url
stringlengths
1
238
heading
stringlengths
7
166
content
stringlengths
7
33.8k
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmp0j94r7no
بارش کا امکان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سری لنکا کی فتح کی دعائیں: کرکٹ ورلڈ کپ کا ایک عام سا میچ خاص کیسے بنا؟
انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ایک جگہ بچی ہے اور تین ٹیمیں اسے پانے کی کوشش میں لگی ہیں۔ یہ تین ٹیمیں نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان ہیں اور اس وقت تینوں ٹیموں کے نیٹ رن ریٹ بھی بالترتیب اسی درجہ بندی کے تحت ہیں۔ اس صورتحال میں آج کھیلے جانے والا سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی مداحوں کے لیے ایک مرتبہ پھر دعائیں کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس وقت پاکستان کو یا تو نیوزی لینڈ کی شکست یا پھر بارش سے امید لگانی ہو گی۔ سری لنکا پہلے ہی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ نیوزی لینڈ پر فتح اس کی سنہ 2025 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت کے امکانات بڑھا دے گی۔ خیال رہے کہ سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی میں اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے علاوہ پہلے سات درجوں پر آنے والی ٹیمیں شامل ہوں گی۔ پاکستان بطور میزبان اس ٹورنامنٹ میں پہلے ہی شامل ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو اسے یا تو نیوزی لینڈ کی شکست میں یا میچ بارش کے باعث نہ ہونے سے فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ یوں انگلینڈ کے خلاف آخری میچ سے پہلے نیوزی لینڈ کے آٹھ یا نو پوائنٹس ہوں گے اور پاکستان کی انگلینڈ پر فتح اسے سیمی فائنل تک پہنچا سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں افغانستان کو شکست ہو یا پھر فتح کا مارجن بڑا نہ ہو۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو شکست دے دیتا ہے تو پھر پاکستان کو انگلینڈ کے ساتھ بھاری مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ کرکٹ کے اعداد و شمار پر مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد کے مطابق نیوزی لینڈ جتنے بھی رنز سے اپنا میچ جیتے گا اس میں 130 رنز جمع کیے جائیں گے اور پھر پاکستان کو اتنے یا اس سے زیادہ مارجن سے انگلینڈ کے خلاف میچ جیتنا ہو گا۔ لیکن اس سب کے درمیان شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج بارش کا کتنا امکان ہے؟ انڈیا کی ریاست کرناٹک میں گذشتہ ہفتے کے دوران شدید بارشوں کے باعث بینگلورو سمیت دیگر شہروں میں ییلو الرٹ جاری کیا گیا تھا تاہم انڈین محکمہ موسمیات کے مطابق نو نومبر کو دن بھر آسمان پر بادل تو رہیں گے لیکن بارش ایک سے دو مرتبہ کچھ وقت کے لیے ہو گی۔ بی بی سی ویدر پر نظر ڈالیں تو بینگلورو میں دن کے وقت میچ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے اور بعد میں بارش کا امکان ہے یعنی 11 سے چار بجے کے درمیان اور پھر شام دس بجے کے بعد بارش کا زیادہ امکان ہے۔ اگر میچ بارش کے باعث متاثر ہوتا ہے تو اوورز میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کسی بھی ون ڈے میچ کے اوورز کم سے کم 20 اوورز تک محدود ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اوورز اور رنز کا تعین ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ فارمولا کیا ہے، آئیے جانتے ہیں۔ جب بھی کوئی کرکٹ میچ بارش سے متاثر ہو جائے تو ہم اکثر ڈکورتھ لوئس سٹرن میتھڈ کے بارے میں سنتے ہیں۔ ریاضی دان ٹونی لوئس اور ان کے ساتھی فرینک ڈک ورتھ نے مل کر یہ نظام متعارف کرایا تھا جسے پہلی بار 1992 ورلڈ کپ میں استعمال کیا گیا۔ سنہ 2014 میں آسٹریلوی پروفیسر سٹیون سٹرن نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں اور تب سے یہ ڈک ورتھ لوئس سٹرن (ڈی ایل ایس) میتھڈ کہلاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ ریاضی کا ایک فارمولا ہے جو کسی بھی کرکٹ میچ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے بقیہ وسائل (وکٹوں اور اوورز) کے اعتبار سے ترمیم شدہ ہدف ترمیم کا تعین کرتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت پلیئنگ کنڈیشنز میں رد و بدل کیا جاتا ہے، یعنی مقابلے میں شریک ایک یا دونوں ٹیموں کے لیے رنز اور اوورز میں کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ یہ فارمولا اس بات پر محیط ہے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس دو قسم کے وسائل ہوتے ہیں، یعنی ون ڈے میچ میں 300 گیندیں اور 10 وکٹیں۔ جیسے جیسے اننگز آگے بڑھتی ہے، یہ دونوں وسائل کم ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر صفر پر جا پہنچتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ٹیم تمام 300 گیندیں یا 50 اوورز تک بیٹنگ مکمل کر لے، یا پھر اپنی تمام 10 وکٹیں کھو دے۔ بارش کی وجہ سے اوورز یا رنز کم کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ مثلاً اگر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کی پہلے 25 اورز میں تمام 10 وکٹیں باقی ہیں تو وہ زیادہ جارحانہ انداز میں کھیلتے ہیں، برعکس اس کے کہ اگر ان کی پانچ وکٹیں گِر چکی ہوں۔ اسی طرح جب کسی بھی وجہ سے بیٹنگ ٹیم اوورز کھو دیتی ہے تو انھیں اپنے پورے وسائل آزمانے کا موقع نہیں مل پاتا۔ لہٰذا کسی بھی ردوبدل کے لیے اِن دونوں وسائل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ دونوں ٹیموں کو اپنے یہ وسائل آزمانے کا برابر موقع مل سکے۔ ڈک ورتھ لوئس کے تحت ترمیم شدہ اہداف کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟ اس بارے میں مزید تفصیلات نامہ نگار عمیر سلیمی کی اس تحریر میں جانیے۔ تاہم یہ میچ بینگلورو کے چناسوامی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے جہاں پانی نکاسی کا انتہائی جدید نظام موجود ہے جو چند ہی منٹ میں گراؤنڈ کو واپس کھیلنے کی پوزیشن میں لے آتا ہے۔ چناسوامی کرکٹ سٹیڈیم میں دنیا کے باقی کرکٹ گراؤنڈز کی نسبت بارش کے وقفے کے بعد میچ جلدی شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ ایک امریکی کمپنی سب ایئر کا خصوصی نظام ہے جسے یہاں سنہ 2016 میں نصب کیا گیا تھا۔ اس نظام کو ’سب سرفیس ایئریشن اینڈ ویکیوم پاورڈ ڈرینج‘ سسٹم کا نام دیا گیا ہے اور یہ دنیائے کرکٹ میں ایسا نظام فٹ کرنے والا پہلا میدان ہے۔ کمپنی سب ایئر کی ویب سائٹ کے مطابق یہ نظام بارش شروع ہوتے ہی خود بخود چالو ہو جاتا ہے اور یوں میدان میں پانی کھڑا نہیں ہوتا اور تیز یا مسلسل بارش کی صورت میں اگر پانی کھڑا بھی ہو جائے تو اس نظام میں پانی کی نکاسی کی صلاحیت قدرتی ڈرینج سے 36 گنا تیز ہے۔ یہ نظام اس سے پہلے دنیا کے دوسرے کھیلوں کے 500 گراؤنڈز میں نصب کیا جا چکا ہے جن میں این ایف اور فٹبال کے گراؤنڈز شامل ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn3pgn4k31vo
’جو بھی انڈیا کو ہرا پایا‘: سمیع چوہدری کا کالم
انہونی اب تک کی کارگزاری میں فقط یہ ہے کہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ پوائنٹس ٹیبل کی آخری سیڑھی پر کھڑا ہے وگرنہ باقی سب کچھ معمول کے مطابق ہی چلتا آیا ہے اور چار سیمی فائنلسٹس بھی لگ بھگ طے ہو ہی چکے ہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ فخر زمان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ناقابلِ شکست اننگز اس ورلڈ کپ کی بہترین سنچری قرار دی جا رہی تھی کہ گذشتہ شب وانکھیڈے سٹیڈیم میں گلین میکسویل نے اپنے آدھے ادھورے جسم کے ہمراہ ون ڈے کرکٹ تاریخ کی بہترین اننگز کھیل ڈالی۔ اس سے پہلے بھی ورلڈ کپ میں ہدف کے تعاقب پر کچھ عظیم اننگز کھیلی گئی ہیں جن میں ماضی قریب کی وہ اننگز قابلِ تحسین تھی، جہاں ایک خطیر ہدف کے تعاقب میں آئرش مڈل آرڈر بلے باز کیون او برائن نے سٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن پر مشتمل انگلش اٹیک کو آڑے ہاتھوں لے کر انگلش ٹیم کو ڈھیر کر دیا تھا۔ مگر او برائن کی وہ اننگز بھی اس قدر نامساعد حالات میں نہیں ابھری تھی جو یہاں گلین میکسویل کو درپیش تھے۔ آسٹریلوی اننگز کی پہلے ایک ہی گھنٹہ میں سات وکٹیں گرنے کے بعد افغانستان ایک نئے اپ سیٹ ریکارڈ کے عین قریب تھا مگر میکسویل کے عزائم کچھ اور ہی تھے۔ میکسویل کی اس ایک اننگز نے نہ صرف آسٹریلیا کو سیمی فائنل تک پہنچا دیا بلکہ چوتھے سیمی فائنلسٹ کی دوڑ کو بھی زندہ رکھا جس کے لیے ابھی تک تین امیدوار موجود ہیں۔ نیوزی لینڈ کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ سری لنکا کے خلاف ان کا میچ بارش کی نذر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ میچ بُرے موسم میں بہہ گیا تو ولیمسن کی ٹیم اگلے میچوں میں افغانستان اور پاکستان کی شکست کی منتظر رہے گی۔ افغانستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف شکست تو بعید از قیاس نہیں ہے مگر انگلش ٹیم کا موجودہ فارم سے پاکستان کو ہرا پانا تقریباً ناممکن ہے۔ اب تک کی کارگزاری میں یہ بھی واضح ہوا ہے کہ جنوبی افریقی ٹیم اپنی بہترین کارکردگی کے لیے ٹاس پر قسمت کی تائید کی منتظر رہتی ہے۔ ابھی تک ٹورنامنٹ کے تین میچز میں انھیں ہدف کا تعاقب کرنا پڑا ہے اور محض پاکستان کے خلاف ایک وکٹ کی دقت آمیز کامیابی حاصل ہو پائی ہے۔ سو، ناک آؤٹ مرحلے میں اگر ٹیمبا باوومہ ٹاس ہار گئے تو حریف کپتان یقیناً انھیں پہلے بولنگ کی دعوت ہی دیں گے کیونکہ ہدف کے تعاقب میں یہی مضبوط ترین بیٹنگ لائن اپنے اندر ہی اعصاب کا ایک میدان جنگ بن جاتی ہے اور پہلی اننگز میں کشتوں کے پشتے لگانے والے بزرجمہر دوسری اننگز میں بلا چلانے سے ہی ہلکان ہو رہتے ہیں۔ ناک آؤٹ مراحل میں، ٹاس جیتنے والے کپتان پہلے بیٹنگ کو اس لیے بھی ترجیح دیں گے کہ فلڈ لائٹس کی مصنوعی روشنی میں دو نئی گیندوں کا سامنا کرنا عموماً بلے بازوں کے لیے دشوار ہوا کرتا ہے۔ اور اگر بولنگ اٹیک انڈیا کا ہو تو پھر یہ دشواری دقت سے بھی سوا ہو کر ممکنات کے جہاں سے باہر نکل جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ بحث تواتر سے ہو رہی تھی کہ اگر شاہین آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ پر مشتمل اٹیک دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے تو اس قبیل کی کوئی اور شے بھی کیا کہیں موجود ہے۔ مگر اب یہ بحث تمام ہو چکی کہ جسپریت بمراہ، محمد سراج اور محمد شامی پہ مشتمل اٹیک بلاشبہ دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے۔ نہ صرف یہ تینوں پیسرز اپنی ہوم کنڈیشنز اور مختلف انواع کی سرخ و سیاہ مٹی کے باؤنس سے بخوبی شناسا ہیں بلکہ ڈسپلن کے ساتھ پے در پے ایک ہی لینتھ کو نشانہ بنانے میں بھی پوری مہارت رکھتے ہیں۔ اور ڈسپلن میں یہ قدرت محض اس لیے میسر ہے کہ ان تینوں بولرز کی بنیاد ٹی ٹونٹی کے بجائے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ہے۔ یہ انڈین پیس اٹیک لفظی اعتبار سے صحیح معنوں میں ناقابلِ تسخیر ہے جب گیند نئی ہو، وکٹ میں ہلکی سی بھی سوئنگ ہو اور مصنوعی روشنیاں جل رہی ہوں۔ ہاں، اگر کسی ٹیم کو ایسا جری ٹاپ آرڈر میسر ہو جو اس تند رفتاری کے سامنے اپنے قدم چلا سکتا ہو اور گیند کی چمک ماند پڑنے تک اس یلغار کو جھیل سکتا ہو تو شاید اچھے فٹ ورک والے مڈل آرڈر بلے باز اس کا کوئی توڑ کر پائیں۔ انڈین ٹیم نہ صرف اپنی ہوم کنڈیشنز کی بنیاد پر فیورٹ ہے بلکہ روہت شرما کی قابلِ تقلید قیادت میں ان کی بیٹنگ بھی اپنے بھرپور جوبن پر ہے۔ اور پیس کے علاوہ ان کے دونوں سپنرز کلدیپ یادیو اور رویندرا جڈیجا بھی شاید ہی کسی حریف کے پلے پڑے ہوں گے۔ اب تک کی کارروائی یہی واضح کرتی ہے کہ یہ ورلڈ کپ انڈیا کا ہے اور اگر باقی تین سیمی فائنلسٹس اس حقیقت کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پہلے انڈیا کو ہرانا ہو گا کیونکہ جو انڈیا کو ہرا پایا، ٹرافی اس سے دور نہیں ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c162r1redkeo
گلین میکسویل: آسٹریلیا کے ’میڈ میکسی‘ کی ڈبل سنچری، جسے کرکٹ کی لوک داستانوں کی طرح یاد رکھا جائے گا
جو لوگ کرشموں اور معجزات پر یقین رکھتے ہیں انھوں نے انڈیا کے معاشی دارالحکومت ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں گلین میکسویل کے کھیل کی شکل میں ایک کرشمے کو انجام پذیر ہوتے دیکھا۔ آسٹریلین آل راؤنڈر گلین میکسویل کی اننگز نے یہ بتا دیا کہ کوئی کھلاڑی اپنی ہمت سے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ میکسویل نے جن چار گیندوں کے ساتھ میچ ختم کیا، ان میں انھوں نے پہلے دو چھکے، پھر ایک چوکا اور پھر ایک چھکا لگایا۔ وہ یہ شاٹ اس وقت لگا رہے تھے جب وہ بمشکل اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل تھے۔ وہ نہ تو دوڑنے کی پوزیشن میں تھے اور نہ ہی گیندیں کھیلتے ہوئے اپنی ٹانگوں میں کوئی حرکت کرنے کے ہی قابل تھے۔ میکسویل نے کریز پر کھڑے کھڑے تاریخ رقم کی۔ انھوں نے ڈبل سنچری بنائی۔ جس میں انھوں نے آخری 100 رنز تقریباً بغیر دوڑے مکمل کیے کیونکہ وہ کریمپس کی وجہ سے شدید درد کا شکار تھے اور ہل بھی نہیں سکتے تھے۔ میکسویل نے اس اننگز میں نہ صرف آسٹریلیا کو شکست سے بچایا بلکہ 128 گیندوں پر 201 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر تاریخ میں اپنا نام بھی درج کرایا۔ اس اننگز میں میکسویل نے پہلے 100 رنز میں 10 چوکے اور تین چھکے لگائے تھے۔ اس کے بعد کے 101 رنز کے لیے میکسویل نے سات چھکے اور 11 چوکے لگائے۔ اسی دوران انھوں نے نہ صرف فاسٹ بولرز بلکہ افغانستان کے سپن بولرز کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے درد اور تکلیف کے لمحات کو اپنے اوپر حاوی بھی نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے اس قسم کی بلے بازی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ پہلے سے ہی بہت مشہور ہیں۔ کرکٹ کی دنیا میں ’میڈ میکسی‘ کے نام سے مشہور گلین میکسویل نے دکھا دیا کہ وہ نہ صرف ایک جینیئس ہیں بلکہ قابل قدر مہارت بھی رکھتے ہیں۔ گلین میکسویل نے اگرچہ بہت کم عمر میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آسٹریلوی کرکٹ میں دھوم مچا دی لیکن وہ بین الاقوامی کرکٹ میں اس قسم کی کامیابی حاصل نہیں کر سکے لیکن وقتاً فوقتاً ان کی چنگاریاں نظر آتی رہیں جس کی وجہ سے وہ دس سال تک آسٹریلیا کی ون ڈے ٹیم میں شامل رہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کو ان سے جس قسم کی بلے بازی کی توقع تھی اس کا مظاہرہ انھوں نے ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں انتہائی خوبصورت انداز میں کیا اور یوں لگا کہ وہ کوئی فن پارہ تخلیق کر رہے ہیں جس میں ہر طرح کے رنگ ہیں۔ دنیا طویل عرصے تک ان کے ان شاٹس کو یاد رکھے گی۔ 201 رنز کی ناقابل شکست اننگز عالمی کرکٹ میں چھٹے نمبر یا اس سے نیچے کھیلنے آنے والے بلے باز کے لیے اب تک کا سب سے بڑا سکور ہے۔ گلین میکسویل ون ڈے کرکٹ کے پہلے بلے باز ہیں جنھوں نے اوپننگ نہ کرتے ہوئے ڈبل سنچری بنائی۔ ون ڈے کرکٹ میں اب تک تمام ڈبل سنچریاں اوپنرز کے نام تھیں۔ یہی نہیں، یہ پہلا موقع ہے جب کسی آسٹریلوی بلے باز نے ون ڈے کرکٹ میں ڈبل سنچری سکور کی۔ وہ تیز ترین ڈبل سنچری کا ریکارڈ صرف دو گیندوں سے حاصل نہ کر سکے، انڈیا کے ایشان کشن نے یہ کارنامہ 126 گیندوں میں انجام دیا تھا جبکہ میکسویل نے 128 گیندوں کا سامنا کیا لیکن میکسویل کی ڈبل سنچری اس سے کہیں زیادہ ناگفتہ بہ حالات میں کھیلتے ہوئے بنائی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ون ڈے کرکٹ میں رنز کا تعاقب کرتے ہوئے یہ پہلی ڈبل سنچری ہے۔ تاہم افغانستان کے خلاف میچ میں جب گلین میکسویل بیٹنگ کے لیے آئے تو عظمت اللہ نویں اوور کی پہلی دو گیندوں پر پہلے ہی دو وکٹیں لے چکے تھے اور ہیٹرک پر تھے۔ ایسے میں میکسویل پر ہیٹ ٹرک بچانے کا دباؤ تھا اور وہ بال بال بچے۔ گیند ان کے بلے کا بیرونی کنارہ لے کر وکٹ کے پیچھے چلی گئی لیکن کیپر کے دستانے تک نہیں پہنچی۔ آسٹریلیا نے چار وکٹوں کے نقصان پر 49 رنز بنائے تھے اور میکسویل نے یہاں سے اننگز کا آغاز کیا۔ ایک وقت پر افغانستان کے 292 رنز کے جواب میں آسٹریلیا کا سکور سات وکٹوں پر 92 رنز تھا اور افغانستان کے سامنے جیت کے واضح آثار تھے۔ پورے سٹیڈیم میں افغانستان کی ٹیم کو بھرپور سپورٹ حاصل تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ افغان ٹیم اس ورلڈ کپ کا سب سے بڑا اپ سیٹ اپنے نام کر لے گی۔ میکسویل اس وقت 26 رنز پر کھیل رہے تھے۔ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز ساتویں وکٹ کے گرنے پر میکسویل کے ساتھ کھیلنے آئے۔ کمنز صرف ایک سرے پر کھڑے ہو کر دیکھتے رہے اور میکسویل نے گیم بدلنا شروع کر دیا۔ اس دوران ایک بار سکوائر لیگ اور ایک بار مڈ آف پر ان کے کیچ چھوٹے لیکن ان کا اعتماد متزلزل نہ ہوا بلکہ بڑھتا ہی گیا۔ کچھ ہی دیر میں انھوں نے 76 گیندوں میں اپنی سنچری مکمل کر لی جبکہ کمنز دوسرے سرے پر دوہرے ہندسے تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن میکسویل کے اصل رنگ ان کی سنچری کے بعد نظر آئے۔ وہ بھلے ہی ایک طوفانی بلے باز کے طور پر جانے جاتے ہوں لیکن دباؤ کے لمحات میں وہ ہمیشہ الگ نظر آتے ہیں لیکن وہ یہاں جسمانی تکالیف اور درد میں بھی ثابت قدم رہے۔ سنچری کے ٹھیک بعد انھیں کریمپس آنے لگے۔ بائیں ٹانگ میں درد محسوس ہوا اور ٹیم فزیو کو میدان میں آنا پڑا۔ اس وقت آسٹریلوی ٹیم فتح سے تقریباً سو رنز دور تھی۔ ان کی بائیں ٹانگ کا مسئلہ کمر کے مسئلے میں بدل گیا اور میکسویل کو کئی بار میدان میں درد سے لوٹ پوٹ کرتے دیکھا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ نہ صرف رن لیتے ہوئے میدان میں گر پڑے بلکہ کریز پر پہنچنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ شدید تکلیف کے باعث اب کھیل مزید جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ یہاں سے ان کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ ان کے بعد بیٹنگ کے لیے میدان میں آنے والے ایڈم زمپا دو بار باؤنڈری کے پاس آئے کہ کہیں انھیں بلایا نہ جائے۔ 41ویں اوور کے وقت ایسا لگ رہا تھا کہ میکسویل کو سٹریچر پر باہر لے جانا پڑے گا لیکن میکسویل دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے اور زمپا کو واپس پویلین میں ہی انتظار کرنا پڑا۔ 2010-11 میں میکسویل نے آسٹریلوی ڈومیسٹک کرکٹ میں 19 گیندوں پر تیز ترین نصف سنچری بنا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کچھ ہی وقت میں وہ ون ڈے ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہوم گراؤنڈز پر کھیلے گئے سنہ 2015 کے ورلڈ کپ میں انھوں نے سری لنکا کے خلاف صرف 51 گیندوں پر سنچری سکور کی جو اس وقت آسٹریلیا کے کسی بھی بلے باز کی تیز ترین سنچری تھی۔ کرکٹ کے ابتدائی برسوں میں ان کی ایک ہی پہچان تھی کہ ’یہ بلے باز کسی بھی گیند پر کوئی بھی شاٹ کھیل سکتا ہے۔‘ لیکن غیر روایتی شاٹس کھیلنا ان کی سب سے بڑی خامی بن گیا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ لاپرواہی سے شاٹس کھیل کر کسی بھی وقت آؤٹ ہو سکتے ہیں۔ کئی میچوں میں خراب شاٹس کھیلنے پر ان کا مذاق اڑایا گیا۔ 2015 کے ورلڈ کپ کے بعد مسلسل ون ڈے میچوں میں ان کی اوسط دس سے کم رہنے کی وجہ سے انھیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ ان کا کرکٹ کریئر ختم ہونے کے دہانے پر تھا لیکن آسٹریلوی کرکٹ اپنی صلاحیتوں کو اس طرح ضائع نہیں ہونے دیتی۔ میکسویل کو اپنے ساتھی کھلاڑیوں کا تعاون بھی ملا اور انھوں نے دماغی معالج سے سیشن بھی لیا۔ اس سب کا فائدہ ہوا اور وہ چھ ماہ بعد کرکٹ کے میدان میں واپس آئے۔ لیکن اندر اور باہر کا چکر چلتا رہا۔ اگرچہ ان کا بیٹنگ سٹرائیک ریٹ 127 سے زیادہ ہے لیکن 136 میچوں میں ان کی بیٹنگ اوسط 36 بھی نہیں ہے۔ وہ ون ڈے کرکٹ میں ابھی تک چار سنچریوں کی مدد سے چار ہزار رنز بھی مکمل نہیں کر پائے ہیں۔ لیکن لیگ کرکٹ میں دنیا بھر کی ٹیموں میں ان کی بہت مانگ ہے۔ آئی پی ایل میں بھی وہ کروڑوں روپے میں نیلام ہوتے ہیں۔ وہ کنگز الیون پنجاب، ممبئی انڈینز اور رائل چیلنجرز بنگلور کی ٹیموں کا حصہ رہ چکے ہیں لیکن آئی پی ایل میں ان کی کوئی بھی اننگز یادگار نہیں کہی جا سکتی۔ دی کرکٹ منتھلی میں سنہ 2017 میں گلین میکسویل پر ’میڈ میکسی‘ نامی آرٹیکل میں ان لوگوں کے ساتھ بات چیت ہے جو انھیں جانتے ہیں۔ ان میں سب لوگوں نے ایک بات جو کہی وہ یہ کہ برسوں کے بعد اور ایک ہنگامہ خیز کریئر کے بعد، ایک چیز جو تبدیل نہیں ہوئی، وہ ہے میکسویل کے کھیلنے کا اپنا انداز۔ لیکن میکسویل اس ورلڈ کپ کو یادگار بنانے کے ارادے سے کھیلتے نظر آتے ہیں، وہ اب تک دو سنچریاں بنا چکے ہیں اور اگر وہ سیمی فائنل یا بعد میں فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو آسٹریلیا کو عالمی چیمپیئن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ گذشتہ رات پریزینٹیشن کے دوران مائک آرتھرٹن نے جب آسٹریلین کپتان پیٹ کمنز سے پوچھا کہ کیا میکسویل کی یہ اننگز آسٹریلیا کی لوک داستانوں میں برسوں تک سنائی جائے گی تو کمنز نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ قوت برداشت، ہمت، ذہانت اور صلاحیت کا ایک ایسا مجموعی مظاہرہ تھا جو شاذونادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clwp29d27jeo
میکسویل ٭201: ’میکسویل نے ایک ٹانگ پر پاکستان کی امیدوں کا بوجھ اٹھایا۔۔۔ یہ بھی قدرت کے نظام کا حصہ تھا‘
آسٹریلیا کے سات کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور کمنٹری باکس میں موجود کیوی کمنٹیٹر ایئن سمتھ نے اپنے ساتھ بیٹھے میتھیو ہیڈن سے کہا کہ ’کیا آسٹریلیا یہ میچ بغیر کسی مقابلے کے افغانستان سے ہارنے والا ہے۔‘ میتھیو ہیڈن نے انھیں ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’آپ نے یہ کیا کہہ دیا۔۔۔ یہ بات آسٹریلیا کی تھوڑی سی آبادی کو خاصی ناگوار گزری ہو گی۔‘ ویسے تو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ روایتی حریف بھی ہیں لیکن یہ جملہ کسی بھی آسٹریلوی سپورٹس ٹیم کے لیے کہنا اس کی توہین ہو سکتا ہے کیونکہ آسٹریلوی ٹیموں کا کھیلنے کا نظریہ ہمیشہ ’کبھی ہار نہ ماننے‘ کا رہا ہے۔ یہ ان کے سپورٹس کلچر کا حصہ بھی ہے۔ 292 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والی آسٹریلوی ٹیم کے 19ویں اوور میں 91 رنز پر سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس گراؤنڈ پر دوسری اننگز میں فاسٹ بولرز خاصے خطرناک ہو جاتے ہیں اور لائٹس میں گیند سوئنگ کرنے لگتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا اور نوین الحق اور عظمت اللہ نے دو دو کھلاڑیوں کو پہلے دس اوورز میں پویلین کی راہ دکھا کر آغاز میں برتری حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد ایک رن آؤٹ اور راشد خان کی عمدہ بولنگ نے آسٹریلیا کو 91/7 تک محدود کر دیا تھا اور افغانستان کے لیے ایک تاریخی فتح صرف تین وکٹیں ہی دور تھی۔ میکسویل ایک انتہائی کلوز ایل بی ڈبلیو سے ڈی آر ایس کے باعث بچنے میں کامیاب ہو چکے تھے تاہم ایسے میں انھوں نے اسی اوور میں سپنر نور احمد کے خلاف سویپ شاٹ کھیلی جو سیدھی شارٹ فائن لیگ پر کھڑے مجیب الرحمان کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دی۔ یہ انتہائی آسان کیچ تھا، لیکن مجیب نے شاید آخری لمحے میں گیند سے نظریں ہٹا لیں اور ایک انتہائی آسان کیچ گرا دیا۔۔۔ اور شاید افغانستان کی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کی امیدیں بھی۔ اس کے بعد سے میکسویل نے جو کیا اسے ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کی سب سے لاجواب اننگز کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ میکسویل کو نہ صرف افغانستان کے بہترین سپنرز کا سامنا کرنا تھا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا تھا کہ وہ آسٹریلوی بولرز کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سٹرائک لیں۔ تاہم کچھ ہی دیر بعد میکسویل کو ایک اور مسئلے سے بھی دوچار ہونا تھا۔ ایسی صورتحال میں میکسویل نے یہاں وہ انداز اپنایا جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں اور جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے لگے۔ ان کے بلے سے نکلنے والے ہر سٹروک کے پیچھے طاقت کے ساتھ ساتھ ٹائمنگ بھی لاجواب ہوتی اور وہ اوور کے آخر میں باآسانی سنگل لینے میں بھی کامیاب ہو جاتے۔ اس سب کے درمیان دوسرے اینڈ پر موجود پیٹ کمنز اور افغان بولرز صرف خاموش تماشائی بننے پر مجبور ہو گئے۔ جیسے ہی میکسویل کی سنچری مکمل ہوئی تو ان کی ٹانگ میں واضح طور پر تکلیف کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ میچ میں کئی مرتبہ فزیو کو میدان میں آ کر میکسویل کو دوا دینی پڑی لیکن وہ ریٹائرڈ ہرٹ نہیں ہوئے میدان پر رہے اور ایک جینیئس بلے باز کی طرح صرف ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر ایسی شاٹس کھیلتے رہے جو دیکھ کر سب ہی حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ اپنے کندھوں پر تمام ذمہ داری لیتے ہوئے میکسویل آخر تک جارحانہ انداز میں بلے بازی کرتے رہے اور اچھی گیندوں کو بھی باؤنڈری پار پہنچاتے رہے اور آخرکار اپنے آخری چھکے سے ڈبل سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس افغان بولنگ لائن اپ اور ایسی میچ صورتحال اور ذاتی صحت کو دیکھتے ہوئے میکسویل کی یہ اننگز یقیناً ون ڈے تاریخ کی بہترین اننگز میں سے ایک گردانی جائے گی۔ میکسویل نے آسٹریلیا کی مقابلے کے بغیر نہ ہارنے کی سپرٹ برقرار رکھی اور 10 چھکوں اور 24 چوکوں سے بنائی گئی ڈبل سنچری سے آسٹریلیا کو سیمی فائنل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 یہاں افغانستان کے بولرز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جنھوں نے آسٹریلوی بیٹنگ کو اس صورتحال تک پہنچایا، اور ابراہیم زدران کے 129 ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگز کو بھی سراہنا نہیں بھولنا چاہیے جنھوں نے آج افغانستان کے لیے ورلڈ کپ مقابلوں میں پہلی سنچری بنائی ہے۔ افغانستان نے آج ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 291 رنز بنا کر یہ یقینی بنایا تھا کہ آسٹریلیا کو اس ہدف کا تعاقب کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پھر میکسویل ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔ جہاں سوشل میڈیا پر میکسویل کی اس اننگز کی تعریفیں ہو رہی تھیں وہیں پاکستانی مداح بھی اس میچ کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے کیونکہ آج افغانستان کی فتح کی صورت میں پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی مزید مشکل ہو جاتی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو صحافی، کرکٹ کے مداح سمیت ہر کوئی اس اننگز کی تعریف کر رہا ہے۔ میکسویل کی اننگز کے بارے میں بات کرتے ہوئے مظہر ارشد کا کہنا تھا کہ یہ ون ڈے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ کسی بلے باز نے دوسری اننگز میں ڈبل سنچری بنائی ہے۔ یہ ایک شاندر اننگز تھی۔ اسی طرح صحافی عثمان سمیع الدین اور احمر نقوی کی جانب سے ٹویٹس میں آسٹریلیا کی جانب سے آخر تک ہمت نہ ہارنے کے نظریے کے بارے میں بات کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 احمر نقوی نے لکھا کہ ’ہم سب نے آسٹریلیا سے ایسی شکستوں کا مزہ چکھا ہے جس میں کوئی ایک کھلاڑی کھڑے کھڑے میچ جتوا دے۔ لیکن ایسا صرف ایسی صورتحال میں کرنا جب آپ صرف اپنے ہاتھ ہی ہلا سکتے ہوں، ایک عظیم کارنامہ ہے۔ صارفین جو پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں نے کہا کہ یہ ’قدرت کے نظام کا حصہ تھا۔‘ جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ میکسویل نے صرف ایک ٹانگ پر پاکستان اور نیوزی لینڈ کی سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کا بوجھ اٹھائے رکھا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmmp71817d1o
کرکٹ ورلڈ کپ: انڈیا کی ’ڈریم ٹیم‘ ناقابل تسخیر کیوں؟
اب تک کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کے شائقین کی توجہ کا مرکز ویراٹ کوہلی رہے ہیں۔ پہلے تو یہ سوال تھا کہ کیا انڈیا کے سٹار بلے باز سچن تندولکر کی 49 سنچریوں کا ریکارڈ برابر کر پائیں گے یا نہیں؟ پھر جب انھوں نے یہ ریکارڈ برابر کر دیا تو اب سوال ہو رہا ہے کہ اگلی اور 50ویں سنچری کب بنائیں گے؟ یاد رہے کہ انڈیا کے بلے باز ایک روزہ کرکٹ میں سنچری بنانے والوں کی فہرست میں پہلی تین پوزیشن پر براجمان ہیں۔ اس فہرست میں کپتان روہت شرما 31 سنچریوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہیں۔ اتوار کو انڈیا نے دوسری پوزیشن پر موجود جنوبی افریقہ کو 243 رن سے شکست دی جس کے دوران پوری ٹیم صرف 83 رن بنا کر آؤٹ ہوئی۔ کیا واقعی انڈیا اور باقی ٹیموں کے درمیان اتنا ہی فرق ہے؟ یا پھر یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ 11 کھلاڑی اپنی بھرپور کارکردگی دکھا رہے ہیں؟ اور کیا ایسا مسلسل ہو سکتا ہے؟ کوہلی سے جڑے جنون نے فی الوقت شاید دیگر کھلاڑیوں کی محنت اور کارکردگی کو پس منظر میں پھینک دیا ہو۔ مثال کے طور پر فاسٹ بالر جسپریت بمرا نے 15 کی اوسط سے 15 وکٹیں لی ہیں اور بلے باز ان کی 70 فیصد گیندوں پر رن نہیں بنا پائے۔ پاور پلے میں، ڈاٹ بال کی اوسط 83 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کسی بھی بولر کا خواب ہے کہ وکٹیں بھی لے اور رن بھی نہ دے۔ جسپریت بمرا کھیل کے آغاز سے ہی حریف پر دباؤ ڈال دیتے ہیں۔ کپتان روہت شرما بھی یہی کر رہے ہیں لیکن اپنے بلے سے۔ وہ کھیل کا آغاز ہی جارحانہ طریقے سے کرتے ہیں اور یہ حکمت عملی اب تک خوب چلی ہے۔ جنوبی افریقہ کیخلاف اس کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب پہلے پاور پلے میں انڈیا نے 91 رن بنائے۔ روہت شرما 24 گیندوں پر 40 رن بنا کر آؤٹ ہو گئے لیکن اس دوران ان کی ٹیم چھٹے اوور میں 60 رن بنا چکی تھی اور اسی لیے ویراٹ کوہلی اور شریاس کو سنبھل کر کھیلنے کا وقت ملا اور انھوں نے 134 رن جوڑے۔ روہت شرما اور شبھمن گل نے مارکو جینسن کو خاص طور پر نشانہ بنانے کے لیے چنا جو اس وقت تک پاور پلے میں سب سے کامیاب بولر تھے یعنی انڈیا نے حساب کتاب سے جارحیت دکھائی۔ اس حکمت عملی کے لیے روہت شرما اور کوچ راہل ڈریوڈ کو سراہا جانا چاہیے تاہم انڈیا کے ٹاپ بلے بازوں نے اس پر کامیابی سے عمل کیا ہے۔ یہ انڈیا کی ’ڈریم ٹیم‘ ہے۔ انڈیا کی ٹیم اس طریقے سے آج تک کسی بھی ورلڈ کپ یا کسی اور ٹورنامنٹ میں نہیں چھائی رہی جیسا وہ اب کر رہے ہیں۔ تیز بولر ہوں، یا سپنر، اوپنر بلے باز ہوں یا مڈل آرڈر، سب نے ہی اعتماد اور بہادری سے کھیلا اور اس دوران سنچریاں بنی ہیں، بولرز نے ایک ہی میچ میں پانچ پانچ وکٹیں لی ہیں، بہترین وکٹ کیپنگ ہوئی اور عمدہ کیچ پکڑے گئے۔ کسی بھی ورلڈ کپ کے اعتبار سے اس بار انڈیا کے تیز بولر جسپریت بمرا، محمد شامی اور محمد سراج، لیفٹ آرم سپنرز کی جوڑی کے ساتھ حریف ٹیموں کو تباہ کر رہے ہیں۔ اپنے ہی گھر میں کھیلے جانے والے عالمی کپ میں اس ٹیم سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ممبئی میں سیمی فائنل سے پہلے انڈیا کو دو ہی خدشات کا سامنا ہے؛ پہلا یہ کہ انڈین ٹیم پانچ بولرز کے ساتھ کھیل رہی ہے اور دوسرا یہ کہ اب تک انڈیا کو کسی میچ میں زیادہ دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن یہ ایک اچھا بولنگ کمبینیشن ہے جس میں شامل ہر بولر کسی بھی ٹیم کو اکیلے مات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ اس کا کام صرف رن ریٹ کم رکھنا ہے۔ جب کسی ٹیم کے پاس پانچ وکٹیں لینے والے بولر ہوں تو پھر کسی ایک کا برا دن ٹیم پر گراں نہیں گزرتا لیکن کیا یہ سچ ہے یا نہیں، جلد معلوم ہو جائے گا۔ آسٹریلیا کیخلاف میچ کو چھوڑ کر جہاں آغاز میں ہی انڈیا نے تین وکٹیں کھو دی تھیں، انڈیا کے بلے باز کسی قسم کے دباؤ کے بغیر کھیلے ہیں۔ جو لوگ کوہلی کے انجام کی باتیں کر رہے تھے اب ان کی اگلی سنچری کی توقع میں خوشی منا رہے ہیں۔ انڈیا کے لیے خوش قسمتی سے زخمی ہونے والے اور آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کی بروقت واپسی ہوئی۔ پہلے چار میچوں میں شامی کو نہیں کھلایا گیا لیکن اب وہ سات کی مضحکہ خیز اوسط سے 16 وکٹیں لے چکے ہیں۔ شریاس نمبر چار پر بھرپور فارم میں لوٹ چکے ہیں۔ تاہم انڈیا کو ہاردک پانڈیا کا متبادل، جن کے لیے ورلڈ کپ ٹخنے کے زخم کی وجہ سے ختم ہو گیا، آل راؤنڈر تلاش کرنا مشکل ہوا لیکن فی الحال اس بحث میں جانے کا وقت نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کو پانڈیا کی ضرورت ہی نہیں پڑ رہی۔ ورلڈ کپ ناک آؤٹ مرحلے تک پوری ٹیم کھیلتی ہے جس کے بعد کسی ایک کھلاڑی کی حیران کن کارکردگی کسی کے خواب کو چکنا چور کر سکتی ہے۔ 2003 کے ورلڈ کپ میں انڈیا کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے جب لگاتار آٹھ میچ جیتنے کے بعد فائنل میں آسٹریلیا سے سامنا ہوا تو صرف رکی پونٹنگ نے 121 گیندوں پر 140 رن بنا دیے جن میں آٹھ چھکے شامل تھے۔ کوئی بھی ٹیم ایسی کارکردگی کیخلاف کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتی اور صرف دعا کر سکتی ہے کہ بلے باز خود ہی آؤٹ ہو جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا مشہور باکسر مائیک ٹائیسن نے کہا تھا کہ ’ہر کسی کے پاس ایک منصوبہ ہوتا ہے جب تک ان کے منھ پر مکا نہیں پڑ جاتا۔‘ اور جیسا کہ ڈریوڈ نے حال ہی میں کہا کہ ’ہم اپنی مہارت کا استعمال کرتے رہیں گے جب تک کوئی ہم سے بہتر کھیل کر ہمیں ہرا نہ دے۔ تو ہم ان سے ہاتھ ملائیں گے اور چلے جائیں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/czk245nxe1ro
اینجلو میتھیوز ’ٹائمڈ آؤٹ‘: سری لنکن بلے باز نے کس طرح کرکٹ ورلڈ کپ کی ناپسندیدہ تاریخ اپنے نام کی
سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ جاری ہے اور جگہ ہے دلی کا ارون جیٹلی کرکٹ گراؤنڈ۔ اسی دوران کیمرہ دکھاتا ہے کہ 35 سالہ سری لنکن بلے باز اینجلومیتھیوز بغیر کھیلے اپنا ٹوٹا ہوا ہیلمٹ کچرے کے ڈبے میں پھینکتے ہوئے میدان سے باہر جا رہے ہیں۔ اور کمنٹری میں بتایا جا رہا ہے کہ اینجلومیتھیوز کو ’ٹائمڈ آؤٹ‘ کر دیا گیا ہے۔ اور یوں کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ میں اپنی حریف ٹیم کے ’چھکے چھڑانے‘ کے ارادے سے میدان میں اترنے والے سری لنکن کھلاڑی اینجلومیتھیوز انٹرنیشنل کرکٹ میں ’ٹائمڈ آؤٹ‘ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کا ہر میچ ہی یوں تو شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے تاہم چھ نومبر کو دہلی کے ارون جیٹلی کرکٹ گراؤنڈ میں بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ پیش آیا۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے میچ میں سری لنکن آل راؤنڈر اور سابق کپتان اینجلومیتھیوز، سمارا ویریا وکرما کی وکٹ گرنے پر کریز پر آئے لیکن جب وہ آئی سی سی کے رولز کے مطابق دو منٹ کے اندر کھیل کے لیے تیار نہ ہو سکے تو انھیں ’ٹائمڈ آؤٹ‘ کر دیا گیا اور یوں وہ میدان سے کھیلے بغیر ہی واپس لوٹ گئے۔ ان تاریخی لمحات میں مزید کیا ہوا اس پر بات آگے چل کر مگر پہلے جان لیتے ہیں کہ ٹائمڈ آؤٹ کا قانون کیا ہے۔ آئی سی سی رول بُک کی شق 40.1.1 کے مطابق ایک بلے باز کے آؤٹ یا ریٹائر ہونے کے بعد ٹیم کے اگلے بیٹسمین کو تین منٹ کے اندر اندر وکٹ پر پہنچ پر اگلی گیند کھیلنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوتا ہے، اور اگر کوئی پلیئرایسا کرنے میں ناکام رہے تو سے ’ٹائمڈ آؤٹ‘ کے اس قانون کے تحت آؤٹ قرار دے کر باہر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انڈیا میں جاری ورلڈ کپ کے رائج قوانین کے مطابق اس وقت کو گھٹا کر تین منٹ سے دو منٹ کر دیا گیا ہے۔ تو یہی ہوا آج کے کھیل میں اینجلومیتھیوز کے ساتھ کہ وہ نہ تو دو منٹ اور نہ ہی تین منٹ تک گیند کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو پائے اور ٹائمڈ آؤٹ قرار دیے گئے۔ واپس آتے ہیں ارون جیٹلی کرکٹ گراؤنڈ میں جہاں کیمرہ دکھاتا ہے کہ جب سدیرا سمارا وکرما کے آؤٹ ہونے کے بعد سری لنکا کے 35 سالہ اینجلو میتھیوز کھیلنے کے لیے میدان میں آئے تو ہیلمٹ ٹھیک کرنے کے دوران ان کو اندازہ ہوا کہ وہ فکس نہیں ہو پا رہا۔ اسی کوشش میں ان کے ہاتھوں ہیلٹ کا سٹرپ ٹوٹ گیا تووہ اپنا ٹوٹا ہوا ہیلمٹ ہاتھ میں لیے پہلے بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن سے بات کرتے دکھائی دیے۔ دوسرا ہیلمٹ منگوانے کے ساتھ انھوں نے وقت مانگنے کے لیے بات کی جس پر انھیں گیند کا سامنا کرنے کے لیے مزید کچھ وقت دیا گیا۔ پھر کیمرے نے انھیں ایمپائرز رچرڈ ایلنگ ورتھ اور ماریس ایراسمس سے بات کرتے دکھایا۔ جب وہ متبادل ہیلمٹ کا انتظار کر رہے تھے تو اس دوران بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن نے ایمپائرز سے میتھوز کو آؤٹ قرار دینے کی اپیل کی اور یوں میتھوز کو ٹائمڈ آؤٹ کر دیا گیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اینجلومیتھیوز پھر کچھ دیر ایمپائروں سے بات چیت کرتے ہیں لیکن وہاں سے جواب ملنے کے بعد انھوں نے بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن کی جانب دیکھا، لیکن وہاں سے بھی نفی میں ملا اوربات نہیں بنی اور پھر کافی بحث کے بعد میتھیوز کو پویلیئن کی جانب لوٹتے ہوئے دکھایا گیا۔ میتھیوز انٹرنیشنل کرکٹ کے دوران ٹائم آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی ہیں لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ اس کے طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں اور چھ کھلاڑی ٹائم آؤٹ ہو چکے ہیں۔ اینجلومیتھیوز کے اس متنازع آؤٹ دیے جانے پر سوشل میڈیا پر بھی بحث چھڑ گئی۔ کئی صارفین نے ان لمحات کے سکرین شاٹ بنا کر شیئر کیے جب میتھیوز کو اپنے حریف ٹیم کی کپتان سے اپیل کرتے اور نفی میں جواب پاتے دکھایا گیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 میتھیوز کے ٹائمڈ آؤٹ ہونے پر لوگوں کو منیر نیازی کی نظم کی بھی یاد دلا دی۔ عبداللہ نامی صارف نے منیر نیازی کی اس مشہور نظم کو پڑھنے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اسے میتھیوزسے منسوب کیا تو اسد اشفاق نامی صارف نے نظم کا عنوان لکھا ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ۔ اینجیلو میتھیوز ٹائم آؤٹ ہو گئے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایکس پر کچھ صارف ایسے بھی تھے جنھوں نے کھلاڑی کے اس طرح آوٹ ہونے کی شق کو ’میتھیوز‘ کا نام دینے کی سفارش کر دی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اس موقع پر بہت سے لوگوں کو شکیب الحسن کے 2021 میں ڈھاکہ پریمیئر لیگ میں ناروا رویے کے مناظر کی وہ ویڈیوز شیئر کیں جس میں شکیب الحسن نے امپائر عمران پرویز کے ایل بی ڈبلیو کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے امپائر کے سامنے لگے ہوئے سٹمپس کو لات ماری تھی۔ یہی نہیں بلکہ پھر ایک اوور کے بعد وہ دوسرے امپائر سے کسی بات پر تکرار کے بعد نان سٹرائکرز اینڈ پر لگی وکٹیں اکھاڑ کر انھیں زمین پر پٹختے بھی دکھائی دیے تھے۔ آشش شکلہ نامی ایکس صارف نے شکیب کی اس موقع کی ویڈیو شیئر کی اور لکھا۔ ’کیا یہ وہ لڑکا ہے جو اینجلو میتھیوز کو قواعد کے مطابق کھیلنے اور امپائر کے فیصلے کا احترام کرنے کو کہہ رہا تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
https://www.bbc.com/urdu/articles/c282k118dwjo
کوہلی کی 49 سنچریوں کا ریکارڈ: جب سچن تندولکر نے خود کہا کہ ویراٹ ان کا ریکارڈ توڑیں گے
آپ نے انڈین کرکٹ ٹیم کے میچوں کے دوران سٹیڈیم میں موجود تقریباً ہر شخص کی جرسی پر ویراٹ کا نام دیکھا ہو گا۔ ورلڈ کپ 2023 کے میچز کے لیے سٹیڈیم میں موجود زیادہ تر شائقین کی نیلی جرسیوں پر نمبر 18 دیکھا جا سکتا ہے۔ انڈین کرکٹ کی دنیا میں ویراٹ کوہلی کی قدر کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے۔ ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کہ اسے اتنا پیار ملے اور اس کے اتنی بڑی تعداد میں مداح ہوں۔ سچن تندولکر کے آتے ہی سٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھتا، لوگ تندولکر کے دیوانے تھے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ویراٹ نے سچن کی وراثت کو آگے بڑھایا ہے۔ کیونکہ گزشتہ روز ویراٹ کوہلی نے جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈ کپ کے میچ میں اپنی 49ویں سنچری مکمل کی ہے اور وہ سچن تندولکر کا ریکارڈ توڑنے والے پہلے بلے باز بن گئے ہیں۔ انھوں نے یہ ریکارڈ صرف 277 ون ڈے میچز میں برابر کیا جبکہ سچن نے یہ ریکارڈ 442 میچز میں بنایا تھا۔ آج سے تقریباً ایک دہائی قبل سچن تندولکر نے خود مارچ 2012 میں پیشگوئی کی تھی کہ ویراٹ اس روایت کو جاری رکھیں گے۔ یہ صنعتکار مکیش امبانی کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ میں سچن کی 100ویں سنچری کے اعزاز میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب تھی۔ مشہور اداکار سلمان خان نے سچن سے سوال کیا کہ آپ کی سنچری کا ریکارڈ کون توڑے گا؟ اس کے جواب میں سچن نے ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کا نام لیا۔ اس وقت اس جواب نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔ تاہم پچھلی دہائی میں ویراٹ نے واقعی یہ کارنامہ انجام دیا اور وہ سچن کی سنچریوں کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑنے کے بہت قریب ہیں۔ ایک زمانے میں انھیں ان کے جارحانہ رویے کی وجہ سے ’بیڈ بوائے‘ کہا جاتا تھا لیکن ویراٹ نے اب نہ صرف انڈین شائقین بلکہ پوری دنیا کے کرکٹ شائقین کے دلوں میں اپنے لیے ایک منفرد مقام بنا لیا ہے۔ ممبئی میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے اجلاس میں سنہ 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ کو شامل کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس فیصلے کی حمایت کے لیے ویراٹ کی مثال دی گئی۔ سابق اولمپیئن اور 2028 کے پیرا اولمپک کھیلوں کے ڈائریکٹر نکولو کیمپریانی کا کرکٹ کی مقبولیت کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ ’آج ویراٹ کوہلی سوشل میڈیا پر تیسرے مقبول ترین ایتھلیٹ ہیں۔ ان کے تقریباً 340 ملین فالوورز ہیں۔‘ اس طرح ’برانڈ کوہلی‘ بھی کرکٹ کی دنیا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن یہ کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ اس سفر میں انھیں بہت سی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سخت محنت، زیادہ توقعات کا دباؤ، مسلسل کارکردگی دکھانے کا دباؤ اور یقیناً ذہنی سختی یہ سب ان کے سفر کا حصہ تھے۔ ویراٹ کوہلی کتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اس کا علم سنہ 2006 میں ہوا تھا۔ ویراٹ کے والد پریم کوہلی کو دل کا دورہ پڑا۔ وہ اس وقت بستر مرگ پر تھے۔ ویراٹ کی عمر اس وقت صرف 17 سال تھی اور وہ اس وقت دہلی ٹیم کے لیے رنجی کرکٹ کھیل رہے تھے۔ فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم میں کرناٹک کے خلاف رنجی میچ میں ویراٹ دوسرے دن کے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہے۔ رات گئے پریم کوہلی کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور اچانک علی الصبح ان کی موت ہو گئی۔ ویراٹ نے اس دن اپنے والد کو کھو دیا۔ ویراٹ کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا کیونکہ ان کے والد نے بھی ان کے کرکٹ سفر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اچانک وہ دنیا سے چلے گئے اور اس وقت ویراٹ انھیں الوداع کہنے کے لیے بھی نہیں تھے لیکن ویراٹ اس وقت بھی مضبوط رہے۔ صبح انھوں نے دہلی کے کوچ چیتن شرما کو فون کیا، جو کچھ ہوا اس کی خبر دی اور اپنی اننگز مکمل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ والد کی موت کے بعد بھی سٹیڈیم گئے۔مگر جب وہ وہاں اپنے ساتھیوں سے ملے تو رو پڑے لیکن وہ پھر اپنے آنسو پونچھ کر میدان کی طرف چل پڑے۔ اس دن انھوں نے 90 رنز بنائے تھے۔ اس مشکل وقت کے دوران ویراٹ کی حیرت انگیز ہمت اور لگن نے ان کے حریفوں کو بھی حیران کر دیا تھا اور پھر اپنی اننگز پوری کرنے کے بعد وہ اپنے والد کی آخری رسومات میں شریک ہوئے تھے۔ ویراٹ کی والدہ سروج نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس رات ویراٹ اچانک سمجھدار ہو گئے۔‘ انھیں گھر کی تمام ذمہ داریاں اپنے بڑے بھائی وکاس کے ساتھ نبھانی پڑیں۔ ویراٹ نے اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک بار انڈیا اور انگلینڈ کے میچ کے دوران مہندر سنگھ دھونی نے وکٹ کیپنگ کے دوران ویراٹ کوہلی کو میدان میں پیار سے ’چیکو‘ کہہ کر پکارا تھا۔ اس کے بعد وہ دنیا کے لیے بھی ’چیکو‘ بن گئے۔ اس کے علاوہ جب ویراٹ نے بہت چھوٹی عمر میں دہلی کے لیے رنجی کرکٹ کھیلنا شروع کی تو انھیں اپنے بالوں کے ساتھ بہت محتاط رہنا پڑا۔ انھوں نے اپنے بال بہت چھوٹے رکھے تھے۔ اس وقت ان کے گال بھی بچوں کی طرح گول تھے جس کی وجہ سے وہ بالکل معصوم اور پیارے لگتے تھے۔ انھیں دیکھ کر دہلی ٹیم کے کوچز میں سے ایک نے انھیں بچوں کی مشہور مزاحیہ کتاب ’چمپک‘ کے چیکو نامی خرگوش کے کردار کی یاد دلائی۔ وہ خود ویراٹ کو چیکو کے نام سے پکارتے تھے۔ فروری 2008 میں، ویراٹ کوہلی کی قیادت میں انڈیا نے ملائیشیا کے کوالالمپور میں منعقدہ انڈر 19 ورلڈ کپ جیتا۔ یہاں تک کہ ایک انڈر 19 کرکٹر کے طور پر، ویراٹ نے کھیل سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ اگلے چھ ماہ میں انھوں نے انڈیا کی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنا لی۔ سنہ 2008 میں سری لنکا کے دورے کے دوران سچن تندولکر اور وریندر سہواگ کے زخمی ہونے کی وجہ سے ویراٹ کو انڈین ٹیم میں جگہ ملی۔ انھوں نے ون ڈے انٹرنیشنل سیریز میں ڈیبیو کیا جہاں انھوں نے اپنی نصف سنچری بنائی۔ سنہ 2010 میں ویراٹ کو زمبابوے کے خلاف ہرارے میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کے لیے سکواڈ میں منتخب کیا گیا تھا۔ سنہ 2011 میں انھوں نے ویسٹ انڈیز کے دورے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ حاصل کی۔ ویراٹ لیگ کے افتتاحی سیزن سے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں رائل چیلنجرز بنگلور ٹیم کا حصہ تھے۔ ویراٹ کی اپنے کھیل میں مستقل مزاجی اور رنز بنانے کے جذبے نے انھیں سچن تندولکر کے برابر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ویراٹ کو اکثر عالمی کرکٹ میں اگلے ’سچن‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ویراٹ نے خود سچن تندولکر سے رہنمائی حاصل کی۔ وہ ویراٹ ہی تھے جنھوں نے 2011 ورلڈ کپ کا فائنل جیتنے کے بعد سچن کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور سٹیڈیم کا چکر لگایا تھا۔ ویراٹ کی انتھک محنت، ہمت اور عزم نے انھیں کھیل کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ آسٹریلیا میں سنہ 2011-12 کی سیریز میں اگرچہ ٹیم انڈیا بری طرح سے ہار گئی تھی لیکن ویراٹ کے لیے یہ قابل ذکر تھی کیونکہ انھوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری اسی سیریز کے دوران سکور کی، جو ان کے کیریئر میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ جب ان کے ساتھی بلے باز ایک ایک کر کے اپنی وکٹیں کھو رہے تھے، ویراٹ میدان میں ڈٹے رہے اور اپنے مخصوص شاٹس کی مدد سے سنچری مکمل کی۔ تندولکر، ڈریوڈ اور گوتم گمبھیر جیسے بڑے کھلاڑی بھی اس دن کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس سنچری کے ساتھ ہی انڈین کرکٹ میں ’ویراٹ دور‘ کے آغاز کا اعلان ہو گیا۔ سنہ 2011-12 میں آسٹریلیا کے دورہ انڈیا کے دوران ویراٹ کوہلی کا جارحانہ انداز اور شوخ مزاجی موضوع بحث رہی۔ وہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کے جارحانہ انداز سے خائف نہیں ہوئے اور انھوں نے بھی آسٹریلوی کھلاڑیوں کی جانب جارحانہ انداز اپنایا۔ ویراٹ آسٹریلیا کے مشہور جارحانہ کھلاڑیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ثابت قدم رہے۔ نئی نسل کے نڈر انڈین کھلاڑی آسٹریلیا میں اگلی کرکٹ سیریز میں نظر آئے۔ سنہ 2014-15 کے دورے کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں ویراٹ میدان میں مچل جانسن سے ٹکرا گئے، جس کے بعد امپائر کو مداخلت کرنا پڑی۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ انڈین کرکٹ کا نیا چہرہ تھا۔ درحقیقت، بین الاقوامی کرکٹ کی تبدیلی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور ٹوئنٹی 20 کرکٹ فارمیٹ کے متعارف ہونے کے ساتھ واضح ہو گئی، جو بین الاقوامی کرکٹ کے منظر میں ویراٹ کی انٹری کے ساتھ کارگر ثابت ہوئیں۔ ویرات نہ صرف انڈین کرکٹ کے نمائندے بنے بلکہ انھوں نے ملک کی نئی نسل کی بھی نمائندگی کی، جو اپنی خود اعتمادی کے ساتھ ان جیسے اونچے خواب دیکھ رہی تھیں۔ ان کی جارحانہ اور بعض اوقات سخت طبیعت نے انھیں کئی مواقع پر مشکل میں بھی ڈالا۔ اس وقت بہت سے لوگوں کو ان کی باتیں اور متکبرانہ رویہ پسند نہیں آیا۔ لیکن ’بہتر کھیل‘ کے ان کے مضبوط عزم کو نہ صرف نوجوان انڈین شائقین نے پسند کیا بلکہ انھیں دنیا بھر کے نوجوانوں نے بھی خطرہ محسوس کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اکثر ان کے ساتھی بشمول اس وقت کے کپتان ایم ایس دھونی نے ویراٹ کی محنت اور لگن کی تعریف کی۔ ویرات کوہلی کے کام کرنے کے انداز اور عاجزی کی اکثر ان کے ساتھی کھلاڑی مہندر سنگھ دھونی اور دیگر بھی تعریف کرتے ہیں۔ ان کی محنت کے لیے لگن اور ’جذبے سے کھیلنے‘ کے رویے نے آسٹریلوی کرکٹ شائقین کو متاثر کیا اور ساتھ ہی آسٹریلوی عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ ان کے مداحوں کی فہرست انڈیا سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے، یہاں تک کہ کچھ پاکستانی شائقین بھی ویراٹ کے عزم اور کھیل کے انداز کی تعریف کرتے ہیں۔ شائقین کو دورہ ویسٹ انڈیز کی ایک ویڈیو ضرور یاد ہو گی جب جولائی 2023 میں، ٹیم انڈیا کے ٹرینیڈاڈ کے دورے کے دوران، ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر جوشوا ڈی سلوا کی والدہ نے ویراٹ سے ملاقات کی تھی۔ ویراٹ کو کرکٹ کھیلتے دیکھنا، خاص طور پر جب وہ اپنے گراؤنڈ سٹروکس اور کور ڈرائیوز مارتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آؤٹ سوئنگ یا آف سٹمپ گیندوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اکثر گیپ تلاش کرتے ہیں۔ ویراٹ جب رنز کا تعاقب کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو انھیں روک پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ویراٹ کو ون ڈے کرکٹ میں ’رن چیز‘ کرنے کے فن میں مہارت حاصل ہے۔ ویراٹ دنیا میں جہاں بھی کھیلے انھوں نے شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ کون سا شاٹ کب کھیلنا ہے، سکور بورڈ پر شراکت داری قائم کرنا یا اٹیکنگ بولرز کا سامنا کرنا یہ سب ان کی حکمت عملیوں میں شامل ہے۔ ان کی حکمت عملی میں پچ اور حالات کا اندازہ لگانا اور ضرورت کے مطابق حکمت عملی تبدیل کرنا شامل ہے۔ یہ ویراٹ کے گیم پلے کی منفرد خصوصیات ہیں۔ وہ اپنی فٹنس کے بارے میں اتنے ہی محتاط ہیں۔ 2018 میں، صحت کے مسائل کی وجہ سے ویراٹ نے سبزی خور بننے کا فیصلہ کیا، جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے اپنی خوراک سے گوشت کے ساتھ ساتھ دودھ سے بنی مصنوعات کو بھی ختم کر دیا۔ وہ اپنی خوراک اور ورزش کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کا اعتماد، کھیل کے لیے لگن، توجہ، نظم و ضبط، جذبہ اور ہم آہنگی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان خوبیوں نے ویراٹ کو انڈین کرکٹ میں ایک خاص مقام دلایا اور وہ دھونی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کپتانی کی ذمہ داری بھی نبھا چکے ہیں مگر کرکٹ ٹیم کی کپتانی ان کے کیرئیر کے لیے کچھ مشکل ثابت ہوئی۔ ویراٹ کوہلی کو 2014 میں آسٹریلیا کے دورے کے دوران غیر متوقع طور پر انڈین کرکٹ ٹیم کی کپتانی سونپی گئی تھی جب اس وقت کے کپتان مہندر سنگھ دھونی کی انگلی میں چوٹ آئی تھی، جو ایڈیلیڈ میں ہونے والے ٹیسٹ میچ سے قبل مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو پائے تھے۔ اس طرح کوہلی کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کرنے کا پہلا موقع ملا، جو انھوں نے بخوبی ادا کی۔ بطور کپتان اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں کوہلی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے 2022 تک 68 ٹیسٹ میچوں میں انڈین کرکٹ ٹیم کی قیادت کی۔ ان میں سے انڈیا نے 40 میچ جیتے جبکہ 17 میں شکست ہوئی۔ ٹیسٹ میں بطور کپتان ان کی جیت کی شرح 58.82 فیصد ہے۔ تاہم ان کی قیادت میں انڈیا نے ون ڈے کرکٹ میں 95 میچ کھیلے، جن میں سے 65 جیتے۔ ان میں سے 24 انڈیا میں اور 41 میچز بیرون ملک کھیلے گئے۔ بطور کپتان کوہلی کی ون ڈے کرکٹ میں جیت کی مجموعی شرح 68.42 فیصد ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کوہلی کی زیر کپتانی انڈیا نے 66 میں سے 50 میچ جیتے اور صرف 16 ہارے ہیں اور ان کی جیت کی شرح 64.58 ہے۔ اگرچہ ویراٹ بطور کپتان آئی سی سی ٹورنامنٹ کا کوئی ٹائیٹل نہیں جیت سکے لیکن ان کے اعدادوشمار ان کی شاندار کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور یقیناً انھیں انڈین کرکٹ کے عظیم کپتانوں میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ کپتانی کانٹوں کا تاج ہے اور ویراٹ کا تجربہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ سنہ 2019 میں بطور بلے باز ان کی کارکردگی میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ جس کے بعد انھوں نے ٹی ٹوئنٹی اور بعدازاں ایک روزہ بین الاقوامی اور ٹیسٹ کی کپتانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انڈین کرکٹ بورڈ نے ان کی جگہ روہت شرما کو کپتان بنا دیا۔ اس فیصلے نے انڈین فینز اور کرکٹ کی خبروں میں کافی بحث چھیڑ دی اور بہت سی ایسی باتیں ہونے لگیں کہ ایک میان میں دو تلواریں یا دو شیر کبھی ایک جنگل میں نہیں رہ سکتے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ویراٹ اور روہت دونوں نے واضح کر دیا تھا کہ ان کے درمیان کوئی دشمنی نہیں۔ سال 2021-22 ویراٹ کوہلی کے لیے ایک مشکل دور لے کر آیا۔ ان کا بلا، جو آسانی سے رنز بنانے کے لیے جانا جاتا ہے، اپنا جادو کھوتا دکھائی دے رہا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کی مسلسل محنت نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ان کی جدوجہد ان کی بلے بازی کی کارکردگی سے عیاں تھی۔ سال 2022 میں، ویراٹ نے ایک ماہ کا وقفہ لیا، جو کسی ایسے شخص کے لیے ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو 2008 سے کھیل کے تمام فارمیٹس میں مسلسل کھیل رہا تھا۔ تاہم، ویراٹ نے ایشیا کپ میں شاندار واپسی کی جب انھوں نے افغانستان کے خلاف میچ میں سنچری بنائی۔ 2022 کے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انھوں نے پاکستان کے خلاف ایک شاندار اننگز کھیلی، 82 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے اور ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔ اس کے بعد سے ویراٹ نے اپنی فارم دوبارہ حاصل کر لی ہے اور نئے جوش کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اب وہ ٹیم میں ایک سینئر کھلاڑی کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو ایک نئے تناظر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ واپسی آسان نہیں تھی۔ 2022 میں سٹار سپورٹس کو انٹرویو دیتے ہوئے ویراٹ نے انکشاف کیا تھا کہ ’میں نے تقریباً ایک ماہ تک اپنا بیٹ نہیں اٹھایا۔ پچھلے دس سال میں پہلی بار ایسا ہو رہا تھا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ یہ سب سطحی ہے۔ میں مسلسل اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ میرے پاس صلاحیت ہے، مجھ میں صلاحیت ہے۔ میرا ذہن مجھے آگے بڑھنے کو کہہ رہا تھا، اسی وقت میرا جسم مشورہ دے رہا تھا کہ مجھے آرام کرنا چاہیے۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ مجھے وقفہ چاہیے۔‘ ویراٹ کی جانب سے ذہنی صحت پر کھل کر بات کرنے کو بہت سے لوگوں نے سراہا۔ ان کی کھلے پن اور بے تکلفی نے دکھایا کہ ان جیسا ذہنی طور پر مضبوط انسان بھی مشکل وقت سے گزر سکتا ہے۔ انھوں نے دوسروں کو اچھی ذہنی صحت کی اہمیت کو سمجھنے کی ترغیب دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ذہنی طور پر مضبوط ہوں لیکن ہر ایک کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ آپ کو ان حدود کو جاننے کی ضرورت ہے، ورنہ چیزیں گڑبڑ ہو جاتی ہیں۔‘ ’میں ذہنی طور پر جدوجہد کر رہا تھا اور اب مجھے اس کا اعتراف کرنے میں کوئی پریشانی نہیں۔ اب مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ آپ مضبوط ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو کسی بھی جدوجہد کو چھپاتے ہوئے ہمیشہ اپنا مضبوط پہلو دکھانا ہو گا۔‘ ویراٹ اور انوشکا کی پہلی ملاقات 2013 میں ایک شیمپو کمرشل کی شوٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔ شروع میں ان کی دوستی تھی جو بعد میں رومانوی رشتے میں بدل گئی۔ جب ویراٹ نے 2014 میں انڈیا کے دورہ انگلینڈ کے دوران عوامی طور پر انوشکا کو اپنی گرل فرینڈ کے طور پر قبول کیا تو انھیں انوشکا کو ٹور پر لے جانے کی اجازت دی گئی جو ان کے تعلقات میں باضابطہ طور پر ایک سنگ میل تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک کامیاب کرکٹر اور ایک سٹار اداکارہ کی جوڑی سے متعلق خبریں نہ بنتیں۔ ان کا رشتہ ان کے بندھن کی وجہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ لیکن انھیں ابتدا میں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ دورہ انگلینڈ کے دوران ویراٹ اپنی فارم میں نہیں آ سکے اور اس وقت انوشکا ان کے ساتھ تھیں۔ مداحوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی چیز کے بجائے کھیل پر توجہ دیں۔ ویراٹ اور انوشکا دونوں نے ان تبصروں کو نظر انداز کیا لیکن 2016 میں انھیں ایک بار پھر اسی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب ویراٹ کھل کر انوشکا کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ تقریباً ایک سال بعد 2017 میں انھوں نے میڈیا اور عوام کی توجہ سے ہٹ کر اٹلی میں ایک نجی تقریب میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب جوڑے کی بیٹی وامیکا کی پیدائش ہوئی تو ویراٹ نے پیٹرنٹی چھٹی بھی لی۔ اپنی شہرت اور مشکل کیریئر کے باوجود، اس مشہور جوڑے نے دکھایا کہ کس طرح اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjj8jg83g3go
کرکٹ ورلڈ کپ: نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ میں اس وقت کہاں کھڑی ہے
پاکستان ٹیم نے سنیچر کو نیوزی لینڈ کے خلاف انتہائی غیر معمولی انداز میں میچ جیت کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو برقرار رکھا ہے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے 402 رنز کے ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی جارحانہ اور بابر اعظم کی ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت میچ 21 رنز سے جیت لیا۔ یہ یقیناً ایک غیر معمولی فتح تھی جس کے بارے میں آئندہ کئی سالوں تک بات ہوتی رہے گی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات اب بھی دوسرے میچوں کے نتائج پر منحصر ہیں۔ پوائنٹس ٹیبل پر نظر ڈالیں تو نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان اس وقت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب چوتھے، پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔ یہ ترتیب ان ٹیموں کے نیٹ رن ریٹس کی بنیاد پر ہے۔ نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ اس وقت مثبت 0.398 ہے جبکہ پاکستان کا مثبت 0.036 ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان کا نمبر آتا ہے جس کا نیٹ رن ریٹ منفی 0.330 ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے آٹھ، آٹھ میچ کھیل رکھے ہیں اور دونوں ہی ٹیموں نے اب اپنا آخری میچ کھیلنا ہے۔ نیوزی کا سری لنکا کے ساتھ میچ نو نومبر کو بینگلورو میں ہی کھیلا جائے گا۔ جبکہ پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ سے 11 نومبر کو کولکتہ میں ہو گا۔ دوسری جانب افغانستان نے ابھی ابھی مزید دو میچ کھیلنے ہیں تاہم یہ دونوں مشکل میچ ہیں۔ افغانستان منگل سات نومبر کو آسٹریلیا سے ممبئی میں مدِ مقابل ہو گی جبکہ جنوبی افریقہ سے اس کا مقابلہ 10 نومبر کو احمد آباد میں ہو گا۔ افغانستان اب تک ٹورنامنٹ میں پاکستان، انگلینڈ، سری لنکا اور نیدر لینڈز کو شکست دے چکی ہے۔ افغانستان کو دو میچ موجود ہونے کے باوجود اپنے منفی نیٹ رن ریٹ کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں اگر افغانستان دو میں سے ایک میچ بھی ہارتا ہے اور 10 پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی فتوحات کی صورت میں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کا نیٹ رن ریٹ دونوں ٹیموں سے بہتر ہے۔ یعنی اسے جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا کے بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اگر افغانستان اپنے دونوں میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گا۔ ایک میچ جیتنے کی صورت میں یا تو اسے اپنا نیٹ رن ریٹ مثبت کرنا ہو گا یا پھر یہ امید کرنی ہو گی کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ اپنے میچ ہار جائیں۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ تاحال اپنے نیٹ رن ریٹ کے باعث قدرے بہتر پوزیشن پر ہے۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو نو نومبر کو شکست دے دیتا ہے تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام اس کی مثال کرکٹ تجزیہ کار اور اعدادوشمار کے حوالے سے مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد اس طرح دیتے ہیں کہ اگر نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 300 رنز بنا کر ایک رن سے شکست دی تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف میچ میں لگ بھگ 130 رنز سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق نو نومبر کو بنگلورو میں بارش کا امکان تاہم اس بارے میں بہتر اندازہ میچ کے قریب ہی لگایا جا سکے گا۔ اگر نیوزی لینڈ اور سری لنکا کا میچ بارش کے باعث نہ ہو سکا تو پاکستان کو افغانستان کی شکستوں کی امید رکھنے کے ساتھ انگلینڈ کو ہرانا ہو گا۔ پاکستان کو ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پاکستان کا میچ 11 نومبر کو ہے اس لیے میچ سے قبل پاکستان کو یہ معلوم ہو گا کہ نیٹ رن کے حوالے سے اسے کیا کرنا ہے۔ پاکستانی مداح آئندہ ہفتہ افغانستان کے دونوں میچوں کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے سب سے اہم میچ پر نظریں جمائے رکھیں گے۔ ساتھ ہی انھیں یہ امید بھی کرنی ہو گی کہ پاکستان انگلینڈ کے خلاف اپنا میچ جیت جائے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw52xk0ql63o
’قدرت کا نظام‘ پاکستان پر مہربان، نیوزی لینڈ کو 21 رنز سے شکست: بنگلورو کے آسمان پر منڈلاتے بادلوں تلے فخر زمان کے چھکوں کی برسات
اکثر جب پاکستان ٹیم کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں مشکل موقع پر پھنس جائے تو کبھی بارش، کبھی ایک بڑا اپ سیٹ تو کبھی مخالف ٹیموں کی غیر معمولی قسم کی خراب فیلڈنگ پاکستان کی مدد کو آن پہنچتی ہیں۔ بنگلورو کے ایم چناسوامی سٹیڈیم میں آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے انتہائی اہم میچ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جسے پاکستانی مداحوں کی جانب سے ’قدرت کا نظام‘ کہا جا رہا ہے۔ بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت 21 رنز سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جانے کی امیدیں برقرار رکھی ہیں۔ اس میچ کی دونوں اننگز میں بولرز کی پٹائی اور بلے بازوں کا جارحانہ انداز حاوی رہا لیکن فخر زمان کی صرف 81 گیندوں پر 126 رنز کی اننگز نے میچ کا پانسا پاکستان کے حق میں پلٹ دیا۔ میچ میں دو مرتبہ بارش نے خلل ڈالا اور یہ وقفہ ایسے موقعوں پر آیا جب پاکستان ٹیم بارش کے باعث متاثرہ میچوں کے لیے مخصوص ڈی ایل ایس نظام کے تحت پار سکور سے آگے تھا۔ دونوں پاکستانی بلے بازوں نے ہدف کو ذہن میں رکھا اور جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو فتح تک برتری میں رکھنے میں کامیاب رہے اور پھر جب آخری مرتبہ بارش کے باعث میچ روکنا پڑا تو پاکستان ڈی ایل ایس پار سکور سے 21 رنز آگے تھا۔ میچ کا بارش کے باعث کٹ آف ٹائم پاکستانی وقت کے مطابق سات بج کر 10 منٹ تھا، تاہم مسلسل بارش کے باعث پاکستان کو پہلے ہی فاتح قرار دے دیا گیا۔ اس میچ کی خوبصورتی یہ تھی کہ پہلی اننگز کے اختتام پر کسی کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ پاکستان اس ہدف کا تعاقب کرنے میں کامیاب ہو پائے گا اور پھر کچھ فخر زمان کی جارحانہ بیٹنگ، بابر اعظم کی ذمہ دارانہ اننگز اور کچھ ’قدرت کے نظام‘ کے باعث پاکستان یہ میچ 21 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ فخر زمان جو اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے لیے صرف تین میچوں میں شرکت کر سکے ہیں نے آج ایسی شاندار اننگز کھیلی جس نے کیوی بولرز کے ساتھ ساتھ پاکستانی مداحوں کو بھی حیران کر دیا۔ فخر اس سے قبل ایشیا کپ میں انتہائی بری فارم میں دکھائی دے رہے تھے اور ورلڈ کپ کے وارم اپ میچز کے ساتھ ساتھ نیدرلینڈز کے خلاف پاکستان کے پہلے میچ میں بھی فخر کچھ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ پاکستان کو اسی وجہ سے ان کی جگہ عبداللہ شفیق کو ٹیم میں شامل کرنا پڑا تھا۔ تاہم امام الحق کی ورلڈ کپ کے دوران ناقص پرفارمنس اور پاکستان ٹیم مینجمنٹ کے مطابق فخر کو ہونے والی گھٹنے کی انجری کے باعث انھیں بنگلہ دیش کے خلاف میچ تک نہیں کھلایا جا سکا۔ تاہم بالآخر جب پاکستان ایک ایسی صورتحال میں تھا جب اسے اپنے تمام میچ نہ صرف جیتنے تھے بلکہ نیٹ رن ریٹ بھی بہتر کرنا تھا تو فخر زمان کو بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں شامل کیا گیا اور انھوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میچ میں سات چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے 81 رنز بنائے تھے۔ تاہم آج بائیں ہاتھ کے پاکستانی اوپنر کو ایک پہاڑ جیسے ہدف کا سامنا تھا۔ 402 رنز کا ہدف بڑی سے بڑی بیٹنگ لائن اپس کو دباؤ میں ڈالنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ تاہم فخر زمان نے آج چھکے مارنے کی فارم برقرار رکھی۔ جب سے انھوں نے اس ورلڈ کپ میں کم بیک کیا ہے وہ 18 چھکے لگا چکے ہیں اور پاکستان کو جس جارحانہ آغاز کی ضرورت رہی ہے وہ دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فخر زمان کا خاص کر سپنرز کو چھکے مارنے کا انداز خاصا غیر روایتی ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے ہاتھ میں کلہاڑا ہو اور وہ کریز پر کھڑے اسے چلا رہے ہوں۔ آج عبداللہ شفیق کے آغاز میں آؤٹ ہونے کے بعد جب فخر کے ساتھ بابر کریز پر آئے تو دونوں نے ذمہ دارانہ شراکت بنائی۔ بنگلورو کے آسمان پر منڈلاتے گہرے بادلوں تلے آج فخر زمان نے جس دلیری اور جارحانہ انداز سے اننگز کھیلی وہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں امر ہو چکی ہے۔ نیوزی لینڈ نے انھیں گلین فلپس کی آف سپن کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا پہلا اوور میڈن کھیلنے کے بعد ان کے اگلے چار اوورز میں 42 رنز بنے جس میں تین چھکے اور تین چوکے شامل تھے۔ اسی طرح بارش کے پہلے وقفے کے بعد بابر اعظم نے بھی جارحانہ انداز اپنایا اور اش سودھی کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے نصف سنچری مکمل کی اور یوں پاکستان 21 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت آپ کو ’قدرت کا نظام‘ کی اصطلاح دیکھنے کو ملے گی۔ یہ دراصل پاکستان کے سابق کوچ ثقلین مشتاق کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہی گئی تھی جہاں وہ گذشتہ برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کی کارکردگی کا دفاع کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تھا کہ ’سردی، گرمی، بارش گھٹا، یہ تو چلتا ہے یہ قدرت کا نظام ہے۔ کھیل بھی ایسا ہی ہے، ہار جیت یہ چلنی ہی چلنی ہے تو اسے ماننا چاہیے اور ہم مانتے ہیں۔ جب قدرت کا نظام ایسا ہے تو اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘ ان کے اس بیان کے بعد ان پر خاصی تنقید ہوئی تھی تاہم جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں پاکستان کی ٹیم ایک موقع پر خاصی مشکل صورتحال میں تھی اور اس کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے نیدرلینڈز کا جنوبی افریقہ کو شکست دینا ضروری تھا تو ایڈیلیڈ کے میدان پر ایسا ہی ہوا اور پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف فتح حاصل کر کے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد سے یہ اصطلاح پاکستانی مداحوں میں خاصی مشہور ہے۔ اس سے پہلے بھی جب بھی آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پاکستان مشکل وقت سے گزرا ہے تو پاکستان کی مدد اس کی اپنی کارکردگی کے علاوہ دیگر ٹیموں اور عوامل نے کی ہے۔ سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی بارش پاکستان کی مدد کو آئی تھی، سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کو آغاز میں شکست کھانے کے بعد سیمی فائنل تک رسائی دوسرے نتائج کی جانب دیکھنا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام یہ سب عوامل اور اگر مگر کی گیم پاکستان کے تقریباً ہر ٹورنامنٹ مہم کا خاصا رہی ہے۔ پاکستان کو اس ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے اب بھی سری لنکا بمقابلہ نیوزی لینڈ میچ پر نظریں رکھنی ہوں گی اور اس میچ میں نیوزی لینڈ کی شکست اور پاکستان کی انگلینڈ کے خلاف جیت پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی دینے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی ٹیم کو کم از کم ایک میچ ہارنا ہے۔ صحافی سلیم خالق نے لکھا کہ ’قسمت بھی بہادروں کا ساتھ دیتی ہے، آج تقریباً ہارا ہوا میچ پاکستان کو فخر زمان کی اننگز نے جتوا دیا، آج اگر بارش نہ بھی ہوتی تو وہ بابر اعظم کے ساتھ مل کر ٹیم کو ہدف تک بھی پہنچا سکتے تھے۔ ’پاکستان ٹیم میں فخر کی ہی کمی تھی جو پوری ہو گئی۔‘ ایک صارف اسامہ نے لکھا کہ ’اس ورلڈ کپ میں 25 سے زیادہ سنچریاں بنائی جا چکی ہیں لیکن فخر زمان کی یہ سنچری کسی بھی سنچری سے بہتر تھی۔‘ اسی طرح ان کے علاوہ محمد وسیم جونیئر کی بھی تعریف کی جا رہی ہے جو آج پاکستانی فاسٹ بولرز میں سے سب سے اچھی بولنگ کروانے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے 10 اوورز میں 60 رنز دیے اور تین وکٹیں بھی حاصل کیں۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’اب مزید ایک ہفتہ اور اس ٹیم کے دعائیں کرنی پڑیں گی اور اپنی ذہنی صحت کو تباہ کرنا ہو گا۔‘ پاکستان نے ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ نیوزی لینڈ نے پاکستان کو جیت کے لیے 402 رنز کا ہدف دیا ہے۔ نیوزی لینڈ نے 6 وکٹوں کے نقصان پر 401 رنز بنائے ہیں۔ جواب میں پاکستان نے 21 اعشاریہ تین اوور میں ایک وکٹ کے نقصان پر 160 رنز بنا لیے ہیں۔ آؤٹ ہونے والے واحد کھلاڑی عبداللہ شفیق ہیں جو چار رنز بنا کر سودی کی گیند پر ولیمسن کو کیچ تھما بیٹھے۔ ان کے آؤٹ ہونے کے بعد کپتان بابر اعظم نے فخر زمان کا ساتھ دیا۔ دونوں کے درمیان سو رنز سے زائد کی شراکت ہو چکی ہے جبکہ فخر زمان نے اپنے کریئر کی 11ویں سنچری بھی مکمل کر لی ہے۔ یہ ان کی تیز ترین سنچری ہے۔ 67 گیندوں پر 106 رنز بنا کر اس وقت ہو کریز پر موجود ہیں۔ آج کے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کی پہلی وکٹ 11ویں اوور میں حاصل کی۔ حسن علی کی گیند پر ڈیون کونوے محمد رضوان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ انھوں نے 39 بالوں پر 35 رنز بنائے۔ اس طرح حسن علی کو اپنی 100 ویں ون ڈے انٹرنیشنل کی وکٹ مل گئی۔ نیوزی لینڈ کے بلے باز راچن رویندرا نے 34 ویں اوور میں 88 گیندوں پر سنچری بنائی۔ یہ اس ورلڈکپ میں ان کی تیسری سنچری ہے لیکن 36 ویں اوور میں وہ 108 رنز بنانے کے بعد محمد وسیم کی گیند پر سعود شکیل کے ہاتھوں کیچ آوٹ ہو گئے۔ کین ولیمسن، راچن رویندرا کے ساتھ پارٹنرشپ نبھاتے ہوئے 35 ویں اوور میں 95 رنز بنا کر افتخار احمد کی گیند پر فخر زمان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان کے لیے چوتھی وکٹ حارث رؤف نے 42 اوور میں ڈیرل مچل کی حاصل کی۔ ڈیرل مچل 19 گیندوں پر 29 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ مارک چیپمین 45 ویں اوور میں 39 رنز بنا کر محمد وسیم کی گیند پر آؤٹ ہوئے اور اس کے بعد محمد وسیم نے ہی گلین فلپس کو 49 ویں اوور میں 41 رنز پر آوٹ کر دیا۔ ٹام لیتھم اور مچل سینٹنر ناٹ آؤٹ رہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c889ed8eyg9o
ورلڈ کپ میں انڈیا کے لیے سب سے زیادہ وکٹس لینے والے محمد شامی جن کے لیے 22 گز سے لمبی ہر جگہ ’پچ‘ ہوتی ہے
انڈین فاسٹ بولر محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ میں دو بار پانچ وکٹیں لے کر جہاں اپنی اہمیت واضح کی ہے وہیں وہ انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 45 وکٹ لینے والے بولر بھی بن گئے ہیں۔ محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ کے صرف تین میچوں میں شرکت کی ہے اور ابھی تک 14 وکٹیں لے چکے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں انھوں نے صرف چار میچز کھیلے تھے اور انھوں نے 14 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اپنے ان کارناموں کی وجہ سے وہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں اور وہیں لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر انھیں سارے میچز میں کیوں نہیں کھلائے گئے۔ اس بات سے قطع نظر آئیے ہم محمد شامی کے کریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ محمد شامی انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع امروہہ کے ایک گاؤں سہسپور سے آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔ شامی کے والد توصیف علی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں فاسٹ بولر ہوا کرتے تھے لیکن وہ انڈین ٹیم میں یا پھر ریاستی ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے تو انھوں نے اپنی قسمت پر صبر کیا اور آبائی پیشہ کھیتی باڑی کرنے لگے۔ ان کے ہاں پانچ بیٹے پیدا ہوئے اور انھوں نے سب کو تیز گیند باز بنانے کی کوشش کی لیکن انھیں اپنے بیٹے محمد شامی میں وہ چنگاری نظر آئی جو کبھی خود ان میں ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ وہ اسے 15 سال کی عمر میں قریبی شہر مراد آباد کے معروف کرکٹ کوچ بدرالدین صدیق کے پاس لے کر پہنچے اور انھیں اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی۔ شامی کے والد توصیف علی اب حیات نہیں۔ بی بی سی کے نمائندے دلنواز پاشا نے سنہ 2016 میں ان کے والد سے ملاقات کی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ جب وہ اپنے بیٹے کو ٹی سکرین پر وکٹ لے کر اچھلتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ توصیف علی نے بتایا تھا کہ شامی کو پیار سے سممی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں شامی کو جگہ ملتی ہے وہیں گیند بازی کرنے لگتے ہیں۔ گھر کے آنگن میں، چھت پر، باہر خالی زمین پر، 22 گز سے لمبی ہر جگہ ان کے لیے پچ ہوتی ہے۔‘ دلنواز پاشا نے بتایا کہ گاؤں میں ان کے گھر کے پیچھے قبرستان ہے اسی قبرستان کی خالی زمین شامی کے لیے پہلا میدان بنی۔ شامی نے وہیں پچ بنائی اور تیز گیندبازی کی مشق کرنے لگے۔ کہتے ہیں کہ وہ ٹینس بال سے کھیلتے تھے لیکن اس وقت ان کی رفتار بیٹسمینوں میں خوف پیدا کرتی تھی۔ سندیپ بنرجی شامی پر اپنے ایک مضمون میں بتاتے ہیں کہ کوچ بدرالدین نے شامی کے بارے میں کہا، ’جب میں نے پہلی بار اس 15 سال کے بچے کو نیٹ پر بولنگ کرتے دیکھا، تو میں جان گیا کہ یہ لڑکا عام نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اسے تربیت دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک سال تک میں نے اسے یوپی کے ٹرائلز کے لیے تیار کیا کیونکہ یہاں کوئی کلب کرکٹ جیسی چیز نہیں ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’شامی بہت تعاون کرنے والا، بہت معمول کا پابند اور بہت محنتی تھا، اس نے کبھی ٹریننگ سے ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی۔ انڈر 19 کے ٹرائلز کے دوران اس نے بہت اچھی بولنگ کی، لیکن سیاست کی وجہ سے وہ منتخب نہ ہو سکا۔‘ کوچ بدرالدین کے مطابق سیلیکٹرز نے انھیں اگلے سال بچے کو لانے کو کہا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں چاہتا تھا کہ شامی کا ایک سال ضائع ہو۔ اس لیے میں نے ان کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ اسے کولکتہ بھیج دیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ شامی جب کلکتہ پہنچے تو ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن قسمت سے انھیں بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق اسسٹنٹ سیکریٹری دیب برت داس مل گئے جنھوں نے نہ صرف شامی کی صلاحیت کو پہچانا اور انھیں اپنے گھر میں جگہ دی بلکہ انھیں بنگال کے سیلکٹر سمبرن بنرجی سے ملوایا جو شامی کی بولنگ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہ شامی کو لے کر اس وقت کے انڈیا کے کپتان سورو گنگولی کے پاس لے گئے اور شامی نے جب نیٹس میں گنگولی کو بولنگ کی تو وہ ان سے متاثر ہوئے اور انھیں مغربی بنگال کی رنجی ٹیم کے لیے موزوں قرار دیا اور اس طرح محمد شامی بنگال کی ٹیم کا حصہ بنے۔ صحافی سدھارتھ مونگا ای ایس پی این کرکٹ انفو میں شامی اور دیب برت داس کی ملاقات کے بارے میں لکھا ہے کہ دیب نے جب 15 لڑکوں میں انھیں دیکھا تو 20 منٹ میں ہی وہ ’موتی‘ یعنی شامی کو پہچان گئے۔ انھوں نے کہا: ’میں نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ جواب آیا محمد شامی۔ پھر سوال کیا تم کہاں سے آئے ہو؟ جواب ملا اترپردیش کے سہسپور سے۔ پھر میں نے پوچھا کیا تم کھیلنا چاہتے ہو؟ جواب ملا ہاں۔‘ دیب برت داس نے انھیں کہا ’تمہارا کنٹریکٹ سالانہ 75000 روپے ہے اور لنچ کے لیے روزانہ 100 روپے ملیں گے جس پر شامی نے کہا ایک مسئلہ ہے۔ میں ٹھہروں گا کہاں؟ میں نے کہا میرے گھر۔‘ صحافی سدھارتھ مونگا بتاتے ہیں کہ دیب برت داس نے شامی کو اپنے ساتھ لیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ ’یہ لڑکا ہمارے ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد اس نے ٹاؤن کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔‘ محمد شامی کولکتہ کے معروف کرکٹ کلب موہن بگان کرکٹ کلب کے لیے منتخب ہوئے اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اکتوبر سنہ 2010 میں مغربی بنگال کے لیے اپنے پہلے ہی ٹی 20 میچ میں انھوں نے چار وکٹیں لے کر سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ صرف 15 فرسٹ کلاس میچز کھیلنے کے بعد ہی انھیں سنہ 2013 میں ٹیم انڈیا میں منتخب کر لیا گیا اور دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میں انھوں نے اپنا پہلا ونڈے میچ کھیلا اور چار اوورز میڈن ڈالے۔ انھوں نے ایڈن گارڈنز پر پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا اور نو وکٹیں لے کر اپنی رفتار سے لوگوں کو متاثر کیا۔ صحافی سدھارتھ مونگا نے اپنے مضمون میں مسٹر دیب داس کے حوالے سے لکھا کہ ’شامی کو کبھی پیسے کی خواہش نہیں رہتی۔ ان کا ہدف ہمیشہ سٹمپس ہوتا تھا یعنی جب گیند سٹمپس کو لگتی اور اس سے جو آواز آتی وہ انھیں سب سے زیادہ پسند تھی۔‘ سدھارتھ مونگا کے مطابق ’ہم نے جب سے انھیں دیکھا ہے اس کے زیادہ تر وکٹ بولڈ ہیں۔ وہ گیند کی سیم کو اوپر رکھ کر بولنگ کرتے ہیں اور آف سٹمپ پر یا اس کے ذرا باہر پچ کراتے ہیں اور اندر کی طرف لاتے ہیں۔‘ رواں ورلڈ کپ میں بھی دیکھیں تو شامی کی زیادہ وکٹیں بولڈ ہی ہیں اور یہ آواز ان کی بہت پسند ہے۔ اپنے پہلے ورلڈ کپ یعنی سنہ 2014-15 کے دوران انھوں نے سات میچوں میں 17 وکٹیں لی تھیں پھر سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں چار میچوں میں 14 وکٹیں اور پھر رواں ورلڈ کپ کے تین میچوں میں انھوں نے 14 وکٹیں لے کر ظہیر خان اور جواگل سریناتھ کے انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 44 وکٹیں لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ سریناتھ نے 44 وکٹیں 33 میچز میں لی تھیں جبکہ ظہیر خان نے 23 میچز میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا لیکن محمد شامی نے صرف 14 میچوں میں ان سے زیادہ وکٹیں حاصل کر لی ہیں۔ اگر ورلڈ کپ کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو ان سے زیادہ کامیاب کوئی دوسرا بولر نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ انھیں رواں ورلڈ کپ میں سارے میچز کیوں نہیں کھلائے گئے جبکہ بعض کرکٹ شائقین اس بات پر حیران ہیں کہ گذشتہ ورلڈ کپ میں ان کی شاندار کارکردگی کے باوجود انھیں صرف چار میچز ہی کیوں کھلائے گئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اموک نامی صارف نے محمد شامی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’وہ محمد شامی ہے۔ انڈین کرکٹر ہے۔ اس کے لیے میرا احترام اور بڑھ گیا ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں انھیں اپنی بیوی کی طرف سے جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی بیٹی کے بیمار ہونے پر بھی اس سے نہیں مل سکے۔ بی جے پی کے حامیوں نے سٹیڈیم میں مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور پھر انھیں 4 میچوں میں ٹیم سے باہر رکھا گیا۔‘ اموک نے مزید لکھا ’اب وہ میچز میں گیند کے ساتھ قوم کے لیے اپنی لگن دکھا رہے ہیں۔ وہ بس وکٹ لے رہے ہیں اور اپنے نفرت کرنے والوں کا منہ بند کر رہے ہیں۔ وہ بولنگ لائن اپ کے وراٹ کوہلی ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام محمد شامی نے ٹیسٹ میچوں میں 229 وکٹس لی ہیں جبکہ 97 ون ڈے انٹرنیشنل میں انھوں نے 185 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ شامی کا ریکارڈ ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے اور جس رفتار سے وہ وکٹیں لے رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابھی وہ ورلڈ کپ میں آل ٹائم سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں آٹھویں نمبر پر ہیں لیکن 20 سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں ان کا اوسط سب سے بہتر ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyd2ppdm7n2o
