url
stringlengths
1
238
heading
stringlengths
7
166
content
stringlengths
7
33.8k
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyj4v0y773jo
’میں نے میرین ڈرائیو پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا‘: ممبئی میں مداحوں نے فاتح انڈین ٹیم کا استقبال کیسے کیا؟
فاتح انڈین کرکٹ ٹیم بالآخر تقریباً ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد وطن واپس آئی جہاں فتح کا ایسا جشن منایا گیا جو اس سے قبل نہیں دیکھا گيا۔ جمعرات کی صبح انڈین ٹیم پہلے دارالحکومت دہلی پہنچی جہاں اس نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور اپنے تجربات شیئر کیے۔ اگر کپتان روہت شرما نے فائنل کے بعد پچ کی گھاس چکھنے کے بارے میں بتایا تو وہیں مین آف دی میچ وراٹ کوہلی نے تکبر یا انا کے بارے میں بات کی کہ وہ کس طرح کھیل کا دشمن ہے۔ مین آف دی سیریز جسپریت بمراہ اور فائنل میں شاندار کیچ لے کر میچ کا رخ بدلنے والے سوریہ کمار یادو نے بھی اپنی کہانی سنائی۔ ان سب پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے انڈین ٹیم کی فتح کے جشن کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دہلی کے بجائے ممبئی کے ساحل میرین ڈرائیو سے شروع ہو کر وانکھیڈے سٹیڈیم تک پہنچی۔ بی بی سی نامہ نگار جھانوی مولے وہاں موجود تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پریڈ کو دیکھنے اور اس میں شرکت کے لیے ہزاروں لوگ میرین ڈرائیو پر پہنچے تھے اور انھوں نے اس سے قبل اتنی بھیڑ وہاں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ’میں نے میرین ڈرائیو پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے میراتھن کے دوران بھی اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔‘ قلعہ چند چوک پر افراتفری تھی۔ یہی صورتحال وانکھیڈے سٹیڈیم کے قریب تھی۔ پولیس بھی ہجوم پر قابو پانے میں مشکلات سے دوچار تھی۔ دوپہر دو بجے سے ہی سٹیڈیم کے گیٹ پر بھیڑ جمع ہونا شروع ہو گئی تھی۔ 'مجھے بتایا گیا کہ شام چار بجے سٹیڈیم میں داخلہ شروع ہو گا اور آدھے گھنٹے میں ہی پورا سٹیڈیم بھر گیا۔ دفتر میں کام کرنے والے بھی اس دن 2-3 بجے تک دفتر سے نکل گئے۔ 'صبح سے ہی تیاریاں جاری تھیں۔ بینرز لگائے جا رہے تھے اور درختوں کی شاخیں کاٹی جا رہی تھیں تاکہ بس پر سوار انڈین کھلاڑیوں کو پریشانی نہ ہو۔ 'ہم نے ساڑھے چار بجے تک مداحوں سے بات چیت ختم کی اور نیرمن پوائنٹ سے روانہ ہوئے۔ اس وقت تک سڑک کا ایک حصہ گاڑیوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ 'ہجوم کو دیکھ کر ہم نے گاڑی چھوڑ دی اور پیدل چلنے لگے۔ ہماری حفاظتی تربیت اور ممبئی کی مقامی ٹرینوں میں سفر کرنے کے تجربے نے ہماری مدد کی۔ 'جب ہم قلعہ چند چوک پہنچے تو وہاں بہت بڑا ہجوم تھا۔ ہم نے بھیڑ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور چرچ گیٹ سٹیشن کی طرف چل پڑے اور بالآخر پریس کلب پہنچ گئے جو کہ سٹیڈیم سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم یہیں سے وانکھیڈے میں بھیڑ کی گرج سن سکتے تھے۔‘ 'پولیس اور ریلوے حکام نے چرچ گیٹ سٹیشن پر لوگوں کو واپس جانے کے لیے اعلانات کرنا شروع کر دیے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ جو ٹرینوں سے آ رہے تھے، انھیں نہیں معلوم تھا کہ بھیڑ کتنی بڑھ گئی ہے۔ 'بالآخر ہمیں رات دیر گئے پتہ چلا کہ 10-12 لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں ہیں اور انھیں شہر کے کئی اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ 'چونکہ ممبئی والے بڑے ہجوم کے عادی ہیں اس لیے یہ پریڈ کسی المیہ میں نہیں بدلی اور یہاں کی پولیس کو بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کا کافی تجربہ ہے۔ 'ایمبولینس کو ہجوم میں سے گزرتے ہوئے دیکھنا حیرت انگیز تھا۔ 'سوشل میڈیا پر اتنی بھیڑ کے جمع ہونے کے لیے الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ کیا واقعی وہاں جانا ضروری تھا؟ بالخصوص شمالی انڈیا کے ہاتھرس میں بھگدڑ کے واقعے کے بعد جہاں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ 'پہلے تو بہت سے لوگ وہاں اس لیے آئے کہ ان کے خیال میں انھیں سٹیڈیم میں جگہ مل جائے گی کیونکہ داخلہ مفت تھا۔ تو کچھ لوگوں کے لیے وہاں جانا زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ 'پھر میرین ڈرائیو پہنچنے تک زیادہ تر لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہاں کتنا ہجوم تھا۔ انھوں نے سوچا اب ہم یہاں ہیں، چلو یہیں رہ کر ٹیم کا انتظار کرتے ہیں۔ اور انھوں نے اپنے اس دن کو یادگار بنا لیا۔' گذشتہ سال جب انڈین ٹیم گجرات کے شہر احمدآباد میں ون ڈے ورلڈ کپ کا فائنل آسٹریلیا سے ہار گئی تھی تو وزیر اعظم مودی ان کے ڈریسنگ روم میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے گئے تھے۔ اب جبکہ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی ہے تو پوری ٹیم وزیرِ اعظم سے ملنے پہنچی۔ سنہ 1983 میں جب انڈیا نے انگلینڈ میں پہلی بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو کپل دیو کی قیادت والی ٹیم اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے پہنچی تھی جہاں انھیں عشائیہ دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے کپتان روہت شرما سے پوچھا کہ انھوں نے بارباڈوس کے میدان کی گھاس کیوں چکھی تو روہت نے جواب دیا: ’جہاں ہمیں وہ فتح ملی، مجھے ہمیشہ اس لمحے کو یاد رکھنا تھا اور اس جیت کا مزہ چکھنا تھا کیونکہ ہم اس پچ پر کھیل کر جیتے تھے۔ ’ہمیں اس کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ کئی بار ورلڈ کپ ہمارے بہت قریب آیا، لیکن ہم اسے حاصل نہیں کرسکے۔ لیکن اس بار تمام لوگوں کی وجہ سے ہم ٹرافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ جو کچھ بھی ہوا وہ اسی پچ پر ہوا تھا اس لیے 'غیر ارادی طور پر یہ مجھ سے یہ ہوگیا۔' فائنل کے مین آف دی میچ قرار دیے جانے والے انڈیا کے مایہ ناز کھلاڑی وراٹ کوہلی نے کہا کہ یہ دن ہمیشہ ان کے ذہن میں رہے گا کیونکہ اس پورے ٹورنامنٹ میں وہ اپنا وہ حصہ نہیں ڈال سکے جو چاہتے تھے۔ فائنل سے قبل تک کوہلی نے پورے ٹورنامنٹ میں صرف 75 رنز بنائے تھے۔ کوہلی نے کہا: 'ایک وقت میں نے راہول (ڈراوڑ) بھائی سے بھی کہا کہ میں خود کے اور ٹیم کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں امید ہے کہ جب ضرورت ہو گی، تو تم ضرور اچھا پرفارم کرو گے۔' کوہلی نے کہا کہ فائنل مین 'جب شروع میں ہی تین وکٹیں گر گئیں تو مجھے لگا کہ مجھے اس زون میں ڈال دیا گیا ہے اور میں نے اسی کے مطابق کھیلنا شروع کر دیا، بعد میں میں سمجھ گیا کہ جو چیز ہونی ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔ 'مجھے خوشی ہے کہ میں نے اتنے بڑے میچ میں ٹیم کے لیے اپنا کردار ادا کیا، میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس طرح سے ہم جیتے اور وہ پورا دن کیسے گزرا۔' کوہلی نے کہا کہ 'جب آپ کے اندر انا آ جاتی ہے تو کھیل آپ سے دور ہو جاتا ہے، اسے چھوڑنے کی ضرورت تھی، کھیل کی صورتحال ایسی بن گئی کہ میرے پاس انا کے لیے کوئی گنجائش نہیں بچی اور ٹیم کے لیے اسے پیچھے رکھنا پڑا۔ میں نے کھیل کا احترام کیا تو کھیل نے بھی مجھے عزت بخشی۔' مین آف دی ٹورنامنٹ قرار دیے جانے والے انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا سے جب وزیر اعظم نے پوچھا کہ اڈلی کھا کر بولنگ کرنے جاتے ہو تو انھوں نے کہا کہ ویسٹ انڈیز میں اڈلی کہاں ملتی ہے۔ بمرا نے ٹورنامنٹ میں کل 15 وکٹیں حاصل کیں۔ ٹورنامنٹ میں ایسے کئی مواقع آئے جب بمراہ نے میچ کا رخ بدلنے میں مدد کی۔ انھوں نے کہا کہ ’جب بھی میں انڈیا کے لیے بہت اہم وقت پر بولنگ کرتا ہوں یا جب بھی مشکل حالات میں مجھے بولنگ کرنی پڑتی ہے اور اگر میں ٹیم کی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں کئی ایسے مشکل حالات آئے جب مجھے ٹیم کے لیے بولنگ کرنی پڑی اور میں ٹیم کی مدد کرنے اور میچ جیتنے میں کامیاب رہا۔' ان کے علاوہ رشبھ پنت اور ہارڈک پانڈیا نے بھی اپنی انجری اور ٹرولنگ کے بارے میں بات کی۔ ٹی20 کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے آخری اوور میں سوریہ کمار یادیو نے ملر کا شاندار کیچ لے کر میچ کا رخ پوری طرح سے انڈیا کے حق میں موڑ دیا ورنہ وہ چھکا ہی تھا۔ سوریہ کمار کا یہ کیچ بھی انڈیا کے چیمپئن بننے کی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کیچ پر سوریہ کمار نے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیچ پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤں گا لیکن میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں گیند کو اندر دھکیل دوں گا۔ سوریہ کمار نے کہا کہ ایک بار جب گیند میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے اسے روہت بھائی کی طرف پھیکنے کا سوچا لیکن وہ بہت دور تھے۔ پھر میں نے اندر پھینکا اور واپس آکر کیچ پکڑ لیا۔ سوریہ کمار نے بتایا کہ انھوں نے ایسے کیچ پکڑنے کی کافی مشق کی تھی۔ راہل ڈراوڑ نے بتایا کہ سوریہ نے مشق کے دوران اس طرح کی 150-160 کیچز پکڑے تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ محمد سراج نے شروع کے صرف تین میچز کھیلے جبکہ تین ایسے کھلاڑی تھے جنھیں ایک بھی میچ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن ان کا جوش کبھی بھی کم نہیں ہوا اور بالآخر ایک تاریخی فتح انڈیا کے حصے میں آئی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crge7zxyzjdo
انسانی سمگلنگ، امید اور محبت کی کہانی: ’سپین کی فراری‘ کہلائے جانے والے نیکو ولیمز فٹ بال سٹار کیسے بنے
’اٹلی کے خلاف دو فراری۔۔۔‘ اٹلی کی ٹیم کو سپین نے یورو کپ میں شکست دی تو ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے اخبار میں یہ شہ سرخی لگی۔ اس خبر کے ساتھ دو کھلاڑیوں کی تصویر تھی۔ یہ نیکو ولیمز اور لمائن یمل ہیں اور یہ شہ سرخی ان کی فراری گاڑی جیسی برق رفتاری کا اعتراف تھا۔ ولیمز اور لمائن یمل کی کہانی کچھ ایک جیسی ہے۔ ولیمز رواں سال 12 جولائی کو 22 سال کے ہو رہے ہیں جبکہ یامل اس کے ایک دن بعد اور یورو کپ فائنل سے ایک دن پہلے 17 سال کے ہو جائیں گے۔ ان دونوں فٹ بال کھلاڑیوں، جو بطور ونگرز سپین کی ٹیم میں کھیلتے ہیں، کی جوڑی نے ایک بار پھر سب کو اس وقت متاثر کیا جب انھوں نے سپین کو جارجیا کے خلاف ایک گول کے مقابلے میں چار گول سے کامیابی دلائی جس کے بعد ان کا کوارٹر فائنل جرمنی کے خلاف طے پایا۔ ولیمز نے جارجیا کے خلاف ٹورنامنٹ کا اپنا پہلا گول سکور کیا اور وہ بھی اس وقت جب سپین ایک گول سے پیچھے تھا۔ یہ ان کی ایک شاندار انفرادی کوشش تھی جبکہ یامل ایک بار پھر دوسرے ونگ پر اپنے بہترین کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سنہ 1980 کے بعد ولیمز یورو کپ میں ایسے کھلاڑی بن گئے ہیں جنھوں نے نہ صرف ایک گول سکور کیا بلکہ ایک اور گول سکور کرنے میں مدد کیا اور پورے کھیل کے دوران انھوں نے اپنے 100 فیصد پاسز مکمل کرنے کا ریکارڈ بنایا جبکہ یمل نے جارجیا کے خلاف گول کرنے کے چھ مواقع پیدا کیے جو کہ 21 سال سے کم عمر کے کسی کھلاڑی کی جانب سے ناک آوٹ مقابلوں میں بنائے گئے سب سے زیادہ چانسز تھے۔ یہ دونوں کھلاڑی گہرے دوست بن چکے ہیں۔ ولیمز نوجوان یمل کی اسی طرح دیکھ بھال کر رہے ہیں جیسا کہ ان کے بڑے بھائی اِناکی کبھی ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے جو خود بھی فٹ بال کھیلتے ہیں۔ سپین کے ایتھلیٹک کلب کے لیے کھیلنے والے ولیمز برادران جہاں ٹیم میں ساتھی ہیں وہیں وہ سپین میں امتیازی سلوک کے خلاف جنگ کا بھی چہرہ بن گئے ہیں کیونکہ ہسپانوی معاشرے کے بعض حصوں میں نسل پرستی اب بھی موجود ہے۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے نیکو نے مارسا اخبار کی ایک سرخی پر سامنے آنے والے نسل پرستانہ سوشل میڈیا ردعمل کے خلاف بات کی اور ہسپانوی فٹبال فیڈریشن نے ان کی حمایت کی۔ ولیمز برادران اس بات سے واقف ہیں کہ فٹبال کتنا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ وہ نسل پرستی کی مذمت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کے الفاظ کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ نیکو اور اناکی کی سپین میں کس طرح پیدائش اور پرورش ہوئی؟ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو سنانے کے لائق ہے کیونکہ یہ انسانی سمگلنگ، امید، ترک وطن اور محبت کی کہانی ہے۔ بچپن میں اناکی ولیمز کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر ان کے والد کو ان کے پیروں کے بارے میں پریشانی کیوں تھی۔ جب وہ 18 سال کے ہوئے اور ایتھلیٹک کلب کی جانب سے کھیلنے لگے تو ان کی ماں ماریا نے انھیں بتایا کہ کس طرح وہ اور ان کے والد صحرائے صحارا کی جلتی ریت سے پیدل گزرے تھے۔ ماریہ اس وقت حاملہ تھیں اور انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا آبائی ملک گھانا چھوڑ دیا تھا۔ انھوں نے افریقی ملک سے یورپ کا زیادہ تر سفر پیدل تمام کیا۔ وہ اصل میں برطانیہ کے لیے نکلے تھے لیکن پھر آدھے راستے میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے کیونکہ ایک گینگ نے ان کی ساری جمع پونجی ان سے ہتھیا لی تھی۔ انھیں شمالی افریقہ میں واقع ہسپانوی انکلیو میں گرفتار کر لیا گیا جہاں سپین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے انھیں ایک وکیل نے مشورہ دیا کہ وہ گھانا کے بجائے اپنا وطن جنگ زدہ لائبیریا بتائیں۔ اس وکیل نے انھیں ایک کیتھولک پادری اناکی مارڈونیس سے ملوایا جنھوں نے اس جوڑے کو بلباؤ میں سرکاری رہائش گاہ دلانے میں مدد کی اور انھیں ہسپتال پہنچایا جہاں اناکی کی پیدائش ہوئی۔ پادری کی خدمات کے اعتراف میں اس جوڑے نے اپنے نوزائیدہ بچے کا نام ان کے ہی نام پر رکھا اور پادری اس بچے کے گاڈ فادر بھی بنے اور انھوں اس بچے کو جو پہلا تحفہ دیا وہ اس کی پہلی سرخ اور سفید دھاری والی ایتھلیٹک فٹبال کلب کی جرسی تھی۔ نیکو نے بعد میں کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ ہم سب یہاں اکٹھے ہیں اور واقعی اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے والدین اپنے بیٹوں کو پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں، جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اپنے والدین کے لیے کرتے ہیں۔‘ ’انھوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالی تاکہ ہم سب کا، میرے بھائی اور ہمارا مستقبل بہتر ہو۔ اور انھوں نے یہ کامیابی حاصل کی۔‘ ’میں ہمیشہ اس بات کا شکرگزار رہوں گا جو میرے والد اور میری والدہ نے ہمارے لیے کیا۔ وہ جنگجو ہیں، انھوں نے ہمیں عزت کرنے، ہر روز محنت کرنے کی تعلیم دی اور یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو ہر کوئی آپ کو نہیں دیتا۔‘ ’سچ یہ ہے کہ مجھے انھیں اپنے والدین کے طور پر پانے پر بہت فخر ہے، اور میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں تاکہ انھیں میرے جیسا بیٹا ہونے پر فخر ہو۔‘ ولیمز خاندان کے لیے زندگی آسان نہیں تھی۔ وہ سپین میں 150 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب پامپلونا چلے گئے اور نکولس ولیمز آرتھر 12 جولائی سنہ 2002 کو اسی جگہ پر پیدا ہوئے۔ جب نیکو کے والد کو ایسا کام نہیں ملا جس پر ان کا گزر بسر ہو سکے تو زیادہ آمدنی کے لیے لندن چلے گئے جہاں سے وہ اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجتے تھے۔ انھوں نے چیلسی کے ایک شاپنگ سینٹر کے فوڈ ہال میں میزیں صاف کرنے کا کام کیا اور سکیورٹی گارڈ کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ 10 سال تک اپنے بچوں سے دور رہے لیکن اب وہ واپس آگئے ہیں۔ لیکن اس دوران نیکو کے لیے اناکی باپ کی طرح بن گیا کیونکہ ان کی والدہ اپنے خاندان کو سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں میں بعض اوقات بیک وقت تین تین ملازمتیں کر رہی تھیں۔ اب جب وہ اپنی ماں کے ہاں دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے ہیں تو ان کی ماں انھیں میز صاف کرنے، برتن دھونے کی یاد دلاتی ہیں اور اگر وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو انھیں باہر کا راستہ دکھاتی ہیں یعنی ان کے والدین کی طرف سے انھیں مسلسل تعلیم دی جا رہی ہے۔ اناکی نے اپنے والدین کے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گھانا کی جانب سے کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے وہ نیکو کو سپین کے لیے کھیلتا ہوا دیکھیں گے۔ نیکو نے کہا کہ ’میرے لیے وہ ایک مثال ہیں، وہ میرے لیے سب کچھ ہیں۔ انھوں نے والدین کی اور ہماری مدد کی ہے تاکہ ہم کھا سکیں، تاکہ میں سکول جا سکوں، تاکہ میں کپڑے پہن سکوں۔‘ ’وہ میری غلطیوں کو سدھارتے ہیں، مجھے نصیحت کرتے ہیں، انھوں ہمیشہ یہ سب کیا ہے لیکن ہم میں بہت ہم آہنگی ہے۔ وہ میرا بھائی ہے، لیکن وہ کبھی کبھی باپ کی طرح پیش آتا ہے۔‘ 28 اپریل سنہ 2021 کو یہ دونوں بھائی متبادل کے طور پر ایتھلیٹک کے لیے میدان میں اترے اور انھوں نے ریئل ویلاڈولڈ کے خلاف 2-2 سے میچ ڈرا کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس طرح وہ 1986 کے بعد کلب کے لیے ایک ساتھ کھیلنے والے پہلے دو بھائی بنے۔ اس کے بعد وہ فوری طور پر اپنی ماں سے ملنے گئے کیونکہ شائقین کو کووڈ وبا کی وجہ سے سٹیڈیم سے دور رکھا گیا تھا۔ بہر حال نیکو کو قومی ٹیم میں ایک نیا ساتھی مل گیا ہے اور یمل کے روپ میں انھیں ایک 16 سالہ دوست ملا ہے جس کے ساتھ انھیں گہرا تعلق ہو گیا ہے۔ اس جوڑی کی ساتھ ساتھ رقص کرنے کی آن لائن تصاویر وائرل بھی ہوئی جس میں غالبا وہ گول کا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اٹلی کے خلاف سپین کی جیت کے بعد نیکو نے مذاق میں کہا کہ ’میں نے اسے (یمل) پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اسے 'اپنے باپ' یعنی مجھ سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے!' ان کی دوستی اس وقت شروع ہوئی جب مارچ میں میڈرڈ کے لاس روزاس میں سپینش فیڈریشن میں ان کی ملاقات ہوئی۔ کولمبیا اور برازیل کے خلاف سپین کے دوستانہ ميچ سے قبل نیکو سے کہا گیا تھا کہ وہ نوجوان یمل پر گہری نظر رکھے۔ فیڈریشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’وہ اس کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔ لمائن، نیکو کی ہر چیز کو کاپی کرتا ہے۔‘ ’نیکو بیدار ہوتا ہے، تیار ہوتا ہے اور لمائن کی تلاش میں جاتا ہے۔ وہ بارکا کے کھلاڑی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے: 'چلو، ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘ گذشتہ ستمبر میں جارجیا کے خلاف یورپی چیمپیئن شپ کے کوالیفائر میچ میں نیکو اور یمل کو لایا گیا تھا۔ اس کے بعد سپین کے منیجر لوئس ڈی لا فوینٹے نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ تیز رفتار اور بظاہر ناقابل تسخیر نیکو دائیں پاؤں سے کھیلنے والے ونگر ہیں جو دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے کھیل سکتے ہیں۔وہ سینٹرل پوزیشن سے بھی کھیل سکتے ہیں۔ ایتھلیٹک کے سابق ہیڈ کوچ گیزکا گیریٹانو کا کہنا ہے کہ ’اسے کھیلتے ہوئے دیکھنا ناقابل یقین تھا۔ وہ بہت تیز رفتار، ناقابل یقین رفتار کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اپنے بڑے بھائی سے بھی زیادہ ہنر مند ہے۔‘ کروشیا کے خلاف سپین کے یورو 2024 کے افتتاحی میچ میں مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے ولیمز کو ڈراپ ہونے کا خدشہ ہونے لگا تھا۔ اور اسی وجہ سے انھوں نے اٹلی کے خلاف بہتر کھیل پیش کرنے کا عزم کیا اور یہ کر دکھایا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے میچ سے قبل ہی عملے سے کہ دیا تھا کہ ’میں اچھا نہیں کھیلا، لیکن میں اگلے میچ میں اپنا سب کچھ دینے جا رہا ہوں۔‘ انھوں نے سپین کے لیے اب تک 17 میچز کھیلے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کلبوں کی طرف سے انھیں بلاوے کا وقت قریب ہے۔ دسمبر میں نیکو نے ایتھلیٹک کلب کے ساتھ معاہدے کی توسیع پر دستخط کیا ہے جس کے بعد اب وہ 30 جون سنہ 2027 تک وہاں رہ سکتے ہیں۔ ان کی ریلیز کی شرط تقریباً 49 ملین پاؤنڈ ہے جس کی وجہ سے چیلسی نیکو میں اپنی دلچسپی کے باوجود انھیں لینے سے قاصر رہا جبکہ بارسلونا نے بھی ان پر بولی نہ لگانے کو بہتر سمجھا۔ نیکو نے حال ہی میں خود ہی کہا ہے کہ وہ ’ایتھلیٹک میں خوش‘ ہیں۔ بہر حال اس وقت وہ سپین کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے یہ وہ ملک ہے جس کی جرسی وہ فخر کے ساتھ پہن رہے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51y4zv228eo
’شاید ورلڈ کپ جیتنا وطن واپسی سے زیادہ آسان تھا‘: طوفان میں پھنسی انڈین کرکٹ ٹیم آخر کار نئی دہلی پہنچ گئی
ٹیم انڈیا نے سنیچر کو جنوبی افریقی ٹیم کے خلاف ایک سنسنی خیز مقابلے میں ٹی20 کا ورلڈ کپ جیت لیا تھا لیکن ورلڈ چیمپیئن بننے والے کرکٹرز کی جھلک دیکھنے کے لیے انڈیا میں موجود فینز کو پانچ دن کا طویل انتظار کرنا پڑا۔ پانچ دن کی تاخیر کے بعد بالآخر انڈیا کی کرکٹ ٹیم جمعرات کو اپنے ملک واپس پہنچ گئی ہے جہاں ان کے پرستاروں نے ان کا نئی دہلی ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم نے تو اتوار کے روز ہی بارباڈوس کی سرزمین چھوڑ دی تھی اور ان کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ میں شامل امپائرز اور کمینٹیٹرز بھی اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے لیکن طوفان کے باعث انڈین ٹیم کی پرواز منسوخ کر دی گئی تھی۔ ایک سپورٹس صحافی نے لکھا تھا کہ شاید کپ جیتنا وطن واپسی سے زیادہ آسان تھا کیونکہ تاخیر پر تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ ٹی20 ورلڈ چیمپیئن بننے والی ٹیم کے انڈیا پہنچنے میں تاخیر کے سبب ملک میں لوگوں میں بے چینی پائی جا رہی تھی، لیکن بالآخر انڈین کرکٹرز نے اپنے ملک واپس پہنچ کر ان کی بے چینی کو ختم کردیا۔ منگل کے روز بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے ٹیم کی واپسی میں تاخیر کا سبب بتاتے ہوئے کہا تھا کہ تین دن سے بارباڈوس میں طوفان کی وجہ سے پھنسی ٹیم کو بدھ کی شام دہلی پہنچنا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ایئر انڈیا کی ایک خصوصی چارٹرڈ پرواز اے آئی سی 24 ڈبلیو سی یعنی ایئر انڈیا چیمپیئنز 24 ورلڈ کپ فاتح انڈین سکواڈ، ٹیم کے معاون عملے، کھلاڑیوں کے اہلخانہ، بورڈ کے کچھ عہدیداروں اور میڈیا کے نمائندوں کو بارباڈوس سے واپس انڈیا لائی۔ بارباڈوس میں پھنسے کھلاڑیوں میں وہ کرکٹرز بھی شامل تھے جنھیں زمبابوے کے خلاف کرکٹ سیریز میں شرکت کرنی ہے۔ ان کھلاڑیوں میں سنجو سیمسن، یشسوی جیسوال، رنکو سنگھ اور خلیل احمد شامل تھے۔ انڈیا پہنچنے کے بعد یہ چاروں کھلاڑی اب جمعرات کی شام ہی دہلی سے ہرارے کے لیے فلائٹ لیں گے، جہاں شبھمن گل اور ان کے ساتھی پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور ان کے منتظر ہیں کیونکہ ان کے میچز 6 جولائی سے شروع ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس تاخیر کی وجہ سے یہ کھلاڑی بظاہر ابتدائی میچز نہیں کھیل سکیں گے۔ ٹیم انڈیا کی واپسی کے بعد فینز کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور ان کی جانب سے ورلڈ چیمپیئن بننے والے کھلاڑیوں کے بھرپور استقبال کی تیاریاں بھی جا رہی ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سنیچر کے روز ٹیم انڈیا نے میچ جیتنے کے بعد ٹرافی لینے، فوٹو گرافی اور انٹرویوز دینے میں کوئی چار گھنٹے میدان میں ہی گزارے۔ سمندری طوفان کے بعد ان کا پروگرام منگل کو ایک چارٹرڈ طیارے سے پرواز کا تھا اور بدھ کی شام انھیں دارالحکومت دہلی پہنچنا تھا۔ رات کو ٹیم کا قیام ہوٹل میں تھا اور پھر صبح کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات متوقع تھی کیونکہ گذشتہ سال 19 نومبر کو جب ٹیم انڈیا احمدآباد کے مودی سٹیڈیم میں آسٹریلیا کے ہاتھوں ون ڈے ورلڈ کپ میں شکست سے دو چار ہوئی تھی تو وزیر اعظم مودی انھیں ڈھارس دینے کے لیے ڈریسنگ روم میں گئے تھے۔ کھیلوں کے صحافی ومل کمار نے برج ٹاؤن سے بتایا کہ سوموار کی رات ٹیم انڈیا کے لیے خصوصی ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تمام کھلاڑیوں نے اپنے خاندانوں کے ساتھ شرکت کی اور انھوں نے بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کیے۔ انھوں نے بتایا کہ اس دوران ورات کوہلی سب سے زیادہ خوش نظر آ رہے تھے اور ان سے ملاقات کے دوران وہ کافی دیر تک مزاحیہ انداز میں ان سے باتیں کرتے رہے۔ ’ایسا لگتا ہے جیسے کوہلی پر سے پتھر جیسا وزن اٹھا لیا گیا ہو۔‘ انھوں نے بتایا کہ روہت شرما کوہلی کی طرح خوش نظر نہیں آ رہے تھے اور شاید اس کی وجہ اطمینان بھی ہو اور دوسرے خوابوں کو پورا کرنے کا خیال بھی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’روہت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے اگلے مشن کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے۔‘ اس سے قبل اتوار کو کوچ ڈراوڑ، کپتان روہت شرما اور سوریہ کمار یادو کے ساتھ کلدیپ یادو نے کئی گھنٹے ساحل پر گزارے۔ ومل کمار نے ایکس پر لکھا کہ ’شاید ورلڈ کپ جیتنا وطن واپسی سے زیادہ آسان تھا۔ اس وقت تک ٹیم کو دہلی کے لیے چارٹرڈ فلائٹ میں ہونا تھا لیکن اس میں مزید تاخیر ہوئی۔ اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کھلاڑی اپنے اہلخانہ کے ساتھ ہیں اور بارباڈوس اور ٹیم ہوٹل معیاری وقت گزارنے کے لیے بہترین جگہوں میں سے ایک ہے۔‘ انڈین ٹیم کی آمد میں تاخیر پر شوسل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مفددل ووہرا نے ایکس پر لکھا کہ ’ٹیم انڈیا کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد وہ کھلی جیپ میں ممبئی میں ٹرافی لے کر نکلیں گے۔‘ بہت سے صحافیوں نے بی سی سی آئی سیکریٹری جے شاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے بارباڈوس میں پھنسے انڈین صحافیوں کو بھی چارٹرڈ طیارے میں جگہ دی۔ صحافی تپس بھٹاچاریہ نے لکھا کہ ’آپ کا بہت بہت شکریہ بی سی سی آئی اور جے شاہ۔ سمندری طوفان میں پھنسے صحافیوں کے لیے بارباڈوس سے دہلی کے لیے خصوصی پرواز کا انتظام کرنے کے لیے آپ کا ایک ٹن شکریہ۔‘ ان کے جواب میں کئی صارفین نے لکھا کہ پورا ملک آپ لوگوں کے استقبال کا منتظر ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4y15wyk0no
روہت، وراٹ اور جڈیجہ کے بعد ٹی ٹوئنٹی میں انڈیا کا نیا کپتان کون ہو گا؟
انڈین کرکٹ ٹیم نے 17 سال بعد آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو دوبارہ اپنے نام کیا ہے۔ لیکن اس جیت کے چند ہی گھنٹوں میں ٹیم انڈیا کی تصویر بدل گئی ہے۔ درحقیقت ٹیم کے تین سینیئر کھلاڑیوں نے کرکٹ کی مختصر ترین فارمیٹ کو الوداع کہہ دیا ہے۔ ان میں وراٹ کوہلی کے ساتھ کپتان روہت شرما اور آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ شامل ہیں۔ ان تینوں لیجنڈری کھلاڑیوں نے گذشتہ کئی برسوں میں ٹیم انڈیا کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ بی سی سی آئی کے لیے ان کی جگہ پُر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جہاں روہت شرما 2007 یعنی 17 سال سے ٹیم کا لازمی حصہ ہیں وہیں وراٹ کوہلی نے 14 سال تک کرکٹ کی مختصر ترین فارمیٹ میں ملک کی نمائندگی کی ہے اور سب سے زیادہ مستقل رنز سکور کیے ہیں جبکہ رویندر جڈیجہ نے 15 سال تک ملک کی نمائندگی کی ہے۔ روہت شرما اور وراٹ کوہلی ٹاپ آرڈر کے بیٹسمین ہیں اس لیے ان کی جگہ شبھمن گل، یشسوی جیسوال اور رتوراج گائیکواڑ میں سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ شبھمن گل، ہاردک پانڈیا اور رشبھ پنت کے درمیان بطور کپتان دلچسپ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ ہم اس پر آگے بات کریں گے۔ پہلے گذشتہ چند دن جو انڈین کرکٹ کے لیے انتہائی ڈرامائی رہے ہیں ان پر بات کرتے ہیں۔ سنیچر کی شب انڈین کرکٹ کے لیے ایک یادگار تاریخ بن گئی۔ ٹیم انڈیا نے بارباڈوس کے میدان پر 13 سال بعد کوئی ورلڈ چیمپئن شپ جیتی اور 17 سال بعد ٹی ٹوئنٹی T20 ورلڈ چیمپئن بنی۔ 37 سالہ تجربہ کار بلے باز وراٹ کوہلی نے اس تاریخی فتح کے چند ہی منٹوں کے اندر براڈکاسٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا انڈیا کے لیے آخری ٹی ٹوئنٹی میچ تھا۔ ’میں اپنا بہترین دینا چاہتا تھا۔ ہمارا مقصد ورلڈ کپ جیتنا تھا۔ ہم کپ اٹھانا چاہتے تھے۔ اگر ہم ہار جاتے تو بھی میرا فیصلہ وہی ہوتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگلی نسل باگ ڈور سنبھالے۔‘ کوہلی کی کارکردگی پورے ٹورنامنٹ میں کوئی خاص نہیں رہی۔ وہ فائنل سے قبل کی سات اننگز میں صرف 75 رنز ہی بنا پائے تھے۔ شاید انھوں نے فائنل کے لیے اپنی بہترین پرفارمنس بچا رکھی تھی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف فائنل میں کوہلی نے 59 گیندوں میں 76 رنز بنا کر بھارت کو مشکل سے بچایا اور جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اس کے کچھ دیر بعد کپتان روہت شرما نے بھی پریس کانفرنس میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ انھوں نے کہا: ’یہ میرا بھی آخری میچ تھا۔ اس فارمیٹ کو الوداع کہنے کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ مجھے اس کا ہر پل پسند آیا۔ میں نے اپنے کریئر کا آغاز اسی فارمیٹ میں کھیل کر کیا تھا۔ میں کپ جیتنا چاہتا تھا اور شکریہ کہنا چاہتا تھا۔‘ پورے ٹورنامنٹ میں روہت نے قیادت کرتے ہوئے اپنی ٹیم کے لیے ایک مثال قائم کی۔ کوہلی نے زیادہ تر ٹورنامنٹ میں فارم کے لیے جدوجہد کی، جبکہ روہت شرما 156 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے 257 رنز کے ساتھ دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی رہے۔ روہت نے سپر ایٹ میں آسٹریلیا اور سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف نصف سنچریاں بنائیں۔ اس تاریخی فتح کے اگلے روز آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ نے بھی وراٹ کوہلی اور روہت شرما کی طرح کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ میں مزید نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ 35 سالہ جڈیجہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’شکر گزار دل کے ساتھ میں ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ کو الوداع کہتا ہوں۔ میں نے ثابت قدم رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے ملک کے لیے اپنا بہترین دیا ہے اور دوسرے فارمیٹس میں بھی ایسا کرتا رہوں گا۔‘ تاہم اس ورلڈ کپ میں رویندر جڈیجہ کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔ 37 سالہ روہت شرما ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز کے طور پر رخصت ہو رہے ہیں۔ روہت نے 159 میچوں میں پانچ سنچریوں کی مدد سے 4231 رنز بنائے۔ ان کی اوسط 32.05 تھی اور سٹرائیک ریٹ 140.89 رہا۔ 2007 میں انڈیا نے مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں پہلا ٹی-20 ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس کے بعد روہت شرما نے اپنے ٹی 20 کریئر کا آغاز کیا اور عالمی چیمپئن کے طور پر اپنے کریئر کا خاتمہ بھی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سے روہت شرما ہر ٹی 20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں کھیل چکے ہیں۔ ان کے علاوہ صرف ایک اور کھلاڑی نے اب تک تمام ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کی ہے اور وہ بنگلہ دیش کے شکیب الحسن ہیں۔ وراٹ کوہلی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی کے طور پر اس فارمیٹ کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ کوہلی نے ورلڈ کپ کے کل 35 میچوں میں 58.72 کی اوسط اور 128.81 کے سٹرائیک ریٹ سے 1292 رنز بنائے ہیں۔ کوہلی نے انڈیا کے لیے 125 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے۔ 48.69 کی اوسط اور 137.04 کے سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے 4188 رنز بنائے۔ کوہلی اس فارمیٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں روہت شرما کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ کوہلی نے ایک سنچری اور 38 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ کوہلی نے اپنے ٹی ٹوئنٹی کریئر کا آغاز 2010 میں زمبابوے کے خلاف کیا تھا۔ وہ اس فارمیٹ میں تیز ترین 3500 رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ جبکہ 36 سالہ رویندر جڈیجہ اس ورلڈ کپ میں نہیں کھیلے لیکن سنہ 2009 میں سری لنکا کے خلاف اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے جڈیجہ نے 74 میچوں میں 127.16 کے سٹرائیک ریٹ سے 515 رنز بنائے اور 7.13 شرح سے کفایتی بولنگ کرتے ہوئے 54 وکٹیں لیں۔ وراٹ کوہلی اور روہت شرما انڈین کرکٹ کے بہت کامیاب کپتان رہے ہیں۔ روہت شرما نے 62 میچوں میں انڈیا کی کپتانی کی اور 49 جیتے اور ان کی قیادت میں ٹیم کو صرف 12 میچوں میں شکست ہوئی۔ کوہلی نے 50 میچوں میں کپتانی کی۔ ان کی قیادت میں ٹیم نے 30 جیتے جب کہ 16 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جگہ کون لے گا اور کس میں اس قسم کی صلاحیتیں ہیں؟ کئی سیریز میں ٹیم کی قیادت کرنے اور ورلڈ کپ میں روہت کے نائب کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ہاردک پانڈیا کپتان کے لیے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔ جہاں رشبھ پنت نے خود کو آئی پی ایل میں ایک ٹھوس آپشن کے طور پر ثابت کیا ہے، وہیں ٹیم مینجمنٹ نے زمبابوے کے خلاف آئندہ سیریز میں ٹیم کی قیادت کے لیے شبمن گل کا انتخاب کیا ہے۔ روہت شرما اور وراٹ کوہلی نے اس ورلڈ کپ کے ہر میچ میں اننگز کا آغاز کیا۔ شبھمن گل، یشسوی جیسوال اور رتوراج گائیکواڈ ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ گذشتہ ون ڈے ورلڈ کپ میں شبھمن گل نے روہت شرما کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا تھا۔ گل ٹاپ آرڈر میں ایک بہترین آپشن ہیں۔ 24 سالہ گل تکنیکی طور پر بہت قابل کھلاڑی ہیں جو بہترین بیک فٹ کے ساتھ گیپس میں شاٹس مارنے میں ماہر ہیں۔ ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ بھی ہے۔ زمبابوے کا دورہ ان کے لیے بیٹنگ اور کپتانی دونوں میں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا موقع ہے۔ انھیں کپتانی سونپ کر سلیکٹرز نے طویل مدتی پلان میں ایک آپشن کے طور پر انھیں شامل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ وریندر سہواگ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ پانڈیا کی جگہ گل کو کپتانی سونپیں گے۔ پچھلے ایک سال میں اس باصلاحیت بلے باز نے بطور اوپننگ بلے باز اپنی جگہ بنائی ہے۔ بائیں ہاتھ کے بیٹسمین جیسوال تیزی سے رنز بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے ویسٹ انڈیز سے لے کر جنوبی افریقہ تک مختلف کنڈیشنز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لیفٹ رائٹ کمبینیشن ہر ٹیم مینجمنٹ کی خواہش ہوتی ہے۔ اب تک انھوں نے صرف 16 بین الاقوامی اننگز کھیلی ہیں اور ایک سنچری بنائی ہے۔ ریتوراج گائیکواڈ اوپننگ بلے بازوں کی ریس میں شامل ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے یہ بلے باز گذشتہ چند سالوں سے ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ گائیکواڈ محتاط انداز میں اپنی اننگز کا آغاز کرتے ہیں لیکن ایک بار جب وہ کریز پر جم جاتے ہیں تو انھیں آؤٹ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ گائیکواڈ کے پاس زمبابوے کے دورے پر اپنی قابلیت ثابت کرنے کا موقع ہے۔ 2018 میں انڈر 19 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے رکن ابھیشیک شرما اپنے جارحانہ سٹروکس کے لیے مشہور ہیں۔ رواں سال آئی پی ایل میں انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آسٹریلیا کے ٹریوس ہیڈ کے ساتھ شراکت میں ابھیشیک نے سن رائزر حیدرآباد کے لیے ایک دھماکہ خیز آغاز کیا اور 16 میچوں میں 204.21 کے زبردست سٹرائیک ریٹ سے 484 رنز بنائے۔ کوہلی نے زیادہ تر نمبر تین پر بیٹنگ کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ جدید کرکٹ کے بہترین بلے باز کی خالی جگہ کو کس طرح بھرتے ہیں؟ کوہلی کی شکل میں انڈین کرکٹ ٹیم کو ایک سٹار بلے باز، ایک زبردست فیلڈر اور کرکٹ کا تجربہ کار ذہن ملا۔ ٹیم انتظامیہ کو اب ایسے کھلاڑی کو تلاش کرنا ہو گا جو تین نمبر والی اہم بیٹنگ پوزیشن پر اپنی جگہ بنا سکے۔ مندرجہ بالا چار آپشنز میں سے کوئی بھی نمبر تین پر بیٹنگ کے لیے آ سکتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c035g43r1yeo
وراٹ کوہلی اور روہت شرما کا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان: ’وہ اس شاندار الوداع کے مستحق ہیں‘
'یہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وراٹ بھائی، آپ نے اپنے جذبے، لگن اور غیر معمولی مہارت سے ٹی-20 کرکٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ آپ کی قیادت اور سپورٹس مین شپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے ساتھ کھیلنا اعزاز کی بات ہے۔‘ یہ انڈیا کے شاندار بولر محمد شامی کے وراٹ کوہلی کے لیے الفاظ ہیں۔ انھی کی طرح کے جذبات کا بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی اظہار کیا ہے۔ جیسے ہی انڈیا نے کئی برسوں کے انتظار کے بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا تو کپتان روہت شرما اور ’کنگ‘ وراٹ کوہلی نے اس فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کے نزدیک دونوں کا اپنے عروج پر الوداع کہنا ایک بہترین موقع تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈیا کے معروف یوٹیوبر دھرو راٹھی نے وراٹ کوہلی اور انڈین ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے لکھا: 'مجھے اب بھی یاد ہے کہ کس طرح وراٹ کوہلی نے 2008 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں انڈیا کو فتح دلائی تھی۔‘ 'آج کے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد ان کا ٹی-20 سے ریٹائرمنٹ کا اعلان واقعی ایک دور کا خاتمہ ہے۔ کیا شاندار کریئر رہا ہے۔' خیال رہے کہ اس کارکردگی کے بعد وراٹ کوہلی نے انڈین ٹیم میں جگہ بنائی اور پھر کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ گذشتہ رات باربیڈوس کے کنسنگٹن اوول میدان میں میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے انڈین کھلاڑی وراٹ کوہلی نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ پریزینٹر نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ابھی ایک اعلان کیا ہے تو کوہلی نے کہا کہ 'جی ہاں میں نے اعلان کیا اور یہ ایک کھلا راز تھا۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ اگر ہم ہار جاتے تو ہم اس کا اعلان نہیں کرتے۔ ’یہ میرا انڈیا کے لیے آخری ٹی 20 انٹرنیشنل تھا اور نئی نسل پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسے آگے لے جائیں اور پرچم کو بلند رکھیں۔' پریزینٹر نے کہا کہ سنہ 2011 میں آپ نے کہا تھا کہ سچن کو کندھے پر اٹھانا چاہیے کیونکہ انھوں نے اتنے عرصے سے انڈین ٹیم کا بھار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ تو کیا اب وہ مرحلہ ان کے لیے آ گیا ہے کہ انھیں کاندھے پر اٹھایا جائے۔ اس کے جواب میں انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ 'ایسا نہیں۔ یہ ہم لوگوں کی گذشتہ دو سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہم نے تو صرف چھ ورلڈ کپ ہی کھیلے ہیں۔ یہاں روہت جیسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے نو ورلڈ کپ کھیلے ہیں اس لیے یہ ٹیم میں کسی سے بھی زیادہ ان کا حق ہے۔' اور پھر تھوڑی دیر کے بعد انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما نے بھی ٹی 20 انٹرنیشنل کو الواع کہہ دیا اور یوں انڈین ٹی 20 کرکٹ میں ایک عہد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جہاں کوہلی کو ہر میچ میں ’100 فیصد‘ دینے پر یاد رکھا جائے گا وہیں روہت شرما کو ان کے 'ہٹ مین' کے خطاب کے لیے۔ روہت شرما نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے لیے ایک دائرہ پورے کرنے جیسا ہے۔ انھوں نے کہا: ’کسی نے ابھی مجھے بتایا کہ میں نے 2007 میں شروعات کی تھی اور ہم نے ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اب میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد الوداع کہہ رہا ہوں۔ ’جب میں نے 2007 میں انڈیا کے لیے کھیلنا شروع کیا تو اپنے پہلے دورے پر ایک روزہ میچ کے لیے آئرلینڈ گیا۔ لیکن پھر اس کے فوراً بعد ہم ٹی-20 ورلڈ کپ کے لیے جنوبی افریقہ گئے جہاں ہم نے ورلڈ کپ جیتا اور اب (دوبارہ) جیت حاصل کی ہے۔ اس طرح ایک پورا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔' انڈیا کے نائب کپتان ہاردک پانڈیا نے وراٹ کوہلی اور روہت شرما کے ریٹائرمنٹ پر کہا کہ ’میں روہت اور وراٹ دونوں کے لیے بہت خوش ہوں۔۔۔‘ امکان ہے کہ پانڈیا کو اب ٹیم کا کپتان مقرر کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انڈین کرکٹ کے دو بڑے کھلاڑی اور لیجنڈز اس شاندار الوداع کے مستحق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم سب ان کی کمی محسوس کریں گے لیکن یہ بہترین الوداع ہے جو ہم انھیں دے سکتے تھے۔‘ وراٹ کوہلی نے اپنے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز سنہ 2010 میں زمبابوے کے خلاف ہرارے میں کھیلے گئے میچ سے کیا۔ اس کے بعد سے وہ انڈیا کے سب سے زیادہ مستقل رنز سکور کرنے والے رہے ہیں۔ انھوں نے 125 میچز میں 48 کے اوسط سے 4188 رنز سکور کیے ہیں۔ انھوں نے 38 نصف سنچری اور ایک سنچری سکور کی ہے جو کہ سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ روہت شرما نے 159 میچز 32 کے اوسط سے 423 رنز بنائے ہیں جس میں پانچ سنچریاں اور 32 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ روہت شرما انٹرنیشنل ٹی20 میں سب سے زیادہ چھکے اور سب سے زیادہ سنچریاں لگانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے پیچھے پاکستان کے بابر اعظم ہیں جن کا موازنہ اکثر وراٹ کوہلی سے ہوتا ہے اور دونوں کو ان کے مداح کنگ اور لیجنڈ یا گوٹ یعنی گریٹ آف آل ٹائم جیسے القاب سے نوازتے رہتے ہیں۔ پاکستانی صارف سعد قیصر نے کوہلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: ’کنگ بابر اعظم؟ بھائی، صرف ایک ہی کنگ ہے، اور اس کا نام وراٹ کوہلی ہے۔ ’ایک آدمی تن تنہا ایک بادشاہ کی طرح اٹھا اور کھیلا۔ مبارک ہو انڈیا، اپنے لیجنڈ کا احترام کریں۔ کیا شاندار کھلاڑی ہے!‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 روہت شرما اور کوہلی نہ صرف انڈیا کے لیے ٹی 20 میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں بلکہ وہ ٹیسٹ اور ون ڈے میں بھی نمایاں رہے ہیں۔ اب ان کے مداح انھیں صرف ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل میں ہی دیکھ سکیں لیکن یہ بھی ان کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clmyl1044n5o
انجری کا وقفہ، بمرا کا شاندار اوور، سوریا کمار یادو کا عمدہ کیچ: انڈیا نے شکست کے دہانے سے فتح کیسے حاصل کی؟
1992 کے ورلڈ کپ کی بارش، 99 میں گبز کا ڈراپ کیچ اور پھر کلوزنر کی ناقابلِ یقین اننگز کے بعد اینل ڈونلڈ کا رن آؤٹ، 2003 میں پھر بارش اور سنہ 2015 کے ورلڈکپ میں گرانٹ ایلیئٹ کی عمدہ اننگز۔ یہ وہ تمام ڈراؤنے خواب ہیں جو جنوبی افریقہ کی کرکٹ کی تاریخ کو ’چوکرز‘ کے ٹیگ سے داغ دار کیے ہوئے تھے۔ تاریخ اور اس بدنما ٹیگ کا بوجھ اٹھائے جب جنوبی افریقہ کے اوپنرز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنلز کی تاریخ کے سب سے بڑے ہدف کا تعاقب کرنے میدان میں اترے تو ہر وکٹ جنوبی افریقہ کے اسی دردناک ماضی کی یاد دلا رہی تھی۔ اور اب اس سلسلے میں برج ٹاؤن کے ڈراؤنے خواب کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جنوبی افریقہ کو ایک موقع پر چار اوورز میں 26 رنز درکار تھے اور ان کے ہاتھ میں اب بھی چھ وکٹیں تھیں۔ دو تجربہ کار بیٹرز ہینرک کلاسن 52 اور ڈیوڈ ملر 15 رنز بنا کر موجود تھے جب انڈیا کے وکٹ کیپر رشبھ پنت نے فزیو کو گراؤنڈ میں بلا کر اپنی گھٹنے کی پٹی تبدیل کروانے کا فیصلہ کیا۔ یہ لمحہ میچ کو سلو کرنے، انڈیا کو اپنا منصوبہ ترتیب دینے اور بیٹرز کا ردھم توڑنے کا باعث بنا اور ہارڈک پانڈیا نے اپنے اوور کی پہلی ہی گیند پر وکٹ حاصل کر لی۔ یہاں سے جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کو زوال کا شکار ہونا تھا اور ماضی کی دردناک یادیں ایک ایک کر کے واپس آنے لگیں۔ اگلے ہی اوور میں بمرا نے صرف دو رنز دیے اور مارکو جینسن کو بولڈ کر کے انڈیا کی میچ میں واپسی یقینی بنائی۔ بمرا کے سپیل کی آخری گیند پر شاید مہاراج کو وہ سنگل نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ اس کے بعد ارشدیپ کے اوور کی پہلی دو گیندیں ڈاٹ بالز رہیں اور چوتھی گیند پر ملر کو سٹرائیک ملی جو اس اوور میں بھی کوئی باؤنڈری لگانے میں ناکام رہے۔ اس اوور میں صرف چار رنز بنے۔ یوں جب فائنل اوور شروع ہوا تو انڈیا نے آخری تین اوورز میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف 10 رنز دیے تھے۔ آخری اوور کی پہلی گیند پر ڈیوڈ ملر جن سے جنوبی افریقہ کی تمام امیدیں وابستہ تھیں نے ایک فل ٹاس کو مڈ آن باؤنڈری کے پار پہنچانے کی کوشش کی لیکن سوریا کمار یادو نے باؤنڈری لائن پر ایک عمدہ کیچ پکڑ کر انڈیا کی جیت کو یقینی بنا دیا۔ انڈیا اور جنوبی افریقہ دونوں کے لیے ہی یہ فائنل اس لیے بھی انتہائی اہم تھا کیونکہ جنوبی افریقہ آج تک کسی بھی فارمیٹ کی کرکٹ میں فائنل تک نہیں پہنچا تھا جبکہ انڈیا نے آخری بار ٹی20 ورلڈ کپ کی ٹرافی 2007 میں اٹھائی تھی اور 17 برس کے طویل انتظار کے بعد انڈیا آخر کار ایک بار پھر یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ انڈیا کے تجربہ کار کھلاڑیوں وراٹ کوہلی اور روہت شرما کا آخری ورلڈ کپ تھا اور اس فتح کے بعد دونوں ہی کے لیے اپنے کریئر کا اختتام ایک اور ٹائٹل کے ساتھ کرنے کا موقع ملا۔ روہت شرما سنہ 2007 کی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے والی انڈین ٹیم کا حصہ تھے جبکہ وراٹ کوہلی سنہ 2011 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے۔ باربیڈوس کے برج ٹاؤن میں انڈیا نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ تو کیا تاہم پاور پلے میں ہی انڈیا کی بیٹنگ لائن لڑکھڑا گئی لیکن اس کے باوجود اکشر پٹیل اور کوہلی کی شاندا اننگز کی بدولت انڈیا سات وکٹوں کے نقصان پر جنوبی افریقہ کو 177 رنز کا بڑا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تاریخ میں کسی بھی فائنل میچ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا ہدف تھا۔ اننگز کے آغاز میں 23 رنز کے مجموعی سکور پر انڈیا کی تین وکٹیں گر گئیں۔ سب سے پہلے کپتان روہت شرما صرف 9 رن بنا کر کیچ آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے رشبھ پنت نے صرف دو گیندیں کھیلیں اور بغیر کوئی رن بنائے کیچ آؤٹ ہوئے۔ انڈیا کو تیسرا نقصان اس وقت ہوا جب سوریا کمار یادو بھی صرف تین رن بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ اس کے بعد اوپنر کوہلی اور اکشر پٹیل نے مل کر انڈیا کا سکور 114 رنز تک پہنچایا۔ اس شراکت میں اکشر پٹیل کی جارحانہ اننگز انتہائی اہم تھی لیکن پھر ایک انتہائی اہم موقع پر وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کاک کی عمدہ تھرو کے باعث اکشر پٹیل31 گیندوں پر 47 رن بنا کر رن آؤٹ ہو گئے۔ انڈیا کے پانچویں آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کوہلی تھے، جو 76 رن بنا کر مارکو جینسن کی گیند پر ہٹ لگاتے ہوئے ربادا کو کیچ دے بیٹھے۔ اس کے بعد شوم دوبے نے 16 گیندوں پر 27 بنائے اور انڈین ٹیم کو سہارا دیا تاہم کوہلی کی طرح وہ کیچ آؤٹ ہو بھی کر پویلین لوٹ گئے۔ ان کے بعد آنے والے جڈیجہ انڈیا کے سکور میں صرف دو رن کا ہی اضافہ کر سکے اور اننگز کی آخری گیند پر ہٹ لگانے کی کوشش میں آؤٹ ہو گئے۔ جنوبی افریقہ کے بولر کیشو مہاراج اور ہینرک نورکیا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈیا کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین جہاں انڈیا کی تعریف کرتے ہوئے مبارکباد دیتے نظر آئے وہیں بہت سے لوگ جنوبی افریقہ پر تنقید کرتے بھی نظر آئے۔ ہارون نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’جنوبی افریقہ کو صرف خود جنوبی افریقہ ہی جیتنے سے روک سکتا ہے۔‘ کچھ لوگوں نے جنوبی افریقہ کی اس شکست کو بدقسمتی سے بھی جوڑا۔ فیصل خان نے لکھا کہ ’جنوبی افریقہ جیت کی مستحق تھی لیکن ایک بار پھر وہ بدقسمت ثابت ہوئے۔‘ دوسری جانب انڈیا کو مبارکباد دینے والے صارفین انڈین کپتان روہت شرما، 76 رنز بنانے والے اور ’مین آف دی میچ‘ ویرات کوہلی، آخری اوور میں شاندار بولنگ کرنے والے ہاردک پانڈیا اور ملر کا کیچ پکڑنے والے سوریا کمار یادو کی تصاویر شیئر کرتے رہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 صارف فرید خان نے لکھا ’ذرا غور کیجیے کہ کوہلی نے اپنی نصف سنچری کا جشن نہیں منایا کیونکہ ان کی ٹیم کو ان سے زیادہ کی ضرورت تھی۔ وہ وہاں (کریز) پر رہنا اور بڑا سکور بنانا چاہتے ہیں۔‘ کوہلی کے ایک اور فین نے لکھا ’آخر کار ہم نے اس ورلڈ کپ میں ویرات کی بہترین اننگز دیکھ لی۔‘ بہت سے صارفین نے میچ جیتنے کے بعد روہت شرما کی زمین پر لیٹے ہوئے ایک تصویر شیئر کرتے لکھا کہ اس لمحے نے سب کو رلا دیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd173vxy9wxo
کیا انڈیا کے عظیم بلے بازوں کو الوداع کہنے کا وقت آ گیا؟
2011 میں جب انڈیا کی کرکٹ ٹیم نے آخری بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو سب ہی جانتے تھے کہ یہ سچن ٹنڈولکر کا آخری موقع ہے۔ 39 سالہ سچن چھٹی بار ورلڈ کپ کھیل رہے تھے اور انڈین ٹیم کا غیر سرکاری نعرہ یہ تھا کہ ’سچن کے لیے کپ جیتو۔‘ کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے چھکا لگا کر میچ اور ورلڈ کپ جیتا تو وراٹ کوہلی، جو سچن کو کندھوں پر اٹھانے والوں میں شامل تھے، نے یادگار جملہ ادا کیا کہ ’انھوں نے ہماری بیٹنگ کا بوجھ کندھوں پر اتنا عرصہ اٹھائے رکھا تو اب وقت ہے کہ ہم ان کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں۔‘ کوہلی سچن کے قدرتی جانشین بھی بنے اور رواں سال 36 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کے عروج پر موجود ہیں۔ اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 میں ہو گا جبکہ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ 2027 میں۔ کوہلی سچن سے زیادہ فٹ ہیں لیکن انھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ اس درجے پر سفید بال کرکٹ زیادہ دیر کھیل پائیں گے۔ موجودہ کپتان روہت شرما بھی، جو خود 37 سال کے ہو چکے ہیں، شاید اپنا آخری ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں۔ تاہم اس بار انڈین ٹیم میں ایسی کوئی نعرہ بلند نہیں ہوا کہ ’چلو کوہلی کے لیے کر گزرو‘ یا ’روہت کے لیے کپ جیتو۔‘ ہاں اگر پہلے کے مقابلے میں اس بار یہ بات خفیہ طور پر کی گئی ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ شاید ’ڈریوڈ کے لیے کر گزرو‘ کا نعرہ بھی کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے۔ 2011 کا ورلڈ کپ ڈریوڈ نے نہیں کھیلا تھا جو اب ٹیم کے کوچ ہیں اور یہ ان کی آخری ذمہ داری ہو گی۔ ٹی ٹوئنٹی کا کھیل وقت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا کھیل بنتا جا رہا ہے جہاں ذاتی اعداد و شمار نہیں بلکہ اس بات پر زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اگلا چھکا کیسے لگایا جائے۔ انڈین کرکٹ میں یہ ایک بڑی ثقافتی تبدیلی ہے جو نظر انداز ہو رہی ہے کیوں کہ ماضی میں بہت سے نامور کھلاڑیوں کو یہ غیر صحت مند تشویش لاحق ہوتی تھی کہ ریکارڈ کی کتابوں میں، جہاں اعداد و شمار کسی پس منظر کے بغیر موجود ہوتے ہیں، وہ کیسے نظر آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف روہت شرما کی دھواں دار 92 رن کی اننگز ایک عندیہ ہے کہ نئی نسل کے لیے سٹرائیک ریٹ اوسط سے زیادہ اہم ہو چکا ہے، کم از کم ٹی ٹوئنٹی کی حد تک۔ جب سچن نے اپنی سویں سنچری سکور کی تھی تو اس وقت اس کا بہت چرچہ ہوا۔ لیکن انڈیا وہ میچ ہار گیا تھا۔ انڈیا کی وائٹ بال ٹیم تبدیلی عمل سے گزر رہی ہے خصوصا ٹی ٹوئنٹی میں۔ اس ٹیم کے 10 رکن 30 سال سے کم عمر ہیں اور صرف تین 35 سے زیادہ کی عمر کے ہیں۔ ادھر نظام دھڑا دھڑ ایسے بلے باز پیدا کر رہا ہے جو بہت پرعزم ہیں۔ شبھمن گل اگلے ماہ زمبابوے کے دورے پر انڈین ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت کریں گے جہاں ورلڈ کپ میں موقع نہ پانے والے یشسوی جسوال، ریان پراگ، ابھیشیک شرما، دھرو جریل، نتش کمار، روی بشنوئی کی شکل میں 25 سال سے کم عمر انڈیا کے مستقبل کی نمائندی ہو گی۔ رنکو سنگھ 25 سال سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔ ویسٹ انڈیز میں موجود تِم میں رویندر جدیجہ 35 سال سے زیادہ کے ہیں جبکہ سوریاکمار یادو 34 کے ہونے والے ہیں۔ عمر کے بجائے شاید فارم اور فٹنس کو اہم ہونا چاہیے۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی ایک مشکل فارمیٹ ہے جہاں تجربہ شاید ایک کھلاڑی کے حق میں ہر وقت کام نہیں آتا کیوں کہ حکمت عملی تیزی سے بدل رہی ہے اور ماضی کا فلسفہ کارگر نہیں رہا۔ جب کوہلی اور روہت شرما نے ٹی ٹوئنٹی میں نام کمانا شروع کیا تھا تو یہ ایک مختلف قسم کا فارمیٹ ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں نے جس طرح سوریا کمار یادو اور جسوال جیسے بلے بازوں کے ہم پلہ ہونے کا ثبوت دیا وہ ان کی خود کو بدلنے کی صلاحیت دکھاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی حالیہ ورلڈ کپ کے بعد میدان چھوڑ دیں کیوںکہ اگر انڈیا ورلڈ کپ جیت گیا تو اس سے زیادہ بلندی پر اور کچھ نہیں ہے اور شکست کی صورت میں ان پر دوسروں کے لیے راستہ چھوڑنے کا دباؤ ہو گا۔ کھیل ظالمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ گذشتہ سال جب انڈیا نے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کھائی تھی تو پورا ملک جیسے سوگ کی کیفیت میں چلا گیا تھا۔ کھلاڑیوں کے دل ٹوٹے، لیکن شاید کوہلی اور روہت سے زیادہ کسی کا دل نہیں دکھا کیوں کہ دونوں نے ٹورنامنٹ میں بہت اچھا کھیلا اور انڈیا فائنل تک ناقابل تسخیر رہا تھا۔ اور پھر وہ ناکام ہوئے اور دونوں میں سے کسی کو بھی کندھوں پر نہیں اٹھایا گیا۔ وہ دونوں ہی جانتے تھَ کہ ایسا موقع شاید پھر نہیں آئے گا۔ اسی لیے اس ورلڈ کپ میں ایک آخری موقع ہے کیوں کہ نہ جانے کیوں کیریئر ورلڈ کپ کے تاج بنا ادھورے تصور کیے جاتے ہیں چاہے فارمیٹ کوئی بھی ہو۔ فتح تبدیلی کے عمل کا خوش کن آغاز ہوتی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckvg54x7qyjo
’بٹلر کو پنچ لڑائی کے بعد یاد آیا‘: انگلینڈ کے کپتان کی وہ غلطیاں جنھوں نے انڈیا کو فائنل میں پہنچا دیا
اب بھلے جوز بٹلر ٹاس جیت کر بولنگ کے فیصلے کا لاکھ دفاع کرتے پھریں، یہ طے ہے کہ وہ بڑی کوتاہی برت گئے اور جو کنڈیشنز پہلے ہی انڈین سپنرز کے لیے سازگار تھیں، وہاں خود دوسری اننگز میں بیٹنگ کا فیصلہ کر بیٹھے۔ سات ماہ پہلے جب انڈیا میں بٹلر کی یہ ٹیم ون ڈے ورلڈ کپ میں زوال کی داستاں سنا کر بے دخل ہوئی تو مورگن کا اصرار تھا کہ ہیڈ کوچ میتھیو موٹ اور جوز بٹلر کو کریبئین میں اپنے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل کے دفاع کا موقع ملنا چاہیے۔ گو، دلیل تب بھی یہی تھی کہ انگلش کرکٹ پھر اسی غلطی کی راہ پر تھی جہاں سے اسے مورگن نے ہٹایا تھا۔ بین سٹوکس، معین علی اور عادل رشید کے بارے میں بحث یہی تھی کہ مورگن کے دور میں انگلش کرکٹ کی خوب سیوا کرنے والے یہ سینئر اب اپنا بہترین گزار چکے تھے۔ اگرچہ انگلینڈ کو ٹورنامنٹ سے بے دخلی کا پروانہ ملنے کو گیانا کے اس سیمی فائنل تک انتظار کرنا پڑا مگر جس طرح سے بٹلر کی اس ٹیم نے اپنی کمپین کے آغاز میں آسٹریلوی جارحیت کے سامنے حواس کھوئے، اس کا ناک آؤٹ ہو جانا وہیں طے ہو گیا تھا۔ گو، ٹرافی کے دفاع میں بٹلر سیمی فائنل تک رسائی کو بھی اپنی بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں مگر اس انگلش کمپین کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں فُل ممبرز سے نہ جیت پانے کی پرانی انگلش روایت پھر سے دیکھنے کو ملی۔ یہ انگلش کرکٹ کے لیے فکر کی بات ہے کہ جس اپروچ سے انھوں نے کرکٹ کے ہر فارمیٹ میں اپنی جارحانہ برانڈنگ کی تھی، اب وہ ماند پڑنے لگی ہے اور جو بے خوف کرکٹ اس انگلش کیمپ کا کلچر تھی، اب وہ بھی انگلینڈ سے زیادہ انڈیا کا خاصہ بنتا جا رہا ہے۔ نہ صرف یہاں بٹلر نے ٹاس جیت کر انڈین سپنرز کو دوسری اننگز میں بولنگ کی سنہری دعوت دے ڈالی بلکہ خود بھی ٹیم چنتے وقت یہ سجھانے سے قاصر رہ گئے کہ سپن دوستی کی شہرت رکھنے والی گیانا کی اس پچ پہ چار پیسرز بھلا کیا کریں گے۔ انگلش بولنگ بھی اپنی ٹیم سلیکشن ہی کی طرح جرات سے خالی دکھائی دی۔ جس دھیمے باؤنس کی پچ پر سٹمپس کے اندر لائن رکھنا ہی بنیادی ضرورت تھی، وہاں انگلش بولنگ جا بجا سر پٹخاتی نظر آئی۔ روہت شرما کے قدم حرکت میں آنے لگے تو انگلش اٹیک بالکل ہی لاجواب سا ہو گیا۔ تب تک بٹلر پر بھی کھل چکا تھا کہ یہاں پیسرز کے لیے عافیت نہیں ہے، مگر تب تک انڈین بیٹنگ پہلا مکا رسید کر چکی تھی اور عادل رشید بھی بے سود ثابت ہوئے۔ جہاں بٹلر کو ماہر سپنرز کی ضرورت تھی، وہاں وہ دستیاب محدود وسائل کے بھی درست استعمال میں ناکام رہے۔ یہ واضح ہو چکا تھا کہ یہاں سپن زیادہ موثر ہے مگر بٹلر نے اپنی الیون میں موجود دوسرے سپیشلسٹ آف سپنر معین علی کو استعمال تک نہ کیا۔ معاملہ فہمی کی اس کمی اور بے ہنگم بولنگ کے طفیل انڈین بیٹنگ کی جارحیت بالکل ہموار رہی اور وہ اس پچ کے متوقع مسابقتی مجموعے سے 20 رنز زیادہ بٹورنے میں کامیاب ہو گئی۔ انگلینڈ کے لیے آدھا میچ تو گویا وہیں ختم ہو گیا۔ اکشر پٹیل اور کلدیپ یادیو جیسے سپنرز کا سامنا کرنے کو یہ پچ آسان نہ تھی۔ یہاں انگلش بیٹنگ کے لیے بچاؤ کی محض ایک ہی سبیل تھی کہ بٹلر اپنا کنارہ سنبھالتے اور لمبی اننگز کھیل کر اپنے سٹریٹیجک فیصلوں کی قیمت چکاتے۔ لیکن انڈین سپنرز کے سامنے یہ سب آسان نہ تھا۔ روہت شرما کے فیصلے بھی بٹلر کے برعکس بہت سوچے سمجھے تھے۔ سوئنگ کی کمی دیکھتے ہوئے، وہ فورا سپنرز کو اٹیک میں لائے۔ سست پچ پر انڈین سپنرز انگلش بلے بازوں کا انہدام ثابت ہوئے۔ آئی سی سی ایونٹس میں انڈیا اور انگلینڈ کی رقابت خوب چلتی ہے۔ میچ سے پہلے انگلش کوچ میتھیو موٹ نے کہا تھا کہ یہ ایک دلچسپ مقابلہ ہو گا جہاں 40 اوورز تک دونوں ٹیمیں ایک دوسرے پر وار کریں گی۔ مگر انڈین ٹاپ آرڈر نے پاور پلے میں جو پہلا پنچ رسید کیا، اس کا کاؤنٹر پنچ لانا بٹلر کے بس کی بات نہ تھی جو ٹاس پر کیے غلط فیصلے اور خلجان آلود ٹیم سلیکشن کے اس قدر دباؤ میں آ چکے تھے کہ شرما کے قدم روکنا ان کے بس سے باہر ٹھہرا۔ بٹلر کو بھی اگرچہ اس لڑائی میں اپنا منطقی پنچ یاد آیا مگر تب تک میچ ختم ہو چکا تھا، انگلش ٹیم ٹائٹل کے دفاع کی دوڑ سے خارج ہو چکی تھی۔ تب پریس کانفرنس میں مائیک کے سامنے بیٹھے بٹلر کو خیال آیا کہ انڈین مڈل آرڈر کی جارحیت روکنے کے لیے معین علی سے بھی تو بولنگ کروائی جا سکتی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx72nee3077o
انڈیا ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں: ’انڈیا نے 2022 کے سیمی فائنل کا بہترین بدلہ لے لیا‘
آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو 68 رنز سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔ فائنل میں انڈیا کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہوگا۔ جمعرات کے روز گیانا میں کھیلے جانے والے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا نے مقررہ 20 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 171 رنز بنائے اور انگلینڈ کو جیتنے کے لیے 172 رنز کا ہدف دیا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان گیانا میں کھیلا گیا۔ بارش کی وجہ سے ٹاس تاخیر کا شکار ہوا۔ تاہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ہونے والا ٹاس انگلش ٹیم کے کپتان جوز بٹلر نے جیت کر انڈیا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ میچ کے آغاز سے ہی انڈیا کی ٹیم نے جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ ابھی 8 ہی اوورز کا میچ ہوا تھا کہ بارش کی وجہ سے میچ کو ایک مرتبہ پھر روکنا پڑا۔ جب میچ رُکا تو انڈیا کے 2 وکٹوں کے نقصان پر 65 رنز تھے۔ تاہم کُچھ ہی دیر کے بعد بارش کے رُک جانے پر پچ سے کوورز ہٹا دیے گیے اور میچ ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا۔ انگلینڈ کے خلاف انڈیا نے آغاز سے ہی تیز کھیلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُسے آغاز میں ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ویرات کوہلی اس بار بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے اور صرف 9 رنز بناکر بولڈ ہوگئے۔ ویراٹ کے بعد رشبھ پنت بیٹنگ کے لیے آئے مگر وہ بھی بڑا سکور نہ کرسکے اور 4 رنز بنا کر پویلین لوٹے گئے۔ ایسے میں کپتان روہت شرما اور سوریا کمار یادیو نے ذمہ درانہ بیٹنگ کی اور وکٹ کے چاروں جانب اچھی شاٹس لگائیں۔ روہت شرما 57 اور سوریا کمار یادیو 47 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ اس دوران انڈین کرکٹ ٹیم کی جانب سےجارحانہ حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ سوریا اور شرما کے آؤٹ ہونے کے بعد ہاردک پانڈیا نے اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور 23 رنز بنائے۔ وہ باؤنڈری پر کیچ آوٹ ہوئے۔ اُن کے بعد شیوم دوبے صفر اور اکشر پٹیل 10 رنز پر پویلین لوٹے جبکہ جڈیجا 17 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ انگلینڈ کی جانب سے کرس جارڈن نے 3، عادل رشید، ٹوپلی، آرچر اور سام کُرن نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ انگلینڈ کی جانب سے ہیری بروک 25 اور جوز بٹلر 23 رنز بناکر نمایاں رہے جبکہ جوفرا آرچر 21 اور لیام لیونگسٹن 11 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ انگلینڈ کے معین علی 8، فل سالٹ 5 رنز بناکر آؤٹ ہوئے، جونی بیئرسٹو صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ سیم کرن اور عادل رشید 2، 2 رنز ہی بناسکے۔ انڈیا کے اکشر پٹیل اور کلدیپ یادیو نے 3، 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ جسپریت بمرا نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔ اکشر پٹیل مین آف دی میچ قرار پائے۔ دوسرے سیمی فائنل میں بارش کی وجہ سے ٹاس میں تاخیر کے باوجود اوورز میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ انڈیا اور انگلینڈ کے سیمی فائنل میچ میں بارش کی پیشگوئی کے باوجود ریزرو ڈے نہیں رکھا گیا تھا البتہ 250 منٹ یعنی 4 گھنٹے اور دس منٹ کا اضافی وقت مختص کیا گیا تھا۔ ریزرو ڈے نہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ایونٹ کا فائنل 29 جون کو ہونا ہے اور سیمی فائنل اور فائنل میچ کے دوران صرف ایک ہی دن کا وقفہ تھا جس کی وجہ سے آئی سی سی نے کوئی ریزرو ڈے نہیں رکھا۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو ٹیموں کو لگاتار تین دن ایونٹ کے اہم ترین میچز کھیلنا پڑتے۔ ٹی ٹوینٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کے مقابلہ پر دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی پرفارمنس نے سب کو ہی حیران کیا۔ انڈیا کی جانب سے جہاں بیٹنگ کے شعبے میں اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا گیا وہیں انڈیا کے بالرز نے بھی انتہائی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انگلینڈ کی پوری ٹیم کو ہی کُھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق بلے باز اور ماسٹر بلاسٹر کے نام سے مشہور سچن تندولکر نے بھی انڈین کرکٹ ٹیم کی اس بڑے ایونٹ کے دوسرے سیمی فائنل میں کامیابی پر ٹیم کو مبارک باد پیش کی۔ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں سچن تندولکر کا کہنا تھا کہ ’چیلنجنگ پچ پر انڈیا نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کو جیتنے کے لیے ایک اچھا ٹوٹل دی۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’مڈل اوورز کی جادوگری نے انگلینڈ کو میچ سے باہر کر دیا۔ ہماری بولنگ بہت اچھی رہی۔ ایک شاندار ٹیم ایفرٹ تھی۔‘ دوسری جانب انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان کا کہنا تھا انڈیا ہمیشہ سلو سپننگ پچ پر ہمیشہ اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ایکس پر ایک صارف کا کہنا تھا کہ انڈیا نے انگلینڈ سے 2022 کے سیمی فائنل کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایکس پر صحافی فیضان لکھانی نے انڈیا کے خلاف ٹی ٹوینٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ کی پرفارمنس پر لکھا کہ ’انگلینڈ کی پوری کی پوری بیٹنگ لائن آپ دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کے سامنے بے بس دکھائی دی۔‘ اسی کے ساتھ ایک اور پوسٹ میں انھوں نے انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کی کپتانی کی بھی تعریف کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں ویراٹ کوہلی صرف 9 ہی رنز بنا سکے جس کے بعد جہاں انھیں سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں بہت سے سوشل میڈیا صارفین ایسے بھی نظر آئے کہ جو انھیں حوصلہ دے رہے تھے۔ ایسے ہی پری کے نام سے ایک انڈین سوشل میڈیا صارف نے لکھا ’چن اپ چیمپ. آپ نے ہمیں آگے بڑھنے میں مدد کی ہے، ایک ناکامی اس فارمیٹ میں انڈین کرکٹ میں آپ کی شراکت کو کبھی ختم نہیں کر سکتی ہے۔‘ واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں جنوبی افریقا نے 9 وکٹوں سے یکطرفہ مقابلے کے بعد افغانستان کو شکست دیکر پہلی مرتبہ فائنل کیلئے کوالیفائی کیا تھا۔ ایونٹ کا فائنل 29 جون کو فائنل انڈیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا جائے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3382v5ykeo
افغان کرکٹ کا مافوق الفطرت سفر
یہ وہ آئی سی سی ٹرافی ہے کہ ایک دہائی پہلے تک جس پر افغانستان کو نگاہ ڈالنے کی بھی اجازت نہ تھی، مگر جون 2024 میں افغان کرکٹ ٹیم اس کے حصول کے اتنا قریب پہنچنے میں کامیاب رہی کہ فاصلہ صرف دو میچوں کا رہ گیا۔ سننے میں ہی، یہ کوئی مافوق الفطرت سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مافوق الفطرت مظاہر تبھی سامنے آتے ہیں جب ان کی تہہ میں چھپے حوادث بھی کچھ ایسے ہی ہوں۔ جس ٹیم کو پہلی بار ورلڈ سٹیج پر کسی مقابلے میں شرکت کا پروانہ ہی 2015 میں ملا، اس نے اتنے کم وقت میں ایسا طویل سفر کیسے طے کر لیا کہ دنیا میں ٹی 20 کرکٹ پر حکمرانی کی دوڑ کے آخری چار دعوے داروں میں کھڑی ہو گئی۔ آئی سی سی ٹورنامنٹس کی پچھلی دو دہائیاں دیکھ لیں، چار سیمی فائنلسٹس کے نام پڑھیے تو وہی پانچ چھ نام ہیں جو گھوم پھر کے سامنے آتے ہیں۔ اس سفر میں، افغانستان کو ان پانچ چھ ممالک کی زرخیز کرکٹ تاریخ اور بھاری بھر کم جیبوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ افغان کرکٹ کی خوش قسمتی دیکھیے کہ پیدا تو پاکستان میں ہوئی مگر جوان ہوتے ہی انڈیا کی سرپرستی میں آ گئی۔ سیاسی اور سٹریٹیجک اعتبار سے یہ صائب فیصلہ تھا کہ بہرحال جو کچھ افغان کرکٹ کے لیے بھاری بھر کم انڈین کرکٹ بورڈ کر سکتا تھا، جلا وطنی سے مفلوک الحال پی سی بی بھلا سوچ بھی کہاں سکتا تھا۔ آج افغان کرکٹ چشمِ فلک کے روبرو ہو کر بھی خندہ زن ہو سکتی ہے کہ جس آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا، اسی کی قیمت پر راشد خان کی ٹیم نے سیمی فائنل میں جگہ پائی۔ اس ایک ٹورنامنٹ میں افغان کرکٹ نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو انٹرنیشنل سٹیٹس کی پچھلی ڈیڑھ دہائی میں نہیں ہو پایا۔ انھوں نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس خفت سے دو چار کیا جو ہر بار ہی سیمی فائنل کھیلنے کی عادی ٹیم کے لیے ایسا صدمہ ٹھہرا جو وہ اس کے بعد اٹھ ہی نہ پائی۔ اور پھر آسٹریلیا کو بھی وہ ہزیمت چکھائی جو سات ماہ پہلے ون ڈے ورلڈ کپ میں چکھاتے چکھاتے رہ گئے تھے۔ آسٹریلوی ٹیم کے لیے یہ ایسا جھٹکا ثابت ہوا کہ وہ انڈیا کے خلاف بھی اپنے اعصاب سنبھالنے میں ناکام رہ گئے۔ ڈیوڈ وارنر کا فیئر ویل خراب ہو گیا اور عثمان خواجہ کو کہنا پڑ گیا کہ آسٹریلیا کو افغانستان سے دو طرفہ کرکٹ روابط استوار کرنے چاہییں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو شکست دے کر افغانستان نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اب ان کی فتوحات کا دائرہ صرف ایشیائی ٹیموں تک محدود نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف بھی سیریز جیت چکے ہیں۔ جنگ زدہ حالات اور بحرانوں کے بوجھ تلے پنپنے والی افغان کرکٹ کی یہ پود دنیا کے سامنے واضح کر رہی ہے کہ دہائیوں پہ محیط جبر اور استحصال بھی اس آہن کو موم نہیں کر پایا اور وہ اپنی مزاحمت کی خُو نہ چھوڑیں گے۔ پچھلے برس جب پاکستان حکومت نے افغان مہاجرین کو بے دخلی کا سندیس دیا تو ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کو ہرا کر رحمان اللہ گرباز نے اپنی جیت ان افغان مہاجرین کے نام کر دی جنہیں دہائیوں بعد وہ ملک چھوڑنا پڑ رہا تھا جہاں وہ سوویت یلغار سے پناہ لینے کو مہاجر کیمپوں میں آئے تھے۔ یہ افغان کرکٹ کی عین وہی جنریشن ہے جس نے اپنے بچپن کے دن پشاور میں کرکٹ کھیلتے گزارے۔ راشد خان اور محمد نبی پریس کانفرنسز میں تب تک اردو بولتے رہے جب تک افغان کرکٹ بورڈ نے سرکاری ممانعت نہ جاری کر دی۔ مگر اپنی جڑیں پاکستان میں رکھنے اور شاخیں انڈیا میں ہونے کے باوجود جو لڑائی کا جذبہ اس افغان ٹیم کے سارے سفر کی روح ہے، وہ اسے نہ تو پی سی بی نے دیا ہے اور نہ ہی بی سی سی آئی دے سکتا تھا۔ یہ اس نسل کے اس کڑوے سفر کا سچ ہے جو انہوں نے جنگ زدہ حالات اور مفلوک الحالی بِتا کر کمایا ہے۔ اس قدر کم وقت میں اتنا لمبا سفر طے کر جانے والی افغان کرکٹ آج اس طویل قامت شاپور زدران اور چست قدم دولت زدران کی بھی ممنون ہے جنہوں نے اپنی اگلی جنریشن میں وہ جوش اٹھایا جو آج فضل حق فاروقی کی شکل میں جھلک رہا ہے۔ یہ سفر اس محمد شہزاد کو بھی کیسے بھول سکتا ہے جن کے بیٹنگ سٹائل نے افغان کرکٹرز کی ایک جنریشن کو انسپائر کیا۔ آج اگر صرف اچھے سپنرز کے لیے معروف افغان ٹیم میں رحمان اللہ گرباز جیسے بلے باز موجود ہیں تو یہ محض اس عزم کی تکمیل ہے جس کی شروعات افغان ڈریسنگ روم کے ہر دلعزیز ’ایم ایس‘ نے کی تھی۔ اور پھر اس سارے سفر کے جو کلیدی کردار تھے وہ تھے اصغر ستانکزئی، جنھیں بعد میں سیاسی شور سے اکتا کر اصغر افغان بننا پڑا۔ ان کی قیادت میں افغان ٹیم نے جیت کی وہ عادت اپنائی کہ وہ ٹی 20 انٹرنیشنل تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں میں آ ٹھہرے۔ گو منزل راشد خان کو آ کر ملی مگر پہلے قدم اٹھانے والوں میں نمایاں ترین نام اصغر افغان کا تھا جنھوں نے افغان کرکٹ میں تدبر کا عنصر پیدا کیا اور محض لڑنے کی بجائے کھیل کا شعور استعمال کر کے جیت کی عادت ڈالی۔ جہاں راشد خان کی ٹیم نے مایوسیوں کے قہر میں گھرے افغان عوام کو یہ ناقابلِ بیاں مسرت بخشی ہے، وہیں یہ کبیر خان، راشد لطیف اور انضمام الحق کے لیے بھی خوشی کا ساماں ہے کہ ان کے ہاتھوں کا لگایا پودا آج ورلڈ کرکٹ کے چار بڑوں کے بیچ اپنی شاخیں ابھارنے لگا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjr4x9v0lvdo
’جنوبی افریقہ نے چوکر ٹیگ توڑ دیا اور افغانستان کا خواب بھی‘
راشد خان نے جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل کا ٹاس جیتا تو ان کے ذہن میں یقیناً جنوبی افریقہ کی ٹیم سے جڑا وہ ’چوکر ٹیگ‘ ہو گا جس کی بنیاد پروٹیز کو کئی بار آئی سی سی ٹورنامنٹس کے سیمی فائنل میں دباؤ کے تحت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راشد خان کو اپنی ٹیم کی بولنگ پر اعتماد بھی تھا اور گذشتہ میچوں میں بڑی ٹیموں کو ہرانے کے بعد قسمت پر یقین بھی کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو بھی مات دے سکیں گے۔ وہ یقیناً یہ سوچ رہے تھے کہ کم ٹوٹل کا بھی دفاع کرنا ناممکن نہ ہو گا۔ لیکن میچ کی پچ اور جنوبی افریقہ کے گیند باز کیا قیامت ڈھانے والے ہیں، شاید یہ کسی کے بھی گمان میں نہ تھا۔ پہلے اوور کی آخری گیند پر رحمان اللہ گرباز جینسن کی گیند پر بنا کوئی رن بنائے ہی سلپ میں کیچ تھما کر پولین لوٹے تو یہ صرف آغاز تھا۔ تیسرے اوور میں جینسن نے گلبدین نائب کو بھی اندر آتی ہوئی گیند پر بولڈ کیا تو اگلے ہی اوور میں رباڈا نے اپنا جادو دکھایا۔ ان کی پہلی ہی گیند اتنی نپی تلی تھی کہ ابراہیم زردان بھی بولڈ ہوئے۔ دو گیندوں کے بعد محمد نبی بھی صفر پر رباڈا کے ہاتھوں بولڈ ہوئے۔ 20 کا مجموعہ تھا اور افغان ٹیم کا ٹاپ آرڈر اس شاندار بولنگ کے مظاہرے کے سامنے لڑکھڑا چکا تھا۔ جنوبی افریقہ کی بولنگ جیسے کوئی گیند بھی ضائع نہیں کر رہی تھی۔ پانچویں اوور میں جینسن نے اپنی تیسری وکٹ سمیٹی اور افغانستان کی ٹیم کے نصف بلے باز پاور پلے کے اختتام پر مجموعی طور پر صرف 23 رن بنا کر آوٹ ہو چکے تھے۔ ٹاس جیتنے والے راشد خان کے گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کو ساتویں ہی اوور میں ایسی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے بیٹنگ کے لیے آنا ہو گا۔ ساتویں اوور میں عظمت اللہ آوٹ ہوئے تو ایک بار پھر راشد خان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی۔ لیکن کیا راشد خان تن تنہا افغانستان کو ایسا مجموعہ فراہم کر سکتے تھے جس کی بنیاد پر وہ میچ میں لڑنے کی پوزیشن پر آ سکیں؟ آٹھویں اوور میں رباڈا کو دو چوکے لگا کر راشد خان نے واضح کیا کہ کم از کم وہ خود لڑے بغیر ہار نہیں مانیں گے۔ لیکن وہ اکیلے کب تک لڑتے؟ میچ کا دسواں اوور شروع ہوا تو 45 رن تھے اور سات وکٹیں جا چکی تھیں۔ لیکن تبریز شمسی کا یہ اوور بھی قیامت خیز ثابت ہوا جس میں پہلے کریم خان اور پھر نور احمد آوٹ ہوئے اور 50 رن پر آٹھ کھلاڑی آوٹ ہو چکے تھے۔ اگلے ہی اوور میں راشد خان بھی نورٹے کی گیند پر بولڈ ہوئے اور ان کی مختصر مزاحمت کا اختتام ہوا۔ تبریز شمسی نے 12ویں اوور میں اپنی تیسری وکٹ لے کر افغانستان کو 56 رن کے مجموعے پر آوٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو کسی بھی آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سیمی فائنل کا سب سے کم ٹوٹل تھا بلکہ افغانستان کا بھی سب سے کم مجموعہ تھا۔ سوشل میڈیا صارف روی شنکر نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’کیا آئی سی سی نے ٹیسٹ میچ کی پچ تیار کی ہے؟ سیمی فائنل کے لیے ایسی پچ دینا افغانستان کے ساتھ ڈبل گیم ہے۔‘ شیوانی کپور نے اس تنقید پر کچھ یوں جواب دیا کہ ’بہترین بولنگ کے سامنے برے شاٹس کے انتخاب کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘ تاہم انگلینڈ کے سابق کرکٹر مائیکل وان نے تنقید کی کہ ’پیر کو افغانستان نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا جس کے بعد چار گھنٹے ان کی فلائٹ لیٹ ہوئی اور یوں انھیں پریکٹس کرنے اور نئے مقام پر تیاری کا وقت نہیں ملا۔‘ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو پچ کے اوپر ہونے والی بحث کے باوجود گمان یہ تھا کہ اس ہدف تک اور فائنل تک رسائی کوئی مشکل کام نہ ہو گا۔ تاہم جارحانہ اوپننگ بلے باز ڈی کوک کو فضل حق نے بولڈ کیا تو میچ میں دلچسپی کا سامان پیدا ہوا اور جنوبی افریقہ کے کپتان میکرم کو بھی میدان میں آنا پڑا۔ اعصاب تھے یا پچ کی جادوگری، جنوبی افریقہ کے لیے بھی بیٹنگ آسان نہ تھی۔ اچھلتی کودتی گیند پریشان کن تو ثابت ہوئی لیکن افغانستان کے کم مجموعے نے جنوبی افریقہ کو کسی قسم کا خطرہ مول لینے سے روکے رکھا۔ میکرم اور ہینڈرکس ثابت قدمی سے رفتہ رفتہ رنز بناتے رہے اور چھٹے اوور کے اختتام تک 34 رن بن چکے تھے۔ اب جیت اور فائنل تک رسائی کے لیے جنوبی افریقہ کو صرف 23 رن اور افغانستان کو کوئی معجزہ درکار تھا۔ جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کو ہدف سامنے نظر آ رہا تھا اور افغان ٹیم کے کندھے جھکتے جا رہے تھے۔ اور عظمت اللہ کے نویں اوور میں میکرم اور ہنڈرکس نے احتیاط کا دامن چھوڑتے ہوئے باقی ماندہ رن بھی چوکوں چھکوں کی مدد سے حاصل کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف کے الفاظ میں ’چوکر کا ٹیگ بھی توڑا اور افغان کرکٹ ٹیم کا خواب بھی۔‘ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ نے پہلی بار ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی ہے۔ انڈین کمنٹیٹر ہارشا بوگھلے نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’اس گیم میں اگرچہ جذبات افغانستان پر مرکوز تھے لیکن جنوبی افریقہ نے دکھایا ہے کہ وہ میکرم کی قیادت میں کتنی خطرناک ٹیم ہے اور پہلی بار فائنل میں پہنچنے پر داد کی مستحق۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd11x4w9x09o
افغانستان کی تاریخی فتح سے جڑا تنازع جس میں گلبدین اور محمد رضوان کا موازنہ کیا جا رہا ہے
