز اور مڈل آرڈر۔ عدنان حیدر، نیویارک، امریکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ پی سی بی کو راشد کو استعفیٰ مسترد کردینا چاہئے۔ انضمام اچھے کھلاڑی ہیں لیکن اچھے کپتان نہیں ہیں۔ راشد کی کپتانی میں ہم ٹورنامنٹ اور اچھی ٹیموں سے جیتے ہیں اس لئے انہیں بطور کپتان واپس آنا چاہئے۔ پھر یونس کی بھی ابھی ٹیم کو کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کی جگہ عمران نذیر کو یاسر حمید کے ساتھ اوپنر کے طور پر آنا چاہئے۔ سلیکشن کمیٹی اور پاکستانی ٹیم کو کھلے کان اور کھلے دماغ کی ضرورت ہے احمد مجید احمد مجید، سکار برو، کینیڈا سلیکشن کمیٹی اور پاکستانی ٹیم کو کھلے کان اور کھلے دماغ کی ضرورت ہے کہ وہ دنیا کے بہترین کوچ جاوید میانداد کی بات سمجھیں، اس ’مردِ بحران‘ کے تجربے سے سیکھیں اور ان کے فطری جارحانہ مزاج کو اپنائیں۔ عمار ملک، پاکستان انضمام نے کپتان کے طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ ایک دشوار اور دباؤ میں کھیلی جانے والی ہوم سیریز تھی، انہوں نے میچیور انداز میں ٹیم کو کھلایا۔ پی سی بی کو انہیں وقت دینا چاہئے تاکہ وہ ایک اچھے کپتان کے طور پر ابھر سکیں۔ عامر سہیل کو ہٹا کر کسی ذہین اور خوش اخلاق آدمی کو یہ ذمہ داری سونپنی چاہئے امجد محمود امجد محمود، وینکوور، کینیڈا انضمام کی کپتانی میں پاکستانی کھلاڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ اوپننگ کا ہے۔ سعید انور کے بعد پاکستان کو اچھے اوپنر نہیں مل سکے۔ پھر سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کی کارکردگی بھی خراب ہے۔ بورڈ کے سربراہ کو عامر سہیل کو ہٹا کر کسی ذہین اور خوش اخلاق آدمی کو یہ ذمہ داری سونپنی چاہئے۔ اگر پاکستان کو ٹیسٹ سیریز جیتنی ہے تو اسے مشتاق احمد اور اظہر محمود کو واپس لانا ہوگا۔ دوسرا، ہر سیریز کے بعد کپتان بدلنا ٹیم کے لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔ ظاہر محمود، میرپور، پاکستان ٹیم میں تبدیلیاں کی جائیں۔ یونس خان کو نکال دیا جائے اور حفیظ کو بولر کے طور پر رکھا جائے۔ ناصر محمود، راولپنڈی اس سیریز میں شکست کے باوجود نئے کھلاڑی داد کے لائق ہیں اور مستقبل میں انشاء اللہ وہ پاکستان کو ٹاپ ٹیم بنا دیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے نوجوان کھلاڑیوں کو کم از کم تین میچ کھیلاکر ان کے ٹیلنٹ کو پرکھنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے نئے کھلاڑی اعتماد کے ساتھ کھیلیں گے اور بہتر طور پر اپنی صلاحیتیں دکھاسکیں گے۔ ساتھ ہی تجربہ کار کھلاڑیوں کو بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ دنیا کی بہترین ٹیمیں بتدریج نئے کھلاڑی شامل کرتی ہیں۔ حمید آفریدی، پشاور وقار کو لایا جائے۔ جہاں تک اوپننگ کا سوال ہے، یاسر حمید اچھا کررہے ہیں۔ اسے دوسرے اوپنِنگ پارٹنر سے مدد کی ضرورت ہے۔ عدنان خالق، کشمیر، پاکستان عدنان خالق، کشمیر، پاکستان میں سمجھتا ہوں کہ انضی کی کپتانی ٹھیک تھی۔ جہاں تک اوپننگ کا سوال ہے، یاسر حمید اچھا کررہا ہے۔ اسے دوسرے اوپنِنگ پارٹنر سے مدد کی ضرورت ہے۔ حفیظ کی وجہ سے پوری ٹیم کو پریشانی ہورہی ہے۔ اس کی جگہ پر عمران نظیر یا توفیق عمر یا عمران فرحت کو لانا چاہئے۔ آج کل یونس خان نہیں چل رہے ہیں۔ باؤلِنگ کے لئے محمد زاہد کو موقع دیا جانا چاہئے۔ ناصر ملک، پاکستان پاکستان کی اس شکست میں سب سے نمایاں ہاتھ سیلیکٹرز کا ہے۔ پہلے دو میچ جیتنے کے بعد سیلیکٹرز نے فاتح ٹیم کو برقرار رکھنے کے بجائے تبدیلیاں کیں۔ سیریز کے دوران سمیع کی عمدہ کارکردگی کے باوجود اسے تیسرے میچ میں باہر کردیا گیا۔ اس کے علاوہ بلا وجہ ہر میچ میں تین تبدیلیاں کی گئیں۔ نوجوان کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے ان پر مزید دباؤ بڑھا دیا گیا۔ اشرف خان، لاہور میرے خیال میں انضمام الحق اچھے کپتان ہیں لیکن بدقسمتی سے ٹیم کا انتخاب اچھا نہیں رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیلیکٹرز آفریدی اور معین خان کو ٹیم میں شامل کریں۔ شاہ زیر خان، اسلام آباد میں سمجھتا ہوں کہ یوسف یوحنا تمام میچوں میں پاکستان کے لئے بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دو میچوں میں انہوں نے اچھا نہیں کھیلا۔ زخمی ہونے کی وجہ سے انضمام بھی پریشان رہے۔ محمد سمیع اور سہیل ملِک جیسے نوجوان کھلاڑی اچھا کھیل رہے ہیں۔ قیصر مجید غازی بابا، گجرانوالہ میرے خیال میں پاکستانی ٹیم یہی کرتی رہی ہے: ’لگ گیا تو تیر، نہ لگا تو تکا۔‘ انضمام کی کپتانی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو مسئلہ ہے وہ پاکستانی کرکٹ میں سیاست کا ہے۔ رحیم علی، ابوظہبی رحیم علی، ابوظہبی انضمام کی کپتانی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو مسئلہ ہے وہ پاکستانی کرکٹ میں سیاست کا ہے۔ ہرشخص اپنے لوگوں کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتا ہے، مثال کے طور پر جنید ضیاء، فیصل اقبال اور محمد حفیظ کی شمولیت۔ ہماری ٹیم میں میرِٹ کے لئے جگہ نہیں ہے۔ عاصم علی خان، لاہور میں کہنا چاہوں گا کہ ہماری امیدوں کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن مجھے ابھی بھی یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ حفیظ کو ٹیم میں کیوں رکھا گیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ انضمام الحق کی کپتانی میں کوئی مسئلہ ہے۔ جبکہ میرے خیال میں یوسف یوحنا راشد لطیف کے مشورے سے فیصلے کرتے ہیں۔ باسط خان، لاہور یہ سب کچھ غلط ٹیم سیلیکشن کی وجہ سے ہوا ہے۔ عامر سہیل ٹیم کے مفاد میں نہیں سوچتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ محمد حفیظ کا انتخاب اچھا نہیں ہے۔ عمران نظیر کو کھیلنے کا موقع دیا جائے۔ سلیم شاہد، امریکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سیریز میں ٹیم کی کوشش اچھی تھی۔ کپتان کی حیثیت سے انضمام ٹھیک ہے۔ یونس خان اور حفیظ کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ اگر سیلیکشن کمیٹی انصاف پسندانہ رویہ اختیار کرتی اور راشد لطیف کے ساتھ اختلافات نہ ہوتے تو آج حالت مختلف ہوتی۔ غالب، ایڈمنٹن، کینیڈا غالب، ایڈمنٹن، کینیڈا راشد لطیف کے استعفی دینے کے فیصلے کے بعد جیسی کہ امید تھی، پاکستان کی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہار گئی۔ اگر سیلیکشن کمیٹی انصاف پسندانہ رویہ اختیار کرتی اور راشد لطیف کے ساتھ اختلافات نہ ہوتے تو آج حالت مختلف ہوتی۔ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر بہتر بیٹِنگ کا مظاہرہ نہ کرسکی جس کی وجہ سے باؤلنگ بھی متاثر رہی۔ یوسف یوحنا نے اچھی بیٹِنگ کی لیکن اچھی کپتانی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ محمد سمیع نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ ایک بہتر ور قابل اعتماد باؤلر ہے۔ جبکہ یونس خان، انضمام الحق اور فیصل اقبال کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
061108_mukhtar_10
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/poll/story/2006/11/061108_mukhtar_10
’ظلم کے خلاف لوہے کی دیوار بن جائیں‘
یکم ستمبر، دو ہزار چھہمارے بھائی ندیم سعید اور ان کی فیملی ہمارے پاس آئے۔ بہت دنوں سے وہ پروگرام بنا رہے تھے کہ میرے گھر چکر لگائیں، کیونکہ انہوں نے چھ ماہ کے لیے لندن چلے جانا ہے جہاں پر انہوں نے اپنا بی بی سی کا تربیتی کورس کرنا ہے۔ کئی ہفتوں سے انہیں بلا رہی تھی بالآخر وہ آگئے۔ رات گئے تک ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی۔ انہوں نے سکول کے متعلق پوچھا۔ ان کے ننھے منے بیٹوں ولی مصطفیٰ اور دایان مصطفیٰ نے میرے گھر کو خوب رونق بخشی۔
خیر نسیم نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزالہ بی بی اور اس کی ماں کو بدمعاشی، دھونس، دھمکی اور طاقت کے زور پر گھر سے اٹھا لیا گیا۔ طاقت کے نشے میں دھت معاشرے کے یہ ناسور کب تک ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت، انا، عصمت اور غیرت کو زخمی کرتے رہیں گے؟ لہذا ہمارے لیے بھاری ذمہ داریاں اور لمحہ فکریہ ہے۔ فرد کے تحفظ کی ریاست کی ذمہ داری، اعلٰی اداروں اور قانونی اداروں کی ذمہ داریاں ہمیں اپنے معاشرے میں نظر نہیں آتیں۔ اپنے حق کے لیے لڑنا اور آپ کا بیدار ہونا لازمی ہے۔ مجھ میں ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کیوں کہ اس طرح کے دکھ میری روح کو زخمی کر دیتے ہیں ۔ بہرحال میں نے لوگوں کو کہا کہ میں ہر مظلوم کے ساتھ ہوں۔ میں نے بھی لوگوں سے بات کی کہ ہمارے حالات کوئی اور نہیں بدلنے آئے گا۔ جہاں ظلم ہوگا ہم سب مل کر لوہے کی دیوار بن کر ڈٹ جائیں تو ہم خوداپنےحالات بدل سکتے ہیں۔ کبیروالہ میں مجھے سب سے معیوب بات یہ لگی کہ مردوں کی اچھی خاصی تعداد میں عورت ایک بھی نہ تھی۔ غزالہ بی بی ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے بلکہ اس دن وہ اپنی ماسٹرز کی ڈگری مکمل کر کے گھر گئی تھی۔ مخالف پارٹی نے غزالہ بی بی کے چچا پر یہ الزام لگا کر اٹھا لیا کہ اس نے ان کی کوئی عورت بھگائی ہے۔ بہرحال یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چچا کی سزا بھتیجی کو ملے؟ مگر یہاں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ پھر ہم رات گئے واپس گھر آگئے۔ نسیم نے فوراً مسیج پڑھا اس میں ایک درد ناک پیغام تھا کہ ندیم بھائی کے بڑے بھائی کی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے موت واقع ہو چکی ہے۔ نسیم نے فوراً ندیم بھائی کا نمبر ملایا تاکہ ان سے بات کی جا سکے مگر نمبر بزی تھا۔ خیر مسلسل ٹرائی کے بعد ندیم بھائی سے بات ہوئی۔ وہ خاصے پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے۔ ان سے صحیح بات نہیں ہو پا رہی تھی اور وہ ڈیرہ اسماعیل کے لیے روانہ تھے۔ میں نے ان سے افسوس کیا۔ نسیم نے بھی۔ نبیلہ عنبر خان، العینمیری دعا ہے کہ آپ جس مقصد کے لیے گھر سے نکلی ہیں اور اتنا کچھ برداشت کیا اللہ تعالٰی آپ کو اس کی جزا دے۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ نصرت انجم، پاکستانمختار مائی مجھے آپ پر فخر ہے۔ آپ ایک عظیم اور بہادر خاتون ہیں۔ میں آپ کی خوشی اور کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ محمد اعجاز، اٹلیمختار مائی بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ اللہ ان کے کام میں برکت فرمائے۔ ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ ظہیر منہاس، کوٹلیآپ غریبوں کی مددگار ہیں۔ آپ اس سماجی کام کو جاری رکھیں۔ خدا اور ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ شاہدہ اکرم، ابو ظہبیآپ کی ڈائری باقاعدگی سے پڑھتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ آپ جیسی ہمت اور طاقت ہر مظلوم لڑکی کو عطا کرے اور دنیا سے ان درندوں کا خاتمہ کرے جو انسان کو انسان بلکہ لڑکی کو انسان نہیں سمجھتے۔ ڈھیروں دعائیں۔ عامر گجر، رحیم یار خانپاکستانی قوم کو آپ پر فخر ہے۔ آپ ایک عظیم اور دلیر خاتون ہیں۔ محنت کے ساتھ مزید اچھے کام کرتی رہیں۔ اللہ آپ کی مدد کرے۔ محمد نسیم، پرتگالآپ ایک بہادر خاتون ہیں۔ اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ بس ہوشیار رہیں اور کامیابی آپ کی ہوگی۔ علی عدنان، دبئیمختار مائی آپ بہت زبردست کام کر رہی ہیں۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ پاکستانی عورتیں ایسے مسائل پر آواز بلند کر رہی ہیں۔ ناصر احمد، بہاول نگرآپ ایک بہادر خاتون ہیں اور میں آپ کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتا ہوں۔ ہر پاکستانی عورت کو آپ کی طرح بہادر ہونا چاہیے۔ اگر کبھی آپ کو اس نیک کام کے لیے میری ضرورت پڑے تو مجھے اپنا ساتھی پائیں گی۔ جاویر اقبال عوان، کراچییقین کریں کی آپ کی ہمت نے مجھے بھی زندگی میں نئی راہیں دکھائی ہیں۔ میں آپ کی این جی او میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ ملک ایوب، اسلام آبادمیں آپ کے کام کو سراہتا ہوں۔ آپ اکثریت کی آواز ہیں۔ جو لوگ آپ کے خلاف ہیں وہ آج بھی آندھیرے میں رہ رہے ہیں۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایک قدم اٹھاتے ہیں تو اللہ انہیں دس قدم آگے لے جاتا ہے۔
050302_pentagon_denial_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/050302_pentagon_denial_fz
’رمزفیلڈ نےحکم نہیں دیا‘
امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگن نے وزیر دفاع رمز فیلڈ پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے لگائے گئے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے عراق میں قیدیوں پر تشدد کرنے کی اجازت دی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے رمز فیلڈ پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کوقیدیوں پر تشدد کی اجازت دے کر وہ تشدد کے ان واقعات کو روکنے میں بھی ناکام رہے۔ پینٹاگن نے کہا ہے کہ وزیر دفاع رمز فیلڈ نے کسی ایسی پالیسی یا طریقہ کار کی اجازت نہیں دی تھی جس کو قیدیوں پر تشدد کرنے یا تشدد سے صرفِ نظر کرنے کا حکم تصور کیا جا سکے۔ امریکہ میں شہری آزادیوں کی تنظیم ’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ اور انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس فرسٹ‘ نے وزیر دفاع کے خلاف کے ان آٹھ افراد کی طرف سے مقدمہ دائر کر رکھا ہے جن کو عراق اور افغانستان میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان افراد کو عراق اور افغانستان میں قید کے دوران جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کی بے غزتی بھی کی گئی اور اخلاق سوز حرکات کرنے پر مجبور کیا گیا۔
pakistan-45500974
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45500974
پاکستانی فوج کی جانب سے خاموش لیکن مؤثر انداز میں رپورٹنگ کرنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں: سی پی جے
صحافیوں کی تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بدھ کو اپنی خصوصی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کی جان کو خطرہ اور ان کے خلاف ہونے والے تشدد میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کمی آئی ہے لیکن مجموعی طور پر آزاد صحافت کرنے کے حالات مزید ناموافق ہو گئے ہیں۔
’ایکٹس آف انٹی میڈیشن‘ یعنی ’ڈرانے دھمکانے کے اقدامات‘ کے نام سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے لیے سی پی جے کہ دو افسران نے فروری 2018 میں پاکستان کے پانچ شہروں کا جن میں کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور اوکاڑہ شامل ہیں، دورہ کیا جہاں انھوں نے صحافیوں اور مختلف میڈیا کے اداروں سے ملاقاتیں کی۔ سی پی جے کی جانب سے تشکیل دی گئی رپورٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں صحافیوں سے گفتگو کے بعد تیار کی گئی اور ان کے مطابق صحافیوں کی جانب سے دیے گئے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں 'میڈیا کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے۔' اس بارے میں مزید پڑھیے سینسرشپ: ’حساس موضوعات کو ہاتھ نہ لگائیں‘ ’صحافی سیلف سینسرشپ پر مجبور‘ ’جب صحافی ریاستی اداروں کی زبان بولنے لگیں‘ سی پی جے کی رپورٹ کا عکس دنیا بھر میں صحافیوں کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی اس خصوصی رپورٹ کے مطابق 'پاکستانی فوج کی جانب سے خاموشی سے لیکن مؤثر انداز میں رپورٹنگ کرنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ کبھی مختلف علاقوں تک رسائی حاصل کرنے سے منع کیا جاتا ہے تو کہیں پر سیلف سنسرشپ کرنے کے لیے براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے کبھی مدیروں کو فون کر کے شکایت کی جاتی ہے اور کبھی مبینہ طور پر ان کے خلاف تشدد کرنے کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔' سی پی جے نے لکھا کہ رپورٹ کی تیاری میں انھوں نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کو سوالات کی تفصیلی فہرست ای میل کی تھی لیکن انھیں اس کا جواب نہیں ملا۔ کمیٹی کے مطابق آصف غفور نے ملاقات کی درخواست کا بھی جواب نہیں دیا اور اس کے علاوہ (سابق) وفاقی وزیر اطلاعات سے طے کی گئی میٹنگ آخری لمحات میں منسوخ کر دی گئی تھی۔ سی پی جے کی رپورٹ میں جن صحافیوں سے بات کی گئی ان کے مطابق دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فوجی کاروائیوں کے بعد میڈیا کے اراکین کے خلاف حملوں کی تعداد میں واضح کمی آئی۔ لیکن رپورٹ میں درج ہے کہ 'جہاں ایک جانب اچھی خبر اس حوالے سے سامنے آئی ہے کہ صحافیوں کو قتل کیے جانے کے واقعات میں کمی آئی، صحافیوں پر حملے کیے جانے کے خدشات وہیں کے وہیں ہیں۔' ملک بھر میں چند صحافی جیسے طلحہ صدیقی اور احمد نورانی پر ہونے والے حملوں کا ذکر کرنے کے علاوہ رپورٹ میں جیو ٹی وی چینل اور انگریزی روزنامہ ڈان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’یہ ملک بھر میں آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی مثال ہیں‘۔ سی پی جے کی رپورٹ میں اکتوبر 2016 میں ڈان میں شائع ہونے والی اس خبر کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو بعد میں 'ڈان لیکس' کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔ ڈان اخبار کے مدیر ظفر عباس نے سی پی جے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈان لیکس کا معاملہ اسی لیے چلتا رہا کیونکہ ملک میں سول ملٹری تعلقات ابھی بھی ناساز ہیں۔' سی پی جے کی رپورٹ کے مطابق 'فوج اور دوسرے طاقتور اداروں نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو میڈیا کی آزادی میں رکاوٹ بنتے ہیں' اور اس کی وجہ سے میڈیا کو ملک کے حالات اور اہم معاملات سچائی کے ساتھ پیش کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور اس سے عوام کو حالات سے مکمل واقفیت نہیں ہوتی۔'
world-54918057
https://www.bbc.com/urdu/world-54918057
جو بائیڈن یا ڈونلڈ ٹرمپ: ختم نہ ہونے والے اس امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ کب نکلے گا؟
کئی روز قبل یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن متوقع نتائج کے مطابق امریکی صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں لیکن ٹرمپ نے اب تک شکست تسلیم نہیں کی، نہ ہی ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ہار ماننے والے ہیں۔
ٹرمپ نے شواہد کے بغیر ’ووٹر فراڈ‘ کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ بائیڈن کو اس کا فائدہ پہنچا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کئی ریاستوں میں بائیڈن سے لاکھوں ووٹ پیچھے ہیں اور انھیں جیتنے کے لیے انھیں یہاں کے نتائج مکمل طور پر تبدیل ہوتا دیکھنے پڑیں گے۔ کئی لوگ ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ یہ بھی پڑھیے بائیڈن کی جیت کا دنیا کے باقی ممالک پر کیا اثر پڑے گا؟ امریکی الیکشن: بائیڈن کی جیت، خلیجی ممالک کو نئی حقیقت کا سامنا جو بائیڈن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کیا کریں گے؟ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن امریکہ کی خارجہ پالیسی کیسے تبدیل کریں گے؟ اس افراتفری کے ماحول میں اہم گروہ کیا سوچ رہے ہیں، آئیے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں: امریکی سیاسی روایات کے برعکس ٹرمپ کے موقف نے پوری قوم کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکی ووٹر اور سرکاری حکام بھی صورتحال پر ردعمل دے رہے ہیں۔ اس کی کئی ماہ قبل پیشگوئی کی جاچکی تھی لیکن اب صورتحال مزید بےیقینی میں جاتی دکھائی دیتی ہے۔ رپبلکن رہنما کیا ٹرمپ کو شکست تسلیم کر لینی چاہیے؟ ابھی نہیں۔ سینیٹ کے اکثریتی رہنما مِچ مکونل کے مطابق 'قانون کے تحت صدر کے پاس حق ہے کہ وہ الزامات کی جانچ پڑتال اور دوبارہ گنتی کا مطالبہ کریں۔' اصل کہانی گذشتہ چال سال کے دوران رپبلکن رہنما، چاہے وہ کانگریس کی قیادت کا حصہ ہوں یا معمولی کارکن، نے ٹرمپ کی ہر متنازع حکمت عملی کا جواب دینے کا فن سیکھ لیا ہے۔ وہ ردعمل دینے سے گریز کرتے ہیں اور طوفان کے ٹلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کا حساب کتاب سادہ ہے۔ بہت کم رپبلکن رہنما ایک ایسے شخص کو غصہ دلانے چاہتے ہیں جو ٹوئٹر پر اپنی انگلی سے نیا محاذ کھول سکتا ہے۔ صدر کی شکست کے باوجود رپبلکن رہنما ان کا ساتھ دیے رہے ہیں اور صدر کی اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ 'جائز ووٹوں کے تحت وہ جیت گئے ہیں۔' ایسا لگتا ہے کہ وہ یہی کرتے رہیں گے جب تک قانونی کارروائیوں کا نتیجہ سامنے نہیں آجاتا اور نتائج کی سرکاری تصدیق نہیں ہوجاتی۔ رپبلکن سیاستدان اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں گے۔ انھیں آنے والی ڈیموکریٹ انتظامیہ کے ساتھ کام بھی کرنا پڑے گا اور آئندہ انتخابات میں اپنی فتوحات بھی برقرار رکھنی ہوں گی۔ صدر کے برعکس وہ کوئی ایسی چال نہیں چل سکتے جو ان کے لیے سب برباد کردے۔ ان کا سیاسی مستقبل آئندہ کئی برسوں پر محیط ہوسکتا ہے، نہ کہ محض دنوں یا ہفتوں پر۔ یہ صبر آزما کھیل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر کو دعوے کرنے کا حق ہے اور انھیں وقت دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی مایوسی کا اظہار کر سکیں۔ لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے شواہد ملنا مشکل ہے جو انتخاب کے نتائج بڑے پیمانے پر بدل دیں۔ الفاظ کی جگہ وہ اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں کہ جنوری میں ایک نیا صدر آچکا ہوگا۔ ٹرمپ کا وقت بھی گزر جائے گا۔ اٹارنی جنرل بار کیا ٹرمپ کو شکست تسلیم کر لینی چاہیے؟ غیر واضح۔ بِل بار نے محکمۂ قانون کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا ہے کہ سنجیدہ الزامات کو کافی احتیاط سے دیکھنا چاہیے لیکن وفاقی تحقیقات کی بنیاد قیاس آرائی یا بلند و بالا دعوؤں پر نہیں ہونی چاہیے۔ اصل کہانی پیر کو اٹارنی جنرل بِل بار نے سینیئر عملے کو پیغام جاری کیا کہ جس میں ان سے الیکشن میں مبینہ فراڈ کی تحقیقات فوری شروع کرنے کا کہا گیا، بجائے اس کے کہ ریاستوں کی جانب سے پہلے تصدیق شدہ نتائج جاری کیے جائیں۔ ان دستاویزات سے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ان ریاستوں میں انتخاب میں بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کرنے جا رہی ہے جہاں وہ لاکھوں ووٹوں سے ہارے ہیں۔ تاہم اٹارنی جنرل نے پیغام میں تنبیہ اور شرائط بھی شامل کی ہیں۔ ان کے باوجود بل بار کا پیغام ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو مواد فراہم کرے گا جو یہ دعویٰ برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ ان سے انتخاب چوری کیے گئے (تاہم باقی رپبلکن امیدواروں کے نتائج تو کافی اچھے آئے ہیں)۔ جرائم کی تحقیقات میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے خلاف سخت شرائط موجود ہیں، خاص کر اگر بات انتخابات کی ہو رہی ہو۔ بار نے اس مرتبہ کچھ شرائط کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن کیا ان سے صدر کو کوئی فائدہ ہوسکے گا جو اپنے دعوؤں کی حمایت میں ٹھوس ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ ٹرمپ کا اندرونی دائرہ کیا ٹرمپ کو شکست تسلیم کر لینی چاہیے؟ نہیں! (یا شاید ہاں؟) ٹرمپ کی قانونی مشیر جینا ایلس نے ٹوئٹر پر بتایا ہے کہ 'میری صدر ٹرمپ سے بات ہوئی ہے اور میں نے انھیں کہا ہے کہ میں ان سے محبت کرتی ہوں اور مجھے ان پر فخر ہے کہ وہ قانون کی بالادستی، آئین اور امریکی نظام کے ساتھ کھڑے ہیں۔' اصل کہانی میڈیا پر تو صدر ٹرمپ کے قریبی مشیر اور حامی خاص طور پر وہ جو ان کے سب سے قریب ہیں جیسے روڈی گیلیانی ان کی جانب سے انتخابی نتائج کو مشکوک قرار دینے کے بیانیے کی طرف داری کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کے ذاتی مفاد سے جڑی ہے۔ اگر صدر ٹرمپ جاتے ہیں تو ان کی بھی نوکریوں کا خاتمہ ہو جائے گا (یا کم از کم ان کی طاقت کی راہ داریوں تک رسائی ختم ہو جائے گی۔) پریس سیکریٹری کیلی میکینانی جیسے افراد کا یہ ماننا ہے کہ انہی کی جیت ہو گی۔ (’الیکشن ابھی مکلمل نہیں ہوئے، ابھی خاصا وقت موجود ہے۔‘) دیگر افراد کے لیے جیسے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا بیانیہ (’ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدرات تک ہموار منتقلی ہو گی‘) خاصا مزاحیہ ہے۔ اس کی ایک وجہ ذاتی بھی ہے۔ ٹرمپ کے دو بڑے بیٹے ڈان جونیئر اور ایرک نے مسلسل اور پُرزور انداز میں دفاع کرتے رہے ہیں اور ان کی جانب سے الیکشن فراڈ کے دعوؤں کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کا فیملی کا نام اور برانڈ بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ اس سب کے پسِ منظر میں کچھ ابہام یا شاید کچھ حد تک یقین بھی ٹرمپ کے حامیوں کی صفوں میں موجود ہے۔ صدر کی بیٹی اوانکا ٹرمپ ایلیکشن کے بعد سے خاموش ہیں اور وہ اور ان کے شوہر جیرڈ کشنر کا ماننے ہے کہ صدر کو اب شکست تسلیم کر لینی چاہیے۔ دریں اثنا ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر جونیئر اراکین جو کچھ ماہ میں بیروزگار ہو جاییں گے فی الحال بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ کچھ خبریں ایسی بھی ہیں کہ ڈائریکٹر آف پریسنیل جان میکینٹی کا کہنا ہے کہ اگر انھیں معلوم ہوا کہ وہ نوکری تلاش کر رہے ہیں تو انھیں فوراً ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ تاہم اگر وہ اس وقت نئی نوکری ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ شاید ان کے کریئر کے لیے ٹھیک نہیں سمجھا جائے گا۔ ٹرمپ کے حامیوں کا کیا ماننا ہے؟ کیا صدر کو شکست تسلیم کر لینی چاہیے؟ بالکل بھی نہیں! ایک ٹرمپ حامی نے ہیوسٹن ٹیکساس میں بی بی سی نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر سکوں۔ یہ (الیکشن) مکمل فراڈ ہے۔ ابھی تک متعدد ووٹوں کی گنتی باقی ہے اور ان میں سے اکثر جعلی یا وفات پا جانے والے افراد کے ہیں۔ اصل کہانی گذشتہ ہفتے الیکشن ٹرمپ کے حامیوں کو یقین تھا کہ باوجود اس کے کہ رائے شماری کے اندازے کچھ اور ہی نقشہ کھینچ رہے ہیں لیکن ان کا امیدور ہی کامیاب ہو گا۔ سنہ 2016 کے حیرت انگیز نتائج بھی ان کے ذہن میں تھے جب ہر کوئی آخری لمحے تک ہلری کلنٹن کی فتح کی بات کر رہا تھا۔ اس حوالے سے ان کا اعتماد بھی مکمل طور پر غلط نہیں تھا کیونکہ 2020 کے انتخاب کے نتائج رائے شماری کے حتمی جائزوں سے خاصے کڑے ہوئے۔ حالانکہ اکثریت ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کی جا چکی ہے اور بائیڈن کی ممکنہ فتح کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ قدامت پرست افراد صدر ٹرمپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے اختتام پر روئٹرز/اپسوس کی جانب سے کیے گئے رائے شماری کے جائزے کے مطابق تقریباً 40 فیصد رپبلکنز اب بھی یہ نہیں مانتے کہ بائیڈن کی ہی فتح ہوئی ہے۔ (عام آبادی میں یہ تناسب 21 فیصد تک ہے) ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کی جانب سے ’چوری کو روکو‘ کے نامی سے ملک بھر میں مظاہرے کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جن میں سے ایک سنیچر کو واشنگٹن ڈی سی میں کی جائے گی۔ اس حوالے سے بھی خبریں سامنے آئی ہیں کہ صدر خود بھی ملک بھر میں انتخابی مہم کی نوعیت کے جلسے کریں گے تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی منصوبہ نہیں دیا گیا۔ یہ بات ایک عرصے سے خاصی واضح ہے کہ اگر ٹرمپ میں لڑنے کی خواہش ہے تو ان کے حامیوں کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ جو بائیڈن کیا ٹرمپ کو شکست تسلیم کر لینی چاہیے؟ جی ہاں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'مجھے لگتا ہے کہ یہ باعث شرمندگی ہے۔۔۔ میں یہ اچھے الفاظ میں کیسے کہوں؟ مجھے نہیں لگتا اس سے ان کی صدارتی وراثت کو فائدہ پہنچے گا۔' اصل کہانی سنیچر کو جب سے جو بائیڈن کو متوقع فاتح قرار دیا گیا، وہ اور ان کی انتخابی ٹیم یہ بتا رہے ہیں کہ اب وہ صدارت کی منتقلی کے عہد میں داخل ہوچکے ہیں جو کہ اپنے طریقے کے مطابق چل رہا ہے۔ انھوں نے پیر کو اپنی کورونا وائرس ٹاسک فورس سے ملاقات کی اور منگل کو صحافیوں سے گفتگو کی جہاں انھوں نے وعدہ کیا کہ اعلیٰ سطحی انتظامی امور کے نئے ذمہ داران کا اعلان آئندہ ہفتوں میں کیا جائے گا۔ بائیڈن نے اس بات کی تردید کی ہے صدر ٹرمپ کی جانب سے شکست تسلیم نہ کرنا ان کے کام کو متاثر کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی معلومات اور فنڈز تک رسائی جو نومنتخب صدر کو فراہم کی جاتی ہے اس میں تاخیر کوئی بڑا دھچکا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رپبلکن رہنما ان کی فتح قبول کر لیں گے اور ہوسکتا ہے فی الحال وہ موجودہ صدر سے ذرا ڈرتے ہوں۔ بائیڈن اور ڈیموکریٹس اس وقت اصولوں سے متعلق بیان بازی کر رہے ہیں جبکہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر رکھا ہے اور ان کے وکلا عدالتوں میں نتائج کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹ اور وقت ان کے حق میں ہے اور کسی بھی صورت میں ان کے لیے نتائج کامیابی کی عکاسی ہی کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست تسلیم کرنی چاہیے؟ جواب کے لیے صرف ان کے ٹویٹس پڑھ لیں۔۔۔ 'لوگ اس دھاندلی زدہ انتخاب کو تسلیم نہیں کریں گے!' اصل کہانی صرف ڈونلڈ ٹرمپ جانتے ہیں کہ انھوں نے اب تک بائیڈن کے خلاف شکست تسلیم کیوں نہیں کی۔ وہ کئی ریاستوں میں ان سے لاکھوں ووٹ پیچھے ہیں۔ شاید وہ دائیں بازوں کے ذرائع ابلاغ کی پیروی کرتے ہوئے یہ واقعی سمجھتے ہیں کہ ووٹر فراڈ کے الزام ثابت کیے جاسکتے ہیں اور کئی عدالتیں ان کے حق میں فیصلہ سنا دیں گی جس سے الیکشن کے نتائج بدل جائیں گے۔ قیاس آرائی کرنے والے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ صدر اپنے نام پر سے شکست کا داغ دھونا چاہتے ہیں یا عطیات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ابھی بھی جیت سکتے ہیں اگر وہ قانونی جنگ کے لیے مناسب رقم اکٹھی کر لیں۔ عطیات کے لیے ان کی تشہیری مہم میں صاف لکھا گیا ہے کہ رقم کا بڑا حصہ ان کی مہم کے دوران جمع ہونے والے قرض کو چکانے کے لیے استعمال کیا جائے گا، یا پھر اس طرح کے دوسرے اخراجات کے لیے کچھ پیسے استعمال کیے جائیں گے۔ ان باتوں سے اس دلیل میں وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ کچھ دیر میں حقیقت صاف ہوجائے گی۔ ریاستوں کو کچھ ہفتوں میں اپنے نتائج کی تصدیق کرنی ہوگی جس کے بعد امکان ہے کہ جو بائیڈن صدارت کے لیے 538 میں سے اکثریتی الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کر چکے ہوں گے۔ 14 دسمبر کو الیکشن کا عملہ خود ووٹ ڈالے گا اور اس کے بعد صدر اور نائب صدر کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔ جنوری میں کانگریس کو یہ نتائج فراہم کیے جائیں گے جس کے بعد وہاں سے منظوری دی جائے گی۔ روایات اور معمول کے علاوہ بھی یہ تاریخ ٹھوس ہے۔ اس کے بعد بائیڈن کو 20 جنوری کی شام حلف لینا ہوگا اور ٹرمپ کی صدارت ختم ہوجائے گی، چاہے انھیں اچھا لگے یا نہیں، چاہے وہ شکست تسلیم کریں یا نہیں۔ ٹرمپ دوبارہ سنہ 2024 میں صدارتی دوڑ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ امریکی آئین میں اس کی کوئی روک نہیں کہ دونوں صدارتی عہد ایک ساتھ ہونے چاہییں۔ یا وہ رپبلکن جماعت میں 'کنگ میکر' بن سکتے ہیں تاکہ اپنے کسی بچے یا سیاسی اتحادی کو صدر بننے کے لیے تیار کر سکیں۔ یہ صدارتی انتخاب 2020 کی اختتام ہوسکتا ہے لیکن سیاسی سیاسی داؤ پیچ کبھی رکنے والے نہیں۔
070709_sc_lalmosque_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/07/070709_sc_lalmosque_zs
لال مسجد آپریشن کا ازخود نوٹس
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملہ پر اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو چار بجے عدالت میں پیش ہونے کے لیے حکم جاری کیا ہے۔جبکہ لال مسجد انتظامیہ کے خلاف حکومتی کارروائی کے ساتویں دن مسجد کے اطراف میں کشیدگی برقرار ہے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سوموار کی صبح اٹارنی جنرل کو تین بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ تین بجے جب جسٹس نواز محمد عباسی کی سربراہی میں قائم بینچ نے سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل کے بجائے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو سننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور اس میں معصوم جانوں کی زندگی کا سوال ہے اس لیے اٹارنی جنرل ہی عدالت میں پیش ہوں۔عدالت نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل کے علاوہ سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور انسپکٹر جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوں۔ دریں اثناء صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک لال مسجد کے معاملے پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدرات کی اور معاملے کا حل نکالنے کے بارے میں صلح مشورے کیے۔ تاہم اس اجلاس کے بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی ہے۔ قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس نے جسٹس نواز محمد عباسی کے ایک خط پر لال مسجد آپریشن کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے دو رکنی بنچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس محمد نواز عباسی نے قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کی طرف سے اس معاملے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ لال مسجد میں معصوم بچوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف حکومتی آپریشن بھی جاری ہے اور معتدد لوگ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق بہت سی لاشیں بے گور کفن پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک شدگان قانون نافذ کرنے والے اداروں یا جنگجوؤں کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں اور ہر دونوں صورتوں میں یہ قتل عمد کے ضمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ہلاکتوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس محمد نواز عباسی نے کہا کہ ایدھی فاونڈیشن کے علاوہ کسی مذہبی، دینی، سماجی اور سیاسی تنظیم نے ان بے گناہ بچوں کو آزاد کرانے کی کوشش نہیں کی۔ جسٹس نواز عباسی اور جسٹس فقیر محمد کھوکھر پر مشتمل دو رکنی بینچ کی ابتدائی سماعت میں کرائسز مینجمنٹ سیل کے سربراہ اور وزارتِ داخلہ کے ترجمان بریگیڈئر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ نے عدالت کے استفسار پر کہا کہ حکومت جلد از جلد اس صورتحال کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے اندر مشتبہ دہشتگرد موجود ہیں جو مختلف مقدمات میں حکومت کو مطلوب ہیں۔ بریگیڈئر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ نے کہا کہ ان دہشتگردوں نے طلباء کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اتوار کو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرنے والی تین طالبات کو مدرسے کے اندر سے فائرنگ کر کے زخمی کیا گیا۔ بریگیڈئر (ر) چیمہ نے یہ بھی دعٰوی کیا کہ لال مسجد کے احاطے میں محصور جامعہ حفصہ کی بارہ طالبات نے وہاں سے نکلنے کے لیے احتجاجاً بھوک ہڑتال کی ہوئی ہے۔ پیر کو آپریشن کے ساتویں دن اسلام آباد میں صدر جنرل مشرف کی زیرِ صدارت ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے جس میں وزیراعظم بھی شریک ہیں۔وفاق المدارس کے وفد نے بھی پیر کو اسلام آباد میں وزیراعظم سے ملاقات کی ہے۔ لال مسجد آپریشن کے آغاز سے اب تک اس لڑائی میں کم سے کم بائیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بھی سکیورٹی فوسرز اور لال مسجد میں محصور افراد کے درمیان ساڑھے بارہ سے ڈھائی بجے کے درمیان ہلکی فائرنگ کا تبادلہ ہوا تاہم اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ سکیورٹی اہلکاروں نے کئی مرتبہ لاؤڈ سپیکروں پر لال مسجد کے اندر افراد سے ہتھیار ڈالنے اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کو کہا۔ اطلاعات کے مطابق رات کو مسجد کے اوپر ایک چھوٹا طیارہ بھی محوِ پرواز رہا۔ اس سے قبل اتوار کو سکیورٹی حکام نے جی سِکس کے علاقے میں واقع پریس کلب کو اپنے کنٹرول میں لے کر سربمہر کر دیا اور وہاں موجود ان چند صحافیوں کو وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا جو براہ راست صورتحال پیش کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ پریس کلب اس علاقے میں واقع ہے جہاں کرفیو نافذ ہے۔ ادھر آبپارہ تھانے میں مولانا عبدالرشید غازی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کمانڈو گروپ کے لیفٹننٹ کرنل ہارون اسلام کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ لیفٹننٹ کرنل ہارون اسلام سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات دورانِ آپریشن ہلاک ہوگئے تھے۔
031117_aids_questions
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/guest/story/2003/11/031117_aids_questions
ایڈز پر سوال و جواب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئے لندن کے سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں تحقیق کرنے والی ڈاکٹر شہلا زیدی نے آپ کے سوالوں کے جواب دیے۔
زیشان نعیم سید، لاہور، پاکستان آخر یے ایڈز اور ایچ آئی وی ہے کیا بیماری؟ آیّز ایک بیماری ہے جو انسانی جسم کے دفعہ کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ معمولی بیماریاں بھی خھرناک ثابت ہوتی ہیں۔ اس کا کوئئ مکمل علاج ابھی تک ایجاد نہیں ہوا ہے اور معمولی اثر کرنے والی دوایں ہیں لیکن وہ ابھی پاکستان جیسے ممالک میں فراہم نہیں ہیں۔ کامران کامی، گجرانوالا یہ بیماری کیسے ہوتی ہے؟ ایڈز کی بیماری ایچ آئی وی وائرس کے ذرعے پھیلتی ہے۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں غیر محفوظ جنسی تعلقات کے ذریعے اور سوئی یا بلیڈ کے آپس کے استعمال یا انفیفکشن والے خون سے منتقل ہوتا ہے۔ ایڈز کی الامات جراثیم پکڑنے کے کافی عرصے بعد واضح ہوتی ہیں اور ان کا دوسری بیماریوں کے الامات سے فرق کرنا مشکل ہے۔ خون کے ٹیسٹ کے ذریے ایچ آئی وی ایڈز کی یقینی پہچان کی جاتی ہے۔ چنی لال اگنانی، دادو، پاکستان ایڈز لاحق ہونے کا علم کیسے ہوتا ہے اور کیا اس مرض کا علاج ممکن ہے؟ ایڈز کا پہلا مریض کس ملک میں دیکھا گیا تھا؟ ایڈز کا علم صرف ٹیسٹ یا معائنہ کرانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ جدید دوائیں ایڈز کے حملے اور اس کی علامات پر قابو پانے میں مددگار ہوتی ہیں البتہ اس مرض کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے۔ دوائیں جس قدر جلد استعمال کی جائیں اتنی ہی مؤثر ثابت ہوتی ہیں لیکن ایک مرتبہ دوائیں استعمال کرنے کے بعد تاحیات لینی پڑتی ہیں۔ صحت مند طرزِ زندگی سے بھی خاصی حد تک ایڈز کی انفیکشن پر قابو پایا جا سکتا ہے مثلاً اچھی غذا، مکمل نیند، سگریٹ نوشی سے پرہیز اور دیگر اقسام کی انفیکشن سے بچاؤ کی کوششیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایڈز کی دواؤں کی فراہمی نہایت مشکل ہے اور بیشتر ڈاکٹر اس کے طریق علاج سے بھی بےبہرہ ہیں، ایسے ملک میں مناسب طرز زندگی ہی ایڈز کے علاج کا ایک طریقہ ہے۔ سن انیس سو اکیاسی میں امریکہ میں ایڈز کے پہلے مریض کی تشخیص کی گئی تھی۔ ممکن ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا میں ایڈز کے مریض موجود ہوں گے لیکن ان کی تشخیص نہیں ہو پائی تھی۔ ایڈز کی وبا پھیلنے کے بعد سے اب تک دنیا میں چھ کروڑ بیس لاکھ افراد کو ایچ آئی وی انفیکشن اور چار کروڑ بیس لاکھ افراد کو ایڈز لاحق ہو چکا ہے۔ علی، پاکستان انسانی جسم میں ایڈز کی علامات کتنے عرصے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں؟ ایچ آئی وی انفیکشن کے بعدایڈز کی علامات ظاہر ہونے میں دس برس لگ سکتے ہیں۔ یہ علامات مختلف افراد میں مختلف اوقات میں سامنے آتی ہیں۔ فاطمہ سلیم، مظفر آباد، پاکستان کیا کونڈوم کے استعمال سے بھی ایڈز پھیل سکتا ہے؟ کونڈوم کے استعمال سے ایڈز کا امکان تقریباً اٹھانوے فیصد کم ہو جاتا ہے۔ کونڈوم کا استعمال دیگر جنسی بیماریوں مثلاً پانی بہنا اور چھالوں سے بچاؤ کے لیے بھی مفید ہے۔ جان پال، کراچی، پاکستان کیا نطفہ کے جسم پر کہیں بھی لگنے سے ایڈز ہو سکتا ہے؟ جی نہیں۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ نظفہ کا جرثومہ یا سپرم، اندام نہانی یا مقعدی جھلی سے براہ راست جذب ہو کر یا پھر جنسی اعضا پر زخم یا چھالے کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس منہ اور کبھی کبھار جِلد کے ذریعے بھی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ البتہ عام طور پر صحت مند جِلد، ایچ آئی وی وائرس اور دیگر جرثوموں کے جسم میں داخل ہونے کی راہ میں مؤثر ترین رکاوٹ ہے۔ قیصر بٹ، لاہور، پاکستان کیا ایڈز مچھروں یا ہجام کے استرے سے لاحق ہو سکتا ہے؟ لوگ یہ سوال اکثر کرتے ہیں۔ مچھر یا کسی دوسرے کیڑے کے کاٹنے سے ایڈز نہیں ہوتا اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اگر ایڈز کا جرثومہ مچھر میں داخل بھی ہو جائے تو زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا۔ دوسری وجہ یہ کہ جب مچھر کسی انسان کو کاٹتا ہے تو اپنے خون کی بجائے اپنا لعاب انسانی جسم میں داخل کرتا ہے جس میں ایڈز کے جرثومے موجود نہیں ہوتے۔ محمد ارشد، پاکستان کیا ایڈز مردوں کے درمیان جنسی تعلق سے پھیلتا ہے؟ سلمان خان، پاکستان کیا ہم جنس پرست مردوں پر ایچ آئی وی کا حملہ ہو سکتا ہے؟ مردوں کے درمیان جنسی تعلقات کے باعث ایڈز کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب کسی مرد کے ایک سے زائد مرد جنسی ساتھی رہے ہوں۔ کونڈوم کا استعمال اس مرض سے بچاؤ میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا حتمی حل نہیں ہے کیونکہ مقعدی جنسی عمل کے دوران کونڈوم کھسک یا پھٹ سکتا ہے۔ جاوید اقبال، پاکستان ایچ آئی وی کس وبائی نام کا مخفف ہے؟ یہ جسم پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ یہ وائرس کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کے پھیلنے کا کیا طریقہ ہے؟ فضل حبیب ذکی، پاکستان ایچ آئی وی کیا ہے؟ ایچ آئی وی ’ہیومن امیونوڈیفیشنسی وائرس‘ کا مخفف ہے۔ یہ وائرس جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے جس کے باعث متاثرہ جسم کو عام طرح کی انفیکشن کا مقابلہ کرنے میں دشواری ہونے لگتی ہے اور وہ شدید بیمار ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ مرد و عورت کے خون، جنسی اعضا سے خارج ہونے والے مائع جات اور متاثرہ افراد کے استعمال شدہ ٹیکے اور سوئیاں دوبارہ استعمال کرنے سے پھیلتا ہے۔ طاہر چاند، بہاولپور، پاکستان ایچ آئی وی وائرس کن کن طریقوں سے انسانی جسم پر حملہ آور ہو سکتا ہے؟ یہ کس طرح پتہ چلتا ہے کہ ایچ آئی وی کسی شخص پر حملہ آور ہو چکا ہے؟ ایڈز کا مرض جنسی عمل اور استعمال شدہ سوئیاں استعمال کرنے کے علاوہ متاثرہ شخص کے خون اور اس کے جنسی اعضاء سے خارج ہونے والے مائع جات کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ایڈز سے بچاؤ کا بہترین طریقہ خود کو صرف ایک جنسی ساتھی تک محدود رکھنا ہے۔ کثیر جنسی تعلقات رکھنے والوں کو کونڈوم استعمال کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو استعمال شدہ ٹیکے اور سوئیاں دوبارہ استعمال نہ کرنے کی بھی تلقین کی جاتی ہے۔ محمد احسان، لاہور، پاکستان کیا ایڈز کا مرض لعاب دہن کے ذریعے لاحق ہو سکتا ہے؟ لعاب دہن کے ذریعے ایڈز میں مبتلا ہونے کا واقعہ سننے میں نہیں آیا ہے کیونکہ عام طور پر لعاب میں ایچ آئی وی وائرس موجود نہیں ہوتا اور اگر موجود ہو بھی تو اس کی تعدادبہت کم ہوتی ہے۔ البتہ منہ میں چھالے یا زخم ہونے کے سبب یہ وائرس لعاب میں شامل ہو کر کسی دوسرے شخص کو منتقل ہو سکتا ہے تاہم ایسے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں۔ علی احمد، لاہور، پاکستان کیا کوئی عورت یا مرد اورل سیکس یعنی دہنی جنسی مجامعت کے نتیجے میں ایچ آئی وی کا شکار ہو سکتا ہے؟ جی ہاں! ایسے جنسی عمل سے ایچ آئی وی کا منتقل ہونا ممکن ہے لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ محمد ثاقب احمد، بہار، بھارت اگر ایک شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہیں اور وہ سب کے ساتھ بلا کونڈوم جنسی عمل کرتا ہے تو کیا اس سے ایڈز کا خطرہ ہو سکتا ہے؟ ایک سے زائد جنسی ساتھی ہونے کی صورت میں خطرہ یوں ہو سکتا ہے کہ جب کسی دوسرے ساتھی کا جنسی ماضی معلوم نہ ہو۔ کیا ایسے مردوں کو ایڈز کا خطرہ کم ہوتا ہے جن کے ختنے ہوئے ہوں؟ جدید تحقیق کے مطابق ختنہ ایچ آئی وی انفیکشن کے خدشے کو کم کرتا ہے لیکن ایڈز سے بچاؤ کی ضمانت نہیں ہے۔ کیا ہم جنس پرستوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایڈز کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟ ایڈز میں مبتلا ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ مردوں میں ہم جنس پرستی اور دوسری ایک سے زیادہ ساتھی کے ساتھ جنسی تعلقات چاہے وہ ہم جنس سے ہوں یا مخالف جنس سے۔ اکثر ہم جنس پرست مرد مخالف جنس کے ساتھ بھی جنسی تعلق رکھتے ہیں لہذا ان میں ایڈز کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا میں ایڈز کے نوے فیصد کیس دونوں جنس کے افراد سے جنسی تعلقات رکھنے کے سبب پیدا ہوئے ہیں۔ نوید ارائیں ایڈز کس طرح پھیل رہا ہے اور ہم اپنے آپ کو اس سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ ایڈز ایچ آئی وی وائرس لگنے کے بعد ہو جاتا ہے۔ ایچ آئی وی کے انفیکشن سے بچنے کے لئے جنسی روابط میں احتیاط کرنی چاہیے، کونڈوم استعمال کرنے چاہئیں، اور اس کے علاوہ ہسپتالوں یا ڈاکٹر کے ہاں کبھی استعمال شدہ سرنج یا سوئی نہیں استعمال ہونے دیجیے۔ خون کے سلسلے میں خاص احتیاط ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں کئی ہسپتالوں کو منشیات کے عادی لوگ اپنا خون فروخت کر دیتے ہیں اور اس کی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ ان افراد میں ایچ آئی وی کے انفیکشن کے امکانات اس لئے بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ یہ لوگ اکثر استعمال شدہ سرنج استعمال کرتے ہیں۔ حماد الحق، کراچی کیا یہ بیماری ہونٹوں پر پیار کرنے (کِسنگ) سے پھیل سکتی ہے؟ کسنگ یا ہونٹوں پر چومنے کے ذریعے انفیکشن صرف تب پھیل سکتا ہے اگر منہ میں زخم یا چھالے ہوں۔ منہ میں اکثر چھو ٹے کٹ ہوتے ہیں لہذا احتیاط بہتر بتائی جاتی ہے۔ ساجد ساندھو اگر کسی ایڈز کی مریضہ سے جنسی روابط ہوں لیکن کونڈوم کے ساتھ تو کیا اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے؟ حمید الحق کیا کونڈوم کے استعمال سے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے؟ کونڈوم کے صحیح اور مستقل استعمال سے ایچ آئی وی انفیکشن سے بچنے کے امکانات اٹھانوے سے سو فیصد تک ہو جاتے ہیں۔ کونڈوم کے بارے میں لا پرواہی برتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ آصف ملک ایڈز کی کیا پہچان ہے؟ عقیل احمد یہ کیسے پتا چلتا ہے کہ کسی کو ایڈز ہے؟ سیعد علی کتنی مدت کے بعد ایڈز کی چیکنگ کے لئے خون کا ٹیسٹ کرانا چاہیے؟ کئی مریضوں کو بخار، سوجن، پیچش وغیرہ کی تکالیف ہو سکتی ہے جبکہ کئی مریضوں کو ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگے کہ آپ کو کوئی ایسی بیماری ہے جس کی تشخیص نہیں ہو پا رہی تو آپ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ صرف ڈاکٹر ہی خون ٹیسٹ کر کے یہ بتا سکے گا کہ آپ کو یہ انفیکشن ہے یا نہیں۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ہر ایچ آئی وی کے ہر مریض کو ایڈز نہیں ہو جاتی، ایڈز ایچ آئی وی وائرس کے خطرناک اور جان لیوا مرحلے کا نام ہے۔ ایچ آئی وی پاسیٹیو افراد کی صحت اکثر بہت سالوں تک بالکل ٹھیک رہتی ہے۔