اب صرف اچھی کرکٹ ہی کافی نہیں: سمیع چوہدری کا کالم
کپل دیو کہا کرتے تھے کہ اگر آپ اچھی کرکٹ کھیلیں تو یہ آپ کے بہت سے عیبوں کو چھپا سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت پاکستان ورلڈ کپ میں جس مقام پر ہے، وہاں اب صرف اچھی کرکٹ ہی عیب چھپانے کو کافی نہیں ہے۔ پاکستان کے امکانات کا دارومدار اب بہترین کرکٹ کے علاوہ بہت زیادہ قسمت پر بھی ہے۔ ماضی کے کئی آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پاکستان کی قسمت عین مواقع پر جاگتی رہی ہے اور حالیہ ورلڈ کپ میں بھی معاملہ کچھ کچھ اسی سمت بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ نیٹ رن ریٹ کے معاملے میں پاکستان اس قدر خوش قسمت نہ رہ پاتا اگر پونے میں کیوی کپتان ٹام لیتھم ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کر لیتے اور پروٹیز بولنگ فلڈ لائٹس کی روشنی میں اپنی مہارت کا وہ جادو نہ جگاتی۔ نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ جہاں پر تھا، وہاں سے پاکستان کے امکانات وا ہونے کو کیویز کی ایک بھاری شکست لازم تھی۔ اور پھر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ آسٹریلیا کے خلاف پونے چار سو رنز کے تعاقب میں عین قریب آ جانے والی کیوی بیٹنگ جنوبی افریقی بولنگ کے ہاتھوں مضحکہ خیز بن کر رہ گئی۔ پاکستان کی قسمت منور ہونے کے لیے یہ بھی لازم تھا کہ سری لنکا بھی اس دوڑ سے باہر ہو جاتا۔ یہاں پھر قسمت کی یاوری کام آئی اور سری لنکن بیٹنگ نے ایشیا کپ فائنل کا انہدام دہرا ڈالا۔ انڈین بولنگ غیض بن کر برسی اور ایسی بھاری شکست سری لنکا کا مقدر ٹھہری کہ الامان۔ سو، اب جہاں ارد گرد کے نتائج عین پاکستان کی توقعات پر پورا اتر رہے ہیں، وہاں یہ ضروری ہے کہ پاکستان سیمی فائنل تک رسائی کے لیے کیویز کو بڑے مارجن سے ڈھیر کرے، جس کے لیے صرف اچھی کرکٹ کافی نہ ہو گی بلکہ بہترین سے بھی بہتر کھیل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستان کی اضافی خوش بختی یہ بھی ہے کہ انجریز کے بوجھ تلے ہانپتی کیوی ٹیم کو گزشتہ میچ میں اپنے مین اٹیک بولر میٹ ہینری کی انجری کا بھی سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کے خلاف میچ میں وہ دستیاب نہ ہوں گے۔ ان کے متبادل کے طور پہ طویل قامت کائیل جیمیسن کو کیوی سکواڈ میں طلب کیا گیا ہے۔ جیمیسن اگرچہ گزشتہ دورۂ نیوزی لینڈ پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے بھیانک خواب ثابت ہو چکے ہیں مگر ون ڈے کرکٹ بہرحال ایک مختلف کھیل ہے اور یوں اچانک سکواڈ میں آمد پر وہ کس حد تک متاثر کن ہوں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن اگر کیوی تھنک ٹینک بہرطور لوکی فرگوسن پر ترجیح دے کر جیمیسن کو الیون میں شامل کرتا ہے تو ان کی طویل قامت اور غیر متوقع باؤنس پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک سرپرائز فیکٹر ضرور ثابت ہو سکتا ہے جس سے محتاط رہنا ہو گا۔ اس ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کی ابتدائی کامیابیاں زیادہ تر ان کے ٹاپ اور مڈل آرڈر کی تباہ کن جارحیت کی مرہون منت رہی ہیں لیکن جنوبی افریقی بولنگ نے سب کو وہ رستہ دکھلا دیا ہے جہاں سے کیوی بیٹنگ کے انہدام کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے اب تک کے اپنے سفر میں گاہے بگاہے جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے بعد یہ ایک متوازن الیون ہے۔ ٹاپ آرڈر میں فخر زمان کی واپسی سے ابتدائی اوورز کا کھیل مضبوط ہوا ہے جبکہ پیس اٹیک میں محمد وسیم کی شمولیت کے نتائج سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہیں کہ وہ پہلے اپنی منیجمنٹ کا اعتماد کیوں نہیں حاصل کر پائے؟ دھیمے سے رن اپ اور غیر پیچیدہ بولنگ ایکشن کے ساتھ ناصرف محمد وسیم بآسانی 140 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار پیدا کرتے ہیں بلکہ بہترین لینتھ کو ہٹ کرنے میں ان کا ڈسپلن بھی اپنے دیگر ساتھیوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔ دیگر ٹیموں کے نتائج کو کنٹرول کرنا تو اب پاکستان کے ہاتھ میں نہیں ہے مگر جو پاکستان کے اختیار میں ہے، وہ پاکستان کو ضرور کرنا ہو گا۔ اور وہ صرف اچھی کرکٹ کھیلنا نہیں بلکہ بہترین کرکٹ کھیلنا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c517ypzpwq0o
ون ڈے کرکٹ کو آئی پی ایل نہ سمجھیے: سمیع چوہدری کا کالم
ورلڈ کپ کا سفر اب اپنے اختتامی پڑاؤ کی جانب بڑھ رہا ہے اور کچھ نہایت غیر متوقع نتائج کی بدولت دو سیمی فائنلسٹس کی دوڑ ابھی بھی زندہ ہے۔ جہاں کچھ کمزور ٹیمیں بہت عمدہ کرکٹ کھیل گئیں تو وہیں کچھ فیورٹ بھی یوں منہ کے بل گرے کہ سب ششدر رہ گئے۔ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ ٹورنامنٹ کے آغاز سے بہت پہلے ہی نہ صرف سیمی فائنل بلکہ فائنل تک کے لیے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی مگر جو خلجان انگلش کیمپ پر طاری رہا، اس سے خود انگلینڈ ہی نہیں، دیگر ٹیمیں بھی مبہوت سی ہو گئیں۔ بٹلر کی کپتانی میں کہیں بھی اوئن مورگن کی سی فراست نظر نہیں آئی۔ بے وجہ سوچ بچار اور سلیکشن میں متواتر تجربات نے یہ سفر مزید محال کر دیا۔ اس پر مستزاد کہ ٹی ٹونٹی کی بھیڑ میں کچھ تھنک ٹینک ڈیٹا کے اس قدر رسیا ہو چکے ہیں کہ ون ڈے کرکٹ کی ترجیحات بھی آئی پی ایل کے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر طے کرنے لگے ہیں۔ لکھنؤ میں ٹاس جیت کر بٹلر نے پہلے بولنگ کا فیصلہ اس لیے کیا کہ آئی پی ایل میں عموماً یہ گراؤنڈ اہداف کے تعاقب کے لیے موزوں رہا ہے مگر یہ فیصلہ بھی انگلش فتوحات کا سلسلہ بحال نہ کر پایا کیونکہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے پیرامیٹرز بہرحال آئی پی ایل سے کہیں مختلف ہیں۔ بعینہٖ کیوی کپتان ٹام لیتھم نے بھی پونے میں جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دے ڈالی۔ حالانکہ یہ تو کرکٹ کا جنرل نالج ہی بتاتا ہے کہ جنوبی افریقہ ہمیشہ اہداف کے تعاقب میں بوکھلاہٹ کا شکار رہا کرتی ہے۔ مگر لیتھم نے بھی آئی پی ایل کے فراہم کردہ ڈیٹا کو کامن سینس پر ترجیح دی۔ ایسی ہی ایک اور غلط فہمی یہاں اوس کے حوالے سے بھی غالب رہی ہے۔ کچھ کپتان محض اس بنیاد پر شدید گرمی میں بھی پہلے بولنگ کر کے اپنے پیسرز کو جوکھم میں ڈالتے رہے کہ دوسری اننگز میں اوس کے سبب گیند پر گرفت رکھنا دشوار ہو گی اور بلے بازی آسان ہو جائے گی۔ مگر دھرم شالہ کے اکلوتے نیوزی لینڈ بمقابلہ انڈیا میچ میں کہرے اور اوس کے سوا یہ کہیں بھی فیصلہ کن پہلو ثابت نہیں ہوا بلکہ کئی ٹیمیں دوسری اننگز کی بولنگ کرتے ہوئے زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ مگر اس خلجان کے ہنگام بھی بہرحال گاہے بگاہے بہت دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ سری لنکن بولنگ نے جہاں انگلش بیٹنگ کا ٹھٹھہ اڑا چھوڑا تو وہیں افغان بولنگ سری لنکن بلے بازی پر بھاری پڑ گئی اور پھر ایڈن گارڈنز میں نیدرلینڈز نے بنگلہ دیش کو شکست دے کر ایک اور ٹیسٹ ٹیم کے خلاف ریکارڈ کامیابی بٹوری۔ نیدرلینڈز چونکہ ایسوسی ایٹ لیول سے کوالیفائی کر کے آئی تھی، سو بہت کم توقعات اس سے جڑی تھیں مگر آسٹریلیا کے سوا ان کی بولنگ تقریباً ہر ٹیم کے لیے ایک کڑا امتحان رہی ہے۔ سکاٹ ایڈورڈز کی کپتانی بھی ایسی مثبت جارحیت سے لبریز ہے کہ جاس بٹلر، پیٹ کمنز اور بابر اعظم جیسوں کو بھی ان سے سیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور ابھی اگرچہ چار سیمی فائنلسٹس بھی حتمی طور پر طے نہیں پائے کہ اگلی چیمپیئنز ٹرافی کی کوالیفکیشن کی دوڑ نے باقی ماندہ مقابلوں میں مزید چاشنی پیدا کر دی ہے۔ نیدرلینڈز اگر اپنے باقی ماندہ میچز میں سے ایک بھی جیت پائے تو اس کے لیے، دو برس بعد، پاکستان کی میزبانی میں چیمپیئنز ٹرافی کھیلنا بعید از امکان نہیں ہو گا۔ یہ بجائے خود ڈچ کرکٹ کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ہو گا۔ اور اگر نیدرلینڈز کوالیفائی کر جاتی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ انگلینڈ بھی ممکنہ طور پر چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت سے محروم رہ جائے گی۔ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کی دفاعی چیمپیئین ٹیم کے لیے یہ ایک ایسا جھٹکا ہو گا جو ٹیم الیون اور منیجمنٹ میں سے کئی گردنوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ انڈین پچز پر منعقدہ ورلڈ کپ میں متوقع یہ تھا کہ یہاں سپنرز سیمرز کی نسبت زیادہ موثر ثابت ہوں گے مگر ابھی تک کی دو واضح سیمی فائنلسٹس انڈیا اور جنوبی افریقہ کی کامیابیوں میں پیسرز کی وکٹوں کا تناسب سپن سے کہیں زیادہ ہے۔ اور جہاں نسیم شاہ کی انجری سے پہلے پاکستانی پیس اٹیک دنیا کا مضبوط ترین بولنگ یونٹ قرار دیا جا رہا تھا، وہاں بمراہ کی واپسی کے بعد محمد سراج اور شامی کے ہمراہ ان کا اٹیک اس دعوے کو چیلنج کر رہا ہے۔ ساتھ ہی مارکو یئنسن، کگیسو ربادا اور جیرلڈ کوئٹزی کا جوڑ بھی اس دعوے کی دوڑ سے دور نہیں۔ اپنے پہلے دو ہفتوں میں بوریت کی عملی تصویر بنے اس ایونٹ کے لیے یہ خوش کن ہے کہ باقی ماندہ دو سیمی فائنلسٹس کی دوڑ ابھی تک یوں زندہ ہے کہ آسٹریلیا، سری لنکا، افغانستان، پاکستان اور نیوزی لینڈ کے امکانات لگ بھگ یکساں ہیں۔ یہ اگر ون ڈے کرکٹ کے مستقبل کی ضمانت نہ بھی سہی، بہرحال ایک نیک شگون تو ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ck7w78pj4l7o
’شاہین نے پاکستان کا فخر بحال کر دیا‘: سمیع چوہدری کا کالم
بالآخر شبِ غم تمام ہوئی اور پاکستان کے لیے اس جیت کی سحر طلوع ہوئی جو ناصرف ٹیم کے مورال کے لیے اشد ضروری تھی بلکہ بعض ’مبصرین‘ کی ٹی وی سکرینوں سے اٹھتے دھوئیں کا بھی شافی جواب تھی۔ اگرچہ سیمی فائنل تک پاکستان کی رسائی کے رستے ابھی بھی ان گنت اگر مگر سے اٹے پڑے ہیں مگر مسلسل چار میچز گنوانے کے بعد اس جیت نے پاکستان کو کچھ بھرم بحال کرنے کا موقع فراہم کیا اور امیدوں کو یکسر بجھنے سے بچا لیا۔ بنگلہ دیشی کپتان شکیب الحسن تو خود ہی دو روز پہلے واضح کر چکے تھے کہ حالیہ ورلڈ کپ ان کی تاریخ کی بدترین مہم جوئی ثابت ہوئی ہے اور اگرچہ سیمی فائنل کی دوڑ لاحاصل ہو چکی تھی مگر چیمپیئنز ٹرافی تک رسائی ابھی بھی کچھ نہ کچھ مقصدیت کا جواز تھی۔ خور شناسی بڑی نعمت ہے۔ شکیب الحسن بالآخر سمجھ ہی گئے کہ جس فارم کے ساتھ وہ بیٹنگ کرتے آ رہے تھے، بیٹنگ آرڈر میں تنزلی محمود اللہ کی نہیں، بلکہ ان کی اپنی ہونا چاہیے تھی۔ اور محمود اللہ کو بیٹنگ آرڈر میں ترقی دینے کا نتیجہ بھی واضح رہا کہ انھوں نے بیچ کے اوورز میں بنگلہ دیشی اننگز کو سنبھالا دیے رکھا۔ محمود اللہ اور لٹن داس کی ساجھے داری وہ لمحہ تھا کہ جہاں ناصرف بنگلہ دیش کا یہ ڈراؤنا سپنا ختم ہو سکتا تھا بلکہ چیمپیئنز ٹرافی کی کوالیفکیشن کے امکانات بھی روشن ہو سکتے تھے۔ لیکن لٹن داس حسبِ ماضی اچھے آغاز کو بہتر انجام میں بدلنے سے قاصر رہ گئے۔ محمود اللہ کی البتہ بدقسمتی رہی کہ ایک مستحکم اننگز جوڑنے کے بعد وہ اس بولر کے دوسرے سپیل کے سامنے آ گئے جس نے پہلے سپیل میں بھی بنگلہ دیشی اننگز کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیے تھے۔ جس لینتھ سے شاہین نے اس گیند میں معمولی سی جنبش پیدا کی، وہاں محموداللہ کی جگہ وراٹ کوہلی بھی ہوتے تو شاید یہی انجام مقدر ہوتا۔ شاہین آفریدی کا یہ بہترین دن تھا۔ پہلی ہی گیند سے انھوں نے نہ صرف وکٹ کی چال بھانپ لی بلکہ اپنی لینتھ میں بھی وہ ڈسپلن پیدا کیا کہ حریف ٹاپ آرڈر جائے رفتن نہ پائے ماندن کی تصویر بن کر رہ گیا۔ اور شاہین کا بہترین واپس آتے ہی پاکستانی فیلڈنگ میں بھی کھویا ہوا اعتماد لوٹ آیا۔ اپنے پہلے سپیل ہی کی طرح ان کا دوسرا سپیل بھی درستی اور مہارت سے بھرپور تھا۔ اور جب گیند نے ہلکی سی ریورس سوئنگ کا بھی اشارہ دیا تو ان کے ہمراہ محمد وسیم نے شاندار سپیل پھینکتے ہوئے بنگلہ دیشی بیٹنگ کا قصہ مختصر کر دیا۔ اس ورلڈ کپ میں تاحال پاکستان کی بیشتر کسمپرسی پہلے پاور پلے سے وابستہ رہی ہے۔ اگر بولنگ پہلے پاور پلے میں وکٹیں حاصل کرنے سے معذور نظر آ رہی تھی تو بیٹنگ بھی پہلے پاور پلے میں فیلڈنگ کی قیود کا صحیح فائدہ اٹھانے سے چُوک رہی تھی۔ اور پھر میڈیا کے محاذ پر جاری مارا ماری نے پاکستان کی آن فیلڈ کاوشوں سے بڑھ کر آف فیلڈ چہ میگوئیوں کا بازار گرما رکھا تھا۔ اس ہاہاکار کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ انضمام الحق 'مفادات کے ٹکراؤ' کے پے در پے الزامات پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اور پھر ٹیم سلیکشن میں بھی پاکستان نے حیران کن طور پر امام الحق کو ڈراپ کرنے کا صحت مندانہ فیصلہ کر ڈالا، جس کی بدولت فخر زمان الیون میں واپس آئے اور انہی کی جارحیت نے ابتدا میں ہی بنگلہ دیشی بولنگ کے اوسان خطا کر دیے۔ فخر زمان ایک ایسے کھلاڑی ہیں کہ اگر اپنی روانی میں آ جائیں تو کسی بھی حریف کا قصہ تمام کر دیتے ہیں۔ گو ابتدا میں وہ قدرے محتاط رہتے ہیں مگر جونہی پچ کی چال سے ہم آہنگ ہو جائیں، اس کے بعد انھیں روکنا بہت محال رہتا ہے۔ یہاں شاہین نے پاور پلے میں جو دام بنگلہ دیشی بیٹنگ کے لیے بچھایا، اسی کی فراہم کردہ تقویت سے فخر نے بنگلہ دیشی بولنگ پر یوں حملہ کیا کہ شکیب الحسن بوکھلا کر رہ گئے۔ بحیثیتِ مجموعی تینوں شعبوں میں پاکستانی ٹیم حریف کیمپ پر یکسر حاوی نظر آئی اور اسی بدولت یہ سبقت بھی پاکستان کا مقدر ٹھہری۔ یہ جیت اگرچہ بہت دیر سے آئی اور شاید ورلڈ کپ کے سیاق و سباق میں اس قدر سودمند بھی ثابت نہ ہو پائے مگر جس دباؤ کا شکار بابر اعظم پچھلے دو ہفتوں میں رہے ہیں، ان کے لیے بہرحال یہ ایک تازہ سانس سی فرحت بخش ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw030j9l344o
پاکستان کی بنگلہ دیش کو سات وکٹوں سے شکست: ’فخر کی صلاحیت پر یقین تھا لیکن انھیں فارم میں آنے میں آنے میں شاید دیر ہو گئی‘
کلکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے ایک اہم میچ میں پاکستان نے سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کر لی ہے۔ بنگلہ دیش نے آج پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 204 رنز بنائے تھے۔ پاکستانی کو گذشتہ چار میچوں سے لگاتار شکست کے بعد آج جب فیلڈنگ کی دعوت دی گئی تو شاہین آفریدی نے ٹیم کو وہ آغاز فراہم کر دیا جس کی امید ان سے ورلڈ کپ کے آغاز سے کی جا رہی تھی۔ اسی طرح بیٹنگ میں پاکستان کو آج فخر زمان کی واپسی کی صورت میں سکھ کا سانس نصیب ہوا اور ان کی جارحانہ اننگز کے باعث پاکستان نے یہ ہدف 33ویں اوور میں حاصل کر لیا۔ پاکستانی اوپنرز فخر زمان اور عبداللہ شفیق نے 128 رنز کی اوپننگ شراکت کے ذریعے یہ یقینی بنایا کہ پاکستان اس اہم میچ میں اپنا نیٹ رن ریٹ بہتر کر سکے۔ فخر زمان سات چھکوں کے ساتھ 81 رنز کی عمدہ اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے۔ فخر گذشتہ چند میچوں میں انجری کا شکار تھے جبکہ اس سے قبل ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں ان کی فارم پر سوالیہ نشان موجود تھے۔ اس فتح کے ساتھ پاکستان پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن پر آ گیا ہے اور اس وقت اس کے چھ پوائنٹس ہیں اور اس کا نیٹ رن ریٹ افغانستان اور سری لنکا سے بہتر ہے۔ پاکستان کو سیمی فائنل تک کوالیفائی کرنے کے نہ صرف اپنے اگلے دو میچوں میں فتوحات حاصل کرنی ہیں بلکہ دیگر ٹیموں کے میچوں کے نتائج اپنے حق میں آنے کی امید رکھنی ہے جن میں نیوزی لینڈ کی اپنے اگلے تینوں میچ شکست بھی شامل ہے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی اننگز میں شاہین نے پہلے ہی اوور میں وکٹ حاصل کر کے تنزید حسن کو ایل بی ڈبلیو کیا تھا اور پھر دوسرے اوور میں نجم الحسین شانتو کو بھی آؤٹ کرتے ہوئے پاکستان کو پاور پلے میں بہترین آغاز فراہم کر دیا۔ حارث رؤف جو گذشتہ کئی میچوں سے پاور پلے میں اچھی بولنگ کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں، آج اپنے پہلے اوور میں ایک بار پھر مہنگے ثابت ہوئے لیکن پھر اس اوور کی آخری گیند پر مشفیق الرحیم کی وکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ آغاز میں ہی تین وکٹیں گرنے کے بعد لٹن داس اور محمود اللہ نے 73 رنز کی اچھی شراکت قائم کرتے ہوئے بیٹنگ کو سہارا دیا۔ اس ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش کی لیے سنچری بنانے والے واحد بلے باز محمود اللہ کو آج بالآخر بیٹنگ لائن اپ میں اوپر بھیجا گیا تھا اور انھوں نے آج نصف سنچری بنائی۔ تاہم لٹن داس ایک اہم موقع پر افتخار احمد کی گیند پر آؤٹ ہوئے تو پھر بنگلہ دیش کی بیٹنگ دوبارہ سنبھل نہ سکی۔ محمود اللہ 56، لٹن داس 45 اور شکیب الحسن 43 رنز کے ساتھ نمایاں رہے لیکن کوئی بھی بلے باز بڑے ٹوٹل تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ پاکستان کی جانب سے آج ٹیم میں تین تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اوپنر امام الحق کی جگہ فخر زمان، محمد نواز کی جگہ سلمان علی آغا اور شاداب خان کی جگہ اسامہ میر کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ حارث رؤف نے مشفیق الرحیم اور شکیب الحسن کی اہم وکٹیں حاصل کیں۔ شاہین آفریدی اور محمد وسیم جونیئر نے تین، تین جبکہ اسامہ میر اور افتخار احمد نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ پاکستان کی جانب سے بہترین بولنگ پرفارمنس کے بارے میں اکثر صارفین کا خیال ہے کہ یہ بہت ورلڈ کپ میں بہت دیر بعد جا کر سامنے آئی ہے۔ ہارون نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ورلڈ کپ دوبارہ سے شروع کرنا چاہیے اب ہم موڈ میں آ گئے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اسی طرح اکثر صارفین شاہین آفریدی کی جانب سے محمود اللہ کو آؤٹ کرنے کی ویڈیو شیئر کر رہے ہیں اور اس کا موازنہ وسیم اکرم کی جانب سے 92 کے ورلڈ کپ فائنل میں ایلن لیمب کو کروائی گئی مشہور گیند سے کر رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اسی طرح کچھ لوگ روی شاستری پر بھی تنقید کر رہے ہیں جنھوں نے ورلڈ کپ کے آغاز میں کہا تھا کہ شاہین آفریدی وسیم اکرم جیسے بہترین فاسٹ بولر نہیں بس ایک اچھے بولر ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ جب سے روی شاستری نے یہ کہا ہے شاہین اب تک 32 اوورز میں 11 وکٹیں لے چکے ہیں۔ صحافی سلیم خالق نے لکھا کہ ‏’دیر سے ہی سہی پاکستانی پیس بولنگ فارم میں تو واپس آ ہی گئی، یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش ورلڈکپ کی سب سے کمزور ٹیم ہے لیکن اچھی کارکردگی جس کے بھی خلاف ہو اسے سراہنا چاہیے۔‘ ’شاہین آفریدی، محمد وسیم اور حارث تینوں نے زبردست بولنگ کی جس کی وجہ سے پاکستان نے حریف کو کم تر سکور تک محدود رکھا۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’فخر کی صلاحیت پر یقین تھا لیکن انھیں فارم میں آنے میں آنے میں شاید دیر ہو گئی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c03d3zvlg73o
انڈیا میں افغانستان کی ٹیم کو کسی بھی دوسری ٹیم سے زیادہ حمایت کیوں حاصل ہے؟
افغانستان کی ٹیم انڈیا میں جاری رواں ورلڈ کپ میں پے در پے کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور اس ٹیم کو ملکی ٹیم کے بعد بظاہر سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔ افغان ٹیم نے پہلے دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو شکست دے کر ایک بڑا اپ سیٹ کیا اور پھر اس نے پاکستان کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی لیکن گذشتہ شب پونے میں جب اس نے سری لنکا کی ٹیم کو باآسانی سات وکٹوں سے شکست دی تو مبصرین نے کہا کہ افغان ٹیم کی جیت کو اب ’اپ سیٹ‘ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مستقل قوت کے طور پر کرکٹ کے افق پر ابھری ہے۔ بہر حال یہاں سوال یہ ہے کہ انڈیا میں کرکٹ شائقین اپنے ملک کی ٹیم کے بعد اگر کسی ٹیم کی حمایت کر رہے ہیں تو وہ افغانستان ہے۔ بات صرف شائقین تک محدود نہیں ہے بلکہ عرفان پٹھان اور ہربھجن سنگھ جیسے معروف کھلاڑی اور کمنٹیٹر بھی افغان ٹیم کی جیت کی خوشی میں رقص کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر افغانستان کے باشندے اور افغان ٹیم کے اراکین انڈینز کی حمایت کی تعریف اور ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو انڈیا میں اس قدر کیوں پسند کیا جا رہا ہے؟ یہاں تک کہ انڈیا کو اس کو دوسرا گھر بھی کہا جا رہا ہے۔ ہم نے یہ سوال کینیڈا میں مقیم سپورٹس جرنسلٹ معین الدین حمید سے کیا جنھوں نے پاکستانی کرکٹر اور سابق کپتان سلیم ملک پر ایک کتاب تصنیف کی ہے اور کرکٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ معین الدین حمید نے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تاریخی اور سیاسی وجوہات ہیں۔ اگرچہ افغانستان انڈیا کا براہ راست پڑوسی نہیں ہے لیکن پھر بھی دونوں کا تاریخی تعلق رہا ہے اور پاکستان کے مقابلے افغانستان میں انڈیا کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہی صورت حال اب انڈیا میں بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ پاکستان نے افغانستان کی ہر موقع پر مدد کی ہے اور اس کے لاکھوں پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یہاں تک کہ ان کی ٹیم کو تیار کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان کے عوام میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر بات انڈیا اور پاکستان کی ہو تو افغانستان کے لوگ روایتی طور پر انڈیا کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر سپورٹس کی بات کی جائے تو پاکستان کے کھلاڑیوں نے تو انھیں بیٹ پکڑنا سکھایا ہے۔ کبیر خان، راشد لطیف، انضمام الحق، عمر گل وغیرہ نے ان کی تربیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ وہ وہاں جا کر ان کی کوچنگ کیا کرتے تھے۔‘ اگرچہ راشد لطیف اور انضمام کو پشتو زبان نہیں آتی لیکن باقی کھلاڑی جو خیبرپختونخوا سے آتے ہیں وہ انھیں ان کی زبان میں تربیت دے رہے تھے۔ جبکہ راشد خان جیسے کچھ افغان کھلاڑی اگرچہ افغانستان میں پیدا ہوئے ہیں لیکن جب وہ بے وطن ہو کر پاکستان آئے تو انھوں نے پاکستان میں ہی کرکٹ سیکھی اور سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی۔ بہر حال ان کا یہ کہنا تھا کہ عقیدے کی یکسانیت کے باوجود پاکستان کے بجائے ان کا انڈیا کی طرف جھکاؤ ناقابل فہم ہے۔ دوسری جانب افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے بعد افغانستان میں انڈیا نے ترقیاتی پروگراموں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اور سنہ 2021 کے وسط میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے افغان ٹیم کو انڈیا نے پناہ دے رکھی ہے اور بہت سے مبصرین کے خیال میں انڈیا افغانستان کی ٹیم کا ’دوسرا گھر‘ ہے۔ کرکٹ صحافی آدیش کمار نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے کھلاڑیوں نے افغانستان ٹیم کو کھڑا کیا لیکن جب ان کی جانب سے حمایت ختم ہو گئی تو انڈیا نے ہاتھ بڑھایا اور افغان کھلاڑیوں کی تربیت کی۔ بی سی سی آئی نے دہلی کے پاس نوئیڈا میں اور دہرہ دون میں انھیں تربیت فراہم کی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ممالک کے پرانے رشتے بھی اس معاملے میں اہم ہیں۔ اب جبکہ پاکستان کے خلاف انڈیا کے میچز صرف آئی سی سی ٹورنامنٹ تک محدود ہو گئے ہیں تو افغانستان کی ٹیم انڈیا میں اہمیت حاصل کر گئی ہے۔‘ ’سیاسی وجوہات کی بنا پر آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑی نہیں ہیں جبکہ افغانستان کے کھلاڑی یہاں نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے نئے کرکٹ شائقین میں ان سے ایک طرح کی انسیت بھی ہے۔ لیکن حالیہ ورلڈ کپ میں انھوں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ اب زیادہ افغان کھلاڑی آئی پی ایل میں نظر آئيں گے۔‘ بی سی سی آئی کی حمایت کے ساتھ افغان ٹیم کو جو کمپنی سپانسر کر رہی ہے وہ انڈین کمپنی امول ہے۔ فی الحال ان کی ٹیم کے مینٹور انڈین کرکٹر اجے جڈیجہ ہیں اور افغان ٹیم کے ساتھ انھیں دیکھا جانا بھی انڈینز کے لیے قابل قدر بات ہے۔ یہ بھی پڑھیے دہلی میں افغانستان کا سفارتخانہ 21 سال بعد دوبارہ بند کیوں ہوا؟ ’کسی اور ملک نہیں جا سکتے، افغانستان میں خطرات ہیں اور یہاں اب کوئی رہنے نہیں دے گا‘ پاکستان، افغانستان کرکٹ میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بات ہو رہی ہے۔ عرفہ فیروز ذکی نامی صارف نے لکھا کہ ’افغان کھلاڑیوں نے کرکٹ پاکستان میں سیکھی لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہمیشہ انڈیا کو اپنا دوسرا گھر بتایا۔ افغان نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف انڈیا کی حمایت کی ہے۔۔۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 دی کیپلائی نامی ایک صارف نے اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ بی سی سی آئی (انڈین کرکٹ بورڈ) بہت سی چیزوں کا قصوروار ہے لیکن ایک چیز جس کے لیے وہ کریڈٹ کے مستحق ہیں وہ افغان کرکٹ ٹیم کو ان کی غیر متزلزل حمایت ہے۔ ’انھیں بین الاقوامی میچوں کی میزبانی کے لیے ایک سٹیڈیم دینا، جب ان کے پاس کوئی نہیں تھا اس صورت حال میں تربیتی سہولیات تک رسائی دینا اور کوچنگ اقدامات کے ذریعے افغان کھلاڑیوں اور کوچز کی مدد کرنا، افغان کرکٹ کی ترقی میں بی سی سی آئی کا بڑا ہاتھ ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’آج، کرکٹ کی دنیا میں ان کا تیزی سے ترقی کے زینے چڑھنا ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ لیکن اگر بی سی سی آئی نہ ہوتا تو ان کا سفر کچھ زیادہ ہی مشکل ہوتا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 بہت سے صارفین نے ان کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ انوپما سنگھ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ بالکل درست ہے اور انڈیا میں افغانستان ٹیم کو جو تعاون ملا ہے وہ الگ ہی سطح پر ہے اور اس کے لیے تمام کھلاڑی شکرگزار ہیں۔ ہم انھیں کئی گنا ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘ وازمہ سائل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’سلام افغانستان اور انڈیا۔ ورلڈ کپ میچز جیتنے کی خوشی کچھ الگ ہی تھی مگر انڈین دوستوں کی حمایت سے یہ خوشی دگنی ہو گئی ہے۔ شکریہ انڈیا آپ کا افغان ٹیم کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے اور عرفان پٹھان کے لیے خصوصی شکریہ ان کے ڈانس کے لیے جس نے ہم لوگوں کا دل جیت لیا۔ انڈیا افغان دوستی زندہ باد۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 جبکہ صحافی نذرانہ یوسفزئی نے لکھا کہ ’افغانستان کی ٹیم طالبان حکومت کی صفر حمایت کے ساتھ کھیل رہی ہے اور اس نے اب تک اتنا کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ عالمی سطح کے کھیل کا مظاہرہ ہے۔ ان کو دیکھنا کتنا اچھا تھا۔ افغانوں کو مسکراتا دیکھ کر بہت خوش ہوں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 بہر حال عرفان پٹھان کے جشن اور ڈانس پر جہاں افغانستان کے کھلاڑیوں اور مداحوں سے ان کی تحسین کی جا رہی ہے وہیں پاکستان کے مداح ان سے خوش نہیں ہیں۔ افغان کرکٹر محمد مجیب نے عرفان پٹھان کے جشن اور حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے جبکہ عبید معظم نامی ایک صارف نے افغانستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی میدان میں نماز ادا کرنے والی ایک ویڈیو ڈال کر لکھا کہ ’افغانستان ٹیم کرکٹ گراؤنڈ پر نماز ادا کر رہی ہے۔ عرفان بھائی صرف ناچتے گاتے ہو یا کبھی افغان ٹیم کے ساتھ نماز بھی پڑھوگے؟‘ فضل افغان نامی ایک صارف نے لکھا کہ پڑوسی ہماری شکست پر رقص کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے بھائی ہماری جیت پر رقص کر رہے ہیں۔ ان کے خواب بس خواب ہی رہے۔ شکریہ عرفان بھائی اور سارے انڈین ساتھیوں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 موسکا سنگر نیازی نامی صارف نے لکھا کہ ’افغان قوم کے لیے محبت اور حمایت کا اظہار کرنے کے لیے آپ کا شکریہ عرفان پٹھان اور ہربھجن سنگھ۔ آپ کا رقص ہمارے پڑوسی کے لیے ’جوہری‘ دھماکہ ہے۔‘ افغانستان کے سوشل میڈیا صارفین کی ٹویٹس دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا حریف مانتے ہیں اور ان کی ساری مسابقت پڑوسی ملک پاکستان سے ہے۔ صحافی معین الدین حمید نے کہا کہ افغانستانیوں کا انڈیا کی حمایت کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’افغانستان سے پاکستان کی سرحد ملتی ہے اور انھیں راستہ بھی پاکستان ہی فراہم کرتا ہے تو ان کی تجارت چلتی ہے کیونکہ ان کے پاس بندرگاہ بھی نہیں ہے، پھر بھی جس طرح سے متحدہ عرب امارات میں افغان کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑی کے ساتھ تصادم کیا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔ پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افغانستان احسان فراموش رہا ہے۔‘ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا میں پاکستان کے خلاف کسی بھی ٹیم کی حمایت دیکھنے میں آئی اور انڈینز میں یہ تبدیلی سنہ 2014 میں مودی حکومت کے بعد واضح طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ عوام کو افغانستان یا بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کے نماز پڑھنے اور اپنے ملک کا پرچم لہرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے جبکہ پاکستان کے معاملے میں نہ عوام اور نہ ہی انتظامیہ کو ایسا پسند ہے جس کی ایک جھلک پاکستان اور افغانستان کے میچ کے دوران ایک پاکستانی شہری کے پاکستانی پرچم کے ساتھ سٹیڈیم میں پولیس کانسٹیبل سے مباحثے کے دوران ملتی ہے۔ انڈیا کی اہم یونیورسٹی جے این یو میں فارسی کے پروفیسر اور افغان امور کے ماہر محمد مظہرا الحق نے اس سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'آج انڈیا کی افغانستان سے تجارت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔' انھوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد اگرچہ سفارتی تعلقات ظاہری طور پر نظر نہیں آتے لیکن ٹیکنیکل سسٹینس کے طور پر انڈیا کی وہاں موجودگی کافی مضبوط ہے۔ انڈیا نے افغانستان میں بہت سے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں اور اس نے تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72dpyznz4xo
انضمام الحق ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کے الزام پر مستعفی: ’کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دُکھ ہوتا ہے‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے دوران اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے اور اپنے اوپر مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق الزامات پر دُکھ ظاہر کیا ہے۔ انضمام نے سما ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ اپنے خلاف مفادات کے ٹکراؤ پر قائم کمیٹی کی تحقیقات تک عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر میرے پر سوال اٹھے گا تو بہتر ہے کہ میں سائیڈ پر ہوجاؤں۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔‘ انضمام نے مزید کہا کہ ’لوگ بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جس نے بات کی ہے اسے ثبوت بھی دینے چاہییں۔۔۔ کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دُکھ ہوتا ہے۔‘ پی سی بی کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میڈیا پر گذشتہ کئی دنوں سے یہ باتیں زیرِ بحث تھیں کہ انضمام بطور چیف سلیکٹر کھلاڑیوں کے ایجنٹس کی ایک کمپنی میں شیئر ہولڈر ہیں جس سے مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے اور بورڈ نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے ذریعے آئندہ دنوں میں حقائق سامنے آجائیں گے۔ ان کے مطابق انضمام نے خود اپنا استعفیٰ پیش کیا اور اگر ان کا نام کلیئر ہو جاتا ہے تو وہ اس عہدے پر دوبارہ آ جائیں گے۔ دریں اثنا پی سی بی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کے انتخاب کے عمل سے متعلق میڈیا میں رپورٹ ہونے والے مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے الزامات کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل کی ہے۔ ’کمیٹی اپنی رپورٹ اور سفارشات پی سی بی کی انتظامیہ کو جلد پیش کرے گی۔‘ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق کو 7 اگست 2023 کو قومی مینز سلیکشن کمیٹی کا چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا تھا اور رواں ماہ کے شروع میں انھیں جونیئر مینز سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم پر جہاں ورلڈ کپ میں لگاتار چار میچوں میں شکست پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں یہ معاملہ بھی زیر بحث رہا ہے کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق پلیئرز مینجمینٹ کی ایک کمپنی ’یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ‘ کے شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں جس سے مفادات کے ٹکراؤ کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ گذشتہ روز چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف سے اے آر وائی کو دیے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی کی کمپنی میں انضمام شیئر ہولڈر ہیں اور ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں کو وہ مینج کرتے ہیں تو کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ ذکا اشرف نے جواب دیا تھا کہ ’یہ بظاہر مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ ہم نے سوچا ہے چیف سلیکٹر کو بُلا کر وضاحت مانگیں گے۔۔۔ اگر سات، آٹھ کھلاڑی قابو کیے ہوئے ہیں تو پھر سلیکشن بھی وہی کروا رہا ہو گا۔‘ چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ بورڈ میں ایک نیا قانون لانا ہو گا کہ کسی ایجنٹ کے پاس دو سے زیادہ کھلاڑی نہ ہوں۔ ’ایسے تو یہ ٹیم سلیکشن ہونے نہیں دیں گے، یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔‘ پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی سایہ کارپوریشن کے سربراہ بھی ہیں جس کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک ایتھلیٹ مینجمینٹ کمپنی ہے جسے سنہ 2014 میں قائم کیا گیا اور یہ ’پاکستان نیشنل ٹیم کے 70 فیصد حصے کی نمائندگی کرتی ہے‘ جس میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور فخر زمان شامل ہیں۔ برطانوی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق طلحہ رحمانی کی ایک دوسری کمپنی یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ میں انضمام الحق اور محمد رضوان شیئر ہولڈرز ہیں۔ دوسری طرف سایہ کارپوریشن کے مطابق اس کمپنی میں کسی بھی موجودہ یا سابقہ کھلاڑی کے شیئرز نہیں ہیں اور ’ہم آمدن یا ڈیویڈنٹس کھلاڑیوں کے ساتھ شیئر نہیں کرتے۔‘ 30 اکتوبر کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں سایہ کارپوریشن نے کہا کہ اس کا سرمایہ کاری کا ونگ کھلاڑیوں کی مالی خوشحالی کے لیے اقدامات کرتا ہے اور لوگوں کو کاروباری شراکت کا حق حاصل ہے۔ اس کے مطابق سایہ کارپوریشن پی سی بی سے کھلاڑیوں کی آمدن میں حصہ وصول نہیں کرتی، جس میں کھلاڑیوں کی تنخواہیں، (ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی) میچ فیس اور پی ایس ایل کے معاہدے شامل ہوتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یازو انٹرنیشنل لمٹڈ یو کے کو دسمبر 2020 میں قائم کیا گیا۔ یہ نجی ای کامرس کمپنی ہے جس نے پاکستان میں ٹیکس ریٹرن ظاہر کیے ہیں اور اس کی جانب سے مالی شفافیت کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔‘ سایہ کارپوریشن نے غلط معلومات پھیلائے جانے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے ذرائع نے بتایا کہ آج بورڈ نے تفصیل سے انضمام سے گفتگو کی اور اس کے بعد انھوں نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ ان کے مطابق ورلڈ کپ کے دوران فوری طور پر نئے چیف سلیکٹر کی ضرورت نہیں اور کچھ دنوں میں یہ معاملات واضح ہو جائیں گے جس کے بعد انضمام دوبارہ اس عہدے پر آ سکتے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پی سی بی کے ذرائع نے کہا کہ بابر اعظم اور چیئرمین پی سی بی کے درمیان سرد مہری کی خبریں جھوٹ پر مبنی تھیں جس کی وجہ سے ذکا اشرف پر دباؤ پیدا ہوا اور انھوں نے ایک انٹرویو کے ذریعے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی انٹرویو ہے جس کے بعد کپتان بابر اعظم کی واٹس ایپ گفتگو کا ایک مبینہ سکرین شاٹ سامنے آیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے گذشتہ دنوں چیئرمین سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ سابق کپتان راشد لطیف نے پی ٹی وی پر ایک شو کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ چیئرمین بورڈ ذکا اشرف ’بابر اعظم کے پیغامات کا جواب نہیں دے رہے۔‘ بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی پلیئرز ایجنٹ کے معاملے پر سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ ’اب پلیئرز بہت زیادہ ایجنٹس کے ذریعے کام کر رہے ہیں تو اس بارے میں بھی کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔‘ بعض سابق کھلاڑیوں نے انضمام کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے اور ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ سابق کپتان شاہد آفریدی نے انضمام کے اس فیصلے کو ’زبردست‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ اگر ان کے خلاف تحقیقات میں کچھ سامنے نہیں آتا تو وہ اس کرسی پر واپس آ سکتے ہیں۔ سما ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سپنر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ عزت کی بنیاد پر لیا گیا کیونکہ حالیہ عرصے میں میڈیا پر لوگوں نے انضمام کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔ ’وہ پاکستان کے کپتان رہ چکے ہیں اور انھوں نے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز کیے ہیں۔ وہ چیف سلیکٹر بن کر پاکستان کی خدمت کرنے آئے تھے۔ آپ کارکردگی پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ذاتی زندگی پر حملوں سے انزی ہرٹ ہوا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1dwz172wpo
بابر کا مقابلہ بنگلہ دیش کے بارہویں کھلاڑی سے ہے، سمیع چوہدری کا کالم
نیدرلینڈز سے شکست کے بعد جب بنگلہ دیشی کپتان شکیب الحسن نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کی مہم جوئی سے تو خارج ہو ہی چکے ہیں مگر ان کی نظر ابھی مزید فتوحات کھوج کر چیمپیئینز ٹرافی کی کوالیفکیشن پر ہے تو کئی کرکٹ بورڈز کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہ تھی۔ دو سال پہلے جب ون ڈے سپر لیگ متعارف کروائی گئی تو اس کا مقصد عالمی ایونٹس کی براہِ راست کوالیفکیشن کا رستہ سدھارنا تھا مگر ایک ہی سال بعد ون ڈے سپر لیگ ختم کر کے ہر اگلے ایونٹ کی کوالیفکیشن کو سابقہ ایونٹ کے پوائنٹس ٹیبل سے مشروط کر دیا گیا۔ شکیب الحسن کے بیان کے بعد انگلش کیمپ کو بھی بہت بڑا جھٹکا لگا۔ انگلش کوچ میتھیو موٹ نے کہا کہ وہ بھی اس منظرنامے سے آگاہ نہ تھے کہ ان کی حالیہ کارکردگی دو برس بعد پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بہرطور اس انکشاف کے بعد ورلڈ کپ کے باقی ماندہ بے معنی مقابلوں کو کچھ معنویت سی مل گئی ہے کہ جو ٹیمیں ٹاپ فور کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہیں، انھیں بھی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت کو ملحوظِ نظر رکھ کر بہتر کھیل پیش کر کے جیت کی خاطر جہد کرنا ہو گی۔ پاکستان کی مگر خوش قسمتی ہے کہ بطور میزبان ان کی کوالیفکیشن طے ہو چکی ہے اور کوئی نئی تلوار سر پر نہیں لٹک رہی مگر بنگلہ دیشی کیمپ میں اضطراب بھرپور ہے کہ اگر انھیں اگلے ون ڈے ایونٹ کے لیے رسائی حاصل کرنا ہے تو پاکستان کے خلاف جیت ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس اضطراب کا ذمہ دار بھی خود بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ ہی ہے جہاں انتظامی معاملات آمرانہ انداز میں اور ٹیم سلیکشن بچکانہ انداز میں ہو رہے ہیں۔ اندرونی سیاست کی خلفشاریوں کا یہ عالم ہے کہ گیارہ کھلاڑی ٹیم میں نہیں ڈھل پا رہے اور ٹاپ پرفارمر بلے باز کا بیٹنگ آرڈر میچ در میچ نیچے سرکتا جا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے سر پر لٹکتی تلوار فقط اس ’صحافت‘ کی ہے جو اپنے ناپسندیدہ چہروں کی گردن لپیٹنے کو کچھ بھی کر گزرنے پر تیار رہتی ہے۔ کپتان بابر اعظم کے ذاتی واٹس ایپ میسجز مین سٹریم میڈیا کی سکرینوں پر دکھائے جا رہے ہیں اور اسے صحافتی اخلاقیات کے عین مطابق بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ یوٹیوب پر کلکس اور ویوز کی دوڑ میں بھاگتے ’سینیئر‘ صحافی ٹیم کو بیچ دیے جانے کے انکشافات فرما رہے ہیں اور ایک جید صحافی اس امر پر معترض ہو رہے ہیں کہ ٹیم کا میڈیا مینیجر نیکر پہن کر کیوں گھوم رہا ہے اور اس کا ٹیم کی کارکردگی پر کس قدر منفی اثر مرتب ہو رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ذکا اشرف ان تمام صحافتوں پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور شکایت موصول ہوتے ہی میڈیا مینیجر کو پاکستان واپس بلا چکے ہیں۔ ٹیم کی کارکردگی سے وہ پہلے ہی بری الذمہ ہو چکے ہیں کہ کپتان اور چیف سلیکٹر ہی تمام نقص کے ذمہ دار ہیں۔ جب کرکٹ کے انتظامی ادارے کی سربراہی پر ایسے لوگ براجمان ہوں گے جن کی اپنی نشست عارضی سیاسی پشت پناہی اور میڈیا کی تائید سے جڑی ہو گی تو ایسے ہی زریں فیصلے دیکھنے کو مل سکتے ہیں اور ٹیم کی کارکردگی بھی یوں ہی نشیب و فراز سے بھرپور رہے گی۔ آسٹریلین اور انگلش سپورٹس جرنلزم کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار نبھایا کرتے ہیں اور اپنی چیخ و پکار سے حریف ٹیموں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستانی سپورٹس جرنلسٹس ایسے تعصبات سے یکسر خالی ہیں کہ وہ ہمیشہ حریف ٹیموں کے بارہویں کھلاڑی کی شکل میں اپنی ہی کرکٹ کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جو منفیت یہاں بابر اعظم کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے، اس میں بنیادی وجہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر کوئی کرکٹنگ بحث نہیں بلکہ یہ ساری مہم جوئی اس لیے ہو رہی ہے کہ ان کا تعلق اس ریجن سے نہیں جہاں سے میڈیا کی ہمدردیاں وابستہ ہیں۔ ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے ہی یہ مہم جوئی زور شور سے شروع ہو چکی تھی اور یہ میڈیا پہلے دن سے ہی پاکستان کی ہر حریف ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے اور کل بھی بابر اعظم کا مقابلہ بنگلہ دیش کے گیارہ کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ان کے بارہویں کھلاڑی سے ہی ہو گا جس کا تعلق بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ بدقسمتی سے، پاکستان ہی کی ٹی وی سکرینوں سے ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw03z2780jro
اگر مگر کا کھیل، کیا پاکستان اب بھی سیمی فائنل تک پہنچ سکتا ہے؟
اگر آپ اس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو یقیناً آپ بھی ان چند پاکستانی مداحوں میں سے ایک ہوں گے جنھیں اب بھی ٹیم کے ورلڈ کپ سیمی فائنل تک کوالیفائی کرنے کی امید ہو گی مگر ہمارے پاس آپ کے لیے کچھ زیادہ خوش آئند خبر نہیں ہے۔ پاکستان کا انڈیا میں اس ورلڈ کپ کے دوران سفر مشکلات کا شکار رہا ہے اور ٹیم گذشتہ جمعے کو جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کے بعد مسلسل چار میچ ہار چکی ہے، جو ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ ورلڈ کپ کا اچھا آغاز کرتے ہوئے پاکستان نے پہلے نیدرلینڈز کو 81 رنز سے شکست دی تھی اور پھر سری لنکا کے ہدف کا ریکارڈ توڑ تعاقب کرتے ہوئے چھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان 14 اکتوبر کو نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم، احمد آباد میں ہونے والے میچ نے سب کچھ بدل دیا۔ ٹیم کو جہاں انڈیا سے سات وکٹوں سے بھاری شکست ہوئی وہیں آسٹریلیا کے خلاف بھی پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس ناقص رہی۔ پھر چنئی میں افغانستان سے اپ سیٹ شکست اور جنوبی افریقہ کے خلاف صرف ایک وکٹ سے شکست کے بعد اب پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ ٹیم کو اب سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے اپنے بقیہ تین میچوں میں فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر میچوں کے نتائج پر بھی انحصار کرنا پڑے گا اور یہ صرف ایک یا دو ٹیموں کی نہیں بلکہ متعدد ٹیموں کے نتائج پر منحصر ہے۔ پاکستان ٹیم کی اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر چھٹی پوزیشن ہے اور اس کے چھ میچ کھیلنے کے بعد صرف چار پوائنٹس ہیں۔ پانچویں پوزیشن پر موجود سری لنکا کے بھی چار پوائنٹس ہیں لیکن اس کا نیٹ رن ریٹ بھی پاکستان سے قدرے بہتر ہے اور اس نے اب تک صرف پانچ میچ کھیلے ہیں۔ سری لنکا اپنا اگلا میچ پیر کو افغانستان کے خلاف کھیلے گا جس کی اہمیت اس وقت پوائنٹس ٹیبل کے اعتبار سے بڑھ گئی ہے۔ افغانستان کے بھی چار پوائنٹس ہیں اور اس نے انگلینڈ اور پاکستان کو شکست دے رکھی ہے اور اس نے بھی ابھی صرف چار میچ کھیلے ہیں۔ نیدرلینڈ کی ٹیم جس نے اس ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کو شکست دی ہے کے چھ میچوں کے بعد چار پوائنٹس ہیں لیکن آسٹریلیا سے 309 رنز کی بھاری شکست کے بعد اس کا نیٹ رن ریٹ خاصا کم ہو چکا ہے۔ پاکستان اپنا اگلا میچ بنگلہ دیش کے خلاف منگل، 31 اکتوبر کو کلکتہ میں کھیلے گا۔ اب تک بنگلہ دیش کی ٹیم صرف افغانستان سے جیت پائی ہے جبکہ اپنے گذشتہ میچ میں اسے اسی گراؤنڈ پر نیدرلینڈز سے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد پاکستان ٹیم چار نومبر کو بنگلورو میں نیوزی لینڈ کے مدِ مقابل آئے گی۔ یہ وہی ہائی سکورنگ گراؤنڈ ہے جہاں پاکستان کو آسٹریلیا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر تیسری پوزیشن پر ہے اور اس کے آٹھ پوائنٹس ہیں۔ خیال رہے کہ نیوزی لینڈ نے پاکستان کو ورلڈ کپ کے وارم اپ میچ میں بھی شکست دی تھی۔ اس کے بعد پاکستان اپنا آخری میچ انگلینڈ کے خلاف 10 نومبر کو کلکتہ میں کھیلے گا۔ انگلینڈ کی ٹیم اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام کرکٹ تجزیہ کار اور کرکٹ اعداد و شمار پر گرفت رکھنے والے مظہر ارشد کے مطابق پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک رسائی کا بہترین امکان یہ ہو گا کہ پاکستان اپنے تمام تین میچ جیت جائے اور نیوزی لینڈ اپنے یقیہ تین میچ ہار جائے۔ نیوزی لینڈ کے اگلے تین میچ پاکستان، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نیوزی لینڈ کی ٹیم، جو اس وقت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، کے پوائنٹس میں اضافہ نہیں ہو گا اور پاکستان اپنے بقیہ تین میچوں میں فتح حاصل کر کے پوائنٹس ٹیبل پر چوتھی پوزیشن حاصل کر سکے گا۔ یہی نہیں، پاکستان کو پھر سری لنکا اور افغانستان کے میچوں کے نتائج بھی اپنے حق میں آنے کی امید رکھنی ہے۔ پاکستان یہ چاہے گا کہ یہ دونوں ٹیمیں 10 پوائنٹس تک پہنچنے میں ناکام رہیں ورنہ صورتحال نیٹ رن ریٹس کے ذریعے معلوم ہو گی جو آنے والے میچوں کے نتائج پر منحصر ہے۔ افغانستان ٹیم نے سری لنکا کے بعد نیدرلینڈز، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے خلاف میچ کھیلنے ہیں جبکہ سری لنکا کا مقابلہ کل کے میچ کے بعد انڈیا، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ سے ہو گا۔ جن سے اسے نیوزی لینڈ کو شکست دینی پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ چونکہ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں سری لنکا کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے اس لیے پاکستان کو سری لنکا اور افغانستان کے میچ میں افغانستان کی جیت کی امید کرنی ہو گی۔ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آسٹریلیا کے بھی چھ میچوں کے بعد آٹھ پوائنٹس ہیں اور اس کا نیٹ رن ریٹ بھی نیوزی لینڈ سے کم ہے تو پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اس کے نتائج پر منحصر کیوں نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آسٹریلیا نے اپنے اگلے تین میچ انگلینڈ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے خلاف کھیلنے ہیں جو نیوزی لینڈ کے مقابلے میں قدرے آسان میچ ہیں۔ اگر آسٹریلیا اپنا ایک میچ بھی جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے دس پوائنٹس ہو جائیں گے اور معاملہ ایک مرتبہ پھر سے نیٹ رن ریٹ پر آئے گا۔ کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر ٹیبل پر سرِ فہرست جنوبی افریقہ کو نیدرلینڈز سے شکست ہو سکتی ہے تو کوئی بھی ٹیم کسی بھی دن کسی بھی ٹیم سے ہار سکتی ہے۔ تاہم اس وقت آسٹریلیا کی فارم میں واپسی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات روشن ہیں۔ نیدرلینڈز کے اگلے تین میچ افغانستان، انگلینڈ اور انڈیا کے خلاف ہیں، اور اپنے بقیہ میچ جیتنے کے باوجود اس کا انحصار نیٹ رن ریٹ پر ہو سکتا ہے جو اس کے حق میں نہیں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q37n37exvo
’خراب امپائرنگ اور خراب قواعد پاکستان کی شکست کی وجہ بنے‘: ہربھجن کے شکوے پر گریم کا جواب شکوہ
انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کا 26 واں میچ بالآخر سنسنی خیز ثابت ہوا اور ہار جیت کے فیصلے سے قبل لوگوں کی دھڑکنیں ڈوبتی ابھرتی رہیں۔ اور جب بھی ایسا کوئی میچ ہوتا ہے تو اس میں بہت سارے اگر مگر ہوتے ہیں اور پاکستان اس طرح کے میچز میں عام طور پر ایک حریف ہوتا ہے جو کہ مردہ میچ کو بھی اپنی کارکردگی سے زندہ کر دیتا ہے گویا کرکٹ میں اسے ہی مسیحائی حاصل ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف گذشتہ رات ہونے والے میچ میں گو کہ میدان بالآخر جنوبی افریقہ کی جھولی میں چلا گیا لیکن پہلی بار انڈین تماشائیوں نے بھی پاکستان کی دل کھول کر تعریف کی اور سب کی زبان پر بس ایک بات تھی کہ اگر حارث رؤف کی آخری گیند پر امپائر کا فیصلہ پاکستان کے حق میں جاتا تو یہ ورلڈ کپ جی اٹھتا۔ انڈیا کے سابق کرکٹر ہربھجن سنگھ تو اس پر اس قدر رنجیدہ اور کیبدہ خاطر نظر آئے کہ انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ڈی آر ایس کے باوجود ’امپائرز کال‘ والے اصول کو ہی ختم کرنے کی بات کہہ ڈالی۔ ان کے جواب میں جنوبی افریقہ کے سابق کپتان گریم سمتھ نے انھیں واندر دوسین کا آؤٹ ہونا یاد دلایا۔ ہربھجن کی بات سے پہلے اس میچ پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا وہی ایک غلط فیصلہ تھا جو پاکستان کی شکست کا ضامن بنا۔ اس سے قبل جب ایک ایک رنز انتہائی اہمیت کے حامل ہو چکے تھے تو امپائر نے شاہین شاہ آفریدی کی گیند کو وائڈ قرار دیا تھا، جو کسی بھی صورت وائڈ نہیں تھی اور یوں جنوبی افریقہ کو ایک گیند اور ایک رن بھی مل گئے تھے۔ پھر جب حارث رؤف کی ایک گیند کو وائڈ قرار دیا گیا تو وہ بے چارگی کے عالم میں صرف امپائر کا منھ ہی دیکھتے رہے۔ پھر آخری اوور میں وہ مرحلہ بھی آیا جب ان کی ایک اور گیند کو وائڈ قرار دیا گیا لیکن بعد میں ری پلے میں پتہ چلا کہ وہ گیند بیٹسمین کے پیڈ کو چھو کر نکلی تھی تو پاکستانی شائقین کف افسوس ہی ملتے رہ گئے۔ یہاں بھی ایک گیند اور ایک رنز جنوبی افریقہ کی جھولی میں چلے گئے۔ یہاں پر بابر اعظم کو جرات کا مظاہرہ کرنا تھا اور ریویو لینا تھا لیکن وہ پاکستانی اوپنرز اور خود کی بیٹنگ کی طرح اپنی جرات کو بحال نہ کرسکے۔ اس کے برعکس جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باووما نے صرف اپنی فراست، تجربے اور حوصلے سے بابر اعظم کی وکٹ حاصل کی۔ ہوا یوں کہ تبریز شمسی کی گیند پر بابر سوئپ شاٹ کھیلنے گئے اور وہ چوک گئے۔ وکٹ کپیر ڈی کاک نے کیچ لیا اور شمسی کے ساتھ افسردگی کی تصویر نظر آئے کہ بابر بال بال بچ گئے لیکن باووما نے بابر کے چہرے کا تاثر دیکھ لیا اور بھانپ لیا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہے۔ انھوں نے تجربے سے یا پھر بابر کی کیفیت سے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں کی کہ بابر آؤٹ ہیں اور انھوں نے جھٹ سے ریویو لے لیا۔ ریویو میں یہ نظر آیا کہ گیند بابر کے بیٹ اور گلوز کو چھوتی ہوئی گزر گئی اور الٹرا ایج پر ایک خفیف سا ابھار نظر آیا اور یوں تبریز شمسی کو پہلی وکٹ ملی اور پھر وہ اس طرح سے حاوی ہوئے کہ 'مین آف دی میچ' قرار پائے۔ بہر حال یہ میچ مارک رم کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کی جھولی میں گرتا نظر آنے لگا تھا۔ پہلے شاہین شاہ آفریدی نے کوئٹزی کو آوٹ کیا اور پھر حارث رؤف نے لنگی نگیڈی کو ناقابل یقین طور پر اپنی ہی بال پر کیچ کیا تو نوشتہ دیوار نظر آنے لگا۔ وہ حارث رؤف کا آخری اوور تھا اور پھر آخری گیند پر جب ریویو لیا گیا اور امپائر کال کی وجہ سے شمسی ناٹ آؤٹ قرار دیے گئے تو حارث نے اپنا سر پکڑ لیا کیونکہ شاید پاکستان وہیں میچ ہار گیا تھا۔ انڈیا کے سابق سپنر ہربھجن سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں اسے ’بیڈ امپائرنگ‘ قرار دیا۔ انھوں نے لکھا کہ 'پاکستان خراب امپائرنگ کی وجہ سے یہ میچ ہار گیا۔ آئی سی سی کو یہ رول بدل دینا چاہیے۔ اگر گیند سٹمپ کو لگ رہی ہے تو وہ آؤٹ ہونا چاہیے خواہ امپائر نے آؤٹ قرار دیا ہو یا نہیں۔ نہیں تو پھر ٹیکنالوجی کا کیا فائدہ؟' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ان کے ٹویٹ کے جواب میں جنوبی افریقہ کے سابق کپتان گریم سمتھ نے لکھا: ’ہربھجن سنگھ، میں بھی آپ ہی کی طرح امپائرز کال کے بارے میں محسوس کرتا ہوں لیکن جب ریسی دوسین آؤٹ ہوئے تھے تو جنوبی افریقہ کے احساست بھی ویسے ہی ہو سکتے تھے۔؟‘ یہ بھی پڑھیے ’دھونی ریویو سسٹم‘: ’جب ریویو کی بات آئے تو دھونی سے الجھنے کی کوشش نہ کریں‘ ڈی آر ایس تنازع: ’بالآخر کوہلی نے ثابت کر دیا کہ سعید اجمل بالکل صحیح تھے‘ ٹیسٹ میچوں میں ادھورا ڈی آر ایس نہیں ہونا چاہیے: وقار یونس اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 انھوں نے سوالیہ نشان پر اپنی بات ختم کی ہے۔ بات بس یہاں اتنی سی ہے کہ دوسین کو امپائر نے آوٹ قرار دیا تھا، اس لیے وہ آؤٹ ہو گئے۔ بہر حال گیند ان کے سٹمپس اڑا رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ گیند سٹمپس کو مس کر رہی تھی اور پھر بھی امپائر کے کال کی وجہ سے ان کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ ہربھجن سنگھ کا ماننا ہے کہ اگر بال سٹمپس سے ٹکرا رہی ہے تو آؤٹ دیا جانا چاہیے اور یہ حق بہ جانب بھی ہے۔ اسی طرح رواں ورلڈ کپ میں ہی جب آسٹریلین اوپنر ڈیوڈ وارنر اس طرح آؤٹ ہوئے تھے تو وہ بہت بدظن نظر آئے اور انھوں نے اس امپائر کال کو بدلنے کی بات کہی تھی۔ بہر حال گریم سمتھ اور ہربھجن سنگھ کی طرح لوگوں کی رائے اس معاملے میں تقسیم ہے۔ شاید اسی وجہ سے کرکٹ کے معروف امپائر ہرش بھوگلے نے امپائرز کال کی وضاحت کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا: ’مجھے لگتا ہے کہ ’امپائرز کال‘ کی دوبارہ وضاحت کرنے کا وقت آگیا ہے۔ گیند کے پیڈ سے ٹکرانے کے بعد آپ ایک پروجیکشن دیکتھے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گیند کہاں گئی ہو گی، یہ اصل گیند نہیں ہے کیونکہ اس کو پیڈ سے رکاوٹ کا سامنا رہا ہے۔ اگر (پروجیکشن میں) 50 فیصد سے زیادہ گیند کے حصے کا سٹمپ سے ٹکرانے کا امکان نظر آتا ہے تو آپ کو 100 فیصد یقین کر سکتے ہیں کہ ایسا ہوگا۔ لیکن اگر 50 سے کم گیند کا حصہ سٹمپ سے ٹکرانے کا پروجیکشن آتا ہے، تو موجودہ درستگی کی سطح صد فیصد یقین کے ساتھ نہیں بتا سکتی کہ گیند سٹمپ سے ٹکرائی ہوگی۔ لہٰذا، آپ امپائر کے اصل فیصلے پر واپس چلے جاتے ہیں کیونکہ آپ اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ اس کی کال کو الٹ دیں۔ یہ بہت اچھا اور منصفانہ طریقہ ہے۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انھوں نے مزید لکھا: ’جیسے جیسے کیمرے بہتر ہوتے جائیں گے پروجیکشن زیادہ یقینی ہوتا جائے گا اور ہم ایک ایسے دن تک پہنچ سکتے ہیں جب آپ کو یہ یقین ہونے لگے کہ اگر پروجیکشن میں گیند محض سٹمپ کو چھو کر گزرتی نظر آتی ہے تو آپ یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ در حقیقت وہ سٹمپس سے ہی ٹکراتی۔' کرک ایکسٹرا نامی صارف نے ہرش بھوگلے کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہرشا، میرے خیال سے جب بھی گیند سٹمپس کو لگتی ہے تو آؤٹ دیا جانا چاہیے۔ یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے۔‘ اس کے جواب میں پھر ہرشا نے لکھا کہ ’شاید آپ نے میرا لکھا نہیں پڑھا۔ میں پروجیکشن کی بات کر رہا ہوں حقیقتا وکٹ سے ٹکرانے کی نہیں۔ تمام اندازوں کی طرح اس میں بھی غلطی کا امکان ہے۔ یہ بہت مشکل نہیں ہے سمجھنے کے لیے۔‘ بہت سے صارفین نے انگلینڈ کے سابق کرکٹ کپتان اور کمنٹیٹر ناصر حیسن کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ ڈی آر ایس اور امپائر کال کو سمجھا رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ڈرنکس بریک نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہرش، قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اگر امپائر کال کی وجہ سے یہ سٹمپس لگتی بھی اور آوٹ بھی دیا جاتا تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ گلیان (بیلز) ہٹتی ہیں کہ نہیں کیونکہ گلیوں کے نہ ہٹنے کی وجہ سے آؤٹ نہیں دیا جاتا۔ تو ہم پروجیکشن میں یہ کس طرح یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ گلیاں ہلی ہی ہوں گی۔' بہت سے لوگوں نے ہربھجن سنگھ کو پاکستان کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ 'آج دنیا کو کیا ہو گیا ہے کہ اچانک ڈی آر ایس کی بات ہونے لگی ہے۔ یہ اصول تو بہت پہلے سے کرکٹ میں ہے۔' روہت گپتا نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اس اصول کا واحد شکار ہے۔ ڈی آر ایس صد فیصد درست فیصلہ نہیں لیکن یہ امپائر کی بڑی غلطی کو دور کرنے کے لیے ہے۔' شریہ نامی صارف نے لکھا: ’ہمیں بہتر کیمروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہتر کیمرے کے استعمال سے کیا چیز روکتی ہے۔ کیا ابھی تک ٹیکنالوجی وہاں تک نہیں پہنچی ہے یا یہ اتنی مہنگی ہے جو ہمیں روکتی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 بہر حال پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے اس میچ کو برسوں یاد رکھا جائے گا کیونکہ جنوبی افریقہ نے پہلی بار کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں پاکستان کو شکست دی ہے اور پہلی بار رواں ورلڈ کپ میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے کامیاب ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جارحیت نے بھی اسے میچ میں ہمیشہ بالادستی فراہم کی۔ انھوں نے شروع سے ہی وکٹ کے کھونے کے ڈر کے بغیر کھل کر شاٹ کھیلے اور ان کی راہ میں کبھی بھی رن ریٹ حائل نہیں ہوا۔ ڈی کاک سے لے کر ہر ایک کھلاڑی نے کھل کر شاٹ کھیلے اور اسی کا نتیجہ رہا کہ بابر کو اپنے تیز بالروں کے سارے اوورز وقت سے پہلے ختم کرنے پڑے۔ اب پاکستان کے ورلڈ کپ کے اگلے مرحلے یعنی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات بھی معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51xmv03zygo
’یہ دوش پی سی بی کا بھی تھا‘: سمیع چوہدری کا کالم
یہ محض دکھ نہیں۔ یہ کرب سے بھی پرے کی کوئی شے ہے۔ گو شکست ہمیشہ تلخ ہی ہوتی ہے مگر اس شکست کی تلخی میں یہ الم بھی ہے کہ جب تک پاکستان کی اصل روح بیدار ہوئی، تب تک کہانی ختم ہو چکی تھی۔ جس بِنا پہ پاکستانی بولنگ کو دنیا کا بہترین اٹیک قرار دیا جاتا تھا، وہ بِنا تو بھرپور قوت سے زندہ ہوئی مگر تب تک مقابلہ بہت آگے بڑھ چکا تھا اور پاکستان وقت سے پیچھے لڑھک رہا تھا۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ چونکہ بہت چھوٹے چھوٹے مارجنز کی گیم ہوتی ہے، سو وہاں بسا اوقات ابتدائی کوتاہیاں بھی بعد کی جرات آزمائی میں دب جایا کرتی ہیں اور ایک اچھی اننگز یا ایک ہی بہترین سپیل فیصلہ کرنے کو کافی ہو رہتا ہے مگر ون ڈے کرکٹ ٹی ٹونٹی سے کہیں زیادہ ٹیسٹ کرکٹ کے قریب ہے۔ یہاں لمحوں کی خطا بسا اوقات گھنٹوں کی محنت پر بھاری پڑ جایا کرتی ہے۔ جو غلطی پاکستان پہلے دن سے اس ٹورنامنٹ میں کرتا چلا آ رہا ہے، چنئی میں ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی گئی اور اعتماد کی بجائے احتیاط سے آغاز کو ترجیح دی گئی۔ عبداللہ شفیق کا آغاز بہت ہی محتاط تھا۔ امام الحق کے قدم حرکت سے گریزاں تھے۔ جب بلے باز یوں اپنی بقا کی جنگ میں محو ہو تو یہ کسی بھی بولر کے لیے تقویت کی نوید ہوتی ہے۔ جو تکنیکی معذوریاں امام الحق کی بلے بازی کا خاصہ ہیں، وہ اب دنیا کے ہر بولر پر آشکار ہو چکی ہیں۔ یہ لکھتے لکھتے قلم تھک چکے کہ ان کنڈیشنز میں جب تک نئے گیند پر پہلے پاور پلے کا فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا، تب تک عالمی سطح کی مسابقت ایک خام خیالی ہی رہے گی۔ جو کام بیٹنگ سائیڈ کو پہلے تیس اوورز میں کر گزرنا چاہیے، وہ کام ہمیشہ آخری بیس اوورز پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر خود بقا کی جنگ لڑ کر لوئر آرڈر سے ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کوئی معجزہ کر گزریں گے مگر پرانی گیند کے ساتھ سلو کٹرز اور ہلکی پھلکی ریورس سوئنگ اکثر ان سارے ارمانوں کو بہا لے جایا کرتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہاں کسی نابغے نے افتخار احمد کو سعود شکیل سے بھی پہلے بھیجنے کا فیصلہ کر لیا جب سپنرز سرگرم تھے۔ بلاشبہ بابر اعظم نے یہاں غالباً اپنے کرئیر کی بہترین کپتانی کر چھوڑی اور پاکستانی بولرز نے بھی اننگز کے دوسرے مرحلے میں کایا یوں پلٹی کہ جنوبی افریقی ڈریسنگ روم کی سانسیں دشوار ہو گئیں۔ مگر یہاں فرق نمایاں تھا تو پھر پہلے پاور پلے کا ہی، کہ وہیں سے جنوبی افریقی بیٹنگ نے جیت کی بنیاد ڈالی اور وہیں سے پاکستانی بیٹنگ نے بھی اپنی شکست کی راہ ہموار کی۔ یہ کرب ناک ہے کہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو مسلسل چار میچز میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ اگرچہ اس سے پہلے کی ناکامیوں میں بلے بازی، فیلڈنگ، بولنگ اور بابر اعظم کی قیادت برابر کے ذمہ دار تھے مگر یہاں بابر اعظم کی کپتانی کا اتنا دوش نہیں تھا۔ یہاں دوش تھا تو اوپنرز کی مدافعانہ بیٹنگ کا تھا، یہاں دوش تھا تو اس جینئس کا تھا جس نے افتخار احمد کو مڈل اوورز میں بیٹنگ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی بیٹنگ پچاس اوورز بھی نہ گزار پائی۔ اور یہاں سب سے بڑا دوش تھا پی سی بی کی سیاست آلود راہداریوں کا کہ جہاں متمکن لوگ فقط اپنی من پسند تعیناتیوں اور مراعات کے حصول کی تگ و دو میں ہی رہتے ہیں اور فیصلے ہمیشہ میڈیا پر چلتی ہواؤں کے رخ دیکھ کر کرتے ہیں۔ یہ کسی پروفیشنل ادارے کا رویہ نہیں ہوتا کہ جیت کی صورت میں کریڈٹ لینے کو تو ہمیشہ پہل کرے اور ہار کی صورت میں ملبہ گرنے پر کپتان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے، خود ہاتھ جھاڑ کر بری الذمہ ہو جائے۔ دو روز پہلے جس پریس ریلیز سے چئیرمین نے خود کو اس ٹیم سلیکشن اور کارکردگی سے منہا کیا، وہ بے حد شرمناک تھی۔ مگر کیا کیجے کہ جب تک چئیرمین کا انتخاب کرکٹ کے علاقائی منتظمین کی بجائے کھیل سے یکسر نابلد وزرائے اعظم کرتے رہیں گے، تب تک یہی کرب پاکستان کا مقدر رہے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cerkmvr1jn4o
’اگر یہ آؤٹ دیا جاتا تو ہم جیت جاتے۔۔۔‘ وہ آخری وکٹ جو حارث رؤف کی آخری گیند پر نہ مل سکی
ورلڈ کپ کے ایک سنسی خیز میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو ایک وکٹ سے شکست دی مگر حارث رؤف کے سپیل کی آخری گیند یہ نتیجہ بدل سکتی تھی۔ اس وقت پاکستان کو جیت کے لیے صرف ایک وکٹ درکار تھی۔ حارث کی یہ تیز گیند تبریز شمسی کے پیڈز پر لگی اور پاکستانی کھلاڑیوں نے نہایت اونچی آواز میں اپیل کر دی۔ امپائر نے شاید ایج کے خدشے پر ناٹ آؤٹ کا اشارہ دیا جس پر پاکستانی کپتان بابر اعظم نے فوراً ریویو لے لیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو بظاہر یقین ہو چلا تھا کہ اب وہ میچ جیت جائیں گے۔ ٹی وی امپائر کے ری پلے میں ظاہر ہوا کہ گیند اور بلے کے بیچ واضح فاصلہ تھا۔ گیند کا امپیکٹ اِن لائن تھا اور یہ بظاہر وکٹوں سے ہی ٹکرا رہی تھی۔ لیکن گیند لیگ سٹمپ کو صرف کلِپ کر رہی تھی، یعنی آن فیلڈ امپائر کا فیصلہ برقرار رہا اور اس کے بعد جنوبی افریقہ نے یہ میچ ایک وکٹ سے جیت لیا۔ ڈی آر ایس کے اس فیصلے پر کپتان بابر سے میچ کے بعد پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’میرے خیال سے امپائرز کال کھیل کا حصہ ہے۔ یہ لمحہ سبھی کے لیے افسوسناک تھا کیونکہ ہمارے پاس میچ جیتنے اور ٹورنامنٹ میں رہنے کا موقع تھا۔‘ بابر نے یہ بھی کہا کہ ’اگر اسے آؤٹ دیا جاتا تو اس سے ہمیں فائدہ ہوتا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق پاکستانی کپتان مصباح الحق نے اے سپورٹس کے شو کے دوران کہا ہے کہ ’آئی سی سی کو امپائرز کال کا اصول ختم کر دینا چاہیے۔‘ رواں ورلڈ کپ کے دوران یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امپائرز کال پر کیے جانے والے فیصلے متنازع ہوئے ہیں۔ ڈیوڈ وارنر جب سری لنکا کے خلاف ایل بی ڈبلیو قرار پائے تو انھوں نے ڈی آر ایس پر آؤٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے جانے پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں نے (امپائر) جول سے پوچھا یہ کیا ہوا ہے، انھوں نے مجھے آؤٹ کیوں دیا۔ انھوں نے کہا گیند سوئنگ ہو کر واپس آ رہی تھی۔۔۔ لیکن ری پلے پر مجھے افسوس ہوا۔ یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں۔‘ وارنر کی تجویز تھی کہ ’جب ہم امپائرز کا اعلان کرتے ہیں تو ہمیں بورڈ پر ان کے اعداد و شمار بھی دکھانے چاہییں۔‘ انڈیا میں جاری ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کی پاکستان کو شکست کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان عالمی مقابلوں میں ایک ساتھ چار میچ ہار چکا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی تین جبکہ حارث رؤف اور وسیم جونیئر کی دو، دو وکٹوں کے باوجود جنوبی افریقہ نے نو وکٹوں کے نقصان پر کامیابی سے 271 رنز کے ہدف کا تعاقب ممکن بنایا۔ جنوبی افریقہ کے بلے باز ایڈن مارکرم نے 91 رنز کی نمایاں باری کھیلی۔ پہلی اننگز میں پاکستانی کپتان بابر اعظم کی محتاط نصف سنچری اور پھر سعود شکیل اور شاداب خان کے درمیان 84 رنز کی نمایاں شراکت نے بیٹنگ کو سہارا دیا مگر ٹیم 46.4 اوورز کھیل کر 270 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔ تبریز شمسی نے چار وکٹیں حاصل کر کے پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں رکھا جس پر انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو بابر نے آف سپنر افتخار احمد کو نئی گیند تھما دی مگر یہ فیصلہ طویل عرصے تک نہ چل سکا اور ابتدائی طور پر انھوں نے دو اوورز میں بغیر کسی کامیابی کے 15 رنز دیے۔ دوسری اینڈ سے شاہین آفریدی نے ابتدائی چار اوورز میں 26 رنز دیے مگر اس دوران وہ کوئنٹن ڈی کاک کی اہم وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ پاکستان کو دوسری کامیابی حسن علی کی جگہ ٹیم میں شامل کیے گئے محمد وسیم جونیئر نے دلائی۔ انھوں نے جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باوما کو 28 رنز پر ایک اچھے باؤنسر کی مدد سے آؤٹ کیا۔ اس کے بعد راسی وین ڈیرڈوسن اور ایڈن مارکرم کے درمیان 54 رنز کی شراکت قائم ہوئی۔ جیسے ہی اسامہ میر کو اٹیک میں لایا گیا، انھوں نے وین ڈیرڈوسن کو 21 رنز پر ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ وسیم نے کلاسن کو بھی شارٹ گیند پر آؤٹ کیا۔ مارکرم اور ملر کے درمیان 70 رنز کی شراکت نے جنوبی افریقہ کی جیت کے امکان روشن کیے تاہم پھر ملر 29 رنز پر شاہین آفریدی کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ مارکو جینسن کی وکٹ حارث رؤف نے حاصل کی جس کے بعد اسامہ میر نے 91 رنز پر مارکرم کی وکٹ حاصل کر کی۔ شاہین آفریدی نے کوٹزی کو 10 رنز بنانے کے بعد آؤٹ کر دیا جو جنوبی افریقہ کی آٹھویں وکٹ تھی۔ پھر حارث رؤف نے لنگی نگیڈی کی نویں وکٹ حاصل کی۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا مگر عبد اللہ شفیق اس بار اچھا آغاز دینے میں ناکام رہے اور مارکو جینسن کی گیند پر پُل شاٹ لگانے کی کوشش میں نو رنز پر آؤٹ ہوگئے۔ دوسرے اوپنر امام الحق کی وکٹ ساتویں اوور میں 38 رنز پر گری۔ وہ جینسن کی گیند پر 12 رنز پر آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کے درمیان 48 رنز کی شراکت اس وقت ٹوٹی جب رضوان جیرالڈ کوٹزی کے باؤنسر کو قابو میں نہ رکھ سکے اور 27 گیندوں پر 31 رنز بنا کر کیپر کو کیچ دے بیٹھے۔ ایک طرف وکٹیں گرتی رہیں مگر دوسرے طرف کپتان بابر اعظم کریز پر جمے رہے۔ افتخار احمد تبریز شمسی کا شکار بنے جبکہ بابر بھی انھی کی گیند پر سویپ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد سعود شکیل اور شاداب خان کے درمیان چھٹی وکٹ کے لیے 84 رنز کی نمایاں شراکت قائم ہوئی۔ شاداب کے 43 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد سعود شکیل بھی نصف سنچری بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ پاکستان کی دستویں وکٹ 47ویں اوور میں گری لیکن لوئر آرڈر کی کوششوں کے بدولت ٹیم نے مجموعی طور پر 270 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کے سپنر تبریز شمسی نے 10 اوورز میں 60 رنز دے کر چار اہم وکٹیں حاصل کیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 میچ سے قبل سابق پاکستانی فاسٹ بولر عاقب جاوید کا سعود شکیل سے متعلق کیا گیا تبصرہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ سنو نیوز کے ایک پروگرام میں عاقب جاوید نے کہا تھا کہ ’جو بِگ ہٹر ہمیں مل گیا ہے، اس کی پانچ فُٹ چھ انچ ہائٹ ہے۔ اس کی اتنی اتنی ٹانگیں اور بازو ہیں۔‘ وہ ان کا موازنہ جنوبی افریقہ کے کلاسن سے کر رہے تھے۔ ان کے اس تبصرے کے دوران جہاں اینکر ہنستے رہتے ہیں وہیں عاقب طنزیہ انداز میں یہ کہتے ہیں کہ سعود شکیل اس رول کے لیے موزوں نہیں۔ مگر اس میچ میں سعود شکیل نے چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 52 گیندوں پر 52 رنز بنائے جس میں سات چوکے شامل تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 سوشل میڈیا پر کئی صارفین ان کی بیٹنگ کو عاقب جاوید کی تنقید کا جواب قرار دے رہے ہیں۔ احمر نجیب نامی صارف نے لکھا کہ ’سعود اچھے بیٹر ہیں اور انھوں نے آج اچھی شاٹس کھیلیں۔ اپنا تجزیہ دیں، کھلاڑیوں کی تذلیل نہ کریں۔‘ عاقد نے سعود شکیل کی ففٹی پر کہا کہ ’سعود شکیل نے انھی چھوٹے ہاتھوں اور ٹانگوں سے نصف سنچری بنا لی۔‘ نادرا نامی صارف کہتی ہیں کہ نیشنل ٹی وی پر بات کرنے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں اور اینکر انھیں روکنے کے بجائے خود ہنس رہے تھے۔ وانشیکا نے کہا کہ لگتا ہے ’سعود شکیل نے عاقب جاوید کی تنقید کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
https://www.bbc.com/urdu/articles/c84knd2x9dlo
ورلڈ کپ کے بیچ سکواڈ سے متعلق متنازع بیان اور میڈیا مینیجر کی پاکستان واپسی: ’ٹیم سے بھی بُری پرفارمنس بورڈ کی ہے‘
’کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کو ان کی مرضی کی ٹیم کا انتخاب کرنے کے لیے حمایت اور آزادی دی گئی تھی۔۔۔ بورڈ پاکستان کرکٹ کے بہتر مفاد میں ورلڈ کپ میں ٹیم کی پرفارمنس کی بنیاد پر ٹورنامنٹ کے بعد فیصلے کرے گا۔‘ یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ سے قبل شائع کی جانے والی پریس ریلیز سے لیا گیا اقتباس ہے۔ اس میں جہاں پاکستان کرکٹ فینز کو ٹیم کی حمایت جاری رکھنے کا کہا گیا ہے وہیں بظاہر ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کا بوجھ کپتان بابر اعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کے سر ڈال کر بورڈ نے بظاہر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے۔ پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں لگاتار تین میچ ہار چکی ہے اور افغانستان سے تازہ ترین شکست کے بعد اس کے سیمی فائنل تک رسائی بہت مشکل دکھائی دے رہی ہے اور مجموعی طور پر ٹیم دباؤ میں بھی ہے۔ گذشتہ روز سوشل میڈیا پر پی سی بی کے اس بیان کے حوالے سے خاصی تنقید کی جا رہی تھی اور ورلڈ کپ کے وسط میں دباؤ کا شکارپاکستان ٹیم کے کپتان کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال انتہائی غیر مناسب تھا۔ ابھی یہ تنقید چل ہی رہی تھی کہ پی سی بی کی جانب سے انڈیا میں موجود میڈیا مینیجر احسن افتخار ناگی کو پاکستان واپس بلانے کی خبر سامنے آ گئی۔ پی سی بی کی ترجمان عالیہ رشید سے اس حوالے سے بات کرنے کے لیے بارہا رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے اس تحریر کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں دیا۔ اس بارے میں پی سی بی چیئرمین ذکا اشرف سے بھی بات رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔ گذشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کوئی میچ تو نہیں کھیل رہی تھی تاہم اس دن لیے گئے فیصلے پاکستان میں کرکٹ کو درپیش مسائل کے عکاس ضرور تھے۔ اس پریس ریلیز سے بورڈ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے اور بورڈ نے بیچ ٹورنامنٹ اپنے میڈیا مینیجر کو انڈیا سے واپس کیوں بلوایا ہے؟ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ٹیم کی سلیکشن کبھی چیئرمین پی سی بی نہیں کرتا بلکہ یہ ٹیم کے کپتان اور چیف سلیکٹر کی مرضی سے چنی جاتی ہے۔‘ محمد وسیم خود بھی بطور چیف سلیکٹر پی سی بی کے لیے ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت پی سی بی کو یہ حقیقت بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس پر تو ورلڈ کپ کے بعد بھی بات ہو سکتی تھی۔‘ محمد وسیم کے مطابق اس پیغام کو غلط ہی سمجھا جائے گا اور اس کے ٹیم پر بھی اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ کرکٹ کمنٹیٹر اور تجزیہ کار آصف احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پریس ریلیز ٹورنامنٹ کے عین بیچ میں جاری نہیں ہونی چاہیے تھی اور نہ ہی میڈیا مینیجر کو یوں نکالنا چاہیے تھا۔ ان کے مطابق اس وقت پے در پے میچ ہارنے کے بعد ٹیم کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت تھی جبکہ ایسے اقدامات تو ’مورال‘ پست کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ آصف کے مطابق پریس ریلیز بتا رہی ہے کہ بورڈ میں سب اچھا نہیں چل رہا۔ ٹیم کی سلیکشن کے وقت یہ باتیں دیکھنی چاہیے تھیں کہ ٹیم میں کون کون ہونا چاہیے اور بابر کے لیے کون سی چیزیں مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔‘ ان کے مطابق اب پی سی بی نے جو نیا محاذ کھول دیا ہے اس سے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور ان کے انتخاب پر مزید غیر ضروری بحث شروع ہو جائے گی۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے میچ کے روز یعنی 20 اکتوبر کو کھیلوں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی عبدالماجد بھٹی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں چیئرمین ذکا اشرف اور سی او او سلمان نصیر کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا کہ ’پروفیشنل ازم کے اس دور میں چیئرمین ذکا اشرف اور سی او او سلمان نصیر پاکستان ٹیم کے میڈیا منیجر احسن ناگی سے میڈیا کی جان چھڑوا دیں تو پی سی بی کا سافٹ امیج بہتر ہو گا۔ ’جھوٹ اور فائیو سٹار لگژری کے مزے میں انسان اوقات بھول جاتا ہے۔‘ اس ٹویٹ کے علاوہ انڈیا میں موجود چند دیگر صحافیوں نے بھی میڈیا مینیجر پر الزامات عائد کیے تھے۔ تاہم صحافی عبدالماجد بھٹی سے جب ایک انٹرویو کے دوران صحافی وحید خان نے میڈیا مینیجر سے متعلق ان کے خدشات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے میڈیا مینیجر پر کچھ ذاتی الزامات بھی عائد کیے۔ انھوں نے مرکزی مسئلہ یہ بیان کیا کہ انھیں انٹرویو کے لیے کھلاڑی نہیں دیے جا رہے اور اس حوالے سے مساوی سلوک نہیں برتا جا رہا ہے۔ پی سی بی سے ان الزامات کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ماجد بھٹی نے بی بی سی سے بھی اس حوالے سے تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان سمیت کچھ صحافیوں نے صرف اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ جو اطلاعات جاری کی جاتی ہیں وہ سب صحافیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر شیئر کی جائیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ احسن ناگی کو ہٹائے جانے سے میڈیا کے تحفظات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ پی سی بی کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم مینیجر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’غرور اور تکبر اللہ تعالی کو پسند نہیں، بے آبرو ہو کر پرسوں لاہور روانہ ہو گا۔۔۔ شکریہ ذکا صاحب۔‘ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ انڈیا کون سا میڈیا مینیجر جائے گا، اس حوالے سے تنازع ورلڈکپ سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ صحافیوں کی جانب سے میڈیا مینیجر پر تنقید کے بعد ان کی پاکستان واپسی نے کئی سوال بھی جنم دیے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس کے علاوہ میڈیا مینیجر کے خلاف چند صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ذاتی نوعیت کی مہم بھی چلائی گئی تھی جس کے بعد دباؤ بڑھنے پر یہ انتہائی قدم اٹھایا گیا۔ خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کو صحافیوں اور قومی کھلاڑیوں کے درمیان ایک پُل کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور بورڈ کی جانب سے بیرونِ ملک دوروں پر بورڈ کے خرچے پر صحافیوں کو بھیجنے کے لیے انتظامات کیے جاتے تھے۔ تاہم احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں بورڈ کی اس پالیسی میں بھی تبدیلی آئی تھی اور پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر مواد بھی بنایا جانے لگا جس میں کھلاڑیوں کے انٹرویوز بھی شامل ہوتے تھے۔ یوں پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ اور صحافیوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا اور میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کردار متنازع ہو گیا۔ اس بارے میں وسیم خان کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کے بعد دیا گیا بیان بھی اس وقت سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’میڈیا میں کلچر موجود تھا جو گذشتہ ادوار میں پروان چڑھا۔ میری سوچ اس سے مختلف تھی، میں یہ سمجھتا تھا کہ بورڈ کے میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات ضرور ہونے چاہییں لیکن اگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں انھیں روزانہ کی بنیاد پر اندر کی خبریں دوں گا تو ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’میڈیا کو بورڈ کی جانب سے مراعات دی جا رہی تھیں، مختلف جگہوں کے دورے وغیرہ اور ایسا ادارے کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سپورٹس جرنلسٹ عبدالغفار نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کی اہم ترین میچ سے قبل پریس ریلیز کا مقصد کیا تھا؟‘ سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی کو ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز کا مطلب صاف ہے کہ اگر ٹیم سیمی فائنل میں نہ گئی تو (چیف سلیکٹر) انضمام الحق کی چھٹی ہو جائے گی، جس پر سابق کرکٹر اظہر علی نے کہا کہ کپتان اور سلیکٹر کو جب مکمل اختیار دیا گیا تھا تو احتساب بھی ان ہی کا ہونا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 کرکٹ تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز نے اس حوالے سے تبصرہ کرتا ہوئے کہا کہ پی سی بی کی پریس ریلیز میں تضادات ہیں۔ ایک طرف انھوں نے مداحوں سے ٹیم کو سپورٹ کرنے کا کہا ہے اور دوسری طرف انھوں ے بابر اعظم کا بطور کپتان مستقبل غیر یقینی بنا دیا اور بلاواسطہ طور پر ان پر اور انضمام الحق پر سلیکشن کی ذمہ داری عائد کر دی ہے اور اپنے آپ کو بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اب فرض کیا کہ اگر پاکستان ورلڈ کپ جیت جاتا ہے تو پھر بورڈ کا مؤقف کیا ہو گا۔ ان کے مطابق میڈیا مینیجر کو یوں عین ٹورنامنٹ کے درمیان گھر نہیں بھیجنا چاہیے تھے۔‘ ان کی رائے میں ’مسلسل تین میچز میں شکست کے بعد اس طرح کے اقدامات اچھے اثرات کے حامل نہیں ہوں گے۔ یہ سب گڑ بڑ کی علامتیں ہیں۔‘ منوج دمری نامی صارف نے پی سی بی کے میڈیا مینیجر کی چھٹی پر بورڈ او نام نہاد سینیئر صحافیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کی رائے میں ’سینیئر کا درجہ حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹ سے ہٹ کر اپنی بات منواتے ہیں یہی ہے برصغیر کا کلچر۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم سے بھی بری پرفارمنس پی سی بی کی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy01mn2pk3xo
بابر اعظم کے سر پر لٹکتی تلوار اور منصوبہ بندی کا فقدان جو پاکستان کی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کی وجہ بنا
’ہم معجزات پر یقین رکھتے ہیں، اور یقین سے معجزے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم ایسی صورتحال میں آنے کے بعد کامیاب ہوئے ہیں۔‘ یہ پاکستان کے نائب کپتان شاداب خان تھے جو پاکستان کے جنوبی افریقہ کے خلاف اہم میچ سے قبل میڈیا سے بات کر رہے تھے اور ایک بار پھر ایک ایسی صورتحال کا تذکرہ کر رہے تھے جس میں پاکستانی ٹیم ایک آئی سی سی ایونٹ میں پھنس چکی ہے۔ پاکستانی ٹیم کی یہ روایت خاصی پرانی ہے کہ جب وہ کسی ٹونامنٹ میں برا آغاز کرے تو پھر اچانک اسے ہوش آتا ہے اور پھر ٹیم کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کی گذشتہ تین میچوں پر نظر ڈالیں تو قومی ٹیم کی ناقص فیلڈنگ اور بولنگ اور بینچ پر بیٹھے متبادل کھلاڑیوں کو دیکھ کر ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ یہ ٹیم اس صورتحال کو تبدیل کر پائے گی۔ لیکن سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ بات یہاں تک پہنچی کیسے؟ ورلڈ کپ شروع ہونے سے لگ بھگ پانچ ماہ قبل پاکستان نے نیوزی لینڈ کو پاکستان میں کھیلی جانے والی پانچ میچوں کی ون ڈے سیریز میں 4-1 سے شکست دی تھی۔ اس سیریز میں پاکستان کے لیے سب فخر زمان نے تین لگاتار سنچریاں سکور کی تھیں اور پلیئر آف دی سیریز قرار پائے تھے جبکہ حارث رؤف، نسیم شاہ اور اسامہ میر خاص طور پر نمایاں رہے تھے۔ کپتان بابر اعظم بھی اچھی فارم میں تھے اور سیریز میں دو نصف سنچریاں اور ایک سنچری بنا چکے تھے۔ سیریز کے اختتام تک پاکستان کے تین بلے باز آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں ٹاپ فائیو میں تھے اور پاکستان ٹیم درجہ بندی میں سرِ فہرست آ چکی تھی۔ تو پھر گذشتہ پانچ ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ بظاہر ہر شعبے میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم انڈیا جا کر بولنگ اور فیلڈنگ میں خاص طور پر بری طرح ناکام دکھائی دی؟ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام ورلڈ کپ کا سال عموماً ویسے ہی اہم ہوتا ہے جیسے کسی سیاسی جماعت کے لیے الیکشن کا سال۔ اس سال کے دوران عموماً دنیا بھر کی ٹیمیں ان 15 کھلاڑیوں کے سکواڈ کو حتمی شکل دیتی ہیں جو کرکٹ کا سب سے اہم ٹورنامنٹ کھیلے گا۔ تاہم پاکستان کرکٹ کے لیے یہی ورلڈ کپ کا سال عموماً بورڈ کی سطح پر سب سے زیادہ تبدیلیوں کا سال ہوتا ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران پہلے رمیز راجہ کی جگہ نجم سیٹھی کو چیئرمین بنایا گیا اور پھر عین ورلڈ کپ سے چند ماہ قبل ذکا اشرف کو چیئرمین لگا دیا گیا۔ اسی دوران بابر اعظم کی کپتانی پر نظرِ ثانی کے بارے میں بھی تنازع بنا رہا۔ شان مسعود جنھوں نے رواں سال کے آغاز میں چار سال تک کوئی ون ڈے نہیں کھیلا تھا اچانک بطور نائب کپتان ٹیم میں شامل کر لیے گئے۔ یہی نہیں مارچ میں افغانستان کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل شاہین آفریدی کو کپتان بنانے کی بھی افواہیں گردش کیں جس کے بعد شاہین کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بابر اعظم اور رضوان کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی گئی جس سے بظاہر بابر اعظم کی حمایت کی گئی۔ نجم سیٹھی نے ایک یوٹیوب چینل پر صحافی وحید خان کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ان کے لیے اعداد و شمار بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اگر بابر اعظم اچھا پرفارم کریں گے تو انھیں کپتان برقرار رکھا جائے گا۔ ورنہ آپ سمیت دیگر صحافی ان کی کپتانی پر سوال کریں گے۔‘ بورڈ چیئرمین کی جانب سے ایسا بیان یقیناً کسی بھی کپتان پر دباؤ بڑھاتا ہے اور بابر اعظم جو پہلے ہی انگلینڈ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز ہارنے کے باعث دباؤ میں تھے نے اگلے کئی میچوں کے لیے ٹیم میں زیادہ تبدیلیاں نہ کرنے پر اکتفا کیا۔ اس کا خمیازہ پاکستان کو ورلڈ کپ سے پہلے کھلاڑیوں کے آؤٹ آف فارم ہونے اور زخمی ہونے کی بعد بھگتنا پڑا جب بینچ پر متبادل کھلاڑی موجود ہی نہیں تھے۔ تاہم اس انٹرویو میں انھوں نے ایک اہم انکشاف یہ بھی کیا تھا کہ نیوزی لینڈ سیریز سے قبل جب انھوں نے ذمہ داری سنبھالی تھی تو عبوری سلیکشن کمیٹی (جس کی سربراہی شاہد آفریدی کر رہے تھے) قومی ٹیم میں تبدیلیوں کے علاوہ کپتان کو بھی تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ اس کے بعد شاہد آفریدی کی جانب سے جاری بیان میں وضاحت کی گئی تھی کہ نجم سیٹھی کی جانب سے دیے گیے بیان میں ان کے بارے میں بات نہیں کی گئی تھی۔ اس ساری صورتحال میں نہ صرف پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کسی کو آرام نہیں دیا بلکہ افغانستان کی سیریز اور ایشیا کپ میں بھی زیادہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کے جب نسیم شاہ زخمی ہوئے تو ان کا متبادل حسن علی سامنے آئے جو ایک سال سے ٹیم کے ون ڈے پلانز میں نہیں تھے۔ اسی طرح فخر زمان کے آؤٹ آف فارم ہونے کے بعد عبداللہ شفیق کو ایشیا کپ کے آخری میچ میں چانس دیا گیا، اور سعود شکیل کو ورلڈ کپ سے پہلے بالکل بھی موقع نہیں دیا۔ یہ تینوں ہی کھلاڑی اب تک ورلڈ کپ میں قدرے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی بولنگ اور فیلڈنگ دونوں ہی بہت ناقص رہی ہیں۔ اس کی وجہ واضح طور پر پاکستانی کھلاڑیوں میں تھکاوٹ کے آثار بھی ہیں جو ایک تھکا دینے والے ایشیا کپ شیڈول اور سری لنکا میں حبس اور گرمی میں کھیلی جانے والی لنکا پریمیئر لیگ اور افغانستان کے خلاف سیریز کے باعث ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بولرز نے پہلے سری لنکا میں جولائی میں دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی جس میں نسیم شاہ اور شاہین آفریدی دونوں موجود تھے۔ اس کے بعد لنکا پریمیئر لیگ میں کپتان بابر اعظم سمیت پاکستان کے متعدد کھلاڑیوں نے شرکت کی جبکہ دیگر کھلاڑی ’دی 100‘ نامی فارمیٹ کھیلنے انگلینڈ میں موجود تھے۔ اس سے پہلے کھلاڑیوں نے امریکہ میں میجر لیگ کرکٹ نامی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ اور کینیڈا گلوبل ٹی 20 لیگ میں بھی حصہ لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کی غیر موجودگی میں بھی ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے تیاری کی بجائے ٹی 20 لیگز کھیل رہے تھے۔ یہ کانٹریکٹ ظاہر ہے کئی ماہ پہلے کیے جاتے ہیں اور یہاں اصولاً پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا جانا تھا جو نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ایشیا کپ میں پاکستان ٹیم کے تھکا دینے والے شیڈول اور سری لنکا میں ہی افغانستان سے سیریز کھیلنے نے بھی کھلاڑیوں پر مزید دباؤ بڑھایا۔ اسی طرح جب سکواڈ کی سیلیکشن کا موقع آیا تو کپتان بابر اعظم کی جانب سے انھی کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا گیا جو ایک عرصے سے ٹیم کے ساتھ موجود تھے، حالانکہ وہ حالیہ عرصے میں آؤٹ آف فارم تھے۔ سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سے اس سال 15 جولائی تک پاکستان نے صرف 27 ون ڈے کھیلے تھے، یہی وجہ تھی کہ اس بارے ٹیم کامبینیشنز کا استعمال نہیں کیا جا سکا اور توجہ ٹی ٹوئنٹی پر رہی۔ اس کے علاوہ متعدد کھلاڑی ایک ساتھ ہی آؤٹ آف فارم ہوئے ہیں جن میں سرِ فہرست پاکستان کے بولرز ہیں۔ سپنر محمد نواز اس سال اپریل تک عمدہ فارم میں تھے اور پاکستان کو مڈل اوورز میں وکٹیں لے کر دے رہے تھے۔ رواں برس اپریل سے پہلے کھیلے گئے 11 ون ڈے میچوں میں ان کی اوسط 21 کی تھی، جبکہ اس کے بعد سے کھیلے جانے والے میچوں میں ان کی اوسط 88 کی ہے۔ شاداب خان جو انجریز کا شکار رہے ہیں خود کو ون ڈے کرکٹ میں بطور بولر منوانے میں ناکام رہے ہیں اور تبھی ان کی جگہ اسامہ میر کو بیک اپ کے طور پر کھلایا گیا اور انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں اچھا پرفارم بھی کیا تاہم انھیں بعد میں ورلڈ کپ سے پہلے میچوں میں چانس نہیں دیے گئے جو سمجھ سے بالاتر تھی۔ شاہین آفریدی بھی آغاز کے میچوں میں اپنی بہترین فارم میں دکھائی نہیں دیے اور حارث رؤف بھی بہت مہنگے ثابت ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ پاکستان ورلڈ کپ کے بقیا میچوں میں بھی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرے گے یا وہ سوئچ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو پائے گا جو عموماً ایسے موقعوں پر ماضی کی پاکستانی ٹیمیں ڈھونڈ پائی ہیں اور جس کا ذکر شاداب خان کر رہے تھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c89wned9r8lo
وہ ’ایک‘ جیت پانے کی آخری مہلت: سمیع چوہدری کا کالم
’جب ہم بولنگ اچھی کرتے ہیں تو ہماری بیٹنگ اچھی نہیں رہتی اور جب ہم بیٹنگ اچھی کرتے ہیں تو فیلڈنگ اچھی نہیں کر پاتے۔‘ یہ الفاظ تھے بابر اعظم کے جو چنئی میں افغانستان کے ہاتھوں شکست کے بعد اپنے جذبات عیاں کر رہے تھے۔ بابر کے یہ الفاظ آفیشل سطح سے اگرچہ بہت دیر بعد آئے ہیں مگر پاکستانی شائقین کافی عرصے سے ان کا اظہار کچھ مختلف الفاظ میں کرتے آئے ہیں کہ جب ہم بولنگ کرتے ہیں تو پچ بیٹنگ کے لیے سازگار بن جاتی ہے اور جب ہم بیٹنگ کرنے لگتے ہیں تو پچ اچانک سے بولنگ ٹریک بن جاتی ہے۔ اگرچہ افغانستان کے خلاف میچ سے قبل ٹیم کے ہر دل عزیز ڈائریکٹر مکی آرتھر نے کہا تھا کہ فیلڈنگ پر کافی محنت کی گئی ہے اور اس میچ میں شائقین ہمارے فیلڈرز کی انرجی کا نیا لیول دیکھیں گے۔ مگر جو شائقین کے مشاہدے کو ملا، وہ انرجی کی کمی کا کوئی نیا لیول تھا۔ بابر اعظم کہتے ہیں کہ فیلڈنگ ایک رویے کا نام ہے اور ٹیم فی الحال اس رویے سے خالی نظر آ رہی ہے۔ جو جو باتیں بابر اعظم نے اس تاریخی شکست کے بعد پریس کانفرنس میں کہیں، وہ کوئی انکشاف نہیں تھیں بلکہ کوئی بھی مبصر باریک بینی سے پاکستان کی کارکردگی جانچنے کے بعد بتا ہی سکتا تھا۔ بابر سے متوقع یہ تھا کہ وہ اس شکست کی وجوہات سے پردہ اٹھاتے۔ یہ تو ناظرین بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی سپنرز اچھی بولنگ نہیں کر رہے اور دباؤ پیدا نہ کرنے کے سبب وکٹوں سے بھی محروم رہے ہیں۔ سو، بابر اعظم کی جانب سے یہ اعتراف بہرحال ایک خوشگوار حیرت تھا ورنہ کچھ روز پہلے تک تو وہ یہی کہہ رہے تھے کہ شاداب خان بولنگ بہت عمدہ کر رہے ہیں مگر وکٹوں کے معاملے میں شومئی قسمت کا شکار ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی بابر کی وہ پریس کانفرنس اس لحاظ سے خوش کن تھی کہ بالآخر انھوں نے ان کوتاہیوں کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے جنھیں اب تک وہ بدقسمتی کا لبادہ پہناتے چلے آ رہے تھے اور تواتر سے یہی امید بندھاتے آ رہے تھے کہ وننگ ٹریک پر چڑھنے سے وہ فقط ایک جیت کی دوری پر ہیں۔ مگر اب وہ ایک جیت پانے کو مہلت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی کے لیے اپنے باقی ماندہ سبھی میچز نہ صرف جیتنا ضروری ہیں بلکہ نیٹ رن ریٹ میں بھی بہتری لانا اشد ضروری ہے۔ اور پھر یہ کہ ان باقی ماندہ مقابلوں میں محض ایک بنگلہ دیش کے سوا کوئی بھی حریف آسان نہیں ہے۔ اگرچہ ورلڈ کپ مقابلوں میں جنوبی افریقہ بارہا پاکستان کے ہاتھوں ڈھیر ہو چکی ہے اور گذشتہ چند آئی سی سی ایونٹس میں تو متواتر یہ ٹیم پاکستان کو زیر کرنے کی سعادت سے محروم رہی ہے۔ مگر چنئی میں جس جنوبی افریقہ کا سامنا بابر اعظم کو کرنا ہے، وہ حیرت انگیز فارم میں ہے۔ کوئنٹن ڈی کوک رنز کے انبار لگائے چلے جا رہے ہیں۔ مارکرم اور کلاسن مصدقہ میچ ونرز ہیں۔ ڈیوڈ ملر کسی بھی ممکنہ بحرانی صورتحال کا تدارک ہو سکتے ہیں اور پھر جنوبی افریقی پیس اٹیک انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے برج گرانے کے بعد اعتماد سے مالا مال ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ سپن ڈیپارٹمنٹ سے ہی پاکستان کو کوئی سکھ کا سانس مل سکے۔ کیشو مہاراج بھی بھرپور ڈسپلن کے ساتھ جلوہ گر رہے ہیں اور چنئی میں غالبا تبریز شمسی بھی ان کے ہمرکاب ہو کر پاکستانی مڈل آرڈر کا امتحاں لینے کو موجود ہوں گے۔ پاکستان کے لیے امید کی کرن بہرحال یہ ہے کہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود ٹیمبا باوومہ کی یہ ٹیم نیدرلینڈز کے ہاتھوں اپ سیٹ ہو ہی گئی تھی جہاں ڈچ بولنگ اور سکاٹ ایڈورڈز کی پُرمغز جارحیت نے انھیں لاجواب کر چھوڑا تھا۔ پاکستان کرکٹ کی بھی دیرینہ خوبی یہی رہی ہے کہ یہ کبھی بھی، کسی کو بھی حیران کر سکتی ہے۔ اور جس طرح کا بحران فی الوقت بابر کو درپیش ہے، اس سے زیادہ بہتر موقع بھی شاید میسر نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان اٹھ کھڑا ہو اور اپنے بہترین کھیل کے اظہار سے سب خدشات کو رفع کر دے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gl0zdz8m2o
کیا پاکستان ٹیم کی کارکردگی کے ذمہ دار صرف کپتان بابر اعظم ہیں؟
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب وراٹ کوہلی نے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی کہ حالیہ دور میں پاکستانی کپتان بابر اعظم شاید کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں بہترین بلے باز ہیں۔ کوہلی ایسے کھلاڑی نہیں ہیں جو محض کچھ کہنے کی خاطر اس طرح کے بیانات دیتے ہیں۔ خاص طور پر جب ہم ایک ایسے کھلاڑی کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کے ساتھ ان کا اکثر موازنہ کیا جاتا رہا ہے۔ ویسے تو کوہلی کوہلی ہیں لیکن بابر اعظم کئی اپنی حالیہ فارم کے باوجود آئی سی سی رینکنگ میں دنیا کے نمبر ون بلے باز ہیں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ شائقین اور ماہرین کی دلیل یہ ہے کہ اگر کپتان ورلڈ کپ کے اہم میچوں میں بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے تو باقی دلائل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ دراصل ٹیم انڈیا سے ہارنے کے بعد بابر کی کپتانی اور ان کی بلے بازی دونوں پر ہی سوال اٹھنے لگے۔ لیکن افغانستان کیخلاف شکست کے بعد بابر پر ہر طرف سے ہی حملے شروع ہو گئے۔ پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے بابر اعظم کا موازنہ کوہلی کے اس دور کپتانی سے کیا جب ان پر ڈریسنگ روم میں کسی کی بات نہ سننے کا الزام لگتا تھا تو سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید نے کہا کہ بابر سے بہتر کپتان شاہین شاہ آفریدی ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا سمیت ٹی وی شو میں بھی کپتان کو بدلنے کی بحث عروج پر ہے حالانکہ ابھی کرکٹ ورلڈ کپ جاری ہے۔ برصغیر کے کرکٹ کلچر سے واقف لوگ بابر اعظم کیخلاف اس طرح کے شدید ردعمل سے حیران نہیں ہوں گے کیونکہ شکست کے وقت کپتان کو گرانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ کسی کو پرواہ نہیں ہوتی کہ کپتان کے پاس کیسی ٹیم ہے۔ کرکٹ میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ کوئی بھی کپتان اتنا ہی اچھا ہوتا ہے جتنے اس کی ٹیم میں شامل کھلاڑی ہوتے ہیں۔ آج ہر کوئی انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کی بلے بازی اور کپتانی کی تعریف کر رہا ہے لیکن ٹھیک ایک سال پہلے ہر کوئی روہت اور سابق کپتان اور موجودہ کوچ راہول ڈریوڈ کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد یہ ناکامی کا وقت تھا۔ لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ جسپریت بمراہ اس ٹیم میں نہیں تھے، جن ک وجہ سے انڈیا کا باولنگ اٹیک کافی مضبوط ہو جاتا ہے اور کپتان کے ترکش میں تیروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ آج بمراہ، محمد شامی اور محمد سراج بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، رویندرا جدیجا آل راؤنڈر کے طور پر کارکردگی دکھا رہے ہیں اور وراٹ کوہلی نے اپنی فارم دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ اس لیے اگر ہاردک پانڈیا کے زخمی ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی کو اس طرح محسوس نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر سوریہ کمار یادو، شبمن گل، شریاس آئیر، شاردول ٹھاکر اور ایشون نے بہت عمدہ کارکردگی نہیں دکھائی تب بھی ٹیم پریشان نہیں ہے۔ بابر اعظم کی ٹیم کو دیکھیں تو اگر ہم آسٹریلیا کے خلاف اننگز میں شاہین شاہ آفریدی کی پانچ وکٹوں کو چھوڑ دیں تو وہ انڈیا اور یہاں تک کہ افغانستان کے خلاف بھی بہت متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کو چھوڑ کر کسی دوسرے بلے باز نے اتنے رنز نہیں بنائے کہ اسے پلیئنگ الیون میں شمولیت کے لیے مضبوط امیدوار سمجھا جائے۔ لیکن، بابر کو اس شعبے میں زیادہ بڑے مسائل کا سامنا ہے جو پاکستانی کرکٹ کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے۔ پاکستانی باؤلنگ اٹیک کی کارکردگی دیکھ کر سابق کپتان اور تیز گیند باز وسیم اکرم اور وقار یونس بھی مایوس نظر آئے ہیں۔ آفریدی نے اب تک 10 وکٹیں تو حاصل کی ہیں، لیکن ان کا اکانومی ریٹ تقریباً چھ رنز فی اوور ہے۔ ادھر انڈیا کی جانب سے جسپریت بمراہ نے 12 وکٹیں حاصل کی ہیں لیکن ان کا اکانومی ریٹ چار سے بھی کم ہے۔ حسن علی اور حارث رؤف کے پاس بھی آٹھ، آٹھ وکٹیں ہیں، لیکن ان کا اکانومی ریٹ بھی اچھا نہیں ہے۔ سپنر کے نام پر پاکستان کے پاس شاداب خان اور محمد نواز جیسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اب تک صرف دو وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کا اکانومی ریٹ بھی بہت مہنگا ہے۔ افتخار احمد اور اسامہ میر کو زیر بحث لانا بھی مناسب نہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی ٹیم اور کارکردگی کے ہوتے ہوئے پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے؟ اور اسی لیے سابق کپتان اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف نے بابر کا دفاع کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسی شکستوں کے لیے اکیلے بابر کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان صرف بابر کی وجہ سے نہیں ہارا اور ایسی صورتحال میں وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بابر کے کھیل میں کوئی خامیاں نہیں ہیں یا ان کی کپتانی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان کے پاس صرف بابر ہی ہے جو دنیا کے سامنے ایک ورلڈ کلاس بلے باز کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اسی سال، بابر ون ڈے کرکٹ کی تاریخ میں تیز ترین 5000 رنز بنانے والے بلے باز بنے، اور انھوں نے ہاشم آملہ اور ویو رچرڈز جیسے عظیم بلے بازوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کوہلی اور روہت شرما جیسے کھلاڑی بھی حالیہ برسوں میں ان کی نمبر ون رینکنگ کو چیلنج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چند ماہ قبل تک بابر ٹی ٹوئنٹی میں ٹاپ 5 اور ٹیسٹ میں بھی ٹاپ 5 میں تھے۔ انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد بابر واحد پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے اپنے بلے کے بل بوتے پر دنیا میں شہرت حاصل کی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کرکٹ انھیں وہ عزت نہیں دے رہی جس کے وہ حقدار ہیں۔ شاید ورلڈ کپ کے بقیہ میچوں میں پاکستان کی معجزانہ فتح ان کے داغدار امیج کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckre8p8mx57o
’کرکٹ کہیں ایک قبیلے کا کھیل نہ بن جائے‘: سمیع چوہدری کا کالم
لیجنڈری روسی ادیب لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ خواہشات پیدا کرنے کی خواہش کا نام بوریت ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ فی الوقت ٹالسٹائی کے اس جملے کی عملی تصویر نظر آ رہا ہے۔ ایسے عالمی مقابلوں میں چاشنی صرف غیر متوقع نتائج اور سنسنی خیز اختتامی لمحات سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ گو تین ہفتوں میں تین اپ سیٹ تو ہو ہی گئے مگر سنسنی وہ جنسِ نایاب ہے کہ فی الحال یہ ورلڈ کپ پیدا کرنے سے معذور نظر آتا ہے۔ ٹورنامنٹ کے تین ہفتے مکمل ہو چکے ہیں اور تین اپ سیٹ میچز کے سوا باقی تمام نتائج نہ صرف حسبِ توقع بلکہ خاصی حد تک یکطرفہ بھی رہے ہیں۔ یہ نتائج جنریشن زی کے اس دعوے کو مزید تقویت دینے کا باعث ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کے ساون میں ون ڈے کرکٹ خزاں کی سی بوریت کے سوا کچھ نہیں۔ چار سال قبل انگلینڈ میں کھیلے گئے ون ڈے ورلڈ کپ میں گیند اور بلے کے مابین توازن کا معیار خاصا بہتر تھا اور ابتدائی مراحل میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں پاکستان اور سری لنکا کے ہاتھوں انگلینڈ کی شکست نے آخر تک پوائنٹس ٹیبل میں ارتعاش پیدا کیے رکھا تھا۔ مگر انڈین پچز میں گیند اور بلے کے درمیان توازن بھی ویسا نہیں ہے اور چار برس گزرنے کے بعد ٹیموں کے مسابقتی معیار میں تفاوت بھی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ تین اپ سیٹ نتائج ملنے کے باوجود ابھی تک کوئی ایک میچ سنسنی خیز کہلانے کے قابل نہیں رہا۔ کوئی ایک مقابلہ بھی ایسا نہیں ہو پایا جو آخری گیند تک توازن سے چل پایا ہو اور یہ سوال اب بلا جواز نہیں کہ چار برس بعد، کیا شائقین اس فارمیٹ کے ایک اور ورلڈ کپ کے متحمل ہو سکیں گے؟ جزوی طور پہ اس بوریت کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی افراط سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے کہ اکثر کھلاڑیوں کے ٹیمپرامنٹ ایک روزہ کھیل کی مشقت جھیلنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور 50 اوورز تک اپنی توانائیاں جواں رکھنے کے قابل نہیں۔ اور پھر کسی حد تک ان یکطرفہ مقابلوں کو ورلڈ کرکٹ کی مارکیٹ اکانومی سے بھی مشروط کہا جا سکتا ہے۔ انگلینڈ اگرچہ انجریز، سلیکشن کی ہول سیل تبدیلیوں اور جاس بٹلر کی متوسط قائدانہ صلاحیتوں کے سبب ابھی تک اپنے ٹائٹل کے دفاع سے قاصر دکھائی دے رہا ہے مگر انڈیا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے نتائج یہ واضح بتا رہے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی سبقت انہی ٹیموں کی ہے جن کے بورڈز کی جیبیں بھری ہوئی ہیں۔ آئی سی سی کا مالیاتی تقسیم کار ماڈل چونکہ ٹی وی ریٹنگز اور ریونیو کو مدِ نظر رکھ کر اپنی ترجیحات وضع کرتا ہے، سو ہر گزرتے ون ڈے ورلڈ کپ کے ساتھ سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کی کارکردگی میں گراوٹ آتی جا رہی ہے جبکہ انڈیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے نتائج سال بہ سال بہتر سے بہترین ہوئے چلے جاتے ہیں۔ معیارات میں تفاوت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ باقی ماندہ دو درجن مقابلوں کی پیش گوئی کرنے کو زیادہ دماغ لڑانے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ شیڈول پر انگلی رکھ کر ابھی سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کون سا میچ کس کے نام ہو گا اور کتنے مارجن سے ہو سکے گا۔ جنوبی افریقہ واحد ایسی ٹیم ابھری ہے جو مالیاتی اعتبار سے بگ تھری کے ہم پلہ نہیں ہے اور پنڈتوں کی پیش گوئیوں میں بھی سیمی فائنل کی دوڑ کے قریب نہیں تھی مگر تباہ کن بیٹنگ اور ناقابلِ تسخیر بولنگ اٹیک کے طفیل حتمی چار کی دوڑ میں نئی فیورٹ بن چکی ہے۔ مگر اس کے علاوہ اب تک کے سبھی نتائج یہ واضح کر رہے ہیں کہ کھیل کے فروغ بارے آئی سی سی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کرکٹ اب ایک قبیلے کا کھیل بنتا جا رہا ہے اور یہی رجحان جاری رہا تو یہ قبیلہ بھی آہستہ آہستہ مزید سکڑ کر صرف دو تین ٹیموں تک محدود ہو جانے کا خدشہ ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9dekky62yo
اجے جدیجا: میچ فکسنگ الزامات پر پابندی کا سامنا کرنے والے سابق انڈین کپتان جنھوں نے افغان ٹیم کو ’فتح کے گُر‘ سکھائے
کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی تو ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا جس میں انڈین کرکٹر اجے جدیجا سے سوال کیا جاتا ہے کہ افغانستان کی ٹیم بڑی ٹیموں کو کیوں نہیں گرا پاتی تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’تبھی تو آپ کہہ رہے ہو کہ افغانستان چھوٹی ٹیم ہے، جس دن گرا دیں گے اس دن یہ بڑی ٹیم ہو جائے گی۔‘ افغانستان کی ٹیم اس ورلڈ کپ میں اب تک دو بڑی ٹیموں کو ’گرا‘ چکی ہے۔ 15 اکتوبر کو دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو 69 رنز سے شکست دینے کے ’سنسنی خیز کرشمے‘ کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ اسی ٹیم نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے دی۔ سنہ 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کچھ عرصہ پہلے تک ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر تھی۔ پاکستان کی اس ٹیم میں نمبر ون سے لے کر نمبر 11 تک سٹار کھلاڑی موجود ہیں اور سات سال بعد انڈین سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ناصرف اس ٹیم کی کارکردگی بلکہ استقبالیہ اور لنچ ڈنر میں پیش کیے جانے والے پکوانوں کے چرچے ہونے لگے تھے۔ دوسری جانب افغانستان کو 14 اکتوبر تک ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ایک ایسی ٹیم تصور کیا جا رہا تھا جس کے خلاف ہر حریف کی فتح یقینی تصور کی جا رہی تھی۔ انگلینڈ کے خلاف افغانستان کے کارنامے کو ’اپ سیٹ‘ کہنے والے تمام ماہرین پاکستان کے خلاف فتح کے ساتھ ہی کپتان حشمت اللہ شاہدی کی ٹیم کے گن گانے لگے اور یوں افغانستان کی جیت صرف ایک اپ سیٹ نہیں رہی۔ پاکستان کے خلاف میچ میں بولنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ میں افغانستان کی ٹیم بابر اعظم کی پاکستانی ٹیم سے میلوں آگے تھی۔ اس جیت کی گونج چنئی سے لے کر دلی، اسلام آباد اور کابل تک سنائی دی اور اسی دوران اجے جدیجا کا نام لیا گیا جو بہت پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ افغانستان بھی ایک بڑی ٹیم ہے۔ اجے جدیجا کا کرکٹ کرئیر ایک تنازعہ کے بعد بے وقت ختم ہو گیا تھا لیکن اب انھیں افغانستان کی ٹیم کو ایک نئی پہچان دینے کا سہرا دیا جا رہا ہے۔ تاہم اجے جدیجا کا نام انڈین کرکٹ میں انجانا نہیں ہے۔ اجے جدیجا، جنھوں نے 1992 میں انڈین ٹیم کے لیے اپنا پہلا ون ڈے کھیلا تھا، سنہ 2000 تک ٹیم انڈیا کا باقاعدہ چہرہ تھے لیکن اس وقت وہ افغانستان ٹیم کے مینٹور ہیں۔ گذشتہ تین میچوں میں افغانستان کی ٹیم کی دوسری جیت کے بعد انڈین کرکٹ سپر سٹار سچن تندولکر نے بھی سوشل پلیٹ فارم X پر جدیجہ کی تعریف کی۔ سچن تندولکر نے لکھا کہ ’اس ورلڈ کپ میں افغانستان کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ بیٹنگ میں ان کا نظم و ضبط، انھوں نے جو رویہ دکھایا، جس طرح سے وہ وکٹوں کے درمیان رنز بنانے کے لیے تیز دوڑتے ہیں وہ ان کی محنت کی عکاسی کرتے ہیں۔ شاید یہ سب مسٹر اجے جدیجا کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہوا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام جدیجا تقریباً آٹھ سال تک انڈین ون ڈے ٹیم کے باقاعدہ رکن رہے۔ سنہ 1992 اور 2000 کے درمیان، جدیجہ نے صرف 15 ٹیسٹ میچ کھیلے لیکن اس عرصے کے دوران، وہ 196 ون ڈے میچوں میں پلیئنگ الیون کا حصہ رہے۔ اجے جدیجا جو میدان پر ہمیشہ مسکراتے نظر آتے تھے، اپنی چستی اور کھیل کی وجہ سے انڈین ٹیم کے مقبول کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ مداحوں کے لیے وہ ’مسٹر چارمنگ‘ تھے۔ تب یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ’بہت سے شائقین صرف ان کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔‘ اپنی بے مثال بلے بازی کے بل بوتے پر انھوں نے کئی میچوں کا رخ بدلا۔ جدیجا نے 41 میچوں میں بطور اوپنر کھیلا لیکن وہ زیادہ تر مڈل آرڈر بلے باز رہے۔ یوراج سنگھ، مہندر سنگھ دھونی اور وراٹ کوہلی کا دور شروع ہونے سے بہت پہلے اجے جدیجا کو ٹیم انڈیا کا ’چیس ماسٹر‘ اور ’بہترین فنشر‘ کہا جاتا تھا۔ افغانستان کی پاکستان کے خلاف فتح کے بعد سنہ 1996 کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل کی ایک ویڈیو فوٹیج بھی وائرل ہوئی جس میں اجے جدیجا پاکستان کے سپیڈ سٹار وقار یونس کی گیند پر چھکا مارتے نظر آ رہے ہیں۔ اس میچ میں جدیجا نے صرف 25 گیندوں میں 45 رنز بنائے تھے۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی آمد سے قبل کھیلی جانے والی اس اننگز کو ’گیم چینجر‘ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی تماشائی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اجے جدیجا نے ون ڈے میں چھ سنچریاں اور 30 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ اجے جدیجا ایک مفید میڈیم پیسر تھے جنھوں نے ون ڈے میں 20 وکٹیں حاصل کیں۔ میدان میں اپنی فیلڈنگ کے بل بوتے پر بھی انھوں نے کئی میچوں کا رخ انڈیا کے حق میں موڑ دیا۔ ان میں ایک اچھے کپتان کی جھلک بھی نظر آئی۔ اجے جدیجا نے 13 میچوں میں انڈین ون ڈے ٹیم کی کپتانی کی اور آٹھ میں فتح حاصل کی۔ ان کا کریئر تیزی سے بلندیوں کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن میچ فکسنگ کے الزامات کی وجہ سے دسمبر 2000 میں ان پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی اور ان کا بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ تاہم ڈویژن بنچ نے انھیں بعد میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی۔ وہ دلی کی ٹیم میں واپس آئے اور کپتان بن گئے۔ سال 2005 میں انھوں نے راجستھان ٹیم کے کپتان اور کوچ کا دوہرا کردار ادا کیا۔ کرکٹ چھوڑنے کے بعد وہ بطور کوچ اور کمنٹیٹر کرکٹ سے وابستہ رہے۔ افغانستان ٹیم کے مینٹور کے طور پر اجے جدیجا نے اس ٹیم کی سوچ بدل دی ہے۔ ٹیم پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اجے جدیجا نے اس ٹیم کو ’جیت کا گر‘ سکھایا ہے۔ اجے جدیجا کا دعویٰ ہے کہ اب یہ ٹیم کسی مخالف سے خوف زدہ نہیں ہے۔ جدیجا کا ماننا ہے کہ ’افغان کھلاڑیوں کی سب سے بڑی خاصیت بے خوفی ہے۔ وہ کسی بھی ٹیم کو سخت مقابلہ دے سکتے ہیں۔‘ پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف نے ایک پروگرام میں بتایا کہ یہ عہدہ لینے سے پہلے اجے جدیجہ نے انھیں کال کی اور پوچھا کہ کیا انھیں افغان ٹیم کے مینٹور کے طور پر کام کرنے کے لیے حامی بھرنی چاہیے۔ اس پر راشد لطیف کے بقول انھوں نے کہا کہ ’ضرور، آپ اس صورتحال میں افغان ٹیم سے بہت کچھ سیکھیں گے۔‘ پاکستان کے سابق کپتان شعیب ملک نے اجے جدیجا کو کھیلتے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ بطور تبصرہ نگار بھی کام کر چکے ہیں۔ شعیب ملک کا خیال ہے کہ افغانستان کی ٹیم میں تبدیلی کا زیادہ تر کریڈٹ جدیجا کو دینا چاہیے۔ افغانستان کی پاکستان کے خلاف جیت کے بعد شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ’میں نے اجے جدیجا کے ساتھ 2015 ورلڈ کپ کے دوران ایک چینل کے لیے کام کیا ہے۔ کرکٹ کے بارے میں ان کی سمجھ بہت اچھی ہے۔ ’اگر آپ کے ارد گرد صحیح لوگ ہوں تو اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔‘ پاکستان اور انگلینڈ سمیت پوری دنیا سمجھ چکی ہے کہ یہ کتنا بڑا فرق ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv20zerpjp2o
ابراہیم زدران کا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق بیان: پاکستان، افغانستان کرکٹ میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟
افغانستان سے گذشتہ روز ایک بڑی شکست کے بعد جہاں پاکستان میں سوشل میڈیا پر ٹیم کی ناقص فیلڈنگ، بولنگ اور بابر اعظم کی کپتانی زیرِ بحث ہیں وہیں ابراہیم زدران کے پلیئر آف دی میچ ایوارڈ ملنے کے موقع پر دیے گئے بیان پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ ابراہیم زدران نے یہ ایوارڈ ان افغان پناہ گزینوں کے نام کیا ’جنھیں پاکستان سے واپس افغانسان بھیجا جا رہا ہے۔‘ زدران نے گذشتہ روز 87 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور ان کی اننگز نے پاکستان کے خلاف افغانستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ورلڈ کپ کا یہ میچ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب پاکستان کی جانب سے ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ پاکستان میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی صورتحال اور یہاں تک کہ معاشی بحران، خصوصاً ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ کی مبینہ ذمہ داری افغانستان پر آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ افغان شہری رہتے ہیں اور گذشتہ جمعے کو پاکستان کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اب تک 52 ہزار افغان مرد، خواتین اور بچے واپس جا چکے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ ایک ایسا ’ٹاکرا‘ بن گیا ہے جو ایک ایسی سنسنی خیز ایکشن فلم جیسا بن چکا ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ دلچسپ ہوتی جا رہی ہے اور وقت کے ساتھ اس نے سیاسی حیثیت بھی اختیار کر لی ہے۔ ان میچوں سے پہلے عموماً پاکستانی مداحوں کی بے چینی عیاں ہوتی ہے، یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آئی سی سی کی درجہ بندیاں اور اعداد و شمار کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتے۔ جیسے یہ کہ پاکستان ون ڈے رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے اور افغانستان نویں اور یہ کہ پاکستان کو افغانستان نے کل سے پہلے ون ڈے کرکٹ میں کبھی شکست نہیں دی تھی۔ سنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کا گروپ میچ ہو، سنہ 2022 کے ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کا میچ یا سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا گروپ میچ سب ہی میں معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ شکست یقینی نظر آ رہی تھی۔ تاہم کل ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان نے پاکستان کو ون ڈے کرکٹ میں پہلی بار شکست دی تو جہاں افغان ٹیم کی سوشل میڈیا پر تعریف کی جانے لگی اور مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا وہیں ابراہیم زدران کا یہ بیان بھی گردش کرنے لگا۔ خیال رہے کہ پاکستان افغانستان میچ ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل اس وقت زیرِ بحث آیا تھا جب پی سی بی کی جانب سے اس کے شیڈول میں تبدیلی کی غیر معمولی درخواست کی گئی تھی۔ یہ میچ گراؤنڈ کے اندر ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ اس سے باہر ہونے والے جھگڑوں اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کے باعث بھی خاصا بدنام ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ابراہیم زدران کا حق تھا کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کے بارے میں بات کریں تاہم کچھ لوگوں کے خیال میں انھیں میدان میں جا کر ایک سیاسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس تحریر میں ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان سے رینکنگ میں کئی درجہ نیچے موجود افغانستان کی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟ جون میں جب آئی سی سی کی جانب سے ورلڈ کپ کے شیڈول کا اعلان کیا گیا تو اس سے چند روز پہلے کرکٹ پر تجزیے اور تبصرے کرنے والی ویب سائٹ کرک انفو پر شائع ہونے والی تحریر میں پاکستان کے شیڈول کے حوالے سے بڑے انکشاف کیے گئے تھے۔ اس تحریر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے آئی سی سی سے آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف میچوں کے شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی گئی تھی جس کے باعث وہ دونوں میچوں میں ’فیورٹ‘ بن جائے گا۔ پی سی بی اور آئی سی سی کی اس لیکڈ بات چیت سے عام تاثر یہ ملا کہ پاکستان چنئی میں افغانستان سے اس لیے کھیلنے سے خائف ہے کیونکہ چنئی کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور افغان سپنرز جو کہ آئی پی ایل کے دوران بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں افغانستان نے شارجہ میں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کو 2-1 سے شکست دی تھی۔ ان میچوں کے دوران یوں تو پاکستان نے اپنے سینیئر کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا تھا لیکن سپنرز کو مدد دینے والی ان کنڈیشنز میں افغان بولرز نمایاں طور پر حاوی نظر آئے تھے۔ اس حوالے سے پی سی بی کے اس وقت کے ترجمان سمیع الحسن برنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آئی سی سی کی جانب سے شیڈول جاری کرنے سے پہلے کرکٹ بورڈز کو بھیجا جاتا ہے اور تمام بورڈز اس پر اپنی آرا سے آگاہ کرتے ہیں اور عموماً آئی سی سی صرف سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہی شیڈول یا گراؤنڈ میں تبدیلی کرتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہماری آئی سی سی سے اس بارے میں ہونے والی گفتگو لیک ہو گئی جس کے باعث ایک غلط تاثر گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘ 80 کی دہائی کے اواخر میں جب افغانستان اس وقت کی دو سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ کا میدان بنا تو اس دوران اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان سے 30 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین پاکستان منتقل ہوئے۔ افغان کرکٹ کی تاریخ لکھنے والے اکثر افراد کے مطابق افغانستان میں کرکٹ کی بینیاد انھی پناہ گزین کیمپوں میں رکھی گئی تھی۔ وقت کے ساتھ جب افغانستان میں کرکٹ کا ڈھانچا بہتر ہونے لگا تو پاکستان سے متعدد کوچز نے افغان ٹیم کی کوچنگ کی جن میں کبیر خان اور انضمام الحق شامل ہیں۔ تاہم پھر کچھ بی سی سی آئی اور انڈیا کی افغان کرکٹ میں گہری دلچسپی تھی اور کچھ 31 مئی 2017 کا کابل دھماکہ تھا جس نے پاکستان اور افغانستان کے بورڈز کے تعلقات ہمیشہ کے لیے بدل دیے تھے۔ اس دھماکے نے کیسے دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کے رشتے کو متاثر کیا، مزید تفصیلات کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری کے اس کالم میں جس کا ایک اقتباس کچھ یوں ہے کہ: ’یہ تو آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ کابل دھماکے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ جیسے ممبئی حملوں نے پاکستان انڈیا تعلقات کی سمت بدل دی تھی، ویسے ہی کابل دھماکے نے بھی پاک افغان کرکٹ تعلقات کا رخ موڑ دیا اور ہمہ وقت پی سی بی کے احسانات کا دم بھرنے والی افغان کرکٹ دوطرفہ رقابت کی اس سطح پہ آن پہنچی جہاں پہنچتے پہنچتے پاکستان انڈیا کرکٹ کو دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔‘ دونوں ٹیمیں اس کے بعد جب سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں آمنے سامنے آئیں تو میچ ہارنے کے بعد تماشائیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر خاصی وائرل ہوئیں اور آئی سی سی کی جانب سے اس کا نوٹس بھی لیا گیا۔ اس کے بعد سے اب جب بھی افغانستان اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو صورتحال گراؤنڈ یا گراؤنڈ سے باہر کشیدہ رہنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر افغانستان کی انڈیا سے شکست کے بعد پاکستان میں چلنے والے ٹرینڈز میں افغان کھلاڑیوں کو مختلف القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ایسا ہی سنہ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا۔ اس سے چند ہی ماہ قبل افغانستان میں طالبان دوبارہ کنٹرول سنبھال چکے تھے اور پاکستان کے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو کابل میں اسی دوران دورہ کرتے دیکھا گیا تھا۔ طالبان کے ملک پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہزاروں افغان شہریوں کو ملک چھوڑنا پڑا تھا اور اس ساری صورتحال میں پاکستان کے کردار پر طالبان مخالف افراد کی جانب سے خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ صحافی اور مصنف محمد حنیف نے اس دوران بی بی سی اردو کے لیے لکھے گئے کالم ’ہمارے نمک حرام بھائی‘ میں سوال کیا تھا کہ ’۔۔۔اب ہم کیا چاہتے ہیں؟ کہ افغانستان انڈیا کو بھی شکست دے۔ پہلے مجاہدین سے یہ امید تھی کہ وہ طالبان سے اپنا ملک آزاد کروانے کے بعد ہمیں کشمیر آزاد کروا کر دیں گے۔‘ تاہم کرکٹ کے میدان پر صورتحال نے سنہ 2022 میں اس وقت طول پکڑا تھا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے دوران آصف علی اور افغان بولر فرید احمد کے درمیان بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تھی۔ اس میچ میں افغانستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 129 رنز بنائے تھے جواب میں پاکستان کے 119 رنز پر نو کھلاڑی 19ویں اوور کے اختتام پر پویلین لوٹ گئے تھے۔ نویں وکٹ آصف علی کی ہی گری تھی اور انھیں آؤٹ کرنے کے بعد فرید احمد نے جب جشن منایا تو بات تلخ کلامی سے ہاتھ پائی تک پہنچی۔ اس کے بعد نسیم شاہ کی جانب سے دو یادگار چھکے مارے گئے اور پاکستان یہ میچ آخری اوور میں ایک وکٹ سے جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس میچ کے بعد بھی شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں افغان تماشائیوں کی جانب سے کرسیاں پھینکنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد شارجہ میں انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کی گئی تھی۔ یہی صورتحال حالیہ پاکستان افغانستان سیریز کے دوسرے ون ڈے میں بھی دیکھنے کو ملی تھی جب پاکستان کو آخری اوور میں 10 رنز درکار تھے اور شاداب خان کو نان سٹرائکر اینڈ پر فضل الحق فاروقی کی جانب سے رن آؤٹ کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں ایک مرتبہ پھر نسیم شاہ نے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا تھا۔ تاہم گذشتہ روز پاکستان کے پاس نسیم شاہ کی خدمات بھی موجود نہیں تھیں کیونکہ وہ ایشیا کپ میں انجری کا شکار ہونے کے باعث ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے تھے۔ تاہم جو بھی ہو، پاکستان اور افغانستان کے درمیان آنے والے سالوں میں مقابلے ہمیشہ کی طرح دلچسپ رہیں گے اور ان پر گراؤنڈ میں ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ سے باہر ہونے والے واقعات بھی اثرانداز ہوتے رہیں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g32e23gwdo
یہ کپتانی اسی ہار کی حقدار تھی: سمیع چوہدری کا کالم
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں (غالب) لگتا نہیں کہ یہ کوئی کرکٹ کا میدان ہے۔ یہ شاید کسی تھیٹر کا منظر ہے۔ بابر اعظم چِلا رہے ہیں۔ رضوان مڈ آف سے الجھ رہے ہیں۔ شاداب کے ہاتھ سر پہ ہیں اور وہ ایکسٹرا کور باؤنڈری کو منھ کیے، جھنجلا رہے ہیں۔ جوں جوں میچ اپنے انجام کی طرف بڑھا، پاکستان کا غصہ غم میں بدلنے لگا، جوش حسرتِ ناکام میں ڈھلتا گیا اور دھیرے دھیرے، جھنجلاہٹ نے بھی مایوسی کی چادر اوڑھ لی۔ بابر اعظم کی نگاہیں جھکتی چلی گئیں اور محمد رضوان کا چہرہ بار بار سیاہ دستانوں کی اوٹ میں چھپنے لگا۔ افغان بیٹنگ پاکستانی فیلڈرز پہ وحشت ڈھا رہی تھی اور میچ کے اختتامی لمحات کی جانب جب مڈ آف پہ کھڑے کپتان بابر اعظم کیمرے کے کلوز شاٹ کی زینت بنے تو ان کی آنکھیں کسی کرب آلود نمی سے گویا چھلکنے کو تھیں۔ کامیاب کپتان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلے وہ جنھیں قسمت کی یاوری سے بولنگ اٹیک ہی ایسا نصیب ہو جائے کہ کبھی ذہن پہ زور ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسری وہ قسم ہوتی ہے کہ بولرز کتنے ہی بے سروسامان کیوں نہ ہو جائیں، ان کے دماغ چھوٹے چھوٹے لمحات کو یوں مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ پھر میچ پھسل نہیں پاتا۔ بابر اعظم کو جب تک پہلی قسم کا سکون دستیاب رہے، ان کی ٹیم کا عزم بھی جواں رہتا ہے اور فتوحات بھی نصیب ہوتی رہتی ہیں۔ مگر جونہی معاملہ ذرا سی کروٹ لے، وہ جھنجلانے، چِلانے اور مایوسی میں سر نیہوڑانے کے سوا کچھ بھی کرنے پہ قادر نظر نہیں آتے۔ چنئی کی یہ پچ سپن کے لیے سازگار تھی اور افغانستان نے چار سپنرز منتخب کر کے اپنے امکانات کو بھرپور تقویت دی۔ مگر پاکستان کی خوش بختی تھی کہ یہاں ٹاس جیت گیا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی کر بیٹھا۔ لیکن کرکٹ کی مجموعی دانش سے کچھ نہ سیکھنے کے باوجود اگر صرف اپنی بیٹنگ اننگز پہ ہی نظر دوڑا لی جاتی تو یہ سبق اخذ کرنے کو کسی سقراط کا دماغ درکار نہ تھا کہ یہاں پیسرز کے لیے زندگی دشوار تھی تاآنکہ گیند پرانی ہو جائے اور ریورس سوئنگ کی کچھ جھلک نظر آنے لگے۔ مگر بابر اعظم نے جہاں اپنی بیٹنگ سے پاکستانی اننگز کی نبض بحال کی، وہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ایک اچھے قابلِ دفاع مجموعے کو افغان بلے بازوں کی جھولی میں ڈال دیا۔ محمد نواز کی عدم دستیابی بلاشبہ بابر کے اختیار میں نہ تھی۔ مگر نجانے یہ حقیقت کیسے ہر بار ان کی نظر سے اوجھل رہ جاتی ہے کہ پاکستانی سپنرز کی اس پریشان مہم جوئی میں افتخار احمد ان کا وہ واحد ہتھیار ہیں جو اب تک ہمہ قسمی بلے بازوں کے لئے دقت پیدا کرتے رہے ہیں۔ سو، اگر شماریاتی اعتبار سے پاور پلے میں لیگ سپن سے احتراز برتنا ناگزیر تھا اور پیسرز بھی اپنی لائن پہ گرفت نہیں رکھ پا رہے تھے تو کیا امر مانع تھا کہ ایک کنارے سے گیند افتخار احمد کو تھما دی جاتی اور افغان اوپنرز کی جارحیت کے لئے آف سپن کا دامِ تزویر بچھا دیا جاتا۔ مگر نہ تو بابر اعظم محدود سوچ کے حصار سے باہر کچھ سُجھا پائے، نہ ہی پیسرز اپنی لائن میں کوئی ڈسپلن نبھا پائے اور نہ ہی پاکستانی فیلڈرز اپنی کاوش میں کوئی بہتری لا پائے۔ اور جب ایک کنارے سے شاہین کا سپیل مختصر کیا بھی گیا تو سپن کو موقع دینے کی بجائے بابر نے گیند حارث رؤف کو تھما دی۔ پھر اننگز کے بیچ وہ مرحلہ بھی آیا کہ جب گیند کی دمک ماند پڑ گئی اور حسن علی کے دوسرے سپیل میں واضح طور پہ ریورس سوئنگ کی جھلک بھی نظر آئی۔ تب بھی کافی میچ باقی تھا اور اگر بابر اعظم دانش مندی سے کام لیتے تو بھی انہونی کو ٹال سکتے تھے۔ وہاں نہ صرف شاہین کا کوٹہ باقی تھا بلکہ حارث رؤف کے اوورز بھی میسر تھے جن کی شہرت ہی ڈیتھ اوورز بولنگ ہے۔ مگر یہاں پھر بابر اعظم نے روایت سے ہٹ کر سوچنے کی بجائے گیند شاداب اور اسامہ میر کے سپرد کر دی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ افغان ٹیم اپنی تاریخ کی بہترین ٹیم ہے اور مسابقتی کرکٹ کھیل کر کسی بھی حریف کو شکست دے سکتی ہے۔ مگر یہاں اس پیس اٹیک اور سکور بورڈ پہ جڑے ایسے مجموعے کے ساتھ ہدف کے تعاقب میں جیت کا سوچنا کسی بھی بیٹنگ یونٹ کے لئے دشوار تھا۔ وہ تو بھلا ہو کہ افغان کرکٹ کو یہاں بابر اعظم جیسا حریف کپتان میسر آ گیا جس نے یہ یقینی بنایا کہ تعاقب کے کسی بھی مرحلے پہ افغان بلے بازوں کو کہیں کوئی دقت نہ پیش آ جائے۔ افغان پاکستان کرکٹ رقابت آج تک ایک بے جوڑ اور منطق سے ماورا شے تھی مگر یہاں حشمت اللہ کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بہترین کرکٹ کھیل کر اس رقابت کو معنویت بخش دی۔ اور پھر یہ لگی بندھی، مدافعانہ کپتانی بھی تو ایسی ہی شکست کی حق دار تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c06r2r522rro
افغانستان کے خلاف تاریخی شکست: ’اب بابر یہ نہیں پوچھ سکیں گے کہ مجھے کیوں نکالا‘
انڈیا میں جاری ورلڈ کپ کے دوران افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان نے پاکستان کو عالمی مقابلوں میں شکست دی ہے۔ چنئی میں پاکستان کی جانب سے پہلی اننگز میں 282 رنز کے جواب میں افغان بلے باز مکمل کنٹرول میں دکھائی دیے۔ اوپنرز ابراہیم زدران اور رحمان اللہ گرباز کی نصف سنچریوں کے بعد مڈل آرڈر نے 49ویں اوور میں باآسانی ہدف کے تعاقب کو ممکن بنایا۔ پاکستانی بولرز وکٹوں کی تلاش میں بے بس دکھائی دیے۔ شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی مگر کپتان حشمت اللہ شاہدی اور رحمت شاہ کے درمیان 96 رنز کی ناقابل شکست شراکت نے مقابلہ یکطرفہ بنا دیا تھا۔ 87 رنز کی نمایاں بازی پر افغان اوپنر زدران کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ پاکستانی کپتان بابر اعظم نے کہا کہ ’افغانستان کے خلاف شکست سے درد تو ہوا ہے۔ ہماری بولنگ اچھی نہیں رہی۔ ہم مڈل اوورز میں وکٹیں نہ لے سکے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہماری (فیلڈنگ) اچھی نہیں تھی۔ اگر آپ ایک بھی ڈپارٹمنٹ میں اچھے نہیں تو میچ ہار سکتے ہیں۔ ہم باؤنڈریز روک نہ سکے۔۔۔ شروع میں بولنگ اچھی تھی، ہم پلان پر چلتے رہے۔۔۔ (تاہم) سب کوششوں کے باوجود وکٹیں نہ مل سکیں۔‘ بابر نے کہا کہ ’افغانستان کی ٹیم بہت اچھا کھیلی۔ ہم اچھی کرکٹ نہیں کھیل پائے۔ ہم اگلے میچ میں بھرپور کوشش کریں گے۔ ہم اپنی غلطیاں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔‘ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’سچ کہوں تو دوسری اننگز میں ہمارے سپنر اچھی لینتھ پر بولنگ نہ کر سکے۔ چوکوں کی وجہ سے ہم دباؤ برقرار نہ رکھ پائے۔‘ دوسری طرف افغان کپتان حشمت اللہ نے کہا کہ ’اس جیت سے یقیناً اچھا لگا۔۔۔ ہم نے پروفیشنل انداز میں ہدف کا تعاقب کیا۔‘ انھوں نے اوپنرز کو سراہا جس نے افغانستان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ’آغاز سے اختتام تک میچ ہمارے ہاتھ میں تھا۔‘ دوسری اننگز کی ابتدا میں افغان اوپنرز عمدہ کھیلے اور 21 اوورز میں 130 رنز کی شراکت قائم کی۔ ابراہیم زدران اور رحمان اللہ گرباز نے اپنی نصف سنچریوں کے دوران پاکستانی بولرز کی خوب پٹائی کی۔ پاور پلے میں پاکستانی فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی، حسن علی اور حارث رؤف وکٹ لینے میں ناکام رہے۔ شاہین اور حسن علی دونوں کو اپنے پہلے اوورز میں دو، دو چوکے لگے جبکہ آٹھویں اوور میں جب حارث رؤف اٹیک پہ آئے تو گرباز نے انھیں چار چوکے لگائے۔ حارث رؤف نے اپنے پہلے چار اوورز میں 33 رنز دیے۔ پاکستانی سپنرز اسامہ میر، شاداب خان اور افتخار احمد کو بھی کامیابی نہیں مل پا رہی تھی۔ مگر جیسے ہی 22ویں اوور میں شاہین شاہ آفریدی کو اٹیک میں واپس لایا گیا تو انھوں نے ایک بہترین باؤنسر کی مدد سے رحمان اللہ گرباز کو کیچ آؤٹ کیا۔ گرباز نے 53 گیندوں پر 65 رنز کی باری کھیلی جس میں نو چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ پھر 34ویں اوور میں حسن علی ابراہیم زدران اور رحمت شاہ کے درمیان 60 رنز کی شراکت توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ زدران نے 87 رنز کی باری کھیلی جس میں 10 چوکے شامل تھے۔ 40ویں اوور میں شاہین کو دوبارہ اٹیک میں واپس لایا گیا۔ ان کی پہلی ہی گیند رحمت شاہ کے پیڈز سے ٹکرائی مگر اپیل پر امپائر نے ناٹ آؤٹ دیا۔ بابر نے ریویو لیا مگر فیصلہ برقرار رہا کیونکہ گیند لیگ سٹمپ سے باہر تھی۔ جہاں پاکستانی بولرز وکٹیں کی تلاش میں بے بس دکھائی دے رہے تھے وہیں رحمان شاہ نے 41ویں اوور میں اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ 44ویں اوور میں رحمت اور کپتان حشمت کے درمیان 50 رنز کی شراکت مکمل ہوئی اور میچ پر افغانستان کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ پاکستانی کپتان بابر اعظم نے چنئی کی ’ڈرائی‘ پچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ افغان کپتان حشمت اللہ شاہدی بھی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ ہی کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے پاکستان کو 250 کے سکور تک محدود رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ امام الحق اور عبد اللہ شفیق کی سلامی جوڑی نے پاکستان کو دھیما مگر مستحکم آغاز دیا۔ ان کے بیچ 61 گیندوں پر 56 رنز کی شراکت قائم ہوئی جس کے بعد امام 17 رنز پر اپنی حالیہ کمزوری پُل شاٹ کی نذر ہوگئے۔ عبد اللہ نے کپتان بابر کے ساتھ بھی 54 رنز کی شراکت قائم کی مگر اپنی نصف سنچری مکمل کر کے لیفٹ آرم لیگ سپنر نور احمد کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ اس میچ میں نور کو افغان پیسر فضل حق فاروقی کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ 110 رنز پر دو وکٹوں کا نقصان جلد 120 رنز پر تین وکٹوں کا نقصان بن گیا جب رضوان بھی نور کی گیند پر سویپ کھیلتے ہوئے شارٹ فائن لیگ پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ 163 رنز پر سعود شکیل کی وکٹ گرنے سے پاکستان کی بیٹنگ قدرے مشکل میں پڑ گئی تاہم بابر اعظم کریز پر موجود رہے اور انھوں نے 92 گیندوں پر 74 رنز کی باری کھیلی جس میں چار چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ اس میچ میں شاداب کی واپسی نے پاکستان کے لوئر میڈل آرڈر کو مضبوط کیا۔ ان کی افتخار احمد کے ساتھ 45 گیندوں پر 73 رنز کی شراکت اور آخری 10 اوورز میں 91 رنز کی بدولت پاکستان کا مجموعی سکور سات وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز ٹھہرا۔ میڈل اوورز میں افغان بولرز کی نپی تلی بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کو کافی پریشان کیے رکھا۔ نور احمد نے 49 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ اس شکست کے باوجود پاکستان ورلڈ کپ کے پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر ہے اور اب بھی اس کے چار میچز باقی ہیں۔ جبکہ افغانستان چار پوائنٹس کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد کے مطابق افغانستان نے آج ون ڈے کرکٹ میں سب سے بڑے ہدف کا تعاقب کیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 بہت سے پاکستانی صارفین اسے بڑا اپ سیٹ قرار دے رہے ہیں اور اس پر کافی ناراض ہیں۔ جیسے سلیم خالق نے اسے شرمناک شکست کہا۔ ’افغانستان سے ہارنے پر چیف سلیکٹر، کپتان اور کوچز کسی کے پاس بھی عہدوں پر برقرار رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان کی بولنگ اتنی کمزور ہوگی، فیلڈنگ بھی انتہائی ناقص رہی۔ بیٹنگ میں سوائے افتخار کے کسی نے سٹرائیک ریٹ کا خیال ہی نہیں رکھا۔‘ سابق انڈین بولر عرفان پٹھان کی رائے میں بابر نے ’اوسط درجے کی کپتانی کی۔ انھوں نے میچ ہاتھ سے جانے دیا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 مگر ڈاکٹر نعمان نیاز کا کہنا ہے کہ ’یہ اپ سیٹ نہیں۔ افغانستان نے عمدہ حکمت عملی بنائی اور اس پر بہترین انداز میں عمل کیا۔ سابق پاکستانی کپتان عروج ممتاز نے کہا کہ ’یہ میچ پاکستانی کرکٹ کی حقیقت کا اصل عکاس ہے۔۔۔ ایشیا کپ کی خامیوں کو دور نہیں کیا گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ کارکردگی کا ’جائزہ اور احتساب ہونا چاہیے۔‘ اس دوران بہت سے صارفین بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ جیسے نمرہ نے تجویز دی کہ ’ورلڈ کپ کے بعد شاداب کو ٹیم سے نکال دینا چاہیے اور بابر کو کپتانی سے۔ حارث رؤف کو صرف ٹی ٹوئنٹی میں کھلانا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 عزیر یونس نے طنز کہا کہ ’اس میچ کے بعد بابر کے پاس یہ پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ مجھے کیوں نکالا۔‘ عثمان سمیع الدین کہتے ہیں کہ ’افغانستان کا انڈیا میں پاکستان سے جیتنا۔۔۔ یہ فارن پالیسی کا ادارتی خواب ہے۔‘ کپتانی کے ’اضافی بوجھ‘ سے متعلق سوال پر میچ کے بعد پریس کانفرنس میں بابر اعظم نے خود کہا ہے کہ ’کپتانی کی وجہ سے میری بیٹنگ پر دباؤ نہیں۔۔۔ فیلڈنگ کے وقت میں کپتانی کا سوچتا ہوں اور بیٹنگ کے وقت صرف بیٹنگ کا سوچتا ہوں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy612j0jxpvo
انڈین شائقین بہترین کھیل پیش کرنے والے وراٹ کوہلی کو ’خود غرض‘ کیوں کہہ رہے ہیں؟
انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی ٹیم نے لگاتار پانچویں جیت حاصل کرکے سیمی فائنل میں جانے کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جبکہ مایہ ناز کرکٹر وراٹ کوہلی سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں محمد رضوان اور روہت شرما کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ شب نیوزی لینڈ کے خلاف 274 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 95 رنز سکور کیے اور سنچری بنانے سے چوک گئے۔ اس سے قبل والے میچ میں انھوں نے سنچری بنائی تھی۔ وراٹ کوہلی کی تمام تر نمایاں کارکردگی اور انڈین ٹیم کے لیے تعاون کے باوجود سوشل میڈیا پر ایک ایسی ٹرول آرمی نظر آتی ہے جو ان کے خلاف لکھنے سے کبھی باز نہیں آتی۔ گذشتہ شب جب وہ اپنی سنچری پوری کرنے کی کوشش میں باؤنڈری پر کیچ دے بیٹھے تو بہت سارے صارفین نے انھیں ’سیلفش‘ یعنی ’خود غرض‘ اور ’چوکلی‘ جیسے القاب سے نوازا۔ ایک طرف جہاں وراٹ کوہلی کو گوٹ یعنی گریٹسٹ آف آل ٹائم کہنے والوں کی کمی نہیں وہیں بہت سارے لوگ انھیں ’چوکلی‘ یعنی ان کے نام کوہلی کی مناسبت سے ’چوکر‘ بھی کہہ رہے ہیں۔ وراٹ کوہلی اگر کل سنچری بنانے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ انڈیا میں کرکٹ کے ’بھگوان‘ کہے جانے والے سچن تنڈولکر کی 49 سنچریوں کی برابری کر لیتے۔ کوہلی ہدف کا کامیابی کے ساتھ تعاقب کرنے کے معاملے میں سب سے آگے ہیں اور ان کے ریکارڈ اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ انھوں نے کامیابی کے ساتھ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 96 اننگز میں 5786 رنز بنائے ہیں جس میں 23 سنچریاں اور 25 نصف سنچریاں شامل ہیں اور ان کی اوسط 90 رنز سے زیادہ کی ہے۔ گذشتہ شب میچ کے دوران ٹی وی سکرین پر ان کے کارناموں کو باربار پیش کیا جا رہا تھا۔ وپن تیواری نامی ایک صارف کوہلی اور بابر اعظم کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بابر اعظم نے اپنے پورے ون ڈے کریئر میں 5492 رنز بنائے ہیں جبکہ وراٹ کوہلی نے صرف کامیابی کے ساتھ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 5786 رنز بنائے ہیں۔ اس لیے ان کا پلاسٹک کے بادشاہ سے مقابلہ نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اگر بابر اعظم فی الحال رینکنگ میں نمبر ایک پر ہیں لیکن وراٹ کوہلی اپنے ہم عصروں میں سب سے آگے ہیں۔ انھوں نے 274 اننگز میں 13437 رنز سکور کیے ہیں جس میں 48 سنچریاں اور 69 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ رواں ورلڈ کپ میں وہ پانچ اننگز میں 354 رنز کے ساتھ سر فہرست ہیں اور ان کا اوسط 118 رنز کا ہے۔ ان کے بعد روہت شرما 311 رنز اور محمد رضوان 294 رنز کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ روہت کا اوسط 62 کا ہے جبکہ محمد رضوان کا اوسط 98 رنز کا ہے لیکن انھوں نے ان دونوں انڈین کرکٹروں سے ابھی ایک ميچ کم کھیلے ہیں۔ اس سے قبل 19 اکتوبر کو بنگلہ دیش کے خلاف ہونے والے میچ میں وراٹ کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کے لیے 26 رنز درکار تھے جبکہ انڈیا کو جیت کے لیے بھی اتنے ہی رنز چاہیے تھے۔ ایسے میں دوسرے سرے پر کھیلنے والے کے ایل راہل نے رنز نہ بنا کر کوہلی کو سنچری مکمل کرنے میں مدد کی اور کوہلی نے میچ جیت کر مین آف دی میچ کا انعام حاصل کیا۔ یہ ان کی ون ڈے میں 48 ویں سنچری تھی۔ گذشتہ روز نیوزی لینڈ کے خلاف بھی انھیں سنچری کے لیے 13 رنز درکار تھے اور انڈیا کو جیت کے لیے بھی اتنے ہی رنز چاہیے تھے۔ دوسرے سرے پر کھیلنے والے رویندر جڈیجہ ان کو سنچری بنانے کا موقع دے رہے تھے لیکن وہ اپنی 49 ویں سنچری مکمل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بھی پڑھیے کوہلی، راہل کی شراکت باقی ٹیموں کے لیے انتباہ! بابر اعظم کے پیغام پر کوہلی کی دعائیں بابر اعظم کیریئر کی بلندیوں پر: ’ایسے ریکارڈز تو صرف سر ڈان بریڈمین کے ہوتے تھے اس کے بعد سے بہت سے صارفین نے لکھا کہ انھوں نے ’کوہلی سے بڑا خود غرض نہیں دیکھا۔‘ بہت سارے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ روہت کے 46 رنز کوہلی کے 95 سے بہتر ہیں کیونکہ کوہلی سے بڑا خودغرض کوئی اور نہیں۔ جبکہ کئی صارفین نے 95 رنز پر ان کے آوٹ ہونے اور سنچری مکمل نہ کرنے پر لکھا کہ ’ہر خودغرض کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے‘ اور یہ کہ ’کرکٹ خود غرضوں کے لیے نہیں ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایسے بہت سارے ٹویٹس کے جواب میں اروند دساری نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انھیں خود غرض کہنا بند کریں۔ اگر انھوں نے 95 رنز نہ بنائے ہوتے اور ایک جانب سے وکٹ کو بچائے نہ رکھا ہوتا تو انڈیا شکست سے دو چار ہو سکتا تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 چیتن نامی ایک صارف نے کے ایل راہل کا بیان جلی حروف میں پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ان کے لیے ہے جو کوہلی کو خودغرض کہتے ہیں۔ اس بیان کے مطابق کے ایل راہل نے کہا کہ ’میں نے ایک رن لینے سے منع کر دیا تو کوہلی نے کہا کہ اگر آپ سنگل نہیں لیں گے تو لوگ کہیں گے کہ ہم اپنی ذاتی ریکارڈ کے لیے کھیل رہے ہیں تو ہم نے کہا کہ ہم لوگ آسانی کے ساتھ جیت رہے ہیں آپ اپنی سنچری مکمل کریں۔‘ اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ ’گذشتہ رات جب کوہلی 74 رنز پر تھے اور جڈیجہ نے چھکا لگایا تو کوہلی ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ جو لوگ انھیں خودغرض یا چوکلی کہہ رہے ہیں انھیں دیکھنا چاہیے۔‘ بہت سے لوگوں نے سوریہ کمار یادو کے رن آوٹ کی ویڈیو ڈال کر لکھا ہے کہ ’آپ خودغرضی کی مثال دیکھ سکتے ہیں۔‘ بہر حال ورلڈ کپ اپنے دوسرے نصف میں داخل ہو چکا ہے اور اب مقابلے زیادہ سخت ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں ہر کھلاڑی کی کارکردگی پر لوگوں کی نظریں جمی ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx0ee01zvwpo
سمیع چوہدری کا کالم: ’کپتان بابر اعظم کب نمودار ہوں گے؟‘
طویل عرصے بعد ایک ورلڈ کپ ان کنڈیشنز میں منعقد ہو رہا تھا جو پاکستان کے لیے نامانوس نہیں تھیں۔ سو، ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے پاکستانی شائقین کی توقعات بجا طور پہ بہت بلند تھیں۔ جہاں پہلی دو آسان فتوحات کے بعد ان توقعات کو تقویت ملی تو اگلے ہی دو میچز میں بھاری شکست نے ان پہ کاری ضرب لگا دی ہے۔ اب اگرچہ سیمی فائنل کی دوڑ میں پاکستانی امیدیں مدھم پڑ رہی ہیں مگر پوائنٹس ٹیبل جس ہلچل کا شکار ہے، یہ یقینی ہے کہ لو ابھی تک بجھی بھی نہیں ہے۔ اور اس تناظر میں افغانستان کے خلاف معرکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ دوسری جانب افغانستان نے انگلینڈ کو مات کرنے کے بعد تمناؤں کا جو معیار اپنے لیے طے کر چھوڑا تھا، کیویز کے خلاف وہ پورا ہونے سے کوسوں دور رہ گیا۔ اس کا سبب افغان بیٹنگ سے کہیں زیادہ ناقص فیلڈنگ اور ٹاس کے مرحلے پہ فیصلہ سازی کا خلجان تھا۔ کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو زیر کرنا افغانستان کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اگرچہ حال ہی میں پاکستان نے ٹی ٹونٹی کے لیے شاداب خان کی قیادت میں ایک سیکنڈ الیون شارجہ بھیج کر دوطرفہ سیریز میں یہ افغان خواب پورا بھی کر دیا مگر ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کو شکست دینا آج بھی افغانستان کا خواب ہی ہے۔ پچھلے ون ڈے ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کے میچ سے پہلے افغان کپتان گلبدین نائب نے کہا تھا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ مگر سخت مقابلے کے بعد بھی گلبدین سرفراز کی ٹیم کو لے ڈوبنے سے قاصر رہے تھے۔ اب یہاں بابر اعظم کی ٹیم ہے کہ جس کے کلیدی پیسر شاہین آفریدی تو آسٹریلیا کے خلاف خوب فارم میں لوٹے مگر باقی ساری بولنگ پہلے دونوں پاور پلے میں بھٹکتی ہی رہ گئی اور آسٹریلوی بلے باز بازی چرا لے گئے۔ پاکستان کے لیے مگر اس شکست میں بھی مثبت پہلو کافی رہے۔ ابتدائی تین میچز کی پے در پے ناکامیوں کے بعد امام الحق بھی فارم میں واپس آئے اور آسٹریلیا کے خلاف ایک اچھی اننگز کھیلی۔ مگر انھیں یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ ان کی اس اننگز کا ٹیم کو فائدہ تبھی ہو سکتا تھا اگر وہ ففٹی سینچری میں بدل پاتی اور سٹرائیک ریٹ بھی ٹیم کی ضروریات کے مطابق ڈھل پاتا۔ ایک اور مثبت پہلو محمد رضوان کی مستقل مزاجی ہے جو اکیلے ہی نہ صرف مڈل آرڈر کا بوجھ ڈھوتے آ رہے ہیں بلکہ ٹاپ آرڈر کی عدم جارحیت کی بھی تلافی کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن ان کے تسلسل سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹاپ آرڈر کو بھی فوری اپنے سٹرائیک ریٹ پہ نظرِثانی کی ضرورت ہے۔ اب اگر پاکستان کو باقی ماندہ مہم جوئی سے اپنے شائقین کی امیدیں جواں رکھنا ہیں تو سب سے اہم پہلو بابر اعظم کی اپنی فارم ہے جو اس ورلڈ کپ میں کہیں بھی مکمل روانی میں دکھائی نہیں دیے۔ انڈیا کے خلاف اکلوتی ففٹی میں بھی ان کی اننگز تفکرات سے لیس تھی اور کسی بھی مرحلے پہ وہ بولرز کو دباؤ میں نہیں لا پائے۔ اگر یہاں بابر اعظم اپنی نمبرون انٹرنیشنل رینکنگ سے انصاف کر پائے تو پاکستان کے امکانات کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ افغان بولنگ پاکستان کے لیے امتحان بن سکتی ہے کہ چنائی کی پچ عموماً سپنرز کے لیے سازگار رہا کرتی ہے اور افغانستان کا سپن ڈیپارٹمنٹ یقیناً اس ایونٹ کے تمام شرکا میں سے بہترین ہے۔ قیادت کے محاذ پہ بھی بابر اعظم کو اپنا کھیل بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف یہ سمجھنا اہم ہے کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کیوں ضروری ہے بلکہ یہ بھی ذہن نشین کرنا ہو گا کہ تاحال اس ورلڈ کپ میں دوسری اننگز کی اوس ایک واہمے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئی۔ اور پریشر میچز میں ہمیشہ سکور بورڈ پہ جڑا مجموعہ ہی مفید ثابت ہوا کرتا ہے۔ جو لگی بندھی کپتانی تاحال بابر اعظم کرتے چلے آ رہے ہیں، اس سے نمایاں ہو رہا ہے کہ وہ سب کچھ ڈریسنگ روم سے ہی طے کر کے نکلتے ہیں اور زمینی حقائق لاکھ بدلتے رہیں، وہ اپنے پلان اے سے ذرا سا بھی انحراف نہیں کرتے۔ لمبے ایونٹس میں جیت کی مسافت بہت طویل ہوتی ہے۔ اور یہ مسافت طے کرنے کو نہ صرف عمدہ بیٹنگ اور بولنگ درکار ہوتی ہے بلکہ ناقابلِ تسخیر قیادت بھی ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف بلے باز بابر اعظم اپنی شہرت سے انصاف کریں بلکہ کپتان بابر اعظم بھی حریف بلے بازوں کے ذہن سے کھیلنا سیکھ پائیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c8744n7526ro
جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کے بعد کیا دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی ورلڈ کپ کی امیدیں ختم ہو گئیں؟
دفاعی چیمپین انگلینڈ کی چار میچوں میں تیسری شکست نے اسے دم بخود کر دیا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ کے ہاتھوں اسے جس ہزیمت کا سامنا رہا وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ یہ رنز کے اعتبار سے انگلینڈ کی اب تک کی سب سے بڑی شکست ہے۔ گذشتہ ميچ میں افغانستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والی انگلش ٹیم نے اپنے سٹار کھلاڑی بین سٹوکس کو بھی ٹیم میں جگہ دی اور کرس ووکس کی جگہ ایٹکنسن کو ٹیم میں لائے لیکن ٹیم کسی طرح لے میں نہ آسکی۔ جبکہ اس کے برعکس جنوبی افریقہ کی ٹیم نیدرلینڈز سے غیر متوقع طور پر شکست سے دوچار ہونے کے بعد کچھ اس آب و تاب کے ساتھ ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم کی حبس زدہ گرمی میں باہر آئی جیسے کوئی زخمی شیر ہو۔ کپتان باووما کی علالت کی وجہ سے ان کی جگہ ٹیم میں ریزا ہینڈرکس آئے اور انھوں نے جو مستحکم بنیاد فراہم کی اس پر کلاسین اور جانسین نے وہ عمارت تعمیر کی جس کے نیچے انگلینڈ کی ٹیم دب گئی اور تاریخی شکست سے دو چار ہوئی۔ اگرچہ انگلینڈ سیمی فائنل میں پہنچنے کی دوڑ سے باہر نہیں ہوئی ہے لیکن یہ پے در پے شکست نے بظاہر اس کے اوسان خطا کر دیے ہیں اور اسے اس دوڑ سے باہر سمجھا جا رہا ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ کی ٹیم کو سب سے متوازن ٹیم قرار دیا جا رہا تھا اور اس کے سارے کھلاڑی فٹ اور لے میں نظر آ رہے تھے لیکن شاید ورلڈ کپ کے پریشر اور پہلے ہی میچ میں رنرز اپ نیوزی لینڈ سے شکست اس کے اعصاب پر ایسے سوار ہوئی کہ وہ اس سے نہ نکل سکی۔ پھر افغانستان کے ہاتھوں شکست نے اسے نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کر دیا لیکن جنوبی افریقہ کی ٹیم کل ممبئی میں کچھ دوسرے ہی ارادے سے اتری تھی۔ جنوبی افریقہ کے لیے کپتانی کے فرائض انجام دینے والے ایڈن مارکرم نے کہا کہ انھیں اس وقت حیرت ہوئی جب انگلینڈ نے ٹاس جیت کر انھیں بیٹنگ کی دعوت دی۔ وہ اپنے ٹاس جیتنے کی صورت میں بھی پہلے بیٹنگ چاہتے تھے کیونکہ ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم کی گرمی میں وہ اپنے کھلاڑیوں کو بہت زیادہ ایکسپوز نہیں کرنا چاہتے تھے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ چونکہ انگلینڈ ہدف کا تعاقب کرنا پسند کرتی ہے اس لیے شاید انھوں نے یہ فیصلہ کیا۔ بہر حال جب جنوبی افریقہ پہلے بیٹنگ کرنے کے لیے اتری اور دوسری ہی گیند پر رواں ورلڈ کپ کے تین میچوں میں دو سنچریاں سکور کرنے والے ڈی کاک صرف چار رنز بنا کر ٹوپلی کی گیند پر آؤٹ ہو گئے تو ایسا لگا کہ انگلینڈ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ لیکن باووما کی جگہ ٹیم میں شامل ہونے والے ریزا ہینڈرکس اور ریسی دوسین نے 121 رنز کی شراکت کے ساتھ ایک ایسی بنیاد رکھی کہ بعد میں دوسرے بیٹسمینوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انگلینڈ کے سپن بولر عادل رشید نے پہلے دوسین کو اور پھر ہینڈرکس کو بالترتیب 60 اور 85 کے سکور پر آوٹ کر دیا۔ لیکن ان کی جگہ آنے والے کپتان مارک رم اور کلاسین نے کسی طرح رنز کی رفتار کو رکنے نہیں دیا۔ ریسے ٹوپلی کی انگلی میں چوٹ آئی تھی اور جب وہ انگلی پر پٹی باندھ کر دوبارہ بولنگ کرنے آئے تو انھوں نے پہلے مارک رم کو 42 رنز پر اور پھر اگلے اوور میں ڈیوڈ ملر کو پانچ رنز پر آوٹ کر دیا اور اس طرح 243 رنز پر جنوبی افریقہ کے پانچ وکٹ گر گئے۔ دریں اثنا کھلاڑیوں کا ممبئی کے گرم مرطوب موسم میں برا حال تھا۔ ہنرک کلاسن دو کی جگہ ایک رن لے رہے تھے انھوں نے 12 چوکے اور چار چھکوں کی مدد سے 67 گیندوں میں 109 رنز بنائے اور کرکس ووکس کی جگہ ٹیم میں آنے والے ایٹکنس کا شکار بنے۔ دوسری جانب مارکو جانسین نے تین چوکے اور چھ چھکوں کی مدد سے 75 رنز بنائے اور ناٹ آوٹ رہے۔ کلاسین آخری اوور کی پہلی گیند پر آوٹ ہوئے اور اس وقت تک 394 رنز بن چکے تھے اور ہدف 400 کے پار جاتا نظر آ رہا تھا لیکن آخری اوور میں صرف پانچ رنز بن سکے تاہم جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کے سامنے 400 رنز کا ایک مشکل ہدف رکھا۔ یہ بھی پڑھیے ٹورنامنٹ کی تاریخ میں افغانستان کی مسلسل شکست کا سلسلہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کے خلاف فتح کے ساتھ تمام جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘ ’سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث انگلینڈ کی ٹیم میدان اس بڑے سکور کی تاب نہ لا سکی اور جانی بیروسٹو تیسرے اوور میں انگیڈی کا شکار ہو گئے۔ اس وقت سکور محض 18 رنز تھے۔ اس کے بعد اگلے اوور کی آخری گیند پر جانسین نے جو روٹ کو دو رنز پر ملر کے ہاتھوں کیچ کرا دیا پھر چھٹے اوور کی پہلی گیند پر ڈیوڈ ملان کا وکٹ لے کر وہ ہیٹرک پر پہنچ گئے۔ انگلینڈ کے سرکردہ تین بیٹس مین 24 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ انگیڈی کی جگہ کگیسو رباڈا بولنگ کرنے آئے اور انھوں نے بین سٹوکس کو اپنی ہی گیند پر لپک لیا جبکہ جانسین کی جگہ بولنگ کرنے آئے کوئٹزی نے پہلے جوز بٹلر اور پھر ہیری بروک کو ایل بی ڈبلیو کرکے سکور 68 پر چھ کر دیا۔ عادل رشید بھی کوئٹزی کا شکار بنے اور اس طرح انگلینڈ کی ساتویں وکٹ 84 رنز پر گر گئی۔ جب انگیڈی واپس بولنگ کو آئے تو انھوں نے ڈیوڈ ولی کا وکٹ لے کر 100 پر انگلینڈ کے آٹھویں کھلاڑی کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ان کے بعد ایٹکنسن اور مارک وڈ نے اپنے ہاتھ کھولے کیونکہ اب کوئی دوسرا چارۂ کار رہ نہیں گیا تھا اور انھوں نے شکست کے فرق کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مارک وڈ نے پانچ چھکوں اور دو چوکے کی مدد سے 17 گیندوں میں 43 رنز بنائے اور ناٹ آوٹ رہے جبکہ ایٹکنسن نے 21 گیندوں پر سات چوکوں کی مدد سے 35 رنز بنائے اور کیشو مہاراج کا شکار بنے جبکہ ٹوپلی چوٹ کی وجہ سے کھیلنے کے لیے میدان میں نہ اترے اور اس طرح پوری ٹیم 22 اوورز میں 170 رنز بناکر 229 رنز سے ہار گئی جو کہ انگلینڈ کی آج تک کی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے۔ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی اس بری شکست کا سوشل میڈیا پر چرچا ہے۔ ای ایس پی این کرک انفو نے لکھا کہ انگلینڈ کی اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کی امید ایک دھاگے سے لٹکی ہے۔ اس کے جواب میں کسی نے ’دلبرداشتہ‘ ہونے کا اظہار کیا تو کسی نے اس اسے انگلینڈ کی ’خراب کارکردگی‘ قرار دیا۔ زیادہ تر لوگوں نے مان لیا ہے کہ وہ ’ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے ہیں‘ جبکہ بہت سوں نے لکھا کہ 2023 کا ورلڈ کپ ان کے لیے ’ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔‘ انکت ورما نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انگلینڈ بھی پاکستان کی طرح خراب کھیل رہی ہے‘ جبکہ محمد یاسر نامی صارف نے کہا کہ ’دفاعی چیمپیئن چوکر نکلی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 کرکٹر دلیپ سر دیسائی کے بیٹے صحافی راجدیپ سردیسائی نے لکھا کہ ’ٹورنامنٹ سے پہلے میں نے انڈیا بمقابلہ انگلینڈ کو (فلم لگان 2.0) کے طور پر فائنل کے لیے چنا تھا۔ ورلڈ کپ میں دو ہفتے ہی گزرے ہیں کہ دفاعی چیمپین انگلینڈ تھکی ہوئی نظر آ رہی ہے اور ان کی ہمت بہت تیزی سے جواب دے رہی ہے۔ یہ زبردست ہزیمت تھی۔ شروع میں میرا بلیک ہارس جنوبی افریقہ تھی۔ اب وہ ٹائٹل کے لیے سنجیدہ دعویداروں میں سے ایک ہے۔ وہ تمام ٹیموں میں درمیانی اوورز کے بہترین پاور ہاؤس ہیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’حالیہ عرصے کے دوران کلاسین سے زیادہ کسی کو ہٹنگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کلوزنر 3.0 ہیں۔۔۔ یہ مناسب ہو سکتا ہے کہ جنوبی افریقہ اس ملک میں ورلڈ کپ کے جنکس کو توڑ دے جس نے نسل پرستی کے بعد ان کی کرکٹ کو دوبارہ جنم دیا۔ وہ جیتیں یا نہ جیتیں، ہر مخالف ان سے ڈرے گا، جیسا کہ انڈیا سے ڈرتے ہیں۔ گاندھی اور منڈیلا کے بھوتوں کے درمیان میں انڈیا اور جنوبی افریقہ کا فائنل دیکھ رہا ہوں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کرکٹ کے بھگوان کہے جانے والے کرکٹر سچن تنڈولکر نے لکھا کہ ’کلاسین کا کلاسی کارنامہ۔ وہ گیند کو پہلے پرکھنے میں انتہائی بہتر ہیں، دوسروں سے کہیں بہتر۔ پہلے مارکو نے سمجھ بوجھ کے ساتھ کھیلا اور پھر انھوں نے بے رحمی کے ساتھ حملہ کیا۔ یہ اہم شراکت داری تھی جس نے جنوبی افریقہ کو 399 تک پہنچایا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 بہر حال انگلینڈ کی ٹیم اپنے حواس مجتمع کرکے اس میچ کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہے گی۔ اس ہزیمت کے بعد انگلینڈ کا مقابلہ اب سری لنکا سے ہے اور پھر انڈیا، آسٹریلیا اور پاکستان سے بھی اس کے میچز باقی ہیں یعنی اگر وہ باؤنس بیک کرتی ہے تو مذکورہ ٹیموں کو شدید پریشانی کا سامنا ہوگا ورنہ پھر بقول امیر خسرو بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c5172rxn6lyo
