url
stringlengths
1
238
heading
stringlengths
7
166
content
stringlengths
7
33.8k
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0ee1evxq7o
سمیع چوہدری کا کالم: ’کیا کرکٹ جے شاہ سے جیت پائے گی؟‘
بالآخر اکیلے جے شاہ بھاری پڑ گئے اور ایشین کرکٹ کونسل کے باقی سب ارکان کی آرا ماند پڑ گئیں۔ مفادات کا ٹکراؤ اپنی جگہ، مگر جے شاہ کو اس سے قطعی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بیک وقت بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری ہونے کے ساتھ ساتھ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں۔ امت شاہ بی جے پی کے اہم ترین ارکان میں سے ہیں۔ وہ نریندر مودی کی آنکھوں کا تارا ہیں اور ان کے وزیرِ داخلہ ہونے کے ساتھ ساتھ جے شاہ کے والدِ گرامی بھی ہیں۔ سو، جو پالیسی مودی سرکار سیاسی محاذ پر پاکستان کے ساتھ روا رکھتی ہے، جے شاہ کرکٹ تعلقات میں بھی اسی حکمتِ عملی کو فروغ دینے میں کوشاں رہتے ہیں۔ حالانکہ بی سی سی آئی سربراہ راجر بنی اور ان کے نائب راجیو شکلا چار ہی دن پہلے ذکا اشرف کی دعوت پر لاہور آئے مگر ان دونوں سے کہیں پہلے جے شاہ کو ملتان کے افتتاحی ایشیا کپ میچ کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن حسبِ توقع انھوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ سنیچر کا پاکستان انڈیا مقابلہ بارش کی نذر ہونے کے بعد ایک بار پھر پی سی بی کی جانب سے یہ تجویز دہرائی گئی کہ ایونٹ کے باقی ماندہ میچز لاہور کے بہتر موسم میں منتقل کر دیے جائیں مگر جے شاہ نے اپنے ہی تصورات کی دنیا میں محو رہتے ہوئے، پاکستان کی معاشی صورت حال کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ یہاں تو ٹورنامنٹ کا انعقاد ہی ناممکن تھا۔ لیکں پاکستان سے مخاصمت کو برطرف رکھ کر، جے شاہ کے پاس ایک اور بھی موقع تھا کہ وہ دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی ماندہ میچز خراب موسم کے دہانے پر کھڑے کولمبو کے بجائے ہیمبنٹوٹا منتقل کر سکتے تھے مگر ایک بار پھر جے شاہ سب پر بھاری پڑ گئے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سپر فور مرحلے کا پاکستان انڈیا میچ بھی نامہرباں موسم کی زد پر ہے اور اپنی پٹاری کھنگالتے ہوئے جے شاہ اس مسئلے کا حل ریزرو ڈے کی صورت میں نکال کر لائے ہیں۔ چونکہ اتوار کے روز کولمبو میں بارش کا امکان 90 فیصد تک ہے، سو میچ مکمل نہ ہو پانے کی صورت میں باقی ماندہ کھیل کے لیے سوموار کا دن بھی مختص کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی کثیرالقومی ٹورنامنٹ میں ایسی نظیر دستیاب نہیں ہو پاتی جہاں فائنل یا اہم ناک آؤٹ میچز کے سوا کسی اور مرحلے کے فقط ایک میچ کے لیے ریزرو ڈے رکھا گیا ہو جبکہ باقی شرکا کو ایسی سہولت میسر نہ ہو۔ گویا پاکستان اور انڈیا میچ کی تکمیل ہی ایشین کرکٹ کونسل کا حتمی ایجنڈا ٹھہرا اور سری لنکا، بنگلہ دیش کے میچز بھلے بارش سے متاثر ہوں، انھیں اپنا خسارہ خود ہی چُکانا ہو گا۔ اگرچہ سنیچر کے پاکستان انڈیا مقابلے میں پاکستان نے شروعات بہت عمدہ کی اور شاہین آفریدی نے انڈین ٹاپ آرڈر کو تگنی کا ناچ نچا چھوڑا مگر اسی میچ میں یہ بیچ کے اوورز تھے جہاں بابر اعظم نے دونوں کناروں سے سپنرز آزمانا شروع کیے اور محبوس انڈین بیٹنگ کو وقار کی بحالی کا آسان رستہ فراہم کر دیا۔ شومئی قسمت کہ وہ میچ مکمل ہی نہ ہو پایا وگرنہ وہ ہدف پاکستانی بیٹنگ کے لیے ایک کڑا امتحان ثابت ہو سکتا تھا۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں پاکستان نے زیادہ متوازن الیون منتخب کی اور فہیم اشرف کی واپسی کی بدولت تینوں فاسٹ بولرز کے لیے بھی سانس بحال کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی۔ فہیم اشرف رفتار کی کمی کو اپنی مہارت اور درستی سے پورا کرتے ہیں اور جب پے در پے 145 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سہمے ہوئے بلے باز انھیں آسان ہدف تصور کرتے ہیں تب وہ فہیم کی ورائٹی کے دام میں آ جاتے ہیں۔ پاکستانی پیس نے جس قدر بوجھ گزشتہ چند سال میں اٹھایا ہے، اس کا خمیازہ لا محالہ سپن کو ہی بھگتنا تھا اور فی الوقت پاکستانی سپن ڈیپارٹمنٹ حسبِ ماضی متاثر کن نہیں ہے مگر افتخار احمد اور سلمان آغا کو اگر کپتان کا اعتماد میسر آ جائے تو وہ بھی کسی باقاعدہ سپنر سے کم مفید نہیں رہتے۔ دوسری جانب روہت شرما کی ٹیم یہ سوچ رہی ہے کہ کل کے مقابلے میں ان کی حتمی الیون کس شکل میں نمودار ہو گی۔ کے ایل راہول انجری سے صحت یاب ہو چکے ہیں مگر سلیکشن کمیٹی کے لیے دردِ سر ہے کہ پچھلے میچ میں عمدہ اننگز کھیلنے والے ایشان کشن سے صرفِ نظر کیونکر کیا جائے۔ پچھلے میچ کے تلخ تجربات کے بعد یہاں انڈین ٹاپ آرڈر زیادہ محتاط رہے گا اور اگر پہلے پاور پلے میں انڈین وکٹیں کچھ محفوظ رہ گئیں تو انڈیا کے امکانات بڑھ جائیں گے، کیونکہ جسپریت بمراہ اگر صحیح ردھم میں واپس آ جاتے ہیں تو پاکستانی ٹاپ آرڈر اپنے انڈین حریف سے کہیں زیادہ متزلزل ثابت ہو سکتا ہے۔ جب پاکستان انڈیا میچ موسم کی نذر ہو جائے تو نقصان صرف شائقین ہی نہیں اٹھاتے، متعلقہ کرکٹ بورڈز، ایونٹ میزبان اور براڈکاسٹرز کی جیبوں پر بھی خوب بوجھ پڑتا ہے۔ یہاں اس نقصان سے بچنے کو جے شاہ نے ایک ریزرو ڈے رکھ کر یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ان کے طے کردہ شیڈول کے رنگ میں مزید بھنگ نہ پڑے۔ تاحال اس ایشیا کپ کے سبھی فیصلوں میں جے شاہ ہی جیتتے آئے ہیں اور اگر پاکستان انڈیا میچ ریزرو ڈے کے باوجود مکمل ہونے سے محروم رہ جاتا ہے تو بھی جیت بھلے جے شاہ کی ہی ہو مگر یہ ہار کرکٹ کی ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cq592zjez8qo
انڈیا پاکستان کرکٹ میں ’دوستی‘: گوتم گمبھیر کے اعتراض پر شاہد آفریدی کا محبت کا پیغام
ایشیا کپ 2023 کا آغاز ہوا تو سب کی نظریں ایک ہی میچ پر لگی ہوئی تھیں جو کہ پاکستان انڈیا کا میچ تھا۔ دو ستمبر کو ہونے والے میچ میں انڈیا کے بلے بازوں نے پاکستان کے مایہ ناز بولرز کا سامنا کیا۔ یہ میچ پاکستان کی بولنگ اور وینیو میں بارش کے علاوہ یہ میچ ایک اور وجہ سے بھی خبروں کی زینت بنا۔ اس کی وجہ سابق انڈین کرکٹر اور اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دہلی سے رکن پارلیمان گوتم گمبھیر بنے۔ چاہے سٹیڈیم میں موجود شائقین کو ’مڈل فنگر‘ یعنی درمیانی انگلی کا اشارہ کرنا ہو یا کمنٹری کے دوران دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں پر کی گئی باتیں ہوں گوتم گمبھیر میچ کی خبروں کی زینت بنے۔ ایک ایسے ہی بیان پر اب پاکستان کے سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی اپنا رد عمل دے دیا ہے۔ انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کے دوران گوتم گمبھیر نے کہا تھا کہ جب کھلاڑی اپنے ملک کے لیے کھیلتے ہیں تب انھیں اپنی دوستی میدان سے باہر چھوڑ کر آنی چاہیے۔ ’گیم فیس‘ ہونا ضروری ہے دوستی باہر رکھنی چاہیے، دونوں کھلاڑیوں کے درمیان جارحیت ہونی چاہیے۔ گوتم گمبھیر نے کہا ’جتنا بھی دوستانہ ہونا ہے ہوئیں، لیکن میچ کے چھ سات گھنٹوں کے بعد یہ گھنٹے بہت اہم ہیں کیونکہ آپ صرف اپنے آپ کی نمائندگی نہیں کر رہے آپ 100 کروڑ سے زیادہ لوگوں کی طرف سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔‘ پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کے دوران کچھ ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں دونوں ملکوں کے کھلاڑی ایک دوسرے سے پیار سے ملتے نظر آئے۔ خاص طور پر وراٹ کوہلی کی ایسی تصویریں سوشل میڈیا پرکافی شیئر ہوتی رہیں۔ زیادہ تر لوگ اس کو اچھی سپورٹس مین شپ سے تعبیر کرتے نظر آئے۔ انڈیا پاکستان میچ میں شاداب خان نے ہاردک پانڈیا کے تسمے باندھے اور ان کی تصویر بھی شوشل میڈیا پر کافی شیئر ہوئیں تھیں۔ گمبھیر نے بغیر کسی کا نام لیے اس واقعے کے بارے میں کہا کہ ’آج کل آپ دیکھتے ہیں کہ دو مخالف ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے کو تھپتھپاتے اور ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ سب کچھ چند سال پہلے تک نہیں ہوا کرتا تھا۔‘ گوتم گمبھیر کے بیان پر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے کھلاڑی دوستانہ رویہ رکھتے ہیں، یہ سب سے اچھی بات ہے۔ میں اسے بہت مثبت انداز میں دیکھتا ہوں۔ جب ہم کسی بھی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں اپنے ملک کے سفیر بھی ہوتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کرکٹ کے ذریعے ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ سیاست کو بالکل ایک طرف رکھیں۔‘ گوتم گمبھیر کے بیان پر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’یہ ان کی اپنی سوچ ہے، میری سوچ مختلف ہے۔ ہم کرکٹر بھی ہیں اور سفیر بھی۔ دنیا میں ہمارے بھی مداح ہیں۔ دونوں طرف پرستار ہیں۔ میرے خیال میں آپ صرف محبت کا پیغام دیں تو بہتر ہوگا۔‘ گو کہ شاہد آفریدی گوتم گمبھیر سے مختلف خیالات رکھنے کی بات کر رہے ہیں لیکن میدان میں ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان نوک جھوک بھی ہوئی تھی۔ سنہ 2007 میں کانپور میں ہونے والے ون ڈے میچ میں شاہد آفریدی بولنگ کر رہے تھے اور ان کے سامنے گوتم گمبھیر وکٹ کے سامنے کڑے بلے بازی کر رہے تھے۔ گوتم گمبھیر نے آفریدی کی ایک گیند پر چوکا لگایا اور پھر اگلی ہی گیند پر رن لینے کے لیے بھاگے اور اس دوران دنوں کھلاڑیوں کی آپس می ٹکر ہو گئی اور پھر تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور بعد میں آئی سی سی نے گمبھیر پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ کرکٹ میچوں میں کھلاڑیوں کی جارحیت پر آفریدی نے کہا کہ میدان کے اندر جارحیت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن میدان سے باہر بھی ایک زندگی ہے اور ہم اپنے اپنے ممالک کے سفیر ہیں۔ ایشیا کپ میں انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں اتوار کو ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گی۔ دو دن قبل گوتم گمبھیر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو ایشیا کپ میچ کے دوران کی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم کوہلی کے حق میں نعرے لگا رہا ہے اور گوتم گمبھیر وہاں سے گزرتے ہوئے ہجوم کی طرف اپنی درمیانی انگلی ہوا میں لہرا کر اشارہ کرتے ہیں۔ کسی کو درمیانی انگلی دکھانا بہت برا سمجھا جاتا ہے، یہ ایک فحش فعل سمجھا جاتا ہے۔ اس ویڈیو پر گوتم گمبھیر کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تنقید کے بعد گوتم گمبھیر نے میڈیا سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ لوگ جو کچھ دکھانا چاہتے ہیں دکھاتے ہیں۔ گوتم گمبھیر کا دعویٰ ہے وائرل ویڈیو کی ’سچائی یہ ہے کہ اگر کوئی انڈین مخالف نعرے لگاتا ہے اور کشمیر کے بارے میں بولتا ہے، تو آپ کے سامنے والا شخص ظاہر ہے ردعمل دے گا۔ وہ مسکرا کر بس چلا نہیں جائے گا۔ دو تین پاکستانی تھے جو انڈیا مخالف اور کشمیر پر باتیں کر رہے تھے۔ ایسے میں یہ میرا فطری ردعمل تھا۔ میں اپنے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔ میں اس قسم کا انسان بھی نہیں ہوں۔‘ گوتم گمبھیر کے وراٹ کوہلی کے ساتھ تعلقات پر اکثر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اس سال مئی میں بنگلور اور لکھنؤ کے درمیان آئی پی ایل میچ میں گوتم گمبھیر اور وراٹ کوہلی کے درمیان تلخ کلامی پر کافی سرخیاں بنائیں گئیں۔ اس دن میچ کے بعد بنگلور کے کھلاڑی وراٹ کوہلی اور لکھنؤ کے مینٹور گوتم گمبھیر کے درمیان غصے میں الفاظ کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔ ان دونوں کو ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے الگ کیا اور آئی پی ایل نے ان پر جرمانہ بھی عائد کیا۔ وراٹ کوہلی اور گوتم گمبھیر کے درمیان آن فیلڈ جھڑپوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان پہلا بڑا ٹکراؤ سنہ 2013 کے آئی پی ایل میں دیکھا گیا جب کوہلی بنگلور کے کپتان تھے اور گمبھیر کولکتہ کی قیادت کر رہے تھے۔ میچ کے دوران دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دھکا بھی دیا۔ سنہ 2016 میں کولکتہ نے بنگلور کے خلاف 183 رنز بنائے لیکن پھر بھی وہ میچ 9 وکٹوں سے ہار گئے۔ کوہلی اس سیزن میں زبردست فارم میں تھے اور انھوں نے 900 سے زیادہ رنز بنائے تھے۔ اس میچ کے 19ویں اوور کے دوران گوتم گمبھیر اتنے مایوس ہو گئے کہ رن مکمل ہونے کے بعد بھی انھوں نے گیند نان اسٹرائیکر کی طرف ماری جہاں وراٹ کوہلی کھڑے تھے۔ ایک بار پھر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اس پورے میچ کے دوران دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کے خلاف خوب چملے کسے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg5d2wwvnno
بادشاہ خان: ’خواب میں ورلڈ چیمپیئن کو ہرایا تو ٹھان لی کہ ریسلر بن کر ہی رہوں گا‘
’بابا کو مشکل سے منایا تھا اور ریسلنگ اکیڈمی میں داخلہ بھی ہو گیا تھا لیکن مجھ جیسا غریب لڑکا ہر مہینے ایک لاکھ روپے کیسے لاتا۔ پھر ہوسٹل میں ایک دن یہ سوچ کر سویا کہ کل واپس گھر نکل جاتا ہوں لیکن رات میں خواب دیکھا کہ میں نے عالمی مقابلے میں ورلڈ چیمپیئن رومن رینز کو ہرا دیا۔ یہ اوپر والے کا اشارہ تھا۔ میں نے بھی طے کر لیا کہ اب ڈبلیو ڈبلیو ای تک ضرور پہنچوں گا۔‘ یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع رام بن سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ عارف سلیم کا خواب ہے۔ وہ ’بادشاہ خان‘ کے نام سے عالمی ریسلر بننے کے لیے گذشتہ تین سال سے انڈین پنجاب کے جالندھر شہر میں ایک عالمی ریسلر کی نجی اکیڈمی میں ڈبلیو ڈبلیو ای کے لیے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ اکیڈمی انڈیا کے ’گریٹ کھلی‘ چلاتے ہیں جنھوں نے ڈبلیو ڈبلیو ای یا ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کے ایک مقابلے میں ’دی انڈر ٹیکر‘ کے نام سے مشہور ریسلر کو ہرایا تھا۔ انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ڈبلیو ڈبلیو ای طرز کی ریسلنگ کا نہ تو کوئی رجحان رہا ہے اور نہ ہی کوئی تربیت گاہ تو پھر عارف سلیم کو یہ شوق کیسے ہوا؟ بادشاہ خان کے والد محمد سلیم انڈیا کی نیم فوجی فورس سی آر پی ایف میں انسپکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’کئی سال پہلے جب عارف پانچویں جماعت میں تھا تو میری ڈیوٹی سرینگر میں لگی۔ میں بچوں کو بھی لے گیا سوچا ان کی تعلیم کا اچھا بندوبست ہوجائے گا۔‘ ’پھر ایک چھُٹی کے دن میں عارف کو اپنے کیمپ لے گیا جہاں ہال میں ایک بڑا ٹی وی تھا۔ اس پر یہی ریسلنگ میچ ہو رہا تھا۔ عارف دن بھر دیکھتا رہا اور پھر گھر پر اس نے ٹی وی پر صرف یہی دیکھنا شروع کر دیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ بادشاہ خان نے آٹھویں جماعت سے ہی ریسلر بننے کی ضد شروع کر دی تھی لیکن کسی طرح سے ان کو دسویں جماعت پاس کرائی گئی۔ ’میں نے کہا بیٹا یہ انڈیا کا کھیل بھی نہیں، یہ تو کروڑ پتیوں کا کھیل ہے، لیکن اس نے طے کر لیا تھا کہ ریسلر ہی بنے گا۔‘ بادشاہ خان بتاتے ہیں کہ ’بابا ٹالتے رہے یہاں تک کہ میں نے 12ویں بھی پاس کر لی۔ پھر میری ضد کے آگے وہ بے بس ہو گئے اور ہم نے جالندھر میں ریسلنگ اکیڈمی کا پتہ لگایا۔‘ اس اکیڈمی کی داخلہ فیس چار لاکھ روپے ہے جبکہ خوراک اور دوسرے اخراجات پر ہر زیر تربیت لڑکے کا ماہانہ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک خرچہ ہوتا ہے۔ بادشاہ خان کے والد کہتے ہیں ’مجھ جیسے ملازم کے پاس تنخواہ کے علاوہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے عارف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی اچھے کالج میں داخلہ لو، پڑھو لکھو اور افسر بنو یا ڈاکٹر بنو۔‘ ’لیکن اس نے کہا کہ جو خرچہ اس کی تعلیم و تربیت پر کرنا چاہتا ہوں، ریسلنگ کی کوچنگ پر کیا جائے۔‘ بادشاہ خان کے والد نے داخلے کے وقت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ’گریٹ کھلی‘ سے فیس میں رعایت کی گزارش کی تو انھوں نے کہا کہ رعایت نہیں ہو گی تاہم بادشاہ خان کا جنون دیکھ کر وہ یہ فیس چار قسطوں میں لیں گے۔ بادشاہ خان کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں میرے والدین کس طرح دوسرے خرچے کم کر کے ایک ایک پیسہ جوڑ کر مجھے پیسے بھیجتے ہیں۔‘ ’وہاں دوسرے لڑکے کوئی کمپرومائز نہیں کرتے، لیکن میں نے اپنے خرچے 30 سے 40 ہزار تک محدود کر دیے ہیں۔‘ ’تین سال سے چالیس ڈگری گرمی میں بغیر اے سی کے کمرے میں ہوں کیونکہ اے سی کمرے کا کرایہ زیادہ ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میں بہت کم ڈائٹ لیتا ہوں اور سپلیمنٹ تو بالکل نہیں لیتا۔ میرا فوکس ٹریننگ پر ہے اور میری منزل ڈبلیو ڈبلیو ای ہے۔‘ ٹریننگ کے دوران زیر تربیت ریسلرز کو چھُٹی نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ بادشاہ خان تین سال کے بعد گھر لوٹے۔ جب وہ گھر پہنچے تو ان کی والدہ اور بہن جذباتی ہو کر رونے لگیں اور ان کے والد انھیں دیکھنے کے لیے بہت دور سے صرف ایک رات کے لیے گھر آئے تھے۔ بادشاہ خان بتاتے ہیں کہ جب وہ تین سال بعد واپس آئے تو ’میں نے اپنی بستی کو پہچانا بھی نہیں۔ سڑک بن گئی ہے، نئی دکانیں، کئی نئے مکان۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’گھر سے دوُری بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن میں ڈبلیو ڈبلیو ای میں جانے کے لیے ایسی کئی قربانیاں دے رہا ہوں۔‘ ڈبلیو ڈبلیو ای کا مطلب ہے ’ورلڈ ریسلنگ اینٹرٹینمنٹ۔‘ مغربی ممالک میں اس کا خوب رواج ہے۔ لیکن عالمی مقابلوں کے لیے دنیا کے سبھی ممالک میں ٹرائلز ہوتے ہیں اور بیشتر ممالک سے نئے ریسلر چُنے جاتے ہیں۔ پھر ان ریسلرز کو عالمی مقابلوں میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ بادشاہ خان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں چند برسوں کے اندر ہی ٹرائلز ہوں گے جس میں انڈیا کے بعض بڑے شہروں میں قائم اکیڈمیوں کے ٹرینر حصہ لیں گے۔ ’اکیڈمی کی طرف سے جو میچز میں نے کھیلے ہیں انھیں کافی سراہا گیا۔ میرا سٹائل الگ ہے اور اس گیم میں چہرے کا ایکسپریشن بہت ضروری ہوتا ہے۔‘ ’میں کھیلتے وقت کافی ایگریشن دکھا پاتا ہوں۔ ٹرائلز ہوں گے تو مجھے سو فی صد یقین ہے میری سلیکشن ہو جائے گی۔‘ قدیم یونان میں جس طرح گلیڈیئیٹر لڑائی کرتے تھے اور لوگ اس کا مزہ لیتے تھے، اُسی طرح ڈبلیو ڈبلیو ای کی ریسلنگ بھی ہے لیکن یہاں زیادہ تر خون خرابہ نہیں ہوتا۔ البتہ کھلاڑی اگر چوک گیا تو اسے گھمبیر چوٹ آ سکتی ہے۔ بادشاہ خان کہتے ہیں کہ ’اسی لیے تو ٹریننگ ہوتی ہے کہ مقابل کا وار کیسے بچانا ہے۔‘ ’اور پھر خطرہ تو ہر کھیل میں ہے، بس ہمارے یہاں جارحانہ انداز ہے اس سے خطرہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv25j72wd49o
بنگلہ دیش کا حساب کتاب اور حارث رؤف کا جواب: سمیع چوہدری کا کالم
ایک حبس وہ تھا جو قذافی سٹیڈیم کے ماحول پہ طاری تھا اور ایک حبس وہ تھا جو بنگلہ دیشی بیٹنگ کو بے سُدھ کیے دیتا تھا۔ یوں تو پاکستانی پیس اٹیک کسی بھی بیٹنگ لائن کے لیے امتحاں سے کم نہیں مگر بنگلہ دیشی بلے بازوں کے لیے یہ اک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ پاکستانی پیس اٹیک میں مہرے اگرچہ تین ہیں مگر زیادہ تر مرکزِ نگاہ شاہین شاہ آفریدی رہا کرتے ہیں اور جب ان سے توجہ ہٹتی ہے تو نسیم شاہ محور ہو رہتے ہیں۔ حارث رؤف تک پہنچتے پہنچتے ارتکاز خاصا گھٹ چکا ہوتا ہے۔ مگر اس سارے میلے میں حارث رؤف کی بھی اپنی ایک خاموش سی دنیا ہے جو لائم لائٹ میں تو شاید یوں اُبھر کر سامنے نہیں آتی مگر بوقتِ ضرورت اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے میں کبھی کوتاہ ہمت نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی دوسروں کے حصے کا بوجھ بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ یہ دن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جب جب حارث کو گیند تھمایا جاتا ہے، وہ اپنی تمام تر توانائیاں حریف بلے باز کے دفاع کو منتشر کرنے میں صرف کر چھوڑتے ہیں۔ نتائج کبھی کبھی یکسر متضاد بھی برآمد ہو جاتے ہیں اور حارث مہنگے بھی پڑ جاتے ہیں مگر جب جب حارث اپنے ردھم میں آتے ہیں، مخالف بیٹنگ کے پاس دعاؤں کے سوا کچھ بچ نہیں رہتا۔ عموماً شاہین آفریدی اور نسیم شاہ پاکستان کے لیے قناعت پسند واقع ہوا کرتے ہیں مگر یہ دن یکسر الگ تھا کہ جہاں شاہین شاہ اور نسیم شاہ قدرے مہنگے ہو رہے جبکہ حارث رؤف بالکل ناقابلِ تسخیر ٹھہرے۔ بنگلہ دیشی بیٹنگ کو ابھی یہی سُجھائی نہ دے رہا تھا کہ نجم الحسن شانتو کی عدم دستیابی کو روئیں یا لٹن داس کی واپسی پر کچھ اطمینان کمائیں کہ پچھلے میچ کا کامیاب ترین تجربہ یہاں پہلی ہی گیند پہ ناکام پڑ گیا اور مہدی حسن کی اوپننگ شروع ہونے سے پہلے ہی تمام ہو گئی۔ نئی گیند میسر ہو تو شاہین آفریدی کو وکٹ لینے سے زیادہ دیر روکا نہیں جا سکتا۔ یہاں بھی شاہین نے شروع میں ہی فرق ڈالا اور بنگلہ دیشی ٹاپ آرڈر اپنی تمام تر جارحانہ نیت کے باوجود پہلے پاورپلے میں ہی دباؤ کا شکار ہو گیا۔ بلکہ یہ جارحیت ہی تھی جو بنگلہ دیشی ارمانوں کے لئے حرزِ جاں ثابت ہوئی۔ بلاشبہ پاکستانی پیس کا مقابلہ بہت ہمت کا کام ہے مگر خالی خولی جارحیت کبھی بھی اس کا تشفی بخش جواب نہیں ہو سکتی۔ بنگلہ دیشی ٹاپ آرڈر نے آگ کا جواب آگ سے دینے کی کوشش کی مگر یہ حسابی کتابی حکمت عملی لاجواب ٹھہری اور پہلے پاور پلے میں ہی چار وکٹیں کھونے کے بعد سارا دباؤ اپنے سر لاد بیٹھی۔ مگر تجربہ بہرحال تجربہ ہے، اس کا کوئی بدل نہیں۔ بنگلہ دیش بھی مشکل صورتحال سے نکلنے کو اپنے دو گھاگ ترین بلے بازوں کی طرف دیکھ رہا تھا اور شکیب الحسن نے بھی بھرپور ردِعمل دیتے ہوئے دباؤ پاکستانی بولنگ پر پلٹانے کی کچھ کوشش کی۔ دوسرے کنارے سے مشفق الرحیم اگرچہ ویسے رواں نہ ہو پائے مگر میچ کے سیاق و سباق میں بہت عمدگی سے اپنی اننگز کی بُنت کی۔ اور اگر مشفق کا رستہ نہ روکا جاتا تو بنگلہ دیشی بیٹنگ بآسانی پونے تین سو کے لگ بھگ مجموعہ سجا سکتی تھی جو بعد ازاں پاکستانی بیٹنگ کے لئے مزید احتیاط کا سامان ہو سکتا تھا۔ مگر حارث رؤف کا خیال کچھ اور ہی تھا۔ اپنے ہوم گراؤنڈ پہ یہ حارث کے لیے پہلا موقع تھا کہ وہ کسی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کر رہے تھے، سو انھوں نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جہاں توقعات اور قیاس آرائیاں ایک مسابقتی مجموعے کو ڈھونڈ رہی تھیں، وہاں حارث نے بنگلہ دیشی بلے بازوں کا سانس لینا محال کر دیا، قدم حرکت میں لانے کو جگہ ہی نہ چھوڑی اور جب بنگلہ دیشی لوئر آرڈر کچھ نہ کچھ وقار بحال کرنے کی تگ و دو میں تھا، تب حارث ان ارمانوں پہ مزید اوس بن کر گرے۔ بنگلہ دیش اس میچ کے لیے فیورٹ تو نہیں تھا مگر اپنے پچھلے میچ کے بعد پرامید ضرور تھا کہ بھرپور لڑائی لڑے گا اور خدشات کو مات دینے کی کوشش کرے گا۔ مگر حارث رؤف کے دوسرے سپیل نے بنگلہ دیش کی آخری امید بھی بجھا دی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg03q0wn8ro
پاکستان کی بنگلہ دیش کو سات وکٹوں سے شکست: ’حارث رؤف لاہور کی گرمی میں تیز رفتاری سے بولنگ کرتے رہے‘
پاکستان نے ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کے ابتدائی میچ میں بنگلہ دیش کو باآسانی سات وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان لاہور میں کھیلے جانے والا میچ شدید گرمی، حبس اور فلڈ لائٹس کی خرابی کے باعث متعدد مرتبہ تعطل کا شکار رہا تاہم پاکستان کی بولنگ ایک بار پھر مخالف ٹیم پر حاوی رہی۔ بنگلہ دیش نے آج لاہور میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ گراؤنڈ عموماً پہلے بیٹنگ کے لیے سازگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ دوسری اننگز میں پچ بیٹنگ کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ تاہم پاکستانی بولرز نے بنگلہ دیش کی بیٹنگ کو آغاز میں ہی یکے بعد دیگرے نقصان پہنچا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ بڑا ٹوٹل بنانے میں ناکام رہیں۔ پاکستان کے اوپننگ بولرز نسیم شاہ اور شاہین آفریدی نے ایک بار پھر پاکستان کو اچھا آغاز دیا اور مہدی حسن اور لٹن داس کو پہلے پانچ اوورز میں پویلین کی راہ دکھائی۔ اس کے بعد آنے والے حارث رؤف نے محمد نعیم اور توحید کو آؤٹ کر کے پہلے دس اوورز میں ہی بنگلہ دیش کے 47 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ کر دیے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش کے دو تجربہ کار بیٹرز مشفیق الرحیم اور شکیب الحسن نے لڑکھڑاتی بیٹنگ کو سہارا دیا اور سنچری شراکت قائم کر کے بنگلہ دیش کا سکور 147 رنز تک پہنچایا۔ 30ویں اوور تک بنگلہ دیش کی ٹیم بہترین پوزیشن میں تھی تاہم پھر اس میچ کے لیے محمد نواز کی جگہ ٹیم میں شامل کیے جانے والے فہیم اشرف کو بولنگ کے لیے لایا گیا اور انھوں نے شکیب کی وکٹ حاصل کر کے پاکستان کو ایک اہم بریک تھرو دیا۔ یہاں سے بنگلہ دیش کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ تھم نہ سکا اور بنگلہ دیش کی پوری ٹیم صرف 193 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ پاکستان کی جانب سے حارث رؤف نے اپنے دوسرے سپیل میں بھی دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور یوں چار وکٹیں حاصل کیں جبکہ نسیم شاہ نے تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ شاہین آفریدی اور افتخار احمد نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ حارث رؤف نے ون ڈے کرکٹ میں پانچ وکٹیں بھی حاصل کر لی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بیٹنگ کا آغاز ہوا تو دونوں اوپنرز نے محتاط انداز اپنائے رکھا جس کی وجہ سلو پچ بھی تھی۔ فخر زمان جو گذشتہ چند سے نصف سنچری بنانے میں ناکام رہے ہیں ایک بار پھر صرف 20 رنز ہی بنا سکے اور شریف الاسلام کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ شریف الاسلام نے آنے والے بلے باز بابر اعظم اور امام الحق دونوں کو ہی مشکل میں ڈالے رکھا اور اپنے آٹھ اوورز میں صرف 24 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی۔ بابر اعظم 17 رنز بنا کر تسکین کی گیند بولڈ ہوئے تو رضوان اور امام الحق نے اچھی شراکت قائم کی اور پاکستان کو فتح کے قریب لے گئے۔ امام الحق نے اس دوران ایک مشکل پچ پر 78 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی جس میں چار چھکے اور پانچ چوکے شامل تھے۔ وہ ایک اور جارحانہ سٹروک کھیلنے کی کوشش میں مہدی حسن کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ دوسری جانب رضوان نے بھی نصف سنچری بنا کر پاکستان کی فتح یقینی بنائی۔ انھوں نے اپنی اننگز میں سات چوکے اور ایک چھکا لگایا۔ پاکستان اپنا اگلا میچ 10 ستمبر یعنی اتوار کو انڈیا کے خلاف کولمبو میں کھیلے گا جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا سنیچر نو ستمبر کو کولمبو میں آمنے سامنے ہوں گی۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کی بولنگ کی ایک بار پھر مخالف ٹیم پر حاوی رہنے پر تعریف کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے حارث رؤف کو لاہور کی گرمی میں بھی تیز رفتاری سے بولنگ کرنے پر سراہا جا رہا ہے۔ آج لاہور میں حبس کے باعث کھلاڑیوں کو بار بار پانی کا وقفہ لینا پڑ رہا تھا۔ ایسے میں حارث رؤف مسلسل 145 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کروا رہے تھے۔ سپورٹس پریزینٹر زینب عباس نے بھی حارث رؤف کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں لاہور قلندرز کا مشکور ہونا چاہیے جنھوں نے اپنے پلیئر ڈویلپمینٹ پروگرام سے کھلاڑی اٹھا کر اسے موقع دیا اور آج وہ دنیا کے بہترین بولرز میں شامل ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام اسی طرح آج فاسٹ بولر نسیم شاہ فیلڈنگ کے دوران کچھ دیر کے لیے زخمی ہوئے تھے جس کے بعد اکثر افراد نے ورلڈ کپ سے پہلے پاکستانی بولرز کو محتاط رہنے کی ہدایت کی۔ نسیم شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیم مینجمنٹ کو ان سے کہنا چاہیے کہ وہ ابھی ڈائیو نہ کریں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ برس شاہین آفریدی بھی فیلڈنگ کے دوران دو مرتبہ گھٹنے کی انجری کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد انھیں کچھ ماہ ٹیم سے باہر رہنا پڑا تھا۔ صارفین نے حارث، نسیم اور شاہین کی بھی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ تینوں مل کر ایک ایسا پیس اٹیک بنا چکے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cnkg078v294o
گوتم گھمبیر کے نازیبا اشارے کی وائرل ویڈیو: ’وہ پاکستانی شائقین کی جانب سے انڈیا مخالف نعروں کا جواب تھا‘
انڈیا کے سابق کرکٹر اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دہلی سے رکن پارلیمان گوتم گمبھیر اپنے متنازع بیانات کے باعث اکثر خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ گذشتہ روز یعنی سوموار کو وہ ایک بار پھر پاکستان اور انڈیا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر مختلف ہیش ٹیگز کے تحت ٹرینڈ کرنے لگے جس میں اُن کے حالیہ رویے پر بات ہو رہی ہے جو ایک وائرل ویڈیو میں نظر آئی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ فون پر بات کرتے ہوئے سٹیڈیم کے اندر جا رہے ہیں جبکہ ایک شخص نے ان کے لیے چھتری پکڑ رکھی ہے۔ اسی دوران گیلری میں بیٹھے شائقین کی جانب سے ’کوہلی کوہلی‘ اور ’دھونی دھونی‘ کے نعروں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ان نعروں کے دوران وہ ایک لمحے کو پیچھے مڑتے ہیں اور اپنی درمیانی انگلی ہوا میں لہرا کر اشارہ کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس طرح کے اشارے کو ہتک آمیز اور نازیبا سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے بہت سے صارفین انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو کب کی ہے اس بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ انھوں نے ویڈیو میں جو لباس پہن رکھا ہے وہ لباس انھوں نے گذشتہ سنیچر کو انڈیا پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ کے دوران اس وقت بھی پہنا ہوا تھا جب وہ پاکستانی سابق کپتان وسیم اکرم کے ساتھ کمنٹری باکس میں نظر آئے تھے۔ بہرحال گوتم گمبھیر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد اپنے اس رویے پر وضاحت دی ہے۔ انھوں نے انڈین خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ انھوں نے انگلی اس وقت دکھائی جب ’کوہلی کوہلی‘ یا ’دھونی دھونی‘ کے نعرے لگائے گئے۔ انھوں نے کہا کہ دراصل انھوں نے انڈیا مخالف نعرے کے جواب میں انگلی دکھائی تھی۔ نیوز ایجنسی اے این آئی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے گوتم گمبھیر کے ویڈیو کو جاری کیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 گمبھیر نے دعویٰ کیا ہے کہ جب وہ سٹیڈیم میں گزر رہے تھے تو کچھ پاکستانی ناظرین نے انڈیا مخالف اور کشمیر کے بارے میں قابل اعتراض نعرے لگائے، جس کے جواب میں انھوں نے انگلی دکھائی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ مکمل سچائی نہیں ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس میں مکمل صداقت نہیں ہوتی ہے۔ لوگ جو کچھ دکھانا چاہتے ہیں دکھاتے ہیں۔ وائرل ویڈیو کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی انڈیا مخالف نعرے لگاتا ہے اور کشمیر کے بارے میں بات کرتا ہے تو سامنے والا شخص ردعمل تو ظاہر کرے گا یا پھر وہ ہنس کر چلا جائے گا؟‘ انھوں نے مزید کہا کہ 'دو یا تین لوگ تھے جو انڈیا مخالف چیزیں بول رہے تھے۔ اور ہندوستان مردہ باد اور کشمیر کے بارے میں بول رہے تھے تو وہ ظاہر ہے کہ فطری ردعمل تھا۔ میں اپنے دیش کی مخالفت میں کچھ سُن نہیں سکتا ہوں۔‘ جب صحافیوں نے ان سے مزید استفسار کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ایسے آدمی نہیں جو انڈیا مخالف بات ہو تو چپ چاپ مسکرا کر چلے جائیں۔ پھر انھوں نے کہا کہ ’آپ سپورٹس دیکھنے آئیں تو وہاں پر پولیٹیکل ری ایکشن دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کشمیر کا مامعلہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ہندوستان کے بارے میں غلط بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے دیش کو سپورٹ کیجیے۔ وہاں ہندوستانی کراؤڈ بھی تھا جو اپنے دیش کو سپورٹ کر رہا تھا۔‘ انھوں نے انڈیا اور پاکستان کے کرکٹ مداحوں کو کہا کہ جب آپ میچ دیکھنے آئیں تو آپ اپنے ملک اور اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ کیجیے مگر کسی کے بارے میں غلط مت بولیے۔ بہرحال گوتم گمبھیر کی اس وضاحت کے بعد بھی لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ ان کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ چند انڈین صارفین کا یہ خیال ہے کہ گوتم نے انگلی دراصل ان انڈینز فینز کو دکھائی جو انھیں دیکھ کر ’کوہلی کوہلی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ یاد رہے کہ گوتم اور کوہلی کے مابین تعلقات کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں۔ نازیبا اشارہ کرنے کے معاملے میں کچھ لوگ رکن اسمبلی کے عہدے سے استعفےٰ کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر 12 لاکھ فالوور رکھنے والی صحافی ساکشی جوشی نے گوتم گمبھیر کے اشارے پر اپنا ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک بی جے پی ایم پی، ایک سابق کرکٹر، ایک کمنٹیٹر گوتم گمبھیر جب وراٹ کوہلی کے مداحوں کو درمیانی انگلی دکھاتے ہوئے کیمرے پر پکڑے گئے اور ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بہانے کے طور پر وطن پرستی کو پیش کیا۔ یہ ان کا روز کا حال ہے۔ اپنے ہی ملک کو بس اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔‘ جبکہ ریا اگراہری نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اس جگہ تو کوہلی اور دھونی بھی گوتم گمبھیر سے اتفاق کریں گے۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں ان کی تعریف کرنی چاہیے۔ کوئی بھی محب وطن انڈیا کے بارے میں بری چیز برداشت نہیں کرے گا۔ ہم گمبھیر کے ساتھ ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے شاہد آفریدی اور گوتم گمبھیر ایک مرتبہ پھر ٹوئٹر پر آمنے سامنے آئی پی ایل میں کوہلی، گمبھیر اور نوین کی ’لڑائی‘ میں پاکستانی شائقین کو شاہد آفریدی کیوں یاد آ رہے ہیں؟ 'ہاتھ ملاتے ہوئے بھی آنکھ نہ ملانا‘ آفریدی کی تعریف، گمبھیر پر تنقید کیوں؟ لیکن پھر اویشیک گوئل نامی صارف نے لکھا: ’اُن کے ردعمل کے بارے میں پوچھے جانے پر، انھوں نے کہا کہ کچھ پاکستانی شائقین انڈیا مخالف نعرے لگا رہے تھے جس سے وہ مشتعل ہوئے۔ اس بچگانہ بہانے کے ساتھ آنے پر آپ کو شرم آنی چاہیے۔ کرکٹ شائقین نے صاف سنا کہ ان کے سامنے صرف دھونی دھونی، کوہلی کوہلی کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ دھونی اور کوہلی نے آپ سے زیادہ ملک کے لیے کیا ہے، مسٹر ایم پی۔ گمبھیر کو اپنی ذاتی دشمنی/انا کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے اور ہمارے درمیان نفرت کے بیج نہیں بونا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 بہت سے لوگ سپورٹس مین شپ کی دہائی دے رہے ہیں تو کچھ لوگ راہل گاندھی کے پارلیمان میں فلائنگ کس دینے پر رکن پارلیمان سمرتی ایرانی کے اعتراض کو یاد کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انھیں گوتم گمبھیر کے اشارے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ انھیں گوتم گمبھیر کے الفاظ پر یقین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی نے اس ویڈیو کو ایڈٹ کر کے پیش کیا ہے جس میں آواز کچھ اور ڈال دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے مزاحیہ انداز میں پوچھا ہے کہ کوہلی کا یا دھونی کا نعرہ لگانا کب سے انڈیا مخالف ہو گيا۔ بہر حال یہ پہلا موقع نہیں ہے جب گوتم گمبھیر اپنے بیان کے لیے مباحثے کے مرکز میں ہیں۔ وہ پہلے بھی اپنے پاکستان مخالف رویے کے لیے جانے جاتے ہیں جبکہ شاہد آفریدی کے ساتھ ان کی نوک جھونک سے بھی کرکٹ شائقین بہت حد تک واقف ہیں۔ اس معاملے میں بھی بہت سے شائقین شاہد آفریدی کی پرانی ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں جس میں وہ گوتم گمبھیر کے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’وہ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جسے ان کی ٹیم میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا‘ اور اس پر انڈین کرکٹر ہربجن سنگھ مسکرتے ہیں۔ لیکن یہاں وراٹ کوہلی اور سابق کپتان مہیندر سنگھ دھونی سے ان کے تلخ رشتے کی بازگزشت زیادہ سنائی دے رہی ہے کیونکہ ویڈیو میں ان کے نام کے نعرے واضح طور پر سنے جا سکتے ہیں۔ روشن رائے نامی صارف نے لکھا کہ 'ہر کسی نے سنا کہ مجمع کوہلی کوہلی کا نعرہ لگا رہا تھا لیکن وہ (گوتم گمبھیر) اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے اس میں وطن پرستی لے آئے۔۔۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 رواں سال مئی میں بنگلورو اور لکھنؤ کے درمیان آئی پی ایل میچ میں گمبھیر اور کوہلی کے درمیان ہونے والی گرما گرم بحث بھی کرکٹ شائقین کے حافظے میں ہو گی۔ اس دن، میچ کے بعد، بنگلورو کے کھلاڑی وراٹ کوہلی اور لکھنؤ کے مینٹر گوتم گمبھیر کے درمیان تکرار نظر آئی تھی۔ ان دونوں کو ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے الگ کیا اور آئی پی ایل نے ان پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n5zwv8v8do
وہ تین کرکٹرز جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے کھیلے
یہ 16 اکتوبر 1952 کا دن تھا اور دہلی کا فیروز شاہ کوٹلہ میدان تھا۔ اس دن کا چڑھتا سورج کرکٹ کی دنیا میں ایک تاریخی لمحہ لے کر آیا۔ اس دن پاکستان اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہا تھا اور اس کے سامنے انڈیا کی ٹیم تھی۔ مگر اس میچ سے جڑی ایک اور دلچسپ حقیقت بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے تین کھلاڑیوں کے بارے میں جن کے نام عبدالحفیظ کاردار، امیر الٰہی اور گل محمد ہیں۔ یہ تین ایسے کھلاڑی تھے جو انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ یہ تینوں کھلاڑی انڈیا اور پاکستان کے اس پہلے میچ میں بھی میدان میں تھے۔ گل محمد انڈیا کی طرف سے کھیل رہے تھے جبکہ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی پاکستان کی طرف سے کھیل رہے تھے۔ اس رپورٹ میں ہم ان تینوں کھلاڑیوں کے بارے میں بات کریں گے۔ عبدالحفیظ کاردار کو وہ کرکٹر سمجھا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی کرکٹ کے ابتدائی سالوں میں ملکی کرکٹ کو نئی جہت دی۔ عبدالحفیظ کاردار نے پاکستان کے لیے اپنے پہلے میچ میں بطور کپتان ٹیم کی قیادت کی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق عبدالحفیظ کاردار کو ’فادر آف پاکستانی کرکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ عبدالحفیظ کاردار نے سنہ 1952 سے سنہ 1958 تک پاکستان کے لیے کل 23 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ انھوں نے ان تمام میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔ 17 جنوری 1925 کو لاہور میں پیدا ہونے والے عبدالحفیظ کاردار کی کرکٹ کے کھیل میں مہارت لاہور میں اسلامیہ کالج کے دنوں سے ہی نمایاں تھی۔ اسلامیہ کالج اس زمانے کا معروف تعلیمی ادارہ تھا۔ سنہ 1947 میں انڈیا اور پاکستان کی تقسیم سے قبل لاہور کا اسلامیہ کالج پنجاب کے ٹیسٹ کرکٹرز کی نرسری تھا۔ عبدالحفیظ کاردار نے مختلف ٹیموں کی جانب سے کرکٹ بھی کھیلی۔ انھوں نے 174 فرسٹ کلاس میچوں میں 6,832 رنز بنائے جس میں 8 سنچریاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بطور باؤلر 344 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ عبدالحفیظ نے سنہ 1946 میں ہندوستان کے لیے پہلا میچ کھیلا جب انھیں دورہ انگلینڈ کے لیے ہندوستانی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا۔ عبدالحفیظ نے ہندوستان کے لیے تین ٹیسٹ میچ کھیلے اور مجموعی طور پر انھوں نے ان میچوں میں 80 رنز بنائے۔ ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق وہ دورہ انگلینڈ تک عبدالحفیظ کے نام سے کھیلا کرتے تھے۔ اس دورے کے بعد انھوں نے اپنے نام کے ساتھ خاندانی نام ’کاردار‘ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ انگلینڈ کے اس دورے کے بعد عبدالحفیظ کاردار انگلستان میں ہی رہے۔ وہاں انھوں نے وارِکشائے کاؤنٹی کے لیے خوب کرکٹ کھیلی۔ عبدالحفیظ بائیں ہاتھ کے بلے باز تھے اور اپنی دھماکہ خیز بلے بازی کے لیے جانے جاتے تھے۔ انھیں کریز سے باہر نکلنے اور کسی بھی باؤلر کی خوب پٹائی کرنے اور کسی بھی میچ کی صورتحال میں بہتر کھیل پیش کرنے کے لیے مشہور تھے۔ جب وہ انگلینڈ سے واپس آئے تو پاکستان ایک ملک بن چکا تھا اور عبدالحفیظ کاردار نے اس نئے ملک کے پہلے کپتان کی ذمہ داری سنبھالی۔ عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں ہی پاکستان کو سنہ 1951 میں ٹیسٹ کیپ یعنی عالمی سطح پر ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ملک کے طور پر شناخت ملی۔ ایک سال بعد انڈیا کے اپنے پہلے دورے پر عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں، پاکستان نے انڈیا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست دی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کے علاوہ اس وقت پانچ ٹیسٹ ٹیموں کے خلاف فتوحات حاصل کیں۔ ان فتوحات کا سلسلہ پہلی سیریز سے ہی شروع ہوا۔ عبدالحفیظ کاردار کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی کھیل سے جڑے رہے۔ انھوں نے 1972-1977 تک پاکستان کرکٹ بورڈ (اس وقت بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ اِن پاکستان) کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ عبدالحفیظ کاردار کے دور میں پاکستان کی کرکٹ کو جدید بنانے کے لیے کافی کام کیا گیا۔ عبدالحفیظ کاردار نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی۔ وہ سنہ 1970 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھیں بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ 8 مارچ 1947 کی بات ہے، وڈودرا کے مقام پر ہولکر اور بڑودا کی ٹیموں کے درمیان رنجی ٹرافی کا فائنل میچ جاری تھا۔ بڑودا کا سکور تین وکٹوں کے نقصان پر 91 رنز تھا۔ گل محمد میدان میں اترے، انھوں نے عظیم سابق ہندوستانی بلے باز وجے ہزارے کے ساتھ چوتھی وکٹ کے لیے 577 رنز کی شاندار شراکت داری کی۔ گل محمد نے 8 گھنٹے 53 منٹ تک بیٹنگ کی اور 319 رنز بنائے۔ 15 اکتوبر 1921 کو لاہور میں پیدا ہونے والا یہ پنجابی کرکٹر بھی ان خاص بین الاقوامی کرکٹرز میں سے ایک ہے جنھوں نے انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی ہے۔ گل محمد نے انڈیا کے لیے آٹھ جبکہ پاکستان کے لیے ایک ٹیسٹ میچ کھیلا ہے۔ گل محمد لیفٹ آرم آل راؤنڈر تھے، جن کی اچھی فیلڈنگ بھی شائقین کے دل موہ لیتی تھی۔ گل محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ سے مچھلی بھی آسانی سے نہیں نکل سکتی تھی۔ عبدالحفیظ کاردار کی طرح گل محمد بھی اسلامیہ کالج لاہور کا تحفہ تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق 1938-39 میں گل محمد نے اپنا پہلا میچ 17 سال کی عمر میں کھیلا۔ گل محمد نے فرسٹ کلاس کرکٹ (ڈومیسٹک سیزن) میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کئی سالوں کی مسلسل اچھی کارکردگی کے بعد، انھیں سنہ 1946 میں انڈیا کی ٹیم میں دورہ انگلینڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ انڈیا کی آزادی کے بعد وہ سابق ہندوستانی کرکٹر لالہ امرناتھ کی قیادت میں 1947-48 میں آسٹریلیا کے دورے کے لیے ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے۔ اس دورے پر ہندوستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔ گل محمد نے بھی پانچ ٹیسٹ میچوں میں صرف 130 رنز بنائے لیکن انھوں نے اپنی عمدہ فیلڈنگ سے سب کو حیران کردیا۔ انھیں پاکستان کے خلاف پہلے دو میچوں میں بھی انڈین ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ پاکستان میں جا کر آباد ہو گئے۔ سنہ 1956-57 میں انھیں پاکستان ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا۔ کراچی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے اس میچ میں انھوں نے دونوں اننگز میں 39 رنز بنائے۔ اس کے بعد انھیں کاؤنٹی کرکٹ میں کافی کامیابی ملی۔ سنہ 1992 میں گل محمد طویل علالت کے بعد لاہور میں فوت ہوئے۔ لاہور میں پیدا ہونے والے امیر الٰہی سے دو خاص باتیں وابستہ ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ اس کے ساتھ ہی ان کا شمار دنیا کے 20 معمر ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ امیر الٰہی یکم ستمبر 1908 کو پیدا ہوئے۔ امیر الٰہی ایک بار انڈیا کے لیے کھیل چکے ہیں اور وہ پانچ بار پاکستان ٹیم کی طرف سے کھیلے۔ انھوں نے سنہ 1952-53 میں انڈیا میں پاکستان کے لیے پانچ ٹیسٹ میچ بھی کھیلے۔ کولکتہ میں کھیلے گئے اپنے آخری ٹیسٹ میچ کے وقت الٰہی 44 سال کے تھے۔ امیر الٰہی نے ’میڈیم پیسر‘ کے طور پر کھیلنا شروع کیا اور بعد میں لیگ بریک بولر بن گئے۔ وہ ٹیسٹ میچوں میں کچھ خاص نہیں کر سکے لیکن رنجی ٹرافی میں ان کا ریکارڈ شاندار رہا۔ رنجی ٹرافی میں انھوں نے 24.72 کی اوسط سے 194 وکٹیں حاصل کیں۔ سنہ 1946-47 میں پاکستانی شہری بننے سے ٹھیک پہلے، بڑودہ میں رنجی ٹرافی جیتنے میں ان کی شاندار کارکردگی کا اہم کردار تھا۔ امیر الٰہی نے سنہ 1946-47 میں پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے مدراس (چنئی) میں انڈیا کے خلاف 10ویں وکٹ کے لیے ذوالفقار احمد کے ساتھ 104 رنز کی شراکت کی۔ اس میچ میں انھوں نے اپنی 47 رنز کی اننگز سے سب کو حیران کر دیا۔ امیر الٰہی دسمبر 1980 کو 72 سال کی عمر میں کراچی میں فوت ہوئے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg45x0dgp3o
انڈیا کے بہترین بلے باز تیز لیفٹ آرم سوئنگ بولنگ کے سامنے ڈھیر کیوں ہوگئے
پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے ہر میچ کی طرح اس میچ سے قبل بھی انڈین بیٹنگ اور پاکستانی بولنگ کے درمیان مقابلے کا چرچا تھا۔ دونوں ٹیمیں تقریباً ساڑھے چار سال بعد ون ڈے فارمیٹ میں ایک دوسرے سے کھیل رہی تھیں۔ جب میچ شروع ہوا تو پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ نے توقعات کے مطابق اپنی بولنگ سے نہ صرف انڈین ٹاپ آرڈر کو پریشان کر دیا بلکہ پہلے چار بلے بازوں کو بھی ایک، ایک کر کے بہت جلد آؤٹ کیا جس سے انڈین کیمپ اور شائقین کی امیدیں دم توڑتی نظر آئیں۔ اگر ایشان کشن اور ہاردک پانڈیا نے پانچویں وکٹ کے لیے سنچری پارٹنرشپ نہ بنائی ہوتی تو 49ویں اوور میں آل آؤٹ ہونے والی انڈین ٹیم شاید بہت پہلے ہی پویلین لوٹ چکی ہوتی۔ ایشیا کپ کا یہ میچ اگرچہ بارش کی وجہ سے متاثر ہوا لیکن انڈیا کی اننگز کا اُتار چڑھاؤ اور پاکستان کی بولنگ نے اسے کافی دلچسپ بنائے رکھا۔ انڈین اننگز کو جہاں مڈل آرڈر میں ایشان کشن اور ہاردک پانڈیا کے درمیان سنچری پارٹنرشپ سے سہارا ملا وہیں ٹیم انڈیا کے ٹاپ آرڈر کا پاکستانی بولرز کے سامنے اس طرح ڈھیر ہو جانا یقیناً پریشان کن عندیہ تھا۔ انڈین بلے بازوں کے پاس ایک بار پھر بائیں ہاتھ کے سوئنگ بولر شاہین شاہ آفریدی کی لہراتی گیندوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ آفریدی نے پہلے روہت اور ویرات کو پویلین واپس بھیجا اور پھر جب وہ دوبارہ واپس آئے تو انھوں نے ہاردک پانڈیا اور رویندرا جدیجا کو بھی پویلین واپس بھیج دیا۔ 23 سالہ آفریدی نے اپنے 10 اوورز میں 44 ڈاٹ بالز کروائیں اور اس دوران وہ ایک ہی اننگز میں ویرات کوہلی اور روہت شرما کی وکٹیں لینے والے پہلے بولر بھی بن گئے۔ میچ کے بعد شاہین شاہ آفریدی نے کہا کہ ’میں نے نئی گیند سے کوشش کی اور شروع میں دو اہم وکٹیں حاصل کیں اور پھر ہاردک پانڈیا کو اس وقت آؤٹ کیا جب وہ بھرپور فارم میں تھے۔ میچ مکمل نہیں ہوا، اگر یہ مکمل ہو جاتا تو میچ ہمارے ہاتھ میں ہوتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ شروع سے ’میری کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ ڈاٹ گیندیں صحیح جگہ پر کروائیں تاکہ بلے باز رنز بنانے کے لیے گیند کو مارنے کی کوشش کرے۔ ’میں سوئنگ کرنے کی کوشش کر رہا تھا پھر میں نے ایک کمبینیشن آزمایا۔ ان سوئنگ اور آؤٹ سوئنگ، جس نے کام کیا۔‘ شاہین آفریدی سے جب پوچھا گیا کہ روہت اور ویرات میں سے کس کی وکٹ لینے میں زیادہ مزہ آتا ہے تو انھوں نے روہت شرما اور ویرات کوہلی دونوں کا نام لیا۔ پاکستان کے تین تیز رفتار بولرز کے اٹیک پر آفریدی نے کہا کہ ’ہم شراکت داری میں بولنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حارث رؤف اپنے باؤنسر اور پیس سے بلے باز کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نسیم شاہ اور میں سوئنگ سے۔‘ آخر میں انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ سرخ گیند سے زیادہ بولنگ کرتے ہیں تو سفید گیند سے بولنگ کرنا آسان ہوتا ہے۔ ہم تین بولرز مخالف ٹیم کو کم رنز پر آؤٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہماری ٹیم کے لیے آسانی ہو۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 آفریدی کے ساتھ ساتھ 20 سالہ نسیم شاہ اور 29 سالہ حارث رؤف نے انڈیا کی تمام 10 وکٹیں آپس میں شیئر کیں اور اس کے ساتھ ہی ایشیا کپ کا ریکارڈ بھی بن گیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایشیا کپ میں کسی ٹیم کی تمام 10 وکٹیں تیز گیند بازوں نے لی ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 تو ایسا کیا ہوا کہ پاکستانی بولرز کے سامنے انڈین ٹاپ آرڈر ڈگمگا گیا۔ میچ سے قبل کئی کرکٹ ماہرین کہہ رہے تھے کہ آفریدی اور رؤف کے ساتھ ساتھ نسیم شاہ کو پہلے 10 اوورز میں سنبھل کر کھیلنا ہو گا کیونکہ درمیانی اوورز میں یہ پیس بیٹری اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی نئی گیند کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس میچ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ آفریدی مسلسل تیز گیندیں کر رہے تھے اور گیندوں کو سوئنگ بھی کر رہے تھے۔ وہ جتنا اچھا آؤٹ سوئنگ کر رہے تھے، اتنا ہی گیند ان سوئنگ بھی ہو رہا تھا۔ انڈین کپتان روہت شرما نے اچھی شروعات کی تھی لیکن میچ کے پانچویں اوور میں وہ آفریدی کے ہاتھوں بولڈ ہو گئے۔ بارش کی وجہ سے وقفے کے بعد واپسی پر آفریدی نے پہلی تین گیندوں کو آؤٹ سونگ کیا جس پر روہت کوئی رن نہیں بنا سکے اور پھر اس اوور کی آخری گیند ان سوئنگ ہوئی جو آف اسٹمپ پر گرنے کے بعد اندر کی طرف آئی اور بیٹ اور پیڈ کے درمیان خلا سے نکل کر سیدھا وکٹ پر لگی۔ آفریدی نے اپنے اگلے ہی اوور میں ویرات کوہلی کو بھی آؤٹ کر دیا۔ ویرات نے بیک فٹ پر جا کر آف سائیڈ پر گیند کو کھیلنے کی کوشش کی لیکن گیند بلے کے اندرونی کنارے کو لے کر لیگ اسٹمپ سے ٹکرا گئی۔ انڈین ٹاپ آرڈر کی ایک بڑی کمزوری بائیں ہاتھ کے تیز رفتار اور سوئنگ بولرز کو کھیلنا رہا ہے اور یہی کمزوری ایک بار پھر شاہین شاہ آفریدی کی شکل میں سامنے آئی۔ اگر ہم ریکارڈ کی بات کریں تو 2021 سے اب تک روہت شرما چھٹی بار اور ویرات کوہلی چوتھی بار بائیں ہاتھ کے گیند باز کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے ہیں۔ شریاس آئر نے طویل عرصے بعد ٹیم میں واپسی کرتے ہوئے اچھا آغاز کیا اور آٹھ گیندوں پر 14 رنز بنائے تاہم 10ویں اوور میں وہ حارث رؤف کی شارٹ گیند کو مڈ وکٹ پر چھکا لگانے کی کوشش میں فخر زمان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد بارش نے ایک بار پھر میچ میں خلل پیدا کر دیا۔ 12ویں اوور کے دوران بارش کی وجہ سے کھیل تقریباً 20 منٹ کے لیے روک دیا گیا اور جب پھر سے میچ شروع ہوا تو ایک سرے پر جمے ہوئے شبھمن گل کو بھی رؤف نے پویلین واپس بھیج دیا۔ اس سال شبھمن نے ایک ڈبل سنچری، دو سنچریاں اور ایک نصف سنچری بنائی اور ون ڈے میں وہ 60 سے زیادہ کی اوسط سے بلے بازی کرتے ہیں۔ یہ شبھمن گل کا پاکستان کے خلاف پہلا میچ تھا اور وہ لہراتی ہوئی تیزرفتار گیندوں کے سامنے واضح طور پر پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستان کی تیز رفتار بیٹری ان کے لیے ایک منصوبہ لے کر آئی تھی اور شبھمن گل ان تینوں کو کھیلنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے۔ ویسے یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ انڈین پچوں پر کھیلی جانے والی آئی پی ایل 2023 میں تین سنچریوں سمیت 890 رنز بنانے والے شبھمن گل کا بیٹ اس سال مارچ میں اپنی ہی سرزمین پر آسٹریلیا کے تیز گیند بازوں کے سامنے خاموش رہا تھا۔ اس سیریز کے تین میں سے دو میچوں میں، گل مچل سٹارک کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ سٹارک بھی بائیں ہاتھ کے تیز گیند باز ہیں۔ میچ سے قبل روہت شرما نے کہا تھا کہ ’ہمیں کنڈیشنز کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا، یہ ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے لیکن پچ پر ہوتے ہوئے بلے باز کو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے اور طویل عرصے تک وہاں رہنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ 50 اوورز کا میچ ہے۔‘ روہت نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ٹیم میں بہت سے تجربہ کار کھلاڑی ہیں، اگر آپ گیم پلان جانتے ہیں تو آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ایک اچھی ٹیم کے خلاف ذہنیت کیسی ہونی چاہیے۔‘ تاہم میچ کے دوران نہ تو خود روہت اور نہ ہی ٹاپ آرڈر بلے باز اس کی کوئی جھلک دکھا سکے جو کپتان نے کہا تھا۔ پاکستان کے خلاف اس میچ میں ہاردک پانڈیا اور ایشان کشن نے اپنی اہمیت دکھائی۔ نائب کپتان ہاردک پانڈیا کی شراکت بہت اہم تھی۔ انھوں نے سب سے زیادہ 87 رنز بنائے۔ ایسے موقع پر جب ایک بڑی شراکت کی ضرورت تھی، ہاردک نے ایک سرے سے مکمل تحمل کا مظاہرہ کیا اور صحیح وقت پر کھل کر بھی کھیلے۔ دوسری جانب پاکستان کے خلاف پہلا میچ کھیلنے آئے ایشان کشن کی بیٹنگ قابل دید تھی۔ ایشان کشن بائیں ہاتھ کے بلے باز ہیں اور یہ ایک اضافی صلاحیت ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی دکھایا ہے کہ وہ صبر و تحمل اور گیئرز بدلنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ حالات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ وہ ایک روایتی حریف کے خلاف غیر ملکی پچ پر کھیل رہے تھے لیکن ایشان نے پاکستان کے خلاف جس طرح بلے بازی کی، اس کی وجہ سے ورلڈ کپ میں بطور وکٹ کیپر منتخب ہونے کے لیے ان کے امکانات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ ایشان کشن نے پاکستان کے خلاف اپنی اننگز کے دوران سابق وکٹ کیپر کپتان مہندر سنگھ دھونی کا ایک ریکارڈ بھی توڑا۔ اس سے قبل ایشیا کپ میں کسی بھی انڈین وکٹ کیپر کا سب سے زیادہ سکور کا ریکارڈ مہندر سنگھ دھونی کے نام تھا۔ ایشان نے اب یہ ریکارڈ اپنی 82 رنز کی اننگز کے دوران اپنے نام کر لیا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gz4358pjzo
ایشیا کپ 2023: بارش کے باعث انڈیا اور پاکستان کا میچ بے نتیجہ ختم، ’شاہین نے روہت اور کوہلی کو آؤٹ کر کے تاریخ رقم کر دی‘
سری لنکا کے شہر کینڈی میں ایشیا کپ کے تیسرے میچ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ٹاکرے میں بارش جیت گئی ہے اور میچ کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کو جیت کے لیے 267 رنز کا ہدف دیا تھا۔ تاہم میچ کے آغاز سے قبل ہی موسم ابر آلود تھا اور بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس سے قبل یکم ستمبر کی پیشگوئی میں ویدر ڈاٹ کام نے سنیچر کو پالیکیلے میں 84 فیصد اور ایکو ویدر نے 85 فیصد بارش کا امکان ظاہر کیا تھا۔ میچ سے قبل بھی ہلکی بارش کے باعث گراؤنڈ کو کوّرز سے ڈھانپ دیا گیا تھا مگر آسمان صاف ہونے پر کوّرز ہٹا دیے گئے۔ انڈین اننگز کے دوران بھی بارش کے باعث کھیل کو دو بار روکا گیا تھا۔ انڈین اننگز کے اختتام کے ساتھ ہی بارش دوبارہ شروع ہونے اور گراؤنڈ گیلا ہونے کی وجہ سے میچ تاخیر کا شکار ہوا تاہم کھیل میں ایک گھنٹے سے زائد وقت کا ضائع ہونے کی وجہ سے پاکستانی اننگز کے لیے میچ کے کم از کم مطلوبہ اوورز کا دورانیہ نہ ہونے کے باعث میچ کو منسوخ کر دیا گیا۔ جس کے بعد دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان انڈیا کے ساتھ ایک ایک پوائنٹ شیئر کرنے کے بعد سپر فور مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔ اس سے قبل انڈین ٹیم 48 اعشاریہ پانچ اوورز میں 266 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ میچ کے آخری آٹھ اوورز میں پاکستان کے پیسرز نے شاندار کم بیک کیا اور انڈین بیٹنگ لائن کو بڑا سکور بنانے سے روکنے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے شاہین آفریدی اور نسیم شاہ نے پیس اٹیک کا آغاز کیا اور چار اوورز تک انڈین اوپنرز پر دباؤ بنائے رکھا۔ تاہم اس موقع پر بارش کے باعث کھیل کو آدھے گھنٹے سے زائد تک روک دیا۔ کھیل کے دوبارہ آغاز پر شاہین آفریدی زیادہ بہتر ردھم میں نظر آئے اور تیسری ہی گیند پر انھوں نے انڈین کپتان روہت شرما کو بولڈ کر دیا۔ جس کے بعد شاہین آفریدی نے انڈین بیٹنگ پر اپنا دباؤ مزید بڑھا دیا اور اپنے اگلے ہی اوور کی تیسری گیند پر ویراٹ کوہلی کو بولڈ کر کے اپنی ٹیم کو دوسری کامیاب دلائی۔ روہت شرما 15 جبکہ ویراٹ کوہلی صرف چار رنز ہی بنا سکے۔ اس کے بعد پاکستان کے کپتان بابر اعظم حارث رؤف کو بولنگ کے لیے لے کر آئے تو انڈین بلے باز شریاس آئیر نے ان کا استقبال دو چوکے لگا کر کیا لیکن اگلے اوور میں حارث نے ان کا حساب چکتا کتے ہوئے انھیں پویلین کی راہ دکھا دی۔ اس موقع پر انڈین ٹیم 10 اوورز میں 48 رنز پر 3 وکٹیں گنوا چکی تھی۔ انڈین بیٹسمین شبمن گل اپنی مختصر اننگز کے دوران پاکستانی پیسرز کے خلاف جدوجہد کرتے نظر آئے اور بالآخر وہ دس رنز بنا کر حارث رؤف کا شکار ہوئے۔ اس موقع پر انڈین ٹیم 66 رنز پر چار وکٹیں گنوا چکی تھی۔ تاہم نوجوان انڈین بلے باز ایشان کشن نے دوسرے اینڈ سے ذمے دارانہ بیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور ہاردک پانڈیا کے ساتھ 138 رنز کی شراکت داری بنانے میں کامیاب رہے۔ نوجوان بلے باز ایشان کشن نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 54 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کی، ان کی اننگز میں سات چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ لیکن حارث رؤف نے ایک مرتبہ پھر ٹیم کو اہم کامیابی دلاتے ہوئے ایشان کشن کو چلتا کر دیا جنھوں نے 82 رنز کی اننگز کھیلی۔ ہاردک پانڈیا نے دوسرے اینڈ سے دھواں دھار بیٹنگ جاری رکھی اور حارث رؤف کو ایک اوور میں تین چوکے لگائے جس سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے ون ڈے کیریئر کی پہلی سنچری بنانے میں کامیاب رہیں گے لیکن شاہین شاہ آفریدی نے 87 رنز پر ان کی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ ان کے بعد روایندرا جدیجا سے بھی زیادہ دیر وکٹ پر ٹھہر نہ سکے اور صرف 14 رنز بنا کر چلتے بنے جبکہ اگلے اوور کی پہلی ہی گیند پر نسیم شاہ نے شردل ٹھاکر کا بھی کام تمام کردیا۔ کلدیپ یادو اور جسپریت بمراہ نے سکور کو 261 تک پہنچایا لیکن اس سکور پر کلدیپ وکٹ کیپر کو کیچ دے کر پویلین لوٹ گئے۔ جبکہ بمراہ نے مزاحمت جاری رکھتے ہوئے نسیم شاہ کو چوکا لگایا اور اگلی گیند پر چھکا لگانے کی کوشش میں وہ باؤنڈری پر کیچ دے بیٹھے۔ انڈیا کی پوری ٹیم 266 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی، پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی نے چار جبکہ حارث رؤف اور نسیم شاہ نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں۔ ٹاس کے بعد روہت شرما نے کہا تھا کہ ٹیم میں جسپریت بمرا، شریاس ایئر، ہاردک پانڈیا، شاردل ٹھاکر، کلدیپ یادیو اور رویندر جڈیجا کو شامل کیا گیا ہے۔ ٹاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی کپتان بابر اعظم نے بتایا کہ وہ بھی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنا چاہتے تھے۔ بابر نے بتایا کہ ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں نے گذشتہ ماہ سری لنکا میں کافی کرکٹ کھیلی ہے تو وہ یہاں کی کنڈیشنز سے واقف ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ منسوخ ہونے کے فوراً بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر صارفین مختلف تبصرے اور رائے دیتے نظر آئے۔ جہاں چند صارفین نے بارش کو میچ کا مزہ کرکرا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا وہیں چند اس کو بھی روائتی حریف انڈیا پر طنز کرنے کے لیے استعمال کرتے دکھائے دیے۔ مدن نامی ایک صارف نے لکھا ’میچ کی فاتح بارش ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستان میں سوشل میڈیا انفلوئنسر مومن ثاقب نے بھی کھیل کے میدان سے بارش کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’بارش تم نے یہ کیوں کیا؟‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کچھ صارفین پاکستان کے پیسر اٹیک کی کارکردگی اور تباہ کن بولنگ کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک اور صارف شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’پس ثابت ہو گیا وہ (انڈیا) انھیں نہیں کھیل سکتے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 فرید خان نامی صارف نے پاکستانی بولنگ اٹیک اور خصوصاً شاہین آفریدی کے سپیل کی تعریف کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ’دنیا میں کسی بولر نے ایک ہی اننگز میں انڈین بلے باز روہت شرما اور ویراٹ کوہلی کو آؤٹ نہیں کیا ہے۔ شاہین آفریدی نے آج تاریخ رقم کر دی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہ میچ ایک تازہ پچ پر کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل ایشیا کپ کا دوسرا میچ بھی پالیکیلے میں، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان، کھیلا گیا تھا جس میں سری لنکا نے پانچ وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ یہ ایک لو سکورننگ میچ تھا جس میں مجموعی طور پر 15 وکٹیں گریں۔ اگر پاکستان بمقابلہ انڈیا کی پچ بھی اسی میچ جیسی رہی تو شاید اس میں فاسٹ بولرز اور سپنرز کے لیے بہتر کارکردگی دکھانے کی گنجائش موجود ہوگی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے گذشتہ روز یہ اعلان کیا تھا کہ ایشیا کپ میں پاکستان اپنے دوسرے میچ کے لیے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہا۔ خیال رہے کہ ایشیا کپ میں نیپال کے خلاف اپنے پہلے میچ میں پاکستانی کپتان بابر اعظم نے 151 رنز جبکہ آل راؤنڈر افتخار احمد نے کیریئر کی پہلی سنچری بنائی تھی۔ پاکستانی پیس اٹیک شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ پر مشتمل ہے جبکہ شاداب خان اور محمد نواز بطور سپنرز بولنگ کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔ دوسری طرف روہت شرما کی قیادت میں انڈین ٹیم میں جسپریت بمرا اور ورات کوہلی کے علاوہ شریاس ایئر اور سوریہ کمار یادیو سے امیدیں وابستہ ہیں۔ اوپنر کے ایل راہل انجری کے باعث ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔ ماضی میں ایشیا کپ میں اب تک کے مقابلوں میں انڈیا نے سات جبکہ پاکستان نے تین میچ جیتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 بارش کے ساتھ ساتھ میچ کے رزلٹ کے حوالے سے پیشگوئیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سابق پاکستانی آل راؤنڈر محمد حفیظ کہتے ہیں کہ ’انڈیا اچھی ٹیم ہے لیکن فی الحال مکمل ٹیم نہیں۔‘ ’ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب جب بڑا ٹورنامنٹ آیا وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔‘ ادھر سابق انڈین کرکٹر روی شاستری کہتے ہیں کہ اس میچ میں انڈیا فیورٹس ہیں اور یہ 2011 کے بعد سے انڈیا کی سب سے مضبوط ٹیم ہے۔ انھوں نے کہا کہ پریشر سے بھرپور میچ میں کھلاڑی کی فارم سے زیادہ حوصلہ کام آتا ہے اور یہی فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clwxr40p9y4o
بی بی سی اردو کوئز: آپ کی ذہانت اور یادداشت کا امتحان
گذشتہ ہفتے پاکستان اور دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟ بی بی سی اردو کے ہفتہ وار کوئز کے ذریعے اپنی یادداشت کا امتحان لیجیے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2v094n04do
’جدھر سے گزرتا ہوں کوہلی، کوہلی ہوتا ہے‘: میلبورن کے چھکوں کے بعد کوہلی اور حارث کی ملاقات
نوے ہزار سے زیادہ شائقین میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں وراٹ کوہلی اور حارث رؤف کے درمیان جاری اس چھوٹے سے مقابلے کو انتہائی انہماک سے دیکھ رہے تھے جس میں اب تک برتری حارث کو حاصل تھی۔ انڈیا کو جیت کے لیے آٹھ گیندوں پر 28 رنز درکار تھے اور اب تک کوہلی اور پانڈیا حارث کے اوور میں بڑی شاٹ کھیلنے میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔ حارث اب تک اپنے 3.4 اوورز میں صرف 24 رنز کے عوض روہت شرما اور سوریا کمار یادو کی دو اہم وکٹیں حاصل کر چکے تھے۔ کوہلی کو چار برس قبل سڈنی میں بطور نیٹ بولر بولنگ کروانے والے حارث اب پاکستانی بولنگ اٹیک کا ایک اہم حصہ بن چکے تھے اور آخری دو گیندوں سے پہلے انھوں نے شارٹ فائن لیگ کو پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔ اس سے یہ تو طے تھا کہ اب حارث شارٹ پچ گیند کروائیں گے۔ میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں چھکا لگانا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ میدان میں پچ اور باؤنڈری کے درمیان فاصلہ لگ بھگ 90 میٹر تک ہے۔ حارث رؤف نے اپنی معمول کی رفتار سے کم ایک ہارڈ لینتھ پر گیند پھینکی لیکن اس پر کوہلی کا جواب ایسا تھا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس لینتھ کی گیند کو اول تو اکثر بلے بازوں کو کھیلنے میں ہی دقت ہوتی ہے کیونکہ یہ ان کے جسم کے بہت قریب ہوتی ہے۔ جو بلے باز اسے کھیلنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ عموماً اس پر پُل یا کٹ شاٹ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 لیکن وراٹ کوہلی نے یہ گیند کیسے مڈ آف کی جانب کھیلی اور پھر اس میں اسے ایسے کھیلا کہ یہ باؤنڈری کے پار پہنچا دی۔۔۔ کئی مرتبہ دیکھنے کے باوجود بھی یہ سمجھ سے بالاتر محسوس ہوتی ہے۔ اگلی گیند فائن لیگ باؤنڈری کے پار ہوئی اور یوں انڈیا کی میچ میں واپسی ہو گئی۔ اکثر افراد محمد نواز کے آخری اوور کو اس میچ کا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہیں لیکن حارث رؤف کو لگائے گئے وہ دو چھکوں کے ساتھ کوہلی نے پاکستانی بولرز پر اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ گذشتہ شام لگ بھگ ایک برس بعد کوہلی اور حارث رؤف پھر آمنے سامنے تھے لیکن اس مرتبہ ماحول دوستانہ تھا۔ پی سی بی کی جانب سے گذشتہ رات ریلیز کی گئی ویڈیو میں کوہلی اور حارث رؤف کی ملاقات دکھائی گئی ہے جس میں حارث آغاز میں ہی کہتے ہیں کہ ’جدھر سے گزرتا ہوں کوہلی، کوہلی ہوتا ہے۔‘ تاہم آج جب دونوں آمنے سامنے ہوں گے تو مقابلہ ایک بار پھر خوب جمے گا۔ حارث اس ویڈیو میں جہاں ایک مشکل شیڈول کا ذکر کرتے ہیں وہیں سنہ 2019 کے آغاز میں وراٹ کو بطور نیٹ بولر بولنگ کروانا بھی یاد کرواتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیو میں پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کی دوستانہ ماحول میں گپ شپ بھی دکھائی گئی ہے جو عام طور پر اس میچ کے گرد بننے والی فضا کے بالکل برعکس ہے۔ سنہ 2018 کے اختتام پر پاکستان سپرلیگ کی ٹیم لاہور قلندرز نے اپنے پلیئر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت اپنے کچھ بولرز کو آسٹریلیا بھیجا تھا۔ اتفاق سے اس وقت انڈین ٹیم بھی وہاں موجود تھی اور سڈنی میں آخری ٹیسٹ کھلنے کی تیاری کر رہی تھی۔ انڈین بلے بازوں نے پریکٹس کے لیے نیٹ بولرز کی درخواست کی تو حارث رؤف اور سلمان ارشاد کو ایک بہترین موقع مل گیا۔ بعد میں حارث رؤف نے وراٹ کوہلی کے ساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا پر بھی لگائی۔ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا پاکستان تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل حارث رؤف نے جیو نیوز کے مزاحیہ پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انھیں اس نیٹ سیشن کے بعد وراٹ کوہلی نے کہا تھا کہ ’تم اگلے چھ ماہ میں پاکستان کے لیے کھیل جاؤ گے۔۔۔ اور میں آٹھ نو ماہ بعد پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل ہو گیا تھا۔‘ حارث رؤف اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کی بولنگ کا انتہائی اہم حصہ ہیں۔ انھوں نے ون ڈے کرکٹ میں اب تک صرف 25 میچ کھیلیں اور 25 کی اوسط سے 46 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ کل اور آنے والے دنوں میں انڈیا پاکستان میچوں کے دوران حارث اور کوہلی کا مقابلہ ایک مختلف فارمیٹ میں ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا حارث ان چھکوں کو بھلا کر کوہلی کا مقابلہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان انڈیا میچ سے قبل کھلاڑیوں کا ایک دوسرے سے گھلنا ملنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ اس بھی ہوتا تھا جب دونوں ملکوں کے درمیان حالت کشیدہ ہوا کرتے تھے۔ تاہم پاکستانی ٹیم میں کھیلنے والے اکثر کھلاڑی وراٹ کوہلی اور روہت شرما کے فینز ہیں کیونکہ دونوں ہی ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے انڈین ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ویڈیو اس وقت انڈیا اور پاکستان دونوں ہی ملکوں میں وائرل ہے۔ جہاں اکثر افراد دونوں ٹیموں کے درمیان اس دوستانہ ماحول کر سراہ رہے ہیں وہیں کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کو میچ سے پہلے انڈین کھلاڑیوں میں گھلنا ملنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ ان کی کمزوری واضح کرتا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 عبداللہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’دونوں ممالک کے کھلاڑی ایک دوسرے کی دل سے عزت کرتے ہیں آپ کو اس کے لیے ان کی ویڈیوز بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ویڈیو شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ یہ جبری طور پر بنائی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس احساسِ کمتری سے اب نکل آئیں۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’حارث کو یہ بات کوہلی کو بتانے کی ضرورت کیا تھی کہ لوگ انھیں ان کے نام پر تنگ کرتے ہیں۔‘ ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’کبھی بی سی سی آئی ایسی ویڈیوز کیوں نہیں بناتا۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا کی وجہ سے ہم پورا ایشیا کپ اپنے ملک میں منعقد کرنے سے محروم رہے اور اب ہمارے کھلاڑی انتہائی مشکل شیڈول کا سامنا کر رہے ہیں اور یہاں ہم ان کے کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل رہے یہیں۔‘ ایک انڈین صارف نے لکھا کہ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان گذشتہ ایک دہائی سے کوئی سیریز سیاسی وجوہات کے بنا پر نہیں ہو پائی اور شائقین کو محروم رکھا گیا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0x594pg1eqo
سمیع چوہدری کا کالم: ’کہیں کرکٹ تشنہ لب نہ رہ جائے!‘
کچھ ایسی چاشنی ہے اس مقابلے میں کہ خبر کھلتے ہی میلہ لُٹ جاتا ہے، گھنٹے بھر میں ہی پورے کے پورے وینیوز بِک جاتے ہیں اور ذرا سی کوتاہی برتنے والے ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔ یہ کرکٹ مقابلہ کھیل کی عظیم ترین تشہیر کا سامان مہیا کرتا ہے۔ کچھ یہی قصہ کینڈی میں بھی ہے جہاں تمام ہوٹل بُک ہو چکے ہیں اور بلیک میں دستیاب ٹکٹیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کووڈ اور سری لنکن اکانومی کے ڈیفالٹ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ٹورازم انڈسٹری کے اشاریے مثبت سمت بڑھ رہے ہیں۔ مگر موسم کے کواکب کچھ یوں ڈراتے ہیں کہ پالیکیلے میں سنیچر کا مقابلہ کہیں کسی تشنہ لب کی حسرت ہی نہ بن جائے۔ ون ڈے فارمیٹ میں آخری یہ مقابلہ ہوئے چار برس بیت چکے۔ گو، اس کے بعد دونوں ٹیمیں ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں چار بار ٹکرائیں مگر وہ تمام میچز ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں تھے۔ اس اعتبار سے انڈیا تاحال ون ڈے فارمیٹ میں ایشیا کا چیمپیئن ہی ہے اور حالیہ ایونٹ روہت شرما کی جانب سے اپنی ٹرافی کے دفاع کی کاوش ہو گی۔ عین ممکن تھا کہ یہی میچ کینڈی کی بجائے لاہور یا کراچی میں منعقد ہو رہا ہوتا اور مسابقت کی حدت بھی کہیں زیادہ ہوتی مگر بی سی سی آئی کے سیکرٹری جے شاہ کی ضد آڑے آ گئی اور ایک بار پھر انڈین ٹیم کی پاکستان آمد کھٹائی میں پڑ گئی۔ اب اسے شومئی قسمت کہئے یا کیا، کہ جے شاہ انڈین کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری ہونے کے علاوہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ مودی کابینہ کے اہم ترین مہرے اُمت شا کے فرزند بھی ہیں۔ زمان و مکاں کی کوئی اور نظیر ہوتی تو اس سادہ سے مخمصے کو مفادات کے ٹکراؤ سے تعبیر کیا جا سکتا تھا مگر یہاں معاملہ انڈین کرکٹ بورڈ جیسے معاشی سورما کا ہے، سو خامشی ہی جواب بچتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مقابلے، خواہ کسی بھی فارمیٹ میں ہوں، ہمیشہ تکنیک سے زیادہ تحمل پہ منحصر ہوتے ہیں۔ دقیق لمحوں میں اعصاب جوڑے رکھنے کی صلاحیت ہی کامیابی کی کلید ہوا کرتی ہے۔ ماضی کے کئی یادگار میچز اس امر کے شاہد ہیں۔ وہ ایشیا کپ کا میچ بھلا کون فراموش کر سکتا ہے جب دونوں پاکستانی اوپنرز محمد حفیظ اور ناصر جمشید نے سینچریاں بنائیں مگر اس کے جواب میں وراٹ کوہلی نے اپنی سب سے بڑی ون ڈے اننگز کھیل کر میچ پاکستان کے منہ سے چھین لیا۔ اور بنگلہ دیشی سرزمین پہ ہی ہوا وہ میچ بھی بھلا کون بھول سکتا ہے جب آخری لمحات میں انڈین ٹیم جیت کے عین پاس ہی تھی کہ آفریدی آئے اور ایشون اس لمحے کی حِدت نہ جھیل پائے۔ کمنٹری باکس سے رمیز راجہ کی آواز آج بھی کہیں آس پاس سی سنائی دیتی ہے جب 'آفریدی، یو بیوٹی' کے دو چھکوں نے پاکستان کی ڈوبتی ناؤ پار لگا دی۔ اور دونوں ٹیموں کا آخری انکاؤنٹر تو شائقین کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہی ہے جب پچھلے برس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ہنگام میلبرن میں، پہلے تیس اوورز تک پاکستانی ٹیم میچ پہ حاوی رہی۔ پاکستانی پیسرز نے ہدف کا تعاقب کرتے انڈین ٹاپ آرڈر کی دھجیاں بکھیر دیں مگر پھر وراٹ کوہلی کریز پہ ایسے تحمل سے جمے کہ حارث رؤف سمیت کروڑوں پاکستانی شائقین انگشت بدنداں رہ گئے اور کوہلی ایک ہاری ہوئی بازی اُچک لیے۔ اگر سنیچر کے میچ میں بھی بارش حائل نہ ہوئی تو مقابلہ ایک بار پھر دباؤ جھیلنے کا ہی ہو گا کہ جب یہ اعصاب پہ سوار ہوتا ہے تو قوتِ فیصلہ مفقود ہو رہتی ہے اور تمام تر تجربہ و تکنیک کسی شمار قطار میں نہیں رہتے۔ پاکستانی پیس اٹیک بلا مبالغہ دنیا بھر کے بہترین میں سے ہے اور اس کے مقابل اترنے والی انڈین بیٹنگ لائن بھی بلاشبہ دنیا کے بہترین میں سے ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند مہینوں میں انڈین مڈل آرڈر مختلف النوع تجربات کی زد میں بھی رہا مگر کوچ راہول ڈریوڈ ان تجربات کو انجریز کے پیشِ نظر ایک امرِ مجبوری ٹھہراتے ہیں وگرنہ وہ بہت صراحت سے آگہی رکھتے ہیں کہ ان کا نمبر چار اور پانچ کون ہو گا۔ انڈین بولنگ کے لیے بھی یہ نوید ہے کہ جسپریت بمراہ طویل انجری کے بعد اب واپس میدان میں اتر چکے ہیں اور اگرچہ آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی میچز کھیل چکے ہیں مگر یہاں ان کا امتحان شدید موسم میں دس اوورز کا سپیل مکمل کرنا اور پچاس اوورز تک فیلڈ میں آگہی برتنا بھی ہو گا۔ اور ہاردک پانڈیا کی شکل میں انڈیا کو ایک ایسا آل راؤنڈر بھی میسر ہے جو لوئر آرڈر میں اننگز سنبھالنے کے ساتھ ساتھ بلا دِقت 142 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک بولنگ بھی کر سکتے ہیں۔ مگر، بہرحال اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود یہ انڈین اٹیک پاکستانی پیسرز کے مقابل پھیکا پڑ جاتا ہے اور انڈین امیدیں بالآخر مڈل آرڈر سے ہی جا جڑتی ہیں۔ کیونکہ نئے گیند کے ہمراہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ ٹاپ آرڈر کا بھرپور امتحاں ہوں گے۔ پاکستان کے لیے یہاں بھی زیادہ بڑا چیلنج وراٹ کوہلی یا سوریا کمار یادیو ہوں گے جو نئے گیند کا سامنا کرنے کی مشقت سے آزاد رہتے ہیں۔ اگرچہ امام الحق ون ڈے کرکٹ میں اپنا بہترین دور گزار رہے ہیں مگر فخر زمان کی حالیہ فارم متاثر کن نہیں رہی اور انڈین پیسرز آف سٹمپ کے باہر ان کی کمزوری کا استحصال کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ حقیقت بہرطور اپنی جگہ ہے کہ اہم ترین لمحات میں اٹھ کھڑے ہونا اور سب کو حیران کر چھوڑنا بھی فخر کا ہی خاصہ ہے۔ دوطرفہ انٹرنیشنل کرکٹ کی عدم دستیابی کے باعث یہ میچ کرکٹ شائقین کی تشنہ لبی کو اطمینان فراہم کر سکتا ہے اگر موسم بیچ میں حائل نہ ہو۔ لیکن اگر کسی صورت میچ مختصر ہوا تو بولنگ اور بیٹنگ سے زیادہ یہ مقابلہ دو کپتان دماغوں کے بیچ ہو گا کہ جو بدلے منظرنامے میں زیادہ بہتر حکمتِ عملی کھوج پایا، جیت اسی کے قریب تر ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4njz0m9j88o
ایشیا کپ 2023: پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کا نہ ختم ہونے والا سحر
ایسا لگتا ہے جیسے کرکٹ کا ورلڈ کپ اور ایشیا کپ جیسے بڑے مقابلے صرف پاکستان اور انڈیا کو ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اُترنے کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین پر نہیں کھیلتے مگر پھر بھی ٹیلی ویژن ناظرین کی ایک بڑی تعداد یہ مقابلے لائیو دیکھتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی نے ہمیشہ ان کے کرکٹ تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ دونوں ٹیموں نے سنہ 2012 کے بعد سے دو طرفہ سیریز نہیں کھیلی ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ کھیلنے والے ملک کے طور پر قائم رہنے کے لیے انڈیا کی ضرورت ہے اور یہ بات اس کا ہمسایہ اسے یاد دلانے سے نہیں ہچکچاتا جبکہ انڈیا کو پاکستان کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو ایک کامیاب ٹیم کے طور پر پیش کرے۔ یہ وہ ’بہترین دشمن‘ ہیں جو کھیل کے میدان میں ایک لازمی جزو بن کر آتے ہیں یعنی ایک دوسرے کا بڑا حریف۔ جیت اور ہار ایک مسلسل رقص کی طرح ہے جو کبھی ایک ٹیم کی طرف جاتی محسوس ہوتی تو کبھی دوسری کی طرف۔ شکست کے خوف اور فتح کے بارے میں سنسنی پھیلانا آسان ہے لیکن آپ دنیا کے کچھ عظیم ترین کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیموں کی ضروری مسابقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ ایشیا کپ میں انڈیا اور پاکستان کو ایک گروپ میں رکھ کر ٹیلی ویژن ناظرین کے لیے دونوں ٹیموں کے درمیان کم از کم ایک میچ دیکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس گروپ میں یہ کوالیفائر نیپال کے ساتھ ہیں جو تین ٹیموں میں سب سے کمزور ٹیم ہے۔ اس گروپ سے دو ٹیمیں ’سپر فور‘ راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ ہر ٹیم اس مرحلے میں جانے کے بعد سبھی ٹیموں کے ساتھ کھیلے گی۔ اس طرح یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ یہ ٹیمیں اس ٹورنامنٹ میں دو بار آمنے سامنے ہوں گی۔ اس ساری منصوبہ بندی کے پیچھے یہ مقصد چھپا ہے کہ یہ تیسری مرتبہ فائنل میں بھی آمنے سامنے ہوں! میچوں کی اس فرضی شیڈولنگ سے اس ٹورنامنٹ میں شامل دیگر ٹیمیں خود کو چھوٹے کھلاڑیوں کی طرح محسوس کر سکتی ہیں۔ انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ ایک جیسی ثقافت، جذبات کی بھرمار اور پیشن کے باوجود یہ منقسم ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، معاشیات، نفسیات سب نے مختلف اوقات میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے سابق کپتان شاہد آفریدی کو ایک بار صرف اس لیے قانونی نوٹس بھیجا گیا تھا کیونکہ انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھیں انڈیا میں زیادہ پیار کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں ایشیا کپ کے میچ کے دوران آفریدی کی حوصلہ افزائی کرنے پر میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے 67 طالب علموں کو معطل کر دیا گیا تھا۔ انھیں غداری کے الزامات کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اگرچہ کرکٹ کو الجھے ہوئے تعلقات کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے لیکن ایسا ہوتا ہے۔ کھیل بعض اوقات کھیل کے علاوہ کچھ اور ہی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کی حیثیت کھیلوں کے مقابلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کھیل میں جیت یا ہار کو کسی ملک کے سیاسی نظام، ادبی ورثے یا ان کے ڈیموں کی مضبوطی پر تبصرے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، لیکن پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔ پاکستان اور انڈیا سنیچر کو سری لنکا میں نیوٹرل مقام پر آمنے سامنے ہوں گے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے انڈیا پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں کھیلنے پر رضامند ہوا ہے۔ دنیا بھر کے منتظمین جانتے ہیں کہ انڈیا کے کرکٹ بورڈ کے پاس پیسے ہیں اس لیے ان کی بات سُنی جائے گی۔ دونوں ممالک کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ کمزور مڈل آرڈر کی وجہ سے ٹاپ بیٹنگ پر حد سے زیادہ انحصار ہے اور دونوں کے پاس عمدہ فاسٹ بولرز کا ایک گروپ ہے۔ نیپال کے خلاف افتخار احمد کی بے رحم سنچری نے شاید پاکستان کے لیے اس خلا کو پُر کر دیا ہو جبکہ بابر اعظم کی جارحانہ بیٹنگ ویراٹ کوہلی کے مداحوں کو بھی یہ امید کرنے پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو شکست دینے کے لیے بہت زیادہ رنز بنائیں گے۔ اگرانڈیا ایشان کشن کو ان کے بائیں ہاتھ سے کھیلنے اور جارحانہ انداز دونوں کی وجہ سے نمبر 3 پر کھلاتا ہے اور وراٹ کوہلی کو چوتھے نمبر پررکھتا ہے جہاں سے وہ مڈل آرڈر کو کنٹرول کر سکتے ہیں تو ان کی بیٹنگ کی کچھ یکطرفہ کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ کے ایل راہول انجری سے صحت یاب ہو رہے ہیں اور شاید کھیل نہ سکیں۔ ٹاپ فائیو بلے بازوں میں سے کوئی بھی بولنگ نہیں کرتا اور یہ ایک رکاوٹ ہے اور لوئر ہاف میں مستقل ہٹر کی کمی ہے۔ اپنے پہلے میچ میں اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ کھیلنے پر مجبور ہونے والا انڈیا کوئی بھی تجربہ کرنے سے گریزاں ہو سکتا ہے، بھلے ہی اگلے مرحلے میں جانے کی گارنٹی ہو۔ وہ ایک وقت میں ایک قدم اٹھانے کی بات کریں گے، زیادہ آگے نہیں دیکھیں گے اور جیتنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر میچ میں حصہ لیں گے۔ انھیں صرف نیپال جو پاکستان سے ہار گیا ہے کے خلاف جیتنے کی ضرورت ہے لہٰذا سنیچر کا میچ ان کے لیے کچھ نیا کرنے کی کوشش کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس میچ کے نتائج شاید کسی بھی ٹیم کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ ان ٹیموں کے لیے کوئی بھی نتیجہ ایک بڑے پیمانے پر معنی رکھتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cldglrp97pro
ارشد ندیم کا انٹرویو: ’نیرج چوپڑا سے اچھی دوستی ہے۔۔۔مقابلہ صرف ارشد ندیم سے ہے‘