061031_harkat_members_na
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/10/061031_harkat_members_na
حرکت المجاہدین کے چار رکن بری
سندھ ہائی کورٹ کی ایک اپیلٹ بینچ نے چار سال قبل امریکی قونصل خانے پر حملے کے چار ملزمان کو بری کردیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر سزا دی گئی تھی۔ اس حملے میں چودہ پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس رحمت حسین جعفری اور جسٹس یاسمین عباسی پر مشتمل بینچ نے منگل کو ملزم محمد حنیف، محمد عمران، محمد شارب اور حافظ زبیر کی اپیل منظور کرلی۔ ملزمان کا تعلق حرکت المجاہدین العالمی سے ہے۔ ان لوگوں پر الزام تھا کہ انہوں نے چودہ جون دو ہزار دو کو ایک خودکش حملے میں بارود سے بھری ایک گاڑی امریکی قونصل خانہ سے ٹکرادی تھی۔ حملے کے ایک ماہ بعد رینجرز نے چاروں ملزمان محمد حنیف، محمد عمران ، مامد شارب اور حافظ زبیر کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ملزمان پر انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں موت اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا کے خلاف ملزمان محمد حنیف، محمد عمران ، مامد شارب اور حافظ زبیر نے سندھ ہائی کورٹ کی اپیلیٹ بینچ میں اپیل کی تھی۔ حملے میں جوگاڑی استعمال کی گئی تھی اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ حملے سے ڈیڑھ ماہ قبل صدر جنرل پرویز مشرف کی کراچی آمد کے موقع پر ان پر حملے کرنے کے لیئے تیار کی گئی تھی مگر عین وقت اس کے الیکٹرک سوئچ نے کام نہیں کیا۔ دو ملزمان حنیف اور عمران بعض اور مقدمات میں بھی ملوث ہیں جن میں سے کچھ میں انہیں سزا ہوچکی ہے۔ اس لیئے ان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
pakistan-49123526
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49123526
کارگل کی جنگ کے پاکستانی متاثرین جنھیں بھلا دیا گیا
سنہ 1999 میں زینب بی بی کی شادی کے بعد جلد ہی جنگ شروع ہو گئی۔
بائیں جانب موجود زینب بی بی جنھیں جنگ کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا وہ کہتی ہیں کہ 'ہم گھر پہ تھے اور رات کا وقت تھا، آٹھ بجے کے قریب۔ ہم نے پہاڑوں کی چوٹیوں کو گولوں سے تباہ ہوتے دیکھا، ہم غاروں میں بنے بنکروں کی جانب دوڑے۔' زینب کا گاؤں گنوخ ہمالیہ کی چوٹیوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان فائرنگ لائن پر ہے۔ یہ پاکستان کی جانب موجود فائربندی کی لائن پر واقع ہے جو کہ کشمیر کو تقسیم کرتی ہے جس کے دونوں ملک دعویدار ہیں۔ 20 سال پہلے چند پاکستانی جرنیلوں کی خفیہ منصوبہ بندی کے نتیجے میں خفیہ طور پر انڈیا کی جانب کارگل کی چوٹیوں پر قبضے کے لیے کارروائی کا حکم دیا۔ تاہم اس سے وہ جنگ چھڑ گئی جس کی انھیں توقع نہیں تھی۔ نتیجہ شکست اور شرمندگی کی صورت میں نکلا اور ایسے واقعات رونما ہوئے جو 50 سال کے دوران ملک کے تیسرے مارشل لا پر منتج ہوئے۔ یہ بھی پڑھیے ’کارگل میں جس چیز نے پانسا پلٹا وہ بوفورز توپیں تھیں‘ پاکستانی فوجی جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہوا ’کارگل کی ذمہ داری کبھی کسی پر عائد نہیں کی جائے گی‘ زینب کے گاؤں اور اردگرد کے علاقے کے ہزاروں رہائشیوں نے اپنے گھر اور مال مویشی لڑائی کی وجہ سے کھو دیے۔ انڈیا کی جانب بھی اتنی ہی تعداد میں مقامی افراد نے نقل مکانی کی مگر وہ جنگ کے بعد واپس آگئے۔ اگرچہ پاکستانی حکام نے جنگ کی تباہی کے بعد مدد کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن اس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ بہت سے متاثرین ملک بھر میں موجود پناہ گزینوں کی کچی آبادیوں میں گزر بسر کے لیے کوشاں رہے۔ زینب کا کہنا ہے کہ پہلی رات ہونے والی شدید گولہ باری کئی دن تک جاری رہی۔ جلد ہی انھیں پتا چلا کہ ان کے جاننے والے بھی مارے جا رہے ہیں۔ ایک گولہ وہاں گرا جہاں ان کے دادا جو کی فصل کو پانی دے رہے تھے، اسی جگہ ان کی موت واقع ہو گئی۔ ایک اور گولہ نیچے ایک گاؤں میں ایک گھر کی چھت پر گرا جس سے دو نوجوان لڑکے ہلاک ہو گئے جو اس وقت دھوپ سینک رہے تھے۔ جب خوف پھیلا تو علاقے میں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے مکینوں سے کہا کہ وہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ زینب نے، جن کی عمر اب 33 برس ہو چکی ہے، بی بی سی سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گفتگو کی اور کہا کہ 'ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں جائیں اور کیسے جائیں۔ ہم نے کچھ بستر اور برتن اٹھائے، انھیں ٹرک میں ڈالا اور اپنے ہمسایوں کے ہمراہ چل پڑے۔ ہم نے اپنی بکریاں، گائے اور بیلوں کو خدا کے سہارے چھوڑ دیا تھا۔' جنگ کے نتیجے میں دونوں جانب ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں وہ شمال میں 150 کلومیٹر دور سکردو چلے گئے۔ وہاں دو ماہ تک ایک جھونپڑی میں رہے جو مقامی افراد نے انھیں دی تھی۔ تب تک پاکستان نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا اور اپنے دستوں کو حکم دیا کہ وہ انڈیا کی جانب جن چوٹیوں پر قبضہ کر چکے ہیں انھیں خالی کر دیں۔ زینب نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب جنگ ختم ہوئی تو بہت سے لوگ اس کشمکش میں تھے کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔ 'ہمارے ایک پڑوسی نے جو گاؤں گئے تھے، آ کر بتایا کہ زیادہ تر گھروں کو نقصان پہنچا، باغات تباہ ہوئے اور بہت سے مال مویشی یا تو مر گئے یا پھر گم ہو گئے۔' وہ کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ ہمیں اسلام آباد جانا چاہیے جہاں ان کے ایک دوست نے انھیں بتایا تھا کہ وہ کام تلاش کر سکتے ہیں۔' ’یہ جگہ انسانوں کے لیے نہیں، محض پاگل پن ہے‘ غلام محمد کا تعلق بھی زینب کی وادی سے تھا اور انھوں نے بھی علاقے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب جنگ چھڑی تو وہ نوجوانی کے اوائل میں تھے اور انھیں اپنے آڑو کے درختوں اور مویشیوں کو پیچھے ہارگوسل گاؤں میں ہی چھوڑنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والدین کی وفات پہلے ہی ہو چکی تھی بہن بھائی تھے نہیں۔ ان کے دیگر رشتے دار اور وہ سکردو آگئے جو جنگ زدہ علاقے سے بھاگ کر آئے لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ بہت سے متاثرین اب بھی سکردو میں پناہ گزینوں کی آبادیوں میں مقیم ہیں 'کچھ لوگوں نے دیہی علاقے سے باہر ٹینٹ لگا لیے اور کچھ کے پاس تو وہ بھی نہیں تھا۔وہ مایوس کن منظر تھا۔' غلام محمد جوان بھی تھے اور تنہا بھی، سو انھوں نے کام کے لیے ملک کے دوسرے سرے پر موجود شہر کراچی کا رخ کیا۔ زینب بی بی اور غلام محمد گلگت بلتستان کی وادی خارامنگ سے آئے تھے جس کی سرحد ایک جانب سے انڈین کارگل سے متصل ہے۔ سنہ 1947 میں یہ پاکستان کے گلگت بلتستان میں آنے والا یہ علاقہ کبھی لداخ سے جڑا ہوا تھا جو کہ اب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا حصہ ہے۔ کارگل کی جنگ میں نیم فوجی دستے ناردرن لائٹ انفینٹری کے ہزاروں حاضر سروس اہلکاروں کو انڈیا کی ان پوسٹوں پر قبضہ کرنے کے لیے بھجوایا گیا جو برفباری کے مہینوں خالی پڑی تھیں۔ یہ وہ اہلکار تھے جن کا تعلق بھی گلت بلتستان سے ہی تھا اور وہ بلندی پر جنگ میں مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے سطح سمندر سے 16 سے 18 ہزار فٹ تک کی بلندی پر پوزیشنیں سنبھال لیں۔ یہاں سے سیاچن لیہہ ہائی وے پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ یہ سیاہچین گلیشیئر پر موجود انڈین فوجیوں کی مرکزی سپلائی لائن تھی۔ سیاچن پر انڈیا نے سنہ 1984 میں قبضہ کیا تھا جو کہ دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے۔ انڈیا کو مئی 1999 کے اوائل میں حملے کا پتہ چلا تو پاکستان نے کہا کہ کشمیری جنگجو انڈیا کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ سیاچن کو جانے والی انڈین رسد کو کاٹ دیا جائے، انڈین فوجی دستوں کا بھاری نقصان ہو اور ان پر پاکستان کی شرائط پر کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ سال بھر پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی وجہ سے پاکستانی جنرل پر امید تھے کہ انڈیا ایٹمی جنگ کے خطرے کی وجہ سے خاموش رہے گا۔ لیکن انڈیا نے بھرپور جواب دیا پیادہ دستوں کے بعد توپخانے اور فضائیہ کی مدد لی گئی اور پھر یہ سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلا مکمل فوجی معرکہ ہوا۔ جون کے وسط تک پاکستان کی چوٹیوں پر پوزیشنیں کمزور ہونا شروع ہوئیں اور بین الاقوامی برادری نے پاکستان سے واپسی کا مطالبہ کیا۔ حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی فوج نے کارگل آپریشن کی تفصیلات کو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کی حکومت سے چھپایا۔ چار جولائی کو وہ یکطرفہ طور پر واپسی کے اعلان پر مجبور ہوئے۔ دو ماہ بعد ان کی حکومت کا خاتمہ مارشل لا پر ہوا۔ 26 جولائی تک انڈیا نے مکمل طور پر کارگل پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس لڑائی میں انڈیا کے 500 سے زیادہ فوجی مارے گئے جبکہ پاکستان کے جانی نقصان کا اندازہ 400 سے 4000 تک لگایا گیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں جو بےگھر ہوئے ان میں سے ہزاروں اب بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں اور مدد کے منتظر ہیں۔ تقریباً 20 ہزار افراد وادی کھرمنگ سے بے گھر ہوئے۔ 20 سال بعد ان کی آبادی دوگنی ہو چکی ہے اور 70 فیصد علاقے میں واپس نہیں لوٹے۔ تین گاؤں گنگنی، برولمو اور بادیگام بریسل جو کہ اس جنگ میں فرنٹ لائن کے قریب واقع تھے مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ بو علی رضوان ابھی سکردو کی مہاجر کالونی میں موجود ہیں اور ان کا تعلق برولمو سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گاؤں ہم مکینوں کے لیے ممنوعہ علاقہ تھا کیونکہ فوج نے وہاں بنکر اور بیرکیں بنا دی تھیں۔ سنہ 2003 اور 2004 میں گاؤں کے مکینوں کی جانب سے احتجاج کے پیش نظر مقامی انتظامیہ جنگ سے ہونے والے نقصانات کا سروے کرنے کے لیے ایک ٹیم بنانے پر مجبور ہوئی۔ اس ٹیم میں فوجی حکام بھی شامل تھے۔ سنہ 2010 میں زرِتلافی کے لیے گیارہ کروڑ کا پیکیج تین دیہات کو دینے کا کہا گیا لیکن رقم ادا نہیں کی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہم نے فوجی کمانڈر کے ساتھ سکردو میں ملاقاتیں کیں، چیف منسٹر کے ساتھ گلگت میں، ہم اسلام آباد گئے کہ اس مسئلے پر کشمیر امور کے وزارت کے حکام سے بات کریں۔' بائیں جانب موجود غلام محمد اور درمیان میں فدا حسین نے ہارگوسل گاؤں کو چھوڑ دیا 'فوج نے ہمیں بتایا کہ حکومت ادا کرے گی۔ کشمیر کی وزارت سے بتایا گیا کہ گلگت بلتستان کی حکومت دے گی۔ انھوں نے کہا کہ آرمی دے گی ہم نے سنہ 2012 تک اس معاملے کے لیے کوشش کی لیکن پھر ہم نے کوشش ترک کر دی۔' گولاتری ریجن میں فوج نے فقط 19 لاکھ کی ادائیگی بھی نہیں کی جو کہ مکینوں کی زمین لیے جانے کی وجہ سے واجب الادا تھی۔ فوج نے وہاں سنہ 1999 میں وہاں اپنی فارورڈ پوسٹوں کی جانب جیپ ٹریک بنانے کے لیے حاصل کی تھی۔ یہ تعطل سنہ 2010 میں زمین کے مالکوں کے حق میں عدالتی حکم کے باوجود رہا۔ جب گلگت بلتستان کی حکومت سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس معاملے کا جواب فوج کے پاس ہے۔ بی بی سی نے پاکستانی فوج سے رابطہ کیا جنھوں نے بتایا کہ وہ ان معاملات کی تفصیلات دیکھیں گے۔ اس تحریر کی اشاعت تک بی بی سی کو جواب نہیں دیا گیا تھا۔ فوج کی جانب سے اس دعوے پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کہ کارگل میں خفیہ آپریشن کو سول حکومت سے چھپایا گیا تھا۔ ان لوگوں کو، جن کی زندگیاں کارگل کی جنگ سے ہمیشہ کے لیے بدل گئیں اور جو محسوس کرتے ہیں کہ انھیں بےیارومددگار چھوڑ دیا گیا، تلاش کرنا اچھنبے کی بات نہیں۔ نصف درجن خاندان ہارگوسل لوٹ آئے لیکن غلام محمد ان میں شامل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میرا گھر جو کہ جنگ سے تباہ ہو گیا تھا اسے ٹھیک کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور میرے بہت سے ہمسائے بھی واپس نہیں لوٹے وہاں زمینوں کو پھر سے کاشت کے قابل بنانے کے لیے کوئی نہیں تھا۔' غلام محمد کہتے ہیں کہ ہارگوسل سے اوپر کی زمین پر بارودی سرنگیں اور بم ہیں اس لیے وہاں جانوروں کو چرنے کے لیے بھیجنا پر خطر عمل ہے۔ 'دو لڑکے گذشتہ برس اس وقت زخمی ہو گئے تھے جب ان کا پاؤں بم پر آ گیا تھا۔' غلام محمد سکردو واپس آگئے اور سنہ 2004 میں ان کی شادی ہو گئی۔ بی بی سی نے ان سے راولپنڈی میں بات چیت کی جہاں ان کا علاج چل رہا ہے۔ اگرچہ زینب بی بی کے والدین اور سسرال میں سے کچھ لوگ واپس بھی لوٹ گئے لیکن ان کے واپس اپنے گاؤں نہ جانے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ کئی سال زینب اور ان کے شوہر نے محنت کر کے اتنی رقم جمع کر لی کہ اپنےلیے اسلام آباد کی ایک کچی بستی میں چھوٹا سا مکان خرید سکیں۔ ان کے چار بچے بھی اسلام آباد میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'ہم نے بہت مشکل زندگی گزاری ہے، لیکن سب کچھ اچھے کے لیے ہوتا ہے اور میں اس کے لیے خدا کی شکرگزار ہوں۔' اور اب وہ واپس نہیں جانا چاہتی۔ ’اپنے گاؤں میں ایک بچے کی حیثیت سے میں بکریاں چراتی تھی اور فصل کی کٹائی کرتی تھی۔ میں کبھی کبھار گنوکھ کو یاد کرتی ہوں مگر میرے بچوں کا تعلق اسلام آباد سے ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں۔
150904_pakistan_world_difference_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/09/150904_pakistan_world_difference_ra
یہاں اور وہاں میں اتنا فرق کیوں؟
اچھا تو یہ خبر ایران سے کیوں نہیں آتی کہ
تو کیا دیگر ممالک کے قوانین اور ان پر عمل درآمد کروانے والے قانون سے بھی زیادہ سخت ہیں یا پھر ان ممالک کے لوگ اور عہدیدار قانون توڑنے کے معاملے میں بزدل ہیں یا ان ممالک کی حکومتوں کے پاس اپنے عوام کے غذائی، طبی، رہائشی، روزگاری اور قانونی تحفظ کےلیے کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہے جو یہاں پر کسی نے نہیں دیکھی؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہاں اور وہاں میں اتنا فرق کیوں؟ چلیے مسلمان اور غیر مسلمان ممالک میں تو فرق سمجھ میں آتا ہے لیکن مسلمان ممالک اور پاکستان میں قانون شکنی کے معاملے میں اتنا فرق کیوں؟ جو یہاں ہو رہا ہے وہ وہاں کیوں نہیں ہو رہا اور جو وہاں ہو رہا ہے یہاں کیوں نہیں ہو پا رہا؟ آپ کو کوئی تشفی بخش جواب مل جائے تو اس فقیر کو بھی بتائیے گا۔
regional-49420355
https://www.bbc.com/urdu/regional-49420355
سرینگر میں کرفیو کے خاتمے کے باوجود نظامِ زندگی معطل، حکومت کی پہلی مرتبہ کسی ہلاکت کی تصدیق
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر اور اس کے ملحقہ علاقوں میں کرفیو کے خاتمے کے باوجود نظامِ زندگی معطل ہے جبکہ حکام نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں پہلی بار کسی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
کشمیر میں اگرچہ کئی علاقوں سے کرفیو اٹھا لیا گیا ہے لیکن ابھی بھی صورتِ حال قابو میں نہیں ہے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کا کہنا ہے کہ ضلع بارہ مولا میں مشتبہ جنگجوؤں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ایک پولیس افسر اور ایک جنگجو ہلاک ہو گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کشمیر: ’ایسی خبریں ملتی ہیں کہ نیند نہیں آتی‘ کشمیر: ’خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے‘ کشمیر تصاویر میں: سکول تو کھلے لیکن بچے غیر حاضر مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ کارروائی کے بعد اسلحہ اور آتشیں مادہ بھی قبضے میں لیا گیا ہے۔ وادی میں کرفیو و لاک ڈاؤن کی صورتحال کو بدھ کو 16واں دن تھا اور اگرچہ جموں و کشمیر کے چند علاقوں سے پابندیوں میں نرمی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں مگر حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں۔ جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے سامعین کو باخبر رکھنے کے لیے بی بی سی کے خصوصی ریڈیو پروگرام نیم روز میں گفتگو کرتے ہوئے بی بی سی کے نمائندے عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ سرینگر میں حکومت نے بہت سے علاقوں سے پابندیاں مکمل طور پر اٹھا لی ہیں جن میں سرینگر سول لائنز، راج باغ ایریا اور سینٹرل سرینگر کے علاقے شامل ہیں۔ ایک کشمیری خاندان سرینگر کے ایک پولیس سٹیشن کے باہر اپنے زیرِ حراست رشتے دار سے ملنے کے لیے کھڑا ہے تاہم ان کے مطابق اولڈ سرینگر، ڈاؤن ٹاؤن اور صورہ میں ابھی پابندیاں صرف کچھ حد تک اٹھائی گئی ہیں اور وہاں سکیورٹی اہلکار موجود ہیں کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ابھی بھی چھوٹے بڑے پیمانے پر پتھراؤ اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ تصادم کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے کے مطابق ’سرینگر کے برعکس شوپیاں جسے پچھلے پانچ سالوں کی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقامی عسکریت پسندی کا مرکز مانا جاتا ہے وہاں مرکزی شہر میں کوئی سکیورٹی نہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود نہ کوئی دکان کھلی ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی شہری سڑک پر تھا، حالانکہ کرفیو نہیں تھا۔‘ عامر پیرزادہ کے مطابق انھوں نے جب مقامی لوگوں سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’کرفیو ختم ہوا ہے مگر ہماری ناراضی ختم نہیں ہوئی۔‘ مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے راتوں کو ان کے گھروں پر چھاپوں میں ان کے بہت سارے بچوں اور آدمیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ کشمیرمیں انڈیا مخالف مظاہرے عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ وہ ان حراستوں سے متعلق سرکاری حکام سے بات نہیں کر پائے کیونکہ فی الوقت کوئی دستیاب نہیں تھا۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ سوال گزشتہ ہفتے جموں و کشمیر حکومت کے پرنسپل سیکریٹری سے پوچھا تھا کہ کتنی گرفتاریاں اور حراستیں ہوئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ گرفتاریاں مرکزی طور پر نہیں ہوئیں بلکہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پر ہوئی ہیں اور اس حوالے سے ان مقامی اہلکاروں نے اب تک اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔ عامر پیرزادہ نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی قیادت پانچ اگست سے اب تک نظر بند ہے اور ابھی تک کسی کو ان کی موجودہ صورتحال سے متعلق علم نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے بھی ان گرفتاریوں کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے حکم آیا تھا کہ بدھ سے مڈل سکولز کھلیں گے ’مگر کل تک ہم جو زمین پر صورتحال دیکھ پائے وہ یہ تھی کہ کچھ سکول ویسے ہی بند تھے جبکہ کچھ سکولوں میں عملہ آ چکا تھا مگر بچے نہیں آئے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’بہت سارے بچے آئے تھے اور اس کی جانب سے ضلعی اور تحصیل کی سطح پر اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے ہیں، مگر جہاں تک ہم جا پائے، وہاں تک ہماری ملاقات کسی بھی سکول کے بچے سے نہیں ہوئی۔‘ ’ہم نے بہت سے سکولوں پر تالا دیکھا، پرسوں ہم پولیس پبلک سکول گئے تھے جو کہ پولیس کے زیرِ انتظام ہے، وہاں پر بھی سٹاف آ چکا تھا مگر کوئی بھی طالبِ علم موجود نہیں تھا۔‘ سرینگر میں ایک کشمیری نوجوان بحال ہونے والے چند ٹیلیفونز میں سے ایک کے ذریعے رابطہ کر رہا ہے رابطوں اور رسد کی صورتحال انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں رابطہ کاری میں حائل دشواریوں پر بات کرتے ہوئے عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ اس لاک ڈاؤن کو ابھی تقریباً 15 دن ہو گئے ہیں مگر اب بھی صرف لینڈ لائن بہت تھوڑی تعداد میں کھولی گئی ہیں وہ بھی صرف سینٹرل سری نگر سول لائنز میں۔ اکثریتی کشمیر میں ابھی تک کوئی رابطوں کی سہولت موجود نہیں ہے، اور لوگ اپنوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ’رابطوں پر جو پابندی ہے اس کی وجہ سے خبریں ہم سے بہت دور ہیں جس کی وجہ سے ہم صرف آنکھوں دیکھا حال ہی بیان کر پا رہے ہیں۔‘ اشیائے خورد و نوش اور دواؤں کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کو جب یہ لاک ڈاؤن باقاعدہ شروع ہوا، اس سے پہلے حکومت کے بہت سارے احکامات لیک ہوئے تھے جن میں نیم فوجی دستوں کی تعیناتی، راشن اور ایندھن ذخیرہ کرنے، ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں موجود رہنے اور ہسپتالوں کو ضروری اشیاء اور دوائیں ذخیرہ کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ ’ان سب نے کشمیر میں ایک افراتفری کو جنم دیا تھا، جس کی وجہ سے ہر کشمیری نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ شاید کشمیر میں کچھ بڑا ہونے والا ہے اس لیے تمام لوگوں نے ضروریاتِ زندگی، گیس، راشن اور دواؤں اور ایندھن کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا تھا۔‘ سرینگر کے ایک ہسپتال میں مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو طبی امداد دی جا رہی ہے ’اگر مجموعی طور پر بات کریں، جیسے کہ شوپیاں، تو حکومت کی طرف سے وہاں کوئی پابندی نہیں ہے، لوگوں کو چلنے دیا جا رہا ہے، سڑکوں پر ٹریفک ہے اور پرائیوٹ گاڑیاں چل رہی ہیں، مگر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے، دکان کھولنے والے نہیں ہیں، ساری دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہیں۔‘ 'اس سکون میں کہیں ڈر بھی ہے، خوف بھی، جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے اور لوگ اپنی دکانیں کھولنے سے ڈر رہے ہیں۔‘ بڈگام: سکول یا بند ہیں یا خالی بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بھی سری نگر سے ملحقہ ضلع بڈگام کا دورہ کیا اور دیکھا کہ وہاں بھی اکثر سکولوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پچھلے تین دن سے حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کشمیر میں کام کاج شروع ہو جائے، درس و تدریس کا عمل شروع ہو جائے۔ پرسوں کہا گیا کہ پانچویں جماعت تک سکول کھولے جائیں گے لیکن اس دن کسی بھی سکول میں کسی طرح کا تدریسی عمل نہیں ہوا حالانکہ کچھ سکولوں میں ہم نے دیکھا کہ چند اساتذہ موجود تھے لیکن ضلع بڈگام کے پاؤڑہو علاقے میں آئے ہیں جہاں گورنمنٹ مڈل سکول ہے جو کہ تالا بند ہے۔ ’آج بھی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ سکول شروع ہوں گے لیکن آج بھی ہم نے دیکھا کہ سری نگر کے پوش علاقوں میں بھی سکولوں میں کوئی سرگرمی نہیں ہے۔‘ بی بی سی کے نامہ نگار نے پاؤڑہو کے گورنمنٹ مڈل سکول کے مقامی ہیڈ ماسٹر سے بات کی اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اب تک طالب علم غیر حاضر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچے ڈرے ہوئے ہیں۔ ’ان کے والدین بھی ڈر کی وجہ سے انھیں سکول نہیں آنے دیتے کہ کہیں انھیں کچھ ہو نہ جائے۔‘ بی بی سی نے وہاں سکول کے کچھ سابق طالب علموں سے بھی بات کی۔ ایک سابق طالب علم نے بتایا کہ ’یہاں پر حالات ہی ایسے نہیں ہیں کہ بچے سکول آ پائیں۔ آج کل پورے کشمیر میں حالات خراب ہیں کون سکول آئے گا۔ والدین بھی بچوں کو سکول آنے سے روکتے ہیں اور یہاں کے مقامی لڑکے بھی سکول نہیں کھولنے دیں گے کیونکہ یہاں حالات ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ آئین سے ہمارے آرٹیکل کو انھوں نے توڑا جو بہت بڑی غلطی ہے۔‘ پانچ اگست کے بعد علاقے میں نہ صرف خوف اور دہشت ہے بلکہ اس حوالے سے نوجوانوں میں ناراضی بھی پائی جاتی ہے۔ حالانکہ بڈگام سری نگر کے ساتھ ہی ملحقہ ضلع ہے اور سری نگر اور دوسرے ضلعوں کے مقابلے میں یہ غیر حساس ہے لیکن یہاں بھی لوگ ناراض ہیں اور بچے خوف کی وجہ سے سکولوں کا رخ نہیں کر رہے ہیں۔
world-53042357
https://www.bbc.com/urdu/world-53042357
خلا سے سمندر تک تاریخ رقم کرنے والی کیتھی سلیوان کا سفر
کیتھی سلیوان کا اپنے شعبے کے انتخاب کے پیچھے مقصد خبروں میں رہنا قطعاً نہیں تھا۔
سنہ 1984 میں خلا میں واک کا مشن مکمل کرنے والی 68 برس کی امریکی خاتون کا ذکر تو پہلے ہی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، اس ہفتے وہ پھر اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنیں اور اس بار اس کی وجہ ان کا سمندر میں سب سے گہری جگہ پر 11 کلومیٹر نیچے تک کا کامیاب سمندری سفر بنا۔ یہ بظاہر کسی بھی دماغ میں دو متضاد اہداف ہیں۔ یہی دو انتہائیں ڈاکٹر کیتھی کی زندگی کا بھی مقصد بن کر رہ گئیں تاکہ وہ اپنے اردگرد اس کائنات کے رازوں کو ٹھیک طور پر سمجھ سکیں۔ بحر اوقیانوس سے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیتھی سلیوان نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی ہمیشہ مہم جو قسم کی رہی ہیں، ایک ایسی بچی جس کے ایسے مشاغل تھے جو عموماً لڑکیوں کے لیے معاشرتی طور پر اچھے نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کیتھی امریکی ریاست نیو جرسی میں سنہ 1951 میں پیدا ہوئیں۔ ان کا بچپن کیلیفورنیا میں گزرا۔ پیشے کے اعتبار سے ان کے باپ ایک ایئروسپیس انجنیئر تھے جو اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے دونوں بچوں کی اپنی بحث میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یہ بھی پڑھیے خلا کے بعد سمندر میں سب سے گہرے مقام کا سفر کرنے والی خاتون سائنس کی دنیا کی پانچ نامورخواتین’ جنھوں نے ٹیکنالوجی کو اپنا ہتھیار بنایا ڈاکٹر کیتھی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین ان کی دلچسپی والے ہر موضوع پر خوب تسلی کراتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمارے بہترین دوست تھے جو ہمارے شوق کو جہاں تک ہم چاہتے تھے وہاں تک لے جانے میں مدد کرتے تھے۔۔ ہو سکتا ہے یہ شوق دو دن کے اندر ختم ہوجائے یا پھر یہ زندگی بھر کے لیے ہمارے کریئر کا حصہ بن جائے۔ جب وہ پانچ یا چھ سال کے تھے تو انھیں یہ معلوم ہو گیا تھا ان کا بھائی پائلٹ بن کر ہوائی جہاز چلانے کا شوق رکھتا ہے جبکہ کیتھی کی دلچسپی نقشوں اور اہم جگہوں کو مسخر کرنے میں تھی۔ ڈاکٹر کیتھی کا کہنا ہے کہ ہم دونوں کے ہی کرئیر اپنے بچپن کے خوابوں کی تعبیر کا اہم ذریعہ تھے۔ چھوٹی بچی کے طور پر کیتھی نئی ایجادات سے متعلق جاننے کے لیے ہر اخبار اور میگزین کو کھنگالتی تھیں اور ٹی وی رپورٹ کو بغور دیکھتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جیک کوسٹیو سطح سمندر کے نیچے کی دریافت کا بانی بن رہا تھا اور مرکری سیون امریکیوں کے ذہنوں پر خلائی نقشوں کو ابھار رہے تھا۔ ڈاکٹر کیتھی کہتی ہیں کہ: میں نے ان لوگوں کو دیکھا۔۔ یہ سب مرد تھے۔۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔۔ میں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جن کی زندگیاں مہم جوئی میں گزرتی ہیں، وہ ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں پہلے کوئی نہیں گیا ہوا ہوتا ہے اور ان کے پاس علم کے خزانے ہیں اور وہ مزید بھی سیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 20 سا کی عمر سے پہلے ہی یہ میرا مشن بن چکا تھا کہ میں نے بھی یہی کام کرنے ہیں، مجھے بھی یہی خطابات اور لیبل حاصل کرنے ہیں، میری سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن میں جو بات بہت واضح طور پر جانتی تھی وہ یہ تھی کہ میں بھی اپنی زندگی ایسی ہی گزارنا چاہتی تھی، میں اپنی زندگی میں تحقیق، مہم جوئی اور اہلیت کا حسین امتزاج چاہتی تھی۔ ڈاکٹر کیتھی کی یہ منزل پہلے انھیں دیگر زبانیں سیکھنے کا سبب بن گئی اور گریجوایشن سے پہلے انھوں نے ارتھ سائنسز کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا۔ سنہ 1970 کے دنوں میں زیادہ تر اس کام کو مردوں سے ہی منسوب سمجھا جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکے ’فیلڈ کیمپس‘ میں جاتے تھے، انھوں نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوتے تھے، وہ کبھی نہیں نہاتے تھے، وہ حقیقت میں اوباش دکھائی دے رہے تھے جو ان کے دل میں آتا وہ کرتے۔ ڈاکٹر کیتھی کا کہنا ہے کہ ان لڑکوں کے درمیان ان کی موجودگی کو ان کے مشاغل میں ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر کیتھی نے اس وقت محسوس کر لیا تھا کہ کوئی تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ انھیں کبھی ان کی صنف کی وجہ سے پریشانی اور ہراسگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں ان کے مرد اساتذہ اور ساتھیوں نے بہت ساتھ دیا۔ وہ انھیں ایک قابل طالبعلم، بہت قابل جیالوجسٹ اور اپنے سفر کا اہم حصہ سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر کیتھی نے میرین سائنس کے پروفیسر کو اپنے عزائم کی تکمیل کے ذریعے کے طور پر دیکھا اور پھر انھوں نے سمندری سائنس سے متعلق پڑھائی کرنا شروع کردی۔ زمین سے متعلق اپنے علم کو مزید جلا بخشنے کے لیے انھوں نے امریکہ کے خلائی ادارے ناسا میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔ ان کے مطابق ان کا ناسا میں ملازمت اختیار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر انھوں نے یہ منزل عبور کر لی اور وہ خلابازی کے لیے منتخب ہو گئیں تو پھر وہ ستاروں کی کہکشاؤں سے دنیا کا نظارہ کرسکیں گی۔ ڈاکٹر کیتھی کو ناسا کی سنہ 1978 کی کلاس میں داخلہ مل گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب خواتین کو بھی خلابازی کے شعبے میں جگہ ملی۔ 35 افراد کی کلاس میں سے صرف چھ کا انتخاب ہوا۔ ان چھ خوش نصیبوں میں سے ایک ڈاکٹر کیتھی بھی تھیں جنھوں نے سنہ 1983 میں خلا کا سفر شروع کیا۔ خلا بازی کے شعبے میں پہلی خاتون منتخب ہونے کے بعد منفرد چیلنجز پر غور شروع کیا۔ اس ہفتے بھر کے مشن کے لیے انجنیئرز نے خاص طرح کی میک اپ کٹس تیار کرنے کی کوششیں کیں اور انھوں نے اس سفر میں ضرورت پڑنے والے ’ٹیمپٹنز‘ سے متعلق بھی مبالغہ آمیز اندازہ لگایا۔ ڈاکٹر کیتھی کا پہلا مشن STS-41-G پانچ اکتوبر 1984 کو شروع ہوا۔ یہ ناسا کے ’سپیس شٹل پروگرام‘ کی تیرویں فلائٹ تھی اور سپیس شٹل چیلنجر کا یہ چھٹا سفر تھا۔ 11 اکتوبر 1984 کو ڈاکٹر کیتھی نے تاریخ رقم کی جب وہ خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون بن گئیں۔ اس سفر میں اپنے ساتھی ڈیوڈ لیسٹما کے ساتھ خلا میں واک کی اور مدار میں ری فیولنگ کے امکانات کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد وہ دو اور مشن کا بھی حصہ رہیں۔ جس میں سنہ 1990 میں ہبل سپیس ٹیلی سکوپ کی لانچ کا مشن بھی شامل ہے۔ انھوں نے خلا میں 532 گھنٹے گزارے۔ ڈاکٹر کیتھی نے اپنے اس مشن کی بدولت سنہ 2004 میں ’آسٹروناٹ ہال آف فیم‘ میں جگہ بنائی۔ ڈاکٹر کیتھی کا کہنا ہے کہ خلا میں میری واک ساڑھے تین گھنٹے طویل تھی۔ ان کے مطابق خلا میں واک کرنا بڑا معنی رکھتا ہے مگر خلا میں واک کرنے کا یہ تجربہ بہت مختصر تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ خواتین میرے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور اب وہ بھی یہ کر رہی ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ یہ بہت واضح ہے، بہت پیچیدہ ہے اور بہت محنت طلب ’سپیس واکس‘ ہیں۔ ڈاکٹر کیتھی کئی سالوں سے دیکھ رہی ہیں کہ اب اس شعبے میں سینیئر عہدوں پر بھی خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب خواتین کمانڈنگ رول ادا کر رہی ہیں اور خلا میں جانے والے مشن کے انتظامات کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اس شعبے میں بہت اچھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور اب یہ رحجان نوجوان لڑکیوں کے لیے بھی حوصلے کا ذریعہ بن رہا ہے کہ وہ بھی خلا میں جا سکتی ہیں۔ کوئی آپ کو راہ نہیں دکھا سکتا، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اپنے لیے خطرات مول لے رہی ہیں، آپ کو مستقل مزاج ہونا ہو گا اور استقامت دکھانی ہوگی۔ آپ کو خود چیلنجز سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔ اب کم از کم مواقع موجود ہیں۔ اب آپ اپنا رستہ خود بنا سکتے ہیں۔ گذشتہ سال پہلی بار صرف خواتین نے خلا میں واک کی۔ اس میں کم ازکم ڈاکٹر کیتھی کہ لیے بھی ایک خوشگوار لمحہ تھا۔ خاص طور پر کرسٹینا کوچ نے وہی ’لائف سپورٹ سسٹم بیک پیک‘ زیب تن کر رکھا تھا جو سنہ 1984 میں ڈاکٹر کیتھی نے پہنا تھا۔ سنہ 1993 میں ناسا چھوڑنے پر ڈاکٹر کیتھی نے نیشنل اوشنک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) میں چیف سائنسدان کے طور پر شمولیت اختیار کر لی اور پھر بعد میں صدر باراک اوباما کے دور میں اس ادارے کی ایڈمنسٹریٹر رہ چکی ہیں۔ اس عرصے میں انھوں نے سینٹر آف سائنس اینڈ انڈسٹری (سی او ایس آئی) کے صدر اور سی ای او کے طور پر بھر کئی سال گزارے۔ وہ اوہائیو یونیورسٹی میں ایک اہم عہدے پر فائز رہیں۔ ان کی سمندر کی تہہ میں جانے سے متعلق ایک سرپرائز دعوت نیوی کے ایک سابق افسر وکٹرویسکوو کی طرف سے ملی تھی، جنھوں نے لوگوں کو پانی کے نیچے لے جانے کے مشن پر کروڑوں ڈالر اور کئی سال خرچ کیے۔ ’چیلنجر ڈیپ‘ کو زمین پر ابھی تک سمندر میں سب سے گہرا مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 11 کلومیٹر نیچے واقع ہے۔ ماریانہ نامی یہ گہرائی بحرالکاہل کے 200 میل جنوب مغرب میں گوہام کے مقام پر واقع ہے۔ سنہ 1960 میں دو لوگ۔۔ امریکی نیوی کے لیفٹیننٹ ڈان والش اور سوئزرلینڈ کے ماہر بحری علوم جیک پیکارڈ اس مقام تک پہنچے تھے۔ وکٹر ویسکوو جو خود بھی ایک محقق ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے اس نجی مشن کا مقصد سمندر اور سائنس میں دلچسپی بڑھانا ہے۔ گذشتہ برس وہ ہر سمندر کے سب سے گہرے مقام پر جانے والے پہلے شخص بنے تھے۔ اس بحری سفر میں انھوں نے اپنی دو ٹن گہری سمندری گاڑی (ڈی ایس وی) کا استعمال کیا تھا، جو ایک معاون بحری جہاز سے سمندر میں اتاری گئی تھی۔ ڈاکٹر کیتھی کا کہنا ہے کہ وکٹر نے انھیں اس تازہ مشن کے لیے ای میل سے یہ دعوت نامہ بھیجا تھا کیونکہ ان کے خیال میں یہ ایک مناسب وقت ہے کسی عورت کے لیے وہ سمندری گہرائی میں بھی جا کر مشاہدہ کرے۔ ان کو یہ شبہ ہے کہ ان کی ڈان والش سے دوستی اس سمندری سفر کے دعوت نامے کی وجہ بنی۔ تاہم جب انھوں نے وکٹر کے سفر کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں تو پھر انھوں نے خوشی سے یہ دعوت قبول کر لی۔ گذشتہ اتوار کو انھوں نے وکٹر کے ساتھ 35،800 فٹ نیچے سفر طے کر کے اس مقام کی تہہ تک پہنچنے والی آٹھویں شخصیت اور پہلی خاتون بنیں۔ وہ اس سفر کو ایک جادوئی تہہ پر پہنچنے جیسا قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اس سمندری سفر میں ’لینڈر‘۔۔ جو ایک بغیر پائلٹ روبوٹک گاڑی جو سطح سمندر پر پر ایسے اترتی ہے اور پھر ان کے ساتھ ساتھ گہرائی میں ایسے سفر طے کر رہی ہے کہ جیسے کوئی خلائی مخلوق خلا میں کچھ تلاش کر رہی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جگہوں پر پر جانا ایک جادوئی تجربے جیسا ہے کیونکہ ہم ان جگہوں پر ان جیسی ٹیموں کی طرف سے آسانی پیدا کرنے کی وجہ سے جا سکتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو وہاں لے کر جاتے ہیں جہاں ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ اور ہم یہ عام کپڑوں میں کر سکتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ میں نے اتوار کو دوپہر کا کھانا 31،000 فٹ نیچے کھایا، جو کہ بہت ہی دلچسپ تجربہ ہے۔ یہ ادارہ: ای وائی او ایس ایسپیڈیشنز، جو ایسی مہمات کا اہمتام کرتا ہے۔ وہ انٹرنیشل سپیس سینٹر (آئی ایس ایس) کے درمیان رابطے کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یہ ایک انسان کے دو انتہائی مختلف طرح کے تجربات ہیں۔ اس سفر سے متعلق ایک پریس ریلیز میں اس مہم کے منتظمین نے وکٹر ویسکوو کے اس مشن اور خلائی مشن ’سپیس ایکس‘ میں موازنہ بھی کیا۔ اس پریس ریلیز میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں نجی کمپنیوں کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کے نادر مواقع موجود ہیں۔ ڈاکٹر کیتھی سلیوان کا خیال ہے کہ ہمیں بحیثیت اقوام اور افراد ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کی علم کی سرحدوں کو مزید وسیع کرنے کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے۔ انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضیات میں دنیا بھر میں تنوع کو یقینی بناتے ہوئے ان شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ ان کے مطابق لیب میں کھڑا ایک ایسا شخص جو بس اپنے انداز میں اعداد و شمار اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے امور انجام دے رہا ہے محض ایک۔۔۔ وہ کہتی ہیں کہ دقیانوسی تجربہ گاہیں لیب میں ایک ایسے فرد کی طرح ہیں، جس کا کام محض اعداد اور اصولوں کا شمار کرتا رہتا ہے۔ لیکن کئی شعبوں میں، خاص طور پر جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کا عمل دخل رہتا ہے تو وہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا لازمی ہوتا ہے۔ کیا ڈاکٹر کیتھی سلیوان اب کسی مزید کسی مہم جوئی کے لیے تیار ہیں؟ ان کا جواب ہاں میں ہے۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ میرے خیال میں دریافت کے عمل کی کئی شکلیں ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے آپ بذات خود خلا میں موجود ہوں یا بحرالکاہل کی تہہ میں ہوں۔ ان کے مطابق ایسے بہت سارے موضوعات اور مضامین ہیں جن پر تحقیقاتی کام کیا جا سکتا ہے۔ ’جب تک مجھے مستقبل میں کسی چھوٹے سے لکڑی کے تابوت میں ڈال کر کہیں نہیں رکھ دیا جاتا، میں یہ تحقیقاتی کام مرتے دم تک کرتی رہوں گی۔‘
pakistan-54097072
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54097072
