url
stringlengths 1
238
| heading
stringlengths 7
166
⌀ | content
stringlengths 7
33.8k
⌀ |
---|---|---|
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72rqemqyv1o | ’طنزیہ‘ ٹویٹ پر مبنی الزام، فاکس سپورٹس نے بابر اعظم سے متعلق خبر حذف کر دی | فاکس سپورٹس آسٹریلیا نے پاکستان کے آل فارمیٹ کپتان بابر اعظم سے متعلق ایک تحریر کو اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا سے حذف کر دیا ہے جس میں بابر اعظم کے خلاف چند سنگین الزامات کا ذکر تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے جبکہ اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خود بابر اعظم نے ان الزامات کو جواب کے قابل نہیں سمجھا۔
فاکس سپورٹس نے پی سی بی کے اس جواب کے بعد ’فاکس کرکٹ‘ نامی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور ویب سائٹ سے اس خبر کو غائب کر دیا ہے۔
اکثر پاکستانی شائقین نے بورڈ کے اس ردعمل پر اسے سراہا ہے اور بعض نے فاکس سپورٹس سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ فاکس سپورٹس اور دیگر ذرائع ابلاغ کی خبر میں ان ٹویٹس کا حوالہ دیا گیا تھا جو ایک پیروڈی اکاؤنٹ کی جانب سے ’طنز و مزاح‘ کے لیے شئیر کی گئی تھیں۔
سوشل میڈیا پر فاکس کرکٹ نامی مصدقہ اکاؤنٹ سے کی گئی ٹویٹ میں اس خبر کا لنک بھی دیا گیا تھا جس میں بابر اعظم سے متعلق کھل کر ان الزامات کا ذکر کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فاکس کی تحریر میں ان الزامات کا ذکر کرتے ہوئے ایک ایسے بلیو ٹِک والے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا حوالہ دیا گیا جس نے خود کو پیروڈی (یعنی طنز و مزاح) کے طور ظاہر کیا ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر نیمو یادیو ہے۔
فاکس کی تحریر میں لکھا گیا کہ ’یہ پیروڈی اکاؤنٹ ہے جس پر انٹرنیٹ منقسم ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ مواد درست ہے اور بابر مشکل میں پڑ سکتے ہیں مگر کچھ کا خیال ہے کہ یہ پاکستانی کپتان کے خلاف سوچی سمجھی مہم ہے۔‘
اس تحریر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’اگرچہ اس مواد کی صداقت غیر واضح ہے۔‘
تاہم پی سی بی نے اس ٹویٹ پر کوٹ ری ٹویٹ کیا کہ ’ہمارے میڈیا پارٹنر ہوتے ہوئے آپ کو شاید ایسے بے بنیاد ذاتی الزامات کو نظر انداز کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا جنھیں بابر اعظم نے ردعمل کے قابل نہیں سمجھا۔‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس جواب کے بعد فاکس کرکٹ نے نہ صرف وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی بلکہ ویب سائٹ سے اپنی اس تحریر کو بھی غائب کر دیا۔
اب اس لنک کو کھولنے پر فاکس سپورٹس یہ پیغام دیتا ہے کہ ’ہم معذرت خواہ ہیں، آپ جس صفحے کا مطالبہ کر رہے ہیں اسے مستقل طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
فاکس کرکٹ کی پوسٹ پر پی سی بی کے جواب کے بعد صحافی سہیل عمران نے تبصرہ کیا کہ ’پی سی بی نے شائستہ مگر سخت بیان دے کر قومی ہیرو کا دفاع کیا۔‘
ادھر اریبہ نامی صارف نے کہا کہ یہ بطور بورڈ پی سی بی کے ذمہ ہے کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں اور ہر اس شخص کے خلاف مقدمہ دائر کریں جو قومی ٹیم کے کپتان کی کردار کشتی کرنے کی جرات کرتا ہے۔ ’یہ یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘
پی سی بی کی ٹویٹ پر ایبہ قریشی کہتی ہیں کہ ’پلیز انھیں پارٹنرشپ لسٹ سے حذف کر دیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
جس پیروڈی اکاؤنٹ کے حوالے سے کئی ویب سائٹس نے بابر اعظم کے خلاف الزامات کی خبر لگائی تھی، اس نے بھی متعدد ٹویٹس میں اپنا مؤقف پیش کر دیا ہے۔
ڈاکٹر نیمو یادیو نے کہا ہے کہ ’بھائی میں نے تو اپنی ٹویٹ حذف کر دی ہے۔ فاکس نیوز، آج تک، این ڈی ٹی وی، ایچ ٹی ٹائمز، اے بی پی، نیوز 18 اور مقامی اخبار وغیرہ وغیرہ۔ تم لوگ اپنا اپنا دیکھ لو۔‘
انھوں نے لکھا کہ یہ تحریر جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ ’میں نے ایسا طنزیہ انداز میں کہا تھا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں معافی چاہتا ہوں بابر اعظم۔ میں نے ایک انڈین کرکٹر کی گزارش پر اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کی۔‘
ڈاکٹر نیمو نے یہ بھی کہا کہ ’بابر کیا مجھے آپ کا فالو بیک مل سکتا ہے تاکہ ہم دونوں فاکس نیوز کے خلاف مقدمہ دائر کریں؟‘
آیا وہ اب بھی مذاق کر رہے ہیں یا ان کے ٹویٹس سنجیدہ ہیں، یہ غیر واضح ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv28jgp48p0o | زیب النسا کا انڈر 19 ویمن ورلڈ کپ میں متنازع رن آؤٹ: ’اگر یہ قواعد کے مطابق جائز ہے تو مسئلہ کیا ہے‘ | کرکٹ کے معاملات پر یوں تو ہر کسی کی اپنی رائے ہوتی ہے اور اس کا سوشل میڈیا سے لے کر ہر محفل میں برملا اظہار بھی کیا جاتا ہے لیکن نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ کرنے کا عمل شاید وہ واحد چیز ہے جس پر بحث تھمنے کا نام نہیں لیتی اور آرا تاحال منقسم دکھائی دیتی ہیں۔
آج کل دنیا بھر میں جہاں ٹی 20 لیگز جاری ہیں وہیں جنوبی افریقہ میں جاری خواتین کا پہلا انڈر 19 ورلڈ کپ بھی گذشتہ چند روز سے شائقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تاہم گذشتہ روز پاکستان اور روانڈا کے درمیان میچ میں ایک واقعے نے شاید اس ٹورنامنٹ کے حوالے سے لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھا دی ہے اور ایک مرتبہ پھر سے نان سٹرائیکر اینڈر پر رن آؤٹ کے بارے میں بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان انڈر 19 ٹیم نے روانڈا کی ٹیم کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر ٹورنامنٹ کا فاتحانہ آغاز کیا ہے۔ پہلے پاکستانی بولرز نے اچھی بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے روانڈا کی ٹیم کو 108 رنز کے مجموعی سکور تک محدود کیے رکھا۔
اس کے بعد پاکستانی اوپنر ایمن فاطمہ نے 60 گیندوں پر 65 رنز کی اننگز کھیل کر ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی راہ ہموار کر دی۔
تاہم روانڈا کی اننگز کے آخری اوور کی چوتھی گیند پر جب روانڈا کا سکور 105 رنز تھا تو فاسٹ بولر زیب النسا نے نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود شکیلا نیوموہوزا کو اس وقت رن آؤٹ کر دیا جب وہ ان کے گیند کروانے سے قبل ہی نان سٹرائیکر اینڈ سے نکل چکی تھیں۔
زیب النسا نے انھیں رن آؤٹ کر کے گیند ہوا میں اچھالا اور اس دوران ان کے چہرے کے تاثرات بالکل بھی نہیں بدلے۔ امپائر نے شکیلا کو آؤٹ دیا اور وہ پویلین کی جانب لوٹ گئیں۔
اس بارے میں جہاں سوشل میڈیا پر یہ بات کی جا رہی ہے کہ زیب النسا نے چھوٹی سی عمر میں وہ کر دکھایا جو انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت پہلے ہونا چاہیے تھا وہیں ایسے رن آؤٹ کے بارے میں یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ آیا اس حوالے سے آئی سی سی کو اپنے قواعد میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اسے کھلاڑیوں کے ہاتھ سے لے کر تھرڈ امپائر کو دینے کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔
اس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ آؤٹ کرنے کا یہ طریقہ کار شروع کب ہوا تھا اور وقت کے ساتھ اس کے گرد بحث میں کیسے تبدیلی آئی۔
آؤٹ کرنے کا یہ طریقہ کار گذشتہ برس تک ’منکڈ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ دراصل کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل سطح پر اس طرح رن آؤٹ کرنے کا واقعہ سنہ 1947 میں انڈیا کے دورہ آسٹریلیا میں دیکھنے کو ملا تھا جب ونود منکڈ نے آسٹریلیا کے بل براؤن کو نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ کیا تھا۔
اس کے بعد سے اس طرح آؤٹ کرنے کے عمل کو منکڈ کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا اور اس دوران ونود منکڈ کی سپورٹس مین سپرٹ پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اس دوران سٹرائیکر اینڈ پر عظیم بلے باز ڈان بریڈمین موجود تھے جنھوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’میرے خیال میں یہ بالکل ٹھیک طریقے سے آؤٹ کیا گیا تھا، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کوئی ان کی سپورٹس مین شپ پر سوال کیوں اٹھائے گا۔‘
انھوں نے اپنی یادداشتوں میں بعد میں لکھا تھا کہ ’کرکٹ کے قوانین اس حوالے سے واضح ہیں کہ نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود بلے باز کو بولر کے گیند کروانے تک کریز میں ہی موجود رہنا ہے، اگر ایسا نہیں ہونا چاہیے تو پھر یہ قوانین کا حصہ کیوں ہے؟‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہم اسے کرکٹ کا ایک جائز حصہ سمجھتے تھے۔‘
نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ کو منکڈ کا نام دینے پر بھی منکڈ فیملی کی جانب سے کافی شور مچایا گیا اور کہا گیا تھا کہ جائز طریقے سے آؤٹ کرنے کے طریقے کو ونود منکڈ کے کریئر پر داغ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد گذشتہ برس آئی سی سی کی جانب سے بولر کی جانب سے نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے بلے باز کو گیند پھینکنے سے قبل رن آؤٹ کرنے کے عمل کو رن آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ نئے قواعد و ضوابط کے مطابق بولراگر اب گیند کروانے سے پہلے بیٹنگ کریز سے باہر نکلنے والے بلے باز کو رن آؤٹ کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ڈیڈ بال سمجھا جائے گا۔
پاکستانی بولر سکندر بخت کو سنہ 1978 میں پرتھ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ کیا گیا تھا۔
پرتھ کے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کی دوسری اننگز میں سکندر بخت کو آسٹریلوی فاسٹ بولر ایلن ہرسٹ نے بولنگ کرتے ہوئے اس وقت رن آؤٹ کر دیا تھا جب وہ اپنی کریز سے باہر تھے لیکن ایلن ہرسٹ نے انھیں پہلے سے کوئی وارننگ نہیں دی تھی۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
اس بارے میں مختلف آرا موجود ہیں۔ کچھ کھلاڑیوں اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طریقہ کار اس لیے درست ہے کیونکہ اگر بولر کچھ سینٹی میٹر سے بھی پاؤں کی نو بال کی معافی نہیں مل سکتی اور فری ہٹ دی جاتی تو بلے باز کو بھی پہلے کریز سے نکل کر غیر ضروری برتری حاصل نہیں کرنی چاہیے۔
حال ہی میں مچل سٹارک کی جانب سے جنوبی افریقہ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ میں بلے باز ڈی برؤن کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کریز میں رہنا کوئی اتنا بھی مشکل کام نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
کیچ آؤٹ پر نو کراسنگ اور ’منکڈ‘ اب عام رن آؤٹ: آئی سی سی کے سات نئے قوانین کون سے ہیں؟
سعود شکیل کا متنازع آؤٹ جو میچ نتیجے پر بھاری ثابت ہوا
دن کے اختتام کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سٹارک نے کہا تھا کہ ’اس حوالے سے یا تو کوئی ایسا اصول لے آنا چاہیے کہ جس طرح امپائر نوبال پر نظر رکھتے ہیں ویسے ہی بلے باز کے کریز سے نکلنے پر بھی نظر رکھیں اور ایسی صورت میں پینلٹی رنز دیے جائیں۔‘
کچھ لوگ اس طرح رن آؤٹ کرنے کے عمل کو کرکٹ میں ’سپورٹس مین سپرٹ‘ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی کرکٹ جیسے کھیل میں کوئی جگہ نہیں اور اس طرح آؤٹ کرنے کے طریقہ کار میں ’بولر کا کوئی کمال نہیں۔‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر زیب النسا کی تعریف کی گئی ہے اور ان کی ذہانت کی داد دی جا رہی ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
خیال رہے کہ اس سے قبل انگلینڈ اور انڈیا ویمن ٹیموں کے ایک میچ میں دیپتی شرما کی جانب سے آخری انگلش بلے باز کو بھی اسی طرح آؤٹ کیا گیا تھا اور تب بھی اتنا ہی بڑا تنازع کھڑا ہوا تھا۔
بی بی سی کے لیے کرکٹ کمنٹری کے فرائض سرانجام دینے والے عاطف نواز کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ قوانین کے مطابق ہے لیکن انڈر 19 کی سطح پر یہ ہوتا دیکھ میرے دل کا چھوٹا سا حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ شاید کھیل اب اسی سمت جا رہا ہے۔‘
اس پر متعدد افراد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’کرکٹرز کو قوانین کے مطابق چلتے دیکھ کر آپ کا دل ٹوٹتا ہے؟ مجھے تو یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ نوجوان لڑکیاں کرکٹ کے قوانین کے مطابق وکٹیں لینے کی کوشش کر رہی ہیں، کرکٹ کا مستقبل اچھے ہاتھوں میں ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ اس میں کچھ بھی غلط نہیں۔ آپ اپنی کریز میں رہیں تو آپ کو رن آؤٹ نہیں کیا جائے گا۔
فاطمہ نامی صارف نے لکھا ’سپرٹ آف کرکٹ نوآبادیاتی مفروضہ ہے، اگر آپ قوانین کے اندر رہ کر کچھ کر رہے ہیں، تو وہی ٹھیک ہے۔‘ ایک صارف نے کہا کہ میں اس حوالے سے عاطف کے ساتھ ہوں، یہ میرے نزدیک بہت غیر مناسب ہے۔ آپ بلے باز کو خبردار کر کے انھیں پانچ رنز کی وارننگ بھی دے سکتے ہیں۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6gy16wzl4o | ایک روزہ کرکٹ کی سب سے بڑی جیت: ’317 رن سے فتح اور وہ بھی ون ڈے میچ میں؟‘ | انڈیا کی کرکٹ ٹیم نے ون ڈے انٹرنیشنل میں نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے سری لنکا کو 317 رن کے مارجن سے ہرایا تو یہ نتیجہ اور اس میچ کی سکور لائن یقینا حیران کن تھی۔
سری لنکا اور انڈیا کے درمیان ایک روزہ میچز کی سیریز میں یہ تیسرا میچ تھا جس میں انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو یہ نتیجہ غالبا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔
انڈیا کی بلے بازی کے آغاز سے بھی ایسا کوئی گمان نہیں ہوا کہ سکور لائن ایسی ہو گی جب کپتان روہت شرما 42 رن بنانے کے بعد آوٹ ہوئے۔
یہ وکٹ وراٹ کوہلی اور شبھم گِل کے درمیان ایک ایسی شراکت داری کی ابتدا تھی جس نے میچ کا پانسا پلٹ دیا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
وراٹ کوہلی آج اپنے اصل رنگ میں نظر آئے اور جس وقت شبمن گل آوٹ ہوئے تو وہ دونوں ہی سنچری سکور کر چکے تھے اور 34 اوورز میں سکور 226 ہو چکا تھا۔
وراٹ کوہلی نے آٹھ چھکوں اور 13 چوکوں کی مدد سے صرف 110 گیندوں پر 166 رن سکور کیے اور اپنے ایک روزہ کیریئر کی 46ویں سنچری سکور کی۔
50 اوورز میں 390 رن کا ٹارگٹ یقینا ایک بڑا ہدف تھا لیکن ون ڈے کرکٹ میں اس سے زیادہ مجموعہ بھی بنایا جا چکا ہے۔
تاہم سری لنکا کی اننگ میں وہ روانی نہیں آ سکی جس سے میچ دلچسپ ہوتا اور یکے بعد دیگرے وکٹیں گرتی رہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
حتی کہ پوری ٹیم ہی صرف تہتر رن بنا کر22ویں اوور میں ہی آوٹ ہو گئی۔ سری لنکا کی جانب سے سات بلے باز ایسے تھے جو دس کا ہندسہ بھی عبور نہیں کر پائے۔
انڈیا کی جانب سے محمد سراج نے چار جبکہ محمد شامی اور کلدیپ یادوو نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔
جیت کا یہ مارجن، جو 317 رن کا ہے، ایک روزہ میچز میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ نے 2008 میں آئر لینڈ کو 290 رن سے شکست دی تھی۔
شکست کا مارجن اتنا بڑا تھا کہ سوشل میڈیا پر صارفین بھی حیرت زدہ تھے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’سمجھ نہیں آیا کہ انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے میچ تھا یا پھر ٹیسٹ میچ۔ تین سو سترہ رن سے فتح اور وہ بھی ون ڈے میں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ کے لیے یہ سکور کوئی انہونی بات نہیں۔
دوسری جانب انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے لکھا کہ ’انڈیا کو جدید انداز میں ون ڈے کرکٹ کھیلتے دیکھ کر اچھا لگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے پاس وہ تمام مہارت اور وسائل موجود ہیں جو اسے دنیا کی بہترین ٹیم بنا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کرنے کے لیے انڈیا کو تسلسل کے ساتھ بیٹ اور بال دونوں کے ساتھ ہی جارحانہ طریقے سے کھیلنا ہو گا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
پاکستان میں بھی اس میچ کے بعد وراٹ کوہلی کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا جنھوں نے اس میچ میں سنچری کے بعد مجموعی طور پر تہتر بار سو کا ہندسہ پار کیا ہے۔
پاکستانی کھلاڑی احمد شہزاد نے لکھا کہ ’لوگ کہتے تھے کہ وہ ختم ہو گیا لیکن وہ واپس آ چکا ہے۔ پچھلے چار میچوں میں تین بار سنچری سکور کی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
اب ٹیم انڈیا ایسے حیران کن نتائج کا سلسلہ جاری رکھے گی یا نہیں، اس کا فیصلہ بھی بڑی حد تک وراٹ کوہلی کی فارم ہی کرے گی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n8wjr3wrmo | ثانیہ مرزا: انڈیا کی ٹینس سپر سٹار جن کو اپنی بے باکی کی وجہ سے تنازعات کا سامنا رہا | ثانیہ مرزا نے جمعہ کی شام ایک جذباتی سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ کی جس میں انھوں نے لکھا کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا الوداعی نوٹ لکھ رہی ہیں۔
آسٹریلین اوپن ڈبلز کے ڈراز آئندہ چند روز میں جاری کیے جائیں گے۔ اس سے ثانیہ مرزا کے پیشہ ورانہ کیریئر کے آخری مرحلے کا آغاز خواتین کے ڈبلز مقابلوں میں قازقستان کی انانا ڈینیلینا اور مکسڈ ڈبلز میں روہن بوپنا کے ساتھ ہو گا۔
گزشتہ سال جنوری میں ثانیہ نے اعلان کیا تھا کہ 2022 ان کا آخری سیزن ہو گا لیکن وہ پٹھوں میں چوٹ کی وجہ سے آخری گرینڈ سلیم میں حصہ نہیں لے سکیں۔
ایسے میں ان کی ریٹائرمنٹ کا منصوبہ کچھ مہینوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا اور اب انھوں نے دو ٹورنامنٹس میں شرکت کے بعد کھیل کو الوداع کہنے کا اعلان کیا ہے۔
ثانیہ مرزا نے لکھا کہ پہلا گرینڈ سلیم کھیلنے کے 18 سال بعد آسٹریلین اوپن ان کا آخری گرینڈ سلیم ہو گا۔
آسٹریلین اوپن کے بعد ثانیہ مرزا 19 سے 25 فروری تک دبئی ڈیوٹی فری ٹینس چیمپئن شپ میں بھی شرکت کریں گی۔
میلبورن اور دبئی، یہ ٹینس ٹور کے دو مراکز ہیں اور ساتھ ہی گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ثانیہ کے سپورٹس کیریئر کی عکاسی کرتے ہیں۔
ثانیہ مرزا کو ہم نے 18 سال پہلے میلبورن میں دیکھا تھا جب وہ ٹھیک 18 سال کی ہی عمر میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تیسرے راؤنڈ میں ثانیہ سرینا ولیمز کو شاٹ سے جواب دے رہی تھیں۔
اس وقت یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ان کے فارہینڈ شاٹس کسی بھی دوسری انڈین خاتون کھلاڑی سے زیادہ جارحانہ ہیں۔
ان کے مختصر سکرٹس اور بولڈ پیغامات والی ٹی شرٹس بھی ان کی پہچان بنیں۔
ثانیہ ٹاپ لیول پر ٹینس کھیل رہی تھیں۔ ثانیہ نے وجے امرتراج (سب سے زیادہ رینکنگ 18ویں) اور رمیش کرشنن (سب سے زیادہ رینکنگ 23ویں) کے بعد انڈیا کی ٹاپ کھلاڑی بننے کا کارنامہ بھی دکھایا۔
رمیش کرشنن کے 22 سال بعد ثانیہ ٹاپ 30 کھلاڑیوں میں جگہ بنانے والی پہلی انڈین کھلاڑی بن گئیں۔ اس کے بعد 16 سال گزر چکے ہیں اور ثانیہ ٹینس کورٹ میں موجود ہیں۔
27 اگست 2007 کو ثانیہ دنیا کی 27ویں رینکنگ کھلاڑی بن گئیں۔ انھوں نے حیدرآباد میں منعقدہ ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتا اور تین بار ڈبلیو ٹی اے کے فائنل میں پہنچی۔
اگلے چار سالوں تک وہ دنیا کی ٹاپ 35 کھلاڑیوں میں شامل رہیں اور اس کے بعد اگلے چار سالوں تک ان کا شمار دنیا کی ٹاپ 100 کھلاڑیوں میں ہوتا رہا۔ لیکن گھٹنے اور کلائی کی چوٹوں نے ان کے سنگلز کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔
لیکن اس کے بعد ثانیہ نے ڈبلز ٹینس میں مزید سرخیاں حاصل کیں۔
ڈبلز ٹینس میں انھوں نے 43 ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتے اور 2015 میں دنیا کی نمبر ایک کھلاڑی بننے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ انھوں نے چھ گرینڈ سلیم ٹائٹل بھی جیتے۔
ثانیہ نے مکسڈ ڈبلز میں تین گرینڈ سلیم حاصل کیے جب کہ مارٹینا ہنگس کے ساتھ مل کر اسی سال ومبلڈن، یو ایس اوپن اور آسٹریلین اوپن ٹائٹل جیتے۔
43 ڈبلیو ٹی اے ٹائٹل جیتنے کے علاوہ ثانیہ 23 بار ڈبلیو ٹی اے ڈبلز کے فائنل میں پہنچی ہیں۔ یہاں تک کہ 2022 میں، انھوں نے جمہوریہ چیک کی لوسی ہراڈیکا کے ساتھ کلے کورٹس پر دو ڈبلیو ٹی اے فائنلز میں بھی حصہ لیا۔
ثانیہ اگلے ماہ اپنے کیریئر کا آخری میچ دبئی میں کھیلیں گی جہاں وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے بیٹے اور شوہر (پاکستانی کرکٹر شعیب ملک) کے ساتھ گزارتی ہیں۔
میلبورن سے دبئی کا سفر منظم نظر آتا ہے لیکن یہ ثانیہ کی شخصیت کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ اپنے کیریئر میں انہیں وقتاً فوقتاً کئی تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے
ثانیہ مرزا کا ’مام گلٹ‘: ماں بچے کی دیکھ بھال میں اپنی ذات کو بھول بھی جائے پھر بھی اسے لگتا ہے کہ وہ ’اچھی ماں‘ نہیں ہے
وینا ملک اور ثانیہ مرزا پاکستان، انڈیا میچ کے بعد ٹوئٹر پر کیوں الجھیں؟
ثانیہ مرزا نے ٹینس کو خیرباد کہنے کا ارادہ کر لیا
انھیں انڈین ٹینس کی پہلی خاتون سپر سٹار کہا جاتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیڈمنٹن کھلاڑی ثائنہ نہوال انڈین کھیلوں کی دنیا کی پہلی خاتون سپر سٹار تھیں۔
چونکہ ٹینس ایک بین الاقوامی کھیل ہے، اس لیے ثانیہ کی مقبولیت ثائنہ نہوال سے زیادہ بڑھی۔
دو دہائیاں قبل ثانیہ اپنے دور کی انڈین خواتین کھلاڑیوں سے بہت مختلف تھیں۔ وہ نئی نسل کی ایتھلیٹ تھی، پراعتماد، بے باک، بے خوف۔
میں نے پہلی بار 2005 میں انڈیا ٹوڈے میگزین کے لیے ان کا انٹرویو کیا۔
اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کو منی سکرٹ نہیں پہننا چاہیے، جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمیونٹی کو تم پر فخر ہے۔‘
ثانیہ کو جو کرنا تھا، وہ دو دہائیوں سے کر رہی ہے۔ خاص طور پر ثانیہ کے تیز رفتار فور ہینڈ شاٹس، جن کی یاد دیر تک رہے گی۔
ان کے شاٹس کا تاثر انڈین ٹینس کی تاریخ میں انمٹ رہے گا۔ ہم نے ثانیہ مرزا کو ’سوسائٹی‘ جیسے میگزین کے صفحات پر بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ٹینس کی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سپر سلیبریٹی بھی ہیں۔
لیکن ثانیہ مرزا کو ان کی سب سے بڑی خاصیت کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے جمعہ کو ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جذباتی پوسٹ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
ثانیہ جب چھ سال کی تھیں تو حیدرآباد کے نظام کلب کورٹ کے کوچ سے ان کی لڑائی ہو گئی کیونکہ کوچ ان کو عمر میں بہت چھوٹا سمجھتا تھا۔
ٹینس کورٹ میں مقابلے کے دوران ثانیہ کا انداز بالکل مختلف ہوتا تھا۔ جب میچ مشکل ہو جاتا تو ثانیہ اپنے بال باندھ لیتی اور دباؤ پڑنے پر کورٹ میں لڑنے کے لیے تیار ہو جاتی۔
اور ٹینس کورٹ کے باہر، وہ اس قسم کی عورت تھی جسے بتایا جا رہا تھا کہ کیسے رہنا ہے۔ جنھیں بلا ضرورت کئی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔ جو قدامت پسندی سے ایسے ناقابل یقین طریقے سے لڑ رہی تھی کہ ان کو باڈی گارڈز کے ساتھ چلنا پڑا۔ لیکن دو دہائیوں تک ثانیہ پیچھے نہیں ہٹیں۔
اس لیے جب وہ اپنا آخری میچ کھیلتی ہیں تو ان کو سب کی حمایت ملنی چاہیے۔
اپنے کھیل کے کیریئر اور زندگی کے دوران، ثانیہ نے انڈین کھیلوں، خواتین کھلاڑیوں، مرد ہم منصبوں اور ان لاکھوں لوگوں کے لیے جنھوں نے ان کے کھیل اور جدوجہد کو دیکھا، کے لیے تاریخ رقم کی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cml0wpdjjm1o | انڈیا میں کرکٹ کا ٹیلنٹ تو بہت، مگر کیا یہی ٹیلنٹ ایک مسئلہ بھی ہے؟ | انڈیا کو آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی اور ہوم گراؤنڈ پر کھیلے جانے والا ون ڈے ورلڈ کپ جیتے ایک دہائی کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اسی تناظر میں اب دو سوالات ذہن میں آتے ہیں۔
سب سے پہلا تو یہ کہ کیا اس بار بھی یہ 2011 کی طرح انڈیا کا سال ثابت ہو سکتا ہے جب مہندر سنگھ دھونی کے آخری چھکے نے انڈیا کو فتح سے ہمکنار کیا تھا؟
اور دوسرا سوال یہ کہ کیا انڈیا کی کرکٹ تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے؟
کھیل کے میدان میں تبدیلیاں راتوں رات نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار مسلسل فتوحات چند سینیئرز کی جانب سے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے راستہ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں۔ تاہم اکثر اوقات شکست ہی تبدیلی کا راستہ دکھاتی ہے۔
انڈیا نے 2022 کے عرصے تک تقریباً 58 فیصد ٹیسٹ میچز اور ون ڈے انٹرنیشنل میچز جبکہ 70 فیصد تک ٹی ٹوئنٹی میچز جیتے اور اب اس سال کے آخر میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلنے کے لیے نہ صرف پُرعزم دکھائی دے رہا ہے بلکہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے بھی فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
بہرحال انڈین کرکٹ ٹیم کا اپنی صلاحیت سے کم کارکردگی دکھانا ایک پریشان کن احساس ہے۔
اور اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جہاں ٹیم کے ٹاپ بلے بازوں نے مسلسل چیلنجز کا سامنا کیا وہیں انڈیا کی بولنگ بھی متاثر نہ کر سکی۔
ساتھ ہی ساتھ اہم کھلاڑیوں کی فٹنس یا انجریز نے ٹیم کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔
رینکنگ کے حساب سے انڈیا کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں پہلے نمبر پر، ٹیسٹ میچز میں دوسرے اور ون ڈے میں چوتھے نمبر پر ہے۔
اس کے باوجود ٹیم کے تمام فارمیٹس میں مسائل ہیں جو یقیناً کچھ ممالک کی ٹیموں کے لیے اطمینان کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
انڈین ٹیم سے فینز ہر بار جیتنے کی توقع لگا بیٹھتے ہیں اور اس سے کم کچھ بھی ان لاکھوں لوگوں کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے، جو کرکٹ میں فتوحات کو کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی میں ہونے والی شکستوں کی تلافی سمجھ لیتے ہیں۔
ایک اور وجہ میچوں کی شیڈولنگ بھی ہے جہاں محض ٹی وی سکرین پر ہر وقت شائقین کی تفریح کی طلب کو پورا کرنے کے لیے بہت زیادہ میچز کھلائے جا رہے ہوتے ہیں۔
اب بھلا بتائیے کہ ورلڈ کپ کے سال میں اور پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد اُن تمام ٹی ٹوئنٹی میچوں کو کھیلنے کا کوئی جواز تھا۔
انڈیا مارچ کے آخر تک ہوم گراؤنڈ پر سری لنکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف نو ون ڈے میچ کھیلے گا اور انھیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ آسٹریلیا کی سیریز کے بعد شروع ہونے والی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے آغاز سے قبل کھلاڑیوں کو آرام بھی مل سکے اور اس دوران پیش آنے والی انجریز کو بھی ٹھیک ہونے کا موقع مل سکے۔
اس لیے انڈین ٹیم کے چیف سلیکٹرز چیتن شرما کا یہ کہنا باعث تشویش ہے کہ زخمی فاسٹ بولر جسپریت بمرا کو شاید بہت جلدی مقابلے میں لے جایا گیا ہے۔
دوسری جانب ٹیسٹ میچز کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود آسٹریلیا کے خلاف بھی انڈین ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر چار ٹیسٹ میچز کھیلنا ہیں جس کے لیے سری لنکا اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں بھی فائنل کے لیے اچھی پوزیشن پر ہیں۔
نومبر میں سابق کپتان سچن ٹنڈولکر کی ریٹائرمنٹ اور ان کے نام سے منسوب انڈین کرکٹ کے دور کے خاتمے کو ایک دہائی مکمل ہو جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میچ کے سات کھلاڑی ایسے ہیں جو اب بھی انٹرنیشنل کرکٹ نہ صرف کھیل رہے ہیں بلکہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔
ان میں37 سال کے ایشون اور شیکھر دھون، لگ بھگ 35 سال کے چتیشور پجارا جبکہ 34 سالہ روندر جڈیجا اور ویرات کوہلی بھی شامل ہیں۔
نوجوان کھلاڑی یا تو خود کو منوانے کے لیے مطلوبہ محنت نہیں کر پا رہے یا اگر وہ اس کے لیے پر زور کوشش کر رہے ہیں تو پھر شاید انھیں اُس سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑے گا جتنا دیگر کو بڑی لیگ میں شامل ہونے لیے کرنا پڑا تھا۔
انڈین ٹیم کے لیفٹ آرم میڈیم پیسر ارشدیپ سنگھ اگلے ماہ 24 سال کے ہو جائیں گے جبکہ ٹی ٹؤنٹی کی دنیا میں توجہ حاصل کرنے والے سوریا کمار یادیو ابھی 32 برس کے ہیں اور ہوم سیریز کے لیے ٹیسٹ سکواڈ میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ایک آل راؤنڈر یا وائٹ بال کھلاڑیوں کی بات کریں تو سر فہرست ہردک پانڈیا اور جڈیجا ہیں جو ان خصوصیات پر پورا اترتے ہیں جبکہ اکشر پٹیل چھوٹے فارمیٹس میں نمایاں ہیں۔
انڈیا بولنگ کے لے دستیاب ناکافی آپشنز پر تنقید کی زد میں ہے جس کی مثال حال ہی میں بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے سیریز میں انڈیا کی ہار کی صورت میں سب کے سامنے موجود ہے۔
اگر ٹی ٹؤنٹی ورلڈ کپ میں شکست انڈیا کے لیے کوئی سبق ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ٹی ٹؤنٹی نوجوانوں کا کھیل ہے۔
جب انڈیا نے 2007 میں ٹائٹل جیتا تو یہ اس کی خوش قسمتی تھی اور گذشتہ سال میلبورن میں اپنے افتتاحی میچ میں پاکستان کو شکست دینا بھی انڈیا کی گڈ لک ثابت ہوئی۔
اور ایسی ہی حادثاتی جیتیں ٹیم میں خود فریبی کا احساس پیدا کر سکتی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ٹی ٹؤنٹی کے لیے علیحدہ کپتان، ماہر پلیئرز، اپنا کوچ اور معاون عملہ ہو۔ ایک پورے فارمیٹ کے لیے نئی ٹیم کو ترتیب دیا جائے جیسا کہ انگلینڈ نے کیا اور کامیاب رہا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کرکٹ میں تقسیم سرخ اور سفید بالز کے درمیان نہیں بلکہ اس میں ٹیسٹ اور ون ڈے میچز ایک جانب اور ٹی ٹؤنٹی میچز دوسری جانب رکھنے کی تقسیم ہے۔
ٹی ٹؤنٹی کے کوچ کا تعلق اس کھیل کے فارمیٹ میں سوچنے والی نسل سے ہونا چاہیے اور کوچز سے بھی زیادہ اہم ڈیٹا تجزیہ کار ہیں جو آپ کی سمت درست کرتے ہیں۔
انڈیا کے پاس ون ڈے کرکٹ میں کوئی طے شدہ ٹیم نہیں ، لیکن خوش قسمتی سے ان کے پاس ورلڈ کپ سے قبل اپنی غلطیوں کے ازالہ کا ابھی وقت موجود ہے۔ ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے یا تو کسی کو یادیو کی ٹی ٹؤنٹی جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا یا پھر خود یادیو کو دوبارہ کچھ ایسا کرنا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے
ہاردک پانڈیا: انڈیا کے ’کپل دیو‘ کی غربت اور درد کو شکست دینے کی داستان
پاکستان کا لٹن داس کون ہو گا؟ سمیع چوہدری کا کالم
سڑک حادثہ جس میں ایک آل راؤنڈر عین جوانی میں دنیا سے گیا لیکن دوسرا بعد میں عظیم آل راؤنڈر بنا
ٹیم میں موجود پلیئرز کی پہلے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ انھیں اعتماد دینا ہوگا کہ وہ ٹیم کا حصہ ہیں۔
کھیل کا فارمیٹ چاہے کچھ بھی ہو، ٹیم میں بیلینس ایک ایسا سوال ہے جسے کوچ اور کپتان کو مسلسل مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ کیا آپ ایکسٹرا بیٹس مین یا بٹس اینڈ پیس مین کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں؟
کیا آپ کسی باقاعدگی سے وکٹ کیپنگ کرنے والے کی جگہ ایسے وکٹ کیپر کا انتخاب کرتے ہیں جو آپ کو رنز دے اور کیچ نہ چھوڑنے کی یقین دہانی کروائے؟
دو فنگر سپنرز یا ایک فنگر اور ایک رسٹ، یا ایک اضافی میڈیم پیسر؟
اوران مقدس گایوں کا کیا ہوگا؟ کیا سینئر کھلاڑی اپنی پشت پر یہ لکھوا کے آتے ہیں کہ ’مجھے ٹیم سے نکال کر دکھائیں‘۔ کیا ہمیں یہ واقعی سنجیدگی سے لینا چاہئیے؟
بدقسمتی سے کرکٹ بھی زندگی کی طرح آگے بڑھتی ہے جہاں ماضی کے تجربات سے ہی سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpw16286nyzo | پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: ’سیریز ہارے ہیں تو ملبہ بابر پر، جیت جائیں تو کریڈٹ سلیکٹر کا‘ | تین میچوں کی ون ڈے سیریز کے تیسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو دو وکٹوں سے شکست دیتے ہوئے سیریز 2-1 سے جیت لی ہے۔
پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے نیوزی لینڈ کو 281 رنز کا ہدف دیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے فخر زمان نے شاندار بلے بازی کا مظاہرے کرتے ہوئے 122 بالوں پر 101 رنز بنائے ہیں۔ یہ ان کے کیرئیر کی آٹھویں سینچری ہے۔
جبکہ محمد رضوان 74 بالوں پر 75 جبکہ آغا سلمان 43 بالوں پر 45 رنز بنا پائے۔
پہلی اننگز میں نیوزی لینڈ کی جانب سے ٹم ساؤتھی نے 10 اوورز میں 56 رنز دیتے ہوئے تین وکٹیں حاصل کیں۔
جبکہ فرگوسن نے دو، سینٹنر اور سودھی نے نے ایک، ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
نیوزی لینڈ کی جانب سے گلین فلپس نے سب سے زیادہ رنز بنائِے انھوں نے 42 بالوں پر 63 کا سکور کرکے اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
نیوزی لینڈ کے اوپنر فن ایلن 25 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے جبکہ خطرناک بلے باز ڈیون کانوائے 65 بالوں پر 52 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ آغا سلمان کی بال پر شان مسعود نے ان کا کیچ لیا۔
کپتان کین ولیمسن رنز پر آؤٹ ہونے سے قبل 68 بالوں پر 53 رنز بنا پائے۔
فخر زمان اپنی شاندار سینچری کے بعد پاکستانی میں سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔
کرکٹ کے تبصرہ نگار جون نے فخر زمان کی ون ڈے سینچریوں کے اعدادوشمار شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ فخر زمان نے ون ڈے میں جنوبی افریقہ کے خلاف دو سنچریاں، انگلینڈ کے خلاف ایک سنچری، انڈیا کے خلاف ایک سنچری اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایک سنچری بنائی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں وہ پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
کرکٹر تجزیہ کار اور اعداد وشمار کے ماہر مظہر ارشد نے ٹویٹ کہ فخر زمان پاکستان کی ون ڈے تاریخ کے واحد بلے باز ہیں جن کی اوسط 45 پلس اور سٹرائیک ریٹ 90 پلس ہے۔
جبکہ فرید خان کا ماننا ہے کہ فخر زمان، ’سعید انور کے بعد سب سے بہترین ون ڈے اوپنر‘ ہیں۔
جیو نیوز سے وابستہ صحافی آرفہ فیروز ذکی نے ٹویٹ کیا کہ فخر زمان ایسے بہترین بلے باز ہیں جو ون ڈے فارمیٹ کے لیے ہی بنے ہیں۔ وہ میچ ونر ہیں اور ہر حال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ ہونا چاہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وائٹ بال فارمیٹس میں فخر پاکستان کے لیے ایک نایاب نیلا ہیرا ہے۔
سوشل میڈیا پر وکٹ کیپر محمد رضوان کی جانب سے گلین فلپس کا کیچ ڈراپ کرنے اور بابر کی کپتانی کو لے کر خوب بات ہوتی رہی۔
بابر اعظم اور محمد رضوان بلے بازی میں اچھی شراکت داری قائم کرتے ہیں مگر تنقید سمیٹنے میں بھی ان کی شراکت داری کافی عرصے سے جاری ہے۔
ٹوئٹر پر حذیفہ خان نے لکھا کہ رضوان نے اہم موقع پر گلین فلپس کا کیچ ڈراپ کیا، یہ میچ کا فیصلہ کن کیچ تھا۔
ثاقب ورک نے لکھا کہ رضوان نے ٹرافی گرا دی، بہت بری وکٹ کیپنگ۔ اسی طرح عروج نامی صارف نے لکھا کہ فیصلہ کن، ناک آؤٹ میچز کے 70 فیصد ہم خراب فیلڈنگ یا کیچ ڈراپس کی وجہ سے ہار جاتے ہیں اور ان کے مطابق آج بھی ایسے ہی ہوا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
اور جب بات ہو رہی ہو میچ ہارنے کی تو کپتان پر تو ملبہ گرنا ہی ہے۔ بابر اعظم پاکستان اور انگلینڈ اور پھر پاکستان اور نیوزی لینڈ سیریز میں ہارنے کے بعد سے سخت تنقید کی زد میں ہیں۔
ڈاکٹر رضوان اللہ نے لکھا کہ بابر اعظم ٹیسٹ، ون ڈے اور شاید ٹی 20 میں بھی اعلیٰ پائے کے بلے باز ہیں مگر اس سے وہ اچھے کپتان بھی نہیں بن جاتے۔
کومل نامی صارف نے بابر اعظم پر ہونے والی تنقید کے بارے میں لکھا کہ کیپر کیچ چھوڑ دے، بابر پر تنقید، فیلڈنگ بری ہو، بابر پر تنقید، بولرز 280 کا دفاع نہ کر سکیں، بابر پر تنقید۔ آپ کو نہیں پتا بابر کتنے زبردست ہیں جب تک کہ وہ چلے نہیں جاتے۔
سہیل قمر نے لکھا کہ سیریز ہارے ہیں تو بابر اعظم پر ڈال دو، جیت جاتے تو پھر سارا کریڈٹ سلیکٹر کا ہوتا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmvyee34n0o | راشد خان کی بیگ بیش سے نکلنے کی دھمکی: ’کرکٹ کو سیاست سے دور رکھیں‘ | افغانستان میں طالبان حکومت کی خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں کی بنا پر آسٹریلیا نے مارچ میں افغانستان کے خلاف مینز ون ڈے سیریز کھیلنے سے انکار کیا ہے۔ تین میچوں کی یہ سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانی تھی۔
کرکٹ آسٹریلیا نے کہا کہ اس نے یہ فیصلہ تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز بشمول آسٹریلوی حکومت سے مشاورت کے بعد کیا۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے افغان سپنر راشد خان نے کہا ہے کہ وہ آسٹریلیا کی ٹی ٹوئنٹی لیگ بِگ بیش (بی بی ایل) سے نکلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے تنبیہ جاری کر دی ہے۔
ایڈیلیڈ سٹرائیکرز کے بولر نے کہا کہ ’مجھے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے اور ہم نے عالمی سطح پر بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے اور کرکٹ آسٹریلیا کے فیصلے نے ’ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔‘
’اگر افغاستان کے خلاف کھیلنا آسٹریلیا کو بے سکون کر رہا ہے تو میں بی بی ایل میں اپنی موجودگی سے کسی کو بے سکون نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے میں اس مقابلے میں اپنے مستقبل کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔‘
سابق انگلش کپتان مائیکل وان سمیت بعض غیر ملکی کھلاڑیوں نے راشد خان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
اگست 2021 کے دوران دوبارہ افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں اور خواتین پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کیے ہیں۔
کرکٹ آسٹریلیا نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کی وجہ سے افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کم ہوئے ہیں اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ ’کرکٹ آسٹریلیا افغانستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے لیے اس کھیل کو فروغ دینے کی حمایت کرتا ہے۔ ہم افغان کرکٹ بورڈ سے تعاون جاری رکھیں گے تاکہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر بنائے جاسکیں۔‘
سابق آسٹریلوی کپتان بلینڈا کلارک، جو دو ورلڈ کپ جیتنے کے بعد 2005 میں ریٹائر ہوئی تھیں، نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ صحیح فیصلہ ہے۔ ’کھیلوں میں شمولیت بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔ اگر ایک ملک میں بنیادی انسانی حقوق ہی نہیں تو میرے خیال سے یہ ایک مسئلہ ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آئی سی سی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ’شاید وہ دوسرے ارکان کی حمایت حاصل کر لیں تاہم اگر آپ کہتے ہیں دونوں صنفوں کے لیے برابر کے مواقع درکار ہیں تو اس کے لیے کون کوششیں کرے گا؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو آواز اٹھانی ہوگی اور اس بارے میں مؤقف رکھنا ہوگا کہ آیا یہ حقوق سب کے لیے ہونے چاہییں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
دوسری جانب افغان بورڈ نے آسٹریلیا کے ’شرمناک‘ فیصلے کو نامناسب اور غیر متوقع قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ کھیل کو سیاست کی نذر کرنے کی کوشش ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ کرکٹ آسٹریلیا کے فیصلے پر مایوس ہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ طور پر آئی سی سی سے رجوع کریں گے۔
افغان ون ڈے اور ٹیسٹ کپتان حشمت شہیدی نے کہا ہے کہ ’افغانستان میں شائقین اور لوگ گذشتہ 42 برسوں کے دوران جنگ سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں اور وہ کھیلوں میں سیاست کا عمل دخل نہیں چاہتے۔ ملک میں کرکٹ پسندیدہ کھیل اور خوشی کا بڑا ذریعہ ہے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ کرکٹ آسٹریلیا اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔‘
یہ بھی پڑھیے
افغانستان: طالبان نے خواتین کے این جی اوز کے لیے کام کرنے پر بھی پابندی لگا دی
طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد متاثرہ پاکستانی طالبات بھی سڑکوں پر آ گئیں
’مودی لے لو، شاہ رخ لے لو، راشد خان دے دو‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
افغان کھلاڑی حسان عیسیٰ خیل نے لکھا کہ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے اور آسٹریلیا کا فیصلہ ’نامناسب اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔‘
’افغانوں سے ان کی خوشی مت چھینیں۔ کرکٹ میں سیاست روکیں۔‘
جبکہ افغانستان کے ٹی ٹوئنٹی کپتان محمد نبی نے کہا کہ افغان کھلاڑی ملک کے لیے رول ماڈل ہیں۔ ’ہم نے ثابت کیا ہے کہ مواقع اور پلیٹ فارم ملنے پر افغان شہری باقی دنیا سے کم نہیں۔۔۔ کرکٹ آسٹریلیا اور آئی سی سی کو اس مشکل مرحلے میں افغانستان کی حمایت کرنی چاہیے۔‘
تاہم بعض صارفین کا خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کے بعد اس قدر ردعمل نہیں آیا تھا جتنا آسٹریلوی بورڈ نے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔
جیسے لنڈسے ہلسم کہتی ہیں کہ ’طالبان نے لڑکیوں کو سکول اور کام پر جانے سے روکا مگر میں نے ٹوئٹر پر اس حوالے سے مردوں کا زیادہ سخت ردعمل دیکھا ہے کہ آسٹریلیا نے افغان ٹیم کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار کیوں کیا۔‘
جبکہ اینجلا پریسٹلی کہتی ہیں کہ افغانستان آئی سی سی کا واحد فُل ممبر ہے جس کی خواتین کی انٹرنیشنل ٹیم نہیں۔ ’طالبان کے دور میں خواتین یونیورسٹی نہیں جاسکتیں، کرکٹ کھیلنا تو دور کی بات ہے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpd08yn99vno | پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: پہلے ون ڈے میں پاکستان کی فتح کے بعد محمد رضوان کی کارکردگی پر مداح خوش | تین میچوں کی ون ڈے سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ نیوزی لینڈ نے پاکتسان کو 256 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا۔
پاکستان کی طرف سے محمد رضوان 77 بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
پاکستان نے ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی تھی۔
اس سے پہلے نسیم شاہ نے 10 اوورز میں 57 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے نیدر لینڈز کے خلاف اگست 2022 میں اپنے آخری ون ڈے میں بھی 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اپنا ڈپیو کر رہے لگ سپنر اسامہ میر نے دو اہم کھلاڑیوں کین ولیمسن اور ٹام لیتھم کو آؤٹ کیا۔
30 کے مجموعی سکور پر پاکستان کی پہلی وکٹ اس وقت گری جب امام الحق 11 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہوگئے۔
اس کے بعد بابر اعظم کریز پر آئے جنھوں نے 82 گیندوں پر 66 رنز بنائے اور سٹمپ ہوئے۔
فخر زمان 74 گیندوں پر 56 رنز بنا کر بولڈ ہوئے۔
پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز وکٹ کیپر محمد رضوان نے کیے جنھوں نے 86 گیندوں پر 77 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔
چنانچہ سوشل میڈیا پر محمد رضوان کے لیے تعریفیں چھائی رہیں اور ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی پے در پے شکستوں سے تھک چکے مداحوں میں خوشی کی ایک نئی لہر نظر آئی۔
کرکٹ تبصرہ کار سج صادق نے لکھا کہ جب بولر محمد رضوان کی طرف بال بھی پھینکیں تو وہ مسکراتے ہیں اور دل پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
رضوان کے ایک شاٹ کا بہت چرچا رہا جسے وہ کھیلتے ہوئے گر پڑے مگر پھر بھی اُنھوں نے گیند باؤنڈری تک پہنچا دی اور اس دوران رنز لیتے ہوئے بھی وہ کسی تکلیف کے باعث لڑکھڑا کر گر پڑے۔
جویریہ نامی کرکٹ مداح نے لکھا کہ رضوان کے اس شاٹ نے میرا دن بہتر بنا دیا۔ اللہ ہمیشہ آپ کی حفاظت کرے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
نور العین نے لکھا کہ ان انجریز کے باوجود وہ پاکستان کے لیے محنت سے اچھا کھیل رہے ہیں، یہ ہمارے رضوان ہیں۔ پھر بھی کچھ لوگ انھیں خود غرض کہتے ہیں، اُنھیں شرم آنی چاہیے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ رضوان اتنے ’سویٹ‘ ہیں کہ اگر آپ انھیں کچھ برا کہیں تو وہ بس مسکرائیں گے، جیسے بال اُنھیں سینے پر لگی اور وہ بولر کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
ان کی بلے بازی اور مزاج کی تعریفوں کے ساتھ ان کی وکٹ کیپنگ کو بھی لوگوں نے خوب سراہا۔
محمد اسد نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ وکٹ کیپنگ ایک آرٹ ہے اور محمد رضوان نے آج بہت نفاست دکھائی ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckvljv7w4dgo | تنقید میں گھرے بابر اعظم: ’آپ سب غیر معیاری کھلاڑیوں کے حقدار ہیں بابر کے نہیں‘ | پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز بے نتیجہ رہی تاہم آج سے تین میچوں کی ون ڈے سیریز کا آغاز کراچی کے نیشنل سٹیڈیم سے ہو رہا ہے لیکن ٹیسٹ میچوں کی طرح اس سیریز سے قبل بھی تمام نظریں بابر اعظم پر ہی ہیں۔
گذشتہ برس پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کے اعتبار سے خاصا مشکل گزرا ہے جس کے باعث بابر اعظم کو بطور کپتان تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کی ناقص کارکردگی کی وجوہات میں فلیٹ پچز، پاکستان کی غیر متاثر کن بولنگ اور ٹیم سلیکشن کے حوالے سے غیر واضح پالیسی شامل ہیں مگر چند مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تنقید جائز نہیں ہے۔
اس سال ون ڈے کرکٹ کو سب سے زیادہ اہمیت اس لیے حاصل ہو گی کیونکہ یہ ون ڈے ورلڈکپ کا سال ہے اور پاکستان سمیت تمام ہی ٹیموں کی پہلی ترجیح سال کے آخر میں انڈیا میں ہونے والے ورلڈکپ کے لیے سکواڈ کی تیاری ہو گی۔
تاہم پاکستان کو کم از کم بیٹنگ میں اس حوالے سے متعدد سوالات کے جواب دینے ہیں اور گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران بابر اعظم سے بھی اس حوالے سے متعدد سوالات کیے گئے۔
سیریز سے قبل بابر اعظم سے پریس کانفرنس میں چند ایسے سوالات کیے گئے جن کے بارے میں سوشل میڈیا پر خاصی بحث کی جا رہی ہے۔
بابر اعظم نے خاصے سپاٹ انداز میں ان سوالات کے جواب دیے اور کسی بھی سوال پر زیادہ بحث کرتے دکھائی نہیں دیے تاہم ان سخت سوالات پر ٹوئٹر پر بابر اعظم کی حمایت میں صارفین سامنے آئے اور اس وقت بابر اعظم سے متعلق متعدد ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بابر اعظم آئی سی سی درجہ بندی میں ون ڈے کرکٹ میں نمبر ون بیٹسمین ہیں اور یہ اعداد و شمار کے اعتبار سے بھی بابر اعظم کا پسندیدہ فارمیٹ ہے۔ تاہم اس دباؤ میں بابر بطور کپتان کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں یہ اہم ہو گا۔
اگر پاکستان نیوزی لینڈ کے خلاف یہ سیریز تین صفر سے جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستانی ٹیم ون ڈے کی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ جائے گی۔
بابر اعظم کی جانب سے سیریز سے پہلے پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کی جانب سے کیے گئے سوالات کے خاصے سپاٹ جواب دیے گئے جس کے بعد ان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور ٹویٹس کی جا رہی ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران بابر اعظم سے ایک سوال تو یہ کیا گیا کہ آیا وہ ٹیسٹ کرکٹ سے کپتانی کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ گذشتہ سال پاکستان کا ہوم سیزن خاصا بُرا گزرا ہے۔ اس پر بابر کا کہنا تھا کہ ’ابھی صرف وائٹ بال کرکٹ کے بارے میں سوال کریں۔‘
اسی طرح ایک صحافی کی جانب سے بابر سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں سرفراز کے چار سال تک ٹیم سے باہر رہنے پر انھیں کوئی پچھتاوا ہے۔ اس پر بابر کا کہنا تھا کہ ’نہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔‘
اس کے علاوہ سلیکشن کے حوالے سے بھی جب بابر سے پوچھا گیا کہ کیا اس سیریز کے لیے نائب کپتان شان مسعود کو ٹیم میں شامل کیا جائے گا، تو بابر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں فیصلہ وکٹ دیکھنے کے بعد کیا جائے گا اور وہ اس بارے میں کسی انفرادی کھلاڑی کے حوالے سے جواب نہیں دے سکتے۔
اس حوالے سے بھی اکثر افراد یہ سوال کر رہے ہیں کہ شان مسعود کو نائب کپتان کیوں بنایا گیا ہے جب انھیں ٹیم میں ہی شامل کرنے پر ابھی تک غیر یقینی صورتحال ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے اس ون ڈے سیریز کے لیے 24 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان آج کون سے 11 کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس حوالے سے یہ بحث بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی بیٹنگ میں پاور ہٹرز کی کمی ہے کیونکہ خوشدل شاہ اور آصف علی اس ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔
اسی طرح شاہین آفریدی اور شاداب خان کی غیر موجودگی می پاکستان کی بولنگ بھی قدرے کمزور ہو گی اور ان کی جگہ اسامہ میر اور حسنین ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
سوشل میڈیا پر بابر اعظم کی حمایت میں متعدد افراد کی جانب سے ٹویٹ کیے جا رہے ہیں۔ فرید خان نامی صارف نے لکھا کہ بابر اعظم کو ہمت کا پیغام دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے۔ آپ اپنے قومی ٹیم کے کپتان کے خلاف اتنے گر چکے ہیں حالانکہ وہ دنیا کے تمام فارمیٹس میں بہترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں۔
’آپ سب غیر معیاری کھیل اور کھلاڑیوں کے حقدار ہیں جو آپ کو کئی سال پیچھے لے جائیں گے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز نے کہا کہ ’قومی ٹیم کے کپتان کو سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کی بنیاد پر تبدیل کرنا اور ایسے وقت میں بیانیہ بنانا جب اس کا موقع بھی نہیں ہے پی سی بی کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔
تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ صحافیوں کا کام سوال کرنا ہے اور اگر پاکستان کی کارکردگی گذشتہ برس میں ناقص رہی ہے تو ایسے سوالوں کا سامنے آنا مضحکہ خیز نہیں ہے۔
دیکھنا ہو گا کہ کیا بابر اعظم خود پر ہونے والی تنقید کا جواب اپنے بلے سے دے پائیں گے یا نہیں۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0wdrdq15kwo | رونالڈو اور اُن کی ’پارٹنر‘ کا سعودی عرب میں ساتھ رہنا متنازع کیوں ہو گیا ہے؟ | کرسٹیانو رونالڈو کے سعودی عرب کے کلب ’النصر‘ میں شمولیت کے بعد سے آئے روز سوشل میڈیا پر ان کے کبھی سعودی حکام کے ساتھ کھانا کھانے اور کبھی پریکٹس کے کلپس وائرل ہو رہے ہیں۔
رونالڈو نے تاحال سعودی پرو لیگ کلب ’النصر‘ کے لیے دو میچوں کی پابندی کے باعث کوئی میچ تو نہیں کھیلا لیکن اس وقت سوشل میڈیا پر ان کے سعودی عرب میں اپنی لِو اِن پارٹنر کے ساتھ رہنے کے حوالے سے بحث کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب میں کسی بھی غیر شادی شدہ جوڑے کا جنسی تعلق قائم کرنا یا اکھٹے رہنا قابل تعزیر جرم ہے اور اس کے حوالے سے سخت سزا کا قانون بھی موجود ہے تاہم سپورٹنگ حلقوں سے وابستہ چند افراد کا دعویٰ ہے کہ رونالڈو کو اپنی پارٹنر جارجینا کے ساتھ سعودی عرب میں رہنے کے لیے ’چھوٹ دیے جانے کا امکان‘ ہے۔
تاحال سعودی حکام، فٹبال کلب ’النصر‘ یا رونالڈو کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
جب رونالڈو نے النصر کلب میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور پھر کلب کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا تو جارجینا ان کے ساتھ اس تقریب میں شریک ہوئی تھیں اور اس دوان انھوں نے عبایا پہن رکھا تھا۔
خیال رہے کہ ایک جانب سعودی کلب میں شمولیت کو عرب دنیا میں فٹبال کے لیے ایک اہم سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب مبصرین اس کے سیاسی و ثقافتی اثرات پر بھی بحث کر رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے اور اسے سعودی عرب ’سپورٹس واشنگ‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر ے گا۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران پرتگالی فٹبال سٹار کرسٹیانو رونالڈو نے اپنا کریئر مکمل طور پر تبدیل ہوتے اور اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔
ایک سال پہلے تک یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مانچسٹر یونائیٹڈ سے اپنے کریئر کے عروج تک پہنچنے والے رونالڈو اسی کلب کے ساتھ فٹبال کو خیرباد کہیں گے لیکن پھر ان کی کلب کی مینجمینٹ کے ساتھ ایسی ان بن ہوئی کہ انھوں نے اس بارے میں ایک تہلکہ خیز انٹرویو دے کر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔
اس انٹرویو کے بعد کلب نے رونالڈو سے اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسی طرح گذشتہ ماہ پرتگال کی قومی ٹیم کے ساتھ ورلڈکپ کے راؤنڈ آف 16 کے ایک میچ میں رونالڈو کو پہلی مرتبہ فرسٹ ٹیم میں شامل میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ پرتگال کی ٹیم وہ میچ تو باآسانی جیتنے میں کامیاب ہوئی تاہم کوارٹرفائنل میں اسے مراکش کی ٹیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
رونالڈو اب 37 برس کے ہو چکے ہیں اور یہ ان کا آخری فٹبال ورلڈکپ تھا۔ مراکش کے خلاف میچ کے اختتام پر رونالڈو کو آبدیدہ ہو کر واپس جاتے دیکھا گیا تھا۔
سعودی عرب میں شریعت کا قانون نافذ ہے جو غیر شادی شدہ جوڑے کو ساتھ رہنے کو روکتا ہے۔
عام طور پر جب بھی کوئی مرد اور خاتون کسی ہوٹل میں ٹھہرتا ہے یا کوئی مالک مکان اپنا مکان کسی کو کرائے پر دیتا ہے تو ان سے محرم ہونے کے حوالے سے دستاویزی ثبوت مانگا جاتا ہے جو حکام کو جمع کروایا جاتا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس قانون کی عمل داری میں غیر ملکیوں کے لیے گذشتہ کئی برسوں سے نرمی برتی گئی ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2019 میں سعودی عرب کی ویزا پالیسی میں نرمی کی گئی تھی جس کے تحت غیرشادی شدہ غیر ملکی جوڑے بھی ہوٹل کے کمرے حاصل کر سکیں گے جبکہ خواتین کو بھی ہوٹل کے کمروں میں رہنے کی اجازت ہو گی مگر اکیلے۔
اس سے قبل، جوڑوں کو کمرے حاصل کرنے کے لیے شادی شدہ ہونے کے ثبوت فراہم کرنے پڑتے تھے لیکن کیونکہ رونالڈو اور جارجینا کو سعودی عرب میں طویل عرصے کے لیے وقت گزارنا ہو گا، اس لیے ان کی رہائش بحث کا باعث بنی ہوئی تھی۔
اس حوالے سے قانونی ماہرین کا یہی خیال ہے کہ سعودی عرب قانون میں تبدیلی تو نہیں کرے گا لیکن غیر ملکیوں کی جانب سے برتی جانے والی نرمی رونالڈو اور جارجینا پر کے کیس میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
رونالڈو اور جارجینا کا رشتہ اب تقریباً سات برس پرانا ہے۔ دونوں سنہ 2016 سے ایک ساتھ ہیں جب رونالڈو ہسپانوی فٹبال کلب ریال میڈرڈ کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
جارجینا اور رونالڈو نے تاحال شادی تو نہیں کی تاہم ان کے دو بچے ہیں۔
اس حوالے سے جہاں اکثر افراد یہ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ سعودی حکومت رونالڈو کو یہ رعایت دے گی وہیں ایک صارف نے اس حوالے سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ ’قانون اور مذہب صرف غریب کے لیے ہوتا ہے۔‘
اسی طرح کچھ صارفین نے اس حوالے سے سعودی حکام کی ممکنہ رعایت کو خوش آئند بھی قرار دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوال کیا کہ آیا رونالڈو اب جارجینا سے شادی کر لیں گے؟ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/clwnnrd8121o | سرفراز احمد کی لوک داستاں ادھوری رہ گئی | بالآخر جب کراچی کا سورج ڈھلنے لگا تو ٹم ساؤدی نے نئی گیند لینے کا فیصلہ کر لیا اور دھیرے دھیرے رینگتے میچ کو ایک آخری مہمیز لگانے کا خطرہ مول لیا۔ سرفراز احمد دوپہر سے کیویز کو مایوس کرتے چلے آ رہے تھے اور نئی گیند کے استعمال میں ٹال مٹول بھی انہی کے سبب تھی۔
جس وقت سرفراز احمد کریز پر آئے، پاکستانی اننگز ایک آدھ سیشن کی مہمان نظر آتی تھی۔ ٹاپ آرڈر ارزاں نرخوں پہ پویلین واپس پہنچ چکا تھا اور کیوی بولنگ کا ڈسپلن کوئی راہ سُجھانے نہ دیتی تھی۔
سعود شکیل نے اپنے حصے کا قرض بخوبی چکایا اور ایک کنارہ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اگرچہ میچ کے مجموعی سیاق و سباق میں ان کی یہ اننگز کچھ زیادہ معنویت اجاگر نہیں کر پائی مگر بطور ٹیسٹ بلے باز سعود کے لئے یہ ایک اور خاص اننگز تھی جہاں انہوں نے سیشن در سیشن کیوی جارحیت کو مایوسی کا منہ تکنے پہ مجبور کیا۔
اور دوسرے کنارے سے سرفراز احمد نے جو کردار نبھایا، وہ کسی لوک داستاں سے کم نہیں تھا۔ جہاں پاکستان کی اولین ترجیح اپنی جیت سے زیادہ کیوی فتح کے خدشے کو ٹالنا تھا، وہاں سرفراز نے پانسہ یوں پلٹا کہ کیوی اٹیک کو پچھلے قدموں پہ جانا پڑا۔ اگر وہ میچ کو کنارے تک لے جاتے تو یہ اننگز لوک داستانوں کا حصہ بن کر امر ہو جاتی۔
سرفراز کی بیٹنگ کا خاصہ ہے کہ نہ صرف وہ خود کریز پہ بِتائے اپنے وقت سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ شائقین کے لئے بھی تفریح کا سامان بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ وہ خود بھی متحرک رہتے ہیں اور کھیل کو بھی جمود کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔
ان کی اسی سرشت کی بدولت کیوی بولنگ کو بارہا اپنا حساب کتاب سلجھانا پڑا۔ جس وکٹ پہ سپنرز پاکستانی بیٹنگ کے لئے بلائے جاں بنے ہوئے تھے، وہاں سرفراز احمد نے اپنے کھلے سٹانس اور زیریں سینٹر آف گریویٹی کی بدولت آزادانہ سویپ شاٹس کھیل کر کیوی سپن کا سارا ڈنک نکال دیا۔
یہ بھی پڑھیے
* ’میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا‘
سرفراز کے لئے یہ اننگز یوں بھی یادگار رہے گی کہ طویل غیر حاضری کے بعد انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کا پہلا موقع ملا اور اپنے ہوم گراؤنڈ پہ پے در پے تین نصف سینچریوں کے بعد یہ ان کی پہلی سینچری تھی۔ چوتھی اننگز کے دباؤ کے ہنگام ایسی لمبی اننگز اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ بطور بلے باز سرفراز کے تجربے کا فی الوقت کوئی نعم البدل موجود نہیں۔
لیکن سرفراز احمد کی اس یادگار اننگز کی داستان ہی کچھ اور ہوتی اگر دوسرے کنارے سے بھی کوئی ان کی ویسی ہی تائید کرنے کی کوشش کرتا جو سلمان آغا نے کی۔ پاکستانی لوئر آرڈر نے بہرحال پہلی اننگز کی نسبت بہتر کاوش دکھائی اور دم توڑتی روشنی میں ختم ہوتے میچ کو کسی حتمی ڈرامے سے محفوظ رکھا۔
ساؤدی کی ڈکلیریشن بھی نہایت دلیرانہ تھی۔ ٹیسٹ کرکٹ کی بقا کپتانوں کی جانب سے ایسے ہی جارحانہ فیصلوں میں مضمر ہے۔ اگر پانچ روزہ کھیل بلا نتیجہ ختم ہو جائے تو یہ کھلاڑیوں سے زیادہ کھیل کی بدقسمتی ہے۔
ساؤدی نے اسی بدقسمتی سے دامن بچانے کے لئے چوتھی شام ڈکلیریشن کا انقلابی فیصلہ کیا مگر پانچویں شام نئی گیند استعمال کرنے کے فیصلے پہ وہ مدافعتی ذہنیت کا شکار ہو گئے اور سرفراز احمد کی جارحیت سے خائف نظر آئے۔
بلاشبہ نئی گیند پہ رنز بننے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں اور سرفراز احمد کے سامنے یہ چال خطرہ مول لینے کے مترادف ہوتی۔ مگر یہ بھی طے ہے کہ اگر نئی گیند اپنے وقت پہ لے لی جاتی تو میچ کسی نہ کسی منطقی انجام تک ضرور پہنچتا۔
چوتھی شام بھی یہ نئی گیند ہی تھی جس کی سیم کو استعمال میں لا کر سوڈھی نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کو پریشان کیا تھا۔ پانچویں شام جبکہ پاکستان کا لوئر آرڈر میچ بچانے کی تگ و دو میں تھا، وہاں نئی گیند کے ہمراہ سوڈھی بہت مہلک ثابت ہو سکتے تھے۔
مگر ساؤدی کا مدافعانہ قدم میچ کو نتیجے سے دور لے گیا۔ اگرچہ بعد ازاں نئی گیند کا مبالغہ آمیز ٹرن ہی سرفراز کی داستان کو ادھورا چھوڑ گیا مگر یہ اننگز بہرطور سرفراز کے کرئیر کے چند یادگار ترین لمحات میں سے رہے گی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4eegqv303o | ’میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا‘ | پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔ اگرچہ میچ پر کیویز بالرز حاوی رہے مگر سرفراز نے سنچری بنا کر ان سے ایک یقینی جیت چھیننے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف مسلسل اچھی کارکردگی دکھانے پر وکٹ کیپر سرفراز احمد کو پلیئر آف دی میچ اور سیریز کے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔
سرفراز احمد نے سیریز میں مجموعی طور پر 335 رنز بنائے۔ انھوں نے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 78 جبکہ دوسری اننگز میں 118 رنز بنائے۔
اس موقع پران کا کہنا تھا کہ ’میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا۔ میں پہلے ٹیسٹ میں بہت دباؤ میں تھا لیکن لڑکوں اور کپتان نے مجھے اعتماد دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جب 140 رنز رہ گئے تھے تو مینیجمینٹ نے کہا کہ تمھیں جب ہٹ والی بال ملے تو سکور کرنے کی کوشش کرتے رہو۔ لیکن پھر دو وکٹیں گر گئیں اور ہمارا کھیلنے کا انداز بدل کیا۔ اگر وہ دو وکٹیں نہ گرتیں تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔‘
انھوں نے سنچری سے متعلق سوال پر کہا کہ ’یہ چوتھی اننگز میں بنائی گئی سنچری ہے تو خاص ہے، شاید میری بہترین (سنچری ہے)۔‘
کراچی کے شائقین سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا ہے۔ اور ہمیشہ ٹیم کو سپورٹ کیا ہے۔ ان سے درخواست ہے کہ ون ڈے میچز کے لیے ضرور آئیں۔‘
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز 319 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی دوسری اننگز جاری تھی کہ خراب روشنی کی وجہ سے میچ روک دیا گیا۔ یوں کراچی میں پاکستان اورنیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والا دوسرا ٹیسٹ میچ بھی ڈرا ہو گیا۔
پاکستان کو ابھی جیت کے مزید 15 رنز درکار تھے جبکہ نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے صرف ایک وکٹ درکار تھی۔
پاکستان کے آؤٹ ہونے والے آخری بلے باز سرفراز احمد تھے، جنھوں پاکستان کی جانب سے آج شاندار سنچری سکور کی ہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں سرفراز احمد کی چوتھی سنچری ہے۔ اس سیریز میں وہ تین نصف سنچریاں بھی بنا چکے ہیں۔
جمعے کو میچ کے آخری دن کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں جب پاکستان نے اپنی دوسری اننگز صفر سکور دو کھلاڑی آؤٹ پر دوبارہ شروع کی تو اوپنر امام الحق اور شان مسعود کو ہی پہلے اش سودھی اور پھر میٹ ہینری اور ساؤدی کی بولنگ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
امام الحق آج اش سودھی کے خلاف بے چین دکھائی دے رہے تھے اور بالآخر انھوں نے قدموں کا استعمال کرتے ہوئے سودھی کو سپن کے خلاف سٹروک کھیلنے کی کوشش کی لیکن گیند ان کے سٹپمس سے جا ٹکرائی۔
ان کے آؤٹ ہونے کے بعد بابر اعظم اور شان مسعود کے درمیان 42 رنز کی شراکت قائم ہوئی تو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اب پاکستان کی بیٹنگ سنبھل رہی ہے تاہم پھر آف سپنر بریسویل کی گیند پر بابر اعظم بدقسمتی سے ڈاؤن دی لیگ سائیڈ کیپر کو کیچ دے بیٹھے۔ بابر نے پانچ چوکوں کی مدد سے 27 رنز بنائے۔
ان کے آؤٹ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد شان مسعود بھی بریسویل کی گیند پر ولیمسن کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے اور یوں صرف 80 کے مجموعی سکور پر پاکستان کی نصف ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔
اس موقع پر پہلی اننگز میں ناقابلِ تسخیر سنچری سکور کرنے والے سعود شکیل نے سرفراز احمد کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کے لیے 123 رنز کی شراکت قائم کی اور پاکستان کو میچ میں واپس لے آئے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان نے بریسویل کی سانس بحال کر دی
بولرز جو شام کا سبق صبح بھول بیٹھے
خیال رہے کہ ان دونوں کے درمیان پہلی اننگز میں بھی 150 رنز کی شراکت قائم ہوئی تھی جس کے باعث پاکستان نیوزی لینڈ کے پہلے اننگز کے سکور کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔
چائے کے وقفے کے بعد سعود شکیل 146 گیندوں پر 32 رنز بنانے کے بعد بریسویل کی تیسری وکٹ بن گئے۔
تاہم سرفراز احمد نے دوسرا اینڈ سنبھالے رکھا اور ٹیسٹ کرکٹ میں نہ صرف اپنی چوتھی سنچری مکمل کی بلکہ وہ اس سیریز میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے باز بھی بن گئے۔
پاکستان کی ساتویں وکٹ اس وقت گری جب اسے میچ جیتنے کے لیے صرف 46 رنز کی ضرورت تھی۔ آؤٹ ہونے والے بلے باز آغا سلمان 30 رنز بنانے کے بعد میٹ ہنری کی گیند پر کلین بولڈ ہوئے۔
پاکستان کو آٹھواں نقصان حسن علی کی صورت اٹھانا پڑا جب وہ صرف پانچ رنز بنا کر ساؤدی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔
سرفراز احمد کے آؤٹ ہونے کے بعد نسیم شاہ اور ابرار احمد ابھی کریز پر موجود تھے کہ امپائرز نے خراب روشنی کے سبب میچ روکنے کا فیصلہ سنایا۔
سرفراز اس وقت پاکستان میں ٹرینڈ کر رہے ہیں اور طویل عرصے کے بعد ان کی ٹیم میں واپسی اور پھر عمدہ کارکردگی کو ان کے مداح نہ صرف سراہ رہے بلکہ وہ انھیں نظر انداز کرنے پر متعدد سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔
صارف محسن مہدی نے لکھا کہ ’چار سال سے جس کھلاڑی کا کریئر ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، آج اسی نے مین آف دی سریز کا ایوارڈ اٹھا لیا‘۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
شاہد ہاشمی نامی صارف نے سرفراز احمد کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے سنہ 2019 کے اس دن کو سیاہ قرار دیا جب سرفراز کو کپتانی سے ہٹایا گیا تھا اور پھر انھیں ٹیم سے ہی باہر کر دیا گیا۔
ان کے مطابق اب سرفراز نے یہ ثابت کیا کہ وہ فیصلہ جانبداری اور ناانصافی پر مبنی تھا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
فزیالوجی نامی صارف نے بھی سرفراز کے حق میں بھرپور دلائل دیے۔ انھوں نے کہا اگر نیوزی لینڈ کی ٹیم تین اور انگلینڈ کی ٹیم دو وکٹ کیپرز کے ساتھ ایک میچ کھیل سکتی ہے تو ایسے میں سرفراز کو اتنی عمدہ پرفارمنس کے باوجود ون ڈے سکواڈ سے کیوں ڈراپ کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہم سرفراز اور رضوان کے ساتھ بھی کھیل سکتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ایک بات تو صاف ہے کہ سرفراز نے دھوکہ نہیں دیا ہے‘۔
کراچی ٹیسٹ میں سرفراز احمد کی عمدہ بلے بازی پر پاکستانی شائقین بھی خوش نظر آئے۔
سروان علی پلیجو نے لکھا کہ سرفراز احمد نے کارنامہ کر ہی ڈالا۔ انھوں نے ٹیسٹ میچز میں نو برس کے وقفے کے بعد اپنی چوتھی سنچری مکمل کی ہے اور یہ ان کے ہوم گراؤنڈ کراچی میں ان کی پہلی سنچری ہے۔
کرک وک نامی صارف نے انھیں دی ہوم ٹاؤن ہیرو قرار دیا۔
صارف ڈاکٹر خرم خان نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ سرفراز احمد ہدف کے تعاقب میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، واپسی کے بعد پہلی سنچری مبارک ہو۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے پانچویں دن کے کھیل میں بابر اعظم اور شان مسعود کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ شان مسعود نے ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کے بعد سے خاصی جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس دوران وہ چھ اننگز میں ایک بھی نصف سنچری بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’شان مسعود کی جانب سے بیوقوفی کی گئی، پاکستان کا سکور اب 80/5 ہے اور نیوزی لینڈ پاکستان میں ایک اور سیریز جیتنے کے قریب ہے اور پاکستان ہوم گراؤنڈ پر لگاتار تیسری ٹیسٹ سیریز ہارنے والا ہے۔‘
دوسری جانب ایک صارف نے بابر اعظم کے ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں خراب سکورز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بابر جو یوں تو نام نہاد بادشاہ ہیں، دوسری اننگز میں کہاں چلے جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ بابر اعظم نے گذشتہ برس آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں 196 رنز کی بہترین اننگز کھیلی تھی تاہم یہ ان کی میچ کی چوتھی اننگز میں اکلوتی سینچری ہے اور مجموعی طور پر اس اننگز میں ان کی اوسط 36 کی ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cxx4j5y0kw2o | پاکستان نے بریسویل کی سانس بحال کر دی: سمیع چوہدری کا کالم | جب حریف عین نرغے میں آ چکا ہو اور وہیں لپک کر ٹینٹوا دبوچنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے تو ساری دانش دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور سانس بحال ہوتے ہی حریف پلٹ وار کرنے کی حیثیت میں آ جاتا ہے۔
مائیکل بریسویل سپن کی اس ورائٹی سے بالکل شناسا نہیں تھے جس سے ابرار احمد انھیں آزما رہے تھے۔ وہ جس مخمصے میں گِھر چکے تھے، اگر بابر اعظم وہیں ٹینٹوا دبوچنے کی کوئی تدبیر کر پاتے تو یقیناً کیوی اننگز اپنے انہدام کی سمت گامزن ہو جاتی اور پاکستان پہلی اننگز کی خطاؤں کا کفارہ چُکانے کے قابل ہو جاتا۔