’جب ہم جیولن ہاتھ سے ریلیز کرتے ہیں تو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تھرو نکل گئی ہے یا نہیں۔‘ ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں کھیلے جانے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں جس لمحے جیولن کسی ایتھلیٹ کے ہاتھ سے نکلتا، اس کے چہرے کے تاثرات سے عیاں ہو جاتا کہ آیا وہ اس تھرو سے خوش ہیں یا نہیں۔ انڈیا کے نیرج چوپڑا نے اپنی 88.17 میٹر کی تھرو کرتے ہی ہاتھ فضا میں بلند کر لیے تھے جیسے انھیں معلوم ہو کہ یہی وہ تھرو ہے جو انھیں سونے کا تمغہ دلوائے گی۔ بی بی سی کے علی کاظمی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی سٹار ایتھلیٹ اور حال ہی میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں جیولن تھرو مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والے ارشد ندیم یہی بات سمجھا رہے ہیں۔ ارشد نے میڈل راؤنڈ میں اپنی چھ تھروز کے بارے میں انتہائی سادگی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تو پوری کوشش کی لیکن تھرو نکلی ہی نہیں اور اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا گولڈ۔‘ ارشد ندیم اس سے قبل گذشتہ برس کامن ویلتھ گیمز میں اپنی کریئر کی بہترین 90.18 میٹر کی تھرو کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ ارشد ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن میں جیولن تھرو کے ابتدائی مقابلوں میں 86.79 میٹر کی تھرو کی بدولت سنہ 2024 میں فرانس میں ہونے والے اولمپکس کے لیے بھی کوالیفائی کر چکے ہیں۔ تاہم یہ کامیابیاں ارشد نے پاکستان میں ایتھلیٹس کے لیے انتہائی مخدوش سہولیات کے باوجود حاصل کی ہیں جن کا ذکر انھوں نے اپنے اس انٹرویو میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے حریف نیرج چوپڑا کے ساتھ دوستی سے متعلق بھی تفصیل سے بات کی ہے۔ ارشد اور نیرج یوں تو بین الاقوامی سطح پر اس سے قبل بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں لیکن صحیح معنوں میں دونوں کھلاڑی پہلی مرتبہ سنہ 2021 کے ٹوکیو اولمپکس کے دوران سپاٹ لائٹ میں آئے تھے۔ اس کے بعد سے جب بھی کبھی ارشد اور نیرج کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر انڈیا بمقابلہ پاکستان کے ہیش ٹیگ کے ساتھ دونوں اطراف سے صارفین اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں اور ویسا ہی ماحول بن جاتا جیسا کسی انڈیا پاکستان میچ سے قبل ہوتا ہے۔ تاہم ارشد سے جب بھی نیرج کے بارے میں سوال پوچھا جائے تو وہ ہمیشہ سے انھیں اپنا دوست کہتے ہیں۔ ’نیرج چوپڑا بھائی نے الحمدللہ گولڈ میڈل جیتا ہے تو سمجھ لیں کہ ہم ایشیا میں عالمی سطح پر پہلی اور دوسری پوزیشن پر آئے ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی ہے کبھی وہ گولڈ ہو گیا کبھی میں ہو گیا۔‘ ارشد اس خاص دوستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے جب اپنے پہلے بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا تھا تو وہ انڈیا کے شہر گوہاٹی میں ہوا تھا تو اس وقت میں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا اور نیرج نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔‘ ’تب سے ہماری بات چیت ہو رہی ہے اور پھر جیسے جیسے ہم نے مقابلوں میں حصہ لیا تو آہستہ آہستہ ہماری دوستی بھی بڑھتی گئی، اور اب ہماری اچھی خاصی دوستی ہے۔‘ نیرج کی فتح کے بعد جب صحافیوں نے ان کی والدہ سے سوال پوچھا کہ انھیں کیسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے بیٹے نے پاکستان کے کھلاڑی ارشد ندیم کو شکست دی ہے تو انھوں نے کہا وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ارشد بھی میڈل جیتنے میں کامیاب رہے، کیونکہ میدان میں تو سب کھلاڑی کی حیثیت سے ہی موجود ہوتے ہیں جن میں سے کسی نہ کسی کو جیتنا ہوتا ہے۔ ارشد اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’ان کی والدہ نے مجھے مبارکباد دی ہے اور کہا کہ میرے بیٹے نے اگر میڈل جیتا ہے تو دوسرا بھی میرا بیٹا ہے۔ یہی چیزیں انسان کو آگے لے کر آتی ہیں۔‘ ’اگر آپ کی اس طرح کی مثبت سوچ ہو تو پھر یہ جس طرح بات ہوتی رہتی ہے سوشل میڈیا پر کہ انڈیا نے یہ کر دیا پاکستان نے یہ کر دیا تو یہ انسان کو قریب لے کر آتی ہے۔ میری طرف سے ان کی فیملی بلکہ ان کی پوری قوم کو بہت بہت مبارک۔‘ ایتھلیٹکس مقابلوں کا ایک اپنا دباؤ ہوتا ہے کیونکہ ان میں غلطی کی گنجائش کسی ٹیم سپورٹ سے بہت کم ہوتی ہے۔ ارشد اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے دباؤ تو بہت ہے، بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنا اور جا کر ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کھیلنا، دباؤ تو بہت ہوتا ہے۔‘ ان سے جب پوچھا گیا کہ ’آپ کا ٹاپ کا مقابلہ انڈیا کے کھلاڑیوں کے خلاف تھا؟‘ تو پر ارشد نے فوراً جواب دیا کہ ’نہیں میرا مقابلہ ارشد ندیم کے ساتھ ہوتا ہے۔‘ ’میں یہ نہیں سوچتا کہ میں نے کسی اور سے جیتنا ہے، میں یہی سوچتا ہوں کہ اگر ارشد ندیم نے پہلے 90.18 کیا ہے تو اب ارشد 90.19 کرے۔‘ اس مرتبہ جب ارشد نے ورلڈ ایتھلیکس چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تو اس کے بعد ان کی ایک تصویر زیرِ بحث رہی جس میں وہ طلائی اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے ایتھلیٹس کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں لیکن ان دونوں کے برعکس ارشد کے پاس جھنڈا نہیں ہے۔ اس پر کچھ افراد نے ان کے ساتھ جانے والی انتظامیہ پر تنقید کی کہ انھیں اس موقع پر پاکستان کا جھنڈا فراہم کرنا چاہیے تھا۔ اس پر ارشد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی مقابلہ ختم ہوا تو میں ادھر ہی بیٹھا ہوا تھا، اپنے جوتے اور سامان بیگ میں رکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ ساری چیزیں رکھ کر میں جھنڈا پکڑتا ہوں۔ جھنڈا بھی موجود تھا، بس میں تھوڑا سا لیٹ ہوا ہوں۔‘ ’جیسے ہی میں ادھر گیا تو اس وقت پاکستانی پرچم کچھ دور تھا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے تصویر کھنچوا لی۔لیکن بعدازاں میں نے جھنڈا پکڑ کے پورے گراؤنڈ کا چکر لگایا ہے۔‘ پاکستان کرکٹ کے علاوہ زیادہ تر کھیلوں پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے باعث ایتھلیٹس کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میاں چنوں سے تعلق رکھنے 26 سالہ ارشد ندیم کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جہاں ان کے حریف نیرج چوپڑا کو انٹرنیشنل سطح کے نامور کوچ فراہم کیے گئے ہیں اور انھیں بیرونِ ملک ٹریننگ اور فٹنس پر کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا رہا ہے وہیں ارشد ندیم ان سہولیات سے محروم رہے ہیں۔ پاکستان میں مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق انھیں حالیہ مقابلوں میں شرکت سے قبل کوئٹہ میں نیشنل گیمز کھیلائی گئی تھیں جہاں انھیں گھٹنے کی انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایکسپریس ٹریبیون کی نتاشہ راہیل سے بات کرتے ہوئے ارشد نے بتایا تھا کہ کیسے انھیں اس انجری کے باعث اپنی ٹیکنیک تبدیل کرنی پڑی تھی۔ ارشد کو اس کے بعد سے لاہور میں ہی اپنے کوچ سلمان بٹ کے ساتھ ٹریننگ کرنی پڑی۔ انھوں نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ایتھلیٹکس کا گراؤنڈ نہیں ہے، وہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارے ایتھلیٹ یہاں آ کر ٹریننگ کریں۔ ’دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس عالمی سطح کے جیولن نہیں ہیں۔ میرے پاس ایک جیولن ہے لیکن اس سے کام نہیں چلتا۔ تقریباً 8 سے 10 جیولن ہونے چاہییں تاکہ آپ کی ٹریننگ بہتر ہو سکے اور بھی چیزیں ہیں جن کے ذریعے میں پاکستان میں رہ کر بھی پریکٹس کر سکوں، لیکن مجھے بین الاقوامی معیار کی کوچنگ کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’نیرج چوپڑا کو بین الاقوامی معیار کی کوچنگ مل رہی ہے، ہماری حکومت بھی کوشش کر رہی ہے اور امید ہے کہ ہمیں بھی بین الاقوامی معیار کی سہولیات مل سکیں کیونکہ آگے اولمپکس مقابلے شروع ہو رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہو گی کہ میں بھی گولڈ جیتوں اور نیرج چوپڑا بھی میرے ساتھ سٹینڈ پر کھڑے ہوں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg86xm3p6go
سمیع چوہدری کا کالم: ’اب اس میں نیپالی بیٹنگ کا کیا قصور؟‘
قدیم ادب میں جہاں جہاں بھی ملتان کے کچھ خواص بیان کئے گئے ہیں، سبھی میں ’گرمی‘ قدرِ مشترک ہے۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں بھی اگرچہ میدان کے اندر کا کھیل گرم جذبات سے تشنہ ہی رہا مگر ملتان کی گرمی نے بہرحال اپنا رنگ ضرور جمایا۔ قسمت کی خوبی تھی یا پاکستانی پیسرز کی دعائیں کہ ٹاس ان کے حصے آیا اور وہ حبس آلود تمازت میں لمبے سپیل پھینکنے کی مشقت سے آزاد رہے۔ اور پھر بعد ازاں نیپالی بیٹنگ جیسے پاکستانی اٹیک کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئی، بھلا ہی ہوا کہ ٹاس نیپال نہیں جیتا ورنہ ایشیا کپ کا افتتاحی میچ تین گھنٹے میں ہی نمٹ جاتا۔ نیپال کے بولنگ اٹیک کی جانب سے پھینکی گئی تیز ترین گیند کی رفتار 135 کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ تھی۔ اور یہ رفتار شاید ہی کسی پاکستانی پیسر کی سست ترین گیند کی بھی رہی ہو۔ جب معیار میں اس قدر تفاوت ہو تو نتائج کا انتہائی یکطرفہ ہو رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ نیپال کو ون ڈے انٹرنیشنل سٹیٹس ملے فقط پانچ ہی برس ہوئے ہیں اور اس قدر کم وقت میں ایشیا کپ جیسے ایونٹ تک رسائی حاصل کر پانا بھی نیپالی کرکٹ کے لیے کسی کامیابی سے کم نہیں مگر اس پہ مستزاد کہ میچ کے پہلے 20 اوورز میں نیپالی ٹیم کا ارتکاز جیسے کھیل پہ طاری ہوا، اس نے پاکستان کے اوسان خطا کر چھوڑے۔ فخر زمان اس ارتکاز کا پہلا شکار ٹھہرے اور پھر اگلے درجن بھر اوورز پاکستانی اننگز اوپر تلے ایسی ڈگمگائی کہ ملتان کے کراؤڈ کو بھی سانپ سونگھ گیا اور پاکستانی شائقین ورطۂ حیرت میں جا ڈوبے۔ کیونکہ اس میچ سے پہلے تک تو اکثر یہ بھی نہ جانتے تھے کہ نیپال کی کوئی کرکٹ ٹیم بھی ہے، کجا یہ کہ پاکستانی شاہین نیپالی رائنوز کے دبدبے میں خاموش سے ہو رہیں۔ مگر پھر ملتان کی گرمی تھی جو اچھے بھلے حواس کو بھی مخبوط کر ڈالے اور اس سے بھی سوا تھا۔ بابر اعظم کا ارتکاز، جسے بالآخر نیپالی بولنگ اٹیک کی مجموعی دانش پہ بھاری پڑنا ہی تھا۔ آمدہ کرکٹ کیلنڈر کے اہم ترین مرحلے کا آغاز بابر نے جس دھیان اور عزم سے کیا ہے، وہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔ لیکن نیپالی بولنگ نے پہلے 20 اوورز میں ہی یہ ضرور دکھلا دیا کہ یہاں تک پہنچنے کو وہ کیسی تگ و دو سے گزرے ہیں۔ اور اگر نیپالی کرکٹ اسی ڈگر پہ گامزن رہی تو اگلے ون ڈے ورلڈ کپ میں نمائندگی کا خواب بھی غیر حقیقت پسندانہ ہرگز نہ ہو گا۔ اب اس میں نیپالی بیٹنگ کا بھی بھلا کیا قصور کہ اس کے مقابل جو پیس اٹیک تھا، یہ تو کسی تگڑی سے تگڑی ٹیم کے بھی طوطے اڑا سکتا ہے تو وہ نوآموز بھلے وہاں کر ہی کیا پاتے۔ پہلے ہی اوورز میں وکٹ اڑانا شاہین آفریدی کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ نسیم شاہ کے سپیل کی اٹھان دن بدن تیز تر ہوئی جاتی ہے اور حارث رؤف کی پیس تو کسی جغادری کے بھی قدم متزلزل کر سکتی ہے۔ بہرحال نیپالی بیٹنگ کے انہدام میں پاکستانی پیس نے جو کردار نبھایا، اس کا اجر یہ بھی ہوا کہ ملتان کی حبس آلود تمازت میں پیسرز کو اپنا کوٹہ پورا کرنے کی اذیت سے رہائی مل گئی کیونکہ اگلے دو ماہ کے شیڈول میں پاکستانی کیمپ اپنے پیسرز کی فٹنس میں کسی کسر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور جو ابتدائی جھٹکا پاکستانی بیٹنگ کو ٹورنامنٹ کے پہلے ہی بیس اوورز میں سہنا پڑا، وہ نہ صرف ٹاپ آرڈر کے لیے چشم کشا ثابت ہوا بلکہ اسی کی بدولت افتخار احمد کو بھی ایک لمبی اننگز کھیلنے کا موقع ملا اور بابر کے ہمراہ ان کی پارٹنرشپ کے طفیل ہی پاکستان تین سو کا ہندسہ عبور کر پایا ورنہ جب وہ کریز پر آئے تب کواکب یکسر کسی بڑے مجموعے کے نظر نہ آتے تھے۔ کرکٹ کیلنڈر کے اس اہم ترین مرحلے پہ افتخار احمد کے لیے ایسی اننگز کا تجربہ ورلڈ کپ کی تیاریوں میں ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے اور میگا ایونٹ کے دقیق مراحل پہ ایسی متنوع اننگز کھیلنے والے بلے باز کی دستیابی غنیمت سے کم نہ ہو گی۔ نیپالی کپتان روہت کے لیے بھی یہ میچ ایک اچھا سبق ثابت ہو گا کہ اگر انھیں مسابقتی سطح کی کرکٹ میں آگے بڑھنا ہے تو ان تمام غلطیوں سے احتراز برتنا ہو گا جن کی قیمت اس شکست کی ضخامت سے عیاں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clez8n41zgxo
ایشیا کپ میں پاکستان کا بہترین آغاز: ’نیپال نے مقابلہ تو اچھا کیا لیکن پاکستان کسی وجہ سے نمبر ون ہے‘
ایشیا کپ کا آغاز بالکل ویسا ہی ہوا جیسے اکثر افراد نے سوچا تھا اور پاکستان نے افتتاحی میچ میں نیپال کو 238 رنز سے شکست دے دی۔ اس میچ میں پاکستان نے بیٹنگ کی شروعات میں مشکلات کے باوجود اختتام دھواں دار انداز میں کیا جس میں بابر اعظم اور افتخار احمد کی جارحانہ بیٹنگ نیپالی بولرز پر حاوی رہی، اسی طرح پاکستانی بولنگ نے آغاز سے ہی غلبہ برقرار رکھا۔ فیلڈنگ میں فخر زمان کا کیچ اور شاداب خان کی بولنگ نے بھی نیپالی بلے بازوں کو زیادہ دیر وکٹ پر ٹکنے نہیں دیا۔اس بڑی فتح کے باعث پاکستان ایک اچھا نیٹ رن ریٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت پر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور کپتان بابر اعظم اور افتخار احمد کی شاندار سنچریوں کی بدولت پاکستان نیپال کو فتح کے لیے 343 رنز کا بڑا ہدف دینے میں کامیاب رہی۔ بیٹنگ کی ورلڈ رینکنگ میں نمبر ون بلے باز بابر اعظم نے 131 گیندیں کھیل کر 151 رنز بنائے جبکہ افتخار احمد نے ون ڈے میچوں میں اپنی پہلی سنچری 71 گیندوں پر مکمل کی۔ پاکستان کی اننگز کا آغاز کچھ اتنا خاص نہیں تھا اور پہلی مرتبہ ایشیا کپ کا حصہ بننے والی نیپالی ٹیم کے بولرز نے ابتدائی 28 اوورز تک پاکستانی بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے سے روکے رکھا۔ 28 اوورز کے کھیل کے اختتام تک پاکستان کا مجموعی سکور چار کھلاڑیوں کے نقصان پر 124 تھا۔ تاہم میچ کے دوسرے ہاف میں نیپال کے بولرز بابر اعظم اور محمد افتخار کی جارحانہ بلے بازی کے سامنے بے بس نظر آئے جو رنز کا انبار لگانے میں مصروف رہے۔ قومی ٹیم کے اوپنرز کچھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے، فخر زمان 14 جبکہ امام الحق صرف 5 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ تاہم اس موقع پر رضوان اور بابراعظم نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کی۔ ٹیم کا مجموعی سکور 111 رنز پر پہنچا تو رضوان بھی 44 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد کریز پر آنے والے آغا سلمان محض 5 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ تاہم اس کے بعد نیپال کے بولرز کی ایک نہ چلی۔ بابر کا ساتھ دینے کے لیے آنے والے افتخار احمد نے کپتان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بابر اعظم 151 رنز بنا کر اننگز کے آخری اوور میں آؤٹ ہوئے جب کہ افتخار احمد 71 گیندوں پر 109 رنز کی اننگز کھیل کر ناٹ آؤٹ رہے۔ بابر اور افتخار نے پانچویں وکٹ کی شراکت میں 131 گیندوں پر 214 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی۔ بابر اعظم نے اپنی اننگز میں چار چھکے اور 14 چوکے لگائے جبکہ افتخار نے چار چھکے اور 11 چوکے لگائے۔ ان دونوں کی جارحانہ اننگز کی بدولت پاکستان نے آخری دس اوورز میں 129 رنز بنائے۔ پاکستان نے 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 342 رنز بنائے۔ نیپال کی جانب سے سومپل کامی نے 85 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ کرن اور سندیپ لمیچا نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ بابر اعظم کی سربراہی میں پاکستان کی ٹیم شاداب خان، محمد رضوان، فخر زمان، امام الحق، سلمان علی آغا، افتخار احمد، محمد نواز، حارث رؤف، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی پر مشتمل تھی۔ 343 رنز کے ہدف کے جواب میں نیپال کی اننگز ابتدا ہی سے مشکلات کا شکار نظر آئی اور 82 کے مجموعی سکور پر نیپال کی نصف ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ نیپال کی جانب سے اننگز کا آغاز اوپنرز کوشال بھرٹیل اور آصف شیخ نے کیا۔ تاہم شاہین شاہ کے پہلے ہی اوور کی آخری دو گیندوں پر دس کے مجموعی سکور کوشال اور ان کی جگہ آنے والے روہت پوڈیل آؤٹ ہو چکے تھے۔ وکٹیں گرنے کا یہ سلسلہ اگلے اوورز میں بھی جاری رہا۔ اننگز کے دوسرے اوور میں اوپنر آصف شیخ پانچ رنز بنا کر نسیم شاہ کا شکار بنے۔ نیپال کے نمایاں بلے باز عارف شیخ اور سومپل کامی رہے، عارف نے 26 جبکہ سومپل نے 28 رنز سکور کیے۔ گلسن جاہ 13 رنز، دپیندرا سنگھ تین جبکہ کشال مالہا صرف 6 بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے شاداب خان نے چار، حارث رؤف اور شاہین شاہ آفریدی نے دو، دو جبکہ نسیم شاہ اور محمد نواز نے ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ ایشیا کپ کا دوسرا میچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو ستمبر کو کھیلا جائے گا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام پاکستان میں اس وقت جہاں افتخار احمد اور بابر اعظم کی سنچریوں کے بارے میں بات ہو رہی ہے وہیں حارث رؤف شاہین آفریدی اور شاداب خان کی بولنگ اور فخر زمان کے کیچ کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سابق سپنر سعید اجمل کا کہنا تھا کہ ’بابر افتخار کی شراکت نے پاکستان کو بہترین سکور تک پہنچایا اور شاداب اور نواز بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر شاداب نے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’نیپال نے آغاز میں مقابلہ تو خوب کیا لیکن پاکستان کسی وجہ سے نمبر ون ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51qgnz5d2po
وہ ’بوسہ‘ جس نے خوشی کے لمحے کو فٹبال کی دنیا کے بڑے بحران میں بدل دیا
یہ ہسپانوی فٹبال کے لیے ایک تاریخی اور خوشی کا لمحہ ہونا چاہیے تھا، کہ خواتین کی فٹبال ٹیم نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ جیتا لیکن آسٹریلیا میں ہونے والے ایونٹ کے فائنل میں انگلینڈ کے خلاف سپین کی تاریخی کامیابی کے بعد جشن کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے اس خوشی کے لمحے کو ایک بحران میں تبدیل کر دیا۔ سپینیش فٹبال فیڈریشن (آر ایف ای ایف) کے صدر لوئس روبیلز کے رویے سے فٹبال شائقین میں اس وقت غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جب انھیں تقسیمِ انعامات کی تقریب کے دوران سٹیج پر فٹ بال کھلاڑی جینی ہرموسو کے ہونٹوں پر بغیر باہمی رضامندی کے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے بعد انھیں وی آئی پی بالکونی سے میچ کی اختتامی سیٹی بجنے کے بعد جشن مناتے ہوئے اپنے عضو تناسل کے قریبی حصے کو بھی چھوتے ہوئے بھی فلمایا گیا تھا۔ بالکونی میں متنازع اشارے اور پھر بوسے لینے کے اس واقعے نے ہسپانوی فٹبال میں ایک ایسا بحران پیدا کر دیا ہے جس کے نتائج بہت دور رس اور غیر متوقع ہیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے یہاں تین اہم سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ 46 سالہ روبیلز نے سڈنی کے آسٹریلیا سٹیڈیم کے وی آئی پی ایریا سے وہ میچ دیکھا جس میں سپین نے انگلینڈ کو 1-0 سے شکست دی۔ جب انھوں نے میچ کی اختتامی سیٹی کی آواز سنی، تو روبیلز، جو سپین کی ملکہ لیٹیزیا اور اُن کی 16 سالہ بیٹی انفنتا صوفیہ کے ساتھ کھڑے تھے، نے اس خوشی کے موقع پر اپنے جنسی اعضا کو پکڑ لیا۔ بعد ازاں تقسیم انعامات کی تقریب کے دوران میکسیکو کے پاچوکا کلب کے لیے کھیلنے والی جینی ہرموسو کے ہونٹوں پر بغیر باہمی رضامندی کے بوسہ لیا گیا۔ سٹیج پر انھیں مبارکباد دیتے ہوئے، روبیلز نے ہرموسو کا سر دونوں ہاتھوں سے تھاما اور اُن کے ہونٹوں پر بغیر باہمی رضامندی کے بوسہ دیا۔ ہرموسو نے اس کے بعد اپنے انسٹاگرام پر رونما ہونے والے واقعے کی نشاندہی کی کہ اور کہا کہ ’مجھے یہ پسند نہیں آیا۔‘ روبیلز نے ابتدائی طور پر معذرت کی لیکن ہسپانوی حکومت کے قائم مقام صدر پیڈرو روچا نے کہا کہ یہ کافی نہیں اور قائم مقام لیبر منسٹر یولانڈا ڈیاز نے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والوں میں شمولیت اختیار کی۔ جمعرات کو، فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے اعلان کیا کہ اس نے روبیلز کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کر دی ہے۔ اگلے دن، سپینش فٹبال فیڈریشن نے ایک غیر معمولی اجلاس طلب کیا تو لوئس روبیلز سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ مستعفی ہو جائیں گے تاہم انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ روبیلز نے اپنے جنسی اعضا کو پکڑنے کے لیے معافی مانگی لیکن ’آخر تک لڑنے‘ کا وعدہ کیا اور کہا کہ بوسہ ’باہمی رضامندی سے تھا۔‘ لیکن اسی دن جینی ہرموسو نے سوشل میڈیا پر ایک تفصیلی بیان شیئر کیا جس میں انھوں نے فیڈریشن کے صدر کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی گفتگو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی۔ ہسپانوی حکومت نے بھی روبیلز کو معطل کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر دی ہے، ہسپانوی سیکرٹری کھیل نے کہا کہ وہ ’چاہتے ہیں کہ یہ ہسپانوی فٹبال کی می ٹو مہم ہو۔‘ ہفتہ 26 اگست کو، فیفا نے اعلان کیا کہ وہ اپنی تادیبی کارروائی کے نتائج تک روبیلز کو عارضی طور پر معطل کر رہا ہے۔ فٹ پرو یونین، جو ہرموسو کی نمائندگی کر رہی ہے، نے جمعہ کے روز 81 فٹ بال کھلاڑیوں کا دستخط شدہ ایک بیان بھی جاری کیا جس میں کھلاڑیوں نے اعلان کیا کہ وہ ہسپانوی قومی ٹیم کے لیے نہیں کھیلیں گیں جب کہ روبیلز اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔ تاہم، آر ایف ای ایف نے ہرموسو کی طرف سے دیے گئے بیانات اور اُن کے سوالات پر اعلان کیا کہ وہ اپنے صدر کے بارے میں فٹبالر کے تبصروں کے لیے قانونی کارروائی شروع کرے گی۔ فیڈریشن نے کہا کہ ’آر ایف ای ایف اور اس کے صدر اس وقت پھیلائے جانے والے ہر ایک جھوٹ کا ثبوت بھی خود ہی تلاش کرے گی اور اس کی سچائی کا تعین بھی کھلاڑیوں کی جانب سے خود ہی کرے گی۔‘ فیڈریشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’آر ایف ای ایف اور اس کے صدر، فٹ پرو یونین کی جانب سے پریس ریلیز کے مواد کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے، متعلقہ قانونی کارروائی شروع کریں گے۔‘ فٹبال اور قانون کی دنیا کے جھگڑوں سے ہٹ کر، اس تنازعہ نے بڑے پیمانے پر بحث کو جنم دیا ہے۔ قائم مقام لیبر وزیر ڈیاز نے سوموار کو کہا کہ ’ملک میں ایسا مردانہ رویہ نظام کا حصہ بن چکا ہے جس کی ایک شکل روبیلز کے واقعے میں سامنے آئی۔‘ ڈیاز، جو نائب وزیر اعظم بھی ہیں، نے ملک میں معاشرتی رویوں کی تبدیلی کی بات کی ہے اور جنسی ہراسانی اور تشدد کے متاثرین کو بہتر تحفظ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے خواتین کھلاڑیوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم فٹ پرو کے نمائندگان سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’جمعے کے دن ہم نے ہسپانوی معاشرے کا سب سے برا روپ دیکھا۔‘ روبیلز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے اعلان اور فیفا کی جانب سے معطلی کے فیصلے کے بعد یہ دیکھنا باقی ہے کہ سپین میں کھیلوں کی انتظامی عدالت، جس میں آزاد قانونی ماہرین شامل ہیں، کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر انھوں نے روبیلز کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس کا نتیجہ ان کی نااہلی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ فیفا کی جانب سے روبیلز اور سپیشن فٹبال فیڈریشن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 33 سالہ ہرموسو سے رابطہ نہیں کریں گے۔ فیڈریشن کے نائب صدر اور روبیلز کا دایاں بازو سمجھے جانے والے پیڈرو روچا کو تنظیم کا انتظام دے دیا گیا ہے۔ سپیشن فٹ بال فیڈریشن نے ہفتے کے دن ایک بیان میں کہا کہ قوائد کے مطابق پیڈرو روچا اس دوران قائم مقام صدر ہوں گے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’لوئس روبیلز نے کہا ہے کہ وہ اپنا قانونی دفاع کریں گے اور انھیں فیفا پر مکمل اعتماد ہے۔ روبیلز کے مطابق انھیں اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا گیا ہے تاکہ سچ کی فتح ہو۔‘ دوسری جانب فیفا کے اس اعلان کا کھیلوں کی دنیا میں خیر مقدم کیا گیا ہے جس کے تحت روبیلز کو معطل کیا جا چکا ہے تاہم چند لوگ یورپی فٹ بال تنظیم، یویفا، کی انتظامیہ کی مبینہ خاموشی پر سوال اٹھا رہے ہیں جس میں روبیلز نائب صدر ہیں۔ بی بی سی سپورٹس تجزیہ کار سائمن سٹون کا کہنا ہے کہ ’اگر روبیلز کو سپینش فٹ بال فیڈریشن سے ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ 2027 تک یویفا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن رہیں گے۔‘ سائمن کے مطابق یویفا نے موجودہ صورتحال پر کوئی بیان نہیں دیا تاہم تنظیم کے چند افراد اس بات پر نالاں ہیں کہ انھوں نے اب تک استعفی کیوں نہیں دیا۔ یویفا کا مؤقف ہے کہ اس کی جانب سے اب تک اس لیے بیان نہیں دیا گیا کیونکہ یہ واقعہ فیفا کی تقریب میں پیش آیا اور اسی لیے ان کے مطابق بہتر ہو گا کہ فیفا ہی اس تفتیش کو آگے لے کر بڑھے۔ ہسپانوی خواتین کی ٹیم میں کوچنگ سٹاف کے چند اراکین نے بھی ہفتے کو استعفی دے کر کوچ ہورگے ولڈا سے دوری کا اظہار کیا۔ ولڈا، جن کی روبیلز نے جمعے کے دن ایک تقریر میں تعریف کی تھی، فیڈریشن کے صدر کے غیر مناسب رویے پر اظہار افسوس کر چکے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر ان کو آغاز میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیوں کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ روبیلز کا ساتھ دے رہے ہیں تاہم فیفا کی جانب سے روبیلز کی معطلی کے بعد ولڈا نے بھی کھل کر ان کی مخالت کی۔ ادھر روبیلز کی والدہ نے اپنے بیٹے کے خلاف مبینہ غیر انسانی رویے پر بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ انجیلیز بیجر نے سپین کے چھوٹے سے ساحلی قصبے موٹرل میں، جہاں روبیلز کی پرورش ہوئی، خود کو ایک چرچ میں بند کر لیا ہے۔ انھوں نے ہسپانوی نیوز ایجنسی ای ایف ای کو بتایا کہ ان کی بھوک ہڑتال غیر معینہ مدت تک دن رات جاری رہے گی۔ روبیلز کی کزن اور ان کے اہلخانہ کی ترجمان ونیسا روئیز نے کہا ہے کہ ’میڈیا ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا پیچھا چھوڑ دیں اور جینی سچ بتائے۔ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔‘ اس بحران نے خواتین کی فٹبال ورلڈ کپ کی فتح کی خوشی اور کامیابی کو ماند کر دیا ہے اور فی الحال اس بحران کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv257p5516zo
یہ ورلڈ کپ کی ڈریس ریہرسل ہو سکتی ہے: سمیع چوہدری کا کالم
مقابلہ تو اپنے تئیں پی سی بی کے دلِ ناتواں نے خوب کیا مگر سیاسی و جغرافیائی محاذ آرائیوں کے طفیل پاکستان صرف جزوی میزبانی ہی کما پایا اور ایشیا کپ کی حقیقی لڑائی اب سری لنکا کے میدانوں کا مقدر ہو گی جہاں رنز کی کمی رہا کرتی ہے اور سپن کی بہتات۔ پاکستان تو اپنے میزبانی حقوق مکمل طور پہ نہ بچا پایا مگر ایشیا کپ کو بالآخر اپنا کھویا ہوا فارمیٹ واپس مل ہی گیا اور دو متواتر ٹی ٹونٹی ایڈیشنز کے بعد حالیہ ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلا جائے گا۔ بہرحال ہمہ قسمی دو طرفہ کرکٹ اور کثیرالقومی ٹورنامنٹس کا مقصود آئی سی سی ایونٹس کی تیاری ہی ہوتا ہے اور رواں سائیکل کا ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلے جانے کی وجہ بھی اکتوبر میں طے شدہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کی تیاری ہی ہے۔ اب کی بار ایشین بلاک کی یہ بھی خوش بختی رہے گی کہ مہینہ بھر بعد منعقد ہونے والا آئی سی سی ورلڈ کپ بھی لگ بھگ انہی کنڈیشنز میں کھیلا جائے گا جو ایشیا کپ میں ان ٹیموں کو میسر ہوں گی۔ یوں یہ ایونٹ ورلڈ کپ کے لیے گویا ڈریس ریہرسل کا کام دے گا۔ اپنے ٹیسٹ ریکارڈ کے برعکس ون ڈے فارمیٹ میں پاکستانی پچز کی حالیہ کارکردگی بہت خوش کُن رہی ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں طے شدہ مقابلوں میں ہمیں خاصی دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو مل سکتی ہے جہاں بڑے مجموعے بعید از قیاس نہ ہوں گے۔ مگر سپن کی طرف داری میں جو شہرت سری لنکن وینیوز نے کما رکھی ہے، وہاں سری لنکن کرکٹ بورڈ کے لیے بھی کار دشوار ہو گا کہ ماڈرن ون ڈے کرکٹ کے لیے متناسب پچز تخلیق کر پائیں۔ حالیہ پاک افغان ون ڈے سیریز میں ہیمبنٹوٹا کے پہلے میچ کی پچ تو گویا بنگلہ دیشی پچز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوئی کاوش تھی۔ یہاں ذمہ داری پی سی بی کے شریک میزبان سری لنکا کرکٹ کی ہو گی کہ وہ ایشیا کپ کو اس پچ کی ڈگر پر نہ جانے دیں کیونکہ بہرحال پاکستان ہی کی طرح ورلڈ کپ میزبان انڈین وینیوز میں بھی سپن کی ویسی بہتات نہ ہو گی جو سری لنکن پچز کا خاصہ رہی ہے۔ سو، اگر یہاں ورلڈ کپ کی تیاری ہی مقصود ہے تو پچز کا بھی عین وہی رجحان درکار ہو گا جو انڈین وکٹوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ چالیس برس کے اس سفر میں ایشیا کپ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور سہ فریقی ٹورنامنٹ کے طور پر جنم لینے والا یہ ایونٹ اب فراخ دامن ہو کر چھ ٹیموں تک پہنچ چکا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل کو مالی منفعت پہنچانے کے علاوہ یہ امر خطے میں کرکٹ کے فروغ کے حوالے سے بھی مثبت قدم رہا ہے اور نیپال بھی پہلی بار کسی ایلیٹ لیول کے کثیرالقومی ٹورنامنٹ کا حصہ بن پایا ہے۔ یہ بھی عجب حقیقت ہے کہ اتنی طویل تاریخ رکھنے والے اس ٹورنامنٹ میں آج تک کبھی کوئی پاکستان، انڈیا فائنل نہیں ہوا۔ سو مارکیٹنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بار بھی فارمیٹ یوں رکھا گیا ہے کہ پاکستان، انڈیا دوطرفہ کرکٹ کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں۔ مگر رواں برسوں میں جو رقابت پاکستان انڈیا کرکٹ سے بھی زیادہ نمایاں ہوتی نظر آئی ہے، وہ پاکستان افغانستان رقابت ہے جو اگرچہ حالیہ ون ڈے سیریز میں ویسی شدت پکڑ نہ پائی مگر سیریز کے اہم ترین لمحات میں ایک بار پھر اپنی جھلک دکھلا گئی۔ سو ہرگز بعید نہیں کہ یہاں بھی پریشر میچز میں شاداب خان کے مینکڈ رن آؤٹ کی طرح نان سٹرائیکر اینڈ پر غیر معمولی سرگرمی دیکھنے کو ملے۔ ان دو مخاصمتوں سے سوا ایک تیسری رقابت بھی ہے جو ایشین بلاک میں ابھی نئی نئی پنپ رہی ہے مگر ماضی قریب میں اس کے جو بھی نظارے ہوئے، وہ ہاتھا پائی اور ڈریسنگ روم کے شیشے توڑے جانے جیسی مثالوں سے مزین تھے۔ اس ایونٹ میں بھی اگر بنگلہ دیشی ٹیم شکیب الحسن کی قیادت میں خود کو مجتمع کر پائی تو ’روایتی‘ حریف سری لنکا کے خلاف ناگن ڈانس کی بھی نشاطِ ثانیہ ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ایشین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم تر ہو رہتا ہے مگر حالیہ سیریز میں پاکستانی پیسرز نے کنڈیشنز سے بالاتر ہو کر اپنی مسابقت کا ثبوت دیا۔ طویل ون ڈے ایونٹس میں بہرحال بولنگ لائن پر ذمہ داری کا بوجھ زیادہ ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ پاکستانی پیس اٹیک اس ایونٹ کا بہترین پیس اٹیک ہے۔ اگر یہ پیس اٹیک اس ٹرافی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کا حتمی امتحان انڈین بیٹنگ لائن ہو گی جو بلاشبہ اس ایونٹ کا بہترین بیٹنگ یونٹ ہے اور چھ بار کا چیمپیئن ہونے کے ساتھ ساتھ ون ڈے فارمیٹ میں ابھی بھی ایشیا کا چیمپیئن ہی ہے۔ مگر انڈیا کے لیے قابلِ فکر ان کا وہ بولنگ یونٹ ہو گا جو اگرچہ جسپریت بمراہ کی واپسی سے مستحکم ہوا مگر بہرحال ویسی ایکسپریس پیس سے عنقا ہے جو فی الوقت پاکستان کو میسر ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1zkgwwyyqo
سعودی عرب اربوں ڈالر خرچ کر کے فٹبال کی بڑی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟
الہلال کلب سعودی عرب کی اول درجے کی فٹبال ٹیم ہے جس نے 66 ٹرافیاں جیت رکھی ہیں۔ اس کلب نے چار بار اے ایف سی چیمپیئنز لیگ بھی جیتی ہے اور یہ ایشیا میں فٹبال کی سب سے کامیاب ٹیم سمجھی جاتی ہے۔ اتنی متاثر کُن تاریخ کے باوجود 19 اگست 2023 کے دن کلب کی تاریخ میں ایک نئے باب کی شروعات ہوئیں جب نیمار جونیئر 65 ہزار شائقین کے سامنے اس کلب میں شامل ہوئے۔ برازیلی فٹ بال کھلاڑی الہلال کلب کی روایتی نیلی رنگ کی کٹ پہنے گراؤنڈ میں اترے تو پہلے آتش بازی ہوئی جس کے بعد ایک ڈرون شو ہوا جس میں نیمار کا چہرہ ریاض کے آسمان پر نمایاں تھا۔ الہلال کلب کے چاہنے والے عبداللہ بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ہمارے لیے بہت خاص دن ہے۔ نیمار بہت بڑا سٹار ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے فین بھی الہلال لائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اب پورا برازیل ہماری حمایت کرے گا اور کلب ہر جگہ جانا جائے گا۔‘ سعودی عرب کو بین الاقوامی فٹ بال کا مرکز بنانے کی کوششوں کا آغاز کرسچیانو رونالڈو کی سعودی کلب النصر میں شمولیت سے ہوا تھا۔ رونالڈو نے جنوری میں سعودی کلب سے ڈھائی سال کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت رونالڈو کو 400 ملین ڈالر سے زیادہ کا معاوضہ ملے گا۔ رونالڈو کی آمد نے سعودی عرب میں فٹ بال لیگ کو نہایت تیزی سے بدلا اور کھیل کی دنیا کے بڑے نام مختلف کلبز میں شامل ہونے لگے۔ جون میں کریم بنزیما ریال میڈرڈ سے جدہ کے ال اتحاد کلب آ گئے۔ ان کے علاوہ سادیو مین، ریاد ماہریز، جارڈن ہینڈرسن، این گولو کانٹے بھی یورپی لیگ چھوڑ کر سعودی پرو لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ رواں سال سعودی پرو لیگ نے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی ٹرانسفر فیسوں کی مد میں 850 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی ہے جس میں وہ ماہانہ معاوضہ شامل نہیں جو ان کھلاڑیوں کو دیا جائے گا۔ لیگ کے چیف فنانشل افسر کارلو نوہرا کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں پیسہ صرف ایک بار کے لیے ہی نہیں لٹایا گیا۔ سعودی حکومت نے فٹ بال لیگ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس وقت تک مالی معاونت جاری رکھے گی جب تک منافع اور معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے اعلیٰ پائے کی لیگ نہیں بن جاتی۔ سعودی پرو لیگ انگلش پریمیئر لیگ اور لا لیگا سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ کارلو نوہرا کا کہنا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول تک بین الاقوامی کھلاڑیوں کو سعودی عرب لانے کے لیے پیسہ خرچ کرتے رہیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی مالیاتی قدر بہتر بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ بات اہم ہے کہ ہم خود کو مالیاتی اعتبار سے منافع بخش بنائیں تاکہ ہم اپنی معاشی ترقی خود سے کر سکیں اور صرف حکومتی پیسے پر انحصار نہ کریں۔‘ دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کھیلوں کی دنیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سعودی پرو لیگ کا چہرہ بدلنے کے علاوہ فارمولا ون اور ایل آئی وی گولف شامل ہیں۔ چند ناقدین سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے اس عمل کو ’سپورٹس واشنگ‘ کا نام دے رہے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ تاہم چند ماہرین کا ماننا ہے کہ شہرت ہی اس حکمت عملی کی واحد وجہ نہیں۔ سائمن چیڈوک پیرس کے سکیما بزنس سکول میں کھیل اور جیو پولیٹیکل اکانومی کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں ملک کھیلوں اور تفریح کو ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اپنی سافٹ پاور کا اظہار کر سکیں۔‘ ’یہ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جسے سعودی عرب استعمال کر رہا ہے۔ یہ قوموں کے درمیان عالمی سطح پر لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے کا مقابلہ ہے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس، انڈیا اور بہت سے ممالک اس حکمت عملی کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور اب سعودی بھی یہی کر رہے ہیں۔‘ سعودی عرب کی اس حکمت عملی کے پیچھے دوسرا اہم مقصد اپنی معیشت کو تیل کی دولت ختم ہونے سے پہلے ازسرنو تشکیل دینا ہے۔ تیل سعودی عرب کی معیشت کا 40 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان جس ’وژن 2030‘ کو پروان دے رہے ہیں اس میں کھیل ایک اہم ستون ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی طور پر تنوع کو فروغ دیا جائے اور تیل پر انحصار کو کم کرتے ہوئے نئے شعبہ جات کو ترقی دی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ کارلو نوہرا کا کہنا ہے کہ ’ایک جانب ہمارا مقصد سعودی عوام کو تفریح فراہم کرنا ہے اور دوسری جانب ہم مقامی ٹیلنٹ تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ طول المدتی اعتبار سے پرو لیگ فروغ پا سکے۔‘ سعودی عرب میں فٹ بال مقبول کھیل ہے اور ملک کی 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں اس کھیل سے جڑی ہوئی ہے۔ تاہم کیا ملک کی حالیہ کثیر سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہو گی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکمت عملی سعودی عرب کی اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ یہ فٹ بال کی دنیا کی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0j3nxw1g0ko
انڈیا کے نیرج چوپڑا اور پاکستان کے ارشد ندیم جو اچھے دوست بھی اور سخت حریف بھی
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں منعقدہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان غالب رہے جہاں 88.17 میٹر تک جیولن پھینکنے والے نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیت کر انڈیا کے لیے تاریخ رقم کی وہیں پاکستان کے ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے 87.82 میٹر دور تھرو پھینکی جو نیرج سے صرف 0.35 میٹر کم فاصلے پر تھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے ان مقابلوں کی تاریخ میں کوئی بھی تمغہ جیتا ہو۔ ارشد اس ایونٹ سے قبل پاکستان کے لیے سنہ 2018 میں ایشین گیمز میں کانسی جبکہ 2022 میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیت چُکے ہیں۔ جبکہ انڈیا کے نیرج چوپڑا نے گذشتہ سال اسی مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم کا شمار آج پاکستان کے بڑے ایتھلیٹس میں ہوتا ہے۔ انڈیا کے نیرج اور پاکستان کے ارشد اپنی دوستی اور سخت آپسی مقابلے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ فائنل تھرو سے پہلے دونوں کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کے لیے احترام کا مظاہرہ کیا اور جیتنے کے فوراً بعد دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور مصافحہ کرتے ہوئے سپورٹس مین شپ کی حقیقی عکاسی کی۔ اگرچہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2023 انڈیا کے لیے بہت اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ اس میں تین انڈین کھلاڑی نیرج چوپڑا، کرشنا جینا اور ڈی پی منو مردوں کے جیولن تھرو ایونٹ کے فائنل میں پہنچے۔ ایسا پہلی بار ہوا جب تین انڈین کھلاڑی فائنل میں پہنچے۔ لیکن اس مقابلے کے فاتح نیرج اور ارشد اب بھی موضوع بحث ہیں۔ ان کے مداح ان کی دوستی، ایک دوسرے کے لیے احترام، زندگی کے حالات میں مماثلت اور میدان میں ایک دوسرے کے سخت حریف ہونے سے متعلق بات کر رہے ہیں۔ نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے درمیان گرمجوشی کا ذکر کئی برسوں سے ہو رہا ہے لیکن اس وقت ان کا ذکر بہت زیادہ ہوا جب سنہ 2021 میں ٹوکیو اولمپکس میں جیولین تھرو کے فائنل میں پہنچے اور دونوں کھلاڑیوں کا میڈیا پر ایک ساتھ نام لیا جانے لگا۔ کوالیفائنگ راؤنڈ میں نیرج چوپڑا اپنے گروپ میں سرفہرست تھے جبکہ ارشد ندیم بھی اپنے گروپ میں سب سے آگے تھے۔ لیکن ارشد فائنل میں بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے اور 84.62 میٹر کے تھرو کے ساتھ پانچویں نمبر پر آئے۔ بے شمار ایوراڈز اور کامیابی کے بعد انڈیا واپس آنے پر بھی نیرج اپنے دل کی کسک کو نہیں بھلا پائے۔ انھوں نے اس وقت انڈین ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اچھا ہوتا اگر پوڈیم پر میرے ساتھ پاکستان کے ارشد ندیم بھی ہوتے۔‘ نیرج نے سنہ 2022 کی عالمی چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ اس کامیابی سے پہلے انڈیا نے 2003 میں عالمی چمپئن شپ میں کوئی تمغہ حاصل کیا تھا۔ تاہم، انڈیا کو ایتھلیٹکس میں اپنے نئے ہیرو کے لیے 18 سال انتظار کرنا پڑا۔ یہ انتظار اس وقت ختم ہوا جب نیرج چوپڑا نے سنہ 2021 میں منعقدہ ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا اور ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اولمپکس کے ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹس میں انڈیا کی طرف سے کبھی کوئی چیمپئن نہیں تھا، لیکن نیرج کے آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔ اور اولمپکس میں تمغہ جیتنے کے بعد سے وہ مسلسل نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ نیرج کی کامیابی کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں سات اگست کو نیشنل جیولین ڈے یا نیشنل جیولین تھرونگ ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب نیرج نے ٹوکیو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ 25 سال کے اس دبلے پتلے نوجوان کھلاڑی کا تعلق دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ سے ہے۔ ہریانہ جو کشتی اور پہلوانوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ انڈر 20 ریسلنگ مقابلے کے موجودہ گولڈ میڈلسٹ اسی ریاست سے آتے ہیں۔ اگر ہم نیرج کے سفر کو دیکھیں تو ہمیں اس میں صبر، مضبوط ارادے اور محنت نظر آتی ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ اولمپک چیمپئن کبھی ایک موٹا نوجوان تھا جس کا وزن تقریباً 80 کلو تھا۔ ہمیشہ کرتا پاجاما پہننے والے والے نیرج کو گاؤں میں پیار سے سرپنچ کہا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی صحت کو بہتر بنانے کی نیت سے قریبی گاؤں کے سٹیڈیم جانا شروع کیا۔ ان کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ جیولن یعنی نیزہ کیا ہوتا ہے۔ ایک دن جب گاؤں کے کھلاڑی نیزہ پھینک رہے تھے تو اس نے بھی نیزہ پھینکنے میں ہاتھ آزمایا۔ نیزے کا ہوا کو چیڑتے ہوئے جانا پھر پھر زمین میں پیوست ہوجانے کا طریقہ انھیں پسند آ گیا۔ نوآموز ہونے کے باوجود انھوں نے جس طرح سے بہت آسانی کے ساتھ نیزہ پھینکا اس سے سب حیران رہ گئے۔ یہیں سے ان کی زندگی بدل گئی۔ جلد ہی وہ بڑے شہر چلے گئے اور انڈیا میں ملکی سطح کے کئی مقابلے جیتے۔ وہ باقاعدہ کوچنگ نہیں لے رہے تھے اور خود ہی پریکٹس کر رہے تھے۔ سنہ 2012 میں وہ انجری کا شکار ہو گئے جس سے ان کا کریئر تقریباً ختم ہو گیا تھا۔ لیکن نیرج اپنے خاندان کی مدد اور اپنے مضبوط ارادوں کے بل بوتے پر ہر رکاوٹ کو عبور کرتے چلے گئے۔ انھوں نے 2016 میں انڈر 20 ورلڈ چیمپیئن شپ جیت کر شاندار آغاز کیا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل ترقی کرتے گئے۔ پاکستان کے ارشد ندیم کا بھی جیولن تھرو کا سفر اتفاقیہ تھا کیونکہ وہ کم عمری میں کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم کو بچپن سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ ’اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘ رشید احمد ساقی کہ مطابق ’ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ’یوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔‘ نیرج کو بائیک چلانا اور ہریانہ کے لوک گیت پسند ہیں۔ انھیں فوٹو گرافی کا بھی شوق ہے۔ نیرج چوپڑا کو سوشل میڈیا پر رڈیارڈ کپلنگ کی کہانی کے مجموعہ ’دی جنگل بک‘ کے کردار کے نام پر ’موگلی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ان کے بال موگلی کی طرح لمبے ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ موگلی کی طرح چست اور پھرتیلے ہیں۔ کھلاڑیوں کے جسم پر چوٹیں لگنا عام سی بات ہے۔ نیرج کئی بار زخمی بھی ہوئے لیکن ان کے خود پر کنٹرول اور فٹنس پر توجہ دینے نے ان کی بہت مدد کی۔ نیرج چوپڑا انڈر 20 چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز، اولمپکس اور ڈائمنڈ لیگ جیت چکے ہیں۔ اب ان کی نظریں 2024 کے اولمپکس میں دوسری بار میڈل جیتنے پر مرکوز ہیں۔ آج انھیں انڈین ایتھلیٹکس کی دنیا کا سب سے بڑا چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیرج کی کامیابی نے انڈین ایتھلیٹکس کو دنیا کے نقشے پر پہچان دلائی ہے۔ ان کی وجہ سے نئی نسل میں ایک نئے قسم کا اعتماد آیا ہے۔ ان کی کامیابیوں سے حوصلہ پاکر نئے کھلاڑیوں کی ایک پوری نسل تیار ہوتی نظر آتی ہے۔ مجھے نیرج کی طرف سے پوسٹ کی گئی یہ تصویر خاص طور پر یاد ہے، جس کی پشت پر 'سپورٹس از آرٹ' لکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے کھیل کو بھی فن کی بہترین سطح پر لے گئے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gz8x1dp4vo
ارشد ندیم نے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کی تاریخ میں پاکستان کو پہلا تمغہ دلوا دیا
پاکستان کے ارشد ندیم نے ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں منعقد ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر لیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے ان مقابلوں کی تاریخ میں کوئی بھی تمغہ جیتا ہو۔ اتوار کی شب ہونے والے فائنل میں ارشد نے اپنی بہترین تھرو 87.82 میٹر دور پھینکی اور یہ رواں سیزن میں ان کی بہترین تھرو بھی تھی۔ اس مقابلے میں طلائی تمغہ انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا جن کی 88.17 میٹر کی پہلی تھرو ہی انھیں پہلی پوزیشن دلوانے کے لیے کافی ثابت ہوئی اس سے پہلے جمعے کو ہونے والے جیولن تھرو کے ابتدائی مقابلوں میں ارشد ندیم نے 86.79 میٹر کی تھرو کی بدولت نہ صرف فائنل میں جگہ بنائی تھی بلکہ سنہ 2024 میں فرانس میں ہونے والے اولمپکس کے لیے بھی کوالیفائی کر لیا تھا۔ ارشد ندیم چوٹ کی وجہ سے تقریبا ایک سال سے کسی قومی یا بین الاقوامی ایونٹ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور صحت یابی کے بعد یہ ان کا پہلا عالمی مقابلہ تھا۔ ارشد اس ایونٹ سے قبل پاکستان کے لیے سنہ 2018 میں ایشین گیمز میں کانسی جبکہ 2022 میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیت چُکے ہیں۔ ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے نواحی گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے۔ ان کے والد راج مستری ہیں لیکن اُنھوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ ارشد ندیم کے کریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔ رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں باصلاحیت ایتھلیٹس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے، اُنھیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں۔ ’اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘ رشید احمد ساقی کہتے ہیں 'میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔' وہ کہتے ہیں ʹیوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔' رشید احمد ساقی بتاتے ہیں ʹمیں نے ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے پاکستان ایئر فورس بھیجا لیکن ایک ہفتے بعد ہی واپس بلا لیا۔ اس دوران پاکستان آرمی نے بھی ارشد ندیم میں دلچسپی لی بلکہ ایک دن آرمی کی گاڑی آئی اور اس میں موجود ایک کرنل صاحب میرا پوچھ رہے تھے۔ 'میں گھبرا گیا کہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن جب اُنھوں نے ارشد ندیم کی بات کی تو میری جان میں جان آئی۔ کرنل صاحب بولے ارشد ندیم کو آرمی میں دے دیں، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کرنل صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ آپ لوگ اس کی ٹریننگ ملٹری انداز میں کریں گے۔ بہرحال اس کے بعد میں نے ارشد ندیم کو واپڈا کے ٹرائلز میں بھیجا جہاں وہ سلیکٹ ہو گئے۔‘ ارشد ندیم شادی شدہ ہیں ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ’میں ارشد ندیم کو مذاقاً کہتا تھا کہ اولمپکس میں شرکت کا خواب پورا ہو جائے تو پھر شادی کرنا، لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ گاؤں میں شادیاں کم عمری اور جلدی ہو جایا کرتی ہیں۔‘ ارشد ندیم کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو اُنھیں انٹرنیشنل مقابلوں میں لے گیا۔ ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ فیاض حسین بخاری نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد ندیم ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔‘ اُن کے مطابق دو سال قبل ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز سے قبل اُن دونوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے نہیں جانا بلکہ کارکردگی کے ذریعے کوالیفائی کریں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72zm0enyy1o
ون ڈے میں ’نمبر ون‘ پاکستانی کرکٹرز کی ’گولڈن جنریشن‘ ورلڈ کپ کے لیے ’فیورٹ‘ ہے؟
کیا آپ کو وہ آخری ون ڈے ورلڈ کپ یاد ہے جب پاکستان ٹیم ٹورنامنٹ سے کئی ماہ پہلے ہی فیورٹ قرار دے دی گئی تھی؟ شاید آپ کا جواب سنہ 2003 کا ورلڈ کپ ہو جس میں انڈیا سے شکست کے بعد وسیم، وقار، سعید انور، انضمام، شعیب، شاہد آفریدی جیسے کھلاڑیوں پر مبنی پاکستان ٹیم پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئی تھی۔ اس ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کے اکثر لیجنڈ کرکٹرز اپنے عروج کے دن گزار چکے تھے اور ریٹائرمنٹ کے قریب تھے، اس لیے شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سنہ 1999 وہ آخری ورلڈ کپ تھا جب پاکستان کی صحیح معنوں میں ’ڈریم ٹیم‘ آسٹریلیا کے خلاف ورلڈ کپ فائنل میں شکست کھا گئی۔ دو دہائیوں میں اب دوبارہ ایک ایسا موقع آیا ہے کہ ابھی ورلڈ کپ شروع ہونے میں چند ماہ باقی ہیں اور پاکستانی شائقین کو ٹیم پر بھروسہ ہے کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے فیورٹ ٹیموں میں سے ہے۔ ان دو دہائیوں میں یہ ٹیم کئی مرتبہ پاکستانی مداحوں کے دل دکھا چکی ہے اور انھیں صدموں سے دوچار کر چکی ہے۔ سنہ 2007 میں بھی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونے کا صدمہ ہو یا سنہ 2011 موہالی میں انڈیا سے سیمی فائنل ہارنے کا رنج۔ سنہ 2015 میں کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد سنہ 2019 میں بھی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونا، دکھوں کا وہ تسلسل ہے جو کسی کے لیے بھی سہنا مشکل ہے۔ تاہم اس مرتبہ پاکستان ٹیم سے امید لگانے والے مداحوں کے پاس آئی سی سی ون ڈے رینکنگز میں ٹیم کا سرِفہرست ہونے کا جواز بھی ہے۔ یہ پوزیشن پاکستان نے گذشتہ رات افغانستان کو سیریز میں تین صفر سے شکست دے کر حاصل کی ہے اور یہ ون ڈے میں رینکنگ سسٹم آنے کا بعد دوسری مرتبہ ہے کہ پاکستان اس درجہ بندی میں سرِفہرست آیا ہو۔ اس سے قبل رواں برس نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد پاکستان کچھ عرصے کے لیے سرِ فہرست آیا تھا۔ بیٹنگ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کے ٹاپ تھری یعنی فخر زمان، امام الحق اور بابر اعظم تینوں ہی آئی سی سی ون ڈے بیٹنگ رینکنگ میں پہلے پانچ درجوں میں سے ہیں۔ ون ڈے کرکٹ میں تیز ترین پانچ ہزار رنز مکمل کرنے والے بابر اعظم پہلے، امام الحق تیسرے جبکہ فخر زمان پانچویں نمبر ہیں۔ فاسٹ بولنگ پر نظر دوڑائیں تو حارث رؤف، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور ان کے بیک اپ بولرز جیسے محمد وسیم جونیئر اور فہیم اشرف بھی اچھی فارم میں ہیں۔ شاہین آفریدی بولرز کی رینکنگ میں نویں نمبر پر ہیں۔ سپن آلراؤنڈرز میں شاداب خان اور محمد نواز انڈین پچزکے لیے موزوں ہیں اور گذشتہ کئی میچوں سے لیگ سپنر اسامہ میر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح مڈل آرڈر میں محمد رضوان اور سلمان علی آغا کی بہترین کارکردگی بھی حوصلہ افزا رہی ہے اور ڈومیسٹک کے اعداد و شمار کے مطابق ون ڈے کرکٹ افتخار احمد کا فیورٹ فارمیٹ ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ شاید اس حوالے سے تجزیے قبل از وقت اس لیے بھی ہیں کیونکہ پاکستان نے سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سے اب تک دوسری ٹیموں کے مقابلے میں بہت کم ون ڈے کھیلیں ہیں اور پاکستان کی موجودہ کارکردگی افغانستان کی قدرے کمزور ٹیم کے خلاف ہے۔ ایسے میں مداحوں کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ سے امیدیں لگانا تو ٹھیک ہے لیکن کیا ابھی ٹیم میں مزید بہتری کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں ہم نے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان طفیل ارباب اور صحافی عمر فاروق کالسن (اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں) سے تفصیل سے رواں برس کے آغاز میں بات کی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان ارباب نے کہا کہ ’اس وقت یہ رینکنگ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی ٹیم گذشتہ ایک سال سے بہت اچھی پوزیشن میں ہے اور جو سوالات اس ٹیم کے بارے میں کچھ عرصے پہلے تک لوگوں کے ذہنوں میں تھے، جیسے مڈل آرڈر سے متعلق، وہ اب اچانک سے حل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جب ہر رول کے لیے ہمارے پاس کھلاڑی موجود ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’عام طور پر جو ہماری پلیئنگ الیون ہوتی ہے اور جو متبادل کھلاڑی ہوتے ہیں ان کے ٹیلنٹ اور معیار میں بہت فرق ہوا کرتا تھا، تاہم اب ایسا نہیں ہے۔‘ صحافی عمر فاروق کالسن کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے پاس اس وقت جو 16 کھلاڑیوں کا سکواڈ ہے وہ تو بہترین ہے، یہ ان کا ریکارڈ بھی بتاتا ہے لیکن عموماً پاکستان کے ساتھ جو مسئلہ پیش آتا ہے وہ 11 کھلاڑیوں کے حوالے سے صحیح کامبینیشن بنانے کا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ’ابھی ہمارے پاس 11 کے اعتبار سے پوری تیاری نہیں ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں اوورز زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے ہر پوزیشن کے لیے سپیشلائزڈ کھلاڑی ہوتا ہے، ابھی تک ہمارے مڈل آرڈر میں کچھ مسائل ہیں جو ورلڈ کپ سے پہلے ہمیں دور کرنے ہیں۔‘ تاہم عمر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ورلڈ کپ جیتنے کے لیے ٹاپ فور فیورٹ ٹیموں میں ضرور شامل ہے۔‘ خیال رہے کہ عموماً ورلڈ کپ کے سال میں پاکستان کرکٹ تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے اور اس دوران کپتانی کے حوالے سے بھی بحث جاری رہتی ہے۔ سنہ 2011 اور سنہ 2015 کے ورلڈکپ سے قبل شاہد آفریدی اور مصباح الحق کی کپتانی سے متعلق تنازع چلتا رہا تھا، جبکہ سنہ 2003 کے ورلڈ کپ سے قبل یہی کشمکش وسیم اکرم اور وقار یونس کے درمیان تھی۔ اس مرتبہ بھی رواں برس کے آغاز میں افغانستان کے خلاف سیریز سے قبل ایسی خبریں گردش کرنے لگی تھیں جن میں بابر اعظم کی کپتانی کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے تھے اور اس حوالے سے پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کے بیانات بھی حوصلہ افزا نہیں تھے۔ تاہم پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے اس دوران بابر اعظم کے لیے ہمت کے پیغامات سے یہ تاثر زائل ہوا اور اب نیوزی لینڈ سے سیریز جیتنے کے بعد بابر اعظم کو ورلڈ کپ سے قبل کپتانی سے ہٹانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ عمر فاروق اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ورلڈ کپ سے قبل اس طرح کا ماحول بنانے سے ٹیم کی تیاری پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ ’ہم پریس کانفرنسز کی حد تک تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم ورلڈکپ کو نظر میں رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ ہم ایک اچھا سکواڈ ہونے کے باوجود بڑے ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ سٹیج پر جا کر رہ جاتے ہیں جیسے پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس میں ہوا ہے۔‘ ایمان طفیل اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پی سی بی نے اس مرتبہ بھی ورلڈکپ سے پہلے کوشش نہیں کی پاکستان ٹیم میں تبدیلیاں کرنے کی۔ شاہد آفریدی کے سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بننے پر ہم سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہو گا۔ ’پھر شان مسعود کو نائب کپتان بنانے کی چہ مگوئیاں شروع ہوئیں لیکن اس ٹیم کی خوبی یہی ہے کہ یہ اس موقع پر متحد رہی ہے اور یہ کپتان کا اور ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے ہیں۔‘ ایمان طفیل کہتی ہیں کہ ’ہماری نسل نے پہلی مرتبہ کرکٹرز کی اس گولڈن جنریشن کی وجہ سے اس ٹیم پر اعتماد کرنا شروع کیا ہے، یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ٹیلنٹڈ ہیں اور اس وقت ایک ایسی ٹیم بن چکی ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘ ’گولڈن جنریشن‘ اس ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے گذشتہ کچھ سالوں سے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ٹیم ان بلندیوں تک پہنچی ہے جس تک پچھلی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں اور بظاہر ان کے درمیان اچھی ہم آہنگی بھی بتائی جاتی ہے۔ پاکستانی کرکٹزز کی یہ جنریشن پی ایس ایل کے آغاز کے بعد سے منظرِ عام پر آئی اور ان میں سے اکثر پاکستانی ٹیم میں اسی کی بدولت شامل ہوئے۔ تاہم پاکستان کرکٹ سنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے بعد سے باقی ٹیموں کے مقابلے میں کافی کم ون ڈے کھیلیں ہیں۔ سنہ 2019 کے بعد سے پاکستان نے اب تک صرف 27 ون ڈے کھیلیں ہیں۔ اس دوران افغانستان کے علاوہ باقی تمام ٹیموں نے اس سے زیادہ ون ڈے کھیل رکھے ہیں۔ صحافی عمر فاروق اس بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاکستان نے تاحال مڈل آرڈر میں رول کے حساب سے کھلاڑی نہیں کھلائے جس کی وجہ سے ابھی تک ہمارا مڈل آرڈر کا مسئلہ برقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ نمبر چار پر اوپنرز کو کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ اگر حارث سہیل زخمی نہ ہوتے تو افتخار احمد تو اس ٹیم کا حصہ ہی نہیں تھے جو اس فارمیٹ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھاتے رہے ہیں۔‘ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ایک فارمیٹ کی بنیاد پر دوسرے فارمیٹ میں کھلاڑی کو ڈراپ کرنے یا سیلیکٹ کرنے کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انھوں نے خوشدل شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انھیں بھی ٹی ٹوئنٹی میں ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ون ڈے سے نکالا گیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اب آپ کو ایک سے لے کر چھٹے ساتویں نمبر تک کھلاڑیوں کو ان کے رولز سے آگاہ کر دینا چاہیے اور انھیں آئندہ گیم ٹائم دینا چاہیے۔ ایمان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں آغا سلمان نے بہت اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور لوگ انھیں ہلکا لے رہے ہیں، وہ پاکستان کے لیے مڈل آرڈر میں مسائل کا حل بن کر سامنے آئے ہیں۔ ’اسی طرح رضوان بہت اچھا کھیل رہے ہیں اور محمد حارث اور افتخار احمد کی شکل میں آپ کے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو میچ فنش کر سکتے ہیں۔‘ وہ بھی شان مسعود اور عبداللہ شفیق کو نمبر چار پر آزمانے کے خلاف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آتی، شاید یہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اگر کسی میچ میں ہمارے ٹاپ تھری جلدی آؤٹ ہو جائیں تو ایک ایسا کھلاڑی موجود ہو جو اننگز کو ازسرِ نو تعمیر کر سکے، لیکن اس رول میں سلمان آغا اور رضوان کو بھی آزمایا جا سکتا ہے۔ ’عبداللہ شفیق اور شان مسعود دونوں کو بیک اپ اوپنر کے طور پر تو دیکھا جا سکتا ہے، لیکن مڈل آرڈر میں ان کے رول پر سوال موجود رہے گا۔‘ نوٹ: یہ انٹرویوز رواں سال کے آغاز میں ہونے والی نیوزی لینڈ سیریز کے بعد کیے گئے تھے۔ اب سعود شکیل کو بھی ایشیا کپ کے سکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے جبکہ شان مسعود سکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3l10k4mj4o
افغانستان کے خلاف فتح، پاکستان ون ڈے رینکنگ میں سرِفہرست:’ایشیاکپ اور ورلڈکپ جیت جائیں تو کیا بات ہے‘
پاکستان نے ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے قبل افغانستان کے خلاف تین میچوں کی انتہائی اہم سمجھی جانے والی ون ڈے سیریز کلین سویپ کر لی ہے اور یوں پاکستان اس وقت ون ڈے رینکنگ میں سرِ فہرست آ گیا ہے۔ پہلے میچ کی طرح آج بھی پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور اس میچ کا نتیجہ بھی پہلے میچ جیسا ہی نکلا۔ اب تک اس سیریز میں بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم زیادہ مشکلات کا شکار دی ہے اور 269 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والی افغان بیٹنگ بھی پاکستانی بولرز کے سامنے زیادہ دیر ٹک نہیں سکی اور یوں پاکستان نے یہ میچ 59 رنز سے جیت لیا۔ پاکستان کی جانب سے آج ٹیم میں چار تبدیلیاں کی گئی تھیں اور بولرز حارث رؤف، نسیم شاہ اور اسامہ میر کی جگہ نسیم اشرف، وسیم جونیئر، اور محمد نواز کو کھلایا گیا جبکہ افتخار احمد کی جگہ سعود شکیل کو چانس دیا گیا تھا۔ ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے ورلڈکپ سے قبل زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو موقع دیا جا رہا ہے تاکہ حتمی ٹیم کمبینیشن اور ورلڈ کپ کے لیے 15 کھلاڑیوں کے سکواڈ کا فیصلہ کیا جا سکے۔ یہ دو دہائیوں کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان کسی ون ڈے ورلڈکپ میں بطور فیورٹ داخل ہونے جا رہا ہے۔ آج پاکستان کو عموماً اچھا آغاز دینے والے اوپنرز ایک مشکل پچ پر جلد آؤٹ ہوئے تو محمد رضوان کو بیٹنگ کا موقع ملا۔ پاکستان کا مڈل آرڈر ایک عرصے سے خاصی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے اور نمبر چار کی پوزیشن کے حوالے سے اس سے پہلے بھی سوالات موجود رہے ہیں۔ تاہم آج جب رضوان ایک مشکل صورتحال میں بیٹنگ کے لیے بابر اعظم کا ساتھ دینے آئے تو دونوں نے ہی آغاز میں سست انداز اپنایا تاہم وقت کے ساتھ جارحانہ انداز اپناتے ہوئے ایک مشکل پچ پر آنے والے بیٹرز کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان نے پہلے 30 اوورز میں صرف 103 رنز بنائے اور اس کے دو کھلاڑی آؤٹ ہوئے تاہم 20 اوورز میں پاکستان نے جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 165 رنز بنائے۔ پاکستان کی اننگز میں جہاں بابر اور رضوان کے 60 اور 67 نمایاں رہے وہیں سلمان علی آغا اور محمد نواز نے آخری اوورز میں جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ایک مستحکم ٹوٹل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نواز نے 25 گیندوں پر 30 جبکہ آغا سلمان نے 31 گیندوں پر ناقابلِ شکست 38 رنز بنائے۔ دوسری جانب جب افغانستان نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو پاکستان کی جانب سے فہیم اشرف نے آغاز میں عمدہ بولنگ کی اور گذشتہ میچ میں سنچری سکور کرنے والے رحمان اللہ گرباز کو آؤٹ کرنے کے بعد ابراہیم زدران کو بھی آؤٹ کر دیا۔ اس کے بعد پاکستانی سپنرز نے اپنا جادو جگانا شروع کیا اور شاداب، نواز اور سلمان علی آغاز کی نپی تلی بولنگ کے باعث افغانستان کے 97 پر سات کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ ایسے میں افغانستان کے سپن بولر مجیب الرحمان نے جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور پانچ چھکوں اور پانچ چوکوں کی مدد سے صرف 37 گیندوں پر 64 رنز بنائے۔ یہ نمبر آٹھ پر بیٹنگ کرنے والے کسی بھی کھلاڑی کا پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ سکور ہے۔ ان کے علاوہ شاہد اللہ نے 37 رنز سکور کیے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام پاکستان کے ون ڈے رینکنگ میں سرِ فہرست آنے پر اکثر صارفین خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے قبل ایک خوش آئند پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’بابر اعظم کی لیڈرشپ کے باعث یہ ممکن ہو سکا جنھوں نے فرنٹ سے لیڈ کیا اور تسلسل کے ساتھ پرفارمنس دیں۔ انھوں نے کھلاڑیوں کے اس گروپ پر بھروسہ کیا جس کے باعث ٹیم کی یہ بہترین کارکردگی سامنے آئی۔‘ معاذ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان ایک نمبر ون ون ڈے ٹیم ہے جس میں نمبر ون بیٹر موجود ہے۔ ایشیا کپ اور ورلڈ کپ سے پہلے یہ پاکستان کی بہترین تیاری ہے۔‘ پاکستان کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے لکھا کہ ’یہ وائٹ واش مکمل برتری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ شاباش لڑکو! جو اتحاد کپتان اور کھلاڑی دکھا رہے ہیں وہ بہترین ہے۔ ہر کوئی ہر صورتحال میں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کا بہترین دور ہے۔‘ عادل چیمہ نامی صارف نے لکھا کہ ہم چیمیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے دفاعی چیمپیئن ہیں اور اب اگر ہم ون ڈے ورلڈ کپ اور ایشیا کپ بھی جیت جائیں تو کیا بات ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ اتنی پرفیکٹ ٹیم بھی اگر ورلڈکپ نہ جیتی تو مایوسی ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1g2z3k8v1o
پاکستانی بلائنڈ کرکٹ سٹارز: ’جب میچ نہیں ہوتا تو والد کے ساتھ مزدوری کرتا ہوں‘
’مجھے بلائنڈ کرکٹ میں دنیا کا بہترین بالر مانا جاتا ہے۔ میرے والد دیہاڑی دار مزدور ہیں اور میرا بھی اصل پیشہ دیہاڑی دار مزدوری کا ہے۔ مجھے کسی بھی مستری کے ساتھ کام کرنے پر یومیہ 1200 روپے ملتے ہیں۔‘ یہ کہنا ہے پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے سٹار بالر 25 سالہ شاہزیب حیدر کا جن کا تعلق ضلع راولپنڈی کے علاقے گوجر خان سے ہے۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم اس وقت برطانیہ میں جاری انٹرنیشنل بلائنڈ سپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ابسا ورلڈ گیمز 2023 کے فائنل میں روایتی حریف انڈیا کو ہرا کر گولڈ میڈل جیت چکی ہے۔ پاکستانی ٹیم پہلے ہی بلائنڈ عالمی کپ کے تمام پانچ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔ ٹیم اب تیسری مرتبہ عالمی چمپیئن بنی ہے لیکن یہ سفر کوئی آسان نہیں تھا۔ ایک شاہزیب حیدر ہی نہیں بلکہ ان سمیت پاکستان بلائینڈ کرکٹ ٹیم میں موجود دیگر کھلاڑی بھی زندگی میں مختلف چیلینجز کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان کی جیت کے لیے بلند حوصلوں کے ساتھ برمنگھم کے میدان میں موجود ہیں۔ بی بی سی نے بینائی سے محرومی کے باوجود عزم و ہمت سے لیس ان کھلاڑیوں سے بات چیت کی ہے۔ شاہزیب حیدر پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بالر ہیں۔ برطانیہ میں منعقدہ گروپ کے آخری اور کانٹے کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کا سہرا شاہزیب حیدر کو جاتا ہے جس میں چار وکٹیں حاصل کر کے وہ گروپ میں ناقابل شکست رہے ہیں۔ تاہم پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں اس مقام پر پہنچنے والے شاہ زیب کو ذاتی زندگی میں ان گنت چیلینجز کا سامنا ہے جس کا مقابلہ وہ مسلسل ہمت و حوصلے سے کرنے میں مسلسل کوشاں ہیں۔ ’میں دنیا کے سات ممالک میں کھیل چکا ہوں۔ سینٹرل کنڈیکٹ بھی موجود ہے جن کے پہلے 15 ہزار اور اب 20 ہزار روپے ماہوار ملتے ہیں۔ مگر ابھی تک گھر کے حالات نہیں بدلے۔ کوئی رشتہ بھی ساتھ نہیں دیتا بلکہ الٹا وہ کہتے ہیں بلائنڈ کرکٹ کا عالمی سٹار ہونے کا کیا فائدہ؟‘ شاہزیب حیدر بتاتے ہیں کہ انھیں بچپن ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں انھیں المکتوب سکول اسلام آباد میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ ’میری توجہ پڑھائی سے زیادہ کھیل پر ہوتی تھی جس بنا پر مجھے ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ مگر میرے سر پر تو کھیل ہی سوار رہتا تھا۔ سکول ہی کے زمانے میں کرکٹ کا سٹار بن گیا تھا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ سکول ہی میں وہ مقامی زون ٹیم کی نظروں میں آ گئے جس وجہ سے ڈومیسٹک کھیلی اور وہاں کارگردگی کی بنیاد پر پاکستان کی قومی ٹیم میں منتخب ہوئے۔ مگر اب 20 ہزار ماہانہ سے تو گھر نہیں چلتا۔ ’جب سمجھ بوجھ آئی تو دیکھا کہ میں سٹار کھلاڑی تو ہوں مگر میری تعلیم صرف میٹرک ہے اس وقت آگے پڑھنا چاہا مگر کیونکہ والد صاحب دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں اور گھر کے اخراجات تعلیم کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، میں نے مزید تعلیم کا خیال چھوڑ کر ان کے ساتھ دیہاڑی پر مزدوری کرنا شروع کر دی۔‘ ’جب میچ یا کیمپ نہیں ہوتا اور کسی دوسرے شہر یا ملک میں سفر نہیں کرنا ہوتا تو جہاں پر والد صاحب دیہاڑی لگا رہے ہوتے ہیں وہاں پر میں بھی مزدوری کرتا ہوں۔ اس دوران کوشش کرتا ہوں کہ والد صاحب کو کچھ آرام دینے کے لیے ان کے حصے کا زیادہ کام بھی میں کروں۔‘ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں کھیلنے والے 35 سالہ ریاست خان بھی سٹار آل راونڈر ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد سے ہے۔ ان کو 2017 کے ورلڈ کپ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔ ریاست خان کہتے ہیں کہ ’جب میں نے اپنی بینائی کھو دی تھی تو اس کے بعد دو سال تک انتہائی کرب انگیز زندگی گزاری تھی۔ یہ تو بھلا ہو میری اپنی بلائنڈ کمیونٹی کا جس نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا۔‘ ریاست خان کہتے ہیں کہ ان کی بینائی تقریبا 17 سال کی عمر میں چلی گئی تھی۔ ’اس وقت ڈاکٹروں نے بتایا کہ میں نے الرجی کے لیے ایک دوائی لی تھی۔ اس نے ری ایکشن کیا جس کے فورا بعد مناسب علاج نہ ملا، وقت ضائع ہوا تو میری بینائی چند ہی دنوں میں چلی گئی تھی۔‘ ریاست نے بتایا کہ ان کے والد ایک ڈرائیور تھے۔ بینائی کا چلے جانا نہ صرف ان لیے بلکہ گھر والوں کے لیے بھی ایسا دھچکہ تھا جس سے نکلنا آسان نہیں رہا۔ ’میرے لیے ایک ایسا حادثہ تھا کہ میں اپنی زندگی ہی سے مایوس ہوگیا تھا۔۔۔ دو سال میرے ایسے گزرے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ میرے والدین، خاندان والے بھی مایوس ہوچکے تھے۔‘ ریاست خان کہتے ہیں کہ ان کی اس حالت پر عزیر و اقارب کے رویے مایوس کن تھے۔ پھر انھوں نے اپنی زندگی بلدنے کی ٹھان لی۔ جب ان کے علاقے میں غیر سرکاری ادارے جائیکا کی ٹیم آئی۔ تو وہاں انھوں نے سپیشل لوگوں کو میسر سہولیات کے بارے میں جانا۔ ’میں نے ایبٹ اباد میں موجود نابینا کمیونٹی میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا۔۔۔ (پتا چلا کہ) یہ لوگ کام کاج بھی کرتے ہیں اور حالات کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ حتی کہ موبائل اور کمپیوٹر بھی استعمال کرتے ہیں۔‘ ریاست خان کا کہنا تھا کہ انھیں بچپن سے سپورٹس سے خصوصی لگاؤ تھا۔ ’میں نے اپنے زون کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ بھول گیا کہ میں کبھی دیکھ بھی سکتا تھا۔‘ ان کا پہلا ڈومیسٹک میچ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہوا۔ یہاں اچھی کارکردگی پر انھیں وہ ٹیم کے لیے سلیکیٹ ہوئے۔ ’2016 میں دورۂ بنگلہ دیش کے دوران دھواں دھار 60 رنز بھی سکور کیے۔ اس کے بعد 2017 کا ورلڈ کپ یادگار رہا۔‘ دوسری جانب پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان نثار علی کہتے ہیں کہ انھیں عام کرکٹ کے کھلاڑیوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ نثارعلی کے والد استاد تھے۔ ان کی تعلیم عام سکولوں میں ہوئی اور انھیں اپنے والد کی وجہ سے ان مشکلات کا سامنا نہیں ہوا جس سے ان جیسے دیگر لوگ گزرے۔ ’کھیل کا شوق تھا مگر مواقع کم تھے۔ نارمل بچے مجھے اپنے ساتھ نہیں کھلاتے تھے مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح کھیل ہی گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارگردگی کی بنیاد پر قومی ٹیم میں منتخب ہوا اور اب کپتان ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بلائنڈ کرکٹ کے لیے بڑی مشکلات ہیں۔ اس کے لیے خصوصی گراونڈ چاہیے۔ ’ہمیں سہولتیں بہت کم میسر ہوتی ہیں اس کے باوجود ہماری ٹیم ابھی دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔‘ تاہم نثار علی کہتے ہیں کہ ہر کوئی ریاست خان اور سید سلطان شاہ کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا اور نہ ہی سب کے والدین ان کے والدین جیسے ہوتے ہیں جو بچپن میں ہر طرح کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم بھی دلائیں جو مستقبل میں اچھی ملازمت کا سبب بن سکے۔ ’اب میں ایک استاد کے فرائض بھی ادا کرتا ہوں۔ ہماری ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی شاہزیب حیدر کی طرح معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔‘ سید سلطان شاہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کے چیئرمین کے علاوہ عالمی بلائنڈ کرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے پہلے اور بانی کپتان ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے انڈیا میں منعقدہ پہلا عالمی بلائنڈ کرکٹ ٹورنامنٹ 1999 کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ سید سلطان شاہ بتاتے ہیں کہ ان کی بینائی جانا بھی ان کے والدین کے لیے ناقابل قبول تھا۔ ’کافی عرصے تک تو مجھے عام سکول میں بھیجا جاتا رہا۔۔۔ ہمارے رشتہ دار، براداری کے لوگ مختلف طعنے دیتے تھے۔ اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا کہ پتا نہیں کیا غلطی سرزد ہوئی ہے کہ ایسا ہوا ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ جب والدین نے انھیں بلائنڈ سکول میں داخل کروایا تو ان کی زندگی بدلنا شروع ہوگئی۔ ’میں کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔‘ یہ دیکھ کر ان کے والدین کو بھی کچھ حوصلہ ملا۔ تعلیم کے دوران انھوں نے بانس سے کرسیاں بنانا بھی سیکھ لیا تھا۔ جب شارجہ کپ میں جاوید میانداد کا چھکا چھا چکا تھا تو اسی دوران انھوں نے بلائنڈ ٹیم اور کونسل بنانے میں مدد کی اور وہ ٹیم کے پہلے کپتان بھی بن گئے۔ ریاست خان اب ایبٹ آباد سپورٹس بورڈ میں ملازمت کرتے ہیں اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اب میں اپنے ضرورت مند خاندان والوں کی مدد بھی کرتا ہوں۔ ایسا صرف کرکٹ کی بدولت ہوا ہے۔‘ بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان نثارعلی کہتے ہیں کہ ’ہم غیر ملکی دوروں پر دیگر ممالک کے اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو دیکھتے ہیں۔ ’ان کو ان کی حکومتیں بہت زیادہ مراعات دیتی ہیں اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں اکثر کھلاڑیوں کے پاس کوئی مناسب ملازمت بھی نہیں ہوتی۔‘ دوسری جانب سید سلطان شاہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے علاوہ کبھی کسی حکومت نے ہماری مدد نہیں کی ہے۔‘ وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کی 2006 میں پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ان کی مداخلت پر کرکٹ بورڈ کا آئین تبدیل ہوا اور پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ اس سے انھیں گرانٹ ملنا شروع ہوئی۔ سید سلطان شاہ کے مطابق اب تک پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے دیگر ممالک کے ساتھ 17 دو طرفہ سیزیز کھیلی ہیں جن میں سے 15 میں پاکستان فاتح رہا ہے۔ ’طویل عرصہ سے ہم بلائنڈ کرکٹ کی نمبر ون عالمی ٹیم ہیں۔ ہمارے پاس وہ سہولتیں نہیں ہیں جو یورپی اور دیگر ٹیموں کے پاس ہیں۔ ہمارے چند کھلاڑیوں کے علاوہ اکثریت کے پاس ملازمتیں بھی نہیں ہیں۔ اکثریت مسائل کے شکار ہیں مگر جو چیز ہمیں کامیاب کرتی ہے وہ ہے میرٹ۔ ’ہم نے کبھی بھی میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔‘ سید سلطان شاہ ملک میں بلائنڈ کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جو کھلاڑی گراؤنڈ پر فارمنس دیتے ہیں (صرف) ان کو شریک کیا جاتا ہے۔‘ ’ہمارے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو بھی پتا ہے کہ ڈومیسٹک میں پرفارمنس نہیں دیں گے تو وہ قومی ٹیم میں منتخب نہیں ہوں گے، اس لیے وہ بھی اپنے آپ کو فارم میں رکھنے کے لیے فٹ رہتے ہیں۔‘ سلطان شاہ کے مطابق بلائنڈ کرکٹ کی قومی ٹیم کے تقریباً تمام ہی کھلاڑی پسماندہ علاقوں اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’یہاں پر ہر ایک کھلاڑی کی محنت اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ ہر کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کا ہیرو ہوتا ہے۔ قومی ٹیم میں شامل ہونے والا کھلاڑی جب ٹیم میں شامل ہوتا ہے تو اس وقت وہ جسمانی، ذہنی اور صلاحیتوں کے حوالے سے اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ وہ بڑی بڑی ٹیموں کا مقابلہ آسانی سے کرتا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c25z32vp9z5o
پاکستان کی آخری اوور میں افغانستان پر فتح: ’شاداب کو رن آؤٹ کر کے نسیم کو دوبارہ غصہ دلا دیا‘
نسیم شاہ اپنا ہیلمٹ، گلوز اور بیٹ پھینکتے ہیں اور پاکستان کو آخری اوور میں ایک سنسنی خیز میچ جتوانے کے بعد گراؤنڈ میں خوشی اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دوڑنے لگتے ہیں۔ یہ ایک برس قبل ایشیا کپ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کی کہانی نہیں بلکہ دونوں ٹیموں کے درمیان سری لنکا میں ہونے والی سیریز کے دوسرے میچ کی روداد ہے۔ پاکستان نے جمعرات کو افغانستان کو ایک کانٹے کے مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے شکست دے دی ہے۔ اس ون ڈے میچ کی کہانی میں سب کچھ تھا، ایک بہترین سنچری، نصف سنچریاں، یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے ساتھ ساتھ ’متنازع‘ رن آؤٹ اور آخری اوور کا ڈرامہ۔ تاہم اس میچ کی کہانی میں نسیم شاہ اپنی بیٹنگ کے باعث ایک بار پھر سب کو حیران کر گئے اور آخری اوور میں جب پاکستان کو جیتنے کے لیے 11 رنز درکار تھے اور شاداب خان نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ ہو چکے تھے تو نسیم نے دو چوکوں کی مدد سے یہ ہدف میچ کی سیکنڈ لاسٹ گیند پر پورا کر لیا۔ اس فتح کے ساتھ پاکستان نے ورلڈ کپ اور ایشیا کپ کے اہم ٹورنامنٹس سے قبل اہم سیریز اپنے نام کر لی ہے۔ سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا میں کھیلے جانے والے میچ میں افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور مقررہ 50 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 300 رنز بنائے تھے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے یہ ہدف اپنی اننگز کے آخری اوور میں حاصل کر لیا۔ ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان یہ ہدف باآسانی حاصل کر لے گا لیکن بابر اعظم کی جانب سے نصف سنچری بنا کر آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کا مڈل آرڈر لڑکھڑا گیا اور بات آخری اوور میں گیارہ رنز حاصل کرنے تک پہنچ گئی۔ پاکستان کی جانب سے شاداب خان کے عمدہ 48 رنز اور امام الحق اور بابر اعظم کی نصف سنچریاں نمایاں رہیں۔ تاہم جس بارے میں اس وقت سب سے زیادہ بات کی جا رہی ہے وہ شاداب خان کا رن آؤٹ اور نسیم شاہ کی ایک مرتبہ پھر آخری اوور میں عمدہ بیٹنگ ہیں۔ پہلے شاداب خان کے رن آؤٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں جو میچ کے انتہائی نازک موقع پر کیا گیا۔ یہ میچ کے آخری اوور کے شروع سے پہلے کی بات ہے جب افغان کھلاڑی بولر فضلِ حق فاروقی کے گرد جمع ہو کر ایک میٹنگ کر رہے تھے۔ گذشتہ اوور کے آغاز پر پاکستان کو 12 گیندوں پر 27 رنز چاہیے تھے اور اس کے صرف دو کھلاڑی باقی تھے لیکن شاداب خان کی جارحانہ بیٹنگ کے باعث پاکستان نے اس اوور میں 16 رنز بنائے اور اب جیت کے لیے اسے آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے۔ اس چھوٹی سی میٹنگ میں شاید یہ بات بھی موضوعِ بحث آئی ہو کہ شاداب خان اس سے پہلے بھی بولر کی جانب سے گیند کروانے سے پہلے کریز سے باہر نکل رہے تھے اور اب کیونکہ وہ نان سٹرائیکر اینڈ پر ہیں اور یقیناً رن لینے کے لیے دوڑنے کی کوشش کریں گے تو انھیں وہیں بولر کی جانب سے رن آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ بلے باز کو نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انڈین کرکٹ ٹیم نے جب سنہ 1947-48 میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا تو اس دوران انڈین بولر ونو منکڈ نے دو مرتبہ نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود بل براؤن کو رن آؤٹ کیا تھا۔ ایک مرتبہ ایسا ایک سائیڈ میچ کے دوران جبکہ دوسری مرتبہ دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے ایک ٹیسٹ میچ میں کیا گیا تھا۔ اس وقت آسٹریلین میڈیا نے اس طریقے سے رن آؤٹ کرنے کے انداز کو ’منکڈنگ‘ کا نام دیا تھا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم لیجنڈ بلے باز اور اس آسٹریلین ٹیم کے کپتان ڈان بریڈمین نے اپنی کتاب ’فئیر ویل ٹو کرکٹ‘ میں کہا تھا کہ ’اگر گیند کروانے سے پہلے نان سٹرائیکر کو کریز میں رہنا ہے تو پھر اس کے رن آؤٹ کو غیر منصفانہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔‘ ان کی جانب سے اس دفاع کے باوجود رن آؤٹ کرنے کا یہ انداز نہ صرف جاری رہا بلکہ اس کا نام ہی منکڈنگ پڑ گیا۔ تاہم سنہ 2022 میں ایم سی سی کی جانب سے کھیل کے قواعد میں تبدیلی کے بعد بولر کی جانب سے نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے بلے باز کو گیند پھینکنے سے قبل رن آؤٹ کرنا باقاعدہ طور پر رن آؤٹ قرار دیا جانے لگا۔ تاہم اب بھی یہ طریقہ کار متنازعہ ہی رہتا ہے اور اس بارے میں کچھ افراد اور کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ ’سپرٹ آف کرکٹ‘ کے منافی ہے۔ کچھ افراد یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل بلے باز کو وارننگ دینی چاہیے جبکہ اس بارے میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ جب یہ قواعد کے اعتبار سے درست ہے تو بولر کو اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس بارے میں یہ رائے بھی خاصی عام ہے کہ جب بولر کو نو بال کرنے کے باعث نہ صرف گیند دوبارہ کروانی پڑتی ہے بلکہ مخالف ٹیم کو ایک رن بھی اضافی دیا جاتا ہے تو بلے باز کو بھی غیر ضروری فائدہ حاصل کرنے پر سزا ملنی چاہیے۔ تاہم آرا اب بھی منقسم ہیں اور ایسا رن آؤٹ جب بھی ہو تو سوشل میڈیا پر بہت لے دے ہوتی ہے، جو اس وقت بھی جاری ہے۔ ایک صارف نے ’اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سپرٹ آف کرکٹ کا جنازہ نکل گیا۔‘ افغانستان کی جانب سے اوپنرز رحمان اللہ گُرباز اور ابراہیم زدران نے نہایت پُر اعتماد انداز میں بیٹنگ کی، پاکستان کی جانب سے اپنے پہلے اوور میں وکٹ لینے کے لیے شہرت رکھنے والے بولر شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ حارث رؤف بھی بے بس نظر آئے۔ اس میچ کی خاص بات افغانستان کے اوپنر رحمان اللہ گرباز کی شاندار سنچری تھی۔ انھوں نے تین چھکوں اور 14چوکوں کی مدد سے 151 گیندوں پر 151رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ سیریز کے پہلے میچ میں 59 کے مجموعی سکور پر آؤٹ ہونے والی افغان ٹیم آج پُر اعتماد دکھائی دی اور کسی بھی پاکستانی بولر کو میچ کے 40 ویں اوور تک کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ تاہم میچ کے 40ویں اوور میں پاکستان کو پہلی کامیابی سپن بولر اسامہ میر نے دلوائی، افتخار احمد نے اسامہ میر کی گیند پر اوپنر ابراھیم زردان کو کیچ آؤٹ کیا، انھوں نے دو چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے 101 گیندوں کا سامنا کیا اور 80 رنز بنائے۔ ابراھیم زردان کے پویلین لوٹنے پر تجربہ کار اور افغانستان کرکٹ ٹیم کے سنئیر پلئیر محمد نبی نے رحمان اللہ گُرباز کا ساتھ میچ کے 45 ویں تک دیا۔ محمد نبی میچ کے آخری آوور میں 29 گیندوں پر 29 رنز بنا کر نسیم شاہ کی گیند پر امام الحق کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ تاہم رحمان اللہ گُرباز کے آؤٹ ہو جانے کے بعد میچ کے آخر میں محمد نبی کا ساتھ دینے کے لیے راشد خان آئے جو محض دو رنز بنا کر شاہین شاہ آفریدی کی بال پر ایل بی ڈبلیو آوٹ ہوئے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس وقت سوشل میڈیا پر اکثر صارفین کو پاکستان کی اس سنسنی خیز فتح کو دیکھ کر ایک برس قبل نسیم شاہ کی افغانستان کے خلاف ایشیا کپ میں فتح یاد آ رہی ہے۔ اس وقت نسیم نے آخری اوور میں دو چھکے لگا کر پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا تھا۔ ایک صارف نے اس فتح کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’افغان بولرز نے اس وقت آصف علی کو آؤٹ کرنے کے بعد جو کیا اس سے نسیم کو غصہ آیا تھا، آج انھوں نے شاداب خان کو رن آؤٹ کر کے نسیم کو غصہ دلا دیا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک صارف نے لکھا کہ ’نسیم شاہ ایک بار پھر افعانستان کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔‘ اب تو شائقین کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے روایتی حریف ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’میں چنئی میں پاکستان اور افغانستان کا میچ دیکھنے ضرور جاؤں گی، کیونکہ یہ کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg439202z6o
امام الحق 61, افغانستان 59: ’انڈیا والو! کیا آپ نے ہمارے فاسٹ بولرز کو دیکھا آج؟‘
پاکستان نے تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں افغانستان کو 142 رنز سے شکست دے دی ہے۔ سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا میں کھیلے گئے پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تاہم اننگز کے ابتدا ہی سے پاکستانی بلے باز افغانستان کے بولرز کے ہاتھوں مشکلات کا شکار رہے اور پاکستان کی پوری ٹیم 48ویں اوور میں 201 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی۔ تاہم افغانستان یہ آسان ہدف بھی حاصل نہیں کر سکا اور پاکستانی بولرز کی انتہائی نپی تلی اور عمدہ بولنگ کی بدولت افغانستان کی پوری ٹیم 20ویں اوور میں فقط 59 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ میچ کی خاص بات حارث رؤف کی تباہ کن بولنگ تھی، انھوں نے 6.2 اوورز میں صرف 18 رنز دے کر پانچ کھلاڑوں کو آؤٹ کیا۔ شاہین شاہ آفریدی نے دو جبکہ شاداب خان اور نسیم شاہ نے ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ پوری افغانستان ٹیم میں سے صرف دو بلے باز 10 رنز کے ہندے کو عبور کر سکے۔ رحمان اللہ گرباز 18 رنز بنا کر سرفہرست رہے جبکہ عظمت اللہ عمرزئی 16 رنز بنا کر ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے۔ افغانستان کے چار بلے باز بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے دیے گئے 202 رنز کے ہدف کے تعاقب میں افغانستان کی پہلی وکٹ تیسری اوور میں تین کے مجموعی سکور پر گری جب ابراہیم زردان بغیر کوئی رن بنائے شاہین شاہ آفریدی کا شکار بنے۔ اسی اوور کی اگلی ہی گیند پر شاہین شاہ آفریدی نے رحمت شاہ کو بھی پویلین کی راہ دکھا دی۔ رحمت بھی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد افغانستان کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ تسلسل سے جاری رہا اور کوئی افغان بلے باز کریز پر جم کر کھڑا نہ ہو سکا۔ اننگز کے چوتھے اوور میں حشمت اللہ شہیدی بھی نسیم شاہ کی گیند کا شکار بنے۔ شہیدی بھی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ حارث رؤف کی جانب سے کروائے گئے آٹھویں اوور میں اکرام علیخیل فقط چار رنز بنا کر وکٹ کے پیچھے محمد رضوان کو کیچ دے بیٹھے۔ رحمان اللہ گرباز 18 رنز، محمد بنی سات، راشد خان صفر، عبدل الرحمان دو جبکہ مجیب الرحمان چار رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان بلے باز بھی اپنی اننگز کے دوران افغان سپنرز کے ہاتھوں مشکلات کا شکار نظر آئے۔ فاسٹ بولر فضل حق فاروقی نے جب اوپنر فخر زمان کو 2 رنز پر اور مجیب الرحمان نے بابر اعظم کو صفر پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ کرکے پاکستان ٹیم کو ابتدا ہی سے مشکلات کا شکار کر دیا۔ پاکستان کی تیسری وکٹ 40 رنز پر اس وقت گری جب محمد رضوان 21 رنز بنا کر مجیب الرحمان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے آغا سلمان صرف 7 رنز بنا پائے۔ تاہم اس کے بعد صورتحال میں تھوڑی بہتری آئی اور امام الحق اور افتخار احمد نے 50 رنز کی شراکت داری کی جس کے بعد 112 رنز کے مجموعی سکور پر افتخار 30 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد امام الحق اور شاداب خان کے درمیان 40 رنز کی پارٹنرشپ بنی۔ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ 61 رنز امام الحق نے بنائے جبکہ شاداب خان 39 اور افتخار احمد 30 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ حارث رؤف کو مین آف کی دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس میچ کے بعد سوشل میڈیا پر فینز سیلیبریٹ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ مین آف دی میچ کا ایوارڈ حارث رؤف کے بجائے امام کو ملنا چاہیے تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 صارف عاطف نواز نے لکھا کہ ’امام الحق کی طرف سے صبر و تحمل کا زبردست مظاہرہ۔ مشکل حالات میں اور ساتھی بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کے باوجود وہ کھڑے ہیں۔ ون ڈے میں اُن کی 17ویں نصف سنچری بہت متاثر کن رہی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
https://www.bbc.com/urdu/articles/cgleg30924do
سپین کی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان جنھیں ورلڈکپ فائنل میں فتح کے بعد والد کی موت کی خبر دی گئی