نواز شریف: العزیزیہ کیس میں سرینڈر کے بغیر درخواست پر سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں، دلائل طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے عدالت کے سامنے سرینڈر کیے بغیر کارروائی آگے بڑھانے کی درخواست پر دلائل طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف نے سرینڈر نہیں کیا عدالت انھیں کوئی استثنی نہیں دے گی۔
’نواز شریف بیرون ملک علاج کے لیے گئے ہیں اس لیے انھیں قانونی نمائندے کے ذریعے جواب کا موقع دیا جائے‘ جمرات کے روز العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کی سزا کےخلاف دائر اپیل پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت نیب کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت سے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کے فیصلے کی کاپی پیش کرنے پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ گذشتہ سماعت پر صرف ضمانت ختم ہونے کا معاملہ عدالت کے سامنے تھا، اب نوازشریف کو ایک اور عدالت سے اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد اُن کی عدالت میں زیر سماعت درخواست پر کیا اثر پڑے گا اور آیا اب اس درخواست پر کی جا سکتی ہے؟ اس پر نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اشتہاری ملزم کا سرینڈر کرنا ضروری ہے اور چونکہ نواز شریف نے سرینڈر نہیں کیا تو اب انھیں کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ یہ بھی پڑھیے صحت اجازت نہیں دیتی کہ علاج چھوڑ کر عدالت کے سامنے پیش ہوں: نواز شریف نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کا معاملہ، نیب اور حکومت خاموش کیوں؟ کیا حکومت نواز شریف کو پاکستان واپس لا سکے گی؟ اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ بینچ مجھ سے سوال پوچھ رہا ہے مگر اس کا جواب یہ (نیب) دے رہے ہیں۔ جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کیس میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ مفرور کو سرنڈرسے قبل نہیں سُنا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت یہ نہیں کہہ رہی کہ نواز شریف کی اپیل کی درخواست کو خارج کر رہے ہیں، مگر ابھی صرف یہ بات ہو رہی ہے کہ مزید دو درخواستوں پر کارروائی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ ’پنجاب حکومت کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا کسی ہسپتال میں علاج نہیں چل رہا اور وہ پاکستان کا سفر کرنے کے قابل ہیں‘ خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف بیرون ملک علاج کے لیے گئے ہیں اس لیے انھیں قانونی نمائندے کے ذریعے جواب کا موقع دیا جائے کیونکہ ان کی درخواست میں بھی یہی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کی پیشی کے بغیر نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست سنی جا سکتی ہے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ جس ڈاکٹر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا وہ خود امریکہ میں ہیں جبکہ گزشتہ سات آٹھ ماہ میں نواز شریف ہسپتال داخل ہی نہیں ہوئے، اگرکوئی اسپتال میں داخل ہو تو پھر بات الگ ہوتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے ان کی درخواست کو پہلے سن لیا جائے۔ اس پر جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ گذشتہ سماعت پر وفاقی حکومت کو بھی کہا تھا، ان سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ انھیں ہدایات ملیں یا نہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب حکومت کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا کسی ہسپتال میں علاج نہیں چل رہا اور وہ پاکستان کا سفر کرنے کے قابل ہیں۔ جسٹس محسن اخترکیانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو موقع دیا تھا کہ وہ سرینڈر کریں، ابھی تک انھیں حاضری سے استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔ نیب پرایسیکیوٹر جنرل عدالت کو قانون سے بتائیں کہ کیس کو سن سکتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ خواجہ حارث کو موقع دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ اپنا قانونی سٹینڈ ظاہر کریں، اگر وارنٹ کا آرڈر کرنا ہوتا تو کر دیتے لیکن نہیں کر رہے، منگل تک وقت دے رہے ہیں۔ عدالت نے اس کیس کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔ گذشتہ سماعت میں بینچ نے حکم دیا تھا کہ چونکہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں دی جانے والی ضمانت غیر موثر ہوچکی ہے اس لیے جب تک مجرم خود کو قانون کے سامنے سرنڈر نہیں کرتا اس وقت تک اس اپیل کی سماعت نہیں ہو سکتی۔ فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کی بریت کے علاوہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا میں اضافے کے بارے میں نیب کی اپیلیں بھی زیر سماعت ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم واپس لینے کی بھی استدعا کی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں سابق وزیر اعظم کو 10 ستمبر سے پہلے سرنڈر کرنے اور کمرۂ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ حکومت کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ فواد چوہدری کے مطابق ’عمران خان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو باہر بھجوانا ان کی حکومت کی غلطی تھی‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کی روشنی میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اگر اس بارے میں کوئی جواب دیا گیا ہے تو وہ ان کے علم میں نہیں ہے۔ وفاقی وزیر سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے حکومت کیا اقدامات کرے گی، تو ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کے روز سابق وزیر اعظم کی اپیل کی سماعت کے بعد حکومت اپنی حکمت عملی وضح کرے گی۔ فواد چوہدری ابھی بھی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ جس میڈیکل بورڈ نے سابق وزیر اعظم کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی سفارش کی تھی، ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ ’وزیر اعظم عمران خان میڈیکل بورڈ کے ارکان کے خلاف تحقیقات کروانے کے حق میں نہیں ہیں تاہم وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو باہر بھجوانا ان کی حکومت کی غلطی تھی۔‘ ’لندن میں علاج چل رہا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کا برطانیہ میں علاج چل رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے گذشتہ پانچ ماہ سے زیادہ عرصے سے برطانیہ کے ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج نہیں ہو رہا۔ اُنھوں نے کہا کہ علاج مکمل ہونے اور اپنے معالج کی ہدایات کے بعد میاں نواز شریف وطن واپس آئیں گے۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم لندن میں اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر اپنے بیٹی کے ساتھ جیل کاٹنے کے لیے پاکستان آئے تھے تو اب بھی علاج مکمل ہونے کے بعد وطن واپس آئیں گے۔ قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے؟ سابق جج شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 423 کے تحت اگر مجرم عدالت میں پیش نہ ہو تو پھر بھی عدالت ان کے وکیل یا ان کے نمائندے کی موجودگی میں اس اپیل پر فیصلہ سنا سکتی ہے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے عدالتی حکم کے باوجود مقررہ تاریخ تک سرنڈر نہ کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہیں جس میں مجرم کی اپیل بھی مسترد کی جاسکتی ہے جبکہ ایک یہ بھی رائے ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس خود سے مجرم کو اشتہاری قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ماہر قانون اور سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد طارق محمود جہانگیری کا کہنا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 410 کے تحت مجرم کو عدالت میں پیش ہونا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے پاس ضابطہ فوجداری کے سیکشن 561 اے کے تحت اس کے پاس اختیار ہے کہ اگر فوجداری مقدمے میں کسی عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو وہ خود مجرم کو اشتہاری قرار دے سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت عالیہ احتساب عدالت کو بھی اس معاملے کو دیکھنے کے بارے میں حکم صادر کرسکتی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتساب عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معطل کر کے میاں نواز شریف کو آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ مجرم کی ضمانت میں پنجاب حکومت نے توسیع نہیں کی اس لیے ان کا سٹیٹس ابھی تک غیر واضح ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ نیب کے مقدمات میں یا تو ضمانت ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتی کہ کسی کو احتساب کے مقدمے میں چند ہفتوں کے لیے سزا کو معطل کیا گیا ہو۔ اُنھوں نے کہا کہ جب پنجاب حکومت نے سابق وزیر اعظم کی ضمانت میں توسیع نہیں کی تو عدالتی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے مجرم کو اس بارے میں عدالت سے بھی رابطہ کرنا چاہیے تھا لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔ طارق محمود جہانگیری کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ عدم پیشی کی بنا پر مجرم کی سزا کے خلاف اپیل کو مسترد بھی کرسکتی ہے۔ اسلام آباد کے سابق ایڈووکیٹ جنرل کے اس دعوے کے برعکس لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 423 کے تحت اگر مجرم عدالت میں پیش نہ ہو تو پھر بھی عدالت ان کے وکیل یا ان کے نمائندے کی موجودگی میں اس اپیل پر فیصلہ سنا سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے تو ان کے وکلا کو حاضری سے استثنی کی درخواست نہیں دینی چاہیے تھی۔ شاہ خاور کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کے بعد جب پنجاب حکومت نے اس سال فروری میں میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہیں کی تو پنجاب حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو مطلع کرنے کی زحمت بھی گنوارہ نہیں کی۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر پنجاب حکومت اپنے ضمانت میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کرتی تو اس پر عدالت نیب کے حکام کو کہہ سکتی تھی کہ وہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر سابق وزیر اعظم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں نیب احتساب عدالت کے ایڈمنسٹریٹیو جج کو اس بارے میں درخواست دے سکتی تھی جس میں میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا جانا بھی شامل ہوسکتا تھا۔
050529_iraq_tortutred
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/05/050529_iraq_tortutred
عراق: تشدد کے واقعات جاری
عراق میں پولیس کا کہنا ہےکہ شام کی سرحد کی قریب صحرا میں دس شیعہ زائرین کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ خیال کیا جارہا ہےکہ ان افراد کو شام سے واپس آتے ہوئے ہلاک کیا گیا۔
پولیس کے مطابق ان زائرین کو آنکھوں میں پٹی باندھ کر سر میں گولی ماری گئی اور ان کی لاشوں پر تشدد کے نشانات بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تشدد کے دیگر واقعات میں شمالی شہر سنجر میں دو خود کش حملوں میں سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے شیعہ زائرین کو اس علاقے میں مارا گیا ہے جہاں امریکی فوج نے مزاحمت کاروں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ ایک ماہ پہلے وجود میں آنے والی عراق کی نئی حکومت کو ملک میں تشدد کی ایک بڑی لہر کا سامنا ہے جس کے ذریعے فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک تقریباً سات سو عراقی باشندے ہلاک ہوچکے ہیں۔
pakistan-47020899
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47020899
آسیہ بی بی کی توہینِ مذہب کے مقدمے میں بریت کا فیصلہ برقرار
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی توہین مذہب کے مقدمے میں بریت اور رہائی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
آسیہ بی بی کے وکیل کے مطابق وہ اس وقت اپنے شوہر کے ہمراہ ایک نامعلوم مقام پر موجود ہیں نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ محض جھوٹے بیانات کی بنیاد پر کسی کو پھانسی نہیں چڑھایا جا سکتا۔ مدعی مقدمہ قاری سالم کی طرف سے دائر کی گئی اس اپیل میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت عظمی کی طرف سے 31 اکتوبر سنہ 2018 کو دیے گئے فیصلے میں ان حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کی بنیاد پر ماتحت عدالتوں نے آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی تھی۔ آسیہ بی بی کے حوالے سے مزید پڑھیے آسیہ بی بی کیس اور پاکستان میں توہینِ مذہب آسیہ بی بی کی بریت اور پاکستان میں احتجاج پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ 'پاکستان آسیہ کے تمام قانونی حقوق کا مکمل احترام کرتا ہے' آسیہ، باجوہ اور خونی لبرل آسیہ بی بی کے شوہر کی مغربی ممالک سے پناہ کی اپیل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بارے میں کسی خامی کی نشاندی کرنے سے قاصر رہے جس کے تحت عدالت اپنے کیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ نامہ نگار کے مطابق منگل کو درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ توہین مذہب کا معاملہ نہ ہوتا تو عدالت جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج کرتی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی ایسی مقدمے میں جہاں کسی شخص کو سزائے موت دی گئی ہو لیکن گواہان کے بیانات جھوٹے ہوں تو عدالت ان گواہان کا سمری ٹرائل کر کے انھیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے۔ عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ گواہان کے اپنے بیانات میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔ سپریم کورٹ سے نامہ نگار شہزاد ملک کا فیس بک لائیو سماعت کے آغاز میں جب عدالت نے درخواست گزار کے وکیل غلام مصطفی چوہدری سے استفسار کیا کہ پہلے وہ عدالت کو اس بات پر مطمئن کریں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایسی کون سی خامیاں ہیں جنھیں بنیاد بنا کر اُنھوں نے نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دیا جائے اور اس بینچ میں وفاقی شریعت کورٹ کا جج بھی شامل کیا جائے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے عدالت کو اس بات پر مطمئن کریں عدالت عظمی کے فیصلے میں کوئی خامیاں موجود ہیں۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو سپریم کورٹ کا 31 اکتوبر کا فیصلہ پڑھنے کو کہا جس میں آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے مقدمے میں بری کردیا گیا تھا۔ درخواست گزار کے وکیل غلام مصطفی چوہدری سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے لکھے گئے فیصلے کا حوالہ دینے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اُن کے الزامات کا جواب دینے کے لیے سابق چیف جسٹس بینچ کا حصہ نہیں ہیں اس لیے بہتر ہے کہ اس بارے میں بات نہ کی جائے اور صرف فیصلے پر ہی توجہ مرکوز کی جائے۔ عدالتی حکم پر درخواست گزار کے وکیل نے تمام فیصلے کو دوبارہ پڑھا اور سپریم کورٹ کا بینچ ہر ہر پیراگراف پر وکیل سے پوچھتا رہا کہ کیا اس میں خامی ہے جس پر غلام مصطفی نفی میں جواب دیتے۔ عدالت نے اس مقدمے میں گواہوں کی اہلیت پر سوالات اُٹھائے اور کہا کہ قران پر حلف دینے کے باوجود مدعی مقدمہ سمیت جتنے بھی سرکاری گواہوں نے بیانات دیے وہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔ آسیہ بی بی کے خاوند عاشق مسیح کے بارے میں سیف الملوک کا کہنا تھا کہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ رہے ہیں بینچ کے سربراہ نے مدعی مقدمہ قاری سالم کی اہلیت پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کیسے امام مسجد ہیں جو خود مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست بھی نہیں لکھ سکتے اور جس وکیل سے اُنھوں نے درخواست لکھوائی اس کا نام بھی وہ نہیں جانتے تھے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے بھی اس مقدمے میں اپنا کام ایمانداری سے نہیں کیا اور محض ایک سب انسپکٹر کو توہین مذہب کے مقدمے کی تفتیش سونپ دی گئی جبکہ قانون میں درج ہے کہ ایس پی رینک کا افسر ہی توہین مذہب کے مقدمے کی تفتیش کرسکتا ہے۔ عدالت نے غلام مصطفی چوہدری سے کہا کہ وہ ایسے سرکاری گواہوں کے خلاف کارروائی تجویز کریں جنھوں نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے نظرثانی کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا نکتہ رہ گیا ہو جو کہ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں نظرانداز کیا ہو تو پھر ہی عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ماتحت عدالتوں نے توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ مسیح کو موت کی سزا سنائی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ بی بی کو بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ مدعی مقدمہ عبداسلام (بائیں جانب) اور ان کے وکیل غلام مصطفیٰ سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں آسیہ بی بی پر عائد الزامات کے خلاف گواہوں کے بیانات میں تضاد کو ایک وجہ بتاتے ہوئے انھیں بےقصور قرار دیا تھا۔ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جو دعویٰ کرتا ہے، ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 'پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ثابت کرے۔ جس جگہ بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے۔' آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کے افراد کہاں ہیں؟ کمرہ عدالت سے نکلنے کے بعد آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ توہین مذہب کے مقدمے میں عدالت عظمی سے رہائی پانے کے باوجود ان کی موکلہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک کے متعدد عملائے کرام نے آسیہ بی بی کے قتل کے فتوے جاری کر رکھے ہیں اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ بیرون ملک چلی جائیں۔ سیف الملوک کا کہنا تھا کہ اگرچہ خود ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ پاکستان میں ہی رہیں گے۔ رہائی پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بیٹیاں اب کینیڈا منتقل ہو گئی ہیں (فوٹو فائل) آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک یہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ آسیہ کی دونوں بیٹیاں کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں تاہم وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ایک نامعلوم مقام پر موجود ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیف الملوک نے یہ بھی کہا کہ آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ اس خاندان کے ترجمان جوزف ندیم کے اور ان کے اہلخانہ بھی کینیڈا منتقل ہو گئے ہیں۔ سیف الملوک کے مطابق یورپی ممالک نے جوزف ندیم اور ان کے اہلخانہ کو ویزہ دینے یا اُنھیں مستقل سکونت دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم کینیڈا کی حکومت نے آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ جوزف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی سکونت اختیار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ آسیہ بی بی کے خاوند عاشق مسیح کے بارے میں سیف الملوک کا کہنا تھا کہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ رہے ہیں تاہم انھوں نے اس مقام یا علاقے کی نشاندہی نہیں کی جہاں پر یہ دونوں آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد مقیم ہیں۔ آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے رد عمل آسیہ بی بی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے کرنے والی مذہبی اور سیاسی جماعت تحریک لبیک کے مرکزی قائم مقام امیر علامہ ڈاکٹر شفیق امینی نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے آسیہ بی بی کیس کی نظر ثانی درخواست کے لیے بنائے گئے بینچ کو مسترد کیا ہے۔ پیغام میں کہا گیا کہ اگر آسیہ بی بی کو جوڈیشل ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ موجودہ بینچ کو تحلیل کرکے یقین دہانی کے مطابق لارجر بینچ تشکیل دیا جائے کیونکہ حکومت نے لارجر بینچ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور بینچ میں شریعہ کورٹس کے ججز شامل کرنے کی یقین دہانی بھی کرانے کے ساتھ ساتھ نظرثانی اپیل کی سماعت کے وقت علما کی معاونت بھی طلب کیے جانے کا کہا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر شفیق امینی کا کہنا تھا کہ ملکی سکیورٹی کے لیے فوجی عدالتیں بنائی جاسکتی ہیں تو ناموس رسالت کے مقدمے میں شریعہ کورٹس کے ججوں کو کیوں طلب نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے خلاف تو ہم نے صبر کیا، لیکن اب بات بڑھ کر ہمارے ایمان کی آگئی، کوئی ہم سے سمجھوتے کی توقع نہ رکھے۔‘ گذشتہ سال 23 نومبر کو تحریک لبیک پاکستان کے قائد خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کے علاوہ دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس حساس کیس میں حکومت اور مقتدر ادارے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں اور پنجاب اسمبلی کے باہر ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔ خیال رہے کہ آسیہ بی بی کی بریت کے بعد اس جماعت کی قیادت کی طرف سے آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ دینے والے جج صاحبان اور فوج کی قیادت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں توہین آمیز الفاظ بھی کہے گئے تھے۔ اس کے بعد 23 نومبر کو جماعت کے قائد خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کے علاوہ دیگر رہنما کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور اب وہ غداری سمیت مختلف مقدمات میں نامزد ہونے کی وجہ سے ان دنوں مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف حکومت کے اس اقدام پر حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سماعت کے موقعے پر سپریم کورٹ اور ریڈ زون میں کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں سماعت سے قبل سکیورٹی انتظامات سخت آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ملک میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے موقعے پر سپریم کورٹ اور ریڈ زون میں کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے تھے۔ عدالت عظمیٰ میں صرف ان افراد کو جانے کی اجازت تھی جن کے مقدمات کی سماعت ہونا تھی۔ اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں بھی پولیس اور رینجرز کی گشت بڑھا دی گئی تھی۔
040406_orly_omenya5_am
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/photoassignment/story/2004/04/040406_orly_omenya5_am
پانچواں خط: خون کا حساب
آمنیہ النجار مصر کے شمالی شہر سکندریہ میں ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ اورلی نوائے ایک ایرانی نژاد اسرائیلی صحافی ہیں جو یروشلم میں رہتی ہیں۔ دونوں کام کرنیوالی خواتین ہیں، مائیں ہیں، لیکن دونوں کی دنیا تشدد، سیاست اور مذہب کی وجہ سے مختلف ہے۔ بی بی سی نے ان دونوں کا ای میل کے ذریعے رابطہ کرایا۔ یہ اس سلسلے کی پانچویں کڑی ہے۔
ہائے آمنیہ، اگرچہ خون کے حساب کتاب سے مجھے انتہائی نفرت ہے لیکن تمہاری انتیس جنوری کی ای میل کے بعد یروشلم میں میرے گھر سے دو سڑکیں دور ایک بس پر کیے گئے خودکش حملے میں بارہ لوگ ہلاک ہوئے اور پچاس سے زائد کو اسپتال پہنچایا گیا۔ اس سے کیا غزہ میں پیش آنے والا واقعہ حق بجانب ثابت ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ کیا اس سے پیچیدگی بڑھے گی؟ میرے خیال میں بڑھے گی۔ تمہارا پوچھنا ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں ہر فریق کو پہلے تو یہ کرنا ہو گا کہ وہ صرف اپنے حامیوں کی لاشوں کی تعداد نہ دیکھے بلکہ دوسرے فریق کو پہنچنے والے دکھ کو بھی سمجھے۔ میرے ان خیالات کی وجہ سے کہ فلسطینی علاقوں پر سے قبضہ جلد از جلد ختم ہونا چاہئے اور یہ قبضہ ہر طرح سے غلط ہے، فلسطینیوں کی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں ایسے تمام لوگوں میں سے خاص طور پر تمہیں، جو چیزوں کو ان کے اصل نام سے پکارنے پر زور دیتے ہیں، یہ سمجھنا چاہئے کہ بچوں اور شہریوں سے بھری بس کو خودکش کارروائی سے اڑانے کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میں اسرائیلی پالیسی کو جائز قرار دینے کی کوشش نہیں کر رہی بلکہ میں اس کی سخت مخالف ہوں۔ لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ ہمیں حقیقت پر غور کرنا چاہئے ورنہ یہ محض کھوکھلے نعرہ بن کر رہ جائے گی اور آگے بڑھنے کا امکان معدوم ہو جائے گا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ شدت پسندوں کو ان پرتشدد کارروائیوں کا اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی کے حوالے سے ایک سا فائدہ ہوتا ہے۔ خودکش حملے سے اسرائیل کو غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں گھس کر ظلم کرنے کا بہانہ ملتا ہے جس کے نتیجے میں حماس، اسلامی جہاد اور دیگر تنظیمیں اسرائیلی کارروائی کی بنا پر مزید خودکش حملے کرتی ہیں اور ایک انتہائی ’خطرناک چکر‘ شروع ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں اسرائیل ہی امن معاہدہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ فلسطینی عوام میں بھی بہت سے گروہ امن معاہدے کے خلاف ہیں۔ جب بھی تعلقات کے فروغ کا امکان پیدا ہوا، فلسطین کی جانب سے دہشت گرد کارروائی میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ امن کے فروغ میں رکاوٹ ڈالنے کی یہ دانستہ کوشش تھی۔ میرے خیال میں اس طرح کا کوئی بھی اقدام اسرائیلی پالیسی کو جائز نہیں ٹھہراتا البتہ اس تنازعہ اور لڑائی پر بحث کرتے ہوئے یہ نقطۂ نظر، نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ میرے پرچے اچھے ہوئے، شکریہ، میں اپنے کام میں خاصی مصروف رہتی ہوں۔ ہم تقریباً دوہفتوں میں نشریات شروع کر دیں گے اور ابھی بہت کام باقی ہے۔ یہ اسرائیل کا پہلا ریڈیو ہوگا جس کی نشریات دو زبانوں عربی اور عبرانی میں ہوں گی۔ جیو!اورلی ہیلو اورلی، مجھے امید ہے کہ تم بخیریت ہو۔ میں تمہیں کل اس لئے جواب نہیں دے سکی تھی کیونکہ جمعہ کو گھر والوں کے ساتھ عموماً خاصی مصروفیت رہتی ہے۔ تم نے خون کے حساب کتاب کا ذکر کیا تھا اور تمہاری آخری دو ای میلوں سے ’ہم تمہارے خلاف ہیں‘ کا سا تاثر ملتا ہے۔ تم محسوس کرتی ہو کہ میں یہ نہیں سمجھتی کہ فلسطینیوں کے خلاف بھی تشدد جاری ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ میں یہ اچھی طرح سمجھتی ہوں۔ لیکن جب فلسطینی علاقے پر قبضہ کیا جائے گا تو تم ایسے وقت میں کیا توقع کر سکتی ہو؟ تمہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تم بحیثیت اسرائیلی کبھی بھی ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہوئی کہ تمہارے علاقے پر قبضہ کیا گیا ہو۔ اگر ہمیں چیزوں کو ان کے اصل نام سے پکارنا ہے تو ہمیں قومی مزاحمت کے نظریے کو سمجھنا ہو گا۔ کیونکہ یہ ایک ایسا جائز آلہ ہے جسے دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی سالمیت کو خطرے کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قومی مزاحمت کا قطعی خاتمہ ، قبضے کے اختتام پر ہی ممکن ہے۔ خودکش حملے کرنے والوں کی انفرادی حیثیت ہے اور وہ فلسطینی ریاست کی نمائندگی نہیں کرتے۔ غزہ میں پیش آنے والے واقعات اور اس سے پہلےجنین اور ہِبرون میں ہونے والے واقعات اسرائیلی کارگزاری کی ترجمانی کرتے ہیں۔ میں (دونوں فریقوں کے) انتہا پسندوں سے پرتشدد کارروائیوں کی توقع تو کرسکتی ہوں لیکن ریاست کی سرپرستی میں دہشتگردی کیے جانے کو ہرگز جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تم نے خطرناک چکر کا ذکر کیا ہے۔ میرے خیال میں اگر فلسطینیوں کو علیحدہ ریاست کے علاوہ انہیں حق خودارادیت اور اپنی ریاست کی سلامتی کے امور سونپ دیے جائیں تو یہ خطرناک چکر ٹوٹ سکتا ہے۔ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کس طرح کی امن مفاہمت ہوتی ہے۔ کیا یہ ایک ایسی مفاہمت ہوگی جو دونوں فریق کو مطمئن کردے یا یہ صرف اسرائیلی مفاد کے حق میں ہوگی؟ اگر تشدد کی کارروائیاں ختم کرنی ہیں تو فلسطینی علاقوں پر قبضہ بھی ختم کرنا ہوگا۔ دوسری بات یہ بھی اہم ہے کہ کسی بھی امن معاہدے میں ساتھ ساتھ رہنے کی خواہش کا عنصر ہے یا نہیں؟ کیا ایسے معاہدے میں فلسطینیوں کے وجود کا احترام کرنے کی خواہش بھی ہے؟ اس میں کئی مسئلے ہیں، مثال کے طور پر، یروشلم کی حیثیت، فلسطینی رفیوجیوں کی (اسرائیل میں) وطن واپسی، یہودی بستیاں، پانی کے وسائل، (اسرائیل کی) داخلی سیکیورٹی، وغیرہ۔ دونوں فریق کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ امن ہی واحد راستہ ہے۔ لیکن کوئی فریق بھی زمین کے سوال پر کھلے مذاکرات کے بغیر امن نہیں چاہتا۔ اس میں جتنی دیری ہوتی ہے، دونوں طرف اتنے ہی لوگ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ سلامآمنیہ
080502_naik_explain_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/05/080502_naik_explain_sen
بحالی قرار داد کے ساتھ آئینی پیکج
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بارہ مئی کو قومی اسمبلی میں ججوں کی بحالی کی قرارداد لائی جا رہی ہے تاہم جمعہ کی شب ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرارداد کے ساتھ ہی ایک آئینی پیکج بھی لایا جائےگا جس میں عدالتی اصلاحات سمیت بہت سی اور چیزیں بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج پر آصف زرداری اور نواز شریف مل کر روشنی ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے معاملے میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس کا مقصد اتفاق رائے سے اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ ان کے مطابق ’تاخیر ملک کی سالمیت اور بقاء کے لیے ہو رہی ہے تاکہ اس ملک میں پھر آمریت نہ آئے، ایک صحیح و آزاد عدلیہ آئے، تاخیر اس لیے نہیں ہو رہی کہ کسی کی نیت نہیں ہے۔ سب کی نیت ہے، سب یہی چاہتے ہیں کہ ججز بحال ہوں مگر ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ کوئی تصادم نہ ہو اور سب مل جل کر اس مسئلے کو حل کرلیں‘۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد پیش کرنے سے پہلے حکمران اتحاد میں شامل دوسری جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ سے بھی بات کی جائے گی اور انہیں بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ ادھر پاکستان بار کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ وکلاء ججز کی بحالی کے معاملے میں ’انتظار کریں اور دیکھیں‘ کی پالیسی اپنائیں گے۔ جمعہ کو اسلام آباد میں ہونے والے بار کونسل کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکمران اتحاد کی جانب سے آئینی پیکج کے ذریعے ججز کی مدت ملازمت کم کرنے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کی جائے گی۔ وکلاء تحریک کے رہنما جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے بتایا کہ ہفتہ کو وکلاء ایکشن کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا گیا ہے جس میں اس بات پر غور ہوگا کہ اگر اعلی عدالتوں کے موجودہ ججوں کو برقرار رکھا جاتا ہے تو کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔
150110_washington_diary_tim
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/01/150110_washington_diary_tim
’ابوبکر البغدادی کا ریٹ بھی 1 کروڑ ڈالر‘
نیا سال آپ سب کو مبارک ہو۔ واشنگٹن میں اس نئے سال میں ایک نئی نویلی ریپبلكنز اکثریت والی کانگریس نے کیپٹل ہل کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ کالج کے فرسٹ ایئر کے سٹوڈنٹس کی طرح کانگریس میں پہلی بار منتخب ہوکر آنے والے اراکین آنکھیں پھاڑے کبھی باتھ روم تو کبھی کینٹین تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
امریکہ نے ابوبکر البغدادی کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہے لیکن ان چھوٹی چھوٹی مشکلات کے باوجود جوش میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ان فریشرز یا جنہیں ہم کالج کے زمانے میں فچّہ کہتے تھے، ان کی کمان کانگریس کے بڑے رہنما مچ میكانل کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن وہ بھی پہلی بار سینیٹ میں اکثریت کے لیڈر بنے ہیں۔ کلاس کے نئے نئے مانیٹر کی طرح آتے ہی انہوں نے اثر و رسوخ جمانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ حلف اٹھائے ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ مانیٹر صاحب نے اعلان کر دیا کہ ریپبلكنز کے آتے ہی امریکی معیشت میں ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ دراصل اسی دن گزشتہ برس کی سہ ماہی کے کچھ اعداد و شمار سامنے آئے تھے اور میكانل صاحب نے موقع پاتے ہی چوکا لگا دیا۔ بیچارے اوباما اندر ہی اندر کیسے پیچ و تاب کھارہے ہوں گے اس کا اندازہ آپ لگا ہی سکتے ہیں۔ ویسے بھی نئی نویلی کانگریس نئے سال میں ان کی راہ میں روڑے اٹكانے کے نئے نئے طریقے تلاش کرے گی کیونکہ اگلی منزل تو اب 2016 کے صدارتي انتخابات ہیں۔ نئے سال میں آپ نے بھی اب تک اپنے گھروں میں مٹھائی والے، پرچون والے یا پھر ہمدرد دواخانے کا اشتہار والا کیلنڈر کسی نہ کسی کونے میں ٹانگ دیا ہوگا۔ مچ میکانل امریکی سینٹ میں اکثریتی جماعت کے رہنما ہیں واشنگٹن میں بھی نیا کیلینڈر آ گیا ہے جو گزشتہ گیارہ برسوں سے ’نیشنل كاؤنٹر ٹیرارزم سینٹر‘ یعنی انسدادِ دہشت گردی کے قومی سینٹر کی جانب سے جاری ہوتا ہے۔ ان کی ویب سائٹ یا ہمارے دفتر میں ابھی تک اس کی کاپی نہیں آئی ہے۔ لیکن میڈیا کی بعض نامي گرامي شخصیات تک پہنچ گئی ہے۔ ان سے پتہ چلا ہے کہ صفحۂ اوّل پر اس بار بھی القاعدہ کے سربرا ایمن الظواہری ہی موجود ہیں اور ان پر انعام بھی پچیس ملین ڈالر ہی ہے۔ لیکن اس کیلینڈر میں پہلی بار اپنا اکاؤنٹ کھولا ہے ’دولتِ اسلامیہ‘ کے رہنما ابو بکر البغدادی نے۔ مبارک ہو بغدادی صاحب۔ لیکن ان پر انعام بس دس ملین ڈالر کا ہی ہے۔ اب انہوں نے اتنے لوگوں کا قتل کروایا ہے، کسی کو جنت بھیجا ہے تو کسی کو جہنم اور صرف دس ملین ڈالر؟ یہ ریٹ تو حافظ سعید جیسوں کا ہے جو کھلے عام نظر آتے ہیں اور پھر بھی امریکہ کہتا ہے کہ پكڑوانے والے کو دس ملین ڈالر ملیں گے۔ آج کل ہر جگہ کفایت شعاری یا کٹوتی کا ماحول ہے تو لگتا ہے کہ بغدادی بھی اسي كي زد میں آ گئے ہیں۔ ظواہری کا ریٹ پہلے سے چلا آ رہا ہے تو وہ کٹوتی سے بچ گیا۔ مران خان صاحب کا پتہ کرنا ہوگا کہ ان دنوں بھی کنٹینر پر ہی رات گزارتے ہیں یا شام کو گھر واپس لوٹنے لگے ہیں ویسے کیلنڈر ہے کام کی چیز، دنیا بھر کے شدت پسندوں کی جنم پتري کے ساتھ ساتھ کہاں کہاں بم دھماکے ہوئے، آج کل کس طرح کے بم فیشن میں ہیں یہ ساری تفصیل اس میں شائع ہوئی ہے۔ اور قیمت صرف بیس ڈالر ہے۔ کچھ دن میں بازار میں آ جائےگا تو خرید لیجیےگا۔ باقی تو نئے برس میں سب کچھ فی الحال پہلے جیسا ہی نظر آ رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان اسی جوش سے ایک دوسرے پر گولیاں اور گالیاں برسا رہے ہیں، امریکہ پہلے جیسی ہی معصومیت کے ساتھ دنیا کو صحیح راستہ دکھانے میں لگا ہوا ہے، بھارتی ٹیم غیر ملکی پچوں پر ہمیشہ کی طرح میچ گنوا رہی ہے، کم كارڈاشيان انٹرنیٹ توڑنے کے بعد اب کچھ اور توڑنے کا سوچ رہی ہیں، عمران خان صاحب کا پتہ کرنا ہوگا کہ ان دنوں بھی کنٹینر پر ہی رات گزارتے ہیں یا شام کو گھر واپس لوٹنے لگے ہیں کیونکہ اب تو نئی نویلی دلہن پوچھنے کو موجود ہیں کہ چن کتھاں گزاری ای رات وے؟
040929_pak_arrests
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/09/040929_pak_arrests
پاکستان میں دو عربوں کی تلاش
پاکستان میں سینیئر سکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ امجد فاروقی کی ہلاکت کے بعد سے ملک میں ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب انہیں ان کے دو عرب نژاد ساتھیوں کی تلاش ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پشاور اور دیگر حصوں سے کئی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امجد فاروقی کا القاعدہ سے رابطہ لیبیا کے ایک باشندے ابو فراج کے ذریعے تھا۔ ابو فراج کے بارے میں حکام کا خیال ہے کہ اب وہ قبائلی علاقے میں کہیں روپوش ہیں اور ان کا پاکستانی انتہا پسندوں سے رابط منقطع ہے۔ حکام کو ایک مصری باشندے حمزہ عربی کی بھی تلاش ہے جو مبینہ طور پر پاکستان کی سر زمین کو دیگر ممالک میں القاعدہ کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے رہے تھے۔
041018_afghan_blast_am
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2004/10/041018_afghan_blast_am
افغانستان: بم حملے میں پانچ ہلاک
اقوام متحدہ کے ترجمان مانوئل المیڈا ڈسلوا کے مطابق جنوب مشرقی افغانستان میں الیکشن کے عملے کے زیر استعمال ایک گاڑی پر ہونے والے بم حملے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
مانوئل المیڈا ڈسلوا کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم ایک الیکشن کے امور کا افسر تھا۔ یہ واقعہ صوبہ پکتیکہ میں پیش آیا جہاں خاصے عرصے سے کشیدگی جاری ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ حملہ دانستہ طور پر کیا گیا تھا یا نہیں؟ یہ حملہ افغانستان میں نو اکتوبر کے انتخابات کے بعد کیا گیا ہے۔ افغانستان کے طالبان نے کی دھمکیوں کے باوجود وہ انتخابات میں رکاوٹ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
pakistan-50198327
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50198327
اسلام آباد ہائی کورٹ کا پیمرا پر اظہارِ برہمی، توہینِ عدالت کیس میں تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ٹی وی اینکر پرسنز کے دوسرے پروگرامز میں بطور تجزیہ کار شرکت پر پابندی کے نوٹیفیکیشن پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا کو تحریری موقف جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا اتھارٹی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس کا کردار اچھا ہے اور وہ ٹی وی پر آ سکتا ہے؟ بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس بات کا اختیار کس نے دیا کہ آپ کہیں کہ ایک اینکر کسی دوسرے پروگرام میں نہیں جائے گا؟ یاد رہے کہ عدالت نے سنیچر کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر ٹی وی چینلز پر ہونے والے تبصروں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ٹی وی اینکرز کو طلب کیا تھا۔ منگل کو ہونے والی عدالتی کارروائی اسی سلسلے کا تسلسل تھی۔ یہ بھی پڑھیے ٹی وی پر کون آئے گا، کیا پیمرا یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟ کیا پیمرا نے فضل الرحمان کی پریس کانفرنس بند کروائی؟ پیمرا: ’حمد اللہ پاکستانی نہیں، ٹی وی پر مدعو نہ کیا جائے‘ ٹی وی چینل اور ریٹائرڈ فوجی پیمرا کا متنازع ہدایت نامہ: کب کیا ہوا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا اتھارٹی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس کا کردار اچھا ہے اور وہ ٹی وی پر آ سکتا ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ 'عدالت میں زیر سماعت کیس پر کوئی یہ تاثر دے کہ پیسے چل گئے ہیں اور ڈیل ہو گئی ہے تو یہ [کوڈ آف کنڈکٹ کی] خلاف ورزی ہے اور آپ اس بات پر شوکاز نوٹس جاری کر سکتے ہیں۔' چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے کہا کہ ’آپ نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو لائیں، ہو سکتا ہے کہ ایک ان پڑھ مزدور بہت زیادہ وزڈم (دانائی) رکھتا ہو۔‘ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے کہا کہ ’آپ نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو لائیں، ہو سکتا ہے کہ ایک ان پڑھ مزدور بہت زیادہ وزڈم (دانائی) رکھتا ہو۔‘ اس پر چیئرمین پیمرا نے کہ انھوں نے صرف عدالت میں زیرِ سماعت معاملے کے حوالے سے ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ایسی بات پر آپ متعلقہ چینل کا لائسنس منسوخ کریں۔‘ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے کہا کہ ’آپ نے بظاہر توہین عدالت کی ہے۔ اگر آپ کو کوئی ابہام تھا تو آپ درخواست دائر کر کے عدالت سے پوچھ سکتے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’قانون میں بتا دیں کہ پیمرا کوئی ہدایت نامہ جاری کر سکتا ہے؟ آپ کے پاس بہت اختیارات ہیں مگر اس طرح کی ہدایات دینے کا اختیار نہیں۔‘ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا کو حکم دیا کہ تحریری جواب دیں کہ عدالت کو اس معاملے میں کیوں گھسیٹا گیا۔ پہلے ہدایت نامے میں کیا کہا گیا تھا؟ پیمرا کے مراسلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ یہ ہدایات اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سنیچر کو جاری کیے جانے والے احکامات کی روشنی میں جاری کی گئی ہیں۔ نئے ہدایت نامے میں پیمرا کا موقف مگر اس ہدایت نامے پر صحافتی حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد پیر کے روز پیمرا نے ٹی وی چینلز پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں کے حوالے سے ایک وضاحت جاری کی۔ ’واٹس ایپ پر ہدایت آتی ہے کس کو دکھانا ہے کس کو نہیں‘ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹی وی اینکر پرسن اور صحافی محمد مالک کو اپنے پروگرام کا ٹرانسکرپٹ اور سی ڈی جمع کروانے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ عدالت ایک فیصلہ کرتی ہے تو اس جج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ ملک میں ’غیر اعلانیہ سینسر شپ لگی ہوئی ہے، ایک فون کال یا وٹس ایپ کے ذریعے میسج آتا ہے کہ کس کو دکھانا ہے اور کس کو نہیں۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے سامنے پروگرام چلائے جائیں گے اور وہ بتائیں گے کہ یہ توہین عدالت ہے یا نہیں۔ توہینِ عدالت کا معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟ واضح رہے کہ سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک غیر معمولی عدالتی کارروائی دیکھنے میں آئی جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کی رہائی کی درخواست کی سماعت میں بنچ نے فریقین سے پہلے کچھ صحافیوں کو روسٹرم پر بلایا۔ عدالت میں موجود صحافیوں میں حامد میر، محمد مالک، عامر متین، کاشف عباسی، ارشد شریف اور سمیع ابراہیم شامل تھے۔ جسٹس من اللہ نے پیمرا کے نمائندے سے کہا 'آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں' اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’جناب یہ مقدمہ ابھی ہم سن رہے ہیں اور آپ اس پر تبصرے اور ڈیل کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ بتائیں کہ یہ ڈیل کون کر رہا ہے اور کیا ہم بھی اس ڈیل کا حصہ ہیں؟ کیا اشارہ وزیر اعظم یا عسکری اداروں کی طرف ہے؟‘ جسٹس من اللہ نے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے کچھ تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ وہ کس ڈیل کی بات کرتے ہیں تاہم صحافی نے جواب میں خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ چیئرمین پیمرا کی جانب سے ان کا ایک نمائندہ عدالت میں پیش ہوا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ان سے پوچھا ’آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں؟ انجوائے کرتے ہوں گے کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے؟‘ جسٹس من اللہ نے کہا ’آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔‘ سماعت کے اختتام پر عدالت نے سمیع ابراہیم کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میڈیا کے ان تبصروں سے متعلق پوچھ گچھ آئندہ سماعت میں بھی جاری رکھے گی تاہم ایک صحافی کے علاوہ کسی اور کے خلاف ابھی توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ ’ججز اور صحافیوں کی حدیں متعین ہیں‘ یہ بحث ایک عرصے سے چلی آ رہی ہے کہ آخر میڈیا کو کس حد تک اس طرح کے زیر التوا مقدمات پر تبصرے اور تجزیے کرنے کا حق حاصل ہے۔ تو اس بارے میں سینئیر صحافی اور سابق ججز کیا رائے رکھتے ہیں؟ عبدالشکور پراچہ وفاقی سیکرٹری قانون اور جج رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار اعظم خان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح ججز کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح صحافیوں کی بھی ایک خاص حد متعین ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح کی صورتحال میں ججز کی حد پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تک ہے۔ ان کے خیال میں اگر کسی صحافی نے توہین عدالت کی ہے تو پھر اسے بلایا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ سینیئر صحافی محمد ضیا الدین رات آٹھ سے 11 بجے والے شوز کو اس طرح کی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ٹی وی شوز سے پہلے اس قانون پر سختی سے عمل ہوتا تھا جس کے تحت زیر التوا مقدمات کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا ہے۔ سابق جسٹس ناصرہ جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دور میں یہ بتایا جاتا تھا کہ بطور جج آپ کو اخبار تک نہیں پڑھنا چائیے۔ لیکن اب دور تبدیل ہوگیا ہے۔ وہ اس کا ذمہ دار عدلیہ کو نہیں سمجھتیں۔ ان کے خیال میں ججز بھی انسان ہی ہوتے ہیں وہ کون سا مریخ سے اترے ہوئے ہیں۔ سینئیر صحافی محمد ضیا الدین رات آٹھ سے 11 بجے والے شوز کو اس طرح کی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تاہم ضیاالدین اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ وہ اس صورتحال کا ذمہ دار بھی ججز کو ہی قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں عدلیہ ہمیشہ میڈیا کے ساتھ ہی کھڑی رہی کیونکہ ان ٹاک شوز کے ذریعے انھیں بھی پروموشن مل جاتی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’اب مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ زیر التوا مقدمات تک پر تبصرے اور تجزیے اس انداز میں ہورہے ہوتے ہیں کہ جج کے ریمارکس کو نیا ہی زاویہ دے دیا جاتا ہے۔‘ ضیا الدین کا خیال ہے کہ زیر التوا مقدمات پر بحث نہ کرنے والے قوانین پر سختی سے عمل ہونا چائیے۔ عبدالشکور پراچہ کے خیال میں اس وقت صورتحال کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ ملکی ادارے ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’آئین میں اختیارات کا ایک توازن رکھا گیا ہے۔‘ خیال رہے کہ عام طور پر سنیچر کو عدالت مقدمات پر سماعت نہیں کرتی البتہ اگر کسی نے کوئی درخواست یا مقدمہ عدالت تک پہنچانا ہو تو دفاتر کھلے ہوتے ہیں۔ لیکن سنیچر کو تو چیف جسٹس اطہر من اللہ خود اس غیر معمولی مقدمے کی سماعت کررہے تھے۔ وہ پہلی سماعتوں پر بھی اس مقدمے کے ساتھ جڑے ’خصوصی حالات‘ کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔ یعنی عدالت کی طرف سے ہی اسے خاص مقدمہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کیس کی اگلی سماعت اب منگل کو دن ساڑھے گیارہ بجے ہو گی اور اس سماعت پر بھی میڈیا کردار زیر بحث رہے گا۔