پہلے سیشن میں میر حمزہ اور نسیم شاہ کی بولنگ نے کیوی ٹاپ آرڈر کو الجھائے رکھا اور حسن علی نے ہلکی سی ریورس سوئنگ کی جھلک ملتے ہی کیوی مڈل آرڈر میں دراڑ ڈال دی۔ یوں مائیکل بریسویل اپنی توقع سے کہیں پہلے ابرار احمد کی سپن کا امتحاں دینے کریز پہ پہنچے۔
یہ وہ موقع تھا جب بریسویل الجھے الجھے نظر آ رہے تھے۔ وہ ابرار کی انگلیوں کو پڑھ کر سپن کا تدارک کرنا چاہ رہے تھے مگر ان کی ساری کوششیں مضحکہ خیز ثابت ہو رہی تھیں۔ اگر حسن علی کا سپیل ختم ہونے کے بعد دوسرے کنارے سے بھی ان کے لیے سپن کا جال بچھا دیا جاتا تو معاملات یکسر مختلف ہو سکتے تھے۔
یہ سمجھنا دشوار ہے کہ چائے کے وقفے تک پہنچ کر یہ ٹیم کیوں تھکن سے چور نظر آنے لگتی ہے۔ تیسرے روز بھی جہاں سہہ پہر کے سیشن میں پاکستانی بیٹنگ بھرپور یلغار پہ مائل تھی، جانے چائے کے وقفے کے بیچ ایسا کیا بدلا کہ شام کا سیشن شروع ہوتے ہی اپروچ بدل چکی تھی اور کیوی بولنگ کی جارحیت کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا گیا۔
حالانکہ سعود شکیل اس مزاحمت سے بھرپور سینچری کے بعد وکٹ کی رگ رگ سے شناسا یو چکے تھے مگر سلمان آغا کی وکٹ گرتے ہی گویا ضبط کے بندھن سے ٹوٹے اور لوئر آرڈر باقی ماندہ کیوی برتری بے باق کرنے میں ناکام رہ گیا۔ جیسے مایوس کن رن ریٹ سے پاکستان نے سیشن کا آغاز کیا تھا، یہ نتیجہ بہرحال بعید از قیاس نہیں تھا۔
آج بھی جہاں پہلے دو سیشنز میں پاکستانی بولنگ نے شاندار ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیوی بیٹنگ کی کوتاہیوں کو آشکار کیا، وہیں چائے کے سیشن کے بعد یکبارگی بازی پلٹ گئی جب پاکستان نے سیشن کا آغاز ہی مدافعانہ سوچ کے تحت کیا۔
یہ بھی پڑھیے
بولرز جو شام کا سبق صبح بھول بیٹھے، سمیع چوہدری کا کالم
اگر ڈرا کا 'مزہ' بھی جیت سا لگنے لگے
اگر بابر اعظم بین سٹوکس سے ہی سیکھ لیتے
چائے کے وقفے کے عین بعد جب کچھ ریورس سوئنگ باقی تھی، وہاں اگر اٹیک میر حمزہ کی بجائے نسیم شاہ سے کروایا جاتا تو بلنڈل کے قدم بھی ضرور ڈگمگاتے اور دوسرے کنارے سے آتی ابرار احمد کی سپن کے لیے بھی امکانات کے نئے در کھلتے۔ مگر پاکستان نے لنچ کے بعد جس ڈسپلن اور جارحانہ اپروچ کا مظاہرہ کیا تھا، چائے کے بعد وہ ساری جارحیت ہوا ہو گئی۔
سلپ کے گوشے ویران پڑے تھے، فیلڈنگ باؤنڈریز پہ پہرہ دینے میں مگن تھے اور دو کیچز خالی سلپ کارڈن سے اڑتے اڑتے باؤنڈری پار بھی جا پہنچے۔
جہاں سے پاکستان واپس میچ پہ اپنی گرفت جما سکتا تھا، وہاں بیشتر توجہ اوورز کے بیچ وقت کھپانے پہ مرکوز رہی۔ ایک اعترافِ شکست اس چال ڈھال سے عیاں تھا۔ باقی ماندہ وکٹیں اڑانے کی بجائے وہ کیوی ڈکلئیریشن کا فیصلہ مؤخر کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔
پاکستان کی اس تمام تر کارکردگی میں فیلڈنگ کی کوتاہیاں خوب اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔ بلنڈل کو دو اضافی زندگیاں فراہم کی گئیں اور وہی بالآخر بریسویل کے ہمراہ کیویز کو اس سطح پہ لے گئے کہ جہاں سے میچ بچانا اب پاکستان کے لیے دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn064q63nn0o | کراچی ٹیسٹ کا چوتھا روز: نیوزی لینڈ کے خلاف 319 رنز کے تعاقب میں پاکستان کے دو کھلاڑی آؤٹ | کراچی میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف جاری دوسرے ٹیسٹ کے چوتھے روز کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ نیوزی لینڈ نے اپنی دوسری اننگز میں پانچ وکٹوں پر 277 رنز بنائے اور پھر اننگز ڈکلیئر کر دی۔ نیوزی لینڈ کے 319 رنز کے تعاقب میں پاکستان کے عبداللہ شفیق اور میر حمزہ آوٹ ہو کر واپس پویلین لوٹ گئے ہیں۔ پاکستان کو پانچویں دن یہ میچ جیتنے کے لیے 317 مزید رنز درکار ہیں جبکہ اس کی صرف آٹھ وکٹیں باقی ہیں۔
چوتھے روز کھانے کے وقفے کے بعد سے پاکستانی بولرز نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا، اور پاکستان دوسرے سیشن میں تین کھلاڑیوں کی راہ بھی دکھائی۔ فی الحال میچ پر نیوزی لینڈ کی گرفت خاصی مضبوط دکھائی دے رہی ہے اور پاکستان کو آخری روز ایک بڑے ہدف کا تعاقب کرنا ہو گا۔
پاکستان کی جانب سے دوسرے سیشن میں ابرار احمد، نسیم شاہ اور حسن علی نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ پورے سیشن کے دوران کئی ایل بی ڈبلیو شاؤٹس بھی ہوئے، جن پر ریویو بھی لیے گئے اور اس دوران سوشل میڈیا پر خراب امپائرنگ کی بازگشت بھی سنائی دی جاتی رہی۔
خیال رہے کہ چوتھے دن کا آغاز پاکستان نے 407 رنز نو کھلاڑیوں کے نقصان پر کیا لیکن اس میں صرف ایک ہی رن کا اضافہ ہو سکا کیوں کہ دن کے پہلے ہی اوور کی آخری گیند پر اش سودھی نے ابرار احمد کو ایل بی ڈبلیو کر کے پاکستان کی اننگز کو تمام کر دیا۔
نیوزی لینڈ کی اننگز کا آغاز بھی کچھ اچھا نہیں ہوا اور فاسٹ بولر میر حمزہ نے اپنی سپیل کی پہلی ہی گیند پر ڈیوون کانوے کو بولڈ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے
بولرز جو شام کا سبق صبح بھول بیٹھے، سمیع چوہدری کا کالم
’سعود شکیل کی جگہ یہ اننگز کین ولیمسن نے کھیلی ہوتی تو سب تعریف کرتے‘
نیوزی لینڈ کے 449 رنز کے جواب میں امام الحق کے 74 رنز، بابر اعظم کا رن آؤٹ زیرِ بحث
ان کی وکٹ کے بعد سے کپتان کین ولیمسن اور ٹام لیتھم نے کھانے کے وقفے تک 71 رنز کی شراکت قائم کی۔ ٹام لیتھم کے خلاف پاکستان نے ایک مرتبہ ریویو لیا، اور ایک مرتبہ امپائر نے انھیں آؤٹ دیا لیکن وہ دونوں ہی مرتبہ آؤٹ نہیں ہوئے۔
کھانے کے وقفے کے بعد ٹام لیتھم نسیم شاہ کا نشانہ بنے۔ ان کا خوبصورت کیچ ابرار احمد نے پکڑا۔ اس سے اگلے ہی اوور میں کین ولیمسن کی اہم وکٹ ابرار نے حاصل کی اور وہ بالآخر ولیمسن کو ایل بی ڈبلیو کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حسن علی جو اس میچ میں ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد واپسی کر رہے ہیں نے اپنی پہلی وکٹ حاصل کی اور ہینری نکلز کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ان کا کیچ بابر اعظم نے پکڑا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd135ep03gno | ہزاروں ٹکٹوں کی فروخت مگر رونالڈو آج سعودی کلب ’النصر‘ کے لیے اپنا افتتاحی میچ کیوں نہیں کھیل پائیں گے؟ | سٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کو سعودی کلب ’النصر‘ کے لیے اپنا پہلا میچ کھیلنے کے لیے فی الحال انتظار کرنا ہو گا کیونکہ وہ اس وقت انگلش فٹبال ایسوسی ایشن (ایف اے) کی جانب سے دو میچوں کی پابندی کا سامنا کر رہے ہیں۔
رونالڈو نے آج سعودی پرو لیگ کے کلب ’التاعی‘ کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلنا تھا۔ 37 سالہ فٹبالر نے رواں ہفتے ہی سعودی کلب ’النصر‘ کے ساتھ سالانہ 200 ملین (20 کروڑ) یورو کی ڈیل کی تھی یعنی انھیں سنہ 2025 تک سالانہ 200 ملین یورو کی ادائیگی کی جائے گی۔
رونالڈو کو گذشتہ ماہ ہی ان کے سابقہ کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کی جانب سے پیئرس مارگن کے ساتھ ایک تہلکہ خیز انٹرویو کے بعد ریلیز کیا گیا تھا جس کے بعد گذشتہ پیر کو وہ سعودی شہر ریاض پہنچے تھے جہاں اُن کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔
منگل کے روز ان کا میڈیکل ہوا تھا جس کے بعد انھیں النصر کے ہوم گراؤنڈ میں باقاعدہ طور پر خوش آمدید کہا گیا تھا۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے نئے ساتھیوں کے ساتھ کلب کے پہلے ٹریننگ سیشن میں حصہ لیا۔
النصر کو امید تھی کہ رونالڈو کا ڈیبیو جمعہ کے روز ہو گا اور انھوں نے ’التاعی‘ کے خلاف اپنے میچ کی 28 ہزار ٹکٹیں بھی فروخت کر دی تھیں۔
تاہم ان کو یاددہانی کروائی گئی ہے کہ رونالڈو پر انگلش فٹبال ایسوسی ایشن (ایف اے) کی جانب سے نومبر میں دو میچوں کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ پابندی دراصل اپریل میں مانچسٹر یونائیٹڈ کے ایورٹن کے خلاف میچ کے بعد پیش آنے والے واقعے کے باعث لگائی گئی تھی جب رونالڈو نے اپنے ایک مداح کا فون اُن (مداح) کے ہاتھ سے گرا دیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ مداح آٹسٹک (انسانی جسم کو لاحق ایک عارضہ) تھے اور انھوں نے رونالڈو کی جانب سے بعدازاں کی گئی معافی قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ رونالڈو مانچسٹر یونائیٹڈ کی 1-0 سے شکست کے بعد پلیئرز کی گزرگاہ کے لیے بنائی گئی سرنگ میں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے ایک نوجوان لڑکے ہاتھوں سے موبائل ہاتھ مار کر گرا دیا تھا جس پر انھیں مرسیسائیڈ پولیس کی جانب سے تنبیہ بھی کی گئی تھی۔
رونالڈ نے بعد میں سوشل میڈیا پر معذرت کرتے ہوئے ہوئے مداح کو اولڈ ٹریفرڈ سٹیڈیم پر ایک میچ دیکھنے کے لیے مہمان کے طور پر مدعو کیا تھا۔
انھوں نے اس دوران بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مشکل لمحات میں اپنے جذبات پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا لیکن اس سب کے باوجود ہمیں باوقار انداز اپناتے ہوئے اس خوبصورت کھیل سے محبت کرنے والے نوجوانوں کے لیے مثال قائم کرنی ہے۔‘
تاہم 14 سالہ جیک جنھیں آٹزم تھا انھوں نے نہ صرف رونالڈو کی یہ آفر ٹھکرا دی، بلکہ ان کی معافی قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
ورلڈکپ کے باعث رونالڈو پر یہ پابندی عائد نہیں ہو سکی تھی اور اب انھیں اس پابندی سے اپنے نئے کلب میں گزرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب نے رونالڈو پر کروڑوں ڈالرز کی بارش کیوں کی، کیا یہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا حصہ ہے؟
میسی کو پہنائی جانے والی عبا ’بشت‘ کیا ہے اور اس پر تنازع کیوں؟
کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟
فیفا کے قوانین کے مطابق اگر کسی کھلاڑی پر چار میچوں یا تین مہینے تک کی پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی ٹرانسفر تک اسے لاگو نہیں کیا جا سکا، تو اسے اس نئی ایسوسی ایشن پر لاگو کروانا لازم ہے جس کے ساتھ وہ رجسٹر ہوں گے۔
ایف اے کی جانب سے یہ پابندی عائد کرتے ہوئے بھی اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ رونالڈو کو اس پابندی کا سامنا اس وقت بھی کرنا پڑے گا اگر وہ کسی دوسرے ملک چلے جاتے ہیں۔
ایف اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کو ہر صورت میں لاگو کیا جائے گا چاہے رونالڈو کا مستقبل جو بھی ہو۔۔۔ اور اگر وہ مانچسٹر یونائیٹڈ چھوڑتے ہیں تو وہ جس بھی نئے کلب میں جاتے ہیں ان پر یہ پابندی لاگو ہو گی۔
اب النصر نے اپنا اگلا میچ 14 جنوری کو جبکہ تیسرا میچ 21 جنوری کو کھیلنا ہے اور شاید 21 جنوری کو ’اتفاق‘ کے خلاف میچ ہی رونالڈو کا لیگ میں ڈیبیو میچ ہو گا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے رونالڈو سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرنے کا کہا گیا ہے۔
ایمنسٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ النصر کی رونالڈو کو سائن کرنے کا فیصلہ دراصل سعودی عرب کی سپورٹس واشنگ سے متعلق وسیع تر پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے۔
’یہ عین ممکن ہے کہ رونالڈو کی ملک میں موجودگی کی تشہیر کے ذریعے سعودی حکام ملک کے بدترین انسانی حقوق کے ریکارڈ پر توجہ ہٹا سکتے ہیں۔ رونالڈو کو اپنی مقبولیت اور سیلبرٹی سٹیٹس کو سعودی ’سپورٹس واشنگ‘ کا آلہ کار نہیں بننے دینا چاہیے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
خیال رہے کہ رونالڈو کی سٹار پاور کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ ہفتے تک فٹبال کلب النصر کے انسٹاگرام پر صرف پانچ لاکھ فالوورز تھے، تاہم اب ان میں 86 لاکھ فالوورز کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد اب النصر کے انسٹاگرام فالوورز بڑھ کر 91 لاکھ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
سعودی عرب میں سوشل میڈیا پر لوگ رونالڈو کی پریکٹس کی ویڈیو بھی لگا رہے ہیں اور ان کی تعریف کر رہے ہیں۔ تاہم فٹبال کے کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر رونالڈو امریکہ کی لیگ کا انتخاب کرتے تو انھیں دیگر مواقع بھی دستیاب ہوتے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/clwngv2nz9yo | سعودی عرب نے رونالڈو پر کروڑوں ڈالرز کی بارش کیوں کی، کیا یہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا حصہ ہے؟ | فٹبال سٹار کرسٹیانو رونالڈو جب منگل کو سعودی عرب میں النصر کی جانب سے باقاعدہ تقریب میں میڈیا کے سامنے پیش ہوئے تو انھوں نے بےدھیانی میں سعودی عرب کو جنوبی افریقہ کہہ دیا۔
انھوں نے مانچسٹر یونائیٹڈ چھوڑنے کے بعد النصر میں شمولیت اختیار کی ہے۔
انھیں ریاض میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تو ان کا کہنا تھا یہاں ’فٹبال مختلف ہے، اس لیے میرے لیے جنوبی افریقہ آنا میرے کریئر کا اختتام نہیں ہے۔ میں اس لیے تبدیلی چاہتا ہوں اور سچ بولوں تو مجھے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔‘
انھوں نے کہا ’میں نے سب کچھ جیت لیا، میں نے یورپ کے اہم ترین کلبز کے لیے کھیلا اور اب ایشیا میں ایک نیا چیلنج ہوگا۔‘
میڈیا کانفرنس کے بعد انھوں نے ہزاروں مداحوں کی موجودگی میں اپنی النصر کی نئی جرسی میں تصویریں کھینچوائیں۔
النصر اور رونالڈو کے درمیان ہونے والی ڈیل کو اب تک کی سب سے مہنگی ڈیل کہا جا رہا ہے۔ النصر سنہ 2025 تک ہر سال رونالڈو کو تقریباً 200 ملین یورو یا 1800 کروڑ انڈین روپے ادا کرے گا۔
رونالڈو بےدھیانی میں سعودی عرب کی جگہ ساؤتھ افریقہ کہہ گئے لیکن یہ جنوبی افریقہ کے فٹبال مداحوں کو خواب دیکھنے سے تو نہیں روک سکا جو سوشل میڈیا پر مذاقاً یہ خواہش کرتے نظر آئے کہ دنیا کے معروف ترین کھلاڑی ان کے مقامی کلبز میں کھیلیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
نالا نامی خاتون نے سوچا ایسا ہوجائے تو کیا ہی بات ہے اور مذاقاً کہا کہ ان کی مقامی لیگ میں ’پارٹ ٹائم کھلاڑیوں کی بھی گنجائش ہے۔‘
ادھر جنوبی افریقہ کی سیاحت کی اتھارٹی بھی ایک ٹویٹ میں رونالڈو کی متنظر نظر آئی۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ایک صارف نے اس صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا ’آپ کو 200 ملین یورو کمانے کے لیے ملک کا نام معلوم ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ خیر ساؤتھ افریقہ میں خوش آمدید‘۔
ابھی ایک ماہ کا وقت بھی نہیں گزرا جب پرتگال کی فٹبال ٹیم کے کپتان کرسٹیانو رونالڈو کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں مراکش کے ہاتھوں ایک صفر کی شکست کے بعد چشم تر کے ساتھ میدان چھوڑتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
پرتگال کو شکست دے کر مراکش ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے والا پہلا افریقی عرب ملک بن گیا۔
ورلڈ کپ جیتنے کا خواب چکنا چور ہونے کے چند ہفتوں بعد اب پرتگال کے کپتان کرسٹیانو رونالڈو نے یورپی فٹبال کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کو چھوڑ کر سعودی عرب کی النصر میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
حالیہ ورلڈ کپ رونالڈو کے لیے کچھ خاص نہیں تھا۔ آخری دو گیمز میں انھیں شروع میں ہی میدان سے باہر بیٹھا دیا گیا۔ رونالڈو نے اس سیزن میں مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیے 16 میچوں میں صرف تین گول کیے جن میں سے ایک گول پنلٹی پر تھا۔
اس کے باوجود رونالڈو کی النصر میں شمولیت پر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں زبردست جوش و خروش پایا جا رہا ہے۔
النصر کلب نے سوشل میڈیا پر ٹیم کی جرسی کے ساتھ رونالڈو کی تصویر شیئر کرکے جوش کا اظہار کیا ہے۔
بہر حال بعض ماہرین 37 سالہ رونالڈو کے النصر کے ساتھ ہونے والے مہنگے معاہدے کو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی معاشی پالیسی سے بھی جوڑ رہے ہیں، جس کا ہدف مغربی ممالک کو پیچھے چھوڑ کر سعودی عرب کو عالمی طاقت کے طور پر ابھارنا ہے۔
سعودی عرب کی فٹبال ٹیم نے 22 نومبر کو قطر ورلڈ کے اپنے افتتاحی میچ میں ارجنٹائن کو دو ایک سے شکست دے کر بڑا اپ سیٹ کیا تھا۔
میچ کے روز سعودی وزارتیں، سرکاری ادارے، سکول اور یونیورسٹیاں وقت سے پہلے بند کر دی گئیں تاکہ لوگ وہ میچ دیکھ سکیں۔
سعودی عرب کی فتح کے بعد شاہ سلمان نے اگلے روز قومی تعطیل کا اعلان کر دیا۔
سعودی فتح نہ صرف ملک بلکہ پورے خطے کے لیے جوش و خروش سے لبریز تھی۔ سوشل میڈیا پر دیگر عرب ممالک کے لوگوں نے بھی سعودی عرب کی فتح کو اپنی فتح کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔
یہ جیت محض اتفاق نہیں تھی۔ سعودی عرب کے وزیر کھیل شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے بتایا کہ ان کی ٹیم تین سال سے اس ایونٹ کی تیاری کر رہی تھی۔ وزارت کھیل کا اس طرح فٹبال کی حوصلہ افزائی کرنا اس کی سمت اور ہدف کا واضح اشارہ دیتا ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو قطر ورلڈ کپ کے دوران کئی بار فیفا کے سربراہ جی وی انفینٹینو کے ساتھ دیکھا گیا۔ سنہ 2016 میں محمد بن سلمان کے ’وژن 2030‘ کے تحت کھیلوں کو ترجیحات میں شامل کیا گیا تھا۔
اس کے بعد سعودی عرب میں کھیلوں کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔
وژن 2030 میں کھیلوں کے متعلق تین اہداف طے کیے گئے ہیں اور اس کے تحت سنہ 2030 تک کھیلوں میں عوام کی شرکت کو 40 فیصد تک بڑھانا، بیرون ملک سعودی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور کھیلوں کی معیشت کو فروغ دینا ہے۔
فٹبال صحافی اوری لیوی کے مطابق رونالڈو کا سعودی عرب پہنچنا بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ انھوں نے محمد بن سلمان کی ایک ویڈیو ٹویٹ کی ہے جس میں سعودی ولی عہد کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اب نیا یورپ بنے گا۔
ویڈیو میں ولی عہد کا کہنا ہے کہ ’اگلے پانچ سالوں میں سعودی عرب بالکل مختلف ہو جائے گا، بحرین بالکل مختلف ہو گا، کویت۔۔۔ یہاں تک کہ قطر بھی۔۔۔ ساتھ ہمارے اختلافات کے باوجود بھی۔۔۔ ان کی معیشت مضبوط ہے اور اگلے پانچ سالوں میں بالکل مختلف نظر آئیں گے۔ متحدہ عرب امارات، عمان، لبنان، اردن، مصر، عراق اور یہاں جو مواقع ہیں۔۔۔ اگر ہم اگلے پانچ سالوں میں کامیاب رہے تو بہت سے ممالک ہمارے نقش قدم پر چلیں گے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
ولی عہد کا کہنا ہے ’اگلے 30 سالوں میں مشرق وسطیٰ میں نیا عالمی نشاۃ ثانیہ ہوگا۔ یہ سعودی کی جنگ ہے۔ یہ میری جنگ ہے اور میں اس لڑائی میں اس وقت تک مرنا نہیں چاہتا جب تک میں مشرق وسطیٰ کو دنیا کی قیادت کرتے ہوئے نہ دیکھوں۔ ہدف صد فیصد حاصل ہو کر رہے گا۔‘
آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جیو پولیٹیکل ایشوز پر اپنی رائے دینے والے گوکل ساہنی نے بھی ایم بی ایس کی یہی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ شاید سعودی عرب اب مذہبی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر ایک معیاری اور زیادہ عملی ’قوت‘ بن چکا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
کرسٹیانو رونالڈو کو سائن کرنے کے بعد النصر نے ٹویٹ کیا ’تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف ہمارے کلب کو بڑی کامیابی کی طرف گامزن کرے گا بلکہ ہماری لیگ، ہمارے ملک اور آنے والی نسلوں، لڑکے اور لڑکیوں کی اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے بھی حوصلہ افزائی کرے گا۔‘
معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے رونالڈو نے کہا کہ ’میں ایک مختلف ملک میں فٹ بال لیگ کا تجربہ کرنے کے لیے پرجوش ہوں۔‘
رونالڈو نے کہا ’النصر جس وژن کے ساتھ کام کر رہا ہے اور سعودی عرب جس طرح مردوں اور خواتین کی فٹبال کے حوالے سے ترقی کر رہا ہے وہ متاثر کن ہے۔ ہم ورلڈ کپ میں سعودی عرب کی حالیہ کارکردگی سے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ فٹبال میں بڑی صلاحیتوں کا حامل ملک ہے۔‘
یقیناً اس ڈیل نے رونالڈو کو تاریخ کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا فٹبالر بنا دیا ہے لیکن سعودی عرب بھی ان کی عالمی شہرت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
مڈل ایسٹ اکانومی نامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ رونالڈو 2030 فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے سعودی عرب کی بولی کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب رونالڈو کی آمد کے ساتھ ہی اب میڈیا کی پوری توجہ سعودی فٹبال کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟
رونالڈو کی سعودی کلب میں شمولیت: ’انھیں ہر دن کے ساڑھے پانچ لاکھ یورو ملیں گے‘
ویب سائٹ نے سعودی وزیر سیاحت احمد الخطیب کے حوالے سے کہا ہے کہ سعودی عرب مصر اور یونان کے ساتھ سنہ 2030 فیفا ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کی تجویز دے سکتا ہے۔
احمد الخطیب نے ایک انٹرویو میں کہا ’ہم مصر اور یونان کے ساتھ مل کر اس کے لیے ایک تجویز دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور امید ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ تینوں ممالک بنیادی ڈھانچے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کریں گے اور بالکل تیار ہوں گے۔ اور میں جانتا ہوں کہ سعودی عرب میں اس وقت تک خصوصی سٹیڈیمز بن چکے ہوں گے۔‘
سعودی عرب کو پہلے ہی کھیلوں کے دیگر بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی مل چکی ہے جن میں سالانہ فارمولا ون ریس اور ایشین ونٹر گیمز 2029 شامل ہیں۔
رونالڈو جس النصر کلب سے منسلک ہوئے ہیں وہ سنہ 1955 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کلب ملک کی سعودی پروفیشنل لیگ (ایس پی ایل) میں کھیلتا ہے، جس میں کل 18 ٹیمیں ہیں۔
لیگ کے سب سے زیادہ گول کرنے والے ماجد عبداللہ نے بھی النصر کی جانب سے کھیلتے ہوئے ہر میچ میں ایک کی اوسط سے مجموعی طور پر 189 گول کیے ہیں۔ النصر ایس پی ایل کی دوسری کامیاب ترین ٹیم ہے جو اب تک نو مرتبہ ٹائٹل جیت چکی ہے۔ آخری بار النصر نے یہ ٹائٹل سنہ 2018-2019 میں جیتا تھا۔ سب سے زیادہ ٹائٹل جیتنے کے معاملے میں النصر سے آگے صرف الہلال کلب ہے۔
النصر کے موجودہ کوچ روڈی گارشیا ہیں۔ اس کلب میں کیمرون کے سابق ورلڈ کپ ہیرو ونسنٹ ابوبکر اور برازیل کے سابق مڈفیلڈر لوئیز گسٹاوو بھی شامل ہیں۔
گول ڈاٹ کام کی خبر کے مطابق سعودی شہزادے عبدالرحمان بن سعود آل سعود نے سنہ 1960 میں کلب کی کمان سنبھالی تھی۔ انھوں نے النصر کو ملک کے بہترین کلبوں میں سے ایک بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ 2004 میں ان کی موت کے بعد بھی کلب کو سعودی شاہی خاندان سے مالی امداد ملتی رہی ہے اور کلب بڑے کھلاڑیوں کو راغب کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
گذشتہ سال ہی ایک اور سعودی ٹیم الہلال نے بھی رونالڈو کو پیشکش کی تھی۔ لیکن اس وقت رونالڈو نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور کہا تھا کہ وہ مانچسٹر یونائیٹڈ میں خوش ہیں۔
تاہم مانچسٹر یونائیٹڈ کے ساتھ بات چیت اس وقت بگڑ گئی جب رونالڈو نے گذشتہ سال نومبر میں ایک انٹرویو کے دوران کلب کے منیجر ایرک ٹین سے خوش نہ ہونے کا اظہار کیا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyewxydzj4po | نیوزی لینڈ کے 449 رنز کے جواب میں امام الحق کے 74 رنز، بابر اعظم کا رن آؤٹ زیرِ بحث | پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرے ٹیسٹ کے دوسرے دن پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 154 رنز بنا لیے ہیں۔
اس وقت نیوزی لینڈ کو 295 رنز کی برتری حاصل ہے۔
کراچی میں کھیلے جا رہے اس ٹیسٹ کے دوسرے دن جب میچ کا آغاز ہوا تو نیوزی لینڈ نے اپنی بیٹنگ جاری رکھی اور کُل 449 رنز بنا کر کھانے کے وقفے کے کچھ دیر بعد اپنی اننگز مکمل کی۔
جب پاکستان نے اپنی اننگز کی شروعات کی تو اسے چائے کے وقفے تک دو وکٹوں کا نقصان ہو چکا تھا۔ پاکستان کی جانب سے امام الحق نے 74 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے جبکہ عبداللہ شفیق 19، شان مسعود 20، اور کپتان بابر اعظم 24 رنز بنا کر پویلین واپس لوٹ گئے۔
اوپنر عبد اللہ شفیق میٹ ہینری کی گیند پر پُل کھیلنے کی کوشش میں سکویر لیگ پر کیچ دے بیٹھے جبکہ شان مسعود کٹ کھیلتے ہوئے اعجاز پٹیل کا شکار بنے۔
دوسری طرف نیوزی لینڈ کے خلاف محمد ابرار نے چار جبکہ نسیم شاہ اور آغا سلمان نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں۔
آج بابر اعظم اور امام الحق کی شراکت کے دوران بابر اعظم کا رن آؤٹ ہونا بھی زیرِ بحث رہا۔ ٹوئٹر پر صارفین اس حوالے سے بحث کرتے دکھائی دیے کہ غلطی امام الحق کی تھی یا پھر بابر اعظم کی۔
کرکٹ تجزیہ کار مظہر ارشد نے لکھا کہ بابر اعظم اپنے 47 ٹیسٹ میچز کے کریئر میں اب تک چھ مرتبہ رن آؤٹ ہو چکے ہیں جبکہ پاکستانی کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ رن آؤٹ ہونے والے میانداد 17 برس میں آٹھ مرتبہ رن آؤٹ ہوئے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
کئی لوگوں نے اس رن آؤٹ کو اپنے مبینہ دھوکے باز دوستوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دوست دوست نہ رہا۔ ‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ایک اور صارف نے لکھا کہ اُنھیں لگتا ہے کہ اگر امام کی جگہ رضوان ہوتے تو وہ خود آگے آ کر رن آؤٹ ہو جاتے لیکن اپنے کپتان کو کھیلنے دیتے کیونکہ رضوان کپتان کی اہمیت کو جانتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
طیبہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ معلوم ہے کہ غلطی ہوئی ہے اور اس کے لیے ہم سب نے امام الحق پر تنقید کی ہے مگر بہت ہو گیا کیونکہ اب یہ ذاتی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب ہماری ٹیم ہیں، ہمارے کھلاڑی ہیں، نفرت کرنی بند کریں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
دوسرے روز کا آغاز نیوزی لینڈ نے چھ وکٹوں کے نقصان اور 309 کے سکور پر کیا۔
میر حمزہ نے پہلا اوور میڈن کرایا جس کے بعد اگلے ہی اوور میں نسیم شاہ نے اش سودھی اور ٹام بلنڈل کے درمیان 30 رنز کی شراکت توڑ دی جو گذشتہ روز کے اختتام تک پاکستان کے لیے مشکل کا باعث بن رہی تھی۔
یہ نسیم کی تیسری وکٹ تھی اور کین ولیمسن کی وکٹ کی طرح انھوں نے عمدہ آؤٹ سوئنگ ڈالی تھی جو سودھی کے بلے سے پاس سے گزر کر آف سٹمپ کی نوک سے ٹکرائی۔
سودھی کی جگہ ٹِم ساؤتھی کریز پر آئے جنھوں نے پچھلے میچ کے برعکس اس بار دفاعی حکمت عملی اپنائی اور پاکستانی بولرز کو تھکانے کی کوشش کی۔ انھوں نے بلنڈل کے ساتھ 31 رنز کی شراکت بنائی۔
ٹام بلنڈل 108 گیندوں پر 51 رنز بنا کر اس وقت آؤٹ ہوئے جب ابرار احمد کی کیرم بال بلے کے نیچے سے کھسک کر انھیں بولڈ کر گئی۔ یہ گیند کافی حد تک نیچے بیٹھی تھی اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی بلے بازوں کو بھی اپنی اننگز میں گیند کے ان ایون باؤنس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگلے اوور میں ابرار نے سلو لیگ سپن ڈالی جس پر ساؤتھی نے قدم بڑھا کر چھکا لگانا چاہا تاہم گیند کی اچھی سپن سے وہ چوک گئے اور اسی کے ساتھ وکٹ کیپر سرفراز نے انھیں سٹمپ کر دیا۔ ساؤتھی نے 37 گیندوں پر 10 رنز بنائے تھے۔
آخری کیوی بلے اعجاز پٹیل میٹ ہنری کے ساتھ کریز پر پہنچے۔ حسن علی کے اوور میں ہنری نے ایک چوکا اور ایک چھکا لگایا جس سے نیوزی لینڈ کا سکور 350 سے آگے چلا گیا۔
ہنری کی بیٹنگ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے ہر گیند ان کے بلے کے ٹھیک بیچ میں لگ رہی ہے۔ انھوں نے حسن کے بعد نسیم کے اوور میں بھی چھکا لگایا اور اعجاز پٹیل کے ساتھ ایک برق رفتار نصف سنچری شراکت مکمل کی۔
ہنری نے 42 گیندوں پر اپنے کیریئر کی پہلی نصف سنچری بھی مکمل کی جس میں چھ چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔
نیوزی لینڈ نے پہلے سیشن میں 124 رنز بنائے اور تین وکٹیں گنوائیں جس میں میٹ ہنری اور اعجاز پٹیل کے درمیان آخری وکٹ کی شراکت کے 88 رنز شامل ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
ابرار احمد پہلے چار ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی بولر بن گئے ہیں۔ انھوں نے اب تک 26 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ اس فہرست میں دانش کنیریا کی 25، شبیر احمد اور یاسر شاہ کی 23، 23 وکٹیں شامل ہیں۔
ابرار احمد کی کارکردگی اور ہنری کی اننگز سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کرتی رہی۔
صنان نے اپنی رائے دی کہ دانش کنیریا کی طرح وکٹیں لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ’اس دوران وہ بہت زیادہ رنز دیتے ہیں۔ امید ہے شاہین کی واپسی سے یہ تبدیل ہو گا۔‘
جاکس نامی صارف نے کہا کہ کیوی بلے بازوں کی آخری وکٹ کی شراکت نے پاکستان کو کافی نقصان پہنچایا جبکہ فرحان نے تبصرہ کیا کہ ’حسن علی کی اچھی دھلائی ہو رہی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
حسین مقبول کا کہنا تھا کہ پاکستان نے خراب بولنگ کے باعث آخری وکٹ کے لیے 50 رنز لیک کیے۔
گذشتہ روز آئس لینڈ کرکٹ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ ٹویٹ کی گئی تھی کہ کراچی کی فلیٹ وکٹ کسی روڈ کی طرح ہے جس پر ’ٹول ٹیکس‘ ہونا چاہیے۔ اسی طرح تنزیل نے کہا کہ ’مسئلہ پچ میں نہیں۔۔۔ پاکستان نے صبح جو برتری حاصل کی تھی، نیوزی لینڈ نے اسے حذف کر دیا۔‘
یاسر نے کہا کہ پاکستانی شائقین کو یہ امید تھی کہ نیوزی لینڈ کا سکور 350 رنز تک ہوگا مگر بلے بازوں کے لیے برتری لینا مشکل ہوگا۔ ’بات صرف پچ کی نہیں، یہ بھی اہم ہے کہ آپ کیسی بولنگ اور بیٹنگ کرتے ہو۔‘
ادھر فرشتہ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’ولیمسن کے بجائے ہنری ہمیں ٹارچر کرنے آ گیا۔‘
عائشہ نے ردعمل دیا کہ ’میٹ ہنری کو 50 کراؤ شاباش، سب کو ہیرو بنانے کا ٹھیکہ ہم نے ہی تو لیا ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 8
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 9
فاطمہ نامی صارف نے ہنری اور پٹیل کو فلم لیجنڈ آف مولا جٹ کا میم تجویز کیا جس میں نوری نت کہتا ہے: ’بس کر سوہنیا، بس کر۔‘
جبکہ ایک انڈین صارف نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’ٹیل اینڈرز کی وکٹیں لینے میں پاکستانی بولرز ہمارے انڈین بولرز کی کاپی کیوں کر رہے ہیں؟‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 10
کاشف منگول نے لکھا کہ ہم سیریز کی میزبانی کر رہے ہیں مگر نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اسی پچ پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی بیٹنگ ٹیم مشکلات کی شکار تھی۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 11 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3g5jq1p7no | دوسرا ٹیسٹ: فلیٹ وکٹ، کانوے کی سنچری اور آغا سلمان، نسیم شاہ کی عمدہ بولنگ | پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کراچی میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ نے پہلے دن چھ وکٹوں کے نقصان پر 309 رنز بنائے، تاہم کرکٹ کے شائقین جس پر بات کرتے رہے وہ فلیٹ بیٹنگ وکٹ، آغا سلمان اور نسیم شاہ کی بولنگ اور سرفراز احمد کے عمدہ کیچز تھے، خصوصاً وہ جس میں انھوں نے خطرناک کین ولیمسن کو آؤٹ کیا۔
پہلے دن کا پہلا سیشن نیوزی لینڈ کے نام رہا، جس میں نیوزی لینڈ نے 30 اوورز میں بغیر کوئی وکٹ کھوئے 119 رنز بنائے۔
دوسرے سیشن میں 28 اوورز میں نیوزی لینڈ نے ایک وکٹ گنوا کر 107 رنز بنائے۔ یہ وکٹ ٹام لیتھم کی تھی جو 71 رنز بنا کر نیسم شاہ کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد دوسری وکٹ ڈیون کانوے کی گری جو ایک خوبصورت اننگز کھیلنے کے بعد 122 رنز بنا کر آغا سلمان کی گیند پر سرفراز کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
یہ ان کی مجموعی طور پر چوتھی لیکن ایشیا میں پہلی ٹیسٹ سنچری تھی۔ جب وہ آؤٹ ہوئے اس وقت نیوزی لینڈ کا سکور 234 تھا۔ ان کے فوراً بعد صرف چھ رنز کے اضافے کے بعد 240 کے سکور پر کین ولیمسن آؤٹ ہو گئے۔ انھوں نے انفرادی طور پر 36 رنز بنائے۔
کھیل کے تیسرے سیشن کے اختتام تک نیوزی لینڈ نے چار وکٹوں کے نقصان پر 260 رنز بنائے تھے۔
آغا سلمان نے چوتھے سیشن میں ڈیرل مچل اور ہینری نکلز کو بھی آؤٹ کیا۔
دوسرے ٹیسٹ میں ابھی تک پاکستان کے مسٹری سپنر ابرار احمد وکٹیں حاصل کرنے میں اس طرح کارگر ثابت نہیں ہوئے جس طرح وہ انگلینڈ کے خلاف اپنے ڈیبیو میں ہوئے تھے۔ ان کے برعکس آغا سلمان نے بہت نپی تلی بولنگ کی اور 20 اوورز میں 55 رنز کے عوض تین وکٹیں حاصل کیں۔ ان کا اکانومی ریٹ بھی دو اعشاریہ 75 رہا۔
حسن علی کراچی ٹیسٹ کے پہلے دن کوئی وکٹ نہ حاصل کر سکے۔
پہلے دن کے اختتام پر نیوزی لینڈ نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 309 رنز بنائے تھے۔ اس میں آغا سلمان نے تین، نسیم شاہ نے دو جبکہ ابرار احمد نے ایک وکٹ حاصل کی تھی۔
پہلے دن کی سمری: پہلے سیشن میں نیوزی لینڈ کھیل پر حاوی رہا اور اس کے بعد زیادہ تر دن آغا سلمان کا تھا۔ انھوں نے نپی تلی مگر عمدہ بولنگ کر کے شائقین کو محظوظ کیا۔ نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین کراچی میں ہونے والا سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ ڈرا رہا تھا۔
ہر میچ کے دوران اور اننگز کے اختتام پر پاکستان میں ٹوئٹر پر کسی نہ کسی کھلاڑی کا نام ٹرینڈ کرنے لگتا ہے اور آج دن کے اختتام پر جس کھلاڑی سے متعلق سب سے زیادہ ٹوئٹس سامنے آ رہی ہیں وہ میر حمزہ ہیں۔
فاسٹ بولر میر حمزہ نے اب تک تیرہ اوورز کیے ہیں اور پچاس رنز دے کر کوئی وکٹ حاصل نہیں کی ہے۔
میر حمزہ کراچی میں ہی کھیلے جانے والے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں بھی کوئی وکٹ حاصل نہیں کر پائے تھے۔
میر حمزہ نے اپنا پہلا ٹیسٹ اکتوبر 2018 میں آسٹریلیا کے خلاف ابو ظہبی میں کھیلا تھا جس میں انھوں نے ایک وکٹ حاصل کی تھی۔
جہاں بہت سے لوگ ان کی اس کارکردگی پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں صارف راشد خان کا کہنا تھا کہ ہمیں اتنی جلدی اپنی رائے نہیں دینی چاہیے ’ہمیں انھیں کچھ وقت دینا چاہیے، انھوں نے اس وقت کا بہت انتظار کیا ہے اس لیے انھیں ایک پوری سیریز تو دیں۔‘
ایضا سید نامی صارف نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ میر حمزہ ’معمولی‘ کھلاڑی ہیں تو ان کی سمجھ سے باہر پہ کہ ان کی ’اتنی پی آر کیوں؟‘
اس کے جواب میں ’کوئی فرق نہیں پڑتا‘ نامی صارف نے لکھا ’وہ اچھے ہیں لیکن بدقسمت۔ لیکن یہ پاکستانی لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اسے سپورٹ نہیں کرتے جو ٹیم میں ہو اور میر حمزہ کے لیے روتے رہے تو اب کیا بدل گیا ہے؟‘
بعض صارفین نے کہا کہ اسی وکٹ پر نسیم شاہ نے وکٹیں لی ہیں تو میر حمزہ کیسے ’بدقسمت‘ ہوئے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام |
https://www.bbc.com/urdu/articles/czk93zxr0e2o | آفریدی اور بابر ’ایک پیج‘ پر: ’یہ جملہ سن کر لگتا ہے ضرور کوئی گڑبڑ ہے‘ | آپ نے کئی بار سیاست میں سنا ہوگا کہ ’ہم ایک پیج پر ہیں۔‘ مگر اب اس اصطلاح کا استعمال کھیلوں کے میدان کے حوالے سے بھی ہونے لگا ہے۔
پاکستان میں سیاستدان اچھے سول ملٹری تعلقات کے لیے اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’ہم ایک پیج پر ہیں۔‘ مگر گذشتہ روز پاکستانی کرکٹ ٹیم کے عبوری چیف سلیکٹر شاہد آفریدی نے کہا کہ ان کی قیادت میں سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ دونوں ’تقریباً ایک ہی پیج پر ہیں۔‘
شاہد آفریدی نے اس حوالے سے بھی زور دیا ہے کہ ان کے آنے سے مقامی پچز میں کوئی ’بہت بڑا فرق نہیں ہوگا‘ مگر بولرز کے لیے انھیں سازگار بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
دریں اثنا کراچی میں آج نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا ہے جس میں شائقین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے پی سی بی نے داخلہ مفت کر رکھا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں سلیکشن کمیٹی کپتان بابر اعظم اور ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق سے ملاقات کرتی ہے اور بعد میں شاہد آفریدی اس میٹنگ کا احوال بیان کرتے ہیں۔
عبوری چیف سلیکٹر شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ ’ہماری ہیڈ کوچ (ثقلین مشتاق) اور (کپتان) بابر اعظم کے ساتھ بڑی زبردست میٹنگ رہی ہے۔ بڑا مثبت ردعمل ملا، مجھے بہت اچھا لگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پلانز ہیں کہ اچھی، تگڑی، پازیٹیو کرکٹ ہونی چاہیے اور پچز بھی اسی حساب سے بننی چاہییں جس میں اِکسائٹمنٹ ہو۔ لوگ میچز دیکھیں۔‘
’بابر اور ثقلین مشتاق کا رسپانس عمدہ رہا، کرکٹ کی بہتری کے لیے ہم لوگ مل کر کام کرتے رہیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیے
اگر ڈرا کا 'مزہ' بھی جیت سا لگنے لگے
شاہد آفریدی کے پلان پر ’ویل ڈن لالا‘ کی گونج مگر دور اندیشی پر حیرت
’فخر کو سکواڈ میں شامل کریں ورنہ ہم پی سی بی ہیڈکوارٹر آ رہے ہیں‘
شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ پاکستان ٹیم پہلے نمبر پر آئے، دوسرے نمبر پر بھی آسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے پچز کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے۔ اچھی پچز ہونی چاہییں۔ ہم نئے کھلاڑیوں کے دلوں میں خوف کو نکالنا چاہتے ہیں تاکہ یہی کھلاڑی آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، انگلش ماحول میں اچھی، تگڑی کرکٹ کھیلیں۔ اس کے لیے آپ گھر سے تیاری کر کے جاتے ہیں۔‘
تاہم عبوری چیف سلیکٹر نے واضح کیا کہ پچز میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہوگا۔ ’اچھی پچز ہوں گی۔ ہم چاہتے ہیں نئے بولرز اس پچ پر اچھا پرفارم کریں۔‘
شاہد آفریدی نے کہا کہ ان کی بابر اعظم سے سلیکشن کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ ’ہماری نئی ٹیم ہے، اتفاق ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی تقریباً ایک ہی پیج پر ہیں۔
’ہماری دلائل کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں سے متعلق بحث، ان کی ماضی اور ڈومیسٹک کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر ٹیم بناتے ہیں۔ بڑے اچھے ماحول میں سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کا رابطہ ہوا ہے۔ ہم ایک ہی پیج پر ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے جس میں بعض کی نظریں ٹیبل پر پڑے بسکٹوں پر پڑیں تو کچھ نے یہ نوٹ کیا کہ کیسے ثقلین مشتاق میٹنگ کے دوران فون پر سکرول کر رہے ہیں۔
اظفر نامی صارف نے کہا کہ ’پیچھے لوگ کھانے میں مصروف ہیں، یہ سیریسنس کا حال ہے۔‘ جبکہ ایک صارف نے لکھا کہ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کوئی مسائل نہیں، سب کو ایک کمرے میں بٹھا کر ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
کچھ صارفین نے اپنی پوسٹ میں بابر اور ثقلین کے سنجیدہ چہروں پر ’مثبت ردعمل‘ کا جملہ لگایا۔ بلیزا نے لکھا کہ ’بابر کا چہرہ۔ یا اللہ خیر۔ مجھے یہ مثبت نہیں لگ رہا۔‘
تقویم سلطان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ بار بار کہا جائے کہ ’ہم ایک ہی پیج پر ہیں‘ تو لگتا ہے کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس ویڈیو سے سلیکشن کمیٹی نے اچھا پیغام دیا ہے۔
جیسے شہریار کہتے ہیں کہ ’شاہد آفریدی کپتان کے ساتھ بیٹھ کر اچھا کام کر رہے ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
دریں اثنا کچھ صحافیوں نے کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں جن میں شاہد آفریدی سمیت سلیکشن کمیٹی کے دیگر لوگ اپنی بہتر پچز کے لیے کیوریٹرز سے بات چیت کر رہے ہیں۔
اس سے قبل کراچی میں صحافیوں سے گفتگو میں شاہد آفریدی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مختصر دورانیے کے لیے چیف سلیکٹر بنے ہیں اور اپنی فاؤنڈیشن و دیگر مصروفیات کی وجہ سے لمبے عرصے تک اس عہدے پر نہیں رہیں گے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے سلیکشن کمیٹی پر اعتماد ہے۔ میں اکیلے شو چلانے پر نہیں بلکہ پاور شیئرنگ پر یقین کرتا ہے۔‘
انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بتایا تھا کہ فٹنس ٹیسٹ کے بعد فخر زمان اور حارث سہیل کو ممکنہ ون ڈے سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckr3zzkz5r8o | سڑک حادثہ جس میں ایک آل راؤنڈر عین جوانی میں دنیا سے گیا لیکن دوسرا بعد میں عظیم آل راؤنڈر بنا | انڈین کرکٹر رشبھ پنت ایک خطرناک ٹریفک حادثے کے بعد اب خطرے سے باہر ہیں اور یہ نہ صرف ان کے چاہنے والوں، اہل خانہ بلکہ انڈین کرکٹ کے لیے باعث تسکین ہے۔
صبح سویرے دہلی سے دہرادون 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک لمحے کی جھپکی نے ان کی گاڑی کو ٹین کے ڈبے میں بدل کر رکھا دیا، تاہم خوش قسمتی اور بروقت مدد کی وجہ سے وہ اب خطرے سے باہر ہیں۔
اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ایسا حادثہ کسی کرکٹر کو کتنا بدل سکتا ہے تو آپ کو 63 سال پہلے ہونے والے ایک کار حادثے کے بارے میں جاننا چاہیے۔
وہ حادثہ چھ ستمبر سنہ 1959 کو ریڈکلف سے لندن آنے والی سڑک پر سٹیفورڈ شائر کے قریب پیش آیا۔ اس وقت اس گاڑی میں تین بین الاقوامی کرکٹرز سوار تھے، جن میں سے ایک کا انتقال ہو گیا، دوسرا پھر کبھی انٹرنیشنل کرکٹ میں نظر نہیں آیا، لیکن تیسرے نے وہ تمام کارنامے انجام دیے، جو آج بھی کسی کھلاڑی کے لیے خواب سے کم نہیں ہیں۔
اس حادثے کے وقت ویسٹ انڈیز کے تین کرکٹرز کار میں سفر کر رہے تھے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق چار کرکٹرز کو وہاں آنا تھا لیکن چوتھے کرکٹر وقت پر نہیں پہنچ سکے۔
یہ تین کرکٹرز کولی اسمتھ، ٹام ڈیوڈنی اور وہ کرکٹر تھے جو حادثے کے وقت گاڑی چلا رہے تھے۔ بعد میں کرکٹ کی دنیا کے عظیم آل راؤنڈر بنے۔
کولی اسمتھ اس واقعے سے قبل ویسٹ انڈیز کے لیے 26 ٹیسٹ میچ کھیل چکے تھے۔ ان 26 ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے 1331 رنز بنائے تھے اور سپن بولر کے طور پر 48 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔
ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ ہوتا کہ وہ کس قسم کے کرکٹر تھے۔ انھوں نے آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کے سامنے ڈیبیو کرتے ہوئے سنچری بنائی۔ انھوں نے اپنے کریئر کی دوسری اور تیسری سنچری ایسی پچ پر بنائی جس نے انگلینڈ کی سیونگ باؤلنگ میں مدد کی۔ ان اننگز میں ان کے بلے سے 161 اور 168 رنز نکلے۔
انھوں نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں سپن گیند بازوں کے سامنے اپنے کریئر کی چوتھی سنچری اسکور کی۔ اس نقطہ نظر سے اس وقت انھیں ویسٹ انڈیز کرکٹ کا مضبوط کھلاڑی سمجھا جا رہا تھا۔ ان کے بارے میں حادثے میں بچ جانے والے تیسرے کھلاڑی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: 'وہ ایک بہترین آف سپنر کے طور پر بھی ابھر رہے تھے۔ میں یہ کہنے کی ہمت رکھتا ہوں کہ ان میں ٹاپ کلاس آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت تھی، شاید دنیا کا بہترین آل راؤنڈر۔'
گاڑی میں دوسرے کرکٹر ٹام ڈیوڈنی تھے۔ دائیں ہاتھ کے تیز گیند باز ڈیوڈنی نے ویسٹ انڈیز کے لیے نو ٹیسٹ میچز میں 21 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وقت پر نہ پہنچنے والے چوتھے کرکٹر رائے گلکرسٹ تھے۔ گلکرسٹ ویسٹ انڈیز کے دائیں ہاتھ کے تیز گیند باز تھے اور انھوں نے 13 ٹیسٹ میں 57 وکٹیں حاصل کیں۔
ظاہر ہے ایسی صورتحال میں آپ سب کی دلچسپی تیسرے کرکٹر میں بڑھ گئی ہوگی کہ آخر وہ کون تھے؟ دراصل تیسرے کرکٹر کا نام گیری سوبرز تھا۔
جی ہاں، سر گیری سوبرز اس کے بعد کرکٹ کی دنیا کے عظیم آل راؤنڈر بن کر ابھرے اور آج تک یاد کیے جاتے ہیں۔ حادثے سے پہلے تک وہ ٹیسٹ کرکٹ کی اپنے زمانے کی سب سے بڑی 365 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل چکے تھے۔ 27 ٹیسٹ میچوں میں چھ سنچریوں کی مدد سے دو ہزار سے زائد رنز بنا چکے تھے۔
گیری سوبرز نے اپنی سوانح عمری میں اس حادثے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ 'اگلے دن ہمیں ایک چیریٹی میچ میں شرکت کے لیے لندن جانا تھا۔ ہم چاروں کو وہاں پہنچنا تھا۔ ہم نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک رائے گلکرسٹ کا انتظار کیا۔ اس کے بعد ہم تینوں نے لندن روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ کاش ہم نے تھوڑا انتظار کیا ہوتا یا اگر ہم وقت پر چلے جاتے تو کون جانتا ہے کہ قسمت کچھ اور ہوتی لیکن آپ ماضی کو نہیں بدل سکتے، کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟
حادثے کو بیان کرنے والے گیری سوبرز کی سوانح عمری کے صفحات پر جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تینوں اسی طرح سفر رہے تھے جیسے لوگ دوستوں کے ساتھ سفر کے دوران کرتے ہیں۔ تینوں خوش تھے کہ ایک گھنٹے انتظار کی وجہ سے ہونے والی تاخیر انھیں لندن میں پائے جانے والے ٹریفک جام سے بچا لے گی۔
تینوں کے درمیان باری باری گاڑی چلانے کی بات بھی ہوئی۔ ناٹنگھم شائر کے ریڈکلف ایریا سے لندن تک کا فاصلہ تقریباً چار گھنٹے کا تھا اور پہلے کار کولی اسمتھ نے چلائی اور کچھ فاصلے کے بعد انھوں نے گاڑی ٹام کو ڈرائیو کرنے کے لیے دے دی۔ جب گیری سوبرز کی باری آئی تو ٹام اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور کولی پچھلی سیٹ پر سو گئے۔
گیری سوبرز نے ان لمحات کے بارے میں لکھا: 'ہم اسٹیفورڈ شائر میں اے-34 A34 نمبر سٹون کے قریب پہنچے تھے، اور صبح کے تقریباً 4.45 ہو رہے تھے، آگے سڑک میں ایک موڑ تھا۔ میں نے آگے دو روشن بتیاں دیکھیں اور میرے پاس کچھ کرنے کا کوئی وقت نہیں تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
'مجھے بس اتنا یاد ہے کہ ٹکرانے کی آواز آئی تھی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں نے 10 ٹن مویشی لے جانے والے ٹرک کو ٹکر مار دی تھی۔ میں بھی چند لمحوں کے لیے بیہوش ہو گیا تھا۔
'چند لمحوں کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ ٹام زور زور سے رو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت تکلیف میں ہے۔ کولی زمین پر پڑا ہوا ہے۔ میں نے گھبراہٹ میں پوچھا، للٹل مین، ہاؤ آر یو؟'
گیری سوبرز نے مزید لکھا: 'کولی نے مجھے بتایا کہ میں ٹھیک ہوں، آپ ٹام کے پاس جائیں۔ میں ٹام کے پاس گیا اور اس کی مدد کرنے لگا۔ میں ایمبولینس کے آنے تک ٹام کو تسلی دیتا رہا۔ تاہم میری کلائی ٹوٹ گئی تھی۔ آنکھوں کے قریب زخم آئے تھے اور بائیں ہاتھ پر چوٹ تھی۔'
تینوں کرکٹرز کو ہسپتال کے مختلف کمروں میں رکھا گیا۔ جب سوبرز بیدار ہوئے، تو انھوں نے سب سے پہلے کولی کے بارے میں پوچھا۔
یہ بھی پڑھیے
جب کسی کو ٹیسٹ میچ کے ٹائی ہونے کا مطلب نہیں معلوم تھا
گیری سوبرز: 12 انگلیاں، ایک اوور میں چھ چھکے اور 365 رنز کی اننگز کون بھول سکتا ہے
انڈین کرکٹر رشبھ پنت حادثے میں زخمی، مرسیڈیز کار جل کر تباہ
اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سوبرز اور کولی سنہ 1957 کے دورہ انگلینڈ کے بعد سے روم پارٹنر بھی تھے۔ سوبرز نے کولی اسمتھ کے بارے میں لکھا: 'میں نے 1957 کے دورہ پاکستان پر ان کے مشورے سے فائدہ اٹھایا، مجھے خراب امپائرنگ کا سامنا تھا اور ان کی باتوں نے مجھے اس ذہنی کیفیت پر قابو پانے میں مدد کی، وہ بہت مذہبی تھے۔ انھیں چرچ میں عبادت کرنا پسند تھا۔ اس لیے ہم انھیں ٹیم کا مبلغ بھی کہتے تھے۔'
جب سوبرز نے کولی کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ کولی بے ہوش ہیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ سن کر سوبرز کو یقین نہیں آیا۔ ڈاکٹروں کی تین دن کی تمامتر کوششیں کولی اسمتھ کو نہ بچا سکیں۔ 9 ستمبر کو کولی اسمتھ نے محض 26 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ ان کی وفات پر ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جے ایف ڈائر نے کہا: 'وہ اس قسم کے کھلاڑی تھے جو کھیل کو کھیل کی خاطر کھیلتے اور ان کے سامنے ایک شاندار مستقبل تھا۔'
وزڈن کرکٹ میگزین کے مطابق اس وقت میلبورن کرکٹ کلب کے اسسٹنٹ سیکریٹری ایس سی گریفتھ نے کہا تھا کہ 'یہ بہت افسوسناک ہے، کولی کے دل میں مستقبل کا کرکٹ تھا۔'
بہر حال احتیاط سے گاڑی نہ چلانے کے لیے سوبرز پر دس پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس حادثے نے سوبرز کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ انھیں انگلینڈ کے خلاف سیریز میں حصہ لینے کے لیے ویسٹ انڈیز جانا تھا جس میں اسمتھ نے بھی شرکت کرنی تھی۔ لیکن اسمتھ مر چکے تھے اور سوبرز دماغی طور پر کھیلنے کے قابل نہیں تھے۔ وہ ویسٹ انڈیز واپس بھی نہیں آئے۔
سمتھ کی موت کا سوبرز پر ایسا اثر ہوا کہ انھوں نے خود کو شراب نوشی میں غرق کر لیا۔ سوبرز نے خود لکھا: 'جب ہم اکٹھے کھیلتے تھے تو میں زیادہ نہیں پیتا تھا۔ اس کے نہ رہنے پر ہم نے زیادہ پینا شروع کر دیا۔ میں خوش قسمت تھا کہ اس کا میرے کھیل پر زیادہ اثر نہیں پڑا، لیکن میں ساری رات شراب پیتا رہتا تھا۔ رات بھر جاگ کر پیتا رہتا تھا۔'
سوبرز نے لکھا: 'میرے سر میں چلنے والے طوفان کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ میں نے جو کچھ بھی پیا، چاہے وہ اسکاچ ہو یا برانڈی، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔'
جب سوبرز ایسے مرحلے سے گزر رہے تھے تو انگلینڈ میں رہنے والے ویسٹ انڈیز کے کچھ پرانے کرکٹرز نے انھیں دوبارہ ٹریک پر آنے میں مدد کی۔
اپنے سینیئرز کی مدد کے بارے میں سوبرز نے لکھا کہ ویسٹ انڈیز کے سابق لیگ سپنر اور ڈاکٹر سی بی برٹی کلارک نے مجھ پر کام کرنا شروع کیا اور جمیکا کے آلف گوور اور اسٹینلے گڈرچ نے مجھے مڈل سیکس نیٹ میں پریکٹس کروائی۔
کچھ عرصے کے بعد، سوبرز نے محسوس کیا کہ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ نے کولی اسمتھ کو کھو دیا ہے اور اب ان کی زیادہ شراب نوشی سے دگنا نقصان ہو گا۔ سوبرز نے اپنی سوانح عمری میں ان لمحات کے بارے میں لکھا: 'میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجھے اب گارفیلڈ سوبرز کے لیے نہیں کھیلنا ہے، لیکن مجھے دو لوگوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے، کولی اور خود کی۔ میری زندگی بدل گئی اور ہمیشہ کے لیے ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھے پر ڈال لیا۔'
حادثے کے تین ماہ بعد سوبرز ویسٹ انڈیز پہنچے جب انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا جانا تھا۔ سوبرز نے اس میچ کے بارے میں لکھا: 'جیسے ہی میں کریز پر آیا، مجھے معلوم ہوا کہ مجھے اتنا ہی حصہ ڈالنا ہے جتنا مجھے دو لوگوں کے لیے کھیلنا ہے۔ میں ہر رن کے ساتھ کولی کو یاد کرتا رہا۔ جب فریڈ ٹرومین نے مجھے کلین بولڈ کروایا۔ تب تک میں 226 رنز بنا چکا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد میں نے کولی کے ہوم گراؤنڈ پر 147 رنز بنائے۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔'
سوبرز کی باتوں میں حقیقت کی جھلک ہے کیونکہ اس کے بعد انھوں نے کافی عرصے تک کرکٹ کھیلی اور اپنی اوسط بہتر کی۔ حادثے کے بعد 93 ٹیسٹ میچوں میں آٹھ ہزار سے زائد رنز بنائے اور ٹیسٹ کرکٹ میں 200 سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے نام کل 235 وکٹیں ہیں۔ اور ان کا شمار ٹیسٹ کرکٹ کے عظیم آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔
سوبرز کی عمر 87 سال ہے اور وہ تمام کرکٹ ایونٹس میں نظر آتے رہے ہیں جب کہ ٹام ڈیوڈنی بھی 89 سال کی عمر میں زندہ ہیں۔
دوسری جانب جب کولی اسمتھ کی میت جمیکا پہنچی تو وزڈن اور ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق ان کی آخری رسومات کے لیے 60 ہزار افراد کا مجمع تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کولی کی صلاحیت پر لوگوں کو کتنا بھروسہ تھا۔
جمیکا کے صحافی کین چیپلن نے بھی ان کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام 'دی ہیپی واریئر' ہے۔ جمیکا کے پین میری قبرستان میں، جہاں کولی کو دفن کیا گیا، وہاں ان کے لوح مزار پر 'سنجیدہ کرکٹر، بے لوث دوست، قابل ہیرو، وفادار نظم و ضبط اور خوش مزاج جنگجو' لکھا ہوا ہے۔ کولی کے آبائی علاقے میں ایک گلی کا نام ان کی یاد میں 'کولی اسمتھ روڈ' رکھا گیا ہے۔
سوبرز ہمیشہ کولی اسمتھ کو یاد کرتے ہوئے کھیلتے رہے، جب کہ دنیا کولی اسمتھ کو یاد کرکے کہتی رہی کہ 'دی ادر سوبرز دیٹ ویسٹ انڈیز لاسٹ'۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n83d3l5y7o | رونالڈو کی سعودی کلب میں شمولیت: ’انھیں ہر دن کے ساڑھے پانچ لاکھ یورو ملیں گے‘ | فٹبال کی دنیا کے معروف کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو نے سعودی عرب کے فٹبال کلب النصر میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کر لی ہے۔
انھوں نے جو معاہدہ کیا ہے، وہ سنہ 2025 تک جاری رہے گا۔ سوشل میڈیا پر اسے کوئی تاریخی فیصلہ کہہ رہا ہے تو کوئی ’کرموں کا پھل۔‘
پرتگال کے کھلاڑی نے ایک متنازع انٹرویو کے بعد مانچسٹر یونائیٹڈ کو چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد وہ کسی بھی کلب میں شمولیت کے لیے آزاد تھے۔ اپنے اس انٹرویو میں انھوں نے مانچسٹر یونائیٹڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
مانچسٹر یونائیٹڈ سے علیحدگی کی بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ اب انھیں کوئی بھی ٹیم اس قدر زیادہ رقم کے ساتھ نہیں لے گی۔
لیکن اطلاعات کے مطابق النصر کلب سے رونالڈو فٹبال کی تاریخ کی سب سے بڑی تنخواہ سالانہ 177 ملین پاؤنڈ سے زیادہ وصول کریں گے۔
37 سالہ کھلاڑی کا کہنا ہے کہ وہ ’ایک مختلف ملک میں ایک نئی فٹبال لیگ کا تجربہ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔‘
رونالڈو نے مزید کہا: ’میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے وہ سب کچھ جیتا جو میں یورپی فٹبال میں جیتنے کے لیے نکلا تھا اور اب یہ محسوس کر رہا ہوں کہ ایشیا میں اپنے تجربے کو شیئر کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔‘
جہاں تک ان کی نئی ٹیم النصر کا سوال ہے تو وہ نو بار سعودی پرو لیگ چیمپیئن رہ چکی ہے۔ اس نے رونالڈو کے ساتھ اس معاہدے کو ’تاریخ سازی‘ یعنی ایک نئی تاريخ رقم کرنے کے طور پر بیان کیا ہے۔
کلب نے کہا کہ یہ 'ہماری لیگ، قوم اور آنے والی نسلوں، لڑکے اور لڑکیوں کو اپنا بہترین ورژن بننے کی ترغیب دے گا۔'
اسی موسم گرما میں رونالڈو نے ایک اور سعودی فٹبال کلب الہلال میں شامل ہونے کے لیے 305 ملین پاؤنڈ کا معاہدہ ٹھکرا دیا تھا کیونکہ وہ یونائیٹڈ میں خوش تھے۔
نومبر کے شروع میں دنیا کے تجربہ کار سٹرائیکر نے ٹاک ٹی وی کے لیے پیئرز مورگن کے ساتھ ایک انٹرویو میں بات چیت کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں یونائیٹڈ کی طرف سے 'دھوکہ' ملا، مینیجر ایرک ٹین ہیگ کا احترام نہیں کیا اور انھیں کلب سے باہر کیا جا رہا ہے۔
رونالڈو نے یونائیٹڈ کے لیے 346 میچوں میں 145 گول کیے۔ انھوں نے ریئل میڈرڈ میں شامل ہونے کے 11 سال بعد اگست 2021 میں اولڈ ٹریفورڈ کلب میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے جووینٹس کلب کو چھوڑ دیا۔
ان کے پاس یونائیٹڈ کے ساتھ پانچ لاکھ پاؤنڈ فی ہفتہ کے معاہدے کے سات ماہ باقی تھے لیکن انھوں نے 'باہمی اتفاق' سے کلب سے رخصتی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیے
کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟
رونالڈو اور حببیب نورمحمدوف: رونالڈو کا سب سے بڑا خوف کیا ہے؟
میسی نے انسٹاگرام پر رونالڈو اور ’انڈے کی تصویر‘ کے علاوہ اور کس کو پیچھے چھوڑا
رونالڈو حال ہی میں قطر میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ میں پرتگال کی ٹیم کا حصہ رہے جہاں گھانا کے خلاف اپنی ٹیم کی ابتدائی جیت میں گول کرکے انھوں نے ایک نادر تاریخ رقم کی اور اس طرح وہ مختلف فیفا ورلڈ کپ میں گول کرنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔
جہاں سوشل میڈیا پر اس نئے معاہدے کے حوالے سے بات ہو رہی ہے وہیں بہت سے لوگ رونالڈو کا مقابلہ ایک بار پھر میسی سے کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے فٹبال کلب میں شمولیت جہاں فٹبال کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہے، وہیں لوگ اسے رونالڈو کی قدر میں کمی کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
کوئی ان کے ماضی کے بیان کو پیش کر رہا ہے تو کوئی اسے ’کرموں کا پھل‘ کہہ رہا ہے کہ ’کوئی اچھا کلب انھیں لینے کے لیے تیار ہی نہ ہوتا۔‘
اسی بات کو سعودی عرب کے سابق فٹبالر سلمان الدوسیری نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس طرح پیش کرتے ہوئے لکھا: 'کرسٹیانو رونالڈو کے سعودی عرب کی ٹیم میں شامل ہونے کی خوشی منانے کے لیے آپ کو مسیحی ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔
’میں کھیل کے مقابلے کے ردعمل کو سمجھتا ہوں کہ کچھ اس کا استقبال کریں گے اور کچھ اسے مسترد کر دیں گے۔ لیکن ان کے اور ان کے درمیان ایک سعودی کی حیثیت سے ہمیں بڑی تصویر پر نظر رکھنی چاہیے اور اس طرح ہم پائیں گے کہ اس کا ہمیں بے پناہ فائدہ ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
بہر حال فیفا ورلڈ کپ سیٹ نامی صارف الیمو فلپ نے ان کے معاہدے کو سال، مہینے، ہفتے، دن اور گھنٹے کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ سعودی عرب کے کلب النصر کے ساتھ رونالڈو کے دو سال کے معاہدے کا حساب: ’سالانہ 200 ملین یورو، ماہانہ 16۔67 ملین یورو، ہفتے کے حساب سے 3۔888 ملین یورو، یومیہ پانچ لاکھ 55 ہزار 555 یورو، ہر گھنٹے 23 ہزار 140 یورو، ہر منٹ 386 یورو، فی سیکنڈ ساڑھے چھ یورو۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ایڈی گبس نامی صارف نے رونالڈو کے بیان 'میں ایک مختلف ملک میں ایک نئی لیگ کے تجربے کا خواہشمند ہوں' کو نقل کرتے ہوئے اس کی یوں تشریح کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں دراصل 'رونالڈو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 'کوئی بھی سنجیدہ فٹبال کلب اب مجھے نہیں لینا چاہتا اور میری انتہائی اونچی انا مجھے اپنی تنخواہ میں کمی کی اجازت نہیں دیتا کہ میں کسی قابل قدر پروجیکٹ کا حصہ بنوں۔ سعودی عرب گولڈن بوٹ، میں آ رہا ہوں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
چیلسی کے مداح فرینک خالد نے رونالڈو کے بارے میں سر ایلکس فرگیوسن کا قول نقل کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ اس سے متفق ہیں۔
فرگیوسن نے کہا تھا کہ 'اگر کرسٹیانو رونالڈو نے اپنا کریئر لا لیگا سے شروع کیا ہوتا تو وہ ان کے پاس میسی سے دوگنی تعداد ہوتی۔' یعنی انھوں نے میسی سے کہیں زیادہ گول کیے ہوتے۔
اس کے جواب میں ایک نے لکھا کہ دگنا تو نہیں لیکن کہیں زیادہ ہوتا تو ایک نے لکھا ہے کہ سنہ 2008 آٹھ میں 'جب رونالڈو کے پاس ایک بالون ڈی اور تھا تو میسی کے پاس کوئی خطاب نہیں تھا۔ آج میسی کے پاس سات اعزاز ہے تو رونالڈو کے پاس صرف پانچ۔'
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
رونالڈو کے ساتھ النصر بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔ بی آر فٹبال نے لکھا ہے کہ 'کرسٹیانو رونالڈو کے ساتھ ونسینٹ ابوبکر ہوں گے۔ النصر میں ایک ناقابل یقین سٹرائیکر کی جوڑی۔'
مانچسٹر یونائیٹڈ کے ایک مداح مارک گولبرج نے لکھا کہ 'رونالڈو کا یونائیٹڈ سے زبردستی باہر جانا اور النصر میں شامل ہونا بہت افسوس ناک ہے۔
’میرا خیال تھا کہ وہ کہیں اور کسی مناسب کلب میں شامل ہوں گے لیکن انھوں نے یہ قبول کر لیا ہے کہ وہ اب ختم ہو چکے ہیں۔'
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
اس کے جواب میں کئی لوگوں نے کہا کہ 38 سال کی عمر میں انھیں جو حاصل کرنا تھا حاصل کر چکے، اب وہ پیسے کما رہے ہیں۔
کچھ لوگوں نے ان کا ایک پرانا بیان بھی دہرایا ہے جس میں وہ چین یا قطر جانے کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ ایسے کھلاڑی نہیں کہ وہاں جائیں۔
لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ ایسا ہی کر رہے ہیں یہ سب کرموں کا پھل ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c25p3q79vz1o | ’فیصلہ میرے ہاتھ میں ہوتا تو داغدار کھلاڑیوں کو کبھی واپس نہ آنے دیتا‘ | معروف کرکٹ تبصرہ کار اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین رمیز راجہ عہدے سے برطرفی کے بعد سے خبروں میں ہیں اور اب میچ فکسنگ سے متعلق ان کے لیے حالیہ بیان نے ہلچل پیدا کر دی ہے۔
انھوں نے نیوز چینل سما کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایسے تمام کرکٹرز جن کا کھیل کسی بھی طرح سے داغدار ہے، ان کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے۔
یہ بیان اس لیے اہم ہے کیونکہ سوال میں ان کے سابق ساتھیوں وسیم اکرم اور وقار یونس کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ میچ فکسنگ سکینڈل اور الزامات کے بعد ان کی واپسی کے حامی تھے۔
دوسری طرف انھوں نے انڈیا کے پاکستان آ کر کھیلنے پر سخت مؤقف اختیار کیا۔۔ اور یہ بھی کہا کہ انھیں بُلٹ پروف کار اس لیے ملی تھی کیونکہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔
محمد عامر کی جانب سے رمیز راجہ کو چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے ہٹانے کی خبر پر خوشی کا اظہار کرنے کے معاملے پر رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ بطور کھلاڑی سیاست کرنے لگتے ہیں تو یہ آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔
’اگر آپ ادارے کے بارے میں ٹویٹ کرنا شروع کر دیں تو آپ کی بقا کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔‘
رمیز راجہ کا کہنا تھا ’پی سی پی ایک آجر ہے اور یہ سب پی ایس ایل، فرسٹ کلاس اور سب کے کھلاڑیوں کو بھی ہمارے ذریعے پیسے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی کھیل ڈسپلن مانگتی ہے۔ آپ کا کام ایک عظیم کھلاڑی بننا ہے۔‘
رمیز نے کہا کہ ’ہم نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ بہت سارے کھلاڑیوں کے ساتھ، یہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں۔ جب آپ بیانات دیتے ہیں تو نظم و ضبط تباہ ہوتا ہے۔‘
میچ فکسنگ کے بعد محمد عامر کی کرکٹ میں واپسی نہ ہونے سے متعلق رمیز راجہ کا اپنے ماضی کے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’میں برداشت نہیں کر سکتا کہ نو کھلاڑی جیتنے کے لیے زور لگا رہے ہیں اور دو کھلاڑی یہ کر رہے ہیں کہ ہم کسی طرح ہاریں۔ یہ دھوکہ ہے۔ اور یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس پر یہ بیتی ہے۔‘
’یہ اگر پہلی دفعہ ہوتا تو ٹھیک ہے ہمارے ہاں ہر چار سال بعد ایسا کچھ ہوتا ہے۔ آپ انھیں معاف کرنے کے لیے کہاں تک جائیں گے۔‘
’جتنے بھی داغدار کھلاڑی ہیں میرے پاس ان کے لیے کوئی محبت نہیں ہے۔‘
وسیم اکرم کے ماضی میں میچ فکسنگ کے الزامات میں ملوث ہونے سے متعلق رمیز راجہ کا کہنا تھا ’ان سمیت کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے (ماضی کے الزمات سے متعلق رپورٹ پر) تعاون نہیں کیا، تفتیش میں اس کا مطلب ہے کہ ان کا معاملہ بارڈر لائن تھا۔ اگر میں اس وقت فیصلہ ساز ہوتا تو کبھی نہ آنے دیتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں کو ایک دفعہ سسٹم میں آنے دیا اور ہمیں کہا کہ ان کے ساتھ کھیلنا بھی ہے اور کام بھی کرنا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ مینجمنٹ کی کیا مجبوری تھی۔ داغدار کھلاڑیوں کے لیے میرے دل میں کوئی ہمدردی نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے تھا کہ محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف جسیے کھلاڑی جو سزا کاٹ چکے ہیں، انھیں واپس نہیں آنا چاہیے۔
رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ انھیں بدل کر نجم سیٹھی کو دوبارہ چیئرمین پی سی بی لگانے پر اعتراض یہ ہے کہ ’یہ ایک ادارے کا معاملہ ہے اور ’ایک شخص کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس کے آئین و قانون کو بدلا جا رہا ہے۔ جو سراسر اقربا پروری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ہفتے پہلے آسٹریلین ٹیم کے ساتھ ڈنر میں وزیر اعظم نے کہا کہ آپ بہترین کام کر رہے ہیں اور پھر نہ جانے کیا ہوا۔‘
انھوں نے اپنے ’وقار یونس اور مصباح الحق کو بے عزت کر کے نکالنے‘ کے الزامات کے جواب میں کہا کہ ’ایسا نہیں کیونکہ انھیں کنٹریکٹ کے مطابق دو سال کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ مجھے لگا کہ اس وقت تبدیلی ضروری تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اول تو کسی صحافی کا چیئرمین ہونا نامناسب ہے اور اگر قانون وہی رہتا تو بھی مناسب تھا لیکن وہ قانون ہی بدل رہے ہیں۔
رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی سی بی کی تعیناتی میں وزیرِ اعظم کا عمل دخل ختم کر کے کوئی دوسرا طریقہ کار رکھنا ضروری ہے۔
’ہم حکومت سے پیسے بھی نہیں لیتے۔ خود پیسے کماتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں ان چیزوں سے آزاد ہونا چایے۔ یا جو بھی آئے اسے دور پورا کرنے دیں۔ اسے بیچ میں نہ ہٹایا جائے۔‘
پی سی بی کے خرچے پر ایک کروڑ 65 لاکھ کی بُلٹ پروف گاڑی رکھنے کے معاملے پر رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ وہ گاڑی پی سی بی کی ہے اور اور اب آنے والے چیئرمین اسے استعمال کریں گے۔
ان کا کہنا تھا انھیں جان سے مارنے کا خطرہ تھا۔
ان کا کہنا تھا ’آسٹریلیا ٹور کے آغاز سے ہی مجھے دھمکیاں ملی تھیں۔ ڈی آئی جی صاحب میرے گھر آئے تھے اور (یہ) بتایا تھا۔‘
چیف سلیکٹر کی تبدیلی کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں شاہد آفریدی کے چیف سیلکٹر بننے پر اعتراض نہیں بلکہ صرف آدھی رات کو لوگوں کو ہٹانے کے طریقے پر اعتراض ہے۔
انڈیا کے پاکستان نہ آنے پر پاکستان کے بھی وہاں جا کر کرکٹ نہ کھیلنے جیسے سخت مؤقف پر رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ پی سی بی کے چیئرمین کا عہدہ لیڈر شپ مانگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیم کو ٹوور کروانا ایک ڈیلیوری ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم واپس گئی تو وہاں لیڈر شپ کام آئی اور وہ دوبارہ واپس آئے۔ ان سے ہم نے پیسے لیے۔ وہ دو اضافی میچ کھیل کر گئے۔ اس کی وجہ تھی کہ ہم نے ایک مؤقف اپنایا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا کمرشل پہلو بھی ہے۔ میرا کہنا تھا کہ ہم کب تک ان کی دھمکیاں سنتے رہیں گے۔
’ہمارے لیے مؤقف اپنا ضروری ہے۔ ہمیں قدم جمانا ہوں گے ورنہ ہمیں ٹورنامنٹ نہیں ملیں گے۔‘
رمیز راجہ کے انٹرویو کے مختلف حصے سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔
کرپشن میں ملوث کھلاڑیوں کی ٹیم میں واپسی کے راستے بند کیے جانے سے متعلق رمیز راجہ کے بیان پر کئی سوشل میڈیا صارفین متفق دکھائی دیے تو کئی کا کہنا تھا کہ رمیز راجہ شاید عہدے سے ہٹائے جانے کا غصہ نکال رہے ہیں۔
ایاز خان نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا ’میں رمیز راجہ کے جذبات سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ مجھے سلمان بٹ یاد ہیں جو میرے پسندیدہ کرکٹرز میں سے ایک تھے اور اللہ نے اُنھیں 26 سال کی عمر میں پاکستان کی کپتانی کرنے کا اعزاز دیا تھا۔ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد وہ ٹی وی پر آئے اور بار بار دعویٰ کیا کہ یہ ایک سازش تھی اور قوم کو بیوقوف بنایا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
ایک اور صارف محمد علی کا کہنا تھا کہ رمیز راجہ نے وسیم اکرم سے بدلہ لیا کیونکہ انھوں نے اہنی کتاب میں کہا کہ فیلڈ میں انھیں کمشنر کے بیٹے ہونے کا فائدہ ملتا تھا۔
خضر نقوی نے سوال اٹھایا کہ ’انھوں نے یہ سب کچھ اپنی دور میں کیوں نہیں کیا۔ وہ چیئرمین تھے اور بہت کچھ کر سکتے تھے، لیکن وہ ناکام رہے۔‘
یاسر خان نامی صارف نے کسی حد تک رمیز راجہ کی بات سے اتفاق کیا اور کہا ’جسٹس قیوم کی رپورٹ پر اگر عمل ہوتا تو آج پاکستان میں کوئی فکسنگ کرنے کی بات نہ کرتا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/ck73yx4y4x1o | اگر ڈرا کا 'مزہ' بھی جیت سا لگنے لگے | بالآخر سال کے آخری ٹیسٹ میچ کی آخری شام کا سورج ڈھل گیا اور پاکستان کے سر پہ منڈلاتا خفت کا سایہ بھی ٹل گیا۔
اسی سال پاکستان ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل کے لئے ڈارک ہارس بھی قرار پایا اور پھر اسی سال پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی بار ہوم گراؤنڈز پہ کلین سویپ کی ہزیمت سے بھی دوچار ہوا۔ اور اسی سال یہ نایاب مظہر بھی دیکھنے کو ملا کہ پاکستان پے در پے چار ٹیسٹ میچز کھیل کر بھی جیت کے ذائقے سے محروم رہا۔
اگر بابر اعظم چاہتے تو اننگز جاری رکھ کر ٹم ساؤدی کو بالکل ہی مایوس کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے یکسر مایوسی کو آدابِ مہمان نوازی کے خلاف جانا اور بھلے میچ ختم ہونے سے پون گھنٹہ پہلے ہی سہی مگر اننگز ڈکلئیر تو کی۔