زندگی میں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دیرینہ خواہش مکمل ہونے کی خوشی ادھوری رہ جاتی ہے یا کسی وجہ سے مانند پڑ جاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ سپین کی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان اولگا کارمونا کے ساتھ ہوا۔ جب وہ خواتین ورلڈکپ جیتنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی تبھی انھیں یہ خبر دی گئی کہ ان کے والد کی وفات ہو گئی ہے۔ 23 سالہ اولگا کارمونا نے انگلینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے خواتین ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں واحد گول کر کے اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ کا فاتح بنوایا تھا۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اولگا کے والد ایک عرصے سے بیمار تھے اور جمعے کو ان کی موت ہوئی تھی۔ کارمونا کو ان کے والد کی موت کی خبر ملنے کے بعد انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’میں جانتی ہوں کہ آج رات آپ (والد) مجھے دیکھ رہے تھے اور آپ کو مجھ پر فخر ہے۔ آپ کی روح پُرسکون رہے ڈیڈ۔‘ انھوں نے اپنے والد سے متعلق تعزیتی پیغام کے ساتھ جیت کے میڈل کو چومتے ہوئے اپنی تصویر بھی شیئر کی۔ انھوں نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’مجھے علم نہیں تھا کہ کھیل شروع ہونے سے قبل ہی میرا ستارہ چمک رہا تھا۔ میں جانتی ہوں کہ کچھ منفرد حاصل کرنے کا حوصلہ اور ہمت مجھے آپ نے ہی دی ہے۔‘ ورلڈ کپ جیتنے والوں کی شرٹس پر ان کے قومی ٹیم کے تمغے کے اوپر ایک گولڈ سٹار لگایا جاتا ہے۔ ہسپانوی فٹ بال ایسوسی ایشن (آر ایف ای ایف) نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’آر ایف ای ایف کو اولگا کارمونا کے والد کی موت کا اعلان کرنے پر شدید افسوس ہے۔‘ ’اولگا کو اس افسوسناک خبر کا ورلڈکپ فائنل کے بعد بتایا گیا تھا۔‘ ’اس دکھ کے لمحے میں اولگا اور ان کے اہلخانہ کے لیے نیک تمنائیں۔ ہمیں آپ سے پیار ہے اولگا، اور آپ ہسپانوی فٹ بال کی سٹار ہو۔‘ کارمونا نے ورلڈ کپ میں سپین کی سات میں سے پانچ میچوں میں نمائندگی کی ہے۔ ہسپانوی میڈیا آؤٹ لیٹ ’ریلیوو‘ نے کہا کہ ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے انھیں والد کی وفات سے متعلق نہ بتانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ فائنل پر توجہ مرکوز رکھ سکیں، ان کی والدہ اور بھائی سنیچر کے روز میچ میں ان کی حمایت کے لیے آسٹریلیا پہنچے تھے۔‘ ان کے فٹبال کلب ریئل میڈرڈ نے بھی ان کے والد کی وفات پر ’اولگا، ان کے اہلخانہ اور ان کے تمام چاہنے والوں سے تعزیت اور پیار کا اظہار کیا ہے۔‘ قسمت کی ستم ظریقی دیکھیے کہ اولگا جنھوں نے ورلڈکپ فائنل میں میچ کا واحد گول کر کے سپین کو فتح دلوائی، انھوں نے اس گول کو اپنی ایک دوست کی والدہ کے نام کیا تھا جن کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا۔ اور وہ اس وقت خود اپنے والد کی موت سے بے خبر تھیں۔ ان کے مداح بھی سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات کرتے ہوئے اس ستم ظریفی کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ان کے ایک مداح نے لکھا کہ ’اولگا کارمونا کے آج کے میچ کے بعد کے انٹرویو کا ترجمہ کیا جہاں انھوں نے اپنا گول اپنی بہترین دوست کی والدہ کے نام کیا جو حال ہی میں انتقال کر گئی تھی اور اب ان کے والد بھی اسی دن نہیں رہے جس دن انھوں نے سپین کے لیے ورلڈ کپ جیتا۔ زندگی کتنی ظالم ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ان کے ایک اور مداح نے لکھا ’ اولگا کارمونا کے والد سنیچر کی رات انتقال کر گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ خاندان نے فائنل تک انھیں نہ بتانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے والد اپنی بیٹی کو ورلڈ کپ جیتنے والا گول کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72e6p71zlgo
نیو یارک واریئرز: انڈیا اور پاکستان کے پنجابی جو امریکہ میں ٹی 10 لیگ کی ٹیم کے مالک ہیں
’امید ہے کہ جب مصباح الحق کی قیادت میں شاہد آفریدی اور کامران اکمل اپنے پرانے حریفوں عرفان پٹھان، ہربھجن سنگھ، محمد کیف، سریش رائنا اور دیگر کا سامنا کر رہے ہوں گے تو امریکہ میں لوگوں کو شاندار کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔‘ یہ امریکہ میں منعقد ہونے والی ٹی ٹین ماسٹرز کرکٹ لیگ کی ٹیم نیو یارک وارئیرز کے ایک پاکستانی نثراد امریکی مالک محمد کامران اعوان ہیں جنھوں نے بی بی سی سے اس بارے میں خصوصی بات کی ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، جن میں زیادہ تعداد ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے دس وہ کھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں جو سنہ 2011 کے ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے۔ یہ لیگ 18 اگست سے شروع ہوئی ہے اور اس کا فائنل 27 اگست کو منعقد ہو گا۔ افتتاحی اور فائنل مقابلوں کے لیے پاکستان اور انڈیا کے فلمی ستاروں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ ماسٹر لیگ میں چھ ٹیموں کے مالکان کا تعلق امریکہ، بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہے۔ نیو یارک واریئر واحد فرینچائز ہے جس کے مالکان میں دو انڈین اور دو پاکستانی ہیں۔ ان انڈین اور پاکستانی مالکان کی دوستی اور کاروباری شراکت کی کہانی دو، چار سال نہیں بلکہ اس صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ محمد کامران اعوان کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ انھوں نے اکاوئنٹس کی تعلیم پاکستان سے ہی حاصل کی اور پھر کچھ عرصے تک واہ کینٹ میں خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسی دوران مجھے امریکہ کا ویزہ مل گیا اور میں امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ شروع میں تو مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے مگر مجھے جلد ہی ایک اکاوئنٹس کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ اسی ملازمت کے دوران میرا رابطہ پریت کمال، گورمیت سنگھ سے ہوا جبکہ حسنین باجوہ سے ہمارا تعلق پانچ سال قبل بنا تھا۔‘ ادھر پریت کمال کا تعلق انڈیا کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ ان کے والد امریکہ میں کاروبار کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے ہم سب کو میرے بچپن ہی میں امریکہ بلا لیا تھا۔ میں نے امریکہ میں اکاوئنٹس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس دوران میں مختلف ملازمتیں کر کے اپنا خرچہ خود اٹھاتی تھی۔‘ پریت کمال کہتی ہیں کہ جب انھوں نے اپنے کیرئیر میں اکاوئنٹس کمپنی میں ملازمت شروع کیں تو وہاں پر پہلا رابطہ محمد کامران اعوان سے ہوا تھا۔ ’وہ مجھ سے پہلے ہی وہاں پر کام کرتے تھے۔ پہلے ہی دن انھوں نے میری بہت مدد کی۔ وہ پہلا دن تھا جب میں نے محسوس کیا کہ میرا رابطہ ایک شاندار انسان سے ہوا ہے۔ پھر اب وہ رابطہ بہت اچھی دوستی اور کاروباری تعلق میں تبدیل ہوا۔‘ انھی میں سے ایک گورمیت سنگھ کا تعلق بھی انڈیا کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ 21 سال کی عمر میں امریکہ پڑھنے آئے تھے۔ وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’مجھے میرے چچا نے سپانسر کیا تھا۔ میرے والد انڈیا میں سرکاری ملازم تھے۔ جب میں امریکہ آ رہا تھا تو انھوں نے میرے ٹکٹ کروانے کے علاوہ مجھے اٹھارہ سو ڈالر دیے تھے اور کہا تھا کہ یہ ہی میرے پاس ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اس دور کی بات ہے جب انڈیا میں ایک سرکاری ملازمت کی جمع پونجھی ہی 1800 ڈالر ہوتی تھی۔ امریکہ میں آیا تو اپنے اخراجات خود برداشت کرنے تھے۔ اس لیے یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ دو دو شفٹوں میں کام بھی کرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس دور میں، میں 24 گھنٹوں میں سے تین، چار گھنٹے نیند کرتا تھا۔‘ گورمیت سنگھ بھی پریت کمال کی طرح بتاتے ہیں کہ تعلیم کے بعد ان کی پہلی ملازمت اکاوئنٹس کی اسی کمپنی میں تھی جس میں محمد کامران اعوان پہلے سے ملازمت کرتے تھے۔ گورمیت سنگھ بھی کہتے ہیں کہ ’دفتر میں پہلا رابطہ ہی کامران بھائی سے ہوا تھا۔ کامران بھائی کو مل کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم دو مختلف دیسوں سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ مسلمان ہیں اور میں سکھ، ہمارے درمیان ایک ایسا تعلق بن گیا جس کو میں چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی کا نام دیتا ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ملازمت کے دوران ہی میں اکثر کہتا کہ مجھے اچھی ملازمت چاہیے۔ جس پر کامران بھائی کہتے کہ صبر کرو ہم مل کر کچھ کرتے ہیں۔ پریت بھی کہتی تھیں کہ ’ہمیں کچھ بہتر کرنا تھا۔ اس دوران ہم سوچتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے، کیا ہوسکتا ہے۔‘ ’اکثر کامران بھائی اس پر بات کرتے تھے۔ ان کی رائے بڑی دوٹوک تھی کہ ہمیں کچھ اپنا کرنا چاہیے۔‘ گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہم تینوں کے لیے ایک مسئلہ یہ تھا کہ ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار کرتے تو مشکلات تو موجود تھیں۔ بس اس پر سوچتے رہے اور دیکھتے رہے کہ کیا کرسکتے ہیں۔ ’ہمارے درمیان ایک بات طے ہو گئی تھی کہ حتمی فیصلہ کامران بھائی ہی نے کرنا ہے اور ہم نے اس پر عمل کرنا تھا۔‘ پریت کمال کا کہنا تھا کہ ’بہت سوچ سمجھ کر ہم نے فیصلہ کر ہی لیا اور پھر ایک روز ملازمت چھوڑ کر اپنی اکاوئنٹس کی کمپنی بنا لی۔‘ گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’کامران بھائی ہم سے سینیئر تھے۔ میں اور پریت دفتر میں بیٹھتے تھے جبکہ کامران بھائی مختلف کلائنٹس سے رابطے کرتے تھے۔ ’ہمیں پہلا کام ملنے میں شاید تین ماہ لگ گئے۔ یہ بھی کامران بھائی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ وہ ہم سے سنیئر تھے اور لوگ انھیں جانتے تھے۔‘ پریت کمال کا کہنا ہے کہ ’ہم نے آغاز ہی سے اپنے کام پر فوکس کیا، کوالٹی کی سروس فراہم کی جس کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا گاہگ بنتا چلا گیا اور دو، تین سالوں میں ہم اکاوئنٹس کے بزنس میں ایک اچھی کمپنی بن گئے۔‘ محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ ’اکاوئنٹس کی کمپنی بنائی تو ہم تینوں کے کچھ مقاصد تھے۔ ظاہر ہے امریکہ آ کر ایک بہتر زندگی اور اچھا کاروبار ہمارا مقصد تھا۔‘ ’امریکہ میں کام کرنے والوں کے لیے بہت مواقع ہیں۔ ہم نے بھی محنت اور ایمانداری سے کام کیا جس کا پھل ہمیں ملا۔ پہلے ہم صرف اکاوئنٹس کا کام کرتے تھے۔ مگر اس کے ساتھ ہم نے کام کو پھیلانا شروع کردیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وقت کے ساتھ پراپرٹی، ریسٹورنٹ، سٹورز، ہوٹل اوردیگر کاروبار کرنا شروع کردیے۔ جب ہم نے اکاؤنٹس کی کمپنی شروع کی تھی تو اس میں ہمارے پاس صرف دو کا سٹاف تھا۔ مگر آج ہمارے پاس چار سو لوگوں کا سٹاف ہے جو مختلف امور دیکھ رہا ہے۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہوا کہ ہم نے کچھ اصول طے کرلیے تھے۔‘ ان کے چوتھے پارٹنر اور دوست حسنین باجوہ ہیں۔ حسنین باجوا کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ کوئی پانچ سال قبل امریکہ منتقل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں یہ ہوٹل کی صنعت سے وابستہ تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں امریکہ گیا تو خیال یہ تھا کہ میں ہوٹل کی صنعت ہی میں کوئی کام کروں گا۔ اس کے لیے مجھے رہنمائی چاہیے تھی۔ ’میرا رابطہ کامران بھائی سے ہوا۔ جب میں ان سے ملا تو دیکھا کہ یہ ایک پاکستانی اور دو انڈین مل کر شاندار کاروبارکر رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں نے مجھے میرے کام کے حوالے سے بہت اچھی رہنمائی دی۔‘ حسنین باجوہ کہتے ہیں کہ ’اس موقع پر میری تینوں سے دوستی ہو گئی۔ پھر ایک موقع پر فیصلہ ہوا کہ ہوٹل کے کاروبار بھی ہم مل کر کرتے ہیں۔ ’میرا ان کے ساتھ سلسلہ پانچ سال سے بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہم نے کئی فرنچائز بنا لی ہیں جبکہ ان تینوں کا تعلق تو کئی سالوں سے ہے۔‘ محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ ’یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ میں اور حسنین مسلمان ہیں جبکہ گورمیت سنگھ اور پریت ہندو ہیں یا ہم دو پاکستانی اور وہ انڈین ہیں۔ ’اصل بات انسانیت اور انسانی قدروں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہے۔ ہم چاروں ایک دوسرے کے خیالات، رائے ہر چیز کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے سے مخلص ہیں۔ ’ہم چاروں کی ترقی ہم چاروں سے جڑی ہوئی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں مل کر چلنا ہے۔‘ گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’اصل میں ہم ایک لوگ ہیں۔ پنجاب تو پنجاب ہی ہے بھلے اس کا کچھ حصہ پاکستان میں ہو یا انڈیا میں ہو۔ ’ہماری عادتیں، رہن سہن کا طریقہ ملتا جلتا ہے۔ اس کے ساتھ جب فیصلہ کر لیا جائے کہ مذہب اور ملک کوئی بھی ہو انسانیت کو مقدم رکھنا ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کے لیے قربانی دینی ہے تو پھر چیزیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں جس طرح ہم چاروں کی دوستی اور کاروبار آگے بڑھا ہے۔ لوگ ہم چاروں کی دوستی اور کاروبار پر رشک کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ریسٹورنٹس میں دہلی کے بٹر چکن کی کڑائی اور گوجرانوالہ کے کھانے دونوں ملتے ہیں۔ اسی طرح ہماری بھی زندگی چل رہی ہے۔ جو اب ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہے۔‘ محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ ’ہم چاروں ہی کرکٹ کے شوقین ہیں۔ اب تو یہ میچز بہت کم ہوتے ہیں مگر جب بھی ہوتے ہیں توعموماً ہم لوگ اکھٹے ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ’میں پاکستان کے کسی بھی چھکے، چوکے، بولر کی جانب سے وکٹ لینے پر شور مچاتا ہوں تو اسی طرح وہ انڈین ٹیم کی کارگردگی پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اندازہ کریں ایک دفتر یا کمرے میں ہم تین یا چار لوگ ہیں۔ دو انڈیا کو سپورٹ کر رہے ہیں اور دو پاکستان کو۔ ’چاروں مل کر میچ کو خوب انجوائے کرتے ہیں، ہلا گلا بھی کرتے ہیں۔ میچ کوئی بھی جیت جائے تو جیتنے والی ٹیم کے دونوں سپورٹر ہارنے والی ٹیم کے ساتھ ہمدری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اگلی مرتبہ آپ کی ٹیم جیت جائے اور ہارنے والی ٹیم کے سپورٹر جیتنے والی ٹیم کے سپورٹرز کو مبارک باد دیتے ہیں۔‘ محمد کامران اعوان کا کہنا تھا کہ ’ابھی 14 اور 15 اگست گزرا ہے۔ اس موقع پر پریت اور گورمیت نے میرے اور حسنین کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ہم نے بھی دونوں سے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔‘ محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ جب امریکہ میں کرکٹ لیگ کا اعلان ہوا تو ہم لوگ کافی پرجوش ہو گئے تھے۔ ’برصغیر، یورپ کے کچھ ممالک میں تو کرکٹ بہت شوق سے دیکھی اور کھیلی جاتت ہے۔ مگر امریکہ میں اتنی زیادہ مقبول نہیں ہے، دیسی کمیونٹیز کے لوگوں میں بھی دلچسپی کم ہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاروں نے اس وقت فیصلہ کیا کہ ہم بھی ایک فرنچائز خریدیں گے اور اس فرنچائز میں پاکستان اور انڈیا کے کھلاڑیوں کو اکھٹا کریں گے۔ ’دیکھیں انڈین پریمیئر لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جاتا اور پاکستان سپر لیگ میں انڈین کھلاڑیوں کو۔ یہ دونوں کرکٹ کی دنیا کے بڑے ٹورنامنٹ ہیں۔ اگر دونوں ایونٹس میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو موقع ملے تو یہ دونوں اس سے بھی بڑے ہو سکتے ہیں اور دونوں ممالک میں کرکٹ کا مزید ٹیلنٹ بھی ابھر سکتا ہے۔‘ محمد کامران اعوان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد امریکہ میں کرکٹ کا فروغ ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہم پاکستان اور انڈین کرکٹ سپرسٹارکو اکھٹا کرتے ہیں۔ ’ایک ہی ٹیم میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو کھلاتے ہیں جس سے بہت ہی مثبت پیغام دونوں ممالک کے عوام کو جائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مگر اس لیگ کا ڈرافٹ کچھ ایسا تھا کہ ہم ایسا نہ کرسکے۔ ’پاکستان سے سات کھلاڑیوں کو لیا ہے جبکہ انڈیا سے دو کھلاڑی شامل ہو سکے۔ اب اگلے سال ہم دونوں ممالک کے سپر سٹاز کو ایک ٹیم میں اکھٹا کر سکیں گے۔ ’مگر اب بھی جب روایتی حریف شاہد آفریدی اور ہربجھن سنگھ، عرفان پٹھان اور کامران اکمل آمنے سامنے ہوں گے تو شاندارکرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cj5d4rrdme9o
کیا سعودی کلب جانے سے نیمار کا فٹبال کریئر داؤ پر لگ گیا ہے؟
یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے فٹبال کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ چھ سال قبل برازیل کے لیجنڈ فٹبالر نیمار نے بارسیلونا چھوڑ کر فرانسیسی کلب پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) میں شمولیت کے لیے ریکارڈ 200 ملین پاؤنڈز کا معاہدہ کیا تھا۔ مگر اب 31 سالہ نیمار نے یورپی فٹبال کو الوداع کہہ دیا ہے، کم از کم ابھی کے لیے۔ وہ سعودی عرب میں کھیلنے والے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک بن گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انھیں الہلال فٹبال کلب میں کھیلنے کے لیے سالانہ 150 ملین یوروز ملیں گے۔ انھوں نے دو سال کا معاہدہ کیا ہے لہٰذا یہ پی ایس جی کے مقابلے چھ گنا بڑی رقم ہے۔ نیمار نے پی ایس جی کے لیے 173 میچز کھیلے اور انھوں نے 13 ٹرافیاں جیتنے میں نمایاں کردار ادا کیا جس میں پانچ لیگ ون ٹائٹل شامل ہیں۔ مگر یہ کلب نیمار کو یورپ کا سب سے بڑا ٹائٹل ’چیمپئنز لیگ‘ جیتنے کے لیے لایا تھا۔ مگر وہ اس میں کامیابی نہ دلا سکے۔ پی ایس جی 2020 میں ان کی موجودگی میں فائنل تک پہنچ سکا تھا۔ جنوبی امریکہ میں فٹبال کے ماہر ٹِم وِکری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بہت سے ہم وطنوں کی نظر میں یہ کام نہیں کرسکے۔ وہ اعلیٰ درجے کا یورپی فٹبال چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ گئے ہیں۔‘ ’نیمار شاید اسے عارضی الوداع کہیں اور ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ پی ایس جی میں شمولیت اختیار کریں۔ وہ شاید دو سال بعد دوبارہ یورپ آئیں کیونکہ اس وقت یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کے پاس کیا آپشنز تھے۔‘ یہ نیمار کے کریئر کے اتار چڑتاؤ کا نیا باب ہے۔ اس تحریر میں ہم نے ان کے سینٹوس سے سعودی عرب تک کے سفر پر نظر دوڑائی ہے۔ نیمار نے اپنے کریئر کا آغاز اپنے آبائی ملک برازیل میں کیا۔ انھوں نے 17 سال کی عمر میں سینٹوس کے ساتھ اپنا پہلا پیشہ ورانہ معاہدہ کیا۔ انھوں نے سینیئر ڈیبیو بھی مارچ 2009 میں کیا۔ ایک ہفتے بعد انھوں نے پہلا گول کیا اور ابتدائی طور پر 48 میچوں میں 14 گول کیے۔ ایک سال بعد نیمار کو برازیل نے بلا لیا۔ یہ 10 اگست کو امریکہ کے ساتھ ایک دوستانہ میچ تھا۔ انھوں نے 28 منٹ کے اندر گول کر کے اپنے ڈیبیو کو شاندار بنایا۔ نیمار نے برازیل کے لیے 124 میچوں میں 77 گول کیے لیکن ان کا پہلا گول ان کے کریئر کے پسندیدہ ترین گولز میں سے ایک ہے۔ لوئس سواریز، لیونل میسی اور نیمار بارسیلونا میں ایک زبردست جوڑی ثابت ہوئی۔ سنہ 2011 میں سانتوس کے لیے کوپا لیبرٹادورس جیتنے کے بعد نیمار نے بارسیلونا میں شمولیت اختیار کی۔ انھیں کئی یورپی کلبز نے پیشکش کی تھی۔ وہ لیونل میسی اور لوئس سواریز کے ساتھ فرنٹ تھری میں کھیلتے تھے اور اس جوڑی کو ’ایم ایس این‘ کا نام دیا گیا تھا۔ نیمار نے بارسیلونا کو لا لیگا، کوپا ڈیل رے اور چیمپئنز لیگ جیتنے میں مدد دی۔ بارسیلونا میں شمولیت کے فوراً بعد انھوں نے برازیل کو فیفا کنفیڈریشن کپ جیتنے میں بھی مدد کی اور ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ اب تک نیمار کا ستارہ چمک رہا تھا اور برازیل کے 2014 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کے ساتھ بہت سے لوگوں نے ان سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ ٹورنامنٹ سے پہلے اور اس کے دوران ان کی تصاویر ہر جگہ تھیں۔ لیکن لوگوں کو کافی مایوسی ہوئی جب کوارٹر فائنل میں وہ انجرڈ ہوگئے۔ کولمبیا کے جوآن زونیگا کی ٹکر نے انھیں کمر درد میں مبتلا کر دیا۔ اس میچ میں تو برازیل نے 2-1 سے کامیابی حاصل کی لیکن اس کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی: نیمار انجری کے ساتھ ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے۔ سیمی فائنل میں جرمنی کے خلاف برازیل کو ایک سات کی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیمار، میسی اور سواریز کلب فٹ بال میں سب سے خطرناک جوڑیوں میں سے ایک ہے۔ سال 2015-16 میں انھوں نے مل کر 131 گولز کیے، جو ہسپانوی فٹبال تاریخ میں ایک سیزن میں سب سے زیادہ گولز ہیں۔ ان گولز نے بارسیلونا کو لا لیگا اور کوپا ڈیل رے کے ڈومیسٹک ڈبل کو مکمل کرنے میں مدد کی۔ اس سے قبل نیمار ریو میں سنہ 2016 کے اولمپک مقابلوں کے لیے دوبارہ برازیل کی ٹیم کا حصہ بنے۔ ورلڈ کپ میں چوٹ سے دل ٹوٹنے کے دو سال بعد نیمار نے فیصلہ کن پنالٹی سکور کی۔ انھوں نے برازیل کو پہلا اولمپک گولڈ جتایا۔ بارسیلونا کے لیے 186 میچوں میں 105 گولز کرنے کے بعد نیمار نے اس ٹیم کو چھوڑ کر پی ایس جی میں شمولیت کا اعلان کیا تو عالمی فٹبال میں ہلچل مچ گئی۔ انھیں 2017 میں اس کے بدلے 200 ملین پاونڈز کی بڑی ڈیل آفر کی گئی تھی۔ 2017 میں اپنے ڈیبیو پر انھوں نے ایک گول کیا اور دوسرے گول میں اسسٹ کیا۔ وہ کلیان ماپے اور ایڈنسن کوانی کے ساتھ جارحانہ کھیل پیش کرتے تھے۔ نیمار نے لیگ ون، فرنچ کپ اور لیگ کپ میں پی ایس جی کی فتوحات کے دوران 30 میچوں میں 28 گول کیے۔ مگر انھیں سیزن چھوڑنا پڑا جب وہ دوبارہ انجری کا شکار ہوئے۔ یہ ان کئی انجریوں میں سے ایک ہے جنھوں نے پیرس میں انھیں خوفزدہ کیے رکھا۔ پی ایس جی کے ساتھ دو سال گزارنے کے بعد نیمار کو بارے میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ وہ دوبارہ بارسیلونا میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ جولائی میں وہ سیزن سے قبل ٹریننگ کا حصہ نہ بن سکے جس پر پی ایس جی نے ناراضی ظاہر کی۔ پھر وہ پیرس میں ہی رہے۔ یہ سیزن بھی ان کی انجریوں کی وجہ سے متاثر ہوا۔ تاہم انھوں نے ٹیم کو لیگ ون میں فتح دلائی اور چیمپیئنز لیگ کے فائنل تک لے گئے جہاں ٹیم کو بائرن میونخ کے ہاتھوں شکست جھیلنی پڑی۔ اگست 2021 کے دوران بارسیلونا میں نیمار کے سابق ساتھی میسی نے بھی پی ایس جی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم نیمار کے لیے یہ مایوس کن سال رہا، وہ تمام مقابلوں میں صرف 13 گول کر سکے۔ یہ یورپ آنے کے بعد سے ان کا سب سے بُرا سیزن رہا۔ 2022 سے 2023 کے سیزن میں میسی اور ماپے کے ساتھ نیمار فارم میں واپس آئے۔ انھوں نے پہلے پانچ لیگ میچوں میں 13 گول اور اسسٹ کیے۔ مگر ماچ میں ٹخنے کی سرجری کے باعث وہ سیزن سے باہر ہوگئے۔ فروری کے میچ میں انھوں نے پی ایس جی کے لیے اپنا آخری میچ کھیلا۔ آج بھی برازیل میں شائقین نیمار کے ساتھ امیدیں جوڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اب تک ورلڈ کپ میں برازیل کو کامیابی نہیں دلائی ہے۔ تو کیا پی ایس جی چھوڑ کر سعودی لیگ کا حصہ بننے سے ان کی کامیابیاں محدود ہوجائیں گی؟ وکری کا کہنا ہے کہ ’ان سے بہت سے لوگ مایوس ہیں۔ یہ کوئی اچھا نتیجہ نہیں کیونکہ وہ کافی دیر سے انجرڈ رہے ہیں۔‘ ’مگر ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ انھوں نے برازیل کی قومی ٹیم کے لیے پیلے جتنے گول کیے ہیں۔ یہ محض ان کی عرفیت نہیں۔ کئی سالوں سے ان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔‘ وکری نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ فٹبال نہ بھی کھیلیں تو ان کی موجودہ کامیابیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’چاہے وہ سعودی عرب میں رہیں، کسی بڑے یورپی کلب میں یا اگلے ورلڈ کپ میں، ان کے لیے کئی عظیم لمحات باقی ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c88yl173q2no
پی سی بی کی ویڈیو میں عمران خان شامل، وسیم اکرم غائب: ’خان صاحب نے اٹک جیل سے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا‘
کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید کے بعد گذشتہ رات پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں کرکٹ کی تاریخ کے حوالے سے بنائی گئی نئی ویڈیو ریلیز کی ہے جس میں بالآخر سابق کپتان عمران خان کو شامل کیا گیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ اس ویڈیو میں مایہ ناز فاسٹ بولر وسیم اکرم کی جھلک دکھائی نہیں دی جنھیں بلاشبہ دنیا کے بہترین کرکٹرز میں سے ایک اور بہترین لیفٹ آرم فاسٹ بولر گردانا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ وسیم اکرم نے ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں میں پاکستان کے لیے بالترتیب 414 اور 502 وکٹیں حاصل کی ہیں اور وہ ان فارمیٹس میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں۔ پی سی بی کو رواں ہفتے 14 اگست کے روز جاری کی گئی ویڈیو میں عمران خان کی عدم موجودگی پر دنیا بھر سے کرکٹرز، صحافیوں اور مداحوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد اب ایک نیا ویڈیو پرومو جاری کیا گیا ہے جسے انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2023 سے قبل ایک تشہیری مہم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پی سی بی نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اس سے قبل پوسٹ کی گئی ویڈیو کے دورانیے کے باعث اسے چھوٹا کیا گیا تھا جس کے باعث اس میں کچھ اہم کلپس نکل گئے تھے، تاہم اب اس میں تصحیح کر دی گئی ہے اور یہ ویڈیو کا مکمل ورژن ہے۔‘ پی سی بی کی جانب سے 14 اگست کو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی میں پاکستان کرکٹ کے یادگار مواقعوں کی جھلک دکھائی گئی تھی۔ عمران خان کی عدم موجودگی کے علاوہ ویڈیو میں خواتین کرکٹ ٹیم کی فتوحات کا بھی ذکر نہیں تھا اور نہ ہی اس میں پاکستان کی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون آنے کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ اس پر سابق کپتان وسیم اکرم کی جانب سے بھی شدید تنقید کی گئی تھی تاہم ان کے علاوہ بھی اکثر کرکٹرز نے اس بارے میں تنقید کی تھی۔ گذشتہ پرومو ویڈیو میں وسیم اکرم کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی تاہم اس ویڈیو میں انھیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ نئے پرومو میں نہ صرف 92 کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان عمران خان کو ٹرافی اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے بلکہ ان کی 92 کے ورلڈ کپ میں ایک اور تصویر بھی موجود ہے۔ اسی طرح اب کی بار پاکستان ویمنز ٹیم کی ایشین گیمز میں فتح اور آلراؤنڈر ندا ڈار کا ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی کھلاڑی بننے کا ریکارڈ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب کی بار ویڈیو میں مصباح الحق کو ٹیسٹ میس حاصل کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد پی سی بی کی جانب سے عمران خان، خواتین کرکٹ ٹیم اور دیگر اہم لمحات کو شامل کیے جانے پر سوشل میڈیا صارفین خاصے خوش دکھائی دیے۔ تاہم اکثر صارفین اس ویڈیو میں سے بھی غلطیاں نکالتے نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ عمران خان کی پاور ہے کہ انھوں نے اٹک جیل میں بیٹھ کر بھی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’پہلی بار لوگوں کی تنقید کے باعث سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا ہے۔‘ ایک صارف جاسر شہباز نے پی سی بی پر طنز کرتے ہوئے ایک شعر پوسٹ کیا: ’شوق تے نہیں سی لوکاں مجبور کیتا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس کے علاوہ بھی کچھ لوگوں نے پی سی بی کی ویڈیو میں غلطیاں نکالی ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ اس ویڈیو میں وسیم اکرم کو بالکل نظر انداز کیا گیا اور حنیف محمد کی جو تصویر استعمال کی گئی ہے وہ اس میچ کی نہیں جس میں انھوں نے 337 بنائے تھے۔ ایک صارف نے پی سی بی کی جانب سے ویڈیو کے چھوٹے ورژن کے باعث اس میں اہم کلپس کی غیر موجودگی کو ایک بہانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مضحکہ خیز بات ہے اور پی سی بی ایک ویریفائڈ اکاؤنٹ ہے جس پر طویل ویڈیوز اپ لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کچھ صارفین نے کہا کہ پی سی بی کو بین الاقوامی سطح پر تضحیک کے بعد احساس ہو ہی گیا۔ انڈین صحافی وکرانت گپتا نے ٹویٹ کیا کہ ’بالآخر پی سی بی کو خیال آ گیا کہ وہ کون ہے جس نے 92 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کپتانی کی تھی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c512yv3pnqyo
کرکٹ کی تاریخ پر پی سی بی کی ویڈیو سے عمران خان غائب: ’کیا آپ کھیل کو بھی منقسم کرنا چاہتے ہیں؟‘
پاکستان کے 76ویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں سنہ 1952 سے لے کر موجودہ وقت تک کے کرکٹ سے متعلق تاریخی اور اہم واقعات کے مناظر ویڈیو اور تصاویر کی صورت میں دکھائے گئے ہیں۔ 14 اگست کے موقع پر جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے شئیر کی گئی تو اس میں سنہ 1992 میں پاکستان کے لیے واحد کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان عمران خان کی غیر موجودگی کی وجہ سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ پی سی بی کی جانب سے شئیر کی جانے والی اس ویڈیو کا آغاز بانی پاکستان محمد علی جناح کے ایک قول سے ہوتا ہے۔ آگے چل کر اس ویڈیو میں سنہ 1952 اور سنہ 1958 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کچھ یادگار لمحات دکھائے گئے ہیں۔ پی سی بی کی اس ویڈیو میں سنہ 1986 کے جاوید میانداد کے شارجہ کے تاریخی چھکے سے لے کر سنہ 1992 کے ورلڈ کپ اور پھر سنہ 2000 اور 2012 کے ایشیا کپ جیتنے، سنہ 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے اور پاکستان کے موجودہ کپتان بابر اعظم کی کامیابیوں کا ذکر اور مناظر تو موجود ہیں مگر سنہ 1992 میں پاکستان کے لیے تاریخ کا پہلا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان عمران خان کا ذکر نہیں ملتا۔ بانوے کے ورلڈ کپ کے حوالے سے ویڈیو میں نو تصاویر کا استعمال کیا گیا ہے جن میں پاکستانی ٹیم کے ارکان کو خوشیاں مناتے اور ٹرافی پکڑے دکھایا گیا ہے۔ ان تصاویر میں لگ بھگ وہ تمام پلیئرز موجود ہیں جو 1992 میں پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے ماسوائے عمران خان کے جن کی تصویری جھلک کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ تاہم اس ویڈیو کے تھمب نیل (ویڈیو کی تعارفی تصویر) میں دیگر چھ کھلاڑیوں کے ساتھ عمران خان کی تصویر بھی موجود ہے جس میں وہ 1992 کا ورلڈ کپ تھامے ہوئے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستان کرکٹ بورڈ کی اس ویڈیو میں عمران خان کی غیر موجودگی نے چند پاکستانی کرکٹ فینز کو ’مایوس‘ کیا، جس کا اظہار انھوں نے سوشل میڈیا پر بھی کیا۔ بی بی سی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے چیئرمین پی سی بی مینیجمنٹ کمیٹی زکا اشرف اور پی سی بی میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا، تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر ایک صارف شہریار عجاز نے لکھا کہ ’کرکٹ کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے، پی سی بی کی جانب سے عمران خان کو نظر انداز کرنا قابل مذمت اقدام ہے۔‘ ڈاکٹر سیما خان نامی صارف نے لکھا کہ پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ دنیائے عمران خان کے بغیر نامکمل ہے اور پی سی بی نے یہی ادھوری تاریخ بیان کی ہے۔ اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے جواد احمد نامی ایک اور صارف نے لکھا کہ ’پی سی بی کو اس پر ندامت ہونی چاہیے، ورلڈ کپ چیمپئن بننے کا خواب عمران خان نے دیکھا اور یہ ان کا دیرینہ وژن تھا۔ سنہ 1992 کی کرکٹ ٹیم کے سکواڈ کے ہر ایک کھلاڑی نے گواہی دی اور اعتراف کیا کہ عمران خان نے انھیں اپنی صلاحیتوں پر یقین دلانے میں مدد کی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 مریم خان نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے بھی پی سی بی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ ’آپ یہ بتانا چاہتے ہیں اور آپ کا یہ خیال ہے کہ اس کھیل میں عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ اس کھیل میں بھی (سیاست کی طرح) پولرائزیشن لانا چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ نہیں، عوام کرے گی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 انڈیا سے ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’مجھے عمران خان پسند نہیں لیکن وہ آپ کے سب سے بڑے کرکٹر تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ نے انھیں (ویڈیو میں) شامل نہیں کیا۔‘ علی امتیاز نامی صارف نے لکھا کہ ’پی سی بی کی ایک ٹویٹ پاکستانیوں کے دل سے کرکٹ کی تاریخ کو مٹا نہیں سکتی، پاکستانیوں کو کرکٹ کی تاریخ زبانی یاد ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw484ve324wo
انڈیا کو سات سال میں پہلی بار ٹی 20 سیریز میں ویسٹ انڈیز سے شکست: ’ہاردک پانڈیا انڈین ٹیم کے لیے کپتان میٹیريل نہیں‘
ویسٹ انڈیز نے انڈیا کے خلاف پانچواں ٹی 20 میچ جیت کر پانچ میچوں کی سیریز دو کے مقابلے تین ميچوں سے جیت لی ہے۔ پہلے دونوں مقابلے ویسٹ انڈیز نے جیتے تھے اس کے بعد تیسرے اور چوتھے میچ میں انڈیا کو کامیابی حاصل ہوئی جبکہ اتوار کی شب کھیلا جانے والا فیصلہ کن میچ ویسٹ انڈیز نے آٹھ وکٹوں سے جیت لیا۔ سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم اور خاص کر کے کپتان ہاردک پانڈیا اور کوچ راہل ڈریوڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شائقین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹیم میں روہت شرما اور وراٹ کوہلی نہیں تھے تاہم انڈیا کی نوجوان ٹیم سے اس سے کہیں زیادہ بہتر کی امید تھی۔ خیال رہے کہ ویسٹ انڈیز ٹیم ان دنوں کرکٹ میں انتہائی پستی کے دور سے گزر رہی ہے اور اس بار وہ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکی۔ میچ کے بعد انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ہاردک پانڈیا نے کہا کہ ’یہ تمام ایسی گیمز ہیں جن سے ہمیں سیکھنا ہوتا ہے۔ ایک سیریز ادھر یا ادھر ہو جائے تو بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ابھی ورلڈ کپ آنے والا ہے اور بعض اوقات ہارنا اچھا ہوتا ہے۔ آپ کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملتا ہے۔‘ انڈیا نے ویسٹ انڈیز کا یہ سفر ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں کامیابی کے ساتھ شروع کیا تھا لیکن ٹی 20 میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ انڈیا سات سال میں پہلی بار ٹی 20 سیریز میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوا ہے۔ انڈیا نے پانچویں اور فیصلہ کن میچ میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ یشسوی جیسوال صرف چار رن بنا کر عقیل حسین کی گیند پر انھیں ہی کیچ دے بیٹھے جبکہ دوسرے اوپنر شبمن گل ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ انڈیا کی دو وکٹیں 17 رنز پر گر چکی تھیں۔ پھر کریز پر تلک ورما آئے جنھوں نے سیریز میں سب سے زیادہ سکور کر رکھا تھا۔ انھوں نے چھٹے اوور میں 19 رنز بنا کر انڈیا کی پوزیشن مستحکم کر دی۔ دوسری جانب سوریہ کمار یادو نے جارحانہ انداز کی بجائے ذمہ دارنہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے 45 گیندوں پر 61 رنز بنائے جس میں چار چوکے اور تین چھکے شامل تھے۔ ایک وقت میں ایسا بھی لگ رہا تھا کہ انڈیا 200 تک کا ہدف دے گا لیکن بعد میں آنے والے کھلاڑی کچھ زیادہ نہ کر پائے اور وکٹیں مسلسل گرتی رہیں۔ انڈیا نے 20 اوورز میں 165 کا ہدف دیا جسے ویسٹ انڈیز نے دو وکٹوں کے نقصان پر 18 اوورز میں ہی حاصل کر لیا۔ انڈین مداحوں نے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے ہاتھوں انڈیا کی شکست کا ذمہ دار کپتان ہاردک پانڈیا کو قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’بچے راہل ڈریوڈ پر ویسٹ انڈیز میں ٹیم انڈیا کے ساتھ حد سے زیادہ تجربہ کرنے پر تنقید کریں گے لیکن صرف سچے کرکٹ شائقین ہی اس حقیقت کو سمجھیں گے کہ انھوں نے یہ ثابت کرنے میں بڑا کردار ادا کیا کہ ہاردک پانڈیا ٹیم انڈیا کے لیے کپتان کا میٹیريل نہیں اور اس طرح انھوں نے ہمیں مستقبل میں کئی بڑے ٹورنامنٹ ہارنے سے بچایا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 بہت سے صارفین ہاردک پانڈیا کو ان کے بیان کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہاردک پانڈیا نے انڈین کھلاڑیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم مزید دو ٹیمیں چن سکتے ہیں اور دنیا میں کوئی بھی ٹورنامنٹ جیت سکتے ہیں۔ پریانشو نامی ایک صارف نے راہل ڈریوڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ان کے کوچ رہتے ہوئے انڈیا ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل ہاری۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہاری۔ ایشیا کپ میں ہاری۔ بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے سیریز ہاری۔ آسٹریلیا کے خلاف اپنے ملک میں ون ڈے سیریز گنوائی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی 20 سیریز میں ہاری اور پہلی بار سری لنکا کے خلاف ٹی 20 سیریز ہاری۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سپر کنگ نامی صارف نے لکھا کہ ’لوگوں کا خيال تھا کہ انڈیا ہاردک پانڈیا کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتے گا اور یہ شخص ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز ہار رہا ہے۔‘ ہاردک پانڈیا کو جہاں سیریز میں بولنگ اور بیٹنگ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو وہیں ان کے بولنگ میں تبدیلی کے فیصلہ کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ بہرحال اب تمام کرکٹ شائقین کی نظریں ایشیا کپ پر ہیں اور پھر اس کے ساتھ ہی ورلڈ کپ پر ہوں گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckkxeg9r5leo
شاہ سلمان کلب کپ: ’النصر نے کبھی یہ کپ نہیں جیتا تھا اور پھر رونالڈو ٹیم میں آئے‘
دنیا کے معروف ترین فٹبالروں میں سے ایک کرسٹیانو رونالڈو کا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنا کوئی نئی بات نہیں اور ان کے مداح انھیں ہمیشہ ’گوٹ‘ یعنی گریٹسٹ آف آل ٹائم کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ جس عمر میں عام طور پر تمام تر فٹبالروں کا کریئر ختم ہو جاتا ہے کرسٹیانو رونالڈو نے گذشتہ روز 38 سال کی عمر میں ایک بار پھر گولڈن بوٹ حاصل کیا ہے۔ انھوں نے سعودی عرب کی اپنی ٹیم النصر کو پہلی بارعرب کلب چیمپین شپ کپ کا فاتح بننے میں مدد کی ہے۔ سنیچر کو ریاض کے شاہ فہد انٹرنیشنل سٹیڈیم میں ہونے والے فائنل میں النصر کے خلاف عرب کلب کپ کی دو بار فاتح الہلال شروع سے ہی پوری طرح سے کھیل پر حاوی نظر آ رہی تھی۔ اگرچہ کھیل کا پہلا ہاف بغیر گول کے برابر رہا لیکن دوسرے ہاف میں 51 ویں منٹ میں الہلال کے مائیکل نے گول کر کے اپنی ٹیم کو واضح برتری دلا دی۔ النصر کو دوسرے ہاف میں اس وقت مزید صدمہ پہنچا جب ان کے ایک کھلاڑی عبداللہ العمری کو ریڈ کارڈ دکھا کر فیلڈ سے باہر کر دیا گيا اور النصر 11 کے بجائے 10 کھلاڑیوں کی ٹیم رہ گئی۔ پھر رونالڈو نے اپنے تمام تر تجربے اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کھیل کے 74ویں منٹ میں سلطان الغنم کے پاس کو گول میں تبدیل کر دیا اور سکور اب ایک ایک سے برابر ہو گيا۔ النصر کو مزید ایک دھچکہ اس وقت پہنچا جب متبادل نواف بوشل کو بھی ریڈ کارڈ دکھا دیا گیا اور ان کی ٹیم دس کے بجائے نو کھلاڑیوں کی ہی ٹیم رہ گئی۔ کھیل ایکسٹرا ٹائم میں چلا گیا اور پھر 98 ویں منٹ میں رونالڈو کے ہیڈر نے الہلال کے گول کیپر الاویس کو چکمہ دے دیا اور اس طرح رونالڈو نے نہ صرف النصر کو پہلی بار اس ٹورنا منٹ کا فاتح بننے میں مدد دی بلکہ وہ اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول سکور کرنے والے کھلاڑی بھی رہے اور انھیں گولڈن بوٹ کے ایوارڈ سے نوازا گيا۔ رونالڈو نے چار مختلف تصاویر کے ساتھ اس جیت پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پہلی بار یہ اہم ٹرافی جیتنے پر ٹیم کی مدد کرنے پر مجھے بے حد فخر ہے! کلب میں ان تمام لوگوں کا شکریہ جو اس عظیم کامیابی میں شامل تھے اور میرے خاندان اور دوستوں کا ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کے لیے شکریہ! ہمارے پرستاروں کی طرف سے لاجواب حمایت! یہ اتنا ہی آپ کا بھی ہے!‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 النصر کلب نے ٹویٹ کیا کہ ’60 منٹ سے زیادہ وقت تک 10 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کے باوجود ہم کنگ سلمان کلب کپ کے چیمپیئن ہیں۔۔۔ یسس‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 یہ بھی پڑھیے رونالڈو کی سعودی کلب میں شمولیت: ’انھیں ہر دن کے ساڑھے پانچ لاکھ یورو ملیں گے‘ کرسٹیانو رونالڈو کے سعودی عرب آنے سے کیا کچھ بدل سکتا ہے؟ جزیرہ نما عرب میں دنیا کے عظیم کھلاڑیوں کی آمد اور فٹبال کا ورلڈ کپ منعقد کرانے سے جو نیا جوش پیدا ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گذشتہ روز النصر کی جیت کے بعد سوشل میڈیا ایک بار پھر سے رونالڈو کی تعریف میں رطب السان ہے۔ آئی ایم عبدل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آج کرسٹیانو رونالڈو کا کھیل دیکھ کر میں واضح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ جب فٹبال کی بات آتی ہے تو وہ جی او اے ٹی (گوٹ) ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ان کے اس پوسٹ کو تقریباً ایک لاکھ بار دیکھا گیا ہے جبکہ تین ہزار سے زیادہ بار لائیک کیا گيا ہے۔ ایک اور فٹبال مداح نے نے لکھا کہ ’میری خواہش ہے کہ وہ کبھی بوڑھے نہ ہوں۔‘ جبکہ بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ 38 سال کی عمر میں ایسا کارنامہ بے مثال ہے۔ فرید خان نامی ایک صارف نے فتح کے جشن کی ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’النصر نے تاریخ میں کبھی بھی عرب کپ چیمپیئن شپ نہیں جیتی تھی۔ اور پھر کرسٹیانو رونالڈ اس ٹیم میں پہنچتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 گول کیپر نواف العقیدی نے کہا کہ ’ہم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتے ہیں اگر ہمارے ساتھ رونالڈو ہیں۔ وہ عظیم ترین ہیں۔‘ رونالڈو کو فٹبال ورلڈ کپ کے بعد سعودی عرب کے کلب النصر نے تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل کے ساتھ اپنے کلب میں شامل کیا تو ناقدین کا کہنا تھا کہ اب جبکہ یورپ میں ان کے لیے جگہ نہیں ہے تو وہ سعودی عرب کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ رونالڈو کو 37 سال کی عمر میں بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب ان میں فٹبال نہیں ہے اور سعودی عرب کے کلب کی جانب سے انھیں لیے جانے کو پیسہ لٹانا کہا تھا لیکن گذشتہ روز رونالڈو نے سب کا جواب دے دیا۔ رونالڈو کے ایک فین کلب نے ان کی ٹرافی کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جووینٹس کو چھوڑنے کے بعد سے رونالڈو اتنا خوش پہلی بار دیکھا ہے۔‘ واضح رہے کہ پرتگال کے کھلاڑی نے ایک متنازع انٹرویو کے بعد مانچسٹر یونائیٹڈ کو چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد وہ کسی بھی کلب میں شمولیت کے لیے آزاد تھے۔ اپنے اس انٹرویو میں انھوں نے مانچسٹر یونائیٹڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مانچسٹر یونائیٹڈ سے علیحدگی کی بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ اب انھیں کوئی بھی ٹیم اس قدر زیادہ رقم کے ساتھ نہیں لے گی۔ لیکن انھیں تاریخ کی سب سے بڑی بولی ملی اور انھوں نے دو سال یعنی سنہ 2025 تک لیے معاہدہ کیا جس کی رو سے انھیں روزانہ کے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ یورو ملیں گے۔ بہر حال ایک صارف نے گنیز ورلڈ ریکارڈ کے نام کے تحت لکھا ہے کہ رونالڈو تاریخ کے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں جنھوں نے ہر سطح کے میچز میں گول کیے۔ جبکہ بہت سے صارفین سنہ 2023 کے سرفہرست گول کرنے والوں کی فہرست بھی پیش کر رہے ہیں جس میں کرسٹیانو رونالڈو رواں سال 25 گول کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyjg3rxr0lzo
’ہم نے زخمی پورٹر کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی‘ کے ٹو سر کرنے والی نارویجن کوہ پیما کی وضاحت
ناروے کی کوہ پیما کرسٹین ہریلا نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان کی ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی مہم کے دوران ایک زخمی پورٹر کو نظر انداز کیا جن کی بعد میں موت ہوئی۔ ضلع شگر کے گاؤں تھاماتھو سے تعلق رکھنے والے محمد حسن نامی پورٹر کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ سے گر کر ہلاک ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر شائع کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کوہ پیماؤں کا گروہ حسن کے پاس سے گزر جاتا ہے۔ حسن نے چند گھنٹوں بعد دم توڑ دیا تھا۔ تاہم کرسٹین ہریلا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے مشکل حالات میں جہاں تک ممکن ہوسکتا ان کی مدد کی تھی۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’یہ افسوس ناک حادثہ ہے۔۔۔ وہ ایک باپ، بیٹے اور شوہر تھے جنھوں نے اس دن کے ٹو پر اپنی جان گنوائی۔ میرا خیال ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہونا بہت افسوس ناک ہے۔‘ نارویجن کوہ پیما کرسٹین کا گروہ اس وقت دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سب سے تیز رفتار میں سر کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کے لیے کے ٹو کی مہم پر موجود تھا۔ نے اس آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر واقع چوٹی کو سب سے تیز رفتار میں سر کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔ خیال ہے کہ اس سفر کے دوران محمد حسن 27 جولائی کو بوٹل نیک نامی مشکل اور تنگ راستے سے گِر گئے تھے۔ دو کوہ پیماؤں فلپ فلیمگ اور آسٹریا کے ولہم سٹینڈل نے ان مناظر کی تصاویر شائع کی ہیں کہ کیسے لوگ ان کے پاس سے گزر کر کے ٹو سر کرنے کی کوششوں کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ غیر واضح ہے کہ یہ تصاویر کس مقام سے اور کس وقت بنائی گئیں۔ یہ کوہ پیما بھی اس دن کے ٹو سر کرنے کے مشن پر موجود تھے مگر انھوں نے خطرناک موسمی حالات اور طوفان کے باعث اپنا مشن منسوخ کر دیا تھا۔ وہ سٹینڈل کی جانب سے کے ٹو سر کرنے کی مہم پر ایک دستاویزی فلم بھی بنا رہے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس چھوٹا کیمرا تھا اس لیے انھوں نے اگلے روز ڈرون کی مدد سے وہاں کے مناظر فلمند کیے۔ سٹینڈل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ایک شخص کو زندہ حالت میں پایا۔ وہ بوٹل نیک پر لیٹا ہوا تھا۔ لوگ ان کے اوپر سے قدم رکھ کر آگے اپنی مہم کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ اور ان کے لیے کوئی ریسکیو مشن نہ تھا۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں حیران رہ گیا۔ یہ بہت افسوس ناک تھا۔ میں ان حالات کو دیکھ کر رونے لگا کہ لوگ ان کے پاس سے گزر رہے ہیں اور کیوئی ان کی مدد نہیں کر رہا۔‘ فلیمگ کے مطابق صرف ایک شخص نے حسن کی مدد کی اور باقی تیزی سے کے ٹو سر کرنے کی مہم میں مصروف رہے۔ تاہم کرسٹین ہریلا ان الزامات کی تردید کرتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے حسن کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرسٹین ہریلا نے کہا کہ ان کی ٹیم کے لوگوں نے حسن کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر یہ ناممکن تھا کہ انھیں نیچے تنگ راستے سے گزرتے ہوئے لے جایا جاتا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت وہاں کوہ پیماؤں کا رش بھی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حسن ہماری ٹیم کا حصہ نہیں تھے‘ اور یہ کہ انھوں نے حسن کو گرتے وقت بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کے مطابق ان کے گروہ نے حسن کو زخمی حالت میں دیکھ کر ان کی مدد کرنا چاہی تھی۔ کرسٹین نے کہا کہ سوال اس کمپنی سے پوچھا جانا چاہیے جس نے حسن کی خدمات حاصل کی تھیں کیونکہ انھیں نہ آکسیجن کی سپلائی دی گئی تھی نہ ہی سردی کی مناسبت سے صحیح کپڑے فراہم کیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ حسن کوہ پیماؤں کے ایک گروہ کے لیے بطور پورٹر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ کرسٹین نے کہا کہ ’ہم انھیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم نے کئی گھنٹوں تک وہ کیا جو ہوسکتا تھا۔۔۔ یہ بہت تنگ راستہ ہے۔‘ ’آپ کوہ پیمائی کے دوران کسی کو اٹھا کر کیسے سفر کر سکتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے۔‘ اس سے قبل انسٹاگرام پر کرسٹین نے بتایا تھا کہ حسن ان سے کچھ میٹر آگے تھے جب یہ ’افسوس ناک حادثہ‘ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی موت پر کسی کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ غلط معلومات اور نفرت پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کرسٹین نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ حسن کے ساتھ یہ واقعہ کیسے ہوا مگر حسن ’برف کے دو پتھروں کے ساتھ رسی سے الٹے لٹکے ہوئے تھے۔۔۔ ان کی بیلٹ ٹخنوں تک آچکی تھی۔ انھوں نے مناسب سوٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ ان کا پیٹ ڈھکا نہیں تھا اور برف کے قریب تھا۔‘ وہ یاد کرتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے کچھ دیر تک پورٹر حسن کو رسی سے باندھنے اور آکسیجن دینے کی کوشش کی مگر پھر وہ برفیلے پتھروں کے ساتھ نیچے گِر گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کی کہ آیا ان کی ٹیم محفوظ ہے اور انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ بوٹل نیک پر اضافی لوگوں کے آنے سے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اس لیے وہ آگے کی طرف بڑھنے لگے۔ ان کے کیمرا مین حسن کے پاس نیچے رہے مگر ان کی بھی آکسیجن کم ہونے لگی تھی۔ کرسٹین نے کہا کہ ’ہم نے واپس نیچے آ کر دیکھا کہ حسن دم توڑ چکے ہیں اور ہمارے پاس یہ صلاحیت نہیں تھی کہ ہم ان کی لاش اپنے ساتھ نیچے لا پاتے۔‘ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا کیمرا مین کے جانے کے بعد بھی ان کی ٹیم میں سے کسی نے زخمی پورٹر کی مدد کی تھی۔ دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی کے ٹو پاکستان اور چین کی سرحد کے پاس واقع ہے۔ اسے کوہ پیمائی کے لیے سب سے مشکل چوٹیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51xnjp83q9o
ارجنٹائن: مقامی لوگوں کو چڑانے کے لیے کرنسی نوٹ پھاڑنے والےغیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن
کھیلوں کے مقابلوں میں بعض شائقین حریف ٹیموں اور ان کے مداحوں کو چڑانے یا مشتعل کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہی میں ارجنٹائن میں ہوا جہاں فٹبال گراونڈز میں غیر ملکی شائقین کی جانب سے مقامی کرنسی کو پھاڑنے کی تصویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ مگر اب ارجنٹائن نے کہا ہے کہ فٹبال میچوں کے دوران غیر ملکی شائقین کو مقامی کرنسی نذر آتش کرنے یا پھاڑنے پر سزائیں دی جائیں گی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب ارجنٹائن میں فٹبال میچوں کے دوران حریف ٹیموں اور کلبوں کے فینز میزبان ملک کو چڑانے کے لیے ایسا کرتے پائے گئے ہیں۔ ارجنٹائن کو کئی برسوں سے معاشی بحران کا سامنا ہے جہاں مہنگائی کی شرح کافی بڑھ چکی ہے۔ مگر اب ارجنٹائن کی کرنسی نوٹوں کو پھاڑنے پر غیر ملکی شائقین کو 30 روز کی قید کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے۔ عموماً برازیل اور چیلی سے تعلق رکھنے والے فینز نے ارجنٹائن کو چڑانے کے لیے دوران میچ اس کے نوٹ پھاڑے ہیں جس کی مقامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ارجنٹائن میں کھیلوں میں پُرتشدد واقعات روکنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ عمل کھیلوں کی تقاریب کے دوران لڑائی جھگڑے روکنے کے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے شائقین کو حراست میں لے سکتے ہیں اور اگر مسئلہ سنگین ہوا تو کلبز کو بھی سزا مل سکتی ہے۔ ارجنٹائن کے قوانین میں بھی مقامی کرنسی کو پھاڑنا یا نذر آتش کرنا ممنوع ہے۔ اگر کوئی مقامی شخص بھی ایسا کرے تو اسے قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران ارجنٹائن میں سالانہ افراطِ زر کی شرح بڑھی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں ارجنٹائن میں مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں ہائپر انفلیشن کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ ارجنٹائن میں جون کے دوران مہنگائی کی شرح 115.6 فیصد رہی تھی۔ جبکہ ایکسچینج ریٹ میں بھی ملک کی کرنسی ڈرامائی گراوٹ کا شکار ہے۔ سنہ 1992 میں ملک نے اپنی کرنسی نوٹوں کو ایک ڈالر کے برابر قرار دیا تھا جسے 2001 اور 2002 میں مالی بحران کے باعث ختم کرنا پڑا۔ معاشی بحران نے ملک میں سیاسی افراتفری بھی پیدا کی ہے۔ گذشتہ موسم گرما کے دوران ارجنٹائن نے چار ہفتوں میں تین وزیر خزانہ تبدیل کیے۔ مارچ 2022 میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ارجنٹائن کے لیے 30 مہینوں پر محیط 44 ارب ڈالر کا قرض پروگرام منظور کیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1jwl1gpqgo
’دھانی کو صبر کرنا چاہیے ورنہ عامر بننے میں دیر نہیں لگتی‘
ٹیم میں جگہ نہ بنا پانا کسی بھی کھلاڑی کے لیے مایوس کن ہوسکتا ہے اور یہی چیز نہ صرف کرکٹر شاہنواز دھانی بلکہ ان کے فینز کے رویے نے بھی ظاہر کی ہے۔ دھانی پاکستان کے ان خوش قسمت کرکٹرز میں سے ہیں جن کے ٹیم میں ہونے یا نہ ہونے سے ان کی فالوونگ پر کم ہی اثر پڑتا ہے۔ مگر گذشتہ دنوں ایشیا کپ اور افغانستان سیریز کے لیے سکواڈ میں شامل نہ کیے جانے پر دھانی نے ایکس (ٹوئٹر) پر یہ تبصرہ شائع کیا کہ ’ایک بھی صحافی یا کرکٹ تجزیہ کار نے سوال پوچھنے کی جرات نہیں کی، نہ ہی یہ اعداد و شمار سلیکٹرز کو دکھائے۔‘ جب سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف نے سکواڈ میں شامل پاکستانی فاسٹ بولرز کی لسٹ اے کارکردگی کے اعداد و شمار شیئر کیے تو اس فہرست میں بھی دھانی کا ذکر نہیں ہوا جس پر ردعمل دیتے ہوئے دھانی نے لکھا کہ ’لگتا ہے دھانی پاکستانی پیسرنہیں ہیں۔‘ بعد ازاں دھانی نے دونوں ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیے۔ ادھر پاکستانی کرکٹ بورڈ کے ذرائع کے مطابق تاحال قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی پر دھانی کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ دھانی نے اب تک پاکستان کے لیے دو ون ڈے میچوں میں ایک وکٹ حاصل کی ہے جبکہ وہ 11 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں آٹھ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم پی ایس ایل اور لسٹ اے میں ان کی نمایاں کارکردگی رہی ہے۔ انھوں نے قریب 24 کی اوسط کے ساتھ 31 لسٹ اے میچوں میں 56 وکٹیں بٹوری ہیں اور ایک قلیل فرسٹ کلاس کیریئر میں ان کی 35 وکٹیں ہیں۔ مگر اس سب سکواڈ کے باوجود انھیں سکواڈ سے ڈراپ کر دیا گیا۔ جب سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف نے ایک ٹویٹ میں سکواڈ میں شامل کیے گئے پاکستانی پیسرز کے لسٹ اے کی کارکردگی شائع کی تو اس پر انھوں نے تبصرہ کیا کہ ’لگتا ہے دھانی پاکستانی پیسر ہی نہیں۔‘ اس فہرست میں سکواڈ میں شامل نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، محمد وسیم جونیئر اور زمان خان کے علاوہ دو سال کے وقفے کے بعد دوبارہ جگہ بنانے والے آل راؤنڈر فہیم اشرف کی لسٹ اے کارکردگی کے بھی اعداد و شمار تھے۔ صرف دھانی ہی وہ فاسٹ بولر تھے جنھیں سلیکٹرز کے ساتھ ساتھ راشد لطیف نے بھی نظر انداز کیا تھا۔ اس پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے دھانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’ایک بھی صحافی یا کرکٹ تجزیہ کار نے سوال پوچھنے کی جرات نہیں کی۔ نہ ہی یہ اعداد و شمار سلیکٹرز کو دکھائے۔‘ بعد میں دھانی نے سوشل میڈیا پر یہ پیغامات حذف کر دیے۔ جب ہم نے اس حوالے سے پی سی بی سے جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ تاحال بورڈ نے دھانی کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کسی کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی سی بی کے قوائد و ضوابط کے تحت کھلاڑیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی بورڈ کی پالیسی یا سلیکیشن پر تنقید کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 جہاں ایک طرف شائقین دھانی کے رویے پر تنقید کر رہے ہیں وہیں بعض لوگ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ انھیں واقعی نظر انداز کیا گیا جس کے بعد وہ یہ سب کہنے پر مجبور ہوئے۔ سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم نے کہا کہ دھانی پر توجہ دینے اور انھیں بڑی احتیاط سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’رابطے کے فقدان کے باعث انھیں کھونے کا خطرہ باعث تشویش ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 بعض صارفین اس سوچ میں مبتلا ہوئے ہیں کہ شاید دھانی بے خبر تھے کہ ان کے اکاؤنٹ سے ایسے ٹویٹ کیے گئے۔ جیسے سکینہ ناز پوچھتی ہیں کہ ’کیا دھانی کو معلوم ہے کہ وہ یہ سب ٹویٹ کر رہے ہیں؟‘ تو شاہزیب نے اس امکان کا اظہار کیا کہ شاید دھانی کا سوشل میڈیا ’غلط ہاتھوں میں پڑ گیا ہے۔‘ فرید خان نے تجویز دی کہ پی سی بی کو نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 دریں اثنا راشد لطیف نے دھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے معذرت کی اور کہا کہ ’دھانی یہ میری غلطی ہے۔ میں نئی پوسٹ بناتا ہوں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 صحافی قادر خواجہ نے تبصرہ کیا کہ ’شاہنواز دھانی محنتی اور اچھا بولر ہے۔ ’امید کرتا ہوں وہ اپنی پرفارمنس سے جلد ٹیم میں جگہ بنائے گا لیکن اس طرح سوشل میڈیا پر کھلم کھلا بولنا شاہنواز دھانی کے حق میں نہیں جائے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 صارف وسیم اکرم نے طنز کیا کہ دھانی کو ’صبر کرنا چاہیے ورنہ عامر بننے میں دیر نہیں لگتی۔‘ یاد رہے کہ 2020 میں فاسٹ بولر محمد عامر نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیتے وقت یہ کہا تھا کہ انھیں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ پی سی بی نے رواں سال ان کی واپسی کی چہ مگوئیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلیکشن کے لیے ڈومیسٹک کی کارکردگی ضروری ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjezvnn33zjo
ایشین چیمپیئنز ٹرافی: مشکل وقت میں پاکستان ہاکی ٹیم کی مدد کرنے والے انڈین فزیو کون ہیں؟
انڈیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں چار صفر سے شکست کے بعد ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں کپ جیتنے کا خواب لے کر چنئی آنے والی پاکستان کی ہاکی ٹیم کا یہ خواب تو پورا نہیں ہو پائے گا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک تمل شہری اگر صحیح وقت پر مدد کا ہاتھ نہ بڑھاتے تو شاید پاکستانی ٹیم پانچویں پوزیشن کا میچ کھیلنے کے بھی قابل نہ ہوتی۔ پاکستانی ہاکی ٹیم ویزے کے مسائل کے باعث فزیو تھراپسٹ کے بغیر انڈیا پہنچی تھی۔ فزیو کے بغیر مقابلے میں حصہ نہیں لیا جا سکتا تاہم پاکستان کی کئی ماہ کی محنت کو ضائع ہونے سے بچا کر اس انڈین فزیو نے پاکستانی کھلاڑیوں کی پریشانیوں کو دور کر دیا۔ اس وقت ایشین چیمپیئنز ٹرافی ہاکی سیریز چنئی میں جاری ہے۔ اس میں چھ ممالک یعنی انڈیا، پاکستان، چین، کوریا، ملائیشیا اور جاپان حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ تین اگست کو شروع ہوا اور 12 اگست کو اختتام پذیر ہو گا۔ پاکستان ہاکی ٹیم ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے 31 جولائی کو اٹاری واہگہ بارڈر کے راستے انڈیا میں داخل ہوئی اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعے چنئی پہنچی۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے فزیو تھراپسٹ آخری لمحات میں ویزہ جاری نہ ہونے کی وجہ سے انڈیا میں داخل نہیں ہو سکے۔ کھیل سے قطع نظر ہر ٹیم کا اپنا فزیو تھراپسٹ ہوتا ہے۔ ہر میچ جیتنا اہم ہے، اتنا ہی اس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی فٹنس بھی ہے۔ فزیو تھراپسٹ کھلاڑیوں کی صحت کو برقرار رکھنے، زخموں کے علاج اور جسمانی فٹنس کو بہتر بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ بین الاقوامی سیریز میں کوئی ٹیم صرف اس صورت میں میچوں میں حصہ لے سکتی ہے جب اس کے پاس فزیو تھراپسٹ ہو۔ پاکستان کی جانب سے آخری لمحات میں اپنے فزیو تھراپسٹ کو لانے میں ناکامی ٹیم کے لیے بحران کا باعث بنی۔ یہ بات تمل ناڈو ہاکی فیڈریشن کی توجہ میں آئی، جس نے راج کمل کو پاکستانی ٹیم کے لیے پیش کیا۔ فوری طور پر پاکستان ٹیم کے مینیجر اور کوچ نے چنئی میں راج کمل کا انٹرویو کیا۔ پاکستانی ٹیم نے راج کمل کو اپنے ٹیم فزیو کے طور پر فائنل کیا۔ راج کمل تمل ناڈو کے جنوبی حصے میں واقع تروچندر کے ایک گاؤں ’بالکلم‘ کے رہنے والے ہیں۔ راج کمل نے اپنے آبائی شہر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ وہ سنہ 2016 سے فزیو تھراپسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ’مائنر لیگز‘ میں بطور فزیو کام کرنے کے بعد وہ سنہ 2018 میں تمل ناڈو فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی فزیو کے فرائص سر انجام دے چکے ہیں۔ بی بی سی نے راج کمل سے ان کے اس نئے تجربے سے متعلق بات کی۔ ان کے الفاظ میں اتنا ہی جوش و خروش دیکھا جا سکتا ہے جتنا کہ کھلاڑی خود پرجوش ہیں۔ راج کمل کے مطابق ’ویزے کے مسائل کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کے فزیو اور ان کے اسسٹنٹ آخری لمحات میں نہیں آ سکے تو پھر ایسے میں پاکستانی کوچ اور مینیجر نے مجھے فون کیا اور میں نے جو کام کیا، اس کے بارے میں بتایا، وہ بہت پریشان تھے۔‘ آپ کے لیے ایسے ماحول میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ کام کرنا کیسا ہے، جہاں لفظ پاکستان ہی نفرت کا سبب بن جاتا ہے؟ راج کمل نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستانی ٹیم بہت اچھی ہے۔ عام طور پر کچھ ٹیموں میں انا ہوتی ہے لیکن یہ ٹیم ایسی نہیں۔ یہ کھلاڑی بہت مزے سے بات کرتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ان پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنا بہت خوشی اور فخر کی بات ہے۔ ’ہمیں صرف کھیل دیکھنا ہے۔ ہر طرف مسائل ہیں لیکن کھیلوں میں ایسا نہیں۔ اگر ہم کھیلوں کی طرف آتے ہیں، تو ہم سب کچھ بھول کر ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔‘ ہم نے راج کمل سے پوچھا کہ پاکستانی کھلاڑی چنئی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ ’انھیں چنئی بہت پسند ہے۔ وہ 16 سال بعد یہاں آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کا کھانا، مہمان نوازی اور شائقین کا استقبال انھیں بہت اچھا لگا۔ ہم نے کھانے کے بارے میں بہت بات کی ہے۔‘ ’بریانی کے علاوہ ان کے پاس فلٹر کافی اور مسالہ ڈوسا بھی ہے۔ وہ یہاں دستیاب دیگر اچھے کھانے بھی کھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ راج کمل کہتے ہیں کہ ’جب میں پاکستانیوں سے بات کرتا ہوں تو انگریزی میں بات کرتا ہوں۔ زبان کوئی مسئلہ نہیں۔‘ راج کمل کہتے ہیں کہ ’ٹیم میرے لیے اہم ہے۔ کھلاڑیوں کو پوری فٹنس کے ساتھ کھیلنا چاہیے۔ میرے کام میں کچھ چیلنجز ہیں۔ کچھ کھلاڑی زخمی ہوئے ہیں۔ مجھے ہر چیز پر قابو پانا ہے اور انھیں پھر سے کھیل کے لیے تیار کرنا ہے۔‘ ہم نے پوچھا کہ اگر پاکستانی ٹیم آپ سے مستقبل میں ان کے ساتھ کام کرنے کا کہے تو کیا آپ اسے قبول کریں گے؟ ان کا جواب تھا کہ ’دیکھتے ہیں۔۔۔ پھر میں سوچ سکتا ہوں کہ کیا میرے پاس کوئی اور اسائنمنٹ تو نہیں۔‘ ہم نے انڈیا کی ہاکی فیڈریشن کے خزانچی اور تمل ناڈو ہاکی فیڈریشن کے صدر شیکھر منوکرن سے پاکستان ٹیم میں ایک تامل کی شرکت کے بارے میں بات کی۔ شیکھر منوہر نے کہا کہ ’پاکستانی ٹیم کے پاس کوئی فزیو نہیں تھا، اس لیے انھوں نے ہم سے مدد مانگی۔ ہم نے پاکستانی ٹیم کو راج کمل کے بارے میں بتایا۔‘ ’راج کمل اچھے کھلاڑی بھی ہیں۔ آخری لمحات میں فزیو نہ ہو تو بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہماری مدد سے اب پاکستانی کھلاڑی خوش ہیں جو بہت اچھی بات ہے۔‘ پاکستان ہاکی ٹیم کے موجودہ کوچ محمد ثقلین نے چنئی میں راج کمل کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’راج کمل اپنے کام کو بہت اچھی طرح سے نبھا رہے ہیں، ہمیں ایک عالمی معیار کا فزیو ملا ہے، یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ہم نے انھیں صیحیح وقت پر ہاکی ٹیم کے لیے حاصل کیا۔‘ خیال رہے کہ پاکستان سنہ 2012، 2013 اور 2018 میں ایشین چیمپیئنز ٹرافی ہاکی سیریز جیت چکا ہے۔ چنئی میں جاری اس سیریز میں پاکستان کو اب تک 4 میچوں میں ایک میں کامیابی، ایک میں شکست ہوئی جبکہ دو میچز ڈرا ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ پاکستان پوائنٹس ٹیبل پر پانچ پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان آج انڈیا کے خلاف میچ کھیلے گا۔ اس میچ کے ٹکٹ پہلے ہی فروخت ہو چکے ہیں۔ انڈیا اور ملائیشیا پہلے ہی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں جبکہ جاپان اور چین پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہیں، اس لیے پاکستان باآسانی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے تاہم فائنل تک رسائی اور پھر ٹرافی اٹھانے کے لیے پاکستان کو سخت محنت درکار ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c98pdl9e1gwo
ورلڈ کپ میں انڈیا بمقابلہ پاکستان اب 14 اکتوبر کو: شیڈول میں تبدیلی کے باوجود احمد آباد میں ہوٹلوں، پروازوں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے رواں برس کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے اہم ترین میچوں میں شمار کیے جانے والے پاکستان اور انڈیا کے میچ کے شیڈول میں تبدیلی کا اعلان کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔ انڈیا کے مقامی میڈیا کے مطابق احمد آباد پولیس کو خدشہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے میچ کے ساتھ نوراتری کے پہلے روز سکیورٹی انتظامات مشکل ہو سکتے ہیں اور اسی سلسلے میں آئی سی سی نے ان خدشات کے حوالے سے پاکستانی بورڈ کو لکھا تھا جن کی رضامندی سے یہ تاریخ تبدیل کی گئی ہے۔ آئی سی سی نے نو اگست کو کل نو میچوں کے دن یا وقت میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے دن میں تبدیلی کی وجہ سے اب دہلی میں انگلینڈ اور افغانستان کا میچ 14 کی بجائے 15 اکتوبر کو ہو گا جبکہ پاکستان کا ہی ایک اور میچ جو 12 اکتوبر کو سری لنکا کے خلاف تھا اب 10 اکتوبر کو منعقد ہو گا۔ آئی سی سی ورلڈ کپ پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک انڈیا میں کھیلا جائے گا۔ روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں ہو گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عالمی کپ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ ہو گا۔ عالمی کپ کا افتتاحی اور فائنل میچ بھی احمد آباد کے اسی سٹیڈیم میں کھیلے جائے گے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ شائقین کی گنجائش موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈیا، پاکستان کے درمیان ہونے والے بڑے میچ کو دیکھنے کی مانگ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ اور فائنل سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ 14 اکتوبر کو ممبئی اور دلی سے احمد آباد جانے والی پروازوں کا کرایہ 15 ہزار سے 22 ہزار روپے کے درمیان تک جا پہنچا ہے، جوعام طور پر تین سے چار ہزار روپے ہوتا ہے۔ یہی صورتحال جے پور، کوچین اور بنگلور سے احمد آباد جانے والی پروازوں کی ہے۔ 14 اور 15 اکتوبر کی پروازوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ٹریول ایجنسی ’ایز مائی ٹرپ‘ کے سربراہ نشانت پٹی نے انڈین میڈیا کو ایک بیان دیا ہے کہ ’جن شہروں میں عالمی کپ کے میچ ہونے والے ہیں، ان کے بارے میں ٹکٹ کی تفصیلات جاننے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔‘ ’دلی احمد آباد کی ایک طرف کی پرواز کا اوسط کرایہ تقریباً 5 ہزار روپے ہوتا ہے۔ اس سال اکتوبر میں انڈیگو کی پروازوں کا کرایہ 12 ہزار اور ویستارا کا 22 ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تیزی 100 فیصد سے زیادہ ہے۔ جیسے جیسے میچز قریب آئیں گے مانگ اور سپلائی کی مناسبت میں اس میں مزید اضافہ ہو گا۔‘ ایک اور ٹریول کمپنی کے سربراہ اے کشن موہن کہتے ہیں ستمبر کے اختتام تک دلی سے احمد آباد کی پروازوں کے کرائے میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ انڈیا پاکستان کا میچ ہے۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کو دیے بیان میں ٹریول ایجنٹ ویریندر شاہ نے کہا کہ ’ابھی تک پانچ اکتوبر کو عالمی کپ کے افتتاحی میچ اور 19 نومبر کے فائنل کے لیے وہ مانگ نہیں جو انڈیا اور پاکستان کے میچ کے لیے نظر آ رہی ہے۔‘ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ میں شائقین کی غیر معمولی دلچسپی سے احمد آباد میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے کرایوں میں بھی اکتوبر کے مہینے میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ احمد آباد سے موصول ہونے والی بعض خبروں میں بتایا گیا ہے کہ بعض ہوٹلوں کے ایک رات کے کرائے میں پانچ گنا تک اضافہ ہو گیا ہے۔ نشانت کے مطابق ’جب سے میچ کی تاریخوں اور مقام کا باضابطہ طور پر اعلان ہوا ہے تب سے ہوٹلوں کے ایک رات کے کرائے میں پانچ گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض لگژری ہوٹل ایک رات کے لیے 50 ہزار روپے تک چارج کر رہے ہیں۔‘ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ احمد آباد کے میریٹ، ہلٹن اور تاج سکائی لائن لگژری ہوٹل کے سبھی کمرے 15 تاریخ کے لیے بُک ہو چکے ہیں۔ اور اس تاریخ کے لیے کوئی کمرہ دستیاب نہیں ہے۔ 15 اکتوبر کو کئی ہوٹلوں کے کمروں کا کرایہ 90 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے گجرات کے سوراشٹرا چیمبر آف کامرس کے صدر نلن زاویری کے حوالے سے لکھا ہے ’اس میچ کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ بیرونی ممالک سے آئیں گے۔‘ ’احمد آباد میں ہوٹلوں میں زیادہ سے زیادہ 132000 لوگوں کی گنجائش ہے۔ اس کا مطلب رسد اور طلب میں کافی فرق ہو گا۔‘ میچ کے اگلے ہی دن ہندوؤں کا ایک بڑا تہوار ’نوراتری‘ بھی ہے جس کے سبب پروازوں کی مانگ میں مزید شدت آ گئی ہے۔ سپورٹس تجزیہ کار جسوندر سدھو کا کہنا ہے کہ کوئی بھی گیم وہ جنون نہیں پیدا کرتی جو انڈیا، پاکستان کرکٹ میچ کرتا ہے۔ ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ممالک کے لوگ چاہتے ہیں کہ دونوں ٹیمیں کرکٹ کھیلیں لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے سے بات تک نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی عجیب صورتحال ہے۔ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے جیتنا چاہتی ہیں لیکن کھیلنے سے ہچکجاتی بھی ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’دونوں صرف بڑے میچز میں کھیل رہی ہیں۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ انڈیا پاکستان میں کیوں نہیں کھیل سکتا یا پاکستان کی ٹیم انڈیا کیوں نہیں آ سکتی۔ میرے خیال میں انڈیا کی سیاست ایسی ہے کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم پاکستان کے ساتھ کھیلیں گے تو یہ ہمارے لیے ناموافق ہو گا۔‘ جسوندر سدھو کی رائے میں ’انڈیا اور پاکستان کا میچ بہت انٹرٹیننگ ہوتا ہے۔ پوری دنیا اس کا لطف لیتی ہے۔ اس کا امپیکٹ بہت بڑا ہے۔ جب آپ سب کرنے کے لیے تیار ہیں تو باہمی سیریز کھیلنے میں کیا دقت ہے؟‘ فی الحال فلائٹ اور ہوٹل کے کمروں کے ساتھ میچ کے ٹکٹ حاصل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن کرکٹ کے شائقین تمام تر مشکلات سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72kk453mkpo
آئی سی سی کی آمدن میں انڈیا کا حصہ سب سے زیادہ کیوں اور پاکستان کو اس پر کیا اعتراض ہے؟
کرکٹ کی دنیا میں ان دنوں جہاں ایشز سیریز چھائی ہوئی ہے وہیں انڈین کرکٹ ٹیم کے ویسٹ انڈیز دورے کے بھی چرچے ہو رہے ہیں اور انڈیا میں اس سال ورلڈ کپ کی تیاریاں جاری ہیں تاہم اس سب کے بیچ آمدن کی تقسیم کے لیے آئی سی سی کا ماڈل زیرِ بحث ہے۔ انڈین کرکٹ ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں تو آسٹریلیا کو شکست نہ دے سکی لیکن وہ ’ہوم ورلڈ کپ‘ میں فیورٹس میں سے ایک ہے۔ ورلڈ کپ کے انعقاد سے قبل رواں ماہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے اجلاس میں یہ واضح ہوا کہ انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کا دنیائے کرکٹ پر غلبہ برقرار رہے گا۔ رواں ماہ ڈربن میں ہونے والے اجلاس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2024 سے 2027 تک انڈین کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی کی سالانہ آمدن کا 38.5 فیصد حصہ ملے گا۔ یہ رقم تقریباً 231 ملین ڈالر ہے۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دس سال قبل بگ تھری یعنی انڈیا، آسٹریلیا اور انگلینڈ نے مل کر اتنے حصے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اب اتنا حصہ صرف انڈیا کو مل رہا ہے۔ اگرچہ اس ماڈل کو نافذ نہیں کیا گیا تاہم ان کے مطالبے کا اثر یہ ہوا تھا کہ بی سی سی آئی کو 2015 سے 2023 تک آئی سی سی کی آمدن میں سے 22 فیصد حصہ ملا۔ درحقیقت جب ششانک منوہر 2015 میں آئی سی سی کے سربراہ بنے تو انھوں نے تینوں ممالک کو سب سے زیادہ آمدنی دینے والے ماڈل کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس سے امیر بورڈز مزید امیر اور غریب کرکٹ بورڈز غریب تر ہو جائیں گے۔ آئی سی سی کی نئی تبدیلیوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دیگر رکن ممالک کو ان کا حصہ کیسے ملے گا لیکن یہ کہا گیا ہے کہ ہر رکن ملک کو پہلے سے زیادہ رقم ملے گی۔ اب بی سی سی آئی کو ملنے والا حصہ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کو ملنے والے 41 ملین ڈالر سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔ انگلش کرکٹ بورڈ 6.89 فیصد حصے کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ تیسرے نمبر پر آسٹریلوی بورڈ کو 6.25 فیصد کے ساتھ 37.53 ملین ڈالر ملیں گے۔ یعنی دوسرے اور تیسرے نمبر والے بورڈز کو ملنے والی رقم کے مقابلے میں صرف انڈین کرکٹ بورڈ کا حصہ تین گنا زیادہ ہو گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو 5.75 فیصد یعنی 34.5 ملین ڈالر ملیں گے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، زمبابوے، ویسٹ انڈیز اور آئرلینڈ کو پانچ فیصد سے کم رقم ملے گی۔ ایسے میں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بی سی سی آئی کو اتنا بڑا حصہ کیسے مل رہا ہے۔ اس کا جواب بھی سب کو معلوم ہے۔ ایک طویل عرصے سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی آمدنی کا 70 سے 80 فیصد حصہ انڈین مارکیٹ سے آتا ہے۔ اگرچہ بی سی سی آئی کی آمدن دیگر بورڈز کے مقابلے بہت زیادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اتنی بڑی آمدن نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی سی سی آئی کو آئی سی سی ٹورنامنٹ کے دوران حکومت سے کسی قسم کی ٹیکس رعایت نہیں ملتی۔ سورو گنگولی کی صدارت کے دور میں بی سی سی آئی کے ایک اندازے کے مطابق اگر انڈین حکومت نے 2023 ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے بی سی سی آئی کو ٹیکس میں رعایت نہ دی ہوتی تو بورڈ کو کم از کم 955 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا۔ انڈین حکومت نے میچز نشر کرنے سے حاصل ہونے والی آمدن پر 21.84 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انڈیا کے ٹیکس قوانین میں عالمی سطح کے کرکٹ ٹورنامنٹ پر کسی قسم کی چھوٹ نہیں۔ اس کی وجہ سے بی سی سی آئی کو 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بھی 193 کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑا تھا۔ سورو گنگولی اور جے شاہ کے دور کو اس وجہ سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ان دونوں نے اس پورے معاملے کو صحیح طریقے سے نہیں سنبھالا۔ اس سلسلے میں پچھلے سال دونوں نے انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں حکومت نے واضح طور پر کہا کہ بی سی سی آئی کو منافع کے بجائے کل آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اگرچہ آئی سی سی کی دفعات کے مطابق میزبان ملک آئی سی سی ٹورنامنٹ کے انعقاد کے دوران حکومت سے ٹیکس میں رعایت حاصل کر سکتا ہے لیکن بی سی سی آئی سے متعلق اس معاملے میں کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم جے شاہ، جو انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے ہیں، کے بطور بی سی سی آئی سیکریٹری ہونے سے لوگوں کو امید ہے کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جائے گا اور بی سی سی آئی پر زیادہ ٹیکس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ اس ماڈل کی منظوری کے دوران پاکستان نے اپنی مخالفت ظاہر کی تھی۔ ایک بیان میں پی سی بی نے کہا کہ ’تمام متعلقہ معلومات، ڈیٹا اور فارمولے کی عدم موجودگی میں ایسا اہم فیصلہ جلد بازی میں نہیں لینا چاہیے۔‘ خیال رہے کہ مئی میں نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اس مجوزہ ماڈل ناراضی ظاہر کی تھی۔ ان کا سوال تھا کہ آئی سی سی کو ان اعداد و شمار کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس صورتحال سے خوش نہیں۔‘ تاہم انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ اصولاً انڈیا کو زیادہ حصہ ہی ملنا چاہیے مگر یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آئی سی سی ان اعداد و شمار تک کیسے پہنچا۔ سابق پاکستانی کرکٹر راشد لطیف نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ پی سی بی کو آئی سی سی سے زیادہ شیئر کا مطالبہ کرنا چاہے۔ ’سب سے زیادہ دیکھے جانے والا میچ انڈیا بمقابلہ پاکستان ہے۔ تو پی سی بی کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ اگر پاکستان آئی سی سی ایونٹ نہیں کھیلتا تو اس کا آمدن پر کیا اثر پڑے گا؟‘ ان کا سوال تھا کہ ’اگر ایمیرٹس ایئر لائن سب سے بڑا سپانسر ہے تو کیا یو اے ای بورڈ کو سب سے زیادہ شیئر دیا جائے؟ حصہ ویورشپ کی بنیاد پر ملنا چاہیے نہ کہ سپانسرشپ۔‘ سابق انگلش کپتان مائیکل ایتھرٹن نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’یہ ناقص ماڈل امیر ملکوں کو مزید امیر بنائے گا۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’ویسٹ انڈیز اور ایسے دوسرے ملک بھی ہیں جہاں مقامی مارکیٹ سے زیادہ انحصار آئی سی سی سے ملنے والی آمدن پر ہوتا ہے۔ آمدن کی تقسیم کے ماڈل سے برابری پیدا کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام آئی سی سی اجلاس میں آمدن کی تقسیم کے علاوہ ایک اور اہم فیصلہ کیا گیا۔ اب مردوں اور خواتین کو تمام بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹس میں یکساں انعامی رقم ملے گی۔ بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے گذشتہ سال بین الاقوامی میچوں کے لیے یکساں میچ فیس کے نفاذ کا اعلان کیا تھا تاہم اس طرح کے اعلانات میں بھی کچھ مسائل باقی ہیں۔ مردوں اور خواتین کی کرکٹ میں بین الاقوامی سطح کے میچوں کی میچ فیس برابر کر دی گئی ہے تاہم کھلاڑیوں کے معاہدوں اور دونوں ٹیموں کے درمیان میچوں کی تعداد میں اب بھی کافی فرق ہے۔ اس کے باوجود اسے خواتین اور مردوں کی کرکٹ میں برابری کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ 2019 کے مینز کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلینڈ کو چیمپیئن بننے پر 28.4 کروڑ روپے کی انعامی رقم ملی تھی جبکہ رنر اپ نیوزی لینڈ کو 14.2 کروڑ روپے ملے۔ اس کے مقابلے میں 2022 کی چیمپیئن آسٹریلوی ٹیم کو ویمنز ورلڈ کپ میں تقریباً 10 کروڑ روپے کی انعامی رقم ملی جبکہ رنر اپ انگلینڈ کو 4.5 کروڑ روپے ملے تھے۔ آئی سی سی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک تمام ٹورنامنٹس کی انعامی رقم خواتین اور مردوں کے لیے یکساں ہوگی۔ اس کے علاوہ آئی سی سی کے اجلاس میں دنیا بھر میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔ آئی سی سی کے اجلاس میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگز پر کوئی پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی تجویز منظور کر لی گئی ہے۔ ان میں آئی ایل ٹی 20، ایم ایل سی اور کینیڈا پریمیئر لیگ جیسے ٹورنامنٹ شامل ہیں۔ تاہم ٹی ٹوئنٹی لیگز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایسی شرائط رکھی گئی ہیں تاکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ماہر کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد ان ٹورنامنٹس میں شرکت کے لیے اپنی اپنی ٹیموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہ کرے۔ ہر ٹیم کو ڈومیسٹک اور ایسوسی ایٹ ممبر ممالک سے کم از کم سات کرکٹرز کو میدان میں کھیلانا ہو گا۔ یاد رہے کہ ان دنوں میجر کرکٹ لیگز کے میچز امریکہ میں کھیلے جا رہے ہیں جبکہ سعودی عرب بھی آنے والے دنوں میں ایسی لیگ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ایسے میں آئی سی سی بھی بین الاقوامی کرکٹ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیگ کا انعقاد کرنے والے بورڈ کو غیر ملکی کھلاڑیوں کے ڈومیسٹک بورڈ کو بھی ایک مقررہ رقم ادا کرنا ہوگی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cxrxgkyexdzo
’بچوں پر نہیں چھوڑ سکتے‘: ویسٹ انڈیز سے شکست پر انڈین شائقین کو کوہلی اور روہت کیوں یاد آ رہے ہیں؟
ویسٹ انڈیز کی بظاہر کمزور نظر آنے والی ٹیم نے انڈیا کے خلاف ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں چھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اس جیت کے ساتھ ہی ویسٹ انڈیز نے تین میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر کر لی ہے۔ ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا تھا اور انڈیا کی ٹیم کا اغاز بہتر تھا لیکن پھر وکٹوں کی جھڑی لگ گئی۔ پہلی وکٹ 90 کے سکور پر گری اور پھر 113 پر پانچ وکٹیں گر چکی تھیں۔ اس کے بعد انڈین ٹیم نے کسی طرح 40.5 اوورز میں 181 رنز سکور کیے جو مخالف ٹیم نے باآسانی 36.4 اوورز میں چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیے۔ انڈیا کی جانب سے اوپنر ایشان کشن نے سب سے زیادہ 55 رنز بنائے جبکہ دوسرے اوپنر شبمن گل نے 34 رنز بنائے۔ پانچویں نمبر پر آنے والے سوریہ کمار یادیو نے 24 رنز بنائے۔ ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی انڈین کھلاڑی 20 کا ہندسہ عبور نہیں کر سکا۔ اسی دوران ویسٹ انڈیز کے شائی ہوپ نے کپتانی والی اننگز کھیلتے ہوئے ناقابلِ شکست 63 رنز بنائے جبکہ کارٹی نے ناقابل شکست 48 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے روماریو شیفرڈ اور گوڈاکیش موتی نے تین تین وکٹیں لے کر میچ کا رخ موڑ دیا۔ انڈیا کی جانب سے شاردل ٹھاکر نے تین وکٹیں لیں جبکہ پہلے میچ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کلدیپ یادو کو ایک ہی وکٹ مل سکی۔ سوشل میڈیا پر جہاں میچ پر تبصرے ہو رہے ہیں وہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ وراٹ کوہلی اور روہت شرما کے بغیر انڈین بیٹنگ کچھ نہیں ہے۔ ارنو سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ ’ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں آج انڈیا کی شکست تاریخی ہے کیونکہ یہ پہلی بار ہو گا کہ انڈین کرکٹ ٹیم (مردوں کی) ایک ایسی ٹیم سے میچ ہاری ہے جو ٹیم آنے والے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 شیلیندر مشرا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہم چاہے روہت اور کوہلی کو جتنا ٹرول کر لیں لیکن نوجوان کھلاڑیوں میں ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آتا جو ان گیرٹسٹ آف آل ٹائم کے ریٹائرمنٹ کے بعد انڈین ٹیم کو 10-12 سال تک لے کر چل سکے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک صارف نے پاکستان کے ایک مداح کی آئیکونک مایوسی والی تصویر ڈال کر لکھا کہ ’جب ویسٹ انڈیز کے خلاف یہ حال ہے تو ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں کیا ہو گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 بہت سے لوگ شبھمن گل کی جگہ رتوراج گائکواڈ کو ٹیم میں لیے جانے کی دلیل دے رہے ہیں تو بہت سے لوگ سنجو سیمسن کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کے ایل راہل اور سریش ایير کو یاد کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ وراٹ کوہلی کو آرام دیے جانے پر ٹیم مینجمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو کچھ لوگ وراٹ کوہلی کے میدان میں پانی لے جانے پر تبصرے کر رہے ہیں کہ دنیا کا سب سے مہنگا کھلاڑی ڈرنکس لے جا رہا ہے۔ فرید خان نامی صارف نے لکھا کہ ’25 ہزار انٹرنیشنل رنز اور 76 انٹرنیشنل سنچریز لگانے والے وراٹ کوہلی دوسرے ون ڈے میں اپنی ٹیم کے لیے ڈرنکس لے جا رہے ہیں۔ کوئی کتنا بے غرض ہو سکتا ہے؟ اگر یہ کوئی سابق پاکستانی کپتان ہوتا تو ہمارے صحافیوں نے اس کا مسئلہ بنا دیا ہوتا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک صارف نے شاہ رخ اور سلمان خان کی تصویر ڈال کر انھیں روہت اور کوہلی لکھا ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ’بچوں پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘ بہر حال بہت سے لوگ وکٹ کیپر بیٹسمین ایشان کشن کی تعریف کر رہے ہیں جنھوں دونوں میچز میں نصف سنچری سکور کی ہے جبکہ کچھ لوگ راہل دڑاوڈ کے تجربات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سیریز کا تیسرا اور فیصلہ کن میچ منگل کو ٹرینیڈاڈ میں کھیلا جائے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cedek4j72kvo
سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میں ایک اننگز، 222 رنز سے شکست: ’نعمان علی کی پرفارمنس نے لنکا ڈھا دی‘