061019_iraq_mosul_attack_uk
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/10/061019_iraq_mosul_attack_uk
عراق: تھانے پر حملہ، 12 ہلاک
عراق کے شہر موصل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک پیٹرول کے ٹینکر پر سوار خودکش حملہ آور نے ایک پولیس سٹیشن کو حملے کا نشانہ بنایا ہے۔
اطلاعات کے مطابق حملہ آور یہ ٹینکر تیزی سے تھانے کی طرف چلا کر لے جا رہا تھا جب پولیس والوں نے اس پر فائرنگ کردی اور تیل کا ٹینکر دھماکے سے اڑ گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم بارہ افراد ہلاک اور بیس زخمی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے کے ہلاک شدگان میں زیادہ تر عام شہری شامل تھے جو ایک قریبی پیٹرول سٹیشن پر اپنی گاڑیوں میں پیٹرول بھرنے کے لئے انتظار کر رہے تھے۔ دھماکے کے بعد موصول میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔موصل بغداد سے تقریباً ڈھائی سو میل شمال میں واقع ہے۔
sport-49693963
https://www.bbc.com/urdu/sport-49693963
چین قطر میں 2022 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے فٹبالر ’درآمد‘ کر رہا ہے
جب ستمبر میں چین نے قطر میں 2022 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے کوالیفائینگ میچ کھیلا تو سب کی آنکھیں دو کھلاڑیوں پر جمی ہوئی ہیں۔
فٹبالر ایلکسن برازیل میں پیدا ہوئے لیکن اب وہ چین کی قومی ٹیم کا بھی حصہ ہیں 26 برس کے نِکو یناریس لندن میں پیدا ہوئے تھے، جبکہ تیس برس کے ایلکسن چند مہینوں پہلے تک برازیل کے شہری تھے۔ دونوں چین کی چوبیس رکنی ٹیم کا حصہ ہیں جس نے ستمبر میں ہی مالدیپ میں پانچ کے مقابلے میں صفر سے میچ جیتا۔ مطالبے پر شہریت ایلکسن نے اپنے پہلے ہی میچ کے آخری حصے میں دو گول کر کے ٹیم کو کامیابی دلوائی۔ یہ چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک غیر ملکی نے چینی شہریت اختیار کر کے چین کے لیے کسی دوسرے ملک کے خلاف میچ کھیلا۔ لندن سے تعلق رکھنے والے ایک اور کھلاڑی یناریس کو اس میچ میں کھیلنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ یہ ایک بڑا قدم ہے۔ ایک ملک جس کی اپنی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے وہ سنہ 2002 کے بعد ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ’غیر ملکی‘ کھلاڑیوں کو اپنی قومی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’میری عمر میں کھلاڑی چین یا قطر جاتے ہیں‘ کیا پیسہ آپ کو ورلڈ کپ جتوا سکتا ہے؟ مارسیلو لِپی (مرکز میں) نے مبینہ طور پر چینی ٹیم کا دوبارہ کوچ بننے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو چینی شہریت دی جائے اس طرح کے خیال پر تو کئی مرتبہ بحث ہوئی ہے لیکن 2019 میں اس پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔ چینی ٹیم کے ہیڈ کوچ مارسیلو لِپی کے لیے ایک ٹیم بنانے کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں کو زبردست مالی فائدوں کے علاوہ، چینی شہریت دینا بھی ایک شرط تھی۔ اٹلی کے ورلڈ کپ جیتنے والے لیجینڈ نے اس وقت کوچ کا عہدہ چھوڑ دیا تھا جب چین کی مایوس کن کارکردگی کے بعد ایشیا کپ سے باہر ہو گیا تھا۔ لیکن وہ 119 دنوں کے بعد دوبارہ اسی عہدے پر واپس آگئے۔ تب سے غیر ملکی کھلاڑیوں کو چینی شہریت دے کر ٹیم میں شامل کرنا ایک بڑا موضوع رہا ہے۔ اگرچہ ایلکسن اور یناریس دو ایسے کھلاڑی ہیں جو قومی ٹیم میں شامل کر لیے گئے ہیں، تاہم صرف وہی دو ایسے کھلاڑی نہیں جنھوں نے گزشتہ چند ماہ میں چینی شہریت حاصل کی ہو یا لینے والے ہوں۔ انھوں نے ایسا کیسے کیا؟ فیفا کے چند اصولوں کے علاوہ، انھیں شاید مندرجہ ذیل چھ نکات پر غور کرنا ہوگا: 1- والدین میں سے کسی ایک کو چینی ہونا چاہیے ظاہر ہے کہ چین فٹ بال میں اپنی کارکردگی بہتر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنی چینی شناخت کو بدلنا نہیں چاہتا ہے۔ لہٰذا جن غیر ملکیوں کو چینی شہریت دی گئی ہے ان کا تعارف کس طرح کرایا جائے گا۔ چین نے اس کے لیے ان کے چینی ورثے کا سہارا لیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے فٹبال ورلڈ کپ: قطر میں مزدوروں کو واجبات نہیں ملے ’بحران کا 2022 فٹبال ورلڈ کپ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا‘ نِکو یناریس کے چینی ورثے نے ان کے کیس میں ان کی مدد کی اور اب وہ چین کے لیے کھیل رہے ہیں اس برس جنوری میں بیجنگ کی سِنوبو گوؤن فٹ بال کلب نے، جس کا چین کی مقبول ترین سُپر لیگز میں شمار ہوتا ہے، بڑے فخر سے نکو یناریس اور جان ہؤ سئیٹر کے ساتھ معاہدے کا اعلان کیا اور ان دونوں کو چینی کہہ کر متعارف کرایا گیا۔ اس طرح چین کی فٹ بال کی تاریخ میں یہ پہلے دو غیر ملکی کھلاڑی ہیں جو چینی شہریت حاصل کر چین میں فٹبال کھیلنے لگے۔ ان میں سے کوئی بھی اس سے پہلے چین میں نہیں رہا ہے، تاہم یہ دونوں اپنی اپنی چینی ماؤں کی وجہ سے چین کی قومی ٹیم کے لیے کھیلنے کے اہل قرار پائے ہیں۔ دونوں ہی نے چین میں چند ماہ کھیلنے کے بعد اس منصوبے پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ہؤ سئیٹر نے چینی میڈیا کو بتایا کہ ’میری ماں چین میں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ میرے خاندان کے لیے بڑا اعزاز ہوگا اگر میں چین کے لیے کھیلوں۔‘ جبکہ دوسری جانب یناریس نے کہا کہ ’مجھے تو ہمیشہ سے معلوم تھا کہ میری جڑیں چین میں ہیں‘۔ 2- کسی معروف یورپی کلب کا تربیت یافتہ ہونا اگرچہ چینی فٹ بال میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو چینی شہریت دینا ایک پالیسی بن گئی ہے، لیکن پھر بھی چین میں کھیلنے کے اس خواہش مند کو چینی کلب کے معیار کے مطابق ایک اچھا کھلاڑی ہونا چاہیے اور اس کے لیے بھی حکام کو کافی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت ترجیح یہ ہے کہ کسی طرح چین کی فٹبال ٹیم کو اس قابل کر دیا جائے کہ وہ ورلڈ کپ تک پہنچ جائے۔ آخری مرتبہ چین کی ٹیم 2002 میں ورلڈ کپ تک پہنچی تھی اور اس نے اپنے تین کے تین میچز کوئی بھی گول کیے بغیر ہارے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی انڈر ٹوئنٹی ٹیم 2005 سے اب تک کوالیفائی نہیں کرسکی ہے۔ چینی صدر فٹبال کے شوقین ہیں اور وہ فٹ بال کے فروغ کے لیے بہت بڑے منصوبے رکھتے ہیں چینی صدر شی جِن پِنگ نے نوجوانوں میں فٹبال کے فروغ کے لیے قومی سطح پر ایک بہت بڑا تربیتی نظام تشکیل دیا ہے۔ لیکن غیر ملکی کھلاڑی انھیں مختصر مدت کے لیے کامیابی دے سکتے ہیں۔ یناریس انگلینڈ کی ٹیم آرسنل کے تربیت یافتہ ہیں، جبکہ ہؤ سئیٹر نے ایک کم عمر کھلاڑی کی حیثیت سے ناروے کے فٹ بال کلب روزنبرگ سے اپنے کھیل کا آغاز کیا تھا۔ ان دونوں نے اپنے اپنے ممالک میں نوجوانوں کی ٹیموں میں کھیلا ہے۔ چینی سپر لیگ کے سات مرتبہ چیمپئین بننے والی گوانگ ژاؤ ایور گرانڈے نے انگلینڈ کے ٹائیس براؤننگ سے اسی برس فروری میں معاہدہ کیا، ان کے آنجہانی دادا مبینہ طور پر گونگ ڈانگ سے تعلق رکھتے تھے اور سنہ ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ ہجرت کر گئے تھے۔ چینی میڈیا نے جولائی میں یہ خبر دی تھی کہ انھوں نے چین کی شہریت اختیار کر لی ہے لیکن فیفا اس معاملے پر نظرثانی کر رہا ہے۔ 3- چینی کلب میں اچھی کارکردگی دکھائیے اس برس اگست میں چین ایک قدم اور آگے بڑھا اور اس نے برازیل کے کھلاڑی ایلکسن کو ٹیم میں شامل کر لیا۔ ان کا چین سے کوئی ثقافتی یا وراثتی تعلق بھی نہیں ہے لیکن وہ چین میں چھ برس سے کھیل رہے ہیں۔ ریکارڈو گولارٹ برازیل کے دوسرے کھلاڑی ہو سکتے ہیں جو شاید چین کے لیے کھیلیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر نسلی لحاظ سے چینی نہیں بھی ہیں تب بھی آپ کے لیے چینی قومی ٹیم کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔ اگرچہ ایک ایسے ملک کے لیے جس میں قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہو، اس کے اس طرح باہر سے کھلاڑیوں کو لانا ایک بڑی بات ہے۔ اس بڑے کھلاڑی کی اتنی بڑی مثال بننے کی وجہ کیا ہے؟ وہ چینی سپر لیگ میں سب سے زیادہ گول کرنے والا کھلاڑی ہیں، جنھوں نے 103 گول کیے ہیں۔ یوارگرانڈے کے ایک اور کھلاڑی ریکارڈو گولارٹ نے بھی کافی گول کیے ہیں اور مبینہ طور پر اپنا برازیلین پاسپورٹ ترک کردیا ہے اور اور چینی پاسپورٹ حاصل کرنے کے مراحل میں ہیں۔ 4- اپنی اصلی شہریت چھوڑ دیجیے ادھر لیونل میسی ہسپانوی پاسپورٹ رکھتے ہوئے ارجنٹائن کے لیے کھیل سکتے ہیں لیکن چین میں ایسا نہیں ہے۔ چین کے قوانین میں دوہری شہریت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مرتبہ چینی شہریت دے دی گئی تو آپ دوسرے ملک کا پاسپورٹ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایلکسن 2019 میں چین میں سالانہ ایک کروڑ دس لاکھ ڈالرز کمائیں گے چین میں غیر ملیکوں کے کام کی غرض سے جانے کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن برطانوی شہریت یا ناروے کی شہریت چینی پاسپورٹ کے لیے ترک کرنے کا فیصلہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتا ہے یا چین میں فٹبال میں خطیر رقم ملنے کے امکانات کا اشارہ دیتا ہے۔ دو ایک برس قبل چینی کلبز غیر ملکی کھلاڑیوں کو اتنی زیادہ رقم ادا کر رہے تھے کہ چین کی فٹبال ایسوسی ایشن نے غیر چینی کھلاڑی لانے پر سو فیصد ٹیکس عائد کرنا شروع کر دیا تھا۔ سنہ 2019 میں ایلکسن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ دس لاکھ ڈالرز ہے۔ اب تک انھیں کو برازیل میں ایک دوستانہ میچ کھیلنے کے لیے بلایا گیا ہے لیکن وہ اس میچ میں کھیلے نہیں۔ 5- آپ کا ایک چینی طرز کا نام ہونا چاہیے اگر ایک چینی کھلاڑی بہترین چینی زبان نہیں بولتا ہے تو کم از کم اس کا ایسا چینی نام ہونا چاہیے تاکہ چینی پرستار اس کے نعرے لگا سکیں۔ ہؤ سئیٹر (بائیں جانب) چینی شہریت اختیار کرنے کے بعد ہؤ یانگ یانگ بن گئے جن لوگوں کو نوے کی دہائی کے آخر یا اوائل کی ایشیئن فٹبال یاد ہے انھیں یاد ہوگا کہ جاپان نے بھی کھلاڑیوں کو شہریت دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ چین کے لیے بھی یہ ویسا ہی ہے لیکن تھوڑا مختلف بھی۔ نِکو یناریس کا چینی نام ’لی کے‘ ہے جو کہ ان کے انگلش نام کا ترجمہ ہے اور الیکسن اب ’آئی کیسن‘ ہیں۔ ہؤ سئیٹر چینی شہریت اختیار کرنے کے بعد ہؤ یانگ یانگ بن گئے ہیں۔ لیکن یہ ان کا اصل چینی نام ہے جو انھوں نے اپنی ماں سے لیا ہے۔ چینی قومی ترانہ سیکھنا اہم شرط ہے 6- چینی ترانہ سیکھنا لازم ہے ’قدم بڑھاؤ! قدم بڑھاؤ! قدم بڑھاو!‘ یہ چینی قومی ترانے کے الفاظ ہیں۔ شہریت ملنے والے ان کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی چینی نہیں بولتا لیکن ان سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ کم از کم ترانہ گا سکیں۔ چین کی فٹبال ایسوسی ایشن کے مطابق چینی ٹیم میں شامل ہونے والوں کے لیے یہ کم سے کم شرط ہے کہ وہ ایسا کر سکیں۔ اور ترانہ ہی نہیں بلکہ چین کے لیے میچ بھی جیت سکیں۔ اس لیے چین امید کر رہا ہے کہ ’مقامی کھلاڑیوں‘ اور ’غیر ملکی‘ کھلاڑیوں کی شمولیت سے سنہ 2022 میں قطر میں کم از کم چند مرتبہ تو چین کا قومی ترانہ سننے کو ملے گا۔
081127_pol_reaction
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/11/081127_pol_reaction
انڈیا میں لوگوں سے اتحاد کی اپیل
ممبئی میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کی سبھی سیاسی جماعتوں نے ایک زبان ہو کر سخت لفظوں میں مذمت کی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اہم رہنماؤں نے سیکورٹی فورسز، تفتیشی ایجنسیوں اور حکومت پر نکتہ چینی سے گریز کرتے ہوئے سبھی شہریوں سے متحد رہنے کی اپیل کی ہے ’تاکہ شدت پسندوں کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔‘
وزیر اعظم منموہن سنگھ نے حملوں کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہوئے ان حملوں کے بے حد افسوس ناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حملہ کرنے والے جو بھی ہیں اور ان کا تعلق جہاں سے بھی انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا یہ بہت ہی سوچا سمجھا حملہ تھا ’اور یہ ظاہر ہے کہ حملہ کرنے والے باہر کے ہیں۔ ‘ ادھر حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے عام شہریوں کو پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو تعاون دینا ہوگا۔ ملک کے وزیر داخلہ شِو راج پاٹل نے ایک بار پھر کہا ہے کہ شدت پسند بار بار حملے کر کے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسا ہونے نہیں دیا جائے گا اور ہمارا ملک مضبوط ہے اور سختی سے شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس یعنی یوپی اے اور کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے ان حملوں کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مشکل گھڑی ہے اور ایسے میں ملک کے سبھی شہریوں کو متحد رہنے کی ضرورت ہے‘۔ ان دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہندوستان کے دورے پر ہیں اور انہوں نے ممبئی حملوں کو وحشیانہ قرار دیا ہے اور کہا ’ہم ہر دن شدت پسندی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘ انہوں نےکہا کہ پاکستان میں بھی میرئیٹ ہوٹل پر اسی طرح کا دھماکہ ہوا تھا۔ ’ممبئی حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ میں ہندوستان کی حکومت اور عوام کے تئین ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔‘
pakistan-55790909
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55790909
ایمل کانسی: ’کاروبار‘ کے لیے امریکہ جانے والا پاکستانی شخص قاتل کیوں بن گیا؟
امریکی ریاست ورجینیا کے علاقے لینگلی میں سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کے مرکزی داخلی گیٹ کے سامنے ٹریفک سگنل پر ریڈ لائٹ جگمگاتی ہے اور گاڑیاں رُک جاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سوار بیشتر لوگ اکیلے ہیں، ماسوائے ایک جوڑے کے جن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔
اسی دوران ایک مسلح شخص گاڑیوں کے پیچھے سے برآمد ہوتا ہے اور فائرنگ شروع کر دیتا ہے۔ چند ہی لمحوں میں سی آئی اے کے دو اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہو جاتے ہیں۔ گاڑیوں میں موجود تین خواتین کو خراش تک نہیں آتی۔ حملے کے بعد یہ شخص اپنی گاڑی میں سوار ہو کر فرار ہو جاتا ہے۔ یہ واقعہ آج سے ٹھیک 28 برس قبل یعنی 25 جنوری 1993 کی صبح پیش آیا تھا۔ امریکہ پر نائن الیون کے حملے سے آٹھ سال قبل یعنی سنہ 1993 میں امریکہ کی انتظامیہ پر یہ اس وقت کا سب سے بڑا حملہ کہا جاتا تھا۔ مقامی پولیس، ایف بی آئی اور سی آئی اے تحقیقات میں شامل ہو جاتے ہیں اور ابتدائی تحقیقات کی بنیاد یہ تھی کہ یہ حملہ کسی کا ذاتی فعل تھا یا دہشت گردی کی منظم کارروائی۔ تحقیقاتی اداروں کو جائے وقوع سے 10 گولیوں کے خول اور بغیر چلی گولی ملتی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ حملہ آور کی بندوق جام ہو چکی تھی اسی لیے ایک گولی چل نہ سکی۔ حملے میں محفوظ رہنے والی خواتین کی مدد سے حملہ آور کا خاکہ تیار کیا گیا اور اخبارات میں اس کی تشہیر کی گئی۔ عام شہریوں سے معلومات کے حصول کے لیے ایک فون لائن وقف کر دی گئی۔ حملہ آور کی شناخت کیسے ہوئی؟ جائے وقوع سے ملنے والی گولیوں کے خول سے یہ معلوم ہوا کہ اس حملے میں ’اے کے 47‘ یعنی کلاشنکوف استعمال کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ فنگر پرنٹ کا پتہ لگایا گیا، لیکن ملزم کا کوئی ریکارڈ سرکاری سطح پر دستیاب نہیں تھا۔ ایف بی آئی کی جانب سے ایجنٹ بریڈلی گیرٹ تحقیقات کے لیے تعینات کیے گئے۔ گذشتہ سال ایپل پوڈ کاسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایجنٹ بریڈلی گیرٹ نے اس حملے کی تحقیقات کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔ گیرٹ کے مطابق ورجینیا اور آس پاس کی ریاستوں میں ایک سال کے اندر کتنی کلاشنکوف فروخت ہوئیں، ابتدائی طور پر اس کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔ ایف بی آئی کو معلوم ہوا کہ اس عرصے میں ایک ہزار کے قریب کلاشنکوف فروخت ہوئی تھیں جن میں سے ایک کلاشنکوف حملے سے تین روز قبل خریدی گئی تھی، خریدار کا نام ایمل کانسی تھا۔ یہ بھی پڑھیے اسامہ بن لادن: کیا ان پانچ سوالوں کا جواب کبھی ملے گا؟ اسامہ کی تلاش میں امریکہ کی ’مدد‘ کرنے والے شکیل آفریدی کس حال میں ہیں؟ سونے کی سمگلنگ میں انڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے والے پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ سیٹھ عابد ایف بی آئی کے اہلکار درج پتے پر پہنچے اور ایمل کے روم میٹ سے ملاقات کی جو پاکستانی تھا۔ اس شخص نے اُنھیں بتایا کہ ایمل کسی دوسرے شخص کی وساطت سے اُن کا روم میٹ بنا تھا۔ ایجنٹ بریڈلی گیرٹ کے مطابق کمرے کی تلاشی کے دوران چمڑے کے ایک بریف کیس سے پستول اور کلاشنکوف کی گولیوں سے بھرا ہوا ایک میگزین برآمد ہوا، مزید تلاشی کے دوران صوفے کے نیچے سے ایک پلاسٹگ بیگ میں لپٹی ہوئی کلاشنکوف بھی مل گئی۔ ایمل کے روم میٹ نے اسلحے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور پارکنگ میں موجود گاڑی کی نشاندہی کی، جس سے ایف بی آئی کو یہ تصدیق کرنے میں مدد ملی کہ حملہ آور ایمل کانسی ہی ہیں جو حملے کے فوراً بعد پاکستان فرار ہو چکے تھے ایمل کانسی کون تھے؟ ایمل کانسی کا پورا نام ایمل خان کانسی تھا۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ سکول اور شناختی کارڈ کے ریکارڈ میں اُن کا نام میر ایمل خان کانسی درج تھا لیکن اپنے نام کے برعکس وہ بلوچ نہیں بلکہ پٹھان تھے۔ ایمل کانسی نے ابتدائی تعلیم گرامرز سکول کوئٹہ سے حاصل کی تھی جبکہ گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ سے گریجویشن کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ قوم پرست رجحانات سے شدت پسندی تک ایمل کانسی کا تعلق پشتون قوم پرست سیاسی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد پشتون قوم پرست رہنماؤں غفار خان اور عبدالصمد خان کے ساتھ رہے تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ایمل کانسی زمانہ طالب علمی سے پشتون قوم پرست سیاست کی جانب مائل تھے۔ یونیورسٹی میں داخلے کے کچھ عرصے بعد تک وہ عوامی نیشنل پارٹی کی طلبہ تنظیم پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے اور بعد میں وہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شامل ہو گئے۔ ایمل کانسی کے اس دوست کا تعلق اسلامی طلبا تنظیم سے تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تنظیم کی خاطر دیگر تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ساتھ کبھی بھی ناطہ نہیں توڑا۔ ’یونیورسٹی جانے کے لیے میں ہر روز ایمل کانسی کی گاڑی میں اگلی نشست پر بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجھے پچھلی نشست پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر نے انھیں میرے ساتھ چلنے پھرنے سے گریز برتنے کو کہا ہے، تاکہ کہیں ایمل پر میری تنظیم کی سوچ اثر انداز نہ ہو، تاہم ایمل کانسی نے واضح کیا کہ میں تم سے دوستی نہیں چھوڑ سکتا لیکن میں پی ایس ایف کے صدر کو بھی ناراض نہیں کر سکتا، اس لیے گزارش ہے کہ آپ کچھ وقت پیچھے بیٹھ جائیں۔‘ ایمل کانسی کے دوست کے مطابق چونکہ وہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان کا دل اور دستر خوان وسیع تھا۔ ’وہ اکثر اپنے کلاس فیلوز کو نہ صرف لیاقت بازار میں واقع اپنے ہوٹل بلکہ کوئٹہ کے دوسرے بڑے ہوٹلوں میں لے جا کر اچھا کھانا کھلاتے تھے۔ ہوٹل ہو یا یونیورسٹی کی کینٹین، بل کی ادائیگی میں کوئی بھی ایمل سے بازی نہیں لے جا سکا۔‘ طالب علمی میں امریکہ مخالف جذبات ایمل کانسی کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں جمہوریت کی بحالی اور ریاستی پالیسیوں کے خلاف احتجاج میں بھی شریک رہے، بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا تھا کہ ایک بار جلوس پر شیلنگ بھی ہوئی تھی۔ ایمل کے دوست کا کہنا ہے کہ وہ دنیا بھر میں بالخصوص افغانستان میں کشت و خون کا ذمہ دار امریکی پالیسیوں کو ٹھہراتے تھے۔ ’اُنھیں افغانستان میں افغانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں پر بہت ملال تھا۔‘ ایمل کے دوست کے مطابق ایک مرتبہ بلوچستان یونیورسٹی میں ایک امریکی پروفیسر کے اعزاز میں پروگرام مرتب کیا گیا۔ امریکی پالیسیوں کے سخت مخالف ہونے کی وجہ سے ایمل کانسی نے سخت احتجاج کیا، جس کے باعث یہ پروگرام منعقد نہیں ہوسکا اور امریکی پروفیسر کو خطاب کیے بغیر وہاں سے جانا پڑا۔ امریکہ روانگی ایمل کانسی کے الفاظ میں وہ سنہ 1991 میں امریکہ آئے تھے۔ یہاں اُن کا ایک دوست امریکہ کا مستقل رہائشی تھا جو ورجینیا میں رہتا تھا۔ اُن کے یہاں آنے کا مقصد ملک دیکھنا تھا اور وہ اپنے ساتھ کچھ پیسے بھی ساتھ لائے تھے اور سوچا تھا کہ کچھ بزنس کر لیں گے۔ ایمل نے امریکہ میں سیاسی پناہ کی بھی درخواست دے رکھی تھی لیکن اُن کو یہ پناہ ملی نہیں تھی۔ ایمل نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ امریکہ میں اکثر ویزے کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو ورک پرمٹ کے لیے پناہ گزین کی حیثیت سے درخواست دی جا سکتی ہے، اُنھوں نے پناہ گزین کے سٹیٹس کو صرف اسی مقصد کے لیے اپنایا تھا اس کے درپردہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ امریکہ میں قیام کے دوران انھوں نے کوریئر کمپنی سمیت مختلف نوعیت کی ملازمت کیں۔ اُن کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ سخت محنت والا کام پسند نہیں کرتے تھے۔ ایمل کے روم میٹ کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر خاموش رہتے لیکن جب عراق اور فسلطین وغیرہ میں مسلمانوں پر حملے دیکھتے تو چلانے لگتے تھے۔ ایمل امریکہ سے کہاں گئے؟ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر پر حملے کے اگلے روز ایمل پاکستان کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایف بی آئی ایجنٹ بریڈلی گیرٹ پاکستان آئے۔ اُنھوں نے ایمل کانسی کے خاندان سے بھی ملاقات کی۔ اُنھوں نے اُنھیں بتایا کہ ان کی جنوری میں ایمل سے ملاقات ہوئی تھی، اور اُنھیں واقعے کے بارے میں بھی سی این این سے معلوم ہوا۔ بعدازاں ہونے والی تحقیقات اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق ایمل پاکستان سے افغانستان چلے گئے جہاں کچھ علاقوں میں اُن دنوں طالبان کی حکومت تھی۔ تحقیقات کے دوران اُنھوں نے اعتراف کیا تھا کہ اُنھیں طالبان نے پناہ دی تھی، اور وہ زیادہ تر قندھار میں رہے۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ایمل کانسی کا کہنا تھا کہ وہ قندھار اور صوبہ زابل کے دارالحکومت قلات کے علاقوں میں رہتے تھے، جبکہ کچھ عرصہ اُنھوں نے غزنی کے علاقے میں بھی گزارا۔ وہ زیادہ تر جنوبی افغانستان میں ہی رہے جہاں زیادہ تر پختون آبادی ہے، جب طالبان نے یہاں قبضہ کیا تو وہ کابل چلے گئے۔ وہاں کچھ طالبان بھی دوست بن گئے اور وہ ان کے ساتھ کچھ پولیس سٹیشنوں میں بھی رہے۔ بقول ان کے ان کا تعلق پشتونوں سے رہا اور وہ عربوں کے ساتھ رابطے میں نہیں تھے۔ ان کی صرف ایک بار اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ قندھار میں کئی لوگ ایک شخص سے مل رہے تھے، وہ بھی ان سے جا کر ملے تو پتہ چلا وہ اسامہ بن لادن ہیں۔ امریکی سفارتخانے میں گھنٹی بج اٹھی امریکی حکومت نے ایمل کانسی کی گرفتاری پر 20 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کر دیا۔ ایف بی آئی ایجنٹ گیرٹ کے مطابق جب ملزم کسی اور ملک کا شہری ہو تو معاملہ کٹھن ہو جاتا ہے۔ ایجنٹ بریڈلی گیرٹ نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ کوئٹہ میں ایک مقامی کلرک نے کراچی میں امریکی سفارتخانے کے ساتھ رابطہ کیا اور بتایا کہ اُنھیں معلوم ہے کہ امریکہ کو ایمل کی تلاش ہے، ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے۔ ہم اس کو ایک مخصوص مقام پر لا سکتے ہیں مگر اس کے لیے رقم درکار ہو گی۔ گیرٹ کے مطابق جلد ہی وہ افغان قبائلی سربراہوں سے رابطے میں آ گئے۔ تصدیق کے لیے ایمل کی تازہ تصویر فراہم کی گئی اور اس کے بعد شیشے کا ایک گلاس امریکی حکام کو دیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس پر ایمل کے فنگر پرنٹ ہیں۔ اس گلاس کو امریکہ بھیجا گیا جہاں فارنزک ٹیسٹ میں تصدیق ہوئی کہ انگلیوں کے یہ نشانات ایمل کے ہیں۔ سی آئی اے سٹیشن چیف، ریجنل سکیورٹی افسر، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آئی نے پاکستانی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کردی۔ ان دنوں پاکستان میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ ساتھ ہی ساتھ آئی ایس آئی سے بھی ایف بی آئی نے رابطہ کیا۔ ایف بی آئی ایجنٹ گیرٹ کے مطابق آئی ایس آئی کو مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ ان کے پاس ہیلی کاپٹر اور طیارے تھے اور وہ پاکستان میں کہیں بھی جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آئی ایس آئی کو بیک اپ سپورٹ کے لیے کہا گیا۔ ’ہاں یہ ہی ایمل ہے‘ مخبروں سے مل کر یہ طے کیا گیا کہ وہ ایمل کو ایک مخصوص جگہ پر لائیں گے۔ یہ جگہ ڈیرہ غازی خان کا ایک ہوٹل تھا۔ ایمل کانسی کے سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز پر حملے اور انھیں سزا سنائے جانے کے وقت پاکستان میں نواز شریف کی حکومت تھی اور اُن کے خلاف اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست اب تک زیر سماعت ہے ایمل کانسی نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے کچھ ساتھیوں نے اُنھیں کہا تھا کہ ڈیرہ غازی خان چلتے ہیں، وہاں پر ان کی بزنس ڈیل ہے، وہ کوئی سامان وغیرہ خریدنا چاہتے ہیں جبکہ رقم کی ادائیگی افغانستان میں ہو گی۔ ’مجھے کہا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں، اردو بھی جانتے ہیں، مجھے ان پر بھروسہ تھا سو میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ وہاں جا کر آدھی رات کو چھاپہ پڑا اور مجھے گرفتار کر لیا گیا۔‘ یہ 15 جون 1997 کی رات تھی۔ ایجنٹ بریڈلی گیرٹ کے مطابق اُنھوں نے ایک مقامی جاسوس ہوٹل بھیج دیا جو وہاں کی خبر دے رہا تھا، ان سمیت ایف بی آئی کے چار اہلکاروں نے قمیض شلوار پہنی اور روانہ ہو گئے۔ جاسوس نے بتایا کہ وہ تیسری منزل کے کمرہ نمبر 317 میں ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ مرکزی دروازہ کھلا رہتا ہے اور گارڈ نہیں ہے۔ ایجنٹ بریڈلی گیرٹ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا خیال تھا کہ صبح چار پانچ بجے کم لوگ ہوں گے لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کیونکہ یہ گرم علاقہ تھا اور لوگ صبح سویرے ہی کام شروع کر دیتے تھے، اس لیے سڑکوں پر کئی سو لوگ موجود تھے۔ قمیض شلوار میں ملبوس امریکی ان کی نظر میں آ گئے۔ وہ ہوٹل کے داخلی دروازے پر پہنچے تو وہ اندر سے بند تھا۔ انھوں نے دروازے پر دستک دی تو ایک گارڈ آیا۔ اُنھوں نے اس پر قابو پا لیا اور اوپر کی منزل کی طرف روانہ ہوئے، مطلوبہ دروازہ بجایا اور بتایا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ ایک دو بار دستک کے بعد دروازہ کھلا تو ایجنٹس اندر داخل ہوئے اور وہاں موجود مشتبہ شخص کو چت کر دیا۔ اس شخص نے مزاحمت کی اور کچھ خراشیں آئیں۔ اس کے دونوں ہاتھ ہتھکڑیوں سے باندھ دیے گئے اور منھ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا۔ ایجنٹ بریڈلی گیرٹ کے مطابق شکل و صورت میں یہ مشتبہ شخص ایمل جیسا ہی لگتا تھا جس کے بعد انک پین کی سیاہی اس کے انگھوٹے پر لگائی اور پیپر پر لگایا میگنیفائی گلاس سے بھی مشاہدہ کیا، جس کے بعد تصدیق ہو گئی کہ یہ ہی ایمل کانسی ہے۔ آئی ایس آئی نے ملک چھوڑنے سے روک دیا ایجنٹ بریڈلی گیرٹ کے مطابق جب ہوٹل سے نکلنے لگے تو اُنھوں نے ایمل کے ہاتھ باندھ دیے اور سر پر کپڑا ڈال دیا اور اس کو ایک گاڑی میں سوار کر دیا جو نصف گھنٹے چلتی رہی، جس کے بعد وہ ایک طیارے میں سوار ہوئے۔ بریڈلی کے مطابق یہ طیارہ آئی ایس آئی کے ایک جنرل کا تھا جس میں ہم راولپنڈی پہنچے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے واضح کر دیا کہ ہم ملک نہیں چھوڑ سکتے، جس کی وجہ سے ہمیں وہاں دو روز رکنا پڑا۔ گیرٹ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اُنھوں نے آئی ایس آئی کے جنرل کو کہا کہ آپ نے ایمل کی گرفتاری کی اجازت دی لیکن اب گرفتاری کے بعد میں یا میرا کوئی ایجنٹ اس کے ساتھ رہے گا تاکہ اس کو کوئی نقصان نہ پہنچائے یا پوچھ گچھ نہ کرے۔ وہ اس پر رضامند ہو گئے۔ ’اگلے دو روز ہم چار افراد چار، چار گھنٹے سیل کے باہر بیٹھتے تھے تاکہ ایمل کو کوئی تنگ نہ کرے۔‘ دو روز کے بعد اُنھیں بتایا گیا کہ صدر کلنٹن اور وزیرِ خارجہ میڈلن البرائیٹ کی اپنی ہم منصوبوں سے بات ہو گئی ہے اور ہمیں جانے کی اجازت ہے۔ یوں 17 جون 1997 کو اسلام آباد سے امریکہ کا فضائی سفر شروع ہو گیا۔ ایمل کانسی کے مقدمے کے تحریری فیصلے کے مطابق طیارے میں ایمل کا طبی معائنہ بھی کیا گیا اور ایجنٹ گیرٹ نے ذاتی معلومات اور امریکہ آنے کے مقصد کے بعد حملے کے بارے میں سوالات کیے۔ ایمل نے بتایا کہ فائرنگ سے کئی روز قبل تک وہ یہ سوچتے رہے کہ سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر پر فائرنگ کریں یا اسرائیلی سفارتخانے پر۔ پھر اُنھوں نے سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کا انتخاب کیا کیونکہ سی آئی اے کے حکام مسلح نہیں ہوتے۔ اپنے بیان میں حملے کی وجہ بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ انھیں غصہ تھا کیونکہ امریکی طیاروں نے عراق پر حملہ کیا تھا اور وہ سی آئی اے کی مسلم ممالک میں مداخلت کی وجہ سے بھی غصہ تھے۔ اس کے علاوہ انھیں امریکی اتحادیوں کی جانب سے پاکستانیوں کی ہلاکت پر بھی تشویش تھی۔ ایمل کانسی نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں تصدیق کی تھی کہ اُنھوں نے ایف بی آئی کو دیے گئے اقبالی بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اُنھیں بتایا تھا کہ اُنھوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ حملہ کیا تھا۔ اُن کے بقول اس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی خاص طور پر اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف احتجاج کرنا تھا جو اُن کے مطابق مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف تھی۔ ایمل کانسی کی قبر ایمل نے اپنے تحریری بیان میں تصدیق کی کہ اُنھوں نے اے کے 47 کلاشنکوف اور 150 گولیاں خریدی تھیں۔ حملے والے روز اُنھوں نے اپنا ٹرک روکا اور جیسے ہی سرخ اشارے پر گاڑیاں رُکیں، تو اُنھوں نے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ اُنھوں نے 10 گولیاں چلائیں اور پانچ افراد کو نشانہ بنایا، جن کے سینوں پر نشانہ لگایا۔ خواتین پر گولی نہ چلانے کے بارے میں کہا کہ اُن کا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اقبالِ جرم سے انحراف ایمل کانسی نے ایف بی آئی کو دیے گئے بیان میں رضاکارانہ طور پر اقبال جرم کیا لیکن بعد میں وہ اس سے دستبردار ہو گئے۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اُنھیں امریکہ کے قانون وغیرہ کا نہیں پتہ تھا اور اُنھوں نے وکیلوں کے کہنے پر صحتِ جرم سے انکار کیا تھا۔ عدالت نے اُنھیں سزائے موت سُنائی تھی۔ اُنھوں نے جیوری پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ بی بی سی کو دیے گئے آخری انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف انتہائی متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا، عدالتی کارروائی بھی اسی علاقے میں کی گئی جہاں حملے کا واقعہ پیش آیا تھا اور قانون کے تحت یہ اقدام بھی غلط تھا۔ انھوں نے کہا کہ گرفتاری کے بعد ذرائع ابلاغ نے اُن کے خلاف انتہائی شدید پراپیگنڈا شروع کر دیا اور جیوری کے حضرات اس پراپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے، کہ اُنھوں نے اُن پر لگائی گئی ہر دفعہ کے فیصلے میں سخت ترین سزا تجویز کی، جن میں عمر قید، جرمانہ اور سزائے موت شامل تھیں۔ ایمل کانسی کی سزائے موت پر عملدرآمد سے قبل امریکہ نے ممکنہ رد عمل پر اپنے پاکستان میں سفارتخانے کو الرٹ جاری کر دیا تھا، سزا سنائے جانے کے دوسرے روز 13 نومبر 1997 کو یونین ٹیکساس پیٹرولیم کے چار امریکی ملازمین کو کراچی میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے اس واقعے کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا تھا۔ ایمل کانسی کی تمام اپیلیں مسترد ہونے کے بعد 14 نومبر 2002 کو اُنھیں زہر کا انجیکشن لگا کر سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ سزائے موت پر عملدرآمد سے قبل اُن سے دو بھائیوں اور ایک پیش امام نے آخری ملاقات کی تھی۔ ایمل کانسی کی کوئٹہ میں نمازِ جنازہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور متحدہ مجلس عمل کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے ان کے گھر جا کر تعزیت کی تھی۔ ایمل کانسی کی گرفتاری اور امریکہ منتقلی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت بھی ایک درخواست زیر سماعت تھی جس میں گزارش کی گئی تھی کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے پاکستانی شہری کی گرفتاری میں ساتھ دیا اور غیر قانونی طور پر امریکہ منتقل کرنے میں مدد فراہم کی۔
090115_gaza_bankimoon
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2009/01/090115_gaza_bankimoon
غزہ: اقوام متحدہ کی عمارت، اسرائیلی بمباری
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے غزہ میں اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے کے کیمپ پر بمباری پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ رد عمل اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے وزیر دفاع نے انہیں بتایا کہ یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ بان کی مون نے کہا کہ غزہ میں لوگوں کی تکالیف ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا تھا کہ ان کا مرکزی دفتر اس حملے کا نشانہ بنا جس میں تین لوگ زخمی ہوئے۔ دریں اثناء ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ کے نام ایک خطمیں کچھ عرب اور مسلمان رہنماؤں پر غزہ میں اسرائیلی کارروائی پر نہ صرف خاموشی اختیار کرنے بلکہ اس کی حمایت کا بھی الزام لگایا ہے۔ خلیج تعاون کونسل میں شامل چھ عرب ممالک کا جمعرات کو غزہ کے مسئلے پر اجلاس ہو رہا ہے۔ بان کی مون خطے میں امن کے لیے اب تک کی سب سے اہم کوششوں کے حصہ کے طور پر علاقائی رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ مصر ان کوششوں میں پیش پیش رہا ہے اور فائربندی کے ایک معاہدے پر اتفاق رائے کی کوشش کر رہا ہے جس کے تحت مصر اور غزہ کی سرحد پر اسلحے کی سمگلنگ روکنے کے لیے امن فوج تعینات کی جائے گی۔ بی بی سی کے عرب امور کے ایک ماہر نے کہا کہ مصر اور دیگر عرب ممالک کا حماس پر کچھ اثر رسوخ ہے اور کسی طرح بات منوا سکتے ہیں لیکن وہ اسرائیل پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتے، اس پر صرف اتنا اثر صرف امریکہ کا ہے۔ ادھر اسرائیل نے حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کر دیا ہے کہ اس کے فوجی محفوظ علاقے کی جانب جانے کی کوشش کرنے والے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی آپریشن بیسویں دن میں داخل ہو چکا ہے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نےغزہ کو تقریباً چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔اسرائیلی فوجیوں اور حماس کے جنگجوؤں میں بدھ اور جمعرات کی رات بھی شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ فلسطینی محکمۂ صحت کے مطابق غزہ پر جمعرات کو علی الصبح ہونے والے دو فضائی حملوں میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیںجس کے بعد اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار اٹھائیس ہوگئی ہے جبکہ چار ہزار پانچ سو سے زائد زخمی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جنگ کی وجہ سے نوے ہزار فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق ہلاک شدگان میں تین سو سے زائد بچے اور چھہتر خواتین ہیں جبکہ زخمی ہونے والے بچوں اور خواتین کی تعداد بالترتیب ایک ہزار چھ سو اور چھ سو اٹھہتر ہے۔ غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیل کے دس فوجیوں سمیت تیرہ شہری ہلاک ہوئے۔ جنگ بندی کی کوششیں مصر میں جنگ بندی کی کوششوں کے سلسلے میں بات چیت کے بعد حماس کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ فائربندی معاہدے کے نمایاں نکات سے تو متفق ہیں لیکن تفصیلات پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیز فائر معاہدے میں اسرائیلی فوج کا غزہ سے فوراً انخلاء اور مکمل جنگ بندی کی شقیں شامل ہونا ضروری ہے۔ قاہرہ میں حماس کے رہنما صالح البردول کے مطابق’ تحریک نے مصری قیادت کو تفصیلی خاکہ پیش کیا ہے تاکہ وہ غزہ میں ہمارے لوگوں سے روا رکھی جانے والی ناانصافی اور جارحیت کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھ سکے‘۔ اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق فائر بندی پر بات چیت کے لیے سینئر اسرائیلی دفاعی افسر آموس گیلاد جمعرات کو قاہرہ پہنچ رہے ہیں جہاں انہیں حماس کی جانب سے فائربندی کے معاہدے کے سلسلے میں پیش کی جانے والی تجاویز سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس سے قبل فائربندی پر بات کرتے ہوئے قاہرہ میں حماس کے رنما موسی ابومرزق نے کہا تھا کہ فائربندی حماس کو صرف ایک محدود مدت کے لیے قابل قبول ہوگی اور اس کا ہر تھوڑی دیر بعد اور ضرورتی کے تحت جائزہ لینا ضروری ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ’ ہم نے پہلے بھی جنگ بندی کے ایسے معاہدے آزما کر دیکھے ہیں، لیکن ان پر اسرائیل نے کبھی کسی بھی مرحلے پر عمل نہیں کیا۔ تو یہ لازم ہے کہ یہ فائر بندی مختصر مدت کے لیے ہو اور اس کا کسی بھی مرحلے پر جائزہ لینے کے لیے ایک طریقہ کار بنایا جائے‘۔ عام شہریوں پر فائرنگ کے الزامات بی بی سی اور حقوقِ انسانی کے لیےکام کرنے والے ایک اسرائیلی گروپ بیت السلام کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں لڑائی سے متاثرہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے فلسطینی عوام پرگولیاں چلائی ہیں۔ تاہم اسرائیل نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ واقعات خوزہ اور زیتون کے علاقوں میں پیش آئے ہیں جہاں اسرائیلی فوج نے پہلے فلسطینی عوام سے کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر مرکزی مقامات پر جمع ہو جائیں اور جب لوگ سفید پرچم اٹھائے اپنے گھروں سے نکلے تو اسرائیلی فوجیوں نے ان پر فائرنگ کی۔اطلاعات کے مطابق ایسے واقعات میں ایک خاتون سمیت کم از کم چار فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی فوج کہنا ہے کہ اس پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ اسرائیلی فوج کی ترجمان اویتال لیبووتز کا کہنا ہے کہ ’ ہم شہریوں پر فائرنگ نہیں کرتے۔ میں نے گزشتہ دو دن میں فلسطینی جانب سے بہت سے الزامات سنے ہیں جن کا ایک بڑا حصہ فرضی ہے۔ ہم معصوم لوگوں کو اور جان بوجھ کرگولی نہیں مارتے۔ ہم صرف اس وقت گولی چلاتے ہیں جب زندگی موت کا مسئلہ ہو یا پھر ہم پر فائر کیا جائے‘۔ اسرائیل مخالف عالمی ردعملادھر جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بولیویا دوسرا جنوبی امریکی ملک ہے جس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں۔ اس سے قبل وینزویلا بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر چکا ہے۔ بولیویا کے صدر نے ایوو مورالیز نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ پر بھی خاصی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ’افسوس کے اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل یا کہیے غیر سلامتی کونسل نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف نیم دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک خصوصی جنرل اسمبلی بلانی چاہیے، اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کی مجرمانہ کارروائی پر ووٹنگ ہونی چاہیے‘۔