افغانستان کے آل راؤنڈر گلبدین نائب کی جانب سے منگل کے روز بنگلہ دیش کے خلاف ورلڈ کپ کے آخری سپر ایٹ میچ کے دوران بار بار درد کی شکایت نے ایک تنازع پیدا کر دیا ہے۔ گلبدین پر کھیل کے دوران ’دھوکہ دہی‘ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے اور ان کے بظاہر درد کی وجہ سے کرکٹ ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین میں تاخیری حربوں کے استعمال پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی دوران پاکستان کے وکٹ کیپر اور بلے باز محمد رضوان کا نام بھی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ اس پر بات بعد میں لیکن پہلے دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں ہوا کیا تھا؟ بارش سے متاثرہ میچ کی دوسری اننگز کے 12ویں اوور میں بنگلہ دیش کے سپن بولر نور احمد کی مسلسل تین ڈاٹ گیندوں کے بعد ڈک ورتھ لوئس کے اصول کے مطابق بنگلہ دیش اپنے ہدف سے تین رن پیچھے ہو گیا۔ اوور کے دوران ہلکی بوندا باندی ہوئی اور افغانستان کے ہیڈ کوچ اور انگلینڈ کے سابق کرکٹر جوناتھن ٹروٹ نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فیلڈ میں موجود کھلاڑیوں کو کچھ اشارہ کیا۔ اسی لمحے گلبدین نائب، جو پہلی سلپ کے پر کھڑے تھے، اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بظاہر درد کی وجہ سے زمین پر لیٹ گئے، جیسے وہ شدید تکلیف میں ہوں اور میڈیکل ٹیم بھی میدان میں پہنچ گئی۔ اس معاملے کو کمنٹری کرنے والوں نے نوٹس کیا اور بات بھی کی جہاں سے یہ تنازع شروع ہوا۔ میچ کے دوارن کمنٹری کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے کرکٹر سائمن ڈول نے کہا کہ ’کوچ کھیل کو آہستہ کرنے کا اشارہ کرتا ہے اور پہلی سلپ پر کھڑا کھلاڑی بلا ضرورت زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ بہرحال یہ ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ بارش کی وجہ سے یہ میچ کسی بھی طرف جا سکتا تھا۔‘ دوسرے کمنٹیٹر زمبابوے کے پومی موانگبا نے کہا کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے۔ اس کے لیے آسکر ملنا چاہیے۔‘ انڈین کرکٹر آر ایشون نے لکھا کہ ’گلبدین کے لیے ریڈ کارڈ۔‘ خیال رہے کہ فٹبال یا ہاکی میں سخت قسم کے فاؤل پر کھلاڑی کو ریڈ کارڈ دیا جاتا ہے۔ تاہم افغانستان کے کپتان راشد خان نے میچ کے بعد گلبدین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نائب کو کچھ درد تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور مجھے نہیں معلوم کہ سوشل میڈیا پر کیا چل رہا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں، جس سے گیم میں بڑا فرق آیا ہو۔‘ کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی معین الدین حمید کی رائے میں یہ معاملہ متنازع ہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آئی سی سی نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تو انھیں کرنی چاہیے کیونکہ کمنٹیٹرز نے بھی دوران میچ اس کی جانب اشارہ کیا۔‘ انھوں نے تاخیر کی حکمت عملی کے حوالے سے کہا کہ ’سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تھی۔ لاہور میں میچ تھا اور آخری دن آخری گھنٹوں کے دوران تھوڑی بارش ہوئی تھی اور صورت حال یہ تھی کہ اگر تھوری سی سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا تو نیوزی لینڈ میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جاتی لیکن اس کے برعکس انھوں نے اپنے اوورز کو پورا کرنے میں تیزی دکھائی۔ گو وہ میچ ہار گئے لیکن انھوں نے کھیل کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیائے کرکٹ کے دل جیت لیے اور آج بھی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو صحافی ان کے اس سپورٹس مین سپرٹ کو یاد کرتے ہیں۔‘ معین الدین حمید نے کہا کہ اس ورلڈ کپ میں افغانستان نے اپنا دم خم دکھایا اور وہ جیتنے کی اور سیمی فائنل میں پہنچنے کی حقدار بھی تھی لیکن جو حرکت کوچ اور گلبدین نے کی، اس سے ان کی عزت بڑھی نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ سب نے دیکھا کہ اس کے بعد گلبدین آئے اور انھوں نے بولنگ بھی کی۔ سنہ 2024 کے ورلڈ کپ کے لیے آئی سی سی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ’اگر کوئی امپائر یہ سمجھتا ہے کہ کسی کھلاڑی کا کوئی عمل پلیئنگ کنڈیشنز کے تحت نہیں اور اس سے مخالف ٹیم کو نقصان ہوا تو وہ ڈیڈ بال کی کال دیں گے اور معاملے کی اطلاع دوسرے امپائر کو دی جائے گی۔‘ ’اگر یہ کسی کھلاڑی کی طرف سے پہلا جرم ہے تو باؤلر اینڈ کا امپائر اس کے بعد خلاف ورزی کرنے والے کھلاڑی کے کپتان کو طلب کرے گا اور پہلی اور آخری وارننگ جاری کرے گا جس کا اطلاق میچ کے بقیہ حصے کے لیے ٹیم کے تمام اراکین پر ہو گا۔ کپتان کو کہا جائے گا کہ اس کی ٹیم کے کسی بھی رکن کی جانب سے اس طرح کی مزید کسی حرکت کے نتیجے میں مخالف ٹیم کو پانچ پنالٹی رنز دیے جائیں گے۔‘ گلبدین کے معاملے میں اگر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فیلڈ امپائر کی جانب سے شکایت درج کرائی جائے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین آئی سی سی سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو چند لوگ گلبدین کا موازنہ پاکستان کے وکٹ کیپر اور بلے باز محمد رضوان سے کر رہے ہیں۔ چند صارفین نے توجہ دلائی کہ کرکٹ میں تاخیری حربوں کا استعمال نئی بات نہیں۔ واضح رہے کہ 2023 ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف میچ میں شاندار سنچری سکور کرنے کے دوران محمد رضوان نے ایک موقع پر بظاہر تکلیف کی وجہ سے وفقہ لیا تھا۔ تاہم میچ کے بعد انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کبھی کبھی یہ (درد) کریمپس ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایکٹنگ ہوتی ہے۔‘ انڈیا سے سجیت سمن نامی صارف نے لکھا کہ ’گلبدین محمد رضوان سے بڑے اداکار ہیں، انھیں آسکر کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’رضوان نے کہا تھا کہ کبھی واقعی کریمپ ہوتا ہے اور کبھی ایکٹنگ ہوتی ہے۔ اب گلبدین کے روپ میں انھیں بڑا مد مقابل ملا ہے۔‘ سعد نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’ایک بار ایک لیجنڈ نے کہا تھا کہ کبھی کریمپ ہوتا ہے تو کبھی اداکاری ہوتی ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’گلبدین آسکر کے حقدار ہیں۔ ٹروٹ نے انھیں کھیل کی رفتار کم کرنے کے لیے کہا کیونکہ بارش ہو رہی تھی اور گلبدین نائب نے ایکٹنگ شروع کر دی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام گلشن کٹیار نامی ایک صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’پورا انڈیا افغانستان کی جیت پر خوش ہے۔ نوین الحق، گلبدین نائب کی آسکر پرفارمنس اور راشد خان خوب کیا خوب کھیلے۔‘ عمران صدیق نے لکھا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے۔ افغانستان کی جانب سے دھوکہ ہے۔ بنگلہ دیش نے بارش سے پہلے 81 رنز بنائے اور وہ سکور کے معاملے میں صرف 2 رن پیچھے تھے اور گلبدین نائب نے ڈی ایل ایس پر بنگلہ دیش کی فتح سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ ایک بار دھوکہ دینے والا ہمیشہ دھوکہ دینے والا ہوتا ہے۔‘ سیامی کھیر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’بھی تک میں جذبات پر قابو نہیں پا سکا ہوں۔ خالص جذبات، جذبہ، محنت اور عزم۔ ہاں نائب کے ہیمسٹرنگ ڈرامے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا لیکن صرف یہ محسوس کریں کہ وہ یہاں تک پہنچنے کے کتنے مستحق ہیں۔ راشد خان اور ٹیم کو بہت بہت مبارک۔‘ واضح رہے کہ افغانستان کی ٹیم اپنا پہلا سیمی فائنل 27 جون کو کھیلے گی اور ان کا مقابلہ اب تک کی ناقابل شکست ٹیم جنوبی افریقہ سے ہوگا جبکہ دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cnee4142pxmo
جوہری صنعت کے ریاضی دان جنھوں نے بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا
بارش سے متاثرہ کرکٹ میچوں کو نتیجہ خیز بنانے والے ریاضی دان فرینک ڈک ورتھ 84 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ برطانیہ کے علاقے لیتھم میں پیدا ہونے والے فرینک ’ڈک ورتھ لیوس میتھڈ‘ کے موجد ہیں جو اس وقت لاگو ہوتا ہے کہ جب محدود اوورز کے میچوں میں بارش کی وجہ سے کھیل متاثر ہو۔ انھوں نے یہ نظام اپنے ساتھی نوٹی لیوس کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ ڈک ورتھ کی موت کی خبر دیتے ہوئے ان کے ساتھی ریاضی دان راب ایسٹوے نے کہا کہ ڈک ورتھ دوستانہ شخصیت کے حامل تھے۔ اگرچہ کرکٹ کے شائقین اکثر اس سسٹم پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر ڈک ورتھ کو یہ نظام دینے پر کافی فخر تھا۔ ایسٹوے کا کہنا ہے کہ ’کئی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں یہ سمجھ نہیں آتا یا پسند نہیں، لیکن اندر ہی اندر انھیں معلوم ہے کہ یہ بہترین حل ہے۔‘ ڈک ورتھ نے یونیورسٹی آف لیورپول سے گریجویشن کی اور پوری زندگی جوہری صنعت میں کام کیا۔ وہ ایک میٹالرجسٹ تھے مگر انھیں احساس ہوا کہ ان میں اعداد و شمار کے ذریعے مددگار معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہذا انھوں نے شماریات پڑھنے کے بعد 1974 میں رائل سٹیٹسٹیکل سوسائٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1992 میں ایک کانفرنس کے دوران انھوں نے ایک مختصر مقالہ پیش کر کے بارش کی نذر ہونے والے ون ڈے میچوں کو نتیجہ خیز بنانے کا فارمولا پیش کیا۔ یوں وہ ایک اور ریاضی دان لیوس سے ملے جنھوں نے تجویز دی کہ مجوزہ فارمولے کی بنیاد پر ون ڈے میچوں کے سکور کارڈز کا جائزہ لیا جائے۔ سنہ 1992 کے دوران اس فارمولے کی تیاری سے قبل انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کو 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے کہ بارش کے باعث کھیل رُک گیا۔ کھیل دوبارہ شروع ہوا تو پروڈکٹو اوورز کی بنیاد پر کیے گئے حساب کتاب نے جنوبی افریقہ کو ایک گیند پر 22 رنز کا ناممکن ہدف دے دیا۔ پرانے نظام میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کو بارش کی صورت میں کم فائدہ ہوتا تھا۔ 2007 میں ڈک ورتھ نے یاد کیا تھا کہ اس وقت کمنٹیٹر کرسٹوفر مارٹن جنکنز نے ریڈیو پر کہا تھا کہ ’شاید دنیا میں کوئی، کہیں سے بھی ہوتا تو اس سے بہتر حل دے سکتا تھا۔‘ اس پر ڈک ورتھ کو احساس ہوا کہ ریاضی کے اس مسئلے کا حل ریاضی سے ہی نکل سکتا ہے۔ ڈک ورتھ لیوس میتھڈ کو پہلی بار 1997 میں ملایشیا میں آئی سی سی ٹرافی کے دوران استعمال کیا گیا اور پھر اسے نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان، انڈیا اور ویسٹ انڈیز میں لاگو کیا گیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اسے انگلینڈ میں 1999 کے ورلڈ کپ میں اپنایا اور کچھ سال بعد اسے مستقل حل بنا لیا گیا۔ اب اسے ڈک ورتھ لیوس سٹرن میتھڈ کہا جاتا ہے کیونکہ آسٹریلیا کے ریاضی دان پروفیسر سٹیون سٹرن نے اسے 2014 کے بعد جدید دور کے تقاضوں اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی روشنی میں اپ ڈیٹ کیا۔ رواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران افغانستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بارش سے متاثرہ میچ کے دوران اسی نظام کو استعمال کیا گیا ہے۔ ڈک ورتھ کو اپنی خدمات پر یونیورسٹی آف بیتھ نے 2015 میں ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ جوہری صنعت کے لیے اتنے ہی اہم تھے جتنے وہ کرکٹ کے لیے ثابت ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ ’انھیں شماریات کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ انھوں نے اس سے نہ صرف ری ایکٹرز کو محفوظ بنایا بلکہ عوام کو بھی باور کرایا کہ ری ایکٹرز محفوظ ہیں۔‘ ’اس وقت لیبارٹریوں میں ماہرِ شماریات کام نہیں کرتے تھے تو وہ خود اس کے ماہر بن گئے۔‘ ’پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں اور دوسروں کو شماریات کی اہمیت کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد انھوں نے جو کچھ کیا وہ اسی خیال کے گرد ہے۔‘ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انھوں نے ’کرکٹ کی انتظامیہ کو رضامند کیا کہ شماریات سے مدد مل سکتی ہے۔‘ ایسٹوے کا کہنا ہے کہ شماریات کے علاوہ وہ ایک مزاحیہ شخصیت تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب 2020 میں ٹونی لیوس کی موت ہوئی تو انھوں نے فون کر کے مجھے بتایا کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ پہلے سے مر چکے تھے۔‘ ’لیوس ایک سنجیدہ شخص تھے اور فرینک بہت مزاحیہ تھے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmjj2l5jmzpo
شندور پولو فیسٹیول ’بے وقت برفباری‘ کے بعد موخر: ’ہم موسم کے ہاتھوں شمالی علاقوں کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں‘
شندور پاس سے گذشتہ دنوں آنے والی تصاویر میں میدان اور اس میں لگے خیموں کو برف سے ڈھکا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ برفباری اچانک اور پولو فیسٹیول کے آغاز سے محض چار دن پہلے ہوئی تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں ماہ 28 سے 30 جون تک منعقد ہونے والا شندور پولو فیسٹیول معطل کر دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں اس کی وجہ خراب موسمی حالات بتائی گئی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چترال کے ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ شندور پاس کے مقام پر اچانک موسم تبدیل ہوا اور برفباری نے پولو کے میدان کو پوری طرح ڈھک دیا ہے۔ ’اسی وجہ سے پولو کا تین روزہ فیسٹیول موخر کرنا پڑا۔‘ اس سے قبل 2022 میں شندور فیسٹیول کے اختتام کے بعد سینکڑوں سیاح اس وقت اپر چترال میں پھنس گئے تھے جب اچانک شندور پاس کے دہانے پر واقعے لسپور کے علاقے میں سیلاب آیا تھا۔ 12 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ’دنیا کی چھت‘ شندور پاس میں ہر سال جولائی کے دوران تین روزہ پولو فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے جسے دیکھنے دنیا بھر سے شائقین اور سیاح چترال کا رُخ کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ برسوں سے موسم کی خرابی کی وجہ سے کئی بار یہ فیسٹیول موخر کرنا پڑا ہے۔ 2012، 2013 اور 2015 میں سیلاب کے باعث یہ فیسٹیول منسوخ ہوتا رہا ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کھیلوں کا شیڈول تبدیل ہونا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ رواں برس گلگت بلتستان میں موسم سرما میں منعقد ہونے والی ونٹر گیمز کو نہ صرف کئی مرتبہ موخر کرنا پڑا بلکہ ان کا دورانیہ بھی کم کرنا پڑا۔ عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جو زمین پر پولر ریجنز کے باہر کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں ہونے والی درجنوں تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی ان گلیشیئرز کو خطرناک تیزی سے کھا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ان علاقوں میں ’گلاف‘ یعنی گلیشیئر کے اچانک پگھلنے سے آنے والے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، موسم سرما میں کم یا تاخیر سے برفباری، طویل موسم گرما اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں ان علاقوں میں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کر رہی ہیں وہیں کھیلوں کی سرگرمیاں بھی مانند پڑ رہی ہیں۔ ان میں ایک طرف ملک کے شمالی علاقہ جات میں سرمائی کھیل تو دوسری جانب بین الاقوامی کھیل جیسے کہ کرکٹ اور فٹ بال بھی متاثر ہوئے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں گلکن ونٹر کلب کے منتظم جمال سعید نے کہا کہ صورتحال کشیدہ ہے اور ’ہم اپنی آنکھوں سے تباہی آتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ رواں برس موسم سے متعلق پیشگوئی بھی غلط ثابت ہو رہی تھی۔ ’ہماری توقعات اور اداروں کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی کیونکہ درجہ حرارت اور موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔‘ ان کے مطابق ’وہ جھیلیں جہاں گذشتہ برس ان دنوں (جنوری) میں پانی جما ہوا تھا اور وہاں سے جیپیں گزرتی تھیں اور ہم سکیٹینگ کرتے تھے، اس سال وہاں برف ہی نہیں تھی۔ یعنی جہاں دو چار فٹ برف جمی ہوتی تھی وہاں پانی بہہ رہا تھا۔‘ خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں موسم سرما کے کھیل گذشتہ کئی برسوں سے مقبولیت حاصل کر رہے تھے جس سے نہ صرف مقامی سطح پر کھیلوں کو فروغ ملا بلکہ موسم سرما کے دوران سیاحت کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ تاہم رواں برس موسم سرما کے گرم درجہ حرارت نے خطے کے تہواری کیلنڈر کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ ان کھیلوں کو نہ صرف بار بار موخر کرنا پڑا بلکہ ان کے مقامات بھی تبدیل کرنا پڑے اور دورانیہ بھی کم کیا گیا۔ یہاں آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ جیسے سرمائی کھیلوں کے علاوہ روایتی کھیل جیسے بصرہ، پنڈوک اور بالبٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سرمائی کھیلوں پر مشتمل سیون ڈیز فیسٹیول، جو عام طور پر 2-10 جنوری کے بیچ منایا جاتا تھا، اس سال 22-24 جنوری تک ملتوی کرنا پڑا۔ جمی ہوئی جھیلیں جو سکیٹنگ کے لیے آئس رِنگ کا کام کرتی ہیں، ان پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے برف کی تہہ جم نہیں سکی اور تقریب کو تین بار گلگت بلتستان کے مختلف جھیل والے دیہاتوں میں منتقل کیا گیا۔ اس کے علاوہ بچوں کے سپورٹس کے لیے کھیتوں میں بنائے جانے والے آئس رِنگ بھی زیادہ درجہ حرارت کے باعث پگھلتے رہے۔ جمال سعید نے بتایا کہ وہ عام طور پر ہنزہ میں مقابلے منعقد کراتے ہیں اور چونکہ ان میں 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ بھی شامل ہے تو ان کے لیے کھیتوں پر پڑنے والی برف کو جمایا جاتا ہے۔ تاہم اس بار ’سردیوں کے موسم میں پہلے تو برفباری ہی نہیں ہوئی اور جو ہو رہی تھی تو درجہ حرارت اس قدر زیادہ تھا کہ برف جمی نہیں رہ سکتی تھی۔ اس طرح کھیتوں میں بنی برف کی رِنگ پگھل جاتی۔ اسی طرح جھیلوں میں بھی برف کی تہہ کی بجائے پانی بہہ رہا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے بچوں کو سمجھ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان کے مستقبل کے لیے کس قدر خطرناک ہے، لیکن ہمارے بزرگ یا وہ نسل جو اس وقت اعلی عہدوں پر ہیں اور کچھ اقدامات کر سکتے ہیں، وہ کلائمٹ چینج کے خطرے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔‘ وہ اسے ’خطرناک صورتحال‘ بیان کرتے ہیں کیونکہ ’موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہو رہی اور ہم اپنی آنکھوں سے شمالی پاکستان کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘ ان کو خدشہ ہے کہ ’یہ تباہی 50، 100 سال نہیں بلکہ اگلے 10 سالوں میں ہم سب کو کھا جائے گی۔‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف علاقائی کھیل ہی نہیں بلکہ ملک میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے بڑے کھیل بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ برطانوی ادارے بیسز نے چند سال قبل ہی اپنی ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ دنیا کے ان کھیلوں میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے جو کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، ان میں کرکٹ ٹاپ کے کھیلوں میں سے ایک ہوگا۔ یہ تجاویز مسلسل دی جا رہی ہیں کہ کرکٹرز کی کٹس، میچ کا دورانیہ اور دیگر کئی قواعد تبدیل کیے جائیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ممالک میں کلائمٹ چینج کے منفی اثرات سے نہ صرف کرکٹ کے میچز متاثر ہوئے بلکہ بعض اوقات شدید گرمی کے باعث کھلاڑیوں کو ہسپتال بھی جانا پڑا۔ جون 2022 میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو میزبان شہر ملتان مین درجہ حرارت 44 درجہ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اس دورے پر آنے والے ویسٹ انڈین باؤلر عقیل حسین نے کہا تھا کہ ’ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ کسی تندور میں بیٹھے ہیں۔‘ 2022 میں ہی جب آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ایک طویل عرصے کے بعد مختلف اوقات میں پاکستان کے دورے پر آئیں تو لاہور کے شائقین ان ٹیموں کو ایکشن میں شدید سموگ کی وجہ سے دیکھ ہی نہ سکے۔ لاہور میں سموگ کے باعث انگلینڈ کے ساتھ میچز کو ملتان منتقل کرنا پڑا مگر وہاں بھی ایک ٹیسٹ میچ سموگ کی نذر ہو گیا۔ کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہونے سے ان کے ساتھ جڑی معاشی سرگرمیاں بھی کم ہو رہی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی سلمی بیگ کہتی ہیں کہ وہ سرمائی کھیلوں کے دوران دستکاری کے سامان کے سٹال لگا کر گذشتہ کچھ سالوں سے آمدن کما رہی تھیں۔ ’اس سال ہم نے سوچا تھا کہ چترال جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ وہاں شندور فیسٹیول میں بھی کچھ سامان بیچ سکیں۔ لیکن اب وہ بھی منسوخ ہو گیا ہے۔ سردیوں میں ہونے والے کھیل بھی دو، تین دن کے ہو گئے تھے اور ٹریننگ کے سیشن بھی کم ہوئے تو ہماری مشکل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ دو سالوں میں اندازہ ہوا ہے کہ ’موسم کا کچھ پتا نہیں اب کب کیا ہو جائے۔ نہ ہی اب یہ پتا ہے کہ کمانا کیسے اور کب ہے؟‘ دوسری جانب چترال سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس قسم کے اقدامات یعنی فیسٹیولز منسوخ یا موخر کرنا ان کی ’مجبوری ہے مگر ان اقدامات سے کئی لوگ اور خود خیبرپختونخوا حکومت کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں اخراجات کی مد میں خاصاً نقصان ہو رہا ہے۔‘ خیال رہے کہ پولو فیسٹیول اب جولائی میں منعقد کرایا جائے گا اور خیبرپختونخوا کا محکمہ سیاحت و کھیل یہ امید رکھے ہوئے ہے کہ موسم انھیں ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3ggrldzdpyo
’صرف ایک شخص افغانستان کو سیمی فائنل میں پہنچتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور وہ برائن لارا تھا‘
کنگز ٹاؤن کے میدان میں کچھ ایسی صورتحال تھی کہ ہر لمحہ میچ کا نقشہ بدلتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ ایک موقع ایسا بھی تھا کہ بنگلہ دیش کو فتح کے لیے صرف چند ہی رن درکار تھے اور اس کی جیت کے امکانات 80 فیصد سے زیادہ ہو چکے تھے۔ اس لمحے میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے والی افغانستان کی ٹیم، جس نے آسٹریلیا جیسی ٹاپ ٹیم کو شکست سے دوچار کیا تھا، ایک بار پھر آخری لمحات میں دوڑ سے باہر ہو جائے گی اور بنگلہ دیش سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہو گا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور بنگلہ دیش کے آخری بلے باز کو آؤٹ کرنے والے نوین الحق نے اپنی چوتھی وکٹ سمیٹی تو افغانستان کرکٹ کی تاریخ کا ایک نیا اور سنہرا باب بھی رقم ہوا کیونکہ پہلی بار یہ ٹیم کسی بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل تک پہنچی ہے۔ ایک جانب کابل میں جشن کا ماحول پیدا ہوا تو دوسری جانب انڈیا اور پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر صارفین نے افغان ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس نتیجے کے ساتھ ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی صورتحال بھی واضح ہو چکی ہے۔ پہلا سیمی فائنل 26 جون کو افغانستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہوگا جبکہ دوسرا سیمی فائنل 27 جون کو انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا۔ پہلے سیمی فائنل کے لیے ایک ریزرو ڈے (27 جون) ہے تاہم دوسرے سیمی فائنل کے لیے کوئی ریزرو ڈے نہیں۔ اگر ہر ممکن کوشش کے باوجود بارش کی وجہ سے دونوں سیمی فائنلز میں سے کوئی میچ نہیں ہوپاتا تو سپر ایٹ میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانی والی ٹاپ ٹیمیں (انڈیا اور جنوبی افریقہ) فائنل میں پہنچ جائیں گی۔ افغانستان کی اننگز کا آغاز تو مستحکم تھا لیکن سست روی کا شکار بھی تھا۔ رحمان اللہ گرباز اور ابراہیم زردان نے محتاط انداز میں ٹیم کا مجموعہ 60 کے قریب پہنچایا لیکن تب تک 10 اوور گزر چکے تھے۔ ایسے میں جب ابراہیم 18 رن بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو پوری بیٹنگ لائن ہی لڑکھڑا گئی۔ یکے بعد دیگرے وکٹیں جاتی رہیں اور رن بنانے کی اوسط تیز نہ ہو سکی۔ 17ویں اوور میں رحمان اللہ گرباز 55 گیندوں پر 43 رن بنا کر آؤٹ ہوئے تو افغانستان کی ٹیم صرف 88 رن ہی بنا پائی تھی۔ کھیل ختم ہونے پر یہ مجموعہ 115 تک ہی پہنچ پایا۔ بنگلہ دیش کی بیٹنگ کا آغاز بھی متاثر کن نہ تھا۔ بارش سے متاثرہ دوسری اننگز میں ٹارگٹ کو تبدیل کیا گیا تو کبھی افغانستان، کبھی بنگلہ دیش میچ جیتنے کے فیورٹ نظر آتے۔ لیکن جہاں افغانستان کے بلے باز اپنا جادو دکھانے میں ناکام رہے وہیں افغان باولرز نے پوری جان لگائی اور لٹن داس کے علاوہ کوئی بنگلہ دیشی بلے باز جم کر کھیل نہیں سکا۔ لٹن داس تن تنہا ہی بنگلہ دیش کی اننگز کو سہارا دیے رہے جبکہ دوسری جانب ایک ایک کر کے سب پویلین لوٹتے گئے۔ شکیب الحسن بھی صفر پر ہی آوٹ ہوئے۔ 92 کے ٹوٹل پر آٹھ کھلاڑی آوٹ ہونے پر افغانستان کی جیت یقینی لگ رہی تھی لیکن لٹن داس نے ہار نہیں مانی۔ تاہم یہ دن افغانستان اور خصوصا نوین الحق اور راشد خان کا تھا جنھوں نے چار چار وکٹیں حاصل کیں۔ راشد خان نے ٹی ٹوئنٹی میں سب سے کم عرصے میں ڈیڑھ سو وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا اور بنگلہ دیش کو صرف آٹھ رن سے شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انھوں نے 92 میچوں میں ڈیڑھ سو وکٹیں حاصل کی اور نیوزی لینڈ کے ٹم ساؤتھی کا ریکارڈ توڑا جنھوں نے 118 میچوں میں ڈیڑھ سو وکٹیں حاصل کر رکھی تھیں۔ میچ کے بعد راشد خان نے کہا کہ ’سیمی فائنل میں پہنچنا ہمارے خواب کی تکمیل ہے۔‘ راشد خان نے کہا کہ ’صرف ایک شخص افغانستان کو سیمی فائنل میں پہنچتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور وہ برائن لارا تھا، ہم نے ان کو درست ثابت کیا۔‘ ’جب ہم ویلکم پارٹی پر لارا سے ملے تو میں نے کہا کہ ہم آپ کو غلط نہیں ہونے دیں گے۔‘ افغانستان کی ٹیم کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر سیاست دانوں سے لے کر بالی وڈ اداکاروں تک نے ردعمل دیا۔ تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا کہ ’بنوں کی گلیوں میں کرکٹ کھیلنے والے کابل اور قندھار کے لڑکے دنیا میں کھیل کے سب سے بڑے ایونٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ چکے ہیں۔‘ ’یہ ایک غیر معمولی ٹیم کی غیر معمولی محنت کا نتیجہ ہے۔‘ خیال رہے کہ افغانستان کے کئی انٹرنیشنل کرکٹر ماضی میں پاکستان میں مقیم رہ چکے ہیں جن میں موجودہ ٹیم کے سینیئر رکن محمد نبی بھی شامل ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ادھر بالی وڈ اداکار سنیل شیٹی نے بھی ایکس پر لکھا کہ ’افغانستان کی جیت ایک خوبصورت ملک اور بہترین ٹیم کی کامیابی ہے جس کے وہ حقدار تھے۔‘ سنیل شیٹی نے لکھا کہ ’کابل آج جشن منائے گا اور دنیا بھی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک اور انڈین صارف نے لکھا کہ ’یہ افغانستان ہی نہیں بلکہ انڈیا کی بھی جیت کی طرح محسوس ہوا جبکہ بنگلہ دیش کی ٹیم نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔‘ ’وہ صرف افغانستان کا خواب ختم کرنے کے لیے آئے تھے کیونکہ وہ اپنے خواب پورے نہیں کر سکے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gggy33rx3o
انڈیا ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں: ’ساری ٹیمیں آسٹریلیا سے گذشتہ ورلڈ کپ کا بدلہ لے رہی ہیں‘
ایک موقع پر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ آسٹریلوی بیٹنگ انڈین بالنگ پر حاوی ہو رہی ہے حتیٰ کہ 13ویں اوور میں آسٹریلیا کے 128 کے سکور پر صرف دو کھلاڑی ہی آؤٹ تھے لیکن پھر انڈین بالروں نے میچ میں ایسی واپسی کی کہ انڈیا کو ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں کھیلے جا رہے ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ مل گئی۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے کے اہم میچ میں انڈیا نے آسٹریلیا کو 24 رنز سے شکست دے کر نہ صرف خود اگلے مرحلے میں جگہ بنائی بلکہ آسٹریلیا کے سیمی فائنل مرحلے تک پہنچنے کی امیدوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ اس میچ میں آسٹریلیا کے کپتان مچل مارش نے ٹاس جیت کر انڈیا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ اس میچ کے لیے آسٹریلیا اپنے اہم بولر مچل سٹارک کو ٹیم میں واپس لایا تھا جبکہ انڈیا کی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اگرچہ آسٹریلیا کے خلاف انڈیا کا آغاز بہترین نہ تھا کیونکہ ویراٹ کوہلی دوسرے اوور میں کوئی بھی رن بنائے بغیر صفر پر آؤٹ ہو گئے تاہم کپتان روہت شرما نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 41 گیندوں پر 92 رنز بنائے۔ ان کی اننگز میں آٹھ چھکے اور سات چوکے شامل تھے۔ انڈیا نے 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 205 رنز بنائے۔ روہت کے علاوہ رشبھ پنت نے 15، سوریا کمار یادیو 31 اور شیوم دوبے 28 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ ہاردک پانڈیا 27 اور جدیجا نو رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ آسٹریلیا کے مچل سٹارک اور مارکس سٹوئنس نے بالترتیب دو دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ جوش ہیزلوڈ نے ایک وکٹ حاصل کی۔ انڈیا کے 206 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے آسٹریلوی ٹیم صرف 181 رنز بنا پائی اور یوں انھیں 24 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پے در پے شکستوں کے بعد آسٹریلیا کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات محدود نظر آ رہے ہیں اور اب انھیں افغانستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے نتیجے کا انتظار کرنا ہو گا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سوشل میڈیا پر انڈین بالنگ کے کم بیک سے لے کر روہت کی بیٹنگ پر خوب واہ واہ ہو رہی ہے۔ ساگر نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’روہت نے آج ویراٹ کی ذمہ داری نبھائی ہے۔‘ روہت نے جس طرح بمرا کی بال پر ٹراویز ہیڈ کا کیچ پکڑا اس پر بھی انڈیا شائقین کافی خوش دکھائی دیتے ہیں اور بیشتر مداح انھیں ’بوم بوم بمرا‘ بلا رہے ہیں۔ آوٹ ہونے سے قبل ٹراویز 43 بالوں پر 76 رنز بنا چکے تھے اور وہ کچھ دیر اور کریز پر ٹکے رہتے تو میچ کا نتیجہ شاید مختلف ہوتا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کرکٹر سنجے منجریکر نے ایکس پر پوچھا کہ روہت شرما کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟ یقیناً یہ کہ وہ بڑی شاٹس آسانی سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے بڑھ کر وہ ایک ٹاپ آرڈر بلے باز اور لیڈر کے طور پر بے لوث انسان ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انڈیا کرکٹر ہارشا بوگلے کا کہنا ہے کہ انڈیا نے کم بیک سے اپنی کلاس دکھائی۔ انھوں نے اکسر اور کلدیپ کی شاندار بالنگ کی بھی تعریف کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 عبداللہ نامی پاکستانی صارف نے لکھا کہ ’پہلے افغانستان اور اب انڈیا، ساری ٹیمیں آسٹریلیا سے گذشتہ ورلڈ کپ کا بدلہ لے رہی ہیں۔ ہم بھی اگلے سال امریکہ سے بدلہ لیں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckdddykdpgzo
جنوبی افریقہ اور انگلینڈ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں: ’بدقسمتی میزبان ٹیموں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی‘
سوموار کے دن آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے گروپ 2 کے دو میچوں کے بعد اس گروپ سے دو ٹیمیں سیمی فائنل میں جگہ بنا چکی ہیں۔ بارباڈوس کے شہر برج ٹاؤن میں کھیلے گئے سپر ایٹ مرحلے کے میچ میں انگلینڈ نے امریکہ کو 10 وکٹوں سے شکست دیکر سیمی فائنل میں اپنی جگہ یقینی بنائی تو دوسری جانب میزبان ویسٹ انڈیز کو جنوبی افریقہ نے شکست دیکر باہر کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمی فائنل میں کون سی دو ٹیمیں انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہوں گی۔ لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی ٹیم، جس نے پاکستان کو اپ سیٹ شکست سے دوچار کیا تھا، انگلینڈ کے خلاف کیسے ہاری؟ انگلینڈ اور امریکہ کے میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے امریکہ کی ٹیم 19ویں اوور میں 115 پر ہی آل آؤٹ ہو گئی۔ انگلینڈ کے لیگ سپنر عادل رشید نے اپنے 4 اوورز میں محض 12 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ کرس جورڈن نے 2.5 اوور میں صرف 10 رنز کے عوض 4 وکٹیں حاصل کیں جس میں ایک ہیٹ ٹرک بھی شامل ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم جب بیٹنگ کے لیے آئی تو انھیں اپنا رن ریٹ جنوبی افریقہ سے بہتر کرنے اور سیمی فائنل تک رسائی کے لیے 116 رنز کا ٹارگٹ 18.4 اوور میں حاصل کرنے کی ضرورت تھی تاہم کپتان جوز بٹلر کی دھواں دار بیٹنگ کی بدولت ہدف 10ویں اوور میں ہی حاصل کر لیا۔ بٹلر نے 38 گیندوں پر 6 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے 83 رنز بنائے۔ سوموار کے دن کھیلے گئے دوسرے میچ میں جنوبی افریقہ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد ویسٹ انڈیز کو تین وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز نے 8 وکٹوں کے نقصان پر 135 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے روسٹن چیز نے سب سے زیادہ 52 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کی اننگز شروع سے ہی مشکلات کا شکار دکھائی دی اور دوسرے اوور کے اختتام پر دونوں اوپنر پویلین لوٹ چکے تھے۔ لیکن جنوبی افریقی کے لیے مشکلات اس وقت مزید بڑھ گئیں جب دوسرے اوور کے بعد تیز بارش شروع ہو گئی اور کھیل روکنا پڑا۔ یہ بارش جنوبی افریقہ کے لیے سنہ 1992، 2003، 2015 اور بارش سے متاثرہ کئی دوسرے میچوں کی تلخ یادیں بھی ساتھ لائی جسے شاید جنوبی افریقہ بھول ہی جانا چاہتا ہے۔ بالآخر 75 منٹ کی تاخیر کے بعد جب میچ دوبارہ شروع ہوا تو تین اوور ضائع ہو چکے تھے جبکہ ہدف کو کم کر کے 123 کر دیا گیا تھا۔ وقتاً فوقتاً وکٹیں کھونے کے باوجود جنوبی افریقہ نے ہدف آخری اوور کی پہلی گیند پر حاصل کر لیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف جیت کے بعد جنوبی افریقہ گروپ 1 سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم بن گئی۔ ویسٹ انڈیز کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے بعد اس سال بھی میزبان ٹیم کے ورلڈ کپ جیتنے کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں ہونے والا ایونٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا نواں ایڈیشن ہے۔ تاہم آج تک کوئی بھی میزبان ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ نہیں جیت پائی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی ہار پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک صارف دھیرج سنگھ کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی میزبان ٹیموں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی یہاں قابلِ ذکر ہے کہ آج تک سری لنکا کے علاوہ کوئی بھی میزبان ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی نہیں پہنچی ہے۔ سال 2012 میں سری لنکا میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو 36 رنز سے شکست دے دی تھی۔ پوانٹس ٹیبل پر اگر نظر ڈالی جائے تو گروپ 2 میں جنوبی افریقہ 6 پوائنٹس کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم ایونٹ میں اب تک ناقابلِ شکست رہی ہے۔ گروپ 2 سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم انگلینڈ ہے جس کے چار پوائنٹس ہیں۔ دوسری جانب گروپ 1 کی صورتحال کافی دلچسپ ہے جہاں اس وقت انڈیا دو میچوں کے بعد 4 پوائنٹس کے ساتھ سرِفہرست ہے جبکہ آسٹریلیا اور افغانستان کے دو دو پوائنٹس ہیں۔ تاہم بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر آسٹریلیا دوسری پوزیشن پر ہے۔ گروپ کی چوتھی ٹیم بنگلہ دیش دو میچوں کے بعد کوئی بھی پوانٹ حاصل نہیں کر پائی۔ آج انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ہونا والا سپر ایٹ مرحلے کا میچ آسٹریلیا کے لیے ’ڈو اور ڈائی‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آج کے میچ میں آسٹریلیا جیت جاتا ہے تو اس کے سیمی فائنل میں جانے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ تاہم اس کے بعد اگر کل ہونے والے میچ میں افغانستان بنگلہ دیش کو ہرا دیتا ہے تو گروپ 1 سے کون سی ٹیمیں سیمی فائنل میں جائیں گی اس کا فیصلہ رن ریٹ کی بنیاد پر ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں انڈیا، آسٹریلیا اور افغانستان، تینوں کے 4، 4 پوائنٹس ہوں گے۔ آسٹریلیا کی شکست کی صورت میں انڈیا سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ ایسی صورت میں گروپ 1 سے سیمی فائنل میں جانے والی دوسری ٹیم کا فیصلہ افغانستان اور بنگلہ دیش کے میچ میں ہوگا۔ اگر افغانستان کل کے میچ میں بنگلہ کو شکست دینے میں کامیاب رہتا ہے تو وہ سیمی فائنل کے کوالیفائی کر جائے تاہم بنگلہ دیش کی جیت صورت میں آسٹریلیا، افغانستان اور بنگلہ دیش میں سے کون سی ٹیم آگے جائے گی اس کا فیصلہ رن ریٹ کی بنیاد پر ہوگا۔ موجودہ رن ریٹ کو دیکھتے ہوئے ایسی صورت میں آسٹریلیا کے آگے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے فارمیٹ کے مطابق گروپ 1 کی ٹاپ ٹیم کا مقابلہ گروپ سے کوالیفائی کرنے والی دوسرے نمبر کی ٹیم سے ہوگا جبکہ گروپ 2 کی ٹاپر گروپ 1 سے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم سے کھیلے گی۔ فی الحال گروپ 2 ٹیمِوں کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ پوانٹس ٹیبل کے مطابق جنوبی افریقہ گروپ 2 پر پہلے نمبر پر جبکہ انگلینڈ دوسرے نمبر پر ہے۔ آج جیت کی صورت میں انڈیا گروپ 1 کی ٹاپ ٹیم کی حیثیت سے کولیفائی کر جائے گا اور اس کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوگا۔ بصورت دیگر گروپ سے 1 سیمی فائنل کی ٹیموں کا فیصلہ کل ہونے والے افغانستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے بعد ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c511nn38ggpo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں افغانستان کی آسٹریلیا کے خلاف تاریخی فتح اور ’سات ماہ بعد بہترین انتقام‘
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے میں افغانستان نے آسٹریلیا کو 21 رنز سے شکست دے کر تاریخ رقم کی ہے اور گذشتہ سال انڈیا میں ورلڈ کپ کے دوران سنسنی خیز مقابلے میں شکست کا ’بہترین انتقام‘ لیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ افغانستان نے عالمی مقابلوں میں آسٹریلیا کو کسی بھی فارمیٹ میں شکست دی ہے۔ گلبدین ںائب نے 20 رنز کے عوض چار وکٹیں حاصل کر کے افغانستان کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپنی شاندار پرفارمانس کے لیے وہ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ آسٹریلیا کی جانب سے سب سے قابلِ ذکر کھلاڑی گلین میکسویل رہے، انھوں نے 59 رنز بنائے مگر ان کے آؤٹ ہونے کے بعد افغانستان کے کھلاڑیوں کو اپنی جیت کا یقین ہوچکا تھا۔ خیال رہے کہ گذشتہ سال ورلڈ کپ کے میچ میں میکسویل نے ڈبل سنچری بنا کر افغانستان کے خلاف اپنی ٹیم کو میچ جتوایا تھا۔ افغانستان کی جیت کے بعد سوشل میڈیا پر افغان کرکٹ ٹیم کے مداح بہت پُرجوش نظر آئے۔ وزما ایوبی نامی ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم نے کر دکھایا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایک اور صارف سعدیہ کا کہنا تھا کہ بالآخر سات ماہ کے انتظار کے بعد افغانستان نے ’بہترین بدلہ لے لیا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ان صارفین کا اشارہ نومبر 2023 میں آسٹریلیا اور افغانستان کے درمیان ممبئی میں کھیلے گئے ورلڈ کپ 2023 کے میچ کی طرف تھا۔ اُس میچ میں گلین میکسویل نے 201 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر افغان ٹیم کو ایک یقینی جیت سے محروم کر دیا تھا۔ صادق اللہ صادق نامی صارف نے آج کے دن کو ’افغان کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین دنوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 دوسری جانب، سابق انڈین کرکٹر وسیم جعفر کا کہنا تھا کہ اس میچ کو اپ سیٹ کہ کر افغان کرکٹ ٹیم کی تذلیل نہ کریں۔ ان کے مطابق افغان ٹیم کسی بھی ٹیم کو ہرانے کے قابل ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 سنیچر کے روز کنگس ٹاؤن میں کھیلے جانے والے سپر ایٹ مرحلے کے میچ میں جب آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر افغانستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو افغان اوپنرز رحمان اللہ گُرباز اور ابراہیم زردان نے اپنی ٹیم کو شاندار آغاز مہیا کیا۔ افغانساتان کی پہلی وکٹ 16ویں میں 118 کے مجموعی سکور پر اس وقت گری جب رحمان اللہ 61 رنز بنا کر مارکس سٹوائنس کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد تو جیسے وکٹوں کا تانتا بندھ گیا اور افغانستان نے اگلی تین وکٹیں محض آٹھ رنز کے اضافے کے ساتھ گنوا دیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے والے آسٹریلوی بولر پیٹرک کمنس کا جادو ایک بار پھر پھر سر چڑھ کر بولتا نظر آیا جب انھوں نے ایک بار پھر لگاتار تین گیندوں پر تین وکٹیں حاصل کیں۔ وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں لگاتار دو میچوں میں ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے جبکہ بین القوامی کرکٹ میں لگاتار دو میچوں میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دوسرے بولر ہیں۔ ان سے پہلے پاکستان کے وسیم اکرم نے 1999 میں سری لنکا کے خلاف لگاتار دو ٹیسٹ میچوں میں ہیٹ کی تھی۔ کمنس کی بہترین پرفارمنس کے باعث افغانستان آسٹریلیا کو جیت کے لیے 148 رنز کا ہدف دے پائے۔ آسٹریلیا کی ٹیم جب بیٹنگ کے لیے آئی تو ابتدا سے ہی مشکلات کا شکار نظر آئی۔ پہلے ہی اوور میں نوین الحق نے آستریلوی اوپنر ٹریوس ہیڈ کو کلین بولڈ کر دیا۔ پاور پلے کے اختتام تک آسٹریلا کے دونوں اوپنر سمیت تین بلے باز پویلین لوٹ چکے تھے اور ایسا لگا جیسے آسٹریلیا کی کشتی پار لگانے کی ذمہ داری ایک بار پھر گلین میکسویل کے کندھوں پر آگئی۔ میچ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب لگنے لگا کہ میکسویل شاید ایک بار پھر افغانستان کی امیدوں پر پانی پھیر دیں گے جیسے انھوں نے مبئی میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ 2023 کے گروپ میچ میں 201 رنز بنا کر آسٹریلیا کو یقینی ہار سے بچا لیا تھا۔ تاہم افغانستان کو جیت یقینی اس وقت نظر آنے لگی جب 15ویں اوور میں میکسویل گلبدین ںائب کی گیند پر نور احمد کو کیچ دے بیٹھے۔ میکسویل نے تین چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے 41 گیندوں پر 59 رنز بنائے۔ ان کے علاوہ کوئی آسٹریلوی بلے باز خاطر خواہ کر کردگی نہیں دکھا سکا اور آسٹریلیا کی ٹیم آخری اوور میں 127 بنا کر آل آؤٹ ہوگئی۔ افغانستان کی جانب سے گلبدین نے 20 رنز کے عوض چار وکٹیں حاصل کیں۔ انھیں اس پرفامنس کے لے پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔ آج کے میچ کے بعد گروپ اے میں انڈیا دو میچوں کے بعد 4 پوائنٹس کے ساتھ بدستور سرِفہرست ہے، جبکہ آسٹریلیا اور افغانستان دو دو پواِنٹس کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہیں۔ آسٹریلیا کا اگلا میچ انڈیا کے خلاف 24 جون کو ہے جبکہ افغانستان اپنا آخری گروپ میچ بنگلہ دیش کے خلاف 25 جون کو کھیلے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3ggv04zgy5o
’ایسے کیسے پھیلے گی کرکٹ؟‘ سمیع چوہدری کی تحریر
آئی سی سی کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کی بدولت وہ کرشمہ ہو پایا جسے فطری طور پہ برپا ہونے کو شاید تین آئی سی سی ایونٹس بھی کم پڑ جاتے۔ امریکی مارکیٹ میں کرکٹ کا فروغ آئی سی سی کا سہانا خواب تھا جس کی عملی تعبیر میں بھرپور مدد پاکستان نے فراہم کی۔ پہلی بار آئی سی سی نے کھیل کے پھیلاؤ کے لیے ایسا انقلابی فارمیٹ متعارف کروایا ہے جہاں دنیا بھر کو نمائندگی دے کر کرکٹ کو گلوبل سپورٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ سو، امریکہ کا اس ایونٹ کی میزبانی کرنا بھلے امریکہ کے لیے نہ سہی، آئی سی سی کے لئے بہت بڑی بات تھی۔ پاکستان کی قیمت پہ امریکی ٹیم اس سپر ایٹ راؤنڈ تک پہنچ پائی جس کی ورلڈ کپ میں شمولیت ہی محض میزبانی کی بنیاد پہ تھی۔ اور پھر جو کچھ اپ سیٹ ہوئے، ان کی بدولت افغانستان اور بنگلہ دیش نے بھی نیوزی لینڈ اور سری لنکا جیسے پرانے کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کے مرکزی راؤنڈ سے باہر کر دیا۔ ان عوامل نے اگرچہ سپر ایٹ میں مسابقت کی حدت کچھ کم کر دی ہے مگر جنوبی افریقہ، انڈیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے طفیل کچھ رونق باقی بھی ہے۔ گو، ورلڈ ایونٹس کی دو دیرینہ رقابتیں پاک بھارت اور انگلینڈ آسٹریلیا مقابلوں میں نمٹ چکیں، مگر ایک نئی رقابت ابھی انڈیا آسٹریلیا مقابلے میں باقی ہے جو کڑی کرکٹ اور مقابلے کی بھرپور حرارت فراہم کرے گی۔ اگرچہ بنگلہ دیش اپنے ابتدائی دونوں میچز ہار کر سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہے مگر ویسٹ انڈیز، امریکہ اور افغانستان کے امکانات ابھی زندہ ہیں۔ البتہ سیمی فائنل تک غیر متوقع رسائی کے لیے انھیں اپنے علاوہ دیگر نتائج پہ بھی انحصار کرنا ہو گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آج تک کھیلے گئے آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹونٹی ایونٹس میں کبھی بھی میزبان ٹیم چیمپئن نہیں ٹھہری۔ ویسٹ انڈیز کے پاس البتہ یہ موقع ہے کہ وہ اس ریکارڈ کو بدلے اور دو ورلڈ ٹی ٹونٹی ٹائٹلز کے فاتح کپتان ڈیرن سامی کی ہونہار کوچنگ میں نئی تاریخ رقم کرے۔ ڈیرن سامی کی قیادت میں قابلِ تعریف پہلو ہمیشہ یہی رہا کہ لمبے ایونٹس میں شروع کی ناکامیوں کو کبھی سر پہ سوار نہیں کرتے تھے اور اپنا دھیان جیت کی کھوج میں اس قدر رچائے رکھتے کہ بوقتِ ضرورت قسمت کو بھی انہی پہ مہربان ہونا پڑتا تھا۔ پاول کی کپتانی اور سامی کی کوچنگ بھی کچھ ایسا معجزہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو ویسٹ انڈین کرکٹ کو زوال سے نکال کر، اپنی دیرینہ شہرت کی راہ پہ بحال کر سکے۔ لیکن سیمی فائنل تک رسائی پانے کو انہیں جنوبی افریقہ پہ حاوی ہونا پڑے گا۔ موجودہ ورلڈ کپ نے جہاں نئی امریکی مارکیٹ اور دنیا بھر سے مستعار شدہ امریکی کرکٹ ٹیم متعارف کروائی ہے، وہیں افغان کرکٹ کا شاندار ارتقا بھی واضح کیا ہے کہ کس قدر کم وقت میں افغان کرکٹ ایک ایسی قوت بن چکی ہے جسے ہرانا کسی بھی ٹیم کے لیے آسان نہیں ہے۔ افغان کرکٹ کا یہ بدلاؤ جوناتھن ٹروٹ کے ساتھ شروع ہوا اور کچھ عرصہ قیادت کی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد اب اسے راشد خان کی شکل میں ایک ایسا کپتان بھی مل چکا ہے جو جارحیت اور بے خوفی سے لیس ہے۔ مگر جس نکتے پہ آئی سی سی کو غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اس قدر تسلسل سے ہر سال ورلڈ ایونٹس کروانے کے باوجود ہر بار فائنل فور کی دوڑ گھوم پھر کر انہی چار پانچ چہروں تک کیوں آ جاتی ہے جن سے مانوسی اب بوریت کی حد تک بڑھنے لگی ہے۔ گو بظاہر کسی ممبر کا اس دوڑ تک رسائی پانا یا اس سے بے دخل ہونا آئی سی سی کے اختیار میں نہیں ہے مگر یہ بہرحال آئی سی سی کو ہی دیکھنا ہے کہ اس کا ریونیو ڈسٹری بیوشن ماڈل کس طرح سے کھیل کے صحیح پھیلاؤ میں رکاوٹ بنے جا رہا ہے۔ گو کہنے کو بِگ تھری کب کی ختم ہو چکی ہے مگر کھیل پہ راج آج بھی تین ہی ممالک کا ہے۔ یہی تینوں آپس میں اس قدر دو طرفہ کرکٹ کھیلتے ہیں کہ دیگر ٹیموں کو ان سے اجنبیت ہی ورلڈ کپ میں مہنگی پڑ جاتی ہے۔ کیا افغانستان اور آسٹریلیا کا آمنا سامنا صرف ورلڈ سٹیج پہ ہی ہو گا؟ نہ صرف موجودہ ریونیو ڈسٹری بیوشن ماڈل مضبوط ممالک کو مزید قوت دے رہا ہے بلکہ اس کی بدولت نیدرلینڈز جیسی زرخیز ٹیمیں بھی فنڈز کے لیے سسکتی رہ جاتی ہیں جو اپنے پوٹینشل میں فُل ممبرز سے ہرگز کم نہیں ہیں مگر وسائل کی قلت اور ایکسپوژر کی کمی ان پہ بھاری پڑتی ہے۔ فی الحال تو آئی سی سی سکھ کا سانس لے سکتی ہے کہ اسے نیوزی لینڈ اور پاکستان کی بے دخلی کے باوجود سپر ایٹ میں انڈیا کی کرکٹ مارکیٹ دستیاب رہی ہے اور ایک نئی امریکی مارکیٹ میں بھی کچھ نہ کچھ پر پھیلانے کا موقع ملا ہے۔ مگر کچھ ہی روز میں جب یہ ایونٹ تین چار متوقع فاتحین میں سے کسی ایک کی تاج پوشی پہ ختم ہو گا تو ایک لمحے کو یہ سوچنے کا بھی موقع ہو گا کہ کھیل کے فروغ کے لیے ہر سال کوئی ورلڈ کپ کروانا اور بگ تھری میں سے کسی ایک کی تاج پوشی ہی کافی نہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp44lr2jrxwo
شاہد آفریدی کی وائرل تصویر: ’اگلی مرتبہ تصویر بنوانے سے قبل پلے کارڈز کی تحریر غور سے پڑھیں‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر شاہد آفریدی ہمیشہ سے ہی خبروں کی زینت رہے ہیں، کبھی اپنے کھیل کو لے کر تو کبھی اپنے متنازع بیانات کو لے کر۔ لیکن اب ان کی ایک متنازع تصویر سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے جس میں وہ برطانیہ میں اسرائیل حامی تنظیم کے ایک گروپ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ بدھ کے روز شاہد آفریدی کے مداحوں کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب لندن میں اسرائیل حامی گروپ نارتھ ویسٹ فرینڈز آف اسرائیل (این ڈبلیو ایف او آئی) نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شاہد آفریدی کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی۔ اپلوڈ کی گئی تصویر میں شاہد آفریدی نارتھ ویسٹ فرینڈز آف اسرائیل کے دو مظاہرین کے ہمراہ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے اپنے ہاتھ میں ایک پمفلیٹ پکڑا ہوا ہے جس میں لوگوں کو برطانوی حکومت پر غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مانگ کرنے کے لیے اپیل کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے ایکس اکاؤنٹ سے کی گئی اس متنازع پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’گذشتہ اتوار پاکستانی بین الاقوامی کرکٹر شاہد آفریدی این ڈبلیو ایف او آئی کے تحت مانچسٹر میں منعقد احتجاج میں آئے اور یرغمالیوں کی رہائی کے ہمارے مطالبے کے لیے اپنی حمایت کی۔‘ اسرائیل حامی گروپ کے مطابق پوسٹ میں لکھا گیا ’شاہد آفریدی کے ساتھ اس تصویر میں این ڈبلیو ایف او آئی کے شریک چیئرمین رافی بلوم اور ڈپٹی چیئرمین برنی یاف موجود ہیں۔ ’آپ کی حمایت کا شکریہ، شاہد!‘ 19 جون کو اپلوڈ کی جانے والی اس پوسٹ کو ایکس پر تقریباً 18 لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 این ڈبلیو ایف او آئی کی متنازع پوسٹ کے بعد شاہد آفریدی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ ’براہ کرم اپ لوڈ کی گئی ہر چیز پر یقین نہ کریں۔‘ انھوں نے اپنی اس تصویر پر وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’تصور کریں کہ آپ مانچسٹر (برطانیہ) کی ایک گلی میں ٹہل رہے ہیں اور کچھ نام نہاد پرستار سیلفی لینے کے لیے آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ ان کی بات مان لیتے ہیں۔ چند لمحوں بعد وہ اس کو صیہونیت توثیق کی شکل دے کر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔‘ شاہد آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ’فلسطین میں معصوم جانوں کی تکلیف کو دیکھنے سے دل کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ لہذا مانچسٹر میں کسی ایسی تنظیم کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر کو میری کسی قسم کی حمایت نہیں سمجھا جا سکتا جہاں انسانی جانیں خطرے میں ہوں۔‘ سابق کپتان نے مزید کہا کہ ’میں پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے شائقین کے ساتھ تصویریں کھنچواتا ہوں، اور یہ صورتحال بھی مختلف نہیں تھی۔ میں اس جنگ کے خاتمے کی دعا کرتا ہوں، میں آزادی کی دعا کرتا ہوں۔‘ دوسری جانب این ڈبلیو ایف او آئی کا دعوٰی ہے کہ آفریدی نے اپنے اور ان کے فون سے تصاویر لی تھی اور ’وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس پوسٹ کے شائع ہونے کے بعد شاہد آفریدی کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کچھ نے ان کی حمایت میں بات کی۔ مہوش علی نامی صارف نے شاہد آفریدی کی وضاحتی ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بات یہ جنگ نہیں بلکہ نسل کشی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر یہ محض ایک فین مومنٹ تھا تو اس تنظیم کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے، اس کی شروعات اس تنظیم کی عوامی سطح پر مذمت کر کے اور انھیں ٹیگ کر کے کی جائے۔ اس ضمن میں ایک سادہ ٹویٹ اس سنگین غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اگلی مرتبہ تصویر بنوانے سے قبل یہ سوچنے کی بجائے کے لوگ آپ کے لیے دیوانے ہیں، پلے کارڈ کی تحریر کو غور سے پڑھیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ڈاکٹر وقاص نامی ایک صارف نے ان کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب کچھ شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ اس پر یقین کرتا ہوں کیونکہ کوئی پاکستانی اور مسلمان اس نسل کشی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن زیادہ تر لوگ اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ (شاہد آفریدی) اس تنظیم کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو قانونی مقدمہ دائر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک صارف نے شاہد آفریدی پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’ ٹہلنا؟ کیا آپ اندھے ہیں کہ ان کے پوسٹروں پر کیا لکھا ہے آپ پڑھ نہیں سکتے؟ آپ جھوٹے ہیں اور اندرون و بیرون ملک ظلم کے حامی ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آپ لاکھ اختلاف رکھیں آفریدی سے لیکن وہ کبھی بھی مسلمانوں سے غداری نہیں کرسکتے، تنقید سیاسی نظریات تک محدود ہونی چاہیے، مجھے سو فیصد یقین ہے کہ یہ تصویر محض ایک اتفاق ہے اور کچھ نہیں، باقی اسرائیل میں کرکٹ کا کوئی تصور نہیں تو یہ فین کہاں سے آئے یہ بھی ایک سوال ہے.‘ جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آپ کی عزت میرے دل سے ختم ہو گئی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/czkkj7l3x4mo
’یہ ورلڈ کپ تھا، پی ایس ایل نہیں‘
جب افراد اداروں پر بھاری پڑنے کی کوشش میں لگ جائیں تو بدترین خدشات کو حقائق میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہی پاکستان کرکٹ بورڈ کا دیرینہ المیہ رہا ہے اور اس کی قیمت ہمیشہ کھلاڑیوں اور شائقین کو چکانا پڑی ہے۔ پی ایس ایل کے اختتامی میچز جاری تھے کہ اچانک راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نمودار ہوئے۔ جب میچ کے دوران بھرپور کیمرہ کوریج لے کر بھی ان کی تشفی نہ ہوئی تو میچ کے بعد ایک پریس کانفرنس بلا ڈالی۔ وہ پریس کانفرنس بظاہر پاکستان کرکٹ سے متعلق تھی مگر دراصل وہ محسن نقوی کی شخصیت کے اس خلوص، ایثار اور لگن کا ایک قصیدہ تھی جس کے قصیدہ گو موصوف ’بقلم خود‘ تھے اور انھوں نے ملک کی خاطر اپنا کاروبار تیاگ دینے اور تین تین ہائی پروفائل عہدوں کی ذمہ داریاں نبھانے پر فخر کا اظہار کیا۔ گو پاکستانی کھلاڑی ورلڈ کپ کھیلنے جا رہے تھے مگر محسن نقوی نے ان کے چھکوں کی لمبائی بڑھانے کے لیے، کاکول اکیڈمی میں ایسی ٹریننگ دلوانے کی کوشش کی جس کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کاکول اکیڈمی کی ان مشقوں کو رومانوی پیرائے میں سمیٹنے کے لیے انھیں ’ٹیم بانڈنگ‘ ایکٹویٹی قرار دیا گیا اور اصل ٹیم بانڈنگ کا حشر یہ ہوا کہ چار ماہ پہلے مقرر کردہ کپتان شاہین آفریدی اپنی ایما پر محمد عامر کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر قائل کر رہے تھے جبکہ محسن نقوی شاہین آفریدی سے قیادت واپس لے کر بابر اعظم کو بحال کر رہے تھے۔ جس غیر متاثر کن قیادت اور کمزور فیصلہ سازی کی بنیاد پر بابر اعظم کو ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، وہی مسائل لیے بابر اپنی کرسی پر واپس آ گئے اور شاہین آفریدی کو ان کی نائب کپتانی کی آفر کر کے مزید سبکی کا سامان کیا گیا۔ اور اس سارے ڈرامے میں وہ اصل مدعا کہیں بہت پیچھے رہ گیا جو ماڈرن کرکٹ کھیلنا اور ورلڈ کپ میں بہترین ٹیموں کا مقابلہ کرنے کی سٹریٹیجی طے کرنا تھا۔ پاکستان کے لیے اگرچہ ٹی ٹونٹی ورلڈ ٹورنامنٹس میں یہ بدترین کارکردگی رہی ہے مگر اپنے احوال میں یہ ون ڈے ورلڈ کپ 2003 کی یاد دلاتی ہے جہاں پاکستان نے پچھلی ایک دہائی کی مضبوط ترین ٹیم ورلڈ ٹائٹل کے حصول کے لیے بھیجی تھی۔ اور جیسے پاکستان کی یہ ٹیم اب بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے دو مبینہ متحارب گروہوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے، ایسے ہی وہ مضبوط ترین ٹیم بھی وسیم اکرم اور وقار یونس کے دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور پہلے ہی راؤنڈ سے ہزیمت سمیٹ کر وطن واپس لوٹ آئی تھی۔ یہ تو اب بالکل واضح ہو چکا کہ بطور کپتان بابر اعظم ہرگز وہ سٹار نہیں جو بیٹنگ چارٹس میں دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ انڈیا اور کینیڈا کے خلاف میچز میں ان کی قائدانہ سٹریٹیجی میں کچھ بہتری دکھائی دی مگر بطور گیم ریڈر، ان کی سوجھ بوجھ وہ نہیں ہے جو ایک انٹرنیشنل ٹیم کے کپتان کی ہونا چاہیے۔ اور ایسی غیر متاثر کن قیادت ہی کم نہ تھی کہ ٹیم میں گروپنگ سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی۔ پھر بھی اگر کوئی کسر باقی تھی تو وہ ان ’سینئرز‘ کی ریٹائرمنٹ سے واپسی نے پوری کر دی جنھیں، بقول محمد وسیم، ماضی کے سبھی کوچز ٹیم کے لیے کینسر قرار دے چکے تھے۔ سو، ورلڈ کپ میں پاکستان کی امیدوں کا جو حشر ہوا، وہ یکسر غیر متوقع نہیں تھا کہ بالآخر ’کینسر‘ کا مریض تگڑے صحت مند حریفوں کے سامنے یہی کچھ کر سکتا تھا جو بابر اعظم کی اس الیون نے کیا۔ ایک ہی میچ میں، نو آموز امریکی ٹیم سے، دو بار شکست نے اس الیون کا مورال اتنا گرا دیا کہ پھر اس کے اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکا اور ٹیم بننے کی ناکام کوشش میں الجھی یہ الیون مزید تقسیم کی طرف بڑھنے لگی۔ اب پاکستانی شائقین ہی کی طرح چئیرمین پی سی بی بھی یوں حیران ہو رہے ہیں گویا یہ سب ان کے لیے بالکل غیر متوقع رہا ہو۔ جبکہ درحقیقت یہ تبھی نوشتہ دیوار ہو چکا تھا جب نیوزی لینڈ کی ’سی‘ ٹیم ہی پاکستانی سورماؤں پر بھاری پڑ گئی تھی۔ محسن نقوی نے اب اس ٹیم میں ’آپریشن کلین اپ‘ کا عندیہ دے ڈالا ہے۔ گویا کرکٹ ٹیم نہ ہوئی، خدانخواستہ کچے کے ڈاکو ہو گئے کہ جن کے لیے ’آپریشن کلین اپ‘ جیسی اصطلاح استعمال کر کے محسن نقوی اپنی آمرانہ مطلق العنانیت کو مزید سہلانا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، اس کارکردگی میں ٹیم کی صلاحیت سے زیادہ نیت اور آف فیلڈ سرگرمیاں کار فرما ہیں مگر اس کا تدارک ایسی سرجری سے نہیں ہو سکتا جو چئیرمین کے ذہن میں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے مزید نیچے گرنا پاکستان کرکٹ کے لیے ممکن نہیں۔ مگر یہاں سے اوپر اٹھنے کے لیے رستہ طے کرنا بھی اتنا آسان نہیں۔ اگر پاکستان کو اپنی آئندہ ورلڈ کپ کمپینز میں ایسے ڈراؤنے خوابوں سے بچنا ہے تو کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کی اصلاح ضروری ہے جہاں نہ صرف فرسٹ کلاس سٹرکچر کی درستی لازم ہے بلکہ ٹیم میں سلیکشن کا معیار بھی بدلنا ہو گا۔ پی ایس ایل کی شارٹ کٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ کا ٹکٹ بٹورنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز کو ترجیح دینا ہی راست اقدام ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی ورلڈ ٹرافی جیتنے کے لیے صرف بہترین الیون ہی کافی نہیں ہوا کرتی۔ بابر اعظم کی بیٹنگ مہارت و عظمت سر آنکھوں پر، لیکن قیادت کے لیے پاکستان کو ایسا زیرک دماغ ڈھونڈنا ہو گا جو کرکٹ کی باریکیاں پڑھنے میں طاق ہو اور اپنے چار پسندیدہ دوستوں سے آگے دیکھ کر ٹیم کے لیے سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd11mg8jjnxo
پاکستان کی آئرلینڈ کے خلاف فتح لیکن وہی مایوس کن بیٹنگ: ’ٹیم میں مڈل آرڈر کا وجود ہی نہیں ہے‘
پھر وہی کہانی، پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کی زبانی! آئرلینڈ کے 107 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ایک موقع پر صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ فخر زمان، عثمان خان، شاداب خان اور عماد وسیم پر مشتمل پاکستانی مڈل آرڈر مجموعی طور پر صرف 11 رنز بنا کر پویلین لوٹ چکا تھا اور پاکستان کے 62 رنز پر چھ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ یہ کہانی اس ورلڈکپ میں پاکستانی بیٹنگ کی روداد رہی ہے کہ جب بھی مڈل آرڈر کو بیٹنگ کو سہارا دینے کی باری آئی ہے تو الٹا معاملہ کھٹائی میں ہی پڑا ہے۔ میچ سے قبل آلراؤنڈر عماد وسیم کی جانب سے سوچ میں تبدیلی کی جو بات کی گئی وہ پاکستانی بیٹنگ کے انداز میں شروعات سے ہی دکھائی نہیں دی اور ایک، ایک کر کے ہر بلے باز ہی آئرش بولرز کے سامنے ڈھیر ہوتا گیا۔ ایسے میں اس ورلڈکپ میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے عباس آفریدی نے کچھ جارحانہ انداز اپنایا اور دوسرے اینڈ پر موجود کپتان بابر اعظم نے سست روی سے سکور تو کیا لیکن یہ بھی یقینی بنایا کہ مزید وکٹیں نہ گریں اور وہ آخر تک موجود رہیں۔ بابر اور عباس آفریدی کے درمیان 40 گیندوں پر 33 رنز کی شراکت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان نے آئرش فاسٹ بولرز کے اوورز بھی ختم کیے اور اس دوران کوئی وکٹ بھی نہیں گرنے دی۔ جب عباس آفریدی بالآخر بین وائٹ کی گیند پر چھکا مارنے کی کوشش میں آؤٹ ہوئے تو شاہین آفریدی نے آتے ہی دو چھکے لگائے اور یہ میچ آخر کار پاکستان نے جیت لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پچ بولرز کے لیے سازگار تھی اور اس کی وجہ رواں ہفتے کے دوران یہاں متواتر بارش اور سیلابی کیفیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بابر اعظم کی جانب سے یہاں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا گیا جو شاہین آفریدی کے اوپننگ سپیل میں ہی درست ثابت ہوتا دکھائی دیا۔ شاہین نے اپنے پہلے ہی اوور میں اوپنر اینڈی بالبرین اور ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلنے والے لورکان ٹکر کو آؤٹ کیا اور اگلے ہی اوور میں پال سٹرلنگ صرف ایک رنز بنا کر پویلین لوٹے اور یوں آئرلینڈ کے صرف چار رنز پر تین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں، شاہین، حارث اور عامر نے دوبارہ وکٹیں حاصل کیں اور اب ان کے ساتھ عماد وسیم نے بھی اپنی سپن بولنگ کے ذریعے آئرش بلے بازوں کو آؤٹ کرنا شروع کیا۔ ایک موقع پر آئر لینڈ کا سکور چھ وکٹوں کے نقصان پر 32 رنز تھا۔ تاہم گیرتھ ڈیلینی اور مارک ایڈیئر کی 44 رنز اور پھر بین وائٹ اور جاش لٹل کی 26 رنز کی شراکت نے آئرلینڈ کا سکور 106 رنز تک پہنچا دیا۔ ادھر پاکستان کے لیے بیٹنگ کا آغاز کرنے والے محمد رضوان اور صائم ایوب نے 23 گیندوں پر 25 رنز کی اوپننگ شراکت جوڑی لیکن ان کے آؤٹ ہوتے ہی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین اس میچ میں پاکستان کی بیٹنگ پرفارمنس کو اس ٹورنامنٹ میں ٹیم کی کارکردگی کا خلاصہ قرار دے رہے ہیں۔ بابر اعظم کی جانب سے میچ کے بعد پریس کانفرنس میں ایک سوال پر کہا گیا کہ ’ہمارے پاس اچھے کھلاڑی ہیں لیکن بطور ٹیم ہم اچھا نہیں کھیل پائے۔ اب ہم واپس جائیں گے اور سوچیں گے کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں۔‘ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین بابر اعظم کی جانب سے آخر تک کھڑے رہنے پر بابر اعظم کی تعریف کر رہے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ انھوں نے خاصی سست روی کا مظاہرہ کیا اور انھیں ایک موقع پر جارحانہ بیٹنگ کرنی چاہیے تھی۔ سوشل میڈیا پر صارفین شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے تین وکٹیں حاصل کرنے اور پھر آخر میں آ کر دو چھکے لگانے پر تعریف کر رہے ہیں۔ آج پھر محمد عامر کی جانب سے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور انھوں نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ ایک صارف نے محمد عامر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈکپ کے چار میچز میں سات وکٹیں حاصل کیں اور انھوں نے 51 گیندیں ڈاٹ بالز کروائیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سوشل میڈیا پر کچھ صارفین بابر اعظم کی جانب سے آخر تک کھڑے رہنے پر بابر اعظم کی تعریف کر رہے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ انھوں نے خاصی سست روی کا مظاہرہ کیا اور انھیں ایک موقع پر جارحانہ بیٹنگ کرنی چاہیے تھی۔ سوشل میڈیا پر صارفین شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے تین وکٹیں حاصل کرنے اور پھر آخر میں آ کر دو چھکے لگانے پر تعریف کر رہے ہیں۔ آج پھر محمد عامر کی جانب سے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور انھوں نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ ایک صارف نے محمد عامر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈکپ کے چار میچز میں سات وکٹیں حاصل کیں اور انھوں نے 51 گیندیں ڈاٹ بالز کروائیں۔‘ اکثر صارفین ٹیم میں کمزور مڈل آرڈر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ایک صارف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’ٹیم میں مڈل آرڈر کا وجود ہی نہیں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgg1pdmeelo
’قدرت کے نظام نے دھوکہ دے دیا‘ آئر لینڈ اور امریکہ کا میچ بارش کی نذر، پاکستان ورلڈکپ سے باہر
آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ میں امریکہ اور آئرلینڈ کے درمیان میچ بارش اور گیلے میدان کی وجہ سے منسوخ ہو گیا ہے اور اس طرح پاکستان کی ٹیم عالمی کپ سے باہر ہو گئی ہے جبکہ امریکہ نے سپر ایٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران گروپ اے کے اہم میچ آئر لینڈ بمقابلہ امریکہ کے آغاز سے قبل امریکی شہر لوڈر ہل کا موسم موضوع بحث بنا رہا ہے۔ آج کھیلے جانے والے اہم میچ میں پاکستانی وقت کے مطابق سات بجے ٹاس ہونا تھا لیکن میدان گیلا ہونے کی وجہ سے ٹاس اور میچ کا آغاز تاخیر کا شکار رہا۔ اس دوران امپائرز نے کئی مرتبہ میدان کا معائنہ کیا لیکن گذشتہ روز ہونے والی شدید بارش کی وجہ سے میدان بہت زیادہ گیلا تھا اور تین گھنٹے سے زائد دیر تک مختلف مراحل میں کئی بار معائنے کے بعد امپائرز نے دونوں ٹیموں کے کپتانوں سے مشاورت کے بعد میچ کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بارش کی وجہ سے کھیل نہیں ہوا اوردونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دیا گیا جس کے بعد گروپ اے میں امریکہ کی ٹیم پانچ پوائنٹس کے ساتھ اگلے مرحلے میں پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان اپنے گروپ کا آئرلینڈ کے خلاف 16 جون کو ہونے والا آخری میچ کھیلنے سے پہلے ہی ورلڈکپ سے باہر ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے ایونٹ میں رہنے کے لیے پہلے تو آئرلینڈ اور امریکہ کا میچ ہونا ضروری تھا اور اگر میچ ہوتا تو اس میں امریکہ کی شکست بھی ضروری تھی۔ پاکستان کے ساتھ آئرلینڈ بھی باضابطہ طور پر ورلڈکپ مقابلوں سے باہر ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ٹی20 ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ امریکہ کے خلاف کھیلا تھا اور اس نے دلچسپ مقابلے کے بعد سپر اوور میں پاکستان کو شکست دے کر ورلڈ کپ کا بڑا اپ سیٹ کیا تھا۔ پاکستان کے ورلڈ کپ سے باہر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر مختلف صارفین نے اس تبصرے اور میمز شیئر کرنا شروع کر دی اور صارفین جہاں پاکستانی ٹیم کی بری کارکردگی کو کوس رہے ہیں وہیں ’قدرت کے نظام‘ کا ساتھ بھی نہ ملنا زیر بحث ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’بلاآخر قدرت کا نظام بھی بارش کی وجہ سے ختم ہو گیا۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’اس ملک میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا، ہمارے سب سے اہم اثاثہ قدرت کے نظام نے بھی ہمیں دھوکہ دے دیا۔‘ ایک صارف نے پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر تبصرہ کیا کہ ’ یہ بہترین مثال ہے کہ قدرت کا نظام صرف ان کی مدد کرے گا جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ جب آپ 3 پر 12 رنز کا دفاع نہیں کر سکتے یا 48 گیندوں پر 48 رنز نہیں بنا سکتے تو آپ کسی چیز کے مستحق نہیں تھے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’فلوریڈا لاڈرہل میں ایک بار پھر بارش ہو رہی ہے۔ پاکستان اس ورلڈ کپ سے باضابطہ طور پر نکل گیا ہے، ایک بار پھر دل ٹوٹ گیا ہے۔ قدرت ہمیشہ مدد نہیں کرے گی۔‘ گروپ اے کے تین میچز میں میزبان امریکہ کے علاوہ پاکستان، آئر لینڈ اور کینیڈا تینوں ٹیموں کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ انڈیا کے ہمراہ سپر ایٹ راؤنڈ میں کوالیفائی کر سکیں۔ خیال رہے کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تین گروپ سٹیج مقابلوں کی منسوخی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔ امریکہ کے خلاف انڈیا کی فتح کے بعد ٹورنامنٹ کے نیو یارک میں میچز اختتام پذیر ہوگئے اور اس گروپ کے بقیہ تین میچز فلوریڈا کے شہر لوڈر ہِل کے سینٹرل بروورڈ پارک میں ہونا تھے۔ تاہم فلوریڈا کو طوفانی بارشوں کا سامنا ہے اور اس ریاست میں گذشتہ دنوں کے دوران ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔ وہاں مزید بارشوں کی بھی پیشگوئی کی گئی ہے اور متعلقہ ادارے ہائی الرٹ پر ہیں۔ امریکی نیشنل ویدر سروس نے پیشگوئی کی تھی کہ جمعے کی صبح لوڈر ہِل میں غیر معمولی بارشوں کا امکان ہے۔ اسی روز امریکہ کا آئر لینڈ سے مقابلہ ہے جس کے گروپ سٹیج میں پوائنٹس ٹیبل پر اثرات ہوسکتے ہیں۔ جمعرات کو سینٹر بروورڈ پارک کے گراؤنڈ سٹاف نے کوورز ہٹا دیے تھے تاکہ گراؤنڈ کو خشک کیا جاسکے تاہم میچ سے قبل آئر لینڈ اور امریکہ دونوں ٹیمیں باہر ٹریننگ نہیں کر سکیں۔ 25 ہزار شائقین کی گنجائش والے اس سٹیڈیم کا افتتاح 2007 میں ہوا تھا۔ اس میں پانی کی نکاسی کا اچھا نظام موجود ہے اور منتظمین کو امید ہے کہ اگر موسم نے اجازت دی تو تمام میچز ممکن ہوسکیں گے۔ 11 جون کو یہاں بارش ہی کی وجہ سے سری لنکا اور نیپال کے درمیان میچ منسوخ ہوا تھا۔ خیال ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے بقیہ میچز کو قلیل مدت میں کہیں اور منتقل کرنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ امریکہ کے سپر ایٹ راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرنے کے اچھے امکانات ہیں کیونکہ اس نے تین میں سے دو میچز جیتے ہیں۔ اگر وہ جمعے کو آئرلینڈ کے خلاف جیت جاتے ہیں تو گروپ کے باقی دونوں میچز بے معنی ہوجائیں گے۔ یعنی اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ پاکستان آئر لینڈ کے خلاف اپنا میچ جیت جائے۔ اگر جمعے کا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہوجاتا ہے تو امریکہ کے پانچ پوائنٹ ہوجائیں گے اور وہ سپر ایٹ راؤنڈ میں کوالیفائی کر جائے گا۔ باقی تینوں ٹیموں (پاکستان، کینیڈا اور آئر لینڈ) کے پوائنٹس ان سے کم رہیں گے جس کی بدولت وہ سپر ایٹ راؤنڈ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اگر آئرلینڈ کو امریکہ کے خلاف فتح حاصل ہوتی ہے تو پاکستان اور کینیڈا میں سے ایک ٹیم نیٹ رن ریٹ کے اعتبار سے اوپر آ سکتی ہیں۔ کینیڈا اور انڈیا کا میچ سنیچر کو جبکہ اتوار کو پاکستان بمقابلہ آئر لینڈ ہوگا۔ افغانستان نے پاپوا نیو گنی کو سات وکٹوں سے شکست دے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر ایٹ راؤنڈ تک رسائی حاصل کر لی ہے جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم اس ایونٹ سے باہر ہوگئی ہے۔ کپتان راشد خان کی ٹیم نے پاپوا نیو گنی کو 95 رنز پر آل آؤٹ کر دیا جس کے بعد گلبدین نائب نے 49 رنز کی ناقابل شکست باری کھیلی۔ اس سے قبل فضل حق فاروقی نے تین جبکہ نوین الحق نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ افغانستان کی اس فتح کا مطلب یہ ہے کہ گروپ سٹیج میں ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی ہے۔ یہ وہ ٹیم تھی جس نے گذشتہ تین ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس کے سیمی فائنل کھیلے جبکہ انھیں 2021 کے فائنل میں شکست ہوگئی تھی۔ کین ولیمسن کی ٹیم کو افغانستان کے خلاف پہلے ہی میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنا دوسرا میچ بھی ہار گئے تھے۔ 2014 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نیوزی لینڈ اس ایونٹ کی چار بہترین ٹیموں میں شامل نہیں ہے۔ اپنی کامیابی پر افغانستان کے کپتان راشد خان نے کہا کہ ’اگلے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرنا بہترین ہے۔ لڑکوں نے پہلے میچ سے ہی بھرپور کوششیں کی ہے، ہم نے جلد کنڈیشنز کے مطابق ایڈجسٹ کیا۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’فضل حق جیسے بولر پہلی گیند سے ہی جارحانہ کھیلتے ہیں جس سے ہمارا بولنگ یونٹ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر آپ جلد وکٹیں حاصل کر لیں تو مڈل اوورز میں مدد ملتی ہے۔ اگر بلی باز آپ پر اٹیک کرے تو آپ کو بھی اٹیک کرنا چاہیے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv22r90g7d6o
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ: ڈراپ کیچ جس کے باعث پاکستان کے اگلے راؤنڈ تک رسائی کے امکانات اب بھی برقرار ہیں
گذشتہ سات سالوں میں پاکستان جب بھی کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچا ہے تو اس کی ایک وجہ کسی دوسری ٹیم کے کھلاڑی کا کیچ چھوڑنا یا کوئی بہترین کیچ پکڑنا ٹھہرا ہے۔ سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کو جب اگلے راؤنڈ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سری لنکا کے خلاف میچ جیتنا لازم تھا تو مڈ آن پر کھڑے تھسارا پریرا نے سرفراز احمد کا کیچ چھوڑا تھا اور پاکستان وہ میچ سرفراز احمد کی نصف سنچری کی بدولت جیتا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سنہ 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جب پاکستان کو نیدرلینڈز سے ایک معجزے کی امید تھی تو ان کی جنوبی افریقہ پر فتح کے درمیان ڈیوڈ ملر حائل تھے۔ ایسے میں فائن لیگ پر کھڑے نیدر لینڈز کے وینڈرمروے نے ایک عمدہ کیچ پکڑ کے جنوبی افریقہ کی امیدوں پر پانی پھیرا اور یوں پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک رسائی آسان ہوئی۔ آج انڈیا اور امریکہ کے درمیان میچ میں بھی ایک کیچ شاید فیصلہ کن ثابت ہوا جب انتہائی دباؤ کا شکار انڈیا کو رنز کی ضرورت تھی تو سوریا کمار یادو کا ٹاپ ایج امریکی فاسٹ بولر سوربھ نریش نیتراوالکر کے ہاتھوں میں گیا لیکن وہ اسے پکڑ نہ پائے۔ یہ وہی نیتراوالکر ہیں جنھوں نے پاکستان کے خلاف سپر اوور میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا اور امریکہ کے 19 رنز کے ہدف کا دفاع کیا تھا۔ آج بھی انھوں نے بہترین بولنگ کرتے ہوئے انڈین اوپنرز وراٹ کوہلی اور روہت شرما کو آؤٹ کیا۔ تاہم جب ان سے یہ کیچ چھوٹا تو اس وقت انڈیا کو جیت کے لیے 45 گیندوں پر 53 رنز درکار تھے اور نیویارک کی مشکل پچ پر کسی بھی نئے بلے باز کے لیے سکور کرنا بہت مشکل تھا۔ تاہم پھر سوریا کمار یادو کی نصف سنچری نے انڈیا کی سپر ایٹ راؤنڈ تک رسائی یقینی بنائی۔ یہ ڈراپ کیچ پاکستان کے لیے کیسے اہم ہے؟ کیچ ڈراپ ہونے کے بعد سوریا کمار یادو اور شوم دوبے نے جارحانہ انداز اپنایا اور میچ 10 گیندیں پہلے ہی ختم کر دیا۔ یوں پاکستان کا نیٹ رن ریٹ اب امریکہ سے بہتر ہے اور اسے صرف آئرلینڈ کی امریکہ کو شکست اور آئرلینڈ پر اپنی فتح کے ساتھ ان دونوں میچوں کو بارش کے باعث منسوخ نہ ہونے کی دعا کرنی ہے۔ یہ ایک اور آئی سی سی ٹورنامنٹ ہے اور ایک بار پھر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہی صورتحال ہے کہ اب کون جیتے، کون ہارے اور کتنے رن سے ہارے کہ ٹیم اگلے راؤنڈ تک کوالیفائی کرنے کے قابل ہو۔ پاکستان نے منگل کو کینیڈا کو سات وکٹوں سے شکست دی تھی اور اب انڈیا کی امریکہ پر فتح کے بعد پاکستان کو آئرلینڈ کے خلاف فتح کے ساتھ آئرلینڈ اور امریکہ کے درمیان میچ میں آئرلینڈ کی فتح کی دعا کرنی ہے اور یہ بھی کہ یہ دونوں میچ بارش سے متاثر نہ ہوں۔ اتوار کو پاکستان کے پاس انڈیا کو شکست دینے کا ایک سنہری موقع تھا لیکن پھر ایک جیتی ہوئی پوزیشن سے شکست کھانے کے بعد پاکستان کے ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے کے امکانات اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت پاکستانی مداحوں کی جانب سے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان اگلے راؤنڈ میں جانے کا حق دار بھی ہے، لیکن ہم اس بحث میں جائے بغیر آپ کو فی الحال یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کو اب اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟ گروپ اے میں ابھی تین میچ باقی ہیں اور ان میں سے دو میچوں کے نتائج پاکستان کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان کا گروپ میں آخری میچ آئر لینڈ کے خلاف 16 جون کو شام 7:30 بجے ہو گا۔ ادھر امریکہ اپنا آخری میچ آئرلینڈ کے خلاف 14 جون کو کھیلے گا۔ انڈیا گروپ کا آخری میچ کینیڈا کے خلاف کھیلے گا۔ ویسے تو ظاہر ہے پاکستان امریکہ سے اپ سیٹ شکست اور انڈیا سے ایک جیتی ہوئی پوزیشن سے ہارنے کے باعث اس پوزیشن پر پہنچا ہے لیکن ان دونوں میچوں میں شکست بہت کم مارجن سے ہوئی ہے جس کے باعث پاکستان کا نیٹ رن ریٹ بہت زیادہ کم نہیں ہوا۔ پاکستان اس وقت گروپ میں کینیڈا سے ایک میچ جیتنے کے بعد دو پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت پاکستان کا نیٹ رن ریٹ 0.191 ہے۔ اب تک دو میچ جیت کر امریکہ کے چار پوائنٹس ہیں اور اب انڈیا سے شکست کے بعد اس کا نیٹ رن ریٹ 0.127 ہو گیا ہے۔ امریکہ کا آخری میچ 14 جون کو آئرلینڈ کے خلاف ہے جو اب خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اگر آئر لینڈ امریکہ کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کے لیے اپنے آخری میچ یعنی 16 جون کو آئر لینڈ کے خلاف میچ صرف جیتنا ہو گا۔ امریکہ جیتے یا پاکستان کوئی ایک بھی میچ ہارے یا پھر بارش کے باعث دونوں ٹیموں کا کوئی بھی میچ منسوخ ہو تو امریکہ اگلے راؤنڈ میں پہنچ جائے گا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان کی طرح آئرلینڈ کے بھی دو میچ رہتے ہیں لیکن اس کا نیٹ رن ریٹ منفی 1.7 ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ رن ریٹ کا حساب کیسے لگایا جاتا ہے کیونکہ نیٹ رن ریٹ کا حساب لگانے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ رن ریٹ دراصل ایک ٹیم کی جانب سے ہر اوور میں بنائے گئے رنز کی اوسط ہوتی ہے، جیسے مثال کے طور پر 20 اوورز میں 140 رنز کا مطلب ہے سات رن فی اوور کا رن ریٹ۔ نیٹ رن ریٹ کا حساب لگانے کے لیے ایک ٹیم کے رن ریٹ کو اس کے خلاف کھیلنے والی ٹیم کے رن ریٹ سے تفریق کیا جاتا ہے۔ یوں جو ٹیم جیتتی ہے اس کا نیٹ رن ریٹ مثبت ہوتا ہے اور جو ٹیم ہارتی ہے اس کا نیٹ رن منفی ہوتا ہے۔ کسی بھی ٹورنامنٹ کے دوران نیٹ رن ریٹ کا حساب لگانے کے لیے ایک ٹیم کی ہر میچ میں کے رن فی اوور کی اوسط کو اس کے خلاف سکور ہونے والے رنز فی اوور سے تفریق کیا جاتا ہے۔ اگر ایک ٹیم کُل اوورز سے پہلے ہی آؤٹ ہو جائے تو اس کا رن ریٹ پھر بھی ٹوٹل رنز کو ٹوٹل اوورز سے تقسیم کر کے نکالا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں کل اوورز 20 ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان کی ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس میں کارکردگی ماضی میں خاصی اچھی رہی ہے۔ اب تک آٹھ ٹورنامنٹس کے دوران پاکستان کی ٹیم تین مرتبہ ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچی ہے جبکہ صرف دو ٹورنامنٹس یعنی 2014 اور 2016 کے ورلڈ کپس میں پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم مشکل موقع سے دوسری ٹیموں کے نتائج کے سہارے اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کی روایت ویسے تو خاصی پرانی ہے لیکن یہ سنہ 1992 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کے سفر میں خاصی عیاں تھی جب پاکستان کو کہیں بارش اور کہیں دوسری ٹیموں کے نتائج نے بچا لیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان کی ٹیم کو سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا اور پھر سنہ 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی امیدیں نیدر لینڈز اور جنوبی افریقہ کے میچ پر تھیں جہاں نیدرلینڈز نے جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دی اور یوں پاکستان پہلے سیمی فائنل اور پھر فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ سنہ 2022 میں بھی پاکستان کو انڈیا اور پھر زمبابوے کی ٹیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس وقت بھی بحث یہی تھی کہ کیا یہ ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے کی حق دار بھی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cnddey8ej2lo
’گڑبڑ جانسن کے حساب کتاب میں نہیں تھی‘
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں پچ اس قدر اہمیت اختیار کر جائے جو نیویارک کی ڈراپ ان پچ کر چکی ہے۔ ان پچز کا رویہ یوں ناقابلِ بھروسہ ہے کہ ٹاس میچ سے کہیں زیادہ بڑا ایونٹ بن چکا ہے، جس کی جیت ہار پہ ہی لگ بھگ نصف میچ طے ہو جاتا ہے۔ اور پھر ٹی ٹونٹی کرکٹ نے پچھلی دو دہائیوں میں جو انقلابی تبدیلیاں دیکھی ہیں، یہ پچ ان سب تبدیلیوں کا بھی ’اینٹی تھیسس‘ ثابت ہوئی ہے۔ یہاں رن ریٹ ٹی ٹونٹی کی بجائے ٹیسٹ کرکٹ کے جیسے ہیں اور ماڈرن بلے باز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ٹیسٹ کرکٹ کی رفتار سے چلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی سعد بن ظفر کا خیال تھا کہ وہ نیویارک کی اس نئی پچ پہ ٹاس ہار کر بھی میچ جیت سکتے ہیں۔ گو، وہ خود بھی یہاں پہلے بولنگ ہی کرنا چاہتے تھے مگر بیٹنگ کی دعوت ملنے پر بھی وہ مایوس نہیں ہوئے اور مثبت عزم کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ سعد پاکستانی نژاد ہیں اور وہ لمحہ ابھی بھی انھیں یاد ہے جب انھوں نے پاکستان کی ڈومیسٹک فرسٹ کلاس کرکٹ میں خان ریسرچ لیبارٹریز کی نمائندگی کرتے ہوئے بابر اعظم کو آؤٹ کیا تھا۔ یہاں ان کی ٹیم کے پاس موقع تھا کہ وہ بابر اعظم کو ٹیم سمیت ٹورنامنٹ سے ہی باہر دھکیل دیتے۔ یہ سعد کی خوش گمانی نہیں تھی بلکہ جیسی کرکٹ پاکستان نے پہلے دو میچز میں کھیلی، اس نے کینیڈا کو یہ حقیقت پسندانہ امید دلا دی تھی کہ وہ بھی اس ٹیم کو زیر کر سکتے ہیں۔ سعد ہی کی طرح ان کے ویسٹ انڈیز نژاد اوپنر ایرون جانسن کا بھی عزم مثبت تھا اور شاہین آفریدی نے جب میچ کی پہلی گیند فل لینتھ سے ان کے پیڈز پہ ڈالی تو جانسن نے بھرپور مہارت سے اسے باؤنڈری کی طرف روانہ کر دیا۔ دوسری گیند پہ بھی یہی معاملہ ہوا۔ پاکستانی پیسرز کو اس پچ پہ صحیح لینتھ کھوجنے میں کچھ وقت لگا۔ شاہین ہی کی طرح عامر اور نسیم کے پہلے اوورز کی پہلی گیندیں بھی باؤنڈری کی سیر کو گئیں۔ کینیڈا کا آغاز مثبت تھا مگر پچ میں یقیناً اس قدر مثبت پسندی نہیں تھی۔ ایرون جانسن نے اگرچہ اپنے کنارے سے جارحیت کا عزم جاری رکھا مگر دوسرے کنارے سے کوئی امید بر نہ آئی۔ جونہی پاکستانی پیسرز نے لینتھ کھینچی اور پچ کو اپنا جادو دکھانے کا موقع دیا، میچ کی رفتار یکسر بدل گئی اور 120 کا مسابقتی مجموعہ کینیڈا کی پہنچ سے دور رہ گیا۔ ایسی پچز جہاں بلے بازوں کے لیے قدم جمانا اتنا مشکل ہو، وہاں اگر کسی بلے باز کی تکنیک پچ کو راس آ جائے تو اس کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ جانسن واحد کینیڈین بلے باز تھے جو اس پچ پہ پاکستانی پیسرز کو جھیل پا رہے تھے۔ ان کی ففٹی مکمل ہونے پہ کینیڈین کیمپ میں کچھ اطمینان بحال ہوا کہ وہ اننگز مکمل ہونے تک اپنی ٹیم کو ایک ایسے مجموعے تک لے جا پائیں گے جو پاکستانی بلے بازوں پہ پہلے سے موجود دباؤ میں اتنا اضافہ کر دے گا کہ کسی اپ سیٹ کی راہ ہموار ہو سکے۔ لیکن نسیم شاہ کی وہ گیند ایسی لینتھ پہ گری جہاں سے جانسن کو پچھلے قدموں پہ جا کے چار رنز حاصل کرنے کی امید ملی۔ مگر جانسن کے حساب کتاب میں شاید اتنی گڑبڑ نہ تھی جتنی گڑبڑ اس پچ کی بناوٹ میں تھی۔ کوئی ’نارمل‘ پچ ہوتی تو وہ گیند یقیناً سٹمپس سے دو انچ اوپر گزرتی مگر یہاں جانسن پچھلے قدموں پہ جا کر اپنے سٹمپس ایکسپوز کر چکے تھے اور اس واضح ہدف کو دیکھتے ہی جیسے گیند کی نیت بدل سی گئی۔ یہ گیند اپنے متوقع باؤنس سے اس قدر نیچے رہ گئی کہ جانسن کے سٹمپس بکھر گئے۔ اور اس کے ساتھ ہی کینیڈا کی اننگز بھی بکھر کر رہ گئی۔ جو مومینٹم ان کے ہاتھ تھا، وہ اب مکمل طور پہ پاکستانی پیسرز کے ہاتھ آ گیا۔ وہ کینیڈین بیٹنگ کو اس ہدف تک محدود رکھنے میں کامیاب ہو گئے جہاں سے پاکستانی بیٹنگ کے لیے میچ ہارنا ناممکن سا ہو گیا۔ پاکستان کے لیے مثبت پہلو یہ رہا کہ دونوں سینئر بلے بازوں نے اپنی پچھلی اننگز کے برعکس مثبت عزم کا اظہار کیا۔ پچ مشکل تھی اور قدموں کا استعمال ضروری تھا۔ رضوان اور بابر نے قدموں کا بھرپور استعمال کیا اور ان کی پیش قدمی نے پاکستان کو مزید پسپائی سے بچا لیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmll8edvrzeo