پاکستان نے سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں ایک اننگز اور 222 رنز سے شکست دے دی ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کی خاص بات لیفٹ آرم سپنر نعمان علی کی بولنگ تھی جس کی بدولت پاکستان نے سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر سیریز دو صفر سے اپنے نام کر دی۔ نعمان علی نے سات کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ٹیسٹ کے چوتھے روز نعمان علی نے 23 اوورز کرائے، جن میں سے آٹھ میڈن تھے۔ یوں پاکستان نے کولمبو میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا کو ہرا کر وائٹ واش کر دیا۔ اس سے قبل پاکستان نے گال میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا کو شکست دی تھی۔ جہاں ایک طرف دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی باؤلرز نے لنکا ڈھانے میں اہم کردار کیا، وہیں رہی سہی کسر ہدف کا پہاڑ کھڑا کر کے پاکستانی بلے بازوں نے نکال دی، جس کی بدولت سری لنکا کو ایک اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نعمان علی کے کریئر پر بات کرنے سے قبل ٹیسٹ میچ کے احوال پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔ گال ٹیسٹ کے چوتھے روز پاکستان نے بلے بازی کا آغاز کیا مگر مہمان ٹیم نے فقط دو اوورز کھلیے اور 576 رنز کے مجموعے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا۔ کھیلے گئے اِن دو اوورز کے دوران محمد رضوان نے اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ پاکستان کی جانب سے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 576 رنز کا بنایا گیا پہاڑسری لنکن ٹیم کی پرفارمنس دیکھتے ہوئے سر کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ دوسری اننگز میں بھی پاکستانی باؤلرز نے سری لنکن پلیئرز کے قدم جمنے نہیں دیے اور اوپر تلے وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ دوسری اننگز میں سری لنکا کے اینجلو میتھیوز نے پاکستان باؤلرز کا خوب مقابلہ کیا اور وہ نصف سنچری کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ 63 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے۔ نعمان علی نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 70 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں جبکہ نسیم شاہ نے 44 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی اور پاکستان چوتھے دن کا وقت ختم ہونے سے کافی دیر قبل ہی 222 رنز اور ایک اننگز سے شکست دینے میں کامیاب رہا۔ یاد رہے کہ پہلی اننگز میں بھی کوئی سری لنکن خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکا تھا اور صرف دھننجایا ڈی سلوا نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں سری لنکا کی پوری ٹیم 166 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔ دوسری جانب پاکستان کی اننگز کی خاص بات اوپنر عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری تھی جس کے عوض انھیں کولمبو ٹیسٹ میں مین آف دی میچ کا بھی ایوارڈ ملا۔ یہ بھی پڑھیے سعود شکیل کی ڈبل سنچری: ’11 سالہ بلے باز کی دلیری دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے کھیلے گا‘ کولمبو ٹیسٹ میں عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری کے بعد پاکستان کی پوزیشن مستحکم: ’عبداللہ نے ہمیں کرکٹ کی خوبصورتی یاد کرا دی‘ گال ٹیسٹ: دھننجایا اور میتھیوز کی عمدہ شراکت، ’شاہین نے ممکن بنایا کہ پاکستان میچ میں ٹاپ پر رہے‘ پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر سانگھڑ کے تعلقہ کھپرو سے تعلق رکھنے والے 36 برس کے نعمان علی جب 13 سال کے تھے تو والد کی ملازمت کی وجہ سے ان کا خاندان حیدرآباد منتقل ہو گیا جہاں نعمان علی نے فضل الرحمن کلب کی طرف سے باقاعدہ کلب کرکٹ شروع کی۔ نعمان علی کو کرکٹ کا شوق اپنے ماموں رضوان احمد کو دیکھ کر ہوا جنھوں نے ایک ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ نعمان علی ٹیپ بال میں تیز بولنگ کیا کرتے تھے لیکن ماموں کے کہنے پر انھوں نے سپن بولنگ شروع کر دی۔ نعمان علی فرسٹ کلاس کرکٹ میں حیدر آباد کے آر ایل اور ناردن کی ٹیموں کی نمائندگی کر چکے ہیں جبکہ یو بی ایل کی طرف سے گریڈ ٹو کرکٹ کھیلے ہیں۔ وہ پاکستان سپر لیگ میں ملتان سلطانز کی طرف سے بھی کھیل چکے ہیں۔ انھوں نے انگلینڈ میں بریڈ فورڈ لیگ کرکٹ بھی کھیلی ہے۔ نعمان علی سنہ 2021 ناردن کی طرف سے کھیلتے ہوئے قائداعظم ٹرافی میں 61 وکٹیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔ انھوں نے چھ مرتبہ اننگز میں پانچ یا زیادہ وکٹیں حاصل کیں جبکہ وہ تین بار میچ میں دس یا زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔ نعمان علی سنہ 2020 بھی قائداعظم ٹرافی میں سب سے زیادہ 54 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے تھے جس میں 71 رنز کے عوض 8 وکٹوں کی کریئر کی بہترین کارکردگی بھی شامل تھی۔ پاکستانی ٹیم کے دورۂ نیوزی لینڈ کے سلیکشن کے موقع پر بھی یہ کہا جا رہا تھا کہ نعمان علی کو ضرور موقع ملے گا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ نعمان علی کہتے ہیں کہ اُس وقت انہیں ٹیم میں شامل نہ ہونے کا افسوس ضرور ہوا تھا لیکن وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ اس سوال پر کہ 36 سال کی عمر میں کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اب آپ کے پاس انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے زیادہ وقت نہیں رہا؟ نعمان علی کہتے ہیں کہ عمر محض ایک نمبر ہے اگر آپ فٹ ہیں اور میدان میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں تو پھر عمر کا کوئی تعلق نہیں۔ یونس خان اور مصباح الحق بھی فٹ رہ کر انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اور ان کی راہ میں عمر حائل نہیں ہوئی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سری لنکن ٹیم کو سری لنکا کی سرزمین پر وائٹ واش کرنے پر متعدد صارفین نے بابر اعظم کی کپتانی کی تعریف بھی کی۔ احتشام صدیق نامی صارف نے کپتان بابر اعظم کی ٹرافی کے ساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ وہ لمحات تھے جن کا ہمیں طویل عرصے سے انتظار تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان کے فاسٹ باؤلر نسیم شاہ نے ٹیسٹ میچ سیریز پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ کیا ہی خوبصورت سفر تھا! سخت محنت، لگن اور ٹیم ورک کی بدولت ہم یہ یاددگار فتح سمیٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘ انھوں نے سب فینز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ فتح آپ سب کے لیے ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 سعد عرفان نامی صارف نے لکھا ہے کہ نعمان علی کی سیلیکشن پر کپتان بابر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر نعمان علی نے ان سارے ناقدین کو ایک بار پھر غلط ثابت کیا ہے۔ ان کے مطابق بگ ون بابر اعظم پر کبھی شک نہ کریں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 پاکستان کے سابق سپنر سعید اجمل نے پاکستان کو اس فتح پر مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے خاص طور پر نعمان علی، ابرار اور نسیم شاہ کی باؤلنگ اور سعود شکیل، عبداللہ شفیق اور سلمان آغا کی بیٹنگ کی تعریف کی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/czrgvw1rwwgo
کولمبو ٹیسٹ میں عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری کے بعد پاکستان کی پوزیشن مستحکم: ’عبداللہ نے ہمیں کرکٹ کی خوبصورتی یاد کرا دی‘
پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز کھیل کے اختتام تک اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ عبدااللہ شفیق کی ڈبل سنچری اور آغا مسعود کی سنچری کی بدولت پاکستان نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 563 بنا لیے ہیں اور اس کی سری لنکا کے خلاف مجموعی برتری 397 رنز کی ہو چکی ہے۔ تیسرے روز کے کھیل کی خاص بات اوپنر عبداللہ شفیق کی ڈبل سنچری تھی۔ آغاز سلمان نے بھی تیسرے روز پاکستان کے لیے ایک اور سنچری بنائی اور یوں پاکستان کی سبقت کو مزید بڑھا دیا۔ عبداللہ شفیق کے آؤٹ ہونے کے بعد محمد رضوان سعود شکیل کا ساتھ دینے کے لیے آئے۔ اس وقت آغا مسعود 132 جبکہ محمد رضوان 37 رنز بنا کر وکٹ پر موجود ہیں۔ سعود شکیل کی مسلسل ساتویں نصف سنچری بھی اس ٹیسٹ میچ کی خاص بات ہے۔ سعود شکیل اس سے قبل پہلے میچ میں ڈبل سنچری بھی کر چکے ہیں، جس کی بدولت پاکستان دو ٹیسٹ میچز کی سریز میں سے پہلا میچ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس میچ کے مین آف دی میچ سعود شکیل قرار پائے تھے۔ گذشتہ ایک سال میں 13 ٹیسٹ میچز کی اننگز میں سعود شکیل نے 87.50 کے اوسط سے 875 رنز بنائے ہیں۔ کپتان بابر اعظم نے 13 اننگز میں 50 کی اوسط سے 650 جبکہ آج تیسری سنچری بنانے والے آغا مسعود نے 54.20 کی اوسط سے 13 اننگز میں 542 رنز بنائے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اب اگر بات کی جائے عبداللہ شفیق کے کھیل کی تو وہ آج 201 رنز بنانے کے بعد جے سوریا کی گیند پر مادھو شنکا کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ دن کے آغاز پر عبداللہ شفیق نے 87 رنز کے ساتھ اپنی اننگز کا دوبارہ آغاز کیا اور فائنل سیشن میں وہ 200 رنز کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد انھوں نے اپنا ہیلمٹ اُتارا اور اپنی جرسی کے پچھلے حصے پر لکھے اپنے نام کی جانب اشارہ کیا۔ انھوں نے 326 گیندوں کا سامنا کیا اور ان کی اننگز میں 19 چوکے اور چار چھکے بھی شامل تھے۔ اب سوشل میڈیا پر عبداللہ شفیق کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کی اس اننگز کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ سری لنکا میں سری لنکا کے خلاف ڈبل سنچری بنانے والے دوسری پاکستانی بلے باز بن گئے ہیں۔ تیسرے دن کے کھیل میں سلمان نے بھی اٹیکنگ کرکٹ کھیلی، جو کہ پاکستانی ٹیم کے نئِ سٹائل کا حصہ ہے، اور ایک چوکے کے ساتھ اپنی دوسری سنچری مکمل کی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 یہ بھی پڑھیے سعود شکیل کی ڈبل سنچری: ’11 سالہ بلے باز کی دلیری دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے کھیلے گا‘ پاکستان ایمرجنگ ایشیا کپ کا فاتح: ’اب بس بابر اعظم کا انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا انتظار ہے‘ کرکٹ ورلڈ کپ: وہ وجوہات جن کے باعث پاکستان چنئی میں افغانستان، ممبئی میں کسی بھی ٹیم سے نہیں کھیلنا چاہتا تھا صارف احتشام صدیق نے لکھا کہ ڈبل سنچری بنا کر عبداللہ شفیق نے ہمیں ایک یاددگار میچ دیا ہے اور ہمیں کرکٹ کی خوبصورتی یاد دلا دی ہے۔¬ انھوں نے عبداللہ شفیق کے لیے مستقبل میں بھی نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آگے بھی چل کر ان کی ایسی اننگز دیکھیں گے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 سعد نامی صارف نے لکھا کہ کچھ لوگ عبداللہ شفیق کی کچھ ناکام اننگز کے بعد ان کے خلاف ایک مہم چلا رہے تھے مگر اب انھوں نے ایک بار پھر اپنی ’کلاس‘ ظاہر کی ہے۔ کرکٹ تجزیہ کار عالیہ رشید نے لکھا کہ اُن کی یہ یاددگار اننگز طویل عرصے تک یاد رکھی جائے گی۔ اس سے قبل سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے جا رہے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کے آغاز پر پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے سری لنکا کو اس کی پہلی اننگز میں 166 رنز پر آل آؤٹ کر دیا ہے۔ پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دو میچوں کی سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے پہلے روز سری لنکا کی پہلی اننگز میں 166 رنز کے جواب میں بیٹنگ کرتے ہوئے دو وکٹوں پر 145 رنز بنائے تھے تاہم دوسرے دن کا کھیل بارش سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gmp0j0413o
کولمبو ٹیسٹ: پاکستان کی عمدہ بولنگ، ’پہلا دن پاکستان کے نام رہا، لڑکو اس فارم کو قائم رکھنا‘
سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے جا رہے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے سری لنکا کو پہلی اننگز میں 166 رنز پر آل آؤٹ کر دیا ہے۔ پاکستان نے سری لنکا کے خلاف دو میچوں کی سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے پہلے روز سری لنکا کی پہلی اننگز میں 166 رنز کے جواب میں بیٹنگ کرتے ہوئے دو وکٹوں پر 145 رنز بنا لیے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو اننگز کے آغاز میں ہی امام الحق کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم عبداللہ شفیق اور شان مسعود نے پراعتماد انداز میں کھیلتے ہوئے نصف سنچریاں سکور کی ہیں۔ کولمبو میں کھیلے جا رہے سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا کے کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو ان کے لیے درست ثابت نہیں ہوا۔ پاکستانی بولرز نے سری لنکن بلے بازوں کو اننگز کے آغاز سے ہی دباؤ میں رکھا اور بہترین لائن و لینتھ کا استعمال کرتے ہوئے پوری ٹیم کو 166 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ سری لنکن اوپنر نشان مدوشکا چار رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے، ان کے بعد کوشال مینڈس چھ رنز بنا کر شاہین آفریدی کا شکار ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے انجیلو میتھیوز نو رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، ان کے بعد کپتان دیموتھ کرونارتنے بھی صرف 17 رنز بنا سکے۔ اس موقع پر سری لنکا کے 36 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد چندیمل اور ڈی سلوا نے پانچویں وکٹ کے لیے 85 رنز کی شراکت قائم کر کے سری لنکا کا مجموعی سکور 121 رنز پر پہنچا دیا، تاہم نسیم شاہ نے دنیش چندیمل کو آؤٹ کیا اور اس شراکت داری کو توڑا۔ سری لنکا کو چھٹا نقصان سدیرا سمارا وکرما کی صورت میں اٹھانا پڑا جو ابرار احمد کا شکار بنے، اس کے بعد دھننجیا ڈی سلوا بھی 57 رنز بنا کر ابرار احمد کی گیند پر سعود شکیل کو کیچ دے بیٹھے۔ سری لنکا کی آٹھویں وکٹ 136 رنز پر گری جب شان مسعود نے پربت جے سوریا کر رن آؤٹ کر دیا، اس کے بعد سیتھا فرنینڈو کو بھی ابرار احمد نے بولڈ کر دیا۔ سری لنکا کی آخری وکٹ 166 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب رمیش مینڈس 27 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے ابرار احمد نے 69 رنز کے عوض چار اور نسیم شاہ نے 41 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ یاد رہے کہ یہ ٹیسٹ سیریز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 2023-25 کا حصہ ہے اور پاکستان نے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کی تھی۔ سیریز کے دوسرے اور فائنل ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستان کی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے جبکہ سری لنکا نے اپنی ٹیم میں دو تبدیلیاں کرتے ہوئے فاسٹ بولرز وشوا فرنینڈو اور کاسن راجیتھا کی جگہ آسیتھا فرنینڈو اور دلشان مدوشنکا کو شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ سری لنکا کے لیے چھ ون ڈے اور 11 ٹی 20 کھیلنے والے بائیں ہاتھ کے فاسٹ باؤلر مدوشنکا نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا ہے۔ بارش کے باعث کھیل کا آغاز آدھا گھنٹہ تاخیر سے ہوا تاہم دن کے مقررہ اوورز میں سے کوئی اوور کم نہیں کیا گیا۔ دوسرے ٹیسٹ میں پاکستانی بولرز کے شاندار بولنگ سپیل کے باعث سری لنکا کے صرف 166 رنز پر آؤٹ ہو جانے پر سوشل میڈیا صارفین بولرز کو داد دینے کے ساتھ ساتھ بابر اعظم کی کپتانی کی بھی تعریف کر رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایک سوشل میڈیا صارف نے پاکستانی بولرز کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان اور بابر اعظم کی جانب سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ، ان کی ذہانت کی وجہ سے سری لنکا صرف 166 رنز ہی بنا سکا جو کولمبو میں سری لنکا کا سب سے کم ٹوٹل ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک صارف نے لکھا کہ ’دوسرے ٹیسٹ کا پہلا دن پاکستان کے نام رہا، لڑکو اس فارم کو قائم رکھنا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 جبکہ ایک صارف نے پاکستانی بولر نسیم شاہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’سیریز سے قبل میں نے کہا تھا کہ گذشتہ ایک سال میں شاہین آفریدی کی غیرحاضری میں نسیم شاہ تیز بولنگ کا لیڈر بن گیا ہے اور اس نے ہمیں اس سیریز میں مایوس نہیں کیا۔ یہ پاکستان کا بہت خاص ٹیلنٹ ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2jnvm57l0o
ہرمن پریت کور کے رویے پر تنقید: ’انڈین ٹیم کی اچھی کارکردگی میں ناکامی ناراض ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے‘
انڈیا کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہرمن پریت کور بنگلہ دیش کے خلاف آخری ون ڈے میں اپنے رویے کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ ہرمن پریت کور نے آؤٹ ہونے کے بعد پہلے غصے میں سٹمپ پر اپنا بیٹ دے مارا اور پھر میچ میں شکست کا ذمہ دار امپائر کو ٹھہرایا۔ میزبان بنگلہ دیش کی کپتان نگار سلطانہ نے کہا ہے کہ ہرمن پریت کو بطور کھلاڑی بہتر برتاؤ کرنا چاہیے تھا۔ ساتھ ہی سابق انڈین کرکٹر انجم چوپڑا نے بھی ہرمن پریت کور کو اپنے رویے پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ہرمن پریت کور پر میچ فیس کا 75 فیصد جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک آئی سی سی یا بی سی سی آئی کا آفیشل بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن دوسری جانب سوشل میڈیا پر ہرمن پریت کور پر پابندی لگانے کا مطالبہ تک کیا جا رہا ہے۔ میچ کے بعد انڈین کرکٹر سمرتی مندھانا نے ہرمن پریت کور کے رویے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’بعض اوقات غصے میں ایسا ہو جاتا ہے۔‘ مندھانا نے کہا کہ ’میرے خیال میں میچ کے دوران میں جو کچھ ہوا وہ کھیل کا حصہ ہے۔ ہم نے مردوں کی کرکٹ میں اس طرح کے کئی واقعات پہلے دیکھے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جب آپ انڈیا کے لیے کھیلتے ہیں تو آپ صرف جیتنا چاہتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ایسا غصے میں ہو جاتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ امپائر کے فیصلے سے خوش نہیں تھیں۔ انھیں آوٹ قرار دیا گیا لیکن انھیں اس پر شک تھا۔ میرے خیال میں یہ صرف ہیٹ آف دی مومنٹ میں ہوا، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جتنا میں ہرمن کو جانتی ہوں، یقیناً اس پر بعد میں بات کریں گے۔ لیکن جب آپ ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں، تو یہ چیزیں ہو جاتی ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 لیکن سابق انڈین کرکٹر انجم چوپڑا نے ہرمن پریت کور سے کہا ہے کہ وہ اپنے رویے اور الفاظ کے بارے میں مستقبل میں محتاط رہیں۔ انگریزی اخبار ’دی ہندوستان ٹائمز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انجم چوپڑا نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ جب ان کا غصہ کم ہو گا تو وہ خود اس بات سے متفق ہوں گی کہ انھیں اپنے قول و فعل کے بارے میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ’اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن آپ کیسے اور کب کرتے ہیں اس سے فرق پڑتا ہے۔ انھیں اپنے الفاظ کا انتخاب بھی احتیاط سے کرنا چاہیے تھا۔‘ امپائرنگ پر انڈین کھلاڑیوں کی ناراضگی کے متعلق انجم چوپڑا نے کہا کہ میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات کے دوران انڈین ٹیم کی کپتان کو ناراضگی ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے لیے اور بھی بہت سے بہتر طریقے ہو سکتے تھے۔ انجم چوپڑا کا یہ بھی کہنا تھا کہ انڈین ٹیم کی اچھی کارکردگی میں ناکامی ہرمن پریت کے اس طرح ناراض ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے لیکن پھر بھی یہ بات صرف ڈریسنگ روم کے اندر ہی رہنی چاہیے تھی۔ عوام میں اس طرح کا رویہ درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگ ہرمن پریت کور پر پابندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’ہرمن پریت کور پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی جانی چاہیے۔ دوسرے کرکٹرز کی توہین کرنا اچھی بات نہیں، انڈین کھلاڑیوں میں اتنا غرور کیوں ہے؟ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔‘ یہ بھی پڑھیے 'لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر مجبور تھی ہرمن پریت کور' ویمن کرکٹ: ون ڈے میچز میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ متالی راج کے نام ایک اور صارف نے آئی سی سی سے سوال کیا ہے کہ ہرمن پریت کور کے اس ناقابل قبول رویے پر کوئی کارروائی ہو گی یا بی سی سی آئی کا ڈر ہے؟ صارف نے کہا ہے کہ ہرمن پریت کور پر کم از کم تین میچوں کی پابندی لگائی جائے۔ کئی کرکٹ ویب سائٹس کے لیے لکھنے والے محسن کمال نے ٹویٹ کیا: ’امپائرنگ چاہے کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو، آپ اس طرح سٹمپ نہیں توڑ سکتے۔ ہرمن پریت کور پر کم از کم ایک یا دو میچوں کی پابندی لگنی چاہیے، تاکہ مستقبل میں کوئی بین الاقوامی کرکٹر ایسا نہ کرے۔‘ انڈیا اور بنگلہ دیش کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہفتہ کو شیر بنگال نیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ برابری پر ختم ہوا اور تین میچوں کی ون ڈے سیریز 1-1 سے برابری پر ختم ہوئی۔ گذشتہ روز جب انڈین خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ہرمن پریت کور تیسرے ون ڈے میں کیچ آؤٹ ہوئیں تو انھوں نے امپائر کے فیصلے پر اعتراض کیا اور وکٹ پر زور سے بیٹ دے مارا۔ اس کے بعد ہرمن پریت کور نے چلتے ہوئے امپائر سے کچھ کہا بھی۔ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ ہرمن پریت کور صرف اسی وجہ سے سرخیوں میں نہیں آئیں۔ انھوں نے میچ کے بعد کی تقریب کے دوران کچھ ایسا ہی کہا جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میچ کے بعد ہرمن پریت نے امپائر کے کیچ آؤٹ دینے کے فیصلے کو ’مایوس کن‘ قرار دیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 انھوں نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس کھیل سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ یہاں تک کہ کرکٹ کے علاوہ بھی ہم اس قسم کی امپائرنگ سے حیران ہیں۔ اگلی بار جب ہم بنگلہ دیش آئیں گے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہمیں اس قسم کی امپائرنگ سے نمٹنا پڑے گا اور ہم اس کے مطابق خود کو تیار کریں گے۔‘ ہرمن پریت کی ناراضگی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ میچ کے بعد جب دونوں ٹیمیں اپنے اپنے کپتانوں کے ہمراہ ٹرافی کے ساتھ فوٹو سیشن کے کے لیے پہنچی تو ہرمن پریت کور نے کچھ کہا۔ اور اس کے بعد نگار سلطانہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ واک آوٹ کرتے ہوئے ڈریسنگ روم کی جانب چلی گئیں۔ میڈیا رپورٹس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہرمن پریت کور نے نگار سلطانہ کے سامنے کہا کہ ’امپائروں نے آپ کے لیے میچ ٹائی کرایا۔ انھیں بھی بلا لیجیے۔ ہمیں ان کے ساتھ بھی تصویر لینی چاہیے۔‘ انڈین خواتین کرکٹ ٹیم کو پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں 40 رنز سے شکست ہوئی تھی جبکہ دوسرے میچ میں انڈین ٹیم نے 108 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تیسرے ون ڈے میں بنگلہ دیش نے انڈین ٹیم کے سامنے 225 رنز کا ہدف رکھا تھا لیکن انڈین خواتین کرکٹ ٹیم 49.3 اوورز میں 225 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی۔ بنگلہ دیش کی جانب سے فرغنہ حق نے 107 رنز بنائے۔ وہ بنگلہ دیش کی جانب سے سنچری بنانے والی پہلی خاتون کھلاڑی بنیں۔ بنگلہ دیش کی کپتان نگار سلطانہ سے بھی میچ کے بعد ہرمن پریت کور کے رویے پر سوال کیے گئے۔ نگار نے کہا کہ ہرمن پریت کو تھوڑا بہتر برتاؤ کرنا چاہیے تھا۔ فوٹو سیشن سے اچانک چلے جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے جو کہا وہ ان کے الفاظ تھے، ہمارے نہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ بطور کھلاڑی انھیں کچھ اچھا رویہ دکھانا چاہیے تھا، مجھے اس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ ’وہاں کچھ ایسے الفاظ کہے گئے، جنھیں سننے کے بعد میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں رہنا مناسب نہیں سمجھا۔ کرکٹ نظم و ضبط اور احترام کی جگہ ہے، لیکن وہاں ایسا ماحول محسوس نہیں ہوا، اس لیے ہم وہاں سے چلے گئے۔‘ نگار نے امپائرنگ کا بھی دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ آؤٹ نہیں ہوتیں تو امپائر انھیں آؤٹ کیوں دیتے؟ وہ بہترین امپائرز میں سے ایک تھے اور انھیں مردوں کی انٹرنیشنل کرکٹ کا تجربہ بھی ہے۔ ہم نے امپائر کے فیصلوں کا احترام کیا ہے، ہم نے آؤٹ ہونے کے بعد ویسا ہی ردعمل کیوں نہیں دکھایا؟ بطور کھلاڑی ہمیں ان کے فیصلے کو قبول کرنا چاہیے، چاہے وہ آؤٹ ہو یا نہ ہو۔‘ ٹھیک پانچ سال پہلے یعنی 20 جولائی 2017 کو انڈین ٹیم ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے ساتھ سیمی فائنل کھیل رہی تھی۔ اس دن انھوں نے 115 گیندوں پر 171 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی لیکن جب سنچری بنی تو وہ خوش ہونے کے بجائے اپنی ہی ساتھی دیپتی شرما پر چیخ پڑیں۔ دراصل ہرمن پریت کور 98 رنز کے ذاتی سکور پر دیپتی شرما کے ساتھ کریز پر تھیں اور ایک گیند پر دو رنز بنانے کے لیے دوڑ پڑیں۔ لیکن دوسری طرف دیپتی شرما دوسرے رن کے لیے بھاگنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو رنز مکمل تو ہو گئے لیکن دیپتی شرما آؤٹ ہوتے ہوئے بچیں۔ اس گیند پر ہرمن پریت کی سنچری بھی مکمل ہوئی لیکن وہ دیپتی پر اپنا غصہ ظاہر کرتی نظر آئیں۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جس کی ویڈیو آئی سی سی نے بھی شیئر کی تھی۔ انڈیا نے یہ میچ 36 رنز سے جیتا اور ہرمن پریت کو میچ کی بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ پچھلے سال انگلینڈ کے خلاف تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا آخری میچ میں دیپتی شرما نے مانکڈنگ (نان سٹرائیکر اینڈ) کو آؤٹ کر کے میچ اور سیریز دونوں جیت لی تھی۔ اس وقت انڈین ٹیم پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے اور ان پر کھیل کی روح کے خلاف جانے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ تاہم جب ہرمن پریت سے اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ دیپتی شرما کے بچاؤ میں آ گئیں۔ انھوں نے کہا: ’سچ پوچھیں تو، میں نے سوچا کہ آپ سب 10 وکٹوں کے بارے میں سوال کریں گے، کیونکہ وہ گرنا آسان نہیں تھا۔ یہ سب کھیل کا حصہ ہے اور ہم نے کچھ نیا نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بلے باز کی حرکت کے بارے میں کتنے محتاط ہیں۔ میں اپنے کھلاڑی کی حمایت کروں گی کیونکہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا جو آئی سی سی کے قوانین کے مطابق نہیں ہے۔ آخر میں، جیت کا مزہ لینا چاہیے اور یہ جیت ہے۔‘ خود ہرمن پریت کور نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ میدان پر نظر آنے والی جارحیت ان کی رگوں میں ہے۔ ہرمن پریت نے 2009 میں اپنا ون ڈے ڈیبیو کیا تھا۔ وہ اب تک ون ڈے میں 37.70 کی اوسط سے کل 3393 رنز بنا چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کور نے ٹی 20 میچوں میں بھی 3152 رنز بنائے ہیں۔ ہرمن پریت کور اب تک 150 سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی میچوں میں بطور کپتان کھیل چکی ہیں۔ اس معاملے میں انھوں نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg7rng4l97o
پاکستان ایمرجنگ ایشیا کپ کا فاتح: ’اب بس بابر اعظم کا انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا انتظار ہے‘
پاکستان کی اے کرکٹ ٹیم نے عمدہ کارکردگی کی بدولت ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو 128 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔ سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے گئے فائنل میچ میں انڈیا کی اے ٹیم کے کپتان یش دھول نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو ان کے لیے غلط ثابت ہوا۔ انڈیا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی اور پاکستان نے مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں پر 352 رنز بناتے ہوئے انڈیا کی اے ٹیم کو جیت کے لیے 353 رنز کا ہدف دیا۔ ہدف کے تعاقب میں انڈین اوپنرز نے پراعتماد انداز میں اننگز کا آغاز کیا لیکن پاکستان جلد ہی پہلی کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوا اور انڈیا کی پہلی وکٹ 64 رنز پر گر گئی۔ پاکستانی بولرز کے اٹیکنگ انداز نے انڈین بلے بازوں کو وکٹ پر جمنے نہ دیا اور انڈیا کی پوری ٹیم 224 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ ہدف کے تعاقب میں انڈین اوپنرز نے اننگز کا آغاز کیا اور پہلی وکٹ کے لیے 64 رنز بنائے لیکن سائی سدھرشن 29 رنز بنانے کے بعد ارشد اقبال کو وکٹ دے بیٹھے۔ اس کے کچھ دیر بعد نیکن جوس کی 11 رنز کی اننگز محمد وسیم جونیئر کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔ اس مرحلے پر ابھیشک کا ساتھ دینے کپتان یش دھول آئے اور دونوں نے ذمہ دارانہ کھیل پیش کرتے ہوئے تیسری وکٹ کے لیے 52 رنز جوڑے لیکن اس سے قبل کہ یہ شراکت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتی، سفیان مقیم نے 61 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلنے والے ابھیشک کو چلتا کیا۔ انڈین ٹیم کا مجموعی سکور 157 تک پہنچا ہی تھا کہ نیشانت سندھو بھی 10 رنز بنا کر آوٹ ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد انڈین اے ٹیم کے کپتان یش دھول بھی صرف 39 رنز بنانے کے بعد سفیان کو وکٹ دے بیٹھے۔ اس کے بعد پاکستانی بولر مہران ممتاز نے وکٹ کیپر دھروو جوویل اور ریان پراگ کی وکٹیں حاصل کر لی جبکہ سفیان مقیم نے ہرشت رانا کو آوٹ کر کے پاکستان کو آٹھویں وکٹ دلائی۔ راج وردھن بھی آتے ہی صرف 11 رنز بنا کر ارشد اقبال کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ پاکستان کی جانب سے سفیان مقیم سب سے کامیاب باؤلر رہے جبکہ محمد وسیم جونیئر، ارشد اقبال اور مہران ممتاز نے دو، دو وکٹیں اپنے نام کیں۔ پاکستانی اوپنرز صائم ایوب اور صاحبزادہ فرحان نے میچ کے آغاز سے ہی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کی اور پاور پلے میں فیلڈ کا فائدہ اٹھایا اور 17 اوورز میں 121 رنز کی شاندار شراکت قائم کی۔ اس شراکت کا خاتمہ اس وقت ہوا جب صائم 51 گیندوں پر سات چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 59 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔ صاحبزادہ فرحان نے 62 گیندوں پر چار چھکوں اور چار چوکوں کی مدد سے 65 رنز کی اننگز کھیلی۔ پاکستان کی ٹیم کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب 183 کے مجموعے پر عمیر بن یوسف کے آؤٹ ہونے کے بعد قاسم اکرم اور کپتان محمد حارث بھی یکے بعد دیگرے پویلین لوٹ گئے اور پاکستان کی اے ٹیم 187 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا بیٹھی۔ اس موقع پر ایسا لگا جیسے پاکستان کی اننگ جلد ہی ختم ہو جائے گی لیکن اس وقت پاکستانی بلے باز طیب طاہر نے آتے ہی وکٹ پر جارحانہ انداز سے انڈین بولرز کا مقابلہ کیا۔ انھوں نے نوجوان کھلاڑی مبصر خان کے ساتھ چھٹی وکٹ کے لیے 126 رنز کی شاندار شراکت بنانے کے ساتھ ساتھ عمدہ سنچری بھی سکور کی۔ وہ 71 گیندوں پر 12 چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے 108 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔ میچ کے اختتامی اوورز میں محمد وسیم جونیئر نے کچھ جارحانہ انداز اپنایا اور پاکستان اے ٹیم مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 352 رنز کا مجموعی سکور بورڈ پر سجانے میں کامیاب رہی۔ انڈیا کی اے ٹیم کی جانب سے ریان پراگ اور راج وردھن ہنگارگیکر دو، دو وکٹوں کے ساتھ کامیاب ترین بولر رہے۔ پاکستان اے نے میچ میں 128 رنز سے فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایمرجنگ ایشیا کے ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع بھی کر لیا۔ یاد رہے کہ 2019 میں ڈھاکہ میں کھیلے گئے ایمرجنگ ایشیا کپ فائنل میں پاکستان کی اے ٹیم نے بنگلہ دیش کو 77 رنز سے ہرایا تھا۔ اس ٹیم کے کپتان سعود شکیل تھے۔ پاکستان اے ٹیم کی جانب سے ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو شکست دینے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔۔۔کوئی آج دن اچھا ہونے کی بات کر رہا ہے تو کوئی ایک ہی دن میں کھیلوں کی دنیا سے پاکستان کے لیے دو بڑی خوشخبریوں کا ذکر کر رہا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ایسے میں ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’اب تو میں بس بے صبری سے 15 اکتوبر کو انڈیا اور پاکستان کے میچ کا انتظار کر رہا ہوں۔ بابر اعظم پورے انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائیں۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں اور ان کی صلاحیت پر یقین ہے کہ وہ اللہ نے چاہا تو جیت کر آئے گے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک جذباتی کرکٹ فین نے ورلڈ کپ 2023 کے پرومو کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ نے ہمیں پرومو سے ہٹایا ہم نے آپ کو فائنل سے نکال باہر کیا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک صارف نے طیب طاہر کی عمدہ بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ’پہلے سعود شکیل اور اب طیب طاہر ہمیں بچانے والے ثابت ہوئے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7yx1yj45eo
ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن حمزہ خان: ’برتری ملی تو خیال آیا کہ اب جیت گیا ہوں، لیکن اسے سر پر سوار نہیں کیا‘
آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلے جانے والے ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن شپ کے فائنل میں حمزہ خان نے مصر کے محمد زکریا کو شکست دے کر 37 برس بعد یہ ٹرافی پاکستان کو جتوا دی ہے۔ حمزہ خان نے پہلے سیٹ میں شکست کے بعد میچ میں بہترین واپسی کرتے ہوئے محمد زکریا کو تین ایک سے شکست دی۔ اس دوران کمنٹیٹر حمزہ خان کے ٹیلنٹ کو سراہتے رہے اور ان کی جیت پر ایک کمنٹیٹر نے کہا کہ ’حمزہ خان شو میں خوش آمدید۔۔۔ آج پاکستانی سکواش کی واپسی ہوئی ہے۔‘ اس سے قبل، سنہ 1986 میں آخری بار جان شیر خان پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے جونیئر سکواش چیمپیئن بنے تھے۔ اسی سال انھوں نے آسٹریلیا کے کریس ڈٹمر اور پاکستان کے جہانگیر خان کو شکست دے کر سینیئر ورلڈ اوپن بھی جیتا تھا۔ حمزہ خان نے اس تاریخی فتح کے بعد بی بی سی اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں 7-3 کی برتری میں تھا تو دل میں بار بار خیال آ رہا تھا کہ میں جیت گیا ہوں لیکن میں نے اس بات کو سر پر سوار نہیں کیا اور اپنا مکمل فوکس کھیل پر رکھا۔‘ 17 سال کے محمد حمزہ خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے گاؤں نواں کلی سے ہے۔ حمزہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اس جیت کے لیے رات کو تین، تین بجے اٹھ کر ٹریننگ کی ہے اور اس کے لیے میرے بابا نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور سردی ہو یا گرمی مجھے ٹریننگ کروائی۔ ’میں جب رات کوتین بجے اٹھ کر دوڑنے جاتا اور ٹریننگ کرتا تھا تو مجھے بابا مجھے ملک شیک کا گلاس بنا کے دیتے تھے۔ پھر دو گھنٹے فزیکل ٹریننگ کرتا تھا پھر ایک گھنٹہ آرام کے بعد پریکٹس کے لیے جاتا تھا۔ چھ گھنٹے میں سکواش کورٹ میں ہوتا تھا۔‘ خیال رہے کہ پاکستان 15 سال بعد سکواش کے کھیل میں کسی عالمی ٹرافی کے فائنل میں پہنچا تھا، اس سے قبل سنہ 2008 میں عامر اطلس خان نے ورلڈ جونیئر چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلا تھا جس میں انھیں شکست ہوئی تھی۔ حمزہ نے بتایا کہ ’میری والدہ ہر نماز میں میری جیت کی دعا کر رہی تھیں اور یہی حال میرے بابا کا تھا جنھوں نے ہر لمحہ میرا حوصلہ بڑھایا۔ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ پاکستان کے لیے 37 سال بعد یہ اعزاز جیتا اور ریکارڈ توڑا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام حمزہ نے اپنے آئندہ کے عزائم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تو جونیئر کا چیمپیئن بنا ہوں اور اب سینیئر چیمپین شپ جیتنا چاہتا ہوں، مگر مجھے اس کے لیے سپورٹ کی ضرورت ہے۔ حمزہ بتاتے ہیں کہ ’یہ خواب میرے دادا اور نانا کا تھا کہ میں پہلے جونیئر چیمپیئن بنوں اور پھر سینیئر، ان میں سے ایک خواب آج پورا ہوا اور دوسرے کی تکمیل کے لیے اب میں بھرپور محنت کروں گا۔‘ حمزہ کے والد نیاز اللہ خان سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بطور ایئر ٹریفک کنٹرول سپرانٹینڈینٹ کام کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے کا فائنل میچ انھوں نے اپنے گھر سے دور علاقے چراٹ میں دیکھا جہاں وہ ان دنوں تعینات ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حمزہ کی جیت پر میں خوشی سے رو رہا تھا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں زمین پر سجدہ شکر میں گر گیا۔ ’میں نے حمزہ کی والدہ سے بات کی تو وہ بھی خوشی سے روئے جا رہی تھیں اور زبان سے صرف شکر کے کلمات ادا ہو رہے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’حمزہ سے فون پر بات ہوئی تو میں نے اس کو کہا کہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ تم نے پاکستان کا جھنڈا پوری دنیا میں اونچا کیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’حمزہ کی آواز بیٹھی ہوئی تھی اور وہ جذبات پر قابو نہ پا کر رو رہے تھے لیکن میں نے اس کو تسلی دی کہ اب آگے تمھیں ورلڈ سینیئر چیمپیئن بننا ہے اس کے لیے تیاری کرو۔‘ خیال رہے کہ اس میچ سے قبل حمزہ خان نے 81 منٹ تک جاری رہنے والے سیمی فائنل میں فرانسیسی کھلاڑی میلول سیانیمینیکو کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ حمزہ کی ابتدائی دو صفر کی برتری کے بعد ملوان نے میچ میں واپسی کی اور مقابلہ دو دو سے برابر ہوا۔ تاہم پاکستانی سکواش کھلاڑی جم کر کھیلے اور بالآخر تین دو سے فاتح قرار پائے۔ پاکستان سکواش فیڈریشن کے سیکریٹری ظفریاب اقبال نے حمزہ کی فتح پر ردِ عمل دیتے ہوئے بتایا کہ اس بار ہم نے اپنی پرفارمنس پر بہت فوکس کیا۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بجائے اس کے کہ ہم بہت سارے لڑکے کھیلنے بھیجتے ہم نے اس بار صرف ایک کھلاڑی حمزہ خان کو کھیلنے بھیجا۔ ’جہاں انڈیا اپنے آٹھ کھلاڑیوں اور مصر اپنے 14 کھلاڑیوں کے ساتھ شرکت کر رہا تھا ہم نے اپنا ایک کھلاڑی بھیجا۔ اس کا سارا کریڈٹ پاکستان سکواش فیڈریشن کے صدر کو جاتا ہے کہ انھی کی یہ پلاننگ تھی کہ ہم نے اس چیمپیئن شپ میں کس حکمت عملی سے شریک ہونا ہے۔‘ ظفریاب اقبال نے حمزہ کے بارے میں بتایا کہ ’بچپن سے ہی وہ اپنے گھر کی دیواروں کے ساتھ پریکٹس کرتا تھا۔ سکواش بہت مہنگا کھیل ہے جس کے لیے کورٹ، سکواش کی گیند، ریکٹ اور شوز چاہیے ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے والدین نے بچپن سے ہی ان کی حوصلہ افزائی کی۔‘ ظفریاب اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہم حمزہ حان کے والدین کے شکر گزار ہیں اور اس جیت میں ان کے والدین کی بھی محنت شامل ہے۔ ’حمزہ کے ابتدائی کوچ ان کے والد نیاز تھے۔ دور دراز پوسٹنگ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے بچے پر فوکس رکھا۔‘ ’اس سارے عرصے میں حمزہ کی والدہ ان کی ایک طرح سے مینٹور رہی ہیں اور اسی طرح تمام کوچز کی محنت بھی اس جیت میں شامل ہے۔‘ حمزہ کی والدہ کی خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر چیمپیئن بنے اور اس کے لیے ابھی حمزہ نے میٹرک کے پریکٹیکلز دیے ہیں۔ ’حمزہ کے دادا نے اپنی وفات سے پہلے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں تمھیں ورلڈ چیمپیئن دیکھنا چاہتا ہوں اور آج ان کے دادا کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام نوجوانوں اور پاکستان کے ہر باشندے کا خواب پورا ہوا ہے۔‘ ظفریاب اقبال کے مطابق ’سنہ 1986 میں جان شیر خان نے چیمپیئن شپ جیتی تھی جس کے بعد آج ہم جیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے سمیت مختلف ڈپارٹمنٹ سپورٹ کرتے تھے۔ آج کے میچ میں پوری دنیا سے 128 کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا جن سب کو ہرا کر اس نے پاکستان کا پرچم بلند کیا۔‘ کئی سال سے حمزہ اس پختہ ارادے سے سکواش کھیل رہے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کو دوبارہ عالمی چیمپیئن بنانا ہے۔ انھوں نے قریب دو سال قبل ہی اپنے اس ارادے کا اظہار کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک بار پھر سکواش کا عالمی چیمپیئن بنائیں گے۔ 2020 میں برٹش جونیئر سکواش چیمپیئن بننے پر انھوں نے کہا تھا کہ ان کا ’مستقبل کا ہدف ورلڈ چیمپیئن بننا ہے۔‘ دسمبر 2021 میں وہ امریکہ میں ٹریننگ میں مصروف تھے جب انھوں نے اخبار دی نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن شپ کا بے صبری سے منتظر ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں 36 سال کا قحط ختم کروں گا۔‘ انھوں نے امریکی شہر فلاڈیلفیا میں 2021 کے دوران یو ایس جونیئر اوپن جیتا تھا۔ حمزہ خان کے مطابق یہ مقابلہ کھیلنے کے لیے انھیں ان کے والد نے ٹکٹ خرید کر دیا تھا جو کہ سول ایوی ایشن میں ملازمت کرتے ہیں۔ فروری 2023 کے دوران نور زمان اور حمزہ خان نے چنائی میں پاکستان کو انڈیا کے خلاف ایشین جونیئر سکواش چیمپیئن شپ 2023 میں فتح دلائی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم پر دباؤ تھا، یہ ان (انڈیا) کا ہوم گراؤنڈ تھا اور ریفری بھی انھی کا تھا۔ لیکن ہم نے اس دباؤ کو سر پر سوار نہیں کیا بلکہ سکواش کی طرف توجہ رکھی اور فائنل جیت گئے۔‘ حمزہ خان نے گذشتہ سال بتایا تھا کہ وہ عالمی ٹورنامنٹس کھیل کر اپنی رینکنگ بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر بعض اوقات انھیں قومی سطح پر کھیلنے کے لیے اپنی رینکنگ کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ انھوں نے بوسٹن میں اپنے ماموں شاہد زمان خان کے ساتھ ٹریننگ کی ہے جو پاکستان کے بہترین سکواش کھلاڑیوں میں سے ایک اور سابق ورلڈ نمبر 14 رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ہیوسٹن میں جہانزیب خان اور مصری کوچ عمر عبدالعزیز کے ساتھ ٹریننگ کی۔ حمزہ خان نے بتایا تھا کہ انھیں امریکہ میں بہتر ٹریننگ مل رہی تھی۔ ’میں نے (وہیں رہنے کے لیے) فیڈریشن سے کئی بار درخواست کی مگر وہ نہیں مانے۔‘ انھوں نے کہا کہ امریکہ میں ریکٹ اور جوتوں کی فکر نہیں ہوتی مگر پاکستان میں ’ریکٹ مانگنے کے لیے تین جگہ دستخط کرنے پڑتے ہیں۔‘ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’ادھر میرا دل تنگ ہوگیا تھا کیونکہ یہاں سپورٹ نہیں ملتی تھی۔‘ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ مستقبل بنیادوں پر بیرون ملک منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے۔ ’مجھے کافی جگہوں سے پیشکش ہوئی کہ یہاں سے کھیلیں مگر بابا نے کہا آپ پاکستان کے کھلاڑی ہو اور پاکستان میں کھیلو گے۔‘ عالمی اعزازات ملنے کے بعد بھی انھیں پاکستان میں ’کہیں سے کوئی انعام نہیں ملا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp4nqy97v14o
چھ دن ڈرم بجا کر عالمی ریکارڈ بنانے والا شخص: ’اگر کوئی یہ ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے تو میں مدد کرنے کو تیار ہوں‘
شمالی آئر لینڈ کے 45 سالہ ایلسٹر براؤن نے ڈرم بجانے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سے قبل 134 گھنٹے تک ڈرم بجا کر ایلسٹر نے ہی ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا تاہم اس بار انھوں نے 150 گھنٹے تک ڈرم بجا کر اپنا ہی ریکارڈ بہتر کیا۔ یہ ریکارڈ بنانے میں ان کو چھ دن لگے۔ انھوں نے گزشتہ اتوار کو ڈرم بجانا شروع کیا تھا اور ہفتے کے دن ریکارڈ قائم کرنے کے بعد یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ ایلسٹر نے اپنی پارٹنر شیرون ڈیگن کی یاد میں یہ کام کیا جو سرطان کی وجہ سے جنوری 2021 میں وفات پا گئی تھیں۔ اپنے نیا عالمی ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ ان کے دوستوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹنر کی یاد نے ان کو کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی۔ انھوں نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’میں شیرون کی یاد میں یہ کرنا چاہتا تھا۔‘ اس سے پہلے بھی ایلسٹر ڈرم بجانے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ 2003 میں انھوں نے 58 گھنٹے تک ڈرم بجایا تھا اور پھر 2008 میں 103 گھنٹے تک ڈرم بجا کر انھوں نے ایک بار پھر ریکارڈ قائم کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کی کوششوں نے ہی ان کو اس بار ریکارڈ توڑنے میں مدد دی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرے لیے بہترین تجربہ تھا کہ کیسے تیار ہونا ہے، کس طرح اس دوران مختلف صورت حال سے نمٹنا ہے۔‘ واضح رہے کہ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے قوانین کے تحت ایلسٹر اس ریکارڈ کو بنانے کی کوشش کے دوران ہر ایک گھنٹے کے بعد پانچ منٹ کا وقفہ لے سکتے تھے۔ انھوں نے ہر بار وقفہ نہیں لیا تاکہ وہ یہ وقت اکھٹا کر سکیں اور زیادہ دیر کے لیے آرام کر سکیں۔ تاہم جمعے کی صبج تک، جب ان کو ڈرم بجاتے ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے، ایلسٹر صرف دو گھنٹے کے لیے ہی سو سکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک چیلنج تھا جس میں ذہن کی برداشت کا امتحان تھا۔ کسی وقت ذہن بھٹک سکتا ہے اور اسی لیے میری ٹیم وہاں موجود تھی۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا جسم صبح سویرے مجھے سونے پر مجبور کر سکتا ہے تو میری ٹیم کا کام تھا کہ مجھے جگا کر رکھے تاکہ میں درست وقت پر وقفہ لوں اور ضرورت کے حساب سے آرام کروں۔‘ ان کی یہ کوشش لائیو دکھائی جا رہی تھی جس کا ایک مقصد خیراتی کام میں مدد کرنا تھا۔ ایلسٹر نے بتایا کہ ’شیرون کی وفات کے بعد میں نے پینکرئیٹک کینسر چیریٹی کے لیے پیسہ اکھٹا کیا اور اب میں مائنڈ نامی تنظیم کے لیے بھی پیسے اکھٹے کر رہا ہوں کیوں کہ شیرون کی وفات کے بعد مجھے بھی ذہنی صحت کے مسائل سے گزرنا پڑا تھا۔‘ واضح رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ ریکارڈ کئی بار ٹوٹ چکا ہے۔ اگرچہ اس بار ان کا دورانیہ کافی متاثر کن ہے، ایلسٹر کا ماننا ہے کہ ان کا نیا ریکارڈ بھی توڑا جا سکتا ہے۔ ’کچھ بھی ناممکن نہیں اگر آپ کے ساتھ درست لوگ ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی یہ ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے تو میں ان کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔‘ انھوں نے ریکارڈ توڑنے کے بعد کے ارادے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے تو میں بیٹھنے کے لیے کوئی آرامدہ جگہ تلاش کروں گا اور پھر شاید میں سو جاؤں گا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1n97w73jzo
’اسرافیل نہ ہوتا تو میں عزرائیل کے ساتھ جا چکا ہوتا‘
نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش میں اس کے کیمپ فور پر پھنس جانے والے پروفیسر ڈاکٹر آصف محمود بھٹی کی زندگی بچانے میں آزربائیجان کے مشہور کوہ پیما اسرافیل نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر آصف نے بی بی سی اردو کے عبید ملک سے خصوصی گفتگو کی اور اپنے اس سفر کی کہانی سُنائی۔۔۔ ایڈیٹنگ: نئیر عباس فلمنگ: کاشف باجوہ
https://www.bbc.com/urdu/articles/cllgr8mg1z3o
کرکٹ ورلڈ کپ کے اشتہار میں شاہ رخ کا ٹرافی کے ساتھ ’رومانس‘ مگر آئی سی سی ’بابر کو بھول گیا‘
بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رُخ خان کا ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ساتھ رومانس جبکہ وکٹ لینے کے بعد شاہین آفریدی کا اپنے مخصوص انداز میں جشن۔۔۔ یہ دونوں چیزیں رواں برس ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے بنائی گئی تشہیری ویڈیو میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انڈیا کی میزبانی میں یہ ورلڈ کپ پانچ اکتوبر سے شروع ہو گا مگر اس کے حوالے سے جوش، جذبہ اور انتقام جیسے جذبات ابھی سے ابھرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں بعض فینز کو ’اِٹ ٹیکس ون ڈے‘ نامی یہ تشہیری فلم بہت پسند آئی ہے وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس میں اپنی ٹیموں کی نمائندگی سے خوش نہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس میں زیادہ توجہ انڈیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں کو دی گئی ہے۔ جیسے کئی پاکستانی فینز نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اس اشتہار میں ون ڈے فارمیٹ کے عالمی نمبر ون بلے باز بابر اعظم کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ تو آخر اس ایڈ میں ایسا کیا ہے، اسے کیوں اور کس نے بنایا ہے؟ دراصل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے رواں سال ورلڈ کپ کے لیے ایک نئی تشہیری مہم کا آغاز کیا۔ اس کے تحت ایک روزہ کرکٹ کے عالمی مقابلے پر ایک تشہیری فلم بنائی گئی ہے جس کا عنوان ’اِٹ ٹیکس ون ڈے‘ ہے، یعنی ایک دن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس اشہار کا آغاز گذشتہ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان اوین مورگن سے ہوتا ہے اور انڈیا کے سابق بلے باز یووراج سنگھ کو جیت کا جشن مناتے دیکھا جاتا ہے۔ پھر ویرات کوہلی کی فیلڈنگ کی جھلک کے بعد سچن تندولکر کی پُل شاٹ دکھائی جاتی ہے۔ ایک لمحے پر وہاب ریاض خاصے پریشان نظر آتے ہیں مگر پھر بظاہر ایک انڈین شخص مایوس پاکستانی فین کو حوصلہ دیتا ہے۔ روہت شرما شاداب کو چھکا لگاتے ہیں اور شاہین وکٹ لینے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں جشن مناتے ہیں۔ اس اشتہار کا اختتام دھونی کے چھکے اور پھر شبھمن گل پر ہوتا ہے۔ اس مہم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہندومت کی روایت ’نواراسا‘ کے نو جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میچ کے دوران کرکٹرز اور شائقین نو طرح کے مختلف جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ تو یہ نو جذبات کون سے ہیں؟ آئی سی سی کی پریس ریلیز کے مطابق اس اشتہار میں جن نو جذبات کی عکاسی کی گئی ہے ان میں تکلیف، بہادری، عظمت، خوشی، جذبہ، طاقت، فخر، احترام اور حیرانی ہیں۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’جذبات کے اس رولر کوسٹر کا تجربہ کرنے کے لیے صرف ایک دن درکار ہوتا ہے۔‘ اس اشتہار میں بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان کے علاوہ معروف کھلاڑی جے پی ڈومینی، شبھمن گل، دنیش کارتک، موجودہ ورلڈ کپ فاتح اوین مورگن، متایا مُرلیدھرن، جونٹی روڈز اور دیگر شامل ہیں۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ اس اشتہاد میں مینز کرکٹ ورلڈ کپ کے سب سے تاریخی لمحات کو شامل کیا گیا ہے۔ آئی سی سی کے سربراہ جیوف الاردیس نے اس کی رونمائی کے موقع پر کہا ہے کہ ’کرکٹ اور سنیما انڈیا کے دل میں بستے ہیں اور اس لیے ہم نے دونوں کا امتزاج پیش کیا ہے۔ بالی وڈ سپر سٹار شاہ رخ خان اور کرکٹرز کی اس لائن اپ کے ساتھ ہمارا اس ملک سے تعلق مزید گہرا ہو گا جس سے ہم دنیا بھر کی توجہ بھی حاصل کر سکیں گے۔‘ ادھر بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ نے کہا کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2023 اس کھیل کی عظمت، ثقافتی تنوع اور اتحاد کی قوت کا جشن ہو گا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اگر بات اس تشہیری فلم پر آنے والے ردعمل پر کی جائے تو فینز کی ایک بڑی تعداد اس میں شاہ رُخ خان کو ٹرافی کے ساتھ ’رومانس‘ کرتا دیکھ کافی خوش ہے۔ شاہ رخ کی ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ تصویر پر سندھیہ نامی صارف نے کہا کہ اداکارہ انوشکا شرما نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’شاہ رخ ایک مائیک کے ساتھ بھی رومانس کر سکتے ہیں۔ وہ اس مائیک کو اسی محبت کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں جیسے وہ دنیا کی سب سے خوبصورت خاتون ہو۔‘ سنکت راج پٹیل نے تبصرہ کیا کہ ’کوئی کیسے ٹرافی کو دیکھنا اتنا رومینٹک بنا سکتا ہے؟ اس تصویر میں بہت زیادہ کمسٹری ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 دریں اثنا پاکستانی فینز کی ایک بڑی تعداد نے اس تشہیری فلم کو اس لیے پسند نہیں کیا کیونکہ اس میں ملک کے کرکٹرز بشمول کپتان بابر اعظم کو دکھایا نہیں گیا۔ جبران نامی ایک صارف نے اس ویڈیو کا مکمل تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس میں پاکستان میں ذکر سات بار آتا ہے: ’پتلے نے جرسی پہن رکھی ہے، وہاب ریاض پریشان ہیں، شاداب کی دو بار پٹائی ہوتی ہے، عامر بولڈ ہو جاتے ہیں، شاہین جشن مناتے ہیں، ایک پاکستانی فین پریشان ہے، انضمام رن آؤٹ ہوتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ ویڈیو میزبان ملک نے بنائی ہے مگر اشتہار آئی سی سی کے لیے ہوتا ہے۔‘ مہر تارڑ نے لکھا کہ یہ عمدہ اشتہار ہے مگر اس میں پاکستانی پرچم کو جان بوجھ کر حذف کیا گیا۔ پاکستانی اداکارہ ماورا خان نے کہا کہ ’نہ جانے کتنی بار ہم سے ایسا برتاؤ کیا جائے مگر ہم تمام رکاوٹیں عبور کر کے دوبارہ سب سے اوپر پہنچ جاتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کرکٹ تجزیہ کار جارج ڈوبیل نے کہا کہ اس میں انڈیا اور انگلینڈ کا کافی زیادہ ذکر ہے جبکہ پاکستان کو کم دکھایا گیا ہے۔ ویسٹ انڈیز اس بار ورلڈ کپ کا حصہ نہیں مگر اس کے باوجود اس کے کھلاڑیوں کو دکھایا گیا ہے۔ ’کرکٹ کی دنیا بہتر کی مستحق ہے۔‘ آمنہ انصاری بھی آئی سی سی سے پوچھتی ہیں کہ ’بابر کو بھول گئے؟ چلو ہم تاریخ لکھنے میں میچز کے دوران آپ کی مدد کریں گے۔۔۔‘ خیال رہے کہ بابر اعظم اس وقت ون ڈے میں بلے بازوں کی رینکنگ میں سرفہرست ہیں۔ کشف نے تبصرہ کیا کہ ’یہ اشتہار اس سوچ کے ساتھ بنایا گیا کہ ٹرافی تو انڈیا کی ہے، باقی ٹیمیں مہمان ہیں اور پاکستان کھیل ہی نہیں رہا۔‘ پاکستان کے علاوہ بعض دیگر ٹیموں کے فینز نے بھی اس ویڈیو پر اعتراض کیا۔ بشیر غروال پوچھتے ہیں کہ ’کیا یہ ورلڈ کپ کا پرومو ہے؟ افغانستان وہ ٹیم ہے جس نے براہ راست کوالیفائی کیا مگر اسے دو منٹ کی ویڈیو میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہ دکھایا گیا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmre8dr082o
گال ٹیسٹ: امام کی نصف سنچری نے پاکستان کو سیریز میں ایک صفر کی برتری دلا دی
گال میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو چار وکٹوں سے شکست دی ہے اور دو میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔ کھیل کے آخری روز پاکستان کو جیت کے لیے 83 رنز درکار تھے اور اس کی چھ وکٹیں گِر چکی تھیں مگر اوپنر امام الحق کی نصف سنچری کی بدولت پاکستان نے 131 رنز کا ہدف حاصل کر لیا۔ سعود شکیل نے 30 جبکہ بابر اعظم نے 24 رنز بنا کر ان کا ساتھ دیا۔ سری لنکن سپنر پرابتھ جیسوریا نے پانچویں روز بھی پاکستانی بلے بازوں پر دباؤ برقرار رکھا اور 56 رنز دے کر کل چار وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے عبدااللہ شفیق، شان مسعود، بابر اعظم اور سرفراز احمد کو آؤٹ کر کے پاکستان کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ آٹھویں نمبر پر آئے آغا سلمان نے پہلی ہی گیند پر چھکا لگا کر وننگ رنز سکور کیے۔ پاکستان کی پہلی اننگز میں ڈبل سنچری بنانے والے بلے باز سعود شکیل کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں صرف پارٹنرشپ بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور مثبت انداز میں رنز کی تلاش میں تھا۔ ’ہم سویپ اور ریورس سویپ کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہمیں معلوم تھا کہ ایسا ضروری ہوگا۔ میں کراچی سے ہوں اور وہاں بھی سپنرز کا سامنا کر چکا ہوں۔‘ کپتان بابر اعظم نے کہا کہ میچ جیتنے سے ٹیم کو اعتماد ملا ہے۔ ’عمدہ کارکردگی پر تمام کریڈٹ نوجوان کھلاڑیوں کو جاتا ہے۔‘ خیال رہے کہ دو میچوں کی ٹیسٹ سیریز کا اگلا میچ 24 جولائی سے کھیلا جائے گا۔ چوتھے روز کے اختتام پر پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 48 رنز بنا رکھے تھے جبکہ کریز پر کپتان بابر اعظم اور اوپنر امام الحق موجود تھے۔ سری لنکا کے 131 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی جانب سے دوسری اننگز کا آغاز مایوس کن رہا اور ابتدا میں ہی عبداللہ شفیق آٹھ، شان مسعود سات اور نعمان علی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ گذشتہ روز مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل کی شاندار ڈبل سنچری کی بدولت پاکستانی ٹیم اپنی پہلی اننگز میں سری لنکا پر 149 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد 461 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔ میچ کے تیسرے روز سری لنکا نے دن کے آخری حصے میں اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا تھا اور دن کے اختتام تک بغیر کسی نقصان کے 14 رنز بنائے تھے۔ چوتھے روز سری لنکا کے اوپنر نیشان مادھشکا آٹھ اور دیمتھ کرونارتنے نے چھ رنز کے ساتھ اپنی اننگز کا آغاز کیا لیکن جلد ہی پاکستان کو پہلی کامیابی ملی اور دیمتھ کرونارتنے 20 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، وہ سپنر ابرار احمد کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد 79 کے مجموعے پر کوشل مینڈس 18 رنز کے انفرادی سکور پر نعمان علی کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ پاکستانی باؤلرز نے نپی تلی باؤلنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور تجربہ کار بلے باز اینجلو میتھیوز کو بھی صرف سات رنز پر نعمان علی نے پویلین کی راہ دکھائی۔ نیشان مدھشکا نصف سنچری بنانے کے بعد وکٹ کیپر سرفراز احمد کو کیچ دے بیٹھے، 52 رنز بنانے والے بلے باز کی وکٹ بھی بائیں ہاتھ کے سپنر نعمان علی نے حاصل کی۔ دوسرے اینڈ سے پہلی اننگز کے ہیرو دھننجیا ڈی سلوا نے اپنی شاندار فارم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک اور بہترین اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو بہتر مجموعے تک رسائی دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس دوران دنیش چندیمل 28 کے انفرادی سکور پر آغا سلمان کی گیند پر امام الحق کو کیچ دے بیٹھے اور اس مرحلے پر سری لنکا کی آدھی ٹیم 159 رنز پر پویلین لوٹ چکی تھی۔ سری لنکا کو چھٹا نقصان 175 رنز پر سدیرا سماراوکراما کی صورت میں اٹھانا پڑا، جو 11 رنز بنا کر آغا سلمان کا شکار بنے۔ سری لنکا کے ڈی سلوا اور رمیش مینڈس نے 76 رنز کی شراکت قائم کر کے سری لنکا کے مجموعی سکور میں بہتری کی تاہم پاکستانی سپنر ابرار نے رمیش مینڈس کی 42 رنز کی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ جبکہ شاہین شاہ آفریدی نے دھننجیا ڈی سلوا کو 82 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ ان کے بعد آنے والی سری لنکن بلے باز پرباتھ جےسوریا بھی 10 کے سکور پر شاہین آفریدی کا شکار بنے۔ سری لنکا کے آخری کھلاڑی کاسن راجیتھا کو ابرار احمد نے پانچ رنز پر چلتا کیا اور اس طرح سری لنکا کی پوری ٹیم دوسری اننگز میں 279 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی اور پاکستان کو جیت کے لیے 131 رنز کا ہدف دیا۔ پاکستان کی ٹیم نے آسان ہدف کی جانب متاثر کن آغاز نہیں کیا اور اننگز کی ابتدا ہی میں 16 کے مجموعے پر عبداللہ شفیق جے سوریا کی گیند پر صرف آٹھ رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ ان کے بعد آنے والے پاکستانی بلے باز شان مسعود بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے اور مجموعے میں صرف سات رنز کا اضافہ کر کے جے سوریا کو دوسری وکٹ دے بیٹھے۔ پاکستان کی جانب دن کے اختتامی لمحات میں سپنر نعمان علی پہلے نمبروں پر بیٹنگ کے لیے آئے لیکن بنا کوئی رن بنائے رن آؤٹ ہو گئے۔ گال ٹیسٹ کے چوتھے روز کھیل کے اختتام پر پاکستان نے 131 کے ہدف کے تعاقب میں تین وکٹوں پر 48 رنز بنائے ہیں اور اسے جیت کے لیے مزید 83 رنز درکار ہیں۔ اس وقت کریز پر امام الحق 25 اور کپتان بابر اعظم چھ رنز پر کھیل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گال میں کھیلے جارہے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور پہلی اننگز میں دھننجیا ڈی سلوا کی سنچری کی بدولت 312 رنز بنائے تھے جبکہ پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں سعود شکیل کی شاندار ڈبل سنچری کی مدد سے 461 رنز بنا کر اننگز میں 149 رنز کی برتری حاصل کر لی تھی۔ واضح رہے کہ یہ سیریز آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا حصہ ہے۔ اگر آج کے دن کے کھیل پر پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کے تبصروں پر نظر دوڑائیں تو بہت سے تو اب تک سعود شکیل کی شاندار بلے بازی اور ڈبل سنچری کے خمار سے ہی نہیں نکلے ہیں۔ تاہم آج کے دن کے کھیل پر سب تبصروں میں سب سے پہلے بابر اعظم کا نام آتا ہے اور وہ بھی جب آج سری لنکا کی اننگز کے آغاز میں ہی انھوں نے نعمان علی کی گیند پر سلپ میں میتھوز کا شاندار کیچ پکڑا۔ اس پر لوگ ان کی فٹنس اور اچھی فیلڈنگ کو داد دے رہے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 جبکہ کچھ تو طنزاً کہہ رہے ہیں کہ ’ابھی وہ کہتے ہیں کہ بابر اعظم کو فٹنس مسائل کا سامنا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 شہریار نامی صارف نے بابر اعظم کی کپتانی اور پاکستان کی ٹیم کی فیلڈنگ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے پاکستانی ٹیم کی اتنی عمدہ فیلڈنگ اور کیچنگ کبھی نہیں دیکھی۔ بابر اعظم کی کپتانی کے بعد سے ہماری ٹیم کی فیلڈنگ میں بہتری آئی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 محمد علی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہر سیریز یا میچز سے ہماری ٹیم سیکھ رہی ہے اور یہ ماضی کے مقابلے میں بہتر ہو رہی ہے۔‘ جبکہ سعد نامی صارف نے بھی اس ٹیسٹ میں پاکستان کی مستحکم پوزیشن کا سہرا بہتر فیلڈنگ اور بابر اعظم کی کپتانی کے سر سجایا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اسی طرح جب میچ کے دوران پاکستان نے دوسرا نیا گیند لینے کے بعد شاہین آفریدی نے یکے بعد دیگرے دو کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تو اس پر بھی بابر اعظم کی کپتانی کو ہی سراہا گیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 لیکن جو بھی ہو ہم پاکستانی کرکٹ شائقین کو ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے ہر وقت ایک دھڑکا ضرور لگا رہتا ہے اور اسی لیے شاید نینا انصاری نامی صارف پاکستان کی جیت کی امیدیں صرف بابر اعظم کے ساتھ باندھے بیٹھی ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
https://www.bbc.com/urdu/articles/cq5y4987r90o
’اگر اسرافیل نا پہنچتا تو میں عزرائیل کے ساتھ کہیں جا چُکا ہوتا‘
’اگر اسرافیل نا پہنچتا تو میں عزرائیل کے ساتھ کہیں جا چُکا ہوتا‘۔ یہ الفظ ہیں پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی کے جو نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر ’سنو بلائنڈنیس‘ کا شکار ہوئے اور 24 گھنٹے سے زیادہ اُسی مقام پر پھنسے رہے۔ تقریباً ایک دن کے بعد آصف نے آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے نیچے کا سفر شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر آصف بھٹی نے ریاضی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور وہ سنہ 2006 سے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اُن کی اہلیہ بھی پی ایچ ڈی ہیں اور ان کے تین بیٹے ہیں۔ آصف نے بتایا کہ وہ اپنے طلبہ کو مختصر سیر، ابتدائی سطح کے ٹریکنگ ٹرپس، اور پھر ایڈوانس لیول ٹریکنگ، جیسے نانگا پربت بیس کیمپ، راکا پوشی بیس کیمپ، واخان کوریڈور وغیرہ کے لیے لے جاتے تھے۔ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ’آصف نے مُجھ سے دوسری شادی کی ہے پہلی شادی انھوں نے پہاڑوں سے کی ہوئی ہے۔‘ الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اس سے قبل ڈاکٹر آصف بھٹی نے آٹھ ہزار میٹر سے اونچی براڈ پیک بھی سر کرنے کی کوشش کی مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس سے پہلے وہ سات ہزار میٹر سے بلند سپانٹک چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ پانچ اور چھ ہزار میٹر کے کئی پہاڑ سر کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر آصف نے کہا کہ ’ایسا نہیں تھا کہ میں بس ایک دن نیند سے جاگا اور نانگا پربت سر کرنے کے لیے نکل پڑا میرے پاس 20 سال کا تجربہ ہے۔‘ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ ’نانگا پربت سے مجھے عشق ہے اور میں گزشتہ 15 سال سے متعدد مرتبہ نانگا پربت پر جا چُکا ہوں حتٰی کہ میرے تینوں بیٹے بھی نانگا پربت کے بیس کیمپ تک جا چُکے ہیں۔‘ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ اس مرتبہ کوہ پیمائی میں اُن کے اُستاد کرنل ریٹائرڈ عبدالجبار بھٹی نے اُنھیں نانگا پربت کے سمٹ کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ کرنل عبدالجبار بھٹی پاکستان کے نامور کوہ پیماؤں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے ماؤنٹ ایورسٹ، براڈ پیک اور جی ٹو سر کر رکھی ہیں۔ ڈاکٹر آصف بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے نانگا پربت پر پھنس جانے اور سنو بلائنڈنس کا شکار ہونے کے بعد میڈیا پر یہ تاثر دیا گیا کہ شاید میں اکیلا تھا مگر ایسا نہیں تھا میں ایک تجربہ کار ٹیم کے ساتھ تھا اور میرے ساتھ ایک ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر بھی تھے، ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ میں اُن سے پہلے نانگا پربت کے کیمپ فور پر پہنچ گیا تھا۔‘ ڈاکٹر آصف کے مطابق ’میری ٹیم مُجھ سے پہلے نانگا پربت کے بیس کیمپ کے لیے نکل چُکی تھی اور میں نے اسلام آباد سے اپنے سفر کا آغاز آٹھ جون کو کیا۔ 10 جون کو ایک دن آرام کے بعد میں نانگا پربت پر 4900 میٹر کی بلندی پر موجود کیمپ ون پر گیا، ایک رات گُزارنے کے بعد واپس آ گیا۔‘ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ کوہ پیما اپنے آپ کو کسی بھی چوٹی کو سر کرنے سے پہلے وہاں کے موسم سے خود کو عادی بنانے کے لیے چوٹی پر موجود کیپمس پر یا اُونچائی کی جانب جاتے اور واپس آجاتے ہیں اور جب موسم اور حالات کے ساتھ وہ اپنے آپ کو مکمل فٹ سمجھتے ہیں تو تب وہ چوٹی کو سر کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں جسے ٹیکنیکل زبان میں سمٹ کو ’ایگزیکیوٹ‘ کرنا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف بھٹی بھی 10 جون کی کوشش کے بعد 12 جون کو نانگا پربت کے کیمپ ون پہنچے جہاں موسم خراب ہونے پر اُنھیں 18 جون تک قیام کرنا پڑا۔ موسم ٹھیک ہوتے ہی انھوں نے 19 جون کو ایک اور کوشش کی۔ 20 جون کو وہ 5900 میٹر تک پہنچے اور 21 جون کو کیمپ واپس آئے۔ اسی دوران ناروے کی نامور کوہ پیما کرسٹن ہریلا، جو کے ساجد سدپارا کے ساتھ تھیں، نے نانگا پربت کو سمٹ کیا اور واپس بیس کیمپ پہنچیں۔ ڈاکٹر آصف کے مطابق اُنھوں نے 30 جون کو یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ سمٹ کی کوشش کریں گے۔ رات میں موسم صاف ہوتے ہی اُنھوں نے کیمپ ون سے کیمپ ٹو کا سفر کیا۔ ایک دن کے آرام کے بعد اُنھوں نے کیمپ ٹو سے کیمپ تھری کا سفر کیا۔ لیکن ڈاکٹر آصف کی طبعیت بگڑ گئی اور جب اُنھیں سنو بلائنڈنس کا سامنا کرنا پڑا تب اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ ’اب آگے نہیں واپس نیچے بیس کیمپ جانا ہے۔‘ ڈاکٹر آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے کیمپ تھری سے فور کی جانب اپنا سفر شروع کیا تو موسم اچھا تھا مگر رات کا وقت تھا اور چاند 16ویں کا تھا، چاند کی چمک کی وجہ سے پہلے مجھے تکلیف شروع ہوئی اور جب ایک دم سے تیز ہوائیں چلنے لگیں تو میری آنکھیں دھندلا گئیں۔‘ ڈاکٹر آصف کے مطابق ’یہ وہ وقت تھا کہ جب میں ٹھیک سے دیکھ نہیں پا رہا تھا، میں سُرخ اور پیلے رنگ میں فرق بھی نہیں کر پا رہا تھا، باوجود کوشش کے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب مجھے مدد کی ضرورت ہے اور میں نے بیس کیمپ سے ریڈیو کی مدد سے رابطہ کیا اور اُنھیں اپنی صحت سے متعلق آگاہ کیا۔‘ ڈاکٹر آصف نے جب بیس کیمپ پر مدد کی اپیل کی تب صبح کے چار بج رہے تھے۔ اُن کے پورٹر اُن تک نہیں پہنچ پائے۔ ڈاکٹر آصف کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ سمٹ آکسیجن کے بغیر کرنا تھی لیکن میں احتیاط کی غرض سے وہ بھی سامان میں شامل کیا تھا، مگر کیمپ فور پر میرے پاس نا تو میرا آکسیجن سلنڈر تھا، نا میرا خیمہ اور نا ہی پینے کے لیے پانی کا بندوبست، یہ تمام چیزیں میرے ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر کے پاس تھیں جو مجھ تک نہیں پہنچ سکا۔‘ کوہ پیما محبوب علی کے مطابق سنو بلائنڈنیس کوہ پیمائی کے دوران کوہ پیماؤں کو متاثر کرنے والی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں پر سنو بلائنڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کی عینک استعمال کی جاتی ہے۔ محبوب علی کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ریفلیکشن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا۔‘ محبوب علی کے مطابق ’وقتی طور پر اس سے مسائل ہوتے ہیں بالخصوص اتنی بلندی پر تو بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب اتنی بلندی پر آنکھیں کھولنا ممکن ہی نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹروں کے مطابق سنو بلائنڈنیس ’فوٹو کیریٹائٹسائر‘ کی ایک شکل ہے جو برف اور برف سے منعکس یا ری فلیکشن سے ہونے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مکمل طور پر قابل علاج اور اکثر وقتی ہوتی ہے۔ یاد رہے نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس چوٹی کو فتح کرنے کی خواہش میں اب تک 86 کوہ پیما زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس پر ہلاکتوں کی شرح 21 فیصد ہے۔ ڈاکر آصف کو سنو بلائنڈنس کے ساتھ ایک اور جو مسئلہ ہوا وہ یہ تھا کہ وہ کُچھ باتیں بھول بھی گئے۔ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ ’اب آہستہ آہستہ مجھے فراسٹ بائٹ کا سامنا تھا جس کی وجہ سے میری ناک اور میرے ہاتھوں کی اُنگلیاں اور پاؤں متاثر ہونا شروع ہوئے، میں اپنے جسم کو گرم رکھنے کی کوشش میں تھا اور میرا مقابلہ نانگا پربت کی جما دینے والی تیز ٹھنڈی ہواؤں سے تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی تینوں کوہ پیماوں کی مدد سے بیس کیمپ پہنچ گئے شہروز کاشف: نانگا پربت سر کرنے والے کوہ پیما اور ان کے گائیڈ کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون جنکو تابئی کا پہاڑوں سے معاشقہ کبھی ختم نہیں ہوا کوہ پیمائی کی دوران فراسٹ بائٹ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی وجہ سے انسانی جلد اور اس کے نیچے موجود خون کی نالیاں منفی درجہ حرارت کی وجہ سے جمنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آصف کے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں، اُن کی ناک اور دونوں پاؤں فراسٹ بائٹ کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ ’میں نانگا پربت پر صبح چار بجے برف پر ہی لیٹ گیا، میرا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی مدد نہیں پہنچتی تو میں تھوڑے آرام کے بعد اس قابل ہو جاؤنگا کہ میں واپسی کا سفر کر سکوں گا، مگر جب مجھے اسرافیل نے جگایا اور پوچھا کہ کیسے ہو تو میں نے اُنھیں کہا ہاں میں ٹھیک ہوں اور بس ابھی تو آرام کرنے کے لیے لیٹا ہوں، تو اسرافیل میں مجھے جھنجھوڑا اور کہا کہ آصف تم یہاں نانگا پربت کے دل میں کیمپ فور پر گزشتہ 24 گھنٹوں سے سو رہے ہو چلوں اُٹھو واپس چلیں۔‘ ڈاکٹر آصف کے مطابق ’میں دیکھ نہیں پا رہا تھا، ہوا تیز تھی۔‘ اُن کے مطابق اسرافیل اُنھیں چیخ چیخ کر بُلاتے اور کہتے کہ آصف ’لٹس موو‘ یعنی اب ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ ڈاکٹر آصف کے مطابق جب اسرافیل اُن کے پاس کیمپ فور پر پہنچے تو وہ نانگا پربت سمٹ کرنے کے لیے پُر اُمید تھے اور مکمل فٹ تھے، مگر جس جگہ وہ لیٹے ہوئے تھے اُن سے کُچھ فاصلے پر ایک پولینڈ کے کوہ پیما کی خیمے میں وفات ہو چُکی تھی۔ مگر اسرافیل نے اُن کو یہ بات نہیں بتائی۔ ڈاکٹر آصف نے اس موقع پر کہا کہ ’اگر اسرافیل میری مدد کے لیے وہاں نا پہنچتے تو میں عزرائیل کے ساتھ کہیں اور جا چُکا ہوتا۔‘ ڈاکٹر آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرافیل نے نانگا پربت کے انتہائی پُر خطر راستوں پر اُن کا آدھا آدھا گھنٹہ بھی انتظار کیا اور اُنھیں سہارا دیتے رہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں کوئی بھی کسی کا انتظار نہیں کرتا، کیونکہ ان جگہوں پر متعدد کوہ پیما اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں، اور اسی وجہ سے نانگا پربت کو ’کلر ماؤنٹین‘ یا ’خونی پہاڑ‘ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آصف نے اسرافیل کا شُکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر اُس دن اسرافیل اُن کی مدد کے لیے پہنچتے تو آج اپنے والدین اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ نا ہوتے۔ الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کے مطابق ’آصف بھٹی کو نیچے اترنے میں قدم قدم پر مدد اور سہارے کی ضرورت پڑتی رہی۔ یہ مدد اور سہارا اسرافیل فراہم کر رہے تھے، جس کی بدولت ڈاکٹر آصف بھٹی کسی حد تک خطرے سے باہر نکلے۔‘ ڈاکٹر آصف نے جہاں اپنے تمام چاہنے والوں کی دُعاوں کا شُکریہ ادا کیا وہیں اُنھوں نے کوہ پیمائی کے شوقین افراد کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ نانگا پربت سمیت آپ جب بھی کسی پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کریں تو اپنی تیاری مکمل رکھیں۔ ڈاکٹر آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گھر والوں کا خیال تو دل و دماغ میں تھا اور ہے بھی مگر کوہ پیمائی اُن کا صرف شوق نہیں بلکہ ایک جنون ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0w69jdy39o
سعود شکیل کی ڈبل سنچری: ’11 سالہ بلے باز کی دلیری دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے کھیلے گا‘
یہ کراچی کے پاکستان کرکٹ کلب کے مناظر ہیں جہاں آج سے لگ بھگ 16 برس قبل نیٹ پریکٹس کے دوران تابش خان، انور علی اور رمان رئیس جیسے تیز بولر گیند کر رہے تھے۔ اس دوران کلب مینیجر اعظم خان نے ایک 11 سالہ بلے باز کو بیٹنگ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کھڑے اکثر کھلاڑیوں نے انھیں کہا کہ ایسا نہ کریں اسے گیند لگ سکتی ہے تاہم اس 11 سالہ لڑکے نے خاصی دلیری سے بیٹنگ کی، جس کے بعد اعظم خان نے وہاں کھڑے سرفراز احمد اور اسد شفیق سے کہا کہ دیکھنا یہ لڑکا ایک دن پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھیلے گا۔ یہ 11 سالہ بلے باز سعود شکیل تھے جنھوں نے آج سری لنکا میں ریکارڈ توڑ ڈبل سنچری بنا کر پاکستان کو گال ٹیسٹ کے تیسرے روز ایک مستحکم پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ کہانی پاکستان کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر سرفراز احمد نے گذشتہ برس سعود شکیل کو انگلینڈ کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں ٹیسٹ کیپ دیتے ہوئے بھی دہرائی تھی اور آج اعظم خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بھی بتائی۔ گال ٹیسٹ میں سعود شکیل ایک ایسے موقع پر بیٹنگ کے لیے کریز پر آئے جب پاکستان کے صرف 76 رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور جلد یہ سکور 101 پر پانچ کھلاڑیوں کے نقصان تک جا پہنچا تھا۔ سری لنکا کو پاکستان پر اب بھی 112 رنز کی برتری حاصل تھی اور آغا سلمان اس لائن اپ میں آخری مستند بلے باز تھے۔ تاہم ان کی جانب سے جو پراعتماد انداز اپنایا گیا اس سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ اپنا چھٹا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ اعظم خان کہتے ہیں کہ کلب کے لیے بھی سعود کو مختلف نمبرز پر بیٹنگ کروائی جاتی تھی تاکہ وہ خود کو کسی پوزیشن تک محدود نہ کر لیں۔ یہی وجہ کہ پاکستان کے لیے پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے بھی انھیں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔ سعود وہ پہلے پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے سری لنکا میں ڈبل سنچری بنائی ہے۔ ان کے ٹیسٹ کریئر کا بہترین آغاز ہوا ہے اور وہ اب تک ہر ٹیسٹ میچ میں کم از کم ایک اننگز میں تو نصف سنچری یا اس سے زیادہ رنز سکور کر چکے ہیں۔ فی الحال ان کی بیٹنگ اوسط 98.5 کی ہے۔ ان کی اس اننگز کی بدولت پاکستان سری لنکا پر 149 رنز کی برتری لینے میں کامیاب ہوا اور تیسرے دن کے اختتام پر جب پاکستان کی ٹیم آل آؤٹ ہوئی تو پاکستان کا سکور 416 رنز تھا۔ سری لنکا میں بیٹنگ عموماً پاکستانی بلے بازوں کے لیے خاصی مشکل رہی ہے اور ماضی میں سری لنکن سپنرز متایا مرلی دھرن، رنگنا ہیرتھ اور اب جے سوریا پاکستانی بلے بازوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں ان بولرز کے خلاف پاکستانی بلے باز انتہائی محتاط انداز اپنا کر انھیں خود پر حاوی ہونے کا موقع دیتے تھے۔ خاص طور پر گال میں جو ماضی کی مشہور سری لنکن ٹیموں کے لیے ایک قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم سعود شکیل کی اس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے آغا سلمان کے ساتھ شراکت کے دوران متواتر سٹرائیک روٹیٹ کی اور اپنے شاٹس کھیلتے رہے جس نے سری لنکن سپنرز کو خود کو پاکستانی بلے بازوں پر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا۔ اس بارے میں سعود شکیل نے گذشتہ روز کے اختتام پر پی سی بی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری شراکت کی بہترین بات یہ تھی کہ ہم نے سٹرائیک روٹیٹ کی، اس سے ان پر دباؤ آئے گا۔‘ ’آپ جب کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں تو آپ کوشش کرتے ہیں کہ آپ ہر سیریز میں کوئی نئی صلاحیت اپنی گیم میں شامل کریں۔ کوئی نہ کوئی نئی شاٹ بنائی جائے جو آپ کو فائدہ دے اور یہی میں نے آج اپلائی کیا۔‘ سعود شکلیل نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رنز کے انبار لگائے ہیں۔ 65 فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 16 سنچریوں اور 23 نصف سنچریوں کی مدد سے 4844 رنز بنائے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا ٹاپ سکور 187 تھا۔ آج ان کی اننگز کی خاص بات یہ بھی تھی کہ انھوں نے دن کا زیادہ حصہ پاکستانی بولرز کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے گزارا اور پہلے نعمان علی اور پھر نسیم شاہ کے ساتھ بالترتیب 52 اور 94 رنز کی شراکت بنا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو سری لنکا پر 149 رنز کی بھاری برتری حاصل ہو جائے۔ سعود شکیل نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں کو ہی عمدہ انداز میں کھیلا اور ان کی جانب سے انتہائی انہماک کے ساتھ بیٹنگ کرنے کے باعث پاکستان ایک مشکل صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستان کے لیے ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے سابق کپتان یونس خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں سعود شکیل کی اننگز سے خوب محظوظ ہوا۔ انھوں نے سویپ بھی مارے اور بہترین انداز میں بولرز کے ساتھ بیٹنگ کا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق مینیجر منصور رانا کا کہنا تھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ آپ کو بڑے رنز بنانے کا ہنر سکھاتی اور سعود شکیل نے بھی یہ ثابت کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس حوالے سے اکثر افراد سعود شکیل کو دیر سے ٹیم میں شامل کرنے پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ایک صارف علی شیر نے لکھا کہ ’میں ابھی بھی سمجھتا ہوں ہم سینیئر سینیئر کھیلنے کے چکر میں سعود کی کم از کم دو سال کی ٹیسٹ کرکٹ کھا گئے ہیں۔‘ صحافی سلیم خالق نے کہا کہ ’سعود شکیل کو تاخیر سے موقع ملا لیکن جب وہ ٹیم میں آئے تو پیچھے مڑ کرنہ دیکھا اور اپنی جگہ مستحکم کر لی۔ ’سری لنکا کے خلاف ان کی حالیہ اننگز برسوں یاد رکھی جائے گی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx7ypley9exo
گال ٹیسٹ: دھننجایا اور میتھیوز کی عمدہ شراکت، ’شاہین نے ممکن بنایا کہ پاکستان میچ میں ٹاپ پر رہے‘
ایک برس قبل جس میدان پر پاکستانی فاسٹ بولر شاہین آفریدی کو گھٹنے کی انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا، آج وہیں انھوں نے اپنی 100ویں وکٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میچ کے پہلے سیشن میں تین وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو گال ٹیسٹ کے پہلے دن بہترین آغاز فراہم کیا ہے۔ اپنے دوسرے ہی اوور میں انھوں نے اوپنر مدشکا کو آؤٹ کر کے اپنی 100ویں وکٹ حاصل کی۔ اور یوں وہ پاکستان کے لیے 100 وکٹیں حاصل کرنے والے 19ویں بولر بن گئے ہیں۔ سری لنکا کے شہر گال میں ہونے والے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو پاکستانی فاسٹ بولر جوڑی شاہین آفریدی اور نسیم شاہ نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھانے کے وقفے سے پہلے کا سیشن پاکستان کے نام کیا۔ دن کے اختتام پر سری لنکا نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 242 رنز بنائے۔ اس وقت ھننجایا ڈی سلوا پچ پر موجود ہیں۔ دھننجایا نے عمدہ اننگز کھیلتے ہوئے تین چھکوں اور دس چوکوں کی مدد سے 94 رنز بنائے۔ انھوں نے آج سب سے زیادہ سکور بنایا۔ کھانے کے وقفے سے پہلے ہی سری لنکا کی چار وکٹیں گر چکی تھیں اور میزبان ٹیم دباؤ کا شکار ہو چکی تھی۔ آؤٹ ہونے والوں میں کپتان ڈیمتھ کرونارانتے بھی شامل تھے جنھوں نے 29 رنز بنائے۔ سری لنکن بلے بازوں نشان مادشکہ، دیمتھ کرونارتنے اور کوشل مینڈس تینوں شاہین شاہ آفریدی کا شکار بنے، جبکہ نسیم شاہ نے دنیش چندیمل کو آؤٹ کر کے اپنی اکلوتی وکٹ حاصل کی۔ خیال رہے کہ یہ دونوں ٹیموں کی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے نئے سائیکل کی پہلی سیریز ہے۔ گذشتہ سائیکل میں پاکستان کی کارکردگی ناقص رہی تھی اور زیادہ تر سیریز ہوم گرانڈ پر ہونے کے باوجود بھی، ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں جانے میں ناکام رہے تھے۔ پہلے سیشن کے آغاز پر ہی بارش کے باعث کھیل کچھ دیر کے لیے تعطل کا شکار ہوا تھا۔ تاہم دوسرے سیشن میں دھننجایا ڈی سلوا اور سینیئر بلے باز اینجلو میتھیوز کی جوڑی نے 131 رنز کی شراکت بنا کر مشکلات کا شکار سری لنکن ٹیم کو سنبھالا۔ دونوں نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپنرز اور فاسٹ بولرز کے خلاف اچھی بیٹنگ کرتے ہوئے نصف سنچریاں سکور کیں۔ اینجلو میتھیوز دوسرے سیشن کے اختتام پر ابرار احمد کی گیند پر وکٹ کیپر سرفراز احمد کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ انھوں نے نو چوکوں کی مدد سے 64 رنز بنائے۔ تیسرے سیشن میں ایک بار پھر بارش کی وجہ سے میچ کو تھوڑی دیر کے لیے روک دیا گیا تھا۔ میچ دوبارہ شروع ہونے کے بعد آخری بال پر سدیرا سماراوکراما کا کیچ آغا سلمان کی بال پر امام الحق نے کرلیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 گذشتہ سال اتفاق سے سری لنکا کے خلاف جولائی میں ہی ہونے والے ٹیسٹ میچ کے دوران شاہین شاہ آفریدی کو گال کرکٹ گراؤنڈ میں گھٹنے کی انجری ہوئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ نہ صرف اُس ٹیسٹ سیریز بلکہ ایشیا کپ سے بھی باہر ہو گئے تھے۔ شاہین اس کے بعد ایک طویل عرصے تک فٹنس بحال کرنے میں مصروف رہے اور پھر گذشتہ برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی واپسی ہوئی تھی۔ شاہین آفریدی کو اسی ورلڈ کپ کے فائنل میں گھٹنے کی انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد وہ دوبارہ کچھ ماہ کے لیے کرکٹ سے دور ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ تو کھیلی ہے لیکن اب جا کر انھیں ٹیسٹ میچوں میں دوبارہ کھیلنے کا موقع ملا ہے اور آج واپس آتے ہی انھوں نے تین وکٹیں حاصل کی ہیں۔ سوشل میڈیا پر شاہین شاہ آفریدی کے اس بہترین کم بیک کی تعریف ہو رہی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 صحافی ارفع فیروز ذکی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’فاسٹ بولرز کے لیے گال کی تازہ پچ پر پہلے دو سیشنز بہت اہم ہیں۔ نسیم شاہ اور شاہین آفریدی نے ان تازہ کنڈیشنز کا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ سری لنکن بلے باز گال گراؤنڈ کی لینتھ اور باؤنس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔‘ سعد عرفان نے لکھا ’بابر اعظم کی طرف سے بہترین کپتانی جس میں نسیم کی اچھی بولنگ نے ساتھ دیا، شاہین نے یہ بات ممکن بنائی کہ پاکستان گیم میں ٹاپ پر رہے۔‘ بہرام قاضی لکھتے ہیں کہ سیریز کے ابتدائی سیشن میں شاہین اور نسیم نے چار وکٹیں لیں، شاہین کے پاس 102 ٹیسٹ وکٹس ہیں۔ پاکستان کی پسندیدہ تیز رفتار بولنگ جوڑی نے سری لنکا کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c98pj328xlxo
عالمی ریکارڈ بنانے کے بخار میں مبتلا ملک جس کے سامنے گنیز ورلڈ ریکارڈ نے بھی ہاتھ جوڑ لیے