ثمر باغ کے ہنرمند نوجوان: ’مزدوری مجبوری ہے اور جمناسٹکس میرا جنون‘
’میں دن کے وقت مزدوری کرتا ہوں جو میری مجبوری ہے اور شام کے وقت جمناسٹکس کے لیے جاتا ہوں جو میرا جنون ہے۔‘ یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کے علاقے ثمر باغ کے نوجوان سجاد کا جو دن میں ایک بلاک فیکٹری میں مزدوری کے بعد شام کو جمناسٹکس کلب جاتے ہیں۔ اس علاقے میں صرف ایک سجاد ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ اور بھی مزدور بچے جمناسٹکس کے شوقین ہیں۔ 18 سالہ سجاد کے جسم میں اتنی لچک ہے کہ وہ بغیر کسی جمپنگ فلور یا فوم کی مدد کے زمین پر اکھاڑا بنا کر ٹرپل جمپ لگاتے ہیں۔ ہر دن مزدوری کے دوران انھیں بھاری سیمنٹ اور بجری کا مکسچر بلاکس میں ڈالنا پڑتا ہے۔ مگر شام کو وہ اپنا شوق پورا کرنے دریا کے کنارے جمناسٹکس کی پریکٹس کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ لگ بھگ 40 دیگر لڑکے روزانہ شام کو اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر دریا کے کنارے جمناسٹک کی پریکٹس کرتے ہیں۔ ثمر باغ ضلع لوئر دیر کا وہ علاقہ ہے جو ماضی میں شدت پسندی کا شکار رہا ہے۔ کسی بھی کھیل کا شوق ہو تو اس کے لیے راستے بن ہی جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سجاد کی ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ڈبل سمر سالٹ اور ٹرپل ٹوئسٹ جمپ میں اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔ اس ویڈیو کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ یہ ثمر باغ کے نوجوان ہیں جنھوں نے ایک جمناسٹکس کلب بنایا ہے۔ ضلع لوئر دیر اور قبائلی ضلع باجوڑ کی سرحد پر واقع تحصیل ثمر باغ میں ایک نوجوان ثنا اللہ عرف ٹائیگر نے پشاور میں دوران تعلیم جمناسٹکس کی تربیت حاصل کی تھی اور قومی سطح پر مقابلوں میں حصہ بھی لیا تھا۔ ثنا اللہ جب واپس آئے تو انھوں نے ثمر باغ میں جمناسٹکس کلب بنایا اور اس میں 40 کے قریب لڑکوں نے شمولیت اختیار کی۔ ثنا اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ثمر باغ میں بیشتر لوگ غریب ہیں، وہ کھیل کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ’اس لیے ہم جمناسٹکس کے پانچ میں سے صرف ایک کرتب پر ہی توجہ دے سکتے ہیں اور وہ فلور جمناسٹک ہے۔ اس کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی سہولت نہیں، جیسے کہ جمپنگ فلور یا فوم وغیرہ۔‘ ’بس ہم نے خود ہی دریا کے کنارے زمین پر اکھاڑہ بنایا ہے جس پر ہم جمپ لگاتے ہیں۔‘ ثنا اللہ نے بتایا کہ ’میں نے کلب کھولنے کے لیے پہلے والد سے اجازت لی، پھر کچھ لڑکے ملے جو جمناسٹکس کا شوق رکھتے تھے۔۔۔ اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا اور جگہ کرائے پر لی، وہاں پریکٹس شروع کر دی۔‘ جب وہ پشاور میں جمناسٹکس سیکھ رہے تھے تو ’دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ثمر باغ میں باقی لڑکے بھی اس طرف آئیں اور اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بیشتر علاقوں میں بیروزگاری کی وجہ سے نوجوان نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بچوں کو نشے سے بچا سکوں۔‘ اس کلب کے بیشتر لڑکے مزدوری کرتے ہیں، چند ایک تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو کوئی فیس وغیرہ بھی نہیں دے سکتے۔ ثنا اللہ نے بتایا کہ انھوں نے پشاور میں بھی کھلاڑی دیکھے ہیں لیکن ’جو ٹیلنٹ یہاں ثمر باغ کے ان لڑکوں میں ہے، وہ کہیں اور نہیں۔ یہاں بس ان لڑکوں کو کوئی سہولت حاصل نہیں۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ لڑکے باقی چار کرتب نہیں کر پاتے، جیسے ڈبل سمر سالٹ یا ٹرپل ٹوئسٹ۔ ’اس میں لینڈنگ میں کم ہی لوگ مہارت حاصل کر پاتے ہیں۔ سجاد اس میں ماہر ہے لیکن سارا دن مزدوری کرنے کے بعد جب یہاں پریکٹس کے لیے آتا ہے تو اس میں توانائی نہیں ہوتی، وہ جسم پر زور لگاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جمناسٹکس کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہاں یہ مزدور بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے۔‘ سوشل میڈیا پر سجاد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ان سے ملنے کا شوق پیدا ہوا تو ہم لوئر دیر کے علاقے ثمر باغ پہنچ گئے۔ جمناسٹکس کلب ایک چھوٹے سے ہال میں قائم کیا گیا ہے جو ایک چھوٹی مارکیٹ میں واقع ہے۔ اس کلب میں چھوٹے بچوں سے لے کر 20 سال تک کے لڑکے پریکٹس کرتے ہیں۔ سجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد وفات پا چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ صرف چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کر سکے۔ ’چھ بھائی اور چار بہنوں میں سے صرف ایک بھائی سکول جاتا ہے، باقی سب کوئی نہ کوئی مزدوری کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جمناسٹکس کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ گھر میں کچھ نہ کچھ کرتب کرتا رہتا تھا۔ ایک دن ٹی وی پر جمناسٹکس دیکھ کر مجھے حوصلہ ملا اور میں اسے توجہ سے دیکھنے لگا۔‘ وہ ٹی وی میں دکھائی جانے والی جمناسٹکس خود گھر میں کرنے لگے۔ ’ایک دن دوست نے بتایا کہ یہاں ایک جمناسٹکس کلب بنا ہے وہاں جا کر دیکھو۔ اس کلب میں جب آیا تو ثنا اللہ سے ملاقات ہوئی اور یہاں انھوں نے میری تربیت کی۔ اس کے بعد میں یہ مشکل ڈبل سمرسالٹ اور ٹرپل ٹوئسٹ جمپ سیکھ گیا۔ میری کوشش ہے کہ اس کھیل میں اپنا نام پیدا کروں اور اگر میری طرف توجہ دی گئی تو مجھے یقین ہے کہ میں بہت اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہوں۔‘ انھیں صبح پانچ بجے سے دوپہر ایک بجے تک بلاک فیکٹری میں کام کے سات سو روپے یومیہ ملتے ہیں جو وہ گھر دیتے ہیں۔ کلب میں شامل عطا الرحمان اور بلال کو یقین ہے کہ اگر انتظامیہ کی طرف سے انھیں سہولیات فراہم کی جائیں تو ثمر باغ سے اچھے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں مختلف کھیلوں کے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو ہنر میں کسی سے کم نہیں لیکن ان کے پاس نہ تو سہولیات ہیں اور نہ ہی انھیں مواقع مل رہے ہیں۔ سنوکر، جیولن تھرو، کراٹے، بیڈ منٹن اور دیگر کھیلوں میں ایسے کھلاڑی آئے جنھوں نے اپنے طور پر محنت کی اور دنیا میں نام پیدا کیا۔ پشاور میں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کے انچارج شاہ فیصل نے بی بی سی کو بتایا کہ ثمر باغ کے ان کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ خود کو مقامی طور پر انتطامیہ، سپورٹس ایسوسی ایشن اور سپورٹس افسر کے پاس رجسٹرڈ کرائیں اور تاکہ انھیں بنیادی ضروریات فراہم کی جا سکیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے بہت سے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جو مزدوری کے ساتھ کھیلوں میں نام پیدا کرتے ہیں۔ شاہ فیصل نے بتایا کہ پشاور کے جہانگیر پورہ کے علاقے میں ’چپلیاں بنانے والے اسماعیل نے کوششیں کیں اور انھیں یہاں سہولیات فراہم کی گئیں تو انھوں نے قومی سطح پر گولڈ میڈلز حاصل کیے۔ اس کے بعد واپڈا نے انھیں روزگار دیا۔‘ ان کے مطابق صرف حکومت کچھ نہیں کر سکتی جب تکہ کہ نجی سطح پر ادارے ان کھلاڑیوں کو سپورٹ نہیں کرتے۔ ’ایسے کھلاڑی یہاں آئے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ آگے نہیں جا سکتے اور نہ ہی ان کھلاڑیوں کے خاندان اتنے امیر ہیں کہ انھیں ٹکٹ فراہم کر سکیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4jj8gyzqgo
’مگر جو کوتاہی ابتدا سے ہوئی‘: سمیع چوہدری کا کالم
کرکٹ اپنی فطرت میں اس قدر متنوع ہے کہ کبھی کبھار ایک کھلاڑی ہی پورے میچ پہ بھاری پڑ جاتا ہے تو کبھی چھ کھلاڑی بھی بہترین کارکردگی دکھا کر باقی پانچ ساتھیوں کی کم ہمتی کا ازالہ کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ایشیا کپ سے اب تک شاہین آفریدی اپنی بہترین کارکردگی ظاہر نہیں کر پا رہے تھے اور اس کا خمیازہ ٹیم کے مجموعی نتائج میں نمایاں ہو رہا تھا۔ مگر جب شاہین اپنی اصل کو لوٹے، تب تک باقی پرزے اپنی جگہ سے سرک چکے تھے اور جمود ایک بار پھر ٹوٹنے سے رہ گیا۔ اس ٹورنامنٹ میں تاحال پاکستان کے تین نمایاں المیے رہے تھے کہ ٹاپ آرڈر اپنے حصے کا بار نہیں اٹھا رہا تھا، شاہین آفریدی اپنی اصل تاثیر پیدا نہیں کر پا رہے تھے اور شاداب خان مڈل اوورز میں اپنا کردار نبھانے سے قاصر رہے تھے۔ بنگلورو میں پاکستان نے شاداب خان کے المیے کا حل یہ نکالا کہ انھیں آرام دے دیا گیا اور اسامہ میر کا ورلڈ کپ ڈیبیو ہوا۔ اور شاہین آفریدی کی بولنگ میں بھی اب تک جو کسر رہی تھی، اس کی بھی بھرپور تلافی ہوتی نظر آئی۔ پچھلے میچز کے برعکس، یہاں جب شاہین نے وکٹ سے تائید ملتی نہ دیکھی تو فوری طور پہ اپنی لینتھ کھینچی اور آسٹریلوی اوپنرز کی سانس دوبھر کر چھوڑی۔ جس پچ پہ بولرز کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی، وہاں وہ دن کے سب سے مؤثر بولر ٹھہرے۔ یہاں شاہین تو اپنی اصل کو لوٹے مگر ان کے باقی سبھی ساتھی رستہ بھٹک گئے۔ کیچز ڈراپ ہونا کوئی انہونی نہیں۔ بہترین سے بہترین ایتھلیٹ بھی بساں اوقات اندازے کی غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آسان ترین کیچز ڈراپ کر بیٹھتے ہیں۔ پاکستانی بیٹنگ کے دوران آسٹریلوی فیلڈنگ سے بھی دونوں پاکستانی اوپنرز کے کیچز گرے مگر آسٹریلوی فیلڈرز کے کندھے نہیں گرے۔ اس کے برعکس ڈیوڈ وارنر کا کیچ ڈراپ ہونے کی دیر تھی کہ پاکستانی فیلڈرز کے شانے جھکتے چلے گئے، چہرے مرجھانے لگے اور شامت کو گویا نوشتۂ دیوار سمجھ لیا گیا۔ اس کے بعد ساری پاکستانی بولنگ بے رہروی کی ایک رو میں بہتی چلی گئی۔ اس بے خودی کے ہنگام پاکستان یہ حقیقت بھی نظر انداز کر بیٹھا کہ بنگلورو کی اس بے جان پچ میں جہاں بولرز کے لئے وحشت کا سامان تھا اور باؤنڈریز کی طوالت جس قدر مختصر تھی، یہاں اچھی بولنگ کے خلاف بھی سوا تین سو کے لگ بھگ سکور ہونا ہی تھا۔ مگر وارنر کا کیچ ڈراپ ہونے کے بعد پاکستانی کیمپ پہ جو پژمردگی طاری ہوئی، پے در پے لائن و لینتھ کی جو کوتاہیاں برتی گئیں اور پھر بابر اعظم جس دفاعی خول میں جا گھسے، وہاں سے واپس آنے کو کوئی معجزہ ہی درکار تھا۔ مگر معجزے روز روز کہاں ہوتے ہیں؟ یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ جہاں دیگر اٹیک پہ یلغار ہونے کے بعد اسامہ میر بھی بے اثر ثابت ہو رہے تھے، وہاں دن کے سب سے مفید بولر افتخار احمد کا کوٹہ پورا کروانا ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اس سارے اٹیک میں سے افتخار واحد بولر تھے جو تند خو وارنر اور مارش کے لیے مسلسل معمہ بنے رہے، مگر بابر اعظم نے ان کا کوٹہ مکمل کروانے کی بجائے اپنے لگے بندھے حساب کتاب پہ عمل پیرا رہنا مناسب سمجھا۔ وہ تو بھلا ہو شاہین آفریدی کا، کہ چار سو سے بھی سوا کسی ریکارڈ مجموعے کی سمت بڑھتی آسٹریلوی یلغار کا رستہ روک دیا اور ان کی تقلید میں دیگر پاکستانی بولرز کے بھی حواس کچھ بحال ہوئے۔ ڈیتھ اوورز میں پاکستانی بولنگ بلاشبہ اپنے بہترین پہ دکھائی دی۔ مگر ابتدا میں پاکستانی بولنگ اور بابر اعظم نے جو کوتاہ نظری دکھائی، اس کا ازالہ کرنے کو نہ تو ڈیتھ اوورز کی بولنگ کافی تھی اور نہ ہی اچھی بیٹنگ۔ بعد میں شاہین آفریدی نے بھی ٹورنامنٹ کے بہترین اعدادوشمار ریکارڈ کیے، عبداللہ شفیق نے بھی عمدہ جارحیت دکھائی اور محمد رضوان نے بھی اپنا تسلسل برقرار رکھا مگر جو کوتاہی پاکستان پہلے 30 اوورز میں کر چکا تھا، تب تک اس کی تلافی ناممکن ہو چکی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpvl2vw4el7o
پاکستان کو آسٹریلیا سے 62 رنز سے شکست: ’ہم بابر اعظم کا فلاپ شو آخر کب تک دیکھتے رہیں گے؟‘
بینگلورو میں ورلڈ کپ کے 18ویں میں آج پاکستان کو آسٹریلیا نے 62 رنز سے شکست دے دی ہے اور یوں پاکستان اب پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن پر آ گیا ہے۔ چناسوامی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں جب کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا تو اکثر افراد کے لیے یہ خاصی حیرت کی بات تھی کیونکہ یہ پچ بڑے ٹوٹل کے لیے جانی جاتی ہے۔ آسٹریلوی اوپنرز نے اپنی اننگز میں چھکے، چوکوں کی برسات کر کے پاکستان کو میچ میں شروعات میں ہی دباؤ میں ڈال دیا۔ اس دوران پاکستان کی ناقص فیلڈنگ نے بھی اپنا کردار ادا کیا کو اور پاکستان کو جیت کے لیے 368 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنا پڑا۔ جواب میں پاکستانی اوپنرز عبداللہ شفیق اور امام الحق نے سنچری شراکت کے ساتھ ایک اچھا آغاز فراہم کیا تھا تاہم عبداللہ شفیق 64، اور امام الحق 70 رنز پر مارکس سٹوئنس کی بولنگ پر آؤٹ ہو گئے اور اس کے بعد سے کوئی بھی بلے باز نصف سنچری بنانے میں ناکام رہا۔ کپتان بابر اعظم صرف 18 رنز بنا کر ایڈم زیمپا کی گیند پر آؤٹ ہوئے، اور یہی میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اس وکٹ کے بعد سعود شکیل نے اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تاہم وہ پیٹ کمنز کی گیند پر 30 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ افتخار احمد نے بھی آتے ہی جارحانہ انداز اپنایا اور اپنی اننگز میں تین چھکے لگائے، تاہم انھیں زیمپا نے ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ پاکستان کی وکٹیں اس کے بعد سے یکِ بعد دیگرے گرنا شروع ہوئیں اور آخری اوورز میں کوئی بھی بلے باز کریز پر رکنے میں ناکام رہا۔ اس میچ کے آغاز سے پہلے سب کی نظریں شاہین شاہ آفریدی پر ٹکی ہوئی تھیں کیونکہ وہ اس ٹورنامنٹ میں اچھا آغاز فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم آج وہ بہتر فارم میں نظر آئے اور آغاز میں ہی ڈیوڈ وارنر کا کیچ نکالنے میں کامیاب ہوئے لیکن اسامہ میر نے ایک آسان کیچ چھوڑ دیا۔ یہ کیچ بہت آسان تھا اور مڈ آن پر کھڑے اسامہ جو اس ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ کھیل رہے تھے۔ انھیں اس میچ میں نائب کپتان شاداب خان کی جگہ شامل کیا گیا تھا۔ یہاں سے پاکستانی بولرز کی وہ درگت بننی شروع ہوئی کہ ایک موقع پر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ آسٹریلیا پاکستان کے خلاف 400 سے زیادہ رنز بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ آسٹریلوی اوپنرز ڈیوڈ وارنر نے 163 اور مچل مارش نے 121 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر آسٹریلیا کو ایک ایسی بنیاد فراہم کی جس کے بعد باقی بلے بازوں کی جانب سے ایک اچھی شراکت بھی انھیں 400 رنز تک پہنچا سکتی تھی۔ تاہم دونوں اوپنرز کے آؤٹ ہونے کے بعد آسٹریلوی بیٹنگ زیادہ دیر تک وکٹ پر ٹک نہ سکی اور جہاں پہلے دو بلے بازوں نے 283 رنز بنائے وہاں باقی تمام بلے باز 84 رنز ہی بنانے میں کامیاب ہو سکے۔ پاکستانی بولرز جو شروعات کے لگ بھگ 34 اوورز میں کوئی بھی وکٹ لینے میں ناکام رہے تھے آخری 16 اوورز میں نو وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں شاہین آفریدی کی پانچ اور حارث رؤف کی تین وکٹیں شامل ہیں۔ وارنر اور مارش کے درمیان پہلی وکٹ پر 259 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی جو کہ پاکستان کے خلاف ورلڈکپ میں کسی بھی وکٹ پر سب سے بڑی شراکت داری ہے۔ اس شراکت کو توڑنے والے شاہین آفریدی نے 34 ویں اوور میں پہلے مچل مارش اور پھر گلین میکسویل کو اوپر تلے دو گیندوں پر آؤٹ کر کے پاکستان کا بولنگ میں کم بیک کرنے کی راہ ہموار کی۔ آسٹریلیا کے باقی تمام بلے باز صرف 108 رنز ہی بنا سکے۔ مارکس اسٹوئنس 21، جوش انگلس 13، لبوشین 8، پیٹ کمنز 6، مچل اسٹارک 2 رنز بناسکے ،کینگروز نے مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 367 رنز بنائے۔ پاکستانی صارفین اس وقت ٹیم کی جانب سے لگاتار دو میچ ہارنے کے بعد یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان ٹیم اس کارکردگی کے ساتھ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر پائے گی۔ صحافی شاہد ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف آخری 20 اوورز میں 168 رنز درکار تھے جبکہ سری لنکا کے خلاف اس موقع پر 173 رنز چاہیے تھے لیکن سعود شکیل نے ایک خراب شاٹ کھیلی اور افتخار اور رضوان ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔‘ اکثر صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈراپ کیچز کے باعث اس صورتحال کا شکار ہوا اور بولنگ میں پاکستان نے 30 سے 40 رنز زیادہ دیا جس کا ٹیم کو نقصان ہوا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایک صارف نے بابر اعظم کی بیٹنگ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’بابر اعظم کب بڑے میچوں میں پرفارم کریں گے ہمیں ان کے بنگلہ دیش اور افغانستان کے خلاف رنز نہیں چاہییں۔‘ اسی طرح ایک صارف نے اس ورلڈ کپ میں کپتانوں کی بیٹنگ اوسط بھی لکھی اور بابر اعظم کی چار میچوں کے بعد اوسط صرف 20 رنز تھی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 بابر اعظم نے آج بھی اچھا آغاز کیا تاہم وہ ایک بار پھر اس اچھے سٹارٹ کو بڑے سکور میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ کرکٹ کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے ایکس پر لکھا کہ آسٹریلیا کے لیے یہ ایک بہترین میچ تھا لیکن پاکستان کے سامنے بہت سارے سوالات اب بھی موجود ہیں جن میں بابر کی ناقص فارم، وکٹیں حاصل کرنے میں ناکامی اور نئی گیند سے اچھی بولنگ کرنا شامل ہیں۔ ایک صارف نے سوال کیا کہ ’ہم بابر اعظم کا فلاپ شو آخر کب تک دیکھتے رہیں گے؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/cgl3ep93d8zo
امپائر کا وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ جس سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا
ورلڈ کپ کے گذشتہ روز کے میچ میں انڈیا نے بنگلہ دیش کے خلاف سات وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ مگر اس دوران یہ بات زیرِ بحث رہی کہ امپائر رچرڈ کیٹلبرو کے وائیڈ نہ دینے کے فیصلے سے وراٹ کوہلی کو اپنی سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس وقت ہوا جب انڈین ٹیم دوسری اننگز میں 257 کے ہدف کا تعاقب کر رہے تھے۔ تین وکٹوں کے نقصان پر انڈیا کا سکور 255 تھا۔ انڈیا کو جیت کے لیے دو رنز درکار تھے مگر کوہلی کی سنچری میں تین رنز باقی تھے۔ بنگلہ دیشی سپنر نسیم احمد کے اوور کی پہلی گیند لیگ سائیڈ سے کیپر کے گلووز میں گئی مگر امپائر نے مسکراتے ہوئے اس پر وائیڈ کا اشارہ نہیں دیا۔ اس کے بعد کوہلی نے اوور کی تیسری گیند پر چھکا لگایا اور اپنی سنچری مکمل کر لی۔ سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے تبصرہ کیا ہے کہ کیٹلبرو کے فیصلے سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ اس معاملے پر امپائر بھی تنقید کی زد میں آئے ہیں۔ ورلڈ کپس میں آٹھ سال بعد آنے والی کوہلی کی تیسری سنچری اور انڈیا کی یہ فتح سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہیں۔ میچ کے بعد کوہلی کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے بلے باز کے ایل راہل نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کوہلی سنگل نہ لیں اور اپنی سنچری مکمل کریں۔ ’وارٹ کچھ کنفیوژڈ تھے۔ انھوں نے کہا میں سنگل نہ لے کر اچھا نہیں لگوں گا۔ یہ ورلڈ کپ ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ تاثر جائے کہ میں صرف اپنا ریکارڈ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے انھیں کہا کہ میں سنگل نہیں لوں گا۔‘ آخری اوورز میں ایسے پانچ مواقع آئے جب کوہلی اور راہل نے سنگلز نہیں لیے۔ میچ میں بہترین کھلاڑی قرار دیے جانے پر کوہلی نے مائیک پر رویندر جڈیجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسے آپ سے چرانے پر معذرت چاہتا ہوں۔‘ امپائر کی جانب سے وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس پر وشال مشرا نامی صارف نے لکھا کہ ’رچرڈ کیٹلبرو کرکٹ کی تاریخ کے ایک بہترین امپائر ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ان کے مطابق یہ ’بے تکی بات ہے کہ لوگ ان پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ انھوں نے کوہلی کو فائدہ پہنچانے کے لیے وائیڈ نہیں دی۔ امپائر تو نئے قواعد پر عمل پیرا تھے جن کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔‘ تاہم ایک دوسرے صارف پوچھتے ہیں کہ جب کوہلی 97 رنز پر کھیل رہے تھے تو امپائر نے کیوں وائیڈ نہیں دی؟ کیا ہمیں یہ ورلڈ کپ کھیلنے کی ضرورت ہے؟‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کوہلی کی سنچری سے قبل وائیڈ نہ دینے کے فیصلے کا ممکنہ تعلق سنہ 2022 میں ایم سی سی کے کرکٹ قواعد میں کی جانے والی تبدیلی سے ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قانون بولرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے متعارف کرایا گیا مگر شاید اس معاملے میں یہ قانون بیٹر کے فائدے میں چلا گیا۔ اس قانون میں تبدیلی سے قبل ایم سی سی لاز آف کرکٹ کی شق 22.1.1 میں وائیڈ سے متعلق فیصلہ امپائر کی ججمنٹ پر تھا۔ مارچ 2022 میں اس قانون میں معمولی تبدیلی کر کے شق 22.1.2 متعارف کرائی گئی جس کے تحت امپائر وائیڈ کا فیصلہ بیٹر کی پوزیشن کے لحاظ سے کرے گا۔ ایم سی سی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’جدید کھیل میں بیٹرز پہلے سے کہیں زیادہ بال کرائے جانے سے قبل اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ہی ناانصافی پر مبنی سمجھا جائے گا کہ اگر کسی ایسی بال کو وائیڈ قرار دیا جائے جو اس جگہ سے گزرے جہاں بلے باز پہلے کھڑا تھا۔‘ اس شق میں اس طرح تبدیلی متعارف کرائی گئی کہ اب جہاں بیٹر کھڑا ہوگا، اس سے وائیڈ کا تعین متاثر ہوگا۔ اب کوہلی کے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ جب بولر دوڑنا شروع کرتا ہے تو کوہلی بالکل اوپن پوزیشن میں اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کا فرنٹ فٹ لیگ سائیڈ کی طرف مڑ جاتا ہے اور اس وقت ان کے قریب سے بال گزرتی ہے۔ پھر جب بال وکٹ کیپر تک پہنچتی ہے تو اس دوران بھی ان کی پوزیشن میں ایک معمولی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کوہلی اپنی جگہ پر کھڑے رہتے تو بال انھیں آ کر لگتی۔ اب ایسے میں نئے قوانین کی روشنی میں امپائر کی طرف سے اسے وائیڈ نہ قرار دینا درست فیصلہ تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg1320mx9ko
اگر شاہین بھی اپنی اصل کو لوٹ آئے: سمیع چوہدری کا کالم
زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستانی پیس اٹیک دنیا بھر کے لیے قابلِ رشک ہوا کرتا تھا اور بہترین بلے باز بھی اس کا مقابلہ کرتے ہوئے محتاط نظر آتے تھے۔ مگر کسے خبر تھی کہ اہم ترین ایونٹ میں یہ اپنا بہترین جلوہ دکھانے سے یوں معذور ٹھہرے گا۔ نسیم شاہ کی انجری ورلڈ کپ سے عین پہلے واقع ہوئی اور ہڑبڑاہٹ کا وہ سماں پیدا ہوا کہ کچھ کونوں کھدروں میں محمد عامر کی واپسی کے بارے میں بھی سرگوشیاں ہونے لگیں۔ حسن علی جو ورلڈ کپ کے لیے کسی بھی پلان کا حصہ نہ تھے، چاروناچار انھیں بلاتے ہی بنی۔ لیکن نسیم شاہ کی انجری کے ہنگام یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ شاہین آفریدی بھی میگا ایونٹ میں یوں بے اثر سے ہو رہیں گے۔ اب جو شاہین پاکستانی اٹیک کی قیادت کر رہے ہیں، وہ کسی بھی زاویے سے ویسی تاثیر ظاہر نہیں کر پا رہے جو ان کا خاصہ تھی۔ جو فُل لینتھ یارکرز ان سوئنگ ہوا کرتے تھے، اب وہ فل ٹاس بن رہے ہیں اور نئی گیند کے ساتھ کوئی کاٹ پیدا نہ کرنے کے باوجود، شاہین اپنی لینتھ کو کھینچنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ شاہین کی ابتدائی وکٹوں سے جو سہولت دیگر بولرز کو میسر ہوا کرتی تھی، وہ بھی مفقود ہو رہی ہے اور بوجھ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شاہین وکٹیں نہیں لے رہے، حال ہی میں انھوں نے پاکستان کی تاریخ کا ایک اور ریکارڈ اپنے نام کیا ہے کہ متواتر ڈیڑھ درجن سے زیادہ میچز میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ وکٹ سے محروم رہے ہوں مگر ان کی وکٹیں تب نمایاں ہو رہی ہیں جب تک حریف مڈل آرڈر سکور بورڈ پر حاوی ہو چکا ہوتا ہے۔ شاہین کی کہانی سے کہیں زیادہ الم شاداب خان کی فارم میں بھرے ہیں جو سال بھر سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی ون ڈے کرکٹ میں جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی گوگلی مخالف بلے بازوں کے لیے تر نوالہ بن رہی ہے، یارکرز فل ٹاس بن رہے ہیں اور بیک آف لینتھ سہل ہاف ٹریکرز کا روپ دھار چکی ہے۔ شاداب کے متبادل کبھی عثمان قادر ہوا کرتے تھے مگر وہ اسامہ میر کے مقابلے میں انضمام الحق کا اعتماد نہیں جیت پائے۔ اور اسامہ میر اگرچہ وارم اپ میچز میں قدرے مہنگے ثابت ہوئے تھے مگر بہرحال وکٹیں لینے کے معاملے میں شاداب سے زیادہ مؤثر ہونے کے باوجود تاحال تھنک ٹینک کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے تیسرا بڑا عقدہ ٹاپ آرڈر کی کوتاہ ہمتی ہے جہاں امام الحق اپنے انفرادی اہداف کی تگ و دو میں یوں منہمک ہیں کہ عموماً ٹیم کے مفادات پسِ پشت رہ جاتے ہیں اور پاور پلے کا بوجھ بھی مڈل آرڈر پر منتقل ہو جاتا ہے۔ جبکہ مڈل آرڈر لوئر مڈل آرڈر کی پست قامتی کا ازالہ کرنے کی خواہش میں احتیاط کے حصار میں جکڑا نظر آتا ہے۔ جبکہ مقابل آسٹریلوی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں اپنا بدترین وقت پہلے دو میچز میں گزار چکی ہے۔ انڈیا اور جنوبی افریقہ کے ہاتھوں خفت اٹھانے کے بعد، بالآخر سری لنکا کے خلاف ان کی اصل روح بیدار ہوئی اور ٹورنامنٹ میں پہلی جیت حاصل کرنے کے بعد پلٹ کر نہ دیکھنے کا عزم بھی جاگ اٹھا۔ پیٹ کمنز آگاہ ہیں کہ اس قدر ناتواں آغاز کے بعد ان کی ٹیم کو اپنے باقی ماندہ تمام مقابلے جیتنا ہوں گے ورنہ سیمی فائنل تک رسائی کا خواب حسرت میں بدل جائے گا۔ پھر نوید یہ بھی ہے کہ بہترین مڈل آرڈر بلے باز اور آف سپن کرنے والے ٹریوس ہیڈ بھی پاکستان کے خلاف میچ کے لیے دستیاب ہو چکے ہوں گے۔ پاکستانی کیمپ کے لیے اضافی دقت عبداللہ شفیق کی بیماری کی صورت میں نمودار ہوئی ہے جو شاید کل کے مقابلے کے لیے دستیاب نہ ہو پائیں اور یوں پاکستانی ٹاپ آرڈر ایک بار پھر ماضی کے جوڑ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو گا جہاں فخر زمان اور امام الحق کے ہمراہ اننگز کا آغاز کریں گے۔ گو کہنے کو آسان ہے کہ پچھلے میچ کی ہزیمت کو پسِ پشت ڈال کر پاکستان ایک نئے میچ میں نئی مثبت سوچ کے ساتھ میدان میں اترے مگر احمد آباد کے جانبدار تماشائیوں کی گھناؤنی لفظی گولہ باری نے پاکستانی کیمپ کے اعتماد میں دراڑ ڈالنے کی جو کوشش کی، اس سے نکلنے کو بہت عزم درکار ہو گا۔ بظاہر تمام اشارئیے فی الوقت آسٹریلیا کی فوقیت کا اظہار کر رہے ہیں مگر پاکستان کرکٹ کی بھی تاریخ رہی ہے کہ جب توقعات کا بوجھ سر پر باقی نہ رہے، تبھی یہ پلٹ کر ایسا وار کیا کرتی ہے کہ تخمینے گنگ رہ جاتے ہیں۔ اگر شاداب خان کو کھلانا ناگزیر ٹھہرا اور وہ بھی اپنی بہتر فارم میں آ گئے تو آسٹریلوی مڈل آرڈر کا امتحان تو لیں گے۔ اور اگر شاہین آفریدی بھی اپنے اصل کو لوٹ آئے تو پھر یہ ناممکن نہیں کہ پاکستان کی تازہ مہم جوئی کسی بھی ٹیم کے لئے ناقابلِ تسخیر ہو ٹھہرے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72d18rn5k5o
اور ورلڈ کپ 'زندہ' ہو گیا: سمیع چوہدری کا کالم
جب تک توقعات منھ کے بل نہ گر پڑیں اور خدشات حقیقت میں نہ بدل جائیں، تب تک مقابلوں میں سنسنی پیدا نہیں ہوا کرتی۔ عالمی کرکٹ کے لیے یہ ہفتہ بہت پُرجوش رہا کہ یکے بعد دیگرے دو ناتواں مہروں نے بڑے برج ڈھا دیے۔ یہ کسی کو توقع نہ تھی کہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ اس افغان ٹیم کے ہاتھوں ڈھیر ہو جائے گا جو کثیرالقومی ایونٹس میں کبھی کوئی حیرت نہیں جگا پائی تھی۔ مگر راشد خان نے میچ سے پہلے کہا تھا کہ وہ جیت کر زلزلے سے بے حال ہم وطنوں کے لیے کچھ سامانِ مسرت پیدا کریں گے۔ انگلش بولنگ تاحال اپنا درست جوڑ طے کرنے سے قاصر رہی ہے اور ایشیائی کنڈیشنز میں ’بیز بال‘ کی اپروچ بھی بار آور ہونے سے معذور نظر آتی ہے۔ اور پھر افغان تھنک ٹینک کے سربراہ جوناتھن ٹروٹ نے بھی اپنی ٹیم میں کوئی ایسی روح پھونکی کہ اپنے ہم وطنوں کو گُنگ کر چھوڑا۔ افغانستان کی اس تاریخی فتح نے نہ صرف گلوبل ایونٹ کو رعنائی بخشی بلکہ اپنی طرح کے دیگر ناتوانوں کی امیدوں کو بھی جِلا بخشی کہ اگر نظم و ضبط برقرار رہے، جذبات چڑھنے نہ پائیں اور ہمت ہمراہ ہو تو کوئی بھی چوٹی ناقابلِ تسخیر نہیں ہوا کرتی۔ افغانستان کی اس فتح نے گویا حساب کتاب لگانے والوں کے لیے تنبیہ پیدا کر چھوڑی تھی کہ اب ٹورنامنٹ یوں لگی بندھی چال سے نہیں چلے گا اور آگے بڑھتے ہوئے مزید حیرانیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ نیدرلینڈز جب ورلڈ کپ کوالیفائرز کھیل رہی تھی تو اپنے کئی اہم ترین کھلاڑیوں سے محروم تھی کہ وہ کاؤنٹی کرکٹ کے معاہدوں میں بندھے تھے اور کاؤنٹی چیمپئن شپ کے کڑے مرحلے پہ کوئی بھی منتظم اپنے کلیدی مہروں کو آزاد کرنا گوارا نہیں کر رہا تھا۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے سکاٹ لینڈ کو شکست دی، یقینی فیورٹ آئرلینڈ کو مات کیا اور ویسٹ انڈیز کو چاروں خانے چِت کر کے اس عالمی سٹیج تک رسائی حاصل کی۔ کپتان سکاٹ ایڈورڈز اپنی اپروچ میں اس قدر واضح تھے کہ ورلڈ کپ سے پہلے ہی بتا رہے تھے، ’ہمیں اسوسی ایٹ نہ کہا جائے، ہم یہاں مسابقتی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں۔‘ پاکستان کے خلاف میچ میں بھی ڈچ بولنگ کا ڈسپلن کمال تھا اور ایڈورڈز کی مشاق کپتانی کی بدولت پاکستان ابتدا میں گھٹنوں کے بل نظر آیا۔ مگر پھر ناتجربہ کاری آڑے آئی اور پاکستانی مڈل آرڈر کی جوابی جارحیت نے اپ سیٹ کے امکانات ہوا کر دیے۔ مگر اس شکست میں بھی یہ عیاں تھا کہ اگر ڈچ بیٹنگ کسی روز اپنی بولنگ کا ساتھ نبھا گئی تو کوئی نہ کوئی بڑی ٹیم منہ کے بل ضرور گر پڑے گی۔ اور پھر ون ڈے فارمیٹ کے علاوہ ٹی ٹونٹی میں اپ سیٹ کرنا ڈچ کرکٹ کے لئے کوئی نئی بات تو تھی نہیں۔ بالآخر گزشتہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی نیدرلینڈز ہی کی مرہونِ منت تھی۔ دھرم شالہ میں میچ کے پہلے دو گھنٹے جنوبی افریقی بولنگ کھیل پہ حاوی تھی اور ڈچ بیٹنگ ایک بار پھر معمول کی کارروائی بھگت رہی تھی۔ لیکن پھر کپتان سکاٹ ایڈورڈز کریز پہ تن کر کھڑے ہو گئے اور جنوبی افریقی بولنگ اپنے سارے سبق بھلا بیٹھی۔ ہر ورلڈ کپ سے پہلے ماضی کے فاتحین اور کرکٹ لیجنڈز اپنے چار فیورٹ سیمی فائنلسٹس کی پیش گوئی کیا کرتے ہیں۔ یہاں آغاز پہ، جنوبی افریقہ لگ بھگ کسی بھی پیش گوئی کا حصہ نہ تھی مگر سری لنکن بولنگ کی بے مثال درگت بنانے اور آسٹریلین بیٹنگ کو تگنی کا ناچ نچانے کے بعد ٹیمبا باوومہ کی ٹیم واضح طور پہ سیمی فائنل کی سمت گامزن نظر آنے لگی تھی۔ لیکن ڈچ بیٹنگ کے بعد پروٹیز کا پالا ڈچ بولنگ سے بھی پڑنا تھا جو کہ اپنے تغیر اور ڈسپلن میں اس قدر لاجواب ہے کہ اپنے دن پہ کسی بھی بہترین بولنگ اٹیک کی مسابقت کا دعویٰ کر سکتی ہے اور کسی بھی تگڑی بیٹنگ لائن کے بخئے ادھیڑ سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ کی بیٹنگ مہارت ابھی تک اپنے ٹاپ آرڈر کی ممنون رہی ہے اور ایڈورڈز کے بولنگ اٹیک نے پہلے پہل اسی ٹاپ آرڈر کا رستہ روکا۔ جب اوپر کی تین وکٹیں گر گئیں تو پھر مڈل آرڈر کے پاس بھی ڈچ بولنگ اور فیلڈنگ کے ڈسپلن کا کوئی جواب نہ تھا۔ چار روز پہلے تک یہ ورلڈ کپ شاید تاریخ کا سب سے بورنگ ایونٹ دکھائی دے رہا تھا مگر افغانستان اور نیدرلینڈز کی ہمت جواں ہوئی تو اب نہ صرف ہر فیورٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے بلکہ ون ڈے ورلڈ کپ بھی اپنی کھوتی ہوئی معنویت پانے کو قدم بڑھا رہا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1veq20g53o
کیا شاہین شاہ آفریدی وسیم اکرم کی طرح مؤثر اور خطرناک بولر ہیں؟
کیا پاکستانی فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی وسیم اکرم کی طرح مؤثر اور خطرناک ہیں؟ ’اس بات سے قطع نظر کہ پاکستانی شائقین اور کچھ کرکٹ ماہرین شاہین شاہ آفریدی کی کتنی ہی تعریف کریں، مگر اُن کا اور وسیم اکرم کا کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا۔‘ یہ بات انڈین ٹیم کے سابق کپتان اور کوچ روی شاستری نے حال ہی میں کہی ہے۔ احمد آباد میں پاکستان کے خلاف میچ میں جب انڈین ٹیم بیٹنگ کر رہی تھی تب کمنٹری کے دوران روی شاستری نے اپنے ساتھی کمنٹیٹرز سے کہا کہ وہ شاہین شاہ آفریدی کی بہت زیادہ تعریفیں نہ کریں۔ روی شاستری نے مزید کہا کہ شاہین شاہ آفریدی سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، شاہین وسیم اکرم نہیں ہیں۔ وہ ایک اچھا بولر ہے لیکن اس کی اتنی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ایک ڈیسنٹ بولر ہے لیکن کسی کو یہ کہنے پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ شاہین ایک ناقابل یقین بولر ہے۔‘ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانی شائقین شاہین شاہ آفریدی کی کافی عرصے سے تعریف کرتے آ رہے ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ آفریدی کے لیے ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کو آؤٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا ایک یا دو اننگز میں ہوا ہو گا، کوہلی اور شرما کے علاوہ انڈیا کے باقی بلے باز وقتاً فوقتاً اس کی بولنگ تیکنیکس کو مات دیتے رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کی مضبوطی ان کی تیز بولنگ کو سمجھا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کے تیز رفتار بولرز اب تک کھیلے گئے تینوں میچوں میں ایسا کچھ خاص نہیں کر پائے جس کی بنیاد پر پاکستان کے ورلڈ کپ جیتنے کی امید پیدا کی جا سکے۔ نیدرلینڈ جیسی کم کرکٹ کھیلنے والی ٹیم نے بھی پاکستان کے خلاف رنز بنائے جبکہ سری لنکا جیسی کم تجربہ کار ٹیم نے بھی پاکستان کے خلاف 300 سے زیادہ رنز بنائے۔ پھر جب انڈیا کے خلاف میچ ہوا تو ٹیم 43ویں اوور میں ہی 191 پر آل آؤٹ ہو گئی۔ پاکستانی بولرز بھی کچھ خاص نہ کر سکے اور انڈیا نے یہ ہدف محض 31ویں اوور میں پورا کر لیا تھا۔ پاکستان کو اپنی تیز رفتار بولرز بشمول شاہین شاہ آفریدی، حسن علی اور حارث رؤف سے بہت زیادہ توقعات تھیں، مگر ان تینوں نے شائقین کو مایوس کیا۔ ورلڈ کپ میں کھیلے گئے تینوں میچوں میں شاہین شاہ نے تقریباً 35 کی اوسط سے صرف 4 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ اس کے ساتھ شاہین نے 6.31 رنز فی اوور کی اکانومی کو برقرار رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک مہنگا بولر بنتے ہیں نہ کہ ’عظیم‘۔ نیدرلینڈ کے خلاف انھوں نے 37 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی، سری لنکا کے خلاف انھوں نے ایک وکٹ پر 66 رنز دیے جبکہ انڈیا کے خلاف انھوں نے 36 رنز کے عوض دو وکٹیں حاصل کیں۔ یہ دونوں وکٹیں بلے بازوں کی غلطیوں کی وجہ سے گریں۔ احمد آباد کے میچ میں جب انڈین اوپنرز روہت شرما اور شبمن گل نے جارحانہ آغاز کیا تو شاہین شاہ بھی بے بس نظر آئے۔ اس کم سکور والے میچ میں پاکستان کو تیز رفتاری سے وکٹیں حاصل کرنے کی ضرورت تھی جو آفریدی نہ کر سکے۔ گیل کا ایک شاندار کیچ پوائنٹ پر شاداب خان نے پکڑا جبکہ روہت شرما کی وکٹ بھی سافٹ آؤٹ سمجھی جائے گی۔ اس میچ کے بعد سابق پاکستانی بولر شعیب اختر نے بھی پاکستانی بولنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ شعیب نے کہا کہ ’روہت شرما نے اکیلے ہی پوری باؤلنگ کو تباہ کیا اور انڈین ٹیم نے اس میچ میں پاکستان کو بچوں کی طرح شکست دی۔‘ کچھ مبصرین نے سیاہ مٹی کی پچ کو مورد الزام ٹھہرایا، جس پر گیند تھوڑا رُک کر آ رہی تھی۔ لیکن یہ وجہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ اسی پچ پر بمرا نے مؤثر گیند بازی کی اور 7 اوورز میں صرف 19 رنز دیے۔ جبکہ آفریدی نے 6 اوورز میں 36 رنز۔ اس میچ میں بمرا اور آفریدی کا موازنہ کرتے ہوئے گوتم گمبھیر نے کہا کہ بمرا ان کی ٹیم اور کپتان کے لیے سب سے اہم کھلاڑی ہیں۔ گوتم گمبھیر نے یہ بھی کہا کہ ’بمرا دوپہر 2 بجے چلچلاتی دھوپ میں بولنگ کر رہے تھے جبکہ شاہین کو شام کو گیند کرنے کا موقع ملا۔ یہ سوئنگ کے لیے زیادہ سازگار وقت ہے۔ تب بمرا کی گیندبازی میں ایک ایج تھا۔‘ خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق پاکستانی فاسٹ بولر وقار یونس نے بھی شاہین آفریدی کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ ورلڈ کپ میں کوئی مؤثر کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں تو انھیں بمرا سے سیکھنا چاہیے۔ وقار کا مزید کہنا تھا کہ ’شاہین کی بولنگ میں ’مِسنگ لِنک‘ (گمشدہ کڑی) نظم و ضبط ہے اور وہ جلد وکٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جب آپ ایک ہی چیز کو بار بار کرتے ہیں، جیسا کہ شاہین اپنے یارکر کو آگے بڑھانے کے لیے بولنگ کر رہے ہیں، تو بلے بازوں کو یہ معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہوتے ہیں۔‘ مگر احمد آباد کی پچ کوئی بہانہ نہیں ہو سکتی کیونکہ شاہین پچھلے دو میچوں میں کچھ خاص نہیں کر سکے، جو حیدرآباد میں کھیلے گئے تھے، اس کے باوجود کہ پاکستانی ٹیم نے حیدرآباد میں ہی پریکٹس کی اور وہاں کافی وقت گزارا۔ آسٹریلیا کے خلاف وہاں کھیلے گئے پریکٹس میچ میں بھی شاہین زیادہ وکٹیں حاصل نہیں کر سکے تھے۔ تو کیا ہم یہ کہہ دیں کہ حیدر آباد کی وکٹ بھی شاہین کو سوٹ نہیں کی؟ عظیم بولر وسیم اکرم سے ایسے عذر کی توقع بالکل نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ وہ ہر وکٹ پر اور ہر کنڈیشن میں وکٹیں لینے کے قابل بولر تھے۔ ذرا وسیم اکرم اور شاہین شاہ کے اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالیں اور آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ شاہین شاہ اب تک 27 ٹیسٹ میچوں میں 25.58 کی اوسط سے 108 وکٹیں لے چکے ہیں۔ 47 ون ڈے میچوں میں انھیں 23.86 کی اوسط سے 90 کامیابیاں ملی ہیں۔ انھوں نے 52 بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 64 وکٹیں حاصل کیں۔ دوسری جانب وسیم اکرم نے 104 ٹیسٹ میچوں میں 23.6 کی اوسط سے 414 وکٹیں حاصل کیں جب کہ 356 ون ڈے میچوں میں 23.5 کی اوسط سے 502 وکٹیں حاصل کیں۔ پہلی بات تو یہ کہ وکٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور شاہین آفریدی کو ممکنہ طور پر اس کے قریب پہنچنے سے پہلے طویل عرصے تک اپنے عروج پر بولنگ کرنی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ کوئی بھی کم میچوں میں اچھی اوسط رکھ سکتا ہے لیکن وسیم اکرم جیسا بولر ہی 100 سے زائد ٹیسٹ اور 300 سے زائد ون ڈے میچوں میں اتنی بہترین اوسط برقرار رکھ سکتا ہے۔ وہ زبردست سوئنگ کی مدد سے کسی بھی فلیٹ وکٹ پر بھی وکٹیں لے سکتے تھے۔ تعجب کی بات نہیں کہ انھیں ’سوئنگ کا سلطان‘ کہا جاتا تھا۔ اس سے قبل سال 2020 میں بھی ایک پاکستانی چینل نے شاہین شاہ اور نسیم شاہ کا موازنہ وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی سے کیا تھا۔ تب وقار نے کہا تھا کہ ’انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے، یہ دونوں اچھے اور وکٹ لینے والے بولر ہیں لیکن وہ ابھی اس مقابلے کے قابل نہیں ہیں۔‘ شاہین آفریدی کی ایک کمزوری ان کی فٹنس ہے۔ وہ جوان ہے لیکن اکثر انھیں کمر یا سائیڈ میں تناؤ یا درد کی وجہ سے میچز سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ فٹنس کے اس مسئلے کے ساتھ ساتھ ان کی رفتار میں بھی فرق آیا ہے۔ اس سے پہلے وہ 145 یا 150 کی رفتار سے بولنگ کرتے تھے۔ فی الحال وہ 130 کی اوسط رفتار سے بولنگ کر رہے ہیں جو کبھی کبھی 136-137 تک بھی جاتی ہے۔ سابق پاکستانی آل راؤنڈر عبدالرزاق کا ماننا ہے کہ رفتار کم ہونے کی وجہ سے ان کی بولنگ میں فرق آیا ہے۔ ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پہلے جب ان کی رفتار اچھی تھی تو گیند صحیح جگہ پر گرتی تھی اور سوئنگ بھی دستیاب تھی۔ اگر آپ احمد آباد میں ان کی بولنگ پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انھوں نے کم سوئنگ حاصل کی۔‘ تاہم سچ تو یہ ہے کہ پکچر ابھی باقی ہے اور وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ وسیم اکرم سے میچ کر پاتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں کم از کم ایک دہائی تک پوری فٹنس کے ساتھ ٹاپ لیول پر بولنگ کرنی ہو گی۔ اس کے علاوہ، جس طرح سے بلے باز شاہین آفریدی کے ارادوں کو بھانپ لیتے ہیں، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے انھیں اپنی بولنگ میں مزید ورائٹی لانا ہو گی۔ اور یہ سب کرتے ہوئے انھیں اپنی رفتار بھی برقرار رکھنی ہو گی۔ تو کیا شاہین شاہ آفریدی اس کے لیے تیار ہیں؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n893k3jq4o
123 سال کے وقفے کے بعد کرکٹ اولمپکس 2028 میں شامل: جب کرکٹ پہلی اور آخری بار اولمپکس کا حصہ بنی
ایک صدی سے بھی طویل عرصے کے وقفے کے بعد کرکٹ کو دوبارہ اولمپکس مقابلوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے ارکان کی اکثریت نے کرکٹ سمیت پانچ دیگر کھیلوں (فلیگ فٹبال، سکواش، لکروس، بیس بال/سافٹ بال) کو 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس مقابلوں میں شامل کرنے کی حمایت کی ہے۔ پیر کو ممبئی میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے اجلاس کے دوران صرف دو ارکان نے کرکٹ اِن نئے کھیلوں کی اولمپکس میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ اس پیشرفت کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اولمپکس 2028 میں مردوں اور خواتین کا ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ہو سکتا ہے۔ لاس اینجلس گیمز کے منتظمین نے کرکٹ کی چھ ٹیموں پر مشتمل ایونٹ کی تجویز دی ہے تاہم اب تک ٹیموں کی تعداد اور کوالیفیکیشن کے طریقۂ کار پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر تھامس باخ نے کہا کہ نئے کھیلوں کی شمولیت سے ایل اے گیمز ’دلچسپ‘ بنیں گی۔ ’ان کھیلوں کا انتخاب امریکہ میں کھیلوں کے کلچر سے مماثلت رکھتا ہے اور اس سے دنیا مخصوص امریکی کھیل دیکھ سکے گی۔ جبکہ اس سے عالمی کھیل امریکہ بھی آ سکیں گے۔‘ ادھر انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ کورڈ کے سربراہ رچرڈ گولڈ کا خیال ہے کہ امریکہ میں اولمپکس کے ذریعے مردوں اور خواتین کی کرکٹ دنیا بھر میں دکھانے کا یہ ایک زبردست موقع ہے۔ ’مجھے کوئی شک نہیں کہ اولمپکس میں شمولیت سے خواتین کے کھیل کو ترقی ملے گی۔‘ اِن نئے کھیلوں کے حتمی پروگرام اور ایتھلیٹ کوٹہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ میزبان شہروں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اولمپک پروگرام میں وہاں کھیلوں کی تقاریب تجویز کر سکیں۔ یاد رہے کہ جون 2024 کے دوران امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں مردوں کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہونے جا رہا ہے جس میں امریکہ بطور میزبان حصہ لے گا۔ جبکہ ایل اے گیمز میں بھی بطور میزبان ملک امریکہ کی ٹیم براہ راست حصہ لے سکے گی۔ ماضی میں کرکٹ صرف ایک بار اولمپکس کا حصہ بنی جب پیرس 1900 میں اس کا واحد میچ کھیلا گیا۔ جب اولمپکس مقابلے پہلی بار سنہ 1896 میں منعقد ہوئے تو اس میں کرکٹ بھی شامل تھی لیکن کوئی ٹیم حصہ لینے کے لیے موجود نہیں تھی، اس لیے اسے منسوخ کرنا پڑا۔ چار سال بعد سنہ 1900 کے اولمپکس میں بھی کرکٹ کو شامل کیا گیا۔ یہ اولمپکس مقابلے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوئے۔ اولمپکس کی تاریخ میں صرف ایک بار کرکٹ میچ منعقد ہوا، وہ بھی اسی اولمپکس کے دوران۔ یہ حیران کن ہے کہ اولمپکس کا واحد کرکٹ میچ فرانس میں ہوا جہاں آج بھی کرکٹ میں دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ پیرس میں منعقدہ اولمپکس میں 19 کھیلوں کے مقابلوں کا اہتمام کیا گیا، کرکٹ بھی ان میں شامل تھی۔ ٹورنامنٹ میں چار ٹیمیں شامل تھیں: نیدر لینڈز، بیلجیئم، برطانیہ اور فرانس۔ بیلجیئم اور نیدر لینڈز نے میچ شروع ہونے سے قبل اچانک اپنے نام واپس لے لیے کیونکہ ان کی جانب سے گیمز کو ہوسٹ کرنے کی پیشکش قبول نہیں کی گئی تھی۔ یعنی اس میچ میں صرف دو ٹیمیں باقی تھیں: برطانیہ اور فرانس۔ ان دونوں کے درمیان صرف ایک میچ کھیلا گیا اور اسے ’فائنل‘ قرار دیا گیا جو پیرس میں سائیکلنگ کے وینیو پر منعقد ہوا۔ اس میچ کے قوانین بھی کچھ مختلف تھے۔ ان کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد 11 نہیں 12 تھی۔ آپ یہ بھی نوٹ کریں گے کہ اس وقت صرف ٹیسٹ کرکٹ تھی یعنی میچ پانچ دن پر محیط ہوتے ہیں لیکن اولمپکس میں یہ میچ صرف دو دن تک جاری رہا۔ اس کے لیے برطانیہ نے اپنی قومی ٹیم نہیں بھیجی بلکہ ایک مقامی کلب ’ڈیون اینڈ سمرسیٹ وانڈررز‘ نے برطانیہ کی نمائندگی کی۔ دراصل کلب کے کھلاڑی فرانس کے دورے پر تھے جن سے کہا گیا کہ وہ پیرس جا کر اولمپکس میں بھی حصہ لے لیں۔ برطانیہ کے مقامی کلب کی ٹیم کا مقابلہ فرانس کی نمائندگی کرنے والی ٹیم ’آل پیرس‘ نے کیا جس میں پیرس میں رہنے والے برطانوی افسران سمیت 12 برطانوی نژاد تھے۔ دونوں ٹیموں کے کل 24 کھلاڑیوں میں سے صرف دو نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رکھی تھی اور انھی دونوں نے بیٹنگ اور بولنگ میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ برطانیہ نے دو روزہ میچ کے دوسرے روز فرانس کو شکست دی جب مقررہ مدت میں صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ اس میچ کی فاتح ٹیم کو گولڈ میڈل نہیں ملا بلکہ برطانوی ٹیم کو چاندی کا تمغہ ملا اور فرانسیسی ٹیم کو کانسی کا تمغہ دیا گیا۔ دونوں ٹیموں کو یادگار کے طور پر ایفل ٹاور کی تصاویر دی گئی لیکن سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں ٹیمیں یہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ اولمپکس میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ میچ 12 سال بعد اولمپکس کے سرکاری اعداد و شمار میں بھی شامل کیا گیا اور پھر دونوں ٹیموں کو سونے اور چاندی کے تمغوں سے نوازا گیا۔ پیرس اولمپکس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ سینٹ لوئس میں منعقد ہونے والے تیسرے اولمپکس کے دوران کرکٹ کو بھی شامل کیا جائے گا لیکن ایک بار پھر شرکت کرنے والے ممالک نہیں ملے اور اس کی وجہ سے کرکٹ کو مقابلے میں شامل کرنے کا منصوبہ منسوخ کرنا پڑا۔ اس کے بعد پھر کرکٹ کو اولمپکس میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان دنوں صرف ٹیسٹ میچز ہوتے تھے۔ اولمپکس میں اتنے لمبے میچوں کا انتظام کرنا مشکل تھا۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ مزید ٹیموں کی شرکت کے ساتھ یہ اور بھی طویل عرصے تک جاری رہے گا۔ اسی وجہ سے ایک طویل عرصے تک کرکٹ کو اولمپک گیمز سے باہر رکھا گیا۔ پہلے کسی بھی نئے کھیل کو شامل کرنے سے قبل بین الاقوامی اولمپکس کمیٹی (آئی او سی) یہ فیصلہ کرتی تھی۔ لیکن اب آئی او سی نے یہ ذمہ داری میزبان ملک کی اولمپکس انتظامی کمیٹی کو دی ہے۔ یہ تبدیلی اولمپکس 2020 کے بعد نافذ کے بعد کی گئی۔ اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں تک پہنچنا ہے۔ ٹوکیو اولمپک انتظامی کمیٹی نے سنہ 2015 میں ٹوکیو اولمپکس میں نئے کھیلوں کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی اور آئی او سی نے 2016 میں اس تجویز کو قبول کیا تھا۔ اس کی بعض شرائط ہیں جن کے بارے میں میزبان ملک کی انتظامی کمیٹی کھیلوں کو شامل کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ میزبان ملک کے پاس اس کھیل کے مقابلوں کے انعقاد کے لیے مناسب سہولیات ہونی چاہییں۔ خیال رہے کہ 2024 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل امریکہ میں ٹیکساس اور شمالی کیرولائنا کے دو سٹیڈیمز میں میجر لیگ کرکٹ کا ٹورنامنٹ کھیلا گیا۔ نئے کھیلوں کی شمولیت سے متعلق شرائط میں میزبان ملک میں اس کھیل کے بارے میں ایک کلچر ہونا بھی ضروری ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ ایک کھیل جو کسی اولمپکس میں شامل ہے اسے اگلے اولمپک کھیلوں میں بھی شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5v14v6g1jo
کرکٹ ورلڈ کپ: ٹورنامنٹ کی تاریخ میں افغانستان کی مسلسل شکست کا سلسلہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کے خلاف فتح کے ساتھ تمام ہو گیا
انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے 13ویں میچ میں ایک بڑا اپ سیٹ اس وقت ہوا جب ون ڈے رینکنگ میں 9ویں نمبر کی ٹیم افغانستان نے دفاعی چیمپیئن اور ’فیورٹس‘ قرار دیے جانے والے انگلینڈ کو 69 رنز سے شکست دی۔ انگلینڈ کی تین اہم وکٹیں حاصل کرنے والے مجیب الرحمان کو ’میچ کا بہترین کھلاڑی‘ قرار دیا گیا، جنھوں نے یہ ایوارڈ افغانستان میں زلزلے سے متاثرہ لوگوں کے نام کیا۔ جبکہ راشد خان نے اس اہم میچ میں سپورٹ کے لیے دلی والوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے سٹیڈیم میں افغانستان کی عمدہ کارکردگی کو سراہا۔ جہاں دلی میں افغانستان میں کی اس تاریخی جیت پر ٹیم کو کافی سراہا جا رہا ہے وہیں ورلڈ کپ میں دوسری شکست پر انگلینڈ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کو 285 رنز کا ہدف دیا تھا۔ کپتان حشمت الله شاہدی نے بعد ازاں بتایا کہ انھیں لگتا تھا کہ اس ٹریک پر ’280 سے 290 رنز کافی ہوں گے۔‘ اوپنرز رحمان اللہ گرباز اور ابراہیم زدران نے 114 رنز کی شراکت کے ساتھ ٹیم کو بہترین آغاز دیا تاہم مڈل اوورز میں عادل رشید کی تین وکٹوں نے رن ریٹ پر بریک لگائی۔ گرباز 80 رنز جبکہ اکرام علی خیل 58 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ لوئر آرڈر کی کوششوں کی بدولت ٹیم 50ویں اوور میں مجموعی سکور 284 رنز تک لے جانے کے بعد آل آؤٹ ہوئی۔ جواب میں انگلینڈ کو پہلا جھٹکا دوسرے اوور میں لگا جب فضل حق فاروقی نے اوپنر جونی بیئرسٹو کو ایل بی ڈبلیو کیا۔ اس کے بعد سے انگلش بیٹنگ سنبھل نہ پائی اور یکے بعد دیگرے اس کی وکٹیں گِرتی چلی گئیں۔ افغان سپنرز بشمول مجیب، محمد بنی اور راشد خان نے انگلش بیٹرز پر دباؤ برقرار رکھا۔ ہیری بروک نے 66 رنز کی نمایاں باری کھیلی جبکہ مجیب اور راشد نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں۔ انگلینڈ کی ٹیم 41ویں اوور میں 215 رنز پر آل آؤٹ ہوئی اور یوں افغانستان نے 69 رنز سے یہ میچ جیت لیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طرف افغانستان کو سراہا جا رہا ہے تو دوسری طرف انگلش ٹیم کے لیے رواں ورلڈ کپ کے دوران بڑھتی مشکلات بیان کی جا رہی ہیں۔ انگلش کمنٹیٹر مائیکل ایتھرٹن نے کہا ہے کہ ’انگلینڈ کی شروعات اچھی نہ رہی۔ پہلے 10 اوورز میں پانچ وائیڈز، نو بال، فری ہٹ۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انھوں نے کہا کہ انگلینڈ کو آج بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں مار پڑی۔ ’نیوزی لینڈ اور افغانستان دونوں نے انگلینڈ کو بُری طرح شکست دی ہے۔ اب ان کے پاس مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں۔‘ مظہر ارشد نے بتایا کہ افغانستان کو ورلڈ کپ کے گذشتہ مقابلوں میں 14 بار شکست ہوئی تھی مگر اب ہار کا سلسلہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کے خلاف بڑی فتح سے تھم گیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 کمٹیٹر ہرشا بھوگلے نے اسے افغان کرکٹ تاریخ کا ’سب سے بڑا لمحہ‘ قرار دیا جبکہ شعیب اختر نے تبصرہ کیا کہ یہ ٹیم ’جدید دور کی کرکٹ کھیلتی ہے۔ یہ آپ پہلے 10 اوورز میں ان کی بیٹنگ سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔‘ روحا ندیم نے تبصرہ کیا ہے کہ اس میچ کے دوران انگلش ٹیم سے کئی غلطیاں ہوئیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان نے عمدہ کارکردگی نہیں دکھائی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 افغان فین وژمہ ایوبی نے آج سٹیڈیم میں سپورٹ پر انڈین شائقین کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر افغانستان کے ایک نوجوان فین کی تصویر بھی گردش کر رہی ہے جو اس فتح پر آبدیدہ ہوگیا اور اسے مجیب سے ہاتھ ملاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میچ کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر نظر دوڑائی جائے تو اب ایک، ایک جیت کے ساتھ انگلینڈ پانچویں جبکہ افغانستان چھٹے نمبر پر ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c725j9812pxo
سمیع چوہدری کا کالم: محتاط آغاز نے انجام خراب کر دیا
کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان مہندرا سنگھ دھونی تھے جن کی قیادت میں انڈیا نے تینوں آئی سی سی ٹائٹلز جیتے۔ دھونی کہا کرتے تھے کہ کامیابی کے لیے خوف کو بُھلا رکھنا اور احتیاط کو پسِ پشت ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹاپ آرڈر کا یہ نادر ریکارڈ رہا ہے کہ پچھلے کچھ سال بھر سے، پہلے پاور پلے کی ایک ہزار سے زیادہ گیندیں کھیل کر ایک بھی چھکا رسید نہیں کر پایا۔ ایسا عموماً تب ہوا کرتا ہے جب انفرادی اہداف ٹیم کی ضروریات سے بالاتر ہو رہتے ہیں۔ احمد آباد کی یہ پچ حیدرآباد یا دہلی کی طرح رنز کی برسات سے لیس نہیں تھی مگر غور طلب پہلو یہ تھا کہ یہاں نئی گیند کے ساتھ قطعی کوئی سیم، سوئنگ یا سپن بھی دستیاب نہیں تھی۔ اور ون ڈے کرکٹ میں پہلا پاور پلے ہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں فیلڈنگ پابندیوں کے طفیل ٹاپ آرڈر کو جرات مندانہ کرکٹ کھیلنے کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ ثانیاً، اکثر ایشیائی کنڈیشنز میں نئی گیند پر ہی بلے بازوں کو اونچے شاٹ کھیلنے اور رن ریٹ مہمیز کرنے کی آزادی ہوا کرتی ہے۔ کیونکہ جوں جوں گیند پرانی ہوتی جاتی ہے، سپنرز سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں اور لمبے شاٹ کھیلنا دشوار تر ہوتا جاتا ہے۔ سو اگر کوئی ٹیم پہلے پاور پلے میں اچھا آغاز حاصل کر پاتی ہے تو اس کے لیے ایک معقول مجموعہ ترتیب دینا آسان ہو جاتا ہے۔ مگر پاکستانی ٹاپ آرڈر یہاں خوف اور احتیاط کے حصار میں پھنسا نظر آیا۔ بلاشبہ بمرا کا ڈسپلن بہت عمدہ تھا مگر اس پہلے سپیل میں پاکستانی اوپنرز نے بھی عزم یا جارحیت کی کوئی جھلک تک نہ دکھلائی اور بقا کی جنگ میں جُتے نظر آئے۔ وکٹیں بچانا اولین فریضہ سمجھا گیا اور باقی کا سارا کام مڈل آرڈر اور دوسرے، تیسرے پاور پلے پہ چھوڑ دیا گیا۔ مڈل اوورز کی بیٹنگ میں بھی پاکستان نے خوبی اسی کو جانا کہ پہلے تیس اوورز میں کسی طرح سے وکٹیں بچا رکھی جائیں اور ساری توجہ پارٹنرشپ جوڑنے پہ مرکوز رہی۔ اس بِیچ یہ بھی ملحوظِ نظر نہ رہا کہ یہ پارٹنرشپ جوڑی کس رن ریٹ پہ جا رہی ہے؟ اننگز تمام ہونے پر کلدیپ یادیو بھی سنجے منجریکر کو یہی بتاتے پائے گئے کہ پاکستانی بلے باز کوئی پیش رفت کرنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ شاید ٹیم میٹنگ میں ہی طے کر لیا گیا تھا کہ بس کسی نہ کسی طرح یادیو اور جدیجا کے اوورز گزار لینا ہی غنیمت ہو گی۔ پاکستان کی مدافعانہ حکمتِ عملی اسی امر پہ اکتفا کرتی رہی کہ ابھی آٹھ وکٹیں ہاتھ میں ہیں اور سارا اٹیک آخری بیس اوورز میں کیا جائے گا۔ مگر تیس اوورز تک گیند پرانی ہو چکی تھی اور پچ میں بھی ٹوٹ پھوٹ خاصی بڑھ چکی تھی، باؤنس گویا نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا اور لمبے شاٹ کھیلنا تو یکسر ناممکن ٹھہرا۔ دوسرے پانی کے وقفے کے قریب، کمنٹری باکس سے ناصر حسین گویا ہوئے کہ شاید ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ روہت کا غلط انتخاب تھا کیونکہ ان کے خیال میں رضوان اور بابر کی شراکت پنپتی جا رہی تھی اور آٹھ وکٹیں جیب میں ہونے کے سبب پاکستانی مڈل آرڈر خطرناک ہونے کو تھا۔ مگر روہت شرما کی کپتانی قابلِ داد تھی کہ عین اسی لمحے وہ محمد سراج کو اٹیک میں واپس لائے اور پرانی گیند کے ساتھ انھوں نے کراس سیم بولنگ شروع کی۔ ان کی رفتار کے تغیر اور کٹرز نے بابراعظم کے دفاع میں دراڑ ڈال دی اور اس کے بعد دوسرے کنارے سے جب بمراہ حملہ آور ہوئے تو انہدام کا اک ایسا دروازہ کھلا کہ جسے بند کرنے کی کوئی ترکیب پاکستان کو سجھا کے نہ دی۔ یہ ممکن تھا کہ اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر یوں مدافعانہ خول میں محصور نہ ہو رہتا اور نئی گیند کے ساتھ کچھ مثبت اپروچ سے بیٹنگ کر لی جاتی تو مڈل آرڈر پہ اس قدر توقعات کا بوجھ ہی نہ پیدا ہوتا اور پاکستان پونے تین سو کے لگ بھگ ایک قابلِ قدر مجموعہ تشکیل دینے میں کامیاب رہتا۔ مگر یہاں سارا بوجھ آخری اوورز میں مڈل اور لوئر آرڈر کے لیے بچا چھوڑا گیا۔ کوئی اور بولنگ اٹیک ہوتا، کوئی اور پچ ہوتی تو شاید افتخار، شاداب خان اور محمد نواز حسبِ معمول ڈوبتی ناؤ کو سطحِ آب پہ لے آتے اور کچھ بھرم بچ رہتا۔ مگر یہ وہ پچ نہ تھی کہ رہورس سوئنگ ہوتی پرانی گیند کے خلاف بازو کھول کر جارحیت کا مظاہرہ کر لیا جاتا۔ بلاشبہ انڈیا تینوں شعبوں میں پاکستان سے بہتر ٹیم تھی اور یقیناً فیورٹ بھی تھی مگر پاکستان کی کم مائیگی اس قدر بھی متوقع نہ تھی کہ کوئی لڑائی لڑے بغیر ہی ہتھیار پھینک ڈالے گی اور یوں بازی گنوا دے گی۔ میچ سے پہلے بابر اعظم نے کہا تھا کہ وہ ان مقابلوں کی یکطرفہ تاریخ سے آگاہ تھے اور ان کے بقول ہر سلسلے کو کہیں نہ کہیں تو رکنا ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ کس نے سوچا تھا کہ ریکارڈ شکنی تو درکنار، یہ ٹیم شکست میں ذرا سا بھرم بھی نہ بچا پائے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c519llp5vl8o
انڈیا بمقابلہ پاکستان: ’جب بابر اور رضوان کھیل رہے تھے تو لگ رہا تھا 350 تک چلا جائے گا‘
ورلڈ کپ میں اپنے تیسرے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دے دی ہے۔ میچ کے بعد احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم کے باہر کیا ماحول تھا، جاننے کے لیے دیکھیں بی بی سی اردو کے شکیل اختر اور تپس ملک کی یہ رپورٹ
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g3jvwg1pwo
اچانک ایسا کیا ہوا جس نے 300 رنز کی امید کو 191 آل آؤٹ میں بدل دیا؟
احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستانی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان 82 رنز کی شراکت قائم کر چکے تھے۔ یہ پاکستانی اننگز کا 30واں اوور تھا جس کا آغاز رضوان نے چوکے سے کیا تھا۔ دونوں کی اس شراکت کی رفتار قدرے سست تھی اور انڈین سپنرز جڈیجا اور کلدیپ یادو دونوں ہی اچھے سپیل کروا چکے تھے۔ تاہم پاکستانی فینز یہ امید لیے بیٹھے تھے کہ بابر کی نصف سنچری یقیناً ایک سنچری میں تبدیل ہوگی اور انڈیا کو لگ بھگ 300 یا اس سے زیادہ کا ہدف دیا جاسکے گا۔ ایسے میں محمد سراج کی گیند پر بابر اعظم بولڈ ہوئے اور پھر وہی ہوا جو ورلڈ کپ کے اہم میچوں میں پاکستانی بیٹنگ کا خاصا رہی ہے۔۔۔ یعنی لائن لگ گئی۔ جہاں ایک جانب رضوان اور بابر پر یہ تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ سپنرز کے خلاف جارحانہ انداز اپنانے میں ناکام رہے وہاں اب اس بات پر تبصرہ ہونے لگا کہ کیا پاکستان پورے پچاس اوورز بھی کھیل پائے گا یا نہیں۔ 155 پر دو کھلاڑی آؤٹ ہونے کے بعد صرف 36 رنز کا اضافہ ہوا اور پاکستان کی پوری ٹیم 191 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ اس وقت کمنٹری پر موجود سابق انگلش کپتان ناصر حسین نے کہا کہ ’صرف پاکستانی ٹیم ہی اس طرح ڈھیر ہوسکتی تھی۔‘ یہ اس لیے بھی غیر معمولی تھا کیونکہ چار روز قبل حیدرآباد میں پاکستان نے سری لنکا کا 345 رنز کا ہدف باآسانی چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا تھا۔ ورلڈکپ کے اتنے بڑے میچ میں پاکستان کی ٹیم کا ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باجود ڈھیر ہو جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ انڈیا کے سپنرز جہاں ایک سلو پچ پر بہترین بولنگ کرنے اور پاکستانی بیٹنگ کو دباؤ میں لانے میں کامیاب رہے وہیں پاکستانی سپنرز نواز اور شاداب اس معاملے میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ایک بار پھر ناکام رہے۔ ایک ایسے میچ میں پاکستان کی ناقص کارکردگی پر مداح برہم ہیں جس کا ایک عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کی جانب سے آج بیٹنگ میں اعتماد کا فقدان بھی واضح دکھائی دیا اور لاپرواہی بھی اپنی جگہ عیاں تھی۔ دونوں پاکستان اوپنرز عبداللہ شفیق اور امام الحق اچھے آغاز کے بعد اپنی وکٹ معمولی گیندوں پر گنوا بیٹھے۔ امام الحق 36 رنز جبکہ عبداللہ شفیق 20 رنز بنا سکے۔ آغاز میں پچ جس طرح کھیل رہی تھی دونوں سے اس سے زیادہ جارحانہ بیٹنگ کی امید کی جا رہی تھی۔ بابر بھی نصف سنچری بنانے کے بعد گیند کو تھرڈ مین کی جانب گائیڈ کرنے گئے اور ایک آسان گیند پر ایک بہت اہم موقع پر اپنی وکٹ گنوا دی اور یہیں سے پاکستان ٹیم کا مڈل آرڈر ایک ایک کر کے پویلین جانے لگا اور پاکستان صرف 200 رنز بھی عبور کرنے میں ناکام رہا۔ انڈین بولنگ کی خاص بات آغاز میں ہی اس بات کو بھانپنا تھا کہ یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے اچھی ہے اس لیے یہاں فاسٹ بولرز کو وکٹ سے کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی اس لیے انھوں نے کراس سیم بولنگ، کٹرز اور سلو ڈیلیوریز کا استعمال کرنا شروع کیا۔ پاکستانی بلے باز ان کے ان حربوں کے سامنے بے بس دکھائی دیے، عبداللہ شفیق اور بابر اعظم جو پاکستان ٹیم میں تکنیکی اعتبار سے بہترین بلے باز سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں ہی محمد سراج کی کراس سیم ڈیلیوریز کا نشانہ بنے۔ اب اس تمام صورتحال میں سوشل میڈیا صارفین پاکستان ٹیم میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ پاکستان ٹیم کو ایک مسئلہ بیچ کے اوورز میں وکٹیں حاصل کرنے کے ہے کیونکہ اس کے سپنرز اچھی بولنگ کروانے میں ناکام ہیں، اس لیے آنے والے میچوں میں اسامہ میر کو ٹیم میں شامل کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن اچانک سے بیٹنگ کے لڑکھڑانے کا کیا جائے، کیونکہ پاکستان کی یہی بیٹنگ گذشتہ میچ میں بہترین فارم میں دکھائی دی تھی۔ اس حوالے سے اکثر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کو جارحانہ حکمتِ عملی اپنانی ہو گی اور انڈین بلے بازوں کی طرح تیز بیٹنگ کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ پاکستان کے سابق ٹیسٹ اوپنر اور چیف سیلیکٹر محمد وسیم نے اس بارے سوش میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’لوگوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان ٹیم پہلے 30 اوورز میں کنٹرول میں تھی لیکن میرے خیال میں پاکستان نے میچ پہلے 30 اوورز میں ہی ہارا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے بلے بازوں نے جارحانہ انداز اپنانے میں دیر کر دی، اور یہی پاکستانی بیٹنگ کے اچانک ڈھیر ہونے کی وجہ بنا۔ پاکستان کا سکور 22 اوورز کے اختتام پر 114/2 تھا اور بابر اور رضوان کریز پر موجود تھے تاہم دونوں کا سٹرائیک ریٹ اس دوران اچھا نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے سپنرز کو اٹیک کرنے کی کوشش کی جس کے بعد ہر گزرتے اوور کے ساتھ دباؤ بڑھتا گیا۔ کرکٹ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے پاکستان کی بیٹنگ اننگز کے بعد لکھا کہ ’یہ بہت کم وقت میں انتہائی غیر معمولی انداز میں وکٹیں گری ہیں۔ سراج کی وکٹ کے باعث مزید وکٹوں کے لیے دروازہ کھلا اور انڈین بولنگ میں ہمیشہ سے ہی ایسا کرنے کی صلاحیت تھی۔ انھوں نے روہت شرما کی کپتانی کی بھی تعریف کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام صحافی سلیم خالق نے لکھا کہ ’کیا پچ پر اچانک کانٹے نکل آئے کہ کسی سے رکا ہی نہیں گیا۔‘ سابق انڈین فاسٹ بولر عرفان پٹھان نے لکھا کہ ’پاکستان کی جانب سے ایک بھی چھکا نہیں مارا گیا حالانکہ ایک بڑی شراکت بھی قائم ہوئی۔ جارحانہ کی بجائے محتاط انداز اپنانے سے انھیں اس میچ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘ ان کے علاوہ ناصر حسین کا کمنٹری پر یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان نے اپنے لیے بہت بڑا ہدف سوچ رکھا تھا، یہ پچ انگلینڈ بمقابلہ نیوزی لینڈ میچ سے مختلف تھی۔ پاکستان کو 280 کا ہدف رکھنا چاہیے نہ کہ 340 رنز کا۔‘ انڈیا کے سابق فاسٹ بولر ونکتیش پرساد نے لکھا کہ ’ایسا لگا کہ پاکستانی کھلاڑی بری طرح سے گھبرا گئے تھے۔‘ شاید یہ تجزیہ اس لیے بھی معقول ہے کیونکہ پاکستان ٹیم ایک لاکھ کے قریب تماشائیوں کے سامنے یہ میچ کھیل رہی تھی اور انڈیا میں ہونے والے اس میچ میں پاکستانی بلے باز ہدف سیٹ کرتے ہوئے ڈگمگا گئے۔ عموماً جب بھی بیٹنگ میں اتنی بڑی ناکامی ہوتی ہے تو اسے حکمتِ عملی اور سوچ کی ناکامی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس جو 15 رکنی سکواڈ موجود ہے اس میں فی الحال بیٹنگ کے اس مسئلے کو حل کرنے کا تو حل موجود نہیں ہے، تاہم اگلے میچوں میں پاکستانی سپن بولنگ میں تبدیلیاں ضرور نظر آ سکتی ہیں۔ پاکستان اپنا اگلا میچ آسٹریلیا کے خلاف اگلے جمعے کو بنگلورو میں کھیلنے جا رہا ہے اور اس سے قبل یقیناً ڈری سہمی بیٹنگ کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n4w8nkx70o
پاکستان بمقابلہ انڈیا: ’ورلڈ کپ میں یہ ہمارے لیے سب سے بڑا میچ ہے‘
احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں انڈیا اور پاکستان کے میچ کو ٹورنامنٹ کا ’بلاک بسٹر ایونٹ‘ قرار دیا گیاہے۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھیں گے اور امید ہے کہ 132,000 افراد کی گنجائش والا سٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا ہوگا۔ بی بی سی کے نامہ نگار شکیل اختر احمدآباد میں سٹیڈیم کے باہر موجود ہیں اور انھوں نے میچ سے قبل فینز سے بات کی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/czq794qxn6no
انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں
احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں سنیچر کو میزبان انڈیا اور اس کے روایتی حریف پاکستان ورلڈ کپ کے ایک میچ میں آمنے سامنے ہوں گے۔ اس میچ کو ٹورنامنٹ کا ’بلاک بسٹر ایونٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھیں گے اور امید ہے کہ 132,000 افراد کی گنجائش والا سٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا ہوگا۔ دونوں ٹیموں نے اپنے پہلے دو میچ جیت کر ٹورنامنٹ میں پراعتماد آغاز کیا ہے۔ لیکن انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ اگرچہ لاکھوں پرجوش شائقین میچ کو ایک جنگ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، مگر یہ کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کھیل ہی کے طور پر لیں۔ دونوں ٹیموں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو موقعے کی مناسبت سے پرفارمنس دینے کے اہل ہیں۔ انڈیا اس مقابلے میں فیورٹ کی حیثیت سے اترے گا کیونکہ وہ ورلڈ کپ کے سات میچوں میں سے کبھی بھی کسی ایک میں بھی پاکستان سے نہیں ہارا۔ لیکن مہمانوں کے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان ستمبر میں ہونے والے ایشیا کپ میں دنیا کی ٹاپ ون ڈے ٹیم کے طور پر داخل ہوا تھے مگر سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد شکست کھا گیا۔ پر جب ان کا دن ہوتا ہے، تو پاکستان کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتا ہے۔ ان کی بیٹنگ کی صلاحیت ان کے کرشماتی کپتان بابر اعظم کے گرد گھومتی ہے، جن کے متعلق اکثر اتنی بات نہیں ہوتی جتنا کہ وہ مستحق ہیں۔ ان کا شاندار سٹروک دیکھنا کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ لیکن جو چیز انھیں خاص بناتی ہے وہ ان کی آسانی سے بیٹنگ کے گیئرز کو سوئچ کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی اننگز کو خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں، تقریباً ایسے جیسے وہ دوسروں کی نظروں سے چھپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے مخالفین کو اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، ان کا سکور 50 یا 60 تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے چوکے، چھکے مارنے لگ جاتے ہیں۔ وہ میدان میں بھی نہایت پرسکون رہتے ہیں اور پریشان نہیں ہوتے، چاہے میچ کیسا ہی چل رہا ہو۔ انڈیا کو ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں ان کی اوسط کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، جو سنہ 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے بعد سے 70 ہے۔ اگر ان کا بلا چل گیا تو انڈیا کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ لیکن وہ انڈیا کے لیے واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان شاندار فارم میں ہیں، انھوں نے منگل کو 131 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو سری لنکا کے 344 رنز کے ہدف کے ریکارڈ تعاقب کو یقینی بنایا۔ عبداللہ شفیق نے بھی میچ میں سنچری بنا کر بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی جگہ مضبوط کر لی ہے۔ فخر زمان اور امام الحق بھی انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بابر اور رضوان کے جلدی آؤٹ ہونے کی صورت میں وہ اننگز کو دوبارہ سنبھال سکتے ہیں۔ اگر انڈیا پاکستان کے ٹاپ آرڈ کو سنبھال لیتا ہے تو وہ پاکستانی مڈل آرڈر میں سمجھی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ لیکن اگر مہمانوں کی بیٹنگ میں کمی ہے تو ان کی بولنگ اس کو پورا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، اور ٹیم کی فیلڈنگ بھی بری رہی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف میچ ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں ہر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دینا چاہتا ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہر پاکستانی بولر چاہتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان فاسٹ بولرز بنانے کی ایک ’فیکٹری‘ ہے کیونکہ وہ مستقل طور پر ایسے فاسٹ بولرز تیار کرتا ہے جو یا تو بہت تیز ہوتے ہیں یا پھر ان میں سوئنگ کرانے کی ایسی صلاحیتیں ہیں جو تقریباً ایک آرٹ کی طرح ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کے پاس دونوں صلاحتیں ہیں۔ صحیح جگہوں پر مسلسل باؤلنگ کرنے اور بلے باز کو ریش شاٹ کھیلنے پر مجبور کرنے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انڈیا یا تو انھیں خاموشی سے کھیلے گا یا شروع میں ہی ان پر حاوی ہونے کے لیے ان پر حملہ کرے گا۔ پاکستان کو نسیم شاہ کی کمی محسوس ہوگی کیونکہ وہ انجری کی وجہ سے باہر ہیں لیکن آفریدی کو حارث رؤف اور حسن علی کی صورت زبردست پارٹنر ملیں گے۔ ان کا سپن کا شعبہ شاداب خان اور محمد نواز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن اس بارے میں سوالات ہیں کہ کیا وہ اپنے تیز رفتار ہم منصبوں کی طرح انڈین بلے بازوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں۔ انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ پاکستانی اٹیک بالخصوص سپنرز کو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کپتان روہت شرما، جنھوں نے بدھ کو افغانستان کے خلاف 63 گیندوں پر سنچری بنا کر اپنی کلاس اور تباہ کن صلاحیت کا مظاہرہ کیا، غالباً بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ایشان کشن کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔ لیکن ان کے باقاعدہ اوپننگ پارٹنر شبمن گل بیمار رہے تو وہ ان کی کمی ضرور محسوس کریں گے۔ گِل ٹاپ فارم میں ہیں اور ان کی کمی محسوس کی جائے گی لیکن انڈیا کے پاس ان کی جگہ لینے کے لیے کافی کھلاڑی موجود ہیں۔ روہت کو رنز بناتے دیکھتے ہوئے انڈین شائقین کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی خوبصورت کور ڈرائیوز، گرجدار چھکوں اور بے خوف پل شاٹس سے بتایا ہے کہ وہ اچھی فارم میں ہیں۔ انڈین کپتان اکیلے ہی میچ کو پاکستان سے چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک اوپنر ہیں جو جم کر کھیلتے ہیں اور میچ کے آخر تک کھیل کر اسے ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے سنہ 2019 میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں، کسی بھی بلے باز کی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ سنچریاں۔ لیکن اگر پاکستان روہت کو قابو کر لیتا ہے تو اس کا سامنا کھیل کے آل ٹائم گریٹس میں سے ایک ویراٹ کوہلی سے ہوگا۔ وہ پاکستان کے زبردست حریف ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے ہی انھوں نے ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف زبردست سنچری بنائی تھی۔ بہت کم لوگ ان کی اس ماسٹرکلاس اننگز کو بھول سکتے ہیں، جس میں انھوں نے سنہ 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کے 82 رنز بنائے تھے اور انڈیا کو جیت دلوائی تھی۔ بہت سے انڈین شائقین انھیں ’مسیحا‘ کہتے ہیں جو ہمیشہ اس وقت اپنے آپ کو ثابت کرتے ہیں جب بھی انڈیا کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخر تک لڑنے کی ان کی صلاحیت اکثر اپنے آس پاس کے دوسرے کھلاڑیوں کو تحریک دیتی ہے۔ کے ایل راہول اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ راہول ستمبر میں ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف سنچری بنانے والے دوسرے بلے باز تھے۔ جب گذشتہ ہفتے انڈیا آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ کپ کے اپنے پہلے میچ میں دو رنز پر تین وکٹ گنوانے کے بعد شدید مشکلات میں تھا تو ٹیم نے ایک بار پھر ’مسیحا‘ کی طرف دیکھا اور وہ ان کی تمناؤں پر پورا بھی اترے۔ ایک بار پھر دوسرے سرے پر راہول تھے اور دونوں نے اپنی ٹیم کو مشکل وکٹ پر 200 کے ہدف تک پہنچانے کے لیے تقریباً آخر تک بیٹنگ کی۔ روہت، راہول اور کوہلی کے بعد آنے والی بیٹنگ بھی ہلکا نہیں لیا جا سکتا۔ شریاس آئیر اور سوریہ کمار یادیو سٹائلش بلے باز ہیں جو ضرورت پڑنے پر محتاط کھیل سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اٹیک موڈ میں بھی جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد خطرناک آل راؤنڈر ہاردک پانڈیا اور رویندرا جدیجا ہیں جو آخر تک کھیل کر انڈیا کو جتوا سکتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے میچوں کو اکثر انڈیا کے مشہور بلے بازوں اور پاکستان کے زبردست باؤلنگ اٹیک کے درمیان مقابلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج انڈیا کے پاس قابل رشک باؤلنگ لائن اپ ہے جو پاکستانی بیٹنگ کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اکثر جسپریت بمرا کو کھیلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ ایک لمبی انجری کے بعد واپس آئے ہیں لیکن وہ اچھی فارم میں بھی ہیں۔ ان کے تیز رفتار ساتھی محمد شامی اور محمد سراج مختلف نوعیت کے ہیں لیکن ضرورت پڑنے پر وہ اہم وکٹیں لے سکتے ہیں۔ جہاں شامی کنٹرولڈ جارحیت پر یقین رکھتے ہیں، وہیں سراج کا ہتھیار ان کی رفتار ہے۔ لیکن اگر نریندر مودی سٹیڈیم کی وکٹ سپن کرتی ہے تو انڈیا تینوں فاسٹ بولرز کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ سپن کے شعبے میں کلدیپ یادیو ایک نئی دریافت ہیں۔ ٹیم میں ان کی واپسی سنسنی خیز رہی ہے۔ ایشیا کپ کے میچ میں انھوں نے پاکستانی بلے بازوں کے لیے بہت مشکلات پیدا کی تھیں اور پانچ وکٹوں کے ساتھ میچ کا اختتام کیا۔ اور یہ میچ انڈیا 228 رنز کے شاندار مارجن سے جیتا۔ اس کے بعد جدیجا اور تجربہ کار سپنر آر اشون ہیں جو اپنی بہترین گیند بازی سے پاکستان کی اننگز کو بریک لگا سکتے ہیں۔ لیکن ٹِرک صحیح کمبینیشن میں ہے کہ روہت تین تیز گیند بازوں اور دو سپنروں کے ساتھ جاتے ہیں یا تین سپنروں اور دو تیز گیند بازوں کے ساتھ، یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ ٹیموں کو اپنی حکمت عملی کو فائن ٹیون کرنے کے لیے آخری لمحے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ دریں اثنا، اس میں کوئی شک نہیں کہ شائقین کو کرکٹ کا ایک اچھا کھیل دیکھنے کو ملے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/czq7923lvnlo
اگر پاکستان اسے جنگ نہ سمجھے: سمیع چوہدری کا کالم