پاکستان کی بالآخر ورلڈ کپ میں پہلی جیت: ’پاکستانی ٹیم نے ہمیں ہر ملک کو سنجیدہ لینے کی عادت ڈال دی ہے‘
پھر لے آیا دل مجبور کیا کیجیے! آپ مانے یا نہ مانیں، ترچھی آنکھ سے چھپ چھپا کر کہیں نہ کہیں آپ بھی آج یہ جاننے کی کوشش کر چکے ہیں کہ پاکستان اور کینیڈا کے درمیان میچ کا سکور کیا ہے۔ ایسا آپ پاکستان کی جیت کی امید لیے کر رہے تھے یا اس کی ہار کے ڈر سے، یہ آپ بہتر جانتے ہیں لیکن آج پاکستان نے آخر کار ورلڈ کپ میں اپنی پہلی فتح حاصل کر لی ہے اور کینیڈا کو سات وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ پاکستانی مداح ابھی انڈیا سے ایک جیتی پوزیشن سے ہارنے کے بعد سنبھلے بھی نہیں تھے کہ ایک بار پھر انھیں پاکستانی کھلاڑیوں کو سکرین پر کھیلتے دیکھنا پڑا لیکن آج انھوں نے مایوس نہیں کیا اور یوں پاکستان کو ورلڈکپ میں اپنی پہلی فتح حاصل ہو پائی۔ آج ایک بار پھر نیویارک کی مشکل پچ پر پاکستانی کپتان بابر اعظم نے ٹاس بھی جیتا اور ایک بار پھر پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی بولرز کو آغاز میں کینیڈین اوپنر ایرون جانسن نے آڑے ہاتھوں لیا اور شاہین آفریدی کے پہلے ہی اوور میں دو چوکے مار کے ایک اچھا آغاز فراہم کیا۔ جانسن کا کیچ بعد میں فخر زمان نے ڈراپ بھی کیا اور وہ نصف سنچری بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کی جانب سے محمد عامر نمایاں رہے اور انھوں نے 13 رنز کے عوض دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ کینیڈا کی جانب سے کوئی بھی اور بلے باز خاطر خواہ سکور نہ کر سکا اور کینیڈا کل 106 رنز ہی بنا سکا۔ اس ورلڈ کپ میں امیدیں برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے لیے یہ میچ جیتنا لازمی تھا اور ساتھ ہی اس ہدف کا تعاقب کم سے کم اوورز میں بھی کرنا تھا تاکہ نیٹ رن ریٹ بہتر بنایا جا سکے۔ آج پاکستان کی جانب سے صائم ایوب کو افتخار احمد کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا اور وہ رضوان کے ساتھ اوپن کرنے کے لیے آئے تاہم 12 گیندوں پر چھ رنز ہی بنا سکے اور یوں پاور پلے میں ایک بار پھر پاکستان صرف 28 رنز ہی سکور کر سکا۔ بابر اعظم آج تیسرے نمبر پر آئے اور محمد رضوان کے ساتھ مل کر 63 رنز کی شراکت جوڑنے میں کامیاب ہوئے لیکن دونوں کا سٹرائیک ریٹ 100 تھا جس کے باعث پاکستان کے اس ہدف کا جلد تعاقب کرنے کی امید جاتی رہی۔ بابر اعظم 33 گیندوں پر 33 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو خاصے غصے میں دکھائی دیے اور پچ پر اپنا بیٹ پٹخ کر پویلین کی جانب لوٹ گئے۔ اس غصے کی وجہ ان کا آؤٹ ہونے کا انداز تھا جو انڈیا کے میچ میں بھی ویسا ہی تھا اور آج کینیڈا کے میچ میں بھی۔ یہ شاٹ عموماً ان کے لیے سود مند ثابت ہوتی رہی ہے جس میں وہ گیند کو تھرڈ مین کی جانب کھیلتے ہیں لیکن انڈیا کے خلاف وہ سلپ میں کیچ دے بیٹھے تھے اور آج کیپر کو۔ بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد فخر بھی سکور میں کچھ خاص اضافہ نہ کر سکے جو ظاہر ہے اس پچ کی مشکل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ تاہم پاکستان نے گذشتہ میچ میں ایک اہم موقع پر آؤٹ ہونے والے محمد رضوان کی نصف سنچری کی بدولت 107 رنز 17.3 اوورز میں پورے کر لیے اور یوں اب پاکستان کا نیٹ رن ریٹ مثبت 0.16 ہو گیا ہے جو اس وقت امریکہ سے کم ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس میچ کے بارے میں سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے کو پہلے تو یہ میچ نہ دیکھنے کی تلقین کرتے رہے اور کچھ دو میچوں کی ہار کے باوجود میچ دیکھنے پر خود کو کوستے رہے۔ ایک صارف حیدر عباسی نے ٹیم پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’یقین نہیں آ رہا ہم کتنا برا کھیلتے ہیں‘، انھوں نے بابر جس شاٹ پر آوٹ ہوئے اس پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے پوچھا کہ ’ایسا کیا کیا جائے کہ یہ شاٹ بابر کی بیٹنگ سے نکل جائے۔‘ نامعلوم افراد نامی صارف نے لکھا کہ ’فالتو میں بمرا کو اتنا کریڈٹ دیا، ان سے کینیڈین بولر نہیں کھیلے جا رہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستانی ٹیم نے ہمیں ہر ملک کو سنجیدہ لینے کی عادت ڈال دی ہے۔‘ ایک اور صارف نے حارث رؤف کی بالنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حارث سے پہلا اوور نیٹ میں کروایا کریں۔ صارف مہوش نے لکھا کہ ’نیٹ رن ریٹ کا جنازہ کدھر پڑھنا ہے؟‘ تاہم نیٹ رن ریٹ کے حوالے سے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان اسی صورت میں اگلے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کر سکتا ہے اگر امریکہ اپنے بقیہ میچ ہارے، اور اس صورت میں امریکہ کا نیٹ رن ریٹ اور بھی نیچے آئے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nn0pg7qlko
’جیتا ہوا میچ کیسے ہارا جاتا ہے، یہ کوئی پاکستان سے سیکھے‘: انڈیا کے خلاف شکست پر پاکستانی شائقین ٹیم پر برہم
انگریزی میں ایک لفظ ’ڈیجاوو‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ جو ابھی ہو رہا ہے شاید وہ ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ ایسا ہی گذشتہ روز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سب سے بڑے میچ میں دیکھنے کو ملا جب انڈیا نے پاکستان کو چھ رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کو جیت کے لیے 120 رنز درکار تھے تاہم پاکستان سات وکٹوں کے نقصان پر صرف 113 رنز بنا سکا۔ یہ میچ نیو یارک کی ایک ایسی پچ پر کھیلا گیا میچ تھا جہاں بلے بازوں کے لیے سکور کرنا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں پاکستانی بیٹرز شاید صحیح موقع پر جارحانہ انداز اپنانے میں ناکام رہے اور یوں صرف چھ رنز سے شکست کھا بیٹھے۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے میچ کا چرچا ورلڈ کپ کے شیڈیول کے ساتھ ہی ہونا شروع ہو گیا تھا اور دنیا بھر سے شائقین نے نو جون کو ہونے والے اس مقابلے کے لیے سٹیڈیم کو بھر دیا تھا۔ اس میچ میں پاکستان کے لیے جتنی اچھی باتیں ہو سکتی تھیں سب ہوئیں، میچ سے پہلے بارش ہوئی، پاکستان نے ٹاس جیتا، انڈیا کو مقررہ 20 اوورز میں 119 رنز پر آل آؤٹ کر دیا، بابر اور رضوان کے کیچز بھی چھوٹے اور چھوٹے سے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 13 اوورز میں پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 71 رنز بھی بنا لیے لیکن پھر بھی گرین شرٹس یہ میچ نہیں جیت سکے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ ’جیتا ہوا میچ کیسے ہارا جاتا ہے، یہ کوئی پاکستان سے سیکھے۔‘ ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے جب ایک روزہ میچ میں پاکستان کا دبدبہ تھا اور شارجہ کا گراؤنڈ پاکستانی کرکٹ کی جنت سمجھا جاتا تھا۔ 22 مارچ سنہ 1985 کو راتھ مینس کپ کے پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر بولنگ کی اور انڈیا کی مضبوط بیٹنگ آرڈر کو 125 رنز پر آل آوٹ کر دیا۔ محمد اظہرالدین نے 47 رنز اور کپتان کپل دیو نے 30 رنز بنائے جبکہ آٹھ کھلاڑی دوہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ سکے۔ عمران خان نے اپنے کریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 14 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں، تاہم پاکستان یہ میچ 38 رنز سے ہار گیا۔ کرکٹ صحافی اور سلیم ملک کی زندگی پر کتاب لکھنے والے معین الدین حمید نے کینیڈا سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آخر ایسا کیونکر ہو سکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ کوئی جیتا ہوا میچ کیسے ہار سکتا ہے۔ میچ پریڈکشن میں انڈیا کی جیت کے امکانات صرف آٹھ فیصد دکھائے جا رہے تھے اور آپ کو 49 گیندوں پر 49 رنز بنانے تھے، آپ کے پاس آٹھ وکٹیں تھیں اور آپ نہ بنا سکے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایسے ناممکنات تو پاکستان ہی کر سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی جب انڈیا کو تین اوورز میں 48 رنز درکار تھے تو وراٹ کوہلی نے وہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ آج بھی آپ انڈیا کی ٹیم کو اتنے رنز بنانے کو کہیں تو وہ سو میں سے 98 بار ناکام ہو جائے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ابھی جو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بیان دیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب نسیم شاہ جیسا بچہ (میں تو اسے بچہ ہی کہتا ہوں) دو چوکے لگا سکتا ہے تو افتخار احمد اور عماد وسیم جیسے تجربہ کار آل راؤنڈر کیسے رنز نہیں بنا سکتے۔ ویسے تو پی ایس ایل میں یہ سب لمبے لمبے چھکے لگاتے ہیں لیکن ایسا لگتا یہاں انھیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔‘ بہر حال پاکستان یہ میچ چھ رنز سے ہار گیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے لوگ طرح طرح کے میمز شیئر کر رہے ہیں۔ اس شکست کی سب اپنی اپنی توجیہ پیش کر رہے ہیں۔ کوئی خراب بیٹنگ آرڈر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کوئی مڈل آرڈر میں تجربے کی کمی کی بات کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ڈیجی فیوزن نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اس طرح کا میچ ہارنے کے لیے سپیشل کوشش درکار ہوتی لیکن پاکستان نے کسی طرح یہ کارنامہ انجام دے ہی دیا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 محمد عمر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان صرف خراب بیٹنگ آرڈر، بیمار ذہنیت والے کوچنگ سٹاف اور کپتان کی وجہ سے ہارا۔ یہاں افتخار یا عماد کی کوئی غلطی نہیں۔ افتخار بیچارے کو سکور کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہے۔‘ سلمان رضا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہمارے پاس مڈل آرڈر میں کوئی بھی مضبوط بلے باز نہیں ہے، کس نے بغیر مڈل آرڈر یا بغیر آل راؤنڈر کے ٹیم کا انتخاب کیا ہے؟‘ پاکستانی صحافی عبدالمالک نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا کوئی مجھے یاد دلا سکتا ہے کہ بابر اعظم نے پاکستان کے لیے آخری بار کب ڈیلیور کیا تھا؟ اپنے ذاتی ریکارڈ بنانے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے بڑے میچ میں ڈیلیور کرنے کے لیے؟ ہمارے باؤلرز نے 120 رنز کا ہدف سیٹ کیا اور بلے بازوں کی طرف سے کیے جانے والے گند کو دیکھیں... یہ لوگ کرکٹ کو دیکھنے میں اتنا تکلیف دہ کیوں بناتے ہیں؟‘ جانی براوو نامی ایک صارف کہتے ہیں کہ ’ٹاس جیتنے، انڈین بیٹنگ ڈھہ جانے، 120 بال میں 120 رنز بنانے، رضوان اور بابر کو ایک، ایک زندگی چانس ملنے، 11 ویں نمبر تک بیٹنگ کی صلاحیت کے باوجود پاکستان ہمیشہ کی طرح انڈیا سے پِٹ گیا۔‘ عبداللہ حماد اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری ڈرپوک بیٹنگ اپروچ کی واحد وجہ بابر اعظم ہے۔ یہ رضوان اور افتخار جیسے لوگوں کا دفاع کرتا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 شاہ زیب علی نے سابق کرکٹر سلمان بٹ کا تبصرہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان ہمیشہ میچ ہارنے کے راستے تلاش کر لیتا ہے۔ رضوان کا صرف ایک کام تھا کہ انھیں آخر تک بیٹنگ کرنی تھی۔‘ اس ویڈیو کلپ میں سلمان بٹ کہتے ہیں کہ جب آپ کو ایک بال پر ایک رن کے حساب سے رنز بنانے تھے تو فخر کو باہر نکل کر مارنے کیا ضرورت تھی اور رضوان کو بمراہ کو اس طرح مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ سلمان بٹ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ وہ پچ نہیں ہے جس پر آپ شاٹ ماریں اور لگتے جائیں۔ ہم ہر پریس کانفرنس میں سیکھنے کی باتیں بہت کرتے ہیں لیکن سیکھتے کچھ نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہم پہلے جو جانتے تھے وہ بھی بھول گئے۔ بولرز نے بہت اچھا کام کیا۔‘ انڈین صارفین جسپریت بمراہ کی تعریف کر رہے ہیں جنھوں نے پہلے بابر اعظم کی وکٹ لی اور پھر درمیان میں آ کر رضوان کو پویلین کی راہ دکھائی۔ انھیں تین وکٹیں حاصل کرنے پر مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔ سابق انڈین کرکٹر محمد کیف نے ٹویٹ کیا کہ ’جسپریت بمراہ سب سے عظیم میچ ونر ہیں، کسی بھی فارمیٹ کے، کسی بھی حالات میں اور دنیا کے کسی بھی حصے میں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 مانی سلمان نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا سے پاکستان نہیں جیت سکتا، یہ بات مان لینی چاہیے۔ ہیمشہ کی طرح ہدف کا خراب تعاقب۔ آج بہت سے سستے آل راؤنڈرز کے کریئر ختم ہوں گے، عماد، افتخار، شاداب نام کے آل راؤنڈرز۔ قصہ مختصر کہ ہم انڈیا سے نہیں جیت سکتے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c722vkm0ddro
’رضوان کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا؟‘
روہت شرما بدقسمت رہے کہ ٹاس ہار گئے۔ مگر خوش قسمتی ان کی یہ رہی کہ ٹاس ہارنے کے باوجود دل نہیں ہارے اور بارش سے متاثرہ کنڈیشنز میں بھی اپنے گیم پلان سے پیچھے نہیں ہٹے۔ نیویارک کی اس ڈراپ اِن پچ نے اب تک جو کچھ کیا ہے، کرکٹرز ہی کیا خود اس کو بنانے والے بھی پریشان ہیں کہ کب یہ پچ کیا کر گزرے، کوئی نہیں جانتا۔ سو، جہاں پاکستانی بیٹنگ نے یہ پچ اپنے سر پہ سوار کر لی، وہیں شرما اپنے پلان پر قائم رہے۔ بھلے اس غیر متوازن باؤنس والی پچ پہ نئی گیند نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کے ہاتھ میں تھی اور بارش کے بعد کی نمی بھی سیم اور سوئنگ میں مددگار ثابت ہو رہی تھی لیکن شرما نے اپنا اٹیک ترک نہیں کیا۔ ابھی شاہین اس پچ کے لیے موزوں لینتھ تلاش کر ہی رہے تھے کہ لیگ سٹمپ چینل پہ بھٹکتی ناموزوں لینتھ کو شرما نے بلا گھما کر مڈ وکٹ باؤنڈری کے پرے پھینک دیا۔ شرما آگاہ تھے کہ اس پچ پہ خطرہ اگر نئی گیند سے ہے تو رنز بھی نئی گیند پہ ہی بنیں گے۔ پرانی گیند پہ اگر بولرز لینتھ ذرا بھی کھینچ لیں تو اپنے غیر متوقع باؤنس کی بدولت، یہ پچ کسی کو ہاتھ نہیں کھولنے دیتی۔ اگرچہ پاکستانی بولرز نے بھی آخری دس اوورز میں شاندار کم بیک کیا مگر تب تک رشبھ پنت وہ اننگز کھیل چکے تھے جو بالآخر اس نتیجے میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ ایسی کنڈیشنز جہاں بلے بازی پہلے ہی آسان نہ ہو اور پھر بولرز بھی ڈسپلن پہ یوں کاربند ہو جائیں کہ لمبے شاٹس ناپید ہونے لگیں، وہاں بلے بازوں کو کچھ الگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں قدموں کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے تا کہ بولرز کے پلان اور فیلڈنگ کا استحصال کیا جا سکے۔ لیکن پاکستان کی بیٹنگ اپروچ کسی بھی عزم سے عاری تھی۔ نہ صرف محمد رضوان کو اینکر کا کردار دینا غلط ثابت ہوا بلکہ کھیل سے آگہی کی کمی بھی بھاری پڑی اور روہت شرما کی جارحانہ فیلڈ سیٹنگ نے سنگلز کا حصول بھی دشوار کر دیا۔ جب فیلڈنگ ایسے جارحانہ پلان پہ مبنی ہو تو بلے بازوں کے لیے بھی کاؤنٹر اٹیک کا موقع ہوتا ہے کہ وہ قدموں کے استعمال سے بولر کی لینتھ خراب کر ڈالیں اور اونچے شاٹ کھیل کر فیلڈرز کے حصار کو عبور کریں۔ پاکستان کی اس لائن اپ میں، فخر زمان کے سوا کوئی اس چیز میں مہارت نہیں رکھتا۔ جہاں رضوان کے مخالف کیپر پنت نے اس ’لو سکورنگ‘ میچ میں 31 گیندوں پہ 42 رنز کی اننگ کھیلی، وہاں محمد رضوان نے 70 کے سٹرائیک ریٹ کے ساتھ 44 گیندوں پہ 31 رنز کی اننگ کھیلی جو کہ ڈیتھ اوورز میں مطلوبہ رن ریٹ کو دس رنز فی اوور تک لے گئی، جسے اس وکٹ پہ حاصل کرنا غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ اس ناقابلِ یقین شکست نے پاکستانی مڈل آرڈر کی تکنیکی خامیاں بھی سب کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جب افغانستان کے خلاف آخری اوور میں دو چھکے لگا کر میچ جیتنا قومی فخر کا باعث بننے لگے تو پھر بمراہ، سراج اور پانڈیا جیسے بولرز کے خلاف یہ بیٹنگ لائن اتنی ہی گہرائی دکھا سکے گی جو یہاں نظر آئی۔ اس شکست نے نہ صرف سپر ایٹ تک پاکستان کی رسائی کے رستے محدود کر دیے ہیں بلکہ بطور بلے باز بابر اعظم کے کرئیر پہ بھی بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے کہ کسی اچھے بولنگ اٹیک کے خلاف، ایسے اہم میچز میں، کب وہ اپنے اس ٹیلنٹ کا اظہار کریں گے جو عموماً بنگلہ دیش، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کے خلاف دیکھنے کو ملتا ہے۔ بجا کہ پاور پلے میں پاکستان کی بولنگ عمدہ نہیں تھی مگر آخری بارہ اوورز میں پاکستانی پیسرز نے بہترین ڈسپلن دکھایا اور انڈین اننگز کو سر کے بل پٹخ ڈالا کہ جہاں 150 کی طرف جانے کو تیار بلے باز پورے اوورز بھی کھیلنے سے محروم رہ گئے۔ مگر جب انڈین بیٹنگ کا پیٹرن سامنے تھا کہ پرانی گیند پہ زیادہ رنز کا حصول ممکن نہ ہو پائے گا، وہاں تھنک ٹینک کے کس نابغے نے یہ منصوبہ بنایا کہ شروعات ایسی احتیاط سے کی جائے گی اور تحمل سے آدھی اننگز تک وکٹیں بچانے کے بعد ڈیتھ اوورز میں بمراہ، پانڈیا اور سراج پہ مشتمل بولنگ اٹیک کے خلاف ہر اوور میں دو باؤنڈریز بآسانی حاصل کر لی جائیں گی؟ گو، پچھلے دو برس میں اس ٹیم کو ہر روز نئی پستی دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے مگر پاکستان کی یہ بیٹنگ کاوش اس کے اپنے طے کردہ پستی کے معیار سے بھی کافی گری ہوئی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clw07y7rzvwo
پیرس اولمپکس 1924: روشنیوں کے شہر نے ایک صدی قبل اولمپکس کو کیسے تبدیل کیا
پیرس 2024 اولمپکس، فرانس کے دارالحکومت میں آخری بار ان کھیلوں کے مقابلے کی میزبانی کو 100 سال مکمل ہو چکے ہیں، اور تب سے اب تک بہت کچھ بدل چُکا ہے آرٹ کے مقابلوں سے لے کر سپرنٹ تک، جس کے بعد ’چیریٹس آف فائر لیجنڈ‘ سامنے آئی، 1924 کے اولمپکس بہت سے لوگوں کے لیے یہ مقابلے پہلے اور بہت سوں کے لیے یہ آخری ثابت ہوئے۔ تقریباً 3,089 ایتھلیٹس نے 17 کھیلوں کے 126 مقابلوں میں حصہ لیا لیکن اب ایک صدی کے بعد کھیلوں میں بہت وسعت آ چکی ہے۔ پیرس 2024 میں 32 کھیلوں میں 329 تمغوں کے مقابلے ہوں گے۔ بہت سے کھیلوں کے مقابلوں کو اس بڑے ایونٹ سے نکال دیا گیا ہے جبکہ اور بہت سے دوسرے کھیل اب اس میگا سپورٹس ایونٹ کا حصہ ہیں۔ ریکارڈ بار بار توڑے گئے ہیں، اور ٹیکنالوجی اور سہولیات نے پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔ سنہ 1924 کے کھیل آخری بار بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے صدر پیئر ڈی کوبرٹن کی سربراہی میں منعقد کیے گئے تھے یہ وہ نام تھا کہ جنھوں نے 19 ویں صدی کے آخر میں کھیلوں کو دوبارہ زندہ کیا تھا۔ کھیلوں کی فیڈریشنوں نے کھیلوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا تھا۔ مقابلوں کے قواعد کو معیاری بنایا گیا اور بہت سے ممالک میں اولمپک تنظیموں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوالیفکیشن کا عمل متعارف کرایا تھا کہ بہترین کھلاڑیوں کو مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔ اگرچہ 2024 کے اولمپکس اپنے پیش رو سے بہت دور نظر آئیں گے کیونکہ پیرس اپنے کھیلوں کے عظیم کیلنڈر میں حصہ لینے کے لیے 10،500 ایتھلیٹس کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی پینٹ برش نہیں ہے سنہ 1924 کے ایڈیشن نے اس عالمی منظر نامے کی طرف اشارہ کرنے میں مدد کی جسے ہم آج کھیلوں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ سنہ 1924 کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کھیلوں کی افتتاحی تقریب دیکھنے کے لیے 19،052 شائقین اولمپک سٹیڈیم میں جمع ہوئے تھے، جسے سٹیڈ ڈی کولمبس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پیرس کے شمال مغربی مضافات میں واقع سٹیڈیم کی کھیلوں کے لیے تزئین و آرائش کی گئی تھی اور یہ ٹریک اینڈ فیلڈ، فٹ بال اور رگبی مقابلوں کا مقام بھی تھا۔ 100 سال مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ 2024 کی افتتاحی تقریب ایک غیر معمولی، تفریحی اور انوکھا جشن ہونے والی ہے۔ کشتیوں کا ایک سلسلہ پیرس کے راستے سین کے 6 کلومیٹر کے حصے سے گزرے گا، جس میں ہر اولمپک سکواڈ اپنی اپنی کشتی پر سوار ہوگا، جو شہر کے مشہور مقامات سے گزرتے ہوئے اپنے انداز میں پہنچے گا۔ حالیہ اولمپکس کے اعداد و شمار کے مطابق اس تقریب کو دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب لوگ اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر دیکھیں گے۔ ایک صدی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سنہ 1924 میں مجموعی طور پر چھ لاکھ 25 ہزار تماشائی اس تقریب کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ اس موسم گرما میں 15 ملین سے زیادہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ اولمپکس ویلیج پہلی بار 1924 میں ان کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی اور ایتھلیٹس یہاں قیام کی غرض سے بنائے جانے والے اولمپک ولیج میں ایک ساتھ رہنے کا موقعہ ملا۔ اولمپکس سٹیڈیم کے قریب تعمیر کی جانے والی اس رہائش گاہ میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے فلیٹس کی قطاریں تھیں اور اس جگہ پر ایک پوسٹ آفس، نیوز ایجنٹ، بیورو ڈی چینج، ہیئر ڈریسنگ سیلون اور ایک ریستوراں تھا۔ میڈیا کوریج 1924 کے کھیل ریڈیو پر براہ راست نشر ہونے والے پہلے کھیل بھی تھے۔ کھیلوں کی کوریج کے لیے سرکاری طور پر 724 صحافیوں کو کام کرنے کا موقعہ ملا تھا جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک سے آئے تھے جو کھیلوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عالمی دلچسپی کا ثبوت تھا۔ اولمپک مقامات 1924 کے اولمپک سٹیڈیم میں بعد میں فٹ بال کے 1938 کے ورلڈ کپ کا فائنل بھی منعقد کیا۔ تزئین و آرائش کے بعد، اسی جگہ کو موسم گرما کے کھیلوں میں ہاکی کے مقابلوں کی میزبانی کے لیے استعمال کیا گیا۔ 100 سال پہلے کھیلوں کے لیے کئی دیگر مقامات خاص طور پر تعمیر کیے گئے تھے جیسے ایک نیا آبی سٹیڈیم اور ٹینس کورٹ۔ 2024 میں تیراکوں کے تربیتی مقام کے طور پر استعمال ہونے والا پسین ڈیس ٹوریلس پہلا 50 میٹر اولمپک پول بن گیا۔ اس کی گلیوں کو کارک فلوٹس سے نشانات لگایے گئے تھے۔ 2024 کے لیے صرف دو نئے مقامات تعمیر کیے گئے ہیں کیونکہ سٹی آف لائٹ اپنے موجودہ مقامات کو استعمال کرنا چاہتا ہے، جس میں مشہور مقامات کو واقعات کے پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ کھیلوں کے عارضی سٹیج بنائے جا رہے ہیں، جن میں سے ایک ایفل ٹاور میں ہے جس میں بیچ والی بال کی نمائش کی جائے گی۔ اختتامی تقریب 1924 کے کھیلوں کی اختتامی تقریب آج کے کھیلوں سے مماثلت رکھنے والی پہلی تقریب تھی۔ اس میں مقابلہ کرنے والے ممالک کو تمغوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ چار پرچم لہرائے گئے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی، فرانس، یونان جنھوں نے 1896 میں افتتاحی جدید کھیلوں کا انعقاد کیا تھا اور 1928 کے میزبان نیدرلینڈز۔ آئرلينڈ آئرلینڈ کو پیرس 1924 کے لیے ایک آزاد حریف ملک کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا تھا، جس نے اولمپک کھیلوں میں پہلی بار شرکت دی تھی۔ سرمائی اولمپکس پیرس اولمپکس کے تعاون سے 25 جنوری اور 5 فروری 1924 کے درمیان چیمونکس میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں کو بعد میں افتتاحی سرمائی اولمپکس کے طور پر نامزد کیا گیا۔ ان کھیلوں میں 16 ممالک کے ایتھلیٹس نے 16 شعبوں میں حصہ لیا جن میں کرلنگ، بوبسلنگز، فگر اور سپیڈ سکیٹنگ اور سکیئنگ شامل ہیں۔ آرٹ مقابلوں کو اولمپک پروگرام کا حصہ بنایا گیا جس میں فن تعمیر، مجسمہ سازی، ادب، مصوری اور موسیقی میں تمغے دستیاب تھے۔ 1924 کے اولمپکس نے آسکر جیتنے والی فلم چیرتھس آف فائر کے لیے کے موضوع فراہم کیا۔ سنہ 1981 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں برطانوی سپنرز ہیرالڈ ابراہمز اور ایرک لڈل کے لیجنڈ اور اولمپک گولڈ میڈل کو دکھایا گیا تھا۔ ابراہمز نے 100 میٹر کے فائنل میں 10.6 سیکنڈ میں سونے کا تمغہ جیتا اور چھ کھلاڑیوں کے فائنل میں چار مضبوط امریکی حریفوں کو شکست دی، جن میں 1920 کے گولڈ میڈلسٹ چارلی پیڈک بھی شامل تھے۔ ابراہمز نے برطانیہ کو 4×100 میٹر ریلے میں چاندی کا تمغہ جیتنے میں بھی مدد کی۔ ٹیم کے ساتھی لیڈیل نے مذہبی بنیادوں پر 100 میٹر دوڑ میں حصہ نہیں لیا تھا اور اس سال کے اوائل میں انھیں معلوم ہوا تھا کہ کُچھ مقابلے اتوار کے روز ہونے ہیں جو مسیحیوں کے آرام اور عبادت کے دن ہوتا ہے۔ 200 میٹر دوڑ کے بعد جہاں لڈیل نے کانسی کا تمغہ جیتا اور ابراہمز چھٹے نمبر پر رہے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ 100 میٹر دوڑ سے محروم رہنے والے اس مختصر دوڑ میں اپنے ہم وطن کا مقابلہ کرسکتے تھے اور سونے کا تمغہ جیت سکتے تھے اگر وہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر اس سے باہر ہونے کا فیصلہ نہ کرتے۔ تاہم، لڈیل کے پاس اب بھی ایک اور موقع تھا، اور وہ 400 میٹر دوڑ کا تھا۔ 1945 میں چین میں جاپانی زیرِ انتظام حراستی کیمپ میں مرنے سے قبل اپنی بقیہ زندگی مشنری کاموں کے لیے وقف کرنے والے لڈیل نے 400 میٹر کے فائنل کے لیے پیرس میں اپنے آخری موقع کا فائدہ اٹھایا۔ سخت محنت کرتے ہوئے لڈیل نے 47.6 سیکنڈ کا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے سونے کا تمغہ جیتا جس نے سب سے مشہور اولمپک کہانیوں میں سے ایک کو جنم دیا۔ ’چیریٹس آف فائر لیجنڈ‘ نے اکیڈمی ایوارڈز میں چار بار کامیابی حاصل کی جس میں وینگلیس کی شاندار کمپوزیشن کے لیے بہترین فلم اور بہترین اوریجنل میوزک کا ایوارڈ شامل ہے۔ سپرنٹر ابراہمز اور لڈیل یقینی طور پر پیرس میں نمایاں ہونے والے صرف دو ٹریک ایتھلیٹ نہیں تھے۔ فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے دو ایتھلیٹس نے کھیلوں کو شاید اس سے بھی زیادہ شاندار انداز میں روشن کیا، ریکارڈ توڑا اور درمیانی اور طویل فاصلے کے مقابلوں میں تمغے حاصل کیے۔ پاوو نورمی نے 1500 میٹر (3:53.6) میں سونے کا تمغہ جیتا اور دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں 5،000 میٹر (14:31.2) میں اولمپک ریکارڈ قائم کیے۔ نورمی نے انفرادی کراس کنٹری، ٹیم کراس کنٹری اور 3000 میٹر ٹیم ایونٹ میں مزید تین طلائی تمغے حاصل کیے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے 38 میں سے 15 مقابلوں کو چھوڑ کر باقی تمام کھلاڑیوں نے ریس چھوڑ دی، جن میں سے آٹھ کو سٹریچر پر لے جایا گیا۔ پیرس میں نورمی کو سب سے زیادہ چیلنج کرنے والے ایتھلیٹ ان کے ہم وطن ویل ریٹولا تھے جنھوں نے 10 ہزار میٹر کی دوڑ میں نصف راؤنڈ میں سونے کا تمغہ جیتا اور اپنا ہی عالمی ریکارڈ 12 سیکنڈ میں توڑ دیا۔ ریٹولا نے 3000 میٹر سٹیپل چیز، 3000 میٹر ٹیم ایونٹ اور ٹیم کراس کنٹری میں طلائی تمغے حاصل کیے، انفرادی کراس کنٹری اور 5000 میٹر میں چاندی کا تمغہ جیتا اور بعد میں نورمی سے 0.2 سیکنڈ پیچھے رہے۔ سنہ 1920 کی دہائی میں نورمی اور ریتولا کے کھیل میں شاندار کامیابی کی وجہ سے انھیں ’فلائنگ فنز‘ کا لقب دیا۔ سنہ 1924 میں پیرس میں حصہ لینے والے 3،089 ایتھلیٹس میں سے 135 خواتین تھیں۔ ایک سو سال بعد 2024 کے کھیلوں میں 10,500 ایتھلیٹس حصہ لیں گے۔ یہ کھلاڑیوں کی تعداد کے لحاظ سے مکمل صنفی مساوات تک پہنچنے والے پہلے مقابلے ہوں گے۔ غوطہ خوری، تیراکی، فینسنگ اور ٹینس وہ واحد کھیل تھے جو 1924 میں خواتین ایتھلیٹس کے لیے مقابلوں کا انعقاد ہوا۔ برطانیہ نے مجموعی طور پر 267 مقابلوں میں ایتھلیٹس کو بھیجا جن میں 239 مرد اور 28 خواتین شامل تھیں۔ دو برطانوی خواتین نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں: سنہ 1924 کے مقابلوں میں امریکی تیراک جونی ویز مولر بلاشبہ سوئمنگ پول کے ایک سٹار بن کر ابھرے۔ وہ ان مقابلوں میں اپنے پچیدہ ماضی کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ وہ ہنگری کی ایک چھوٹی سی بستی میں پیدا ہوئے تھے جو اب رومانیہ کا حصہ ہے، اور بچپن میں ہی اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ چلے گئے تھے۔ چونکہ وہ پیدائشی طور پر امریکی نہیں تھے اس لیے پیرس اولمپکس میں بطور امریکی کھلاڑی ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے اپنی اصلی جائے پیدائش کو چھپایا اور اس بات کر اصرار کیا کہ وہ امریکی ریاست پینسلوانیا میں پیدا ہوئے تھے۔ دراصل انھوں نے امریکی تیراک کے طور پر اولمپکس میں امریکی دستے میں جگہ بنانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے پیدائش کے دستاویزات میں رد و بدل کر کے استعمال کیا تھا۔ ان کا چھوٹا بھائی ان کے خاندان کے ہنگری سے ہجرت کرنے کے بعد امریکہ میں پیدا ہوا تھا۔ اور اس طرح وہ امریکی نظام سے گزرتے ہوئے ٹیم میں شامل ہو گئے۔ ویزمولر کے بیٹے جونی ویز مولر جونیئر نے بعدازاں ان دعوؤں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ درست تھے۔ اور اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کہ امریکہ انھیں کیوں اپنی تیراکی ٹیم کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ سنہ 1922 میں ویزمولر فری سٹائل تیراکی مقابلوں میں ایک منٹ سے کم وقت میں 100 میٹر طے کرنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے تھے اور انھوں نے پیرس میں اپنی اس کارکردگی کو پھر سے دہرایا تھا۔ انھوں نے اپنے ہم وطن تیراک ڈیوک کہاناموکو کو ایونٹ میں مسلسل تیسرا طلائی تمغہ حاصل کرنے سے محروم کرتے ہوئے یہ فاصلہ 59 سیکنڈز میں طے کیا تھا۔ ویز مولر نے 400 میٹر فری سٹائل مقابلوں اور 200 میٹر کے فری سٹائل ریلے ریس تیراکی مقابلوں میں بھی فتح سمیٹی اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے امریکی واٹر پولو ٹیم میں نمائندگی کر کے اسے بھی کانسی کا تمغہ جیتنے میں مدد کی۔ انھوں نے 52 امریکی مقابلوں میں ٹائٹلز اپنے نام کیے جبکہ 67 عالمی ریکارڈ قائم کیے اور وہ ایمچور مقابلوں میں ناقابل شکست کھلاڑی کے ریکارڈ کے ساتھ ریٹائر ہوئے یعنی وہ تیراک جس نے ایمیچور مقابلوں میں کبھی کوئی ریس نہیں ہاری۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سنہ 1928 میں ایمسٹریڈیم اولمپکس میں دو مزید گولڈ میڈلز بھی اپنے نام کیے۔ آج تک عظیم تیراک کہلائے جانے والے ویز مولر نے اپنے کھیل کے کیرئر کو خیرباد کہہ کر ہالی وڈ کی راہ لی اور گولڈن بوائے کے نام سے جانے جانے والے ویز مولر سلور سکرین کے سٹار بن گئے۔ سنہ 1924 کے اولمپکس میں امریکہ نے سب سے زیادہ تمغے حاصل کیے اور اس کے بعد سے امریکہ متعدد بار ایسا کرتا آیا ہے۔ سنہ 1924 میں اس نے مجموعی طور پر 99 میڈلز اپنے نام کیے جن میں سے 45 سونے کے تمغے تھے۔ پیرس اولمپکس 1924 میں امریکہ نے 45 گولڈ میڈلز حاصل کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے 27 چاندی اور 27 ہی کانسی کے تمغے بھی حاصل کیے تھے۔ اس امریکہ کل 99 میڈلز کے ساتھ سرِفہرست رہا۔ پیرس اولمپکس کے میڈلز ٹیبل پر دوسری پوزیشن فرانس نے حاصل کی تھی، جس میں اس نے ایتھلیٹکس مقابلوں میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14 سونے کے، 15 چاندی کے اور 12 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے تھے۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر فن لینڈ رہا تھا جس نے 14 سونے کے تمغوں سمیت مجموعی طور پر 37 میڈلز حاصل کیے تھے۔ برطانیہ 35 تمغوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا تھا جن میں نو سونے کے تمغے بھی شامل تھے۔۔ پیرس اولمپکس مقابلوں میں سونے کے تمغوں پر بنی نقش نگاری میں ایک جانب جیتنے والے کھلاڑی کو اپنے حریف کو زمین سے اٹھاتے دکھایا گیا تھا جبکہ دوسری طرف اولمپکس کے ثقافتی پروگرام سے متعلق دکھایا گیا تھا۔ ان مقابلوں کے لیے بنائے گئے تمغوں میں پیرس کے مہشور ایفل ٹاور سے حاصل کردہ دھات کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ تمغے کے وسط میں مسدس نما ٹوکن آئیفل ٹاور کی تزئین و آرائش کے کام کے دوران حاصل کردہ لوہے سے بنائے گئےتھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx88djnrx9no
نیو یارک کی پچ کیوں ’قابل بھروسہ‘ نہیں؟
نیویارک کی پچ سے جڑی غیر یقینی نے میچ سے قبل ہی صورتحال اس قدر دلچسپ بنا دی ہے کہ پچ کے بارے میں ہمسایہ ملک کے خدشات ہیں کہ اس پر پاکستانی فاسٹ بولرز ’انڈین ٹاپ آرڈر کو کھا جائیں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw99w55dpvyo
’اگر انڈیا کے خلاف پاکستان اپنے فینز کو اپ سیٹ کر پایا‘
زوال کے سفر میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب مزید گرنا ممکن نہیں رہتا، اس لیے نہیں کہ زوال پذیروں میں مزید گرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ اس لیے کہ مزید گرنے کو جگہ ہی نہیں بچ پاتی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم بھی ایک زوال کے سفر پر چلی آ رہی ہے۔ پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اس نے زمبابوے سے شکست کھائی، سات ماہ پہلے ون ڈے ورلڈ کپ میں افغانستان کے ہاتھوں خفت اٹھائی اور اس ایونٹ میں اپنی کمپین کی شروعات نومولود امریکی ٹیم سے ہار کر کی۔ زمبابوے کی ٹیم رینکنگ میں بھلے پاکستان سے کافی نیچے تھی مگر بہرحال ٹیسٹ کرکٹ کی ایک تاریخ رکھتی تھی اور اس سے شکست کہیں نہ کہیں قابلِ توجیہہ تھی کہ طویل قامت زمبابوین فاسٹ بولرز کو آسٹریلین پچز کا اضافی باؤنس بھی میسر تھا جو پاکستانی بلے بازوں کو مہنگا پڑ گیا۔ افغانستان سے شکست اگرچہ اس ٹیم کے لیے جھٹکا تھی جو ایونٹ سے دو ماہ پہلے تک انٹرنیشنل رینکنگ میں پہلے نمبر پر تھی مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افغان کرکٹ یہ خطرے کی گھنٹی کئی سال سے بجاتی آ رہی تھی اور پاکستان کے برے دن پر اپ سیٹ کرنے میں کامیاب رہی۔ مگر امریکی کرکٹ ٹیم نہ تو زمبابوے کی طرح ٹیسٹ سٹیٹس کی حامل تھی اور نہ ہی افغانستان کی طرح اتنی پختہ کار تھی۔ یہ ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے کو بھی یوں آ گئی کہ بغیر کسی کوالیفائر، محض میزبانی کی بنیاد پر ایونٹ میں شامل کی گئی۔ بہرحال ورلڈ کپ امریکہ میں کھیلنے کا کوئی جواز نہ ہوتا اگر میزبان ٹیم کھیل ہی نہ رہی ہوتی۔ لیکن اس نوآموز ٹیم نے بابر اعظم جیسے تجربہ کار کپتان اور کامیاب ترین بلے باز کے ہوش یوں اڑائے کہ میچ ختم ہونے کے بعد بھی وہ پاور پلے میں اپنی کاہلی کا ملبہ بولرز پر ڈالنے کو بضد رہے۔ گویا اپنے بیٹنگ کارڈ میں انھیں کوئی عیب دکھائی نہیں دیا مگر میچ ہارنے کا سبب اپنے بولرز کا ڈسپلن نظر آیا۔ پاکستانی بولنگ بلاشبہ اپنے بہترین پر نہیں تھی۔ پہلے دس اوورز میں بولرز کے اپنے پلان اور بابر اعظم کی روٹیشن بالکل بے مقصد دکھائی دی لیکن پھر اگلے دس اوورز میں یہ پاکستانی بولنگ ہی تھی جو میچ کو کھینچ تان کر نہ صرف آخری اوور تک لے گئی بلکہ سپر اوور کی شکل میں اپنے بلے بازوں کو ایک اور موقع بھی فراہم کیا۔ اب مقابل روہت شرما کی وہ انڈین ٹیم ہے جو اپنا پہلا میچ جیت کر بہترین اعتماد کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے اور یہاں بابر اعظم کی وہ بکھری ہوئی الیون ہے جسے سپر ایٹ تک رسائی کے لیے اب امریکہ سے بہتر کرکٹ کھیلنے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ سازی میں جو کنفیوژن پاکستانی ڈریسنگ روم میں دکھائی دے رہی ہے، اس کے دوران یہ محال ہے کہ پاکستان ٹورنامنٹ کے اس اہم ترین میچ میں باحواس اور باشعور کرکٹ کھیل پائے اور جو اتحاد کبھی اس ٹیم کا خاصہ ہوا کرتا تھا، اب وہ بھی ہوا ہو چکا ہے کہ قیادت کے متواتر بدلاؤ نے ڈریسنگ روم کی ایکتا ختم کر چھوڑی ہے۔ اور اس سارے گھڑمس پر ’ایکسٹرا ٹاپنگ‘ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں ہیں جو پچھلے دو سال سے ہر میچ کے بعد دو ہی جملے دہراتے آ رہے ہیں کہ ’ہم دس پندرہ رنز پیچھے رہ گئے اور پاور پلے میں اچھی بولنگ نہ کر پائے۔‘ ان جملوں کی یکسانیت ہی یہ واضح کرنے کو کافی ہے کہ بطور کپتان انھوں نے اس عرصے میں کیا کچھ سیکھا۔ مگر جو دیرینہ خاصیت ہر دور میں پاکستان کرکٹ کی پہچان رہی ہے، وہ اس قدر گر جانے کے بعد اچانک یوں اٹھ کھڑے ہونا ہے کہ پھر کسی کے لیے بھی اسے روکنا مشکل ہو جائے۔ امریکہ سے شکست کے بعد بھی اب مزید کوئی ایسی کھائی بچی نہیں کہ جس میں پاکستان گر پائے۔ سو اب یہاں سے آگے کا رستہ بھی صرف اٹھان کا ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے عماد وسیم کی انجری ایک پریشانی ہے اور شاداب خان کی فارم ایک مستقل سر درد ہے۔ بطور فیلڈر اور بلے باز ان کی صلاحیتیں اگر انھیں ٹیم کے لیے ناگزیر ٹھہراتی ہیں تو بولنگ فارم بجائے خود ٹیم کے ہی مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھا دیتی ہے۔ اس طرح کے لمبے ٹورنامنٹس میں سفر صرف اسی ٹیم کے لیے آسان ہو سکتا ہے جو اپنے لیگ سپنر کی ذہنی و جسمانی کارکردگی سے آسودہ ہو۔ لیگ سپنر کو نہ صرف مڈل اوورز میں رن ریٹ کنٹرول رکھنا ہوتا ہے بلکہ وہ وکٹیں بھی حاصل کرنا ہوتی ہیں جو بیٹنگ سائیڈ کو ڈیتھ اوورز میں کسی ٹھوس بنیاد سے محروم کر سکیں۔ شاداب خان کی فارم فی الوقت یہ دونوں کام کرنے سے قاصر ہے۔ جبکہ ان کے متبادل ابرار احمد پچھلے برس کے ون ڈے ورلڈ کپ ہی کی طرح یہاں بھی بینچ گرما رہے ہیں اور بابر اعظم کی ایک نظرِ التفات کے منتظر ہیں مگر بابر اعظم کی آنکھوں میں شاداب کے سوا کوئی جچ پائے تو بات بنے۔ یہ حقیقت ان گیارہ کھلاڑیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ قوم ان سے ناپسندیدگی کی جس انتہا تک جا چکی ہے، اسے واپس پلٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان انڈیا سے جیت جائے اور قوم اس کے سارے پاپ بھلا دے گی۔ پھر بھلے سپر ایٹ تک رسائی بھی نہ ہو پائے، قومی ضمیر بہرحال اطمینان کی نیند سو سکے گا۔ یہ ٹیم ماضی میں کئی بار دنیائے کرکٹ کو حیران کر چکی ہے مگر ورلڈ ایونٹس میں انڈیا سے فتح حاصل کرنا تاریخ میں صرف ایک ہی بار ہو پایا ہے۔ ایسے میں پاکستانی شائقین بھی ذہنی طور پر ہمیشہ کسی حادثے کے لیے تیار ہی رہتے ہیں لیکن اگر یہاں پاکستان اپنے شائقین کو اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ایونٹ منتظمین کے لیے بھی خوشی کی بات ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2xxp8dy02go
نیویارک کی ’جادوگر‘ پچ متنازع کیسے بنی اور یہ بیٹرز کے لیے خطرناک کیوں ہو سکتی ہے؟
دوسرے براعظم سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آنے والے ایک مٹی کے ٹرے نے ایسی غیر یقینی کو جنم دیا ہے جو ٹورنامنٹ کے سب سے بڑے میچ کو متنازع بنا سکتی ہے۔ اگر آپ پاکستان اور انڈیا کے میچ پر شرط لگانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ذرا ٹھہریے کیونکہ نیو یارک کی ’ڈراپ ان‘ پچ آپ کی پیشگوئی غلط ثابت کر سکتی ہے۔ امریکی ٹیم سے تاریخی شکست کے دھچکے کے بعد پاکستانی مداح ابھی پوری طرح سنبھلے بھی نہیں تھے کہ انڈیا کے خلاف ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا میچ سر پر آن پہنچا ہے۔ نیویارک کی پچ سے جڑی غیر یقینی نے میچ سے قبل ہی صورتحال اس قدر دلچسپ بنا دی ہے کہ پچ کے بارے میں ہمسایہ ملک کے خدشات ہیں کہ اس پر پاکستانی فاسٹ بولرز ’انڈین ٹاپ آرڈر کو کھا جائیں گے۔‘ اس پچ کا غیر مستحکم باؤنس بلے بازوں کو خاص طور کھٹک رہا ہے۔ یہاں پر کچھ گیندیں لینتھ سے ہی زیادہ باؤنس کر جاتی ہیں جبکہ کچھ گیندیں گھٹنوں تک رہ کر وکٹ کیپر تک پہنچ جاتی ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے مابین یہ مقابلہ نساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم، نیویارک میں کھیلا جا رہا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کا یہ خاصا رہا ہے کہ اس میں شائقین بلے بازوں کو چوکے چھکے مارتے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر میچ پاکستان اور انڈیا کے مابین ہو تو بابر یا کوہلی کے بلے سے مخالف بولروں کی دھلائی دیکھنے کا جنون کچھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ مگر نیویارک سٹیڈیم کی جس پچ پر یہ میچ کھیلا جانے والا ہے وہاں اب تک ہمیں اچھے اچھے بلے باز بھی باؤنسرز کے سامنے لڑکھڑاتے نظر آئے ہیں۔ یاد رہے کہ نیو یارک کا یہ سٹیڈیم 32 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے لیے خصوصی طور پر آسٹریلیا میں ٹاہوما گھاس کی دس پچیں تیار کی گئیں جنھیں پہلے فلوریڈا اور بعد میں نیو یارک لا کر اس میدان میں نصب کیا گیا۔ انڈین کھلاڑیوں اور کوچز سے لے کر کئی سابق کرکٹرز اور ماہرین نے اس پچ پر تنقید کی ہے اور یہ پچ پاکستان انڈیا میچ کا پانسہ کیسے پلٹ سکتی ہے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں ٹاس بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہو گا اور ٹاس جیت کر دونوں ہی کپتان پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جیسے یہاں ہونے والے تمام ہی میچوں میں دیکھا گیا ہے۔ سابق کرکٹر اور کوچ اینڈی فلار نے اس پچ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پچ پر غیر مستحکم باؤنس ہے۔ کبھی گیند بہت نیچے رہ جاتی ہے اور کبھی اچانک بہت زیادہ باؤنس کر جاتی ہے اور یوں کھلاڑیوں کے انگوٹھوں، دستانوں اور ہیلمنٹ کو جا کر لگ رہی ہے اور بیٹرز کی زندگی عذاب بنا رہی ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے سکور اور تجزیوں کی ویب سائٹ کرک انفو سے بات کرتے ہوئے اینڈی فلار نے اس پچ کو ’خطرناک‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا یہ ایسی پچ نہیں ہے جس پر انٹرنیشنل میچ کھیلا جائے اور کسی بھی ٹیم کے لیے اس پچ پر بیٹنگ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر سنجے منجریکر کے مطابق اس پچ کی تیاری میں کچھ غلط ہوا ہے۔ ’یا تو یہ پچ مکمل تیار نہیں ہوئی یا کچھ ایسا ہوا ہے جو اسے تیار کرنے والوں کے کنٹرول سے باہر تھا۔‘ کرک انفو کے شو ’ٹائم آؤٹ‘ میں بات کرتے ہوئے سنجے کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے اس پچ کی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی مگر اس میں بنیادی مسئلے ہیں۔‘ سنجے نے مزید کہا کہ نیویارک میں کرکٹ میچز کی ہائپ بہت ہے مگر سب سے اہم چیز ’پچ‘ ہوتی ہے اور بدقسمتی سے وہی ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے خدشات سامنے آنے کے بعد کرکٹ کی عالمی گورننگ باڈی نے تسلیم کیا ہے کہ اس پچ کے ساتھ مسائل موجود ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ سٹاف نیو یارک کے سٹیڈیم (جسے امریکہ کا شو کیس گراؤنڈ بھی کہا جاتا ہے) میں ڈراپ ان پچوں کے حوالے سے سامنے آنے والے مسائل کو ’حل‘ کرنے کی کوشش کرے گا۔ بی بی سی سپورٹس کا ماننا ہے کہ انڈیا نے نجی طور پر اس پچ پر غیر مستحکم باوئنس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ بلے بازوں کی حفاظت سے جڑے خدشات ہیں۔ آئی سی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آئی سی سی تسلیم کرتا ہے کہ نساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں اب تک استعمال ہونے والی پچیں ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہیں۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ میچ کے بعد ’پچ کی غیر ہموار سطح کے مسائل حل کرنے اور بقیہ میچوں کے لیے بہترین پچز کی تیاری کے لیے عالمی معیار کی ٹیمیں سخت محنت کر رہی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام ناساؤ کاوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیئم کی ڈراپ ان پچ کے بارے میں یہاں کھیلے جانے والے دو میچوں کے بعد ہی یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ پچ ناقابل بھروسہ ہے۔ سوموار کے دن سری لنکا کی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 77 رن پر ہی آوٹ ہو گئی جو ٹی ٹوئنٹی میچوں میں اس کا سب سے کم سکور ہے۔ اس کے بعد بدھ کے دن انڈیا نے آئرلینڈ کو 96 رن پر آوٹ کر دیا۔ سنیچر کو جنوبی افریقہ نے نیدر لینڈز کے خلاف چار وکٹوں سے فتح حاصل کی مگر یہ بھی ایک لو سکوررنگ میچ رہا۔ اتوار کے دن انڈیا روایتی حریف پاکستان کے خلاف آئزن ہاور پارک میں میچ کھیلنے جا رہی ہے جہاں 32 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور سٹیڈیم مکمل طور پر بھر جانے کی امید کی جا رہی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ماضی میں ہونے والے ایسے میچوں کا جائزہ لے رہی ہے جہاں کھیل ختم کر دیا گیا تھا تاکہ موجودہ ٹورنامنٹ کے دوران کسی ایسی ہی صورت حال میں اپنے ردعمل کو طے کر سکے۔ تاہم آئی سی سی حکام نے اب تک یہ موقف دیا ہے کہ نیو یارک میں طے شدہ مقابلوں کو فلوریڈا یا ٹیکساس منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقابلے کے لیے ایک ایسی پچ مختص کی گئی ہے جو اب تک استعمال نہیں ہوئی۔ تاہم اس میچ سے قبل دیگر پچوں کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے 55 میچوں میں سے 16 میچ امریکہ میں کھیلے جا رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ کا دوسرا میزبان ملک ویسٹ انڈیز ہے۔ نیو یارک میں یہ سٹیڈیم اس ٹورنامنٹ سے قبل 32 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا تھا اور آٹھ ماہ میں اس کی تیز تعمیر کے عمل پر ٹورنامنٹ انتظامیہ نے کافی فخر کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔ یہاں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ خصوصی طور پر آسٹریلیا میں ٹاہوما گھاس کی دس پچیں تیار کی گئیں اور پھر انھیں پہلے فلوریڈا اور بعد میں نیو یارک منتقل کرنے کے بعد ٹورنامنٹ سے چند ہفتے پہلے ہی میدان میں نصب کیا گیا۔ باقی میدان نیو جرسی کے مقامی فارم پر اگائے جانے والے کینٹکی بلیو گھاس سے تیار ہوا ہے جس کے نیچے ریت کی تہہ ڈالی گئی ہے۔ واضح رہے کہ نیو یارک کی ڈراپ ان پچ کے مقابلے میں فلوریڈا اور ٹیکساس میں قدرتی پچیں موجود ہیں۔ سوموار کے دن جب جنوبی افریقہ اور سری لنکا کا میچ ہوا تو جنوبی افریقہ کی ٹیم باآسانی فتحیاب ہونے میں کامیاب ہوئی۔ دوسری جانب انڈیا کے بلے بازوں نے جب وننگ رن سکور کیے تو ابھی میچ کی 46 گیندیں باقی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیو یارک میں میچ کے نتیجے کا انحصار ٹاس پر بہت زیادہ ہو چکا ہے اور پہلے بولنگ کرنی والی ٹیم کو سبقت حاصل ہو گی۔ اب تک اس مسئلے کی کوئی واضح تشخیص بھی نہیں کی جا سکی۔ دوسری جانب ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ باؤنڈری کا فاصلہ ایک جانب پچھتر میٹر اور دوسری جانب پینسٹھ میٹر ہے جبکہ سامنے کی جانب اکہتر میٹر فاصلہ ہے جس کی وجہ سے رن بنانا کسی حد تک دشوار ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز میں جنوبی افریقہ کے بلے بازوں نے چوٹ لگنے کے ڈر سے مقامی نیٹ بولرز اور اپنے بولرز کا سامنا کرنے کے بجائے ہاتھ سے پھینکی گیندوں پریکٹس کرنے کو ترجیح دی۔ ایڈیلیڈ اوول کے پچ کیوریٹر ڈیمیان ہاگ کو آسٹریلیا میں پچز بنا کر امریکہ منتقل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ انھوں نے رواں برس اپریل میں بی بی سی ساؤنڈز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ہمارا مقصد ایسی پچز تیار کرنا ہے جو تیز ہوں اور جن میں مستقل باؤنس ہو رہا ہو اور جس پر کھلاڑی اپنے بہترین شاٹس کھیل سکیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تفریحی کرکٹ چاہتے ہیں لیکن چیلنجز بھی موجود ہیں۔‘ دس ڈراپ ان پچز پر اکتوبر 2023 کے آغاز میں کام شروع ہوا اور انھیں ابتدائی طور پر ٹرے میں لگایا گیا تھا۔ ہر پچ کو دو ٹریز میں تقسیم کیا گیا تھا جس کا مقصد میچوں کے لیے چار تیار پچز اور چھ پریکٹس سٹرپس بنانا تھا۔ ان پچوں کی تیاری میں چکنی مٹی کو ایک خاص گھاس کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ٹرے جنوری میں ایڈیلیڈ سے فلوریڈا تک ایک شپنگ کنٹینر کے ذریعے لائی گئیں۔ انھیں نیویارک لے جانے سے قبل ایک گرم آب و ہوا والے علاقے میں رکھا گیا کیونکہ نیویارک میں اُس وقت شدید سردی کا موسم تھا- ڈیمیان نے اس حوالے سے غیر یقینی کا بھی اظہار کیا تھا۔ ’ہم نے راستے میں ہر ممکنہ نتیجے اور مسئلے کے بارے میں اچھی طرح سے سوچا ہے اور ہم امید کر رہے ہیں کہ اچھی کرکٹ پچز ثابت ہوں گی۔‘ سابق کرکٹر مدثر نذر کا ماننا ہے کہ نیویارک کی پچ مکمل تیار نہیں اور اگر اس پر کچھ میچ کروا لیے جاتے تو صورتحال بہتر ہوتی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مدثر نذر کا کہنا تھا کہ اگلے میچ سے پہلے پاکستانی ٹیم کو کچھ دن ملے ہیں اور شاید ٹیم کو نئی پچ ہی ملے گی جس پر گھاس کاٹا گیا ہو گا، پانی دے کر رول وغیرہ کیا گیا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے مقابلے میں انڈین ٹیم ’ہر لحاظ سے بہتر ہے۔‘ ’ہم اپنے فاسٹ بولز کی بہت بات کرتے ہیں لیکن ہمارے بولرز اتنے موثر نہیں ہیں جتنے انڈیا کے ہیں۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ ایک غیر متوقع، انڈر کوکڈ پچ پر کھیلتے ہیں تو چھوٹی، کمزور ٹیم کو اس کا فائدہ ہو جاتا ہے کیونکہ چیزیں برابری کی سطح پر آ جاتی ہیں۔‘ مدثر نذر کہتے ہیں کہ یہ پچ بہت غیر متوقع ہے۔ ’کوئی پتا نہیں وراٹ کوہلی، روہت شرما کو دو تین اچھی بالز پڑ جائیں جس کا پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر پاکستان کا بولنگ اٹیک منظم ہو اور نپی تلی بولنگ کرے۔ مدثر نذر کا ماننا ہے کہ ’پچ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ خاص کر ٹی ٹوئنٹی میں جہاں شائقین چوکے چھکے دیکھنے آتے ہیں۔ ’لیکن جس پچ پر بلے باز کو جان کے لالے پڑ جائیں، وہاں وہ چوکے چھکے کیسے ماریں گے؟‘ کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری بھی مدثر نذر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کا بولنگ اٹیک منظم ہو اور نپی تلی بولنگ کرے تو اس پچ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے سمیع چوہدری کا کہنا ہے کہ پچ اس وقت کردار ادا کرتی ہے جب آپ گیند کو اس پر پچ کرواتے ہیں، اگر آپ فل ٹاس کروا رہے ہیں تو پچ غیر اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی پیسرز کی پیس کے ساتھ غیر ہموار پچ کا پیس مل جائے تو وہ انڈین بلے بازوں کے لیے کافی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ سمیع چوہدری کا ماننا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ انحصار شاہین آفریدی پر کرتا ہے ’مگر جس طرح کی بولنگ شاہین نے امریکہ کے ساتھ میچ میں کی ہے، ویسی بولنگ نہ کر کے بہتر لائن، بہتر لینتھ کے ساتھ اٹیک کریں تو پاکستانی ٹیم کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈراپ ان پچز کے علاوہ دوسری پچز پر عموماً نئی بال سے فل لینتھ پر سیم یا سوئنگ ملتی ہے لیکن آسٹریلیا سے منگوائی گئی ان ڈراپ ان پچز پر پیسرز کے لیے بیک آف لینتھ یا شارٹ آف لینتھ زون زیادہ موثر ہے‘ لہذا اگلے میچ کے لیے شاہین اور حارث کو اپنی بولنگ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ محمد عامر کو بھی اپنے اعصاب پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ سمیع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹاس نہ جیتنے کی صورت میں اگر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنا پڑ گئی تو انڈین پیس اٹیک کم خطرناک نہیں، خاص کر جسپریت بمرا جس طرح کے نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے اور جس پیس سے بالنگ کرواتے آ رہے ہیں، اگر وہ بیک آف لینتھ سے پاکستانی اوپنرز اور مڈل آرڈر پر اٹیک کرتے ہیں تو پاکستانی بیٹنگ آرڈر کے لیے مشکل صورتحال ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ شاید یہ پچ اتنی خطرناک نہ ہو جتنا اس کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم اس پچ پر کم رنز ہی بن پائیں گے۔ ڈراپ ان پچز کو گراؤنڈ سے باہر کسی نرسری، گرین ہاؤس یا کبھی کسی دوسرے گراؤنڈ میں ایک سٹیل کے سانچے یا ٹرے میں رکھا جاتا ہے اور پھر آسٹریلیا میں کرکٹ سیزن کی آمد پر انھیں گراؤنڈ میں اتارا جاتا ہے۔ ان پچز کو جہاں تیار کیا جاتا ہے وہاں ان کی دیکھ بھال بالکل ویسے ہی کی جاتی ہے جیسے کسی عام پچ کی اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ میچ سے پہلے یہ مکمل طور پر تیار ہوں۔ گراؤنڈ تک پچ پہنچانے کا عمل خاصا دلچسپ اور دیکھنے کے لائق ہے۔ یہ سب کچھ ایک دیو ہیکل کسٹمائزڈ ٹرالر کی مدد سے ممکن ہو پاتا ہے جو اس مٹی اور گھاس کے مجموعے کو گراؤنڈ تک پہنچانے اور پچ کی مخصوص جگہ پر اتارنے میں مدد کرتا ہے۔ آپٹس سٹیڈیم میں اس ٹرالر کو ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلایا جاتا ہے اور بغیر کسی مشکل کے پچ کو اس کی جگہ پر اتارنے کا کام مکمل کر لیا جاتا ہے۔ عموماً جس جگہ پر پچ کو اتارا جاتا ہے وہاں پہلے سے سیمنٹ سے لیپائی کی جاتی ہے۔ یوں پچ دراصل مٹی میں نہیں بلکہ سیمنٹ کے فرش پر اترتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ پچ مٹی میں اپنی جگہ نہ پکڑ پائے اور اسے باآسانی واپس نکالا بھی جا سکے۔ عموماً انھیں نکالنے کے بعد اس خالی جگہ پر ریت کا بلاک ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس پر آرٹیفشل گھاس ڈال کر اسے کسی دوسرے کھیل جیسے آسٹریلین رولز فٹبال، رگبی یا کسی کانسرٹ کے لیے تیار کر دیا جاتا ہے۔ یوں آسٹریلیا جیسے ممالک جہاں کرکٹ مقبول ترین کھیل نہیں، وہاں گراؤنڈز کا مختلف کھیلوں اور تقریبات کے لیے استعمال ان کے لیے معاشی پائیداری کا باعث بنتا ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں پچز کو انتہائی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ لگ بھگ 22 یارڈ کی پچ میچ کے نتیجے پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ پچ بنانا یعنی اس کی کیوریشن باقاعدہ طور پر پڑھائی جاتی ہے اور کس علاقے میں اس کے موسم کے اعتبار سے کون سی مٹی سازگار رہے گی اور اس کے باعث اس پچ کی نیچر میں کیا تبدیلی آئے گی یہ سب کچھ گراؤنڈ سٹاف اور پچ کیوریٹر کو معلوم ہوتی ہے۔ مختلف گراؤنڈز کی پچز کے بارے میں مختلف باتیں مشہور ہیں۔ جیسے ایڈیلیڈ کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے جبکہ پرتھ کے پرانے گراؤنڈ واکا کی پچ پیس اور باؤنس کے لیے خاصی مشہور تھی۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان میں پچز سپنرز کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cg66nq0gvxyo
افغانستان نے نیوزی لینڈ کو بڑے مارجن سے ہرا دیا، مگر یہ ’اپ سیٹ نہیں‘
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران نیوزی لینڈ کو اپنے پہلے ہی میچ میں افغانستان کے ہاتھوں 84 رنز سے شکست ہوئی ہے۔ سنیچر کو گیانا میں کھیلے جانے والے میچ میں افغانستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں نیوزی لینڈ کو 160 رنز کا ہدف دیا۔ اس ہدف کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم افغان بولرز کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اس کے تمام کھلاڑی 16ویں اوور میں صرف 75 کے مجموعی سکور پر پویلین واپس لوٹ گئے۔ افغانستان کی جانب سے وکٹ کیپر بلے باز رحمان اللہ گرباز نے 56 گیندوں پر 80 اور ابراہیم زدران نے 41 گیندوں پر 44 رنز کی اننگز کھیلی۔ افغانستان کی جانب سے دیے گئے 160 رنز کے جواب میں نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن اننگز کی شروعات سے ہی مشکلات کا شکار نظر آئی۔ ان کا کوئی بھی بلے باز 20 کے ہندسے میں بھی داخل نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی جانب سے فاسٹ بولر فضل حق فاروقی اور لیگ سپنر راشد خان نے چار، چار جبکہ محمد نبی نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے گلین فلپس نے سب سے زیادہ 18 اور فاسٹ بولر میٹ ہینری نے 12 رنز بنائے۔ رحمان اللہ گُرباز کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ میچ کے بعد بات کرتے ہوئے افغانستان کے کپتان راشد خان کا کہنا تھا کہ آج کی جیت ’ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ہماری ٹیم کی کسی بڑی ٹیم کے خلاف سب سے اچھی پرفارمنسز میں سے ایک ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے جیت یا شکست سے زیادہ فرق نہیں پڑتا بلکہ اس سے فرق پڑتا ہے کہ ہم کتنی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری ٹیم میں جو انرجی ہے اسے دیکھ کر مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘ دوسری جانب نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے اعتراف کیا کہ آج کے میچ میں ان کی ٹیم اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس حوالے سے بات کریں گے، پرفارمنس کا جائزہ لیں گے اور جلدی آگے بڑھیں گے۔‘ ’ہماری طرف اب ایک اور بڑا چیلنج بڑھ رہا ہے اور ہمیں ایسی کارکردگی دکھانی ہوگی جس پر ہم فخر کر سکیں۔ ‘ خیال رہے انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں نیوزی لینڈ پانچویں جبکہ افغانستان 10ویں نمبر پر موجود ہے۔ ایکس پر بعض صارفین کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں نیوزی لینڈ پہلی بار اتنے بڑے مارجن سے کوئی میچ ہار گیا ہے۔ یہ افغانستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل فارمیٹ میں پہلی جیت ہے۔ تاہم متعدد سوشل میڈیا صارفین کا اصرار ہے کہ افغانستان کی اس جیت کو اپ سیٹ نہ قرار دیا جائے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے افغانستان کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جو لوگ افغانستان اور نیوزی لینڈ کے میچ کو اپ سیٹ قرار دے رہے ہیں وہ ’اب بھی 2018 میں جی رہے ہیں۔‘ ’نیوزی لینڈ ایسی ایلین کنڈیشنز میں اگر 140 رنز کا ہدف بھی حاصل کر لیتی تو وہ اپ سیٹ ہوتا، یہ نہیں ہے۔ افغانستان کی اس ٹیم کا احترام کریں۔‘ سابق انڈین ٹیسٹ کرکٹر وسیم جعفر بھی افغانستان کی کارکردگی سے متاثر نظر آئے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ افغان اوپننگ بلے بازوں نے 100 سے زائد رنز کی شراکت قائم کی۔ ’فضل حق فاروقی نے نیوزی لینڈ کا ٹاپ آرڈر اور راشد خان نے مڈل آرڈر تہس نہس کر کے رکھ دیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگا جیسے نیوزی لینڈ اس میچ کے لیے تیار ہی نہیں تھا اور اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ افغانستان کی جیت میں راشد خان اور فضل حق فاروقی نے مرکزی کردار ادا کیا اور سوشل میڈیا صارفین ان کی بھی تعریفیں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ باسط نامی صارف نے راشد خان کے متعلق لکھا کہ ’اس طرح ایک لیگ سپنر آپ کو اننگز کے بیچ میں وکٹیں دلواتا ہے، راشد خان ایک چیمپیئن ہیں۔‘ نیوزی لینڈ کے ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو تنگ کرنے والے فضل حق فاروقی کو ان کی کارکردگی پر ’افغانستان کے لیے گیم چینجر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے یوگنڈا کے خلاف پچھلے میچ میں بھی پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وہ نو وکٹوں کے ساتھ اب تک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں رہنے والے بولر بن گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف جیت کے بعد ٹی20 ورلڈ کپ کے گروپ سی میں افغانستان چار پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر براجمان ہے۔ نیوزی لینڈ ٹورنامنٹ میں اپنا اگلا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف 13 جون کو کھیلے گا جبکہ افغانستان کی ٹیم 14 جون کو پاپوا نیوگنی کا سامنا کرے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c844rr0n0ldo
پاکستان کو سپر اوور میں شکست دینے والے ’انڈین سافٹ ویئر انجینیئر‘ کیسے امریکی ٹیم کا حصہ بنے؟
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ دیکھنے والے پاکستانی شائقینِ کرکٹ کے لیے جمعرات کی رات اس وقت ایک ڈراؤنا خواب بن گئی جب گرین شرٹس کو امریکہ کے ہاتھوں سُپر اوور میں چھ رنز سے شکست ہوئی۔ ڈیلس میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان کی ٹیم امریکہ کے خلاف شروع سے ہی مشکلات کا شکار نظر آئی اور پاور پلے میں ہی تین وکٹیں گنوا بیٹھی۔ کپتان بابر اعظم نے 44 اور شاداب خان نے 40 رنز بناکر پاکستان کو مقررہ 20 اوورز میں 159 رنز کے سکور پر پہنچایا۔ سوربھ نریش نیتراوالکر نے امریکہ کی طرف سے چار اوورز میں صرف 18 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ امریکہ کے بلے باز جب اس ہدف کے تعاقب کے لیے میدان میں اُترے تو ایسا لگا جیسے انھیں یقین تھا کہ وہ پاکستان کو اپنے ہی گراؤنڈ میں چاروں خانے چِت کرسکتے ہیں۔ کپتان مونانک پٹیل نے 38 گیندوں پر 50، ایرون جونز نے 26 گیندوں پر 36 اور انڈریز گوس نے 26 گیندوں پر 35 رنز بنائے۔ پاکستانی فاسٹ بولرز نے میچ میں کم بیک کیا اور ایک وقت میں ایسا لگا جیسا پاکستان بمشکل ہی سہی لیکن یہ میچ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ لیکن امریکہ کی ٹیم میچ کو آخری اوور تک لے جانے میں کامیاب رہی جہاں انھیں حارث رؤف کا سامنا تھا اور 15 رنز کی ضرورت تھی۔ امریکہ کے ایرون جونز اور نتیش کمار نے ایک چھکے اور چوکے کی مدد سے اس اوور میں 14 رنز بنائے اور یہ میچ ٹائی ہوگیا۔ جب معاملہ سپر اوور تک پہنچا تو کپتان بابر اعظم نے اپنے سب سے تجربہ کار بولر محمد عامر پر انحصار کیا لیکن تجربہ کار بولر بھی پاکستان کے لیے ایک اچھا اوور نہیں کرواسکے۔ محمد عامر نے اس اوور میں چھ کے بجائے نو گیندیں کروائیں جن میں تین وائیڈ بالز بھی شامل تھیں۔ ان وائیڈ بالز پر بھی امریکہ کی ٹیم سات رنز سمیٹنے میں کامیاب رہی اور پاکستان کو ایک اوور میں 19 رنز کا ہدف دے دیا۔ پاکستان کی ٹیم نے سُپر اوور میں اس ہدف کے تعاقب کے لیے افتخار احمد اور فخر زمان کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پاکستان کے بلے بازوں کو ایک ایسے فاسٹ بولر کا سامنا تھا جن کا شاید اس ورلڈ کپ سے پہلے زیادہ تر پاکستانی شائقین کرکٹ نے نام بھی نہ سُنا ہو: سوربھ نریش نیتراوالکر۔ سوربھ نے نہ صرف اپنی چھ گیندوں پر افتخار احمد کی وکٹ حاصل کی بلکہ پاکستان کو 13 رنز تک محدود کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو تاریخ کی سب سے بڑی فتح بھی دلوادی۔ سُپر اوور کروانے والے سوربھ اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موضوعِ گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی جیت کے بعد امریکی سافٹ ویئر کمپنی ’اوریکل‘ نے بھی ٹیم کو مبارکباد دی اور دُنیا کو بتایا کہ سوربھ ان کی کمپنی میں بطور انجینیئر ملازمت کرتے ہیں۔ ’اوریکل‘ کارپوریشن کا شمار دنیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنی میں ہوتا ہے اور گذشتہ برس امریکی میگزین فوربز نے اسے مجموعی طور پر دنیا کی 80ویں بڑی کمپنی قرار دیا تھا۔ ماضی میں امریکی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے والے سوربھ کا تعلق انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا سے ہے اور وہ انڈیا کی انڈر19 ٹیم کے بھی نہ صرف رُکن رہے ہیں بلکہ ایک ورلڈکپ بھی کھیل چکے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2010 کے انڈر19 ورلڈکپ میں انڈیا کی جانب سے نو وکٹیں حاصل کی تھیں۔ سوربھ کے ساتھ انڈر19 کرکٹ کھیلنے والے کے ایل راہُل، ماینگ اگروال اور جے دیو انداکٹ انڈیا کی قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بی بی سی ہندی کے مطابق ایک انٹرویو کے دوران سوربھ نے کہا تھا کہ ’2013 میں مجھے انجینیئرنگ کے شعبے میں ایک نوکری مل گئی تھی، پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں تقریباً دو سال تک کام نہیں کروں گا اور اپنا وقت کرکٹ کو دوں گا۔ میں ممبئی کی ٹیم کے لیے کھیلنا چاہتا تھا، میں نے اسی سال ممبئی کے لیے اپنا ڈیبیو بھی کر لیا۔‘ لگاتار دو برسوں تک محنت کرنے کے باوجود بھی نہ وہ انڈین ٹیم میں جگہ بنا سکے اور نہ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کھیل سکے۔ انھوں نے سنہ 2015 میں انڈیا کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا خواب ترک کردیا اور اپنی پڑھائی کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ سوربھ نے امریکہ کی کورنل یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینیئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس سے قبل وہ یونیورسٹی آف ممبئی سے بیچلرز تک تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ انھیں شاید یہ نہیں پتا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کھلینے کے جس خواب کو وہ پورا نہیں کرپائے، ان کا وہ خواب امریکہ آ کر حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ انھوں نے نہ صرف ماسٹرز کی تعلیم مکمل کی بلکہ یونیورسٹی میں کرکٹ بھی کھیلنے لگے اور بالآخر امریکہ کی قومی ٹیم کے رُکن بن گئے۔ کرکٹ کھیلنے کے ساتھ انھوں نے اوریکل کارپوریشن میں بھی ملازمت اختیار کی۔ ان کے ’لِنکڈ اِن‘ پروفائل کے مطابق وہ گذشتہ آٹھ برسوں سے اس کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق سوربھ کے والد انڈیا کے شہر ممبئی میں مقیم ہیں اور پانچ برس پہلے انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے بیٹے کی کرکٹ میں واپسی پر کہا تھا کہ: ’میں اس کے لیے بہت خوش ہوں۔ وہ ہمیشہ ٹاپ لیول پر کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا اور بالآخر وہ اپنا خواب جی رہا ہے۔‘ ’اس نے اپنے کام اور کرکٹ کو ایک ساتھ لے کر چلنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔‘ فروری 2020 میں انڈین اخبار دا ہندو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سوربھ نے امریکہ منتقلی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’میں اپنی کرکٹ کِٹ بھی ساتھ امریکہ لے کر نہیں گیا تھا، مجھے ہمیشہ پڑھائی سے محبت رہی ہے اور کمپیوٹر سائنس سے دلچسپی تھی تو جب مجھے موقع ملا تو میں آگے بڑھ گیا۔‘ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں ہمیشہ انھیں (امریکی کرکٹرز) کو ممبئی کے کرکٹ کلچر کے بارے میں بتاتا ہوں جو کہ سِکھاتا ہے کہ ہمیں ہار نہیں ماننی چاہیے۔‘ اوریکل میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد سوربھ سان فرانسسکو منتقل ہوگئے جہاں ہر ہفتہ وار تعطیلات میں کلب کرکٹ کے ٹورنامنٹس کھیلے جاتے تھے۔ سوربھ کہتے ہیں کہ ’وہ ٹورنامنٹس انڈیا کے معیار کے نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی یہاں عام پچز تھیں۔ تاہم لاس اینجلس میں ضرور ایک پارک میں ممبئی کی طرح کی تین یا چار پچز موجود تھیں۔‘ سان فرانسسکو سے لاس اینجلس پہنچنے کے لیے اپنی کار میں تقریباً چھ گھنٹے لگتے ہیں اور سوربھ ہر جمعے کو وہاں جایا کرتے تھے تاکہ وہ سنیچر کو میچ کھیل کر اتوار کو واپس سان فرانسسکو آ سکیں۔ سوربھ کہتے ہیں کہ ’وہاں میرے ساتھ کلب میں تین، چار لوگ تھے جو امریکی ٹیم کی نمائندگی کر رہے تھے۔ دراصل مجھے تب ہی معلوم ہوا کہ امریکہ کی بھی کرکٹ ٹیم ہے۔‘ سوربھ اپنے ون ڈے انٹرنیشنل کیریئر میں 48 میچز کھیلے چکے ہیں جس میں انھوں نے 73 وکٹیں حاصل کی ہیں، جبکہ 29 ٹی20 میچز میں ان کی وکٹوں کی تعداد 29 ہے۔ مگر وہ امریکی کرکٹ ٹیم کے واحد پارٹ ٹائم کھلاڑی نہیں۔ نوستوش کنجیے نے 800 گھنٹوں تک کمیونٹی سروس میں حصہ لیا تاکہ وہ امریکی کرکٹ ٹیم میں کھیل سکیں۔ ٹی20 ورلڈ کپ میں امریکہ کی ٹیم گروپ اے کا حصہ ہے جس میں پاکستان کے علاوہ انڈیا، آئرلینڈ اور کینیڈا کی ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے اس ورلڈ کپ کے اپنے پہلے میں کینیڈا کو شکست دی تھی اور اس وقت وہ دو میچز جیتنے کے بعد گروپ اے کی پوائنٹس ٹیبل پر پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان ٹی20 ورلڈ کپ میں اپنا دوسرا میچ 9 جون کو انڈیا کے خلاف نیویارک میں کھیلے گا، جبکہ امریکہ کی ٹیم بھی 12 جون کو اپنے اگلے میچ میں انڈیا کا سامنا کرے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c511l63j08po
علی خان: فتح جنگ سے امریکی کرکٹ ٹیم تک کا سفر
یہ امریکہ کی کرکٹ ٹیم کے پاکستانی نژاد کھلاڑی علی خان کی کہانی ہے جن کا سفر پاکستان کے ضلع اٹک کے شہر فتح جنگ کی گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے سے شروع ہوا اور پھر امریکہ منتقل ہونے کے بعد ایک کے بعد ایک کامیابی کے نتیجے میں آج انھیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکہ کی نمائندگی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ شعیب اختر اور وقار یونس کو دیکھ کر فاسٹ بولنگ کا شوق پالنے والے علی خان کی دلچسپ کہانی جانیے اس ویڈیو میں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c722888z90mo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پریشان کن آغاز: ’اگر ہم امریکہ کو ہلکا ہی لے لیتے‘
اسے شرم کہیے، وحشت کہیے کہ ندامت کہیے جو پاکستان کرکٹ کی موجودہ کیفیت کا خلاصہ کر سکے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں لفظ عاجز ہو رہے ہیں، حواس گم ہو چکے ہیں اور عقل سر کے بل گر پڑی ہے۔ صرف پچھلے دو عشروں میں ہی پاکستانی کرکٹ کے ورلڈ کپ میں 'کارناموں' کو شمار کیا جائے تو کئی ایسے لمحات مل جاتے ہیں جو کروڑوں دلوں کے ٹوٹنے کا سبب بنے۔ مگر یہ لمحہ شاید ان سب پہ بھی بھاری ہے۔ اپنے کرب کی پیمائش میں یہ لمحہ شاید اس سانحے پہ بھی گراں ہے جو ورلڈ کپ میں آئرلینڈ سے شکست کی صورت رونما ہوا تھا۔ یہ یقیناً اس خلش پہ بھی بھاری ہے جو سات ماہ پہلے افغانستان سے شکست بن کر آئی تھی۔ وہ ٹیم جسے دنیا کا کامیاب ترین بلے باز قیادت کو نصیب ہے، جسے ایک باصلاحیت مڈل آرڈر دستیاب ہے اور جس کی پیس بولنگ کا دنیا بھر میں چرچا رہتا ہے، جو ٹیسٹ کرکٹ میں ستر سال سے زائد کی تاریخ رکھتی ہے، وہ کیسے اس ٹیم سے ہار گئی جسے انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے؟ بڑے ایونٹس کے ایسے بے جوڑ مقابلوں میں اعصاب کی جو بدحواسی چھوٹی ٹیموں پہ طاری ہوا کرتی ہے، یہاں وہی اضطراب کی چادر پاکستان نے اوڑھ لی اور جو عزم پاکستان سے متوقع تھا، وہ امریکی ٹیم کا خاصہ بنا رہا۔ ڈیلس کی اس پچ میں صبح کے وقت جو نمی تھی، اس نے بابر اعظم کو بھی یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ ٹاس جیت کر وہ بھی بولنگ ہی کرتے۔ لیکن ٹاس اگر قسمت کے ہاتھ میں تھا تو کنڈیشنز کا بہتر ادراک بہرحال پاکستانی بلے بازوں کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس ادراک میں ناکام رہے۔ امریکی پیسرز کا ڈسپلن اس قدر شاندار تھا کہ کسی ایک بھی بلے باز کو ہاتھ کھولنے کی گنجائش نہ ملی۔ نیتراولکر نے جس لینتھ کا انتخاب کیا، وہ بابر اعظم کے لیے معمہ ہی بن گئی جنہیں پہلے ہی نم آلود پچ پہ نئی گیند کی سیم موومنٹ کا چیلنج درپیش تھا۔ پاور پلے میں امریکی بولنگ کا ڈسپلن ہی فیصلہ کن امر ٹھہرا اور پاکستان کے حواس اڑنے لگے۔ شاداب خان اور بابر اعظم کی پارٹنرشپ نے مڈل اوورز میں جوابی وار کرنے کی کوشش کی مگر تب تک بہت واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان امریکی بولرز کی جارحیت کے جواب میں فقط مزاحمانہ سٹریٹیجی اپنانے پہ مجبور تھا۔ اور جیسے اپنے بیٹنگ پاور پلے میں پاکستان کی پلاننگ ناقص رہ گئی تھی، ویسے ہی اپنے بولنگ پاور پلے میں بھی پاکستانی پیسرز صحیح لینتھ کو نشانہ بنانے سے معذور رہے۔ حالانکہ اگر پاکستانی تھنک ٹینک صرف امریکی پیسرز کے 'پچ میپ' کی ہی پیروی کر لیتا تو موناک پٹیل اتنی آسانی سے یہ رنز نہ بنا پاتے۔ مگر کھیل کے ان پہلوؤں سے بھی بڑھ کر پاکستان کے لیے پریشان کن بات یہ رہی کہ اس ٹیم میں سبھی کندھے جھکے ہوئے اور سبھی چہرے اترے ہوئے نظر آئے جہاں ٹیم کیمسٹری بالکل ناپید ہے۔ گویا انٹرنیشنل کرکٹ کی الیون نہ ہوئی، چند جھنجلائے ہوئے کرکٹرز کا ایک گروہ ہو گیا جسے زندگی اور اس کی مقصدیت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اب اس اپ سیٹ کی شکل میں ایک ایسا جھٹکا لگ چکا ہے کہ پاکستان کرکٹ کو رُک کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے خود سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ یہ نوبت کیسے آ گئی کہ پچھلے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم اس حال کو پہنچ گئی۔ اس ورلڈ کپ فائنل سے اب تک کے عرصے میں جو رنگ برنگے چئیرمین اس بورڈ کو نصیب ہوئے اور انتظامی و عملی سطح پہ جو سنہرے فیصلے کئے گئے۔ انھوں نے اس کرکٹ ڈھانچے کو بے یقینی کی اس نہج پہ لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں تسلسل اور استحکام کا تصور بھی کسی مذاق سے کم نہیں۔ میچ سے پہلے بابر اعظم نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کو ہرگز ہلکا نہیں لیں گے اور اپنی بہترین کرکٹ کھیلیں گے۔ اس بدحواس کارکردگی کے بعد صرف یہی حسرت بچتی ہے کہ اگر ہم امریکہ کو ہلکا ہی لے لیتے تو کیا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd112p0743lo
علی خان کی امریکی کرکٹ ٹیم تک پہنچنے کی کہانی: ’پاکستان سے امریکہ پہنچا تو لگا کرکٹ کھیلنے کا خواب ٹوٹ چکا ہے‘
ضلع اٹک کے شہر فتح جنگ کی گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے والے علی خان کو یہ خیال بھی کبھی نہیں آیا تھا کہ وہ ایک دن امریکہ کے لیے کھیلتے ہوئے پاکستانی مڈل آرڈر کے سب سے اہم بلے باز کو آؤٹ کریں گے۔ گذشتہ روز انھوں نے فخر زمان کی وکٹ حاصل کر کے اور بہترین ڈیتھ بولنگ کا مظاہرہ کر کے ایسا ہی کیا اور پاکستانی بلے بازوں پر موجود دباؤ برقرار رکھا۔ فتح جنگ میں کرکٹ کھیلتے وقت بہت چھوٹی عمر میں ہی ان کے بھائی نے انھیں ’بڑے لڑکوں‘ کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ ’میں تیز گیند کرواتا تھا۔‘ ’بڑے لڑکوں‘ کے ساتھ کھیلنے اور پھر انھیں حیران کرنے کی یہ عادت علی کے امریکہ منتقل ہونے کے بعد سے لے کر آج تک ان کے کرکٹ کے سفر کا خاصہ رہی ہے۔ علی سنہ 2010 میں جب اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ منتقل ہوئے تو ان کے انکل انھیں ایک مقامی کرکٹ کلب لے گئے جہاں انھوں نے صرف ’تیز بولنگ کی‘ اور ’بیٹرز کے ڈنڈے اُڑا دیے۔‘ علی نے بی بی سی سے ڈیلاس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں امریکہ پہنچا تو میرا کرکٹ کے حوالے سے خواب ٹوٹ چکا تھا کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ امریکہ میں کرکٹ بھی ہوتی ہے۔‘ یہاں سے علی نے مقامی سطح پر کرکٹ کھیلنا شروع تو کر دی لیکن ’بڑے لڑکوں‘ کے ساتھ کھیلنے کی لگن ایسی تھی کہ انھوں نے فیس بک کا سہارے لیتے ہوئے ان دنوں یو ایس اوپن کرکٹ ٹورنامنٹ کے مرکزی منتظم میک قریشی سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھی اس ٹورنامنٹ میں کھیلنا چاہتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی اتنی اچھی رہی کہ انھیں امریکہ کی دوسری ریاستوں سے بلاوے آنے لگے۔ تب تک امریکہ میں کرکٹ تسلسل کے ساتھ کھیلنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ تاہم اس دوران یو ایس کرکٹ نے اعلان کیا کہ وہ ایک کیمپ لگا رہے ہیں جس کے ذریعے امریکہ کی ٹیم کے لیے سیلیکشن ہو گی۔ سیلیکٹرز میں کورٹنی والش بھی شامل تھے۔ علی کے مطابق یہ ٹرائلز بہت سخت تھے اور کُل 100 سے زیادہ لڑکے تھے جن میں سے 15 سیلیکٹ ہونے تھے۔ یہاں علی کو پہلی مرتبہ امریکہ کی قومی ٹیم کی نمائندگی کے لیے سیلیکٹ کیا گیا۔ اگلے ہی سال علی کو کیریبیئن پریمیئر لیگ (سی پی ایل) کی ٹیم ایمازون واریئرز نے سیلیکٹ کیا اور وہ اپنے پہلے ہی میچ کی پہلی گیند پر سابق سری لنکن کپتان کمار سنگاکارا کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گو تب تک سنگارا انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے تھے لیکن بہرحال ایک نامی گرامی کھلاڑی کو آؤٹ کرنے کے بعد علی کے مطابق ان میں یہ یقین پیدا ہو گیا کہ وہ واقعی اس کریئر میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تاہم انھیں اس سیزن میں صرف ایک ہی میچ مل سکا۔ اس سفر کو سنہ 2018 میں اس وقت اٹھان ملی جب ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی ڈوین براوو یو ایس اوپن کھیلنے آئے۔ وہ علی کی ٹیم کا حصہ تھے اور انھیں فوراً ہی اس نوجوان فاسٹ بولر میں کچھ الگ نظر آیا اور انھوں نے علی خان کو اپنی ٹیم ٹرینیبگیو نائٹ رائڈرز کے لیے سیلیکٹ کیا۔ علی اس سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھے اور اب ان کے لیے دیگر لیگز کے دروزے بھی کھلنے لگے۔ ایک جانب انھیں لیگز میں کھیلنے کا موقع مل رہا تھا تو دوسری جانب امریکہ کی ٹیم ڈویژن فائیو سے ترقی کرتے کرتے اب ڈویژن ون اور پھر ورلڈ کپ تک آن پہنچی تھی۔ علی کہتے ہیں کہ ’اس پورے سفر میں سخت محنت کا عمل دخل اور ظاہر ہے کہ جو مقدر میں ہو اور اللہ چاہے ہوتا وہی ہے۔‘ علی فتح جنگ اور راولپنڈی میں گزرے اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں کرکٹ کھیلنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اس وقت تو یہی تھا کہ بس شوق سے کھیل رہے تھے، جہاں جہاں کرکٹ آئی وہاں چلے گئے، سکول چھوڑ دیا، ٹیوشن پڑھنے نہیں گئے، گھر سے مار پڑی کے لیٹ کیوں آئے۔ گھر والے چاہتے تھے کہ ہم پڑھیں لیکن ہمارا شوق کرکٹ کا تھا، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پروفیشنل کرکٹ کھیلیں گے۔ ’شروع سے ہی فاسٹ بولر تھا، تیز بھاگ کے آنا اور تیز پھینکنا یہ نہیں پتا ہوتا تھا کہ گیند کہاں جا رہی ہے بس تیز ہونی چاہیے۔‘ دو ایسے بولرز ہیں جنھیں وہ بچپن سے ہی فالو کرتے ہیں۔ اگر آپ نے گذشتہ روز ان کی بولنگ دیکھی ہے تو آپ حیران نہیں ہوں گے کہ وہ دونوں کون ہیں۔ ’ایک تو شعیب اختر ہیں کیونکہ جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو اس دور میں شعیب اختر مانے جاتے تھے جس طرح وہ بھاگ کر آتے تھے، لمبے بال اور دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔ ’دوسرے وقار یونس تھے کیونکہ ان کے یارکرز بہت خطرناک ہوتے تھے اور مجھے بھی یارکرز ہی پسند ہیں۔ دونوں کو دیکھ کر میں متاثر ہوتا تھا اور دل کرتا تھا کہ جیسے وہ بولنگ کرتے ہیں ویسے ہی جا کر میں بھی بولنگ کروں۔‘ ان دونوں بولرز کا انداز جارحانہ تھا اور یہی بات علی کو بہت پسند تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فاسٹ بولرز میں جارحانہ انداز ہونا چاہیے اور یہ مجھے شعیب اختر میں خاص طور پر دیکھنے کو ملتی تھی جس طرح وہ بھاگ کر آتے تھے اور تیز بولنگ کرواتے، پوری دنیا کے بلے بازوں کو انھوں نے ڈرا کر رکھا ہوا تھا۔‘ کرکٹ کی گلوبلائزیشن اور دنیا بھر میں نئی ٹو ٹوئنٹی لیگز کے قیام کے بعد سے دنیا بھر کے مختلف کھلاڑیوں کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے ساتھ ملنے کا موقع ملتا ہے۔ علی کو بھی دبئی میں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کے دوران شعیب اختر اور کینیڈا میں لیگ کے دوران وقار یونس کے ساتھ ملنے کا موقع ملا۔ شاید یہی وہ سوچنے کا طریقہ ہے جو علی کو ہمیشہ مخالف ٹیم کی سب سے بڑے بلے باز کی وکٹ حاصل کرنے کی جانب راغب کرتی ہے۔ جب ہم نے میچ سے قبل ان سے پوچھا تھا کہ وہ کون سے پاکستانی بلے باز کو ٹارگٹ کریں گے تو علی نے بابر اعظم کا نام لیا، وہ انھیں تو آؤٹ نہیں کر سکے لیکن فخر زمان کی انتہائی اہم وکٹ لینے میں ضرور کامیاب ہوئے۔ پاکستان کے خلاف جیت یقیناً صرف علی خان ہی نہیں پوری امریکی ٹیم اور امریکہ میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو گی۔ علی ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جنھوں نے ملک میں کرکٹ کی جانب بڑھتے رجحان اور حوالے سے ہوتی ہوئی تبدیلیاں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں کرکٹ میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس اس طرح کے گراؤنڈ نہیں تھے ٹریننگ کی سہولیات کم تھیں۔ ٹرف وکٹس کم کھیلنے کو ملتی تھیں جس کی وجہ سے ہمیں آرٹیفیشل وکٹوں پر کھیلنا پڑتا تھا لیکن ابھی کافی بہتری آئی ہے۔ ’امریکہ میں بہت سارے لوگوں نے گراؤنڈز بنائے ہیں، ٹریننگ سہولیات اور ان ڈور ٹریننگ سینٹرز بن گئے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بین الاقوامی کھلاڑی بھی یہاں آ کر کھیل رہے ہیں، جیسے میجر لیگ کرکٹ میں بہت سارے کھلاڑی آتے ہیں، یہ اب دنیا کی بہترین لیگز میں سے ایک بن چکی ہے، تو اس لیے یہاں کرکٹ کا مستقبل روشن ہے۔‘ تاہم وہ اس حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’کرکٹ دوسرے کھیلوں کے مقابلے میں تو ابھی کافی چھوٹی ہے جیسے باسکٹ بال، این بی اے امریکن فٹبال اور بیس بال جیسے کھیلوں کے لیول تک پہنچنے میں میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ ’لیکن یہ ضرور ہے کہ ابھی نئے گراؤنڈ بن رہے ہیں، گذشتہ سال یہاں پر میجر لیگ کرکٹ شروع ہوئی تھی تو تمام چیزیں صحیح سمت میں چل رہی ہیں۔ جب مقامی گھروں میں یہ سپورٹ دیکھی جائے گی تو اس سے کافی پروموٹ ہو گا یہ کھیل۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c722739y05lo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: میزبان امریکہ نے بوکھلائی ہوئی پاکستانی ٹیم کو سپر اوور میں اپ سیٹ شکست دے دی