جب تک آپ یہ مضمون پڑھ کر فارغ ہو ممکن ہے کہ افریقہ کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک نائجیریا میں کوئی اور عجیب و غریب ورلڈ ریکارڈ بن چکا ہو یا اس کی کوشش کی گئی ہو۔ آج کل نائجیریا میں عوام پر نت نئے اور انوکھے گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانے کا جنون سوار ہے اور وہاں اتنے جلدی اور تیزی سے نت نئے اور انوکھے ورلڈ ریکارڈز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ان کا حساب رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اسی مشکل کا سامنا گینیز ورلڈ ریکارڈ کے ادارے کو بھی ہے۔ نائجیریا میں حال ہی میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوششوں کا جائزہ لیں تو آپ وہاں ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوششوں کے بارے میں جان کر حیران رہ جائیں گے، جیسا کہ مثال کے طور پر ایک شخص نے لگاتار دو سو گھنٹوں تک گانا گایا۔ آپ جب یہ مضمون پڑھ رہے ہیں تو ایک شخص مسلسل رو کر سب سے طویل ترین دورانیے تک رونے کا ریکارڈ بنانے کی کوشش میں ہے اور وہ مسلسل سات دن تک رو کر یہ اعزاز اپنے نام کرنے کا خواہشمند ہے۔ ایک خاتون سب سے طویل عرصے تک گھر کے اندر رہنے کا ریکارڈ بنایا تو ایک اور خاتون نے سب سے زیادہ گھونگے فرائی کرنے کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ آپ عین اس لمحے کی نشاندہی کر سکتے ہیں جب ملک کی 20 کروڑ آبادی میں سے کچھ لوگوں نے بظاہر یہ فیصلہ کیا کہ دنیا کے ہر ریکارڈ کو توڑنا چاہیے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب رواں برس مئی میں ایک ہجوم نے لاؤس کے ایک دلکش مقام پر شیف ہلڈا باکی کو سب سے زیادہ دیر کے لیے مسلسل کھانا پکانے یعنی سب سے زیادہ گھونگھے فرائی کرتا دیکھنے کے لیے چار دن تک بارش اور اندھیرے کو برداشت کیا۔ انھوں نے سو گھنٹوں تک مسلسل کھانا پکایا تھا لیکن گنیز ورلڈ ریکارڈ نے باضابطہ طور پر ان کے کھانا پکانے کے کل وقت کو 93 گھنٹے اور 11 منٹ تسلیم کیا اور یہ وقت بھی عالمی ریکارڈ بنانے کے لیے بہت تھا۔ اس دن کے بعد سے کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب نائجیریا میں کسی شخص یا جوڑے نے نیا ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوشش نہ کی ہو۔ حتیٰ کہ عالمی ریکارڈ کو درج کرنے والے ادارے گینیز ورلڈ ریکارڈ کو بھی ان تمام کوششوں کا حساب رکھنے اور انھیں پرکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ گینیز ورلڈ ریکارڈ تنظیم نے منگل کو ایک مزاحیہ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ریکارڈ اے تھون (ریکارڈ بنانے کی مہم) کافی ہوئی۔‘ یہ ٹویٹ تنظیم نے اس وقت کی جب نائجیریا سے کسی نے ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ ریکارڈ بنانے کی کوششوں کا خیال پیش کیا تھا۔ گنیز ورلڈ ریکارڈ کی ریکارڈ کوشش کو بس کرنے کی ٹویٹ کے بعد ایک اور ٹویٹ میں ادارے نے لکھا کہ ’ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے پہلے درخواست دینی چاہیے۔‘ نائجیریا میں ادارے کی جانب سے اس ’شائستہ یاد دہانی‘ کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ اور اس کے بعد بھی ملک میں ایک مالش کرنے والی خاتون طویل ترین مالش کرنے کا ریکارڈ بناتے ہوئے بے ہوش ہو گئیں۔ تاہم اب ریکارڈ بنانے کی اس کوشش کو ملتوی کر دیا گیا ہے لیکن اس خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی 50 گھنٹے تک مالش کرنے کا وقت بھی عالمی ریکارڈ کے لیے بہت ہے۔ اگرچہ انھوں نے اس کے لیے گینیز ورلڈ ریکارڈ کو کوئی باضابطہ درخواست نہیں دی تھی۔ یہ وہ ہی رحجان ہے جہاں نائجیریا میں لوگ ورلڈ ریکارڈ بنانے کی اپنی نت نئی کوششوں کا اعلان خود سے ہی کر رہے ہیں اور وہ اس کے لیے نہ تو عالمی ریکارڈ کا اندراج کرنے والی تنظیم کو درخواست دے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے ضوابط پر عمل کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور مقابلے میں دو کھانا پکانے والے شیف مقابلے کے دوران اپنے چولھے بند کر کے سو گئے جس کے بعد انھیں مقابلے سے ڈس کوالیفائی کر دیا گیا۔ گینیز ورلڈ ریکارڈ تنظیم کے نمائندے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی قسم کی مایوسی یا ناکامی سے بچنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ جس چیز پر ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ادارے کی فہرست میں موجود بھی ہے اور آپ اس کے قوانین اور ضوابط کر عمل کرتے ہوئے یہ کام کر رہے ہیں۔‘ نائجیریا سے تنظیم کو عالمی ریکارڈ بنانے یا توڑنے کی اتنی درخواستیں موصول ہوئی ہے کہ لگتا ہے یہ بھی کسی ایک ملک سے ملنے والی درخواستوں کا ریکارڈ ہی نہ بن جائے۔ اس بارے میں تنظیم کا کہنا ہے کہ ادارے کو حال ہی میں نائجیریا سے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی ہیں لیکن وہ اس کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ اتنی بڑی تعداد میں کسی ایک ہی ملک سے درخواستیں موصول ہونا بھی اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے یا نہیں۔ سب سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کر کے گینیز ورلڈ ریکارڈ توڑنے والے فارومنی کیمی کہتی ہیں کہ ’نائجیریا کے لوگ خوش مزاج ہیں اور وہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہو، اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘ اسی طرح ایک اور شخص کو اپنے ریکارڈ توڑنے کی کوشش کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے وہ سکینڈری سکول ٹیچر جان اوبٹ ہیں۔ وہ ستمبر میں سب سے طویل دورانیہ تک باآواز بلند پڑھنے کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کریں گے۔ انھوں نے اس کے لیے گینیز ورلڈ ریکارڈ تنظیم سے اجازت لے لی ہے اور وہ اس وقت گذشتہ برس ترکی میں کرغستان سے تعلق رکھنے والے ریسبائی ایسکوف کا 124 گھنٹوں تک باآواز بلند پڑھنے کے ریکارڈ کو توڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نائجیریا کے جان اوبٹ 140 گھنٹوں تک مسلسل باآواز بلند پڑھنے کا ریکارڈ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے پیچھے ارادہ یہ ہے کہ نائجیریا میں کتاب پڑھنے کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔‘ ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایک بامقصد ریکارڈ بنانے کے لیے چنا ہے۔‘ اسی طرح سے ملک میں دانتوں سے سب سے زیادہ ناریل کے چھلکے اتارنے کا ریکارڈ بنانے کی بھی کوشش کی گئی اور اس کے علاوہ سب سے زیادہ دیر تک بوسہ دینے یا چومنے کا ریکارڈ بنانے کا بھی کہا گیا۔ تاہم نائجیریا کی وزارت ثقافت نے سب سے زیادہ دیر تک بوسہ دینے کے ریکارڈ کو منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ معاشرے کی اقدار کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ گینیز ورلڈ ریکارڈ نے بھی اس صحت کے لیے نقصاندہ قرار دیتے ہوئے اپنی فہرست سے نکال دیا ہے کیونکہ اس سے قبل نائجیریا سے باہر بھی لوگ طویل ترین بوسے کی کوشش میں بے ہوش ہو گئے تھے۔ اسی طرح سب سے زیادہ دیر تک مالش کرنے والے ریکارڈ کی کوشش میں مالش کرنے والی خاتون کے بے ہوش ہونے کے بعد بھی تشویش پائی گئی ہے۔ اسی طرح گذشتہ سات روز سے مسلسل رونے والے شخص کو بھی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس دوران سر میں شدید دردہے، ان کا منھ سوج گیا ہے، ان کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں اور وہ اس دورن 45 منٹ کے لیے اندھے ہو گئے تھے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’اس سب کے بعد مجھے اپنے ریکارڈ کو قائم کرنے کے لیے تبدیلیاں کرنی پڑی اور میں نے رونے اور آہ و بکا کو کم کیا ہے اور اب سسکیوں کے ذریعے وہ اپنے ہدف کو حاصل کریں گے۔‘ تاہم انھوں نے اس ریکارڈ کے لیے گینیز ورلڈ ریکارڈ کو درخواست نہیں دی تھی لہٰذا یہ کوئی باضابطہ یا آفیشل ریکارڈ تصور نہیں کیا جائے گا۔ مگر نائجیریا صرف ان انوکھی اور نت نئی حرکات میں ہی ورلڈ ریکارڈ نہیں بنا رہا بلکہ اس کے پاس کھیلوں سے متعلق بھی کچھ عالمی ریکارڈ ہیں۔ جیسا کہ خواتین کی 100 میٹر ہرڈلز ریس میں توبی آمیوسن ریکارڈ ہولڈر ہیں۔ بینگا ذیکل کے پاس ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر ایک منٹ میں سب سے زیادہ رسا پھلانگنے یعنی سکپنگ کا ریکارڈ ہے۔ اسی طرح چینوسو کے پاس ایک منٹ میں فٹبال کو سب سے زیادہ ہیڈ مارنے کا ریکارڈ ہے۔ لیکن ان میں سے کسی ریکارڈ کو وہ شہرت نہیں مل سکی جتنی شیف باکی کے ریکارڈ کو ملی کیونکہ اس کے پیچھے ایک منظم اشتہاری مہم کارفرما تھی۔ اس ایونٹ کی برانڈنگ کرنے والی پبلک ریلیشن فرم کے سربراہ نینی بیجائیڈ کہتی ہیں کہ ’ہم نے پس منظر میں بہت کام کیا۔ جس کے وجہ سے اس دن اس کے نتائج برآمد ہوئے، شیف باکی کو سابق نائب صدر کا فون آیا، لاؤس کے ریاستی گورنر نے دورہ کیا اور ریکارڈ ہولڈر اموسن وہاں تھے۔‘ سٹارڈم اور شہرت کے علاوہ ایسے افراد کی سوشل میڈیا پر بھی دھوم مچی ہے اور ہزاروں فالوئرز ان کو فالو کر رہے ہیں اور آج کے دور میں ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے ان کو مالی فائدہ بھی مل رہا ہے۔ جیسا کہ شیف باکی کو نائجیریا کی ایک ایئر لائن کی طرف سے ایک سال کا مفت سفر کرنے کا انعام دیا گیا ہے، اس کے علاوہ شیف ڈیمی کو نقد تحائف بھی ملے ہیں جبکہ دوسروں نے اپنی کوششوں کے دوران سرِعام عطیات کی درخواست کی ہے۔ شیف باکی نے اپنے کارنامے کے بعد بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے دنیا کے نقشے پر خود کو ظاہر کرنے کے لیے، نائجیریا کو نقشے پر رکھنے کے لیے بنیادی طور پر کچھ ایسا کرنا تھا جو الگ اور خاص ہو۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51dxgkl0x6o
ومبلڈن: ٹینِس میں لباس کے سخت قواعد کا 146 برس پرانا تنازع
اپنی تاریخ میں پہلی بار ومبلڈن میں ٹینِس کے مقابلوں کے دوران انتظامیہ نے اپنے ڈریس کوڈ میں نرمی کی ہے۔ یہ قواعد اتنے سخت کیوں ہیں؟ ایلی وائلٹ براملی اس موضوع پر ایک نظر ڈالتی ہیں۔ 146 سال میں پہلی بار ومبلڈن نے خواتین کے لباس میں تبدیلی کی ہے لیکن اس تبدیلی کے ومبلڈن میں ہونے کی وجہ سے، اسے انقلابی تبدیلی کے بجائے ایک ارتقائی تبدیلی سمجھا جائے گا۔ کھلاڑیوں کو اب گہرے رنگ کے انڈر شارٹس پہننے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اقدام مبینہ طور پر ان کھلاڑیوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے جو اپنی ماہواری کے دنوں میں ہوتی ہیں۔ ایک بیان میں آل انگلینڈ کلب کی سربراہ سیلی بولٹن نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ نیا اصول ’کھلاڑیوں کو پریشانی سے نجات دے کر خالصتاً اپنی کارکردگی پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے گا۔‘ اس کا بہت سے کھلاڑیوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ امریکہ کی کوری گاف نے گذشتہ ہفتے سکائی نیوز کو بتایا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ یقینی طور پر میرے اور لاکر روم میں موجود دیگر لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ تناؤ کو دور کرے گا۔‘ ٹینس کے تاریخ دان کرس بوورز، جنھوں نے راجر فیڈرر اور نوواک جوکووچ کی سوانح عمری لکھی ہے، سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلی ومبلڈن کے سماجی دباؤ کے سامنے جھکنے کا معاملہ ہے۔ وہ بی بی سی کلچر کو بتاتے ہیں کہ ومبلڈن کے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا۔ ’ومبلڈن بہت ہی پریشان کن حالات میں تھا۔‘ یہ خیال کہ خواتین کھلاڑی صرف وہی لباس پہن سکتی ہیں جو کھیل کی نوعیت سے مطابقت رکھتا ہے، اسے اب فرسودہ سمجھا جا رہا ہے۔ یقیناً یہ قوانین قدیم اور جنس پرست تھے۔ اب جب کچھ ٹینِس کورٹس نے خاتون کھلاڑیوں کے مطالبے کو جائز تسلیم کر لیا گیا ہے، سینٹر کورٹ کی حدود میں پرانے قواعد و ضوابط ابھی تک برقرار تھے۔ کھلاڑیوں کو بتایا جاتا کہ ’انھیں ٹینس کے مناسب لباس میں ملبوس ہونا چاہیے جو تقریباً مکمل طور پر سفید ہو۔ سفید میں صرف سفید، کریم رنگ کا سفید بھی شامل نہیں۔‘ نیک لائنز، کف، ٹوپی، ہیڈ بینڈ، کلائی پر بندھے بینڈ، موزے، شارٹس، سکرٹس اور انڈر گارمنٹس پر مختلف رنگوں کے ڈیزائن کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ کھلاڑی قوسِ قزا کے رنگوں کو اپنانا شروع کریں، کوڈ واضح ہے کہ ڈیزائن ایک سینٹی میٹر سے زیادہ چوڑا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر کوئی تشویش تھی کہ کھلاڑی مختلف نمونوں کا استعمال کریں گے، تو اس پر کوڈ کا حکم ہے کہ ’پیٹرن کے اندر موجود رنگ کی پیمائش اس طرح کی جائے گی جیسے یہ رنگ کا ٹھوس ماس ہے اور اسے ایک سینٹی میٹر (10 ملی میٹر) گائیڈ کے اندر ہونا چاہیے۔‘ اس کے علاوہ ’دیگر مٹیریلز یا نمونوں سے بنائے گئے کمپنی کے لوگوز قابل قبول نہیں ہیں۔‘ برطانیہ میں ٹینس کی سماجی تاریخ کے مصنف رابرٹ لیک نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ سب سے سفید لباس کا کوڈ ہمیشہ سے ہے۔ ’سفید رنگ پسینہ سب سے بہتر انداز میں چھپاتا ہے، صاف، تیز اور صاف نظر آتا ہے، اچھائی کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی کرکٹ سے جڑی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، تاریخی طور پر اعلیٰ متوسط طبقے کے مسرت کے لمحوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔‘ رابرت لیک کے مطابق اس کا کچھ طریقوں سے وکٹورین دور کے اواخر میں ارتقا ہوا جس میں خواتین سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ’ ثقافتی توقعات کے مطابق مناسب لباس پہنیں گی، یعنی شائستگی والا لباس۔‘ ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران یہ فیشن کے بارے میں زیادہ تھا، 1950 کی دہائی میں یہ ’افادیت، کام، آرام‘ کے بارے میں زیادہ ہو گیا، اور، پھر بعد کے اوپن دور میں خواتین کی کشش کے روایتی معیارات، یعنی شاید جنسی کشش کے لیے بھی اِن لباس کا استعمال جاری رہا۔ یہ وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے کھلاڑیوں نے ٹینس کا روایتی لباس پہننا جاری رکھا۔ یہ صرف ومبلڈن ہی نہیں ہے جو ڈریس کوڈ کو نافذ کرتا ہے۔ ہائی پروفائل کھلاڑیوں کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ایک حالیہ مثال سرینا ولیمز نے 2018 میں فرنچ اوپن جیتنے کے لیے وکنڈا سے متاثر کیٹ سوٹ پہنتے ہوئے دیکھی تھی۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا گرینڈ سلیم میچ تھا۔ اس لباس کی وجہ سے اُس پر مستقبل کے ٹورنامنٹس میں اِسے پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جیسا کہ ایک مبصر نے اس وقت لکھا تھا: ’یہ حقیقت میں خواتین کے جسموں پر پابندی ہے اور خاص طور پر، یہ اسی طرح ہے جس طرح سے سیاہ فام خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔‘ لیکن یہاں تک کہ اگر دوسرے ٹورنامنٹ ڈریس کوڈز کو نافذ کرتے ہیں، تو ومبلڈن تو اپنے قوانین کی سختی کے لحاظ سے اور بھی زیادہ سخت ہے۔ جیسا کہ کیرن بین ہورین، فیشن کی تاریخ دان اور ’شی ہیز گوٹ لیگز‘ کی شریک مصنفہ، بی بی سی کلچر کو بتاتی ہیں کہ ’ٹینس کورٹ ہمیشہ سے ایک ایسا میدان رہا ہے جس میں خواتین نے ان حدود کو چیلنج کیا ہے اور ان کو پیچھے دھکیلا ہے جو معاشرے نے عائد رکھیں۔ ’کیونکہ ومبلڈن اپنے امریکی یا فرانسیسی ہم منصبوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے زیادہ روایتی اور قدامت پسند ٹورنامنٹ رہا ہے، یہ ایک ایسا میدان بن گیا ہے جس میں انفرادیت کے چھوٹے سے چھوٹے اظہار پر بہت زور دیا جاتا ہے۔‘ تاہم بوورز کے مطابق جس چیز کی تعریف نہیں کی جاتی وہ یہ ہے کہ ’80 کی دہائی سے ومبلڈن میں مردوں اور خواتین دونوں پر عائد پابندیاں بہت زیادہ سخت ہو گئیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوڈ سفید سے مزید سفید ہوگیا۔ یہ قوائد 90 کی دہائی میں بہت سخت ہو گئے اور پچھلی چند دہائیوں سے ان قواعد کو برقرار رکھا گیا۔ سٹیفی گراف اور بورس بیکر نے جس قسم کے سٹائل پہن رکھے تھے وہ آج سینٹر کورٹ میں پیش ہوتے، ان کا کہنا ہے کہ انھیں کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تو پھر ایک قدم پیچھے کیوں لیا جا سکتا ہے؟ بوورز کا خیال ہے کہ یہ ’ومبلڈن اپنے برانڈ کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔۔۔ ومبلڈن کے لیے اس بات پر اصرار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ کو رائل باکس میں جیکٹ اور ٹائی پہننی ہوگی، لیکن وہ ایسا کرتے ہیں۔‘ ’ومبلڈن برانڈ کا وہ تمام حصہ جسے ہم قبول کرتے ہیں اور سٹرابیری اور کریم کے ساتھ اتنا ہی جوڑتے ہیں جتنا کہ ہم ٹینس کے ساتھ کرتے ہیں۔‘ ان قواعد کو چیلینج کرنے والے بھی موجود رہے ہیں۔ بوورز نے مے سوٹن کی طرف اشارہ کیا جس نے 1905 میں ’تھوڑی سی جِلد دکھائی اور وہ ایسے ہی تھا کہ جیسے تھوڑی سے خوشبو سنگھائی گئی ہو۔‘ 1919 میں فرانسیسی کھلاڑی سوزان لینگلن کے ’غیر مہذب‘ لباس پر تنازع ہوا جس میں انھوں نے پیٹی کوٹ نہیں پہنا اور مقابلوں کی فاتح قرار پائیں۔ ایلین بینیٹ 1934 میں وہ پہلی خاتون کھلاڑی تھیں جنھوں نے شارٹس پہن کر ٹینس کھیلا اور اس سے ابتدائی طور پر ومبلڈن میں ٹینس کے شائقین کو ’صدمہ‘ پہنچا۔ سنہ 1949 میں گرٹروڈ ’گسی‘ موران نے ڈیزائنر ٹیڈ ٹنلنگ کا لباس پہنا تھا، جو سنہ 1920 کے آخر سے ٹورنامنٹ میں کام کر رہی تھیں۔ بین ہورین، جنھوں نے ٹنلنگ کے ڈیزائنز کا مطالعہ کیا ہے، کا کہنا ہے کہ’یہ جانتے ہوئے کہ ٹورنامنٹ میں سفید کے سوا کسی رنگ کے لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے، ٹنلنگ نے اپنے زیر جامہ میں لیس ٹرم کا اضافہ کیا جو منتظمین کے لیے میڈیا سکینڈل کا باعث بنا اور اس کی برطرفی کا بظاہر سبب بن گیا۔‘ اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ ’اپنی یادداشت میں ٹنلنگ نے اشارہ کیا ہے کہ سکینڈل سے پہلے انھوں نے اپنے بھڑکتے انداز سے منتظمین کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔‘ سنہ 1985 میں امریکی کھلاڑی این وائٹ پر ان کے تمام سفید رنگ کے کیٹ سوٹ پر سامعین کی جانب سے آوازیں کسی گئیں۔ شائقین نے اُنھیں وہ لباس دوبارہ نہ پہننے کا کہا۔ سنہ 2017 میں وینس ولیمز کو کہا گیا کہ وہ بارش کے وقفے کے دوران اپنا لباس تبدیل کریں کیونکہ ان کا برا سٹریپ ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ لوگ جو ماضی میں ومبلڈن کے سخت ڈریس کوڈ کی وجہ سے مشکل میں آئے، وہ اس نئی پیشرفت کو کیسے دیکھتے ہیں؟ این وائٹ کی رائے ہے کہ یہاں سوال ومبلڈن کے برانڈ کا ہے۔ ’ومبلڈن کے تمام اصول ہی اسے پیشہ ورانہ ٹینس کھیلنے کے لیے ایک خاص اور چیلنجنگ مقام بناتے ہیں۔ ’میں حیران ہوں کہ آل انگلینڈ کلب نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ خواتین کے لباس کو کچھ رنگ پہننے کی اجازت دے دی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اب آگے کیا ہوگا؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7yjw8x815o
میجر لیگ کرکٹ کیا ہے جس کے لیے پاکستان کے بہترین کرکٹرز ’امریکہ آنا چاہتے ہیں‘
امریکہ میں پہلی بار ایک بڑی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگ 13 جولائی سے شروع ہونے جا رہی ہے جس کی چھ فرنچائزز میں کئی ملکوں کے کھلاڑی شامل ہیں۔ میجر لیگ کرکٹ (ایم ایل سی) نامی اس امریکی لیگ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں وہ کرکٹرز بھی شامل ہیں جو ماضی میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کرنے کے بعد اب بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی کھیلیں گے۔ ان ٹیموں کے سکواڈز میں آپ کو ایسے کئی نام نظر آئیں گے جو پہلے پاکستان کے لیے کھیل چکے ہیں مگر اب امریکہ میں مقیم ہیں اور بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی اپنے کیریئرز کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ جیسے احسان عادل، حماد اظہر، سمیع اسلم، مختار احمد وغیرہ۔ اس کے علاوہ ایم ایل سی میں انڈین انڈر 19 ٹیم کے دو سابقہ کھلاڑی ہرمیت سنگھ اور انمکت چند، اور نیوزی لینڈ کے سابق آل راؤنڈر کوری اینڈرسن بھی نظر آئیں گے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام 13 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سمیع اسلم اب امریکہ میں ٹیکنالوجی کے مرکز سیلیکون ویلی میں رہتے ہوئے اور وہ میجر لیگ کرکٹ میں ٹیکساس سپر کنگز کے لیے کھیلیں گے۔ انھوں نے کرکٹ پاکستان کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ آنے کے لیے ان سے کئی پاکستانی کرکٹرز نے رابطہ کیا ہے جو کہ ’پاکستانی کرکٹ کی ناکامی‘ ہے۔ سمیع اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف پی ایس ایل کھیلنے والے کھلاڑی خود کو مالی طور پر مستحکم سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کے بہترین کھلاڑی امریکہ آنا چاہتے ہیں‘ اور یہیں کرکٹ کھیل کر مالی طور پر مستحکم ہونا چاہتے ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ حال ہی میں ’20 سے 30 پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹر نے واشنگٹن میں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ ایک ہفتے کے ٹورنامنٹ میں بندہ اتنے پسے کما لیتا ہے جتنے فور ڈے کے تین سے چار ماہ کے سیزن میں کماتا ہے۔‘ وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کا امریکہ جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دوروں کے لیے پاکستانی سکواڈ میں نام نہ آنے پر انھیں مایوسی ہوئی جس کے بعد انھیں یہ فیصلہ لینا پڑا۔ ’میں سمجھ گیا تھا کہ اب انھوں نے مجھے نہیں کھلانا۔ پاکستان میں صرف وہی چل سکتا ہے جس کے پاس (طاقتور حلقوں کی) سپورٹ ہے۔‘ سمیع اسلم کہتے ہیں کہ فی الحال انھوں نے امریکہ کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے مگر وہ اب دوبارہ پاکستان کے لیے کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’افسوس ضرور ہوتا ہے کہ میں پاکستان کے لیے لمبا کھیل سکتا تھا۔‘ ’یہ میری پوری زندگی کے لیے بہت بڑا فیصلہ تھا۔ کرکٹ کے لیے ہی تعلیم کی قربانی دی تھی۔ جب امریکہ آیا تو بڑے سوال کھڑے ہوئے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں کرکٹ ’پاکستان جیسی تو نہیں‘ مگر وہ اپنے فیصلے پر خوش ہیں۔ میجر لیگ کرکٹ امریکہ کی ایک نئی ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے جس کا پہلا سیزن 13 جولائی سے شروع ہو رہا ہے۔ آخری بار امریکہ کی مردوں کی قومی ٹیم نے 2004 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اس کے بعد سے امریکہ کبھی کسی آئی سی سی ٹورٹنامنٹ میں جگہ نہیں بنا سکا۔ مگر اب امریکہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے اور اس میں امریکی ٹیم بھی حصہ لے گی۔ اسی تناظر میں سمیر مہتا اور وجے سرینواسن نے جنوری 2019 میں میجر لیگ کرکٹ کی بنیاد رکھی جو کہ شمالی امریکہ کے سب سے بڑے کرکٹ براڈکاسٹر ویلو ٹی وی کے بھی بانی ہیں۔ کرک انفو کے مطابق اس لیگ کو انڈیا کے ٹائمز گروپ کے علاوہ ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیا نادیلا اور ایڈوبی کے سی ای او شنتانو ناریان کی سرمایہ کاری حاصل ہے۔ میجر لیگ کرکٹ کی چھ میں سے چار ٹیموں کی مالک آئی پی ایل کی فرنچائزز ہیں۔ اس میں شاداب خان، حارث رؤف اور عماد وسیم جیسے پاکستانی کرکٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ امریکہ آئی سی سی کا ایسوسی ایٹ ممبر ہے اور اسے فُل ممبرز کے مقابلے سالانہ بجٹ میں تھوڑا سا حصہ ملتا ہے۔ ایم ایل سی کے شریک بانی سرینواسن نے بی بی سی سپورٹ کو بتایا کہ ’امریکہ میں کھیلوں کے فینز دنیا کے بہترین کھلاڑی دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں پیشہ ورانہ کھیلوں میں یہی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ’وہ کوئی دوسرے درجے کا ٹیلنٹ نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ بہترین لوگ چاہتے ہیں۔‘ ان کا خیال ہے کہ ایم ایل سی کی جانب سے سرمایہ کاری سے ملک میں کرکٹ کو فروغ ملے گا اور اس سے امریکہ کی قومی ٹیم کو بھرپور فائدہ ہوگا۔ اس کے میچ دو گراؤنڈز میں ہوں گے: ٹیکساس اور شمالی کیرولائنا۔ لیگ میں چھ ٹیمیں یا فرنچائز ہیں جن کے مالکوں نے امریکہ میں نئے سٹیڈیم تعمیر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے ذریعے امریکہ کے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو بھی اعلیٰ سطح پر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ سری نواسن نے کہا ہے کہ ’ہم نے ایک چیز کی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ میں کرکٹ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک امریکہ کی اپنی مضبوط کرکٹ ٹیم نہیں بنتی۔‘ ’یہ صرف اس حد تک نہیں کہ ہم ہر 12 ماہ بعد لیگ کروائیں۔۔۔ ہم اس لیے سٹیڈیم نہیں بنا رہے کہ ہر سال ایک بار ایم ایل سی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کی مردوں، خواتین اور انڈر 19 ٹیمیں ان جگہوں پر کھیلیں جہاں دنیا کے بہترین لوگ ان کا مقابلہ کر رہے ہوں گے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ جب 2024 کے دوران امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو رہا ہوگا تو یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امریکہ باقی دنیا کو کڑا مقابلہ دے۔ میجر لیگ کرکٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے ایڈیشنز کے لیے انگلینڈ کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس لیگ کے بانیوں کا کہنا ہے کہ اسے انگلش کرکٹ کے لیے کوئی خطرہ سمجھنا ’تنگ نظری‘ ہوگی۔ اس لیگ میں لیئم پلنکٹ اور جیسن رائے جیسے انگلش کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ انگلش اوپنر جیسن رائے نے انگلینڈ اور ویلز کے کرکٹ بورڈ کے ساتھ اپنا 60 سے 70 ہزار پاؤنڈز کا معاہدہ ختم کر کے میجر لیگ کرکٹ میں شمولیت اختیار کی جہاں اب وہ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈز تک کما سکتے ہیں۔ 32 سال کے رائے نے اس سے قبل انگلینڈ کے لیے کھیلنے کو اپنی ترجیح کہا تھا۔ مگر مختلف کرکٹ لیگز کی جانب سے انھیں پیشکش کی گئی جس نے انھیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ یہ لیگ انگلش کرکٹ سیزن کے وقت پر منعقد ہو رہی ہے اور اسے اب انگلش ٹیم اور کاؤنٹی کرکٹ کے لیے خطرہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم سرینواسن نے اس کی تردید کی ہے کہ میجر لیگ کرکٹ کسی ملک میں اس کھیل کے لیے کوئی خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے بہترین کھلاڑی یہاں کھیلیں۔۔۔ عالمی کرکٹ کیلینڈر میں جگہ بنانی ہوگی تاکہ بہترین کھلاڑیوں کے لیے آسانی پیدا ہو۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gexknlylyo
میچ فکسنگ کے الزامات سے انڈین کرکٹ کو بام عروج پر پہنچانے والے ’گاڈ آف دی آف سائیڈ‘ سورو گنگولی
’گنگولی جانتے ہیں کہ کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کو کیسے پہچانا جائے، کس طرح ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، کس طرح ان کی حمایت کی جائے اور انھیں آزادی دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ گنگولی ایک کامیاب کپتان ثابت ہوئے۔‘ گنگولی کی 50 ویں سالگرہ پر ’لٹل ماسٹر‘ کے نام سے مشہور سچن ٹنڈولکر کے یہ قابل فخر الفاظ گنگولی کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں۔ اتنے سارے نام؟ آج بھی ان کے مداح سورو گنگولی کو ’انڈین کرکٹ کا مہاراجہ‘، ’گاڈ آف آف سائیڈ‘، ’پرنس آف کولکتہ‘ اور ’دادا‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ انھوں نے بلا جھجک انڈین کرکٹ کی روایات کو توڑا۔ وہ فطرتاً زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں۔ گنگولی کی 51 ویں سالگرہ آٹھ جولائی کو منائی جارہی ہے۔ گنگولی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ایک کرکٹر کے طور پر ان کے مداحوں نے بہت سے ناموں سے انھیں پکارا ہے۔ گنگولی میدان پر جارحیت، جوش و جذبہ اور غصے کا مرکب رہے ہیں۔ گنگولی انڈین ٹیم کے اپنے زمانے کے سب سے کامیاب کپتان رہے ہیں۔ انھوں نے اظہرالدین کے ریکارڈ کو بہتر کیا تھا۔ سورو گنگولی کی کپتانی کے دور سنہ 2000 سے 2005 تک کے عرصے کو انڈین ٹیم کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگلے کپتان دھونی نے گنگولی کے بنائے راستے پر سفر کیا اور انڈین ٹیم کو ورلڈ کپ جتوایا۔ یوراج سنگھ، سہواگ، گمبھیر، نہرا، ظہیر خان، ہربھجن سنگھ، دھونی وغیرہ گنگولی نے تراشے تھے۔ اگر گنگولی نامی شخص انڈین ٹیم کی کپتانی نہ کرتا تو انڈین ٹیم 2000 کے کرکٹ بیٹنگ سکینڈل کے بعد اپنی چمک کھو بیٹھتی۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ کپتان گنگولی وہ شخص ہیں جنھوں نے انڈین کرکٹ کو از سر نو تعمیر کیا، اسے عروج پر پہنچایا، نوجوانوں کو پروان چڑھایا اور ٹیم میں نیا خون بھرا۔ جب انڈین ٹیم نے دھونی کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا تو ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی گنگولی کی ورکشاپ میں بنائے اور تراشے گئے تھے۔ سورو گنگولی آٹھ جولائی سنہ 1972 کو مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں چندیداس اور نیروپا گنگولی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کولکتہ کے ایک متمول خاندان سے ہے اور گنگولی کو بچپن سے ہی فٹبال کے کھیل کا جنون تھا۔ لیکن گنگولی کے بڑے بھائی سنیہاشیش گنگولی ان کی کرکٹ سے بہت متاثر ہوئے اور گنگولی نے بھی اپنی توجہ کرکٹ کی طرف مبذول کر دی۔ لیکن ماں نروپا نہیں چاہتی تھیں کہ کولکتہ کے شہزادے گنگولی کی زندگی کھیلوں کے گرد گھومے۔ لیکن اپنے بھائی کے تعاون سے، گنگولی نے کرکٹ کی مناسب تربیت حاصل کی اور ایک عظیم کھلاڑی بن گئے۔ دایاں نہیں، بایاں درست ہے۔۔۔ جب گنگولی نے کرکٹ کی تربیت لی تو وہ دائیں ہاتھ کے بلے باز تھے۔ لیکن انھیں اپنے دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے میں قدرے مشکل پیش آ رہی تھی اس لیے انھوں نے اپنے بائیں ہاتھ سے بیٹ تھامنا شروع کر دیا۔ انھوں نے بائيں ہاتھ سے منظم طریقے سے بلے بازی کی مشق کی کیونکہ بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنا ان کے لیے عجیب تھا۔ انڈر 15 کرکٹ میں سینٹ زیویئرز سکول کی کپتانی کرتے ہوئے گنگولی نے محسوس کیا کہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔ اور انھوں نے اڑیسہ کے خلاف سنچری سکور کی۔ گنگولی کو 1989 میں مغربی بنگال کی ٹیم میں منتخب کیا گیا۔ 1990-91 کے رانجی سیزن میں وہ اپنی شاندار کارکردگی سے سرخیوں میں آئے۔ انڈین ٹیم نے 1992 میں اظہر الدین کی قیادت میں آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ سورو گنگولی نے برسبین کے گابا میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے میں اپنا ڈیبیو کیا۔ کپل دیو اور سری کانت جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ 19 سال کی عمر میں میدان میں اترنے والے گنگولی پہلے میچ میں چھٹے کھلاڑی کے طور پر بیٹنگ کرنے آئے اور تین رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پہلا میچ گنگولی کے لیے ایک امتحان تھا، جنھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ٹیم کے اندر سینیئر کھلاڑیوں کے ساتھ ٹکراؤ کے رجحان کی وجہ سے سیریز کے بعد ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔ انڈین ٹیم میں ایک بار پھر موقع لیکن گنگولی کی سخت محنت اور سخت تربیت کی وجہ سے وہ 1993، 1994 اور 1995 کے رانجی ٹرافی کے سیزن میں بہت کامیاب رہے۔ خاص طور پر 1995-96 کی دلیپ ٹرافی میں گنگولی کے 171 رنز نے انھیں انڈین ٹیم کا مضبوط ترین دعویدار بنا دیا۔ اس کے بعد سنہ 1996 میں گنگولی کو انڈین ٹیم میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دورے کے لیے منتخب کیا گیا۔ پہلے ٹیسٹ میں گنگولی کو موقع نہیں دیا گیا اور اس میں انگلینڈ نے جیت حاصل کی۔ دوسرے ٹیسٹ میں نوجوت سدھو اچانک وطن واپس آگئے اور ان کی جگہ گنگولی نے بطور اوپنر آغاز کیا۔ انھوں نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ڈیبیو کیا اور یکے بعد دیگرے دو سنچریاں بنا کر سب کو متاثر کیا۔ گنگولی نے لارڈز میں دوسرے ٹیسٹ میں اپنا ڈیبیو کیا اور اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری (131) بنائی۔ اسی میچ میں راہول ڈریوڈ نے بھی ڈیبیو کیا اور 95 رنز بنائے۔ گنگولی نے ٹرینٹ برج کے تیسرے ٹیسٹ میں 136 رنز بنا کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔ گنگولی دنیا کے بہترین بلے باز کالی چرن اور لارنس روے کے بعد پہلی اور دسری اننگز میں سنچری بنانے والے تیسرے کھلاڑی بن گئے۔ یہی نہیں، گنگولی کی بلے بازی کی نفاست، بلے بازی کا انداز، شاٹس، اور آف سائیڈ پر لگائے جانے والے شاٹس کی ٹائمنگ کو شائقین اور ناقدین نے خوب سراہا تھا۔ کرکٹ کی دنیا نے گنگولی کو پہچاننا اور منانا شروع کر دیا۔ گنگولی پاکستان کے خلاف 1997 کی سیریز میں لگاتار چار مین آف دی میچ ایوارڈ جیتنے والے واحد کھلاڑی ہیں۔ 1999 کے ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف ڈراوڈ اور گنگولی کی 318 رنز کی شراکت نے کرکٹ کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ گنگولی نے سری لنکا کے خلاف 183 رنز بنائے۔ سال 1999-2000 انڈین کرکٹ کی تاریخ کا سب سے داغدار دور تھا۔ سٹے بازی کے الزامات عالمی کرکٹ کو داغدار کررہے تھے۔ انڈین ٹیم بھی اس طوفان کی لپیٹ میں تھی۔ محمد اظہرالدین اور اجے جڈیجہ پر الزامات عائد کیے گئے اور پابندی عائد کردی گئی۔ سٹے بازی اور سپاٹ فکسنگ نے ’جینٹل مینز گیم‘ کو مجروح کیا اور شائقین میں کرکٹ کا جذبہ اور دلچسپی اچانک کم ہونے لگی اور اسے بڑی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کرکٹ کی قدر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ انڈیا میں بھی گر گئی۔ یہ ایک ایسا مشکل وقت تھا جب ہندوستان میں شائقین کا کرکٹ میں عدم اعتماد نظر آيا اور اسی دوران سورو گنگولی کو انڈین ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔ جب گنگولی کو کپتان مقرر کیا گیا تو انڈین ٹیم کے تین بلے باز سچن، گنگولی اور ڈریوڈ تھے۔ یوراج سنگھ، اور ظہیر خان اپنے ابتدائی دور میں تھے، بولنگ کے شعبے میں صرف وینکٹیش پرساد ہی امید افزا نظر آئے۔ گنگولی کو انڈین کرکٹ کی شبیہ کو بحال کرنے کا کام سونپا گیا جو بدنامی کے سیاہ بادل میں گھرا تھا۔ گنگولی کے کپتانی سنبھالنے کے بعد انڈین ٹیم نے جنوبی افریقہ کے خلاف پانچ میچوں کی ون ڈے سیریز جیتی اور 2000 میں آئی سی سی ناک آؤٹ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی۔ یہ بھی پڑھیے سورو گانگولی کے سات تنازعے جنھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے سورو گنگولی: کیا انڈین کرکٹ کا تنظیمی ڈھانچہ اقربا پروری کی نذر ہو چکا ہے؟ اس وقت سٹیو وا کی قیادت میں آسٹریلوی ٹیم نے عالمی کرکٹ میں دھوم مچا رکھی تھی۔ انھوں نے اپنی سرزمین پر کسی بھی ٹیم کے خلاف ریکارڈ 16 ٹیسٹ میچ جیتے تھے۔ لیکن گنگولی کی قیادت میں انڈین ٹیم نے 2001 میں انڈیا کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی ٹیم کو شکست دی اور آسٹریلیا کی جیت کا سلسلہ توڑ دیا۔ صرف یہی نہیں، اسی سیریز میں ایک نوجوان سپنر ہربھجن سنگھ کو گنگولی نے پہچانا اور انڈین ٹیم میں شامل کیا۔ ہربھجن سنگھ ٹیسٹ سیریز میں ہیرو رہے ہیں۔ گنگولی نے بطور کپتان رائج کنونشنز کو توڑا اور نئی چیزوں کو نافذ کیا، ٹیم میں نیا خون شامل کیا۔ گنگولی نے ماہر وکٹ کیپر نین مونگیا کو ڈراپ کیا اور سباکریم جیسے وکٹ کیپر بلے باز کو موقع دیا۔ جب وہ بھی ناکام رہے تو ڈراوڈ سے کیپنگ کروائی۔ جب سہواگ مڈل آرڈر میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہے تھے تو گنگولی کے ڈرامائی فیصلے نے سہواگ کے کریئر اور انڈین ٹیم کی پوزیشن کو الٹ دیا۔ گنگولی نے سچن کے ساتھ سہواگ سے اوپننگ کرائی جو کہ بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔ گنگولی نے سہواگ کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ سہواگ کے لیے ان کا فیصلہ ایک بڑا اور فیصلہ تھا کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب سچن-گنگولی کی اوپننگ شراکت بین الاقوامی سطح پر شاندار کارنامے انجام دے رہی تھی، گنگولی نے ٹیم کے مفاد میں اپنی پوزیشن چھوڑ دی اور تین نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے۔ اتنا ہی نہیں، جب انڈین ٹیم کو مڈل آرڈر میں ضرب پہنچی تو انھوں نے اس کے لیے عرفان پٹھان اور دھونی کو تیسرے اور چوتھے نمبر پر آزمایا۔ ایک انٹرویو میں سہواگ نے فخریہ انداز میں گنگولی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ گنگولی ہی تھے جنھوں نے بیرونی دنیا کو ثابت کیا کہ دھونی میں بلے بازی کی صلاحیت ناقابل تردید ہے۔ گنگولی کی کپتانی میں نیٹ ویسٹ سیریز کی جیت کو کوئی نہیں بھول سکتا۔ اینڈریو فلنٹوف نے دورہ انڈیا کے دوران ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں انگلینڈ کی جیت کا جشن منانے کے لیے اپنی شرٹ اتار دی تھی۔ اس کے جواب میں جب انڈین ٹیم نے محمد کیف اور یوراج سنگھ کی شاندار کارکردگی کی بدولت انگلینڈ کے خلاف نیٹ ویسٹ سیریز جیت لی تو لارڈز کی بالکونی پر کھڑے کپتان گنگولی نے جیت کا جشن منانے کے لیے اپنی شرٹ اتار کر جواب دیا جو آج بھی لوگوں کے ذہن میں نقش ہے۔ 1983 میں انڈین ٹیم کے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انڈین ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ تاہم، 2003 کے ورلڈ کپ میں گنگولی کی قیادت میں انڈین ٹیم نے فائنل تک رسائی حاصل کی۔ لیکن آسٹریلیا کے خلاف فائنل میں ان کی ٹیم بری طرح سے ہار گئی۔ سنہ 1983 کے تقریباً 20 سال بعد انڈین ٹیم گنگولی کی قیادت میں ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچی تھی۔ اس سیریز میں کپتان اور بلے باز کے طور پر چمکنے والے گنگولی نے تین سنچریوں کے ساتھ 465 رنز بنائے۔ ورلڈ کپ جیتنا 'دادا' کی کپتانی کا ایک بڑا کارنامہ ہوتا، لیکن آسٹریلیا کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے ان کی ٹیم ہار گئی۔ آف سائیڈ اور کور شاٹس میں گنگولی کے شاٹس کو کوئی بھی فیلڈر آسانی سے روک نہیں پاتا تھا۔ جیسے ہی گیند گنگولی کے بیٹ سے ٹکراتی بجلی کی رفتار سے باؤنڈری کی طرف چلی جاتی۔ آف سائیڈ پر، گنگولی بیک فٹ اور فرنٹ فٹ دونوں جگہ سے کھیلنے کے جانے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ راہول ڈراوڈ جنھیں 'وال آف انڈیا' کہا جاتا تھا انھوں نے ہی گنگولی کو 'گاڈ آف دی آف سائیڈ' کا نام دیا تھا۔ انڈین ٹیم کے کپتان کے طور پر گنگولی کے دور میں انڈیا کو کئی کامیابیاں ملیں۔ خاص طور پر ٹیسٹ میچوں میں، 2000 سے 2005 تک، انڈین ٹیم نے 21 ڈومیسٹک ٹیسٹ میچ کھیلے اور 11 میچ جیتے اور صرف 3 میچ ہارے۔ گنگولی نے کل 49 ٹیسٹ میں کپتانی کی، 21 جیتے اور صرف 13 ہارے۔ انڈین ٹیم نے 36 ڈومیسٹک ون ڈے میں سے 18 جیتے اور 18 ہارے۔ انڈین ٹیم نے گنگولی کی قیادت میں بیرون ملک 51 میچ کھیلے اور 24 جیتے اور 24 ہارے۔ گنگولی کی قیادت میں 146 ون ڈے میچوں میں انڈین ٹیم نے 76 جیتے اور 65 ہارے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ گنگولی کی کپتانی نے انڈین ٹیم کی مجموعی ٹیسٹ اور ون ڈے جیت کا فیصد 50 فیصد سے زیادہ رہا ہے۔ 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد گنگولی کا زوال شروع ہو گيا۔ خراب فارم کی وجہ سے گنگولی کو ٹیم سے باہر کر دیا گیا اور کپتانی راہول ڈریوڈ کو سونپ دی گئی۔ بہر حال سٹے میں پھنسی انڈین ٹیم کی شبیہ کو زندہ کرنے کا سہرا صرف ایک گنگولی کے پاس ہے۔ انڈین ٹیم کے عروج کے لیے مختلف تجربات کرنے والے گنگولی انڈین ٹیم کے لیے ایک بھی آئی سی سی ٹرافی نہیں جیت سکے۔ صرف گنگولی ہی تھے جنھوں نے بہت سے نوجوان کھلاڑیوں، تیز گیند بازوں اور سپنروں کو انڈین ٹیم میں متعارف کروا کر بین الاقوامی میدان میں انڈین ٹیم کا چہرہ بدل دیا۔ انڈین ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا اور اب گنگولی کی کپتانی اور ان کی متعارف کردہ نئی اصلاحات کی بدولت اچھا کھیل رہی ہے۔ کئی سابق کھلاڑیوں نے انڈین ٹیم کے کوچ کے طور پر گریگ چیپل کے دور کو ایک سیاہ دور قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔ خاص طور پر چیپل اور گنگولی کے درمیان تنازع کا گنگولی کی بیٹنگ پر برا اثر پڑا۔ گنگولی کے بارے میں بی سی سی آئی کو چیپل کی ای میل اور اس میں لگائے گئے الزامات نے گنگولی کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی۔ بی سی سی آئی نے دونوں فریقوں کو منانے کی کوشش کی۔ لیکن اس معاملے کے بعد گنگولی کی بیٹنگ فارم خراب ہوگئی اور انھیں ٹیم سے نکال دیا گیا۔ جس کے بعد ٹیم سے باہر ہونے والے گنگولی نے اپنی توجہ ڈومیسٹک میچوں اور رنجی کی طرف موڑ دی۔ گنگولی نے 10 ماہ میں پھر انڈین ٹیم میں واپسی کی۔ جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ سیریز میں ان کی فطری شکل سامنے آنے کے بعد انھیں ون ڈے سیریز اور پھر 2007 کی ورلڈ کپ سیریز میں شامل کیا گیا۔ 2007 میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گنگولی کی ڈبل سنچری نے کولکتہ ٹائیگرز کو فارم میں واپس لا دیا تھا اور شائقین پرجوش تھے۔ لیکن گنگولی اپنی شہرت کے عروج کے وقت کرکٹ چھوڑنے کے لیے پرعزم تھے۔ انھوں نے 2008 میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے ساتھ ہی بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ گنگولی ہی تھے جنھوں نے کرسٹن کے بعد انیل کمبلے کو انڈین ٹیم کا کوچ قرار دیا۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی تھی جب کمبلے نے مختلف وجوہات کی وجہ سے آدھے راستے میں ہی چھوڑ دیا۔ بی سی سی آئی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، گنگولی کی ڈے نائٹ ٹیسٹ میچوں کے انعقاد میں تیزی، کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں اضافہ، رنجی ٹرافی کے کھلاڑیوں کی تنخواہ میں اضافہ، خواتین کی کرکٹ پر زور نے انڈین کرکٹ کو ایک نئے دور میں پہنچا دیا ہے۔ سورو گنگولی نے انڈین ٹیم کے لیے 311 ون ڈے کھیلے اور 11,363 رنز بنائے جن میں 32 سنچریاں اور 72 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ گنگولی نے 113 ٹیسٹ میچوں میں 7,212 رنز بنائے ہیں جن میں 16 سنچریاں اور 32 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گنگولی جو کہ ایک میڈیم تیز گیند باز بھی رہے ہیں، انھوں نے بھی بین الاقوامی میچوں میں 100 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ گنگولی کے بیرون ملک میں پہلے وکٹ کے لیے 255 رنز آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ دونوں نے مل کر 136 میچوں میں 7000 رنز بنائے ہیں۔ انھوں نے 26 مرتبہ 100 سے زائد رنز اور 44 مرتبہ 50 سے زائد رنز کی شراکتیں قائم کیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51jyp21457o
دھونی: وہ ’جادوگر‘ جو نظرانداز کھلاڑیوں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے
انڈین پریمیئر لیگ کے پہلے ٹورنامنٹ میں صرف آٹھ ٹیمیں شرکت کر رہی تھیں اور اس ٹورنامنٹ میں تمام شائقین کی توجہ دکن چارجرز کی ٹیم پر مرکوز تھی۔ شائقین کو توقع تھی کہ دکن چارجرز کی ٹیم میں دنیائے کرکٹ کے سب سے جارحانہ بلے باز جیسا کہ گبز، گلکرسٹ، سائمنڈز اور آفریدی موجود ہیں، اس لیے یہ ٹیم ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تاہم غیرمتوقع طور پر یہ ٹیم 14 میں سے 12 میچ ہار کر لیگ میں آخری نمبر پر رہی۔ شاہد آفریدی کی جانب سے اس دوران یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ٹیم کے کپتان وی وی ایس لکشمن کی کپتانی اچھی نہیں تھی۔ دکن چارجرز نے ٹورنامنٹ کے درمیان ہی کپتان کو تبدیل کیا اور پھر اگلے برس اینڈریو گلکرسٹ کی قیادت میں ٹرافی جیتی۔ اسی طرح چنئی سپر کنگز کی بھی مڈ ٹورنامنٹ میں اپنے کپتان کو تبدیل کرنے کی تاریخ ہے۔ پچھلی دو ٹورنامنٹس میں میدان پر بہترین کھلاڑی کے طور پر چمکنے والے رویندر جڈیجا نے پچھلے ٹورنامنٹ کے آغاز پر چنئی سپر کنگز کی کپتانی سنبھالی تھی۔ دھونی کے بعد رویندر جڈیجا سے ٹیم کی قیادت کرنے کی توقع کی جا رہی تھی تاہم انھوں نے اس حوالے س بہت مایوس کیا۔ جڈیجا پر کپتانی کا دباؤ واضح تھا اور وہ اس دوران ان کی اپنی کارکردگی بھی متاثر ہوتی رہی جس کے باعث چنئی سوپر کنگز کو شکست ہوئی۔ دھونی نے پچھلے ٹورنامنٹ کے آخری حصے میں دوبارہ کپتانی سنبھالی، لیکن اس وقت تک وقت گزر چکا تھا۔ لیگ راؤنڈ میں چنئی کی ٹیم 9ویں نمبر پر رہی۔ یہ آئی پی ایل تاریخ کا دوسرا ٹورنامنٹ تھا جس میں چنئی کی ٹیم پلے آف تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ لگ بھگ ان ہی کھلاڑیوں پر مشتمل چنئی سپر کنگز کی ٹیم موجودہ ٹورنامنٹ میں بھی میدان میں اتری۔ ٹیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی اور پھر دھونی نے اس ٹیم کو برقرار رکھتے ہوئے ٹرافی جیت لی۔ گذشتہ سال اور اس سال کھیلنے والی چنئی سپر کنگز کی ٹیم میں سب سے بڑا فرق کپتانی کا ہے۔ دھونی جنھوں نے رویندرا جڈیجا کی جگہ کپتانی سنبھالی اسی ٹیم اور کھلاڑیوں کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے معمول کے منفرد انداز کے ساتھ ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس می کوئی شک نہیں ہے کہ آئی پی ایل میں گدھونی کی کپتانی ہی چنئی سپر کنگز کو ٹورنامنٹ میں دیگر ٹیموں سے الگ کرتی ہے۔ دھونی کی کپتانی عام کھلاڑیوں کو بھی میچ ونر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر ہم ممبئی انڈینز کو دیکھیں تو یہ بھی ایک ایسی آئی پی ایل ٹیم ہے جو اس ٹورنامنٹ میں خاصی کامیاب نظر آتی ہے۔ ممبئی کی ٹیم کے پاس ہمیشہ سچن، جے سوریا، ظہیر خان، روہت شرما، کوئنٹن ڈی کاک، سوریہ کمار، پولارڈ، بمرا، ملنگا جیسے سٹار پلیئرز رہے ہیں۔ ممبئی انڈینز کی ٹیم میچ ونرز سے بھری پڑی ہے جو کئی ٹورنامنٹ میں مستقل مزاجی سے جیتی ہے لیکن اگر آپ چنئی سپر کنگز کو دیکھیں تو اس ٹیم میں ہر ٹورنامنٹ میں ایک نیا میچ ونر ابھرتا رہتا ہے۔ کپتان دھونی، سریش رائنا اور اب رویندر جڈیجہ وہ کھلاڑی ہیں جو طویل عرصے سے چنئی سپر کنگز کے ستون ثابت ہوئے ہیں۔ آئی پی ایل میں چنئی سپر کنگز نے ایسے کھلاڑیوں سے میچ ونر تیار کیے ہیں جو یا تو نامعلوم تھے یا آؤٹ آف فارم تھے۔ اس کی وجہ چنئی سپر کنگز کی ٹیم مینجمنٹ کا رویہ اور کپتان دھونی کی کپتانی ہے۔ دھونی میدان میں کسی بھی مرحلے پر اپنا حوصلہ نہیں کھوتے۔ جب بھی ٹیم سخت مشکلات کا شکار ہوتی ہے تو وہی ہوتے ہیں جو بہت خوبصورتی سے کام کرتے ہوئے ٹیم کو درست سمت میں لے جاتے ہیں۔ دھونی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کو جانتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مخالف کھلاڑیوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں اور اس کے مطابق حکمت عملی بناتے ہیں اور کھیل کو چنئی کی سمت میں موڑ دیتے ہیں۔ آئی پی ایل ٹورنامنٹ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو چنئی سپر کنگز کا بولنگ یونٹ کبھی بھی بہترین نہیں رہا۔ دھونی نے اپنی شاندار فیلڈنگ حکمت عملی سے چنئی کی بولنگ کی کمزوریوں کو دور کیا ہے۔ یہی چیز چنئی سپر کنگز کے بولنگ یونٹ کو خطرناک بناتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کپتان دھونی باقیوں سے الگ ہیں۔ گذشتہ آئی پی ایل ٹورنامنٹ میں کچھ کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کے باعث چنئی کی ٹیم کے پاس ڈیتھ اوورز کرنے کے لیے تیز گیند بازموجود نہیں تھے۔ یہاں دھونی نے اپنے تجربے اور ذہانت کا مظاہرہ کیا اور ایک نوجوان بولر پتھیرانا کو موقع دیا اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے یہ بولر جنھیں ’چھوٹا ملنگا‘ بھی کہا جاتا ہے ٹورنامنٹ میں چھا گئے۔ ایک میچ کے دوران دھونی کو انھیں مشورہ دیتے دیکھا گیا کہ ڈیتھ اوورز میں بولنگ کیسے کی جاتی ہےاس کے بعد سے انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دھونی کا کامیابی کا فارمولہ ایک استاد کی طرح ہے جو ایک طالب علم کو پڑھاتا ہے۔ آج دھونی 42 برس کے تو ہو چکے ہیں لیکن ان کے مداح آج بھی انھیں آئی پی ایل کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ انڈین ٹیم کے سب سے کامیاب ترین کپتان رہ چکے ہیں جن کی قیادت میں انڈیا نے چیمیئنز ٹرافی، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور ون ڈے ورلڈ کپ جیت رکھا ہے۔ ان کی قیادت میں انڈیا ٹیسٹ میچوں میں بھی اول رینکنگ پر آ چکی ہے۔ حالیہ آئی پی ایل میں دھونی دنیا کی سب سے بڑی ٹی 20 لیگ آئی پی ایل میں اپنی ٹیم چنئی سپر کنگز کی کپتانی کرتے ہوئے پانچویں مرتبہ ٹائٹل جیت چکے ہیں اور اب ایک انجری کے باعث آپریشن بھی کروا چکے ہیں۔ تاہم شائقین چاہتے ہیں کہ وہ ایسے ہی چنئی کی کپتانی کرتے رہیں اور ٹیم کو میچ جتواتے رہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cll040jn55ro
نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی تینوں کوہ پیماوں کی مدد سے بیس کیمپ پہنچ گئے
خونی پہاڑ کے نام سے معروف نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی اوران کے مددگار تینوں کوہ پیما بیس کیمپ پہنچ گئے ہیں۔ ڈاکٹر آصف کے دوست اور امدادی کارروائی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق ’بیس کیمپ میں ڈاکٹر آصف بھٹی کا طبی معائنہ کیا جارہا ہے اور یہ جانچا جا رہا ہے کہ انھیں بیس کیمپ سے ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ ‘ ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق ’ڈاکٹر آصف بھٹی بہت تھکے ہوئے ہیں حالت خراب ہے مگر وہ محفوظ ہیں جبکہ اسرافیلی بہت زیادہ تھکا ہوا ہے اس نے اپنی جان کو داؤ پر لگایا ہے جبکہ فضل اور یونس بھی اس وقت آرام کررہے ہیں۔‘ ان چاروں کو بیس کیمپ پر رکھا گیا ہے جہاں ہر قسم کی طبی سہولت موجود ہے۔ اس سے قبل جب پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی کو نیچے لانے کے لیے فضائی ریسکیو آپریشن موسم کی خرابی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا تھا تو ڈاکٹر بھٹی نے ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر آصف کے دوست اور امدادی کارروائی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر سعید بادشاہ نے بتایا تھا کہ پاکستانی کوہ پیما اور ان کے ساتھی انتہائی سست روی سے نیچے اتر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر آصف بھٹی نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلندی سنو بلائنڈنیس کا شکار ہو کر پھنس گئے تھے اور منگل کی صبح انھوں نے آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے نیچے کا سفر شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر سعید کے مطابق آصف بھٹی کیمپ فور پر سنو بلائنڈنیس اور پھر فراسٹ بائٹ کا بھی شکار ہوئے جس کے اثرات اب مرتب ہو رہے ہیں۔ ’ڈاکٹر آصف بھٹی کو نظر بھی کم آرہا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں استعمال کرنے میں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘ ڈاکٹر سعید نے جمعرات کو اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ عسکری ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر صبح سے الرٹ ہے مگر ابھی تک موسم نے اجازت نہیں دی کہ وہ پرواز کر سکے۔ ان کے مطابق اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ موسم کچھ بہتر ہو تو فضائی آپریشن شروع کیا جا سکے۔ ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق حال ہی میں نانگا پربت سر کرنے والے دو پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی اور ساجد سد پارہ کے علاوہ بولیویا کے ایک غیر ملکی کوہ پیما بھی اس آپریشن میں حصہ لینے کا تیار ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ نانگا پربت پر خراب موسم کی وجہ سے آصف بھٹی اور ان کی مدد کرنے والے تین کوہ پیما وہاں رکنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اسی لیے انھوں نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ہے جو انتہائی سست رفتار سے جاری ہے۔ آصف بھٹی نے بدھ کو آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے کیمپ تھری سے نیچے اترنا شروع کیا تھا جبکہ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپ سے دو پاکستانی کوہ پیما یونس اور فضل کیمپ ٹو کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ یہ چاروں افراد بدھ کو شام گئے کیمپ ٹو پہنچے تھے۔ سعید بادشاہ کے مطابق 'دونوں پاکستانی کوہ پیما بدھ کی شام پانچ بجے کیمپ ٹو میں پہنچ گئے تھے۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر آصف بھٹی اور اسرافیل کو ملنے کے لیے کیمپ ٹو سے اوپر روانہ ہوئے جبکہ دوسرے وہاں پر کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتے رہے۔' الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق ’آصف بھٹی کو نیچے اترنے میں قدم قدم پر مدد اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مدد اور سہارا اسرافیل فراہم کر رہے ہیں، جس کی بدولت ڈاکٹر آصف بھٹی کسی حد تک خطرے سے باہر نکلے ہیں۔‘ ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کرنے والے آذربائیجان کے 45 سالہ کوہ پیما اسرافیل نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ چوٹیاں سر کی ہوئی ہیں۔ وہ نانگا پربت سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ کیمپ فور میں انھوں نے ڈاکٹر آصف بھٹی کی مدد کا فیصلہ کیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ آصف بھٹی پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور مہم جوئی کے شوقین ہیں۔ الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اس سے قبل ڈاکٹر آصف بھٹی نے آٹھ ہزار میٹر سے اونچا براڈ پیک پہاڑ بھی سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس سے پہلے وہ سات ہزار میٹر سے بلند سپانٹک چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ پانچ اور چھ ہزار میٹر کے کئی پہاڑ سر کر چکے ہیں۔ کوہ پیما محبوب علی کے مطابق سنو بلائنڈنیس کوہ پیمائی کے دوران کوہ نوردوں کو متاثر کرنے والی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں پر سنو بلائنڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کی عینکیں استعمال کی جاتی ہیں۔ محبوب علی کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ریفلیکشن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا ہے۔‘ محبوب علی کے مطابق ’وقتی طور پر اس سے مسائل ہوتے ہیں بالخصوص اتنی بلندی پر تو بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب اتنی بلندی پر آنکھیں کھولنا ممکن ہی نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹروں کے مطابق سنو بلائینڈنیس فوٹو کیریٹائٹسائر کی ایک شکل ہے جو برف اور برف سے منعکس یا ری فلیکشن سے ہونے والی الٹر اوائلٹ شعاعوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے اور اکثر وقتی ہوتی ہے۔ یاد رہے نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس چوٹی کو فتح کرنے کی خواہش میں اب تک 86 کوہ پیما زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس پر ہلاکتوں کی شرح 21 فیصد ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cj7rdkpndvxo
سرفراز یا محمد رضوان: بابر اعظم کی پہلی چوائس کون؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جب سے محمد رضوان نے بطور وکٹ کیپر بیٹسمین اچھی کارکردگی دکھا کر اپنی جگہ بنائی، تب سے ہی سرفراز احمد کی ٹیم میں واپسی کا سوال ہر اس موقع پر اٹھتا ہے جب کوئی ٹیسٹ سیریز آتی ہے۔ ایک ایسا ہی موقع پھر سے آیا ہے کیوں کہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ٹیسٹ سیریز راوں ماہ کے وسط سے شروع ہونے والی ہے۔ ایسے میں جب کپتان بابر اعظم جمعرات کو پریس کانفرنس کے لیے پہنچے تو ان سے ایک صحافی نے سرفراز کا سوال پھر سے کر دیا۔ واضح رہے کہ ٹیسٹ سیریز کے لیے جس ٹیم کا اعلان کیا گیا ہے اس میں سرفراز اور محمد رضوان دونوں ہی بطور وکٹ کیپر موجود ہیں جبکہ سیریز میں نائب کپتان بھی محمد رضوان ہیں۔ پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آغاز 16 جولائی سے ہو رہا ہے۔ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں مختلف سوالات کے جواب کے دوران بابر اعظم سے پوچھا گیا کہ رضوان اور سرفراز کے درمیان ان کی پہلی چوائس کیا ہو گی اور کیا وہ سرفراز کو ایک بیٹسمین کے طور پر لیں گے؟ اس سوال کے جواب میں پہلے تو بابر اعظم نے جوابا سوال اٹھادیا کہ ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ بطور بیسٹمین کھیل سکتے ہیں؟‘ اس پر صحافی نے دوبارہ پوچھا کہ ’آپ کی چوائس کیا ہے‘ جس پر بابر اعظم نے کہا کہ ’چوائس کا ابھی بتانا قبل از وقت ہے تاہم انھوں(سرفراز) نے پچھلی سیریز بہت اچھی کھیلی۔‘ بابر اعظم نے مزید کہا کہ ’میری کوشش ہو گی کہ میری پہلی چوائس وہی ہوں گے لیکن کوشش کریں گے کہ وہاں جا کر دیکھیں کہ کس کمبینیشن کے ساتھ کھیلیں گے، ہماری بیٹنگ لائن کیا ہو گی؟ تاہم کوشش ہو گی کہ بیسٹ کمبینیشن کے ساتھ کھیلیں۔‘ سنہ 2019 میں سرفراز احمد کی جگہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی پہلے اظہرعلی اور پھر بابر اعظم کو سونپی گئی تھی جس کے بعد سے وہ بطور ریزرو یا متبادل کیپر ٹیم کے ساتھ موجود رہے۔ اسی دوران پاکستان کو وکٹ کیپر کی صورت میں محمد رضوان مل گئے جنھوں نے تینوں ہی فارمیٹس میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ گذشتہ سال بھی انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ایک سنچری بنائی لیکن پھر سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وہ کم سکور پر آؤٹ ہوتے رہے جس کے باعث ان کی جگہ سرفراز کو ٹیم میں جگہ دینے کے بارے میں بحث شروع ہو گئی تھی۔ جب نیوزی لینڈ کی ٹیم گذشتہ برس کے اختتام پر پاکستان آئی تو سرفراز احمد کو موقع دیا گیا اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں انھوں نے دونوں اننگز میں نصف سنچریاں سکور کیں، جبکہ دوسرے ٹیسٹ میچ میں انھوں نے ایک اننگز میں نصف سنچری اور دوسری اننگز میں اپنے ہوم گراؤنڈ پر پہلی سنچری سکور کر ڈالی۔ اس موقع پر سرفراز نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا۔ میں پہلے ٹیسٹ میں بہت دباؤ میں تھا لیکن لڑکوں اور کپتان نے مجھے اعتماد دیا۔‘ سرفراز پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹی ٹوئنٹی کپتان رہے ہیں۔ ان کی کپتانی میں پاکستان آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی جیتا اور ان کی کپتانی میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان نے متواتر فتوحات کا عالمی ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا ایک عرصے تک رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قابض رہا تھا۔ جن کھلاڑیوں نے ان کی قیادت میں ڈیبیو کیے ان میں سے اکثر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کر چکے ہیں۔ محمد رضوان نے اب تک پاکستان کے 27 ٹیسٹ میچوں میں 38 کی اوسط سے 1373 رنز بنائے ہیں جس میں دو سنچریاں اور سات نصف سنچریاں شامل ہیں۔ دوسری جانب سے سرفراز نے پاکستان کے لیے 51 ٹیسٹ میچوں میں 38 کی ہی اوسط سے 2992 رنز بنائے ہیں جس میں چار سنچریاں اور 27 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا نائب کپتان رضوان کو ٹیم سے باہر بٹھایا جائے گا یا ان کو بطور بلے باز کھلایا جا سکتا ہے؟ یہ سوال جب پریس کانفرنس میں بابر اعظم سے کیا گیا تو بابر اعظم نے جواب میں کہا کہ ’ضروری نہیں ہوتا کہ نائب کپتان اگر موجود ہو اور وہ نہ کھیلے تو کوئی فرق نہیں ہوتا۔‘ بابر اعظم کا کہنا تھا ’میرا ماننا ہے کہ جو بیسٹ الیون ہو اس کے ساتھ کھیلا جائے اور موقع اور صورتحال کے مطابق دیکھا جاتا ہے کہ کیا سوٹ کرتا ہے۔‘ پاکستانی ٹیم کے کپتان کی جانب سے تو واضح کر دیا گیا کہ ان کی پہلی چوائس سرفراز ہیں تاہم کرکٹ فینز سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ سپورٹس جرنلسٹ شاہزیب علی نے لکھا کہ ’کرکٹر سرفراز احمد اور محمد رضوان دونوں پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں لیکن یہاں فی الحال اس سچ کو قبول کرنے کی کچھ ہمت پیدا کر لینی چاہیے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے پہلی ترجیح سرفراز ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ادھر سپورٹس جرنلسٹ شعیب جٹ نے بابر اعظم سے پوچھے گئے اپنے سوال و جواب کو ٹویٹ میں لکھا کہ ’آپ (بابر اعظم) کی کپتانی میں ایک سال میں نو میچز میں صرف ایک میچ جیت پائے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ناکامیوں کی وجہ کپتانی ہو سکتی ہے، اگر اس سیریز میں مثبت نتائج نہیں ملے تو کیا آپ کپتانی چھوڑنے پر غور کریں گے؟‘ اس سوال پر جہاں بابر اعظم نے اپنی کپتانی کا دفاع کیا وہیں پی سی بی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے ذکا اشرف نے جواب میں لکھا کہ ’میں نے بابر اعظم کو ٹیم کی کپتانی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ خود کو صحافتی کیریئر تک محدود رکھیں، کپتان بابر ہی رہے گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 بہت سے صارف بابر اعظم کے دفاع میں بھی سامنے آ گئے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا ’کلاسک بلیم گیم کی حکمت عملی۔ چلیں پوری ٹیم کی کارکردگی کو آسانی سے بھول جائیں اور ساری ذمہ داری کپتان پر ڈال دیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 خیال رہے کہ گذشتہ برس اظہر علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے پاکستان کا بیٹنگ آرڈر تاحال مکمل طور پر مستحکم نہیں ہے۔ رواں سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز سے قبل پی سی بی کی جانب سے ٹیم کے اعلان پر یہ معلوم ہوا تھا کہ بلے باز شان مسعود کو ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم شان مسعود کو جنوری میں تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اور بابر اعظم کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’ہم کسی انفرادی کھلاڑی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے چاہے وہ نائب کپتان ہو یا کوئی اور ۔۔۔ ہم نے اپنی بہترین پلیئنگ الیون کھلانی ہے اور سیریز جیتنے کی کوشش کرنی ہے۔‘ خیال رہے کہ گذشتہ برس اظہر علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے پاکستان کا بیٹنگ آرڈر تاحال مکمل طور پر مستحکم نہیں ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ٹیم مینجمنٹ کے نزدیک رضوان بطور ٹیم میں کھیل سکتے ہیں یا نہیں۔ رواں سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز سے قبل پی سی بی کی جانب سے ٹیم کے اعلان پر یہ معلوم ہوا تھا کہ بلے باز شان مسعود کو ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم شان مسعود کو جنوری میں تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اور بابر اعظم کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ہم کسی انفرادی کھلاڑی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے چاہے وہ نائب کپتان ہو یا کوئی اور ۔۔۔ ہم نے اپنی بہترین پلیئنگ الیون کھلانی ہے اور سیریز جیتنے کی کوشش کرنی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2r21jd8z1o
ماں کی جان بچانے کے لیے جگر عطیہ کرنے سے ایتھلیٹ بننے تک کا سفر: ’زیادہ ہلنے سے میرا جِگر اوپر نیچے ہوتا تھا‘
’جب کبھی ہم کار میں ہوتے تھے تو سپیڈ بریکر آنے پر میرا جِگر بھی اوپر نیچے ہوتا تھا۔ بائیں کروٹ پر جِگر بائیں اور دائیں کروٹ پر دائیں لڑھک جاتا تھا کیونکہ جگہ بہت خالی ہو گئی تھی۔ رات میں مجھے صرف سیدھا لیٹ کر سونے کی ہدایت دی گئی تھی۔‘ یہ الفاظ 29 سالہ انڈین ایتھلیٹ انکیتا شریواستو کے ہیں، جنھوں نے اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے اپنے جِگر کا 74 فیصد حصہ انھیں دینے کے بعد سپورٹس جیسے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور غیر معمولی مقام بھی حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالک بھی ہیں لیکن یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ انڈیا کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والی انکیتا اس وقت محض 13 برس کی تھیں جب پتا چلا کہ ان کی والدہ کو جِگر کا مرض ’لیور سروسس‘ ہے جس میں ٹرانسپلانٹ ہی ایک واحد راستہ رہ گیا تھا۔ انکیتا کے بقول انھیں جب بتایا گیا کہ ان کا جگر ان کی والدہ سے میچ ہو گیا ہے تو انھوں نے یہ فیصلہ کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا کہ وہ اپنی والدہ کو اپنا جگر دیں گی لیکن اس وقت ان کی عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کے اٹھارہ برس کے ہونے تک انتظار کیا گیا۔ امید کی جا رہی تھی کہ شاید اس درمیان انھیں کوئی اور ڈونر مل جائے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اٹھارہ برس کی ہونے پر انکیتا کی ٹرانسپلانٹ کے لیے سرجری ہوئی۔ انکیتا بتاتی ہیں کہ سرجری کے لیے جس جوش و خروش کے ساتھ وہ آپریشن تھیٹر میں داخل ہوئی تھیں، سرجری کے بعد ان کی حالت اتنی ہی خراب تھی۔ اس وقت تک لیور ٹرانسپلانٹ کے بارے میں انڈیا میں بھی زیادہ معلومات نہیں تھیں، نہ ہی لوگ یہ جانتے تھے کہ مریض کو آپریشن کے بعد کی حالت کے لیے ذہنی طور پر کس طرح تیار کرنا ہے۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد جب انکیتا کو ہوش آیا تو ان کے پورے جسم سے مختلف آلات کے تار لپٹے ہوئے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مورفین کے انجکشن کی ایک نلی جڑی ہوئی تھی۔ جیسے ہی انھیں تھوڑا ہوش آتا، تو درد سے تڑپ جاتیں۔ ایسے میں نرس اس دوا کی ایک ڈوز ریلیز کر دیتی۔ کئی روز ایسے ہی چلتا رہا۔ جگر کا تقریباً تین چوتھائی حصہ نکل جانے کی وجہ سے اس مقام پر جو جگہ خالی ہو گئی تھی، اس کے سبب انھیں زیادہ ہلنے جلنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی۔ انکیتا بتاتی ہیں کہ ’اسی درمیان ٹرانسپلانٹ کے دو سے تین ماہ کے اندر ہی میری والدہ کی وفات ہو گئی۔ ایک دم ہی اتنا کچھ ہوا کہ ذہنی اور جسمانی طور پر میرے لیے یہ سب سہنا بہت مشکل تھا۔ میں نے سب کچھ شروع سے سیکھا، بیٹھنا کیسے ہے، کھڑا کیسے ہونا ہے، چلنا کیسے ہے۔‘ انکیتا کے بقول والدہ کی وفات کے بعد ان کے والد نے انکیتا اور ان کی بہن سے علیحدگی اختیار کر لی۔ دونوں بہنیں دادا دادی کے ساتھ رہتی تھیں اور گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری بھی بہنوں پر ہی آ گئی تھی۔ انکیتا ٹرانسپلانٹ سے قبل انڈیا میں سوئمنگ اور فٹبال کی نیشنل لیول کھلاڑی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی سپورٹس میں حصہ لے سکیں گی لیکن تمام ذہنی اور جسمانی مشکلات کے باوجود ایک کھلاڑی ہونے کے جذبے نے انھیں ہارنے نہیں دیا۔ انکیتا کے مطابق ’ٹرانسپلانٹ مکمل ہونے پر احساس ہوا کہ زندگی اچانک کتنی بدل جاتی ہے۔ مجھے ٹھیک ہونے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا، جس کے بعد مجھے ورلڈ ٹرانسپلانٹ گیمز کے بارے میں معلوم ہوا۔ میں نے انڈین ٹیم میں سلیکشن حاصل کیا۔‘ ’پھر احساس ہوا کہ کسی صحت مند انسان کے مقابلے میرے لیے وہ سب کچھ کتنا مشکل تھا لیکن کامیابی کی چابی لگن ہے۔ اگر آپ لگن سے کوئی کام کرتے ہیں تو کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔‘ وہ ایک طرف کھیلوں میں واپسی کے لیے دوبارہ ٹریننگ کر رہی تھیں تو دوسری طرف نوکری۔ انھوں نے بتایا کہ وہ صبح چند گھنٹے ٹریننگ کر کے دفتر جاتیں اور دفتر سے واپس آ کر دوبارہ ٹریننگ کرتیں۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد انکیتا سنہ 2019 میں برطانیہ میں ہونے والے ورلڈ ٹرانسپلانٹ گیمز اور 2023 میں آسٹریلیا میں منعقد ورلڈ ٹرانسپلانٹ گیمز میں لانگ جمپ اور تھرو بال مقابلوں میں تین گولڈ اور تین سلور میڈل حاصل کر چکی ہیں۔ انکیتا آج ایک بین الاقوامی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک موٹیویشنل سپیکر اور کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں سٹارٹ اپس شروع کر چکی ہیں اور مستقبل میں اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد انکیتا کے طرز زندگی میں کئی بڑی تبدیلیاں بھی آئیں۔ انکیتا کے بقول ٹرانسپلانٹ کے بعد سے انھوں نے گھر کے باہر کا کوئی کھانا، برگر، پیزا جیسی چیزیں نہیں کھائی ہیں۔ جب کبھی وہ دوستوں کے ساتھ باہر جاتی ہیں، تو اپنا کھانا یا میوہ جات جیسی چیزیں ساتھ رکھتی ہیں لیکن تمام مشکلات کے باوجود وہ زندگی کے مختلف تجربات کرنا چاہتی ہیں۔ پیشہ ورانہ کھیل ہو یا ایڈونچر سپورٹس جیسے سکائی ڈائیونگ یا ڈیپ سی ڈائیونگ، انکیتا کسی تجربے سے خود کو دور نہیں رکھتیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ میری ماں کے پاس ایک سیاہ رنگ کی ڈائری ہوا کرتی تھی جس میں انھوں نے بہت سی باتوں کا ذکر کیا تھا۔ جیسے ’میری بہن کی شادی کرنی ہے، کون کون لوگ مہمان ہوں گے، آفس میں کیا کیا کرنا ہے، کس کس سے میٹنگ کرنی ہے، وغیرہ‘ لیکن وہ سب کچھ ایک جھٹکے میں ختم ہو گیا اور وہ ڈائری رہ گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہر صبح اٹھ کر خود کو یاد دلاتی ہوں کہ بہت سے لوگوں کی نیند میں ہی موت ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے خواب دیکھے ہوں گے جو پورے نہیں ہو سکے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ دن نصیب ہوا ہے اور میں کوشش کرتی ہوں کہ اپنے ہر دن کو بیشتر تجربات سے بھر لوں‘۔ ’ایسا کرنے سے مجھے بہت سے نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں، جن میں کامیابیوں کے ساتھ ناکامیاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سی اچھی چیزیں بھی زندگی میں شامل ہو جاتی ہیں۔‘ انکیتا کہتی ہیں کہ زندگی کسی کے لیے بھی آسان نہیں اور ہم سب کو چاہیے کہ دوسروں کے لیے رحم اور ہمدردی پیدا کریں۔ وہ کہتی ہیں ’جب کوئی اپنے کسی مسئلے کا ذکر کرے تو اسے یہ بتانا کہ اس کا مسئلہ چھوٹا ہے اور آپ کے ساتھ کچھ اس سے بھی زیادہ بڑا ہوا ہے، یہ رویہ غلط ہے‘۔ وہ کہتی ہیں ’ہمیں دوسروں کو سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔‘ اپنی آنے والی زندگی میں وہ صحت کے شعبے میں بھی کئی کام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں لوگوں کے لیے کسی مرض کا علاج کرانا اتنا مشکل کام نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے مستقبل کے پروجیکٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’ہم ایسے ریڈیئیشن سینٹرز قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن تک عام لوگوں کی رسائی آسان ہو تاکہ کینسر کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے انھیں بہت زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔‘ انکیتا کہتی ہیں کہ اگر اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے انھیں دوبارہ جگر عطیہ کرنا پڑتا تو وہ دوبارہ بھی ضرور کرتیں حالانکہ ٹرانسپلانٹ کے باوجود وہ اپنی والدہ کی جان نہیں بچا سکیں لیکن انھیں اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ ابھی زندگی میں بہت کچھ اور بھی کرنا چاہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’اگر میں کاروبار کر رہی ہوں تو کیا کھیل نہیں سکتی؟ یا کھیل کے ساتھ کیا اپنی ماں کی جان نہیں بچا سکتی؟ میں کرنا چاہوں تو سب کچھ کر سکتی ہوں۔ میری زندگی کا یہی فلسفہ ہے اور میں امید کرتی ہوں کچھ لوگ میرے اس خیال سے متاثر ضرور ہوں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4vrl27dmko
آسٹریلیا کے خلاف ’چِیٹس‘ کے نعرے: ’لارڈ میرا پسندیدہ گراؤنڈ ہے، مگر آج وہاں کوئی عزت نہ تھی‘
لارڈز میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ایشز ٹیسٹ اس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا جب آسٹریلوی وکٹ کیپر الیکس کیری نے انگلش بلے باز جونی بیئرسٹو کو کریز سے نکلنے پر آؤٹ کر دیا۔ بیئرسٹو نے بال کے ڈیڈ ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا؟ مگر کیری نے انھیں کریز سے نکلنے پر وارننگ کیوں نہ دی؟ اس واقعے نے کرکٹ کے اصولوں اور ’سپرٹ آف کرکٹ‘ کے درمیان بحث دوبارہ چھیڑ دی ہے۔ مگر بیئرسٹو کو آؤٹ دیے جانے پر لارڈ کے شائقین نے آسٹریلوی ٹیم کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔ جب میچ میں دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو کراؤڈ نے یہ نعرے لگایا ’سیم اولڈ آزیز، الویز چیٹنگ۔‘ یعنی آسٹریلوی ٹیم اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ بےایمانی کرتی ہے۔ بیئرسٹو کی وکٹ کے بعد نئے انگلش بلے باز سٹورٹ براڈ نے آسٹریلوی وکٹ کیپر کیری سے کہا کہ ’آپ کو ہمیشہ اس چیز کے لیے یاد رکھا جائے گا۔‘ انھوں نے میچ کے بعد اس واقعے کو ’کرکٹ میں سب سے بُری چیز‘ قرار دیا۔ اس کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی لنچ کے لیے لارڈ کے لانگ روم میں داخل ہوئے جہاں اس تاریخی گراؤنڈ کے میرلبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کے ممبرز کو یہ اعزاز ملتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو اپنے سامنے سے گزرتا دیکھتے ہیں۔ اس دوران بعض ممبرز نے ’چیٹس، چیٹس، چیٹس‘ کے نعرے لگائے۔ عثمان خواجہ اور ڈیوڈ وارنر جیسے بعض آسٹریلوی کھلاڑیوں نے رُک کر ان ممبرز کو جواب بھی دیے مگر سکیورٹی اہلکاروں نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے کھلاڑیوں اور ممبرز کو ایک دوسرے سے دور رکھا۔ اطلاعات کے مطابق تحقیقات کے بعد تین ایم سی سی ممبرز کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔ جبکہ عثمان خواجہ نے کہا ہے کہ ’لارڈ میرا پسندیدہ گراؤنڈ ہے۔ یہاں اتنی عزت دی جاتی ہے، خاص کر ممبرز پویلین اور لانگ روم میں۔ مگر آج وہاں کوئی عزت نہ تھی۔ میں نے ان لوگوں کی نشان دہی کی۔ میں ممبرز سے بہتر کی توقع کرتا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ممبرز نے کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ ’میں صرف چُپ رہ کر یہ سب نہیں سُن سکتا تھا۔ میں نے ان میں سے کچھ سے بات کرنا چاہی۔‘ ایم سی سی نے اس واقعے پر آسٹریلوی ٹیم سے معذرت کی ہے۔ آسٹریلیا کی ٹیم مینجمنٹ نے کہا ہے کہ کچھ کھلاڑیوں اور سٹاف کو مبینہ طور پر گالیاں دی گئیں اور الزامات لگائے گئے۔ ادھر سٹوکس کہتے ہیں کہ ’جب ہم آسٹریلیا جاتے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔‘ کرکٹ پر بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ایگنیو بتاتے ہیں کہ وہ کئی برسوں سے لارڈز کے گراؤنڈ میں آ رہے ہیں لیکن انھوں نے آج تک ایسے مناظر نہیں دیکھے جو اتوار کو دوسرے ایشز ٹیسٹ کے دوران دیکھنے کو ملے۔ آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز جب انگلینڈ کے خلاف اس ڈرامائی اور متنازع فتح کے بعد گفتگو کرنے آئے تو ان کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ ماحول میں خوف کا عنصر تھا۔ لارڈز میں عموماً اتوار کو آنے والے شائقین کچھ الگ ہوتے ہیں۔ ان 30 ہزار شائقین نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا۔ مگر ایک بات واضح ہے: تکنیکی اعتبار سے جونی بیئرسٹو کی متنازع وکٹ آؤٹ ہی تھی۔ وہ بال کے ڈیڈ ہونے سے پہلے ہی کریز سے باہر نکل آئے اور وکٹ کیپر الیکس کیری نے بڑی چالاکی سے گیند سٹمپس کی جانب پھینک کر انھیں چلتا کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام بیئرسٹو شاید اس لیے کریز سے نکلے تھے تاکہ یہ دیکھ سکیں کے گیند کہاں ٹھپا کھا کر نیچے بیٹھی ہے۔ انھیں لگا کہ بال ڈیڈ ہو ہی چکی ہو گی لیکن کرکٹ میں ایسے نہیں چلتا۔ امپائر احسن رضا بھی سمجھ رہے تھے کہ اوور ختم ہو گیا لہذا وہ کیمرن گرین کی ٹوپی انھیں واپس کرنے جا رہے تھے۔ ایسا لگا جیسے اوور ختم ہو گیا ہے مگر تکنیکی اعتبار سے چیزیں ایسے نہیں ہوتیں۔ مگر اصل مسئلہ دوبارہ ایک پیچیدہ چیز ہے جس کا نام ’سپرٹ آف کرکٹ‘ یعنی کھیل کا جذبہ ہے۔ یہاں بات کرکٹ کے اصولوں کی نہیں ہو رہی بلکہ کچھ غیر تحریر شدہ قواعد و ضوابط ہیں جن کی ہم پیروی کرتے ہیں۔ یہ ایک ذاتی چیز ہے۔ اوور کی گذشتہ تین گیندوں کے دوران بھی بیئرسٹو نے ایسا ہی کیا تھا کہ وہ گیند وکٹ کیپر کے پاس جانے پر کریز سے نکل جاتے تھے۔ لیکن وہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے تھے۔ وہ نہ تو رن لینے کے لیے آگے جا رہے تھے اور نہ ہی سوئنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے تھے۔ شاید کچھ لوگ اس بات سے متفق نہیں ہوں گے لیکن بہتر یہ ہوتا کہ اگر آسٹریلیا بیئرسٹو کو وارننگ دیتا کہ اگر انھوں نے دوبارہ ایسا کیا تو انھیں آؤٹ کر دیا جائے گا۔ سنہ 2009 میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آئی تھی جب انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کے بلے باز گرانٹ ایلیئٹ کو آؤٹ کیا تھا۔ اس ون ڈے میں بولر رائن سائڈ بوٹم کی ٹکر سے ایلیئٹ گِر گئے تھے۔ کپتان پال کالنگ وڈ کو چاہیے تھا کہ وہ اپیل واپس لیتے جب ٹی وی امپائر فیصلے پر سوچ بچار کر رہا تھا۔ اسی طرح ایشز میں آسٹریلوی کپتان کمنز کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ ذہن تبدیل کر کے اپیل واپس لے لیتے۔ جب آپ کھلاڑیوں سے بات چیت کرتے ہیں تو آپ انھیں کہہ سکتے ہیں کہ ’اس بارے میں سو فیصد اعتماد محسوس نہیں کر رہا۔‘ مگر میچ کے بعد کمنز اپنی پوزیشن پر قائم ہیں اور اسے صحیح مانتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے۔ ایک چیز واضح ہے کہ اس واقعے نے انگلش کپتان بین سٹوکس کو غصہ دلایا۔ انھوں نے 155 رنز کی باری کھیلی اور ایک موقع پر یہ میچ آسٹریلیا کی پہنچ سے دور کر دیا۔ مگر گھٹنے پر چوٹ نے سٹوکس کو روک دیا اور وہ آؤٹ ہو گئے۔ سٹوکس انگلینڈ کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ہیں اور ایسا واضح ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم ان سے خوفزدہ ہے۔ کمنز نے ان کی باری کے دوران کئی فیلڈر باؤنڈری پر رکھے ہوئے تھے۔ اب سیریز میں آسٹریلیا کو اب دو صفر کی برتری حاصل ہے۔ تاہم بیئرسٹو کی وکٹ پر انگلش فینز کافی جوش آ گئے ہیں۔ اس سے دونوں ٹیموں کے درمیان تعلقات کچھ بگڑ سکتے ہیں۔ واپسی کے لیے انگلینڈ اس چیز کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1z44kq0gjo
ویسٹ انڈیز: کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والی ’ناقابل تسخیر‘ ٹیم ورلڈ کپ سے باہر کیسے ہوئی؟
ورلڈ کپ کوالیفائرز میں سکاٹ لینڈ کی ٹیم نے حیران کن طور پر ویسٹ انڈیز کو سات وکٹوں سے شکست دی تو اس کے ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ 2023 کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی پہلی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی اس حالت پر تجزیہ کار بھی حیران ہیں کیوںکہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کی 48 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو گا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ مقابلے میں شامل نہیں ہو گی۔ واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 27 جون کو 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کا شیڈول جاری کیا تھا جو 5 اکتوبر 2023 سے انڈیا میں منعقد ہو گا۔ سری لنکن ٹیم نے اتوار کو ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا جس کے بعد بہت سے شائقین پرامید تھے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بھی ورلڈ کپ کھیلنے کا ٹکٹ مل جائے گا۔ ورلڈ کپ کوالیفائر میں ہالینڈ کے خلاف اہم ترین میچ میں ویسٹ انڈیز نے 347 رنز بنائے تھے لیکن پھر بھی وہ میچ نہ بچا سکی۔ سپر سکس مرحلے میں انھوں نے جس طرح کھیلا اس پر میڈیا میں کافی تنقید ہوئی۔ یہ پہلا موقع ہے جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم ون ڈے انٹرنیشنل ورلڈ کپ میں نہیں ہو گی۔ اس سے قبل یہ ٹیم گزشتہ سال آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکی تھی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم وہی ہے جس نے سنہ 1975 اور سنہ 1979 میں لگاتار دو بار ورلڈ کپ جیتا تھا۔ تیسری بار 1983 کے فائنل میں ایک بار پھر فاتح بننے سے انھیں انڈین کرکٹ ٹیم نے روکا۔ لیکن اس کے بعد یہ ٹیم ورلڈ کپ کے کسی بھی فائنل میچ تک نہ پہنچ سکی۔ سال 1996 میں ویسٹ انڈیز سیمی فائنل مرحلے تک پہنچا۔ کھیل کے تقریباً ہر فارمیٹ میں اس ٹیم کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر ایک روزہ میچوں میں ان کے جارحانہ کھیل کی ایک الگ پہچان تھی۔ ہر حال میں ان کا بیٹنگ آرڈر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ویوین رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گورڈن گرینیج، لوگی، رچرڈسن اور برائن لارا جیسے بلے بازوں نے دنیا بھر کے کئی ماہر گیند بازوں کو پچھاڑا۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس ٹیم کے لیے کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔ تب اس ٹیم کے پاس خطرناک اور تیز رفتار بولرز بھی تھے۔ جوئل گارنر، مائیکل ہولڈنگ، اینڈی رابرٹس، میلکم مارشل، کرٹلی ایمبروز، کورٹنی والش، این بشپ کچھ ایسے تیز گیند باز تھے جنھوں نے بہترین بلے بازوں کو بھی ڈرا کر رکھا۔ ان کے پاس کارل ہوپر اور راجر ہارپر کی شکل میں بہترین آل راؤنڈر بھی تھے۔ جیف ڈوجون ایک عمدہ وکٹ کیپر اور بلے باز تھے، جنھوں نے کئی میچ جیتنے والی اننگز کھیلی۔ 1990 کی دہائی کے آخر سے ویسٹ انڈیز کرکٹ کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ پچھلی دو دہائیوں میں چند فتوحات اور ریکارڈز کے علاوہ خوشی کے لمحات کم ہی ان کے ہاتھ آئے۔ ٹیم نہ صرف ایک روزہ کرکٹ میں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنی چمک کھو بیٹھی۔ اگرچہ انھوں نے سال 2012 اور 2016 میں دو بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا لیکن یہاں بھی یہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ بعد ازاں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ان کی کارکردگی میں بھی خرابی آتی چلی گئی۔ اگر ہم ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ موجودہ آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں آٹھویں، ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں 10ویں اور بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ سنہ 2002 میں جمیکا ٹیسٹ جیتنے کے بعد اسے انڈیا کے خلاف کوئی بھی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں۔ اس سیریز کے بعد انڈیا نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آٹھ ٹیسٹ جیتے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف بھی ویسٹ انڈیز کی کچھ ایسی ہی کارکردگی رہی ہے۔ سنہ 2003 کی سیریز کے بعد وہ آسٹریلیا کے خلاف ایک بھی میچ نہیں جیت سکے۔ پچھلے چار سالوں میں تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں انڈیا نے ویسٹ انڈیز کو کلین سویپ کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی بار یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا ویسٹ انڈیز واقعی ایک ٹیم کے طور پر بھی کھیل رہی ہے؟ اکثر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ٹیم میں اتحاد کا فقدان ہے اور یہ ایسے کھلاڑیوں کی ٹیم ہے جو انفرادی طور پر اچھا کھیلتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں مسلسل گراوٹ پر سینیئر صحافی آنند وینکٹرامن نے بی بی سی سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں کمی ایک سال یا ایک دورے میں نہیں آئی، ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1990 کی دہائی سے اپنی فارم کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھی۔ ویو رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گرینیج، مارشل اور ڈوجون کی جگہ لینا آسان نہیں تھا، وہ ایک ایک کر کے ریٹائر ہوئے۔‘ ان کے مطابق ’یہ تمام کھلاڑی اکیلے ہی ایک میچ کو ٹیم کے حق میں بدل سکتے تھے۔ یقینی طور پر لارا اور ایمبروز انفرادی ٹیلنٹ کے ایک ہی زمرے کے کھلاڑی تھے۔‘ ’امبروز کو والش نے سپورٹ کیا، جبکہ لارا کو بہت کم سپورٹ حاصل تھی۔ 2000 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کو زیادہ تر بین الاقوامی ون ڈے ٹورنامنٹس میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جن میں 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ بھی شامل تھے۔‘ وہ کہتے ہیں ’گیل بہت طاقتور بلے باز تھے۔ سروان اور چندر پال نے بھی کچھ حصہ ڈالا۔ لیکن ایک ٹیم کے طور پر یہ کافی نہیں تھا۔ سب سے زیادہ نقصان بولنگ کے شعبے میں ہوا کیونکہ انھیں اچھے کھلاڑیوں کا متبادل نہیں مل سکا۔‘ اس کی وجہ کے بارے میں، وہ کہتے ہیں کہ ’ایتھلیٹکس اور باسکٹ بال نے کیریبین جزیروں میں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے. فٹ بال بھی بہت مقبول ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پہلو سے بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اکثر کھلاڑیوں نے بورڈ کے خلاف بغاوت کی کہ انھیں دوسری ٹیموں کی طرح مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا۔‘ ’اس کے علاوہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے بورڈز کی طرح کرکٹ پر خرچ کر سکیں۔‘ وینکٹارامن کا کہنا ہے کہ ’ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کو دوسرے ممالک کی طرح اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو ترقی دینے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘ ’بہت کم نوجوان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن وہی کھلاڑی آئی پی ایل اور بگ بیش لیگ جیسے کلبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو اپنے بورڈ، کھلاڑیوں اور سابق کھلاڑیوں کو مل کر بدلنا ہوگا۔‘ کئی سالوں تک ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم اپنی جارحیت کے لیے جانی جاتی تھی چاہے وہ بلے سے ہو، بولنگ سے ہو یا فیلڈنگ میں۔ تب دنیا کے کونے کونے میں ان کے چاہنے والے تھے۔ اگر کبھی ویسٹ انڈیز اپنی فارم میں واپس آتا ہے تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ کرکٹ کے لیے بھی بہت اچھا ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qg714ddp3o
’اس شرمناک شکست میں سب کے لیے سبق ہے‘ ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ تک پہنچ نہ سکی
دو بار کرکٹ کی عالمی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ سنیچر کو ہرارے میں ورلڈ کپ کوالیفائر 2023 کے دوران سکاٹ لینڈ نے ویسٹ انڈیز کو سات وکٹوں سے شکست دی ہے۔ خراب کارکردگی پر ویسٹ انڈیز کے ورلڈ کپ سے باہر ہونے پر جہاں ایک جانب گہرے دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس کے سابق کرکٹرز کی جانب سے ایسی تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ٹیم کا معیار اس قدر زوال پذیر ہوچکا ہے کہ یہ مزید گِر نہیں سکتا اور اس میں سب کے لیے نصیحت بھی ہے۔ سکاٹ لینڈ نے ٹاس جیت کر ویسٹ انڈیز کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ اوپنر جانسن چارلس صفر پر آؤٹ ہوئے جس کے بعد ویسٹ انڈیز کے کپتان شائے ہوپ، ٹورٹامنٹ کے ٹاپ سکورر نکولس پوران، آل راؤنڈر جیسن ہولڈر سبھی کو اچھا آغاز ملا مگر وہ کوئی ٹیم کو آخر تک سہارا دینے میں ناکام رہے۔ برینڈن میکمولن نے پہلی اننگز میں اپنے تین اوورز میں تین وکٹیں حاصل کیں۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم خراب بیٹنگ کے باعث 181 پر آل آؤٹ ہوئی۔ دوسری اننگز میں میکمولن نے 69 جبکہ میتھیو کراس نے 74 رنز بنائے اور سکاٹ لینڈ نے تین وکٹوں کے نقصان پر 185 رنز بنا کر جیت سمیٹ لی۔ مگر ورلڈ کپ کوالیفائر میں مزید آگے جانے کے لیے سکاٹ لینڈ کو اب زمبابوے اور نیدرلینڈز کو ہرانا ہوگا۔ یاد رہے کہ پانچ سال قبل ویسٹ انڈیز نے سکاٹ لینڈ کو پانچ رنز سے ہرایا تھا۔ ہوبارٹ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 198 پر آل آؤٹ ہوگئی تھی جس کے جواب میں سکاٹ لینڈ نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر 125 رنز بنا لیے تھی مگر بارش نے کھیل روک دیا۔ ڈک ورتھ لیوس نے ویسٹ انڈیز کو محض پانچ رنز سے فاتح قرار دیا۔ جیت کے بعد میکمون نے کہا کہ ’چیزیں ہمارے حق میں ہو رہی تھیں تو ہمیں اس کا بھرپور استعمال کرنا تھا۔ میں نے تمام وکٹوں کو انجوائے کیا، مجھے بہت اچھا لگا۔ میتھیو (کراس) آج عمدہ کھیلے اور ہم دونوں کا دباؤ برداشت کیا۔ انھیں فارم میں واپس دیکھ کر بہت اچھا لگا۔‘ ادھر اپنی شکست پر ردعمل دیتے ہوئے شائے ہوپ کہتے ہیں کہ ’میں کسی ایک چیز پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ہم نے پورے ٹورنامنٹ کے دوران خود کو مایوس کیا ہے۔ ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا کہ ہم کیسے اننگز کا آغاز کرتے ہیں۔ ’میرے خیال سے فیلڈنگ کا تعلق آپ کے رویے سے ہوتا ہے۔ ہمیں مزید کوشش کرنی ہوگی، خاص کر اپنے رویے کو لے کر۔ کیچ چھوٹ جاتے ہیں، خراب فیلڈنگ ہوتی رہتی ہے، یہ کھیل کا حصہ ہے۔ مگر کوشش موجود رہنی چاہیے۔ ’میرا نہیں خیال ہم نے ہر وقت اپنا 100 فیصد دیا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ہوپ نے کہا کہ ’بنیاد سے شروعات ہوتی ہے۔ گھر واپس جا کر ہمیں بہتر تیاری کرنا ہوگی۔ ہم یہاں آ کر یہ توقع نہیں کرسکتے کہ ہم ایک بہترین ٹیم ہیں جب ہماری تیاری ہی نہ ہو۔‘ ویسٹ انڈین کپتان نے تسلیم کیا کہ ’ہم ایک صبح اٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایک عظیم ٹیم ہیں۔ توجہ دینے کے لیے کچھ ہے، ہم صرف اس چیز کو کنٹرول کر سکتے ہیں جو ہمارے بس میں ہے۔‘ انھوں نے سکاٹ لینڈ کے کھیل کی تعریف میں کہا کہ ’مجھے ان میں نظم و ضبط نظر آیا، خاص کر ان کے بولنگ اٹیک میں۔ ہم ان سے یہ سیکھ سکتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سابق فاسٹ بولر اور کمنٹیٹر این بشپ نے ویسٹ انڈیز کی شکست کو ’دو بار ورلڈ کپ جیتنے والی عظیم ٹیم کا زوال‘ قرار دیا۔ ’کپتان تبدیل کرو، کوچ تبدیل، جسے مرضی تبدیل کرو۔ نتائج وہی رہے جس کی توقع تھی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’گروپ سٹیج کے میچوں میں ویسٹ انڈیز نے فیلڈنگ اور بلے بازی میں بہت خراب کرکٹ کھیلی۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ کھیل کسی صورت قابل قبول ہے؟‘ ان کے ساتھ سابق آل راؤنڈ کارلوس بریتھویٹ نے جواب دیا کہ ’اس کا سیدھا جواب نہ ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے بعد اس بار ہم ایک اور فارمیٹ (ون ڈے) میں موقع گنوا بیٹھے ہیں۔‘ ’یہ زوال کی وہ سطح ہے جس سے آپ مزید نیچے نہیں جا سکتے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اصل کام یہ ہے کہ ٹیلنٹ کو کیسے بہتر بناتے ہیں۔‘ این بشپ نے کہا کہ پوری دنیا میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے فینز کے لیے یہ ایک مشکل سفر رہا ہے۔ ’یہ دو بار عالمی چیمپیئن، دو بار ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن ٹیم کا عروج سے زوال تک کا ڈرامائی سفر رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ سسٹم کا ہے۔ ہمیں سسٹم بدلنا ہوگا، اس میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔‘ خیال رہے کہ ویسٹ انڈیز کے موجودہ کوچ اور سابق کپتان ڈیرن سیمی نے نیدرلینڈز کے خلاف سابقہ شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ہار ہماری کارکردگی کی عکاسی کرتی ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’کبھی کبھار آپ کو اوپر جانے کے لیے سب سے نیچے جانا ہوتا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ویسٹ انڈیز کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق انڈین اوپنر وریندر سہواگ نے کہا کہ ’یہ شرمناک ہے۔ ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹیلنٹ ناکافی ہوتا ہے، اسے توجہ اور بہتر انتظامی ڈھانچہ درکار ہوتا ہے جو سیاست سے پاک ہو۔‘ گوتم گمبھیر کے مطابق ویسٹ انڈیز اب بھی نمبر ون ٹیم بن سکتی ہے جبکہ سابق کپتانی کپتان محمد حفیظ کی رائے میں ویسٹ انڈیز کی ناکامی میں سب کے لیے نصیحت ہے۔ ’پروفیسر‘ حفیظ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل لیول پر قائم رہنے کے لیے انفراسٹرکچر، کھلاڑیوں کی بہتر مینجمنٹ بھی درکار ہوتی ہے۔‘ ادھر شعیب اختر کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہ کرتا دیکھنا بہت افسوس ناک ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qge4le5e5o