جاوید میانداد کہا کرتے تھے کہ انڈیا پاکستان میچ وہ موقع ہوتا ہے کہ جب کھلاڑی کھلاڑی نہیں رہتے، جنگجو بن جایا کرتے ہیں اور پورا سٹیڈیم میدان جنگ میں بدل جاتا ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ کرکٹ ایک پریشر گیم ہے اور پاکستان انڈیا میچ میں یہ پریشر دگنا ہو جاتا ہے۔ ورلڈ کپ تاریخ میں پاکستان کے خلاف انڈیا کا ریکارڈ ناقابلِ تسخیر رہا ہے۔ غالباً اسی تناظر میں، کچھ ہفتے پہلے، سارو گنگولی نے اس میچ کے گرد شور شرابے کو بلاجواز قرار دیا تھا کہ شاید اس ورلڈ کپ میں انڈیا آسٹریلیا میچ اس یکطرفہ مقابلے سے زیادہ دلچسپی کا سامان ہو گا۔ مگر انڈیا آسٹریلیا میچ چنائی کی سست پچ پہ کچھ ایسی سنسنی پیدا نہ کر پایا جو پہلی گیند سے بھی پہلے پاک انڈیا مقابلوں کے ہمراہ ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ ون ڈے ورلڈ کپ کی یکطرفہ تاریخ کے پیشِ نظر اب تک یہ جوش ماند پڑ جانا چاہئے تھا مگر گلوبل ایونٹ کی 48 سالہ تاریخ کے باوجود اس مقابلے کی دلچسپی جوں کی توں ہے۔ اگرچہ پاکستان اپنے شیڈول کے پہلے دو آسان مقابلے سہولت سے جیت چکا ہے مگر ٹاپ آرڈر کے مسائل ابھی بھی پریشان کن ہیں۔ عبداللہ شفیق کی شمولیت سے بابر اعظم کے کندھوں کا بوجھ کچھ کم تو ہوا ہے مگر امام الحق کی یکساں تکنیکی خامی یہاں بھی لمحۂ فکریہ ضرور ہو گی۔ اور جب یہ امر بھی ملحوظِ نظر رکھا جائے کہ انڈین بولنگ ڈچ اور لنکن اٹیک سے کہیں دشوار چیلنج ہو گا تو پاکستان کے امکانات کافی مدھم پڑتے نظر آتے ہیں کہ انجری سے واپسی کے بعد بمراہ بہترین فارم میں ہیں جبکہ ان کے ہمراہی محمد سراج کی لائن و لینتھ بھی حالیہ مہینوں میں کمال رہی ہے۔ دوسری جانب انڈیا اگرچہ شبھمن گل کی عدم دستیابی کے باوجود ایک مضبوط ترین بیٹنگ یونٹ ہے لیکن آسٹریلیا کے خلاف میچ میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر پیسرز اپنے ڈسپلن سے جڑے رہیں تو اس ٹاپ آرڈر میں نقب لگانا اتنا بھی دشوار نہیں ہو گا۔ لیکن پاکستان کے لیے بڑی دقت فی الحال شاہین آفریدی کی فارم ہے جو ایشیا کپ سے اب تک اپنا بہترین ظاہر نہیں کر پائے۔ پچھلے کچھ برسوں سے شاہین کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ نئی گیند کے ساتھ فُل لینتھ پہ یارکرز اور ان سوئنگ کے ہمراہ حملہ آور ہوتے ہیں اور یہ ان کی ابتدائی کامیابیوں کی کلید بھی رہا ہے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے میں وہ نئی گیند سے ویسی ان سوئنگ حاصل نہیں کر پا رہے جو بلے بازوں کے لئے خطرہ بن پائے۔ اور یہ دقت تب سوا ہو جاتی ہے جب بلے بازوں کی جوابی جارحیت کے باوجود شاہین اپنی لینتھ کو کھینچنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ پاکستان کے لیے اس سے بھی بڑا عقدہ سپنرز کی کم مائیگی رہا ہے۔ شاداب خان متواتر ٹی ٹونٹی کھیلنے کے بعد ابھی تک ون ڈے کرکٹ کے اسرار و رموز سے شناسا نہیں ہو پائے اور صحیح لائن لینتھ کی کھوج میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ انڈیا کی قوت پیس بولنگ کے علاوہ سپن ڈیپارٹمنٹ میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ جس طرح سے رویندرا جدیجا اور کلدیپ یادو نے آسٹریلوی بلے بازوں کو چاروں خانے چِت کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس انڈین ٹیم کے سبھی شعبے اپنی کمال مہارت سے سرگرمِ عمل ہیں۔ لیکن پاکستان کے لیے خوش کن پہلو یہ ہے کہ پچھلے چند برس کے اعدادوشمار میں اگر لیفٹ آرم سپن کے خلاف ٹیموں کی اوسط کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اوّلین نمبر پہ ہے جہاں اس کی اوسط 82 رنز کے لگ بھگ ہے اور یہ دوسرے درجے پہ کھڑی ٹیم کے اوسط سے بھی دوگنا ہے۔ سو، اگر پاکستانی بیٹنگ بمراہ اور سراج کے ڈسپلن کا ابتدائی بوجھ جھیل پائی تو مڈل آرڈر میں محمد رضوان اور سعود شکیل جیسے کہنہ مشق انڈین سپنرز کو وکٹوں سے محروم رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور بیچ کے اوورز ہی وہ مرحلہ ہوا کرتا ہے جہاں ون ڈے کرکٹ اپنی چال طے کیا کرتی ہے۔ پاکستانی سپنرز کو بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہو گا کہ انڈین مڈل آرڈر کا سپن کے خلاف ریکارڈ پہلے ہی قابلِ رشک ہے۔ پاکستانی پیسرز بھی یقیناً پچھلے میچ کی کوتاہیوں سے تشفی بخش سبق سیکھ چکے ہوں گے۔ اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر انڈین پیس کی یلغار سے بچ نکلا تو مقابلہ برابر کا ہو جائے گا ورنہ بظاہر انڈیا کو واضح فوقیت حاصل ہے۔ دونوں ٹیمیں اپنے پہلے دو دو میچز جیت چکی ہیں اور یہاں ایک دوسرے کی فتوحات کے آگے بند باندھنے کو میدان میں اتریں گی۔ سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف طے کرنے کے بعد یہاں پاکستان کا مورال بھی بلند ہو گا اور ایسے پریشر میچز میں اعتماد کی فراوانی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جب ایسی تاریخی رقابت کے ہمراہ دو ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو تکنیکی پختگی اور اعداد و شمار سے بھی اہم تر ہو رہتی ہے ذہنی پختگی۔ اور اگر پاکستانی کھلاڑیوں نے اس میچ کو جنگ نہ سمجھا تو بعید نہیں کہ تاریخ کا صفحہ پلٹ جائے اور ایک نیا ریکارڈ ان کا منتظر ہو۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cje95pw0j1zo
پاکستان بمقابلہ انڈیا: احمد آباد میں ورلڈ کپ کے بڑے میچ کی تیاریاں
آئی سی سی ورلڈ کپ میں سنیچر کو ہونے والے انڈیا پاکستان میچ سے قبل شائقین تیاریاں کرنے میں مصروف ہیں۔ احمدآباد میں تمام ہوٹلز، بی این بی کمرے مکمل طور پر بک ہیں۔ وہاں کرکٹ شائقین کی تیاریوں سے متعلق جانیے اس ویڈیو میں۔ رپورٹر: شکیل اختر کیمرہ پرسن: تپس مالک
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn48r7d075yo
’انھوں نے اپنا بیٹ نکالا اور مجھے بچا لیا‘ انڈین اور پاکستانی کھلاڑیوں کی دوستی کی کہانی
جب بھی انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں میدان میں ٹکراتی ہیں، دنیا روایتی حریفوں کے درمیان کھیلوں کا سب سے سخت مقابلہ دیکھتی ہے۔ احمد آباد میں 14 اکتوبر کو ہونے والا ورلڈ کپ میچ توقعات اور جذبات سے بھرپور ہوگا۔ برصغیر کی آزادی اور تقسیم کے بعد سے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان کشیدہ تعلقات ہیں۔ دونوں 1947 سے لے کر اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ لیکن سرد تعلقات کے باوجود ان کی کرکٹ کی تاریخ دونوں ٹیموں کے درمیان محبت، احترام اور دوستی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ گذشتہ ماہ ختم ہونے والے ایشیا کپ میں پاکستانی بولر شاہین آفریدی نے انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا کو ان کے نوزائیدہ بچے کے لیے تحفہ دیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ دیکھی گئی۔ اس اقدام اور تصویر نے پاکستانی اور انڈین شائقین دونوں کے دل جیت لیے۔ اسی طرح 2022 میں وائرل ہونے والی ایک تصویر میں انڈیا کی خواتین کی کرکٹ ٹیم پاکستانی کپتان بسمہ معروف کے بچے کو میدان سے باہر دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ اس تصویر نے انٹرنیٹ پر دلوں کو پگھلا دیا تھا۔ ماضی میں دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان طویل عرصے تک کشیدگی نے کھیل کو متاثر کیا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ اکثر دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کھیل سکیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات 1999 میں کارگل جنگ کے بعد معطل ہو گئے تھے۔ سنہ 2003 میں سابق انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے امن اقدام کے بعد تقریباً 15 سالوں میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا۔ لیکن 2008 کے ممبئی حملوں، جن میں 166 افراد مارے گئے تھے، کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پھر سے تناؤ آ گیا۔ انڈیا نے ان حملوں کا الزام پاکستان میں موجود عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ پر عائد کیا تھا۔ سنہ 2012 کے بعد سے کرکٹ کی دونوں عظیم ٹیموں کے درمیان کوئی دو طرفہ سیریز نہیں ہوئی ہے۔ یہ ممالک صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ایونٹس اور ایشیا کپ میں ایک دوسرے کا سامنا کر چکے ہیں۔ پھر بھی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 1947 سے لے کر آج تک دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان ذاتی تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔ اس سال یعنی سنہ 1947 کو غیر منقسم ملک کی کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی فضل محمود کو تقسیم کے دن 15 اگست کو انڈین شہر پونے میں ایک کیمپ میں شرکت کے لیے کہا گیا۔ انھیں اپنے آبائی شہر لاہور سے پونے کا خطرناک سفر طے کرنا پڑا جو ہندو مسلم فسادات کے درمیان راتوں رات پاکستان کا حصہ بن گیا تھا۔ آخر کار بدامنی کی وجہ سے کیمپ کو ختم کر دیا گیا، لیکن اس کے بعد ان کے اور ان کے انڈین ساتھی سی کے نائیڈو کے درمیان جو کچھ ہوا وہ تاریخی تھا۔ ’کرکٹر سی کے نائیڈو میرے ساتھ سفر کر رہے تھے۔‘ فضل محمود نے اپنی سوانح عمری ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں لکھا۔ ’مجھے ٹرین میں چند انتہا پسندوں نے دیکھا جو مجھے نقصان پہنچانا چاہتے تھے، لیکن سی کے نائیڈو نے مجھے ان سے بچایا۔ اس نے اپنا بیٹ نکالا اور انھیں مجھ سے دور رہنے کو کہا۔‘ نائیڈو کو انڈیا میں کرکٹ کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ فضل محمود پاکستان کے پہلے عظیم بولروں میں سے ایک تھے جو نئے بننے والے ملک میں پوسٹر بوائے بن گئے کیونکہ انھوں نے آزادی کے بعد اپنی ٹیم کو شروع سے بنایا تھا۔ اس کے بعد کی دہائیوں نے دوستی کی ایسی ہی دل کو گرما دینے والی کہانیاں پیش کیں ہیں۔ سنہ 1987 میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سیریز انڈین تہوار ہولی کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستانی ٹیم کا میچوں کے لیے انڈیا جانا عام تھا۔ سابق انڈین وکٹ کیپر کرن مورے، جو اس وقت قومی ٹیم کا حصہ تھے اس شاندار جشن کو یاد کرتے ہیں۔ مورے نے گذشتہ ماہ بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سال ہولی کا تہوار یادگار رہا۔ پورا ہوٹل رنگوں سے بھرا ہوا تھا جسے ہم نے ایک دوسرے پر ڈال کر رنگ دیا تھا۔ یہاں تک کہ سوئمنگ پول بھی سرخ ہو گیا۔ یہ اب تک کی بہترین ہولیوں میں سے ایک تھی۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی کھلاڑی بہت پرجوش تھے۔ ’ہوٹل نے ہمیں متنبہ کرنے کی کوشش کی اور بالآخر ہم پر پانچ سو پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا، جو کہ 1987 میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اگلے دن ہم ایک دوسرے کے خلاف سخت حریف کے طور پر کھیلے اور دشمنی دوبارہ شروع ہو گئی۔‘ دونوں ٹیموں کے درمیان کرکٹ دوروں میں وقفے کے باوجود دوستی برقرار رہی۔ پچھلے سال جب انڈین سپن بولر بشن سنگھ بیدی سکھوں کے گرودوارے جانے کے لیے پاکستان گئے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان کے ہم عصر پرانے دوست ان سے ملنے آئے تھے۔ ان کے سابق مخالف پاکستانی کوچ انتخاب عالم، جنھوں نے 1970 کی دہائی میں ملک کی ٹیم کی کپتانی کی تھی، بیدی کے لیے پرفارم کرتے ہوئے لوئس آرمسٹرانگ کا گانا ’وین دی سینٹس گو مارچنگ اِن‘ سنایا۔ انتخاب عالم انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے۔ وہ 2004 میں اپنی پیدائش گاہ واپس آئے، ایک مقامی انڈین کرکٹ ٹیم پنجاب کی کوچنگ کرنے والے پہلے غیر ملکی بن گئے۔ اس دن، دونوں کپتانوں کا تعلق گانوں، کھانے اور یادوں پر بندھا ہوا تھا۔ کئی دہائیوں سے دونوں ٹیموں کے موجودہ کھلاڑیوں میں خیر سگالی برقرار ہے۔ انڈین ٹیم کے سابق کپتان ویراٹ کوہلی اور پاکستانی کپتان بابر اعظم باقاعدگی سے ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ کوہلی نے بابر اعظم کو دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn48mr565qlo
’انڈیا سے ڈی پورٹ نہیں کیا گیا۔۔۔ پوسٹس کے باعث لوگوں کی دل آزاری پر شرمندہ ہوں: زینب عباس
پاکستانی کرکٹ میزبان زینب عباس نے انڈیا میں جاری ورلڈکپ کے دوران اچانک ٹورنامنٹ چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے حوالے سے پہلی بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر شیئر کی جانے والی پوسٹس کے حوالے سے شرمندہ ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’میں اس درد کے بارے میں بخوبی آگاہ ہوں جو میری شیئر کی گئی پوسٹس (ٹویٹس) کے باعث لوگوں کو ہوا اور میں اس پر شرمندہ ہوں۔‘ زینب عباس کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ان (پوسٹس) کا میرے اقدار اور جو کچھ بھی میں آج ہوں اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’اس قسم کی زبان کے لیے کوئی گنجائش یا بہانہ کافی نہیں ہے، اس لیے میں ان تمام افراد سے معافی مانگتی ہوں جن کی اس سے دل آزاری ہوئی۔‘ انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ’نہ تو مجھے انڈیا چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نہ ہی مجھے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔‘ واضح رہے کہ آئی سی سی کی جانب سے انڈیا جانے والی پاکستانی میزبان زینب عباس کے حوالے سے اس وقت تنازع سامنے آنا شروع ہوا جب انڈین وکیل ونیت جندال نے اپنی ٹویٹ میں زینب عباس پر انڈیا اور ہندو مخالف پیغامات لکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اپنے ان الزامات کے حوالے سے ونیت جندال نے پانچ اکتوبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ایڈووکیٹ اور سماجی کارکن ونیت جندال کی جانب سے زینب عباس کے خلاف شکایت پولیس میں درج کر دی گئی ہے۔ جس میں سائبر سیل دہلی پولیس سے درخواست کی گئی ہے کہ زینب عباس کی جانب سے ہندو مذہب کے خلاف توہین آمیز ریمارکس اور انڈیا مخالف بیان دینے پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔‘ ونیت جندال نے مزید لکھا تھا کہ ’زینب کو آئی سی سی ورلڈ کپ سے فوری طور پر پریزنٹرز کی فہرست سے نکال دیا جائے۔‘ انڈیا مخالف لوگوں کو انڈیا میں خوش آمدید نہیں کیا جاتا۔‘ خیال رہے کہ اس سے قبل ایسی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ زینب عباس کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ تاہم آئی سی سی نے اس کی تردید کی تھی اور اپنے مختصر جواب میں آئی سی سی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’زینب عباس ذاتی وجوہات کی وجہ سے انڈیا سے واپس گئی ہیں، انھیں ڈی پورٹ کرنے کی اطلاعات درست نہیں۔‘ واضح رہے کہ کرکٹ کے بین الاقوامی ادارے آئی سی سی نے پانچ اکتوبر 2023 سے انڈیا میں شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے میزبان کے طور پر زینب عباس کا انتخاب کیا تھا۔ زینب کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’میں انٹرنیٹ پر سامنے آنے والے ردِ عمل سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ حالانکہ میری زندگی کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن دونوں ممالک میں میرے رشتہ دار اور دوست میرے بارے میں فکر مند تھے۔ ’مجھے اس بارے میں سوچنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔‘ انڈیا میں گزرے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے زینب نے کہا کہ ’یہاں میری تمام افراد کے ساتھ ملاقاتیں اور بات چیت انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور مجھے اپنائیت کا احساس بھی ہوا‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس سے قبل، زینب عباس نے اپنے اس انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور دو اکتوبر کو انڈیا روانگی سے قبل انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انتہائی خوشی کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ سرحد کے دوسری پار سے مخالفت کے بجائے وہاں کے طور طریقوں اور تہذیب سے ہمیشہ سے ایک دلچسپی رہی ہے۔۔۔ جہاں کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف لیکن میدان سے باہر بھائی چارہ اور محبت موجود ہے۔ انھوں نے اپنی خوشی کے اظہار میں مزید لکھا تھا کہ ’ایک ہی زبان سے تعلق اور آرٹ سے محبت کرنے والے۔۔ ایک ارب لوگوں کے ملک میں کرکٹ کو پریزینٹ کرنے کے لیے آئی سی سی کی ایک بار پھر سے شکر گزار ہوں۔۔۔گھر سے دوری کا چھے ہفتوں کا سفر اب شروع ہوتا ہے۔ آئی سی سی نے تو اپنے بیان میں زینب عباس کے جانے کے فیصلے کو ذاتی وجوہات قرار دیا ہے تاہم اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ پاکستانی میزبان زینب عباس انڈیا میں اپنے خلاف دائر کردہ درخواستوں کے بعد ورلڈ کپ کو چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔ واضح رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے سینکڑوں پاکستانی شائقین کرکٹ کو انڈیا کی جانب سے ویزوں کا اجرا نہیں کیا گیا۔ اس صورت حال کا سامنا صرف ٹکٹس خریدنے والے پاکستان کےعام افراد کو ہی نہیں کرنا پڑا بلکہ سپورٹس کو کور کرنے والے متعدد صحافیوں کو بھی ویزے جاری نہیں کیے گئے تھے۔ ایسے میں زینب عباس کا ورلڈ کپ میں میزبانی کے فرائض انجام دینے کے آئی سی سی کے اعلان نے پاکستانی شائقین کے دلوں میں امید جگائی تھی اور بہت سے فینز نے ان کے انڈیا جانے پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب انڈیا جا رہی ہیں تو کپ بھی ہمارا ہو گا۔ لیکن پیر کو جب زینب عباس کے انڈیا چھوڑنے کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہوئیں تو فینز کی جانب سے اس اقدام پر بحث چھڑ گئی۔ کئی صارفین نے جہاں اس اقدام پر انڈیا کی مذمت کی وہیں آئی سی سی اور پی سی بی کی خاموشی اور پاکستانی شائقین کو ویزہ نہ دیے جانے پر انڈین حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ زبیر علی خان نامی کرکٹ فین نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانیوں کے لیے نو گو ایریا بن گیا ہے اور اس سارے معاملے پر دفتر خارجہ سے لے کر پاکستان کرکٹ بورڈ ڈاکیا سے زیادہ کا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ‘ ’آج خبر آئی ہے کہ زینب عباس جو کہ آئی سی سی کی جانب سے کرکٹ ورلڈ کپ کی پریزنٹر تھیں، دھمکیوں کی وجہ سے انڈیا چھوڑ کر چلی گئیں لیکن آئی سی سی اس سارے معاملے پر خاموش رہے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کئی صارفین نے زینب کی واپسی کے اقدام پر انڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سفیان مقصود نامی صارف نے لکھا کہ ’کتنی شرم کی بات ہے انڈیا۔۔ یہ وہ ملک ہی نہیں ہے جس کی میں وکالت کرتا تھا اور اس کی تعریف کرتے نہ تھکتا تھا۔۔ سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑے سیکولر ملک سے ایک انتہا پسند ملک تک ۔۔ کیا ہی بات ہے آپ کی ۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 شیخ عاطف نامی صارف نے لکھا کہ زینب عباس ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ وہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 کئی صارفین نے زینب عباس کی انڈیا سے واپسی پر اپنی خوشی اور بھرپور اطمینان کا اظہار بھی کیا وہیں انڈیا میں خواتین کے غیر محفوظ ہونے کا معاملہ اٹھانا بھی نہیں چوکے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’زینب عباس کی بحفاظت واپسی پر انتہائی خوشی ہے اور ان تمام خواتین کے سلامتی کے لیے بہت دعا ہے جو ابھی انڈیا میں رہ رہی ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 ثوریا نامی صارف نے لکھا کہ زینب عباس جیسے سپورٹس جرنلسٹ کو ہندو مذہب اور ہمارے ملک کے بارے میں کچھ بھی بولنے کا حق حاصل ہے ...کیا یہ درست ہے...میں نے پاکستان میں بہت سے واقعات دیکھے...اگر کوئی وہاں مذہب کا مذاق اڑائے تو لوگوں نے کیا کیا...سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 ایڈووکیٹ ونیت جندال نے اپنی ٹوئٹس میں زینب عباس پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر نو سال قبل ہندو مذہب اور انڈیا مخالف ٹوئٹس کی گئی تھیں اور اس وقت ان کے اکاؤنٹ کا نام ’زینب لوو ایس آر کے‘ تھا جو اب تبدیل ہوکر ’زیڈ عباس آفیشل‘ کردیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں نو اکتوبر کی سہہ پہر کو ونیت جندال نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ان کی شکایت کے بعد ایکشن لیتے ہوئے پاکستانی پریزینٹر کو ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔ تاہم ان کے اس دعوے کے جواب میں آئی سی سی نے اپنے مختصر جواب میں زینب کے ڈی پورٹ کیے جانے کی خبروں کی تردید کی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 7 پی سی بی کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف نے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کی کوریج کے لیے شائقین اور صحافیوں کے انڈین ویزوں میں تاخیر پر شدید تشویش اور کا اظہار کیا ہے۔ ذکا اشرف نے پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی سے ملاقات میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر کے ذریعے یہ مسئلہ انڈین وزارت داخلہ کے ساتھ اٹھانے کی بھی درخواست کی۔ پی سی بی نے انڈین میڈیا میں رپورٹ ہونے والے سکیورٹی خطرات کا بھی سخت نوٹس لیا ہے اور حکومت سے انڈیا میں کھلاڑیوں کی سکیورٹی کا جائزہ لینے کی درخواست کی ہے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی سکواڈ کی سلامتی اور حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پی سی بی سے جاری بیان میں اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’پاکستان کے صحافیوں اور شائقین کو ابھی تک آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ویزا کے حصول کے معاہدے کے باوجود پاکستان کے کھیلوں کی کوریج کے لیے انڈین ویزا ملنے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c7270xlj93eo
ون ڈے کرکٹ کو نئی روح درکار ہے: سمیع چوہدری کا کالم
مارک نکولس کرکٹ کی معتبر آوازوں میں سے ایک ہیں۔ حال ہی میں وہ ایم سی سی کی سربراہی پر فائز ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ون ڈے کرکٹ کو صرف ورلڈ کپ تک محدود کر دیا جائے اور دوطرفہ مقابلوں میں اس فارمیٹ سے احتراز برتا جائے۔ مگر کرکٹ کے قوانین وضع کرنے اور ساکھ برقرار رکھنے کا ذمہ دار میریلبون کرکٹ کلب عالمی کھیل پر ویسی دسترس نہیں رکھتا جو آئی سی سی کو میسر ہے۔ آئی سی سی گلوبل سطح پر کرکٹ چلانے کا کُلی اختیار رکھتی ہے اور ایم سی سی کو ایک رقیب کی نظر سے دیکھتی ہے۔ بطور مبصر نکولس کھیل کا جو شعور رکھتے ہیں، اس کے تناظر میں یہ تجویز خاصی نامعقول دکھائی دیتی ہے کہ بالآخر ایک ایسے فارمیٹ کی گلوبل چیمپئین شپ کھیلنے کا کیا جواز بچ رہتا ہے جو دوطرفہ مقابلوں میں، بظاہر، اپنی حیثیت ثابت کرنے سے معذور نظر آتا ہے۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کی آمد کے بعد سے ہر ون ڈے ورلڈ کپ پر ایک اضافی بوجھ بھی لاد دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ مختصر طرز کی کرکٹ کے ایک روزہ دورانئے کی بقا کا جواز بھی پیدا کرے اور یقینی بنائے کہ صرف ٹی وی ریٹنگز ہی نہیں، ٹکٹوں کی فروخت بھی عروج پر رہے۔ حالیہ ورلڈ کپ سے بھی یہ بے جا توقع وابستہ کی جا رہی تھی کہ پونے دو ارب کی آبادی والے میزبان ملک میں ہر میچ ویسے ہی ہاؤس فل ہو جیسے آئی پی ایل کے ہنگام سٹیڈیمز میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ مگر آئی پی ایل کا فارمیٹ شائقین کے لیے ون ڈے کی طرح دقت آمیز نہیں ہوتا۔ اور پھر بیشتر انڈین سٹیڈیمز کی گنجائش بھی اس قدر وسیع ہے کہ پچیس ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں بھی خالی خالی سے نظر آتے ہیں۔ مگر سٹیڈیمز بھرنے کو فقط مثبت پسند توقعات اور میڈیا ہائپ ہی کافی نہیں ہوا کرتی، کھیل کو بھی اپنی سنسنی جگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں یہ ورلڈ کپ تاحال کوئی ایسا جوش پیدا نہیں کر پایا جو کانٹے دار مقابلوں سے جنم لیا کرتا ہے۔ افتتاحی میچ میں انگلینڈ کی ٹیم سلیکشن منطق سے بالاتر تھی۔ انگلش بولنگ اور بٹلر کی قیادت اس سے بھی بدتر رہی۔ اور یوں نیوزی لینڈ نے ایک مناسب ہدف کا ٹھٹھہ اڑا کر رکھ دیا۔ پاکستان کے خلاف ڈچ بولنگ نے شروع میں ایک اپ سیٹ کی امید سی پیدا کی مگر ڈچ بیٹنگ اس توقع کا بوجھ اٹھا نہ پائی۔ جنوبی افریقی بیٹنگ نے ایک ہی اننگز میں سری لنکن بولنگ کے خلاف ڈھائی ٹی ٹونٹی اننگز کھیل ڈالیں مگر سری لنکن جواب تشنۂ تکمیل رہ گیا۔ انتظامی اعتبار سے بھی معاملات زیادہ متاثر کُن نہیں رہے۔ دھرم شالہ کی آؤٹ فیلڈ ایسی بے آب و گیاہ نکلی کہ اس نے میچ سے زیادہ کھلاڑیوں میں اضطراب پیدا کیے رکھا کہ وہ فیلڈنگ کرتے وقت میچ بچانے کو پیشِ نظر رکھیں یا اپنے آپ کو۔ مگر آئی سی سی حکام اور میچ ریفری جواگل سری ناتھ اسے عالمی معیارات کے عین مطابق قرار دیتے وقت یکسر مطمئن نظر آئے۔ کووڈ کے بعد کرکٹ کیلنڈر جس بحران سے گزرا، اس کے طفیل یکے بعد دو ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ تیار کرنے میں ون ڈے کرکٹ منظرِ عام سے غائب ہو گئی تھی اور ون ڈے ورلڈ کپ آتے ہی ایک ایسا گھمسان پڑا کہ جس کے پیشِ نظر سبھی ٹیمیں پچھلے چند ماہ ون ڈے کرکٹ کے بخار میں مبتلا رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی ایک انجریز دیکھنے کو ملیں اور بیشتر ٹیمیں اپنے کلیدی چہروں کے بغیر گلوبل ایونٹ تک پہنچی۔ سو، اگر انجریز کے بادل یوں ہر ٹیم پہ منڈلا رہے ہوتے تو شاید زیادہ مسابقتی کرکٹ دیکھنے کو مل سکتی تھی۔ تاحال چنئی کے سوا باقی سبھی وینیوز پر رنز کی گنگا بہتی رہی ہے اور جب حالات یوں بلے بازی کی جانبداری کر رہے ہوں، تب یکطرفہ مقابلے زور پکڑتے ہیں اور کمزور ٹیموں کے امکانات ماند تر ہو جاتے ہیں۔ سو، ابھی تک سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کہیں کوئی حیرت کا سامان پیدا نہیں کر پائے۔ افغانستان کی کرکٹ پچھلے چند برسوں سے بہت پُرجوش رہی ہے اور ان سے توقعات جوڑنے والوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھوتری پر مائل ہے مگر ابھی تک وہ بڑے ایونٹس میں کسی بھی حریف کے لیے لمحۂ فکریہ بننے سے گریزاں ہے کہ راشد خان بھی ٹاپ ٹیموں کے خلاف وہ ہتھیار نہیں بن پائے جو ٹی ٹونٹی فرنچائز کرکٹ میں ان کی شہرت ہو چلی ہے۔ اور اگرچہ سری لنکا اپنی بولنگ کے طفیل پہلے ہی پریشان تھا، ورلڈ کپ سے عین پہلے ہسارنگا کی انجری نے اس پہ ایک اور گھاؤ ڈال چھوڑا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیشی کرکٹ اپنے انتظامی مسائل اور غیر منطقی ٹیم سلیکشن کے سبب اس بار بھی کوئی تاثیر پیدا کرنے سے محروم نظر آتی ہے۔ مارک نکولس کی تجویز بھلے کتنی ہی نامعقول کیوں نہ دکھائی دے، ان کے خدشات بہرحال بجا ہیں اور تاحال یہ ورلڈ کپ ان کا جواب دینے سے قاصر رہا ہے۔ مگر عین ممکن ہے کہ شیڈول جوں جوں آگے بڑھے، شاید پچز کے مزاج میں کچھ بدلاؤ آئے، بلے بازوں کی یکطرفہ برتری کم پڑے اور شاید چھوٹی ٹیمیں بھی کوئی اپ سیٹ رچا کر اس فارمیٹ میں نئی روح پھونک سکیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1q3gn4zqjo
جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا
یہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ یہ یاد اُن کی کتاب ’باتیں لاہور کی‘ سے لی گئی ہے۔ اُردو زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں تب نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر راجا غضنفر علی خان کے اچھے سفارتی رویے کا بھی تذکرہ ہے۔ رویے تب شاید تھے ہی اچھے، دونوں طرف۔ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔‘ لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ 'واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے سنا۔‘ فضل اور نذر کی فرمائش پر ان کا دل بہلانے کے لیے، انھوں نے پھر اپنی لازوال غزل ’دیوانہ بنانا ہے‘ گائی۔ بمبئی (ممبئی) میں انڈیا دس وکٹوں سے جیتا جبکہ اگلے دو میچ برابر رہے۔مبصرین کے مطابق لکھنئو میں ہوئے حملوں سے ٹیموں پر اپنے اپنے شائقین کا ڈر بیٹھ چکا تھا۔ اس ابتدائی سیریز کے دو سال بعد انڈیا نے پاکستان کا دورہ کیا جہاں ہونے والے پانچ کے پانچ میچ ڈرا ہوئے۔ ڈھاکا (موجودہ بنگلہ دیش)، بہاول پور، لاہور، پشاور اور کراچی میں ہوئے ان میچوں پر وزڈن کا تبصرہ تھا کہ: ’کسی بھی طرف سے پہل کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کے باعث سیریز برابر ہوئی۔ تمام پانچ ٹیسٹ تاریخ میں پہلی بار ڈرا ہوئے۔ شکست کا خوف دونوں ٹیموں کے ذہنوں میں سرفہرست رہا اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک دونوں ممالک کو یہ احساس نہیں ہو جاتا کہ ٹیسٹ میچ ہارنا وہ تباہ کن سانحہ نہیں ہے جس کا وہ تصور کرتے نظر آتے ہیں، ان کے درمیان کھیل عملی طور پر غیر دلچسپ رہنے کا امکان ہے۔‘ ہاں لاہور آنے کا موقع ملنے پر انڈین شائقین پرُجوش تھے۔ علی خان نے اُن انڈین شائقین کی تعداد دس ہزار لکھی ہے جو لاہور ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ ’جو لوگ امرتسر میں رہتے تھے انھیں ہر رات اپنے گھروں کو واپس پاکستان، بھارت سرحد عبور کرنے کی اجازت تھی۔‘ آئیے سوم آنند کی بات پھر سے سنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لاہور پہنچ کر یوں محسوس ہوا جیسے یہاں کوئی برات آنے والی ہے اور سار شہر اس کے سواگت [استقبال] میں لگا ہے۔جگہ جگہ محرابیں بنی تھیں۔ اکثر جگہ جلی حروف میں لکھا تھا ’ہندوستانی مہمانوں کو خوش آمدید۔‘ ’کئی بازاروں میں ان مہمانوں کے لیے چائے پانی کا اہتمام عام ہوتا۔ سڑکوں پر لوگ اجنبیوں کو بھی آواز دے دے کر بلاتے، دو روز بعد تو یہ کیفیت ہو گئی کہ بچے بھی کھیل کھیل میں بڑوں کی نقل میں اس طرح کے جملے دہرانے لگے ’جی آئیاں نوں، جی صدقے‘ اور یہ میلا چار روز تک رہا۔‘ مصنف سریش مینن کا کہنا ہے 1955 میں ہزاروں شائقین کراچی ایئرپورٹ پر انڈین کرکٹرز کے استقبال کے لیے جمع ہوئے۔ جب بھی ہندوستانی کھلاڑی دورہ پاکستان کے دوران خریداری کرنے جاتے تو دکاندار اکثر ان سے پیسے لینے سے انکار کر دیتے۔ ’انڈین کھلاڑیوں نے ہمیشہ پاکستان میں شائقین سے ملنے والی محبت اور تعریف کے بارے میں بات کی ہے۔‘ کوئی بھی ٹیم ایک دوسرے سے ہارنا نہیں چاہتی تھی ۔ روایتی حریفوں کے درمیان 1955 سے 1961 تک تمام 10 ٹیسٹ ڈرا پر ختم ہوئے۔ 1961 اور 1978 کے بیچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مستقل تناؤ (بشمول 1965 اور 1971 کی جنگیں) کے باعث دونوں ٹیموں نے کوئی میچ نہیں کھیلا۔ (دونوں ٹیمیں 1975 کے افتتاحی ورلڈ کپ میں بھی ایک دوسرے کے سامنے نہ آ سکیں)۔ 1978 سے 1985 تک 20 ٹیسٹ اور 11 دو طرفہ ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے گئے۔ سرحد پر فوجیوں کی نقل و حرکت سے تناؤ میں اضافہ ہوا تو 1987 میں جنرل ضیا الحق جے پور ٹیسٹ میچ دیکھنے اور انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات کے لیے جا پہنچے۔ اس سے تناو کم ہوا اور ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے فضا سازگار ہوئی۔ 1990 کی دہائی کے بیشتر حصے میں ایک اور انجماد آیا۔ کرکٹ 1999 میں مختصر طور پر دوبارہ نمودار ہوئی۔ رینا گٹوسو نے لکھا ہے کہ اپریل 1999 میں انڈیا اور پاکستان 1987 کے بعد پہلی بار انڈیا میں ایک دوسرے سے کھیلنے والے تھے۔ انڈین اخبار ’دی ہندو‘ سے منسلک صحافی امِت بارواہ نے اپنی کتاب ’ڈیٹ لائن اسلام آباد‘ میں لکھا ہے کہ 27 مارچ 1999 کو انڈین حکومت نے قذافی سٹیڈیم لاہور میں ’کیمپ ویزا آفس‘ کھولا تاکہ موہالی میں کھیلے جانے والے انڈیا اور پاکستان کے ایک روزہ میچ کے ایک ہزار ویزے جاری کیے جا سکیں۔ رینا گٹوسو لکھتی ہیں کہ ’[قریبی شہر] چندی گڑھ کی گلیوں میں جوش و خروش قابل دید تھا۔انڈیا اور پاکستان کے شائقین اتنی زیادہ تعداد میں اس کھیل کو دیکھنے آئے کہ مقامی ہوٹلوں کے کمرے ختم ہو گئے۔ شہری انتظامیہ نے مقامی اخبار میں ایک اپیل چھاپی، جس میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں پاکستانی مہمانوں کی میزبانی کریں۔ اور پھر کارگل کے تصادم کی وجہ سے یہ سلسلہ دوبارہ بند ہو گیا۔ ایک اور سیاسی پگھلاؤ کے باعث 2004 اور 2007 کے درمیان بارہ ٹیسٹ میچز اور 24 ون ڈے میچز کھیلے گئے۔ پچاس کی دہائی جیسی مہمان نوازی 2004 میں دہرائی گئی۔ اس دورے کی کوریج کرنے والے انڈین صحافی راہول بھٹاچاریا نے اپنی کتاب ’پنڈتس فرام پاکستان‘ میں لکھا کہ انڈین شائقین اتنی تعداد میں آئے کہ پہلے کبھی نہیں آ پائے تھے۔ ’وہ ہوائی جہاز سے آئے ، پیدل آئے، بذریعہ سڑک اور ریل آئے۔ ان تمام ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے جو انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے جنوری کے دورے کے بعد سے کھولے گئے تھے۔ بڑی پروازیں، خصوصی پروازیں، اضافی بسیں، ہزاروں کی تعداد میں پیدل آئے، جن کے بینرز پر ’فرینڈز فار ایور‘ [ہمیشہ کے لیے دوست] لکھا ہوا تھا۔‘ دو کرکٹ ناولوں کے مصنف رچرڈ ہیلر اور پاکستان کرکٹ کی تاریخ ’وونڈڈ ٹائیگر‘کے مصنف پیٹر اوبورن کے مطابق پاکستان کرکٹ کے سربراہ شہریار خان نے لکھا ہے کہ اس دورے کے اختتام پر انڈین ہائی کمشنر نے ان سے کہا کہ ’بیس ہزار انڈین کرکٹ شائقین نے پاکستان کا دورہ کیا۔ گویا آپ نے انڈیا میں پاکستان کے 20 ہزار سفیروں کو بھیج دیا ہے۔‘ سنہ 2006میں تقریباً 3,000 لوگ صبح ہی سے انڈیا کی سرحدی چوکی پر قطار میں کھڑے تھے تاکہ پیدل پاکستان میں داخل ہوں اور پھر دونوں ٹیموں کے درمیان تیسرے ایک روزہ بین الاقوامی میچ کے لیے لاہور جاسکیں ۔ اے ایف پی کی خبر تھی کہ لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر بارڈر پوسٹ کے عملے نے انٹری گیٹ بند کر دیا۔ ’شائقین گیٹ توڑ کر امیگریشن آفس پہنچے۔ امیگریشن اہلکار گھبراہٹ میں بھاگ گئے اور ہجوم نے دفتر پر پتھراؤ کیا، کھڑکیاں توڑ دیں اور معمولی بھگدڑ مچ گئی جس میں تین افراد زخمی ہوئے۔ سنہ 2012 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے دو طرفہ میچ نہیں ہوئے جب پاکستان انڈیا میں تین ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلنے گیا تھا۔دوطرفہ ٹیسٹ کرکٹ تو اس سے بہت پہلے تمام ہوگئی تھی۔ گویا انڈین اور پاکستانی کرکٹرز کی پوری ایک نسل ٹیسٹ میچوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کھیلی۔ صحافی شبھ اگروال لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں سیاسی واقعات اکثر حقیقی کرکٹ کی قیمت پر مرکزی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ رچرڈ ہیلر اور پیٹر اوبورن اپنے ایک مشترکہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1952 میں شروع ہونے والی پاک بھارت ٹیسٹ سیریز کی تاریخ ایشز سے بہت مختصر ہے، لیکن اس کی نسبت زیادہ گہرے جذبات اس سے جڑے ہیں۔ 'یہ کھیلوں کے مقابلوں سے زیادہ، قومی تشخص کا اظہار ہیں، اور اسی لیے اس قدر سیاست کی زد میں ہیں۔‘ سیاسی تلخی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہی سوم آنند کہتے ہیں: کشیدگی کے دنوں میں ایسے لوگوں کے خیالات کا سکہ زیادہ چلتا ہے جو سخت اور بے لچک رویہ اختیار کرنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ 'اس کا نتیجہ ہندوستان اور پاکستان کے عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔' یہ وہی عام لوگ ہیں جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں کرکٹ میچ دیکھنے ایک سے دوسرے ملک جاتے تھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy91dwewzpyo
پاکستان، انڈیا میچ کے لیے کمانڈوز، اینٹی ڈرون سسٹم اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی
کرکٹ کے شائقین احمدآباد میں 14 اکتوبر کے پاکستان انڈیا میچ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری جانب اس میچ کے لیے کرکٹ کی تاریخ کے غیر معمولی سکیورٹی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ میچ کے روز سٹیڈیم اور شہر میں 11 ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار حفاظت کے لیے تعینات کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ عالمی کپ کے افتتاحی میچ کے لیے 3500 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے لیکن پاکستان انڈیا کے اہم میچ کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ احمدآباد کے ایڈیشنل پولیس کمشنر چراغ کوراڈیا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’دوسرے میچوں کے مقابلے اس میچ کے لیے بہت سخت حفاظتی انتظامات ہوں گے۔‘ پولیس نے اینٹی ڈرون سسٹم کا بھی انتظام کیا ہے۔ انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق ممبئی پولیس کو گذشتہ دنوں ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کسی گمنام شخص نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نقصان پہنچانے اور احمدآباد کے کرکٹ سٹیڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی تھی۔ ای میل میں جیل میں قید گینگسٹر لارنس بشنوئی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کیس کے تناظر میں کرائم برانچ نے بدھ کی شب ایک شخص کو گجرات کے راجکوٹ شہر سے گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کی دھمکی والی میل اسی شخص نے بھیجی تھی۔ کوراڈیا کا کہنا تھا کہ ’کسی کو ای میل یا دھمکی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ احمدآباد پولیس ایک باصلاحیت فورس ہے اور شہر میں فل پروف حفاظتی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’سٹیڈیم کے دروازں پر سکیورٹی کا جدید انتظام ہو گا، گاڑیوں، ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز میں چیکنگ کی جائے گی اور ہم مخصوص عناصر پر نظر رکھیں گے۔‘ میچ کے لیے سٹیڈیم میں ایک لاکھ شائقین کے آنے کی توقع ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق میچ کے روز سٹیڈیم اور شہر میں گجرات پولیس، نیشنل سکیورٹی گارڈ کمانڈو، فساد شکن فورسز اور ہوم گارڈز سمیت 11 ہزار سکیورٹی اہلکارحفاظتی ڈیوٹی پر تعینات کیے جائیں گے۔ منگل کے روز ریاست گجرات کے وزیر اعلی بھوپیندر پٹیل نے ریاست کے وزیر داخلہ، ریاستی پولیس کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ پولیس اہلکاروں کے ساتھ سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے اعلی اہلکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس اہم میچ کے خوش اسلوبی سے انعقاد کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ شہر کے پولیس کمشنر لی ایس ملک نے بتایا ہے کہ سٹیڈیم میں بھگڈر کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سٹیڈیم میں سکیورٹی اہلکار بچاؤ اور امدادی کارروائیوں کی مشق کر رہے ہیں۔ سٹیڈیم کے سبھی دروازوں اور اطراف میں سکیورٹی پہلے ہی سخت کر دی گئی ہے۔ اس دوران پولیس نے بدھ کو چار افراد کو پاکستان انڈیا میچ کے جعلی ٹکٹ فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ افراد جعلی ٹکٹ بیس ہزار روپے میں فروخت کر رہے تھے۔ احمد آباد پولیس نے اصل ٹکٹ کے چھ سکیورٹی فیچر جاری کیے ہیں اور شائقین پر زور دیا ہے کہ وہ سٹیڈیم پہنچنے سے پہلے اپنے ٹکٹ کی جانچ کر لیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1rdm5j45ko
انڈیا کی افغانستان پر باآسانی فتح: کوہلی نے تماشائیوں کو نوین الحق پر جملے کسنے سے کیوں روکا؟
ورلڈکپ کے نویں میچ میں انڈیا نے افغانستان کو با آسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر مسلسل دوسری کامیابی حاصل کر لی اور اب انڈیا اور پاکستان دونوں ہی 14 اکتوبر کو احمد آباد میں دو فتوحات کے بعد آمنے سامنے آئیں گے۔ آج انڈیا نے افغانستان کا 273 رنز کا ہدف با آسانی 35 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا تو یہ دراصل کپتان روہت شرما کی تاریخ ساز اننگز کی بدولت اتنی جلدی ممکن ہوا۔ انھوں نے 84 گیندوں پر 131 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی جس میں پانچ چھکے اور 16 چوکے شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایشان کشن اور وراٹ کوہلی 47 اور 55 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ افغانستان کی جانب سے دونوں وکٹیں راشد خان نے حاصل کیں۔ اس اننگز میں روہت نے متعدد ریکارڈ توڑے جن میں انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے زیادہ چھکوں اور ورلڈکپ میں سب سے زیادہ سات سنچریاں بنانے والے بیٹر بن گئے۔ انھوں نے کرس گیل کے سب سے زیادہ چھکوں اور ورلڈ کپ میں سچن تندولکر کی سب سے زیادہ سنچریوں کا ریکارڈ توڑا ہے۔ نئی دہلی کے ارون جیٹلی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا تاہم مقررہ اوورز میں ٹیم آٹھ وکٹوں کے نقصان پر صرف 272 رنز ہی بنا سکی۔ افغانستان کی جانب سے حشمت اللہ شاہدی 80 رنز کے ساتھ نمایاں رہے اور ان عظمت اللہ عمر زائی کے ساتھ شراکت کے باعث ہی افغانستان ایک بہتر ہدف دینے میں کامیاب ہوا۔ دونوں کے درمیان 121 رنز کی شراکت ہوئی تو ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ افغانستان 300 رنز سے زیادہ کا ہدف دے گا لیکن پھر یکِ بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ عظمت اللہ عمر زائی نے 62 رنز سکور کیے۔ انڈیا کی جانب سے جسپریت بمرا نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ہارڈک پانڈیا نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ اب انڈیا اور پاکستان دونوں ہی اپنے دونوں میچ جیتنے کے بعد ایک دوسرے سے احمد آباد میں 14 اکتوبر کو میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے گذشتہ روز سری لنکا کے 345 رنز کے ہدف کو باآسانی چار وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا تھا۔ اس سے قبل پاکستان نے نیدرلینڈز کو اپنے پہلے میچ میں 81 رنز سے ہرایا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 دوسری جانب انڈیا نے چنئی میں آٹھ اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف اپنے میچ میں چھ وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ انڈیا کی اس فتح کے بارے میں سوشل میڈیا پر انڈین مداح بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں اور خاص طور پر روہت شرما کی عمدہ بیٹنگ کی تعریف کر رہے ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق انڈین بلے باز وی وی ایکس لکشمن کا کہنا تھا کہ سنہ 2011 ورلڈکپ میں روہت شرما ٹیم کے لیے سیلیکٹ نہیں ہو سکے تھے اور اب انھوں نے صرف دو ورلڈ کپس میں سات سنچریاں بنا لی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔‘ روہت شرما کو انڈیا کے بہترین بلے بازوں کی فہرست میں گنا جاتا ہے اور وہ خاص کر ون ڈے کرکٹ میں عمدہ بیٹنگ کرنے کے علاوہ بڑی سنچریاں سکور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر نوین الحق بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل رواں برس آئی پی ایل کے دوران نوین الحق اور وراٹ کوہلی کے درمیان تلخ کلامی کا ایک واقعہ بھی تھا جس کے بعد انڈیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر گوتھم گھمبیر بھی بیچ میں آ گئے تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 رائل چیلنجرز بینگلور اور لکھنؤ سپر جائنٹس کے درمیان کھیلے جانے والے میچ میں صورتحال اس وقت تلخی کی جانب بڑھی تھی جب اس میچ میں امت مشرا اور نوین الحق کی جوڑی کریز پر آئی۔ وراٹ کوہلی اور نوین الحق کے درمیان اس دوران تلخ کلامی دیکھنے کو ملی۔ اس دوران کیا بات ہوئی یہ بتانا تو مشکل ہے لیکن بیچ بچاؤ کے لیے امپائر کو مداخلت کرنی پڑی۔ نوین الحق آؤٹ ہو کر پویلین پہنچ گئے اور پھر آخری وکٹ امت مشرا کی گری تو وراٹ کوہلی مخالف ٹیم سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے، اس دوران انھوں نے نوین الحق سے ہاتھ ملاتے ہوئے انھیں کچھ کہا جس پر دونوں کے درمیان ایک بار پر تلخ کلامی ہوئی اور درمیان میں میکسویل کو آ کر دونوں کو علیحدہ کرنا پڑا۔ آج شاید شائقین کو یہ بات یاد تھی اور انھوں نے نوین الحق پر فیلڈنگ کے دوران اور بولنگ کرواتے ہوئے ان پر ہوٹنگ کرنا شروع کر دی۔ دہلی وراٹ کوہلی کا ہوم گراؤنڈ ہے، تاہم وراٹ نے تماشائیوں سے نوین الحق پر ہوٹنگ نہ کرنے یا ان پر جملے کسنے سے منع کرنے کا اشارہ کیا اور بعد میں دونوں کو ہنستے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ اکثر صارفین وراٹ کوہلی کو سوشل میڈیا اسی وجہ سے سراہتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw03rx2pj39o
فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘
سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔ انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔ کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ ’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘ اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔ ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983 کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔ اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔ پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘ نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘ سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔) اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘ اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کا استعمال کیا۔‘ اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘ نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔ ’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘ اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔ ’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘ ’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘ ’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘ آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔ امرت ماتھر لکھتے ہیں کہ انگلینڈ کے حکام نے کہا کہ انھوں نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے نسیم حسن شاہ کی ووٹنگ نہیں دیکھی کیونکہ اُن کا قد چھوٹا تھا۔ (نسیم حسن شاہ بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے۔) اس پر جسٹس شاہ غصے میں آ گئے اور دوبارہ گنتی کے دوران میز پر دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر کھڑے ہو گئے۔ دونوں ممالک کو ایک بڑے بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے لیے درکار رقم کا بندوبست کرتے ہوئے اس کے انعقاد کی اپنی صلاحیت کے بارے میں گہرے تعصب پر قابو پانا تھا۔ اوبورن لکھتے ہیں کہ ’نور خان اور سالوے اپنی اپنی حکومتوں کو ورلڈ کپ پراجیکٹ کے لیے سٹیڈیم اور کرکٹ ڈھانچے کی بہتری کے لیے پیسہ لگانے پر راضی کرنے میں کامیاب رہے۔‘ ماتھر لکھتے ہیں کہ ’سالوے نے لندن میں مقیم ایک انڈین تاجر سے ملاقات کی جس نے آسانی سے ادائیگی کرنے اور ورلڈ کپ کو سپانسر کرنے کی پیشکش کی۔‘ انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو یہ اچھا نہ لگا۔ گاندھی نے اپنے اس وقت کے وزیر خزانہ (اور بعد میں سیاسی حریف) وی پی سنگھ کو ہدایت کی کہ وہ بی سی سی آئی کو مطلوبہ رقم جاری کریں۔‘ اب ایک متبادل ٹائٹل سپانسر کی تلاش تھی۔ سالوے اور بندرا نے ملک بھر کے کاروباری افراد کے ساتھ بات چیت کی جس کے بعد وہ ٹیکسٹائل ٹائیکون دھیرو بھائی امبانی کے نام پر متفق ہوئے۔ بِندرا کے مطابق معاہدے پر دستخط کرنے کے وقت امبانی کی ایک شرط تھی کہ وہ ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ایک نمائشی میچ میں انڈین وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھیں گے، جسے قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ ’یعنی یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ انڈین کمپنی ریلائنس کے حکومت کے ساتھ گرم جوش تعلقات ہیں۔‘ اوبورن لکھتے ہیں کہ ریلائنس نے 70 ملین روپے (تب کے زرمبادلہ کے سرکاری ریٹ کے مطابق 4.7 ملین پاؤنڈ کے برابر) رقم کی پیشکش کی اور یوں سالوے اور نور خان اس قابل ہوئے کہ انگلینڈ کے مقابلے میں دیگر بورڈز سے 50 فی صد زیادہ انعامی رقم کا وعدہ کر سکیں۔ یوں آئی پی جے ایم سی نے 1987 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق حاصل کر لیے لیکن انگلش کرکٹ بورڈ کے حکام اس کے بعد بھی کئی سالوں تک قانونی اعتراضات اٹھاتے رہے۔ اوبورن کے مطابق 'اب انگلینڈ کا اعتراض تھا کہ انڈیا اور پاکستان میں چونکہ سورج جلدی غروب ہو جاتا ہے اس لیے دن بھر میں ساٹھ اوور کا میچ ہونا ناممکن ہے (یاد رہے کہ تب فلڈ لائٹس میچ نہیں ہوتے تھے)۔ اس پر سالوے اور نور خان کا سادہ سا جواب تھا: ’میچوں کو 50 اوورز کا کر دیں۔‘ انگلینڈ کی طرف سے اگلا شبہ براڈکاسٹنگ کی صلاحیت کے بارے میں تھا، مگر آئی سی سی کو یہ اعتراض دور کرنے کا بھی یقین دلایا گیا۔ ماتھر کے مطابق سالوے اور بندرا کو قومی نشریاتی ادارے دور درشن سے بھی نمٹنا پڑا جس نے ورلڈ کپ کی کوریج کے عوض میزبانوں سے رقم کا مطالبہ کیا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے راجیو گاندھی سے کہنا پڑا۔ دوسری جانب پی ٹی وی پاکستان میں اس ایونٹ کی کوریج کر رہا تھا۔ ’معیاری کوریج کو یقینی بنانے کے لیے بی بی سی کے ایک ماہر کیتھ میکنزی کو پروڈکشن کی سربراہی اور نشریات کے تکنیکی پہلوؤں کی نگرانی کے لیے رکھا گیا۔ ان احتیاطی تدابیر کے باوجود، کبھی کبھار معاملہ بگڑ جاتا۔‘ اگلا اعتراض ٹیموں کے انڈیا اور پاکستان میں ایک سے دوسری جگہ سفر کے بارے میں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ انگلینڈ میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا لیکن پاکستان اور انڈیا دو بہت بڑے ملک ہیں۔ اس کے جواب میں، سول ایوی ایشن کے حکام نے اعلان کیا کہ وہ ورلڈ کپ کے پروگرام کے مطابق اپنے فلائیٹ شیڈول کو ایڈجسٹ کریں گے۔ سب کچھ ہو چکا تو 1986 کے آخر میں، انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد پر فوجی کشیدگی بڑھنے لگی۔ اس پر انگلینڈ اور آسٹریلیا نے فوری طور پر ٹیموں کی سکیورٹی خدشات کا مسئلہ اٹھا دیا۔ ماتھر لکھتے ہیں کہ ’اسلام آباد کے باہر مری میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اجلاس میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے کشیدگی کا ذمہ دار انڈین فوج کو ٹھہرایا۔ بِندرا، جن کا تعلق ضیا کی طرح پنجاب کے شہر جالندھر سے تھا، نے تعطل کو توڑنے کے لیے جنرل ضیا کو انڈیا کے دورے کا مشورہ دیا۔‘ بندرا یاد کرتے ہیں کہ ضیا نے ان سے پوچھا، ’کیا انڈیا کے وزیر اعظم مجھے مدعو کریں گے؟ بِندرا کا جواب تھا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ بس آ جائیں۔‘ ’ضیا نے اتفاق کیا اور عالمی کپ سے آٹھ ماہ قبل فروری 1987 میں جے پور میں پاکستان اور انڈیا کا ٹیسٹ دیکھنے جا پہنچے۔ اس کے بعد سے کشیدگی کم ہوئی اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعاون کی کمی کے خدشات دور ہو گئے۔‘ کش سنگھ کے مطابق کرکٹ کی باقی دنیا کے لیے پیغام واضح تھا اور جب 1987 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کی میزبانی کی بات آئی تو انڈیا اور پاکستان ایک تھے۔ انڈیا اور پاکستان یہ ورلڈ کپ تو نہ جیت پائے مگر یہ دونوں ملک کرکٹ کی دنیا کو ناقابل ِ شکست وسعت عطا کر چکے تھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckv0jlvq89jo
مگر رضوان کی ہمت بالاتر رہی: سمیع چوہدری کا کالم
جب رستہ طویل ہو اور قدم شروع میں ہی ڈگمگا جائیں تو کامیاب وہی رہتا ہے جو حواس کھونے نہ دے اور منزل سے پہلے پہلے سنبھل جائے۔ پاکستان بھی اس طویل رستے کی ابتدا میں خوب ڈگمگایا۔ مگر بھلا ہوا کہ بیچ راہ ہی سنبھل بھی گیا۔ پاکستانی بولنگ کا آغاز مثالی نہ تھا۔ شاہین آفریدی صحیح لینتھ کی کھوج میں مینڈس کے لیے تر نوالہ بنتے رہے اور حسن علی کی درستی کی بدولت، دوسرے کنارے سے جو کچھ کنٹرول پاکستان کو میسر ہو رہا تھا، وہ بھی حارث رؤف کے ابتدائی سپیل میں ہوا ہو گیا۔ اس پر ستم ظریفی یہ رہی کہ جس ٹورنامنٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سپنرز کا کردار اہم تر ہونے کو ہے، وہاں حسبِ معمول شاداب خان اور محمد نواز ایک بار پھر روٹھی فارم کو منانے کی تگ و دو میں نظر آئے۔ بعید نہ تھا کہ جو قہر جنوبی افریقہ نے دہلی میں سری لنکن بولنگ پر ڈھایا تھا، ویسا ہی یہاں پاکستانی بولنگ پر بھی بِیت جاتا۔ مگر اننگز کے بیچ سپنرز کو بھی صحیح لینتھ مل گئی اور تیسرے پاور پلے میں پیسرز بھی اپنی اصل کو لوٹے۔ کسی بہت بڑے مجموعے کی سمت گامزن لنکن بیٹنگ اپنے لوئر آرڈر کے ہاتھوں پست قدم رہ گئی۔ حیدرآباد کی پچ عموماً بلے بازی کے لیے یوں زرخیز نہیں ہوا کرتی مگر یہاں کیوریٹر نے کچھ ایسا جادو جگایا کہ نئی گیند کے ساتھ پیسرز تو درکنار، سپنرز کو بھی سانس لینا محال ٹھہرا۔ داسون شانکا نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ اس سوچ کے تحت کیا تھا کہ پچھلے میچ کے بعد شدید دباؤ میں گِھری بولنگ کے عزائم بلند کرنے کو سکور بورڈ پر ایک ایسا حوصلہ افزا مجموعہ جڑا ہو کہ وسائل کی کمیابی سے دوچار اٹیک کی ہمت بندھانے کو کافی ہو رہے۔ مگر میچ تمام ہونے تک یہ طے کرنا دشوار ہو چکا تھا کہ دونوں ٹیموں کے فیلڈنگ اور بولنگ ڈسپلن میں سے بدتر کسے ٹھہرایا جائے۔ جہاں پاکستانی فیلڈنگ بھول بھلیوں میں کھوئی نظر آئی، وہاں سری لنکا کا نظم و ضبط اس سے بھی ابتر نکلا۔ پاکستانی تھنک ٹینک نے بہرطور ایک ہی غلطی بار بار دہرانے کے بعد یہاں بالآخر درست قدم لے ہی لیا اور فخر زمان کو آرام دیتے ہوئے، عبداللہ شفیق کو ہنر آزمانے کا موقع دیا۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستانی ٹاپ آرڈر جس کم مائیگی کا شکار رہا ہے، وہاں عبداللہ کے لیے یہ امتحان سہل نہ تھا۔ مگر جس طرح کی تکنیکی مضبوطی اور اعصابی پختگی عبداللہ شفیق میں جھلکتی ہے، وہ فی زمانہ نوجوان کرکٹرز میں خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ عبداللہ کی ذہنی بلوغت کا مکمل نمونہ تھا کہ یکے بعد دیگرے امام الحق اور بابر اعظم کا ساتھ گنوانے کے بعد بھی اضمحلال کو پاس پھٹکنے نہ دیا۔ اور پھر انھیں محمد رضوان کی شکل میں وہ آزمودہ کار سنگت میسر ہوئی کہ جس نے دوسرے کنارے سے بھرپور سنبھالا دیا۔ گو پاکستان میچ کی چال سے بہت پیچھے رہ چکا تھا مگر ان دونوں نے کہیں بھی مطلوبہ رن ریٹ کو اعصاب پر حاوی نہیں کیا اور شانکا کی غلطیوں کے منتظر رہے۔ ون ڈے کرکٹ کی خوبصورتی یہ ہے کہ ٹی ٹونٹی کے برعکس یہاں کئی ایک پڑاؤ آتے ہیں اور ایک مرحلے کی پست ہمتی کا ازالہ کرنے کو دوسرا مرحلہ میسر ہوتا ہے۔ پاکستانی بولنگ ہی کی طرح بیٹنگ بھی ابتدا میں جہاں ڈگمگا گئی تھی، اننگز کے دوسرے مرحلے میں اس لغزشِ پا کو کمال مہارت سے رفع کر لیا گیا۔ جہاں سعود شکیل کی شمولیت سے مڈل آرڈر کی کجی دور ہوئی تھی، وہیں اب عبداللہ شفیق کی آمد سے ٹاپ آرڈر کا نقص بھی دور ہو گیا اور ان کی شاندار اننگز کے طفیل، ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف طے کرنے کا ایک نیا ریکارڈ پاکستان کے نام ہوا۔ اگرچہ ساڑھے چار بولرز پر مشتمل اٹیک کے ہمراہ میدان میں اُترنا کسی بھی فیلڈنگ کپتان کے لیے عذاب سے کم نہیں ہوتا مگر بے سبب دور اندیشی پر مائل سری لنکن کپتان نے بھی بولنگ تبدیلیوں میں بارہا ایسی غلطیاں کی کہ رن ریٹ کے بوجھ تلے دبتی پاکستانی بیٹنگ کو نئی زندگی ملتی رہی۔ اور اس سب احوال سے بالاتر رہی محمد رضوان کی ہمت کہ کوئی انجری ان کا رستہ روک پائی اور نہ ہی تھکن ارادوں میں حائل ہو پائی کہ منزل تک پہنچ کر ہی دم لیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2q39r42y0xo
رضوان اور عبداللہ شفیق کی سنچریوں کی بدولت پاکستان سری لنکا کے خلاف ریکارڈ ہدف کے تعاقب میں کامیاب
سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ 2023 میں اپنے دوسرے میچ میں پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کی عموماً اس کے مداحوں کو اس کے بلے بازوں سے بالکل امید نہیں ہوتی، یعنی ایک ایسے ہدف کا تعاقب جو آغاز میں خصوصاً کپتان بابر اعظم کی وکٹ گرنے کے بعد ناقابلِ تسخیر دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے میں عبداللہ شفیق اور رضوان کریز پر اکٹھے ہوئے اور پاکستان نے 345 رنز کے ہدف کے تعاقب کا آغاز کیا۔ اس تمام صورتحال میں مسئلہ یہ بھی تھا کہ پاکستان نے آج تک ورلڈ کپ مقابلوں میں کبھی 265 رنز سے زیادہ کا ہدف حاصل نہیں کیا تھا۔ آغاز میں دونوں کی رنز بنانے کی رفتار قدرے سست تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ اعتماد بڑھنے اور سری لنکن بولرز کی ناقص بولنگ نے میچ کا پانسہ پاکستان کی جانب پلٹ دیا۔ عبداللہ شفیق جو فخر زمان کی مسلسل ناقص فارم کے باعث ٹیم میں شامل کیے گئے تھے نے سپنرز کو انتہائی اطمینان سے کھیلا اور پاکستان کی اننگز کو ٹھہراؤ بخشا۔ ان کا سٹائلش انداز ان کے جارحانہ کھیل میں نظر آ رہا تھا اور انھوں نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں ہی کے خلاف انتہائی اطمینان اور جارحانہ انداز سے بیٹنگ کی اور پاکستان کو اس ہدف کے تعاقب میں ایک بہترین بنیاد فراہم کر دی۔ انھوں نے 112 رنز کی اننگز میں تین چھکے اور 11 چوکے لگائے اور جب وہ آؤٹ ہوئے تو پاکستان ایک مستحکم پوزیشن پر تھا۔ ان کا ساتھ دینے والے محمد رضوان نے دوسری جانب سے ایک لمبی اننگز کھیلی اور آخری اوور تک کریز پر موجود رہے۔ انھوں نے آٹھ چوکے اور تین چھکے لگائے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں دوسرا میچ بھی جیت جائے۔ یہ ورلڈ کپ مقابلوں کی تاریخ میں وہ سب سے بڑا ہدف ہے جسے حاصل کیا گیا ہے۔ سعود شکیل کے 31 اور افتخار کے 22 رنز بھی اہم رہے اور پاکستان نے صرف 10 گیندیں پہلے ہی ہدف کا تعاقب مکمل کر لیا۔ محمد رضوان کی 131 رنز کی ناقابلِ تسخیر اننگز کے باعث انھیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ حیدرآباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو آغاز میں ہی حسن علی کی جانب سے وکٹ لینے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان سری لنکا کو کم ٹوٹل پر روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ تاہم پھر شاہین آفریدی کی گیند پر کوسال مینڈس کا کیچ امام الحق سے چھوٹا اور پھر پاکستانی بولرز کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔ کوسال مینڈس نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 77 گیندوں پر چھ چھکے اور 14 چوکے لگاتے ہوئے 122 رنز بنائے اور پاکستانی بولرز کو لاجواب کر گئے۔ ان کے جارحانہ انداز کے باعث نہ تو پاکستانی کپتان ایک فیلڈ سیٹ کر پائے اور نہ ہی پاکستانی بولرز کو سمجھ آئی کہ کیا لائن رکھی جائے۔ سری لنکا نے 20 سے 30 اووز کے درمیان 102 رنز بنائے تو ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہدف 400 کے قریب ہو گا، تاہم پاکستانی فاسٹ بولرز نے آخری 20 اوورز میں بہتر بولنگ کا مظاہرہ کیا اور یکِے بعد دیگرے وکٹیں لیں جس کے باعث سری لنکا کو 344 رنز تک روکا جا سکا۔ سری لنکن کھلاڑی سمارا وکرما نے بھی سنچری کراس کرتے ہوئے 89 گیندوں پر 108 رنز بنائے۔ ان کی اننگز میں دو چھکے اور 11 چوکے شامل تھے اور وہ بالآخر حسن علی کی گیند پر محمد رضوان کے ہاتھوں کیچ آوٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے حسن علی نےچار وکٹیں حاصل کیں، انھوں نے کوسال مینڈس کو 122، کوسال پریرا کو صفر اور چریتھ اسالنکا کو ایک رن جبکہ سمارا وکرما کو 108 رنز پر آوٹ کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انڈیا کے سپورٹس جرنلسٹ ہمانشو پریک نے پاکستان کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک ایسی ٹیم جس کا کوئی ٹاپ اور مڈل آرڈر ہی نہیں ہے اس نے ورلڈ کپ تاریخ کی سب سے بڑی فتح اپنے نام کی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ناقابل پیشنگوئی پاکستان کی یہ بہترین پرفارمنس ہے۔‘ سکندر بخت نے اپنے ٹویٹ میں سب بڑے اہداف سر کرنے والی ٹیموں کا نام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اب ورلڈ کپ میں سے بڑا ہدف کرنے والی سرفہرست ٹیم بن گئی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سنہ 2011 میں یہ ریکارڈ آئرلینڈ کا تھا جب اس نے چار وکٹوں کے نقصان پر انگلینڈ کے خلاف 329 رنز کا ہدف حاصل کیا۔ ورلڈ کپ میچز میں بنگلہ دیش نے دو بار 322 رنز کا ہدف حاصل کیا ہے۔ سری لنکا نے سنہ 1992 میں زمبابوے کے خلاف 313 رنز بنا کر ورلڈ کپ میں بڑی جیت اپنے نام کیے۔ پاکستان کے سابق اوپنر احمد شہزاد نے سنیچر کو انڈیا کے ساتھ پاکستان سے میچ سے قبل اس بڑی جیت کو ایک ’بوسٹر‘ قرار دیا ہے۔ صارف اعظم جمیل نے لکھا کہ وہ گرین شرٹ پر اعتماد نہ کرنے پر آج سرعام معافی کے خواستگار ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2l31kv5zneo
پاکستان برق رفتار پاکستانی فاسٹ بولرز کے لیے کیوں مشہور ہے اور یہ ٹیلنٹ کہاں سے آتا ہے؟
پاکستان میں کئی کرکٹ کے شائقین کہتے ہیں کہ ایسی ٹیم جس میں بولر پاکستانی اور بیٹر انڈین ہوں تو وہ کیا ہی شاندار ٹیم ہو گی۔ لیکن یہ پاکستانی فاسٹ بولرز بنتے کیسے ہیں اور یہ ٹیلنٹ کہاں سے آتا ہے؟ دیکھیے لاہور سے علی کاظمی کی ویڈیو
https://www.bbc.com/urdu/articles/cldxl4prxp4o
ورلڈ کپ 2023: وہ انڈین نژاد کرکٹر جو دوسرے ممالک کے لیے کھیل رہے ہیں
اگر آپ گوگل پر نیوزی لینڈ کے کرکٹر ایش سوڈھی کے بارے میں سرچ کریں تو سب سے پہلے ایک ویڈیو نظر آتی ہے۔ ایش سوڈھی کی یہ ویڈیو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ریکارڈ کی ہے جس میں وہ پنجابی کمنٹری کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نام اندربیر سنگھ سوڈھی ہے۔ میرے خیال میں میچوں کی پنجابی میں کمنٹری ہونی چاہیے۔‘ ان کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر کئی بار دیکھی جا چکی ہے جس میں وہ بلے کو تھامے پنجابی گانا گا رہے ہیں۔ انڈیا میں کرکٹ کے جنون سے ہر کوئی واقف ہے اور اسی جذبے کو انڈیا کے بیرون ملک مقیم شہری دنیا کے مختلف ممالک میں لے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کی مختلف ٹیموں میں کئی انڈین نژاد کھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ جو ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں بھی کر سکیں، اُن میں بھی بہت سے کھلاڑی انڈین نژاد ہیں۔ کینیڈین ٹیم ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکی ہے لیکن وہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے اور اس ٹیم میں 5 سے زائد کھلاڑی انڈین نژاد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سنگاپور کرکٹ ٹیم کے 15 کھلاڑیوں میں سے 12 کھلاڑی انڈین نژاد ہیں۔ اور اگر ہم ریٹائر ہونے والے کھلاڑیوں کی بات کریں تو یہ فہرست کافی لمبی ہو جائے گی۔ ان میں ناصر حسین، جیتن پٹیل اور مونٹی پنیسر جیسے کھلاڑیوں کے نام بھی شامل ہوں گے۔ اس رپورٹ میں ہم آپ کو انڈین نژاد اُن پانچ کھلاڑیوں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو اس کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں مختلف ٹیموں کے لیے کھیل رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم میں لیگ بریک بولر کے طور پر کھیلنے والے ایش سوڈھی کا پورا نام اندربیر سنگھ سوڈھی ہے۔ وہ 31 اکتوبر 1992 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایش سوڈھی نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد پاکستان کے شہر لاہور سے 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ’ای ایس پی این کرک انفو‘ کے مطابق اُن کے والدین بعد میں انڈیا سے نیوزی لینڈ منتقل ہوئے۔ ایش نے آکلینڈ کے ایک ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی جو کرکٹ کے لیے مشہور نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں علاقائی کلب کی ٹیموں میں جگہ بنانا مشکل نظر آیا۔ اس کے ساتھ ایک اور پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ آکلینڈ کی پچیں سپن باؤلرز کے لیے بالکل مددگار نہیں تھیں۔ اس کے ساتھ علاقائی ٹیموں کے کپتانوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سوڈھی جیسے بولر کو کیسے استعمال کیا جائے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایش نے بتایا کہ انھوں نے 12 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی۔ ’جب میں نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا تو میں نے یوٹیوب پر شین وارن اور عبدالقادر جیسے بولرز کی ویڈیوز دیکھنا شروع کر دیں۔‘ اس کے بعد انھوں نے نیوزی لینڈ کے دیپک پٹیل سے باؤلنگ بھی سیکھی۔ ایش نے نیوزی لینڈ کے لیے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ سال 2013 میں اور اپنا پہلا ون ڈے میچ سال 2015 میں کھیلا۔ ایش سوڈھی ون ڈے کرکٹ میں 60 سے زیادہ وکٹیں لے چکے ہیں۔ سوڈھی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ انھوں نے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں 126 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ وہ انڈیا کے خلاف کافی کامیاب رہے ہیں۔ انھوں نے ٹی ٹوئنٹی میں انڈیا کے خلاف 25 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ایش سوڈھی پنجابی گلوکار سدھو موسے والا اور ہپ ہاپ میوزک کے مداح ہیں۔ ایش سودھی نے اپنے انسٹاگرام بائیو میں خود کو ریپر کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ ایش سوڈھی کے پسندیدہ کرکٹ کھلاڑی وی وی ایس لکشمن ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنی ایک بیٹی کا نام ڈاہلیا لکشمی سوڈھی رکھا ہے۔ اب ہم ایک ایسے کرکٹ کھلاڑی کی بات کرنے جا رہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا نام دو کرکٹ کھلاڑیوں کے نام پر رکھا گیا۔ ہم نیوزی لینڈ ٹیم کے ایک اور انڈین نژاد سٹار راچن رویندرا کی بات کر رہے ہیں۔ راچن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے نام کا پہلا حصہ یعنی ’را‘ سابق انڈین کھلاڑی راہول ڈریوڈ جبکہ ’چن‘ سچن سے لیا گیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب راچن سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ راچن رویندرا 18 نومبر 1999 کو ویلنگٹن میں پیدا ہوئے۔ سنہ 2018 میں جب راچن ایک بیٹنگ آل راؤنڈر کے طور پر انڈر 19 ورلڈ کپ کھیل رہے تھے تو ان کے والد روی کرشنامورتی نے ای ایس پی این کرک انفو سے بات کی۔ اس وقت روی نے کہا تھا کہ ’میں نے اپنی بیٹی کو کرکٹ میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ کرکٹ نہیں کھیلی۔ میں نے راچن کے لیے کوشش بھی نہیں کی لیکن اس نے کھیلنا شروع کر دیا۔‘ راچن کے والدین کا تعلق بنگلورو سے ہے اور وہ راچن کی پیدائش سے قبل نیوزی لینڈ میں آباد ہو گئے تھے۔ راچن کے والد بنگلور میں کلب کرکٹ کھیلتے تھے۔ سابق انڈین فاسٹ بولر سری ناتھ کو بھی ان کا اچھا دوست سمجھا جاتا ہے۔ راچن کے مطابق سری ناتھ نے ان کے ساتھ کرکٹ کے بہت سے مشورے اور تجربات شیئر کیے ہیں۔ راچن ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ انھوں نے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے پہلے میچ میں انگلینڈ کے خلاف شاندار کارکردگی دکھائی اور 96 گیندوں پر 123 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور مین آف دی میچ بھی رہے۔ راچن کو نیوزی لینڈ کے روشن مستقبل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وکرم جیت سنگھ ہالینڈ کی ٹیم میں شامل ہیں۔ 20 سالہ وکرم جیت سنگھ کا تعلق جالندھر سے ہے اور وہ بائیں ہاتھ کے بلے باز ہیں۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے میچ سے کیا۔ وکرم جیت سنگھ 2003 میں پنجاب کے ضلع جالندھر کے گاؤں چیمہ خورد میں پیدا ہوئے۔ وکرم جیت کے دادا خوشی چیمہ 1980 کی دہائی میں پنجاب سے ہالینڈ چلے گئے تھے۔ اس وقت وکرم جیت کے والد ہرپریت سنگھ کی عمر صرف 5 سال تھی۔ بیرون ملک جانے کے بعد بھی وکرم جیت کا خاندان پنجاب سے جڑا رہا۔ وکرم جیت نے اپنی ابتدائی تعلیم جالندھر کے ایک نجی اسکول سے حاصل کی۔ 2008 میں وکرم جیت سنگھ پانچ سال کی عمر میں ہالینڈ گئے تھے۔ وکرم جیت کے والد بھی کرکٹ کے دلدادہ ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹے کو کھیل کی طرف راغب کیا۔ وکرم جیت سنگھ نے 11 سال کی عمر میں انڈر 12 کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلنا شروع کیا۔ وکرم جیت کے دادا خوشی چیمہ نے بی بی سی کے پردیپ شرما کو بتایا کہ ’2016 سے 2018 تک، وکرم جیت نے چندی گڑھ کی ایک کرکٹ اکیڈمی میں کرکٹ سیکھی اور بعد میں جالندھر کے قریب ایک اور کرکٹ اکیڈمی میں تربیت حاصل کی۔‘ وکرم جیت سنگھ کے دادا کے بڑے بھائی لال سنگھ بتاتے ہیں کہ وکرم کو شروع سے ہی کرکٹ کا شوق تھا اور وہ جب بھی انڈیا آتے تو پریکٹس میں وقت گزارتے تھے۔ وکرم جیت سنگھ کا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے جو نیدرلینڈ میں ہی پیدا ہوا تھا۔ یہ پورا خاندان ہالینڈ میں رہتا ہے اور خاندان کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہے۔ وکرم جیت سنگھ اب ہالینڈ کے لیے اوپننگ بلے باز کے طور پر کھیل رہے ہیں۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز وکرم جیت نے اب تک 25 میچوں میں 800 سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ وہ اب تک ون ڈے میں ایک سنچری اور 5 نصف سنچریاں بنا چکے ہیں۔ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں انھوں نے پاکستان کے خلاف 52 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ ورلڈ کپ 2023 کے کوالیفائرز کے دوران نیدرلینڈ کا مقابلہ دو مرتبہ کی عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز سے تھا۔ ویسٹ انڈیز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 374 رنز بنائے۔ جواب میں ہالینڈ نے بھی اچھا کھیل پیش کیا۔ اس میچ میں نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے انڈین نژاد انیل تیجا نے شاندار سنچری سکور کی۔ انھوں نے 76 گیندوں پر 111 رنز بنائے۔ میچ ٹائی ہو گیا اور سپر اوور میں نیدرلینڈ نے فتح حاصل کی۔ تیجا اس میچ کے بعد بہت جذباتی ہو گئے کیونکہ ان کی محنت رنگ لائی۔ تیجا کی پیدائش آندھرا پردیش کے وجے واڑہ میں ہوئی تھی۔ کرک انفو کے مطابق تیجا 6 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔ سکول کے بعد انھوں نے آکلینڈ میں کرکٹ کھیلنا جاری رکھا۔ انھوں نے مارک چیپ مین، کولن منرو، گلین فلپس جیسے نیوزی لینڈ کے موجودہ کھلاڑیوں کے ساتھ لسٹ اے کرکٹ کھیلی لیکن نیوزی لینڈ کی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔ اس کے بعد تیجا نے 2019 میں ڈچ شہر یوٹریچٹ کے ایک کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔ بہت ڈرامائی انداز میں ان کو ہالینڈ میں نوکری مل گئی اور پھر ہالینڈ کی ٹیم میں بھی جگہ ملی۔ کرک انفو سے بات کرتے ہوئے تیجا کا کہنا ہے کہ ان کی ماں نے ان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میری ماں نے مجھے اکیلے پالا۔ واپس آ کر انڈیا میں سکونت اختیار کی۔ میں 16 سال کی عمر سے نیوزی لینڈ میں تنہا رہ رہا تھا۔‘ تیجا کو گذشتہ سال مئی میں ہالینڈ کی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا۔ اب تک وہ نیدرلینڈز کے لیے 20 سے زیادہ ون ڈے اور 6 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل چکے ہیں۔ کیشو مہاراج جنوبی افریقہ کی ٹیم میں انڈین نژاد کھلاڑی ہیں۔ 33 سالہ کیشو مہاراج نے 2014-2015 اور 2015-16 کے سیزن میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر انھیں جنوبی افریقہ کی قومی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ کیشو کم عمری میں تیز گیند باز تھے لیکن بعد میں سپن باؤلنگ کا رخ کیا۔ انھوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔ کیشو مہاراج جنوبی افریقہ کے لیے اب تک 49 ٹیسٹ اور 31 ون ڈے میچ کھیل چکے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c874e26pe85o
لڑکیوں کی روایت شکن کرکٹ ٹیم: ’جو لڑکے کر سکتے ہیں، لڑکیاں بھی کر سکتی ہیں‘
انڈین ریاست پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک درجن سے زیادہ نوجوان لڑکیاں کھیتوں کے بیچ سائیکل چلاتی جا رہی ہیں۔ سفید لباس میں ملبوس، کچے راستوں پر چلتے ہوئے، ان کا جوش و خروش بڑھنے لگتا ہے۔ گندم کے کھیتوں کے درمیان، ان کی خوشی کی وجہ نظر آتی ہے: کرکٹ کی پچ، پلاسٹک کی وکٹیں اور کنکریٹ کی پٹی جہاں وہ بیٹنگ کر سکتی ہیں۔ اگر یہ سنہ 1989 کی ہالی وڈ فلم فیلڈ آف ڈریمز کا منظر لگتا ہے تو یہ حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔ یہ 18 لڑکیاں گلاب سنگھ کرکٹ ٹیم کی رکن ہیں۔ کرکٹ انڈیا میں ایک مذہب کی طرح سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔ اگرچہ یہ مردوں کا کھیل رہا ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں، انڈیا نے خواتین کی کرکٹ پریمیئر لیگ، ڈبلیو پی ایل، شروع کی ہے، جو انڈین پریمیئر لیگ، آئی پی ایل، کا ایک ورژن ہے۔ یہ تیزی سے دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش خواتین کی فرنچائزز میں سے ایک بن گئی ہے، جو امریکہ میں خواتین کی باسکٹ بال لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈیا میں خواتین کئی سالوں سے کرکٹ میں سرگرم اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ڈبلیو پی ایل نے انھیں مرکزی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب انھیں میڈیا پر بھی پذیرائی حاصل ہوتی ہے جو اس سے قبل صرف مردوں کی ٹیموں کے لیے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ اکتوبر میں انڈیا کے کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی نے کہا ہے کہ تمام کنٹریکٹ یافتہ خواتین کرکٹرز کو مردوں کے برابر میچ فیس ادا کی جائے گی۔ یہ ملک کے سب سے پسندیدہ کھیل میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ تاہم قومی سطح پر تبدیلیوں کے باوجود، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں لڑکیوں کو کھیلنے کا موقع فراہم کرنا اب بھی مشکل ہے۔ 35 سالہ گلاب سنگھ شیرگل، جنھوں نے چار سال قبل اس چھوٹی سی لیگ کا آغاز کیا تھا، کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ کرکٹ ٹیم ان کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے بنائی ہے۔۔‘ وہ کہتے ہیں ’انھیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ملتی، صرف دسویں جماعت تک جانے کی اجازت ملتی ہے۔‘ اس کے بعد یہ کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی میں لگ جاتی ہیں جب تک کہ ان کی شادی نہیں ہو جاتی اور انھیں اپنے سسرال کے ساتھ رہنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ہر روز ان کی ٹیم میں شامل لڑکیاں یہاں آتی ہیں اور بیٹنگ ایریا کے پیچھے ایک درخت کے نیچے اپنی بائیک پارک کرنے کے بعد میدان میں وارم اپ ہوتی ہیں۔ 13 سالہ سمرن جیت کور بولنگ سیکھ رہی ہیں۔ وہ بھاگتی ہیں اپنا بازو گھما کر چمڑے کی گیند کو پھینکتی ہیں۔ ان کا قد تیز رفتار گیندبازی کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی باؤلنگ میں بہتری آنے لگی ہے۔ ان کا جسم کسی بچے جیسا ہی ہے لیکن ان کو جلدی سے بڑے ہونا ہے۔ تین سال قبل ان کی والدہ کی اچانک موت کے بعد ان کی دادی نے سمرنجیت اور ان کی دو بہنوں کا خیال رکھا جن کی عمر دس اور تین سال ہے۔ چند سال قبل ان لڑکیوں کو کھیلتا دیکھ کر وہ ٹیم میں شامل ہوئیں جہاں وہ اپنے کرکٹ کے شوقین والد کے ساتھ ایک ٹورنامنٹ دیکھنے گئی تھیں۔ ’میرے والد نے پوچھا کہ کیا میں کھیلنا چاہوں گی۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔ تو انھوں نے کوچ سے پوچھا کہ کیا میں بھی ٹیم میں شامل ہو سکتی ہوں تو انھوں نے اگلے دن سے آنے کو کہا۔‘ سکول جانے سے پہلے سمرنجیت دادی کے ساتھ روٹیاں پکاتی ہیں۔ سکول کے بعد اپنی عمر کی دیگر بچیوں کی طرح گھر کے کام کرنے کے بجائے، اپنے باپ اور دادی کی حمایت سے، وہ کرکٹ کا لباس پہن کر پریکٹس پر چلی جاتی ہیں۔ اب ان کی بہن بھی ان کے ساتھ جاتی ہے۔ ان کی دادی، بلجیت کور کہتی ہیں کہ ’دیہاتوں میں ایک بری سوچ ہے کہ لڑکیوں کی شادی کرو اور سسرال بھیج دو جیسے ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں۔ کچھ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ اپنی بچیوں کو کھیلنے کیوں بھیجتے ہو تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری خواہش ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ کھیلیں۔‘ جب سمرنجیت سے سوال کیا گیا کہ ان کو کیسا لگتا ہے کہ لوگ ایسا کہتے ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میری زندگی ہے، میں کھیلنا نہیں چھوڑنا چاہتی۔ مجھے برا لگتا ہے کیوں کہ مجھے کرکٹ پسند ہے۔‘ گلاب سنگھ شیرگل پولیس کانسٹیبل بھی ہیں جو ان کی اصل نوکری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کھلاڑیوں کو کسی چیز کے پیسے نہیں دینا پڑتے۔‘ لیکن ان کی اپنی تنخواہ لگ جاتی ہے۔ یونیفارم، سامان اور ایک کوچ کی تنخواہ میں۔ انھوں نے کرکٹ پچ کے لیے بھی اپنی زمین کا ایک ٹکڑا دیا ہے اور ان کو امید ہے کہ ایک دن وہ یہاں ایک دفتر بنا سکیں گے۔ ابھی تک ان کی ٹیم بنے ہوئے چار سال ہی ہوئے ہیں لیکن وہ لڑکیوں کو ایک ایسی زندگی سے آشنا کروا چکے ہیں جو گاؤں سے دور لے جا سکتی ہے۔ ’اب ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے میچ کرواتے ہیں۔ اس سے ان لڑکیوں کو اپنے آپ پر فخر ہوتا ہے اور وہ اپنے والدین کو کہہ سکتی ہیں کہ میں یہ کر سکتی ہوں۔‘ ان لڑکیوں کے لیے کرکٹ کھیلنا کچھ الگ سا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے صنف سے جڑے امتیاز ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ دس سالہ ہرسمرت کور کہتی ہیں کہ جب ہم میچ کھیلتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں انڈیا کی ٹیم میں ہوں۔ ’جب میں چھکا لگاتی ہوں تو میں جانتی ہوں کہ یہ میں نے انڈیا کے لیے کیا۔ مجھے صرف ایک بات کا احساس ہے کہ ابھی تو میں انڈیا کی ٹیم میں نہیں ہوں لیکن ایک دن ضرور کھیلوں گی۔‘ اس کام میں گلاب سنگھ کو دیگر خواتین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کی بڑی بہن جسویر کور، جن کو پیار سے بوا بلایا جاتا ہے، ان کی سب سے بڑی حمایتی ہیں۔ وہ ہفتے میں ایک دن ضرور میدان میں اترتی ہیں۔ کبھی وہ چوٹ کھا جانے والی کھلاڑیوں کی ہمت باندھتی ہیں تو کبھی صرف انھیں دیکھتی ہیں۔ ان کو عورت پر سماج کے دباؤ کا بخوبی اندازہ ہے۔ ان کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوئی اور پھر وہ ماں بن گئیں۔ وہ یہ سوچ کر اکثر روتی ہیں کہ ان لڑکیوں کا مقدر بھی ایسا ہی نہ ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میری تمام امیدیں عورت ہونے کی وجہ سے توڑ دی گئیں۔ مجھے کہا گیا کہ گھر پر کام کرو، کھانا بناؤ۔ اب میں چاہتی ہوں کہ اگر میں ان لڑکیوں کی مدد کر سکوں کہ یہ کچھ کر سکیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میں اپنی پوری طاقت ان کی مدد کرنے میں استعمال کرنا چاہتی ہوں۔‘ گلاب سنگھ شاید پروفیشنل کرکٹر بننے کا خواب بیچ رہے ہیں کہ یہ لڑکیاں کسی دن دنیا میں انڈیا کی نمائندگی کر سکیں گی۔ لیکن جو سبق وہ ان لڑکیوں کو سکھا رہے ہیں وہ انمول ہے۔ سمرنجیت کہتی ہیں کہ ’لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔ جو لڑکے کر سکتے ہیں، لڑکیاں بھی کر سکتی ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/czd0knkgvpno
اچھی گیندوں کی عزت، حملے کے لیے درست بولر کا انتخاب: کوہلی، راہل کی شراکت باقی ٹیموں کے لیے انتباہ!