کس نے سوچا تھا کہ پاکستان اور امریکہ آپس میں کبھی کرکٹ کا میچ بھی کھیلیں گے، لیکن امریکہ پاکستان کو ہرا دے گا۔۔۔ یہ تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پاکستان ٹیم اس سے پہلے بھی اپنے سے کمزور ٹیموں سے شکست کھا چکی ہے لیکن یہ شکست شاید ان تمام اپ سیٹس سے زیادہ سنگین معلوم ہوتی ہے اور پاکستان کی فیلڈنگ ک دوران بوکھلائی ہوئی کارکردگی کے باعث اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ امریکہ پہلی مرتبہ ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کھیل رہی تھی اور یہ شکست سپر اوور میں جا کر ہوئی جہاں پاکستان 19 رنز کا ہدف بنانے میں ناکام رہا۔ امریکہ کے شہر ڈیلس میں ہونے والے ایونٹ کے اس میچ میں امریکہ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ میچ کی ابتدا سے ہی امریکی ٹیم کا یہ فیصلہ تب بہتر ثابت ہوا کہ جب میچ کے پہلے پاور پلے میں پاکستان کے ابتدائی تین کھلاڑی آوٹ ہو گئے۔ لڑکھڑاتی پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کو کچھ دیر کو بابر اور پھر شاداب کا سہارا ملا لیکن دونوں کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کی بیٹنگ صرف 159 رنز ہی جوڑ سکی۔ 160 رنز کے ہدف کے تعاقب میں امریکہ کی کرکٹ ٹیم نے پر اعتماد انداز میں انگز کا آغاز کیا۔ اس اننگز کا خاصہ پاکستان کی ناقص فیلڈنگ تھی، پاکستان نے امریکی بلے بازوں کے اہم موقعوں پر کیچ چھوڑے، اور مس فلیڈز اور ایکسٹرا رنز نے امریکہ کا تعاقب مزید آسان بنا دیا۔ محمد عامر، نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کے تین اچھے اوورز کے باعث امریکہ کو آخری اوور میں 15 رنز درکار تھے، تاہم حارث رؤف کے آخری اوور کی آخری بال پر چوکے نے میچ سپر اوور تک پہنچا دیا۔ سپر اوور میں امریکا نے پہلے بیٹنگ کی اور پاکستان کو جیتنے کے لیے 19 رنز کا ہدف دیا۔ پاکستان کی جانب سے یہ سُپر اوور محمد عامر نے کرایا۔ سپر اوور میں ایک لمحے کو ایسا لگا کہ پاکستان ٹیم فیلڈنگ کرنا ہی بھول گئی ہے۔ عامر کے اوور میں 10 رنز بیٹ سے بنے جبکہ باقی آٹھ رنز وائڈز اور ناقص فیلڈنگ کی نذر ہوئے۔ جواب میں پاکستان کی جانب سے افتخار احمد اور فخر زمان سپر اوور کھیلنے کے لیے کریز پر اترے مگر امریکہ کی جانب سے بہترین بولنگ کی وجہ سے وہ ٹیم کو میچ نہ جتوا سکے۔ پاکستان 19 رنز کے تعاقب میں ایک وکٹ کے نقصان پر 13 رنز بنا سکا اور امریکہ کے ہاتھوں اسے اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ کی رواں ورلڈکپ میں یہ دوسری کامیابی ہے، اس نے پہلے میچ میں کینیڈا کو ہراہا تھا۔ پاکستان کے خلاف جیت کے بعد امریکہ گروپ اے میں 4 پوائنٹس کے ساتھ ٹاپ پوزیشن پر آ گیا ہے۔ امریکہ کے خلاف ایونٹ کے پہلے میچ میں کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان نے اننگز کا آغاز کیا، لیکن دونوں کی مقبول جوڑی اس میچ میں بڑی شراکت قائم کرنے میں ناکام رہی اور محمد رضوان ابتدائی اوورز میں ہی صرف 9 رنز بنا کر سوربھ نیٹروالکر کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہو گئے۔ رضوان کے پولین لوٹ جانے کے بعد محمد عثمان میدان میں آئے لیکن وہ بھی صرف 3 کے انفرادی سکور پر نوستھش کینجیے کا شکار بنے۔ چوتھے نمبر بیٹنگ کے لیے فخر زمان آئے اور آتے ہی اپنی انداز میں انگز کا آغاز کیا اور چھکا لگایا لیکن اس کے بعد وہ بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے اور 26 کے مجموعی سکور پر 11 رنز بنانے کے بعد کیچ آؤٹ ہوگئے۔ شاداب خان نے بابر اعظم کے ساتھ مل کر ٹیم کو سہارا دیا اور اچھی شراکت قائم کی۔ ٹیم کا سکور 98 رنز پر پہنچا تو 40 رنز بنانے والے شاداب بھی کینجیے کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ گئے۔ اس کے بعد کریز پر آنے والے اعظم خان سکور میں کوئی اضافہ کیے بغیر ہی ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوگئے اور یوں پاکستان کی آدھی ٹیم 98 رنز پر پویلین لوٹ چکی تھی۔ پاکستان کے چھٹے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی بابر اعظم تھے جنھوں نے 44 رنز کی عمدہ لیکن سست اننگز کھیلی۔ افتخار احمد کی اننگز 18 کے انفرادی سکور پر تمام ہوئی جس کے بعد اننگز کے آخری اوورز میں شاہین شاہ آفریدی کی 23 کی ناقابل شکست اننگز نے پاکستان کو مناسب سکور تک پہنچایا۔ یوں پاکستان نے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 159 رنز بنائے۔ امریکہ کے اوپنرز نے ہدف کے تعاقب میں 36 رنز کا آغاز فراہم کیا جس کے بعد پاکستان کو سٹیون ٹیلر کی وکٹ کی صورت میں پہلی کامیابی ملی۔ اس کے بعد آندریز گوس اور کپتان کپتان مونانک پٹیل نے شاندار بیٹنگ کی اور ٹیم کا سکور 104 تک پہنچایا، جس کے بعد گوس 35 رنز بنا کر حارث رؤف کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ امریکہ کی تیسری وکٹ کے لیے بھی پاکستان کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور شاندار 50 رنز بنانے والے مونانک پٹیل کو محمد عامر نے پیولین کی راہ دکھائی۔ ابتدائی طور پر ناقص باؤلنگ کے بعد اس موقع پر پاکستانی باؤلرز نے لائن اور لینتھ کا خیال رکھا اور اچھی باؤلنگ کرائی اور اس کی جیت کے امکانات دکھائی دینے لگے۔ تاہم دوسری جانب امریکی اچھی حکمتِ علمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکور آگے بڑھاتے رہے اور میچ کو دلچسپ مرحلے میں داخل کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکا کو آخری اوور میں کامیابی کے لیے 15 رنز درکار تھے اور پاکستان کی جانب سے بال حارث رؤف کے ہاتھ می تھمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکہ کی ٹیم کی جانب سے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا گیا اس اوور میں ایک چھکے اور ایک چوکے کی مدد سے وہ 14 بنانے میں کامیاب رہی یوں میچ ٹائی ہو گیا۔ جب بات پہنچی سپر اوور تک تو پاکستان کی جانب سے محمد عامر کو بال کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی عامر نے سپر اوور تو کرایا مگر انتہائی مہنگا ثابت ہوا اور امریکا نے سپر اوور میں 18 رنز بنا کر پاکستان کو جیتنے کے لیے 19 رنز کا ہدف دیا تاہم پاکستانی ٹیم صرف 13 رنز بنا سکی۔ ایک میچ تو ہوا امریکہ کے شہر ڈیلس میں مگر اس کے دوران ہی پاکستانی ٹیم کی پہلے ہی میچ میں امریکہ خلاف پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے میمز اور ٹرینڈز کا ایک طوفان سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے کو ملا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے معروف سابق کھلاڑی سعید انور نے ایکس پر لکھا کہ ’کس نے سوچا ہوگا کہ امریکہ جیسی نوزائیدہ ٹیم ہمیں مشکل وقت دے گی؟ سبز لباس میں ملبوس پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی غیر یقینی صورتحال اپنے عروج پر ہے!‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس طرح انڈیا سے ایکس پر پریانوج شرما نے لکھا کہ ’کیا کسی نے کبھی یہ سوچا تھا کہ پاکستان جیسی ٹیم کو امریکہ کی ٹیم شکست دے گی، اب ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کا مزا آنے لگا ہے۔ پریانوج نے امرکہ کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو سراہا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ ’یہ ایک اور وجہ ہے کہ ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں مزید ٹیموں کی شمولیت ضروری ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان میں صحافی اجمل جامی نے بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس پر غم و غصے کا اظہار کیا انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ’معاف کیجیئے! پاکستان ٹیم سپر ایٹ کھیلنے کی مستحق نہیں ہے۔ ٹیم کے اندر بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 پاکستانی کرکٹ میزبان زینب عباس نے بھی امریکہ کی کرکٹ ٹیم کو اس کامیابی پر مبارک باد بھی دی اور اُن کی جانب سے پیش کیے جانے والے کھیل پر اُن کو سراہا بھی۔ زینب نے ایکس پر ایک پیتغام میں لکھا ’امریکہ جیت کا حقدار ہے، ان کی جانب سے انتہائی شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا گیا اور پاکستانی ٹیم مکمل طور پر تیار نہیں تھی، اور میچ میں دباؤ کا شکار دکھائی دی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ اے میں امریکہ اب تک دو میچ کھلنے اور دونوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پہلے نمبر پر ہے اُس کے 4 پوائنٹس ہیں۔ امریکہ کے بعد گروپ میں دوسری پوزیشن انڈیا کی ہے جس نے اب تک ایک ہی میچ کھیلا ہے اور اس میں اسے کامیابی ملی ہے۔ پاکستان کا اب اگلا میچ 9 جون کو روائیتی حریف انڈیا کے ساتھ ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce556p4ky84o
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار غیر متوازن پچوں پر پاکستان کی پلیئنگ الیون کیا ہو گی؟
جس فارمولا کرکٹ کے باعث پاکستان پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل ہارا تھا، اسے چھوڑنے اور ماڈرن جارحانہ اپروچ اپنانے کی کوششیں لگ بھگ دو سال تک جاری رہیں اور اب عین ورلڈ کپ کے آغاز پر پاکستان پھر سے اسی پرانے فارمولے کی جانب مڑنے پر مجبور ہوا ہے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ پارٹنرشپ پاکستان کے لیے کئی ایک یادگار فتوحات کا سبب بنی مگر یہ شراکت داری پہلے دن سے ہی ڈیٹا ماہرین کے نشانے پر رہی اور ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان کی ہار نے یہ نشانہ مزید پختہ کر دیا۔ جس کے بعد پاکستان نے اپنے اس آئیڈیل اوپننگ پیئر کی تلاش شروع کر دی جو ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کے تقاضے نبھا سکے اور پاور پلے میں اپنے سٹرائیک ریٹ سے فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ ڈومیسٹک اور فرنچائز کرکٹ میں جو خوبیاں دکھا کر صائم ایوب انٹرنیشنل کرکٹ تک پہنچے تھے، کافی مواقع ملنے کے بعد بھی، اس سطح پر ان خوبیوں کے اظہار میں ناکام رہے۔ اور چونکہ محمد حارث بھی فیصلہ سازوں کی پسندیدگی حاصل نہیں کر پائے تو اب ایک اور ورلڈ کپ میں پاکستان کی اوپننگ جوڑی بابر اور رضوان پر مشتمل ہو گی۔ اور جو کنڈیشنز ابھی تک امریکی وینیوز پر دیکھنے کو ملی ہیں، یہ حیران کن نہیں ہو گا کہ بابر اور رضوان کی اوپننگ ہی پاکستان کے لیے مثبت ثابت ہو۔ فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار ان غیر متوازن پچز پر نئی گیند کی سوئنگ اور سیم سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی ٹیسٹ کرکٹ کے تجربہ کاروں کا مزاج اور مہارت درکار ہو گی۔ عثمان خان کو یو اے ای کے کنٹریکٹ سے نکال کر پاکستان کی نمائندگی کا فاسٹ ٹریک سفر کروانے کی وجہ ان کا سٹرائیک ریٹ تھی اور ون ڈاؤن پوزیشن پر وہ پاکستان کے لیے موثر ہو سکتے ہیں کیونکہ وکٹ کے سکوائر کھیلنا ان کی وہ مہارت ہے جو بالخصوص مڈل اوورز میں سپنرز کے خلاف مفید ہو سکتی ہے۔ بڑے ایونٹس میں اہم مواقع پر پرفارمنس کا تجربہ رکھنے والے فخر زمان چوتھے نمبر پر پاور پلے کی اس ابتدائی احتیاط کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں جو اوپنرز کو ان ڈراپ ان پچز پر نئی گیند سے نمٹنے میں دکھانا پڑ سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے مشکل فیصلہ یہ ہے کہ وہ اعظم خان کا کیا کرے۔ جس لیگ سے اعظم خان نے اپنی پاور ہٹنگ کا لوہا منوایا، وہ کریبئین پریمئر لیگ تھی اور ان کنڈیشنز میں اعظم خان کا تجربہ اگرچہ پاکستان الیون میں ان کی شمولیت کی دلیل اٹھاتا ہے تو ان کے انٹرنیشنل کریئر کے اعداد و شمار ہی اس دلیل کو رد بھی کرتے ہیں۔ لیکن بطور ٹیم پاکستان اگر یہ طے کرنا چاہے تو اسے کوئی ٹیکنیکل پریشانی بھی نہیں ہے کہ اسے پہلے ہی محمد رضوان اور عثمان خان کی شکل میں دو وکٹ کیپرز میسر ہیں۔ اور اگر بطور بلے باز بھی اعظم خان کو شامل کیا جائے تو نہ صرف نمبرز ان کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ فیلڈنگ میں ان کی افادیت کا تعین کرنا بھی دشوار ہے۔ اس اعتبار سے افتخار احمد پانچویں نمبر پر پاکستان کے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔ یوں تو چھٹے نمبر پر عماد وسیم دہری ذمہ داری نبھا سکتے تھے جو مناسب پلیٹ فارم ملنے پر پاور ہٹنگ کا تقاضہ کرتی ہے اور اننگز بکھرنے کی صورت میں میچ کو آخر تک لے جانے کا۔ لیکن پاکستان کے لیے مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ عماد انجری کے باعث اس میچ کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے پاس بینچ پر موجود آلراؤنڈ آپشن شاداب خان کی ہے۔ یہاں بھی پاکستان کو یہ دشواری درپیش ہے کہ اعظم خان ہی کی طرح شاداب خان کا بھی کیا کیا جائے۔ گو، شاداب پچھلے سات سال سے پاکستانی ٹیم کا اہم رکن رہے ہیں مگر پچھلے دو سال میں ان کی غیر مستقل پرفارمنس اب ٹیم میں ان کی جگہ پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس میں جہاں بلے بازوں اور پیسرز کا ایک کردار ہوتا ہے، وہیں لیگ سپنرز بھی بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کی کارکردگی ٹیم کا اگلا راستہ طے کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوا کرتی ہے۔ حالیہ ون ڈے ورلڈ کپ میں ایڈم زیمپا کی بولنگ آسٹریلیا کی مہم جوئی میں اہم رہی تھی۔ گروپ سٹیج کے میچز پاکستان کو جن پچز پر کھیلنا ہیں، وہاں پر اب تک ہوئی کرکٹ کا محدود ڈیٹا یہ تجویز کرتا ہے کہ چار پیسرز کی موجودگی ضروری ہے اور یہاں پاکستان اپنے پرانے کمبینشن شاہین آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف کے ساتھ محمد عامر کا قابلِ قدر تجربہ شامل کر کے سرخرو ہو سکتا ہے۔ کیریبئین کنڈیشنز میں ٹورنامنٹ گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلاؤ آنے اور پچز سست ہونے کا امکان ہے لہذا وہاں دو سپیشلسٹ سپنرز کھلانے کی گنجائش ہو گی اور الیون میں شاداب خان کی شمولیت کی توجیہ کرنا بھی آسان ہو گی مگر امریکی کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے اپنے اکلوتے سپیشلسٹ سپنر کا انتخاب اہم فیصلہ ہو گا۔ عماد کی انجری کے بعد شاداب خان ہی ڈیلاس میں الیون کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں کیا پاکستان اعظم خان کی صورت میں بیٹنگ کو مضبوط کرے گا یا ابرار احمد کی شمولیت سے بولنگ کو یہ فیصلہ یقیناً میچ کے دن پچ دیکھ کر کیا جائے گا۔ بابر اعظم اب تک ایک ورلڈ کپ سیمی فائنل، ایک ایشیا کپ فائنل اور ایک ورلڈ کپ فائنل میں شکست کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں اور پر عزم ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے ایک آئی سی سی ٹرافی لائیں گے اور ان کے اس سکواڈ میں وہ تجربہ کار کھلاڑی بھی موجود ہیں جو فرنچائز کرکٹ کی بدولت کیریبئین کنڈیشنز سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس خواب کی عملی تعبیر کے لیے پلیئنگ الیون کے چناؤ میں تدبیر کو ترجیح دینا ہو گی اور آن فیلڈ فیصلوں میں بھی بابر اعظم کو وہ باریکی دکھانا ہو گی جو چھوٹے چھوٹے لمحات کو فیصلہ کن بنا سکتی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjrrwk9rnxzo
’کاؤ بوائے‘ پاکستانی کرکٹر: امریکی تشخص کی علامت ’سٹیٹسن ہیٹ‘ کیوں مقبول ہیں؟
’جیسا دیس، ویسا بھیس‘ کی روایت پر عمل کرتے ہوئے امریکی ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کی ’کاؤ بوائے ہیٹ‘ یا ’سٹیٹسن ہیٹ‘ پہنے تصاویر اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں موجود ہے جہاں وہ جمعرات کو میزبان ٹیم امریکہ کے ساتھ ٹورنامنٹ میں اپنا پہلا میچ کھیلے گی۔ گذشتہ روز جہاں ٹیم کی ٹریننگ کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں وہیں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، فخر زمان، افتخار احمد اور عماد وسیم کی کاؤ بوائے ہیٹ پہنے تصاویر اور آئی سی سی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد کھلاڑی، جن میں عباس آفریدی بھی شامل ہیں، نے بیلوں کی مشہور لڑائی دیکھتے ہوئے اپنی تصاویر شیئر کی ہیں۔ پاکستانی بلے باز افتخار احمد نے بھی ایسی ہی ایک ویڈیو شیئر کی جو بظاہر ایک مقامی روپنگ رنگ میں بنائی گئی ہے۔ اس بارے میں سوشل میڈیا پر جہاں معمول کے مطابق صارفین ان کھلاڑیوں کو ’کرکٹ پر توجہ‘ دینے کے مشورے دے رہے ہیں، اکثر صارفین کی جانب سے یہ تصاویر شیئر کرنے کے بعد ٹیکساس اور کاؤ بوائے کلچر اور ان ہیٹس کے بارے میں تجسس پایا جاتا ہے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ’کاؤ بوائے کلچر‘ ہے کیا اور کاؤ بوائز جو ہیٹ زیبِ تن کرتے ہیں وہ امریکی ثقافت میں اتنی اہمیت کیسے اختیار کر گئے کہ یہ مختلف ادوار میں امریکی صدور نے بھی پہنے اور یہ امریکی تشخص کی علامت بن گئے۔ جب ہسپانوی آبادکار 1519 میں امیریکس آئے تو انھیں نے اپنے مویشی پالنے کے لیے مزید مویشی خانے بنانے کا آغاز کیا۔ اس دوران سپین سے گھوڑے درآمد کیے گئے۔ میکسیکو کے مقامی کاؤ بوائز کو ’ویکوروز‘ کہا جاتا ہے جو ہسپانوی زبان کے لفظ ’واکا‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب گائے ہے۔ ویکوروز کو مویشی پالنے والوں کی جانب سے اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا اور انھیں مویشیوں کو رسی ڈالنے، گھڑ سواری کرنے اور مویشی چرانے کا بہترین تجربہ تھا۔ 18ویں صدی میں مویشیوں کی افزائش آج کل کی ریاست ٹیکساس، ایریزونا، نیو میکسیکو اور یہاں تک کہ ارجنٹینا میں بھی ہونے لگی۔ 19ویں صدی کے اوائل میں متعدد انگریزی بولنے والے آبادکاروں نے امریکہ کی مغربی ریاستوں کی جانب ہجرت کی اور انھوں نے ویکورو ثقافت کے متعدد عوامل کو اپنایا جن میں ان کا مخصوص لباس اور مویشیوں پر سواری کرنے اور انھیں چرانے کے انداز تھے۔ کاؤ بوائز کا کام کیوںکہ انتہائی مشکل اور محنت طلب ہوتا تھا اور انھیں تنہائی میں رہنا پڑتا تھا، اس لیے یہ صرف سخت جان افراد کا کام ہی سمجھا جاتا ہے۔ کاؤ بوائز مختلف قومیت سے تعلق رکھتے تھے جن میں افریقی نژاد امریکی، مقامی امریکی اور میکسیکو کے رہائشی اور مشرقی امریکی اور یورپ سے آئے آبادکار شامل تھے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر چار میں سے ایک کاؤ بوائے سیاہ فام ہوتے تھے۔ تاہم بعد میں ہالی وڈ فلموں میں کاؤ بوائز کی شناخت ایک سفید فام مرد کے طور پر کی گئی اور امریکہ کی جانب سے ان کاؤ بوائے ہیٹس کو اپنی ہالی وڈ مشینری کے ذریعے دنیا بھر میں متعارف کروایا گیا۔ اس حوالے سے 1954 میں سگریٹ کمپنی مارلبورو کی جانب سے ایک کاؤ بوائے کو اپنی تشہیری مہم میں استعمال کیا گیا تھا جس کے بعد سے دنیا بھر میں ’مارلبورو مین‘ کی اصطلاح مقبول ہوئی تھی۔ ’کاؤ بوائے کنٹری‘ کا مرکز سمجھے جانے والی امریکی ریاست ٹیکساس میں ایکسچینج سٹریٹ پر یہ کوائے بوائے اب بھی سیاحوں کے لیے مختلف جانوروں کی سواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اس تاریخی سفر کی یاد تازہ کرتا ہے جو امریکہ کے مغرب سے کاؤ بوائز کی جانب سے کیا جاتا تھا اور وہ بیلوں پر بیٹھ کر شمال میں موجود منڈیوں تک آیا کرتے تھے۔ کاؤ بوائز کی تاریخ پر نظر رکھنے والے فرینک میلانو بی بی سی 2 کو بتاتے ہیں کہ کیسے بیلوں کی سواری اور ان پر دور دراز سفر کا آغاز ہوا۔ سنہ 1865 میں امریکہ میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا تھا تو ٹیکساس، کنفیڈریٹس کے زیرِ انتظام تھا جو جنگ ہار چکے تھے۔ جب کنفیڈریٹ فوجی جنگ سے واپس گھروں کو لوٹے تو کنفیڈریٹ دولت کی کوئی قدر نہیں تھی کیونکہ اس کرنسی کی قدر میں اضافے کے لیے سونا چاندی موجود نہیں تھا۔ اس لیے ریاست ٹیکساس دیوالیہ ہو چکی تھی۔ شمال میں یعنی شکاگو، نیویارک اور بوسٹن میں لوگوں کے پاس مشینری بھی تھی اور دولت بھی۔ انھوں نے جنگ بھی جیت تھی لیکن ان کے پاس ایک چیز نہیں تھی، اور وہ تھا گوشت۔ یوں کنفیڈریٹ فوجیوں کو گوشت شمالی علاقوں کو بیچنے کا خیال آیا۔ یہ جانور وہاں لے جا کر 30 سے 35 ڈالر میں بیچے جاتے اور یہی جانور ٹیکساس میں ایک سے دو ڈالرز میں بکتے تھے۔ یوں تو کاؤ بوائز پر بے شمار ہالی وڈ فلمیں بھی بنی ہیں اور یہ پاکستان میں غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے سگریٹ کی تشہیری مہم کے طور پر بھی استمعال کیے جاتے رہے ہیں تاہم ان سب میں منفرد کاؤ بوائے ہیٹس ہوتے ہیں۔ کاؤ بوائے ہیٹ کو امریکہ میں مردانگی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں امریکہ کی مقبول موسیقار بیونسے نے اپنی نئی البم کے لانچ اور اس کی تشہیر کے لیے کاؤ بوائے ہیٹ نہ صرف البم کے کور پر لگایا بلکہ پیرس فیشن ویک کے دوران پہنا بھی۔ صحافی اور ثقافتی ناقد برٹنی لوز نے ایک مرتبہ پھر سے فنکاروں کی جانب سے ہیٹ پہننے کے فیشن کی واپسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اب لوگ کاؤ بوائز کے کردار کو فخریہ انداز میں اور ایک کمیونٹی کے طور پر قبول کر رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل روایتی طور پر اس بارے میں خود کو ایک سفید فام، پدرشاہی معاشرے کے انفرادی ہیرو سے کم تر سمجھتے تھے۔‘ جدید کاؤ بوائے ہیٹ دراصل 1830 میں پیدا ہونے والے جان سٹیٹسن کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اس ہیٹ کو سٹیٹسن ہیٹ کہتے ہیں۔ اس سے قبل کاؤبوائز مختلف قسم کے ہیٹ پہنا کرتے تھے۔ سٹیٹسن نے ایک ایسا ہیٹ بنایا جو چھاؤں بھی فراہم کرتا تھا اوریہ دھوپ میں کام کرنے والے کاؤ بوائز کے لیے آرام دہ ہوتے تھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cerr09d1ln3o
روہت شرما اور ہاردک پانڈیا کی خراب فارم: کیا انڈیا آئی سی سی ٹورنامنٹ نہ جیتنے کی روایت توڑ سکتا ہے؟
آئی سی سی کا نواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جاری ہے۔ یہ ٹورنامنٹ چار ہفتوں تک امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلا جائے گا۔ انڈیا اس وقت نہ صرف دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے بلکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 جیتنے کے لیے فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ہے۔ انڈین ٹیم سے نہ صرف شائقین کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں بلکہ ان کی کارکردگی پر شائقین اور ماہرین کی کڑی نظر ہے۔ دنیائے کرکٹ کی نمبر ون ٹیم ہونے کے باوجود یہ ٹورنامنٹ انڈین ٹیم کے لیے آسان نہ ہوگا۔ انڈیا 2007 میں منعقد ہونے والے افتتاحی ورلڈ کپ کا فاتح تھا۔ تاہم، تب سے یہ اس فتح کو دہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ انڈین کرکٹ کے بڑھتے اثر و رسوخ، بی سی سی آئی کی دولت میں بے پناہ اضافے اور ٹیلنٹ کی بھرمار کے باوجود، آئی سی سی کے بڑے ٹائٹلز انڈیا کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔ آخری بار انڈیا 2013 میں کوئی آئی سی سی ٹائٹل جیتا تھا جب انڈیا نے مہیندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں فائنل میں انگلینڈ کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد سے ایم ایس دھونی، ویرات کوہلی اور روہت شرما جیسے مایہ ناز کپتانوں نے قیادت کی ہے لیکن اس کے باوجود ٹیم کوئی بھی آئی سی سی ٹائٹل جیتنے سے قاصر رہی ہے۔ گذشتہ سال، انڈیا کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ اور ون ڈے ورلڈ کپ کے فائنل میں دونوں بار آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔ لیکن کیا اس بار انڈیا اپنی قسمت بدل پائے گا؟ 2008 میں شروع ہونے کے بعد سے، انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کو نہ صرف کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے بلکہ آئی پی ایل کی پرفارمنس کی بنیاد پر کئی کھلاڑیوں کو انڈین ٹیم میں شامل اور ڈراپ کیا جاتا رہا ہے۔ کیا اس بار انڈیا آئی سی سی ٹورنامنٹ نہ جیتنے کی روایت کو توڑ سکتا ہے؟ آئی پی ایل مقابلے کھلاڑیوں کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے اگر آئی پی ایل 2024 کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ورلڈ کپ کے لیے جانے والا انڈین سکواڈ کوئی خاص متاثرکن دکھائی نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر سکواڈ میں شامل ایک بھی کھلاڑی اس سال کے آئی پی ایل کے فائنل میں نہیں تھا۔ اس سال کی آئی پی ایل کی فاتح ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) کے لیے کھیلنے والے رنکو سنگھ انڈین ٹیم کے مرکزی سکواڈ کے 15 کھلاڑیوں میں شامل نہیں ہیں۔ انھیں ٹریولنگ ریزرو میں رکھا گیا ہے۔ اس ہی طرح، شبمن گل جنھیں دو سال تک انڈین کرکٹ کا اگلا بڑا سٹار کہا جاتا رہا وہ بھی مرکزی سکواڈ میں شامل نہیں۔ ویراٹ کوہلی کے بعد آئی پی ایل 2024 کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے رتوراج گائیکواڈ اور ریان پراگ تو ریزرو کا بھی حصہ نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گائیکواڑ گذشتہ سال ایشین گیمز میں انڈین ٹیم کے کپتان تھے۔ اس سال آئی پی ایل میں سب سے زیادہ وکٹ لینے والے ہرشل پٹیل اور ورون چکرورتی کو تو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔ آئی پی ایل 2024 میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بنیاد پر قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت اور کئی کو نظر انداز کردینا روایتی سلیکشن کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ویراٹ کوہلی اور جسپریت بمراہ کا شمار آئی پی ایل 2024 کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ ٹورنامنٹ کے آغاز میں کوہلی کو اپنے سٹرائیک ریٹ کے باعث کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم، انھوں اپنی شاندار بلے بازی سے ناقدین کو خاموش کروا دیا۔ اگرچہ بمراہ سب سے زیادہ وکٹیں حاصل نہیں کر پائے اس کے باوجود وہ آئی پی ایل کے سب سے بہترین بولر تھے جن سے ہر بیٹسمین خوف کھاتا تھا۔ سات رنز فی اوور سے کم اوسط سے بولنگ کرواتے ہوئے ان کی کسی بھی مرحلے پر وکٹ لینے کی صلاحیت انھیں باقی بولرز سے نمایاں بناتی ہے۔ انڈین ٹیم کے اس سکواڈ میں کوہلی اور بمراہ کی کیٹیگری کا واحد کھلاڑی رشبھ پنت ہے۔ دسمبر 2022 کے حادثے کے بعد رشبھ پنت تقریباً 18 مہینے تک کرکٹ سے دور رہے۔ آئی پی ایل میں وہ زیادہ سکور تو نہیں کر سکے لیکن ان کی کرکٹ میں واپسی اور جس انداز سے انھوں نے بلے بازی کی وہ انڈین ٹیم کے لیے امید کا باعث ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور قابلِ ذکر نام شیوم دوبے کا ہے جو اپنی پرفارمنس سے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے علاوہ باقی کے سکواڈ میں کوئی متاثرکن کھلاڑی نہیں نظر آتا۔ سنجو سیمسن، سوریہ کمار یادو، کلدیپ یادو اور یوزویندر چہل نے اس سال کے آئی پی ایل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی پرفارمنس غیر معمولی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ یشسوی جیسوال، رویندرا جدیجا، اکشر پٹیل، اور بائیں ہاتھ سے گیند کروانے والے فاسٹ بالر ارشدیپ سنگھ کو تھوڑی بہت ہی کامیابی حاصل ہوئی۔ انڈین ٹیم کے فاسٹ بولر محمد سراج کی کارکردگی بڑی حد تک غیر متاثرکن ہی رہی۔ ورلڈ کپ میں تمام ٹیمیں آسٹریلیا سے درآمد کی گئیں ڈراپ ان پچز سے بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔ انڈیا کے پاس تین بائیں بازو کے سپنر اور اچھا پیس اٹیک بھی ہے جس میں خلیل احمد اور اویش خان کو ریزرو میں رکھا گیا ہے۔ مگر بظاہر اس بولنگ اٹیک میں اتنی ورائٹی یعنی مختلف آپشنز نہیں۔ انڈیا آئی پی ایل میں بُری کارکردگی دکھانے والے کپتان روہت شرما اور نائب کپتان ہاردک پانڈیا کی وجہ سے بھی تشویش میں مبتلا ہے۔ ممبئی انڈینز کی ٹیم میں کپتانی کی وجہ سے پیدا ہونے والا تنازع بھی کھلاڑیوں کے بیچ تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ انڈیا کی کامیابی روہت شرما کی جارحانہ اوپننگ پر منحصر ہوگی، جیسا کہ ون ڈے کے ورلڈ کپ میں ہوا تھا۔ پانڈیا کو بطور فنشر، پیس بولر اور بہترین فیلڈر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر پانڈیا اپنی بہترین فارم میں نظر نہیں آتے تو اس سے ٹیم کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ انڈیا کے سلیکٹرز نے کوشش کی ہے کہ سلیکشن کے وقت وہ تمام شعبوں کو مدنظر رکھیں اور ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم تشکیل دے سکیں۔ انڈین کرکٹ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں جس سے یہ کام ممکن ہوتا ہے۔ مگر اس دوران کئی سٹار کھلاڑیوں کی فارم پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ انڈیا نے ایسے کئی کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہا ہے جو آئی پی ایل میں چھائے رہے۔ اب ورلڈ کپ میں ان کا انھی غیر ملکی کھلاڑیوں سے سامنا ہوگا جو آئی پی ایل میں ان کے ہمراہ کھیل چکے ہیں۔ رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فیورٹس میں انگلینڈ بھی شامل ہے جو کہ دفاعی چیمپیئن ہے۔ اس کے علاوہ ویسٹ انڈیز، جو کہ دو بار ورلڈ کپ جیت چکا ہے اور جسے ہوم ایڈوانٹج ہے۔ جبکہ آسٹریلیا، جس نے گذشتہ سال ون ڈے کے ورلڈ کپ میں انڈیا کا خواب توڑ دیا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے گذشتہ آٹھ ایونٹس میں چھ مختلف ملک فاتح قرار پائے جن میں پاکستان اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی ٹیم کی ماضی کی فارم اتنا معنی نہیں رکھتی۔ افغانستان جیسی ٹیمیں تجربہ کار اور بڑی ٹیموں کو اپ سیٹ کر سکتی ہیں جیسا کہ ون ڈے کے ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا۔ رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فاتح کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگا۔ تمام ٹیموں کو اپنے عروج کی تلاش رہے گی۔ انڈیا لیگ سٹیج میں پاکستان کے ساتھ ایک ہی گروپ میں ہے۔ دونوں روایتی حریف نو جون کو مدمقابل ہوں گے جسے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ کہا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ یہ میچ دو ارب لوگ براہ راست دیکھیں گے۔ دونوں ٹیموں میں سے کوئی بھی ہارنا نہیں چاہے گا۔ انڈیا کو آئی سی سی ٹورنامنٹس کے ان مقابلوں میں واضح برتری رہی ہے مگر اس کی نگاہیں آگے کے مقابلوں پر بھی ہوں گی۔ پاکستان کو ہرانا ایک قدم ہوسکتا ہے مگر اصل ہدف ورلڈ کپ جیتنا ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn002jz958lo
مقناطیس، جھیل اور تجوری سے ملنے والے ایک لاکھ ڈالر: وہ جوڑا جسے ’انوکھے شوق‘ نے مالامال کر دیا
امریکہ میں ایک جوڑے نے ایک انوکھے شوق کے تحت نیو یارک کی ایک جھیل میں رسی کی مدد سے مقناطیس ڈالا تو انھیں ایک تجوری ملی۔ جمعے کے دن فلشنگ میڈوز کورونا پارک کی جھیل سے نکلنے والی اس تجوری کا ملنا تعجب کی بات نہ ہوتی۔ لیکن اس تجوری کو کھولنے پر ان کو علم ہوا کہ یہ خالی نہیں بلکہ پیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس تجوری میں میں تقریبا ایک لاکھ امریکی ڈالر موجود تھے یعنی تقریبا دو کروڑ 80 لاکھ پاکستانی روپے۔ جیمز کین اور باربی اگوسٹنی کا کہنا ہے کہ ان کو سو سو ڈالر کے نوٹ ملے جو پانی کی وجہ سے بری حالت میں تھے۔ این وائے ون خبر رساں ادارے کے مطابق جب ان دونوں نے مقامی پولیس کو اپنی دریافت کے بارے میں آگاہ کیا تو ان کو ایک اور حیرانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے انھیں بتایا کہ اس تجوری کا کسی جرم سے تعلق ثابت نہیں ہوتا اور ان کو اس سے ملنے والا پیسہ رکھنے کی اجازت ہے۔ بی بی سی نے نیو یارک پولیس محکمے سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے۔ جیمز کین کے مطابق وہ اس سے پہلے بھی تجوریاں تلاش کر چکے ہیں تاہم اس تجوری کو دیکھ کر ان کو خیال آیا کہ ’یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔‘ ’ہم نے اسے باہر نکالا تو اس میں نوٹوں کی موٹی موٹی گٹھیاں تھیں جو بھیگی ہوئی تھیں اور کافی حد تک خراب ہو چکی تھیں۔‘ باربی اگوسٹنی نے بتایا کہ ’تجوری میں کوئی شناختی کارڈ نہیں تھا، کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا جس سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا۔ پولیس نے بھی کہا کہ مبارک ہو۔‘ ’مقناطیس فشنگ‘ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں ایک مضبوط مقناطیس جھیلوں اور دریاوں میں پھینک کر دیکھا جاتا ہے کہ کیا نکلتا ہے۔ اس جوڑے کا کہنا ہے کہ انھوں نے کورونا کی وبا کے دوران اس شوق کا آغاز کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے وہ دوسری عالمی جنگ کے زمانے کے دو گرینیڈ، 19ویں صدی کی بندوقیں اور ایک موٹر بائیک بھی تلاش کر چکے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nnz2325gro
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا بلاک بسٹر آغاز: کہیں ’لاہور قلندرز کا خون‘ نمیبیا کو بچا گیا تو کہیں ویسٹ انڈیز اپ سیٹ سے بال بال بچا
امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز انتہائی سنسنی خیز مقابلوں سے ہوا ہے اور ابھی سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ٹورنامنٹ میں اپ سیٹس دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے شیڈول کا اعلان ہوا تھا تو یہی سمجھا جا رہا تھا کہ ورلڈ کپ کے اصل مقابلہ تو ابتدا کے کچھ عرصے بعد شروع ہوں گے جب دونوں گروپس میں موجود بڑی ٹیمیں آپس میں کھیلں گی، لیکن نتائج بالکل اس کے برعکس آئے ہیں۔ افتتاحی میچ میں جس طرح امریکی بلے بازوں نے کینیڈا کے 195 رنز کے ہدف کا تعاقب کیا تھا اس نے پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ اسی طرح گذشتہ رات میزبان ٹیم ویسٹ انڈیز کے لیے پاپوا نیو گنی (پی این جی) کے ساتھ میچ بہت آسان سمجھا جا رہا تھا لیکن میچ میں ایسے لمحات بھی آئے جب پی این جی کا پلڑہ بھاری تھا اور ویسٹ انڈیز کو 137 رنز کا ہدف بھی پہاڑ معلوم ہو رہا تھا۔ ویسٹ انڈیز بالآخر راسٹن چیز کی ذمہ دارانہ بیٹنگ کے باعث اس ہدف کو 19ویں اوور میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ابھی اس میچ اور ویسٹ انڈیز کے لڑکھڑاتے ردِعمل پر بات ہو ہی رہی تھی کہ عمان اور نمیبیا کے درمیان میچ کا آغاز ہی پہلے ہی اوور میں دو وکٹوں سے ہوا۔ یہ وکٹیں نمیبیا کے بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر روبین ٹرمپلمین نے حاصل کیں۔ ان کی اننگز میں چار وکٹوں نے عمان کا سکور 109 رنز پر روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور یوں پہلی اننگز کے اختتام پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نمیبیا باآسانی یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن پھر عمان کے سپنرز کی نپی تلی بولنگ اور مہران خان کی تین وکٹوں نے میچ کا پانسہ ایسا پلٹا کہ میچ کا نتیجہ سپر اوور میں جا کر نکلا۔ لاہور قلندرز کی لگاتار دو مرتبہ پی ایس ایل جیتنے میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈیوڈ ویزا نے آج اپنی قومی ٹیم کو پہلے سوپر اوور تک پہنچانے اور پھر سوپر اوور کی دھواں دار ابتدا کر کے جیت یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی ابتدا کے بعد دوسرے ہی روز سوپر اوور تک میچ جانے کے باعث اب ورلڈ کپ میں شائقین کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ایک عرصے سے دنیا بھر میں کرکٹ کی مقبولیت کے لیے کوشاں تھی اور اس بارے میں وہ امریکہ کو ایک ایسی مارکیٹ کے طور پر دیکھ رہی تھی جہاں سے کرکٹ کے فروغ میں مدد مل سکتی ہے۔ ٹی 20 کرکٹ نے جس تیزی سے دنیا میں مقبولیت حاصل کی ہے اس سے بظاہر ایسا لگنے لگا ہے کہ جہاں یہ فارمیٹ اس کھیل کی بقا کا ضامن بن سکتا ہے وہیں اسے ایک ایسا کھیل بنانے میں بھی مدد سے سکتا ہے جو دنیا کے بیشتر علاقوں میں کھیلا جاتا ہو۔ بظاہر کمزور ٹیموں کی ورلڈکپ میں اچھا پرفارم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان ٹیموں کے کھلاڑی کئی سال سے اکٹھے کھیل رہے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کمبینیشن بہتر ہوتا ہے اور وہ ایک طویل عرصے سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر مضبوط ٹیموں کے کھلاڑی یا تو آئی پی ایل میں مصروف رہے ہیں یا پھر گذشتہ کچھ ماہ کے دوران ایک ساتھ زیادہ کرکٹ نہیں کھیلے جس کے باعث انھیں یہ کمیسٹری اور کمبینیشن بنانے میں وقت لگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کرکٹ ایک ٹیم سپورٹ ہے اور اس میں انفرادی کارکردگیوں سے زیادہ پوری ٹیم کی کارکردگی اہم ہوتی ہے۔ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد نے لکھا کہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ صرف تیسرا سوپر اوور ہے اور ورلڈ کپ کے پہلے دو روز میں ہی سوپر اوور ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بھی ریکارڈ ہے کہ ایک اننگز میں چھ بلے بازوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا گیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 عثمان شیخ نامی صارف نے لکھا کہ ’عمان اور نمیبیا کا میچ دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ صرف 200 سے زیادہ رنز کا ہدف کھڑا کرنے کا کھیل نہیں ہے اور کم ہدف والے ٹوٹل اتنے ہی سنسنی خیز ہو سکتے ہیں۔ ایک صارف نے ڈیوڈ ویزا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’نمیبیا کے خفیہ ہتھیار ثابت ہوئے انھوں نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک صارف نے ڈیوڈ ویزا کے لاہور قلندرز کے ساتھ کنکشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور قلندرز کا خون ہمیشہ مشکل موقعوں پر اچھا پرفارم کرتے ہیں اور آج بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ویزے نے سوپر اوور میں 14 رنز بنائے تھے اور بولنگ کرتے ہوئے سوپر اوور میں صرف 10 رنز کے عوض ایک وکٹ لی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cerr9mrr0nwo
آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹورنامنٹ کا شیڈول، فارمیٹ اور وہ سب کچھ جو آپ جاننا چاہتے ہیں
ٹی 20 کرکٹ نے جس تیزی سے دنیا میں مقبولیت حاصل کی ہے اس سے بظاہر ایسا لگنے لگا ہے کہ جہاں یہ فارمیٹ اس کھیل کی بقا کا ضامن بن سکتا ہے وہیں اسے ایک ایسا کھیل بنانے میں بھی مدد سے سکتا ہے جو دنیا کے بیشتر علاقوں میں کھیلا جاتا ہو۔ اب اس ٹورنامنٹ کے عالمی مقابلوں کو ہی لے لیں۔ 2024 میں آئی سی سی ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کے پیشتر میچ تو ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے ہیں لیکن پہلی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کرکٹ کے کسی عالمی مقابلے کی میزبانی امریکہ کر رہا ہے۔ یکم جون سے شروع ہونے والا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کا نواں ایڈیشن 29 جون تک جاری رہے گا اور اس بار اس میں 20 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ اس ٹورنامنٹ میں کون سی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، میچوں کا شیڈول کیا ہے اور ٹی 20 ورلڈ کپ سے جڑی اہم معلومات کیا ہیں۔ اس بار بھی ٹی 20 ورلڈ کپ تین راؤنڈز پر مشتمل روایتی فارمیٹ کے تحت ہی کھیلا جا رہا ہے۔ ان تین راؤنڈز میں گروپ مرحلہ، سپر ایٹ اور پھر ناک آؤٹ مرحلہ یعنی سیمی فائنل اور فائنل شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ٹورنامنٹ میں شریک 20 ٹیموں کو چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر گروپ میں پانچ ٹیمیں ہیں جو پہلے مرحلے میں آپس میں کھیلیں گی اور پھر ہر گروپ میں ابتدائی دو پوزیشنز حاصل کرنے والی ٹیمیں سپر ایٹ مرحلے میں جگہ بنائیں گی۔ سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے والی آٹھ ٹیمیں ایک دوسرے کے مدِمقابل آئیں گی اور ان میں سے ابتدائی چار پوزیشنز لینے والی ٹیمیں آخری مرحلے یعنی ناک آؤٹ سٹیج میں پہنچیں گی جہاں دو سیمی فائنلز اور پھر فائنل کے بعد ٹورنامنٹ کے فاتح کا انتخاب ہو گا۔ اس بار پاکستانی کرکٹ ٹیم کو گروپ اے میں رکھا گیا ہے اور اس گروپ میں اس کے روایتی حریف انڈیا کے علاوہ کینیڈا، آئرلینڈ اور امریکہ کی ٹیمیں شامل ہیں۔ اس بار چونکہ ورلڈ کپ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں منعقد ہو رہا ہے ایسے میں کچھ میچ دن میں اور کچھ شام/رات کو کھیلے جائیں گے تاکہ مختلف ممالک کے شائقین اپنی سہولت کے مطابق ان میچوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ گروپ مرحلے میں پاکستانی ٹیم کا پہلا میچ پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے سات بجے جبکہ باقی تینوں میچ ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوں گے۔ اگر پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جاتا ہے تو یہ سیمی فائنل 27 جون کو کھیلا جائے گا۔ پاکستان میں اس ٹورنامنٹ کے نشریاتی حقوق ٹین سپورٹس کے پاس ہیں۔ آپ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر اس ورلڈ کپ سے متعلق خصوصی لائیو پیج اور دیگر اپ ڈیٹس بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں کل 55 میچ کھیلے جائیں گے۔ پہلے مرحلے کے مقابلے یکم جون سے 18 جون کے درمیان کھیلے جائیں گے۔ پاکستان کا پہلا میچ چھ جون کو امریکہ کے خلاف شیڈول ہے۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں نو جون کو سامنے آئیں گی۔ پاکستان کا تیسرا میچ کینیڈا کے خلاف 11 جون کو شیڈول ہے جبکہ گروپ مرحلے میں پاکستان اپنے آخری میچ میں 16 جون کو آئرلینڈ کے مدِمقابل ہو گا۔ سپر ایٹ مرحلے کا آغاز 19 جون سے ہو گا اور 25 جون کو ہونے والے اس مرحلے کے آخری میچ کے بعد ٹورنامنٹ کی سیمی فائنلسٹ ٹیمیں سامنے آ جائیں گی۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کا سیمی فائنل 27 جون اور فائنل 29 جون کو کھیلا جائے گا۔ پاکستان اپنے گروپ مرحلے کے تمام میچ امریکہ میں ہی کھیلے گا۔ پہلا میچ ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کے گرینڈ پروری سٹیڈیم میں منعقد ہو گا۔ دوسرے اور تیسرے میچ کے لیے نیویارک کے ناساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ آخری میچ فلوریڈا کے لاڈر ہل کے سینٹرل بروورڈ پارک میں کھیلا جائے گا۔ ناساؤ کاؤنٹی سٹیڈیم لانگ آئی لینڈ میں واقع ہے۔ یہ ایک عارضی سٹیڈیم ہے جو خاص طور پر اس ٹورنامنٹ کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اس میں 34 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس سٹیڈیم میں جس پچ پر میچ کھیلے جائیں گے وہ آسٹریلوی مٹی سے تیار کی گئی ہیں۔ ویسٹ انڈیز میں جن سٹیڈیمز میں میچ ہوں گے ان میں اینٹیگوا اور باربوڈا کا سر ویوین رچرڈز سٹیڈیم، سینٹ لوسیا کا ڈیرن سیمی سٹیڈیم اور آرنوس وہلی سٹیڈیم، کنگز ٹاؤن بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹورنامنٹ کا ایک سیمی فائنل ٹرینیڈاڈ کے برائن لارا سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جبکہ دوسرے سیمی فائنل کی میزبانی گیانا کے پروویڈنس سٹیڈیم کے حصے میں آئی ہے۔ ٹورنامنٹ کا فائنل میچ بارباڈوس کے تاریخی کینزنگٹن اوول میں منعقد ہو گا۔ اس ٹورنامنٹ میں پہلی بار 'سٹاپ کلاک' کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بولنگ ٹیم کو ایک اوور کے اختتام کے 60 سیکنڈ کے اندر دوسرا اوور شروع کرنا ہوگا۔ آئی سی سی کے بنائے گئے قوانین کے مطابق غیر معمولی حالات کے علاوہ میچ تین گھنٹے 10 منٹ میں ختم ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر اننگز کے لیے وقت ایک گھنٹہ 25 منٹ اور وقفہ 20 منٹ ہے۔ ہر اننگز کے پہلے چھ اوورز میں پاور پلے ہوگا، یعنی اس دوران فیلڈنگ سے متعلق پابندیاں ہوں گی۔ ہر ٹیم کو میچ میں دو ریویوز یعنی امپائر کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے مواقع ملیں گے۔ میچ ٹائی ہونے کی صورت میں سپر اوور کے ذریعے نتیجہ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر ٹیم کو چھ گیندیں کھیلنی ہوں گی۔ اگر سپر اوور بھی ٹائی ہوا تو نتیجہ کا فیصلہ کرنے کے لیے سپر اوور دوبارہ کھیلا جائے گا۔ ہمیشہ کی طرح اس ٹورنامنٹ میں بھی بارش کی صورت میں نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ڈک ورتھ لوئیس طریقۂ کار استعمال کیا جائے گا۔ لیکن اس سسٹم کو لاگو کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ گروپ مرحلے اور سپر ایٹ مرحلے میں ڈی ایل ایس کے ذریعے فیصلہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب دونوں ٹیمیں کم از کم پانچ اوورز کھیل چکی ہوں، جب کہ ناک آؤٹ میچوں میں ضروری ہو گا کہ دونوں ٹیموں نے کم از کم دس اوورز کھیلے ہوں۔ پہلے سیمی فائنل اور فائنل کے لیے ریزرو ڈے رکھا گیا ہے تاہم دوسرے سیمی فائنل کے لیے صرف 250 منٹ کا اضافی وقت منظور کیا گیا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے آٹھ ایڈیشنز میں اب تک چھ ممالک کی ٹیمیں فاتح رہی ہیں۔ پاکستانی ٹیم اب تک آٹھ میں سے تین بار فائنل میں پہنچی مگر صرف 2009 میں ہی یہ ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔ انڈیا نے بھی ایک مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتا ہے اور یہ موقع اسے پہلے T20 ورلڈ کپ میں ہی ملا تھا جب اس نے فائنل میں پاکستان کو شکست دی تھی۔ انڈیا اس کے بعد 2014 میں پھر فائنل میں پہنچا لیکن سری لنکا سے ہار گیا۔ انگلینڈ کی ٹیم اس مرتبہ دفاعی چیمپئین کی حیثیت سے ٹورنامنٹ میں شرکت کرے گی۔ وہ 2022 کے ورلڈ کپ سے 2010 میں بھی یہ ٹورنامنٹ جیت چکی ہے۔ انگلینڈ کے علاوہ دو مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیم اس مرتبہ کی میزبان ویسٹ انڈیز کی ہے جو 2012 اور 2016 میں ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔ ان ممالک کے علاوہ آسٹریلیا نے 2021 میں جبکہ سری لنکا نے 2014 میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے 24 مئی کو ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت بابر اعظم کریں گے۔ ٹیم میں صائم ایوب، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، فخر زمان، اعظم خان، عثمان خان، افتخار احمد، عماد وسیم، شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان، محمد عامر، عباس آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف اور ابرار احمد شامل ہیں۔ ٹیم میں کوئی ریزرو کھلاڑی شامل نہیں۔ عثمان خان، اعظم خان، ابرار احمد، عباس آفریدی اور صائم ایوب پہلی بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلیں گے۔ پاکستان کی سلیکشن کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ٹیم متوازن ہے جس میں تجربہ کار اور نوجوان کرکٹرز شامل ہیں۔ حارث رؤف فٹ ہیں، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کا کردار بہت اہم ہوگا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c511g481el7o
امریکہ نے کینیڈا کا ہدف چھکوں، چوکوں میں اڑا دیا: ’امریکہ پاکستان کے لیے خطرے کی علامت بن چکا ہے‘
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا افتتاح میزبان امریکی ٹیم کی کینیڈا کے خلاف شاندار جیت سے ہوا ہے اور چھکوں اور چوکوں کی بارش نے اس میچ کے بعد اس گروپ میں شامل دیگر ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایک کرکٹ ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ہونا ہی تاریخی ہے اور شاید کرکٹ کے مستقبل کی جانب ایک اشارہ بھی۔ اس میچ کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں ہی ٹیموں میں ایشیائی نژاد کھلاڑیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ تاہم اس جیت میں کلیدی کردار امریکہ میں پیدا ہونے والے ایرون جونز نے نبھایا۔ جونز کے والدین کا تعلق باربیڈوس سے ہے اور وہ ماضی میں وہاں ڈومیسٹک کرکٹ بھی کھیل چکے ہیں۔ آج انھوں نے 40 گیندوں پر 94 رنز کی دھواں دار اننگز کھیل کر ورلڈ کپ کے پہلے ہی میچ کو امریکہ کے لیے یادگار بنا دیا۔ انھوں نے اپنی اننگز کے دوران دس چھکے اور چار چوکے لگائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔ امریکی شہر ڈیلاس کے میدان میں میزبان ٹیم امریکہ نے ٹاس جیت کر کینیڈا کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ کینیڈا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ایک بڑا ٹوٹل کھڑا کیا اور مقررہ 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 194 رنز سکور کیے۔ ایک موقع پر یہ ٹوٹل 200 سے زیادہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا تاہم تجربہ کار کوری اینڈرسن نے اچھی بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14ویں اوور کے بعد کینیڈا کا رن ریٹ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں انڈیا نژاد نونیت دھالی وال نے 61 رنز جبکہ باربیڈوس (ویسٹ انڈیز) میں پیدا ہونے والے نکولس کرٹن نے 51 رنز بنائے۔ 195 رنز کے ہدف کے تعاقب میں امریکہ کی ٹیم کا آغاز اچھا نہیں تھا اور صفر پر ہی اس کی پہلی وکٹ گر گئی جبکہ ساتویں اوور کی تیسری گیند پر ان کے انڈین نژاد کپتان مونانک پٹیل بھی پویلین لوٹ گئے۔ اس وقت ٹیم کا سکور 42 رنز تھا۔ لیکن ان کے آؤٹ ہونے کے بعد بیٹنگ کرنے کے لیے میدان میں آنے والے ایرون جونز اور اینڈریز گوس نے نو اوورز میں 131 رنز کی شراکت قائم کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ کسی بھی ورلڈ کپ میں سنچری پارٹنرشپ میں سب سے زیادہ سٹرائک ریٹ کا ریکارڈ ہے۔ گوس نے 46 گیندوں پر سات چوکے اور تین چھکوں کی مدد سے 65 رنز بنائے جبکہ جونز کے بلے سے چھکے نکلتے رہے اور امریکہ کی ٹیم نے تین وکٹیں گنوا کر مطلوبہ ہدف 14 گیند پہلے ہی حاصل کر لیا۔ ہم نے کینیڈا میں مقیم پاکستانی سپورٹس صحافی معین الدین حمید سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس میچ سے کافی لطف اندوز ہوئے۔ ’امریکہ اور کینیڈا روایتی حریف ہیں۔ کینیڈا نے جو ہدف دیا تھا وہ بہت آسان نہیں تھا لیکن جونز کی کلین ہٹنگ نے اسے آسان بنا دیا۔‘ انھوں نے کہا کہ جس طرح سے جونز نے بیٹنگ کی ہے اور جس طرح سے 2024 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کا آغاز ہوا ہے وہ بہت امید افزا ہے اور ایک ورلڈ کپ کو اسی طرح سے شروع ہونا چاہیے۔‘ اس کے ساتھ ہی انھوں کہا کہ ’گروپ میں شامل ٹیمیں ہم پلہ ہیں اور جس طرح سے گذشتہ دنوں امریکہ نے بنگلہ دیش جیسی ٹیم کو شکست دی ہے اسے دیکھتے ہوئے اسے کوئی اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ جونز اور گوس کے درمیان 131 رنز کی شراکت 14.29 رنز فی اوور کے حساب سے ہوئی، ورلڈ کپ میں کسی بھی سنچری شراکت میں یہ سب سے زیادہ رن ریٹ ہے۔ امریکہ کے کپتان مونانک پٹیل نے کہا کہ ’گوس اور جونز نے دباؤ کو بخوبی سنبھالا اور گیم کو کینیڈا کی گرفت سے باہر لے آئے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے پچ پر اچھی بولنگ کی لیکن ہم نے 10-15 رنز اضافی دیے‘ لیکن انھوں نے پہلے چھ اوورز میں کینیڈا کی بولنگ کو سراہا۔ جونز کی اننگز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ اس کے پاس صلاحیت ہے۔ اس نے بے خوف کرکٹ کھیلی اور اپنے شاٹس سے اسے ثابت کیا۔ یہ کلین ہٹنگ تھی۔‘ انھوں نے ڈیلاس کے شائقین کی تعداد پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’وہ واقعی پرجوش تھے اور امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیتے رہیں گے۔ ہم جس طرح کھیل رہے ہیں اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی بے خوف کرکٹ کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے چاہے ہم پاکستان سے کھیلیں یا انڈیا سے۔‘ کینیڈا کے کپتان سعد بن ظفر نے کہا کہ 194 کا سکور ایک زبردست ٹوٹل تھا، اور میں بہت خوش تھا۔ ہم نے اچھی شروعات کی لیکن جونز اور گوس نے غیر معمولی بیٹنگ کی۔ ہمارے بولرز کو کوئی موقع نہیں ملا۔ پچ میں اچھا باؤنس تھا، لیکن یہ دوسری اننگز میں بلے بازی کے لیے بہتر ہو گئی کیونکہ اوس پڑنے لگی تھی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ صرف شروعات ہے اور امید ہے کہ ہم اگلے میچ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔‘ ایرون جونز کو ان کی شاندار بیٹنگ کے لیے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے جذبات کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ جونز نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ کینیڈا ہمارے خلاف عمدہ کرکٹ کھیلتا ہے کیونکہ وہ ہمارا روایتی حریف ہے۔‘ معین الدین حمید نے کہا کہ امریکہ کا اگلا مقابلہ چھ جون کو پاکستان کے ساتھ ہے اور جس طرح سے جیت کے ساتھ وہ آگے بڑھی ہے اس کے حوصلے بلند ہوں گے جبکہ پاکستان نے گذشتہ دنوں انگلینڈ کے خلاف دو میچز ہارے ہیں۔ انھوں نے کئی پاکستانی کھلاڑیوں کی فارم پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک روزہ یا ٹی ٹوئنی چند اچھی اننگز اور اچھے اوورز کی وجہ سے فیصلہ کن ہو جاتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ورلڈ کپ میں شامل چھوٹی ٹیموں پر کوئی دباؤ نہیں ہوتا اور وہ انڈیا یا پاکستان کے روایتی انداز کے بجائے جارحانہ کرکٹ کھیل رہی ہے اس لیے نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستانی صارفین خاص طور پر اس میچ کو غور سے دیکھ رہے تھے کیونکہ پاکستان ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ چھ جون کو امریکہ کے خلاف ہی کھیلے گا۔ ایک سوشل میڈیا صارف وقار احمد آفریدی نے لکھا کہ ’ہمارے گروپ کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا اب بھی بیٹنگ میں اینکرز (جم کر طویل عرصے کے لیے بیٹنگ) پر انحصار کرتے ہیں جبکہ ہمارے گروپ کی دیگر ٹیمیں امریکہ، کینیڈا اور آئرلینڈ سب ماڈرن ٹی 20 کرکٹ کھیلتی ہیں اور ان کے ہاں بھی اچھے کھلاڑی ہیں۔ ’ڈر کا ماحول پاکستان اور انڈیا دونوں کے لیے ہے۔' اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ سے زیادہ مزہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے میچ میں آنے والا ہے۔‘ بیش کاک نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’کیا ناقابل یقین اننگز ایرون جونز نے کھیلی۔ صرف 40 گیندوں پر 94 رنز بنائے۔ امریکہ اچھا کھیلا۔ اس گروپ میں ہمارے لیے کچھ سرپرائز باقی ہیں خاص طور پر جب یہ ٹیمیں پاکستان کے خلاف کھیلتی ہیں تو آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے۔' صارف گوہر خان نے لکھا کہ ’امریکہ اور کینیڈا کا میچ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ پاکستان ٹیم کے لئے اس گروپ میں ہر ٹیم ہی مشکل ہے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’امریکہ تو پاکستان کے لیے خطرے کی علامت بن چکا ہے۔‘ روومت نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’امریکہ نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں اپنا کھاتہ کھول لیا ہے۔ ان کی دھواں دھار بیٹنگ دیکھ کر تو پاکستان کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔‘ عاطف نواز نامی صارف نے ایرون جونز کی اننگز کے بعد کہا ہے کہ ایک نیا ستارہ کرکٹ کے افق پر نمودار ہوا ہے۔ سابق انڈین کرکٹر وسیم جعفر نے جونز اور گوس کی تصویر ڈال کر ایکس پر لکھا: ’اوپنرز کے جانے کے بعد ان دونوں کے درمیان ناقابل یقین شراکت داری رہی۔ ایرون جونز کی طرف سے ایسی کلین ہٹنگ، ایک اننگز میں 10 چھکے لگانا ناقابل یقین ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cl448zx4zdro
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024: کیا امریکہ دوسری بڑی کرکٹ مارکیٹ بن سکتا ہے؟
جو گرم جوشی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ 2024 کے میزبان امریکہ نے ایونٹ کی تشہیری مہم میں دکھائی، وہ مجموعی طور پر آئی سی سی اور عالمی کرکٹ کے لیے تو خوش آئند تھی مگر امریکی سٹیڈیمز بھرنے کو شاید کافی نہ ہو گی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ کرکٹ امریکہ کے لیے کوئی اجنبی کھیل ہے۔ امریکی سر زمین پر تین سو برس پہلے بھی کرکٹ کھیلی جاتی رہی ہے اور اس کی مقبولیت بھی کم نہ تھی کہ انگلش کرکٹ نے اپنے پہلے آسٹریلوی دورے سے کہیں پہلے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ مگر جیسے بوسٹن ٹی پارٹی میں انگلش کلچر سے نفرت کا اظہار کر کے انگلش چائے کو عوامی طور پر مسترد کیا گیا تھا، شاید کرکٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اپنی روح میں ’انگلش‘ سمجھا جانے والا یہ کھیل امریکیوں کی ناپسندیدگی کا نشانہ بن گیا اور اس کی مقبولیت کے لہو سے بیس بال کی قبولیت و شہرت کا آغاز ہوا۔ پچھلی دہائی میں آئی سی سی نے کرکٹ کے پھیلاؤ کے لیے جو انقلابی فیصلے کیے، ان کی بدولت اب 90 سے زیادہ ٹیمیں انٹرنیشنل ٹی ٹونٹی کرکٹ کھیلتی ہیں اور ان سب کی ٹی ٹونٹی کرکٹ کو انٹرنیشنل سٹیٹس ملنے کی بدولت ہی آج کرکٹ کا عالمی ایونٹ پہلی بار امریکی میزبانی میں کھیلا جا رہا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ اپنی مقبولیت کے اعتبار سے یہ ایونٹ کوئی نئے ریکارڈ بنائے گا یا گذشتہ برس کے ون ڈے انٹرنیشنل ورلڈ کپ کی طرح کا ’فلاپ‘ نکلے گا مگر یہ واضح ہے کہ یہ کرکٹ کو کچھ نئے شائقین اور دوسری بڑی مارکیٹ ضرور دے گا جو کھیل کے لیے بہت خوش کن ہے۔ عالمی کرکٹ پر اس وقت انڈین مارکیٹ کی اجارہ داری ہے جو سوا ارب سے زیادہ آبادی کی مارکیٹ ہے اور آئی سی سی کے لیے سب سے زیادہ ریونیو پیدا کرتی ہے۔ پاکستان اپنی معیشت اور خارجہ پالیسی کے ہاتھوں بے حال نہ ہوتا تو یہ بھی شاید دوسری، تیسری بڑی کرکٹ مارکیٹ بننے کی راہ پر ہوتا۔ لیکن امریکی سر زمین پر آئی سی سی ایونٹ منعقد ہونے کی بدولت ایک پورا براعظم کرکٹ اکانومی کا نیا حصہ بن سکتا ہے جو آئندہ برسوں کی کرکٹ اکانومی میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتا ہے اور اپنے سیاسی رسوخ کے باعث بھی آئی سی سی میں انڈین اجارہ داری پر بھاری پڑ سکتا ہے کہ بہرحال ڈالر سے کون ٹکرائے گا۔ آئی سی سی اور کرکٹ شائقین کے لیے اس ورلڈکپ کا جوش زیادہ اس لیے ہے کہ جو ایونٹ پہلے دس بارہ ٹیموں تک محدود تھا، اب اس میں بیس ٹیمیں شامل ہوں گی اور اگرچہ فٹبال کی مقبولیت کا مقابلہ ابھی کوسوں دور ہے مگر کرکٹ بہرحال دوسرا بڑا گلوبل کھیل بننے کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ عالمی ایونٹس کی چال کی پیش گوئی کرنے کو ٹیموں کی قوت کے علاوہ میزبان وینیوز کا ڈیٹا بھی بہت اہم ہوا کرتا ہے جو اس بار بدقسمتی سے دستیاب نہ ہو گا کہ ان میں سے کئی وینیوز پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی کر رہے ہیں اور وہاں بچھائی گئی آسٹریلین ڈراپ ان پچز امریکی موسم میں کیسا برتاؤ کریں گی، یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن کیریبیئن کنڈیشنز بہرحال کرکٹ شائقین کے لیے اجنبی نہیں ہیں اور ان کا حالیہ ڈیٹا بھی موجود ہے جو ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ وارم اپ میچز میں کچھ خطیر مجموعے دیکھنے کو ملے مگر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ ورلڈ کپ بڑے مجموعوں کا ایونٹ ہو گا۔ ماضی کو معیار رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کیریبیئن کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم رہے گا اور استعمال شدہ پچز پر ڈیتھ اوورز میں کچھ نہ کچھ ریورس سوئنگ بھی دیکھنے کو ملے گی جو ایشیائی ٹیموں کے امکانات روشن کر سکتی ہے۔ پاکستان کے علاوہ دیگر نامی گرامی ٹیموں کے بیشتر کھلاڑی آئی پی ایل کی تازہ ترین میچ پریکٹس لیے آ رہے ہیں جبکہ پاکستان نے اپنی تیاری کے لیے پی ایس ایل کے بعد تین انٹرنیشنل سیریز کھیلی ہیں جو بدقسمتی سے پاکستان کے لیے مثبت نتائج لانے سے قاصر رہیں۔ لیکن صلاحیت اور تجربے کے اعتبار سے پاکستان دوسری مسابقتی ٹیموں سے پیچھے نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستانی سپنرز کی حالیہ کارکردگی بہت شاندار نہیں رہی لیکن ایونٹ میں اگر پاکستان اپنی الیون کا صحیح توازن ڈھونڈنے میں کامیاب رہا تو سیمی فائنل تک رسائی ناممکن بھی نہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c511g04nry4o
’وہاں سمارٹ کرکٹ زیادہ ضروری تھی‘
اعظم خان حیرت کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ وہ برے وکٹ کیپر ہرگز نہیں ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتے پہلے پی ایس ایل کے بہترین وکٹ کیپر قرار دیے گئے ہیں۔ مگر یہاں وہ خود پر حیران ہیں کہ اوپر تلے دو کیچز کیسے گرا دیے۔ یہ دو ایسے ریگولیشن کیچز تھے جو انٹرنیشنل لیول پر کوئی بھی وکٹ کیپر آسانی سے کر جاتا۔ انگلش بیٹنگ دھاڑ رہی تھی اور پاکستانی بولرز سر کھجا رہے تھے۔ گو اس سے پہلے یونہی دھاڑنے کا موقع پاکستانی بلے بازوں کو بھی ملا تھا مگر وہ کوتاہ بین نکلے اور اپنی حیثیت ثابت کرنے میں ناکام رہ گئے کہ عادل رشید اور لیونگسٹن کی سپن آڑے آ گئی۔ صائم ایوب کو ڈراپ کر کے پاکستان نے اپنے پرانے اوپننگ جوڑے کو میدان میں اتارا جسے ابر آلود کنڈیشنز میں انگلش پیسرز کی 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سوئنگ ہوتی نئی گیند کا سامنا تھا مگر اسں نے اپنا کردار خوب نبھایا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان نے بیٹنگ کے لیے مشکل حالات میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ ان کے قدم حرکت میں رہے اور انگلش فاسٹ بولرز کے پیر جمنے نہ پائے۔ پاور پلے کے اختتام تک پاکستان میچ میں پہلی برتری لے چکا تھا۔ مگر پاور پلے ختم کیا ہوا، پاکستانی بیٹنگ کے قدم ہی اکھڑ گئے۔ جس پچ پر ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ بٹلر نے فاسٹ بولرز کی سیم کا فائدہ اٹھانے کو کیا تھا، وہاں عادل رشید کی سپن سب سے بہتر نکلی۔ اپنی لینتھ میں پرفیکشن کے ساتھ عادل رشید کا ڈسپلن بھی ایسا سخت تھا کہ پاکستانی بلے باز حواس بھلا بیٹھے۔ گو یہ ہڑبڑاہٹ اس مائنڈسیٹ تبدیلی کا لامحالہ نتیجہ بھی تھی جو پہلے بیٹنگ کرنے میں نئی اپروچ اپنانے کی ہے، مگر اننگز کے اس مرحلے پر ’سمارٹ کرکٹ‘ جارحانہ کرکٹ سے زیادہ ضروری تھی۔ اگرچہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سکہ رائج الوقت جارحانہ بلے بازی ہی ہے مگر سمارٹ کرکٹ بڑے ایونٹس میں بہت ضروری ہو جاتی ہے کہ جہاں اپروچ کی یکسانیت مخالف بولرز کی زندگی آسان کر دیتی ہے۔ پاکستان نے پاور پلے کا جو مومینٹم مڈل اوورز میں گنوایا، اسے کسی حد تک عثمان خان نے بحال کرنے کی کوشش کی اور اپنے مختصر سے انٹرنیشنل کرئیر میں پہلی بار اپنی ان صلاحیتوں کی جھلک دکھائی جو ان کے تازہ سفر کی وجہ بنی ہیں۔ لیکن عثمان خان کے علاوہ باقی بیٹنگ آرڈر دھند میں راہ ٹٹولتے پویلین پلٹ گیا۔ انگلش ڈیتھ بولنگ مارک ووڈ اور آرچر کی تباہ کن پیس کے علاوہ کرس جارڈن کے قابلِ قدر تجربے سے بھی بھرپور تھی جس نے پاکستانی بیٹنگ کو پورے اوورز کھیلنے سے بھی محروم کر دیا۔ اور جیسے پاکستانی بیٹنگ مڈل اوورز میں زندگی کی مقصدیت سے عاری دکھائی دی، کچھ ویسی ہی بولنگ بھی پاور پلے میں پاکستان نے کر چھوڑی۔ جب فاسٹ بولرز کسی پلان کے بغیر سر پٹخ رہے ہوں تو بلے بازوں کے قدم خود بخود ہلنے لگتے ہیں۔ جوں جوں فل سالٹ کے قدم ہلتے گئے، پاکستانی بولنگ کی لینتھ مزید بگڑنے لگی اور پاور پلے میں انگلش بیٹنگ نے پاکستانی بولنگ کا وہ حشر کر ڈالا جو دو ہفتے پہلے پاکستان کو آئرش بولنگ کا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن انگلش بیٹنگ کی یہ دریدہ دلی صرف پاکستانی بولنگ کی خطاؤں کی ہی ممنون نہیں تھی بلکہ وکٹوں کے پیچھے کھڑے اعظم خان کی غلطیوں کی بھی شکر گزار تھی جنہوں نے دو ایسے یقینی کیچز ڈراپ کر ڈالے کہ پھر خود ہی حیرت کی تصویر بن رہے۔ مگر اس یاسیت بھری بولنگ کاوش میں بھی ایک خوش کن پہلو حارث رؤف کی فارم اور ڈسپلن میں تسلسل ہے۔ انجری کے سبب کرکٹ سے دور رہنے کے موقع نے یقیناً ان کے مائنڈ سیٹ کو تقویت دی ہے اور ورلڈ کپ سے عین پہلے ان کا اس فارم میں آنا پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ ورلڈ کپ کے آغاز میں ایک ہی دن بچا ہے۔ انگلش کیمپ نے بڑے ایونٹ سے پہلے اپنا یہ اہم میچ ہنستے کھیلتے جیتا ہے اور پاکستان کی مجموعی پرفارمنس کچھ ایسی رہی کہ بالآخر فیلڈرز ایک دوسرے کو تسلیاں دینے اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے پہ مجبور ہو گئے۔ لیکن سیریز اور گذشتہ چند میچز کی اونچ نیچ سے قطع نظر پاکستان کو اپنے نئے مائنڈ سیٹ سے جڑے رہنا چاہیے اور جارحانہ کرکٹ کو ہی اپنا اسلوب بنانا چاہیے۔ بہرحال بدلاؤ جب اتنا بڑا لانا ہو تو ناکامیاں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اور جس اپروچ سے پاکستانی ٹاپ آرڈر نے یہاں پاور پلے میں کرکٹ کھیلی، ورلڈ کپ میں یہی اپروچ اگر مڈل آرڈر بھی نبھا پایا تو سیمی فائنل تک رسائی بھی بعید نہیں۔ لیکن اس اپروچ کی کامیابی کے لیے تسلسل بہرحال لازم ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2ee9v6g5neo
ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کو انگلینڈ سے شکست: ’برطانوی مظالم پر ایک اور خط لکھنے کی ضرورت ہے‘
سیریز کے دو میچ بارش کی نظر ہو جانے کے بعد اوول کے میدان میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیم کے درمیان چوتھے ٹی ٹوئنٹی کا میچ شروع ہوا تو اس بات کی توقع تھی کہ مقابلہ سخت ہو گا اور پاکستان کی ٹیم سیریز برابر کرنے کی سر توڑ کوشش کرے گی۔ میچ کا آغاز بھی کچھ ایسا ہی ثابت کر رہا تھا۔ اگرچہ بادلوں کی موجودگی میں ٹاس جیت کر انگلینڈ کے کپتان نے یہ سوچ کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی کہ ان کے تیز گیند باز اوپنرز کو جم کر کھیلنے نہیں دیں گے۔ تاہم پاکستان نے اس بار نیا تجربہ کرنے کے بجائے بابر اعظم اور محمد رضوان کو اوپن کرنے بھیجا اور دونوں نے ثابت کیا کہ ان کی جوڑی ہی اس پوزیشن کی حقدار ہے۔ بابر اعظم نے ٹی ٹوئنٹی میں اپنے چار ہزار رن بھی مکمل کیے اور پاور پلے کے دوران تقریبا 60 سکور ہو چکا تھا جب کپتان پانچ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 22 گیندوں پر 36 رن بنا کر عادل رشید کی گیند پر کیچ تھما بیٹھے۔ بابر کی وکٹ گرنے پر عثمان خان آئے لیکن عادل رشید اور انگلینڈ کے بولرز نے اگلے چند ہی اوورز میں میچ کا پانسا پلٹ دیا۔ محمد رضوان ساتویں اوور میں عادل کی گیند پر بولڈ ہوئے تو انھوں نے 16 گیندوں پر 23 رن بنائے تھے۔ تاہم مڈل آرڈر مکمل طور پر ناکام رہا اور فخر زمان نویں اوور میں صرف نو رن پر آوٹ ہوئے تو اگلے ہی اوور میں شاداب خان رنز کا کھاتہ کھولے بغیر ہی عادل رشید کو ایک اور وکٹ دیتے ہوئے پولین لوٹ گئے۔ 11ویں اوور میں اعظم خان نے مارک وڈ کی ایک تیز رفتار اٹھتی ہوئی گیند پر وکٹ کے پیچھے کیچ تھمایا تو ان کا سکور بھی صفر تھا اور پاکستان صرف 86 رن پر آدھی وکٹیں کھو چکا تھا۔ ایسے میں عثمان خان اور افتخار احمد نے کسی حد تک پاکستان کو سنبھالا اور دونوں نے مل کر 40 رن کی شراکت کی۔ عثمان خان 21 گیندوں پر 38 رن بنا کر آوٹ ہوئے تو مجموعی سکور 126 تھا اور ابھی تقریباً چھ اوور باقی تھے۔ تاہم انگلینڈ کے گیند بازوں نے پاکستان کو 157 کے مجموعی ٹوٹل پر ہی آل آؤٹ کر دیا۔ اس وقت میچ کی ایک گیند ابھی باقی تھی اور یہ مجموعہ ہی بتا رہا تھا کہ اس کا دفاع آسان نہ ہو گا۔ لیکن انگلینڈ کے لیے یہ ہدف کتنا آسان ہو گا، اس کا جواب پاور پلے میں ہی مل گیا۔ فل سالٹ اور کپتان جوز بٹلر نے مل کر ایسی دھواں دار بیٹنگ کی کہ چھ اوور میں 78 سکور ہو چکا تھا یعنی تقریبا نصف ہدف پار کر لیا گیا تھا۔ تاہم ان میں سے 52 رن صرف تین اوور میں بنے۔ ایسے میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے لکھا کہ ’شاید اب وقت آ گیا ہے کہ برطانوی مظالم کے خلاف چیف جسٹس ایک اور خط لکھیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 محمد عامر کے تیسرے اوور میں 16 رن پڑے تو نسیم شاہ کا اگلا اوور تو جیسے قیامت خیز تھا۔ اس اوور میں فل سالٹ اور بٹلر نے مجموعی طور پر 25 رن بٹورے جن میں دو چھکے اور تین چوکے شامل تھے۔ محمد عامر کے اگلے اوور میں بھی 11 رن بننے کے بعد میچ تقریبا ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ تاہم اس اوور میں اگر اعظم خان ایک کیچ ڈراپ نہ کرتے تو شاید نتیجہ مختلف ہوتا۔ ایسے میں بابر اعظم نے گیند حارث رؤف کو تھمائی جنھوں نے اپنے پہلے ہی اوور کی دوسری گیند پر فل سالٹ کو پولین واپس بھیجا لیکن اس اوور میں بھی مجموعی طور پر 13 رن بنے۔ سات اوور کے اختتام پر انگلینڈ کی ٹیم ایک وکٹ کے نقصان پر 91 رن بنا چکی تھی اور اب اسے جیت کے لیے صرف 67 مذید رن درکار تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب یہ میچ چند ہی اوور میں ختم ہونے والا ہے۔ حارث رؤف نے اپنی تیز رفتار گیند بازی سے میچ میں دلچسپی کا سامان پیدا کیا۔ نویں اوور میں وکٹ کیپنگ کرنے والے اعظم خان نے ایک اور کیچ چھوڑا تو حارث کی آخری گیند پر وہ بٹلر کا کیچ پکڑنے میں کامیاب رہے۔ دوسرے اینڈ پر شاداب نے نپی تلی باولنگ کی اور اپنے تیسرے اوور میں حارث نے ول جیکز کو بولڈ کیا تو 11 اوور مکمل ہونے پر انگلینڈ کی ٹیم 112 رن بنا چکی تھی۔ اس کے بعد انگلینڈ کی جانب سے جونی بیرسٹو نے کوئی چوک نہیں کی اور ہیری بروک کے ساتھ باآسانی ہدف کو 16ویں اوور میں مکمل کر لیا۔ یوں چار میچوں کی سیریز دو صفر سے انگلینڈ کے نام رہی اور پاکستان کی ٹیم کے لیے بہت سے سوال بھی چھوڑ گئی۔ اوپنگ جوڑی سے لے کر اعظم خان کی وکٹ کیپنگ سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی جہاں ایک جانب ٹیم کی سلیکشن پر سوال اٹھے تو دوسری جانب یہ فکر نظر آئی کہ اگر ٹیم ایسے ہی کھیلتی رہی تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کیا ہو گا۔ ایک صارف شاہد نے لکھا کہ ’ہم جیسے مداحوں کے لیے میچ بہت مایوس کن تھا جو بہت بڑی تعداد میں میچ دیکھنے پہنچے تھے۔ ٹیم کی سلیکشن اچھی نہیں تھی اور بلے بازی تو بہت ہی خراب تھی۔ ہمارے تیز گیند بازوں نے بھی بہت بری بولنگ کی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ان کا کہنا تھا کہ ’دس اوور کے بعد میچ میں دلچسپی باقی نہیں رہی۔‘ تاہم اسرار احمد ہاشمی نے یاد دلایا کہ پاکستان نے بابر اعظم اور محمد رضوان کو دوبارہ اوپن کروایا اور یہ فیصلہ درست ثابت ہوا کیوں کہ پاکستان تین مختلف اوپننگ کمبینیشن آزما چکا ہے اور ان سب میں اس میچ میں بابر اور رضوان کی جانب سے پاور پلے میں بنایا جانے والا سکور سب سے زیادہ ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ادھر بابر اعظم کے مداح ہارون نے لکھا کہ ’کوئی بات نہیں اگر ہم میچ ہار گئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بابر نے اپنے چار ہزار رن مکمل کر لیے ہیں۔‘ تاہم صارفین کی ایک بڑی تعداد اعظم خان کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی جن کا ماننا تھا کہ انھوں نے پہلے بلے بازی میں کچھ نہیں کیا اور پھر بری وکٹ کیپنگ بھی کی۔ فرحان خان نے لکھا کہ ’یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ محمد رضوان جیسے بہترین وکٹ کیپر کے ہوتے ہوئے اعظم خان کو وکٹ کیپر کیوں بنایا گیا۔‘ شاید پاکستان کی ٹیم مینیجمنٹ نے ورلڈ کپ سے پہلے اپنے آخری تجربات مکمل کر لیے ہوں لیکن ان تجربات کے نتائج کچھ زیادہ خوش آئند نظر نہیں آتے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cgllmx3gzrlo
کولکتہ کو تیسری بار آئی پی ایل چیمپیئن بنوانے والے ’جارحانہ‘ گوتم گمبھیر انڈیا کے کوچ بن سکتے ہیں؟
26 مئی کی رات چنئی میں درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیئس کے آس پاس تھا۔ چیپاک سٹیڈیم میں جاری آئی پی ایل فائنل میچ دیکھنے کے لیے ہزاروں تماشائی میدان میں موجود تھے اور کھلاڑی پسینے میں شرابور۔ سن رائزرز حیدرآباد کی طرف سے دیے گئے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے کولکتہ کی جیت تقریباً یقینی ہو چکی تھی، حالانکہ اب بھی 12 اوورز باقی تھے۔ حیدرآباد کی ٹیم کی مالک کاویہ مارن، جو سوشل میڈیا اور سپورٹس چینلز پر کیمروں کی توجہ کا مرکز رہتی ہیں، خاصی افسردہ دکھائی دے رہی تھیں۔ پھر کیمرہ کولکتہ کے رنکو سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو دکھاتا ہے اور وہ سب ہی ممکنہ فتح کا جشن منانے کے لیے پرجوش نظر آتے ہیں۔ کولکتہ ٹیم کے مالک شاہ رخ خان کی فیملی تماشائی گیلری میں بیٹھی خوش دکھائی دے رہی تھی لیکن اس سب کے دوران ایک شخص پُرسکون دکھائی دے رہا تھا جس کے چہرے پر بالآخر مسکراہٹ ظاہر ہوئی۔ جیسے ہی میچ برابر ہوا تو گوتم گمبھیر اپنی سیٹ سے کھڑے ہوئے اور کھلاڑیوں کو گلے لگا کر خوش ہونے لگے۔ اگلی ہی گیند پر وینکٹیش کے کھیلے گئے شاٹ سے کولکتہ 12 سال بعد آئی پی ایل 2024 کا چیمپئن بن گیا۔ سنیل نارائن کولکتہ ٹیم کے مینٹور گوتم گمبھیر کو گلے لگاتے ہیں اور انھیں اٹھاتے ہیں۔ آسمان آتش بازی سے جگمگا اٹھتا ہے۔ کولکتہ کی ٹیم کو یہ خوشی تین بار ملی ہے۔ کولکتہ کو تین بار چیمپئن بنانے میں صرف ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہیں گوتم گمبھیر۔ تو گوتم گمبھیر نے آئی پی ایل 2024 میں بطور مینٹور ٹیم کو کیسے چلایا کہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز چیمپیئن بن گئی۔ کولکتہ پہلی بار سال 2012 میں آئی پی ایل چیمپئن بنی تھی۔ تب گوتم گمبھیر ٹیم کے کپتان تھے۔ سال 2014 میں جب کولکتہ دوسری بار آئی پی ایل چیمپئن بنی، تب بھی گوتم ہی کپتان تھے۔ اب جبکہ کولکتہ کی ٹیم تیسری بار آئی پی ایل چیمپئن بنی ہے تو گوتم گمبھیر بطور مینٹور ٹیم کے ساتھ ہیں۔ گمبھیر کی کپتانی میں کولکتہ نائٹ رائڈرز تین بار پلے آف میں پہنچ چکی ہے۔ اس سے قبل 2022 اور 2023 میں مینٹور کے طور پر گمبھیر نے لکھنؤ کی ٹیم کو فائنل اور تیسری پوزیشن تک لے جانے میں کردار ادا کیا تھا۔ کولکتہ 2024 میں آئی پی ایل کی ایک ایسے وقت میں چیمپئن بنی ہے جب ایسی خبریں ہیں کہ گوتم گمبھیر انڈیا کے کوچ بننے کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آئی پی ایل میں جیت کے بعد کچھ لوگ گمبھیر کی ماضی کی کامیابیوں کو بھی یاد کر رہے ہیں۔ گوتم گمبھیر نے 2007 میں کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ اس ٹورنامنٹ میں انڈیا کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے۔ سنہ 2011 میں جب انڈیا کئی سال بعد ون ڈے ورلڈ کپ جیتی تو اس میں بھی گمبھیر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ گمبھیر نے 2011 ون ڈے ورلڈ کپ میں نو میچوں کی نو اننگز میں 43.66 کی اوسط سے 393 رنز بنائے تھے جس میں سے چار نصف سنچریاں شامل تھیں۔ سنہ 2011 کے ورلڈ کپ فائنل میں گمبھیر پہلے اوور سے لے کر 42ویں اوور تک کریز پر موجود رہے اور انھوں نے 97 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر ٹیم کو فتح کے قریب پہنچا دیا تھا۔ تاہم جب کچھ لوگوں نے اس فتح کا کریڈٹ کپتان مہندر سنگھ دھونی کو دیا تو گمبھیر نے کھل کر اس حوالے سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ سال 2023 کے آخر میں گوتم گمبھیر کولکتہ ٹیم میں بطور مینٹور واپس آئے۔ گمبھیر کی واپسی کے بعد کہا جا رہا تھا کہ وہ کولکتہ ٹیم میں تبدیلیاں کریں گے۔ گمبھیر کی حکمت عملی میں سنیل نارائن کو فِل سالٹ کے ساتھ اوپن کرنے کے لیے بھیجنا شامل تھا اور اس سے ٹیم کو بہت فائدہ ہوا۔ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم نے آٹھ بار 200 سے زائد رنز بنائے۔ ایک مینٹور کے طور پر گمبھیر کا رویہ کیسا تھا؟ اس حوالے سے جب ٹیم کے کھلاڑی نتیش رانا سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب گوتم گمبھیر نے مینٹور بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے انھیں ایک طویل پیغام بھیجا اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اس پر گمبھیر نے جواب دیا کہ جب ٹرافی اٹھائیں گے تو وہ سب سے زیادہ خوش ہوں گے۔ آج کا دن ہے، مجھے وہ پیغام ہمیشہ یاد رہے گا۔‘ گوتم گمبھیر کی حکمت عملی سمجھنے کے لیے چند ماہ پیچھے جانا ہو گا۔ دسمبر 2023 میں آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کی نیلامی جاری تھی اور اس ہال میں گوتم گمبھیر بھی موجود ہیں۔ پھر کولکتہ نے آسٹریلوی کھلاڑی مچل سٹارک کو 24 کروڑ 75 لاکھ روپے میں خریدا۔ آئی پی ایل کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ٹیم نے کسی کھلاڑی کو اتنی مہنگی قیمت پر خریدا ہو۔ حالانکہ اس فیصلے پر کچھ لوگوں نے سوال بھی اٹھائے ہوں گے لیکن اب جب کولکتہ چیمپئن بن چکی ہے تو اس فیصلے کی تعریف کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ مچل سٹارک کو خریدنے پر گوتم گمبھیر کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ سٹارک کی تصویر شیئر کر رہے ہیں اور میمز بنا کر پوچھ رہے ہیں کہ کس نے سوچا ہو گا کہ 24 کروڑ روپے ضائع ہو گئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سٹارک نے تین اوورز میں صرف 14 رنز دیے اور دو وکٹیں حاصل کیں۔ سٹارک میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ کولکتہ کی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں 14 میچ کھیلے، نو جیتے اور تین ہارے جبکہ سٹارک اس ٹورنامنٹ میں 17 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ جیسا کہ کئی کرکٹرز کہہ چکے ہیں کہ گوتم گمبھیر کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے لیکن وہ جس حکمت عملی کے ساتھ کھیلتے ہیں وہ اہم ہے۔ مداحوں نے کولکتہ ٹیم کے کپتان کے طور پر سات سیزن کے دوران گمبھیر کی قیادت کی جھلک دیکھی تھی۔ سپورٹس سٹار دی ہندو نے رپورٹ کیا ہے کہ ’مشکل حالات بھی آئے ہیں لیکن گوتم نے حل تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ انتظامیہ اور ٹیم کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ اگر یہ بندہ موجود ہے تو ہر مسئلے کا حل نکلے گا۔‘ رپورٹ کے مطابق کیمپ کے دوران گمبھیر اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ سنیل نارائن اور اینڈریو رسل کو اہمیت ملے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سنیل ٹورنامنٹ میں 488 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ کولکتہ کی جیت میں ٹیم مینیجمنٹ کا بھی اہم کردار بتایا جاتا ہے۔ یہ اس ٹیم سے ملنے والی محبت کا نتیجہ تھا کہ رحمان اللہ گرباز کی والدہ ابھی تک افغانستان کے ہسپتال میں داخل ہیں اور وہ انڈیا میں کولکتہ کے لیے کھیل رہے ہیں۔ رحمن اللہ گرباز کہتے ہیں 'اگر آپ کے پاس کے کے آر جیسا انتظام ہے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ گوتم سر، شاہ رخ صاحب، ہیڈ کوچ چندرکانت موجود ہیں۔ یہ لوگ خاندان کی طرح ہیں۔' گوتم گمبھیر کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ اکثر جارحانہ انداز میں اور غصے میں رہتے ہیں۔ تاہم وہ اس فہرست میں اکیلے نہیں ہیں۔ شائقین میدان میں وراٹ کوہلی کے ساتھ ان کی بحث کو نہیں بھولیں گے۔ تاہم اس آئی پی ایل میں ایسےمواقع آ چکے ہیں جب دونوں کھلاڑی ایک دوسرے سے ہنستے ہوئے ملے۔ گمبھیر جو کہتے تھے کہ ’دوستی میدان سے باہر ہے‘ اپنے کریئر میں کئی بار انھیں اس پر عمل کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ انڈین بولر ایشون نے اپنے یوٹیوب شو میں کہا کہ ’گوتم گمبھیر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں سب سے زیادہ غلط فہمیاں ہیں۔‘ گوتم گمبھیر نے اس شو میں کہا تھا کہ ’میں اتنا جارحانہ بننا چاہتا ہوں جتنا میں ہو سکتا ہوں۔ اس میں غلط کیا ہے؟ یہ میری فطرت ہے۔ میرے لیے جیتنا ایک جنون ہے۔ میں جیتنے کا جنون رکھتا ہوں۔‘ گمبھیر نے اسی شو میں کہا تھا کہ ’کئی بار جب لوگ بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں مسکراتا نہیں ہوں۔ لوگ مسکراتے دیکھنے نہیں آتے لوگ ہمیں جیتتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اس قسم کا کھیل ہے جس میں ہم اہم ہیں، میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔‘ ’میں بالی ووڈ اداکار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی کارپوریٹ کمپنی کی نوکری کر رہا ہوں۔ میں ایک کرکٹر ہوں۔ اسے اچھا کہیں یا برا۔۔۔ خوشی اور مسکراہٹ اس وقت چہرے پر آتی ہے جب آپ جیت کر لوٹتے ہیں۔‘ گوتم گمبھیر کہتے ہیں کہ وہ اعداد و شمار اور طویل میٹنگز پر یقین نہیں رکھتے۔ پیوش چاولہ جو کہ کولکتہ میں گمبھیر کی کپتانی کے دوران کھیل چکے ہیں کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی خاص صورت حال ہوتی ہے، تو گوتم جانتے ہیں کہ کس کھلاڑی کو بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ کھیل کا بہترین انداز میں جائزہ لیتے ہیں اور اس پر ردعمل دیتے ہیں۔‘ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کولکتہ نائٹ رائڈرز کے سابق کھلاڑی مانویندر بسلا کا کہنا ہے کہ ’گوتم گمبھیر وہ شخص ہے جو اپنے میچ جیتنے والے کھلاڑی کے لیے سینے پر گولی کھا سکتا ہے۔‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا آئی پی ایل میں کولکتہ کو چیمپیئن بنانے والے گمبھیر ٹیم میں رہیں گے؟ یا راہول ڈریوڈ کا کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد وہ ٹیم انڈیا کے ہیڈ کوچ کی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں؟ سابق کرکٹر وسیم جعفر نے ای ایس پی این کرک انفو کے شو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری نظر میں گوتم گمبھیر ہیڈ کوچ بننے جا رہے ہیں۔ آئی پی ایل جیتنے سے اس کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘ اسی شو میں ٹام موڈی نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے گمبھیر یہ سوچیں کہ انھیں پہلے مینٹور کے طور پر اپنی اننگز مکمل کرنی چاہیے۔ پھر وہ ٹیم انڈیا کا کوچ بننے کے بارے میں سوچیں گے کیونکہ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔‘ اب گوتم اس ذمہ داری کو نبھانے میں کتنے سنجیدہ ہیں اس سوال کا جواب جلد ہی سامنے آئے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nn7ekk7e9o
