url
stringlengths
1
238
heading
stringlengths
7
166
content
stringlengths
7
33.8k
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyj4v0y773jo
’میں نے میرین ڈرائیو پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا‘: ممبئی میں مداحوں نے فاتح انڈین ٹیم کا استقبال کیسے کیا؟
فاتح انڈین کرکٹ ٹیم بالآخر تقریباً ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد وطن واپس آئی جہاں فتح کا ایسا جشن منایا گیا جو اس سے قبل نہیں دیکھا گيا۔ جمعرات کی صبح انڈین ٹیم پہلے دارالحکومت دہلی پہنچی جہاں اس نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور اپنے تجربات شیئر کیے۔ اگر کپتان روہت شرما نے فائنل کے بعد پچ کی گھاس چکھنے کے بارے میں بتایا تو وہیں مین آف دی میچ وراٹ کوہلی نے تکبر یا انا کے بارے میں بات کی کہ وہ کس طرح کھیل کا دشمن ہے۔ مین آف دی سیریز جسپریت بمراہ اور فائنل میں شاندار کیچ لے کر میچ کا رخ بدلنے والے سوریہ کمار یادو نے بھی اپنی کہانی سنائی۔ ان سب پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے انڈین ٹیم کی فتح کے جشن کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دہلی کے بجائے ممبئی کے ساحل میرین ڈرائیو سے شروع ہو کر وانکھیڈے سٹیڈیم تک پہنچی۔ بی بی سی نامہ نگار جھانوی مولے وہاں موجود تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پریڈ کو دیکھنے اور اس میں شرکت کے لیے ہزاروں لوگ میرین ڈرائیو پر پہنچے تھے اور انھوں نے اس سے قبل اتنی بھیڑ وہاں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ’میں نے میرین ڈرائیو پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے میراتھن کے دوران بھی اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔‘ قلعہ چند چوک پر افراتفری تھی۔ یہی صورتحال وانکھیڈے سٹیڈیم کے قریب تھی۔ پولیس بھی ہجوم پر قابو پانے میں مشکلات سے دوچار تھی۔ دوپہر دو بجے سے ہی سٹیڈیم کے گیٹ پر بھیڑ جمع ہونا شروع ہو گئی تھی۔ 'مجھے بتایا گیا کہ شام چار بجے سٹیڈیم میں داخلہ شروع ہو گا اور آدھے گھنٹے میں ہی پورا سٹیڈیم بھر گیا۔ دفتر میں کام کرنے والے بھی اس دن 2-3 بجے تک دفتر سے نکل گئے۔ 'صبح سے ہی تیاریاں جاری تھیں۔ بینرز لگائے جا رہے تھے اور درختوں کی شاخیں کاٹی جا رہی تھیں تاکہ بس پر سوار انڈین کھلاڑیوں کو پریشانی نہ ہو۔ 'ہم نے ساڑھے چار بجے تک مداحوں سے بات چیت ختم کی اور نیرمن پوائنٹ سے روانہ ہوئے۔ اس وقت تک سڑک کا ایک حصہ گاڑیوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ 'ہجوم کو دیکھ کر ہم نے گاڑی چھوڑ دی اور پیدل چلنے لگے۔ ہماری حفاظتی تربیت اور ممبئی کی مقامی ٹرینوں میں سفر کرنے کے تجربے نے ہماری مدد کی۔ 'جب ہم قلعہ چند چوک پہنچے تو وہاں بہت بڑا ہجوم تھا۔ ہم نے بھیڑ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور چرچ گیٹ سٹیشن کی طرف چل پڑے اور بالآخر پریس کلب پہنچ گئے جو کہ سٹیڈیم سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم یہیں سے وانکھیڈے میں بھیڑ کی گرج سن سکتے تھے۔‘ 'پولیس اور ریلوے حکام نے چرچ گیٹ سٹیشن پر لوگوں کو واپس جانے کے لیے اعلانات کرنا شروع کر دیے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ جو ٹرینوں سے آ رہے تھے، انھیں نہیں معلوم تھا کہ بھیڑ کتنی بڑھ گئی ہے۔ 'بالآخر ہمیں رات دیر گئے پتہ چلا کہ 10-12 لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں ہیں اور انھیں شہر کے کئی اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ 'چونکہ ممبئی والے بڑے ہجوم کے عادی ہیں اس لیے یہ پریڈ کسی المیہ میں نہیں بدلی اور یہاں کی پولیس کو بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کا کافی تجربہ ہے۔ 'ایمبولینس کو ہجوم میں سے گزرتے ہوئے دیکھنا حیرت انگیز تھا۔ 'سوشل میڈیا پر اتنی بھیڑ کے جمع ہونے کے لیے الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ کیا واقعی وہاں جانا ضروری تھا؟ بالخصوص شمالی انڈیا کے ہاتھرس میں بھگدڑ کے واقعے کے بعد جہاں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ 'پہلے تو بہت سے لوگ وہاں اس لیے آئے کہ ان کے خیال میں انھیں سٹیڈیم میں جگہ مل جائے گی کیونکہ داخلہ مفت تھا۔ تو کچھ لوگوں کے لیے وہاں جانا زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ 'پھر میرین ڈرائیو پہنچنے تک زیادہ تر لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہاں کتنا ہجوم تھا۔ انھوں نے سوچا اب ہم یہاں ہیں، چلو یہیں رہ کر ٹیم کا انتظار کرتے ہیں۔ اور انھوں نے اپنے اس دن کو یادگار بنا لیا۔' گذشتہ سال جب انڈین ٹیم گجرات کے شہر احمدآباد میں ون ڈے ورلڈ کپ کا فائنل آسٹریلیا سے ہار گئی تھی تو وزیر اعظم مودی ان کے ڈریسنگ روم میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے گئے تھے۔ اب جبکہ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی ہے تو پوری ٹیم وزیرِ اعظم سے ملنے پہنچی۔ سنہ 1983 میں جب انڈیا نے انگلینڈ میں پہلی بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو کپل دیو کی قیادت والی ٹیم اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے پہنچی تھی جہاں انھیں عشائیہ دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے کپتان روہت شرما سے پوچھا کہ انھوں نے بارباڈوس کے میدان کی گھاس کیوں چکھی تو روہت نے جواب دیا: ’جہاں ہمیں وہ فتح ملی، مجھے ہمیشہ اس لمحے کو یاد رکھنا تھا اور اس جیت کا مزہ چکھنا تھا کیونکہ ہم اس پچ پر کھیل کر جیتے تھے۔ ’ہمیں اس کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ کئی بار ورلڈ کپ ہمارے بہت قریب آیا، لیکن ہم اسے حاصل نہیں کرسکے۔ لیکن اس بار تمام لوگوں کی وجہ سے ہم ٹرافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ جو کچھ بھی ہوا وہ اسی پچ پر ہوا تھا اس لیے 'غیر ارادی طور پر یہ مجھ سے یہ ہوگیا۔' فائنل کے مین آف دی میچ قرار دیے جانے والے انڈیا کے مایہ ناز کھلاڑی وراٹ کوہلی نے کہا کہ یہ دن ہمیشہ ان کے ذہن میں رہے گا کیونکہ اس پورے ٹورنامنٹ میں وہ اپنا وہ حصہ نہیں ڈال سکے جو چاہتے تھے۔ فائنل سے قبل تک کوہلی نے پورے ٹورنامنٹ میں صرف 75 رنز بنائے تھے۔ کوہلی نے کہا: 'ایک وقت میں نے راہول (ڈراوڑ) بھائی سے بھی کہا کہ میں خود کے اور ٹیم کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں امید ہے کہ جب ضرورت ہو گی، تو تم ضرور اچھا پرفارم کرو گے۔' کوہلی نے کہا کہ فائنل مین 'جب شروع میں ہی تین وکٹیں گر گئیں تو مجھے لگا کہ مجھے اس زون میں ڈال دیا گیا ہے اور میں نے اسی کے مطابق کھیلنا شروع کر دیا، بعد میں میں سمجھ گیا کہ جو چیز ہونی ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔ 'مجھے خوشی ہے کہ میں نے اتنے بڑے میچ میں ٹیم کے لیے اپنا کردار ادا کیا، میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس طرح سے ہم جیتے اور وہ پورا دن کیسے گزرا۔' کوہلی نے کہا کہ 'جب آپ کے اندر انا آ جاتی ہے تو کھیل آپ سے دور ہو جاتا ہے، اسے چھوڑنے کی ضرورت تھی، کھیل کی صورتحال ایسی بن گئی کہ میرے پاس انا کے لیے کوئی گنجائش نہیں بچی اور ٹیم کے لیے اسے پیچھے رکھنا پڑا۔ میں نے کھیل کا احترام کیا تو کھیل نے بھی مجھے عزت بخشی۔' مین آف دی ٹورنامنٹ قرار دیے جانے والے انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا سے جب وزیر اعظم نے پوچھا کہ اڈلی کھا کر بولنگ کرنے جاتے ہو تو انھوں نے کہا کہ ویسٹ انڈیز میں اڈلی کہاں ملتی ہے۔ بمرا نے ٹورنامنٹ میں کل 15 وکٹیں حاصل کیں۔ ٹورنامنٹ میں ایسے کئی مواقع آئے جب بمراہ نے میچ کا رخ بدلنے میں مدد کی۔ انھوں نے کہا کہ ’جب بھی میں انڈیا کے لیے بہت اہم وقت پر بولنگ کرتا ہوں یا جب بھی مشکل حالات میں مجھے بولنگ کرنی پڑتی ہے اور اگر میں ٹیم کی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں کئی ایسے مشکل حالات آئے جب مجھے ٹیم کے لیے بولنگ کرنی پڑی اور میں ٹیم کی مدد کرنے اور میچ جیتنے میں کامیاب رہا۔' ان کے علاوہ رشبھ پنت اور ہارڈک پانڈیا نے بھی اپنی انجری اور ٹرولنگ کے بارے میں بات کی۔ ٹی20 کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے آخری اوور میں سوریہ کمار یادیو نے ملر کا شاندار کیچ لے کر میچ کا رخ پوری طرح سے انڈیا کے حق میں موڑ دیا ورنہ وہ چھکا ہی تھا۔ سوریہ کمار کا یہ کیچ بھی انڈیا کے چیمپئن بننے کی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کیچ پر سوریہ کمار نے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیچ پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤں گا لیکن میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں گیند کو اندر دھکیل دوں گا۔ سوریہ کمار نے کہا کہ ایک بار جب گیند میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے اسے روہت بھائی کی طرف پھیکنے کا سوچا لیکن وہ بہت دور تھے۔ پھر میں نے اندر پھینکا اور واپس آکر کیچ پکڑ لیا۔ سوریہ کمار نے بتایا کہ انھوں نے ایسے کیچ پکڑنے کی کافی مشق کی تھی۔ راہل ڈراوڑ نے بتایا کہ سوریہ نے مشق کے دوران اس طرح کی 150-160 کیچز پکڑے تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ محمد سراج نے شروع کے صرف تین میچز کھیلے جبکہ تین ایسے کھلاڑی تھے جنھیں ایک بھی میچ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن ان کا جوش کبھی بھی کم نہیں ہوا اور بالآخر ایک تاریخی فتح انڈیا کے حصے میں آئی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crge7zxyzjdo
انسانی سمگلنگ، امید اور محبت کی کہانی: ’سپین کی فراری‘ کہلائے جانے والے نیکو ولیمز فٹ بال سٹار کیسے بنے
’اٹلی کے خلاف دو فراری۔۔۔‘ اٹلی کی ٹیم کو سپین نے یورو کپ میں شکست دی تو ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے اخبار میں یہ شہ سرخی لگی۔ اس خبر کے ساتھ دو کھلاڑیوں کی تصویر تھی۔ یہ نیکو ولیمز اور لمائن یمل ہیں اور یہ شہ سرخی ان کی فراری گاڑی جیسی برق رفتاری کا اعتراف تھا۔ ولیمز اور لمائن یمل کی کہانی کچھ ایک جیسی ہے۔ ولیمز رواں سال 12 جولائی کو 22 سال کے ہو رہے ہیں جبکہ یامل اس کے ایک دن بعد اور یورو کپ فائنل سے ایک دن پہلے 17 سال کے ہو جائیں گے۔ ان دونوں فٹ بال کھلاڑیوں، جو بطور ونگرز سپین کی ٹیم میں کھیلتے ہیں، کی جوڑی نے ایک بار پھر سب کو اس وقت متاثر کیا جب انھوں نے سپین کو جارجیا کے خلاف ایک گول کے مقابلے میں چار گول سے کامیابی دلائی جس کے بعد ان کا کوارٹر فائنل جرمنی کے خلاف طے پایا۔ ولیمز نے جارجیا کے خلاف ٹورنامنٹ کا اپنا پہلا گول سکور کیا اور وہ بھی اس وقت جب سپین ایک گول سے پیچھے تھا۔ یہ ان کی ایک شاندار انفرادی کوشش تھی جبکہ یامل ایک بار پھر دوسرے ونگ پر اپنے بہترین کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سنہ 1980 کے بعد ولیمز یورو کپ میں ایسے کھلاڑی بن گئے ہیں جنھوں نے نہ صرف ایک گول سکور کیا بلکہ ایک اور گول سکور کرنے میں مدد کیا اور پورے کھیل کے دوران انھوں نے اپنے 100 فیصد پاسز مکمل کرنے کا ریکارڈ بنایا جبکہ یمل نے جارجیا کے خلاف گول کرنے کے چھ مواقع پیدا کیے جو کہ 21 سال سے کم عمر کے کسی کھلاڑی کی جانب سے ناک آوٹ مقابلوں میں بنائے گئے سب سے زیادہ چانسز تھے۔ یہ دونوں کھلاڑی گہرے دوست بن چکے ہیں۔ ولیمز نوجوان یمل کی اسی طرح دیکھ بھال کر رہے ہیں جیسا کہ ان کے بڑے بھائی اِناکی کبھی ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے جو خود بھی فٹ بال کھیلتے ہیں۔ سپین کے ایتھلیٹک کلب کے لیے کھیلنے والے ولیمز برادران جہاں ٹیم میں ساتھی ہیں وہیں وہ سپین میں امتیازی سلوک کے خلاف جنگ کا بھی چہرہ بن گئے ہیں کیونکہ ہسپانوی معاشرے کے بعض حصوں میں نسل پرستی اب بھی موجود ہے۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے نیکو نے مارسا اخبار کی ایک سرخی پر سامنے آنے والے نسل پرستانہ سوشل میڈیا ردعمل کے خلاف بات کی اور ہسپانوی فٹبال فیڈریشن نے ان کی حمایت کی۔ ولیمز برادران اس بات سے واقف ہیں کہ فٹبال کتنا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ وہ نسل پرستی کی مذمت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کے الفاظ کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ نیکو اور اناکی کی سپین میں کس طرح پیدائش اور پرورش ہوئی؟ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو سنانے کے لائق ہے کیونکہ یہ انسانی سمگلنگ، امید، ترک وطن اور محبت کی کہانی ہے۔ بچپن میں اناکی ولیمز کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر ان کے والد کو ان کے پیروں کے بارے میں پریشانی کیوں تھی۔ جب وہ 18 سال کے ہوئے اور ایتھلیٹک کلب کی جانب سے کھیلنے لگے تو ان کی ماں ماریا نے انھیں بتایا کہ کس طرح وہ اور ان کے والد صحرائے صحارا کی جلتی ریت سے پیدل گزرے تھے۔ ماریہ اس وقت حاملہ تھیں اور انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا آبائی ملک گھانا چھوڑ دیا تھا۔ انھوں نے افریقی ملک سے یورپ کا زیادہ تر سفر پیدل تمام کیا۔ وہ اصل میں برطانیہ کے لیے نکلے تھے لیکن پھر آدھے راستے میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے کیونکہ ایک گینگ نے ان کی ساری جمع پونجی ان سے ہتھیا لی تھی۔ انھیں شمالی افریقہ میں واقع ہسپانوی انکلیو میں گرفتار کر لیا گیا جہاں سپین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے انھیں ایک وکیل نے مشورہ دیا کہ وہ گھانا کے بجائے اپنا وطن جنگ زدہ لائبیریا بتائیں۔ اس وکیل نے انھیں ایک کیتھولک پادری اناکی مارڈونیس سے ملوایا جنھوں نے اس جوڑے کو بلباؤ میں سرکاری رہائش گاہ دلانے میں مدد کی اور انھیں ہسپتال پہنچایا جہاں اناکی کی پیدائش ہوئی۔ پادری کی خدمات کے اعتراف میں اس جوڑے نے اپنے نوزائیدہ بچے کا نام ان کے ہی نام پر رکھا اور پادری اس بچے کے گاڈ فادر بھی بنے اور انھوں اس بچے کو جو پہلا تحفہ دیا وہ اس کی پہلی سرخ اور سفید دھاری والی ایتھلیٹک فٹبال کلب کی جرسی تھی۔ نیکو نے بعد میں کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ ہم سب یہاں اکٹھے ہیں اور واقعی اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے والدین اپنے بیٹوں کو پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں، جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اپنے والدین کے لیے کرتے ہیں۔‘ ’انھوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالی تاکہ ہم سب کا، میرے بھائی اور ہمارا مستقبل بہتر ہو۔ اور انھوں نے یہ کامیابی حاصل کی۔‘ ’میں ہمیشہ اس بات کا شکرگزار رہوں گا جو میرے والد اور میری والدہ نے ہمارے لیے کیا۔ وہ جنگجو ہیں، انھوں نے ہمیں عزت کرنے، ہر روز محنت کرنے کی تعلیم دی اور یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو ہر کوئی آپ کو نہیں دیتا۔‘ ’سچ یہ ہے کہ مجھے انھیں اپنے والدین کے طور پر پانے پر بہت فخر ہے، اور میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں تاکہ انھیں میرے جیسا بیٹا ہونے پر فخر ہو۔‘ ولیمز خاندان کے لیے زندگی آسان نہیں تھی۔ وہ سپین میں 150 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب پامپلونا چلے گئے اور نکولس ولیمز آرتھر 12 جولائی سنہ 2002 کو اسی جگہ پر پیدا ہوئے۔ جب نیکو کے والد کو ایسا کام نہیں ملا جس پر ان کا گزر بسر ہو سکے تو زیادہ آمدنی کے لیے لندن چلے گئے جہاں سے وہ اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجتے تھے۔ انھوں نے چیلسی کے ایک شاپنگ سینٹر کے فوڈ ہال میں میزیں صاف کرنے کا کام کیا اور سکیورٹی گارڈ کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ 10 سال تک اپنے بچوں سے دور رہے لیکن اب وہ واپس آگئے ہیں۔ لیکن اس دوران نیکو کے لیے اناکی باپ کی طرح بن گیا کیونکہ ان کی والدہ اپنے خاندان کو سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں میں بعض اوقات بیک وقت تین تین ملازمتیں کر رہی تھیں۔ اب جب وہ اپنی ماں کے ہاں دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے ہیں تو ان کی ماں انھیں میز صاف کرنے، برتن دھونے کی یاد دلاتی ہیں اور اگر وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو انھیں باہر کا راستہ دکھاتی ہیں یعنی ان کے والدین کی طرف سے انھیں مسلسل تعلیم دی جا رہی ہے۔ اناکی نے اپنے والدین کے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گھانا کی جانب سے کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے وہ نیکو کو سپین کے لیے کھیلتا ہوا دیکھیں گے۔ نیکو نے کہا کہ ’میرے لیے وہ ایک مثال ہیں، وہ میرے لیے سب کچھ ہیں۔ انھوں نے والدین کی اور ہماری مدد کی ہے تاکہ ہم کھا سکیں، تاکہ میں سکول جا سکوں، تاکہ میں کپڑے پہن سکوں۔‘ ’وہ میری غلطیوں کو سدھارتے ہیں، مجھے نصیحت کرتے ہیں، انھوں ہمیشہ یہ سب کیا ہے لیکن ہم میں بہت ہم آہنگی ہے۔ وہ میرا بھائی ہے، لیکن وہ کبھی کبھی باپ کی طرح پیش آتا ہے۔‘ 28 اپریل سنہ 2021 کو یہ دونوں بھائی متبادل کے طور پر ایتھلیٹک کے لیے میدان میں اترے اور انھوں نے ریئل ویلاڈولڈ کے خلاف 2-2 سے میچ ڈرا کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس طرح وہ 1986 کے بعد کلب کے لیے ایک ساتھ کھیلنے والے پہلے دو بھائی بنے۔ اس کے بعد وہ فوری طور پر اپنی ماں سے ملنے گئے کیونکہ شائقین کو کووڈ وبا کی وجہ سے سٹیڈیم سے دور رکھا گیا تھا۔ بہر حال نیکو کو قومی ٹیم میں ایک نیا ساتھی مل گیا ہے اور یمل کے روپ میں انھیں ایک 16 سالہ دوست ملا ہے جس کے ساتھ انھیں گہرا تعلق ہو گیا ہے۔ اس جوڑی کی ساتھ ساتھ رقص کرنے کی آن لائن تصاویر وائرل بھی ہوئی جس میں غالبا وہ گول کا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اٹلی کے خلاف سپین کی جیت کے بعد نیکو نے مذاق میں کہا کہ ’میں نے اسے (یمل) پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اسے 'اپنے باپ' یعنی مجھ سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے!' ان کی دوستی اس وقت شروع ہوئی جب مارچ میں میڈرڈ کے لاس روزاس میں سپینش فیڈریشن میں ان کی ملاقات ہوئی۔ کولمبیا اور برازیل کے خلاف سپین کے دوستانہ ميچ سے قبل نیکو سے کہا گیا تھا کہ وہ نوجوان یمل پر گہری نظر رکھے۔ فیڈریشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’وہ اس کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔ لمائن، نیکو کی ہر چیز کو کاپی کرتا ہے۔‘ ’نیکو بیدار ہوتا ہے، تیار ہوتا ہے اور لمائن کی تلاش میں جاتا ہے۔ وہ بارکا کے کھلاڑی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے: 'چلو، ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘ گذشتہ ستمبر میں جارجیا کے خلاف یورپی چیمپیئن شپ کے کوالیفائر میچ میں نیکو اور یمل کو لایا گیا تھا۔ اس کے بعد سپین کے منیجر لوئس ڈی لا فوینٹے نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ تیز رفتار اور بظاہر ناقابل تسخیر نیکو دائیں پاؤں سے کھیلنے والے ونگر ہیں جو دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے کھیل سکتے ہیں۔وہ سینٹرل پوزیشن سے بھی کھیل سکتے ہیں۔ ایتھلیٹک کے سابق ہیڈ کوچ گیزکا گیریٹانو کا کہنا ہے کہ ’اسے کھیلتے ہوئے دیکھنا ناقابل یقین تھا۔ وہ بہت تیز رفتار، ناقابل یقین رفتار کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اپنے بڑے بھائی سے بھی زیادہ ہنر مند ہے۔‘ کروشیا کے خلاف سپین کے یورو 2024 کے افتتاحی میچ میں مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے ولیمز کو ڈراپ ہونے کا خدشہ ہونے لگا تھا۔ اور اسی وجہ سے انھوں نے اٹلی کے خلاف بہتر کھیل پیش کرنے کا عزم کیا اور یہ کر دکھایا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے میچ سے قبل ہی عملے سے کہ دیا تھا کہ ’میں اچھا نہیں کھیلا، لیکن میں اگلے میچ میں اپنا سب کچھ دینے جا رہا ہوں۔‘ انھوں نے سپین کے لیے اب تک 17 میچز کھیلے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کلبوں کی طرف سے انھیں بلاوے کا وقت قریب ہے۔ دسمبر میں نیکو نے ایتھلیٹک کلب کے ساتھ معاہدے کی توسیع پر دستخط کیا ہے جس کے بعد اب وہ 30 جون سنہ 2027 تک وہاں رہ سکتے ہیں۔ ان کی ریلیز کی شرط تقریباً 49 ملین پاؤنڈ ہے جس کی وجہ سے چیلسی نیکو میں اپنی دلچسپی کے باوجود انھیں لینے سے قاصر رہا جبکہ بارسلونا نے بھی ان پر بولی نہ لگانے کو بہتر سمجھا۔ نیکو نے حال ہی میں خود ہی کہا ہے کہ وہ ’ایتھلیٹک میں خوش‘ ہیں۔ بہر حال اس وقت وہ سپین کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے یہ وہ ملک ہے جس کی جرسی وہ فخر کے ساتھ پہن رہے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51y4zv228eo
’شاید ورلڈ کپ جیتنا وطن واپسی سے زیادہ آسان تھا‘: طوفان میں پھنسی انڈین کرکٹ ٹیم آخر کار نئی دہلی پہنچ گئی
ٹیم انڈیا نے سنیچر کو جنوبی افریقی ٹیم کے خلاف ایک سنسنی خیز مقابلے میں ٹی20 کا ورلڈ کپ جیت لیا تھا لیکن ورلڈ چیمپیئن بننے والے کرکٹرز کی جھلک دیکھنے کے لیے انڈیا میں موجود فینز کو پانچ دن کا طویل انتظار کرنا پڑا۔ پانچ دن کی تاخیر کے بعد بالآخر انڈیا کی کرکٹ ٹیم جمعرات کو اپنے ملک واپس پہنچ گئی ہے جہاں ان کے پرستاروں نے ان کا نئی دہلی ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم نے تو اتوار کے روز ہی بارباڈوس کی سرزمین چھوڑ دی تھی اور ان کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ میں شامل امپائرز اور کمینٹیٹرز بھی اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے لیکن طوفان کے باعث انڈین ٹیم کی پرواز منسوخ کر دی گئی تھی۔ ایک سپورٹس صحافی نے لکھا تھا کہ شاید کپ جیتنا وطن واپسی سے زیادہ آسان تھا کیونکہ تاخیر پر تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ ٹی20 ورلڈ چیمپیئن بننے والی ٹیم کے انڈیا پہنچنے میں تاخیر کے سبب ملک میں لوگوں میں بے چینی پائی جا رہی تھی، لیکن بالآخر انڈین کرکٹرز نے اپنے ملک واپس پہنچ کر ان کی بے چینی کو ختم کردیا۔ منگل کے روز بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے ٹیم کی واپسی میں تاخیر کا سبب بتاتے ہوئے کہا تھا کہ تین دن سے بارباڈوس میں طوفان کی وجہ سے پھنسی ٹیم کو بدھ کی شام دہلی پہنچنا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ایئر انڈیا کی ایک خصوصی چارٹرڈ پرواز اے آئی سی 24 ڈبلیو سی یعنی ایئر انڈیا چیمپیئنز 24 ورلڈ کپ فاتح انڈین سکواڈ، ٹیم کے معاون عملے، کھلاڑیوں کے اہلخانہ، بورڈ کے کچھ عہدیداروں اور میڈیا کے نمائندوں کو بارباڈوس سے واپس انڈیا لائی۔ بارباڈوس میں پھنسے کھلاڑیوں میں وہ کرکٹرز بھی شامل تھے جنھیں زمبابوے کے خلاف کرکٹ سیریز میں شرکت کرنی ہے۔ ان کھلاڑیوں میں سنجو سیمسن، یشسوی جیسوال، رنکو سنگھ اور خلیل احمد شامل تھے۔ انڈیا پہنچنے کے بعد یہ چاروں کھلاڑی اب جمعرات کی شام ہی دہلی سے ہرارے کے لیے فلائٹ لیں گے، جہاں شبھمن گل اور ان کے ساتھی پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور ان کے منتظر ہیں کیونکہ ان کے میچز 6 جولائی سے شروع ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس تاخیر کی وجہ سے یہ کھلاڑی بظاہر ابتدائی میچز نہیں کھیل سکیں گے۔ ٹیم انڈیا کی واپسی کے بعد فینز کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور ان کی جانب سے ورلڈ چیمپیئن بننے والے کھلاڑیوں کے بھرپور استقبال کی تیاریاں بھی جا رہی ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سنیچر کے روز ٹیم انڈیا نے میچ جیتنے کے بعد ٹرافی لینے، فوٹو گرافی اور انٹرویوز دینے میں کوئی چار گھنٹے میدان میں ہی گزارے۔ سمندری طوفان کے بعد ان کا پروگرام منگل کو ایک چارٹرڈ طیارے سے پرواز کا تھا اور بدھ کی شام انھیں دارالحکومت دہلی پہنچنا تھا۔ رات کو ٹیم کا قیام ہوٹل میں تھا اور پھر صبح کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات متوقع تھی کیونکہ گذشتہ سال 19 نومبر کو جب ٹیم انڈیا احمدآباد کے مودی سٹیڈیم میں آسٹریلیا کے ہاتھوں ون ڈے ورلڈ کپ میں شکست سے دو چار ہوئی تھی تو وزیر اعظم مودی انھیں ڈھارس دینے کے لیے ڈریسنگ روم میں گئے تھے۔ کھیلوں کے صحافی ومل کمار نے برج ٹاؤن سے بتایا کہ سوموار کی رات ٹیم انڈیا کے لیے خصوصی ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تمام کھلاڑیوں نے اپنے خاندانوں کے ساتھ شرکت کی اور انھوں نے بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کیے۔ انھوں نے بتایا کہ اس دوران ورات کوہلی سب سے زیادہ خوش نظر آ رہے تھے اور ان سے ملاقات کے دوران وہ کافی دیر تک مزاحیہ انداز میں ان سے باتیں کرتے رہے۔ ’ایسا لگتا ہے جیسے کوہلی پر سے پتھر جیسا وزن اٹھا لیا گیا ہو۔‘ انھوں نے بتایا کہ روہت شرما کوہلی کی طرح خوش نظر نہیں آ رہے تھے اور شاید اس کی وجہ اطمینان بھی ہو اور دوسرے خوابوں کو پورا کرنے کا خیال بھی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’روہت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے اگلے مشن کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے۔‘ اس سے قبل اتوار کو کوچ ڈراوڑ، کپتان روہت شرما اور سوریہ کمار یادو کے ساتھ کلدیپ یادو نے کئی گھنٹے ساحل پر گزارے۔ ومل کمار نے ایکس پر لکھا کہ ’شاید ورلڈ کپ جیتنا وطن واپسی سے زیادہ آسان تھا۔ اس وقت تک ٹیم کو دہلی کے لیے چارٹرڈ فلائٹ میں ہونا تھا لیکن اس میں مزید تاخیر ہوئی۔ اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کھلاڑی اپنے اہلخانہ کے ساتھ ہیں اور بارباڈوس اور ٹیم ہوٹل معیاری وقت گزارنے کے لیے بہترین جگہوں میں سے ایک ہے۔‘ انڈین ٹیم کی آمد میں تاخیر پر شوسل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مفددل ووہرا نے ایکس پر لکھا کہ ’ٹیم انڈیا کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد وہ کھلی جیپ میں ممبئی میں ٹرافی لے کر نکلیں گے۔‘ بہت سے صحافیوں نے بی سی سی آئی سیکریٹری جے شاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے بارباڈوس میں پھنسے انڈین صحافیوں کو بھی چارٹرڈ طیارے میں جگہ دی۔ صحافی تپس بھٹاچاریہ نے لکھا کہ ’آپ کا بہت بہت شکریہ بی سی سی آئی اور جے شاہ۔ سمندری طوفان میں پھنسے صحافیوں کے لیے بارباڈوس سے دہلی کے لیے خصوصی پرواز کا انتظام کرنے کے لیے آپ کا ایک ٹن شکریہ۔‘ ان کے جواب میں کئی صارفین نے لکھا کہ پورا ملک آپ لوگوں کے استقبال کا منتظر ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4y15wyk0no
روہت، وراٹ اور جڈیجہ کے بعد ٹی ٹوئنٹی میں انڈیا کا نیا کپتان کون ہو گا؟
انڈین کرکٹ ٹیم نے 17 سال بعد آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو دوبارہ اپنے نام کیا ہے۔ لیکن اس جیت کے چند ہی گھنٹوں میں ٹیم انڈیا کی تصویر بدل گئی ہے۔ درحقیقت ٹیم کے تین سینیئر کھلاڑیوں نے کرکٹ کی مختصر ترین فارمیٹ کو الوداع کہہ دیا ہے۔ ان میں وراٹ کوہلی کے ساتھ کپتان روہت شرما اور آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ شامل ہیں۔ ان تینوں لیجنڈری کھلاڑیوں نے گذشتہ کئی برسوں میں ٹیم انڈیا کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ بی سی سی آئی کے لیے ان کی جگہ پُر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جہاں روہت شرما 2007 یعنی 17 سال سے ٹیم کا لازمی حصہ ہیں وہیں وراٹ کوہلی نے 14 سال تک کرکٹ کی مختصر ترین فارمیٹ میں ملک کی نمائندگی کی ہے اور سب سے زیادہ مستقل رنز سکور کیے ہیں جبکہ رویندر جڈیجہ نے 15 سال تک ملک کی نمائندگی کی ہے۔ روہت شرما اور وراٹ کوہلی ٹاپ آرڈر کے بیٹسمین ہیں اس لیے ان کی جگہ شبھمن گل، یشسوی جیسوال اور رتوراج گائیکواڑ میں سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ شبھمن گل، ہاردک پانڈیا اور رشبھ پنت کے درمیان بطور کپتان دلچسپ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔ پہلے گذشتہ چند دن جو انڈین کرکٹ کے لیے انتہائی ڈرامائی رہے ہیں ان پر بات کرتے ہیں۔ سنیچر کی شب انڈین کرکٹ کے لیے ایک یادگار تاریخ بن گئی۔ ٹیم انڈیا نے بارباڈوس کے میدان پر 13 سال بعد کوئی ورلڈ چیمپئن شپ جیتی اور 17 سال بعد ٹی ٹوئنٹی T20 ورلڈ چیمپئن بنی۔ 37 سالہ تجربہ کار بلے باز وراٹ کوہلی نے اس تاریخی فتح کے چند ہی منٹوں کے اندر براڈکاسٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا انڈیا کے لیے آخری ٹی ٹوئنٹی میچ تھا۔ ’میں اپنا بہترین دینا چاہتا تھا۔ ہمارا مقصد ورلڈ کپ جیتنا تھا۔ ہم کپ اٹھانا چاہتے تھے۔ اگر ہم ہار جاتے تو بھی میرا فیصلہ وہی ہوتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگلی نسل باگ ڈور سنبھالے۔‘ کوہلی کی کارکردگی پورے ٹورنامنٹ میں کوئی خاص نہیں رہی۔ وہ فائنل سے قبل کی سات اننگز میں صرف 75 رنز ہی بنا پائے تھے۔ شاید انھوں نے فائنل کے لیے اپنی بہترین پرفارمنس بچا رکھی تھی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف فائنل میں کوہلی نے 59 گیندوں میں 76 رنز بنا کر بھارت کو مشکل سے بچایا اور جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اس کے کچھ دیر بعد کپتان روہت شرما نے بھی پریس کانفرنس میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا: ’یہ میرا بھی آخری میچ تھا۔ اس فارمیٹ کو الوداع کہنے کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ مجھے اس کا ہر پل پسند آیا۔ میں نے اپنے کریئر کا آغاز اسی فارمیٹ میں کھیل کر کیا تھا۔ میں کپ جیتنا چاہتا تھا اور شکریہ کہنا چاہتا تھا۔‘ پورے ٹورنامنٹ میں روہت نے قیادت کرتے ہوئے اپنی ٹیم کے لیے ایک مثال قائم کی۔ کوہلی نے زیادہ تر ٹورنامنٹ میں فارم کے لیے جدوجہد کی، جبکہ روہت شرما 156 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے 257 رنز کے ساتھ دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی رہے۔ روہت نے سپر ایٹ میں آسٹریلیا اور سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف نصف سنچریاں بنائیں۔ اس تاریخی فتح کے اگلے روز آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ نے بھی وراٹ کوہلی اور روہت شرما کی طرح کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ میں مزید نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ 35 سالہ جڈیجہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’شکر گزار دل کے ساتھ میں ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ کو الوداع کہتا ہوں۔ میں نے ثابت قدم رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے ملک کے لیے اپنا بہترین دیا ہے اور دوسرے فارمیٹس میں بھی ایسا کرتا رہوں گا۔‘ تاہم اس ورلڈ کپ میں رویندر جڈیجہ کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔ 37 سالہ روہت شرما ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز کے طور پر رخصت ہو رہے ہیں۔ روہت نے 159 میچوں میں پانچ سنچریوں کی مدد سے 4231 رنز بنائے۔ ان کی اوسط 32.05 تھی اور سٹرائیک ریٹ 140.89 رہا۔ 2007 میں انڈیا نے مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں پہلا ٹی-20 ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس کے بعد روہت شرما نے اپنے ٹی 20 کریئر کا آغاز کیا اور عالمی چیمپئن کے طور پر اپنے کریئر کا خاتمہ بھی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سے روہت شرما ہر ٹی 20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں کھیل چکے ہیں۔ ان کے علاوہ صرف ایک اور کھلاڑی نے اب تک تمام ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کی ہے اور وہ بنگلہ دیش کے شکیب الحسن ہیں۔ وراٹ کوہلی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی کے طور پر اس فارمیٹ کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ کوہلی نے ورلڈ کپ کے کل 35 میچوں میں 58.72 کی اوسط اور 128.81 کے سٹرائیک ریٹ سے 1292 رنز بنائے ہیں۔ کوہلی نے انڈیا کے لیے 125 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے۔ 48.69 کی اوسط اور 137.04 کے سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے 4188 رنز بنائے۔ کوہلی اس فارمیٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں روہت شرما کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ کوہلی نے ایک سنچری اور 38 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ کوہلی نے اپنے ٹی ٹوئنٹی کریئر کا آغاز 2010 میں زمبابوے کے خلاف کیا تھا۔ وہ اس فارمیٹ میں تیز ترین 3500 رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ جبکہ 36 سالہ رویندر جڈیجہ اس ورلڈ کپ میں نہیں کھیلے لیکن سنہ 2009 میں سری لنکا کے خلاف اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے جڈیجہ نے 74 میچوں میں 127.16 کے سٹرائیک ریٹ سے 515 رنز بنائے اور 7.13 شرح سے کفایتی بولنگ کرتے ہوئے 54 وکٹیں لیں۔ وراٹ کوہلی اور روہت شرما انڈین کرکٹ کے بہت کامیاب کپتان رہے ہیں۔ روہت شرما نے 62 میچوں میں انڈیا کی کپتانی کی اور 49 جیتے اور ان کی قیادت میں ٹیم کو صرف 12 میچوں میں شکست ہوئی۔ کوہلی نے 50 میچوں میں کپتانی کی۔ ان کی قیادت میں ٹیم نے 30 جیتے جب کہ 16 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جگہ کون لے گا اور کس میں اس قسم کی صلاحیتیں ہیں؟ کئی سیریز میں ٹیم کی قیادت کرنے اور ورلڈ کپ میں روہت کے نائب کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ہاردک پانڈیا کپتان کے لیے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔ جہاں رشبھ پنت نے خود کو آئی پی ایل میں ایک ٹھوس آپشن کے طور پر ثابت کیا ہے، وہیں ٹیم مینجمنٹ نے زمبابوے کے خلاف آئندہ سیریز میں ٹیم کی قیادت کے لیے شبمن گل کا انتخاب کیا ہے۔ روہت شرما اور وراٹ کوہلی نے اس ورلڈ کپ کے ہر میچ میں اننگز کا آغاز کیا۔ شبھمن گل، یشسوی جیسوال اور رتوراج گائیکواڈ ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ گذشتہ ون ڈے ورلڈ کپ میں شبھمن گل نے روہت شرما کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا تھا۔ گل ٹاپ آرڈر میں ایک بہترین آپشن ہیں۔ 24 سالہ گل تکنیکی طور پر بہت قابل کھلاڑی ہیں جو بہترین بیک فٹ کے ساتھ گیپس میں شاٹس مارنے میں ماہر ہیں۔ ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ بھی ہے۔ زمبابوے کا دورہ ان کے لیے بیٹنگ اور کپتانی دونوں میں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا موقع ہے۔ انھیں کپتانی سونپ کر سلیکٹرز نے طویل مدتی پلان میں ایک آپشن کے طور پر انھیں شامل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ وریندر سہواگ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ پانڈیا کی جگہ گل کو کپتانی سونپیں گے۔ پچھلے ایک سال میں اس باصلاحیت بلے باز نے بطور اوپننگ بلے باز اپنی جگہ بنائی ہے۔ بائیں ہاتھ کے بیٹسمین جیسوال تیزی سے رنز بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے ویسٹ انڈیز سے لے کر جنوبی افریقہ تک مختلف کنڈیشنز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لیفٹ رائٹ کمبینیشن ہر ٹیم مینجمنٹ کی خواہش ہوتی ہے۔ اب تک انھوں نے صرف 16 بین الاقوامی اننگز کھیلی ہیں اور ایک سنچری بنائی ہے۔ ریتوراج گائیکواڈ اوپننگ بلے بازوں کی ریس میں شامل ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے یہ بلے باز گذشتہ چند سالوں سے ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ گائیکواڈ محتاط انداز میں اپنی اننگز کا آغاز کرتے ہیں لیکن ایک بار جب وہ کریز پر جم جاتے ہیں تو انھیں آؤٹ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ گائیکواڈ کے پاس زمبابوے کے دورے پر اپنی قابلیت ثابت کرنے کا موقع ہے۔ 2018 میں انڈر 19 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے رکن ابھیشیک شرما اپنے جارحانہ سٹروکس کے لیے مشہور ہیں۔ رواں سال آئی پی ایل میں انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آسٹریلیا کے ٹریوس ہیڈ کے ساتھ شراکت میں ابھیشیک نے سن رائزر حیدرآباد کے لیے ایک دھماکہ خیز آغاز کیا اور 16 میچوں میں 204.21 کے زبردست سٹرائیک ریٹ سے 484 رنز بنائے۔ کوہلی نے زیادہ تر نمبر تین پر بیٹنگ کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ جدید کرکٹ کے بہترین بلے باز کی خالی جگہ کو کس طرح بھرتے ہیں؟ کوہلی کی شکل میں انڈین کرکٹ ٹیم کو ایک سٹار بلے باز، ایک زبردست فیلڈر اور کرکٹ کا تجربہ کار ذہن ملا۔ ٹیم انتظامیہ کو اب ایسے کھلاڑی کو تلاش کرنا ہو گا جو تین نمبر والی اہم بیٹنگ پوزیشن پر اپنی جگہ بنا سکے۔ مندرجہ بالا چار آپشنز میں سے کوئی بھی نمبر تین پر بیٹنگ کے لیے آ سکتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c035g43r1yeo