ساؤدی کے بلے بازوں نے بہرحال مایوسی کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیا اور اسی عزم کا اظہار کیا جو ہفتہ بھر پہلے بین سٹوکس کی بیٹنگ لائن نے دکھایا تھا۔ اگر وقت آڑے نہ آتا اور امپائرز خراب روشنی پہ کھیل ختم نہ کرتے تو یہی ڈکلئیریشن الٹا بابر اعظم کے گلے بھی پڑ سکتی تھی۔
مگر یہاں پاکستان کے لئے خوش آئند پہلو چوتھی اننگز کی بیٹنگ تھی جو اس ٹوٹتی پھوٹتی پچ پہ اش سوڈھی کی چال بازیوں کے سامنے ہرگز آسان نہیں تھی۔ مگر امام الحق جیسے چٹان بن کر کھڑے ہوئے اور پھر ان کی معیت میں جو کردار سرفراز احمد اور سعود شکیل نے ادا کیا، وہ لائقِ تحسین ہے۔
مثبت پہلو پاکستان کے لئے یہ بھی رہا کہ محمد وسیم نے آل راؤنڈرز کی تلاش میں سرگرداں پاکستانی تھنک ٹینک کو ایک ایسا آپشن دکھلا دیا جو نہ صرف 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کو سوئنگ کر سکتا ہے بلکہ اپنے بلے سے چوتھی اننگز کا دباؤ بھی جھیل سکتا ہے۔
مگر بحیثیتِ مجموعی یہ کارکردگی پاکستان کے لئے خوش کُن نہیں تھی۔ بولنگ ہو، بیٹنگ ہو کہ فیلڈنگ، تینوں شعبوں میں کیوی برتری واضح نظر آئی اور پاکستانی ٹیم مدافعتی حصار میں گھری رہی۔
المیہ مگر اسی پہ ختم نہیں ہوتا۔ پچھلے ہفتے انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف جس طرز کی کرکٹ کھیلی تھی، نہ تو پاکستان اس کا کوئی جواب لا پایا اور نہ ہی حالیہ ہفتے کھیلی گئی ولیمسن کی اولڈ سکول کرکٹ کا کوئی جواب پاکستان کے پاس موجود تھا۔
جب رواں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ سائیکل کے آغاز پہ پاکستان کو فائنل کے لئے 'ڈارک ہارس' قرار دیا جا رہا تھا، تب یہ امکانات حقیقت سے بعید تر نہیں دکھائی دیتے تھے۔ پاکستان کا شیڈول بھی سابقہ سائیکل کی نسبت خاصا سہل تھا کہ اسے آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے حریفوں کا سامنا اپنے ہوم گراؤنڈز پہ کرنا تھا۔
جنوبی افریقہ کو کلین سویپ کرنے کے بعد پاکستان کا مورال اس قدر بلند تھا کہ یہ سب اندازے اور پیشگوئیاں بالکل بھی بعید از قیاس نہیں تھے۔ جو مومینٹم پاکستان کو حاصل تھا، اگر اسی کو آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف برقرار رکھا جاتا تو آج ٹیسٹ چیمپئن شپ ٹیبل کا حلیہ بالکل مختلف ہوتا۔
مگر پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں پچ سے گھاس اڑا کر جو مدافعتی حکمتِ عملی اختیار کی تھی، سال تمام ہوتے ہوتے وہ اپروچ اس ٹیم کے خمیر میں رچ بس چکی ہے۔ بقا ہی اب اس ٹیم کی اولین ترجیح بنتی چلی جا رہی ہے۔
اور جب پہلی ترجیح ہی کسی بھی قیمت پہ شکست سے پہ احتراز برتنا ہو تو پھر ڈرا کا 'مزہ' بھی کسی فتح سے کم محسوس نہیں ہوتا۔ جہاں قدرت کا نظام ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں کام آ گیا، وہی قدرت کا نظام ایک بار پھر کراچی میں بھی کارفرما ہوا اور پاکستان کو شکست کی خفت سے بچا گیا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce7z55k6g0zo | کراچی ٹیسٹ ڈرا: ’بابر نے ڈکلیئر جیتنے کے لیے کیا تھا تو سارے فیلڈر باؤنڈری پر کیوں تھے‘ | پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین کراچی میں ہونے والا سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ ڈرا ہو گیا ہے۔
تاہم سوشل میڈیا پر پاکستان کی پانچویں روز آخری گھنٹے میں کی گئی ڈیکلیریشن اور اس کے بعد کپتان بابر اعظم کی جانب سے پیش کی گئی توجیہ نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
آخری روز کے کھیل کا آغاز پاکستان نے 77 رنز دو کھلاڑیوں کے نقصان پر کیا تھا لیکن جہاں امام الحق نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے نصف سنچری مکمل وہیں دوسری جانب سے نعمان علی اور بابر اعظم کی وکٹیں گرنے کے باعث پاکستان کو آغاز میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم بھی صرف 14 رنز بنا سکے اور اش سودھی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہو گئے۔
بابر اعظم کے آؤٹ ہونے کے بعد وکٹ کیپر سرفراز کریز پر آئے اور انھوں نے امام الحق کے ساتھ اننگز کو آگے بڑھایا۔
سرفراز نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار سال بعد واپسی پر اپنے پہلے ہی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں نصف سنچری سکور کی۔
تاہم پہلے سرفراز نصف سنچری بنانے کے فوراً بعد آؤٹ ہوئے، پھر سلمان علی آغا صرف پانچ رنز بنا سکے اور پھر امام الحق اپنی سنچری مکمل کرنے میں ناکام رہے اور 96 رنز بنا کر اش سودھی کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔
اس وقت پاکستان کو نیوزی لینڈ پر صرف 32 رنز کی برتری حاصل تھی اور اس کے سات کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ ایسے میں سعود شکیل اور محمد وسیم جونیئر کی اہم شراکت کے باعث پاکستان یقینی شکست سے بچنے میں کامیاب ہوا۔
دونوں کے درمیان 71 رنز کی اہم شراکت ہوئی جس میں وسیم جونیئر نے 43 رنز بنائے اور وہ اش سودھی کا شکار بنے جنھوں نے آج بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اننگز میں چھ وکٹیں حاصل کیں۔
سعود شکیل نے ایک اور نصف سنچری سکور کی اور وہ اس وقت کریز پر موجود تھے جب بابر اعظم کی جانب سے حیران کن طور پر اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان نے نیوزی لینڈ کو جیتنے کے لیے15 اووروں میں 138 کا ٹارگٹ دیا اور نیوزی لینڈ نے یہ چیلنج قبول کیا اور ابتدائی سات اعشاریہ تین اووروں میں 61 رنز بنا لیے۔
تاہم اس موقع پر خراب روشنی کی وجہ سے میچ ختم کر دیا گیا۔
بابر اعظم نے دن کے آخری لمحات میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ کچھ افراد نے اسے دلیرانہ فیصلہ قرار دیا لیکن کچھ مبصرین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اس کی کوئی منطق نہیں بنتی تھی۔
میچ سے پہلے بابر اعظم کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ کوشش کریں گے کہ میں نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں۔
تاہم میچ کے آخری گھنٹے میں 138 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ اس لیے بھی سمجھ سے بالاتر تھا کیونکہ اس سے قبل پاکستان کی جانب سے تیزی سے رنز بنانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔
پاکستان کی جانب سے آج پورے دن کے کھیل میں صرف دو چھکے لگائے گئے اور مجموعی طور کسی بھی موقع پر پاکستان کا پلڑا بھاری نہیں تھا۔
ایسے میں بابر اعظم کی جانب سے میچ کے بعد دیے گئے بیان پر بھی خاصی بحث کی جا رہی ہے۔ انھوں نے میچ کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ڈکلیئر اس لیے کیا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ ٹیسٹ کا نتیجہ آئے لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ روشنی ہمارے ساتھ نہیں تھی۔‘
کچھ صارفین نے لکھا کہ شاید وہ اپنی بات صحیح طرح سے سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ایک صارف نے لکھا کہ کیا یہ ڈیکلیریشن چیف سیلیکٹر شاہد آفریدی کو خوش کرنے کے لیے تھی؟ اسی طرح کچھ صارفین نے یہ بھی سوال کہ اگر ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ جیتنے کے لیے کیا گیا تھا تو نیوزی لینڈ کی اننگز میں تمام فیلڈرز باؤنڈری پر کیوں تعینات تھے؟
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
یاد رہے کہ کراچی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پاکستانی ٹیم 438 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی تھی جس کے جواب میں نیوزی لینڈ نے اپنی پہلی اننگز 612 رنز نو کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کر دی تھی۔
کراچی ٹیسٹ میں شائقین کی عدم دلچسپی اور ڈیڈ پچ کے باعث سوشل میڈیا پر مختلف صارفین اور ماہرین پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کے لیے تیار کی جانے والی پچز کے معیار پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کوئی پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کے لیے پچز کے گرتے معیار کی بات کر رہا ہے تو کوئی کرکٹ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے نہ آنے کا کہہ رہا ہے۔
ساتھ ہی آج سعود شکیل کی آخری دن میچ بچانے پر تعریف کی گئی۔ صارفین نے لکھا کہ سعود شکیل نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس ٹیم کے ساتھ طویل عرصے تک ٹھہر سکتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
کرکٹ پچز کے معیار پر بات کرتے ہوئے سپورٹس جرنلسٹ رضوان علی نے لکھا کہ ’پی سی بی کی نئی انتظامیہ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ ان تمام افراد کے نام بتائے جو سنہ 2022 میں کراچی، لاہور، راولپنڈی اور ملتان کی خراب ترین ٹیسٹ پچز بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’کبھی کراچی ٹیسٹ میچ کی جنت ہوتی تھی، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر کپتان اور انتظامیہ نہیں تو ان پچز کا انتخاب کون کرتا ہے۔ کیونکہ سب کچھ بدل چکا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
عمران صدیقی نامی صارف نے لکھا کہ سرفراز چار سال میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہے ہیں اور ان پر جس طرح کے نفرت انگیز تصرے کیے جا رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’قریب چار سال میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے سرفراز پر اس قدر تنقید۔ انھیں کچھ سپیس دو یار۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
شہروز نامی صارف نے کہا کہ سرفراز کو کیچز چھوڑنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر انھوں نے ماضی میں عمدہ کیچز بھی پکڑے ہیں۔ ’ایک ہی کھلاڑی کے لیے نفرت اچھی نہیں۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72ze5ngjn3o | انڈین کرکٹر رشبھ پنت حادثے میں زخمی، مرسیڈیز کار جل کر تباہ | انڈین کرکٹر رشبھ پنت کار حادثے میں زخمی ہو گئے ہیں۔ جمعے کی صبح رشبھ کی مرسیڈیز کار دہلی دہرا دون ہائی وے پر ڈیوائیڈر سے ٹکرانے کے باعث حادثے کا شکار ہوئی۔
دہرادون میکس ہسپتال کے ڈاکٹر آشیش یاگنک نے رشبھ پنت کے حالت کے بارے میں بتایا ہے کہ ’وہ خطرے سے باہر ہیں اور آرتھوپیڈک سرجن اور پلاسٹک سرجن سمیت ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ان کو آنے والی چوٹوں کا معائنہ کر رہی ہے۔
’ان کی جانچ اور تشخیص کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہی مزید علاج کی نوعیت کے متعلق کچھ کہا جا سکے گا۔‘
اس سے قبل ہری دوار کے ایس ایس پی اجے سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حادثہ صبح ساڑھے پانچ اور چھ بجے کے درمیان پیش آیا جب رشبھ پنت کی کار دہلی دہرادون ہائی وے پر ڈیوائیڈر سے ٹکرا گئی۔
’حادثے سے رشبھ کی مرسیڈیز گاڑی کا سامنے کا شیشہ ٹوٹ گیا اور وہ جھٹکے سے گاڑی سے باہر نکل گئے۔ حادثے کے فوراً بعد کار میں آگ لگ گئی۔‘
حادثے کے فورا بعد لائف سپورٹ سے آراستہ ایمبولینس جائے حادثہ پر پہنچی اور انھیں دہرادون کے میکس ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے ڈاکٹر سے بات کی ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ابتدائی معائنے میں ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انھیں کوئی اندرونی چوٹ نہیں آئی ہے۔ رشبھ کے سر اور ٹانگ پر چوٹ اور کمر پر خراش آئی ہے۔ مزید ایکس رے رپورٹ آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔‘
ادھر اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر دھامی نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر انھیں ہوائی جہاز سے ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے۔
انڈین کرکٹر رشبھ دہلی سے روڑکی میں واقع اپنے گھر جا رہے تھے۔ ہریدوار کے ایس پی دیہات سوپن کشور نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ رشبھ پنت کی کار کو ہریدوار ضلع میں منگلور اور نرسن کے درمیان حادثہ پیش آیا۔
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ رشبھ کے علاج کے لیے تمام ضروری انتظامات کریں۔
انڈین کرکٹ بورڈ بی سی سی آئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رشبھ کے ماتھے پر دو کٹ لگے ہیں اور دائیں گھٹنے، کلائی اور انگوٹھے پر بھی چوٹیں آئی ہے۔ ایم آئی آر سکینز کے ذریعے ان زخموں کی نوعیت دیکھی جائے گی تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
بی سی سی آئی نے کہا ہے کہ وہ انڈین کرکٹر کو بہترین طبی سہولیات فراہم کریں گے اور صدمے سے نکالنے کے لیے ان کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی بھی مدد کریں گے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
25 سالہ پنت کو سری لنکا کے خلاف تین جنوری سے شروع ہونے والی ٹی 20 اور ون ڈے سیریز کے لیے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
انھیں بنگلور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ کرنی تھی۔
رشبھ پنت انڈیا اور بنگلہ دیش سیریز کے بعد دبئی گئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پنت اس ہفتے انڈیا واپس آئے تھے۔ رشبھ پنت کی پہچان ایک جارحانہ بلے باز کی ہے۔
پچھلے ہفتے ہی، رشبھ پنت نے بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں 93 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔
رشبھ پنت کو سری لنکا کے ساتھ آئندہ سیریز میں ٹیم میں جگہ نہیں ملی ہے۔
رشبھ پنت کے حادثے کی خبر کے فوراً بعد ان کے ساتھی کرکٹرز، مداحوں اور دیگر ممالک کے کرکٹرز کی جانب سے ان کی جلد صحت یابی اور نیک خواہشات کے پیغامات بھیجے گئے۔
سابق کرکٹر اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے سربراہ وی وی ایس لکشمن نے ٹویٹ کیا کہ رشبھ ٹھیک ہیں اور کوئی سنگین خطرہ نہیں ہے۔ لکشمن نے رشبھ کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔
سابق کرکٹر وریندر سہواگ نے بھی رشبھ پنت کے جلد صحت یاب ہونے کی خواہش کی ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
پاکستان کے فاسٹ بولر حسن علی نے بھی ان کے حادثے میں زخمی ہونے پر نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کچھ خطرے کی بات نہیں ہو گی، میں آپ کی جلد صحتیابی کے لیے دعا گو ہو۔
’بھائی آپ کے لیے بہت دعائیں جلد آپ صحت یاب ہو کر دوبارہ میدان میں ہوں گے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
جبکہ ان کے مداح اور چند ساتھی کرکٹرز حادثے میں جل جانے والی ان کی کار کو دیکھ کر ان کا بچ جانا ایک معـجزہ قرار دے رہے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjmv1jpg79eo | پیلے: فٹبال کا وہ کھلاڑی جس نے ایک قوم کو متحد کیا | پیلے کی وفات کی خبر سن کر ساؤ پاؤلو میں ایلبرٹ آئن سٹائن ہسپتال میں ان کے مداح اکٹھے ہو رہے ہیں۔ کئی نے 10 نمبر کی شرٹس پہن رکھی تھیں جو پیلے دوران کھیل پہنا کرتے تھے۔
ہسپتال کے باہر ایک بینر آویزاں کیا گیا ہے جس پر ’امر شہنشاہ پیلے‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہے جس کی برازیلین لوگوں کے لیے متوقع تو تھا لیکن یہ ان کے لیے درد ناک بھی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں، پیلے کی بیٹی کیلے ناسیمینٹو اپنے والد کے مداحوں کو ان کی حالت کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا۔ لوگ ان کی ہر پوسٹ اور سٹوری کو فالو کیا جاتا تھا۔
جب آخرکار پیلے کے گزر جانے کی خبر آئی تو یہ لوگوں کے لیے ایک بڑا لمحہ تھا۔ ہسپتال نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس کی بڑی آنت کے کینسر کے باعث ایک سے زیادہ اعضا کی ناکامی کے بعد ان کی موت کی تصدیق کی گئی تھی لیکن یہ صرف ایک طبی خبر سے زیادہ تھا، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتال ’فٹ بال کے شہنشاہ‘ کو کھونے پر ان کے خاندان اور عوام کے دکھ میں شریک ہے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ برازیلیوں کے لیے کتنے اہم تھے، اگرچہ پیلے یقیناً دنیا بھر میں فٹبال کے لیجنڈ تھے تاہم وہ یہاں کے لوگوں کے لیے، وہ بہت زیادہ تھے۔
برازیل کے نومنتخب صدر، لوئیز اناسیو لولا دا سلوا، جو اتوار کو حلف اٹھانے والے ہیں، انھوں نے کہا کہ انھیں پیلے کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، انھوں نے مزید کہا کہ یہ محض ’کھیل‘ نہیں تھا، یہ ایک ’شو‘ تھا۔
انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’اگرچہ کچھ برازیلیوں نے ہمارے ملک کا نام اتنا ہی روشن کیا جتنا انھوں نے کیا تھا لیکن ان جیسا 10 نمبر پھر کبھی نہیں بنا۔‘
ہر برازیلین کے لیے پیلے معنی رکھتے تھے۔ پرانی نسلوں نے انھیں ایک کھلاڑی کے طور پر یاد کیا، نوجوان برازیلیوں کو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں بتایا گیا لیکن انھوں نے اس فٹ بالنگ قوم میں لوگوں کو متحد کیا۔
یہ بھی پڑھیے
پیلے: ’نو سال کا تھا تو والد سے ورلڈ کپ جیتنے کا وعدہ کیا تھا، 17 برس کی عمر میں خدا کی طرف سے تحفہ ملا‘
دنیائے فٹبال کے مشہور کھلاڑی جنھیں برازیل نے ’قومی خزانہ‘ قرار دیتے ہوئے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی
ان کی حالت خراب ہونے کے بعد گذشتہ چند ہفتوں کے دوارن برازیلیوں نے ان کی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ بات کی۔ یہاں تک کہ فٹ بال میں کوئی دلچسپی نہ رکھنے والے لوگ بھی انھیں بادشاہ کہتے ہیں۔
وہ ایک ایسے فٹ بالر تھے جو صرف برازیل کے ہو کر رہے، بیرون ملک کلبوں کے لیے کھیلنے کے بجائے کئی سالوں تک سانٹوس کے لیے ہی کھیلتے رہے۔
درحقیقت، صدر جانیو کواڈروس نے 1961 میں انھیں ایک قومی خزانہ بھی قرار دیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ برسوں تک انھیں بیرون ملک کلبوں کے لیے کھیلنے کے لیے ’برآمد‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی ہیرو والی حیثیت اور اہمیت ایک قومی فخر تھی۔
ایک ایسے ملک میں جہاں نسل پرستی اور طبقاتی تعصب اب بھی غالب ہے، پیلے ایک غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام فٹبالر کی کامیابی کی ایک ناقابل یقین کہانی تھے۔
انھوں نے نسل پرستی کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی، ایک ایسا موقف جس کی وجہ سے انھیں بعض اوقات تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن انھوں نے ملک کو متحد کرنے اور غریب ترین برازیلیوں کو بھی مواقع فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ فٹ بال کی طاقت کو استعمال کیا۔
پیلے نے کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں لی اور اس پر بھی بہت سے لوگوں کو لگا کہ اتنا زیادہ زیادہ اثر و رسوخ ہونے کے باوجود یہ ان کا ایک کمزور پہلو تھا اور یقیناً وہ ہنگامہ خیز سیاست جس سے وہ گزرے، بشمول ایک آمریت کے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں لیکن ایک ایسا ملک کو سیاست کے منقسم تھا انھوں نے خود کو سیاست سے بالاتر کر دیا، انھیں میدان میں اور میدان سے باہر تمام برازیلیوں کے بادشاہ کے طور پر عالمی سطح پر پیار اور احترام ملا۔
اب تک کے سب سے بڑے فٹبالر اب چلے گئے لیکن برازیل میں ان کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd15lkjp700o | پیلے: ’نو سال کا تھا تو والد سے ورلڈ کپ جیتنے کا وعدہ کیا تھا، 17 برس کی عمر میں خدا کی طرف سے تحفہ ملا‘ | ’فٹبال کے بادشاہ‘ پیلے 82 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ وہ حالیہ برسوں سے گردے اور پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا تھے۔
جب معمول کے ٹیسٹوں میں ٹیومر کا پتہ چلا تھا تو پیلے نے ستمبر 2021 میں ساؤ پاؤلو کے البرٹ آئن اسٹائن ہسپتال میں اپنی بڑی آنت سے ٹیومر نکالنے کے لیے سرجری کرائی تھی۔ انھیں گذشتہ ماہ کے اختتام پر دوبارہ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
ہسپتال سے ان کی بیٹی کیلی ناسیمینٹو اپنے والد کی صحت کے بارے میں سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے پوسٹ کرتی تھیں۔ جمعرات کو انھوں نے ہسپتال سے ایک تصویر شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے خاندان کے افراد پیلے کی لاش پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ اس تصویر پر انھوں نے لکھا کہ ’ہم جو کچھ ہیں وہ آپ کی بدولت ہیں۔ ہم آپ سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ ’ریسٹ ان پیس‘۔
پیلے نے اپنے 21 برس کے کیریئر میں 1,363 میچوں میں 1,281 گول کیے، جس میں برازیل کے لیے 92 میچوں میں 77 گول بھی شامل ہیں۔ وہ 1958، 1962 اور 1970 میں تین بار ورلڈ کپ جیتنے والی برازیل کی ٹیم کا حصہ تھے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ پیلے سنہ 2000 میں فیفا کے صدی کے بہترین کھلاڑی قرار دیے گئے۔
میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں پیلے نے کہا جب وہ نو یا دس برس کے تھے تو انھوں نے اپنے والد کو برازیل کی ٹیم کے ہارنے پر دھاڑیں مارتے دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے کہا آپ پریشان نہ ہوں، میں اپنے ملک کے لیے ورلڈ کپ جیت کر لاؤں گا۔ ان کے مطابق پھر آٹھ برس بعد 17 برس کی عمر میں خدا نے انھیں وہ تحفہ دیا اور وہ برازیل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جو ورلڈ کپ کی فاتح بنی۔
تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کے انھوں نے اپنے والد سے یہ وعدہ کس اعتماد کی بنیاد پر کیا تھا مگر وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب رہے۔
بی بی سی ورلڈ سروس کے فرنینڈو دوارتے نے سنہ 1995 اور 2015 کے درمیان برازیل سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مشہور فٹبالر پیلے سے تقریباً دس ملاقاتیں کی ہیں، جس میں سے ایک ملاقات اتفاقاً لندن میں ایک فاسٹ فوڈ برانچ پر ہوئی تھی۔ پیلے سے جڑی ان یادداشتوں کو انھوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
آخری مرتبہ جب میری پیلے سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں سینٹرل لندن میں سب وے فاسٹ فوڈ کی ایک برانچ پر کاؤنٹر کے پیچھے پایا جہاں وہ اپنے سینڈوچ میں سلاد کو سنبھالنے میں مصروف تھے۔
یہ مارچ سنہ 2015 کی بات ہے اور یہ برازیلی فٹبال لیجنڈ پر برا وقت ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی کی ایک تشہیری مہم تھی۔ برازیل میں ’کنگ پیلے‘ کے لقب سے جانے جانے والے فٹبالر اس کمپنی کے ساتھ کریئر کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ وابستہ رہے ہیں۔
اس وقت تک میری اور پیلے کی درجن بھر ملاقاتیں ہو چکی تھیں شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹ عیاں ہوئی اور انھوں نے مجھے صحافیوں کے جھنڈ میں پہچان لیا۔
خوش قسمتی سے مجھے ان کے ساتھ ون ٹو ون انٹرویو کرنے کا موقع بھی مل گیا لیکن اس دوپہر کی میری پسندیدہ یادداشت یہ تھی کہ 74 برس کی عمر میں بھی پیلے صحت مند اور تندرست دکھائی دے رہے تھے۔
میں نے انھیں بتایا تھا کہ ’آپ نے سب کو ہسپتال جا کر پریشان کیا ہوا تھا کنگ۔‘ جس پر انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا آپ بھول گئے ہیں کہ میں ٹریس کوراکوز نامی قصبے میں پیدا ہوا تھا جس کا مطلب تین دل والا شخص ہے اور جسے زمین میں دفنانا مشکل ہوتا ہے۔‘
ایک سال پہلے زیورچ میں فیفا کی ایوارڈ تقریب میں شرکت کے دوران وہ خاصے کمزور دکھائی دیے تھے۔ کسی بھی دوسرے برازیلین صحافی کی طرح میں بھی ان کی یہ حالت دیکھ کر فکرمند ہوا تھا کہ شاید اب وہ زیادہ دیر تک نہ جی سکیں۔
پھر ہمیں معلوم ہوا کہ پیلے اس وقت بھی گردوں کے مسائل سے نبردآزما تھے جو اس لیے بھی سنگین ہو گئے تھے کیونکہ وہ سنہ 1970 میں ایک گردہ گنوا چکے تھے۔ ایسا مخالف کھلاڑیوں کی جانب سے ان کے 21 سالہ کریئر کے دوران کیے گیے ’ٹیکلز‘ کے باعث ہوا تھا۔
جب بھی ہماری ملاقات ہوتی میں اگلے چند روز تک یہی سوچتا رہتا کہ یہ کیا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپ ایک اوینجر سے ملاقات کر رہے ہو، جو آپ سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتا ہے۔
متعدد فٹبال مداحوں اور برازیلینز کے لیے پیلے سوپر ہیومن تھے۔ پیدائش کے بعد ان کا نام ایڈسن آرانتیز دو ناسکیمینٹو رکھا گیا تھا اور انھیں ان کے فٹبال کا عظیم ترین کھلاڑی گردانتے تھے۔
جیسے جان لینن نے کہا تھا کہ موسیقی کی قسم راک اینڈ رول کو چک بیری کہا جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے موسیقی کی اس قسم پر بہت گہرا اثر چھوڑا تھا۔ اسی طرح شاید فٹبال کا نام بھی پیلے رکھ دینا چاہیے۔
پیلے تاحال وہ واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے بطور کھلاڑی فیفا ورلڈکپ تین مرتبہ جیتے ہیں اور وہ صرف 17 برس کے تھے جب انھوں نے پہلی بار 1958 میں یہ ٹرافی اٹھائی تھی۔
12 برس بعد وہ برازیل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے یہ میکسیکو میں کھیلا گیا ورلڈکپ اتنے جارحانہ انداز میں جیتا تھا کہ اسے اب بھی کچھ رائے عامہ کے تجزیوں کے مطابق دنیا کی بہترین ٹیم مانا جاتا ہے۔
اس ٹورنامنٹ میں پیلے کی تعریف میں اٹلی کے ڈیفینڈر ٹارسزیو برگنچ نے ایک ایسی بات کہی جو آج بھی یاد رکھی جاتی ہے۔ برگنچ کو فائنل میں پیلے کی مارکنگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے خود کو میچ سے پہلے یہ بات باور کروائی کہ ’یہ بھی ہم سب کی طرح گوشت پوست سے بنا ایک انسان ہے‘ لیکن میں غلط تھا۔‘
پیلے نے اس میچ میں ایک گول سکور کیا جبکہ دو اسسٹ کیے اور یوں برازیل اور پیلے نے اپنا تیسرا ورلڈکپ جیت لیا۔ یہ گول ان کے کریئر کے 1200 سے زیادہ گولز میں سے ایک تھا۔
پیلے نے ایک ایسا نقش چھوڑا جو کھیل کے علاوہ بھی قائم رہا اور آنجہانی امریکی فنکار اینڈی وارہول کو مقبولیت کے عارضی ہونے کے بارے میں اپنا مقولہ تبدیل کرنا پڑا۔
وارہول نے پیشگوئی کی تھی کہ ’پیلے وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے میری تھیوری کو غلط ثابت کیا، انھیں 15 منٹ کی مقبولیت نہیں 15 صدیوں کی مقبولیت حاصل ہو گی۔‘
سنہ 1973 میں میری پیدائش کے وقت پیلے بطور انٹرنیشنل کھلاڑی ریٹائر ہو چکے تھے لیکن برازیل میں بڑے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کو اس عظیم فٹبالر کے کارناموں کے بارے میں کہانیاں سننے کا نہ ملیں۔
برازیل کو سب سے زیادہ کامیاب فٹبال کھیلنے والا ملک بنانے کے علاوہ سیاہ فام پیلے نے اس سے بھی زیادہ اہم کام کیا۔ وہ ایک ایسے ملک میں قومی اثاثے کے طور پر ابھرے جس کا غلامی اور نسل پرستی کا شرمناک ماضی تھا اورجو آج تک کسی نہ کسی حیثیت میں قائم ہے۔
وہ ماضی میں بھی اور آج بھی سب سے مقبول برازیلین شخصیت ہیں۔ نیویارک سے افریقہ تک میں نے جہاں بھی سفر کیا ہے میں جب کسی کو یہ بتاتا ہوں کہ میرا تعلق کس ملک سے ہے تو ان کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے پیلے پر تنقید کرنے والے بھی تھے۔ کچھ ایسے افراد بھی تھے جن کے خیال میں پیلے کو برازیل پر 1964 سے 1985 تک حکمرانی کرنے والی فوجی حکومت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی کیونکہ یہ فوجی رہنما قومی ٹیم کی کامیابی سے خوب مقبولیت حاصل کرتے تھے۔
پیلے وہ پہلے کھلاڑی نہیں تھے جنھوں نے اس آمریت کے سامنے خاموشی کو ترجیح دی ہو، لیکن باقی کسی کی شخصیت میں وہ جازبیت نہیں تھی جو پیلے کے پاس تھی۔
سنہ 2021 میں نیٹ فلکس پر نشر ہونے والی ایک ڈاکیومینٹری میں پیلے نے خاصے افسوس بھرے انداز میں کہا تھا کہ اس فوجی دور کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ’فٹبالرز نے کچھ زیادہ فرق نہیں ڈال سکتے تھے۔‘
’اگر میں یہ کہوں کہ مجھے ان (خلاف ورزیوں) کا علم نہیں تھا تو یہ میں غلط بیانی کروں گا۔ لیکن ہمیں واضح نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
بعد میں پیلے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے انٹرنیشنل ریٹائرمنٹ واپس لے کر سنہ 1974 کا ورلڈکپ کھیلنے سے اس لیے منع کیا تھا کیونکہ وہ فوج کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے۔
تاہم پیلے نے برازیل میں نسل پرستی کے خلاف بطور کھلاڑی یا ریٹائرمنٹ کے بعد ہونے والی کوششوں میں بھی پوری قوت سے حصہ نہیں لیا تھا۔
سنہ 2014 میں ان پر اس وقت شدید تنقید کی گئی تھی جب انھوں نے برازیلین چیمپیئن شپ میں نسلی منافرت پر مبنی ایک واقعے کو معمولی حیثیت دیتے ہوئے نظرانداز کرنے کی بات کی تھی اور کہا تھا میں اپنے زمانے میں جتنی مرتبہ نسلی تعصب کا شکار ہوا ہوں اس طرح تو ’شاید آپ کو ہر وہ میچ رکوانا پڑتا جس کا میں حصہ رہا ہوں۔‘
پیلے کی ذاتی زندگی بھی تنازعات سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے ایڈسن کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور انھوں نے سنہ 1960 میں ایک افیئر کے نتیجے میں اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد انھیں تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔
نیٹفلکس ڈاکیومینٹری میں پیلے نے اس بات کا اقرار کیا کہ ’میرے اتنے زیادہ معاشقے تھے کہ مجھے علم نہیں کہ میرے کتنے بچے تھے۔‘
پیلے نے سنہ 1977 میں بالآخر امریکی پروفیشنل فٹبال لیگ میں اپنا آخری میچ کھیلا اور ریٹائر ہو گئے۔
انھوں نے نے کبھی بھی مینجمنٹ کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا اور ان کی گیم میں شمولیت ان کے ٹی وی پر بطور مبصر شرکت ہوا کرتی تھی۔ جب برازیل نے لاس اینجلس میں سنہ 1994 کا فٹبال ورلڈکپ جیتا تھا تو اس کے پریس باکس میں بیٹھے پیلے کا ہیڈسیٹ پہن کر ناچنے کا منظر جب بھی میری آنکھوں کے سامنے سے گزرے تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
وہ کچھ ڈراموں اور فلموں میں بھی دکھائی دیے اور ایک فلم ’ایسکیپ ٹو وکٹری‘ خاصی مقبول بھی ہوئی اور انھوں نے برازیل نے وزیرِ کھیل کے طور پر سنہ 1995 سے 1998 کے درمیان فرائض سرانجام دیے۔
پیلے نے متعدد قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے اشتہارات میں نظر آئے، جس کی وجہ سے بعض اوقات ان کی ایسی کچھ سرگرمیوں کا تمسخر بھی اڑایا جاتا تھا، جیسا کہ جب انھوں نے سنہ 2000 کی دہائی میں عضو تناسل کی خرابی کے لیے دوا کی تشہیر میں حصہ لیا، جو کسی حد تک ان کا ایک دلیرانہ اقدام بھی سمجھا جاتا تھا۔
پیلے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے خبروں کا ایک ’منھ پھٹ سورس‘ بھی تھے۔ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر بول جاتے تھے چاہے ان کے الفاظ سے مشہور ساتھی کھلاڑیوں کو کتنا ہی غصہ کیوں نہ آئے۔
برازیل کے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم ممیں فارورڈ پوزیشن کے کھلاڑی روماریو نے ایک بارکہا تھا کہ پیلے ایک خاموش شاعر ہیں۔
وہ پیش گوئیوں میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔
پیلے نے سنہ 1970 کی دہائی میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ اکیسویں صدی سے قبل ایک افریقی ٹیم فٹبال ورلڈ کپ جیتے گی۔ یہ اور بات ہے کہ جب میں یہ یادداشتیں لکھ رہا تھا تو اس وقت کوئی افریقی ٹیم سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچی تھی۔
انھوں نے کولمبیا کو سنہ 1994 کا ورلڈ کپ جیتنے کا گُر بتایا جب جنوبی امریکی قوم نے ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ارجنٹینا کو عبرتناک شکست دی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں وہ امریکا سے ہارنے کے بعد پہلے راؤنڈ میں ہی ناک آؤٹ ہو گئے۔
پیلے کا ’کِس آف ڈیتھ‘ برازیل کے صحافیوں کے لیے تفریح کا ساماں بن گیا۔
یہ بھی پڑھیے
پیلے کے 1000 گول: برازیل کے عظیم فٹبالر جو لیاری والوں کے لیے کسی دیوتا سے کم نہیں
دنیائے فٹبال کے مشہور کھلاڑی جنھیں برازیل نے ’قومی خزانہ‘ قرار دیتے ہوئے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی
برازیل پیلے کے بیٹے کو 33 سال کی سزا
تاہم وہ ان باتوں کا برا نہیں مناتے تھے۔
انھوں نے سنہ 2006 میں برلن میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں اس کھیل میں میرا ماضی مجھے اپنا خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیتا ہے۔‘
یہ ایک اور ایسا لمحہ تھا جب مجھے پیلے کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا تھا جہاں وہ اور ان کا عملہ انگلینڈ اور ایکواڈور کے درمیان میچ دیکھ رہے تھے۔
اس روز انھوں نے ان تمام افراد کے بارے میں جارحانہ انداز اپنایا جو ان کے نزدیک ان پر غیر ضروری طور پر تنقید کر رہے تھے۔ ان میں ڈیاگو میراڈونا بھی شامل تھے۔
وہ ایک بہترین اور دھماکے دار تحریر بن سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے کنگ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ ’تم یہاں ایک دوست کی حیثیت سے ہو، ایک صحافی کی حیثیت سے نہیں۔‘
میں کون ہوتا تھا بادشاہت کے خلاف جانے والا؟ لیکن پھر جب برازیل فرانس سے کوارٹرفائنلز میں شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تو پیلے نے انٹرویو دینے کے لیے صرف مجھے ہی چنا۔
لیونل میسی کی آمد کے بعد سے اکثر افراد یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیے ہیں کہ شاید انھوں نے پیلے سے دنیا کے بہترین فٹبالر کا خطاب لے لیا ہے۔ برازیل کے لیجینڈ فٹبالر کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔
پیلے نے لندن میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ہیڈرز بھی مار لیتا تھا اور دونوں پیروں سے شوٹ بھی کر لیتا تھا، لیکن میسی صرف بائیں ٹانگ کا استعمال کرتے ہیں اور انھیں ابھی ایک ہزار گول بھی کرنے ہیں۔‘
کاش میں پیلے سے مل کر انھیں یہ بتا سکتا کہ میسی تاحال تین ورلڈکپ ٹرافیاں جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
یہ بات کنگ کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی اور مجھے یہ مسکراہٹ بہت یاد آتی ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g7nrpdy1mo | کراچی ٹیسٹ کا چوتھا دن: ’پچ بھی فلیٹ تھی لیکن پاکستانی فیلڈرز نے بھی بولرز کی مدد نہیں کی‘ | نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ کے چوتھے روز پاکستان ٹیم نے دن کے اختتام پر دو وکٹوں کے نقصان پر 77 رنز بنائے ہیں اور آج ایک خاصے سست دن کے کھیل کے بعد میچ کے ڈرا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
آج کے دن کا کھیل کین ولیمسن کی ڈبل سنچری کے باعث یادگار رہا لیکن ساتھ ہی ساتھ پورے دن کے کھیل میں پاکستان کی ناقص فیلڈنگ اس وقت سوشل میڈیا پر تبصروں کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔
نیوزی لینڈ نے اپنی پہلی اننگز نو وکٹوں کے نقصان پر 612 سکور کرتے ہوئے ڈکلیئر کر دی جب پاکستان پر اسے 174 رنز کی برتری حاصل تھی۔
پاکستانی سپنر ابرار احمد نے 67.5 اوورز میں 205 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
چوتھے روز کا آغاز پر نیوزی لینڈ نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 440 رنز بنائے تھے اور کین ولیمسن 105 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔ ان کے ساتھ اش سودھی کھیل رہے تھے۔
سودھی 65 رنز بنانے کے بعد ابرار احمد کا شکار بنے جب مڈ آف پر ان کا کیچ کپتان بابر اعظم نے تھاما۔ انھوں نے ولیمسن کے ساتھ 154 رنز جوڑے جو اننگز کی دوسری سب سے بڑی شراکت رہی۔
صرف ایک رن کے اضافے کے بعد نعمان علی نے ٹِم ساؤدی کو پویلین بھیجا جو جارحانہ شاٹ کھیلنے کی کوشش میں شان مسعود کے ہاتھوں صفر پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ ابرار نے کچھ دیر بعد نیل ویگنر کو بھی آؤٹ کر دیا۔
ولیمسن اور اعجاز پٹیل کے درمیان 15 رنز کی شراکت بنی۔ پھر جب ولیمسن کی ڈبل سنچری مکمل ہوئی تو چائے کے وقفے کے اعلان پر کپتان ساؤدی نے اننگز ڈکلیئر کر دی۔
کراچی کی وکٹ پر کیوی بلے بازوں کے سامنے پاکستانی بولرز حتیٰ کہ سپنرز بھی بے بس نظر آئے۔
ایک موقع پر تیسری نئی گیند ملنے کے بعد میر حمزہ کی گیند پر سودھی کے بلے سے ایج لگی مگر گیند چوتھی سلپ کی پوزیشن سے باؤنڈری لائن پار کر گئی کیونکہ وہاں کوئی فیلڈر نہ تھا۔
اس کے بعد ایک مزید ایج وکٹ کیپر سرفراز احمد کے گلووز میں گئی تاہم کسی نے اس پر اپیل نہ کی۔ بظاہر انھوں نے کوئی آواز نہیں سنی تھی۔
یہ سودھی کے لیے دوسری زندگی تھی کیونکہ اس سے قبل سرفراز نے ان کا کیچ نعمان کی لیگ سائیڈ سے باہر گیند پر ڈراپ کیا تھا۔
اس سے قبل تیسرے روز سرفراز نے ولیمسن کو سٹمپ کرنے کا موقع گنوایا تھا جب وہ 21 رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے۔
مجموعی طور پر سرفراز اور پاکستانی ٹیم کی جانب سے چوتھے روز دو جبکہ تیسرے روز ایک کاٹ بیہائنڈ کی اپیلز نظر انداز کی گئیں۔ اس کے علاوہ سرفراز نے دو سٹمپنگ اور ایک کیچ بھی چھوڑا۔
پاکستان کی جانب سے اوپنرز عبداللہ شفیق اور امام الحق نے اننگز کا پر اعتماد آغاز کیا لیکن 47 رنز کے سکور پر پہلے عبداللہ شفیق بریسویل کی بولنگ پر آؤٹ ہوئے جبکہ شان مسعود کچھ ہی دیر بعد صرف 10 رنز بنا کر اش سودھی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔
آج کے دن بھی پاکستان کے سپنرز نے متعدد اوورز کروائے تاہم پچ کے سلو ہونے کے باعث بیٹنگ قدرے آسان ہو گئی۔ نعمان اور ابرار نے مل کر 131 اوورز کروائے اور آٹھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ان میں پانچ ابرار اور تین نعمان نے حاصل کیں۔
مظہر ارشد نے لکھا کہ ’پچ تو فلیٹ تھی لیکن پاکستان کی فیلڈنگ نے بھی بولنگ کی مدد نہیں کی۔ انھوں نے اب تک وکٹ لینے کے سات مواقع گنوائے ہیں جن میں دو سٹمپنگز کے موقع ضائع ہوئے، دو ریویو نہیں لیے اور تین کیچ ڈراپ یا مس ہوئے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/czdkg10zx0vo | ’فخر کو سکواڈ میں شامل کریں ورنہ ہم پی سی بی ہیڈکوارٹر آ رہے ہیں‘ | پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی عبوری سلیکشن کمیٹی نے نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے پاکستان کے 22 ممکنہ کھلاڑیوں پر مشتمل سکواڈ کا اعلان کر دیا گیا۔
پی سی بی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سلیکٹرز ٹیسٹ کے بعد شروع ہونے والی ایک روزہ سیریز کے لیے 16 رکنی حتمی سکواڈ کا اعلان نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ون ڈے میچز نو،11 اور 13 جنوری کو کراچی میں کھیلے جائیں گے۔
سلیکشن کمیٹی کی جانب سے ممکنہ 22 کھلاڑیوں کی فہرست میں نئے ٹیلنٹ کو موقع فراہم کرتے ہوئے چھ ایسے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جنھوں نے اب تک ون ڈے انٹرنیشنل میں ڈیبیو نہیں کیا۔ ان میں ابرار احمد، عامر جمال، احسان اللہ، کامران غلام، قاسم اکرم اور طیب طاہر شامل ہیں۔
جبکہ اعلان کردہ ابتدائی سکواڈ میں بابر اعظم، محمد رضوان، عبداللہ شفیق، حارث رؤف، حسن علی، امام الحق، محمد حارث، محمد نواز، محمد وسیم جونیئر، نسیم شاہ، سلمان علی آغا، شاداب خان، شاہنواز دھانی، شان مسعود، شرجیل خان، اور محمد حسنین شامل ہیں۔
اس ون ڈے سیریز میں جگہ بنانے والے شرجیل خان نے جنوری 2017 میں اپنا آخری ایک روزہ میچ کھیلا تھا۔
پاکستان کے پیسر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہونے کی وجہ سے سکواڈ میں شامل نہیں ہو سکے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) جو پہلے ہی گذشتہ چند ہفتوں سے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی، سابق چیئرمین رمیز راجا کی عہدے سے برطرفی و الزامات، شاہد آفریدی کے چیف سلیکٹرز بننے پر تحفظات سے تنازعات کا شکار اور خبروں کی شہ سرخیوں میں ہے۔
مگر عبوری سلیکشن کمیٹی کی جانب سے 22 رکنی ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست آنے کے بعد تو جیسے اسے سوشل میڈیا پر امریکی طوفان ’بم سائیکلون‘ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
کیونکہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس ممکنہ 22 رکنی سکواڈ کے نام سامنے آنے پر شدید ردعمل دیا جا رہا ہے۔
اس کی ایک وجہ اس سکواڈ میں فخر زمان، خوشدل شاہ اور افتخار احمد کو شامل نہ کیے جانا ہے۔
کوئی اسے عبوری سلیکشن کمیٹی پر’میڈیا کا دباؤ‘ قرار دے رہا ہے تو کوئی چیف سلیکٹر شاہد آفریدی کی جانب سے فخر زمان، خوشدل شاہ اور افتخار کو شامل نہ کیے جانے کے فیصلے کو سمجھ سے بالاتر قرار دے رہا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ایک صارف نے اس سلیکشن پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ کوئی ٹیم بھی فخر جیسے کھلاڑی جس کی ون ڈے اوسط 45 اور سٹرائک ریٹ 93 ہو کو ڈراپ کرنے کا سوچ نہیں سکتی۔
’شاہد آفریدی یہ آپ کی طرف سے عجب و غریب سلیکشن کی گئی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
مشاہد نامی ایک صارف نے بھی ایسا ہی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’فخر ون ڈے رینکنگ کا حصہ ہیں، ہمارا ٹاپ آرڈر امام، فخر اور بابر کے ساتھ سیٹ ہو چکا ہے اور یہ تینوں بہترین ہیں۔
’یہ ہماری کرکٹ کی تاریخ میں سب سے بڑی غلطی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
سوشل میڈیا صارفین فخر زمان اور افتخار احمد کو 22 رکنی سکواڈ میں شامل نہ کرنے پر کافی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ انجری کے باعث فخر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے بھی باہر رہے تھے۔
ایک اور صارف نے اس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’صرف فخر ہی ٹاپ آرڈر میں جارحانہ انداز میں کھیلنے والے بلے باز ہیں، آل راؤنڈر خوشدل اور افتخار بھی اچھی آپشن ہو سکتے تھے کیونکہ اگلا ورلڈکپ انڈیا میں ہے مگر ان کا ورلڈ کپ پلان میں شامل نہ ہونا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
’اور مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی اگر تجربے کی بنیاد پر وہاب اور عامر بھی اس ٹیم میں شامل ہو جائیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
مگر جہاں بیشتر صارفین اس 22 رکنی سکواڈ پر تنقید کر رہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کے فیصلے کو سراہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’مجھے میرا سامان بھی نہیں لینے دیا، ایسا لگا جیسے ایف آئی اے کا چھاپہ پڑ گیا‘
شاہد آفریدی کے پلان پر ’ویل ڈن لالا‘ کی گونج مگر دور اندیشی پر حیرت
علیم ڈار کو ریٹائر ہونے کے مشورے، ’ان کے فیصلوں کو بدلتا دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
ماجد نامی صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجموعی طور پر ایک کافی اچھا سکواڈ ہے، اور اب یہ انتطامیہ پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کپ میں دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کامران غلام، ٹاپ وکٹ ٹیکر قاسم اور ڈومیسٹک سیزن کہ بہترین بولر احسان اللہ سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
’اور شرجیل کو پاور اٹیک کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں۔‘
چند صارفین تو نیوزی لینڈ کے خلاف اس اعلان کردہ سکواڈ کو قبول ہی نہیں کر رہے جیسا کہ ایک صارف نے لکھا کہ ’میرے خیال سے اس ٹیم کا اعلان زمبابوے کے خلاف کھیلنے کے لیے کیا گیا ہے۔
’نیوزی لینڈ کے خلاف ابھی اعلان ہونا ہے۔ شاہد بھائی تھوڑا خیال کریں۔۔۔فخر زمان جو ون ڈے کا اچھا کھلاڑی ہے اس کو موقع دیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
مگر کچھ منچلے تو اس اعلان کردہ ناموں پر کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئے ہیں اور پی سی بی کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک صارف نے پی سی بی کو دھمکاتے ہوئے لکھا کہ ’فخر اور افتخار کو شامل کریں ورنہ میں اور میری ٹائم لائن پر موجود تمام صارفین پی سی بی ہیڈکوارٹر آ رہے رہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 8 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw8g3v8zdnzo | کراچی ٹیسٹ کے تیسرے روز علیم ڈار کو ریٹائر ہونے کے مشورے، ’ان کے فیصلوں کو بدلتا دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے‘ | کراچی میں جاری ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے تیسرے روز کھیل کے اختتام پرچھ وکٹوں کے نقصان پر 440 رنز بنا لیے ہیں اور اس طرح اسے پاکستان پر دو رنز کی برتری حاصل ہو چکی ہے۔
سابق کپتان کین ولیمسن 105 بنا کر ناٹ آؤٹ ہیں۔ کپتانی چھوڑنے کے بعد یہ کین ولیمسن کی پہلی اننگز تھی جس وہ سنچری بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ چار سال بعد ٹیم میں واپس آنے والے سرفراز احمد نے کین ولیمسن کو سٹمپ آؤٹ کرنے کے دو مواقع ضائع کیے۔
ادھر امپائر علیم ڈار کو بھی ان کے حالیہ فیصلوں کی وجہ سے ریٹائر ہونے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔
تیسرے روز کا کھیل جب شروع ہوا تو نیوزی لینڈ کے دونوں اوپنر کریز پر موجود تھے۔ نیوزی لینڈ کی پہلی وکٹ 183 کے مجموعی سکور پر گری جب قائم مقام کپتان سرفراز احمد نے ایک کامیاب ریویو لیا۔ ڈیون کانوے 93 رنز بنا کر نعمان علی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار پائے۔
البتہ ٹام لیتھم نے سنچری بنانے کا موقع ضائع نہیں کیا اور 113 رنز بنا کر ابرار احمد کی میچ میں پہلی وکٹ بن گئے۔ ابرار احمد ابھی تک پاکستان کے سب سے کامیاب بولر رہے ہیں اور نیوزی لینڈ کی گرنے والی چھ وکٹوں میں تین ان کے حصے میں آئیں۔
نیوزی لینڈ کی مڈل بیٹسمینوں نے کین ولیمسن کے ساتھ مل کر ٹیم کے سکور کو آگے بڑھایا اور کھیل کے اختتام پر ٹیم کو پاکستان سے بہتر پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔
پاکستان کے تیز بولرز نیوزی لینڈ کے بیٹسمینوں کے سامنے بلکل بے بس نظر آ رہے ہیں۔ مڈل آرڈر بیٹسمین ڈیرل مچلز نے جارجانہ انداز اپناتے ہوئے پاکستانی فاسٹ بولروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور محمد وسیم کے ایک اوور میں چار چوکے لگا کراپنے ارادے ظاہر کیے۔ البتہ ڈیرل میچلز 47 گیندوں پر 42 رنز بنا کر ابرار احمد کی گیند پر سرفراز احمد کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔
محمد وسیم 24 اووروں میں 81 رنز دے کر ایک وکٹ لے سکے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے لیفٹ آرم میڈیم فاسٹ بولر میر حمزہ 20 اووروں میں کوئی وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ میر حمزہ اپنے زندگی کا دوسرا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں اور ابھی دوسری ٹیسٹ وکٹ کی تلاش میں ہیں۔
ایک موقع پر جب تمام بولر وکٹیں حاصل کرنے میں بے بس نظر آ رہے تھے تو کپتان بابر اعظم نے خود بولنگ کا فیصلہ کیا۔ بابر اعظم نے تین اوور کرائے لیکن کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔
آئی سی سی کے ایلیٹ پینل میں شامل پاکستانی امپائر علیم ڈار جو ڈی آر ایس کے دور میں اپنے صحیح فیصلوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں آجکل اچھی فارم میں نہیں ہیں اور ان کے غلط فیصلوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
انگلینڈ کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران بھی علیم ڈار کے غلط فیصلے سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے۔ نوجوان سپنر ابرار احمد شاید ساری زندگی علیم ڈار کے فیصلوں کو کبھی نہ بھول پائیں۔ ابرار احمد نے انگلینڈ کے خلاف اپنے پہلے میچ کی پہلی اننگز میں سات وکٹیں حاصل کیں لیکن ان سات میں سے چار وکٹیں ریویو پر ملی تھیں جنہیں علیم ڈار نے ناٹ آؤٹ قرار دیا تھا۔
کراچی میں جاری ٹیسٹ میں بھی علیم ڈار کے فیصلے چیلنج ہو رہے ہیں۔ میچ کے دوسرے روز جب انھوں نے بابر اعظم کو آؤٹ دیا تو بابر نے فوراً ریویو لیا۔ بابر اعظم ناٹ آؤٹ قرار پائے۔ تیسرے روز امپائر علیم ڈار نے ڈیون کانوے کے خلاف زور دار اپیل کو مسترد کیا اور جب کپتان سرفراز احمد نے ریویو لیا تو ڈیون کانوے آؤٹ قرار پائے۔
ٹوئٹر صارفین علیم ڈار کو مشورے دے رہے ہیں کہ اب انھیں ریٹائر ہو جانا چاہیے۔
محمد دانش لکھتے ہیں:’ اب انھیں وقار کے ساتھ ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور اپنے کیرئر کو غیرضروری طول نہ دے کر ہمارے ہیرو ہی رہنا چاہیے۔ ان کے فیصلوں کو بدلتا دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
ایم ذیشان صدیقی نے علیم ڈار کو مشورہ دیا ’علیم ڈار کے لیے یہ ریٹائر ہونے کا وقت ہے۔ اب ان کی نظر کمزور ہے۔ وہ کیوں اپنے اچھے کیرئر کو خراب کر رہے ہو۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
تیسرے روز جب بابر اعظم طبعیت کی خرابی کی وجہ سے گراؤنڈ میں نہ آئے تو ٹیم کی قیادت سرفراز احمد کے پاس آ گئی۔ سرفراز احمد نیوزی لینڈ کے اوپنر ڈیون کانوے کے خلاف اپیل مسترد ہونے پر ریویو لیا جو کامیاب ہوا جس کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے سرفراز احمد کی کپتانی کی تعریفیں شروع کر دیں۔
ابراہیم مہدی نے لکھا ’تینوں وکٹیں سرفراز کی وجہ سے، مجھے بتانا جب بابر بطور کپتان وکٹ حاصل کر لے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
سرفراز کی کپتانی کی تو تعریف ہوئی لیکن کچھ سوشل میڈیا صارفین نے سرفراز احمد کی وکٹوں کے پیچھے کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور کین ولیمسن کو سٹمپ آؤٹ کرنے کے دو مواقع ضائع کرنے پر سرفراز سے ناراض نظر آئے۔
وحید بھٹی نے ٹوئٹر پر لکھا ’سرفراز سٹمپنگ کے دو چانس مس کر چکا ہے۔ وہ کیا کر رہا ہے، یہ تو پاکستان کو مہنگا پڑے گا‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjrevr5wq5lo | شاہد آفریدی کے پلان پر ’ویل ڈن لالا‘ کی گونج مگر دور اندیشی پر حیرت | پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ میرٹ پر فیصلے نہ ہونے کی وجہ ملک میں ٹیلنٹ یعنی ہنر مند نوجوان ضائع ہوجاتے ہیں مگر ان کی قیادت میں سلیکشن کمیٹی ’ٹیلنٹ ضائع ہونے نہیں دے گی۔‘
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ ’جس کرسی پر سلیکشن کمیٹی بیٹھی ہے، ہم یہاں آئے ہی اس لیے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود یہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کی سب سے وجہ میرٹ پر فیصلہ نہ ہونا ہے۔‘
’میری سلیکشن کمیٹی کی ٹیم مضبوط اور تجربہ کار ہے۔ ہم مل کر اس ٹیلنٹ کو ضائع ہونے نہیں دیں گے۔‘
انڈر 19 کے تین کھلاڑیوں عرفات منہاس (ملتان)، باسط علی (ڈیرہ مراد جمالی) اور محمد ذیشان (فیصل آباد) کو پاکستانی ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’سارے بچوں کو پیغام ہے کہ کرکٹ پر توجہ دیں اور آپ کو مواقع ملیں گے۔۔۔ پوری سلیکشن کمیٹی آپ کو سپورٹ کرے گی۔ خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے آپ کو دن رات محنت کرنا ہوگی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
بعد ازاں ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بھی شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ہم بہترین کارکردگی دینے والے کھلاڑیوں کی مدد کریں گے تاکہ وہ پاکستان کی نمائندگی کر سکیں۔‘
’اس حوالے سے پہلا قدم یہ ہوگا کہ وہ سٹارز کے ساتھ وقت گزاریں گے اور ان سے سیکھیں گے کہ کیسے انٹرنیشنل میچوں کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔‘
پاکستان کے متعدد سابق کرکٹرز، جیسے سابق کپتان مصباح الحق، نے شاہد آفریدی کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
سابق ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹی ٹین کے اس دور میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں دلچسپی لیں۔ ’اس سے نوجوان ریڈ بال کرکٹ کھیلنے کی طرف متوجہ ہوں گے جو ان کی بہتری کے لیے سب سے اہم فارمیٹ ہے۔‘
ساتھ ہی ساتھ سابق آل راؤنڈر محمد حفیظ بھی ذاتی طور پر اس اقدام سے خوش ہیں۔ ’ویل ڈن لالا‘ کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ ’اس اقدام سے نوجوانوں میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا رجحان پیدا کیا جاسکے گا۔‘
اسی طرح سابق بولنگ کوچ مشتاق احمد کے مطابق یہ شاہد آفریدی کا ’آؤٹ آف دی بوکس‘ فیصلہ ہے جس میں انڈر 19 کے بچے ڈریسنگ روم سے ٹیسٹ میچ کا ہر سیشن دیکھیں گے اور اپنی گیم کو تبدیل کر سکیں گے۔ ’اس سے ہمارے انڈر 19 کے لڑکوں کو بہت فائدہ ہوگا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
اس سے قبل آل راونڈر شعیب ملک بھی وکٹ کیپر بلے باز سرفراز احمد کو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں موقع دینے پر آفریدی کی حمایت کر چکے ہیں۔
ان کا مشورہ ہے کہ اسی طرح سرفراز کو ون ڈے میچوں میں بھی موقع دیا جانا چاہیے۔
مگر تمام سابق کرکٹرز شاہد آفریدی سے اس قدر پُرامید نہیں۔
جیسے ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے لیگ سپنر دانش کنیریا نے شاہد آفریدی کی آسٹریلیا کے خلاف میچ کی وہ تصویر شیئر کر دی جس میں وہ گیند کو چبا رہے تھے اور ساتھ میں لکھا ’چیف سلیکٹر‘۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
اس کے جواب میں اداکار فہد مصطفیٰ نے لکھا ’آپ کی طرح وہ فکسر نہیں۔‘
ٹیسٹ کرکٹ کا تجربہ دینے کے لیے انڈر 19 کے نوجوانوں کی ٹیم میں سلیکشن پر شائقین ملا جلا ردعمل دے رہے ہیں۔
بعض صارفین نے جہاں اس فیصلے کو سراہا تو وہیں کچھ کا خیال ہے کہ ٹیم میں غیر تجربہ کار کرکٹرز کی شمولیت سے کچھ زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
اسریٰ نامی صارف نے 22 رکنی سکواڈ کو ’80 رکنی کابینہ‘ سے تشبیہ دی تو مہرین صرف اسی بات پر حیران ہیں کہ اپنے بوم بوم سٹائل کے لیے مشہور شاہد آفریدی ’طویل مدتی منصوبے کی بات کر رہے ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
ایک انڈین صارف نے تصبرہ کیا کہ پاکستانی کرکٹ 90 کے دہائی کے سٹار پلس ٹی وی سوپ کی طرح دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ ’یہ وہی کہانی ہے جو نسلوں سے چل رہی ہے۔‘
ادھر رمشا پاکستانی چیف سلیکٹر کے دفاع میں کہتی ہیں کہ جب نوجوانوں کو مواقع نہیں ملتے تب بھی یہ لوگ بُرا بھلا کہتے ہیں مگر اب تو انھیں سٹارز کے ساتھ ڈریسنگ روم شیئر کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔
مگر کلیم خان کہتے ہیں کہ پاکستانی ڈریسنگ روم تک رسائی اس قدر آسان نہیں ہونی چاہیے، خاص کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 8
کرکٹ تجزیہ کار عالیہ رشید کہتی ہیں کہ سابق کرکٹرز ٹوئٹر پر شور مچا کر سلیکٹرز کے لیے پریشر گروپ بن جاتے ہیں۔ ’درست فیصلوں کے بجائے مقبول فیصلے نتائج نہیں دیتے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 9 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg0neekxzjo | پاکستانی ٹیم دوسری شام تک دفاعی خول میں جاتی سی نظر آئی | ٹیسٹ کرکٹ میں اننگز کی اوپننگ کسی عقدے سے کم نہیں ہوتی۔ فاسٹ بولر آف سٹمپ چینل کے باہر للچانے والی لینتھ سے حملہ آور ہو کر پے در پے باہری کنارے کو ہدف بناتے ہیں اور ڈرائیونگ لینتھ پر بلے باز کی ثابت قدمی کو امتحان میں مبتلا کیے رکھتے ہیں۔
مگر پہلی صبح کراچی کی پچ ٹیسٹ کرکٹ کی روایات کے یکسر الٹ چال چل رہی تھی اور پیسرز کے بجائے سپنرز کو پہلے گھنٹے میں چار ڈگری کا ٹرن مل رہا تھا۔ یہ اس قدر غیر معمولی ٹرن تھا جو پانچویں دن کی پچ پر بھی خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسی سپن اور ٹرن سے دامن بچانے کو پاکستانی اوپنرز نے قدموں کا استعمال کرنا ضروری سمجھا۔ ایسی بے محابا سپن سے نمٹنے کے عموماً دو ہی طریقے ہوا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بلے باز کریز میں مزید پسپا ہو کر ایسا سٹانس اپنا لے جہاں اسے قدرے زیادہ وقت میسر آ جائے اور وہ سپن کو بھانپنے کے قابل ہو جائے۔
دوسرا اور عام طریق یہ ہوتا ہے کہ بلے باز کریز سے باہر نکلے اور قدموں کے استعمال سے گیند کی پچ تک رسائی حاصل کر کے سپن اور ٹرن کو سرے سے ہی منہا کر ڈالے۔ یہی طریق کراچی ٹیسٹ کی پہلی صبح پاکستانی اوپنرز نے اختیار کیا۔
عہد ساز بلے باز برائن چارلس لارا نے کہا تھا کہ اگر سپن کے خلاف آپ کریز میں پیچھے نہیں ہٹ سکتے تو آگے بھی مت بڑھیں۔ پاکستانی ٹاپ آرڈر مگر قدم بڑھاتا چلا گیا اور قدم قدم خسارہ سمیٹتا چلا گیا۔ میچ کے پہلے ایک گھنٹے میں جیسی یلغار کیوی سپنرز نے کر ڈالی، بعید نہیں تھا کہ دو ہی سیشنز میں پاکستانی اننگز کا بستر گول ہو جاتا۔
مگر پھر سرفراز احمد کریز پر آئے اور اپنے یادگار کریئر میں پہلی بار اپنے ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اُنھوں نے اس ہونی کو ٹال دیا جو ٹم ساؤدی کے ذہن میں تھی۔ سرفراز احمد کی اننگز نے نہ صرف ساؤدی کے خواب مسمار کیے بلکہ پاکستانی ڈریسنگ روم پر منڈلاتے خدشات کے سائے بھی ٹال دیے۔
اگرچہ اس ساجھے داری میں زیادہ حصہ بابر اعظم کا تھا مگر جو تائید اُنھیں دوسرے کنارے سے سرفراز احمد نے فراہم کی، وہی دراصل وہ تشنگی تھی جو پچھلے کئی ٹیسٹ میچز میں پاکستانی اننگز کو پریشان کیے چلی آ رہی تھی۔ ان کی بدقسمتی رہی کہ سینچری کے عین قریب پہنچ کر بھی اپنے کم بیک کو یادگار نہ بنا پائے مگر بہر حال اُنھوں نے پاکستان کے لیے اس میچ کو یادگار بنانے کی داغ بیل ضرور ڈال دی۔
بابر اعظم کی سینچری نے جہاں کیوی ارمانوں کا خون کیا، وہیں آغا سلمان کی جارحانہ اننگز نے بارِ دگر ساؤدی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا جو دوسری صبح جلدی جلدی ملبہ سمیٹنا چاہ رہے تھے۔ آغا کی پہلی ٹیسٹ سینچری کی بدولت پاکستان میچ میں مسابقت سے بڑھ کر برتری کے مقام پر آ گیا۔
مگر پاکستان کی اس ٹیسٹ ٹیم کا بنیادی مسئلہ بیٹنگ سے کہیں بڑھ کر بولنگ ہے جسے اپنے تجربہ کار چہروں کی عدم دستیابی کے بعد 20 وکٹیں اڑانے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ ابرار احمد نوآموز ہیں اور نعمان علی بھی بائیں ہاتھ کے کیوی بلے بازوں کے خلاف زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو پائے۔
لیگ سپنرز عمومی طور پر بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف اپنا جادو نہیں جگا پاتے کہ ایل بی ڈبلیو کے امکانات زندہ رکھنے کے لیے اُنھیں راؤنڈ دی وکٹ بولنگ کرنا پڑتی ہے جہاں بسا اوقات ان کی کاٹ میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہو رہتی ہے۔
پاکستانی بولنگ اٹیک کی ناتجربہ کاری اپنی جگہ، مگر جس ثابت قدمی سے ٹام لیتھم اور ڈیوون کونوے نے پاکستانی سپن کو نمٹایا، وہ بہرحال ستائش کی مستحق ہے۔
اگرچہ ابرار احمد اور نعمان علی نے بھی پہلی صبح کے سیشن کی طرح فلائٹ دے کر اُنھیں لبھانے اور کریز سے باہر کھینچ لانے کی تگ و دو کی مگر نہ تو پچ میں پہلی صبح کا سا مبالغہ آمیز ٹرن تھا اور نہ ہی کیوی اوپنرز کسی جلدبازی کے موڈ میں تھے۔
ڈیوون کونوے بھی لیتھم ہی کی طرح ثابت قدم رہے اور یوں لنچ تک میچ پر واضح برتری رکھنے والی پاکستانی ٹیم دوسری شام تک دفاعی خول میں جاتی سی نظر آئی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv287dggxzdo | رمیز راجہ کا برطرفی کے بعد پہلا بیان: ’مجھے میرا سامان بھی نہیں لینے دیا، ایسا لگا جیسے ایف آئی اے کا چھاپہ پڑ گیا‘ | ’ایسا انھوں نے حملہ کیا کرکٹ بورڈ میں آ کر کہ مجھے میرا سامان بھی نہیں لینے دیا۔ صبح یہ 17 بندے دندناتے پھر رہے تھے کرکٹ بورڈ میں، جیسے کوئی ایف آئی اے کا چھاپہ پڑ گیا ہے۔‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے اپنی برطرفی کے بعد پہلی مرتبہ اس بارے میں عوامی طور پر اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے بات کی ہے۔
اپنے دور کے اچانک خاتمے کے حوالے سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں ’چبھن اور درد ہوا۔‘
خیال رہے کہ رمیز راجہ کو گذشتہ ہفتے وزیرِ اعظم کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے ذریعے برطرف کر دیا گیا تھا اور ان کی جگہ نجم سیٹھی کی سربراہی میں ایک 15 رکنی مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
رمیز راجہ کا کرکٹ کمنٹری میں واپسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی کہنا تھا کہ پی سی بی انھیں واپس نہیں آنے دے گا۔
تاہم نجم سیٹھی نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رمیز ایک آزاد آدمی ہیں اور اگر انھیں کسی موڑ پر بھی کمنٹری کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تو ہم بالکل مخالفت نہیں کریں گے۔‘
نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہنا تھا کہ ’رمیز راجہ صاحب کو کسی صورت میں بھی نہیں روکا جائے گا، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔‘
’مجھے احساس ہے کہ ان پر کس قسم کا دباؤ تھا، میرے بارے میں، تو وہ ان کی غلطی نہیں۔‘
رمیز راجہ نے اپنے یوٹیوب چینل ’رمیز سپیکس‘ پر برطرفی کے بعد پہلی بار خاصی تفصیل سے بات کی ہے۔
انھوں نے اس لائیو سٹریم کے دوران لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کھیل کرکٹرز کا ہے، یہ کرکٹرز کی پلیئنگ فیلڈ ہے۔ یہاں پر باہر سے جب آ کر لوگ حملہ کرتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک بندے کو لانے کے لیے، نجم سیٹھی کو، آپ نے پورا آئین بدل دیا۔ ان کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے، یہ میں نے دنیا میں کہیں ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک طور طریقہ ہوتا ہے اور وہ بھی سیزن کے درمیان، آپ نے چیف سیلیکٹر بدل دیا، انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہوئی ہے، آپ لوگوں کو عزت کے ساتھ روانہ کرتے ہیں۔‘
’میں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہوئی ہے یہ میرا پلیئنگ فیلڈ ہے۔ آپ کو چبھن اور درد ہوتا، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مسیحا آ گیا ہے جو پتا نہیں کرکٹ کو کہاں سے کہاں لے جائیں گے۔‘
خیال رہے کہ نجم سیٹھی کی جانب سے آتے ہی اس ’رجیم چینج‘ کی یہ توجیہ پیش کی گئی تھی کہ ان کے آنے اور سنہ 2014 کے آئین کو بحال کرنے کا بنیادی مقصد پاکستان میں ڈپارٹمنٹ کرکٹ کی بحالی اور کھلاڑیوں کو نوکریاں اور کھیل کے مواقع دینا ہے۔
تاہم رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ’یہ آئے تو انھوں نے کہا کہ ہم نے ڈپارٹمنٹ کرکٹ کو واپس لانا ہے لیکن پھر اگلی پریس کانفرنس میں کہا کہ نہیں ایسا کرنا مشکل ہو گا۔۔۔ یہ ایک معجزہ ہو گا کہ اگر یہ ڈپارٹمنٹ کرکٹ واپس لے آئے، خاص طور پر موجودہ حالات میں کوئی ایسی انتظامیہ کی حمایت نہی کرے گا جس کا پتا نہیں کہ وہ کتنا عرصہ رہے گی۔‘
رمیز راجہ سوال و جواب کے اس سلسلے کے دوران خاصے جذباتی دکھائی دیے۔ انھوں نے کہا کہ ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ یہ کرکٹ کی بہتری اور ڈویلپمینٹ کے لیے لیے آئے ہیں، یہ چودراہٹ کے لیے آئے ہیں اور ان کو شوق ہے کہ کسی طرح سے انھیں لائم لائٹ مل جائے۔ نہ کوئی لینا دینا ہے کرکٹ میں، نہ کبھی بیٹ اٹھایا۔‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی رمیز راجہ کے مداح اور ناقدین ان کے ان بیانات پر ردِ عمل دے رہے ہیں۔
کچھ صارفین اور صحافی رمیز راجہ کی حمایت کر رہے ہیں لیکن کچھ کا خیال یہ بھی ہے کہ رمیز راجہ کیسے نجم سیٹھی پر اس طرح تنقید کر سکتے ہیں۔
ایک صارف نے رمیز راجہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جو کام، ایک چیف سلیکٹر جو ایک کرکٹر رہ چکا ہے، اسے کرنے چاہییں تھے وہ نجم سیٹھی کر رہے ہیں، جو کرکٹر بھی نہیں۔‘
’کہنے کا مطلب راجہ صاحب جو آپ سے توقعات تھیں معذرت کے ساتھ آپ ان پر پورا نہیں اترے اسی لیے اچھا ہوا کہ آپ کو ہی اتار دیا گیا۔‘
تاہم ایک صارف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رمیز راجہ کا غصہ بالکل جائز ہے۔عہدے کی میعاد قانونی طور پر موجود ہے۔‘
’آج بھی وہ عدالت جائیں تو ایک مصیبت پڑ جائے گی۔ آئین بدلنا، راتوں رات ہیڈ کوراٹر پر قبضہ کر لینا؟ ہر چیز کا ایک طور طریقہ ہوتا ہے۔ میعاد ختم ہونے کے بعد کسی کو لگانے کا حق حکومت کا ہے لیکن یہ غلط طریقے سے ہوا۔‘
یہ بھی پڑھیے
کسی کا ’شکرانے کے نفل‘ کا مشورہ، تو کوئی شادی کا ’دباؤ‘ محسوس کرنے لگا
’اب حسن علی نمبر چار پر، آصف علی ٹیسٹ میچوں میں کھیلیں گے‘
کراچی ٹیسٹ میں کپتان اور ’دلوں کے کپتان‘ کی 196 رنز کی شراکت
ایک صارف نے کہا کہ ’پہلے صرف میں بیروزگار تھا، اب ہم دونوں بیروزگار ہیں۔‘
علی نامی صارف نے لکھا کہ بڑے اداروں کی سربراہی کرنا کوئی مذاق نہیں۔ لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ رمیز کے تازہ ترین دور سے یہ واضح ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔
اس بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے صحافی یحیٰی حسینی کا کہنا تھا کہ ’رمیز راجہ کی یہ بات تو درست ہے کہ کرکٹ بورڈ میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن نجم سیٹھی کی تعیناتی پر سابق کپتان تنقید کرتے ہوئے یہ کیوں بھول گئے کہ وہ بھی سابق وزیر اعظم کی سفارش پر چیئرمین بنے تھے۔ تو اب شہباز شریف کے فیصلے پر اتنا غصہ کیوں؟‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c991kdrw52vo | نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں رضوان کھیلیں گے یا سرفراز؟ | پاکستان کرکٹ کے لیے گذشتہ ایک ہفتہ خبروں کے اعتبار سے خاصا مصروف رہا ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی نئی خبر شہ سرخیوں کی زینت بن رہی ہے۔
پہلے پاکستان کو انگلینڈ کے ہاتھوں کراچی میں کھیلے جانے والے سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پھر چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو برطرف کرتے ہوئے نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینجمنٹ کمیٹی نے پی سی بی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان کیا جس کی سربراہی شاہد آفریدی کو سونپی گئی ہے۔
اس سلیکشن کمیٹی کی جانب سے جمعے کو پاکستان کے 16 رکنی سکواڈ میں کپتان بابر اعظم کی مشاورت سے مزید تین کھلاڑیوں فاسٹ بولر میر حمزہ، شاہنواز دھانی اور آف سپنر ساجد خان کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تاہم جو سوال اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام مداحوں کے ذہن میں ہے وہ یہ کہ کیا کل نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں محمد رضوان ٹیم کا حصہ ہوں گے یا ان کی جگہ سابق کپتان سرفراز احمد کو لگ بھگ چار برس بعد ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا جائے گا۔
عام طور پر سلیکشن کمیٹی کی جانب سے حتمی سکواڈ کے اعلان کے بعد میچ سے ایک روز قبل، یا ٹاس سے پہلے پچ دیکھنے کے بعد پلیئنگ الیون کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن سنیچر کو پریس کانفرنس کے دوران بابر اعظم کی جانب سے دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فائنل الیون کا فیصلہ چیف سیلیکٹر سے مشاورت کے بعد کچھ دیر میں کیا جائے گا۔‘
بابر کی پریس کانفرنس کے بعد شاہد آفریدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ سرفراز اور میر حمزہ کو ممکنہ طور پر ٹیم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے نیشنل سٹیڈیم کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے معلوم ہوا کہ نسیم شاہ پوری طرح سے فٹ نہیں ہیں اس لیے دو فاسٹ بولرز کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی کی غیر موجودگی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک لیفٹ آرم پیسر کی بھی ضرورت تھی تاہم انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
اسی طرح شاہد آفریدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کھلاڑیوں کے ورک لوڈ کے بارے میں بابر بات کر چکے ہیں۔ ایسے کھلاڑی ہیں جو ایک عرصے سے تینوں فارمیٹس کھیل رہے ہیں، بہت سارے سینیئر کھلاڑی باہر بیٹھے ہیں اور ہمیں اپنا بینچ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کوئی ٹیم سے نکلے بھی تو زیادہ فرق محسوس نہ ہو۔‘
سرفراز احمد تنیوں فارمیٹس میں پاکستان کی کپتانی کر چکے ہیں اور انھوں نے 49 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے جس میں انھوں نے 36 کی اوسط سے 2657 رنز سکور کیے ہیں اور تین سنچریاں سکور کی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے وکٹ کے پیچھے 146 کیچ پکڑنے کے ساتھ ساتھ 21 سٹمپنگز بھی کی ہیں۔
تاہم اس موقع پر سرفراز احمد کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے چہ مگوئیاں دراصل محمد رضوان کی ٹیسٹ میچوں میں خراب فارم کے باعث ہو رہی ہیں۔
محمد رضوان کی حالیہ ٹیسٹ میچوں میں قدرے خراب فارم کے باعث سرفراز کی واپسی کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ رضوان نے گذشتہ چھ ٹیسٹ میچوں میں نصف سنچری سکور نہیں کی ہے لیکن رواں سال ان کی کراچی ٹیسٹ میں بنائی گئی 104 ناٹ آؤٹ کی اننگز نے پاکستان کو وہ ٹیسٹ میچ ڈرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
محمد رضوان نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو سنہ 2016 میں بطور بلے باز نیوزی لینڈ میں کیا تھا لیکن پھر تین سال تک بینچ پر بیٹھنے کے بعد انھیں سنہ 2019 میں باقاعدہ طور پر ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا جس کے بعد سے وہ تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