شاہ رخ خان کی کولکتہ نائٹ رائیڈرز تیسری بار آئی پی ایل چیمپیئن: ’شریاس ایئر نے مودی سمیت سب کو خاموش کرا دیا‘
بالی وڈ کے ’بادشاہ‘ شاہ رخ خان کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) گذشتہ رات آئی پی ایل کے فائنل میں سن رائزرز حیدرآباد (ایس آر ایچ) کو باآسانی شکست دے کر تیسری بار چیمپیئن بن گئی ہے۔ جہاں اس فائنل کو ایک ایسے آئی پی ایل ٹورنامنٹ کا اینٹی کلائمیکس کہا جا رہا ہے جس میں رن کے انبار لگے وہیں اسے بہترین بولنگ کے مظاہرے کے لیے بھی سراہا جا رہا ہے۔ جب رواں سال آئی پی ایل کی نیلامی میں آسٹریلیا کے فاسٹ بولر مچل سٹارک کو سب سے زیادہ بولی دے کر کے کے آر نے خریدا تھا تو ماہرین نے اسے ایک مہنگا سودا کہا تھا لیکن فائنل آتے آتے مچل سٹارک نے بتا دیا کہ آخر وہ آئی پی ایل کی تاریخ کے سب سے مہنگے کھلاڑی کیوں ہیں۔ فائنل میچ میں اپنے پہلے ہی اوور میں انھوں نے ایس آر ایچ کے ان فارم بیٹسمین ابھیشیک شرما کو چار گیندیں آف سٹمپ کے باہر کرائیں اور پھر پانچویں گیند ٹیسٹ میچ کی بہترین گیند کی طرح مڈل سٹمپ پر گری اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ چھکے لگانے والے ابھیشیک کو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ گیند اندر آئے گی یا باہر جائے گی یہاں تک کہ گیند نے آف سٹمپ بکھیر دیے۔ اس گیند کو ماہرین نے رواں ٹورنامنٹ کی ’بہترین بال‘ بھی قرار دیا ہے کیونکہ مچل سٹارک کی اس ایک گیند نے ہی فائنل کا رخ طے کر دیا۔ انھیں ان کے اس سپیل کے لیے مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔ دوسرا اوور لے کر آنے والے ویبھو اڑورہ نے اپنے پہلے اوور کی آخری گیند پر آسٹریلین اوپنر ٹریوس ہیڈ کو چکمہ دے دیا اور وہ وکٹ کے پیچھے افغانستان کے رحمان اللہ گرباز کو کیچ تھما بیٹھے۔ ایس آر ایچ کا سکور چھ رنز پر دو وکٹ تھا۔ پھر سٹارک اپنا تیسرا اور میچ کا پانچواں اوور لے کر آئے اور راہل ترپاٹھی کو غلط شاٹ کھیلنے پر مجبور کر دیا جو رمن دیپ کے ہاتھوں کیچ آوٹ ہوئے۔ 21 رنز پر ایس آر ایچ کی تین وکٹیں گر چکی تھی اور نوشتہ دیوار صاف نظر آنے لگا تھا۔ رواں ٹورنامنٹ کے پاور پلے میں سب سے زیادہ سکور کرنے والی ایس آر ایچ کی ٹیم فائنل میں تین وکٹوں کے نقصان پر محض 40 رن ہی بنا سکی۔ اسی ٹیم نے ایک میچ میں پہلے چھ اوورز میں 125 رنز بنائے تھے اور ٹورنامنٹ میں کم از کم چھ بار 200 کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب رہی تھی جس میں سے تین بار تو 250 رنز سے زیادہ بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ اسی ٹیم نے ٹورنامنٹ کا آج تک کا سب سے بڑا سکور287 رنز بھی بنایا تھا۔ لیکن فائنل میں کے کے آر کی نپی تلی بولنگ کے سامنے اس کی ایک نہ چلی اور پوری ٹیم 19 ویں اوور میں 113 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی جس میں کپتان پیٹ کمنز نے سب سے زیادہ 24 رنز بنائے اور وہ آوٹ ہونے والے آخری کھلاڑی تھے۔ کولکتہ کی طرف سے جو بھی بولنگ کرنے آیا اسے کامیابی ملی۔ ویسٹ انڈیز کے آندرے رسل نے تین، مچل سٹارک اور ہرشت رانا نے دو دو، جبکہ ویبھو اڑورہ، سنیل نارائن اور ورون چکرورتی نے ایک ایک وکٹیں لیں۔ کولکتہ کو 114 رنز کا ہدف ملا تو ان کا بھی آغاز بہت اچھا نہیں رہا۔ دوسرا اوور میں کپتان پیٹ کمنز کی پہلی ہی گیند کو سنیل نارائن نے چھ رن کے لیے سٹیڈیم میں ناظرین کے پاس پہنچا دیا لیکن اگلی ہی گیند پر وہ دوسرا چھکا مارنے کی دھن میں مس ہٹ کر بیٹھے اور آؤٹ ہو گئے۔ پھر رحمان اللہ گرباز اور وینکٹیش اییر نے کھل کر کھیلنا جاری رکھا اور لوگ یہ اندازہ لگانے لگے کہ کولکتہ دس اوورز سے پہلے میچ جیت جائے گی یا اس کے بعد۔ رحمان اللہ گرباز جب نویں اوور میں آؤٹ ہوئے تو ٹیم جیت سے صرف 12 رنز دور تھی جسے کپتان شریاس ایئر اور ونکٹیش اییر نے 11 ویں اوور کی تیسری گیند پر حاصل کر لیا اور یوں کولکتہ تیسری بار چیمپیئن بنی۔ کے کے آر کے کپتان شریاس ایئر نے کہا: ’آج کا دن فیصلہ کن تھا۔ ہم نے ٹیم اور ہر فرد سے یہی مطالبہ کیا تھا اور وہ اس کے لیے کمربستہ تھے۔‘ ’یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ ہم اس وقت کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ ہم نے پورے سیزن میں ناقابل تسخیر ٹیم کی طرح کھیلا ہے اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’ہماری پرفارمنس بے عیب رہی ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہم پہلے گیم سے زبردست رہے ہیں۔ ہر فرد نے صحیح وقت پر اپنا کام کیا۔ اس میں کسی ایک فرد کی بات نہیں ہے جو ہمیں اس مقام پر لے آیا۔ یہ ایک مجموعی کوشش تھی۔‘ سن رائزرز حیدرآباد کے کپتان پیٹ کمنز نے اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’انھوں نے شاندار گیند بازی کی اور بدقسمتی سے میرے پرانے ساتھی سٹارک نے اس کی ابتدا کی۔ ہم مکمل طور پر آؤٹ پلے ہوگئے۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ ’آئی پی ایل جیسے ہائی پریشر والے ماحول میں اس سیزن میں ہمارے لڑکوں نے بہادری کے ساتھ کھیلا۔ ہم کھیل میں آگے بڑھتے رہے اور شائقین حیدرآباد میں اس سے لطف اندوز ہوتے نظر آئے۔ یہ بہت اچھا سیزن تھا۔‘ پلیئر آف دی میچ مچل سٹارک نے کہا کہ ’یہ کے کے آر کے لیے بہت اچھی رات ہے۔ کیا کھیل، کیا سیریز، کیا سیزن رہا۔ فائنل میں دو سب سے دلچسپ فریق پہنچے تھے۔‘ کمنٹیٹر این بشپ نے کہا کہ ’لوگ گوتم گمبھیر کی بات کر رہے ہیں لیکن سریش اییر نے جس طرح ٹیم کی قیادت کی ہے اور مستقل مزاجی دکھائی ہے اس کا کریڈٹ انھیں دیا جانا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ ایس آر ایچ کی ٹیم نے ٹورنامنٹ میں زبردست بیٹنگ کا مظاہرہ کیا لیکن کے کے آر کی جانب سے سب سے زیادہ مستقل بیٹنگ کا مظاہرہ کیا گيا ہے۔ ان کی بولنگ کی بات تو چھوڑ ہی دیں۔‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز میں کم از کم دو درجن ٹرینڈز اسی فائنل کے حوالے سے تھے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی نے لکھا کہ ’کولکتہ نائٹ رائيڈرز کی جیت سے پورے بنگال میں جشن کا ماحول ہے۔ آئی پی ایل کے رواں سیزن کے ریکارڈ ساز مظاہرے کے لیے میں بذات خود تمام کھلاڑیوں، سپورٹ سٹاف اور فرینچائزی کو مبارکباد دیتی ہوں اور آنے والے برسوں اس طرح کی مسحور کن جیت کی امید کرتی ہوں۔‘ لوگ جہاں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کو مبارکباد دے رہے ہیں وہیں اسے کے کے آر کے کپتان شریاس ایئر کا ’میٹھا انتقام‘ کہہ رہے ہیں۔ ڈیپ ٹیک نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’کنگ لیجنڈ شریاس ایئر نے پیٹ کمنز، بی سی سی آئی، جے شاہ، ٹریوس ہیڈ، راہل ڈریوڈ، پی ایم مودی اور ڈی ایم کے سب کو خاموش کرا دیا۔‘ اسی طرح سجیت سمن نامی صارف نے لکھا کہ ’شریاس ایئر نے نہ صرف آئی پی ایل ٹرافی جیتی بلکہ بی سی سی آئی اور جے شاہ اور ان تمام لوگوں کے منھ پر طمانچہ لگایا ہے جنھوں نے انھیں ٹیم انڈیا میں نظر انداز کیا۔ انھوں نے انڈین ٹیم کو سب کچھ دیا لیکن کسی نے ان کی حمایت نہیں کی اور انھیں کنٹریکٹ سے باہر کر دیا۔ بعض اوقات انتقام بہت میٹھا ہوتا ہے۔‘ واضح رہے کہ شریاس ایئر ایک روزہ ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے والی انڈین ٹیم کا حصہ تھے جہاں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد پی ایم مودی ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے پہنچے تھے۔ وہاں سریش اییر بھی موجود تھے لیکن ان کا رویہ باقیوں سے مختلف تھا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ جس کا انھیں خمیازہ بھگتنا پڑا اور انھیں بی سی سی آئی (انڈین کرکٹ کنٹرول بورڈ) کے معاہدے سے نکال دیا گيا۔ سوشل میڈیا صارفین ٹیم کے کوچ گوتم گمبھیر کے کردار کو بھی بہت سراہ رہے ہیں۔ گوتم گمبھیر نے کے کے آر کو تینوں بار ٹرافیاں دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلی اور دوسری بار تو وہ ٹیم کے کپتان ہی تھے جبکہ تیسری بار جب کے کے آر چیمپیئن بنی تو وہ ٹیم کے کوچ ہیں۔ کے کے آر پہلی بار سنہ 2012 میں چینئی کو فائنل میں پانچ وکٹوں سے ہرا کر چیمپیئن بنی جبکہ سنہ 2014 میں پنجاب کنگز کو تین وکٹوں سے شکست دے کر فاتح رہی۔ گذشتہ رات 2024 میں سنرائزرس حیدرآباد کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر فاتح بنی۔ رواں سیزن میں سب سے زیادہ 1260 چھکے لگے جس میں ایس آر ايچ کے ابھیشیک شرما اور ہنری کلاسین 42 اور 38 چھکوں کے ساتھ سرفہرست رہے جبکہ کوہلی نے بھی 38 چھکے لگائے اور وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ ٹورنامنٹ میں کل 2174 چوکے لگے جس میں ایس آر ایچ کے ٹریوس ہیڈ سب سے زیادہ 64 چوکے لگائے جبکہ آر سی بی کے وراٹ کوہلی نے 62 چوکے لگائے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ وراٹ کوہلی نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ 741 رنز بنائے اور وہ اورینج کیپ کے حقدار ٹھہرے جبکہ ان کے بعد سی ایس کے کے کپتان رتوراج گائيکواڈ 583 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے جبکہ راجستھان رائلز کے ریان پراگ 573 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ پنجاب کنگز کے ہرشل پٹیل نے سب سے زیادہ 24 وکٹیں لیں اور وہ پرپل کیپ کے حقدار ٹھہرے جبکہ کولکتہ کے ورون چکرورتی 21 وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ پورے ٹورنامنٹ میں سب سے بااثر کھلاڑی کے کے آر کے سنیل نارین رہے جبکہ ان کی ٹیم کے آندرے رسل ممبئی انڈینز کے جسپریت بمراہ کے بعد تیسرے نمبر پر رہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy00737v19eo
وہ افغان لڑکی جسے موت کی دھمکیاں اور بم دھماکے بھی اولمپکس میں جانے سے نہ روک سکے
اس سال پیرس اولمپکس میں پہلی مرتبہ سٹریٹ ڈانس کے ایک سٹائل بریکنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ افغانستان کے حالات کسی سے بھی ڈھکے چُھپے نہیں ہیں لیکن اس سب کے درمیان ایک لڑکی اب اس سال اولمپکس میں اپنا ایک خواب پورا کرنے جا رہی ہے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا نام منیزہ طالش ہے۔ جو اس سال اولمپکس میں شامل ہونے والے سٹریٹ ڈانس کے پہلے ایونٹ میں افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی۔ منیزہ طالش یہ تاریخ تو رقم کرنے جا رہی ہیں مگر اُن کا پیرس تک کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ وہ افغانستان میں ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھیں کہ جہاں انھیں دھمکیوں، بموں اور طالبان کی اقتدار میں واپسی سمیت بہت سے دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سکیورٹی فورسز نے ایک کلب پر اچانک سے دھاوا بول دیا یہ وہی کلب تھا کہ جہاں منیزہ بھی ٹرینگ کے لیے جایا کرتی تھی، اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے منیزہ بتاتی ہیں کہ ’اُس وقت تو کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے، لیکن کُچھ ہی وقت کہ بعد سکیورٹی فورسز نے ایک فرد کو حراست میں لیا اُس کے چہرے کو ایک ڈھانپ کر اُسے وہاں سے لے گئے، بعد میں معلوم یہ ہوا کہ وہ ایک شدّت پسند تھا جو ہمارے کلب پر حملے کی غرض سے آیا تھا۔‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے ہمیں بتایا کہ اس بار تو ہم خوش قسمت تھے کہ بچ گئے کیونکہ یہ لوگ وہ تھے کہ جو ہمارے کلب پر بم باری کرنا چاہتے تھے۔‘ ’ہمیں کہا گیا کہ اگر ہمیں اپنی زندگیوں سے محبت ہے اور ہم اپنی سلامتی چاہتے ہیں تو ہمیں اس کلب کو بند کر دینا چاہیے۔‘ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب کلب کا عملہ خطرے میں تھا۔ اس سے ایک سال قبل 2020 بھی اس کے سامنے والی سڑک پر کھڑی ایک کار میں دھماکہ ہوا تھا کہ جس کی وجہ سے کلب کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔ 21 سالہ منیزہ نے اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں واقعی بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔‘ انھوں نے اپنے نام کا آخری حصہ تبدیل کر کے طالش رکھ لیا، جس کا مطلب فارسی میں ’کوشش‘ یا ’سخت محنت‘ تھا۔ نہ صرف نام کی تبدیلی علامتی تھی بلکہ انھوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ اگر ان کے شوق، اُن کے کھیل کی وجہ سے ان کے خاندان والوں کو کوئی خطرہ ہوا تو اُن کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ اُن کی حفاظت بھی کرے گا۔ لیکن جب افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ ہوا تو منیزہ کے کلب کو حفاظتی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ پھر جب 2021 میں طالبان اقتدار میں واپس آئے تو غیر ملکی افواج کے ملک سے انخلا مکمل کرنے کے بعد رقص اور موسیقی پر مؤثر طور پر پابندی عائد کردی گئی۔ لیکن طالبان کا کوئی بھی حربہ نے منیزہ کے ارادوں کو توڑ نہیں سکا۔ بچپن میں انھوں نے اپنے والد کے ساتھ کابل کی گلیوں میں ایک ریڑھی پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کا کام کیا۔ ایک لڑکی کے لیے کام کرنا غیر معمولی تھا اور خطرناک ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے شوٹ باکسنگ کی تربیت حاصل کرنا شروع کی، شوٹ باکسنگ جاپانی مارشل آرٹ کی ہی ایک قسم ہے کہ جو ریسلنگ اور کک باکسنگ کا ملاپ ہوتا ہے۔ منیزہ نے شوٹ باکسنگ کے کُچھ ہی میچ کھیلے تھے کہ اُن کا کندھا ٹوٹ گیا اور انھیں یہ کھیل چھوڑنا پڑا۔ نوجوانی میں انھوں نے سوشل میڈیا پر کابل کے بریکنگ گروپ سپیریئرز کریو کی ویڈیوز دیکھیں جو وہ اُن سے ملیں اور ڈانس کا یہ سٹائل دیکھا تو وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے اُنھیں دیکھا تو مُجھے یقین نہیں آیا کہ واقعی یہ ایک حقیقت ہے۔‘ منیزہ کا سپیئرز کریو سے ملاقات اور اس کے بعد اب بریکنگ کا پیرس 2024 اولمپکس میں آنا سب کی کڑیاں جُڑی ہوئی تھیں یعنی منیزہ نے ڈانس کے اس سٹائل کی ٹرینگ شروع کی اور اس کھیل کو ایتھلیٹکس کے اس بڑے ایونٹ میں شامل کر لیا گیا۔ وہ 17 سال کی تھیں جب انھوں نے اولمپکس حصہ لینے کا خواب دیکھا شروع کیا اور اب ایک وہ وقت ہے کہ جب وہ اپنا یہ خواب پورا کرنے جا رہی ہیں۔ انھیں بس وہاں پہنچنا تھا۔ انھوں نے مغربی کابل میں سپیریئرز کریو کے تربیتی کلب کا دورہ کیا جو ہپ ہاپ اور بریکنگ کے لیے ملک کا سرکردہ مرکز سمجھا جاتا تھا، لیکن یہ ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا۔ منیزہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب میں کلب میں داخل ہوئی تو یہ لڑکوں سے بھرا ہوا تھا۔‘ سپیریئرز کریو کے کوچ جواد صابری یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ بہت چھوٹی تھی۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’مجھے شک تھا کیونکہ دیگر بی گرلز بھی تھیں جو زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتیں،' وہ اس اصطلاح کو ایک خاتون پرفارمر کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلب ان لوگوں کے لیے ہدف بن گیا ہے جو اس کھیل کو قبول نہیں کرتے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم پر حملہ ہو رہا تھا، لیکن وہ واپس آ گئی میں نے دیکھا کہ وہ 2024 میں پیرس جانے کا خواب دیکھ رہی تھی، وہ اس کے لئے لڑ رہی تھی۔‘ منیزہ کا جزبہ دیکھنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’وہ یہ کر سکتی ہے میں نے مستقبل دیکھا ہے۔‘ منیزہ کی گھریلو زندگی بھی آسان نہیں تھی انھیں متعدد مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تکلیف دہ واقعہ اُس وقت پیش آیا کہ جب اُن کے والد، جن کے ساتھ وہ کام کرتی تھیں، انھیں باغیوں نے اغوا کر لیا۔ اس کے بعد سے انھوں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنے خاندان والوں کے لیے واحد کفیل تھیں، پہلے اشیائے خوردونوش فروخت کرتی تھیں اور پھر اپنی والدہ، بہن اور دو بھائیوں کی مدد کے لیے ایک ہسپتال میں کام بھی کرتی تھیں۔ ہر ہفتے وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنی ٹرینگ پر خرچ کرنے کے لیے بچایا کرتی تھیں اور اس سب کے ساتھ وہ اپنی والدہ کو بس بات پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرتیں کہ اس کھیل کا حصہ ہونا قابل قدر ہنر ہے۔ منیزہ بتاتی ہیں کہ ’زیادہ تر لوگ اسے رقص سے جوڑتے ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ ایک کھیل ہے کیونکہ اس کے لیے آپ کو جسمانی طور پر مضبوط ہونے اور بھر پور طاقت کے ساتھ حرکت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ لیکن منیزہ کا جذبہ، جو جواد اور سپیریئرز کریو کلیکٹو کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا، خطرناک تھا اور لوگ اس سے ناخوش تھے۔ منیزہ کہتی ہیں کہ ’سب سے پہلے یہ سوشل میڈیا پر تبصرے تھے، جنھیں میں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘ کلب کے باہر 2020 میں ہونے والے بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن جب بم حملہ ہوا تو اس نے مجھے واقعی خوفزدہ کر دیا۔‘ اگرچہ وہ دھماکے سے خوفزدہ تھی اور اس شخص کی گرفتاری کے بعد کلب بند ہوگیا تھا جس نے اس پر بم باری کرنے کی کوشش کی تھی منیزہ نے بریکنگ کو نہیں چھوڑا۔ وہ گھر پر پریکٹس کرتی تھی جس میں اُن کے پاس کتنی چھوٹی سی جگہ تھی۔ لیکن جیسے جیسے کابل میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی تھی، وہ پریشان تھیں کہ ان کے پڑوسی ان کی تربیت جاری رکھنے کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں۔ پھر 2021 میں طالبان اقتدار میں واپس آئے اور شریعت یعنی اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح نافذ کردی۔ نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو تعلیمی اداروں اور جم میں جانے سے روک دیا گیا تھا اور خواتین کو سر سے پاؤں تک با پردہ رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ موسیقی اور رقص پر بھی مؤثر طور پر پابندی عائد کردی گئی اور بریکنگ پر بھی۔ نئی پابندیوں نے منیزہ اور اس کے بریکنگ کرنے والے دوستوں کو ایک فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جس کے بعد انھیں اپنا ملک اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر میں افغانستان میں رہتی تو مجھے نہیں لگتا کہ میں اب تک زندہ ہوتی۔ وہ مجھے مار دیتے یا سنگ سار کر دیتے۔‘ منیزہ اور جواد سمیت سپیریئرز کریو کے کچھ ارکان سپین کے شہر میڈرڈ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیا کام کر سکتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو پیسے گھر بھیجنے کی ایک کوشش کر سکتی ہیں۔ انھوں نے مقامی بریکرز کے ساتھ تعلق بنائے اور جہاں بھی ممکن ہو پریکٹس کرنا شروع کی۔ کلبوں میں، سڑکوں پر اور یہاں تک کہ شاپنگ مالز میں بھی۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ منیزہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ’ہر رات جب میں بستر پر جاتی تھی تو مجھے بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ افغان خواتین کیا کر سکتی ہیں؟ میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں کہ ’میں ان کے لیے کچھ کیوں نہیں کر سکتی؟‘ وہ جانتی تھیں کہ طالبان کی واپسی کے بعد وہ اولمپکس میں اپنے آبائی ملک کی جانب سے حصہ نہیں لے سکیں گی۔ وہاں کی حکومت نے خواتین کے کھیل کھیلنے پر پابندی عائد کردی تھی اور وہ حکومت خواتین کھلاڑیوں کو ان میں حصہ لینے کے لیے نہیں بھیجے گی۔ لیکن منیزہ کے پاس پیرس جانے کا ایک اور راستہ تھا۔ انھوں نے دریافت کیا تھا کہ وہ ریفیوجی اولمپک ٹیم کے لیے مقابلہ کرنے کی اہل ہیں، ان کھلاڑیوں کے لیے جن کے آبائی ممالک تنازعات یا خانہ جنگی کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی واپسی بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ مئی میں وہ کھیلوں میں پناہ گزین ٹیم کی نمائندگی کرنے کے لیے منتخب ہونے والے کھلاڑیوں میں سے ایک تھیں اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے ان کے لئے کوچنگ کا انتظام کرنے میں مدد کی۔ منیزہ کہتی ہیں کہ ’جب انھوں نے میرے نام کا اعلان کیا، تو میں ایک ہی وقت میں خوش بھی ہوئی اور دل کُچھ افسردہ بھی ہوا۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں اداس تھی کیونکہ جب میں نے افغانستان چھوڑا تو مجھے اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑنا پڑا۔ میں نے ان کی حفاظت پر اپنے مقصد کا انتخاب کیا۔‘ وہ فکرمند تھیں کہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے ان کا انتخاب ان کی ماں اور بہن بھائیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن اس اعلان کے بعد منیزہ کو خبر ملی کہ ان کا خاندان افغانستان چھوڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اب وہ دو سال سے زیادہ کی علیحدگی کے بعد سپین میں ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اب وہ اپنا خواب پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور بس اسی پر اُن کی توجہ ہے۔ وس اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ’اولمپکس کی تیاری کرنا واقعی مشکل ہے۔ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کام کر رہی ہوں جس کے پاس 21 سال کا تجربہ ہے، لہٰذا جب میں اولمپکس کی تیاری کر رہی ہوں تو مجھے ان تمام سالوں کی محنت کو کامیابی میں بدلنا ہوگا کہ جو میں نے اس مقام کے حصول کے دوران کھو دیے۔‘ منیزہ کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ پیرس سے تمغہ حاصل کریں گی لیکن پوڈیم پر جگہ حاصل کرنا ان کی ترجیح نہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے دوستوں اور ان کے خوابوں اور امیدوں کے لیے مقابلہ کروں گی، اس یقین کے ساتھ کہ ان کی موجودگی سے ایک اہم پیغام جائے گا۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’افغانستان کی لڑکیاں کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔ آپ کسی افغان لڑکی پر جو بھی دباؤ ڈالیں اسے محدود کریں، یا اسے قید بھی کریں، وہ یقینی طور پر اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کرے گی اور یقینی طور پر اپنے مقاصد کو حاصل کرے گی۔ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c199mz9mz77o
’آرچر نے بٹلر کا عزم نبھا دیا‘
جوفرا آرچر کی وہ گیند جس لینتھ پر آئی، شاید ایسے ہتک آمیز چھکے کی حق دار نہ تھی جو بالآخر اسے نصیب ہوا، مگر فخر زمان اتنی روانی سے اپنی ایڑیوں پر گھومے کہ وہ باؤنڈری کے پرے سائٹ سکرین سے ٹکرا کر ہی رک پائی۔ یہ سال بھر کے انتظار کے بعد آرچر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی تھی اور کپتان نے انہیں پاور پلے کا سب سے کڑا اوور تھما دیا تھا۔ فخر سے پہلے بابر اعظم نے بھی ان سے کچھ ایسا ہی سلوک کیا۔ یہ آرچر کی ورلڈ سٹیج پر واپسی کے بعد پانچویں گیند تھی جو سائٹ سکرین سے ٹکرا کر تھمی تھی۔ پاکستانی بیٹنگ یہاں یہ اعلان کرنا چاہ رہی تھی کہ اب ان کا مائنڈ سیٹ بدل چکا ہے اور آئرلینڈ سے شکست نے دل پر وہ زخم چھوڑے ہیں کہ گویا اب اٹھ کر دنیا سے لڑنے کا وقت آ چکا ہے۔ کچھ روز پہلے اپنے انٹرویو میں بھی فخر زمان نے یہی نشاندہی کی تھی۔ فخر زمان اور بابر اعظم نے آرچر کے پہلے اوور کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ اتنے لمبے انتظار کے بعد لَوٹنے والے انگلش سٹار فاسٹ بولر کے شایانِ شان نہ تھا۔ فخر اور بابر کی اس پارٹنرشپ نے اوپنرز کی خالی ہاتھ واپسی کا خوب مداوا کیا اور میچ میں پاکستان کی راہ درست کی۔ یہ وہ راہ تھی جس سے پاکستان میچ کے شروع میں بھٹکا تھا اور جاس بٹلر کو وہ لینتھ فراہم کر بیٹھا جہاں سے وہ ایسی دھماکے دار اننگز کھیل پاتے۔ پہلے دو اوورز میں پاکستان کی بولنگ نپی تُلی تھی مگر تیسرے ہی اوور میں جاس بٹلر نے شاہین آفریدی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ فل لینتھ سے سوئنگ ڈھونڈنے کی خواہش میں تین بار آفریدی کو باؤنڈری کی سیر کرنا پڑی۔ بٹلر کا عزم بہت واضح تھا۔ یہاں، بابر اعظم نے سپن کو اٹیک میں لانے کا فیصلہ کیا اور عماد وسیم کی پہلی ہی گیند نے اسے درست بھی ثابت کر دیا۔ فِل سالٹ دھوکہ کھا گئے اور پہلی کامیابی پاکستان کے نام ہوئی۔ لیکن پھر اگلے ہی اوور میں بابر اعظم نے وہ فیصلہ کر دیا جس نے سارا دباؤ پلٹا دیا۔ حارث رؤف کو پاور پلے بولر بنانے کی دیرینہ خواہش ایک بار پھر جاگی اور وِل جیکس نے ان کے ساتھ وہی کیا جو اس آئی پی ایل سیزن میں وہ فاسٹ بولرز سے کرتے آئے ہیں۔ شاداب خان کی بولنگ ایک بار پھر سوالوں کی زد میں آئی جب بٹلر نے ان کی بے قاعدہ لینتھ کو جی بھر کے نشانہ بنایا اور انگلش بیٹنگ کا ارادہ بھی واضح کر دیا کہ وہ اس پچ پر کہاں تک جاںا چاہتے تھے۔ لیکن جہاں تک وہ جانا چاہتے تھے، وہاں تک رسائی ممکن نہ ہو پائی کہ حسبِ عادت پاکستانی پیسرز نے ڈیتھ اوورز میں عمدہ کم بیک کیا اور بہترین انگلش بیٹنگ لائن کو اس ٹوٹل تک محدود کر لیا جو اس پچ کے حساب سے غیر معمولی نہیں تھا۔ ڈیتھ اوورز میں ایسا کم بیک شاید اتنی آسانی سے نہ ہو پاتا اگر عماد وسیم اپنے سپیل میں انگلش بلے بازوں کو جکڑے نہ رکھتے۔ دوسرے اینڈ سے رنز بہنے کے باوجود عماد کے ڈسپلن نے انگلش بیٹنگ کو محبوس کئے رکھا۔ سو، جب عماد کا سپیل ختم ہوا تو انگلینڈ کے لئے ضروری تھا کہ اس حبس کو توڑے۔ مگر اس کوشش میں ارادے اور قسمت کا صحیح تال میل نہ ہو پایا اور سکور بورڈ پر وہ ٹوٹل ابھرا جو پاکستان کی تجربہ کار بیٹنگ کے لئے ناممکن نہیں تھا۔ لیکن انگلش بولنگ کا ابتدائی ڈسپلن پاکستان سے بہت بہتر رہا اور سپن سے اٹیک کرنے کا فیصلہ بھی کامیاب رہا کہ اس پچ کا رویہ ناقابلِ اعتبار تھا۔ کچھ گیندیں پچ سے گرفت لے رہی تھیں تو کچھ نہیں۔ انگلش بولرز نے ڈسپلن برقرار رکھتے ہوئے مڈل اوورز میں پاکستانی بیٹنگ پر جال ڈال دیا اور نئے مائنڈ سیٹ سے ایڈجسٹ ہونے کی کوشش میں وہ انہدام رقم ہوا جو ماضی میں پاکستان کی 'شہرت' سا بن گیا تھا۔ آرچر کے اگلے تین اوورز پہلے اوور سے بالکل مختلف ثابت ہوئے اور پہلے اوور میں پندرہ رنز دینے والے بولر نے اپنے کوٹے کے باقی تین اوورز میں صرف تیرہ رنز دئیے جن کے عوض دو اہم ترین وکٹیں بھی حاصل کی جو یہاں پاکستان کے لئے فیصلہ کن ہو سکتی تھیں۔ پاکستانی بیٹنگ کا مائنڈ سیٹ بہرحال قابلِ تعریف تھا کہ سب بلے بازوں نے خول سے نکل کر جارحانہ کرکٹ کھیلنے کی کوشش کی۔ اور جب سوچ میں اس طرح کا انقلابی بدلاؤ لانے کا تجربہ کیا جاتا ہے تو یقیناً شروع میں کچھ ناکامیاں بھی ہوتی ہیں۔ گو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تین پاکستانی بلے باز غلط مواقع پر غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے مگر حقیقت یہی ہے کہ بٹلر نے بیٹنگ میں جو عزم دکھایا تھا، آرچر نے وہی بولنگ میں نبھایا اور پاکستان کی کہانی کو پلٹا دیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gg14vvqp2o
’یہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں شاداب خان کی سب سے بُری بولنگ پرفارمنس تھی‘
انگلینڈ نے برمنگھم میں کھیلے گئے دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کو 23 رنز سے شکست دی ہے۔ سنیچر کو کھیلے گئے میں میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس کے بولرز انگلش بلے بازوں کے رنز کے آگے بندھ نہیں باندھ سکے۔ انگلینڈ کی جانب سے کپتان جوس بٹلر نے برق رفتار بیٹنگ کرتے ہوئے 51 گیندوں پر 84 رنز بنائے اور پاکستان کے لیے 184 رنز کا ہدف سیٹ کیا۔ پاکستان کی جانب سے عماد وسیم نے انتہائی نپی تُلی بولنگ کی اور چار اوورز میں صرف 19 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے علاوہ شاہین شاہ آفریدی نے تین، جبکہ حارث رؤف نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کی طرف سے شاداب خان سب سے مہنگے بولر ثابت ہوئے، جنھوں نے چار اوورز میں 55 رنز دیے اور کوئی وکٹ نہ لے سکے۔ پاکستانی بلے باز 184 رنز کے ہدف کے تعاقب میں شروع سے ہی مشکلات کا شکار نظر آئے۔ فخر زمان اور کپتان بابر اعظم کے علاوہ کوئی بھی بیٹر 30 کے ہندسے میں داخل نہیں ہو سکا۔ فخر زمان نے 21 گیندوں پر 45، بابر اعظم نے 26 گیندوں پر 45، افتخار احمد نے 17 گیندوں پر 23 اور عماد وسیم نے 13 گیندوں پر 22 رنز بنائے۔ میچ کے بعد بات کرتے ہوئے پاکستان کے کپتان بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے بولرز نے اچھی بولنگ کی لیکن ان کے بلے باز میچ کو ’فنش نہ کرسکے۔‘ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے عماد وسیم کی بولنگ اور بیٹنگ کو بھی سراہا اور کہا کہ وہ ایک تجربہ کار بولر ہیں اور بلے بازوں کر پڑھنا جانتے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شاداب خان نے اپنے محدود اوورز کے انٹرنیشنل کرکٹ کیریئر کا مہنگا ترین سپیل کروایا اور سوشل میڈیا پر صارفین کی تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ اس سے قبل انھوں نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 2021 میں پشاور زلمی کے خلاف بھی 55 رنز دیے تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر متعدد صارفین ٹیم سلیکشن پر بھی سوال اُٹھاتے ہوئے نظر آئے۔ انگلینڈ کے خلاف سیزیز کے لیے ابراب احمد بھی پاکستان کا حصہ ہیں اور لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ شاداب خان کو ابرار احمد پر قوقیت کیوں دی گئی۔ کچھ صافین ایسے بھی تھے جو شاداب کی کارکردگی سے خوش تو نہیں تھے۔ لیکن انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستانی سپنر ’اپنی پُرانی فارم میں واپس آجائیں گے۔‘ تاہم میچ کے بعد گفتگو کے دوران کپتان بابر اعظم نے شاداب خان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا آج بُرا دن تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ شاداب خان پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو نہ کہ صرف ایک اچھے بولر ہیں بلکہ بیٹنگ اور فیلڈر بھی اچھی کرتے ہیں۔ شاداب خان کے علاوہ صائم ایوب وہ پاکستانی کھلاڑی ہیں جن کا سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ آج کے میچ میں صائم ایوب سات گیندوں پر صرف دو رنز بنا سکے۔ کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے سوشل میڈیا صارف ڈینییل الیگزینڈر نے پاکستان ٹیم کو مشورہ دیا کہ ٹی 20 میچوں میں بابر اعظم اور محمد رضوان کو اوپننگ کرنی چاہیے۔ ’صائم ایوب ابھی انٹرنیشل کرکٹ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘ ایک سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ صائم ایوب کو اپنا گیم بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کے ٹاپ آرڈر کو ان پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان اس سیریز کا تیسرا میچ کارڈف میں 28 مئی کو کھیلے گا۔ انگلینڈ کو اس سیریز میں پاکستان پر ایک صفر کی برتری حاصل ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان پہلے میچ لیڈز میں بارش کے باعث بنا کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkke57nyx8o
’مگر ٹرافی کے لیے صرف اچھا سکواڈ کافی نہیں‘
انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹی ٹونٹی میچ بارش میں بہہ جانے کی وجہ سے پاکستان کو اپنے سکواڈ کا اعلان کرنے میں کچھ دیر تو ہوئی مگر پھر بھی آئی سی سی کی طے کردہ ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے پی سی بی اپنے پندرہ رکنی سکواڈ کا فیصلہ کرنے میں کامیاب رہا۔ بابر اعظم سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے پاکستان کی قیادت چھوڑنے کے بعد پھر سے واپس کیوں لی تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے وہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل اور فائنل کھیل چکے تھے اور اس بار وہ اپنی قیادت میں ٹیم کو ورلڈ ٹرافی جتوانا چاہتے ہیں۔ سو، جس پندرہ رکنی ورلڈ کپ سکواڈ کا اعلان پی سی بی نے کیا ہے، وہ یقیناً ورلڈ کپ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس میں نہ صرف تمام ضروری گوشے پُر کئے گئے ہیں بلکہ یہ تجربے اور صلاحیت سے بھی بھرپور ہے۔ پاکستان کو پانچ پیسرز کی خدمات میسر ہیں۔ شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف حالیہ سالوں میں اپنی حیثیت واضح کر چکے ہیں۔ اب محمد عامر کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا تجربہ کار کھلاڑی بھی میسر ہے جو اس سے پہلے ورلڈ ٹی ٹونٹی 2009 اور چیمپئینز ٹرافی 2017 کی فاتح پاکستانی ٹیموں کا ایک اہم رکن رہا ہے۔ عباس آفریدی کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا نوجوان پیسر بھی دستیاب ہے جو اپنے چچا عمر گل کی طرح ورائٹی اور پیس کے بدلاؤ میں وہ مہارت رکھتے ہیں جو ٹی ٹونٹی کرکٹ کے انٹرنیشنل لیول پر کسی اچھے پیسر کا اثاثہ ہو سکتی ہیں۔ گو، کہنے کو اس سکواڈ میں محض ایک باقاعدہ سپنر ابرار احمد شامل کئے گئے ہیں مگر آل راؤنڈرز کی شکل میں عماد وسیم اور شاداب خان کا تجربہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اور افتخار احمد و صائم ایوب کی پارٹ ٹائم سپن کی بدولت بابر اعظم کو اب چار سپنرز بھی دستیاب ہیں۔ پاکستان کا مرکزی بیٹنگ یونٹ لگ بھگ وہی ہے جو پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ ایونٹ میں اس کی نمائندگی کر رہا تھا۔ مگر اس بار محمد حارث کو شامل نہیں کیا گیا جو پچھلی بار پاکستان کی دم توڑتی ورلڈ کپ کمپین کے ایکس فیکٹر ثابت ہوئے تھے۔ عثمان خان نے پی سی بی کی یقین دہانی پر جو اماراتی کرکٹ بورڈ سے اپنا معاہدہ منسوخ کیا تھا، بارآور رہا کہ اب وہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کا خواب پورا کرنے کے قریب ہیں۔ اگرچہ فرنچائز کرکٹ سے انٹرنیشنل لیول تک پیش رفت کسی بھی کھلاڑی کے لیے آسان نہیں ہوتی اور عثمان خان کے لیے بھی یہ ٹرانزیشن ایک چیلنج رہی ہے مگر وہ امید رکھیں گے کہ ورلڈ کپ میں دوسری ٹیموں کے لیے چیلنج بن کر دکھائیں۔ دشواری مگر صرف یہ ہے کہ پاکستان نے پیس سے بھاری سکواڈ جن کنڈیشنز کے لیے منتخب کیا ہے، یہ ویسی کنڈیشنز نہیں ہیں جو پچھلے ورلڈ کپ پر آسٹریلیا میں تھیں۔ یہاں گروپ سٹیج کے کافی میچز امریکی سر زمین پر بھی کھیلے جائیں گے اور یہ کنڈیشنز دیگر ٹیموں کی طرح پاکستان کے لیے بھی اجنبی ہوں گی۔ پچھلے ورلڈ کپ میں یہ واضح تھا کہ جو ٹیمیں پیس بولنگ میں برتری رکھتی ہیں، ان کے جیتنے کے امکانات بھی زیادہ تھے مگر امریکی کنڈیشنز کے بارے ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہاں پیسرز کو زیادہ مدد ملے گی یا سپنرز فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ بنگلہ دیش اور امریکہ کی حالیہ سیریز کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ورلڈ کپ بیٹنگ میں شاید بڑے مجموعے پیدا نہیں کرے گا اور بولرز کی زندگی ویسی مشکل نہیں ہو گی جیسی حالیہ آئی پی ایل سیزن میں رہی ہے۔ عموماً جب پچز ایسی ہوں تو نہ صرف سپنرز کے لیے مددگار ہوا کرتی ہیں بلکہ ڈیتھ اوورز میں جب گیند ہلکی سی پرانی ہو تو پیسرز کو کچھ نہ کچھ ریورس سوئنگ بھی مل جاتی ہے۔ اگر یہاں بھی معاملہ ایسا رہا تو پاکستان کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کہ پاکستانی پیسرز بہرحال ریورس سوئنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن سکواڈ کی قوت سے قطع نظر پاکستان کے امکانات کا سارا انحصار بہترین حتمی الیون کی تشکیل اور بابر اعظم کی سٹریٹیجی پر ہو گا کہ وہ پریشر میچز میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کے دوران اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں کس قدر پختگی دکھا پاتے ہیں۔ پچھلے ورلڈ کپ میں جب پاکستان کی کمپین اتنی ڈھیلی پڑ گئی تھی کہ سیمی فائنل تک رسائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا تو وہاں محمد حارث پاکستان کا سرپرائز فیکٹر بن کر ابھرے تھے اور ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے خطرے سے دوچار ٹیم یوں دھاڑ کر واپس آئی تھی کہ فائنل تک پہنچ گئی۔ اب کی بار اگر پاکستان پر کوئی ایسا کڑا مرحلہ آ گیا تو سوال یہی ہو گا کہ سرپرائز فیکٹر کون ثابت ہو سکے گا۔ اس بیٹنگ آرڈر میں کئی ایسے باصلاحیت نوجوان ہیں جو اپنے بل بوتے پر میچ جیت سکتے ہیں مگر عین موقع پر ابھرنے کے لیے کپتان اور مینیجمنٹ کی وہ تائید بھی لازمی ہے جو کسی بھی کھلاڑی کا حوصلہ بڑھا سکے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c9xxl93nydgo
شاہد آفریدی ٹی 20 ورلڈ کپ کے نئے سفیر بن گئے: ’سریش رائنا نے لالا کے سوئے ہوئے فینز کو جگا دیا‘
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے سابق پاکستانی کپتان شاہد آفریدی کو رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سفیر بنایا ہے۔ آئی سی سی نے ایک بیان میں کہا کہ آفریدی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تاریخ میں پاکستان کے سب سے یادگار لمحات کا حصہ رہے ہیں۔ انھوں نے 2007 کے ٹورنامنٹ میں پاکستان کو فائنل تک پہنچانے اور 2009 میں پاکستان فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے سفیروں میں آفریدی کے علاوہ انڈین آل راؤنڈر یورراج سنگھ، ویسٹ انڈیز کے ’یونیورس بوس‘ کرس گیل اور دنیا کے سب سے تیز رفتار شخص یوسین بولٹ شامل ہیں۔ اس اعزاز پر آفریدی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ایک ایسا ایونٹ ہے جو ان کے دل کے بہت قریب ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ 09 جون کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کے منتظر ہیں۔ ’دونوں ٹیمیں کھیلوں کے سب سے بڑی حریفوں میں سے ہیں۔‘ انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر آئی سی سی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس اعزاز کے ذریعے ’سپرٹ آف کرکٹ‘ کو فروغ دیں گے اور اپنی ٹیم کی حمایت میں پیش پیش رہیں گے۔ مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن کے لیے آئی سی سی کی جنرل مینیجر کلیئر فرلونگ نے کہا ہے کہ آفریدی دنیا بھر میں شائقین کے پسندیدہ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورراج، کرس گیل، یوسین بولٹ اور شاہد آفریدی اب تک کے سب سے بڑے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فینز کی دلچسپی بڑھائیں گے۔ پاکستان اور انڈیا کے کئی شائقین نے آفریدی کے ’سفیر‘ بننے پر خوشی ظاہر کی ہے تاہم بعض لوگوں کو یہ پیشرفت کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔ بعض صارفین نے اس معاملے پر سابق انڈین بلے باز سریش رائنا کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ سریش رائنا نے ایکس پر ایک صارف کو جواب دیا کہ ’میں آئی سی سی کا سفیر نہیں لیکن 2011 کا ورلڈ کپ میرے گھر پر ہے۔ ’موہالی کا میچ یاد ہے؟ امید ہے اس سے آپ کو ایسی یادیں آئیں گی جو آپ بھلا نہیں پائیں گے۔‘ یاد رہے کہ 2011 کے ورلڈ کپ میں موہالی کے میچ میں پاکستان کو انڈیا کے خلاف 29 رنز سے شکست ہوئی تھی۔ اس میچ میں رائنا نے 39 گیندوں پر 36 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔ دراصل گذشتہ دنوں آئی پی ایل میں کمنٹری کے دوران رائنا سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ ریٹائرمنٹ واپس لینا چاہیں گے؟ اس پر رائنا نے جواب دیا کہ ’نہیں۔۔۔ سوریش رائنا ہوں، شاہد آفریدی نہیں۔‘ اس پر رائنا اور ساتھی کمنٹیٹر آکاش چوپڑا قہقہے لگانے لگے۔ 398 ون ڈے اور 99 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے آفریدی عرف ’لالا‘ اپنے کریئر کے دوران 43 مقابلوں میں میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ آفریدی نے 2011 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا مگر دو ہفتوں بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا تھا تاہم انھوں نے 2017 کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ شاہد آفریدی کے دفاع میں ان کے فینز نے سریش رائنا کو جواب دیا کہ ’ہمیں ان کے ایشون کے خلاف دو چھکے یاد ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ آفریدی نے انڈیا کے خلاف 100 سے زیادہ کے سٹرائیک ریٹ سے 2286 رنز بنائے جن میں 75 چھکے اور تین سنچریاں شامل ہیں۔‘ ارسلان صدیق نے کہا کہ ’آپ کو شاید یاد نہیں ہوگا کہ آفریدی کے کیبنٹ میں بھی آئی سی سی ٹرافی ہے۔‘ سریش رائنا اور شاہد آفریدی کے فینز کے درمیان اس گرما گرم بحث کے دوران صارفین نے بھرپور لطف بھی حاصل کیا۔ جیسے اقرا کہتی ہیں کہ ’سریش رائنا نے شاہد آفریدی کے سوئے ہوئے فینز کو جگا دیا۔‘ دریں اثنا سیفی نامی ایک صارف نے یاد کرایا کہ آفریدی 2017 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے سفیر تھے اور یہ کپ پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں اپنے نام کیا تھا۔ انھوں نے پیشگوئی کی کہ ’یعنی ہم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 جیت جائیں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cl44j5y1d4lo
کولکتہ نائٹ رائڈرز کے آئی پی ایل کے فائنل میں پہنچنے پر شاہ رخ خان کی تعریفیں کیوں؟
انڈیا میں جاری انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) کے پہلے کوالیفائر میچ میں کولکتہ نائٹ رائڈرز نے سن رائزر حیدرآباد کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔ حیدرآباد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 159 رنز بنائے۔ جس کے جواب میں کولکتہ نائٹ رائڈرز کی ٹیم نے دو وکٹوں کے نقصان پر 160 رنز کے ہدف کو 13.4 اوورز میں ہی حاصل کر لیا۔ کولکتہ کے لیے وینکٹیش ایئر اور کپتان شریاس ایئر نے چوتھی وکٹ کے لیے 97 رنز کی میچ وننگ پارٹنرشپ کھیلی، ان دونوں نے نصف سنچریاں سکور کیں اور کولکتہ کو چوتھی بار آئی پی ایل فائنل میں پہنچنے میں مدد کی۔ اس سے قبل سنہ 2021، سنہ 2014 اور سنہ 2012 میں اس ٹیم نے فائنل میں اپنی جگہ بنائی تھی۔ سنہ 2021 میں اسے چنئی سپر کنگز سے شکست ہوئی تھی جبکہ سنہ 2014 اور 2012 میں یہ ٹیم آئی پی ایل کی فاتح رہی تھی اور اسے نے چنئی سپر کنگز اور کنگز پنجاب الیون کو شکست دی تھی۔ جہاں اس ٹیم کی شاندار کارکردگی اور اچھا کھیل پیش کر کے فائنل تک رسائی حاصل کی وہیں اس ٹیم کے شریک مالک اور انڈیا کے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک شاہ رخ خان کی موجودگی نے میچ کو چار چاند لگا دیے تھے۔ سوشل میڈیا پر جہاں کولکتہ نائٹ رائڈرز ٹرینڈ کر رہی ہے وہیں شاہ رخ خان پر بھی مداح قربان ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر اس کی کیا وجہ ہے کیونکہ شاہ رخ خان تو اکثر ٹیم کے میچز کے دوران سٹیڈیم میں دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بار بات صرف شاہ رخ خان کے سٹارڈم کی نہیں بلکہ اپنی ٹیم کے ساتھ تعلق اور رویے کی تھی۔ آئی پی ایل کے اس سیزن میں ٹیم کے مالکان کا اپنی ٹیم کے ساتھ مختلف میچوں کے دوران برتاؤ مناسب نہیں دیکھا گیا جس میں لکھنؤ سپر جائنٹس کے مالک سنجیو گوئنکا کا میچ ہارنے کے بعد ٹیم کے کپتان کے ایل راہول کے ساتھ سخت انداز میں بحث کرنے کا واقعہ اور ممبئی انڈینز کی مالک نیتا امبانی کا بھی روہت شرما کو کپتانی سے ہٹا کر ہاردک پانڈیا کو ٹیم کی کمان سونپنا اور اس کے بعد ٹیم کی بری کارکردگی پر روہت شرما اور ہاردک پانڈیا کے ساتھ نامناسب رویہ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ اس سب کا موازنہ شاہ رخ خان سے کر رہے ہیں اور ٹیم کو سپورٹ کرنے اور ان پر بھروسہ کرنے پر ان کی تعریف کر رہے ہیں۔ شاہ رخ نے کولکتہ نائٹ رائڈرز کی کامیابی کے بعد جہاں اپنے روایتی انداز میں گراؤنڈ کا چکر لگا کر اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلایا اور داد وصول کی وہیں انھوں نے اپنے آئیکونک انداز میں باہیں پھیلا کر جیت کا جشن منایا۔ اکثر افراد نے یہ ویڈیو دیکھ کر شاہ رخ حان کی تعریف کی اور لکھا کہ ’ان کے پاس لوگوں کو سپیشل محسوس کروانے کا طریقہ موجود ہے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ شاہ رخ خان کرکٹر نہیں لیکن پورے سٹیڈیم میں موجود مداحوں کی نظریں شاہ رخ خان پر تھیں۔ یہ میگا سٹارڈوم کہلاتا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’شاہ رخ کا سنہری دور چل رہا ہے، گذشتہ ایک سال سے وہ ہر چیز میں کامیاب ہو رہے ہیں، پہلے ان کی فلم پٹھان، پھر جوان اور ڈنکی اور اب کولکتہ نائٹ رائڈرز فائنل میں جا رہی ہے۔ ان کے مخالفین کی رات کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔‘ ایک صارف نے شاہ رخ خان کی اپنی ٹیم کی حمایت اور ان پر اعتماد کے بارے میں ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’کوئی اس شخص سے کیسے نفرت کر سکتا ہے۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’وہ کولکتہ نائٹ رائڈرز کے 12ویں کھلاڑی ہیں۔‘ ایک اور صارف نے کولکتہ نائٹ رائڈرز کے سابق کپتان اور موجودہ کوچ گوتم گمبھیر کے ایک انٹرویو میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’2011 میں جب مجھے کولکتہ نائٹ رائڈرز کے لیے منتخب کیا گیا تو شاہ رخ خان نے مجھ سے جو پہلی بات کہی تھی کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی مجھے یہ بتائے کہ اداکاری کیسے کرنی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ پسند نہیں آئے گا کہ کوئی آپ کو بتائے کہ کرکٹ کیسے کھیلنی ہے۔‘ کولکتہ نائٹ رائڈرز کے آفشیل ٹوئٹر ہینڈل پر بھی شاہ رخ خان کی گراؤنڈ پر موجودگی کی ایک تصویر لگاتے ہوئے لکھا کہ ’ہمارے کنگ خان ہماری لیے خوش قسمتی کی علامت ہیں۔‘ کے کے آر کے اکاؤنٹ سے جاری ایک اور ویڈیو میں ٹیم کے کھلاڑی ان کے ٹیم پر اعتماد، حمایت اور اس کی ہمیت بندھانے پر تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے قبل بھی شاہ رخ خان آئی پی ایل سیریز میں شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔ گذشتہ برس چیلنجرز بینگلور اور کلکتہ نائٹ رائڈرز کے درمیان کھیلے گئے میچ میں وہ سنہ 2018 کے آئی پی ایل کے بعد پہلی مرتبہ اپنی ٹیم کی ایڈن گارڈنز میں سپورٹ کے لیے آئے تھے۔ اس سے قبل سنہ 2012 میں ممبئی کے وانکھڈے سٹیڈیم میں گراؤنڈ میں داخلے پر تنازعے اور سکیورٹی گارڈ کے ساتھ جھگڑا کرنے پر ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن (MCA) کی طرف سے ان پر سٹیڈیم میں داخلے پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn00d0lxzxgo
پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: ’یہ گیری کرسٹن کے امتحان کا آغاز ہے‘
ورلڈ کپ کے سفر پر نکلی پاکستانی ٹیم اپنے رستے کا آخری پڑاؤ انگلینڈ میں ڈال چکی ہے اور پی سی بی کی حالیہ انتظامی اتھل پتھل کے بعد مقرر کردہ ہیڈ کوچ گیری کرسٹن بھی ٹیم کو جوائن کر کے اپنے کوچنگ کرئیر کے ایک تلخ امتحان میں قدم رکھ چکے ہیں۔ کرسٹن ہی کی طرح آئی پی ایل ڈیوٹی سے فراغت پا کر چنیدہ انگلش کرکٹرز بھی اپنے کپتان جاس بٹلر کے ہمراہ واپس آ چکے ہیں اور پاکستان کے مقابلے کو ایک بھرپور قوت سے لیس انگلش سکواڈ تیار ہے جسے جوفرا آرچر کی واپسی سے اضافی تقویت بھی میسر ہے۔ اگرچہ پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان فائنلسٹ تھا مگر اس ٹائٹل کی فاتح انگلش ٹیم کے برعکس پاکستان کی حالیہ کارکردگی قطعی یہ ظاہر نہیں کرتی کہ یہی ٹیم پچھلے میگا ایونٹ کی رنر اپ تھی۔ تاحال پاکستان نے اس ایونٹ کی تیاری کے لیے جو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی ہے، وہ مسابقت اور موافقت کے اعتبار سے تشفی بخش نہیں رہی۔ نیوزی لینڈ کے دورے پر کھیلے گئے پانچوں ٹی ٹوئنٹی میچز تجربات کی رو میں گزرے اور ایک جامع شکست پاکستان کو نصیب ہوئی۔ کیویز کے خلاف ہوم سیریز مزید تجربات کی مصروفیت میں گزر گئی اور اولین انتخاب سے محروم کیوی ٹیم ایسی مسابقت سے سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوئی کہ خدشہ ہے اگر پہلا میچ بارش کی نذر نہ ہوتا تو شاید وہ سیریز ہی اپنے نام کر جاتی۔ آئرلینڈ اگرچہ بظاہر پاکستان کی رینکنگ سے کہیں کمزور ٹیم ہے مگر حالیہ سیریز میں پہلا میچ جیت کر وہ بھی پاکستان کے امکانات پر گہرا سوالیہ نشان چھوڑ گئی اور اب بحرانوں میں گھری پاکستانی ٹیم کے لیے آخری چار میچز ہیں کہ وہ بڑے ایونٹ سے پہلے اپنی شکل درست کرے اور اس صحیح کمبینیشن کی کھوج کر لے جو ورلڈ کپ میں اس کی نمائندگی کرے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو سوال دو برس پہلے اس ٹیم کو درپیش تھے، آج بھی پوری شدومد سے نہ صرف سامنے ہیں بلکہ ان میں کچھ اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ کیویز کے خلاف حالیہ ہوم سیریز میں ہارے گئے میچز پر تو عجب مضحکہ خیزی کا سامان ہوا کہ جہاں کپتان اپنے بلے بازوں کا دفاع کرتے پائے گئے، وہیں عبوری کوچ بلے بازوں کی کوتاہ بینی کو ذمہ دار ٹھہراتے نظر آئے۔ پاور پلے میں جس سست روی کا سامنا بابر اعظم کی گزشتہ ورلڈ کپ ٹیم کو تھا، اب بھی جوں کی توں ہے اور بابر کی اولین ترجیح ابھی بھی پاور پلے میں وکٹیں بچانا ہی ہے۔ محمد رضوان اور بابر کا ٹاپ آرڈر میں کھیلنا بھی ٹیم کے لیے عجیب معمہ سا بن چکا ہے کہ بلاشبہ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک آخر تک میدان میں رہے تو وہ ٹیم کو بھی پار لے جاتا ہے مگر جب یہ دونوں مڈل اوورز میں پویلین لوٹ جاتے ہیں تو باقی ماندہ بیٹنگ آرڈر خلجان کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ حالیہ تجربات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ چونکہ بیشتر بلے باز ایک ہی پوزیشن کی دوڑ میں تھے تو اپنے کردار سے آگہی میں تشنہ رہ گئے۔ ٹاپ آرڈر بھی اننگز کا اس قدر حصہ خرچ کر جاتا کہ مڈل آرڈر مدافعت اور جارحیت کے بیچ مخمصے میں بٹا رہ جاتا۔ اور بولنگ میں اگرچہ بظاہر پاکستان مستحکم نظر آتا ہے مگر کیریبئین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم تر ہو گا اور پاکستان ابھی اپنے دو حتمی سپنرز طے نہیں کر پایا جبکہ شاداب خان کی حالیہ بولنگ فارم الگ پریشانی کا سبب رہی ہے۔ ورلڈ ٹائٹل کے اہم ترین معرکے سے پہلے یہ سارے سوال پاکستان کے سامنے ہیں اور نووارد ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کے پاس ان کا جواب دینے کو صرف یہ چار میچز ہیں۔ اگرچہ ان سے اس قدر دیرینہ سوالوں کا جواب اتنی جلدی مانگنا بے جا ہو گا مگر بہرحال ورلڈ کپ میں پاکستان کے امکانات کا دارومدار بھی انہی جوابوں پر ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2eepvjlj6do
’قدرت کا نظام۔۔۔‘ آئی پی ایل کے پلے آف میں پہنچنے والی کوہلی کی ٹیم کا پاکستان سے موازنہ
انڈین پریمیئر ليگ (آئی پی ایل) اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور ابتدا میں لگاتار چھ ميچز ہارنے والی ٹیم آر سی بی نے چوتھی ٹیم کے طور پر پلے آف یعنی اوپر کی چار ٹیموں میں جگہ بنا لی ہے۔ سابق انڈین کپتان وراٹ کوہلی کی ٹیم رائل چیلنجرز بنگلور (آر سی بی) اور انڈیا کو ورلڈ کپ میں فتح سے ہمکنار کروانے والے سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی کی ٹیم چنئی سپر کنگز (سی ایس کے) کے درمیان رات کا مقابلہ ممکنہ طور پر آئی پی ایل کا سب سے اہم مقابلہ تھا کیونکہ اس میں جیتنے والی ٹیم پلے آف کے لیے کوالیفائی کرنے والی تھی۔ لیکن اس میں بھی بہت سے اگر مگر تھے۔ اتنے اگر مگر تھے کہ سوشل میڈیا صارفین نے اسے آئی پی ایل کا نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کا مقابلہ قرار دیا۔ آر سی بی کی جانب سے آئی پی ایل کے پلے آف میں کوالیفائی کرنے کو سنہ 2022 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے سیمی فائنلز میں پہنچنے کے متراف قرار دیا گیا اور کہا گیا ’دیکھیں اس طرح سامنے آتا ہے قدرت کا نظام۔‘ چنئی سپر کنگز کے سامنے پلے آف میں پہنچنے کے لیے تمام تر سازگار حالات تھے۔ اسے محض ایک میچ جیتنا تھا یا کم مارجن سے ہارنا تھا۔ لیکن آر سی بی کے لیے پلے آف میں پہنچنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ آر سی بی کو پلے آف میں پہنچنے کے لیے کم از کم 18 رنز یا 11 گیند پہلے جیت حاصل کرنا ضروری تھا۔ ٹاس ہارنے کے بعد اس کے سامنے بس 18 رنز سے جیت حاصل کرنا رہ گیا تھا۔ کپتان فاف ڈوپلیسی اور وراٹ کوہلی نے تین اوورز میں 33 رنز بنائے تھے کہ بارش شروع ہو گئی جو کہ چند منٹ تک ہی رہی لیکن اس نے کھیل کے رُخ کو سی ایس کے کی جانب موڑ دیا کیونکہ پچ نے سپنرز کا ساتھ دینا شروع کر دیا اور جو رنز آسانی سے بن رہے تھے وہ مشکل ہو گئے۔ اگلے تین اوورز میں محض 11 رنز بنے اور اس طرح پہلے چھ اوورز میں آر سی بی کا سکور بغیر کسی نقصان کے 42 رنز تھا۔ لیکن پھر وراٹ اور ڈوپلیسی نے رنز بنانے کی رفتار کو بڑھانا شروع کیا۔ وراٹ اپنی نصف سنچری کے قریب پہنچے لیکن ایک شاٹ کو چیک کرتے ہوئے وہ مچل سینٹنر کی گیند پر ڈیرل مچل کے ہاتھوں باؤنڈری پر کیچ ہو گئے۔ وراٹ نے 29 گیندوں پر تین چوکے اور چار چھکوں کی مدد سے 47 رنز بنائے۔ اس دوران ٹورنامنٹ میں وہ 700 رنز کا ہندسہ بھی عبور کر چکے تھے اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ 36 چھکے بھی لگا چکے تھے۔ بات یہیں پر نہیں رکی۔ فاف ڈوپلیسی کو تھرڈ امپائر نے جب ایک متنازع فیصلے کے تحت رن آوٹ قرار دیا تو ایسا لگا کہ سارا ظاہری نظام آر سی بی کے خلاف تھا۔ لیکن پھر رجت پٹیدار، کیمرن گرین اور بعد میں دنیش کارتک اور میکسویل کی جارحانہ بیٹنگ کے عوض آر سی بی نے 218 رنز کا مجموعہ کھڑا کیا اور سی ایس کے کو 219 رنز کا ہدف دیا لیکن اسے پلے آف میں پہنچنے کے لیے صرف 201 رنز ہی درکار تھے۔ آئی پی ایل میں اب تک اپنا جوہر نہ دکھانے والے میکسول نے پہلی ہی گیند پر ٹورنامنٹ میں دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی اور چنئی کے کپتان رتوراج گائیکواڈ کو آؤٹ کر دیا اور پھر تیسرے اوور میں ڈرل مچل بھی چار رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے اور یوں ان کی ٹیم میچ جیتے کے بجائے کوالیفائی پر اکتفا کرنے کے لیے کھیلتی نظر آئی۔ دو وکٹیں گرنے کے بعد ریحانے اور رچن رویندرا نے رنز بنانے کی رفتار برقرار رکھی لیکن دسویں اوور میں اجنکیا رہانے 33 رنز بنا کر آوٹ ہوئے تو آر سی بی ایک بار پھر میچ میں واپس نظر آئی لیکن پھر 13ویں اوور میں رچن رویندرا اچانک رن آؤٹ ہو گئے۔ پھر کیا تھا، بازی پلٹ گئی۔ جب ڈوپلیسی نے محمد سراج کی گیند پر سینٹنر کا ایک بلائنڈر کیچ پکڑا تو رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔ ان کے بعد 'مسٹر کول' یعنی مہیندر سنگھ دھونی کریز پر آئے اور اپنے انداز میں کھیلنا شروع کیا۔ اب آخری اوور میں کوالیفائی کے لیے 17 رنز درکار تھے۔ انھوں نے پہلی گیند پر 110 میٹر لمبا چھکا لگایا اور یوں سٹیڈیم زندہ ہو گیا۔ لیکن اگلی ہی گیند پر وہ باؤنڈری پر کیچ ہو گئے۔ ان کے بعد آنے والے شاردل ٹھاکر اور دوسرے سرے پر تین چھکے اور تین چوکے لگا کر کھیلنے والے رویندر جڈیجہ کچھ نہ کر سکے۔ یوں آر سی بی میچ 27 رنز سے جیت کر پلے آف میں پہنچنے والی چوتھی ٹیم بن گئی۔ گذشتہ کئی دنوں سے بہت سے سوشل میڈیا صارفین آر سی بی کو پاکستانی ٹیم کی طرح سارے اگر مگر کے ساتھ پلے آف میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ابھیجیت نامی ایک صارف نے تو پاکستان کی سنہ 2022 کی پاکستانی ٹیم اور گذشتہ رات کی آر سی بی کے جشن کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’قدرت کے نظام کی دو بڑی مثال۔‘ یاد رہے کہ پاکستان کے اس وقت کے کوچ ثقلین مشتاق نے پاکستان کی مسلسل شکست اور پھر فتوحات پر ’قدرت کے نظام‘ کی یہ اصطلاح استعمال کی تھی جس پر سوشل میڈیا پر مزاحیہ میمز بنائے گئے تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 نشہ روز نامی ایک صارف نے لکھا: ’میرا یقین کریں کہ یہ میچ پلے آف کے لیے سی ایس کے بمقابلہ آر سی بی نہیں بلکہ انڈیا بمقابلہ پاکستان زیادہ نظر آیا جس میں ماہی (دھونی) اور وراٹ کے لیے جنون اپنے عروج پر تھا۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 انھوں نے اپنے اس ٹویٹ کے ساتھ ایک تصویر اور ایک ویڈیو شیئر کی ہے۔ آیوش نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا: ’آپ جو چاہے کہیں لیکن شاید یہ آپی ایل کی تاریخ کا سب سے بڑا میچ تھا۔ اس میں لوگوں کی امیدیں انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ کی سطح کی تھیں۔ ’آپ آر سی بی کو ٹرافی نہ جیت پانے کے لیے ٹرول کر سکتے ہیں لیکن سڑکوں پر جس طرح اس کا راج ہے کسی اور کا نہیں۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک صارف نے تو یہاں تک لکھا کہ آر سی بی کے ہیڈ کوچ زمبابوے کے اینڈی فلاور ہیں جو کہ پاکستان کے بھی کوچ رہے ہیں۔ یعنی صارفین آر سی بی کی پاکستانی ٹیم سے مماثلت اور مشابہت تلاش کرنے میں کوئی کسر نے چھوڑ رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا: ’یقین کرین آر سی بی کی یہ ٹیم بہت خطرناک ہے، سنہ 1992 کی پاکستانی ٹیم کی طرح۔‘ راشد علی بشیر نامی ایک صارف نے لکھا کہ سارے پاکستانی آر سی بی کو وراٹ کوہلی کی وجہ سے سپورٹ کر رہے ہیں۔ ’کیا پاکستان میں وراٹ کوہلی کے بابر اعظم سے زیادہ فالوورز ہیں؟' راجو رائے نامی ایک صارف نے رواں آئی پی ایل کا ایک چارٹ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’جب بھی میں آئی پی ایل میں آر سی بی کے کھیل کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں ورلڈ کپ میں کھیلنے والی پاکستانی ٹیم سے موازنہ تک ہی پہنچتا ہوں۔ ’آر سی بی کا پرانا فین ہونے کے ناطے مجھے اس بار آر سی بی کے کپ جیتنے کی کافی امیدیں ہیں بشرطیہ کہ فائنل میں کولکتہ سے مقابلہ نہ ہو۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 رینکنگ ٹیبل پر نظر ڈالیں تو بالی وڈ بادشاہ شاہ رخ خان کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائڈرز پہلے نمبر پر ہے اور آر سی بی چوتھے نمبر پر۔ ابھی دوسرے اور تیسرے نمبر کی ٹیم کا فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ راجستھان رائلز اور حیدرآباد میں سے کون دوسرے اور کون تیسرے نمبر پر ہوگی۔ لیکن پلے آف میں پہنچنے والی یہی چار ٹیمیں ہیں۔ ابھی راجستھان اور حیدرآباد کا ایک ایک میچ باقی ہے جو دونوں کی ترتیب کو الٹ سکتی ہے اور دونوں ٹیمیں دوسرے نمبر پر آنے کی کوشش کریں گی اس طرح ان کے پاس فائنل میں پہنچنے کے دو مواقع ہوں گے۔ اگرچہ آر سی بی پلے آف میں پہنچ گئی ہے اور اسے فائنل میں پہنچنے کا ایک موقع مل گیا ہے لیکن اسے فائنل میں پہنچنے کے لیے لگاتار دو میچز جیتنے ہوں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cxe82v50d3no
آئی پی ایل کا فیصلہ کن مرحلہ چھوڑ کر پاکستان کے خلاف سیریز کو ترجیح دینے پر انڈیا میں انگلش کھلاڑیوں پر تنقید
ماضی میں جب بھی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دوران بین الاقوامی کھلاڑی اپنی قومی ڈیوٹی، سکیورٹی، کورونا یا دیگر وجوہات کی بنا پر بیچ ٹورنامنٹ واپس چلے جاتے تھے تو یہ پاکستانی شائقین کے لیے بے انتہا غم و غصے کا باعث ہوتا تھا۔ جیسے سنہ 2020 میں پی ایس ایل کے سیمی فائنل سے قبل لاہور قلندرز کے آل راؤنڈر کرس لِن اور ڈیوڈ ویزے کو کورونا وبا کے باعث ٹیم کو چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔ لیکن اب انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کو بھی ایسی ہی کچھ صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ انگلینڈ کے کھلاڑی پاکستان کے ساتھ ہوم ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے واپس چلے گئے ہیں۔ وہ بھی جب آئی پی ایل 2024 کا سیزن اپنے آخری مراحل میں ہے اور اگلے منگل سے پلے آفس ہیں۔ کولکتہ نائٹ رائڈرز، راجستھان رائلز اور سن رائزرز حیدرآباد پہلے ہی پلے آف کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں جبکہ پلے آف کی آخری ٹیم کا فیصلہ سنیچر کو رائل چیلنجرز بنگلور اور چنائے سپر کنگز کے درمیان میچ میں ہوگا۔ ایسے میں جب تمام ٹیموں کو اپنے بہترین کھلاڑیوں کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، مختلف ٹیموں سے منسلک انگلینڈ کے کھلاڑی آئی پی ایل چھوڑ کر واپس جا رہے ہیں۔ انگلینڈ کے واپس جانے والے کھلاڑیوں میں راجستھان رائلز کے جوز بٹلر، رائل چیلنجرز بنگلور کے وِل جیکس اور ریس ٹوپلی، چنائے سپر کنگز کے معین علی، پنجاب کنگز کے لیام لیونگ سٹون، جونی بیرسٹو اور سیم کرن جبکہ کولکتہ نائٹ رائڈرز کے فِل سالٹ شامل ہیں۔ راجستھان رائلز نے جوز بٹلر کی واپسی کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس پر لکھا ہے کہ ’جوز بھائی، ہم آپ کو بہت یاد کریں گے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے اس فیصلے کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا غیر ملکی کھلاڑی اپنی فرنچائز کو ایسے بیچ ٹورنامنٹ چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔ جہاں اس بات پر انڈین شائقین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے تو وہیں سابق انڈین کرکٹرز بھی انگلش کھلاڑیوں پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سابق انڈین کپتان سنیل گواسکر نے ویب سائٹ مڈ ڈے کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ انڈین بورڈ بی سی سی آئی کو چاہیے کہ انگلش بورڈ ای سی بی اور انگلش کھلاڑیوں کو اس پر سزا دے۔ گواسکر کا کہنا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی جانب سے اپنے ملک کے لیے کھیلنے کو ترجیح دینے کے حق میں ہیں تاہم مختلف فرنچائزز کو پورے سیزن کے لیے دستیابی کی یقین دہانی کروانے کے بعد ٹورنامنٹ کو بیچ میں چھوڑ کر جانا ٹھیک نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فرنچائزز کو نہ صرف ان کھلاڑیوں کی فیس میں کٹوتی کی اجازت دی جانی چاہیے بلکہ انگلش بورڈ کو کھلاڑیوں کی فیس کا 10 فیصد کمیشن بھی نہ دیا جائے۔ دوسری جانب سابق انڈین فاسٹ بالرعرفان پٹھان نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر تبصرہ کیا کہ ’پورے سیزن کے لیے آیا کریں، ورنہ مت آئیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایکس پر راضی نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے کھلاڑیوں کا آئی پی ایل چھوڑ کر جانا سراسر بی سی سی آئی کی نااہلی ہے۔ ’آپ اپنی ٹیم (فرنچائز) کو اہم موڑ پر ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔‘ ایک اور صارف کا اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ای سی بی اپنے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے واپس بلوا کر کرکٹ کا کوئی فائدہ نہیں کر رہا ہے۔ ’کیسا ہو اگر اگلی نیلامی میں انگلش کھلاڑیوں کی قیمت ہی نہ لگے؟‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک اور صارف اجیت شاہ کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ آئی پی ایل کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی گلی محلے کی کرکٹ ہو۔ وہیں بعض شائقین نے انگلش کھلاڑی کی جانب سے قومی ڈیوٹی کو ترجیح دینے کو سراہا ہے۔ جیسے سمیپ راج گرو نامی صارف کا کہنا تھا کہ شاید ای سی بی جانتی ہے کہ کرکٹ ’کلب کے ذریعے نہیں بلکہ قومی ٹیم کے بل پر چلتی ہے۔‘ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ جہاں انڈین کھلاڑی طویل عرصے سے آئی پی ایل میں مصروف ہیں وہیں انگلش کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاری کر رہے ہیں۔ پچھلے ماہ کے آخر میں جب انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اپنے ابتدائی ٹیم کا اعلان کیا تو اس کے بعد ٹیم کے مینیجنگ ڈائریکٹر روب کی نے کھلاڑیوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل کھلاڑیوں کو 22 مئی سے پاکستان کے خلاف شروع ہونے والی سیریز میں حصہ لینے کے لیے واپس آنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کھلاڑیوں کو بغیر کسی وجہ کے واپس نہیں بلا سکتے۔‘ ’مثال کے طور پر ہم فِل سالٹ کو نہیں کہہ سکتے تھے کہ واپس آؤ اور اگلے 15 دن آرام کرو۔ لیکن انگلینڈ کی سیریز سے پہلے کچھ وقت ہے جب ہم کھلاڑیوں کو انگلینڈ کی ڈیوٹی کے لیے واپس لا سکتے ہیں۔‘ روب کی نے انکشاف کیا ہے کہ آئی پی ایل کے اختتام سے قبل کھلاڑیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ خود آئی پی ایل میں شریک انگلش کپتان جوز بٹلر کا تھا۔ ان کے مطابق بٹلر کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف سیریز کے ذریعے ورلڈ کپ کی تیاریاں شروع کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چار میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز 22 مئی سے شروع ہو رہی ہے جبکہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2 جون سے شروع ہوگا۔ انگلینڈ اپنا پہلا میچ سکاٹ لینڈ کے خلاف 4 جون کو کھیلے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51n1k3j91yo
’مارک اڈئیر اپنے بلے بازوں سے ہار گئے‘
انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے یہ کس قدر اچنبھے کی بات ہے کہ اس آئرش بولر نے اپنے چھ سالہ انٹرنیشنل کرئیر میں بگ تھری ٹیموں کے خلاف صرف چھ میچ کھیلے ہیں اور یہاں وہ خود سے رینکنگ میں دس قدم آگے کی ٹیم کے بہترین ٹاپ تھری کو خاموش کروائے کھڑا ہے۔ مارک اڈئیر صائم ایوب، بابر اعظم اور محمد رضوان کے خلاف بولنگ کر رہے تھے، یہ ٹی ٹوئنٹی اننگز کا پاور پلے تھا اور اڈئیر کے اعدادوشمار ٹیسٹ کرکٹ سے تھے، دو اوورز، سات رنز، ایک وکٹ۔ ان کے مکمل کوٹہ کے اعداد یہاں ایک تاریخی آئرش فتح کے مستحق تھے مگر آئرش بیٹنگ اس سے پہلے ہی شاہین آفریدی کی نذر ہو چکی تھی۔ اگرچہ باقی میچ، آئرش بولنگ کے ان دو اوورز سے خاصا مختلف رہا مگر اڈئیر کے اس مختصر سپیل نے یہ واضح کیا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بڑی ٹیموں کو ان ’چھوٹی‘ ٹیموں سے کھیلنا کیوں ضروری ہے اور اگر اس طرح کے مواقع تواتر سے ملتے رہیں تو گلوبل کرکٹ کی مسابقت میں کیسا توازن برپا ہو سکتا ہے۔ بابر اعظم، صائم ایوب اور محمد رضوان وہ بلے باز ہیں جو اڈئیر کے اس سپیل سے پیشتر بے تحاشا مسابقتی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ اس ٹاپ تھری میں دو بلے باز ایسے ہیں جو ابھی سے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے کامیاب ترین بلے بازوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ مقابل یہاں آئرلینڈ کی وہ ٹیم ہے جسے پاکستان جیسے حریف کے خلاف کھیلنا برسوں میں ایک بار نصیب ہوتا ہے، جسے اس طرح کی مسابقتی کرکٹ میں ایسے پختہ بلے بازوں سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں مگر اس ٹیم کا ایک بولر اس پائے کے بلے بازوں کو بولنے نہیں دے رہا۔ مارک اڈئیر کا مقدمہ تو مکمل نہ ہو پایا مگر کچھ اسی طرح کی پرفارمنس جو پہلے ٹی ٹوئنٹی میں آئرش بولنگ نے دکھائی تھی، اس کی بدولت ان کی ٹی ٹوئنٹی تاریخ نے یوں کروٹ لی کہ پاکستان کرکٹ کے روحِ رواں اس وقت آئرلینڈ کے دورے پر ہیں اور آئرش کرکٹ حکام سے مثبت ملاقاتوں کے بعد محسن نقوی آئرلینڈ کے دورۂ پاکستان کی خبر دے چکے ہیں۔ محسن نقوی کے لیے یہ پرواز پکڑنا یوں بھی ضروری تھا کہ جو انٹرنیشنل سیریز یکسر عدم توجہی کا شکار تھی، وہ پہلے ہی میچ سے ایسی شہ سرخیوں میں ابھری کہ کرکٹرز کی کاکول ٹریننگ پر رچتی چہ میگوئیاں باقاعدہ شور کا روپ دھارنے لگیں۔ لیکن مثبت یہ پہلو رہا کہ سیریز بالآخر پاکستان کے نام ہوئی اور اسی دوران بابر اعظم کو اپنی حتمی الیون طے کرنے کے کچھ مزید مواقع میسر آ گئے۔ تجربات کے یہ مواقع اب اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہو رہے ہیں جہاں آئندہ ہفتے یہ ٹیم انگلینڈ کے خلاف نبرد آزما ہو گی۔ محمد رضوان نے حالیہ کارکردگی سے اس حتمی الیون میں اپنی حیثیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندہ ہو گی۔ مگر آئرش بولنگ کی اچھی کوالٹی کے باوجود، یہ رنز فیصلہ سازی میں وہ حیثیت نہیں لے پائیں گے جو ایک تگڑی انگلش بولنگ کے خلاف رنز کی ہو گی۔ حتمی الیون طے کرنے میں، پاکستان کو ایک دقت یہ بھی آڑے آ رہی ہے کہ ورلڈ کپ کی پچز ان کنڈیشنز سے خاصی مختلف ہوں گی جن میں یہ سیریز کھیلی گئی۔ اور یہ فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہے کہ امریکہ کی ڈراپ ان پچز پر چار پیسرز ضروری ہوں گے یا سپن زیادہ موثر رہے گی۔ مگر انگلینڈ کے خلاف سیریز وہ اختتامی مرحلہ ہے جہاں بالآخر پاکستان اپنے بیٹنگ یونٹ کو حتمی شکل دینا چاہے گا۔ پاکستان کے لیے تو یہ سیریز اپنی جیت کے باوجود یادگار نہیں رہے گی مگر آئرش کرکٹ کے لیے یہ بہت خوب رہی کہ اپنے اولین انتخاب کے کئی کھلاڑیوں کے بغیر ہی آئرش ٹیم نے وہ پرفارمنس دی کہ اپنے شائقین کے دلوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دورے کا موقع بھی جیت لیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgyyvl5792o
سابق کرکٹر کا ’چیلنج‘ اور بابر اعظم کے ایک اوور میں چار چھکے
پاکستان نے آئر لینڈ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی میچ چھ وکٹوں سے جیت کر سیریز دو ایک سے اپنے نام کر لی ہے۔ پاکستانی کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر آئر لینڈ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ آئرش بلے بازوں نے 20 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 178 رنز بنائے۔ فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے اپنے چار اوورز کے سپیل میں محض 14 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں پاکستانی بلے بازوں نے چار وکٹوں کے نقصان پر 17 اوورز میں یہ ہدف حاصل کر لیا۔ کپتان بابر اعظم نے 42 گیندوں پر 75 رنز کی نمایاں باری کھیلی جبکہ اوپنر محمد رضوان نے بھی نصف سنچری سکور کر کے ہدف کے تعاقب میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپنی عمدہ بولنگ پر شاہین شاہ آفریدی کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ میچ کے بعد گفتگو میں بابر اعظم نے تسلیم کیا کہ میچ کے آغاز میں آئرش بلے بازوں نے جارحانہ انداز میں کھیلا اور پاکستان پر خوب دباؤ ڈالا مگر بعد میں ان کے بولرز وکٹیں حاصل کر کے رنز روکنے میں کامیاب رہے۔ بابر نے کہا کہ وہ اور رضوان اپنی نیچرل گیم کھیلتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے بڑے شاٹ لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیم نے پہلے میچ میں شکست سے سیکھا اور سیریز جیتنے کے لیے اپنے پلان پر عمل کیا۔ آئر لینڈ کے دورے کے بعد پاکستانی ٹیم چار میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے انگلینڈ کا رُخ کرے گی۔ پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ 22 مئی کو ہوگا۔ اس کے بعد 2 جون سے امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 شروع ہوگا۔ آئر لینڈ کے خلاف اس ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بابر اعظم اور محمد رضوان دونوں ہی ٹاپ سکورر رہے۔ سیریز سے قبل دونوں پاکستانی بلے باز اپنے سٹرائیک ریٹ کی وجہ سے سابق کرکٹرز اور ناقدین کے لیے زیرِ بحث تھے۔ سیریز میں بابر اور رضوان نے دو، دو نصف سنچریاں بنائیں اور ماضی کے مقابلے قدرے تیز کھیلتے نظر آئے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایکس پر صحافی فیضان لکھانی لکھتے ہیں کہ بابر اور رضوان نے ایک ساتھ بلے بازی کرتے ہوئے تین ہزار رنز بنائے ہیں اور آج ان کی 10ویں سنچری پارٹنرشپ تھی۔ ’بابر ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں 17ویں سنچری پارٹنرشپ کا حصہ ہیں۔ رضوان اپنی 13ویں سنچری پارٹنرشپ میں شریک ہوئے۔‘ دوسرے میچ میں صفر پر آؤٹ ہونے والے بابر اعظم نے اس میچ میں چار چوکے اور پانچ چھکے لگائے۔ آئرش بولر بین وائٹ کے 14ویں اوور میں بابر اعظم نے چار چھکے لگائے۔ انھوں نے اوور کی پہلی تین گیندوں کو لگاتار باؤنڈری پار کیا۔ ان میں دو سیدھے اور ایک لیگ سائیڈ کا چھکا تھا۔ چوتھی ڈاٹ گیند کے بعد پانچویں گیند پر پھر بابر نے لیگ سائیڈ کا چھکا لگایا۔ کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد کے مطابق بابر پاکستان کے محض تیسری بلے باز ہیں جنھوں نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اوور میں چار چھکے لگائے ہیں۔ ان کے علاوہ یہ اعزاز آصف علی اور خوشدل شاہ کو حاصل ہے۔ فرید خان طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ایسا تو ورات کوہلی، روہت شرما اور سوریہ کمار بھی کبھی نہیں کر سکے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ادھر ایکس پر ارفا فیروز زکی نے لکھا کہ ’بابر اعظم نے آج کئی سابق پاکستانی کرکٹرز کے یوٹیوب چینل بند کر دیے۔‘ تاہم ایک صارف نے کہا کہ بابر اعظم نے ایک اوور میں چار چھکے ڈبلن میں اور وہ بھی آئر لینڈ کے خلاف لگائے ہیں۔ ’کنگ کو پتا ہے کہ کب چلنا ہے۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق پاکستانی کرکٹر باسط علی نے اپنے یوٹیوب چینل پر بابر اعظم کو چیلنج کیا تھا کہ وہ کسی اچھی ٹیم کے خلاف ایک اوور میں تین چھکے لگائیں۔ رواں ماہ اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں باسط علی نے کہا تھا کہ ’اگر ٹاپ ٹیموں کے خلاف، امریکہ یا آئر لینڈ نہیں، ٹاپ ٹیموں کے سامنے تین سیدھے چھکے مار دے تو میں ٹی وی (پر آنآ) اور اپنا یوٹیوب چینل بند کر دوں گا۔ اتنی بڑی بات کہہ رہا ہوں۔‘ ’ہاں، اگر وہ یہ چیلنج لیتا ہے تو بولے میں نے یہ چیلنج لیا۔ اور اگر وہ ورلڈ کپ میں نہ مار سکے تو اسے اوپنگ نہیں کرنی چاہیے۔ یہ میں آج چیلنج کر رہا ہوں۔‘ انھوں نے بعد کی ایک ویڈیو میں اس کی وضاحت کی تھی کہ ’بابر کیا، دنیا کے جتنے بھی ٹاپ آرڈر بلے باز ہیں وہ بھی اگر تین گیندوں پر تین سیدھے چھکے مار دیں تو میں یوٹیوب چینل بند کر دوں گا۔‘ ’صرف کرس گیل ایسا کر سکتے ہیں جن کے پاس بہت پاور ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ دراصل انھوں نے اپنی ویڈیو میں بابر کی تکنیک میں بہتری کی تجویز کی تھی۔ ’جو حل میں نے دیا، اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا۔‘ باسط علی نے 1993 سے 1996 تک 19 ٹیسٹ اور 50 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ دریں اثنا جب شاہین کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز دیا گیا تو انھوں نے ایک موقع پر کہا کہ بابر اور رضوان دونوں ’ورلڈ کلاس کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے ہمیں کئی میچز جتوائے ہیں۔‘ علی اسد نامی ایک صارف کہتے ہیں کہ جب بھی شاہین اچھا کھیلتے ہیں تو ٹیم جیت جاتی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyerz24pxr8o
’ہیوم نے تاریخ کو خالی لوٹا دیا‘
گراہم ہیوم کے لیے یہ عجیب سا دن تھا۔ اول تو انھیں یہ میچ کھیلنا ہی نہ تھا کہ اگر عین لمحے بیری میکارتھی انجرڈ نہ ہوتے تو ہیوم بینچ پر ہی رہتے۔ جانے فطرت کی کوئی سازش تھی کہ وہ انجری ہونا ہی تھی اور ہیوم کو دنیائے کرکٹ کی ایک بڑی وکٹ حاصل کرنا تھی۔ آئرش بیٹنگ جس کاٹ سے پاکستانی بولنگ پر حملہ آور ہوئی وہ یہ واضح کرنے کو کافی تھی کہ تاریخ رقم کرنے کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے گا۔ بیلبرنی اور سٹرلنگ جیسے دونوں آزمودہ کار بلے باز شروع میں ہی کھو بیٹھنے کے باوجود آئرش اننگز لورکن ٹکر کی سرکردگی میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ چھوٹی باؤنڈریز کے دفاع میں جو حال پاکستانی پیسرز کا ہوا، اس نے ایک بار پھر بابر اعظم کے اعصاب دھندلا دیے اور وہ اس پچ پر موثر رہنے والے سپنرز کے مکمل استعمال میں ناکام رہے۔ پہلے میچ میں جو کچھ شاداب خان کے ساتھ ہوا، یہاں وہی محمد عامر، نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کا مقدر رہا۔ کنڈیشنز سے نامانوس پاکستانی پیسرز کا آدھا میچ تو صحیح لینتھ کھوجنے میں ہی گزر گیا۔ اس یلغار کے بعد جو ہدف پاکستانی بیٹنگ کو درپیش تھا، وہ ناممکن نہ سہی، پریشان کُن ضرور تھا کہ یہاں غلطی کی گنجائش صرف ندامت میں تھی۔ اور دوسری جانب پُرجوش آئرش بولنگ تاریخ رقم کرنے کا سوچ رہی تھی۔ اور پھر وہ گیند آئی جسے پھینکنے کے لیے ہی شاید ہیوم کا یہ میچ کھیلنا ضروری تھا۔ دنیائے کرکٹ کے بہترین بلے بازوں وراٹ کوہلی، جو روٹ، سٹیو سمتھ اور کین ولیمسن کو جو خاصیت اُن کے دیگر ساتھی بلے بازوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ بولرز کی اضافی محنت ہے جو انھیں آؤٹ کرنے میں پڑتی ہے کہ انھیں خطا پر اُکسانے کو کچھ معمول سے ہٹ کر، کرنا پڑتا ہے۔ ہیوم کی وہ گیند بھی معمول سے کچھ ہٹ کر تھی۔ وہ آف سٹمپ سے باہر کو بھٹکتی ہوئی گیند تھی جو کھنچی ہوئی لینتھ سے اٹھی اور بابر اعظم اسے کھیلنے کو عین صحیح پوزیشن میں بھی آ گئے مگر تب اچانک کچھ لیٹ موومنٹ ہوئی اور بابر اعظم کے اندازے چُوک گئے۔ ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں، پہلے ہی اوور میں صائم ایوب جیسا اوپنر کھونے کے بعد دوسرے ہی اوور میں پاکستان اپنے سٹار بلے باز سے بھی محروم ہو گیا۔ ہیوم کی اس گیند کے بعد، تاریخ شاید واقعی آئرش کرکٹ کی سمت چل پڑی تھی کہ پاکستان اس لمحے واقعی پچھلے قدموں پر آ چکا تھا۔ مگر ہیوم کے لیے دن ابھی ختم نہ ہوا تھا۔ اس وکٹ کے بعد گیند گویا ہیوم کا پیچھا کرنے لگی۔ ابتدائی جھٹکے کے بعد محمد رضوان اور فخر زمان پاکستانی اننگز کو سنبھالنے کی تگ و دو کر ہی رہے تھے کہ اچانک گیند کی پیس محمد رضوان کو چکمہ دے گئی اور تاریخ ہیوم کے سر پر منڈلائی۔ مگر ہیوم کے اوسان خطا ہو گئے اور محمد رضوان کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ ایک ہی اوور بعد فخر زمان کا بلا بھی دھوکہ کھا گیا اور ایک آسان سا کیچ ایک بار پھر ہیوم کی سمت لہرایا اور اس بار وہ پہلے سے بہتر پوزیشن میں بھی آ گئے مگر گیند ان کی انگلیوں سے پھسلتے پھسلتے زمیں بوس ہو گئی۔ اگر ہیوم یہ دونوں کیچز پکڑ پاتے تو میچ شاید آئرلینڈ کے نام ہوتا اور پاکستان کے خلاف آئرش کرکٹ تاریخ کی پہلی سیریز فتح کے ہیرو بن کر، وہ بھی کیون او برائن کی طرح آئرش کرکٹ کی لوک داستان بن جاتے۔ مگر ہیوم نے تاریخ کو خالی لوٹا دیا۔ محمد رضوان اور فخر زمان کی پارٹنرشپ نے پاکستان کو اس ہزیمت سے بچا لیا جو شروع میں ہی اوپر تلے دو وکٹیں گرنے کے بعد اس اننگز پر منڈلا رہی تھی۔ اس ساجھے داری نے نہ صرف اپنی ٹیم کو بحران سے بچایا بلکہ دونوں بلے بازوں نے ٹیم میں اپنی جگہ پہ اٹھتے سوالوں کا بھی جواب دینے کی کوشش کی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n13g4kd2wo
اذلان شاہ کپ فائنل میں پاکستان کو پینلٹی شوٹ آؤٹ میں جاپان سے شکست: ’یہ ہاکی کی بحالی کی طرف پہلا قدم ہے‘