انڈیا نے جنوبی ہند کے شہر چنئی میں آسٹریلیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر اپنے ورلڈ کپ کا آغاز کیا ہے جس میں وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل نے اپنے شاندار کھیل اور فارم کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میچ کے ساتھ ورلڈ کپ کی ساری ٹیموں کا ایک ایک میچ مکمل ہوا اور پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان اور انڈیا سمیت پانچ ٹیمیں دو، دو پوائنٹس کے ساتھ سبقت لینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ان پانچ ٹیموں نیوزی لینڈ اپنے رن ریٹ کی وجہ سے سرِفہرست ہے جبکہ جنوبی افریقہ اور پاکستان بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کے بعد بنگلہ دیش اور انڈیا کا نمبر آتا ہے جبکہ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں شرمناک شکست کی وجہ سے انگلینڈ آخری یعنی دسویں پوزیشن پر ہے۔ چنئی کی پچ کچھ ایسی تھی کہ اس پر رنز بنانا مشکل تھا۔ آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن اس کا انھیں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ انڈیا کی جانب سے انتہائی نپی تلی بولنگ ہوتی رہی اور کسی بھی آسٹریلوی بیٹسمین کو کُھل کر کھیلنے کی اجازت نہیں ملی۔ انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ نے کہا کہ انھیں گیند کو سپن کرانے میں زیاد دشواری نہیں ہوئی۔ ان کا کام بس گیند کو درست لائن اور لینتھ پر پچ کرانا تھا اور باقی کام پچ کر رہی تھی۔ انھوں نے دو اوورز میں دو میڈن کے ساتھ 28 رنز دے کر سب سے زیادہ تین وکٹیں لیں۔ اگرچہ پہلی وکٹ فاسٹ بولر جسپریت بمراہ نے لی لیکن انڈیا کے سارے بولروں کو وکٹیں ملیں اور کسی پر بھی کوئی آسٹریلوی بیٹسمین حاوی نہ ہو سکا۔ پہلی وکٹ کے جلد گرنے کے بعد اوپنر ڈیوڈ وارنر اور سٹیون سمتھ نے اننگز کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کبھی بھی اطمینان کا سانس نہ لے سکے اور پھر پہلے کلدیپ یادو نے وارنر کو آوٹ کیا اور پھر جڈیجہ نے سمتھ کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ اس کے بعد جڈیجہ نے مارنس لبوشین اور الیکس کیری کو یکے بعد دیگرے آوٹ کر دیا اور آسٹریلیا کی پانچ وکٹیں 119 رنز پر گر گئیں۔ اس کے بعد ہر کھلاڑی پچ پر رکنے اور رنز سکور کرنے کے لیے جدوجہد کرتا نظر آیا۔ بہر حال آسٹریلیا کی پوری ٹیم 50ویں اوور میں 199 رنز بنا کر آوٹ ہو گئی اور اس طرح انڈیا کو 200 رنز کا معمولی ہدف ملا۔ انڈین بیٹنگ کی شروعات ڈرامائی طور پر خراب رہی اور اس کی تین وکٹیں محض دو رنز پر چلی گئیں جس سے ميچ یکایک دلچسپ ہو گیا۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں ایسا پہلی بار ہوا کہ انڈیا کے پہلے چار بیٹسمن میں سے تین صفر پر آوٹ ہوئے ہوں۔ لیکن پھر وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل نے اپنے فارم اور اعلی معیار کے کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 165 رنز کی شراکت اور کوہلی 85 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ کے ایل راہل نے چھکے کے ساتھ انڈیا کو جیت دلائی اور انھیں ’مین آف دی میچ‘ قرار دیا گیا۔ اُن سے جب پوچھا گیا کہ اُن کی پچ پر وراٹ سے کیا باتیں ہو رہی تھیں تو انھوں نے کہا کہ ’ہماری زیادہ باتیں نہیں ہوئیں بس جب میں آیا تو وراٹ نے کہا کہ ہمیں ٹیسٹ میچ کی طرح اب کھیلنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے ٹیم کے لیے ایسا کیا۔‘ سابق انڈین کرکٹر وسیم جعفر نے لکھا کہ ’دباؤ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا جب ورلڈ کپ کے پہلے ہی میچ میں دو رنز پر آپ کے تین وکٹ گر گئے ہوں اور وہ بھی پرجوش آسٹریلیا کے خلاف۔ پھر آپ اس دباؤ کو جذب کرتے ہیں، جو سبقت تھی اس سے واپس حاصل کرتے ہیں اور پھر میچ جیت لیتے ہیں۔ ان سب کے لیے کچھ مخصوص چاہیے۔ یہ ایسی پارٹنرشپ تھی جو بہت زمانے تک یاد رکھی جائے گی۔ بہت اچھا کھیلے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 جبکہ پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر نے لکھا کہ ’کنگ کوہلی اور راہل نے کیا اننگز کھیلی۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے اپنا ایک یو ٹیوب لنک پیش کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں آسٹریلیا کا پہلے بیٹنگ کرنا سمجھ میں نہیں آیا اور پھر انھوں نے کہا کہ اگر کوہلی کا کیچ ہو جاتا تو یہ میچ آسٹریلیا جیت سکتا تھا کیونکہ وکٹ دوسری اننگز میں بھی مشکل تھی لیکن پھر اوس کی وجہ سے قدرے آسان ہو گئی۔‘ یہ بھی پڑھیے ’سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث پاکستان کا ورلڈ کپ میں فاتحانہ آغاز: ’جس نے بھی ہمارے بولرز کو غصہ دلوایا، منھ کی کھائی‘ ورلڈ کپ 2023: پاکستان کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں اپنے میچ کب اور کہاں کھیلے گا؟ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سابق انڈین کرکٹر محمد کیف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’پانچویں نمبر پر کے ایل راہل کی کامیابی کا نسخہ یہ ہے کہ اچھی گیندوں کی عزت، پارٹنر شپ قائم کرنا، حملے کے لیے درست بولر کا انتخاب اور اخیر میں حالات کے لحاظ سے اپنے شاٹ کا انتخاب کرنا ہے۔ کے ایل راہل اچھے فنشر ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 جبکہ وراٹ کوہلی کے لیے انھوں نے لکھا کہ ’ہدف کا تعاقب کرنے کے ماہر وراٹ کوہلی صحیح وقت پر کریز پر آئے اور اپنے انداز میں وہ لے میں نظر آئے۔ اس ورلڈ کپ میں بہت سے بولر ان سے ڈر رہے ہوں گے۔‘ بہت سے صارفین نے لکھا کہ سنچری ان کا حق تھا لیکن بہت سے 80 رنز سنچری پر بھاری ہوتے ہیں اور پھر انھوں نے کوہلی کے سنہ 2016 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے خلاف 82 ناٹ آوٹ اور سنہ 2022 کے ٹی-20 ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف 82 ناٹ آوٹ اور گذشتہ شب آسٹریلیا کے خلاف 85 رنز کا ذکر کیا۔ آسٹریلیا کے خلاف اپنے پہلے ہی میچ میں انڈیا کے آل راؤنڈ پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ باقی ٹیموں کے ایک پیغام پہنچا ہوگا۔ سپورٹس صحافی ایاز مینن لکھا کہ کوہلی آسٹریلیا اور فتح کے درمیان دیوار بن گئے اور اس لیے ان کے نزدیک وہی مین آف دی میچ ہیں۔ انڈیا کا اگلا میچ افغانستان سے ہے جبکہ تیسرا میچ پاکستان سے 14 اکتوبر کو احمدآباد کے سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جہاں سب سے زیادہ ناظرین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ایاز مینن نے انڈیا کی جیت کے بعد ٹویٹ کیا کہ ’آج انڈیا نے بولنگ، بیٹنگ اور ارادے کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 مبصرین کا کہنا ہے کہ جہاں انڈیا کو اپنی گھریلو پچز پر کھیلنے اور شائقین کی حوصلہ افزائیوں کا فائدہ ہو گا وہیں اس وقت ان کے سارے کھلاڑی فارم میں ہیں اور کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ انڈین ٹیم کی بیٹنگ دنیا میں کسی بھی بیٹنگ لائن سے بہتر ہے جبکہ بولنگ میں خاصا تنوع ہے۔ پاکستان کی ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف مایوس کن کارکردگی رہی ہے لیکن اس نے بھی جیت کے ساتھ ورلڈ کپ کا آغاز کیا ہے۔ منگل کے روز اس کا سری لنکا سے میچ ہے جس کے بعد وہ انڈیا کے سامنے ہوگی اور دنیا بھر میں شہرت رکھنے والی پاکستانی بولنگ کو انڈیا کے اچھے فارم میں نظر آنے والے بیٹسمینوں کا سامنا ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clje2n9g970o
امتحان پاکستانی سپن کا ہی ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم
ایشیا کپ کا جب آغاز ہوا تو بہت سوں کو توقع تھی کہ ٹورنامنٹ کی 40 سالہ تاریخ میں پہلی بار شاید کوئی پاکستان، انڈیا فائنل دیکھنے کو ملے گا کہ بہرحال یہی دونوں ٹیمیں بہترین بولنگ و بیٹنگ سے لیس تھیں۔ مگر توقعات منہ کے بل گر پڑیں اور شانکا کی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔ سپر فور میں جب سری لنکا سے مقابلہ گویا سیمی فائنل سا ٹھہرا تو پاکستان تب تک فیورٹ نہیں رہا تھا کیونکہ وہاں وہ اپنی بیٹنگ اور بولنگ کے اوّلین انتخاب سے معذور تھا۔ مگر اس کے باوجود بازی آخری گیند تک چلی اور پاکستان نے جی جان سے مقابلہ کیا۔ ورلڈ کپ میں نیدرلینڈز کے خلاف فتح کا حلیہ اگرچہ پاکستان کی توقعات کے عین مطابق نہ تھا مگر بہرطور تین ہفتے تک فتح کے ذائقے سے محروم رہنے کے بعد یہ اعتماد کی واپسی کی سمت پہلا قدم ضرور تھا اور اس جیت میں کئی ایک مثبت پہلو موجود تھے۔ ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد مڈل آرڈر نے جس طرح اننگز کو سنبھالا دیا، وہ حوصلہ بخش تھا اور اگرچہ ڈچ بولنگ کے خلاف آل آؤٹ ہو جانا قطعاً کوئی اچھا شگون نہیں تھا مگر بہتری یہ بھی ہوئی کہ پاکستانی الیون کے سبھی بلے بازوں کو میچ پریکٹس تو میسر آ گئی۔ اور جہاں پاکستانی سپنرز ایشیا کپ کی لاحاصل جہد سے اپنے وجود پر اٹھتے سوالات سے پریشان تھے، وہاں ڈچ بیٹنگ کے خلاف نہ صرف شاداب فارم میں واپس آئے بلکہ محمد نواز نے بھی نپی تلی بولنگ سے میچ پر گرفت بنائے رکھی۔ اب جبکہ کل پاکستان اور سری لنکا حیدرآباد میں مدِ مقابل ہوں گے تو حالیہ فتح سے حاصل شدہ اعتماد کے طفیل امکانات کا پلڑا واضح طور پر پاکستان کے حق میں جھکا نظر آتا ہے۔ اور پاکستان کے فیورٹ ہونے کی مزید وجہ یہ بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں فقیدالمثال درگت بننے کے بعد سری لنکن ٹیم فی الحال دباؤ کا شکار بھی ہو گی۔ ورلڈ کپ کا آغاز ہر ٹیم جیت کے اعتماد کے ساتھ کرنا چاہتی ہے مگر سری لنکا کو وہ اعتماد میسر نہیں آ پایا۔ اور اگرچہ چار سیمی فائنلسٹس کی مختلف پیشگوئیوں کے بیچ سری لنکا کہیں نظر نہیں آتی مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ ایشیئن کنڈیشنز میں سری لنکن سپنرز اپنا جادو جگا پائیں تو بہرطور ممکنات کو پلٹتے دیر نہیں لگا کرتی۔ حیدرآباد کی کنڈیشنز میں بھی دہلی کی سی رنز کی برسات دیکھنے کو نہ ملے گی۔ یہاں سپن کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہے اور اگر پہلے میچ کے برعکس سری لنکن تھنک ٹینک نے بہتر الیون منتخب کی تو گمان یہی ہے کہ لہیرو کمارا اور مہیش تیکشنا ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ سو، نیدرلینڈز کے خلاف میچ میں بھی اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر ڈچ سپن کے خلاف مشکلات کا شکار رہا تو دنیتھ ویلالگے کے سرپرائز فیکٹر کے علاوہ مہیش تیکشنا بھی جس قسم کا تجربہ رکھتے ہیں، وہاں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ اگر سری لنکن سپنرز پاکستانی بیٹنگ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو رہے تو بابر اعظم کے لیے دشواری بڑھ سکتی ہے۔ دوسری جانب سری لنکن بیٹنگ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جارحیت پر مائل نظر آئے گی۔ ایسے میں اگرچہ پاکستانی پیس اٹیک پر بظاہر کوئی سوالیہ نشان نہیں کہ حسن علی کی نپی تلی میڈیم پیس ان سست وکٹوں پر جارح مزاج بلے بازوں کے لیے دامِ تزویر ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے مثبت پہلو یہ ہے کہ ایشیا کپ فائنل کی ہزیمت اور پہلے میچ کی خفت آمیز شکست کے بعد سری لنکن ٹیم جس دباؤ سے نکلنا چاہ رہی ہے، پاکستان اپنا پہلا میچ جیت کر پہلے ہی اس دباؤ سے نکل چکا ہے۔ مگر دوسرا زاویہ یہ بھی ہے کہ اس شکست میں بھی سری لنکن بیٹنگ نے جنوبی افریقی بولنگ کو کہیں نک کہیں الجھائے رکھا۔ سو، پاکستانی پیس اٹیک بھلے اپنے حصے کا بوجھ اٹھا جائے، اصل امتحان ایک بار پھر پاکستانی سپنرز کا ہی ہو گا کہ سری لنکن بلے باز سپن سے نمٹنے میں ڈچ بیٹنگ سے بہت بہتر ثابت ہوں گے اور پاکستان کی حالیہ پریشانیوں میں سپن ہی نمایاں تر رہی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pj85623l6o
’سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث
ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو گیا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ میچ دیکھنے والوں کی بھیڑ کہاں ہے؟ پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔ یہی حال جمعے کی شام پاکستان اور نیدر لینڈز کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ کا تھا جہاں زیادہ تر نشستیں خالی تھیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں اس سے زیادہ بھیڑ تو آئی پی ایل کے میچز دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو جاتی ہے۔ تو کیا بی سی سی آئی لوگوں کو سٹیڈیم لانے میں ناکام رہی ہے؟ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو 'فیاسکو' یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ 'جب 'بُک مائی شو' (پلیٹ فارم) پر ٹکٹ کی فراہمی شروع ہوئی تو چند منٹوں میں ہی سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ تو پھر ایسا کیونکر ہوا کہ اتنے کم لوگ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے؟' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ان رپورٹوں کی بنیاد پر جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا جشن منانے کے لیے' بی جے پی کی جانب سے خواتین کو 40,000 ٹکٹ مفت پیش کیے گئے، مسٹر میوانی نے کہا کہ ٹکٹوں کی فروخت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ختم ہو چکی تھی جبکہ بل آخری ہفتے میں منظور ہوا 'تو پھر عورتوں کے لیے یہ اضافی ٹکٹ کہاں سے آئے؟' کانگریس کے ایم ایل اے نے مزید سوال کیا کہ 'کیا بی سی سی آئی اس طرح سے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ٹکٹ دے سکتی ہے؟' مسٹر میوانی نے خالی سٹیڈیم کی ایک ویڈیو اور دو تصویریں ڈال کر لکھا: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسا گٹھ جوڑ چل رہا ہے جس نے کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصے سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ٹکٹنگ کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاتعداد شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔' بہر حال بہت سے کرکٹرز اور صارفین نے سٹیڈیم کے خالی ہونے کی توجیہ بھی پیش کی ہے۔ سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا کہ ’جو لوگ خالی سٹیڈیم کا رونا رو رہے ہیں وہ محروم ہو گئے ہیں، اس لیے بیکار کی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے اور دنیا کے بہترین سٹیڈیموں میں سے ایک میں۔ اس گھڑی کا مزا لیں اور انھیں رونے دیں۔' جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ '50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔' پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے 5 اکتوبر ہفتے کا وسط (ویک ڈے) تھا، اس لیے بھیڑ نہ پہنچ سکی تو کچھ لوگوں کے خیال میں میزبان ملک انڈیا کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پہلے میچ میں تماشائی کم تھے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مطابق اگر یہ میچ احمد آباد کے بجائے ممبئی کے وانکھیڑے میں کھیلا جاتا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کو بھی ناقص انتظام کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔ میچ کے درمیان سینیئر صحافی پنیہ پرسون واجپئی نے لکھا: 'کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے، سٹیڈیم خالی ہے۔۔۔ یہ کسی چھوٹے شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔۔۔' انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ڈینیئل ویٹ نے بھی ٹویٹ کیا کہ 'بھیڑ کہاں ہے؟' اس پر انڈین خاتون کرکٹر جمائمہ روڈریگس نے لکھا کہ ’انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کا انتظار کر رہی ہوں‘۔ انڈین صحافی سوہاسنی حیدر نے لکھا کہ 'پاکستان میڈیا اور مداح ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ 60 صحافیوں نے ویزے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس کے جواب میں کولسا نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ 'اور ہم اولمپکس کا انعقاد کرنا چاہتے؟ کم از کم گجرات میں تو نہیں۔' وقاص علی نامی ایک صارف نے لکھا: 'ورلڈ کا بدترین آغاز۔ پہلے تو انڈیا نے پاکستانی فینز کا ویزا مسترد کر دیا، جس کا نتیہ خالی سٹیڈیمز ہیں اور اس پر بھی ڈیجیٹل سکور بورڈ بھی ٹوٹ گيا۔' اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 بابر اعظم نام کے ایک صارف نے لکھا کہ حیدرآباد کا سٹیڈیم اس لیے خالی رہا کہ پاکستانی مداحوں کو ویزا نہیں دیا گيا۔ یہ سب سے خراب ورلڈ کپ رہا ہے اب تک۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے ورلڈ کپ دیکھنے آنے والے پاکستانی مداح ’چچا کرکٹ‘ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ پورے سٹیڈیم میں اکیلے پاکستانی مداح ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود 'میرا جوش خروش اور آواز سو ڈیڑھ سو لوگوں کے برابر ہے۔' شکاگو میں مقیم 67 سالہ محمد بشیر نے پاکستان کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا اور پاکستانی ٹیم کی جرسی بھی پہن رکھی تھی۔ سٹیڈیم میں یا اس کے باہر لوگ ان کے ساتھ اگر سیلفی لیتے نظر آ رہے ہیں تو ان کا مذاق بھی اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستانی صارفین بھی کم بھیڑ کے حوالے سے انڈین کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایک صارف نے ٹویٹر پر لکھا: ’احمد آباد میں چند سو تماشائیوں کے ساتھ ورلڈ کپ کا افتتاح دیکھنا مایوس کن ہے۔' پاکستانی سپورٹس چینل رفتار سپورٹس نے ایک مزاحیہ ویڈیو بنائی۔ کہا گیا کہ یہ ورلڈ کپ ہے اور اس کا انعقاد انڈیا میں ہو رہا ہے جہاں شائقین کرکٹ کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ پہلا میچ بھی دنیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں ہوا۔ لیکن سٹیڈیم میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ’یہ بات کہیں بھی برداشت کی جا سکتی تھی۔ پاکستان، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی لیکن انڈیا میں یہ گناہ ہے۔' میچ کے دوران کمنٹیٹر اور انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل ایتھرٹن نے اپنے ساتھ کمنٹری کرنے والے روی شاستری سے سوال کیا کہ اگر میزبان انڈیا پہلا میچ کھیلتا تو گراؤنڈ میں زیادہ بھیڑ ہوتی۔ جواب میں روی شاستری نے کہا: 'یقیناً، خاص طور پر اس طرح کے میدانوں میں، جہاں ایک لاکھ لوگوں کی گنجائش ہے۔۔۔ اگر یہ انگلینڈ بمقابلہ انڈیا کا میچ ہوتا تو گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ ہفتے کے وسط میں بھی کم از کم 70-80 ہزار لوگ آتے۔ اس سے ماحول بن جاتا۔' ایک رپورٹ کے مطابق 1999 کے ورلڈ کپ سے لے کر اب تک میزبان ٹیم ہی ٹورنامنٹ کا پہلا میچ کھیلتی رہی ہے۔ بی بی سی کے گجراتی کے نامہ نگار تیجس ویدیا میچ سے قبل نریندر مودی سٹیڈیم کے باہر گئے اور وہاں موجود شائقین سے بات کی۔ تیجس کہتے ہیں: 'میچ دو بجے شروع ہوا اور ہم 4:30 تک وہاں رہے اور اس وقت تک لوگ آتے رہے۔ لیکن سٹیڈیم اتنا نہیں بھرا جتنا ہونا چاہیے تھا۔‘ احمد آباد میں 33-34 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت اور شدید گرمی کی وجہ سے کچھ لوگ اسٹیڈیم کے باہر ہی رہے اور گرمی کم ہونے پر اندر چلے گئے۔ کچھ شائقین نے تیجس ویدیا کو یہ بھی بتایا کہ سٹیڈیم تک پہنچنا بھی مشکل ہے۔ ایک مداح نے کہا کہ ’اگر آپ گاڑی سے جائیں گے تو آپ کو کافی دور پارک کرنا پڑے گا، میں صبح جاؤں گا، رات گئے واپس آؤں گا، اگر انڈیا کا میچ نہیں ہے تو ہم کیوں جائیں؟‘ میچ سے پہلے مقامی حکام نے آدھی سیٹیں بھرنے کی توقع ظاہر کی تھی۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اس بار ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں غیر حاضری کی وجہ بھیڑ جمع نہ ہونے کو بتا رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا: 'بی سی سی آئی اور جے شاہ برصغیر کی سیاست کو اس میں لا کر کرکٹ کو برباد کر رہے ہیں۔ کوئی افتتاحی تقریب نہیں، آج کے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے میچ میں کوئی بھیڑ نہیں، ٹورنامنٹ کی کوئی ہلچل نہیں، ورلڈ کپ کا تھیم گانا بیکار ہے۔ ٹکٹنگ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے۔' افتتاحی تقریب کا اہتمام ورلڈ کپ سے پہلے نہیں کیا گیا تھا لیکن بی سی سی آئی نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان میچ سے ایک دن پہلے شام کو کیپٹن ڈے کا اہتمام کیا۔ اس ایونٹ میں ٹیم کے دس کپتانوں میں سے انڈیا کے سابق کوچ روی شاستری اور انگلینڈ کے سابق کپتان ایون مورگن نے سوال کیا۔ بہر حال انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما نے کہا کہ 'لوگ اس ٹورنامنٹ کو بہت پسند کریں گے۔ سٹیڈیم بھرے ہوں گے۔ انڈین کرکٹ کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا ٹورنامنٹ ہونے جا رہا ہے۔' امت کمار سرکار نامی ایک صارف نے لکھا: 'ڈیئر بی سی سی آئی، ورلڈ کپ کا پہلا میچ اور خالی سٹیڈیم صرف آپ کے زیادہ اعتماد کا نتیجہ ہے۔ ٹکٹ فروخت نہیں ہوئے، آپ نے جھوٹ بولا۔ اور صرف اسی وجہ سے آپ افتتاحی تقریب بھی نہیں کر سکے۔'
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51857ezl5zo
’اگر ایڈورڈز کو بھی کوئی سعود شکیل میسر ہوتا‘ سمیع چوہدری کا کالم
باس ڈی لیڈہ کے ارمان حسرت بن گئے۔ جس جرات و مہارت کا مظاہرہ وہ کرتے چلے آ رہے تھے، بعید نہ تھا کہ کوئی تاریخ رقم کر جاتے مگر یکے بعد دیگرے ان کے سبھی ہمراہی ہمت ہارتے چلے گئے۔ حیدرآباد کی اس پچ میں احمد آباد کی سی وہ خوبی نہ تھی کہ جہاں رچن روندرا اور ڈیون کانوے جیسی بے نیاز جارحیت کارگر ہو پاتی۔ یہاں رکنے سے پہلے روکنا ضروری تھا اور قدم جم جانے کے بعد ہی بازو کھولنے کو کوئی مہلت میسر ہو سکتی تھی۔ نیدرلینڈز کی خوش بختی رہی کہ نہ صرف سکاٹ ایڈورڈز ٹاس جیت گئے بلکہ آرین دت کی آف سپن بھی بائیں ہاتھ کے پاکستانی اوپنرز کی زندگی دشوار کرتی رہی۔ ایڈورڈز کی جارحانہ حکمتِ عملی نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کو دفاعی خول میں دھکیل دیا۔ فخر زمان کے لیے بری فارم کا سلسلہ تھم نہ پایا اور امام الحق کے قدم بھی کریز میں مسدود رہ گئے۔ جہاں متوقع یہ تھا کہ پاکستانی ٹاپ آرڈر پاور پلے میں نوآموز ڈچ اٹیک کے بخئے ادھیڑ ڈالے گا، وہاں جارحیت کی بجائے بقا کی جنگ پنپنے لگی۔ ایسوسی ایٹ ٹیموں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ ان کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا اور اس امر کو مہمیز تب ملتی ہے جب کپتان بھی ایڈورڈز جیسا شاطر ہو جو بولنگ میں پے در پے یوں تبدیلیاں لاتے رہے کہ حریف بلے بازوں کو کہیں بھی شناسائی کا احساس نہ ہونے دے۔ پہلے پاور پلے میں ڈچ بولنگ یوں حاوی ہوئی کہ گویا پاکستان کا مقابلہ کسی ایسوسی ایٹ سائیڈ سے نہیں بلکہ توانا اور تجربہ کار ٹیم سے ہو۔ ایڈورڈز نے اپنے بولرز سے طویل سپیل نہیں کروائے بلکہ گاہے بگاہے اٹیک میں بدلاؤ لاتے رہے کہ کہیں بلے باز ہم آہنگ نہ ہو جائیں۔ محمد رضوان مگر کبھی گھبراتے نہیں۔ صورت حال کیسی بھی ہو، وہ چست چالاک کھیل پر مہارت دکھاتے ہیں اور حریف کپتان کو سوچ میں ڈال دیتے ہیں اور جب سعود شکیل کا اتم کھیل ان کے ہمرکاب ہوا تو پاکستان کی ڈولتی ناؤ پھر سے تیرنے لگی اور مرجھاتے ڈریسنگ روم میں زندگی لوٹ آئی۔ میچ سے قبل پاکستان کے لیے یہ طے کرنا دشوار تھا کہ سعود شکیل اور سلمان آغا میں سے کس کو فوقیت دی جائے اور سعود شکیل یہاں بالکل بجا انتخاب ثابت ہوئے کہ بہرحال نہ صرف وہ ایک مکمل بلے باز ہیں بلکہ پہلے بھی سپن دوست کنڈیشنز میں سلمان آغا سے بہتر ثابت ہو چکے ہیں۔ اس پچ پر بلے بازی ہرگز آسان نہ تھی۔ جس برق رفتاری سے سعود شکیل نے رنز بٹورے، دونوں ٹیموں میں سے کوئی بھی بلے باز ان کی رفتار سے قدم نہ ملا پایا۔ نہ صرف رضوان کے ہمراہ انھوں نے پاکستانی بیٹنگ کو بھنور سے نکالا بلکہ ان کے سٹرائیک ریٹ نے ہی سکاٹ ایڈورڈز کو بھی مخمصے میں ڈالے رکھا۔ سعود کی سرعت انگیزی نے ہی ایڈورڈز کو تجربات پہ مجبور کیا اور ریگولر بولرز کی بجائے وہ جز وقتی اٹیک کو مائل ہوئے جس نے کھیل کی چال میں بدلاؤ پیدا کیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب جارحیت کو مائل ڈچ سائیڈ مدافعت پر مجبور ہوئی۔ نسیم شاہ کی انجری کی شکل میں جو خلا پاکستانی پیس اٹیک میں پیدا ہوا ہے، اس کو پُر کرنے کے عمل میں بہت سے مباحث نے جنم لیا۔ کچھ کے خیال میں محمد وسیم بہتر متبادل تھے تو بعضے زمان خان کے حق میں بھی آواز اٹھاتے پائے گئے اور حسن علی کی واپسی کئی سوالات کی زد میں رہی۔ مگر یہاں ابتدا میں جب شاہین آفریدی کو نہ تو نئی گیند سے کوئی سوئنگ مل پائی اور نہ ہی پچ نے ان کی تائید کی، تب حسن علی کا میڈیم پیس ڈسپلن ڈچ اوپنرز کے ارادوں میں حائل ہو گیا اور پاکستانی بولنگ اپنی بیٹنگ ہی کی طرح کے غیر متوقع ابتدائی دباؤ سے بچ نکلی۔ وکرم جیت سنگھ نے اچھی پاکستانی بولنگ کے خلاف ایک بہترین اننگز کھیلی جو ان کے تجربے میں شاندار اضافہ ثابت ہو گی۔مگر شاداب خان بہت عرصے تک سوالات کی زد میں رہنے کے بعد بالآخر فارم میں واپس آ گئے اور بالآخر ڈچ اوپنر کو جال میں پھنسا لیا۔ اننگز کے بیچ میں جب ڈچ بیٹنگ پھر سے جڑ پکڑنے لگی تو بابر اعظم نے حارث رؤف کو اٹیک میں واپس لانے کا فیصلہ کیا۔ حارث رؤف کے اس ایک اوور نے نیدرلینڈز کے عزائم میں واضح دراڑ ڈالی اور مسابقت کا خواب دیکھتی نوآموز ٹیم کے ارادے ہوا ہو گئے۔ باس ڈی لیڈہ مگر ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ جس طرح اننگز کے عین بیچ ان کی سیم بولنگ کی کاٹ پاکستان کے لئے تیکھی پڑ گئی تھی، ویسے ہی ان کی بلے بازی بھی پاکستانی بولنگ کے لئے بھرپور امتحان ثابت ہوئی۔ شومئی قسمت کہ دوسرے کنارے سے انھیں کوئی بھی ہمت ور میسر نہ ہو پایا وگرنہ کیا خبر کہ تاریخ کوئی نیا ورق پلٹ دیتی اور ڈچ کرکٹ ایک اور سنگِ میل عبور کر جاتی مگر بحیثیتِ مجموعی پورے میچ پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ایڈورڈز کو بھی کوئی سعود شکیل میسر ہوتا تو سکور لائن بھلے مختلف نہ ہوتی مگر مارجن میں تفاوت اتنا وسیع نہ ہو پاتا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cm5kepy8e1ko
پاکستان کا ورلڈ کپ میں فاتحانہ آغاز: ’جس نے بھی ہمارے بولرز کو غصہ دلوایا، منھ کی کھائی‘
پاکستان نے ورلڈ کپ 2023 کا فاتحانہ آغاز کرتے ہوئے نیدرلینڈز کو 81 رنز سے بھاری شکست دے دی ہے۔ یہ پاکستان کی انڈیا میں کسی بھی ورلڈ کپ میچ میں پہلی فتح ہے۔ حیدرآباد میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے والی ڈچ ٹیم نے جہاں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا وہیں اس کے بلے باز پاکستان کے 287 رنز کے ہدف کے تعاقب میں چوک گئے۔ پاکستان کی جانب سے چھ بولرز نے بولنگ کی اور سب ہی کم از کم ایک، ایک وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم حارث رؤف نے میچ کے 27ویں اوور میں دو اہم وکٹیں حاصل کر کے نیدرلینڈز کی اس ٹوٹل کا تعاقب کرنے کی امید توڑ دی۔ انھوں نے اپنے نو اوورز میں صرف 43 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ان کے علاوہ آج ون ڈے کرکٹ میں ایک برس بعد واپسی کرنے والے حسن علی نے بھی اچھی بولنگ کی اور اپنے پہلے اور آخری سپیلز میں ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ نیدرلینڈز کی جانب سے باس ڈی لیڈ نے اچھی بولنگ کے ساتھ ساتھ بہترین بیٹنگ کا بھی مظاہرہ کیا اور ایک موقع پر ڈچ ٹیم کو مضبوط پوزیشن پر پہنچایا تاہم کوئی وکرم جیت سنگھ کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ان کے ساتھ نہ کھڑا ہو سکا۔ باس ڈی لیڈ نے 67 جبکہ وکرم جیت سنگھ نے 52 رنز بنائے اور نیدرلینڈز کی پوری ٹیم 205 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ اس بھاری فتح کے باعث پاکستان کو نیٹ رن ریٹ (1.620) بھی خاصا بہتر ہو گیا ہے جو اس ورلڈ کپ کے اختتامی مرحلے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستانی سپن بولرز شاداب خان اور محمد نواز جن کی کارکردگی پر گذشتہ کافی عرصے سے بحث جاری تھی آج بھی صرف ایک، ایک وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شاداب خان کو آٹھ اوورز میں 45 رنز جبکہ نواز کے سات اوورز میں 31 رنز بنے۔ افتخار احمد کی پارٹ ٹائم آف سپن ایک بار پھر کارآمد رہی اور انھوں نے ایکرمین کی اہم وکٹ حاصل کی۔ نیدرلینڈز کی جانب سے آج پاکستان بیٹنگ اننگز کے ہر فیز میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور رضوان اور سعود شکیل کی 120 رنز کی شراکت کے علاوہ پورے اننگز میں ڈچ ٹیم کا پلڑہ ہی بھاری رہا۔ پاکستان کی جانب سے ٹاپ آرڈر کے تینوں کھلاڑی نیدرلینڈز کی نپی تلی بولنگ کے سامنے خاصے محتاط دکھائی دیے جس کے باعث جلد ہی دباؤ بڑھنے پر انھیں اپنی وکٹیں گنوانی پڑیں۔ پاکستان کے اوپنر فخر زمان جو پہلے ہی خاصے آؤٹ آف فارم ہیں آج بھی صرف 12 رنز ہی بنا سکے جبکہ ان کے ساتھی امام الحق بھی 15 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔ ایشیا کپ سے پہلے تک پاکستان کا ٹاپ آرڈر بہترین فارم میں تھا جبکہ مڈل آرڈر پر سوالیہ نشان تھے تاہم اب پاکستان کے دونوں اوپنر گذشتہ کئی میچوں سے بھاری رنز بنانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم آج بابر اعظم بھی صرف پانچ ہی رنز بنا سکے اور ڈچ سپنر ایکرمین کا شکار بنے۔ پاکستانی اننگز کو سعود شکیل اور محمد رضوان کی 120 رنز کی شراکت کے باعث سہارا ملے لیکن صورتحال اس وقت یکسر تبدیل ہوئی جب دونوں چند ہی اوورز کے اندر آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان کے لوئر آرڈر نے ایسے موقع پر قدرے بہتر بیٹنگ کامظاہرہ کرتے ہوئے 100 رنز کا اضافہ کیا جس میں شاداب اور نواز کی 32 اور 39 رنز شامل تھے۔ نیدرلینڈز کے سپنرز نے جہاں آج بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا وہیں فاسٹ بولر باس ڈی لیڈ نے اہم موقع پر چار وکٹیں حاصل کر کے میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ ڈچ سپنر ایکرمین نے دو جبکہ اننگز کا پہلا اوور کروانے والے آریان دت نے اپنے دس اوورز میں صرف 48 رنز کے عوض ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ تاہم جہاں نیدرلینڈز کی بولنگ کی تعریف بنتی ہے وہیں پاکستان بلے بازوں کی جانب سے کھیلی گئی غیر ذمہ دارانہ شاٹ سیلیکشن کا ذکر بھی ضروری ہے جس کے باعث نیدرلینڈز کو میچ کے ہر مرحلے میں وکٹیں ملتی رہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام پاکستان کی جانب سے آج جہاں بیٹنگ میں ٹاپ آرڈر ناکام رہا وہیں سوشل میڈیا پر پاکستانی بولرز سمیت کپتان بابر اعظم کی بھی اچھی کپتانی پر تعریف کی جا رہی ہے۔ ایک صارف بہرام قاضی نے لکھا کہ پاکستان کی بیٹنگ میں بری کارکردگی شاید اس بات پر پردہ ڈال دے کہ آج بابر نے بہت اچھی کپتانی کی اور اپنے بولرز کو ٹھیک وقت پر روٹیٹ کیا۔ پاکستان کی بولنگ کی جانب سے آج آلراؤنڈ پرفارمنس دکھائی گئی جس کے بارے میں کرکٹ کے اعداد و شمار کے ماہر مظہر ارشد نے لکھا کہ پاکستان کبھی بھی ورلڈ کپ میچوں میں پہلے 275 سے زیادہ ٹوٹل کر کے نہیں ہارا اور آج بھی ایسا ہ ہوا۔ اسد نامی ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان کی اس بولنگ پرفارمنس کی تعریف کرنی اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس میں نسیم شاہ شامل نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’حسن علی نے آج بہت اچھی بولنگ کی اور شاہین اور حارث ہمیشہ کی طرح بہترین بولرز ثابت ہوئے جبکہ نواز اور شاداب نے بھی پرانا ردھم حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران ریورس سوئنگ بھی دیکھنے کو ملی۔‘ حارث رؤف کی جانب سے آج جارحانہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا، اور میچ کے اختتام پر انھوں نے ڈچ فاسٹ بولر وان میکیرن کو بولڈ کیا اور اس سے پہلے ان سے تلخ جملوں کو تبادلہ بھی کیا۔ اس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’جس نے بھی ہمارے کھلاڑیوں کو غصہ دلایا اس نے منھ کی کھائی۔ سعود شکیل کی بہترین اننگز کو بھی صارفین کی جانب سے سراہا جا رہا ہے اور اکثر افراد پاکستان کی ٹیم مینجمنٹ پر انھیں پہلے ٹیم میں شامل نہ کرنے پر تنقید کر رہے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cz489g48925o
حیدرآباد: مزیدار کھانے، چار مینار کی چوڑیاں اور کرکٹ ورلڈ کپ
انڈیا کے شہر حیدرآباد کا نام سنتے ہی پہلی چیز جو ذہن میں آتی ہے وہ حیدرآبادی بریانی ہے، لیکن اس تاریخی شہر کی پہچان اس کے لذیذ کھانوں کے علاوہ چار مینار کی یادگار بھی ہے، جس کے آس پاس چوڑیوں اور موتیوں کی سینکڑوں دکانیں ہیں۔ آج کل یہاں کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کی وجہ سے خاصی رونق ہے۔ حیدرآباد سے ہمارے ساتھی شکیل اختر کا یہ وی لاگ دیکھیے۔۔۔ ایڈیٹنگ: تپس ملک
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1edvvpqp48o
پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی انڈیا آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘
آج (6 اکتوبر) دن ڈیڑھ بجے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی کپتانی میں انڈیا کے شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے اُترے گی تو شاید وہاں زیادہ تعداد میں پاکستانی شائقین موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ شاید خود بابر اعظم کو بھی اس کا احساس ہے اور انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی شائقین کو انڈیا کا ویزا نہ ملنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستانی شائقین کو بھی انڈیا کا ویزا ملتا۔ شائقین نے ورلڈ کپ کے لیے بہت سی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’آنے والے میچوں کے لیے پاکستانی شا‏ئقین کو ویزا دیا جائے گا اور پاکستانی ٹیم کو حیدرآباد میں سپورٹ ملے گی۔‘ بابر اعظم کی پہلی خواہش کے بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حیدرآباد میں کرکٹ شائقین سے بات کرنے کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دوسری خواہش پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ حیدرآباد شہر میں میچ سے قبل سکیورٹی کا سخت انتظام کیا گیا ہے جبکہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دن 12 بجے کے قریب حیدرآباد میں درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور محکمہ موسمیات کے مطابق میچ کی ابتدا تک اس میں 2 سے 3 ڈگری اضافے کی توقع ہے۔ حیدرآباد میں عموماً اس موسم میں آب و ہوا حبس زدہ ہوتی ہے تاہم آج صبح سے تیز ہوائیں چل رہی ہیں جس سے گرمی اور حبس کی شدت کم محسوس ہو رہی ہے۔ اگر تیز ہوا کا سلسلہ میچ کے دوران بھی جاری رہا تو کھلاڑیوں کے لیے میدان میں آسانی رہے کی اور پچ پر بولرز کو بھی مدد ملے گی۔ ویزا نہ ملنے کے سبب یہاں پاکستانی فین کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ کل ورلڈ کپ کے افتتاہی میچ میں احمدآباد سٹیڈیم بیشتر خالی تھا۔ پاکستان کے میچ سے قبل حیدرآباد میں ویسے تو کافی جوش و خروش ہے مگر سٹیڈیم میں کتنے شائقین میچ دیکھنے آئیں گے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیدیم میں نیدر لینڈز کے خلاف آئی سی سی کے عالمی کپ کا پہلا میچ آج کھیلے گی جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں جہاں پاکستانی شائقین پر انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کسی حد تک مایوسی کا غلبہ ہے، وہیں دوسری جانب اس وقت حیدرآباد میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا، سٹیڈیم میں اسی طرح کی سپورٹ انھیں ملے گی۔‘ اس بات کا ایک ثبوت تو بنگلور سے خصوصی طور پر پاکستان اور نیدرلینڈز کا میچ دیکھنے کے لیے حیدرآباد تک کا سفر کرنے والے انڈین شہری نوید خان ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوید خان کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی کپ دونوں ملکوں کے لیے محبت کا پیغام بنے گا، جس انداز میں پاکستان کی ٹیم کا استقبال کیا گیا وہ بہت خوش آئند ہے۔ یہ ٹورنامنٹ بہت اچھے ماحول میں ہو گا۔‘ ایک خاتون مہوا دتا نے کہا کہ ’پاکستان کی ٹیم سات برس بعد انڈیا آئی ہے اور ان کا بہت شاندار خیرمقدم ہوا ہے۔ میں دونوں ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ جو جیتا وہی سکندر۔‘ واضح رہے کہ پاکستان کی ٹیم حیدرآباد میں ایک ہفتے سے مقیم ہے اور اس دوران اُن کی میزبانی اور کھانے کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان وجاہت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستانی ٹیم بہت مضبوط بن کر آئی ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف بہترین بولرز ہیں۔ بابر اعظم، رضوان، افتخار یہ سبھی ورلڈ کلاس کے بلے باز ہیں۔ نیدر لینڈز بھی اچھی ٹیم ہے۔ یہ میچ دلچسپ ہو گا۔‘ پاکستان کی ٹیم اس میچ سے قبل دو وارم اپ میچ کھیل چکی ہے اور اب تک متعدد ٹریننگ سیشن بھی کر چکی ہے۔ دوسری جانب نیدر لینڈز کی ٹیم نے بھی خود کو انڈیا کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خوب ٹریننگ کی ہے۔ بابر اعظم نے میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم کی سب سے بڑی طاقت بیٹنگ لائن ہے جو ٹاپ سے نیچے تک مضبوط ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بولنگ میں فاسٹ بالرز پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں، لیکن یہاں کی پچ پر سپنرز کو بھی فائدہ ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’حیدرآباد کی پچ سے ٹیم مانوس ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میرا تجربہ ہے اور انڈیا میں ہونے والے میچز جو میں نے ٹی وی پر دیکھے ہیں ان کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کی پچز واقعی اچھی دکھائی دے رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میچز بڑے سکور والے ہوں گے۔‘ جمعے کے میچ میں کتنا سکور ہو گا؟ یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہے تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ میچ بن سکتا ہے اگرچہ پاکستان کے لیے نیدرلینڈز اتنا بڑا چیلنج نہیں سمجھی جا رہی۔ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان یہ ایک روزہ میچز کا ساتواں مقابلہ ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کی ٹیم نیدرلینڈز سے چھ بار کھیل چکی ہے اور ان سبھی میچوں میں پاکستان نے نیدر لینڈز کو شکست دی تھی۔ پاکستان نے گذشتہ برس نیدرلینڈز کے اپنے پہلے دورے کے دوران سیریز بھی اپنے نام کی تھی۔ آئی سی سی کے مطابق جب یہ دونوں ٹیمں جمعہ کو مد مقابل ہوں گی تو یہ تقریباً گذشتہ 11 برس میں پہلا موقع ہو گا جب یہ انڈیا کی سرزمین پر 50 اوورز کا ون ڈے میچ کھیل رہی ہوں گی۔ دونوں ہی ٹیموں نے 1987 سے حیدرآباد میں 50 اوورز کا ون ڈے انٹرنیشنل گیم نہیں کھیلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی اسی پچ پر پاکستان کا آئندہ میچ 10 اکتوبر کو سری لنکا سے ہو گا اور اسی تناظر میں حیدرآباد میں بتایا ہوا وقت پاکستان کی ٹیم کے لیے کافی اہم ہے۔ سپورٹس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم مثبت اور پُراعتماد دکھائی دے رہی ہے اور اگر ابتدائی دو میچوں میں اسے مسسلسل کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ اعتماد مزید مضبوط ہو گا۔ حیدرآباد میں پایا جانے والا جوش و خروش اور کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے جڑا شائقین کا ذوق و شوق اپنی جگہ تاہم انڈیا میں شائقین کی بڑی تعداد کو اس میچ کا شدت سے انتظار ہے جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان 14 اکتوبر کو احمدآباد میں ہو گا۔ لیکن احمدآباد میں انڈیا سے ہونے والے ٹاکرے سے قبل پاکستان کے لیے دونوں میچز جیتنا بہت اہم ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cldx5z63dq5o
راچن رویندرا: دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی بولنگ کو پچھاڑنے والے انڈین نژاد کیوی آلراؤنڈر کون ہیں؟
دفاعی چمپیئن انگلینڈ کو گذشتہ روز جب احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں نو وکٹوں کی بھاری شکست ہوئی تو یہ نیوزی لینڈ کی جانب سے ایک مکمل ٹیم پرفارمنس قرار دی گئی۔ تاہم ایک بہترین بولنگ اور فیلڈنگ پرفارمنس کے ذریعے انگلینڈ کی مضبوط بیٹنگ کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے کے باوجود جس کھلاڑی نے تمام نظریں اپنی جانب متوجہ کروا لیں وہ 23 سالہ آل راؤنڈر راچن رویندرا تھے۔ اس ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل رویندر کی بولنگ کے بارے میں بات ضرور ہو رہی تھی لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ نمبر تین پر آ کر انتہائی جارحانہ بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلینڈ کی بولنگ مکمل طور پر پچھاڑ دیں گے۔ لیفٹ آرم آف سپن آلراؤنڈر راچن رویندرا کے والد کا تعلق انڈیا سے ہے لیکن رویندرا خود 18 نومبر 1999 کو ویلنگٹن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام روی کرشنامورتی ہے جو بنگلور میں سافٹ ویئر پروفیشنل تھے اور سنہ 1990 کی دہائی میں نیوزی لینڈ منتقل ہو گئے تھے۔ وہ خود کرکٹ کے اتنے شوقین تھے کہ جب رویندرا کی پیدائش ہوئی تو انھوں نے انھیں ’راچن‘ کا نام بھی دیا۔ یہ راہول ڈریوڈ کے نام کے حروف ’را‘ اور سچن ٹنڈولکر کے ’چن‘ کو ملا کر بنایا گیا یہ نام ان کی کرکٹ سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایک انٹرویو میں راچن رویندرا نے بتایا تھا کہ ’میرے والدین کو راہل اور سچن بہت پسند تھے۔۔۔ یہ دو عمدہ کھلاڑی تھے اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ان کے نام ملے۔‘ مگر بچپن میں انھیں سچن ٹنڈولکر پسند تھے اور ان کے موجودہ پسندیدہ کھلاڑیوں میں وراٹ کوہلی اور کین ولیمسن شامل ہیں۔ ان کے والد روی کرشنامورتی نے اپنی جوانی کے دوران بنگلور میں بہت سے کرکٹ میچ کھیلے تھے اور وہ نیوزی لینڈ میں کرکٹ کلب ’ہٹ ہاکس‘ کے بانی ہیں۔ رویندرا کے والد کرشنامورتی، جو کہ آئی سی سی امپائر بھی ہیں، سابق فاسٹ بولر جواہر لال سری ناتھ کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے اور انھیں پیار سے ’سری ماما‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ رویندرا کی بیٹنگ میں اتفاقیہ سٹروک کم تھے اور ایک مستند بلے باز جیسے سٹروک زیادہ۔ انھوں نے گیارہ چوکوں اور پانچ چھکوں کی مدد سے 123 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور نیوزی لینڈ کسی بھی موقع پر دفاعی موڈ میں جانے ہی نہیں دیا۔ انھوں نے مارک وڈ جیسے تیز بولر کو بھی انتہائی اطمینان سے چھکے لگائے اور بطور بلے باز دنیائے کرکٹ کی سب سے بڑی سٹیج پر بہترین انداز میں اپنی رونمائی کرنے میں کامیاب رہے۔ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ جو عموماً میزبان ٹیم اور کسی دوسری ٹیم کے درمیان ہوتا ہے، اس مرتبہ گذشتہ ورلڈ کپ کی فائنل میں جانے والی دو ٹیموں کے درمیان تھا۔ اورشاید یہی وجہ تھی ایک لاکھ 30 ہزار تک تماشائیوں کی گنجائش والے نریندر مودی سٹیڈیم میں زیادہ تر سیٹوں پر لوگ نہیں تھے۔ نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو اکثر افراد کے لیے حیران کن تھا تاہم نیوزی لینڈ کی بولنگ نے تمام وسوسے دور کر دیے اور انگلینڈ کو صرف 282 رنز پر محدود کرنے پر کامیاب ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کے کپتان ٹام لیتھم نے بھی اچھی کپتانی کا مظاہر کرتے ہوئے گلین فلپس کو خوب استعمال کیا اور انھوں نے نیوزی لینڈ کو دو وکٹیں بھی دلوائیں۔ جواب میں نیوزی لینڈ نے مقررہ ہدف صرف 37ویں اوور میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر عبور کر لیا اور یوں ورلڈ کپ کا فاتحانہ آغاز کر دیا۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے کانوے نے شاندار 152 رنز کی اننگز کھیلی جس میں 18 چوکے اور تین چھکے شامل تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 جہاں ایک طرف کیوی بلے بازوں کی تعریف ہو رہی ہے وہیں دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کی کارکردگی پر مایوسی ظاہر کی جا رہی ہے۔ میٹ رولر نے لکھا کہ راچن رویندرا نے 2019 کا ورلڈ کپ فائنل بنگلور کے ایک بار میں 19 سال کی عمر میں دیکھا اور اب چار سال بعد انھوں نے 2023 کے ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں 82 گیندوں پر سنچری بنا ڈالی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 کرکٹ تجزیہ کار ہرشا بوگلے نے کہا کہ ’نیوزی لینڈ 50 اوور کے ورلڈ کپ کو ٹی ٹوئنٹی میچ کے طرح کھیل رہے تھے۔‘ سابق پاکستانی کپتان عروج ممتاز نے کہا کہ بظاہر انگلینڈ کے غبارے سے ہوا نکل گئی کیونکہ ان سے بڑی توقعات رکھی جا رہی تھیں۔ مگر بعض صارفین نے یہ اظہار کیا کہ راچن رویندرا کو یہ اعتماد پاکستان کے خلاف وارم اپ میچ سے ملا۔ اسامہ نامی پاکستانی صارف نے کہا کہ ’ہم نے اس کھیل کو ایک اور سپر سٹار دیا ہے۔‘ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کے اس وارم اپ میچ میں راچن رویندرا نے پاکستانی بولرز بشمول حارث رؤف کے خلاف 72 گیندوں پر 92 رنز کی اننگز کھیلی تھی جس میں 16 چوکے اور ایک چھکا شامل تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 دلچسپ بات یہ ہے کہ راچن رویندرا نے نیوزی لینڈ کی اے ٹیم میں کھیلتے ہوئے اپنے لسٹ اے اور فرسٹ کلاس ڈیبیو پاکستان کے خلاف کیے تھے۔ وہ رواں سال نیوزی لینڈ کی ٹیم میں شامل تھے جس کے خلاف پاکستان نے ون ڈے سیریز چار ایک سے اپنا نام کی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pjzp3qw2no
پاکستانی شائقین کو ویزوں کے اجرا پر انڈین حکام کی ’خاموشی‘ جو پاکستانیوں کو مایوس کر رہی ہے
’ویسے تو معلوم نہیں کب ہی انڈیا دیکھنے کا موقع ملے گا اور اگر انڈیا میں کرکٹ دیکھنے کو ملے تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک پاکستانیوں کے لیے انڈیا کا ویزہ ہی نہیں کھولا گیا ہے۔‘ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے شہری ذیشان علی کرکٹ کے مداح ہیں اور کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا جانے کے خواہشمند ہیں۔ ذیشان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے کل تین میچز کے ٹکٹس خرید رکھے ہیں جن میں پاکستان بمقابلہ انڈیا، پاکستان بمقابلہ سری لنکا اور پاکستان بمقابلہ افغانستان شامل ہیں۔‘ ورلڈ کپ دیکھنے کے خواہش مند ذیشان انتظار کے ان لمحات میں مایوسی کا شکار بھی ہوئے۔ ’میں ہوٹل کی بکنگ بھی کروا چکا ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک پاکستانیوں کے لیے ویزے ہی نہیں کھولے گئے۔ اب تو انتظار کی وجہ سے میرا اپنا جوش و خروش بھی کم ہو جاتا رہا ہے۔‘ یاد رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کا آغاز آج (پانچ اکتوبر) سے انڈیا میں ہونے جا رہا ہے۔ چار برس کے بعد سجنے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے اس میلے کا افتتاحی میچ آج جمعرات انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان انڈیا کے شہر احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جبکہ پاکستان کا پہلا میچ جمعہ (6 اکتوبر) کو نیدرلینڈز کے خلاف کھیلے گا۔ تاہم ورلڈ کپ کے آغاز کے باوجود ابھی تک سینکڑوں پاکستانی شائقین کرکٹ کو انڈیا کی جانب سے ویزوں کا اجرا نہیں کیا گیا ہے۔ ورلڈ کپ کے میزبان ملک انڈیا میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں دنیا بھر سے ہزاروں شائقین کرکٹ پہنچ رہے ہیں۔ ذیشان کے مطابق انھوں نے انڈیا، پاکستان میچ کا ایک ٹکٹ 27 ہزارروپے میں خریدا ہے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق اگر آپ انڈیا کا ویزہ لینے کے لیے خواہشمند ہیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ نے میچ کا ٹکٹ اپنے کارڈ پر خریدا ہو جبکہ ویزہ کے لیے ہوٹل کی بکنگ کی تصدیق دکھانا بھی لازمی ہے۔ ’اب تو روزانہ امید جاگتی ہے کہ شاید آج انڈیا کا ویزہ آ جائے، مگر اب امید ناامیدی میں بدلتی جا رہی ہے۔‘ ذیشان جیسے بے شمار پاکستانی اس انتظار میں ہیں کہ کب ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا جا سکیں گے۔ اس صورت حال کا سامنا صرف پاکستان کے عام افراد کو نہیں بلکہ ابھی تک سپورٹس کو کور کرنے والے صحافیوں کو بھی ویزے جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ کیا پاکستانیوں کو کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا کا ویزہ ملے گا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب ہر وہ پاکستانی جاننا چاہتا ہے جو کرکٹ میچ انڈیا جا کر دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس سوال کا جواب نہ تو انڈیا کی سرکار کی جانب سے آیا ہے اور نہ ہی آئی سی سی اس پر کوئی تسلی بخش جواب دے سکی ہے۔ تاہم چند روز قبل انڈین کرکٹ بورڈ ’بی سی سی آئ‘ی کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ’پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو کتنے ویزے جاری کیے جائیں گے، اس ضمن میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم وزارتِ خارجہ اور آئی سی سی کے ساتھ مل کر ویزوں کی تعداد پر کام کیا جا رہا ہے۔‘‘ بی سی سی آئی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کچھ پاکستانی شائقین کو ورلڈ کپ کے میچز کے لیے ویزے جاری کریں گے۔‘ تاہم اس مختصر اور غیر واضح بیان کے بعد بی سی سی آئی اور انڈین حکام کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ دوسری جانب انڈین ہائی کمیشن کے لیے پاکستان میں ویزہ کی درخواست اور پاسپورٹ وصول کرنے والی کمپنی کے مطابق انھیں ابھی تک انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں جس کے باعث وہ ابھی کسی بھی صارف کی ویزہ کی درخواست موصول ہی نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اس معاملے پر آئی سی سی کو ای میل بھی کی گئی ہے کہ جس میں انھوں نے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ملک کے حوالے سے ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو ابھی تک ویزہ نہ دینا ’اصولوں کی خلاف ورزی‘ ہے۔ بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے تعلق رکھنے والے سپورٹس جرنلسٹ نے بتایا کہ ان کی ورلڈ کپ میچز کور کرنے کی تیاریاں مکمل تھیں لیکن ویزہ ملنے کا عمل نہ شروع ہونے کے باعث انھوں ہوٹل بکنگ اور اپنی فلائٹ کینسل کروائی ہے۔ ’مجھے آج انڈیا کے لیے روانہ ہونا تھا، لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا‘ دوسری جانب پاکستانی میڈیا کے ایک نجی چینل سے تعلق رکھنے والی ماریہ راجپوت نے اسی مسئلے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ماضی قریب میں مجھے یاد ہے کہ آسٹریلیا کا ہمارا ویزہ تین دن میں آ گیا تھا جبکہ انڈیا کے ویزے کے لیے آئی سی سی کی جانب سے تصدیق شدہ صحافیوں کو بھی انڈیا نے ابھی تک ویزے جاری نہیں کیے ہیں۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ اس مرتبہ تو پاکستان سے مخصوص صحافیوں کے نام ہی آئی سی سی نے منظور کیے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جن کے یوٹیوب چینل یا ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق ہے اور وہ ٹکٹ پر پیسے خرچ کر کے ضائع کر چکے ہیں۔ اس معاملے پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صحافیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو شائیقین کے بارے میں تو آپ بات ہی نہ کریں۔‘ پاکستان کرکٹ بورڈ اور دفتر خارجہ کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے اس معاملے پر زور نہیں لگایا جا رہا ہے۔ ’ہم صحافیوں نے دفتر خارجہ کو بھی آئی سی سی سے منظور شدہ صحافیوں کی لسٹ دی تھی تاکہ اس معاملے کو حکومتی سطح پر اٹھایا جا سکے لیکن اس بات کو چار سے پانچ دن گزر چکے ہیں اور وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔‘ اس معاملے پر پی سی بی کے ترجمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پی سی بی جانب سے یہ معاملہ ایک سے زائد مرتبہ آئی سی سی کے ساتھ اٹھایا گیا ہے اور ہم نے انھیں دو سے تین مرتبہ ای میلز بھی کی ہیں۔ تاہم ہمیں اب یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سے دو روز میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جس کے بعد صحافیوں کے لیے انڈیا کے ویزے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔‘ یاد رہے کہ کرکٹ شائقین کے لیے انڈیا کی ویزہ پالیسی ابھی بھی واضح نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص وقت دیا گیا ہے کہ انھیں ویزہ جاری ہو گا بھی یا نہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3051y25vjo
انڈین کرکٹ سٹیڈیم میں پرندوں کے فضلے سے بھری سیٹیں: ’کم از کم ہم گراؤنڈز میں شادی والی کرسیاں استعمال نہیں کرتے‘
’ہماری کرسیاں صاف ہو جائیں گی۔ کم از کم ہم کرکٹ گراؤنڈز میں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے شادی والی کرسیاں استعمال نہیں کرتے جنھیں پاکستان کے تین، چار بڑے سٹیڈیمز میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔‘ یہ طنزیہ ٹویٹ ایک انڈین صارف نے پاکستان میں کرکٹ شائقین کی جانب سے کی جانے والی اس مسلسل تنقید کے جواب میں کی جو انڈین شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں گندی سیٹوں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین دوسرا وارم اپ میچ منگل کے روز راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔ دورانِ میچ کرکٹ تجزیہ کار اور کمنٹیٹر ونکاتیش کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے نصب سیٹوں کی چند تصاویر پوسٹ کی گئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سیٹیں کافی خستہ حال ہیں اور میچ سے قبل ان کی صفائی ستھرائی نہیں کی گئی جبکہ ان پر جا بجا پرندوں کا فضلہ بھی پڑا ہے۔ یہ تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے ونکاتیش نے لکھا کہ ’اُپل سٹیڈیم میں زیادہ کچھ نہیں بدلا۔ کچھ ظاہری چمک دمک کے علاوہ تماشائیوں کے آرام کا مکمل خیال نہیں رکھا گیا۔‘ راجیو گاندھی سٹیڈیم حیدرآباد کے نواحی علاقے اُپل میں واقع ہے جس کی وجہ سے اسے اُپل سٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ اس معاملے پر بی سی سی آئی کی جانب سے فی الحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 یہ تصاویر پوسٹ ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع بحث بن گئیں۔ ان تصاویر پر ملنے والے ردعمل کے جواب میں اپنی ٹویٹ کی وضاحت کرتے ہوئے ونکاتیش نے کہا کہ ’اُپل سٹیڈیم کے کچھ سٹینڈز میں سیٹوں کی خراب حالت پر میرے ٹویٹس وائرل ہوئے ہیں۔ ملک سے باہر کچھ لوگ ان تصاویر کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس سٹیڈیم میں (ورلڈ کپ سے قبل) بالکل نئی سیٹیں نصب کی گئی ہیں مگر سٹیڈیم کے صرف ویسٹرن ٹیرس میں نصب پرانی سیٹیں خراب ہیں۔‘ انڈین کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ سے قبل کرکٹ سٹیڈیمز کی کروڑوں روپے کی لاگت سے تزین و آرائش کا اعلان کیا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ چند صارفین اس بات پر یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ سیٹیں اتنی گندی ہو سکتی ہیں۔ ایسے ہی صارفین کو جواب دینے کے لیے ونکاتیش نے ایک اور تصویر پوسٹ کی جس میں ان سیٹوں کے سامنے وہ پاکستان اور آسٹریلیا کے تین اکتوبر کو ہونے والے وارم اپ میچ کا ٹکٹ تھامے کھڑے ہیں۔ پاکستانی صارف فرید خان نے ان ٹویٹس کے جواب میں لکھا کہ ’بی سی سی آئی والوں، حد ہے ویسے۔ یہ عالمی ایونٹ ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 رودھرا نیندو نامی انڈین صارف نے لکھا کہ ’یہ سٹیڈیم ورلڈ کپ کے ایک بھی میچ کی میزبانی کا مستحق نہیں۔‘ ایک اور صارف نے کہا کہ ’اُپل سٹیڈیم حیدر آباد کی حالت۔ امیر ترین بورڈ ملک کے لوگوں کو یہ سہولت پیش کر رہا ہے اور وہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں۔ کیا راجر بنی اور جے شاہ ان سیٹوں پر بیٹھنا پسند کریں گے؟ بی سی سی آئی کتنی شرم کی بات ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان دہلی سٹیڈیم میں رواں برس ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے دوران بھی شائقین نے سٹیڈیم میں دستیاب سہولیات اور سیٹوں کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے بی سی سی آئی سے صورتحال کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ورلڈ کپ 2023 کے آغاز سے چند ماہ قبل بی سی سی آئی نے ملک میں واقع چند بڑے سٹیڈیمز، جن میں ایونٹ کے بڑے مقابلے ہونا ہیں، کی تزین و آرائش اور وہاں شائقین کے لیے دستیاب سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے 500 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جن سٹیڈیم میں سہولیات کو بہتر بنانے کے حوالے سے جائزہ لیا گیا تھا، وہ دہلی، حیدرآباد، کولکتہ، موہالی اور ممبئی میں واقع ہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بی سی سی آئی نے دلی سٹیڈیم کی تزین و آرائش پر 100 کروڑ، حیدرآباد سٹیڈیم پر 117 کروڑ، کولکتہ کرکٹ سٹیڈیم پر 127 کروڑ، موہالی سٹیڈیم پر 79 کروڑ اور اسی طرح دیگر سٹیڈیمز پر رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ کے 46 مقابلے 12 مختلف سٹیڈیمز میں ہوں گے، جو بنگلورو، چنئی، دہلی، دھرم شالا، گوہاٹی، حیدرآباد، کولکتہ، لکھنؤ، اندور، راجکوٹ، ممبئی اور احمد آباد میں ہوں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51vrxx7my6o
سمیع چوہدری کا کالم: ’روٹھی عادت کو منانا ناممکن بھی نہیں‘
جیت بھی ایک عادت سی ہوتی ہے۔ جب کسی ٹیم کو یہ عادت پڑ جائے تو پھر وہ ہار گوارا ہی نہیں کرتی بھلے کچھ بھی داؤ پہ نہ لگا ہو۔ کیونکہ بہرحال عادتیں بنانے اور بگاڑنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اگرچہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں وارم اپ میچز چنداں معنی نہیں رکھتے اور اصل معرکے سے پہلے فقط لہو گرم کرنے کا اک بہانہ ہوتے ہیں مگر یہ خدشہ تو بہر طور منڈلاتا ہی رہتا ہے کہ سہل پسندی میں کہیں عادت ہی نہ بگڑ جائے۔ تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان نے دراصل یہاں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست نہیں کھائی کہ اگر بابر اعظم اپنی سبک رفتاری کے ساتھ کریز پہ ٹِکے رہتے تو پاکستان مقررہ وقت سے کہیں پہلے فتح یاب ہو چکا ہوتا۔ مگر دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ اصل مقابلے شروع ہونے سے پہلے لوئر آرڈر کو بھی بلے بازی کی مشق مہیا کی جائے۔ سو، بابر نے بالکل بجا فیصلہ کیا۔ بابر ہی کی طرح پیٹ کمنز نے بھی راست اقدام چنا اور اپنے ریگولر بولرز کی تکان سے احتراز برتتے ہوئے بیچ کے اوورز میں ڈیوڈ وارنر تک کو بولنگ کا موقع فراہم کر ڈالا کہ کیا خبر کل کلاں کسی اہم میچ میں کوئی انہونی ہو رہے تو سبھی کھلاڑی ممکنہ بوجھ اٹھانے کو تیار ہوں۔ مگر یہ سب سہل پسندی اپنا کر بھی پیٹ کمنز فتح یاب ٹھہرے اور پہلے وارم اپ میچ کی طرح یہاں بھی پاکستان فتح سے روشناس نہ ہو پایا۔ سو، ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے سے جو جیت کی عادت پاکستان سے چھوٹی تھی، وہ قریب چار ہفتے بعد بھی پلٹ کے نہیں دی۔ پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں یہ غالباً پہلی نادر نظیر ہے کہ بلے بازی ایک تگڑا پہلو بن چکا ہے اور بولنگ کمزوری کو مائل ہے وگرنہ ہمیشہ یہ معاملہ الٹ رہا ہے کہ پاکستانی بولنگ ہی اس کرکٹ کلچر کی قوت رہی ہے جبکہ بیٹنگ عموماً ڈگمگاتی پگڈنڈیوں پہ چلتی نظر آئی ہے۔ بولنگ کی حالیہ کوتاہ ہمتی میں اگرچہ ذرا سا حصہ اس غیر متوقع انجری کا بھی ہے جو نسیم شاہ جیسے شاندار پیسر کی عدم دستیابی پہ منتج ہوئی مگر اصل دقیقہ یہاں سپن بولنگ کا ہے جہاں پاکستان کے باقاعدہ لیگ سپنر شاداب خان ون ڈے کرکٹ کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی تگ و دو میں الجھے ہوئے ہیں۔ پے در پے ٹی ٹونٹی اور فرنچائز کرکٹ کھیلنے کا نقصان یوں ابھر کر آ رہا ہے کہ وہ شاداب خان جو کسی بھی ٹی ٹونٹی فرنچائز کی جان بن سکتے ہیں، وہی پچاس اوورز کی کرکٹ میں اپنی ٹیم کے لئے ایک عقدہ سا بنتے جا رہے ہیں۔ ٹی ٹونٹی میں بلے باز کے پاس وقت کی اس قدر قلّت ہوتی ہے کہ وہ ہر گیند سے نفع بٹورنے کی کوشش میں رہتا ہے اور یوں وہی ہاف ٹریکر جو ون ڈے میں حرزِ جاں بن جاتے ہیں، ٹی ٹونٹی میں بسا اوقات وکٹ کے حصول کا ذریعہ بن جایا کرتے ہیں۔ وہی لو فل ٹاس جو مختصر ترین فارمیٹ میں ایک کامیاب چال ہو سکتی ہے، ون ڈے میں بولر کے گلے کا طوق ہو رہتی ہے۔ اس ورلڈ کپ کا فارمیٹ ایسا ہے کہ ہر ٹیم کو ہر ٹیم سے کھیلنا ہے اور اس منظر نامے میں پاکستان کا سپن اٹیک بیشتر ٹیموں سے بہتر دکھائی نہیں دیتا۔ تھنک ٹینک کے لیے دو ریگولر سپنرز کا انتخاب بہرحال ایک معمہ ہو گا کہ محمد نواز کی لیفٹ آرم سپن اور تجربے پہ اسامہ میر کو کیسے فوقیت دی جائے، کیونکہ شاداب خان تو فارم سے قطع نظر الیون کا حصہ ہوں گے ہی۔ اسامہ میر نے دونوں وارم اپ میچز میں مسابقتی بولنگ کی ۔ لیگ سپنر کا بنیادی کردار دوسرے پاور پلے میں پارٹنرشپ توڑنا اور وکٹیں بٹور کر رن ریٹ کے آگے بند باندھنا ہوتا ہے۔ اسامہ میر نے دونوں وارم اپ میچز میں کافی حد تک یہ کردار نبھایا۔ ماڈرن ون ڈے گیم میں لیفٹ آرم سپن کسی بھی الیون کے لیے ایک اہم مہرہ ہوا کرتی ہے۔ محمد نواز کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ بولنگ میں تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ بلے بازی میں بھی کئی بار ترپ کا پتہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سو، تھنک ٹینک کے لیے بڑا عقدہ یہی ہو گا کہ وہ تین آپشنز میں سے دو ریگولر سپنرز کا انتخاب کس بنیاد پہ کریں۔ اگرچہ افتخار احمد اور سلمان آغا کی شکل میں پاکستان کو سپن کے جزو وقتی وسائل بھی دستیاب ہیں مگر ورلڈ کپ جیسے اہم ایونٹ میں جب جیت ہاتھوں سے سرکنے لگے گی تو وہاں ضرورت کل وقتی ماہر کی ہی ہو گی نہ کہ پارٹ ٹائم آپشن قابلِ ترجیح ٹھہرے گا۔ بہت دن نہیں گزرے کہ پاکستان فارمیٹ کی نمبر ون ٹیم ہوا کرتا تھا مگر ورلڈ کپ سے عین پہلے نہ صرف وہ رینکنگ چھن گئی بلکہ پاکستانی اوپنرز کی تکنیکی کجیاں بھی عیاں ہونے لگی ہیں۔ ایسے میں حل یہی بچتا ہے کہ توقعات کا بوجھ کاندھے سے اتار پھینکا جائے اور بھلے ناقابلِ اعتبار کہلائیں، نیچرل گیم کے ہمراہ آگے بڑھا جائے۔ بالآخر پاکستان کرکٹ کی رِیت یہی رہی ہے کہ جب کسی گنتی میں نہ رہیں، تبھی یہ ابھر کر سامنے آیا کرتے ہیں اور دنیا کے لیے حیرت کا سامان بن جاتے ہیں۔ اگر توقعات کا بوجھ ہمراہ نہ ہوا اور الیون کا چناؤ دانشمندانہ ہوا تو جیت کی روٹھی عادت کو منانا ناممکن بھی نہیں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c88myre9055o
ورلڈ کپ وارم اپ میچ میں آسٹریلیا کی پاکستان کو شکست: ’بابر اعظم اب ’ریڈ ہاٹ فارم‘ میں لگتے ہیں‘
ورلڈ کپ کے دوسرے وارم اپ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 14 رنز سے شکست دے دی ہے۔ آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 351 رنز بنائے اور جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم 337 رنز بنا کر اڑتالیسویں اوور آؤٹ ہو گئی۔ انڈین شہر حیدرآباد میں کھیلے جانے والے اس وارم اپ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 351 رنز بنائے۔ گلین میکسویل 77 رنز بنا کر نمایاں سکورر رہے جبکہ کیمرون گرین 50 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ ڈیوڈ وارنر اور جوش انگلس نے 48 ،48 رنزکی اننگز کھیلی جبکہ مارنس لبوشان نے 40، مچل مارش نے 31 اور سٹیو سمتھ نے 27 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کے مارنس لبوشان نے تین پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ پیٹ کمنز نے چھ اوور میں 34 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ گلین میکسویل اور شان ایبٹ نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ مچل مارش کو بھی دو کامیابیاں ملیں۔ سٹیو سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کوئی وکٹ حاصل نہیں کر سکے۔ آج پاکستانی ٹیم کی قیادت بابر اعظم کے بجائے شاداب خان کر رہے تھے۔ پاکستان کا آسٹریلیا کے 352 رنز کے تعاقب میں آغاز اتنا اچھا نہیں رہا۔ فخر زمان 22 جبکہ امام الحق صرف 16 رنز ہی بنا سکے۔ عبداللہ شفیق نے 12 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے بابر اعظم نے سب سے زیادہ 90 رنز بنائے۔ افتخار احمد 83 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ مگر آج کے میچ کی خاص بات پاکستان کے مڈل آرڈر کی اچھی پرفارمنس تھی۔ پاکستان کے تین کھلاڑیوں نے نصف سنچریاں بنائیں۔ تسیرے ففٹی سکور کرنے والے محمد نواز 50 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اسامہ میر 15 رنز بنا کر باؤنڈری پر ڈیوڈ وارنر کو ایک آسان کیچ تھما بیٹھے۔ اسامہ میر نے آج کے میچ پانچ اوورز میں 31 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔ محمد نواز، شاداب خان، حارث رؤف اور محمد وسیم کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ شاہین شاہ آفریدی نے چھ اوورز میں 25 رنز دیے مگر انھیں آج کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سپورٹس جرنلسٹ عبدالغفار نے لکھا کہ بابر اعظم تو ’ریڈ ہاٹ فارم‘ نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارف اسامہ نے بابر اعظم کی اننگز کی تعریف کرتے ہوئے ان کی تصویر کے نیچے لکھا کہ ایلن مسک کو اب لائیک کا بٹن تبدیل کر دینا چاہیے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 حمزہ نامی صارف نے تو کمنٹری سے بابر اعظم کے لیے وہ لائن ہی ٹویٹ کر دی جس کے مطابق ’ہمیں بابراعظم کو دنیا بھر میں حاصل ہونے والی پذیرائی پر داد دینی ہو گی۔ پاکستان کے باہر بہت سے لوگ صرف بابر اعظم کو دیکھنے کے لیے اپنے ٹی وی سیٹ آن کرتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 سوشل میڈیا پر سابق آسٹریلین کھلاڑی اور کمنٹیٹر میتھیو ہیڈن کی کمنٹری کا چرچا ہے۔ انھوں نے رمیز راجہ کے ساتھ کمنٹری کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے نظم و ضبط کی تعریف کی اور یہ بھی رائے دی کہ پاکستان کی ٹیم کا جذبہ اسلام ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انھیں ڈسپلن اور باہمی عزت و احترام سکھاتی ہے۔ میتھیو ہیڈن نے کہا کہ میں اس جذبے کی بہت تعریف کرتا ہوں کیونکہ کرکٹ میں ڈسپلن چاہیے ہوتا ہے جبکہ اسلام سب سے زیادہ ڈسپلن والا مذہب ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 وکرانت گپتا نامی صارف نے لکھا کہ آج کے دن ڈیوڈ وارنر توجہ کا مرکز رہے، خوشی ہے کہ ’کلاس‘ کو سراہا جا رہا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c518v99474go
’ڈریم 11‘ کو 17 ہزار کروڑ روپے ٹیکس کا نوٹس: انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر کمپنیاں ڈوب کیوں جاتی ہیں؟
انڈیا کے ٹیکس محکمے نے انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر کمپنی ’ڈریم 11‘ کو تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے ٹیکس ادائیگی کا نوٹس دیا ہے۔ ’ڈریم 11‘ نے اتنی بڑی رقم کے مطالبے پر مبنی اس نوٹس کو ممبئی ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ٹیکس کا نوٹس موصول ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد ’ڈریم 11‘ کے حصص کی قیمتوں میں گراوٹ آئی تھی۔ یاد رہے کہ انڈین حکومت نے آن لائن گیمبلنگ اور کسینو وغیرہ پر 28 فیصد ٹیکس نافذ کر رکھا ہے۔ ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ ’ڈریم 11‘ کی ذیلی کپمنیاں گیمبلنگ (جُوا) سروسز چلا رہی تھیں اس لیے ان کمپنیوں کو اپنی مجموعی آمدن پر 28 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ’ڈریم 11‘ کمپنی نے حال ہی میں انڈین کرکٹ کمپنی کی نئی جرسی نئے لوگو کے ساتھ جاری کی تھی۔ ’ڈریم 11‘ کو ٹیکس کے نوٹس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے لکھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے والی کمپنی مشکل میں پڑی ہے۔ گذشتہ 15 برس میں کئی بڑی کمپنیاں انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے کے بعد بُرے دور سے گزری ہيں۔ ایک طویل عرصے تک کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے والی ’سہارا انڈیا‘ کمپنی اب دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس کے مالک کو کمپنی کے صحیح اعداد وشمار چھپانے اور صارفین کو دھوکہ دینے کے الزام میں جیل بھی ہوئی تھی۔ اسی طرح ’سٹار سپورٹس‘ چینل نے بھی بہت لمبے عرصے تک انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کیا تھا۔ اس نے اس وقت کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ بولی لگا کر کرکٹ میچوں کی نشریات کے سب سے بڑے حقوق حاصل کیے تھے۔ تاہم بعد میں سٹار سپورثس بھی زوال پزیر ہو گیا۔ چین کی موبائل کمپنی ’اوپو‘ نے بھی کچھ عرصے تک انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کیا لیکن چین سے انڈیا کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انڈیا میں چین کی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا جس کے نتیجے میں یہ کمپنی بھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس درمیان ایک اور کمپنی ’بائجوس‘ بڑے زور و شور سے کرکٹ کی سپانسرشپ کے میدان میں اُتری تھی۔ ابتدا میں یہ کمپنی بڑی تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان اس کے برانڈ ایمبیسڈر ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میں پتہ چلا کہ اس کمپنی نے اپنی اصل مالیت سے کئی گنا زیادہ مالیت دکھا رکھی تھی۔ یہ کمپنی بھی اب مشکل صورتحال کا شکار ہے اور زوال پذیر ہے۔ اور اب کرکٹ ٹیم کی نئی سپانسر کمپنی ڈریم الیون کو ہزاروں کروڑ روپے کے ٹیکس کا نوٹس آ گیا ہے جس کے بعد اس کے حصص بھی زوال پذیر ہیں۔ انڈیا میں کرکٹ انتہائی مقبول ہے اور قومی ٹیم کے کرکٹرز عوام کے لیے ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انڈیا میں بڑی کمپنیاں مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان کرکٹرز کو اپنا برانڈ ایمبیسڈر بنانے کے لیے منھ مانگی قیمتیں ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سپورٹس تجزیہ کار جسوندر سدھو کہتے ہیں کہ ’یہ غور طلب ہے کہ جن کمپنیوں کی بات ہم کر رہے ہیں وہ مارکیٹ ویلیو سے زیادہ اپنے اشتہارات کے لیے کرکٹرز کو دیتے ہیں۔‘ ’تصور یہ ہے کہ کسی بھی کرکٹر سے وابستہ ہونے کے بعد اس کمپنی کو فوراً لائم لائٹ مل جاتی ہے اور اس سے بازار سے پیسہ جمع کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن ایک مرحلے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جو پیسہ کرکٹر اور کرکٹ پر خرچ کیا گیا ہے وہ زیادہ تھا اور مارکیٹ ویلیو کے برعکس تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’کووڈ کی وبا کے بعد پوری مارکیٹ بدل گئی ہے۔ بہت سی کمپنیاں اسے سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کرکٹ اور کرکٹرز پر زیادد پیسہ لگانے والی کمپنیاں ڈوب جاتی ہیں۔‘ معروف سپورٹس صحافی پردیپ میگزين کہتے ہیں کہ ’ہر برانڈ یہی چاہتا ہے کہ اس کی مصنوعات عام لوگوں کے تصورات پر پوری اتریں۔ وہ فلم سٹارز کو اپنا برانڈ ایمبسڈر بناتے ہیں، کرکٹرز کو اشتہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کرکٹ سٹارز چاہے وہ وراٹ کوہلی ہوں، دھونی ہوں، تندولکر ہوں۔۔۔ یہ بڑے نام ہیں۔ کمپنیاں یہ سوچتی ہیں کہ اگر یہ ہماری مصنوعات کی تشہیر کریں گے تو ہمارا پرڈکٹ زیادہ بکے گا، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کئی کمپنیاں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں۔‘ ’وہ خطرہ مول لیتی ہیں۔ کرکٹرز بہت زیادہ فیس لیتے ہیں۔ ٹاپ کے کرکٹرز برینڈ ایمبیسڈر بننے کے لیے کروڑوں روپے لیتے ہیں۔ ابتدائی طور پر پیسہ بہت زیادہ لگانا پڑنا ہے اور اس سے فائدہ فوراً نہیں ہوتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کمپنی مالی طور پر مضبوط نہیں ہے تو ان کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ سیم سنگ، ایل جی اور پی ٹی ایم جیسی بڑی کمپنیاں اس معاملے میں کامیاب رہیں۔ آدھی کمپنیاں اس لیے نہیں ڈوبتیں کہ کرکٹ کو برانڈ ایمبسڈر بنانے میں کوئی نقصان ہے بلکہ وہ اس لیے ڈوب جاتی ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے ہوتے نہیں ہیں اور وہ رسک لے لیتی ہیں۔‘ بڑی کمپنیاں مشہور انڈین کرکٹرز کے ساتھ غیر ملکی کرکٹرز کو بھی اپنی مصنوعات کو تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ اشتہار عوام میں بہت مقبول ہوتے ہیں اور کرکٹرز سے منسوب ہونے کے سبب ان کی برانڈ ویلیو بھی بڑھ جاتی ہے۔ انڈیا کے کرکٹرز کرکٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ کمانے والے کھلاڑی ہیں۔ انڈیا کا کرکٹ بورڈ بھی دنیا کا سب سے امیر کرکٹ بورڈ ہے۔ ہفتہ وار جریدے ’دی ویک‘ کی سپورٹس ایڈیٹر نیروبھاٹیا کہتی ہیں کہ کرکٹ انڈیا کا سب سے مقبول گیم ہے اور کرکٹرز اور کرکٹ پر اشتہار کے لیے پیسہ لگانے کا یقیناً فائدہ ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کمپنیوں کو ڈوبنے کا کرکٹ اور کرکٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کمپنیاں اپنی اندونی وجوہات سے ڈوبتی ہیں۔‘ ’کرکٹ کا وومن پریمئر لیگ ابھی نیا ہے۔ جب یہ شروع ہوا تو اس کی سپانسر شپ کے لیے کسی کے پاس جانا نہیں پڑا تھا۔ بڑی تعداد میں کمپنیاں پیسے لگانے کے لیے آگے آئیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’کرکٹ جتنا مبقول ہے اتنی ہی مانگ اس کی اشتہاروں کے لیے بھی ہے اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c109nz9qln5o
ورلڈکپ 2023: ٹیلنٹ سے بھرپور انڈین کرکٹ ٹیم کے ساتھ ’چوکر‘ کا لفظ کیوں جڑ گیا؟
کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں انڈیا کی ٹیم ایک واضح فیورٹ ہے تاہم ان کے ساتھ ’چوکر‘ کا ٹیگ بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ طنزیہ نام کرکٹ کی دنیا میں عام طور پر جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لیے استعمال ہوتا رہا جو 1995 سے 2015 تک ہر اہم ٹرافی کے آخری لمحات میں ناکام ہو جاتے تھے۔ تاہم 2013 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد سے یہ نام انڈیا کے ساتھ جڑ گیا جس کی وجہ اہم آئی سی سی ٹورنامنٹس میں برے طریقے سے ناکامی تھی۔ 2013 سے دو ہی سال قبل انڈیا نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا اور اس سے چار سال قبل ایم ایس دھونی کی بطور کپتان پہلی مہم میں انڈیا نے بنا کسی بڑے سٹار کے پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔ فتوحات کی ہیٹ ٹرک نے ایک جانب ایم ایس دھونی کو ایک عظیم رتبہ دیا تو وہیں انڈیا میں کرکٹ کے ٹیلنٹ اور وسعت کو بھی پہچان ملی۔ 2008 میں آئی پی ایل کے آغاز اور پھر اس کی شہرت اور دولت میں بتدریج اضافے کے ساتھ ملک کے ہر کونے سے کھلاڑی دریافت ہوئے اور کرکٹ کی عالمی دنیا میں انڈیا کا عروج واضح تھا۔ انڈیا کرکٹ کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت صرف اس لیے نہیں کہ یہ عالمی طور پر اس کھیل سے جڑے 70 فیصد منافع کی وجہ ہے بلکہ طویل عرصے تک یہ دنیا میں کرکٹ کی بہترین ٹیم بھی رہی جو رینکنگ کے ہر درجے میں اول رہی۔ 2023 کے ورلڈ کپ سے پہلے انڈیا ایک بار پھر ٹیسٹ، ایک روزہ فارمیٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں اول درجے کی ٹیموں میں شامل ہے۔ انڈیا کا نظام کرکٹ، کمزوریوں کے باوجود، ہر قسم کے کھلاڑیوں کو بہترین سہولیات، پیسہ اور مواقع فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دنیا میں انڈیا کے پاس سب سے زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے جس کی وجہ ٹیم میں جگہ کے لیے بھرپور مقابلہ ہے اور اسی لیے کھلاڑی زیادہ سے زیادہ محنت کرنے اور کارکردگی دکھانے پر مجبور ہیں۔ انڈیا میں کرکٹ تو مضبوط ہوئی ہے لیکن ایک طویل عرصے تک اہم ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکامی شائقین کے لیے مایوسی کہ وجہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ 2013 سے انڈیا ہر ٹورنامنٹ کے آغاز میں فیورٹ ہوتی ہے لیکن فائنل یا اس سے قبل ہی ناکام ہو جاتی ہے۔ اس پریشان کن رجحان کی وضاحت کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ کھلاڑیوں کی سلیکشن کی پالیسی میں نقص کی وجہ سے ہے یا ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے؟ کپتان اور کوچ کی بار بار تبدیلی وجہ ہے یا کھلاڑیوں پر زیادہ کھیلنے کا دباؤ؟ یا پھر صرف بری قسمت کا نتیجہ ہے؟ کسی نہ کسی طریقے سے یہ تمام عوامل ہی انڈیا کی ٹیم کی کارکردگی پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ لیکن انڈیا تمام ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچا ہے تو شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ مسئلے کی جڑ کہیں اور چھپی ہوئی ہے۔ بڑے ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے صرف ٹیلنٹ کافی نہیں ہوتا۔ اس کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ کھلاڑی مختلف عوامل، جیسا کہ پچ، سے کتنی جلدی واقف ہوتے ہیں اور ٹیم انتظامیہ مختلف حریفوں کے لیے کس طرح ٹیم کو تیار کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کھلاڑی، انفرادی اور مجموعی اعتبار سے، میدان اور میدان سے باہر مشکل حالات سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ان میں سے آخری نکتے کو زیادہ کھل کر بیان کیا جائے تو یہ سوال بنتا ہے کہ انڈیا کی ٹیم دباؤ کا کیسے سامنا کرتی ہے؟ تقریبا ایک اعشاریہ چار ارب شائقین ہر میچ میں صرف جیت کی امید لگائے بیٹھے ہوں تو یہ دباؤ بہترین کھلاڑیوں پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے اور وہ اہم مرحلوں پر کمزور پڑ سکتے ہیں۔ انڈیا کے سابق کپتان اور چیف کوچ روی شاستری کہتے ہیں کہ انفرادی کھیلوں میں کھلاڑی کو اکیلے ہی دباؤ برداشت کرنا ہوتا ہے لیکن ایسے کھیل جن میں ٹیم شرکت کرتی ہے یہ معاملہ پیچیدہ اس لیے ہو جاتا ہے کیوں کہ ہر کھلاڑی کو اجتماعی جیت کے لیے اپنی بہترین کارکردگی دکھانا ہوتی ہے یا پھر چند کھلاڑیوں کو ایسے کھلاڑیوں کی جگہ لینا پڑتی ہے جن کے لیے وہ دن اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’برے کھیل کا مختصر دورانیہ، ایک بری سلیکشن سب برباد کر سکتی ہے۔‘ 2019 کے سیمی فائنل میں جب روہت شرما، وراٹ کوہلی سمیت تین وکٹیں پہلے چند اوور میں ہی گر گئیں اور پھر آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل جس میں آر ویشون کو کھلایا نہیں گیا روی شاستری کے اس تجزیے کی تصدیق کرتے ہیں۔ روی شاستری کہتے ہیں کہ ’کھلاڑیوں کو اعصابی طور پر مضبوط رہنا پڑتا ہے۔ اس سطح پر چھوٹی سے غلطی، ذرا سی چوک ہو تو مخالف ٹیم آپ کو ختم کر سکتی ہے۔‘ تو کیا اس بار انڈیا کی ٹیم اعصابی طور پر اتنی مضبوط ہے کہ وہ فتح یاب ہو؟ ٹیلنٹ، تجربے اور ٹیم کی سلیکشن کو دیکھیں تو یقینا۔ ایشیا کپ سے پہلے انڈیا کی ٹیم مکمل نہیں نظر آ رہی تھی اور کئی سوالات موجود تھے۔ کیا جسپریت بمراہ، کے ایل راہل اور شریاس آیئر، جو زخمی ہونے کے طویل عرصہ بعد واپس آ رہے تھے، مکمل فٹ اور فارم میں آ سکیں گے؟ کیا کلدیپ یادیو کو واپس بلانے کا فیصلہ درست تھا کیوں کہ ٹیم میں جدیجہ اور اکسر پٹیل کی شکل میں دو لیفٹ آرم سپنر پہلے ہی موجود تھے؟ کیا وکٹ کیپر کی جگہ کو کے ایل راہل اور اکسر پٹیل کے درمیان مقابلہ بنانے سے دونوں پر غیرضروری دباؤ پڑے گا؟ لیکن انڈیا کی ٹیم نے ایشیا کپ جیتا تو یہ تمام سوال دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اپنے گھر میں کھیلنا بھی میزبان یعنی انڈیا کے حق میں جائے گا جیسا کہ گزشتہ تین ورلڈ کپ میں دیکھا گیا لیکن یہ فتح کو یقینی نہیں بناتا۔ 1992 میں آسٹریلیا ناک آؤٹ سٹیج تک بھی نہیں پہنچ سکا تھا جبکہ 1987 اور 1996 میں انڈیا میں ورلڈ کپ ہونے کے باوجود دونوں بار ٹیم سیمی فائنل میں باہر ہو گئی۔ سادہ سی بات ہے کہ کھلاڑیوں کے ایک گروہ کو ایک ناقابل شکست ٹیم بنانے کا کوئی سادہ نسخہ موجود نہیں ہے۔ صلاحیت کو چھوڑ کر، ٹیم کا درست انتخاب، کھلاڑیوں کی آپس کی کیمسٹری اور پھر دباؤ جذب کرنے کا ہنر اہمیت رکھتا ہے۔ اگلے سات سے آٹھ ہفتوں کے دوران انڈیا کی ٹیم ان متعدد چینلجز کا سامنا کیسے کرتی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے اور اسی سے طے ہو گا کہ انڈیا اس بار چیمپیئن بنے گا یا ’چوکر۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg549x52n7o