انگلینڈ کی سیریز کے دوران محمد رضوان کے آف سائیڈ کھیل اور اس حوالے سے ٹیکنیکل مسئلے کے بارے میں خاصی بات ہوئی تھی اور اس کے بعد چند ویڈیوز میں بیٹنگ کوچ محمد یوسف کو ان کے ساتھ کام کرتے بھی دیکھا گیا تھا۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں رضوان کو سال 2021 کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا تھا اور ان کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اعداد و شمار بھی بہترین رہے ہیں۔ تاہم ان کی ٹیسٹ میچوں میں کارکردگی کے بارے میں میڈیا پر پہلے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
اس مرتبہ انگلینڈ کی سیریز کے دوران انھوں نے چھ اننگز میں 23 اعشاریہ پانچ کی اوسط سے صرف 262 رنز سکور کیے اور جہاں پاکستان کو انگلش بولنگ کے خلاف مڈل آرڈر میں تجربہ کار بلے باز کی ضرورت تھی، وہاں وہ اپنا کردار بخوبی نہ نبھا سکے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
دوسری جانب سرفراز احمد نے حالیہ قائد اعظم ٹرافی میں سندھ کی ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے 43 کی اوسط سے آٹھ میچوں میں 394 سکور کیے جس میں ایک سنچری اور تین نصف سنچریاں شامل تھیں۔
جہاں اس وقت سوشل میڈیا پر سرفراز کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے مطالبے زور پکڑ رہے ہیں وہیں ایک رائے یہ بھی ہے کہ رضوان کو مزید موقع دینا چاہیے اور جلد بازی میں فیصلے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار اور کرکٹ کے اعداد و شمار پر گہری نظر رکھنے والے مظہر ارشد نے کہا کہ گذشتہ دو برس میں پاکستان نے 13 نئے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ دی ہے اور 17 میچوں میں 29 مختلف کھلاڑیوں کو کھلایا ہے جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’ایک یا دو بری سیریز کے بعد کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے کے مطالبے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس سے پہلے وہ کتنا اچھا پرفارم کرتے آئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ رضوان پر بھروسہ کریں گے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’اب حسن علی نمبر چار پر، آصف علی ٹیسٹ میچوں میں کھیلیں گے‘
شاہد آفریدی عبوری سلیکشن کمیٹی کے سربراہ مقرر
رمیز راجہ کی رخصتی، نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینیجمنٹ کمیٹی قائم
کرک وک نامی ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے مظہر ارشد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رضوان کی بطور وکٹ کیپر کوئی بھی سیریز بری نہیں گزری، صرف حالیہ سیریز میں انگلینڈ کے خلاف وہ بیٹنگ میں پرفارم نہیں کر سکے۔‘
دوسری جانب بعض صارفین سرفراز احمد کی ٹیم میں شمولیت کے حق میں بھی دکھائی دیے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’میں سرفراز کا مداح ہوں اور میرے نزدیک انھیں ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے بجائے رضوان کے۔
’رضوان ٹی ٹوئنٹی کے اچھے کھلاڑی ہیں لیکن ون ڈے اور ٹیسٹ میں سرفراز کو کھلانا چاہیے۔‘
اکثر صارفین کو بابر اعظم کی چیف سیلیکٹر سے پوچھ کر ٹیم کا اعلان کرنے کی بات بھی نہیں بھائی اور کچھ نے یہ پیشگوئی کی کہ اب بابر اعظم بھی صرف ’ڈمی کپتان‘ ہی رہ جائیں گے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n8r36evm8o | حارث رؤف کے نکاح پر ساتھی کرکٹرز کی چھیڑ چھاڑ: کسی کا ’شکرانے کے نفل‘ کا مشورہ، تو کوئی شادی کا ’دباؤ‘ محسوس کرنے لگا | پاکستان میں کوئی شوبز سیلیبرٹی ہو یا کرکٹ سٹار ان کی زندگی سے جڑے اہم واقعات پر ان کے مداح ہمیشہ پرجوش دکھائی دیے ہیں۔
ایسا ہی کچھ اس بار بھی دیکھنے میں آیا، جب گذشتہ روز پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حارث رؤف اپنی کلاس فیلو اور ماڈل مزنا مسعود کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔
ویسے تو ان کے نکاح کی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں قریبی رشتہ داروں اور ساتھی کرکٹرز اور دوست احباب نے شرکت کی مگر ان کے مداحوں اور کھلاڑیوں نے انھیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی دنیا بھر سے مبارکباد دی۔
سوشل میڈیا پر ان کے مداحوں کی جانب سے مبارکباد اور جوڑے کے خوشگوار اور کامیاب مستقبل کے لیے نیک تمنائیں تو نکاح کی تقریب سے قبل ہی آنی شروع ہو گئی تھیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
کوئی حارث رؤف کی اہلیہ مزنا کے لباس کی تعریف کرتا دکھائی دیا تو کسی نے دلہن کے ہاتھ پر لگی مہندی میں لکھے حروف ’ایچ آر 150‘ یعنی حارث رؤف اور ان کی بولنگ رفتار 150 کو اہمیت دی۔
کسی نے حارث رؤف اور ان کی دلہن کے فوٹو شوٹ کو دیکھ کر انھیں شادی میٹریل کہا تو کسی نے ’کیوٹ‘ کا لقب دیا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
لیکن جہاں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حارث رؤف کو شادی کی مبارکباد اور تبصرے دیے جا رہے تھے وہیں ان کے دوست اور ساتھی کرکٹرز نے بھی انھیں سوشل میڈیا پر نکاح کی مبارکباد دیتے ہوئے خوب ستایا اور اپنے اپنے انداز میں مشورے بھی دیے۔
کچھ ساتھی کرکٹرز نے تو حارث رؤف کی شادی کے بعد اپنا نمبر آنے کا ’دباؤ‘ بھی محسوس کیا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بلے باز فخر زمان ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے حارث کو نکاح کی مبارکباد دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ ’بس جیسے ہو ویسے ہی رہنا اور بھابھی کے سامنے زیادہ بڑی بڑی نہیں مارنا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
لاہور قلندرز کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر فخر زمان نے ایک ویڈیو پیغام میں حارث رؤف سے مذاقاً کہا کہ ’آپ بہت برے طریقے سے پھنس گئے ہو، بس میری دعا ہے کہ اللّٰہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور اگلی جتنی بھی زندگی ہے اللّٰہ آپ کو ہمت دے کہ آپ سہہ سکو۔‘
فخر زمان نے کہا کہ میں تو شادی شدہ ہوں، آپ کو اپنا تجربہ ہی بتا سکتا ہوں، تو میری نیک تمنائیں آپ اور بھابھی کے ساتھ ہیں، اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔
فخر زمان نے حارث رؤف کے نکاح کی تقریب میں شرکت نہ کرنے پر معذرت بھی کی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر شاداب خان نے ٹوئٹر پرحارث رؤف کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے انھیں تنگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اتنا گلو (چمک) اتنی خوشی لگتا ہے میرا نمبر بھی آنے والا ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
جس پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹسمین امام الحق نے جواب میں لکھا کہ ’ہاں جی شادی کا وقت آ گیا ہے اور اس (حارث) نے ہم سب پر بھی دباؤ ڈال دیا ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
اپنے دوست کی خوشی کے موقع پر چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے شاداب نے امام کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’امام الحق کو بہانہ چاہیے تھا جو اسے مل گیا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
جبکہ جوڑے کی ایک اور تصویر شیئر کرتے ہوئے شاداب خان نے جہاں انھیں نکاح کی مبارکباد اور نیک تمنائیں دی وہیں حارث رؤف کو شادی ہونے پر شکرانے کے نفل پڑھنے کا بھی کہا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
حارث رؤف کے نکاح کی تقریب میں ان کے قریبی دوست اور پاکستان کے فاسٹ بولر شاہین آفریدی بھی شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ پاکستان کے نومنتخب چیف سلیکٹر شاہد خان آفریدی بھی تقریب میں موجود تھے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0vp83d90elo | جوتوں کے ڈبے میں چھپایا گیا ایسا ورلڈ کپ جو غائب ہونے کے بعد پھر کبھی نہ ملا | انگلینڈ میں منعقد ہونے والے سنہ 1966 کے ورلڈکپ کے آغاز میں صرف چند ہفتے باقی تھے جب لندن کے ویسٹ منسٹر ہال میں ایک انتہائی نایاب چیز کو نمائش کے لیے رکھا گیا۔
یہ فٹبال ورلڈکپ کی ٹرافی جیولز رمیٹ تھی جو سنہ 1930 کے ورلڈ کپ سے ہر چار برس بعد ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کو دی جاتی تھی۔
20 مارچ کو ایک دن جب سکیورٹی گارڈز آرام کر رہے تھے تو یہ اچانک اس ہال سے غائب ہو گئی۔ یہ سب کیسے ہوا، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اسی روز اس بلڈنگ میں ایک مذہبی تقریب بھی ہونی تھی اور یہاں لوگوں کا ہجوم موجود ہونا تھا۔ سکیورٹی گارڈز کو کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ عمارت کے پچھلے دروازے توڑے گئے ہیں اور ڈسپلے کیس میں سے ٹرافی چوری کر لی گئی ہے۔
چوروں نے اس کیس میں موجود ان سٹیمپس کو نظرانداز کیا جن کی مالیت 30 لاکھ پاؤنڈ تھی اور اس تین ہزار پاؤنڈ مالیت کی ٹرافی کو لے اڑے۔
برطانیہ کی خفیہ ایجنسی سکاٹ لینڈ یارڈ نے اس ہائی پروفائل ڈکیتی کے حوالے سے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر دیا جو اب ایک عالمی خبر بن چکی تھی۔
ورلڈکپ کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل ہی اس ٹرافی کا گم ہو جانا یقیناً انگلش فٹبال ایسوسی ایشن ( ایف اے) کے لیے دردِ سر تھا اس لیے فوری طور پر اسی ٹرافی کا ریپلیکا یا نقل تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ اگر اصل ٹرافی نہ ملے تو کم از کم فوری طور پر اس کا ریپلیکا فاتح ٹیم کو دیا جا سکے۔
کھیلوں کی دنیا کی شاید سب سے قیمتی ٹرافی کی چوری اس وقت ایک سنسنی خیز فلم کا سکرپٹ معلوم ہونے لگی جب ایک دن ایف اے کے چیئرمین جان میئرز کو ایک نوٹ موصول ہوا۔
اس نوٹ پر درج تھا کہ ’مجھ سے 15 ہزار پاؤنڈ تاوان کے عوض ٹرافی لے جاؤ۔‘ یہ یقیناً اس چوری کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت تھی۔
تاہم پولیس کی جانب سے جان میئرز کو مشورہ دیا گیا کہ وہ تاوان کی رقم ادا کریں اور اس انوکھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان کے ساتھ ایک انڈر کور افسر تعینات کیا گیا۔
جب ٹرافی اور تاوان کا تبادلہ ہونا تھا تو اس انڈر کور افسر نے اس شخص کو گرفتار کر لیا جس کا دعویٰ تھا کہ ٹرافی اس کے پاس ہے۔
یہ شخص دراصل ایک سابق فوجی تھا جس کا نام ایڈورڈ بیچلے تھا۔ بیچلے کو تو گرفتار کر لیا گیا لیکن ٹرافی پھر بھی پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکی۔
جس ٹرافی کو لہرا کر کسی بھی فٹبال کھلاڑی کا کریئر امر ہو جاتا ہے اور جس کے لیے لگ بھگ دو ماہ تک دنیا بھر کے 32 ممالک کی ٹیمیں خون پسینہ ایک کرتی ہیں، اس کے بارے میں لندن میں کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کس کے پاس ہے۔
تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا جیولز رمیٹ نامی اس ٹرافی کو ایسی ڈرامائی صورتحال سے گزرنا پڑا ہو۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس وقت فیفا کے اطالوی نائب صدر اوٹورینو باراسی اس ٹرافی کی حفاظت کے حوالے سے اتنے پریشان تھے کہ انھوں نے اسے بینک آف روم کی تجوری سے نکال کر اپنے بستر کے نیچے پڑے جوتوں کے ڈبے میں چھپا دیا تھا۔
ان کا یہ عمل یقیناً انوکھا تھا لیکن یہ اس نایاب ٹرافی کو چھپانے کی بہترین جگہ ثابت ہوئی۔ یہاں سے اس ٹرافی کو سنہ 1950 تک نہیں ہلایا گیا جب برازیل میں ٹورنامنٹ کا دوبارہ آغاز ہوا۔
اب 16 برس بعد یہ ٹرافی ایک بار پھر غیر محفوظ تھی لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں موجود ہے۔
پھر 27 مارچ کو وہ ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ جنوبی لندن میں ایک ڈیو کوربیٹ نامی عام شہری اپنے کتے پِکلز کو چہل قدمی کے لیے باہر لے کر گئیں۔
کتے نے کوربیٹ کے ہمسائیوں کی گاڑی کے اردگرد گھومنا شروع کر دیا جس کے قریب اخباروں سے لپٹا ہوا ایک پراسرار پیکج موجود تھا۔
کوربیٹ نے بعد میں بتایا کہ ’جب میں نے اس پیکج کے ایک حصہ پر موجود اخبار کو پھاڑا تو عیاں ہونے والے حصہ پر برازیل، مغربی جرمنی اور یوراگوائے کے نام درج تھے۔ جب میں نے دوسری طرف سے پیکج کو پھاڑا تو مجھے ایک ایسی ٹرافی دکھائی دی جس میں ایک خاتون ایک پلیٹ اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے اس ٹرافی کو اخباروں اور ٹیلی ویژن پر دیکھ رکھا تھا اس لیے میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔‘
یہ کچھ روز قبل گم ہونے والی ٹرافی ہی تھی، اور جس کتے نے اسے ڈھونڈنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اب وہ ایک قومی ہیرو بن چکا تھا۔ اسے نیشنل کینائن لیگ جیتنے کے بعد میڈل سے بھی نوازا گیا تھا اور یہ بطور اداکار ’دی سپائے ود اے کولڈ نوز‘ میں بھی کام کر چکا تھا۔
جب برازیل نے 1970 کا ورلڈکپ جیتا تو انھیں اصلی ٹرافی دی گئی۔ یہ ٹرافی حاصل کرنے کے بعد برازیل وہ پہلا ملک بھی بن گیا تھا جس نے تین مرتبہ ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
شومئی قسمت، ٹھیک 13 برس بعد یہ ٹرافی برازیلین فٹبال کنفیڈریشن کے ہیڈکوارٹر سے چوری ہوئی اور پھر کبھی نہ مل سکی۔
کہا جاتا ہے کہ اسے چوری کرنے والوں نے شاید اسے پگھلا کر سونے میں تبدیل کر دیا تھا۔
اس ٹرافی کی باقیات میں سے جو چیز اب بھی موجود ہے وہ اس کی بیس ہے جسے سنہ 1954 میں تبدیل کیا گیا تھا۔
یہ بھی فیفا کے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں موجود ہیڈکوارٹرز سے سنہ 2015 میں ملی تھی۔ ایف اے کی جانب سے 1966 میں اس ٹرافی کا جو ریپلیکا یا نقل تیار کروائی گئی تھی وہ اب مانچسٹر میں نیشنل فٹبال میوزیم میں موجود ہے۔
یہی وہ چوری تھی جس کے بعد سے فیفا کی جانب سے اصل ٹرافی کو اپنے پاس رکھا جاتا ہے اور ٹیموں کو اس کا ریپلیکا دیا جاتا ہے۔
جیولز رمیٹ دراصل فیفا کے تیسرے صدر تھے اور انھوں نے سنہ 1930 میں یوراگوائے میں پہلے فٹبال ورلڈکپ کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی تھی۔
یہ ٹرافی فرانسیسی مجسمہ ساز ایبل لافلوئر نے ڈیزائن کی تھی۔ انھوں نے اس ٹرافی میں فتح کی یونانی دیوی نائیکی کا سونے کا عکس دکھایا تھا جنھوں نے اپنے سر پر ایک کپ اٹھا رکھا ہے۔
اسے سب سے پہلے وکٹوریا کا نام دیا گیا۔ فرانسیسی زبان میں اسے کوپے دو مونڈ کہا جاتا تھا جس کا مطلب ورلڈ کپ ہے۔ یہ ٹرافی 35 سینٹی میٹر لمبی تھی اور اس کا وزن تین اعشاریہ آٹھ کلوگرام تھا۔
اس ٹرافی چاندی کی تھی اور اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا تھا۔ اس کی بنیاد ایک ایسے قیمتی پتھر کی تھی جس کا نام لاپس لازولی ہے۔ اس کی بنیاد کے چاروں اطراف پر سونے کی تختیاں لگی ہوئی تھیں جن پر فاتح ٹیموں کے نام کندہ تھے۔
برازیل نے یہ ٹرافی سب سے زیادہ تین مرتبہ 1958، 1962 اور 1970 میں جیتی تھی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c9e408jypn9o | شاہد آفریدی، عبدالرزاق سلیکشن کمیٹی کا حصہ: ’اب حسن علی نمبر چار پر، آصف علی ٹیسٹ میچوں میں کھیلیں گے‘ | ایک دہائی پہلے تک بولرز کے لیے دردِ سر بننے والے آلراؤنڈرز شاہد آفریدی اور عبدالرزاق اب پاکستان کی قومی ٹیم کی عبوری سیلیکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں کرکٹ کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد ان دونوں جارحانہ آلراؤنڈرز کو دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی اور دونوں نے ہی پاکستان کو کئی سنسنی خیز میچوں میں فتح دلوائی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی سی بی کی مینیجمنٹ کمیٹی کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے کے حوالے سے اکثر مداح خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔
سابق کپتان شاہد آفریدی اس سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی کریں گے جبکہ عبدالرزاق کے علاوہ کمیٹی کے دیگر اراکین میں راؤ افتخار انجم اور ہارون رشید شامل ہوں گے۔
ویسے تو یہ ایک عبوری سیلیکشن کمیٹی ہے لیکن حالیہ عرصے میں پاکستان کے کرکٹ کھیلنے کے انداز کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے بعد اس فیصلے کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
نجم سیٹھی نے اس بارے میں اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں محدود وقت کے باوجود عبوری سلیکشن کمیٹی ’دلیرانہ فیصلے کرے گی۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’شاہد آفریدی ایک جارحانہ کرکٹر رہے ہیں جنھوں نے اپنی تمام کرکٹ بغیر کسی خوف کے کھیلی، اور ہمیشہ نوجوان ٹیلنٹ کی حمایت کی ہے۔‘
یہاں استعمال ہونے والے الفاظ جیسے ’دلیرانہ‘، ’جارحانہ‘ اور ’بغیر کسی خوف کے‘ آنے والے دنوں میں پاکستانی ٹیم کی سیلیکشن پالیسی اور کھیل کے انداز کے بارے میں ایک جھلک ضرور فراہم کرتی ہے۔
تاہم شاہد آفریدی کو سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی دینے کے فیصلے پر ناقدین کی یہ رائے ہے کہ یہ ذمہ داری کسی ایسے شخص کو دینی چاہیے تھی جو ڈومیسٹک کرکٹ پر گہری نظر رکھتا ہو اور محمد وسیم کی جانب سے اس ضمن میں اچھا کردار نبھایا جا رہا تھا۔
یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے جہاں میزبان ٹیم کے ساتھ اس کے دو ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچوں کی سیریز ہو گی۔ پہلا ٹیسٹ 26 سے 30 دسمبر کے دوران کراچی جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ ملتان میں کھیلا جائے گا۔
ٹیسٹ میچوں کے لیے قومی ٹیم کا اعلان کیا جا چکا ہے اس لیے نئی سیلیکشن کمیٹی کا پہلا امتحان پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے ٹیم کا انتخاب کرنا ہو گا۔
شاہد آفریدی کی جارحانہ بیٹنگ کے چرچے تو پوری دنیا میں مشہور ہیں لیکن آلراؤنڈر عبدالرزاق بھی کسی سے کم نہیں تھے۔
دونوں ہی کھلاڑی تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور دونوں نے پاکستان کی سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آج کل دنیائے کرکٹ میں ٹیسٹ میچوں میں بھی جارحانہ انداز اپنانے کا ٹرینڈ خاصا مقبول ہے۔ یہ ٹرینڈ دراصل حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم کے کوچ برینڈن مکلم اور کپتان بین سٹوکس کی جانب سے شروع کیا گیا ہے اور سٹوکس اس دوران اپنے پہلے نو میں آٹھ ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پاکستان کی ہوم گراؤنڈ پر انگلینڈ کے ہاتھوں پہلی وائٹ واش شکست کے بعد یہ مطالبے زور پکڑنے لگے تھے کہ اب پاکستان کو بھی جارحانہ حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
شاید یہی وجہ ہے کہ نجم سیٹھی کی جانب سے شاہد آفریدی اور عبدالرزاق کو عبوری سیلیکشن کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن کیا صرف جارحانہ سیلیکشن ہی پاکستان ٹیم کے مسائل کا حل ہے؟
یہ ضرور ہے کہ برینڈن مکلم اور بین سٹوکس کی جانب سے ایسے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے جو جارحانہ کرکٹ کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ہیری بروک کی ہے جنھوں نے پاکستان کے دورے پر ڈیبیو کیا اور تین میچوں میں تین سنچریاں اور ایک نصف سنچری سکور کی۔
اسی طرح بین ڈکٹ بھی ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جنھوں نے پاکستان کے دورے پر ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور جارحانہ انداز سے کھیلتے ہوئے سنچری سکور کی۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے کچھ صارفین کا خیال تھا کہ شاہد آفریدی اگر ڈومیسٹک کرکٹ دیکھتے ہی نہیں ہیں تو وہ کیسے بہتر فیصلے کر سکیں گے۔
ایک صارف نے لکھا کہ شاہد آفریدی کو ٹیم مینجمنٹ میں شامل کر دیتے لیکن انھیں سیلیکٹر بنانا حماقت ہے ان سے بہتر تو محمد وسیم تھے جو کم از کم ڈومیسٹک کرکٹ کے بارے میں جانتے تھے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
اس حوالے سے سے بات کرتے ہوئے کچھ صارفین نے مزاح کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ’اب بولر حسن علی نمبر چار پر اور آصف علی ٹیسٹ میچوں میں کھیلیں گے۔‘
اس طرح اکثر صارفین نے اسے پاکستان ٹیم میں اچھی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ انس شبیر نے لکھا کہ کیا شاہد آفریدی اپنی فلاحی تنظیم کے کاموں سے وقت نکال پائیں گے اور گراؤنڈز میں جا کر میچ دیکھ سکیں گے؟
ہمانشو پاریک نے لکھا کہ ’آپ بیزبال کی بات کر رہے ہیں اب شاہد آفریدی پاکستان کرکٹ کے چیف سیلیکٹر ہیں ذرا سوچیے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
ڈینس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’مجھے شاہد آفریدی بہت پسند ہیں لیکن انھیں چیف سیلیکٹر بنانا اچھا فیصلہ نہیں لگتا کیونکہ ان کا ڈومیسٹک کرکٹ دیکھنے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں عبدالرزاق ایک اچھی چوائس ہیں۔‘
کچھ صارفین اس بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ سیلیکشن کمیٹی پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرے گی اور بہت سے ایسے کرکٹر جو کافی عرصے سے ٹیم سے باہر ہیں جن میں عماد وسیم، محمد عامر، عمر اکمل اور احمد شہزاد شامل ہیں، کیا وہ اب دوبارہ سے ٹیم کا حصہ بنیں گے؟
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cle89w39p13o | آئی پی ایل میں غیرملکی کھلاڑیوں کا بول بالا، سیم کرن ریکارڈ قیمت میں فروخت | دنیا کی امیر ترین کرکٹ لیگ یعنی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں انگلینڈ کے آل راؤنڈر سیم کرن مہنگے ترین کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
انھیں آئی پی ایل کی ٹیم ’پنجاب کنگز‘ نے ساڑے 18 کروڑ روپے میں خریدا ہے۔ ان کا مقابلہ آسٹریلیا کے آل راؤنڈر کیمرون گرین اور انگلینڈ کے ٹیسٹ کپتان بین سٹوکس سے تھا۔
کیمرون گرین اس نیلامی میں دوسرے مہنگے ترین کھلاڑی رہے۔ آئی پی ایل کی اہم ٹیم ممبئی انڈینز نے 17.5 کروڑ روپے میں ان کی خدمات حاصل کیں۔
جبکہ انگلینڈ کے ٹیسٹ کپتان بین سٹوکس آئی پی ایل کے لیے ہونے والی نیلامی میں تیسرے مہنگے ترین کھلاڑی ثابت ہوئے جنھیں چنئی سپر کنگز نے 16.25 کروڑ روپے میں خریدا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل جنوبی افریقہ کے کرس مورس اب تک کے مہنگے ترین کھلاڑی تھے اور ڈالر کے حساب سے وہ آج بھی مہنگے ترین کھلاڑی ہیں۔ اگر چہ انڈین روپے کے حساب سے اب سیم کرن کو سب سے زیادہ قیمت ملی ہے لیکن اگر بات ڈالر اور روپے کے بیچ حساب سے کریں وہ اب بھی کرس مورس سے کم ہیں کیونکہ گذشتہ سال کے مقابلے میں انڈین روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔
اس سے قبل بین سٹوکس سنہ 2017 میں ساڑے 14 کروڑ روپے میں فروخت ہوئے تھے جو کہ اس وقت ریکارڈ قیمت تھی۔ اس کے بعد سنہ 2018 میں راجستھان رائلز نے ساڑھے 12 کروڑ روپے میں ان کی خدمات حاصل کی تھی۔
انگلینڈ کے کھلاڑی ہیری بروکس نے پاکستان کے خلاف سیریز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور شاید اسی وجہ سے انھیں سنرائزرز حیدرآباد نے سوا 13 کروڑ روپے میں خریدا۔
سیم کرن نے آئی پی ایل میں اس سے قبل پہلی بار پنجاب کی نمائندگی کی تھی۔ انھوں نے پنجاب کی جانب سے خریدے جانے پر ٹویٹ کیا: ’جہاں سے سب شروع ہوا تھا وہیں واپس آ گیا! اب آگے کی جانب دیکھ رہا ہوں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
کرن ورلڈ کپ میں ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔ انھیں ٹی 20 میں آخری اوورز کا بہترین بولر سمجھا جاتا ہے۔ وہ پہلی بار آئی پی ایل میں سنہ 2019 میں آئے تھے اس کے بعد چنئی سپرکنگز نے ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔
کنگز ایلون پنجاب کے ڈائریکٹر نیس واڈیا نے سیم کرن کے بارے میں کہا: ’وہ ورلڈ کلاس کھلاڑی ہیں۔ وہ اتنے اچھے ہیں کہ وہ کسی بھی ورلڈ 11 کا حصہ بننے اور کسی بھی صورتحال میں کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔ وہ اگر بہترین آل راؤنڈر نہیں تو کم از کم بہترین آل راؤنڈرز میں ایک ہیں۔ ان کی وجہ سے ٹیم کو اچھا توازن ملے گا۔'
جبکہ گرین نے ممبئی انڈینز میں شامل ہونے پر احسان مندی کے جذبے کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ’میں یقین نہیں کر پا رہا کہ واقعی یہ سب ہوا ہے۔ یہ عجیب احساس تھا کہ آپ خود اپنی بولی لگتے دیکھ رہے تھے۔‘
بین سٹوکس کے بعد سب سے زیادہ پیسے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی نکولس پورن کو ملے۔ لکھنؤ کی ٹیم نے 16 کروڑ روپے میں ان کی خدمات حاصل کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
آئی پی ایل کا 13واں ایڈیشن: شائقین کی عدم موجودگی، گرمی اور کورونا مگر آئی پی ایل پھر بھی یادگار رہا
ہیلز اور کمنز کا آئی پی ایل کھیلنے سے انکار: ’کرکٹرز کے لیے آرام بھی ضروری‘
اس سے قبل ہونے والی بڑی نیلامی میں انڈیا کے زیادہ تر اہم کھلاڑی پہلے سے ہی کسی نہ کسی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اس نیلامی میں مینک اگروال کو گجرات ٹائٹنز نے سوا آٹھ کروڑ روپے میں خریدا۔ اجنکیا ریہانے کو چنئی سپر کنگز نے ان کی بیس پرائس 50 لاکھ میں ہی خرید لیا۔ جبکہ بنگلہ دیش کے کھلاڑی اور معروف آل راؤنڈر شکیب الحسن کو کولکتہ نائٹ رائڈرز نے خریدا جبکہ ویسٹ انڈیز کے آل راؤنڈر جیسن ہولڈر کی خدمات راجستھان رائلز نے حاصل کیں۔ ان دونوں کو پونے چھ کروڑ روپے میں خریدا گیا۔
یہ چھوٹی نیلامی تھی لیکن اس کے لیے 991 کھلاڑیوں نے رجسٹریشن کرائی تھی۔ ان میں سے 714 انڈین جبکہ 277 بین الاقوامی کھلاڑی تھے۔
سکریننگ کے عمل کے بعد 10 ٹیموں کے لیے کل 369 کھلاڑیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ بعد ازاں ٹیموں کی درخواست پر مزید 36 کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا۔ نیلامی میں مجموعی طور پر 405 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔
ان میں سے 273 انڈین اور 132 غیر ملکی کھلاڑی تھے جبکہ اتحادی ممالک کے چار کھلاڑی میدان میں تھے۔
ان میں افغانستان (8)، آسٹریلیا (21)، بنگلہ دیش (4)، انگلینڈ (27)، آئرلینڈ (4)، نیوزی لینڈ (10)، جنوبی افریقہ (22)، سری لنکا (10)، ویسٹ انڈیز (20)، زمبابوے (2) متحدہ عرب امارات (1)، نامیبیا (2)، نیدرلینڈز (1) کے کھلاڑی شامل رہے۔
کل کیپڈ کھلاڑی 119 تھے جبکہ 282 ان کیپڈ کھلاڑی رہے اور 4 کھلاڑی ایسوسی ایٹ ممالک کے رہے۔
زیادہ سے زیادہ 87 سلاٹس دستیاب تھے جن میں سے 30 غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے تھے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkj34zn5lpo | ورلڈ کپ ٹرافی پر ’نمک کا چھڑکاؤ‘: ’سالٹ بے کو ٹرافی کس نے پکڑائی؟‘ | قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل کے بعد فاتح ارجنٹائن کے جشن مناتے کھلاڑیوں اور آفیشلز کے علاوہ پِچ پر ایک اور جانا پہچانا چہرہ نظر آیا جس کا نہ تو اس میچ سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی ارجنٹائن سے۔
سوٹ بوٹ پہنے یہ شخص سب سے ملتے ہوئے تصاویر بنواتا رہا اور حتیٰ کہ ورلڈ کپ کی قیمتی ٹرافی بھی اس کے ہاتھ لگ گئی جسے صرف چند لمحوں کے لیے اختتامی تقریب کے دوران فاتح کھلاڑیوں کو تھمایا گیا تھا۔
فیفا کے قوانین کے تحت کوئی بھی غیر متعلقہ فرد یہ ٹرافی نہیں پکڑ سکتا مگر اس شخص نے نہ صرف ٹرافی پکڑ کر اس کے ساتھ تصاویر بنوائیں بلکہ اپنے مشہور انداز میں اس پر نمک چھڑکنے کا پوز دیا اور اسے بوسہ بھی دیا۔
پھر کیمرے کے سامنے کسی فاتح اولمپیئن کی طرح فٹبالرز کے گولڈ میڈل کو دانتوں سے بیچ رکھ لیا۔
ایسا تاثر ملنے لگا کہ فیفا حکام کے ساتھ ساتھ فٹبالرز بھی اُن کے دوست ہیں جو انھیں یہ سب کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ترک سلیبرٹی شیف سالٹ بے ہیں جن کا اصل نام نصرت گوکچہ ہے۔ مگر ان کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔
فیفا سالٹ بے اور دیگر غیر متعلقہ افراد کی پچ تک ’غیر ضروری رسائی‘ کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے۔
فیفا کے قوانین کے تحت ورلڈ کپ کی ٹرافی صرف ایک مخصوص گروہ پکڑ سکتا ہے جس میں ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم، فیفا حکام اور ریاستی سربراہان شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ورلڈ کپ فاتح لیونل میسی ’اصل‘ ٹرافی کے ساتھ ارجنٹائن واپس کیوں نہ آ سکے؟
فٹبال ورلڈ کپ 2022: قطر کو کیا ملا؟
وسیم اکرم کی سوانح عمری: 'ایک سینیئر کرکٹر نے جوتے اور کپڑے بھی صاف کروائے‘
بی بی سی سپورٹ کو جاری کردہ بیان میں ترجمان فیفا نے کہا کہ ’نظرثانی کے بعد فیفا یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ کیسے 18 دسمبر کو بعض افراد نے لوسیل سٹیڈیم میں اختتامی تقریب کے دوران پچ تک رسائی حاصل کی جو کہ نامناسب تھا۔‘
فیفا کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حوالے سے ’مناسب انداز میں اندرونی طور پر ایکشن لیا جائے گا۔‘
سالٹ بے پوری دنیا میں پھیلی ایک لگژری ریستورانوں کی چین کے مالک ہیں جہاں انھی کے انداز میں سٹیک کھلائی جاتی ہے۔ وہ سنہ 2017 کے دوران سٹیک کی تیاری کے میں نمک چھڑکنے کے اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مشہور ہوئے اور انٹرنیٹ میم بن گئے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
کئی موجودہ اور سابقہ فٹبالر جیسے میسی، کرسٹیانو رونالڈو اور ڈیوڈ بیکہم ان کے ریستوران میں کھانا کھا چکے ہیں۔
نومبر اور دسمبر میں ورلڈ کپ کے دوران انھوں نے فیفا کے صدر جیانی انفانتینو کے ساتھ اپنی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کیں۔ ایک تصویر میں تو وہ ان کے ساتھ وی آئی پی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ میں فٹبال لیجنڈز برازیلی رونالڈو، روبرٹو کارلوس اور کافو بھی موجود ہیں۔
وہ ویڈیو میں فیفا کے صدر سالٹ بے کے ساتھ گرم جوشی سے ملتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں وہ سالٹ بے کے ریستوران کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’فٹبال نے دنیا کو متحد کیا اور نصرت (سالٹ بے) نے بھی دنیا کو متحد کیا ہے۔‘
ایک دوسری ویڈیو میں جیانی سالٹ بے کو ملائیشیا کے بادشاہ سمیت مختلف لوگوں سے ملواتے ہیں اور ایک موقع پر کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں سبزی خور ہیں۔‘
ویسے تو لیونل میسی کے ساتھ بھی سالٹ بے کی کچھ تصاویر ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لگائی گئی ہیں مگر ارجنٹائن کے کھلاڑیوں کے جشن کے دوران بعض مناظر میں ایسا لگتا ہے جیسے میسی انھیں نظرانداز کر رہے ہیں۔۔۔ یا پھر محض کنفیوژڈ ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
دریں اثنا سالٹ بے کی جانب سے ٹرافی پکڑنے، اسے بوسہ دینے اور اس پر اپنے مشہور نمک چھڑکنے کا انداز آزمانے پر شائقین انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کی انسٹاگرام پر لگائی گئی تصاویر پر بہت سے صارفین نے اپنی ناراضی ظاہر کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’آپ نے ایک چیمپیئن سے ٹرافی چھینی تاکہ آپ تصاویر اور لائیکس حاصل کر سکیں۔ کیا آپ یہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ وہ اس پر خوش نہیں؟‘
یقیناً فٹبال فینز کے لیے یہ ٹرافی ایک مقدس درجہ رکھتی ہے اور اسی لیے ایک صارف نے لکھا کہ ویڈیو میں سالٹ بے کی انگوٹھی ٹرافی سے ٹکراتی ہے جو کہ انتہائی نامناسب ہے۔ ’سوشل میڈیا کے یہ لوگ اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یہ پریشان کن ہے۔‘
کئی صارفین سوشل میڈیا پر یہ پوچھ رہے ہیں کہ سالٹ بے کو ٹرافی پکڑنے کی اجازت کس نے اور کیوں دی۔
ادھر امریکی فٹبال لیگ اوپن کپ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’اوپن کپ 2023 کے فائنل میں سالٹ بے کے داخلے پر پابندی ہو گی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgz4p1g9d2o | نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان: شاہد آفریدی عبوری سلیکشن کمیٹی کے سربراہ مقرر | نجم سیٹھی کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینیجمنٹ کمیٹی نے سابق پاکستانی کپتان شاہد آفریدی کو نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے لیے سلیکشن کمیٹی کا عبوری چیئرمین مقرر کر دیا ہے۔
عبوری سلیکشن کمیٹی کے دیگر ارکان میں سابق کرکٹر عبدالرزاق اور راؤ افتخار انجم سمیت مینیجمنٹ کمیٹی کے رکن ہارون رشید بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں محدود وقت کے باوجود عبوری سلیکشن کمیٹی جرات مندانہ فیصلے کرے گی۔
’شاہد آفریدی ایک اٹیکنگ کرکٹر رہے ہیں جنھوں نے اپنی تمام کرکٹ بغیر کسی خوف کے کھیلی۔ ان کے پاس تقریباً 20 سال کا تجربہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ نوجوان ٹیلنٹ کی حمایت کی ہے۔‘
یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے جہاں میزبان ٹیم کے ساتھ اس کے دو ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچوں کی سیریز ہو گی۔ پہلا ٹیسٹ 26 سے 30 دسمبر کے دوران کراچی جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ ملتان میں کھیلا جائے گا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے سکیورٹی وجوہات کے باعث ستمبر 2021 میں اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔
گذشتہ روز پی سی بی کی 14 رکنی عبوری مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے کہا کہ وہ قومی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچنگ سٹاف کے حق میں ہیں کیونکہ وہ دوستی، یاری اور سفارش پر یقین نہیں رکھتے۔
انھوں نے یہ بات آج شام پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔
خیال رہے کہ گذشتہ بدھ کو وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے رمیز راجہ کو بطور چیئرمین پی سی بی عہدے سے سبدکدوش کرتے ہوئے ایک 14 رکنی عبوری کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی سربراہی نجم سیٹھی کو سونپی گئی ہے۔
نجم سیٹھی کا کوچنگ سٹاف سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ قومی ٹیم کے لیے ہمیں غیر ملکی چاہییں، ہمیں پاکستانی سٹارز نہیں چاہییں۔‘
انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کوچنگ ایک پروفیشنل کام ہے، ہم اپنے سٹارز کی بہت عزت کرتے ہیں اور میں اور راستے ڈھونڈوں گا ان کی عزت کرنے کی، ملازمتیں دینے کے اور ان سے مشاورت کرنے کے لیکن وہ کوالیفائڈ کوچز نہیں ہیں، وہ بڑے سٹارز ہیں اور یہ دو الگ چیزیں ہیں۔‘
انھوں نے غیر ملکی کوچز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر ملکی کوچ دوستی یاری نہیں دیکھتے، یہاں ہمارے کلچر میں دوستی، یاری اور سفارش چلتی ہے اور آپ اسے نہیں روک سکتے کیونکہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب پروفیشنلزم کی بات آتی ہے تو اس میں یہ چیزیں نہیں آنی چاہییں، اس لیے میں غیر ملکی کوچز کا حامی ہوں۔‘
نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں نے کوچنگ کورسز کیے ہوتے ہیں لیول فور کیا ہوتا ہے، اس کے بعد مختلف ٹیموں کے ساتھ ان کا بہت سارا تجربہ ہوتا ہے، وہ صرف اپنے ملک کی ٹیم نہیں بلکہ دیگر ٹیموں کو بھی کوچ کر چکے ہوتے ہیں۔‘
نجم سیٹھی نے کہا کہ ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کے مستقبل کا فیصلہ وہ کل کریں گے کہ آیا وہ نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ یا ون ڈے سیریز تک کوچ رہیں گے یا نہیں۔
خیال رہے کہ نجم سیٹھی کے بطور چیئرمین گذشتہ دور میں مکی آرتھر ہیڈ کوچ جبکہ گرانٹ فلاور بیٹنگ کوچ تھے۔ مکی آرتھر کے دور میں پاکستان 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے علاوہ ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی رہی تھی۔
تاہم سنہ 2019 کے ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور مصباح الحق اور یونس خان کے جانے کے بعد پاکستان کی ٹیسٹ میچوں میں کارکردگی بھی متاثر ہوئی تھی۔
پاکستان کے سابق کرکٹر رمیز راجہ کی چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے سے برطرفی، پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر وائٹ واش اور ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں ایک بار پھر تبدیلیوں کی بازگشت کے بعد یہ کہنا درست ہو گا کہ پاکستان کرکٹ ایک مرتبہ پھر ’نازک دور‘ سے گزر رہی ہے۔
عام طور پر تو ’نازک صورتحال‘ سے گزرنے کا جملہ پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال کے حوالے سے ہر چند برسوں کے بعد سننے کو ملتا ہے لیکن کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات اور ملک کی سیاسی صورتحال کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے یہاں بھی ہر چند سال بعد غیر یقینی صورتحال ہوتی ہے۔
سنہ 2010 کے بعد سے جہاں پاکستان میں چار مختلف حکومتیں رہ چکی ہیں وہیں پی سی بی میں سات مختلف چیئرمین تعینات ہو چکے ہیں اور گذشتہ دہائی کے وسط میں بورڈ پیچیدہ قانونی کشمکش میں بھی مبتلا رہا ہے۔
اس وقت کرکٹ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے اور پاکستان کی عوام ٹیم کی سیلیکشن سے لے کر میدان میں کھلاڑیوں کی کارکردگی تک تمام معاملات پر گہری نظر رکھتی ہے اور ٹیم کی شکست کی صورت میں کھلاڑیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ توپوں کا رُخ مینجمنٹ اور کرکٹ بورڈ کی طرف بھی کیا جاتا ہے۔
رواں برس آسٹریلیا اور انگلینڈ سے ہوم گراؤنڈ پر شکست کے بعد بھی چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو پچز کے حوالے سے متنازع بیانات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کو اگلے برس منعقد ہونے والے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن ان شکستوں کے باعث اب ایسا ہونا بظاہر مشکل ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم نے اس ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا ہے، پاکستان جونیئر لیگ کا کامیاب انعقاد ہوا ہے اور ملک میں آسٹریلیا، انگلینڈ اور اب نیوزی لینڈ کی ٹیم دورہ کر رہی ہے۔
ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی برطرفی کے بعد ان کی جگہ نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینیجمنٹ کمیٹی کا قیام کیا ایک سیاسی فیصلہ ہے یا اس میں پاکستان کی حالیہ سیریز میں ناقص کارکردگی کا بھی عمل دخل ہے؟
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی پوزیشن ایک ’سیاسی پوسٹ‘ ہے جہاں عموماً ایسے شخص کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی یا تو کرکٹ سے وابستگی رہی ہو یا اس کا مینجمنٹ کا تجربہ ہو۔
ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پوزیشن کے لیے اپنی پسند کے شخص کا انتخاب کرتی ہے اور ماضی میں فوجی مارشل لا کے دوران فوج کی جانب سے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کو اس پوزیشن پر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔
اس پوسٹ کے سیاسی ہونے کی سب سے بڑی وجہ دراصل آئین میں پی سی بی کے پیٹرن ان چیف کی پوزیشن پر تعیناتی کا اختیار ملک کے وزیرِ اعظم کے پاس ہونا ہے۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سپورٹس صحافی عمر فاروق کالسن نے کہا کہ ’پی سی بی چیئرمین کی پوزیشن تب تک سیاسی رہے گی جب تک پیٹرن سیاسی جماعت کا سربراہ ہو گا، اس میں تبدیلی لانے کے لیے آپ کو آئین میں تبدیلی کرنے پڑے گی، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال کے آغاز میں جب پاکستان تحریکِ انصاف حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں پی ڈی ایم اتحاد برسرِ اقتدار آیا تھا تو تب سے ہی چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ رمیز راجہ کو جلد چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گاـ
عموماً نئی حکومت آنے کے بعد چیئرمین پی سی بی خود ہی استعفیٰ دے دیتے ہیں تاہم رمیز راجہ نئی حکومت آنے کے بعد بھی تقریباً آٹھ ماہ تک عہدے پر موجود رہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے اخبار دی نیوز کے ساتھ منسلک سپورٹس صحافی عبدالمحی شاہ نے دعویٰ کیا کہ ’رمیز راجہ کو ایسے طاقتور افراد کی حمایت حاصل تھی جن کے باعث وہ اس دور حکومت کے دوران بھی کام جاری رکھے ہوئے تھے۔‘
’ان طاقتور افراد کے ریٹائر ہونے کے بعد سے یہ بات کی جا رہی تھی کہ رمیز راجہ کسی بھی وقت ہٹائے جا سکتے ہیں اور پھر وہی ہوا۔‘
اس بارے میں عمر فاروق کالسن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی رمیز کے آنے کے بعد وائٹ بال میں بہتر کاکردگی رہی جس نے رمیز کو مدد ضرور کی کیونکہ انگلینڈ کے خلاف (حالیہ سیریز میں) شکست کے بعد اس گروپ کو موقع مل گیا جو اس حکومت کے آنے کے بعد سے کافی عرصے سے کوشش کر رہا تھا۔‘
عمر کا کہنا تھا کہ ’ٹیم کی کارکردگی صرف ایک بہانہ ہوتا ہے، پسِ منظر میں سب کچھ سیاسی ہوتا ہے۔‘
پاکستان میں اس وقت سیاسی اور معاشی اعتبار سے غیر یقینی کا دور ہے۔ الیکشن اگلے سال کب منعقد ہوں گے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ایسے وقت نجم سیٹھی کی پی سی بی میں واپسی کچھ افراد کے لیے حیرت کی بات بھی ہے۔
صحافی عبدالمحی شاہ کہتے ہیں کہ ’وزیرِ اعظم ملک میں محکموں کی سطح پر کھیلوں کی بحالی چاہتے تھے جو عمران خان کے دور میں ختم کر دی گئی تھی اور یہ کام پی سی بی کے نئے آئین کے تحت ممکن نہیں تھا۔ اس لیے 2014 کا آئین بحال کیا گیا ہے اور 14 ممبر عارضی کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘
ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر کھیلوں میں کرکٹ کے علاوہ سکواش، بیڈمنٹن، ہاکی اور ایتھلیٹکس شامل ہیں اور ان کا سنہ 2019 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے خاتمہ کر دیا تھا۔
اس سے قبل ڈومیسٹک کرکٹ میں ہائبرڈ ماڈل تھا جس میں ڈیپارٹمنٹ اور ریجن کرکٹ دونوں تھے اور اس سے کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی۔
اس وقت اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس سے ڈومیسٹک کی سطح پر کھیلوں کی کوالٹی بہتر کرنے میں مدد ملے گی اور اب کیونکہ کم کھلاڑی پول کا حصہ ہوں گے تو ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
تاہم عمر فاروق کالسن کے مطابق اس نئے نظام کے باعث کھلاڑیوں کا پول وسیع ہوا کرتا تھا اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرکٹ بہت زیادہ کھیلی جاتی ہے نوجوانوں کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ کا حصہ بننے کے لیے زیادہ مواقع ہوا کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’اب اس نظام میں واپس جا کر دوبارہ ریجنز کو بحال کرنا اور ڈیپارٹمنٹس سے دوبارہ ٹیموں کی بحال کا کہنا بہت مشکل ہو گا۔ وہ شاید حکومت کے کہنے پر ایسا کر تو لیں گے، لیکن یہ کھلاڑیوں کے لیے زیادہ منافع بخش نہیں ہو گا۔‘
اس کی وجہ عمر کے مطابق پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں جب پہلے روز گار کے مواقع پیدا کرنا مشکل ہے، ایسے میں کسی ڈیپارٹمنٹ سے ایک کھلاڑی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی امید لگانا غلط ہو گا۔
’سوئی ناردرن یا واپڈا جیسے بہتر ادارے تو شاید ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن کیا پی آئی اے سے اور دیگر اداروں سے یہ امید لگائی جا سکتی ہے؟ میرا نہیں خیال۔‘
تاہم نجم سیٹھی اور ان کی کرکٹ کمیٹی کو اگلے چند ماہ کے دوران کچھ وقت اس لیے بھی مل جائے گا کیونکہ پاکستان ٹیم آئندہ سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ہوم گراؤنڈز پر زیادہ ریڈ بال کرکٹ نہیں کھیلے گی۔
یہ ضرور ہے کہ پی ایس ایل کی بنیاد رکھنے کا کریڈٹ نجم سیٹھی اور ان کی ٹیم کو دیا جاتا ہے اور اب جب وہ واپس آئے ہیں تو فرینچائز کے ساتھ پی ایس ایل کے بزنس ماڈل پر بھی دوبارہ مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
عمر فاروق کالسن نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیٹھی صاحب نے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد تسلیم کیا تھا کے اس بزنس ماڈل میں کچھ مسائل تھے، اور فرنچائز مالکان سے بات کی جا سکتی تھی۔
’اب جب وہ واپس آ گئے ہیں تو شاید آنے والے پی ایس ایل کے لیے تو نہیں لیکن اس کے بعد اس بارے میں بات ضرور ہو گی۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1en50qkkp9o | ’اسلام کی، عربوں کی یا افریقہ کی فتح‘: مراکش کی شناخت کا تنازع کیا ہے؟ | نمائندہ بی بی سی ماگدی عبدالحادی نے فٹبال ورلڈکپ کے دوران مراکش کی شناخت پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اس سال قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے دوران بہت سے تنازعات کھڑے ہوئے، شاید اس سے پہلے ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں اتنے تنازعات سامنے نہیں آئے۔
انسانی حقوق کی بُری صورتحال کے باوجود قطر کو ورلڈکپ کی میزبانی دینے سے لے کر ورلڈکپ فائنل میں قطر کے امیر کی جانب سے فاتح ٹیم ارجنٹینا کے کپتان اور فٹبال لیجنڈ لیونل میسی کو ٹرافی دیتے وقت قطر میں شاہانہ علامت سمجھا جانے والا ’بشت‘ یعنی قطری عبا، پہنائے جانے تک، اس ٹورنامنٹ میں بہت سے تنازعات سامنے آئے۔
لیکن اس سب کے دوران ایک اور تنازعے نے بھی جنم لیا جسے شمالی افریقہ کے ممالک سے باہر بہت کم توجہ دی گئی۔ یہ تنازع مراکش کی شناخت کے حوالے سے تھا اور ایک سادہ سے سوال سے شروع ہوا کہ ’آپ مراکش کی ٹیم کی جس نے دنیا کو اپنے بہترین کھیل سے حیران کیا اور سپین اور پرتگال جیسی مضبوط ٹیموں کو ہرایا، تعریف کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ کیا یہ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی ’پہلی عرب‘ یا ’افریقی‘ فٹبال ٹیم تھی؟‘
ثقافتی طور پر مراکش کے شہری خود کو افریقی سے زیادہ عرب باشندے تصور کرتے ہیں اور مراکش میں رہنے والے چند صحرائے صحارا کے افریقی باشندے اس بارے میں نسلی تعصب کی بات کرتے ہیں۔
لیکن سپین کو ہرانے کے بعد مراکش کے کھلاڑی صوفین بوفل کا بیان ملک کی شناخت پر جاری بحث کے معاملے کو سامنے لے کر آیا۔
انھوں نے دنیا بھر میں ’مقیم مراکش کے باشندوں، تمام عرب باشندوں اور مسلمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ فتح آپ سب کی ہے۔‘ مگر اس دوران وہ براعظم افریقہ کے باشندوں کا شکریہ ادا کرنا بھول گئے۔
سوشل میڈیا پر ان کے بیان پر آنے والے ردعمل کے بعد انھوں نے اپنے انسٹاگرام پر براعظم افریقہ کے باشندوں کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا نہ کرنے پر معذرت کی۔
مراکش کی سیمی فائنل تک رسائی پر ایک موقع پر نائجیریا کے صدر محمدو بوہاری نے بھی مراکش کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مراکش نے اپنی مہارت اور شاندار کھیل سے پورے براعظم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔‘
اس پر بوفل نے لکھا تھا کہ ’میں اس فتح کو یقیناً آپ سب کے نام کرتا ہوں، ہمیں اپنے براعظم کے تمام بھائیوں کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے۔‘
یہ بحث افریقی براعظم کے ساتھ قریبی تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنے والے مراکش کے بادشاہ کی حالیہ کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مراکش کو سنہ 2017 میں مغربی صحارا کے متنازعہ علاقے پکی وجہ سے مسلسل 30 سال کی غیر موجودگی کے بعد افریقہ یونین میں دوبارہ شامل کیا گیا تھا، جس موقعے پر مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے کہا تھا کہ ’افریقہ میرا گھر ہے، اور میں گھر واپس آ رہا ہوں۔‘ ان کے اس نظریے نے شمالی افریقہ کے ملک مراکش کے دوسرے ممالک خاص کر مغربی افریقہ کے ساتھ کاروباری روابط کو پھلنے پھولنے میں مدد کی۔
لیکن مراکش عرب لیگ کا رکن بھی ہے لہذا یہ سرکاری طور پر دونوں ثقافتی خطوں سے تعلق رکھتا ہے۔
تاہم مراکش کے باشندوں کو جغرافیائی طور پر ’افریقی‘ کہا جاتا ہے جبکہ ان میں سے بہت سوں کے لیے ’عرب‘ شناخت ایسی ہے جس سے وہ منسوب ہونا پسند نہیں کرتے۔
مراکش میں ’بربرز‘ یا امازیخ (شمالی افریقہ کی مقامی مسلمان برادری) کی کافی آبادی ہے اور وہ خود کو ’امازیخ‘ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ چند اندازوں کے مطابق ان کی آبادی 34 ملین سے زیادہ ہے اور یہ ملک کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں۔ ان کی ایک مقامی امازیخ زبان کو جسے تمازائٹ کہا جاتا ہے، اب عربی کے ساتھ سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
لیکن مراکش کی شناخت کے حوالے سے تنازعے نے ایک دن سر اٹھانا ہی تھا۔ قطر کو 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق ملنے کے بعد قطر کے میڈیا نے اسے ’اسلام اور عرب دنیا کی فتح‘ قرار دیا تھا اور سنہ 2010 میں ایک اخبار نے یہ سرخی لگائی تھی۔
جیسے جیسے یہ ٹورنامنٹ آگے بڑھا اسلام پسندی اور عرب قومیت جیسے خیالات ایک بار پھر سامنے آئے۔ ٹورنانمٹ کے دوران شراب نوشی اور ہم جنس پرستوں کے ’ون لو‘ ہینڈ بینڈ کے استعمال پر پابندی کے بعد کھڑے ہونے والے تنازعے کے دوران اسلام پسندی اور عرب قومیت کے حامی قطر، اسلام اور روایتی اقدار کے دفاع میں ’سامراجی مغرب‘ کے خلاف میدان میں آئے۔
جب قطری میڈیا کی جانب سے اس ٹورنانمنٹ کو ابتدائی طور پر ’اسلام یا عربوں کی فتح‘ کے طور پر پیش کیا گیا، تب اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، لیکن جب یہ میچز کے دوران کمنٹری کا حصہ بن گیا تو اس پر ایک ردعمل نے جنم لیا۔
اور جب مراکش کی ٹیم ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے پہلی ٹیم بنی تو اسے مسلم اور عرب دنیا کی فتح قرار دیا گیا۔
ٹورنامنٹ کے دوران اس خطے کی دیگر ٹیمیں تیونس، سعودی عرب اور قطر جب ابتدائی مرحلے میں باہر ہو گئی تھیں ایسے میں اس خطے کے فٹبال شائقین کے لیے مراکش کی حمایت کرنا قدرتی تھا۔
تاہم چند حلقوں کی جانب سے مراکش کی ٹیم کی کامیابی کو کھیل سے زیادہ نظریاتی اور سیاسی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ نتیجتاً مراکش کی ٹیم کو اسلام اور عرب قومیت کی علم بردار کہا گیا۔
اس سوچ کو اس وقت تقویت ملی جب مراکش کے چند کھلاڑیوں نے فتح کا جشن فلسطین کا پرچم لہرا کر منایا۔
اس طرح کی بیان بازی نے شمالی افریقہ میں بہت سے لوگوں کو مشتعل کیا، لیکن خاص طور پر مراکش کے ان لوگوں کو جو ان نظریات اور عالمی تناظر کو قبول نہیں کرتے۔
مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک باغی یوٹیوبر نے ایک گھنٹہ طویل گفتگو میں ان لوگوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جو کھیل کو سیاست کی نذر کرتے ہیں اور اسے ایک عالمی ثقافتی جنگ میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
راشد نامی اس یوٹیوبر نے اپنے تین لاکھ 85 ہزار سبسکرائبرز کو یہ بھی یاد کروایا کہ مراکش کی ٹیم کے کوچ سمیت نصف کھلاڑی درحقیقت یورپ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ یہ اب مراکش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے بچے ہیں جنھوں نے یورپ میں آنکھ کھولی اور وہاں پیشہ ور فٹبالرز بنے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ مراکش کی ٹیم کے کھلاڑیوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر آمازیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترعربی نہیں بولتے اور اگر انھیں ٹوٹی پھوٹی عربی آتی ہے تو اس لیے کیونکہ وہ مغرب میں پروان چڑھے ہیں۔‘
مراکش میں اسلام اور آزادی اظہار کا معاملہ قدرے حساس تصور کیا جاتا ہے۔ مراکش وہ ملک ہے جہاں کا شاہی خاندان اپنا شجرہ پیغمبر اسلام سے جوڑتا ہے اور بادشاہ اپنے لیے ’خلیفہ‘ کا خطاب استعمال کرتا ہے۔ خلیفہ ابتدائی مسلمان حکمرانوں کے لیے ایک تاریخی اصطلاح تھی۔
اگرچہ مراکش میں مذہب اسلام پر بات کرنا ایک حساس موضوع ہے تاہم یوٹیوبر نے اس پر بھی بات کی۔
انھوں نے کہا ’مراکش مشرق وسطیٰ سے مختلف ملک ہے، کیونکہ بنیادی طور پر یہ آمازیخ معاشرہ ہے، یہاں عربوں کی آمد ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی۔ آج مراکش میں عرب، آمازیخ، مسلمان، یہودی، بہائی، شیعہ، سُنی، ملحد اور مذہب سے انکار کرنے والے سب بستے ہیں۔‘
’اور اس صورتحال میں مراکش کی فتح کو عربوں اور اسلام کی فتح قرار دینا مراکش کی سوسائٹی کے بہت سے حصوں پر حملے کے مترادف ہے۔‘
اپنے اپنے مقاصد کے لیے مراکش کی فتح کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرنے والے عربوں یا اسلام پسندوں کے جواب میں سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی پوسٹس کی گئیں کہ یہ صرف مراکش کی فتح ہے۔ بعض پوسٹس میں کچھ ایسی تصویریں بھی پوسٹ کی گئیں جن میں آمازیخ برادری کی علامتیں بنی ہوئی تھیں۔
چند ناقدین نے فٹ بال کے کھیل کو مذہبی یا نسلی تعصب کی جنگ میں تبدیل کرنے کی مضحکہ خیزی پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ دلیل دی کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ فرانس، برازیل یا ارجنٹائن کی جیت کو مسیحی مذہب کی فتح قرار دیا جائے۔
دلیل کی بنیاد پر بات کرنے والے ان افراد نے نشاندہی کی کہ یورپ کے ممالک کی کچھ فٹ بال ٹیموں میں موجود نسلی اور مذہبی امتزاج کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن ہو گا۔
مراکش کی ٹیم کی حقیقی شناخت کا تنازع اس ’ثقافتی جنگ‘ کا تازہ ترین مظہر ہے جو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72601444ppo | ’پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی رجیم چینج۔۔۔‘: رمیز راجہ کی رخصتی، نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینیجمنٹ کمیٹی قائم | وفاقی حکومت نے سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینیجمنٹ کمیٹی قائم کر دی ہے۔ ان کی یہ تعیناتی عارضی بنیادوں پر کی گئی ہے۔
سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق نئی مینیجمنٹ کمیٹی کرکٹ بورڈ کے تمام امور کی ذمہ دار ہو گی اور چار ماہ میں نئے بورڈ آف گورنرز اور نئے چیئرمین پی سی بی کا انتخاب بھی اس کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
وفاقی حکومت نے پی سی بی کے سنہ 2019 کے آئین کے خاتمے اور سنہ 2014 کے پرانے آئین کو بحال کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔ وفاقی کابینہ نے گذشتہ میٹنگ میں ان اقدامات کی منظوری دی تھی۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چئیرمین کا تقرر آئندہ 120 دن میں کیا جائے گا جبکہ اسی دورانیے میں منیجیمنٹ کمیٹی پی سی بی کے بورڈ کے نئے ارکان کا تقرر کرے گی۔
نجم سیٹھی نے ان اقدامات کی بابت اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’رمیز راجہ کی سربراہی میں کرکٹ رجیم ختم ہو چکا۔ 2014 کا پی سی بی کا آئین بحال کر دیا گیا ہے۔ مینیجمنٹ کمیٹی ملک میں فرسٹ کلاس کرکٹ کی بحال کے لیے انتھک محنت کرے گی۔ ہزاروں کرکٹرز کو دوبارہ نوکریاں دی جائیں گی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
یاد رہے کہ نجم سیٹھی کی پاکستان کرکٹ بورڈ میں واپسی کی خبریں گذشتہ کئی روز سے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں گرم تھیں۔ اور ان میں تیزی اس وقت آئی جب 17 دسمبر کو وزیراعظم شہباز شریف کی ان سے ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات کے بعد ایک تصویر سامنے آئی جس میں وزیراعظم کے ساتھ نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ جگنو محسن کھڑی نظر آ رہی ہیں۔
شکیل شیخ، جو نئی تشکیل دی گئی مییجمنٹ کمیٹی کا بھی حصہ ہیں، انھوں نے 17 دسمبر کو ہی ٹوئٹر پر یہ خبر سنائی تھی کہ ’وزیراعظم نے نجم سیٹھی کو کھانے پر ایک خوشخبری بھی سنائی ہے، جو جلد سامنے آ جائے گی۔‘
ٹوئٹر پر نجم سیٹھی نے اپنے آپ کو اور اپنے خیرخواہوں کوان نئے اقدامات کے تناظر میں کم از کم تین بار مبارکبادیں دی ہیں۔
سپورٹس رپورٹر عبدالماجد بھٹی نے اس تعیناتی پر نجم سیٹھی کے مؤقف سے ہی ملتا جلتا ردعمل دیا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’پی سی بی کا 2019 کا آئین ختم، 2014 کا آئین بحال ہو گیا۔ اور رمیز راجہ کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ نئے چیلنجوں کے ساتھ کرکٹ نجم سیٹھی اب کرکٹ بورڈ کی ہاٹ سیٹ پر آ گئے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
صارف حمزہ اظہر سلام نے اس تعیناتی کو سراہتے ہوئے اس فیصلے کو ’رائٹ مین فار رائٹ جاب‘ قرار دیا ہے۔ نجم سیٹھی کے قریبی سمجھے جانے والے اور مینیجمنٹ کمیٹی کا حصہ بننے والے شکیل شیخ نے تو اس فیصلے کو کرکٹ بچانے سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے اس فیصلے پر وزیر اعظم کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔
صارف آرفا فیروز نے لکھا کہ رمیز راجہ ایک بین الاقوامی کرکٹ کمنٹیٹر ہیں اور چیئرمین پی سی بی کا عہدہ کھونے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
یاد رہے کہ پاکستان ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی بھی نئی مینیجمنٹ کمیٹی کا حصہ ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ شاہد آفریدی نے جہاں رمیز راجہ کے ساتھ کام کیا اب وہ نجم سیٹھی کی مینیجمنٹ کمیٹی کا حصہ بن گئے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
تاہم تمام صارفین بظاہر اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آ رہے ہیں۔
ایک صارف نے نجم سیٹھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی محنت کا صلہ آپ کو حکومت نے دے دیا ہے۔ انھوں نے لندن میں نواز شریف اور نجم سیٹھی کی خوشگوار موڈ میں ہونے والی ایک ملاقات کی تصویر بھی شیئرکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین منتخب
کیا نجم سیٹھی کا جانا طے ہو چکا ہے ؟
نجم سیٹھی: ’نئے کھلاڑیوں کو سٹار بننے میں وقت لگے گا‘
عثمان اشرف نامی صارف نے نجم سیٹھی کو ’حکومت کا نمائندہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان کی کچھ ساکھ نہیں ہے اور ان کی تعیناتی سے یہ کھیل بھی اب سیاست کی نذر ہو جائے گا۔
بہت سے لوگ اس تعیناتی کو سیاسی رنگ دیتے بھی نظر آئے۔
تکبیر اعجاز نامی صارف نے لکھا کہ ’کرکٹ بورڈ میں بھی رجیم چینج۔۔۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyje4729pmko | میسی نے انسٹاگرام پر رونالڈو اور ’انڈے کی تصویر‘ کے علاوہ اور کس کو پیچھے چھوڑا | اگر آپ کچھ دیر کے لیے اپنی آنکھیں بند کریں اور انسٹاگرام پر چلنے والے ٹرینڈز اور سب سے زیادہ فالو کیے جانے والے اکاؤنٹس کے بارے میں سوچیں تو یقیناً آپ کے ذہن میں ہالی وڈ کے چند اداکاروں، ریئلٹی شوز کی سیلیبریٹیز اور سوشل انفلوئنسرز آئیں گے۔
اس بارے میں دوبارہ ذہن پر زور ڈالیں کیونکہ اب تک سوشل پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ لائیک کی گئی پوسٹس پر فٹبال کھلاڑیوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔
یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں آرجنٹینا کے سٹار لیونل میسی بلاشبہ دنیا میں سب سے بہترین ہیں (کم از کم اس وقت)۔ وکی پیڈیا کی جانب سے جاری کی گئی تازہ ترین درجہ بندی کے مطابق انسٹاگرام پر 10 سب سے زیادہ لائیک کی گئی پوسٹس میں سے پانچ فٹبال ورلڈکپ 2022 کے چیمپیئن میسی نے پوسٹ کی تھیں اور ان میں سے زیادہ تر قطر ورلڈکپ کے دوران پوسٹ کی گئی تھیں۔
اگر آپ اس فہرست کا گہرائی میں جائزہ لیں تو 20 سب سے زیادہ لائیک کی گئی انسٹاگرام پوسٹس میں سے میسی کی آٹھ پوسٹس ہیں۔ پرتگال کے کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو یقیناً اس حوالے سے خود کو دوسرے نمبر پر دیکھ کر مایوس ہوں گے کیونکہ ان کی اس فہرست میں صرف تین پوسٹس ہیں۔
اداکار اور میڈیا کی شخصیات جیسے آریانا گرانڈے، زینڈایا، کائلی جینر، ٹام ہالینڈ اور بلی ایلش بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔
آرجنٹینا کے ورلڈکپ جیتنے پر میسی کی جانب سے 18 دسمبر، اتوار کو ان تاریخی لمحات کی تصویری جھلکیاں پوسٹ کی گئیں۔ یہ پوسٹ اب انسٹاگرام کی تاریخ میں سب سے زیادہ لائیک کی گئی پوسٹ بن چکی ہے۔
ان کی اس پوسٹ کو اب تک سات کروڑ افراد لائیک کر چکے ہیں اس سے قبل جس تصویر کو سب سے زیادہ لائیک کیا گیا تھا وہ ایک انڈے کی تصویر تھی۔ اسے پانچ کروڑ 80 لاکھ افراد نے لائیک کیا تھا۔
آئیے آپ کو اب تک کی سب سے زیادہ لائیک کی گئی انسٹاگرام پوسٹس دکھاتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 1
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 2
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 3
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 4
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 5
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 6
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 7
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 8
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 9
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 10
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 11
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 12
یہ بھی پڑھیے
ورلڈ کپ فاتح لیونل میسی ’اصل‘ ٹرافی کے ساتھ ارجنٹائن واپس کیوں نہ آ سکے؟
کلیان ایمباپے: میسی اور ارجنٹائن کو ٹکر دینے والا فرانس کا فٹبالر جنھیں ان کے خاندان نے ہیرے کی طرح تراشا
میسی کو پہنائی جانے والی عبا ’بشت‘ کیا ہے اور اس پر تنازع کیوں؟
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 13
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 14
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 15
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 16
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 17
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام, 18 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c99gwkykjp4o | فٹبال ورلڈ کپ 2022: قطر کو کیا ملا؟ | قطر میں منعقد ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ 2022 مشرق وسطیٰ میں ہونے والا پہلا اتنا بڑا ایونٹ تھا۔ ایک ایسا ایونٹ جسے شاید فیلڈ کے اندر اور باہر کئی اعتبار سے یاد رکھا جائے گا۔ کئی ماہرین نے اسے اب تک کا بہترین ورلڈ کپ قرار دیا ہے۔ تو کیا قطر نے ابتدائی تنقید کے باوجود اِس ورلڈ کپ سے وہ حاصل کر لیا جو وہ چاہتا تھا؟ میزبان: عالیہ نازکی ایڈیٹر: حسین عسکری فلمنگ: فرقان الہیٰ پروڈکشن ٹیم: عمر آفریدی، فاران رفیع، خدیجہ عارف، فراز ہاشمی |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c041434k3j5o | وسیم اکرم کی سوانح عمری: 'ایک سینیئر کرکٹر نے جوتے اور کپڑے بھی صاف کروائے‘ | 18 اپریل سنہ 1986کو شارجہ سٹیڈیم میں ایشیا کپ فائنل تھا۔ عالمی چیمپیئن انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کو 50 اوورز میں 245 رنز کا ہدف دیا۔
اس میں سری کانت کے 75، سنیل گواسکر کے 92 اور دلیپ وینگسرکر کے 50 رنز کی اہم اننگز شامل تھیں۔
جب کپتان عمران خان آؤٹ ہو کر پویلین لوٹے تو پاکستان کو آخری 30 گیندوں پر 51 رنز درکار تھے۔
دوسرے سرے پر جاوید میانداد چٹان کی طرح کھڑے تھے اور آخری اوور سے قبل اپنی سنچری مکمل کر لی تھی۔ آخری چھ گیندوں پر 11 رنز درکار تھے اور وسیم اکرم اور میانداد کریز پر موجود تھے۔
جاوید نے وسیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، 'مجھے لمبے ہینڈل والا بیٹ چاہیے؟'
پاکستان کے ڈریسنگ روم میں ایسا صرف ایک بیٹ تھا جو وسیم اکرم کی کٹ میں تھا۔
"وہ آخری اوور یاد کر کے اب بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جاوید کو سٹرائیک پر رکھنے کی کوشش میں، میں رن آؤٹ ہو گیا لیکن جاوید نے چیتن شرما کے آخری اوور میں پہلے چوکا اور پھر آخری گیند پر چھکا لگا کر پاکستان کو تاریخی جیت دلائی۔ وہ بیٹ مجھے واپس نہیں ملا، جاوید بھائی نے اس کو دس گنا قیمت پر نیلام کر دیا ہو گا! اور یہ درست بھی ہے۔'
یہ باتیں پاکستان کے سابق کپتان اور مشہور کرکٹر وسیم اکرم نے اپنی سوانح عمری ’سلطان: اے میموئیر‘ میں لکھی ہیں۔
اس ایشیا کپ کو ہوئے 36 سال ہو چکے ہیں لیکن وسیم اکرم کے مطابق اس سال تک انڈیا کو ون ڈے میچوں میں پاکستان پر 8-7 کی برتری حاصل تھی جو اس میچ کے بعد پلٹ گئی۔
حال ہی میں جاری ہونے والی اس خود نوشت میں وسیم اکرم نے کئی بڑے دعوے بھی کیے ہیں اور کچھ دلچسپ باتوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر، اکرم کے مطابق، 'پاکستان کرکٹ میں جگہ بنانے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی کی سرپرستی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔'
انھوں نے اپنی سوانح میں کھل کر بتایا کہ موجودہ ٹیم میں بابر اعظم، عبداللہ شفیق، امام الحق، عثمان قادر اور اعظم خان جیسے کھلاڑی کسی نہ کسی پرانے کھلاڑی کے بیٹے، بھتیجے یا بھائی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سنہ 1984 میں اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کرنے والے وسیم اکرم کا شمار اب تک کے خطرناک ترین فاسٹ باؤلرز میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں سچن تنڈولکر نے کہا ہے کہ 'وسیم ایک ایسے ماسٹر تھے جو اپنی گیند سے کرتب دکھاتے تھے۔'
بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے والے وسیم اکرم نے 104 ٹیسٹ اور 356 ون ڈے کھیلے اور 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں بھی ان کا کلیدی کردار تھا۔ انھوں نے 25 ٹیسٹ میں پاکستان کی کپتانی بھی کی۔
اے آر وائی نیوز کے سپورٹس ایڈیٹر اور سینیئر صحافی شاہد ہاشمی نے وسیم کے طویل کرئیر کو کور کیا ہے۔ انھوں نے کراچی سے بتایا کہ وسیم اکرم مجھے کئی سالوں سے کہتے آ رہے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی باتیں دنیا کے سامنے رکھیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن میچ فکسنگ کے الزامات سے انھیں بہت نقصان پہنچا اور شاید اس کتاب کے ذریعے اب وہ اپنی بات بتانا چاہتے ہیں۔'
پاکستانی کرکٹ پر گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی بار میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کے سائے منڈلا چکے ہیں، جن میں وسیم اکرم کا نام بھی شامل رہا ہے۔
بہرحال، وسیم اکرم نے اپنی کتاب کے ذریعے پہلی بار اپنے بچپن کی کچھ خاص باتیں شیئر کی ہیں۔
اپنی سوانح عمری 'سلطان: ایک یادداشت' میں اکرم نے لکھا:
ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے وسیم لکھتے ہیں: 'آج بھی میں پلیٹ میں پیش کیے جانے والے کھانے کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔'
پاکستان کے جیو نیوز اور جنگ نیوز گروپ کے سینیئر سپورٹس ایڈیٹر اور کرکٹ ناقد عبدالماجد بھٹی اور وسیم اکرم ایک دوسرے کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وسیم منتخب ہونے کے بعد پہلی بار کراچی کی کرکٹ اکیڈمی پہنچے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وسیم نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے، وہ اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔ انھیں سب سے پہلے جاوید میانداد نے دیکھا اور پھر عمران نے انھیں بہت سے ہنر سکھائے، انھیں انگلینڈ میں تجربہ دیا، وسیم ہمیشہ ان دنوں کو ذہن میں رکھ کر ہی آگے بڑھے ہیں۔'
وسیم اکرم نے اپنی سوانح عمری میں یہ بات کئی بار دہرائی ہے کہ سابق کپتان اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے کریئر کو کس طرح بہتر کیا۔
1980 کی دہائی میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور سنہ 1987 میں انھوں نے 'کرکٹ فار پیس' کے نام سے ایک پیش قدمی کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو انڈیا میں پانچ ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے بھیجا تھا۔
وسیم یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'عمران خان کے جلوے پہلی بار انڈیا میں دیکھے۔ پوری ٹیم ممبئی کے تاج ہوٹل میں ٹھہری تھی لیکن عمران گودریج بزنس گروپ کے مالک اور ان کی اہلیہ پرمیشور گودریج کے مہمان خصوصی تھے۔ وہ خود مجھے گودریج کے پالی ہل میں موجود عالیشان بنگلے میں لے گئے جہاں پورا بالی وڈ موجود تھا۔'
اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اتنی طویل ٹیسٹ سیریز کبھی نہیں ہوئی لیکن اس سیریز کے دوران ہولی کا تہوار بھی آ گیا۔
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہنے والے 'کنگز گروو کرکٹ سپر سٹورز' کے مالک ان دنوں انڈیا میں تھے اور 'سائمنڈز' کے مشہور کرکٹ بیٹ کی سپانسر شپ میں حصہ خریدا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا: وسیم اکرم
سب کچھ 92 والا تھا، بس وسیم اکرم کی دو گیندیں نہیں ہوئیں‘
انھوں نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا: 'میں نے 40 سال تک انڈیا، پاکستان، سری لنکا اور آسٹریلیا کی ٹیموں کو فالو کیا ہے، ایک ساتھ دورے کیے۔ لیکن انڈیا پاکستان کے درمیان ہونے والی سیریز میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان میدان سے باہر کی دوستی حیرت انگیز تھی۔ انھیں ہوٹلوں میں دیکھتا تھا، سب ایک ساتھ مزے کر رہے ہوتے تھے۔'
وسیم اکرم نے بھی اپنی کتاب میں اس کی بڑی مثال پیش کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں: 'ہولی کے دن آرام کا دن تھا اور ہم نے تاج ہوٹل میں ہولی کھیلی۔ روی شاستری دھوپ سینک رہے تھے جب اعجاز احمد اور منندر سنگھ نے انھیں اٹھایا اور سوئمنگ پول میں پھینک دیا۔ اسی شام میں نے پول کے کنارے بیٹھے دیکھا کہ عبدالقادر جاوید میانداد کو ہاتھ میں پھلوں کو کاٹنے والا چھوٹا چاقو لیے پول کے گرد دوڑا رہے ہیں۔ کیا معاملہ تھا کبھی پتہ نہیں چلا!'