آخر کے دو منٹ تھے اور میچ دو، دو گول سے برابر تھا۔ مگر پاکستانی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کی انرجی بے مثال تھی۔ وہ کسی طریقے سے جاپان کا مضبوط دفاع توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب قریب ایک منٹ رہ گیا تو پاکستان کو پینلٹی کارنر ملا مگر یہ موقع بھی ضائع گیا۔ اس مقابلے میں آخری سیکنڈ تک پاکستان اور جاپان برابر رہے۔ بات پینلٹی شوٹ آؤٹ تک جا پہنچی۔ دونوں ٹیموں میں اس قدر کڑا مقابلہ رہا کہ پاکستان کے پاس گیند (پوزیشن) 54 فیصد جبکہ جاپان کی 46 فیصد رہی۔ جاپانی گول کیپر کیتاگوا تاکومی کئی بار پاکستانی کھلاڑیوں کی بہترین شاٹس روکتے رہے۔ یہی صورتحال پینلٹی شوٹ آؤٹ میں بھی نظر آئی۔ جاپانی گول کیپر کیتاگوا تاکومی کی مہارت کے آگے پاکستان ابتدائی طور پر تینوں پینلٹیاں سکور کرنے میں ناکام رہا۔ جبکہ جاپان نے ایک کے مقابلے چار پینلٹیاں سکور کیں اور اذلان شاہ کپ اپنے نام کر لیا۔ میچ کے بعد پاکستانی کپتان عماد بٹ نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے سیکھنے کا موقع تھا۔ ہمیں شوٹ آؤٹ پر مزید محنت کرنی ہو گی۔ ہم نے کوچ کی طرف سے مقرر کردہ اہداف حاصل کیے۔ ہم نے کارکردگی میں بہتری دکھائی ہے اور اس سے نیشنز کپ کے لیے ہماری تیاری کو فائدہ پہنچے گا۔‘ نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے کوچ روئیلنٹ اولٹمنز نے کہا کہ ’ہمیں یہ میچ جیتنا چاہیے تھا۔ یہ شوٹ آؤٹ بہت سے کھلاڑیوں، جیسے ہمارے گول کیپر، کے لیے پہلا تجربہ تھا۔‘ پہلے کوارٹر میں 12ویں منٹ پر جاپان کے سیرین تناکا نے گول کیا جس کے بعد جاپان کو ایک گول کی برتری حاصل رہی۔ مگر پھر تیسرے کوارٹر میں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں نے جارحانہ کھیل پیش کر کے ایک اچھا کم بیک کیا۔ 34ویں منٹ پر احمد اعجاز نے گول کیا اور مقابلہ ایک، ایک سے برابر کر دیا۔ 37ویں منٹ پر عبدالرحمان نے گول کیا اور پاکستان کو دو، ایک سے برتری حاصل ہو گئی۔ چوتھے کوارٹر کے دوران 47ویں منٹ پر جاپان کے متسوموتو کازوماسا نے جاپان کی طرف سے دوسرا گول کر کے مقابلہ کو پھر برابر کر دیا۔ پاکستان نے آخری بار اذلان شاہ کپ 2003 میں جیتا تھا جب اس نے فائنل میں جرمنی کو شکست دی تھی۔ پاکستان کو 2011 کے اذلان شاہ کپ فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف تین، دو سے شکست ہوئی تھی۔ 2022 میں پاکستان نے اذلان شاہ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان میں قومی کھیل ہاکی سے زیادہ کرکٹ کو فالو کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اذلان شاہ کپ کا فائنل پاکستان میں بڑے شوق سے دیکھا گیا۔ اسامہ ظفر نے اسی لیے پاکستانی ہاکی ٹیم کی شکست پر بھی انھیں مبارکباد پیش کی اور طنزیہ کہا کہ ’آپ کا قصور نہیں۔ یہ بدقسمت لوگ آج ہاکی دیکھ رہے ہیں۔‘ سویرا پاشا کے مطابق پاکستانی ہاکی ٹیم کو اپنی کارکردگی پر فخر کرنا چاہیے۔ ادھر وحید خان کہتے ہیں کہ تیسرے کوارٹر سے پاکستانی ٹیم کی انرجی اور صلاحیت نے انھیں حیران کیا۔ ’تصور کریں اگر اس ٹیم کے پاس بہتر عملہ، ٹریننگ کی سہولت اور مالی مدد ہو۔‘ شاہد ہاشمی نے اس شکست کو مثبت انداز میں دیکھا ہے: ’اذلان شاہ کپ میں سِلور میڈل پاکستان میں ہاکی کی بحالی کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔‘ ساتھ میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس ٹورنامنٹ میں دنیائے ہاکی کی نو بہترین ٹیمیں حصہ نہیں لے رہی تھیں۔ قادر خواجہ نے ایکس پر لکھا کہ ’جن کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ میں جانے سے پہلے یہ نہ پتا ہو کہ انھوں نے کس فیڈریشن عہدیدار کی ماننی ہے؟ جن کھلاڑیوں کو تنخواہ اور مراعات ٹھیک طریقے سے نہ ملے؟ جو کھلاڑی رکشہ پر واپس گھر جائیں۔۔۔ ’اور پھر بھی ایسی محنت اور لگن اور صرف پاکستان کا نام بڑھائیں تو ان کے لیے داد بنتی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام 30ویں اذلان شاہ کپ میں پاکستان کی ہاکی ٹیم پانچ میچوں تک ناقابل شکست رہی۔ 18 رکنی سواڈ کے کپتان عماد شکیل اور نائب کپتان ابو بکر ہیں۔ جمعے کو نیوزی لینڈ کے خلاف میچ ایک، ایک گول سے ڈرا ہوا۔ اس سے قبل پاکستان نے کینیڈا، جنوبی کوریا اور ملائیشیا کے خلاف اپنے میچ جیتے جبکہ نیوزی لینڈ اور جاپان کے خلاف میچز ڈرا ہوئے۔ اس میچ میں ہاف ٹائم تک دونوں ٹیموں کی جانب سے گول سکور نہ ہو سکا تاہم نیوزی لینڈ ٹیم پاکستان کے خلاف کھیل کے 35 ویں منٹ میں فیلڈ گول سکور کرنے میں کامیاب رہی جو کہ پاکستان نے کھلاڑی ابوبکر کے ذریعہ پینلٹی کارنر پر کھیل کے 43 ویں منٹ میں گول سکور کرکے میچ 1-1 گول سے ڈرا کیا۔ ایونٹ میں چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جن میں میزبان ٹیم ملائیشیا کے علاوہ پاکستان، کوریا، جاپان، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی ٹیمیں شامل ہیں۔ فائنل سے قبل پوائنٹس ٹیبل پر جاپان 13 پوائنٹس کے ساتھ سرِفہرست تھی جبکہ پاکستان کے پوائنٹس 11 تھے۔ پاکستان نے آخری بار جاپان کو 2022 کے اذلان شاہ کپ میں پانچ، تین سے شکست دی تھی۔ گذشتہ پانچ مقابلوں میں جاپان نے دو میچز جیتے، دو ڈرا ہوئے جبکہ پاکستان ایک مقابلہ جیتا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmldggnykdmo
’آئرش کرکٹ کی خوش نصیبیاں اور ہم‘
دنیائے کرکٹ پر پاکستان کے ’احسانات‘ اگرچہ پہلے بھی کم نہ تھے مگر ڈبلن میں پاکستان نے آئرلینڈ سے شکست کھا کر آئرش کرکٹ کی خوش نصیبیوں میں اضافے کا جو سامان کیا ہے، وہ آئی پی ایل کی دھول میں گم شائقین کے لیے ایک خوشگوار جھونکے کی مانند ہے۔ جب کرٹس کیمفر اور گیرتھ ڈیلانی آئرش کرکٹ تاریخ کا ایک اور زریں ورق پلٹاتے ہوئے جشن منا رہے تھے تو وہیں سے، سر نیہوڑائے پویلین لوٹتے پاکستانی کرکٹرز ہی کی طرح ان کے کروڑوں شائقین بھی اپنی آنکھوں پہ یقین کرنے سے قاصر دکھائی دیے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ کیویز کے خلاف حالیہ سیریز میں پاکستان کی کارکردگی اگرچہ تجربات کی توجیہہ میں لپیٹی جا سکتی ہے مگر ڈبلن میں کھیلنے والی یہ پاکستانی الیون اس الیون کے بہت قریب ہے جو ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندہ ہو گی۔ ایسی بھرپور قوت کے ساتھ اتر کر بھی اس آئرش ٹیم کے ہاتھوں شکست کھا جانا خاصا پریشان کن ہے کہ جسے ابھی آئی پی ایل کی بدولت اپنے سٹار بولر کی خدمات میسر نہیں ہیں۔ اور پھر ورلڈ کپ کی تیاری میں بِتائے گذشتہ میچز کی طرح یہ میچ بھی تو ان سوالوں کے جواب نہیں دے پایا جو گذشتہ دو سال سے پاکستان کی ٹی ٹونٹی کرکٹ کو دامن گیر ہیں۔ صائم ایوب نے جو فوقیت آئرش پیسرز پہ حاصل کی، وہ بابر اعظم کی ابتدائی دشواریوں کی نذر ہو گئی۔ پاور پلے میں پاکستان کا مجموعہ جہاں آئرش بولرز کی لیاقت کی دلیل تھا، وہیں پاکستان کی بیٹنگ اپروچ میں فرسودگی کا بھی نمایاں اظہار تھا۔ بابر اعظم کی اننگز جب تمام ہوئی، تب بھی اس سکور بورڈ کو کسی افتخار احمد کا ہی سہارا درکار تھا۔ مگر یہ تو افتخار احمد بھی نہ جانتے تھے کہ پاکستانی بولنگ اس قدر ارزاں ہو جائے گی کہ ان کی یہ کاوش بھی ماند پڑ جائے گی۔ اگرچہ افتخار احمد کی اننگز یہاں پاکستان کو میچ میں واپس تو لے آئی مگر اسے وہاں رکھ نہ پائی۔ کیونکہ پاکستانی بولنگ، اپنی تمام تر تجربہ کاری کے باوجود، حالات سے موافقت پانے میں ناکام رہی۔ پاکستانی بولرز کی لینتھ اور لائن بھی اتنی ہی متاثر کن تھی جتنی اس میچ کی براڈکاسٹ کوالٹی۔ اینڈی بیلبرنی نے اپنے کرئیر کی یادگار ترین اننگز کھیل ڈالی۔ ان کی تجربہ کاری کا حاصل یہ رہا کہ مڈل اوورز میں وکٹیں گرنے کے باوجود آئرش بیٹنگ دباؤ میں نہیں آئی اور ان کے اردگرد باقی بلے باز اپنا اپنا کام دکھاتے گئے۔ اور پھر بابر اعظم بھی اپنی جمع تفریق میں اتنے بے لچک رہے کہ جہاں انھیں سپن میں صائم ایوب اور افتخار احمد جیسے وسائل دستیاب تھے جو پارٹنرشپ توڑنے میں موثر رہتے ہیں، وہاں صرف پانچ ہی بولرز خرچ کرنے پہ اکتفا کیا اور آئرش بیٹنگ کو کسی بھی سرپرائز سے محروم رکھا۔ گو کہنے کو اسے ٹی ٹونٹی کرکٹ کے مسابقتی معیار میں اضافے سے منسوب کیا جا سکتا ہے کہ فارمیٹ میں اب کوئی بھی ٹیم چھوٹی ٹیم نہیں ہوتی مگر اس طرح کی ٹیم سے ایسی ٹیم کا ہار جانا جو ورلڈ کپ میں پاکستان کی تقریباً حتمی الیون ہو گی، یہ بہت پریشان کن ہے۔ امید تو بھلے کی ہی رکھنا چاہیے مگر جس طرح کے تغیر و تبدل سے یہ ٹیم پچھلے دو ماہ میں گزری ہے، اس کے بعد ایسی ہار کو سرگوشیوں کا بازار بنتے دیر نہیں لگتی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1631pzgl60o
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے پاکستانی بلے بازوں کا آئرش امتحان
گو پاکستانی کرکٹ میں ورلڈ کپ کی تیاری کبھی بھی ہنگاموں سے خالی نہیں رہتی مگر رواں مہم جوئی اپنی شوخی میں ماضی کی کئی نظیروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ ایک ورلڈ کپ کی ناکام مہم کے بعد ایک کپتان کو زبردستی مستعفی کروایا جاتا ہے اور اگلے ورلڈ کپ کے اہداف کے مدِ نظر ایک اور کپتان مقرر کیا جاتا ہے۔ وہ کپتان ابھی ایک ہی سیریز کھیل پاتا ہے کہ اسے بلاتکلف برطرف کر کے اسی پرانے کپتان کو بحال کر دیا جاتا ہے جو گذشتہ ورلڈ کپ کی ناکام مہم جوئی کا مدارالمہام تھا۔ پی سی بی کی نئی انتظامیہ نے کوچنگ سیٹ اپ میں بھی پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ اور مختصر فارمیٹ کے لیے الگ الگ کوچ مقرر کیے ہیں مگر یہ عقدہ سلجھانا ابھی دشوار ہے کہ سال بھر میں تین چار ٹیسٹ میچز کھیلنے والی ٹیم کو اس انگلش کرکٹ کا کوچنگ ماڈل اپنانا کیونکر ضروری ہے جو سال بھر میں ڈیڑھ درجن ٹیسٹ میچز کھیل جاتی ہے۔ یہ انتظامی تبدیلیاں پاکستان پر کیا تاثیر چھوڑیں گی، یہ تو وقت کے ساتھ ہی معلوم پڑے گا مگر فی الوقت پاکستان کی ورلڈ کپ تیاری حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور اس آخری مرحلے کے لیے پاکستانی سکواڈ آئرش ساحلوں پر لنگر انداز ہو چکا ہے۔ آئرلینڈ سے ویسے تو کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے ہوئے پاکستان کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہو چکا مگر پاکستانی شائقین کے لیے، آئرش کرکٹ کبھی بھی نامانوس نہیں رہی اور نہ ہی آئرش کھلاڑی کبھی پاکستان کے لیے آسان ہدف رہے ہیں۔ کیویز کے خلاف حالیہ ہوم سیریز میں یہ تو واضح ہو گیا کہ نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم کے خلاف بھی پاکستان کی مشکلات نمایاں رہیں۔ بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ، تینوں شعبوں میں کیویز نے اس قدر سخت مقابلہ کیا کہ بالآخر سیریز ڈرا ہو جانا بھی پاکستان کے لیے سکھ کا سانس تھا۔ گو مبصرین اور ماہرین شماریات بہت عرصے سے پاکستان کی تزویراتی خامیوں کی نشان دہی کرتے آئے ہیں مگر کپتان بابر اعظم نے کبھی انھیں زیادہ اہمیت دینا گوارا نہیں کی۔ لیکن اب ورلڈ کپ سر پر ہے اور اپنی کوتاہیوں سے چشم پوشی خاصی گراں ثابت ہو سکتی ہے۔ پاور پلے میں پاکستان کی کم مائیگی کوئی نئی بات نہیں۔ گو پچھلے برسوں میں پاکستان کے دو بہترین ٹی ٹوئنٹی بلے باز بابر اعظم اور محمد رضوان پاور پلے کی ذمہ داری اٹھاتے رہے ہیں مگر سٹرائیک ریٹ تب بھی ہمیشہ موضوعِ بحث رہتے۔ اب جبکہ پاکستانی تھنک ٹینک نے ڈیٹا کے ڈھنڈورے سے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کر لی ہے اور صائم ایوب بابر کے ہمراہ اوپننگ کر رہے ہیں تو بھی مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پہلے محمد رضوان اور بابر اعظم کی اوپننگ ساجھے داری اگرچہ پاور پلے میں پاکستان کو کچھ محدود رکھا کرتی، مگر مڈل اوورز میں پاکستان ان دونوں کے مستحکم آغاز کا فائدہ اٹھا کر مومینٹم حاصل کیا کرتا تھا۔ لیکن اس نئی پارٹنرشپ میں پاور پلے میں ہی وکٹیں گر جاتی ہیں اور مڈل اوورز میں رن ریٹ کی تشنگی بڑھتی جاتی ہے۔ پاکستان کو اب نہ صرف اپنا ٹاپ تھری طے کرنا ہو گا بلکہ مڈل اوورز کی سست روی کا بھی کوئی موثر حل کھوجنا ہو گا۔ ہر عہد میں پاکستانی کرکٹ کی عمومی دشواریاں بیٹنگ سے متعلق رہی ہیں۔ یہاں ایک بار پھر وہی منظرنامہ درپیش ہے کہ بولنگ میں پاکستان کے وسائل موثر ہیں مگر بیٹنگ باصلاحیت ناموں سے لیس ہونے کے باوجود خود اپنا بوجھ نہیں اٹھا پا رہی۔ آئرلینڈ کے خلاف یہ سیریز اگرچہ اپنی غیر مقبولیت کے سبب غیر اہم دکھائی دے رہی ہے مگر جہاں آئرش شائقین ایک مہینہ پہلے ہی تمام ٹکٹیں خرید چکے ہیں، وہاں پرجوش آئرش کھلاڑی بھی ہوم کراؤڈ کے سامنے اپنی بہترین کارکردگی سے پاکستان کو تگڑا چیلنج دینے کی کوشش کریں گے۔ ایسے میں یہ پاکستان کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ میگا ایونٹ سے پہلے اپنے ان تزویراتی خلاؤں کو پُر کر لے جو بڑے میچز میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv297k74kgko
فٹبال کے 9 کھلاڑیوں پر گینگ ریپ کا الزام: ’نہ صرف میری ویڈیو بنائی بلکہ ویڈیو کال کر کے دوستوں کو بھی دکھایا‘
وہ پارٹی چھٹیوں کے دوران ہونے والی کسی بھی معمول کی پارٹی کی طرح ہوئی تھی مگر اس کا اختتام اجتماعی ریپ اور فٹ بال کے نو کھلاڑیوں کی حراست کے ساتھ ہوا۔ یہ تمام فٹبالر چلی کے کلب کوبریلوا کی یوتھ ٹیم کا حصہ تھے اور اب اگر اُن پر ریپ کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو ان سب کو 15 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سنہ 2021 میں پہلی مرتبہ یہ معاملہ منظر عام پر آیا اور اس پر شکایت کا اندراج ہوا مگر اس پر کارروائی میں تین سال کا عرصہ لگ گیا۔ ’انتباہ: اس کہانی میں شامل بعض باتیں قارعین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے‘ شکایت کنندہ کی کہانی سے پتا چلتا ہے کہ اُن پر یہ حملہ چلی میں قومی تعطیلات سے ایک دن قبل 16 ستمبر 2021 کی رات کو ہوا۔ اس حملے کے بعد 18 سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ کوبریلوا کان سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کھلاڑیوں میں سے ایک کو جانتی تھیں اور اس نے انھیں ایک پارٹی میں مدعو کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ شرکت کی۔ خاتون نے اس واقعے کے بارے میں ٹی وی 13 کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں ان میں سے ایک کے ساتھ باتھ روم میں گئی اور جب میں وہاں پہنچی تو وہاں ہم سے پہلے ہی دو لوگ موجود تھے۔ میں نے باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی مگر انھوں نے مُجھے میرے بازوؤں سے پکڑ لیا اور ایک کمرے میں لے گئے۔ جب اُس کمرے میں پہنچی تو وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ میں نے ان سب سے جان بچانے اور بھاگنے کی بہت کوشش کی مگر میں ناکام رہی اور ان سب نے مُجھے گھیر لیا اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ سب مُجھ سے زیادہ طاقتور تھے۔‘ خاتون نے چلی کے خبر رساں ادارے سی ایچ وی نوٹیسیاس کو ایک بیان میں کہا کہ ’میں نہ تو اس سب کے لیے وہاں گئی تھی اور نہ ہی میں نے کسی کو بھی اس بات کی اجازت دی تھی کہ میں یہ سب کرنا چاہتی ہوں، میں یہ سب نہیں چاہتی تھی مگر اُنھوں نے مجھے ایک کمرے میں جانے پر مجبور کیا، جہاں آٹھ یا 10 مزید لوگ داخل ہوئے اور سب نے میرا ریپ کیا۔‘ اس واقعے کے اگلے ہی دن پولیس میں شکایت کے دوران خاتون نے بتایا کہ اس سب کے دوران انھیں خاموش رکھنے کے لیے حملہ آوروں نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور اس سب کے لیے انھوں نے مختلف حربوں کا استعمال کیا۔ لا ٹیرسیرا نامی چلی کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے خاتون کے انٹرویو میں بتایا گیا کہ ’(انھوں نے) مجھے زبردستی بازوؤں، گردن اور کمر سے پکڑ لیا، انھوں نے میرے چہرے پر تھپڑ مارے، انھوں نے اپنی بیلٹ سے مجھے مارا، انھوں نے بیلٹ میری گردن کے گرد باندھ کر مُجھ پر ظلم کیا، میں نے اپنے چاروں اطراف میں کنڈوم دیکھے، جن میں سے کُچھ کمرے کے فرش پر گرے ہوئے تھے۔ انھوں نے نہ صرف میری ویڈیو بنائی بلکہ ویڈیو کال کر کے دوسرے دوستوں کو بھی دکھایا کہ انھوں نے کیا کیا۔‘ اگلے روز جب وہ ہوش میں آئیں تو انھوں نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کے دوست نے انھیں چند ضروری ٹیسٹ اور طبی معاینے کے لیے ہسپتال پہنچنے میں اُن کی مدد کی۔ بعد ازاں، متاثرہ خاتون شکایت درج کروانے کے لیے پولیس کے پاس گئیں۔ فرانزک رپورٹ میں ’ان کے ریپ اور تشدد‘ کی تصدیق ہوئی تاہم اس کے باوجود، خاتون کا کہنا ہے کہ جن تفتیشی افسران نے ان کی درخواست موصول کی تھی، انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ یہ شکایت واپس لے لیں بلکہ یہ بیان بھی دیں کہ جو بھی ہوا، وہ باہمی رضا مندی سے ہوا تھا۔ ’انھوں (پولیس والوں) نے مجھ سے کہا کہ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک سپورٹس کلب ہے اور ان کے پاس اچھے وکیل ہیں۔ آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ وکلا کی فیس کیسے ادا کریں گی؟ آپ اس سب کے بیچ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ اتنا برا تو نہیں ہوا جتنا دوسروں کے ساتھ ہو چُکا۔‘ ٹی وی 13 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس مقدمے میں مزید پیشرفت نہیں ہو سکی کیونکہ متاثرہ خاتون نے ریپ کے الزامات واپس لے لیے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کیے تھے اور وہ شکایت کی مزید پیروی کرنا ہی نہیں چاہتیں۔‘ بالآخر 9 مئی 2023 کو مقدمے کو خارج کرتے ہوئے اسے بند کر دیا گیا لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ پارٹی میں موجود فٹبال کھلاڑیوں میں سے ایک کی والدہ ماریا ایلینا ساویدرا، اگرچہ مبینہ واقعات میں ملوث نہیں تھیں، 2023 میں عوامی سطح پر کُچھ شکایات کے ساتھ سامنے آئیں، جس کی وجہ سے اس واقعے کی تحقیقات کو دوبارہ فعال کرنے میں مدد ملی۔ خاتون نے کوبریلوا اور پروفیشنل فٹ بال ایسوسی ایشن (اے این ایف پی) کو پیغامات بھیجے۔ کلب نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے کلب سے منسلک وکلا کی بجائے غیر جانبدار وکلا کی ایک ٹیم مقرر کی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ’شکایت میں بیان کیے جانے والے حقائق کا کوئی ثبوت ریکارڈ میں موجود ہی نہیں۔‘ لیکن کوبریلوا کے سابق صدر فرنینڈو رامریز کے مطابق کلب کو اس سارے واقعے کے بارے میں علم تھا اور وہ یہ جانتے تھے کہ اُس رات کیا ہوا تھا تاہم وہ اس واقعے کی تحقیقات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ٹی وی 13 کو دیے گئے بیان میں کہا ’مجھے عملی طور پر اُسی وقت اس سب کے بارے میں پتا چل گیا تھا مگر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اس معاملے سے دور رہوں اور تحقیقات کا عمل آگے نہ بڑھایا جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’17 ستمبر کو ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ایک کلب ہاؤس میں کسی کا ریپ ہوا۔‘ واضح رہے کہ کھلاڑیوں کی گرفتاری کے بعد شائع ہونے والے ایک بیان میں ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعاون کر رہے ہیں اور یہ بھی کہا کہ ’یہ وہی ادارہ ہے جس نے اس کیس میں ذمہ دار تمام افراد کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔‘ نومبر 2023 میں چیمبر آف ڈپٹیز کے سپورٹس کمیشن نے شکایت کنندہ کی گواہی سننے کے لیے ایک سیشن منعقد کیا اور پھر جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں ان 9 کھلاڑیوں پر فرد جرم عائد کی گئی جنھیں اب ’معاشرے کی سلامتی کے لیے خطرہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ باضابطہ سماعت بند دروازوں کے پیچھے ہوئی تھی لیکن مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ پولیس رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ گرفتار کیے گئے نو فٹبالرز میں سے آٹھ نے خاتون کا ریپ کیا تھا جبکہ ان میں سے ایک نے واقعات کو ریکارڈ کیا تھا۔ توقع ہے کہ اس عمل میں 120 دن لگیں گے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں کھلاڑیوں کو 15 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51nz6v18edo
لکھنؤ سپر جائنٹس کے مالک اور کے ایل راہول کی وائرل ویڈیو: ’لگتا ہے راہول ملازم ہیں جنھیں منیجر اوور ٹائم کے لیے ہراساں کر رہا ہے‘
بدھ کے روز انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں ہونے والے ایک میچ کے دوران سن رائزرز حیدرآباد نے لکھنؤ سپر جائنٹس کو شکست دے دی۔ حیدرآباد نے 166 رنز کا ہدف بنا کسی نقصان کے 9.4 اوورز میں باآسانی پورا کر لیا۔ پوری اننگز کے دوران لکھنؤ کے بولرز سن رائزرز کے اوپنرز ابھیشیک شرما اور ٹریوس ہیڈ کی بلے بازی کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اگرچہ یہ آئی پی ایل میں ہونے والا ایک عام سے میچ تھا تاہم میچ کے بعد گراؤنڈ میں کچھ ایسا ہوا جس کے بارے میں ناصرف انڈیا اور پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے کرکٹ فینز بھی سوالات اٹپا رہے ہیں۔ میچ کے اختتام پر لکھنؤ کی فرنچائز کے مالک سنجیو گوئنکا کی کے ایل راہول کے ساتھ گراؤنڈ میں بات چیت کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے بظاہر سنجیو کافی غصے میں ہیں اور وہ مسلسل کے ایل راہول کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں جنکہ لکھںؤ کے کپتان کافی اطمینان سے اُن کی باتیں سُن رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ویڈیو میں کمنٹری بھی سنائی دے رہی ہے جس میں کمنٹیٹرز کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ایسی بحث بند کمروں میں ہونی چاہیے نہ کہ ایسے کھلے عام گراؤنڈ میں اور کیمروں کے سامنے۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں راہول اور سنجیو کے درمیان ہونے والی گفتگو سنائی تو نہیں دے رہی مگر سوشل میڈیا صارفین سنجیو کی جانب سے دورانِ بحث کیے جانے والے اشاروں کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں جو بظاہر کافی غصیلے اور جارحانہ نظر آ رہے ہیں۔ کچھ صارفین کا خیال ہے کہ شکست کے بعد فرنچائز مالک راہول کو ڈانٹ رہے ہیں جبکہ دوسرے اس عمل کو لے کر کافی ناراض ہیں۔ تاہم ابھی تک نہ تو راہول اور نہ ہی سنجیو نے اس بارے میں کوئی وضاحت جاری کی ہے۔ ایک صارف کا کہنا ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔ ’آپ اپنے کپتان کو میڈیا کے سامنے بے عزت کر رہے ہیں۔ کچھ تو تمیز کا مظاہرہ کریں۔‘ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ راہول ایک بین القوامی کھلاڑی ہیں، ان پر گراؤنڈ میں ایسے چلانا، جہاں لاتعداد کیمرے ہر چیز ریکارڈ کر رہے ہیں، درست نہیں۔ اُنھوں نے کے آر راہول کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ ایسے رویے کے بعد آئی پی ایل کے بقیہ میچز نہ کھیلیں۔ ایک اور ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ لکھنؤ سپر جائنٹس کا رویہ صحیح نہیں۔ ’آپ کے ایل راہول کو ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کی پر فارمنس پر ڈانٹ سکتے ہیں مگر ائی پی ایل کے کسی میچ کے لیے آپ ان کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔‘ ایک اور صارف شیکھر کا کہنا تھا کہ آئی پی ایل ٹیم کے مالک کا کے ایل راہول جیسے کھلاڑی کو ایسے کھلے عام ڈانٹنا بہت مایوس کن ہے۔ ایلفا نامی صارف نے لکھا کہ ’جب آپ پیسوں کے لیے کھیلتے ہیں تو آپ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ ہوتا ہے۔‘ ایک اور صارف سمیرا کا کہنا تھا کہ بے شک سنجیو گوئینکا نے لکھنؤ سپر جائنٹس ہر کروڑوں لگائے ہیں مگر یہ کسی چوٹی کے انڈین کھلاڑی سے بات کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کے ایل راہول کو جلد از جلد سپر جائنٹس کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔ رچرڈ کیٹلبرو کے نام سے بنائے گئے ایک اکاؤنٹ نے لکھا، ’ایسا لگتا ہے کہ جیسا کے ایل راہول ملازم ہیں اور ان کا منیجر انھیں اوور ٹائم ڈیوٹی کے لیے ہراساں کر رہا ہے۔‘ ابھیشیک نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ لکھنؤ شہر ثقافت کا شہر ہے، یہاں ایسے بدتمیز لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کے ایل راہول کو کپتانی [ان کے] منہ پر مار کر چلے جانا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 میچ کے بعد بات کرتے ہوئے راہول کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس کہنے کے لیے الفاظ نہیں۔ ہم نے ایسی بلے بازی ٹیلی ویژن پر دیکھی تو ضرور تھی مگر یہ ہمارے لیے ناقابلِ یقین تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سن رائزرز کے بلے بازوں کی تعریف کرنی چاہیے، جیسے وہ کھیل رہے تھے ہر چیز ان کے حق میں جا رہی تھی۔ راہول کا کہنا تھا کہ دوسری اننگ میں ان کو پِچ کا جائزہ لینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ لکھنؤ سپر جائنٹس کے کپتان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ہار جاتے ہیں تو ایک کے ہر فیصلے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔‘ ’پہلے بلے بازی کرتے ہوئے ہم بڑا سکور کرنا چاہتے تھے مگر ہم 40 سے 50 زنز کم بنا پائے۔ پاور پلے میں جب ہمارے کھلاڑی آؤٹ ہوئے تو اس سے ہماری [رنز بنانے کی] رفتار بھی کم ہو گئی۔‘ ایوش بادونی اور نکولس پورن کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں کی بہترین بلے بازی کی بدولت لکھنؤ 166 رنز بنا سکی۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اگر 250 رنز بھی بنائے ہوتے تب بھی حیدرآباد باآسانی وہ ہدف پورا کرلیتی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2d4ylq18vo
کوہلی کے سٹرائیک ریٹ پر گاوسکر کی تنقید مگر وسیم اکرم کا دفاع: ’باہر کے شور کی پرواہ نہیں تو جواب کیوں دیا؟
انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے مگر انڈیا کے سابق کپتان اور ٹیسٹ میچ کے لیجنڈ بلے باز سنیل گاوسکر ایک تنازعے کے محور میں ہیں۔ انھیں وراٹ کوہلی کے سٹرائیک ریٹ پر تنقید کرنے پر سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا ہے۔ لوگ سنیل گاوسکر کو پہلے ورلڈ کپ (1975) میں انگلینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی اننگز کو یاد دلا رہے ہیں اور انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ گاوسکر نے سات جون سنہ 1975 کو 'کرکٹ کے مکہ' لارڈز میں کھیلے جانے والے اس میچ میں سست ترین بیٹنگ کا اس وقت مظاہرہ کیا تھا جب ان کی ٹیم کو 60 اوورز میں 335 رنز کا ہدف ملا تھا۔ انھوں نے اوپن کرتے ہوئے اس میچ میں بغیر آؤٹ ہوئے 174 گیندوں میں محض 36 رنز بنائے اور انڈیا کی ٹیم مقررہ اوورز میں تین وکٹوں کے نقصان پر 132 رنز ہی بنا سکی تھی۔ اس طرح اسے 202 رنز سے شکست فاش ہوئی جو کہ ایک عرصے تک ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں جیت ہار کا سب سے بڑا فرق رہا تھا۔ خیال رہے کہ سنیل گاوسکر ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں سب سے پہلے دس ہزار رنز بنانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور انھوں نے ہی سر ڈونالڈ بریڈ مین کا سب سے زیادہ سنچری کا ریکارڈ توڑا تھا۔ لیکن اب وہ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے انڈیا کے موجودہ مایہ ناز بیٹسمین وراٹ کوہلی اور ان کے سٹرائیک ریٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ کوہلی گذشتہ ایک دہائی سے انڈیا کی جانب سے سب سے زیادہ رنز سکور کر رہے ہیں اور وہ ہر فامیٹ میں اپنا ہنر دکھا رہے ہیں لیکن گذشتہ چند برسوں سے انڈیا میں کرکٹ سٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کا رشتہ بہت سہل نہیں رہا ہے۔ چنانچہ رواں سال جون میں ہونے والے ٹی-20 ورلڈ کے لیے انڈین سکواڈ کے انتخاب سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ انھیں نظر انداز کر دیا جائے گا لیکن کوہلی انتظامیہ کو اپنے کھیل کے ساتھ اپنی زبان سے بھی جواب دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں رہے ہیں۔ بہر حال سنیل گاوسکر نے ایسا کیا کہہ دیا ہے کہ لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے کچھ پرانے ریکارڈز اور بیانات نقل کر رہے ہیں؟ در اصل 28 اپریل کو وراٹ کوہلی کی ٹیم آر سی بی نے گجرات ٹائٹنز کے خلاف ایک شاندار جیت حاصل کی اور اس طرح وہ تکنیکی بنیادوں پر ٹورنامنٹ سے ابھی تک باہر ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ اس میچ میں گجرات نے بنگلور کی ٹیم کو جیت کے لیے 201 رنز کا ہدف دیا تھا جسے کوہلی کی ٹیم نے 16 اوورز میں ہی حاصل کر لیا۔ اس میں اگرچہ ول جیکس کی شاندار سنچری کلیدی تھی لیکن وراٹ کوہلی نے 44 گیندوں پر 70 رنز بنائے اور وہ ناٹ آؤٹ رہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے کھیل پر تنقید اور سٹرائیک ریٹ کے حوالے سے بات کی۔ انھوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ وہ تمام لوگ جو سٹرائیک ریٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اچھی طرح سے سپن نہیں کھیل پاتا ہوں، در اصل وہ وہ لوگ ہیں جو اس طرح کی چیز کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک ٹیم کے لیے کھیل جیتنا زیادہ اہم ہے۔ اور اس کے لیے آپ 15 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔' انھوں نے کہا: ’آپ آئے دن یہ کام کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنی ٹیم کے لیے گیمز جیتے ہیں۔ اور اگر آپ خود اس صورتحال میں نہیں ہیں تو باکس سے بیٹھ کر کھیل کے بارے میں اس طرح کی بات کرتے ہیں۔ ’لوگ بیٹھ کر کھیل کے بارے میں اپنے خیالات اور مفروضوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ لیکن جنھوں نے دن رات ٹیم کے لیے کھیلا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، یہ میرے لیے محنت کی یادیں ہیں۔‘ کوہلی کے اس بیان کو آئی پی ایل نشر کرنے والے چینل سٹار سپورٹس پر بار بار دکھایا گیا۔ اس کے بعد سنیل گاوسکر نے نہ صرف کوہلی کو بلکہ سٹار سپورٹس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ ان چند کرکٹ مبصروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بارہا کوہلی کو ان کی سٹرائیک ریٹ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ گواسکر نے کوہلی کے طنز کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'کمنٹیٹرز نے صرف اس وقت سوال کیا جب ان کا سٹرائیک ریٹ 118 تھا۔ ’میں بہت زیادہ میچز نہیں دیکھتا اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ دوسرے کمنٹیٹرز نے کیا کہا ہے۔ لیکن اگر آپ آتے ہیں، آپ اوپن کرتے ہیں اور آپ 14 ویں 15ویں اوورز میں آؤٹ ہوتے ہیں اور آپ کی 118 کی سٹرائیک ریٹ ہوتی ہے اور اگر آپ اس کے لیے تالیاں چاہتے ہیں، تو یہ میرے لیے تھوڑا مشکل ہے۔' انھوں نے مزید کہا: 'سب لوگ اس بارے میں بات کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ 'ہمیں باہر کے شور کی پرواہ نہیں ہے'۔ اچھا؟ پھر آپ باہر کے شور یا جو بھی ہو اس کا جواب کیوں دے رہے ہیں۔ ہم سب نے تھوڑی کرکٹ کھیلی ہے اگرچہ زیادہ نہیں۔ ’ہمارے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے جو ہم دیکھتے ہیں اس کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں، ہماری کوئی پسند اور ناپسند نہیں ہے۔ ہم اصل میں اس پر بات کرتے ہیں جو ہو رہا ہے۔' ہم نے اس بابت کینیڈا میں مقیم پاکستانی صحافی معین الدین حمید سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ ٹی-20 کرکٹ کو سنجیدہ کرکٹ نہیں مانتے۔ ’اس میں کھیل صرف چوکے چھکوں پر مرکوز ہوتا ہے۔ ایسے وراٹ کوہلی اور بابر اعظم جیسے کھلاڑیوں کے سٹرائیک ریٹ پر بات ہوتی ہے لیکن ان کی کرٹ مختلف ہے۔ یہ اننگز کو بناتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ دیکھیں یہ دونوں آئی پی ایل ہو یا پی ایس ایل میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والے بیٹسمین ہیں۔ یہ پہلے پچ کو دیکھتے ہیں، پہلی 15-20 گیندوں میں 15-20 رنز ہی بناتے ہیں پھر بعد میں اپنے سکور کی رفتار کو بڑھاتے ہیں۔ بابر نے رواں پی ایس میں تقریبا 150 کی سٹرائیک ریٹ سے سکور کیا ہے اور کوہلی کا بھی وہی حال ہے لیکن لوگ تفریح کے لیے جاتے ہیں انھیں 180 اور 200 کا سٹرائیک ریٹ چاہیے۔‘ سلیم ملک پر کتاب لکھنے والے صحافی معین الدین حمید نے کہا کہ 'سوریہ کمار یادو، رشبھ پنت اور ہاردک پانڈیا جیسے بیٹسمین کے سٹرائیک ریٹ نے انڈین کرکٹ میں فرق پیدا کیا ہے اور ایسے میں کوہلی کا سٹرائیک ریٹ کم نظر آتا ہے۔‘ پاکستان کے مایہ ناز بولر وسیم اکرم نے آئی پی ایل کے میچز میں کوہلی کے کھیل کے متعلق منفی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے سٹرائیک ریٹ کی بحث کو غیر ضروری بحث قرار دیا ہے۔ انھوں سپورٹس کیڑا سے میچ پر بات کرتے ہوئے کہا: 'اگر کوئی بلے باز 150 کے سٹرائیک ریٹ سے 100 رنز بنا رہا ہے، تو یہ ٹھیک ہے۔ اگر ٹیم جیت رہی ہوتی تو تنقید نہیں ہوتی۔۔۔ جب کوہلی کپتان تھے تو ان پر دباؤ تھا۔ اب وہ کپتان نہیں ہیں پھر بھی اب بھی ان پر دباؤ ہے۔ اکرم نے مزید کہا: 'وہ ایک کے بعد ایک میچ میں رنز بنا رہے ہیں۔ لیکن ایک ہی شخص آپ کو ہر میچ نہیں جیتا سکتا۔ پوری ٹیم کو کھیلنا ہوتا ہے۔ بغیر کسی وجہ کے اس پر تنقید کرنا منصفانہ نہیں ہے۔ 'وہ میدان کے اندر اور باہر اس نسل کے رول ماڈل ہیں۔ فٹنس ہو، کارکردگی ہو، مستقل مزاجی ہو، فالوورز ہوں، سوشل میڈیا ہو، وہ ناقابل یقین ہیں۔ وہ اچھی بات کرتے ہیں۔ وہ قدرتی طور پر پیدائشی لیڈر اور میچ ونر ہیں۔' رواں آئی پی ایل میں وراٹ کوہلی نے اگرچہ اب تک سب سے زیادہ رنز بنائے ہیں اور ان کے سر اورینج کیپ ہے لیکن ان کی ٹیم کی جیت کا اوسط دو میچ پہلے تک بہت خراب تھا۔ ان کی ٹیم 10ویں اور آخری پوزیشن پر تھی۔ ان کی اچھی کارکردگی کے باوجود ٹیم لگاتار چھ میچوں میں شکست سے دوچار ہوئی تھی۔ کوہلی نے اب تک 11 میچز میں سب سے زیادہ 542 رنز بنائے ہیں جس میں ایک سنچری اور چار نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 148 سے زیادہ کا ہے۔ انھوں نے 48 چوکے اور 24 چھکے لگائے ہیں۔ ان کے بعد دوسرے نمبر پر چنئی سوپر کنگز کے کپتان رتوراج گائیکواڈ ہیں اور ان کی سٹرائیک ریٹ 147 ہے۔ اسی طرح چوتھے نمبر پر موجود کے ایل راہل کی سٹرائیک ریٹ 141 ہے جبکہ رشبھ پنت کی 158 اور روہت شرما کی 154 ہے۔ ممبئی انڈینز کے کپتان ہاردک پانڈیا کی سٹرائیک ریٹ بھی 147 ہے جبکہ ورلڈ کپ کے لیے انڈین سکواڈ میں شامل ان لوگوں کے رنز کوہلی کے مقابلے میں کم ہیں۔ ایسے میں صارفین نے سنیل گاوسکر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ کچھ ایسے ہیں جنھوں نے ان کی ہمت کی تعریف کی ہے کہ انھوں نے سٹار سپورٹس چینل کو اپنے ہی کمنٹیٹر کو تنقید کا نشانہ بنانے والے بیان کو بار بار دکھانے پر سخت و سست کہا ہے۔ بہت سے صارفین نے گاوسکر کے ایک انٹرویو کا کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گاوسکر نے 174 گیندوں پر اپنی 36 رنز کی اننگز کا بھی دفاع کیا ہے کہ ان کی اننگز سست نظر آ رہی ہے کیونکہ 'ہمارے بالروں نے کچھ زیادہ ہی رنز دے دیے تھے۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ڈاکٹر سنجے نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'کملا پسند کے اشتہار کے لیے مشہور گاوسکر نے 1975 میں اپنے سست سٹرائیک ریٹ کے لیے بالروں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور اب وہ ایک بیٹسمین کو سست سرائیک ریٹ کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ انوکھا انداز ہے۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ستیہ پرکاش نامی ایک صحافی نے لکھا کہ'وراٹ کوہلی کے خلاف تبصرے ہر ایک کو سب سے زیادہ توجہ دلاتے ہیں۔ چاہے وہ سابق کرکٹر ہو، سپورٹس صحافی ہو، یا ایجنڈے کے تحت کام کرنے والا (کرکٹ) مافیا ہو۔ سنیل گاوسکر، ہرش بھوگلے، سنجے منجریکر اور بہت سے دوسرے وراٹ کوہلی کے خلاف ایجنڈا چلا رہے ہیں اور پھر بھی وہ ناکام ہو رہے ہیں اور کنگ (کوہلی) انھیں اس طرح مار رہے ہیں جیسے وہ پاکستان بولروں کو مارتے ہیں۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 بہت سے صارفین نے پاکستان کے خلاف کوہلی کے چھکے پر گاوسکر کے اچھلنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ جب انڈیا کی طرف سے کوہلی کھیل رہے ہوتے ہیں تو گاوسکر ایسے اچھلتے ہیں اور جب وہ آئی پی ایل کھیل رہے ہوتے ہیں تو ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بہر حال گاوسکر کی کوہلی کے متعلق تنقید نئی نہیں ہے۔ سنہ 2020 میں کوہلی کی اہلیہ اور اداکارہ انوشکا شرما نے اپنے ایک انسٹا گرام پوسٹ میں گاوسکر کو سخت جواب دیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا: ’مسٹر گواسکر میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کا پیغام درحقیقت بے مزہ ہے لیکن میں آپ کو یہ بتانا پسند کروں گی کہ آپ نے ایک بیوی پر اپنے شوہر کے کھیل کا الزام لگانے کے بارے میں اتنا بڑا بیان دینے کا کیوں سوچا؟ میرا خیال ہے کہ گذشتہ برسوں میں آپ نے کھیل پر تبصرہ کرتے ہوئے ہر کرکٹر کی نجی زندگی کا احترام کیا ہے۔ کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آپ کو میری اور ہماری عزت کے بارے میں بھی ویسا ہی خیال رکھنا چاہیے تھا؟‘ انھوں نے مزید لکھا: 'میرا خیال ہے کہ آپ کے ذہن میں کل رات کی میرے شوہر کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کے لیے بہت سے دوسرے الفاظ اور جملے ہوں گے یا آپ کے الفاظ صرف اس صورت میں موزوں ہوتے ہیں جب آپ اس میں میرے نام کا استعمال کرتے ہیں؟' اس وقت وراٹ کوہلی کے مداحوں نے گاوسکر کو کمنٹری کے پینل سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c80z52l5kd7o
احسان اللہ کی انجری کی غلط تشخیص پر پی سی بی ڈائریکٹر مستعفی: ’سہیل سلیم کو نوکری پر رکھنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے‘
پاکستانی فاسٹ بولر احسان اللہ کی کہنی کی انجری کی درست تشخیص نہ کرنے اور انھیں مناسب علاج مہیا نہ کرنے کے الزامات ثابت ہونے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ڈائریکٹر آف میڈیکل اینڈ سپورٹس سائنسز ڈاکٹر سہیل سلیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ برق رفتارفاسٹ بولر احسان اللہ نے 2023 میں پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) میں ملتان سلطانز کی نمائندگی کی تھی، جس کے بعد انھیں اپریل میں 2023 میں ہی پاکستانی ٹیم کی جانب سے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا ون ڈے میچ بھی کھلایا گیا تھا لیکن انجری کے سبب وہ دوسرا میچ نہیں کھیل سکے۔ ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے اس وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ پی سی بی کا میڈیکل ڈیپارٹمنٹ احسان اللہ کے ہاتھ میں فریکچر کی درست تشخیص نہیں کر سکا، جس کے سبب وہ صحتیاب نہ ہو سکے۔ پی سی بی نے انھیں علاج کے لیے گذشتہ مہینے برطانیہ بھی بھیجا تھا۔ پی سی بی کے میڈیکل ڈپارٹمنٹ پر لگنے والے الزامات کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رُکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں ڈاکٹر رانا دلویز، ڈاکٹر ممریز نقشبند اور پروفیسر جاوید اکرم شامل تھے۔ اس کمیٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کے پاس جمع کروا دی ہے۔ پی سی بی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران احسان اللہ کی کیس ہسٹری، ٹیسٹ رپورٹس اور پی سی بی کے اراکین کے انٹرویوز کیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’احسان اللہ کو اپنی دائیں کہنی اور کندھے کو ٹھیک کرنے کے لیے فزیوتھراپی جاری رکھنی چاہیے۔ اگر وہ چھ سے 12 ماہ میں مکمل صحتیاب نہیں ہوتے تب ان کی سرجری کو آخری آپشن سمجھا جائے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پی سی بی کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ نے احسان اللہ کی انجری کی تشخیص میں تاخیر کی اور انھیں نامناسب علاج تجویز کیا۔ پی سی بی کے مطابق رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ فاسٹ بولر نے بھی اس معاملے میں بے احتیاطی سے کام لیا۔ ’کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ احسان اللہ کے کہنی میں درد کی صورتحال کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا، نہ ان کا علاج اور آپریشن درست طریقے سے کیا گیا۔‘ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق فاسٹ بولر کے آپریشن میں جلدبازی سے بھی کام لیا گیا۔ پی سی بی کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احسان اللہ کے آپریشن کے لیے پی سی بی کے ڈائریکٹر آف میڈیکل اینڈ سپورٹس سائنسز نے جس سرجن کا نام تجویز کیا، ان کے پاس اس طرح کی انجری کو ٹھیک کرنے کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق احسان اللہ کی موجودہ حالت میں وہ ان کو ایک اور سرجری کروانے کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی نے تین مزید کھلاڑیوں ارشد اقبال، ذیشان ضمیر اور کرکٹر شوال ذوالفقار کی انجریز کا بھی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے ارشد اقبال کی صحتیابی کے لیے دو مہینے کا پروگرام تجویز کیا جبکہ ذیشان ضمیر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاؤں اور ٹخنے کے کسی ماہر ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کروائیں۔ کمیٹی نے شوال ذوالفقار کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اپنے دائیں کندھے کا سی ٹی سکین کروائیں تاکہ ان کے لیے علاج تجویز کروایا جا سکے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کے منظرِعام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ڈاکٹر احمد ریحان خان نے اسے معاملے کو ’مجرمانہ غفلت‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ پی سی بی کے مستعفی ہونے والے ڈائریکٹر آف میڈیکل اینڈ سپورٹس سائنسز ڈاکٹر سہیل سلیم کا ’احتساب ہونا چاہیے۔‘ سپورٹس لکھاری عثمان سمیع الدین نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ڈاکٹر سہیل سلیم پہلے بھی استعفیٰ دے چکے تھے اور جن لوگوں نے انھیں دوبارہ نوکری پر رکھا ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 احسان اللہ نے پی ایس ایل 2023 میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا، اور اپنی رفتار اور باؤنس سے سب کو حیران کیا تھا۔ ملتان سلطانز کی جانب سے کھیلنے والے احسان اللہ پاکستان کے لیے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ڈیبیو بھی کر چکے ہیں تاہم اپنے ڈیبیو کے چند ماہ کے بعد ہی وہ انجری کا شکار ہوگئے تھے۔ سوات کے علاقے مٹہ سے تعلق رکھنے والے احسان اللہ پاکستان ٹیم کے لیے چار ٹی20 اور ایک ون ڈے میچ کھیل کر مجموعی طور پر چھ وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ احسان اللہ ملتان سلطانز کے لیے 14 میچ کھیل چکے ہیں، جن میں انھوں نے 23 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9wp8zjd81o
عامر خان اکیڈمی ’واگزار‘ کروانے پر پاکستانی فوج اور حکومت کے شکرگزار: ایک باکسنگ اکیڈمی ایف سی اہلکاروں کی قیام گاہ کیسے بنی؟
’میں پاکستان کی فوج، حکومت اور سپورٹس بورڈ کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ محسن نقوی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ سب ایف سی والے لوگ جم سے چلے گئے ہیں اور ایک مہینے کے بعد ہم دوبارہ اسے کھولیں گے تاکہ بچے ٹریننگ حاصل کر سکیں۔۔۔‘ پیر کے روز پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے ایک ویڈیو کے ذریعے اپنا یہ بیان جاری کیا۔ جس میں انھوں نے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ایک باکسنگ کی ٹریننگ اکیڈمی کے مناظر بھی دکھائے اور کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے یہاں کتنا گند تھا، جو اب صاف ہو چکا ہے۔‘ ’ابھی ہم اس کو مزید صاف کریں گے، نیا سامان لائیں گے اور پھر باکسرز اور فائٹرز یہاں کھیل سکیں گے۔‘ لیکن یہ معاملہ ہے کیا؟ یہ تنازع حال ہی میں سوشل میڈیا پر چند تصاویر اور ویڈیوز کی مدد سے سامنے آیا جن میں دیکھا گیا کہ ایک بڑی سے ہال میں، جس کے وسط میں ایک خستہ حال باکسنگ رنگ موجود ہے، تماشائیوں کے بیٹھنے کی جگہ پر سینکڑوں بستروں پر لوگ سو رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ہال دراصل باکسر عامر خان کی اکیڈمی ہے جہاں ایف سی اہلکار ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ عامر خان نے بھی یہ تنازع سامنے آنے کے بعد ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’بچے مجھے میسج کرتے ہیں کہ ہمیں ٹریننگ کرنی ہے، ہم فائٹ نہیں کر سکتے، ٹریننگ نہیں کر سکتے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایف سی کو وہاں سے چلے جانا چاہیے۔ میں نے حکام کو بولا، حکومت کو بھی بولا، لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔‘ سوشل میڈیا پر یہ تنازع اٹھنے اور عامر خان کی جانب سے ویڈیو بیان سامنے آتے ہی کئی برس سے بند اس اکیڈمی کی قسمت پھر سے جاگی اور وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے اسے خالی کروا لیا گیا۔ عامرخان نے اب اعلان کیا ہے کہ باکسرز کی ٹریننگ کے لیے نیا سازوسامان لایا جائے گا اور صفائی کے بعد ’اکیڈمی کو ایک مہینے بعد دوبارہ کھول دیا جائے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام واضح رہے کہ عامر خان نے 2015 میں اسلام آباد میں ایک باکسنگ اکیڈمی کھولنے کے لیے پاکستان سپورٹس بورڈ سے معاہدہ کیا تھا۔ اس اکیڈمی کا افتتاح جون 2016 میں ہوا۔ جب عامر خان نے اسلام آباد باکسنگ اکیڈمی کا افتتاح کیا تو اُس وقت اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس اکیڈمی کو انگلینڈ میں قائم اپنی اکیڈمی کی طرز پر بنایا ہے اور ’جلد ہی یہ اکیڈمی عالمی چیمپئن تیار کرنا شروع کر دے گی۔‘ عامر خان نے اپنی ویب سائٹ پر اس باکسنگ اکیڈمی کی بنیاد رکھنے کی وجہ بتاتے ہوا لکھا تھا کہ ’ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اب ان میں سرمایہ کاری کریں۔ میرا مقصد ہر بچے کو اوپر اٹھانا اور ان کی پوری صلاحیت تک پہنچنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔ آپ کی مدد سے، ہم مزید بچوں کو سڑکوں سے ہٹا سکتے ہیں اور پرتشدد جرائم جیسے مسائل سے لڑ سکتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’اکیڈمی کا مقصد نوجوانوں کو اپنی توانائیوں کو پیداواری انداز میں استعمال کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے، جبکہ ایک ایسا ماحول بھی تیار کرنا ہے جو انھیں صحت مند عادات اور مثبت ذہنیت سے مالا مال متوازن طرز زندگی کی طرف راغب کرے۔‘ ان کی ویب سائٹ کے مطابق عامر خان اکیڈمی پاکستان میں سینکڑوں بچوں اور نوجوانوں کو تربیت فراہم کرتی ہے۔ لیکن چند سال تک فعال رہنے کے بعد یہ اکیڈمی اس وقت بند کر دی گئی تھی جب کورونا وبا کے دوران حکومت نے کھیلوں اور دوسری اجتماعی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔ اکیڈمی سے وابستہ ایک سابق عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ کورونا وبا کے دوران عائد پابندیاں اٹھ جانے کے باوجود اکیڈمی کبھی دوبارہ مکمل طور پر فعال نہیں ہوئی۔ اکیڈمی کے بند رہنے کی وجوہات بھی ایک سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ ڈان نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، 2022 میں سپورٹس بورڈ نے ’تزئین و آراِئش‘ کے لیے اس اکیڈمی کو مکمل طور پر خالی کروایا تھا۔ تاہم دوسری جانب، بورڈ کے ایک اہلکار نے یہ دعوٰی بھی کیا ہے کہ اکیڈمی کے بند ہونے کی وجہ عامر خان اور اکیڈمی کے ہیڈ کوچ داؤد نمی کے درمیان تنازع تھا۔ وجہ جو بھی رہی ہو، بعد میں اسی خالی اکیڈمی میں ایف سی اہلکاروں کو ٹھہرا دیا گیا۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’چار سال سے ایف سی اہلکار اکیڈمی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔‘ اسلام آباد انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق ’ایف سی کو 2021 میں سفارتخانوں کی حفاظت کے لیے اسلام آباد بلایا گیا تھا اور 2022 میں ان کو اکیڈمی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔‘ واضح رہے کہ ایف سی وزارت داخلہ کے ماتحت نیم عسکری فورس ہے۔ اکیڈمی کو ایف سی اہلکاروں سے خالی کروانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان سپورٹس بورڈ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’کافی وقت سے اکیڈمی کو خالی کروانے کے لیے کام کیا جا رہا تھا اور بورڈ کو اس بارے میں بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک خط بھی موصول ہوا تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ خط بورڈ کے علاوہ وزارتِ داخلہ کو بھی بھیجا گیا تھا اور کیونکہ ایف سی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے تو یہ کام وزارتِ داخلہ کے ذمے تھا۔ مگر ایف سی اہلکاروں کو اکیڈمی میں ہی کیوں ٹھہرایا گیا؟ بی بی سی نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ایف سی اہلکاروں کو مقامی انتظامیہ کی درخواست پر سفارتخانوں کی حفاظت کے لیے اسلام آباد لایا گیا تھا اور جب کسی فورس کو انتظامیہ کی درخواست پر کہیں لایا جاتا ہے تو اُس کے رہنے اور کھانے پینے کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کی ہوتی ہے۔‘ ’جب میں نے باکسنگ شروع کی تو میں نے یہاں ٹریننگ حاصل کی تھی۔ یہاں بہت سے نوجوان باکسرز تربیت حاصل کر رہے تھے جن میں سے مجھ سمیت کچھ انٹرنیشنل لیول پر بھی پہنچے۔‘ عثمان وزیر سنہ 2017 تک عامر خان اکیڈمی میں ٹریننگ حاصل کرتے رہے اور اُن کے بقول یہاں ملنے والی ٹریننگ ہی کی بدولت وہ آج وہ ورلڈ یوتھ باکسنگ چیمپئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دوسری جگہوں کے برعکس، عامر خان اکیڈمی کا ماحول بہت اچھا تھا اور وہاں کوئی سیاست نہیں تھی۔ اس لیے وہاں ہر طرح کا بچہ آتا تھا۔‘ عثمان کا کہنا ہے کہ 2019 میں انھوں نے عامر خان کے ساتھ بھی ٹریننگ کی تھی۔ انھیں افسوس ہے کہ کووڈ کے بعد اکیڈمی بند ہو جانے کی وجہ سے پاکستانی نوجوانوں کو اس کا بھرپور فائدہ نہیں ہو سکا۔ عامر خان اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے والے ایک اور باکسر باکسر ظہور کا کہنا تھا کہ انھوں نے 2018 سے 2022 تک وہاں ٹریننگ حاصل کی۔ ظہور کہتے ہیں ’اکیڈمی کے ہونے سے نوجوان باکسرز کو بہت فائدہ ہوا تھا۔ ہمیں بھی ایک ایسی باکسنگ اکیڈمی کا پتا تھا جو صرف باکسنگ کے لیے تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی کو دوبارہ کھلنا چاہیے کیونکہ اس کے ’بند ہونے سے بہت سے بچے دربدر ہو گئے تھے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n1w1l4revo
’اللہ میرا حتمی جج ہے۔۔۔‘ جب باکسر محمد علی نے امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کیا
28 اپریل 1967 کا دن تھا اور صبح آٹھ بجنے سے کچھ لمحے قبل باکسر محمد علی امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز پہنچے۔ ویتنام جنگ اپنے عروج پر تھی اور امریکی فوج کے سینکڑوں اہلکار مارے جا چکے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سڑکوں پر مشتعل مظاہرین امریکی فوج میں بھرتی سے متعلق بھیجے گئے خطوط کو آگ لگا رہے تھے، جبکہ اس بھرتی کے مخالف بہت سارے افراد کینیڈا بھی فرار ہو رہے تھے۔ باکسر محمد علی کینیڈا فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ امریکی فوج میں بھرتی ہونے کے خواہاں تھے۔ اس سے دو برس قبل محمد علی نے ویتنام میں جاری جنگ کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرا ضمیر مجھے اپنے گندمی رنگت والے غریب اور بھوکے بھائیوں کو طاقتور امریکہ کی ایما پر گولی مارنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘ ’اور میں انھیں گولی کس لیے ماروں؟ انھوں نے مجھے کبھی نِگر (سیاہ فام افراد کے لیے استعمال ہونے والا تضحیک آمیز لفظ) کہہ کر نہیں پکارا، مجھے کبھی پیٹا نہیں، کبھی میرے پیچھے کتے نہیں چھوڑے، کبھی مجھے میری شہریت سے محروم نہیں کیا، کبھی میری ماں کا ریپ نہیں کیا، کبھی میرے باپ کو قتل نہیں کیا۔۔۔ میں انھیں کس لیے گولی ماروں؟ میں کیسے غریب لوگوں کو گولی مار سکتا ہوں؟ مجھے جیل لے چلیں۔‘ لیکن اپنے انٹرویو کے دو سال بعد باکسنگ کے ہیوی ویٹ چیمپیئن آسمانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیے ایک ٹیکسی میں امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز پہنچے اور انھیں صحافیوں نے گھیر لیا۔ محمد علی ایک دلچسپ شخصیت تھے، چلتے پھرتے کہاوتیں دُہرایا کرتے تھے، کبھی باتیں بھی گُنگُنانے کے انداز میں کیا کرتے تھے اور اپنے خاص انداز میں اکثر باکسنگ رنگ میں مخالف باکسروں کو یہ بتا کر تنگ کیا کرتے تھے کہ وہ انھیں کیسے شکست دینے والے ہیں۔ سنہ 1964 میں ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ کے میچ سے قبل محمد علی نے کچھ اس طرح اپنی جیت کا اعلان پہلے ہی کر دیا تھا: ’یہ کیسیس کلے ہے، آج کی دُنیا کا سب سے خوبصورت باکسر۔ اس نوجوان باکسر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ اس کا مقدر ہے۔‘ محمد علی امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز کے باہر کھڑے تھے اور ان کے سامنے مشہور سپورٹس میزبان نے مائیک رکھ دیا اور پوچھا کہ وہ (محمد علی) کیا کرنے والے ہیں؟ کیمرے کے سامنے محمد علی مسکرائے اور کہا: ’نو کمنٹ۔‘ امریکی شہر ہیوسٹن میں قائم امریکی فوج کی بھرتی کے مرکز میں حال ہی میں مسلمان ہوئے محمد علی داخل ہوئے۔ محمد علی کا پیدائشی نام یعنی ’کیسیس کلے‘ پکارا گیا لیکن اس نام کو سُن کر انھوں نے کوئی ردِعمل نہیں دیا اور نہ آگے آئے۔ محمد علی کی اپنی بائیوگرافی کے مطابق امریکی فوج کے ایک سینیئر اہلکار نے وہاں لوگوں کی لائن میں سے محمد علی کو نکالا اور انھیں وہیں موجود ایک دفتر میں لے گیا اور پوچھا کہ کیا انھیں اپنے ’عمل کی سنگینی‘ کا اندازہ ہے؟ محمد علی نے کہا کہ وہ یہ سب سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد وہاں موجود لیفٹننٹ نے ایک بار پھر آواز لگائی: ’کیسیس کلے، برائے مہربانی آگے آئیں اور امریکی فوج کا حصہ بنیں۔‘ محمد علی نے انکار کر دیا۔ کچھ لمحوں بعد محمد علی امریکی فوج کی بھرتی کے مرکز کے باہر آئے اور صحافیوں کے ہاتھ میں اپنا بیان تھما دیا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ: ’بطور مسلمان میں اپنے ضمیر کی روشنی اور اپنے نظریات کے تحت امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتا ہوں۔‘ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس بھرتی کو تسلیم کرلینا اپنی مذہبی اقدار کے خلاف جانے کے مترادف ہوگا۔ میں اللہ کو اپنے ضمیر کی روشنی میں کیے گئے اعمال کا حتمی جج تصور کرتا ہوں۔‘ اسی دن محمد علی سے ان کا باکسنگ کا لائسنس چھین لیا گیا تھا۔ محمد علی نے اپنی کتاب میں اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’جب میں ہیوسٹن سے جاؤں گا تو جلاوطنی میں جا رہا ہوں گا اور وہی کھاؤں گا جو ماہرین کے مطابق میں نے بطور فائٹر اپنی زندگی میں کمایا ہے۔‘ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق 20 جون 1967 میں ہیوسٹن کی ایک عدالت نے محمد علی کو ’یونیورسل ملٹری ٹریننگ اینڈ سروس ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا۔ جج نے انھیں پانچ سال قید اور 10 ہزار ڈالر جُرمانے کی سزا سُنائی۔ محمد علی نے جج سے درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ بغیر انتظار کیے سُنایا جائے اور جج نے ان کی درخواست فوراً ہی مان لی۔ امریکی اخبار کے مطابق اس وقت 25 برس کے محمد علی نے کہا تھا کہ ’میں شکرگزار رہوں گا اگر عدالت انتظار کرنے کے بجائے مجھے ابھی سزا سنا دے۔‘ اس کے بعد محمد علی کے باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اگلے چار برسوں تک وہ اور ان کے وکیل اعلیٰ عدالتوں میں اس سزا کے خلاف اپیلیں دائر کرتے رہے۔ جیسے جیسے ویتنام کی جنگ پر تنقید بڑھنے لگی، محمد علی بھی جامعات میں اس کے خلاف تقریریں کرتے رہے اور ایک جنگ مخالف ہیرو بن کر سامنے آئے۔ ایسے ہی ایک تقریر میں محمد علی نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا: ’مجھے بتایا گیا کہ میرے پاس دو آپشنز ہیں، جیل جاؤ یا پھر فوج میں بھرتی ہو جاؤ۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہاں ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ ہے انصاف۔‘ ’نہ میں فوج میں بھرتی ہوں گا اور نہ جیل جاؤں گا۔‘ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں محمد علی کے فیصلے کو سراہا تھا۔ ’میری اس حوالے سے محمد علی سے بات ہوئی ہے اور میرا خیال میں وہ بہت مخلص ہے، مخالفت کرنا قانونی طور پر جائز ہے اور میں ان کے عمل کی بھرپور توثیق کرتا ہوں۔‘ محمد علی کا باکسنگ لائسنس 1970 میں بحال کر دیا گیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’اپنی واپسی کے بعد صرف دو ہی مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد 29 سالہ محمد علی نے اعلان کیا کہ نیویارک کے میڈیسن سکوائر گارڈن میں 8 مارچ 1971 کو نئے چیمپیئن جو فریزر کا مقابلہ کریں گے اور اپنا ہیوی ویٹ ٹائٹل واپس لیں گے۔‘ تاہم جو فریزر نے محمد علی کو 15ویں اور آخری راؤنڈ میں ناک آوٹ کر دیا۔ سنہ 1971 میں امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلے میں محمد علی کو دی جانے والی سزا ختم کر دی۔ اس دن عدالت میں جو ہوا وہ بھی نہایت ڈرامائی تھا۔ باب وڈورڈ اور سکاٹ آرم سٹرانگ کی کتاب ’دی بریدرن‘ کے مطابق 23 اپریل 1971 کو امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے خفیہ کانفرنس کی اور اکثریت نے فیصلہ کیا کہ محمد علی کو جیل بھجوانے کی سزا دی جائے۔ اس کے بعد چیف جسٹس وارن برجر نے جسٹس جان ہارلن کو اکثریتی فیصلہ تحریر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ لیکن جسٹس جان ہارلن کے کلرک، جو یہ فیصلہ ڈرافٹ کر رہے تھے، کو ایک دوسرے کلرک نے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کیا تو انھوں نے دوبارہ جسٹس ہارلن سے بات کی۔ اس رات جسٹس ہارلن نے مقدمہ کے تمام کاغذات کا ازسرنو جائزہ لیا اور اگلی صبح اعلان کیا کہ ان کے مطابق محکمہ انصاف سے غلطی ہوئی تھی۔ جسٹس ہارلن نے عدالت کو تجویز دی کہ فیصلے کو بدلا جائے۔ ’دی بریدرن‘ میں لکھا گیا کہ عدالت میں تہلکہ مچ گیا۔ اب جسٹس پوٹر سٹیورٹ نے بھی تجویز دی کہ محمد علی کو محکمہ انصاف کی ایک تکنیکی غلطی کی بنیاد پر رہا کر دیا جائے۔ ایک ایک کر کے تمام جج اس بات پر متفق ہوئے اور 28 جون کو متفقہ فیصلہ سنا دیا گیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق محمد علی نے شکاگو میں یہ فیصلہ سنا تو کہا کہ ’میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور سپریم کورٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے میری نئی مذہبی تعلیمات کو سمجھا۔‘ جنوری 1974 میں محمد علی نے جارج فورمین کو کانگو میں ہونے والے ایک مقابلے کے دوران آٹھویں راؤنڈ میں مات دے دی اور پھر سے عالمی چیمپیئن بن گئے۔ امریکی اخبار پوسٹ نے لکھا کہ ’اس فتح کو ایک معجزہ ہی سمجھا گیا اور افریقہ میں ہونے کی وجہ سے اس جیت کی علامتی اہمیت بڑھ گئی۔‘ اخبار نے لکھا کہ ’محمد علی نے سات سال بعد اپنا ٹائٹل جس ڈرامائی انداز میں واپس لیا، اسے تاریخ میں باکسنگ کی مہارت کا اعلی مظاہرہ مانا گیا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c19dw98dw92o
’ٹِم سائفرٹ کا پیغام ادھورا رہ گیا‘
جس سفاکی سے ٹم سائفرٹ نے محمد عامر کے اوپننگ سپیل کی پہلی گیند کو لانگ آن کے اوپر سے 90 میٹر کا ہتک آمیز چھکا رسید کیا، وہ محض ایک شاٹ نہیں، ایک پیغام تھا جو یہ کیوی ٹیم اپنی ناتجربہ کاری کا ٹھٹھہ اڑانے والوں کو دینا چاہ رہی تھی۔ محمد عامر نے آف سٹمپ کے باہر فل لینتھ پر وہ سست رفتار لیگ کٹر پھینکا جو عموماً ڈیتھ اوورز میں ان کا ایک موثر ہتھیار ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سائفرٹ نے ان کی لینتھ اور پلان فوراً بُوجھ لیا اور ایک تحکمانہ انداز میں کراؤڈ کے بِیچ اٹھا پھینکا۔ کیویز کو ایشیائی کنڈیشنز میں اپنی آخری سیریز جیتے ہوئے پانچ برس ہو چکے ہیں۔ گو، اس نوآموز کیوی سکواڈ سے ایسے مقابلے کی توقع کسی کو نہ تھی مگر یہاں سائفرٹ عزم کر رہے تھے کہ وہ اس نوجوان ٹیم کے ہمراہ تاریخ رقم کرنے کا موقع ضائع نہیں کریں گے۔ محمد عامر کا پہلا اوور پاکستان کو پندرہ رنز میں پڑا اور پاکستان دوسری بار اس میچ سے باہر جاتا دکھائی دیا۔ پہلی بار یہ کیفیت پاکستان پر تب طاری ہوئی جب فخر زمان کریز پر آئے۔ فخر زمان تن تنہا پاکستان کے لیے کئی ایسی قابلِ ذکر فتوحات حاصل کر چکے ہیں جو ان کی صلاحیتوں کی تائید میں لائی جا سکتی ہیں مگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ان کی حالیہ مشکلات یہاں ایک بار پھر کھل کر سامنے آئیں۔ پاور پلے کے بعد پاکستانی اننگز کو وہ اٹھان پکڑنا تھی کہ جس سے 190 رنز کے مجموعے کی راہ ہموار ہوتی۔ گو، دوسرے کنارے سے بابر اعظم رنز بٹورتے رہے مگر فخر زمان کی ابتدائی مشکلات سجھاتے سجھاتے مڈل اوورز بیت گئے اور اچانک ڈیتھ اوورز آن پڑے۔ مڈل اوورز میں کیوی سپنرز حاوی ہوئے اور پاکستان کا رن ریٹ گر گیا۔ اگرچہ ورلڈ کپ سے پہلے سلیکشن کے تجربات کے لیے پاکستان کو ابھی دو مزید سیریز میسر ہیں، مگر اب تھنک ٹینک کو یہ بھی سلجھانا ضروری ہو چکا کہ فخر زمان ٹاپ تھری سے باہر پاکستان کے لیے کیسے موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہاں، مڈل اوورز کے بوجھ تلے دب کر پاکستان اس مجموعے سے دور رہ گیا جو واضح برتری کی دلیل ہوتا۔ لیکن بابر اعظم کو ایسے بولنگ وسائل میسر تھے جو پاکستان کو میچ میں واپس لا سکتے تھے۔ اور انہوں نے اپنے وسائل کا خوب استعمال کیا۔ اسامہ میر کا پہلا اوور آتے ہی کیوی اننگز پچھلے قدموں پر جا گری۔ عماد وسیم اور شاداب کے اوورز نے ہدف کی جانب پھلانگتے کیویز کو بالکل دیوار سے لگا دیا۔ اگرچہ پیس سے سامنا ہوتے ہی کیوی مڈل آرڈر نے پھر سے انگڑائی لے کر میچ میں اپنی حیثیت جتانے کی کوشش کی مگر شاہین آفریدی اپنے بہترین پر آئے اور ایک ہی اوور میں ساری کہانی سمیٹ کر رکھ دی۔ ٹم سائفرٹ کا پیغام ادھورا رہ گیا۔ اگرچہ اس کے بعد عباس آفریدی کے آخری اوور کی پہلی گیند پر پاکستانی شائقین کو ایک اور ہچکولہ آیا مگر تب تک کیوی اننگز اپنا اس قدر خسارہ کر چکی تھی کہ وہاں سے میچ میں واپسی ناممکن تھی۔ پاکستان کے لیے خوش آئند بات ہے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر تجربات کرنے کے باوجود سیریز ہاتھ سے نہیں گئی۔ اور ایک ہی میچ میں پاکستان کے موجودہ و سابقہ کپتان کا یکے بعد دیگرے بیٹنگ اور بولنگ میں بہترین پرفارمنس دکھانا بھی حوصلہ افزا ہے کہ پچھلے مہینے کے تلخ حوادث کے بعد یہ ٹیم اپنے نئے کرداروں سے کچھ ہم آہنگ ہو رہی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72p72dw4e9o
’عباس آفریدی کا بھرم ٹوٹ گیا‘
جب پاکستان کے دورہ کے لیے اس نوآموز کیوی سکواڈ کا اعلان ہوا تو پوری دنیا کو یقین تھا کہ پاکستان اس ٹیم کو بآسانی ہرا سکتا ہے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ نے آئی پی ایل کی مصروفیات اور انجریز کے سبب عدم دستیاب کھلاڑیوں کے باوجود ایک ایسا منظم سکواڈ طے کر کے بھیجا ہے جو تجربے میں بھلے پاکستان سے کہیں پیچھے ہو مگر کھیل کے بہاؤ میں پاکستان سے آگے رہا۔ گو راولپنڈی میں پاکستان پوری قوت سے کھیل کر بھی چیپ مین کا ہدف بن گیا لیکن لاہور میں کھلائی گئی تجرباتی الیون بھی بے سود ثابت ہوئی اور پاکستان اب سیریز میں وقت سے پیچھے بھٹک رہا ہے۔ معمہ مگر یہ ہے کہ پاکستان کے یہ سبھی کھلاڑی جو مہینہ بھر پہلے پی ایس ایل میں بالکل الگ ہی فارم میں تھے، اب اچانک بے رنگ سے کیوں نظر آتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ انٹرنیشنل کرکٹ کی مسابقتی آب و ہوا کا بدلاؤ ہے یا اس ایک مہینے میں کیے گئے بے شمار انقلابی فیصلے؟ وہ فیصلے جو اپنی جگہ بحث طلب ہونے کے علاوہ ایک مضحکہ خیزی سے بھی مزین تھے۔ جب محمد عامر کو ریٹائرمنٹ واپس لینے کی تجویز دینے کے لیے شاہین آفریدی نے کال کی، تب وہ قومی کپتان تھے مگر جب محمد عامر اور عماد وسیم کا کم بیک ہوا، شاہین آفریدی کپتان نہیں رہے تھے۔ اب بابر اعظم کپتان ہو چکے ہیں۔ اور پھر جب پریس کانفرنس میں محسن نقوی نے پاکستانی بلے بازوں کی تکنیکی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے، اپنی ماہرانہ رائے میں، کاکول میں تربیت دلوانے کا اعلان کیا تو وہ یہ بھول گئے کہ ان کے دو بہترین پیسر حال ہی میں خطرناک انجریز سے لوٹ کر آ رہے تھے۔ پی ایس ایل کی مہینہ بھر ہنگامہ خیزی کے عین بعد وزیر داخلہ نے چئیرمین پی سی بی کی مشاورت سے ایک ہنگامی ٹریننگ سیشن کا اہتمام کروایا جہاں پاکستانی کرکٹرز کو وقت کی چال سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس قدر مصروف شیڈول کے بعد ایسی تھکن آمیز ٹریننگ کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان بولنگ اور بیٹنگ دونوں ہی وقت کے بہاؤ سے پیچھے رہ گئے۔ جبکہ کیویز پر ایسی کوئی تھکاوٹ حاوی نہیں تھی۔ کیوی بولنگ نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، پل بھر بھی گماں نہ پڑا کہ یہ کوئی بی ٹیم ہے۔ نوجوان کیوی پیسرز نے جس معیار کے فہم کا مظاہرہ کیا، وہ یقیناً مستقبل میں ٹم ساؤدی اور ٹرینٹ بولٹ کے متبادل بن سکتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی بولنگ پہلے دس اوورز میں اپنا رخ متعین کرنے سے ہی قاصر رہی۔ ڈسپلن ہی نہیں، پلان بھی سرے سے غائب تھا۔ کیوی بیٹنگ نے ابتدا ہی سے جو یلغار کی، وہ ایسی غیر متوقع تھی کہ محمد عامر نہ روک پائے۔ عماد وسیم بھی لینتھ میں بھٹکتے رہ گئے۔ لاہور کی پچ کی خاصیت رہی ہے کہ یہ پرانی گیند کو گرفت فراہم کرتی ہے۔ یہاں رنز بٹورنے کا بہترین موقع پہلے دس اوورز ہیں اور اگرچہ کیوی جیت کی شہ سرخی جیمز نیشم کا شاندار آخری اوور ہو سکتا ہے لیکن پاکستانی شکست کا عنوان ایک بار پھر پہلے دس اوورز کی ناکامی رہی۔ نہ تو پاکستانی ٹاپ آرڈر کیوی بلے بازوں کی طرح پاور پلے کا فائدہ اٹھا پایا اور نہ ہی پاکستانی پیسرز اس نوجوان کیوی اٹیک جیسا ڈسپلن دکھا پائے۔ ایک عباس آفریدی واحد امید کی کرن ٹھہرے جو اپنے نامکمل سپیل میں بھی ٹیم کے کامیاب ترین بولر نکلے۔ اننگز بریک کے دوران انٹرویو میں عباس آفریدی کو یقین تھا کہ ان کے بلے باز فارم میں ہیں اور پاکستان یقیناً یہ ہدف حاصل کر لے گا۔ مگر کیوی بولرز کا عزم میچ پر طاری ہوا اور عباس آفریدی کا بھرم ٹوٹ گیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgye7gd953o
پاکستان کو چوتھے ٹی 20 میں نیوزی لینڈ سے شکست: ’بابر اعظم نے اگلے سال نیپال کی انڈر 19 ٹیم سے کھیلنے کی درخواست کی ہے‘
نیوزی لینڈ نے ٹم رابنسن کی نصف سنچری اور بولرز کی عمدہ کارکردگی کی بدولت پاکستان کو چوتھے ٹی ٹوئنٹی میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد چار رنز سے شکست دے کر سیریز میں 1-2 کی برتری حاصل کر لی ہے۔ لاہور میں کھیلے گئے سیریز کے چوتھے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔ نیوزی لینڈ نے اننگز کا مثبت انداز میں آغاز کیا اور جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے پہلے پانچ اوورز میں 56 رنز بنائے۔ اس موقع پر زمان خان نے 15 گیندوں پر 28 رنز بنانے والے تام بلنڈل کو آوٹ کر کے ٹیم کو پہلی کامیابی دلائی۔ جبکہ دوسرے اینڈ سے ٹم رابنسن نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور جارحانہ کھیل پیش کرتے ہوئے 35 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ نیوزی لینڈ نے 10 اوورز میں 93 رنز بنائے اور 11ویں اوور میں عباس آفریدی نے رابنسن کو 51 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ نیوزی لینڈ کی تیسری وکٹ 128 رنز پر گری جب افتخار احمد کی گیند پر شاداب خان نے مارک چیپمین کا بہترین کیچ پکڑا۔چوتھی وکٹ ڈین فاکس کرافٹ کی اسامہ میر نے حاصل کی اور انھوں نے 34 رنز بنائے۔ جس کے بعد مائیکل بریسویل اور جیمز نیشام نے سکور کو 169 تک پہنچایا لیکن عباس آفریدی نے 27 رنز بنانے والے کیوی کپتان بریسویل کو آؤٹ کیا اور اس کے اگلی ہی گیند پر جوش کلارکسن کو بھی چلتا کیا۔ اننگز کی آخری گیند پر عامر نے اش سودھی کی اننگز کا خاتمہ کردیا اور اس طرح نیوزی لینڈ نے 20 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 178 رنز بنائے۔ ہدف کے تعاقب میں پاکستان کو اننگز کے آغاز میں ہی بڑا نقصان اٹھانا پڑا جب دوسرے ہی اوور میں کپتان بابر اعظم صرف پانچ رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔ صائم ایوب ایک مرتبہ پھر بڑی اننگز نہ کھیل سکے اور 40 کے مجموعی سکور پر 20 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔ ان کے بعد آنے والے پاکستانی بلے باز عثمان بھی صرف 16 رنز ہی بنا سکے۔ 46 کے مجموعی سکور پر پاکستان کی تین وکٹیں گرنے کے بعد فخر زمان کا ساتھ دینے شاداب خان آئے اور دونوں نے مل کر سکور کو 79 تک پہنچا دیا لیکن آٹھ رنز بنانے کے بعد شاداب بریسویل کی وکٹ بن گئے۔ دوسرے اینڈ سے فخر نے بہترین کھیل کا سلسلہ جاری رکھا اور افتخار کے ہمراہ 59 رنز کی ساجھے داری بنا کر سکور کو 138 تک پہنچا دیا۔ اس موقع پر میچ پاکستان کی گرفت میں نظر آ رہا تھا لیکن 23 رنز بنانے والے افتخار کے بعد 61 رنز کی باری کھیلنے والے فخر کے یکے بعد دیگرے آؤٹ ہونے سے میچ کا پانسہ یکدم نیوزی لینڈ کے حق میں پلٹ گیا۔ اختتامی اوورز میں عماد وسیم نے 11 گیندوں پر 22 رنز بنا کر ٹیم کو جیت کے قریب پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اور یوں پاکستان کی ٹیم مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 174 رنز بنا سکی اور نیوزی لینڈ نے میچ چار رنز سے جیت لیا۔ پاکستان ٹیم کے میچ ہارنے کا دکھ کم کرنے کے لیے کرکٹ شائقین نے دل کھول کر سوشل میڈیا پر اپنے سخت اور تنقیدی تبصروں میں پاکستان ٹیم اور خصوصاً بابر اعظم کی کپتانی کو ہدف بنایا۔ بہت سے سوشل میڈیا صارف نے بابر اعظم کی کپتانی کے متعلق سوال اٹھایا تو کچھ نے میچ میں شریک ایک بچے کے میچ کے فیصلے کے بعد پریشان ہونے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ جبکہ چند صارفین مارک چیپمین کا شاندار کیچ پکڑنے پر شاداب کی تعریف کرتے بھی نظر آئے۔ پاکستان ٹیم کے قدرے کمزور اور ناتجربہ کار نیوزی لینڈ ٹیم کے ہاتھوں شکست پر ایک صارف حمزہ شیخ نے مایوس شائق بچے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’ آپ جانتے ہیں کہ ان تصویروں کے بارے میں سب سے افسوسناک بات کیا ہے کہ یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور آپ کو اس دفاعی حکمت عملی اپنانے والے اور بنا سوجھ بوجھ والے کپتان کے ساتھ اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلنا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ آپ کو بہت تکلیف دے گا۔ بابر اعظم شرم کرو۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایک صارف نے بابر اعظم کی کپتانی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’بابر اعظم نے پی سی بی سے درخواست کی ہےکہ اگلے سال نیوزی لینڈ کی سکول ٹیم کی بجائے نیپال کی انڈر 19 ٹیم کے سیریز رکھی جائے۔ یہ بابر اعظم کی ایک بار دوبارہ نہایت افسوسناک، شرمناک اور غلط کپتانی ہے، ایک اور سیریز میں ناکام کی وجہ ان کی متوسط سوچ اور حکمت عملی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ہدیل عبید نامی صارف نے افسردہ بچے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں اس نیلی شرٹ والے بچے کو بتانا چاہتی ہوں کہ اپنے آنسو سنبھال کر رکھے، یہ صرف اس اذیت کا آغاز ہے جو ابھی آنے والی ہے، ہماری ٹیم ہمیشہ متوسط ہے، آپ تیار رہو کہ یہ آپ کی خواہش اور خواب کو بار بار روند دے گی، ہم باقیوں کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 نجیب نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ تصویر پوری کہانی بیان کر رہی ہے، ایک ناتجربہ کار ٹیم کے خلاف یہ ایک شرمناک پرفارمنس تھی، یہ پاکستان کی کرکٹ کے لیے پستی کا نیا مقام ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 تاہم اس سب کے درمیان احشتام نامی صارف کپتان بابر اعظم کی حمایت میں تبصرہ کرتے لکھا کہ ’کیا ہم صرف کپتان کی وجہ سے میچز جیتتے ہیں؟ پوری ٹیم اپنا کردار ادا کرتی ہے کیونکہ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے جہاں ہر کسی کو پرفارم کرنا پڑتا ہے؟ کیوں ہر کوئی صرف بابر اعظم پر ہی تنقید کرتا ہے جب ہم ہار جاتے ہیں۔ لیکن جہاں ایک طرف کچھ ناراض کرکٹ شائق بابر اعظم کی کپتانی اور ٹیم کت کارکردگی پر تنقید کر رہے ہیں وہیں کچھ صارفین شاداب خان کی فیلڈنگ کی بھی تعریف کرتے دکھائی دیے۔ واضح رہے کہ شاداب خان نے مارک چیپمین کا شاندار کیچ پکڑا تھا۔ بلکہ یوں کہیں کہ بجلی کی تیزی سے لپک پر گیند پر جھپٹے تھے۔ ایک صارف نے ان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’شاداب میں سپرمین کی طرح کیچ پکڑا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 ایک اور صارف نے لکھا کہ ’شاداب ٹیم میں اپنی بولنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی شاندار فیلڈنگ کی وجہ سے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 حیدر نامی ایک اور صارف نے شاداب کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ انھیں کبھی بھی پلیئنگ الیون سے باہر نہیں رکھ سکتے، وہ بولنگ اور بلے بازی کے بغیر بھی کھیلے گے اور ٹیم اور کھیل پر اپنا اثر ڈالے گے۔ عالمی کرکٹ میں اس وقت سب سے زیادہ متاثر کن کھلاڑی آپ کے لیے شاداب خان ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv294vxe220o
کیا آئی پی ایل میں ’بے رحمانہ‘ بلے بازی کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے بدل رہی ہے؟
دنیا میں کرکٹ کے سب سے مالدار ٹورنامنٹ انڈین پریمیئر لیگ کا رواں ایڈیشن بلے بازوں کی تباہی اور رنز کے انبار سے بھرپور تھا۔ ملک کے کرکٹ میدانوں میں بلے بازوں نے احتیاط کو ہوا میں اڑاتے ہوئے بے رحمی سے بڑے شاٹ کھیلے اور تقریبا ہر میچ کو چھکے مارنے کے میلے میں بدل ڈالا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ باولرز بے یارومددگار ہوئے اور ماہرین و شائقین یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوئے کہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ کیا سمت اختیار کر رہی ہے۔ چلیں اس ٹورنامنٹ میں جو قیامت خیز بلے بازی دیکھنے کو ملی، اس سے جڑے چند اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ چنائی سپر کنگز اور لکھنؤ سپر جائنٹس کے درمیان منگل کو کھیلے جانے والے میچ کے بعد اب تک آئی پی ایل کے اس ایڈیشن میں 1191 چوکے اور 682 چھکے مارے جا چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں 2023 کے آئی پی ایل میں 2174 چوکے اور 1124 چھکے لگے تھے۔ ابھی رواں ایڈیشن کا نصف باقی ہے تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ سال کے اعدادوشمار کو باآسانی پیچھے چھوڑ دیا جائے گا۔ چھکوں چوکوں کی تعداد میں ہونے والے اضافے نے ٹیموں کے مجموعوں کو بھی اسی حساب سے بڑھایا ہے۔ آئی پی ایل کے ابتدائی سیزن میں 150 سے 160 تک کا ہدف اچھا اور مقابلے کے قابل سمجھا جاتا تھا لیکن آج کل ایسا سکور کرنے والی ٹیم 10 میں سے آٹھ میچ ہار جاتی ہے۔ سکورنگ کے اس رجحان کو سمجھنے کے لیے 2007 کے ورلڈ کپ میں یوراج سنگھ کی جانب سے ایک اوور میں براڈ کو مارے جانے والے چھ چھکوں کو یاد کریں جب انڈیا کا 218 رن کا مجموعہ ایک تاریخ ساز کامیابی مانا گیا تھا۔ تاہم 16 سال بعد 200 سے زیادہ رن بنانا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ آئی پی ایل کے 39 میچوں میں اب تک 19 بار 200 رن سے زیادہ سکور کیا جا چکا ہے اور میچ میں مجموعی طور پر دونوں ٹیموں کی جانب سے ملا کر 400 رن نو بار ہوئے۔ دو میچوں میں تو یہ مجموعہ 500 بھی پار کر گیا۔ یہی نہیں، اس سیزن میں فی اوور رن بنانے کی اوسط 10 رن رہی۔ سن رائزرز حیدرآباد نے دلی کیپیٹل کے خلاف پہلے چھ اوور میں 155رن بنائے جو تقریبا 20 رن سے زیادہ کی اوسط بنتی ہے۔ حیدرآباد کی ٹیم تین بار 250 رن بنا چکی ہے جن میں بنگلور کی ٹیم کے خلاف 287 رن کا حیران کن مجموعہ اور ریکارڈ شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 300 رن کا مجموعہ بھی اب شاید اسی سیزن کے دوران عبور ہو سکتا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اپنی فطرت کی بنا پر ایکشن سے بھرپور ہوتی ہے اور بلے بازی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ بنا رکے جارحانہ کھیل کھیلا جائے۔ اس کھیل میں بلے بازوں پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ ہر گیند پر رن بنائیں لیکن ان کو کھل کر کھیلنے کی آزادی بھی ملتی ہے۔ اس حکمت عملی سے جڑے خطرات کے باوجود اس سیزن میں رن بنانے کی رفتار غیر معمولی رہی۔ لیکن اس دھماکے دار بلے بازی کی وجہ کیا ہے؟ ایک وجہ فلیٹ یعنی بلے بازوں کے لیے سازگار پچیں ہیں۔ ایک روزہ میچ ہو یا ٹی ٹوئنٹی میچ، کسی قانون کی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ سفید گیند کے میچوں کے لیے بے ضرر قسم کی پچ تیار ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مداحوں، براڈکاسٹرز اور سپانسرز کے لیے چوکے چھکے ہی ٹی ٹوئنٹی کی پہچان بن چکے ہیں اور سب کچھ ایسے تیز کھیل کو ممکن بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دوسری لیگوں کے مقابلے میں آئی پی ایل اس بات کا زیادہ خیال رکھتی ہے کہ بچ بلے بازوں کے لیے ہی سازگار ثابت ہو۔ لیکن گیند بازوں کے لیے یہی ایک واحد رکاوٹ نہیں ہے۔ اب بلے باز جسمانی اعتبار سے پہلے سے زیادہ طاقتور اور ایڈونچر پسند کرنے والے ہیں خصوصی طور پر وہ نوجوان جو اسی دور میں کھیل کے میدان میں داخل ہوئے۔ یہ کھلاڑی زیادہ خطرات مول لیتے ہیں، بڑے کارنامے سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ میچ جیت سکیں اور انعام حاصل کرنے سمیت اپنی پہچان قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مد مقابل بلے بازوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔ تاہم چند قوانین نے بھی گیند بازوں کے کردار کو اس حد تک کم کرنے میں مدد دی ہے۔ مثال کے طور پر ایک نیا قانون یہ متعارف ہوا کہ کوچ اور کپتان اب کسی بھی موقع پر ایک متبادل کھلاڑی میچ میں لا سکتے ہیں اور یہ گیند باز بھی ہو سکتا ہے۔ اب تک اس قانون کو بلے بازوں کو میچ میں لانے کے لیے ہی استعمال کیا گیا ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ کرکٹ بلے بازوں کا کھیل ہے۔ لیکن بیٹ اور گیند کے درمیان تیزی سے بڑھنے والے اس فرق کا ٹی ٹوئنٹی پر کیا اثر پڑ رہا ہے، یہ ایک تازہ بحث ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق انڈین کپتان سنیل گواسکر نے اپنا وزن گیند بازوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ کھیل اتنا یکطرفہ ہو جاتا ہے تو مقابلے میں سے دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔‘ سنیل گواسکر کو میدان میں باؤنڈری کا فاصلہ 65 گز یا اس سے بھی کم کر دینے پر بھی اعتراض ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کہا کہ ’باولر بیٹسمین سے غلطی کروا سکتا ہے لیکن اسے اس لیے سزا ملتی ہے کیوں کہ باؤنڈری چھوٹی ہے۔ جس گیند پر کیچ ہو سکتا تھا، اس پر چھ لگ جاتا ہے۔‘ جدید دور کے بلوں کا معیار دیکھیں تو گیند درست طریقے سے بلے پر نہ بھی آئے تو یہ بہت فاصلہ طے کر سکتی ہے اور یہ بات سنیل گواسکر کے خدشے کو درست بناتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے باولر ڈیل سٹین اس صورت حال کو مہارت اور رویے کے چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باولرز کے لیے چار اوور میں ہیرو بن جانے کا موقع موجود ہے۔ ٹی ٹوئنٹی نے روایتی کرکٹ مہارت اور ذہن کو بدل دیا ہے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو اب پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اگر گیند اور بلے کے درمیان یہ فرق ایسے ہی بڑھتا چلا گیا تو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ شاید گالف اور بیس بال کا ایک امتزاج بن کر رہ جائے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjq5l1lg139o
خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘
ایرانی فٹ بال کلب ’استقلال‘ کے کپتان اور گول کیپر حسین حسینی اُس وقت مصیبت میں پڑ گئے جب میچ کے دوران ایک میچ دیکھنے کے لیے آنے والی اُن کی ایک خاتون پرستار گراؤنڈ میں آ گئیں اور انھوں نے فٹ بالر کو گلے لگا لیا۔ اس واقعے کے بعد ایرانی پولیس فورس ’فراجا‘ نے حسین حسینی کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کی اور انھیں کلچر اینڈ میڈیا پراسیکیوٹر کے دفتر طلب کر لیا گیا۔ اس واقعے کے سبب انھیں عدالت میں حاضری بھی لگوانی پڑی۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کی فُٹ بال ٹیم کی نمائندگی کرنے والے گول کیپر اپنے وکیل کے ہمراہ پراسیکیوٹر کے دفتر پہنچے اور وہاں مؤقف اختیار کیا کہ انھوں نے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ صرف ’بپھری ہوئی خاتون شائق کو تسلی دینے کی کوشش کی۔‘ ان پر 30 کروڑ تومان (ایرانی کرنسی) جرمانہ عائد کیا گیا اور انھیں ایک میچ کے لیے معطل بھی کیا گیا۔ ایران کی فُٹ بال ٹیم کے سابق گول کیپر منصور راشدی بھی حسین حسینی کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کس قانون کے تحت حسین پر ایک نوعمر فٹبال فین کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی؟‘ انھوں نے سابق ایرانی صدر احمدی‌ نژاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے وینزویلا کی صدر کی والدہ کو گلے لگایا تھا لیکن انھیں کسی نے کچھ نہیں کہا اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ’ہم فلموں میں اس سے بُری چیزیں دیکھتے ہیں۔ ایسے کسی واقعے کی وجہ سے کسی فٹبالر پر پابندی کیوں لگائی گئی؟‘ فٹبال کی دنیا میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ جذبات سے معمور فٹ بال فینز فیلڈ میں داخل ہو جاتے ہیں تاکہ اپنے پسندیدہ فٹ بالر کی توجہ حاصل کر سکیں۔ عام طور پر سکیورٹی اہلکار ایسے شائقین کو واپس سٹینڈز میں بھیج دیتے ہیں یا پھر سٹار کھلاڑی بطور ہمدردی انھیں آٹو گراف دے دیتے ہیں، اُن کے ساتھ سیلفی بنوا لیتے ہیں یا اپنی شرٹ انھیں بطور تحفہ دے دیتے ہیں۔ تاہم ایران میں پیش آنے والے اس نوعیت کے واقعے پر ایرانی سٹار فٹبالر کو جرمانے، معطلی اور عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ دراصل ہوا کچھ یوں کہ 12 اپریل کو ایران پریمیئر لیگ میں ’استقلال‘ اور ’الومینیوم اراک‘ نامی کلبوں کے درمیان میچ چل رہا تھا اور اسی دوران دو لڑکیاں اچانک امام خمینی فٹ بال گراؤنڈ میں داخل ہوئیں۔ تاہم سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں مزید آگے جانے سے روک دیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر ’استقلال‘ کے کپتان حسین حسینی اُن کے پاس گئے اور اُن کے بقول ’غیر ارادی طور پر‘ ان سے گلے ملے۔ یہ منظر دیکھ کر گراؤنڈ میں موجود سکیورٹی اہلکار حسین حسینی کے پاس گئے اور انھیں فوراً ڈریسنگ روم لے گئے۔ اس واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شائقین نے اس موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کے ردعمل پر ’بے شرم، بے شرم‘ کے نعرے لگائے اور اُن پر بوتلوں کی بارش کر دی۔ اب یہ واقعہ حسین حسینی کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ ان پر نہ صرف جرمانہ عائد کیا گیا ہے بلکہ ڈسپلنری کمیٹی نے انھیں میڈیا پر باضابطہ طور پر معافی مانگنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حسین حسینی نے میچ آفیشل سے بھی بدسلوکی کی ہے۔ مہر نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’استقلال کے فینز نے کہا کہ وہ حسین حسینی پر عائد کیا گیا یہ جرمانہ اپنی مدد آپ کے تحت ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘ ایرانی فُٹ بالر امیر حسین صادقی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مجھے اپنی ٹیم کے گول کیپر پر فخر ہے۔ انھوں نے فٹ بال کا سب سے مہنگا گول سکور کیا ہے اور ایک فین کی خواہش پوری کی۔‘ دوسری جانب حسین حسینی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’مجھے خوشی ہے کہ انضباطی کمیٹی نے اس معاملے پر صرف چار دن میں فیصلہ سنا دیا۔ ماضی کے کئی واقعات میں ایک سے دو ماہ لگتے تھے، لیکن میری باری میں صرف چار دن لگے۔ میں یہ 30 کروڑ تومان اس خاتون فین کے نام پر قربان کرتا ہوں۔‘ انٹرویو کے بعد فٹبال فیڈریشن کی انضباطی کمیٹی نے عامر حسین صادقی اور حسین حسینی کو طلب کیا اور ان سے ’وضاحتیں‘ طلب کیں۔ فارس نیوز ایجنسی نے ایک تحریر میں حسین حسینی کے خلاف سزاؤں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ’انضباطی کمیٹی اور فٹبال فیڈریشن سے سوال ہو گا اور ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔‘ گلوکار کوروس نے بھی ایک ویڈیو میں حسین حیسنی کی حمایت کی اور کہا کہ وہ یہ جرمانہ بھرنے کو تیار ہیں تاکہ ’اس خوبصورت لمحے میں شریک ہو سکیں۔‘ سماجی کارکن ابراہیم حمیدی نے بھی انسٹاگرام پر ایک پیغام کے ذریعے فٹ بالر ان کی حمایت کی۔ بعد ازاں حسین حسینی نے کلب کے آفیشل چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں صرف امن اور تناؤ میں کمی چاہتا تھا۔ میں نے ڈسپلنری کمیٹی کے فیصلے اور بھاری جرمانے کو قبول کیا ہے، میرا مقصد ڈسپلنری کمیٹی کے فیصلے کی تضحیک کرنا نہیں تھا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ پولیس اہلکاروں کے کام یا قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ صرف تناؤ میں کمی لانا چاہتے تھے۔‘ اس معطلی کی وجہ سے استقلال کے پاس اب اپنا گول کیپر نہیں ہے اور ٹیم کا اگلا میچ 12 مئی کو ہے۔ محمد رضا خلیل آبادی حسین حسینی کی جگہ گول کیپر کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ ایران کی پریمیئر لیگ کے پوائنٹس ٹیبل پر اس وقت ’استقلال‘ سرفہرست ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2dn0jzdvqo