وراٹ کوہلی اور روہت شرما کا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان: ’وہ اس شاندار الوداع کے مستحق ہیں‘
'یہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وراٹ بھائی، آپ نے اپنے جذبے، لگن اور غیر معمولی مہارت سے ٹی-20 کرکٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ آپ کی قیادت اور سپورٹس مین شپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے ساتھ کھیلنا اعزاز کی بات ہے۔‘ یہ انڈیا کے شاندار بولر محمد شامی کے وراٹ کوہلی کے لیے الفاظ ہیں۔ انھی کی طرح کے جذبات کا بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی اظہار کیا ہے۔ جیسے ہی انڈیا نے کئی برسوں کے انتظار کے بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا تو کپتان روہت شرما اور ’کنگ‘ وراٹ کوہلی نے اس فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کے نزدیک دونوں کا اپنے عروج پر الوداع کہنا ایک بہترین موقع تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈیا کے معروف یوٹیوبر دھرو راٹھی نے وراٹ کوہلی اور انڈین ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے لکھا: 'مجھے اب بھی یاد ہے کہ کس طرح وراٹ کوہلی نے 2008 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں انڈیا کو فتح دلائی تھی۔‘ 'آج کے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد ان کا ٹی-20 سے ریٹائرمنٹ کا اعلان واقعی ایک دور کا خاتمہ ہے۔ کیا شاندار کریئر رہا ہے۔' خیال رہے کہ اس کارکردگی کے بعد وراٹ کوہلی نے انڈین ٹیم میں جگہ بنائی اور پھر کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ گذشتہ رات باربیڈوس کے کنسنگٹن اوول میدان میں میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے انڈین کھلاڑی وراٹ کوہلی نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ پریزینٹر نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ابھی ایک اعلان کیا ہے تو کوہلی نے کہا کہ 'جی ہاں میں نے اعلان کیا اور یہ ایک کھلا راز تھا۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ اگر ہم ہار جاتے تو ہم اس کا اعلان نہیں کرتے۔ ’یہ میرا انڈیا کے لیے آخری ٹی 20 انٹرنیشنل تھا اور نئی نسل پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسے آگے لے جائیں اور پرچم کو بلند رکھیں۔' پریزینٹر نے کہا کہ سنہ 2011 میں آپ نے کہا تھا کہ سچن کو کندھے پر اٹھانا چاہیے کیونکہ انھوں نے اتنے عرصے سے انڈین ٹیم کا بھار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ تو کیا اب وہ مرحلہ ان کے لیے آ گیا ہے کہ انھیں کاندھے پر اٹھایا جائے۔ اس کے جواب میں انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ 'ایسا نہیں۔ یہ ہم لوگوں کی گذشتہ دو سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہم نے تو صرف چھ ورلڈ کپ ہی کھیلے ہیں۔ یہاں روہت جیسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے نو ورلڈ کپ کھیلے ہیں اس لیے یہ ٹیم میں کسی سے بھی زیادہ ان کا حق ہے۔' اور پھر تھوڑی دیر کے بعد انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما نے بھی ٹی 20 انٹرنیشنل کو الواع کہہ دیا اور یوں انڈین ٹی 20 کرکٹ میں ایک عہد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جہاں کوہلی کو ہر میچ میں ’100 فیصد‘ دینے پر یاد رکھا جائے گا وہیں روہت شرما کو ان کے 'ہٹ مین' کے خطاب کے لیے۔ روہت شرما نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے ایک دائرہ پورے کرنے جیسا ہے۔ انھوں نے کہا: ’کسی نے ابھی مجھے بتایا کہ میں نے 2007 میں شروعات کی تھی اور ہم نے ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اب میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد الوداع کہہ رہا ہوں۔ ’جب میں نے 2007 میں انڈیا کے لیے کھیلنا شروع کیا تو اپنے پہلے دورے پر ایک روزہ میچ کے لیے آئرلینڈ گیا۔ لیکن پھر اس کے فوراً بعد ہم ٹی-20 ورلڈ کپ کے لیے جنوبی افریقہ گئے جہاں ہم نے ورلڈ کپ جیتا اور اب (دوبارہ) جیت حاصل کی ہے۔ اس طرح ایک پورا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔' انڈیا کے نائب کپتان ہاردک پانڈیا نے وراٹ کوہلی اور روہت شرما کے ریٹائرمنٹ پر کہا کہ ’میں روہت اور وراٹ دونوں کے لیے بہت خوش ہوں۔۔۔‘ امکان ہے کہ پانڈیا کو اب ٹیم کا کپتان مقرر کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انڈین کرکٹ کے دو بڑے کھلاڑی اور لیجنڈز اس شاندار الوداع کے مستحق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم سب ان کی کمی محسوس کریں گے لیکن یہ بہترین الوداع ہے جو ہم انھیں دے سکتے تھے۔‘ وراٹ کوہلی نے اپنے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز سنہ 2010 میں زمبابوے کے خلاف ہرارے میں کھیلے گئے میچ سے کیا۔ اس کے بعد سے وہ انڈیا کے سب سے زیادہ مستقل رنز سکور کرنے والے رہے ہیں۔ انھوں نے 125 میچز میں 48 کے اوسط سے 4188 رنز سکور کیے ہیں۔ انھوں نے 38 نصف سنچری اور ایک سنچری سکور کی ہے جو کہ سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ روہت شرما نے 159 میچز 32 کے اوسط سے 423 رنز بنائے ہیں جس میں پانچ سنچریاں اور 32 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ روہت شرما انٹرنیشنل ٹی20 میں سب سے زیادہ چھکے اور سب سے زیادہ سنچریاں لگانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے پیچھے پاکستان کے بابر اعظم ہیں جن کا موازنہ اکثر وراٹ کوہلی سے ہوتا ہے اور دونوں کو ان کے مداح کنگ اور لیجنڈ یا گوٹ یعنی گریٹ آف آل ٹائم جیسے القاب سے نوازتے رہتے ہیں۔ پاکستانی صارف سعد قیصر نے کوہلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: ’کنگ بابر اعظم؟ بھائی، صرف ایک ہی کنگ ہے، اور اس کا نام وراٹ کوہلی ہے۔ ’ایک آدمی تن تنہا ایک بادشاہ کی طرح اٹھا اور کھیلا۔ مبارک ہو انڈیا، اپنے لیجنڈ کا احترام کریں۔ کیا شاندار کھلاڑی ہے!‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 روہت شرما اور کوہلی نہ صرف انڈیا کے لیے ٹی 20 میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں بلکہ وہ ٹیسٹ اور ون ڈے میں بھی نمایاں رہے ہیں۔ اب ان کے مداح انھیں صرف ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل میں ہی دیکھ سکیں لیکن یہ بھی ان کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clmyl1044n5o
انجری کا وقفہ، بمرا کا شاندار اوور، سوریا کمار یادو کا عمدہ کیچ: انڈیا نے شکست کے دہانے سے فتح کیسے حاصل کی؟
1992 کے ورلڈ کپ کی بارش، 99 میں گبز کا ڈراپ کیچ اور پھر کلوزنر کی ناقابلِ یقین اننگز کے بعد اینل ڈونلڈ کا رن آؤٹ، 2003 میں پھر بارش اور سنہ 2015 کے ورلڈکپ میں گرانٹ ایلیئٹ کی عمدہ اننگز۔ یہ وہ تمام ڈراؤنے خواب ہیں جو جنوبی افریقہ کی کرکٹ کی تاریخ کو ’چوکرز‘ کے ٹیگ سے داغ دار کیے ہوئے تھے۔ تاریخ اور اس بدنما ٹیگ کا بوجھ اٹھائے جب جنوبی افریقہ کے اوپنرز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنلز کی تاریخ کے سب سے بڑے ہدف کا تعاقب کرنے میدان میں اترے تو ہر وکٹ جنوبی افریقہ کے اسی دردناک ماضی کی یاد دلا رہی تھی۔ اور اب اس سلسلے میں برج ٹاؤن کے ڈراؤنے خواب کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جنوبی افریقہ کو ایک موقع پر چار اوورز میں 26 رنز درکار تھے اور ان کے ہاتھ میں اب بھی چھ وکٹیں تھیں۔ دو تجربہ کار بیٹرز ہینرک کلاسن 52 اور ڈیوڈ ملر 15 رنز بنا کر موجود تھے جب انڈیا کے وکٹ کیپر رشبھ پنت نے فزیو کو گراؤنڈ میں بلا کر اپنی گھٹنے کی پٹی تبدیل کروانے کا فیصلہ کیا۔ یہ لمحہ میچ کو سلو کرنے، انڈیا کو اپنا منصوبہ ترتیب دینے اور بیٹرز کا ردھم توڑنے کا باعث بنا اور ہارڈک پانڈیا نے اپنے اوور کی پہلی ہی گیند پر وکٹ حاصل کر لی۔ یہاں سے جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کو زوال کا شکار ہونا تھا اور ماضی کی دردناک یادیں ایک ایک کر کے واپس آنے لگیں۔ اگلے ہی اوور میں بمرا نے صرف دو رنز دیے اور مارکو جینسن کو بولڈ کر کے انڈیا کی میچ میں واپسی یقینی بنائی۔ بمرا کے سپیل کی آخری گیند پر شاید مہاراج کو وہ سنگل نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ اس کے بعد ارشدیپ کے اوور کی پہلی دو گیندیں ڈاٹ بالز رہیں اور چوتھی گیند پر ملر کو سٹرائیک ملی جو اس اوور میں بھی کوئی باؤنڈری لگانے میں ناکام رہے۔ اس اوور میں صرف چار رنز بنے۔ یوں جب فائنل اوور شروع ہوا تو انڈیا نے آخری تین اوورز میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف 10 رنز دیے تھے۔ آخری اوور کی پہلی گیند پر ڈیوڈ ملر جن سے جنوبی افریقہ کی تمام امیدیں وابستہ تھیں نے ایک فل ٹاس کو مڈ آن باؤنڈری کے پار پہنچانے کی کوشش کی لیکن سوریا کمار یادو نے باؤنڈری لائن پر ایک عمدہ کیچ پکڑ کر انڈیا کی جیت کو یقینی بنا دیا۔ انڈیا اور جنوبی افریقہ دونوں کے لیے ہی یہ فائنل اس لیے بھی انتہائی اہم تھا کیونکہ جنوبی افریقہ آج تک کسی بھی فارمیٹ کی کرکٹ میں فائنل تک نہیں پہنچا تھا جبکہ انڈیا نے آخری بار ٹی20 ورلڈ کپ کی ٹرافی 2007 میں اٹھائی تھی اور 17 برس کے طویل انتظار کے بعد انڈیا آخر کار ایک بار پھر یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ انڈیا کے تجربہ کار کھلاڑیوں وراٹ کوہلی اور روہت شرما کا آخری ورلڈ کپ تھا اور اس فتح کے بعد دونوں ہی کے لیے اپنے کریئر کا اختتام ایک اور ٹائٹل کے ساتھ کرنے کا موقع ملا۔ روہت شرما سنہ 2007 کی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے والی انڈین ٹیم کا حصہ تھے جبکہ وراٹ کوہلی سنہ 2011 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے۔ باربیڈوس کے برج ٹاؤن میں انڈیا نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ تو کیا تاہم پاور پلے میں ہی انڈیا کی بیٹنگ لائن لڑکھڑا گئی لیکن اس کے باوجود اکشر پٹیل اور کوہلی کی شاندا اننگز کی بدولت انڈیا سات وکٹوں کے نقصان پر جنوبی افریقہ کو 177 رنز کا بڑا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تاریخ میں کسی بھی فائنل میچ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا ہدف تھا۔ اننگز کے آغاز میں 23 رنز کے مجموعی سکور پر انڈیا کی تین وکٹیں گر گئیں۔ سب سے پہلے کپتان روہت شرما صرف 9 رن بنا کر کیچ آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے رشبھ پنت نے صرف دو گیندیں کھیلیں اور بغیر کوئی رن بنائے کیچ آؤٹ ہوئے۔ انڈیا کو تیسرا نقصان اس وقت ہوا جب سوریا کمار یادو بھی صرف تین رن بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ اس کے بعد اوپنر کوہلی اور اکشر پٹیل نے مل کر انڈیا کا سکور 114 رنز تک پہنچایا۔ اس شراکت میں اکشر پٹیل کی جارحانہ اننگز انتہائی اہم تھی لیکن پھر ایک انتہائی اہم موقع پر وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کاک کی عمدہ تھرو کے باعث اکشر پٹیل31 گیندوں پر 47 رن بنا کر رن آؤٹ ہو گئے۔ انڈیا کے پانچویں آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کوہلی تھے، جو 76 رن بنا کر مارکو جینسن کی گیند پر ہٹ لگاتے ہوئے ربادا کو کیچ دے بیٹھے۔ اس کے بعد شوم دوبے نے 16 گیندوں پر 27 بنائے اور انڈین ٹیم کو سہارا دیا تاہم کوہلی کی طرح وہ کیچ آؤٹ ہو بھی کر پویلین لوٹ گئے۔ ان کے بعد آنے والے جڈیجہ انڈیا کے سکور میں صرف دو رن کا ہی اضافہ کر سکے اور اننگز کی آخری گیند پر ہٹ لگانے کی کوشش میں آؤٹ ہو گئے۔ جنوبی افریقہ کے بولر کیشو مہاراج اور ہینرک نورکیا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈیا کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین جہاں انڈیا کی تعریف کرتے ہوئے مبارکباد دیتے نظر آئے وہیں بہت سے لوگ جنوبی افریقہ پر تنقید کرتے بھی نظر آئے۔ ہارون نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’جنوبی افریقہ کو صرف خود جنوبی افریقہ ہی جیتنے سے روک سکتا ہے۔‘ کچھ لوگوں نے جنوبی افریقہ کی اس شکست کو بدقسمتی سے بھی جوڑا۔ فیصل خان نے لکھا کہ ’جنوبی افریقہ جیت کی مستحق تھی لیکن ایک بار پھر وہ بدقسمت ثابت ہوئے۔‘ دوسری جانب انڈیا کو مبارکباد دینے والے صارفین انڈین کپتان روہت شرما، 76 رنز بنانے والے اور ’مین آف دی میچ‘ ویرات کوہلی، آخری اوور میں شاندار بولنگ کرنے والے ہاردک پانڈیا اور ملر کا کیچ پکڑنے والے سوریا کمار یادو کی تصاویر شیئر کرتے رہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 صارف فرید خان نے لکھا ’ذرا غور کیجیے کہ کوہلی نے اپنی نصف سنچری کا جشن نہیں منایا کیونکہ ان کی ٹیم کو ان سے زیادہ کی ضرورت تھی۔ وہ وہاں (کریز) پر رہنا اور بڑا سکور بنانا چاہتے ہیں۔‘ کوہلی کے ایک اور فین نے لکھا ’آخر کار ہم نے اس ورلڈ کپ میں ویرات کی بہترین اننگز دیکھ لی۔‘ بہت سے صارفین نے میچ جیتنے کے بعد روہت شرما کی زمین پر لیٹے ہوئے ایک تصویر شیئر کرتے لکھا کہ اس لمحے نے سب کو رلا دیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd173vxy9wxo
کیا انڈیا کے عظیم بلے بازوں کو الوداع کہنے کا وقت آ گیا؟