بہر حال اکرم کی سوانح عمری 'سلطان: اے میموئر' میں کئی متنازع باتیں ہیں اور شاید اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس بات کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ وہ کرکٹرز وسیم کو کیا جواب دیں گے جن کے بارے میں انھوں نے جھوٹے دعوے کیے ہیں؟
ابتدا سلیم ملک کے واقعے سے۔
سلیم ملک پاکستان کے ایک بہترین مڈل آرڈر بلے باز رہے ہیں جو وسیم اکرم سے دو سال قبل ٹیم میں آئے تھے۔
وسیم نے اپنی کتاب میں لکھا: 'میرے جونیئر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے میرے ساتھ نوکر جیسا سلوک کیا، انھوں نے مجھے اپنی مالش کرنے، اپنے کپڑے دھونے اور جوتے صاف کرنے کو کہا۔'
اس کتاب کے دعوؤں سے کئی سال قبل سلیم ملک نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی جانب سے اپنے ساتھ اچھا سلوک نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔ سلیم ملک نے یہاں تک کہا تھا کہ اکرم ان سے کپتانی چھیننا چاہتے تھے۔
یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ وسیم اکرم نے 20-30 سال بعد ایسے الزامات کیوں لگائے یا کیا اب ان الزامات کی ضرورت بھی تھی۔
اے آر وائی نیوز کے سپورٹس ایڈیٹر شاہد ہاشمی کے مطابق 'عمران خان نے بھی اپنی کتاب میں اس طرح کی باتیں لکھی ہیں کہ بڑے گھرانے سے ہونے کے باوجود جب وہ ٹیم میں آئے تو صادق محمد نے انھیں پانی پلانے کے لیے کہا، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، لیکن وسیم نے جس طرح لکھا ہے وہ انھیں اچھا تو نہیں لگا۔'
اکرم کے حالیہ دعوؤں پر بات کرتے ہوئے سلیم ملک نے پاکستان کے '24 نیوز' کو بتایا: 'میں اس کتاب پر تب تک تبصرہ نہیں کر سکتا جب تک میں اسے پڑھ نہ لوں۔ لیکن ہم جس ہوٹل میں ٹھہرتے تھے وہاں کپڑے دھونے کے لیے واشنگ مشین ہوا کرتی تھی۔'
'دی ویک' میگزین کی ڈپٹی بیورو چیف-سپورٹس نیرو بھاٹیہ نے بھی وسیم اکرم کے تقریباً تمام بڑے میچوں کا احاطہ کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ 'وسیم اکرم سوئنگ باؤلنگ کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب کپتان اور آل راؤنڈر بھی رہے ہیں۔ اب اگر وہ اپنی بات دنیا کو بتانا چاہتے ہیں تو یہ بالکل درست ہے، ان کے اندر ایک ٹیس تھی اور انھیں اس پر لکھنے کا حق ہے، کیوں نہیں۔'
پاکستان ٹیم میں جگہ ملنے سے قبل وسیم اکرم کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں شروع ہونے والے پی سی بی کیمپ میں ٹریننگ کا موقع ملا، جس میں جاوید میانداد کا بڑا ہاتھ تھا۔
اس کے بعد، کراچی کے وائی ایم سی اے میں رہتے ہوئے، 19 سالہ وسیم نے 600 روپے ماہانہ (پاکستانی) کی تنخواہ پر 'پاکو شاہین' نامی کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔
چند ماہ بعد 'بی سی سی پی پیٹرنز الیون' ٹیم میں ان کے انتخاب کی خبر وسیم کو ان کے والد نے لاہور سے ایک فون کال پر دی۔ انھوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ 'وسیم تم پنڈی جا رہے ہو۔'
دراصل نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی اور یہ وسیم کا کسی بین الاقوامی ٹیم کے ساتھ پہلا میچ ہونے جا رہا تھا۔
میچ ہوا اور وسیم اکرم نے وکٹیں بھی لیں۔ لیکن اس ٹیم میں اکرم کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ سربراہ اور سابق کرکٹر رمیز راجہ بھی تھے۔
وسیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: 'رمیز کو ہمیشہ سلپ فیلڈنگ ملتی تھی کیونکہ ان کے والد پولیس کمشنر تھے۔ لیکن سچ پوچھیں تو وہ کیچ سے زیادہ کيچ چھوڑتے تھے۔'
رمیز راجہ نے ابھی تک ان دعوؤں کا جواب نہیں دیا ہے لیکن میں نے کئی ورلڈ کپ کور کیے ہیں جہاں اکرم اور رمیز دونوں کمنٹری ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور میچز کے دوران پریس باکس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے تھے۔
دونوں کے تعلقات کو دیکھیں تو ایسی کشیدگی کبھی محسوس نہیں ہوئی جب کہ دونوں 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
سینیئر سپورٹس ایڈیٹر اور کرکٹ ناقد عبدالمجید بھٹی نے کہا کہ 'وسیم 90 کی دہائی میں نیوزی لینڈ جانے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے اور آٹھ نو کھلاڑیوں نے اکرم کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔'
'دراصل پاکستان کرکٹ میں مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب عمران 1992 میں ریٹائر ہو گئے۔ وسیم، عامر سہیل، وقار یونس، سلیم ملک یا عاقب جاوید میں تناؤ تھا کیونکہ سب ایک ہی عمر کے تھے۔ کرکٹ کے بعد کی ملاقاتوں میں ان سب سے بہت سی کہانیاں سنی گئیں۔ لیکن وسیم نے اب وہ باتیں لکھی ہیں جو ذاتی سطح پر کہی گئی تھیں، اس لیے شاید یہ کچھ بہت آگے نکل گئی ہیں۔'
وسیم اکرم کی کتاب میں کیے گئے دعوؤں پر ماہرین کی رائے بھی بالکل واضح ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان کے کریئر کو بھی فالو کیا ہے جس میں وسیم کے اچھے اور برے دونوں وقت شامل ہیں۔
اگرچہ ’سلطان: اے میموئر‘ ابھی پاکستان میں ریلیز ہونا باقی ہے لیکن یہ کتاب میڈیا میں طوفان برپا کر رہی ہے کیونکہ خود وسیم اکرم کے مطابق ’پاکستان میں قومی کرکٹ ٹیم کے 11 کھلاڑیوں سے بڑا کوئی نہیں۔'
پاکستان کے سینیئر کرکٹ ناقد عبدالرشید شکور نے اپنی بات دو ٹوک الفاظ میں کہی۔
'جہاں تک مجھے یاد ہے، رمیز راجہ زیادہ تر کورز یا مڈ آف میں فیلڈنگ کرتے تھے۔ بات یہ ہے کہ رمیز عموماً آؤٹ فیلڈ میں ہوتے تھے۔ اگر 1992 کے ورلڈ کپ کے جیت کی بات کی جائے تو رمیز نے مڈ آف سے دوڑتے ہوئے عمران خان کی باؤلنگ پر ایلنگ ورتھ کا کیچ کیا تھا جو کہ آخری وکٹ تھی۔اب چونکہ رمیز پی سی بی کے سربراہ ہیں اس لیے شاید وہ میڈیا میں اس دعوے کا جواب نہ دیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک ان دونوں کی دوستی کا چرچا ہوا کرتا تھا۔ کئی لوگ تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ رمیز کی تقرری میں وسیم اکرم سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔' |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cge5e57y84yo | رمیز راجہ خود کب بُرا منائیں گے؟ سمیع چوہدری کا کالم | جب بین سٹوکس کی ٹیم راولپنڈی میں پاکستان کو دھول چٹا چکی تھی تو ایک طرف بابر اعظم اپنی فرمائش کے مطابق پچ نہ ملنے کا گلہ کر رہے تھے اور دوسری جانب رمیز راجہ یہ انکشاف کر رہے تھے کہ معیاری پچز کی تیاری میں پاکستان وقت سے دہائیوں پیچھے رہ گیا تھا۔
ملتان ٹیسٹ سے عین قبل چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ گویا ہوئے کہ ملتان میں شائقین کو جدید کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔
ان کی طرف سے ایسے حوصلہ افزا بیان سے دل کو کچھ تقویت سی ملی کہ شاید واقعی راتوں رات کوئی فکری انقلاب برپا ہوا ہو گا اور یہی ٹیم کشتوں کے پشتے لگا دے گی مگر چار ہی روز بعد اس انقلاب کے غبارے سے ساری ہوا نکل چکی تھی۔
کراچی ٹیسٹ کی تیسری شام جب کہ انگلینڈ کلین سویپ کی آخری رسومات لگ بھگ مکمل کر چکا تھا اور اس تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کو فقط ایک رات کا انتظار تھا، تب بابر اعظم کراچی پریس باکس میں بیٹھے فرما رہے تھے کہ نتائج سے قطع نظر، پچھلے چند میچز میں ان کی ٹیم غالب رہی تھی۔
اس پر عقلِ انسانی دریائے حیرت میں غوطہ زن ہو جانے پر مجبور ہو ٹھہری کہ وہ پچھلے چند میچز، جہاں پاکستانی ٹیم غالب رہی تھی، وہ کون سے سیارے پر نشر کیے گئے تھے جو زمان ومکان کی حدود وقیود سے ہی ماورا تھا اور شائقین ایسے تفریح آمیز نظارے کی دید سے محروم ہی رہ گئے۔
کبھی یہ بہانہ کہ پچ صحیح نہیں ملی تو کہیں یہ جوازکہ شاہین آفریدی کی عدم دستیابی سے ہی سب نقصان ہوا۔ کرکٹ میں جب کپتان ایسے حیلوں بہانوں کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کرنے لگیں تو عام زبان میں اس کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کے ادراک کی صلاحیت سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ہر عظیم بولر اچھا کپتان بھی ہو۔ نہ ہی ہر عظیم بلے باز اچھی قائدانہ صلاحیتوں کا ضامن ہو سکتا ہے۔ سچن ٹنڈولکر کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز رہے ہیں مگر بطور کپتان ان کا ریکارڈ شرمناک ہے۔ بعینہ جو روٹ عہدِ حاضر کے مسلّمہ بلے باز ہیں مگر بحیثیت قائد وہ اپنی ٹیم میں کوئی جوت جگانے میں ناکام رہے۔
وراٹ کوہلی کا قضیہ بھی اگرچہ بالکل جو روٹ جیسا نہیں مگر ٹیسٹ کپتانی کے اوائل میں ان کا بھی یہی المیہ رہا۔ اگرچہ بعد ازاں انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں کچھ تاریخی کامیابیاں بھی ملیں مگر بحیثیتِ مجموعی وہ کسی بھی فارمیٹ میں ایک بہترین کپتان کی شناخت حاصل نہ کر پائے۔
بابر اعظم اس دور کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ہیں جن کے بارے ناصر حسین نے کہا تھا کہ وہ اس بلے باز کی بیٹنگ دیکھنے کے لیے مہنگی سے مہنگی ٹکٹ بھی خریدنے کو تیار ہوں گے اور فاسٹ بولنگ ٹیلنٹ کی شہرت رکھنے والی پاکستانی کرکٹ میں بابر اعظم کے جیسے عہد ساز بلے باز کا ابھر آنا کسی نعمت سے کم نہیں۔
مگر جیسے ٹنڈولکر اور جو روٹ اپنی تمام تر بیٹنگ صلاحیتوں کے باوجود قیادت کے محاذ پر کوئی کارہائے نمایاں انجام نہ دے پائے، ویسے ہی بابر اعظم بطور کپتان اپنی شناخت تخلیق کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔
اچھا کپتان وہ ہوتا ہے جو آگے چل کر ٹیم کو راہ دکھائے نہ کہ خود ٹیم کے پیچھے چلتے چلتے راہ سُجھانے کی کوشش میں مگن رہے۔ بہترین کپتان ہمیشہ دستیاب وسائل پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ان کے بہترین استعمال کی تدبیریں کرتے ہیں مگر بابر اعظم جیسے کپتان اکثر کسی اچھے بلے باز یا کسی پرجوش بولر کی جانب سے ایسی فاتحانہ کاوش کے منتظر رہتے ہیں جو میچ کا نقشہ بدل ڈالے۔
یہ بھی پڑھیے:
انگلینڈ کے ہاتھوں پاکستان وائٹ واش: ’یہ تو ہونا تھا، قدرت کا نظام ہے‘
رمیز راجہ: پاکستان کرکٹ بورڈ میں نامزدگی کے بعد سابق ٹیسٹ کھلاڑی چیئرمین بننے کے لیے فیورٹ قرار
پی سی بی کو ’قرونِ اولیٰ‘ سے کون نکالے گا؟
رواں سیریز میں دونوں کپتانوں کے طرزِ عمل پر ایک طائرانہ سی نظر بھی ڈالی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی کپتانی سے بابر اعظم انگلینڈ تو کیا، کسی ایسوسی ایٹ لیول کی ٹیم کے سامنے بھی مشکلات میں گِھرے نظر آتے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں بولنگ اور بیٹنگ، ہر دو سے کہیں زیادہ اہمیت کپتان کی ہوتی ہے۔ دس وکٹیں اڑانے کا خاکہ پہلے کپتان کے دماغ میں بنتا ہے، اس کے بعد بولنگ اور فیلڈنگ اس خاکے میں رنگ بھرتے ہیں مگر بابر اعظم ٹیم سلیکشن سے لے کر بولنگ کمبینیشن تک ہر جگہ مات کھا گئے۔
کیسی اچنبھے کی بات ہے کہ حالیہ سیریز سے پہلے انگلش ٹیم اپنی تمام تاریخ میں پاکستانی سر زمین پر فقط دو ٹیسٹ میچز جیت پائی تھی اور اب تاریخ کا یہ جبر ہے کہ وہی انگلش ٹیم تین ہفتے سے بھی کم مدت میں تین میچز جیت گئی۔
نہ صرف یہ پاکستان کو ہوم کرکٹ میں پہلی کلین سویپ ہے بلکہ یہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے کہ پاکستان اپنے ہوم گراؤنڈز پہ متواتر چار میچز میں شکست سے دوچار ہوا ہے۔
جو وسائل اس قومی ٹیم کو دستیاب ہیں، وہ ہرگز ان سے بالا نہیں ہیں جو پچھلے برس جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں دستیاب تھے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں پاکستان نے کلین سویپ کیا تھا مگر ایک ہی سال میں رمیز راجہ نے ’کایا کلپ‘ کی اور پاکستان پہلی بار خود اپنے ہوم گراؤنڈز پر کلین سویپ ہو گیا۔
جب رمیز راجہ نے پی سی بی کی سربراہی سنبھالی تھی تو آتے ہی انھوں نے پاکستان کرکٹ کی اپروچ میں انقلاب لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ مصباح الحق اور وقار یونس دو سالہ تگ و دو کے بعد جس مسابقتی الیون کی شکل نکال چکے تھے اس سے رمیز راجہ کو اتفاق نہیں تھا بلکہ انہیں اس کوچنگ سٹائل اور سوچ سے شدید اختلافات تھے۔
رمیز راجہ نے اپنے تئیں اس ’دقیانوسی‘ سوچ کو دیس نکالا دینے میں ایک پل بھی نہیں لگایا بلکہ اثرورسوخ کا عالم یہ تھا کہ باضابطہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی وہ کرسی نشیں ہو کر اہم ترین فیصلے کر رہے تھے اور ایسی ہی ایک ’فیصلہ کن‘ میٹنگ میں انھوں نے وقار یونس سے کہا تھا کہ کچھ سخت فیصلے ان کی مجبوری ہیں جن پر وقار یونس برا مت منائیں۔
وقار یونس نے بالکل برا نہیں منایا اور میٹنگ سے رخصت ہونے سے پہلے ہی اپنا استعفیٰ رمیز راجہ کو پیش کر دیا تھا۔
سوال اب صرف یہ ہے کہ ایسی تاریخی اہانت کے بعد رمیز راجہ خود بھی کچھ برا منا پائیں گے؟ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2vqv6e4d2do | کلیان ایمباپے: میسی اور ارجنٹائن کو ٹکر دینے والا فرانس کا فٹبالر جنھیں ان کے خاندان نے ہیرے کی طرح تراشا | تین گول کی ہیٹ ٹرک کے باوجود دل دو ٹکڑے ہوا۔۔۔ کلیان ایمباپے نے یقینی بنایا کہ شکست کے باوجود یہ رات یادگار رہے۔ ان کے لیے ورلڈ کپ میں گولڈن بوٹ جیتنا کوئی زیادہ خوشی کا باعث نہ بن سکا۔
فرانس کے سٹرائیکر نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کیے۔ 1966 میں جیوف ہرسٹ کے بعد وہ ورلڈ کپ فائنل میں ہیٹرک کرنے والے پہلے فٹبالر بنے مگر یہ یادیں خوشی کے ساتھ ساتھ غم کا باعث بھی بنیں گی۔
وہ یہی سوچیں گے یہ فائنل میسی اور ارجنٹائن کے بجائے ان کا اور فرانس کا ہو سکتا تھا۔
ارجنٹائن کے فاتح بننے کے باوجود ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو ایمباپے کو ورلڈ کپ فائنل کا اصل ہیرو پُکار رہے ہیں۔ بظاہر دنیا ان کے قدموں میں ہے۔
مگر ایمباپے کی فٹبال کے لیے محبت سمجھنے کے لیے آپ کو ان کے ماضی میں جانا ہوگا۔
دس نمبر کی شرٹ پہننے والے ایمباپے پیرس کے شمال میں ایک چھوٹے سے شہر بوندی میں پیدا ہوئے۔
ایمباپے، یعنی کلیان، کے خاندان میں ان کے علاوہ ان کے والد ولفریڈ، والدہ فیزا اور سوتیلا بھائی جیرس کمبو اکوکو، بوندی فٹبال کلب کے گراؤنڈ کے سامنے ایک رہائشی علاقے میں رہتے تھے۔ ان کا ایک چھوٹا بھائی ایتھن، جو اب 15 سال کا ہے، تب تک پیدا نہیں ہوا تھا۔
گھر اور گراؤنڈ کے بیچ بس ایک ہی سڑک تھی۔ کلیان کئی گھنٹوں تک اس پِچ پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل سکتے تھے۔
کیمرون سے تعلق رکھنے والے ان کے والد مقامی کلب کی سرگرمیوں میں ملوث رہتے تھے۔ وہ مختلف ٹیموں کے کوچ بنتے تھے اور پیرس میں فٹبال سے منسلک اس چھوٹے سے ادارے میں ان کی بڑی عزت تھی۔
ان کا بیٹا فٹبال کے علاوہ کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ وہ بس فٹبال کو زور سے کِک کرتا اور اپنے والد کی ٹیموں کے اردگرد بھٹکتا رہتا۔ گھر میں سب فٹبال میں دلچسپی لیتے تھے، چاہے ٹی وی پر میچ دیکھنا ہو یا سکول میں دوستوں کے ساتھ میچ کھیلنے جانا ہو۔
ایمباپے کے ذہن میں سوتے جاگتے فٹبال کا میچ چلتا رہتا تھا۔ ان کے بیڈروم میں رونالڈو اور زیدان کے پوسٹر لگے تھے جن کے وہ بچپن سے فین ہیں۔
نوجوانی میں ہی یہ نظر آنے لگا تھا کہ کلیان کے پاس ایک ہنر ہے۔ 10 سال کی عمر میں پیرس کے گرد یہ کہا جانے لگا کہ بوندی سے تعلق رکھنے والا ایک بچہ کافی اچھا فٹبالر ہے۔
ان کے کھیل پر تبصرے پیرس سے باہر بھی ہونے لگے۔ لیگ ون اور یورپ کی بڑی ٹیمیں ایسے ہی ہنر مند بچوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔
مگر ایمباپے خاندان کے پاس واضح منصوبہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کلیان کچھ سال فرانس میں گزاریں، نہ کہ ملک سے باہر مگر وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کا مقابلہ ان کی عمر کے بہترین کھلاڑیوں سے ہو۔
انھوں نے چیلسی کی پیشکش قبول کی جنھوں نے 11 سال کے کلیان کو تربیت دینا شروع کر دی۔ 12 سال کی عمر میں وہ ریال میڈرڈ سے تربیت حاصل کر رہے تھے۔
دونوں یورپی کلبز نے چاہا کہ امباپے خاندان لندن یا سپین آجائے۔ یہ پیشکش بہت بڑی تھی، جسے ٹھکرانا آسان نہ تھا۔
تاہم ایمباپے خاندان چاہتا تھا کہ ان کا بچہ آزمائش سے گزرے۔ وہ پیرس کے نوجوان کھلاڑیوں میں خود کو کئی بار منوا چکے تھے۔
13 سال کی عمر میں وہ کلیئر فونٹین اکیڈمی میں بھرتی ہوئے جہاں انھوں نے دو سال گزارے۔ کلیان ہفتہ وار چھٹیوں میں مقامی کلب کے لیے کھیلتے تھے۔
ایمباپے میں دلچسپی لینے والے کلبز بڑھتے جا رہے تھے تاہم دیگر ساتھیوں کے برعکس انھوں نے کوئی فیصلہ کیے بغیر دو سال وہیں گزارے۔
یہ بھی پڑھیے
میسی کو پہنائی جانے والی عبا ’بشت‘ کیا ہے اور اس پر تنازع کیوں؟
میسی کیا اب فٹبال کے سب سے عظیم کھلاڑی ہیں؟
اس کے بعد وہ موناکو میں کھیلنے چلے گئے جہاں انھیں بتایا گیا کہ وہ اپنی پہلی ٹیم میں پہنچ جائیں گے۔ وہ 15 سال کے تھے اور ان کا ارادہ تھا کہ فٹبال میں کچھ غیر معمولی کر دکھائیں۔
موناکو اکیڈمی میں وہ نوجوانوں کی ٹیم کا حصہ تھے اور چیمپیئنز لیگ میں اپنے ڈیبیو کا خواب دیکھتے تھے، جیسا کہ ان کے ہیرو رونالڈو نے کیا تھا۔
مگر ان کی کامیابی کے پیچھے ان کے خاندان کا اہم کردار رہا۔ یہ خاندان ہر کام ایک ساتھ کرتا ہے۔ کلیان ایمباپے کے سٹار بننے تک یہ سب موناکو میں ایک ساتھ رہتے رہے۔
جب انھیں لگا کہ بہترین تربیت کے باوجود انھیں ٹیم میں شمولیت کا موقع نہیں دیا جا رہا تو انھوں نے مل کر احتجاج کیا۔ یوں دسمبر 2015 میں انھیں پہلا میچ کھلایا گیا۔ 16 سال اور 347 دن کی عمر میں امباپے موناکو کے سب سے کم عمر کھلاڑی بن گئے۔
فروری 2016 کے دوران انھوں نے اپنے پیشرو تھیری ہنری کا کم عمری میں سب سے زیادہ گول کا ریکارڈ توڑا۔
اس کے بعد سے کوئی بھی انھیں روک نہ پایا۔ مارچ 2017 میں انھوں نے فرانس کی طرف سے سپین کے خلاف پہلا میچ کھیلا۔ ان کی عمر محض 18 سال 95 دن تھی۔ اگلے ہی انٹرنیشنل میچ میں انھوں نے اپنا پہلا گول کر لیا۔
نوجوانی سے اب تک بڑے کلبز کی کوشش رہی ہے کہ وہ ایمباپے کو اپنی ٹیم میں رکھ لیں۔ ریال میڈرڈ نے بھی اس کی بڑی کوششیں کیں۔ انھوں نے ٹرائل، فرینڈلی میچ اور زیدان اور رونالڈو کے ساتھ ان کی ملاقاتیں کروائیں۔ انھوں نے ہر ممکن پیشکش کر چھوڑی اور اب بھی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم ایمباپے نے فرانسیسی کلب پی ایس جی کا انتخاب کیا اور بدلے میں انھوں نے لیگ ون کے پانچ سیزنز میں انھیں چار ٹائٹل جتوا دیے ہیں۔
بچپن سے ہی فٹبال ان کے قدموں میں رہا ہے اور وہ ہر سوال کا جواب انھی قدموں سے دیتے ہیں۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2lqeejppkpo | کراچی ٹیسٹ: پاکستان کی مایوس کُن بیٹنگ، انگلینڈ سیریز میں کلین سویپ سے صرف 55 رنز دور | پاکستان کی ٹیم انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ میں شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اپنی دوسری اننگز کھیلتے ہوئے پاکستان کی پوری ٹیم صرف 216 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جس کے نتیجے میں انگلینڈ کو تیسرے ٹیسٹ میں جیت کے لیے 167 رنز کا ہدف دیا گیا ہے۔
کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جا رہے تیسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے اختتام پر انگلینڈ کی جانب سے ہدف کا تعاقب جاری ہے اور انگلینڈ نے دو وکٹوں کے نقصان پر 112 رنز بنا لیے ہیں اور اب انھیں ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کے لیے فقط 55 رنز درکار ہیں۔
167 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کے اوپنرز نے اپنی دوسری اننگز کا آغاز پُراعتماد اور نسبتاً جارحانہ انداز میں کیا اور زیک کرالی اور بیٹ ڈکٹ نے 87 رنز کی اوپننگ پارٹنرشپ قائم کی۔
بین ڈکٹ نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے 38 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔
انگلینڈ کی پہلی وکٹ 87 کے مجموعی سکور پر گری جب پاکستانی سپنر ابرار احمد نے زیک کرالی کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا۔ انھوں نے 40 گیندوں پر 41 رنز بنائے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
انگلینڈ کے ون ڈاؤن آنے والے کھلاڑی ریحان احمد تھے جنھیں ابرار احمد نے دس رنز پر بولڈ کر دیا۔ انگلینڈ کے دوسری وکٹ 97 رنز کے مجموعی سکور پر گری۔
بین سٹوکس دس رنز جبکہ بین ڈکٹ 50 رنز بنا کر کریز پر موجود ہیں۔
واضح رہے کہ انگلینڈ کو پہلے ہی تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں دو صفر سے فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔
نیشنل سٹیڈیم میں کھیلے جا رہے میچ کے تیسرے روز پاکستان نے اپنی دوسری نامکمل اننگز کا آغاز 21 رنز بغیر کسی نقصان سے کیا تو شان مسعود تین اور عبداللہ شفیق 14 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود تھے اور پاکستان کو انگلینڈ کی پہلی اننگز کی برتری ختم کرنے کے لیے مزید 29 رنز درکار تھے۔
دونوں کھلاڑیوں نے دن کے ابتدائی حصے میں پراعتماد انداز سے اننگز کی شروعات کی لیکن 53 رنز کے مجموعی سکور پر شان مسعود انگلش بولر جیک لیچ کی گیند پر ریورس سویپ کھیلنے کی کوشش میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔
ابھی قومی ٹیم اس نقصان سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ اپنا آخری میچ کھیلنے والے اظہر علی بھی جیک لیچ کے اسی اوور میں صفر پر بولڈ ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی اخری اننگز میں صرف چار گیندوں کا سامنا کیا۔
اظہر علی انگلش بولر جیک لیچ کی گیند کو بالکل سمجھ نہ سکے اور کلین بولڈ ہوئے۔ تاہم اظہر علی کے آخری مرتبہ گراؤنڈ سے باہر جاتے وقت انھیں انگلش ٹیم کی جانب سے ان کے کیرئیر پر داد دی گئی۔
پاکستان کی بیٹنگ لائن اس موقع پر مزید دباؤ میں آ چکی تھی اور اس میں فوراً اضافہ اس وقت ہوا جب جیک لیچ نے اپنے اگلے ہی اوور کی پہلی گیند پر عبداللہ شفیق کو بھی آؤٹ کر دیا۔
اس وقت پاکستانی بیٹنگ انگلش بولنگ کے سامنے لڑکھڑاتی دکھائی دی۔ پاکستان نے صرف 17 گیندوں میں اپنی تین اہم وکٹیں گنوا دیں۔
اس مرحلے پر بابر اعظم کا ساتھ دینے سعود شکیل آئے اور دونوں کھلاڑیوں نے سکور کو بتدریج آگے بڑھانا شروع کیا۔
کھانے کے وقفے سے قبل بابر اعظم کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی جاندار اپیل ہوئی، امپائر کے آؤٹ نہ دیے جانے پر انگلش ٹیم نے ریویو لیا لیکن کریز سے تین میٹر زائد آگے نکل کر کھیلنے کی بدولت وہ آؤٹ ہونے سے بال بال بچ گئے۔
جب میچ کے تیسرے دن کھانے کا وقفہ ہوا تو پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 99 رنز بنائے تھے اور اسے مجموعی طور پر دوسری اننگز میں 49 رنز کی برتری حاصل تھی۔
یہ بھی پڑھیے
سمیع چوہدری کا کالم: ’لگی بندھی کپتانی سے کچھ نہ ہو پائے گا‘
11 سال کی عمر میں بین سٹوکس کو نیٹ سیشن میں آؤٹ کرنے والے انگلش بولر ریحان احمد کون ہیں؟
اظہر علی: بے لوث اور محنتی کھلاڑی جس نے پاکستانی ٹیم کو مشکل دور میں سہارا دیا
کھانے کے وقفے کے بعد پاکستان نے اپنی بیٹنگ دوبارہ شروع کی تو 164 رنز کے مجموعی سکور پر کپتان بابر اعظم 54 رنز بنا کر انگلش سپنر ریحان احمد کا شکار ہو گئے ان کا کیچ اولی پوپ نے پکڑا۔
اس کے بعد پاکستان بیٹنگ بالکل سنبھل نہ سکی اور نئے آنے والے بلے باز محمد رضوان صرف سات رنز کا اضافہ کر سکے اور ریحان احمد کی گیند پر ہی وکٹ کیپر فوکس کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
انگلش سپنر ریحان احمد نے پاکستانی بیٹسمین کو باندھے رکھا اور اس کے بعد انھوں نے سعود شکیل کو بھی 177 کے مجموعی سکور پر پویلین کی راہ دکھائی۔ سلمان آغا بھی 21 رنز کے انفرادی سکور پر ریحان احمد کا شکار بنے۔
ان کے بعد آنے والے فہیم اشرف کے پیر بھی وکٹ پر نہ جمے اور وہ صرف ایک رنز بنا کر جو روٹ کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان نے صرف تین رنز کے فرق سے تین وکٹیں گنوا دیں۔ 178 رنز کے مجموعے پر پاکستان کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔
پاکستان کے اگلے آنے والے بلے باز نعمان علی بھی صرف پندرہ رنز کا اضافہ کر کے مارک ووڈ کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔
پاکستان کی ٹیم کے آخری آؤٹ ہونے والے کھلاڑی محمد وسیم جونیئر تھے جو دو رنز بنا کر ریحان احمد کی گیند پر رابنسن کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
انگلینڈ کی جانب سے سپنر ریحان احمد نے اپنے پہلے ٹیسٹ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
پاکستان نے اپنی دوسری اننگر میں 216 رنز بنائے اور اس نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 167 رنز کا ہدف دیا جس کے تعاقب میں اب انگلینڈ کی بیٹنگ جاری ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی ٹیم میچ کی پہلی اننگز میں 304 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی جس کے جواب میں انگلینڈ نے ہیری بروک کی سنچری کی بدولت 354 رنز بنا کر پہلی اننگز میں 50 رنز کی برتری حاصل کی تھی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2qnvyd6zp0o | میسی کو پہنائی جانے والی عبا ’بشت‘ کیا ہے اور اس پر تنازع کیوں؟ | فیفا ورلڈ کپ اپنے تمام تر جوش اور نشیب و فراز کے ساتھ اتوار کو ارجنٹائن کی جیت پر اختتام پزیر ہوا اور جب ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھانے کی بات آئی تو کپتان لیونل میسی کو ایک نئے روپ میں دیکھا گیا۔
انھیں ورلڈ کپ ٹرافی دینے سے قبل شاہانہ علامت والا ’بشت‘ یعنی قطری عبا، جبہ یا چوغہ پہنایا گیا اور اسی لباس میں انھوں نے ٹرافی اٹھائی جو ایک ایسا تاریخی لمحہ تھا جسے دنیا بھر کے کروڑوں افراد نے دیکھا۔
سوشل میڈیا پر جہاں ’ورلڈ کپ فائنل، میسی، ایمباپے، ارجنٹائن، فرانس اور فٹبال‘ جیسے ہیش ٹيگ کے ساتھ بات چیت ہو رہی تھی وہیں انگریزی میں ’عبا‘ بھی ٹرینڈ کرنے لگا۔
بہت سے لوگوں نے جہاں اس شاہانہ لباس کو سراہا اور کہا کہ یہ میسی جیسے فٹبال کے شہزادے کے شایان شان تھا وہیں بہت سے لوگوں نے اسے قطر کی جانب سے اپنی ’تہذیب کو تھوپنے‘ کا الزام لگایا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
خیال رہے کہ یہ ورلڈ کپ اس وقت سے تنازعات کا شکار رہا ہے، جب سے اس کی میزبانی کا فیصلہ قطر کے حق میں دیا گيا اور اس کے بعد سے وقتاً فوقتاً قطر پر متعدد قسم کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
بشت یعنی عبا (مردوں کے لیے) یا عبایا (خواتین کے لیے) دراصل عربوں کا ایک روایتی لباس ہے، جسے بشوت، مشلح وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عربوں میں ثوب کے اوپر یہ پہنا جاتا ہے اور اسے عظمت و بزرگی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
اسے عام طور عرب دنیا کے علاوہ دنیا بھر میں جمعے اور عیدین میں امام مسجد کو بھی پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کا رنگ سیاہ، بھورا، خاکستری، بادامی وغیرہ ہوتا ہے، جو سفید ثوب پر زیادہ کھلتا ہے۔ اس میں قیمتی کناریاں لگی ہوتی ہیں جو عام طور سنہرے یا چاندی کے رنگوں کی ہوتی ہیں۔
بہر حال بعض میڈیا ہاؤسز نے لکھا کہ میسی کو پریزینٹیشن تقریب میں فیفا کے اعلیٰ حکام نے عربی چوغہ ’بشت‘ پہنے پر ’مجبور‘ کیا جبکہ بعض نے اسے ایسا تاریخی لمحہ قرار دیا جو ورلڈ کپ کی تاریخ اور مشرق وسطیٰ کے تخیل میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
سوشل میڈیا پر پورے ورلڈ کپ کے دوران اور اس سے قبل بھی ارجنٹائن کے فٹبالر میسی کے نام کا ٹرینڈ کرنا عام بات رہی ہے۔ ان کے مداح اکثر ان کا موازنہ پرتگال کے سٹار فٹبالر رونالڈو سے کرتے ہیں۔
فٹبال کے مداح فہد العتیبی نے عربی زبان میں ٹویٹ کی کہ ’میں بشت پہنائے جانے کے خیال سے متاثر ہوا ہوں۔ یہ وہ تصویر ہے جو تاریخ میں ہمیشہ رہے گی۔‘
ریال میڈرڈ کے حمد المجیدی نے لکھا کہ ’جس نے بھی بشت کا خیال پیش کیا، وہ جینیئس تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس خطے کو ہماری زندگی میں پھر دوبارہ ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق نہ ملے لیکن ہمارا نشان ورلڈ کپ کی تاریخ میں ہمیشہ کے ثبت ہو گیا اور جنھیں یہ لمحہ پسند نہیں آیا، ہم انھیں حقیقتاً اس وقت کچھ کہتے نہیں دیکھتے اگر انھوں نے خود کو قوس قزح کے رنگ والے پرچم یا یوکرین کے پرچم میں لپیٹا ہوتا۔‘
اسی طرح العربی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اگر قطر نے میسی کو قوس قزح کے رنگ کا عبا پہنے پر مجبور کیا ہوتا تو برٹش میڈیا بہت زیادہ خوش ہوتا لیکن انھیں شاہی عبایا پہنایا گیا جو ان پر فٹبال کے شہزادے کے طور پر خوب جچتا ہے تو وہ لوگ بہت ناراض ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
عامر نامی ایک صارف نے بشت پہنائے جانے کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’میرے خیال سے اسے عبایا کہا جاتا ہے۔ جب کوئی بادشاہ آپ کو یہ عطا کرتا ہے تو یہ اعزازی ہوتا ہے اور یہ عزت افزائی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے اور میسی اس کے حقدار ہیں۔‘
تطہیر مہاجر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’میسی عبایا پہن کر کتنا اپنا اپنا سا لگ رہا ہے نہ۔۔۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
وصال حریز نامی ایک صارف نے میسی کو عبا پہنائے جانے پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے دو تصاویر ٹویٹ کیں اور لکھا کہ ’سنہ 1970 میں اپنا تیسرا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد پیلے نے میکسیکن سومبریرو (ہیٹ) پہنا تھا۔ آپ لوگ کس بات پر غصہ ہیں؟‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
معروف ٹی وی جرنلسٹ مہدی حسن نے لکھا کہ فٹبال ورلڈ کپ کے ’اختتام پر میسی کو عربی جبہ پہنانے کو عجیب سمجھنا بہت ممکن ہے لیکن کیا ہم نسل پرستی اور عرب مخالف بی ایس (بیانیے یا سوچ) کو ختم کر سکتے ہیں اور ہاں پیلے نے میکسیکو میں ہونے والے ورلڈ کپ فائنل میں برازایل کی جیت کے چند لمجے بعد ہی ایک سومبریرو پہنا تھا۔‘
فاطمہ نامی ایک صارف نے عربی زبان میں لکھا کہ جب ’سنہ 1970 کے ورلڈ کپ میں پیلے نے میکسیکو کا ہیٹ پہنا تو مغرب نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور اسے ثقافت کا تبادلہ کہا لیکن سنہ 2022 میں جب میسی کو بشت پہنایا گیا تو مغرب کو دورہ پڑ گیا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
فتحون شارو نامی ایک صارف نے لکھا کہ کچھ نسل پرستوں کو ابھی قطر کے اچھی طرح سے کرائے جانے والے منظم ورلڈ کپ سے پریشانی ہے حالانکہ قطر میں اب تک کے عظیم ترین فٹبال ورلڈ کا انعقاد ہوا۔
بہت سے لوگوں نے اس حوالے سے قطر سے منسلک دیگر مسائل کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا کہ جہاں مداح کے کپڑے اتارنے پر جرمانہ ہو، جہاں کھلاڑی کے ٹی شرٹ اتارنے پر پیلا کارڈ دیا جائے، جہاں ایل جی بی ٹی کے خیالات کا اظہار کرنے پر پابندی ہو وہاں یہ چوغہ پہنایا جانا بھی زبردستی کی علامت ہے۔
بہر حال یہ ورلڈ کپ تمام تر تنازعات کے باوجود اپنے اچھے انتظامات، بہترین کھیل، سعودی عرب کی ارجنٹائن کے خلاف جیت اور پہلے عرب اور افریقی ملک مراکش کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
ارجنٹائن نے اپنا پہلا میچ ہارنے کے باوجود یہ عالمی کپ اٹھایا جو کسی دلچسپ ناول کے بہترین اختتام کی طرح ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0wvkdx1g8o | ارجنٹائن کے گول کیپر ایمیلیانو مارٹینز، جنھوں نے میسی کے خواب کو ادھورا نہ رہنے دیا | ارجنٹائن اور فرانس کے درمیان اتوار کو ہونے والے ورلڈ کپ فائنل کے ناقابل یقین مقابلے سے پہلے تمام باتیں لیونل میسی اور کیلین ایمباپے کے بارے میں تھیں لیکن میچ کے آخر میں سب کے ہونٹوں پر ایک اور نام تھا اور وہ نام ایمیلیانو مارٹینز کا تھا۔
120 منٹ کے پرجوش، نشیب و فراز سے بھرپور اور پل پل آپ کو جذباتی طور پر نچوڑ لینے والے کھیل کے بعد دونوں ٹیمیں 3-3 گول کی برابری پر تھیں اور فٹبال کا سب سے بڑا اعزاز کون اٹھائے گا، اس کا تعین کرنے کی بات پینلٹی شوٹ آؤٹ تک پہنچ گئی تھی۔
جہاں ارجنٹینا کے کھلاڑیوں نے پرسکون انداز سے اپنی چاروں پینلٹی کو گول میں تبدیل کر دیا وہیں فرانس کے سامنے ان کا دل توڑنے کے لیے مارٹینیز دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔
فرانس کے ایمباپے نے کھیل کے دوران دو پینلٹی سکور کی تھیں لہذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ انھوں نے شوٹ آؤٹ میں فرانس کے لیے پہلی پینلٹی کو گول میں تبدیل کر دیا، حالانکہ مارٹنیز اسے روکنے سے زیادہ دور نہیں تھے۔
بہرحال اس کے بعد سے ایسٹن ولا کے گول کیپر نے سٹیج سنبھال لیا۔ انھوں نے کنگسلے کومن کے گول کو روک کر فرانس پر ذہنی دباؤ ڈال دیا۔
جس کی وجہ سے جب اورلین چاؤمینی اپنی باری کے لیے گئے تو وہ ذہنی دباؤ ان پر پہلے سے ہی طاری تھا اور اس کے بوجھ تلے انھوں گيند کو مارٹنیز سے دور رکھنے کے لیے گول پوسٹ سے باہر مار دیا۔
مارٹینز کی اچھل کود کے لیے ایک لفظ ہے جسے یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کا مطلوبہ اثر ہوا اور 22 سالہ چومینی نے اس کا خمیازہ بھگتا۔
اس گول کو روک لینے نے ارجنٹائن کو سنہ 1986 کے بعد پہلی بار ورلڈ کپ ٹرافی پانے کے مزید قریب پہنچا دیا۔
اگرچہ فرانس کے رینڈل کولو موانی نے فرانس کی اگلی پینلٹی کو گول میں تبدیل کر دیا لیکن ارجنٹائن کے متبادل کھلاڑی گونزالو مونٹیل کی پینلٹی نے جنوبی امریکیوں کے جشن کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ارجنٹائن کے باس لیونل سکالونی نے بتایا کہ ’ایمی مارٹنیز ایک بہت مثبت شخص ہیں اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا کہ وہ کچھ گول بچانے جا رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
یاسین بونو: وہ گول کیپر جو مراکش کا ہیرو بن گیا ہے
فٹ بال ورلڈ کپ: فرانس کی وہ کمزوریاں جن کا فائدہ فائنل میں ارجنٹائن کو ہو سکتا ہے
ارجنٹائن کو فیفا ورلڈ کپ جتوانے والے لیونیل میسی کیا اب فٹبال کے سب سے عظیم کھلاڑی ہیں؟
فٹبال کے شعبے میں بی بی سی سپورٹس کے پنڈت بھی اس بات پر متفق تھے کہ مارٹنیز کی حرکات نے جیت میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔
انگلینڈ کے سابق مڈفیلڈر جرمین جیناس نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ شوٹ آؤٹ میں اس (حرکتوں) کا ذہنی طور پر بہت زیادہ اثر پڑا۔‘
انگلینڈ کے سابق سٹرائیکر ایلن شیرر نے کہا کہ ’وہ انھیں ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے، وہ گیند کو لات مار رہے تھے، وہ کھلاڑیوں سے بات کر رہے تھے، (اور اس طرح) وہ ان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال رہے تھے۔‘
انگلینڈ کے سابق ڈیفینڈر ریو فرڈینینڈ نے کہا کہ ’لائن کے پیچھے وہ حرکت کر رہے تھے اور پینلٹی لینے والے شخص کی نظر کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
اضافی وقت کے آخری سیکنڈز میں اگر مارٹینز نے ایک گول کو شاندار طریقے سے نہ بچایا ہوتا تو یہ گیم شوٹ آؤٹ تک بھی نہیں جاتا۔
لیورپول کے ڈیفینڈر ابراہیم کوناٹے نے گیند کو آگے بڑھایا اور موانی نے گول کرنے کے لیے دوڑ لگا دی، صرف مارٹینز ہی تھے جنھوں نے آگے بڑھے کر راستہ تنگ کر دیا اور اسے گول میں تبدیل ہونے سے روک دیا۔
یہ قطر میں مارٹینز کی جانب سے کئی بڑے گول بچانے کے کارناموں میں سے ایک تھا اور اس کے لیے انھیں ٹورنامنٹ کا ’گولڈن گلوو ایوارڈ‘ دیا گيا۔
انھوں نے قومی ٹیم کے ساتھ اپنے مختصر سے وقت میں یقیناً بڑا اثر چھوڑا۔ پچھلے سال اپنا ڈیبیو کرنے کے بعد سے انھوں نے کوپا امریکہ اور اب ورلڈ کپ جیتنے میں ارجنٹائن کی مدد کی ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
انھیں اپنے کریئر کے آغاز کے لیے صبر آزما دور سے گزرنا پڑا۔ مارٹنیز نے آٹھ سال آرسنل میں گزارے، چھ بار دوسری ٹیموں نے ان کی خدمات لیں اور انھوں نے صرف 11 پریمیئر لیگ میچوں میں شرکت کی۔
مارٹنیز نے اتوار کے فائنل کے بعد کہا کہ ’میرے پاس اس کے لیے الفاظ نہیں۔ میں شوٹ آؤٹ کے دوران پرسکون تھا اور ہر چیز ہماری خواہش کے مطابق ہوتی چلی گئی۔ میں نے جس کا خواب دیکھا تھا وہ سب حاصل ہو گیا۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy9kxk09gw1o | سمیع چوہدری کا کالم: ’لگی بندھی کپتانی سے کچھ نہ ہو پائے گا‘ | جو روٹ دنیائے کرکٹ کے بہترین بلے بازوں میں سے ہیں۔ فروری 2017 میں جب سر الیسٹر کُک ریٹائر ہوئے تو بہترین کارکردگی کی بنیاد پہ جو روٹ کو انگلش ٹیسٹ ٹیم کا کپتان مقرر کر دیا گیا۔ اپریل 2022 تک وہ اس منصب پہ موجود رہے۔
جو روٹ انگلش کرکٹ کی تاریخ میں طویل ترین عرصے تک کپتان رہے اور ہوم گراؤنڈز پہ کئی کامیابیاں بھی ان کے نام ہوئیں مگر بحیثیتِ مجموعی ان کی کپتانی پہ اس سے بہتر کوئی اور تبصرہ نہیں کیا جا سکتا جو ان کی ہوم کاونٹی یارکشائر کی طرف سے انھیں ’کریپٹن‘ کا لقب دے کر کیا گیا۔
اچھے کپتان وہ نہیں ہوا کرتے جو اپنے تئیں بہترین کاوش کرنے کے بعد خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں اور مخالف بیٹنگ اننگز کے انہدام کے لیے کسی غیبی تائید کے منتظر رہیں۔
کپتان کی ذمہ داری محض بولرز کی جوڑیاں طے کرنا ہی نہیں ہوتی بلکہ دس وکٹیں اڑانے کو اچھوتے تصورات جگانے کے لیے اپنے بولرز میں تحریک بھی پیدا کرنا ہوتی ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین کپتان گریم سمتھ کا خاصہ تھا کہ وہ بولنگ میں متواتر تبدیلیاں کرتے رہتے تھے۔ پے در پے چھوٹے چھوٹے سپیل کروائے جاتے تاکہ کوئی بھی بلے باز کسی ایک بولر کی لائن لینتھ سے ہم آہنگ نہ ہونے پائے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں دس وکٹیں حاصل کرنے کی ذمہ داری اگرچہ بولنگ اٹیک کی ہی ہوتی ہے مگر اس بولنگ اٹیک کو متحرک رکھنا اور ذہنی جمود سے نکالنا کپتان ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ فیلڈنگ طے کرنا بھی بولر اور کپتان کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور اگر بولنگ اٹیک نوآموز و ناتجربہ کار بولرز پہ مشتمل ہو تو کپتان کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔
دبئی کے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کے دوران جب ڈیرن براوو کسی بھی طرح آؤٹ ہو کے نہ دے رہے تھے اور ڈرا کی سمت بڑھتے میچ کو اپنی ٹیم کی جھولی میں ڈالنے کے عین قریب تھے، وہاں کپتان مصباح الحق کی ذہانت کار فرما ہوئی اور مڈ آن کو امپائر کی طرف دھکیل کر، محمد عامر کو باؤنسر پھینکنے پہ آمادہ کیا۔
نتیجتاً براوو اسی مڈآن پہ کھڑے یاسر شاہ کو کیچ پکڑا کر پویلین لوٹ گئے اور پاکستان ہارتے ہارتے جیت اچک کر لے گیا۔
دانش مند کپتانی کی جھلک دیکھنا مقصود ہو تو بین سٹوکس بہترین مثال ہیں جو کبھی بھی کتابوں میں لکھی کرکٹ نہیں کھیلتے۔ روایتی فیلڈ پوزیشنز پہ تکیہ کرنے کی بجائے وہ ہر بلے باز کے لیے انفرادی پلان ترتیب دیتے ہیں اور اپنی غیر معمولی فیلڈ پوزیشنز سے بلے باز کو اپنی قوت پہ بے جا بھروسہ کرنے کی شہہ دیتے ہیں۔
مگر اس کے برعکس بابر اعظم کبھی اس کوشش میں مگن نظر نہیں آتے کہ حریف بلے باز کی قوت و کمزوری کا کوئی تجزیہ کریں اور اس پہ کسی جدید حکمتِ عملی سے حملہ آور ہوں۔
یہ بھی پڑھیے
کراچی ٹیسٹ: ابرار، نعمان کی چار چار وکٹیں، انگلش ٹیم 354 رنز بنا کر آؤٹ
11 سال کی عمر میں بین سٹوکس کو نیٹ سیشن میں آؤٹ کرنے والے انگلش بولر ریحان احمد کون ہیں؟
سمیع چوہدری کا کالم: ’پاکستان گھر آئی قسمت ٹھکرا بیٹھا‘
سمیع چوہدری کا کالم: اس احتیاط کو خود علاج درکار ہے
بلے باز کوئی بھی ہو، بولر کوئی سا ہو، بابر اعظم کی فیلڈ پلیسمنٹ عموماً وہیں کی وہیں رہتی ہے۔
بولرز کے استعمال میں بھی بابر اعظم کی ترجیحات اکثر ناقابلِ فہم رہتی ہیں۔ آج کراچی میں چائے کے وقفے کے بعد جب ریورس سوئنگ دیکھنے کو مل رہی تھی اور محمد وسیم ایک شاندار سپیل پھینک رہے تھے، تب بابر نے دوسرے کنارے سے فہیم اشرف کو کیوں نہ آزمایا؟ یہ وہ حیران کن فیصلہ تھا جس کے لیے ڈیوڈ گاور، وقار یونس اور مائیک آتھرٹن جیسے لیجنڈز بھی کوئی منطق ڈھونڈنے سے قاصر رہے۔
پہلے روز پاکستان نے ٹاس جیتنے کے بعد ایک اچھا مجموعہ تشکیل دینے میں ناکامی اٹھائی مگر دوسری سہہ پہر بین سٹوکس کے رن آؤٹ کی شکل میں بابر اعظم کو ایک سنہری موقع میسر تھا کہ انگلش اننگز کو دانتوں سے دبوچ لیتے مگر شومئی قسمت تو دیکھیے کہ آدھی ٹیم گنوا چکنے کے بعد بھی چھٹی وکٹ کی ساجھے داری 100 رنز سے تجاوز کر گئی۔ اور اس کے بعد آٹھویں وکٹ کی شراکت میں بھی پچاس سے زائد رنز بن گئے۔
اس سب کے بیچ بابر اعظم محض طے شدہ فیلڈنگ اور لگی بندھی بولنگ کی تبدیلیوں میں محو رہے۔ ان کا سارا دار و مدار تین بولرز پہ رہا جبکہ فہیم اشرف پورے دن میں ایک ہی اوور پھینک پائے۔ بلاشبہ فہیم اشرف کوئی جارحانہ آپشن نہیں ہیں مگر ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا اکانومی ریٹ اور پارٹنرشپس توڑنے کی خو سے کون واقف نہیں۔
اگرچہ بین سٹوکس کی ٹیم کو یہاں چوتھی اننگز میں بیٹنگ کرنا ہو گی اور پاکستانی سپنرز بھی چوتھے روز کی پچ سے زیادہ تائید ملنے کی توقع کر سکتے ہیں مگر پہلے دو دنوں میں فیصلہ کن برتری حاصل کرنے کے دو مواقع پاکستان کو میسر ہوئے اور پاکستان دونوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہ گیا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1dg4l8ldzgo | 2014 کا ورلڈ کپ فائنل: ’تب بھی میسی میری امید تھے آج بھی میسی پر ہی نظریں ہیں‘ | سنہ 2014 میں ریو میں ارجنٹینا اور جرمنی فٹبال کے ورلڈ کپ فائنل میں آمنے سامنے تھے۔ میں ارجنٹینا کا کھلاڑی تھا مگر فائنل میچ سے ایک رات قبل میں دو وجوہات سے سو نہیں سکا۔
پہلی وجہ تو میرے اعصاب بنے تھے۔ میں پہلی بار ایک عجیب بے چینی کا شکار ہوا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہوٹل کے باہر صبح تین بجے برازیل کے شائقین نے خوب آتش بازی کی۔
بہت زیادہ شور کی وجہ سے پوری ٹیم ہی جاگ گئی تھی۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں برازیل کے شائقین نے تمام میچز میں ہماری مخالفت میں مدمقابل ٹیم کو سپورٹ کیا تھا اور اب وہ یہ یقینی بنانے کے لیے بے چین تھے کہ ہم کسی بھی صورت ان کی سرزمین پر ماراکانا سٹیڈیم میں ہونے والے فائنل کے فاتح نہ بن سکیں۔
بہرحال میں کسی نہ کسی طور کچھ وقت کے لیے سو گیا۔ جب میں جاگا تو میرے ذہن میں یہی سوچ تھی کہ آج کا دن ہی سب کچھ ہے۔
میں لڑکپن سے لے کر اس وقت تک فٹبال کے سینکڑوں میچز کھیل چکا تھا۔ مگر جب آپ ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کے قریب ہوتے ہیں تو پھر آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ بہت خاص ہے اور یہ آپ کی زندگی کا ایک بہت یادگار میچ ہونے جا رہا ہے۔
بچپن سے ہی یہ میرا خواب تھا اور جو آپ چاہتے ہوں وہ ہو جائے اور آپ اپنی منزل پر پہنچ جائیں تو پھر اسے بیان کرنے کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ میں دوبارہ ایک بچے کی طرح ہو گیا۔ اور اس دن اس کے علاوہ کچھ سوچنا محال تھا کہ ’واؤ آج ہم ورلڈ چیمپئین بن سکتے ہیں۔‘
اس بار بھی فائنل کے انتظار سے سنہ 2014 کی بہت سی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ فائنل سے قبل جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو، ہوٹل اور سٹیڈیم کے رستے پر میرے ذہن پر صرف ایک ہی بات سوار تھی کہ کیا آج ہم جیت جائیں گے۔
کلب کے کھلاڑی کے طور پر ہر سیزن میں کھیلتے ہوئے میں نے متعدد اعزازات اپنے نام کیے۔ ہر سال ایک نیا موقع اور نیا چیلنج درپیش تھا مگر اس بار کا تجربہ مختلف تھا۔
ورلڈ کپ ہر چار برس بعد ہوتا ہے اور ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ یہ میرے لیے بہت خاص تھا۔ میں سنہ 2014 میں 29 برس کا تھا اور مجھے اس بارے میں کچھ یقین نہیں تھا کہ اگلے ورلڈ کپ کے لیے چار برس بعد میں روس جا سکوں گا۔
یہی وجہ تھی کہ میرے ذہن میں ایک سوچ یہ بھی تھی کہ آیا میں زندگی میں دوبارہ کبھی ایسے مقابلے میں شریک ہو سکوں گا یا نہیں۔
یہ وہ ساری وجوہات تھیں جنھوں نے اس فائنل کی تیاری میں میرے لیے عمومی ذہنی مشکلات کھڑی کیں۔ اور یہ کیفیت اس وقت تک طاری رہی جب میں پچ پر بھی آ گیا تھا۔
میں یہ بات جانتا تھا کہ میں ایک عظیم لمحے سے محض 90 منٹ کی دوری پر ہوں۔ اور میں اس بات کا تصور کر سکتا تھا کہ اپنے شائقین کے سامنے جیتنا کتنا دلچسپ اور حیرت انگیز تجربہ ہو گا۔ اس کے علاوہ میں نے دیگر نتائج پر بالکل غور نہیں کیا۔
جیسے ہی میچ شروع ہوتا ہے تو اس کے بعد آپ اپنے اعصاب اور میچ کی اہمیت کے بارے میں باقی باتیں بھول جاتے ہیں۔ آپ اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔ جرمنی اس فائنل کے لیے فیورٹ قرار دیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے سیمی فائنل میں برازیل کو سات ایک گول سے بڑی شکست دی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ہر ایک کی سوچ یہی تھی کہ وہ ہمیں بھی تہس نہس کر کے رکھ دیں گے۔
مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ہماری ٹیم بہت اچھی تھی۔ دفاعی طو پر مستحکم اور چٹان کی مانند تھی اور ہمیں تین یا چار بار گول کرنے کے اچھے مواقع بھی میسر آئے۔
مگر ہم نے وہ تمام مواقع ضائع کر دیے۔ اضافی وقت کے اختتام پر ماریو گوٹزے نے جرمنی کے لیے فیصلہ کن گول کیا۔ بس یہی سب کچھ تھا۔ جرمنی ورلڈ کپ کا چیمپیئن بن چکا تھا۔ یہ ایک بہت سخت مقابلہ تھا اور فٹ بال میں عظیم تر ٹرافی اٹھانے کے باوجود ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔
رنر اپ ٹرافی کو لینا بہت مشکل تھا۔ فائنل کے بعد سب کچھ مشکل تھا، ہماری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ڈریسنگ روم میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ اور جب ہم واپس ہوٹل میں گئے تو ہم دو گھنٹوں کے لیے سیدھے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
میرے اوپر مایوسی، غصے اور درد جیسی کیفیت طاری تھیں۔ مگر یہ سب کیفیت اس وقت ختم ہو گئی جب ہم دوبارہ ایک ٹیم کی صورت اکھٹے ہوئے اور اس چیز نے ہماری بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک ٹیکسٹ میسج کی صورت پیغام موصول ہوا کہ دوستو کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سنہ 1990 کے بعد ارجنٹینا کو فٹبال کے ورلڈ کپ فائنل تک پہنچنے میں 24 برس کا عرصہ لگا اور ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے کہ ہم نے ایسا کھیل پیش کیا۔ چلیں، ہمیں کِٹ والے کمروں میں سے ایک میں جا کر بیئر نوشی سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔
ہم سب اس کمرے میں اکھٹے ہوئے۔ پورا سکواڈ وہیں پہنچ گیا۔ اور ہم نے بیئر کے ساتھ جو ہم پر گزری اس پر گفتگو کی۔
اب فائنل کو ہوئے چار سے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے۔ اگرچہ شکست کی تکلیف ابھی بھی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ میں یہ سوچنا شروع ہو گیا تھا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ مجھے اس قدر دلچسپ میچ کھیلنے کا موقع ملا۔
یہ بھی پڑھیے
فٹ بال ورلڈ کپ: کون سے کھلاڑی سب پر حاوی رہے؟
فٹ بال ورلڈ کپ: فرانس کی وہ کمزوریاں جن کا فائدہ فائنل میں ارجنٹائن کو ہو سکتا ہے
فٹ بال ورلڈ کپ: کروشیا نے مراکش کو ہرا دیا، ’یہ ایسا ہی ہے جیسے سونے کا میڈل جیتا ہو‘
ہم اگلی صبح واپس ارجنٹینا چلے گئے۔ یہاں اپنے شائقین نے ہمارا زبردست استقبال کیا، جس سے ہماری بڑی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ہم اپنے ملک کے لیے کھیل رہے تھے اور جب ہم نے دیکھا کہ ہم نے اپنے لوگوں کو کتنا خوش کر دیا ہے تو یہی ہمارا مقصد تھا جس نے ہمیں پھر سے کھڑا کر دیا۔
میں کچھ دن ارجنٹینا میں ہی رکا اور جب کبھی بھی میں باہر ریسٹورنٹ یا چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا تو بہت سارے لوگ میرے پاس آ کر اپنے ملک کے لیے اتنی محنت کرنے پر شکریہ ادا کرتے تھے۔
ورلڈ کپ کا فائنل وہ خاص لمحہ ہوتا ہے جب گذشتہ کئی برسوں بعد میرا خاندان یہ میچ دیکھنے کے لیے میرے گھر پر اکھٹا ہوا اور میرے لیے خاص طور پر یہ خاص بات تھی جب میں خود جا کر ان سے ملا۔
ورلڈ کپ لوگوں کو جوڑنے کے لیے خاص کردار ادا کرتا ہے اور انھیں اس قدر قریب دیکھ کر مجھے اس ورلڈ کپ کے فائنل کے بارے میں بھی اچھا محسوس ہوا۔
اگرچہ آپ مکمل طور پر اس احساس سے باہر نہیں نکل سکتے۔ میں جب بھی سنہ 2014 کے اس میچ کے ویڈیو کلپ دیکھتا ہوں تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم جیت کے کتنے قریب آ چکے تھے۔
گھر پر میرے پاس اس میچ کے یونیفارم اور رنر اپ والے میڈل کے ساتھ وہ بُوٹ بھی موجود ہیں جو میں نے اس میچ میں پہنے تھے۔ اور اب بھی ان پر نظر دوڑانا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے۔
جب آپ ایک ورلڈ کپ کا فائنل ہارتے ہیں تو آپ یہ نہیں جانتے کہ اب اس منزل تک پہنچنے کے لیے آپ کے ملک کو اور کتنا عرصہ لگ سکتا ہے۔ مگر اب آٹھ برس بعد ہم دوبارہ وہیں پر موجود ہیں۔ اب کی بار لوئنل میسی کے آخر چانس کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں سنہ 2014 میں فائنل والے دن کی صبح ناشتہ کر رہا تھا کہ میسی اس کمرے میں آیا۔ میں اس وقت جیوئیر میشرانو کے ساتھ بیٹھا تھا اور میں نے انھیں کہا کہ مجھے امید ہے کہ آج ہمارے لیے میسی دو گول کریں جس سے ہماری جیت ہو گی۔
ایسا نہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اگرچہ میں خود میدان میں تھا تو میں نے انھیں اپنی ٹیم میں شامل کیا۔ میچ کے دوران ہر ایک کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ پاس میسی کو دیا جائے کیونکہ وہی ایک ایسے کھلاڑی ہیں کہ جو کچھ کر گزرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ اس ٹورنامنٹ میں بہت متاثر کن کھلاڑی ثابت ہوئے۔ وہ ہمیشہ خاص اور نمایاں رہے جو بڑھ چڑھ کر ٹیم کو سبقت دلانے کی کوشش میں رہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ وہ اس ورلڈ کپ سے بھی اسی طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اتوار کو فرانس کے خلاف جو بھی نتیجہ رہے۔ مجھے ان پر اور اپنی پوری ٹیم پر بہت فخر ہے۔ مگر میں اس بار انھیں چیمپئین ٹرافی اٹھاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس لمحے کا انتظار یقیناً بہت اہمیت کا حامل ہے۔
سنہ 2014 کے فٹبال ورلڈکپ میں جرمنی کے خلاف فائنل کھیلنے والی ٹیم ارجنٹینا کے کھلاڑی پابلو زابالیتا نے بی بی سی کے کرس بیون کے ساتھ دوحہ میں گفتگو کی ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpd2g5dvlepo | کیا میسی ارجنٹائن کو تیسرا ورلڈ کپ جتوا سکیں گے یا فرانس مسلسل دوسری بار فاتح ہو گا؟ | کیا لیونل میسی ارجنٹائن کے لیے ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں یا پھر کیلین ایمباپے فرانس کو مسلسل دو بار ورلڈ کپ کا فاتح بنانے میں مدد کر سکتے ہیں؟
18 دسمبر بروز اتواریعنی آج قطر کے سب سے بڑے سٹیڈیم لوسیل میں پاکستانی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے ارجنٹائن اور فرانس کے درمیان ورلڈ کپ کا فائنل مقابلہ ہو رہا ہے۔
’بیلن ڈی اور‘ ایوارڈ اپنے نام کرنے والے 35 سالہ میسی ابھی تک فٹبال میں سب سے بڑا انعام یعنی ورلڈ کپ کبھی نہیں جیت سکے۔
ارجنٹائن کے گول کیپر ایمیلیانو مارٹنیز نے کہا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ فرانس فیورٹ ہے لیکن ہمارے پاس اب تک کا سب سے عظیم کھلاڑی ہونے کا فائدہ ہے۔
’ہم ہمیشہ یہ سننا پسند کرتے ہیں کہ مخالف پسندیدہ ٹیم ہے کیونکہ ہم کسی سے برتر یا کمتر محسوس نہیں کرتے لیکن، جیسا کہ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں، ہمارے پاس اب تک کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے اور اچھے دفاع کے ساتھ، ہمارے پاس اپنے مقصد تک پہنچنے کے بہت سے مواقع ہیں۔‘
فرانس کے مینیجر دیدیئر دیسچیمپس نے اپنے ملک کو سنہ 1998 میں کپتان کی حیثیت سے ورلڈ کپ جیتنے میں مدد کی تھی اور پھر چار سال قبل روس میں ایک اور کامیابی کے لیے وہ فرانس کی ٹیم کے منیجر تھے۔
انھوں نے کہ کہ ’میں ارجنٹائن کو جانتا ہوں، دنیا بھر کے بہت سے لوگ اور شاید کچھ فرانسیسی لوگوں کو بھی یہ امید ہے کہ لیونل میسی ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں لیکن ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرنے جا رہے ہیں۔‘
فائنل میں گولڈن بوٹ جیتنے کی دوڑ میں ٹورنامنٹ کے سرفہرست دو گول سکوررز کو آمنے سامنے دیکھا جا سکتا ہے۔
میسی اور ایمباپے دونوں نے قطر میں پانچ پانچ گول کر رکھے ہیں جبکہ فرانس کے اولیور جیروڈ اور ارجنٹائن کے جولین الواریز چار چار گول کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
میسی نے ارجنٹائن کو برازیل میں سنہ 2014 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچنے میں مدد کی تھی لیکن بازی جرمنی نے صفر کے مقابلے ایک گول سے جیت لی تھی۔
لیکن معروف فٹبال کلب پیرس سینٹ جرمین کے کھلاڑی میسی قطر میں ارجنٹائن کی مہم کا محرک رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے پہلے میچ میں ابتدائی پنالٹی کو گول میں تبدیل کیا اس سے پہلے کہ ان کے ملک کو سعودی عرب کے خلاف 2-1 سے شکست کا بڑا جھٹکا لگا اور پھر میکسیکو کے خلاف صفر کے مقابلے دو گول کی اہم جیت میں انھوں نے گول سکور کیا۔
ارجنٹائن کی پولینڈ کے خلاف دو صفر کی جیت نے انھیں گروپ سی میں سرفہرست کر دیا۔ پھر میسی نے 16 ٹیموں کے ناک آؤٹ راؤنڈ میں آسٹریلیا کے خلاف 2-1 کی جیت میں بھی ہدف پر نشانہ لگایا اور گول کیا۔
پھر ارجنٹائن نے اپنے کوارٹر فائنل میں نیدرلینڈز کے خلاف میچ کے 82ویں منٹ تک صفر کے مقابلے دو گول کی برتری حاصل کیے رکھی کہ اس کے بعد ڈچ کھلاڑی واؤٹ ويگہورسٹ نے یکے بعد دیگرے گول کر کے میچ برابر کر دیا اور کھیل اضافی وقت میں چلا گیا۔
اور پھر وہ میچ بالآخر پینالٹیز میں چلا گیا لیکن مارٹینز نے دو گول بچا لیے اور ارجنٹائن آگے بڑھتا رہا کیونکہ پہلے میسی نے ایک گول کیا اور پھر مانچسٹر سٹی کے الواریز کے دو گول نے انھیں سیمی فائنل میں کروشیا کے خلاف 3-0 سے جیت دلا دی۔
ارجنٹائن نے 1978 میں ہوم گراؤنڈ پر اور 1986 میں میکسیکو میں ٹورنامنٹ جیتا ہے اور اتوار کو اپنی تیسری کامیابی کے لیے کوشاں ہے۔
مینیجر لیونل سکالونی نے کہا ہے کہ ’میں پہلے سے ہی جذباتی ہو رہا ہوں کیونکہ انھوں نے سب کچھ پورے خلوص کے ساتھ دیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ٹائٹل جیتیں گے اور اگر ایسا نہیں بھی ہو سکا تو انھیں فخر ہوگا کیونکہ یہ لطف اندوز ہونے کا لمحہ ہے۔‘
23 سالہ ایمباپے ورلڈ کپ میں اپنی دوسری کامیابی کے پیچھے ہیں اور فرانس کو فائنل تک پہنچانے میں اب تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی 4-1 کی جیت میں ایک بار اور ڈنمارک کے خلاف 2-1 کی فتح میں دو بار گول کیا کیونکہ فرانس کا ابھی ایک ميچ باقی ہی تھا کہ وہ آخری 16 ٹیموں میں پہنچ گیا۔
اس کی وجہ سے ڈیسچیمپس کو اپنے کھلاڑیوں کو آرام دینے کا موقع ملا اور تیونس سے ایک صفر سے شکست کے باوجود وہ گروپ ڈی میں سر فہرست رہے جبکہ پولینڈ کے خلاف میچ میں ایمباپے نے تین میں سے دو گول کیے اور ایک گول کے مقابلے تین گول سے فتح حاصل کی۔
کوارٹر فائنل میں ان کا مقابلہ گیرتھ ساؤتھ گیٹ کی رہنمائی والی ٹیم انگلینڈ سے ہوا جس میں اورلین چومینی کے گول کے ذریعے فرانس نے برتری حاصل کی لیکن ہیری کین نے پنالٹی سے برابری کر دی اور پھر اولیور جیروڈ نے فرانس کو برتری دلا دی جبکہ کین دوسرا پنلٹی گول پوسٹ میں ڈالنے سے چوک گئے اور فرانس نے یہ میچ ایک کے مقابلے دو گول سے جیت لیا۔
یہ بھی پڑھیے
فٹ بال ورلڈ کپ: فرانس کی وہ کمزوریاں جن کا فائدہ فائنل میں ارجنٹائن کو ہو سکتا ہے فٹبال ورلڈ کپ کے سب سے غیر متوقع سیمی فائنل، ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟
یاسین بونو: وہ گول کیپر جو مراکش کا ہیرو بن گیا ہے
فرانس نے ٹورنامنٹ کے سرپرائز پیکج مراکش کو سیمی فائنل میں 2-0 سے ہرا کر سات ٹورنامنٹس میں چوتھی بار ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی۔ اس نے سنہ 1998 اور 2018 میں مقابلہ جیتا تھا جبکہ سنہ 2006 کے میں فائنل میں اسے شکست ہوئی تھی۔
لیکن بیماری کی وجہ سے ان کی تیاریوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ مڈفیلڈر ایڈرین ریبیوٹ، ڈیفنڈر ڈیوٹ اپامیکانو اور ونگر کنگسلے کومان بیماری کی زد میں آنے والوں میں شامل ہیں۔
ڈیسچیمپس نے کہا ہے کہ طہمارے ہاں فلو جیسی علامات کے چند کیسز سامنے آئے ہیں۔ ہم محتاط رہنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ مزید نہ پھیلے اور کھلاڑیوں نے میدان میں بہت محنت کی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچا۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n2dwy2y81o | فٹبال سٹیڈیمز کے علاوہ قطر کے وہ قابل دید مقامات، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں | قطر کے درالحکومت دوحہ کے چپے چپے پر آپ کو حکومت کی جانب سے تعینات رضا کار نظر آئیں گے جو قطار میں کھڑے آپ کو سٹیڈیم کا راستہ دکھا رہے ہوں گے اور میٹرو سٹیشن پر تو یہ ایک الگ ہی منظر پیش کرتے ہیں جہاں وہ میگا فون اور بڑے سے ہاتھ کے نشان سے راستہ بتا رہے ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ دنیا بھر سے آئے فٹبال کے شائقین بھی ان کے ہمنوا بن جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہر ایک یہی کہتا نظر آتا ہے لوسیل، دس وے؛ لوسیل، دس وے، یعنی لوسیل سٹیڈیم جانے کا راستہ ادھر سے ہے۔
اسی طرح ہر دن الگ الگ سٹیڈیم کی مناسبت سے میٹرو سٹیشنز پر یہی نعرہ سننے کو ملتا ہے۔
گذشتہ ایک ماہ سے قطر میں فٹبال کا خمار اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہے لیکن مجھے فائنلز سے قبل ہی واپس انڈیا آنا پڑا۔
واپسی پر جہاز میں بھرت نام کے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جن کے پاس فائنل کا ٹکٹ تھا لیکن وہ بھی کسی کام سے واپس جا رہے تھے۔
جب انھیں پتا چلا کہ میرا وہاں دو ہفتے قیام رہا تو ان کی دلچسپی بڑھی اور انھوں نے پوچھ لیا کہ آپ کو قطر میں کون سی جگہیں سب سے زیادہ پسند آئیں۔
پورے قیام کے دوران اس جانب میرا خیال بھی نہیں گزرا تھا، بہرحال میں نے بھرت کے سوال کے جواب میں سوچنا شروع کیا تو کئی مقام ذہن آئے۔
اسی دوران میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ کو کون سی جگہ سب سے زیادہ پسند آئی تو انھوں نے فوراً ’سوق واقف‘ کا نام لیا۔
تو آئیے آپ کو سوق واقف کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے چند مقامات کی سیر کراتے ہیں۔
سوق عربی زبان میں ’بازار‘ کو کہتے ہیں۔ سوق واقف ایک زمانے سے قطر والوں کی زندگی کا اہم حصہ رہا ہے۔ یہ دوحہ کے وسط میں قائم ہے جہاں سے آپ چہل قدمی کرتے ہوئے کورنیش نکل سکتے ہیں جو کہ ورلڈ کپ کے دوران ایک اہم سیرگاہ ہے۔
اس کی تعمیر از سر نو ہوئی ہے اور موجودہ بازار اس جگہ پر واقع ہے جہاں دارالحکومت کی پرانی اور صد سالہ تجارتی منڈی واقع تھی۔
فٹبال ورلڈ کپ سے قبل پورے دوحہ کو نیا دوحہ بنا دیا گیا۔ جہاں پرانے ایئرپورٹ کی جگہ نیا حماد ایئرپورٹ بھی وجود میں آ گیا۔
جب میں پہلی بار وہاں پہنچا تو سوق واقف کے اندر داخلہ بند کر دیا گیا تھا کیونکہ مراکش نے اپنا پہلا ميچ جیت لیا تھا اور پھر پورے سوق واقف میں جشن جاری تھا۔
لوگوں کی تعداد وہاں کی استطاعت سے کہیں زیادہ تھی اس لیے داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔
ورلڈ کپ سے قبل بھی لوگ بڑی تعداد میں يہاں آتے ہیں۔ چوکوں اور بازاروں کے اس کمپلیکس سے لطف اندوز ہونے کا بہترین مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ یہاں کی گلیوں کی بھول بھلیوں میں آپ گم ہو جائیں۔
یہاں آپ کو عرب دنیا کے ہر قسم کے عجائبات کا سامنا ہوگا۔ چولھوں پر قدیم عربی کھانے بناتی ہوئی خواتین، عطر اور خوشبو کی دکانیں، ملبوسات اور نایاب تحفے تحائف کی دکانیں۔ اس کے علاوہ پرندے باز کا ہسپتال بھی نظر آتا ہے۔