فٹبالر پر ریپ کے الزامات: ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں‘
برطانوی فٹبال کلب مانچسٹر سٹی کے کھلاڑی بینجامن مینڈی کے خلاف برطانوی عدالت میں مبینہ ریپ کے الزام سے متعلق سماعت کے دوران جیوری کو بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ایک نوجوان خاتون کا ریپ کیا اور پھر اس سے کہا کہ ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں۔‘ 28 سالہ فٹبالر پر ایک 24 سالہ خاتون پر چیشائر موٹرام سینٹ اینڈریو میں اپنی چالیس لاکھ پاؤنڈ مالیت کی رہائش میں سنہ 2020 میں حملہ کرنے کا الزام ہے۔ ان پر ایک اور خاتون کو ریپ کرنے کی کوشش کرنے کا بھی الزام ہے، جن کی عمر اس وقت 29 برس تھی اور اس خاتون نے عدالت کو یہ بھی بتایا ہے کہ مینڈی نے ان پر دو برس پہلے اپنے گھر میں حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی۔ وہ اس وقت چیسٹر کی کراؤن کورٹ میں ایک ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جیوری میں چھ خواتین اور چھ مرد موجود ہیں اور انھیں ٹرائل جج سٹیفن ایوریٹ نے بتایا ہے کہ فرانس کے شہری مینڈی کو رواں برس جنوری میں دیگر خواتین کی جانب سے جنسی تشدد کے الزامات سے بری کیا گیا تھا۔ انھوں نے جیوری کو یہ بھی بتایا کہ پچھلی مرتبہ جیوری دو الزامات پر حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تھی اور وہ ریپ اور ریپ کرنے کی کوشش کے الزامات ہیں اور اس لیے ان الزامات پر ان پر دوبارہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ جج کی جانب سے انھیں خبردار کیا گیا کہ وہ پچھلے ٹرائل کی تفصیلات نہیں پڑھیں گے اور نہ ہی میڈیا میں اس کی کوریج دیکھنے کی کوشش کریں گے اور اس مقدمے کا فیصلہ صرف ان شواہد کی بنیاد پر کریں گے جو اس عدالت میں موجودہ مقدمے کے دوران سامنے لائے جائیں گے۔ وکیل بینجامن آینا کے سی نے مقدمے کی سماعت کے آغاز میں کہا کہ ’بینجامن مینڈی ایک فٹبالر ہیں جو اس وقت مانچسٹر سٹی کے کانٹریکٹ میں تھے۔ ’وہ اپنے گھر پر محفلیں اور پارٹیز رکھا کرتے تھے اور ان میں مرد اور خواتین دونوں شرکت کرتے تھے۔ استغاثہ کا مقدمہ یہ ہے کہ مینڈی نے دو موقعوں پر ان محفلوں میں موجود خواتین مہمانوں سے زبردستی کرنے کی کوشش کی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایک موقع پر انھوں نے ایک خاتون سے زبردستی سیکس کرنے کی کوشش کی۔ دوسری مرتبہ انھوں نے ایک اور خاتون مہمان کا ایک کمرے میں ریپ کیا۔‘ آینا کا کہنا تھا کہ مینڈی کی پہلی خاتون، جو برطانوی طالبہ ہیں، سے ملاقات بارسیلونا میں ایک نائٹ کلب میں 2017 کے اواخر میں ہوئی تھی جہاں ان کے مینڈی کے ایک دوست کے ساتھ روابط گہرے ہوئے تھے۔ دونوں کا رابطہ بحال رہا اور ایک سال بعد انھوں نے فٹبالر کے گھر پر ان کے دوست سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں وہ دوسری لڑکیوں سمیت رات رکی بھی تھیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اگلی صبح جب وہ نہانے کے لیے باتھ روم میں موجود تھیں تو مینڈی یہاں بن بلائے پہنچے اور انھوں نے صرف باکسر شارٹس پہنے ہوئے تھے اور وہ بظاہر ’ہیجان‘ کا شکار تھے۔ اس کے بعد بتایا گیا کہ فٹبالر نے خاتون کو مبینہ طور پر پکڑا اور انھیں بستر میں ریپ کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران خاتون نے ان کی گرفت سے خود کو چھڑوانے کی کوشش بھی کی اور بارہا انھیں روکا بھی۔ دو برس بعد دوسری خاتون اپنے دوستوں کے ساتھ ایلڈرلی ایج، چیشائر میں ایک بار میں موجود تھیں جو مینڈی کے گھر سے قریب ہے جب فٹبالر نے انھیں اپنے گھر مدعو کیا۔ خاتون کا الزام ہے کہ ملزم نے ان سے ان کا فون لے لیا جس میں ان کی ’ذاتی‘ تصاویر موجود تھیں اور پھر انھیں اپنے لاکڈ بیڈروم میں لے گئے، اس اثنا میں وہ بار بار ان سے اپنا فون مانگتی رہیں۔ آینا کا کہنا ہے کہ مینڈی نے انھیں بتایا کہ ’میں صرف تمھیں دیکھنا چاہتا ہوں‘ اور پھر ان سے اپنے کپڑے اتارنے کا کہا۔ خاتون نے مینڈی کی بات مانتے ہوئے ایسا ہی کیا اور صرف انڈر ویئر نہیں اتارا اور پھر مینڈی نے ان کا فون بیڈ پر پھینک دیا۔ جب وہ اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھیں تو فٹبالر نے مبینہ طور انھیں پھیچے سے پکڑ کر ان کا ریپ کیا حالانکہ وہ انھیں بار بار یہ کہتی رہیں کہ میں سیکس نہیں کرنا چاہتی۔ آینا نے جیوری کو بتایا کہ ’اس موقع پر مینڈی ایک قدم پیچھے ہٹے اور کہا کہ تم بہت شرمیلی ہو۔‘ ’مینڈی نے کہا کہ ’کوئی بات نہیں۔ میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں۔‘ فٹبالر نے پولیس کو بتایا ہے کہ دونوں مرتبہ خواتین کی رضامندی شامل تھی اور وہ ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔ یہ مقدمہ ابھی جاری ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1n4jmg0dyo
کرکٹ ورلڈ کپ: وہ وجوہات جن کے باعث پاکستان چنئی میں افغانستان، ممبئی میں کسی بھی ٹیم سے نہیں کھیلنا چاہتا تھا
کرکٹ ورلڈکپ اور وہ بھی انڈیا میں۔۔۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فٹبال ورلڈکپ برازیل میں منعقد ہو رہا ہو۔ دونوں ہی ممالک کے عوام ان کھیلوں کے دیوانے ہیں اور جب بھی یہاں کوئی بھی ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو اس کا کئی سال پہلے سے ہی بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے اور میچوں کا شیڈول اور ٹکٹس کی خریداری سب سے اہم موضوع بن جاتا ہے۔ تاہم اس مرتبہ انڈیا میں منعقد ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے حوالے سے صورتحال یکسر مختلف تھی اور آئی سی سی کی جانب سے شیڈول کا اعلان کرنے میں بار بار تاخیر ہو رہی تھی۔ اس تاخیر کے حوالے سے آئی سی سی اور انڈین کرکٹ بورڈ دونوں ہی کی جانب سے کوئی ٹھوس وجوہات نہیں بتائی گئی تھیں۔ اسی دوران کرکٹ پر تجزیے اور تبصرے کرنے والی ویب سائٹ کرک انفو پر شائع ہونے والی ایک تحریر نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے آئی سی سی سے آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف میچوں کے شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی گئی تھی جس کے باعث وہ دونوں میچوں میں ’فیورٹ‘ بن جائے گا۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سے پی سی بی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تردید جاری نہیں کی گئی تھی اور سوشل میڈیا پر پاکستان کرکٹ بورڈ پر اس حوالے سے خاصی تنقید بھی کی گئی تھی۔ اب جب بالآخر آئی سی سی نے انڈیا میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کیا، جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیم کو افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ انھی گراؤنڈز پر کھیلنا ہوں گے جہاں ڈرافٹ شیڈول میں درج تھے۔ یعنی پاکستان آسٹریلیا کے خلاف میچ 20 اکتوبر کو بینگلورو جبکہ افغانستان کے خلاف 23 اکتوبر کو چنئی میں کھیلے گی۔ تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایسی درخواست کرنے کی نوبت ہی کیوں پیش آئی۔ یہ خبر اکثر افراد کے لیے خاصی اچھنبے کی تھی پاکستان کی جانب سے افغانستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچ میں شروعات سے ہی ’فیورٹ‘ ہونے کے لیے وینیو میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ پی سی بی اور آئی سی سی کی اس لیکڈ بات چیت سے عام تاثر یہ ملا کہ پاکستان چنئی میں افغانستان سے اس لیے کھیلنے سے خائف ہے کیونکہ چنئی کی پچ سپنرز کے لیے سازگار سمجھی جاتی ہے اور افغان سپنرز جو کہ آئی پی ایل کے دوران بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستانی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں افغانستان نے شارجہ میں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کو 2-1 سے شکست دی تھی۔ ان میچوں کے دوران یوں تو پاکستان نے اپنے سینیئر کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا تھا لیکن سپنرز کو مدد دینے والی ان کنڈیشنز میں افغان بولرز نمایاں طور پر حاوی نظر آئے تھے۔ اس سے قبل بھی پاکستان کی ٹیم کا جب بھی افغانستان سے سامنا ہوا ہے، چاہے وہ ایشیا کپ ہو یا ورلڈ کپ، مقابلہ کانٹے کا ہوتا ہے اور اب دونوں ممالک کا یہ مقابلہ گذشتہ چند سال میں افغانستان کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے بعد سے میدان کے باہر بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس حوالے پی سی بی کے ترجمان سمیع الحسن برنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی سی سی کی جانب سے شیڈول جاری کرنے سے پہلے کرکٹ بورڈز کو بھیجا جاتا ہے اور تمام بورڈز اس پر اپنی آرا سے آگاہ کرتے ہیں اور عموماً آئی سی سی صرف سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہی شیڈول یا گراؤنڈ میں تبدیلی کرتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہماری آئی سی سی سے اس بارے میں ہونے والی گفتگو لیک ہو گئی جس کے باعث ایک غلط تاثر گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘ تاہم پی سی بی کی جانب سے شیڈول میں تبدیلی کی یہ واحد درخواست نہیں تھی جو آئی سی سی کو کی گئی تھی۔ پی سی بی میں موجود ایک اعلٰی اہلکارنے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان نے ممبئی میں کوئی میچ کھیلنے کے حوالے سے ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد اس میں تبدیلی کر دی گئی اور اب پاکستان اگر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ ہر صورت کلکتہ میں کھیلا جائے گا، چاہے یہ انڈیا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات قابلِ ذکر اس لیے بھی ہے کیونکہ سنہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے پاکستان کی ٹیم جب بھی انڈیا میں کھیلی ہے، اس کا میچ کبھی بھی ممبئی میں منعقد نہیں ہوا۔ اس کی عمومی وجہ یہی سمجھی جاتی ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کے مبینہ کردار اور اس حوالے سے لگائے گئے الزامات کے باعث یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 2015 میں جب اس وقت کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور بی سی سی آئی چیرمین ششانک منوہر کے درمیان ملاقات سے پہلے ہی ممبئی میں وانکھیڈے سٹیڈیم میں بی سی سی آئی کے دفتر کے باہر شیو سینا کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا اور اس دوران کچھ کارکن عمارت میں بھی گھس گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے جب سنہ 2012-13 میں انڈیا کا دورہ کیا تھا تو تب بھی دونوں ٹیموں کے درمیان ممبئی میں کوئی میچ نہیں کھیلا گیا تھا۔ اسی طرح سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے دوران بھی پاکستان نے اپنے تمام میچ ممبئی کے علاوہ دیگر گراؤنڈز میں کھیلے تھے اور سنہ 2011 ورلڈ کپ میں صرف ایک میچ انڈیا میں کھیلا تھا جو موہالی میں کھیلا گیا سیمی فائنل تھا۔ پی سی بی اہلکار کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے یہ بھی درخواست کی گئی تھی کہ اس کے دونوں پریکٹس میچ غیر ایشیائی ممالک کے خلاف کھیلے جائیں اور اس درخواست کو بھی آئی سی سی سے منظوری مل گئی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں سنہ 1999 میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران سچن تندولکر کے رن آؤٹ پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا جس پر تماشائیوں نے گراؤنڈ میں بوتلیں اور مختلف چیزیں پھینکنا شروع کر دی تھیں جس کے بعد میچ روکنا پڑا تھا۔ اس کے بعد میچ کے پانچویں روز تماشائیوں کی جانب سے سٹینڈ میں اخبارات نذرِ آتش کیے گئے جس کے بعد سٹیڈیم خالی کروا دیا گیا تھا اور آخری دن کا بقیہ کھیل خالی سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا۔ پاکستان نے یہ میچ 46 رنز سے جیتا تھا۔ اس سے قبل سنہ 1996 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں اس وقت سری لنکا کو ڈیفالٹ فاتح قرار دیا گیا تھا جب میچ کے دوران صرف 22 رنز پر انڈیا کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو گئے تھے اور شائقین نے غصے میں آ کر سٹینڈز کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا تھا جس کے بعد میچ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ پاکستان اس ورلڈکپ میں اپنی مہم کا آغاز چھ اکتوبر کو حیدرآباد سے کرے گا جہاں اس کا مقابلہ اس وقت جاری ورلڈ کپ کوالیفائر کے بعد سامنے آنے والے پہلے کوالیفائر سے ہو گا جو ممکنہ طور پر زمبابوے ہو سکتا ہے۔ اگلا میچ 12 اکتوبر کو حیدرآباد میں ہی کوالیفائر 2 سے ہو گا جو ممکنہ طور پر سری لنکا ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اس ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ یعنی پاکستان انڈیا میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جائے گے۔ اس مقابلے کو نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں رکھنے کی ایک وجہ یہاں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور اس اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے بڑا سٹیڈیم ہے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم بینگلورو کا رخ کرے گی جہاں 20 اکتوبر کو اس کا مقابلہ پانچ مرتبہ ون ڈے ورلڈکپ جیتنے والی آسٹریلوی ٹیم سے ہو گا۔ اس کے بعد وہ میچ ہے جس کے لیے پاکستان نے خصوصی طور پر شیڈول میں تبدیلی کی درخواست کی تھی، یہ افغانستان کے خلاف 23 اکتوبر کو چنئی میں کھیلا جائے گا۔ پاکستان کا اگلا میچ بھی 27 اکتوبر کو جنوبی افریقہ کے خلاف چنئی میں ہی ہے۔ پھر پاکستان کلکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف 31 اکتوبر اور بینگلورو میں نیوزی لینڈ کے خلاف چار نومبر کو لیگ مرحلے میں اپنا واحد ڈے میچ کھیلے گا۔ لیگ مرحلے میں پاکستان اپنا آخری میچ 12 نومبر کو کلکتہ میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گا۔ اس کے بعد اگر پاکستان ٹیم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جاتی ہے تو یہ بھی ہر صورت کلکتہ میں ہی کھیلا جائے گا۔ ٹورنامنٹ کا فائنل نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم احمد آباد میں منعقد ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2qkvy250lo
وہ دن جس نے انڈین کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا
25 جون 1983 وہ سنگ میل ہے جس نے کرکٹ کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس دن کپل دیو کی قیادت میں انڈین کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیت کر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ 1983 سے 2023 کے چالیس سال کے طویل سفر میں انڈین کرکٹ نے کپل دیو سے محمد اظہر الدین، اظہر الدین سے سورو گنگولی، سورو گنگولی سے ایم ایس دھونی، ایم ایس دھونی سے ورات کوہلی تک کا مرحلہ دیکھا ہے۔ آج انڈیا کے اندر ڈومیسٹک کرکٹ کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے، جہاں سے ہر سال باصلاحیت کھلاڑی سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا کی بہترین کرکٹ لیگ، آئی پی ایل انڈیا میں ہے۔ یقیناً اس سب کے لیے جس جوش اور جذبے کی ضرورت تھی وہ لارڈز میں حاصل کی گئی ناقابل یقین کامیابی تھی۔ پہلی بار انڈین کرکٹ شائقین اور کرکٹ کو فروغ دینے والے سپانسرز کو یقین آیا کہ انڈیا عالمی چیمپیئن شپ جیت سکتا ہے۔ اس کامیابی کی وجہ سے ملک بھر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے کرکٹ کو بطور کھیل اپنایا۔ ان سب نے مل کر کرکٹ کو انڈیا کا سب سے مقبول کھیل بنا دیا۔ 1983 کے ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے انڈین ٹیم ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے دعویداروں میں بھی شامل نہیں تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس سے قبل کھیلے گئے دو ورلڈ کپ کے دوران ٹیم کسی بڑی ٹیم کے خلاف ایک بھی جیت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ پہلے ورلڈ کپ 1975 کے دوران انڈیا کی واحد جیت مشرقی افریقہ جیسی کمزور ٹیم کے خلاف تھی۔ انڈیا نے یہ میچ دس وکٹوں سے جیتا تھا۔ لیکن اس کے بعد باقی میچوں میں انڈین ٹیم کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ورلڈ کپ کے میچوں کے علاوہ ٹیم آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور پاکستان کے گراؤنڈ پر وہ مسلسل ہار رہی تھی۔ اس دور کے کسی بھی کھلاڑی سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں: ’ہمارے دور میں نہ کوئی کوچ ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی ٹیم میٹنگ ہوتی تھی۔ نہ کوئی منصوبہ بناتے تھے نہ حکمت عملی۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ گراؤنڈ کے اندر صرف جنٹلمین گیم کے جذبے سے کرکٹ کھیلتے تھے۔' لیکن جب کپل دیو کی قیادت میں ٹیم نے گیانا میں کھیلی گئی تین ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو ٹیم کا اعتماد بڑھ گیا۔ اس کے بعد انڈیا نے ورلڈ کپ کے لیگ میچ میں لگاتار دو بار کی عالمی چیمپئن ٹیم کو 34 رنز سے شکست دی۔ اس کے بعد آسٹریلوی کپتان کم ہیوز نے ناقابل یقین بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انڈین ٹیم اس ورلڈ کپ میں ڈارک ہارس ہے۔ لیکن پھر ان کی باتوں کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا، باقی دنیائے کرکٹ میں تو کیا انڈیا میں بھی اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ لیکن جب بھارت نے لیگ میچوں میں ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو کرکٹ کے کچھ تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے ٹیم پر توجہ دینا شروع کر دیا۔ انگلینڈ کی میڈیا میں انڈین ٹیم کو کپلز ڈیولز کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہ ٹورنامنٹ آج بھی کپل دیو کی زمبابوے کے خلاف 175 ناٹ آؤٹ رنز کی اننگز کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ 17 رنز پر پانچ وکٹیں گنوانے کے بعد انتہائی مشکل وقت میں کپل نے یہ دلیرانہ اننگز کھیل کر ٹیم کو ورلڈ کپ میں قائم رکھا۔ اس کے بعد لارڈز میں کھیلے گئے فائنل میچ میں کپل نے خطرناک بلے بازی کرنے والے ویوین رچرڈز کو جس انداز میں کیچ کیا اسے بھی لوگ نہیں بھولے۔ ورلڈ کپ کے آغاز میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ انڈین ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو جائے گی۔ ٹیم کے اوپنر کرشنماچاری سریکانت اور دیگر کھلاڑیوں نے انگلینڈ ورلڈ کپ کے بعد امریکہ میں چھٹیاں منانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ سریکانت نے بہت پہلے ذاتی طور پر امریکہ کے لیے ٹکٹ بک کرائے تھے۔ دراصل وہ اپنا ہنی مون امریکہ میں منانا چاہتے تھے۔ ورلڈ کپ سے صرف دو ماہ قبل ان کی شادی ہوئی تھی۔ لیکن ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے، کیونکہ ان کی ٹیم نہ صرف فائنل میں پہنچی بلکہ ورلڈ کپ بھی جیت گئی۔ اس جیت کا جشن منانے کے لیے ٹیم کو انڈیا آنا پڑا۔ اس کا مطلب ہے کہ سری کانت کو اپنا ٹکٹ منسوخ کرنا پڑا اور وہ کئی مہینوں کی جیت کے جشن کے بعد ہی امریکہ جا سکے۔ تاہم، پھر یہ بات بہت مشہور ہوئی کہ کپل دیو نے ان سے ٹکٹ کی منسوخی سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس رقم کے بارے میں صرف شری کانت اور کپل دیو ہی بتا سکیں گے کہ یہ رقم انھیں ملی یا نہیں؟ کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انڈیا عالمی چیمپیئن بنے گا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں مقابلہ ویسٹ انڈیز سے تھا جو اس وقت دنیائے کرکٹ پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن 25 جون کو کرکٹ کی دنیا کا سب سے بڑا اپ سیٹ دیکھا گیا۔ فائنل سے پہلے سٹے بازی کے بازار میں انڈیا کی جیت پر ایک پر 200 کا ریٹ تھا۔ لیکن انڈیا کی کامیابی نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا کہ کرکٹ کو غیر یقینی صورتحال کا کھیل کیوں کہا جاتا ہے۔ انڈیا کی اس ناقابل یقین فتح کے بعد سینکڑوں نوجوانوں نے کپل دیو سے متاثر ہو کر کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا۔ دو سال بعد 1985 میں آسٹریلیا ورلڈ چیمپیئن شپ آف کرکٹ کی میزبانی کر رہا تھا۔ پورے ٹورنامنٹ میں انڈیا نے دنیا کی تمام ٹیموں کو شکست دی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ چیمپیئن شپ کے فائنل میں انڈیا نے پاکستان کو شکست دی تو روی شاستری ملک کے ہیرو بن کر ابھرے۔ انھیں سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ انھوں نے اس دور کی مشہور آڈی کار کے ساتھ چیمپیئن آف چیمپیئنز کا خطاب جیتا تھا۔ سیدھے الفاظ میں کہیں تو 1983 کی فتح کے بعد کرکٹ میں سرمایہ کاری آئی۔ انڈین کرکٹ میں امکانات کو دیکھتے ہوئے کھیل کے اداروں نے سٹیڈیم اور تربیتی مراکز بنائے اور مختلف مقامات پر اکیڈمیاں کھول دی گئیں۔ اس کامیابی کے بعد انڈیا میں کرکٹ کی کمرشلائزیشن کا دور شروع ہوا۔ سپانسرز، مشتہرین اور براڈکاسٹرز نے انڈین کرکٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔ بلاشبہ 1983 کے ورلڈ کپ کی فتح کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد انڈیا میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں رہا بلکہ ایک ثقافت کے طور پر ابھرا۔ اس ایک فتح نے کرکٹرز کی کئی نسلیں پیدا کیں، نئے ہیروز پیدا کیے اور کرکٹ کو ہر گھر تک پہنچا دیا۔ 1983 کے ورلڈ کپ میں کامیابی سے قبل انڈین ٹیم بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ کپل دیو کی ٹیم نے انڈین کرکٹ بورڈ کو کرکٹ کی دنیا میں ایک پاور ہاؤس کے طور پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس فتح کے بعد ہی ورلڈ کپ کا انعقاد پہلی بار انگلینڈ سے باہر ہوا اور سنہ 1987 میں اس کا انعقاد انڈیا اور پاکستان نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اس کے بعد ہی سفید فام کرکٹ کے کھیل میں غیر سفید فام ممالک کے غلبہ کا دور شروع ہوا۔ اس کامیابی کے بعد ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ والدین نے اپنے بچوں کو روایتی ہاکی کی بجائے کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دی۔ ان بچوں میں سچن ٹنڈولکر جیسے جینیئس بھی شامل تھے۔ سچن 10 سال کے تھے جب کپل کی ٹیم نے تاریخ رقم کی تھی۔ 16 سال کی عمر میں جب سچن ٹنڈولکر نے پاکستان کے شہر کراچی میں اپنا ڈیبیو کیا، تب تک یہ ملک کرکٹ کے رنگ میں رنگ چکا تھا۔ اس کے بعد سورو گنگولی، وریندر سہواگ، راہول ڈریوڈ، انیل کمبلے، وی وی ایس لکشمن اور ظہیر خان جیسے کرکٹرز سامنے آئے۔ انڈین کرکٹ کی کوئی بھی بحث مہندر سنگھ دھونی کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ ’کیپٹن کول‘ نے انڈین کرکٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ وہ ٹیسٹ کی تاریخ میں واحد کپتان ہیں جنھوں نے اپنی ٹیم کو ہر آئی سی سی ٹرافی، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی اور آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں فتح دلائی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g0mpjnl87o
سپیشل اولمپک گیمز میں چار میڈل جیتنے والے سیف اللہ سولنگی: ’امی نے کہا تھا میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘
’امی ابو نے کہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو سب کچھ کر سکتا ہوں، مجھے کوئی نہیں ہرا سکتا۔ جب مقابلے کے دوران میرا نمبر آیا تو بس ایک ہی سوچ تھی کہ میں نے جیتنا ہے اور ہر حال میں جیتنا ہے۔‘ ’میں خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور مقابلہ جیت کر باہر آیا تو سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے کہ جتنا وزن میں نے اٹھایا، اتنا اٹھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہیں۔‘ یہ کہنا ہے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والے سپیشل اولمپک گیمز کے پاور لفٹنگ مقابلوں میں دو گولڈ، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے پاکستانی کھلاڑی سیف اللہ سولنگی کا۔ سیف اللہ سولنگی نے بیک سکواٹ میں 90 کلو وزن اٹھا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، ڈیڈ لفٹ میں 115 کلوگرام وزن اٹھا کر طلائی تمغہ جیتا اور پھر کمبائنڈ کیٹگری میں 245 کلوگرام وزن اٹھا کر چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ کراچی کے رہائشی سیف اللہ سولنگی کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ میں ضلع دادو سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ان جذباتی لمحات کا تذکرہ کیا جب ان کو میڈل پہنائے گئے۔ ’میڈل پہنتے ہوئے میرے آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ مجھے وہاں پر سب نے گلے لگایا، مبارک باد دی۔ امی، ابو اور میری بہنیں خوش تھیں۔ میں نے یہ مقابلے جیتنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ نہ دن دیکھا، نہ رات دیکھی۔‘ سیف اللہ سولنگی مجموعی طور پر چار میڈل حاصل کرکے بہت خوش ہیں۔ انھوں نے بعد میں اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن بھی منایا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیتے ہیں لیکن اب ان کی نظریں مستقبل میں ہونے والے مقابلوں پر ہیں۔ ’اس کے بعد کئی مقابلوں میں میڈل جتینے کی کوشش کروں گا۔ وکڑی سٹینڈ پر کھڑے ہونے کا اپنا ہی مزہ ہے۔‘ سیف اللہ کو کھیلوں سے رغبت ہے۔ سائیکلنگ، تیراکی۔۔۔ غرض انھوں نے بہت سے کھیلوں میں حصہ لیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے مزہ پاور لفٹنگ ہی میں آیا کیونکہ یہ طاقت اور تکینک کا کھیل ہے۔ اس میں ہر کھلاڑی اپنی طاقت اور ہنر دکھاتا ہے۔‘ لیکن صرف چند سال قبل ہی پاور لفٹنگ شروع کرنے والے سیف اللہ سولنگی نے اتنی جلدی یہ سب کیسے سیکھا؟ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے جب پاور لفٹنگ شروع کی اور پاکستان میں مقابلے جیتنا شروع کیے تو ان کے ہنر کو سراہا گیا۔ ’میرے کوچ اور استادوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں سپیشل اولپمکس میں بھی میڈل جیت سکتا ہوں۔ یہ بات میرے دل و دماغ میں بیٹھ گئی۔ بس اس کے بعد میں نے دن رات محنت کی۔‘ لیکن ان کی محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ گھر والوں اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی نے بھی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ سیف اللہ سولنگی کہتے ہیں کہ ’جب مقابلے کے دوران لفٹنگ کے لیے میرا نام پکارا گیا تو اس وقت مجھے لگا کہ میرے کوچ اور میرے ساتھیوں کو مجھ سے بہت امیدیں ہیں۔‘ ’مجھے لگا کہ میرے ماں باپ، بہنیں اور خاندان والے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔‘ مقابلہ سخت تھا لیکن سیف اللہ کو اپنی صلاحیت اور ٹریننگ پر اعتماد تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے پتا چل گیا تھا کہ کتنا وزن اٹھانا ہے تو فتح مل سکتی ہے۔ مجھے لگا کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔‘ ’میں خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ مقابلہ جیت کر باہر آیا تو سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے کہ جتنا وزن میں نے اٹھایا، اتنا اٹھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔‘ سیف اللہ سولنگی کے والد سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی تربیت اور دیکھ بھال مکمل طور پر ان کی والدہ زاہدہ سفیر نے کی۔ زاہدہ سفیر تین بچوں کی ماں ہیں۔ سیف اللہ کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور سیف اللہ سولنگی کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ سیف اللہ کے بچپن میں ان کو علم نہیں ہوا کہ وہ سپیشل ہیں۔ ’یہ جب بچپن میں بولتا نہیں تھا تو سب کہتے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، سکول جائے گا تو بولنے لگے گا۔‘ لیکن سکول شروع ہوا تو بھی سیف اللہ چپ ہی رہے۔ ’یہ کوئی دوست نہیں بناتا تھا، بس الگ تھلگ سا رہتا تھا۔‘ ’اس کے سکول کے اساتذہ اور پرنسپل نے ہمیں کہا کہ سیف اللہ سولنگی عام بچوں کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے گا، اس کو سپیشل بچوں کے سکول میں داخل کروایا جائے۔ وہ اس کی تعلیم و تربیت کریں گے تو یہ بہتر ہو جائے گا اور بولنا شروع کر دے گا۔‘ پھر زاہدہ سفیر نے سیف اللہ کو نمائش چورنگی کے سکول ایس ار سی ایس میں داخل کروایا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ زاہدہ بتاتی ہیں کہ ’شروع میں پابندی تھی کہ مجھے سکول ہی میں موجود رہنا ہوگا۔‘ ’میں صبح آٹھ بجے جاتی اور دو بجے تک سکول ہی میں رہتی تھی۔ کافی عرصے تک اس طرح چلتا رہا۔‘ ’کچھ عرصے کے بعد انھوں نے کہا کہ اب ضرورت نہیں رہی مگر مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ میرے بیٹے کو میری ضرورت ہے جس کے بعد میں نے اس کو تنہا نہیں چھوڑا۔‘ زاہدہ سفیر کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس کو گھر سے کبھی باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس کو گھر میں مصروف رکھنے کا انتظام کیا۔ اس کو خود پارک لے کر جاتی تھی۔‘ زاہدہ سفیر کہتی ہیں کہ ’میری زندگی کا مقصد سیف اللہ سولنگی کی ایسی تربیت کرنا تھا کہ وہ معاشرے کے لیے کار آمد بنے۔‘ ان کی اس توجہ کے تنائج جلد ہی نظر آنا شروع ہو گئے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’سیف نے سکول میں بہت کچھ سیکھا۔ سکول والوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی جس کے بعد اس نے کھیلوں میں بہتر سے بہتر کارگردگی دکھانا شروع کی۔‘ زاہدہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بھی لگا کہ یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے اسی لیے ہم نے اس کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔‘ سیف اللہ کے خاندان نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ’ہم نے سیف اللہ کو سمجھایا کہ تم بہت باصلاحیت ہو۔‘ ’جب وہ ملکی سطح پر یا مقامی سطح پر بھی کھیلوں میں کوئی مقابلہ جیت لیتا تو ہم سب خاندان والے اس کو انعام دیتے تھے۔‘ پھر وہ دن آیا جب سیف اللہ کو سپیشل اولپمک مقابلوں کے لیے چنا گیا۔ زادہ بتاتی ہیں کہ سپیشل اولمپک کے لیے اس کا انتخاب ہوا تو ’اس کے والد اس کو روز فون کرکے کہتے کہ تم نے یہ مقابلہ جیتنا ہوگا۔ میں بھی کہتی کہ جب تم جیتو گے تو ہم بہت جشن منائیں گے۔‘ ’وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ میں جیت کر ہی واپس آؤں گا، سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا۔ اب وہ بہت خوش ہے اور ہمیں بھی لگتا ہے کہ ہماری اور اس کے استادوں کی محنت رنگ لے آئی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51q2d7zy2zo
بیز بال بمقابلہ روایتی کرکٹ: ایجبسٹن ٹیسٹ میں ہار جو انگلینڈ کے نئے طرزِ کھیل پر ’سوالیہ نشان چھوڑ گئی‘
ایجبسٹن ٹیسٹ کے پانچویں روز آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ایک کلاسک مقابلہ دیکھنے کو ملا اور آسٹریلیا نے دو وکٹوں سے فتح حاصل کر کے سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی تھی۔ ٹیسٹ کے پانچویں روز جب کچھ اوورز بعد میچ پر کبھی ایک تو کبھی دوسری ٹیم کی گرفت مضبوط ہو رہی تھی تو پیٹ کمنز اور نیتھن لائن کی نویں وکٹ کی شراکت نے آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ پانچ روز کی شدید ٹینشن پر مبنی کرکٹ کا بہترین اختتام تھا اور دونوں روایتی حریفوں نے ایشز کی صحیح معنوں میں تشہیر کی اور اس میں موسم نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور صبح کے وقت طویل بارش نے ڈرامہ میں مزید اضافہ کیا۔ تاہم جو بات اس وقت بھی زیرِ بحث ہے وہ یہ کہ کیا انگلینڈ کی جارحانہ حکمتِ عملی جسے عرفِ عام میں بیز بال کا نام دیا جاتا ہے اس شکست کا نتیجہ بنی؟ اس کی ایک وجہ تو سٹوکس کی جانب سے پہلے روز کھیل کے اختتام سے کچھ دیر قبل ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ تھا لیکن دوسری جانب معین علی کو ریٹائرمنٹ سے واپس بلا کر ٹیم میں شامل کرنے پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ پورے میچ میں معین علی دائیں ہاتھ کی انگلی پر کٹ لگا تھا جس کے باعث وہ پورے میچ کے دوران بولنگ کرنے میں مشکلات کا شکار رہے۔ بین سٹوکس نے اپنی پہلی اننگز کی ڈکلیئریشن پر میچ کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال تھا کہ وہ ایک ایسا موقع تھا جس دوران میں حملہ کر سکتا تھا۔ میں صرف اس لیے اپنے طرزِ کھیل کو تبدیل نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایشز سیریز ہے۔ ’کیا پتا ہمیں اضافی 40 رنز مل جاتے یا دو گیندوں پر دو وکٹوں گر جاتیں۔ میں ایسا کپتان نہیں ہوں، جو کیا ہو سکتا ہے اس پر یقین رکھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم میچ کے زیادہ تر دورانیے میں کامیاب کنٹرول میں رہے اور ایک نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ ظاہر ہے ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ ہمیں کامیابی ہو۔ ہمیں بہت دکھ ہے لیکن یہی کھیل کی انوکھی بات ہے۔ یہ بہترین ہے اور جذبات کے اتار چڑھاؤ کا اپنا مزا ہے۔‘ سٹوکس کا کہنا تھا کہ ’ہارنا کسی کو بھی پسند نہیں ہوتا، ہم ہمیشہ جیتنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہم ہار گئے۔‘ انگلینڈ کو اس ٹیسٹ سے قبل گذشتہ 12 ٹیسٹ میچوں کے دوران صرف دو میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان میں سے ایک نیوزی لینڈ کے خلاف صرف ایک رن کی شکست تھی جب انگلینڈ نے ویلنگٹن میں بلیک کیپس کو فالو آن کرنے پر مجبور کیا تھا۔ تاہم اس شکست سے انگلینڈ کو کپتان بین سٹوکس اور کوچ برینڈن مکلم کی سربراہی میں اس نئے طرزِ کھیل کا اب تک کا سب سے بڑا امتحان ثابت ہو گا۔ یہ اس لیے نہیں کہ ان کے جارحانہ انداز آسٹریلوی حکمتِ عملی کے سامنے فیل ہو گیا بلکہ اس لیے کہ وہ جیت کے اتنے قریب تھے اور ان کی اپنی غلطیاں انھیں مہنگی پڑیں۔ ان میں سے فیلڈنگ کے دوران آٹھ چانس چھوڑنا سرفہرست ہے جن میں سے وکٹ کیپر جونی بیئرسٹو کی جانب سے چھوڑے گئے چار چانسز شامل ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم عثمان خواجہ کا دوسری اننگز کے دوران اینڈرسن کی گیند پر وہ کیچ تھا جس کے لیے وہ اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں۔ یہ بات بھی اہم تھی کہ سٹوکس جو اس وقت گھٹنے کی انجری کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور انھوں نے دوسری اننگز کے 70ویں اوور تک بولنگ نہیں کی۔ دوسری جانب جیمز اینڈرسن جو انگلینڈ کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑی ہیں کو دوسری نئی گیند نہیں دی گئی۔ سنہ 2005 کے بعد سے کوئی بھی ٹیم پہلے میچ میں شکست کھانے کے بعد ایشز سیریز جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ انگلینڈ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ آسٹریلیا کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن انھیں اپنی غلطیوں پر قابو پاتے ہوئے ایک بہترین پرفارمنس دینی ہو گی اگر وہ سنہ 2015 کے بعد پہلی مرتبہ ایشز جیتنا چاہتے ہیں۔ یہ میچ صرف 18 برس قبل اسی گراؤنڈ پر کھیلے گئے کانٹے کے ایشز ٹیسٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنے جیسا نہیں تھا بلکہ ایک عرصے میں سب سے زیادہ انتظار کی جانے والی ایشز کا بہترین آغاز بھی تھا۔ زیک کرالی کی جانب سے سیریز کی پہلی گیند کو چوکے کے لیے باؤنڈری تک پہنچانے سے لے کر اس ٹیسٹ میں بہت کچھ تھا۔ انگلینڈ کی جانب سے پہلے ہی روز ڈکلیئریشن کا فیصلہ، چوتھے روز کی پہلی گیند پر روٹ کی جانب سے کمنز کو ریورس ریمپ کرنے کی کوشش اور دونوں ٹیموں کے درمیان طرزِ کھیل کا منفرد انداز۔ تاہم اس سب پر آخری گھنٹے کا ڈرامہ سبقت لے گیا جو ایسے تماشائیوں کے سامنے کھیلا گیا جو صبح کے آغاز کئی گھنٹے جاری رہنے والی بارش کے باوجود وہیں موجود رہے تھے۔ آسٹریلیا کے لیے ان روایتی طرزِ کھیل ان کی معمولی مارجن سے فتح کے بعد اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے فیصلے انگلینڈ کی بیز بال طرز کھیل سے زیادہ بہتر تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کپتان کمنز جنھوں نے پہلے محتاط رہنے کے طرز کھیل کی بنیاد رکھی ہے انھوں نے اس معاملے میں اہم کردار ادا کیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/czq8n6jyxejo
تھپڑ کبڈی: کھلاڑیوں کی خوراک میں ’12 پھول‘ اور جیتنے پر نقد رقم کے علاوہ ڈرائی فروٹ کی بوریاں الگ
ایک لمحے کے لیے آپ فرض کر لیں کہ آپ ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جہاں آپ کے اردگرد ہزاروں افراد کا مجمع صرف اس لیے موجود ہے کہ وہ آپ کو تھپڑ لگتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی۔ ذرا سوچیے آپ کا مخالف ان افراد کی موجودگی میں آپ کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دے۔ رکیے رکیے آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس جگہ پر آپ کو بھی اپنے مخالف کو تھپڑ مارنے کی اجازت ہو گی۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ورکنگ باؤنڈری اور انٹرنیشنل بارڈر کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں ’تھپڑ یا طمانچے دا‘ کبڈی کے نام سے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، جس کو دیکھنے کے لیے لوگ اپنی کھیتی باڑی اور دکانداری تک چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔ ورکنگ باؤنڈری اور انٹرنیشنل بارڈر کے ساتھ ملحقہ علاقے جو نارووال، شکر گڑھ اور سیالکوٹ کی حدود میں آتے ہیں، وہاں پر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اور اب یہ کھیل پنجاب کے مختلف دیہی حصوں میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ عمومی طور پر ’تھپڑ کبڈی‘ کے ٹورنامنٹ کا انعقاد اس وقت ہوتا ہے، جب علاقے میں میلے ٹھیلے کا انعقاد ہو یا پھر کسی صوفی بزرگ کا عرس ہو۔ شکر گڑھ کی تحصیل کوٹ نیناں کے رہائشی تصور حسین کو بھی تھپڑ کبڈی کھیلنے کا شوق ان ہی میلوں میں ٹورنامنٹس دیکھنے کے بعد ہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ خود اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ 12 سال پہلے اس کھیل کا حصہ بننے والے تصور حسین کو اب اس کھیل کا ماہر کھلاڑی مانا جاتا ہے اور جب بھی کوئی ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو ان کی جیت کا امکان دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے میچ کی فیس بھی دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ تصور حسین تھپڑ کبڈی شوق کی خاطر کھیلتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ شوق ان کی آمدن کا ذریعہ بھی ہے تاہم اس کو مستقل آمدنی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جب میچز ہوں گے اور لوگ ان میچز کو دیکھنے کے لیے آئیں گے تو پھر ہی ٹورنامنٹ کی انتظامیہ اور شائقین سے پیسے ملتے ہیں اور یہ پیسے ہزاروں سے لے کر لاکھوں میں بھی ہوتے ہیں۔ تصور حسین کا کہنا تھا کہ بعض میچز میں انعامی رقم کے علاوہ انتظامیہ اور لوگوں کی طرف سے کھلاڑیوں کو باداموں اور ڈرائی فروٹ کی بوریاں بھی دی جاتی ہیں۔ تصور اقبال کے بقول انھیں بھی چار، پانچ مرتبہ باداموں کی بوریاں بطور انعام میں ملی ہیں۔ تصور حسین نے بتایا کہ اس کھیل کے لیے محض طاقت نہیں بلکہ ذہانت کا بھی مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ تصور حسین کا کہنا تھا کہ تھپڑ کبڈی کے کھلاڑیوں کو پورا سال اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس خوراک کو کھلاڑی ’بارہ پھول‘ کے نام پکارتے ہیں یعنی سال کے بارہ مہینوں میں خوراک کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرد موسم میں ٹھنڈی چیزیں نہیں کھا سکتے اور گرم موسم میں زیادہ گرم چیزوں سے پرہیز کرنا ہوتا ہے جبکہ برسات کے مہینوں میں ورزش میں کمی کے ساتھ خوراک میں سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا ہوتا ہے۔ تھپڑ کبڈی کے ایک اور کھلاڑی محمد اویس جٹ کے مطابق اس کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ملک کے دوسرے علاقوں کے بااثر اور صاحب حیثیت لوگ بھی اپنے اپنے علاقے میں تھپڑ کبڈی کے میچوں کو انعقاد کرواتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو لانے لے جانے، ان کے قیام و طعام اور میچ فیس کے علاوہ نقد انعام دینے کی ذمہ داری میچ انتظامیہ کی ہوتی ہے۔ اویس جٹ نے بتایا کہ میچ کے دوران کسی کھلاڑی کی بہتر کارکردگی پر تماشائیوں کی طرف سے ملنے والا انعام، جو نقد رقم کی صورت میں ہوتا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس تیزی سے یہ کھیل مقبول ہو رہا ہے تو اس کو دیکھتے ہوئے سرکل کبڈی کھیلنے والے کھلاڑی بھی تھپڑ کبڈی کا حصہ بن رہے ہیں۔ اویس جٹ کا کہنا تھا کہ ایک عمومی سطح کا کھلاڑی اس کھیل سے ماہانہ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک کما لیتا ہے۔ یہ کھیل سرکل کبڈی سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ اس میں ایک ٹیم دس کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہےاور میچ کے دوران مخالف ٹیموں کا ایک ایک کھلاڑی ایک دوسرے کے سامنے آتا ہے جبکہ سرکل کبڈی میں ایک کھلاڑی، جس کو ’ریڈر‘ کہتے ہیں مخالف ٹیم کے پول میں جاتا ہے اور اس کو پکڑنے والے چار کھلاڑی ہوتے ہیں، جن کو ’ڈیفینڈر‘ کہا جاتا ہے۔ اس کھلاڑی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ان چار کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کھلاڑی کو چھو کر واپس اپنے پول میں آ جائے جبکہ جس کھلاڑی کو ہاتھ لگایا گیا ہو، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ریڈر کو کراسنگ لائن تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ تھپڑ کبڈی میں ریفری کی سٹی بجنے کے بعد دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اس کھیل میں مکا مارنے کی اجازت نہیں اور کوئی وقت بھی مقرر نہیں کہ اتنے وقت میں ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے ہیں۔ جب تک کوئی کھلاڑی تھپڑ کھا کر گر نہیں جاتا یا تھپڑ مارنے والا اپنے مخالف کو تھپڑ مارتے مارتے وہ لائن کراس نہیں کر جاتا، جو کہ دونوں ٹیموں کو تقسیم کرتی ہے۔ تھپڑ کبڈی کے میچ کا دورانیہ ایک گھنٹے سے زیادہ کا ہوتا ہے اور میچ کا فیصلہ پوائنٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کبڈی میچ میں ہر کھلاڑی کو کم از کم تین مرتبہ مخالف ٹیم کے پول میں جا کر اپنے مخالف کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ ورکنگ باؤنڈری کے علاقے چن مان سنگھ کے نوے سالہ رہائشی محمد صدیق کا کہنا ہے کہ یہ کھیل پاکستان اور انڈیا کی آزادی سے پہلے سے ان علاقوں میں کھیلا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد بھی جب ورکنگ باؤنڈری پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی اس وقت بھی انڈیا کے علاقے گرداس پور سے پہلوان اور کھلاڑی پاکستان میں آ جاتے تھے اور میچ کھیلتے تھے تاہم باڑ لگنے کے بعد ان کا آنا جانا بند ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے تھپڑ کبڈی کے ٹورنامنٹ نہیں ہو سکے تھے کیونکہ میچز کا زیادہ مزا پاکستانی اور انڈین پنجاب کے سکھ پہلوانوں کے درمیان ہونے والے میچ میں آتا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2119npql8o
نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی کی دوڑ سے باہر: رمیز راجہ کی ’بددعا‘ اور کھیل میں سیاست کا شور
پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمینٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی کی دوڑ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ گذشتہ رات ٹوئٹر پر اپنے بیان میں نجم سیٹھی نے لکھا کہ ’میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان تنازعے کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ ایسا عدم استحکام پی سی بی کے لیے ٹھیک نہیں۔ میں موجودہ صورتحال میں چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں ہوں۔ تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے نیک تمنائیں۔۔۔‘ واضح رہے کہ گذشتہ چند روز سے یہ قیاس آرائیاں عام ہیں کہ چیئرمین پی سی بی کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان تنازع چل رہا ہے اور اس دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ذکا اشرف کو چیئرمین بنانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ نون نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی رکھنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اسی معاملے پر نجم سیٹھی کو ذکا اشرف کے مقابلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا رہا ہے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ احسان الرحمان مزاری نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ چیئرمین پی سی بی زکا اشرف ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ وزارت کھیلوں کے معاملات بھی دیکھتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کے تحت 10 رکنی بورڈ آف گورنرز میں ریجن اور اداروں کے چار چار اراکین شامل ہوتے ہیں جبکہ دو کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے ہوتا ہے۔ مئی 2013 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ذکا اشرف کی معطلی کے بعد جون میں نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا عبوری چیئرمین مقرر کیا گیا تھا لیکن اسی سال اکتوبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نجم سیٹھی کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ جنوری 2014 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ذکا اشرف کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا لیکن فروری میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ذکا اشرف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور گیارہ رکنی کمیٹی کے سپرد کر دی جس کے سربراہ نجم سیٹھی تھے۔ مئی 2014 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکا اشرف کو ایک بار پھر بحال کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے نجم سیٹھی کی بحالی کا حکم سنا دیا۔ عدالتی جنگ کے اس طویل سلسلے کا ڈراپ سین اس طرح ہوا کہ نجم سیٹھی نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے بیان میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے اگلے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور اگست 2014 میں شہریار خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے جبکہ نجم سیٹھی نے ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری سنبھال لی۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی طاقتور ترین شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور کرکٹ بورڈ کے ہر اہم فیصلوں میں ان کی مرضی شامل رہی۔ نجم سیٹھی کا شمار ملک کے سینئر ترین صحافیوں اور تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے۔ وہ سنہ 2013 کے عام انتخابات کے موقع پر پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 نجم سیٹھی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر نجم سیٹھی کے ساتھ ساتھ ذکا اشرف کا نام بھی ٹرینڈ کر رہا ہے اور صارفین اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ سپورٹس جرنلسٹ فیضان لکھانی نے لکھا کہ ’دسمبر 2022 میں رمیز راجہ، جنوری 2023 میں نجم سیٹھی، جولائی 2023 میں ایک نیا چیئرمین (ممکنہ طور پر ذکا اشرف)۔۔۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’اور مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات نہیں جیتتی تو ہم ایک اور چیئرمین پی سی بی دیکھیں گے۔‘ کچھ ایسے ہی خیال کا اظہار سپورٹس جرنلسٹ شاہزیب علی نے بھی کیا۔ انھوں نے لکھا کہ دسمبر رمیز راجہ، جنوری نجم سیٹھی اور جون ذکا اشرف۔۔۔ تین ماہ میں عام انتخابات ہیں تو 12 ماہ میں ہم چار چیئرمین دیکھیں گے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 صارف اسرار احمد ہاشمی نے لکھا کہ ’رمیز راجہ، نجم سیٹھی اور ممکنہ طور پر اب ذکا اشرف۔۔۔ آٹھ ماہ میں پی سی بی کا تیسرا چیئرمین۔۔۔ اور پانچ چھہ ماہ میں الیکشن نہیں ہوتے تو چوتھا چیئرمین بھی آ سکتا ہے۔ یہ مسئلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک کرکٹ بورڈ کو سیاست سے آزاد نہیں کیا جاتا۔‘ صحافی نسیم زہرہ نے لکھا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نجم سیٹھی نے پی سی بی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کو ثابت کر دیا۔ پیپلز پارٹی اب اپنا چیئرپرسن لائے گی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 صحافی ارفع فیروز نے لکھا کہ ’عمران خان نے چیئرمین پی سی بی کے لیے رمیز راجہ کو نامزد کیا۔ شہباز شریف نے نجم سیٹھی کو جبکہ ذکا اشرف آصف زرداری کی تجویز پر چیئرمین پی سی بی بنیں گے۔ ہم کھیلوں میں سیاست نہیں چاہتے لیکن واضح طور پر چیئرمین پی سی بی کو سیاست کی بنا پر مقرر کیا جاتا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 کچھ صارفین اس موقع پر میمز شیئر کرتے بھی نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ نجم سیٹھی اب دوبارہ سے صحافی بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نومی شاہ نے لکھا کہ ’نجم سیٹھی نے استعفی دے دیا، لازمی رمیز راجہ کی بددعا لگی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cll01leqqvjo
آسٹریلیا میں ایسا خاص کیا ہے جو انڈیا کے تارکین وطن کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے؟
روہت سنگھ ایسے لہجے میں بولتے ہیں جو ان کی والدہ کے لہجے سے واضح طور پر مختلف ہے۔ وہ دوسری نسل کے انڈین تارکین وطن ہیں جو مارننگٹن جزیرہ نما میں آباد ہیں۔ یہ علاقہ آسٹریلین شہر میلبرن سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ پچھلے دو سالوں سے وہ اپنے والدین کی وائنری ’بوٹیک آونی‘ کو چلانے میں مدد کر رہے ہیں۔ یہ وائنری انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی میں آسٹریلیا نقل مکانی کے بعد قائم کی تھی۔ روہت سنگھ کا کہنا ہے کہ پچھلی دہائی میں میلبرن میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس لیے آونی نے وائن پیئرنگ ایونٹس کی میزبانی شروع کر دی ہے جس میں مخصوص انڈین پکوانوں کو مختلف شراب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے مین پولیچھاتھو (جنوبی انڈیا کے مخصوص انداز میں پکئی مچھلی) کو پنوٹ گریس شراب کے ساتھ پیش کرنا یا دال مکھنی کو پینوٹ نوائر شراب کے ساتھ پیش کرنا غیرہ۔ ان تجربات کے پیچھے جو شیف اور ریستوراں چلانے والے ہیں وہ ان سات لاکھ سے زیادہ انڈینز میں سے ہیں جو آسٹریلیا میں رہتے ہیں اور وہ دنیا کی سب سے بڑی 'تارکین وطن' آبادی میں سے ایک ہیں۔ ملک کی تازہ مردم شماری کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انڈینز اب آسٹریلیا میں دوسرے سب سے بڑے مہاجر گروپ ہیں اور انھوں نے چینی تارکین وطن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ انگریزوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ انڈیا کے تارکین وطن کی نئی لہر بہت حد تک ٹیک سیکٹر کی وجہ سے سامنے آئی ہے کیونکہ ملک میں ہنر مند کارکنوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ آرتی بیٹیگیری ایک صحافی ہیں اور وہ ان دنوں آسٹریلیا میں پروان چڑھنے والے انڈین کے تجربات پر مبنی ایک کتاب کی ادارت کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے والدین سنہ 1960 کی دہائی میں آسٹریلیا منتقل ہوئے تو وہاں انڈیا کے لوگ شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے اور وہ ان کی عوامی زندگی کا حصہ نہیں تھے۔ لیکن آج چیزیں مختلف ہیں۔ ’وہ تمام شعبوں کی ملازمتوں میں ہیں، اپنے کاروبار چلا رہے ہیں اور سیاست میں بھی داخل ہو رہے ہیں۔‘ حال ہی میں منتخب ہونے والی نیو ساؤتھ ویلز حکومت میں چار انڈین نژاد سیاستدان ہیں جن میں ڈینیئل موکھی بھی شامل ہیں۔ مسٹر موکھی مارچ میں آسٹریلوی ریاست کے خزانچی بنے اور اس طرح وہ کسی آسٹریلوی ریاست پہلے ہند نژاد سیاست دان ہیں جو اس حیثیت تک پہنچے ہیں۔ ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ انڈین-آسٹریلین باشندوں کے ساتھ غیر یورپی نسب والوں کی اب بھی سیاست میں، خاص طور پر وفاقی سطح پر بہت کم نمائندگی ہے۔ مز بیٹیگیری کہتی ہیں کہ سافٹ پاور کی برآمدات نے دونوں ممالک کو متحد کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ سڈنی میں ہونے والی ایک حالیہ ریلی میں انڈین تارکین وطن نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ وہاں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈیا آسٹریلیا کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ٹی وی شو ماسٹر شیف آسٹریلیا، کرکٹ اور فلمیں دونوں ممالک کے لوگوں کو اکٹھا کر رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت جو سنہ 2014 سے انڈیا میں برسراقتدار ہے اس نے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نومبر سنہ 2014 میں مودی کا آسٹریلیا کا دورہ تقریباً تین دہائیوں میں کسی انڈین وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ گذشتہ ماہ مئی میں سڈنی کے اپنے حالیہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے ہجرت کے ایک معاہدے کا اعلان کیا تاکہ طلباء، ماہرین تعلیم اور پیشہ ور افراد کے لیے انڈیا اور آسٹریلیا میں سفر اور کام کرنا آسان بنایا جا سکے۔ انھوں نے ایک جامع اقتصادی تعاون کے معاہدے کو انجام دینے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا جو گذشتہ اپریل میں دستخط کیے گئے معاہدے کا نتیجہ ہے۔ مارچ میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا پہلا سرکاری دورہ انڈیا کا کیا اور دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے دفاع اور سلامتی، اقتصادی تعاون، تعلیم اور دو طرفہ تجارت پر تبادلہ خیال کیا۔ عالمی پبلک پالیسی ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ سی یو ٹی ایس انٹرنیشنل کے ساتھ کام کرنے والے پردیپ ایس مہتا کہتے ہیں: ’وزیر اعظم اور وزراء کی متواتر ملاقات نے دو طرفہ تعلقات کو گہرا کیا ہے جو پہلے نہیں دیکھا گیا ہے۔‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس شراکت داری کو دونوں ممالک کے سود مند کہا جا رہے ہے۔ یہ دونوں ممالک اس چار ملکی کواڈ گروپ کا بھی حصہ ہیں جس کا مقصد ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے تسلط کو محدود کرنا ہے۔ یہ بھی پڑھیے آسٹریلیا میں مقیم وہ جوڑا جس کی شادی انڈیا پاکستان کرکٹ سیریز کے ویزا پر ہوئی آسٹریلیا: طلبہ پر حملے، انڈیا کی تشویش ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان تعلق لاکھوں سال پرانا ہے کیونکہ گونڈوانا نامی براعظم کبھی جسمانی طور پر ایک ہوا کرتا تھا موجودہ دور کی قوموں کو جوڑتا تھا۔ بہر حال انڈینز کی آسٹریلیا ہجرت کرنے کی تاریخ بہت متنوع اور منقسم ہے۔ ابتدائی تارکین وطن سنہ 1800 کی دہائی میں ہندوستان سے آنے والی برطانوی رعایا تھے جو کہ مزدور یا نوکر کے طور پر آسٹریلیا پہنچے تھے۔ اس کے بعد سنہ 1900 کی دہائی میں ہندوستانیوں کی ایک وسیع رینج نے ہجرت شروع کی اور وائٹ آسٹریلیا کی پالیسی کے بعد ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ وائٹ آسٹریلیا ایک نسل پرستانہ قانون تھا جو غیر سفید فاموں کی ہجرت کو محدود کرتا تھا لیکن اسے سنہ 1973 میں ختم کر دیا گیا۔ آسٹریلیا میں انڈین باشندوں پر ایک کتاب کے شریک مصنف اور محقق جینت باپت کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد بھی، آسٹریلیا تارکین وطن کا خیرمقدم کرنے میں بہت محتاط رہا اور اس نے صرف ہنر مند تارکین وطن، جیسے کہ ٹیک ورکرز، ڈاکٹروں، نرسوں اور ماہرین تعلیم کا خیرمقدم کیا اور وہ بھی بہت چھوٹے پیمانے پر۔‘ اصل گیم چینجر سنہ 2006 میں آیا جب جان ہاورڈ کے زیرقیادت حکومت نے انڈین طلباء کے لیے آسٹریلیا کے دروازے کھول دیے اور ایسے پالیسی اقدامات متعارف کرائے جس سے ان کے لیے مستقل رہائش حاصل کرنا آسان ہو گیا۔ مسٹر باپت کہتے ہیں: ’انڈین طلباء اب بھی عارضی مہاجرین کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں کیونکہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کو آسٹریلیا میں آباد ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘ لیکن اس کی وجہ سے کشیدگی بھی رہی ہے۔ سنہ 2000 کی دہائی کے آخر میں، سڈنی اور میلبرن میں ہندوستانی طلباء پر متعدد پرتشدد حملے ہوئے جس نے عالمی سرخیاں بنائیں۔ اس کے خلاف سینکڑوں انڈین تارکین وطن احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ انڈیا نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور آسٹریلوی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ تشدد کے اکا دکا واقعات اب بھی کبھی کبھار رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہجرت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایشیائی اور جنوبی ایشیائی ممالک سے آنے والے تارکین وطن آسٹریلوی معاشرے میں ضروری کثیر الثقافت جہت لاتے ہیں اور ان کی وجہ سے معیشت کی ترقی میں مدد ملی ہے۔ لیکن بعض اپوزیشن سیاست دانوں نے آسٹریلیا کی ہجرت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم اجرت والے تارکین وطن ملازمتیں چھین لیتے ہیں اور وسائل پر بوجھ بنتے ہیں۔ انڈین کمیونٹی کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں کو اپنی ثقافت اور ورثے کے بارے میں آگاہ کر کے آسٹریلیا کو مزید جامع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 24 سالہ دیویا سکسینہ سڈنی میں پلی بڑھی ہیں۔ وہ آسٹریلیا میں ہندوستانی کلاسیکی رقص جیسے کتھک اور بھرت ناٹیم کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سڈنی میں ان جیسے انڈین-آسٹریلین فنکاروں کی ایک پھلتی پھولتی کمیونٹی ہے جو جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے ارد گرد پھیلے ’دقیانوسی تصورات کو توڑنے‘ اور ایک دوسرے کے کاروبار کو سپورٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سکسینہ نے حال ہی میں ایک انڈین-آسٹریلین میک اپ انفلوئنسر رووی سنگھ کے لیے ایک ڈانس روٹین کی کوریوگرافی کی ہے۔ سکسینہ کہتی ہیں: ’ہمارے والدین کی نسل نے یہاں بہت کم سے شروعات کی۔ ان کی توجہ مستحکم ملازمتوں میں رہنے پر مرکوز تھی تاکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دے سکیں۔ اس لیے انھوں نے سر نیچے کر کے گھلنے ملنے کی کوشش کی۔ لیکن میری نسل کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ان پر ایسا بوجھ نہیں جسے اٹھانا ان کی مجبوری ہو۔ ’ہم اپنے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے آزاد ہیں، اور ہم میں سے بہت سے لوگ آسٹریلیا کو آنے والی نسلوں کے لیے مزید خوش آئند جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2je7nl890po
ایشیا کپ کے پاکستان میں صرف چار میچ: ’یہ کیسا ہائبرڈ ماڈل ہے جس کا میزبان ملک کو ہی فائدہ نہیں‘
ایشیا کپ پاکستان میں ہو گا یا ہائبرڈ ماڈل کے تحت کچھ میچ پاکستان اور کچھ اس سے باہر، پاکستان ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کرے گا یا انڈیا اور ایسی بہت سی افواہیں پاکستانی اور انڈین میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور پاکستان اور انڈیا کے سیاسی تناؤ کے درمیان ’کرکٹ کی ہار‘ کا امکان نظر آیا۔ تاہم گذشتہ روز بالآخر اس حوالے سے ایشین کرکٹ کونسل کے حتمی اعلان سے یہ معلوم ہوا کہ ایشیا کپ اب ہائبرڈ ماڈل کے تحت پاکستان اور سری لنکا میں 31 اگست سے 17 ستمبر کے درمیان کھیلا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق انڈیا اپنے تمام ہی میچ سری لنکا میں کھیلے گا جبکہ پاکستان میں کم سے کم چار میچ کھیلے جائیں گے۔ پاکستان کے گروپ میں انڈیا اور نیپال جبکہ دوسرے گروپ میں سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش دوسرے گروپ میں ہوں گے۔ تاحال ایشیا کپ کے تفصیلی شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے اپنے بیان میں پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ’یہی ہمارا وعدہ تھا اور آج ہم نے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔ ’یاد رہے کہ یہ ہائبرڈ ماڈل نئی پیش قدمی ہے اس سے اور بھی دروازے آگے کھل سکتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آخری بار مختلف ممالک کے درمیان ٹورنامنٹ 2008 میں ہوا تھا۔ پھر 2016 میں پی سی بی پی ایس ایل لے کر آیا اور ایک ایک کر کے ہر ملک اور مختلف کھلاڑی آتے رہے۔‘ ’اس ٹورنامنٹ کے بارے میں کتنی افواہیں پھیلائی گئیں کہ یہ پاکستان میں نہیں ہو گا، پی سی بی اپنے مقاصد میں ناکام ہو گئی لیکن چلیے دیر آید درست آید۔‘ خیال رہے کہ انڈیا نے سنہ 2008 کے بعد سے پاکستان میں کوئی سیریز نہیں کھیلی اور انڈیا کا اس حوالے سے مؤقف واضح رہا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ نہیں کرے گا۔ پاکستان میں کرکٹ کی باضابطہ واپسی کے بعد سے اب تک صرف انڈیا اور افغانستان نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ پاکستان کو سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے رائٹس مل چکے ہیں اور ایشیا کپ کے انعقاد کی تفصیلات اس لیے بھی اہم تھیں کیونکہ اس کی بنیاد پر آگے چل چیمپئنز ٹرافی سے متعلق فیصلے ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی جانب سے اسے اپنے مؤقف کی جیت کہا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان میں کرکٹ فینز اور تجزیہ کار اس کا دوسرا رخ دیکھ رہے ہیں۔ صحافی و تجزیہ کار عمر فاروق کالسن نے ٹویٹ کی کہ پی سی بی اس فیصلے کو پاکستان کے مؤقف کی جیت قرار قرار دے رہا ہے جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں چار میچ کھیلیں جائیں گے جو خوش آئند ہے لیکن انڈیا پاکستان نہیں آئے گا جو بری خبر ہے اور یہ بھی کہ سری لنکا میں بھی مزید نیوٹرل میچ کھیلے جا رہے ہیں۔ ‘ ’پی سی بی کا مؤقف یہ تھا کہ اس ماڈل کو ورلڈ کپ کے لیے اپنایا جائے گا لیکن پاکستان ورلڈکپ کے لیے انڈیا بھی جا رہا ہے۔‘ ایک صارف ابو تمیم نے لکھا کہ میں اسے وسیع تر تناظر میں پی سی بی کی جیت اس لیے مانتا ہوں کیونکہ اس سے ہائبرڈ ٹورنامنٹس کی روایات بن جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی بی کو انڈیا کی جانب سے چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے حوالے سے کوئی یقین دہانی ملی ہو۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 خیال رہے کہ اس طرح کے ٹورنامنٹس میں جس چیز کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے وہ لاجسٹکس کے مسائل کے ساتھ ساتھ براڈ کاسٹنگ اور گیٹ منی بھی ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ سری لنکا میں ہونے والے میچوں کے حوالے سے پی سی بی کی سری لنکن کرکٹ بورڈ سے کیا بات ہوئی ہے۔ ایشیا کپ گذشتہ تین دہائیوں سے ہر دو برس بعد کھیلے جانے والا ٹورنامنٹ ہے، جسے بیشتر اوقات پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے باعث مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ تاہم پاکستان اور انڈیا کے میچوں کی اہمیت اتنی بڑھ چکی ہے اور گذشتہ کئی سال سے یہ آئی سی سی ٹورنامنٹس میں بھی سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا عموماً ایسے ٹورنامنٹس میں ایک ہی گروپ میں ہوتے ہیں اور گذشتہ مرتبہ کی طرح اس بار بھی دونوں ٹیمیں ممکنہ طور پر آپس میں تین مرتبہ مدِمقابل آ سکتی ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاڈکاسٹ ڈبل وکٹ میڈن کی میزبان ایمان ارباب نے ٹویٹ کی کہ ’ذرا سوچیں کہ آپ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ پاکستان میں دیکھنے جائیں اور پھر اگلے دن آپ کی اپنی ٹیم کا میچ ہو اور وہ آپ کو گھر پر بیٹھ کر دیکھنا پڑے۔‘ ’یہ اچھی پیش رفت نہیں، یہ (پی سی بی کی) فتح بھی نہیں اور نہ ہی منصفانہ سمجھوتا ہے۔۔۔ یہ کیسا ہائبرڈ ماڈل ہے جس سے میزبان ملک کو ہی فائدہ نہیں ہو رہا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک صارف نے لکھا کہ اگر ہائبرڈ ماڈل ایشیا کپ پر اپلائی ہوا ہے تو اسے ورلڈ کپ میں بھی رائج ہونا چاہیے۔ اسی طرح کچھ صارفین کو یہ بھی خوف ہے کہ سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے بھی اسے ایک فارمولا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس صورت میں فرق یہ ضرور ہو گا کہ چیمپیئنز ٹرافی ایک آئی سی سی ٹورنامنٹ ہے اور ایسے ٹورنامنٹس میں شرکت نہ کرنا یا ہائبرڈ ماڈل کو رائج کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ کیا یہ ہائبرڈ ماڈل پاکستان کے لیے ایک جیت ہے یا شکست اس بارے میں حتمی طور پر شاید آنے والے برسوں میں ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0vdp8jp5rno
اونٹوں کی دوڑ: سعودی ثقافت کا حصہ وہ کھیل جس میں انعامی رقم لاکھوں ریال تک ہوتی ہے
سعودی عرب کی کیمل سپورٹس فیڈریشن نے کہا کہ رواں برس سعودی عرب میں ہونے والا اونٹوں کی دوڑ کا میلہ اب تک کا دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہو گا جس کا آغاز یکم اگست سے ہو گا۔ طائف شہر میں منعقد ہونے والا یہ میلہ 38 روز تک جاری رہے گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے اس ایونٹ کا مقصد اونٹوں کی دوڑ کو سعودی ثقافت کے ایک لازمی پہلو کے طور پر دنیا میں فروغ دینا ہے۔ اس میلے کے دوران اونٹوں کی دوڑ کے کم از کم 600 مقابلے ہوں گے جو کہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سعودی فیڈریشن کے مطابق یہ ایونٹ دنیا کے امیر ترین ایونٹس میں سے ایک ہے جس کا اندراج چار برس قبل گنیز ورلڈ ریکارڈز میں بھی ہوا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ ایونٹ میں حصہ لینے والے 13 ہزار سے زائد اونٹ مقابلے کے لیے موجود تھے۔ اونٹوں کی دوڑ کروانے کا کھیل صدیوں پرانا ہے اور یہ خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان میں اب بھی جوش و خروش کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ جزیرہ نما عرب کا خطہ قدیم زمانے سے ہی اونٹوں کی افزائش کے لیے مشہور ہے اور یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو جدیدیت اور وقت گزرنے کے ساتھ مختلف ممالک خاص کر سعودی عرب میں ختم نہیں ہو سکا۔ سعودی عرب نے حال ہی میں ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم لانچ کیا ہے، جس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو ڈی این اے کی تفصیلات کی مدد سے محفوظ کرنا اور ہر اونٹ کو شناختی کارڈ جاری کرنا ہے۔ یہ پلیٹ فارم، جو کہ ایک بہت بڑے ڈیٹا بیس پر مشتمل ہے، اونٹوں کے جینیاتی کوڈز کو جمع کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور ان کے فیملی ٹری (شجرہ) کو ترتیب دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور کسی بھی اونٹ کی فروخت کے وقت نسل سے متعلق یہ ریکارڈ اونٹ خریدنے والے کو دیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد اونٹوں کی قدیم اور نایاب نسلوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ تکنیکی اور طبی نقطہ نظر سے اس پلیٹ فارم کی نگرانی سعودی کیمل کلب اور کنگ فیصل ریسرچ سینٹر کرتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے انچارج سعودی عرب میں اونٹوں کی دوڑ کے میلوں میں داخلے اور شرکت کی شرط کے طور پر کسی بھی اونٹ کی نسل کے دستاویزی نظام کو متعارف کروانا چاہتے ہیں، جہاں ہر مالک کو اس کے اونٹ کے ساتھ ایک دستاویزی کارڈ دیا جائے گا جس میں اونٹ کی نسل سے متعلق ضروری معلومات ہوں گی اور اس نسل کی خصوصیات کی تفصیلات بھی درج ہوں گی۔ اس پلیٹ فارم کے انچارج کا خیال ہے کہ مالکان کا اپنے اونٹوں کی رجسٹریشن کرنے کے عمل میں زبردست ردعمل اس اقدام کی کامیابی کی بنیاد بنے گا، جس سے ہر ایک کو فائدہ ہو گا۔ یاد رہے کہ ماضی میں اونٹوں کی دوڑ کے مقابلوں میں چھوٹے بچوں کو اونٹوں پر سوار کیا جاتا تھا۔ دوڑنے والے اونٹوں کے مالک ہلکے وزن والے اونٹ سواروں کو ترجیح دیتے تھے تاکہ سوار کا وزن اونٹ کے ریس جیتنے کے امکانات کو متاثر نہ کر سکے۔ تاہم بچوں کے حقوق کی تنظیموں نے متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بچوں کو اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کرنے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جس کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عالمی تنظیموں نے بتایا کہ کیسے ان بچوں کی نشوونما پر کنٹرول رکھا جاتا ہے، یہ بچے اپنے خاندانوں سے دور رہتے ہیں اور اونٹوں کے مالکان کی طرف سے ان پر خوراک کے استعمال کے حوالے سے عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ بچے عمر میں تو بڑے ہو رہے ہوتے تھے لیکن جسمانی نشوونما اور وزن میں نمایاں اضافہ کے بغیر۔ اور یہ صورتحال بلآخر ان بچوں کو ان کی زندگی کے آخری مراحل میں جسمانی یا نفسیاتی معذوری سے دوچار کرنے کا باعث بنتی تھی۔ تاہم، یہ معاملہ اس وقت رُک گیا جب بچوں کے اس استحصال میں ملوث خلیجی خطے کی بڑی اور معروف شخصیات سمیت بہت سے لوگوں کے خلاف بچوں کی اسمگلنگ اور انھیں غلامی میں رکھنے جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس وقت اونٹوں کی دوڑ میں بچوں کی بجائے روبوٹ استعمال کیے جاتے ہیں اور انھیں ریموٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ خلیجی خطے میں بالخصوص سعودی عرب، عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کے بہت سے میلے اور اونٹوں کی دوڑ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن کے انعامات لاکھوں ریال تک ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مقابلے میں جیتنے والے کو ملنے والی انعامی رقم ایک کروڑ ریال (یا 2.75 ملین امریکی ڈالر) تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckdkrnnjz1go
10 سال سے آئی سی سی ٹرافی کا انتظار، انڈیا ہر موقع گنوا کیوں دیتا ہے؟
تو بالآخر وہی ہوا جس کا سب کو ڈر تھا۔ ایک ناممکن جیت کا خواب دیکھنے والی ٹیم انڈیا کی بیٹنگ آخری روز ریت کی دیوار کی طرح گِر گئی۔ یوں اس شکست نے ایک بار پھر 1990 کی دہائی کی کمزور انڈین ٹیم کی یادیں تازہ کر دیں۔ انڈیا کی ٹیم میچ کو دوسرے سیشن تک لے جانے میں بھی ناکام رہی اور وراٹ کوہلی جیسے تجربہ کار بلے باز دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر ایک بار پھر ناکام نظر آئے۔ اگر انڈیا کی ٹیم نے گذشتہ دہائی میں کوئی آئی سی سی ٹرافی نہیں جیتی تو اس کی ایک بڑی وجہ اہم ناک آؤٹ میچوں میں کوہلی جیسے بلے باز کی ناکامی ہے لیکن جب ہم ٹیم انڈیا کے سابق وکٹ کیپر اور بی بی سی کے کمنٹیٹر دیپ داس گپتا سے اوول کے باہر ملے اور ان سے کوہلی اور روہت کی ناکامی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ان تجربہ کار بلے بازوں کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ کی طرح میں بھی شکست کے بعد بہت جذباتی ہو گیا ہوں، میں مایوس بھی ہوں اور شائقین کا درد بھی سمجھتا ہوں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کھلاڑیوں نے طویل عرصے میں تقریباً ہر سیریز میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔۔۔ اس لیے ہمیں اپنی تنقید میں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘ داس گپتا سے بات کرنے کے بعد میں بحیثیت صحافی ٹیم انڈیا کے کپتان کی پریس کانفرنس میں پہنچ جاتا ہوں اور سیدھا ایک تیکھا سوال کرتا ہوں۔ کیا ٹیم انڈیا بڑے میچوں میں کھل کر کھیلنے سے قاصر ہے؟ کیا توقعات کا دباؤ ان پر ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے؟ روہت شرما اپنے جانے پہچانے انداز میں ہلکا سا مسکرائے اور کہا کہ وہ بھی شکست سے مایوس ہیں لیکن انھوں نے 444 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جارحانہ انداز کا دفاع کیا۔ ٹیم انڈیا نے پہلے دن انتہائی خراب کھیل کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے شاید اسے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ میچ کے پانچویں دن بھی ایک بار پھر ٹیم انڈیا کی طرف کسی مضبوط واپسی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز سے پریس کانفرنس میں جب میں نے پوچھا کہ کیا انھیں کبھی لگا کہ ٹیم انڈیا اس ہدف کا تعاقب کر سکتی ہے؟ جب وراٹ کوہلی اپنے خاص انداز میں بیٹنگ کر رہے تھے تو وہ پریشان تھے؟ روہت شرما کی طرح کمنز بھی سوال پر ہلکا سا مسکرائے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ’بالکل نہیں۔‘ کمنز کا خیال تھا کہ ان کی ٹیم کو اندازہ ہو گیا ہے کہ جیسے ہی نئی گیند لی جائے گی، ٹیم انڈیا کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم اس شکست نے ایک بار پھر ٹیم انڈیا کی ٹیسٹ کرکٹ میں ٹاپ آرڈر کی ناکامی کو بُری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ چاہے کوہلی ہوں، پجارا یا کوئی اور بلے باز، ہر کوئی لگاتار ناکام ہوتا نظر آیا۔ اس ٹیم کے آٹھ کھلاڑی 33 سال کے ہیں اور ایسی صورتحال میں ان تمام کو دو سال بعد دوبارہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں کھیلتے دیکھنا بہت مشکل لگتا ہے۔ ان آٹھ سینیئرز میں سے کتنے اگلے دو سال تک ٹیم کا حصہ رہ سکیں گے، کپتان روہت شرما نے اتوار کو ہی اس طرف توجہ مبذول کرائی۔ روہت نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہت سے کھلاڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے کہ ٹیم انڈیا کس قسم کی کرکٹ کھیلنا چاہتی ہے اور اگلے ورلڈ کپ فائنل میں کہاں کھیلنا چاہتی ہے۔ یعنی فائنل کہاں منعقد ہو گا اور اس کے مطابق ٹیم کو اگلے دو سال کی تیاری کرنی ہوگی۔ روہت نے شکست کے بعد بہانے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن انھوں نے کہا کہ مثالی طور پر اتنے بڑے میچ کا فیصلہ تین میچوں کی سیریز سے ہونا چاہیے، نہ کہ صرف ایک فائنل میچ جو آئی پی ایل کے فوراً بعد ہوا۔ روہت نے یہ بات مجھ سے میچ سے پہلے بھی کہی تھی۔ روہت کو اندازہ تھا کہ شاید بڑے عالمی مقابلے کے لیے تیاریاں کافی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بی سی سی آئی کو بھی اپنی ترجیحی فہرست میں آئی پی ایل کی بجائے ورلڈ کپ جیتنے کو اہمیت دینی چاہیے۔ اتنے اہم میچز آئی پی ایل فائنل کے صرف ایک ہفتے بعد آ رہے ہیں اور وہ بھی بالکل مختلف فارمیٹ میں جبکہ اس کا انعقاد انگلینڈ میں ہوا جہاں پچ اور موسم کے عادی ہونے میں کم از کم ڈیڑھ دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔ روہت نے بارڈر۔ گواسکر سیریز کے وقت سے کئی مشورے دیے تھے لیکن ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ انھوں نے اتنا ہی کہا جتنا روہت ایک کپتان کے طور پر عوام میں کہہ سکتے ہیں لیکن کوچ راہل دراوڈ نے خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ آنے والے مہینوں میں دراوڈ کو سخت سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ بھی اٹھے گا کہ اگر ٹیم کو تیاری کے لیے وقت درکار تھا تو کوچ نے یہ معاملہ بورڈ تک کیوں نہیں پہنچایا؟ سابق کوچ روی شاستری نے کہا ہے کہ بورڈ کو ترجیحات کا فیصلہ کرنا ہوگا، انڈیا یا لیگ کرکٹ۔ ’اگر آپ فرنچائز کرکٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو اسے (ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل) کو بھول جائیں۔‘ ٹیم انڈیا کی اس ناکامی میں مستقبل کے سپر سٹار شبمن گل کا بیٹ خاموش رہا، پھر روہت پر بطور کپتان اور اوپنر بھی سوال اٹھنے لگے۔ پجارا بھی اپریل سے انگلینڈ میں موجود تھے لیکن نتیجہ ڈھاکہ سے مختلف نہیں نکلا۔ کوہلی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ کی چوتھی اننگز میں ان کی جانب سے قیمتی رنز نہ بنا پانا ان کی عظمت پر ایک بڑا سوال کھڑا کر دیتا ہے۔ لیکن جب ہم نے اوول کے باہر کوہلی کے کوچ راجکمار شرما سے ملاقات کی تو انھوں نے کہا کہ ’آپ سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوہلی خود مجھ سے، آپ یا مداحوں سے زیادہ مایوس ہیں۔‘ ’یہ ٹھیک ہے کہ کوہلی نے اس میچ میں دوسری اننگز میں غلطی کی لیکن یہ کرکٹ کا حصہ ہے۔‘ تاہم شائقین ہوں، سابق کھلاڑی یا نقاد، وہ ٹیم انڈیا کی اس ناکامی کو آسانی سے بھولنے والے نہیں۔ اس ناکامی نے چھ ماہ بعد انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ سے عین قبل ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے، یہ دباؤ بڑھتا جائے گا اور ہر کوئی یہ دوبارہ یاد دلائے گا کہ مہندر سنگھ دھونی کے دور میں آئی سی سی ٹرافی جیتنا کتنا آسان تھا لیکن اس کے بعد سے ہر کوئی صرف تڑپتا نظر آتا ہے۔ انڈیا نے آخری بار کوئی آئی سی سی ٹرافی سنہ 2013 میں جیتی تھی۔ یہ دھونی کی کپتانی میں انگلینڈ میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی تھی۔ یہ بات آئی سی سی ٹرافی کے معاملے میں دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کو بہت تکلیف دے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0lyq40w6lo
انڈیا کی شکست پر پاکستانی مداحوں کو کراچی ٹیسٹ اور بابر اعظم کیوں یاد آ رہا ہے؟
کرکٹ کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں آسٹریلیا نے انڈیا کو 209 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیت لی ہے۔ انڈیا کو میچ کے پانچویں روز جیت کے لیے 280 رنز درکار تھے اور مایہ ناز بلے باز وراٹ کوہلی اور اجنکیا رہانے کریز پر موجود تھے۔ انڈیا 444 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کا تعاقب کر رہا تھا اور آخری دن کے کھیل میں چاروں نتائج آنا ممکن تھے۔ تاہم انڈین ٹیم کو آغاز سے ہی آسٹریلیا کے فاسٹ بولرز کی بہترین بولنگ کا سامنا تھا اور سکاٹ بولینڈ کی عمدہ بولنگ کے نتیجے میں پہلے وراٹ کوہلی اور پھر رویندرا جڈیجا ایک ہی اوور میں آؤٹ ہوئے اور یوں انڈیا کا اس ہدف کے تعاقب اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتنے کا خواب ٹوٹ گیا۔ انڈیا کی ٹیم اس سے قبل بھی سنہ 2021 میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل میں کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم تب اسے نیوزی لینڈ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آسٹریلیا نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتی ہے۔ یوں آسٹریلیا اب تک تمام آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم بن چکی ہے۔ تاہم اس سب کے دوران پاکستان مداح سوشل میڈیا پر خاصے پرجوش دکھائی دے رہے ہیں اور انڈیا کی آسٹریلیا سے شکست کے آسٹریلیا کے دورہ پاکستان اور خصوصاً کراچی ٹیسٹ کے درمیان موازنے کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایسے موقعوں پر وراٹ کوہلی اور بابر اعظم کے درمیان بھی موازنے کیے جاتے ہیں، اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ تاہم اس وقت انڈیا میں سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ 10 برسوں کے دوران انڈیا نے کوئی آئی سی سی ٹرافی اپنے نام نہیں کی ہے۔ اس میں چار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، دو ون ڈے ورلڈ کپ، ایک چمیپئنز ٹرافی اور دو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپس شامل ہیں۔ خیال رہے کہ انڈیا آخری مرتبہ ایم ایس دھونی کی کپتانی میں سنہ 2013 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لندن کے اوول گراؤنڈ میں کھیلے گئے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کے آخری روز انڈین ٹیم 444 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 234 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی، ٹیسٹ کے آخری روز انڈیا کی سات وکٹیں صرف 70 رنز پر گر گئیں۔ انڈیا کی دوسری اننگز میں وراٹ کوہلی 49 رنز بنا کر نمایاں رہے جبکہ اجنکیا رہانے نے 46 اور روہت شرما نے 43 رنز کی اننگز کھیلی۔ خیال رہے کہ انڈین کپتان روہت شرما نے آسٹریلیا کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ آسٹریلیا نے مڈل آرڈر بلے باز سٹیو سمتھ اور ٹریوس ہیڈ کی شاندار سنچریوں کی بدولت پہلی اننگز میں 469 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں انڈین ٹیم صرف 296 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔ آسٹریلیا نے دوسری اننگز میں 270 رنز بنا کر ڈکلیئر کر دی تھی اور انڈیا کو جیت کے لیے 444 رنز کا ہدف دیا، جس کے تعاقب میں پوری انڈین ٹیم 234 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اسی ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل میں جب آسٹریلیا کی ٹیم تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے سنہ 2022 کے اوائل میں پاکستان آئی تھی تو اس نے یہ سیریز ایک صفر سے جیتی تھی۔ تاہم کراچی میں کھیلے جانے والے سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو آخری دن کے کھیل میں 506 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 314 رنز درکار تھے اور کریز پر بابر اعظم اور عبداللہ شفیق موجود تھے۔ اس دن بابر اعظم کی 196 رنز کی تاریخی اننگز پاکستان کو فتح کے بہت قریب لے آئی تھی اور محمد رضوان کی سنچری اور عبداللہ شفیق کے 96 رنز کی اننگز کے باوجود پاکستان وہ میچ صرف ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ یہی وجہ پاکستان مداح کراچی ٹیسٹ کو یاد کر رہے ہیں جس میں بابر اعظم کو بہت ڈسپلن سے بیٹنگ کرنے پر سراہا گیا تھا تاہم آج وراٹ کوہلی کو ایک جارحانہ سٹروک کھیلنے پر تنقید کا سامنا ہے۔ انڈین لیجینڈ بلے باز سنیل گواسکر نے کوہلی پر تنقید کی اور کہا ہے کہ اتنے اہم موقع پر انھیں ایسی سٹروک نہیں کھیلنی چاہیے تھی۔ سابق انڈین فاسٹ بولر عرفان پٹھان نے طنزیہ انداز میں ٹویٹ کیا کہ ’اچانک پڑوسی میری ٹائم لائن میں آ گئے ہیں، میں ان کے بارے میں صحیح سوچتا تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 دراصل عرفان پٹھان کی جانب سے گذشتہ برس انڈیا کی پاکستان کے خلاف میلبورن میں فتح پر ایک ٹویٹ میں کیا گیا تھا کہ ’پڑوسیو اتوار کیسا رہا۔‘ جس پر اب پاکستانی ٹوئٹر صارفین انھیں جواب دے رہے ہیں۔ ایک صارف نے انڈین کوچ راہل ڈراوڈ اور کپتان روہت شرما کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا قصور ہے۔ ادھر وراٹ کوہلی کی گذشتہ چند برسوں سے انڈیا کے باہر فارم کے بارے میں بھی صارفین تنقید کر رہے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2019 کے بعد سے انڈیا کے باہر ٹیسٹ میچوں میں 27 کی اوسط سے رنز سکور کیے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 جہاں ایک جانب پاکستانی مداح خوش ہو رہے ہیں وہیں کچھ صارفین یہ بات بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان اس ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل کے فائنل میں آنے کے لیے فیورٹ سمجھا جا رہا تھا تاہم اس نے اپنی ہوم سیریز میں ہی اتنی بری کارکردگی دکھائی کہ وہ فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv21e75r5l5o
پہلی محبت بھلا کر اور سعودی دولت ٹھکرا کر میسی امریکہ کیوں جا رہے ہیں؟