2011 میں جب انڈیا کی کرکٹ ٹیم نے آخری بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو سب ہی جانتے تھے کہ یہ سچن ٹنڈولکر کا آخری موقع ہے۔ 39 سالہ سچن چھٹی بار ورلڈ کپ کھیل رہے تھے اور انڈین ٹیم کا غیر سرکاری نعرہ یہ تھا کہ ’سچن کے لیے کپ جیتو۔‘ کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے چھکا لگا کر میچ اور ورلڈ کپ جیتا تو وراٹ کوہلی، جو سچن کو کندھوں پر اٹھانے والوں میں شامل تھے، نے یادگار جملہ ادا کیا کہ ’انھوں نے ہماری بیٹنگ کا بوجھ کندھوں پر اتنا عرصہ اٹھائے رکھا تو اب وقت ہے کہ ہم ان کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں۔‘ کوہلی سچن کے قدرتی جانشین بھی بنے اور رواں سال 36 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کے عروج پر موجود ہیں۔ اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 میں ہو گا جبکہ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ 2027 میں۔ کوہلی سچن سے زیادہ فٹ ہیں لیکن انھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ اس درجے پر سفید بال کرکٹ زیادہ دیر کھیل پائیں گے۔ موجودہ کپتان روہت شرما بھی، جو خود 37 سال کے ہو چکے ہیں، شاید اپنا آخری ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں۔ تاہم اس بار انڈین ٹیم میں ایسی کوئی نعرہ بلند نہیں ہوا کہ ’چلو کوہلی کے لیے کر گزرو‘ یا ’روہت کے لیے کپ جیتو۔‘ ہاں اگر پہلے کے مقابلے میں اس بار یہ بات خفیہ طور پر کی گئی ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ شاید ’ڈریوڈ کے لیے کر گزرو‘ کا نعرہ بھی کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے۔ 2011 کا ورلڈ کپ ڈریوڈ نے نہیں کھیلا تھا جو اب ٹیم کے کوچ ہیں اور یہ ان کی آخری ذمہ داری ہو گی۔ ٹی ٹوئنٹی کا کھیل وقت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا کھیل بنتا جا رہا ہے جہاں ذاتی اعداد و شمار نہیں بلکہ اس بات پر زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اگلا چھکا کیسے لگایا جائے۔ انڈین کرکٹ میں یہ ایک بڑی ثقافتی تبدیلی ہے جو نظر انداز ہو رہی ہے کیوں کہ ماضی میں بہت سے نامور کھلاڑیوں کو یہ غیر صحت مند تشویش لاحق ہوتی تھی کہ ریکارڈ کی کتابوں میں، جہاں اعداد و شمار کسی پس منظر کے بغیر موجود ہوتے ہیں، وہ کیسے نظر آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف روہت شرما کی دھواں دار 92 رن کی اننگز ایک عندیہ ہے کہ نئی نسل کے لیے سٹرائیک ریٹ اوسط سے زیادہ اہم ہو چکا ہے، کم از کم ٹی ٹوئنٹی کی حد تک۔ جب سچن نے اپنی سویں سنچری سکور کی تھی تو اس وقت اس کا بہت چرچہ ہوا۔ لیکن انڈیا وہ میچ ہار گیا تھا۔ انڈیا کی وائٹ بال ٹیم تبدیلی عمل سے گزر رہی ہے خصوصا ٹی ٹوئنٹی میں۔ اس ٹیم کے 10 رکن 30 سال سے کم عمر ہیں اور صرف تین 35 سے زیادہ کی عمر کے ہیں۔ ادھر نظام دھڑا دھڑ ایسے بلے باز پیدا کر رہا ہے جو بہت پرعزم ہیں۔ شبھمن گل اگلے ماہ زمبابوے کے دورے پر انڈین ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت کریں گے جہاں ورلڈ کپ میں موقع نہ پانے والے یشسوی جسوال، ریان پراگ، ابھیشیک شرما، دھرو جریل، نتش کمار، روی بشنوئی کی شکل میں 25 سال سے کم عمر انڈیا کے مستقبل کی نمائندی ہو گی۔ رنکو سنگھ 25 سال سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔ ویسٹ انڈیز میں موجود تِم میں رویندر جدیجہ 35 سال سے زیادہ کے ہیں جبکہ سوریاکمار یادو 34 کے ہونے والے ہیں۔ عمر کے بجائے شاید فارم اور فٹنس کو اہم ہونا چاہیے۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی ایک مشکل فارمیٹ ہے جہاں تجربہ شاید ایک کھلاڑی کے حق میں ہر وقت کام نہیں آتا کیوں کہ حکمت عملی تیزی سے بدل رہی ہے اور ماضی کا فلسفہ کارگر نہیں رہا۔ جب کوہلی اور روہت شرما نے ٹی ٹوئنٹی میں نام کمانا شروع کیا تھا تو یہ ایک مختلف قسم کا فارمیٹ ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں نے جس طرح سوریا کمار یادو اور جسوال جیسے بلے بازوں کے ہم پلہ ہونے کا ثبوت دیا وہ ان کی خود کو بدلنے کی صلاحیت دکھاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی حالیہ ورلڈ کپ کے بعد میدان چھوڑ دیں کیوںکہ اگر انڈیا ورلڈ کپ جیت گیا تو اس سے زیادہ بلندی پر اور کچھ نہیں ہے اور شکست کی صورت میں ان پر دوسروں کے لیے راستہ چھوڑنے کا دباؤ ہو گا۔ کھیل ظالمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ گذشتہ سال جب انڈیا نے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کھائی تھی تو پورا ملک جیسے سوگ کی کیفیت میں چلا گیا تھا۔ کھلاڑیوں کے دل ٹوٹے، لیکن شاید کوہلی اور روہت سے زیادہ کسی کا دل نہیں دکھا کیوں کہ دونوں نے ٹورنامنٹ میں بہت اچھا کھیلا اور انڈیا فائنل تک ناقابل تسخیر رہا تھا۔ اور پھر وہ ناکام ہوئے اور دونوں میں سے کسی کو بھی کندھوں پر نہیں اٹھایا گیا۔ وہ دونوں ہی جانتے تھَ کہ ایسا موقع شاید پھر نہیں آئے گا۔ اسی لیے اس ورلڈ کپ میں ایک آخری موقع ہے کیوں کہ نہ جانے کیوں کیریئر ورلڈ کپ کے تاج بنا ادھورے تصور کیے جاتے ہیں چاہے فارمیٹ کوئی بھی ہو۔ فتح تبدیلی کے عمل کا خوش کن آغاز ہوتی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckvg54x7qyjo
’بٹلر کو پنچ لڑائی کے بعد یاد آیا‘: انگلینڈ کے کپتان کی وہ غلطیاں جنھوں نے انڈیا کو فائنل میں پہنچا دیا
اب بھلے جوز بٹلر ٹاس جیت کر بولنگ کے فیصلے کا لاکھ دفاع کرتے پھریں، یہ طے ہے کہ وہ بڑی کوتاہی برت گئے اور جو کنڈیشنز پہلے ہی انڈین سپنرز کے لیے سازگار تھیں، وہاں خود دوسری اننگز میں بیٹنگ کا فیصلہ کر بیٹھے۔ سات ماہ پہلے جب انڈیا میں بٹلر کی یہ ٹیم ون ڈے ورلڈ کپ میں زوال کی داستاں سنا کر بے دخل ہوئی تو مورگن کا اصرار تھا کہ ہیڈ کوچ میتھیو موٹ اور جوز بٹلر کو کریبئین میں اپنے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل کے دفاع کا موقع ملنا چاہیے۔ گو، دلیل تب بھی یہی تھی کہ انگلش کرکٹ پھر اسی غلطی کی راہ پر تھی جہاں سے اسے مورگن نے ہٹایا تھا۔ بین سٹوکس، معین علی اور عادل رشید کے بارے میں بحث یہی تھی کہ مورگن کے دور میں انگلش کرکٹ کی خوب سیوا کرنے والے یہ سینئر اب اپنا بہترین گزار چکے تھے۔ اگرچہ انگلینڈ کو ٹورنامنٹ سے بے دخلی کا پروانہ ملنے کو گیانا کے اس سیمی فائنل تک انتظار کرنا پڑا مگر جس طرح سے بٹلر کی اس ٹیم نے اپنی کمپین کے آغاز میں آسٹریلوی جارحیت کے سامنے حواس کھوئے، اس کا ناک آؤٹ ہو جانا وہیں طے ہو گیا تھا۔ گو، ٹرافی کے دفاع میں بٹلر سیمی فائنل تک رسائی کو بھی اپنی بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں مگر اس انگلش کمپین کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں فُل ممبرز سے نہ جیت پانے کی پرانی انگلش روایت پھر سے دیکھنے کو ملی۔ یہ انگلش کرکٹ کے لیے فکر کی بات ہے کہ جس اپروچ سے انھوں نے کرکٹ کے ہر فارمیٹ میں اپنی جارحانہ برانڈنگ کی تھی، اب وہ ماند پڑنے لگی ہے اور جو بے خوف کرکٹ اس انگلش کیمپ کا کلچر تھی، اب وہ بھی انگلینڈ سے زیادہ انڈیا کا خاصہ بنتا جا رہا ہے۔ نہ صرف یہاں بٹلر نے ٹاس جیت کر انڈین سپنرز کو دوسری اننگز میں بولنگ کی سنہری دعوت دے ڈالی بلکہ خود بھی ٹیم چنتے وقت یہ سجھانے سے قاصر رہ گئے کہ سپن دوستی کی شہرت رکھنے والی گیانا کی اس پچ پہ چار پیسرز بھلا کیا کریں گے۔ انگلش بولنگ بھی اپنی ٹیم سلیکشن ہی کی طرح جرات سے خالی دکھائی دی۔ جس دھیمے باؤنس کی پچ پر سٹمپس کے اندر لائن رکھنا ہی بنیادی ضرورت تھی، وہاں انگلش بولنگ جا بجا سر پٹخاتی نظر آئی۔ روہت شرما کے قدم حرکت میں آنے لگے تو انگلش اٹیک بالکل ہی لاجواب سا ہو گیا۔ تب تک بٹلر پر بھی کھل چکا تھا کہ یہاں پیسرز کے لیے عافیت نہیں ہے، مگر تب تک انڈین بیٹنگ پہلا مکا رسید کر چکی تھی اور عادل رشید بھی بے سود ثابت ہوئے۔ جہاں بٹلر کو ماہر سپنرز کی ضرورت تھی، وہاں وہ دستیاب محدود وسائل کے بھی درست استعمال میں ناکام رہے۔ یہ واضح ہو چکا تھا کہ یہاں سپن زیادہ موثر ہے مگر بٹلر نے اپنی الیون میں موجود دوسرے سپیشلسٹ آف سپنر معین علی کو استعمال تک نہ کیا۔ معاملہ فہمی کی اس کمی اور بے ہنگم بولنگ کے طفیل انڈین بیٹنگ کی جارحیت بالکل ہموار رہی اور وہ اس پچ کے متوقع مسابقتی مجموعے سے 20 رنز زیادہ بٹورنے میں کامیاب ہو گئی۔ انگلینڈ کے لیے آدھا میچ تو گویا وہیں ختم ہو گیا۔ اکشر پٹیل اور کلدیپ یادیو جیسے سپنرز کا سامنا کرنے کو یہ پچ آسان نہ تھی۔ یہاں انگلش بیٹنگ کے لیے بچاؤ کی محض ایک ہی سبیل تھی کہ بٹلر اپنا کنارہ سنبھالتے اور لمبی اننگز کھیل کر اپنے سٹریٹیجک فیصلوں کی قیمت چکاتے۔ لیکن انڈین سپنرز کے سامنے یہ سب آسان نہ تھا۔ روہت شرما کے فیصلے بھی بٹلر کے برعکس بہت سوچے سمجھے تھے۔ سوئنگ کی کمی دیکھتے ہوئے، وہ فورا سپنرز کو اٹیک میں لائے۔ سست پچ پر انڈین سپنرز انگلش بلے بازوں کا انہدام ثابت ہوئے۔ آئی سی سی ایونٹس میں انڈیا اور انگلینڈ کی رقابت خوب چلتی ہے۔ میچ سے پہلے انگلش کوچ میتھیو موٹ نے کہا تھا کہ یہ ایک دلچسپ مقابلہ ہو گا جہاں 40 اوورز تک دونوں ٹیمیں ایک دوسرے پر وار کریں گی۔ مگر انڈین ٹاپ آرڈر نے پاور پلے میں جو پہلا پنچ رسید کیا، اس کا کاؤنٹر پنچ لانا بٹلر کے بس کی بات نہ تھی جو ٹاس پر کیے غلط فیصلے اور خلجان آلود ٹیم سلیکشن کے اس قدر دباؤ میں آ چکے تھے کہ شرما کے قدم روکنا ان کے بس سے باہر ٹھہرا۔ بٹلر کو بھی اگرچہ اس لڑائی میں اپنا منطقی پنچ یاد آیا مگر تب تک میچ ختم ہو چکا تھا، انگلش ٹیم ٹائٹل کے دفاع کی دوڑ سے خارج ہو چکی تھی۔ تب پریس کانفرنس میں مائیک کے سامنے بیٹھے بٹلر کو خیال آیا کہ انڈین مڈل آرڈر کی جارحیت روکنے کے لیے معین علی سے بھی تو بولنگ کروائی جا سکتی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx72nee3077o
انڈیا ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں: ’انڈیا نے 2022 کے سیمی فائنل کا بہترین بدلہ لے لیا‘
آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو 68 رنز سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔ فائنل میں انڈیا کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہوگا۔ جمعرات کے روز گیانا میں کھیلے جانے والے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا نے مقررہ 20 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 171 رنز بنائے اور انگلینڈ کو جیتنے کے لیے 172 رنز کا ہدف دیا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان گیانا میں کھیلا گیا۔ بارش کی وجہ سے ٹاس تاخیر کا شکار ہوا۔ تاہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ہونے والا ٹاس انگلش ٹیم کے کپتان جوز بٹلر نے جیت کر انڈیا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ میچ کے آغاز سے ہی انڈیا کی ٹیم نے جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ ابھی 8 ہی اوورز کا میچ ہوا تھا کہ بارش کی وجہ سے میچ کو ایک مرتبہ پھر روکنا پڑا۔ جب میچ رُکا تو انڈیا کے 2 وکٹوں کے نقصان پر 65 رنز تھے۔ تاہم کُچھ ہی دیر کے بعد بارش کے رُک جانے پر پچ سے کوورز ہٹا دیے گیے اور میچ ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا۔ انگلینڈ کے خلاف انڈیا نے آغاز سے ہی تیز کھیلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُسے آغاز میں ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ویرات کوہلی اس بار بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے اور صرف 9 رنز بناکر بولڈ ہوگئے۔ ویراٹ کے بعد رشبھ پنت بیٹنگ کے لیے آئے مگر وہ بھی بڑا سکور نہ کرسکے اور 4 رنز بنا کر پویلین لوٹے گئے۔ ایسے میں کپتان روہت شرما اور سوریا کمار یادیو نے ذمہ درانہ بیٹنگ کی اور وکٹ کے چاروں جانب اچھی شاٹس لگائیں۔ روہت شرما 57 اور سوریا کمار یادیو 47 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ اس دوران انڈین کرکٹ ٹیم کی جانب سےجارحانہ حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ سوریا اور شرما کے آؤٹ ہونے کے بعد ہاردک پانڈیا نے اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور 23 رنز بنائے۔ وہ باؤنڈری پر کیچ آوٹ ہوئے۔ اُن کے بعد شیوم دوبے صفر اور اکشر پٹیل 10 رنز پر پویلین لوٹے جبکہ جڈیجا 17 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ انگلینڈ کی جانب سے کرس جارڈن نے 3، عادل رشید، ٹوپلی، آرچر اور سام کُرن نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ انگلینڈ کی جانب سے ہیری بروک 25 اور جوز بٹلر 23 رنز بناکر نمایاں رہے جبکہ جوفرا آرچر 21 اور لیام لیونگسٹن 11 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ انگلینڈ کے معین علی 8، فل سالٹ 5 رنز بناکر آؤٹ ہوئے، جونی بیئرسٹو صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ سیم کرن اور عادل رشید 2، 2 رنز ہی بناسکے۔ انڈیا کے اکشر پٹیل اور کلدیپ یادیو نے 3، 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ جسپریت بمرا نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔ اکشر پٹیل مین آف دی میچ قرار پائے۔ دوسرے سیمی فائنل میں بارش کی وجہ سے ٹاس میں تاخیر کے باوجود اوورز میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ انڈیا اور انگلینڈ کے سیمی فائنل میچ میں بارش کی پیشگوئی کے باوجود ریزرو ڈے نہیں رکھا گیا تھا البتہ 250 منٹ یعنی 4 گھنٹے اور دس منٹ کا اضافی وقت مختص کیا گیا تھا۔ ریزرو ڈے نہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ایونٹ کا فائنل 29 جون کو ہونا ہے اور سیمی فائنل اور فائنل میچ کے دوران صرف ایک ہی دن کا وقفہ تھا جس کی وجہ سے آئی سی سی نے کوئی ریزرو ڈے نہیں رکھا۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو ٹیموں کو لگاتار تین دن ایونٹ کے اہم ترین میچز کھیلنا پڑتے۔ ٹی ٹوینٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کے مقابلہ پر دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی پرفارمنس نے سب کو ہی حیران کیا۔ انڈیا کی جانب سے جہاں بیٹنگ کے شعبے میں اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا گیا وہیں انڈیا کے بالرز نے بھی انتہائی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انگلینڈ کی پوری ٹیم کو ہی کُھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق بلے باز اور ماسٹر بلاسٹر کے نام سے مشہور سچن تندولکر نے بھی انڈین کرکٹ ٹیم کی اس بڑے ایونٹ کے دوسرے سیمی فائنل میں کامیابی پر ٹیم کو مبارک باد پیش کی۔ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں سچن تندولکر کا کہنا تھا کہ ’چیلنجنگ پچ پر انڈیا نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کو جیتنے کے لیے ایک اچھا ٹوٹل دی۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’مڈل اوورز کی جادوگری نے انگلینڈ کو میچ سے باہر کر دیا۔ ہماری بولنگ بہت اچھی رہی۔ ایک شاندار ٹیم ایفرٹ تھی۔‘ دوسری جانب انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان کا کہنا تھا انڈیا ہمیشہ سلو سپننگ پچ پر ہمیشہ اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ایکس پر ایک صارف کا کہنا تھا کہ انڈیا نے انگلینڈ سے 2022 کے سیمی فائنل کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایکس پر صحافی فیضان لکھانی نے انڈیا کے خلاف ٹی ٹوینٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ کی پرفارمنس پر لکھا کہ ’انگلینڈ کی پوری کی پوری بیٹنگ لائن آپ دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کے سامنے بے بس دکھائی دی۔‘ اسی کے ساتھ ایک اور پوسٹ میں انھوں نے انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کی کپتانی کی بھی تعریف کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں ویراٹ کوہلی صرف 9 ہی رنز بنا سکے جس کے بعد جہاں انھیں سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں بہت سے سوشل میڈیا صارفین ایسے بھی نظر آئے کہ جو انھیں حوصلہ دے رہے تھے۔ ایسے ہی پری کے نام سے ایک انڈین سوشل میڈیا صارف نے لکھا ’چن اپ چیمپ. آپ نے ہمیں آگے بڑھنے میں مدد کی ہے، ایک ناکامی اس فارمیٹ میں انڈین کرکٹ میں آپ کی شراکت کو کبھی ختم نہیں کر سکتی ہے۔‘ واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں جنوبی افریقا نے 9 وکٹوں سے یکطرفہ مقابلے کے بعد افغانستان کو شکست دیکر پہلی مرتبہ فائنل کیلئے کوالیفائی کیا تھا۔ ایونٹ کا فائنل 29 جون کو فائنل انڈیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا جائے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3382v5ykeo
افغان کرکٹ کا مافوق الفطرت سفر
یہ وہ آئی سی سی ٹرافی ہے کہ ایک دہائی پہلے تک جس پر افغانستان کو نگاہ ڈالنے کی بھی اجازت نہ تھی، مگر جون 2024 میں افغان کرکٹ ٹیم اس کے حصول کے اتنا قریب پہنچنے میں کامیاب رہی کہ فاصلہ صرف دو میچوں کا رہ گیا۔ سننے میں ہی، یہ کوئی مافوق الفطرت سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مافوق الفطرت مظاہر تبھی سامنے آتے ہیں جب ان کی تہہ میں چھپے حوادث بھی کچھ ایسے ہی ہوں۔ جس ٹیم کو پہلی بار ورلڈ سٹیج پر کسی مقابلے میں شرکت کا پروانہ ہی 2015 میں ملا، اس نے اتنے کم وقت میں ایسا طویل سفر کیسے طے کر لیا کہ دنیا میں ٹی 20 کرکٹ پر حکمرانی کی دوڑ کے آخری چار دعوے داروں میں کھڑی ہو گئی۔ آئی سی سی ٹورنامنٹس کی پچھلی دو دہائیاں دیکھ لیں، چار سیمی فائنلسٹس کے نام پڑھیے تو وہی پانچ چھ نام ہیں جو گھوم پھر کے سامنے آتے ہیں۔ اس سفر میں، افغانستان کو ان پانچ چھ ممالک کی زرخیز کرکٹ تاریخ اور بھاری بھر کم جیبوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ افغان کرکٹ کی خوش قسمتی دیکھیے کہ پیدا تو پاکستان میں ہوئی مگر جوان ہوتے ہی انڈیا کی سرپرستی میں آ گئی۔ سیاسی اور سٹریٹیجک اعتبار سے یہ صائب فیصلہ تھا کہ بہرحال جو کچھ افغان کرکٹ کے لیے بھاری بھر کم انڈین کرکٹ بورڈ کر سکتا تھا، جلا وطنی سے مفلوک الحال پی سی بی بھلا سوچ بھی کہاں سکتا تھا۔ آج افغان کرکٹ چشمِ فلک کے روبرو ہو کر بھی خندہ زن ہو سکتی ہے کہ جس آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا، اسی کی قیمت پر راشد خان کی ٹیم نے سیمی فائنل میں جگہ پائی۔ اس ایک ٹورنامنٹ میں افغان کرکٹ نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو انٹرنیشنل سٹیٹس کی پچھلی ڈیڑھ دہائی میں نہیں ہو پایا۔ انھوں نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس خفت سے دو چار کیا جو ہر بار ہی سیمی فائنل کھیلنے کی عادی ٹیم کے لیے ایسا صدمہ ٹھہرا جو وہ اس کے بعد اٹھ ہی نہ پائی۔ اور پھر آسٹریلیا کو بھی وہ ہزیمت چکھائی جو سات ماہ پہلے ون ڈے ورلڈ کپ میں چکھاتے چکھاتے رہ گئے تھے۔ آسٹریلوی ٹیم کے لیے یہ ایسا جھٹکا ثابت ہوا کہ وہ انڈیا کے خلاف بھی اپنے اعصاب سنبھالنے میں ناکام رہ گئے۔ ڈیوڈ وارنر کا فیئر ویل خراب ہو گیا اور عثمان خواجہ کو کہنا پڑ گیا کہ آسٹریلیا کو افغانستان سے دو طرفہ کرکٹ روابط استوار کرنے چاہییں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو شکست دے کر افغانستان نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اب ان کی فتوحات کا دائرہ صرف ایشیائی ٹیموں تک محدود نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف بھی سیریز جیت چکے ہیں۔ جنگ زدہ حالات اور بحرانوں کے بوجھ تلے پنپنے والی افغان کرکٹ کی یہ پود دنیا کے سامنے واضح کر رہی ہے کہ دہائیوں پہ محیط جبر اور استحصال بھی اس آہن کو موم نہیں کر پایا اور وہ اپنی مزاحمت کی خُو نہ چھوڑیں گے۔ پچھلے برس جب پاکستان حکومت نے افغان مہاجرین کو بے دخلی کا سندیس دیا تو ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کو ہرا کر رحمان اللہ گرباز نے اپنی جیت ان افغان مہاجرین کے نام کر دی جنہیں دہائیوں بعد وہ ملک چھوڑنا پڑ رہا تھا جہاں وہ سوویت یلغار سے پناہ لینے کو مہاجر کیمپوں میں آئے تھے۔ یہ افغان کرکٹ کی عین وہی جنریشن ہے جس نے اپنے بچپن کے دن پشاور میں کرکٹ کھیلتے گزارے۔ راشد خان اور محمد نبی پریس کانفرنسز میں تب تک اردو بولتے رہے جب تک افغان کرکٹ بورڈ نے سرکاری ممانعت نہ جاری کر دی۔ مگر اپنی جڑیں پاکستان میں رکھنے اور شاخیں انڈیا میں ہونے کے باوجود جو لڑائی کا جذبہ اس افغان ٹیم کے سارے سفر کی روح ہے، وہ اسے نہ تو پی سی بی نے دیا ہے اور نہ ہی بی سی سی آئی دے سکتا تھا۔ یہ اس نسل کے اس کڑوے سفر کا سچ ہے جو انہوں نے جنگ زدہ حالات اور مفلوک الحالی بِتا کر کمایا ہے۔ اس قدر کم وقت میں اتنا لمبا سفر طے کر جانے والی افغان کرکٹ آج اس طویل قامت شاپور زدران اور چست قدم دولت زدران کی بھی ممنون ہے جنہوں نے اپنی اگلی جنریشن میں وہ جوش اٹھایا جو آج فضل حق فاروقی کی شکل میں جھلک رہا ہے۔ یہ سفر اس محمد شہزاد کو بھی کیسے بھول سکتا ہے جن کے بیٹنگ سٹائل نے افغان کرکٹرز کی ایک جنریشن کو انسپائر کیا۔ آج اگر صرف اچھے سپنرز کے لیے معروف افغان ٹیم میں رحمان اللہ گرباز جیسے بلے باز موجود ہیں تو یہ محض اس عزم کی تکمیل ہے جس کی شروعات افغان ڈریسنگ روم کے ہر دلعزیز ’ایم ایس‘ نے کی تھی۔ اور پھر اس سارے سفر کے جو کلیدی کردار تھے وہ تھے اصغر ستانکزئی، جنھیں بعد میں سیاسی شور سے اکتا کر اصغر افغان بننا پڑا۔ ان کی قیادت میں افغان ٹیم نے جیت کی وہ عادت اپنائی کہ وہ ٹی 20 انٹرنیشنل تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں میں آ ٹھہرے۔ گو منزل راشد خان کو آ کر ملی مگر پہلے قدم اٹھانے والوں میں نمایاں ترین نام اصغر افغان کا تھا جنھوں نے افغان کرکٹ میں تدبر کا عنصر پیدا کیا اور محض لڑنے کی بجائے کھیل کا شعور استعمال کر کے جیت کی عادت ڈالی۔ جہاں راشد خان کی ٹیم نے مایوسیوں کے قہر میں گھرے افغان عوام کو یہ ناقابلِ بیاں مسرت بخشی ہے، وہیں یہ کبیر خان، راشد لطیف اور انضمام الحق کے لیے بھی خوشی کا ساماں ہے کہ ان کے ہاتھوں کا لگایا پودا آج ورلڈ کرکٹ کے چار بڑوں کے بیچ اپنی شاخیں ابھارنے لگا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjr4x9v0lvdo
’جنوبی افریقہ نے چوکر ٹیگ توڑ دیا اور افغانستان کا خواب بھی‘
راشد خان نے جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل کا ٹاس جیتا تو ان کے ذہن میں یقیناً جنوبی افریقہ کی ٹیم سے جڑا وہ ’چوکر ٹیگ‘ ہو گا جس کی بنیاد پروٹیز کو کئی بار آئی سی سی ٹورنامنٹس کے سیمی فائنل میں دباؤ کے تحت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راشد خان کو اپنی ٹیم کی بولنگ پر اعتماد بھی تھا اور گذشتہ میچوں میں بڑی ٹیموں کو ہرانے کے بعد قسمت پر یقین بھی کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو بھی مات دے سکیں گے۔ وہ یقیناً یہ سوچ رہے تھے کہ کم ٹوٹل کا بھی دفاع کرنا ناممکن نہ ہو گا۔ لیکن میچ کی پچ اور جنوبی افریقہ کے گیند باز کیا قیامت ڈھانے والے ہیں، شاید یہ کسی کے بھی گمان میں نہ تھا۔ پہلے اوور کی آخری گیند پر رحمان اللہ گرباز جینسن کی گیند پر بنا کوئی رن بنائے ہی سلپ میں کیچ تھما کر پولین لوٹے تو یہ صرف آغاز تھا۔ تیسرے اوور میں جینسن نے گلبدین نائب کو بھی اندر آتی ہوئی گیند پر بولڈ کیا تو اگلے ہی اوور میں رباڈا نے اپنا جادو دکھایا۔ ان کی پہلی ہی گیند اتنی نپی تلی تھی کہ ابراہیم زردان بھی بولڈ ہوئے۔ دو گیندوں کے بعد محمد نبی بھی صفر پر رباڈا کے ہاتھوں بولڈ ہوئے۔ 20 کا مجموعہ تھا اور افغان ٹیم کا ٹاپ آرڈر اس شاندار بولنگ کے مظاہرے کے سامنے لڑکھڑا چکا تھا۔ جنوبی افریقہ کی بولنگ جیسے کوئی گیند بھی ضائع نہیں کر رہی تھی۔ پانچویں اوور میں جینسن نے اپنی تیسری وکٹ سمیٹی اور افغانستان کی ٹیم کے نصف بلے باز پاور پلے کے اختتام پر مجموعی طور پر صرف 23 رن بنا کر آوٹ ہو چکے تھے۔ ٹاس جیتنے والے راشد خان کے گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کو ساتویں ہی اوور میں ایسی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے بیٹنگ کے لیے آنا ہو گا۔ ساتویں اوور میں عظمت اللہ آوٹ ہوئے تو ایک بار پھر راشد خان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی۔ لیکن کیا راشد خان تن تنہا افغانستان کو ایسا مجموعہ فراہم کر سکتے تھے جس کی بنیاد پر وہ میچ میں لڑنے کی پوزیشن پر آ سکیں؟ آٹھویں اوور میں رباڈا کو دو چوکے لگا کر راشد خان نے واضح کیا کہ کم از کم وہ خود لڑے بغیر ہار نہیں مانیں گے۔ لیکن وہ اکیلے کب تک لڑتے؟ میچ کا دسواں اوور شروع ہوا تو 45 رن تھے اور سات وکٹیں جا چکی تھیں۔ لیکن تبریز شمسی کا یہ اوور بھی قیامت خیز ثابت ہوا جس میں پہلے کریم خان اور پھر نور احمد آوٹ ہوئے اور 50 رن پر آٹھ کھلاڑی آوٹ ہو چکے تھے۔ اگلے ہی اوور میں راشد خان بھی نورٹے کی گیند پر بولڈ ہوئے اور ان کی مختصر مزاحمت کا اختتام ہوا۔ تبریز شمسی نے 12ویں اوور میں اپنی تیسری وکٹ لے کر افغانستان کو 56 رن کے مجموعے پر آوٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو کسی بھی آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل کا سب سے کم ٹوٹل تھا بلکہ افغانستان کا بھی سب سے کم مجموعہ تھا۔ سوشل میڈیا صارف روی شنکر نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’کیا آئی سی سی نے ٹیسٹ میچ کی پچ تیار کی ہے؟ سیمی فائنل کے لیے ایسی پچ دینا افغانستان کے ساتھ ڈبل گیم ہے۔‘ شیوانی کپور نے اس تنقید پر کچھ یوں جواب دیا کہ ’بہترین بولنگ کے سامنے برے شاٹس کے انتخاب کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘ تاہم انگلینڈ کے سابق کرکٹر مائیکل وان نے تنقید کی کہ ’پیر کو افغانستان نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جس کے بعد چار گھنٹے ان کی فلائٹ لیٹ ہوئی اور یوں انھیں پریکٹس کرنے اور نئے مقام پر تیاری کا وقت نہیں ملا۔‘ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو پچ کے اوپر ہونے والی بحث کے باوجود گمان یہ تھا کہ اس ہدف تک اور فائنل تک رسائی کوئی مشکل کام نہ ہو گا۔ تاہم جارحانہ اوپننگ بلے باز ڈی کوک کو فضل حق نے بولڈ کیا تو میچ میں دلچسپی کا سامان پیدا ہوا اور جنوبی افریقہ کے کپتان میکرم کو بھی میدان میں آنا پڑا۔ اعصاب تھے یا پچ کی جادوگری، جنوبی افریقہ کے لیے بھی بیٹنگ آسان نہ تھی۔ اچھلتی کودتی گیند پریشان کن تو ثابت ہوئی لیکن افغانستان کے کم مجموعے نے جنوبی افریقہ کو کسی قسم کا خطرہ مول لینے سے روکے رکھا۔ میکرم اور ہینڈرکس ثابت قدمی سے رفتہ رفتہ رنز بناتے رہے اور چھٹے اوور کے اختتام تک 34 رن بن چکے تھے۔ اب جیت اور فائنل تک رسائی کے لیے جنوبی افریقہ کو صرف 23 رن اور افغانستان کو کوئی معجزہ درکار تھا۔ جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کو ہدف سامنے نظر آ رہا تھا اور افغان ٹیم کے کندھے جھکتے جا رہے تھے۔ اور عظمت اللہ کے نویں اوور میں میکرم اور ہنڈرکس نے احتیاط کا دامن چھوڑتے ہوئے باقی ماندہ رن بھی چوکوں چھکوں کی مدد سے حاصل کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف کے الفاظ میں ’چوکر کا ٹیگ بھی توڑا اور افغان کرکٹ ٹیم کا خواب بھی۔‘ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ نے پہلی بار ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی ہے۔ انڈین کمنٹیٹر ہارشا بوگھلے نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’اس گیم میں اگرچہ جذبات افغانستان پر مرکوز تھے لیکن جنوبی افریقہ نے دکھایا ہے کہ وہ میکرم کی قیادت میں کتنی خطرناک ٹیم ہے اور پہلی بار فائنل میں پہنچنے پر داد کی مستحق۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd11x4w9x09o
افغانستان کی تاریخی فتح سے جڑا تنازع جس میں گلبدین اور محمد رضوان کا موازنہ کیا جا رہا ہے
افغانستان کے آل راؤنڈر گلبدین نائب کی جانب سے منگل کے روز بنگلہ دیش کے خلاف ورلڈ کپ کے آخری سپر ایٹ میچ کے دوران بار بار درد کی شکایت نے ایک تنازع پیدا کر دیا ہے۔ گلبدین پر کھیل کے دوران ’دھوکہ دہی‘ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے اور ان کے بظاہر درد کی وجہ سے کرکٹ ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین میں تاخیری حربوں کے استعمال پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی دوران پاکستان کے وکٹ کیپر اور بلے باز محمد رضوان کا نام بھی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ اس پر بات بعد میں لیکن پہلے دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں ہوا کیا تھا؟ بارش سے متاثرہ میچ کی دوسری اننگز کے 12ویں اوور میں بنگلہ دیش کے سپن بولر نور احمد کی مسلسل تین ڈاٹ گیندوں کے بعد ڈک ورتھ لوئس کے اصول کے مطابق بنگلہ دیش اپنے ہدف سے تین رن پیچھے ہو گیا۔ اوور کے دوران ہلکی بوندا باندی ہوئی اور افغانستان کے ہیڈ کوچ اور انگلینڈ کے سابق کرکٹر جوناتھن ٹروٹ نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فیلڈ میں موجود کھلاڑیوں کو کچھ اشارہ کیا۔ اسی لمحے گلبدین نائب، جو پہلی سلپ کے پر کھڑے تھے، اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بظاہر درد کی وجہ سے زمین پر لیٹ گئے، جیسے وہ شدید تکلیف میں ہوں اور میڈیکل ٹیم بھی میدان میں پہنچ گئی۔ اس معاملے کو کمنٹری کرنے والوں نے نوٹس کیا اور بات بھی کی جہاں سے یہ تنازع شروع ہوا۔ میچ کے دوارن کمنٹری کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے کرکٹر سائمن ڈول نے کہا کہ ’کوچ کھیل کو آہستہ کرنے کا اشارہ کرتا ہے اور پہلی سلپ پر کھڑا کھلاڑی بلا ضرورت زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ بہرحال یہ ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ بارش کی وجہ سے یہ میچ کسی بھی طرف جا سکتا تھا۔‘ دوسرے کمنٹیٹر زمبابوے کے پومی موانگبا نے کہا کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے۔ اس کے لیے آسکر ملنا چاہیے۔‘ انڈین کرکٹر آر ایشون نے لکھا کہ ’گلبدین کے لیے ریڈ کارڈ۔‘ خیال رہے کہ فٹبال یا ہاکی میں سخت قسم کے فاؤل پر کھلاڑی کو ریڈ کارڈ دیا جاتا ہے۔ تاہم افغانستان کے کپتان راشد خان نے میچ کے بعد گلبدین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نائب کو کچھ درد تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور مجھے نہیں معلوم کہ سوشل میڈیا پر کیا چل رہا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں، جس سے گیم میں بڑا فرق آیا ہو۔‘ کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی معین الدین حمید کی رائے میں یہ معاملہ متنازع ہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آئی سی سی نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تو انھیں کرنی چاہیے کیونکہ کمنٹیٹرز نے بھی دوران میچ اس کی جانب اشارہ کیا۔‘ انھوں نے تاخیر کی حکمت عملی کے حوالے سے کہا کہ ’سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تھی۔ لاہور میں میچ تھا اور آخری دن آخری گھنٹوں کے دوران تھوڑی بارش ہوئی تھی اور صورت حال یہ تھی کہ اگر تھوری سی سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا تو نیوزی لینڈ میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جاتی لیکن اس کے برعکس انھوں نے اپنے اوورز کو پورا کرنے میں تیزی دکھائی۔ گو وہ میچ ہار گئے لیکن انھوں نے کھیل کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیائے کرکٹ کے دل جیت لیے اور آج بھی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو صحافی ان کے اس سپورٹس مین سپرٹ کو یاد کرتے ہیں۔‘ معین الدین حمید نے کہا کہ اس ورلڈ کپ میں افغانستان نے اپنا دم خم دکھایا اور وہ جیتنے کی اور سیمی فائنل میں پہنچنے کی حقدار بھی تھی لیکن جو حرکت کوچ اور گلبدین نے کی، اس سے ان کی عزت بڑھی نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ سب نے دیکھا کہ اس کے بعد گلبدین آئے اور انھوں نے بولنگ بھی کی۔ سنہ 2024 کے ورلڈ کپ کے لیے آئی سی سی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ’اگر کوئی امپائر یہ سمجھتا ہے کہ کسی کھلاڑی کا کوئی عمل پلیئنگ کنڈیشنز کے تحت نہیں اور اس سے مخالف ٹیم کو نقصان ہوا تو وہ ڈیڈ بال کی کال دیں گے اور معاملے کی اطلاع دوسرے امپائر کو دی جائے گی۔‘ ’اگر یہ کسی کھلاڑی کی طرف سے پہلا جرم ہے تو باؤلر اینڈ کا امپائر اس کے بعد خلاف ورزی کرنے والے کھلاڑی کے کپتان کو طلب کرے گا اور پہلی اور آخری وارننگ جاری کرے گا جس کا اطلاق میچ کے بقیہ حصے کے لیے ٹیم کے تمام اراکین پر ہو گا۔ کپتان کو کہا جائے گا کہ اس کی ٹیم کے کسی بھی رکن کی جانب سے اس طرح کی مزید کسی حرکت کے نتیجے میں مخالف ٹیم کو پانچ پنالٹی رنز دیے جائیں گے۔‘ گلبدین کے معاملے میں اگر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فیلڈ امپائر کی جانب سے شکایت درج کرائی جائے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین آئی سی سی سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو چند لوگ گلبدین کا موازنہ پاکستان کے وکٹ کیپر اور بلے باز محمد رضوان سے کر رہے ہیں۔ چند صارفین نے توجہ دلائی کہ کرکٹ میں تاخیری حربوں کا استعمال نئی بات نہیں۔ واضح رہے کہ 2023 ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف میچ میں شاندار سنچری سکور کرنے کے دوران محمد رضوان نے ایک موقع پر بظاہر تکلیف کی وجہ سے وفقہ لیا تھا۔ تاہم میچ کے بعد انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کبھی کبھی یہ (درد) کریمپس ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایکٹنگ ہوتی ہے۔‘ انڈیا سے سجیت سمن نامی صارف نے لکھا کہ ’گلبدین محمد رضوان سے بڑے اداکار ہیں، انھیں آسکر کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’رضوان نے کہا تھا کہ کبھی واقعی کریمپ ہوتا ہے اور کبھی ایکٹنگ ہوتی ہے۔ اب گلبدین کے روپ میں انھیں بڑا مد مقابل ملا ہے۔‘ سعد نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’ایک بار ایک لیجنڈ نے کہا تھا کہ کبھی کریمپ ہوتا ہے تو کبھی اداکاری ہوتی ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’گلبدین آسکر کے حقدار ہیں۔ ٹروٹ نے انھیں کھیل کی رفتار کم کرنے کے لیے کہا کیونکہ بارش ہو رہی تھی اور گلبدین نائب نے ایکٹنگ شروع کر دی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام گلشن کٹیار نامی ایک صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’پورا انڈیا افغانستان کی جیت پر خوش ہے۔ نوین الحق، گلبدین نائب کی آسکر پرفارمنس اور راشد خان خوب کیا خوب کھیلے۔‘ عمران صدیق نے لکھا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے۔ افغانستان کی جانب سے دھوکہ ہے۔ بنگلہ دیش نے بارش سے پہلے 81 رنز بنائے اور وہ سکور کے معاملے میں صرف 2 رن پیچھے تھے اور گلبدین نائب نے ڈی ایل ایس پر بنگلہ دیش کی فتح سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ ایک بار دھوکہ دینے والا ہمیشہ دھوکہ دینے والا ہوتا ہے۔‘ سیامی کھیر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’بھی تک میں جذبات پر قابو نہیں پا سکا ہوں۔ خالص جذبات، جذبہ، محنت اور عزم۔ ہاں نائب کے ہیمسٹرنگ ڈرامے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا لیکن صرف یہ محسوس کریں کہ وہ یہاں تک پہنچنے کے کتنے مستحق ہیں۔ راشد خان اور ٹیم کو بہت بہت مبارک۔‘ واضح رہے کہ افغانستان کی ٹیم اپنا پہلا سیمی فائنل 27 جون کو کھیلے گی اور ان کا مقابلہ اب تک کی ناقابل شکست ٹیم جنوبی افریقہ سے ہوگا جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cnee4142pxmo
جوہری صنعت کے ریاضی دان جنھوں نے بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا
بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو نتیجہ خیز بنانے والے ریاضی دان فرینک ڈک ورتھ 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ برطانیہ کے علاقے لیتھم میں پیدا ہونے والے فرینک ’ڈک ورتھ لیوس میتھڈ‘ کے موجد ہیں جو اس وقت لاگو ہوتا ہے کہ جب محدود اوورز کے میچوں میں بارش کی وجہ سے کھیل متاثر ہو۔ انھوں نے یہ نظام اپنے ساتھی نوٹی لیوس کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ ڈک ورتھ کی موت کی خبر دیتے ہوئے ان کے ساتھی ریاضی دان راب ایسٹوے نے کہا کہ ڈک ورتھ دوستانہ شخصیت کے حامل تھے۔ اگرچہ کرکٹ کے شائقین اکثر اس سسٹم پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر ڈک ورتھ کو یہ نظام دینے پر کافی فخر تھا۔ ایسٹوے کا کہنا ہے کہ ’کئی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں یہ سمجھ نہیں آتا یا پسند نہیں، لیکن اندر ہی اندر انھیں معلوم ہے کہ یہ بہترین حل ہے۔‘ ڈک ورتھ نے یونیورسٹی آف لیورپول سے گریجویشن کی اور پوری زندگی جوہری صنعت میں کام کیا۔ وہ ایک میٹالرجسٹ تھے مگر انھیں احساس ہوا کہ ان میں اعداد و شمار کے ذریعے مددگار معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہذا انھوں نے شماریات پڑھنے کے بعد 1974 میں رائل سٹیٹسٹیکل سوسائٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1992 میں ایک کانفرنس کے دوران انھوں نے ایک مختصر مقالہ پیش کر کے بارش کی نذر ہونے والے ون ڈے میچوں کو نتیجہ خیز بنانے کا فارمولا پیش کیا۔ یوں وہ ایک اور ریاضی دان لیوس سے ملے جنھوں نے تجویز دی کہ مجوزہ فارمولے کی بنیاد پر ون ڈے میچوں کے سکور کارڈز کا جائزہ لیا جائے۔ سنہ 1992 کے دوران اس فارمولے کی تیاری سے قبل انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کو 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے کہ بارش کے باعث کھیل رُک گیا۔ کھیل دوبارہ شروع ہوا تو پروڈکٹو اوورز کی بنیاد پر کیے گئے حساب کتاب نے جنوبی افریقہ کو ایک گیند پر 22 رنز کا ناممکن ہدف دے دیا۔ پرانے نظام میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کو بارش کی صورت میں کم فائدہ ہوتا تھا۔ 2007 میں ڈک ورتھ نے یاد کیا تھا کہ اس وقت کمنٹیٹر کرسٹوفر مارٹن جنکنز نے ریڈیو پر کہا تھا کہ ’شاید دنیا میں کوئی، کہیں سے بھی ہوتا تو اس سے بہتر حل دے سکتا تھا۔‘ اس پر ڈک ورتھ کو احساس ہوا کہ ریاضی کے اس مسئلے کا حل ریاضی سے ہی نکل سکتا ہے۔ ڈک ورتھ لیوس میتھڈ کو پہلی بار 1997 میں ملایشیا میں آئی سی سی ٹرافی کے دوران استعمال کیا گیا اور پھر اسے نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان، انڈیا اور ویسٹ انڈیز میں لاگو کیا گیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اسے انگلینڈ میں 1999 کے ورلڈ کپ میں اپنایا اور کچھ سال بعد اسے مستقل حل بنا لیا گیا۔ اب اسے ڈک ورتھ لیوس سٹرن میتھڈ کہا جاتا ہے کیونکہ آسٹریلیا کے ریاضی دان پروفیسر سٹیون سٹرن نے اسے 2014 کے بعد جدید دور کے تقاضوں اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی روشنی میں اپ ڈیٹ کیا۔ رواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران افغانستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بارش سے متاثرہ میچ کے دوران اسی نظام کو استعمال کیا گیا ہے۔ ڈک ورتھ کو اپنی خدمات پر یونیورسٹی آف بیتھ نے 2015 میں ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ جوہری صنعت کے لیے اتنے ہی اہم تھے جتنے وہ کرکٹ کے لیے ثابت ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ ’انھیں شماریات کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ انھوں نے اس سے نہ صرف ری ایکٹرز کو محفوظ بنایا بلکہ عوام کو بھی باور کرایا کہ ری ایکٹرز محفوظ ہیں۔‘ ’اس وقت لیبارٹریوں میں ماہرِ شماریات کام نہیں کرتے تھے تو وہ خود اس کے ماہر بن گئے۔‘ ’پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں اور دوسروں کو شماریات کی اہمیت کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد انھوں نے جو کچھ کیا وہ اسی خیال کے گرد ہے۔‘ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انھوں نے ’کرکٹ کی انتظامیہ کو رضامند کیا کہ شماریات سے مدد مل سکتی ہے۔‘ ایسٹوے کا کہنا ہے کہ شماریات کے علاوہ وہ ایک مزاحیہ شخصیت تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب 2020 میں ٹونی لیوس کی موت ہوئی تو انھوں نے فون کر کے مجھے بتایا کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ پہلے سے مر چکے تھے۔‘ ’لیوس ایک سنجیدہ شخص تھے اور فرینک بہت مزاحیہ تھے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmjj2l5jmzpo
شندور پولو فیسٹیول ’بے وقت برفباری‘ کے بعد موخر: ’ہم موسم کے ہاتھوں شمالی علاقوں کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں‘
شندور پاس سے گذشتہ دنوں آنے والی تصاویر میں میدان اور اس میں لگے خیموں کو برف سے ڈھکا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ برفباری اچانک اور پولو فیسٹیول کے آغاز سے محض چار دن پہلے ہوئی تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں ماہ 28 سے 30 جون تک منعقد ہونے والا شندور پولو فیسٹیول معطل کر دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں اس کی وجہ خراب موسمی حالات بتائی گئی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چترال کے ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ شندور پاس کے مقام پر اچانک موسم تبدیل ہوا اور برفباری نے پولو کے میدان کو پوری طرح ڈھک دیا ہے۔ ’اسی وجہ سے پولو کا تین روزہ فیسٹیول موخر کرنا پڑا۔‘ اس سے قبل 2022 میں شندور فیسٹیول کے اختتام کے بعد سینکڑوں سیاح اس وقت اپر چترال میں پھنس گئے تھے جب اچانک شندور پاس کے دہانے پر واقعے لسپور کے علاقے میں سیلاب آیا تھا۔ 12 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ’دنیا کی چھت‘ شندور پاس میں ہر سال جولائی کے دوران تین روزہ پولو فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے جسے دیکھنے دنیا بھر سے شائقین اور سیاح چترال کا رُخ کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ برسوں سے موسم کی خرابی کی وجہ سے کئی بار یہ فیسٹیول موخر کرنا پڑا ہے۔ 2012، 2013 اور 2015 میں سیلاب کے باعث یہ فیسٹیول منسوخ ہوتا رہا ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کھیلوں کا شیڈول تبدیل ہونا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ رواں برس گلگت بلتستان میں موسم سرما میں منعقد ہونے والی ونٹر گیمز کو نہ صرف کئی مرتبہ موخر کرنا پڑا بلکہ ان کا دورانیہ بھی کم کرنا پڑا۔ عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جو زمین پر پولر ریجنز کے باہر کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں ہونے والی درجنوں تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی ان گلیشیئرز کو خطرناک تیزی سے کھا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ان علاقوں میں ’گلاف‘ یعنی گلیشیئر کے اچانک پگھلنے سے آنے والے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، موسم سرما میں کم یا تاخیر سے برفباری، طویل موسم گرما اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں ان علاقوں میں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کر رہی ہیں وہیں کھیلوں کی سرگرمیاں بھی مانند پڑ رہی ہیں۔ ان میں ایک طرف ملک کے شمالی علاقہ جات میں سرمائی کھیل تو دوسری جانب بین الاقوامی کھیل جیسے کہ کرکٹ اور فٹ بال بھی متاثر ہوئے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں گلکن ونٹر کلب کے منتظم جمال سعید نے کہا کہ صورتحال کشیدہ ہے اور ’ہم اپنی آنکھوں سے تباہی آتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ رواں برس موسم سے متعلق پیشگوئی بھی غلط ثابت ہو رہی تھی۔ ’ہماری توقعات اور اداروں کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی کیونکہ درجہ حرارت اور موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔‘ ان کے مطابق ’وہ جھیلیں جہاں گذشتہ برس ان دنوں (جنوری) میں پانی جما ہوا تھا اور وہاں سے جیپیں گزرتی تھیں اور ہم سکیٹینگ کرتے تھے، اس سال وہاں برف ہی نہیں تھی۔ یعنی جہاں دو چار فٹ برف جمی ہوتی تھی وہاں پانی بہہ رہا تھا۔‘ خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں موسم سرما کے کھیل گذشتہ کئی برسوں سے مقبولیت حاصل کر رہے تھے جس سے نہ صرف مقامی سطح پر کھیلوں کو فروغ ملا بلکہ موسم سرما کے دوران سیاحت کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ تاہم رواں برس موسم سرما کے گرم درجہ حرارت نے خطے کے تہواری کیلنڈر کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ ان کھیلوں کو نہ صرف بار بار موخر کرنا پڑا بلکہ ان کے مقامات بھی تبدیل کرنا پڑے اور دورانیہ بھی کم کیا گیا۔ یہاں آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ جیسے سرمائی کھیلوں کے علاوہ روایتی کھیل جیسے بصرہ، پنڈوک اور بالبٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سرمائی کھیلوں پر مشتمل سیون ڈیز فیسٹیول، جو عام طور پر 2-10 جنوری کے بیچ منایا جاتا تھا، اس سال 22-24 جنوری تک ملتوی کرنا پڑا۔ جمی ہوئی جھیلیں جو سکیٹنگ کے لیے آئس رِنگ کا کام کرتی ہیں، ان پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے برف کی تہہ جم نہیں سکی اور تقریب کو تین بار گلگت بلتستان کے مختلف جھیل والے دیہاتوں میں منتقل کیا گیا۔ اس کے علاوہ بچوں کے سپورٹس کے لیے کھیتوں میں بنائے جانے والے آئس رِنگ بھی زیادہ درجہ حرارت کے باعث پگھلتے رہے۔ جمال سعید نے بتایا کہ وہ عام طور پر ہنزہ میں مقابلے منعقد کراتے ہیں اور چونکہ ان میں 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ بھی شامل ہے تو ان کے لیے کھیتوں پر پڑنے والی برف کو جمایا جاتا ہے۔ تاہم اس بار ’سردیوں کے موسم میں پہلے تو برفباری ہی نہیں ہوئی اور جو ہو رہی تھی تو درجہ حرارت اس قدر زیادہ تھا کہ برف جمی نہیں رہ سکتی تھی۔ اس طرح کھیتوں میں بنی برف کی رِنگ پگھل جاتی۔ اسی طرح جھیلوں میں بھی برف کی تہہ کی بجائے پانی بہہ رہا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے بچوں کو سمجھ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان کے مستقبل کے لیے کس قدر خطرناک ہے، لیکن ہمارے بزرگ یا وہ نسل جو اس وقت اعلی عہدوں پر ہیں اور کچھ اقدامات کر سکتے ہیں، وہ کلائمٹ چینج کے خطرے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔‘ وہ اسے ’خطرناک صورتحال‘ بیان کرتے ہیں کیونکہ ’موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہو رہی اور ہم اپنی آنکھوں سے شمالی پاکستان کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘ ان کو خدشہ ہے کہ ’یہ تباہی 50، 100 سال نہیں بلکہ اگلے 10 سالوں میں ہم سب کو کھا جائے گی۔‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف علاقائی کھیل ہی نہیں بلکہ ملک میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے بڑے کھیل بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ برطانوی ادارے بیسز نے چند سال قبل ہی اپنی ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ دنیا کے ان کھیلوں میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے جو کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، ان میں کرکٹ ٹاپ کے کھیلوں میں سے ایک ہوگا۔ یہ تجاویز مسلسل دی جا رہی ہیں کہ کرکٹرز کی کٹس، میچ کا دورانیہ اور دیگر کئی قواعد تبدیل کیے جائیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ممالک میں کلائمٹ چینج کے منفی اثرات سے نہ صرف کرکٹ کے میچز متاثر ہوئے بلکہ بعض اوقات شدید گرمی کے باعث کھلاڑیوں کو ہسپتال بھی جانا پڑا۔ جون 2022 میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو میزبان شہر ملتان مین درجہ حرارت 44 درجہ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اس دورے پر آنے والے ویسٹ انڈین باؤلر عقیل حسین نے کہا تھا کہ ’ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ کسی تندور میں بیٹھے ہیں۔‘ 2022 میں ہی جب آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ایک طویل عرصے کے بعد مختلف اوقات میں پاکستان کے دورے پر آئیں تو لاہور کے شائقین ان ٹیموں کو ایکشن میں شدید سموگ کی وجہ سے دیکھ ہی نہ سکے۔ لاہور میں سموگ کے باعث انگلینڈ کے ساتھ میچز کو ملتان منتقل کرنا پڑا مگر وہاں بھی ایک ٹیسٹ میچ سموگ کی نذر ہو گیا۔ کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہونے سے ان کے ساتھ جڑی معاشی سرگرمیاں بھی کم ہو رہی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی سلمی بیگ کہتی ہیں کہ وہ سرمائی کھیلوں کے دوران دستکاری کے سامان کے سٹال لگا کر گذشتہ کچھ سالوں سے آمدن کما رہی تھیں۔ ’اس سال ہم نے سوچا تھا کہ چترال جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ وہاں شندور فیسٹیول میں بھی کچھ سامان بیچ سکیں۔ لیکن اب وہ بھی منسوخ ہو گیا ہے۔ سردیوں میں ہونے والے کھیل بھی دو، تین دن کے ہو گئے تھے اور ٹریننگ کے سیشن بھی کم ہوئے تو ہماری مشکل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ دو سالوں میں اندازہ ہوا ہے کہ ’موسم کا کچھ پتا نہیں اب کب کیا ہو جائے۔ نہ ہی اب یہ پتا ہے کہ کمانا کیسے اور کب ہے؟‘ دوسری جانب چترال سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس قسم کے اقدامات یعنی فیسٹیولز منسوخ یا موخر کرنا ان کی ’مجبوری ہے مگر ان اقدامات سے کئی لوگ اور خود خیبرپختونخوا حکومت کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں اخراجات کی مد میں خاصاً نقصان ہو رہا ہے۔‘ خیال رہے کہ پولو فیسٹیول اب جولائی میں منعقد کرایا جائے گا اور خیبرپختونخوا کا محکمہ سیاحت و کھیل یہ امید رکھے ہوئے ہے کہ موسم انھیں ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3ggrldzdpyo
’صرف ایک شخص افغانستان کو سیمی فائنل میں پہنچتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور وہ برائن لارا تھا‘
کنگز ٹاؤن کے میدان میں کچھ ایسی صورتحال تھی کہ ہر لمحہ میچ کا نقشہ بدلتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ ایک موقع ایسا بھی تھا کہ بنگلہ دیش کو فتح کے لیے صرف چند ہی رن درکار تھے اور اس کی جیت کے امکانات 80 فیصد سے زیادہ ہو چکے تھے۔ اس لمحے میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے والی افغانستان کی ٹیم، جس نے آسٹریلیا جیسی ٹاپ ٹیم کو شکست سے دوچار کیا تھا، ایک بار پھر آخری لمحات میں دوڑ سے باہر ہو جائے گی اور بنگلہ دیش سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہو گا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور بنگلہ دیش کے آخری بلے باز کو آؤٹ کرنے والے نوین الحق نے اپنی چوتھی وکٹ سمیٹی تو افغانستان کرکٹ کی تاریخ کا ایک نیا اور سنہرا باب بھی رقم ہوا کیونکہ پہلی بار یہ ٹیم کسی بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل تک پہنچی ہے۔ ایک جانب کابل میں جشن کا ماحول پیدا ہوا تو دوسری جانب انڈیا اور پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر صارفین نے افغان ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس نتیجے کے ساتھ ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی صورتحال بھی واضح ہو چکی ہے۔ پہلا سیمی فائنل 26 جون کو افغانستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہوگا جبکہ دوسرا سیمی فائنل 27 جون کو انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا۔ پہلے سیمی فائنل کے لیے ایک ریزرو ڈے (27 جون) ہے تاہم دوسرے سیمی فائنل کے لیے کوئی ریزرو ڈے نہیں۔ اگر ہر ممکن کوشش کے باوجود بارش کی وجہ سے دونوں سیمی فائنلز میں سے کوئی میچ نہیں ہوپاتا تو سپر ایٹ میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانی والی ٹاپ ٹیمیں (انڈیا اور جنوبی افریقہ) فائنل میں پہنچ جائیں گی۔ افغانستان کی اننگز کا آغاز تو مستحکم تھا لیکن سست روی کا شکار بھی تھا۔ رحمان اللہ گرباز اور ابراہیم زردان نے محتاط انداز میں ٹیم کا مجموعہ 60 کے قریب پہنچایا لیکن تب تک 10 اوور گزر چکے تھے۔ ایسے میں جب ابراہیم 18 رن بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو پوری بیٹنگ لائن ہی لڑکھڑا گئی۔ یکے بعد دیگرے وکٹیں جاتی رہیں اور رن بنانے کی اوسط تیز نہ ہو سکی۔ 17ویں اوور میں رحمان اللہ گرباز 55 گیندوں پر 43 رن بنا کر آؤٹ ہوئے تو افغانستان کی ٹیم صرف 88 رن ہی بنا پائی تھی۔ کھیل ختم ہونے پر یہ مجموعہ 115 تک ہی پہنچ پایا۔ بنگلہ دیش کی بیٹنگ کا آغاز بھی متاثر کن نہ تھا۔ بارش سے متاثرہ دوسری اننگز میں ٹارگٹ کو تبدیل کیا گیا تو کبھی افغانستان، کبھی بنگلہ دیش میچ جیتنے کے فیورٹ نظر آتے۔ لیکن جہاں افغانستان کے بلے باز اپنا جادو دکھانے میں ناکام رہے وہیں افغان باولرز نے پوری جان لگائی اور لٹن داس کے علاوہ کوئی بنگلہ دیشی بلے باز جم کر کھیل نہیں سکا۔ لٹن داس تن تنہا ہی بنگلہ دیش کی اننگز کو سہارا دیے رہے جبکہ دوسری جانب ایک ایک کر کے سب پویلین لوٹتے گئے۔ شکیب الحسن بھی صفر پر ہی آوٹ ہوئے۔ 92 کے ٹوٹل پر آٹھ کھلاڑی آوٹ ہونے پر افغانستان کی جیت یقینی لگ رہی تھی لیکن لٹن داس نے ہار نہیں مانی۔ تاہم یہ دن افغانستان اور خصوصا نوین الحق اور راشد خان کا تھا جنھوں نے چار چار وکٹیں حاصل کیں۔ راشد خان نے ٹی ٹوئنٹی میں سب سے کم عرصے میں ڈیڑھ سو وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا اور بنگلہ دیش کو صرف آٹھ رن سے شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انھوں نے 92 میچوں میں ڈیڑھ سو وکٹیں حاصل کی اور نیوزی لینڈ کے ٹم ساؤتھی کا ریکارڈ توڑا جنھوں نے 118 میچوں میں ڈیڑھ سو وکٹیں حاصل کر رکھی تھیں۔ میچ کے بعد راشد خان نے کہا کہ ’سیمی فائنل میں پہنچنا ہمارے خواب کی تکمیل ہے۔‘ راشد خان نے کہا کہ ’صرف ایک شخص افغانستان کو سیمی فائنل میں پہنچتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور وہ برائن لارا تھا، ہم نے ان کو درست ثابت کیا۔‘ ’جب ہم ویلکم پارٹی پر لارا سے ملے تو میں نے کہا کہ ہم آپ کو غلط نہیں ہونے دیں گے۔‘ افغانستان کی ٹیم کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر سیاست دانوں سے لے کر بالی وڈ اداکاروں تک نے ردعمل دیا۔ تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’بنوں کی گلیوں میں کرکٹ کھیلنے والے کابل اور قندھار کے لڑکے دنیا میں کھیل کے سب سے بڑے ایونٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ چکے ہیں۔‘ ’یہ ایک غیر معمولی ٹیم کی غیر معمولی محنت کا نتیجہ ہے۔‘ خیال رہے کہ افغانستان کے کئی انٹرنیشنل کرکٹر ماضی میں پاکستان میں مقیم رہ چکے ہیں جن میں موجودہ ٹیم کے سینیئر رکن محمد نبی بھی شامل ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ادھر بالی وڈ اداکار سنیل شیٹی نے بھی ایکس پر لکھا کہ ’افغانستان کی جیت ایک خوبصورت ملک اور بہترین ٹیم کی کامیابی ہے جس کے وہ حقدار تھے۔‘ سنیل شیٹی نے لکھا کہ ’کابل آج جشن منائے گا اور دنیا بھی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک اور انڈین صارف نے لکھا کہ ’یہ افغانستان ہی نہیں بلکہ انڈیا کی بھی جیت کی طرح محسوس ہوا جبکہ بنگلہ دیش کی ٹیم نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔‘ ’وہ صرف افغانستان کا خواب ختم کرنے کے لیے آئے تھے کیونکہ وہ اپنے خواب پورے نہیں کر سکے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gggy33rx3o