’چیپ مین کی پیش قدمی، جو متوقع نہ تھی‘
گو ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کا وطیرہ ہے کہ کھیل سے پہلے ہی پورا میچ ڈریسنگ روم میں طے کر لیا جاتا ہے مگر کامیابی کے لیے ان عزائم میں لچک کی گنجائش رکھنا بھی ضروری ہے۔ پاکستانی بولرز اس لچک سے عاری تھے۔ کامن سینس اور ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کا ڈیٹا، دونوں یہی بتاتے ہیں کہ جب وکٹ بیٹنگ کے لیے اس قدر موافق ہو تو گیند کی لائن کو بلے سے حتی الوسع دور رکھنا ہی بقا کی سبیل ہو سکتا ہے۔ کیوی بولرز نے بھی اگرچہ آغاز اپنے طے شدہ پلان سے ہی کیا لیکن جب پاور پلے کی ابتدا سے ہی گیند باؤنڈری کا طواف کرنے لگی تو فوراً اپنے طے شدہ عزائم میں لچک پیدا کی اور نظر ثانی کر کے جارحیت کی نئی جہت وضع کی۔ راولپنڈی کی پچ پاکستان کے تمام وینیوز میں سے تیز ترین واقع ہوئی ہے اور اسی سبب ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بڑے مجموعوں کی اعانت کرتی رہی ہے۔ یہاں بولرز کے لی میچ اور عزت بچانے کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ ہے آف سٹمپ کے باہری ترین لائن پر بولنگ۔ گو یہ ہوم سیریز پاکستان کی ہے اور کنڈیشنز بھی پاکستان کی مرضی کی مگر حیران کن امر یہ رہا کہ مہمان ٹیم کیسے اس وینیو کا وہ رمز فوراً پا گئی جو میزبان کو میچ گنوانے تک مل ہی نہ پایا۔ پاکستان نے پاور پلے کا آغاز جس رفتار سے کیا اور پچ جس قدر سازگار تھی، یہاں 200 کے لگ بھگ مجموعہ یقینی نظر آتا تھا لیکن بریسویل کے بولرز نے گیند بلے کی پہنچ سے دور کر دی اور پاکستانی بلے بازوں کو امتحان میں ڈال دیا۔ نہ صرف یہ پچ بلے بازی کے لیے نہایت سازگار تھی بلکہ کیوی بولرز بھی تجربے سے عاری تھے اور پاکستان کو ایک صحت مند آغاز بھی مل چکا تھا تو پھر کیا وجہ ہو سکتی تھی کہ پاکستان ایک خطیر ہندسے سے پیچھے رہ جاتا؟ لیکن پھر کیوی بولنگ کا ڈسپلن ایسا شاندار ہوا کہ پاکستانی مڈل آرڈر گیند کا تعاقب کرتا رہ گیا۔ ڈیتھ اوورز میں عالم یہ تھا کہ انیسواں اوور باؤنڈریز کا بحران ثابت ہوا۔ اگر شاداب خان کی یہ ہنگامی اننگز ہمرکاب نہ ہوتی تو پاکستانی بیٹنگ کا 160 تک پہنچ پانا بھی دشوار ہوا جاتا تھا۔ لیکن کیوی بولنگ کا پلان اس قدر موثر تھا کہ 200 پر نظریں جماتی ٹیم 180 کے مسابقتی ہندسے سے بھی پیچھے رہ گئی۔ اس پر ستم یہ کہ اوس کے ہنگام بولنگ بھی پاکستان ہی کو کرنا تھی۔ جب تک پاکستانی سپنرز کہانی میں آئے، کیوی بیٹنگ اپنے پنجے گاڑ چکی تھی اور چیپ مین کے قدم حرکت میں آ چکے تھے۔ اوس کے سبب گیند گرفت کھو رہی تھی اور میچ پاکستان کے ہاتھوں سے سرک رہا تھا۔ جو جادو مڈل اوورز میں اش سوڈی نے جگایا، پاکستانی سپنرز اس سے قاصر رہے اور جو مواقع ابرار احمد نے پیدا کیے، وہ بھی بے ثمر رہ گئے کہ تب تک مارک چیپ مین کی پیش قدمی پاکستانی فیلڈرز کے اعصاب پر طاری ہو چکی تھی۔ چیپ مین اس یقین سے متحرک ہوئے کہ پاکستان کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ ان کی جارحیت پاکستان کے لیے خاصی غیر متوقع تھی کہ یکے بعد دیگرے شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کے بدترین اوورز دیکھنے کو ملے۔ چوبیس گھنٹے پہلے کی کیوی پرفارمنس ایک یکطرفہ، بے کیف سی سیریز کی پیشگوئی کر رہی تھی مگر یہاں چوبیس ہی گھنٹے بعد فیورٹ ٹیم اپنے گھٹنوں پر دکھائی دی اور چیپ مین کی پیش قدمی سب کو حیران کر گئی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n1rpdg9yjo
کراٹے کمبیٹ میں پاکستانی فائٹر شاہ زیب رند کی انڈیا کے خلاف فتح: ’کیا 20، 20 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کر دیتے ہو‘
پاکستان نے سنیچر کی رات دبئی میں ہونے والے کراٹے کمبیٹ کے 45 کلو گرام کیٹیگری والے مقابلوں میں انڈیا کو 2-1 سے شکست دے دی ہے، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مکسڈ مارشل آرٹ (ایم ایم اے) فائٹر شاہ زیب رند نے انڈیا کے رانا سنگھ کو شکست دے کر جیت اپنے نام کی۔ جیتنے کے بعد انھوں نے دو جھنڈے اٹھا رکھے تھے جن کے متعلق ان کا کہنا تھا ایک پاکستان اور ایک انڈیا کا جھنڈا ہے کیونکہ یہ لڑائی امن کے لیے ہے اور ہم دشمن نہیں ہیں۔ شاہ زیب کا کہنا تھا ہم ساتھ ہوں تو کچھ ناممکن نہیں، سیاست ہمیں جدا کر رہی ہے اور یہ لڑائی پاکستان اور انڈیا کے بیچ دوستی کے لیے تھی۔ شاہ زیب کے انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں بالی وڈ اداکار سلمان خان، شاہ زیب سے مل کر انھیں مبارکباد دے رہے ہیں اورکہتے ہیں ’کیا ہر جگہ 20، 20 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کر دیتے ہو۔‘ یہ ویڈیو ایک ٹوئٹر صارف نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کراٹے کامبیٹ ایک پیشہ ور مارشل آرٹس لیگ ہے اور کراٹے کامبیٹ اس حوالے سے دنیا بھر میں مقابلوں کی میزبانی کرتا ہے۔ پاکستان کے رضوان علی اور انڈیا کے ہمانشو کوشک نے بالترتیب میچ کا پہلا اور دوسرا مقابلہ جیتا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان میچ کا فیصلہ فائنل راؤنڈ میں ہوا۔ سوشل میڈیا پر شاہزیب رند کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے انھیں مبارکباد دیتے ہوئے لکھا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے قابل فخر فرزند شاہ زیب رند کو بہت بہت مبارک ہو۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی شاہزیب کو جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’میں شاہزیب کو کراٹے کمبیٹ لیگ میں انڈیا کے خلاف زبردست میچ جیتنے اور قوم کا سر فخر سے بلند کرنے پر مبارکباد اور شاباش دیتا ہو۔ انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ پر فخر ہے عزیز شاہزیب رند۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 شاہزیب کو مقابلے جیتنے اور اس کے بعد امن کا پیغام دینے پر سلمان جاوید صارف نے لکھا کہ ’شاہزیب رند اپنے انڈین حریف کو پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کرتے اور روائتی بلوچی لباس میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہوئے۔ یہ مقابلہ جس کا آغاز گھیل سے پہلے ایک پریسر میں تھپڑ سے ہوا تھا اور اس کا اختتام ایک اچھے پیغام پر ہوا ہے جو شاہزیب نے اپنے انڈین حریف کے لیے دیا ہے۔ کردار انسان کی پہچان ہے۔ آپ کا بہت بڑا دل ہے اور آپ ایک قومی کردار کے حامل انسان ہیں۔ سلامت رہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 سپورٹس جرنلٹس فیضان لکھانی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’رانا سنگھ شاہزیب رند کے سامنے بے بس دکھ رہے تھے۔ پاکستان نے انڈیا کو 2-1 سے کراٹے کمبیٹ مقابلے میں ہرا دیا ہے۔ شاہزیب رند نے امن کا پیغام دیتے ہوئے انڈیا اور پاکستان دونوں کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شاہ زیب رند نے گذشتہ برس امریکہ میں گیمبریڈ ایم ایم اے لیگ کے بیئر نکل میچ میں اپنے میکسیکن حریف کارلوس گویرہ کو بھی پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دی تھی۔ اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے بتایا تھا کہ ’میرا حریف بہت ہی مشکل تھا بہت تجربہ کار فائٹر تھا اور اس کا فائٹنگ سٹائل موئی تھائی ہے۔‘ انھوں نے بتایا تھا کہ میچ میں ’پانچ منٹ کے تین راؤنڈ ہوتے ہیں اس میں ہر چیز کی اجازت ہوتی ہے آپ اپنا گھٹنا استعمال کر سکتے ہیں آپ باکس کر سکتے ہیں لات بھی مار سکتے ہیں گراؤنڈ لاک وغیرہ سب کر سکتے ہیں۔‘ گذشتہ روز کے میچ کی طرح امریکہ میں ہونے واالے میچ سے قبل بھی شاہ زیب نے شلوار قمیض کے ساتھ ساتھ روایتی بلوچ پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی۔ انھوں نے اس وقت اس بارے میں کہا تھا کہ دنیا میں بہت سے کھلاڑی ہوتے ہیں جو کہ اپنی ثقافت کو اجاگرکرتے ہیں اسی طرح میں نے بھی اپنی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے شلوارقمیض کے ساتھ بلوچی پگڑی زیب تن کیا۔ اس موقع پر مشہور سابق ایم ایم اے فائٹر جارج ماسویڈل بھی موجود تھے۔ شاہ زیب نے اپنی پگڑی اتار کر انھیں پہنائی تھی۔ شاہزیب نے بتایا تھا کہ انھوں نے پگڑی ’جارج ماسویڈل کو بلوچستان اور پاکستان کی طرف سے تحفے میں دی جو ہماری ثقافت ہے، میں نے انھیں اور پوری دنیا کو اپنی ثقافت دکھائی۔‘ گذشتہ برس شاہزیب رند نے امریکہ میں کراٹے کامبیٹ لیگ میں لائٹ ویٹ کیٹیگری میں وینزویلا سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی گابوڈیازکو شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس وقت انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے کندھوں پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں نے بھرپورانداز میں مقابلہ کیا اور مجھے پاکستان اور بلوچستان کا نام روشن کرنے میں کامیابی ملی۔‘ فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے بتایا تھا کہ ان کے حریف کھلاڑی تینوں راؤنڈز میں اُن کی تکنیک کے سامنے نہیں ٹھہر سکے جس کے باعث وہ ہر راؤنڈ میں ان پر حاوی رہے۔ شاہ زیب بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ مقام حاصل کرنے کے لیےجو کچھ کیا وہ اپنی مدد آپ کے تحت کیا۔ شاہ زیب کا کہنا تھا اگرچہ یہ ایک مہنگا کھیل ہے لیکن یہ ان کا شوق ہے اور وہ مستقبل میں بھی اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے خواہ حکومت ان کی مدد کرے یا نہ کرے۔ شاہ زیب رند کا تعلق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ہے اور انھوں نے انٹرنیشنل ریلشنز (بین الاقوامی تعلقات) میں بی ایس کی تعیلم حاصل کر رکھی ہے۔ ان کی عمر 26 سال ہے اور انھوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی کراٹے کامبیٹ کھیلنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے اس کھیل کے حوالے سے تمام تربیت کوئٹہ میں حاصل کی۔ وہ آٹھ سال پاکستانی ٹیم میں رہے اور چھ مرتبہ نیشنل چیمپیئن بھی رہ چکے ہیں۔ شاہ زیب رند نے بتایا کہ وہ مختلف انٹرنیشنل ایونٹس کے سلسلے میں سنگاپور، ویتنام، آذربائیجان، نیپال اور ایران جا چکے ہیں اور وہاں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے متعدد میڈلز حاصل کر چکے ہیں۔ گذشتہ برس بی بی سی بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے کہا کہ ’میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا اور اس حوالے سے مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں صحیح پرفارم نہیں کرتا تو اس کا ایک اچھا تاثر نہیں جاتا اور اس کے نتیجے میں ہمارے آنے والے کھلاڑیوں کو موقع نہیں ملتا۔‘ ’اس کھیل میں ویسے پاکستان کو امریکہ یا دیگر ممالک میں لوگ نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمت اور حوصلے سے کھیل کر پاکستان اور بلوچستان کا نام روشن کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں نے پہلے اچھا تاثر قائم کیا۔ انشا اللہ آگے پاکستان کا نام ہو گا لوگوں میں خوف ہو گا کہ پاکستانی بھی اچھے فائٹرز ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ کراٹے کامبیٹ لیگ کا امریکہ میں ایک بڑا مقابلہ ہوتا ہے۔ میں پہلا پاکستانی اور بلوچ ہوں جو اس لیگ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qv4rqvzx4o
’نیوزی لینڈ کرکٹ کا پاکستان سے مذاق‘
گو اس کی کوئی منطقی توجیہہ تو ممکن نہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کیوی کرکٹ کو پاکستان سے چھیڑ خانی کی عادت سی ہو چلی ہے۔ کبھی عین آخری لمحے پر میچ کھیلنے سے انکار کا مذاق، تو کبھی بی ٹیم بھیج کر پاکستان کو ورلڈ کپ کی ’تیاری‘ کروانے کا مذاق رچایا جاتا ہے۔ گذشتہ برس بھی ایک بے رونق سا کیوی سکواڈ پاکستان آیا تھا اور یکے بعد دیگرے پاکستان کو بھاری فتوحات سے ہمکنار کرواتے ہوئے نمبر ون رینکنگ تک پہنچا گیا۔ وہ رینکنگ پاکستان کو اس خوش گمانی میں مبتلا کر گئی تھی کہ ورلڈ کپ کے لیے اُن کے امکانات کا جہاں روشن ہے۔ اس کے بعد ورلڈ کپ میں پاکستان پر جو بیتی، وہ قصۂ غم دہرانے کی ضرورت نہیں۔ گو پچھلے دورے پر کیویز اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود ٹی ٹونٹی سیریز برابر کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن اس بار جو سکواڈ نیوزی لینڈ کرکٹ کی نمائندگی کرنے پاکستان پہنچا ہے، یہ اپنی قوت اور تجربے میں پچھلے سکواڈ سے کہیں کم تر ہے اور مائیکل بریسویل کی قیادت میں برسرپیکار یہ ٹیم تجربے کی کمی جوش سے پورا کرنے کی کوشش کرے گی۔ پاکستان کے دوروں پر آدھے ادھورے سکواڈز بھیجنا کیوی کرکٹ کی دیرینہ خصلت رہی ہے جو سکیورٹی مسائل کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے سے جاری ہے۔ یہ علت اس قدر پرانی ہے کہ ایک بار تو عمران خان بھی سٹارز سے محروم کیوی ٹیم کے خلاف کھیلنے سے انکار کر چکے۔ گذشتہ برس کی طرح کیویز کے حالیہ دورے کی بے رونقی بھی آئی پی ایل کے طفیل ہے۔ اب بھی کین ولیمسن، ٹم ساؤدی، ٹرینٹ بولٹ اور رچن رویندرا جیسے ستارے آئی پی ایل کے افق پر جگمگا رہے ہیں جبکہ واہگہ کے اس پار ایک نوآموز کیوی ٹیم پاکستانی شائقین کا خون گرمانے کی کوشش کرے گی۔ ویسے تو یہ بھی آئی پی ایل منتظمین کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی ونڈو میں اب انٹرنیشنل کرکٹ کی شراکت برداشت کر لیتے ہیں ورنہ شروع کے کچھ برسوں میں تو آئی پی ایل کے دوران تمام انٹرنیشنل کرکٹ پر ایک غیر اعلانیہ سی پابندی میں رہا کرتی تھی۔ اب پاکستان اپنے نئے کپتان بابر اعظم کی امامت میں ورلڈ کپ کی تیاری کرنے کو ہے مگر مقابل موجود کیوی سکواڈ اس صلاحیت سے عاری ہے جو پاکستان کو انٹرنیشنل لیول کی مسابقتی کرکٹ کا تجربہ فراہم کر سکے۔ سو، ایسے میں فتوحات کی تعداد اور مارجن کی ضخامت لایعنی سوالات بن چکے ہیں کیونکہ ورلڈ کپ میں جس استعداد کی حامل ٹیمیں پاکستان کے مقابل ہوں گی، یہ کیوی سکواڈ اپنی تمام تر صلاحیت کے باوجود اس کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتا۔ لیکن اگر بابر اعظم میڈیا پر موجود اپنے ہم خیال مبصرین اور سوشل میڈیا ٹائم لائنز پہ نعرہ زن اپنے حامیوں کے اطمینانِ قلب کے خیالات کو ذہن سے جھٹک پائیں اور حقیقت پسندانہ راہ اپنائیں تو یہ نئے ٹیلنٹ کی آبیاری کے لیے بہترین موقع ہو سکتا ہے۔ عماد وسیم اور محمد عامر کی سکواڈ میں واپسی کے بعد اب یہ ہرگز ضروری نہیں کہ انھیں اپنے ’ٹیلنٹ‘ کا ثبوت دینے کے لیے نیوزی لینڈ کی اس بی ٹیم کے خلاف میدان میں اتار دیا جائے۔ بعینہٖ بلے بازوں میں بھی تجربہ کار کھلاڑیوں کے اعدادوشمار کی افزائش کی بجائے اگر نو منتخب چہروں کو موقع دیا جائے تو پاکستان اپنے وسائل کی قوت بڑھا کر بینچ سٹرینتھ میں اضافہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کے عبوری ہیڈ کوچ اظہر محمود کا کہنا ہے کہ ٹی ٹونٹی میں کوئی بھی ٹیم کمزور نہیں ہوتی اور یہ بیان مائیکل بریسویل کے لیے حوصلہ افزا تو ہو سکتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ کیوی ٹیم اپنی صلاحیت اور تجربے میں پاکستان کا نصف بھی نہیں ہے۔ کیوی کرکٹ نے تو یہ آدھا ادھورا سکواڈ بھیج کر پاکستان سے ایک اور مذاق کر ہی ڈالا ہے مگر یہ لازم نہیں کہ پاکستان بھی جواباً اپنی مکمل قوت کے ساتھ اترے اور اس ناتواں حریف کو چاروں خانے چِت کر کے اپنی عظمت کا علم بلند کرے۔ یہ بجائے خود پاکستان کرکٹ کا اپنے ہی ساتھ مذاق ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0r3nplw9xo
چھکوں کی برسات اور ریکارڈ ہی ریکارڈ: ’آئی پی ایل گیندبازوں کا واٹرلو ہے‘
دنیا کی سب سے مالدار ٹی 20 کرکٹ لیگ آئی پی ایل کے تازہ ترین سیزن میں روز نئے ریکارڈز بن رہے ہیں یا یوں کہیں کہ رنز کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ جہاں دو روز قبل انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے 17ویں سیزن کے 30ویں میچ میں ریکارڈ ٹوٹل بنے وہیں ریکارڈ چھکے بھی لگائے گئے، گذشتہ رات 31ویں میچ میں آئی پی ایل کی تاریخ میں سب سے بڑے ٹوٹل کا کامیابی کے ساتھ تعاقب کیا گیا۔ یہ میچ کولکتہ کے ایڈن گارڈن میں شاہ رخ خان کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) اور پہلی بار کی آئی پی ایل چیمپیئن راجستھان رائلز (آر آر) کے درمیان تھا۔ اس سے قبل 30واں میچ سن رائزرز حیدرآباد (ایس آر ايچ) اور رائل چیلنجرز بنگلور (آر سی بی) کے درمیان تھا۔ بنگلور میں ہونے والے میچ سے قبل ہی یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ کیا اس میچ میں کوئی ٹیم 300 رنز سکور کرے گی۔ کیونکہ اس سے قبل ایس آر ایچ کی ٹیم نے 27 مارچ کو اسی سیزن میں آئی پی ایل کا سب سے بڑا سکور 277 رنز کھڑا کیا تھا اور اس نے آر سی بی کے 263 رنز کے پرانے ریکارڈ کو توڑ دیا تھا۔ یہی نہیں تین اپریل کو کے کے آر نے دہلی کیپیٹلز کے خلاف وشاکھاپٹنم میں مقررہ 20 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 272 رنز بنائے اور ایک موقعے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ ایک ہفتے پہلے بننے والا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ رواں سیزن میں چار بار 250 سے زیادہ کا سکور بن چکا ہے اور ایسے میں 200 رنز جو کبھی جیتنے کے لیے کافی سمجھے جاتے تھے اب نہیں رہے۔ اب تک 31 میچوں میں 546 چھکے اور 938 چوکے لگ چکے ہیں۔ اس میچ میں کئی نئے ریکارڈ بنے جن میں عالمی ریکارڈ بھی شامل ہیں۔ یہ میچ 15 اپریل کو یعنی دو روز قبل بنگلور میں کھیلا گیا اور آر سی بی کی ٹیم نے مہمان حیدرآباد کی ٹیم کو ٹاس جیت کر بیٹنگ کی دعوت دی۔ آر سی بی نے اپنے رن دینے والے بولر محمد سراج کو اور رن نہ سکور کرنے والے جارحانہ آسٹریلین کھلاڑی گلین میکسول کو آرام دیا لیکن انھیں کیا پتا تھا کہ اس دن انھیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہوگی کیونکہ جب ایس آر ایچ کے اوپنر ٹریوس ہیڈ اور ابھیشیک شرما بیٹنگ کرنے آئے تو انھوں نے پہلے آٹھ اوورز میں 108 رنز بنا ڈالے۔ ابھیشیک 34 رنز بنا کر ٹوپلی کا شکار بنے۔ ان کی جگہ بیٹنگ کرنے جنوبی افریقی بیٹسمین ہنری کلاسن پہنچے اور انھوں نے رنز بنانے کی رفتار مزید بڑ‌ھا دی۔ ہیڈ نے اپنے 50 رنز 20 گیندوں میں بنائے جبکہ 41 گیندوں میں 104 رنز بناکر فرگیوسن کی گیند پر آوٹ ہوئے۔ انھوں نے نو چوکے اور آٹھ چھکے لگائے۔ کلاسین نے اس دوران اپنی نصف سنچری مکمل کی اور وہ 31 گیندوں پر 67 رنز بنائے جس میں دو چوکے اور سات چھکے شامل تھے۔ ہیڈ کی جگہ مارکرم کھیلنے آئے جبکہ کلاسین کی جگہ کشمیر کے کھلاڑی عبدالصمد کریز پر آئے۔ عبدالصمد نے 10 گیندوں میں 37 رنز بنائے جبکہ مارکرم نے 17 گیندوں میں 32 رنز بنائے۔ اور یوں ایس آر ایچ کی ٹیم نے دو ہفتے قبل قائم کیے گئے اپنے 277 رنز کے ریکارڈ کو توڑ کر نیا ریکارڈ 287 رنز قائم کیا۔ جواب میں کوہلی کی ٹیم نے اچھی شروعات کی اور کوہلی نے خود 20 گیندوں پر 42 رنز بنائے جبکہ کپتان فاف ڈوپلیسی نے 28 گیندوں پر 62 رنز بنائے۔ ان کے آؤٹ ہونے پر آر سی بی کی امیدیں جاتی رہیں کیونکہ 10 اوور کے اختتام پر 122 رنز پر آدھی ٹیم پولین لوٹ چکی تھی۔ پھر وکٹ کیپر بیٹسمین دنیش کارتک کھیلنے آئے اور انھوں نے ایک بار پھر کھیل کا رخ بدل دیا۔ انھوں نے 35 گیندوں پر 83 رنز بنائے جس میں پانچ چوکے اور سات چھکے شامل تھے۔ ان کا ایک چھکا 108 میٹر لمبا تھا جو رواں سیزن اب تک لگایا جانے والا سب سے لمبا چھکا تھا۔ 38 سالہ دنیش کارتک کی اننگز کو دیکھ کر لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ شاید انھیں انڈیا کی ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل کرنے پر غور کیا جائے گا۔ اس سے قبل روہت شرما نے مذاق سے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈی کے (دنیش کارتک) ورلڈ کپ کو نظر میں رکھ کر کھیل رہے ہیں۔ اگرچہ بنگلور یہ میچ 25 رنز سے ہار گئی لیکن ڈی کے نے لوگوں کے دل جیت لیے اور ٹی-20 لیگ کی مقبولیت کے بعد اب تک جتنے میچز کھیلے گئے ہیں ان میں کبھی کوئی دو ٹیموں نے کسی میچ میں اتنا بڑام مجموعہ کھڑا نہیں کیا ہے۔ ہیڈ نے اپنی ٹیم کے لیے تیز ترین سنچری سکور کی جبکہ پورے میچ میں ریکارڈ 38 چھکے لگے۔ ایک اننگز میں 22 چھکے لگے جو کہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ راجستھان کی ٹیم نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا لیکن ان کا یہ فیصلہ اس وقت غلط نظر آنے لگا جب سنیل ناراین کی سنچری کی بدولت کے کے آر نے 223 رنز بنا ڈالے۔ سنیل ناراین نے 13 چوکے اور چھ چھکوں کی مدد سے 109 رنز بنائے جبکہ باقی کھلاڑیوں نے 10، 20 اور 30 رنز کا تعاون کیا۔ راجستھان رائلز نے بہتر انداز میں ہدف کا تعاقب شروع کیا لیکن اوپنر یشوسی جیسوال نو گیندوں پر 19 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے، دوسرے سرے پر انگلش بیٹسمین جوز بٹلر تھے۔ ان کے سامنے پہلے کپتان سنجو سیمسن 12 رنز پر آوٹ ہوئے اور پھر ٹورنامنٹ میں کوہلی کے بعد سب سے زیادہ رنز بنانے والے ریان پراگ 34 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ پھر ایشون، جریل اور ہٹمائر میں بھی آٹھ دو اور صفر رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے تو راجستھان یہ میچ تقریبا ہار چکی تھی اور 121 پر اس کی چھ وکٹیں گر چکی تھیں۔ پھر رومن پوول نے 17ویں اوور میں سنیل ناراین کو لگاتار تین چھکے لگا کر راجستھان کو میچ میں واپس لا دیا۔ کیونکہ اب 18 گیندوں میں 46 رنز درکار تھے اور باقی کے سارے رنز جوز بٹلر نے بنا ڈالے اور اس طرح انھوں نے رواں سیزن کی اپنی دوسری سنچری مکمل کی۔ اس سے قبل انھوں نے آر سی بی کے خلاف اس وقت سنچری لگا کر جیت دلائی تھی جب کوہلی نے 113 رنز کی اننگز کھیلی اور ان کی سنچری کی چمک وہ چھین لے گئے تھے۔ اسی طرح گذشتہ رات انھوں نے سنیل ناراین کی سنچری اور کفایتی بولنگ کی چمک بھی چھین کر لے گئے۔ یہ آئی پی ایل کی تاریخ میں سب سے زیادہ مجموعے کا کامیاب تعاقب تھا۔ تاہم ایک جانب جہاں شائقین نے اتنی جارحانہ بلے بازی اور ریکارڈ ساز مجموعوں کو سراہا، وہیں کرکٹ دیکھنے والوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھاق جس نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ یکے بعد دیگرے ریکارڈ بننے کی وجہ کہیں بلے بازوں کے لیے سازگار پچ تو نہیں۔ بھوک پٹیل نامی صارف نے ایکس پر تبصرہ کیا کہ ’آئی پی ایل کے دوران کسی بھی میچ میں گیند بازوں کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’صرف بیٹنگ کے ریکارڈ بنتے دیکھ دیکھ کر اب یہ تاریخ میں آئی پی ایل کا سب سے برا ایڈیشن محسوس ہونے لگا ہے۔‘ علی عابدی نے حیدر آباد کی بیٹنگ کی تعریف بھی کی اور کہا کہ ان کی بیٹنگ لائن اپ بہت اچھی ہے لیکن ’اس میں ایک کردار پچ کا بھی ہے۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ گلی محلے کی کرکٹ ہو رہی ہے جہاں پر گیند پر چھ لگ رہا ہے۔‘ سوریا ونش نے ایکس پر لکھا کہ ’آئی پی ایل میں بیٹنگ کا ریکارڈ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ اسے ٹوٹ ہی جانا ہے۔‘ ان کے مطابق ’انڈیئن پریمیئر لیگ باؤلرز کے لیے واٹرلو جیسا ہے۔‘ آئی پی ایل کے رواں ایڈیشن میں ابھی اگر چہ نصف سے زیادہ میچز باقی ہیں لیکن اس جیت کے ساتھ راجستھان رائلز پہلی پوزیشن پر برقرار ہے جبکہ کولکتہ نائٹ رائیڈر کا پہلی پوزیشن حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہو گيا ہے۔ حیدرآباد اپنی جیت کے ساتھ چوتھی جبکہ آر سی بی آخری یعنی دسویں پوزیشن پر ہے۔ بہر حال یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کون سی چار ٹیمیں فائنلز میں پہنچیں گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g80mnez7xo
کھلاڑی کو کوڑے مارنے کے مناظر: سعودی فٹبال فیڈریشن کا شائقین کے لیے قوانین سخت کرنے کا فیصلہ
سعودی فٹبال لیگ میں دوران میچ ایک کھلاڑی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملک کی فٹبال فیڈریشن نے شائقین پر لاگو ہونے والے قوائد و ضوابط پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ جدہ میں قائم اتحاد فٹبال کلب کے کھلاڑی کو کوڑے پڑنے کا واقعہ ابو ظہبی میں ہوا جہاں سعودی سپر کپ کے فائنل میچ میں اتحاد کو الہلال کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس ہار کے بعد فیلڈ کے قریب کھڑے ایک مشتعل شخص نے اتحاد کے کھلاڑی کو کوڑے مارنا شروع کر دیے تھے۔ بظاہر فٹبالر عبدالرزاق حمد اللہ نے ایک فین پر پانی پھینکا تھا۔ اس کے بعد فین نے مشتعل ہو کر کھلاڑی پر کوڑے سے ضربیں لگائیں۔ سعودی فٹبال فیڈریشن (ایف اے ایف ایف) نے کہا کہ اسے ’ذلت آمیز مناظر دیکھ کر حیرانی ہوئی۔‘ مراکش سے تعلق رکھنے والے سٹرائیکر حمد اللہ نے اپنی ٹیم کے لیے ایک گول کیا تھا تاہم ان کی ٹیم چار ایک سے ہار گئی تھی۔ وہ اس سے قبل ایک پینلٹی گول کرنے میں ناکام رہے تھے۔ ایف اے ایف ایف نے کہا کہ ’سعودی عرب میں فٹبال ایک فیملی گیم ہے۔ شکر ہے کہ شائقین کی طرف بدتمیزی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس نام نہاد فین کے اقدام سعودی فٹبال کی عکاسی نہیں کرتے۔ ہم اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔‘ ’شائقین کے قوائد و ضوابط پر نظر ثانی ہو گی۔ اس کے نتیجے میں قوانین میں تجدید ہوگی تاکہ جرمانے کرنے سے ایسے واقعات روکے جاسکیں۔‘ اس واقعے کے بعد گراؤنڈ میں موجود عملے نے حمد اللہ کو جوابی اقدام سے روک لیا تھا۔ اتحاد کے دیگر کھلاڑیوں کو بھی روکا گیا جنھوں نے شائقین کی کرسیوں کی جانب چڑھنے کی کوشش کی تھی۔ دوسری طرف ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل فین کو سکیورٹی اہلکار اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اتحاد نے تاحال اس واقعے پر ردعمل نہیں دیا۔ سعودی عرب کو اب فٹبال کے کھیل میں ایک بڑا کھلاڑی سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ 2034 میں فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا۔ سعودی پرو لیگ نے نامور فٹبالرز جیسے کرسٹیانو رونالڈو، نیمار اور کریم بنزیما کو ریکارڈ تنخواہیں دی ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjljzddz6dno
سوشل میڈیا پر دھونی کے 20 رنز کا شور جس نے روہت شرما کی سنچری کو پھیکا کر دیا
سوال: اس فتح میں آپ کو سب سے زیادہ کس چيز کی خوشی ہے؟ جواب: ’یقینی طور پر ہمارے ’نوجوان وکٹ کیپر‘ کا نیچے آکر لگاتار تین چھکے لگانا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے بہت مدد ملی۔ اور آخر میں مجھے لگتا ہے کہ وہی فرق اہم ثابت ہوا۔‘ گذشتہ رات ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں آئی پی ایل کے 29ویں میچ میں چنئی سپر کنگز (سی ایس کے) اور ممبئی انڈینز (ایم آئی) آمنے سامنے تھیں جس میں سی ایس کے نے 20 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ اور گیم پریزینٹیشن کے دوران زمبابوے کے سابق کھلاڑی اور کمنٹیٹر پی موانگوا نے جب چنئی سپر کنگز کے کپتان رتوراج گائیکواڈ سے مذکورہ سوال کیا تو یہ ان کا جواب تھا۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال و جواب گردش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ممبئی انڈینز کے سابق کپتان روہت شرما اور موجودہ کپتان ہاردک پانڈیا بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں جبکہ ’سیلفش‘ یعنی خودغرض بھی ٹرینڈ بھی شامل ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ رتوراج نے ’نوجوان وکٹ کیپر‘ کسے کہا اور اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا جس نے میچ کا فیصلہ چنئی سپر کنگز کے حق میں کر دیا۔ اتوار کی شب وانکھیڑے میں پانچ پانچ بار کی آئی پی ایل فاتح ٹیمیں اپنے چھٹے مقابلے میں ایک دوسرے کے مقابل تھی۔ ہاردک پانڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو وہاں کی کنڈیشن کے لحاظ سے حق بہ جانب تھا۔ چنئی کی ٹیم کا آغاز اچھا نہیں تھا کیونکہ اوپنر اجنکیا رہانے جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولر کوئٹزی کو اپنی وکٹ دے بیٹھے۔ انھوں نے محض پانچ رنز بنائے تھے۔ اس کے بعد دوسرے اوپنر نیوزی لینڈ کے رچن رویندرا بھی 21 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ لیکن پھر کپتان رتوراج (69 رنز) اور شیوم دوبے (66 ناٹ آوٹ) نے ٹیم کو سنبھالا دیا لیکن اس دوران ممبئی انڈینز کے سرکردہ فاسٹ بولر بمراہ اپنی جانی پہچانی کفایتی بولنگ کر رہے تھے۔ افغانستان کے محمد نبی نے بھی کافی کفایتی بولنگ کی لیکن یہ دونوں کھلاڑی ٹیم کے مجموعے کو مسابقتی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر رتوراج کے آوٹ ہونے کے بعد ڈیرل مچل کھیلنے آئے لیکن وہ آخری اوور کی دوسری گیند پر محمد نبی کے ہاتھوں کپتان ہاردک پانڈیا کی گیند پر آوٹ ہو گئے۔ ان کے آوٹ ہوتے ہی پورا سٹیڈیم دھونی دھونی کے نعروں سے گونج اٹھا اور دھونی نے لوگوں کو مایوس نہیں کیا۔ دھونی کی آمد سے قبل ٹیم کا سکور 200 تک پہنچنا مشکل نظر آ رہا تھا لیکن انھوں نے پانڈیا کی پہلی گیند کو لانگ آف کے اوپر سے چھ رنز کے لیے سٹینڈ میں بھیج دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پھر دوسری گیند پر انھوں نے لانگ آن اور مڈ وکٹ کے درمیان چھکا لگایا۔ تیسری گیند لیگ سٹمپ پر فل ٹاس تھی اور اسے سکوائر لیگ کے اوپر سے چھ رنز کے لیے سٹینڈ میں پہنچا دیا۔ چوتھی گیند بلے کے نچلے حصے سے لگی اور وکٹ کے پیچھے گئی جس پر دھونی نے دوڑ کر دو رنز لیے۔ اس طرح 42 سالہ وکٹ کیپر اور سابق کپتان نے چار گیندوں میں 500 کے سٹرائک ریٹ سے 20 رنز بنائے اور یہی 20 رنز ان کی جیت کا فرق بھی ثابت ہوا۔ دھونی یوں تو اپنے شاٹ کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن انھوں نے جس طرح آخری گیندوں کو سٹینڈز میں بھیجا وہ آج کے نوجوانوں کے لیے مثالی ہے کہ کس طرح کیپٹین کول نے اپنا کام کر کھایا۔ اس کے برعکس ممبئی انڈینز نے عمدہ آغاز کیا اور پہلے چھ اوورز میں جب فیلڈ رسٹرکشن ہوتے ہیں انھوں نے بغیر کسی نقصان کے 63 رنز بنائے جو کہ مطلوبہ اوست سے اوپر ہی تھا۔ ایشان کشن 15 گیندوں میں تین چوکے اور ایک چھکے کی مدد سے 21 رنز بنا کر سری لنکن بولر پتھیرانا کا شکار بنے۔ اسی اوور میں پتھیرانا نے سوریہ کمار یادو کو صفر پر آوٹ کر دیا۔ لیکن دوسری جانب روہت شرما اپنے سٹروکس کھیلتے رہے اور انھوں نے 30 گیندوں پر سات چوکے اور دو چھکوں کی مدد سے اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ دوسری جانب نوجوان بیٹسمین تلک ورما اچھی لے میں تھے کہ پتھیرانہ پھر بالنگ کے لیے واپس آئے اور انھوں نے تلک ورما کی وکٹ لے لی۔ ورما نے 20 گیندوں پر 31 رنز بنائے جس میں پانچ چوکے شامل تھے۔ پھر کپتان ہاردک پانڈیا کو دیش پانڈے نے سستے میں نمٹا لیا اور ٹم ڈیوڈ کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ اس دوران مطلوبہ اوسط بڑھتا رہا اور روہت شرما نے 61 گیندون پر دس چوکے اور پانچ چھکوں کی مدد سے اپنی سنچری مکمل کی لیکن وہ ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہے۔ اور شاید اسی لیے انھیں سوشل میڈیا پر سیلفش کہہ کر ٹرول کیا جا رہا ہے۔ پتھیرانہ کو ان کے چاروکٹوں اور کفایتی بولنگ کی وجہ سے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گيا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کو کپتان رتوراج کا دھونی کو ’نوجوان وکٹ کیپر‘ کہنا بے حد پسند آ رہا ہے۔ اس سے قبل جب دھونی نے گجرات ٹائٹنز کے خلاف جست لگا کر ایک کیچ پکڑا تھا تو رتوراج نے کہا تھا کہ 'یہ سب ٹیم کے چند نوجوان کھلاڑیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے'۔ اس وقت بھی ان کا اشارہ دھونی کی طرف تھا۔ جب ہاردک پانڈیا سے پوچھا گیا کہ شکست کی کیا وجہ رہی تو انھوں نے کہا کہ 'چنئی نے اچھی بولنگ کی اور وکٹ کے پیچھے ایک کھلاڑی ہیں جو ان کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ کیسی گیند ڈالنی ہے۔' ان کا اشارہ بھی دھونی کی طرف تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 چنئی کی ٹیم کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اگرچہ دھونی باضابطہ کپتان نہیں ہیں لیکن کپتانی انھی کی ہے۔ اس بات پر چنئی کے کوچ اور مینٹور فلیمنگ نے کہا کہ ’رتوراج اور دھونی میں کوئی فرق نہیں ہے، وہ اتنے ہی کول ہیں جتنے ہو سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے سابق کپتان بہت کول تھے لیکن یہ لڑکا رتو اسی کپڑے کا حصہ ہے۔ وہ ایک بااثر نوجوان ہے اور اسے پتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔‘ بہر حال اس جیت کے بعد چنئی کنگز پوائنٹس ٹیبل پر آٹھ پوائنٹس کے ساتھ تیسری پوزیشن پر جبکہ ممبئی انڈینز چار پوائنٹس کے ساتھ آٹھویں پوزیشن پر ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyx6l1454x6o
ثانیہ مرزا: ’دولت اور شہرت نہیں بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ کون مشکل میں ساتھ دیتا ہے‘
عالمی ٹینس سٹار، ثانیہ مرزا کا کہنا ہے کہ ماں بننے کے بعد ان کو صبر کرنا آ گیا ہے۔ ان کے بقول زندگی میں پیسہ اور نام سب سے اہم نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ کون مشکل میں ساتھ کھڑا ہے۔ بی بی سی نامہ نگار سرواپریا سنگوان کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ثانیہ مرزا نے زندگی سے جڑے بہت سے اہم امور پر بات چیت کی جسے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ثانیہ مرزا نے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بہت سے لوگ آج بھی ان سے پوچھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ثانیہ مرزا کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے بہت سے لوگوں نے پوچھا ریٹائرمنٹ کے فیصلے کے بارے میں کہ ابھی آپ نے فائنل کھیلا ہے۔ میں بلندی پر رک جانا چاہتی تھی اور یہ میرے نزدیک بہت اہم تھا۔‘ تاہم ثانیہ کے مطابق ان کے لیے خود کو فٹ رکھنا اب آسان نہیں رہا تھا۔ ’دوسری وجہ میرا جسم تھا کیوں کہ میرا جسم ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔ میری تین سرجریاں ہو چکی ہیں اور پھر بچے کے بعد ریکوری ویسی نہیں ہو پاتی تھی جس طریقے کی آپ کو چاہیے ہوتی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ یہ تو دیکھ لیتے تھے کہ آپ ایک گرینڈ سلیم کے فائنل میں ہو لیکن جو بات لوگ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ اس فائنل تک پہنچنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑا۔‘ ایک اور سوال کے جواب میں ثانیہ کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بات سمجھتی ہوں کہ ہر کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتی کہ لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں۔‘ ’آپ کو آپ کی فیملی میں ہر کوئی پسند نہیں کر سکتا تو دنیا میں کیسے کریں گے اور ہم تو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہر کسی کے الگ نظریات ہوتے ہیں، الگ انتخاب ہوتا ہے، پسند نا پسند ہوتی ہے اور ہمارے اپنے بھی ہوتے ہیں۔‘ ہم نے ثانیہ سے پوچھا کہ ان کے مطابق ان کے اندر سب سے بڑی تبدیلی کیا آئی ہے تو انھوں نے دلچسپ جواب دیا۔ ’میرا خیال ہے کہ مجھ میں صبر زیادہ آ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو عمر ہے لیکن ایک بڑی وجہ میرا بچہ بھی ہے کیوں کہ میرے خیال میں جب آپ ماں بنتے ہیں تو صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘ ’اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مجھ میں صبر آیا ہے کیوں کہ پہلے میں ایک جذباتی شخصیت رکھتی تھی۔ اب میں کوئی بھی بات کہنے سے پہلے یا کوئی فیصلہ لینے سے پہلے زیادہ سوچتی ہوں۔‘ ایک انٹرویو میں ثانیہ نے کہا تھا کہ ان کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ وہ حقیقت سے دور نہ ہو جائیں۔ اس بیان کا پس منظر ثانیہ سے جاننا چاہا تو ان کا جواب یہ تھا؛ ’میرا خیال ہے کہ ہم جس طرح کی دنیا میں اب رہتے ہیں، چاہے وہ سوشل میڈیا کی ہو، یا میرے کیس میں شہرت کی دنیا ہو، بہت سے لوگ آپ کو بہت سی اچھی باتیں سنا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ کے قریب ایسے لوگ بھی ہوں جو آپ سے سچ بولیں۔‘ ’اور یہ بات میرے نزدیک بہت اہم ہے کہ آپ حقیقت سے قریب رہیں کہ آپ کے لیے کیا چیز اہم ہے اور کون اہم ہے اور آپ خود کس کے لیے اہم ہیں۔‘ ثانیہ سمجھتی ہیں کہ دولت اور شہرت زندگی میں سب سے اہم نہیں۔ ثانیہ نے کہا کہ ’زندگی میں سب سے اہم چیزیں کیا ہیں؟ میرے خیال میں سب سے اہم پیسہ یا شہرت یا چیزیں نہیں ہے۔ ہاں، یہ ایک حصہ ضرور ہیں آسائش کا لیکن یہ سب سے زیادہ اہم چیزیں نہیں ہیں۔‘ ’اہم بات یہ ہے کہ آپ کے مشکل وقت میں کون آپ کے ساتھ ہے جب آپ کو ضرورت ہے۔ اور یہ بھی کہ آپ خود کس کے لیے ایسا کرنے کو تیار ہیں۔‘ ثانیہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کھیل میں آپ جیتنا بھی سیکھتے ہیں اور ہارنا بھی سیکھتے ہیں تو کیا یہ سبق زندگی میں بھی کام آتے ہیں یا زندگی کے مسائل الگ ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں وہی چیزیں زندگی میں بھی کام آتی ہیں کیوں کہ وہ آپ کی شخصیت سازی کرتی ہیں۔ میرے خیال میں مجھے جو تعلیم کھیل سے ملی، دنیا میں ایسی کوئی کتاب شاید نہ ہو جو مجھے اتنا کچھ سکھا سکتی۔‘ ’انسان اچھے دن بھی دیکھتا ہے اور برے دن بھی ہوتے ہیں، آپ جیتتے ہیں، کبھی آپ ہارتے ہیں لیکن پھر لوٹ کر آتے ہیں اور دوبارہ سے کوشش کرتے ہیں۔ اور کوشش ہوتی ہے کہ پہلے سے خود کو زیادہ بہتر بنائیں۔‘ ’یہی سبق زندگی میں بھی کام آتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربات سے یہی سیکھا ہے کہ برے دن ختم ہو جاتے ہیں اور اچھے دن بھی ہمیشہ نہیں رہتے لیکن آپ کوشش کرتے ہیں کہ اچھے دن کچھ زیادہ دیر رہ جائیں اور جب برا دن آتا ہے تو آپ کوشش کرتے ہیں کہ اگلے دن آپ بہتر کریں۔‘ ثانیہ نے لڑکیوں کے لیے کھیل کا ایک دروازہ کھولا اور انڈیا میں بہت کچھ بدلا ہے۔ لیکن کیا ان کے مطابق ابھی بھی ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے؟ ’ہاں، سفر تو ہے اور وہ کسی حد تک ثقافتی بھی ہے، کچھ معاملات میں مذہبی بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اتنے متنوع ملک سے تعلق رکھتے ہیں کہ سب کا ذہن ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔‘ ’لیکن میرے خیال میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ لڑکی کو موقع تو دو، میرے نزدیک یہ سب سے بڑی بات ہے کیوں کہ پہلے تو موقع ہی نہیں ملتا تھا۔‘ ’جب کوئی لڑکی کچھ کرنے جاتی تھی تو اس کو کہہ دیا جاتا تھا کہ نہیں تم نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو اس کو زیادہ یہی بات سننے کو ملتی ہے کہ تم یہ نہیں کر سکتی۔‘ ’تم ایسے نہیں بیٹھ سکتی، تم یہ نہیں کر سکتی، تم ادھر نہیں جا سکتی، تم رات میں باہر نہیں جا سکتی، تمھیں اتنے بجے واپس آنا ہے، بہت زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں۔‘ ’میرے خیال میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ پابندیاں کیوں ہیں اور اگر ہیں تو مسئلے کی جڑ کو نکالنا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c163r2pj8j8o
ثانیہ مرزا: پیسہ اور نام اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ مُشکل میں آپ کے ساتھ کون کھڑا ہے
عالمی ٹینس سٹار، ثانیہ مرزا نے بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ماں بننے کے بعد ان کو صبر کرنا آگیا ہے۔ ان کے بقول زندگی میں پیسہ اور نام سب سے اہم نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ کون مشکل میں ساتھ کھڑا ہے۔ رپورٹر: سرواپریا سنگوان فلمنگ: روہت لوہیا اور راجیش ایڈٹنگ: سدھارتھ کیجریوال
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmld3n9wny4o
پاکستانی سکواڈ کا اعلان اور بابر، شاہین سے متعلق سوال: ’ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کاکول نہ جاتے تو یہ ایک دوسرے کو مار دیتے‘
گذشتہ برس اکتوبر کے اختتام اور نومبر کی شروعات میں پاکستان میں ہر ٹی وی چینل پر موجودہ اور سابق کرکٹرز بابر اعظم کی کپتانی اور بیٹنگ کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے دو نمایاں کھلاڑی فاسٹ بولر محمد عامر اور آل راؤنڈر عماد وسیم تھے۔ محمد عامر نے سنہ 2020 کے اختتام پر کرکٹ بورڈ سے اپنے ’ورک لوڈ‘ سے متعلق اختلافات کی بنیاد پر ریٹائرمنٹ حاصل کر لی تھی جبکہ عماد وسیم کئی سالوں سے پاکستان کی ون ڈے ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ عامر اور عماد دونوں کی ہی جانب سے بابر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور عامر نے تو دبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ ’کپتانی اہم ہوتی ہے۔ جب تک کپتان کی سوچ تبدیل نہیں ہو گی، نظام کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا نظام کی وجہ سے ابرار احمد کو (ورلڈ کپ سکواڈ میں) شامل نہیں کیا گیا تھا اور فخر زمان کو پہلے میچ کے بعد بٹھا دیا گیا تھا؟‘ عامر کا مزید کہنا تھا کہ ’بابر گذشتہ چار سالوں سے پاکستان کے کپتان تھے تو انھوں نے ہی یہ ٹیم بنائی ہے۔‘ عماد وسیم بھی بابر اعظم کی کپتانی اور اُن کے بیٹنگ سٹرائیک ریٹ کے بارے میں اسی نوعیت کے تنقیدی تجزیے کر رہے تھے۔ تاہم یہ بیانات دیے جانے کے لگ بھگ چھ ماہ بعد آج یہ اعلان کیا گیا ہے کہ عامر اور عماد رواں ماہ کی 18 تاریخ سے نیوزی لینڈ کے خلاف شروع ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بابر اعظم کی کپتانی میں کھیل رہے ہوں گے۔ ان چھ مہینوں کے دوران ’تقسیم کی شکار‘ پاکستان کرکٹ میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائیں تو یہ بھی کوئی انہونی بات نہیں لگتی۔ اس دوران بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے اور پھر واپس کپتان بنانے کے ساتھ ساتھ عماد اور عامر کی اپنی ریٹائرمنٹ واپس لینے کی کہانی بھی شامل ہے۔ چھ ماہ کے فرق سے جاری ہونے والی دو متنازع پریس ریلیز، ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ اور ملٹری اکیڈمی کاکول میں ہونے والی ایک ہنگامی ملاقات شاید ان چھ مہینوں کا خلاصہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ شاید یہ اسی جاری تناؤ کا نتیجہ تھا کہ سلیکٹر وہاب ریاض کو شاہین آفریدی کو کپتانی سے ہٹائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں منگل کو یہ کہنا پڑا کہ ’ہمارے ہاں اتنی چہ مگوئیاں ہو جاتی ہیں کہ چیزیں خراب ہو جاتی ہیں۔۔۔ جیسے سوشل میڈیا پر چل رہا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اگر ہم کاکول نہ جاتے تو یہ ایک دوسرے کو مار دیتے۔‘ نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کے لیے 17 رکنی پاکستانی سکواڈ کا اعلان بھی کچھ ایسے ہی ماحول میں ہوا جس میں کم از کم دو سلیکٹرز نے تو بار بار ’ہم رہیں نہ رہیں‘ کا جملہ استعمال کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ’ایک پیج‘ پر ہیں اور مضبوط ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔ سکواڈ میں جہاں محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی نمایاں ہے وہیں عثمان خان، عرفان خان نیازی اور ابرار احمد کی شمولیت بھی اہم ہے۔ سکواڈ میں محمد وسیم جونیئر شامل نہیں ہیں اور انھیں ریزرو کھلاڑیوں کا حصہ بنایا گیا جبکہ حارث رؤف پاکستان سپر لیگ میں کندھے کی انجری کے باعث شامل نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ محمد عامر اور عماد وسیم نے گذشتہ دنوں اپنی ریٹائرمنٹ ختم کر کے پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے دستیاب ہونے کا اعلان کیا تھا۔ عماد وسیم نے آخری مرتبہ پاکستان کی نمائندگی گذشتہ سال نیوزی لینڈ ہی کے خلاف راولپنڈی کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں کی تھی۔ محمد عامر نے آخری مرتبہ 2020 میں پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف اولڈ ٹریفرڈ میں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا تھا۔ محمد عامر نے 50 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں 59 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ دیگر کھلاڑیوں میں بابراعظم (کپتان)، صائم ایوب، محمد رضوان، عثمان خان، افتخار احمد، اعظم خان، عرفان خان نیازی، شاداب خان، عماد وسیم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، زمان خان، محمد عامر، عباس آفریدی، اسامہ میر، فخرزمان اور ابرار احمد شامل ہیں۔ جبکہ ریزرو کھلاڑیوں میں حسیب اللہ، محمد علی، صاحبزادہ فرحان، آغا سلمان اور وسیم جونیئر شامل ہیں۔ سلیکشن کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس سیریز میں ’روٹیشن پالیسی‘ کے تحت زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اظہر محمود کو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا ہے۔ ٹیم کے ساتھ وہاب ریاض بطور سینیئر ٹیم مینیجر، محمد یوسف بیٹنگ کوچ، سعید اجمل سپن بولنگ کوچ اور آفتاب خان فیلڈنگ کوچ کے طور پر شامل ہوں گے۔ پاکستان کے نیوزی لینڈ سیریز کے لیے سکواڈ کے اعلان کے بعد سے ظاہر ہے سوشل میڈیا پر خاصی بات چیت جاری ہے اور جہاں بابر اور شاہین سے متعلق کپتانی کے سوال پر وہاب ریاض کے جواب گردش کر رہے ہیں وہیں کچھ ناموں کی عدم شمولیت پر اکثر شائقین کرکٹ کو تحفظات ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’محمد حارث کا نام ورلڈ کپ سکواڈ کے لیے پہلا نام ہونا چاہیے تھا۔ انھیں پہلے بلاوجہ ڈراپ کرنے کے بعد ان کا حوصلہ پست کر دیا گیا ہے اور اب وہ پی ایس ایل کی کارکردگی کے بعد اس ٹیم کا حصہ بھی نہیں ہیں۔‘ ایک صارف عبداللہ نے لکھا کہ ’اعظم خان کو ٹیم میں شامل کر کے حارث سمیت متعدد محنت کرنے والے کرکٹرز کو نظر انداز کیا گیا ہے اور انھیں اس ٹیم کا بھی حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن اُن کی جگہ اعظم خان کو ٹیم میں شامل کر کے فٹنس کے معاملے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔‘ اسی طرح وہاب ریاض کی جانب سے شاہین کو کپتانی سے ہٹائے جانے سے متعلق جواب پر بھی اکثر صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’اب وہاب ریاض کو یاد آ گیا ہے کہ شاہین کا ورک لوڈ مینیج کرنا مشکل، اس بات کا خیال اس وقت کیوں نہیں آیا جب انھیں کپتان بنایا جا رہا تھا اور اکثر لوگ اسی بات پر تنقید کر رہے تھے۔‘ اسی طرح بابر کی کپتانی میں عماد وسیم اور محمد عامر کی سلیکشن کے بارے میں بھی صارفین تبصرے کر رہے ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک بابر پر تنقید کرنے والے اب ان کے ساتھ کیسے کھیلیں گے۔‘ ایک صحافی نے پریس کانفرنس کے دوران وہاب ریاض اور عبدالرزاق سے سوال کیا کہ کچھ ماہ پہلے تک تو وہ بابر کی کپتانی پر تنقید کرتے تھے اب ان ہی کو کپتان بنا دیا، جس پر عبدالرزاق نے دلچسپ جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’جب آپ ٹی وی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو اور سوچ ہوتی ہے، جب آپ کو ذمہ داری دی جاتی ہے تو آپ نے انصاف کرنا ہوتا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0e8dwvp9eo
سکیئنگ کی پاکستانی کھلاڑی جو عالمی سطح پر پہنچیں
آپ کو ملواتے ہیں لوئر چترال کے علاقے مداکلشت کی سکیئنگ کی کھلاڑی عزیزہ گل سے جو حال ہی میں چائنہ سے جونیئر ایشین الپائن سکی چیمپئن شپ سے واپس لوٹی ہیں ۔عزیزہ نے علاقے کے رسم و رواج کو توڑا اور اب دوسری لڑکیوں کو بھی سکیئنگ سکھا رہی ہیں۔ رپورٹنگ، فلمنگ، ایڈیٹنگ: بلال احمد
https://www.bbc.com/urdu/articles/cglkllreyzxo
آئی پی ایل میں سنچری اور سب سے زیادہ رنز بنا کر بھی وراٹ کوہلی تنقید کی زد میں
انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل کا 17 واں سیزن اپنے عروج پر ہے اور ملک بھر کے سٹیڈیمز میں چھکوں کی بارشیں ہو رہی ہیں۔ بعض ٹیمیں 20 اوورز میں 250 رنز سے زیادہ سکور کر رہیں ہیں لیکن پہلی سنچری کے لیے اسے 19 میچوں تک انتظار کرنا پڑا اور پھر سنچری آئی بھی تو آئی پی ایل کی تاریخ میں سب سے زیادہ سنچری بنانے والے کھلاڑی وراٹ کوہلی کی جانب سے۔ لیکن جہاں کوہلی کی اس سنچری کے لیے ان کی پزیرائی ہو رہی تھی وہیں جب راجستھان رائلز کے بیٹسمین جوز بٹلر نے سنچری بنا کر وراٹ کی سنچری کی چمک چھین لی تو سنچری بنانے کے بعد بھی کوہلی سوشل میڈیا پر ٹرول ہوتے نظر آئے اور جہاں ’کوہلی‘ ٹرینڈ دوسرے نمبر پر چلتا رہا وہیں 'سلویسٹ' بھی ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔ گذشتہ رات انڈیا کے شہر جے پور میں راجستھان رائلز کی ٹیم ایک نئی گلابی جرسی میں کیا اتری کہ پورا سٹیڈیم گلابی ہو گيا۔ کوہلی نے اپنی اس اننگز کے دوران آئی پی ایل میں اپنے ساڑھے سات ہزار رنز مکمل کیے۔ ویسے وہ پہلے سے ہی آئی پی ایل میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ جب انھوں نے سنچری بنائی تو یہ آئی پی ایل میں ان کی آٹھویں اور ٹی20 میں ان کی نویں سنچری تھی۔ انھوں نے اپنی سنچری 67 گیندوں پر بنائی جبکہ وہ 72 گیندوں پر 113 رنز بنا کر ناٹ آوٹ رہے۔ کوہلی کی یہ سنچری آئی پی ایل کی سست ترین سنچری میں شامل ہو گئی ہے۔ اس سے قبل سنہ 2009 میں منیش پانڈے نے 67 گیند پر ہی سنچری سکور کی تھی جو کہ اب تک کی سست ترین سنچری تھی۔ جب کوہلی سے اس بابت پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ گیند بیٹ پر نہیں آ رہی تھی اور شاٹ کھیلنا مشکل ہو رہا تھا۔ انھوں نے اپنی اس اننگز کے دوران 12 چوکے اور چار چھکے بھی لگائے۔ لیکن جب 184 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے راجستھان رائلز کی ٹیم میدان میں اتری تو اسے پہلے ہی اوور میں اوپنر جیسوال کے روپ میں نقصان اٹھانا پڑا پھر کپتان سنجو سیمسن اور انگلینڈ کے معروف بیٹسمین جوز بٹلر نے اپنے سٹروکس سے کھیل کا رخ بدل دیا۔ بٹلر نے 58 گیندوں پر چھکے کے ساتھ اپنی سنچری مکمل کی اور شاید دونوں سنچریوں کے درمیان گيندوں کا یہی فرق جیت اور ہار کا سبب بنا۔ راجستھان رائلز اپنے سار ے چار میچز جیت کر اب ٹورنامنٹ میں سر فہرست ہے جبکہ پوائنٹس ٹیبل رائل چیلنجرز بنگلور (آر سی بی) مستقل تیسری شکست کے بعد آٹھویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ کوہلی رواں سیزن سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بھی ہیں اور انھوں نے اب تک کی پانچ اننگز میں 105 کی اوسط سے 316 رنز بنائے ہیں۔ ان کے پیچھے راجستھان رائلز کے بیٹسمین ریان پراگ اور سنجو سیمسن ہیں جنھوں نے چار چار میچز میں بالترتیب 185 اور 178 رنز بنائے ہیں اور وہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان سب کے باوجود سوشل میڈیا پر سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا اب کوہلی چھوٹے فارمیٹ کے زیادہ مؤثر بیٹسمین نہیں رہے۔ یہ سوال اس لیے بھی کیے جا رہے ہیں کہ اسی سال ٹی 20 کا ورلڈ کپ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلا جانا ہے جس کے لیے انڈیا کی کرکٹ کنٹرول بورڈ بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ نے کپتان روہت شرما کے نام کا اعلان تو کر دیا لیکن وہ وراٹ کوہلی کے نام پر بات ٹال گئے۔ جس کے بعد یہ اندازہ لگایا جانے لگا کہ شاید کوہلی کو اس انٹرنیشنل ایونٹ میں شرکت کے لیے آئی پی ایل میں اپنا دم خم دکھانا پڑے گا اور انھوں نے اب تک اپنا دم خم دکھایا بھی ہے جبکہ ایک میچ میں پلیئر آف دی میچ منتخب ہونے پر انھوں نے معروف کمینٹیٹر ہرش بھوگلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام نہ صرف بھیڑ کو اکٹھا کرنے کے لیے ہے بلکہ ان میں ابھی بھی بیٹنگ باقی ہے۔ اور یہ اشارہ واضح طور پر جے شاہ کی بات کا جواب تھا۔ کوہلی کے جتنے چاہنے والے ہیں اس کا اندازہ انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد سے ہوتا ہے کیونکہ وہ انڈیا کے سب سے زیادہ فالورز والے شخص ہیں۔ ان سے آگے نہ تو انڈین وزیر اعظم مودی ہیں اور نہ ہی تنڈولکر ، دھونی یا شاہ رخ اور سلمان یا کوئی اور ان کا دور دور تک مقابل نظر آتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کوہلی کو ٹرول کرنے والے بھی اتنے ہی ہیں۔ آیوش نامی ایک صارف نے سنجو سیمسن کی پریزینٹیشن کی تصویر ڈال کر لکھا کہ ’ہمارا سادہ سا منصوبہ تھا کہ ہم کوہلی کو پورے 20 اوورز کھیلنے دیں اس طرح ہم انھیں (آر سی بی کو) 190 رنز سے نیچے رکھ سکتے ہیں اور ہم کامیاب رہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 جبکہ بلنٹ انڈیا گل نامی ایک صارف پری نے کوہلی کی ایک اداس تصویر ڈال کر لکھا کہ آر سی بی نے ’ول جیکس کو نہیں کھلایا، فرگیوسن کو نہیں کھلایا، لومرور تو 11 کھلاڑی میں بھی نہیں ہیں۔ میکسول چاروں میچز میں ناکام رہے۔ فاف (ڈوپلیسی) اپنے پرانے رنگ میں نہیں ہیں۔ سراج رنز دے رہے ہیں۔ لیکن ہم کوہلی پر الزام ڈال رہے ہیں جو کہ آر سی بی کے لیے تنہا کھڑا ہوئے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کئی صارفین نے لکھا کہ ابھی تک کوہلی نے ٹیم کے لیے تنہا 316 رنز بنائے جبکہ باقی سب نے مل کر 496 رنز بنائے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ وہ تنہا ہی سکور کر رہے ہیں۔ جبکہ بہت سے صارف نے لکھا کہ 'وراٹ کوہلی کا نیا سنگ میل، آئی پی ایل کی سست ترین سنچری'۔ کولی سینسر نامی ایک صارف نے سنجو سیمسن کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر ڈال کر لکھا ہے کہ انھیں 'وراٹ کوہلی کی سنچری نے بٹلر کی سنچری سے زیادہ فائدہ پہنچایا۔' جبکہ دوسری جانب سپورٹس سٹار کے ساتھ بات کرتے ہوئے سابق انڈین کرکٹر امبتی رائیڈو نے کہا کہ ’گذشتہ رات کولی کی اننگز خود غرضی سے بالکل پاک تھی۔ انھوں نے ٹیم کے لیے کھیلا۔ وہ اپنے سٹرائیک ریٹ سے زیادہ کی شرح سے باؤنڈری لگا سکتے تھے اور آوٹ ہو سکتے تھے لیکن انھوں نے وہی کیا جو ان کی ٹیم ان سے چاہتی تھی۔‘ جبکہ انٹرنیشنل کرکٹر اور آر سی بی کے منیٹور اینڈی فلاور نے کہا کہ ’ہماری بیٹنگ لائن اپ کے ساتھ مسئلہ ہے۔ وراٹ کوہلی اپنے بہترین فارم میں ہیں لیکن دوسرے کھلاڑی فارم اور اعتماد کے معاملے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم بہت کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوہلی نے شاندار کھیل پیش کیا۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ جب بھی کوہلی نے 50 گیندیں کھیلی ہیں ان کی ٹیم 96 فیصد میچز ہاری ہے۔ ان سارے اعدادوشمار کے باوجود کوہلی نے فیلڈنگ میں بھی ایک ریکارڈ قائم کیا ہے اور اب وہ سوریش رینا کو پیچھے چھوڑ کر سب سے زیاد کیچ پکڑنے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ انھوں نے مجموعی طور پر اب تک آئی پی ایل میں 110 کیچز لیے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c03rr5y5l42o
پاکستان نیوزی لینڈ ٹی ٹوئنٹی سیریز: کیوی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں نے پاکستان آنے کی بجائے آئی پی ایل کو ترجیح کیوں دی؟
نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف 18 اپریل سے شروع ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے اپنے جس سکواڈ کا اعلان کیا اس میں کئی اہم کھلاڑیوں کے نام غائب ہیں کیونکہ وہ انڈیا میں جاری آئی پی ایل کے باعث اس سیریز میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔ ٹرینٹ بولٹ، ڈیون کونوے، لوکی فرگوسن، میٹ ہنری، ڈیرل مچل، گلین فلپس، راچن رویندرا، مچل سینٹنر اور کین ولیمسن سمیت کئی بڑے سٹار کرکٹرز آئی پی ایل میں کھیلنے کے لیے انڈیا میں موجود ہیں اور اہم کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کے باعث آل راؤنڈر مائیکل بریس ویل پہلی مرتبہ کیوی ٹیم کی قیادت کرتے نظر آئیں گے۔ پاکستان کے لیے چنی گئی کیوی ٹیم جس میں نئے ٹیلنٹ کو جگہ دی گئی ہے، اسے ’بی ٹیم‘ کہا جا رہا ہے اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خاصا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کی پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز 18 اپریل سے پاکستان میں شروع ہو گی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستانی کرکٹر جنید خان نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ لیگز کو اس ٹیم پر ترجیح دی جا رہی ہے جس نے انھیں اتنی عزت دی۔ ایکس پر کی گئی ٹویٹ میں جنید خان کا کہنا تھا کہ 11 سے 12 سینیئر کھلاڑی اس سیریز کے لیے دستیاب نہیں۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں اور اس سے قبل سنہ 2023 میں بھی آئی پی ایل کے باعث نیوزی لینڈ کے نو بڑے کھلاڑی پاکستان سیریز کھیلنے نہیں آئے تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان میں کئی ناقدین سوال کر رہے ہیں کہ اگر کوئی کھلاڑی نیشنل ڈیوٹی چھوڑ کر لیگ کھیل رہے ہیں تو کیا پلئیر پاور اتنی ہے کہ بورڈ بھی انھیں مجبور نہیں کر پا رہا؟ کئی کرکٹ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ہر ملک کا کرکٹ بورڈ اپنے کھلاڑیوں کے لیے آئی پی ایل سے ملنے والے بھاری فیسوں اور تجربے کی اہمیت کو سمجھ چکا ہے اور اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انڈین ٹیم کے ٹور ان ممالک کے لیے ایک بڑا ریوینو لاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی ناراضگی مول لینا یا ان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہے گا تاہم اس حوالے سے کرکٹر تجزیہ کار سمیع چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں بات پلئیر پاروز اور بورڈ کے پلئیرز کے ساتھ کنٹریکٹ کی نہیں بلکہ یہ بورڈ ٹو بورڈ معاہدہ ہے۔ ’آئی پی ایل میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کے بورڈز کی بی سی سی آئی کے ساتھ کمٹمنٹ ہوتی ہے کہ ہم آئی پی ایل میں کھیلنے والے اپنے کھلاڑیوں کو کسی بھی انٹرنیشنل سیریز کے لیے واپس نہیں بلائیں گے۔‘ سمیع چوہدری بتاتے ہیں کہ پہلے تو یہ عالم تھا کہ آئی پی ایل کے دوران کسی بھی دو ممالک کے درمیان باہمی سیریز کی اجازت نہیں ہوتی تھی تاہم گذشتہ برسوں میں تنقید کے باعث انھوں نے اجازت دے دی کہ ٹھیک ہے آپ آپس میں کھیلیں لیکن آپ اپنے بڑے کھلاڑی واپس نہیں بلائیں گے۔ ’اس کی مثال آسٹریلیا کی ٹیم ہے جن کے مین کھلاڑی آئی پی ایل کھیل رہے تھے اور بی ٹیم ون ڈے سیریز کھیل کر گئی تھی۔ اس کے علاوہ سنہ 2023 میں بھی آئی پی ایل کے باعث نیوزی لینڈ کے نو بڑے کھلاڑی پاکستان نہیں آئے تھے۔‘ تاہم سمیع یہ بھی مانتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بورڈ بی سی سی آئی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہی انڈین ٹیم جب سیریز کے لیے ان ممالک کا دورہ کرتی ہے تو اس ایسی سیریز سے بہت بڑا ریوینو (جس میں دونوں بورڈر کی شیرئنگ ہوتی ہے) آتا ہے۔ سمیع کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے انڈیا سے کھیل کر جو ریونیو آتا ہے وہ پاکستان سے کھیل کر تو نہیں آ سکتا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلی گئی سیریز، انڈیا کے ساتھ ایک سیریز کا 10 فیصد ریوینو بھی نہیں دیتی اور آخر کار پیسہ ایک بہت بڑا عنصر ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ آئی پی ایل سے نیوزی لینڈ بورڈ کو خود کچھ نہیں مل رہا لیکن وہ جانتے ہیں کہ اگر آج وہ ولیمن سن، ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی کو آئی پی ایل چھوڑ کر واپس بلاتے ہیں تو کل کو ان کی انڈیا کے ساتھ سیریز پر سوالیہ نشان آ جائے گا اور اس کے ریونیو کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن پاکستان کے نقطہِ نظر سے دیکھیں تو یہ گذشتہ برس کے 50 اوور کے ورلڈ کپ کی صورتحال سے بالکل مماثلت رکھتی ہے جہاں ہم نے ایشیا کپ اور ورلڈ کپ سے پہلے بی ٹیمیوں سے میچ کھیلے اور آخر میں ہماری قومی ٹیم اے ٹیموں کے آگے لڑکھڑا گئی۔ اس حوالے سے سمیع چوہدری کا کہنا ہے کہ ویسے تو اگر ہمارے ایک دو مین کھلاڑی نہ ہوں تو ان کی بی ٹیم ہی ہمیں ہرا دے گی لیکن ابھی ایسا ہو سکتا ہے کہ ہماری اے ٹیم ان کی بی ٹیم کو پانچ صفر سے کلین سویپ کر دے مگر ظاہر ہے ورلڈ کپ میں یہ والی نیوزی لینڈ ٹیم نہیں ہو گی اور پچھلی بار کی طرح اصل نیوزی لینڈ سامنے آ جائے گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہ پاکستان کے لیے بھی اچھا موقع ہے کہ اپنے بڑے کھلاڑیوں کو ریسٹ دے اور مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئے ٹیلینٹ کو پرکھے؟ اس حوالے سے سمیع چوہدری کا ماننا ہے کہ بے شک نیوزی لینڈ اپنی بی ٹیم بھیج رہا ہے مگر ان کے سیکنڈ چوائس لڑکے بھی بہترین کھلاڑی ہوتے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ نیوزی لینڈ میں کھیلی گئی حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز کی مثال دیتے ہیں جس میں پہلے تین میچوں میں نیوزی لینڈ کے ولیم سن جیسے بڑے کھلاڑی شامل نہیں تھے اور کیوی بورڈ نے کافی نئے چہروں اور نوآموز کھلاڑیوں کو شامل کیا تھ جنھوں نے ہمیں سیریز سے شکست دی۔ سمیع چوہدری کا ماننا ہے کہ صرف سٹیٹس پیڈنگ مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ بابر کے لیے یہ اہم نہیں ہونا چاہیے کہ ’چونکہ میں اب دوبارہ کپتان بحال ہوا ہوں تو چاہیے کچھ ہو جائے میں نے یہ سریز پانچ صفر سے جیتنی ہے تاکہ ٹی سے سوشل میڈیا تک ہر جگہ بلے بلے ہو جائے اور میرے نام کے جھنڈے گڑھ جائیں اور ظاہر ہے جب وہ بلے بلے کروانا چاہے گا تو ڈر کے اندر رہتے اپنے اے لسٹڈ پلئیرز کو ہی کھلائے گا۔‘ ان کا ماننا ہے کہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اگر نیٹ پریکٹس ہی چاہیے تو اس کے آگے کئی مواقع آئیس گے۔ انگلینڈ اور آئرلینڈ میں آنے والے میچوں میں سینیئر کھلاڑیوں کو نیٹ پریکٹس مل جائے گی۔ سمیع چوہدری سمجھتے ہیں کہ اگر پی سی بی اس سیریز سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو انھیں چاہیے کہ نئے لڑکوں کو موقع دیں، بابر کو ہی کپتان رکھیں لیکن انھیں ایک بالکل نئی ٹیم بنا کر دیں جس میں تین چار سینئیر اور باقی آٹھ نئے لڑکوں کو کھلائیں تاکہ انھیں انٹرنیشل کرکٹ کا تجربہ ملے کہ اس لیول پر کرکٹ کھیلنی کیسے ہے اور پریشر کو کیسے برداشت کرنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہو سکتا ہے اس سے پی سی بی کو دو تین ایسے نئے لڑکے مل جائیں جو آگے ورلڈ کپ میں جا کر کام آئیں اور ایک اچھا بیک اپ بھی ملے۔‘ سمیع چوہدری کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز کی باری بھی بارہا کہا گیا کہ نئے لڑکوں کو کھلا لیں آگے جا کر ایک زخمی ہو جائے تو کوئی بیک اپ تو ہو۔ سمیع چوہدری کا ماننا ہے کہ لیکن ایسا ہو گا نہیں ’یہاں چیئرمین سے لے کر کپتان تک سب یہی چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی اپنی میڈیا لابیز ان کی واہ واہ کرتی رہیں اور انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اے ٹیم آ رہی ہے یا بی ٹیم ان کا مقصد صرف پانچ صفر سے سیریز جیتنا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0jxx4w03nyo
اپنی تیز رفتاری سے بلے بازوں کو چکرا دینے والے میانک یادو: کیا انڈیا کو اپنی ’راولپنڈی ایکسپریس‘ مل گئی ہے؟
انڈین ٹیم اپنے بلے بازوں کی وجہ سے عام طور پر سرخیوں میں رہا کرتی تھی اور فاسٹ بولنگ کے معاملے میں اکثر کرکٹ مداح پاکستانی فاسٹ بولروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن گذشتہ چند سالوں میں تصویر کچھ بدل گئی ہے اور انڈین پیسرز نے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو احساس دلوایا ہے۔ انڈیا میں جاری آئی پی ایل کے 2024 کے سیزن میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے دہلی کے بولر میانک یادو اپنی تیز رفتار بولنگ کے لیے ان دنوں شہ سرخیوں میں ہیں۔ جب انھوں نے پنجاب کے خلاف 155.8 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی تیز ترین گیند کروائی تو اسے جاری آئی پی ایل سیزن کی تیز ترین بال قرار دیا گیا۔ ان کی تیز رفتار بولنگ کا میچ کا پانسہ پلٹا اور اپنی تیز رفتاری ہی کی بدولت حاصل ہونے والی تین اہم وکٹوں کے عوض انھیں مین آف دی میچ قرار دیا گيا۔ ان کی گیند کی رفتار کو دیکھتے ہوئے سابق انڈین کرکٹر سنجے منجریکر نے انھیں ’راجدھانی ایکسپریس‘ کے خطاب سے نواز دیا اور سوشل میڈیا پر ان کے لیے بہت سے دیگر صارفین نے ’راجدھانی ایکسپریس‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ میانک یادو کی تیز رفتار بولنگ کو دیکھتے ہوئے کمنٹیٹر سنجے منجریکر نے کہا کہ ’پاکستان کے فاسٹ بولر شعیب اختر کو راولپندی ایکسپریس اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے شہر سے یہ ٹرین (راولپنڈی ایکسپریس) چلتی تھی۔ چونکہ میانک کا تعلق نئی دہلی سے ہے اور وہاں سے راجدھانی ایکسپریس چلتی ہے اس لیے وہ راجدھانی ایکسپریس ہیں۔‘ شعیب اختر کا شہرہ ان کی تیز رفتار گیند بازی کی بدولت رہا اور ان کی جانب سے کروائی گئی تاریخی تیز رفتار گیند کا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا ہے۔ شعیب اختر نے سنہ 2003 میں انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کر کے ریکارڈ بنایا تھا۔ ماضی میں آسٹریلین فاسٹ بولر بریٹ لی (2005 میں) اور پھر سنہ 2010 میں شوان ٹیٹ نے 161.1 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کی گیند کروائی مگر وہ شعیب کے ریکارڈ کو توڑ نہ سکے۔ رواں سال آئی پی ایل میں میانک یادو نے پہلے پنجاب کے خلاف 155.8 کی رفتار سے گیند کرائی لیکن اس کے دو دن بعد جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولر جیرالڈ کوئٹزی نے ممبئی انڈینز کی جانب سے کھیلتے ہوئے راجستھان رائلز کے خلاف ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں 157.4 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینک کر یادو کے رواں سال کے ریکارڈ کو توڑ دیا لیکن وہ شوان ٹیٹ کے ذریعے پھینکی گئی آئی پی ایل کی تیز ترین گیند کا ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ بہر حال گذشتہ رات بنگلور کی چناسوامی سٹیڈیم میں یادو نے ایک بار پھر تیز ترین گیندبازی کا مظاہرہ کیا اور اپنے ریکارڈ کو بہتر کرتے ہوئے 156.7 کی رفتار سے ایک گیند کرائی۔ انھوں نے اس بار 14 رنز کے عوض تین وکٹیں لیں۔ انھوں نے جب کیمرن گرین کو بولڈ کیا تو آسٹریلین بیٹسمین کو ان کی تیز رفتاری نے دھوکا دے دیا۔ میانک یادو پہلے میچ کی طرح دوسرے میچ میں بھی پلیئر آف دی میچ قرار دیے گئے اور یہ اپنے آپ میں ایک منفرد اعزاز اور ریکارڈ ہے۔ بہر حال وہ انڈیا کے اب تک کے تیز ترین بولر نہیں ہیں۔ لیکن ان کی ابتدا کو دیکھتے ہوئے ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں اور انھیں امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم میں شامل کیے جانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اگر انڈین کھلاڑیوں کی تیز رفتاری کی بات کی جائے تو ریکارڈ کے مطابق عمران ملک نے سنہ 2022 میں 157 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے ایک گیند کروائی تھی جبکہ اُسی سال انھوں نے 156 کی رفتار سے بھی گیند کرائی تھی۔ وہ آئی پی ایل میں حیدرآباد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی رفتار کو دیکھتے ہوئے انھیں بھی ’راولپنڈی ایکسپریس‘ کی طرز پر ’کشمیر ایکسپریس‘ کہا جانے لگا کیونکہ ان کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ان کی رفتار پر پاکستان سپر لیگ کے نوجوان کھلاڑی احسان اللہ نے کہا تھا کہ وہ ان سے زیادہ تیز رفتاری سے بولنگ کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ سابق پاکستانی کرکٹر عبدالرزاق نے کہا تھا کہ احسان اللہ 160 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند پھینکنے کی کوشش کریں گے۔ گذشتہ سال عمران ملک نے سری لنکا کے خلاف 156 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کی تھی جو انڈیا کی طرف سے انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے تیز گیند ہے۔ یہ دونوں کھلاڑی عمران ملک اور میانک یادو مسلسل 150 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اوپر کی گیندیں کروا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ عرفان پٹھان نے سنہ 2007 میں 153.7 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کروائی تھی۔ جبکہ محمد شامی نے سنہ 2014 میں 153.3 کی رفتار سے ایک گیند ڈالی اور جسپریت بمراہ نے 2018 میں 153.2 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کروا چکے ہیں۔ سابق انڈین کرکٹر اور کوچ وسیم جعفر نے ایکس پر یادو کے حوالے سے لکھا کہ ’یہ شخص سنسنی خیز ہے۔ بہت پیس ہے اور لائن اور لینتھ پر اچھا کنٹرول ہے۔ یہ آئی پی ایل کا بہترین پہلو ہے کہ انڈیا کی طرف سے نہ کھیلنے والے کرکٹرز پر بھی دنیا بات کرتی ہے۔ میانک یادو کا نام یاد رکھیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اسی طرح کمنٹیٹر ہرش بھوگلے نے ٹویٹ کیا کہ ’سب کچھ چھوڑ کر میانک یادو کی بولنگ دیکھیں۔ مبارک ہو لکھنؤ سپر جاینٹس، آپ نے ایک ہیرا کھود نکالا ہے۔‘ سوجیت سومن نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’خیال کریں کہ عمران ملک، میانک یادو، محمد شامی اور جسپریت بمراہ آسٹریلیا کے خلاف ایک ساتھ پرتھ میں بولنگ کر رہے ہیں۔ یہ نام کسی بھی بیٹسمین کے اعتماد کو ڈگمگانے کے لیے کافی ہیں۔ عمران ملک پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس جیسے کھلاڑی کو کھو نہیں سکتے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ہم نے سپورٹس صحافی آدیش کمار گپتا سے پوچھا کہ کیا انڈیا کو ’راولپنڈی ایکسپریس‘ مل گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’آئی پی ایل اور انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ انڈیا میں وکٹیں فاسٹ بولر کے لیے بنتی ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے فاسٹ بولروں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔‘ ’آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی انگلینڈ کی ٹیم آئی تھی تو ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ وہ ایک ہی فاسٹ بولر سے کھیل رہی تھی اور ٹیسٹ میچز میں اس کی جانب سے دوسرا ہی اوور سپنرز لے کر آ رہے تھے۔‘ بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے آدیش کمار نے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ میانک نے کہا کہ وہ اپنی فٹنس اور ڈائٹ (خوراک) پر دھیان دے رہے ہیں۔ ان سے پہلے عمران ملک کسی آندھی کی طرح آئے تھے لیکن ٹیم میں زیادہ دنوں نہ ٹک سکے۔‘ ان کے مطابق ابھی میانک کو ڈومیسٹک کرکٹ اور بڑے فارمیٹ کے میچز میں اپنا دم خم دکھانا ہو گا، جس طرح جسپریت بمراہ، محمد شامی اور ان سے قبل ظہیر خان نے دکھایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں پچز ایسی بنائی جاتی ہیں کہ راولپنڈی ایکسپریس کے بجائے فاسٹ بولر پسنجر ٹرین بن جاتا ہے۔ میانک ابھی صرف چار اوورز پھینک رہے ہیں۔ جو محنت اور جس قدر محنت شعیب اختر نے کی ہے انٹرنیشنل کرکٹ میں ویسی ہمیں ہمارے یہاں نظر نہیں آتی ہے۔‘ پیس بیٹری کے معاملے میں انھوں نے کہا کہ جسپریت بمراہ انجری پرون ہو گئے ہیں، باقی اب صرف محمد شامی اور محمد سراج بچتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے بولرز جب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کی فاسٹ پچ پر انھیں بال کہاں ڈالنی ہے یہی سمجھنے میں دو تین ٹیسٹ نکل جاتے ہیں۔‘ میانک یادو مغربی دہلی کے رہنے والے ہیں۔ ان کے والد پولیس کی گاڑیوں میں سائرن اور بتیاں فکس کرنے کا کام کرتے ہیں۔ میانک نے دہلی کے معروف سانٹ کلب سے کرکٹ کی شروعات کی اور انھوں نے دہلی کی ڈومیسٹک ٹیم میں جگہ بنائی۔ ’سپورٹس سٹار‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سانٹ کلب کے تارک سنہا نے ان کی صلاحیت کو پہچانا اور وہ میانک یادو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے کلب کے عہدیداروں سے کہا کہ وہ اس لڑکے سے کوئی فیس نہ لیں۔ تارک سنہا دو سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن ان کے نائب دیوندر شرما نے میانک یادو پر اپنی امیدیں ٹکائے رکھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’وہ کلب میں چھ سال قبل اپنے والد (پربھو) کے ساتھ آیا تھا اور اس کے بشرے سے دہلی کے لیے کھیلنے کا اس کا عزم جھلکتا تھا۔ سینئر گروپ نے اس کا نوٹس لیا اور اس نے انھیں اپنی تیز رفتاری سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہمیں ایک لاجواب ٹیلنٹ ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس نے استاد جی (سنہا) کی رہنمائی پر خود کو تیار کیا۔‘ جبکہ میانک کے والد پربھو یادو نے کہا وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے ان کا بیٹا تیز بولر کے طور پر کرکٹ کھیلے اور انھوں نے اپنے بیٹے میانک یادیو کو اپنے کرکٹ کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کیا۔ انھوں نے کہا: ’میں مغربی دہلی کے ایک کلب میں گیا جہاں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ پھر میں نے سونیٹ کلب کے بارے میں سُنا، جہاں مسٹر سنہا ایک غیرجانبدار کوچ ہونے کے لیے مشہور تھے۔ یہ میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا اور میں نے میانک کو مسٹر سنہا کے پاس لے جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ واحد موقع تھا جب میں اس کے ساتھ کلب گیا تھا کیونکہ مجھے یقین دلایا گیا کہ مسٹر سنہا اور دیویندر جی میرے بیٹے کی دیکھ بھال کے لیے بہترین لوگ ہیں۔‘ میانک سنہ 2022 سے ہی لکھنؤ ٹیم کے ساتھ ہیں۔ انھیں 20 لاکھ روپے میں خریدا گیا تھا لیکن وہ انجری کی وجہ سے کسی میچ میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ سنہ 2021 میں وجے ہزارے ٹرافی میں دہلی کی طرف سے دو میچوں میں شرکت کی تھی اور چھ وکٹیں لی تھیں۔ جب سنہ 2022 میں انھیں رنجی ٹرافی کے لیے منتخب کیا گیا تو ان کی انڈیا ٹیم میں جانے کی امید بڑھ گئی لیکن پھر انجری کے سبب وہ اس میں شرکت نہ کر سکے۔ بہرحال اس دوران انھوں نے اپنی فٹنس پر سخت محنت کی جس کا اثر رواں سال آئی پی ایل میں نظر آ رہا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g73x105npo
بابر اعظم سے پہیہ دوبارہ ایجاد کروانے کی کوشش: سمیع چوہدری کا کالم
1999 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں سٹیو وا ایک نو آموز آسٹریلوی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ پہلے مرحلے میں ہی ان کی ٹیم پاکستان اور نیوزی لینڈ سے شکست کھانے کے بعد ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہونے کے دہانے پہ تھی۔ پریس کانفرنس میں جب سٹیو وا سے اس کارکردگی بارے سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس ٹورنامنٹ میں بہت کرکٹ باقی ہے۔ اور پھر چشم فلک نے یہ تماشہ دیکھا کہ انہی کی نوجوان ٹیم فائنل میں، سٹارز سے لدی پھندی پاکستانی ٹیم کو شرمناک شکست دے کر چیمپئین بن گئی۔ سٹیو وا جیسا کرکٹنگ ذہن خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی وہ امید کا دامن چھوٹنے نہیں دیتے تھے اور دباؤ کے ہنگام، اپنی غیر معمولی ذہانت اور اچھوتے فیصلوں سے جیت اچک کر لے جاتے تھے۔ سابق جنوبی افریقی کپتان علی باقر نے کہا تھا کہ کپتان پیدا ہوا کرتے ہیں، کپتان بنائے نہیں جا سکتے۔ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں پہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات درست معلوم پڑتی ہے کہ کئی ایک کامیاب ترین کھلاڑی بدترین کپتان ثابت ہوئے جبکہ کئی اوسط کھلاڑی بھی عمدہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل نکلے۔ یہاں، پی سی بی ایک بار پھر پہیہ ایجاد کرنے کی سمت چل پڑا ہے اور چار ماہ قبل لیے گئے اپنے ہی فیصلے کو پلٹتے ہوئے بابر اعظم کو بطور کپتان بحال کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں مخمصہ محض یہ ہے کہ غلطی چار ماہ پہلے ہوئی تھی یا اب کی جا رہی ہے؟ اور اس سارے قضیے میں شاہین آفریدی کا کیا قصور تھا کہ جنہیں طویل مدتی اہداف کے تحت کپتان بنا کر ایک تجرباتی سکواڈ تھمایا گیا اور فری ہینڈ دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کریں؟ شاہین کی زیر قیادت صرف ایک ہی سیریز کھیلی گئی اور وہ سیریز بھی پلیئنگ الیون طے کرتے کرتے گزر گئی۔ اب اس دوران پی سی بی کی قیادت بدل گئی تو نئے چئیرمین نے نیا کپتان لانا بھی ناگزیر سمجھ لیا۔ تو ایسے میں کیا گارنٹی ہے کہ کل کو اگر خدانخواستہ محسن نقوی بے شمار قومی ذمہ داریوں کے 'بوجھ' کے سبب پی سی بی کی نظامت سے سبکدوش ہو گئے تو آئندہ چئیرمین کو بھی بابر اعظم کی قیادت پہ اتنا ہی اعتماد ہو گا؟ اور اگر بنیاد یہاں پی ایس ایل کی کارکردگی کو بنایا جا رہا ہے تو بھی اس امر سے صرفِ نظر کیسے کیا جا سکتا ہے کہ جہاں شاہین آفریدی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ناکام رہے، وہاں بابر اعظم اپنا بہترین کمبینیشن ہونے کے باوجود، اہم ترین میچ میں، ایک اچھے مجموعے کے دفاع میں ناکام کیوں رہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بابر اعظم اس دہائی کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پریشر میچز کے فیصلہ کن لمحات پہ وہ اندازے کی بنیادی غلطیوں میں الجھ کر میچ گنوا بیٹھتے ہیں۔ حالیہ ون ڈے ورلڈ کپ کو ہی لیجیے تو صرف کامن سینس ہی نہیں، ڈیٹا بھی چیخ چیخ کر بتاتا رہا کہ حارث رؤف نئی گیند کے بولر نہیں ہیں مگر بابر اعظم اوپر تلے انہیں پہلے پاور پلے میں استعمال کر کے شروع سے ہی میچ کا توازن بگاڑتے رہے۔ اسی طرح شاداب خان ایشیا کپ سے پہلے ہی اپنی فارم کھو چکے تھے مگر بابراعظم کرکٹ کمیٹی کے اصرار کے باوجود ابرار احمد کو 15 رکنی سکواڈ میں شامل کرنے پہ رضا مند نہ ہوئے۔ گو قیادت کا بوجھ ہٹنے کے بعد بابر کی بیٹنگ فارم میں مزید بہتری اور نکھار واضح تھا مگر نجانے ان کے سر میں کیا سمائی کہ پھر اس ذمہ داری کو قبول کرنا ضروری جان بیٹھے۔ ایسے میں ایک عقدہ یہ بھی ہے کہ ورلڈ کپ میں ہی ٹی وی پہ بیٹھ کر ان کی قیادت کے لتے لینے والے عماد وسیم اور محمد عامر جب ڈریسنگ روم کا حصہ ہوں گے تو باہمی موافقت کی فضا کون سے مدارج طے کرے گی؟ اور اگر پی سی بی کو شاہین کی قیادت سے کوئی دقت تھی بھی سہی، تو کیا بابر اعظم کے سوا کوئی اور قیادت کے لیے موزوں نہ تھا؟ اگر معمہ میڈیا کے رجحانات اور چند مخصوص لابیز کے 'صحافیانہ' رسوخ کا نہ ہوتا، فیصلہ خالصتاً کرکٹنگ بنیادوں پہ کیا جاتا تو فی الوقت اس ٹیم کی قیادت کے لیے محمد رضوان سے بہتر کوئی امیدوار نہ ہوتا جو بارہا اپنی قائدانہ صلاحیتوں، کرکٹنگ ذہانت اور دباؤ کے دوران حاضر دماغی کا ثبوت دے چکے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ پیرا شوٹ کے ذریعے اتارے گئے پی سی بی سربراہان کو بھی اپنی ہستی کے ثبوت کے لیے میڈیا کے کسی نہ کسی ایک دھڑے کی غیر مشروط تائید ناگزیر ہوتی ہے اور محمد رضوان نہ تو کراچی کی 'صحافت' کے منظورِ نظر ہیں اور نہ ہی لاہور کے، تو پھر بابر اعظم سے ہی پہیہ دوبارہ ایجاد کروانے میں کیا مضائقہ ہے؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2y050zryxo
’ہم فضا کی بلندی سے سمندر میں جا گرے‘: پاکستان میں ایڈونچر سپورٹس کتنے محفوظ ہیں؟