خیال رہے کہ باز پالنے کا شوق پورے خطہ عرب میں پایا جاتا ہے اور قطر میں اس کی پرورش کا غالب رجحان پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ قومی تفریح کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
سوق واقف میں آپ کو دو منزلہ عمارتیں نظر آئیں گی لیکن اس کی ایک ہی منزل آباد اور اوپری منزل محض سجاوٹی حیثیت رکھتی ہے۔
یہاں آپ پیدل ہی چل سکتے ہیں جبکہ کھانے کے لیے مختلف ذائقے آپ کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ لبنانی کھانا ہو کہ ترکی، انڈین، پاکستانی اور افغانی کھانے بھی آپ کو نظر آئیں گے۔
آپ کو جگہ جگہ لوگ چائے، قہوہ، حقہ یا شیشہ پیتے نظر آئیں گے اور پورا بازار ورلڈ کپ میں شامل ممالک کے پرچموں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔
آپ کو اس کے دونوں جانب بڑی مساجد نظر آئیں گی جبکہ فٹبال کی مناسبت سے فیفا کے ترانوں کی دھن بھی سننے کو ملتی ہے۔
فٹبال ورلڈ کپ کے دوران کورنیش میٹرو سٹیشن پر آپ اتر تو سکتے ہیں لیکن آپ وہاں سے کہیں اور جانے کے لیے میٹرو نہیں لے سکتے اور ایسا مسافروں کی تعداد کے مدنظر کیا گیا ہے۔
کورنیش خلیج دوحہ پر سات کلومٹر کا ایک تین چوتھائی بڑا دائرہ بناتا ہے اور یہاں سے سوق واقف سمیت کئی اہم مقامات تک پیدل جایا جا سکتا ہے جن میں نیشنل میوزیم اور میوزیم آف اسلامی آرٹ کے ساتھ دوسرے مقامات بھی ہیں۔
یہاں باکس پارک (کنٹینرز سے بنا ہوا پارک) بھی ہے اور اس دائرہ نما کھلے حصے میں سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آپ کو محسور کرتی ہے جبکہ رات کو نو بجے فٹبال ورلڈ کپ کی مناسبت سے لیزر اور آتش بازی کے مناظر پیش کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
قطر میں دولت مند غیر ملکیوں کے لیے بنایا گیا مصنوعی جزیرہ جو ایک الگ ہی دنیا ہے
قطر: پانی کی قلت کا شکار ملک کیسے روزانہ ہر پچ کے لیے دس ہزار لیٹر پانی کی فراہمی یقینی بناتا ہے
قطر میں ایک ہم جنس پرست مداح کا فٹ بال ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟
یہ ایک ایسی جگہ ہے جو لوگوں کو کسی مقناطیس کی طرح اپنی جانب غروب آفتاب کے بعد کھینچتی ہے۔
یہاں جگہ جگہ کھانے پینے کی سٹال لگے ہیں اور صاف شفاف عارضی ٹوائلٹ بھی موجود ہیں تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ دیر تک وہاں ٹھہر سکیں لیکن پھر آپ کو کسی دوسرے مقام پر جانے کے لیے پیدل کسی دوسرے میٹرو سٹیشن تک جانا ہوگا۔ وہاں سے قریب ترین میٹرو سٹیشن 10-12 منٹ پیدل کی دوری پر ویسٹ بے یا خلیج مغرب ہے۔
عموما آپ یہاں مقامی باشندوں کو اپنی فیملی کے ساتھ دیکھیں گے۔ وہاں لگی بڑی سکرین پر ہم نے پہلا میچ دیکھا جس میں قطری ٹیم کو شکست ہوئی اور ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی میزبان ٹیم اپنا پہلا مقابلہ ہار گئی ہو۔
یہاں آپ کو انتہائی فلک بوس عمارتوں کا ایک جھرمٹ نظر آئے گا اور مختلف عمارتوں پر مشہور فٹبالرز کے ایل ای ڈی ڈسپلے نظر آئیں گے۔
ان میں سے ایک فلک بوس عمارت پر معروف زمانہ فٹبالر پیلے کی بھی تصویر نظر آتی ہے۔ قطر آئل کی عمارت بھی یہاں آپ کو نظر آتی ہے۔
کورنیش کا علاقہ روایتی طور پر قومی کھیلوں یا دیگر بڑی تقریبات کا مرکز بھی رہا ہے۔
یوں تو قطر میں میٹرو، بس ٹرام سب ’ھیا کارڈ‘ والوں کے لیے مفت ہے لیکن نیشنل میوزیم جانے کے لیے ٹکٹ لگتا ہے۔
نیشنل میوزیم کے اندر جانے کے لیے 100 قطری ریال یعنی تقریبا دو ہزار انڈین روپے کا ٹکٹ ملتا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہاں بھی ’ھیا کارڈ‘ والوں کے لیے داخلہ مفت کر دیا گیا لیکن میں اس کی تصدیق نہ کر سکا۔
اگر یہ کہا جائے کہ دوحہ فٹبال ورلڈ کپ کے لیے از سر نو تعمیر ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں ڈیزائنر عمارتوں کی کمی نہیں اور نیشنل میوزیم ان میں سب سے منفرد ہے۔
اسے ایوارڈ یافتہ فرانسیسی معمار ژاں نوویل نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ شیخ عبداللہ بن جاسم الثانی کے محل کے پاس بنایا گیا ہے۔
اس کے اندر قطر کی تاریخ کے ساتھ اس کے خغرافیے کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کو زمانے کے ساتھ بتدریج تبدیل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اس میوزیم میں خانہ بدوشوں، چرواہوں، ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کے ساتھ ساتھ 20ویں صدی کے دوسرے نصف میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے بعد قطر کی تیز رفتار جدید کاری اور توسیع کو پیش کیا گيا ہے۔
لوسیل سٹیڈیم جانے کے راستے میں دو سٹیشن قبل ’کتارا‘ ایک اہم مرکز ہے جہاں خلیج دوحہ کے ساحل پر پرانے قطر، جھونپڑیوں اور پرانے طرز زندگی کو از سر نو اسی پرانی ہیت میں تیار کیا گیا ہے۔ اس میں مسجد کا احاطہ ریت پر کھجور کی ڈالیوں اور پتوں سے بنایا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جدید کتارا کی گلیاں ہیں جس کے گرد مختلف قسم کے مکانات اور دکانیں ہیں وہاں قطر ٹی وی کے باکس بنے ہیں جبکہ دونوں سروں پر دو بڑی بڑی ایل ای ڈی سکرین لگی ہیں جن پر فٹبال میچ دکھایا جاتا ہے۔
سعودی عرب اور ارجنٹائن کا میچ ہم نے وہیں سینکڑوں مداحوں کے درمیان دیکھا اور سعودی عرب کی غیر متوقع جیت کے بعد لوگوں کا جوش و خروش ناقابل بیان تھا۔
یہاں رومن طرز کا ایک تھیٹر بنا ہوا ہے جہاں مختلف قسم کے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں۔
یہ علاقہ دن تین بجے کے بعد ہی کھلتا ہے اور دیر رات تک آباد رہتا ہے۔
دنیا بھر کے اہم برانڈز کی دکانیں یہاں نظر آتی ہیں جبکہ اس کے وسط میں میوزیکل فاؤنٹین ہے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک مصنوعی پہاڑی تیار کی گئی ہے جہاں ایک مقامی شخص کے مطابق ورلڈ کپ کے شروع ہونے کے دن تک کام جاری تھا۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے قابل دید مقامات ہیں جن میں نیشنل لائبریری، بولیفارد اور قطر کے مختلف مالز، پرل قطر کا علاقہ، وکرہ ساحل، سی لائن بیچ، مشیرب ڈاؤن ٹاؤن، میوزیم آف اسلامک آرٹ وغیرہ شامل ہیں، جن کی جھلک کبھی پھر پیش کی جائے گی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c80gkzqznx2o | فٹ بال ورلڈ کپ: کروشیا نے مراکش کو ہرا دیا، ’یہ ایسا ہی ہے جیسے سونے کا میڈل جیتا ہو‘ | تاریخ ساز مراکش کی ٹیم کو شکست دے کر فٹ بال ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی کروشیا کی ٹیم نے فٹ بال کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہونے کا اعزاز ایک بار پھر سے حاصل کیا ہے۔
چار سال قبل ہونے والے ورلڈ کپ میں کروشیا نے فائنل تک رسائی حاصل کر لی تھی جہاں اسے فرانس کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
اس سے قبل 1998 میں بھی کروشیا تیسرے نمبر پر آئی تھی۔ تیسری پوزیشن کے لیے ہونے والے میچ میں سات منٹ بعد ہی کروشیا پہلا گول سکور کر چکی تھی تاہم مراکش کے اشرف ڈاری نے دو منٹ بعد سکور برابر کر دیا۔
تاہم اورسک نے پہلا ہاف ختم ہونے سے قبل ہی دوسرا گول سکور کیا تو کروشیا کو مراکش پر ایک گول کی برتری حاصل ہو گئی۔
دوسرے ہاف میں کھیل کی رفتار قدرے سست رہی اور مراکش کی جانب سے سکور برابر کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔
اس طرح مراکش کی فٹ بال ورلڈ کپ کی مہم جو حیران کن طور پر شروع ہوئی تھی، قدرے مایوس کن انداز میں مسلسل دو شکستوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
کروشیا کے مینیجر ڈالک نے کہا کہ ’ہم نے کانسی کا تمغہ جیتا ہے جس پر سنہری تہہ ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم نے سونے کا میڈل جیتا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تیسری پوزیشن کے لیے کھیلنا اور ہار جانا بہت برا ہوتا۔ یہ ایک سفر کا اختتام ہے، ہمارے کھلاڑیوں نے اپنی پوری جان لگائی۔‘
دونوں ٹیمیں نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس میچ کا حصہ بنیں لیکن 40 لاکھ سے بھی کم آبادی والا ملک کروشیا عالمی سطح پر ایک اور شاندار پرفارمنس سے مطمئن ہو گا۔
اس ٹیم کے 37 سالہ کپتان لوکا موڈرک، جو اپنا ایک 162واں میچ کھیل رہے تھے، شاید اپنا آخری ورلڈ کپ کھیلے ہیں۔
ٹیم کے مینیجر ڈالک نے کہا کہ ’عمر کی وجہ سے یہ چند کھلاڑیوں کا آخری ورلڈ کپ ہو گا۔ تاہم ہمارے پاس نوجوان کھلاڑی بھی ہیں اور کروشیا پرامید ہے۔ پرانے کھلاڑی نوجوان کھلاڑیوں کو اعتماد دیتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کروشیا کو مستقبل سے کوئی ڈر نہیں ہے۔ کیا ایک عہد تمام ہوا ہے؟ میرا نہیں خیال، 2024 میں نیشنز لیگ اور یورپین چیمپیئن شپ ہونی ہے اور میرا ماننا ہے کہ کروشیا کا مستقبل بہترین ہے۔‘
کروشیا کی جانب سے دوسرا گول، جس نے میچ میں فتح سے ہمکنار کروایا، کا بھی کافی چرچہ رہا۔
یہ دراصل مراکش کے 18 سالہ پراعتماد مڈفیلڈر بلال الخانوس کی غلطی تھی جس نے اپنے ہی ہاف میں گیند گنوا کر کروشیا کے حوالے کی اور اورسک نے مراکش کے گول کیپر یاسین کی بھرپور کوشش کے باوجود ایک بہترین گول سکور کیا۔
دوسری جانب یوسف النصیری کے پاس ایک موقع آیا جب وہ سکور برابر کر سکتے تھے لیکن ڈومینیک لیواکووچ نے ان کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
یہ بھی پڑھیے
فٹ بال ورلڈ کپ: فرانس کی وہ کمزوریاں جن کا فائدہ فائنل میں ارجنٹائن کو ہو سکتا ہے
ورلڈ کپ کی ’33ویں ٹیم‘ فلسطین کی قطر کے میدان سے لے کر گلیوں تک میں دھوم
’پناہ گزین مخالف‘ فرانس کی فٹبال ٹیم کو پناہ گزین کھلاڑیوں نے کیسے چیمپیئن ٹیم بنایا
مراکش کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی پہلی افریقی ٹیم بن گئی ہے جبکہ جذبے سے بھرپور کھلاڑیوں نے اس ٹورنامنٹ کو چار چاند لگا دیے۔
فرانس اور کروشیا سے شکست کے باوجود مراکش کے فین پرجوش تھے اور یقینا وہ اس ٹورنامنٹ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
مراکش کے مینیجر نے میچ کے بعد کہا کہ ’ہم سب کی امیدوں سے زیادہ آگے تک پہنچے لیکن یہ کافی نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فٹ بال کی وجہ سے لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ ہم نے بچوں کو خواب دیکھنا سکھایا اور ان کے خوابوں کو زندہ رکھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مراکش اور دنیا بھر میں بچے ورلڈ کپ جیتنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور میرے لیے یہ ورلڈ کپ کا میچ جیتنے سے زیادہ اہم چیز ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بہت کامیابی حاصل کی لیکن ہم دوبارہ ایسا کرنا چاہیں گے۔ اگر ہم باقاعدگی سے کوارٹر فائنل یا سیمی فائنل تک پہنچ سکیں تو ایک دن ورلڈ کپ بھی جیت جائیں گے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1w65103zd2o | سمیع چوہدری کا کالم: ’پاکستان گھر آئی قسمت ٹھکرا بیٹھا‘ | ٹیسٹ کرکٹ میں قسمت کا کردار اس قدر اہم ہوتا ہے کہ بسا اوقات ٹاس کی جیت سے ہی میچ میں جیت کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ٹاس کے معاملے میں بابر اعظم بہت خوش بخت نہیں رہے مگر کراچی میں جب بالآخر قسمت پاکستان کے رستے آ ہی گئی تو پاکستان اس کا صحیح فائدہ اٹھانے سے قاصر رہ گیا۔
ٹاس جیتنے پہ بابر اعظم مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ اس ٹاس کی جیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور بیٹنگ کے لیے سازگار اس پچ پہ کوئی خطیر مجموعہ ترتیب دینے کی کوشش کریں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
بلاشبہ کراچی کی یہ پچ بیٹنگ کے لیے سہل تھی۔ ملتان کے برعکس قدرے بہتر باؤنس تھا اور سپنرز کی طرف سے ٹرن بھی ایسا حوصلہ افزا نہیں تھا کہ بلے بازوں کے اوسان خطا ہو جاتے۔ یہاں پاکستان پہلی اننگز میں ایک تگڑا ہدف ترتیب دے کر بین سٹوکس کے سارے حساب کتاب گڑبڑا سکتا تھا۔
مگر بین سٹوکس کا خیال کچھ اور تھا۔
سیریز پہلے ہی جیت چکنے کے بعد انھیں یہ سہولت میسر تھی کہ وہ اپنے سینئر پیسر جیمز اینڈرسن کو آرام دے کر نوجوان سپنر ریحان احمد کو ڈیبیو کا موقع دے سکیں۔ ان تبدیلیوں سے بھی پاکستانی بیٹنگ کے لیے حالات سازگار ہونے کا بھرپور امکان موجود تھا۔
شان مسعود ایک عرصے سے پاکستانی ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت کے منتظر رہے ہیں اور یہاں امام الحق کی انجری کی بدولت انھیں موقع ملا جس کا انھوں نے اپنے ہی انداز سے فائدہ بھی اٹھایا۔ رواں سیریز میں انگلش بیٹنگ کی طرح پاکستانی اوپنرز کوئی سبک رفتار آغاز حاصل نہیں کر پائے تھے مگر شان مسعود نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی اور نئے گیند کے خلاف جاندار سٹروک کھیلے۔
مگر جو انجام اس آغاز کے بعد متوقع تھا، وہ انجام ممکن نہ ہو پایا۔ سٹوکس کی قابلِ رشک قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت انگلش بولنگ گاہے بگاہے پاکستانی بیٹنگ میں شگاف ڈالتی رہی اور جو مومینٹم پاکستانی مڈل آرڈر کو میسر ہونا تھا، وہ نہ ہو پایا۔
انگلش بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کی جارحیت کے جواب میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے انھیں مزید جارحیت پہ اکسایا اور اسی جارحیت میں ہی انھیں شکار کر لیا۔
اظہر علی اپنا الوداعی ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں اور یقیناً وہ اپنے طویل کرئیر کا سفر کسی شکست پہ ختم نہیں کرنا چاہیں گے۔ یہی عزم ان کی اننگز میں نمایاں تھا جہاں انھوں نے آغاز میں روایتی ون ڈاؤن بیٹنگ کے تقاضے نبھاتے ہوئے گیند کی چمک ماند پڑنے کا انتظار کیا اور پھر کھل کر سٹروک بھی کھیلے۔
مگر سٹوکس اظہر علی کی وکٹ کی اہمیت سے واقف تھے۔ انھوں نے اظہر کے لیے وہی دامِ تزویر بچھایا جس کی نذر امام الحق اور سعود شکیل ملتان میں ہوئے تھے۔ جب پچ سے کوئی مدد نہ مل کے دے رہی ہو تو کسی بھی کپتان کے لیے یہ ایک تزویراتی چال بہم رہتی ہے کہ لیگ سٹمپ لائن پہ وہ لینتھ دی جائے جہاں سے بلے باز کو گیند سے بچنے کی کوئی گنجائش نہ مل پائے۔
اظہر علی کی وکٹ یہاں بہت اہم تھی اور سٹوکس کی یہ حکمتِ عملی لاجواب رہی کیونکہ اگر اظہر علی اپنے روایتی انداز میں کوئی لمبی اننگز کھیل جاتے تو ٹاس کے وقت بابر اعظم کی آنکھوں میں سجے خواب سچ ہو سکتے تھے مگر اظہر کی وکٹ کے بعد بابر اعظم کو دوسرے کنارے سے کوئی ایسی مستحکم تائید نہ مل پائی جو اننگز کو پہلے دن سے آگے بڑھانے کی امید جگا سکتی۔
یہ بھی پڑھیے
11 سال کی عمر میں بین سٹوکس کو نیٹ سیشن میں آؤٹ کرنے والے انگلش بولر ریحان احمد کون ہیں؟
کراچی ٹیسٹ: پاکستانی ٹیم کی اننگز 304 رنز پر پہلے ہی دن ختم، انگلینڈ بھی ایک وکٹ گنوا بیٹھا
سمیع چوہدری کا کالم: علیم ڈار پورے کھیل پہ بھاری پڑ گئے
سمیع چوہدری کا کالم: اس احتیاط کو خود علاج درکار ہے
جب سعود شکیل بھی ریحان احمد کی ایک بہترین گیند پہ خود ہی سے الجھ بیٹھے تو ساری ذمہ داری محمد رضوان کے کندھوں پہ آن پڑی جو یہاں ملتان کے برعکس بہت جلد بازی میں تھے مگر اپنی اس جلد بازی میں وہ اس قدر آگے نکل گئے کہ جو روٹ کی ایک بدترین گیند کے جال میں پھنس بیٹھے۔
جو مجموعہ پاکستان یہاں حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ یقیناً اس سے کہیں زیادہ تھا جو پاکستان بالآخر حاصل کر پایا۔ ٹاس جیتنے کے بعد یہ بہترین موقع تھا کہ پاکستانی بیٹنگ اپنی حیثیت ثابت کرتی اور سر پہ منڈلاتے کلین سویپ کے خطرے کی راہ میں حائل ہو جاتی۔
اگرچہ پاکستانی بولنگ پچھلے میچز میں مسابقتی کھیل نہیں جما پائی مگر بابر اعظم یہی توقع رکھیں گے کہ یہاں بیٹنگ کے حصے کا بوجھ بھی بولنگ اٹھائے۔ کیونکہ جو قسمت خدا خدا کر کے گھر آئی تھی، پاکستانی بیٹنگ اپنی سوچ کے ہاتھوں اسے ٹھکرا بیٹھی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3y04zpxdyo | 11 سال کی عمر میں بین سٹوکس کو نیٹ سیشن میں آؤٹ کرنے والے انگلش بولر ریحان احمد کون ہیں؟ | لیگ سپنر ریحان احمد پاکستان کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں اپنا ٹیسٹ کریئر شروع کرنے کے بعد انگلینڈ کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی بن گئے ہیں۔
18 سالہ نوجوان ریحان نے ٹیسٹ کرکٹ میں کم عمری میں ڈبیو کرنے کا برائن کلوز کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جو سنہ 1949 سے قائم تھا۔
انگلینڈ کی جانب سے کراچی ٹیسٹ میں جیمز اینڈرسن اور آل راؤنڈر ول جیکس کی جگہ ریحان احمد اور وکٹ کیپر بین فوکس کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
انگلینڈ پہلے ہی سیریز جیت چکا ہے اور اب اس کی نظریں ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کرنے پر ہیں۔
کسی بھی مہمان ٹیم نے آج تک پاکستان کو اسی کے ملک میں تین صفر سے شکست دینے میں ناکام رہا ہے، جبکہ انگلینڈ نے صرف تین میچوں یا اس سے زیادہ کی غیر ملکی ٹیسٹ سیریز میں تین بار کلین سویپ حاصل کیے ہیں۔
سنیچر کے روز جب لیسٹر شائر کے ریحان احمد نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کیا تو ان کی عمر 18 سال اور 126 دن تھی۔ جبکہ اس سے قبل سابق کپتان کلوز کی ٹیسٹ کرکٹ کی ابتدا کے وقت عمر 18 سال 149 دن تھی جب انھوں نے 73 سال قبل اولڈ ٹریفورڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلا تھا۔
انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے بی بی سی سپورٹس کو بتایا: ’میں اُسے (ریحان) بتائے بغیر اسے قریب سے دیکھتا رہا ہوں۔‘
’یہ ریحان کے لیے فیلڈ میں اترنے کا ایک بہترین موقع ہے تاکہ وہ خود کو ظاہر کر سکیں۔ ان پر پرفارم کرنے کا بہت زیادہ دباؤ نہیں ہے، بس وہ اپنے کھیل کا مزہ لیں۔‘
’آپ صرف ایک بار اپنا ڈیبیو کرتے ہیں، آپ اسے دوبارہ کبھی نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اسے یہ محسوس کرائیں کہ ان کے پاس وقت کی ایک گیند ہے، اور وہ وکٹ لیتے ہیں اور رنز بناتے ہیں تو یہ ان کے لیے بہت اچھا ہو گا۔‘
ریحان احمد جمعہ کو بیمار محسوس کر رہے تھے اور انھوں نے ٹریننگ جلدی چھوڑ دی تھی مگر اس کے باوجود انھیں انگلینڈ کی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
وہ انگلینڈ کے لیے ٹیسٹ کھیلنے والے سب سے کم عمر کرکٹر نہیں ہوں گے۔ بائیں ہاتھ کی سپنر ہولی کولون کی عمر 15 سال اور 336 دن تھی جب انھوں نے سنہ 2005 میں آسٹریلیا کے خلاف ویمن ٹیم کی جانب سے میدان میں اتری تھیں۔
ریحان احمد نے صرف تین فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں اور 30 کی اوسط سے نو وکٹیں حاصل کی ہیں۔ وہ اس سال انڈر 19 ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے والی انگلینڈ کی ٹیم کا حصہ تھے اور جنوبی افریقہ کی دورہ کرنے والی ٹیم کے خلاف انگلینڈ لائنز کی جانب سے گھیرو میدان میں کھیلے تھے۔
اس کے بعد انھیں متحدہ عرب امارات میں تربیتی کیمپ کے لیے انگلینڈ لائنز سکواڈ میں شامل کیا گیا اور نومبر میں ابوظہبی میں وارم اپ میچ کے دوران مکمل سکواڈ میں شامل کیا گیا۔
ریحان احمد کو کراچی کی پچ پر دورہ کرنے والی انگلینڈ کی ٹیم میں دوسرے فرنٹ لائن سپن باؤلنگ کے آپشن کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اور اس پچ پر گیند کے سپن ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔
ریحان خود کو ایک بلے باز سمجھتے ہیں اور ستمبر میں اپنے آخری فرسٹ کلاس میچ میں انھوں نے لیسٹر شائر کی جانب سے ڈربی شائر کے خلاف پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری بنائی تھی۔
بین سٹوکس نے مزید کہا کہ ’یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ ان کی بڑی طاقت کیا ہے، بیٹ یا گیند۔ وہ بیٹ کے ساتھ مظاہرہ کرنا پسند کرتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس مختلف قسم کے بہت سے شاٹس ہیں۔ میں یہ دیکھ کر بہت پرجوش ہوں کہ وہ گیند کے ساتھ کیا حاصل کرتے ہیں۔‘
’اُن کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ’گیند سے وکٹیں لینے کی کوشش کریں، بیٹ سے اس کو مارنے کی کوشش کریں اور میدان میں باؤنڈری کے باہر جانے سے قبل اس کا پیچھا کریں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سٹوکس کو سٹوکس ہی ہرا سکتا ہے: سمیع چوہدری کا کالم
سمیع چوہدری کا کالم: پی سی بی کو ’قرونِ اولیٰ‘ سے کون نکالے گا؟
لیسٹر شائر میں ٹیلنٹ پاتھ وے کے سربراہ جگر نائیک نے بی بی سی ریڈیو فائو لائیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ یعنی ریحان انتہائی باصلاحیت ہیں۔
’مجھے لگتا ہے کہ وہ پس پردہ بہت سی چیزیں کرتے ہیں جہاں کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ یقینی طور پر ان میں ایک دلچسپ ہنر ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’جب لوگوں نے انھیں کچھ سال پہلے دیکھا تو سب نے انھیں انگلینڈ کا کرکٹر قرار دیا اور انھوں نے اس خواب کو پورا کیا۔ یہ دیکھنا بے مثال ہے۔‘
’وہ ایک شاندار کردار ہے: وہ پرمزاح ہیں، اور وہ اس کو پھیلاتے ہیں۔ میرے خیال میں جب بھی ان کے ہاتھ میں بیٹ آتا ہے، وہ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔ اور یہی بات ان کے آس پاس کے ہر شخص پر چھا جاتی ہے۔‘
جولائی 2016: محض 11 سال کی عمر میں پاکستان کے خلاف انگلینڈ کے ٹیسٹ میچ سے قبل لارڈز میں ایک نیٹ پریکٹس سیشن کے دوران انھوں نے بین سٹوکس اور سر الیسٹر کک کو آؤٹ کرنے کے بعد خبروں میں اپنی جگہ بنائی تھی۔
جولائی 2021: لیسٹر شائر نے یارکشائر کے خلاف ون ڈے کپ میں انھیں ٹیم میں شامل کیا۔ سات میچ کھیلے، پانچ وکٹیں حاصل کیں اور بلے سے 44.5 کی اوسط سے رنز بنائے۔
نومبر 2021: کاؤنٹی چیمپئن شپ میں شرکت نہ کرنے کے باوجود لیسٹر شائر کے ساتھ معاہدے میں توسیع پر دستخط کیا۔
جنوری-فروری 2022: آئی سی سی انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے لیے کھیلے، چار اننگز میں 12 وکٹیں حاصل کیں۔
اپریل 2022: دی ہنڈرڈ کے لیے سدرن بریو نے انھیں خریدا اور لیسٹر شائر کے ساتھ معاہدہ 2026 تک بڑھا دیا گیا۔
مئی 2022: لیسٹر شائر کے لیے کاؤنٹی چیمپئن شپ کا آغاز۔
ستمبر 2022: کاؤنٹی چیمپئن شپ میں ڈربی شائر کے خلاف پہلی سنچری بنائی۔
نومبر 2022: پاکستان کے تین ٹیسٹ میچوں کے لیے انگلینڈ کے ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کیا گیا۔
دسمبر 2022: انگلینڈ کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی بنے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjm3xzv891jo | اظہر علی: بے لوث اور محنتی کھلاڑی جس نے پاکستانی ٹیم کو مشکل دور میں سہارا دیا | پیر کے روز اپنے ٹیسٹ میچ کی آخری اننگز کھیلنے والے اظہر علی صرف چار گینوں کا سامنا کرنے کے بعد جیک لیچ کی گیند پر صفر پر بولڈ ہو گئے۔
اگرچہ اپنے آخری ٹیسٹ میں اظہر علی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ سکے تاہم آخری اننگز کے بعد گراؤنڈ سے باہر جاتے ہوئے انھیں انگلش ٹیم کی جانب سے ان کے کیریئر پر داد دی گئی۔
اظہر علی کے کیریئر پر بی بی سی نے یہ تحریر چند روز قبل شائع کی تھی جسے آج دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
یہ سال 2010 کی بات ہے جب پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال کی طرح اس کی کرکٹ ٹیم بھی ایک اور ’نازک دور‘ سے گزر رہی تھی۔
کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان تناؤ عروج پر تھا اور ایک سال قبل ہی سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد کسی بھی غیرملکی ٹیم کا پاکستان کا دورہ کرنا، آنے والے کئی برسوں تک ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ایسے میں آسٹریلیا کا دورہ پاکستان انگلینڈ منتقل کر دیا گیا تھا جس میں دو ٹیسٹ اور دو ٹی ٹوئنٹی کھیلے جانے تھے۔
پاکستان ٹیم کے دو مایہ ناز بلے باز اور سابق کپتان یونس خان اور محمد یوسف پر کرکٹ بورڈ کی جانب سے سال کے اوائل میں تاحیات پابندی لگا دی گئی تھی جس کے بعد محمد یوسف نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔
ایسے میں انگلینڈ میں شاہد آفریدی کی کپتانی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ آرڈر میں نمبر تین اور چار کی پوزیشنز پر دو بلے باز ڈیبیو کر رہے تھے: اظہر علی اور عمر امین۔
اظہر علی کے بارے میں یہی مشہور تھا کہ انھوں نے بطور لیگ سپنر کرکٹ کا آغاز کیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بیٹنگ میں اتنی بہتری لے آئے کہ انھیں پہلے پاکستان اے اور پاکستان ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔
کسی بھی بلے باز کے لیے انگلینڈ کی کنڈیشنز اور وہاں آسٹریلیا کی بولنگ کے سامنے کھیلنا ایک انتہائی دشوار تجربہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ آپ کا پہلا ٹیسٹ میچ ہو اور آپ بیٹنگ بھی نمبر تین پر کرنے آئیں تو اس دشواری کو 10 سے ضرب دے دیں۔
تاہم اس تمام دباؤ کے درمیان اظہر علی نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہی اپنی سادہ تیکنیک اور پچ پر دیر تک کھڑے رہنے کی صلاحیت سے دیکھنے والوں کو متاثر کیا اور پھر آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں ایک اہم موقع پر نصف سنچری بھی سکور کی، جو پاکستان کی جیت میں اہم ثابت ہوئی۔
اس کے بعد انگلینڈ کے خلاف چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھی اظہر علی نے مایوس نہیں کیا اور اوول ٹیسٹ میں 92 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی اور پاکستان کی اس سیریز میں واحد فتح کی بنیاد رکھی۔
آنے والے برسوں میں اظہر علی کی شناخت ایسے بلے باز کے طور پر ہونے لگی جو بہت سٹائلش تو نہیں تھا لیکن ضرورت پڑنے پر اپنی محنت کے ذریعے وہ مشکل کنڈیشنز میں رنز بنانے کا گُر جانتا تھا۔
پھر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم مصباح الحق کی کپتانی میں متحدہ عرب امارات میں کھیلنے لگی اور یہاں سے اظہر علی کے ٹیسٹ کریئر میں اٹھان کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
سمیع چوہدری کا کالم: اظہر علی کو مصباح کے سائے سے نکلنا ہو گا!
'اگر اظہر علی مجروح وقار بحال نہ کر پائے؟'
ٹیم میں یونس خان کی واپسی کے بعد اب پاکستانی بیٹنگ کم از کم ان کنڈیشنز میں خاصی مضبوط ہو چکی تھی اور اظہر علی اب ایک ایسی ٹیم کا اہم جزو بن چکے تھے جو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آنے والی تھی۔
اس دور میں پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں یادگار فتوحات حاصل کیں اور ان میں سے کئی ایک میں اظہر علی کا نمایاں کردار تھا لیکن اس دوران انھیں وہ پذیرائی نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔
اظہر نے گذشتہ دہائی میں پاکستان کی اکلوتی ٹرپل سنچری سکور کی۔ ان کے پورے ٹیسٹ کریئر میں کل 19 سنچریاں اور 35 نصف سنچریاں شامل تھیں اور وہ سات ہزار رنز سکور کرنے والے پانچ پاکستانی بلے بازوں میں سے ایک ہیں۔
سنہ 2014 سے 2017 کے درمیان اظہر علی بہترین فارم میں رہے اور اس دوران انھوں نے نو سنچریاں اور 11 نصف سنچریاں سکور کیں۔
ان تمام ریکارڈز کے درمیان اظہر علی ہمیشہ سے خاموش، سادہ مزاج اور ’جینٹل مین‘ کھلاڑی کے طور پر جانے گئے۔
انھیں پاکستان کی ون ڈے اور ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی بھی ایسے لمحات میں سونپی گئی جب ٹیم ٹرانزیشن کا شکار تھی اور اس سے اچھی کارکردگی کی امید نہیں لگائی جا سکتی تھی۔
انھیں سنہ 2015 کے ورلڈ کپ میں شکست کے بعد ون ڈے ٹیم کی کپتانی سونپی گئی۔ دو سال سے بھی کم عرصے تک یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد انھیں اس سے بھی برخاست کر دیا گیا۔
اسی طرح ٹیسٹ میچوں میں مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار پھر انھیں کپتانی دی گئی اور صرف نو میچوں میں کپتانی کے بعد خراب فارم اور ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد کپتانی دوبارہ ان سے لے لی گئی۔
اظہر علی کو ایک موقع پر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں بطور اوپنر بھی کھلایا گیا اور انھوں نے اس پوزیشن پر بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔
اظہر علی کے کریئر کی سب سے یاد گار سنچری شاید سری لنکا کے خلاف چوتھی اننگز میں 302 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے بنائی گئی تھی۔ یہ ایک جارحانہ اننگز تھی جس کی توقع عام طور پر اظہر علی سے نہیں کی جاتی۔ لیکن اپنے پورے کریئر کی طرح یہاں بھی انھوں نے ایک ایسی صورتحال میں خود کو تبدیل کیا جہاں ٹیم کو ان کی ضرورت تھی۔
اپنے ٹیسٹ کریئر میں آخر تک ان کی شناخت ایک ایسے کھلاڑی کی طرح رہی جس نے مشکل وقت میں پاکستان کی ٹیم کو اس وقت سہارا دیا، خاص طور پر اس وقت جب اور کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg749n4rk0o | اظہر علی کا ریٹائرمنٹ کا اعلان: ’لگتا تھا کہ میں پاکستان میں کبھی انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکوں گا‘ | قومی ٹیم کے بیٹسمین اظہر علی نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور انگلینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ ان کے کیریئر کا آخری میچ ہو گا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی ٹیم کے سینئر کھلاڑی نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کے فیصلے کا اعلان کیا۔
ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنا میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے، ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فیصلہ کرنا کافی مشکل تھا لیکن انتہائی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہی ریٹائرمنٹ کا درست وقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق سلیکٹر محسن حسن خان کا شکریہ جنھوں نے مجھے پہلی مرتبہ پاکستانی ٹیم میں سلیکٹ کر کے کھیلنے کا موقع دیا۔ اپنے پہلے کپتان شاہد آفریدی اور ساتھی کھلاڑیوں مصباح الحق اور یونس خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مجھے ہمیشہ سپورٹ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کے میرے ساتھ بہت اچھی یادیں ہیں۔ انھوں نے اپنے اہلخانہ، دوستوں، فینز اور ساتھی کھلاڑیوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئ کہا کہ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ میرا اپنا ہے، کسی نے مجھے اس بارے میں نہیں کہا، جس طرح سے نوجوان کرکٹرز آ رہے ہیں مجھ اس کی خوشی ہے، ٹیم مینجمنٹ میچ جیتنے کے لیے بہترین ٹیم منتخب کرتی ہے اور میں ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں لیکن میں نے وہ فیصلہ کیا جو مجھے بہتر لگا۔
سابق کرکٹر کا کہنا تھا کہ یہ میرا آخری سیزن تھا اور میں نے سوچا ہوا تھا کہ یہ میں آخری سیزن کھیلوں گا، سچ کہوں تو میری کوشش تھی کہ میں 100 ٹیسٹ میچ مکمل کروں لیکن اب وہ نہیں ہو سکتے۔
اظہر علی نے سنہ 2009 میں انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیبیو کیا تھا۔ انھوں نے 96 میچوں میں 19 سنچریوں کی مدد سے سات ہزار سے زائد رنز بنائے ہیں۔
وہ ٹیسٹ میچوں میں ٹرپل سنچری بنانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور دنیا کے واحد کرکٹر ہیں جنھیں ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میں ٹرپل سنچری سکور کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
اظہر علی کا کہنا تھا کہ مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا سلسلہ فی الحال جاری رکھوں گا، لیکن میری کوشش ہو گی کہ کچھ ایسا کروں کہ اس زندگی کے بعد کی چیزیں آسان ہو سکیں۔
انھوں نے کہا کہ اتنی کرکٹ کھیلنے کے بعد کسی کے بیان سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مجھے اپنے بارے میں بھی سوچنا ہے کہ آگے کی زندگی کیسے گزارنی ہے۔
96 ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کرکٹر نے ٹیسٹ کرکٹ میں ٹرپل سنچری کو اپنے کیریئر کی یادگار اننگز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی بہت یادگاریں ہیں جس میں انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ جیتنا اور عالمی نمبر ایک ٹیم کا اعزاز حاصل کرنا شامل ہے۔
انھوں نے جیمز اینڈرسن کو مشکل بولر قرار دیتے ہوئے کہا کہ میدان میں ہمیشہ انگلش بولر نے کافی مشکلات کھڑی کیں لیکن میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں جبکہ سری لنکن سپنر رنگنا ہیراتھ کو بھی مخصوص کنڈیشنز میں کھیلنا کافی مشکل ہوتا تھا۔
انھوں نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے مشکل وقت میں کرکٹ کھیلی لیکن مجھے ہمیشہ سے سخت حالات میں کرکٹ کھیلنا اچھا لگا ہے، مجھ سمیت پوری ٹیم نے مشکل وقت دیکھا ہے اور میں ان حالات سے نکلنے پر بورڈ اور تمام کھلاڑیوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ میں اپنی سرزمین پر کبھی بھی انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکوں گا لیکن حکومت نے دیگر ٹیموں کو اس بات کا یقین دلایا کہ پاکستان کرکٹ کے لیے محفوظ ملک ہے۔
37سالہ اظہر علی نے 96 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 2019 میں سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹائے جانے کے بعد انھیں قومی ٹیم کی قیادت کی ذمے داری سونپی گئی تھی جس کے بعد انھوں نے نو میچوں میں بطور کپتان فرائض انجام دیے۔
ان کی قیادت میں پاکستان نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں فتوحات تو ضرور حاصل کیں لیکن ان کی ذاتی فارم ہر گزرتے دن کے ساتھ تنزلی کا شکار رہی جس پر انھیں مسلسل تنقید کا سامنا تھا۔
اظہر علی 53 ون ڈے میچوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھتے ہیں جبکہ 2015 ورلڈ کپ کے بعد انھیں قومی ٹیم کی قیادت سونپی گئی تھی۔
تاہم ون ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ان کی کارکردگی ٹایوس کن رہی تھی کیونکہ 2017 میں جب تک وہ کپتان رہے تھے، قومی ٹیم ون ڈے رینکنگ میں تاریخ کی بدترین نویں نمبر پر پہنچ گئی تھی۔
وہ 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے بھی رکن تھے اور انھوں نے اپنا آخری ون ڈے میچ 2018 میں کھیلا تھا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2902r1j30o | فٹ بال ورلڈ کپ: فرانس کی وہ کمزوریاں جن کا فائدہ فائنل میں ارجنٹائن کو ہو سکتا ہے | ایک اچھا فارورڈ، ایک ریکارڈ ساز کوچ اور ایک ایسی نسل جو مسلسل دوسرا ورلڈ کپ فائنل کھیلنے جا رہی ہے۔
ارجنٹائن کے خلاف فٹ بال ورلڈ کپ کے فائنل سے قبل فرانس کی ٹیم کا اگر ان الفاظ میں تعارف کروایا جائے تو یقیناً ایسی ٹیم سے کوئی بھی حریف گھبرائے گا۔
فرانس نے بدھ کے دن سیمی فائنل میں مراکش کو دو صفر سے شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا۔ اس میچ میں تھیو ہرنینڈیز اور رینڈل کولو نے گول کیے تھے۔
واضح رہے کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل تین ٹیموں کو فیورٹ قرار دیا گیا تھا جن میں دفاعی چیمپیئن فرانس، ارجنٹائن اور برازیل شامل تھیں۔
ان میں سے دو فائنل میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گی اور ایک کے حصے میں فیفا ورلڈ کپ کا ٹائٹل آئے گا۔
یاد رہے کہ 2018 میں روس میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ میں بھی فرانس اور ارجنٹائن کا مقابلہ ہوا تھا جس میں فرانس کو چار، تین سے برتری حاصل ہوئی تھی۔
اس رپورٹ میں فرانس کے خطرناک ٹیم بننے والی تین وجوہات کے ساتھ ساتھ ایسی دو کمزوریوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جن کا فائدہ ارجنٹائن کی ٹیم اٹھا سکتی ہے۔
اس ورلڈ کپ میں کائلیان ایم باپے پانچ گول کر چکے ہیں اور اس وقت ارجنٹائن کے لیونیل میسی کے ساتھ ٹاپ سکورر ہیں۔ ان کے علاوہ فرانس کے اولیور گیروڈ چار جبکہ انٹوئن گریزمین ٹورنامنٹ کے دوران تین گول کر چکے ہیں۔
ایسی فاروڈ لائن کو روک کر رکھنا ارجنٹائن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا اور یہی کھلاڑی فرانس کے لیے فائنل میں سب سے اہم کردار بھی ادا کریں گے۔
فرانس کے کوچ ڈیشامپس نے چار سال قبل اپنی ٹیم کو 2018 کے ورلڈ کپ میں فتح سے ہمکنار کروایا تھا اور ایک بار پھر ٹیم کو فائنل تک رسائی دلا چکے ہیں۔
برازیل میں 2014 ورلڈ کپ کے بعد سے اب تک 18 ورلڈ کپ میچز میں سے ان کی کوچنگ میں فرانس نے 14 میچ جیتے ہیں اور صرف دو میں شکست کھائی ہے جبکہ دو میچ برابر رہے۔
مراکش کے خلاف سیمی فائنل میں فتح کے بعد ان کی مجموعی فتوحات کی تعداد برازیل کے کوچ لوئیز فلیپے سکولاری کے برابر ہو چکی ہیں جبکہ اب ان کو جرمنی کے سابق کوچ ہیلمٹ شون کی 16 ورلڈ کپ فتوحات کا ریکارڈ برابر کرنے کے لیے دو اور فتوحات درکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
’ماؤں کے ساتھ جشن‘ منانے والی مراکش کی ٹیم میں یورپی کلبز کی دلچسپی کیسے بڑھ رہی ہے؟
کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟
ورلڈ کپ سیمی فائنل میں مراکش کی شکست: ’تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے‘
تاہم اتوار کے دن ان کو ایک مشکل حریف کا سامنا ہو گا۔
ارجنٹائں کے کوچ لیونیل سکالونی کے پاس تجربہ تو ان سے کم ہے لیکن وہ چار سال میں اپنی ٹیم کو فائنل تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔
فرانس کی ٹیم کا بڑا حصہ ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جنھوں نے 2018 میں روس میں ہونے والا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ گول کیپر ہوگو لورس، ڈیفینڈر رافائیل واران اور فاروڑد کیلیان ایم باے، اولیور جیرورڈ اور انٹوائن گریزمین ماسکو میں کروشیا کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی فاتح فرانسیسی ٹیم کا حصہ تھے۔
یہ ایک ایسی نسل ہے جس کو ورلڈ کپ فائنل کھیلنے اور جیتنے کا تجربہ حاصل ہے اور بڑے ٹورنامنٹ میں ایسا تجربہ ہمیشہ کارآمد رہتا ہے۔
دوسری جانب ارجنٹائن کی ٹیم میں صرف میسی اور ڈی ماریا ہی دو کھلاڑی باقی ہیں جنھوں نے 2018 میں برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ میں جرمنی کے خلاف فائنل کھیلا تھا۔
فرانس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1994 اور 1998 میں ورلڈ کپ فائنل کھیلنے والی برازیلین ٹیم کے بعد وہ دوسری ٹیم ہیں جس نے مسلسل دو فائنلز تک رسائی حاصل کی ہے۔
اس فرانسیسی ٹیم میں کمزوریوں کی نشان دہی کرنا مشکل ہے۔ تاہم اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو یہ واضح ہو گا کہ اس ٹیم کو ایک مسئلہ درپیش ہے۔
ورلڈ کپ میں کھیلے جانے والے چھ میچز میں فرانس کی ٹیم کے خلاف سوائے مراکش کے ہر ٹیم نے گول سکور کیا۔ آسٹریلیا، ڈنمارک، تیونس، پولینڈ اور انگلینڈ۔۔۔ یہ تمام ٹیمیں گول کیپر لورس کو مات دینے میں کامیاب رہیں۔
دوسری جانب ارجنٹائن نے تین میچز میں اہنے خلاف ایک بھی گول نہیں ہونے دیا۔ میکسیکو، پولینڈ اور کروشیا ارجنٹائن کے خلاف کوئی گول نہیں کر سکیں۔
فائنل میں یہ ایک اہم نکتہ ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری اہم کمزوری ایک قدرے ناتجربہ کار مڈ فیلڈ کا ہونا ہے۔
2018 میں فرانس کی جیت کا سہرا کافی حد تک ایک مضبوط مڈ فیلڈ کے سر تھا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑیوں پال پوگبا، کانٹے اور بلائس شامل تھے۔
اس بار فرانس کی مڈ فیلڈ اتنی تجربہ کار نہیں ہے۔
آریلیئن ٹچومینی اور ایڈوارڈو کاماوینگا ریال میڈرڈ کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں جبکہ یوسف فوفنا اور گریز مین نے بھی اب تک اچھا کھیل پیش کیا ہے۔
تاہم یہ مڈ فیلڈ 2018 جتنی مضبوط نہیں ہے۔
یہ وہ کمزوری ہے جس کا ارجنٹائن کی ٹیم فائدہ اٹھا سکتی ہے اگر اسے فرانس کو ایک اور ورلڈ کپ اٹھانے سے روکنا ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cqq2x20z0x2o | ورلڈ کپ سیمی فائنل میں مراکش کی شکست: ’تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے‘ | فرانس کے ہاتھوں سیمی فائنل میں دو صفر سے شکست کے بعد فٹ بال ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچنے والی پہلی افریقی ٹیم بن جانے کا خواب تو ٹوٹ گیا تاہم مراکش کی ٹیم نے دنیا بھر میں مداحوں کے دل جیت لیے ہیں۔
فرانس کے خلاف اہم سیمی فائنل سے قبل مراکش کے حامی یورپ سمیت مختلف حصوں میں اس امید سے اکھٹے ہوئے تھے کہ ملک پر ماضی میں حکومت کرنے والی سابق نوآبادیاتی طاقت کو فٹ بال کے میدان میں پچھاڑ دیا جائے گا۔
تاہم یہ امید تھیو ہرنینڈیز اور کیلیان کے دو گول سے ٹوٹ گئی اور دفاعی چیمپیئن فرانس فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس کا سامنا اتوار کے روز ارجنٹینا سے ہو گا۔
مراکش کے دارالحکومت رباط میں ایک فین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہار گئے لیکن ہمیں بہت فخر ہے۔‘
دوسری جانب فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسطی حصے میں میچ سے قبل پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جہاں ہزاروں مراکش نژاد شہری رہتے ہیں۔
میچ سے قبل پیرس کی مرکزی شاہراہ پر مراکش اور دیگر شمالی افریقی ممالک کے جھنڈے بھی لہراتے ہوئے شائقین دیکھے جا سکتے تھے۔
فرانس ہی نہیں بلکہ یورپ کے دیگر اہم شہروں،جن میں برسلز بھی شامل ہے، میں بھی پولیس دیکھی گئی جہاں مراکش کے حامیوں نے گذشتہ فتوحات کا جشن پٹاخے پھوڑ کر منایا تھا۔
ہیگ میں موسم اور شکست کی وجہ سے میچ کے بعد زیادہ جوش و جذبہ نظر نہیں آیا۔
گلیوں میں چند پٹاخے تو چلائے گئے لیکن مراکش نژاد ڈچ شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ پرامن رہنا چاہتے ہیں۔
ادھر رباط کے محمد پنجم سٹیڈیم میں ایک فین نے کہا کہ سیمی فائنل کا نتیجہ ’اوکے‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کھیل میں یہی ہوتا ہے۔‘
اس سٹیڈیم میں میچ دیکھنے والوں کی اکثریت کا ماننا تھا کہ ورلڈ کپ میں مراکش کی ٹیم کی کارکردگی ملک کے فٹ بالرز کے روشن مستقبل کا آغاز ہو گا۔
تاہم رباط کے سب سے قدیم کیفے میں اس وقت مایوسی عیاں تھی جب مراکش کی ٹیم گول کرنے میں پے در پے ناکامی کا شکار ہوئی۔
ایک فین، حو مراکش میں پیدا ہوئے لیکن فرانس میں پلے بڑھے، نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ مراکش ورلڈ کپ جیت جائے کیوں کہ ’اب وقت آ چکا ہے کہ کپ افریقہ کے پاس آئے۔‘
یہ بھی پڑھیے
تاریخ ساز مراکش کا خواب ادھورا رہ گیا، فرانس ایک بار پھر ورلڈ کپ کے فائنل میں
’ماؤں کے ساتھ جشن‘ منانے والی مراکش کی ٹیم میں یورپی کلبز کی دلچسپی کیسے بڑھ رہی ہے؟
یاسین بونو: وہ گول کیپر جو مراکش کا ہیرو بن گیا ہے
سپین کے شہر میڈرڈ میں بھی مراکش کے شائقین نے ایک خیمہ لگا کر میچ دیکھا جہاں روایتی پکوان بھی وافر مقدار میں موجود تھے۔
مراکش کی ٹیم کی ٹی شرٹ پہنے انس نے کہا کہ ’جو بھی ہوا، مجھے اپنی ٹیم پر فخر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری ٹیم صرف فٹ بال کی نمائندگی نہیں کر رہی تھی، انھوں نے ہمیں علامتی فتح دی، بین الاقوامی عزت دلائی۔‘
رباط سے تعلق رکھنے والے منیر جو سپین میں ایک پیٹرول سٹیشن پر کام کرتے ہیں پورے میچ کے دوران اپنے دوستوں کے ساتھ نعرے لگا رہے تھے اور اگرچہ فرانس کے دوسرے گول کے بعد وہ کچھ مایوس ہوئے لیکن مجموعی طور پر وہ خوش تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ زندگی میں ایک بار ہونے والا واقعہ ہے۔ ہمارے بچے بھی ایسا ہوتا شاید نہیں دیکھ پائیں گے۔ ہمارے لیے یہ سب کچھ تھا۔‘
لندن کے شمال مغربی علاقے کرکل ووڈ میں بھی میچ کی آخری سیٹی بجتے ہی مراکش کے حامیوں نے ایک نعرہ بلند کیا۔
یہاں موجود فین بھی ٹیم کی کارکردگی پر فخر کر رہے تھے۔ برطانیہ کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں زیادہ تر مراکش کے شائقین نے کمبل اوڑھے، چائے اور شیشے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میچ دیکھا۔
کیفے پریگو میں مراکش کے علاوہ تیونس، الجیریا اور مصر سے تعلق رکھنے والے شائقین بھی موجود تھے۔
ان میں سے ایک شخص کا ماننا تھا کہ قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ اب تک کا بہترین ورلڈ کپ تھا جس نے لندن میں عرب قومیت کے افراد کو یکجا کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب ایک قوم ہیں۔‘
پاکستان اور انڈیا میں بھی مراکش کے چاہنے والوں نے کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔
شہروز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’میچ کی سکور لائن مراکش کے کھیل کی درست ترجمانی نہیں کرتی جنھوں نے بہت عمدہ کھیل پیش کیا۔‘
ٹوئٹر صارف عزیر یونس نے لکھا ’تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
کرکٹ کمنٹیٹر ہارشا بوگھلے نے لکھا کہ ’فرانس یقینا فائنل تک پہنچ گیا لیکن اس ورلڈ کپ میں مراکش ایک سٹار بن گیا۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkj6e04ly3o | تاریخ ساز مراکش کا خواب ادھورا رہ گیا، فرانس ایک بار پھر ورلڈ کپ کے فائنل میں | دفاعی چیمپیئن فرانس نے سیمی فائنل میں ایک دلچسپ مقابلے کے بعد تاریخ رقم کرنے والی مراکش کو دو صفر سے شکست دے کر اتوار کو ارجنٹینا کے خلاف فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔
تاہم یہ میچ کسی بھی صورت یکطرفہ نہیں تھا اور فرانس کو پانچویں منٹ میں برتری حاصل ہونے کے باوجود مراکش نے پورے میچ انھیں دیوار سے لگائے رکھا۔
مراکش کسی بھی فٹبال ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی پہلی افریقی اور عرب ٹیم ہے لیکن آج اسے میچ کے آغاز سے بھی پہلے اسے بدقسمتی کا سامنا کرنا پڑا۔
میچ شروع ہونے سے پہلے مراکش کے ڈیفینڈر نائف ایگوارد انجری کے باعث ٹیم سے باہر ہو گئے تھے حالانکہ ان کا نام ٹیم شیٹ پر بھی تھا۔
یہی نہیں مراکش کے کپتان رومین زائیس بھی یہ میچ انجری کا شکار ہونے کے باوجود شروع کر رہے تھے لیکن چند ہی منٹ میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ وہ اب مزید کھیل جاری رکھنے کے قابل نہیں رہے اور انھیں بھی فوری طور پر تبدیل کرنا پڑا۔
اس سب کے درمیان تھیو ہرنینڈیز نے پانچویں منٹ میں ایک بہترین فنش کے ساتھ فرانس کو برتری دلوا دی۔ وہ اس ٹورنامنٹ میں مراکش کے خلاف گول کرنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔
دفاع میں کمزوری اور ایک گول کے خسارے کا شکار مراکش نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے کھیل کو تبدیل کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنانے کی کوشش کرتے رہے۔
پہلے ہاف کے اختتام پر مراکش کے ہاتھ ایک انتہائی سنہری موقع بھی آیا جب زیئش کی کارنر کک پر جواد الیمیق نے اوور ہیڈ کک ماری جو کچھ گول کیپر کے ہاتھ اور کچھ گول پوسٹ سے ٹکرانے کے باعث گول میں جانے سے قاصر رہی۔
مراکش کے لیے بھرپور جارحانہ انداز اپنانا اس لیے بھی مشکل تھا کیونکہ کاؤنٹر اٹیک پر ان کے سر پر ایم باپے کا خطرہ منڈلا رہا تھا اور پھر میچ کے اختتامی لمحات میں ایم باپے کے بہترین رن اور ڈیفینڈر سے ڈیفلیکٹ ہونے والی شاٹ کولو موانی تک پہنچی جنھوں نے اسے گول میں پہنچا کر مراکش کی میچ میں واپسی کے امکان کو ختم کر دیا۔
مراکش کے مداح گراؤنڈ میں بڑی تعداد میں موجود تھے اور شور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے یہ مراکش کا ہوم گیم ہو۔
جب بھی گیند فرانس کے کھلاڑی کے پاس جاتی تو گراؤنڈ سیٹیوں سے گونج اٹھتا لیکن فرانسیسی ڈیفیڈرز خصوصاً ابراہیما کوناٹے نے بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے دباؤ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔
دفاعی چیمپیئن فرانس اب اتوار کو ان فارم میسی کی ارجنٹینا سے فائنل میں مدِ مقابل ہو گی اور اگر فرانس لگاتار دوسری مرتبہ فائنل میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو ایسا 60 سال میں پہلی مرتبہ ہو گا۔ اس سے قبل برازیل نے سنہ 1958 اور 1962 میں لگاتار دو ورلڈکپ جیتے تھے۔
مینیجر ڈیسکیمپ جن کی کپتانی میں فرانس نے سنہ 1998 میں ہوم گراؤنڈ پر ورلڈکپ جیتا تھا اتوار کو بطور مینیجر دوسری مرتبہ یہ اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔ فرانس کی ٹیم کو ہرانا یقیناً مشکل ہو گا لیکن آج کھیل میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب قسمت کی دیوی نے بھی فرانس کا ساتھ دیا اور مراکش کے فارورڈ بھی مواقع گول میں تبدیل کرنے میں ناکام نظر آئے۔
مراکش کے کھلاڑیوں اور کوچنگ سٹاف کو ان کے مداحوں کی جانب سے میچ ختم ہونے کے بعد طویل وقت کے لیے کھڑے ہو کر خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہا۔ مراکش کے مداح اس ورلڈ کپ میں خاصے نمایاں رہے ہیں اور انھیں عالمی میڈیا میں اپنی ٹیم کو بھرپور انداز میں سپورٹ کرنے پر خاصی پذیرائی بھی ملی ہے۔
مراکش کی آج کی پرفارمنس ورلڈ کپ میں دیگر میچوں کی کارکردگی سے کسی صورت کم نہیں تھی اور بدقسمتی اور انجریز کے باوجود انھوں نے ثابت کیا کہ وہ اس ورلڈ کپ میں اتنا بڑا سرپرائز کیوں ثابت ہوئے ہیں۔
مراکش کی ٹیم کے بہترین سینٹر مڈفیلڈر سفیان امرابط نے حوصلہ افزا کھیل پیش کیا اور پوری جان مارتے دکھائے دیے۔
مراکش کی جانب سے پہلے ہاف میں کی گئی پینلٹی اپیل کو بھی نظرانداز کیا گیا تھا جب ہرنینڈیز نے سفیان بوفال کو زمین پر گرا دیا تھا۔
مراکش کے فارورڈز کی جانب سے گیند کو شوٹ کرنے میں ہچکچاہٹ بھی مواقع گنوانے کی وجہ بنتی رہی اور یوں فرانس کے پاس کاؤنٹر اٹیک کرنے کے مواقع آتے رہے۔
مراکش کو بالآخر کسی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں ہرا دیا ہے لیکن ان کی جانب سے پورے ورلڈ کپ کے دوران جس کھیل کا مظاہرہ کیا گیا وہ یقیناً تاریخی تھا۔
بیلجیئم، سپین اور پرتگال جیسی بڑی ٹیموں کو ورلڈ کپ سے ناک آؤٹ کرنا یقیناً ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اب مراکش کے پاس اس ورلڈ کپ کی کارکردگی کے ذریعے اپنی ٹیم کو مزید بہتر کرنے کا سنہری موقع ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1w6yyl8493o | 12 سال کا بچہ جسے یقین تھا کہ وہ ایک دن اپنے ہیرو میسی کے ساتھ فٹبال کھیلے گا | قریب 10 سال پہلے جولین الواریز محض 12 سال کے تھے جب انھوں نے ارجنٹائن کے پھُرتیلے فٹبالر لیونل میسی کے ساتھ تصویر بنوائی جو اُن کے لیے کسی ہیرو سے کم نہیں تھے۔
وہ تب سے میسی جیسا بننا چاہتے تھے اور ان کا خواب تھا کہ وہ سٹار فٹبالر کے ساتھ کھیل سکیں۔ بلکہ انھیں یقین تھا کہ وہ ایک اس عظیم فٹبالر کے ساتھ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔
اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ انھوں نے میسی کے ساتھ مل کر ارجنٹائن کی ورلڈ کپ فائنل تک رسائی ممکن بنائی ہے۔
گذشتہ روز سے فینز یہ پرانی تصویر شیئر کر رہے ہیں اور انھیں الواریز کا خواب پورا ہونے کی بے انتہا خوشی ہے۔
اس سلسلے میں ان کی ایک بچپن کی ویڈیو بھی زیرِ گردش ہے جس میں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ’فٹبال کے حوالے سے آپ کا کیا خواب ہے؟‘ اس پر وہ جواب دیتے ہیں ’ورلڈ کپ میں کھیلنا۔‘
ان سے اگلا سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’آپ کا آئیڈل کون ہے؟‘ اس پر وہ بغیر سوچے جواب دیتے ہیں ’میسی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
کلب مانچسٹر سٹی کی ویب سائٹ پر الواریز کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’بچپن سے میسی میرے آئیڈل رہے ہیں۔‘
’وہ میرے خاندان کے آئیڈل ہیں، میرے بھائیوں کے بھی پسندیدہ ہیں۔ میسی میرے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خواب تھا کہ میں میسی کے ساتھ (ارجنٹائن) نیشنل ٹیم کے لیے کھیلوں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ارجنٹائن کے ورلڈ کپ فائنل میں پہنچنے سے پہلے بھی لیونل میسی کو دنیا کا عظیم فٹبالر سمجھا جاتا تھا۔ مگر ان کا کیریئر ورلڈ کپ فاتح نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ نامکمل رہا۔
کھیل کے میدان کو خیرباد کہنے سے قبل ان کے لیے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا یہ بظاہر آخری موقع ہے۔
سات مرتبہ بیلن ڈی اور (یعنی بہترین فٹبالر کا اعزاز) جیتنے والے میسی نے اپنی کامیاب پینلٹی سے ارجنٹائن کو کروشیا کے خلاف سبقت دلائی۔ پھر جولیان الواریز کے دو گولز میں سے ایک میں اسسٹ کیا جس نے ارجنٹائن نے سیمی فائنل میں تین صفر کی فتح حاصل کی۔
ارجنٹائن کے ڈیاگو میراڈونا یا برازیل کے پیلے کی طرح کبھی ورلڈ کپ نہ جیت پانا وہ دلیل تھی جو کسی بحث میں ان کے خلاف پیش کی جاتی۔ اب میسی کے پاس اتوار کو یہ موقع ہو گا کہ، فرانس یا مراکش میں سے جو بھی ٹیم فائنل میں پہنچتی ہے، اس کے خلاف نئی تاریخ رقم کر دیں۔
سینیئر فٹبال میں یہ میسی کا 1002واں میچ، 791واں گول اور 340واں اسسٹ تھا۔ بارسلونا کو انھوں نے 35 ٹرافیاں جتوائیں، پھر موجودہ کلب پی ایس جی کو فرانسیسی ٹائٹل دلوایا اور ارجنٹائن کی طرف سے کھیلتے ہوئے 2021 کا کوپا امریکہ جیتا۔
یہ بھی پڑھیے
مراکش کی جیت نے سب کو رُلا دیا: ’کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں؟‘
یاسین بونو: وہ گول کیپر جو مراکش کا ہیرو بن گیا ہے
قطر میں کنٹینرز سے تعمیر ہونے والا سٹیڈیم کہاں گیا؟
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
سابق انگلش ڈیفنڈر جیمی کریگر اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میسی ’اب تک کے بہترین‘ فٹبالر ہیں۔ جبکہ انگلینڈ کے سابق سٹرائیکر ایلن شریئر نے کہا کہ ’اب میراڈونا اور میسی کی بحث ختم ہو سکے گی؟‘
’ہم نے کہا تھا کہ اگر میسی یہاں سے ورلڈ کپ جتوا دیتے ہیں تو یہ انھی کی محنت کا نتیجہ ہو گا۔ ٹیم میں فرق ان کے ہونے سے آتا ہے۔ میراڈونا نے ارجنٹائن کو اس کا آخری ورلڈ کپ جتوایا تھا۔ اگر میسی بھی ورلڈ کپ جتوا دیتے ہیں تو میرا مؤقف بدل جائے گا۔‘
راب گرین جو انگلینڈ کے لیے 2010 کے ورلڈ کپ میں کھیلے تھے، کا خیال ہے کہ اتوار کو میسی اس کا فیصلہ خود کریں گے۔ ’اگر آپ میسی سے پوچھیں گے کہ کیا وہ دنیا کے بہترین فٹبالر یا میڈل چاہتے ہیں تو ان کا جواب ہو گا کہ اتوار کو وہ ضرور میڈل چاہتے ہیں۔ انھوں نے فٹبال کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔‘
اتوار کو میسی 26ویں بار ورلڈ کپ کا میچ کھیل رہے ہوں گے جو کہ خود میں ایک ریکارڈ ہے۔
وہ 11 گولز کے ساتھ ورلڈ کپ کی تاریخ کے ٹاپ سکورر ہیں۔ وہ واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے پانچ ورلڈ کپس میں اسسٹ کیا۔ میسی واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے 20 سال اور 30 سال کی عمروں میں گول کیے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
میسی اور ارجنٹائن کو جرمنی کے خلاف 2014 کے ورلڈ کپ فائنل میں شکست جھیلنی پڑی تھی۔ مگر انھیں ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی ہونے پر گولڈن بال دی گئی تھی۔
یہ ممکن ہے کہ اتوار کو انھیں ورلڈ کپ کا فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ گولڈن بال اور گولڈن بوٹ کے انعام بھی مل جائیں۔ پی ایس جی میں ان کے ساتھی کھلاڑی کلیئن مباپے سے وہ زیادہ اسسٹس کی وجہ سے آگے ہیں جبکہ دونوں نے اب تک پانچ گول کیے ہیں۔
ارجنٹائن کے مینیجر لیونل سکالونی نے کہا ہے کہ ’مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ میسی عظیم کھلاڑی ہیں۔‘ ’میں کافی دیر سے یہ کہہ رہا ہوں۔ انھیں تربیت دینا میرے لیے اعزاز تھا۔ میسی کے بارے میں اب کچھ بھی کہنا باقی نہیں۔ ان کا سکواڈ میں ہونا ہمارے لیے اعزاز ہے۔‘
سیمی فائنل سے قبل میسی اپنے ہیمسٹرنگ کو سٹریچ کرتے نظر آئے۔ ان کی رفتار اب نوجوانی جیسی نہیں رہی۔ مگر پھر بھی انھوں نے الواریز کے دوسرے گول کے لیے تنہا دوڑ لگائی اور عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ شریئر نے کہا ہے کہ ’ارجنٹائن میسی کی وجہ سے ہی فائنل میں ہے۔‘
’سب ان کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ اب اتنی محنت نہیں کرتے جتنی پہلے کیا کرتے تھے اور وہ اب اتنے تیز بھی نہیں رہے جیسے کئی سال پہلے ہوتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مگر اب بھی ان کا جادو باقی ہے، یعنی بال کے ساتھ مڑنا، گھومنا اور ڈیفنڈرز کے پاس سے گزر جانا۔ وہ اکثر بہترین کھلاڑیوں کو اوسط درجے کا بنا دیتے ہیں۔‘
میسی کے سابق ساتھی پابلو زباليتا نے کہا ہے کہ ’میسی نے عمدہ کھیل پیش کیا۔ میدان میں ان کی رفتار اب بھی بہت زیادہ ہے۔ آپ انھیں چھونا نہیں چاہیں گے جب وہ ڈبے میں ہوتے ہیں۔ انھوں نے الواریز کو دلکش پاس دیا۔ وہ ناقابل یقین گول تھا۔
’جب بھی گیند میسی کے پاس آتی تھی تو لگتا تھا کچھ ہونے والا ہے۔‘
میسی نے خود یہ کہا ہے کہ ’میں اس دوران بہت خوش ہوں۔ میں اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ ہر میچ کے لیے میں خود کو مضبوط سمجھتا ہوں۔ اس ورلڈ کپ میں، میں بہت خوش ہوں۔ میں سکواڈ کی مدد کر پا رہا ہوں۔‘
انسٹاگرام پر میسی کے بارسیلونا میں سابق ساتھی لوئز سوائریز نے کہا کہ ’آپ کبھی یہ ثابت کرتے نہیں تھکتے کہ آپ دنیا کے بہترین کھلاڑی ہیں۔‘
حتی کہ کروشیا کے مینیجر نے کہا کہ ’میسی کے بارے میں اب کچھ کہنا باقی نہیں۔ وہ دنیا کے بہترین کھلاڑی ہیں اور آج وہ بہت خطرناک تھے۔ ہمیں اسے میسی کو دیکھنے کی توقع تھی۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c283y4dl9v1o | میسی کے سحرانگیز کھیل کے سامنے کروشیا بے بس، آرجنٹینا اپنے چھٹے ورلڈ کپ فائنل میں | آرجنٹیا کے ماسٹر فٹبالر لیونل میسی اور ان کے شاگرد جولیان ایلواریز نے مل کر کروشیا کے خلاف سیمی فائنل میں ایسا سماں باندھا جس نے ان کی ٹیم کو باآسانی قطر ورلڈکپ فائنل میں پہنچا دیا۔
میچ میں کروشیا کے اچھے آغاز کے باوجود آرجنٹینا کو 34ویں منٹ میں ملنے والی پینلٹی نے کھیل کا نقشہ بدل دیا اور یہاں سے کروشیا کی میچ میں واپسی ممکن نہ ہو پائی۔ شاید یہ میسی کی جانب سے انتہائی پراعتماد انداز میں لگائی گئی پینلٹی کا کمال بھی تھا جس نے مومنٹم مکمل طور پر آرجنٹینا کی جانب موڑ دیا۔
اب دنیائے فٹبال کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک لیونل میسی کے پاس ورلڈکپ جیتنے کا آخری موقع ہے۔ یہ وہ ٹرافی ہے جو میسی اپنے کامیابیوں سے بھرپور کریئر میں جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔
تاہم آج صرف میسی ہی نہیں بلکہ مانچسٹر سٹی کے 22 سالہ سٹرائکر ایلواریز بھی کسی سے کم نہیں تھے اور ان کی بھرپور پیس اور دو بہترین گولز نے آرجنٹینا کی فائنل تک رسائی کو یقینی بنا دیا۔
اب آرجنٹینا اتوار کو اسی گراؤنڈ پر مراکش یا فرانس میں سے ایک ٹیم سے فائنل میں مدِ مقابل ہو گی۔
آرجنٹینا کے ’لٹل جینیئس‘ میچ کے آغاز میں ہیمسٹرنگ کے مسئلے سے دوچار دکھائی دیے تاہم پینلٹی سکور کرنے کے بعد سے کروشیا کی ڈیفنس میں انھیں روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
پہلے ہی ہاف میں ملنے والی پینلٹی کروشیا کے گول کیپر ڈومینک لواکووچ کے فاؤل کے باعث آرجنٹینا کو ملی تھی اور میسی نے اسے گول کے دائیں کارنر میں مار کر آرجنٹینا کو برتری دلوائی تھی۔
برتری حاصل کرنے کے صرف پانچ منٹ بعد ایلواریز نے اسے دوگنا کر دیا جب انھوں نے اکیلے ہی کروشیا کے ہاف میں گیند لے جا کر ایک ایسا رن بنایا جس میں جہاں ان کی خوش قسمتی بھی شامل تھی وہیں کروشیا کا ناقص ڈیفنس بھی اس کی وجہ بنا۔
تاہم دوسرے ہاف میں میسی کی جانب سے بنائے گئے خوبصورت رن اور اس کے نتیجے میں ہونے والے گول کا موازنہ آرجنٹینا کے مداح 1986 کے ورلڈکپ میں میراڈونا کے انگلینڈ کے خلاف ’گول آف دی سینچری‘ سے کر رہے ہیں۔
اس تاریخی رن کے دوران 35 سالہ میسی کے جوانی کے دنوں کی یاد تازہ ہوئی اور کروشیا اور وہ اس ٹورنامنٹ کے بہترین ڈیفینڈر جوسکو گوارڈیول کو تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے گیند ڈی میں لے گئے اور پھر ایلواریز کو پاس کر دیا جنھوں نے اسے گول میں کنورٹ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
اب میسی کے پاس سنہ 2014 ورلڈکپ فائنل میں جرمنی سے ہار کی مایوسی بھلانے اور تاریخ رقم کرنے کا ایک اور موقع ہو گا۔