ورلڈ کپ 2023: پاکستان کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں اپنے میچ کب اور کہاں کھیلے گا؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم ویزوں کے اجرا میں تاخیر کا سامنا کرنے کے باوجود ورلڈ کپ 2023 میں شرکت کے لیے انڈیا پہنچ چکی ہے۔ یہ آل راؤنڈر محمد نواز کے علاوہ سکواڈ کے تمام کھلاڑیوں کا انڈیا کا پہلا دورہ ہے یعنی پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ میں سے کسی کو بھی انڈیا کے کسی بھی میدان میں کھیلنے کا تجربہ نہیں۔ گذشتہ دس برس میں پاکستان نے انڈیا میں صرف سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی تاہم اس ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی موجود ٹیم کا حصہ نہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے سنہ 13-2012 میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انڈیا گئی تھی اور ان مقابلوں میں پاکستان نے انڈیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے ملک میں جا کر سیریز کھیلنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ایسا ہے کہ جس میں کنڈیشنز سے ہم آہنگی میچ میں کامیابی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے اور یہ ٹیم مینجمنٹ کو متعدد فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو جہاں آئی پی ایل میں کرکٹ کھیل کر انڈیا کے تمام گراؤنڈز کی کنڈیشنز میں کھیلنے کا موقع ملتا ہے وہیں پاکستانی کھلاڑی ایسا اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ ان پر آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن کے بعد سے ٹورنامنٹ کھیلنے پر پابندی عائد ہے۔ تاہم ڈیٹا اینالٹکس کے اس دور میں یہ یہ پتا چلانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ اعداد و شمار کے اعتبار سے انڈیا کا کون سا گراؤنڈ بیٹنگ اور کون سا بولنگ کے لیے سازگار ہو گا۔ آئیے نظر دوڑاتے ہیں ان گراؤنڈز کی فہرست پر جہاں پاکستان ورلڈ کپ 2023 میں اپنے میچ کھیلنے جا رہا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی یہاں کارکردگی کیسی رہی ہے، یہاں کی کنڈیشنز کیسی ہیں اور ان میں کتنے تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ پاکستان ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ نیدرلینڈز کے خلاف چھ اکتوبر کو اسی میدان پر کھیلنے جا رہا ہے۔ راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں 55 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور اس کی پچ عام طور پر بلے بازوں کے لیے موافق ہے اور یوں اس گراؤنڈ میں زیادہ رنز بنتے ہیں۔ انڈین اوپنر شبمن گل نے اس سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف اسی گراؤنڈ پر کھیلے گئے ون ڈے میچ میں 208 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 349 رنز بنائے تھے تاہم اس گراؤنڈ پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اوسط سکور 275 ہے۔ اس سٹیڈیم میں اب تک 14 ون ڈے میچ کھیلے جا چکے ہیں تاہم پاکستان نے تاحال یہاں کوئی میچ نہیں کھیلا۔ پاکستان ورلڈ کپ میں اپنے پہلے دو میچ یعنی نیدرلینڈز اور سری لنکا کے خلاف چھ اور 10 اکتوبر کو اسی گراؤنڈ پر کھیلے گا۔ اس کے علاوہ ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کے دونوں وارم اپ میچ 29 ستمبر اور تین اکتوبر کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف اسی گراؤنڈ پر کھیلے جائیں گے۔ حیدر آباد کی انتظامیہ نے پاکستان کو پہلے وارم اپ میچ کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے معذوری کا اظہار کیا تھا جس کے باعث نیوزی لینڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں شائقین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ گراؤنڈ دراصل سنہ 1982 میں تعمیر ہوا تھا اور اسے سردار پٹیل کرکٹ گراؤنڈ کا نام دیا گیا تھا تاہم گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن نے ایک بہتر گراؤنڈ تعمیر کرنے کے لیے سنہ 2015 میں اسے مسمار کیا اور دنیا کا سب سے زیادہ گنجائش والا سٹیڈیم تعمیر کیا گیا جس کا افتتاح سنہ 2020 میں کیا گیا۔ نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں ویسے تو ایک لاکھ 32 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے لیکن سائٹ سکرینز کی رکاوٹ کے باعث یہ تعداد کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان یہاں انڈیا کے خلاف اپنا تیسرا میچ کھیلے گا۔ ابتدائی طور پر یہ میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔ اس میچ کے باعث احمد آباد میں ہوٹلوں، پروازوں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستانی ٹیم نے نریندر مودی سٹیڈیم میں تاحال کوئی میچ نہیں کھیلا لیکن سردار پٹیل کرکٹ گراؤنڈ میں سنہ 2005 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیریز کا چوتھا اور تاریخی ون ڈے میچ کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سچن تندولکر کی 123 رنز کی شاندار اننگز کی بدولت 48 اوورز میں 315 رنز بنائے تھے۔ جواب میں پاکستان نے پہلی مرتبہ 300 سے زیادہ رنز کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا تھا اور انضمام الحق کا سچن تندولکر کو میچ کی آخری گیند پر چوکا مار کر میچ جیتنا آج بھی اکثر پاکستانی فینز کو یاد ہو گا۔ نئے سٹیڈیم میں اب تک صرف تین ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے گئے ہیں اور اس گراؤنڈ میں گیارہ سینٹر پچز بنائی گئی ہیں۔ یہاں آئی پی ایل کے میچوں کے دوران یہ پچ بلے بازوں کے لیے سازگار ثابت ہوئی ہے، جو خاصی آزادی کے ساتھ سٹروکس کھیلنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس گراؤنڈ کی بنیاد سنہ 1969 میں رکھی گئی تھی اور آغاز میں اس کا نام کرناٹک سٹیٹ کرکٹ ایسوسی ایشن سٹیڈیم رکھا گیا تھا تاہم بعد میں اس کا نام ماضی کے ایک بی سی سی آئی چیئرمین ایم چناسوامی کے نام سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس گراؤنڈ کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور یہاں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی تاریخی میچ ہو چکے ہیں۔ سنہ 1987 کی ٹیسٹ سیریز میں سنیل گواسکر نے اپنا آخری ٹیسٹ اسی گراؤنڈ پر پاکستان کے خلاف کھیلا تھا اور ایک مشکل پچ پر 96 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی تھی۔ پاکستان نے یہ میچ 16 رنز سے جیت لیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ وہی گراؤنڈ ہے، جہاں سنہ 1996 کے ورلڈ کپ کا کوراٹر فائنل بھی کھیلا گیا تھا جس میں انڈیا نے پاکستان کو باآسانی شکست دے دی تھی۔ اسی طرح انضمام الحق نے اسی گراؤنڈ پر اپنے کریئر کا 100واں ٹیسٹ کھیلا تھا اور پہلی اننگز میں 184 رنز بنائے تھے۔ یونس خان نے اس میچ میں 284 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور پاکستان یہ میچ 168 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوا تھا اور یوں یہ سیریز بھی اپنے نام کر لی تھی۔ یہاں سنہ 1999 کے پیپسی کپ کے میچ میں پاکستان نے انڈیا کو 123 رنز سے شکست بھی دی تھی۔ اس گراؤنڈ میں 40 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے اور یہاں کی پچ بیٹنگ کے لیے انتہائی موزوں سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کا اوسط پہلی اننگز کا سکور تقریباً 260 سے 270 کے درمیان ہے۔ پاکستان نے ابھی تک یہاں صرف دو ون ڈے میچ کھیلے ہیں اور ورلڈ کپ میں یہاں 20 اکتوبر کو آسٹریلیا اور چار نومبر کو نیوزی لینڈ کے مدِمقابل ہو گا۔ چنئی کا یہ سٹیڈیم چیپوک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ انڈیا کا دوسرا سب سے قدیم میدان ہے جس کی بنیاد سنہ 1916 میں رکھی گئی تھی۔ پاکستان نے اسی میدان پر سنہ 1999 کی مشہور سیریز کے چنئی ٹیسٹ میں انڈیا کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد 12 رنز سے شکست دی تھی جس کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے میدان کا چکر لگا کر تماشائیوں سے داد وصول کی تھی۔ یہ وہی گراؤنڈ ہے جہاں پاکستان کے مایہ ناز اوپنر سعید انور نے سنہ 1997 میں انڈیپینڈینس کپ کے میچ میں 194 رنز کی ریکارڈ اننگز کھیلی تھی جو ایک عرصے تک عالمی ریکارڈ بھی رہا تھا۔ یہاں پاکستان نے اس کے علاوہ صرف ایک اور ون ڈے میچ سنہ 2012 میں کھیلا تھا جس میں جنید خان کی عمدہ سوئنگ بولنگ کے باعث پاکستان انڈیا کو 226 رنز پر روکنے میں کامیاب ہوا تھا جس میں دھونی کی ناقابلِ شکست 113 رنز کی اننگز بھی شامل تھی۔ پاکستان نے یہ ہدف ناصر جمشید کی سنچری کے باعث چار وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا تھا۔ اس سٹیڈیم کی پچ خاص طور پر سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے ورلڈ کپ شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد افغانستان سے اس گراؤنڈ پر کھیلنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا تاہم انھیں رد کر دیا گیا تھا۔ یہ گراؤنڈ سابق انڈین کپتان مہندرا سنگھ دھونی کا فیورٹ گراؤنڈ سمجھا جاتا ہے اور ان کی آئی پی ایل کی ٹیم چنئی سپر کنگز نے اس میدان پر متعدد میچ ان کی کپتانی اور سپنرز کی عمدہ بولنگ کے باعث جیتے ہیں۔ پاکستان اس میدان پر 23 اکتوبر کو افغانستان اور 27 اکتوبر کو جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گا۔ بی سی سی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 33،500 ہے۔ کولکتہ میں موجود ایڈن گارڈنز کا میدان انڈیا کا سب سے قدیم کرکٹ سٹیڈیم ہے جو سنہ 1864 میں بنایا گیا تھا۔ اس تاریخی میدان پر پاکستان ورلڈ کپ میں دو میچ کھیلے گا۔ 31 اکتوبر کو پاکستان کا بنگلہ دیش سے اس میدان پر مقابلہ ہو گا جبکہ 11 نومبر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ یہاں آمنے سامنے ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ کی کولکتہ کے ایڈن گارڈنز سے متعدد یادیں جڑی ہیں۔ یہاں پاکستان کا ون ڈے ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے اور اسے کبھی بھی انڈیا سے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاکستان نے یہاں کل چھ ون ڈے میچ کھیلے ہیں اور ان میں سے صرف ایک میچ میں سری لنکا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کنڈیشنز کی بات کریں تو ایڈن گارڈنز کی وکٹ بیٹنگ کے لیے اچھی سمجھی جاتی ہے اور یہاں سپنرز کو بھی پچ سے جلد مدد مل جاتی ہے۔ سنہ 1999 کا کولکتہ ٹیسٹ کسے یاد نہیں جب شعیب اختر نے انڈیا کی پہلی اننگز میں راہل ڈراوڈ اور اور سچن تندولکر کو یکے بعد دیگرے دو گیندوں پر بولڈ کیا تھا اور ایک لاکھ کے قریب تماشائی اچانک خاموش ہو گئے تھے۔ تاہم دوسری اننگز میں جب غیر ارادای طور پر شعیب اختر سے ٹکر لگنے کی وجہ تندولکر رن آؤٹ ہوئے تو سٹینڈز سے تماشائیوں نے گراؤنڈ میں بوتلیں پھنکنا شروع کر دیں۔ اس کے بعد تندولکر کی مداخلت اور کچھ شائقین کو باہر نکالنے کے باوجود بھی معاملہ حل نہیں ہوا تھا تو تمام تماشائیوں کو باہر نکال دیا گیا تھا اور میچ بغیر تماشائیوں کے کھیلا گیا تھا۔ بی سی سی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق اب اس گراؤنڈ میں 80 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckrevg5rgyno
بریانی، بٹر چکن، مچھلی یا پھر بیف۔۔۔ حیدرآباد میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے مینیو میں کیا شامل ہے؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم سات سال بعد 27 ستمبر کی شام انڈیا کی سرزمین پر اتری تو اس کا شاندار استقبال ہوا لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے پریکٹس میچ میں ٹیم نے مایوس کن پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی ٹیم نے مقررہ 50 اوور میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 345 رنز بنائے جس میں رضوان احمد کی سنچری اور بابر اعظم اور سعود شکیل کی نصف سنچریاں شامل تھیں۔ نیوزی لینڈ نے یہ ہدف با آسانی 44 ویں اوور میں ہی مکمل کر لیا جس میں روچن رویندر، کین ولیم سن، ڈریل مچل اور مارک چیپ مین کی نصف سنچریاں شامل تھیں۔ بہرحال سوشل میڈیا پر جہاں نیوزی لینڈ اور پاکستان کے پریکٹس میچ پر تبصرہ ہو رہا ہے تو وہیں دو دن سے پاکستانی ٹیم کے استقبال اور کھانے کے بارے میں بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی اس بابت ایک ٹویٹ کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستانی ٹیم کو انڈیا میں کھانے میں کیا ملے گا۔ ورلڈ کپ کے لیے انڈیا آنے والی کسی بھی ٹیم کو بیف یعنی بڑے جانور یا گائے کا گوشت پیش نہیں کیا جا رہا۔ خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق تمام ٹیموں کے لیے بیف کی عدم موجودگی میں مختلف النوع مینیو تیار کیا گیا ہے۔ ’پاکستان نے چکن، مٹن اور مچھلی پر انحصار کرتے ہوئے اپنی روزمرہ کی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متنوع مینیو وضع کیا ہے۔‘ مختلف النوع کھانوں میں دیگر لذیذ آپشن وھی موجود ہیں۔ ان میں رسیلی گرلڈ لیمب چانپ، روغن دار اور ذائقہ دار مٹن کری، ساری دنیا کا پسندیدہ بٹر چکن اور ضروری پروٹین کے حصول کے لیے گرلڈ مچھلی بھی شامل ہیں۔‘ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے لیے ابلے باسمتی چاولوں کو بھی مینیو میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر کھلاڑی ہلکا پھلکا کھانا چاہتے ہیں ان کے لیے سپیگیٹی اور سبزی پلاؤ بھی دستیاب ہوں گے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد کی مشہور بریانی بھی وقتا فوقتاً کھلاڑیوں کے لیے دستیاب ہو گی۔ واضح رہے کہ انڈیا میں گائے کو مقدس مانا جاتا ہے اس لیے ملک کے بہت سے حصوں میں اس کو ذبح کرنے پر پابندی ہے جبکہ چند حصوں میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں پاکستانی ٹیم کے مینیو پر تنقید کرتے ہوئے ماسٹر وی جے این نامی صارف نے لکھا کہ ’اس ملک کی ثقافت میں شامل ایک بڑا حصہ بیف کھاتا ہے۔ یہ آج بھی انڈیا سے سب سے زیادہ برآمد کیا جاتا ہے اور انڈیا میں اسے کھایا بھی جاتا ہے۔ اسے دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کے مینیو سے ہٹانا عدم تحفظ کی انتہا ہے۔‘ اس کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’اس منطق کے حساب سے جب آپ کیرالہ جائیں تو وہاں کی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے پراٹھا بیف کھائیں۔‘ اس کے جواب میں ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ یہ بات صرف کیرالہ پر نہیں بلکہ سارے جنوبی ہند پر صادق نظر آتی ہے۔ لیکن صحافی فرید خان نے لکھا کہ ’اگر انڈیا میں ورلڈ کپ کے دوران بیف پیش نہیں کیا جا رہا تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔ یہ تمام ٹیموں کے لیے ہے، صرف پاکستانی ٹیم کے لیے نہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 انشمن سنگھ نامی ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ پاکستانی ٹیم کے پاس اپنا ماہر غذائیت ہو گا جو کھانے کا مینیو تیار کرنے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مہمانوں کی درخواست کو ہوٹل والے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘ یا د رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سنہ 2016 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد پہلی بار انڈیا آئی ہے اور سوائے دو کھلاڑیوں کے باقی تمام کھلاڑی پہلی بار ہی انڈیا آئے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان کی ٹیم اب اپنا اگلا وارم اپ میچ آسٹریلیا کے خلاف تین اکتوبر کو کھیلے گی جبکہ چھ اکتوبر کو وہ نیدرلینڈز کے خلاف ورلڈ کپ کا اپنا پہلا میچ کھیل رہی ہے۔ اس کا دوسرا میچ بھی حیدرآباد میں ہے جو 10 اکتوبر کو سری لنکا کے خلاف ہے۔ پاکستان کی ٹیم انڈیا کے خلاف 14 اکتوبر کے میچ کے لیے حیدرآباد سے احمد آباد روانہ ہوگی۔ اس طرح وہ دو ہفتوں تک حیدرآباد میں ہی ہو گی جو کہ اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ اپنے کھانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy91g1qx41go
سعود شکیل پاکستان کی وائلڈ کارڈ انٹری: ’سعود بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بابر ہیں‘
کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے باقاعدہ آغاز سے قبل انڈیا کے شہر حیدر آباد میں نیوزی لینڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں اگرچہ پاکستان کو ایک بڑا ہدف دینے کے باوجود پانچ وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 345 رنز بنائے لیکن نیوزی لینڈ نے مطلوبہ ہدف اپنے بلے بازوں کی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت 44ویں اوور میں ہی حاصل کر لیا۔ اس میچ کے بعد جہاں پاکستانی بولروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا ہے وہیں بلے بازی کے شعبے میں پاکستان کی جانب سے ’وائلڈ کارڈ انٹری‘ کے طور پر ٹیم میں شامل کیے جانے والے سعود شکیل نے جو کھیل پیش کیا اُسے دیکھ کر پاکستانی شائقین کی ٹیم کے مڈل آرڈر سے اُمیدیں ضرور وابستہ ہو گئی ہیں۔ ایشیا کپ میں جانے سے پہلے پاکستان کے لیے جو سب سے بڑی پریشانی کی بات تھی وہ یہ تھی کہ پاکستانی ٹیم کا مڈل آرڈر اس بڑے ٹورنامنٹ میں پرفارم کر پائے گا کہ نہیں۔ لیکن ورلڈ کپ کے پہلے وارم اپ میچ میں پاکستان کی بیٹنگ دیکھنے کے بعد کچھ نہ کچھ پریشانی تو ضرور دور ہوئی۔ سعود شکیل کی 53 گیندوں پر پانچ چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے 75 رنز کی اننگز کے بعد اُن کا نام ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ٹرینڈ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سعود شکیل نے اپنے ون ڈے کریئر کا آغاز اگرچہ 2021 میں انگلینڈ کے خلاف کارڈف میں کھیلے گئے میچ سے کیا تھا لیکن وہ دو برس سے زیادہ عرصے میں صرف چھ میچوں میں ہی پاکستان کی نمائندگی کر سکے ہیں۔ رواں برس نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی سیریز میں بھی وہ ٹیم کا حصہ نہیں تھے تاہم سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں انھوں نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا۔ حال ہی میں ہونے والے ایشیا کپ میں بھی آخری وقت میں ان کا نام سکواڈ میں شامل کیا گیا مگر وہ کوئی میچ نہ کھیل سکے۔ ایشیا کپ میں سری لنکا کے خلاف ہونے والے آخری میچ میں انھیں پلیئنگ الیون کا حصہ بنایا گیا تھا مگر بیمار ہونے کی وجہ سے وہ یہ میچ بھی نہ کھیل سکے۔ تاہم وارم اپ میچ میں ان کی پرفارمنس کے بعد کرکٹ شائقین ان کے مداح نظر آتے ہیں۔ عاطف نواز نامی صارف نے 53 گیندوں پر 75 رنز کی ان کی شاندار اننگز کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’سعود شکیل کی ایک متاثر کن اور دلکش اننگز۔ سعود کے جانب سے اننگز کے اختتام پر کھیلے جانے والے کچھ سٹروکس بہت عمدہ تھے۔ ان کی اونچی ڈرائیوز، اور جارحانہ بلے بازی کو دیکھنا انتہائی خوشگوار تھا، اب مجھے یقین ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پلیئنگ الیون میں شامل ہوں گے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 حمزہ شہباز نامی صارف نے لکھا کہ ’سعود شکیل کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے ہماری جانب سے ایک سرپرائز ہے، اور انھیں پاکستانی سکواڈ میں شامل کرنا ایک بہترین فیصلہ ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان کی جانب سے نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والے اس وارم آپ میچ میں پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان نے بھی 94 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 103 رنز کی شاندار انگز کھیلی، مگر اُنھوں نے اننگز مکمل ہونے کے بعد انٹرویو میں اپنی اننگز کو تو رکھا ایک جانب مگر بات کی سعود شکیل کی بیٹنگ کی۔ رضوان نے کہا کہ ’سعود شکیل نے شاندار فارم کا مظاہرہ کیا اور شاندار پرفارمنس دی۔ ون ڈے فارمیٹ میں ’سٹینڈ آؤٹ کھلاڑی‘ کے طور پر ان کی صلاحیت کا اندازہ لگانا دلچسپ ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ’ینگ یو‘ نامی صارف نے بھی سعود شکیل کی دو انتہائی شاندار سٹروک کھیلتے ہوئے تصاویر شیئر کیں اور لکھا ’سعود شکیل بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بابر ہیں، ان کے چھکے انتہائی خوبصورت تھے اور کور کی جانب جو انھوں نے سٹروکس کھیلے اُن کا تو کیا ہی کہنا۔ کیا سکون تھا، کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 سعود شکیل نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں کو ہی عمدہ انداز میں کھیلا اور ان کی شاندار اننگز کے باعث پاکستان نیوزی لینڈ کو ایک اچھا ہدف دینے میں کامیاب ہوا، مگر کیا کریے پاکستانی بولرز کا! سعود شکیل وہ پہلے پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے اسی سال سری لنکا کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر ڈبل سنچری بنائی تھی۔ ان کے ٹیسٹ کریئر کی اگر بات کریں تو وہ اب تک ہر ٹیسٹ میچ میں کم از کم ہر اننگز میں نصف سنچری یا اس سے زیادہ رنز سکور کر چکے ہیں۔ فی الحال ان کی بیٹنگ اوسط 98.5 کی ہے۔ سعود شکیل نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے ہیں۔ 65 فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 16 سنچریوں اور 23 نصف سنچریوں کی مدد سے 4844 رنز بنائے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا ٹاپ سکور 187 تھا۔ 28 برس کے سعود شکیل اب تک چھ ایک روزہ میچز کھیل چُکے ہیں جن میں اُن کا سٹرائیک ریٹ 71.02 ہے اور اُن کا بہترین سکور 56 گیندوں پر 76 رنز ہے۔ اضافی رپورٹنگ: محمد صہیب
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjr0vx8kxr0o
جب انڈین کرکٹر ونود کامبلے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہارنے پر 60 ہزار تماشائیوں کے سامنے رو پڑے
1996 کے ورلڈ کپ میں جب انڈیا نے بنگلورو میں پاکستان کے خلاف ہائی پریشر کوارٹر فائنل میچ جیتا تو ’ہینگ اوور‘ اس قدر شدید تھا کہ چار دن بعد سری لنکا کے خلاف سیمی فائنل میچ تک انڈیا اس سے اپنے آپ کو باہر نہ نکال سکا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے کوچ اجیت واڈیکر جانتے تھے کہ انڈین ٹیم کی عادت ہے کہ بڑا میچ جیتنے کے بعد وہ چیزوں کو آسان لینا شروع کر دیتی ہے۔ سنجے منجریکر اپنی سوانح عمری ’امپرفیکٹ‘ یعنی ’نامکمل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ ایک بار میچ جیتنے کے بعد ہم سب جہاز میں آپس میں مذاق کر رہے تھے۔‘ ’اسی شام، ہوٹل میں ٹیم میٹنگ کے دوران، واڈیکر اچانک ہم پر برس پڑے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کون ہیں؟‘ کیا آپ نے ٹورنامنٹ جیت لیا ہے؟ فلائٹ میں کیا ہو رہا تھا؟ یہ کیسا رویہ تھا؟‘ سری لنکا کے خلاف سیمی فائنل سے پہلے بھی واڈیکر ایسے ہی موڈ میں تھے۔ ٹیم میٹنگ میں صرف وہ بولتے رہے۔ اس کے بعد کیپٹن اظہر الدین نے چند الفاظ کہے۔ اگرچہ یہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی لیکن صرف 50 منٹ تک اس بات پر بات ہوئی کہ سری لنکا کے اوپنرز رومیش کالووتھرنا اور جے سوریا کو کیسے رنز بنانے سے روکا جائے۔ ان دونوں نے چند روز قبل دہلی میں ہونے والے لیگ میچ میں انڈیا کے خلاف انتہائی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انڈیا کے 272 رنز کو باآسانی عبور کر لیا۔ ان کی بیٹنگ اتنی مضبوط تھی کہ منوج پربھاکر کو آف سپن گیند پھینکنے پر مجبور ہونا پڑا اور یہ ان کے کیریئر کے اختتام کی جانب سفر کا آغاز ثابت ہوا تھا۔ کلکتہ (اب کولکتہ) پہنچنے پر انڈین ٹیم کو بتایا گیا کہ ایڈن گارڈنز کی پچ کو حال ہی میں آسٹریلیا سے لائی گئی مٹی سے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔ پہلی نظر میں وہ پچ اتنی ہی ٹھوس لگ رہی تھی جتنی ایڈن گارڈن آسٹریلوی پچ۔ سچن تندولکر اپنی سوانح عمری ’پلئینگ اٹ مائے وے‘ میں لکھتے ہیں، ’ہم نے پچ کو دیکھتے ہی فیصلہ کیا کہ اگر ہم ٹاس جیتیں گے تو پہلے فیلڈنگ کریں گے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ تھی کہ سری لنکا نے اس وقت تک کامیابی سے اپنے اہداف کا تعاقب کیا تھا۔‘ ان کے ابتدائی بلے باز سنتھ جے سوریا اور رومیش کالوویترنا پہلی ہی گیند سے ہی چٹکی بجانے والے کا کردار ادا کر رہے تھے اور زیادہ تر میچوں میں سری لنکا کو اچھا آغاز دینے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے ہمیں لیگ میچ میں شکست دی تھی۔ یہ ضروری تھا کہ ہم ان کی وکٹیں جلد لے کر ان پر دباؤ ڈالیں۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ انڈین ٹیم کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے پہلے ہی اوور میں دونوں اوپنرز کو پویلین واپس بھیج دیا۔ سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’میں نے سری ناتھ کی گیند پر کالوویترنا کا تھرڈ مین پر گولڈن ڈک پر کیچ لیا اور وینکٹیش پرساد نے جے سوریا کا کیچ لیا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ مہابھارت میں ابھیمنیو کی طرح، ہم نے اپنے آپ کو اہداف کی بھول بھلیوں میں داخل ہونے کی تربیت دی تھی لیکن ہم نے خود کو ان بھول بھلیوں سے باہر آنے کے لیے تیاری نہیں کی تھی۔‘ کچھ دیر کے لیے ہماری توجہ میچ سے ہٹ گئی اور اروند ڈی سلوا نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 47 گیندوں میں 66 رنز بنائے۔ مہاناما نے بھی 58 رنز کی اننگز کھیل کر سری لنکا کو ابتدائی نقصان سے نکال لیا۔ اننگز کے اختتام پر راناٹنگا کے 35 رنز، تلکارتنے کے 32 رنز اور چمندا واس کے 22 رنز کی بدولت سری لنکن ٹیم اپنا سکور 251 رنز تک لے گئی۔ جب سچن تندولکر باؤلنگ کرنے آئے تو انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے پچ پڑھنے میں غلطی کی۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ’گیند بغیر رکے بلے باز کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اگرچہ پچ کی اوپری سطح مضبوط دکھائی دے رہی تھی۔ واضح طور پر یہ لگ رہا تھا کہ یہ پچ پورے 50 اوورز تک نہیں چل پائے گی۔ سری لنکا کے سکور کو محدود رکھنا ضروری تھا لیکن اس کے باوجود وہ 50 اوورز میں 251 رنز بنانے میں کامیاب رہے جو آخر میں ہمارے لیے بہت بھاری ثابت ہوئے۔ بعد میں رانا ٹنگا نے اعتراف کیا کہ ’ان کا ہدف 275-280 رنز تک ہونا چاہیے تھا لیکن جب انھوں نے گیند کو گھومتے ہوئے دیکھا تو انھیں لگنے لگا کہ اس پچ پر 220 رنز بھی کافی ہوں گے۔ جب سچن تندولکر باؤلنگ کرنے آئے تو انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے پچ پڑھنے میں غلطی کی ہے۔ اب سب کی نظریں سچن تندولکر پر تھیں کہ وہ انڈیا کو اچھی شروعات دیں اور انھوں نے شائقین کو مایوس نہیں کیا۔ گھومتی ہوئی اس پچ پر، وہ اپنا سکور 65 تک لے گئے اور 98 کے سکور پر ایک مشکل بال کو کھیلتے ہوئے سٹمپ آؤٹ ہو گیے۔ ٹنڈولکر لکھتے ہیں کہ ’جے سوریا اپنے بائیں ہاتھ سے سپن بولنگ کر رہے تھے۔ ان کی ایک گیند میرے پیڈ سے ٹکرا کر آن سائیڈ کی جانب مڑ گئی، میں نے سوچا کہ تیز رن کی گنجائش ہے اس لیے میں کریز سے باہر نکل آیا لیکن پھر میں نے دیکھا کہ گیند وکٹ کیپر کالوویترنا کے بہت قریب آ کر رک گئی تھی۔ میرے پاس نہ تو رنز بنانے کا وقت تھا اور نہ ہی کریز پر واپس آنے کا۔ وکٹ کیپر کالوویترنا نے لمحہ بھر بھی ضائع نہیں کیا اور وکٹیں بکھیر دیں۔ میں تھرڈ امپائر کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر پویلین کی جانب چل پڑا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں آؤٹ ہو چکا ہوں۔ جب میں پویلین کی طرف بڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ میرے بعد بلے بازوں کے لیے راستہ آسان نہیں ہوگا۔‘ جس وقت سچن اور منجریکر کے درمیان دوسری وکٹ کی شراکت داری میں 90 رنز بنائے، کم از کم تماشائیوں کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ پچ خراب ہو گئی ہے۔ سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’جب کمار دھرما سینا نے ایک آف بریک گیند اظہرالدین کو پھینکی تو یہ آف سٹمپ کے باہر لگی جسے وکٹ کیپر کالوویترنا نے سینے کے اونچائی اور لیگ سائیڈ پر پکڑا۔ اس گیند کو وائیڈ قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد دھرماسینا کے چہرے پر نظر آنے والی مسکراہٹ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘ ’شاید انھیں اسی لمحے یہ احساس ہو گیا تھا کہ میچ ان کا ہے اور ان کی ٹیم فائنل میچ کھیلنے انڈیا نہیں بلکہ لاہور جائے گی۔ دھرماسینا کے علاوہ اس سری لنکن ٹیم میں دو اور سپنر تھے، متھیا مرلی دھرن اور جے سوریا۔ اروندا ڈی سلوا ضرورت پڑنے پر سپن بولنگ بھی کر سکتے تھے۔ تندولکر کے آؤٹ ہونے کے بعد جب مزید دو ٹاپ بلے باز پویلین لوٹے تو ہم اپنے دل میں جان گئے کہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔‘ اظہر الدین بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے۔ منجریکر کو جے سوریا نے کلین بولڈ کیا۔ جواگل سری ناتھ کو اجے جدیجا پر ترقی دی گئی تاکہ وہ بائیں ہاتھ کے بلے باز ونود کامبلے کے ساتھ شراکت کر سکیں لیکن وہ صرف چھ رنز پر رن آؤٹ ہو گئے۔ جدیجا بھی بغیر کوئی رن بنائے 11 گیندیں کھیلنے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔ جیسے ہی نین مونگیا اور آشیش کپور آؤٹ ہوئے، انڈین اننگز کا خاتمہ واضح طور پر نظر آنے لگا۔ تب تک ایڈن گارڈن کے تماشائیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ انڈیا کے جیتنے کی کوئی امید نہیں تو انھوں نے پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں میدان میں پھینکنا شروع کر دیں۔ اس وقت میچ کے 15 اوورز باقی تھے اور انڈیا کا سکور 8 وکٹوں پر 120 رنز تھا۔ ہجوم کو پرسکون کرنے کے لیے امپائرز اور میچ ریفری کلائیو لائیڈ نے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو میدان سے باہر بلایا۔ آدھے گھنٹے کے بعد کھیل دوبارہ شروع ہوا لیکن اس سے پہلے کہ متھیا مرلی دھرن اپنے اوور کی دوسری گیند کر پاتے، ہجوم نے پھر سے میدان میں بوتلیں پھینکنا شروع کر دیں۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کرنے والے سری لنکن فیلڈرز پچ کے قریب آ گئے۔ سامعین اپنی آنکھوں کے سامنے انڈیا کو ہارتا دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد ریفری نے کھیل کو روکنے اور سری لنکا کو فاتح قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ ونود کامبلے جب دس رنز بنا کر ناٹ آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ رہے تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ بھیڑ کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا رویہ ملک کی بدنامی کر رہا ہے۔ اس واقعے نے کلکتہ کی کھیلوں کی روایات کو گہرا دھچکہ پہنچایا۔ انڈین سپنر ایراپلی پرسنا نے مقامی ٹیلی گراف اخبار میں لکھا کہ ’انڈیا کو ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرنی چاہیے تھی۔‘ انڈیا کا میدان میں اترنا ایک نفسیاتی فیصلہ تھا جو کسی حکمت عملی کے تحت نہیں لیا گیا۔ کپتان اظہر الدین نے میچ کے بعد کی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سری لنکا رنز کا تعاقب کرے۔ نوجوت سنگھ سدھو انڈین کرکٹ ٹیم میں واحد شخص تھے جو چاہتے تھے کہ انڈیا پہلے بیٹنگ کرے لیکن ان کے خیالات پر کان نہیں دھرے گئے۔ بعد ازاں گراؤنڈز مین نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے انڈین کپتان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پہلے بیٹنگ کریں لیکن انھوں نے ان کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کیا۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد سنجے منجریکر، سچن تندولکر، اجے جدیجا اور دو دیگر کھلاڑی ایک کمرے میں جمع ہوئے۔ سنجے منجریکر لکھتے ہیں کہ ’تبھی ونود کامبلے کمرے میں داخل ہوئے۔ اجے جدیجا نے انھیں ٹیم کی شکست پر کھلے عام رونے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ انھیں کامبلے کا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنا پسند نہیں آیا تھا لیکن شاید کامبلے کو مایوسی ہوئی کہ انھوں نے انڈیا کے لیے میچ بچانے والی اننگز کھیلنے کا موقع گنوا دیا۔ سری لنکا کی جیت کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ چار دن بعد لاہور میں فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر پہلی بار ورلڈ کپ جیتا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg1dqelewzo
ورلڈ کپ 2023: پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا روانگی سے 48 گھنٹے پہلے ویزے مل گئے
پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا روانگی سے صرف 48 گھنٹے پہلے انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے ویزا فراہم کر دیے گئے ہیں۔ پی سی بی کے ترجمان نے پاکستانی ٹیم کو ویزا ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیں بالآخر انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے کال کر کے اس بارے میں تصدیق کی گئی ہے۔ یہ فون کال پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے ایک خط میں کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے جس میں پی سی بی نے پاکستانی سکواڈ کو ورلڈ کپ کے لیے ویزا ملنے میں ’غیرمعمولی تاخیر‘ اور انڈیا کی جانب سے ’امتیازی سلوک‘ روا رکھنے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا تھا۔ آئندہ ماہ ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب انڈین ریاست حیدرآباد کے لیے روانہ ہونا ہے تاہم تاحال انڈیا کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں اور سٹاف کو ویزے جاری نہیں کیے جا رہے تھے۔ ویزا فراہمی کا یہ عمل آئی سی سی کی جانب سے پی سی بی کو ملنے والے ایک دعوتی خط کے بعد اگست میں ہی شروع ہو گیا تھا اور پی سی بی نے ایشیا کپ میں ٹیم کی سفری ضروریات کے باعث بغیر پاسپورٹ کے ویزا دینے کی درخواست کی تھی جسے رد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پی سی بی کی جانب سے 19 ستمبر کو ایشیا کپ سے واپسی پر تمام کھلاڑیوں کے ویزا انڈین ہائی کمیشن کو فراہم کیے گئے تھے تاہم ویزا دینے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں اس تاخیر کی وجہ ممکنہ طور پر انڈین وزارت داخلہ سے ’این او سی‘ نہ دیا جانا بتایا گیا تھا۔ پاکستان نے اپنا پہلا وارم اپ میچ 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ کے خلاف حیدر آباد میں کھیلنا ہے اور پہلے ہی پاکستان کرکٹ ٹیم گذشتہ ہفتے دبئی میں ہونے والی ’ٹیم بلڈنگ ایکسرائز‘ ویزا میں تاخیر کے باعث ملتوی کر چکی ہے۔ اس سے قبل پی سی بی کے ترجمان عمر فاروق کالسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے ہر روز 24 گھنٹے کا وقت دے دیا جاتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اب بات کل پر چلی گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی تمام ٹیموں میں سے صرف پاکستان کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ناقابلِ قبول اور اگر اب کل بھی ویزا نہیں دیا جاتا تو معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہو گا اور پاکستان کی ورلڈ کپ کے لیے تیاری متاثر ہو سکتی۔‘ تاہم اس خبر کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد ہی انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے پاکستان کرکٹ سکواڈ کو ویزا کی فراہمی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اکثر انڈین صحافیوں کی جانب سے پاکستان کو ویزا ملنے میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی جا رہی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاسپورٹ دینے میں تاخیر کی گئی ہے۔ عمر فاروق کالسن کا کہنا تھا کہ ’یہ بات مضحیکہ خیز ہے کہ پاسپورٹ دینے میں تاخیر کی گئی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک بین الاقوامی ایونٹ ہے جس کے لیے سالوں پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے، ایسے نہیں ہو سکتا کہ پاسپورٹ تاخیر کی وجہ بنیں۔‘ پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ اگر اس طرح کی تاخیر پاکستانی ٹیم اور پی سی بی کے اہلکاروں کو دیکھنے کو مل رہی ہے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی مداحوں اور صحافیوں کی ویزا درخواستوں میں کتنی تاخیر ہو گی۔ خط میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان میں بھی اب اس حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر سے مداحوں کے ویزا کے حوالے سے شکایات آ رہی ہیں۔‘ پی سی بی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ میزبان کے طور پر بی سی سی آئی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے ممالک کو ویزا کی وقت پر فراہمی کو یقینی بنائے۔ پی سی بی نے آئی سی سی سے اس ضمن میں چار سوال بھی پوچھے تھے کہ آیا بی سی سی آئی نے بطور میزبان آئی سی سی کو کوئی گارنٹی دی تھی کہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کو ویزا فراہم کیے جائیں گے۔ اگر بی سی سی آئی پاکستان ٹیم کو بروقت ویزے فراہم نہیں کرتا تو کیا یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی؟ اگر ایسا ہے تو بی سی سی آئی کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور انڈین حکومت کی جانب سے ویزا نہ دیے جانے کی صورت میں آئی سی سی کیا کارروائی کرے گا؟ یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی کشیدگی کرکٹ پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے سنہ 2012-13 میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انڈیا گئی تھی جس میں پاکستان نے انڈیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے کے ملک میں جا کر سیریز کھیلنے سے انکار کیا۔ گذشتہ دس برس میں پاکستان نے انڈیا جا کر سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی۔ اس ورلڈ کپ سے پہلے بھی ایشیا کپ میں انڈیا کی پاکستان آنے سے معذرت کے بعد سے دونوں بورڈز کے سربراہان کے درمیان دبئی میں ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے بعد ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل پر کھیلنے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس ورلڈ کپ کے شیڈول اور پاکستان انڈیا میچ کی تاریخ بھی متنازع رہی تھی۔ عام طور پر ورلڈ کپ کا شیڈول کئی ماہ پہلے سامنے آ جاتا ہے تاہم اس مرتبہ شیڈول کا اعلان صرف دو ماہ پہلے کیا گیا۔ اسی طرح ابتدائی طور پر انڈیا اور پاکستان کا میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔ یہی نہیں حیدرآباد کی پولیس کی پولیس کی جانب پاکستان ٹیم کو 29 ستمبر کو کھیلے جانے والے پہلے وارم اپ میچ کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے معذوری ظاہر کی تھی جس کے بعد اب اس میچ میں تماشائیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4j82ky24lo
کراچی کی تلوار باز لڑکیاں: ’کھیل لڑکیوں کو ہمت دیتا ہے‘
کراچی میں لڑکیاں فینسنگ میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ مہوش بارھویں میں پڑھتی ہیں اور اپنے والد کی مدد کرنے کے لیے دوسری لڑکیوں کو فینسنگ سکھا کر پیسے بھی کماتی ہیں۔ ان کی کہانی جانیے نعمان مسرور کی اس ویڈیو میں۔۔۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n4ngzldq5o
انڈین کرکٹ ٹیم نے ون ڈے رینکنگ میں پاکستان کی جگہ لے لی، ورلڈ کپ سے پہلے کیا یہ برا شگون ہے؟
انڈین کرکٹ ٹیم گذشتہ شب موہالی کے میدان میں آسٹریلیا کی ٹیم کو شکست دے کر ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ اس طرح وہ پہلی بار بیک وقت ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی 20 یعنی تینوں فارمیٹ میں پہلے نمبر پر آ گئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد پہلی بار کسی ٹیم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انڈیا میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ سے پہلے اس کامیابی کو کسی نیک شگون کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب انجری کا شکار پاکستان کی ٹیم کا دوسرے نمبر پر چلا جانا اس ٹیم کے لیے حوصلہ شکن ہو سکتا ہے۔ انڈیا اب 116 پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان 115 کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور آسٹریلیا 111 پوائنٹس کے ساتھ اب تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ انڈیا نے گذشتہ رات آسٹریلیا کی ٹیم کو بہ آسانی پانچ وکٹوں سے شکست دے دی۔ ٹاس جیت کر انڈیا نے آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت اور انھیں 50 اوورز میں277 رنز کا ہدف ملا جسے انڈین ٹیم نے چار کھلاڑیوں کی نصف سنچری کے بدولت ایک اوور قبل ہی پانچ وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیا کی جس ٹیم نے آسٹریلیا کو شکست دی ہے وہ ایک طرح سے اس کی بی ٹیم تھی جس میں نہ تو کپتان روہت شرما تھے اور نہ ہی پاکستان کے خلاف ایشیا کپ میں سنچری کرنے والے وراٹ کوہلی تھے۔ ان کے علاوہ نائب کپتان ہاردک پانڈیا، ایشیاکپ میں مین آف دی سیریز رہنے والے سپنر کلدیپ یادو اور فائنل میں بہترین اوپنگ سپیل کرنے والے اور مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کرنے والے محمد سراج بھی نہیں تھے۔ انڈیا نے ورلڈ کپ کے لیے اپنی 15 رکنی ٹیم کا اعلان رواں ماہ کے اوائل میں ہی کر دیا تھا۔ گذشتہ رات ہونے والے میچ سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ انڈیا کو اپنے آخری 11 کھلاڑی کو چننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ گذشتہ رات جہاں محمد شامی نے پانچ وکٹیں لے کر اپنی دعویداری کو مضبوط بنایا ہے وہیں سوریہ کمار یادو نے ایک اچھی نصف سنچری بنا کر اپنی دعویداری بھی پیش کی ہے۔ محمد شامی کے گذشتہ رات پانچ وکٹیں لینے سے قبل بھی انھیں پلیئنگ الیون میں رکھنے کی لوگ وکالت کرتے رہے ہیں۔ صحافی ضیاء السلام نے لکھا: ’اب شامی کو ان کا حق دینے کا وقت آ گيا ہے۔ انھوں نے ون ڈے میں صرف 80 میچز میں ہی 150 وکٹیں حاصل کر لی تھیں۔ یہ ڈیل سٹین، وقار یونس، گلین مک گرا، شعیب اختر اور بریٹ لی جیسے لیجنڈ سے زیادہ تیزی سے کیا جانے والا کارنامہ ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے! لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے ٹیم میں ان سے پہلے شاردل ٹھاکر کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 جبکہ ایک دوسرے صارف ابھیشیک اے بی نے اعدادوشمار سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس میچ میں شامی کھیلتے ہیں ان سے بہتر کسی کا اوسط یا سٹرائیک ریٹ نہیں سوائے محمد سراج کے۔ انھوں باقی انڈین بولرز کا اوسط اور سٹرائک ریٹ بھی شیئر کیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ورلڈ کپ کی یادیں: جب انڈیا نے صرف 183 رنز بنا کر کرکٹ کی تاریخ بدل ڈالی وہ دن جس نے انڈین کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اسی طرح لوگ سوریہ کمار کی ٹی 20 کے بعد ون ڈے میں بھی دعویداری کی بات کر رہے ہیں۔ انڈیا کو ورلڈ کپ سے پہلے اپنی ٹیم کو آزمانے کا دو مواقع اور ہیں اگر ان میں بھی انڈین ٹیم کو کامیابی ملتی ہے تو ان کی ون ڈے کی نمبر ایک پوزیشن مستحکم ہو جائے گی اور اگر انھیں شکست ہاتھ لگتی ہے تو پھر پاکستانی ٹیم واپس نمبر ایک کی پوزیشن پر آ جائے گی۔ بہر حال انڈین ٹیم کو ورلڈ کپ سے قبل دنیا سرکردہ ٹیم آسٹریلیا کے ساتھ میچز کے فوائد ہوں گے جبکہ نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے میچز سے دونوں ٹمیوں کو فائدہ ہوگا۔ ادھر انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ سے قبل آئرلینڈ کے ساتھ دو میچز کھیل رہی ہے اور گذشتہ دنوں بہت فارم میں نظر آئی ہے۔ روہت شرما (کپتان)، ہاردک پانڈیا (نائب کپتان)، شبھمن گل، وراٹ کوہلی، شریاس ایر، کے ایل راہل، رویندر جدیجہ، شاردُل ٹھاکر، جسپریت بمراہ، محمد سراج، کلدیپ یادو، محمد شامی، اکشر پٹیل، ایشان کشن، سوریہ کمار یادو۔ تمام ٹیمیں 27 ستمبر تک اپنی ٹیموں میں تبدیلیاں کر سکتی ہیں لیکن اگر اس کے بعد کوئی تبدیلی کی جاتی ہے تو اس کے لیے آئی سی سی سے رجوع کرنا ہوگا۔ تا دم تحریر سری لنکا اور بنگلہ دیش نے اپنی ٹیموں کا اعلان نہیں کیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp616wlxdl5o
کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے پاکستانی سکواڈ: ’اگر‘ پھر کارکردگی پر بھاری پڑ گیا
پاکستان کرکٹ کی خوبی رہی ہے کہ ہر اہم ترین موڑ پہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچ ہی جاتا ہے۔ سو، یہاں بھی ورلڈ کپ سکواڈ کے اعلان سے ایک شام پہلے کرکٹ کمیٹی، سلیکشن کمیٹی اور چیئرمین کی ملاقات ہوئی جس کے بعد کرکٹ کمیٹی کے رکن محمد حفیظ کا اختلافی استعفیٰ شہ سرخیوں کی زینت بنا۔ تاہم، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے لئے پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر ہی دیا۔ ان کے مطابق یہ 15 کھلاڑی پاکستان کا بہترین انتخاب ہیں اور بظاہر اس کی بنیاد حالیہ کارکردگی کو ہی ٹھہرایا گیا ہے مگر بعض تازہ ترین حقائق اس بیان سے میل نہیں کھاتے۔ اوپننگ کے لیے پاکستان کے تین انتخاب امام الحق، فخر زمان اور عبداللہ شفیق ہیں۔ امام الحق کی حالیہ کارکردگی بجا طور پہ ان کے انتخاب کی ضامن رہی جبکہ عبداللہ شفیق نے بھی اکلوتے ایشیا کپ میچ میں اپنی جرات آزمائی سے جگہ بنائی جبکہ فخر زمان محض اس امید پہ منتخب کیے گئے ہیں کہ 'اگر' وہ فارم میں آ گئے تو تن تنہا ہی میچ کا پانسہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ 'اگر' ہی ہے جو پچھلے کئی میچوں سے فخر کی الیون میں شمولیت کی کلید رہا ہے لیکن ورلڈ کپ کے ہنگام خدانخواستہ یہ 'اگر' کسی مگر میں تبدیل ہو گیا تو پاکستانی مڈل آرڈر کی مشکلات دوچند ہو سکتی ہیں۔ اس سے قبل جو 25 رکنی عبوری سکواڈ طے کیا گیا تھا، اس میں شان مسعود بطور اوپننگ چوائس شامل تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ شان مسعود کی حالیہ فارم انھیں کسی بھی حتمی الیون کا حصہ بنانے کو کافی تھی مگر پاکستانی تھنک ٹینک نے رجعت پسندی کا سہارا لیتے ہوئے فخر کو ان پہ ترجیح دی ہے۔ اب امید رکھنا ہو گی کہ یہ انتخاب کہیں ورلڈ کپ کے بعد کسی ریویو کمیٹی کے لیے حرزِ جاں ثابت نہ ہو۔ نسیم شاہ کی انجری کے سبب جو دقت پاکستان کو نصیب ہوئی، اس کے بعد حسن علی کی واپسی نوشتۂ دیوار ہو چکی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے پیس ذخائر خاصے زرخیز رہے ہیں مگر شومئی قسمت کچھ یوں ہے کہ عین ورلڈ کپ کے ہنگام محمد حسنین اور احسان اللہ بھی انجریز سے دوچار ہیں۔ رہی بات ارشد اقبال کی، تو پاکستان شاید ایکسپریس پیس کے خمار میں انھیں نظر انداز کرنا جائز گردانتا رہا ہے۔ حسن علی کی صورت میں بہرحال پاکستان کو تجربے اور مہارت کا ایک متناسب امتزاج دستیاب ہوا ہے۔ نئی گیند سے وکٹیں لینا پاکستانی اٹیک کے لیے کبھی بھی دشوار نہیں رہا مگر مسئلہ ہوتا ہی بیچ کے اوورز میں ہے جہاں پرانے گیند کے ساتھ پیس اٹیک مزید پھیکا پڑ جاتا ہے، جب سپنرز بھی اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ حسن علی کی خوبی یہ ہے کہ وہ نئی گیند ہی کی طرح پرانی گیند سے بھی وکٹیں لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پرانی گیند کے ساتھ ریورس سوئنگ کی صلاحیت ہی چیمپیئنز ٹرافی 2017 میں بھی ان کی کامیابی کی بنیاد رہی تھی جہاں وہ پلئیر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے تھے۔ اگر یہاں بھی حسن علی اپنی شہرت سے انصاف کر پائے تو بالآخر انہیں زمان خان پہ ترجیح دیے جانے کا فیصلہ احسن ثابت ہو گا کہ بہرحال بڑے ایونٹس میں تجربہ کاری اور پریشر سے نمٹنے کی صلاحیت کار آمد رہتے ہیں۔ مڈل آرڈر بیٹنگ پہ نظر دوڑائی جائے تو محمد رضوان، سلمان آغا، افتخار احمد اور سعود شکیل بلاشبہ موجودہ وسائل میں بہترین انتخاب قرار پاتے ہیں۔ یہ کھلاڑی پیس اور سپن کے خلاف یکساں مہارت رکھتے ہیں اور انھیں ایشین کنڈیشنز میں بیٹنگ کا تجربہ بھی خوب میسر ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا عقدہ سپن بولنگ کے وسائل ہیں جو ماضی قریب میں ہرگز وہ کارکردگی نہیں دکھلا پائے جو ان سے متوقع رہی ہے۔ شاداب خان کی فارم ناگفتہ بہ رہی ہے اور محمد نواز اگرچہ مہنگے ثابت نہیں ہوئے مگر وکٹیں لینے کے معاملے میں بھی اپنی افادیت ظاہر نہیں کر سکے۔ یہاں بھی پاکستان کارکردگی سے زیادہ 'اگر' پہ مصر نظر آتا ہے کہ اگر شاداب فارم میں آ گئے تو سب مشکلیں آسان ہو رہیں گی۔ سپن کے شعبے میں پاکستان کا تیسرا انتخاب اسامہ میر ہیں جو کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں کار آمد رہے تھے مگر یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ جس کیوی الیون کو انہوں نے اپنی ورائٹی سے پریشان کیا تھا، وہ بہرحال وہ کیوی الیون نہیں تھی جو ورلڈ کپ میں اپنے اولین انتخاب کے ہمراہ سامنے ہو گی۔ انڈین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار نہایت اہم ہوا کرتا ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں کسی بھی بولنگ سائیڈ کے لیے مشکل ترین مرحلہ مڈل اوورز ہی ہوا کرتے ہیں جہاں پاکستان کامیابی کے لیے اپنے وسائل سے زیادہ کسی عطائے خداوندی کا منتظر نظر آتا ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران انضمام الحق بار بار یہ حقیقت دہراتے رہے کہ ان کی یہ ٹیم آئی سی سی رینکنگ کی نمبر ون ٹیم ہے جس نے حالیہ دنوں میں فقط دو برے میچز کھیلے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت واقعی اس قدر سادہ ہے؟ پچھلے دو برس میں پاکستان نے بیشتر کرکٹ اپنے ہوم گراؤنڈز پہ کھیلی اور شیڈولنگ کچھ ایسی تھی کہ مختصر فارمیٹ کی کرکٹ میں پاکستان کا کیلنڈر ہر بار آئی پی ایل سے متصادم رہا، جس کے سبب بھلے پاکستان آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ پہ واضح برتری پاتا رہا مگر درحقیقت ان تمام ٹاپ لیول ٹیموں کی جو الیون پاکستان کے مقابلے کو دستیاب تھی، وہ کسی بھی لحاظ سے ان ٹیموں کا اولین انتخاب نہیں تھی بلکہ ان کے بہترین کھلاڑی تب آئی پی ایل میں مصروف ہوا کرتے تھے۔ شاید یہی وہ خلا تھا کہ معیاری اپوزیشن کے خلاف مسابقتی کرکٹ کی کمی ایشیا کپ کے دوران کھل کر آشکار ہوئی اور نمبر ون ٹیم ٹورنامنٹ کے سپر فور مرحلے میں چوتھے نمبر پہ رہ گئی۔ انضمام اب صرف دعا کر سکتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے چار سیمی فائنلسٹس کی دوڑ میں بھی ان کی ٹیم کہیں یوں ہی شکستہ پا نہ رہ جائے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrlr97dd6xo
رکشہ ڈرائیور کی بیٹی جو پاکستان کو تلوار بازی میں گولڈ میڈل دلوانا چاہتی ہیں
’ہمارے گھر میں صرف میرے بابا ہی کام کرتے تھے تو مجھے لگا کہ مجھے بھی اپنے بابا کی مدد کرنی چاہیے۔‘ یہ خیال لیے انٹرمیڈیٹ کی طالبہ 18 سالہ مہوش آفتاب نے تلوار بازی کے کھیل کو اپنا کریئر بنانے کا سوچا جس سے اب ان کی ’اچھی خاصی کمائی‘ بھی ہو جاتی ہے مگر وہ ایک دن پاکستان کو اپنی محنت کے ذریعے اس کھیل میں گولڈ میڈل دلانا چاہتی ہیں۔ مگر یہ کھیل آخر ہے کیا؟ اس کھیل میں تلوار اٹھائے دو کھلاڑی مدمقابل ہوتے ہیں اور مخالف کھلاڑی پر ہر کامیاب وار کے ساتھ سکور حاصل کرتے ہیں۔ اولمپکس میں شامل یہ کھیل پاکستان میں تو اتنا مقبول نہیں اور نہ ہی پاکستانی خواتین عام طور پر اس کا انتخاب کرتی ہیں، تاہم اب صورتحال کچھ بدل رہی ہے اور پاکستانی لڑکیاں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ مہوش کراچی میں بدر الحسن سپورٹس کمپلیکس ناظم آباد میں لڑکیوں کو شمشیر زنی کی ٹریننگ دیتی ہیں اور خود بھی اس کھیل کی مشق کرتی ہیں۔ سندھ فینسنگ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد تقیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کھیل میں اب لڑکیاں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’2015 میں مختلف سکولوں میں اس کھیل سے متعلق تعارفی تقاریب کے لیے جب سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا تو سب سے پہلے مجھے بچیوں ہی نے ویلکم کیا۔‘ ’میں یہ سمجھ رہا تھا کہ لڑکے زیادہ ہوں گے لیکن آپ کو جان کر بڑی حیرت ہو گی کہ جب انھیں سلیکشن کے لیے بلایا گیا تو بچیوں کی تعداد 50 تھی اور لڑکے (صرف) 20 تھے۔‘ مہوش آفتاب کا کہنا تھا کہ جب ان کے سکول میں تلوار بازی کے لیے کیمپ لگا تو انھیں لگا کہ یہ کھیل ان کے لیے ہی بنا ہے۔ ’جب میں نے اس کھیل کے بارے میں پتا کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بہت مہنگا تھا۔‘ مہوش کے والد آٹو رکشہ چلاتے ہیں اور گھر کے واحد کفیل ہیں۔ مگر پھر مہوش کی ملاقات فینسنگ کے ایک کوچ سے ہوئی۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے سر سے گزارش کی کہ مجھے اس کھیل میں آگے جانا ہے۔ پھر میرا ایک ٹرائل ہوا اور اس کے بعد مجھے داخلہ مل گیا۔‘ مگر ان کے لیے شروعات خاصی مشکل رہی اور یہ کھیل اور اس کی تکنیک ان کی سمجھ میں نہیں رہی تھی۔ ’مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ تین سال رات اور دن محنت کی، ٹریننگ کی اور گھر جا کر بھی پریکٹس کرتی رہی۔ پھر میں یوٹیوب پر بھی ویڈیوز دیکھ کر اس کھیل کو سیکھنے کی کوشش کی۔‘ اب مہوش اس کھیل کو اس قدر سمجھ چکی ہیں کہ اب وہ اس کی تربیت مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیتی ہیں۔ یہ کھیل نہ تو آسان ہے اور نہ ہی سستا۔ محمد تقیٰ کی رائے میں اس کھیل کو فروغ دینے میں بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فینسنگ کو سرکاری سطح پر ملنے والی مدد اونٹ کے منھ میں زیرے کے برابر ہے۔ ’حکومتِ پاکستان کی طرف سے مدد بالکل نہیں ہے۔ سندھ حکومت ہمیں گاہے بگاہے بے شک پیسے دے دیتی ہے (مگر) اس سے بس ایک دو ایونٹ ہی منعقد ہو پاتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس کھیل کے لیے درکار حفاظتی سامان بھی پاکستان میں باآسانی دستیاب نہیں۔ مہوش بتاتی ہیں کہ سامان اس قدر کم ہے کہ ’پہلے مجھے آدھی لڑکیوں کو ٹریننگ کروانی پڑتی ہے پھر ڈریس چینج کروا کر دوسری لڑکیوں کو ڈریس اپ کرنا پڑتا ہے۔۔۔ جس سے بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔‘ دن بھر دوسروں کو شمشیر زنی کی تربیت دینے کے بعد مہوش گھر جا کر گھر کے کام کاج میں اپنی امی کی مدد کرتی ہیں۔ ان کے چار بہن بھائی اور ہیں۔ ’میرے بابا رکشہ چلاتے ہیں۔ ٹریننگ کی جگہ میرے گھر سے کافی دور ہے لیکن میرے بابا مجھے صبح چھوڑنے بھی آتے ہیں اور پھر مجھے لینے بھی آتے ہیں۔‘ عروبہ ظفر نے حال ہی میں شمشیر زنی سیکھنا شروع کی ہے اور انھیں اس کھیل میں ایک کشش محسوس ہوئی ہے۔ جبکہ مہوش جیسی خاتون ٹرینر کے ہونے سے ان کے لیے آسانی پیدا ہوئی اور انھیں ہمت بھی ملی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مہوش ہمیں ہاتھ پکڑ کے سکھاتی ہیں۔ اگر کوئی مرد ٹرینر ہوتا تو شاید ہم اتنی آسانی محسوس نہ کرتے۔‘ عروبہ کہتی ہیں کہ ’شروع میں جب میں آئی تو مجھے انھوں نے بولا کہ اپ کو اپنا وزن کم کرنا پڑے گا کیونکہ یہ گیم ایسی ہے، ہم لوگوں کو سٹیپنگ (یعنی قدموں کا استعمال) کرنا پڑتا ہے۔۔۔ وزن زیادہ ہو تو نس چڑھ سکتی ہے، پاؤں میں درد ہو سکتا ہے۔‘ مہوش دیگر لڑکیوں کو بھی یہ مشورہ دینا چاہتی ہیں کہ ’جو گھر میں ہے، وہ گھر سے نکلیں اور کسی کھیل میں حصہ لیں۔ کھیل لڑکیوں کو ہمت دیتا ہے، ہر کسی کا سامنا کرنے کی طاقت دیتا ہے۔‘ محمد تقیٰ نے حکومت سے فینسنگ کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تکنیکی سامان بیرون ملک سے آتا ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت کم سے کم وہ سامان جو پاکستان میں دستیاب نہیں فیڈریشن کو منگوا کر دے۔ جو سپورٹ بورڈ ہیں ان کے پاس بہت بجٹ ہوتا ہے، وہ ہمارے لیے بھی کچھ کر سکتے ہیں۔‘ مہوش نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اور ان کے بابا کا خواب ہے کہ وہ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کے لیے کھیلیں اور گولڈ میڈل حاصل کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے بھی کافی لڑکیاں انٹرنیشنل لیول پر کھیل چکی ہیں لیکن کوئی بھی گولڈ میڈل نہیں لا سکا۔ میں چاہتی ہوں کہ میں انٹرنیشنل لیول پر جاؤں اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کروں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pdyyp59v2o
ورلڈ کپ 2023: پاکستانی سکواڈ کا اعلان، نسیم شاہ زخمی ہونے کی وجہ سے باہر، حسن علی کی واپسی
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ کے لیے بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ تین ریزرو کھلاڑی بھی سکواڈ کے ساتھ جائیں گے۔ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک انڈیا کے مختلف شہروں میں منعقد ہوں گے۔ پاکستانی ٹیم کو ایشیا کپ میں کھلاڑیوں کے زخمی اور آؤٹ آف فارم ہونے کے مسائل درپیش تھے جس کے باعث سکواڈ کے اعلان میں تاخیر کی گئی۔ نسیم شاہ کندھے کی انجری کے باعث ورلڈ کپ سکواڈ میں جگہ نہ بنا سکے مگر حارث رؤف کی صحت یابی اور واپسی نے فاسٹ بولنگ اٹیک میں کچھ حد تک جان ڈالی ہے۔ جبکہ سپنر شاداب خان اور اوپنر فخر زمان کی فارم پر نظرین ورلڈ کپ کے دوران بھی جمی رہیں گی۔ اسی کے ساتھ کچھ ایسے کھلاڑیوں کا سکواڈ میں کوئی ذکر نہیں جن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں، جیسے سابق وکٹ کیپر کپتان سرفراز احمد، سپن آل راؤنڈر عماد وسیم یا فاسٹ بولر محمد عامر۔ جمعہ کے روز چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ایک پریس کانفرنس میں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کے لیے پاکستانی سکواڈ کا اعلان کیا۔ پاکستانی سکواڈ میں 15 ریگولر کھلاڑی اور تین ریزرو کھلاڑی شامل ہیں۔ ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی سکواڈ میں بلے بازی کے شعبے میں بابر اعظم (کپتان)، امام الحق، عبداللہ شفیق، فخر زمان، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، سلمان علی آغا، افتخار احمد اور سعود شکیل کو جگہ ملی ہے۔ بولنگ کی ذمہ داری شاہین آفریدی، شاداب خان (نائب کپتان)، حارث رؤف، حسن علی، محمد نواز، محمد وسیم جونئیر اور اسامہ میر کی ہو گی۔ سکواڈ کے ساتھ جانے والے تین ریزرو کھلاڑیوں میں وکٹ کیپر محمد حارث، سپنر ابرار احمد اور فاسٹ بولر زمان خان شامل ہیں۔ ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ انضمام الحق کا کہنا ہے کہ ’ہمیں صرف ایک تبدیلی پر مجبور ہونا پڑا ہے جس کا تعلق بدقسمتی سے نسیم شاہ کی انجری سے ہے۔ ’ہمیں ایشیا کپ کے دوران بھی کچھ کھلاڑیوں کی انجریز کے معاملات کا سامنا رہا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام کھلاڑی مکمل فٹ ہیں اور ورلڈ کپ جیسے اہم ترین ایونٹ میں بہترین پرفارمنس کے لیے پرعزم ہیں۔‘ انضمام الحق کا کہنا تھا کہ بولر حارث رؤف کی فٹنس کے بارے میں میڈیکل پینل کی طرف سے حوصلہ افزا رپورٹس ملی ہیں جس کے بعد حارث نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بولنگ شروع کردی ہے اور وہ سلیکشن کے لیے دستیاب ہوں گے۔ انضمام الحق نے اس یقین کا اظہار کیا کہ یہ ٹیم ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان لا سکتی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں ایک مرتبہ 1992میں ورلڈ کپ جیتا ہے جبکہ 1999 میں اس نے فائنل کھیلا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان چار مرتبہ 1979، 1983، 1987 اور2011 میں اس ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل بھی کھیل چکا ہے۔ پاکستانی ٹیم 2019 کے عالمی کپ میں کم رن ریٹ کی وجہ سے سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکی تھی۔ پانچ اکتوبر سے شروع ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں سے قبل پاکستانی ٹیم 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ اور تین اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف دو وارم اپ میچ کھیلے گی جبکہ ورلڈ کپ میں پاکستان کا پہلا میچ چھ اکتوبر کو نیدرلینڈز کے خلاف ہو گا۔ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کا آغاز عالمی درجہ بندی میں نمبر ایک ٹیم کی حیثیت سے کرے گی۔ آئیے پاکستانی سکواڈ میں شامل کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ بلے بازوں کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود بابر اعظم پاکستانی ٹیم کی کپتان ہیں۔ وہ ماضی میں ورلڈ کپ مقابلوں کا حصہ رہے ہیں۔ بابر نے اب تک کُل 108 ایک روزہ میچ کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 58.16 کی بیٹنگ اوسط سے 5409 رنز بنائے ہیں، ان میں 28 نصف جبکہ 19 سینچریاں شامل ہیں۔ شاداب خان بولرز کی عالمی درجہ بندی میں 57ویں نمبر پر ہیں جبکہ آل راؤنڈرز کی عالمی فہرست میں ان کا درجہ 13واں ہے۔ شاداب نے 64 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 26.21 کی بیٹنگ ایوریج سے 734 رنز بنائے ہیں جن میں اُن کی 4 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ جبکہ انھوں نے دائیں ہاتھ سے سپن بولنگ کرواتے ہوئے ان 64 میچوں میں 2723 رنز دے کر 83 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ فخر زمان بلے بازوں کی عالمی رینکنگ میں 11ویں نمبر پر ہیں۔ فخر بھی ماضی میں ورلڈ کپ مقابلوں کا حصہ رہے ہیں۔ فخر نے اب تک 78 ایک روزہ میچ کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 45 کی بیٹنگ اوسط سے 3272 رنز بنائے ہیں۔ اس میں اُن کی 15 نصف سنچریاں اور 10 سنچریاں شامل ہیں۔ عبداللہ شفیق کا یہ پہلا ورلڈ کپ ہو گا۔ انھوں نے ابھی تک اپنے کریئر میں صرف چار ایک روزہ میچ ہی کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 20 کی بیٹنگ اوسط سے 80 رن بنائے ہیں۔ اب تک ایک روزہ میچوں میں اُنھوں نے ایک نصف سنچری بنائی ہے۔ امام الحق بلے بازوں کی عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر پرہیں۔ امام نے اب تک 66 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 50.44 کی بیٹنگ ایوریج سے 2976 رنز بنائے ہیں۔ اس میں 19 نصف سنچریاں اور نو سنچریاں شامل ہیں۔ وہ ماضی میں ورلڈ کپ مقابلوں کا حصہ رہے ہیں۔ سلمان علی آغا بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھیں پہلی مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے گا۔ اپنے ایک روزہ میچوں کے انٹرنیشنل کریئر میں سلمان نے 18 میچ کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے قریب 40 کی اوسط سے 436 رنز بنائے ہیں۔ اس مجموعے میں اُن کی 3 نصف سنچریاں بھی شامل ہیں۔ افتخار احمد بلے بازوں کی عالمی رینکنگ میں 98ویں نمبر پر ہیں۔ افتخار نے 19 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 47 کی بیٹنگ ایوریج سے 472 رنز بنائے ہیں جن میں اُن کی ایک نصف اور ایک سنچری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افتخار نے ان 19 میچوں میں 480 رنز دے کر 12 وکٹیں بھی حاصل کی ہیں۔ وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان عالمی رینکنگ میں 47ویں نمبر پرہیں۔ رضوان نے 65 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 36.80 کی بیٹنگ ایوریج سے 1693 رنز بنائے ہیں جن میں 12 نصف اور 2 سنچریاں شامل ہیں۔ محمد نواز بولرز کی عالمی درجہ بندی میں 49ویں نمبر پرہیں۔ نواز نے 32 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 18.05 کی بیٹنگ ایوریج سے 325 رنز بنائے ہیں جن میں اُن کی 1 نصف سینچری شامل ہے۔ نواز نے ان 32 میچوں میں 1284 رنز دے کر 40 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ اسامہ نے 8 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 386 رنز دے کر 11 وکٹیں حاصل کی ہیں جبکہ ان 8 میچز میں انھوں نے 8 کی بیٹنگ ایورج سے 20 رنز بنائے ہیں۔ حارث رؤف بولرز کی عالمی درجہ بندی میں 23ویں نمبر پر ہیں۔ حارث نے اب تک 28 میچز کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 1289 رنز دے کر 53 وکٹیں حاصل کی ہیں، جبکہ ان 28 میچوں میں انھوں نے 18 رنز بھی بنائے ہیں۔ وسیم بولرز کی عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہیں۔ وسیم نے اب تک 16 میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 641 رنز دے کر 24 وکٹیں حاصل کی ہیں، جبکہ ان 16 میچوں میں انھوں نے 57 رنز بھی بنائے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی عالمی درجہ بندی میں 11ویں نمبر پر ہیں۔ یہ گذشتہ ورلڈ کپ میں ٹیم کا حصہ تھے۔ شاہین نے اب تک 44 میچز کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 2009 رنز دے کر 86 وکٹیں حاصل کی ہیں جبکہ ان 44 انگز میں انھوں نے 141 رنز بھی بنائے ہیں۔ حسن نے اب تک 60 میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 2763 رنز دے کر 91 وکٹیں حاصل کی ہیں، جبکہ ان 60 میچوں میں انھوں نے 363 رنز بنائے ہیں۔ خیال رہے کہ سرفراز احمد کی کپتانی میں جب پاکستان نے 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی تو اس وقت اپنی عمدہ کارکردگی کے باعث حسن علی کو ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔ سعود نے اب تک کُل چھ ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جن میں اُنھوں نے 19 کی بیٹنگ ایورج سے 76 رنز بنائے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c25zrlqw40eo
ورلڈ کپ کی یادیں: جب انڈیا نے صرف 183 رنز بنا کر کرکٹ کی تاریخ بدل ڈالی
25 جون 1983 کی صبح جب کپل دیو بیدار ہوئے تو ان کی بیوی رومی ابھی تک سو رہی تھیں۔ انھوں نے ہوٹل کی کھڑکی سے پردے ہٹائے اور یہ دیکھ کر سکون کا سانس لیا کہ باہر سورج چمک رہا ہے۔ انھوں نے اپنی بیوی کو نہیں جگایا، بغیر شور کیے چائے بنائی اور قریب ہی لارڈز گراؤنڈ کا نظارہ کرتے ہوئے کھڑکی کے پاس بیٹھ گئے۔ میچ شروع ہونے سے پہلے کپل نے ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’صرف ایک بات یاد رکھیں، اگلے چھ گھنٹے کے بعد ہماری زندگی مکمل طور پر بدلنے والی ہے۔ کچھ بھی ہو، ہمیں اپنا بہترین دینا ہوگا۔ کرو یا مرو۔ بعد میں کوئی افسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہم یہ یا وہ کر سکتے تھے۔‘ ٹاس کے بعد جب ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیڈ لائیڈ نے انڈین ٹیم کو پہلے بیٹنگ کرنے کو کہا تو کپل نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ انھوں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ اگر وہ ٹاس جیتیں گے تو پہلے بیٹنگ کریں گے کیونکہ وہ ٹاس جیت کر ہی ویسٹ انڈیز کو شکست دینے کی امید کر سکتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز نے انڈیا پر ابتدائی دباؤ ڈالا جب اس نے اس وقت کے دنیا کے بہترین اوپنر سنیل گواسکر کو صرف 2 رنز کے انفرادی سکور پر آؤٹ کر دیا۔ سری کانت اور کسی حد تک موہندر امرناتھ کے علاوہ کوئی بھی انڈین بلے باز اس اننگز میں کارکردگی نہ دکھا سکا۔ دونوں نے دوسری وکٹ کے لیے 57 رنز بنائے اور دونوں 90 رنز کے مجموعی سکور پر آؤٹ ہوئے۔ میچ کا یادگار لمحہ اس وقت آیا جب گھٹنوں کے بل بیٹھے سری کانت اینڈی رابرٹس کی گیند کو باؤنڈری کے پار لے گئے۔ انڈین ٹیم کی آخری جوڑی سید کرمانی اور بلوندر سندھو نے کسی طرح سکور کو 183 تک پہنچا دیا۔ فاسٹ بولر میلکم مارشل اس شراکت داری سے اس قدر ناراض ہوئے کہ انھوں نے 11ویں کھلاڑی سندھو پر ایک باؤنسر پھینکا جو ان کے ہیلمٹ پر لگا۔ سندھو کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ سید کرمانی یاد کرتے ہیں، ’میں پوچھنے کے لیے ان کی طرف دوڑا کہ وہ ٹھیک ہیں؟ میں نے دیکھا کہ بلوندر اپنے ہاتھ سے ہیلمٹ کو رگڑ رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ہیلمٹ کو کیوں رگڑ رہے ہیں، کیا تکلیف ہے؟‘ پھر امپائر ڈکی برڈ نے مارشل کو باؤنسر پھینکنے پر سخت ڈانٹا۔ انھوں نے مارشل کو یہ بھی کہا کہ وہ سندھو سے معافی مانگیں۔ مارشل ان کے پاس آیا اور کہا، ’یار میرا مقصد تمھیں تکلیف دینا نہیں تھا۔ میں معافی چاہتا ہوں۔‘ سندھو نے کہا، ’میلکم کیا آپ کو لگتا ہے، میرا دماغ میرے سر میں ہے؟ نہیں، یہ میرے گھٹنوں میں ہے۔‘ یہ سن کر مارشل ہنسنے لگے اور ماحول ہلکا پھلکا ہو گیا۔ کپل نے ایک بار پھر ڈریسنگ روم میں اپنی ٹیم کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے 183 رنز بنائے ہیں، دوسری ٹیم کو ابھی 183 رنز بنانے ہیں، ہمیں نے انھیں ایک ایک رن کے لیے ترسانا ہے۔ اپنی پوری طاقت سے کھیلیں اور اپنی پوری کوشش کریں‘۔ ’100 فیصد دو۔ جہاں گیند جائے خود کو پھینک دو۔ اگر ہم ہار گئے تو ہم لڑائی ہار جائیں گے۔ آپ کو صرف تین گھنٹے اپنی بہترین کرکٹ کھیلنی ہے۔‘ ویسٹ انڈیز نے ابھی 5 رنز بنائے تھے کہ بلوندر سندھو کی ایک گیند گورڈن گرینیج کا آف سٹمپ لے گئی۔ اسے بال آف دی ٹورنامنٹ کہا گیا۔ ورلڈ کپ فائنل کا اہم موڑ اس وقت آیا جب مدن لال کی گیند پر کپل تقریباً 25 گز دوڑتے ہوئے ڈیپ مڈ وکٹ پر ویوین رچرڈز کا کیچ لے بیٹھے۔ اروپ سائکیا موہندر امرناتھ کی سوانح عمری ’1983 کے جمی دی فینکس‘ میں لکھتے ہیں، ’یہ کیچ تقریباً چھوٹ گیا تھا۔ مدن لال نے اپنی آنکھ کے کونے سے دیکھا کہ یشپال شرما بھی اس کیچ کو پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ انھوں نے چیخ کر انھیں روکنے کی کوشش کی کہ کپل گیند کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن بھیڑ کے شور میں یشپال کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بھی گیند کی طرف بھاگتا رہا، اچھا ہوا کہ وہ اور کپل دیو آپس میں نہیں ٹکرائے۔‘ رچرڈز نے مدن لال کی گیندوں پر تین چوکے لگائے تو کپل نے انھیں آرام دینا چاہا۔ لیکن مدن لال نے اپنے کپتان سے ایک اور اوور دینے کی درخواست کی اور کپل نے ہچکچاتے ہوئے ان کی درخواست مان لی۔ مدن لال نے کپل کو مایوس نہیں کیا۔ مدن لال نے بعد میں کہا ’ہمیں معلوم تھا کہ اگر ویوین رچرڈز مزید 10 اوورز ٹکے رہے تو میچ ہماری پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔ جب کپل رچرڈز کے بلند شاٹ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے تو وہ تین یا چار سیکنڈز میری زندگی کے سب سے طویل تین سیکنڈ تھے، جیسے ہی انھوں نے وہ کیچ لیا، مجھے معلوم تھا کہ آج کچھ خاص ہونے والا ہے۔‘ یہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ ویسٹ انڈیز، جس نے 1 وکٹ پر 50 رنز بنائے تھے، صرف 76 رنز پر 6 وکٹیں گنوا دیں۔ جیف ڈوجو اور میلکم مارشل نے ہوا کا رخ بدلنے کی کوشش کی لیکن امرناتھ نے ان دونوں کو آؤٹ کر دیا۔ جیسے ہی کپل نے اینڈی رابرٹس کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا، سکور 9 وکٹوں پر 126 رنز ہوگیا۔ ہولڈنگ اور گارنر نے آخری وکٹ کے لیے مزید 14 رنز بنائے۔ لیکن جب امرناتھ نے گارنر کو ایل بی ڈبلیو کیا تو ویسٹ انڈیز انڈیا کے اسکور سے 43 رنز پیچھے تھا۔ اگلے دن ٹائمز کی سرخی تھی، ’کپل کی ٹیم نے دنیا پلٹ دی‘ جبکہ ایک برطانوی اخبار کے ایک مضمون کا عنوان تھا، ’شیروں نے اپنے پنجے نکال لیے۔‘ انڈیا کی یہ فتح اس وقت کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تھا۔ اس جیت کے بعد انڈین حامی اس قدر پرجوش ہو گئے کہ انڈین ٹیم کو اپنے ہوٹل پہنچنے میں تین گھنٹے لگ گئے حالانکہ ان کا ہوٹل لارڈز گراؤنڈ کے بالکل قریب تھا۔ ان کے جشن میں دو پاکستانی کھلاڑی سرفراز نواز اور عبدالقادر بھی شامل ہوئے۔ کپل اپنی سوانح عمری ’سٹریٹ فرام دی ہارٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’جیسے ہی ہم ڈریسنگ روم سے باہر آئے، ہمیں ساؤتھ ہال کے پنجابیوں کے ایک گروپ نے گھیر لیا، وہ ڈھول بجاتے آئے تھے، انھوں نے ناچنا شروع کر دیا۔‘ ’ہوٹل پہنچنے کے بعد، ہم بھی صبح تین بجے تک ناچتے رہے۔ پہلے تو انھوں نے شیمپین کی بوتل ختم کی جو امرناتھ کو مین آف دی میچ ہونے پر ملی تھی۔ بعد میں انھوں نے اتنی شراب پی کہ شراب ختم ہو گئی۔‘ کپل نے مزید یاد کرتے ہوئے کہا، ’لوگوں نے مجھے شیمپین پینے پر مجبور کیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میں شراب کم ہی پیتا ہوں۔ لیکن اس بار میں نے ان کی درخواست کو رد نہیں کیا۔ ہم خالی پیٹ سو گئے کیونکہ رات گئے تمام ریستوران بند تھے۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ساؤتھال کے تمام ریستورانوں ان تمام لوگوں کو مفت کھانا اور مٹھائیاں دے رہے ہیں جو ان کے پاس سے گزر رہے تھے۔‘ دوسری جانب انڈیا میں دلی، کلکتہ اور بمبئی کی سڑکوں پر لوگ خوشی سے ناچنے لگے۔ مہر بوس اپنی کتاب ’دی نائن ویوز‘ میں لکھتے ہیں، ’انڈیا میں لاکھوں لوگوں نے اپنے ٹیلی ویژن سیٹس پر یہ منظر دیکھا۔ ان میں سے چار کرکٹ کے دیوانے بچے تھے۔ راہول ڈریوڈ، سچن ٹنڈولکر، سورو گنگولی اور وی وی ایس لکشمن جو بعد میں انڈین کرکٹ ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی بنے۔ ڈریوڈ نے بعد میں مجھے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر 10 سال تھی۔ یہ پہلا میچ تھا جو انھوں نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔‘ اس جیت پر پہلا تبصرہ انگلینڈ کے سابق کپتان ٹونی لوئس کی طرف سے آیا۔ انھوں نے کہا کہ ’لنچ کے وقت جب انڈیا نے 4 وکٹوں پر 100 رنز بنا لیے تھے تو میں نے کہا تھا کہ انڈیا آج جیتے گا۔ دراصل گیند بہت زیادہ سوئنگ ہو رہی تھی، بولر اپنی لائن پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے اور بار بار وائیڈ بولنگ کر رہے تھے۔ پچ کا باؤنس ناہموار تھا، ایک اوور میں 6 فٹ 8 انچ لمبے جوئل گارنر کی ایک گیند گواسکر کی ناک کے قریب جا رہی تھی تو اگلی گیند ان کے گھٹنوں کے نیچے جا رہی تھی۔‘ گنڈپا وشواناتھ نے کہا، ’مدن لال اور راجر بنی دونوں کو ویسٹ انڈیز کے بولرز سے زیادہ تحریک ملی۔ موہندر امرناتھ نے بھی میچ کے آخری مراحل میں اچھی بولنگ کی۔‘ جوئل گارنر نے بعد میں یاد کرتے ہوئے کہا، ’جب ہم انڈین اننگز کے بعد واپس آرہے تھے تو میں نے میلکم مارشل سے پوچھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو آج بیٹنگ کرنی پڑ سکتی ہے؟ میلکم کے جواب نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، اس نے کہا، ’مجھے بھی اور آپ کو بھی۔ مارشل آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے تھے اور میں 10 نمبر پر بیٹنگ کرتا تھا۔‘ سب سے زیادہ سبکی انگریز نقاد ڈیوڈ فریتھ کی ہوئی۔ انھوں نے ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے لکھا تھا کہ انڈین ٹیم اتنی کمزور ہے کہ اسے ٹورنامنٹ سے اپنا نام واپس لے لینا چاہیے۔ ایک ہفتے بعد انڈین ٹیم لندن سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئی تو ایئر انڈیا نے پرواز کے دوران کیک کاٹنے کے انتظامات کیے۔ جب انڈین ٹیم بمبئی کے ہوائی اڈے پر اتری تو وہاں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا۔ وہاں موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اس کے باوجود بھی ٹیم کے استقبال کے لیے تقریباً 30 ہزار لوگ ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔ سابق انڈین کپتان اجیت واڈیکر ٹیم کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ہوائی اڈے سے وانکھیڈے سٹیڈیم تک سڑک کے دونوں طرف ہزاروں لوگ کھڑے تھے۔ ورلڈ کپ کو کھلاڑیوں کے کوچ کے سامنے ایک گاڑی پر رکھا گیا تھا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ اسے خصوصی اجازت سے انڈیا لایا گیا تھا اور چونکہ یہ رننگ ٹرافی تھی اس لیے اسے برطانوی سرزمین سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹیم کو اسے انڈیا لانے کے لیے بانڈ ادا کرنا پڑا۔ انڈین ٹیم جب وانکھیڈے سٹیڈیم پہنچی تو 50 ہزار لوگ استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت انڈین کرکٹ بورڈ کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ ٹیم کو مناسب ایوارڈ دے سکے۔ بعد ازاں بورڈ کے صدر این کے پی سالوے کی مدد سے لتا منگیشکر کا ایک کنسرٹ دہلی کے اندرا گاندھی انڈور سٹیڈیم میں منعقد کیا گیا اور موصول ہونے والی رقم سے ہر کھلاڑی کو ایک لاکھ روپے دیے گئے۔ اس کے بعد پوری ٹیم دہلی پہنچی جہاں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے حیدرآباد ہاؤس میں ان کے لیے استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا۔ انھوں نے ہر کھلاڑی سے مصافحہ کیا۔ پہلے انگریزی اور پھر ہندی میں تقریر کی۔ اس کے بعد صدر گیانی زیل سنگھ نے پوری ٹیم کو چائے کے لیے صدارتی محل بلایا۔ کپل دیو نے ورلڈ کپ ان کے حوالے کیا اور کہا، ’یہ آپ کے لیے ہے۔‘ کپل دیو اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، ’گیانی جی نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، ’اچھا تے ہُن اے ساڈا ہو گیا‘ (اچھا، اب یہ ہمارا ہے)۔ میں نے جواب دیا ’ہم اسے تین سے چھ ماہ تک رکھ سکتے ہیں۔ پھر ہمیں اسے واپس کرنا پڑے گا۔‘ اس پر زیل سنگھ نے کہا، ’اگر تم اسے واپس نہیں کرتے تو کیا جنگ ہو گی؟ میں نے کہا، ’نہیں‘ اور پوری ٹیم ہنسنے لگی۔ ’اندرا گاندھی نے ہماری طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ ہمیں صدر کے سامنے اس طرح نہیں ہنسنا چاہیے۔ لیکن میں اشارہ نہ سمجھا اور ہنستا رہا۔‘ ’ تھوڑی دیر بعد مجھے لگا کہ صدر صاحب کو ہماری جیت پر اتنا فخر ہے کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ یہ کپ کیوں واپس کیا جا رہا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c727p1vq890o
کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کا آفیشل ترانہ: ’میوٹ کر کے سنیں تو بہت مزا آئے گا‘
’ون ڈے چمتکار بھی ہے۔۔۔۔ ون ڈے میں تکرار بھی ہے۔۔۔۔ ہر کسی کی دھڑکنیں بھی ڈولیں۔۔۔ دل جشن جشن بولے۔۔۔ دل جشن جشن بولے۔۔۔‘ یہ بول ہیں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے آفیشل ترانے کے، جس کی ویڈیو کا دورانیہ تین منٹ 22 سیکنڈ ہے۔ آئی سی سی نے کرکٹ کے عالمی کپ 2023 کے آفیشل ترانے کو جیسے ہی ریلیز کیا، شائقین کے پاس ورلڈ کپ پر کھل کے بات کرنے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آ گیا۔ آئی سی سی کے ریلیز کیے گئے اس ترانے کی دلچسپ چیز یہ ہے کہ اس میں فینز اور اینیمیٹڈ کریکٹرز کو ’ون ڈے ایکسپریس‘ (ٹرین) میں دکھایا گیا ہے، جو ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے بے قرار دکھائی دیتے ہیں۔ آئی سی سی کے مطابق اس ترانے کے بول شلوکے لال اور ساویری ورما نے لکھے ہیں اور اس کو پریتم، نکاش عزیز، سری راما چندرا، امیت مشرا، جونیتا گاندھی، آکاسا اور چرن نے گایا۔ اس کی ویڈیو میں مشہور بالی ووڈ اداکار رنویر سنگھ بھی موجود ہیں تاہم اس ترانے کو بہت سے شائقین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کئی صارفین نے آئی سی سی ورلڈ کپ کے ترانے کو کسی بالی ووڈ فلم کے گانے سے تشبیہ دی۔ شاہد عباسی نامی صارف نے لکھا ’آفیشل اینتھم آف آئی سی سی ورلڈ کپ کرکٹ کی جگہ اگر بالی ووڈ مووی سانگ کر دیں تو پھر چلے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 مسکان نامی کرکٹ فین نے اس ترانے کے بول پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ورلڈ کپ کے میزبان ملک نے بہترین ورلڈ کپ گانا بنایا۔ اس کو میوٹ کر کے سنیں تو بہت مزا آئے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 تنقید کرنے والوں میں صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں انڈین کرکٹ فینز بھی شامل ہیں۔ کندولا دنیش نامی صارف نے لکھا کہ ’اوسط سے بھی کم درجے کا ترانہ ہے۔ یہ سب کچھ ایک مصنوعی ریل گاڑی میں فلمایا گیا جس میں اصل کرکٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ بے کار گرافکس، کوئی جوش نہیں، نہ ہی کوئی سابقہ لیجنڈ جیسا کہ 2011، 2015 کے ترانوں میں دکھایا گیا۔‘ ایک اور صارف نے لکھا ’اس میں حقیقت پر مبنی فینز تک نہیں۔ بہت ذیادہ مصنوعی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 اس ترانے میں تمام ٹیموں کے فینز کو ان کے ملک کے پرچم لہراتے بھی دکھایا گیا تاہم سوشل میڈیا پر صارفین نے پاکستانی پرچم کو چھوٹے سائز میں دکھائے جانے پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ فاطمہ نامی کرکٹ فین نے انڈین کرکٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’بی سی سی آئی نے ایک بار پھر گھٹیا سیاست کی۔ انڈیا، انگلینڈ، سری لنکا اور افریقہ کے پرچموں کے مقابلے میں پاکستان کے قومی پرچم کا سائز دیکھیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ہریش جوشی نامی صارف نے اپنے پیغام میں آئی سی سی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ورلڈ کپ ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔‘ ٹونی کورین نامی ایک صارف نے لکھا کہ وہ کرکٹ کے بہت بڑے فین ہیں اور انھیں آئی سی سی ورلڈ کپ کا بے چینی سے انتظار ہے لیکن ’یہ ترانہ ہرگز متاثر کن نہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بالی ووڈ کی کسی بری فلم کا میوزک ہے۔ ‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 کرکٹ ورلڈ کپ کے منتظر فینز کی ترانے پر تنقید کے دوران کئی صارفین ایسے بھی تھے جنھوں نے آج بھی پاکستانی سنگر علی ظفر کے پی ایس ایل کے لیے گائے گئے ترانے ’سیٹی بجے گی‘ کو بے مثال قرار دیا اور اسے شیئر کیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2x4vzrxx48o