051026_adnandiary_views
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/10/051026_adnandiary_views
زلزلہ بیتی: عدنان کی ڈائری اور آپ کی رائے
ان صفحات پر آپ زلزلے کے ایک متاثر اور بعد میں امداد کے لئے سرگرم ہوجانے والے کارکن عدنان علی کی ڈائری پر اپنے تاثرات بیان کرسکتے ہیں اور عدنان نقوی اور ان متاثرین تک اپنے پیغامات پہنچا سکتے ہیں جن کے ساتھ وہ کام کررہے ہیں۔
عدنان کی کہانی ایک غیرمعمولی کہانی ہے جنہوں نے اپنے ذاتی درد کو بھول کر متاثرین کے لئے امدادی کاروائیوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اگر آپ یہ ڈائری پڑھنا چاہیں تو نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں: 009233334260310092333360608700923002930413 قیصر خان آفریدی، درہ آدم خیل، پاکستان:سلام عدنان، نیلم ویلی میں ریلیف کیمپ کے قیام کے بارے میں جو ہماری بات چیت ہوئی تھی، اس کے بعد ہم نے خیمے امدادی سامان اور ایک ٹیم تیار کرلی ہے۔ میں نے آپ سے سیل پر بہت رابطہ کیا مگر ممکن نہ ہوسکا، اسی لئے ہم آپ سے اس صفحے کے ذریعے رابطہ کر رہے ہیں۔ ہم اتوار کو مظفرآباد کی طرف چل پڑیں گے، ازراہِ مہربانی ہم سے اس سلسلے میں رابطہ کیجئے تاکہ ہم امدادی کام کے لئے کسی جگہ کا انتخاب کرسکیں۔ میرا موبائل نمبر 00923005962281 ہے اور ای میل ایڈریسnaseer.loveislife@gmail.com ہے۔ بہت شکریہ عاصم معراج، کینیڈا:عدنان میں آپ کی مالی مدد کرنا چاہتا ہوں، ازراہِ مہربانی بتائیں میں کیسے یہ کر سکتا ہوں۔ سرفراز کرمانی، مکھ:ازراہِ مہربانی مجھے اس ٹیم سے رابطے کا طریقہ بتائیں۔ (نوٹ: اوپر عدنان کے مختلف نمبرز دیئے گئے ہیں جن پر آپ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔) عائشہ خان، کراچی:حکومت آخر کیوں حقائق چھپا رہی ہے۔ ندیم آدم خان، یواے ای:سلام عدنان، میں اپنی صبح کا آغاز آپ کی ڈائری سے کرتا ہوں اور اپنے احساسات بتا نہیں سکتا۔ میرے ایک برادرِ نسبتی ڈاکٹر شکیل دس اکتوبر سے باغ میں ہیں۔ میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ جزا دے۔ ہما، پاکستان:میں روز آپ کی ڈائری پڑھتی ہوں۔ اور میں چاہتی ہوں کہ آپ کو یہ بتاوں کہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ دنیا ایک بہتر جگہ ہے۔ اپنا خیال رکھیے۔ آپ کے ساتھ لاکھوں افراد کی دعائیں ہیں۔ غلام، پاکستان:عدنان ویسے تو میری عمر ساٹھ سال ہے اور میں رٹائیر ہو چکا ہوں۔ لیکن میں پیشے سے ایک نرس ہوں اور مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟ اسلم میمن، کراچی، پاکستان:جب تک عدنان نقوی جیسے لوگ ہیں، انسانیت مر نہیں سکتی۔ عدنان تجھے سلام۔ شاہدہ اکرم، ابو ظہبی:عدنان کی پوری ڈائری پڑھی ہے۔ اس کو پڑھ کر جو جذبات ہیں وہ بیان نہیں کر سکتی۔ اس سانحہ کے شکار ہمارے بھائی، بہنوں کا دکھ تو اتنا زیادہ ہے کہ دل سے غم کی شدت کم ہی نہیں ہو رہی۔ اس ڈائری کے ذریعے ہم اس دکھ اور تکلیف کو صرف سمجھ سکتے ہیں، محسوس نہیں کر سکتے۔ اب زلزلے کے بعد کے حالات تو اس سے بھی زیادہ تکلیف دینے والے بن گئے ہیں۔ ایسے میں عدنان آپ کی ڈائری پڑھ کر دل سے جو دعائیں نکلتی ہیں آپ ان کا شمار نہیں کر سکتے۔۔۔ محمد علی، کینیڈا:عدنان بھائی، آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ بھائی میں یہاں کینیڈا میں ایک معمولی سی نوکری کرتا ہوں لیکن دل سے چاہتا ہوں کہ کوئی مدد کروں۔ اگر میرے قابل کوئی کام ہو تو ضرور رابطہ کیجیے گا۔ زہید الحق بابر، سعودی عرب:آپ اصل معنی میں ایک ہیرو ہیں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ضحیٰ کاضمی، چکوال، پاکستان:میں عدنان بھائی اور ان ہی جیسے دوسرے بھائیوں کو جو اپنے دکھ کو بھول کر امدادی کاموں میں مصروف ہیں، سلام کرتی ہوں۔ اور ہماری سب دعائیں ان ہی کے لیے ہیں کہ خدا انہیں ہمت اور حوصلہ دے۔ میری تمام نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ کہکشان سلطانہ، کراچی، پاکستان:میں بھی اس مہم میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔ میں کیا کر سکتی ہوں؟ سمیع مغل، پاکستان:اللہ آپ کو مزید ہمت دے۔ ہم یہاں پر بھی متاثرہ علاقوں سے آنے والوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سید رضوی، امریکہ:اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آپ کی ڈائری پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کاش میں اپ کی مدد کر سکتا۔ میں بچوں کا ڈاکٹر ہوں۔ میں بہت جلد پاکستان آنے والا ہوں۔ اگر میں کوئی بھی مدد کر سکوں تو پلیز مجھے بتائیں۔ علی رضا، لاہور، پاکستان:عدنان آپ کو کچھ کر رہے ہیں، بہت اچھا ہے۔ آپ زندگی کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم سب کو آپ پر فخر ہے۔ نشا علی راجپوت، جہلم، پاکستان:آپ کی ڈائری پڑھ کر میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتی۔ محمد اعظم، کینیڈا:اسے جاری رکھئے۔ میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن پتہ نہیں کیسے علی خان، کولمبیا، امریکہ:خدا آپ کو خوش رکھے۔ روز سوچتا ہوں کاش پاکستان میں ہوتا تو آپ کے ساتھ ہوتا۔ روز آپ کی ڈائری پڑھتا ہوں، روز روتا ہوں۔ روز آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے سید ہونے کی لاج رکھ لی۔ حمیرا، کراچی، پاکستان:عدنان بھائی میں نے آپ کے بارے میں سب کچھ پڑھا ہے، مجھے آپ کو تسلی دیتے ہوئے اپنے الفاظ بہت چھوٹے لگ رہے ہیں اور آپ کا حوصلہ بہت بڑا ہے۔ میں نے 25 سال کی عمر میں ماسٹرز کیا ہے ابھی میرا بھی دل کرتا ہے کہ کچھ کروں مگر سبجھ نہیں آتی کہ کیا کروں کیسے کچھ کروں کہ کسی کے کام آ جاؤں۔ میں روز آپ کی خبر پڑھتی ہوں اور فخر محسوس کرتی ہوں کہ آپ جیسے بھائی ہیں۔ اللہ اپ کو سلامت رکھے آپ کی بہن کی دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں عبدالرزاق، ٹورنٹو، کینیڈا:عدنان بھائی میں آپ سے یہ درخواست کر چکا ہوں کہ میں ایک خاندان کو ایک سال کے لئے اکاموڈیٹ کروں گا۔ میں دوبارہ یقین دلا دوں کہ میں اپنا گھر دوں گا بجلی کا بل اور 5000 روپے مہینہ دوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ عید سے پہلے آ جائیں اور عید بہتر حالات میں کریں لیکن اب مجھے مایوسی ہوئی ہے کہ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے آپ کے نائب احمد کو بھی فون کیا لیکن لڑکی نے فون اٹھایا، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ ہم آپ کو کال کریں گے لیکن ابھی تک کسی نے نہیں کیا۔ میں بڑی شدت اور شوق کے ساتھ ضرورت مند خاندان کی میزبانی کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ کے جواب کا منتظر الطاف سلیمان، کشمیری، امریکہ:میں متاثرین کے بارے میں آپ کی ڈائری پڑھ کر پریشان ہوگیا ہوں۔ مجھے چھوٹے بچوں کو اپنانے میں دلچسپی ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم امریکہ میں بالٹی مور میں رہتے ہیں لیکن اصل میں ہم کراچی سے ہیں۔ اگر آپ مدد کر سکتے ہیں تو براہِ مہربانی مجھے ای میل کریں عدیل رحمٰن، اوٹاوا، کینیڈا:عدنان ماشااللہ بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ اللہ آپ کی مدد کرے آمین۔ ہم سب عدنان کی مدد کر سکتے ہیں، اگر آپ چاہیں تو فون کر کے عدنان سے پوچھیں۔ یا منصور سے بات کریں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین۔ ندرت، بروکلین، امریکہ:اگر ہم آپ کوعطیات دینا چاہیں تو کیسے دے سکتے ہیں تاکہ مستحق لوگوں کو صحیح طریقے سے امداد پہنچ سکے؟ ہارون جلیل، لاہور، پاکستان:براہِ مہربانی ہمیں بتائیں کہ عدنان بھائی کی طبعیت تو ٹھیک ہے ؟ انکی نئی ڈائری نہیں آئی؟ مجھے کافی فکر ہے انکی صحت کی۔ اور یہ بھی بتائیں کہ ہم لوگ جو پاکستان میں ہیں اس نیک کام میں انکی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ جمیل اکبر، امریکہ:میںں وطن سے دور یہاں امریکہ میں ہوں، جو کچھ ہمارا پیارا ہم وطن کر گزرا ہے میں اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا، اللہ آپ کو ہمت دے۔ کاش ہمارے سب ہم وطنوں میں آپ جیسا جذبہ ہوتا۔ میرے دو بیٹے ہیں ہری پور میں وہ بھی مدد لے کر جاتے ہیں اگر آپ کو ان کی ضرورت ہو تو مجھے اس پتے ہر ای میل کر دیں، میں انکو آپ کی ٹیم میں شامل ہونے کے لئے بھیج دوں گا۔ میرا پتا ہےmailme@impactolatino.com کامران جعفری، امریکہ:یہ اسلام اور ہماری قوم کے صحیح ہیرو ہیں۔ ہم انکی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ سمرا سبزواری، امریکہ:عدنان میں آپ کی ڈائری روز پڑھتی ہوں اور دل سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے۔ واقعی آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ ملک قائم ہے۔ میں یہاں بہت دور بیٹھی ہوں اور یہاں سے کچھ نہیں کر سکتی سوائے امداد بھیجنے کے۔ ان معصوم بچوں کے لئے دل تڑپتا ہے۔ وہ ایک ڈیڑھ سال کی بچی جس کا نام آپ نے عائشہ رکھا ہے کوئی طریقہ ایسا ہو کہ میں اسے اپنے پاس لا سکتی۔ آپ کے ساتھ میری دعائیں ہیں۔ تہمینہ، لاہور، پاکستان:آپ اور آپ کی ٹیم کے لئے الفاظ نہیں ہیں میں اس سانحے کے بعد یہی سوچتی تھی کہ اللہ نے ان لوگوں سے لے کے آزمایا ہے اور ہمیں دے کے۔ ۔۔ آپ نے تو اپنے حصے کا حق ادا کر دیا ہے اللہ آپ کو سلامت رکھے آپ ہمارا فخر ہیں آپ کی والدہ کے لئے ڈھیروں دعائیں جن کے آپ جیسے بیٹے ہیں اس کا اجر تو اللہ کے پاس ہی ہے عقیل، کینیڈا:براہِ مہربانی اپنا شاندار کام کرتے رہیں۔ ہمیں آپ پر فخر ہے۔ اگر ہمیں کچھ حصہ ڈالنا ہو تو آپ کا بیس کیمپ کہاں ہے؟ لبنیٰ شاہد، کینیڈا:عدنان آپ کی ڈائری بہت زیادہ جذباتی ہے۔ اپنے آپ پر قابو رکھنا مشکل ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد ہی صحیح صورت حال کا پتا چلتا ہے اور حکومت کے دعووں کا بھی۔ اللہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جزا دے جاوید یونس، پنجاب یونیورسٹی، پاکستان:قومیں اور انسانیت آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی قائم ہے، اللہ تعٰالی آپ کے جوش و جذبہ کو جلا بخشے جمال خان، اسلام آباد، پاکستان:عدنان اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آپ کے جذبے کو سلام۔ کاش ہمارے حکمران آپ سے کچھ سیکھیں اور فوٹو کھنچوانے کے علاوہ کچھ کام کریں مہتاب خان، کینیڈا:عدنان آپ کی عظمت کو سلام۔ اللہ آپ کو ہمت اور حوصلہ دے۔ ہماری دعا آپ کے ساتھ ہے Forbidden نتائج عوامي رائے کي سو فيصد نمائندگي نہيں کرتے
040112_india_olympics
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/01/040112_india_olympics
اولمپِکس: بھارت پیشکش دے گا
بھارتی اولمپِک ایسو سی ایشن نےکہا کہ وہ دو ہزار سولہ کے اولمپِک کھیل دہلی میں منعقد کرانے کے لئے انٹرنشینل اومپک کمیٹی کو پیش کش کرے گی۔
یہ فیصلہ اتوار کو ایسو سی ایشن کے سالانہ عام اجلاس میں کیا گیا۔ دہلی نے حال ہی میں دو ہزار دس کے دولت مشترہ کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنے کا ووٹ جیت لیا تھا۔ اسے کینیڈا کے شہر ہیمِلٹن سے مقابلے کا سامنا تھا۔ دولت مشترکہ کے کھیل اولمپکس کے بعد دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا بین الاقوامی مقابلہ ہے۔ اولمپِکس منعقد کرنے کی دہلی کی کوششوں کے بارے میں تفصیلات جاری نہیں کی گئیں ہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اولمپِک ایسو سی ایشن کا خیال ہے کہ دولت مشترکہ کھیلوں کے لئے جن سہولیات کو تعمیر کیا جائے گا ان سے اس کو اولمپِک کھیل منعقد کرانے کی بولی جیتنے میں مدد ملے سکتی ہے۔
050803_us_economy_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/08/050803_us_economy_fz
امریکہ: دو ارب ڈالر روزانہ قرضہ
امریکہ نے اپنے بڑھتے ہوئے قرضوں کو کم کرنے کے لیے اگلے برس سے تیس سالہ بانڈز کا دوبارہ اجراء کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عراق اور افغانستان میں جاری کارروائیوں اور وہاں پر تعینات افواج کے علاوہ اندرونی طور پرصحت اور فلاح کے کاموں پر ہونے والے اخراجات کی بنا پر امریکی حکومت کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے امریکی وزارت خزانہ دو ارب ڈالر روزانہ کے حساب سے قرضے حاصل کر رہی ہے۔ نامہ نگاروں کو کہنا ہے کہ بانڈز کا دوبارہ اجراء اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکہ کو اپنے اخراجات کو پورے کرنے کے لیے دوسرے ذرائع سے قرضے درکار ہیں۔ چار سال قبل امریکی حکومت نے لمبی مدت کے بانڈز جاری کرنا بند کردیے تھے۔ اس وقت امریکی معیشت بہتر تھی اور اس کو فاضل بجٹ دستیاب تھا۔
040711_women_chamber_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040711_women_chamber_fz
خواتین چیمبر آف کامرس کی نمائش
پاکستان میں خواتین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیراہتمام پہلی ایک روزہ ’لائف اسٹائل، نمائش گزشتہ روز لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے مختلف شہروں سے 57 کے قریب خواتین نے سٹال لگائے۔ ان میں کپڑے ، گھریلو ملبوسات، زیورات، بیوٹی ٹیکنیشنز اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کے اسٹالز نمایاں تھے ۔
گورنر پنجاب کی اہلیہ بیگم روبینہ خالد نے اس نمائش کا باضابطہ افتتاح کیا اور اس موقع پر انہوں نے خواتین کے چیمبر کے قیام کو ایک مؤثر پلیٹ فارم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خواتین کو ترقی کرنے کے بھر پور مواقع ملیں گے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں بھرپور حکومتی تعاون کا یقین دلایا اور اس خواتین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کوشش کی حوصلہ افزائی کی۔ خواتین چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر ڈاکٹر شہلا جاوید اکرم نے اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس نمائش کا مقصد کاروبار کرنے والی خواتین کو ایک مخلصانہ پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے کیونکہ ہماری خواتین میں کام کرنے کا جـذبہ بہت زیادہ ہے لیکن ان کو بین الاقوامی سطح پر کام کرنے کا اتنا تجربہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں کیونکہ ان کے اور ہمارے کام کے درمیان معیار کا بہت فرق ہے۔ ان کے مطابق بھارت میں فیشن کونسل کافی عرصہ سے کام کر رہی ہے اور ہم اس کو اب بنا ر ہے ہیں۔ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے مطابق پاکستان میں خواتین کو زیورات کی صنعت کو فروغ دینے کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا کہ اس شعبہ پر تھوڑی سی توجہ ہمیں بھاری زرمبادلہ دے سکتی ہے ۔ ملتان سے نمائش میں شریک کڑھائی کے کپڑے تیار کرنے والی خاتون عائشہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 16 سال سے یہ کام کر رہی ہے اس سے پہلے وہ اپنے تیار کردہ کپڑے لاہور کے پوش علاقوں کے گھروں میں جا کر فراہم کرتی تھی لیکن اب خواتین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر ڈاکٹر شہلا اکرم کی معاونت اور انکی رفیق کار کوثر ضیاء کی بدولت اس نے دو آرڈرز پر کپڑے تیار کر کے برطانیہ بھیجے ہیں جو کہ اس کے لئے انتہائی مسرت کا مقام ہے۔ ان کے مطابق وہ ملتان میں اپنے کام کے ذریعے 50 سے 60 خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہے ۔ ٹی وی کی نامور اداکارہ اور پروڈیوسر ثمینہ احمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی نمائش میں اپنی پروڈکشنز کے حوالہ سے سٹال لگایا ہے جس میں فیشن کی چیزوں کی بجائے ان کی اپنی پروڈیوس کیے ہوئے ڈراموں کی وڈیوز اور سی ڈیز کو رکھا ہے ۔ ان کے مطابق (WCCI) کے قیام کے بعد مرد ان کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکیں گے۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی محترمہ صدف تسنیم کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ دس بارہ سال سے کاروبار سے منسلک ہیں لیکن مردوں کی کی زیادہ تعداد کے باعث وہ اپنا کاروبار بڑھانے سے قاصر تھیں لیکن اس ڈبلیو سی سی آئی کے زیراہتمام اس نمائش سے انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کا موقع ملا ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ ایسی چیزوں سے نا واقف تھیں ۔ نمائش میں خواتین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شعبہ ای۔کامرس کے زیراہتمام اس کی باقاعدہ ویب سائیٹ www.wcci.org.pkکا اجراء بھی کیا گیا ۔ شعبہ ای ۔ کامرس کی انچارج فائزہ جبیں نے بتایا کہ ہم نے مختلف شہروں میں ویب سائیٹ کے اجراء سے پہلے خواتین کو آن لائن کی جدید کاروبار میں اہمیت کے متعلق بتایا ہے اور کاروباری خواتین اس ویب سائیٹ کی ڈائریکٹری میں اپنا نام شامل کروا کر اپنے کام کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کروا سکتی ہیں۔
130902_rolling_news_1
https://www.bbc.com/urdu/rolling_news/2013/09/130902_rolling_news_1
طورخم: طالبان کا افغان۔امریکی فوجی اڈے پر حملہ
طالبان نے افغانستان میں طورخم کے مقام پر پاکستان کی سرحد کے قریب ایک افغان اور امریکی مشترکہ فوجی اڈے پر حملہ کیا ہے۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ ننگرہار صوبے میں ہوئے اس حملے میں کسی غیر ملکی شخص کی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا اور نیٹو ہیلی کاپٹر فوجی اڈے کی فضائی نگرانی کرتے رہے۔ طالبان کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں نیٹو کا سامان لے جانے والے ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں زیادہ تر فوجی گاڑیاں لدی ہوئی تھیں۔ آخری اطلاع آنے تک ٹرکوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔
world-40741385
https://www.bbc.com/urdu/world-40741385
ابتدئی ہزار دنوں میں غذائیت کی قلت کے اثرات، تصاویر میں
افریقی ملک گھانا میں بچوں کے زندگی کے ابتدائی 1,000 دنوں میں خوراک کی کمی سے ان پر پڑنے والے اثرات ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جو بچے کی مستقبل کی صحت، سکول میں تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت اور کے مستقبل کے روزگار کے بارے میں راہ متعین کرتا ہے۔ فوٹو گرافروں اور تحقیق کاروں کے ایک گروپ نے یو بیلانگ نامی ادارے کے زیر اہتمام گھانا میں بچوں میں خوراک کی کمی سے حوالے سے پڑنے والے اثرات پر کو اجگار کرنے کی کوشش کی ہے۔
نانا آگایا کاوؤ پچھترسالہ نانا پچھلے 35 برسوں سے بینٹم گاؤں کے کاشتکاروں کے رہنما ہیں۔ نانا نے دو سال قبل اپنی تمام زرعی زمین ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ڈویلپر کو بیچ دی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی اکثریت اپنے ذریعہ آمدن سے محروم ہو چکی ہے اور انھیں اپنے خاندانوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نانا کہتے ہیں 'مجھے بینٹم کا چیف ہونے پرفخر ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ کوئی آپ کی زمین نہیں لے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ بینٹم کے لوگ اب کاشتکاری نہیں کر سکتے لیکن آپ زندہ رہنے کے لیے کیا کرتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے۔ کیٹ افول کیٹ افولو اپنی بوڑھی ماں کی موجودگی میں بتاتی ہیں کہ کس طرح اس کی دو سالہ بچی زندگی کی جنگ ہار گئی تھی۔ جب سے کیٹ افولو کے شوہر کا قریباً ایک عشرہ پہلے انتقال ہوگیا اسے اپنے چار بچوں کو پالنے کے لیے کام ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کیٹ کے بچے غدائیت کی کمی کا شکار ہیں اور ان کے پاس کھانے کے لیے مکئی اور کساوا سے بنی ہوئی ڈش بانکو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ’خدا نے میری دو سالہ بیٹی کو مجھ سے چھین لیا۔ اس کی صحت خراب تھی، میں نے اسے بستر میں ڈال دیا، اسی شام کو ایک سخت طوفان آیا۔ آسمان غصے سے گرج رہا تھا۔ میں نے بادلوں میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی، جب میں بستر میں پڑی اپنی بچی کو دیکھنےکے لیے گئی تو وہ مر چکی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ اس گرج نے میری بچی کو مار دیا۔‘ حنا ابیخا 30 سالہ حنا ابیخا کے ہرطرف رزد رنگ کی پانی سے بھری بالٹیاں ہیں جو انھوں نے ایک رات پہلے بارش کے پانی سےبھری تھیں۔ حنا ابیخا کبھی سکول نہیں گئیں اور کم عمری میں کام شروع کر دیا۔ وہ اب ایک مچھیرے کی بیوی ہیں جسے کئی ہفتوں تک اپنے گھر دور رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں:’میرا کچن خالی ہے، میرے پاس کھانےکو کچھ نہیں۔ میرے بچے وہ کھانا بھی نہیں کھاتے جو تھوڑا بہت میں انھیں دیتی ہوں۔ مجھے غذائیت کی کمی کے بارے کچھ معلوم نہیں، بس میری دعا ہے کہ میرے بچے بڑے آدمی بنیں۔‘ ربیکا 17 سالہ ربیکا کے بچوں کو ڈاکٹروں یا تربیت یافتہ ہیلتھ کیئر کے ماہرین تک رسائی حاصل نہیں ہے اور بیماری کی صورت میں مقامی دوکانوں سے دوائیاں حاصل کرتے ہیں۔ گاؤں میں اور کئی عورتوں کی طرح ربیکا کو اپنے بچوں کے باپ سے کوئی مدد نہیں ملتی ۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ کسی سے مدد حاصل نہیں کر سکتیں۔ وہ کہتی ہیں 'یہاں عورتیں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتیں' بیٹرس ایمپونفی (دائیں) جوئے گلی (بائیں) بیٹرس اور جوئے بیٹرس اور جوئے غذائیت کی کمی کے یونٹ کی انچارج ہیں۔ چند نرسیں 30 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کی صحت کی محاظ ہیں۔ غذائی قلت کا سامنا کرنے والے بچوں میں سے صرف 20 فیصد بچوں کو ہی اس کلنک میں لایا جاتا ہے۔ ’غذائی قلت کا شکار بچوں کی مائیں اپنے بچوں کے مسائل کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتیں کیونکہ غذائی قلت بدنامی کا باعث ہے۔ ہم پڑوسیوں سے بات چیت کر کے غذائی قلت کا شکار بچوں کا پتا چلاتے ہیں تاکہ انھیں یہاں کلنک میں آنے میں شرمندگی کا نہ سامنا کرنا پڑے۔ لیکن ہماری یہ کوشش سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔‘ کرسٹی اناش 32 سالہ کرسٹی اناش اپنی بیٹی کے ساتھ اس کھیت کے پاس کھڑی ہیں جہاں وہ کبھی کام کرتی تھیں۔ اب اس زمین کو گاؤں کے سربراہ نانا آگایا کووؤ نے بیچ ڈالا ہے جس کے مطلب ہے کہ اب انھیں کام نہیں ملے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسی کھیت میں کام کر کے اپنے چار بچوں کو پال رہی تھی لیکن اب اس گاؤں میں نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ہی خوراک۔ میں اس کا چوتھائی بھی نہیں کما پاتی جو میں پہلے کماتی تھی۔‘ میری ایسل 27 سالہ میری ایسل کلوکوز کی وہ بوتل اٹھائے بیٹھی ہیں جو ایک نرس نے اسے دی تھی۔ ایسل اپنے بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکی کیونکہ وہ پیدائش کے وقت بہت کم وزن تھا۔ کلوکوز دیئے جانے کے باوجود ایسل کا بیٹا پیدائش کے چھ ہفتے کے اندر ہی فوت ہو گیا۔ مقامی روایت ہے کہ اگر کوئی بچہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوا ہو تو اسے ماں باپ سے لے لیا جاتا ہے اور اس کے ماں باپ کو بچے کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس پراجیکٹ کا اہتمام واشنگٹن میں قائم یوبولانک نامی اداروں کے تعاون سے کیا گیا۔
060127_baloch_arrests
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/01/060127_baloch_arrests
’گیارہ بگٹی مخالف اغوا‘
صوبہ بلوچستان کے شہر ڈیرہ بگٹی کے ضلعی رابطہ افسر عبدالصمد لاسی نے کہا ہے کہ ڈیرہ بگٹی کےمختلف مقامات سے مسلح افراد نے گیارہ افراد کو اغوا کر لیا ہے جبکہ بگٹی قبائل کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
عبدالصمد لاسی نے کہا ہے کہ مسلح افراد نے دو افراد کو جمعرات اور نو افراد کو جمعہ کے روز اغوا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنہیں اغوا کیا گیا ہے یہ کلپر بگٹی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو نواب اکبر بگٹی کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ عبدالصمد لاسی نے کہا ہے کہ کچھ افراد کو پٹ فیڈر روڈ اور کچھ کو سوئی روڈ سے اغوا کیا گیا ہے۔ جمہوری وطن پارٹی کے جنرل سیکرٹری آغا شاہد بگٹی نے کہا ہے کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے اور جب تک انہیں اس بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ملتی وہ کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ بلوچستان میں جاری کارروائی کے خلاف آج گوادر اور نو کنڈی میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ گوادر سے ایک مقامی صحافی نے بتایا ہے کہ احتجاجی ریلی کے وقت سیکیورٹی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی ہے لیکن کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ادھر خاران میں زور دار دھماکے کی آواز سنی گئی ہے جس کے بارے میں مقامی لوگوں نے کہا ہے کہ بم دھماکہ ہے جس سے قریب عمارت کو نقصان پہنچا ہے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
060517_derabugti_firing_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/05/060517_derabugti_firing_fz
ڈیراللہ یار: دو پولیس اہلکار ہلاک
صوبہ بلوچستان کے شہر ڈیرہ اللہ یار میں نا معلوم افراد نے پولیس چوکی پر حملہ کیا ہے جس میں دو اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ سوئی میں دھماکے سے چار بچیاں زخمی ہوئی ہیں۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا ہے کہ بدھ کی صبح نصراللہ چوکی پر ہیڈ کانسٹیبل عبدالفتاح اور نور محمد موجود تھے کہ اچانک نا معلوم افراد نے چوکی پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں دونوں اہلکار ہلاک ہو گئے۔ یاد رہے گزشتہ ہفتے نا معلوم افراد نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج کی فائرنگ رینج میں پانچ دھماکے کیئے تھے جس میں چھ پولیس اہلکار ہلاک اور تیرہ زخمی ہوگئے تھے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ سوئی کی بگٹی کالونی میں رات گئے زور دار دھماکہ ہوا ہے ۔ سوئی تھانے میں موجود پولیس افسر نے کہا ہے کہ دھماکہ گھروں کے سامنے کھلے میدان میں ہوا ہے۔ اس واقعے میں چار بچوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
031018_mush_plot_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031018_mush_plot_si
قتل کی سازش پر دس سال سزا
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے گزشتہ سال صدر مشرف کو کراچی کے دورے کے دوران ہلاک کرنے کی سازش کرنے پر تین ملزمان کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔
اس کے علاوہ ملزمان محمد حنیف، محمد عمران اور محمد اشرف خان کو ایک لاکھ روپے جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دی جانے والی زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔ تاہم عدالت نے رینجرز کے انسپکٹر وسیم اختر اور پانچویں ملزم شاررب ارسلان فاروقی کو بری کر دیا ہے۔ ملزمان انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں آخری اپیل سننے کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے۔ عدالت کی طرف سے سزا پانے والے تینوں ملزمان کا تعلق حرکت المجاہدین العالمی نامی ایک شدت پسند گروپ سے ہے۔ اس گروپ کو کالعدم تنظیم حرکت المجاہدین کی ایک شاخ کہا جا رہا ہے۔ استغاثہ کے مطابق ملزمان نے گزشتہ سال چھبیس اپریل کو صدر مشرف کو کراچی کے دورے کے دوران بم سے اڑانے کی سازش کی تھی۔
141017_pti_hrcp_foreign_agents_rk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/10/141017_pti_hrcp_foreign_agents_rk
غیر ملکی ایجنٹوں کا ملک
تحریکِ انصاف کے سربراہ اور قائداعظم ثانی نے پاکستان کے اِنسانی حقوق کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ وُہ پیسے باہر سے لیتے ہیں اور ملک میں بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ عمران خان نے نئے پاکستان میں ایک بہت ہی پُرانی بات کر دی ہے۔ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو غیر ملکی ایجنٹ یا غدار کہنے کی روایت اُس وقت سے موجود ہے جب یہ ملک بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔
عمران خان کو چاہیے کہ نئے پاکستان میں نئی زبان میں نیا الزام لگائیں غیر ملکی ایجنٹ کہنا چھوڑیں اور بس یہ کہہ دیں کہ نئے پاکستان میں اِنسانی حقوق کا کوئی وجود نہیں ہو گا قائداعظم کو اُن کے مخالفین بھی انگریزوں کا ایجنٹ کہتے تھے۔ لیاقت علی خان کو بھی مارنے والوں نے کِسی بیرونی طاقت کا کارندہ سمجھا ہو گا۔ایوب خان کے مخالفین اُنھیں امریکہ کا یار کہتے تھے ایوب خان بھی کہتے تھے دوست ہیں پر آقا نہیں ہیں اور امریکہ سے مِلنے والے رزق سے اُن کی پرواز میں کوتاہی نہیں آتی بس یہ رزق کھانے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو کمیونسٹ اور سویت یونین کا ایجنٹ کہنا پڑتا ہے۔ بھٹو کو اِتنے ملکوں کا ایجنٹ بتایا گیا کہ اُنھیں خود بھی یقین آنے لگا اور وہ تیسری دُنیا کے ایجنٹ بننے کے خواب دیکھتے پھانسی پر جھول گئے۔باچا خان تو گاندھی کے ایجنٹ تھے ہی۔ مجیب الرحٰمٰن نے دھڑلے سے کہا کہ سب کا ایجنٹ بننے کے لیے تیار ہوں لیکن مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی ایجنٹی نہیں چلے گی۔ ضیا الحق نے اپنے مخالفین کو روسی اور افغانی ایجنٹ کہہ کر ٹکٹکی پر لٹکایا۔ خود اُنھیں اِسرائیل سے اسلحہ لینے پر کوئی عار نہیں تھی۔ کِسی غیر ملک کے ایجنٹوں سے نمٹنے کے لیے خود کِسی دوسرے ملک کا ایجنٹ بننا پڑے تو اِس میں کوئی ہرج نہیں۔ خود عمران خان پر اُن کے مخالفین اِس طرح کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ اِنسانی حقوق کمیشن نے نہ اُن پر نہ کسی اور سیاستدان پر آج تک غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا ہے۔ اِس لیے عمران خان کو چاہیے تھا کہ کمیشن پر الزام لگانا ہی تھا تو کہہ دیتے کہ اوئے تم لوگوں کو کِس نے حق دیا ہے کہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ریاست کے ہر کام میں ٹانگ اڑاتے ہو۔ جب نواز شریف امیر المومنین بننا چاہتا ہے تو تم اِنسانی حقوق والے اُس پر چڑھ دوڑتے ہو۔ جب مشرف آتا ہے اور ہم جیسے لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے ہوتے ہیں تو آپ لوگ اُسے ڈکٹیر کہنا شروع کر دیتے ہو۔ وُہ ریفرنڈم کراتا ہے اور ہم اُس کی حمایت کرتے ہیں تو تم ساری دُنیا میں شور مچاتے ہو کہ فراڈ ہو رہا ہے۔ جب ملک کا چیف جسٹس فارغ کیا جاتا ہے تو اُسے بحال کرانے میں سب سے آگے اور جب وہی چیف جسٹس بحال ہونے کے بعد اپنے آپ کو عقل کُل سمجھنے لگے تو اُس کا ہاتھ پکڑنے میں بھی سب سے آگے۔ اگر عمران خان ہوتے تو کم از کم چیف جسٹس پر الزام لگانے سے پہلے اُس کے ریٹائرڈ ہونے کا انتظار کرتے اور پھر ہرجانے کی دھمکی ملتی تو گول مول سی معافی مانگ لیتے۔ بھٹو کو اِتنے ملکوں کا ایجنٹ بتایا گیا کہ اُنھیں خود بھی یقین آنے لگا اور وہ تیسری دُنیا کے ایجنٹ بننے کے خواب دیکھتے پھانسی پر جھول گئے اور اؤئے کمیشن والو یہ کیا قلابازیاں ہیں جب طالبان مارتے ہیں تو شور مچاتے ہو اُنھیں ظالم کہتے ہو پھر اُنہی طالبان کو جب ہماری اِنٹیلی جنس ایجنسیاں بغیر کِسی مقدمے کے زندان خانوں میں بند کرتی ہیں تو دہائی دیتے عدالتوں میں پہنچ جاتے ہو کہ اِن کو بھی بنیادی حقوق دو۔ اور یہ تو حکومت کے معاملے ہیں تم نے ہر شعبے میں ملک کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ کہیں کوئی شیعہ مارا جائے، کہیں کِسی احمدی کا گھر جلے کوئی جیل میں توہین مذہب کے کسی ملزم کو گولی مار دے، جرگوں میں بچیوں کا کاروکاری یا ونی کے نام پر کاروبار ہو، ہاریوں کو زنجیروں سے نسل در نسل جکڑا جائے دفتروں میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے، سکول جلائے جائیں، بچوں سے جبری مشقت لی جائے ہر بات پر رپورٹ ہر، بات پر بیان جب کوئی حکومت میں ہو تو اُس کی مخالفت، اور جب کوئی کال کوٹھڑی میں ہو تو اُس کے بنیادی حقوق کے لیے شور کرتے ہو۔ یہ کمیشن نہ ہوتا تو نہ کِسی سیاسی جماعت کو نہ کِسی میڈیا والے کو پرواہ ہوتی کہ بلوچستان میں کون کِسی کو مار رہا ہے۔ نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے زندان خانے کِس کے دم سے آباد ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ نئے پاکستان میں نئی زبان میں نیا الزام لگائیں غیر ملکی ایجنٹ کہنا چھوڑیں اور بس یہ کہہ دیں کہ نئے پاکستان میں اِنسانی حقوق کا کوئی وجود نہیں ہو گا اور ایسی بات کرنے والوں کو وہ اپنے ہاتھوں سے پھانسی دیں گے۔ لیکن ڈر یہ ہے کہ اِس پر بھی اِنسانی حقوق کا یہ ڈھیٹ کمیشن بیان دے گا کہ آج کل پاکستان میں پھانسیوں پر پابندی ہے اور وہ اپنے سب سے بڑے دُشمن کو بھی پھانسی دینے کے خلاف ہیں اور رہیں گے۔
080430_qazi_talks_presser_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/04/080430_qazi_talks_presser_rh
’حقائق چھپانے کی کوشش‘
جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ججوں کی بحالی کے لیے دوبئی مذاکرات کی مذمت کی اور کہا ہے کہ یہ مذاکرات بیرون ملک اس لیے کیے جارہے ہیں تاکہ اہم فیصلے عوام سے چھپائے جاسکیں اور یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کون کون ان سے مل رہا ہے اور کون سی قوتیں اثر انداز ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون نے اب تک جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ حکمران اتحاد کو ججوں کی بحالی کے لیے مزید دوہفتے کی مہلت دی جاسکتی ہے البتہ حکمران اتحاد کے لیے ججوں کی بحالی سے دستبردار ہونے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے ججوں کی بحالی کے لیے اعلان مری کی صورت میں قوم کے سامنے تحریری وعدہ کیا ہے جو انہیں پورا کرنا ہی ہوگا۔ جماعت اسلامی ان سیاسی جماعتوں میں شامل ہے جس نے اٹھارہ فروری کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا اتحاد ٹوٹ جائے۔ اس کی بجائے صدر مشرف اور ان کی آمریت کو رخصت ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا پرویز مشرف نے تین نومبرکو چیف آف آرمی سٹاف کی حثیت سے جو فیصلے کیے وہ بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں اور نئے حکمرانوں کو فوری طور پر ان کا مواخذہ کر کے ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ جماعت اسلامی کے ہیڈکواٹر منصورہ میں ہونے والی پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے نائب امراء لیاقت بلوچ، اسلم سلیمی حافظ ادریس اور سیکرٹری جنرل سید منور حسن بھی موجود تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا کہ ججوں کی بحالی اور دیگر صورتحال پر غور کے لیے آل پارٹیز ڈیموکریٹک مووممنٹ یعنی اے پی ڈی ایم کا اجلاس چودہ مئی کو بلایا جارہا ہے۔
pakistan-41415263
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-41415263
’کونسی طاقتیں تشدد پسند تنظیموں کو سیاست میں لا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں؟‘
پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والی سیاسی جماعت 'ملی مسلم لیگ' کی رجسٹریشن کی مخالفت کیے جانے کے بعد یہ بحث ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں ایسے دو امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیسے دی جن کے مبینہ طور پر کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات رہ چکے ہیں۔
ملی مسلم لیگ کے انتخابی بینر پر حافظ سعید کے ہمراہ قائد اعظم کی تصویر بھی تھی اس ضمنی انتخاب میں تحریکِ لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا اور پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ ٭ ’2018 میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہوگا‘ ٭ ’ملی مسلم لیگ حافظ سعید کے وژن پر بنی ہے‘ ٭ مذہبی جماعت کی سیاسی جماعت اور آزاد امیدوار ملی مسلم لیگ نے اس الیکشن سے قبل ہی الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی جس پر چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان نے وزارت داخلہ سے رپورٹ بھی طلب کی تھی۔ وزارت داخلہ نے اب اس بارے میں تحریری طور پر رائے دی ہے کہ چونکہ ملی مسلم لیگ کا تعلق کالعدم گروپوں سے رہا ہے اس لیے اسے بطور سیاسی جماعت رجسٹر نہ کیا جائے۔ وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اس جماعت کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں اور جن کالعدم جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت شامل ہیں۔ لشکر طیبہ کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2002 میں کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جبکہ فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ پر سنہ 2017 میں پابندی عائد کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں ملی مسلم لیگ کے سربراہ سیف اللہ خالد کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ حافظ سعید ان کی جماعت کے علاوہ مذکورہ کالعدم گروپوں کے بھی نظریاتی لیڈر ہیں۔ ملی مسلم لیگ کا تعلق کالعدم گروپوں سے رہا ہے اس لیے اسے بطور سیاسی جماعت رجسٹر نہ کیا جائے: وزارتِ داخلہ ملی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم نے وزارت داخلہ کے خط پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر قانونی، غیر آئینی قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں اُنھوں نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی جماعت کی 'رجسٹریشن' کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ ملی مسلم لیگ کے ترجمان نے کہا کہ'ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہمارا کسی ممنوعہ تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ہم کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں۔' دہشت گردی سے نمٹنے والے پالسیی ساز ادارے نیکٹا کے قوانین کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا جس کا تعلق کالعدم تنظیم سے رہا ہو یا وہ ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے کے واقعات میں ملوث رہا ہو۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی سیاسی جماعت کو رجسٹر کرنے کے لیے اگرچہ وزارت داخلہ یا انٹیلیجنس بیورو سے رائے لینے کا پابند نہیں اور بظاہر یہ فیصلہ ملی مسلم لیگ کی بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحفظات کے اظہار کے بعد کیا گیا تھا۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اگر رجسٹریشن کے بعد بھی کسی جماعت کے بارے میں ناقابل تردید شواہد سامنے آئیں کہ وہ پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے تو اس جماعت کی رجسٹریشن کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملی مسلم لیگ کی طرف سے حالیہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے سفارتی حلقوں میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ اُنھوں نے اس پر اعتراضات بھی اُٹھائے ہیں۔ ادھر پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں کیسے تشدد پسند تنظیموں کو سیاسی دھارے میں لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ 'کونسی ایسی طاقتیں ہیں جو ان تنظیموں کو سیاست میں لا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔' ٭ ملی مسلم لیگ کے نام سے جماعت الدعوۃ کی سیاسی جماعت کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو ان تنظیموں کو سیاست میں لا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں: فرحت اللہ بابر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور سنہ 2002 میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے کاعذات نامزدگی محض اس بنیاد پر مسترد کیے گئے کہ اُنھوں نے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمات کا سامنا نہیں کیا اور بیرون ملک چلی گئیں جبکہ اب کالعدم تنظیموں سے وابستگی رکھنے والے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ارکان پارلیمان نے الیکشن کمیشن سے اس ضمن میں وضاحت طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ عوامی نیشل پارٹی کے رہنما زاہد خان کہتے ہیں کہ اگر شدت پسند تنظیموں کو سیاسی دھارے میں لانے کی روش کو تبدیل نہ کیا گیا تو دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے پاکستان پر شدت پسندی کو فروغ دینے کے الزامات کو تقویت ملے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2013 میں ہونے والے انتخابات میں شدت پسند کالعدم تنظیموں کی طرف سے ان کی جماعت کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی انتخابی مہم چلانے پر دھمکیاں دی گئی تھیں جس کی وجہ سے یہ جماعتیں اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے نہ چلا سکیں۔ خیال رہے کہ پاکستان میں ماضی میں بھی ایسی مذہبی جماعتوں کی جانب سے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جن پر فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں تاہم یہ کوشش بڑی حد تک ناکام رہی ہے
031018_mush_demo_two
https://www.bbc.com/urdu/forum/story/2003/10/031018_mush_demo_two
مشرف حکومت کے چار سال
دس اکتوبر کو پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو ایک سال مکمل ہوتا ہے۔ ابھی تک قومی اسمبلی میں ایل ایف او کے موضوع پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تعطل جاری ہے اور اسمبلی میں قانون سازی کا کوئی کام ہورہا ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کوئی اہم کردار ادا کر پا رہی ہے۔