جب میسی نے 19ویں منٹ میں اپنی ہیمسٹرنگ کو پکڑا اور کچھ دیر کے لیے سٹریچ کرنے کی کوشش کی تو آرجنٹینا کے دنیا بھر میں موجود مداح اس خوف میں مبتلا تھے کہ کہیں یہ میسی کے کریئر کا ڈراؤنا اختتام تو نہیں ہے۔
تاہم میسی نے کچھ دیر کے لیے اپنی رفتار کم کی اور پھر ایسا کھیل پیش کیا جس نے آرجنٹینا کو اس آغاز میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہونے کے بعد میچ میں واپسی کا موقع دیا۔ اب آرجنٹینا اپنا تیسرا ورلڈکپ جیتنے کی تلاش میں ہے، اس سے قبل جنوبی امریکی ٹیم سنہ 1978 اور 1986 میں فتوحات حاصل کر رکھی ہیں۔
خیال رہے کہ ٹورنامنٹ کے آغاز میں آرجنٹینا کو سعودی عرب سے اس ورلڈکپ کے سب سے بڑِ اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
قطر میں کنٹینرز سے تعمیر ہونے والا سٹیڈیم کہاں گیا؟
یاسین بونو: وہ گول کیپر جو مراکش کا ہیرو بن گیا ہے
فٹبال ورلڈ کپ کے سب سے غیر متوقع سیمی فائنل، ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟
سنہ 1990 میں بھی آرجنٹینا کو ٹورنامنٹ کے آغاز میں کیمرون کے خلاف ایسی ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم وہ فائنل میں پہنچنے پر مغربی جرمنی کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوئی تھی۔
اب ان کے پاس ایک بار پھر ورلڈکپ جیتنے کا سنہری موقع ہے جو یقینی طور پر میسی کا آخری ٹورنامنٹ ثابت ہو گا۔
یہ بلاشبہ آرجنٹینا کی اس ٹورنامنٹ میں سب سے بہترین کارکردگی تھی اور انھوں نے ایک ٹیلنٹڈ اور دفاعی اعتبار سے خاصی مضبوط کروشیا کو جو سنہ 2018 ورلڈکپ کی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی باآسانی شکست سے دوچار کیا۔
شاید یہ کہنا درست ہو گا کی مینیجر لیونل سکالونی نے ٹیم ٹھیک وقت پر ٹورنامنٹ میں اپنے عروج پر پہنچی ہے۔
میسی اس پورے میچ میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے لیکن ایلواریز نے آج دکھایا ہے کہ ان کے سامنے ایک روشن مستقبل ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/clwg8n7rx5jo | راولپنڈی کی پچ غیرمعیاری قرار، ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کو خطرہ | انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے راولپنڈی کرکٹ گراؤنڈ جہاں انگلینڈ نے پاکستان کو پہلے میچ میں ایک دلچسپ مقابلے کے بعد شکست دی تھی، کی پچ کو ’بیلو ایوریج‘ ریٹنگ دیتے ہوئے غیر معیاری قرار دے دیا ہے۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ یکم دسمبر سے پانچ دسمبر تک راولپنڈی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا تھا جس میں انگلینڈ نے پہلے دن کھیل کے اختتام تک 500 سو زیادہ رنز سکور کر لیے تھے۔ اس میچ میں مجموعی طور پر 1768 رنز بنے۔ انگلینڈ نے یہ میچ 74 رنز سے جیت لیا تھا۔
ہر بین الاقوامی میچ کے لیے پچوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ منفی درجہ بندی کے نتیجے میں ڈی میرٹ پوائنٹس ہوتے ہیں ، جن کے جمع ہونے سے میچ کی میزبانی کرنے کے حقوق معطل ہوسکتے ہیں۔
اوسط سے کم درجہ بندی نے راولپنڈی کو ایک ڈی میرٹ یا منفی پوائنٹ دیا ہے۔
اس سال یہ دوسرا موقع ہے جب راولپنڈی گراؤنڈ کو ڈی میرٹ پوائنٹ دیا گیا ہے۔
مارچ میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ڈرا ہونے والے پہلے ٹیسٹ کی پچ کو بھی اوسط سے کم قرار دیا گیا تھا۔
اگر کسی مقام کو پانچ سال کے عرصے میں پانچ ڈی میرٹ پوائنٹس ملتے ہیں تو اسے 12 ماہ کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی سے معطل کردیا جائے گا۔
ایک پچ یا آؤٹ فیلڈ کو جو چھ درجہ بندیاں دی جاسکتی ہیں وہ بہت اچھی، اچھی ، اوسط ، اوسط سے کم ، ناقص اور ان فٹ ہیں۔
راولپنڈی کی فلیٹ پچ کے نتیجے میں 1،768 رنز بنائے گئے ، جو زیادہ سے زیادہ پانچ دن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ کے لیے تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔
گیند بازوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باوجود انگلینڈ آخری دن کے آخری لمحات میں ایک مشہور فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی فلیٹ پچ تھی جس نے کسی بھی قسم کے بولر کو تقریباً کوئی مدد نہیں دی۔ یہی وجہ تھی کہ بلے بازوں نے بہت تیزی سے رنز بنائے اور دونوں اطراف نے بڑے اسکور بنائے۔ میچ کے دوران پچ مشکل سے خراب ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ گیند بازوں کے لیے اس میں بہت کم تھا ، لہذا میں نے آئی سی سی کی ہدایات کے مطابق پچ کو 'اوسط سے کم' پایا۔
انگلینڈ نے ملتان میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کے ساتھ راولپنڈی میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سیریز میں 2-0 کی ناقابل تسخیر برتری حاصل کرلی۔ سنیچر کے سیریز کا آخری ٹیسٹ کراچی میں شروع ہو گا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx07jyew401o | ارجنٹائن بمقابلہ کروشیا: میسی کے سامنے کئی سنگ میل جبکہ کروشیا اپنا بہترین میچ کھیلنے کے لیے تیار | ارجنٹائن کے دفاعی کھلاڑی نکولس ٹیگلیافیکو کا کہنا ہے کہ لیونل میسی کی موجودگی کروشیا کے خلاف ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ارجنٹائن کو ’خصوصی برتری‘ دے گی۔
منگل کو ہونے والے سیمی فائنل کے میچ میں ارجنٹائن کو پہنچانے میں زیادہ تر میسی کی کارکردگی نظر آئی کیونکہ اس سینٹر فارورڈ کھلاڑی نے ارجنٹائن کے نو گول میں سے چار خود کیے جبکہ دو میں میسی کا بڑا تعاون رہا۔
ٹیگلیافیکو نے کہا کہ 'وہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔'
'ہمارے لیے وہ ہمارا کپتان اور ہمارا لیڈر ہے۔ وہی ہمیں آگے بڑھاتا ہے اور حوصلہ دیتا ہے۔'
میسی جب آج شب قطر کے سب سے بڑے لوسیل سٹیڈیم میں گرینچ مین ٹائم کے مطابق سنہ 2018 کے فائنلسٹ کروشیا کے خلاف سات بجے شام کو کھیلنے اتریں گے تو جرمنی کے عظیم کھلاڑی لوتھار میتھایس کا ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 25 میچ کھیلنے کا ریکارڈ برابر کریں گے۔
35 سالہ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی کے پاس دوسرے ذاتی سنگ میل بھی ہیں کیونکہ وہ اپنے پانچویں اور ممکنہ طور پر آخری ورلڈ کپ میں سنہ 1986 کے بعد ارجنٹائن کو پہلی فتح تک لے جانا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ورلڈ کپ مقابلے میں گیبریل بیتستوتا کے ساتھ ارجنٹائن کے مشترکہ سب سے زیادہ 10 گول سکور کرنے والے ہونے کے ساتھ ساتھ میسی ورلڈ کپ کے فائنلز میں ڈیاگو میراڈونا کے آٹھ کے مجموعی ریکارڈ کی برابری کرنے سے ایک گول دور ہیں۔
ٹیگلیافیکو کا مزید کہنا ہے کہ 'جب ہم میدان میں ہوتے ہیں تو وہی ہمیں خاص سبقت دلاتے ہیں۔'
'ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس میسی ہے اور یہ حوصلہ افزائی اور امید کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور اپنا بہترین دے سکتے ہیں۔ ہم میسی کو اپنے کپتان کے طور پر پا کر واقعی خوش ہیں۔
'سب کے تعاون سے ہم سب مل کر اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، اور یہ سب سے خوبصورت چیز ہے کہ ہم میسی کے ساتھ اپنی ٹیم کی طرف سے ایسا کر رہے ہیں۔'
چالیس لاکھ سے کم آبادی والے ملک کروشیا کے ہیڈ کوچ زلاٹکو ڈالک کا کہنا ہے کہ ارجنٹائن کو پیچھے چھوڑ کر لگاتار دوسری بار ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنا ان کے ملک کی فٹبال کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔
منگل کو کروشیا اگر فتحیاب ہوتی ہے تو وہ سنہ 2014 میں جرمنی کے بعد دوسری ٹیم بن جائے گی جس نے ایک ہی ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے میں برازیل اور ارجنٹائن دونوں کو شکست دی ہے۔
ڈیلک نے کہا: 'گزشتہ ورلڈ کپ [2018] میں انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میچ اب تک کا سب سے بڑا میچ تھا، برازیل کے خلاف کھیل دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
میسی کے جشن کا منفرد انداز اور ڈچ کوچ سے ’تضحیک‘ کا بدلہ
فٹبال ورلڈ کپ کے سب سے غیر متوقع سیمی فائنل، ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟
'اگر ہم کل جیت جاتے ہیں تو یہ کروشیا کے لیے اب تک کا سب سے بڑا تاریخی کھیل بن جائے گا۔
'ہم دنیا کی چار بہترین ٹیموں میں شامل ہیں۔ یہ کروشیا کے لیے ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔ لگاتار دو ورلڈ کپ میں فٹ بال کی چار بہترین قومی ٹیموں میں ہونا بہت بڑی بات ہے۔
'ہم مزید چاہتے ہیں۔ ہم عظیم ارجنٹائن کے ساتھ کھیل رہے ہیں، جو کہ لیونل میسی کی قیادت میں ایک زبردست ٹیم۔ وہ اس وقت کروشیا سے زیادہ حوصلہ مند لیکن دباؤ میں ہیں۔'
دریں اثنا ارجنٹائن کے باس لیونل اسکالونی نے کوارٹر فائنل میں نیدرلینڈز کے خلاف میچ کے دوران ان کے کھلاڑیوں کے خلاف پنلٹی شوٹ آؤٹ میں بدتمیزی اور ناقص سپورٹس مینشپ کے الزامات پر اپنے کھلاڑیوں کا دفاع کیا ہے۔
ارجنٹائن کے کھلاڑیوں نے میچ کے اختتام پر اپنے ڈچ حریفوں کا مذاق اڑایا اور اس کے بعد فیفا نے دونوں فریقوں کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی کیونکہ اس اس مقابلے میں ورلڈ کپ میں اب تک سب سے زیادہ 18 یلو کارڈز دکھائے گئے۔
اسکالونی نے کہا: 'پچھلا گیم دونوں ٹیموں نے اسی طرح کھیلا جس طرح کھیلنا تھا۔ یہی فٹبال ہے۔'
انھوں نے مزید کہا: 'کچھ گیمز میں اس طرح کی چیزیں ہوسکتی ہیں۔ تکرار ہوسکتی ہیں لیکن بس اتنا ہی ہے۔ اسی وجہ سے ایک ریفری ہوتا ہے۔
'ہمیں اس خیال کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ ارجنٹائن نے ایسا برتاؤ کیا۔ ہم سعودی عرب سے ہار گئے اور ہم نے کچھ نہیں کہا۔
'ہم نے برازیل میں کوپا امریکہ (کپ) جیتا اور [لیونل] میسی، [لیاندرو] پاریڈس، نیمار کے ساتھ سپورٹس مینشپ کا خوب تجربہ کیا، یہ سب ماراکانا [سٹیڈیم] میں ایک ساتھ اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں واقعی ان سپورٹس مینشپ کے رویے کے خیال سے متفق نہیں ہوں۔' |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cllrd03lvg5o | قطر میں کنٹینرز سے تعمیر ہونے والا سٹیڈیم کہاں گیا؟ | فیفا ورلڈ کپ 2022 کے لیے قطر میں بنائے جانے والے عارضی سٹیڈیم 974 میں دو ہفتوں میں سات میچز ہوئے اور اب ورلڈ کپ کے اس پہلے عارضی سٹیڈیم کو جلد ہی ختم کر دیا جائے گا۔
اس سٹیڈیم کا نام سٹیڈیم 974 قطر کے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ اور اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے شپنگ کنٹینرز کی تعداد کی مناسبت پر رکھا گیا۔ یہ فٹبال کے عالمی ٹورنامنٹ کے لیے بنائے گئے سات میدانوں میں سے ایک تھا۔
سٹیڈیم 974 کے سٹیل کے پورے ڈھانچے کو کسی دوسرے ورلڈ کپ یا کھیلوں کے بڑے ایونٹ کے لیے اسی سائز کے مقام یا کئی چھوٹی سہولیات کے طور پر دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔
قطر نے پہلے کاربن نیوٹرل ورلڈ کپ کی فراہمی کے اپنے عہد کے ایک حصے کے طور پر سٹیڈیم کو اپنی ’پائیداری کا روشن مینار‘ قرار دیا۔
سات نئے سٹیڈیم کے ساتھ ساتھ قطر میں ایک نیا ہوائی اڈہ، میٹرو سسٹم، سڑکیں اور تقریباً 100 نئے ہوٹل تعمیر ہوئے ہیں لیکن اس نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں کام کرنے والے دسیوں ہزار تارکین وطن کارکنوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا، اس پر قطر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سٹیڈیم 974 کو آنے والے دنوں میں فیشن شو اور کانسرٹس کے لیے استعمال کیا جائے گا جبکہ قطر 2022 کی آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کے ’مکمل طور پر ختم کرنے اور دوبارہ تیار کرنے کے لیے کوئی قطعی ٹائم لائن‘ ابھی طے نہیں کی گئی۔
تو سٹیڈیم 974 پروجیکٹ کتنا پائیدار ہے اور سٹیڈیم کو کہاں اور کب دوبارہ استعمال کیا جائے گا؟
یہ 44,089 لوگوں کو سمانے کی صلاحیت رکھنے والا سٹیڈیم 974 دوحہ کے ساحل پر واقع ہے اور یہ ایک ماڈیولر سٹیل فریم پر ٹکا ہوا ہے جس میں باہر سے مختلف رنگ کے شپنگ کنٹینرز دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں واش رومز کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے سٹال کی بھی سہولیات موجود ہیں۔
یہ ورلڈ کپ کے لیے تیار کیا جانے والا واحد سٹیڈیم تھا جس میں ایئر کنڈیشنگ نہیں تھی۔ اس لیے یہاں صرف شام کے میچوں کی میزبانی کی گئی اور یہاں آخری میچ برازیل نے جنوبی کوریا کے خلاف 5 دسمبر کو کھیل کر آخری 16 ٹیموں میں اپنی جگہ بنائی۔
شپنگ کنٹینرز اور ری سائیکل شدہ سٹیل کے استعمال نے دیگر نئے مقامات کے مقابلے میں پیدا ہونے والے فضلہ اور تعمیراتی وقت کو کم کرنے میں مدد کی۔
ماحولیات پر نظر رکھنے والے گروپ کاربن مارکیٹ واچ نے کہا کہ اگر موجودہ قابلِ استعمال ڈھانچے کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے تو اس سے کھیلوں کے بڑے ایونٹس کے لیے بولی لگائی جا سکتی ہے اور یہ ’ترقی پذیر ممالک کے لیے زیادہ قابل رسائی‘ ہوگا کیونکہ اخراجات مختلف ایڈیشن کی میزبانی کرنے والے کئی ممالک کے درمیان تقسیم ہو جائیں گے۔
سٹیڈیم 974 میں فیفا کی طرف سے کمیشن کی گئی اور کاربن کے اخراج میں کمی کے ماہرین کی طرف سے فراہم کی گئی ایک رپورٹ نے بھی اس فائدے کی طرف اشارہ کیا ہے اور مزید کہا کہ اس طرح سے سٹیڈیم زیادہ مرکزی اور ’آسانی سے قابل رسائی‘ مقامات پر تعمیر کیے جا سکتے ہیں، جس سے ٹورنامنٹ کے دوران ’انٹرا سٹی فین ٹریول‘ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
منتظمین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دوسرے سٹیڈیمز سے 170,000 نشستیں ترقی پذیر ممالک کو عطیہ کریں گے تاکہ انھیں مزید پائیدار بنانے کی کوشش کی جا سکے اور مستقبل میں ان کا استعمال کم ہونے سے بچایا جا سکے تاہم کاربن مارکیٹ واچ نے کہا کہ نشستوں یا کرسیوں کی تقسیم کے لیے انھیں ’کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں مل سکا۔‘
ماہرین ماحولیات نے قطر ورلڈ کپ کے کاربن نیوٹرل ہونے کے دعوے کو بھی ’خطرناک اور گمراہ کن‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ میں کاربن فٹ پرنٹ بتائی گئی سطح سے تین گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔
فیفا کی رپورٹ میں سٹیڈیم 974 کی تعمیر سے پیدا ہونے والے کاربن اخراج کا موازنہ چار مستقل سٹیڈیمز کے اوسط اخراج سے کیا گیا، جن کی گنجائش 40,000-45,000 ہے۔
اس نے پایا کہ عارضی سٹیڈیم مستقل سٹیڈیم میں بنیادی طور پر کنکریٹ کے استعمال کے مقابلے میں ’شروع میں دھات اور سٹیل جیسے کاربن کی شدت والے مواد کے استعمال کی وجہ سے زیادہ کاربن خارج کرتا ہے‘ لیکن اسے متعدد بار توڑا اور دوبارہ جمع کیا جاسکتا ہے۔
لہذا ابھی یہ جس طرح بنا ہے تو اس سٹیڈیم میں قطر 2022 کے لیے بنائے گئے دوسرے مستقل سٹیڈیمز کے مقابلے میں زیادہ کاربن فوٹ پرنٹ ہے۔
کاربن مارکیٹ واچ کا کہنا ہے کہ مستقل سٹیڈیمز کے مقابلے میں عارضی سٹیڈیم میں کل کاربن فٹ پرنٹ کا کم ہونا ’اس بات پر منحصر ہے کہ اس سٹیڈیم کو کتنی بار اور کتنی دور دور تک منتقل اور دوبارہ اسمبل کیا جاتا ہے۔‘
فیفا کے مطالعے نے سٹیڈیم 974 کے مستقبل کے لیے تین مختلف منظرناموں کا جائزہ لیا، جس میں اسے مختلف مقامات کی ایک سیریز میں ایک بار، دو بار یا تین بار دوبارہ استعمال کیا جانا شامل ہے۔
اس نے پایا کہ اگر عارضی سٹیڈیم کو صرف ایک بار دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، تو اسے دو مستقل سٹیڈیمز کی تعمیر سے زیادہ ’ماحولیاتی طور پر فائدہ مند‘ ہونے کے لیے ’سمندری اور سڑک کے کل سفر یعنی 7,033 کلومیٹر کے فاصلے کے اندر‘ منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس نے خطے کے اندر، یا خاص طور پر قطر میں دوبارہ تعمیر کیے جانے والے سٹیڈیم کے ماحولیاتی فوائد پر بھی روشنی ڈالی۔
اس طرح زیادہ سے زیادہ سفری اعداد و شمار دو بار استعمال کے لیے مجموعی طور پر 40,118 کلومیٹر اور تین بار کے لیے 72,616 کلومیٹر تک بڑھ جاتا ہے۔
تینوں منظرنامے اسی عارضی سٹیڈیم پر بنائے گئے ہیں، جو پہلے مقام پر چار سال گزارے گا اور اس کے بعد ہر مقام پر 60 سال کی اپنی عمر تک یہ اپنی آخری منزل پر جانے سے پہلے ہر جگہ اتنے ہی سال گزارے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ سٹیڈیم 974 کے مستقبل کے استعمال یا مقامات کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
کاربن مارکیٹ واچ نے کہا کہ اگرچہ منتظمین نے ’عارضی سٹیڈیم کی ڈسمینٹل کیے جانے کی نوعیت کو اجاگر کیا ہے، تاہم ہم کسی خاص منصوبے کی نشاندہی نہیں کرسکے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سٹیڈیم کو الگ الگ کیا جاتا ہے تو سٹیڈیم کو کہاں منتقل کیا جائے گا۔‘
ایسی اطلاعات ہیں کہ سٹیڈیم 974 یوراگوئے کو بھیجا جا سکتا ہے، جو 2030 کے ورلڈ کپ کے لیے ارجنٹائن، چلی اور پیراگوئے کے ساتھ مشترکہ بولی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔
یوراگوئے دوحہ سے تقریباً 13,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس لیے اگر عارضی سٹیڈیم کو وہاں منتقل کیا جاتا ہے، تو اسے دوبارہ تیسرے مقام پر استعمال کرنا پڑے گا تاکہ یہ ہر جگہ الگ الگ نئے سٹیڈیم بنانے سے زیادہ ماحولیات کے لیے فائدہ مند ہو۔
جب سٹیڈیم 974 کے کسی بھی ممکنہ مقامات کے بارے میں مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آرگنائزنگ کمیٹی نے کہا کہ ’قطر پہلے کاربن نیوٹرل فیفا ورلڈ کپ کی فراہمی کے راستے پر ہے۔‘
'اس کا مطلب ہے کہ بشمول آٹھ سٹیڈیمز تمام بنیادی ڈھانچے کے منصوبے کو پائیداری کے سخت معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔‘
’ان کی تعمیر کے دوران، ہم نے جہاں بھی ممکن ہو اسے ری سائیکل ہونے والے مواد سے تیار کیا اور توانائی اور پانی کی بچت کے وسیع حل کو نافذ کیا۔ اس کے علاوہ، پائیدار ذرائع سے حاصل ہونے والے مواد کا استعمال کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اختراعی ورثے کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا گیا تاکہ ٹورنامنٹ میں کوئی کمی نہ آئے اور یہ سفید ہاتھی بن کر نہ رہ جائے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgzplglk71o | یاسین بونو: وہ گول کیپر جو مراکش کا ہیرو بن گیا ہے | قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ 2022 میں مراکش کی ٹیم نے ایک خاص مقام اور اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ مراکش کی ٹیم پرتگال کو شکست دے کر سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔
مراکش کی اس کامیابی میں جو سٹار کھلاڑی سب سے نمایاں ہے وہ مراکش کے گول کیپر یاسین بونو ہیں جنھیں شائقین 'بونو' کے نام سے پکارتے ہیں۔
ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بعد سے ان کے بارے میں شائقین کا جنون عروج پر ہے۔ انھیں کسی بڑے قومی ہیرو کی طرح سراہا جا رہا ہے۔
مراکش نے ورلڈ کپ میں اب تک پانچ میچ کھیلے ہیں اور یہ ٹیم ناقابل تسخیر رہی ہے۔
ورلڈ کپ میں مراکش کا پہلا میچ کروشیا کے خلاف تھا۔ اس میں کوئی بھی ٹیم گول نہ کر سکی اور میچ برابری پر ختم ہوا۔
اس کے بعد مراکش نے بیلجیئم کو صفر کے مقابلے دو گول اور کینیڈا کو ایک کے مقابلے دو گول جبکہ اسپین کو پنالٹی شوٹ آؤٹ میں صفر کے مقابلے تین گول سے شکست دی۔
کوارٹر فائنل میں مراکش نے پرتگال کو صفر کے مقابلے ایک گول سے شکست دی۔
کینیڈا کے خلاف میچ میں مراکش کے خلاف جو گول ہوا وہ اس نے اپنے ہی خلاف گول کرلیا تھا۔ اس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو مراکش کے خلاف کوئی ٹیم اب تک رواں ورلڈ کپ میں کوئی بھی گول کرنے میں ناکام رہی، چاہے پنلٹی ہی کیوں نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مراکش کی کامیابی کا سہرا گول کیپر بونو کے سر دیا جا رہا ہے۔
31 سالہ گول کیپر یاسین بونو نے پرتگال کے خلاف فتح کے بعد کہا کہ ہم یہاں اپنی ذہنیت کو بدلنے اور احساس کمتری سے نجات کے لیے آئے ہیں۔مراکش دنیا کی کسی بھی ٹیم کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، سیمی فائنل میں بھی اور اس کے بعد کے مقابلے میں بھی۔'
بونو کی نمایا کارکردگی سپین کے خلاف نظر آئی جب انھوں نے پنلٹی شوٹ آؤٹ میں ایک بھی گول نہیں ہونے دیا۔ اس سے قبل 130 منٹ کے میچ کے دوران اسپین کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی حملے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس میچ کے بعد اسپین کی ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہو گئی اور یہ میچ مراکش کی فٹبال کی تاریخ میں درج ہو گیا۔
بونو نے کہا کہ ہم نے اس (شکست خوردگی کی) ذہنیت کو بدل دیا ہے اور ہمارے بعد آنے والی کھلاڑیوں کی نسل کو معلوم ہو جائے گا کہ مراکشی کھلاڑی کمال کر سکتے ہیں۔
گول کیپر بونو نے اپنے کریئر کا ایک اہم حصہ اسپین میں گزارا ہے اور وہ سیویا فٹ بال کے گول کیپر رہے ہیں۔
بونو کو سنہ 2022 میں فرانس کی باوقار یاسین ٹرافی سے نوازا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ دنیا کے بہترین گول کیپر کو دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ روس کے گول کیپر لیو یاسین کے نام پر دیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے کے بعد انھیں دنیا کا نواں بہترین گول کیپر بھی قرار دیا گیا۔
بونو کو اسپین کی باوقار زمورا ٹرافی سے بھی نوازا گیا۔ اسپین میں یہ ایوارڈ اس گول کیپر کو دیا جاتا ہے جو ایک سال میں سب سے کم گول ہونے دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مراکش کے کوچ کی وہ حکمتِ عملی جو ورلڈ کپ میں سپین کے خلاف اہم کامیابی کا باعث بنی
فٹبال ورلڈ کپ: انگلینڈ کا شاندار آغاز، ایران کا مایوس کن کھیل
بونو کو یہ ایوارڈ سنہ 22-2021 کے سیزن کے لیے دیا گیا تھا۔
اگست 2020 میں سیویلے کے لیے کھیلتے ہوئے بونو نے شاندار گول کیپنگ کی، ان کی ٹیم نے مانچسٹر یونائیٹڈ کے خلاف میچ 2-1 سے جیتا۔ اس کے ساتھ سیویا نے اپنا چھٹا یورپی لیگ ٹائٹل جیت لیا۔
یاسین بونو اپنے ملک مراکش سے بہت دور کینیڈا کے شہر مونٹریال میں پیدا ہوئے۔ وہ سات سال کی عمر میں مراکش واپس لوٹ آئے۔
انھیں بچپن سے ہی فٹبال میں دلچسپی تھی لیکن ان کے والد ان کے اس کھیل کے شوق کے خلاف تھے۔ بونو نے ویداد کیسابلینکا کے لیے کھیلنا شروع کیا اور ایک پیشہ ور فٹبالر بننے پر توجہ مرکوز کی۔
ارجنٹائن ٹیم کے پرستار
انھوں نے مراکش کو اس وقت چھوڑ دیا جب ہسپانوی فٹ بال کلب ایٹلیٹیکو ڈی میڈرڈ نے اسے سائن کیا۔ لیکن اس کلب کے ساتھ ان کا تجربہ زیادہ اچھا نہیں رہا اور انھوں نے کلب چھوڑ دیا۔
اس کے بعد وہ دو سیزن (2014–16) تک زمورا کے ساتھ رہے اور پھر 2016–2019 تک گیرونا فٹ بال کلب کا حصہ رہے۔ اس کے بعد وہ سیویا پہنچ گئے۔
اگرچہ بونو کا تعلق اسپین کے فٹبال کلبوں سے رہا لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ ارجنٹائن کی فٹ بال کے بہت بڑے مداح ہیں۔
چند سال پہلے بونو نے کہا تھا کہ 'پہلی ٹی شرٹ جو میرے والد نے مجھے دی تھی وہ ارجنٹائن کی تھی۔'
بونو کی زبان پر بھی ارجنٹائن کی کے بولی کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ 'میں ہر چیز سے زیادہ مراکشی ہوں، جب میں اسپین پہنچا تو میں ارجنٹائن کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، اور میری زبان ان کی بولی سے متاثر ہوئی تھی۔'
بونو کے پسندیدہ کھلاڑی ارجنٹائن کے ایریل اورٹیگا ہیں جنھیں 'ایل برریٹو اورٹیگا' بھی کہا جاتا ہے۔ ایک بار بونو نے بتایا کہ وہ اپنے کتے کو بہت شوق سے ایریل کہتے ہیں۔
فٹبال ورلڈ کپ میں اب دنیا کی نظریں مراکش پر ہیں جو سیمی فائنل میں فرانس کے مدمقابل ہوگی۔
دوسرا سیمی فائنل کروشیا اور ارجنٹائن کے درمیان ہونا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بونو کا ارجنٹائن کے خلاف کھیلنے کا کوئی امکان رہتا ہے؟ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgzpx0e2e4o | سمیع چوہدری کا کالم: علیم ڈار پورے کھیل پہ بھاری پڑ گئے | لگ بھگ دو صدیوں پہ پھیلی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا درس یہ ہے کہ کھیل سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ آسٹریلوی بلے باز کرس لِن کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی حد سے آگے بڑھ کر کھیل پہ حاوی ہونے کی کوشش کرے تو پھر کھیل اپنے ہی طریقوں سے لپک کر جوابی وار کرتا ہے۔
آنجہانی شین وارن نے ایک بار علیم ڈار کی امپائرنگ پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بولر یا بلے باز بری فارم دکھلائے تو اسے ٹیم سے ڈراپ کر دیا جاتا ہے مگر امپائرز جب متواتر بری فارم دکھلا رہے ہوں تو بھی اس پہ کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
بہرحال آئی سی سی کے ہاں امپائرز کی کارکردگی جانچنے کے پیمانے موجود ہیں اور باقاعدہ درجہ بندی طے کرنے کا ایک ریٹنگ سسٹم بھی متحرک رہتا ہے۔ علاوہ ازیں، مدِ مقابل ٹیموں کو بھی یہ سہولت میسر ہوتی ہے کہ میچ کے بعد ریفری کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں اپنے گلے شکوے بیان کریں۔
مگر کرکٹ کی حالیہ تاریخ میں شاذ ہی کسی امپائر کی فیصلہ کن غلطیوں پہ کوئی واضح کارروائی سامنے آئی ہے۔ میچز کے انتظامی معاملات میں پلئینگ کنڈیشنز کے غلط تعین پہ اکا دکا کارروائیوں کے سوا، کرکٹنگ فیصلوں پہ کبھی کوئی قابلِ ذکر ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ علیم ڈار اعلیٰ پائے کے امپائر رہے ہیں اور آئی سی سی کے بہترین امپائر بھی قرار دیے جا چکے مگر انسان اور نسیان کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ بجا کہ بہترین فیصلہ ساز بھی مشکل ترین لمحات میں غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں مگر کرکٹ جیسے کھیل میں ایسی غلطیاں نتائج کا حلیہ بدل دیتی ہیں۔
چیمپئینز ٹرافی 2009 میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں جب پاکستان ایک تگڑا ہدف ترتیب دینے کی سمت رواں تھا، عمر اکمل بہترین فارم میں تھے اور آئی سی سی کے بہترین امپائر سائمن ٹوفل ان کی اننگز کی نگرانی کر رہے تھے۔ ٹوفل نے ایک ایل بی ڈبلیو اپیل پہ عمر اکمل کو بے جا آؤٹ قرار دے دیا اور پاکستانی اننگز کا شیرازہ بکھر گیا۔
میچ کے اگلے روز سائمن ٹوفل نے ذاتی حیثیت میں عمر اکمل سے ملاقات کر کے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معذرت بھی طلب کی۔ اگرچہ اس معذرت کی خبر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ نشر ہوئی مگر وہ معذرت پاکستان کو ٹورنامنٹ میں واپس نہ لا پائی۔
قصور مگر محض امپائرز ہی کا نہیں، آئی سی سی کہیں زیادہ شریکِ جرم ہے۔ جہاں ہر سال ڈیڑھ بعد درجنوں قوانین بدلے جاتے ہیں اور کھیل کی بہتری کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے وہاں سافٹ سگنل جیسے بے سر و پا قانون پہ نظرِثانی کیوں نہیں ہو پاتی؟ یہ امر بجائے خود مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف امپائر اپنے مخمصے کا اعتراف کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی سے رجوع کر رہا ہے اور دوسری طرف اس پہ اپنا 'خیال' بھی صادر کر رہا ہے۔
امپائرز کے فیصلوں پہ نظرِ ثانی کے لیے ڈی آر ایس سسٹم متعارف کرانے کی غایت ہی یہ تھی کہ متنازع فیصلوں سے متاثر ہونے والے کھیل کے حسن کو بحال کیا جا سکے مگر امپائرز کال اور سافٹ سگنل جیسے قوانین نے اس سارے نظام کی روح کو شرما دیا ہے۔
آئی پی ایل سنہ 2021 سے آن فیلڈ امپائر کے سافٹ سگنل کا قانون ختم کر چکی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان قوانین پہ تنقید کے جواب میں آئی سی سی کی عمومی دلیل یہ رہی ہے کہ امپائرز بھی انسان ہیں اور انسانی بھول چوک کی گنجائش باقی رہنی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب آف سٹمپ سے باہر جاتی گیند پہ بلے باز سے کوئی خفیف سی خطا ہوتی ہے اور بلے کے باہری کنارے کا ایک ایسا کھدرا گیند سے چھیڑخانی کر جاتا ہے جو نہ تو امپائر کی نظر میں آ پاتی ہے اور نہ ہی سٹمپ مائیک پہ کچھ سنائی دیتا ہے مگر جونہی وہ اپیل ریویو میں جاتی ہے، نہ تو ٹیکنالوجی بلے باز کو کوئی شبہے کا فائدہ دے پاتی ہے اور نہ ہی انسانی بنیادوں پہ آئی سی سی کوئی گنجائش پیدا کرتی ہے۔
بعینہٖ جب ایک بولر سے ہلکی سی بھول ہوتی ہے اور اس کا فرنٹ فٹ کریز کی سفید لکیر کے عین اوپر جا پڑتا ہے جہاں اس کے جواز کا تعین کلی طور پہ امپائر کی صوابدید سے مشروط ہو جاتا ہے، وہاں اسے بھی کسی انسانی غلطی کی گنجائش میسر نہیں کی جاتی۔
مگر امپائر کو انسانی غلطی کی گنجائش کا فائدہ پہنچا کر آئی سی سی امپائر کو کھیل سے عظیم ثابت کرنے کی غیر شعوری کوشش میں محو نظر آتی ہے۔
بنی نوعِ انسان کی ایجاد کردہ کھیلوں میں ٹیسٹ کرکٹ وہ انوکھا کھیل ہے جس کے حسن کا تقابل کسی دوسری شے سے ممکن ہی نہیں۔ گیند اور بلے کی اس پانچ روزہ مڈھ بھیڑ میں اگر چار پانچ روز کی بہترین کرکٹ کا اختتامی نوٹ ایک ناقابلِ توجیہہ فیصلے کی بھینٹ چڑھ جائے تو یہ امر بجائے خود ٹیسٹ کرکٹ کے لیے کسی اہانت سے کم نہیں۔
اینڈرسن اور رابنس نے پہلے نئے گیند کے ساتھ جو شاندار سپیل پھینکے اور ملتان کی وکٹ کی دراڑوں کو نشانہ بنایا، وہ صرف بابر اعظم اور محمد رضوان ہی نہیں، پوری دنیائے کرکٹ کے لیے ایک نظارہ تھا۔ کرِک انفو کے تجزیہ کار اینڈریو میکگلیشن ایڈیلیڈ کے پریس باکس میں بیٹھے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے مابین میچ دیکھ رہے تھے مگر اینڈرسن کی اس گیند کے بعد ایڈیلیڈ کے پریس باکس کی توجہ کا رخ بھی ملتان کو ہو گیا۔
انگلش پیس کی اس ابتدائی یلغار کے بعد بہت سے کرکٹ شائقین کی طرح بین سٹوکس بھی پر امید تھے کہ پاکستانی بیٹنگ پہلی اننگز کی کارکردگی دہرائے گی مگر سعود شکیل کے اعصاب تمام خدشات پہ بھاری پڑ گئے۔ امام الحق کے ساتھ پارٹنرشپ میں انھوں نے بھرپور عزم کے ساتھ اس انھونی کو ٹالا جو عموماً ایسے مظاہر میں پاکستان کے لیے نوشتۂ دیوار ہو جاتی ہے۔
سعود شکیل کی اننگز کسی بھی نوجوان بلے باز کے لیے ایک سبق تھی کہ چوتھی اننگز میں دنیا کے تجربہ کار ترین فاسٹ بولر کی یلغار کے سامنے کیسے ڈسپلن سے ڈٹا جا سکتا ہے۔ اس سیریز میں مجموعی طور پہ پاکستانی بیٹنگ نے پیسرز کی بجائے سپنرز کے خلاف زیادہ سہولت سے بیٹنگ کی ہے مگر بابر اعظم اور سعود شکیل دو ایسے بلے باز ہیں جنھوں نے پیس پہ بھرپور گرفت اور مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔
محمد نواز کے جوابی وار نے جب بین سٹوکس کی حکمتِ عملی کو پسپا کرنا شروع کیا تو جیت پاکستان کے دروازے پہ دستک دینے کو تھی۔ سعود شکیل بھی آج صبح جب میدان میں اترے تو وہ میچ کو اختتام تک پہنچانے کے عزم سے معمور تھے۔
محمد نواز کی اننگز نے ان کا کام اور سہل کر دیا تھا۔ یہ طے تھا کہ اگر سعود آخری گیند تک کریز پہ موجود رہتے تو میچ کا نتیجہ یکسر مختلف ہوتا۔ مگر علیم ڈار کے اس متنازع فیصلے نے سیلِ رواں کے رستے کھول دیے اور باقی ماندہ پاکستانی اننگز، نئی گیند اور مارک ووڈ کے طفیل، تین وکٹوں کے عوض محض 37 رنز جوڑ پائی۔
عین ممکن ہے کہ اگرعلیم ڈار وہ متنازع فیصلہ صادر نہ فرماتے تو بھی مارک ووڈ، اینڈرسن اور روبنسن اپنی پیس کا جادو جگا کر سیریز اپنے نام کر لیتے۔ مگر علیم ڈار کے اس متنازع فیصلے نے صرف ٹیسٹ کرکٹ ہی نہیں، اس یادگار انگلش جیت کا حسن بھی گہنا دیا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nr5lw4y4wo | انگلینڈ ملتان ٹیسٹ کا بھی فاتح، سعود شکیل کا متنازع آؤٹ جو میچ نتیجے پر بھاری ثابت ہوا | پاکستان کے شہر ملتان میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو 26 رنز سے شکست دے کر ٹیسٹ سیریز اپنی نام کر لی ہے۔
ملتان ٹیسٹ کے چوتھے روز پاکستانی ٹیم 355 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 328 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔
میچ کے چوتھے روز پاکستانی بیٹنگ لائن اپ ہدف کے تعاقب میں مشکلات کا شکار رہی۔
پاکستان نے چوتھے روز اپنی اننگز کا آغاز چار وکٹوں کے نقصان پر 198 رنز سے کیا تھا۔
آج پہلے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی فہیم اشرف تھے جو صرف 10 رنز بنا کر جو روٹ کا شکار بنے۔
دوسرے اینڈ پر سعود شکیل بیٹنگ کر رہے تھے جنھوں نے رنز بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور آل راؤنڈر محمد نواز کے ہمراہ ایک اچھی پارٹنر شپ بنا کر قومی ٹیم کی جیت کی امید جگائی لیکن پھر محمد نواز 45 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔
جس کے بعد سعود شکیل بھی زیادہ دیر وکٹ پر ٹھہر نہ سکے اور 94 رنز کی فائٹنگ اننگز کھیل کر پویلین لوٹ گئے۔
ان کے بعد آنے والے آغا سلمان اور ابرار احمد بھی ہدف کے تعاقب میں کامیاب نہ ہو سکے، اگرچہ ابرار نے تیز کھیلتے ہوئے انگلش بولرز کے سامنے کچھ مزاحمت کی کوشش کی مگر وہ جلد ہی اینڈرسن کا شکار ہو کر پویلین لوٹ گئے۔
چوتھے روز پاکستان کو سب سے بڑا نقصان سعود شکیل کے متنازعہ آؤٹ کی صورت میں اٹھانا پڑا جو کہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ملتان ٹیسٹ کے چوتھے روز پاکستانی بلے باز سعود شکیل کو تھرڈ امپائر کی جانب سے آؤٹ قرار دیے جانے کے فیصلے پر سوشل میڈیا پر سوالات اٹھ گئے۔
چوتھے روز کھانے کے وقفے سے پہلے آخری اوور میں سعود شکیل 94 رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے کہ مارک ووڈ کی ایک گیند سعود شکیل کے بیٹ کو چھوتی ہوئی وکٹوں کے پیچھے گئی جسے اولی پوپ نے ڈائیو لگاتے ہوئے کیچ کر لیا۔
انگلش بولر، وکٹ کیپر اور دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے کیچ آؤٹ کی اپیل کی گئی تاہم امپائر علیم ڈار نے فیصلہ تھرڈ امپائر پر چھوڑ دیا۔
تھرڈ امپائر نے کئی بار ویڈیو کو غور سے دیکھنے کے بعد سعود شکیل کو آؤٹ قرار دیا۔
سعود شکیل 94 رنز پر بیٹنگ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری کے انتہائی قریب تھے بلکہ ملتان میں پاکستان انگلینڈ کے خلاف جیت سے محض 60 رنز دور تھا۔
مگر انگلش پیسر مارک ووڈ کی لیگ سٹمپ کے باہر تیز گیند کو گلانس کرنے کی کوشش میں ان کے بلے سے ایج لگی اور گیند وکٹ کیپر اولی پوپ کے گلووز میں۔
انگلینڈ کی اپیل پر امپائر علیم ڈار نے سافٹ سگنل آؤٹ دیتے ہوئے حتمی فیصلہ ٹی وی امپائر جو ولسن پر چھوڑ دیا۔
ری پلے میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ گیند اولی پوپ کے گلووز میں تھی اور اسی دوران زمین کو بھی چھو رہی تھی۔
ایم سی سی قوانین کے مطابق بلے باز اس وقت آوٹ قرار دیا جاتا ہے جب گیند اس کے بلے کو چھونے کے بعد زمین پر لگنے سے پہلے ہی کیچ کر لی جائے یعنی اگر گیند زمین پر لگ جائے تو ناٹ قرار دیا جاتا ہے۔
مگر اس موقع پر ٹی وی امپائر نے علیم ڈار کا فیصلہ برقرار رکھا تاہم سعود شکیل کو آؤٹ قرار دیے جانے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر اسے متنازع کیچ قرار دے کر کہا گیا کہ شک کا فائدہ بلے باز کو جانا چاہیے تھا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
سابق پاکستانی وکٹ کیپر کامران اکمل کہتے ہیں کہ ’میری رائے میں سعود شکیل آؤٹ نہیں ہوئے تھے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے لکھا کہ ’مجھے لگا تھا کہ میں نے گیند کا کچھ حصہ گراؤنڈ پر لگتا دیکھا۔‘
اسی طرح کمنٹری باکس میں مائیکل ایتھرٹن نے کہا کہ ’آپ اس کا جواز پیش کر سکتے ہیں کہ گیند گلووز میں تھی مگر گلووز پوری طرح گیند کے نیچے نہیں تھے اور گیند کا کچھ حصہ گھاس کو چھو رہا تھا۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
جبکہ پاکستان کے سابق فاسٹ بولر وقار یونس اور کرکٹ کمنٹیٹر زنیب عباس نے بھی کہا کہ ’سعود شکیل واضح طور پر ناٹ آؤٹ تھے۔‘
ملتان میں جاری دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز انگلینڈ کے 355 رنز کے تعاقب میں پاکستان نے چار وکٹوں کے نقصان پر 198رنز بنائے تھے اور پاکستان کو جیت کے لیے مزید 157 رنز درکار تھے۔
اس سے قبل انگلینڈ کی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں 275 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی اور یوں پاکستان کو جیت کے لیے 355 رنز کا ہدف ملا تھا۔
تیسرے روز کے اختتام پر پاکستان کی جانب سے فہیم اشرف اور سعود شکیل کریز موجود تھے اور دونوں نے بالترتیب تین اور 54 رنز بنائے تھے۔
امام الحق کی انجری کے باعث پاکستان کی جانب سے دوسری اننگز میں اوپننگ کے لیے عبد اللہ شفیق کے ساتھ محمد رضوان آئے تھے۔
پاکستان نے 355 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پراعتماد آغاز کرتے ہوئے بغیر کسی نقصان کے 66 رنز بنائے تھے۔
محمد رضوان نے محتاط انداز میں کھیل کا آغاز کیا اور 30 رنز بنا کر اینڈرسن کی گیند پر بولڈ ہوئے جبکہ کپتان بابر اعظم اولی روبنسن کی شاندار ان سوئنگ پر ایک رن بنا کر بولڈ ہوئے، عبد اللہ شفیق 45 رنز بنا کر مارک وڈ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔
پاکستان کی تیسری وکٹ 83 کے مجموعی سکور پر گری۔
ان کے بعد آنے والے کھلاڑی امام الحق اور سعود شکیل نے وکٹ پر جم کر کھیلا اور دونوں نے اپنی ففٹی مکمل کی۔چائے کے وقفے تک پاکستانی بیٹسمین نے تین وکٹوں کے نقصان پر 136 رنز بنا لیے تھے۔
چائے کے وقفے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور تیسرے دن کے آخری سیشن میں امام الحق کی وکٹ لینے میں کامیاب ہو گئی۔ اور پاکستان کی چوتھی وکٹ 191 کے مجموعی سکور پر گری۔ امام الحق 60 رنز کے انفرادی سکور پر لیچ کی گیند پر وکٹ کے پیچھے جو روٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
ملتان ٹیسٹ کے تیسرے روز انگلینڈ نے اپنی دوسری نامکمل اننگز کا آغاز 202 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ کیا تو ہیری بروک 74 اور بین سٹوکس 16 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود تھے۔
تاہم انگلینڈ کی پانچ وکٹیں اپنے گزشتہ روز کے مجموعی سکور میں صرف 73 رنز کا اضافہ کر پائیں اور پوری ٹیم 275 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
اتوار کو تیسرے روز کھیل کے آغاز پر ہیری بروکس نے سیریز میں زبردست فارم کا سلسلہ جاری رکھا اور نصف سنچری کو سنچری میں بدل دیا، وہ 108 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، انھیں زاہد محمود نے آؤٹ کیا۔ تیسرے روز پہلے آؤٹ ہونے والے انگلش کھلاڑی بین سٹوکس تھے جو 41 رنز بنا کر نواز کی گیند پر محمد علی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
ان کے علاوہ اولی روبنسن تین، مارک وڈ چھ، جیمز اینڈرسن چھ رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
ملتان ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کے کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کی ٹیم نے پانچ وکٹوں پر 202 رنز بنا کر مجموعی برتری 281 رنز کرلی تھی جبکہ اس سے قبل پاکستان کی ٹیم بابر اعظم اور سعود شکیل کی نصف سنچریوں کے باوجود 79 رنز کے خسارے کے ساتھ 202 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔
انگلینڈ کے زیک کرالی تین، بین ڈکٹ 79، ول جیکس چار، اولی پوپ چار ، جو روٹ 21 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ ابرار احمد نے 3 وکٹ لیں جب کہ زیک کرالی اور اولی پوپ کو رن آؤٹ کیا گیا۔
اس سے قبل پاکستانی ٹیم پہلے سیشن میں انگلینڈ کے 281 رنز کے جواب میں محض 202 رنز بناکر آل آؤٹ ہو گئی تھی۔
قومی ٹیم نے دو وکٹوں کے نقصان پر 107 سے اننگز کا آغاز کیا لیکن پاکستان کے اٹھ بیٹرز دوسرے روز محض 95 رنز مجموعی سکور میں جوڑ سکے۔
کپتان بابراعظم 75 ، سعود شکیل 63 ، محمد رضوان 10، آغا سلمان چار، محمد نواز ایک جبکہ محمد علی صفر پر آؤٹ ہوئے، فہیم اشرف 22، زاہد محمود صفر جبکہ ابرار احمد نے ناقابل شکست سات رنز بنائے۔
انگلینڈ کی جانب سے جیک لیچ نے چار، جو روٹ نے دو جب کہ اولی روبنسن اور جیمز اینڈرسن نے ایک ایک وکٹ لی۔
ملتان ٹیسٹ کا پہلا روز پاکستانی مداحوں کے لیے کافی اچھا رہا کیونکہ ڈیبیو کرنے والے ابرار احمد نے انگلش ٹیم کے سات کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی، ابرار نے ڈیبیو ٹیسٹ میں جن بیٹرز کو آؤٹ کیا ان میں زیک کرالی، بین ڈکٹ، اولی پوپ، جو روٹ، ہیری بروک، کپتان بین سٹوکس اور ول جیکس شامل تھے۔
ابرار احمد نے ملتان ٹیسٹ سے ڈیبیو کیا اور وہ ٹیسٹ ڈیبیو پر سب سے زیادہ 11 وکٹیں لینے والے پاکستانی سپنر بن گئے ہیں۔
اس کے علاوہ زاہد محمود نے اولی روبنسن، جیک لیچ اور جیمز اینڈرسن کی وکٹیں حاصل کیں۔ قومی ٹیم کی بیٹنگ کے آغاز پر اوپنر امام الحق صفر جب کہ عبداللہ شفیق 14پر آؤٹ ہوئے۔
کپتان بابراعظم اور سعود شکیل نے 90 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی تاہم بابر 75 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c727qvwv45zo | فٹبال ورلڈ کپ کے سب سے غیر متوقع سیمی فائنل، ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ | قطر میں جاری فٹبال ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں فرانس کے خلاف شکست سے انگلینڈ کا خواب ادھورا رہ گیا۔
مگر اب سیمی فائنل میں چار ٹیمیں پہنچ گئی ہیں: ارجنٹائن، کروشیا، فرانس اور مراکش۔ ہر ایک کو امید ہے کہ وہ اگلے ہفتے یہ ٹرافی اٹھائیں گے۔
یہ ایسے سیمی فائنلز ہیں جن کی شاید ہی کسی نے توقع کی ہو گی مگر سیمی فائنل تک پہنچنے کی سب کی اپنی اپنی دلچسپ کہانی ہے۔
لوگوں کی کسی دوسری ٹیم سے امید ہو نہ ہو مگر ارجنٹائن اور لیونل میسی کا سیمی فائنل تک پہنچنا بہت سے لوگوں نے بھانپ لیا ہوگا۔
لیکن کیا وہ پہلی بار ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھا سکیں گے، اس کے جواب کے لیے ہمیں کچھ دن انتظار کرنا ہوگا۔
میسی کا شاندار کیریئر ان کی محنت کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے 10 مرتبہ ہسپانوی لیگ کا ٹائٹل، چار چیمپیئنز لیگ، 2021 کا کوپا امریکہ اور سات بار بہترین فٹبال کھلاڑی کا اعزاز ’بیلن ڈی اور‘ جیتا ہے۔
مگر اپنے وقتوں کے عظیم کھلاڑیوں، جیسے برازیل کے پیلے اور ارجنٹائن کے ڈیاگو میراڈونا، کی طرح وہ اس کھیل کا سب سے بڑا انعام تاحال نہیں جیت پائے۔
36 برس قبل میراڈونا کی قیادت میں ارجٹائن نے اپنا آخری ورلڈ کپ جیتا تھا۔ مگر 2014 میں میسی کی ٹیم فائنل میں جرمنی سے ہار گئی تھی۔
چاہے میسی نے کتنے ہی اعزازات اپنے نام کیے مگر ان عظیم فٹبالرز کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے ان کا ورلڈ کپ جیتنا بے انتہا ضروری ہے۔
مراکش کی ٹیم نے پہلے ہی تاریخ رقم کر دی ہے۔ وہ فٹبال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی افریقی اور مسلم اکثریتی عرب ٹیم ہے۔
یہ ایک تجربہ کار ٹیم ہے، جس میں کئی ہائی پروفائل کھلاڑی شامل ہیں۔ جیسے چیلسی کے حکیم زیاش اور پی ایس جے کے اشرف حکیمی۔ مگر توقعات کے برعکس ’ایٹلس لائنز‘ کی ٹیم نے سیمی فائنل میں پہنچ کر سب کو حیران کر دیا۔
وہ ایسے گروپ میں سرفہرست تھے جس میں کروشیا اور بیلجیئم بھی تھے۔ انھوں نے آخری 16 ٹیموں کے راؤنڈ میں سپین کو ہرایا، پھر کوارٹر فائنل میں رونالڈو اور پرتگال کو۔ اب انھیں مزید آگے جانے کی امید ہے۔
ان کی کامیابی کا راز دفاعی حکمت عملی اور زیادہ ورک ریٹ (اس وقت بھی فٹبال کا تعاقب کرنا اور اس کے پیچھے جب یہ حریف ٹیم کے پاس ہو) ہے۔ قطر میں اب تک کسی بھی ٹیم نے مراکش کے خلاف گول نہیں کیا۔ انھوں نے کینیڈا کے خلاف اون گول کیا تھا۔
مراکش ایسی ٹیم بن گئی ہے جسے ٹورنامنٹ کے دوران لاکھوں نئے فینز کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ منتظمین کہتے ہیں کہ یہ ورلڈ کپ صرف قطر کے بارے میں نہیں بلکہ یہ مشرق وسطی اور تمام مسلمانوں کے اتحاد کی علامت ہے۔
مگر کیا منگل کو مراکش کے کھلاڑی پھر سے اپنے منفرد انداز میں جشن مناتے نظر آئیں گے؟
یہ بھی پڑھیے
مراکش سیمی فائنل میں: ’کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں؟‘
مراکش کے کوچ کی وہ حکمتِ عملی جو ورلڈ کپ میں سپین کے خلاف اہم کامیابی کا باعث بنی
مراکش نے تو بلے بلے کروا دی، وسعت اللہ خان کا کالم
مراکش اور ورلڈ کپ کے فائنل کے بیچ فرانس کھڑا ہے جو کہ یورپ کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔
برازیل نے 1962 میں پہلی بار مینز فٹبال ورلڈ کپ کا کامیاب دفاع کیا تھا اور اب 60 سال بعد فرانس یہی دہرانا چاہتا ہے۔
اگرچہ دفاعی چیمپیئن کو حالیہ برسوں میں مشکلات درپیش رہی ہیں تاہم ماضی کی فاتح ٹیمیں اٹلی، سپین اور جرمنی جلدی باہر ہوگئی ہیں۔ اور فرانس بچ بچا کر سیمی فائنل میں آگیا ہے۔
سنیچر کو فرانس نے انگلینڈ کو ہرایا اور وہ 1998 میں برازیل کے بعد سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی دفاعی ٹیم بنے۔
ان کے مینیجر دیدیہ دشان کا پورا دھیان مراکش کے خلاف منصوبہ بندی پر ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ دوبارہ فائنل میں پہنچ جائیں گے تو ان کا جواب تھا کہ وہ ابھی سیمی فائنل کھیلنے جا رہے ہیں اور فی الحال اسی پر ان کی تمام تر توجہ ہے۔
ہم 2018 کا فائنل دوبارہ دیکھ سکتے ہیں اگر فرانس نے مراکش کو اور کروشیا نے ارجنٹائن کو ہرایا۔ 2018 میں بھی فرانس اور کروشیا کے بیچ فائنل دیکھا گیا تھا جس میں فرانس نے فتح حاصل کی تھی۔
اس بار بھی کروشیا نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے پھر سے آخری چار ٹیموں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔
چار سال قبل انھوں نے پینلٹیوں پر ڈنمارک اور روس کو ہرایا تھا۔ اور رواں سال انھوں نے جاپان اور برازیل کے خلاف پینلٹیاں جیتی ہیں۔
انھوں نے 24 سال قبل اپنا آخری ورلڈ کپ جیتا تھا جب 1998 کے کوارٹر فائنلز میں انھوں نے جرمنی کے خلاف تین صفر کی فتح حاصل کی تھی۔
کروشیا کے 37 سال کے مڈ فیلڈر لوکا موڈرک نے رواں سال سبھی کو متاثر کیا ہے۔ ایکسٹرا منٹس کے باوجود وہ مکمل فِٹ نظر آئے ہیں۔
2018 میں ورلڈ کپ گروپ سٹیج کے دوران ارجنٹائن کروشیا کے خلاف تین صفر سے ہار گیا تھا۔ وہ کبھی بھی کروشیا کو خود سے کم نہیں سمجھے گا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkjpernj5do | ملتان ٹیسٹ: امام کی ففٹی، پاکستان کو جیت کے لیے مزید 157 رنز درکار | ملتان میں جاری دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز انگلینڈ کے 355 رنز کے تعاقب میں پاکستان نے چار وکٹوں کے نقصان پر 198رنز بنا لیے ہیں۔ پاکستان کو جیت کے لیے مزید 157 رنز درکار ہیں۔
اس سے قبل انگلینڈ کی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں 275 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی اور یوں پاکستان کو جیت کے لیے 355 رنز کا ہدف ملا تھا۔
امام الحق کی انجری کے باعث پاکستان کی جانب سے دوسری اننگز میں اوپننگ کے لیے عبد اللہ شفیق کے ساتھ محمد رضوان آئے تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے مطابق امام الحق کو ٹانگ میں تکلیف کے باعث ہسپتال لے جایا گیا تھا، امام الحق دائیں ٹانگ میں ہیم سٹرنگ کی تکلیف محسوس کر رہے تھے جس کے باعث انھیں ایم آر آئی سکین کے لیے لے جایا گیا۔
پاکستان نے 355 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پراعتماد آغاز کرتے ہوئے بغیر کسی نقصان کے 66 رنز بنائے تھے۔
محمد رضوان نے محتاط انداز میں کھیل کا آغاز کیا اور 30 رنز بنا کر اینڈرسن کی گیند پر بولڈ ہوئے جبکہ کپتان بابر اعظم اولی روبنسن کی شاندار ان سوئنگ پر ایک رن بنا کر بولڈ ہوئے، عبد اللہ شفیق 45 رنز بنا کر مارک وڈ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔
پاکستان کی تیسری وکٹ 83 کے مجموعی سکور پر گری۔
ان کے بعد آنے والے کھلاڑی امام الحق اور سعود شکیل نے وکٹ پر جم کر کھیلا اور دونوں نے اپنی ففٹی مکمل کی۔چائے کے وقفے تک پاکستانی بیٹسمین نے تین وکٹوں کے نقصان پر 136 رنز بنا لیے تھے۔
چائے کے وقفے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور تیسرے دن کے آخری سیشن میں امام الحق کی وکٹ لینے میں کامیاب ہو گئی۔ اور پاکستان کی چوتھی وکٹ 191 کے مجموعی سکور پر گری۔ امام الحق 60 رنز کے انفرادی سکور پر لیچ کی گیند پر وکٹ کے پیچھے جو روٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
ان کے بعد آنے والے فہیم اشرف نے انتہائی محتاط انداز میں وکٹ کو روکے رکھا۔ تیسرے دن کے کھیل کے اختتام پر سعود شکیل 54 رنز جبکہ فہیم اشرف تین رنز بنا کر کریز پر موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سمیع چوہدری کا کالم: اس احتیاط کو خود علاج درکار ہے
ملتان ٹیسٹ کا دوسرا روز: پاکستانی بیٹنگ پھر ناکام، انگلینڈ اب بھی ابرار کی جادوئی بولنگ کا شکار
’پی سی بی نے شکست کے ڈر سے ڈیڈ پچ بنائی، اس پر بھی انگلش پیسرز نے نو وکٹیں اڑا دیں‘
ملتان ٹیسٹ کے تیسرے روز انگلینڈ نے اپنی دوسری نامکمل اننگز کا آغاز 202 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ کیا تو ہیری بروک 74 اور بین سٹوکس 16 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود تھے۔
تاہم انگلینڈ کی پانچ وکٹیں اپنے گزشتہ روز کے مجموعی سکور میں صرف 73 رنز کا اضافہ کر پائیں اور پوری ٹیم 275 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
اتوار کو تیسرے روز کھیل کے آغاز پر ہیری بروکس نے سیریز میں زبردست فارم کا سلسلہ جاری رکھا اور نصف سنچری کو سنچری میں بدل دیا، وہ 108 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، انھیں زاہد محمود نے آؤٹ کیا۔ تیسرے روز پہلے آؤٹ ہونے والے انگلش کھلاڑی بین سٹوکس تھے جو 41 رنز بنا کر نواز کی گیند پر محمد علی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔
ان کے علاوہ اولی روبنسن تین، مارک وڈ چھ، جیمز اینڈرسن چھ رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
گزشتہ روز کھیل کے اختتام تک انگلینڈ کی ٹیم نے پانچ وکٹوں پر 202 رنز بنا کر مجموعی برتری 281 رنز کرلی تھی جبکہ اس سے قبل پاکستان کی ٹیم بابر اعظم اور سعود شکیل کی نصف سنچریوں کے باوجود 79 رنز کے خسارے کے ساتھ 202 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی۔
پاکستان کی جانب سے ابرار احمد نے دوسری اننگز میں انگلینڈ کے چار کھلاڑی آؤٹ کر کے ڈیبیو ٹیسٹ میں اپنی 11 وکٹیں مکمل کیں۔
ان کے علاوہ، زاہد محمود نے تین اور محمد نواز نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
انگلینڈ نے تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان پاکستان کو آخری سیشن میں 74 رنز سے شکست دے کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کر لی ہے۔
انگلینڈ کی ٹیم 17 سال بعد پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کھیل رہی ہے، اس سے قبل انگلش ٹیم نے 2005 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c25x2488g5vo | مراکش نے تو بلے بلے کروا دی، وسعت اللہ خان کا کالم | مراکش پرتگال سے ایک صفر سے جیت گیا۔ یا یوں کہیے کہ پرتگال مراکش سے ایک صفر سے پٹ گیا۔ بانوے برس کی فٹبال ورلڈ کپ تاریخ میں پہلے مسلم میزبان قطر میں پہلا افریقی عرب مسلمان مراکش سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔
یہ کوئی میچ نہیں تھا واقعہ تھا۔ یہ کھیل نہیں تھا، تاریخ کا تازہ باب تھا۔ اس حیرت انگیز کامیابی کے بعد جو بھی جو کچھ سمجھ کر جہاں جہاں ناچ رہا ہے سو بار ناچے۔
اگر آپ اسے عالمِ اسلام کی اجتماعی فتح کے روپ میں دیکھتے ہو بھلے دیکھو۔ آپ اسے ایک نئے افریقہ کی عالمی نقشے پر بااعتماد قدم رنجی سمجھ کے خوش ہوتے ہو تو بھلے خوش رہو۔
آپ اسے جزیرہ نما ہسپانیہ و پرتگال پر عربوں کی بارہ سو برس قبل کی فتح کا استعارہ جان کے ناچ رہے ہو بھلے ناچو۔ حتیٰ کہ آپ میں سے کوئی اسے باطل پر حق یا عالمِ نصارہ پر فرزندانِ توحید کی برتری سمجھ کے پھولے نہیں سما رہا ہو تو آج یہ سمجھنے کی بھی کھلی اجازت ہے۔
کاسا بلانکا سے بغداد اور بغداد سے ڈھاکہ اور جکارتہ تک ہماری زندگیوں میں اگر اس لمحے خوشی کی لہر دوڑی سو دوڑی؟ یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو ہیں ہماری۔ کسی بڑی خوشی کے انتظار میں ان کو بھی گنوا دیا تو پھر کمایا کیا؟
یہی تو موقع ہے جب نسل در نسل ستائے ہوؤں کی موجودہ نسل کو تھوڑی بہت تسکین میسر ہے۔ یہ سوچ سوچ کر کہ جس انہونی کا ہمارے غلام باپ دادا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھا وہ خواب ہماری نسل نے پورا ہوتے دیکھ لیا۔
جب چھیاسٹھ برس پہلے ایک دن یہ خبر آئی کہ کاسئیس کلے محمد علی کلے ہو گیا ہے تو خاندان کے بزرگوں کے بقول یوں لگا گویا کاسئیس کے ساتھ ساتھ ہم نے دوبارہ کلمہ پڑھ لیا ہو۔
اس کے بعد محمد علی کلے کی ہر فائٹ اغیار پر اپنوں کی فتح کا استعارہ بن کے چھا گئی۔ ہر فائٹ سے پہلے جائے نمازیں بچھنے لگیں جن پر بیٹھ کے وہ لوگ گڑگڑاتی دعائیں مانگتے تھے جن کا کم ازکم اس جنم میں تو محمد علی کا ہاتھ یا ماتھا چومنے کا ایک فیصد امکان بھی نہیں تھا۔
کاسئیس کلے محمد علی نہ بنتا تو امریکہ سے ہزاروں میل پرے پاکستان میں بالعموم اور لیاری میں بالخصوص باکسنگ کا فیشن جنون نہ بنتا۔ جیسے لیاری کے ہر گھر میں اگر ایک فٹ بالر یا فٹبال کا شائق موجود ہے تو اس کا سہرا عظیم فٹبالر پیلے کو جاتا ہے۔بھلے پیلے شاید یہ بھی نہ بتا پائے کہ لیاری کی بستی کس ملک میں بستی ہے۔ البتہ محمد علی اور پیلے کی شکل میں لیاری کو زندگی کا غم کچھ دیر کے لیے بھلانے والے ٹانک ضرور میسر آ گئے۔
ہر ورلڈ کپ کے موقع پر لیاری منی برازیل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پانچ بار عالمی چیمپیئن بننے والے برازیل کے قطر ورلڈ کپ سے باہر ہونے کا سوگ جتنا لیاری میں منایا گیا وہ اگر اہلیانِ ریو ڈی جنیرو اور ساؤپالو کے برابر کا نہ سہی تو ان سے کم بھی نہیں۔
جیسے ارتغرل دیکھ کے لاکھوں پاکستانی ازخود ارتغرل کے گھوڑے جیسے گھوڑے کو تصور میں باندھ کے خود کو بھی ارتغرل محسوس کرنے لگے۔ اپنے تئیں ارتغرل کی فروغِ اسلام کی جدوجہد پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے والے لاکھوں شائقین کے سامنے جس روز اسرا بلچیک عرف حلیمہ سلطان کی بکنی زدہ تصاویر سامنے آئیں تو میرے دوست عبداللہ پنواڑی نے صدمے میں پورے دن کا برت رکھا اور حلیمہ کی نیک راہ پر دوبارہ واپسی کی دعا کرتا رہا۔
اس سے پہلے کہ وہ صدر عارف علوی کے نام لکھے گئے خط کو ایوانِ صدر کے پتے پر پوسٹ کرتا۔ میں نے یہ خط عبداللہ سے اچک لیا۔ اس خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ صدرِ پاکستان ترک صدر کے توسط سے حلیمہ سلطان کو بکنی پہننے سے روکیں۔
یہ بھی پڑھیے
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: ہم بغلیں بجانے اور بغلیں جھانکنے والے لوگ
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: اعتماد سے آنا قبول ہے تو جانا کیوں نہیں؟
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: یااللہ یا رسول، بائیس کروڑ بے قصور
مراکش کی فٹ بالی کامیابی استحصال زدہ تیسری دنیا کی نامکمل حسرتوں میں سے کوئی ایک حسرت اچانک پوری ہو جانے کی پرمسرت کہانی نہیں۔ صلیبی جنگیں ہارنے والا مغرب بھی ہر ایسی فتح کے موقع پر اپنا دبا ہوا جوش و خروش سینے سے باہر لانے میں زرا بھی دیر نہیں لگاتا۔
جس طرح ہم نے سکندرِ اعظم کو بچپن اور لڑکپن میں مسلمان جانا اسی طرح چی گویرا بھی ہماری محرومیوں کے بھیانک خواب سے پنڈ چھڑانے کی جدوجہدی تعبیر بن گیا۔
قطر یاد رہے گا۔ میزبان کے طور پر بھی اور بطور گیم چینجر بھی اور تاریخ سازی کے تازہ فرمے کے طور پر بھی۔
قطر یاد رہے گا کہ جس کے سٹیڈیمز کے باہر کی سڑکوں پر فلسطینی شائقین نے اسرائیلی شائقین کو قومی تاثر کی جنگ میں کھلی ابلاغی شکست دی، حالانکہ ٹورنامنٹ میں نہ تو اسرائیلی فٹ بال ٹیم تھی اور نہ ہی فلسطین کی ٹیم۔
یہی سڑکیں آزادیِ اظہار کی انگڑائی کو تشدد کے ڈنڈے سے توڑنے والی مذہبی ریاست کے حامی اور مخالف ایرانیوں کے مابین حجاب کے فوائد و نقصانات کے تناظر میں گرما گرم نعرہ زن مباحثوں کا مرکز بن گئی اور اس کے اثرات سے مہمان ایرانی قومی ٹیم بھی نہ بچ پائی۔
قطر کے ورلڈ کپ کا افتتاح تلاوت اور انسانوں کے مابین بھائی چارے کے مکالمے سے شروع ہوا۔ اختتام فاتح ٹیم کو 18 دسمبر کو ٹرافی کی تھمائی پر ہو گا کہ جس کی نقاب کشائی دیپیکا پادوکون کے ہاتھوں ہو گی۔
جس طرح کاسئیس کلے محمد علی بن کے پاکستان میں باکسنگ کا اور پیلے فٹ بال کا جنون لایا۔ کیا مراکش کے سیمی فائنل میں پہنچ جانے سے ہمارے فٹ بال کے تنِ مردہ میں بھی جان پڑ سکتی ہے؟
میں چاہوں تو اس کالم کا اختتام ’یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا‘ جیسے لا یعنی جملے پر بھی کر سکتا ہوں مگر میں ایسا کرنے کے بجائے فائنل کے نتائج کا آپ کی طرح بے چینی سے انتظار کروں گا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c25kwlpke9po | مراکش کی جیت نے سب کو رُلا دیا: ’کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں؟‘ | مراکش کی فٹبال ٹیم نے قطر میں فیفا ورلڈ کپ میں تاریخ رقم کی ہے۔ ماضی میں تین بار افریقی ٹیمیں ٹورنامنٹ کے کوارٹر فائنل تک پہنچیں مگر آگے نہ جا سکیں تو اس بار کیا مختلف تھا؟
مراکش کی ٹیم نے یقیناً اس ورلڈ کپ کو مزید دلچسپ بنایا ہے اور سیمی فائنل میں پہنچ کر پورے براعظم کے شائقین کو تحفہ دیا ہے۔
یوسف النصیری کی حیرت انگیز چھلانگ اور غیر معمولی ہیڈر نے پہلے ہاف میں ہی سکور ایک صفر کر دیا تھا جس کے بعد مراکش کی ٹیم کو صرف دفاعی کھیل پیش کرنا تھا۔ انھوں نے ایسا ہی کرتے ہوئے کرسٹیانو رونالڈو اور پرتگال کی ٹیم کو گھر بھیج دیا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
فاتح مراکش ٹیم کے کوچ ولید رگراگی نے کہا ہے کہ ’ہم سب کی پسندیدہ ٹیم بن گئے ہیں کیونکہ ہم نے بتایا ہے کہ ہم کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔‘
’اگر آپ جنون، دل اور یقین کے ساتھ کھیلتے ہو تو آپ کامیاب ہو سکتے ہو۔ میرے کھلاڑیوں نے یہی ثابت کیا۔ یہ کوئی معجزہ نہیں۔ یورپ میں کچھ لوگ شاید یہ کہیں گے مگر ہم نے پرتگال، سپین اور بیلجیئم کو ہرایا ہے اور گول ہونے دیے بغیر کروشیا کے خلاف میچ برابر رکھا۔ یہ شدید محنت کا نتیجہ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’افریقی اور عرب ٹیمیں سخت محنت کرتی ہیں لیکن ہم نے اپنے لوگوں کو خوش کیا ہے اور انھیں ہم پر فخر ہے۔ پورے براعظم کو اس فتح پر فخر ہے۔
’اگر آپ راکی بلبویا (فلم) دیکھتے ہیں تو آپ اسے سپورٹ کرتے ہیں اور ہم اس ورلڈ کپ کے راکی ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
کیمرون نے 1990، سینیگال نے 2002 اور گھانا نے سنہ 2010 میں کوارٹر فائنلز میں مواقع گنوا دیے تھے مگر مراکش نے قطر میں اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
میچ کے آغاز سے وہ پرتگالی کھلاڑیوں سے ٹکر کا مقابلہ کرتے نظر آئے اور سٹیڈیم میں بیٹھے شائقین نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ شائقین کی طرف سے ’سير سير (چلو، چلو)‘ اور ’ديما مغرب (مراکش ہمیشہ)‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
مراکش کے کوچ ركراکی، جنھیں کافی سراہا جا رہا ہے، کو ان کے کھلاڑیوں نے فتح کے بعد ہوا میں اچھالا۔ شائقین کی طرف رُخ کر کے انھوں نے ہاتھ بلند کر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔
سابق سکاٹش کھلاڑی پیٹ نیون نے بتایا کہ ’سٹیڈیم میں بہت شور تھا۔ میں یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ورلڈ کپ میں آخری بار ایسا شاک کب دیا گیا تھا۔‘
’وہ اس جیت کے مستحق ہیں۔ نہ صرف صلاحیت اور کوششیں بلکہ یہ شور بھی نہیں تھم پا رہا تھا۔‘
مراکش نہ صرف ایک افریقی ٹیم ہے بلکہ اسے مسلم اکثریتی عرب ملکوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ ایک عرب ملک فیفا ورلڈ کپ کی آخری چار ٹیموں میں جگہ بنا پایا ہے۔
ٹیم نے اس دوران کھل کر اپنے اسلامی مذہبی عقائد کا اظہار کیا۔ وہ سپین کے خلاف میچ میں پینلٹیوں کے دوران ہڈل میں قرآن کی آیات کی تلاوت کرتے تھے اور پرتگال کے خلاف میچ میں کھلاڑیوں کو بار بار ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتے دیکھا گیا۔