’میں اپنے بچے کو نہ تو اٹھا سکتی ہوں اور نہ ہی فیڈ کروا سکتی ہوں۔ حادثے کے بعد پانچ دن تک حرکت نہیں کر سکی تھی، میری کمر میں متعدد فریکچر ہوئے اور میری پسلی کو نقصان پہنچا۔‘ یہ الفاظ ہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ساحل سمندر پر ’موٹر گلائیڈنگ‘ کے دوران حادثے کا شکار ہونی والی خاتون مسکان ادریس کا جو اب بھی بستر پر اپنی بحالی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مسکان ادریس نے بتایا کہ ایڈونچر سپورٹ میں اس حادثے کے بعد ان کی چار گھنٹوں پر محیط ایک سرجری ہوئی جس میں ان کی ریڑھ کمر میں دو راڈ ڈالے گئے اور بارہ پیچ لگے ہیں۔ اپنے اس حادثے کے متعلق بات کرتے ہوئے مسکان ادریس کا کہنا ہے کہ وہ 25 فروری کو اتوار کی چھٹی کے روز اپنے گیارہ ماہ کے بچے، خاوند اور ساس کے ہمراہ شام چھ بجے موٹر گلائیڈنگ کے لیے کراچی کے علاقے ایچ ایم آر واٹر فرنٹ پہنچی جہاں انھوں نے پہلے سے ہی اس ایڈونچر سپورٹس سے لطف اندوز ہونے کے لیے کراچی گلائیڈنگ کلب سے آن لائن بکنگ کروا رکھی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہاں پہنچ کر ہمیں پتا چلا کہ میں آخری شریک کار ہوں اور یہ کہ اس کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ مجھے وہاں پر لائف جیکٹ، ہیلمنٹ اور سیلفی سٹک فراہم کی گئی۔‘ مسکان ادریس کا دعویٰ ہے کہ فراہم کردہ ساز و سامان چیک کیے بغیر ہی ’مجھے جلدی میں فضا میں بھیج دیا گیا تھا۔ اڑھائی منٹ بعد جب میں کافی اونچائی پر تھی تو اچانک پیرا شوٹ (موٹر کے ساتھ منسلک) کی تار پنکھے میں پھنس گئی اور اچانک رک گئی اور موٹر سمندر میں گر گئی۔‘ مسکان ادریس کا کہنا ہے کہ میں اپنی بیلٹ کھولنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ ’مگر میرا پاؤں موٹر کے پیڈل میں پھنس گیا تھا۔ میں آٹھ، نو منٹ تک مدد کے لیے پکارتی رہی اور کوشش کرتی رہی تھی۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ خوش قسمتی سے وہاں ایک ڈاکٹر جو اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی نجی کشتی پر تفریح کر رہے تھے انھوں نے مدد کی مگر ’کراچی گلائیڈنگ کلب کے پاس ایسے حادثے کی صورت میں کوئی بھی ہنگامی امدادی منصوبہ موجود نہیں تھا۔‘ مسکان ادریس کا کہنا ہے کہ حادثہ کہیں بھی کسی بھی وقت ہوسکتا ہے مگر یہ کراچی گلائیڈنگ کلب کی ذمہ داری تھی کہ وہ حادثے کے بعد اپنے کاہگ اور اپنے انسٹریکٹر کی حفاظت کو یقینی بناتے مگر ان کے پاس ’کوئی بھی امدادی منصوبہ اور وسائل نہیں تھے۔‘ ادھر کراچی گلائیڈنگ کلب کے بانی محمد طلال نے خاتون کے اس الزام کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے کہ حادثہ کی وجہ کلب کی کوئی نا اہلی تھی۔ محمد طلال کا دعویٰ ہے کہ حادثہ کی بنیادی وجہ پتنگ کی ڈور تھی کیونکہ پتنگ کی ڈور نے موٹر کی تار کاٹ دی تھی جس سے انسٹریکٹر کے پاس موجود آدھا کنٹرول ختم ہو گیا تھا۔ محمد طلال کا کہنا ہےکہ ’انسٹریکٹر انتہائی تربیت یافتہ تھے اس لیے حادثے کے وقت ہوا کا رخ خشکی کی طرف تھا لیکن انھوں نے اس کی لینڈنگ پانی میں کی تھی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ہماری امدادی ٹیم موجود تھی لائف گارڈ ساحل پر تھے جو فوراً ہی حرکت میں آگئے تھے۔ مگر سمندر میں جس مقام پر خاتون اور ہمارے انسٹریکٹر موجود تھے وہاں پہچنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا اور اسی دوران خاتون کو ایک نجی کشتی نے ریسیکو کر لیا تھا۔ پاکستان میں گلائیڈنگ ایسوسی ایشن (پی ایچ پی اے) کے صدر سید سجاد حسین شاہ کہتے ہیں کہ اس حادثے پر ان کی گہری نظر رہی ہے اور انھیں بھی یہ معلومات ملی ہیں کہ اس حادثے کی وجہ پتنگ کی ڈور تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس سے قبل بھی ایسا ہی ایک حادثہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور کے علاقے خانپور میں بھی ہوچکا ہے جہاں پتنگ کی ڈور نے موٹر کی تار کاٹ دی تھی۔ بی بی سی نے اس حادثے اور اس ایڈونچر سپورٹس کی سیفٹی سے متعلق قواعد جاننے کے لیے سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ان کے الگ الگ ترجمانوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے کراچی گلائیڈنگ کلب کو اس قسم کی ایڈونچر سپورٹس سرگرمیوں کے لیے کوئی لائسنس جاری نہیں کیا ہے یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا، یہ سول ایوسی ایشن کا دائرہ کار ہے۔ جبکہ سول ایوسی ایشن کے ترجمان سیف اللہ خان نے بتایا کہ سول ایوسی ایشن نے کراچی کلائیڈنگ کلب کو کوئی لائنس جاری نہیں کیا ہے۔ ڈی ایچ اے کراچی سے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کے ایک افیسر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات کرنے کے مجاذ نہیں ہیں۔ اس واقعے نے پاکستان میں ایڈونچر سپورٹس سے جڑے خدشات اور سوالات کو جنم دیا ہے لیکن اس سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ ایڈونچر سپورٹس کون کون سے ہیں اور کہاں ہیں؟ ساجد حسین گلگت بلتستان کے شعبہ سیاحت کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ایڈونچر سپورٹس تو کافی ہیں اور شاید ہر ایڈونچر سپورٹس کے لیے پاکستان خصوصاً گلگت بلتستان میں فضا سازگار ہے۔ اس وقت پاکستان میں گلائیڈنگ کے علاوہ کوہ پیمائی، واٹر رافٹنگ، آئس ہاکی، پولو اور ٹرافی ہنٹنگ کے ایڈونچر سپورٹس ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال 15 ہزار کے قریب ایڈونچر سپورٹس میں دلچسپی رکھنے والے کھلاڑیوں نے گلگت بلتستان کا رخ کیا تھا۔ جس میں سب سے زیادہ کوہ پیما تھے جبکہ اس کے بعد پیرا گلائیڈنگ، آئس ہاکی، واٹر رافٹنگ اور ٹرافی ہنٹنگ شامل تھی۔ ان میں دس ہزار نے کوہ پیمائی کی تھی جبکہ باقیوں نے پیرا گلائیڈنگ، واٹر رافٹنگ، آئس ہاکی اور دیگر کھیل کھیلے تھے۔ سید سجاد حسین شاہ بتاتے ہیں کہ گلائیڈنگ عموماً دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک موٹر گلائیڈنگ اور دوسرا پیرا گلائیڈنگ۔ پیرا گلائیڈنگ میں کوئی موٹر نہیں لگی ہوتی ہے اور پائلٹ خود ہی پہاڑوں پر اونچائی سے اپنے ساتھ لگائے ہوئے پروں کے ساتھ چھلانگ لگاتا ہے اور مختلف پہاڑوں کے درمیان میں سفر کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک کھیل ہے اس کے لیے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کے تقریباً دو سو افراد کے پاس لائنس ہیں جو عموماً پہاڑوں پر یہ مہم جوئی کرتے ہیں۔ موٹر گلائیڈنگ میں زمین سے فضا میں سفر کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک موٹر کے ساتھ منسلک پیراشوٹ کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ عموماً اس کھیل میں ایک انسٹریکٹر یا پائلٹ بھی ہوتا ہے۔ جو کسی کو بھی موٹر کی مدد سے فضا میں لے جاتا ہے۔ موٹر گلائیڈنگ کے لیے پاکستان میں تقریباً 20 ادارے مختلف مقامات پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں گلائیڈنگ کی بہت زیادہ شہرت ہے۔ پاکستان اور پھر کراچی کے ساحلوں پر گلائیڈنگ کے بہت موا قع ہیں۔ باقی تمام دنیا میں گلائیڈنگ سے بڑے پیسے کمائے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق دبئی میں گلائیڈنگ سے روزانہ ساڑھے تین کروڑ روپے کمائے جارہے ہیں۔ سنگاپور میں بھی دو سے تین ملین ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔ ساجد حسین کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی خطرناک کھیل ہوتے ہیں۔ پیرا گلائیڈنگ میں کھلاڑی اونچائی سے چھلانگ لگاتا ہے کوئی مشینی کنٹرول نہیں ہوتا، اس کو اپنی مہارت پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ ’تھوڑا بہت بیلنس خراب ہوا تو بہت کچھ ہوسکتا ہے شاید دنیا بھر میں ایسا کچھ نہیں کہ اس موقع پر کوئی مدد کر سکے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہی صورتحال کوہ پیمائی کی ہے۔ اگر کے ٹو پر کوئی حادثہ ہو جائے تو شاید حادثے کے وقت مدد نہیں مل سکتی۔ آئس ہاکی قدرتی برف پر کھیلی جاتی ہے۔ واٹر رافٹنگ میں دریائے سندھ پر دو چپوؤں کے سہارے کشتی چلائی جاتی ہے، جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ ایڈونچر سپورٹس میں یہ کہنا کہ جب کھلاڑی یہ کھیل رہا ہو تو اس کے ساتھ کچھ انہونی کی صورت میں فوراً مدد مل سکے گی شاید یہ ممکن نہیں ہے۔ چاہے پھر وہ کھیل پیرا گلائیڈنگ ہو، کوہ پیمائی، یا رافٹنگ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کھلاڑی دریائے سندھ کے خطرناک دریا میں کشتی رانی کرتے ہیں انھیں اتنا تربیت یافتہ ضرور ہونا چاہیے کہ وہ خود ہی ہر طرح کے حالات سے نمٹ سکیں۔ اگر ایک کمزور مہم جو کے ٹو اور نانگا پربت کو فتح کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر ’نقصان کا خدشہ رہے گا۔‘ حیدری کا کہنا کہ ایڈونچر سپورٹس کے قوانین موجود ہے، یہ ضرور ہے کہ ان میں بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قوانین کے علاوہ ہر ایڈونچر سپورٹس کے اپنے ایس او پیز ہیں۔ ان ایس او پیز پر عمل در آمد کیا جائے تو اس سے بھی حادثات میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایڈونچر سپورٹس میں حادثات کی کمی کے لیے کھلاڑی کی صلاحیت کا امتحان لیا جاسکتا ہے۔ ’ایڈونچر سپورٹس کے لیے خصوصی تربیتی ادارے قائم ہونے چاہییں جہاں پر ایڈونچر سپورٹس کے شوقین افراد کو تربیت فراہم کی جائے۔ اس طرح امدادی سرگرمیوں کے لیے خصوصی ٹیمیں بھی تیار کی جاسکتی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کے پاس عموماً انشورنس کی سہولت موجود ہوتی ہے جبکہ پاکستانی کھلاڑیوں کے پاس یہ نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اب یہ پابندی عائد کی جانے چاہیے کہ ہر کھلاڑی کے پاس انشورنس کی پالیسی موجود ہو تاکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں امدادی سرگرمی کی جا سکے۔ پاکستان میں بغیر انشورنس کے کوہ پیمائی پر مکمل پابندی ہے اور کسی بھی کوہ پیما کو انشورنس کے بغیر پہاڑ پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح کی پابندی دیگر ایڈونچر سپورٹس میں بھی لاگو کی جاسکتی ہے۔ سید سجاد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ایڈونچر سپورٹس میں خطرات ہیں اور دنیا بھر میں اس کے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر دنیا بھر میں اس کو ریگولیٹ کیا گیا ہے مگر پاکستان میں ابھی تک اس کو ریگولیٹ نہیں کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایڈونچر سپورٹس میں حادثے کو روکنا اتنا ممکن نہیں ہے مگر کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے اقدامات ضرور کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی استعداد کار میں اضافہ کر کے امدادی سرگرمیوں کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ ’اب دیکھیں کراچی حادثہ پتنگ کی ڈور کی وجہ سے ہوا ہے اب اگر یہ ریگولیٹ ہوتا مناسب قوانین موجود ہوتے تو جس علاقے میں موٹر گلائیڈنگ ہو رہی تھی وہاں پر پتنگ کو اڑنے سے روکا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ریگولیٹ نہ ہونے کی بنا پر کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے، پوری دنیا میں گلائیڈنگ ایسوسی ایشن سول ایویشن اور شہری حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور اس کا لائسنس گلائیڈنگ ایسوسی ایشن جاری کرتی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے جس کی بنا پر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سید سجاد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف گلائیڈنگ ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے ایڈونچر سپورٹس کے لیے بہت مواقع موجود ہیں۔ مگر اس کے لیے مختلف اداروں کو مل کر کام کرنے کے علاوہ مناسب قوانین بنانا ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قدرتی، خوبصورت مقامات دبئی، سنگاپور سے زیادہ خوبصورت اور بہتر ہیں۔ ’اگر پاکستان میں ایڈونچر سپورٹس کی بہتر منصوبہ بندی کی جائے، سہولتیں حفاظتی اقدامات اور قوانین بڑھائے جائیں تو نہ صرف پاکستانی بلکہ غیر ملکی کھلاڑی بھی یہاں تفریح کے لیے آئیں گے جس سے پاکستان کی معیشت کو بہت زیادہ فائدہ مل سکتا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72d772wzwgo
کاکول میں پاکستانی کرکٹرز کا فٹنس کیمپ جہاں ’کرکٹ نہیں کھیلی جاتی بلکہ فوجی ٹرینرز کے ساتھ مشقیں ہوتی ہیں‘
’انھوں نے پہلے دن ہمیں بھگا بھگا کر توڑا، یقین کریں پہلے دن میں پکڑ پکڑ کر کموڈ پر بیٹھا تھا۔۔۔ دو ہفتے بعد ایسی فٹنس محسوس ہوتی تھی کہ لفظوں میں نہیں بیان کر سکتے۔‘ سابق پاکستانی آل راؤنڈر شعیب ملک نے ’دی پویلین‘ نامی شو میں کاکول میں لگنے والے فٹنس کیمپ کو کچھ یوں بیان کیا تھا۔ سنہ 2016 میں انگلینڈ کے دورے سے قبل وہ آرمی سکول آف فیزیکل ٹریننگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے بوٹ کیمپ کی بات کر رہے تھے۔ اس کیمپ میں شعیب ملک سمیت سابق کپتان مصباح الحق بھی موجود تھے۔ اب ایک بار پھر 29 پاکستانی کرکٹرز کاکول میں فٹنس کیمپ میں شامل ہیں جو 26 مارچ سے آٹھ اپریل تک جاری رہے گا اور اس کی کچھ ابتدائی جھلکیوں میں کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلنے کی بجائے مختلف مشقیں کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس کیمپ کی توجہ ٹیم بلڈنگ پر ہو گی اور اس کا مقصد کھلاڑیوں کی ذہنی اور جسمانی طاقت میں اضافہ کرنا اور اس بات کو ممکن بنانا ہے کہ وہ آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے بہترین حالت میں ہوں۔‘ پی سی بی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کیمپ کا مقصد پاکستانی کھلاڑیوں کو آنے والی سیریز اور ٹورنمنٹ کے لیے تیار کرنا ہے جن میں ملک میں کھیلے جانے والا نیوزی لینڈ کے خلاف جبکہ بیرون ملک کھیلے جانے والے انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے علاوہ امریکہ اور ویس انڈینز میں منعقد ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ 2016 میں کیمپ کے بعد انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں سینچری بنانے کی خوشی میں مصباح الحق نے دس پُش اپس اپنے فوجی ٹرینرز کے نام کیے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے یوٹیوب چینل پر لگائی گئی ماضی کے فٹنس کیمپ کی ویڈیوز میں کھلاڑیوں کو چڑھائی چڑہتے، سیڑھیوں پر سیدھے کھڑے ہو کر چھلانگ لگا کر دونوں پیروں پر اترنے اور رسہ کشی کی ویڈیوز موجود ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کی میڈیا ڈائریکٹر عالیہ رشید نے بتایا کہ آرمی کی طرف سے دی جانے والی ٹریننگ میں کرکٹ نہیں کھیلی جا رہی بلکہ رننگ اور باڈی بلڈنگ وغیرہ جیسی ورزشیں ہیں۔ پی سی بی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لگائی گئی تصویروں میں کھلاڑیوں کو دوڑتے اور جم میں وزن اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چند گھنٹے پہلے پی سی بی کے یوٹیوب چینل پر اس بار ہونے والے فٹنس کیمپ کے پہلے دن کی جھلکیاں ایک وی لاگ میں دکھائی گئیں جس میں کھلاڑیوں کو مختلف قسم کی ورزشیں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں کھلاڑی دوڑ رہے ہیں، جسم کی سٹریچنگ کر رہے ہیں، انھیں پلینک کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے کہ یہ ڈرلز اور ورزشین کافی مشکل اور مشقت طلب ہیں۔ ورزشوں کے دوران وی لاگ کے میزبان نے مختلف سوالات کھلاڑیوں سے پوچھے اور اس دوران ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اور جواب دینا ان کے لیے آسان نہیں محسوس ہو رہا تھا۔ میزبان شاداب خان سے پلینک کے دوران پوچھتے ہیں کہ کیا انھیں ’مزہ‘ آ رہا ہے تو جواب میں وہ کہتے ہیں ’نہیں بالکل نہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ YouTube پوسٹ کا اختتام اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام اس کے بعد وہ کرکٹر حسن علی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم انھیں فن کرتے ہوئے دیکھتے ہیں‘، اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں ’آج فن نہیں کر رہے بھائی۔‘ اسی طرح جب نسیم شاہ پلینک کر رہے تھے اور ان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کا اس کیمپ میں تجربہ کیسا چل رہا ہے تو انھوں نے کہا ’میری تو پہلے دفعہ ہے جب ٹریننگ سیشن پورا ہو گا تو بتاؤں گا۔‘ اس ویڈیو میں نہ تو کھلاڑیوں سے پوچھے گئے سوالوں کے مکمل جواب تھے اور نہ ہی تمام ورزشیں تفصیل سے دکھائی گئیں لیکن کھلاڑیوں کے شائقین نے اس کاوش کو سوشل میڈیا پر سراہا اور کچھ نے اسے کھلاڑیوں کے لیے بہت اہم قرار دیا۔ ایکس پر صارف شمائل خان نے گذشتہ فٹنس کیمپ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مصباح کے زمانے میں ہونے والا کیمپ یاد ہے جس کہ بعد ٹیم نے انگلینڈ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مائرہ ناصر نے ایکس پر لکھا ’یہ ہمارے لڑکوں کے لیے بہت اچھا موقع ہے۔ امید ہے کہ اس سے ورلڈ کپ میں ان کی کارکردگی میں بہتری ہوگی۔‘ یوٹیوب پر اس ویڈیو کے نیچے محمد کیف نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا کے سب سے زیادہ غیر فٹ کرکٹ کھلاڑیوں کی فٹنس کو بہتر بنانے کے لیے یہ ایک سخت ٹریننگ سیشن ہونا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے میڈیا اور تفریح اسے برباد کر دے گا۔‘ یہاں ہی ایک اور صارف شمیم ذیشان نے کمنٹ میں لکھا کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ ان کھلاڑیوں کی ٹریننگ ہو رہی ہے ورنہ ’ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں ہی یہ لوگ انجری کروا کر آؤٹ ہو جاتے ہیں اور اس سے ساری ٹیم ٹورنامنٹ سے نکل جاتی ہے۔‘ سوشل میڈیا پر بعض صارفین اس حوالے سے بھی بات چیت کر رہے ہیں کہ آیا پی ایس ایل میں کارکردگی اور کاکول کیمپ سے ہی رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی سلیکشن کا تعین ہوگا۔ سابق کرکٹر اور سلیکشن کمیٹی کے سابق رکن کامران اکمل نے اپنے حالیہ وی لاگ میں کاکول میں ہونے والے فٹنس کیمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کیمپ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے انتخاب کے عمل پر تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سختی سے کہا گیا تھا کہ صرف پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کلاڑیوں کو ہی کیمپ میں لایا جائے۔ انھوں نے وی لاکھ میں کہا ’سلیکشن کرنے کا بھی ایک پراسیس ہے، اُس کرکٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آپ صرف ورلڈ کپ کو سامنے رکھ کر پی ایس ایل کی سلیکشن پر کام کریں گے تو وہ اچھی چیز نہیں ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کسی کھلاڑی کا قصور نہیں ہوتا کہ ایک فرنچائز اس کا انتخاب نہیں کرے، اس لیے کھلاڑیوں کی سلیکشن کے لیے ایک پراسس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے سابق ٹیم مینیجر محمد حفیظ نے بعض کھلاڑیوں کی خراب فٹنس پر تنقید کی تھی۔ سابق پاکستانی فاسٹ بولر تنویر احمد نے اپنے وی لاگ میں رائے دی کہ ’(یہ) سلیکشن غلط ہے، ڈومیسٹک کھیلتے نہیں، پی ایس ایل سے پاکستان کھیل جاتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل کرکٹ کوئی گلی محلے کی کرکٹ نہیں کہ اس میں فٹنس کی ضرورت نہیں۔‘ تنویر احمد کے مطابق بعض کھلاڑی بغیر فٹنس کے سکِل کی بنیاد پر ٹیم میں شامل ہوجاتے ہیں مگر وہ سروائو نہیں پاتے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cz5ze3xmr5mo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: کیا وراٹ کوہلی کی اب ٹیم انڈیا میں جگہ نہیں بنتی؟
’میں جانتا ہوں کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی بات آتی ہے تو میرا نام دنیا کے مختلف حصوں میں کھیل کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے اندر اب بھی ٹی 20 کرکٹ موجود ہے۔‘ جیسا کہ توقع تھی وراٹ کوہلی کے اس بیان نے سوشل میڈیا پر کافی سرخیاں لگائی ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے وراٹ کوہلی اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے فعال کرکٹ سے دور تھے۔ حال ہی میں وہ انگلینڈ کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھی نہیں کھیلے تھے۔ دریں اثنا مسلسل قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وراٹ کوہلی کا جون میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے انتخاب مشکل ہو سکتا ہے۔ آپ کو یاد دلانا ضروری ہے کہ چند ہفتے قبل انڈین کرکٹ بورڈ ( بی سی سی آئی) کے سیکریٹری جے شاہ نے امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے روہت شرما کو کپتانی کی ذمہ داری سونپ دی تھی، تاہم وہ اس ٹورنامنٹ میں کوہلی کے کھیلنے کے سوال کو ٹال گئے تھے۔ اس کے بعد ذرائع کے حوالے سے مختلف میڈیا رپورٹس میں ایسی خبریں شائع ہوئیں، جن میں بار بار یہ دلیل دی گئی کہ وراٹ کوہلی کو ورلڈ کپ ٹیم میں جگہ نہیں ملتی۔ یہ اور بات ہے کہ سابق کوچ اور وراٹ کوہلی کے بہت قریب سمجھے جانے والے روی شاستری نے بھی اس ہفتے کمنٹری کے دوران کہا تھا کہ آنے والے ورلڈ کپ میں نوجوان کھلاڑیوں اور فارم کو اہمیت دی جانی چاہیے نہ کہ شہرت کو۔ اگرچہ انھوں نے براہ راست وراٹ کوہلی کا نام نہیں لیا، لیکن اشارہ واضح تھا کیونکہ انگلینڈ کے سابق کپتان کیون پیٹرسن جو کمنٹری بھی کر رہے تھے نے کہا کہ ٹیم انڈیا یہ کیسے سوچ سکتی ہے کہ ٹی 20 کو فروغ دینے والے وراٹ کوہلی اور ان کے برانڈ جیسے لیجنڈز ورلڈ کپ کی ٹیم میں نہیں ہیں؟ کوہلی کو پنجاب کنگز کے خلاف 49 گیندوں میں 77 رنز کی اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی منتخب کیا گیا۔ وراٹ کوہلی جب ہرشا بھوگلے کے پاس انٹرویو کے لیے آئے تو صاف ظاہر تھا کہ اتنے بڑے موقع پر وہ اپنی بات کہیں گے۔ ایسے دل کے خیالات جو شائقین تک نہیں بلکہ بی سی سی آئی سلیکٹرز تک پہنچیں گے۔ اس بیان کے بعد کوہلی نے مکمل طور پر گیند چیف سلیکٹر اجیت اگرکر اور ان کے ساتھیوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ شاید وراٹ کوہلی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اب بھی ٹیم کے کپتان روہت شرما اور کوچ راہول ڈریوڈ کے ورلڈ کپ پلانز میں فٹ بیٹھتے ہیں، لیکن سلیکٹرز کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سنہ 2021 اور سنہ 2022 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست کے لیے انڈیا کے ٹاپ آرڈر (روہت، کے ایل راہول، کوہلی) کی تینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ تینوں نے پہلے کھیلتے ہوئے ایک ہی انداز میں بلے بازی کی۔ ون ڈے ورلڈ کپ کے دوران کپتان روہت نے مکمل طور پر جارحانہ رویہ اپنایا اور 50 اوور کی کرکٹ میں بھی 20 اوور کی کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے یشسوی جیسوال کے ایل راہول سے بہتر آپشن نظر آتے ہیں۔ اب سلیکٹرز کے سامنے سوال یہ ہے کہ کوہلی یا شبمن گل کو تیسرے نمبر پر منتخب کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ مڈل آرڈر میں سوریہ کمار یادو، ہاردک پانڈیا، وکٹ کیپر بلے باز رویندرا جدیجا کی جگہ یقینی ہے۔ اگر کوہلی یا گل کھیلتے ہیں تو رنکو سنگھ کو چھٹے نمبر پر ’فِنشر‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں اگر ضروری ہو تو آپ گِل کو پلیئنگ الیون سے باہر رکھ سکتے ہیں لیکن کوہلی کو نہیں۔ کوہلی کے ٹیم میں برقرار رہنے کے سوال کو لے کر یہاں سے بحث شروع ہوئی۔ کوہلی کے حامی اور روہت کے ناقدین یہ بحث ختم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ اگر تجربہ کار کھلاڑی کے طور پر موجودہ کپتان کو میچ ونر سمجھا جا رہا ہے تو پھر سابق کپتان کے ساتھ سوتیلی ماں والا رویہ کیوں؟ اوسط اور سٹرائیک ریٹ دونوں کے لحاظ سے کوہلی کا مجموعی ریکارڈ روہت سے بہتر ہے۔ لیکن بی سی سی آئی اور سلیکٹرز کا ماننا ہے کہ روہت بھی اس ٹیم میں نہ ہوتے اگر ہاردک پانڈیا ون ڈے ورلڈ کپ کے دوران زخمی نہ ہوتے اور روہت اچانک اپنے کھیل میں اتنی بڑی تبدیلی نہ لاتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں عظیم کھلاڑیوں کو پلیئنگ الیون میں ایک ساتھ رکھنے سے ٹیم کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ وراٹ کوہلی جانتے ہیں کہ اگر روہت ورلڈ کپ کا حصہ ہیں تو کوئی بھی انھیں کسی صورت ٹیم سے نہیں نکال سکتا۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ نام نہاد سست سٹرائیک ریٹ کے باوجود اپنی مہارت اور تجربے کی بدولت انھوں نے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کسی بھی کھلاڑی سے زیادہ میچ وننگ اننگز کھیلی ہیں۔ آخر میلبورن میں سنہ 2022 ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے خلاف اس کی تاریخی اننگز کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ مجموعی طور پر وراٹ کوہلی نے شاندار اننگز کھیل کر سلیکٹرز کو چیلنج کیا ہے۔ چونکہ کوہلی بنگلور کے لیے اوپنر کا کردار ادا کر رہے ہیں، اس لیے ان کی دلیل یہ بھی ہونی چاہیے کہ انھیں روہت کے ساتھ اوپنر کے طور پر دیکھا جائے۔ لیکن سلیکٹرز کے لیے مسئلہ یہ ہوگا کہ ان دونوں کھلاڑیوں نے اوپننگ پارٹنر کے طور پر ایک ساتھ صرف چند میچ کھیلے ہیں۔ اگر کوہلی آنے والے ہفتوں میں اپنے سٹرائیک ریٹ کے ساتھ دوبارہ جدوجہد کرتے ہیں تو سلیکٹرز کی دلیل الٹ سکتی ہے۔ سلیکٹرز یہ بھی توجیح پیش کر سکتے ہیں کہ کوہلی کے رنز اور آئی پی ایل میں فارم ایک اوپنر کے طور پر ہے جبکہ ٹیم انڈیا کے لیے ان کا کردار تیسرے نمبر پر آنے والے بلے باز کا ہے۔ کوہلی کے انتخاب کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے اب سلیکٹرز کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ وراٹ کوہلی کے تازہ بیان سے سلیکٹرز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر بی سی سی آئی کے سربراہوں نے (بالواسطہ) سلیکٹرز کو ٹی-20 فارمیٹ میں کوہلی کی جگہ کسی نوجوان کھلاڑی کو منتخب کرنے کا پیغام دیا ہے، تو شاید اگرکر کو یہ مشکل فیصلہ لینے میں کچھ سکون ملے گا۔ لیکن پھر بھی کوچ ڈریوڈ اور کپتان روہت مداحوں کے سامنے اپنا دفاع کیسے کر پائیں گے کہ وراٹ کوہلی کی جگہ واقعی پلیئنگ الیون میں نہیں ہے۔ مجموعی طور پر معاملہ دلچسپ ہو گیا ہے اور آئی پی ایل کے آنے والے چند ہفتے وراٹ کوہلی کے بلے کے لیے بہت اہم ہوں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ceq7zz7dnn2o
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ: کیا عماد وسیم اور محمد عامر پاکستان کی ضرورت تھے؟
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ تو رواں سال جون میں سجے گا تاہم مارچ کے اس آخری ہفتے میں پاکستانی ٹیم سے ریٹائرمنٹ لینے والے دو کھلاڑیوں فاسٹ بالر محمد عامر اور آل راؤنڈر عماد وسیم کی یکے بعد دیگرے ریٹائرمنٹ سے واپسی کے اعلان نے پاکستانی ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں پر ’آزمائے ہوئے‘ اور ’تجربہ کار‘ کھلاڑیوں کو ترجیح دینے کی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔ اس بحث میں تقویت اس وقت آئی جب پی سی بی نے پیر کو ان 29 کھلاڑیوں کی فہرست کا اعلان کیا جو ایبٹ آباد میں ملٹری اکیڈمی کاکول میں ٹریننگ کیمپ میں شامل ہیں اور اس فہرست میں ان دونوں کھلاڑیوں کا نام بھی شامل تھا۔ تین ہی ماہ پہلے عماد وسیم کا خیال تھا کہ اب پاکستان کے لیے نوجوان کھلاڑیوں کے ہمراہ آگے بڑھنے کا وقت ہے مگر پی ایس ایل کے آخری چار میچز نے گویا وقت کا زاویہ بدل ڈالا ہے اور ’سب سے پہلے پاکستان‘ اب عماد وسیم کا نقطۂ نظر بن چکا ہے۔ بعینہٖ چار برس پہلے جب محمد عامر اچانک انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تو ان کے لیے بھی پاکستان سب پہ مقدم نہ تھا۔ وہ تب کی مینجمنٹ سے خائف تھے تاہم انھوں نے نئی مینجمنٹ کے تحت کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور پھر ان پر یوٹرن کے معاملے میں پاکستان کا کرکٹ کلچر خاصا زرخیز رہا ہے۔ 1987 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان کے کپتان عمران خان نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو یہ خبر شائقین کے لیے حیران کن تھی اور تب میڈیا پہ جو ہنگامہ خیزی ہوئی، اس کے سبب صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کو مداخلت کرنا پڑ گئی۔ ضیا الحق نے جب ذاتی طور پہ عمران خان سے نظرِ ثانی کی درخواست کی تو وہ ریٹائرمنٹ واپس لینے پہ رضامند ہو گئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سات برس بعد پیش آیا جب ٹیم سے ڈراپ کیے جانے پہ جاوید میانداد نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا مگر شائقین کا شور اس قدر بڑھا کہ بالآخر وزیراعظم بینظیر بھٹو کو میانداد سے فیصلہ واپس لینے کی درخواست کرنا پڑ گئی۔ ورلڈ کپ 2011 کے بعد شاہد آفریدی نے بھی ہیڈ کوچ وقار یونس اور چئیرمین اعجاز بٹ سے اختلافات کی بنیاد پہ مشروط ریٹائرمنٹ لی مگر پھر ذکا اشرف سے ’مثبت‘ ملاقات کے نتیجے میں وہ بھی ملک کی خدمت کے لیے حاضر ہو گئے۔ محمد عامر اور عماد وسیم نے تو پاکستان کی خاطر اپنی ریٹائرمنٹس واپس لی ہیں مگر سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا پاکستان کو بھی ان کی ضرورت تھی؟ نامور کرکٹ مبصر عثمان سمیع الدین سو فیصد قائل نہیں ہیں کہ پاکستان کو بھی ان دونوں کھلاڑیوں کی ضرورت تھی۔ تاہم ان کے خیال میں پی ایس ایل جیسے ہائی پروفائل ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی نے ان دونوں کا کیس مضبوط کیا ہے کہ محمد عامر پاور پلے اور ڈیتھ اوورز کے اچھے بولر ہیں اور مختصر فارمیٹ میں پاکستان کا حالیہ ریکارڈ بھی خوش کُن نہیں رہا ہے۔ ’اسی طرح شاداب خان کی فارم بھی گزشتہ چند مہینوں میں حسبِ توقع نہیں رہی۔ سو، ایسے میں عماد وسیم پاکستان کے لیے ایک اچھا انتخاب ہو سکتے ہیں۔‘ سابق کپتان مصباح الحق بھی اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ شاداب کی غیر مستقل فارم کے ہنگام، عماد وسیم کا تجربہ اور حالیہ کارکردگی پاکستان کے لیے سود مند ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں ابھی تک جتنے بولر پاکستان کے لیے کھیل رہے ہیں، وہ ’ون ڈائمینشل‘ ہیں کہ اگر کوئی پاور پلے میں اچھا ہے تو ڈیتھ اوورز میں بہتر ریکارڈ نہیں رکھتا۔ ایسے میں یہ دونوں اچھے ’بیک اپ‘ آپشنز ہو سکتے ہیں کہ یہ اننگز کے مختلف مراحل میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ پچھلے دو سال میں پاکستان نے کئی نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دئیے ہیں جس کے باعث متوقع یہی تھا کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نئی شباہت کی ٹیم کے ساتھ مقابلے میں اترے گا۔ مگر ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی واپسی کیا نوجوان کھلاڑیوں کے لیے کوئی منفی پیغام ہے؟ مصباح الحق کہتے ہیں کہ پاکستان نے نوجوان ٹیلنٹ کو خاصے مواقع دئیے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں رہا۔ اسامہ میر، محمد حسنین اور وسیم جونئیر اس طرح سے ڈلیور نہیں کر پائے، سو ان کے خیال میں دو تجربہ کار کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کے لیے واپس لانے کا فیصلہ اس تناظر میں بہتر تھا کہ بورڈ کی جانب سے انا کو برطرف رکھ کر ملک کی خاطر سوچا گیا۔ مگر عثمان سمیع الدین کہتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ سے پی سی بی جس انتظامی بے یقینی کا شکار تھا، اس کے بعد نئے چئیرمین کی جانب سے، میڈیا کی لہر پہ ایسا ’پاپولسٹ‘ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ وہ حارث رؤف کی مثال دیتے ہیں کہ جس چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے حارث رؤف کا سینٹرل کنٹریکٹ معطل کیا تھا، انھوں نے ہی چئیرمین محسن نقوی کے پہلو میں بیٹھ کر اس کی بحالی کا اعلان کیا۔ نہ صرف محمد عامر اور عماد وسیم ماضی میں انضباطی مسائل کے سبب خبروں میں رہے ہیں بلکہ ٹی وی مبصرین کی حیثیت میں، یہ موجودہ ٹیم کے کئی کھلاڑیوں بالخصوص بابر اعظم کو گہری تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جو بعض اوقات ذاتیات تک بھی پہنچی ہے۔ ایسے میں ان کی واپسی ڈریسنگ روم کے ماحول پہ کیا اثرات مرتب کرے گی؟ مصباح الحق کے خیال میں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب ایک بڑا مقصد سامنے ہو تو اس عظیم ہدف کے تعاقب میں ذاتی اختلافات پسِ پشت ڈالے جا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یقیناً اس طرح کی بیان بازی اور مخاصمت کا ایک منفی اثر تو پڑتا ہے مگر اب یہ پلیئرز اور منیجمنٹ پہ منحصر ہے کہ وہ کیسے آگے بڑھتے ہیں۔‘ عثمان سمیع الدین کے خیال میں بھی یہ منیجمنٹ پہ منحصر ہے کہ اگر یہ ورلڈ کپ میں وہی پرانے زمانے کے سڑے ہوئے منیجرز لے گئے جو محض کھلاڑیوں کو ڈیلی الاؤنس، کپڑوں اور ٹکٹ کی فراہمی تک محدود رہتے ہیں تو پھر یقیناً مسائل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماڈرن منیجمنٹ اور کوچز ہمراہ ہوئے تو ایسا مسئلہ نہیں ہو گا۔ ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کی ناگفتہ بہ کارکردگی کا ملبہ کپتان پہ ڈالتے ہوئے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف نے بابر اعظم کو قیادت سے مستعفی ہونے پہ مجبور کیا تھا۔ لیکن ان کے مقرر کردہ کپتان شاہین آفریدی بھی نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں متاثر نہیں کر پائے اور حالیہ پی ایس ایل ایڈیشن میں بھی ان کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی۔ ایسے میں یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے کہ کیا ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم کی قیادت میں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ گو چئیرمین اسے سلیکشن کمیٹی کی صوابدید سے مشروط کر چکے ہیں مگر میڈیائی حلقوں میں پھر سے لابنگ کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ مصباح الحق کا ہمیشہ سے یہی ماننا رہا ہے کہ پاکستان میں بورڈ مینیجمنٹ کی تبدیلی اور ایک آدھ سیریز کی بنیاد پہ عجلت میں فیصلے لیے جاتے رہے ہیں جن سے نہ صرف تسلسل خراب ہوتا ہے بلکہ افراد کا اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے جذباتی فیصلوں کے منفی نتائج ہی برآمد ہوا کرتے ہیں۔ کوئی ایک واضح وژن ہونا چاہیے۔ جو بھی کرنا ہے، ایک بار طے کر لیا جانا چاہیے اور پھر اس فیصلے پہ قائم رہنا ضروری ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrzxk6kn20o
ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا میچ کے ٹکٹ ہزاروں ڈالر میں ’ری سیل‘: ’ٹکٹ پاکستانی نے دلوایا مگر ساتھ انڈیا کا دیں گے‘
اگر آپ کسی بھی شو یا میچ کا ٹکٹ لینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے شاید آپ آن لائن تلاش کریں گے جہاں ٹکٹ دستیاب ہو۔ وہ ویب سائٹ سامنے آ جائے گی اور آپ تفصیلات دیکھنے کے بعد آسانی سے ٹکٹ خرید لیں گے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو ایونٹس یا تقریبات کی ٹکٹنگ کے لیے امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنایا جاتا ہے۔ امریکہ میں کسی بھی کانسرٹ یا براڈوے شو کے لیے ٹکٹس لاٹری کے ذریعے بھی دیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو برابری کی بنیاد پر ٹکٹس خریدنے کا شفاف موقع دیا جائے۔ ایسا ہی کچھ اس سال امریکہ میں رہنے والے کرکٹ شائقین کے لیے بھی کیا گیا جہاں رواں سال جون میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ سجنے جا رہا ہے۔ 9 جون کو روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ نیویارک میں ہونے جا رہا ہے۔ آئی سی سی کے بقول اس سٹیڈیم میں 34 ہزار سیٹوں کی گنجائش ہے۔ تو ایسے میں اس مقابلے کے ٹکٹ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آٹھ میچز کے لیے آئزن ہاور پارک میں ایک عارضی سٹیڈیم زیر تعمیر ہے جس میں 34 ہزار شائقین کی گنجائش ہو گی۔ ناساؤ کاونٹی کے حکام یہ واضح کر چکے ہیں کہ ٹکٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ مکمل طور پر آئی سی سی کے کنٹرول میں ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ ان کی ذمہ داری سٹیڈیم کی تعمیر اور میچز کے باقی انتظامی امور سے نمٹنا ہے۔ اس سلسلے میں جب بی بی سی نے ناساؤ کاونٹی کی طرف سے بنائی جانے والی کرکٹ ٹی ٹوئنٹی ہوسٹ کمیٹی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کئی ای میلز کے بعد بھی جواب موصول نہیں ہوا۔ امریکہ میں رہنے والی جنوبی ایشیائی کمیونٹی جہاں اس بات پرخوش ہے کہ امریکہ میں کرکٹ اپنی جگہ بنا رہی ہے وہیں اس بات پر مایوس بھی ہے کہ آئزن ہاور پارک میں ہونے والے کرکٹ کے اس اہم ترین مقابلے کی ٹکٹس دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی امریکی انتظامیہ اس سلسلے میں کوئی مدد کر سکتی ہے۔ سات فروری کو آئی سی سی نے شائقین کو ایک ہفتے کا وقت دیا تھا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تمام میچز کے ٹکٹس کی لاٹری میں حصہ لے سکیں۔ انڈیا بمقابلہ پاکستان کی ایک ’سٹینڈرڈ‘ ٹکٹ کی قیمت175 ڈالر جبکہ وی آئی پی ٹکٹس کی قیمت 300 اور 400 ڈالرز مقرر ہوئی۔ آئی سی سی کے مطابق لاٹری میں انڈیا پاکستان کے میچ کی ٹکٹ کی ڈیمانڈ باقی میچز کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ تھی۔ واشنگٹن ڈی سی کی رہائشی شوبھانگی ماتھر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم ایک انرولمنٹ پر چھ ٹکٹس اپلائی کر سکتے تھے۔ اگر مجھے چھ ٹکٹس مل جاتے تو میرے لیے پیسے دینے تھوڑے مشکل ہوتے۔ اس لیے میں نے انڈیا پاکستان کے میچ کے لیے بس تین ہی ٹکٹس مانگے۔ لیکن وہ بھی نہیں ملے۔‘ انھوں نے کہا کہ اسے لاٹری کا نام اس لیے دیا گیا کہ وہ یہ بتا سکیں کہ اگر آپ کا میچ ٹکٹ نکل آیا تو آپ خوش قسمت ہیں اور اگر ایسا نہ ہو پایا تو آپ میچ دیکھنے کا موقع پانے والوں میں سے نہیں۔ نیویارک کے رہائشی ڈاکٹر رجنیش جیسوال کہتے ہیں ’یہ بات نئی نہیں ہے۔۔۔ انڈین کرکٹ کے میچز دنیا بھر میں کہیں بھی ہوں ان کے ٹکٹس سیدھے راستے سے ملتی ہی نہیں ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا ’اور جب بات ہو انڈیا بمقابلہ پاکستان جیسے ہائی پروفائل میچ کی تب تو اور بھی مشکلات آڑے آتی ہیں کیونکہ بی سی سی آئی نے اب تک کوئی نظام متعارف ہی نہیں کروایا اور ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ٹکٹس کتنی قیمتی ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’اس سوال کا جواب میں پندرہ سال سے ڈھونڈ رہا ہوں کہ جب آن لائن ٹکٹس اتنی آسانی سے نہیں ملتیں تو جو لوگ سٹیڈیم میں میچ دیکھتے ہیں ان کو کیسے ملتے ہیں۔‘ ’لیکن اب یہ بھی سمجھ آ گیا ہے کہ اگر اتنے لوگوں کو سمجھ آ گیا ہے کیسے ٹکٹ لینا ہے تو میں کتنا بے وقوف ہوں کہ آج تک سمجھ ہی نہیں پایا۔‘ زارا علی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور یونیورسٹی کے کرکٹ بورڈ کلب سے منسلک ہیں۔ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی قطر کے خلاف تین میچز میں اپنی یونیورسٹی کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’میں اس ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں پاکستان بمقابلہ کینیڈا میچ دیکھنے والی ہوں اور بہت خوش ہوں۔‘ انھوں نے مزید کہا ’میں نے اور میرے والد نے سب کی طرح انڈیا پاکستان کے میچ کی ٹکٹس لاٹری میں اپلائی کیا تھا ۔ انھیں دو ہزار ڈالر کے عوض ایک ٹکٹ مل گیا اور اب وہ یہ میچ دیکھنے جائیں گے۔ ہمیں وہ ٹکٹ تو نہیں ملیں لیکن باقی میچز کے لیے راستہ آسان ہو گیا۔ ’ایک ای میل میں ہمیں بتایا گیا کہ ہم پاکستان کرکٹ کے کچھ اور میچز کی ٹکٹس لے سکتے ہیں۔ اس لیے میں نے پاکستان اور کینیڈا کا میچ منتخب کیا۔‘ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک اور طالبعلم 18 سالہ پیر عبدالقادر خان کو بھی لاٹری کے ذریعے انڈیا پاکستان میچ کی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جنوبی افریقہ بمقابلہ بنگلہ دیش میچ کی ٹکٹ خریدنے کا موقع ملا جو ان کے مطابق مہنگی تھی، پر اتنی نہیں۔ وہ کہتے ہیں ’میں نیوزی لینڈ میں پیدا ہوا تھا۔ اور پھر امریکہ آ گیا۔ میں بچپن سے آج تک کرکٹ کھیل رہا ہوں۔ امریکہ میں میری جنریشن کے لیے یہ ایک یونیک موقع ہے۔‘ ’میں نے کبھی کرکٹ میچ سٹیڈیم میں دیکھا ہی نہیں۔ اور یہ تجربہ امریکی سپورٹس جیسے بیس بال وغیرہ کو سٹیڈیم میں دیکھنے سے قطعی مختلف اور بہت خاص ہو گا۔ اس لیے میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔‘ لیکن جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے انھی شائقین میں سے ایک ایسے ہیں جنھیں نو جون کو ناساؤ کاونٹی میں بننے والے مخصوص سٹیڈیم میں انڈیا بمقابلہ پاکستان کا میچ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 21 سالہ شوبھت کمار کے پاس یہ قیمتی ٹکٹ ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال وہ نیویارک میں ایک انویسٹمنٹ بینک میں کام کرتے تھے۔ ان کی سی وی میں لکھا ہوا تھا کہ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کرکٹ کلب کے نائب صدر ہیں۔ اس بینک کے انٹرویو کے دوران ان کے سپروائزر نے کلب کا ذکر کیا، وہ خود پاکستانی نژاد امریکی تھے۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں کرکٹ کلبز بننے لگے ہیں۔ ان دونوں کی کرکٹ پر پھر دوستانہ گفتگو ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں ’کچھ عرصے بعد میں واشنگٹن واپس آ گیا اور میری ان سے بات چیت بھی ختم ہو گئی۔ لیکن پھر کچھ دن پہلے مجھے انھی کی طرف سے اچانک ایک ای میل موصول ہوا جس میں لکھا تھا فلاں تاریخ کو فلاں وقت نیویارک پہنچو، میرے پاس ہم دونوں کے لیے انڈیا بمقابلہ پاکستان کی ٹکٹس موجود ہیں۔‘ شوبھت کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ ’میرے لیے یہ بہت خاص اور یادگار ہے کہ ایک پاکستانی شخص مجھے اس روایتی مقابلے کو دیکھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ لیکن میں پھر بھی انڈیا کو سپورٹ کروں گا۔‘ لاٹری کے بعد 2024 کے آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے عام ٹکٹس اس سال 22 فروری کو ٹورنامنٹ کی ویب سائٹ پر ’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘ کی بنیاد پر خریداری کے لیے دستیاب ہوئے۔ امریکہ میں نساؤ کاؤنٹی (نیویارک)، ڈیلس (ٹیکساس) اور فورٹ لاڈرڈیل (فلوریڈا) میں کھیلے جانے والے مقابلوں کے لیے ٹکٹس کی فروخت 35 ڈالر سے شروع ہوئی۔ تاہم، عام فروخت شروع ہونے سے پہلے چار میچ مکمل فروخت ہو گئے جن میں یکم جون کو امریکہ بمقابلہ کینیڈا، نو جون کو انڈیا بمقابلہ پاکستان، 15 جون کو انڈیا بمقابلہ کینیڈا، اور 29 جون کو بارباڈوس میں فائنل میچ شامل ہے۔ مکمل فروخت ہونے والے ان میچز کی کچھ ٹکٹیں ری سیل (دوبارہ فروخت) مارکیٹ میں پہنچ چکی ہیں۔ یہ سٹب ہب اور وی ویڈ سیٹس جیسی ویب سائٹس پر اب بھی دستیاب ہیں۔ اور انڈیا بمقابلہ پاکستان کے لیے اس ہفتے سٹب ہب پر فروخت ہونے والا مہنگا ترین ٹکٹ 40 ہزار ڈالر سے زیادہ اور سستا ترین ٹکٹ ساڑھے بارہ سو ڈالر کا ہے۔ ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ منسلک بنگلور سے امریکہ منتقل ہونے والے آدیتیہ کہتے ہیں کہ ان جیسے ملازمت پیشہ افراد اتنے مہنگے ٹکٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے مگر انھیں یہ خوشی ہے کہ امریکہ میں ایسا ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے امریکہ کے انتظامات پر پورا بھروسہ ہے۔ یقیناً ایک زبردست ٹورنامنٹ منعقد ہو گا۔ میں خوش ہوں یہ صحیح سمت میں پہلا قدم ہے اور اگر ابھی کچھ لوگ اس بات پر خوش نہیں کہ انھیں ٹکٹ نہیں ملا وہ آئندہ چند سالوں میں بہت خوش ہوں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’وقت لگے گا لیکن پھر یہ بھی ہے کہ کچھ برسوں میں ہمیں یہ ٹورنامنٹ یاد ہی نہیں رہے گا کیوںکہ ہم ایسے اگلے تورنامنٹ پر نظریں جمائے ہوں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c970q11912po
محمد عامر اور عماد وسیم کی ’واپسی‘: پی سی بی کو نئے ٹیلنٹ کی جگہ ریٹائرمنٹ واپس لینے والے کھلاڑیوں کے پاس کیوں جانا پڑ رہا ہے؟
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ تو رواں سال جون میں سجے گا تاہم مارچ کے اس آخری ہفتے میں پاکستانی ٹیم سے ریٹائرمنٹ لینے والے دو کھلاڑیوں کی یکے بعد دیگرے ریٹائرمنٹ کی واپسی کے اعلان نے بعض شائقین کو چونکا دیا مگر کچھ لوگوں کو پہلے سے ہی اس کی توقع تھی۔ اس معاملے نے یہ بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ پاکستانی ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں پر ’آزمائے ہوئے‘ اور ’تجربہ کار‘ کھلاڑیوں کو ترجیح دینے کے پیچھے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی کیا حکمت عملی ہے۔ جن دو کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ واپس لینے کے اعلان سامنے آئے ہیں ان میں سے ایک فاسٹ بالر محمد عامر ہیں جنھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے تقریبا چار سال بعد اپنا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب حالیہ دنوں میں آل راؤنڈر عماد وسیم نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے گذشتہ برس نومبر میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سنیچر کو کرکٹرعماد وسیم نے کہا کہ پی سی بی نے دوبارہ پر ان اعتماد ظاہر کیا ہے۔ ان کے بعد اتوار کو محمد عامر نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں اعلان کیا کہ پاکستان کی جانب سے کھیلنا اب بھی ان کا خواب ہے۔ محمد عامر نے ریٹائرمنٹ کا اعلان واپس لینے کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’زندگی ہمیں اس مقام پر لے آتی ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرنی پڑتی ہے۔‘ محمد عامر کے مطابق ان کی پی سی بی سے ’مثبت گفتگو‘ ہوئی ہے جہاں ان کو ’عزت دی گئی اور آگاہ کیا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔‘ اس پیغام کے مطابق انھوں نے اپنے اہلِ خانہ اور دیگر قریبی افراد سے مشاورت کے بعد آئندہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اپنی دستیابی کا اعلان کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سپورٹس جرنسلٹ فیضان لاکھانی کی رائے میں عماد وسیم اور محمد عامر دونوں کے کیسز میں فرق ہے۔ ’عماد وسیم نے پچھلے سال تک کرکٹ کھیلی اور ابھی بھی کھیل رہے ہیں جبکہ حال ہی میں ہونے والے پی ایس ایل میں ان کی پرفارمنس اچھی رہی۔ جبکہ محمد عامر نے چار سال پہلے ریٹائرمنٹ لی اور انھوں نے یہ فیصلہ اس وقت لیا تھا جب پاکستان کو ان کی ضرورت تھی۔‘ ’سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پی سی بی نے خود کیا کیا ہے، اس کا جواب انھیں دینا چاہیے۔ ان کو گھوم پھر کے واپس انھی کھلاڑیوں کی جانب آنا پڑ رہا ہے جو اپنی ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔ انھوں نے کیوں نہیں نیا ٹیلینٹ پروڈیوس کیا؟‘ فیضان لاکھانی کے مطابق عامر جمال، عباس آفریدی اور دیگر نوجوان ٹیم کا حصہ ہیں اور اچھا کھیلے بھی ہیں لیکن ’آپ نے ان کو موقع کیوں نہیں دیا؟ آپ نے چار سال میں کسی کو تیار کیوں نہیں کیا۔ اور کیوں عامر کی جانب گھوم پھر کے آنا پڑ رہا ہے؟‘ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی ایس ایل میں نوجوان پلیئرز نے اچھا پرفارم کیا۔ ’نئے پلیئرز کو بورڈ کو موقع دینا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عامر اور عماد نے میچز جتوائے مگر اس طرح کے فیصلوں سے نوجوان پلیئرز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنا پسینہ بہا رہے ہیں، ان کے بجائے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والوں کو آپ آگے لائیں گے تو پلیئرز کی دل شکنی ہو گی۔‘ فیضان کہتے ہیں کہ ’پی سی بی کو چاہیے کہ کلیئر کٹ یہ اعلان کرے کہ یہ صرف ورلڈ کپ کے لیے ہے اور اس کے بعد ہم فل سٹاپ لگا دیں گے۔ پھر اگلے چار سال میں اکیڈمی میں اپنے نوجوانوں کو بھرپور تیار کر لیں گے۔‘ فیضان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد عامر اور عماد وسیم دونوں اچھے پلیئرز رہے ہیں اور انھوں نے پاکستان کو جیت کے کئی مواقع دیے ہیں لیکن سوال پی سی بی پر اٹھتا ہے کہ آپ نے بیک اپ تیار کیوں نہیں کیا؟‘ خیال رہے کہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے نئی سات رکنی سلیکشن کمیٹی سے متعلق پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ اس میں عبدالرزاق، وہاب ریاض، محمد یوسف اور اسد شفیق شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا عماد وسیم سے صرف ایک بات ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ملک کے لیے کھیلیں۔ انھوں نے عامر کی شمولیت کے حوالے سے کہا کہ اس کا فیصلہ کمیٹی ہی کرے گی۔ کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری نے بھی محمد عامر اور عماد وسیم کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں موقع دینے پر پی سی بی پر تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو نئے لڑکے ہیں، ان پر گویا لات مار کر چھوڑ کر جانے والوں کو ترجیح دیں گے تو ان لڑکوں کی انسلٹ ہو گی۔‘ تو پی سی بی کے ایسے فیصلوں کے پیچھے اصل وجہ کیا ہوتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں سمیع چوہدری نے پی سی بی کے سامنے اپنا سوال رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسلام آباد یونائیٹڈ پی ایس ایل کی فاتح ٹیم کا ٹائٹل نہ جیتتی تو کیا جب بھی عماد وسیم کو واپس لیا جاتا؟‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب لابنگ کا کمال ہے۔ شروع سے یہی ہوتا ہے کہ یہ خاص طرح کی لابیز مختلف پلیئرز کو سپورٹ کرتی ہیں اور یہی عماد کے نام کے ساتھ بھی ہوا ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’چیئرمین پی سی بی کی نشست پر براجمان ہونے والوں کا شروع سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ میڈیا کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔‘ سمیع چوہدری کے مطابق ’محمد عامر جو پاکستان سے اسائلم لے کر گئے تھے، وہ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔‘ یاد رہے کہ جس وقت محمد عامر ریٹائرمنٹ لے کر انگلینڈ منتقل ہو گئے تھے اس وقت یہ قیاس آرائیاں کی گئیں تھیں کہ وہ انگلینڈ کی نمائندگی بھی کر سکتے ہیں۔ مگر اب ان کی جانب سے پاکستانی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لینے سے ان قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا ہے۔ سمیع چوہدری نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس وقت ٹیم میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں۔ ’ہمارے پاس اچھے سپنر بھی موجود ہیں تو میرا نہیں خیال کے اس فیصلے کی ضرورت تھی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 عامر اور عماد کی واپسی پی سی بی پر تنقید کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جیسے ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’پی سی بی ایک سرکس ہے۔‘ ثاقب نامی صارف نے طنزیہ لکھا کہ ’پی سی بی کے سلیم جعفر اور سکندر بخت سے رابطے۔۔۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کے سکواڈ میں شمولیت کی یقین دہانیوں پر دونوں فاسٹ بولرز نے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ ’سرفراز نواز اور طاہر نقاش نے بھی پریکٹس شروع کر دی۔ ٹیم میں واپسی کے لیے پر امید۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک اور صارف نے لکھا کہ ’عماد وسیم اور محمد عامر کا دور گزر چکا ہے. یہ چھوٹی موٹی ٹیموں کے خلاف تو کھیل سکتے ہیں لیکن بڑی ٹیموں کے خلاف ان کی پرفارمنس صفر ہوگی اور اب یہ دوبارہ پاکستانی ٹیم میں شمولیت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 تاہم بعض صارفین نے عماد اور عامر کی واپسی پر خوشی کا اظہار کیا۔ جیسے ایک صارف نے عامر کی واپسی پر لکھا: ’دی کِنگ اِز بیک۔‘ ایک دوسرے صارف نے کہا کہ ’میرے خیال سے اس ٹائم پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت عامر کی ہے۔ ’سلام پیش کرتا ہوں چیئرمین پی سی بی کو، جنھوں نے پاکستان کا سوچا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7zyn8qzx4o
شہریار خان کی وفات: بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کے بیٹے کا شاہی محل سے ملیر تک کا سفر
سابق سیکریٹری خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین شہریار خان 89 برس کی عمر میں سنیچر کو وفات پا گئے ہیں۔ وہ 29 مارچ 1934 کو بھوپال کے ’قصر سلطانی پیلس‘ میں پیدا ہوئے۔ شہریار خان ریاست کوروائی کے نواب محمد سرور علی خان کے فرزند اور ریاست بھوپال کے نواب حمیداللہ کے نواسے تھے۔ شہریار خان انڈین فلم سٹار سیف علی خان کے والد منصور علی خان پٹودی کے خالہ زاد بھائی تھے۔ شہریار خان کے کریئر کو ان کی والدہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ شہریار خان کے احوال زندگی پر نظر دوڑانے سے قبل ان کی والدہ اور ان کے بھوپال کی پرتعیش زندگی چھوڑ کر پاکستان آنے کے فیصلے کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہریار خان کے خاندان کے انڈیا سے پاکستان منتقل ہونے سے متعلق محقق عقیل عباس جعفری نے بی بی سی پر تفصیل سے لکھا ہے۔ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان کے سفر سے متعلق اپنی زندگی میں خود شہریار خان نے بھی تفصیلات بتائیں تھیں جو یہاں درج کی جا رہی ہیں۔ سنہ 1948 میں انڈیا کی ریاست بھوپال کی وارث نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے تخت کی طرف لوٹنے کے بجائے پاکستان آنا چاہتی ہیں۔ جناح یہ سُن کر پھولے نہ سمائے اور کہا ’آخرکار! اب ہمارے پاس مسز پنڈت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تو ہو گا۔‘ مسز پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں اور اس وقت اقوامِ متحدہ میں انڈیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ یہ شخصیت شہزادی گوہر تاج، بیا حضور عابدہ سلطان تھیں۔ اُن کے اکلوتے فرزند شہریار محمد خان کی یاد کے مطابق جب ان کی والدہ پاکستانی سفارتخانے سے اپنا پاسپورٹ لینے پہنچیں تو انھیں خبر ملی کہ جناح کی وفات ہو گئی ہے۔ ’اس سے خاصی تاخیر پیدا ہوئی اور آخر میں وہ محض دو سوٹ کیسوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔‘ تو ہندوستان کی دو ریاستوں کی وارث اور شاہی خاندانوں میں پلی بڑھی اس شہزادی نے پاکستان کی خاطر اپنی یہ وراثت چھوڑ کر کراچی آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں بیا حضور کی زندگی پر ایک نظر ڈالنی ہو گی۔ شہزادی عابدہ سلطان نے اپنے حالات زندگی اپنی آپ بیتی ’عابدہ سلطان: ایک انقلابی شہزادی کی خودنوشت‘ میں تفصیل سے رقم کیے ہیں جس کے مطابق وہ 28 اگست 1913 کو بھوپال کے قصرِ سلطانی میں پیدا ہوئیں۔ شہزادی عابدہ سلطان کے مطابق اُن کی تربیت نواب سلطان جہاں بیگم نے خود اپنی نگرانی میں کی۔ انھوں نے عابدہ سلطان کے لیے ’نور الصباح‘ کے نام سے ایک محل تعمیر کروایا اور انھیں امور مملکت کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، نشانہ بازی اور مختلف کھیلوں کے تربیت دی۔ وہ عابدہ سلطان کی مذہبی تعلیم سے غافل نہیں رہیں اور انھیں قرآن پڑھانے کے لیے ایک عرب عالم دین شیخ محمد عرب کی خدمات حاصل کیں۔ شہریار خان نے اپنی زندگی میں یہ بات بی بی سی کو بتائی تھی کہ ’سرکار اماں میری والدہ کی تربیت ایک مثالی مسلم عورت کے طرز پر کرنا چاہتی تھیں۔ وہ میری والدہ کو روز صبح چار بجے قرآن کی تلاوت کے لیے جگا دیتیں۔ تلفظ اور یادداشت کی ہر غلطی پر انھیں مار بھی پڑتی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ چھ برس کی عمر میں انھوں نے قرآن حفظ کر لیا تھا۔‘ شہریار خان کے مطابق اگرچہ سرکار اماں شہزادی عابدہ سے بہت پیار کرتی تھیں لیکن وہ اپنی شفقت کا برملا اظہار کم ہی کرتی تھیں۔ ’جس دن انھوں نے حفظِ قرآن مکمل حفظ کیا، انھیں ایک دن کی تعطیل عطا کی گئی اور سرکار اماں نے انھیں بوسہ دیا۔ میری والدہ کہتی تھیں کہ ان کی یادداشت میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے انھیں پیار سے چوما ہو کیونکہ ان کے خاندان میں شفقت کا اظہار شاز و نادر ہی کیا جاتا تھا۔‘ شہریار خان کی والدہ عابدہ سلطان خود کھیلوں سے محبت رکھتی تھیں اور وہ ایک اچھی پائلٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی کھلاڑی بھی تھیں۔ گھڑ سواری کا شوق ہی انھیں پولو کے میدان تک لے گیا۔ لندن میں قیام کے دوران شہزادی عابدہ سلطان ساؤتھ کینزنگٹن میں گریمپیئنز سکواش کورٹ میں عظیم کھلاڑی ہاشم خان کے رشتہ داروں ولی خان اور بہادر خان کے ساتھ کھیلا کرتیں۔ شہریار خان نے بی بی سی کو اپنی والدہ سے متعلق بتایا تھا کہ ان کی والدہ نے سنہ 1949 میں آل انڈیا ومنز سکواش چیمپیئن کا اعزاز جیتا۔ ’ہاکی کے میدان میں بھی وہ چیمپیئنز کے ہمراہ اُتریں۔‘ انھیں شکار بھی پسند تھا۔ ان کے والد نواب حمیداللہ خان انھیں شیر اور تیندوے کے شکار پر ساتھ لے جاتے۔ شہریار خان کی والدہ نے بھوپال چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے کی بڑی وجہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک بنا۔ اس زمانے میں شاہی گھرانوں کی خواتین سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بچپن سے ہی گھڑ سواری میں مہارت حاصل کریں۔ شہریار خان بتاتے ہیں کہ جب شہزادی عابدہ گود میں تھیں تو انھیں اور اُن کی بہنوں کو ٹوکریوں میں لٹا کر گھوڑوں کے اوپر باندھ دیا جاتا اور باغ کے چکر لگوائے جاتے۔ جب وہ بیٹھنے کے قابل ہو گئیں تو انھیں ’بکٹ چیئر‘ پر بٹھا کر گھوڑے سے باندھ دیا جاتا۔ شہریار خان کے بقول: ’چھوٹی عمر سے ہی میری والدہ کو سکھایا گیا تھا کہ ہر پٹھان کو اچھا نشانہ باز بھی ہونا چاہیے اور شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو کہ ان کے پاس اپنی کوئی بندوق نہ رہی ہو۔ بچپن میں ان کے پاس ایک کھلونا رائفل تھی جس سے وہ مکھیاں مارتیں۔ پھر جب بڑی ہوئیں تو پرندوں کا شکار کرنے کے لیے ایئر گن استعمال کرنے لگیں۔ اس سے قبل کہ میری والدہ اور ان کی بہنوں کو اصل رائفل استعمال کرنے کی اجازت ملتی، انھیں نشانہ بازی کی فوجی مشقیں کروائی گئیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر شوٹنگ رینج پر مشق کرتی تھیں۔‘ چار فروری 1960 کو نواب حمید اللہ خان بھوپال میں وفات پا گئے۔ اس وقت عابدہ سلطان بھوپال میں ہی موجود تھیں۔ انھیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ پاکستان کی شہریت ترک کر دیں اور ہندوستان واپس آ جائیں تو انھیں بھوپال کا نواب بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی شہزادی عابدہ سلطان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ بھوپال میں رہائش اختیار کر لیں مگر شہزادی عابدہ سلطان اپنی چھوٹی بہن ساجدہ کے حق میں دستبردار ہو گئیں۔ ساجدہ سلطان کی شادی مشہور کرکٹر نواب افتخار علی خان آف پٹودی سے ہوئی تھی۔ وہ نواب منصور علی خان عرف ٹائیگر پٹودی کی والدہ اور اداکار سیف علی خان کی دادی تھیں۔ سنہ 1964 میں جب پاکستان میں صدارتی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو شہزادی عابدہ سلطان نے جو ہمیشہ سیاست سے دور دور رہی تھیں، کونسل مسلم لیگ کی دو آنے والی رکنیت اختیار کی اور وہی تھیں جن کی کوششوں سے فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی نمائندہ کے طور پر ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ ہوئیں۔ شہزادی عابدہ سلطان نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ فاطمہ جناح ایک معمولی اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت گئی تھیں مگر ان کی اس فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہندوستان میں ریاستیں ختم ہو گئیں اور نواب بھوپال کا عہدہ ایک علامتی عہدہ بن گیا البتہ انھیں ماہانہ بنیادوں پر ایک معقول رقم ملتی رہی۔ شہزادی عابدہ نے اس سے پہلے ہی اپنے بیٹے شہریار کو بٹوارے میں ہونے والے خون خرابے سے بچانے کے لیے انگلینڈ میں نورتھ ہیمپٹن شائر کے مشہور اونڈل بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا تھا۔ اس سوال پر کہ وہ بھوپال میں اپنا رتبہ چھوڑ کر پاکستان کیوں آئیں، شہریار خان بتاتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تعصب سے انھیں بہت دکھ پہنچا۔ ’وہ ایک خوفناک واقعہ سناتی تھیں جب مسلم پناہ گزینوں کی ایک ٹرین کسی اور ریاست سے بھوپال پہنچی۔ وہ ان پناہ گزینوں کا استقبال کرنے پلیٹ فارم پر موجود تھیں۔ جب ٹرین کا دروازہ کھلا تو اندر کوئی زندہ نہیں بچا تھا۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ وہ منظر ان کی زنگی کا سب سے دلخراش باب تھا۔ اس واقعے کا ان کے پاکستان آنے کے فیصلے میں ایک کلیدی کردار تھا۔‘ شہزادی عابدہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی بھی فکر تھی۔ شہریار بتاتے ہیں: ’انھیں محسوس ہوا کہ انڈیا میں میرا مستقبل برباد ہو جائے گا اور مجھے اپنے شعبے میں کبھی آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ اس عیش و آرام کی زندگی کے بھی خلاف تھیں جو بھوپال سمیت کئی ریاستوں کے نوابوں کا خاصا بن گئی تھی۔ وہ مجھے اس سب سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔‘ شہزادی خود دو اکتوبر 1950 کو کراچی آ گئیں جہاں انھوں نے ملیر میں سکونت اختیار کی اور بہاولپور ہاؤس کے سامنے اپنی قیام گاہ تعمیر کروائی۔ ملیر کا علاقہ انھیں بہت پسند تھا اور وہ اپنے اس گھر میں 50 سال سے زیادہ قیام پذیر رہیں۔ ان کی یہیں وفات ہوئی اور وہ یہیں آسودۂ خاک ہیں۔ شہریار خان نے بتایا تھا کہ وہ سنہ 1951 میں جب پاکستان آئے تو ملیر والا گھر نیا نیا تعمیر ہوا تھا۔ ’میری والدہ نے وہ گھر اپنی جمع پونجی سے تیار کروایا اور حکومت سے ان کو کچھ نہیں ملا۔ آٹھ برس تک وہاں بجلی تک نہیں تھی۔‘ شہریار خان کا شمار پاکستان کی تاریخ کے تجربہ کار سفارت کاروں میں ہوتا تھا۔ وہ فرانس، اردن اور برطانیہ میں سفیر اور وہ 1990 سے 1994 تک پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔ انھوں نے روانڈا میں اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری کی خدمات بھی انجام دیں۔ شہریار خان نے چھ کتابیں تحریر کی ہیں، جن میں ’بھوپال کی بیگمات،‘ ’دی شالو گریوز آف روانڈا،‘’کرکٹ اے برج آف پیس۔‘ ’میموآئرز آف ریبل پرنسز،‘ ’کرکٹ کالڈرون‘ اور ’شیڈوز آکراس پلیئنگ فیلڈز‘ شامل ہیں۔ انھوں نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی پڑھائی۔ شہریار خان لڑکپن میں ہی لندن چلے گئے اور پھر کرکٹ ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ وہ تعلیم اور سفارتکاری کے ساتھ کرکٹ بھی کیھلتے رہے مگر پھر سفاتکار ہونے کی وجہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بلا نہ چلا سکے۔ شہریار خان سنہ 2003 سے سنہ 2006 تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہے تھے تاہم اس وقت وہ اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کرسکے تھے اور انھیں اوول ٹیسٹ کے تنازعے کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ انھوں نے 18 اگست 2014 کو دوسری مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اور پھر سنہ 2017 میں اس منصب سے سبکدوش ہو گئے۔ شہریارخان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے دونوں ادوار میں کئی اہم اقدامات کیے۔ تاہم ان کا پہلا دور کئی اعتبار سے کامیاب رہا جن میں ان کی سب سے اہم کامیابی 2004 میں پاک انڈیا کرکٹ روابط کی بحالی تھی۔ انڈین کرکٹ بورڈ کے سابق صدور راج سنگھ ڈونگرپور اور جگ موہن ڈالمیا پاک انڈیا کرکٹ تعلقات کے ضمن میں شہریارخان کی مدبرانہ صلاحیتوں کے زبردست معترف تھے۔ شہریارخان نے اپنے دوسرے دور میں بھی پاک انڈیا کرکٹ روابط کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن انڈین کرکٹ بورڈ نے اپنی حکومت کی طرف سے کھیلنے کی اجازت نہ دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کی اس کوشش کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔ شہریارخان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں واپسی کے سلسلے میں بھی بہت کوشش کی لیکن ملک میں دہشت گردی کے واقعات ان کی کوششوں کی راہ میں آتے رہے اور سوائے زمبابوے کے کوئی دوسری ٹیم پاکستان آکر کھیلنے کے لیے تیار نہ ہوسکی۔ شہر یارخان کی ایک اور قابل ذکر کامیابی ’بِگ تھری‘ کا خاتمہ ہے۔ جب انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ بگ تھری کی حمایت کرچکا تھا لیکن شہریارخان نے اسے پاکستانی کرکٹ کے مفادات کے منافی خیال کرتے ہوئے اس کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ شہریارخان اپنے پہلے دور میں باب وولمر اور دوسرے دور میں مکی آرتھر کی شکل میں غیرملکی کوچز پاکستان لائے۔ شہریارخان اپنے پہلے دور میں فیصلے کرنے کے سلسلے میں مکمل خود مختار اور آزاد رہے تاہم دوسرے دور میں انھیں بعض معاملات پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی سے اختلاف رائے کا سامنا رہا۔ شہریارخان نجم سیٹھی ہی کی جگہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اس وقت منتحب ہوئے تھے جب نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان چیئرمین شپ کے حصول کی عدالتی جنگ جاری تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1rxzpqww8po
جب ’ٹرولز‘ سے تنگ آ کر لالہ کو وضاحت دینا پڑی: ’عمران بھائی سے متاثر ہو کر کرکٹ شروع کی‘
سابق پاکستانی کپتان شاہد آفریدی کو یوم پاکستان پریڈ میں شرکت سے ایک روز قبل ایک وضاحتی ویڈیو پیغام جاری کرنا پڑا۔ یہ نہ تو ان کی فاؤنڈیشن کے بارے میں ہے، نہ کرکٹ کے بارے میں نہ ہی ان کے دبئی میں چلنے والے پاکستانی ریستوران کے بارے میں۔ تین منٹ اور 32 سیکنڈ کا یہ ویڈیو کلپ بظاہر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر عمران خان اور نئی سیاسی حکومت سے متعلق ان کے خیالات کے بارے میں ہے۔ لیکن یہ وضاحتی بیان ان پر ہونے والی تنقید کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ ایکس پر ٹاپ ٹرینڈز میں آپ کو لالہ ہی دکھائی دیں گے لیکن ہیش ٹیگز میں ان کا بائیکاٹ کرنے کو بھی کہا جا رہا ہے۔ دراصل گذشتہ دنوں ہوا کچھ یوں کہ ایک جعلی بیان شاہد آفریدی سے منسوب کیا گیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے کہا ہے کہ ’9 مئی کے واقعات میں ملوث کرداروں کو نشان عبرت بنا دو، چاہے کپتان ہو یا پوری ٹیم۔‘ آفریدی نے 20 مارچ کو ٹویٹ میں لکھا ’بار بار میرے نام سے جعلی پوسٹ /خبریں بنانے والوں سے التماس ہے کہ اپنی توانائیاں کسی مثبت کام میں لگائیں جو اگر کسی اور نہیں کم سے کم اُن کے اپنے لیے تو فائدہ مند ثابت ہو۔ ’مجھے اگر کوئی بات کرنی یا بیان دینے کی ضرورت ہوئی تو اُس کے لیے میڈیا اور میرا ٹویٹر ہینڈل موجود ہے۔‘ لیکن جب تنقید نہیں رُکی تو آفریدی کو تفصیلی ویڈیو جاری کرنا پڑی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں شاہد آفریدی نے لکھا کہ ’عمران بھائی ہمیشہ سے میرے لیے آئیڈیل رہے ہیں اور ان سے انسپائر ہو کر میں نے کرکٹ شروع کی۔ ’اگر وہ نہیں ہوتے تو میرا نہیں خیال کہ کرکٹ میں اللہ نے مجھے جو مقام دیا وہ مجھے حاصل ہوتا۔۔۔ ایک سیاست دان کی حیثیت سے ان کے اچھے کاموں کی میں نے ہمیشہ تعریف کی ہے۔ اور آگے بھی کرتا رہوں گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے شوکت خانم کی بات کی جائے اور جب وہ حکومت میں آئے تو میرے نزدیک صحت کارڈ کا جو ان کا اقدام تھا۔‘ اپنے پیغام میں شاہد آفریدی نے نئی سیاسی حکومت کے بارے میں بھی بات کی۔ ’میں نے کبھی ان (عمران خان) کی ذات پر تنقید نہیں کی ان کو ایک لیڈر کے طور پر دیکھا ہے۔ پھر بھی ان کی کسی پالیسی یا سوچ کے اختلاف کا حق مجھے حاصل ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’شہباز شریف کو وزیراعظم بننے پر میں نے مبارکباد دی۔ مجھے پتہ تھا کافی تنقید ہو گی۔ اس میں کوئی سیاسی یا ذاتی مفاد شامل نہیں ہے۔ ’ہمارے ملک کا جو بھی سربراہ ہو، وہ ہمارے لیے قابل احترام ہے اور وہ پوری دنیا میں ہماری نمائندگی کرتا ہے۔ تو اگر ہم اپنے ملک کی عزت بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تمام حکمران جس وقت بھی وہ حکومت میں آتے ہیں ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیے تاکہ دنیا ان کی عزت کرے۔‘ تاحال شاہد آفریدی کی جانب سے کوئی بھی وضاحت ان پر ہونے والی تنقید میں کمی نہیں لا سکی ہے۔ دراصل پی ٹی آئی کے بعض حامی اکاؤنٹس ان پر ’عمران خان کی قید پر خاموش‘ رہنے کے الزام میں تنقید کر رہے ہیں۔ جبکہ سابق پاکستانی کپتان کے پرانے کلپس کو سوشل میڈیا پر پھر سے شئیر کیا جا رہا ہے۔ جیسے سیف اللہ خان نے لکھا ’آپ کے ماضی کی حرکات اور سکنات ایسی ہیں کہ عوام ابھی کچھ بھی آپ سے توقع رکھ سکتی ہے کیونکہ عمران خان بے گناہ قید ہے اور آپ کے منھ سے کچھ نہیں نکلا‘۔ لیکن بات ذاتیات پر تب اُتری جب کچھ وی لاگرز اور صحافیوں نے شاہد آفریدی پر براہ راست تنقید کی۔ یوٹیوبر عمران ریاض خان نے عمران خان کے حوالے سے شاہد آفریدی کی خاموشی پر کہا کہ ’اگر بولنا تھا تو آفریدی کو ظلم اور جبر کے خلاف بولنا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ شاہد نے ’ایک بار پھر غلط شارٹ کھیلی ہے۔‘ عمران ریاض کو جواب میں شاہد آفریدی نے لکھا ’جھوٹ اور پروپیگنڈے کی وجہ سے نہ میرا موقف بدلے گا اور نہ ہی اس سے تحریک انصاف یا عمران خان کی کوئی خدمت ہو گی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 لیکن جواب میں عمران ریاض ایک بار پھر میدان میں اترے اور لکھا ’محترم شاہد آفریدی صاحب آپ کی مجبوری دیکھتے ہوئے آپ پر ترس آ رہا ہے۔ کاش آپ میں ظلم کے خلاف بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کی جرات ہوتی۔ کاش آپ چھوٹے موٹے دنیاوی فائدوں کے حصول کی بجائے اپنے اس مقام پر اکتفا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپکو عوام کی نظروں میں عطا کیا۔ میں آج بھی مایوس نہیں ہوں امید ہے آپ ایک دن ضرور سمجھ جائیں گے۔‘ آفریدی کی وضاحت سے شاید اب تک پی ٹی آئی کے حامیوں کو تسلی نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ جہاں ان کی ماضی میں بھی عمران خان پر اشارتاً کی جانے والی تنقید اور فوج کی حمایت ہے وہیں وزیراعظم شہباز شریف کی تعریف و تحسین بھی ہے۔ صارفین کی جانب سے لالہ کے دبئی میں ریستوران سمیت تمام برانڈز اور فاؤنڈیشن کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ فیاض شاہ نے شاہد آفریدی کے نام پیغام میں لکھا ’برا مت منائیے گا لیکن ہم نے آپ کو ہمیشہ انڈے پر آؤٹ ہوتے، ٹیم میں گروپنگ کرتے، اور گیند چباتے ہی دیکھا ہے۔‘ لیکن سومیہ سمجھتی ہیں کہ کرکٹ اور سیاست کو الگ رکھنا چاہیے۔ ادھر محمود قریشی عمران خان اور آفریدی کے کیریئر پر نظر ڈال کر کہتے ہیں ’فرق صاف ظاہر ہے۔‘ محمد شاہزیب نے وہ تصویر شیئر کی جس میں لکھا تھا کہ ’خان صاحب! آپ پر ہزار شاہد آفریدی قربان۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو شاہد آفریدی سے طنزیہ انداز میں ایک ایک ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ جیسے نقیب اللہ نے لکھا ’لالہ تو ابھی ایک ٹویٹ ہی ہوجائے خان کے لیے۔ ہماری خواتین کے لیے جو جیلوں میں ہیں۔ ہمارے باقی ورکر کے لیے جو جیلوں میں ہیں اور الیکشن چوری پر بھی۔‘ اس دوران شاہد آفریدی کے بعض پرانے بیانات بھی شیئر ہوئے۔ جیسے جب وہ عمران خان پر اشاروں میں تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’اکیلا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ سب کو مل کر چلنا ہو گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 آفریدی کے بیان پر مہر شرافت نے جواب دیا کہ ’کتنا اچھا ہوتا کہ مظلوموں پر ظُلم ہونے پر بھی بات کرتے؟ جھوٹے مُقدمات کیوں بنائے، اس پر بھی بات کرتے؟‘ بعض سیاستدان بھی شاہد آفریدی کی حمایت میں سامنے آئے۔ جیسے خواجہ سعد رفیق نے لکھا ’شاہد آفریدی محض ایک بڑے کرکٹر ہی نہیں ایک بڑے انسان بھی ہیں۔‘ اینکر پرسن اور وی لاگر منصور علی خان نے کہا کہ دو سابق کپتان ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کر کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے حامیوں کے نام پیغام میں کہا کہ آفریدی کو اختلاف رائے کا حق دیں۔ تجزیہ کار طلعت حسین سمجھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے حامیوں کو خطرہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کہیں شاہد آفریدی کو اپنے پروں کے نیچے نہ لے لے اور انھیں عمران خان کے متبادل کے طور پر لانچ نہ کر لے کیونکہ عمران خان کو بھی ایسے ہی لانچ کیا گیا تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gk8edrzjpo
ورلڈ کپ کوالیفائرز: پاکستان میں فٹبال کا مستقبل کیا ہے؟
پاکستان اور اردن کا فٹبال میچ اسلام آباد میں منعقد ہوا اور بظاہر لگ رہا تھا کہ یہ ہوکر ختم بھی ہوجائے گا اور کسی کو شاید پتا بھی نہیں چلے گا۔ لیکن حیران کن طور پر رمضان کے مہینے میں اور ہفتے کے بیچ میں دوپہر دو بجے ہونے والے اس میچ کو دیکھنے کے لیے تقریباً دس ہزار لوگ جناح سٹیڈیم پہنچ گئے۔ جہاں یہ جناح سٹیڈیم میں موجود دیگر افراد کے لیے حیران کن تھا وہیں سوال بھی پیدا ہوا کہ پاکستان میں کیا لوگ فٹبال دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر ہارون احمد ملک نے اس سوال کے جواب کہا کہ پسند تو کرتے ہیں، تبھی اتنی تعداد میں شائقین رمضان کے بیچ میں فٹبال دیکھنے پہنچے۔ انھوں نے فٹبال کے بارے میں مزید کیا کہا اس کو ضرور زیرِ بحث لائیں گے لیکن پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پاکستان میں فٹبال کی تاریخ کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فٹبال برصغیر کے لیے ایک اہم اور تاریخی کھیل ہے کیونکہ یہ کھیل برطانوی سپاہیوں نے انڈیا میں متعارف کروایا۔ حالانکہ انڈیا میں پہلے سے آل انڈیا فٹبال فیڈریشن موجود تھی لیکن انڈیا کو فیفا میں شمولیت آزادی کے بعد ملی۔ شاہ رُخ سہیل جو کہ پاکستان میں فٹبال کے ماہر مانے جاتے ہیں کھیل کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس کو نمایاں لیاری کے فٹبالروں نے کیا جہاں سے پاکستان کو اچھے کھلاڑی ملے۔ انھوں نے کہا ’اس زمانے میں مغربی پاکستان کے کھلاڑی مشرقی پاکستان، فٹبال کھیلنے جاتے تھے کیونکہ وہاں کلب موجود تھے اور وہاں یہ کھیل زیادہ منظم تھا۔‘ لیکن مشرقی پاکستان جب بطور بنگلہ دیش وجود میں آیا تب پاکستان میں فٹبال متاثر ہوئی۔ شاہ رُخ نے کہا کہ ’اس سے پہلے پاکستان بڑے ممالک جیسے کہ ایران یا جاپان کے ساتھ کھیل پاتا تھا۔‘ لیکن جیسے جیسے فٹبال کو عالمی سطح پر مقبولیت ملی وہیں پاکستان میں یہ کھیل اپنی ساکھ کھوتا رہا۔ شاہ رُخ نے کہا کہ ’بنیادی وجہ یہی تھی کہ پاکستان میں فٹبال اس طرح سے نہیں پنپ سکا جیسے کہ باقی ممالک میں پنپتا رہا، ڈیویلپ ہوتا رہا۔‘ انھوں نے کہا کہ 2024 میں بھی پاکستان کا فٹبال ’ڈیپارٹمنٹل سسٹم‘ کے تحت چلتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ریلوے، پی آئی اے، اور دیگر سرکاری کمپنیوں میں بنی فٹبال ٹیموں کے ذریعے یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ شاح رُخ کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ سسٹم ہے جو کہ دیگر ممالک نے 1960 کے بعد ختم کردیا تھا۔‘ اس سے پہلے پاکستان میں نیشنل چیمپئن شِپ ہوتی تھی جو کہ 1948 سے 2003 تک رہی۔ پھر 2003 کے بعد پاکستان میں ایک لیگ بن گئی جس کا نام پاکستان پریمئیر لیگ تھا۔ اور تمام ٹیمیں اس لیگ کے اندر کھیلتی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ یہ پروفیشنل فٹبال کلب نہیں تھے اس لیے نہ تو یہاں پر اس سطح کی کوچنگ میسر تھی اور نہ ہی اس لیول کا سٹاف تھا جس کے نتیجے میں فٹبال اس طرح سے ترقی حاصل ہی نہیں کرسکی۔‘ مگر شوق کا عالم آج بھی یہ ہے کہ اسلام آباد سے دور بلوچستان اور افغانستان کی سرحد پر قائم شہر چمن میں اگر آج بھی مقامی سطح کا کوئی فٹبال میچ ہو تو 30 ہزار لوگ دیکھنے آجاتے ہیں۔ شاہ رُخ نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ فٹبال کا ’سیاست کی نذر ہونا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ شروع ہوا فیصل صالح حیات کے دور (2015) میں۔ جب انھوں نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر کا انتخاب کروایا۔ اس پر لوگوں نے اعتراض کیے جس کے بعد یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں پہنچا، اس کے بعد سپریم کورٹ۔‘ انھوں نے بتایا کہ عدالتوں کی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان فٹبال فیڈریشن، جو کہ فیفا کا حصہ ہے، اس پر فیفا نے 2017 میں پابندی لگادی۔ فیفا نے یہی پابندی 2021 میں پھر دوبارہ لگائی۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے ایک ریٹائرڈ جج کو بطور انتظامی سربراہ تعینات کیا جو کہ فیفا کو منظور نہیں تھا۔ شاہ رُخ نے کہا کہ ’اس کے بعد معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچا اور کورٹ نے اپنی نگرانی میں الیکشن کروایا جو کہ فیفا کو منظور نہیں تھا۔‘ اس طرح دو دھڑے بن گئے۔ ایک وہ جو فیصل صالح حیات گروپ کا حصہ بن گئے اور دوسرا وہ جو کہ اشفاق شاہ، جو منتخب ہوئے تھے ان کے گروپ میں چلے گئے۔ اب کیونکہ ان میں سے ایک مقامی طور پر منتخب ہوکر آئے تھے اور ایک پہلے سے موجود تھے اس کے نتیجے میں دو متوازی دھڑے ساتھ ساتھ کام کرنے لگ گئے۔ مختصراً اس کے نتیجے میں جو آفیشل گروپ تھا اس پر پابندی لگ گئی اور نتیجتاً پاکستان عالمی سطح پر فٹبال نہیں کھیل سکا۔ اب 2019 میں ایک نارملائزیشن کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی کو بھی مسائل پیش رہے اور اسی دوسرے دھڑے نے پھرفیڈریشن کی باگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان میں 2021 میں دوبارہ پابندی لگی۔ ہارون احمد ملک جو کہ فیڈریشن کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ فیفا کی جانب سے نارملائزیشن کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں کہتے ہیں کہ ’جب پروفیشنل لوگ اس کھیل کی سربراہی کریں گے تبھی حالات بہتر ہوسکیں گے، جس کے نتیجے میں اندرونی سیاست سے بھی نمٹا جاسکے گا۔‘ سنہ 2022 میں پاکستان سے پابندی ہٹنے کے بعد سے فیفا کی کوشش ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ طور پر الیکشن کروائیں۔ نارملائزیشن کمیٹی کو اس سال دسمبر تک توسیع دی گئی ہے کہ وہ الیکشن کے عمل کو مکمل کرکے نئی کمیٹی کے سپرد کردیں۔ یہ تو ہوگئی سیاست کی بات، جو کہ کھیل کے آڑے آتے رہی ہے، لیکن ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ پابندی ہٹنے کے بعد نومبر 2022 میں پاکستان کا نیپال سے میچ ہوا۔ یہ ساڑھے تین سال میں پاکستان کا پہلا میچ تھا۔ اسی طرح پاکستان تواتر سے مختلف ممالک سے میچز کھیلتا رہا ہے، جس میں 2023 کا انڈیا میں ہونے والا میچ بھی شامل ہے۔ شاہ رُخ اور جناح سٹیڈیم میں پہنچنے والے شائقین 2023 کے پاکستان میں ہونے والے ایک میچ کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں جس میں بیک وقت 23 ہزار شائقین سٹیڈیم میں موجود تھے۔ اسی طرح پاکستان تاجکستان کے ساتھ بھی میچ کھیلا۔ اب پاکستان کے لیے بڑا مرحلہ ورلڈ کپ کوالیفائر 2026 ہے جو امریکہ میں ہوگا۔ اس کے لیے کوالیفائر میچ ہوتے ہیں جس میں شاہ رُخ نے بتایا کہ تقریباً 209 ممالک حصہ لیتے ہیں۔ 2023 تک پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے ایشیا میں کبھی ورلڈ کپ کوالیفائر نہیں جیتا تھا۔ شاہ رُخ نے کہا کہ ’حالانکہ ایشیا میں 47 ممبر ممالک ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کا آپ کو نام بھی نہیں معلوم ہو اور وہ بھی ورلڈ کپ کوالیفائر جیت چکے ہیں۔‘ اب حال ہی میں پاکستان نے فٹبال کوچ کے طور پر سٹیفن کونسٹنٹین کو رکھا ہے۔ جو کہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ’پاکستانی ٹیم فیفا ورلڈ کپ کے کوالیفائر راؤنڈ تھری تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘ اب سوال پھر وہ ہی ہے کہ کیا پاکستان میں فٹبال کا کوئی مستقبل ہے؟ جناح سٹیڈیم میں پہنچنے والے لوگوں سے جب یہی سوال پوچھا تو زیادہ تر نے کہا کہ ’فٹبال میں اسی طرح پیسے لگائیں جیسے کہ کرکٹ میں لگاتے ہیں۔‘ جبکہ ایک 18 سالہ طالبعلم نے کہا کہ ’پاکستان فٹبال کی اپنی لیگ بنائے جس سے اسے فائدہ پہنچے گا۔‘ شاہ رُخ نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھیں لوگ پسند تو بہت کرتے ہیں اور دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سوال انتظامیہ سے بھی بنتا ہے کہ کیا وہ پاکستان کی فٹبال ٹیم کو دنیا بھر میں کھیلتے دیکھنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2lw4y58znxo
عالمی مقابلوں کے لیے فٹبال بنانے والا پاکستان خود ان مقابلوں سے کیوں باہر ہے؟
پاکستان میں فٹبال شائقین کی تعداد کروڑوں نہیں تو لاکھوں میں ضرور ہے۔ مگر اس مقبولیت کے باوجود ماضی قریب میں یہ کھیل سرکاری سطح پر نظر انداز ہوتا رہا ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟ ملک کے اندر فٹبال کو ترقی دینے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ ایڈیٹر: خدیجہ عارف میزبان: خالد کرامت رپورٹر: سحر بلوچ فلمنگ: نیئر عباس، زبیر صلاح الدین پروڈکشن: عمر آفریدی اور حسین عسکری