بارہ اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے چار سال بھی پورے ہوتے ہیں اور اس بات کا امکان نہیں دکھائی دے رہا کہ وہ اقتدار چھوڑنے کے لئے تیار ہوں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں ’اصلی‘ جمہوریت کا نظام قائم ہوا، معیشت میں بہتری آئی اور دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا۔ ان کے ناقدین ان تمام دعووں کو اک مطلق العنان حکمران کی بڑ قرار دیتے ہیں۔ آپ کی نظر میں کیا پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوتی نظر آرہی ہے؟ کیا سیاست میں فوج کی مداخلت جاری رہے گی؟ کیا یہ مداخلت ملک کے لئے سود مند ہے؟ جنرل مشرف کے چارسالہ دورِ اقتدار پر آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ --------------یہ فورم اب بندہوچکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------------ یہ چار سال بہت اچھے تھے احمد خان احمد خان، جام پور، پاکستان یہ چار سال بہت اچھے تھے۔ میں بہت خوش ہوں اور مشرف ایک زبردست آدمی ہیں۔ رانا محمد اسلم، دوہا، قطر وہ (مشرف) برے آدمی ہیں۔ وہ ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ شیر محمد آرائیں، کراچی، پاکستان یہ سب سے زیادہ بدعنوان اور ناکام حکومت ہے۔ جب سربراہ ہی قانون سے بالا تر ہو تو ملک میں قانون کی حکمرانی کیسے ہو سکتی ہے۔ محمد امین عاطف، ابوظہبی جنرل مشرف اس وقت اقتدار میں آئے جب انہیں معلوم ہوا کہ انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا جارہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ وہ اس وقت کیا کررہے تھے جب پاکستان بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ہاتھ میں تھا؟ محمد کامران، پاکستان جنرل مشرف حکومت کے چار سال بہتر رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ اور اسٹیل ملوں کی ترقی سے ہم ملک کی حالت سمجھ سکتے ہیں۔ ہم مشرف حکومت چاہتے ہیں، نہ کہ جمالی حکومت۔ ہر غریب آدمی مشرف حکومت کی حمایت چاہتا ہے۔ عزیہ حیات، کوئٹہ جنرل مشرف کا دور ہر طرح سے بےکار رہا ہے، بالخصوص غربت، لاقانونیت اور حزب اختلاف کے ساتھ مسائل کی وجہ سے۔ صداقت سہراب عباسی، پاکستان میں سمجھتا ہوں کہ جنرل مشرف کو استعفی دیدینا چاہئے کیونکہ انہوں نے غربت اور بےروزگاری کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ جب پارلیمان کو انہوں نے بدتمیز قرار دیا تو وہ بھول گئے کہ یہ ان کی اپنی بنائی ہوئی’گریجوایٹ اسمبلی‘ ہے مسعود احمد مسعود احمد، ٹنڈو جام، پاکستان صدر مشرف نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ انہیں اقتدار کی کوئی لالچ نہیں اور انہیں تو صرف حالات و واقعات نے صدر بنا دیا ہے اور اب وہ کہتے ہیں کہ میں ملک کےلئے اہم ہوں اور مجھے میرے ایل ایف او سمیت قبول کیا جائے۔ جب پارلیمان کے ایل ایف او کے خلاف احتجاج پر انہوں نے اسے بدتمیز قرار دیا تو وہ بھول گئے کہ یہ ان کی اپنی بنائی ہوئی ’گریجوایٹ اسمبلی‘ ہے جس میں اکثریت ان کی اپنی کمپنی کی ہے اور وزیر اعظم ان کے اپنے چنے ہوئے ہیں۔ ان پر کیٹو کا یہ اقتباس صادق آتا ہے کہ ’غصے میں آدمی اپنا منہ کھول دیتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔‘ نصیر چوہدری، امریکہ میرا خیال ہے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اتنے محتصر وقت میں کسی کےلئے بھی اس ملک کو بدلنا مشکل ہوگا۔ وہ صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ محمد صاحبزادہ، مردان، پاکستان مشرف یہودیوں اور عیسائیوں کے غلام ہیں اور انہیں اپنے انجام کا کوئی احساس نہیں۔ ان کا انجام دوسروں کےلئے سبق آموز ہوگا۔ عمران آزاد، لاہور، پاکستان میرے خیال میں مشرف ان چار برسوں میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ انہیں حکومت چھوڑ کر پارلیمان کو ملک چلانے دینا چاہئے۔ تعلیم کی کمی کے باعث ہمارے عوام ہر بار ایک غلط فیصلے کی بڑی قیمت چکاتے ہیں احمد نواز اختر نیازی، لاہور، پاکستان جنرل پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے لوٹنے والوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ وہ بہت برے منجدھار سے نیّا بچا لائے ہیں۔ ان کی واحد غلطی انتخابات کا انعقاد ہے۔ ہمیں لٹیروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ محتضراً یہ کہ انہوں نے ملک کو مستحکم بنایا ہے جب کہ ہم حدیبیہ شریف کے نواز شریف کے شاہی دورِ حکومت میں دیوالیہ ہونے والے تھے۔ احمد نواز، دوبئی، متحدہ عرب امارات اگر اللہ کبھی پاکستان کو رہنما دے تو پرویز مشرف جیسا۔ وہ جس طرح ملک کی تقدیر بدل رہے ہیں ویسے شاید ہی کوئی سیاستدان کرے۔ جو بھی آئے انہوں نے لوگوں سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کے بجائے صرف اپنی جیب بھرنے پر توجہ دی۔ پاکستان کے لئے جمہوریت ایک ناقص عمل ہے۔ انتخابات وہی لوگ جیتتے ہیں جن کا اثر و رسوخ ہو۔ تعلیم کی کمی کے باعث ہمارے عوام ہر بار ایک غلط فیصلے کی بڑی قیمت چکاتے ہیں۔ مشرف جس طرح سے بھی برسرِ اقتدار آئے یہ اللہ کی غنیمت ہے ورنہ پاکستان آج دیوالیہ ہوچکا ہوتا۔ امان اللہ خان، متحدہ عرب امارات وہ (مشرف) اچھے آدمی نہیں ہیں اور ان کی حکومت ہمارے لئے اچھی نہیں ہے۔ مجاہد علی خان، کراچی، پاکستان وہ مختلف قسم کے صدر ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں اور انشاءاللہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایک عظیم مملکت میں بدل دیں گے۔ مشرف نے شریف دور میں بھارتی وزیرِاعظم کو سلوٹ مارنے سے انکار کر دیا تھا مگر اب خود ہی بھارت کو اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ سیدہ ثناء بخاری سید ثناء بخاری، راولپنڈی، پاکستان پرویز مشرف نے نواز شریف دور میں بھارت کے وزیرِاعظم کو سلوٹ مارنے سے انکار کر دیا تھا مگر اب خود ہی بھارت کو اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ محمود فیاض، سعودی عرب مشرف صاحب ایک اچھے انسان، محبِّ وطن پاکستانی اور بہادر فوجی ہیں لیکن ان کا اقتدار میں آنے کا طریقہ غلط تھا اور اس طرح سے انہوں نے ایک اور غلط مثال قائم کی ہے آنے والوں کیلئے۔ جمہوریت صرف اور صرف ایک صاف و شفاف انتخابات کروانے سے قائم ہو سکتی ہے۔ موجودہ صورتِ حال تو یہ ہے کہ اسمبلیاں مشرف صاحب کی ٹھوکر پر ہیں اور فوج کو انہوں نے ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ نہ وہ صدارت چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی آرمی اور اس کیلئے وہ کچھ بھی تیار کرنے کو نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستانی عوام کی خواہشات کے برعکس امریکہ کی ناجائز شریعت بھی مان رہے ہیں۔ آحری بات یہ ہے کہ فردِ واحد کی عقل ہر فیصلہ صحیح نہیں کر سکتی اور مشرف صاحب اس معاملے میں حد سے زیادہ اعتماد کا شکار نظر آتے ہیں۔ منظور احمد، کراچی ہمیں جمہوریت کی ضرورت نہیں ہے یا شاید جمہوریت ہمیں راس نہیں آتی۔ بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف جیسے رہنماؤں نے اس ملک کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اسے لوٹا اور اپنے عزیز و اقارب کو طاقتور اور امیر بنایا۔ کم از کم مشرف کا ماضی بے داغ ہے اور ان پر کوئی بدعنوانی کا الزام نہیں ہے۔ وہ مخلص اور صاف گو ہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں موقعہ دینا چاہئے تاکہ جو پالیسیاں ان کے دور میں بنی ہیں ان کا ثمر ہمیں نظر آئے۔ میری رائے میں انہیں انتہا پسند مسلمانوں سے ڈرنا نہیں چاہئے اور اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے۔ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ ’ایل ایف او‘ رہتا ہے یا نہیں اور نہ ہی اس سے دلچسپی ہے کہ آیا یہ حقیقی جمہوریت ہے یا نہیں۔ جب تک ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں مشرف کو اقتدار میں رہنا چاہئے۔ اور پھر ویسے بھی کیا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے؟ کیا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے؟ منظور احمد عبدالقیوم فریدی، مسی ساگا، کینیڈا مشرف پوری اسلامی تاریخ کے بدترین رہنما ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار میں لفظ ’پاکستانی‘ ایک گالی بن گیا ہے۔ احمد خان، سڈنی، میرا خیال ہے کہ پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے اس عالمی بحران کے موقعے پر اتنا زبردست رہنما ملا ہے۔ درحقیقت وہ (مشرف) پاکستان کی تاریخ کے بہترین رہنماؤں میں سے ہیں۔ سجاداللہ بیگ، گلگت، پاکستان اپنے دورِ اقتدار کے پچھلے چار برس کے دوران انہوں (مشرف) نے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کے ساتھ پہلے کے کسی بھی حکمران سے زیادہ مخلص ہیں اس لئے ایک مخلص شحض کی حکومت بہتر ہے۔ مشرف پاکستان کےلئے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے، ہاں ایف سولہ کے بدلے کھانے پکانے کا تیل ضرور حاصل کر سکتے ہیں محمد مبین محمد مبین، ڈیٹرائیٹ، امریکہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کے دیگر فوجی حکمرانوں کی طرح ملک کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے خصوصاً اپنے گوری چمڑی والے غیر ملکی آقاؤں کے ہاتھوں قومی غیرت اور ملکی مفادات کا سودا کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو امریکی صدر کا اچھا دوست سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کےلئے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے، ہاں ایف سولہ کے بدلے کھانے پکانے کا تیل ضرور حاصل کر سکتے ہیں۔ سلیم عدیل، کراچی، پاکستان ۔۔۔لیکن ہمارے پاس اور راستہ ہی کیا ہے۔ سیاستدان بدعنوان اور نااہل ہیں۔ سلطان شیخ، ٹیکساس، امریکہ وہ (مشرف) بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان پہلی دفعہ درست سمت کی طرف گامزن ہے۔ علینہ علی، ہملٹن، برطانیہ ہم اتنے کمزور کبھی نہ تھے جتنے اب ہیں۔ ہم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ خدا مسلمانوں کی مدد کرے۔ مشرف کے دور میں ثابت ہوگیا ہے کہ ہم امریکہ کے غلام ہیں۔ ہر کام ان ہی کی مرضی کا ہوگا اور کسی بھی پاکستانی کی کہیں بھی کوئی حیثیت نہیں۔ جب جس کا دل چاہے اسے پکڑ لے۔ پاکستان پہلی دفعہ درست سمت کی طرف گامزن ہے سلطان شیخ خالد عزیز، عمّان جنرل مشرف کے چار سالوں میں تعلیم اور معیشت کو استحکام حاصل ہوا ہے۔ وہ غریب لوگوں کا خیال رکھتے ہیں اور خیرات دیتے ہیں۔ وہ ایک جنرل ہیں اس لئے انہیں بہتر پتہ ہے کہ ملک کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ انہیں انگریزی اچھی آتی ہے اس لئے وہ بہترین ہیں۔ سید زیدی، اونٹاریو، کینیڈا مشرف بہت اچھا کر رہے ہیں۔ انہیں ملک سے مذہبی سیاست اور تشدد کا خاتمہ کر دینا چاہئے۔ امریکہ انہیں ایسے ہی استعمال کر رہا ہے جیسے اس نے جنرل ضیاء کو کیا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد وہ انہیں مشرف کی طرح ٹھکانے نہ لگا دے۔ سعید حسین شاہ، سعودی عرب جنرل مشرف پاکستان کے لئے سب سے بہتر رہنما ہیں۔ غلام مصطفیٰ، اسلام آباد جنرل مشرف کے چار سالہ دورِ اقتدار میں پاکستان کے لئے بہت مسائل پیدا ہوئے۔ بہت سے اقتصادی مسائل پیدا ہوئے اور لوگوں کی حالتِ زندگی بہتر نہیں ہوئی۔ حزب اختلاف کے خلاف ’ریاستی دہشت گردی‘ ہورہی ہے اور زمینی سطح پر جمہوریت نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے خلاف ’ریاستی دہشت گردی‘ ہورہی ہے اور زمینی سطح پر جمہوریت نہیں ہے باسط خان باسط خان، پاکستان میری عمر پچاس سال ہے اور میری زندگی میں جنرل مشرف کے چار سال سب سے بہتر رہے ہیں۔ میں ان کا شکر گذار ہوں کہ انہوں نے ہمیں نواز شریف اور بینظیر بھٹو جیسے بدعنوان سیاست دانوں سے محفوظ رکھا ہے۔ احتشام الحق شان، سمندری، پاکستان وہ ایک اچھے رہنما ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ اقتدار میں لمبے عرصے تک رہیں گے۔ ہم ان کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے متعدد ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے۔ فضل، اسلام آباد جنرل مشرف کی چار سالہ دورِ حکومت پاکستانی تاریخ میں بدقسمتی کے دور کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔ وزیراعظم اور پارلیمان کو کوئی اختیار نہیں ہے اور طاقت اب بھی جنرل مشرف کے ہاتھ میں ہے۔ عبدالواجد انصاری، پاکستان جنرل مشرف سوفیصدی طور پر اقتدار کی لالچ میں ہیں۔ وہ قوم کے خادم ہیں لیکن قوم پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ان کا دورِ اقتدار ملک کی تاریخ میں سب سے برا ہے۔ عاصم الدین، انگلینڈ میں سمجھتا ہوں کہ جب فوج اقتدار میں ہوتی ہے تو پاکستان کے لئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ فوج کو اپنا پیشہ ور کام کرنا چاہئے۔ عبداللہ، کراچی ایک آمر کے بارے میں کوئی کیا رائے دے سکتا ہے۔ پاکستان کو لوٹنے والے لوگ صدر مشرف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ عطا اللہ خان عطا اللہ خان، شارجہ عین ممکن ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف فطرتاً ایک اچھے انسان ہوں لیکن وہ ان سیاستدانوں پر انحصار کر رہے ہیں جو نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتوں میں شامل تھے۔ ملک کے غریب عوام کی زندگی میں کوئی مثبت فرق نہیں آیا اور ملک کو لوٹنے والے لوگ صدر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ ملکی سیاست میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ نواز شریف اور بے نظیر بذاتِ خود سیاست کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن جنرل مشرف کو وہی لوگ مضبوط بنا رہے ہیں جو سابق سربراہاں کے ساتھ رہے ہیں۔ نہ ہی ہمیں ملکی ترقی کی کوئی امید نظر آتی ہے۔ مظہر حسین تازہ گرامی، دبئی میں صدر مشرف اور ان کی چار سالہ حکومت سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ پاکستان کے عوام اگر صدر مشرف کو دس برس تک اقتدار میں رہنے کا موقع دیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان دنیا کی ایک عظیم ملک بن جائے گا۔ خطاب کی جو قابلیت صدر مشرف کے پاس ہے وہ وزیراعظم جمالی یا واجپئی کے پاس نہیں۔ احمد نوید احمد نوید، سیالکوٹ، پاکستان صدر پرویز مشرف ایک باصلاحیت شخصیت ہیں اور بیشتر سیاستدانوں سے بہت بہتر ہیں۔ قوم سے خطاب کی جو قابلیت صدر مشرف کے پاس ہے وہ وزیراعظم جمالی یا واجپئی کے پاس نہیں۔ میرے خیال میں ملک میں جمہوریت ہو یا نہ ہو لیکن ملکی انتظامیہ میں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی زیادہ اہم ہے۔ پاکستان میں کسی دفتر میں ملازمت حاصل کرنے کے خواہشمند کی تعلیم اور تجربہ پر غور کیا جاتا ہے لیکن ملک کے وزیراعظم یا دیگر وزراء کی تعلیمی قابلیت کو توجہ دیے بغیر ہی ان کا انتخاب کر لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ امریکہ کے صدر بش سی۔آئی۔اے میں کئی برس تک کام کر چکے ہیں۔ اگر ہم سب کچھ وزیراعظم جمالی پر چھوڑ دیں گے تو وہ تمام معاملات کامیابی سے نمٹانے میں ناکام رہیں گے۔ ہمارے خیال میں اسلام، پاکستان سے زیادہ اہم ہے۔ عاصم خان عاصم خان، لاہور، پاکستان ابتداء میں ایسا دکھائی دیتا تھا کہ تمام معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم تمام روایتی سیاستدانوں سے تو پہلے ہی اکتا چکے تھے اور یہ سوچتے تھے کہ ان لوٹ مار کرنے والوں سے کیونکر چھٹکارا ہو گا۔ ایسے وتق میں صدر جنرل مشرف ایک ہیرو بن کر ابھرے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں خاص طور پر اس وقت جب امریکی فوج نے افغانستان میں طالبان پر حملہ کر دیا۔ سب لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ طالبان کو ہمی لوگوں نے بنایا کیونکہ اس طرح آئی۔ایس۔آئی اسلام اور پاکستان کو محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن صدر مشرف نے ہمارے وقار کے بجائے پاکستان کی معیشت پر توجہ مرکوز کر دی۔ جنرل مشرف مجموعی طور پر مثبت نظریات کے حامل ایک اچھے انسان ہیں اور امید ہے کہ وہ ایک اچھے مسلمان بھی ہوں گے۔ ہمارے خیال میں اسلام پہلے اور پاکستان بعد میں اہم ہیں۔ محمد زبیر، فیصل آباد، پاکستان صدر جنرل پرویز مشرف ایک ناقص الفہم شخص ہیں۔ وہ اپنے ہر اقدام کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کمزور اعصاب کے آدمی ہیں اور دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے موجودہ عہدے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی کوشش کیے جا رہے ہیں۔ کچے سیاستدان پاکستان کے نظام میں خرابی کی جڑ ہیں۔ الطاف محمد الطاف محمد، پاکستان میں صدر جنرل پرویز مشرف کو ان کے غیر آئینی اقدام کا ذمہ دار نہیں سمجھتا اس لیے ان کی مخالفت بھی نہیں کروں گا۔ ہمارے سیاستدان ملک کا انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔ جب بھی ملک میں مارشل لاء یا فوجی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو اس کے ذمہ دار ملک کے سیاستدان ہوتے ہیں۔ آج پاکستان میں تمام مذہبی تنظیمیں جنرل مشرف کی مخالفت کیوں کر رہی ہیں، صرف اس لیے کہ وہ ایک فوجی ہیں۔ یہ قطعی ناانصافی ہے۔ پاکستان کےعوام کو کسی کے یونیفارم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لوگ صرف امن و امان، ملکی استحکام، روزگار کی فراہمی اور روز مرہ کی بنیادی ضروریات کے حصول کے طلب گار ہیں۔ پاکستان کو کچے سیاستدانوں کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ سیاستدان ملکی نظام میں خرابی کی جڑ ہیں۔ سہیل شیخ، لورالائی، پاکستان بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بھلی۔ سن انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ننانوے تک کے واقعات اس بات کے گواہ ہیں۔ اب کم از کم گزشتہ چار برس میں کچھ اور نہیں ہوا تو مستحکم آمریت تو قائم ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی طویل المدت پالیسیوں کے نتائج کے لیے کتنا انتظار کرنا ہو گا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ نذرالحق، سعودی عرب بلاشبہ جنرل مشرف کی شخصیت بیشتر پیشہ ور سیاستدانوں سے بہتر ہے۔ ان کے دورِ حکومت میں جو بہت بڑا کام ہو رہا ہے وہ ہے ذرائع ابلاغ کی آزادی۔ میں نے اپنی پچاس سالہ زندگی میں ایسی آزادی نہیں دیکھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے کام ہوئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پرویز مشرف جتنے بھی اچھے ہو جائیں وہ ایک ادارے کی شکل اختیار نہیں کر سکتے، وہ محض ایک شخصیت ہی رہیں گے اور انہیں ایک دن یہ جگہ اور عہدہ چھوڑنا ہے۔ ان کے بعد یہ خلاء کون پُر کرے گا۔ ایوب خان کے دور میں بہت اچھے کام ہوئے لیکن ان کے جانے کے بعد جو خلاء پیدا ہوا اس سے پورے کیے دھرے پر پانی پِھر گیا۔ اس لیے مشرف نے جہاں دیگر اچھے کام کیے ہیں وہاں اداروں کو بھی مضبوط اور خود مختار کر دیں تو یہ ملک و قوم کی ایک بہت بڑی خدمت ہو گی۔ پاکستان کی تباہی کا واحد سبب مُلا حضرات ہیں سیّد نقوی سیّد نقوی، دبئی میری رائے میں جنرل مشرف ملک کا نظم و نسق اچھی طرح سنبھال رہے ہیں۔ پاکستان صرف اس صورت میں مضبوط ہو سکتا ہے اگر ملک سے مُلا ازم کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ ملک و قوم کی تباہی کا واحد سبب مُلا حضرات ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف کو ایسے تمام عناصر کے خاتمے کے لیے سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں۔ عامر محمود، مسیساگا، کینیڈا میرے خیال میں ملک کی مذہبی اور نظریاتی اساس کو جتنا نقصان جنرل مشرف کے دور میں پہنچا اس کی مثال نہیں ملتی۔ مشرف محض ایک کٹھ پتلی ہیں۔ غربت، لاقانونیت اور ملکی تشخص جتنا جنرل پرویز مشرف کے دور میں پامال ہوا اتنا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ ان کا وجود پاکستان کے لیے باعثِ شرمندگی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کے بانئ ثانی ہیں۔ محمد اسلم محمد اسلم، بون، جرمنی اصل حقیقت یہ ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کے بانئ ثانی ہیں۔ جس وقت پاکستان کی بدعنوان حکومتیں اپنے مفادات کی خاطر ملک کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی تھیں تو صدر مشرف نے ملک و قوم کو تباہی سے بچایا۔ انہیں مخالف جماعتوں کی جانب سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتا۔ شہزاد احمد، نیدرلینڈز حیرت کی بات ہے کہ لوگ صدر جنرل پرویز مشرف کو قائد اور ایماندار تصور کرتے ہیں۔ ہماری قوم بہت سادہ لوح ہے اس لیے ہر کسی کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھتی ہے۔ جیسی لولی لنگڑی جمہوریت ہمیں جنرل مشرف دے رہے ہیں، وہ اس سے گریز ہی کریں تو ان کا بڑا احسان ہو گا۔ ہم تو ویسے بھی شرم سے نظر نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ہمارا وزیراعظم امریکہ میں یہ کہتا ہے کہ ’امریکہ سے کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا‘۔ تُف ہے ایسا سوچنے والوں پر۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد پرویز مشرف کی حکومت سب سے بہتر ہے محمد یونس محمد یونس، کوئٹہ، پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد جتنی بھی نئی حکومتیں آئیں ان میں صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت سب سے بہتر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ کُل عالمِ اسلام میں جنرل مشرف سب سے بہتر سربراہ ہیں۔ اورنگ زیب، جاپان جنرل مشرف بھی اتنے ہی برے ہیں جتنے ان سے پہلے آنے والے سربراہان تھے۔ انہوں نے لوگوں کی بہبود کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اس کے برعکس فوج کو بدعنوان بنانے میں مدد کی اور ملکی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ وہ جس قدر زیادہ اقتدار میں رہیں گے، لوگ اتنا ہی فوج سے متنفر ہوتے جائیں گے۔ ریحان صدیقی، دبئی قائدِاعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جنرل پرویز مشرف واحد مخلص انسان ہیں جو واقعی ملک کی ترقی کا خواہاں ہے۔ ہمارے سیاستدان صرف اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ان کے خلاف ہیں۔ میری تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ ہم پر اور اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کریں اور مشرف صاحب کو اپنا کام کرنے دیں۔ ملکی خزانہ صدر مشرف کی مخلصی کا ثبوت ہے۔ کیا کوئی ہے جو ان چار سالوں میں کرسی کے بدلے نیلام ہونے والی میری قومی غیرت مجھے واپس لا دے؟ قیصر مجید قیصر مجید، گوجرانوالہ، پاکستان صدر جنرل پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو وہ ملکی افواج کے سپہ سالار تھے مگر ان چار برسوں میں وہ ایک آمر بن کے ابھرے ہیں جنہیں نہ تو ملکی وقار کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی کے تقاضوں پر نظر ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد انہوں نے قومی وقار کا جو سودہ کیا تھا تو پوری قوم کو یہ دلاسہ دیا تھا کہ اس طرح ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہو جائیں گے، کشمیر پر ہمارا موقف مانا جائے گا، ملکی معیشت سدھر جائے گی اور ملکی سرحدیں بھی محفوظ ہو جائیں گی۔ مگر افسوس کہ چار برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد حالات یہ ہیں کہ ہماری مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر ہم نے خود پابندی لگا کر بھارتی موقف کی تقویت دی ہے۔ ملک میں امن و امان اور معاشی صورت حال ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ جن لوگوں کو ملک کے بدترین دشمن کہا گیا، جن پر ملکی دولت لوٹنے کے الزامات لگائے گئے، جن پر ملکی افواج کی قیادت سمیت درجنوں لوگوں کے اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا گیا لیکن جب اوپر سے حکم آیا تو ملکی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئےانہیں پورے خاندان سمیت جدہ بھیج دیا گیا۔ پاکستان کے محافظوں کے ہاتھ طالبان اور بےگناہ و معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہیں۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا کوئی ہے جو ان چار سالوں میں کرسی کے بدلے نیلام ہونے والی میری قومی غیرت مجھے واپس لا دے؟ زاہد حسین، کینیڈا اگر ملک جنرل مشرف کے دور میں ترقی کررہا ہے اور ان کے فیصلے ملک کے مفاد میں ہیں تو وہ تمام بدعنوان سیاست دانوں سے بہتر ہیں۔ اب تک انہوں نے پاکستان کی بہتری کے لئے اچھا کام کیا ہے اور ہم ان کے بہتر مستقبل کے لئے دعائیں دیتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت اور ہمارے سیاست دانوں نے ہمیں صرف غربت اور بدعنوانیاں دی ہیں۔ عبداللہ، راولپنڈی جنرل مشرف کے غیرجمہوری رویے کے سامنے ملک میں جمہوریت کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ عبداللہ، راولپنڈی جنرل مشرف کے غیرجمہوری رویے کے سامنے ملک میں جمہوریت کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ پاکستان میں اداروں کی ترقی میں فوج کی مداخلت جاری رہے گی۔ فوج کی مداخلت داخلی طور عوام کو اور بیرونی طور پر جمہوری ملکوں کو قبول نہیں ہے۔ اگرچہ جنرل مشرف نے معیشت کی کارکردگی بہتر بنائی ہے، لیکن بینکاری، زرعی اصلاحات، تعلیم، عدلیہ اور دیگر شعبوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قدامت پرست مسلمانوں کے خلاف امریکہ کو خوش کرنے کے لئے سخت کارروائی بدقسمتی کی بات ہے۔ شاجی محمد اسرائیل، دبئی جنرل مشرف کی طرح ایک ایماندار آمر پاکستان کے کسی بھی جمہوری وزیراعظم سے بہتر ہے۔ انہوں نے پاکستان کو مشکلات سے باہر نکالا ہے۔ وسیم ارشد، کینیڈا میں سمجھتا ہوں کہ جنرل مشرف کے چار سال اطمینان بخش رہے ہیں۔ میں انہیں ایک ایماندار قائد سمجھتا ہوں جن کے اندر دور حاضر کے دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں قائدانہ صلاحیت موجود ہے۔ لیکن میں اس بات پر فکرمند ہوں کہ اقتدار میں قائم رہنے کے لئے جنرل مشرف نے ان لوگوں کو حکومت میں شامل کیا ہے جو ملک اور قوم کی جانب مخلص نہیں ہیں۔ دیوی داس لدھانی، حیدرآباد وہ کچھ بھی اچھا نہیں کررہے ہیں۔ دیگر سیاست دانوں کی طرح وہ پنجاب کے لئے بہت کچھ کررہے ہیں لیکن ہمارے سندھ کے لئے کچھ بھی نہیں۔ وہ ایک انصاف پسند حکمران نہیں ہیں۔ نامعلوم جب وہ اقتدار میں آئے تو وہ مشرف تھے، پھر وہ ’بشرف‘ ہوگئے۔ انہیں جنرل ضیاء دوئم سمجھا جانا چاہئے۔ نصیرالحق، کینیڈا گزشتہ چند برسوں کے چیلنج کا جنرل مشرف نے کافی ثابت قدمی سے سامنا کیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا انہوں نے بہترین طریقے سے مقابلہ کیا۔ نصیرالحق، کینیڈا گزشتہ چند برسوں کے چیلنج کا جنرل مشرف نے کافی ثابت قدمی سے سامنا کیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا انہوں نے بہترین طریقے سے مقابلہ کیا۔ اس دوران معیشت کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کے بنیادی مسائل پر کھل کر بحث ہوئی اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن چونکہ سیاست دانوں کے پاس ملک کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، اس لئے وہ عوام کی توجہ دیگر معاملات کی طرف مرکوز کررہے ہیں۔ عام بخش، ہانگ کانگ جنرل مشرف پاکستان کے لئے بہتر اور ایماندار صدر ہیں۔ احمر خان، پاکستان میں سمجھتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کے دوسرے سیاست دانوں سے بہتر ہیں۔ اگر انہیں عظیم نہیں تو بہتر قائد ضرور کہا جاسکتا ہے۔ شعیب کامران، اسٹاک ہوم میرے خیال میں گزشتہ بیس برسوں میں جنرل مشرف کا دور سب سے بہتر رہا ہے۔ ہماری معیشت بہتر ہوئی ہے۔ ہمارے شہری یہ بھول جاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے کیا کیا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت اس وقت تک کامیاب نہیں رہے گی جب تک شرح خواندگی بہتر نہیں ہوجاتی۔ فوج اور جمہوریت کا ملاجلا کردار بہتر ہے۔ غریب عوام کے لئے کوئی انصاف نہیں ہے۔ فوجی ملک کو لوٹ رہے ہیں اخلاق احمد اخلاق احمد، متحدہ عرب امارات پاکستان میں تاریخ میں تیسرے درجے کے رہنما ہیں۔ ملک میں اظہار خیال کی آزادی اور حقوق انسانی کا تحفظ نہیں ہے۔ غریب عوام کے لئے کوئی انصاف نہیں ہے۔ فوجی ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ جاوید سرور، سعودی عرب میں سعودی عرب میں کام کرنے والا ایک عام پاکستانی ہوں۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو جنرل مشرف کا دور بہتر رہا ہے۔ سیاست دانوں نے تو ہمیشہ ملک کو لوٹا ہے۔ غیرملکی عدالتوں نے بھی ہمارے سیاست دانوں پر بدعنوانیاں ثابت کی ہیں۔
041118_egypt_police_killing_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/11/041118_egypt_police_killing_zs
اسرائیلی ’غلطی‘: تین مصری ہلاک
غزہ کی پٹی کے علاقے میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی شدت پسندوں کے شبہ میں تین مصری پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔
اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق جنوبی غزہ میں ایک ٹینک نے ان پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں یہ تینوں اہلکار ہلاک ہو گئے۔ غزہ کے اس علاقے میں اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسرائیلی دفترِخارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ مصر اور اسرائیل کی سرحد کےاس حصے میں پیش آیا جہاں در اندازی اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کے نائب وزیرِ دفاع زیو بوئم نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے اس واقعہ کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کی جا رہی ہے۔
080611_taleban_killed_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/06/080611_taleban_killed_as
افغان حملہ: میجر، آٹھ طالبان ہلاک
مہمند ایجنسی کے ساتھ پاک افغان سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز کے ایک حملے میں ایک پاکستانی میجر اور آٹھ طالبان ہلاک اور نو زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستانی فوج نے واقع کی تصدیق کی ہے لیکن سرِ دست تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔ طالبان تحریک کے ترجمان مولوی عمر نے واقع کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا منگل کی شام افغان اور نیٹو فورسز نے پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر 60 سے زائد طالبان نے ان پر حملہ کر دیا۔ مولوی عمر نے دعویٰ کیا کہ حملے کے بعد نیٹو فورسز نے فضائی مدد طلب کی جس نے پاکستانی علاقے میں موجود طالبان جنگجوؤں پر بمباری کی۔ اس بمباری کی زد میں ایک پاکستانی چیک پوسٹ بھی آ گئی اور ایک میجر سمیت پاکستانی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ بمباری میں آٹھ طالبان جنگجو بھی ہلاک اور نو زخمی ہو گئے۔ مولوی عمر نے دعویٰ کیا کہ نیٹو فورسز کو بھی جانی نقصان پہنچا ہے۔
070915_pakistan_diary_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070915_pakistan_diary_sq
میاں صاحب گئے محترمہ آرہی ہیں
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب آئے بھی اور چلے بھی گئے، برصغیر میں آزادی سے ذرا پہلے ایک فلمی گانا بہت مقبول ہوا تھا، اس کے بول تھے’ آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا‘۔ میاں صاحب کے معاملے میں ابھی یہ کہنا کہ فسانہ ختم ہوگیا کچھ مناسب نہیں لگتا، ماشااللہ ابھی انکی بیگم اور برادر خورد موجود ہیں۔
حکمراں مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کو دو ’ آپشن‘ فراہم کیےگئے تھے۔ ایک تو یہ کہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں یا پھر سعودی عرب چلے جائیں اور حسب وعدہ دس سالہ جلاوطنی کے باقی دن پورے کریں۔ انہوں نے بقول چودھری صاحب سعودی عرب جانے کو ترجیح دی۔ واللہ علم باالصواب۔اس کے دوسری ہی دن سعودی عرب کا قومی دن منایا گیا۔ اس موقع پر سعودی سفیر نے اسلام آباد میں ایک استقبالیہ دیا جس میں حزب اختلاف کے رہنما تو نہیں دکھائی دیئے لیکن سرکاری مسلم لیگ کے وزرا اور رہنماء سب ہی موجود تھے۔ ویسےمیاں صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں۔ ایک طویل عرصے تک جلاوطنی کے معاہدے سے انکار کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم سب کو یقین آگیا کہ واقعی کوئی معاہدہ وغیرہ نہیں ہوا تھا لیکن اچانک روانگی سے ایک دن پہلے معاہدے کا اقرار کر بیٹھے۔ جہاں اس سچ کو وہ اتنے دنوں تک ٹالتے رہے تھے کچھ دن اور ٹال جاتے۔ یہ ان کی خام خیالی تھی۔چیف جسٹس ’جابر سلطان کے سامنے کلمئہ حق‘ کہہ کر میدان میں آئے تھے، اس لئے عوام نے ان کی ایسی پزیرائی کی تھی۔ میاں صاحب ایک عدالتی فیصلے کے تحت واپس آ رہے تھے۔ ان کے استقبال کی تیاری توویسے ہی کرنی چاہئےتھی جیسے حکومت اسے ناکام بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ محترمہ بھی واپس آرہی ہیںاب محترمہ بینظیر نے بھی وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے۔ پروگرام کے مطابق 18 اکتوبر کوکراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتریں گی اور گھر جانے سے پہلے قائد اعظم کے مزار پر بھی جائیں گی۔ یہ بھی کہتی ہیں کہ انہیں اس طرح واپس نہیں کیا جاسکے گا جیسے میاں صاحب کو کیا گیا ہے اس لئے کہ وہ کسی سمجھوتے کے تحت ملک سے باہر نہیں گئی تھیں۔سرکاری ذریعوں کا بھی کہنا ہے کہ ان کی واپسی میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ محترمہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے کہ جناب الطاف حسین نے ان کی واپسی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ویسے محترمہ کو جناب الطاف کی اس بات پر بہت زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیئے اس لئے کہ وہ قائد اعظم کے مزار کی حد تک تو ہر ایک کا استقبال کر لیتے ہیں لیکن اس سے آگے اگر کوئی بڑھتا ہے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ جناب الطاف اپنی واپسی کا اعلان کب کرتے ہیں۔ وہ بھی ایک طویل عرصے سے ’جلاوطنی‘ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پتہ نہیں انہیں اپنے عزیزآباد کے گھر کا پتہ بھی یاد ہوگا یا نہیں۔ جناب صدر کی وردیصدارتی انتخاب کا شیڈول آج کل میں آیا چاہتا ہے۔اوراب غالباً یہ طے ہوگیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسی اسمبلی سے منتخب کرائیں گے اور اس کے بعد اپنی وردی سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ دھماکے اور خودکش حملےدہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جتنے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں ، ان میں اسی مناسبت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے مہینے دو مہینے بعد ایک دو واقعات ہوجاتے تھے اور لوگ بھی اس پر رنج و ملال یا غم وغصے کا اظہار کرکے چپ ہوجاتے تھے۔ اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے شاید ہی کوئی دن بغیر دھماکے کے گزرا ہواور اب تک معاملہ جنوبی، شمالی وزیرستان، بنوں، کوہاٹ، ڈیرہ اسمٰعیل خان، سوات کی وادی اور بلوچستان کے کچھ علاقوں تک محدود تھا اب ہری پور ہزارہ تک پہنچ گیا ہے، جو رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں بھی پرامن علاقوں میں شمار ہوتا تھا۔ پھر پہلے فوجی قافلوں اور چوکیوں پر ہی حملے ہوتے تھے اب یوں لگتا ہے کہ فوجی میسوں میں بھی دہشت گردوں کی رسائی ہوگئی ہے۔ اس بار سننے میں آیا کہ پشاور میں 20 کلوآٹے کی بوری ایک ماہ پہلے 270 روپے میں دستیاب تھی اب 380 اور چار سو کی بک رہی ہے، حالا نکہ اس سال گندم کی پیداوار مقررہ حدف سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بڑی مقدار میں گندم ہمسایہ ملکوں کو سمگل کی جا رہی ہے۔ ایک اخبار کی تو اطلاع یہ ہے کہ روزانہ کوئی دو سو ٹرک گندم سندھ کے سرحدی علاقوں سے ہندوستان سمگل ہو رہی ہے۔اس صورتحال میں تو اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ جس قیمت پر بھی سہی، آٹا مل تو رہا ہے۔ اگر سمگلر حضرات سب سمگل کردیتے تو کوئی کیا کرلیتا۔
081104_state_bank_guidelines
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/11/081104_state_bank_guidelines
پاکستان:قرضوں کی وصولی کےگائڈلائن
پاکستان کے مرکزی بینک نے قمقروضوں اور نادہندگان کی مشکلات دور کرنے کے لیے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ان کے واجبات کی وصولی کے لیے رہنماء اصول جاری کیے ہیں۔ منگل کو جاری کیے گئے ان اصولوں کے ساتھ سٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ان گائیڈ لائنز کے اجرا سے کنزیومر فائنانسنگ کے واجبات کی شفاف وصولی کے سلسلے میں بینکوں/ترقیاتی مالیاتی اداروں کے لیے کم سے کم سٹینڈرڈز کا تعین ہوگیا ہے۔ ان گائیڈ لائنز کا اطلاق کریڈٹ کارڈز، ہاؤسنگ لونز، آٹو اور پرسنل لونز وغیرہ سمیت کنز یومر فائنانسنگ کی مختلف سہولتوں پر ہوگا۔ تمام بینکوں اور ترقیاتی مالیاتی اداروں کو جاری کردہ ایک سرکولر میں سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ اگر کوئی بینک یا ترقیاتی مالیاتی ادارہ پہلے ہی واجبات کی وصولی کے ضمن میں اپنا ضابطہ اخلاق مرتب کرچکا ہے تو وہ اس میں فیئر ڈیٹ کلیکشن گائیڈلائنز کے مطابق ترمیم کرے گا۔ مرکزی بینک نے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے صارفین یا مقروضوں سے واجبات کی وصولی کے ضمن میں کارروائی شروع کرنے سے قبل اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ متعلقہ صارفکو اس پر واجب الادا ادائیگیوں سے متعلق مکمل معلومات فراہم کریں۔ بینک قانونی طریقے سےصارف کی رہائش گاہ، دفتر، یا کاروبار کے مقام پر جانے سے قبل متعلقہ صارف یا قرضدار کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کے ضمن میں مراسلے یا ایس ایم ایس کے ذریعے 14 دن کا نوٹس دیا جائے گا۔ جب کسی بینک/ مالیاتی ادارے کا عملہ ادائیگی وصول کرے تو اس کے لیے یہ لازمی ہوگا کہ وہ صارف کو پیشگی نوٹس دے اور اگر ایسا صارف کی درخواست پر کیا جائے تو اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے۔ مرکزی بینک نے مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ صارفین یا قرضداروں سے ان کی جانب سے دیے گئے پتوں یا ٹیلیفون نمبرز پر رابطہ قائم کیا جائے اور اگر ان سے رابطہ نہ ہوسکے تو واجبات کی وصولی کے ضمن میں کوششوں کے ذریعے حاصل کیے گئے متبادل پتے یا فون نمبر پر رابطہ کیا جائے، وِزٹ رپورٹس کا ریکارڈ ہارڈ کاپی یا الیکٹرانک کلیکشن سسٹمز پر کم از کم چھ ماہ تک رکھا جائے، قرضوں کی وصولی پر مامور عملہ ان کے اہل خانہ کو ہراساں نہیں کرے، لیکن اگر مقروض کی جانب سے پہلی عدم ادائیگی کے بعد اس سے 30 روز تک رابطہ نہ ہوسکے تو متعلقہ قرضداروں کے اہل خانہ یا دوستوں یا تیسرے فریق سے اس کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو رہنما اصول متعارف کراتے ہوئے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ صارفین یا قرض لینے والوں کی جانب سے معاہدے کی کسی خلاف ورزی یا نادہندگی کی صورت میں بینک یا مالیاتی ادارے لِیز پر دی گئی گاڑی واپس اپنے قبضے میں لینے سے قبل 14 روز کا تحریری نوٹس دیں گے اور صارفین کو گاڑی سے قیمتی اشیاء نکالنے دیں۔ بینکوں یا ترقیاتی مالیاتی اداروں کو مندرجہ ذیل امور کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ واجبات کی وصولی پر مامور عملے کے لیے ایک قانونی ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے، واجبات کی وصولیوں پر مامور عملے کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے ایک واضح طریقہ کار متعارف کرایا جائے، واجبات کی وصولیوں کے طریقوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جاتا رہے تاکہ ان میں قانون، مارکیٹ کے تقاضوں اور پیش رفت کے مطابق مزید بہتری لائی جاسکے، واجبات کی وصولی کے لیے مناسب تعلیم یافتہ عملہ مقرر کیا جائے اور اسے ضروری تربیت دی جائے، اور واجبات کی وصولی پر مامور عملے یا ایجنسیوں کی سرگرمیوں کی باقاعدگی سے نگرانی کی جائے۔ مرکزی بینک کے مطابق فیئر ڈیٹ کلیکشن گائیڈلائنزمتعلقہ قوانین یا قواعد و ضوابط کے علاوہ ہیں۔ سٹیٹ بینک معائنے کے دوران ان گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کی جانچ پڑتال کرے گا اور ان پر عملدرآمد نہ کرنے والے بینک/ ترقیاتی مالیاتی ادارے کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔
140908_world_biggest_problems_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/09/140908_world_biggest_problems_sq
دنیا تباہی کے دہانے پر
سنہ 2010 میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر نکولس بوئل نے کہا تھا کہ سنہ 2014 میں ایک ’عظیم واقعہ‘ پیش آئے گا جو اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ اکسیویں صدی دنیا میں امن اور خوشحالی لائے گی یا جنگ اور غربت۔