ارجنٹائن کے فٹبال لیجنڈ لیونل میسی نے جب فرانس کا کلب پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) چھوڑا تو ان کے پاس دو رستے تھے۔ آفر تو کئی کلبز سے آئی مگر انھوں نے ان دو بڑی آپشنز پر غور کیا، جن سے وہ پہلی بار یورپ سے باہر جا کر کلب فٹبال کھیل سکتے تھے۔ 35 سال کے ورلڈ کپ فاتح یا تو امریکہ جا کر انٹر میامی میں شامل ہوسکتے تھے اور یا پھر وہ ایک غیر معمولی فیصلہ لے کر سعودی عرب کا رُخ کر لیتے، جہاں وہ سیاحت کے سفیر بھی مقرر ہیں۔ مگر اصل میں میسی اور ان کے فینز یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے سابقہ کلب بارسلونا چلے جائیں جہاں انھوں نے 21 سال گزارے تھے۔ تاہم فنانشل فیئر پلے کی حدود نے اسے ناممکن بنا دیا تھا۔ ایسے میں انھوں نے ایک بڑی سعودی پیشکش ٹھکرا دی اور یورپ چھوڑ کر امریکہ جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ میسی نے اخبار دیاریو سپورٹ اور منڈو ڈیپورٹیو کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں نے میامی جانے کا فیصلہ کیا ہے، میں یورپ چھوڑ دوں گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سچ ہے کہ مجھے دوسری یورپی ٹیموں سے بھی پیشکش ہوئی تھی۔ لیکن میں نے اس بارے میں نہیں سوچا کیونکہ یورپ میں، میرا صرف یہی خیال تھا کہ میں بارسلونا جاؤں۔‘ میسی نے کہا کہ ’ورلڈ کپ جیتنے اور بارسلونا نہ جا پانے کے بعد وقت آگیا کہ میں ایم ایل ایس (میجر لیگ ساکر) جاؤں اور ایک الگ طرح سے فٹبال کھیلوں اور اپنی روزمرہ زندگی کا لطف حاصل کروں۔‘ ارجنٹائن کے لیجنڈ نے کہا کہ ’ظاہر ہے میرے میں وہی ذمہ داری ہے اور جیت کی خواہش ہے، اور مجھے بہتر کارکردگی دکھانی ہے۔ لیکن کچھ سکون کے ساتھ۔‘ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ جب بات فٹبال کلبز کی آتی ہے تو بارسلونا ہی میسی کی پہلی اور آخری محبت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں یہ چاہتا تھا کہ (بارسلونا) واپس جاسکوں لیکن میں نے جو تجربہ حاصل کیا اور جس طرح میں باہر ہوا، میں اسے دہرانا نہیں چاہتا تھا۔‘ ’میں نے سنا ہے کہ ان کو کھلاڑی فروخت کرنے پڑے اور کھلاڑیوں کو کم تنخواہیں دینا پڑیں۔ اور سچ یہ ہے کہ میں اس سب سے گزرنا نہیں چاہتا تھا۔‘ بارسلونا نے بھی ایک بیان میں تصدیق کی کہ میسی نے ان کی پیشکش مسترد کر کے میامی جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’(کلب کے) صد لاپورتا میسی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں کہ وہ ایسی لیگ میں کھیلنا چاہتے ہیں جہاں کم مطالبات ہوں۔ وہ اس توجہ اور دباؤ سے دور جانا چاہتے ہیں جس کا انھیں حالیہ برسوں میں سامنا کرنا پڑا۔‘ یہ بھی پڑھیے 41 سالہ دھونی کی کپتانی کا سحر ٹوٹ کیوں نہیں پا رہا؟ کیا اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے سے پاکستان کی فٹبال ٹیم بہتر نتائج دے پائے گی؟ فٹبال کے بعد گالف میں سرمایہ کاری: محمد بن سلمان سعودی عرب کو سپورٹس کا نیا مرکز کیسے بنا رہے ہیں؟ یہ پہلا موقع ہے کہ میسی یورپ سے باہر کلب فٹبال کھیلیں گے۔ وہ میامی کے ساتھ معاہدے کی بدولت ایڈیڈاس اور ایپل جیسے بڑے برانڈز کے ساتھ کام کر سکیں گے۔ وہ سات مرتبہ بہترین فٹبالر کا انعام بیلن ڈی اور جیت چکے ہیں اور اب ورلڈ کپ میں کامیابی کے بعد وہ رواں سال کے اواخر میں دوبارہ یہ ایوارڈ جیت سکتے ہیں۔ جب ان کی بارسلونا کے ساتھ بات نہ بن سکی تو انھیں انٹر میامی اور الہلال میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سعودی عرب جانے کی پیشکش اتنی بڑی ہے کہ وہ آسانی سے اسے تسلیم کر لیں گے۔ ایسا کرنے پر وہ اس لیگ میں کرسٹیانو رونالڈو اور کریم بینزیما جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ مگر میسی کا دل ایم ایل ایس کی ٹیم انٹر میامی پر آگیا جس کی کئی وجوہات ہیں، جیسے وہاں کا لائف سٹائل اور بڑے برانڈز کے ساتھ کام کرنے کا موقع جو فٹبال سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ میسی پہلے سے ہی میامی میں ایک گھر کے مالک ہیں جو انھوں نے کرایے پر دے رکھا ہے۔ ان کی موجودگی میں پی ایس جی نے لیگ ون کے دونوں سیزن جیتے مگر چیمپیئنز لیگ سے باہر ہوگئی۔ لہٰذا فرانس میں ان کا وقت کامیابیوں سے بھرپور نہیں تھا۔ خیال رہے کہ مئی میں بلا اجازت سعودی عرب کا دورہ کرنے پر انھیں کلب نے کچھ میچوں کے لیے معطل بھی کیا تھا۔ میسی نے اپنی زندگی کے 21 سال بارسلونا کو دیے تھے اور پھر سنہ 2021 میں وہاں مالی مشکلات کی وجہ سے انھیں کلب سے راہیں جدا کرنا پڑی تھیں۔ انھوں نے بارسلونا کے لیے 672 گول کیے، دس لا لیگا ٹائٹل، چار چیمپیئنز لیگ اور سات ہسپانوی کپ جیتے تھے۔ میسی نے اپنے ایک میڈیا انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے بارسلونا میں واپسی کے لیے اپنے قریبی دوست اور کلب کے مینیجر ژاوی اور صدر لوپارتا سے بات چیت کی تھی۔ ’ہم بہت خوش تھے کیونکہ ہم یہ بات کرتے تھے کہ کیا وہ واقعی میری واپسی چاہتے ہیں، کیا یہ ٹیم اور ان کے لیے بہتر ہوگا۔ ہم نے رابطے جاری رکھے۔‘ میسی نے کہا کہ ’ہم نے کبھی معاہدے کی بات نہیں کی۔ ایک مسودہ بھیجا گیا لیکن یہ باقاعدہ نہیں تھا کیونکہ ایسا کچھ نہیں تھا اور ہم نہیں جانتے تھے کہ ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں۔‘ ’وہاں کوشش ضرور تھی لیکن پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ہم نے باقاعدہ طور پر پیسوں کی بات بھی نہیں کی تھی۔ اگر معاملہ پیسوں کا ہوتا تو میں سعودی عرب یا کہیں اور چلا جاتا۔‘ بی بی سی کے نامہ نگار محمد صہیب سے بات کرتے ہوئے فٹبال تجزیہ کار شاہ رخ سہیل نے میسی کی اس بات سے اتفاق کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی معاہدے سے متعلق جو اعداد و شمار بتائے جا رہے تھے وہ ’بہت ہی زیادہ تھے‘ لیکن بات پیسوں کی نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ ڈیوڈ بیکہم نے بھی امریکی لیگ میں سیزن کھیل کر اس کا نام بنایا تھا۔ ’یہ کہا جا رہا ہے کہ ایم ایل ایس نے میسی کے ساتھ ریونیو شیئرنگ ڈیل کی ہے جس میں ایپل ٹی وی کے ساتھ براڈکاسٹنگ اور ایڈیڈاس سے حاصل ہونے والی آمدن میں سے میسی کو حصہ دیا جائے گا۔‘ ’یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بیکہم کی طرح میسی کو ریٹائرمنٹ پر ایم ایل ایس کی ایک ٹیم سستے داموں خریدنے کا موقع مل سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ میسی انٹر میامی میں ایک دو سیزن کھیل کر ریٹائر ہوجائیں گے مگر اس فیصلے سے دونوں یعنی میسی اور کلب کی شہرت بڑھے گی، میسی کو ایسی بہت سی چیزیں امریکہ جانے پر مل رہی ہوں گی جو سعودی عرب میں نہ مل پاتیں۔ شاہ رخ کہتے ہیں کہ امریکی ساکر لیگ میں کھیل اور براڈکاسٹنگ کا معیار بہت بڑھ چکا ہے۔ ان کے مطابق وہاں کھیلوں کا اچھا انفراسٹرکچر ہے اور کھلاڑیوں کے لیے بہتر مواقع ہیں جسے سعودی عرب اپنی سرمایہ کاری سے میچ کرنا چاہتا ہے۔ مگر ایک کھلاڑی نئے کلب میں شمولیت کے لیے کیا دیکھتا ہے؟ اس پر وہ بہت سے عوامل کا ذکر کرتے ہیں۔ ’ظاہر ہے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مالی فائدہ کتنا ہو رہا ہے، لیگ کون سی ہے، کلب کے مقاصد کیا ہیں۔۔۔ اور بعض اوقات کھلاڑی دیکھتے ہیں کہ انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ملے گا۔‘ ’صرف پیسے کی بنیاد پر ایسے فیصلے نہیں کیے جاتے۔ میسی جیسے لیجنڈ کے پاس پہلے ہی سب کچھ ہے تو ان کے لیے اس فیصلے کی سٹریٹیجک اہمیت ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c723e5dqzg6o
فٹبال کے بعد گالف میں سرمایہ کاری: محمد بن سلمان سعودی عرب کو سپورٹس کا نیا مرکز کیسے بنا رہے ہیں؟
گذشتہ روز گالف کے تین سب سے بڑے ٹورنامنٹس کے انضمام کی خبر نے کھیلوں کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس کے تحت پی جی اے اور ڈی پی ورلڈ ٹور نے ایل آئی وی گولف کے ساتھ انضمام کا اعلان کیا ہے جس پر پیشہ ور گالفرز نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے کیونکہ ایل آئی وی گالف سعودی عرب کی حمایت یافتہ تنظیم ہے اور اس سے کھیل کے موجودہ نظام کو مبینہ خطرہ ہے۔ اس سے قبل دنیا کے معروف ترین فٹبالروں کرسٹیانو رونالڈو اور لیونل میسی کے سعودی عرب کی ٹیم میں شامل ہونے کی خبریں ابھی ماند نہیں پڑی تھیں کہ فرانس کے سٹرائيکر اور ریئل میڈرڈ کی شان کریم بینزیما کے الاتحاد فٹبال کلب میں حال ہی میں شامل ہونے کی خبر کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا سعودی عرب دنیا کے کھیل کا نیا مرکز بن رہا ہے؟ لیکن ناقدین اسے سعودی سپورٹس واش کہہ رہے ہیں۔ بارسٹول سپورٹ کے ڈین ریپاپورٹ نے بی بی سی ریڈیو 5 لائیو کو بتایا کہ کھیل کے حریف حلقوں کے ساتھ معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد انھوں نے کئی کھلاڑیوں سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’ان کا ابتدائی ردعمل صدمے کا تھا جو پھر غم و غصے میں تبدیل ہو گیا۔ ’بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے بہت سارے پیسے کو ٹھکرا دیا تھا اور اب وہ حیران ہیں کہ یہ کیسا سودا ہو گیا ہے؟‘ ٹیلی گراف اخبار کے گولف کے نمائندے جیمی کوریگن نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ ’ناقابل یقین حد تک رازداری میں کیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ بڑی گڑبڑ ہے اور وہ اسے ایسے پیش کر رہے ہیں گویا انھوں نے مختلف گروہوں میں امن قائم کر دیا ہے۔ لیکن انھیں ابھی بھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’کھیل کو فروغ دینے اور سپورٹ واش کے بارے میں بھول جائیں، یہ سب پیسے اور طاقت کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔‘ سپورٹ واش ایک اصطلاح ہے جسے کسی شخص، گروپ کارپوریشن یا حکومت کی جانب سے سپورٹس کے ذریعے اپنی برائی پر پردہ ڈالنے کی کوششوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے پروپیگنڈے کی ایک شکل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے اور اس کے تحت کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی، کھیلوں کی ٹیموں کی خریداری، یا سپانسرنگ، یا کسی کھیل میں حصہ لینے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ اور بدعنوانی کے سکینڈلوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بی بی سی سپورٹس کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی نے کہا ہے کہ گولف کے ٹورنامنٹ کرانے والوں کا انضمام اس کے مزید شواہد ہیں سعودی عرب اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب کی حمایت یافتہ ایل آئی وی گولف کے ساتھ حیرت انگیز معاہدے کے بارے میں کھلاڑیوں سے مشورہ نہیں کیا گیا اور انھیں منگل کو ہی میڈیا کے ذریعے اس انضمام کا پتہ چلا۔ ایل آئی وی کی حمایت کرنے والے سعودی عرب پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے گورنر یاسر الرمیان نئے ادارے کے چیئرمین ہوں گے۔ منگل کو موناہن نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ بی بی سی کے گولف کے نامہ نگار ایان کارٹر نے کہا کہ ’گذشتہ برس تک جے موناہن ایل آئی وی یا ’سعودی عرب‘ کے الفاظ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔۔۔ لیکن اب وہ ایک صوفے پر ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔ کیا ایل آئی وی نے آج گولف کی دنیا کو خرید لیا ہے؟‘ ایل آئی وی گالف ایک سٹارٹ اپ تنظیم ہے، جس کا چہرہ دو بار کے بڑے فاتح اور سابق عالمی نمبر ایک گریگ نارمن ہیں۔ 67 برس کے آسٹریلوی چیمپیئن گریگ نارمن ایل آئی وی گولف انویسٹمنٹ کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ سنہ 2021 کے آخر میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اگلی دہائی کے دوران سالانہ دس نئے ایشین ٹور ایونٹس کے لیے 200 ملین ڈالر سے زیادہ عطیہ کیا جائے گا۔ ایل آئی وی گالف کا بڑا شیئر ہولڈر سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) ہے اور اس نے گذشتہ سال نیو کیسل یونائیٹڈ کے ٹیک اوور میں مدد کی تھی۔ گذشتہ سال مارچ میں ایل آئی وی گالف نے ڈھائی سو ملین امریکی ڈالر کے آٹھ ایونٹ کی انویٹیشن سیریز کا اعلان کیا تھا اور پھر مئی میں، نارمن نے بی بی سی سپورٹ کو بتایا کہ اس نے سیریز کو سنہ 2024 تک 14-ایونٹ ليگ میں تبدیل کرنے کے لیے پی آئی ایف سے اضافی دو ارب ڈالر کی فنڈنگ حاصل کی ہے۔ یہ بھی پڑھیے سعودی عرب اور قطر کی لڑائی میں پھنسی انگلش پریمیئر لیگ محمد بن سلمان کا وژن 2030: مستقبل کے جدید شہر کے بعد دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کا منصوبہ کیا ہے؟ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پیر کو سعودی سپورٹس کلبوں کی سرمایہ کاری اور نجکاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ان کے وژن 2030 کے حصے کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس کا مقصد قومی ٹیموں، علاقائی کھیلوں کے کلبوں اور ہر سطح پر کھلاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے اس شعبے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ منصوبے کے موجودہ مرحلے میں سکیموں کی منظوری اور کلب کی ملکیت کی منتقلی کے ساتھ ساتھ کئی سپورٹس کلبوں کی نجکاری شامل ہے۔ اس پروگرام کو کھیلوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع اور مناسب ماحول پیدا کرنے، کھیلوں کے کلبوں میں پیشہ ورانہ مہارت کی سطح کو بلند کرنے، اور انتظامی اور مالیاتی نظم و نسق کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جبکہ کھیلوں کے شائقین کو بہترین خدمات فراہم کرنے اور سامعین کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کرنا ہے۔ کلبوں کی منتقلی اور نجکاری سنہ 2030 تک مملکت میں مختلف کھیلوں میں معیاری بہتری حاصل کرنا، علاقائی اور عالمی سطح پر کھلاڑیوں کی ایک اعلیٰ نسل کی تعمیر کرنا ہے۔ سعودی عرب کا خودمختار دولت فنڈ مملکت کے چار اعلیٰ فٹ بال کلبوں بشمول النصر کا کنٹرول سنبھال لے گا، جس کے لیے کرسٹیانو رونالڈو کھیلتے ہیں، کیونکہ حکومت نے کئی سرکاری سپورٹس کلبوں کی نجکاری کے منصوبے کو بحال کیا ہے۔ دریں ثنا خبر رساں ادارے نے دو دن قبل یہ خبر دی کہ سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے پاس ملک کے معروف فٹبال کلب الاتحاد، الاہلی، النصر اور الہلال کا 75 فیصد حصہ ہوگا۔ وزارت کھیل نے سنیچر کو ٹوئٹر پر سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کی ایک رپورٹ کے بعد کہا کہ سعودی عرب چوتھی سہ ماہی سے کئی سپورٹس کلبوں کی نجکاری کرنے جا رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ کھیل سعودی حکومت کے وژن 2030 کے معاشی تنوع کے منصوبے کے ستونوں میں سے ایک ہے جس کا مقصد نئی صنعتوں کی تعمیر اور ملازمتیں پیدا کرنا ہے اور اس سب کا مرکز پی آئی ایف ہے۔ اس سے قبل سنہ 2019 میں فوربس کی ویب سائٹ پر ایک سٹوری شائع کی تھی کہ کس طرح سعودی عرب ملک کی شمال مغربی سرحد پر صوبہ تبوک میں 500 بلین ڈالر کے میگا سٹی نیوم پر کام شروع کر دیا جس کے مرکز میں سپورٹس ہوگا۔ اس خبر کے مطابق اگرچہ نیوم شہر کی آبادکاری پر ہونے والی فنڈنگ کے پیمانے نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کرائی ہے لیکن اس کے مرکز میں صحت اور کھیل ہے اور اس کے لیے انھوں نے نے بریٹن جیسن ہاربرو کو کھیل اور عبوری سیکٹر کے سربراہ انٹرٹینمنٹ، کلچر اور فیشن کا منیجنگ ڈائریکٹر بنایا ہے۔ مزید یہ کہ ہاربرو کا رگبی ورلڈ کپ، مانچسٹر میں کامن ویلتھ گیمز اور لندن 2012 اولمپکس سمیت مختلف قسم کے کھیل ایونٹس پر کام کرنے کا تجربہ ہے جو کہ سعودی عرب کے اس پروجیکٹ کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ اس خبر میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کا مقصد اولمپک گیمز اور ورلڈ چیمپئن شپ کے لیے ایک قابل عمل عالمی معیار میں اپنا ایک مقام بنانا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2019 میں فارمولہ ای سیزن کا آغاز ریاض میں ہونے والی ریس سے ہوا۔ دسمبر میں ہیوی ویٹ باکسر اینتھونی جوشوا اور اینڈی روئز کے مابین مقابلہ سعودی عرب میں ہوا۔ فارمولہ ون (ایف ون) کا مقابلہ سعودی عرب میں ہو چکا ہے جو کہ تنازع کا شکار رہا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2rm19egwxo
یوکرین اور روس کا تنازع ٹینس کورٹ تک کیسے پہنچا؟
یوکرین کی ٹینس کھلاڑی ایلینا سویتولینا نے بیلا روس کی کھلاڑی پر الزام عائد کیا ہے کہ کوارٹر فائنل کے سخت میچ کے بعد شائقین کی جانب سے ہوٹنگ کی ذمہ دار بیلاروس کی کھلاڑی اریانا سبا لینکا ہیں کیونکہ وہ مصافحے کے لیے نیٹ پر دیر تک ٹھہری رہیں۔ بیلاروس کی جانب سے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کے بعد سے سویتولینا نے ٹورنامنٹ میں میچز کے دوران روسی حریفوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ سبالینکا سے ہارنے سے پہلے سویتولینا نے واضح کیا کہ وہ کوشش کریں گی کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سبالینکا نے اپنے عمل سے لوگوں کو ہوٹنگ کرنے کے لیے اشتعال دلایا تھا تو سویتولینا نے کہا کہ ’بدقسمتی سے مجھے ایسا ہی لگتا ہے۔‘ سبالینکا نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کا ردعمل ’قدرتی‘ نوعیت کا تھا۔ 28 سالہ یوکرینی کھلاڑی سویتولینا کے خوابوں کا یہ خاتمہ تھا کیونکہ دوسری سیڈ والی سبالینکا نے سیمی فائنل تک پہنچنے پر توجہ مرکوز رکھی اور وہ کامیاب ہو گئیں۔ سویتولینا نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس چیز کا انتظار کر رہی تھیں، کیونکہ میرے بیانات مصافحہ کے بارے میں کافی واضح تھے۔‘ اپنے گھر روانہ ہونے سے پہلے انھوں نے ہوائی جہاز پر کہا کہ ’یہ کافی توقع کی جا رہی تھی۔ جو بھی اس صورتحال میں ہارتا ہے، میرا اندازہ ہے کہ وہ غضبناک ہو جائے گا۔ یہ میرے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔‘ کوارٹر فائنل میں دو خواتین کے درمیان تناؤ کے ماحول کی اہم وجہ یوکرین اور روس کے درمیان حالیہ جنگ ہے۔ سویتولینا کا کوارٹر فائنل تک جانا اس سال کے ٹورنامنٹ کی دلچسپ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ سابق عالمی نمبر تین، سویتولینا اب 192 ویں نمبر پر ہیں کیونکہ انھوں نے بیٹی سکائی کی پیدائش کے بعد سے بحال ہونے کی کوشش کرتی رہیں اور اس کے بعد سے اپنے پہلے گرینڈ سلیم ایونٹ میں کوارٹر فائنل میں پہنچ گئیں۔ تاہم اریانا سے شکست کے بعد ان کے سارے خواب بکھر گئے ہیں۔ بیلاروس کی اریانا سبالینکا نے اس سال ڈبلیو ٹی اے ٹور پر کسی بھی دوسرے کھلاڑی کے مقابلے زیادہ میچ جیتے ہیں، جس نے اپنے میچوں میں بہتر فٹنس اور مضبوط عزم کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں۔ بیلاروسی کھلاڑی کو پیرس میں ذاتی چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، انھوں نے میچ کے بعد کی گئی اپنی پچھلی دو نیوز کانفرنسوں کو یہ کہنے کے بعد چھوڑ دیا کہ جب انھیں جنگ کے بارے میں اپنے مؤقف کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو وہ اپنے آپ کو ’محفوظ محسوس نہیں کر رہی تھیں‘۔ دونوں کھلاڑیوں کی قوموں کے درمیان سیاسی صورتحال کا پس منظر کی وجہ سے ایک خوف کا ماحول تھا۔ انھوں نے میچ سے پہلے کی معمول کی تصویر لینے سے بھی گریز کیا تھا۔ ابتدائی سیٹ کے لیے شروعات میں سخت تناؤ جاری رہا، سویتولینا نے اپنے حریف کی شاٹس کھیلنے میں دقت پیش آرہی تھی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp9dmk3w9l2o
ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل: آسٹریلین بولرز حاوی ہوں گے یا انڈین بلے باز چھا جائیں گے؟
آسٹریلیا اور انڈیا کی ٹیم کے درمیان بدھ سے لندن کے اوول کرکٹ گراؤنڈ پر ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل شروع ہو رہا ہے۔ انڈین ٹیم کے کوچ راہل ڈراوڈ نے کہا ہے کہ اس فائنل سے پہلے اس کے بارے میں میڈیا میں بہت زیادہ ہلچل اور جوش و خروش نہیں ہے جو کہ انڈین ٹیم کے لیے اچھی بات ہے۔ دوسری جانب آئی سی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچ اہم سابق کرکٹرز نے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے متعلق بات کی ہے جس میں آسٹریلین ٹیم کے جیتنے کے قوی امکانات ظاہر کیے گئے ہیں۔ بہرحال انڈین ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سنہ 2019 کے بعد جب سے ٹیسٹ چیمپئن شپ شروع ہوئی ہے وہ دونوں بار فائنل میں پہنچی ہے۔ اس سے قبل سنہ 2021 میں وہ فائنل میں پہنچی تھی لیکن روز بال ساؤتھیپٹن میں اسے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں آٹھ وکٹوں سے شکست کا سامنا رہا تھا۔ اس کے بعد رواں سیزن کا آغاز سنہ 2021 میں انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان پٹودی ٹرافی سے ہوا اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے نئے پوائنٹ سسٹم کے تحت باضابطہ طور پر پورے پروگرام کا اعلان کیا۔ نئے پوائنٹ سسٹم میں جیت کے لیے 12 پوائنٹس جبکہ ڈرا کے لیے چار اور میچ ٹائی ہونے کی صورت میں چھ پوائنٹس مختص کیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے آسٹریلیا نے اس دوران 19 میچز کھیلے جس میں سے اسے 11 میں کامیابی ملی، پانچ برابر رہے جبکہ تین میں اسے شکست کا سامنا رہا اور اس طرح اس کی جیت کا فیصد 66 سے زیادہ رہا۔ انڈیا کے خلاف گذشتہ سال گاوسکر۔ بورڈر سیریز کے تیسرے میچ میں جیت کے ساتھ ہی آسٹریلیا چیمپئن شپ کے فائنل میں پہنچ گئی تھی لیکن انڈیا کے لیے یہ راہ قدرے مشکل تھی۔ انڈیا نے رواں ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز وراٹ کوہلی کی کپتانی میں کیا تھا لیکن جب کوہلی کو شارٹ فارم کی کپتانی سے ہٹایا گیا تو انھوں نے ٹیسٹ کپتانی کو بھی خیرباد کہا جس کے بعد انڈیا کو جنوبی افریقہ میں شکست کا سامنا رہا اور وہ چوتھے نمبر پر پہنچ گئی۔ تاہم اس کے بعد اس نے نیوزی لینڈ سے ایک صفر سے، سری لنکا سے دو صفر سے اور بنگلہ دیش سے دو صفر سے سیریز جیت کر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔ اس کے باوجود اگر سری لنکا نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز جیتنے میں کامیاب ہو جاتا تو انڈیا کے لیے مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ تاہم نیوزی لینڈ نے دو صفر سے وہ سیریز جیت کر انڈیا کو فائنل میں پہنچا دیا کیونکہ انڈیا نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں پہلے دو میچ جیت لیے تھے لیکن تیسرے میچ میں شکست سے اس کی پوزیشن پھر سے متزلزل ہو گئی تھی۔ رواں سیزن میں انڈین ٹیم نے کل 18 ٹیسٹ میچز میں سے 10 میں کامیابی حاصل کی اور انھیں پانچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ تین ٹیسٹ ڈرا رہے۔ اس طرح اس کی جیت کا فیصد 58 سے زیادہ رہا۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ 55 فیصد جیت کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی جبکہ باقی تمام چھ ٹیمیں انگلینڈ، سری لنکا، نیوزی لینڈ، پاکستان، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش بالترتیب 50 فیصد سے کم رہیں۔ انڈین اور آسٹریلین دونوں ہی ٹیمیں انگلینڈ پہنچ چکی ہیں لیکن انگلینڈ کی میڈیا کا زیادہ تر زور ایف اے کپ پر ہے جبکہ اگر کرکٹ کی بات ہو رہی ہے تو وہ آنے والی ایشز سیریز پر مرکوز ہے جس سے ٹیسٹ چیمپئن شپ کے نئے اور تیسرے سیزن کا آغاز ہونا ہے۔ آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ نے آسٹریلیا کو فیورٹ قرار دیا ہے۔ پاکستان کے وسیم اکرم کے لیے بھی آسٹریلین ٹیم کو سبقت حاصل ہے، راس ٹیلر نے بھی آسٹریلیا کی جیت کی پیش گوئی کی ہے۔ دوسری جانب سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر روی شاستری نے کہا ہے کہ جو ٹیم پہلے سبقت لے گی جیت اس کی ہوگی اور یہی بات انگلینڈ کے سابق کرکٹر ایان بیل نے کہی ہے۔ آئی سی سی کی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ کے مطابق روی شاستری نے کہا کہ 'گھر سے باہر واحد میچ کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ جب ہم دونوں ٹیم کے موجودہ فارم کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں نے بہت عرصے سے ٹیسٹ میچز نہیں کھیلے۔ ’انڈیا نے ٹی 20 میچز ضرور کھیلے لیکن سمتھ اور لبوشان کے علاوہ آسٹریلین ٹیم کے باقی کھلاڑیوں نے بھی ایک عرصے سے بڑے دورانیہ کے میچز نہیں کھیلے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’پہلے دن کا پہلا گھونسہ اہمیت کا حامل ہے۔ میرے خیال میں پیٹ کمنس آسٹریلیا کے لیے اور محمد شامی انڈیا کی جانب سے اہم ہوں گے۔‘ سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ جوش ہیزل وڈ کے ٹیم میں نہ ہونے کے باوجود آسٹریلین ٹیم فیورٹ ہے کیونکہ یہ میچ جون کے مہینے میں تازہ دم وکٹ پر ہو رہا ہے۔ اور یہ میچ ڈیوکس بال سے ہو گا اس لیے بھی آسٹریلیا کو سبقت حاصل ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کا گذشتہ برسوں میں آسٹریلیا کے خلاف اچھا ریکارڈ رہا ہے اس نے گھریلو سیریز ایک کے مقابلے دو سے جیتی ہے۔ اس لیے یہ مقابلہ بہت کانٹے کا ہو گا۔‘ دوسری جانب ایان بیل کا کہنا ہے کہ ’موسم کی پیش گوئی اچھی ہے۔ پورے ہفتے کافی دھوپ رہے گی اور یہ وکٹ شروعات میں بیٹنگ کے لیے اچھا ہوگا اور شاید بعد میں سپن بولنگ کو مدد ملنے لگے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ٹیمیں ورلڈ کلاس ہیں، ایسے میں جو زیادہ رنز بنائے گا اس کا پلڑا بھاری رہے گا۔‘ راس ٹیلر نے کہا کہ انڈیا کو جسپریت بمرا کی کمی کھلے گی اور آسٹریلیا اس لیے بھی فیورٹ ہے کہ وہ انگلینڈ میں زیادہ میچز کھیلتی رہی ہے۔ انڈین ٹیم میں ایک عرصے کے بعد اجنکیا رہانے کو شامل کیا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل والے فائنل میں بھی تھے اور انھوں نے پہلی اننگز میں سب سے زیاد 49 رنز بنائے تھے۔ انھیں آئی پی ایل میں ان کی اچھی فارم کے لیے پھر سے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ انڈیا کے لیے خوش آئند بات وراٹ کوہلی اور شبھمن گل کا اچھے فارم میں ہونا ہے جبکہ رویندر جڈیجہ اور آر ایشون سپن کے معاملے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ایشون نے رواں ٹیسٹ چیمپئن شپ میں انڈیا کی جانب سے سب سے زیادہ 61 وکٹیں لے رکھی ہیں۔ انڈین کھلاڑیوں نے حال میں ہی ختم ہونے والی آئی پی ایل میں کافی کرکٹ کھیلی ہے لیکن دوسری جانب آسٹریلیا کی ٹیم تازہ دم نظر آتی ہے۔ اس کی ٹیم کے ڈیوڈ وارنر اور کیمرون گرین ہی صرف آئی پی ایل میں تھے جبکہ مائیکل نیسر، سٹیون سمتھ، مارکس ہیرس اور لبوشان کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہے تھے۔ آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے باقی کھلاڑیوں نے انڈیا میں مارچ کے بعد سے زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ٹیموں نے اس کے بعد سے کوئی ٹیسٹ میچ بھی نہیں کھیلا ہے۔ بہر حال آسٹریلین کپتان پیٹ کمنس خوش ہیں کہ ان کی ٹیم تازہ دم ہے اور ٹیسٹ چیمپئن شپ کے بعد ایشز کے پانچ میچز کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ فاتح کو آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے ’میس‘ کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ٹی سی کی انعامی رقم کا ایک اہم حصہ بھی دیا جائے گا۔ اگر ڈبلیو ٹی سی فائنل میچ ڈرا، ٹائی یا نامکمل رہ جاتا ہے، تو آسٹریلیا اور انڈیا کو مشترکہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فاتح قرار دیا جائے گا۔ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل سات جون سے 11 جون تک کھیلا جائے گا۔ ڈبلیو ٹی سی کے فائنل کے لیے ایک ریزرو ڈے رکھا گیا ہے اور اسے پانچ مقررہ دنوں کے دوران کھیلنے کے وقت کے کسی بھی نقصان کی تلافی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جب تک کوئی ایک فریق جیت نہیں جاتا کھیل 12 تاریخ کو بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ ڈبلیو ٹی سی کے فائنل سکواڈز آسٹریلیا: پیٹ کمنز (کپتان)، سکاٹ بولانڈ، ایلکس کیری، کیمرون گرین، مارکس ہیرس، ٹریوس ہیڈ، جوش انگلس، عثمان خواجہ، مارنس لبوشان، ناتھن لیون، ٹوڈ مرفی، مائیکل نیسر، سٹیو سمتھ، مچل سٹارک، اور ڈیوڈ وارنر۔ ریزرو: مچ مارش، میٹ رینشا انڈیا: روہت شرما (کپتان)، روی چندرن اشون، کے ایس بھرت، شبھمن گل، رویندر جڈیجہ، وراٹ کوہلی، ایشان کشن، چیتیشور پجارا، اکشر پٹیل، اجنکیا رہانے، محمد شامی، محمد سراج، شاردل ٹھاکر، جے دیو انادکت، امیش یادو۔ ریزرو: یشسوی جیسوال، مکیش کمار، سوریہ کمار یادو
https://www.bbc.com/urdu/articles/c88x5r2vzdzo
کیا اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے سے پاکستان کی فٹبال ٹیم بہتر نتائج دے پائے گی؟
گذشتہ برس قطر میں کھیلے جانے والے فٹبال ورلڈ کپ میں ایک کے بعد ایک اپ سیٹ دیکھنے کو ملا لیکن جس ٹیم نے تسلسل کے ساتھ اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کیا وہ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی مراکش کی قومی ٹیم تھی۔ فرانس سے بالآخر سیمی فائنل میں شکست کھانے والی مراکش کی ٹیم کو پاکستان میں بھی خاصی پذیرائی ملی تھی۔ اس ٹیم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ورلڈ کپ سکواڈ میں 26 کھلاڑیوں میں سے 14 دوہری شہریت کے مالک یا ’اوورسیز کھلاڑی‘ تھے، یعنی سادہ الفاظ میں وہ مراکش کے ساتھ ساتھ کسی اور ملک کی شہریت بھی رکھتے تھے۔ اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دینے کی اس حکمتِ عملی پر مراکش کے ٹیم مینیجر ولید ریگراگی کو خوب سراہا گیا تھا۔ گذشتہ ہفتے پاکستان کی جانب سے موریشس میں کھیلے جانے والے چار ملکی فٹبال ٹورنامنٹ سے قبل ٹرینگ کیمپ کے لیے 28 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا گیا۔ اس سکواڈ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں نو اوورسیز کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا تھا۔ سکواڈ کے اعلان کے بعد سے پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی ویسی ہی بحث کی جا رہی ہے جیسی چند برس قبل مراکش میں 2022 کے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے آغاز میں ہوئی تھی۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ناقدین کو اعتراض ہے کہ پاکستانی ٹیم میں اوورسیز کھلاڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باعث مقامی کھلاڑیوں کو مواقع نہیں مل پاتے اور وہ اگر بہتر ٹیموں سے فٹبال نہیں کھیلیں گے تو خود کو بہتر کیسے کر پائیں گے۔ گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران زیادہ ترعرصہ پاکستانی فٹبال فیڈریشن کی بدانتظامی اور فیفا قوانین کی خلاف ورزی کے باعث قومی ٹیم فٹبال کھیلنے سے ہی محروم رہی۔ پہلے سنہ 2015 سے سنہ 2018 تک اور پھر سنہ 2021 میں ایک گروپ کی جانب سے ’پی ایف ایف ہیڈ کوارٹر‘ پر قبضہ جسے ’بیرونی مداخلت‘ قرار دیا گیا کے باعث فیفا نے دو بار پاکستان کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ دوسری جانب رائے یہ ہے کہ پاکستان ٹیم میں بہترین اوورسیز کھلاڑیوں کی شرکت اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ٹیم کے جیتنے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مقامی کھلاڑیوں کو اپنا کھیل بہتر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بحث کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین سمیت اوورسیز کھلاڑیوں اور ایک تجزیہ کار سے اس بارے میں تفصیلی بات کی ہے۔ تاہم اس بارے میں مزید جاننے سے پہلے یہ خبر دینا اہم ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک تاحال پاکستانی ٹیم کو موریشس جانے کے لیے پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے این او سی موصول نہیں ہوا جس کے لیے قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی بھی اپیل کر چکے ہیں۔ پاکستان نے موریشس میں اپنا پہلا میچ 11 جون کو کھیلنا ہے۔ اس بحث کا پسِ منظر جاننے کے لیے ہم نے پاکستانی فٹبال ٹیم کے 17 میچ کھیلنے والے گول کیپر یوسف اعجاز بٹ سے بات کی جو گذشتہ 12 سال سے پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انھوں نے ڈنمارک سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بحث ابھی کی نہیں ہے یہ 12 سال سے میں سنتا آ رہا ہوں۔‘ ’اس وقت مقامی کھلاڑی ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ آپ نے ہماری جگہ لے لی، گالیاں بھی سننے کو ملتی تھیں۔۔۔پھر ٹیم جب ساتھ کھیلنا شروع ہوئی اور اتحاد پیدا ہوا تو انھیں بھی سمجھ آ گئی۔ اب یہ بحث صرف میڈیا تک محدود ہے۔‘ یوسف بٹ کے آباؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے ہے تاہم ان کا خاندان لاہور میں رہائش پذیر تھا جس کے بعد ان کے والد ڈنمارک شفٹ ہوئے تھے۔ یوسف بٹ سے جب مقامی کھلاڑیوں کو ملنے والے مواقعوں کی کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’مقامی کھلاڑیوں کے لیے حالات بہت خراب ہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹیلنٹ نہیں ہے، پاکستان میں پچھلے 12 سالوں میں مجھے کلیم اللہ، عیسیٰ، عادل، صدام، فیصل جیسے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ لیکن وہ اس سے بہت آگے جا سکتے تھے۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا مسئلہ الگ ہے اور سیاست کے مسائل بھی ہیں۔‘ انھوں نے ماضی میں لگنے والی پابندیوں کو ’کھلاڑیوں سے ہزاروں گھنٹوں کی ٹریننگ چھیننے‘ کے مترادف قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میں ہفتے میں پانچ دن ٹریننگ کرتا ہوں، ایک دن میچ کھیلتا ہوں، جم کی ٹریننگ الگ ہوتی ہے۔‘ ’اس کے علاوہ مجھے فٹنس کوچ اور نیوٹرشنسٹ کی سہولت بھی میسر ہے۔ پروفیشنل لیول کی فٹبال میں یہ سب تو اہم ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی حکمتِ عملی بہت اہم ہوتی ہے۔ ٹیم کا ردھم بہت ضروری ہوتا ہے، اس لیے اوورسیز کھلاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ انھیں یہ تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں، اور بڑے کلبز سے کھیل کر آئے ہوتے ہیں تو انھیں دباؤ میں کھیلنے کی عادت ہوتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’12 سال میں مجھے پاکستان کے لیے 60، 70 میچ کھیلنے چاہیے تھے، لیکن پابندیوں کی وجہ سے صرف 17 کھیل سکا۔‘ اس مسئلے کا پسِ منظر جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کی فٹبال پر گہری نظر رکھنے والے شاہ رخ سہیل سے بات کی جو آج کل یونیورسٹی آف ایسٹ لندن میں سپورٹس مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2005 میں پہلی مرتبہ زیش رحمان وہ پہلے اوورسیز پاکستانی تھے جو پاکستان کی فٹبال ٹیم میں شامل ہوئے تھے۔‘ اس کے بعد سے سلسلہ چل نکلا اور آہستہ آہستہ اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور آج سکواڈ میں نو کھلاڑی اوورسیز ہیں۔ شاہ رخ نے اس بحث کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بحث بہت کمزور ہے کیونکہ ہم ابھی تک پچھلی صدی کے حساب سے سوچ رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’پوری دنیا اس ماڈل کو اپنا چکی ہے، فلپائن کی ٹیم کی رینکنگ سنہ 2006 میں 190 تھی اور سنہ 2019 میں وہ ایشیا کپ کھیل رہے تھے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں انفراسٹرکچر نہیں بنا ہوا جس کی وجہ سے طویل ٹریننگ کیمپس رکھے جاتے ہیں اور یوں جو کھلاڑی دوسری لیگز میں کھیل رہے ہوتے ہیں انھوں ان کیمپس میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ان کے کلب انھیں اجازت نہیں دیتے انٹرنیشنل ونڈو سے پہلے جانے کی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ان کھلاڑیوں کے آنے سے ٹیم کی کوالٹی بہتر ہو گی اور اگر پاکستان درست حکمتِ عملی کے ساتھ کھیلے تو نتائج بہتر آ سکتے ہیں۔‘ پاکستان فٹبال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین ہارون ملک نے اس بارے میں بی بی سی سے تفصیل سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو مجھے خوشی ہے کہ اس بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ یہ پوری دنیا میں بحث کا موضوع ہے، جہاں بھی ٹیم کا اعلان ہوتا ہے تو بحث ضرور ہوتی ہے مجھے خوشی ہے کہ لوگ اسی بہانے فٹبال پر بات کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اوورسیز کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن پوزیشنز پر ان کھلاڑیوں کے ہم پلہ کھلاڑی ہمیں نہیں ملتے تو اوورسیز کھلاڑی اس خلا کو پر کرتے ہیں۔ ‘ ’اس سے دو فرق پڑتے ہیں ایک تو ٹیم کا معیار بہتر ہوتا ہے، اور دوسرا یہ کھلاڑی دوسرے ممالک میں جا کر پاکستان کے سفیر بنتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ ہے۔ یوں یہاں کہ لڑکوں کو دوسرے کلبز میں موقع ملنے کے امکانات بڑھتے ہیں۔‘ مقامی کھلاڑی کے لیے میسر مواقعوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس وقت آل پاکستان فٹبال ٹورنامنٹ کروا رہے ہیں، اس کے علاوہ 160 ضلعوں میں فٹبال ٹورنامنٹس ہوں گے۔ اسے سے پہلے نیشنل گیمز میں فٹ بال اور چیلنج کپ بھی ہو چکا ہے تو آہستہ آہستہ ہم مقامی کھلاڑیوں کو مواقع دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ ٹیم سیلیکشن کے حوالے سے ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ فٹبال میں کوچ ہی ٹیم سیلیکٹ کرتا ہے اور اسے اس حوالے سے کرتا دھرتا سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں ہارون ملک کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں فٹبال ٹیمیں ایسے ہی سیلیکٹ ہوتی ہیں۔ ہم نے اس مرتبہ نیشنل گیمز میں اور موجودہ ٹورنامنٹس میں بھی اپنے سکاؤٹ بھیجے ہیں تاکہ اچھے کھلاڑیوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ ان کے مشوروں کی بنیاد پر ٹریننگ کے لیے سکواڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔‘ اس مرتبہ پاکستانی ٹیم میں جن نئے اوورسیز کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں اوٹس خان اور عیسیٰ سلیمان بھی شامل ہیں اور تجزیہ کار ان کی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں اوٹس خان مانچسٹر یونائیٹڈ کی یوتھ اکیڈمی کے گریجویٹ ہیں جبکہ عیسٰی سلیمان انگلینڈ کی قومی جونیئر ٹیمز کی کپتانی کر چکے ہیں اور وہ ایٹسن ولا کی یوتھ اکیڈمی سے سامنے آئے ہیں۔ بی بی سی سے برطانیہ سے بات کرتے ہوئے 27 سالہ اوٹس خان نے کہا کہ یہ خود ان کے، اور ان کے خاندان کے لیے ایک فخر کا موقع ہے۔ اوٹس خان کے دادا کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور انھوں نے سنہ 60 کی دہائی میں برطانیہ نقل مکانی کی تھی اور یہیں شادی بھی کی تھی۔ اوٹس خان خود تاحال پاکستان نہیں آئے۔ اورسیز کھلاڑیوں پر بحث کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ٹیم ہمیشہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ ہر شخص کی اپنی رائے ہوتی ہے اور تنازع تو کسی بھی چیز پر بن سکتا ہے لیکن ہمارا کام یکجا ہو کر بہترین کارکردگی دکھانا ہے۔‘ خیال رہے کہ پاکستان کی فٹبال ٹیم موریشس کے بعد انڈیا روانہ ہو گی جہاں وہ ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن چیمپیئن شپ یا سیف کپ میں شرکت کرے گی۔ یہاں پاکستان کا انڈیا سے 21 جون کو مقابلہ ہو گا۔ اس کے بعد پاکستان کا ورلڈ کپ کوالیفائر کے لیے ڈرا نکلے گا جس کے بعد سال کے اواخر میں پاکستان ورلڈکپ کوالیفائر کے میچ کھیلے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان کی مردوں کی فٹبال ٹیم نے آج تک کبھی بھی کوئی ورلڈکپ کوالیفائر میچ نہیں جیتا ہے۔ اوٹس خان کہتے ہیں کہ ’یہ بات ہمارے ذہن میں ہے اور ہم اسے تبدیل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cll023vm668o
41 سالہ دھونی کی کپتانی کا سحر ٹوٹ کیوں نہیں پا رہا؟
تقریباً 15 سال قبل، جب ایک 38 سالہ کپتان نے اپنی ٹیم کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے پہلے ایڈیشن کا فاتح بنایا، تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ’ان جیسا عظیم کھلاڑی اس سے پہلے ملک کی ٹیم کپتان نہیں رہا۔‘ شین وارن نے اس طرح سوچا یا نہیں، لیکن بطور کپتان، انھوں نے راجستھان رائلز کی اس جیت میں دوہرا کردار ادا کیا۔ ایک حکمت عملی کے طور پر اور دوسرا سننے والے اور مسئلہ حل کرنے والے کے طور پر۔ اگرچہ آسٹریلیا نے انھیں کبھی کپتان کے طور پر نہیں دیکھا، لیکن فرنچائز نے ایسا کیا اور انھوں نے (ٹرافی کے ساتھ) اس یقین کا بدلہ دیا۔ مہندر سنگھ دھونی نے کپتانی کا یہ کردار اتنی ہی سنجیدگی سے ادا کیا۔ اپنے 250ویں آئی پی ایل میچ میں، جس کا گذشتہ ہفتے فائنل بھی ہوا، دھونی چنئی سپر کنگز کے آن فیلڈ سٹریٹجسٹ ہیں۔ کرکٹ پر ان کی جتنی گرفت ہے، وہ اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو اتنا ہی سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سکوائر لیگ پر کھڑے فیلڈر کو کب بائیں طرف لے جانا ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کب کس کھلاڑی کو نظر انداز کرنا ہے یا اسے سخت چہرہ دکھانا ہے۔ جب دیپک چاہر نے فائنل میچ کے اوائل میں شبمن گل کا کیچ ڈراپ کیا تو دھونی صرف سٹمپ کے پیچھے اپنی جگہ پر واپس چلے گئے اور وہاں سے تالیاں بجا کر بولر (اور ممکنہ طور پر رن روکنے کے لیے فیلڈر) کی تعریف کی۔ 41 سال کی عمر اور 538 بین الاقوامی میچ کھیلنے کے بعد دھونی کی عمر اور تجربے کا احترام کرنا فطری تھا۔ لیکن ان کے رویے کا احترام اس ذہنیت کی وجہ سے کیا گیا کہ کھیل اہم ہے لیکن زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں۔ آپ سے غلطی ہوتی ہیں، آپ کیچ ڈراپ کر جاتے ہیں، آپ کا ساتھی آپ کی غلطی کی وجہ سے رن آؤٹ ہو جاتا ہے، ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اگر یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر کیا جائے تو کپتان آپ سے کچھ کہہ سکتا ہے، ورنہ وہ اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، آگے بڑھ جاتا ہے۔ کھیل کے دوران جب دھونی ایسی صورتحال میں آگے بڑھتے ہیں تو ان کی ٹیم بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ پوسٹ مارٹم بعد کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، میچ کے دوران نہیں۔ دھونی نے جب پہلی بار چنئی سپر کنگز کے لیے آئی پی ایل ٹرافی حاصل کی تو ان کی عمر 28 سال تھی اور یہ آئی پی ایل کا تیسرا ایڈیشن تھا۔ اس سے ایک سال قبل 38 سالہ ایڈم گلکرسٹ نے حیدرآباد کی ٹیم دکن چارجرز کے لیے یہ ٹرافی جیتی تھی۔ تو کیا آئی پی ایل کی کپتانی تجربہ کار کرکٹرز پر چھوڑ دی جائے جو اس تیزی سے بدلتے کھیل کو ہر زاویے سے دیکھ سکیں؟ کیا یہ بہتر ہے کہ آپ کے پاس ایک عوامی شخص بطور کپتان ہو کیونکہ ڈگ آؤٹ میں بیٹھے بڑی تنخواہیں حاصل کرنے والے سابقہ کھلاڑی حکمت عملی کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔ دھونی نے 35 سال کی عمر کے بعد اب اپنی ٹیم کو تین ٹرافیاں دلوائیں۔ ٹی ٹوئنٹی نوجوانوں کا کھیل ہو سکتا ہے لیکن ایک بڑی عمر کے کرکٹر کا بطور کپتان ہونا فائدہ مند رہا ہے، جس کی پوری ٹیم تقلید کرتے ہوئے کھیلے۔ ’چلو کپتان کے لیے کر دکھائیں‘، ایک اچھی ٹیم پالیسی ہے جو کھل کر ٹیم ورک کے معیار کو فروغ دیتی ہے۔ اچھے کپتان کھلاڑیوں کے ساتھ اچھے سلوک اور انھیں عزت دے کر ایک اوسط درجے کی ٹیم کو بھی فاتح بنا سکتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ آخری دو گیندوں پر 10 رنز بنا کر چنئی سپر کنگز کے لیے ٹرافی جیتنے والے رویندر جڈیجہ نے کہا، ’یہ خطاب دھونی کے لیے ہے۔‘ ’میں دھونی کے لیے بہت خوش ہوں۔‘ یہ حریف ٹیم کے کپتان کے الفاظ ہیں جو اس بات کی توثیق کرتے ہیں۔ ہاردک پانڈیا یہ بات اس وقت کہہ رہے تھے جب فائنل میچ کا فیصلہ تیسرے دن 1.30 بجے آیا (بارش کی وجہ سے پہلے دن میچ نہیں کھیلا جا سکا) اور دو ماہ کی جدوجہد کے بعد وہ فائنل میں پہنچے تھے، جو وہ ہار گئے۔ ہاردک نے کہا، ’ان سے ہارنے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ اچھی چیزیں اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ سب سے اچھا شخص ہے جس سے میں ملا ہوں۔‘ وارن اور دھونی دونوں باہر سے نرم نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت مضبوط اور پرعزم شخصیت ہیں، وہ کھلاڑیوں کے ٹوٹے ہوئے حوصلے کو بلند کرتے ہیں اور انھیں خود ہی کامیابی دلانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وارن نے ہی رویندرا جدیجا کو ’راک سٹار‘ کے طور پر نامزد کیا، ان کی آل راؤنڈ کرکٹ کی صلاحیتوں کے لیے نہیں بلکہ ان کے رویے اور وقت کی پابندی کے لیے۔ یہ ان پر جچتا ہے اور یہ نام آج بھی برقرار ہے۔ یہ بھی پڑھیے 41 سال کے دھونی جو آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کر کے بھی آئی پی ایل کے پسندیدہ کرکٹر ہیں ’دھونی ریویو سسٹم‘: ’جب ریویو کی بات آئے تو دھونی سے الجھنے کی کوشش نہ کریں‘ مہندر سنگھ دھونی: انڈیا کا کامیاب ترین کپتان ایک عظیم کپتان وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بے دخل کرنے لگتا ہے جب اس کی ٹیم اس کا فلسفہ سمجھ جاتی ہے اور کھلاڑی سمجھ جاتے ہیں کہ انھیں اپنا کام کیسے کرنا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہ وگا کہ دھونی اگلے سال آئی پی ایل میں دوبارہ کھیلیں گے یا نہیں اور اگر وہ نہیں کھیلتے ہیں تو ان کی جگہ کپتان کون بنے گا۔ رتوراج گائیکواڈ کے نام کا کافی چرچا ہے لیکن اس تجربہ کار کھلاڑی کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے کہ جو بظاہر قومی ٹیم میں جگہ بنانے کی جدوجہد کرتے نظر نہیں آتے۔ وارن نے چار سیزن کے بعد آئی پی ایل چھوڑ دیا تھا، تب ان کی ٹیم کو ایسا جادوئی کپتان نہیں ملا اور راجستھان رائلز پہلی بار اس کے بعد یہ ٹرافی نہیں جیت سکی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3ngg43l04o
انڈیا میں جنسی ہراسانی کے خلاف پہلوانوں کا احتجاج: ’اگر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں پھر واپس آئیں گی‘
انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ اُتر پردیش سے کئی بار منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ مشرقی اتر پردیش کے ایک بااثر سیاستدان اور ریاست میں بی جے پی کے ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ وہ انڈیا کی ریسلنگ فیڈریشن کے صدر بھی ہیں۔ اولمپیئن ریسلر خواتین نے برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا اور کئی دن سے وہ سراپا احتجاج ہیں۔ بدھ کو برج بھوشن شرن سنگھ نے لکھنؤ کے نزدیک ایک عوامی جلسے میں الزام لگانے والی ریسلر خواتین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھ پر الزام لگانے والو۔۔۔ گنگا میں تمغے بہانے سے مجھے پھانسی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو جا کر پولیس کو دو۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر میرے اوپر ایک بھی الزام ثابت ہوا تو میں خود ہی پھانسی پر چڑھ جاؤں گا۔ میں آج بھی اس عہد پر قائم ہوں۔‘ حکومت نواز سمجھی جانے والی ایک خبر رساں ایجنسی نے دلی پولیس کے ذرائع سے یہ خبر دی ہے کہ پولیس کو اپنی تفتیش میں برج بھوشن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور وہ اس کیس کو بند کر سکتی ہے‘ تاہم پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کر کے اس خبر کی پوری طرح تردید کی اور کہا کہ تفتیش ابھی بھی جاری ہے۔ دلی میں پارلیمنٹ سے کچھ دوری پر جنتر منتر پر پہلوان لڑکیاں برج بھوشن کو گرفتار نہ کیے جانے کے خلاف احتجاج میں ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے دھرنے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان میں ساکشی ملک، ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھیں۔ انھیں اس وقت وہاں سے پولیس نے زبردستی ہٹا دیا جب وہ 28 مئی کو نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے روز پارلیمنٹ تک مارچ کرنے والی تھیں۔ پولیس نے حکم دیا ہے کہ وہ اب جنتر منتر پر دھرنے نہیں دے سکتیں۔ ان خواتین کھلاڑیوں نے احتجاج میں اپنے بین الاقوامی تمغے دریائے گنگا میں بہانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایک سرکردہ کسان رہنما نریش ٹکیت نے انھیں سمجھا بجھا کر ایسے کرنے سے آخری وقت میں روک دیا۔ انھوں نے احتجاجی کھلاڑیون کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح جنتر منتر میں ہماری بیٹیوں کے ساتھ برتاؤ کیا گیا، اسے پورا ملک برداشت نہیں کرے گا۔ جس طرح انھیں وہاں سے جبراً اٹھایا گیا، اس پر پورا ملک برہم ہے۔‘ واضح رہے کہ یہ خواتین کھلاڑی اس وقت دھرنے پر بیٹھنے کے لیے مجبور ہوئی تھیں جب پولیس کو جنسی ہراسانی کی شکایت درج کرانے کے باوجود برج بھوشن کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی تھی۔ پھر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پولیس نے کیس درج کیا اور اپنی تفتیش شروع کی۔ کھلاڑیوں کا مطالبہ ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے میں جس طرح دوسرے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اسی طرح برج بھوشن کو بھی گرفتار کیا جائے ۔ کئی کھلاڑیوں نےاںڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن پر جنسی ہراسانی کے جو الزامات لگائے ہیں وہ سنگین نوعیت کے ہیں۔ ان میں میبینہ طور پر ایک کھلاڑی نابالغ بتائی جاتی ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ محض الزامات لگانے سے اور تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین پہلوانوں کے دھرنے کے بعد حکومت اور سرکاری سرپرستی کے خواتین کے کمیشن تک نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ دوسری جانب ممتا بینرجی، اروند کیجریوال، پریانکا گاندھی اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں نے نہ صرف ان لڑکیوں کی حمایت کی بلکہ ان میں سے کئی رہنماؤں نے جنتر منتر پر جا کر دھرنے کے دوران ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ حکمراں جماعت کے بعض رہنماؤں نے جنسی ہراسانی کے الزامات کو ’سیاسی‘ قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کھلاڑی لڑکیوں کے خلاف بیانات پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔ نابالغ کھلاڑی کے بعض رشتے دار بھی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بالغ ہے۔ دوسری جانب کئی لوگ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برج بھوشن شرن سنگھ میں ایسی کیا خاص بات ہے حکومت انھیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات نے کہا کہ ’ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کی کوئی مدت طے نہیں ہے تو پھر یہ لڑکیاں کہاں جائیں گی۔ یہ لڑکیوں کے تحفظ کے ضمن میں بہت غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ یہ بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔‘ بہت سے کھلاڑیوں نے بھی اولمپک میڈل جیتنے والی پہلوان لڑکیوں کے ساتھ پولیس کے برتاؤ پر تکلیف کا اظہار کیا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق سٹار گیند باز انل کمبلے نے کہا ہے کہ ’28 مئی کو ہمارے پہلوانوں کے ساتھ پولیس کا جبر دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کسی بھی مسئلے کا حل بات چیت سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہم جلد سے جلد اس مسئلے کے حل کی امید کرتے ہیں۔‘ لیکن یہ معاملہ طول پکڑ رہا ہے اور پہلوان لڑکیوں نے حکومت کو پانچ دن کی مہلت دی ہے۔ ملک کی معروف دانشور مرنال پانڈے نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اس معاملے نے صرف کھلاڑیوں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی تذلیل کی لیکن اب یہاں سے کوئی واپسی نہیں۔ یہ سلسلہ اب دیر تک چلنے والا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ غیر معمولی مضبوط اور باکمال پہلوان لڑکیاں جلد ہی ذلت کی راکھ سے اوپر اٹھیں گی اور آگے بڑھیں گی۔‘ اس دوران انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہفتے کے روز کھلاڑیوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا گیا، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ کمیٹی کو امید ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے کی غیر جانبدرانہ تفتیش کی جائے گی۔‘ اس معاملے پر عالمی ریسلنگ فیڈریشن نے بھی انڈین ریسلنگ فیڈریشن کی رکنیت معطل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ سیںیئر تجزیہ کار نیرو بھاٹیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے اس معاملے کو سنبھالنے میں غلطی کی ہے۔ ’حکومت کو سمجھنا چاہيے کہ ان لڑکیوں نے ایسے ہی الزام نہیں لگا دیا۔ یہ اپنے لیے نہیں لڑ رہی ہیں، یہ اپنا درخشاں کریئر داؤ پر لگا کر دوسری کھلاڑی لڑکیوں کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اس میں حکومت سے یقیناً غلطی ہوئی ہے۔‘ بعض ٹوئٹر صارفین نے اس صورتحال کا موازنہ منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں نربھیا ریپ کے واقعہ سے کیا، جس میں حکومت کی سست روی کے سبب اس کی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ نیرو بھاٹیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے سوچا تھا کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے اور وہیں پر ختم ہو جائیگا یا یہ بھی کسانوں کی تحریک کی طرح دم توڑ دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ’لڑکیوں نے برج بھوشن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکوت کو پانچ دن کی مہلت دی ہے۔ حکومت شاید اس وقت میں کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے لیکن اگر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں پھر واپس آئیں گی۔‘ نیرو کہتی ہیں کہ ’اس واقعے سے حکومت کی ساکھ انڈیا کے لوگوں میں ہی نہیں پوری دنیا میں خراب ہو رہی ہے۔ کسی اور ملک میں اگر کوئی ایتھلیٹ جنسی ہراسانی کا الزام لگاتی ہے تو حکومت اسے سنجیدگی سے لیتی ہے اور بروقت کارروائی کرتی ہے لیکن یہاں تو کوئی ردعمل ہی نہیں ہوا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjk85drnlzko
بابر اور رضوان ہارورڈ بزنس سکول میں: ’ہمیں کرکٹ پر لگا کر خود پڑھنے بیٹھ گئے ہو‘
اردگرد بکھری ہوئے نوٹس، کتابیں اور سٹیشنری، صوفے پر لیٹ کر نوٹس کا مطالعہ کرنا اور زمین پر بیٹھ کر کمر دہری کر کے پڑھائی۔۔۔ یہ کسی بھی یونیورسٹی کے ہاسٹل یا کسی دوست کے گھر کے کمرے میں ہونے والی گروپ سٹڈی کے مناظر ہیں جس کا تجربہ یقیناً آپ کو کبھی نہ کبھی ہوا ہو گا۔ اسی تجربے کی یاد دو ایسے دوستوں کی ایک تصویر سے گذشتہ رات تازہ ہوئی جو آج کل ہارورڈ بزنس سکول میں پڑھائی کی غرض سے موجود ہیں۔ یہ دو پاکستانی کوئی اور نہیں آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں دوسرے اور تیسرے درجے پر موجود محمد رضوان اور بابر اعظم ہیں۔ بابر اعظم کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کے اردگرد بظاہر نوٹس بکھرے ہوئے ہیں اور بابر اعظم صوفے پر لیٹے ہوئے مطالعہ کر رہے ہیں جبکہ رضوان زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کو دنیا بھر میں خاصی شہرت حاصل ہے اور اکثر طالبعلم اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ہارورڈ یونیورسٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں عام فہم زبان میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے، یعنی سکولوں، کالجوں میں طلبا کے لیے ہارورڈ تک پہنچنا ایک اعزاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دو پاکستانی کھلاڑیوں کا وہاں موجود ہونے پر اس لیے بھی خاصی بات چیت ہو رہی ہے کیونکہ یہ دونوں اس مقبول پروگرام کا حصہ بننے والے پہلے کرکٹرز ہیں۔ اس سے قبل کھیلوں، میڈیا اور شوبز انڈسٹری سے بھی کئی معروف شخصیات اس پروگرام کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں فٹبالرز کاکا، ایڈون وین ڈر سار، جرارڈ پیکے، اولیور کان سمیت دیگر کھیلوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ دونوں کھلاڑیوں کی مینجنمنٹ کمپنی ’سایا کارپوریشن‘ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہارورڈ بزنس سکول بوسٹن میں پڑھایا جانے والا یہ پروگرام 31 مئی سے تین جون تک جاری رہے گا۔ جس کے بعد دونوں امریکہ میں 13 جون تک مختلف کمیونٹیز کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔ آئیے جانتے ہیں کہ بابر اعظم اور محمد رضوان ہارورڈ بزنس سکول میں کون سا کورس کر رہے ہیں اور انھیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ ہارورڈ بزنس سکول کی ویب سائٹ پر پروگرام ’دی بزنس آف انٹرٹینمنٹ، میڈیا اینڈ سپورٹس‘ کی تفصیلات درج ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آج کل انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں ڈیجینل ٹیکنالوجی کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے اور اس کورس میں اس حوالے سے جدید طریقہ کار کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اس کورس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کچھ بزنس کیسے بہتر انداز میں کام کرتے ہیں اور دوسرے کیوں فیل ہو جاتے ہیں۔ اس کورس میں بہترین فیصلے کرنے، مارکیٹ میں ہلچل کا فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے اور دیرپا فائدہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس پروگرام کھیلوں، انٹرٹینمنٹ اور میڈیا سے شخصیات کے لیے لیڈرشپ، کاروبار اور انٹرنیٹ کا استمعال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں مختلف سیشن دیے جاتے ہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام کی فیس 10500 ڈالر ہے جو پاکستانی 29 لاکھ 92 ہزار روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ سایا کارپوریشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ بابر اور رضوان کی فیس کون ادا کر رہا ہے اور آیا ان سے فیس لی بھی جا رہی ہے یا نہیں۔ اس چار روزہ پروگرام کا مکمل شیڈول بھی ویب سائٹ پر موجود ہے اور اس میں ہر روز مختلف سیشنز کی تفصیل درج ہے۔ خیال رہے کہ بابر اور رضوان گذشتہ چند روز سے امریکہ میں مختلف پاکستانی کمیونٹیز کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں۔ وہاں ان کی معروف عالم دین ڈاکٹر عمر سلیمان کے ساتھ بھی تصویر خاصی شیئر کی جا رہی ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق رضوان کا اس پروگرام کا حصہ بننے پر کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنا فخر کی بات ہے۔ ہم بی ای ایم پروگرام میں بیسٹ آف دی بیسٹ سے سیکھنے کے لیے جا رہے ہیں۔ نہ صرف اساتذہ بلکہ ساتھی پروگرام فیلوز سے بھی سیکھیں گے اور اپنے سفر کی کہانی بھی لوگوں کے ساتھ شیئر کریں گے۔ ’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک بہترین تجربہ ہو گا اور ہم یہ تجربہ دیگر سپرسٹارز کے ساتھ بھی شیئر کریں گے۔‘ پروگرام کی چیئر انیتا ایلبرس ہیں ہارورڈ بزنس سکول میں کسی بھی پروگرام کی سربراہی کرنے والی سب سے کم عمر خاتون ہیں اور ان کی ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے سٹریٹیجیز پوری دنیا میں مقبول ہیں۔ ایلبرس نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ میں بابر اعظم اور محمد رضوان کو ہارورڈ بزنس سکول کے بی ای ایم ایس پروگرام میں خوش آمدید کہہ پا رہی ہوں۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوسرے فیلوز کو ان کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔‘ اس بارے میں بات کرتے ہوئے بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ’میں زندگی بھر سیکھتے رہنے پر یقین رکھتا ہوں اور اس ورلڈ کلاس پروگرام کا حصہ بننے کا مقصد نئی چیزیں کے بارے میں جاننا، سننا، سیکھنا اور دنیا بھر میں لوگوں کو اپنے تجربے سے سکھانے کی کوشش کرنا ہے۔ بابر کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ پوری دنیا سے آنے والے بزنس ایگزیکٹوز سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔‘ خیال رہے کہ امریکہ میں وقت کے ساتھ کرکٹ کی مارکیٹ بن رہی ہے اور اب یہاں پر خصوصاً پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کو بہترین مواقع دیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں یہاں ایم سی ایل کے نام ایک ٹی 20 لیگ کے آغاز کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس میں شرکت کے لیے پاکستانی کھلاڑی این او سی کا انتظار کر رہے ہیں۔ بابر اعظم کی جانب سے ٹوئٹر پر لگائی ہوئی تصویر نے اکثر لوگوں کو زمانہ طالبعلمی کی یاد دلوا دی ہے۔ ایک صارف نے انھیں طعنہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں کرکٹ پر لگا کر خود پڑھائی میں مصروف ہو گئے ہیں۔‘ ایک اور صارف نے بابر اور رضوان کی تصویر کا بغور جائزہ لیا جس پر پتا چلا کہ رضوان کے ہاتھ میں تسبیح ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بابر بظاہر اس بے فقرے طالبعلم کی طرح ہیں جو صرف ایک مرتبہ پڑھ کے پرچہ دے دیتے ہیں لیکن رضوان وہ ہیں جو پڑھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے ہیں کہ دونوں پاس بھی ہو جائیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 کچھ صارفین نے کہا کہ ’بابر اعظم اور محمد رضوان کا امریکہ جانا پاکستان کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرنے جیسا ہے۔ یہ دونوں سپرسٹار ہیں۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ ’ملکی صورتحال دیکھتے ہوئے لڑکے آئلٹس (IELTS) کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔‘ اسی طرح کی مزاحیہ باتیں مختلف صارفین کرتے دکھائی دیے۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ پہلے سیمیسٹر میں سارے ایسے ہی پڑھتے ہیں لیکن پھر صورتحال بدل جاتی ہے۔ ایک اور مداح نے لکھا کہ ’ویسے تو کہتے ہیں کہ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، لیکن آپ کے لیے کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب صحیح بیٹھتا ہے۔‘ کسی نے لکھا کہ ’بابر بھائی پڑھائی پر دھیان دیں، موبائل تو ساری زندگی استعمال کرنا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5n0xxggzvo
دھونی: پانچواں آئی پی ایل جیتنے والے ’پل دو پل کے شاعر‘ جو اپنے آپ میں ایک ’گورکھ دھندا‘ ہیں
’میں پل دو پل کا شاعر ہوں، پل دو پل میری کہانی ہے۔۔۔‘ یہ وہ گانا جس کے ذریعے مہندرا سنگھ دھونی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سنہ 2020 میں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ ساحر لدھیانوی کی یہ نظم گلوکار مکیش نے سنہ 1976 کی فلم ’کبھی کبھی‘ میں اپنی آواز سے امر کر دی تھی۔ دھونی نے بعد میں اس گانے کو چننے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ گانا میرے کھیل سے مطابقت رکھتا ہے کہ میرے بعد جو لوگ آئیں گے وہ مجھ سے اچھا کھیلیں گے اور اگر لوگ مجھے مستقبل میں بھلا بھی دیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ دھونی کی شخصیت میں موجود انکساری اور ان کی حال میں رہنے کی جستجو کی ترجمانی اس گانے میں بہترین انداز میں ہوتی ہے۔ لگ بھگ تین برس بعد گذشتہ رات گئے کھیلے جانے والے آئی پی ایل کے فائنل کے بعد بھی دھونی کو ایک ایسے ہی فیصلے کا سامنا تھا۔ اکتالیس برس کے دھونی دنیا کی سب سے بڑی ٹی 20 لیگ آئی پی ایل میں اپنی ٹیم چنئی سپر کنگز کی کپتانی کرتے ہوئے پانچویں مرتبہ ٹائٹل جیت چکے تھے۔ بارش سے متاثرہ یہ فائنل گجرات ٹائٹنز اور چنئی سپر کنگز کے درمیان ایک کانٹے کا مقابلہ ثابت ہوا جس کی اختتامی دو گیندوں پر چنئی کو جیت کے لیے 10 رنز درکار تھے۔ آل راؤنڈر روندرا جڈیجا نے پہلے چھکا اور پھر آخری گیند پر چوکا لگا کر ٹائٹل چنئی کے نام کر دیا۔ اس میچ میں دھونی کی جانب سے گجرات کے سب سے انفارم بلے باز اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے شبمن گل کی انتہائی برق رفتاری سے کی گئی سٹمپنگ کے چرچے سوشل میڈیا پر ہوتے رہے۔ وہ جب بیٹنگ کے لیے آئے تو سٹیڈیم میں تماشائیوں کا شور بلند ہو تاہم وہ پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہو گئے جس کے بعد میدان میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ میچ کے بعد کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے سے بات کرتے ہوئے دھونی نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں تمام چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے، میرے لیے آسان فیصلہ یہ ہو گا کہ میں کہوں کہ میں ریٹائرمنٹ لے رہا ہوں۔ مشکل بات یہ ہو گی کہ میں کہوں کہ میں اب سے مزید سات آٹھ ماہ تک ٹریننگ کروں اپنے جسم کو مضبوط رکھنے کی کوشش کروں گا، اور ایک اور سیزن بھی کھیلوں گا۔ ’جتنا پیار مجھے چنئی سپر کنگز کے مداحوں نے دیا، میرا ایک اور سیزن کھیلنا ان کے لیے تحفہ ہو گا۔ جس طرح انھوں نے جذبات دکھائے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میں ان کے لیے کچھ کروں۔‘ دھونی کا بیان خاصا غیر معمولی تھا۔ ہارشا بھوگلے نے بعد میں ٹویٹ کی کہ آج دھونی خلافِ معمول تھوڑے ’جذباتی‘ دکھائی دیے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 خلاف معمول اس لیے کیونکہ وہ عام طور پر بغیر جذبات دکھائے، انتہائی اطمینان کے ساتھ بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے اکثر فیصلے سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مشکل سے مشکل موقع پر بھی وہ اضطراب کا شکار دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ ’میں بھی مضطرب ہوتا ہوں، مجھے غصہ بھی آتا ہے۔۔۔ مایوسی بھی ہوتی ہے لیکن جو اس لمحے میں کرنا چاہیے، وہ ان تمام جذبات سے زیادہ اہم ہے۔‘ ’جب میں یہ سوچ رہا ہوتا ہوں کہ ابھی مجھے کیا کرنا ہے، اس کے بعد مجھے کس کھلاڑی کو استعمال کرنا ہے تو میں اپنے جذبات کو بہتر انداز میں کنٹرول کر لیتا ہوں۔‘ دھونی کی سوانح عمری ’دی دھونی ٹچ‘ لکھنے والے بھرت سندریسن نے ٹویٹ کی کہ ’اس سیزن میں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ یقینی طور پر دھونی کا آخری سیزن ہو گا لیکن اس انٹرویو کے بعد کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ انھوں نے ہارشا بھوگلے کو یہ تو کہا کہ وہ (پلے آف) ان کا چنئی میں آخری میچ تھا لیکن اب ہمیں آکشن تک ان کے فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔‘ کووڈ کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد اس سیزن میں چنئی میں لگ بھگ تین برس بعد آئی پی ایل کے میچ کھیلے جا رہے تھے۔ دھونی کا چنئی سپر کنگز کے ہوم گراؤنڈ پر تو والہانہ استقبال ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن اس سیزن میں دھونی جس بھی گراؤنڈ میں میچ کھیلنے گئے انھیں پرتپاک انداز میں ویلکم کیا گیا۔ احمدآباد میں نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ سے قبل دھونی نے کہا کہ میں اپنی کرکٹ یہیں سے شروع کی تھی اور یہاں جب آج ہم آئے اور تماشائیوں کی جانب سے جتنا پیار ملا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، پھر میں کچھ دیر ڈگ آؤٹ میں کھڑا ہوا اور خود کو بتایا کہ مجھے اسے انجوائے کرنا ہے۔‘ خود دھونی ہمیشہ کی طرح اس حوالے سے کوئی واضح جواب دیتے دکھائی نہیں دیے اور یہ تاثر عام ہے کہ جب بھی وہ حتمی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے تو وہ بالکل ویسے ہی خاموشی سے کیا جائے گا، جیسے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے وقت کیا گیا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 دھونی کی اس ٹورنامنٹ میں کپتانی ہمیشہ کی طرح اپنے جوبن پر تھی۔ حالانکہ ان کی ٹیم ٹورنامنٹ کے آغاز میں آن پیپر آئی پی ایل کی دیگر ٹیموں کی نسبت کمزور دکھائی دیتی تھی لیکن دھونی نے جس طرح چنئی کی قدرے کمزور بولنگ کے ساتھ یہ ٹورنامنٹ جیتا وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ دھونی تاریخ کے وہ پہلے کپتان ہیں جنھوں نے تینوں آئی سی سی وائٹ بال ٹورنامنٹس جیتے ہیں یعنی 2007 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، 2011 کا ون ڈے ورلڈ کپ اور 2013 کی چیمپیئنز ٹرافی۔ اس کے علاوہ انڈین پریمیئر لیگ میں ان کی کپتانی میں چنئی سوپر کنگز دس مرتبہ فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے اور پانچ مرتبہ ٹورنامنٹ جیت چکی ہے۔ اس ’عجیب سے اطمینان‘ کے پیچھے چھپے شخص کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جو صحیح معنوں میں ایک ’گورکھ دھندا‘ ہے۔ انڈیا کی ریاست جھاڑکنڈ کے دارالحکومت رانچی کے ایم ایس دھونی کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا جس کے واحد کمانے والے اُن کے والد ہی تھے۔ اگر کوئی لڑکا جھگڑالو نہ ہو، کم گو لیکن بارعب ہو اور کھیلنے کا شوق ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور نوکری کی جانب بھی ذہن ہو تو یقیناً یہ کسی متوسط طبقے کے گھرانے کا مثالی فرزند ہو گا۔ دھونی میں یہ تمام خصوصیات تھیں۔ ’تفریح‘ کے لیے کرکٹ کھیلنا شروع کی لیکن پڑھائی کو بھی ساتھ لے کر چلے۔ وقت کے ساتھ کرکٹ پر خاص توجہ دی لیکن والدین کو زیادہ دیر پریشان نہیں کیا اور ریلوے میں نوکری بھی کر لی، جو بہرحال انھیں زیادہ دیر نہیں کرنی پڑی۔ اس سب کے بیچ میں وہ ہمیشہ ’کامن سینس‘ یعنی عام سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے کرتے رہے اور اپنے اردگرد چیزوں کو انتہائی آسان بنائے رکھا۔ ایم ایس دھونی کی سوانح عمری ’دی دھونی ٹچ‘ لکھنے والے صحافی و مصنف بھرت سندریسن نے دھونی کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 بھرت کی کتاب میں دھونی کے ایک دوست کے حوالے سے ایک بات درج ہے جو شاید دھونی کی شخصیت کا بہترین انداز میں خلاصہ کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’دھونی کو محل میں رہنا بھی آتا ہے اور ایک چھوٹے سے کمرے میں بھی۔‘ دو برس قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بھرت نے دھونی کے بچپن کے کچھ قصے سُنائے جو ان کی کتاب میں بھی درج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دھونی میں قائدانہ صلاحیت بچپن سے ہی تھیں۔ ان کے پہلے کوچ کیشو رنجن بینرجی کے مطابق ایک مرتبہ ان کی سکول کی ٹیم ایک کمزور ٹیم سے ہار گئی تو بینرجی نے سزا کے طور کھلاڑیوں کو بس کی بجائے پیدل سکول واپس آنے کو کہا۔‘ ’سکول وہاں سے چھ کلومیٹر دور تھا اور بینرجی جب سکول پہنچے تو انھیں کھلاڑیوں کی فکر لاحق ہو گئی۔ وہ دروازہ پر ہی کھڑے ان کا انتظار کرنے لگے۔‘ ’مجھے اس دن دھونی کا چہرہ آج بھی یاد ہے۔ وہ ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے آ رہے تھے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھا دیا تھا کہ یہ سزا کیوں ضروری تھی۔‘ ’پھر دھونی نے انھیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اپنے والدین کو اس بارے میں نہیں بتائیں گے۔ یہ دھونی کی قائدانہ صلاحیتوں کا عکاس تھا۔‘ بھرت کہتے ہیں کہ دھونی کی زندگی کے فیصلوں سے ان کی کپتانی کے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے۔ ’وہ چیزوں کو آسان بناتے ہیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی اور عام سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے کرتے رہے ہیں۔‘ ’عام طور پر کسی چھوٹے شہر سے کوئی کھلاڑی بڑا نام بناتا ہے تو وہ بڑے شہر جیسے ممبئی، دلی وغیرہ میں گھر خریدنے کا سوچتا ہے لیکن دھونی نے یہاں بھی کامن سینس استعمال کرتے ہوئے رانچی میں ہی اپنی ضرورت کے مطابق گھر بنایا بجائے اس کے کہ وہ کسی بڑے شہر میں فلیٹ خریدتے۔‘ ’وہ کبھی بھی دیکھا دیکھی کے فیصلوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمیشہ کچھ نیا کرنے کا سوچتے ہیں لیکن منطق کے عین مطابق۔‘ دھونی کے ایک ساتھی کتاب ’دی دھونی ٹچ‘ میں بھرت کو بتاتے کہ 'فیلڈ پر دھونی ہمیشہ سے ہی کپتان تھے۔ تندولکر اگر کوئی بولنگ میں تبدیلی کا مشورہ دیتے، تو ماہی انھیں احترام سے بتا دیتے کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا نہیں۔ ’لیکن اگر ماہی کبھی سچن کو ہوٹل لابی میں اپنی طرف آتے دیکھتے، تو وہ ان کے لیے راستہ چھوڑ دیتے۔ یہ سب وہ احتراماً کرتے اور کبھی بھی ان کے فعل میں دھوکہ دہی کا عنصر نہیں ہوتا تھا۔‘ دھونی کے جتنے بھی انٹرویوز سنیں ان میں ایک قدر مشترک ہو گی اور وہ یہ کہ وہ ہمیشہ ان باتوں کو بار بار دہرائیں گے۔ ’میں حال میں جیتا ہوں‘، ’مجھے نتیجے کی فکر نہیں ہوتی‘ کیونکہ ’میں فیصلہ کرنے کے مراحل میں گم ہوتا ہوں۔‘ ایک نظر میں تو یہ ایسی باتیں ہیں جو شاید خاصی غیر اہم لگتی ہیں لیکن دراصل یہی دھونی کا نصب العین ہے۔ بھرت بتاتے ہیں کہ ’دھونی اکثر پارٹیز پر فون نہیں لے کر جاتے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ دھونی ہیں، کیا آپ کو اہم فون نہیں آنے ہوتے، تو وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے آپ کو یہ وقت دیا ہے، تو یہ صرف آپ کے لیے ہے، اس دوران کوئی اور مداخلت نہیں ہو گی۔‘ بھرت کہتے ہیں کہ دھونی کا حال میں جینے کا جنون ایسا ہے کہ وہ کبھی کسی نجومی سے قسمت کا حال نہیں پوچھتے حالانکہ یہ چیز ان کے آبائی علاقے میں خاصی عام ہے۔ وہ اس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ مجھے مستقبل کے بارے میں پتا کر کے کچھ حاصل نہیں کرنا، میں اس لمحے میں خوش ہوں۔ فیصلے کے مراحل کے بارے میں سوچنے اور نتیجے کی فکر نہ کرنے کے باعث دھونی اپنے جذبات پر قابو تو رکھتے ہیں ہی لیکن ساتھ ہی اس سے ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے فیصلے جو عام عوام کو خاصے عجیب لگتے ہیں، وہ دراصل کسی نہ کسی منطق کی بنا پر ہوتے ہیں۔ سنہ 2007 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل کا آخری اوور جوگیندر شرما کو دینے کی وجہ ان کے نیٹس میں اچھے یارکر تھے، ورلڈ کپ 2011 کے فائنل میں ان فارم بلے باز یوراج سے پہلے آنے کا مقصد یہ تھا کہ انھوں نے مرلی دھرن کو آئی پی ایل میں اپنی ٹیم میں کھیل رکھا تھا اور سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک گلو اتار کر آخری گیند کے لیے تیار کھڑے ہونے کے باعث وہ باآسانی رن آؤٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ دی دھونی ٹچ میں بھرت دھونی کی شخصیت کو کچھ ایسے بیان کرتے ہیں کہ ’دنیا کے لیے وہ بیشک ایک معمہ ہیں، لیکن اپنے آپ میں انھیں بخوبی معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gv023e16po
راک کلائمبنگ: دوست کی موت کے بعد نوجوانوں کی سیفٹی ٹریننگ
’ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح عمران کی جان چلی گئی اس طرح کسی اور کی جان نہ جائے۔۔۔‘ مراد علی کوئٹہ کے پہاڑوں سے لگاؤ رکھنے والے نوجوانوں کو ٹریننگ دیتے ہیں کہ وہ محفوظ طریقے سے راک کلائمبنگ کریں تاکہ جس طرح ایک سال پہلے پہاڑ سے گرتے ہوئے ان کے ایک دوست کی جان چلی گئی تھی اس طرح کسی اور کی جان نہ جائے۔ مزید دیکھیے ہمارے ساتھی موسیٰ یاوری کی اس ویڈیو میں۔۔۔ اضافی فلمنگ: علی سروری
https://www.bbc.com/urdu/articles/c037l08n643o
دہلی میں پہلوانوں کی گرفتاریاں: ’آج حکومت نے بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ یاد رکھا جائے گا‘
دہلی پولیس نے جنتر منتر کے مقام پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف احتجاج کرنے والے اولمپک میڈلسٹ پہلوانوں سمیت کئی مظاہرین کو حراست میں لے کر مختلف مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار ابھینو گوئل کے مطابق جنتر منتر پر دہلی پولیس کی بھاری نفری موجود ہے اور میڈیا کو بھی احتجاج کے مقام پر پہنچنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ دہلی پولیس نے وہاں سے دھرنا دے کر احتجاج کرنے والے ریسلرز کے خیموں اور بستروں کو بھی ہٹا دیا ہے اور یہاں بھاری رکاوٹیں لگا دی ہیں۔ جس وقت جنتر منتر پر یہ کارروائی جاری تھی، اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی یہاں سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کر رہے تھے۔ خواتین پہلوانوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کے معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی تھی۔ لیکن وزیر اعظم یا حکومت ہند کے کسی وزیر نے ابھی تک اس موضوع پر کچھ نہیں کہا۔ پولیس ٹیمیں پہلوانوں اور مظاہرین کو حراست میں لینے کے بعد مختلف تھانوں میں لے گئی ہیں۔ کئی مظاہرین کو دہلی کے وسنت کنج پولیس سٹیشن میں بھی لایا گیا ہے۔ میرٹھ سے آنے والی ایک خاتون گیتا چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرٹھ سے ہم پانچ چھ خواتین سنیچر کی رات آٹھ بجے جنتر منتر پر پہلوانوں کی حمایت کے لیے آئی تھیں۔ پولیس میرے باقی ساتھیوں کو مختلف تھانوں میں لے گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’پولیس نے آج جو کیا وہ غلط ہے۔ ہمیں گھسیٹا گیا۔ مودی سرکار آمریت کر رہی ہے، جب تک پہلوانوں کو انصاف نہیں ملتا، ہم گھر واپس نہیں جائیں گے۔‘ دہلی کے وسنت کنج تھانے کے اندر موجود ہریانہ کے رہنے والے ڈاکٹر سکم نین نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ پولیس نے اس تھانے میں تقریباً 20 خواتین اور تقریباً 50 مردوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ ’جب تک ہمارے کھلاڑیوں کو انصاف نہیں ملتا ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ جنتر منتر پر آج حکومت نے بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ یاد رکھا جائے گا۔‘ اس سے پہلے ایک ٹویٹ میں ریسلر ساکشی ملک نے کہا تھا کہ ’تمام پہلوانوں اور بوڑھی ماؤں کو حراست میں لینے کے بعد، اب پولیس نے جنتر منتر پر ہمارے مورچے کو اکھاڑنا شروع کر دیا ہے۔ ہمارا سامان اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ کیسی غنڈہ گردی ہے؟‘ ساکشی ملک نے ٹوئٹر پر پہلوانوں کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو بھی شیئر کی ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ٹویٹر پر کہا کہ ’ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک، جو ملک کا نام روشن کرتے ہیں، انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر خواتین ریسلرز نے جنسی ہراسانی سمیت کئی سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ دہلی پولیس ان الزامات کی جانچ کر رہی ہے۔ برج بھوشن اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اولمپک میڈلسٹ پہلوان بجرنگ پونیا نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ہریانہ میں، دہلی میں ہمارے لوگ پکڑے گئے ہیں۔ ایک اور ٹویٹ میں ساکشی ملک نے کہا کہ ’یہ انڈین کھیلوں کے لیے ایک افسوسناک دن ہے۔ برج بھوشن، جس نے جنسی استحصال کیا، آج پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اور ہمیں سڑک پر گھسیٹا جا رہا ہے۔‘ جنتر منتر پر احتجاج کرنے والی خواتین پہلوانوں نے اتوار کو دہلی میں ’مہیلا مہاپنچایت‘ یعنی خواتین کی پنچایت منعقد کرنے کی کال دی تھی۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو ہی نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کیا ہے۔ پہلوانوں کی کال کے پیش نظر دہلی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور دہلی جانے والی سڑکوں کو بند کردیا گیا تھا۔ پہلوان ونیش پھوگاٹ کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں انڈیا کا پرچم تھامے ایک ریسلر زمین پر گری ہوئی ہیں۔ اس وائرل تصویر کو ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے لکھا، ’کھلاڑیوں کے سینے پر لگے تمغے ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ ان تمغوں سے کھلاڑیوں کی محنت سے ملک کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بی جے پی حکومت کا غرور اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکومت ہماری خواتین کھلاڑیوں کی آواز کو اپنے جوتوں تلے روند رہی ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ پورا ملک حکومت کے غرور اور اس ناانصافی کو دیکھ رہا ہے۔‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی دہلی پولیس کی کارروائی پر تنقید کی ہے۔ کانگریس نے بھی پریس کانفرنس کرکے پہلوانوں پر کی گئی کارروائی پر سوال اٹھائے ہیں۔ پارٹی کی ترجمان سپریہ شرینتے نے کہا، ’ایک ماہ سے زیادہ وقت سے یہ لڑکیاں پرامن بیٹھی تھیں، آج وہ احتجاج کرنا چاہتی تھیں اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔‘ جب صحافیوں نے شرینٹ سے پوچھا کہ کیا کانگریس اس معاملے پر سیاست کر رہی ہے، تو انھوں نے کہا، ’یہ اس ملک کی نصف آبادی کی شناخت کا سوال ہے، یہ خواتین کے حقوق کا مسئلہ ہے، سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد کا مسئلہ ہے، نہ سیاست کا، اس معاملے پر سیاست کرنا ان بیٹیوں کی عزت کو پامال کرنا ہے۔‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’ساکشی ملک، ونیش پھوگاٹ اور دیگر پہلوانوں کے ساتھ دہلی پولیس نے بدتمیزی کی ہے۔ ہمارے چیمپئنز کے ساتھ اس طرح کا سلوک شرمناک ہے۔ جمہوریت رواداری میں رہتی ہے لیکن مطلق العنان قوتیں اختلاف رائے کو دباتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں۔ عدم برداشت، میں پہلوانوں کے ساتھ کھڑا ہوں اور دہلی پولیس سے مطالبہ کرتی ہوں کہ انھیں فوری رہا کیا جائے۔‘ پہلوانوں کے خلاف کارروائی کے بعد تنقید کے جواب میں دہلی پولیس نے بھی اپنا موقف پیش کیا ہے۔ دہلی پولیس کے سپیشل سی پی دیپیندر پاٹھک نے بتایا کہ ’جن لوگوں نے رکاوٹیں توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی انھیں روک کر یہاں سے دوسری جگہ لے جایا گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’باقی قانونی کارروائی کیا ہوگی، کیا خلاف ورزیاں ہوئیں اس کا جائزہ لینے کے بعد مزید قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘ اسی دوران خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق دہلی پولس نے ونیش پھوگاٹ، ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا کو امن و امان کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckk4k45ddx7o
آئی پی ایل 2023: انڈیا کے مستقبل کے سٹار کون کون کھلاڑی ہو سکتے ہیں؟
انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) منافع بخش ہونے کے علاوہ نئے کھلاڑیوں کے لیے اپنے کریئر کو بین الاقوامی میدان میں تیزی سے آگے بڑھانے کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے۔ ماضی کے ایڈیشنوں کی طرح رواں سال بھی ان کیپڈ (یعنی وہ کھلاڑی جو کسی قومی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں) کھلاڑیوں نے آئی پی ایل میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم انڈیا میں انتخاب کے لیے اپنے آپ کو مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ سپورٹس پر لکھنے والے مصنف سیتوک بسوال نے ایسے ہی پانچ ہونہار کھلاڑیوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ رواں سیزن کا فائنل میچ دفاعی چیمپیئن گجرات ٹائٹنز اور چار بار آئی پی ایل کی فاتح اور انڈیا کے سابق کپتان مہیندر سنگھ دھونی کی ٹیم چینئی سپرکنگز کے درمیان 28 مئی کو کھیلا جانا ہے۔ رنکو سنگھ آئی پی ایل کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز ( کے کے آر) کا حصہ ہیں۔ ان کی رواں سیزن 2023 میں ساتویں نمبر پر رہی لیکن وہ اپنی ٹیم کے لیے کسی نئی دریافت کی طرح رہے۔ ہر بار جب وہ کریز پر آئے تو ان کی ٹیم اور شائقین ان سے ٹیم کو فتحیاب کرانے کی توقع کرتے تھے۔ انھوں بعض مرتبہ انھیں سنسنی خیز مقابلے میں جیت بھی دلائی اور کئی بار بہت قریب پہنچا کر چوک گئے۔ ایسا ہی ایک یادگار ميچ گجرات ٹائٹنز کے خلاف تھا۔ لیگ سپنر راشد خان نے ہیٹ ٹرک کے ساتھ کولکتہ کو تقریبا شکست سے دو چار کر دیا تھا۔ اور اس کے بعد کے کے آر کی جیت کے امکانات تقریبا معدوم ہو گئے تھے۔ لیکن سنگھ کے دوسرے ہی ارادے تھے۔ جب کولکتہ کو یش دیال کے آخری اوور سے 29 رنز درکار تھے تو پہلی گیند پر سنگل لے کر ساتھی کھلاڑی نے اسٹرائیک رنکو سنگھ کو دے دی۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز نے پھر لگاتار پانچ چھکے لگا کر کولکتہ کے لیے شاندار جیت حاصل کی جو کہ آئی پی ایل کا ایک ریکارڈ ہے۔ کے کے آر نے رنکو سنگھ کو رواں سیزن میں 55 لاکھ روپے کے عوض برقرار رکھ کر صحیح فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اگلی نیلامی میں ان کی قیمت میں اضافہ تقریبا یقینی ہے۔ آئی پی ایل کے سنہ 2022 کے ایڈیشن میں رنکو سنگھ نے سات میچوں میں 34.8 کی اوسط سے 174 رنز بنائے اور ان کا سٹرائیک ریٹ 148.71 تھا۔ رواں سیزن میں انھوں نے گروپ مرحلے کے ہر میچ میں کولکتہ کی نمائندگی کی اور تقریباً 150 کے اسٹرائیک ریٹ اور 59.25 کی اوسط سے 474 رنز بنائے۔ رنکو سنگھ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اتر پردیش کے لیے تقریباً 100 میچ کھیل کر اپنے کھیل میں نکھار پیدا کیا۔ رواں سیزن میں اپنے شاندار کھیل کے مظاہرے کے ساتھ رنکو سنگھ نے یقینی طور پر ایک بیان دیا ہے اور قومی ٹیم میں جگہ کے لیے ان کا دعویٰ پیش کیا ہے جو کہ امید افزا لگتا ہے۔ رواں آئی پی ایل میں تلک ورما کے بیٹنگ کارناموں نے لوگوی کی توجہ ان کی صلاحیتوں کی جانب مبذول کرنے پر مجبور کیا۔ وہ پانچ بار کی فاتح ممبئی انڈینز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ميچ کی صورت حال کو اچھے ڈھنگ سے پڑھنے اور فیلڈ میں اترتے ہی پہلی گیند سے رنز اکٹھا کرنے کی ان کی صلاحیت نے ممبئی انڈینز (ایم آئی) کے مڈل آرڈر کو استحکام بخشا ہے۔ چوٹ کی وجہ سے ممبئی انڈین کی مہم کے دوسرے نصف کے میچز سے باہر ہونے کے باوجود ورما نے نو میچوں میں 45.67 کی اوسط اور 158.38 کے سٹرائیک ریٹ سے 274 رنز بنائے۔ ایم آئی نے انھیں ایک کروڑ 70 لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ تلک بائیں ہاتھ کے بلے باز ہیں اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں حیدرآباد کے لیے کھیلتے ہیں۔ وہ بھی انڈین ٹیم میں بلائے جانے کے ایک مضبوط دعویدار ہیں۔ انڈین ٹیم کے کوچ اور سابق کھلاڑی شاستری نے سٹار سپورٹس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر وہ اگلے چھ آٹھ مہینوں میں انڈین ٹیم کے لیے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نہیں کھیلتے ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوگی۔' شاستری نے کہا: 'اس کی بیٹنگ میں پختگی ہے، اس کے پاس کھیل کا مزاج ہے۔ ان کی شمولیت انڈین مڈل آرڈر میں ایک فرق پیدا کرے گی۔' ان کے ممبئی انڈینز کے کپتان روہت شرما نے بھی 20 سالہ نوجوان کی بے خوف کرکٹ کی تعریف کی۔ شرما نے کہا: 'مجھے اس کے کھیل کے بارے میں جو چیز پسند ہے وہ اس کا انداز ہے، وہ خوفزدہ نہیں ہوتا ہے۔' انھوں نے کہا کہ 'وہ باؤلر کو نہیں بلکہ بال کھیلتا ہے اور یہ اس کی عمر کے کسی فرد کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ آئے اور جس طرح سے وہ کھیل رہا ہے اس طرح کھیلے۔' یشسوی جیسوال کرکٹ کھیلنے کے لیے 12 سال کی عمر میں اتر پردیش سے ممبئی چلے گئے۔ وہ خیموں میں سوتے اور گزر بسر کے لیے گلیوں میں سنیکس یعنی ناشتے بیچتے۔ انھوں شہر کے مشہور کھیل کے میدان آزاد میدان میں کھیلنا شروع کیا جو اکثر کرکٹ کھیلنے والے بچوں سے بھرا رہتا ہے۔ ان کا سفر اس وقت پروان چڑھنا شروع ہوا جب انھیں ایک مقامی کوچ نے میدان میں کھیلتے دیکھا۔ اس 21 سالہ بائيں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے نوجوان نے راجستھان رائلز کی جانب سے اوپننگ کرتے ہوئے رواں آئی پی ایل میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے لگاتار پانچ چھکے لگانے تک: ’کلکتہ کے ہیرو‘ رنکو سنگھ کون ہیں؟ لکھنؤ سپر جائنٹس کی جیت اور ’ادب سے ہرانے‘ کی بازگشت ان کی ٹیم پلے آف میں جگہ بنانے میں ناکام رہی لیکن جیسوال نے 14 میچوں میں 48.08 کی اوسط اور 163.61 کے سٹرائیک ریٹ کے ساتھ 625 رنز بنائے۔ انھوں نے ایک سنچری اور پانچ نصف سنچریان سکور کیں۔ اس کے ساتھ ہی جیسوال کے پاس اب آئی پی ایل کے کسی ایک سیزن میں کسی بھی ان کیپڈ کھلاڑی کے ذریعہ سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ ہے۔ انھوں نے 13 گیندوں پر آئی پی ایل کی تاریخ کی تیز ترین نصف سنچری بھی بنائی۔ پنجاب کنگز کے وکٹ کیپر بیٹسمین جیتیش شرما کا گذشتہ 2022 کا سیزن متاثر کن رہا تھا۔ انھوں نے ٹیم کے لیے 12 میچ کھیلے۔ انھوں نے 29.25 کی اوسط اور 163.63 کے سٹرائیک ریٹ سے 234 رنز بنائے۔ رواں سال شرما نے نیچے کے نمبروں پر کھیلتے ہوئے اپنی بلے بازی کی صلاحیت سے ٹیم میں جوش پیدا کیا۔ انھوں نے آئی پی ایل کے رواں سیزن 2023 میں اپنی ٹیم کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں میں 309 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ انھوں نے اپنی ٹیم کے لیے کچھ اہم اننگز کھیلیں۔ آئی پی ایل کے رواں سیزن سے پہلے جیتیش شرما انڈین ٹی 20 ٹیم کا حصہ تھے لیکن انھیں پلیئنگ الیون میں ڈیبیو کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی مستقل مزاجی اور بے خوف بلے بازی نے سابق کرکٹرز کو ٹیم میں ان کی شمولیت پر مجبور کر دیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں 60 سے زیادہ فرسٹ کلاس میچز کھیلنے کے بعد 29 سالہ ودربھ ٹیم کے واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے سید مشتاق علی ٹرافی، انڈیا کی ڈومیسٹک ٹی 20 کرکٹ چیمپئن شپ میں سنچری بنائی ہے۔ ان کے پاس قومی ٹیم میں شامل کیے جانے کے لیے صحیح اسناد ہیں۔ تشار 10 بار فائنل میں پہنچنے والی ٹیم چینئی سپر کنگز (سی ایس کے) کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ دائیں ہاتھ کے تیز بولر نے پچھلے سال کے آئی پی ایل کے بعد ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ گزشتہ ایڈیشن میں انھیں چینئی سپر کنگز کے لیے صرف دو میچ کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن روان ایڈیشن تشار دیشپانڈے نے سری لنکا کے فاسٹ بولر متھیشا پتھیرانا کے ساتھ ایک مؤثر کامبو تشکیل دیا۔ اس سیزن میں سی ایس کے کے لیے تمام کھیل ميچز میں شریک رہے اور وہ مہیندر سنگھ کی کپتانی میں پھلے پھولے۔ بولر کے طور پر وہ خوفزدہ کرنے والے یا تیز رفتاری کے ساتھ بولنگ کرنے والوں میں شامل نہیں ہیں، لیکن وہ اپنی صلاحیت کے مطابق منصوبے کے تحت بولنگ کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ دیش پانڈے نے پہلے چند میچوں میں اچھی شروعات نہیں کی تھی اور اپنی لائن اور لینتھ میں غلطی کی تھی۔ لیکن ٹیم مینجمنٹ اور دھونی کی حمایت سے انھوں نے واپسی کی اور سی ایس کے کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے بولر بن گئے۔ 28 سالہ کھلاڑی آئی پی ایل کے رواں سیزن 2023 میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پانچ کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے اور آئی پی ایل کے تجربے کی بدولت وہ چند ماہ بعد ہونے والے ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم کے لیے ایک مثالی آپشن ہو سکتے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpedgn3qq9lo