انڈیا ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں: ’ساری ٹیمیں آسٹریلیا سے گذشتہ ورلڈ کپ کا بدلہ لے رہی ہیں‘
ایک موقع پر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ آسٹریلوی بیٹنگ انڈین بالنگ پر حاوی ہو رہی ہے حتیٰ کہ 13ویں اوور میں آسٹریلیا کے 128 کے سکور پر صرف دو کھلاڑی ہی آؤٹ تھے لیکن پھر انڈین بالروں نے میچ میں ایسی واپسی کی کہ انڈیا کو ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں کھیلے جا رہے ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ مل گئی۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے کے اہم میچ میں انڈیا نے آسٹریلیا کو 24 رنز سے شکست دے کر نہ صرف خود اگلے مرحلے میں جگہ بنائی بلکہ آسٹریلیا کے سیمی فائنل مرحلے تک پہنچنے کی امیدوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ اس میچ میں آسٹریلیا کے کپتان مچل مارش نے ٹاس جیت کر انڈیا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ اس میچ کے لیے آسٹریلیا اپنے اہم بولر مچل سٹارک کو ٹیم میں واپس لایا تھا جبکہ انڈیا کی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اگرچہ آسٹریلیا کے خلاف انڈیا کا آغاز بہترین نہ تھا کیونکہ ویراٹ کوہلی دوسرے اوور میں کوئی بھی رن بنائے بغیر صفر پر آؤٹ ہو گئے تاہم کپتان روہت شرما نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 41 گیندوں پر 92 رنز بنائے۔ ان کی اننگز میں آٹھ چھکے اور سات چوکے شامل تھے۔ انڈیا نے 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 205 رنز بنائے۔ روہت کے علاوہ رشبھ پنت نے 15، سوریا کمار یادیو 31 اور شیوم دوبے 28 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ ہاردک پانڈیا 27 اور جدیجا نو رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ آسٹریلیا کے مچل سٹارک اور مارکس سٹوئنس نے بالترتیب دو دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ جوش ہیزلوڈ نے ایک وکٹ حاصل کی۔ انڈیا کے 206 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے آسٹریلوی ٹیم صرف 181 رنز بنا پائی اور یوں انھیں 24 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پے در پے شکستوں کے بعد آسٹریلیا کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات محدود نظر آ رہے ہیں اور اب انھیں افغانستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے نتیجے کا انتظار کرنا ہو گا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سوشل میڈیا پر انڈین بالنگ کے کم بیک سے لے کر روہت کی بیٹنگ پر خوب واہ واہ ہو رہی ہے۔ ساگر نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’روہت نے آج ویراٹ کی ذمہ داری نبھائی ہے۔‘ روہت نے جس طرح بمرا کی بال پر ٹراویز ہیڈ کا کیچ پکڑا اس پر بھی انڈیا شائقین کافی خوش دکھائی دیتے ہیں اور بیشتر مداح انھیں ’بوم بوم بمرا‘ بلا رہے ہیں۔ آوٹ ہونے سے قبل ٹراویز 43 بالوں پر 76 رنز بنا چکے تھے اور وہ کچھ دیر اور کریز پر ٹکے رہتے تو میچ کا نتیجہ شاید مختلف ہوتا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کرکٹر سنجے منجریکر نے ایکس پر پوچھا کہ روہت شرما کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟ یقیناً یہ کہ وہ بڑی شاٹس آسانی سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے بڑھ کر وہ ایک ٹاپ آرڈر بلے باز اور لیڈر کے طور پر بے لوث انسان ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انڈیا کرکٹر ہارشا بوگلے کا کہنا ہے کہ انڈیا نے کم بیک سے اپنی کلاس دکھائی۔ انھوں نے اکسر اور کلدیپ کی شاندار بالنگ کی بھی تعریف کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 عبداللہ نامی پاکستانی صارف نے لکھا کہ ’پہلے افغانستان اور اب انڈیا، ساری ٹیمیں آسٹریلیا سے گذشتہ ورلڈ کپ کا بدلہ لے رہی ہیں۔ ہم بھی اگلے سال امریکہ سے بدلہ لیں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckdddykdpgzo
جنوبی افریقہ اور انگلینڈ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں: ’بدقسمتی میزبان ٹیموں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی‘
سوموار کے دن آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے گروپ 2 کے دو میچوں کے بعد اس گروپ سے دو ٹیمیں سیمی فائنل میں جگہ بنا چکی ہیں۔ بارباڈوس کے شہر برج ٹاؤن میں کھیلے گئے سپر ایٹ مرحلے کے میچ میں انگلینڈ نے امریکہ کو 10 وکٹوں سے شکست دیکر سیمی فائنل میں اپنی جگہ یقینی بنائی تو دوسری جانب میزبان ویسٹ انڈیز کو جنوبی افریقہ نے شکست دیکر باہر کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمی فائنل میں کون سی دو ٹیمیں انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہوں گی۔ لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی ٹیم، جس نے پاکستان کو اپ سیٹ شکست سے دوچار کیا تھا، انگلینڈ کے خلاف کیسے ہاری؟ انگلینڈ اور امریکہ کے میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے امریکہ کی ٹیم 19ویں اوور میں 115 پر ہی آل آؤٹ ہو گئی۔ انگلینڈ کے لیگ سپنر عادل رشید نے اپنے 4 اوورز میں محض 12 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ کرس جورڈن نے 2.5 اوور میں صرف 10 رنز کے عوض 4 وکٹیں حاصل کیں جس میں ایک ہیٹ ٹرک بھی شامل ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم جب بیٹنگ کے لیے آئی تو انھیں اپنا رن ریٹ جنوبی افریقہ سے بہتر کرنے اور سیمی فائنل تک رسائی کے لیے 116 رنز کا ٹارگٹ 18.4 اوور میں حاصل کرنے کی ضرورت تھی تاہم کپتان جوز بٹلر کی دھواں دار بیٹنگ کی بدولت ہدف 10ویں اوور میں ہی حاصل کر لیا۔ بٹلر نے 38 گیندوں پر 6 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے 83 رنز بنائے۔ سوموار کے دن کھیلے گئے دوسرے میچ میں جنوبی افریقہ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد ویسٹ انڈیز کو تین وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز نے 8 وکٹوں کے نقصان پر 135 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے روسٹن چیز نے سب سے زیادہ 52 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کی اننگز شروع سے ہی مشکلات کا شکار دکھائی دی اور دوسرے اوور کے اختتام پر دونوں اوپنر پویلین لوٹ چکے تھے۔ لیکن جنوبی افریقی کے لیے مشکلات اس وقت مزید بڑھ گئیں جب دوسرے اوور کے بعد تیز بارش شروع ہو گئی اور کھیل روکنا پڑا۔ یہ بارش جنوبی افریقہ کے لیے سنہ 1992، 2003، 2015 اور بارش سے متاثرہ کئی دوسرے میچوں کی تلخ یادیں بھی ساتھ لائی جسے شاید جنوبی افریقہ بھول ہی جانا چاہتا ہے۔ بالآخر 75 منٹ کی تاخیر کے بعد جب میچ دوبارہ شروع ہوا تو تین اوور ضائع ہو چکے تھے جبکہ ہدف کو کم کر کے 123 کر دیا گیا تھا۔ وقتاً فوقتاً وکٹیں کھونے کے باوجود جنوبی افریقہ نے ہدف آخری اوور کی پہلی گیند پر حاصل کر لیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف جیت کے بعد جنوبی افریقہ گروپ 1 سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم بن گئی۔ ویسٹ انڈیز کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے بعد اس سال بھی میزبان ٹیم کے ورلڈ کپ جیتنے کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں ہونے والا ایونٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا نواں ایڈیشن ہے۔ تاہم آج تک کوئی بھی میزبان ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ نہیں جیت پائی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی ہار پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک صارف دھیرج سنگھ کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی میزبان ٹیموں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی یہاں قابلِ ذکر ہے کہ آج تک سری لنکا کے علاوہ کوئی بھی میزبان ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی نہیں پہنچی ہے۔ سال 2012 میں سری لنکا میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو 36 رنز سے شکست دے دی تھی۔ پوانٹس ٹیبل پر اگر نظر ڈالی جائے تو گروپ 2 میں جنوبی افریقہ 6 پوائنٹس کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم ایونٹ میں اب تک ناقابلِ شکست رہی ہے۔ گروپ 2 سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم انگلینڈ ہے جس کے چار پوائنٹس ہیں۔ دوسری جانب گروپ 1 کی صورتحال کافی دلچسپ ہے جہاں اس وقت انڈیا دو میچوں کے بعد 4 پوائنٹس کے ساتھ سرِفہرست ہے جبکہ آسٹریلیا اور افغانستان کے دو دو پوائنٹس ہیں۔ تاہم بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر آسٹریلیا دوسری پوزیشن پر ہے۔ گروپ کی چوتھی ٹیم بنگلہ دیش دو میچوں کے بعد کوئی بھی پوانٹ حاصل نہیں کر پائی۔ آج انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ہونا والا سپر ایٹ مرحلے کا میچ آسٹریلیا کے لیے ’ڈو اور ڈائی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آج کے میچ میں آسٹریلیا جیت جاتا ہے تو اس کے سیمی فائنل میں جانے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ تاہم اس کے بعد اگر کل ہونے والے میچ میں افغانستان بنگلہ دیش کو ہرا دیتا ہے تو گروپ 1 سے کون سی ٹیمیں سیمی فائنل میں جائیں گی اس کا فیصلہ رن ریٹ کی بنیاد پر ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں انڈیا، آسٹریلیا اور افغانستان، تینوں کے 4، 4 پوائنٹس ہوں گے۔ آسٹریلیا کی شکست کی صورت میں انڈیا سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ ایسی صورت میں گروپ 1 سے سیمی فائنل میں جانے والی دوسری ٹیم کا فیصلہ افغانستان اور بنگلہ دیش کے میچ میں ہوگا۔ اگر افغانستان کل کے میچ میں بنگلہ کو شکست دینے میں کامیاب رہتا ہے تو وہ سیمی فائنل کے کوالیفائی کر جائے تاہم بنگلہ دیش کی جیت صورت میں آسٹریلیا، افغانستان اور بنگلہ دیش میں سے کون سی ٹیم آگے جائے گی اس کا فیصلہ رن ریٹ کی بنیاد پر ہوگا۔ موجودہ رن ریٹ کو دیکھتے ہوئے ایسی صورت میں آسٹریلیا کے آگے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے فارمیٹ کے مطابق گروپ 1 کی ٹاپ ٹیم کا مقابلہ گروپ سے کوالیفائی کرنے والی دوسرے نمبر کی ٹیم سے ہوگا جبکہ گروپ 2 کی ٹاپر گروپ 1 سے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم سے کھیلے گی۔ فی الحال گروپ 2 ٹیمِوں کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ پوانٹس ٹیبل کے مطابق جنوبی افریقہ گروپ 2 پر پہلے نمبر پر جبکہ انگلینڈ دوسرے نمبر پر ہے۔ آج جیت کی صورت میں انڈیا گروپ 1 کی ٹاپ ٹیم کی حیثیت سے کولیفائی کر جائے گا اور اس کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوگا۔ بصورت دیگر گروپ سے 1 سیمی فائنل کی ٹیموں کا فیصلہ کل ہونے والے افغانستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے بعد ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c511nn38ggpo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں افغانستان کی آسٹریلیا کے خلاف تاریخی فتح اور ’سات ماہ بعد بہترین انتقام‘
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے میں افغانستان نے آسٹریلیا کو 21 رنز سے شکست دے کر تاریخ رقم کی ہے اور گذشتہ سال انڈیا میں ورلڈ کپ کے دوران سنسنی خیز مقابلے میں شکست کا ’بہترین انتقام‘ لیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ افغانستان نے عالمی مقابلوں میں آسٹریلیا کو کسی بھی فارمیٹ میں شکست دی ہے۔ گلبدین ںائب نے 20 رنز کے عوض چار وکٹیں حاصل کر کے افغانستان کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپنی شاندار پرفارمانس کے لیے وہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ آسٹریلیا کی جانب سے سب سے قابلِ ذکر کھلاڑی گلین میکسویل رہے، انھوں نے 59 رنز بنائے مگر ان کے آؤٹ ہونے کے بعد افغانستان کے کھلاڑیوں کو اپنی جیت کا یقین ہوچکا تھا۔ خیال رہے کہ گذشتہ سال ورلڈ کپ کے میچ میں میکسویل نے ڈبل سنچری بنا کر افغانستان کے خلاف اپنی ٹیم کو میچ جتوایا تھا۔ افغانستان کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر افغان کرکٹ ٹیم کے مداح بہت پُرجوش نظر آئے۔ وزما ایوبی نامی ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم نے کر دکھایا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایک اور صارف سعدیہ کا کہنا تھا کہ بالآخر سات ماہ کے انتظار کے بعد افغانستان نے ’بہترین بدلہ لے لیا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ان صارفین کا اشارہ نومبر 2023 میں آسٹریلیا اور افغانستان کے درمیان ممبئی میں کھیلے گئے ورلڈ کپ 2023 کے میچ کی طرف تھا۔ اُس میچ میں گلین میکسویل نے 201 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر افغان ٹیم کو ایک یقینی جیت سے محروم کر دیا تھا۔ صادق اللہ صادق نامی صارف نے آج کے دن کو ’افغان کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین دنوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 دوسری جانب، سابق انڈین کرکٹر وسیم جعفر کا کہنا تھا کہ اس میچ کو اپ سیٹ کہ کر افغان کرکٹ ٹیم کی تذلیل نہ کریں۔ ان کے مطابق افغان ٹیم کسی بھی ٹیم کو ہرانے کے قابل ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 سنیچر کے روز کنگس ٹاؤن میں کھیلے جانے والے سپر ایٹ مرحلے کے میچ میں جب آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر افغانستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو افغان اوپنرز رحمان اللہ گُرباز اور ابراہیم زردان نے اپنی ٹیم کو شاندار آغاز مہیا کیا۔ افغانساتان کی پہلی وکٹ 16ویں میں 118 کے مجموعی سکور پر اس وقت گری جب رحمان اللہ 61 رنز بنا کر مارکس سٹوائنس کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد تو جیسے وکٹوں کا تانتا بندھ گیا اور افغانستان نے اگلی تین وکٹیں محض آٹھ رنز کے اضافے کے ساتھ گنوا دیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے والے آسٹریلوی بولر پیٹرک کمنس کا جادو ایک بار پھر پھر سر چڑھ کر بولتا نظر آیا جب انھوں نے ایک بار پھر لگاتار تین گیندوں پر تین وکٹیں حاصل کیں۔ وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں لگاتار دو میچوں میں ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے جبکہ بین القوامی کرکٹ میں لگاتار دو میچوں میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دوسرے بولر ہیں۔ ان سے پہلے پاکستان کے وسیم اکرم نے 1999 میں سری لنکا کے خلاف لگاتار دو ٹیسٹ میچوں میں ہیٹ کی تھی۔ کمنس کی بہترین پرفارمنس کے باعث افغانستان آسٹریلیا کو جیت کے لیے 148 رنز کا ہدف دے پائے۔ آسٹریلیا کی ٹیم جب بیٹنگ کے لیے آئی تو ابتدا سے ہی مشکلات کا شکار نظر آئی۔ پہلے ہی اوور میں نوین الحق نے آستریلوی اوپنر ٹریوس ہیڈ کو کلین بولڈ کر دیا۔ پاور پلے کے اختتام تک آسٹریلا کے دونوں اوپنر سمیت تین بلے باز پویلین لوٹ چکے تھے اور ایسا لگا جیسے آسٹریلیا کی کشتی پار لگانے کی ذمہ داری ایک بار پھر گلین میکسویل کے کندھوں پر آگئی۔ میچ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب لگنے لگا کہ میکسویل شاید ایک بار پھر افغانستان کی امیدوں پر پانی پھیر دیں گے جیسے انھوں نے مبئی میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ 2023 کے گروپ میچ میں 201 رنز بنا کر آسٹریلیا کو یقینی ہار سے بچا لیا تھا۔ تاہم افغانستان کو جیت یقینی اس وقت نظر آنے لگی جب 15ویں اوور میں میکسویل گلبدین ںائب کی گیند پر نور احمد کو کیچ دے بیٹھے۔ میکسویل نے تین چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے 41 گیندوں پر 59 رنز بنائے۔ ان کے علاوہ کوئی آسٹریلوی بلے باز خاطر خواہ کر کردگی نہیں دکھا سکا اور آسٹریلیا کی ٹیم آخری اوور میں 127 بنا کر آل آؤٹ ہوگئی۔ افغانستان کی جانب سے گلبدین نے 20 رنز کے عوض چار وکٹیں حاصل کیں۔ انھیں اس پرفامنس کے لے پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔ آج کے میچ کے بعد گروپ اے میں انڈیا دو میچوں کے بعد 4 پوائنٹس کے ساتھ بدستور سرِفہرست ہے، جبکہ آسٹریلیا اور افغانستان دو دو پواِنٹس کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہیں۔ آسٹریلیا کا اگلا میچ انڈیا کے خلاف 24 جون کو ہے جبکہ افغانستان اپنا آخری گروپ میچ بنگلہ دیش کے خلاف 25 جون کو کھیلے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3ggv04zgy5o