خصوصی سِم کارڈ، ریشمی قالین اور پرتپاک استقبال: رونالڈو کی ایران آمد پر جشن بھی، تنازع بھی
سعودی کلب النصر کے پرتگالی سٹار کرسٹیانو رونالڈو ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ ریاض سے بذریعہ پرواز تہران پہنچے تو ایرانی فینز اور حکام نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ 19 ستمبر کو ایشین فٹبال کنفیڈریشن (اے ایف سی) چیمپیئنز لیگ میں النصر کا مقابلہ ایرانی کلب پرسپولیس سے ہونے جا رہا ہے جس کی میزبانی تہران کا آزادی سٹیڈیم کرے گا۔ ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق رونالڈو کے علاوہ ٹیم کے بڑے کھلاڑی بشمول ساڈیو مین تہران پہنچنے والے سکواڈ میں شامل ہیں۔ ٹیم کی آمد پر کرسٹیانو رونالڈو کے متعدد ایرانی فینز ان سے ملنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ جبکہ النصر کے استقبال کے لیے پرسپولیس کلب کے عہدیدار اور ایران میں سعودی عرب کے کچھ سفارت کار بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ اخبار خبر ورزشی کے مطابق رونالڈو اور دیگر کھلاڑیوں کو بذریعہ بس ایئرپورٹ سے ہوٹل لے جایا گیا۔ بیچ میں وہ کہیں نہ رُکے اور ان کے ساتھ پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کا قافلہ تھا۔ سڑکوں پر روڈ بلاک بھی لگائے گئے تھے۔ ایرانی حکام نے ایئرپورٹ کے راستے کی تزئین و آرائش بھی کی۔ پیر کو آزادی سٹیڈیم کی تزئین و آرائش جاری رہی۔ جبکہ کھلاڑی تہران کی لگژری رہائش گاہوں میں سے ایک اسپیناس ہوٹل میں قیام کر رہے ہیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق النصر کے کھلاڑی آج شام آزادی سٹیڈیم میں سکیورٹی خدشات کے باعث پریکٹس نہیں کر سکے کیونکہ وہ ہوٹل سے نکلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ پرسپولیس کلب کے سربراہ رضا درویش نے کہا ہے کہ رونالڈو اور ساڈیو مانے کو تحفوں میں دو ریشمی قالین دیے گئے ہیں۔ رونالڈو کو دیے گئے کارپیٹ پر ان کا نام ’سی آر سیون‘ بھی لکھا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایرانی میڈیا کے مطابق النصر کے کھلاڑی آج شام آزادی سٹیڈیم میں سکیورٹی خدشات کے باعث پریکٹس نہیں کر سکے کیونکہ وہ ہوٹل سے نکلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ پرسپولیس کلب کے سربراہ رضا درویش نے کہا ہے کہ رونالڈو اور ساڈیو مانے کو تحفوں میں دو ریشمی قالین دیے گئے ہیں۔ رونالڈو کو دیے گئے کارپیٹ پر ان کا نام ’سی آر سیون‘ بھی لکھا ہے۔ مگر تہران میں دنیا کے سب سے بڑے فٹبال سٹار کی موجودگی کے علاوہ ایرانی حکام کی جانب سے کیے گئے خصوصی اقدامات بھی زیر بحث ہیں۔ فٹبال فیڈریشن کے سربراہ مہدی تاج نے ایران میں سعودی کلبوں کی موجودگی کو اپنی ’انتظامیہ کی کامیابی‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے 13 ستمبر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’یقینی طور پر اگر میری کوششیں اور مشاورت نہ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ ورنہ ہم ایران میں رونالڈو جیسے ستاروں کو نہ دیکھ پاتے۔‘ تہران کے اخبار ہمشہری نے آج لکھا کہ ’تہران میونسپلٹی نے ہوائی اڈے سے ہوٹل تک کے راستے میں بینرز لگائے ہیں۔ انھوں نے پرتپاک انداز میں رونالڈو اور النصر ٹیم کا استقبال کیا ہے۔‘ ایران سیل کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ النصر ٹیم کے کھلاڑیوں کو ایران میں پُرسکون رہائش کے لیے بغیر پابندیوں والے سِم کارڈ دیے گئے ہیں اور اس معاملے نے ایک تنازع کو جنم دیا ہے۔ ان خصوصی سِم کارڈز کے ذریعے غیر ملکی کھلاڑی بلا رکاوٹ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وہ سہولت ہے جو ایرانی شہریوں کو میسر نہیں۔ ایران میں انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندیاں موجود ہے جس میں ہزاروں ویب سائٹس، میسجنگ ایپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی معطل ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ان پابندیوں میں اضافہ کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایرانی حکام فٹبال سٹار کی آمد کے ذریعے ملک کی صورتحال کو مثبت انداز میں دکھانا اور ’وائٹ واش‘ کرنا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر متعدد معروف ایرانی شخصیات نے رونالڈو کے ساتھ حکومتی اہلکاروں کے امتیازی رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ہی سلوک ایرانی قوم کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ رواں ماہ پرسپولیس کلب کے صدر رضا درویش نے مقامی ٹی وی کو بتایا تھا کہ النصر کے کھلاڑیوں کو انٹرنیٹ تک مکمل رسائی دی جائے گی۔ ’میں نے ایران سیل کے سی ای او سے بات کی ہے اور انھیں کہا ہے کہ ہم کھلاڑیوں اور حکام کو ایران سیل کو ایسے سم کارڈز دینا چاہتے ہیں جن میں بغیر پابندیوں کے انٹرنیٹ تک رسائی ہو، تاکہ وہ ایران پہنچنے سے لے کر روانگی تک یہ سہولت استعمال کر سکیں۔‘ سینماٹوگرافر پرویز پرستووی نے ایک تنقیدی پوسٹ میں کہا کہ: ’رونالڈو اور النصر کے قافلے کی تہران میں موجودگی 48 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوگی۔۔۔ باقی ملک کو بھی اپنی ساکھ بچانے کا حق ہے۔‘ انھوں نے اس کا موازنہ ڈاکٹر مہر جوئی کی فلم ’مومز گیسٹ‘ سے کیا اور ایرانی حکام سے پوچھا کہ ’ایک مشہور مہمان کے عارضی قیام نے آپ کو اتنا پریشان کیوں کر دیا؟‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایران کے وزیر سیاحت و ثقافتی ورثہ عزت‌ الله ضرغامی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’رونالڈو یہاں ہیں۔ اگر وہ اپنی بیوی سے کال پر بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایپس انسٹال کر کے ان سے باآسانی بات کر سکیں گے۔‘ بعض مبصرین کے مطابق یہ ایران کی صورتحال کو مثبت انداز میں دکھانے کی کوشش ہے۔ جیسے نازنین نور تبصرہ کرتی ہیں کہ ’ایرانی خواتین کے لیے مردوں کے کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کرنا اب بھی غیر قانونی ہے۔ رونالڈو کو بلا روک ٹوک انٹرنیٹ تک رسائی دی جائے گی جبکہ ایرانیوں کو حکومت کی مسلسل محدود رسائی اور جبر کا سامنا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 آریا نامی صارف نے کہا کہ ’مجھے افسوس ہے کہ رونالڈو کو (قالین کا) اتنا مہنگا تحفہ کیوں مل رہا ہے؟ اس کے بجائے پرسپولیس اپنے قرضوں کی ادائیگی کیوں نہیں کرتا؟ رونالڈو نے ایران یا ایرانیوں کے لیے کیا کیا ہے؟‘ تاہم بہت سے لوگوں نے فٹبال سٹار کے لیے تحفوں پر خوشی بھی ظاہر کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ رونالڈو کے لیے ہینڈ میڈ ایرانی قالین، ایران کو معلوم ہے کہ بہترین کھلاڑی کا استقبال کیسے کیا جانا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp98wvnwrwwo
آٹو رکشہ ڈرائیور کے بیٹے محمد سراج کی عام سے خاص بننے کی کہانی: ’میاں آج کون سی بریانی کھائی تھی‘
اتوار کو کولمبو میں ہونے والے ایشیا کپ کے فائنل میں سری لنکا کو شکست دے کر انڈیا آٹھویں بار چیمپیئن بنا ہے جس میں انڈین بولر محمد سراج کی ایسی نمایاں کارکردگی رہی کہ لوگ اس میچ کو سری لنکا بمقابلہ انڈیا کے بجائے ’سری لنکا بمقابلہ محمد سراج‘ کہہ رہے ہیں۔ محمد سراج نے ایک ہی اوور میں چار وکٹیں لے کر انڈیا کی جانب سے ایک ریکارڈ قائم کیا اور وہ ون ڈے انٹرنیشنل میں ایک ہی اوور میں چار وکٹیں لینے والے پہلے بولر بھی بن گئے۔ ان کے سپیل کی تعریف پاکستان کے کرکٹرز بھی کر رہے ہیں۔ جہاں پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے اسے ’ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ کا نئی گیند سے بہترین سپیل‘ قرار دیا ہے تو وہیں کرکٹر ثنا میر نے لکھا ہے کہ ’2.4 اوورز میں پانچ وکٹیں۔ محمد سراج کا یہ کیا سپیل تھا!‘ سری لنکا کے ہاتھوں سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کی شکست کے بعد پاکستانی شائقین کی ایشیا کپ میں دلچسپی تقریبا معدوم ہو چکی تھی لیکن سراج کی بولنگ نے ان کے لیے ایک مرتبہ پھر ایشیا کپ میں دلچسپی کا سامان پیدا کر دیا۔ بہرحال پاکستان کی پے در پے انڈیا اور سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے باوجود وہ اب بھی ون ڈے انٹرنیشنل میں پہلے نمبر پر جبکہ ایشیا کپ جیت کر انڈیا دوسرے نمبر پر آ گئی ہے۔ ابھی ایک ہفتے قبل پاکستان 118 پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست تھا جبکہ دوسرے نمبر پر آسٹریلیا کی ٹیم تھی۔ اب پاکستان کے 115 پوائنٹس ہیں جبکہ انڈیا کے بھی 115 پوائنٹس ہو گئے ہیں اور آسٹریلیا 113 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اگرچہ ایشیا کپ کا فائنل مقابلہ یکطرفہ رہا اور کرکٹ شائقین میں سری لنکا کی کارکردگی پر مایوسی نظر آئی کیونکہ ایشیا کپ کی تاریخ میں سب سے کم سکور بنانے کا اس نے نیا ریکارڈ قائم کیا اور پوری ٹیم 50 رنز پر سمٹ گئی جس میں محمد سراج نے 16 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ بنگلہ دیش کی ٹیم کے نام تھا جو سنہ 2000 کے ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف 87 رنز پر آؤٹ ہو گئی تھی۔ فائنل میں ٹاس جیت کر سری لنکا نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل اس نے انڈیا کے خلاف بہت ہی سخت مقابلہ کیا تھا لیکن وہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس میچ کے مرد میداں 20 سالہ نوجوان ویلالاگے تھے جنھوں نے پانچ وکٹیں لیں اور ناقابل شکست 42 رنز بنائے۔ فائنل میں پہلے ہی اوور میں سری لنکا کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا جب بمراہ نے اوپنر کو پویلین کی راہ دکھائی۔ سراج دوسرا اوور لے کر آئے جو میڈن رہا۔ اس کے بعد سراج اپنا دوسرا اور میچ کا چوتھا اوور لے کر کیا آئے گویا دامن میں طوفان سمیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے اوور کی پہلی گیند پر پتھون نسانکا کو جڈیجہ کے ہاتھوں کیچ کروایا۔ تیسری گیند پر سدیرا سمارا وکرما کو ایل بی ڈبلیو کیا جبکہ چوتھی گیند پر چرتھ اسالنکا کو ایشان کشن کے ہاتھوں پوائنٹ پر کیچ کروا دیا جس کے بعد وہ ہیٹرک پر تھے۔ پانچویں بال پر دھنجے ڈی سلوا نے نہ صرف ہیٹرک بچائی بلکہ چوکا لگا دیا۔ لیکن پھر سراج کی اس اوور کی آخری گیند ان کے لیے ایسی مہلک ثابت ہوئی کہ آف سٹمپ اڑ گئی۔ اور یوں سری لنکا 12 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا چکا تھا۔ پھر اگلے اوور کی چوتھی گیند پر سراج نے کپتان شناکا کو صفر پر چلتا کیا اور اس طرح اپنی پانچواں وکٹ حاصل کیا۔ اور میچ کا سکور اس وقت بھی 12 رنز ہی تھی اور سری لنکا کی چھ وکٹیں گر چکی تھیں۔ سری لنکا نے 51 رنز کا ہدف دیا جسے انڈیا نے بغیر کسی نقصان کے ساتویں اور میں حاصل کر لیا اور یوں اس نے سب سے زیادہ گیند رہتے ہوئے میچ جیتنے کا نیا ریکارڈ بھی بنایا۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا: مسلمان کرکٹر کے آنسو پر قوم پرستی کی بحث ’پاکستان کو اس بچے سے بچ کر رہنا ہو گا‘: انڈیا کے ٹاپ آرڈر کو بے بس کرنے والے ویلالاگے کون ہیں؟ سنہ 1994 میں انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والے محمد سراج کو سنہ 2017 میں آئی پی ایل کی نیلامی سے قبل بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن حیدرآباد کی ٹیم ’سن رائزرز‘ نے ان کے لیے ڈھائی کروڑ کی بولی لگا کر انھیں راتوں رات کرکٹ کی دنیا میں متعارف کروا دیا۔ اس سے قبل سنہ 2015 میں وہ حیدرآباد کی رانجی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ پہلے ہی سیزن میں انھوں نے اپنی عمدہ باؤلنگ سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی۔ ان کا بیس پرائس 20 لاکھ ہی تھا لیکن انھیں لینے کے لیے دو ٹیموں حیدرآباد اور بنگلور میں اس قدر مقابلہ رہا کہ انھیں اپنی قیمت سے 13 گنا زیادہ قیمت ملی۔ اس وقت جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے محمد سراج کے والد حیدرآباد میں آٹو ركشا چلاتے تھے اور ان کی والدہ اس سے سال بھر پہلے تک دوسرے گھروں میں کام کیا کرتی تھیں۔ سراج سنہ 2014 سے پہلے تک صرف ٹینس گیند سے کرکٹ کھیلتے رہے تھے اور باضابطہ کرکٹ گيند سے کھیلنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ ان کی اچھی کارکردی کے باعث جب انڈیا کے شہر راجکوٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں انھیں ٹیم انڈیا کی کیپ دی گئی اور جب سارے کھلاڑی قطار میں کھڑے ہوئے اور قومی نغمہ بجایا جانے لگا تو فرط جذبات سے ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ اور اس وقت سوشل میڈیا پر سراج کے حوالے سے وطن پرستی اور قوم پرستی کی بحث چل پڑی جو گذشتہ رات بھی کئی ٹوئٹر ہینڈلز پر نظر آئی جس میں یہ کہا گيا کہ ’انڈیا سراج جیسا مسلمان چاہتا ہے۔‘ بہرحال راجکوٹ میں ان کا پہلا میچ ان کی کارکردگی کی وجہ سے زیادہ یادگار نہیں کہا جائے گا کیونکہ انھیں نیوزی لینڈ کے کپتان کی وکٹ تو ملی لیکن چار اوورز میں انھوں نے 50 سے زیادہ رنز دے دیے اور نیوزی لینڈ یہ مقابلہ باآسانی 40 رنز سے جیت گیا۔ پھر 2019 میں انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف اپنا ون ڈے ڈیبیو کیا اور اگلے سال 2020 میں انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا۔ سوشل میڈیا پر محمد سراج کی تعریف صرف ان کی یادگار بولنگ کے لیے نہیں ہو رہی ہے بلکہ انھوں نے جب اپنی مین آف دی میچ کی انعامی رقم وہاں کے گراؤنڈز مین کو دینے کا اعلان کیا تو ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے بھی تالیاں بجا کر ان کی تعریف کی۔ اپنے زمانے کے فاسٹ بولر شعیب اختر نے ٹوئٹر پر ان کی بولنگ کو ’تباہی‘ اور ’فنا‘ سے تعبیر کیا۔ مین آف دی میچ قرار دیے جانے کے بعد پریزینٹیشن کے دوران جب روی شاستری نے ان سے پوچھا کہ ’میاں آج کون سی بریانی کھائی تھی‘ تو سراج نے جواب دیا کہ کوئی بریانی نہیں۔ یاد رہے کہ سراج چونکہ حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں کی بریانی خاصی مشہور ہے اس نسبت سے ان سے یہ سوال کیا گیا تھا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ وہ مسلسل اچھی بولنگ کر رہے تھے اور بیٹسمین کو بیٹ کر رہے تھے لیکن آج اس کا نتیجہ آیا ہے۔ کولمبو میں بی بی سی کے نمائندے نتن سریواستو سے بات کرتے ہوئے فینز نے جہاں سخت مقابلے سے محرومی کا گلہ کیا وہیں بولروں کی کارکردگی سے بہت خوش نظر آئے۔ ایک شخص نے کہا کہ ’ہم نے ایک پرستار کے طور پر انڈین بولروں کی ایسی کارکردگی کی توقع نہیں کی تھی۔‘ جبکہ بہت سے شائقین کا کہنا تھا کہ آج کا میچ انڈیا بمقابلہ سری لنکا نہیں بلکہ سری لنکا بمقابلہ سراج تھا۔ کولمبو میں میچ دیکھنے پہنچے ایک ناظر نے کہا کہ یوں تو کانٹے کا مقابلہ نہیں ہوا لیکن بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے بعد انڈیا کے لیے یہ جیت ورلڈ کپ سے قبل ان کے حوصلے کو کافی بلند کر دے گی۔ اشونی سونی نامی ایک صارف نے ٹویٹ کیا: ’محمد سراج نے سری لنکا کے گراؤنڈ اسٹاف کو 4154517 روپے کی مین آف دی میچ انعامی رقم دی۔ ’سراج نے آج ملک کی شان میں اضافہ کیا۔ اسے کہا جاتا ہے بہترین پرورش اور ہندوستان کو بیرون ملک مشہور کرنا۔ پھر بھی کچھ رہنما اور میڈیا دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیںے۔ آپ بھی کہیں شکریہ سراج۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpdmem41791o
گو کہنے کو یہ ایک روزہ میچ تھا: سمیع چوہدری کا کالم
اگرچہ جنگ اور جارحیت کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا مگر جب تک پاسبانی کو کچھ عقل میسر نہ ہو، ہر دلیری کا بے سود رہنا مقدر بن جاتا ہے۔ سری لنکن جارحیت کو بھی یہاں عقل سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ٹاس کے لمحے بھلے روہت شرما قدرے ملول رہے ہوں کہ بارش کے خدشات میں گِھرے اس قدر اہم میچ میں پہلے بیٹنگ اور سکور کارڈ پہ ایک خاطر خواہ مجموعہ ہی ہمیشہ محفوظ انتخاب ہوا کرتا ہے مگر انڈین پیس اٹیک نے پہلے ہی اوور سے کھیل کی جو سمت طے کی، وہ شرما کے لئے بھی خوش نصیبی سے بڑھ کر تھا۔ ماضی قریب میں سری لنکن بیٹنگ اپنی کم مائیگی کو جارحیت کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتی آئی ہے اور کئی ایک بار یہ حکمت عملی نفع بخش بھی ثابت ہوئی کہ حریف پیسرز دباؤ کا شکار ہو کر اپنی مبادیات ہی بھول بیٹھے اور بازی سر کر لی گئی۔ پاکستان کے خلاف بھی سری لنکن ٹاپ آرڈر یہی سٹریٹیجی لے کر چلا تھا اور شاہین آفریدی اپنے پہلے سپیل میں بھٹکتے پائے گئے۔ یہاں انڈیا کے خلاف بھی یہی محفوظ سبیل تصور کی گئی کہ انڈین بولنگ بھی دباؤ میں آ جائے گی اور منزل سہل ہو پائے گی۔ مگر بمرا اپنی لینتھ میں اس قدر سائنسی درستی دکھاتے ہیں کہ شاذ ہی کسی اوپنر کو ہاتھ کھولنے کا موقع ملتا ہے۔ بظاہر بمرا کی لینتھ ہمیشہ بلے باز کو ڈرائیو پہ مدعو کرتی ہے مگر تیر کمان سے نکلنے کے بعد ہی اپنی کم مائیگی بلے باز پہ آشکار ہو پاتی ہے، جب گیند اڑ کر کورز میں جانے کی بجائے وکٹوں کے پیچھے کسی ہاتھ میں محفوظ ہو چکی ہوتی ہے۔ محمد سراج مگر وہ چکا چوند نہیں دیکھ پاتے جو بمرا کو نصیب ہوتی ہے۔ بطور میڈیم پیس سیمر، ان کا کردار عموماً اپنی نپی تلی لینتھ سے، دوسرے کنارے سے حملہ آور بمرا کی تائید کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں سراج نے بمرا پر سبقت حاصل کی اور سری لنکن بلے باز سر پیٹتے رہ گئے۔ مطلع ابر آلود ہو تو حالات ہمیشہ ہی سیم بولنگ کے لیے سازگار رہا کرتے ہیں۔ یہاں کھیل کے آغاز سے چند لمحے پہلے سری لنکن مون سون نے ایشیا کپ کو جو حتمی جھلک دکھلائی، اس کے بعد سیمرز کی موافقت مزید بڑھ چکی تھی۔ سری لنکن بلے بازوں کے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا۔ نہ ہی کہیں انہیں یہ متوقع تھا کہ سراج کی میڈیم پیس سیم بھی اس قدر مہلک گزرے گی کہ پانی کے وقفے سے پہلے ہی ساری بساط سمٹ جائے گی۔ جو لینتھ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بولرز کے لئے موت کا ساماں تصور کی جاتی ہے، اسی لینتھ نے سری لنکن بلے بازوں کے لئے وہ دامِ تزویر بچھایا کہ صورتحال سے ہم آہنگ ہونے کی مہلت ہی میسر نہ ہو پائی۔ قدم کریز میں منجمد رہ گئے، جسم حرکت سے معذور ٹھہرے اور انہیں یہ سمجھنا بھی دشوار ہو رہا کہ سوئنگ اور سیم کے اس تال میل میں بلے کا اندرونی کنارہ کہاں کو جا رہا ہے اور باہری کنارہ کدھر کو؟ یہ ناممکن نہیں تھا کہ جب پچ میں اس قدر وافر حرکت موجود تھی اور بادل بھی اپنا کردار نبھا رہے تھے تو سری لنکن بلے باز ابتدائی نقصان سے سمجھوتہ کر کے خود کے لئے کوئی نیا کردار وضع کرتے اور دھیرے دھیرے اننگز بُننے کی کوشش کرتے۔ بھلے اپنی چال میں یہ اننگز ازمنۂ قدیم کی یادگار ہوتی مگر بہرطور پچاس اوورز کے اختتام تک سری لنکن بولنگ کو کوئی ایسا مجموعہ تو فراہم کر جاتی جہاں لڑائی لڑنے کو بھی کوئی وجہ مل پاتی مگر یہ ہدف تو چار اوورز کی ہی مار تھا۔ اپنے بہاؤ میں یہ ایشیا کپ جس قدر ڈانواں ڈول رہا ہے، فائنل اس ڈگمگاہٹ کا نقطۂ تکمیل ثابت ہوا جہاں موسم تو اگرچہ یوں نہ ڈگمگایا مگر سبھی توقعات کو شکست دے کر فائنل تک رسائی پانے والے سری لنکن قدم یوں ڈگمگائے کہ براڈکاسٹرز کی توقعات بھی منہ کے بل گر پڑیں۔ کہنے کو یہ ایک روزہ میچ تھا مگر اپنی تفصیل میں یہ سری لنکن ِکٹ پہ دمکتے سپانسر 'ٹی ٹین گلوبل' کا اشتہار ہی ثابت ہوا جہاں ایشیا کے آئندہ چیمپئین کا فیصلہ کرنے کو پورا دن نہیں، فقط دو ہی گھنٹے بہت ٹھہرے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrlwy7116wo
سمیع چوہدری کا کالم: ’یہ بِیچ سفر کم ہمتی کی قیمت تھی‘
کچھ راتوں کی سحر ہو کے نہیں ہوتی۔ تیرگی مٹنے کا نام نہیں لیتی اور خواہشیں ناتمام ہو کر، حسرتوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی کولمبو کی یہ رات کچھ ایسی ہی تھی۔ جس شام کا آغاز خوف اور احتیاط کے تال میل سے ہوا، وہ پہلے عبداللہ شفیق کے تحمل میں بدلی اور پھر رضوان کی استقامت سے افتخار کی جارحیت تک بہت کچھ ایسا ہوا کہ گماں کا ممکن بعید از قیاس نہ رہا مگر بابر اعظم یہاں خود اپنی ہی مدد نہ کر پائے۔ یہ پچ وہ تھی کہ ابتداً یہاں قدم جمانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ عبداللہ شفیق نے احتیاط کا انتخاب کیا اور یہ انتخاب بالکل بجا تھا کہ سری لنکن بولنگ کوئی تر نوالہ نہیں تھی۔ عبداللہ کا صبر بار آور رہا۔ رضوان آئے تو احوال پر گرفت نہیں پا رہے تھے مگر وہ جمے رہے۔ جوں جوں گیند کی کاٹ ماند پڑی، وہ اپنے اصل پر پلٹنے لگے اور پھر بارش کے بعد جب کنڈیشنز بلے بازی کو سازگار ہوئیں تو وہ افتخار کے ہمراہ اپنی ٹیم کو وہاں تک لے گئے جہاں سے شکست کے لیے پاکستان کو ایک بدترین بولنگ پرفارمنس اور اوسط کپتانی درکار تھی۔ اگرچہ بادئ النظر میں یہ پیس اٹیک اس کی جھلک نہیں تھا جو پاکستان کی شہرت ہو چکا ہے مگر اس میں ایسی کم مائیگی بھی نہ تھی کہ سری لنکن بیٹنگ کی مشکلیں آسان پڑ جاتیں۔ اس پچ کے مزاج سے یہاں پیسرز کا مہنگا ہونا طے ہی تھا۔ بات اٹکی تھی تو فقط سپنرز کے کردار پر، کہ وہی اس میچ کی سمت متعین کرنے کے حقدار تھے اور یہاں سب سے بڑا بار شاداب خان پر تھا اور ان سے بھی بڑا بوجھ بابر اعظم پر تھا کہ وہ اپنے بولرز کو کیسے صرف کریں گے۔ وہ شاداب خان جو کبھی اپنی گگلیوں سے بلے بازوں کو نچا دیا کرتے تھے، اب شاید خود بھی اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے۔ نہ ہی ان کی انگلیوں میں وہ جادو نظر آتا ہے کہ جسے پڑھنے کو کئی سبق یاد کرنا پڑ جائیں۔ وہ ساری شہرت اب گئے دنوں کی یاد سی بنتی جا رہی ہے۔ اور شاہین آفریدی جو کہ اس نوآموز پیس اٹیک کے سرکردہ تھے، وہ شروع میں ہی سری لنکن ٹاپ آرڈر کے بھاؤ میں آ بیٹھے۔ نئے گیند سے وکٹیں بٹورنا ان کی فطرت رہا ہے مگر یہاں جب وہ ہی درست لینتھ کھوجنے میں پھیکے پڑ گئے تو محمد وسیم کو دوش کیونکر دیا جائے۔ مگر افتخار احمد نے سپن ڈیپارٹمنٹ کی بھرپور لاج رکھی۔ شاداب کے برعکس وہ گیند کی رفتار گھٹاتے چلے گئے اور سری لنکن بیٹنگ الجھتی چلی گئی اور پھر یہ ہوا کہ دو تہائی اننگز تک سبقت رکھنے والی سری لنکن اننگز یکایک کسی بوجھ تلے دبنے لگی۔ اور جب سری لنکن کپتان دسون شانکا پویلین کو لوٹ رہے تھے تو آر پریماداسا سٹیڈیم کے ڈی جے نے استاد نصرت فتح علی خاں کی قوالی ’دم مست قلندر‘ چلائی۔ یہ آواز کانوں میں پڑتے ہی باؤنڈری پر کھڑے شاہین آفریدی سمیت پوری ٹیم میں گویا نئی روح عود کر آئی۔ چند ہی لمحوں بعد شاہین سری لنکن بیٹنگ کو تگنی کا ناچ نچائے کھڑے تھے۔ سری لنکن نگاہوں کے عین سامنے نظر آتی جیت اب شکوک و شبہات کی اوٹ کے پرے سے آنکھ مچولی کرنے لگی اور پاکستان یکبارگی کہانی میں پلٹ آیا۔ زمان خان کے لیے یہ کوئی نیا امتحاں نہیں تھا۔ پی ایس ایل میں وہ بارہا ایسے ہی تُند مراحل سے گزر چکے ہیں اور لگ بھگ ہر بار سرخرو بھی رہے ہیں مگر یہاں قسمت کا الٹ پھیر کچھ ایسا ہوا کہ عین آخری گیند سے پہلے، فائن لیگ کو باؤنڈری سے بلا کر دائرے میں لے آیا گیا۔ اور پھر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ وننگ سٹروک بھی میدان کے عین اسی حصے کو گیا جہاں دور تلک کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔ میچ میں پاکستان کا آغاز بھی برا نہ تھا اور انجام بھی کسی یادگار خوبی سے بعید نہ تھا مگر بِیچ سفر بابر اعظم نے جو کوتاہ بینی دکھائی، اس کی قیمت چکانا بھی شاید ناگزیر تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72j9v2dg7no
ناقص فیلڈنگ، مڈل اوورز میں وکٹیں حاصل کرنے میں ناکامی: سری لنکا نے ’ورلڈ نمبر ون‘ پاکستان کو ایشیا کپ سے آؤٹ کر دیا
لاہور قلندرز کو کئی مرتبہ آخری اوور میں ہاری ہوئی بازی جتانے والے زمان خان ایشیا کپ کے سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کے لیے ویسے ہی نتائج حاصل نہ کر سکے اور سری لنکا نے دو وکٹوں سے پاکستان کو شکست دے کر ایشیا کپ سے آؤٹ کر دیا۔ پاکستان کی جانب سے انتہائی ناقص فیلڈنگ اور ابتدائی اور مڈل اوور میں وکٹیں حاصل کرنے میں ناکامی کے باوجود یہ ایک ایسا میچ تھا جس کا فیصلہ آخری اوور کی آخری گیند پر ہوا۔ کوشال مینڈس اور اسالنکا کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت گیم میں سری لنکا کا پلڑا بھاری نظر آیا مگر کھیل کے آخری اوورز میں افتخار احمد کی محنت اور پھر سیکنڈ لاسٹ اوور میں شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے پے در پے دو وکٹیں حاصل کرنے نے میچ میں وہ سنسنی پیدا کی جو شاید پاکستانی فینز کو اس شکست کو ہضم کرنے میں کچھ مددگار ثابت ہو! بارش سے متاثرہ اس میچ میں پاکستان نے 42 اوورز کی محدود اننگز میں سری لنکا کو جیتنے کے لیے 252 رنز کا ہدف دیا تھا جو سری لنکا نے گیم کی آخری بال پر حاصل کر لیا۔ کرکٹ پریزینٹر زینب عباس نے لکھا کہ ’سری لنکا جیت کا حقدار تھا۔ پاکستان نے یہ میچ مڈل اوورز میں ہی ہار چکا تھا کیونکہ یہ وہ موقع تھا جب انھیں وکٹیں حاصل کرنی چاہییں تھیں۔‘ بہت سے پاکستانی فینز پاکستان کی ناقص فیلڈنگ پر تنقید کرتے نظر آئے۔ صارف ساجد عثمانی نے لکھا کہ ’کیا کپتان کو عقل نہیں کہ بولر کو بتائے کہ فیلڈ ساری آف سائیڈ کی رکھی ہوئی ہے لہٰذا بال وائیڈ یارکر کرنا، پھر کیوں زمان خان وکٹوں میں گیند کر رہا تھا؟‘ ایک فین نے سوال کیا ’ورلڈ نمبر ون ٹیم، ورلڈ نمبر ون بلے باز، ورلڈ کلاس بولنگ۔۔۔ مگر نتیجہ؟‘ کوشال مینڈس کو 87 گیندوں پر 91 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے پر پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا اور اب اتوار کے روز سری لنکا ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کا سامنا کرے گا۔ پاکستان کی جانب سے 42 اوورز میں دیے گئے 252 رنز کے ہدف کے جواب میں سری لنکا کی جانب سے اننگز کا آغاز پتھم نیسانکا اور کوسل پریرا نے کیا۔ پاکستان کو ابتدائی کامیابی چوتھے ہی اوور میں اس وقت ملی جب اوپنر کوسل پریرا 8 گیندوں پر 17 رنز بنانے کے بعد رن آؤٹ ہو بیٹھے۔ پریرا کے آؤٹ ہونے کے بعد پتھم کا ساتھ دینے کے لیے کوشال مینڈس آئے اور دونوں نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور وکٹ کے چاروں جانب عمدہ شاٹس کھیلے۔ تاہم یہ ساتھ 77 کے مجموعی سکور پر 14ویں میں اس وقت ختم ہوا جب پتھم 29 رنز بنا کر شاداب خان کی گیند پر انھی کی ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ 21 اوورز کے اختتام تک سری لنکا کا رن ریٹ 6.21 تھا جبکہ سری لنکا کی آدھی اننگز مکمل ہونے کے باوجود شاہین شاہ آفریدی، زمان خان، محمد نواز اور محمد وسیم کوئی بھی وکٹ لینے میں ناکام تھے۔ 14ویں اوور میں 77 کے مجموعی سکور پر تیسری وکٹ کی شراکت میں شروع ہونے والی کوشال مینڈس اور سدیرا سماراوکرما کی پارٹنر شپ نے پاکستانی بولرز کو کافی پریشان کیے رکھا اور یہی وہ موقع تھا جب میچ پاکستان کے ہاتھوں سے کھسکتا ہوا محسوس ہوا۔ تاہم 30ویں اوور میں سماراوکرما افتخار احمد کی گیند کو کھیلنے کے لیے جیسے ہی کریز سے نکلے تو یہی وہ وقت تھا جب محمد رضوان نے گیند جھپک کر انھیں سٹمپ آؤٹ کر دیا۔ سماراوکرما 51 گیندوں پر 48 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ تاہم وکٹ کی دوسری جانب کوشال مینڈس بدستور ڈٹے رہے اور ان کا بلا لگاتار رنز اُگلتا رہا۔ سماراوکرما کے آؤٹ ہونے کی صورت میں پاکستانی ٹیم کو ملنے والی چھوٹی سی خوشی اس وقت غارت ہوئی جب نئے آنے والے بلے باز چریتھ اسالنکا نے کریز پر آتے ہی افتخار احمد کو ایک زوردار چھکا جڑا اور گیم میں ایک مرتبہ پھر سری لنکا کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ کھیل کے 34ویں اوور میں سری لنکا نے اپنے 200 رنز مکمل کیے۔ اس موقع پر ہوا کا ایک جھونکا افتخار احمد کی گیند پر کوشال مینڈس کے بلے کا ایج لے کر بلند ہونے والا مشکل کیچ تھا جو محمد حارث نے پکڑا۔ مینڈس 87 گیندوں پر ایک چھکے اور 8 چوکوں کی مدد سے 91 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ نئے آنے والے بلے باز داسن شناکا اب چریتھ اسالنکا کے ساتھ موجود تھے اور اب کھیل کی آخری 36 گیندوں پر سری لنکا کو جیتنے کے لیے 36 ہی رنز درکار تھے۔ کھیل کے اس انتہائی اہم لمحے میں پاکستانی ٹیم کی جانب سے فیلڈنگ میں کی جانے والی غلطیاں اب کپتان بابر اعظم کے چہرے پر واضح طور پر عیاں تھیں۔ اس نازک موقع پر افتخار احمد پاکستانی ٹیم کا سہارا بنے رہے اور ان کی جانب سے کروائے گئے آٹھویں اوور میں داسن شناکا دو رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہوئے۔ داسن کی جگہ دھننجایا ڈی سلوا نے لی۔ کھیل کے 38 اوورز مکمل ہونے پر سری لنکا پانچ کھلاڑیوں کے نقصان پر 224 رنز پر تھا اور اب اسے جیتنے کے لیے 24 گیندوں پر 28 رنز جبکہ پاکستان کو پانچ وکٹیں درکار تھیں۔ کھیل کے آخری دو اوورز میں سری لنکا کو جیتنے کے لیے محض 12 رنز درکار تھے اور اب شاہین شاہ آفریدی کے ہاتھ میں گیند موجود تھی۔ یہی وہ موقع تھا جب میچ میں ایک مرتبہ پھر سنسنی عود آئی۔ ان کی جانب سے کروائی گئی ایک فُل ٹاس گیند کے نتیجے میں پہلے دھننجایا ڈی سلوا باؤنڈری کے نزدیک کیچ ہوئے اور اس سے اگلی ہی گیند پر نئے آنے والے بلے باز دونتھ وکٹ کے پیچھے محمد رضوان کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ یہ وہ موقع تھا جب شاہین ہیٹ ٹرک پر تھے تاہم نئے آنے والے بلے باز مدھوشان نے ایک رنز لے لیا۔ اب کھیل کا آخری اوور تھا اور سری لنکا کو جیتنے کے لیے 8 رنز درکار تھے جبکہ اس کی تین وکٹیں باقی تھیں، اس موقع پر گیند زمان خان کے ہاتھ میں دی گئی۔ زمان کا آخری اوور وہ تھا جو سنسنی سے بھرپور تھا، ان کے اوور کی چوتھی گیند پر رنز لینے کی کوشش کے دوران مادھوشان زمان کے ہاتھوں رن آؤٹ ہوئے۔ اب دو گیندوں پر چھ رنز کی ضرورت تھی جب اسالنکا نے وکٹ کے پیچھے چوکا لگا کر سری لنکا کو فتح کے انتہائی قریب کر دیا کیونکہ اب آخری گیند پر جیت کے لیے محض دو رن درکار تھے جو باآسانی بن گئے۔ سری لنکا کی اننگز میں اسالنکا 49 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ بارش سے متاثرہ اس میچ میں پہلی اننگز کے دوران پاکستان نے مقررہ 42 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 252 رنز بنائے تھے۔ پاکستان کی جانب سے محمد رضوان 73 گیندوں پر 86 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے جبکہ عبداللہ شفیق 52 اور افتخار احمد 47 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ دوسری جانب سری لنکا کی جانب سے متھیشا پتھیرانا آٹھ اوورز میں 65 رنز اور تین وکٹیں لے کر نمایاں رہے جبکہ پرامود مدھوشان نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ انڈیا کے خلاف آخری میچ میں عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے دونتھ ویلالاگے صرف ایک وکٹ حاصل کر سکے۔ پاکستان کی جانب سے اننگز کا آغاز عبداللہ شفیق اور فخر زمان کی جانب سے کیا گیا۔ پاکستان کو پہلا نقصان میچ کے پانچویں اوور میں اس وقت اٹھانا پڑا جب نو کے مجموعی سکور پر اوپنر فخر زمان چار رنز بنا کر پرامود مدھوشان کی لیٹ سوننگ گیند پر بولڈ ہوئے۔ اس موقع پر عبداللہ شفیق کا ساتھ دینے کے لیے کپتان بابر اعظم کریز پر آئے۔ اس موقع پر دونوں بیٹرز نے نپی تُلی بلے بازی کی تاہم کھیل کے 16وی اوور کی آخری بال پر کپتان بابر اعظم 29 رنز بنا کر دونتھ ویلالاگے کے ہاتھوں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ عبداللّٰہ شفیق اور کپتان بابر اعظم نے 64 رنز کی پارٹنر شپ قائم کی۔ تاہم وکٹ کی دوسری جانب موجود عبداللہ شفیق لگاتار پاکستان کے مجموعی سکور میں اضافہ کرتے رہے۔ کپتان بابر اعظم کے بعد عبداللہ کو وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان کا سہارا ملا اور اس دوران عبداللہ نے اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ تاہم 22ویں اوور میں 100 کے مجموعی سکور پر گرنے والی تیسری وکٹ عبداللہ شفیق کی تھی جو پتھیرانا کا نشانہ بنے۔ پانچویں آؤٹ ہونے والے کھلاڑی محمد نواز تھے جو صرف 12 رنز بنا سکے۔ ان کی وکٹ بھی پتھیرانا نے لی۔ پاکستان کی آدھی ٹیم پویلین لوٹ جانے کے بعد اس مرتبہ پھر بارش نے گیم میں خلل ڈالا اور اوورز کی تعداد مزید گھٹا کر 42 کر دی گئی۔ تاہم بظاہر بارش کی وجہ سے ملنے والے وقفے نے پاکستان کو اپنی سٹریٹجی پر سوچنے کا موقع فراہم کیا جس کا نتیجہ بارش کے بعد کریز پر آنے والے محمد رضوان اور افتخار احمد کی بیٹنگ میں نظر آیا جنھوں نے تیز رفتار بلے بازی کی مدد سے پاکستان کی صورتحال کچھ مستحکم کی۔ میچ کی 41ویں اوور میں افتخار احمد محض تین رنز کی دوری سے نصف سنچری بنانے میں ناکام رہے اور 238 کے مجموعی سکور پر وہ 47 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان کی اننگز کی آخری اور ساتویں وکٹ 42 اوور میں گری جب شاداب خان تین رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2vj213l3edo
زخم خوردہ ٹائیگرز بھی حیران کر سکتے ہیں: سمیع چوہدری کا کالم
سری لنکن کرکٹ کا مزاج رہا ہے کہ جب وہ کسی شمار قطار میں نہیں ہوتی، تب اچانک ابھر کر یوں سامنے آتی ہے کہ شائقین ششدر رہ جاتے ہیں۔ ایشیا کپ کی 39 سالہ تاریخ میں جب جب کبھی پاکستان انڈیا فائنل کے امکان روشن ہوئے ہیں، رنگ میں بھنگ سدا سری لنکن کرکٹ نے ہی ڈالا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس ٹیم نے ایک ہی دن پہلے مضبوط پاکستانی الیون کو ریکارڈ شکست سے دوچار کیا تھا، وہ نوآموز سری لنکن سپنر دموتھ ویلالگے کے سامنے ڈھیر ہو جائے گی۔ وہ تو بھلا ہو انڈین بولنگ کا کہ قلیل ہدف کا دفاع کر کے ٹورنامنٹ کو کھلا رکھا، وگرنہ ایشیا کپ کے فائنلسٹس پہلے ہی طے ہو چکے ہوتے اور پاکستان بمقابلہ سری لنکا محض ایک کاغذی کارروائی رہ جاتی۔ مگر اب یہ مقابلہ سیمی فائنل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ زخم خوردہ بھی ہو چکے ہیں۔ نسیم شاہ اور حارث رؤف دونوں ہی ایشیا کپ سے باہر ہو چکے ہیں اور پاکستان کا مسلّمہ پیس اٹیک اب اہم ترین میچز میں جادو جگانے سے محروم رہے گا۔ مگر پیس کے معاملے میں پاکستان کے ذخائر یوں زرخیز ہیں کہ متبادل ڈھونڈنے میں سر نہیں کھجانا پڑا۔ اس نئی الیون میں بھی پیس اس قدر موجود ہے کہ اگر تجربے کی کمی آڑے نہ آئے تو زمان خان اور محمد وسیم بھی تگڑے سے تگڑے بلے بازوں کو مبہوت کر سکتے ہیں۔ فخر زمان کی پے در پے ناکامیوں نے بالآخر کچھ اعصاب پر دستک دے ہی ڈالی اور مہینوں سے پانی ڈھوتے محمد حارث کی قسمت جاگ اٹھی۔ پچھلی بار جب ورلڈ کپ میں وہ اہم مراحل پر ٹیم کا حصہ بنے تھے تب ان کی پہلی ہی اننگز نے سوئے ہوئے بھاگ جگا دیے تھے اور کسی گنتی میں نہ رہنے والی ٹیم کو فائنل کی راہ دکھلا دی تھی۔ پاکستان یہاں بھی حارث سے وہی امید رکھے گا، گو سری لنکن پیس اٹیک، اپنی تمام تر لو پروفائل کے باوجود، ان کا امتحان ضرور لے گا۔ جہاں کاسون راجیتا کی شکل میں ایک تجربہ کار ہاتھ دستیاب ہے تو وہیں متیشا پتھیرانا جیسا ہنرمند بھی موجود ہے جو پچھلے چند ماہ سے مسلسل سرفرازی کی سمت گامزن ہے۔ لیکن بڑا دردِ سر یہاں بھی سپن سے نمٹنا ہو گا۔ انڈیا کے خلاف میچ میں پاکستانی بلے باز کلدیپ یادو کی سبک خرامی کے خمار سے باہر نہ نکل پائے تھے۔ گو کلدیپ یادو اس شام واقعی ناقابلِ تسخیر تھے مگر سپن کے سامنے اس مڈل آرڈر کی کم مائیگی بھی پوری طرح آشکار ہوئی۔ دمتھ ویلالگے ایک ہی روز پہلے سپن کے خلاف موثر ترین بیٹنگ لائن کے طوطے اڑا چکے ہیں، سو کچھ ہول سے ضرور اٹھتے ہیں کہ وہ اور مہیش تیکشنا پاکستانی مڈل آرڈر سے کیا سلوک کریں گے مگر تشفی بخش پہلو یہ کہ خوش نصیبی سے پاکستان کو بھی یہاں سعود شکیل جیسا دماغ میسر ہو گا۔ اپنے مختصر سے کریئر میں سعود شکیل کئی ایک اننگز میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ موجودہ پاکستانی بیٹنگ ذخائر میں سے سپن کے خلاف سب سے موثر بلے باز وہی ہیں۔ سری لنکا ہی کے خلاف حالیہ ٹیسٹ میں ڈبل سینچری کے بعد ان کا اعتماد مختصر فارمیٹ میں بھی بار آور ہو سکتا ہے۔ اس پر طُرہ یہ کہ دباؤ کے ہنگام میں وہ اپنے اعصاب بھی منتشر نہیں ہونے دیتے۔ کافی عرصے سے پاکستان نے شکست کا ذائقہ چکھا نہیں تھا اور انڈیا سے شرمناک شکست بھی ورلڈ کپ سے پہلے ایک عمدہ سبق ہے کہ رنز کے لیے ہمیشہ ٹاپ آرڈر اور وکٹوں کے لیے ہمیشہ پیس کی راہ تکنے والی ٹیم کو اب اپنے مڈل آرڈر اور سپن بولنگ کا قبلہ درست کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حسبِ روایت بارش کل کے میچ میں بھی خلل ڈال سکتی ہے اور توقع یہی رہے گی کہ اپنے چنیدہ مہروں سے محروم بابر اعظم ٹاس جیتنے کی صورت میں پہلے بولنگ سے گریز کریں گے۔ ثانیاً اب تک یہ بھی واضح ہو چکا کہ سری لنکن پچز دوسری اننگز تک پہنچتے پہنچتے سست تر ہو جاتی ہیں، سو ہدف کے تعاقب سے گریز ہی بھلا۔ یہاں سعود شکیل کی موجودگی سے پاکستان کے امکانات کچھ روشن نظر آتے ہیں کہ اگر وہ سری لنکن سپن کا بار جھیل گئے تو شاید نسیم شاہ اور حارث رؤف کی عدم دستیابی بھی سری لنکن بیٹنگ کو کچھ خاص فائدہ نہ دے پائے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cglep82mvrlo
’پاکستان کو اس بچے سے بچ کر رہنا ہو گا‘: انڈیا کے ٹاپ آرڈر کو بے بس کرنے والے ویلالاگے کون ہیں؟
سوموار کو انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد سے ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم اور کرکٹ شائقین کی نظریں منگل کو ہونے والے انڈیا بمقابلہ سری لنکا میچ پر لگی ہوئی تھیں۔ سری لنکا کے خلاف انڈیا نے ٹاس جیت کر کچھ اسی طرح کا آغاز کیا جیسا اس نے پاکستان کے خلاف کیا تھا۔ ایک وقت میں انڈیا کا سکور 11 اوور میں بغیر کسی نقصان کے 80 رنز تھا جب سری لنکا کے ایک جواں سال کرکٹر کو گیند تھمائی گئی۔ دونتھ ویلالاگے کا نام اس سے پہلے زیادہ لوگوں نے نہیں سنا تھا لیکن اب یہ نام ہر طرف گونج رہا ہے کیونکہ منگل کی شب انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کا اہم میچ حقیقت میں انڈیا اور ویلالاگے کے درمیان مقابلہ بن کر رہ گیا تھا۔ 20 سالہ ویلالاگے نے اپنی پہلی ہی گیند پر وہ کام انجام دیا جو سری لنکا کے آزمودہ کار بولروں سے نہ ہو سکا۔ انھوں نے پاکستان کے خلاف نصف سنچری بنانے والے ان فارم بیٹسمین شبھمن گل کو یوں بولڈ کر دیا کہ دوسرے سرے پر کھڑے کپتان روہت شرما بھی حیران رہ گئے۔ پاکستان کے خلاف سنچری بنانے والے وراٹ کوہلی نے کسی طرح اس اوور کی بقیہ گیندیں کھیلیں لیکن ویلالاگے نے اپنے دوسرے اوور کی پانچویں گیند پر وراٹ کو غلط شاٹ کھیلنے پر مجبور کیا اور کوہلی مڈ آن پر ایک آسان سا کیچ تھما بیٹھے۔ اس دوران روہت شرما نے اپنی نصف سنچری مکمل کر لی تھی اور انڈیا کا سکور دو وکٹوں کے نقصان پر 90 ہو چکا تھا۔ لیکن ویلالاگے کا جادو روہت کو بھی لے ڈوبا جو ان کے تیسرے اوور کی پہلی ہی گيند پر بولڈ ہوئے۔ روہت شرما کی سمجھ سے یہ بالا تر تھا کہ ان کی وکٹ کیونکر گئی۔ انڈین ٹیم اچانک دباؤ میں آ گئی۔ پھر پاکستان کے خلاف سنچری بنانے والے بیٹسمین کے ایل راہل نے کسی طرح ٹیم کو سنبھالا دیا لیکن وہ بھی 39 رنز بنا کر ویلالاگے کو انھی کی گیند پر کیچ تھما بیٹھے۔ یعنی پہلے چار کے چار بلے باز ویلالاگے کا شکار بنے۔ اس کے بعد اسالنکا نے ایشان کشن کو 33 رنز پر آؤٹ کیا لیکن کیچ ویلالاگے نے پکڑا۔ پھر ویلالاگے نے ہاردک پاندیا کو پانچ رن بنانے کے بعد وکٹ کیپر مینڈس کے ہاتھوں کیچ کروا کر اپنی پانچواں وکٹ حاصل کی۔ اس وقت انڈیا کا سکور 172 رنز تحا جبکہ چھٹی وکٹ گر چکی تھی۔ ویلالاگے کے دس اوور مکمل ہوئے تو انڈیا کی سانس میں سانس آئی۔ انھوں نے ایک میڈن اور 40 رنز کے عوض انڈیا کے پانچ اہم بلے بازوں کو آوٹ کیا اور اس طرح وہ سب سے کم عمری میں ون ڈے میں پانچ وکٹ لینے والے سری لنکن کھلاڑی بھی بن گئے۔ انڈیا کی پوری ٹیم 213 رنز بنا کر آوٹ ہو گئی اور پھر بقول سابق پاکستانی کرکٹر شعیب اختر پاکستانی شائقین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انڈیا دانستہ طور پر یہ میچ ہار رہا ہے تاکہ پاکستان کی فائنل میں پہنچنے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جائے۔ انڈیا نے بظاہر اپنے کم سکور کا دفاع شروع کیا انھیں تیسرے اوور کی پہلی ہی گیند پر کامیابی ملی جب جسپریت بمراہ نے پتھون نِسنکا کو چھ رنز پر پویلین کی راہ دکھائی۔ پھر انھوں نے وکٹ کیپر بیٹسمین کُسال مینڈس کی وکٹ لے کر سری لنکا کو بیک فٹ پر دھکیل دیا۔ اگلے ہی اوور میں محمد سراج نے دیمُکھ کرونارتنے کو دو رنز پر آوٹ کرکے سکور تین وکٹ کے نقصان پر 25 رنز کر دیا۔ 99 رنز پر جب سری لنکا کے چھ وکٹ گر چکے تھے اور شکست کے آثار نمایاں تھے تو بیٹنگ کرنے کے لیے ویلالاگے آئے اور انھوں نے انڈین بولرز پر رفتہ رفتہ حاوی ہونا شروع کر دیا۔ انھوں نے دھننجے ڈی سلوا کے ساتھ 63 رنز کی شراکت کی۔ ڈی سلوا نے جارحانہ ہونے کی کوشش میں اچانک ایک خراب شاٹ کھیلا اور پھر سری لنکا کی ٹیم سنبھل نہ سکی۔ دوسرے اینڈ پر دونتھ ویلالاگے سری لنکا کی طرف سے سب سے زیادہ 42 رنز بناکر وکٹوں کو گرتا دیکھتے رہے اور ان کی ٹیم 41 رنز سے ہار گئی۔ لیکن جب وہ اور ڈی سلوا بیٹنگ کر رہے تھے تو ایک موقع پر جیت سری لنکا کی جھولی میں گرتی نظر آ رہی تھی اور میچ کی کمنٹری کرنے والے یہی کہہ رہے تھے کہ ’یہ میچ انڈیا بمقابلہ سری لنکا نہیں بلکہ انڈیا بمقابلہ ویلالاگے ہے۔‘ اور شاید اسی وجہ سے شکست خوردہ ٹیم میں ہونے کے باوجود انھیں مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔ دونتھ نیتھمیکا ویلالاگے 9 جنوری سنہ 2003 کو شری لنکا کے شہر کولمبو میں پیدا ہوئے۔ وہ بائيں ہاتھ کے سپن بولر اور بیٹسمین ہیں۔ انھوں نے سینٹ جوزف کالج کولمبو سے تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے خلاف اپنا پہلا اور واحد ٹیسٹ میچ کھیلا ہے جس میں انھیں کوئی وکٹ تو نہیں ملی البتہ انھوں نے 11 اور 18 رنز بنائے۔ انھوں نے گذشتہ سال پالیکیلے میں آسٹریلیا کے خلاف اپنا پہلا ون ڈے میچ کھیلا تھا جس میں انھوں نے دو وکٹیں لی تھیں اور اب تک وہ 13 ون ڈے میں 18 وکٹیں لے چکیں ہیں جن میں سے نو وکٹیں انھوں نے اسی ایشیا کپ میں لی ہیں۔ انڈیا اور سری لنکا سمیت پاکستا میں بھی سوشل میڈیا پر ویلالاگے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہیں۔ ایک جانب سری لنکا میں ایک نئے کھلاڑی کی دھوم مچی ہے تو وہیں انڈیا میں بھی ویلالاگے کا چرچہ ہو رہا ہے۔ انڈیا کے سابق کرکٹر وسیم جعفر نے لکھا کہ ’کیا گیم تھا! اتنے اتار چڑھاؤ! اکشر پٹیل کے 26 اور آخری وکٹ کی شراکت کے 27 رنز کتنے اہم تھے! کلدیپ کی چار وکٹیں اور جدو (جدیجہ) کی اہم وکٹیں۔ ویلالاگے کے لیے پانچ وکٹیں اور 42 رنز۔ بدقسمتی سے وہ ہارنے والی ٹیم میں تھے لیکن وہ مستقبل کے کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایسے میں پاکستانی شائقین کو یہ فکر لاحق ہے کہ انڈیا کے ٹاپ بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچانے والے اس جادوگر کے سامنے پاکستان کے بلے باز کیسے جم کر کھیل پائیں گے جو دو ہی دن پہلے انڈیا کے سپنر کلدیپ یادو کا نشانہ بن گئے تھے۔ پاکستانی ٹوئٹر صارف اختر جمال نے لکھا: ’یہ سوچنا بند کریں کہ انڈیا نے کیسا کھیلا۔ اس بات کی فکر کریں کہ 14 ستمبر کو پاکستان اس سری لنکن سپنر ویلالاگے کو کیسے کھیلے گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ عثمان میر اور نواز یا عماد وسیم کو ٹیم میں لائیں اور شاداب کو آرام دیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 شاہد ہاشمی نامی صارف نے لکھا کہ ’ویلا لاگے نے پاکستانی بلے بازوں کو یہ دکھا دیا کہ کلدیپ یادو کو کیسے کھیلیں۔ کیسا باصلاحیت ہے!‘ خیال رہے کہ کلدیپ یادو نے پاکستان کے خلاف پانچ وکٹیں لی تھیں اور وہ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہے تھے لیکن ویلالاگے نے جس طرح کلدیپ کو گذشتہ رات کھیلا اس کے بعد روہت شرما نے انھیں بولنگ سے ہٹا دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انڈین صارف سدیپ نے لکھا کہ ’پاکستان کو اس بچے سے بچ کر رہنا ہو گا۔ ہم نے اس کی تباہ کن کارکردگی دیکھی اور کسی نہ کسی طرح بچ گئے۔ اب پاکستان کی باری ہے۔‘ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا تو پہلے ہی پہنچ چکا ہے جس کے بعد اب پاکستان کے لیے سری لنکا کے خلاف میچ سیمی فائنل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سابق پاکستانی کرکٹر سلیم ملک پر کتاب لکھنے والے مصنف معین الدین حمید نے کینیڈا کے شہر ٹورونٹو سے ملحقہ سکاربرو شہر سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کی ٹیم سری لنکا کے خلاف کامیاب ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ’شاہین سے زیادہ ان کی امیدیں نسیم شاہ سے وابستہ ہیں لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کھیلتے ہیں کہ نہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’بابر اعظم سپنرز کے خلاف اکثر اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔‘ معین الدین حمید نے کہا کہ ’فخر زمان فارم میں نہیں، اس لیے ان کی جگہ حارث کو کھلانا چاہیے جو زیادہ جارحانہ ہیں۔ آپ کو جیتنے کے لیے رسک تو لینا ہی پڑے گا۔‘ انھوں نے امید ظاہر کی کہ سری لنکا اور پاکستان کا مقابلہ سخت ہوگا کیونکہ دونوں کے پاس اچھے بولرز اور بیٹسمن ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cqlgw0k4ynpo
سمیع چوہدری کا کالم: ’مگر ہر بہترین کا ایک بدترین بھی ہوتا ہے‘
کولمبو میں بارش تھم چکی تھی مگر پاکستانی ڈریسنگ روم کے لیے یہ کوئی نوید نہیں تھی۔ شیشے کی دیواروں سے جھانکتے چہرے مرجھاتے چلے جا رہے تھے کہ میدان میں پھر سے انڈین پیس بولنگ کا قہر برسنے کو تھا اور پاکستانی بیٹنگ تہی دامن ہو چکی تھی۔ ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کوئی کپتان تبھی کر سکتا ہے جب اسے اپنے فاسٹ بولرز پر فقط اعتماد ہی نہیں، مکمل یقین ہو۔ بابر کو بھی شاہین پر بھرپور یقین تھا اور پھر پچھلے چند پاکستان انڈیا مقابلوں کی رِیت بھی تو یہی رہی ہے کہ شاہین کی لیفٹ آرم پیس انڈین ٹاپ آرڈر کے گلے کا طوق بن جایا کرتی ہے۔ مگر ہر بہترین کا ایک بدترین بھی ہوتا ہے۔ شاہین اپنے کرئیر کے اوائل میں کئی ایک برے دن دیکھ چکے ہیں لیکن نمبرون کی شہرت کمانے کے بعد سے یہ شاید ان کا بدترین دن تھا۔ وہ ہمیشہ روہت شرما پر بھاری پڑتے آئے ہیں مگر یہاں شرما اور شبھمان گِل ان پر بھاری پڑ گئے۔ شروعات سے ہی انڈین ٹاپ آرڈر نے اپنے عزائم کی جارحیت عیاں کر دی۔ لیفٹ آرم پیس کے خلاف پے در پے ناکامیوں سے سیکھے سبق کا اثر یہ تھا کہ شرما سے پہلے ہی شبھمان گِل کے قدم حرکت میں آ گئے اور شاہین کے منصوبے یکسر ڈگمگا گئے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستانی فاسٹ بولنگ کا اس قدر شہرہ رہا ہے کہ سپن گویا اس کی بھینٹ چڑھ گئی اور اب یہ عالم ہے کہ اکلوتا لیگ سپنر بھی اپنے سپیل کا آغاز ایک لو فُل ٹاس تھالی میں پروس کے کرتا ہے۔ بہرحال شاداب خان کا یہ بدترین سپیل ہرگز نہیں تھا کہ وہ ماضی قریب میں بھی لگ بھگ یہی کارکردگی دکھاتے چلے آئے ہیں۔ شاہد آفریدی کی طرح اب شاداب خان کے معاملے میں بھی خلجان بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ وہ بطور بولر ٹیم کا حصہ ہیں یا بطور بلے باز۔ خود شاداب کے لیے بھی یہ سمجھنا کچھ دشوار ہے کہ آیا وہ ایک سپنر ہیں جو بیٹنگ بھی کر لیتا ہے یا ایک بلے باز ہیں جو تھوڑی بہت سپن بھی کر لیتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انڈین بیٹنگ سپنرز کے خلاف قوی ترین ریکارڈ رکھتی ہے مگر شاداب کا یہ سپیل کسی بھی لیگ سپنر کے زاویۂ نگاہ سے مثالی نہیں تھا اور اگرچہ فہیم اشرف دوسرے کنارے سے کچھ دباؤ بنا رہے تھے مگر شاداب کے کنارے سے رنز کی ایسی گنگا بہی کہ پاکستان کی امیدیں بہا لے گئی۔ بابر عظم کے لیے یہ طے کرنا نہایت مشکل تھا کہ بارش کے منڈلاتے خطرے اور حارث رؤف کی انجری کے بعد کس کے اوور کب اور کہاں کروائیں۔ ویسے بھی جب مقابل ورات کوہلی جیسا مشاق کھلاڑی ہو تو اس سے بہتیرا فرق بھی نہیں پڑتا کہ بولنگ کون کروا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اپنا شاندار ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے کوہلی نے یقینی بنایا کہ ڈیتھ اوورز سے بھی بھرپور نفع کشید کیا جائے۔ راہول اور کوہلی کی ساجھے داری کے بعد بارش ہی پاکستان کا بہترین ہدف ہو سکتی تھی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ جسپریت بمراہ کی ون ڈے فارمیٹ میں واپسی جتنے بھی سوالات کو جنم دے رہی تھی، وہ سبھی دم توڑ گئے جب انھوں نے امام الحق کے اوسان خطا کیے۔ اسی پر موقوف نہیں، دنیا کے نمبرون بلے باز بابر اعظم بھی جھوجھتے ہی رہ گئے کہ آؤٹ سوئنگ کہاں سے آ رہی ہے اور ان سوئنگ کدھر کو جا رہی ہے۔ طویل عرصے بعد مسابقتی ون ڈے کرکٹ کھیلنے والے بمراہ کی مہارت اور درستی یہاں انتہا پر تھی کہ انھوں نے اس میچ میں دیگر سبھی فاسٹ بولرز سے دوگنا سوئنگ حاصل کی۔ جو وکٹ کچھ ہی دیر پہلے بلے بازی کی جنت نظر آ رہی تھی، یکایک اس کا نقشہ پلٹ گیا اور بیٹنگ ایک ڈراؤنا خواب بن گئی۔ اگرچہ پاکستانی بلے بازوں کے لیے یہ کوئی مثالی دن نہیں تھا مگر وہ اس کی توجیہہ میں بہترین انڈین بولنگ اور فلڈ لائٹس میں نئی گیند سے نمٹنے کی دشواری لا سکتے ہیں مگر اس ساری کہانی سے بہت پہلے، یہ میچ تبھی اپنا فیصلہ کر بیٹھا تھا جب روہت شرما نے اپنے ارادے ظاہر کیے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckdz9xq5gr9o
خالد لطیف: نیدر لینڈ کی عدالت نے قتل پر اُکسانے کے کیس میں سابق پاکستانی کرکٹر کو 12 برس قید کی سزا سنا دی
نیدرلینڈز کی ایک عدالت نے پاکستان کے سابق کرکٹر خالد لطیف کو انتہائی دائیں بازو کے سیاسی رہنما گیرٹ وائلڈرز کے قتل کرنے پر اُکسانے کے جرم میں 12 برس قید کی سزا سُنا دی ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق عدالت نے قرار دیا ہے کہ 37 سالہ خالد لطیف کے بیانات قتل پر اُکسانے، بغاوت اور دھمکی کے مترادف تھے۔ یاد رہے کہ خالد لطیف پاکستان میں رہائش پزیر ہیں اور سماعت کے دوران کسی موقع پر بھی وہ اس کیس کا حصہ نہیں بنے۔ سزا کی خبر سامنے آنے کے بعد بھی انھوں نے اس معاملے پر اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ نے کہا کہ نیدرلینڈز اور پاکستان کے درمیان عدالتی تعاون یا ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی معاہدے نہیں ہیں اور اس کیس میں تعاون کے لیے پہلے کی گئی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ نے ثابت کیا ہے کہ خالد لطیف نے سنہ 2018 میں ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انھوں نے گیرٹ وائلڈرز کے قتل پر 30 لاکھ روپے انعام کی پیشکش کی تھی۔ یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب گیرٹ وائلڈرز کے خلاف پاکستان میں شدید احتجاج ہو رہا تھا۔ اُن کے خلاف مظاہرے اس وجہ سے ہو رہے تھے کیونکہ انھوں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا تھا جو بعد میں عوامی ردعمل پر منسوخ کر دیا گیا تھا۔ ہیگ کی ضلعی عدالت نے کہا کہ ’مشتبہ شحض (خالد لطیف) کے استعمال کیے گئے الفاظ واضح ہیں: اُنھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو کافی رقم ادا کریں گے جو ایک مخصوص عمل میں ملوث ہوں گے، یعنی گیرٹ وئلڈرز کے قتل میں۔‘ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’یہ بہت ممکن ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی اس کال پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہو گا۔‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان میں اس ضمن میں ہونے والے احتجاج کا حوالہ دیا جن کے دوران نیدرلینڈز کے پرچم جلائے گئے تھے اور لوگوں نے گیرٹ وئلڈرز کے قتل کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ خالد لطیف نے پاکستان کے لیے پانچ ون ڈے اور 13 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2010 کی ایشیئن گیمز میں پاکستانی ٹیم کی کپتانی بھی کی تھی لیکن سنہ 2017 میں اُن پر سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پانچ سال کی پابندی لگا دی گئی تھی۔ 60 سالہ گیرٹ وائلڈرز یورپ کے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران نیدرلینڈز میں امیگریشن کی بحث کو تشکیل دینے والے اہم کردار رہے ہیں، حالانکہ وہ کبھی حکومت میں نہیں رہے۔ ان کی فریڈم پارٹی (پی وی وی) نیدر لینڈ کی پارلیمینٹ کی تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے اور مرکزی حزب اختلاف کی پارٹی ہے۔ گیرٹ وئلڈرز سنہ 2004 سے مسلسل پولیس کے تحفظ میں رہ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گیرٹ وائلڈر نے قتل کی دھمکیوں اور ان کے عمل سے دوسروں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے سبب پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ ’اسلامی تشدد کے خطرات کے سبب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب خاکے بنانے کا مقابلہ نہیں ہو گا۔‘ پیغبرِ اسلام کے خاکے بنانے کا یہ مقابلہ نومبر 2018 میں نیدر لینڈ کی پارلیمان میں گریٹ وائلڈر کی سیاسی جماعت کے دفتر میں منعقد ہونا تھا۔ تاہم مقابلے کے انعقاد کے اعلان کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا اور پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی جماعت نے اس سلسلے میں لاہور سے اسلام آباد کی جانب احتجاجی لانگ مارچ شروع کیا تھا۔ مقابلے کی منسوخی کے اعلان کے بعد اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسے ’اخلاقی فتح‘ قرار دیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw9gvxqqqdzo
ایشیا کپ 2023: انڈیا نے پاکستان کو 228 رنز سے تاریخی شکست دے دی
ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے میں انڈیا کے 357 رنز کے تعاقب میں پاکستان کی پوری ٹیم 128 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ یوں انڈیا نے پاکستان کو 228 رنز سے شکست دے دی ہے۔ کپتان بابر اعظم سمیت پاکستان کو کوئی بھی کھلاڑی بڑا سکور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ انڈیا کے سب سے کامیاب باؤلر کلدیپ یادیو رہے جنھوں نے آٹھ اوورز میں 25 رنز کے عوض پانچ پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کا میچ جو گذشتہ روز بارش کے باعث ریزرو ڈے پر منتقل ہو گیا تھا آج بالآخر دوبارہ شروع ہوا تو انڈین بلے بازوں وراٹ کوہلی اور لوکیش راہل نے سنچریاں بنا کر پاکستان کو 357 رنز کا ہدف دیا۔ پاکستان کی جانب سے ہدف کا تعاقب خاصے محتاط انداز میں کیا گیا اور اس دوران انڈین بولرز جسپریت بمرا اور محمد سراج نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا اور لائٹس تلے اچھی سوئنگ بولنگ کرتے ہوئے پاکستانی اوپنرز کو پریشان کرتے رہے۔ ایسے میں جسپریت بمرا کی ایک گیند نے امام الحق کے بلے کا باہری کنارہ لیا اور وہ سلپ میں کھڑے شبھمن گل کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ کپتان بابر اعظم جب کریز پر آئے تو انھوں نے کچھ اچھی شاٹس بھی کھیلیں اور کئی مرتبہ گیند ان کے بیٹ کے بہت قریب سے گزر کر کیپر کے پاس گئی۔ پاکستان نے پہلے 10 اوورز میں 43 رنز بنائے لیکن پھر 11ویں اوور میں ہارڈک پانڈیا جب بولنگ کے لیے آئے تو انھوں نے بابر اعظم کو بولڈ کر دیا۔ اس اوور کے اختتام پر اچانک بارش نے ایک بار پھر میچ میں خلل ڈالا ہے جس کے باعث میچ میں کچھ وقت کے لیے تعطل آیا۔ تاہم دوبارہ میچ شروع ہوا تو کریز پر آنے والے محمد رضوان بھی فقط دو رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ کچھ وقت تک کریز پر کھڑے رہنے والے فخر زمان 50 گیندوں پر 27 رنز بنا کر کلدیپ یادو کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ اس کے بعد آغا سلمان، شاداب خان، افتحار احمد اور محمد فہیم بھی وکٹ پر زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ پاکستان کے حارث رؤف اور نسیم شاہ زخمی ہونے کی وجہ سے بیٹنگ کرنے کے لیے نہیں آئے۔ دونوں اس میچ میں اپنے پورے اوورز بھی نہیں کرا سکے تھے۔ اگرچہ آج کا میچ بھی بارش کے باعث تعطل کا شکار رہا تاہم پاکستان کو میچ سے پہلے ہی ایک اور دھچکا اس وقت پہنچا جب پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے اعلان کیا کہ فاسٹ بولر حارث رؤف ممکنہ انجری کے باعث میچ میں مزید حصہ نہیں لیں گے۔ حارث رؤف اب تک میچ میں پانچ اوورز کروا چکے تھے جن میں صرف 27 رنز بنے تھے، تاہم انھوں نے کوئی وکٹ حاصل نہیں کی تھی۔ حارث کی جگہ پاکستان کے لیے یہ پانچ اوورز پارٹ ٹائم آف سپنر افتخار احمد نے کروائے جس کا انڈیا نے خوب فائدہ اٹھایا اور ان کے پانچ اعشاریہ چار اوورز میں 52 رنز بنائے۔ انڈیا نے اپنی اننگز کا آغاز گذشتہ روز کے 147 رنز پر دو وکٹوں کے نقصان پر کیا اور وراٹ کوہلی اور لوکیش راہل نے عمدہ اننگز کھیلتے ہوئے سنچریاں سکور کیں اور انڈیا کا سکور 356 رنز تک پہنچا دیا۔ یہ پاکستان کے خلاف اب تک انڈیا کا پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سب سے بڑا سکور ہے۔ پاکستان کی فیلڈنگ بھی آج خاصی ناقص رہی جس کے باعث کچھ کیچ بھی ڈراپ ہوئے اور مس فیلڈنگ بھی دیکھنے کو ملی۔ آج میچ شروعات میں تعطل کے بعد جب پاکستانی وقت کے مطابق شام چار بج کر 10 منٹ پر شروع ہوا تو اوورز میں کمی نہیں آئی تھی اور اگر مزید بارش نہیں ہوتی تو یہ میچ پورے 50 اوورز کے لیے کھیلا جائے گا۔ بارش کی صورت میں یا تو ڈک ورتھ لوئس فارمولا لگایا جائے گا جس کے بعد اوورز کم ہونے کے ساتھ نیا ہدف دیا جائے گا جبکہ مسلسل بارش کی وجہ سے میچ منسوخ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو کہ انڈیا کے جارحانہ آغاز نے غلط ثابت کیا۔ اگرچہ نسیم شاہ کی گیند پر اوپنر شبھمن گل کے دو کیچز چھوٹے مگر انڈین اوپنرز نے شروعات سے ہی پاکستانی بولرز پر دباؤ بنائے رکھا۔ تھرڈ مین پر شبھمن گل کا پہلا کیچ چھوڑنے والے شاہین شاہ آفریدی اپنے ابتدائی تین اوورز میں ردھم نہ پکڑ سکے مگر دوسری طرف نسیم شاہ نے نپی تلی بولنگ برقرار رکھی اور متعدد بار روہت شرما کو اپنی آؤٹ سوئنگ سے پریشان کیے رکھا۔ بارش سے قبل انڈین کپتان روہت شرما اور شبھمن گل نے چوکوں اور چھکوں کی بارش کی۔ دونوں کے درمیان سو گیندوں پر 121 رنز کی شراکت قائم ہوئی۔ شاداب نے اپنے پہلے اوور میں 19 رنز دیے اور ابتدائی خراب بولنگ کے بعد روہت شرما کی وکٹ لے کر پاکستان کو پہلی کامیابی دلائی۔ لانگ آف پر روہت شرما کا ایک مشکل کیچ فہیم اشرف نے پکڑا۔ روہت ایک جارحانہ نصف سنچری کے بعد پویلین لوٹ گئے، ان کی اننگز میں چار چھکے شامل تھے۔ اگلے ہی اوور میں شاہین آفریدی نے اٹیک میں واپس آ کر شبھمن گل کو آف کٹر سے چکما دیا اور ان کا کیچ کوور پر آغا سلمان نے پکڑا۔ شبھمن گل کی 58 رنز کی اننگز میں 10 چوکے شامل تھے اور وہ گذشتہ پاکستان-انڈیا میچ کے مقابلے کافی بہتر انداز میں کھیلے۔ ابھی وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل کے درمیان 24 رنز کی شراکت ہی قائم ہوئی تھی کہ بارش کے باعث میچ روک دیا گیا۔ اس وقت تک انڈیا نے 24.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 147 رنز بنائے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں نے جارحانہ انداز اپنایا اور 233 کی شراکت جوڑ کر انڈیا کو ایک بڑے ہدف تک پہنچا دیا۔ وراٹ کوہلی نے 94 گیندوں پر 122 رنز بنائے اور ان کی اننگز میں تین چھکے اور نو چوکے شامل تھے جبکہ راہل جو اپنا کم بیک میچ کھیل رہے تھے نے 12 چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 111 رنز بنائے۔ پاکستانی بولرز کی جانب سے نسیم شاہ نے اچھی بولنگ کا مظاہرہ کیا لیکن وہ خاصے بدقسمت رہے اور اپنے آخری اوور میں کلائی میں تکلیف کے باعث انھیں گراؤنڈ سے جانا پڑا۔ ہ فارمولا کئی برسوں سے میچوں پر مطالعے کے بعد مرتب کیا گیا ہے تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ اگر کوئی میچ بارش سے رُک جاتا ہے تو میچ کا دورانیہ کم ہونے پر اوورز کی تعداد یا ہدف کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ اس میں مندرجہ ذیل عوامل زیرِ غور آتے ہیں: ڈی ایل ایس فارمولے کے تحت جو ٹیم پہلے بیٹنگ کرے اس کا پار سکور ہی مجموعی سکور سمجھا جاتا ہے۔ پار سکور سے مراد مجموعی رنز کی پیشگوئی ہے جو نیٹ رن ریٹ (ہر اوور میں اوسط رنز یا بیٹنگ کی رفتار) اور وکٹیں گِرنے سے ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میچ رُکنے کے وقت ایک ٹیم کا رن ریٹ کیا تھا اور اس نے اپنی کتنی وکٹیں گنوائیں۔ اس سسٹم میں یہ بات مدنظر نہیں رکھی جاتی کہ کون سے مخصوص بلے باز آؤٹ ہوچکے ہیں یا فی الحال کون سے بلے باز کھیل رہے ہیں یا ابھی کھیلنے آئیں گے۔ اگر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ بارش کے باعث میچ متاثر ہوسکتا ہے تو وہ اپنی وکٹیں بچا کر رکھتی ہے تاکہ اسے ڈی ایل ایس میتھرڈ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوسکے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اننگز کے شروع میں اوورز کم ہونے کے برعکس اواخر میں اوورز کم ہونے سے میچ پر زیادہ فرق پڑتا ہے کیونکہ عام طور پر ٹیمیں اواخر میں زیادہ جارحانہ انداز میں کھیلتی ہیں۔ اس فارمولے کے تحت یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ جیتنے والی ٹیم کا نیٹ رن ریٹ صفر سے زیادہ ہو، اور ہارنے والی ٹیم سے زیادہ ہو۔ آئی سی سی کے مطابق بدلتی پلیئنگ کنڈیشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال اس فارمولے پر نظرثانی کی جاتی ہے اور ہر دو سے تین سال میں اعداد و شمار بدلتے رہتے ہیں۔ 2018 میں یہ کہا گیا تھا کہ دوسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے جیتنے کا امکان ماضی کے برعکس قدرے بڑھ چکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1992 کے ورلڈ کپ میچ میں جنوبی افریقہ کو اسی متنازع فارمولے کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف آخری گیند پر جیتنے کے لیے 21 رنز درکار تھے اور جنوبی افریقہ یہ میچ ہار گیا تھا۔ مگر آج استعمال ہونے والا ڈک ورتھ لوئس فارمولا اس قدر تبدیل ہوچکا ہے کہ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ کو اس آخری گیند پر تین رنز درکار ہونا تھے۔ جہاں تک بات ریزرو ڈے کی ہے تو اس کا یوں تو اعداد و شمار کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کرکٹ میں کنڈیشنز کا بہت عمل دخل ہے اور ایک دن جیسی کنڈیشنز ہوتی ہیں وہ اگلے روز یکسر مختلف ہو سکتی ہیں۔ سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل بھی ریزرو ڈے پر منتقل کیا گیا تھا اور اس کے باعث انڈیا کو مشکل کنڈیشنز میں کیوی بولرز کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اور یہ میچ انڈیا ہار گیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کل کولمبو میں کنڈیشنز انڈیا کو فیور کرتی ہیں یا پاکستان کو۔۔۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1001d34e7o
شاہین آفریدی کا جسپریت بمراہ کو بیٹے کی پیدائش پر تحفہ: ’میدان میں لڑتے ہیں، باہر عام انسان ہوتے ہیں‘
اتوار کو سری لنکا میں ایشیا کپ کے دوران پاکستان اور انڈیا کا مقابلہ بارش کی نظر ہونے سے شاہین شاہ آفریدی روایتی انداز میں انڈین اوپنرز کی وکٹ آغاز میں ہی لینے میں تو ناکام رہے لیکن ان کی جانب سے انڈین بولر جسپریت بمراہ کو بیٹے کی پیدائش پر تحفہ دینے کی ویڈیو نے کئی لوگوں کے دل جیت لیے۔ یہ ویڈیو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سوشل میڈیا سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سامنے آئی جس میں شاہین شاہ آفریدی انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمراہ کو تحفہ دیتے دکھائی دیے۔ واضح رہے کہ انڈین بولر جسپریت بمراہ حال ہی میں باپ بنے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ٹیم کو ٹورنامنٹ کے بیچ چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے میچ سے قبل انھوں نے ٹیم میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ لیکن انڈیا کی بیٹنگ کے درمیان ہی ایک بار پھر بارش کی وجہ سے وفقہ ہوا تو اسی وقفے کے درمیان شاہین شاہ آفریدی ہاتھ میں ایک تحفہ لیے جسپریت بمراہ کی جانب بڑھے۔ دوسری جانب جسپریت بمراہ شاہین شاہ آفریدی کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی نے اس ویڈیو کو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پیار اور امن۔ بہت بہت مبارک ہو جسپریت بمراہ۔ پورے خاندان کے لیے مبارک۔۔۔‘ شاہین شاہ نے یہ بھی لکھا کہ ’ہم میدان میں لڑتے ہیں لیکن میدان سے باہر ہم عام انسان ہوتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستان اور انڈیا کے شائقین کرکٹ کے درمیان جہاں اپنی اپنی ٹیم کے بارے میں جذبات عروج پر ہوتے ہیں وہیں کھلاڑیوں کے درمیان ایسے لمحات کوئی نئی بات نہیں۔ ایشیا کپ میں انڈیا اور پاکستان کے پہلے میچ سے پہلے بھی پی سی بی کی جانب سے ریلیز کی گئی ایک ویڈیو میں کوہلی اور حارث رؤف کی ملاقات دکھائی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کی دوستانہ ماحول میں گپ شپ بھی دکھائی گئی، جو عام طور پر دونوں ملکوں کے درمیان میچ کے گرد بننے والی فضا کے بالکل برعکس ہے۔ تاہم شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے اس تحفے کو سوشل میڈیا پر کافی سراہا گیا اور انڈیا سے بھی صارفین شاہین شاہ آفریدی کے گن گاتے نظر آئے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 انیل تیواتی نامی انڈین صارف نے ایکس پر لکھا کہ ماضی میں سچن ٹنڈولکر، شعیب اختر، ہربھجن کے زمانے میں ایسے رویے بہت عام تھے لیکن وہ کیمرے کے سامنے ایسا کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ’فیلڈ سے باہر ان کے درمیان ایک اچھا تعلق ہوا کرتا تھا اور میدان میں کیمروں کی موجودگی میں ان کا جذبہ واقعی یادگار ہوتا تھا۔ میں ان وقتوں کو یاد کرتا ہوں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک اور انڈین صارف راہول شرما نے لکھا کہ آپ میدان میں پوری جان لڑاتے ہیں لیکن میدان سے باہر ہمیشہ اچھے رویے کا اظہار ہی کسی اچھے کھلاڑی کی نشانی ہوتی ہے۔ راہول نے یہ بھی کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کے لیے تمنائیں کہ وہ آنے والے ورلڈ کپ میں بہت سی وکٹیں لیں لیکن انڈیا کے خلاف زیادہ نہیں۔ اویشیک گویال نامی انڈین صارف نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا کہ خاردار تاروں سے باہر دوستی۔ شاہین شاہ آفریدی کا دل موہ لینے والا عمل۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک اور صارف نے لکھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آج میچ کیسا ہو گا لیکن ہمیں یہ (ویڈیو) دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔‘ مومن مختار نے لکھا کہ ’بہت اچھا انداز۔۔۔ سرحد کے دونوں طرف امن ہونا چاہیے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rjyywwd3o
کوئٹہ کے ایم ایم اے فائٹر شاہ زیب رند جنھوں نے ’بیئر نکل‘ مقابلے میں حریف کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مکسڈ مارشل آرٹ (ایم ایم اے) فائٹر شاہ زیب رند نے امریکہ میں گیمبریڈ ایم ایم اے لیگ کے بیئر نکل میچ میں اپنے میکسیکن حریف کارلوس گویرہ کو پہلے ہی راؤنڈ میں شکست دے دی۔ یہ میچ امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں جمعے کی رات کو ہوا اور یہ شاہ زیب رند کا پہلا ایم ایم اے بیئر نکل مقابلہ تھا۔ بییر نکل میں فائٹرز اپنے ہاتھوں پر کوئی حفاظتی گلو نہیں پہنتے۔ اس جیت کے ساتھ شاہ زیب کا ریکارڈ ایک فتح اور صفر شکست ہو گیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے بتایا ’میرا حریف بہت ہی مشکل تھا بہت تجربہ کار فائٹر تھا اور اس کا فائٹنگ سٹائل موئی تھائی ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ میچ میں ’پانچ منٹ کے تین راؤنڈ ہوتے ہیں اس میں ہر چیز کی اجازت ہوتی ہے آپ اپنا گھٹنا استعمال کر سکتے ہیں آپ باکس کر سکتے ہیں لات بھی مار سکتے ہیں گراؤنڈ لاک وغیرہ سب کر سکتے ہیں۔‘ انھوں نے فائٹ کے بارے میں بتایا کہ ’جب لڑائی شروع ہوئی تو میرے حریف نے ایڑھی کا ہُک لگا دیا لیکن میں نے اس سے اپنا دفاع کیا پھر میں نے اس پر مکوں کی برسات کر دی۔‘ شاہ زیب کے مکوں کی وجہ سے کارلوس کی آنکھ کے قریب سے خون بہنے شروع ہو گیا اور 2 منٹ 18 سیکنڈ پر ریفری نے میچ روک دیا جس سے شاہ زیب یہ فائٹ جیت گئے۔ شاہ زیب کہتے ہیں کہ میکسیکو کے کھلاڑی کے تجربے کے پیش نظران کا خیال تھا کہ مقابلے کے تینوں مراحل ہوں گے لیکن انھوں نے پہلے ہی مرحلے میں کارلوس گویرا کو شکست سے دوچارکیا۔ میچ سے پہلے دونوں حریفوں کے درمیان فائنل فیس آف بھی ہوا یعنی ان کا آمنا سامنا ہوا جس کی خاص بات یہ تھی کہ شاہ زیب نے شلوار قمیض کے ساتھ ساتھ روایتی بلوچ پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں بہت سے کھلاڑی ہوتے ہیں جو کہ اپنی ثقافت کو اجاگرکرتے ہیں اسی طرح میں نے بھی اپنی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے شلوارقمیض کے ساتھ بلوچی پگڑی زیب تن کیا۔ اس موقع پر مشہور سابق ایم ایم اے فائٹر جارج ماسویڈل بھی موجود تھے۔ شاہ زیب نے اپنی پگڑی اتار کر انھیں پہنائی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے پگڑی ’جارج ماسویڈل کو بلوچستان اور پاکستان کی طرف سے تحفے میں دی جو ہماری ثقافت ہے، میں نے انھیں اور پوری دنیا کو اپنی ثقافت دکھائی۔‘ خیال رہے کہ شاہزیب رند نے رواں برس اپریل میں امریکہ میں کراٹے کامبیٹ لیگ میں لائٹ ویٹ کیٹیگری میں وینزویلا سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی گابوڈیازکو شکست سے دوچار کیا تھا اس وقت انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے کندھوں پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں نے بھرپورانداز میں مقابلہ کیا اور مجھے پاکستان اور بلوچستان کا نام روشن کرنے میں کامیابی ملی۔‘ فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہ زیب رند نے بتایا تھا کہ ان کے حریف کھلاڑی تینوں راؤنڈز میں اُن کی تکنیک کے سامنے نہیں ٹھہر سکے جس کے باعث وہ ہر راؤنڈ میں ان پر حاوی رہے۔ شاہ زیب بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ مقام حاصل کرنے کے لیےجو کچھ کیا وہ اپنی مدد آپ کے تحت کیا اور اس حوالے سے ان کی حکومت پاکستان اور نہ ہی حکومت بلوچستان نے کوئی مدد کی۔ تاہم بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدل القدوس بزنجو نے ان کی فتح پر انھیں مبارکباد دی ہے۔ شاہ زیب کا کہنا تھا اگرچہ یہ ایک مہنگا کھیل ہے لیکن یہ ان کا شوق ہے اور وہ مستقبل میں بھی اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے خواہ حکومت ان کی مدد کرے یا نہ کرے۔ شاہ زیب رند کا تعلق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ہے اور انھوں نے انٹرنیشنل ریلشنز (بین الاقوامی تعلقات) میں بی ایس کی تعیلم حاصل کر رکھی ہے۔ ان کی عمر اکیس سال ہے اور انھوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی کراٹے کامبیٹ کھیلنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے اس کھیل کے حوالے سے تمام تربیت کوئٹہ میں حاصل کی۔ وہ آٹھ سال پاکستانی ٹیم میں رہے اور چھ مرتبہ نیشنل چیمپیئن بھی رہ چکے ہیں۔ شاہ زیب رند نے بتایا کہ وہ مختلف انٹرنیشنل ایونٹس کے سلسلے میں سنگاپور، ویتنام، آذربائیجان، نیپال اور ایران جا چکے ہیں اور وہاں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے متعدد میڈلز حاصل کر چکے ہیں۔ شاہ زیب رند نے کہا کہ اس مقابلے میں کامیابی پر وہ بہت خوش ہیں کیونکہ ’میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا اور اس حوالے سے مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں صحیح پرفارم نہیں کرتا تو اس کا ایک اچھا تاثر نہیں جاتا اور اس کے نتیجے میں ہمارے آنے والے کھلاڑیوں کو موقع نہیں ملتا۔‘ ’اس کھیل میں ویسے پاکستان کو امریکہ یا دیگر ممالک میں لوگ نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمت اور حوصلے سے کھیل کر پاکستان اور بلوچستان کا نام روشن کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں نے پہلے اچھا تاثر قائم کیا۔ انشا اللہ آگے پاکستان کا نام ہو گا لوگوں میں خوف ہو گا کہ پاکستانی بھی اچھے فائٹرز ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ کراٹے کامبیٹ لیگ کا امریکہ میں ایک بڑا مقابلہ ہوتا ہے۔ میں پہلا پاکستانی اور بلوچ ہوں جو اس لیگ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں اس لیگ میں حصہ لینے کے لیے صرف ویزے پر ان کا 30 لاکھ روپے کا خرچ آیا ہے جبکہ وہ ڈیڑھ مہینے سے یہاں ہیں تمام اخراجات خود اٹھا رہے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c5144vy2858o
ایشیا کپ اور بارش: ریزرو ڈے اور ڈک ورتھ لوئس فارمولا انڈیا پاکستان میچ کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟
ایشیا کپ 2023 کے سپر فور راؤنڈ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کچھ کھیل کے بعد بارش کے باعث روک دیا گیا اور اتوار کو مزید کھیل ممکن نہ ہونے کے باعث بقیہ میچ ریزرو ڈے پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اتوار کو انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 24.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 147 رنز بنائے۔ کپتان روہت شرما اور ان کے ساتھی اوپنر شبھمن گل نصف سنچریاں بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس وقت کریز پر وارٹ کوہلی اور کے ایل راہل موجود ہیں۔ دوسری طرف شاہین شاہ آفریدی اور شاداب خان نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی ہے۔ ریزرو ڈے لاگو کیے جانے کے بعد اب یہ میچ یہیں سے پیر کو پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوگا۔ تاہم پیر کو بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے، اگر کل بارش ہوتی ہے تو ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے لاگو ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔ پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو کہ انڈیا کے جارحانہ آغاز نے غلط ثابت کیا۔ اگرچہ نسیم شاہ کی گیند پر اوپنر شبھمن گل کے دو کیچز چھوٹے مگر انڈین اوپنرز نے شروعات سے ہی پاکستانی بولرز پر دباؤ بنائے رکھا۔ تھرڈ مین پر شبھمن گل کا پہلا کیچ چھوڑنے والے شاہین شاہ آفریدی اپنے ابتدائی تین اوورز میں ردھم نہ پکڑ سکے مگر دوسری طرف نسیم شاہ نے نپی تلی بولنگ برقرار رکھی اور متعدد بار روہت شرما کو اپنی آؤٹ سوئنگ سے پریشان کیے رکھا۔ بارش سے قبل انڈین کپتان روہت شرما اور شبھمن گل نے چوکوں اور چھکوں کی بارش کی۔ دونوں کے درمیان سو گیندوں پر 121 رنز کی شراکت قائم ہوئی۔ شاداب نے اپنے پہلے اوور میں 19 رنز دیے اور ابتدائی خراب بولنگ کے بعد روہت شرما کی وکٹ لے کر پاکستان کو پہلی کامیابی دلائی۔ لانگ آف پر روہت شرما کا ایک مشکل کیچ فہیم اشرف نے پکڑا۔ روہت ایک جارحانہ نصف سنچری کے بعد پویلین لوٹ گئے، ان کی اننگز میں چار چھکے شامل تھے۔ اگلے ہی اوور میں شاہین آفریدی نے اٹیک میں واپس آ کر شبھمن گل کو آف کٹر سے چکما دیا اور ان کا کیچ کوور پر آغا سلمان نے پکڑا۔ شبھمن گل کی 58 رنز کی اننگز میں 10 چوکے شامل تھے اور وہ گذشتہ پاکستان-انڈیا میچ کے مقابلے کافی بہتر انداز میں کھیلے۔ ابھی وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل کے درمیان 24 رنز کی شراکت ہی قائم ہوئی تھی کہ بارش کے باعث میچ روک دیا گیا۔ اس وقت تک انڈیا نے 24.1 اوورز میں دو وکٹوں کے نقصان پر 147 رنز بنائے تھے۔ جب بھی کوئی کرکٹ میچ بارش سے متاثر ہوجائے تو ہم اکثر ڈکورتھ لوئس سٹرن میتھرڈ کے بارے میں سنتے ہیں۔ ریاضی دان ٹونی لوئس اور ان کے ساتھی فرینک ڈک ورتھ نے مل کر یہ نظام متعارف کرایا تھا جسے پہلی بار 1992 ورلڈ کپ میں استعمال کیا گیا۔ سنہ 2014 میں آسٹریلوی پروفیسر سٹیون سٹرن نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں اور تب سے یہ ڈک ورتھ لوئس سٹرن (ڈی ایل ایس) میتھرڈ کہلاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ ریاضی کا ایک فارمولا ہے جو کسی بھی کرکٹ میچ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے بقیہ وسائل (وکٹوں اور اوورز) کے اعتبار سے ترمیم شدہ ہدف ترمیم کا تعین کرتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت پلیئنگ کنڈیشنز میں رد و بدل کیا جاتا ہے، یعنی مقابلے میں شریک ایک یا دونوں ٹیموں کے لیے رنز اور اوورز میں کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ یہ فارمولا اس بات پر محیط ہے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس دو قسم کے وسائل ہوتے ہیں، یعنی ون ڈے میچ میں 300 گیندیں اور 10 وکٹیں۔ جیسے جیسے اننگز آگے بڑھتی ہے، یہ دونوں وسائل کم ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر صفر پر جا پہنچتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ٹیم تمام 300 گیندیں یا 50 اوورز تک بیٹنگ مکمل کر لے، یا پھر اپنی تمام 10 وکٹیں کھو دے۔ بارش کی وجہ سے اوورز یا رنز کم کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ مثلاً اگر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کی پہلے 25 اورز میں تمام 10 وکٹیں باقی ہیں تو وہ زیادہ جارحانہ انداز میں کھیلتے ہیں، برعکس اس کے کہ اگر ان کی پانچ وکٹیں گِر چکی ہوں۔ اسی طرح جب کسی بھی وجہ سے ایک بیٹنگ ٹیم اوورز کھو دیتی ہے تو انھیں اپنے پورے وسائل آزمانے کا موقع نہیں مل پاتا۔ لہٰذا کسی بھی رد و بدل کے لیے اِن دونوں وسائل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ دونوں ٹیموں کو اپنے یہ وسائل آزمانے کا برابر موقع مل سکے۔ یہ فارمولا کئی برسوں سے میچوں پر مطالعے کے بعد مرتب کیا گیا ہے تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ اگر کوئی میچ بارش سے رُک جاتا ہے تو میچ کا دورانیہ کم ہونے پر اوورز کی تعداد یا ہدف کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ اس میں مندرجہ ذیل عوامل زیرِ غور آتے ہیں: ڈی ایل ایس فارمولے کے تحت جو ٹیم پہلے بیٹنگ کرے اس کا پار سکور ہی مجموعی سکور سمجھا جاتا ہے۔ پار سکور سے مراد مجموعی رنز کی پیشگوئی ہے جو نیٹ رن ریٹ (ہر اوور میں اوسط رنز یا بیٹنگ کی رفتار) اور وکٹیں گِرنے سے ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میچ رُکنے کے وقت ایک ٹیم کا رن ریٹ کیا تھا اور اس نے اپنی کتنی وکٹیں گنوائیں۔ اس سسٹم میں یہ بات مدنظر نہیں رکھی جاتی کہ کون سے مخصوص بلے باز آؤٹ ہوچکے ہیں یا فی الحال کون سے بلے باز کھیل رہے ہیں یا ابھی کھیلنے آئیں گے۔ اگر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ بارش کے باعث میچ متاثر ہوسکتا ہے تو وہ اپنی وکٹیں بچا کر رکھتی ہے تاکہ اسے ڈی ایل ایس میتھرڈ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوسکے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اننگز کے شروع میں اوورز کم ہونے کے برعکس اواخر میں اوورز کم ہونے سے میچ پر زیادہ فرق پڑتا ہے کیونکہ عام طور پر ٹیمیں اواخر میں زیادہ جارحانہ انداز میں کھیلتی ہیں۔ اس فارمولے کے تحت یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ جیتنے والی ٹیم کا نیٹ رن ریٹ صفر سے زیادہ ہو، اور ہارنے والی ٹیم سے زیادہ ہو۔ آئی سی سی کے مطابق بدلتی پلیئنگ کنڈیشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال اس فارمولے پر نظرثانی کی جاتی ہے اور ہر دو سے تین سال میں اعداد و شمار بدلتے رہتے ہیں۔ 2018 میں یہ کہا گیا تھا کہ دوسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے جیتنے کا امکان ماضی کے برعکس قدرے بڑھ چکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1992 کے ورلڈ کپ میچ میں جنوبی افریقہ کو اسی متنازع فارمولے کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف آخری گیند پر جیتنے کے لیے 21 رنز درکار تھے اور جنوبی افریقہ یہ میچ ہار گیا تھا۔ مگر آج استعمال ہونے والا ڈک ورتھ لوئس فارمولا اس قدر تبدیل ہوچکا ہے کہ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ کو اس آخری گیند پر تین رنز درکار ہونا تھے۔ جہاں تک بات ریزرو ڈے کی ہے تو اس کا یوں تو اعداد و شمار کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کرکٹ میں کنڈیشنز کا بہت عمل دخل ہے اور ایک دن جیسی کنڈیشنز ہوتی ہیں وہ اگلے روز یکسر مختلف ہو سکتی ہیں۔ سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل بھی ریزرو ڈے پر منتقل کیا گیا تھا اور اس کے باعث انڈیا کو مشکل کنڈیشنز میں کیوی بولرز کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اور یہ میچ انڈیا ہار گیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کل کولمبو میں کنڈیشنز انڈیا کو فیور کرتی ہیں یا پاکستان کو۔۔۔