ملائشیا کے دو مسافر طیاروں کی تباہی، نائجیریا میں 200 بچیوں کے اغوا، غزہ اور اسرائیل میں جنگ، مشرق وسطیٰ میں شدت پسند جنگجو گروہ دولتِ اسلامیہ کے ظہور اور یورپ میں یوکرین کی صورتحال پر بڑھتا ہوئے تناؤ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پروفیسر نکولس بوئل کا خیال شاید درست ہی ہو۔ بی بی سی کی عالمی سروس کے نامہ نگاروں نے درج ذیل صفحات میں ان بڑے مسائل کا جائزہ لیا ہے جو آج دنیا کودرپیش ہیں۔ یوکرین ملائشین ائر لائینز کی پرواز ایم ایچ 17 جولائی میں دونیئسک کے علاقے میں ہی شاید حادثتاً باغیوں کا نشانہ بن گئی تھی۔ مغربی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جاری تنازعہ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد یورپ کو درپیش آنے والا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ تناؤ کا اچانک آغاز اس وقت ہوا جب مارچ میں روس نے کرائیمیا پر قبضہ کر لیا۔ دو ماہ بعد ہی روس نواز بندوق برداروں نے یوکرین کے مشرقی علاقوں دونیئسک اور لوہانسک کی یوکرین سے آزادی کا اعلان کر دیا۔ اپریل کے وسط تک یوکرینی فوجیوں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان لڑائی میں 2600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ان میں وہ 298 مسافر اور عملے کے ارکان شامل نہیں جو ملائشین ایئر لائینز کی پرواز ایم ایچ 17 پر سوار تھے اور جولائی میں دونیئسک کے علاقے میں ہی شاید حادثتاً باغیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ یوکرین کے تنازعے نے روس اور نیٹو کے باہمی تعلقات کو ایک مرتبہ پھر بری طرح متاثر کر دیا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ نیٹو کے دیگر رکن ممالک روس پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے باغیوں کی مدد کے لیے اپنے ایک ہزار فوجی مشرقی یوکرین میں گُھسیڑنے کے علاوہ سینکڑوں بکتر بندگاڑیاں بھی وہاں بھجوا رکھی ہیں۔ اگرچہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان بظاہر جنگ بندی ہو چکی ہے لیکن اٹلی کی وزیرخارجہ ایما برونو کہتی ہیں کہ ’یہ جنگ بندی محض ایک نئی کہانی کا دیباچہ‘ ہے۔ وہ پوچھتی ہیں کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ نیٹو اور روس کے تعلقات کا کیا بنے گا۔ نیٹو اور روس کے مابین بہت بڑے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں اور دونوں فریق توانائی اور بین الاقوامی امور میں ایک دوسرے پر انحصار کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ ’اس وقت اگرچہ یوکرین کے تنازعے میں قدرے ٹھہراؤ آ چکا ہے، لیکن مغرب اور روس کے درمیان بگڑے ہوئے تعلقات اتنی جلدی ٹھیک ہونے والے نہیں۔‘ شام شام میں جاری تنازع اپنے 42ویں مہینے میں داخل ہو چلا ہے۔ اقوام متحدہ کے بقول ’ہمارے وقت کے اس سب سے بڑے انسانی المیے‘ میں اب تک تقریباً 50 فیصد شامی شہری حکومتی فوجوں اور باغی جنگجوؤں کے درمیان خونریز جنگ کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ شام کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا آج سے ایک برس پہلے دمشق کے نواح میں کیمیائی ہتھیاروں کے ہاتھوں سینکڑوں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی بشارالاسد حکومت کے فوجی ٹھکانوں پر بمباری کرنے ہی والے تھے،لیکن برطانوی پارلیمان کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کے خلاف ووٹ کی وجہ سے امریکی صدر براک اوباما کو وہ حمایت نہ ملی جو شام پر حملے کے لیے ضروری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سیاستدانوں کے ذہنوں میں بھی شکوک بڑھ گئے اور بشارالاسد کے خلاف کارروائی کا ارادہ فوراً ترک کر دیا گیا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ شام کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ مشہور محقق شاشنک جوشی کا خیال ہے کہ بشارالاسد کے حامی اور باغیوں کے حامی دونوں ہی تقسیم ہو چکے ہیں، اس لیے دونوں فریقوں کے درمیان کسی قسم کے امن معاہدہ کے امکانات مزید معدوم ہو چکے ہیں۔ مخلف گروہوں کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود ’مجھے نہیں لگتا کہ شام پر بشارالاسد کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے، بلکہ اگلے ایک سال تک شامی حکومت کی گرفت قائم رہی گی۔‘ دولت اسلامیہ کا عروج یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گذشتہ مہینوں میں دولتِ اسلامیہ کے عروج نے شام میں لڑائی کے مسئلے کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ اس شدت پسند تنظیم کی طاقت میں اس اچانک اضافے اور اس کی پرتشدد کارروائیوں نے امریکی فوج کو دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں پر اُکسا دیا ہے۔ دوسری جانب یورپی ممالک اور امریکہ کے شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں دولتِ اسلامیہ میں شمولیت نے مغربی دنیا کو حیران اور پریشان کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دولتِ اسلامیہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ یہ رقبہ اس سے کہیں زیادہ، یعنی 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ عراق کے چار بڑے شہر موصل، تکریت، فلوجہ اور طل افعار اور شام میں رقہ کے بڑے علاقے کے علاوہ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے قابو میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 80 لاکھ لوگ ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جو کہ کلی یا جزوی طور پر دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں اس تنظیم نے نہایت سخت گیر شریعت کا اطلاق کیا ہوا ہے۔ ولتِ اسلامیہ اوراتحادی تنظیمیں شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں دولتِ اسلامیہ کے ڈرامائی عروج کے باوجود کچھ ماہرین کو یقین ہے کہ اس گروہ کا زور ٹوٹ رہا ہے اور اسے پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ برطانوی افواج سے منسلک محقق افضل اشرف کہتے ہیں کہ ’گزشتہ ہفتوں میں دولتِ اسلامیہ کو شدید نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ انھیں موصل ڈیم سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس حزیمت کے بعد صحافی جیمز فولی کا سر قلم کر دیا۔ اس اقدام کے ذریعے انھوں نے امریکہ کو حملہ کرنے سے روکنے کی آخری کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔ ’ اگر دیکھا جائے تو دولتِ اسلامیہ کے عروج کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ عرصے میں القاعدہ ناکام ہو چکی تھی۔‘ شدت پسند اسلام دولت اسلامیہ وہ واحد تنظیم نہیں ہے جس کی خواہش ہے کہ دنیا میں اسلامی خلافت قائم کی جائے دولت اسلامیہ وہ واحد تنظیم نہیں ہے جس کی خواہش ہے کہ دنیا میں اسلامی خلافت قائم کی جائے۔ نائجیریا کے شدت پسند گروہ بوکو حرام کا کہنا بھی یہی ہے کہ ملک کے جس شمال مشرقی حصے پر اس کا قبضہ ہے اس نے بھی وہاں اپنی اسلامی خلافت کر لی ہے۔ سکول کی بچیوں کے اغوا کے بعد اب بوکو حرام نے نائجیریا کی فوج کے خلاف اپنی کارروائیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور اس دوران یمن، شمالی افریقہ اور مشرقی افریقہ میں القاعدہ نے بھی مقامی حکومتوں کو زچ کر رکھا ہے۔ ہم ان گروہوں کی کارروائیوں کے بارے میں زیادہ نہیں سنتے کیونکہ عالمی شہ سرخیاں ان دنوں زیادہ تر دولتِ اسلامیہ کے متعلق ہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح صومالیہ میں اسلامی شدت پسند گروہ الشباب بھی ملک کے دیہی علاقوں میں مسلسل قابض ہے اور دارالحکومت موگادیشو میں بھی اس کے بم دھماکے اور قتل وغارت جاری ہیں۔ ان خبروں کے باوجود محقق افضل اشرف کہتے ہیں کہ ان شدت پسند گروہوں کی نظریاتی بنیادیں کمزور پڑ چکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں بھی صورت حال بہتر ہونے کے امکانات کم ہی ہیں ’یہ تمام گروہ آج کل کشمکش کا شکار ہیں کیونکہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ اپنی عالمی رہنمائی کے لیے کس رہنما کی جانب دیکھیں۔ ان گروہوں کی اکثریت القاعدہ کو اپنا رہنما تسلیم کرتی رہی ہے لیکن اب یہ تمام گروہ دولتِ اسلامیہ کی چکا چوند کامیابیوں کے گرویدہ بھی ہو گئے ہیں۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ نظریاتی کشمکش ان گروہوں کی حملے کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرے گی اور یوں ان گرروہوں کے حوصلے بھی پست ہوں گے۔‘ ان مسائل کے علاوہ دنیا کو افغانستان اور غزہ کی صورتحال کی وجہ سے بھی دو بڑے امتحانوں یا چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات پر تنازعات اور سیاسی جمود اپنی جگہ، تاہم ملک کے پاس طاقتور فوج موجود ہے اور سنہ 2017 تک اس فوج کو مالی امداد بھی حاصل رہے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکہ افغانستان کی مالی مدد اسی طرح سے جاری رکھے گا یا نہیں کیونکہ بہت سی بیرونی امداد بدعنوانی کی نظر ہو جاتی ہے۔ مسٹر جوشی کے بقول ’ ملک سے مزاحمتی عناصر کی کارروائیاں ختم نہیں ہو رہی ہیں، اور ایسے میں اگر حکومت کے پاس پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو باغیوں کا کام آسان ہو جائے گا۔‘ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں بھی صورت حال بہتر ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔ اگر امریکہ دباؤ نہیں ڈالتا تو اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر نہیں روکے گی۔ لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر فواز گرجیس کہتے نہیں کہ ’اگر براک اوباما فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے دو الگ الگ ریاستوں کے منصوبے پر عمل نہیں کر سکتے تو مجھے نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں کوئی دوسرا امریکہ صدر ایسا کر سکے گا۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ مستقل قریب میں یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے۔‘
141022_pak_iran_border_security_meeting_hk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/10/141022_pak_iran_border_security_meeting_hk
سرحدی نگرانی کو فعال بنایا جائے، پاکستان اور ایران کا اتفاق
فرنٹیئر کور بلوچستان کے مطابق پاکستان اور ایران کی سرحدی فورسز کے حکام نے سرحد پر نگرانی کو فعال بنانے اور باہمی تعاون پر زور دیا ہے۔ فرنٹیئر کور بلوچستان نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ انسپکٹرجنرل فرنٹیئرکور بلوچستان میجرجنرل محمد اعجاز شاہد اور ایرانی بارڈر پولیس، چیف جنرل قاسم رضائی کے درمیان ایران کے دارالحکومت تہران میں بدھ کو ایک ملاقات ہوئی ۔
پاکستان نے ایران کی سرحدی فوج پر اپنے علاقے میں مداخلت کا الزام عاید کیا ہے۔ پاکستانی اور ایرانی بارڈر سیکیورٹی حکام کی تہران میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں کمانڈروں نے پاک ایران سرحد پررونما ہونے والے حالیہ واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ انھوں نے دونوں ممالک کی فورسزکے درمیان مصدقہ حقائق پرمبنی اطلاعات اور انٹیلی جنس کے تبادلے پربھی غور کیا ۔ دونوں کمانڈروں نے پاک ایران بارڈر کی نگرانی کو فعال بنانے اور باہمی تعاون پر زور دیا۔ بیان کے مطابق انسپیکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل محمد اعجاز شاہد نے کہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کیلئے دونوں ممالک کی فورسز کا تعاون ناگزیر ہے۔ انھوں نے کہا کہ جہاں پا کستان ہر قسم کی دہشت گر دی، مسلح جارحیت اور شدت پسندی کی سختی سے مذمت کر تا ہے وہیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترتعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز ’جوائنٹ میکانیزم‘ مشترکہ طریقہ کار کے تحت پاک ایران سرحدکی بہتر طور پر نگرانی کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں ۔ واضح رہے کہ چند روز بیشتر ایران کی سکیورٹی فورسز کی بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستان کی سرحد کے اندر کارروائی میں فرنٹیئر کور کا ایک صوبیدار ہلاک اور تین اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ فرنٹیئر کور نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایف سی کے اہلکار ایران کی سرحدی فورس کے اہلکاروں کی بلا اشتعال فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے تھے ۔ ایف سی نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ ایرانی فورسز کے 30 اہلکار سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرکے ایک اور سرحدی ضلع چاغی میں داخل ہوئے تھے۔
pakistan-43728398
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43728398
کیا فیس بک پاکستان میں انتخابات کو متاثر کر سکتا ہے؟
فیس بُک کے مالک زُکر برگ کے اس بیان کے بعد کہ فیس بک پر صارفین کی معلومات کے ذریعے ان کی انتخابی رائے کو متاٰثر کیا جاسکتا ہے، تو اس پر سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا فیس بک پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
فیس بک کی ساکھ خطرے میں ہے۔ اس کا سادہ اور آسان جواب ہے "بالکل فیس بُک پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے جیسا کہ اس پر امریکہ میں ہونے انتخابات میں اثرانداز ہونے کا الزام لگتا ہے"۔ مگر فیس بُک کا اس معاملے میں کیا کہنا ہے کہ اور فیس بُک کیسے پاکستان یا انڈیا یا کسی بھی ملک کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جب یہ حقائق سامنے آئے کہ فیس بک پر صارفین کی معلومات مخفوظ نہیں ہیں تو فیس بک کے خلاف ایک تحریک شروع ہوگئی۔ فیس بُک اکیلی نہیں یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ فیس بُک ہماری زندگیوں میں بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے اب یہ ہمارے رہن سہن، پسند نا پسند اور خواہشات تک رسائی حاصل کر چکی ہے۔ اور معاملہ فیس بُک کا بحثیت کمپنی کے ہے جو وٹس ایپ اور انسٹاگرام کی مالک ہے۔ صرف وٹس ایپ اور فیس بُک مل کر ایک بہت بڑا چیلنج بناتی ہیں جو ہماری نجی زندگی یا پرائیویسی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ غالب امکان ہے کہ آپ یہ کالم پڑھنے کے لیے فیس بُک سے ہی آئے ہوں گے یا فیس بُک ہی کی ایپ وٹس ایپ پر اسے کسی نے شیئر کیا ہو گا۔ جس کی وجہ سے معاملہ اور گھمبیر ہو جاتا ہے۔ آپ فیس بُک اور واٹس ایپ کو کچھ لکھنے، کسی کی پوسٹ کو لائیک کرنے، اور واٹس ایپ کو ٹیکسٹ کرنے یا کالز کرنے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔اس طرح فیس کمپنی کے پاس ایک عام صارف کی شخصیت کے بارے میں ایک بہت بڑا ڈیٹا جمع ہو جاتا ہے اور یہ ڈیٹا صرف ایک صارف کے بارے میں نہیں ہے بلکہ دو ارب سے زائد صارفین کا ڈیٹا موجود ہے۔ اور یہی بات قابلِ تشویش ہے۔ آپ کی معلومات جمع کرنا اور آگے بیچنا مسئلہ ہے۔ فیس بُک کے پاس ڈیٹا ہونا معاملات اُس وقت بگڑے جب حال ہی میں فیس بُک کی جانب سے ایک نجی کمپنی کو صارفین کا ڈیٹا دینے اور اس کے غلط استعمال پر دنیا بھر میں شور برپا ہوا۔ اس شور میں فیس بُک سے اپنی پروفائل کو ڈیلیٹ کرنے کی تحریک بھی شامل ہے۔ اس سارے معاملے میں فیس بُک کے بارے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ صارفین کا ڈیٹا کو اکٹھا کر کے انہیں ان کی مرضی اور پسند کے موضوعات کی آڑ میں یا اس کے مطابق انھیں اشہتار یا پوسٹس بھجوانے کا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں عوامی رائے اور رجحانات کو جاننے کے لیے سروے کرواتی ہیں اور یہ جاننا چاہتی ہیں کہ ووٹر آخر کیا سوچ رہا ہے یا اسے کس طرح متاثر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے کیا بات کی جائے اس کے لیے کیا کہا جائے کہ وہ ووٹ دینے پر آمادہ ہو اور وہ کیسے عوامل ہیں جو اس کی رائے کو بدل سکتے ہیں۔ اب یہ سروے بھروانا ایک مشکل کام ہے اور اس پر جتنا مرضی روپیہ خرچ کیا جائے آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ملنے والے جوابات درست ہیں یا نہیں۔ یس بک کے خلاف مظاہرہ کرنے والی ایک خاتون ہاتھ میں مذمتی کتبہ اٹھائے ہوئے۔ سیاسی جماعتوں کا کیا عمل دخل ہے؟ تو کیا ہی اچھا ہو کہ صارف بغیر کسی مداخلت کے اور پوچھنے والے کے اپنی مرضی خواہش اور پسند کا ڈیٹا فراہم کرے۔ اور وہ بھی ایسے طریقے سے کہ نہ صارف کے کان کھڑے ہوں اور نہ ہی کسی کو پتا چلے۔ مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ لاری اڈے میں داخل ہوں اور ہر روٹ کی بس کا کنڈیکٹر آپ کو پکڑ پکڑ کر اپنی بس میں بٹھانے کی کوشش کرے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فیس بُک کا کنڈیکٹر آپ کا بازو نہیں پکڑتا وہ بس آپ پر نظر رکھتا ہے اور جیسے ہی اسے پتا چلتا ہے کہ آپ کو کون سی بس چاہیے ہے وہ اس کا کرایہ نامہ اور سروس آپ کے سامنے لے آتا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے اگر آپ مثال لیں تو فرض کریں آپ کے گھر بجلی گئی ہے اور آپ باتوں باتوں میں ذکر کرتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ بہت ہو رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آپ کو ایک سیاسی جماعت کا اشتہار آپ کی ٹائم لائن پر یا اس کے آس پاس یا میسینجر میں جو آپ کی پرائیویٹ جگہ ہے نظر آتا ہے جس میں حکومتِ وقت کو لتاڑا گیا ہوتا ہے۔ اس پیغام کے ساتھ کے یہ بھی پیغام ہو سکتا ہے کہ اگر دوبارہ ووٹ دیا تو اتنی بجلی بھی نہیں آئے گی۔ یہ سب فیس بُک کے اس پیچیدہ ایلگورتھم یا نظام کا حصہ ہے جو صارفین کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ جب امریکی کانگریس میں فیس بک کے مارک زکربرگ پر جراح ہوئی تو لوگ اس کے خلاف احتجاج کیلئے جمع ہوگئے۔ فیس بُک کے تیر ہدف اشتہارات اس پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو نہیں پتا جو اشتہار یا پیغام آپ کو بھجوایا جا رہا ہے وہ اصلی ہے یا جعلی؟ اس کے پیچھے کیا کوئی پاکستانی ہے یا میسیڈونیا کے ایک قصبے میں بیٹھا جعلی ویب سائٹس بنا کر خبریں لگا کر بیچنے والا ایک غیر ملکی شخص؟ پاکستان ہی کی مثال لے لیں۔ ایک سیاسی جماعت کے انتہائی اہم رہنما کے قریب سمجھے جانے والا ایک شخص کافی عرصے تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان بن کر پاکستانیوں کو بے وقوف بناتا رہا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی نہیں رانی مکرجی یا کبھی انور مقصود بن کر یا کبھی عمر شریف بن کر عوام کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے حق میں اور دوسری کے خلاف کامینٹس لکھ لکھ کر شیئر کرتا رہا جسے لوگ بہت بڑے پیمانے پر شیئر کرتے رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک خاتون کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا کر جب ووٹ دیا اور انگوٹھے پر لگی سیاہی شیئر کی تو لوگوں کو پتا چلا کہ شاید سمیرا نے شاید مہینوں سے ویکسنگ نہیں کروائی۔ وہ تو بعد میں راز کھلا کہ ایک بھائی صاحب سمیرا کے روپ میں سیاسی فلرٹ کر رہے تھے۔ مگر راتوں رات ہزاروں فالورز کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر کی نہ صرف پروفائل تصویر بدلی بلکہ نام بھی۔ اس طرح اگلے دن ایٹم بنانے وسلے سائنسدان کی ٹویٹ نئے نام اور چہرے کے ساتھ موجود تھی۔ اس طرح کی جعلی پروفائلز اور ان سے جاری ہونے والی تصاویر بہت بڑے پیمانے پر مسائل کی وجہ بنتی ہیں۔ جعلسازی اور جھوٹ کے پھیلنے کے مواقع خواجہ آصف کی جعلی تصویر پر اسرائیل مخالف ٹویٹ، پی ٹی آئی اے کے عمران اسماعیل کی ایک سے زیادہ ٹویٹس جن میں سے ایک میں میاں نواز شریف کی والدہ کی تصویر پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا سر لگا کر شیئر کیا گیا۔ اس سے اندازہ کریں کہ ایک عام پاکستانی جعلی اور اصلی میں فرق کیسے کر سکے گا؟ قندوز حملہ حال ہی میں ہوا مگر اس میں شیئر کی جانے والی تقریباً تمام تصاویر اس مدرسے کے بچوں کی نہیں تھیں مگر آپ اب بھی بہت سی فیس بُک پروفائلز پر انہیں دیکھیں گے۔ مارک زکربرگ نے ماضی میں بھی کئی بار صارفین کے ڈیٹا کے تحوظ کی ضمانتیں دی ہیں۔ فیس بُک اب کیا کر رہی ہے؟ فیس بُک نے بالآخر فیصلے میں بتایا کہ "جب صارفین کسی پیج یا اشتہار کو دیکھتے ہیں تو انہی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کہاں سے آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ دوسرے اشہتار کون سے دے رہا ہے۔" فیس بُک نے حال ہی میں کہا کہ "گذشتہ اکتوبر میں ہم نے اعلان کیا تھا کہ صرف اجازت دیے گئے اکاؤنٹس ہی فیس بُک اور انسٹاگرام پر انتخابی اشہتارات جاری کریں گے۔ آج ہم اعلان کرتے ہیں کہ ایسے اشتہارات دینے والوں پر اُس وقت تک ان ایشوز پر اشتہارات دینے کی پابندی ہو گی جب تک انہیں اجازت نہیں مل جاتی ہے۔" اس دوران فیس بُک کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ایشوز کی فہرست بنا رہا ہے جن پر ملک میں بحث ہو رہی ہے۔ "اس کے ساتھ ساتھ اشتہار کے اوپر بائیں جانب لکھا ہو گا کہ یہ 'سیاسی اشتہار' ہے جس کے ساتھ ہی لکھا ہو گا کہ اس کے لیے پیسے کس نے ادا کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم ایک پیج کی جانب سے جاری کیے گئے تمام اشتہارات کو دیکھنے کی سہولت فراہم کریں گے۔" فیس بُک نے مزید اعلان کیا ہے کہ ایسے لوگ جو پیجز مینیج کرتے ہیں یعنی پیجز کے ایڈمن ہوتے ہیں خاص طور پر ایسے پیجز جن کے بڑی تعداد میں فالوورز ہوتے ہیں ان کی تصدیق کی جائے گی۔ اور جو ایڈمن اس تصدیق کے عمل میں کامیاب نہیں ہوں گے ان کو پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں جعلی پروفائلز کے ساتھ پیج مینیج کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی فیس بُک پر آپ یہ دیکھ سکیں گے کہ کیا ایک پیج نے اپنا نام بدلا ہے یا نہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وائیٹ ہاؤس مارک زُکربرگ کے قد آدمٹ سائیز کے بورڈ بنا کر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ فیس بک کو محفوظ بنائے۔ کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائےگا؟ فیس بُک کے سارے انتظامات ایک جانب کچھ فرق تو پڑے گا مگر مقامی زبانوں خاص طور پر رومن میں لکھی گئی پوسٹوں پر فیس بُک کا دائرہ اختیار محدود ہو گا۔ اب بھی فیس بُک بہت سارے معاملات کو صارفین پر چھوڑ رہا ہے کہ اگر انہیں برا لگے تو وہ رپورٹ کر سکتے ہیں۔ مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی چیز کو فیس بُک پر رپورٹ کرنا کتنا مشکل ہے اور اس کو ختم کرنا یا ہٹوانا یا فیس بُک کا اس پر رد عمل آسان کام نہیں۔ بلکہ جب تک فیس بُک حرکت میں آتی ہے تب تک معاملہ بہت آگے جا چکا ہوتا ہے۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جہاں ڈیٹا کے استعمال سے انتخابات پر اثرات ہو سکتے ہیں وہیں جعلسازی اور بے بنیاد باتوں کا بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ آپ لاکھ تردیدیں کریں لوگ اب بھی چین کے زلزلے میں مرنے والوں کو روہنگیا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ندیم فاروق پراچہ کے ملالہ پر طنزیہ کالم کو سچ سمجھ کر ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
050314_us_taiwan_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/050314_us_taiwan_sen
چین پرامریکہ اور تائیوان کی تنقید
امریکہ اور تائیوان نے چینی کانگریس کی جانب سے اس قانون کی منظوری پر کڑی تنقید کی ہے جس کے تحت بیجنگ کو یہ قانونی حق حاصل ہو گیا ہے کہ اگر تائیوان یک طرفہ طور پر خود مختاری کااعلان کرے تو تو چین اس کے خلاف طاقت استعمال کر سکتا ہے۔
چینی پارلیمنٹ گزشتہ روم ایک نئے قانون کی منظوری دی تھی جس کے مطابق اگر تائیوان نے آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا تو اسے طاقت کے زور پر ایسا کرنے سے روکنا جائز ہو گا۔ تائیوانی کونسل کے چیئر مین جوزف وو نے چینی قانون کو ’سنجیدہ اشتعال انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے علاقائی سلامتی متاثر ہو گی۔ وائٹ ہاؤس نے اس قانون کی منظوری کو ایک بد قسمتی قرار دیا ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ تسلیم کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر مفاہمت کی پُر امن کوششیں ناکام ہو گئیں اور تائیوان نے باقاعدہ آزادی کا اعلان کیا تو وہ اس کے خلاف طاقت کے استعمال کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اس سے تائیوان اور چین کے درمیان تعلقات میں پیش رفت متاثر ہو گی۔ اس نئے قانون کے تحت ہانگ کانگ کی طرز پر ’ ایک ملک، دو نظام‘ کے تحت تائیوان کو چین میں شامل کیے جانے کی بات کی گئی ہے۔ تائیوان نے کہا کہ اس قانون سے علاقے میں سلامتی کی صورتحال پر برا اثر پڑے گا۔ چین کے وزیر اعظم ون جیابو نے کہا کہ اس قانون کا مقصد تعلقات کو مضبوط کرنا ہے اور یہ جنگ کی منظوری کا بل نہیں ہے۔ چین کی پارلیمنٹ نے دفاعی بجٹ میں بارہ فیصد اضافہ کا اعلان کیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے کہا ہے کہ قانون کی منظوری سے علاقے میں تناؤ کا بحث بنے گی۔
040602_baghdad_bomb_sem
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040602_baghdad_bomb_sem
بغداد: ایک اور دھماکہ 4ہلاک
عراقی دارالحکومت بغداد میں ہونے والے کار بم کے دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی بتائے جاتے ہیں۔
چشم دید گواہوں کے حوالے سے مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکہ بغداد کے شمالی حصے آدمیہ کے ایک مصروف حصے میں ہوا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دھماکے کا ہدف گاڑیوں کا وہ قافلہ تھا جو کچھ ہی دیر قبل وہاں سے گزرا تھا۔ یہ ناکام حملہ، حملوں کے اس تسلسل کا حصہ بتایا جاتا ہے جو حال ہی میں شروع ہوئے ہیں۔ منگل کو بھی ایک دھماکہ ہوا تھا جس کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ دھماکہ کردش پارٹی کے دفاتر کے باہر ہوا تھا۔
pakistan-43295784
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43295784
صوفی درگاہوں میں خواتین کی گائیکی اور رقص کی روایت
منچھر جھیل کے کنارے پر ایک زبوں حال مزار کے قریب لوگوں کا مجمع لگا ہے جبکہ ایک خاتون گا رہی ہے اور دو خواتین رقص کر رہی ہیں، ساتھ میں سازندوں نے ہاتھوں میں یکتارا، ہارمونیم اور ڈھول اٹھا رکھے ہیں۔ یہ گروپ ’متھن شاہ‘ کے مزار میں داخل ہوکر سلامی دیتا ہے اور باہر آکر محفل موسیقی کا آغاز کرتا ہے۔
دادو میں درگاہوں اور مزاروں پر نوجوانوں اور پرانے گانے والوں کے ساتھ منفرد محفل موسیقی سندھ میں صوفی درگاہوں پر میلوں کے موقعے پر گائیکی اور رقص ایک قدیم روایت رہی ہے، دادو میں بزرگ متھن شاھ سمیت درجنوں مزاروں پر ہر سال میلے لگتے ہیں، جہاں شبانہ گل جیسی مقامی گلوکاروں کے فن کی پرورش ہوتی ہے۔ ان مزاروں پر ایک طرف مقامی گلوکاروں کے ذریعے لوگوں تک صوفی پیغام کی رسائی ہوتی ہے تو دوسری طرف ان گلوکاروں کے معاشی مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ شبانہ گل بتاتی ہیں کہ فنکاروں کو پہلے میلوں اور مزاروں پر سنا جاتا تھا لیکن اب وہ رواج نہیں رہا، جو غریب فنکار ہیں ان کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن ہم نے گائیکی کا یہ ہی سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور مختلف درگاہوں پر جاتے ہیں جہاں صوفی کلام کے ساتھ سندھی راگ بھی سناتے ہیں۔ یہ صوفی کلام زیادہ تر سندھی، سرائیکی اور پنجانی زبان میں گائے جاتے ہیں، جو لوگوں کی روز مرا کی مشکلات اور امیدوں کے علاوہ جبر اور شدت پسندی کے خلاف ایک پیغام بھی ہوتا ہے۔ سندھ میں صوفی ازم کی روایات، ثقافت اور ادب پر ایک گہری چھاپ رہی ہے، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ درگاہوں پر خواتین کے گانے اور رقص کی روایات دم توڑنے لگی ہیں بعض حلقے اسے برا سمجھتے ہیں اور نتیجے میں کئی علاقوں میں میلے نہیں ہوتے یا جہاں ہوتے ہیں تو وہاں محفل سماع اور رقص نہیں ہوتا۔ مقامی فنکاروں نے میدان نہیں چھوڑا اور روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس صورتحال میں کچھ نوجوان اس روایت کو بحال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سماجی تنظیم سجاگ سنسار آرگنائزیشن کے رہنما معشوق برہمانی کا کہنا ہے کہ سندھ کی درگاہوں پر صوفیانہ راگ ختم ہو رہا ہے، یہاں مختلف لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ گانا بجانا ہمارے کلچر میں نہیں ہے یہ ایک قسم کا مائینڈ سیٹ ہے۔ شبانہ گل بتاتی ہیں کہ فنکاروں کو پہلے میلوں اور مزاروں پر سنا جاتا تھا لیکن اب وہ رواج نہیں رہا ’ہم نے سوچا کیوں نہ وہ لوگ جو پہلے سے گا رہے ہیں اور کچھ نوجوان۔ ان کو ملاکر ایک نئی سوچ پیدا کی جائے تاکہ گائیکی کا یہ سلسلہ شروع ہوسکے ابتدائی طور پر ہم نے سات گروپ بنائے ہیں جن میں دو گروپ خواتین کے بھی ہیں۔‘ ان مقامی کلوکاوں کی گائیکی میں بہتری کے لیے استاد امیر علی خان سے ان کی تربیت کرائی گئی اور ہر گروپ کو موسیقی کے الات بھی فراہم کیے گئے ہیں، جس کے بعد یہ گروپ اب درگاہوں پر جاکر گاتے ہیں۔ ماضی میں سندھ میں بیگم فقیرانی اور مائی بھاگی جیسی لوک گلوکارائیں اور عابدہ پروین جیسی عالمی سطح پر مشہور صوفی گلوکارہ درگاہوں سے ریڈیو تک پہنچی اور پھر دنیا بھر میں مقبول ہوگئیں، اب صف اول کی صوفی گلوکارائیں شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمت کے علاوہ دیگر مزارات پر نہیں گاتیں نتیجے میں صوفی گائیکی اب درگاہوں اور میلوں کے بجائے اسٹوڈیوز اور ویڈیو البم تک محدود ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے بظاہر اب ان گلوکارؤں کا عام آدمی سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ ایسی بے قدری کی صورتحال میں بھی مقامی فنکاروں نے میدان نہیں چھوڑا اور روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ نامور محقق حاکم علی شاہ کا کہنا ہے کہ پہلے فنکاروں کے ضرورت ہوتی تھی کہ وہ صوفی کلام گائیں لیکن اب یہ معاشرے کی بھی ضرورت بن گئی ہے کیونکہ مذہبی شدت پسندی کے خلاف یہ ہی ایک ہتیھار بچا ہے۔
081219_kashmir_politics_as
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/12/081219_kashmir_politics_as
بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں
کشمیر کے انتخابات بھارت کی دوسری ریاستوں سے ہمیشہ مختلف رہے ہیں تقریباً دس سال قبل تک انتخابی معرکہ صرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان ہواکرتا تھا اور بیشتر مرتبہ مقامی پارٹی ہونے کے باعث نیشنل کانفرنس ہی کامیاب ہوتی تھی کیونکہ کانگریس کو اکثر کشمیری مرکزی حکومت کی پارٹی سمجھ کر ٹھکراتے رہے ہیں۔
پھر جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سیاسی میدان میں کود پڑی تو نیشنل کانفرنس کو اپنی مظبوط اور محفوظ نشستیں بچانا مشکل ہوگیا۔ کانگریس کے ساتھ کئی مرتبہ اتحاد کرنے کے باوجود نیشنل کانفرنس کانگریس کی سخت دشمن رہی اور کشمیر میں بگڑتی ہوئی سیاسی صورت حال کے لیے بیشتر مبصرین کانگریس کو ہی ذمہ دار قرار دیتے آرہے ہیں جس نے شیخ عبداللہ سے لے کر موجودہ لیڈرشپ تک سبھی رہنماؤں سے کیے گئے تمام وعدے فراموش کر دیے۔ اس بار کوئی بڑی سیاسی جماعت انتخابات کے لیے تیار نہیں تھی جس کی سب سے بڑی وجہ امرناتھ شرائن بورڑ کا قضیہ اور اسکے بعد سے آزادی کی تحریک کا دوبارہ شروع ہونا تھا۔ بیشترسیاست دان کافی عرصے تک مخمصے میں رہے کہ کیا انہیں موجودہ شورش کے ہوتے ہوئے بحثیت امیدوار آگے آنا چاہیے یا نہیں۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے تک کسی کو انتخابی عمل کے ہونے پر یقین نہیں تھا۔ مگر چند ہفتوں کے بعد ہی زمینی حقیقت تیزی سے بدل گئی۔ انتخابی امیدواروں کی نہ صرف بڑی تعداد سامنے آئی بلکہ ایسی سیاسی جماعتوں کے دفاتر یہاں کھلنے لگے جن کا دوسری ریاستوں میں کوئی خاص اثر نہیں۔ کانگریس کا نام لینے پر یہاں لوگوں کو بھارت نواز ہونے کے شک پرحقارت سے دیکھا جاتا تھا مگر اب بھارتیہ جنتا پارٹی، لوک جن شکتی سمپورن، بھارت کرانتی، راشٹریہ دل وغیرہ کئ پارٹیوں کے دفاتر ضلعوں میں قائم ہوگئے ہیں اور مقامی لوگ سیکورٹی اہلکاروں کے سائے میں امیدوار بن کر انتخابی عمل میں شامل ہوگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان امیدواروں میں کئی خواتین ہیں جو سماج وادی پارٹی سے لے کر شو سینا تک کے لیے چناؤ لڑ رہی ہیں۔ عام تاثر ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت اور اس کے اداروں نے کافی سرمایہ خرچ کرکے امیدواروں کو کھڑا کیا ہے حالانکہ پی ڈی پی کے لیے بھی پہلے پہل ایسا ہی الزام عائد کیا جاتا تھا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی بار کشمیر کی انتخابی تاریخ میں امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ جب کشمیر میں بیس سال قبل پانچ نوجوانوں پر مشتمل ’حاجی گروپ‘ نےعسکری تحریک کا آغاز کیا تو چند ماہ میں نوجوانوں کی تقریباً نصف آْبادی بندوق حاصل کرنے کی دوڑ میں چل پڑی۔ یہ جذبہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا جب آزادی کا سورج دیکھنے والے بادلوں کی اوٹ میں چھپ گئے۔ہوسکتا ہے کہ کشمیر کی سیاسی تاریخ میں یہ نیا موڑ آیا ہو۔ کشمیر کے بدلتے مزاج میں یہ کتنی دیر ٹھراؤ لائیگا ابھی کہنا بہت مشکل ہے۔
040303_gaza_blasats_rza
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/03/040303_gaza_blasats_rza
غزہ میں اسرائیلی حملہ‘ تین ہلاک
غزہ میں یہودی بستی کے قریب اسرائیلی جہاز نے حملہ کرکے ایک کار کو تباہ کر دیا ہے جس سے اس میں سوار تینوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کار کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی جہاز کے حرکت میں آنے سے قبل نیتزیرم کی یہودی بستی میں فلسطینی حملہ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے تباہ شدہ کار کے ملبے سے تین لاشوں کو کھینچ کر باہر نکالا۔ مقامی فلسطینیوں کے مطابق تباہ ہونے والی کار شدت پسند فلسطینی گروپ حماس کی تھی۔ اسرائیلی فوج نے صورتِ حال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ہفتے کو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے اس کار میں سوار اسلامی جہاد کے ایک سینیئر رکن کو ہلاک کر دیا تھا، جو غزہ شہر اور جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ کے درمیان سفر کر رہی تھی۔
pakistan-53089398
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53089398
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: ’عدالت سرینا عیسیٰ کے بیان سے مطمئن مگر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے‘
پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اپنی جائیداد سے متعلق بیان عدالت کے سامنے ریکارڈ کروا دیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں موقف پیش کرنا چاہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی سرینا عیسیٰ کا بیان سننے کے بعد سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سربراہ نے کہا ہے کہ عدالت اس حوالے سے ان کے بیان اور جائیداد کی خریداری کے ذرائع سے بھی مطمئن ہے تاہم اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے ہی کرنا ہے۔ بینچ نے جمعرات کو درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو عدالت کے سامنے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی اجازت دی تھی۔ سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ نے جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ عدالت کے لیے قابل احترام ہیں۔ جسٹس فائز عیسی کیس کے بارے میں مزید پڑھیے ’ریفرنس کیسے تیار ہوا اور اس کے لیے مواد کیسے اکٹھا کیا گیا‘: سپریم کورٹ فائز عیسی کیس: ’بدنیتی نظر آئی تو ریفرینس خارج کر دیا جائے گا‘ فائز عیسیٰ کیس: ’غیر متعلقہ باتوں میں قرآن پاک کا حوالہ نہ دیں‘ فائز عیسیٰ کیس: ’ریفرنس بنانے کا برائٹ آئیڈیا کس نے دیا تھا؟‘ ’ماضی میں ایک جمہوری حکومت ججوں کی جاسوسی پر جا چکی ہے‘ اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اپنا بیان مختصر رکھیں اور اپنے الفاظ کا چناؤ اچھا کریں جس سے کسی کی تضیحک کا پہلو نہ نکلے اور وہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ان درخواستوں میں فریق نہیں ہیں اور بینچ کے ارکان بیان ریکارڈ ہونے کے بعد اس کا جائزہ لیں گے۔ سرینا عیسیٰ نے بیان ریکارڈ کروانے کا موقع دینے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ عدالت کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی۔ سکائپ پر اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے انھوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ اُنھوں نے جج کے دفتر کا غلط استعمال کیا تو وہ عدالت کو بتانا چاہتی ہیں کہ جب ان کے شوہر وکیل تھے تو انھیں پانچ برس کا پاکستانی ویزا دیا گیا اور جنوری سنہ 2020 میں اُنھیں صرف ایک سال کا ویزا جاری کیا گیا ہے۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی ہیں اور ان کے وکیل ان کے ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے رہے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ وہ کراچی کی رہائشی ہیں لیکن ان کا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور اس ضمن میں جب ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا گیا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے سے متعلق ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے گئے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ ہسپانوی شہریت رکھتی ہیں اور خود ان کے پاس بھی ہسپانوی پاسپورٹ ہے. سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں ایسا کیس بنایا گیا جیسے وہ کسی جرم کی ماسٹر مائنڈ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی اور اس خریداری کے ان کے پاسپورٹ کو بطور دستاویز قبول کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ انھوں نے کراچی میں کلفٹن بلاک چار میں بھی جائیداد خریدی جو کچھ عرصے کے بعد فروخت کر دی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کی زرعی اراضی ان کے نام پر ہے اور اس اراضی سے ان کے خاوند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ زرعی زمین انھیں اپنے والد کی طرف سے ملی ہے اور یہ ضلع جیکب آباد میں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں بھی زرعی زمین ہے اور زرعی اراضی کی دیکھ بھال ان کے والد کیا کرتے تھے۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل نے اُنھیں بتایا تھا کہ زرعی اراضی ٹیکس کے نفاذ کے قابل نہیں ہے۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ان کے پاس دو فورم ہیں ایک یہ کہ یہ معاملہ ایف بی آر میں بھیجا جائے اور دوسرا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے سرینا عیسیٰ کے مطابق انھوں نے اپنے وکیل کے مشورے سے فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ بیان کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ بھی دکھایا اور کہا کہ انھیں یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2003 سے سنہ 2013 تک اس اکاؤنٹ سے رقم لندن بھجوائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ جس اکاؤنٹ سے پیسہ باہر گیا وہ ان کے نام پر ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ایک نجی بینک سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ برطانوی پاؤنڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی اور جس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کی گئی وہ بھی ان کے نام پر ہے۔ اُنھوں نے سنہ 2016 لے کر اب تک برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ بھی دکھایا۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا جبکہ اس کے برعکس جب وہ پاکستان میں ایف بی آر سے ریکارڈ لینے گئی تو اُنھیں کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا اور محض ریکارڈ لینے کے لیے ایک شخص سے دوسرے شخص کے پاس بھیجا جاتا رہا۔ درخواست گزار کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ سنہ 2018 کے مالیاتی گوشواروں میں لندن کی جائیداد کے بارے میں بتا چکی ہیں جس پر عدالت نے ان سے سنہ 2018 میں مالیاتی گوشواروں کا ریکارڈ بند لفافے میں طلب کر لیا۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ان کے پاس دو فورم ہیں ایک یہ کہ یہ معاملہ ایف بی آر میں بھیجا جائے اور دوسرا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔ اُنھوں نے درخواست گزار کی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سوالوں کے مضبوط جواب ہیں۔ اس پر سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ ایک جج کی شریکِ حیات ہیں اور انھوں نے جو جواب دیا وہ قانون کا تقاضا ہے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس حوالے سے ان کے بیان اور جائیداد کی خریداری کے ذرائع کے حوالے سے بھی مطمئن ہیں تاہم اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے ہی کرنا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدالت کی طرف سے ان کی اہلیہ کی لندن میں جائیداد کے معاملات فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجنے کی تجویز کی مخالفت کی تھی اور اُنھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کی اہلیہ ایف بی آر جانے کے بجائے رکنی بینچ کے سامنے اس معاملے کو رکھنا چاہتی ہیں اور اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں۔ وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے وزیر اعظم اور صدر مملکت سے مشاورت کے بعد اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ فروغ نسیم کے دلائل وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسی کیس میں جمعرات کو سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی جج کے خلاف آنے والی درخواست یا ریفرنس پر فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ جوڈیشل کونسل فیکٹ فائینڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات مرتب کرتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ریفرنس سے متعلق بدنیتی ثابت ہونے ہر اس بارے میں فائینڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے سامنے تمام فریق ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر ’چیک‘ موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے جبکہ عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے پاس یہ اختیار ہے۔ بینچ میں شامل ایک اور جج جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے۔ وفاق کے وکیل نے اس کے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس میں تین نکات شامل کیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لے کر الزام کے تین نکات نکالے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنھوں نے اپنے دلائل کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق مقدمے کا حوالہ کیوں دیا جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلایا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلایا گیا۔ بینچ کے سربراہ نے سوال کیا کہ کیا ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی اظہارِ وجوہ کا نوٹس اپنی جگہ زندہ رہے گا تو وفاق کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کی بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے کہ ریفرنس کے بعد بھی ایسا نوٹس ختم نہیں ہوتا۔ اُنھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس نوٹس کا تحریری جواب دے کر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کیا۔ عدالت کے سوال پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کی رائے کا جائزہ لے سکتی ہے تاہم صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے۔ اس پر وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہییں۔ بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو تنبیہ کی کہ وہ ایسی مثال دیتے ہوے احتیاط کریں کیونکہ عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ جج کے خلاف کارروائی کے لیے شواہد کا معیار کیا ہو یہ کونسل پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں محض دستاویزات لف نہیں ہونی چاہییں بلکہ ریفرنس کے ساتھ الزام ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد بھی ہوں۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ شواہد اگر تسلیم شدہ ہوں تو حقائق کا ایشو نہیں ہوتا۔ اُنھوں نے کہا کہ کسی مقدمے میں شواہد تسلیم نہ کیے جائیں تو بات اور ہے۔ ’آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے‘ فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی دباؤ کے تحت کوئی مواد لیا جائے تو عدالت قبول نہیں کرتی۔ بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس مقدمے کا مواد، دستاویزات کیسے اکھٹی ہوئیں جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ میں جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے، میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاشزم کی طرف بڑھا جائے‘۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ وہ فاشزم کی بات نہیں کر رہے بلکہ یہاں بات شواہد جمع کرنے کی ہو رہی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس سے کوئی غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کس طرح سے پتا چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ ’آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں، یہ آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا جبکہ پاکستان میں ایف بی آر، نادرا، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں‘۔ اُنھوں نے کہا کہ آئین آزادانہ نقل و حرکت، وقار، ذاتی عزت و تکریم کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ صحافی کی طرف سے معلومات آ گئیں تو اس کی حقیقت کا پتا چلایا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کا وہ ذریعہ چھپائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا ان کی تشویش یہ ہے کہ شواہد کی تلاش کیسے کی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے۔ جج چاہتا ہے کہ میری پرائیویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے‘۔ بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ضیا المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ جج کی جائیداد تلاش کرنے کے لیے نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے۔ اُنھوں نے کہا کہ شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا۔ ’تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لا کر کھڑا کر دیا گیا‘ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہو سکتا۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے تمام جائیدادوں کی تفصیل ڈال دی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جج نے بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ کی جائیداد ویب سائٹ پر موجود ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ برطانیہ کی جائیداد کی درست معلومات کے لیے لینڈ رجسٹری کی ویب سائٹ استعمال کی جاتی ہے اور ویب سائٹ سے معلومات لینے سے سکریسی کے حق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے سوال کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا درست نام ہمیں معلوم نہیں حکومت کو اہلیہ کے درست نام کا کیسے پتہ چلا۔ اُنھوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس اختیار کدھر سے آیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت نے شکایت کنندہ وحید ڈوگر سے پوچھا کہ وہ معلومات کہاں سے لے کر آئے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ وحید ڈوگر کو کیسے پتا چلا یہ جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئیں۔ فروغ نسیم ان سوالوں کے جواب نہ دے سکے اور محض اس جواب پر ہی اکتفا کیا کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ وحید ڈوگر کو یہ معلومات کہاں سے ملیں۔ اُنھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت کسی بھی مقدمے میں عدالت معلومات کا ذریعہ نہیں پوچھتی۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے۔ اُنھوں نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ناک کے نیچے ضلعی عدلیہ میں کیا ہوتا ہے آپ کو علم نہیں۔ اُنھوں نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس شریف آدمی کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے خلاف حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی اور پھر عدالت عظمیٰ کو ہی اس پر کاروائی کرنا پڑی۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ احتساب کے نام پر اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی لکھیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لا کر کھڑا کر دیا گیا‘۔ جسٹس مقبول باقر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی تفصیلات اتنی آسانی سے نہیں لے سکتے جبکہ ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ’ایشو یہ ہے کب حکومت نے جج کی اہلیہ سے گوشوارے مانگے؟ اس پر وفاق کے وکیل نے کہا کہ اُنھوں نے کسی سے گوشوارے نہیں منگوائے بلکہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیجا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو وفاقی حکومت کا درجہ کیسے مل گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ کس حیثیت میں اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اے آر یو کسی شہری کو قانون کے بغیر کیسے چھو سکتا ہے۔ ’ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے‘ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ جائیداد کی معلومات اوپن سورس سے آئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ خود برطانیہ کہتا ہے جائیداد کی معلومات اوپن ہے تو پھر ہم سکریسی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ جو معلومات عوام کی دسترس میں ہو وہ خفیہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جج کی اہلیہ کی طرف سے کسی قسم کی منی ٹریل نہیں دی گئی۔ وفاق کے وکیل نے دلائل دیتے ہویے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کیوجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کو ہٹانے کی بات کی گئی۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے سے آسمان گر پڑا اور اگر نظرِ ثانی کی اپیل اگر مسترد ہو جائے گی تو کون سا آسمان گر پڑے گا`۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’ہماری نفسیات یہ بن چکی ہے ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اپنا کام بھی آزادی سے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں۔ ’قانون سے باہر کام ہوگا تو حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی‘ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بدنیتی میں پس پردہ مقصد ہونا چاہیے اور پس پردہ ایسا مقصد جو قانون سے باہر ہو اُنھوں نے کہا کہ حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی جب قانون سے باہر کام ہو گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کچھ الماری میں پڑا تھا جس کے استعمال کرنے کا انتظار تھا۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر کی شکایت میں تین ججز کے خلاف الزام تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ دلیل درست نہیں کہ ریفرنس کی منظوری کابینہ سے لینا ضروری تھی کیونکہ آرٹیکل 209 میں وفاقی حکومت کا ذکر نہیں ہے۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ دلیل دی گئی یہ معاملہ کابینہ میں جانا چاہیے تھا جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جج کی تقرری کا جائزہ کابینہ نہیں لیتی بلکہ اس کا طریقہ کار ہی مختلف ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس ریفرنس کی تیاری میں سیکرٹری قانون سے لے کر اوپر تک سب نے اپنا مائنڈ اپلائی کیا۔ سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل روسٹرم پر آئے اور انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اُنھوں نے عدالت کا حکم اپنے موکل تک پہنچا دیا تھا اور ان کے موکل کی اہلیہ الزامات کے حوالے سے جواب دیں گی۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے موکل کی اہلیہ کا جواب زیادہ طویل نہیں ہو گا۔ بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل کی اہلیہ صرف جائیداد کے حوالے سے جواب دیں گی جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گی۔ ’قانون کے نقص پر کسی عمل کو جرم نہیں کہہ سکتے‘ وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون کے مطابق ہنڈی حوالہ سے پیسہ باہر جانا جرم ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک کے سرکلر کے ذریعے ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے پیسہ باہر جانے کو منی لانڈرنگ قرار دیا گیا۔ بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ منی لانڈرنگ کا جرم تسلسل جرم کب ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ اور پاکستان کی ’منی لانڈرنگ رجیم‘ میں بہت فرق ہے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ منی لانڈرنگ 2010 میں جرم تھا ہی نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے قانون اجازت دیتے ہیں کہ کرنسی کو تبدیل کروائیں، فارن اکاؤنٹس کے ذریعے باہر بھجوائیں۔ فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں منی لانڈرنگ کو 1998 سے جرم کہا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں ہنڈی حوالہ قوانین کی صحیح وضاحت نہیں کرپائے جس پر بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے نقص پر کسی عمل کو جرم تو نہیں کہہ سکتے۔ جمعرات کو ہونے والی آٹھ گھنٹے طویل سماعت کے دوران وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔خیال رہے کہ صدر، وزیر اعظم اور دیگر فریقین کے وکلا نے فروغ نسیم کے دلائل کو ہی اپنا موقف قرار دیا ہے۔ دلائل کی تکمیل پر عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ وہ تحریری گذارشات کب دیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں چار سے پانچ دن کا وقت لگے گا۔ فروغ نسیم کے دلائل اور جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے بیان کی تکمیل کے بعد سماعت 19 جون تک کے لی ملتوی کر دی گئی ہے۔
040206_tenet_qadeer_sen
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/02/040206_tenet_qadeer_sen
ڈاکٹر قدیر پر جارج ٹینٹ کا الزام
پاکستان کے جوہری سائنس داں عبد القدیر خان کے بارے میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے نفع کی خاطر چار براعظموں میں جوہری راز پہنچائے تھے۔
جارج ٹینٹ نے کہا ہے کہ عبدالقدیر خان کا پردہ امریکی اور برطانوی جاسوسوں نے فاش کیا ہے جو ان کے پھیلائے ہوئے جال میں گھس کر کئ سال سے کارروائ میں مصروف تھے۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف اس سے پہلے یہ اعلان کرچکے تھے کہ عبدالقدیر خان کو معافی دے دی گئی ہے جنہوں نے تسلیم کیا تھا میں اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوں ۔ تاہم پاکستان میں حزب مخالف کے سیاست داں کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت اور فوجی لیڈروں کی لاعلمی میں یہ سارا کام کرتے رہے تھے۔
science-48933803
https://www.bbc.com/urdu/science-48933803
جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوز: کیا فورینزک تجزیہ ہر قسم کی ممکنہ جعل سازی پکڑ سکتا ہے؟
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گذشتہ سنیچر سے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ آڈیو اور ویڈیوز کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
تجزیہ کار زیادہ تر تصدیق کرتے وقت وہ سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں جو انھوں نے اپنی سائنسی تحقیق کی روشنی میں خود تیار کیا ہو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز ان مبینہ آڈیوز اور ویڈیوز کو منظر عام پر لے کر آئی تھیں۔ ان میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک لیگی کارکن ناصر بٹ سے ملاقات اور گفتگو کرتے ہوئے دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں اور اس دوران وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ برس دسمبر میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید کی سزا کا فیصلہ انھوں نے دباؤ میں آ کر دیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ججوں کی آڈیوز، ویڈیوز اور تاریخی اعترافات ’نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج دباؤ میں تھے‘ مریم نواز نے جج ارشد ملک کی دو مبینہ ویڈیوز جاری کر دیں گذشتہ روز اپنے دعوؤں کو تقویت دینے کے لیے مریم نواز جج ارشد ملک کی دو مزید مبینہ ویڈیوز سامنے لائی ہیں جب کہ ان کا دعوی ہے کہ ان کے پاس دیکھانے اور سنانے کو مزید بہت کچھ ہے۔ ان ویڈیوز کو منظر عام پر لانے کے بعد مریم نواز نے احتساب عدالت کے جج پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں جبکہ جج ارشد ملک نے ان الزامات کی پرزور تردید بھی کی ہے۔ تاہم اس سب کے ساتھ ساتھ یہ بحث بھی جاری ہے کہ آیا یہ مبینہ ویڈیوز اور آڈیوز اصلی ہیں یا جعلی؟ ایک جانب حکومتی حلقے ان کو جھوٹ اور بلیک میلنگ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب نون لیگ ان کا فورینزک تجزیہ کروانے پر زور دے رہی ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ویڈیو کا فورینزک تجزیہ ہوتا کیا ہے اور کیا ویڈیو سے کی گئی چھیڑچھاڑ اور میں کی گئی ہر قسم کی ترامیم یا جعلسازی اس تجزیے کے ذریعے پکڑی جا سکتی ہے؟ فرانزک تجزیہ ویڈیو میں رد و بدل کیسے پکڑتا ہے؟ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں واقع ورڈن فورینزکس نامی ایجنسی سے وابستہ فورینزک میڈیا ایگزامینر جیمز زالک کے مطابق ویڈیو کے فورینزک کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی گلوبل اور لوکل۔ گلوبل تجزیے کے ذریعے یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ میں ترمیم کی گئی ہے یا نہیں، تاہم یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ ترمیم اس میں کس جگہ کی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے برعکس لوکل تـجزیے میں یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ یہ ترامیم ریکارڈنگ میں ٹھیک کن کن مقامات پر کی گئی ہیں۔‘ مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز احتساب عدالت کے جج کی مبینہ آڈیوز اور ویڈیوز کو گذشتہ ہفتے پہلی مرتبہ منظر عام پر لے کر آئی تھیں تجزیے کے لیے کیا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے؟ فورینزک کے ماہر جیمز زالک کے مطابق ویڈیو کے فورینزک تجزیے کے لیے بہت سے سافٹ ویئر موجود ہیں تاہم 'تجزیہ کار زیادہ تر تصدیق کرتے وقت وہ سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں جو انھوں نے اپنی سائنسی تحقیق کی روشنی میں خود تیار کیا ہو۔' ان کا کہنا ہے تصدیق کار تجزیے کی مختلف اقسام کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ہر ویڈیو میں کم از کم دو سٹریمز یا دھارے پائے جاتے ہیں یعنی ایک تصویری اور دوسرا صوتی۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے تصویری دھارے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ’تصویری دھارا ویڈیو فریمز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں ممکنہ ترامیم کا پتہ چلانے کے لیے جائزے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس دھارے کے بہاؤ میں کوئی تضاد تو نہیں یا پھر کوئی فریم گرا ہوا یا غائب تو نہیں ہے۔‘ جیمز زالک کہتے ہیں کہ ’سکرین پر نظر آنے والے اس کے وقت اور اس کے حقیقی دورانیے کے درمیان ممکنہ تضاد اور صوتی دھارے کے ساتھ اس کی مطابقت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ دونوں دھاروں میں دہرا دباؤ بھی ترامیم کی نشاندہی کر سکتا ہے۔‘ جیمز زالک کے مطابق اس کے بعد ویڈیو میں موجود آڈیو سٹریم یعنی صوتی دھارے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے مرحلوں، توانائی، دباؤ کی سطح اور طویل مدتی سپکٹرم کی اوسط کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ آخر میں فائل کنٹینر یعنی کمپیوٹر پر موجود وہ ڈبا جس میں ویڈیو کی فائل موجود ہوتی ہے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس میں فائل کی ساخت، خصوصیات، ای ایکس آئی ایف ڈیٹا اور فائل کے ہیڈر اور فوٹر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ 'جب تمام تر تجزیے مکمل کر لیے جائیں تو ان کے نتائج کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر دیکھا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی تجزیہ کار اپنی رائے دے سکتا ہے۔' فرانزک تجزیہ ویڈیوز میں جعل سازی پکڑ سکتا ہے؟ جیمز زالک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں 'ایسا بہت مشکل ہے کہ جعل سازی پکڑی نہ جا سکے۔' مگر کیا پاکستان میں کسی ادارے کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مکمل فرانزک تجزیہ کر کے یہ بتا سکیں کہ ویڈیو ہر لحاظ سے اصل ہے یا اس میں جعل سازی کا شائبہ موجود ہے؟ پاکستان کا جدید ترین فورینزک ادارہ پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی لاہور میں واقع ہے۔ ان کے پاس ویڈیو کے فورینزک تجزیے کی صلاحیت موجود تو ہے مگر وہ ہر لحاظ سے مکمل اور جدید نہیں کہی جا سکتی۔ ’ پی ایف ایس اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ایجنسی 'ویڈیو کا فورینزک تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم ان کے پاس یہ سہولت میسر نہیں کہ وہ یہ بتا سکیں کہ کیا ویڈیو میں سنائی دینے والی آواز اصلی ہے یا اس میں ترمیم یا تخفیف کی گئی ہے۔' پاکستان میں ویڈیو کا تجزیہ کیسے کیا جاتا ہے؟ ڈاکٹر محمد اقبال نے بتایا کہ ان کے ہاں 'ویڈیو کا تجزیہ فریم بائی فریم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اور یہ مینوئل (دستی) بھی ہو سکتا ہے اور سوفٹ ویئر کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ اس میں اگر ان کے پاس ویڈیو کا میٹا ڈیٹا دستیاب ہو تو بہتر ہے، ورنہ اس کے بغیر بھی انھی دو طریقوں سے ویڈیو کا تجزیہ کرتے ہیں۔ میٹا ڈیٹا اس اضافی تحریری مواد کو کہا جاتا ہے جو ویڈیو کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تیسرے طریقے میں ویڈیو کے فریموں کو اوور لیپ یعنی ایک دوسرے کے اوپر چڑھا کر دیکھا جاتا ہے۔ 'اور اس میں اس بنیاد پر مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ فائل جس میں دلچسپی ہو اس کے کناروں وغیرہ پر کیا کوئی ردوبدل کیا گیا ہے۔' پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی کے پاس ویڈیو کے صوتی تجزیے کی سہولت موجود نہیں ہے صوتی تجزیے کی سہولت نہیں پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ویڈیو کے صوتی تجزیے کی سہولت موجود نہیں ہے۔ 'ہر ویڈیو کے ساتھ آواز ہوتی ہے۔ تاہم اگر اصل آواز کو بند کر کے اس کے اوپر دوسری آواز ریکارڈ کی گئی ہے تو میرا نہیں خیال کہ ہم یہ بتا پائیں گے۔ ہم نہیں بتا سکتے کہ وہ آواز اصلی ہے یا اس کے ساتھ ردوبدل کیا گیا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ البتہ دنیا میں ایسے سافٹ ویئر موجود ہیں جو یہ بتا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ایسے سافٹ ویئر پنجاب کے پاس اس لیے میسر نہیں کیونکہ ’یہ سافٹ ویئر بہت مہنگے ہوتے ہیں اور ہم ان پر آنے والے خرچ کا جواز اس لیے نہیں دے سکتے کہ ہمارے پاس اس قسم کے تجزیوں کی درخواستیں بہت کم آتی ہیں۔' ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایسا ہی وائس میچ یا صوتی تجزیے کے ساتھ بھی ہے۔ ویڈیو میں آواز کا ردوبدل کیسے پکڑا جاتا ہے؟ جیمز زالک کے مطابق ویڈیو میں آواز کا ردوبدل پکڑنا ممکن ہے۔ 'اس کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا آواز اور تصویر کے درمیان مطابقت ہے یا نہیں۔' مثال کے طور پر کیا تصویر پہلے اور آواز بعد میں آ رہی ہے یا پھر اس کا الٹ ہو رہا ہے۔ تصویر اور آواز کے دونوں دھاروں کو آمنے سامنے رکھ کر یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کیا آواز کا دھارا تصویر کے دھارے سے چھوٹا تو نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آڈیو کے اندر ترامیم کے لیے استعمال کیے جانے والے کسی سافٹ ویئر کی نشانیاں اس میں باقی رہ جانے کے بارے میں فائل کنٹینر کے تجزیے سے پتا چل سکتی ہیں۔ اسی طرح صوتی دھارے کا علیحدہ سے جائزہ لے کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی فریکوئینسی، بینڈ وڈتھ، دباؤ کی حدود اور کوڈیک میں مطابقت ہے یا نہیں۔ کیا سوشل میڈیا پر موجود کسی بھی ویڈیو کی تصدیق ممکن ہے؟ جیمز زالک کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار زیادہ تر سوشل میڈیا کی قسم پر ہوتا ہے تاہم پھر بھی 'ایسا ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کی اصلیت کے حوالے سے تصدیق کی جا سکے۔' اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنی مخصوص ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ویڈیو ریکارڈنگ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ 'اس کے باوجود ویڈیو اور آڈیو کے دھاروں کے تجزیے سے اس ویڈیو کے اصلی یا نقلی ہونے کے حوالے سے تصدیق کی جا سکتی ہے کیونکہ تبدیلی کے بعد بھی ممکنہ ترامیم کی نشانیاں اس میں باقی رہ جاتی ہیں۔' جیمز زالک کا کہنا تھا کہ ویڈیوز کے تجزیے کے لیے اس قدر زیادہ سافٹ ویئر موجود ہیں جن کے بارے میں ایک عام آدمی یا ویڈیو میں ردوبدل کرنے والا عام شخص نہیں جانتا یا انہیں سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے 'بہت مشکل ہے کہ اصلی ویڈیو میں کسی بھی قسم کی ترامیم یا ردوبدل پکڑا نہ جا سکے۔'
080728_apdm
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/07/080728_apdm
تحریک کی تاریخ پر فیصلہ نہیں
اٹھارہ فروری کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز ڈیمو کریٹک موومنٹ کا اجلاس پیر کو اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیے بغیر ہی ختم ہو گیا کہ معزول ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر حکومت کے خلاف تحریک کب شروع کی جانی چاہیے۔
اے پی ڈی ایم کا اجلاس اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے رہنما میاں اسلم کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اجلاس کے بعد اعلان کے باوجور کوئی پریس بریفنگ نہیں دی گی۔ تاہم اے پی ڈی ایم کے رہنما لیاقت بلوچ نےاسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے خلاف ایک منظم سیاسی تحریک چلانے کے لیے اجلاس میں شامل تمام رہنما متفق ہو گئے ہیں جبکہ تحریک کے لیے اے پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی نے لائحہ عمل کی سفارشات تیار کر لی ہیں جن کا اعلان اے پی ڈی ایم کے رہنماوں سے مشاورت کے بعد منگل تک کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اٹھارہ فروری کو عوام نے جو مینڈیٹ دیا تھا وہ اس پر عمل کرنے میں ناکام ہو گی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا کوئی سر پیر ہی نہیں اس لیے آئی ایس آئی کو پہلے وزرات داخلہ کے ماتحت کرنے کے بعد دوبارہ ان دیکھے دباؤ کی وجہ سے فیصلہ واپس لینا پڑا ہے جس سے امریکہ کے دورے سے قبل وزیر اعظم کی نمائندہ حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ اجلاس میں قاضی حسین احمد، عمران خان، محمود خان اچکزئی سمیت اے پی ڈی ایم کے نمایاں رہنما شریک ہوئے۔
060317_stamp_pk_history_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/03/060317_stamp_pk_history_zs
تاریخِ پاکستان، ڈاک ٹکٹوں کے آئینے میں
پاکستان دنیا کی شاید واحد ایسی قومی ریاست ہوگی جہاں ملک کے فوجی حکمران کی تصویر پر مبنی ڈاک ٹکٹ پہلے جاری کیاگیا اور ملک کے بانی کی تصویر کا ٹکٹ بعد میں۔
ملک کے گزشتہ چھپن برسوں میں جو ایک ہزار سے زیادہ ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے ان پر بادشاہوں اور مشہور شخصیات کی تصویریں ہیں، عمارتوں کی تصویریں ہیں لیکن ملک کا عام آدمی، کسان اور مزدور کہیں نظر نہیں آتا۔ تاہم گزشتہ بیس برسوں میں جاری ہونے والے ٹکٹوں میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔ پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ سے لے کر سنہ دو ہزار چھ کے پہلے مہینہ تک جاری کیے گئے بارہ سو پچاس ٹکٹوں کا ایک رنگین کیٹلاگ لاہور سے شائع کیا گیا ہے اور وہ لوگ جو اصل پرانے ٹکٹ حاصل نہیں کرسکتے وہ اس کے ذریعے ان ٹکٹوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر یہ ڈاک ٹکٹ پاکستانی ریاست کی ترجیحات اور پسند و ناپسند کا آئینہ ہیں تو ان سے ایک دلچسپ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ڈاک ٹکٹوں کا یہ کیٹلاگ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان وجود میں آیا تو فوری طور پر برطانوی عہد کے ٹکٹوں پر پاکستان کا لفظ بڑا بڑا شائع کرکے انہیں ملک کے پہلے عبوری ٹکٹوں کے طور پر استعمال کیا گیا اور بعد میں کراچی میں ان ٹکٹوں کو دوبارہ چھاپا کیا گیا۔ ان ٹکٹوں پر انڈیا پوسٹیج لکھا ہوا ہے اور شاہ جارج ششم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ یہ آدھے آنہ سے لے کر بارہ آنہ تک کے اور ایک روپے سے پچیس روپے تک کی مالیت کے ٹکٹ ہیں۔ پاکستان کے اپنے باقاعدہ ٹکٹ آزادی کی یاد منانے کے عنوان سے نو جولائی انیس سو اڑتالیس میں جاری کیے گئے۔ ان چار مختلف ڈیزائنوں کے ٹکٹوں کو لندن سے چھپوایا گیا۔ ایک روپیہ کا پہلا ڈاک ٹکٹ معروف مصور عبدالرحمان چغتائی نے ڈیزائن کیا تھا جس پر پاکستان زندہ باد لکھا تھا۔ آزادی کی یاد میں جاری کیے گئے اس پہلے ٹکٹ کا رنگ سرخ ہے، اس پر چاند تارہ بنا ہوا ہے اور پاکستان کے قیام کی تاریخ پندرہ اگست لکھی ہوئی ہے جو بعد میں تبدیل کرکے چودہ اگست کردی گئی۔ اگست انیس سو انتالیس تک جاری کئے گئے مختلف ٹکٹوں میں سے کسی پر بھی بانی پاکستان قائداغطم محمد علی جناح کی کوئی تصویر یا نام نہیں ہے۔ ان ٹکٹوں پر بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مصیبت زدہ مہاجرین یا فسادات میں مارے جانے والے عام لوگوں کی کوئی تصویر یا کوئی مصوری نہیں۔ان سب ٹکٹوں پر عمارتوں کی تصویر ہے یا چاند تارا بنا ہوا ہے۔ ستمبر انیس سو انچاس میں قائداعظم محمد علی جناح کی وفات پر ٹکٹ جاری کیا گیا جس پر قائداعظم لکھا ہوا ہے لیکن ان کی تصویر نہیں ہے۔ پاکستانی ٹکٹوں پر پہلی بار کوئی زندہ چیز اونٹوں کے قافلہ کی شکل میں انیس سو باون میں نمودار ہوئی۔ یہ ٹکٹ متحدہ ہندوستان میں جاری ہونے والے پہلے ڈاک ٹکٹوں کی صد سالہ یاد میں جاری کیے گئے تھے۔ مصور عبدالرحمان چغتائی نے انیس سو اکیاون میں ایک بار پھر ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیے جن پر وقت ناپنے کے لیے ریت کی گھڑی بنی ہوئی ہے۔ نیلے، سبز اور سرخ رنگوں میں یہ خاصے خوبصورت ڈاک ٹکٹ ہیں۔ ملک بننے کے نو سال بعد اکتوبر انیس سو چھپن میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈھاکہ میں ہونے والے پہلے اجلاس کے تین یادگاری ٹکٹ شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک ٹکٹ پر مالٹے کا درخت بنا ہوا ہے اور ایک پر کرنافلی کاغذ مل کی تصویر ہے۔ اکتوبر انیس سو اٹھاون میں ملک کا پہلا آئین منسوخ کرکے پہلا جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا۔ اس کے ایک سال بعد حکومت نے یوم افواج پر جو دس جنوری کو منایا جاتا تھا دو ٹکٹ جاری کیے جن پر افواج پاکستان کا بیج شائع ہوا ہے۔ یہ ٹکٹوں پر فوج کا پہلا داخلہ ہے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا لگانے کی یاد میں یوم انقلاب کے عنوان سے ستائیس اکتوبر انیس سو ساٹھ کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔ان کا موضوع ایوب خان کی زرعی اصلاحات ہیں جنہیں کسانوں سے نہیں بلکہ قطعہ زمین سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دو دو بار ان کی تصاویر والے ٹکٹ جاری ہوئے ۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی تصویر والا ٹکٹ شائع کیا لیکن وہ جاری نہیں کیا گیا۔ محمد خان جونیجو، نواز شریف اور جنرل ضیاالحق نے اپنی تصاویر کے ٹکٹ جاری نہیں کیے۔ انیس سو اکسٹھ میں ملک کی کرنسی آنہ کی بجائے پیسے اور روپے میں ہوگئی تو اس کی یاد میں بھی ٹکٹ جاری ہوئے۔ اس موقع پر پہلی بار مسجد کی شبیہ ٹکٹوں کا موضوع بنی۔ ان پر لاہور کی شاہی مسجد کی تصویر ہے۔ بعد میں انیس سو اکسٹھ میں بنگال کی سونا مسجد کی شبیہ ایک روپے کے ٹکٹوں کا موضوع بنی۔ شروع کے پندرہ سال ڈاک ٹکٹوں پر عمارتیں چھائی رہیں۔ مفاد عامہ کا کوئی موضوع انیس سو باسٹھ میں پہلی بار ٹکٹوں پر جگہ بناسکا۔ ملیریا کی بیخ کنی کے لیے حکومت نے سات اپریل انیس سو اکسٹھ میں مچھر کی تصویروں والی دو ٹکٹیں جاری کیں۔ جب انیس سو چھن میں پارلیمینٹ نے ملک کا پہلا آئین بنایا تھا تو اس کی تو کوئی یادگاری ٹکٹ جاری نہیں ہوئی تھی نہ انیس سو تہتر کے پہلے متفقہ آئین کی ہوئی۔ البتہ جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت نے انیس سو باسٹھ میں جو آئین نافذ کیا تھا اس کی یاد میں اسی سال گیارہ دسمبر کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔ ان پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے نقشے اور گل یاسمین کے ساتھ علامہ اقبال کے ایک شعر کا مصرعہ بھی درج ہے۔ مارچ انیس سو تریسٹھ میں قدرے عوامی رنگ کا ایک ٹکٹ جاری ہوا جس پر قومی ہارس اور کیٹل شو کے موقع پر ایک گہرے گلابی رنگ کے ٹکٹ پر ایک گھوڑے، بیل اور ایک اونٹ کو رقص کرتے دکھایاگیا ہے۔ ملک کی مقامی ثقافتوں کا پہلا اعتراف شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کی شبیہ کے ساتھ جاری ہونے والے جون انیس سو چونسٹھ کے ٹکٹ سے ہوتا ہے۔ فوجی جوانوں کے چہرے وہ پہلے انسانی چہرے ہیں جو ڈاک ٹکٹوں پر ظاہر ہوئے۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے بعد اسی سال دسمبر میں جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں پر پاکستان کی بری، بحریہ اور فضائیہ کے باوردی جوانوں کو ان کے ہتھیاروں کے ساتھ ٹکٹ پر دکھایا گیا۔ نومبر انیس سو چھیاسٹھ میں کسی شخص کی تصویر پہلی بار دو ڈاک ٹکٹوں پر شائع کی گئی اور وہ تھے فوجی حکمران جنرل ایوب خان۔ موقع تھا اسلام آباد کے ملک کا نیا دارالحکومت بننے کا۔ ایک ٹکٹ پر باوردی جنرل ایوب اور دوسرے پر انگریزی سوٹ میں ملبوس۔ اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی تصویریں بھی ٹکٹوں پر نہیں آئی تھیں۔ شائد حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا ہو اور اس نے ایک ماہ بعد اکتیس دسمبر سنہ انیس سو چھیاسٹھ میں بانی پاکستان کی تصویروں والے ٹکٹ جاری کیے جن میں قائداعظم نے کوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے ہیں۔ ایک سال بعد پہلی بار علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ بھی ٹکٹ جاری کردیے گئے۔ بنگال کی نمائندگی پہلی بار جون انیس سو اڑسٹھ میں جاری کیے گئے ٹکٹوں سے ہوتی ہے جن پر مشہور بنگالی شاعر قاضی نذرالسلام کی تصاویر ہیں۔ اس کے ایک سال بعد قومی زبان اردو کے شاعر مرزا غالب کی تصاویر والے ٹکٹ بھی جاری ہوئے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تصویر والا پہلا ٹکٹ ان کی وفات کی برسی کے موقع پر اکتوبر انیس سو چونسٹھ میں ڈاک ٹکٹ کا موضوع بنا۔ اس تصویر میں وہ کالا کوٹ اور ٹائی لگائے ہوئے ہیں۔ شیروانی انیس سو چھہتر تک ملک کے سرکاری لباس کے طور پر سامنے نہیں آئی۔ اس سال نومبر میں قائداغطم کی ایسی پہلی تصویر والا ٹکٹ جاری ہوا جس میں انہیں شیروانی پہنے دکھایا گیا ہے۔ اگلے ہی سال علامہ اقبال کی صد سالہ پیدائش کے موقع پر ان کی تصویر والے ٹکٹ میں انہیں بھی کوٹ اور ٹائی کے بجائے گاؤن پہنے دکھایا گیاہے۔ ایک دلچسپ قصہ فیصل مسجد کی تصاویر والے ٹکٹوں کا ہے جو بارہ اکتوبر انیس سو چھہتر کو جاری ہونا تھے لیکن گیارہ اکتوبر کو اس کی افتتاحی تقریب منسوخ ہونے کے باعث انہیں واپس لے لیا گیا تاہم کچھ ڈاکخانوں سے وہ عوام میں تقسیم کردیے گئے تھے۔ ایسا ہی واقعہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار کا ہے۔ انیس پچانوے میں پاکستان میں مسلمان ملکوں کی خواتین ارکان پارلیمینٹ کی کانفرنس ہوئی۔اس موقع پر بنگلہ دیش کی وزیراعظم خالدہ ضیاء، ترکی کی وزیراعظم تانسو چلر اور پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی تصاویر پر مبنی ایک ڈاک ٹکٹ شائع کیاگیا لیکن اسے جاری نہیں کیاگیا۔ اس ٹکٹ کی نقل اس کیٹلاگ میں دی گئی ہے۔ قرارداد لاہور کی جگہ پر ساٹھ کی دہائی میں بننے والے مینار پاکستان کی تصویر پہلی بار انیس سو اٹھہتر میں ڈاک ٹکٹ پر نمودار ہوئی۔ اسی اور نوے کی دہائی سے پاکستان کے ڈاک ٹکٹوں میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان میں موضوعات کی رنگارنگی نظر آتی ہے۔ ان کے عنوانات مقامی شاعروں ، ادیبوں، مصوروں، اسکالروں اور دانشوروں کی تصاویر، مقامی دستکاریاں اور لباس اور مفاد عامہ کے پیغامات ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاک ٹکٹوں کے متنوع موضوعات ایک تیزی سے بدلتے ہوئے پاکستان کے آئینہ دار ہیں۔
pakistan-56491551
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56491551
کوئٹہ میں اساتذہ کا مظاہرہ: گود میں بچے اٹھائے احتجاج کرتی خواتین، جن کا سردی اور لاٹھی چارج بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے
کوئٹہ میں سرد موسم اور بارش کے ساتھ پریس کلب کے باہر ایک عجب کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے۔ روایتی ملبوسات میں خواتین اپنے شیرخوار بچوں کے ہمراہ مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہیں سیاہ وردیوں میں خواتین و مرد پولیس اہلکاروں کی ایک بھاری نفری انھیں ایسا کرنے سے روک رہی ہے۔
گذشتہ روز دونوں فریقین کے درمیان تصادم ہوا اور مظاہرین کے مطابق پولیس اہلکاروں نے ان سے بدسلوکی کی۔ تشدد کے باعث جب مظاہرین میں سے ایک خاتون بےہوش ہوئیں تو مظاہرین میں غم و غصہ بڑھ گیا اور انھوں نے روتے ہوئے پولیس کے خلاف نعرے بلند کر دیے۔ اس مظاہرے میں بچے بھی برابر حصہ لے رہے ہیں۔ اپنی ماؤں کے رونے پر ان شیرخوار بچوں میں سے بیک وقت کئی بچے ایک ساتھ روتے سنائی دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ ساتھ احتجاج میں شریک ہیں۔ تاہم پیر کے روز تو ان بچوں کو اس وقت بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے اپنے والدین کے سامنے اور ارد گرد پولیس کی بھاری نفری دیکھی۔ پولیس نے اس دوران لاٹھی چارج بھی کیا جس سے کچھ خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ بھی پڑھیے ’سوال پوچھنے پر گھر میں گھسنے والے مارتے ہیں‘ کوئٹہ کی سڑکوں پر اتنی خواتین کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟ ’ایسا مجبور کیا گیا کہ احتجاج کے لیے سینکڑوں میل دور آنا پڑا‘ 'آٹھ ماہ سے تنخواہ بند ہے، اس مہنگائی میں ٹیچر کا گزارا کیسے ممکن ہے؟ ہم لوگ مضبوط ہو کر گھروں سے نکلے ہیں اور مطالبات کی منظوری تک واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی کہ ہماری ماں بیٹیاں اتنے وقت سے سڑکوں پر بیٹھی ہوئی ہیں۔' یہ مظاہرین دراصل اساتذہ ہیں جو بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایک مرتبہ پھر کوئٹہ آئی ہیں۔ ان کا تعلق ورلڈ بینک کے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن پراجیکٹ سے ہے اور ان میں سے زیادہ تر بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت ان کو معاہدے کے مطابق مستقل نوکری نہیں دے رہی ہے۔ تاہم محکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت کو بھیج دی گئی ہے، منظوری ہوتے ہی حکومت ان اساتذہ کو مستقل کر دے گی۔ چار ماہ بعد دوبارہ کوئٹہ آنے پر مجبور بچوں کی بڑی تعداد اور پھر موسمی حالات کے باعث یہ اساتذہ جن مشکلات سے دوچار ہیں، ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے خضدار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ٹیچر فضیلہ بی بی نے جذباتی ہو کر پوچھا 'ان حالات میں کسی بڑے کے لیے کھلے آسمان تلے سڑکوں پر کھڑا ہونا مشکل ہے، ہم اپنے شیرخوار بچوں کو کیسے سنبھالیں؟' ان کا کہنا تھا کہ 'جب ہمارے مطالبات جائز ہیں تو پھر ہمیں سڑکوں پر کیوں خوار کیا جا رہا ہے؟' نوشکی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ٹیچر نے بتایا وہ اس بات پر خوش تھیں کہ تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت ملنے کے بعد ان کی زندگی کی مشکلات میں کمی آئے گی لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ اب بھی اپنے گھروں سے دور سڑکوں پر رل رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'دیگر مشکلات کے ساتھ تنخواہوں کی بندش کے باعث ہم اس مشکل میں ہیں کہ کوئٹہ میں رہائش کے اخراجات کہاں سے پورے کریں اور کھائیں کہاں سے۔' مطالبات تسلیم نہ ہونے پر یہ اساتذہ چار ماہ بعد دوبارہ بلوچستان کے دوردراز کے علاقوں سے کوئٹہ میں جمع ہوئے۔ ان اساتذہ نے 18 مارچ کو پہلے سول سیکریٹریٹ کے قریب دھرنا دیا اور اس کے بعد سے وہ پریس کلب کے باہر روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں۔ چونکہ اس پراجیکٹ کے مجموعی 1493 اساتذہ میں سے 13 سو سے زائد خواتین ہیں اس لیے ان کی اکثریت کی وجہ سے کوئٹہ میں یہ احتجاج عملاً خواتین کا احتجاج لگتا ہے۔ احتجاج ویسے ہی ایک مشکل کام ہے لیکن بچوں بالخصوص شیر خوار بچوں نے خواتین اساتذہ کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ جہاں ان خواتین اساتذہ کے لیے پورا دن کھلے آسمان تلے سڑک پر بچوں کو سنبھالنا ایک مشکل کام ہے وہاں تین چار روز سے بارشوں اور سردی میں اضافے نے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ بارش تیز ہونے کی صورت میں ان کو متعدد بار دیواروں کی اوٹھ میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ پیر کے روز جہاں ایک طرف زیادہ بارش ہوئی وہیں دوسری جانب ان اساتذہ نے صوبائی اسمبلی تک مارچ بھی کیا۔ اسمبلی تک نہ صرف ان کی پولیس والوں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوتی رہی بلکہ شدید سردی میں ان کو کئی گھنٹے اسمبلی کے باہر دھرنا بھی دینا پڑا۔ رہائش اور کھانے پینے کے حوالے سے مشکلات احتجاج میں شریک گلوبل پارٹنر شپ ٹیچرز ایکشن کمیٹی کی صدر الماس قادر کا کہنا تھا کہ تنخواہوں کی بندش کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں کھانے پینے اور رہائش کے حوالے سے بھی ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہوٹلوں میں رہائش کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے بعض لوگ کوئٹہ میں محکمہ تعلیم کے دفاتر وغیرہ میں رہائش پر مجبور ہیں۔ 'چونکہ صبح سویرے لوگوں نے دفاتر اور سکول آنا ہوتا ہے اس لیے ان کو صبح سویرے وہاں سے نکلنا پڑتا ہے۔' احتجاج میں شریک قلات سے تعلق رکھنے والی سعیدہ بی بی نے بتایا کہ 'گزشتہ احتجاج پر ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آپ لوگ جب گھر پہنچیں گے تو آپ لوگوں کا مسئلہ حل ہو گا جس کی وجہ سے ہم خوش ہو کر چلے گئے لیکن چار ماہ بعد ہم ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔' انھوں نے اپنی گود میں اپنے شیر خوار بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مجبوراً اس بچے کے ساتھ دوردراز علاقے سے آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف دوردراز کے علاقوں میں بچوں کو پڑھا رہی بلکہ بعض خواتین ایسی بھی جن کے پورے خاندانوں کے معاش کا انحصار انہی پر ہے لیکن تنخواہوں کی بندش سے ان کے خاندانوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ خضدار سے تعلق رکھنے والی ٹیچر فضیلہ کا کہنا تھا کہ 'ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر اس کے برعکس وہ اپنے گھروں سے دور احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ کم ازکم خواتین اساتذہ کو سڑکوں پرخوار نہیں کیا جانا چاہیے۔' اپنے دو ماہ کے بچے کے ساتھ اس احتجاج میں شریک نوشکی سے تعلق رکھنے والی خاتون ٹیچر نے بتایا کہ ان کو بچے کو اس لیے لانا پڑا کہ وہاں گھر میں اسے کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہ صرف مستقل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ بھی بہت کم ہے جس کا ایک بڑا حصہ سکول تک آنے جانے کے کرائے پر صرف ہوتا ہے۔ خاتون ٹیچر کا کہنا تھا کہ 'گاڑیوں میں سفر کرنے کا کرایہ تو روزانہ یا ماہانہ کی بنیاد پر مانگا جاتا ہے لیکن تنخواہیں ہیں جو کئی کئی ماہ تک ملتی ہی نہیں۔' احتجاج کرنے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ اس مرتبہ مطالبات تسلیم کروانے پر ہی اپنا احتجاج ختم کریں گے۔ گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیسشن پراجیکٹ بلوچستان میں اساتذہ بالخصوص خواتین اساتذہ کی بہت کمی ہے۔ الماس قادر نے بتایا کہ بلوچستان میں اساتذہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے ورلڈ بینک کے گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن پراجیکٹ کے تحت 1500 اساتذہ کی تعیناتی کی گئی تھی۔ ان میں سے چند اساتذہ نے استعفیٰ دیا تھا لیکن ان میں سے 1493 اساتذہ اب بھی کام کر رہے جن میں سے 1300 سے زائد خواتین ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کے تحت بلوچستان کے ان علاقوں میں 725 سکول بنائے گئے جہاں اس سے قبل کسی سکول کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ میرٹ کی بنیاد پر اس پراجیکٹ کے تحت دو قسم کے ٹیچر تعینات کیے گئے جن میں جے وی ٹیچرز اور ایلیمنٹری سکول ٹیچرز شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر اساتذہ دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں پڑھاتی ہیں اور ان اساتذہ کی تنخواہ بھی ماہانہ ساڑھے 18 ہزار سے لے کر 23 ہزار روپے تک ہے جو کہ محکمہ تعلیم کے مستقل اساتذہ کے مقابلے میں کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت کنٹریکٹ پر بھرتی کے ایک دو سال بعد ان اساتذہ کو مستقل کیا جانا تھا لیکن پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کو مستقل نہیں کیا گیا۔ ان اساتذہ کے احتجاج کے تناظر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سیکریٹری تعلیم شیرخان بازئی نے بتایا کہ گلوبل پارٹنرشپ کے 1493 اساتذہ کی سمری تین چار ماہ قبل حکومت بلوچستان کو منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک اور حکومت بلوچستان کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ جونہی یہ پراجیکٹ مکمل ہو گا تو حکومت بلوچستان ان اساتذہ کو اپنائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس بنیاد پر ہم نے سمری بھیج دی ہے جونہی اس کی منظوری ہو گی تو ان اساتذہ کو سرکاری نظام کے تحت لیا جائے گا اور جون سے ان کی جو تنخواہیں بند ہیں وہ جاری ہو جائیں گی۔ الماس قادر نے بتایا کہ پراجیکٹ کے تحت جو 725 سکول قائم کیے گئے ہیں ان میں سوا لاکھ کے لگ بھگ بچے زیر تعلیم ہیں۔ پراجیکٹ کے اساتذہ کے احتجاج اور ان کی ایک بڑی تعداد کی کوئٹہ میں موجودگی کے باعث ان سکولوں کے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ الماس قادرکا کہنا ہے کہ اگر اس پراجیکٹ کے اساتذہ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو دوردراز کے علاقوں میں مزید بچے تعلیم سے محروم ہوسکتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بلوچستان میں پہلے ہی نہ صرف تعلیم کا معیار کمزور ہے بلکہ سکول جانے کی عمر کے بچوں کی بہت بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے۔ بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم شیرخان بازئی کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کے بارے میں کوئی باقاعدہ سروے تو نہیں ہوا ہے لیکن کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے جو سروے کیے ہیں ان کے مطابق سکول سے باہر بچوں کی تعداد 12 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