چوکے پر پچاس ہزار، چھکے پر ایک لاکھ روپے۔۔۔ آئی پی ایل میں ’ایزی منی‘ کے خواہشمند نوجوان
کرکٹ میچ میں اگر گیند باؤنڈری لائن پار کرتی ہے تو اسے چوکا کہتے ہیں۔ اگر میچ کے دوران کوئی کھلاڑی چوکا لگاتا ہے تو ٹیم کے مجموعی سکور کے ساتھ ساتھ کھلاڑی کے انفرادی سکور میں چار رنز کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تو پاکستان میں بچے بچے کو پتا ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں چوکا یا چھکا لگنے پر کس کے سکور میں کتنا اضافہ ہوتا ہے! لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈیا میں جاری آئی پی ایل کے میچ کے دوران چوکا لگنے پر ٹیم اور کھلاڑی کے تو صرف سکور میں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کے اکاؤنٹس میں چوکے کے عوض فی الفور 50 ہزار روپے تک کی رقم جمع ہو جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آئی پی ایل کے ایک میچ میں آخری اوور کی آخری گیند پر چھکا لگا تو اس سے ٹیم کو تو صرف چھ رنز ملے لیکن کچھ لوگوں کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے آ گئے۔ مگر یہ کون لوگ ہیں جو آئی پی ایل میں لگنے والے ہر چوکے یا چھکے پر امیر ہو رہے ہیں؟ یہ وہ سٹے باز ہیں جو آئی پی ایل کے میچز کے دوران شائقین سے بھی زیادہ ہر گیند بہت توجہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ حیدرآباد میں ہونے والے ایک حالیہ میچ کے دوران پولیس نے سٹیڈیم میں ہجوم کے بیچ و بیچ سٹے بازی کرانے والے کچھ گروہوں کے کارندوں کو گرفتار کیا ہے۔ انڈیا میں ہر سال آئی پی ایل کے دوران سٹے بازی کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ کھیلوں کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی پی ایل میں سٹے بازی صرف کسی ایک ٹیم کی ہار جیت تک محدود نہیں بلکہ اس میں کُل سکور، اننگز میں گرنے والی وکٹیں، ویراٹ کوہلی یا روہت شرما جیسے اہم کھلاڑیوں کے انفرادی سکور، بولرز کی کارکردگی، میچ میں کُل چوکے اور چھکے، پاور پلے میں رنز، میچ کے دوران وائیڈ اور نو بالز جیسی تمام چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ سٹے بازی کی ابتدا کسی بھی آئی پی ایل کا میچ شروع ہونے سے پہلے ہو جاتی ہے۔ جیسے پلیئنگ الیون میں کون کون شامل ہو گا، اس پر بھی شرطیں لگتی ہیں اور لوگ جیتتے یا ہارتے ہیں، انڈیا میں اس حوالے سے کچھ گیمنگ ایپس بھی سامنے آئی ہیں جن میں براہ راست سٹے بازی کی جاتی ہے۔ کرکٹ تجزیہ کار وینکٹیش نے بی بی سی سے بیٹنگ کے بارے میں بات کی ہے۔ ان کے مطابق تلگو ریاستوں میں کچھ ایپس پر پابندی لگائی گئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ ایپس مختلف شکلوں میں دستیاب ہیں۔ گیمنگ ایپس کے ساتھ بیٹنگ ایپس کی ایک بڑی تعداد ابھری ہے جو شرط لگانے والوں کے لیے آسانی سے دستیاب ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائبر کرائم پولیس خصوصی توجہ کے ساتھ ان پر قابو پا سکتی ہے۔ ’بیٹنگ (سٹے بازی) صرف میچ میں بنائے گئے رنز پر نہیں بلکہ ٹاس جیسی چیزوں پر بھی کی جاتی ہے۔‘ حال ہی میں سامنے آنے والے کچھ معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سٹے بازی، انڈیا کی حد تک، اب ہمیشہ کے لیے بدل رہی ہے۔ اس سے پہلے بارز، پب اور پرائیویٹ ہاؤسز میں سٹے بازی کی سرگرمیاں چلائی جاتی تھیں۔ اب حیدرآباد کے مضافاتی علاقوں میں فارم ہاؤسز میں سٹے بازی کی سرگرمیاں جاری ہیں جہاں 20 سے 25 عام فون، چار یا پانچ ٹی وی اور لیپ ٹاپ لگائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پولس نے سائبر کرائم قوانین کے تحت ایک فارم ہاؤس میں سٹے بازی کرنے والے چار افراد کے گروہ کو گرفتار کیا۔ ان کے پاس سے 40 لاکھ روپے ضبط کیے گئے اور اکاؤنٹ میں موجود 30 لاکھ روپے منجمد کر دیے گئے۔ راجیندر نگر کے ڈی سی پی جگدیشور ریڈی نے کہا کہ ’بیٹنگ گینگز فارم ہاؤسز کا انتخاب کر رہے ہیں کیونکہ شہر میں زیادہ نگرانی ہے۔‘ یہ جدید سٹے بازی پوری طرح آن لائن ہوتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ آئی پی ایل میچز ختم ہونے کے بعد اس نوعیت کی سرگرمیاں مکمل طور پر رُک جائیں گی۔ ’فینز دھونی کو 75 سال کی عمر تک بھی ریٹائر نہیں ہونے دیں گے‘ خاکروب سے آئی پی ایل میں لگاتار پانچ چھکے لگانے تک: ’کلکتہ کے ہیرو‘ رنکو سنگھ کون ہیں؟ آئی پی ایل میں کوہلی، گمبھیر اور نوین کی ’لڑائی‘ میں پاکستانی شائقین کو شاہد آفریدی کیوں یاد آ رہے ہیں؟ آئی پی ایل 2023 کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل سپیشل آپریشن ٹیم (ایس او ٹی) پولیس نے سائبر قوانین کے تحت بشیر آباد میں ایک میچ کے دوران سٹے بازوں کے اڈے پر چھاپہ مارا تھا۔ ان چھاپوں میں 50 لاکھ روپے ضبط اور 12 افراد گرفتار کیے گئے۔ معاملے پر ڈی سی پی سندیپ راؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ’میچ ہوتے ہی پیسے آن لائن بھیج دیے جاتے ہیں۔ بعد میں ہمیں کہیں پیسہ نظر نہیں آئے گا۔ ایک بار میچ ختم ہونے کے بعد پیسہ پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم میچ کے دوران چھاپہ مارنے میں کامیاب رہے۔‘ کرکٹ کے یہ بوکیز بیٹنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ شرط لگانے کے لیے خفیہ زبان استعمال کرتے ہیں، جیسے ’انگلی‘ سے مراد ایک ہزار روپے، ’ہڈی‘ کا مطلب دس ہزار جبکہ ’ٹانگ‘ سے مراد ایک لاکھ روپے ہے۔ جیتنے والی ٹیم یا جیتنے کے سب سے زیادہ امکانات والی ٹیم کو ’فلائنگ‘ کہا جاتا ہے۔ ہارنے والی ٹیم کو ’کھانا‘ کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ بیٹنگ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کچھ یوٹیوب چینلز اور ٹیلی گرام گروپس موجود ہیں۔ یہ میچ جیتنے والوں کی پہلے سے پیشگوئی کرنے کے ساتھ ساتھ شرط لگانے والوں کو نکات اور مشورے بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کرکٹ میں سٹے بازی کی سرگرمیوں کو پوری طرح روکا نہیں جا سکتا۔ خیال ہے کہ بڑے بوکیز بنیادی طور پر دہلی، ممبئی، حیدرآباد اور گوا جیسی جگہوں سے سٹے بازی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ انڈیا کے علاوہ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے بھی آئی پی ایل پر سٹے بازی چلائی جاتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے، اس لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ بوکیز دہلی، ممبئی اور حیدرآباد میں کام کر رہے ہیں جبکہ نیچے ان کے ’پنٹر‘ ساتھ دیتے ہیں۔ ’شرط لگانے سے لے کر جیتنے کے بعد پیسے بھیجنے تک، سب کچھ آن لائن گوگل پے اور فون پے پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں پکڑنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘ پولیس اہلکار کے مطابق نوجوان ’ایزی منی‘ یعنی آسانی سے پیسہ کمانے کی لالچ میں سٹے بازی میں ملوث ہوتے ہیں اور پھر انھیں اس کی لت لگ جاتی ہے۔ پہلے یہ کام بڑے شہروں اور قصبوں تک محدود تھا لیکن اب دیہات تک پھیل گیا ہے۔ 18 مئی کو شاد نگر کے قریب نرلا گوڈا ٹانڈہ کے ایک 19 سالہ نوجوان نے سٹے بازی میں پیسے ہارنے کے بعد مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔ اسی طرح بھدردری کوٹھا گوڈیم ضلع کے سائی کشن نامی نوجوان نے مبینہ طور پرپیسے ہارنے کے بعد خودکشی کی۔ سائی گزر بسر کے لیے پارٹ ٹائم نوکری کرتے تھے۔ ان کے اہلخانہ نے پولیس کو بتایا کہ سٹے بازی میں پانچ لاکھ روپے ہارنے کے بعد اس کی موت ہو گئی۔ اگرچہ اس طرح کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن سٹے بازی کی سرگرمیوں پر کنٹرول کا فقدان ہے۔ پولیس کے مطابق بعض نوجوان قرض لے کر شرط لگا رہے ہیں اور وہ پیسہ کھونے اور اس کی وصولی کا راستہ نہ ہونے کی فکر میں ہیں۔ راجندر نگر اے سی پی گنگادھر نے کہا کہ ’یہ مذاق کے طور پر شروع ہوتا ہے مگر پھر نشہ بن جاتا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g4l2jz27ko
چینئی سپر کنگز 10ویں بار آئی پی ایل کے فائنل میں: ’فینز دھونی کو 75 سال کی عمر تک بھی ریٹائر نہیں ہونے دیں گے‘
’یہ آدمی ایک ہیرو کی طرح ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو، اسے پریکٹس کے لیے میدان پر آتا دیکھنے کے لیے آدھا سٹیڈیم بھر جاتا ہے۔ وہ (فینز) انھیں 75 سال کی عمر تک بھی ریٹائر نہیں ہونے دیں گے۔‘ یہ الفاظ انڈیا کے معروف کمینٹیٹر ہرشا بھوگلے نے انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آئی پی ایل کی فرینچائز چینئی سپر کنگز (سی ایس کے) کے کپتان مہیندر سنگھ دھونی کے لیے ادا کیے۔ آئی پی ایل کے رواں سیزن کے پہلے پلے آف میں چینئی سپر کنگز نے گذشتہ سال کی چیمپیئن گجرات ٹائٹنز کو 15 رنز سے شکست دے کر فائنل میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ چینئی سپر کنگز نے آئی پی ایل کی تاریخ میں 12 بار پلے آف میں پہنچی ہے جبکہ رواں سال دسویں بار وہ فائنل میں پہنچی ہے اور یہ دونوں اپنے آپ میں ریکارڈ ہے۔ چینئی سپرکنگز چار بار آئی پی ایل کی فاتح رہی ہے جبکہ ممبئی انڈینز پانچ بار یہ ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دھونی پانچویں بار اپنی ٹیم کو کامیابی دلا کر یہ ریکارڈ برابر کریں گے اور کیا وہ اس خطاب کے ساتھ آئی پی ایل سے رخصت ہوں گے؟ رواں سال دھونی جہاں جہاں کھیلنے گئے مداحوں کا ایک سیلاب ان کو دیکھنے کے لیے پہنچا اور پورا سٹیڈیم پیلے یا زرد رنگ میں نہا گیا۔ ہر بار کرکٹ مبصرین نے ان سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ ان کا آخری آئی پی ایل ہے کہ لوگ انھیں اس قدر تعداد میں دیکھنے آتے ہیں اور گذشتہ رات ہرشا بھوگلے نے بھی دھونی سے یہی سوال کیا تو انھوں نے اپنے انداز میں جواب دیا۔ ہرشا نے پوچھا کہ کیا چینئی کے ناظرین آپ کو دوبارہ یہاں دیکھیں گے؟ تو دھونی نے کہا کہ آپ یہ پوچھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا میں یہاں دوبارہ کھیلوں گا یا نہیں؟ تو ہرش بھوگلے نے پوچھا کہ ’کیا آپ یہاں آکر دوبارہ کھیلیں گے؟‘ پھر دھونی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم، میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آٹھ نو مہینے ہیں تو ابھی سے اس سر درد کو کیوں پالوں۔ میرے پاس فیصلہ لینے کے لیے کافی وقت ہے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ میں اس (ٹیم) کے ساتھ ایک کھلاڑی کے طور پر رہوں گا یا کسی اور حیثیت سے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ میں سی ایس کے ساتھ رہوں گا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں 31 جنوری سے گھر سے باہر ہوں۔ میں 2 یا 3 مارچ سے پریکٹس کر رہا ہوں تو دیکھتے ہیں کیا ہوگا، اس وقت میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے کافی وقت ہے۔‘ اس سے قبل ڈینی موریسن نے بھی آئی پی ایل کے رواں سیزن (45 ویں میچ) کے دوران ٹاس کے بعد ان کی ریٹائرمنٹ پر سوالات پوچھے تھے۔ اس سے پہلے موریسن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’دھونی کو اس آخری سیزن میں ہر گراؤنڈ پر سپورٹ مل رہی ہے‘ اور پھر ماہی یعنی دھونی سے پوچھا کہ آپ اس کا مزہ کیسے لے رہے ہیں تو ’کیپٹن کول‘ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے فیصلہ کر لیا کہ یہ میرا آخری سیزن ہے۔‘ انڈیا میں سوشل میڈیا اور بطور خاص ٹوئٹر پر کم از کم ایک درجن ہیش ٹیگ میں دھونی پر بات ہو رہی ہے۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق اوپنر اور بلے باز ویرندر سہواگ نے لکھا کہ چینئی سپر کنگز کتنی حیرت انگیز ٹیم ہے۔ ’اپنے وسائل سے بہترین فائدہ اٹھانا ہی بہتر قیادت ہے اور چینئی کے پاس جو بولنگ لائن اپ ہے اس کے ساتھ صرف دھونی ہی انھیں فائنل میں لے جا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ، وہ ہیں اور وہ جو کرتے ہیں اس کے لیے انھیں ہر جانب سے محبت ملتی ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سابق کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے کہا کہ اب جبکہ آئی پی ایل میں امپیکٹ پلیئر کا ایک نیا رول آیا ہے تو دھونی اگلے سال بھی کھیل سکتے ہیں۔ کرک کریزی جان نامی صارف نے چینئی کنگز کے دس بار فائنل میں پہنچنے کے سال کا اندراج کرتے ہوئے لکھا کہ ’ون مین، ون کیپٹن، ون دھونی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 مبصرین کا کہنا ہے کہ دھونی کو جو محبت اور حمایت حاصل ہے اس کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا آخری آئی پی ایل نہیں ہو گا لیکن ان کے گھٹنے میں چوٹ ہے، جس کا ذکر بار بار کیا جاتا رہا ہے اور گذشتہ رات دھونی نے بھی اس کا ذکر کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 میچ کے بعد گجرات کی ٹیم کے کپتان ہاردک پانڈیا نے بھی دھونی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح سے دھونی اپنے بولرز کا استعمال کرتے ہیں وہ ناقابل یقین ہے اور یہی ان کی خوبصورتی ہے۔‘ میچ کے بعد اپنی فیلڈنگ پلیسمنٹ پر دھونی نے کہا کہ ’آپ وکٹ اور کنڈیشن کے لحاظ سے فیلڈنگ بدلتے رہتے ہیں۔ میں بہت پریشان کن کپتان ہو سکتا ہوں کیونکہ میں اپنے فیلڈرز کو یہاں وہاں ایک دو فٹ اِدھر اُدھر بدلتا رہتا ہوں۔‘ ’اس لیے میں اپنے کھلاڑیوں سے کہتا ہوں کہ وہ مجھ پر نظر رکھیں۔ میں ہر دو تین گیندوں کے بعد ان کی پوزیشن دائیں بائیں کرتا ہوں۔ میچ کے دوران، میں اپنے فیلڈرز کو اپنے اندر کے احساس کے مطابق ایڈجسٹ کرتا ہوں اور بعض اوقات اس کے مثبت نتائج آتے ہیں۔‘ آئی پی ایل میں ٹیم کو 10ویں بار فائنل میں پہنچانے کے بعد دھونی سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ایک اور فائنل کی طرح ہے تو انھوں نے کہا کہ ’یہ صرف ایک اور فائنل کی طرح نہیں۔ پہلے یہاں دنیا بھر کے بہترین کرکٹرز کے ساتھ آٹھ ٹیمیں ہوتی تھیں اور اب 10 ہیں، لہذا اب یہ پہلے سے زیادہ مشکل ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اسے ایک اور فائنل کی طرح نہیں کہہ سکتا لیکن یہ دو ماہ سے زیادہ کی محنت کا نتیجہ ہے۔ جس کی وجہ سے آج ہم یہاں ہیں۔ جب سے ہم نے یہ سفر شروع کیا ہے، مختلف لوگوں نے ٹیم کے لیے مختلف کردار ادا کی ہیں۔‘ 'اس میں سب نے اپنا حصہ ڈالا۔ مڈل آرڈر کو زیادہ مواقع نہیں ملے، لیکن سب کو پرفارم کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس لیے ہم جہاں ہیں اس سے بہت خوش ہیں۔‘ دھونی کی کپتانی کی تعریف کے لیے انھیں ’کیپٹین کول‘ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے کرکٹ کرئیر کے دوران انڈیا کی ٹیم کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ گذشتہ ہفتے ایک میچ کے دوران انڈیا کے لیجنڈ ٹیسٹ بیٹسمین سنیل گاوسکر نے اپنی شرٹ پر دھونی کا آٹوگراف لیا۔ ان سے ایک انٹرویو میں جب اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ جذباتی ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ ’اس کھلاڑی (دھونی) نے انڈیا کو کیا نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ کرکٹ کے دو لمحات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ایک وہ جب کپل نے سنہ 1983 میں ورلڈ کپ اٹھایا اور ایک جب دھونی ورلڈ کپ جتانے کے لیے چھکا مار کر اپنا بلا گھماتے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy7pzqxw5lvo
انڈیا میں ریسلرز کا احتجاج: ’ہم سب اپنی بہترین فارم میں ہیں اور اپنے عروج پر نہ کھیلنا ہمیں اندر سے مار دے گا‘
ونیش پھوگاٹ کے لیے سال 2023 ہر لحاظ سے ایک مشکل سال رہا ہے۔ عالمی چیمپئن شپ اور ایشین گیمز کے مقابلے شروع ہونے میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں، انڈین پہلوان کی ٹریننگ اس وقت زوروں پر ہوں گی۔ وہ اسے ٹریننگ کا وہ نقطہ عروج قرار دیتی ہیں جہاں آپ کا جسم خود بخود حرکت شروع کر دیتا ہے اور آپ کی ہڈیوں تک کو بھی پتا ہوتا ہے کہ اب آپ نے کیا کرنا ہے۔ ورلڈ چیمیئن شپ میں دو مرتبہ تمغہ جیتنے والی پھوگاٹ کے لیے تیسری مرتبہ بھی تمغہ حاصل کرنے کا موقع ہے۔ لیکن وہ کسی تربیتی کیمپ میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے بجائے، انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ایک سڑک پر چھوٹے سے خیمے میں رہ رہی ہیں، جہاں آج کل درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے۔ وہ گذشتہ ایک ماہ سے ’بہت کم نیند‘ اور ’مسلسل شور‘ کا شکار ہیں۔ پھوگاٹ کا شمار ملک کے سب سے کامیاب پہلوانوں کے گروہ میں ہوتا ہے اور یہ لوگ آج کل اپنی ریسلنگ فیڈریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا الزام لگانے کے بعد احتجاج کر رہے ہیں۔ اولمپک میں میڈلز جیتنے والوں سمیت یہ پہلوان ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے استعفیٰ اور گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھوشن سنگھ نے دہلی پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ میں اپنے پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے احتجاج کو سیاسی قرار دیا ہے۔ منگل کو ان مظاہروں کو شروع ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ اور اس احتجاج نے ہونے والی چیمپئن شپ میں انڈیا کے لیے ریسلنگ کا تمغہ جیتنے کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس سے کھلاڑی نہ صرف پریشان ہیں بلکہ دل برداشتہ بھی ہیں۔ یہ مظاہرے اگلے سال ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں انڈیا کے ریسلنگ میں ایک اور تمغہ جیتنے کے خواب بھی ختم کر سکتے ہیں۔ ملک نے ریسلنگ میں اب تک سات اولمپک تمغے جیتے ہیں، ان میں سے سات 2008 سے اب تک جیتے ہیں۔ سنہ 2020 کے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے پہلوان بجرنگ پونیا کہتے ہیں کہ ’پورے ملک نے ایک اور تمغہ حاصل کرنے کے لیے ہم سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور ہم واقعی ایسا چاہتے ہیں، لیکن یہاں ہم 30 دن سے بغیر کسی حل کے بیٹھے ہیں۔‘ ہر سال بین الاقوامی اولمپک کمیٹی چند ایونٹس کو اولمپکس مقابلوں کے لیے کوالیفکیشن ایونٹس کے طور پر مختص کرتی ہے۔ اینٹر دی دنگل: ٹریولز تھرو انڈیاز ریسلنگ لینڈ سکیپ کے مصنف، رودرنیل سینگپتا کہتے ہیں کہ ریسلنگ کے لیے ستمبر میں ہونے والی عالمی چیمپئن شپ وہ ایونٹ ہے، جو اسے اولمپکس کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ عالمی چیمپئن شپ یا نیشنل گیمز بھی نہ صرف اولمپکس کے کوالیفائر کے طور پر اہم ہیں بلکہ اس کی ویسے بھی ملکی سطح پر بھی اہمیت ہے کیونکہ یہ کسی بھی کھیل اور کھلاڑی کے لیے بڑے ایونٹ ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجی مقام پر اپنی ٹریننگ جاری رکھے ہوئے ہیں جو دسمبر میں شروع ہوئی تھی لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ شاید یہ کافی نہ ہو۔ سینگپتا کہتے ہیں کہ ’پہلوانی جسمانی طور پر ایک انتہائی مشکل کھیل ہے۔ بہترین فارم میں رہنے کے لیے آپ کو انتہائی مشکل ٹریننگ کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ مسلسل مشق کرتے رہیں۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ضروری کنڈیشنگ کے بغیر، ایک کھلاڑی کے پہلے 30 سیکنڈ میں ہارنے کا امکان ہوتا ہے ’چاہے اس کی صلاحیت اور ماہرت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں۔‘ پونیا کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اس سال ایشیائی رینکنگ سیریز سمیت کچھ بڑے ٹورنامنٹس سے باہر ہو چکے ہیں۔ ’لوگ کہتے ہیں کہ ہم ذاتی فائدے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن مقابلہ نہ کرنا ایک کھلاڑی کے لیے سب سے بری چیز ہے۔‘ عام حالات میں پہلوانوں کی ٹریننگ کا آغاز صبح چار پانچ بجے ہو جاتا ہے، وہ کچھ وارم اپ ایکسرسائز کرتے ہیں اور روزانہ ان کی ٹریننگ کا معمول مختلف ہوتا ہے۔ کچھ دن وہ ویٹ ٹریننگ کی مشق کرتے ہیں، دیگر دنوں میں مجموعی طور پر فٹنس کو بہتر کرنے کے لیے کراس فنکشنل مشقوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ دن میں وہ اپنی تکنیک اور حکمت عملی پر کام کرنے کے لیے آزمائشی مقابلے کرتے ہیں۔ پھوگاٹ کہتی ہیں کہ ’یہ بڑی یکسوئی والی زندگی ہوتی ہیں آپ ٹریننگ کرتے ہیں، کھاتے ہیں سوتے ہیں اور دوبارہ اکھاڑے میں ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔‘ کسی بھی مقابلے کے لیے پہلے چند مہینوں کی ٹریننگ میں پہلوان اپنی جسمانی طاقت اور گرفت پر کام کرتے ہیں تاکہ وہ خود کو ان ’سخت مشقت والے حالات‘ کے لیے تیار کر سکیں جو ان کے منتظر ہیں۔ سینگپتا اسے ’مکمل توجہ سے ساتھ سخت ٹریننگ کا وقت‘ کہتے ہیں جس میں کھلاڑیوں کو صرف نظم و ضبط پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسمانی طاقت اور ذہنی تندرستی سے لے کر تکنیک تک جسم کے ہر حصے کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کی ہر حرکت، آواز اور سانس قائم رکھنے کی نگرانی کی جاتی ہے۔ سینگپتا کا کہنا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں ایک پہلوان کا جسم طاقت اور قوت کی مکمل حد پر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جسے ’دھماکہ خیز قوت‘ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ قوت کو ظاہر کرنا۔ یہ صرف بہت مختصر وقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے. اور پھر مقابلہ سے پہلے آخری مہینہ ہے، جہاں جسم کو آرام اور صحت یاب ہونے کا وقت دیا جاتا ہے۔ پونیا کا کہنا ہے کہ یہ اہم ہے کیونکہ اس دوران جسم کو آرام اور چوٹوں کو بھرنے کا وقت ملتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ایشیئن چیمئین شپ اور عالمی چمپئن شپ دونوں ستمبر میں ہیں سینگپتا کا کہنا ہے کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ اگلے ہفتے تک مظاہروں کو ختم کیا جائے تاکہ پہلوان ’باقاعدہ اور بھرپور ٹریننگ‘ دوبارہ شروع کر سکیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر انھیں بھرپور ٹریننگ کے لیے تین ماہ بھی مل جاتے ہیں تو بھی شاید یہ ان کے چیمیئن شپ مقابلوں میں جیت کے لیے کافی نہ ہوں۔‘ یہ خدشہ دہلی میں احتجاج پر بیٹھے پہلوانوں کو بھی ہے۔ سینکڑوں پولیس افسران اور شائقین کے درمیان گھرے ہوئے، وہ نیلی ترپال کی چادروں سے بنے چھتری والے خیمے میں رہ رہے ہیں۔ ایتھلیٹس دن بھر لوگوں کے درمیان موجود رہتے ہیں، ان سے ملتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور انٹرویو دیتے ہیں۔ لیکن فجر کے وقت، جب ان کے زیادہ تر حامی سو رہے ہوتے ہیں، وہ مختصر وقت کے لیے دوبارہ پہلوانوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مسلسل تھکاوٹ اور پیشانی پر بہتے پسینے کے ساتھ وہ ایک دو گھنٹے قریبی ٹریننگ سینٹر میں اپنی ٹریننگ کرتے ہیں۔ اس دوران وہ کہتے ہیں کہ وہ مقابلوں میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مایوس بھی ہیں۔ کیمپ میں ٹریننگ کے وقف کردہ گھنٹوں کے مقابلے میں ان کے یہاں آ کر ٹریننگ کرنے کا وقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اور بعض اوقات وہاں موجود شائقین کی طرف سے بھی اس میں خلل پڑتا ہے۔ پھوگاٹ کہتی ہیں کہ ’دل سے ہم جانتے ہیں کہ ٹریننگ کا یہ معیار شاید کافی نہیں ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان حالات میں کیا بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں۔‘ ان کے رہنے کے حالات بھی کچھ مناسب نہیں ہے جس کی وجہ سے توجہ کو مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سنہ 2016 میں اولمپکس مقابلوں میں ریسلنگ کا تمغہ جیتنے والی پہلی انڈین خاتون پہلوان ساکشی ملک کہتی ہیں کہ ’اگرچہ تربیتی کیمپ کی زندگی بھی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن یہ وہ زندگی ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ لیکن یہاں مناسب خوراک، نیند اور آرام کے بغیر رہنا اس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایسا کرنا پڑے گا۔‘ پونیا کا مزید کہنا ہے کہ ’مسئلہ ہارنا نہیں لیکن اپنا بہترین کھیل پیش کرنے کے قابل ہونا ہے۔‘ وہ سوال پوچھتے ہوئے کہتے ہیں ’مگر ان حالات میں ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہم نے اچھے طریقے سے ٹریننگ ہی نہیں کر سکتے۔‘ کھیل کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے سنگیپتا کہتے ہیں کہ پہلوانوں کی مقابلوں میں حصہ نہ لینے یا مقابلہ نہ کرنے میں ناکامی انڈیا کے جیت کے امکانات کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ملک میں اب بھی باصلاحیت پہلوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’لیکن نکتہ یہ ہے کہ یہ احتجاج انصاف کے بارے میں ہے اور اس طرح کے سنگین الزامات کے لیے مناسب کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟‘ پہلوانوں کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور پہلوان آ سکتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے، چاہے ان کے کیریئر کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ ساکشی ملک کہتی ہیں کہ ’ آواز اٹھانا یا بولنا پہلوان کا کام نہیں ہے، ہمارا کام ٹریننگ کرنا، کھیلنا اور جیتنا ہے لیکن آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اسے جاری رکھیں گے۔‘ ونیش پھوگاٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنا مشکل ہے کیونکہ ’ہم یہ کر سکتے تھے اور ہم وہ تمغہ جیت سکتے تھے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب اپنی بہترین فارم میں ہیں اور اپنے عروج پر نہ کھیلنا ہمیں اندر سے مار دے گا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9n41xjvlgo
پتلی لمبی ٹانگوں والے لوگ گرمی میں تیز کیسے بھاگ لیتے ہیں؟
اگر آپ ایک میراتھون دوڑنے والے ہیں اور عمدہ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں تو آپ کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی ساخت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ایک مطالعے میں 170 افراد کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے افراد گرم موسم میں اور چھوٹے قد کے چوڑے سینوں والے لوگ سرد موسم میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ فرق صرف مردوں میں دیکھا گیا ہے۔ امریکہ کے ڈارٹ ماؤتھ کالج میں حیاتیاتی علوم کے پروفیسر اور تحقیق کے مصنف پروفیسر ریان کیلس بیک کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق ان اولین تحقیقوں میں سے ایک ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسان کی جسمانی خصوصیات یعنی فزیاوجی کو آب و ہوا کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے تا کہ جسمانی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عالمی درجہ حرارت اور آب و ہوا نے انسانی جسم کو اس طرح سے دکھائی دینے اور کام کرنے کے لیے ڈھالا ہے جس طرح وہ آج ہیں۔ لہذا آئرن مین ٹرائیتھلونز، میراتھن اور دیگر سخت مقابلوں میں کچھ مرد اپنے جسم کی ساخت اور درجہ حرارت کی بنیاد پر دوڑ کے لیے مقابلے کے دوسرے شرکا سے زیادہ موزوں ہو سکتے ہیں۔‘ انسان جانوروں کی طرح ہو سکتے ہیں جن میں سردی سے ڈھلنے والی انواع شامل ہیں جن کے اعضا گرمی کے نقصان کو محدود کرنے کے لیے تنو مند، چھوٹے یا موٹے ہو جاتے ہیں۔ اور گرم آب و ہوا میں ٹھنڈا رہنے کے لیے انسانوں اور جانورں کے پتلے بنائے جاتے ہیں۔ پی ایل او ایس ون نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کم از کم دو آئرن مین مقابلوں میں حصہ لینے والے 171 ٹرائی ایتھلیٹس کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے ایک گرم مقام پر اور دوسرا سرد مقام پر تھا اور مقابلوں کی تصاویر کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے جسم کی پیمائش کے لیے سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا۔ آئرن مین کے شرکا کو یہ مقابلے سر کرنا تھے۔: ٹرائی ایتھلیٹس کو اس مطالعے کے لیے اس لیے چنا گیا کیونکہ ان کے ایونٹ انسانی جسم کی ساخت اور کارکردگی پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہترین تھے۔ ’پروفیسر ریان کیلس بیک کا کہنا ہے کہ ’ایک ایونٹ، خاص طور پر دوڑ ہمیں انسانی ارتقا کے بارے میں بتاتا ہے اور باقی یعنی دو تیراکی اور سائیکلنگ اتنے اہم نہیں۔ اس نے تقابل زیادہ آسان کر دیا۔ ‘ انھوں نے دوڑ کے مرحلے میں جسمانی ساخت کی بنیاد پر کارکردگی میں بہت بڑا فرق پایا۔ ایتھلیٹس پر زور دیا جاتا ہے کہ تربیت کے ساتھ ساتھ وہ اس بارے میں سوچیں کہ ان کے جسم کی ساخت اور قسم کس آب و ہوا کے لیے قدرتی طور پر موزوں ہوسکتی ہے۔ پروفیسر کیلس بیک کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ بہترین کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں انھیں ریس کے مقامات اور اوسط درجہ حرارت کے بارے میں سوچنا چاہیے اور وہ اس بات کی بنیاد پر جگہ کا انتخاب کر سکتے ہیں کہ ان کے جسم کی قسم کو کس طرح پرفارم کرنے کے لیے ڈھالا گیا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6p01jzmpygo
نجم سیٹھی کا انٹرویو: ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی نہیں حکومت کرے گی‘
’اگر انڈیا ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آتا تو ہم بھی ورلڈ کپ کے لیے انڈیا نہیں جائیں گے۔‘ ایک ایسے وقت میں جب رواں سال ہونے والے ایشیا کپ سے متعلق پہلے ہی ایک غیر یقینی صورتحال تھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین نجم سیٹھی کے انڈین میڈیا کو دیے اس حالیہ بیان نے سرحد پار سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ انڈیا میں جہاں اُن کے ورلڈکپ میں شرکت سے متعلق بیان پر تنقید ہو رہی ہے وہیں پاکستان میں بھی ان کے اس بیان پر ملا جُلا ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف کرکٹ شائقین نجم سیٹھی کو سراہتے نظر آئے کہ ان کا انڈیا نہ جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے جبکہ دوسری جانب سابق پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ بچوں کو کہنا چاہیے تھا کہ وہ جا کر کھیلیں اور ورلڈ کپ جیت کر آئیں۔‘ پی سی بی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایسا سخت موقف کیوں اپنایا، ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے متعلق ان کی ٹیم کو لے کر کیا توقعات ہیں۔ ان سب سوالوں کے لیے بی بی سی نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ شاہد آفریدی کا نہیں اور نہ ہی یہ جے شاہ یا میرا ہے۔ یہ فیصلہ اُس جانب انڈین حکومت کا ہے اور اِدھر پاکستانی حکومت کا ہے۔‘ نجم سیٹھی کے مطابق سکیورٹی کے خدشات ہی وہ واحد وجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ’اگر پاکستانی حکومت نے کہا کہ آپ جائیں ورلڈ کپ کھیلنے تو ہم ضرور جائیں گے۔‘ اس بیان کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال اکتوبر میں ہی پاکستان کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے باعث ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئیں گے۔ پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی اور کرکٹ بورڈ نے اس پر خوب احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ جب اس سب سے بات نہیں بنی تو میڈیا میں چند ماہ قبل ’ہائبرڈ ماڈل‘ کا شور مچنے لگا۔ نجم سیٹھی نے میڈیا انٹرویوز میں اس کی وضاحت کی اور بتایا کہ یہ ماڈل اس تمام مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ماڈل کے تحت ٹورنامنٹ کے شروع کے چار یا پانچ میچیز پاکستان میں کھیلے جائیں گے جس کے بعد تمام ٹیمیں اپنا بوریا بسترا گول کر کے ایک نیوٹرل وینیو پر چلی جائیں گی اور ٹورنامنٹ کے بقیہ میچز وہاں منعقد ہوں گے۔ نجم سیٹھی کے مطابق انڈیا کواس صورت میں پاکستان کا دورہ نہیں کرنا پڑے گا اور بطور میزبان پاکستان بھی ایشیا کپ کے چند میچز کی میزبانی کرنے کا اہل ہوجائے گا۔ پی سی بی چیئرمین نے گذشتہ کئی دنوں میں درجنوں انٹرویوز دیے ہیں جن میں سے زیادہ تر انڈین میڈیا کو دیے گئے۔ اس حوالے سے میں نے نجم سیٹھی سے پوچھا کہ اتنے سارے انٹرویوز کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ جن سے آپ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں وہاں سے آپ کو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا؟ نجم سیٹھی کا اس متعلق کہنا تھا کہ ’دس روز قبل میری بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ کی درخواست پرایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے نائب صدر پنکج کِھمجی سے ملاقات ہوئی ہے۔‘ واضح رہے کہ نجم سیٹھی دبئی میں ہونے والی اس ملاقات کا تذکرہ تو مختلف انٹرویوز میں کر چکے ہیں لیکن ملاقاتی کا نام پہلے نہیں ظاہر کیا تھا۔ نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کے ساتھ تفصیل سے ہائبرڈ ماڈل کی تفصیلات شیئر کی گئی تھیں جو انھیں پسند بھی آئیں۔ نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کی طرف سے مثبت ردعمل آیا ہے اور انھوں نے کہا کہ وہ جے شاہ کے ساتھ جا کر اس پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ’انھوں نے کہا کہ وہ 15 مئی کو رابطہ کریں گے۔ میں ابھی انتظار کر رہا ہوں کہ انھوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔‘ نجم سیٹھی کے مطابق ہائبرڈ ماڈل گذشتہ ماہ ایشین کرکٹ کونسل کی میٹنگ میں پیش کیا گیا تھا اور ایشیائی ممالک کو اصولی طور پر اس پر اعتراض نہیں تھا بلکہ انھیں اعتراضات اس بات پر تھے کہ یہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ آنا جانا کتنا زیادہ ہوگا؟ پروڈکشن یونٹس کتنے استعمال ہوں گے؟ جب پی سی بی چیئرمین سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ اعتراضات دور کردیے گئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ کے بعد ایک جامع پلان تمام رکن ممالک کو دیا گیا تاکہ یہ اعتراضات دور کیے جاسکیں۔ ایشیا کپ کے لیے ممکنہ نیوٹرل وینیوز کے ناموں میں سری لنکا، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ لندن کا بھی نام میڈیا رپورٹس کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’مجھے احساس ہے کہ سری لنکا کی جانب سے اے سی سی پردباؤ ہے کہ نیوٹرل جگہ کے لیے سری لنکا کا انتخاب کیا جائے۔‘ متحدہ عرب امارات کے حوالے سے نجم سیٹھی کے مطابق سری لنکا کو اعتراضات تھے کہ ستمبرمیں وہاں بہت گرمی ہو گی اور کھلاڑیوں کے لیے ایک روزہ میچز کھیلنا کافی مشکل ہوگا۔ نجم سیٹھی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’اسی موسم میں یہاں پہلے بھی ایشیا کپ اور آئی پی ایل منعقد کروائے جا چکے ہیں اور یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘ پی سی بی چیئرمین کے مطابق کون سے ملک میں میچز کا انعقاد کرایا جاتا ہے؟ اس فیصلے میں سب سے اہم ’گیٹ منی‘(میچ کی ٹکٹوں کی فروخت سے آنے والی رقم ) ہے اور یہ رقم ہمیشہ میزبان ملک کو ملتی ہیں جو اس مرتبہ پاکستان ہے۔ سری لنکا میں اگر میچیز کھیلے جاتے ہیں تو گیٹ منی کافی کم ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ دبئی اور لندن سے ’گیٹ منی‘ کافی بڑی تعداد میں اکٹھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر متفقہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ میچیز سری لنکا میں ہی ہونے ہیں اور ’ہمیں وہ اس کا معاوضہ دے دیتے ہیں تو اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔‘ پاکستان کی جانب سے مختلف آپشنز کے سامنے آنے پر کئی کرکٹ کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی انٹرنیشنل سٹیج پر پوزیشن کمزور ہے اور شاید اس لیے وہ اور کسی بھی سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ہماری پوزیشن کمزور نہیں ہے انڈیا کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ آپ اس کو اس نظر سے دیکھیں کیونکہ اگر ہم کمزور ہیں تو اس کا مطلب تمام آئی سی سی ممبرز کی پوزیشن کمزور ہے اور صرف ایک انڈیا ہے جو سب سے مضبوط ہے۔‘ پی سی بی نے یہ واضح کردیا ہے کہ رواں سال انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شرکت حکومتی اجازت سے مشروط ہے۔ انڈیا نے آخری مرتبہ پاکستان کا دورہ 2008 میں کیا تھا جس کے بعد سے انڈین کرکٹ بورڈ نے تواتر سے سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے 2016 میں انڈیا کا دورہ کیا اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت کی۔ پاکستان کے لیے اس دورے نے کیا سکیورٹی خدشات کی دلیل کو کمزور نہیں کردیا؟ اس سوال کے جواب میں نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’2016 تک ہم خود نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ٹیم پاکستان آئے کیونکہ ہماری سکیورٹی کے حالات ٹھیک نہیں تھے‘ ان کے مطابق اب سکیورٹی کا کوئی اِیشو نہیں۔ ’اب ساری دنیا کی ٹیموں نے پاکستان آ کر کھیل لیا ہے۔ 2016 اور 2023 میں بڑا فرق ہے۔‘ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے حال ہی میں گرانٹ بریڈبرن کو بطور ہیڈ کوچ تعینات کرنے کا اعلان کیا گیا جو مکی آرتھر کی ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ نجم سیٹھی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر کی کاؤنٹی کلب سومرسیٹ کے ساتھ مصروفیات کا اثر پاکستان کی کارکردگی پر پڑے گا۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ مکی آرتھر پاکستانی ٹیم سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور وہ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور وہ ایشیا کپ میں انڈیا کے میچز سے قبل بھی ڈریسنگ روم میں موجود ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مکی آرتھر کی ہر سانس میں پاکستان کرکٹ رچی بسی ہے۔‘ پاکستان کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر نئی سیلیکشن کمیٹی کا اعلان تو نہیں کیا مگر بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں چیئرمین پی سی بی نے کمیٹی کے ارکان کے نام بتا دیے۔ نجم سیٹھی کے مطابق نئی سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی ہارون رشید کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں مکی آرتھر، گرانٹ بریڈبرن اور حسن چیمہ شامل ہوں گے۔ حسن چیمہ سے متعلق بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ان کی شمولیت یہ یقینی بنائے گی کہ ’سیلیکشن کے دوران ڈیٹا پر بھی انحصار کیا جائے اور حسن اس فیلڈ کے ماہر ہیں۔‘ پاکستان نے 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد صرف 27 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جبکہ باقی فل ممبرز نے اس کے برعکس اس سے کہیں زیادہ میچز کھیلے ہیں۔ کم میچ پریکٹیس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو میں بہت پُر امید ہوں کہ ایشیا کپ ضرور ہوگا لیکن اگر وہ کسی بھی وجہ سے نہیں ہوتا تو بورڈ نے اس کی جگہ ایک سہ فریقی سیریزکرانے کا پلان بنایا ہے جو ایشیا کپ کی مقرر کردہ تاریخوں پر منعقد ہوگی۔‘ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے آئی سی سی کی آمدن کی تقسیم کے ماڈل کی تفصیلات کرک انفو کو موصول ہوئیں۔ کرکٹنگ ویب سائٹ کے مطابق یہ ماڈل ابھی حتمی نہیں اور اس ماڈل سے متعلق باضابطہ فیصلہ جولائی میں ہونے والے آئی سی سی اجلاس میں کیا جائے گا۔ کرک انفو کے مطابق مجوزہ ماڈل میں، بی سی سی آئی کو 600 ملین امریکی ڈالر کی متوقع سالانہ آمدنی کا 38.5 فیصد ملنے کی توقع ہے، اس کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ کو 6.89 فیصد، کرکٹ آسٹریلیا کو 6.25 فیصد جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو صرف 5.75 فیصد حصہ ملے گا۔ اس مجوزہ ماڈل پر تبصرہ کرتے ہوئے پی سی بی چیئرمین کا کہنا تھا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انڈیا زیادہ آمدن کا حقدار ہے لیکن میٹنگ میں اس بات پر ضرور بحث ہوگی کہ انڈیا کو 38 فیصد اور پاکستان کو صرف پانچ یا چھ فیصد کیوں۔ واضح رہے کہ اس ماڈل پر اٹھائے گئے اعتراضات باضابطہ طور پر صرف پاکستان کی جانب سے سامنے آئے ہیں جس پر نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ یہ ہمار حق ہے کہ اس ماڈل میں مزید شفافیت آئے اور ہمیں بتایا جائے کہ یہ اعداد و شمار پر آئی سی سی کیسے پہنچا۔ ہمارے ساتھ کچھ اعداد و شمار شیئر کیے گئے ہیں لیکن مکمل طور پر تفصیلات تک ہمیں رسائی حاصل نہیں ہوئی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pe1vw2y8no
’ناممکن کچھ نہیں‘ دونوں ٹانگوں سے معذور سابق گورکھا فوجی نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لی
افغانستان میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوانے والے فوجی نے کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام روشن کرنے کی خواہش دل میں لیے، دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا ہے۔ گورکھا رجمنٹ میں ایک سابق سپاہی ہری بدھا ماگر دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں مگر انھوں نے اس پہاڑ کا سمٹ کر لیا ہے۔ کینٹربری میں رہنے والے 43 سالہ ہری نے ’دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے‘ اور معذوری کے بارے میں تصورات تبدیل کرنے کا چیلنج قبول کیا۔ ان کی ٹیم کے مطابق وہ جمعے کے دن دوپہر تین بجے سمٹ کر چکے تھے۔ سیٹلائٹ فون کال کے ذریعے انھوں نے ٹیم کو بتایا کہ یہ میری توقعات سے زیادہ مشکل تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ وہ تکلیف میں تھے اور انھیں زیادہ وقت بھی لگ رہا تھا مگر وہ رکے نہیں اور چوٹی کی جانب بڑھتے گئے۔ سنہ 2010 میں افغانستان میں ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) پر قدم رکھنے کے بعد ہری اپنی ٹانگوں سے محروم ہو گئے تھے۔ ہری تین بچوں کے والد ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُس دھماکے کے بعد جب وہ ہوش میں آئے تو انھیں لگا کہ ان کی ’زندگی ختم ہو گئی ہے‘ لیکن سکیئنگ، گولف، سائیکلنگ اور پہاڑ چڑھے سے ان کا اعتماد بحال ہوا۔ وہ 11 دن پہلے نیپالی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔ اس ٹیم کی قیادت کرش تھاپا کر رہے تھے جو خود گورکھا رجمنٹ ک حصہ رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب چڑھائی مشکل ہوئی تو اس وقت ان کے خاندان کا خیال اور ٹیم کے ہر شخص کی مدد نے انھیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا مقصد معذوری کے بارے میں تاثرات کو تبدیل کرنا اور پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔‘ ’چاہے آپ کے خواب کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، چاہے آپ کی معذوری آپ کے لیے کتنی مشکلات کا سبب کیوں نہ ہو۔۔۔ دنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہے۔‘ کوہ پیماؤں کی یہ ٹیم اب آرام کر رہی ہے اور ہری اگلے ہفتے برطانیہ واپس آئیں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cglz0y2m56eo
41 سال کے دھونی جو آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کر کے بھی آئی پی ایل کے پسندیدہ کرکٹر ہیں
انڈیا کے مایہ ناز وکٹ کیپر بلے باز اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد کامیابی کے ساتھ خود کو اپنی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) ٹیم چینئی سپر کنگز کے لیے ایک مضبوط لوئر آرڈر بیٹسمین میں تبدیل کر لیا ہے۔ سپورٹس جرنلسٹ سریش مینن کرکٹ کے 41 سالہ سپر سٹار کے نئے اوتار پر یہ تحریر لکھتے ہیں۔ جب رواں سیزن کا آئی پی ایل مکمل ہو جائے تو ٹرافی کو ایک نام دینا بُرا خیال نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص اس ٹورنامنٹ کی علامت اور شائقین کی توجہ کا مرکز ہو سکتا ہے تو شاید اسے دھونی ہی ہونا چاہیے۔ وہ ہمیشہ سے آئی پی ایل کا چہرہ رہے ہیں اور ایسے میں 'ایم ایس دھونی ٹرافی' سونے پر سہاگے کا کام کرے گی۔ دھونی سنہ 2008 کے آئی پی ایل کے افتتاحی ایڈیشن میں سب سے مہنگے کھلاڑی تھے۔ پندرہ سال بعد بھی وہ چینئی سپر کنگز (سی ایس کے) کے سب سے قیمتی کھلاڑی بنے ہوئے ہیں اور اپنے آپ میں ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہیں جو اس ٹی 20 ٹورنامنٹ کا سب سے زیادہ دلچسپ اور بہترین تصور ہے۔ یہاں تک کہ چینئی میں بھی، جسے فلمی ستاروں اور سیاست دانوں کا شہر کا جاتا ہے اور جہاں لاکھوں لوگ ایک طرح سے ان کی پوجا کرتے ہیں، وہاں بھی دھونی نمایاں نظر آتے ہیں، بطور خاص آئی پی ایل کے ان چند ہفتوں کے دوران۔ سی ایس کے اور ان کے مداحوں کے درمیان تعلق خاص ہے اور دھونی وہ شخص ہیں جو سی ایس کے کی علامت ہیں۔ وہ حیرت انگیز طور پر چھکا لگانے میں مہارت رکھتے ہیں اور نایاب ذہانت کے ساتھ ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔ جب تک وہ کریز پر ہیں سی ایس کے کا کوئی میچ ہارنے کا امکان نہیں رہتا ہے۔ چار سال قبل دھونی نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال ان کے تمام طرز کی کرکٹ چھوڑنے کے سوال نے ناقدین اور شائقین کے ذہنوں کو یکساں طور پر پریشان کیا ہے۔ لیکن دھونی کے ذہن میں دوسری چیزوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو ایک اور کپ دینا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے ہی چار بار اس کپ کو جیت چکے ہیں لیکن اس بار جیت کر وہ اسے پانچ کرنا چاہتے ہیں اور ممبئی انڈینز کی برابری کرنا چاہتے ہیں۔ دھونی آئی پی ایل میں سب سے اصلی کپتان بنے ہوئے ہیں، یہ وہ بندرگاہ ہے جہاں نوجوان اور اکثر اعتماد سے محروم کھلاڑی پناہ حاصل کرتے ہیں۔ بس یہی توقع کی جاتی ہے۔ وہ جولائی میں 42 سال کے ہو جائیں گے، اور ممکنہ طور پر صرف کپتانی کے لیے ہی ٹیم میں جگہ کے قابل ہیں، نہ صرف اپنی زیرک حکمت عملی کی وجہ سے بلکہ ان نوجوان کھلاڑیوں کو سہارا دینے کے لیے جو ان کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جب وہ انڈین ٹیم کے کپتان تھے تو دھونی نے ایک بار کہا تھا کہ وہ صرف ایک ایسی ٹیم چاہتے ہیں جو وقت پڑنے پر خود کو ٹرک کے سامنے پھینک دے۔ اور انھیں سی ایس کے میں ایسی ہی ٹیم ملی ہے۔ لیکن رواں سال دھونی کا بہت دیر سے آنا یہاں تک کہ نمبر 8 پر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ ہے جس کی وجہ سے تبصرے ہو رہے ہیں۔ وہ گھٹنے کی انجری سے دوچار ہیں اور اس حوالے سے بظاہر انھوں نے اپنے کھلاڑیوں سے کہہ رکھا ہے کہ 'مجھے زیادہ دوڑانے پر مجبور نہ کریں۔' اس کے متعلق انھوں نے وضاحت کی ہے کہ ان کا کام 'آخری اوورز میں بیٹنگ کرنا اور گیند کو باہر پہنچانا' ہے۔ اور وہ یہ کام بڑے متاثر کن انداز سے کر رہے ہیں۔ رواں آئی پی ایل میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 204 ہے، انھوں نے صرف 47 گیندوں کا سامنا کیا 96 رنز بنائے ہین اور ہر 4.7 گیندوں پر ایک چھکے کی اوسط سے 10 چھکے لگائے ہیں۔ نمبر 8 پر بیٹنگ کرتے ہوئے انھوں نے دہلی کیپٹلز کے خلاف نو گیندوں میں 20 رنز بنائے اور ان کی ٹیم 27 رنز سے وہ میچ جیت گئی۔ انھوں نے سی ایس کے ہوم سیزن کا آغاز فاسٹ بولر مارک ووڈ کو پہلی دو گیندوں پر چھکے مار کر کیا۔ پنجاب کنگز کے خلاف نمبر 6 پر بیٹنگ کرتے ہوئے انھوں نے چار گیندوں پر دو چھکوں کی مدد سے 13 رنز بنائے۔ مجھے ایسا کوئی وقت یاد نہیں جب کسی ٹیم کے نمبر 8 بلے باز کی آمد کا اس بے صبری کے ساتھ انتظار کیا جاتا رہا ہو۔ ان کے ساتھی ساتھی رویندر جڈیجہ نے کہا ہے کہ وہ نمبر 7 پر بیٹنگ کرنے جانے کے زیادہ خواہش مند نہیں کیونکہ تب تک 'دھونی، دھونی' کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور ناظرین (صرف چنئی میں ہی نہیں) ایک وکٹ کے آؤٹ ہونے کی دعا کرنے لگتے ہیں تاکہ وہ دھونی کو کھیلتا دیکھ سکیں۔ یہ بھی پڑھیے دھونی کی وہ خصوصیات جن کے باعث وہ انڈیا کے سب سے کامیاب ترین کپتان ثابت ہوئے مہندر سنگھ دھونی: انڈیا کا کامیاب ترین کپتان، رانچی کا ’پل دو پل کا شاعر‘ دھونی کا نیا اوتار دو طرح کے کھلاڑیوں کے لیے پیغام ہو سکتا ہے: ایک وہ جو نمبر 3 سے نیچے بیٹنگ کرتے ہیں اور جن کا واحد کام چھکا لگانا ہے، اور صرف کریز پر ٹکے رہنا نہیں ہے۔ اور دوسرے عمر رسیدہ بلے بازوں کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میں بڑے ہٹس لگا کر اپنے آپ کو کارآمد بنائیں، اور ان کے ہونے کا یہی واحد جواز ہے۔ ریڈ بال کرکٹ میں چیزیں اس کی الٹ ترتیب میں جاتی ہیں۔ روہن کنہائی یا سچن ٹنڈولکر جیسے کھلاڑی جو گیند کو شاندار طرح سے مارنے سے شروع ہوتے ہیں لیکن اکثر اپنا گارڈ بدلتے ہیں اور سیدھے بیٹ سے کھیلتے ہیں، اور باؤنڈری مارنے کے بجائے رنز جمع کرنے لگتے ہیں۔ وائٹ بال کرکٹ میں یہ رویہ غلط ہے۔ دھونی کہتے ہیں کہ نو گیندوں پر 20 رنز بنانا 70 گیندوں پر 50 رنز سے زیادہ مفید ہے۔ 41 سال کی عمر میں ٹی 20 کھیلنے کے قابل ہونے کے لیے اس قسم کی خود آگاہی اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دھونی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد اس کے لیے جذبہ بھی درکار ہے خاص طور پر ایسی صورت میں جب آپ کو خود کو ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہ ہو۔ اس بات کو قبول کرنے میں ایک عاجزی اور آگاہی کی ضرورت ہے کہ بڑی سنچری اور نصف سنچری ماضی کی بات ہو چکی ہے اور ویسے بھی اس کھیل میں اس سے زیادہ قابل رحم اور کوئی چیز نہیں ہے کہ ایک سابق عظیم کھلاڑی اپنے شاندار دنوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ان تمام سالوں میں کوئی بھی دھونی کے دماغ میں نہیں جھانک سکا ہے۔ ہر بار جب انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، پہلے سرخ بال سے، اور پھر سفید بال کی کرکٹ سے، انھوں نے سب کو حیران کردیا۔ کیا یہ آئی پی ایل میں ان کا آخری سال ہوگا؟ شاید ہاں، یا شاید نہیں۔ بہر حال آئی پی ایل ٹرافی کا نام ان کے نام پر رکھنا مناسب ہوگا۔ آخر کار، یہ ان کی ٹیم تھی جس نے انڈیا کو سنہ 2007 کا ورلڈ کپ جتایا تھا اور آئی پی ایل کو فروغ دیا۔ سریش مینن نے تنڈولکر اور بشن بیدی جیسے کرکٹرز پر کتاب لکھی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx9n4gwkdgeo
فری ہٹ پر بولڈ کے بعد رن: ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے تنازعے کی یاد ایک بار پھر تازہ
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں انڈین ٹیم کو روایتی حریف پاکستان کے خلاف میچ جیتنے کے لیے تین گیندوں پر پانچ رنز درکار تھے جب سٹرائیک پر موجود بلے باز وراٹ کوہلی کو محمد نواز نے فری ہٹ گیند پر بولڈ کر دیا تھا۔ لیکن بولڈ ہونے کے بعد کوہلی نے تین رن بھاگ لیے اور امپائر نے ان رنز کو ’بائیز‘ قرار دیا۔ اس کے بعد امپائر اور پاکستانی کپتان بابر اعظم کے درمیان ایک بحث ہوئی۔ بابر چاہتے تھے کہ گیند کو فری ہٹ ہونے کی وجہ سے سٹمپ پر لگتے ہی ’ڈیڈ بال‘ قرار دینا ہوگا۔ صرف تین رنز اس اہم میچ میں متنازع بن گئے، جسے انڈیا آخری بال پر جیت گیا۔ کرکٹ کی گورننگ باڈی کے ذریعے کھیل کے قوانین میں اعلان شدہ حالیہ ترمیم اور پھر اسے واپس لینے کے اعلان نے پھر سے اس تنازعے کی یاد کو تازہ کر دیا۔ پیر کو کرکٹ کے قوانین میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے آئی سی سی نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ’فری ہٹ‘ سے متعلق قانون میں معمولی تبدیلی کی ہے جس کے تحت ’فری ہٹ‘ پر اگر بلے باز بولڈ ہوتا ہے تو اس صورت میں اگر وہ بھاگ کر رن بنائے تو انھیں ’بائی‘ کے برعکس بلے باز کے انفرادی سکور کے طور پر شمار کیا جائے گا۔ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق اس تبدیلی کے اعلان کے کچھ دیر بعد آئی سی سی نے واضح کیا کہ قانون اپنی پرانی شکل میں ہی برقرار ہے یعنی اگر کوئی بلے باز ’فری ہٹ‘ پر بولڈ ہوتا ہے تو اس کے بعد بنائے گئے رنز اضافی رنز ہی شمار ہوں گے۔ آئی سی سی نے فری ہٹ پر سکور کے علاوہ بھی کرکٹ سے متعلق چند دیگر قوانین میں تبدیلی کی ہے جن میں سے ایک کے مطابقً کیچ لینے پر فیلڈ پر موجود امپائر اب آوٹ کے اعلان کے لیے ’سافٹ سگنل‘ نہیں دیں گے۔ نئے قوانین کے مطابق فیلڈ پر موجود امپائرز اب ٹی وی امپائر سےمشورہ کر حتمی فیصلہ دیں گے۔ ’سافٹ سگنل‘ کئی دفعہ تنازع کا باعث بنا ہے۔ یہ تبدیلی اگلے ماہ لندن میں انڈیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان 7 اور 11 جون کے درمیان ہونے والے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل سے لاگو ہوں گے۔ ایک اور قانون میں تبدیل کے تحت آئی سی سی نے ’ہائی رسک‘ پوزیشنوں پر کھلاڑیوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا ہے۔ اس میں تیز گیند بازوں کا سامنا کرنے والے بلے باز، سٹمپ کے قریب کھڑے وکٹ کیپر اور وکٹ کے سامنے بلے بازوں کے قریب کھڑے فیلڈرز شامل ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اگر ٹیسٹ میچ کے دوران قدرتی روشنی کی کمی ہوتی ہے تو ’فلڈ لائٹ‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور ٹیسٹ میچ میں اگر ضرورت ہو چھٹے روز کو ’ریزرو ڈے‘ کرطور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nkjnwk8m8o
’دی پاکستان وے‘: وہ جارحانہ حکمتِ عملی جو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے لیے اپنائی ہے
یہ ریال میڈرڈ اور مانچسٹر سٹی کے درمیان میچ کے آخری مراحل تھے جب چیمپئنز لیگ میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ریال میڈرڈ کے مداحوں کو سنہ 2022 میں فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت تقریباً نوے منٹ کا کھیل ہو چکا تھا اور مانچسٹر سٹی کو میڈرڈ پر اس میچ میں ایک صفر، اور ایگریگیٹ سکور میں پانچ تین سے برتری حاصل تھی۔ تاہم ریال میڈرڈ کی ٹیم کو ’ٹیم آف ڈریمز‘ اور ’معجزے کرنے والی ٹیم‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے کوچ اینکلوٹی انھیں اس میچ سے قبل صرف اسی سیزن میں سات مرتبہ دوسری ٹیم کی برتری حاصل کرنے کے بعد کم بیک کر کے جیتنے کی ویڈیوز دکھا چکے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ اب بھی ٹیم میں یقین موجود تھا۔ اگلے 88 سیکنڈز میں جو ہوا، اس نے فٹبال کی دنیا کا سر چکرا دیا۔ ریال میڈرڈ کی جانب سے اتنے کم وقت میں لگاتار تین گول کیے گئے اور یوں یہ ٹیم ایک اور چیمپیئنز لیگ فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور بعد میں اس میں 14ویں دفعہ چیمپیئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ کرکٹ کی دنیا میں ایسی ہی ’معجزے‘ اور ناقابلِ یقین پوزیشنز سے کم بیک کرنے والی ٹیم پاکستان کی ہے جس کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ہے جب ایک موقع پر پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات صرف چار فیصد تھے، تاہم پھر پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا۔ اس کی سب سے مقبول مثال 1992 کے ورلڈ کپ کی دی جاتی ہے جب پاکستان نے ایک ناقابلِ یقین صورتحال سے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا۔ تاہم یہ وہ واحد ون ڈے ورلڈ کپ ہے جو پاکستان اب تک جیت سکا ہے اور ون ڈے کرکٹ میں گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی ٹیم صرف ایک مرتبہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم مینجمینٹ نے ’دی پاکستان وے‘ کے نام سے ایک جارحانہ حکمت عملی اور کلچر میں تبدیلی متعارف کروائی ہے جو پاکستانی ٹیم اب سے اپنائے گی اور اس کے تحت ہی ورلڈ کپ 2023 میں کھیلے گی۔ اس حکمتِ عملی کا اعلان پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے گرانٹ بریڈبرن کو بطور کوچ تعینات کرنے کے اعلان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مینیجر ریحان الحق پاکستان کرکٹ ٹیم اور ریال میڈرڈ کے درمیان مماثلت دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چیمپیئنز لیگ فٹبال میں جیسے ریال میڈر ایک نئے لیول پر آ جاتی ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے یہ پہلے بھی کیا ہے اور اب ہم یہ دوبارہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’اسی طرح پاکستانی ٹیم کی بھی یہ خاصیت ہے کہ انھیں جب بھی کارنر کیا جاتا ہے تو وہ بار بار اس میں سے نکل کر فتح حاصل کرتے ہیں، یہی چیز کھلاڑیوں کو باور کروانے کے لیے اور ان کی ذہنیت میں تبدیلی کے لیے ہم نے ’دی پاکستان وے‘ کی حکمتِ عملی متعارف کروائی ہے۔‘ ٹیم کلچر میں تبدیلی یا اس حوالے سے حکمتِ عملی کے لیے کوئی نئی اصطلاح کا سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے متعدد سپورٹس ٹیمز اس طرح کی حکمتِ عملیاں اپنا چکی ہیں۔ اس بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ’دی پاکستان وے‘ ہے کیا اور اسے متعارف کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے ہم نے پاکستان ٹیم ٹیم مینیجر ریحان الحق سے تفصیل سے بات کی ہے۔ ریحان الحق کو نیوزی لینڈ کے حالیہ دورہ پاکستان سے قبل پاکستان ٹیم کے ساتھ بطور ٹیم مینیجر تعینات کیا گیا ہے۔ تاہم ماضی کے ٹیم مینیجرز کے برعکس ریحان الحق کا ٹیم مینجمنٹ میں رول مختلف ہے۔ وہ ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر، کوچ گرانٹ بریڈبرن کپتان بابر اعظم کے ساتھ مل کر حکمتِ عملیاں بنانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ریحان الحق پاکستان سپر لیگ کی ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کے ٹیم مینیجر بھی جو اب تک دو پی ایس ایل ٹائٹل اپنے نام کر چکی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کے ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر ہیں جو اس وقت پاکستان ٹیم کے ساتھ ’پارٹ ٹائم‘ رول میں منسلک ہیں کیونکہ وہ ڈاربی شائر کے فُل ٹائم کوچ ہیں۔ پاکستان ٹیم کے اکثر موجودہ کھلاڑی سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے اور اس وقت پاکستان ٹیم کے کوچ مکی آرتھر ہی تھے اور ان میں سے متعدد کھلاڑیوں نے اپنے کیریئرز کا آغاز مکھی آرتھر کی کوچنگ میں ہی کیا۔ اسی طرح کوچ بریڈبرن پاکستان ٹیم کے ساتھ مختلف رولز میں گذشتہ چند برسوں سے منسلک ہیں جبکہ ریحان الحق بھی پاکستان سپر لیگ کے ساتھ منسلک ہونے کے باعث ’کھلاڑیوں کی سوچ اور ٹیم کلچر‘ کے بارے میں جانتے ہیں۔ ریحان الحق کہتے ہیں کہ ’مکی آرتھر کا بہت واضح ہدف یہ ہے کہ اگر میچ صرف جیتنے کے لیے کھیلتے ہیں تو آپ تھوڑے وقت کے لیے تو میچ جیت سکیں گے، لیکن اس کا طویل مدتی فائدہ نہیں ہو گا۔ ’آئیڈیا یہ ہے کہ ایک ایسی شناخت بنائی جائے جس سے ٹیم کو طویل مدتی فائدہ بھی ہو اور آج سے دو سال بعد اگر کوئی کھلاڑی ٹیم میں آئے تو اسے پتا ہو کو ان سے کیا چیز درکار ہو گی۔‘ ریحان کے مطابق ’دی پاکستان وے کا مطلب یہ ہے کہ کیونکہ پاکستانی قوم مشکل وقت کے باوجود ابھر کر سامنے آنے والی قوم ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب میں مشکل وقت میں کم بیک کرنے کی صلاحیت پہلے سے موجود ہے۔ ’لیکن اس حکمتِ عملی کے تحت ہم چاہتے ہیں کہ ہم کارنر ہونے سے پہلے ہی جارحانہ انداز اپنائیں تاکہ ہم بڑے ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ یعنی جو جارحانہ انداز اور صلاحیت ہم کارنر ہونے کے بعد دکھاتے ہیں وہ ہم شروع سے ہی کیوں نہیں دکھا سکتے؟‘ خیال رہے کہ ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ کی اصطلاح پاکستانی کرکٹ میں سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی تھی جو پاکستان کے اس وقت کے کپتان عمران خان نے متعارف کی تھی۔ وہ ٹاس کے موقع پر ایک سفید شرٹ پہننے لگے تھے جس پر ٹائیگر بنا ہوا تھا۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے بتایا تھا کہ ’ٹائیگر کو جب کارنر کیا جاتا ہے تو وہ مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ ہماری ٹیم کی مثال بھی ایک کارنرڈ ٹائیگر جیسی ہے کیونکہ ہمارے پاس اس وقت ہارنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘ بعد میں عاقب جاوید، وسیم اکرم اور رمیز راجہ سمیت دیگر کرکٹرز کی جانب سے دیے گئے انٹرویوز میں بھی اس اصطلاح کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس یقین کا بھی جو اس کے باعث ٹیم میں پیدا ہوا تھا۔ تاہم ریحان کے مطابق یہ حکمتِ عملی دراصل اس کارنرڈ ٹائیگرز والی شناخت میں ارتقا کا عمل ہے۔ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہم کارنر ہونے کے بعد اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں لیکن کیوں نہ ہم شروع سے ہی کارنر ہوں ہی نہ۔ ’ہم کارنر اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ کھلاڑیوں میں ہارنے کا خوف ہوتا ہے یا ان کے ذہن میں حکمتِ عملی واضح نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ دفاعی انداز اپنا لیتے ہیں۔‘ ریحان الحق کا کہنا تھا کہ جب ہم جارحانہ حکمتِ عملی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ہر گیند پر چھکا لگانا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو واضح ہو کہ اگر میں کوئی گیند کو چھوڑ رہا ہوں تو میں اس بارے میں واضح ہوں۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حکمتِ عملی کے راتوں رات نتائج نہیں آئیں گے، اس میں وقت لگے گا۔ ریحان الحق کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں میں اس ٹیم کی بڑے ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ سٹیجز میں ہارنے کے زخم نے بھی اس شناخت کو جنم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں اور ان سب کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ ٹیم پاکستان کی وائٹ بال کی سب سے عظیم ٹیم کے طور پر جانی جا سکتی ہے۔ ’سب کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمینٹ نے بیٹھ کر وہ تمام اہداف بتائے جو ہمیں لگتا ہے کہ ہم حاصل کر سکتے ہیں اور اس حکمتِ عملی میں تمام افراد آن بورڈ ہیں۔ ہمارے پاس چیمپیئن پلیئرز موجود ہیں، ہمیشہ سے ہیں، ہمارا مقصد انھیں ایک چیمپیئن ٹیم بنانا ہے۔‘ خیال رہے کہ ٹیموں کی شناخت اور ان کے کلچر اور اقدار بنانے کے لیے دنیا بھر میں کوچنگ سٹاف اور ٹیم مینجمینٹ ہر سال کسی نئی حکمتِ کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ایسی حکمتِ عملی کی خاص طور پر اس وقت ضرورت پیش آتی ہے جب کوئی ٹیم ایک طویل عرصے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر رہی ہو۔ ایسی ہی ایک ٹیم امریکہ کی مشہور باسکٹ بال لیگ این بی اے کی بوسٹن سیلٹکس تھی جو سنہ 2008 سے قبل 20 برس سے کوئی بھی این بی اے ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ ان کے کوچ گلین ’ڈاک‘ رورز اس ٹیم کے لیے ایک ایسی حکمتِ عملی لے کر آئے جو جنوبی افریقہ میں نسل امتیاز کے عروج پر نیلسن منڈیلا نے اپنائی تھی جس کے بعد سے وہاں امن آیا تھا۔ اسے ’اوبنٹو‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے تحت تمام افراد کو یکجہتی دکھانے اور ایک دوسرے کا کسی بھی مشکل صورتحال میں ساتھ نہ چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ یوں اوبنٹو اس ٹیم کی سنہ 2008 کی مہم کا حصہ بنا اور کھلاڑی ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگے اور یوں فائنل میں ایک موقع پر جب مخالف ٹیم لیکرز کو کم بیک کے نتیجے میں ہرانے میں کامیاب ہوئے اور 20 سالوں میں پہلی مرتبہ ٹائٹل جیت سکے۔ اسی طرح باسکٹ بال کی امریکی ٹیم نے اولمپکس میں سنہ 2008 میں اپنی ریڈیم ٹیم اتاری تھی۔ اس ٹیم کو ماضی میں شکست کھانے کے بعد امریکی باسکٹ بال ٹیم کا کھویا ہوا وقار واپس لانے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس وقت بھی ٹیم میں ایسی ہی شناخت اور جارحانہ حکمتِ عملی اپنائئ گئی تھی۔ کرکٹ کی بات کی جائے تو آسٹریلوی ٹیم کی جانب سے سنہ 2018 میں بال ٹیمپرنگ سکینڈل جسے بعد میں ’سینڈ پیپر گیٹ‘ کا نام دیا گیا تھا کے بعد ’ایلیٹ آنیسٹی‘(دیانت داری) کی شناخت یا اقدار سامنے آیا تھا جو اس وقت کے کوچ جسٹن لینگر کی جانب سے سامنے آیا تھا۔ اس تنازع کے نتیجے میں تین آسٹریلوی کھلاڑیوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم اس اصطلاح پر میڈیا میں خاصی تنقید دیکھنے میں آئی تھی۔ اسی طرح انگلینڈ کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ گذشتہ برس متعارف کروائی گئی جارحانہ حکمتِ عملی نے ٹیسٹ کرکٹ کے کھیل کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اسے ٹیم کی جانب سے تو کوئی نام نہیں دیا گیا تھا، تاہم میڈیا میں اسے کوچ برینڈن مکلم کے نک نیم پر ’بیز بال‘ کا نام دیا گیا۔ ’دی پاکستان وے‘ کس حد تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھیل میں تبدیلی لائے گی، یہ جاننے کے لیے فی الحال کچھ انتظار کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کی مستقبل قریب میں کوئی وائٹ بال سیریز نہیں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2wpz2rdnwo
100ویں سالگرہ سے قبل سرکس شو میں شرکت: ’ہمیشہ سے چاہتی تھی مجھ پر چاقو پھینکے جائیں‘
99 سالہ خاتون نے سرکس شو کے اس اعصاب شکن کھیل میں حصہ لینے کی دیرینہ خواہش پوری کی جس میں ایک شخص پر چاقو پھینکے جاتے ہیں۔ شارنفورڈ کے علاقے لیسٹر شائر سے تعلق رکھنے والی اینی ڈوپلاک نے جمعے کو ’کوونٹری‘ میں ایک پُرجوش ہجوم کے سامنے تیز دھار والے چاقو کا سامنا کرنے کے لیے رِنگ میں قدم رکھا۔ ماضی میں سرکس میں کام کرنے والی معمر خاتون، جن کی عمر تین ماہ بعد 100 برس ہو جائے گی، ’زپو سرکس شو‘ کے ’گرینڈ فائنل‘ کا حصہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس تجربے سے ’واقعی لطف اٹھایا۔‘ پیدل چلنے کے لیے لاٹھی کا سہارا حاصل کرتے ہوئے اینی ڈوپلاک ایک بورڈ کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ان پر ایک پیشہ ور چاقو پھینکنے والے نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو قائل کیا تھا کہ وہ اپنے سابق مینیجر اور سرکس کے بانی مارٹن برٹن سے کہیں کہ وہ انھیں حصہ لینے دیں۔ مارٹن برٹن نے کہا کہ ’اینی نے 30 برس قبل میرے لیے پوسٹر لگانے کا کام کیا تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام یہ بھی پڑھیے دنیا کی سب سے بوڑھی جڑواں بہنوں کے لیے گنیز ورلڈ ریکارڈ: ملیے 107 سال اور 300 دن کی یومینو سومی یاما اور کومے کوڈاما سے سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے انسٹاگرام پر اداکارہ جینیفر اینسٹن کا ریکارڈ توڑ دیا ’وہ اس وقت 70 سال کی تھیں اور اگست میں وہ 100 سال کی ہو جائیں گی۔‘ انھوں نے سامعین کو بتایا کہ ان کی سابقہ ملازمہ نے ایک رات پہلے شو دیکھا تھا اور انھوں نے اپنی 100ویں سالگرہ کی تقریب کے انعام کے طور پر اس اعصاب شکن شو کا حصہ بننے کی فرمائش کر ڈالی۔ پرفارمنس کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میں ہمیشہ سے یہ چاہتی تھی کہ مجھ پر چاقو پھینکے جائیں۔‘ ان کے مطابق ’میں اگلے مقابلے کے لیے تیار ہوں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cqezvn4q1v2o
’فیلڈر پر نٹ بولٹ پھینکے گئے‘ نو بال تنازع کے بعد آئی پی ایل میچ روکنا کیوں پڑا
انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں نہ بارش ہوئی نہ موسم خراب تھا اور نہ ہی لائٹس کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن اچانک آئی پی ایل کا 58 واں میچ عارضی طور پر روکنا پڑ گیا۔ یہ میچ سن رائزرس حیدرآباد (ایس آر ایچ) اور سپر جائنٹس لکھنؤ (ایل ایس جی) کے درمیان کھیلا جا رہا تھا اور دونوں ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں اپنی امید قائم رکھنے کے لیے میچ جیتنا ضروری تھا، ایسے میں مقابلہ سخت ہونا حیرت کی بات نہیں تھی۔ حیدرآباد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ سب کچھ درست چل رہا تھا کہ 19 ویں اوور میں فیلڈ امپائر نے اویس کی ایک گینڈ کو نو بال قرار دیا، سامنے جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر بیٹسمین ہنرک کلاسن تھے۔ یہ بال بظاہر کمر کے اوپر سے گزر رہی تھی جس کی وجہ سے اسے نو بال قرار دیا گیا تھا۔ بہر حال اس فیصلے کے خلاف لکھنؤ کی ٹیم نے تھرڈ امپائر سے ریفرل لے لیا اور تھرڈ امپائر نے اس گیند کو لیگل ڈیلیوری قرار دیا، جسے نہ تو کلاسن نے پسند کیا اور نہ ہی حیدرآباد کے ناظرین نے۔ ایک گیند بعد ہی اچانک کھیل کو عارضی طور پر روک دینا پڑا اور کھیل تقریبا دس منٹ تک رکا رہا۔ امپائر کے فیصلے پر ایسا رد عمل نادر تھا۔ امپائر کا یہ فیصلہ بظاہر حیدرآباد کے ناظرین کو پسند نہیں آیا اور انھوں نے فیلڈ کی جانب اور لکھنؤ کے کھلاڑیوں کے بیٹھنے کی طرف چیزیں پھینکنی شروع کر دیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے نٹ اور بولٹ بھی بھینکے۔ مفددل ووہرا نے کرک بز کے حوالے سے ٹویٹ کیا کہ ایل ایس جی کے ڈگ آؤٹ کی جانب حیدرآباد کی بھیڑ نے نٹس اور بولٹس پھینکے۔ اس پر ایل ایس جی کے فیلڈنگ کوچ اور اپنے زمانے کے جنوبی افریقہ کے مایہ ناز کھلاڑی جونٹی روڈس نے لکھا کہ ’ڈگ آؤٹ کی جانب نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی طرف پھینکے۔ انھوں نے پریرک مانکڈ کے سر کو نشانہ بنایا جب وہ فیلڈنگ کر رہے تھے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 جونٹی روڈس نے نوین سورگم نامی صارف کے ایک ٹویٹ کے جواب میں لکھا 'کیچڑ کی طرح صاف دوست۔' نوین نے میدان میں ہونے والے واقعات کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ 'یہاں کچھ ہو رہا ہے۔ کلاسن ایل ایس جی کے ڈگ آؤٹ کی طرف دیکھ کر بڑبڑا رہے ہیں، وہ آخری بال کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ’فیلڈ امپائر ڈگ آؤٹ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ چیزوں کو پُرسکون کر سکیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 وہ لکھتے ہیں کہ 'اینڈی فلاور بھی امپائر سے بات کر رہے ہیں۔ یہ مزید خراب ہو رہا ہے کیونکہ دو جنوبی افریقی کھلاڑی کلاسن اور ڈی کاک بھی بات کر رہے ہیں۔ دونوں فیلڈ امپائر اب تقریبا باؤنڈری کے پاس ہیں۔ کیا ایل ایس جی کے ڈگ آؤٹ کی جانب کچھ پھینکا گیا ہے۔ بہر حال جو کچھ ہوا اسے حل کر لیا گیا ہے اور اب کرکٹ کی جانب واپس آتے ہیں۔' کچھ لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ کھیل اس لیے رکا تھا کہ کسی نے گوتم گمبھیر پر چپل پھینکی تھی اور وہ 'کوہلی کوہلی' کا نعرہ لگا رہے تھے۔ حیدرآباد کے ناظرین نے اتنے پر ہی بس نہیں کیا۔ لکھنؤ کی ٹیم کے مینٹور اور انڈیا کے سابق کپتان گوتم گمبھیر کے منظر نامے پر آتے ہی 'کوہلی کوہلی' کا شور مچانا شروع کر دیا۔ خیال رہے کہ گذشتہ حال ہی میں کوہلی اور گوتم گمبھیر کے درمیان تلخ کلامی کے منظر دیکھے گئے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ دونوں کھلاڑیوں میں بہت زیادہ ہم آہنگی نہیں ہے اور ایک قسم کا مسابقہ رہتا ہے جس کا اظہار وقتا فوقتا ہو جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کوہلی، گمبھیر اور نوین کی ’لڑائی‘ میں پاکستانی شائقین کو شاہد آفریدی کیوں یاد آ رہے ہیں لکھنؤ سپر جائنٹس کی جیت اور ’ادب سے ہرانے‘ کی بازگشت کم خرچ میں بہتر نتائج دینے والے ’مِسٹری سپنرز‘ جب بنگلور میں ایل ایس جی کی ٹیم نے آخری گیند پر ہاری بازی جیت لی تھی تو گوتم گمبھیر نے وہاں کی بھیڑ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا جسے بنگلور کے حامیوں نے بہت پسند نہیں کیا۔ پھر جب کوہلی کی ٹیم رائل چیلنجرز بنگلور اپنا دوسرا میچ کھیلنے لکھنؤ پہنچی تو کوہلی نے بھیڑ کو خوب شور مچانے پر ابھارا اور ميچ انتہائی جوش و جنون کے ساتھ کھیلا گیا اور پھر آر سی بی کی جیت کے بعد کھلاڑیوں میں تلخ کلامی اور مصالحت کا ایک سلسلہ نظر آیا جسے انڈین میڈیا میں خوب جگہ ملی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 دریں اثنا حیدرآباد کے میچ کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے لیکن کرکٹ کے مداح اسے اچھا شگون نہیں مانتے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ باقی آئی پی ایل کے میچز حیدرآباد میں نہیں ہونے چاہییں جبکہ ایک دو صارف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ورلڈ کپ کا میچ بھی حیدرآباد میں نہیں ہونا چاہیے۔ بہر حال کلاسن اور عبدالصمد کی اچھی اننگز کی بدولت حیدرآباد کی ٹیم نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 182 رنز بنائے جسے نکولس پورن کی آتشی بلے بازی کی وجہ سے لکھنؤ نے چار گیند پہلے ہی حاصل کر لیا۔ نکولس پورن نے 13 گیندوں پر چار چھکے اور تین چوکوں کو مدد سے 44 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے جبکہ دوسری جانب پریرک مانکڈ نے سات چوکوں اور دو چھکے کی بدولت 64 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ اس طرح انھوں نے حیدرآباد کے ناظرین کو اپنے بیٹ سے جواب دیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سن رائزرس حیدرآباد کے تین میچز بچے ہیں لیکن اس کی ٹاپ چار ٹیموں میں پہنچنے کی امید تقریبا معدوم ہو چلی ہے جبکہ لکھنؤ کی ٹیم فی الحال چوتھے نمبر پر ہے اور اس کے حالات امید افزا ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyremm23p16o
جب انڈیا کی پہلی خاتون پہلوان حمیدہ بانو نے کہا ’مجھے دنگل میں ہرانے والا مجھ سے شادی کر سکتا ہے‘
سنہ 1950 کی دہائی میں جب انڈیا میں عورتوں کے لیے کشتی لڑنا اپنے آپ میں ایک غیر معمولی بات تھی، حمیدہ بانو نامی ایک 32 سالہ پہلوان نے مرد پہلوانوں کو ایک دلچسپ چیلنج دیا اور کہا ’جو مجھے دنگل میں ہرا دے گا، وہ مجھ سے شادی کر سکتا ہے۔‘ اس چیلنج کے تحت وہ فروری 1954 سے دو مرد پہلوان چیمپیئنز کو پہلے ہی شکست دے چکی تھیں جن میں سے ایک پٹیالہ سے تھا اور دوسرا کلکتہ سے، اور اسی سال مئی میں اپنی تیسرے دنگل کے لیے وہ بڑودہ کی طرف گامزن تھیں۔ ان کے دورے نے شہر میں ایک سنسنی پیدا کر دی۔ بڑودہ کے رہنے والے اور کھو کھو کے انعام یافتہ کھلاڑی 80 سالہ سدھیر پرب اس وقت سکول میں پڑھتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ ’یہ دنگل لوگوں کے لیے کافی پرکشش تھا۔ کسی نے اس طرح کے کشتی کے بارے سنا ہی نہیں تھا۔‘ کشتی دیکھنے کے لیے بیٹھنے کا انتظام قدیم یونانی لڑائیوں کی طرز پر ہوا۔ لیکن حمیدہ بانو کو شائقین کے تجسس کو ختم کرنے میں محظ چند سیکنڈ ہی لگے۔ خبر رساں ایجنسی اے پی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق ’یہ مقابلہ محض ایک منٹ اور 34 سیکنڈ تک چلا، جب خاتون نے انھیں چت کر دیا اور ریفری نے پہلوان کو حمیدہ کی شادی کی حد سے باہر قراردے دیا۔‘ اسی کے ساتھ حمیدہ بانو کے داو پیچ کے شکار بابا نامی پہلوان نے فوراً اعلان کر دیا کہ یہ ان کا آخری میچ تھا۔ بعد میں انڈیا کی پہلی خاتون پیشہ ور پہلوان کے طور پر شہرت پانے والی حمیدہ بانو اپنی دلیری سے ملک کے روایتی افسانوں کو الٹ رہی تھیں جن میں کشتی کو خصوصی طور پر مردوں کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ حمیدہ بانو عام لوگوں میں اس قدر دلچسپی کا باعث بن چکی تھیں کہ ان کا وزن، قد اور خوراک تک خبروں کا موضوع بن گئے۔ اس وقت کی رپورٹس کے مطابق ان کا وزن 237 پاؤنڈ تھا، اور قد پانچ فٹ تین انچ تھا۔ ان کی روزانہ کی اوسط خوراک میں 12 پاؤنڈ دودھ، 6 پاؤنڈ سوپ، 4 پِنٹ پھلوں کا جوس، ایک مرغی، 2 پاؤنڈ مٹن، ایک پاؤنڈ مکھن، 6 انڈے، 2 پاؤنڈ بادام، 2 بڑی روٹیاں اور 2 بریانی کی پلیٹیں شامل تھے۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ایک دن میں نو گھنٹے سوتی تھیں اور مزید چھ گھنٹے ورزش کرتی تھیں۔ انھیں ’علی گڑھ کی ایمازون‘ کہا جانے لگا جہاں پر وہ اپنے آبائی شہر مرزا پور سے سلام نامی ایک پہلوان کی استادی میں کشتی کی تربیت کے لیے منتقل ہو گئی تھیں۔ ان کی تعریف میں ایک کالم نگار نے 50 کی دہائی میں لکھا کہ ’علی گڑھ کی ایمازون‘ پر ایک نظر ڈالنا آپ کی ریڑھ کی ہڈی کے کانپنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے لکھا، ’ان سے کسی بھی عورت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، بلکہ حریفوں کی کمی نے انھیں مخالف جنس کے لوگوں کو چیلنج کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔‘ حمیدہ بانو کے رشتے داروں سے بات چیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حریفوں کی کمی کے علاوہ معاشرے کی قدامت پسندی نے انھیں گھر کو ترک کر کے علی گڑھ منتقل ہونے پر مجبور کیا تھا۔ سنہ 1950 کی دہائی تک وہ اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ 1954 میں ہی اپنے چیلینچ کے دنوں میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اب تک اپنے تمام 320 مقابلے جیت چکی ہیں۔ ان کی شہرت اس وقت کی تحریروں میں صاف نظر آتی ہے بلکہ کئی افسانہ نگار بھی جب اپنے کرداروں کی طاقت کی بات کرتے تھے تو انھیں تشبیہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ باتیں بروڈہ والوں کے لیے بھی پرتجسس تھیں۔ سدھیر پرب بتاتے ہیں کہ وہ دنگل اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انڈیا میں پہلی بار کوئی خاتون مرد پہلوان سے کشتی کر رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’1954میں لوگ زیادہ قدامت پسند تھے۔ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ایسی کشتی ہو سکتی ہے۔شہر میں ان کی آمد کا اعلان تانگے اور لاریوں پر بینرز اور پوسٹر لگا کر کیا گیا تھا جیسے کہ فلموں کی تشہیر کے لیے کیا جاتا تھا۔‘ اگرچہ اس وقت کے اخبارات کے مطابق یہ واضح ہے کہ انھوں نے بابا پہلوان کو ہرایا تھا، پرب کہتے ہیں ’مجھے یاد ہے کہ وہ ابتدائی طور پر چھوٹے گاما پہلوان سے لڑنے والی تھیں جو کہ لاہور کے مشہور گاما پہلوان کے نام سے منسوب تھے اور جن کی سرپرستی بڑودہ کے مہاراجہ کرتے تھے۔‘ لیکن چھوٹے گاما پہلوان نے آخری لمحات میں حمیدہ بانو سے کشتی لڑنے سے انکار کر دیا۔ پرب بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے کہا کہ عورت کے ساتھ میں کشتی نہیں لڑوں گا۔‘ اگر کسی کے لیے ایک خاتون سے کشتی کرنا شرمناک بات تھی، تو چند کے لیے ایک عورت کا نہ صرف مردوں کو عوامی سطح پر للکارنا بلکہ انھیں فیصلہ کن شکست دینا غصے کا باعث بھی بنا۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق پونے میں رام چندر سالونکے نامی ایک مرد پہلوان کے ساتھ مقابلہ شہر میں کشتی کی کنٹرولنگ باڈی راشٹریہ تعلیم سنگھ کی مخالفت کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔ ریاست مہاراشٹر کے کولہاپور میں ایک اور مقابلے میں جب انھوں نے سوما سنگھ پنجابی نامی ایک مرد مخالف کو شکست دی تو کشتی کے شائقین نے انھیں ’بو‘ کیا اور ان پر پتھراؤ کیا۔ یہاں تک کہ ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس کو بلانا پڑا۔ لوگوں نے اس مقابلے کو ’فرضی‘ (فارس) قرار دیا۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ مصنف رنونجئے سین اپنی کتاب ’نیشن ایٹ پلے: اے ہسٹری آف اسپورٹ ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ان تقریبات میں کھیلوں اور تفریح کی شباہت اس حقیقت سے واضح ہوتی ہے کہ حمیدہ بانو کے مقابلے کے بعد دو پہلوانوں کے درمیان مقابلہ ہونا تھا، جس میں ایک لنگڑا اور دوسرا اندھا تھا۔ ’لیکن اس میچ کو تفریح کے طور پر، یا شاید طنز کے طور پر، ترک کر دیا گیا کیونکہ نابینا پہلوان نے دانت میں درد کی شکایت کی جس کے نتیجے میں اس کا حریف فتح یاب ہو گیا۔‘ سین کے مطابق حمیدہ بانو کو آخرکار ریاست کے وزیر اعلیٰ مورارجی دیسائی سے ان کے دنگل پر ’پابندی‘ کے خلاف شکایت کرنی پڑی لیکن دیسائی کا جواب تھا کہ ’مقابلے پر پابندی جنسی بنیادوں پر نہیں بلکہ منتظمین کے بارے میں کئی شکایات کی وجہ سے لگائی گئی تھی، جو کہ بظاہر بانو کے خلاف ’ڈمی‘ پہلوان اتار رہے تھے۔‘ حمیدہ بانو کے خلاف کشتیوں میں ’ڈمی‘ پہلوان یا کمزور مخالفین کا استعمال اس وقت ایک وسیع پیمانے پر نظریہ تھا۔ حمیدہ کی شہرت کے بارے میں بات کرتے ہوئے مہیشور دیال اپنی 1987 کی کتاب ’عالم میں انتخاب – دلی‘ میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے یوپی اور پنجاب میں کئی کشتیاں لڑی تھیں، اور دور دراز سے لوگ انھیں اور ان کی کشتی کو دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’وہ بالکل مرد پہلوانوں کی طرح لڑتی تھیں۔ اگرچہ کچھ کا یہ کہنا تھا کہ حمیدہ بانو اور مرد پہلوان کا آپس میں خفیہ معاہدہ ہو جاتا تھا اور وہ جان کر حمیدہ بانو سے ہار جاتا تھا۔‘ حالانکہ کئی مرد مصنفوں نے ان کے کارناموں کا مذاق اڑایا ہے یا ان پر سوالہ نشان لگایا ہے۔ فیمنسٹ مصنفہ قرۃ العین حیدر اپنی آٹوبایوگرافیکل کہانی ’ڈالن والہ‘ میں حمیدہ بانو کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ممبئی میں 1954 ایک ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں انھوں نے کمال دکھایا تھا۔ وہ لکھتی ہیں ’بقول فقیرا (انکا ملازم) کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکر پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمروں کو گھور رہی تھیں۔‘ اس وقت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ حمیدہ بانو نے 1954 میں ممبئی میں روس کی ’مادہ ریچھ‘ کہلانے والی ویرا چستیلین کو بھی ایک منٹ سے کم وقت میں شکست دی تھی اور اسی سال انھوں نے یورپی پہلوانوں سے کشتی کرنے کے لیے یورپ جانے کے اپنے ارادوں کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ان مشہور دنگلوں کے فوراً بعد حمیدہ کشتی کے منظر سے غائب ہو گئیں اور اس کے بعد ریکارڈز میں ان کا نام صرف تاریخ کی حیثیت سے نظر آتا ہے۔ حمیدہ بانو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے میں نے ان کے قریبی رشتہ داروں اور جاننے والوں کو تلاش کیا جو کہ اب ملک اور دنیا کے مختلف کونوں میں رہتے ہیں۔ ان سے گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حمیدہ بانو کا یورپ جانے کا اعلان ان کی کشتی کے کیریئر کے زوال کی وجہ ثابت ہوا۔ ان کے پوتے فیروز شیخ، جو کہ اب سعودی عرب میں رہتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ’ممبئی میں ایک غیر ملکی خاتون ان سے کشتی لڑنے آئی تھیں۔ وہ دادی سے ہار گئیں اور وہ ان سے متاثر ہو کر انھیں یورپ لے جانا چاہتی تھیں لیکن ان کے ٹرینر سلام پہلوان کے لیے یہ خیال قابل قبول نہیں تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں روکنے کے لیے سلام پہلوان نے لاٹھیوں سے مارا، ان کے ہاتھ توڑ دیے۔‘ اس وقت تک دونوں علی گڑھ سے اکثر بمبئی اور کلیان آتے رہتے تھے، جہاں ان کا دودھ کا کاروبار تھا۔ کلیان میں حمیدہ بانو کے اس وقت کے پڑوسی راحیل خان بھی، جو کہ اب آسٹریلیا میں رہتے ہیں، ان پر تشدد کے اسی طرح کے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سلام پہلوان نے درحقیقت ان کی ٹانگیں بھی توڑ دی تھیں۔ مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ وہ کھڑی نہیں ہو پاتی تھیں۔ ان کے پیر بعد میں ٹھیک ہو گئے لیکن وہ برسوں تک بغیر لاٹھی کے ٹھیک سے چل نہیں پاتی تھیں۔‘ دونوں کے درمیان لڑائیاں معمول بن گئیں۔ سلام پہلوان علی گڑھ واپس چلے گئے لیکن حمیدہ بانوں کلیان میں ہی رک گئیں۔ راحیل بتاتے ہیں کہ ’1977میں جب سلام پہلوان حمیدہ بانو کے پوتے کی شادی میں کلیان ایک بار پھر آئے تھے، تب دونوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔ لاٹھی لے کر نکل گئے تھے دونوں طرف سے لوگ۔‘ حالانکہ سلام پہلوان اثر رسوخ کے مالک تھے۔ ان کے رشتے داروں کے مطابق ان کی سیاست دانوں اور فلمی ستاروں سے قربت تھی اور خود بھی ایک نواب کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لیکن فیروز بتاتے ہیں کہ سلام نے حمیدہ کے تمغے اور دیگر سامان بیچ دیے جس کے نتیجے میں جب ان کی آمدن کا ذریعہ ختم ہو گیا تو انھیں کافی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ وہ کلیان میں جس کمپلیکس میں رہتی تھیں وہ کافی بڑا تھا، جس میں ایک مویشیوں کا تبیلا تھا اور بے قاعدہ تعمیر شدہ عمارتیں تھیں جو انھوں نے کرائے پر دے رکھی تھیں۔ لیکن کرائے میں طویل عرصے تک اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اس معمولی رقم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ راحیل بتاتے ہیں کہ ان کے والدین پڑھے لکھے تھے جس کی وجہ سے حمیدہ اکثر ان سے ملنے آتی تھیں۔ راحیل کی والدہ فیروز اور ان کے بہن بھائیوں کو انگریزی سکھاتی تھیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جیسے جیسے سلام کے ساتھ لڑائیوں میں اضافہ ہوا، وہ اکثر اپنی بچت محفوظ رکھنے کے لیے میری ماں کے پاس لاتی تھیں۔‘ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے آخری دنوں میں کافی مشکلیں آن پڑی تھیں۔ ’وہ کلیان میں اپنے گھر کے سامنے کھلے میدان میں بوندی بیچا کرتی تھیں‘۔ حالانکہ انھوں نے اپنے بچوں کو علی گڑہ یا مرزا پور جانے سے سختی سے منع کیا تھا، سلام پہلوان کی بیٹی سہارا، جو کہ علی گڑھ میں مقیم ہیں، نے مجھے بتایا کہ جب وہ بستر مرگ پر تھے تو حمیدہ ان سے ملنے ایک بار علی گڑھ واپس آئی تھیں۔ یہ بھی پڑھیے: پہلوانی: جب ضیا الحق نے بھولو برادران کے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی گوجرنوالہ کے باسیوں کو پہلوانی کی کچھ عادت سی ہے ’مٹی کے اکھاڑوں سے میٹ ریسلنگ کا سفر آسان نہیں‘ حالانکہ مرزا پور میں حمیدہ کے رشتے دار اس معاملے پر بات کرنے سے کتراتے ہیں لیکن علی گڑھ میں سلام پہلوان کے رشتے داروں سے گفتگو کے دوران ایک اہم خلاصہ ہوا اور وہ یہ کہ ان کے مطابق حمیدہ بانو نے اصل میں سلام پہلوان سے شادی کی تھی اور وہ بھی آزادی سے پہلے۔ لیکن اس ہفتے حمید بانو کے موضوع پر جب سہارا سے فون پر میری بات ہو رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ حمیدہ بانو کو اپنی ماں کہنے سے گریز کر رہی ہیں۔ میری طرف سے مزید اصرار کرنے پر انھوں نے بتایا کہ حمیدہ ان کی سوتیلی ماں تھیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حمیدہ بانو اور سلام پہلوان نے شادی کر لی تھی۔ سہارا نے بتایا کہ حمیدہ بانو کے والدین ان کے مردوں کا کھیل کھیلنے یعنی کشتی لڑنے کے خلاف تھے۔ اسی دوران سلام پہلوان ان کے شہر کے دورے پر گئے جس نے انھیں باہر نکلنے کا موقع فراہم کیا۔ سہارا کہتی ہیں، ’والد صاحب مرزا پور گئے تھے کشتی کے لیے۔ وہاں ان کی ملاقات حمیدہ سے ہوئی اور وہ انھیں یہاں علی گڑھ لے آئے۔‘ ’وہ ان کی مدد چاہتی تھیں۔ ان کی کشتیاں میرے والد کی مدد سے ہوتی تھیں، اور وہ ان کے ساتھ رہتی تھیں۔‘ حالانکہ اپنے رشتوں کی درجہ بندی حمیدہ بانو اور سلام پہلوان خود بہتر کرتے، حمیدہ کے پوتے فیروز، جو حمیدہ بانو کے ساتھ ان کے آخری وقت تک موجد تھے، سہارا اور دوسرے رشتے داروں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’وہ سلام پہلوان کے ساتھ رہتی ضرور تھیں لیکن ان سے شادی کبھی نہیں کی۔‘ وہ اپنے اور اپنے دادی حمیدہ بانو کے رشتوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’دراصل، دادی نے میرے والد کو گود لیا تھا۔ لیکن میرے لیے تو وہ میری دادی ہیں۔‘ حمیدہ بانو اور سلام پہلوان کے خاندان کے رکن کے متضاد دعوؤں کے باوجود ان کے ذاتی رشتوں کی باریکیاں آج اہم نہیں ہیں لیکن یہ اہم ضرور ہے کہ یہ تقریباً یقینی ہے کہ ’کوئی مائی کا لال‘ پیدا نہیں ہوا جو ’اس شیر کی بچی‘ کو تاحیات کشتی میں ہرا سکا۔