’ایسے کیسے پھیلے گی کرکٹ؟‘ سمیع چوہدری کی تحریر
آئی سی سی کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کی بدولت وہ کرشمہ ہو پایا جسے فطری طور پہ برپا ہونے کو شاید تین آئی سی سی ایونٹس بھی کم پڑ جاتے۔ امریکی مارکیٹ میں کرکٹ کا فروغ آئی سی سی کا سہانا خواب تھا جس کی عملی تعبیر میں بھرپور مدد پاکستان نے فراہم کی۔ پہلی بار آئی سی سی نے کھیل کے پھیلاؤ کے لیے ایسا انقلابی فارمیٹ متعارف کروایا ہے جہاں دنیا بھر کو نمائندگی دے کر کرکٹ کو گلوبل سپورٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ سو، امریکہ کا اس ایونٹ کی میزبانی کرنا بھلے امریکہ کے لیے نہ سہی، آئی سی سی کے لئے بہت بڑی بات تھی۔ پاکستان کی قیمت پہ امریکی ٹیم اس سپر ایٹ راؤنڈ تک پہنچ پائی جس کی ورلڈ کپ میں شمولیت ہی محض میزبانی کی بنیاد پہ تھی۔ اور پھر جو کچھ اپ سیٹ ہوئے، ان کی بدولت افغانستان اور بنگلہ دیش نے بھی نیوزی لینڈ اور سری لنکا جیسے پرانے کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کے مرکزی راؤنڈ سے باہر کر دیا۔ ان عوامل نے اگرچہ سپر ایٹ میں مسابقت کی حدت کچھ کم کر دی ہے مگر جنوبی افریقہ، انڈیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے طفیل کچھ رونق باقی بھی ہے۔ گو، ورلڈ ایونٹس کی دو دیرینہ رقابتیں پاک بھارت اور انگلینڈ آسٹریلیا مقابلوں میں نمٹ چکیں، مگر ایک نئی رقابت ابھی انڈیا آسٹریلیا مقابلے میں باقی ہے جو کڑی کرکٹ اور مقابلے کی بھرپور حرارت فراہم کرے گی۔ اگرچہ بنگلہ دیش اپنے ابتدائی دونوں میچز ہار کر سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہے مگر ویسٹ انڈیز، امریکہ اور افغانستان کے امکانات ابھی زندہ ہیں۔ البتہ سیمی فائنل تک غیر متوقع رسائی کے لیے انھیں اپنے علاوہ دیگر نتائج پہ بھی انحصار کرنا ہو گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آج تک کھیلے گئے آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹونٹی ایونٹس میں کبھی بھی میزبان ٹیم چیمپئن نہیں ٹھہری۔ ویسٹ انڈیز کے پاس البتہ یہ موقع ہے کہ وہ اس ریکارڈ کو بدلے اور دو ورلڈ ٹی ٹونٹی ٹائٹلز کے فاتح کپتان ڈیرن سامی کی ہونہار کوچنگ میں نئی تاریخ رقم کرے۔ ڈیرن سامی کی قیادت میں قابلِ تعریف پہلو ہمیشہ یہی رہا کہ لمبے ایونٹس میں شروع کی ناکامیوں کو کبھی سر پہ سوار نہیں کرتے تھے اور اپنا دھیان جیت کی کھوج میں اس قدر رچائے رکھتے کہ بوقتِ ضرورت قسمت کو بھی انہی پہ مہربان ہونا پڑتا تھا۔ پاول کی کپتانی اور سامی کی کوچنگ بھی کچھ ایسا معجزہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو ویسٹ انڈین کرکٹ کو زوال سے نکال کر، اپنی دیرینہ شہرت کی راہ پہ بحال کر سکے۔ لیکن سیمی فائنل تک رسائی پانے کو انہیں جنوبی افریقہ پہ حاوی ہونا پڑے گا۔ موجودہ ورلڈ کپ نے جہاں نئی امریکی مارکیٹ اور دنیا بھر سے مستعار شدہ امریکی کرکٹ ٹیم متعارف کروائی ہے، وہیں افغان کرکٹ کا شاندار ارتقا بھی واضح کیا ہے کہ کس قدر کم وقت میں افغان کرکٹ ایک ایسی قوت بن چکی ہے جسے ہرانا کسی بھی ٹیم کے لیے آسان نہیں ہے۔ افغان کرکٹ کا یہ بدلاؤ جوناتھن ٹروٹ کے ساتھ شروع ہوا اور کچھ عرصہ قیادت کی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد اب اسے راشد خان کی شکل میں ایک ایسا کپتان بھی مل چکا ہے جو جارحیت اور بے خوفی سے لیس ہے۔ مگر جس نکتے پہ آئی سی سی کو غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اس قدر تسلسل سے ہر سال ورلڈ ایونٹس کروانے کے باوجود ہر بار فائنل فور کی دوڑ گھوم پھر کر انہی چار پانچ چہروں تک کیوں آ جاتی ہے جن سے مانوسی اب بوریت کی حد تک بڑھنے لگی ہے۔ گو بظاہر کسی ممبر کا اس دوڑ تک رسائی پانا یا اس سے بے دخل ہونا آئی سی سی کے اختیار میں نہیں ہے مگر یہ بہرحال آئی سی سی کو ہی دیکھنا ہے کہ اس کا ریونیو ڈسٹری بیوشن ماڈل کس طرح سے کھیل کے صحیح پھیلاؤ میں رکاوٹ بنے جا رہا ہے۔ گو کہنے کو بِگ تھری کب کی ختم ہو چکی ہے مگر کھیل پہ راج آج بھی تین ہی ممالک کا ہے۔ یہی تینوں آپس میں اس قدر دو طرفہ کرکٹ کھیلتے ہیں کہ دیگر ٹیموں کو ان سے اجنبیت ہی ورلڈ کپ میں مہنگی پڑ جاتی ہے۔ کیا افغانستان اور آسٹریلیا کا آمنا سامنا صرف ورلڈ سٹیج پہ ہی ہو گا؟ نہ صرف موجودہ ریونیو ڈسٹری بیوشن ماڈل مضبوط ممالک کو مزید قوت دے رہا ہے بلکہ اس کی بدولت نیدرلینڈز جیسی زرخیز ٹیمیں بھی فنڈز کے لیے سسکتی رہ جاتی ہیں جو اپنے پوٹینشل میں فُل ممبرز سے ہرگز کم نہیں ہیں مگر وسائل کی قلت اور ایکسپوژر کی کمی ان پہ بھاری پڑتی ہے۔ فی الحال تو آئی سی سی سکھ کا سانس لے سکتی ہے کہ اسے نیوزی لینڈ اور پاکستان کی بے دخلی کے باوجود سپر ایٹ میں انڈیا کی کرکٹ مارکیٹ دستیاب رہی ہے اور ایک نئی امریکی مارکیٹ میں بھی کچھ نہ کچھ پر پھیلانے کا موقع ملا ہے۔ مگر کچھ ہی روز میں جب یہ ایونٹ تین چار متوقع فاتحین میں سے کسی ایک کی تاج پوشی پہ ختم ہو گا تو ایک لمحے کو یہ سوچنے کا بھی موقع ہو گا کہ کھیل کے فروغ کے لیے ہر سال کوئی ورلڈ کپ کروانا اور بگ تھری میں سے کسی ایک کی تاج پوشی ہی کافی نہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp44lr2jrxwo
شاہد آفریدی کی وائرل تصویر: ’اگلی مرتبہ تصویر بنوانے سے قبل پلے کارڈز کی تحریر غور سے پڑھیں‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر شاہد آفریدی ہمیشہ سے ہی خبروں کی زینت رہے ہیں، کبھی اپنے کھیل کو لے کر تو کبھی اپنے متنازع بیانات کو لے کر۔ لیکن اب ان کی ایک متنازع تصویر سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے جس میں وہ برطانیہ میں اسرائیل حامی تنظیم کے ایک گروپ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ بدھ کے روز شاہد آفریدی کے مداحوں کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب لندن میں اسرائیل حامی گروپ نارتھ ویسٹ فرینڈز آف اسرائیل (این ڈبلیو ایف او آئی) نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شاہد آفریدی کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی۔ اپلوڈ کی گئی تصویر میں شاہد آفریدی نارتھ ویسٹ فرینڈز آف اسرائیل کے دو مظاہرین کے ہمراہ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے اپنے ہاتھ میں ایک پمفلیٹ پکڑا ہوا ہے جس میں لوگوں کو برطانوی حکومت پر غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مانگ کرنے کے لیے اپیل کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے ایکس اکاؤنٹ سے کی گئی اس متنازع پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’گذشتہ اتوار پاکستانی بین الاقوامی کرکٹر شاہد آفریدی این ڈبلیو ایف او آئی کے تحت مانچسٹر میں منعقد احتجاج میں آئے اور یرغمالیوں کی رہائی کے ہمارے مطالبے کے لیے اپنی حمایت کی۔‘ اسرائیل حامی گروپ کے مطابق پوسٹ میں لکھا گیا ’شاہد آفریدی کے ساتھ اس تصویر میں این ڈبلیو ایف او آئی کے شریک چیئرمین رافی بلوم اور ڈپٹی چیئرمین برنی یاف موجود ہیں۔ ’آپ کی حمایت کا شکریہ، شاہد!‘ 19 جون کو اپلوڈ کی جانے والی اس پوسٹ کو ایکس پر تقریباً 18 لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 این ڈبلیو ایف او آئی کی متنازع پوسٹ کے بعد شاہد آفریدی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ ’براہ کرم اپ لوڈ کی گئی ہر چیز پر یقین نہ کریں۔‘ انھوں نے اپنی اس تصویر پر وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’تصور کریں کہ آپ مانچسٹر (برطانیہ) کی ایک گلی میں ٹہل رہے ہیں اور کچھ نام نہاد پرستار سیلفی لینے کے لیے آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ ان کی بات مان لیتے ہیں۔ چند لمحوں بعد وہ اس کو صیہونیت توثیق کی شکل دے کر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔‘ شاہد آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ’فلسطین میں معصوم جانوں کی تکلیف کو دیکھنے سے دل کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ لہذا مانچسٹر میں کسی ایسی تنظیم کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر کو میری کسی قسم کی حمایت نہیں سمجھا جا سکتا جہاں انسانی جانیں خطرے میں ہوں۔‘ سابق کپتان نے مزید کہا کہ ’میں پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے شائقین کے ساتھ تصویریں کھنچواتا ہوں، اور یہ صورتحال بھی مختلف نہیں تھی۔ میں اس جنگ کے خاتمے کی دعا کرتا ہوں، میں آزادی کی دعا کرتا ہوں۔‘ دوسری جانب این ڈبلیو ایف او آئی کا دعوٰی ہے کہ آفریدی نے اپنے اور ان کے فون سے تصاویر لی تھی اور ’وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس پوسٹ کے شائع ہونے کے بعد شاہد آفریدی کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کچھ نے ان کی حمایت میں بات کی۔ مہوش علی نامی صارف نے شاہد آفریدی کی وضاحتی ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بات یہ جنگ نہیں بلکہ نسل کشی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر یہ محض ایک فین مومنٹ تھا تو اس تنظیم کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے، اس کی شروعات اس تنظیم کی عوامی سطح پر مذمت کر کے اور انھیں ٹیگ کر کے کی جائے۔ اس ضمن میں ایک سادہ ٹویٹ اس سنگین غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اگلی مرتبہ تصویر بنوانے سے قبل یہ سوچنے کی بجائے کے لوگ آپ کے لیے دیوانے ہیں، پلے کارڈ کی تحریر کو غور سے پڑھیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ڈاکٹر وقاص نامی ایک صارف نے ان کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب کچھ شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ اس پر یقین کرتا ہوں کیونکہ کوئی پاکستانی اور مسلمان اس نسل کشی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن زیادہ تر لوگ اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ (شاہد آفریدی) اس تنظیم کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو قانونی مقدمہ دائر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک صارف نے شاہد آفریدی پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’ ٹہلنا؟ کیا آپ اندھے ہیں کہ ان کے پوسٹروں پر کیا لکھا ہے آپ پڑھ نہیں سکتے؟ آپ جھوٹے ہیں اور اندرون و بیرون ملک ظلم کے حامی ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آپ لاکھ اختلاف رکھیں آفریدی سے لیکن وہ کبھی بھی مسلمانوں سے غداری نہیں کرسکتے، تنقید سیاسی نظریات تک محدود ہونی چاہیے، مجھے سو فیصد یقین ہے کہ یہ تصویر محض ایک اتفاق ہے اور کچھ نہیں، باقی اسرائیل میں کرکٹ کا کوئی تصور نہیں تو یہ فین کہاں سے آئے یہ بھی ایک سوال ہے.‘ جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آپ کی عزت میرے دل سے ختم ہو گئی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/czkkj7l3x4mo
’یہ ورلڈ کپ تھا، پی ایس ایل نہیں‘
جب افراد اداروں پر بھاری پڑنے کی کوشش میں لگ جائیں تو بدترین خدشات کو حقائق میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہی پاکستان کرکٹ بورڈ کا دیرینہ المیہ رہا ہے اور اس کی قیمت ہمیشہ کھلاڑیوں اور شائقین کو چکانا پڑی ہے۔ پی ایس ایل کے اختتامی میچز جاری تھے کہ اچانک راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نمودار ہوئے۔ جب میچ کے دوران بھرپور کیمرہ کوریج لے کر بھی ان کی تشفی نہ ہوئی تو میچ کے بعد ایک پریس کانفرنس بلا ڈالی۔ وہ پریس کانفرنس بظاہر پاکستان کرکٹ سے متعلق تھی مگر دراصل وہ محسن نقوی کی شخصیت کے اس خلوص، ایثار اور لگن کا ایک قصیدہ تھی جس کے قصیدہ گو موصوف ’بقلم خود‘ تھے اور انھوں نے ملک کی خاطر اپنا کاروبار تیاگ دینے اور تین تین ہائی پروفائل عہدوں کی ذمہ داریاں نبھانے پر فخر کا اظہار کیا۔ گو پاکستانی کھلاڑی ورلڈ کپ کھیلنے جا رہے تھے مگر محسن نقوی نے ان کے چھکوں کی لمبائی بڑھانے کے لیے، کاکول اکیڈمی میں ایسی ٹریننگ دلوانے کی کوشش کی جس کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کاکول اکیڈمی کی ان مشقوں کو رومانوی پیرائے میں سمیٹنے کے لیے انھیں ’ٹیم بانڈنگ‘ ایکٹویٹی قرار دیا گیا اور اصل ٹیم بانڈنگ کا حشر یہ ہوا کہ چار ماہ پہلے مقرر کردہ کپتان شاہین آفریدی اپنی ایما پر محمد عامر کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر قائل کر رہے تھے جبکہ محسن نقوی شاہین آفریدی سے قیادت واپس لے کر بابر اعظم کو بحال کر رہے تھے۔ جس غیر متاثر کن قیادت اور کمزور فیصلہ سازی کی بنیاد پر بابر اعظم کو ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، وہی مسائل لیے بابر اپنی کرسی پر واپس آ گئے اور شاہین آفریدی کو ان کی نائب کپتانی کی آفر کر کے مزید سبکی کا سامان کیا گیا۔ اور اس سارے ڈرامے میں وہ اصل مدعا کہیں بہت پیچھے رہ گیا جو ماڈرن کرکٹ کھیلنا اور ورلڈ کپ میں بہترین ٹیموں کا مقابلہ کرنے کی سٹریٹیجی طے کرنا تھا۔ پاکستان کے لیے اگرچہ ٹی ٹونٹی ورلڈ ٹورنامنٹس میں یہ بدترین کارکردگی رہی ہے مگر اپنے احوال میں یہ ون ڈے ورلڈ کپ 2003 کی یاد دلاتی ہے جہاں پاکستان نے پچھلی ایک دہائی کی مضبوط ترین ٹیم ورلڈ ٹائٹل کے حصول کے لیے بھیجی تھی۔ اور جیسے پاکستان کی یہ ٹیم اب بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے دو مبینہ متحارب گروہوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے، ایسے ہی وہ مضبوط ترین ٹیم بھی وسیم اکرم اور وقار یونس کے دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور پہلے ہی راؤنڈ سے ہزیمت سمیٹ کر وطن واپس لوٹ آئی تھی۔ یہ تو اب بالکل واضح ہو چکا کہ بطور کپتان بابر اعظم ہرگز وہ سٹار نہیں جو بیٹنگ چارٹس میں دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ انڈیا اور کینیڈا کے خلاف میچز میں ان کی قائدانہ سٹریٹیجی میں کچھ بہتری دکھائی دی مگر بطور گیم ریڈر، ان کی سوجھ بوجھ وہ نہیں ہے جو ایک انٹرنیشنل ٹیم کے کپتان کی ہونا چاہیے۔ اور ایسی غیر متاثر کن قیادت ہی کم نہ تھی کہ ٹیم میں گروپنگ سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی۔ پھر بھی اگر کوئی کسر باقی تھی تو وہ ان ’سینئرز‘ کی ریٹائرمنٹ سے واپسی نے پوری کر دی جنھیں، بقول محمد وسیم، ماضی کے سبھی کوچز ٹیم کے لیے کینسر قرار دے چکے تھے۔ سو، ورلڈ کپ میں پاکستان کی امیدوں کا جو حشر ہوا، وہ یکسر غیر متوقع نہیں تھا کہ بالآخر ’کینسر‘ کا مریض تگڑے صحت مند حریفوں کے سامنے یہی کچھ کر سکتا تھا جو بابر اعظم کی اس الیون نے کیا۔ ایک ہی میچ میں، نو آموز امریکی ٹیم سے، دو بار شکست نے اس الیون کا مورال اتنا گرا دیا کہ پھر اس کے اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکا اور ٹیم بننے کی ناکام کوشش میں الجھی یہ الیون مزید تقسیم کی طرف بڑھنے لگی۔ اب پاکستانی شائقین ہی کی طرح چئیرمین پی سی بی بھی یوں حیران ہو رہے ہیں گویا یہ سب ان کے لیے بالکل غیر متوقع رہا ہو۔ جبکہ درحقیقت یہ تبھی نوشتہ دیوار ہو چکا تھا جب نیوزی لینڈ کی ’سی‘ ٹیم ہی پاکستانی سورماؤں پر بھاری پڑ گئی تھی۔ محسن نقوی نے اب اس ٹیم میں ’آپریشن کلین اپ‘ کا عندیہ دے ڈالا ہے۔ گویا کرکٹ ٹیم نہ ہوئی، خدانخواستہ کچے کے ڈاکو ہو گئے کہ جن کے لیے ’آپریشن کلین اپ‘ جیسی اصطلاح استعمال کر کے محسن نقوی اپنی آمرانہ مطلق العنانیت کو مزید سہلانا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، اس کارکردگی میں ٹیم کی صلاحیت سے زیادہ نیت اور آف فیلڈ سرگرمیاں کار فرما ہیں مگر اس کا تدارک ایسی سرجری سے نہیں ہو سکتا جو چئیرمین کے ذہن میں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے مزید نیچے گرنا پاکستان کرکٹ کے لیے ممکن نہیں۔ مگر یہاں سے اوپر اٹھنے کے لیے رستہ طے کرنا بھی اتنا آسان نہیں۔ اگر پاکستان کو اپنی آئندہ ورلڈ کپ کمپینز میں ایسے ڈراؤنے خوابوں سے بچنا ہے تو کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کی اصلاح ضروری ہے جہاں نہ صرف فرسٹ کلاس سٹرکچر کی درستی لازم ہے بلکہ ٹیم میں سلیکشن کا معیار بھی بدلنا ہو گا۔ پی ایس ایل کی شارٹ کٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ کا ٹکٹ بٹورنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز کو ترجیح دینا ہی راست اقدام ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی ورلڈ ٹرافی جیتنے کے لیے صرف بہترین الیون ہی کافی نہیں ہوا کرتی۔ بابر اعظم کی بیٹنگ مہارت و عظمت سر آنکھوں پر، لیکن قیادت کے لیے پاکستان کو ایسا زیرک دماغ ڈھونڈنا ہو گا جو کرکٹ کی باریکیاں پڑھنے میں طاق ہو اور اپنے چار پسندیدہ دوستوں سے آگے دیکھ کر ٹیم کے لیے سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

This repo has cleaned urdu data scraped from the web.

Downloads last month
58
Edit dataset card