مراکش نے اپنے کھلاڑیوں کی تمام تر انجریوں اور مشکلات کے باوجود پرتگال کو کوئی گول نہ کرنے دیا۔ میچ کے بعد تمام کھلاڑی اور عملے کو سٹینڈز کے پاس سجدہ کرتے دیکھا گیا۔
سبسٹیٹیوٹ اشرف داری نے خود کو فلسطینی پرچم میں لپیٹ لیا جبکہ پی ایس جی کے لیے کھیلنے والے اشرف حکیمی دوبارہ اپنی والدہ کے پاس گئے جنھوں نے انھیں بوسہ دیا۔
مگر سفيان بوفال نے اس بار حکیمی سے ایک قدم آگے جانے کا فیصلہ کیا اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ ترانوں پر جھومنے لگے۔
یہ بھی پڑھیے
کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟
مراکش کے کوچ کی وہ حکمتِ عملی جو ورلڈ کپ میں سپین کے خلاف اہم کامیابی کا باعث بنی
مراکش کھلاڑیوں کا فلسطینی پرچم کے ساتھ جشن
رگراگی وہ آخری شخص تھے جو میدان سے باہر گئے۔ وہ اس وقت واضح طور پر جذباتی ہوچکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’الحمد للہ (خدا کا شکر)۔ ہمارے پاس ورلڈ کپ جیتنے کا موقع ہے اور اب دنیا مراکش ٹیم کے ساتھ ہے۔ انشا اللہ (اگر اللہ نے چاہا)۔‘
’میں پہلی بار میچ کے آخر میں رویا ہوں۔ مجھے خود کو ذہنی طور پر مضبوط دکھانا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار یہ مشکل ہوتا ہے۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ جاؤ تو جذبات قابو میں نہیں رہتے۔ اگر میں کہوں کہ ہم نے یہیں پہنچ جانا تھا تو یہ جھوٹ ہوگا۔
’میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ پایا۔‘
ادھر میچ کے بہترین کھلاڑی گول کیپر یاسین بونو نے کہا کہ ’ہمیں ذہنیت بدل کر کمتر ہونے کا خیال ذہن سے نکالنا ہوگا۔ مراکش کی ٹیم دنیا میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔
ہماری نسلوں کو یہ معلوم ہوگا کہ مراکشی کھلاڑی معجزے پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔ اب جب کسی کا مراکش سے مقابلہ ہوگا تو انھیں بہترین کھیل کرنا ہو گا۔‘
مگر ایک طرف مراکش کے کھلاڑی اور کوچ خوشی کے آنسو بہا رہے تھے تو رونالڈو اپنا ورلڈ کپ کا خواب ٹوٹنے پر سیٹی بجتے ہی میدان سے باہر جاتے ہوئے واضح طور پر غم سے نڈھال اور آبدیدہ لگے۔ شاید ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
ایک موقع پر رونالڈو اپنے کوچ کے ساتھ بحث کرتے بھی دکھائے دیے اور انھیں اس میچ میں سبسٹیٹیوٹ کا درجہ ملا۔
اس ٹورنامنٹ میں یہ امید کرنا مشکل تھا کہ اس میں رونالڈو کے لیے کوئی ’ہیپی اینڈنگ‘ ہوگی۔ کوارٹر فائنل میں پرتگال کے ٹورنامنٹ سے نکلنے پر ان کی جانب سے آنسو بہانا ان کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
بی بی سی کی نامہ نگار شیما خلیل سے بات کرتے ہوئے ایک فین نے بتایا کہ ’اب میں اپنے بچوں کو بتا سکوں گا کہ میں وہیں تھا جب مراکش نے تاریخ رقم کی۔‘
گذشتہ آٹھ میچوں سے رگراگی کی ٹیم کو تاحال ہرایا نہیں جا سکا اور انھوں نے گروپ سٹیج میں اون گول کے علاوہ کوئی گول نہیں دیا۔
رگراگی کہتے ہیں کہ ’یہ سب سے مشکل ٹورنامنٹ ہے۔ ہم نے بہترین ٹیموں کا مقابلہ کیا۔ یہ سچ ہے کہ پرتگال سے ہمیں گول پڑ سکتا تھا مگر افریقی اور عربی لوگوں نے ہمیں مثبت قوت بخشی۔‘
’ہم نے ثابت کیا کہ افریقی ٹیم بھی سیمی فائنل کھیل سکتی ہے، حتیٰ کہ فائنل بھی۔ ٹورنامنٹ سے پہلے مجھے سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں۔ میں نے کہا تھا کیوں نہیں؟ کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں؟‘
’اگر آپ خواب نہیں دیکھتے تو آپ کہیں نہیں پہنچ سکتے اور خوابوں کا کوئی دام نہیں ہوتا۔ یورپی ٹیموں کو ورلڈ کپ جیتنے کی عادت ہے۔ اب ہمیں وہ مقام حاصل کرنا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر افریقی صارفین کے ساتھ ساتھ شکیرا نے بھی یہی کہا کہ ’دس ٹائم فار افریقہ (یہ افریقہ کی باری ہے)۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd15mpjzp37o | دفاعی چیمپیئن فرانس نے انگلینڈ کو شکست دے دی، سیمی فائنل میں مراکش سے مقابلہ ہو گا | قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں فرانس نے انگلینڈ کو دو صفر سے شکست دے کر سیمی فائنل میں اپنی جگہ بنا لی ہے جہاں ان کا مقابلہ اب مراکش سے ہو گا۔
فرانس نے میچ کے ابتدائی منٹوں میں ہی ایک گول کر کے انگلینڈ پر برتری حاصل کر لی تھی اور ہاف ٹائم کے بعد جہاں ایک گول انگلینڈ نے کر کے میچ برابر کیا تو وہیں فرانس نے دوسرا گول کر کے فیصلہ کن برتری حاصل کر لی۔
اضافی آٹھ منٹوں میں انگلینڈ کو فری کک ملی جو مارکس ریشفورڈ نے کھیلی مگر ان کی گیند صرف کچھ انچوں سے ہی گول پوسٹ سے اوپر نکل گئی۔ چند ہی لمحوں میں میچ کے خاتمے کی سیٹی بجا دی گئی۔
فرانس کی جانب سے اوریلیان چوامینی اور اولیویئر جیرود نے ایک ایک گول کیا جبکہ انگلینڈ کی جانب سے ان کی ٹیم کا واحد گول ہیری کین نے کیا۔
اب دفاعی چیمپیئن فرانس کا مقابلہ مراکش سے ہو گا جنھوں نے سنیچر کو پرتگال کو شکست دے کر سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی افریقی ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
اگرچہ اس میچ میں پرتگال کی مضبوط ٹیم فیورٹ تھی مگر شائقین کو مراکش کے ساتھ ایک دلچسپ مقابلے کی توقع بھی تھی۔ کیونکہ مراکش کی فٹبال ٹیم کی اب تک اس ٹورنامنٹ میں کھیل کے دوران دفاعی حکمت عملی بہت مضبوط رہی تھی۔
آج کے میچ میں بھی مراکش کی ٹیم نے اپنے مضبوط دفاع کے باعث پرتگال کے کئی حملوں کو ناکام بنایا۔
مراکش کی جانب سے پرتگال کے خلاف میچ کا پہلا اور واحد گول کھیل کے پہلے ہاف میں یوسف ان نصیری نے کیا۔
اس گول کو ٹورنامنٹ کا ایک بہترین گول بھی کہا جا سکتا ہے۔
اس وقت گراؤنڈ سے باہر بیٹھے پرتگال کے سٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو بھی اس گول کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اس کے کچھ دیر بعد جب وہ خود گراؤنڈ میں اترے تو اپنے روایتی انداز سے بھی کہیں زیادہ جارحانہ نظر آئے۔
مگر تجزیہ کار پہلے ہی اعداد و شمار نکال کر اس کا حساب لگائے بیٹھے تھے کہ مراکش کی ٹیم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب اس ٹیم نے اپنے پانچ میچز میں سے چار میں مدمقابل ٹیم کو پہلے ہاف میں گول کرنے سے روکا ہے۔ یہ روایت آج بھی برقرار رہی۔
جبکہ پرتگال نے اپنے ان ماہرین شماریات کو بھی سچ ثابت کیا ہے جو میچ کے دوران یہ ٹرینڈ بتا رہے تھے کہ پرتگال اپنے پانچ میں سے تین میچوں میں پہلے ہاف میں گول کرنے میں ناکام رہا ہے۔
پرتگال ورلڈ کپ کے ایسے چھ میچز میں بھی شکست کھا چکا ہے جب اس نے پہلے ہاف کا فائدہ نہیں اٹھایا یعنی کوئی گول نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیے
میسی کے جشن کا منفرد انداز اور ڈچ کوچ سے ’تضحیک‘ کا بدلہ
کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟
سپین کے خلاف تاریخی فتح: مراکش کھلاڑیوں کا فلسطینی پرچم کے ساتھ جشن
دوسرے ہاف کے کھیل کے آخری لمحات میں کرسٹیانو رونالڈو کو گول کرنے کا ایک موقع ملا مگر پھر مراکش کے گول کیپر نے رونالڈو کی اس کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ 90 منٹ پر ہی مراکش کو گول کرنے کا ایک یقینی موقع ہاتھ آیا مگر اس پر بھی گول نہ ہو سکا۔
میچ کے اضافی وقت کے دوران مراکش کے ایک کھلاڑی کو ریفری کی طرف سے ریڈ کارڈ تھما دیا گیا۔ وہ پرتگال کے کھلاڑی کے سامنے دوسری بار رکاوٹ بنے تھے۔ اس کے بعد مراکش کی ٹیم 10 کھلاڑیوں کے ساتھ ہی پرتگال کا مقابلہ کرتی رہی۔
رونالڈو نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی ٹیم کسی طرح بھی ایک گول کی برتری کو ختم کر دے مگر جب وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اپنی تمام تر کوششوں میں ناکام ہو گئے تو پھر شکست جیسے ان کے مزاج پر ہی نہیں جچتی تھی اور وہ میدان میں اور گراؤنڈ کے باہر آبدیدہ نظر آئے۔
جبکہ دوسری جانب فاتح ٹیم مراکش نے میدان میں اپنے شائقین اور فینز کے ساتھ جیت کا خوب جشن منایا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4ne8q8ql79o | سمیع چوہدری کا کالم: اس احتیاط کو خود علاج درکار ہے | سیانے کہہ گئے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ بجا، مگر بسا اوقات احتیاط اس نہج پہ جا پہنچتی ہے جہاں خود اسے علاج کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ملتان ٹیسٹ کا آج صبح کا سیشن پاکستان کی ایسی ہی احتیاط سے لبریز تھا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی بیٹنگ کا دیرینہ فارمولا رہا ہے کہ صبح کے سیشن کا پہلا آدھا گھنٹہ احتیاط سے گزارا جائے اور اس کے بعد کچھ رنز بٹورنے کی فکر کی جائے۔ یہاں بھی یہی فارمولا کارفرما تھا مگر یہاں احتیاط صرف آدھے گھنٹے تک موقوف نہ رہ پائی۔ یہ احتیاط اس قدر طاری ہوئی کہ ساری بیٹنگ لائن کو ہی نگل گئی۔
پاکستان پہلے روز کے کھیل میں برتری نہ سہی، مسابقت پہ ضرور تھا۔ اور جس طرح سے یہ پچ تشکیل دی گئی ہے، یہاں اننگز در اننگز بیٹنگ کو دشوار تر ہوتے ہی جانا ہے۔ پاکستان کے لیے نہ صرف میچ بلکہ سیریز میں بھی زندہ رہنے کا واحد رستہ یہی تھا کہ پہلی اننگز کا اختتام کسی تگڑی برتری پہ ہوتا تا کہ چوتھی اننگز میں کوئی پہاڑ سا ہدف ان کا منتظر نہ ہو۔
اور ایسا بھی ہرگز نہیں کہ یہ پاکستانی بیٹنگ لائن برتری حاصل کرنے کی صلاحیت سے عاری تھی۔
مگر مسئلہ یہاں صلاحیت کا نہیں، سوچ کا تھا۔ سوچ یوں خوف کی دبیز تہوں میں لپٹی ہوئی تھی کہ انگلش بولرز کے ہاتھوں سے نکلتی ہر گیند کسی جادوئی کرتب کے مانند نظر آنے لگی اور ہر آہٹ پہ دل دھڑکنے لگے۔
اگر بابر اعظم رابنسن کی اس بہترین گیند کا شکار نہ ہوتے تو شاید حالات مختلف ہو پاتے۔ لیکن محمد رضوان کے کریز پہ آتے ہی پچ کسی معمے کی سی ہو گئی اور انگلش بولنگ میچ پہ حاوی ہونے لگی۔ اور پاکستان کے ’احتیاطی‘ ردِ عمل نے انگلش حوصلوں کو مزید بڑھاوا دیا۔
حالانکہ نہ تو یہ پچ کسی طوفان کی آماج گاہ بنی تھی اور نہ ہی انگلش بولنگ میں راتوں رات کوئی ایسی کاٹ عود کر آئی تھی جو پہلے روز دستیاب نہ تھی۔ مسئلہ فقط پاکستانی بیٹنگ کی سوچ کا تھا جو صبح کے سیشن میں اتری ہی اس عزم سے تھی کہ کسی نہ کسی طور، لنچ تک کا وقت گزارا جائے۔
پاکستانی بلے بازوں میں ایک فہیم اشرف ہی تھے جو میچ کو میرٹ پہ کھیلے اور ہر گیند کے ساتھ کماحقہ سلوک کیا۔ انھوں نے پاکستانی بیٹنگ کی روایتی سوچ کی نفی کرتے ہوئے احتیاط کو پسِ پشت ڈالا اور جوابی جارحیت سے کچھ دباؤ بھی واپس انگلش کیمپ کو لوٹایا۔
یہ بھی پڑھیے
ملتان ٹیسٹ کا دوسرا روز: پاکستانی بیٹنگ پھر ناکام، انگلینڈ اب بھی ابرار کی جادوئی بولنگ کا شکار
سمیع چوہدری کا کالم: ابرار احمد نے انگلش جنون کی قیمت وصول کر لی
محض ٹکڑوں میں بٹی کپتانی کافی نہ ہو گی: سمیع چوہدری کا کالم
سالوں پہلے ایک ورلڈ کپ میچ کے دوران رمیز راجہ اور سارو گنگولی اکٹھے کمنٹری باکس میں موجود تھے کہ انڈیا نے اوپر تلے دو تین وکٹیں گنوائیں۔ رمیز راجہ نے فوری اسی ’احتیاط‘ کی وکالت کی کہ انڈیا کو اب کچھ دیر جذبات سنبھال کر محتاط ہو جانا چاہیے۔ مگر عین اسی لمحے، ان کے پہلو نشین سارو گنگولی اس تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بولے کہ احتیاط کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں، جب مقابلہ گیند اور بلے کا ہے تو ہر گیند کو اس کے میرٹ پہ کھیلنا ہی درست طریق ہے۔
جن دنوں رمیز راجہ کمنٹری باکس میں براجمان ہوا کرتے تھے، وہ پاکستان کرکٹ کے تمام نقائص کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے خلاصہ کیا کرتے تھے کہ ان دگرگوں حالات کے ذمہ دار وہ سب بورڈ چئیرمین ہیں جن کا اپنا کرکٹ سے کبھی تعلق نہیں رہا۔
ان سبھی مسائل کا حل بھی رمیز راجہ یہی تجویز کیا کرتے تھے کہ جب کرکٹ کے معاملات کرکٹرز چلائیں گے تو سب بدل جائے گا۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کچھ چیزیں واقعی بدلی بھی ہیں مگر المیہ یہ کہ ان میں سے بیشتر تبدیلیاں پاکستان کرکٹ کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوئیں۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2v010y3vlo | ملتان ٹیسٹ کا دوسرا روز: پاکستانی بیٹنگ پھر ناکام، انگلینڈ اب بھی ابرار کی جادوئی بولنگ کا شکار | انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی ٹیم بابر اعظم اور سعود شکیل کی نصف سنچریوں کے باوجود 79 رنز کے خسارے کے ساتھ 202 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جبکہ مہمان ٹیم نے دوسرے روز کے اختتام پر پانچ وکٹوں کے نقصان پر 202 رنز بنا کر مجموعی برتری 281 رنز کرلی۔
انگلینڈ کی جانب سے دوسری اننگز کی اوپننگ زیک کرالی اور بین ڈکٹ نے کی لیکن ابرار احمد نے زیک کرالی کو تین رنز پر رن آؤٹ کرکے پویلین کی راہ دکھائی۔ جبکہ ول جیکس کو چار رنز پر، جو روٹ کو 21 رنز پر اور بین ڈکٹ کو 79 رنزپر ملتان ٹیسٹ میں ڈبیو کرنے والے ابرار احمد نے آؤٹ کیا۔
بین ڈکٹ نے شان دار نصف سنچری بنائی اور انگلینڈ کا سکور 147 رنز تک پہنچایا مگر ابرار احمد نے ان کو آؤٹ کر کے دوسری اننگز میں اپنی تیسری وکٹ حاصل کی۔ ڈکٹ کی وکٹ کے ساتھ ابرار احمد کی ڈیبیو ٹیسٹ میں 10 وکٹیں ہوگئیں۔ ابرار احمد نے ملتان ٹیسٹ سے ڈیبیو کیا ہے اور وہ ٹیسٹ ڈیبیو پر سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی سپنر بن گئے ہیں۔
اولی پوپ ہیری بروکس کا ساتھ دینے آئے تاہم رنز بنانے کی غیرضروری کوشش کے دوران محمد نواز اور محمد رضوان کے گٹھ جوڑ کا نشانہ بنے۔ انگلینڈ کی پانچویں وکٹ چار رنز بنا کر آؤٹ ہونے والے اولی پوپ کی صورت میں 155 رنز پر گری۔
ہیری بروکس نے سیریز میں زبردست فارم کا سلسلہ جاری رکھا اور نصف سنچری مکمل کی۔ انگلینڈ کے دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز جب کھیل کا اختتام ہوا تو پانچ وکٹوں پر 202 رنز بنا لیے تھے۔
ہیری بروکس 74 اور بین سٹوکس 16 رنز بنا کر کھیل رہے تھے۔
دوسرے روز جب انگلش بلے باز دوسری اننگز کی بیٹنگ کے لیے میدان میں اترے تو سب کی نظریں ابرار احمد پر تھیں جنھوں نے ڈیبیو پر پہلے روز سات وکٹیں لے کر انگلینڈ کی جارحانہ طرزِ کرکٹ پر روک لگائی تھی۔
انگلش اوپنر بین ڈکٹ نے ملتان ٹیسٹ کے پہلے روز پر تبصرہ کیا تھا کہ ابرار احمد ’بنیادی طور پر ایک لیگ سپنر ہیں جن کے پاس اچھی گوگلی ہے۔ یہ کوئی مسٹری نہیں۔ تاہم انھوں نے (پہلے روز) دلکش بولنگ کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسری اننگز میں انگلینڈ کی ان کے خلاف بہتر حکمت عملی ہوگی۔ ’مجھے یقین ہے ہم ان کی بولنگ کا صرف دفاع نہیں کریں گے۔ اکثر لوگوں نے کہاں وہ ان کی بولنگ پِک کر رہے تھے۔ بس انھوں نے اچھی گیندیں کرائیں۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ یہ ان کا دن تھا۔‘
پھر ساتویں اوور میں ابرار احمد نے ایک بار پھر اپنی گوگلی کا جادو دکھایا جب انھوں نے اولی پوپ کی جگہ تیسرے نمبر پر آنے والے ول جیکس کو چار رنز پر بولڈ کر دیا۔ بظاہر انھوں نے گوگلی پکڑ لی تھی مگر جارحانہ سویپ کے لیے وہ اچھی پوزیشن میں نہیں تھے۔
بین ڈکٹ اور کپتان جو روٹ کے درمیان 54 رنز کی شراکت بنی۔ پھر روٹ نے ابرار کو پیڈل سویپ لگانا چاہی تاہم شارٹ لیگ پر عبد اللہ شفیق نے ان کا ایک عمدہ کیچ پکڑا۔
بین ڈکٹ نے اس دوران اپنی نصف سنچری مکمل کی اور وہ اچھے انداز میں سویپ کھیل کر پاکستانی سپنرز کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اولی پوپ ابرار احمد کے اوور میں ہی دوڑ کر دوسرے اینڈ پر جانے کی کوشش میں محمد نواز کی تھرو پر رن آؤٹ ہو گئے۔
ابرار احمد نے جب بین ڈکٹ کو کلین بولڈ کیا تو اس بال کی سمجھ خود بیٹسمین کو بھی نہیں آئی کہ وہ کیسے دغا دے کر وکٹوں کو جا لگا۔
دوسرے دن کے کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کے بلے باز ہیری بروک 74 رنز پر جبکہ بین سٹوکس 16 رنز پر وکٹ پر موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ابرار احمد نے انگلش جنون کی قیمت وصول کر لی
’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
پاکستان اور انگلینڈ کے کرکٹ مقابلے، تنازعات اور تلخیاں
اس سے قبل جب دوسرے روز 107 رنز دو کھلاڑی آؤٹ سے پاکستان کی پہلی اننگز کا کھیل دوبارہ شروع ہوا تو بابر اعظم اور سعود شکیل وکٹ پر موجود تھے۔
دوسرے روز کے آغاز پر پاکستان یقیناً ڈرائیونگ پوزیشن میں تھا۔ بابر اعظم اور سعود شکیل کے درمیان شراکت سے انگلینڈ کی برتری برف کی طرح پگھل رہی تھی۔ مگر انگلینڈ کو دن کے آغاز پر وکٹ کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور اننگز کے 35ویں اوور میں انگلش کپتان نے گزشتہ میچ کے ہیرو اولی رابنسن کو متعارف کرایا جنھوں نے کپتان کا فیصلہ درست ثابت کرتے ہوئے دوسری ہی گیند پر بابر کو چلتا کردیا، انہوں نے 75 رنز بنائے۔
پاکستانی کپتان بابر اعظم کو اولی رابنسن کی اندر آتی عمدہ ریورس سوئنگ گیند نے بولڈ کر دیا۔ وہ 95 گیندوں پر 75 رنز بنا سکے اور نویں ٹیسٹ سنچری سے چوک گئے۔
بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد انگلش ٹیم نے پاکستان کو دباؤ کا شکار کر دیا اور رنز بنانے کی رفتار بھی انتہائی سست ہو گئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے اوورز میں صرف 16 رنز بنے جبکہ محمد رضوان نے 28ویں گیند پر کھاتا کھولا۔
سعود شکیل نے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے جیک لیچ کو ایک چوکا رسید کیا اور پھر وکٹ سے باہر نکل کر ایک اور شاٹ مارنے کی کوشش میں انہی کو وکٹ دے کر چلتے بنے اور یوں ان کی 63 رنز کی اننگز اختتام کو پہنچی۔
سعود شکیل کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی پاکستانی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جو اننگز کے اختتام تک تھم نہ سکا اور کوئی کھلاڑی انگلش باؤلرز کا سامنا نہ کر سکا اور حتیٰ کہ پارٹ ٹائم سپنر جو روٹ بھی دو وکٹیں لے اڑے۔
فہیم اشرف نے 22 اہم رنز جوڑے مگر وہ زیادہ دیر تک آخری وکٹ کی شراکت قائم نہ رکھ پائے۔ پاکستان نے دوسرے روز کا آغاز دو وکٹوں کے نقصان پر 107 رنز کے ساتھ کیا تھا تاہم تمام وکٹوں کے نقصان پر اس کا سکور 202 تھا۔ پہلی اننگز میں دونوں ٹیموں کی بیٹنگ کے بعد انگلینڈ کو پاکستان پر 79 رنز کی برتری حاصل تھی۔
انگلش سپنر جیک لیچ نے چار، مارک ووڈ اور جو روٹ نے دو، دو جبکہ جیمز اینڈرسن اور اولی رابنسن نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv27032q0j2o | بنگلہ دیش سے سیریز میں شکست: انجریز کا شکار انڈین ٹیم اور تنقید میں گِھرے کوچ | بنگلہ دیش میں ون ڈے سیریز میں شکست نے انڈین شائقین کو خاصا مایوس کیا ہے جس کے پہلے دونوں میچوں میں مہدی حسن میراز کی آل راؤنڈ کارکردگی نے بنگلہ دیشی ٹیم کو فتح دلائی۔
پہلے ون ڈے میں بنگلہ دیش کی آخری جوڑی نے ناقابل شکست شراکت بنائی اور دوسرے میں مہدی حسن کی سنچری کے بعد کپتان روہت شرما آخری گیند پر چھکا لگا کر میچ کا رُخ پوری طرح نہ موڑ پائے۔
انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان سیریز کا تیسرا اور آخری میچ اس وقت جاری ہے جس میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے انڈین بلے باز اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تاہم اگر بنگلہ دیش تیسرا ون ڈے بھی جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ پہلی بار ہو گا کہ انڈیا کو بنگلہ دیش کے ہاتھوں سیریز میں تین صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس سے قبل بنگلہ دیش کا انڈیا کے خلاف ون ڈے ریکارڈ بہت زیادہ متاثر کن نہیں تاہم مہندر سنگھ دھونی کی کپتان میں 2015 کی سیریز میں انھوں نے یادگار فتح حاصل کی تھی۔
کپتان روہت شرما انجری کے باعث بنگلہ دیش سیریز سے باہر ہو گئے ہیں مگر اس دوران ورلڈ کپ کی تیاریوں کے حوالے سے ان کی کپتان اور راہل دراوڈ کا بطور کوچ کردار سب کی نظروں میں ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
جسپریت بمرا، رویندر جڈیجہ، محمد شامی، رشبھ پنت، روہت شرما، دیپک چاہر، کلدیپ سین۔
انڈیا کے یہ تمام نمایاں کھلاڑی، جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹ کر فتح دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، رواں سال انجری یا زخموں سے متاثر ہوئے ہیں۔
انڈیا کی ٹیم 2022 میں فٹنس کے بڑے مسئلے سے دوچار رہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ’اوور ورکڈ‘ یعنی بہت زیادہ کرکٹ کھیلنا بھی ہے۔
حال ہی میں اس بارے میں بھی تنقید کی گئی کہ آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فوراً بعد انڈیا نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کھیلی اور پھر بنگلہ دیش آ گئے۔ اس کے بعد آئی پی ایل ہے جبکہ آئندہ سال کے آغاز میں سری لنکا اور آسٹریلیا کی ٹیمیں انڈیا کا دورہ کریں گی۔
جسپریت بمراہ، رویندر جڈیجہ اور محمد شامی جیسے کھلاڑی پہلے سے ٹیم میں موجود نہیں ہیں۔ رشبھ پنت کی انجری کے بعد واپسی ہوئی ہے جبکہ روہت شرما، چاہر اور سین حال ہی میں انجرڈ ہوئے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
ورلڈ کپ میں ایک سال سے بھی کم وقت باقی ہے۔ ایسے میں انڈیا کو آگے کا سوچنا چاہیے۔
یہ ورلڈ کپ انڈیامیں کھیلا جانا ہے۔ اس لیے ٹیم کمبینیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے کھلاڑیوں کو آزمانے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ہو گا۔
ایشان کشن کو پہلے ہی آزمایا جا چکا ہے اور وہ آٹھ اننگز میں 59، 28، 50، 20، 93 کے سکور کے ساتھ 267 رنز بنا چکے ہیں۔
راہل ترپاٹھی کے ساتھ، رجت پاٹیدار، جنھوں نے اس سال رائل چیلنجرز بنگلور کے لیے کوہلی کے ساتھ 55 کی اوسط سے دو نصف سنچریاں اور ایک سنچری بنائی، کو بھی اگے چل کر موقع دیا جانا چاہیے۔
ہو سکتا ہے اس کے لیے شیکھر دھوون یا کوہلی کو بینچ پر بیٹھنا پڑے، لیکن یہ خطرہ بھی مول لینا چاہیے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
اگر ہم مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں 2015 کے دورے میں شکست کی بات کریں تو اس سیریز میں کوہلی نے 16.33 کی اوسط سے صرف 49 رنز بنائے تھے۔
اس کے بعد اس سیریز کے پہلے دو میچوں میں کوہلی نے 14 رنز بنائے تھے، 7 کی اوسط۔ اسی طرح سیکھر دھوون، شاردل ٹھاکر اور واشنگٹن سندر کی بھی بلے کے ساتھ خراب فارم جاری ہے۔
کلدیپ یادیو سپن بولنگ کے آپشن کے طور پر بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ وہ دو ماہ قبل اکتوبر میں کھیلے گئے اپنے آخری میچ میں جنوبی افریقہ کے چار کھلاڑیوں کو پویلین لوٹا کر ’مین آف دی میچ‘ رہے تھے۔
محمد سراج، عُمران ملک، واشنگٹن سندر اور اکشر پٹیل ٹیم میں شامل ہوں گے۔
شہباز احمد کو زخمی دیپک چاہر کی جگہ ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے جو ایک آل راؤنڈر بھی ہیں۔
اب تک ٹیم کی بولنگ بہت معمولی رہی ہے۔ پہلے ہی میچ میں انڈین بولر بنگلہ دیش کی آخری جوڑی کو نہ توڑ سکے جنھوں نے نصف سنچری شراکت سے ٹیم کی ناک کے نیچے سے فتح چھین لی۔
مجموعی طور پر اس میچ میں جہاں انڈیا کلین سویپ سے بچنے کی کوشش کرے گا وہیں بنگلہ دیش یہ ریکارڈ بنانے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں لگائے گا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
انڈین شائقین اور تجزیہ کاروں نے ورلڈ کپ سے قبل انڈیا کی تیاریوں کے حوالے سے تبصرے کیے ہیں۔
کرکٹ تجزیہ کار ہرشا بھوگلے کی رائے میں انڈیا کو سب سے پہلے آئندہ 10 ماہ میں اپنے بولنگ کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر انڈیا کے سابق اوپنر وسیم جعفر نے کرک انفو کو بتایا ہے کہ انڈیا کے پاس سراج اور پٹیل کی شکل میں اچھے بولرز تھے مگر بنگلہ دیش کے پاس سب سوالوں کے جواب تھے۔ ’آپ کو بنگلہ دیش کو کریڈٹ دینا ہوگا۔‘
تجزیہ کار میٹ رولر کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش نے گذشتہ دو برسوں کے دوران 17 ون ڈے میچ جیتے ہیں اور آٹھ میں شکست کا سامنا کیا ہے۔ ’وہ اگلے سال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچ سکتے ہیں۔‘
سیامی کھیر نے کہا کہ ’انڈیا ٹیم بہت زیادہ کرکٹ کھیل رہی ہے۔۔۔ میں ان وقتوں کو یاد کرتی ہوں جب ہم واقعی کسی سیریز کا انتظار کرتے تھے۔‘
سیکت گھوش نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انڈیا میں 2023 میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ سے قبل انڈین ٹیم جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش میں سیریز ہار چکی ہے۔
انڈیا کی حالیہ کارکردگی کے بعد کپتان روہت شرما اور کوچ راہل دراوڈ بھی تنقید کی زد میں آئے ہیں۔
شیکھر گپتا نے اعتراض کیا کہ روہت شرما کی باڈی لینگویج اور کھلاڑیوں کو مسلسل ڈانٹنا ان کی خراب کپتانی کی عکاسی کرتا ہے۔
جبکہ ونکیتا کا کہنا ہے کہ ’روہت اور دراوڈ کا ایک سال مایوس کن رہا ہے۔۔۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ یہ روہت کی ٹیم ہے یا دراوڈ کی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
سوہینی لکھتی ہیں کہ آگے جانے کی بجائے ’ہم کئی قدم پیچھے چلے گئے ہیں۔ ورلڈ کپ میں صرف 10 ماہ باقی ہیں۔
’یہ 2007 جیسا ماحول ہے۔ دراوڈ ماڈرن گیم کو سمجھ نہیں پا رہے۔ ورلڈ کپ سے قبل ان کا جانا ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ورلڈ کپ میں شکست کے بعد انھیں نکالا جائے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 7 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cq578l427dwo | سمیع چوہدری کا کالم: ابرار احمد نے انگلش جنون کی قیمت وصول کر لی | جنون سدا بار آور نہیں ہو سکتا۔ کبھی کبھار حالات کا رخ یوں بھی بدلتا ہے کہ کامیابی کے مصدقہ نسخے الٹے پڑ جاتے ہیں اور بے طرح جنون کی بھاری قیمت چکانا پڑ جاتی ہے۔
ملتان میں بین سٹوکس کی ٹیم نے بھی ابرار احمد کے ہاتھوں اپنے جنون کی قیمت چکائی۔ برینڈن میکلم اور بین سٹوکس کی سربراہی میں اس انگلش ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کو جس انقلاب سے روشناس کروانے کی ٹھان رکھی ہے، اس میں ابھی کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے۔
اگرچہ ابھی تک انھیں ایسے کسی بڑے 'اتار' کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو اس جارحانہ اپروچ پہ سنجیدہ سوالات اٹھا سکے مگر ملتان میں لگ بھگ ایسا ہو ہی گیا۔
اب یہ تو ممکن نہیں کہ راتوں رات دیگر اقوام بھی بین سٹوکس کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے یہ ٹی ٹونٹی نما ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے لگ پڑیں مگر یہ تو بہرحال ممکن ہے کہ بولنگ سائیڈز سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس یلغار سے نمٹنے کا کوئی ایسا راہ نکالیں جو کم از کم اس جنون کی قیمت تو وصول کر پائے۔
راولپنڈی میں پاکستانی بولنگ انگلش جنون کی قیمت وصول کرنے سے عاری رہی۔ پنڈی کی پچ اگرچہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ابرار احمد کے لئے کامیاب ترین وینیو رہی ہے مگر پاکستانی تھنک ٹینک نے قدرت کے نظام سے انصاف کرتے ہوئے ان کی بجائے زاہد محمود کو ٹیسٹ ڈیبیو کا موقع دیا جس کا فائدہ پاکستان سے زیادہ انگلینڈ کو ہوا۔
مگر ملتان میں جب ابرار احمد کی گگلی نے انگلش بلے بازوں کو چکرانا شروع کیا تو پل بھر کو بین سٹوکس اور برینڈن میکلم بھی ضرور سوچ میں ڈوبے ہوں گے کہ اگر ایسی چنگاری پاکستان کے خاکستر میں تھی تو انہوں نے پہلا ٹیسٹ ہارنے کا انتظار کیوں کیا۔
سپن کے خلاف جم کر کھیلنا ایک دقیق آرٹ ہے جو سیکھتے سیکھتے آتا ہے۔ اور اگر سپنر بھی ابرار احمد کے جیسا پراسرار ہو تو گگلی کی پہچان اور دشوار ہو جاتی ہے۔ ابرار احمد کے معاملے میں یہ تفہیم کس قدر دشوار تھی، اس کی عکاسی صرف کلین بولڈ ہونے پہ بین سٹوکس کے چہرے کے تاثرات ہی کر سکتے تھے۔
مگر یہ انگلش ٹیم جس طرح کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لئے پرعزم ہے، اس نے اپنی واضح ناکامی کے باوجود ابرار احمد کو خاطر خواہ عزت دینے سے گریز کیا اور جوابی جارحیت جاری رکھی۔ اس اپروچ کا کچھ فائدہ بہرطور یہ ہوا کہ اننگز کے بیچ انگلش بیٹنگ بحران میں گھر کر بھی اس پچ کے لئے ایک قابلِ قدر مجموعے تک پہنچ گئی۔
ملتان کی یہ پچ پاکستانی کپتان کی خواہشات کے عین مطابق تھی جو یہاں سپنرز کے لئے مدد چاہتے تھے۔ اگرچہ کل شام تک پاکستانی کیمپ میں یہ بحث بھی رہی کہ وکٹ پہ کچھ گھاس چھوڑ دی جائے، مگر نسیم شاہ کی انجری کی تصدیق ہوتے ہی ساری گھاس اڑا دی گئی اور یہ وکٹ سپنرز کی جنت میں بدل گئی۔
یہ بھی پڑھیے
ڈیبیو پر سات وکٹیں لینے والے ’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
سمیع چوہدری کا کالم: پی سی بی کو ’قرونِ اولیٰ‘ سے کون نکالے گا؟
سٹوکس کو سٹوکس ہی ہرا سکتا ہے: سمیع چوہدری کا کالم
مگر انگلش کیمپ نے اپنی ٹیم سلیکشن میں تازہ ترین زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھنے سے گریز کیا اور تین فاسٹ بولرز کے ساتھ ہی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ ملتان میں روایتی طور پہ چوتھے اور پانچویں دن ریورس سوئنگ دیکھنے کو ملتی ہے مگر یہاں میچ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ کھیل پانچویں دن تک جائے گا۔
اگرچہ انگلش اننگز نے دسویں وکٹ کی پارٹنرشپ میں پاکستانی برتری کا کچھ مزہ کرکرا ضرور کیا لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ ایک مستحکم پرفارمنس تھی۔
اب پاکستان کو یہاں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ وہ پہلی اننگز میں ہی بھاری برتری حاصل کریں کیونکہ چوتھی اننگز میں یہاں بیٹنگ بالکل بھی آسان نہیں ہو گی۔
راولپنڈی میں پاکستانی بولنگ انگلش جارحیت کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہی تھی مگر ملتان میں ابرار احمد نے انگلش جارحیت کا راستہ روک کر انھیں قیمت چکانے پہ مجبور کر دیا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckm4283x65lo | کیا پرتگال کے سپر سٹار رونالڈو کا سورج غروب ہونے والا ہے؟ | قطر فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران سوئٹزر لینڈ کے خلاف میچ میں پرتگال کے سٹار کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو کو نہیں کھلایا گیا تو یہ بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
اس سے قبل ان کے انگلش کلب مانچسٹر یونائیٹڈ نے عندیہ دیا تھا کہ انھیں اب رونالڈو کی ضرورت نہیں رہی۔ اب قطر میں جاری ورلڈ کپ میں پرتگال نے انھیں باہر بٹھا کر ایسا ہی اشارہ دیا ہے۔
پرتگال کے کوچ کا رونالڈو کو بینچ پر بٹھانے کا تجربہ بھی کامیاب رہا اور پرتگال نے سوئٹزرلینڈ کو 6-1 سے شکست دی۔ اب سنیچر کی رات ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں پرتگال کا مقابلہ مراکش سے ہو گا۔
کوچ سانتوس نے جنوبی کوریا کے خلاف آخری گروپ میچ میں رونالڈو کی جگہ نوجوان کھلاڑی گونکالو راموس کو شامل کیا۔ اس فیصلے پر بہت تنقید کی گئی لیکن راموس کو کھلانا کوچ کے لیے جیک پاٹ بن گیا۔
راموس نے سوئٹزرلینڈ کے خلاف شاندار ہیٹ ٹرک سکور کر کے کافی تعریفیں سمیٹیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے 37 سالہ رونالڈو مشکل میں ہیں۔ مانچسٹر یونائیٹڈ کے ساتھ ان کا تعلق ایک جھگڑے میں ختم ہوا۔
اور اب پرتگال کی ٹیم نے وہ کر دکھایا جس کے بارے میں کبھی سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔
منگل کو پرتگال نے رونالڈو کو فٹ بال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کی ابتدائی لائن اپ سے دور رکھا۔
یقیناً یہ ورلڈ کپ میں کسی کھلاڑی کے انتخاب کے حوالے سے اب تک کا سب سے دلیرانہ فیصلہ تھا۔ یہ پرتگال کے کوچ کی حیثیت سے سانتوس کے آٹھ سالہ کوچنگ کیریئر کا سب سے بڑا فیصلہ بھی تھا۔
سینتوس کو یورو 2016 کی جیت کا کریڈٹ بھی حاصل ہے۔ ان کو اس بات کا ضرور اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی بڑی تبدیلی کرنے جا رہے ہیں۔ اگر پرتگال ہار جاتا تو ورلڈ کپ سے باہر ہونے کا الزام کرسٹیانو رونالڈو پر نہیں سینتوس پر ہوتا۔
اس کے باوجود میچ کے دوران سینتوس کے چہرے پر عزم نمایاں تھا۔ دوسری جانب پرتگال میچ میں زیادہ چست اور خطرناک نظر آیا۔ جب کہ اس طرح کے میچوں میں اکثر سب کی نظریں رونالڈو پر ہوتی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے خلاف میچ میں برنارڈو سلوا اور برونو فرنینڈس جیسے مڈ فیلڈرز کے بل بوتے پر پرتگال شاندار کھیل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
بینفیکا کے 21 سالہ سٹرائیکر راموس اب تک نامعلوم کھلاڑی تھے۔
اس سے قبل قدرے دب کر کھیلنے والے انتہائی باصلاحیت جواؤ فیلکس کو بھی آزادی سے کھیلتے دیکھا گیا تھا۔ راموس کی ہیٹ ٹرک بہت صاف انداز میں سامنے آئی۔
اس کھیل سے پہلے رونالڈو نے ورلڈ کپ ناک آؤٹ فٹ بال میں 514 منٹ کھیلا تھا اور ایک بھی گول نہیں کیا تھا۔ لیکن راموس نے صرف 67 مقابلوں میں تین گول داغے۔
39 سالہ پیپے نے بھی دکھایا کہ سینتوس کے لیے عمر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ جبکہ اس نے دو گول کیے، راموس نے دکھایا کہ وہ گول کرنے کے ساتھ ساتھ سکور بھی کر سکتے ہیں۔ رافیل گوریرو نے چوتھا گول کر کے اسکور کو 4-0 کر دیا۔
اس دوران کیمرے کی نظریں رونالڈو کے چہرے کے تاثرات پر جمی ہوئی تھیں۔ پرتگال کے قومی ہیرو کے چہرے پر پہلی بار یہ نظر آ رہا تھا کہ مانچسٹر یونائیٹڈ کے بعد پرتگال کی ٹیم کے ساتھ ان کا کیرئیر بھی ختم ہو سکتا ہے۔
پرتگال کا قومی ترانہ جیسے ہی ختم ہوا، انھیں سینکڑوں کیمروں نے گھیر لیا۔ یہ لمحات بتا رہے تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں پرتگال کی ٹیم نے سوئٹزرلینڈ کو بری طرح شکست دے کر کیا ثابت کر دیا ہے۔
راموس کی بدولت جب پرتگال 5-1 تک پہنچا تو سٹیڈیم رونالڈو-رونالڈو سے گونجنے لگا۔ گول کرنے کے بعد، رونالڈو 'Siyu-Siyu' کہہ کر جشن مناتے ہیں۔ سٹیڈیم ان کے انداز سے گونج رہا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ ان شائقین کی جانب سے نعرے لگائے گئے جو پیسے خرچ کر کے رونالڈو کو دیکھنے آئے تھے۔
ان میں سوئس شائقین بھی ضرور ہوں گے، جو شاید امید کر رہے تھے کہ سینتوس راموس کو ہٹا دیں گے۔ آخر کار جب صرف 16 منٹ باقی تھے تو رونالڈو نے جواؤ فیلکس کی جگہ لے لی اور ان کا استقبال کسی پاپ سٹار کی طرح کیا گیا۔
یہ عجیب لگ رہا تھا۔ رونالڈو کے لیے ناک آؤٹ میچ اس طرح ختم ہونا بے معنی لگ رہا تھا۔ یہ زوال پذیر کیریئر کی علامت تھی۔
تاہم جواؤ فیلکس کی جگہ آنے والے رونالڈو کو جب بھی گیند ملی تو لوگ یہی سمجھتے تھے کہ اب کچھ ہو گا۔ اندر بیٹھے لوگ رونالڈو کا پرانا جادو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ ایسا جادو اس وقت ہونے والا تھا جب وہ ایکبار گیند کے ساتھ آگے بڑھے لیکن ریفری نے آف سائیڈ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے
سپین کے خلاف تاریخی فتح: مراکش کھلاڑیوں کا فلسطینی پرچم کے ساتھ جشن، بادشاہ کی فون پر مبارکباد
قطر میں ورلڈ کپ: جرمنی کی فٹبال ٹیم کے احتجاجاً منھ پر ہاتھ رکھنے پر عرب دنیا میں اشتعال
جھنڈے سے ’اللہ‘ کا نام کیوں ہٹایا؟ ایران نے فیفا سے امریکہ کی شکایت کر دی
رونالڈو کی تھوڑی دیر کے لیے میدان میں آنے کی کشش بھی ایک نوجوان پرتگالی سٹرائیکر رافیل لیو نے چُرا لی۔ رونالڈو میدان میں تھے لیکن چھٹا گول لیو نے کیا۔
رونالڈو اب بھی اس ٹورنامنٹ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ ایسا نہیں لگتا کہ وہ مراکش کے خلاف پہلے 11 کھلاڑیوں میں نظر آئیں گے۔
شاید ان کے ذہن میں یہ بات بھی آ رہی ہو گی کہ اب ان کے لیے پرتگال کی ٹیم میں وہ جگہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔
ایک زمانے میں رونالڈو کو پرتگال کا مستقبل کہا جاتا تھا۔ لیکن وہ تیزی سے ماضی کا قصہ بنتے جا رہے ہیں۔
مستقبل اب راموس اور لیو جیسے ابھرتے ہوئے ستاروں کا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک کلب اور ملک کے کھوئے ہوئے ہیرو کا مقام کیا ہوگا؟ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ مراکش کے خلاف میچ میں وہ جگہ ایک بار پھر بینچ بنے گی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cn0je1pnj27o | مراکش کے کوچ کی وہ حکمتِ عملی جو ورلڈ کپ میں سپین کے خلاف اہم کامیابی کا باعث بنی | فٹبال ورلڈ کپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں اہم میچوں کے دوران معاملہ تناؤ سے بھرپور پینلٹی شوٹ آؤٹس تک بھی جا سکتا ہے۔
منگل کو مراکش اور سپین کے درمیان کھیلے جانے والے میچ میں بھی ہی جب ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تو مراکش کو اپنے سٹار مین کی ضرورت تھی کہ وہ سپین کے خلاف انتہائی اہم پینلٹی سکور کر کے مراکش کو ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب ٹیم بنا دیں۔
120 منٹ کے کانٹے دار مقابلے اور دو کامیاب پینلٹیز کے بعد اب دباؤ سے بھرپور اس لمحے کو مسخر کرنے کی ذمہ داری اشرف حکیمی کے کندھوں پر تھی۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اشرف حکیمی سپین میں پیدا ہوئے تھے اور ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ میں بطور رائٹ بیک کھیل چکے ہیں اور اگر صورتحال تھوڑی سی بھی مختلف ہوتی تو شاید منگل کو وہ مراکش کے بجائے سپین کی طرف سے ہی کھیل رہے ہوتے۔
تاہم 24 سالہ حکیمی نے اپنے آبائی ملک کو چنا اور اب ایک پوری قوم کی ذمہ داری کا بوجھ ان کے نوجوان کندھوں پر تھا کیونکہ ان کے سکور کرنے سے ان کی ٹیم ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں چلی جاتی۔
حکیمی نے انتہائی پرسکون انداز میں یہ پینلٹی لی، جیسے یہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔ انھوں نے بال کو چپ کر کے گول کے عین بیچ میں پہنچا دیا ایسے پینلٹی لگانے کے انداز کو ’پنینکا‘ کہتے ہیں، جس کے بعد ہر طرف مراکش کے مداحوں کا جشن شروع ہو گیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس شوٹ آؤٹ میں کامیابی انتہائی جذباتی انداز میں منائی۔
مراکش وہ چوتھی افریقی ٹیم اور پہلا عرب ملک ہے جو فٹبال ورلڈ کپ کے کوارٹرفائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ سنہ 1990 میں کیمرون، سنہ 2002 میں سینیگال اور سنہ 2010 میں گھانا کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ آج تک سیمی فائنل تک کوئی بھی افریقی ٹیم رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
میچ کے بعد مراکش کے مینیجر ولید ریگراگی کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بہترین کامیابی ہے اور ان سب کھلاڑیوں نے مل کر کھیلا اور بھرپور ہمت دکھائی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں بہت زیادہ حمایت حاصل ہے اور ہم نے وہ توانائی آج اپنی کارکردگی میں دکھانے کی کوشش کی۔‘
یہ کامیابی اتنی بڑی تھی کہ میچ کے بعد ریگراگی کو مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوئی۔
ریگراگی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کسی مراکش کے رہنے والے کے لیے بہت غیرمعمولی بات ہے۔ بادشاہ ہمیں ہمیشہ حوصلہ دیتے ہیں اور ہمیں مشورہ دیتے ہیں اور ہم سے یہ امید کرتے ہیں کہ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔‘
’ان کا پیغام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کے حوالے سے بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہم مزید محنت کرنا چاہتے ہیں اور اگلی مرتبہ زیادہ بہتر کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
مراکش اس میچ میں انڈر ڈاگ تھا اور انھیں اس کا علم تھا۔
انھوں نے اپنے گیم پلان پر بھروسہ کیے رکھا اور مضبوط ڈیفنس کے ساتھ ثابت قدم رہے جس کے باعث سپین کی صرف ایک شاٹ آن ٹارگٹ رہی حالانکہ ہسپانوی کوچ لوئس اینریکے کی ٹیم نے ایک ہزار سے زیادہ پاس کر کے مخالف ٹیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
ریگراگی نے کہا کہ ’سپین اگر دنیا کی بہترین نہیں تو چند بہترین ٹیموں میں ایک ہے، ہم ان کے خلاف زیادہ جارحانہ انداز سے نہیں کھیل سکتے تھے کیونکہ وہ ہم سے یہی چاہتے تھے۔‘
’ہم نے صبر کیا اور ہمیں معلوم تھا کہ اگر بات پینیلٹیز تک پہنچی تو ہمارے پاس اچھا موقع ہو گا کیونکہ ہمارے گول کیپر دنیا کے بہترین گول کیپرز میں سے ایک ہیں۔ اس لیے ہم آخری لمحے تک لڑتے رہے۔‘
سٹیڈیم کے باہر موجود ایک جوشیلے مراکش مداح اعظم جو سٹیڈیم کے باہر جشن منا رہے تھے نے بی بی سی سپورٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پر کسی کو یقین نہیں تھا، لیکن ہمیں خود پر یقین تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم دوبارہ بھی جیت سکتے ہیں۔‘
ریگراگی کی سب سے بڑی کامیابی ٹیم کے مراکش میں پیدا ہونے والے کھلاڑیوں اور تارکینِ وطن مراکش کھلاڑیوں کے درمیان تناؤ ختم کرنا تھا۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ ’ورلڈکپ سے پہلے ٹیم کے مراکش میں پیدا ہونے والے اور یورپ میں پیدا ہونے والے کھلاڑیوں کے درمیان بہت سے مسائل تھے لیکن آج میرے خیال میں اس سے دنیا کو پیغام ملا ہے کہ ہر مراکشی، مراکشی ہے۔‘
مراکش کی ٹیم میں شامل حکیمی میڈرڈ میں پیدا ہوئے، گول کیپر یاسین بونو مونٹریال کینیڈا میں اور زیئش اور نوسیر مازروئی نیدرلینڈز میں پیدا ہوئے انھیں گذشتہ کوچ کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ان کا نئی ریجیم میں استقبال کیا گیا۔
بجائے اس کے کہ ریگراگی تارکینِ وطن کھلاڑیوں کو ’کم مراکشی‘ تصور کرتے اور چونکہ وہ خود پیرس سے تھوڑا باہر مراکشی والدین کے ہاں پیدا ہوئے تھے انھوں نے ان کھلاڑیوں کا غیر ملکی لیگز میں تجربہ ٹیم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
مراکش کے کھلاڑی بڑے چیمپیئنز لیگ مقابلوں میں بھی کھیل چکے ہیں اور انھیں یہ معلوم ہے کہ دباؤ والے میچوں میں کس طرح کھیلنا ہے۔
مراکش کے تارکینِ وطن کی تعداد قطر میں آپ کو فٹبال پچ کے باہر بھی نظر آئے گی، جہاں 1500 مراکشی باشندے رہتے ہیں۔
سپین کے خلاف ایجوکیشن سٹی سٹیڈیم میں 20 ہزار مداح ان کی سپورٹ کے لیے موجود تھے اور سٹیڈیم کے باہر ہزاروں موبائل فونز پر میچ دیکھ رہے تھے۔
حکیمی کا یہ انتہائی اہم موقع پر ’پنینکا‘ خاصی مقبولیت اختیار کر گیا ہے جس کے بعد ہسپانوی گول کیپر یونائے سیمون ایک گھٹنے پر بیٹھ جانے پر مجبور ہو گئے تھے اور فٹبال ان کے قریب سے سلو موشن میں گزر گئی تھی۔
تاہم فرانسیسی کلب پیرس سینٹ جرمین کے فل بیک کو ہیرو بننے کا موقع نہ ملتا اگر گول کیپر یاسین بونو نے دو پینلٹیز سیو نہ کی ہوتیں، ہسپانوی کھلاڑی پابلو سارابیا اور عبدالحمید سبیری اور حکیم زیئش نے دو پنیلٹیز لگا کے اپنے ملک کو برتری دلوا دی تھی۔
مراکش نے سپین کو پینیلٹیز لگانے کا طریقہ بتایا اور اس کے بعد سے جشن کا آغاز ہو گیا، کھلاڑی پچ پر بھاگتے دکھائی دیے اور چیلسی کے زیئش کو ان کے ٹیم کے کھلاڑیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔
کوچ ریگراگی کو ستمبر میں ہی اس ٹیم کے ساتھ لگایا گیا تھا اور انھیں کھلاڑیوں کی جانب سے ہوا میں پھینکا گیا تھا۔
ریگراگی کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ سب کچھ مداحوں کے بغیر کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ہوٹل آ رہے ہیں، ان کو ٹکٹوں کی ضرورت ہے، قطر میں متعدد مداح اپنی ٹیم کی حمایت کرنے آئے ہیں، کچھ امریکہ، کچھ یورپ اور کچھ مراکش سے۔‘
’وہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور اور میرے نزدیک ہم نے ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔ مجھے کوارٹرفائنل میں بھی ان کی ضرورت ہو گی لیکن مجھے اپنے مداحوں اور اپنے لوگوں پر فخر ہے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nerx1eqlro | سپین کے خلاف تاریخی فتح: مراکش کھلاڑیوں کا فلسطینی پرچم کے ساتھ جشن، بادشاہ کی فون پر مبارکباد | ہر ٹیم چاہتی ہے کہ فیفا ورلڈ کپ جیسے بڑے مقابلے کے فیصلہ کن میچ میں ان کا سٹار کھلاڑی پرفارم کرے۔ مراکش کو بھی یہی امید تھی کہ اشرف حکیمی سپین کو اپ سیٹ دینے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
منگل کی شب 120 منٹ گزرنے کے باوجود کوئی ٹیم گول نہیں کر سکی تھی۔ مراکش کی دو کامیاب پینلٹیوں اور سپین کی دو ناکام پینلٹیوں کے بعد فیصلہ کن پینلٹی اشراف حکیمی کو لگانا تھی اور وہ یقیناً کافی دباؤ میں تھے۔
وہ سپین میں پیدا ہوئے اور ریال میڈرڈ کے لیے رائٹ بیک پر کھیلتے تھے۔ ان کی زندگی قدرے مختلف رہی ہوتی اگر وہ اسی ملک کے لیے کھیلتے جہاں وہ پیدا ہوئے۔
مگر 24 سالہ اشرف نے سپین کے بجائے اس ملک کے لیے کھیلنے کا فیصلہ کیا جہاں سے ان کے والدین اور آباؤ و اجداد کا تعلق تھا۔ اب قوم کی پوری ذمہ داری ان کے جواں کندھوں پر تھی۔
انھیں معلوم تھا کہ اگر وہ اس اہم مرحلے پر گول کر دیں گے تو مراکش پہلی بار فٹبال ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گا۔
اشرف حکیمی آگے بڑھے اور ہسپانوی گول کیپر کو چکما دے کر گیند گول پوسٹ کے پار پہنچا دی۔
مراکش نے تین صفر کے کامیاب شوٹ آوٹ سے کامیابی حاصل کی اور اشرف حکیمی بھاگ کر شائقین میں سب کو چھوڑ کر اپنی والدہ کے پاس پہنچے جنھوں نے ان کے گال پر بوسہ دیا۔ یہ تصویر گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
ماضی میں اشرف حکیمی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ ’میری والدہ گھروں کی صفائی کرتی تھیں اور میرے والد پھیری والے ہیں۔۔۔ میں آج ہر روز ان کے لیے محنت کرتا ہوں۔ انھوں نے میرے لیے کئی قربانیاں دیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
مراکش اب چوتھی افریقی اور پہلی عرب ٹیم ہے جس نے کوارٹر فائنل (یعنی آخری آٹھ ٹیموں) میں کوالیفائی کیا۔ اس سے قبل تین افریقی ممالک (1990 میں کیمرون، 2002 میں سنیگال اور 2010 میں گھانا) نے کوارٹر فائنلز میں کوالیفائی کیا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی ٹیم اس راؤنڈ سے آگے نہیں جا سکی تھی۔
میچ کے بعد مراکش کے مینیجر وليد الركراكی نے کہا کہ ’یہ بڑی کامیاب ہے اور کھلاڑی پُرجوش ہیں۔ انھوں نے عمدہ یقین کا مظاہرہ کیا۔‘
’ہمیں اس بے پناہ حمایت کا علم تھا جو ہمیں ملی اور گذشتہ رات کی پرفارمنس اسی سے متاثرہ تھی۔‘
یہ اس قدر بڑی کامیابی مانی گئی کہ ٹیم کے مینیجر کو مراکش کے بادشاہ نے میچ کے بعد فون کیا۔ ’کسی بھی مراکش شہری کے لیے یہ بڑی غیر معمولی بات ہے کہ آپ کو بادشاہ کا فون آئے۔ انھوں نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی ہے اور وہ ہمیں فون کر کے مشورے دیتے ہیں اور پوری جان لگانے کا کہتے ہیں۔‘
’ان کا ہمیشہ وہی پیغام ہوتا ہے۔ انھیں کھلاڑیوں پر فخر ہے اور اس کے نتیجے میں ہم بہتر سے بہتر کھیل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
اشرف حکیمی کو تیسری پینلٹی سکور کر کے ہیرو بننے کا موقع شاید نہ مل پاتا اگر مراکش گول کیپر ياسين بونو نے دو پینلٹیاں نہ روکی ہوتیں یا عبدالحامد صابری اور حکیم زیاش نے کامیاب پینلٹیوں کے بعد ملک کو دو صفر کی برتری نہ دلائی ہوتی۔
تیسری کامیاب پینلٹی کے بعد سپین ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا اور مراکش کھلاڑیوں نے جیت کا بھرپور جشن منایا۔ چیلسی کے لیے کھیلنے والے زیاش اور کوچ کو کندھوں پر اٹھا لیا گیا۔
مراکش کے فٹبالرز جیت کے موقع پر ایک پرچم کے ساتھ تصویر کے لیے جمع ہوئے۔ یہ ان کے اپنے ملک کا پرچم نہیں تھا، نہ ہی یہ الجزائر، تیونس یا لبنان کا پرچم تھا۔ ان تمام ملکوں کے شائقین عرب یکجہتی کے اظہار میں سٹیڈیم میں موجود تھے اور مراکش کی حمایت کر رہے تھے بلکہ یہ فلسطینی پرچم تھا۔
مراکش کے فینز نے سٹیڈیم کے باہر بھی فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور ٹی شرٹس پہنچ رکھی تھیں۔
سٹیڈیم کے اندر کے ماحول کے بارے میں سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مراکش فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھا تھا۔ انھوں نے اسی پرچم کے ساتھ گروپ فوٹو بنوائی۔
مراکش سٹرائیکر عبدالرزاق نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھا تھا۔
اگرچہ فلسطینی ٹیم خود ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہ کر پائی مگر ان کا پرچم اور فلسطینی لوگوں سے اظہار یکجہتی بارہا ٹورنامنٹ کے دوران نظر آتی رہی۔
ستمبر میں تعینات کیے گئے ركراكی کہتے ہیں کہ ’فینز کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ وہ ہمارے ہوٹل آئے، انھوں نے میچوں کے ٹکٹ خریدے، امریکی، یورپ اور مراکش سے کئی فینز قطر میں ہماری ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے آئے۔‘
’انھیں ملک سے محبت ہے اور میں انھیں بس یہی بتا سکتا ہوں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں ان کی کوارٹر فائنلز میں ضرورت ہوگی لیکن مجھے اپنے لوگوں اور فینز پر بہت فخر ہے۔‘
مراکش کو فٹبال ورلڈ کپ میں ’انڈر گاڈز‘ سمجھا جا رہا تھا اور انھیں یہ معلوم تھا۔
مگر وہ اپنے گیم پلان پر ڈٹے رہے۔ انھوں نے اپنی دفاعی حکمت عملی کو مضبوط بنایا جس کی وجہ سے سپین صرف ایک آن ٹارگٹ شاٹ لگا پایا۔ سپین نے مراکش کو تھکانے کی کوشش کی، کھلاڑیوں نے 120 منٹ میں ایک ہزار سے زیادہ پاسز کیے۔ مگر وہ کسی صورت مراکش ڈیفنس کو توڑ کر گول نہ کر پائے۔
اگرچہ سپین کے حامی شائقین پورے میچ کے دوران اپنی ٹیم کا جارحانہ کھیل دیکھتے ہوئے جھومتے ہوئے جملے کستے رہے۔ مگر مراکش فینز نے اپنی ٹیم کا ساتھ نہ چھوڑا۔
پینلٹیوں کے بعد ہسپانوی فینز کے چہرے لٹک گئے اور دل ٹوٹ گئے۔ یقیناً انھیں پوری رات اس شکست نے مایوس رکھا ہوگا۔
مراکش کپتان رومان سایس یہ میچ ہیمسٹرنگ انجری کے باوجود کھیلے۔ نایف اکرد انجری کے باعث لڑکھڑاتے ہوئے میدان سے باہر چلے گئے۔ جبکہ مڈ فیلڈر سفيان امرابط نے تیزی سے ان کی جگہ لی اور سپین کی ڈیفنس توڑنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
وليد الركراكی کے مطابق سپین دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔ ’ہم جارحانہ انداز میں نہیں کھیل سکتے تھے کیونکہ وہ ہم سے یہی چاہتے تھے۔
’ہم نے تحمل سے کھیلا اور ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے پاس دنیا کے بہترین گول کیپرز میں سے ایک ہے۔ ہم اس موقع کے لیے لڑتے رہے۔‘
سکاٹ لینڈ کے سابق فٹبالر پیٹ نوین نے کہا ہے کہ ’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مراکش اس جیت کے مستحق نہیں۔ انھوں نہ اپنی جدوجہد، جنون اور دلیری سے پینلٹی شوٹ آؤٹ جیت کر میچ اپنے نام کیا۔‘
’یہ تاریخی لمحہ ہے۔ آپ یہ دیکھ سکتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں کہ اس جیت کا قوم کے لیے کیا مطلب ہے۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ وہ اس قدر دور تک پہنچ پائیں گے۔‘
سٹیڈیم کے باہر مراکش فین اعظم نے کہا کہ ’کسی کو یقین نہ تھا مگر ہمیں اپنی ٹیم پر مکمل یقین تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم دوبارہ بھی جیت سکتے ہیں۔‘
’اس ٹیم میں کئی ہیرو ہیں۔ وہ سیمی فائنل، پھر فائنل میں پہنچ کر ورلڈ کپ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں سپین سے کوئی ڈر نہیں تھا۔ گیند ہمارے پاس ہوئی تو ہم ہی جیتیں گے۔‘
’مراکش میں جیت کا جشن ناقابل بیان ہے۔‘ ان کی بات سچ ہے کیونکہ مراکش دارالحکومت رباط میں شائقین نے سڑکوں پر جشن منایا ہے۔
اب ان کا اگلا امتحان سنیچر کو ہے جب ان کا کوارٹر فائنلز میں پرتگال سے مقابلہ ہو گا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp659p5x0pxo | سٹوکس کو سٹوکس ہی ہرا سکتا ہے: سمیع چوہدری کا کالم | راولپنڈی کی اس خنک شام جب ڈھلتے سورج کے سائے طویل ہونے لگے، پاکستانی ڈریسنگ روم میں جذبات سرد پڑنے لگے اور ارمان آہوں میں بدلتے گئے۔ جس سحر کی امید لئے بابر اعظم پانچ روز پہلے اس میدان میں اترے تھے، یہ وہ سحر نہیں تھی۔
رجعت پسندانہ ٹیم سلیکشن کے ساتھ شروع ہونے والے اس سفر میں بابر اعظم کی قائدانہ غلطیوں نے المیے کو دوچند کیا اور پھر پہلے دو روز کی اوسط فیلڈنگ و بولنگ نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا۔ پاکستان کی ایسی پچز پہ تین میچز کی ٹیسٹ سیریز میں اگر پہلے ہی میچ سے مہمان ٹیم یوں برتری لے جائے تو بہت سے سوال پردۂ فکر پہ دستک دینے لگتے ہیں۔
اور اگر تھنک ٹینک بھی اپنی سوچ میں حد سے زیادہ بنیاد پرست واقع ہوا ہو تو سوال اور مسائل فطری طور پہ بڑھوتری کو گامزن ہو جاتے ہیں۔ جہاں یہ اصرار مسلسل برقرار رہے کہ دنیا کی دنیا جانے، ہم اپنی سی ہی کرکٹ کھیلیں گے، وہاں ٹیسٹ کرکٹ کی جدید حرکیات کیا بیچیں گی؟
کوئی بھلے دن تھے جب مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ہوم گراؤنڈز پہ ناقابلِ شکست ٹیم ہوا کرتا تھا مگر تب سبھی مبصرین ایک ہی راگ الاپتے تھے کہ ہوم گراؤنڈز پہ جیت میں کیا کمال پنہاں ہے، اپنے گھر میں تو ہر کوئی جیت سکتا ہے۔
جب سے مصباح الحق اس کوچنگ سیٹ اپ سے رخصت ہوئے ہیں، پاکستان تاحال اپنے ہوم گراؤنڈز پہ کوئی بھی ٹیسٹ میچ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ پہلے آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے کا سنہری موقع گنوایا گیا اور اب بین سٹوکس کا عزم و ہمت پاکستان کو چاروں خانے چِت کر گیا۔
بجا کہ صبح کے سیشن میں پہلا گھنٹہ بلے بازوں کے لئے بہت دشوار ہوتا ہے اور یہاں انگلش پیسرز کی نپی تلی بولنگ بھی پاکستانی بلے بازوں کو امتحان میں ڈال رہی تھی مگر اس سپیل میں بھی کئی ایک گیندیں ایسی تھیں جنہیں اگر مثبت عزم سے کھیلا جاتا تو نہ صرف چند قیمتی باؤنڈریز پاکستان کے سکور بورڈ میں جمع ہو جاتیں بلکہ دباؤ کا دھارا بھی انگلش کیمپ کی طرف پلٹ جاتا۔
مگر پاکستان نے یہاں جو کرکٹ کھیلی، وہ بجائے خود مخمصے کا شکار تھی۔ واہموں میں الجھی بیٹنگ لائن کے سامنے کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں تھی کہ اس میچ میں کیا پیش رفت کریں اور کیونکر کریں۔ ایک عجیب سا خوف ذہنوں پہ طاری تھا جو کسی کو بھی یہ سُجھانے کی ہمت نہیں دے رہا تھا کہ ہدف کے پیچھے بھاگنا ہے یا اوائل سے ہی ہتھیار ڈال دینا ہیں۔
اگرچہ ٹیسٹ کرکٹ میں کھیل کی چال لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے اور ہر سیشن میں کھیل کی حرکیات مختلف ہوتی ہیں مگر پاکستانی تھنک ٹینک کو یہ سمجھنا کیونکر محال تھا کہ ڈرا یہاں یکسر خارج از امکان تھا اور جس قدر پاکستانی بیٹنگ اس میچ کو طول دیتی، بین سٹوکس کے لئے امکانات کا دائرہ اسی قدر وسیع تر ہوتے جانا تھا۔
سٹوکس اگر چاہتے تو اپنی دوسری اننگز کی ڈکلئیریشن چائے کے وقفے کے بعد مزید آدھے گھنٹے تک موخر کر دیتے اور ایک ایسا ہدف ترتیب دیتے جہاں سے پاکستان کے لئے میچ میں بقا ہی واحد رستہ رہ جاتا۔ مگر سٹوکس اس امر سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ ڈرا کی خوگر پاکستانی ٹیم یوں ان کے دام میں نہیں آئے گی۔
سٹوکس بالکل یہی چاہتے تھے کہ ہدف ایسا ہو جو پاکستان کی رسائی میں ہو۔ مگر ان کے خیال کے برعکس پاکستان نے کل سہہ پہر ہی یہ طے کر چھوڑا تھا کہ بہر صورت وہ میچ کو آخری ایک گھنٹے تک کھینچ کر لے جائیں گے اور پھر وہاں سے یہ تعین کیا جائے گا کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہے۔
مگر اس دانشمندانہ منصوبہ سازی کے بیچ فیصلہ ساز یہ بھول بیٹھے کہ اگر پنڈی کی اس پچ نے پانچویں دن کی سہہ پہر اپنی روایتی ریورس سوئنگ کی کوئی جھلک دکھلا دی تو پاکستان کے پاس سر چھپانے کو کون سا گوشہ میسر ہو گا؟
اگر پاکستان صبح کے سیشن میں پہلا گھنٹہ اپنی بے جا مدافعانہ حکمتِ عملی کی نذر نہ کرتا تو بعید نہیں تھا کہ سارا دباؤ واپس انگلش کیمپ کو پلٹ جاتا اور سٹوکس اپنی ڈکلئیریشن کے فیصلے پہ سٹپٹانے لگتے۔ مگر پاکستان کے محتاط قدموں نے انگلش بولرز کے حوصلے جواں کر دئیے۔
پچھلے کچھ عرصہ میں اگر مختلف ٹیموں کے ٹیسٹ کرکٹ میں رن ریٹ کا تقابل کیا جائے تو انگلش ٹیم سرِ فہرست نظر آتی ہے جبکہ پاکستانی ٹیم اس جدول کے عین آخری خانے میں دکھائی دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سمیع چوہدری کا کالم: پی سی بی کو ’قرونِ اولیٰ‘ سے کون نکالے گا؟’
اس سے بہتر ہے ٹیموں کو نیشنل ہائے وے پر ٹیسٹ میچ کِھلا دیا کریں‘
محض ٹکڑوں میں بٹی کپتانی کافی نہ ہو گی: سمیع چوہدری کا کالم
یہ امر حیران کن یوں ہے کہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور انڈیا تو پاکستان سے بھی سست تر پچز پہ اپنی بیشتر کرکٹ کھیلتے ہیں مگر ان کا بھی عزم اس پاکستانی ٹیسٹ ٹیم سے بدرجہا بہتر ہے۔
جس سوچ کے ساتھ یہ ڈریسنگ روم ٹیسٹ کرکٹ میں آگے بڑھنا چاہ رہا ہے، وہ عملی دنیا میں زیادہ وقعت نہیں رکھتی اور اس سوچ کے تحت ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل کھیلنے کا خواب محض مضحکہ خیزی کے سوا کچھ نہیں۔ چیمپئین شپ کے رواں سائیکل میں اب پاکستان کے مزید چار میچز باقی ہیں اور فائنل تک رسائی کا امکان پانے کے لئے یہ چاروں میچز جیتنا لازم ہیں۔
مگر رواں منظر نامے میں ایسا کوئی معجزہ برپا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہاں، اگر پاکستان ٹیم سلیکشن میں اپنی سوچ بہتر کر لے اور بابر اعظم اپنی قائدانہ اپروچ میں ذرا سی جارحیت جگا لیں تو شاید مزید رسوائی سے چھٹکارا ممکن ہو پائے۔
مگر بین سٹوکس جیسے حریف کے سامنے ہوتے ایسا بدلاؤ لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cllr0dygy0jo | ’پی سی بی نے شکست کے ڈر سے ڈیڈ پچ بنائی، اس پر بھی انگلش پیسرز نے نو وکٹیں اڑا دیں‘ | راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے پاکستان کو 74 رنز سے شکست دے کر 22 برس بعد پاکستان کی سرزمین پر اپنا پہلا ٹیسٹ میچ جیت لیا ہے۔
ایک ایسا ٹیسٹ میچ جو اپنے پہلے تین روز کے دوران ایک پھیکے سے ڈرا کی طرف جاتا دکھائی دے رہا تھا چوتھے روز اچانک دلچسپ موڑ اختیار کر گیا اور ایسا انگلینڈ کی جانب سے کی گئی دلیرانہ ڈیکلیریشن کے باعث ہوا۔
آج انگلینڈ کی جانب سے دن کے آغاز سے پاکستانی بلے بازوں پر خوب دباؤ ڈالا گیا اور فیلڈ پر کیے گئے مختلف منصوبوں کے ذریعے پاکستان کی مزاحمت کو محدود کیے رکھا اور بالکل آخری لمحات میں انگلینڈ کو فتح سے ہمکنار کیا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انگلینڈ نے آخری مرتبہ جب پاکستان کی سرزمین پر دسمبر سنہ 2000 میں کراچی ٹیسٹ جیتا تھا تو اس وقت بھی یہ میچ پانچویں روز شام تک جاری رہا تھا اور تب بھی پاکستان کی منفی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آج انگلش فاسٹ بولرز اولی رابنسن اور جیمز اینڈرسن نے بہترین ریورس سوئنگ کا استعمال کرتے ہوئے چار چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
لیکن میچ میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب چوتھے روز انگلش ٹیم کے کپتان بین سٹوکس نے اننگز ڈیکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاید ہی ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی ایسی ٹیم ہو جو ایسی پچ اور اس طرح کا فیصلہ کر پاتی۔
یہ وہ فیصلہ تھا جس نے راولپنڈی کی مردہ پچ کے باوجود میچ میں نئی جان بھر دی۔ پاکستانی بلے باز بھی میچ کے انتہائی اہم موقعوں پر آؤٹ ہوتے گئے اور بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کا کوئی واضح منصوبہ بھی نظر نہیں آیا۔
چوتھے رؤز عبد اللہ شفیق اور بابر اعظم کی وکٹیں گرنے اور اظہر علی کی انجری کے باوجود امام الحق اور سعود شکیل کے درمیان شراکت نے پانچویں روز پاکستانی بیٹنگ کو استحکام بخشا مگر یہ دونوں ایک ساتھ 64 رنز ہی جوڑ پائے۔
پانچویں دن کے پہلے ہی سیشن میں نصف سنچری مکمل کرنے سے قبل ہی امام الحق نے بدقسمتی سے جیمز اینڈرسن کی لیگ سٹمپ کے باہر گیند پر وکٹ کیپر کو کیچ دے کر اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔
پاکستان کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان نے اپنے ٹی ٹوئنٹی کے انداز سے ہٹ کر یہاں 46 رنز کی اننگز کھیلی مگر وہ بھی اینڈرسن کی ریورس سوئنگ پر ایج دے گئے۔
نصف سنچری بنانے والے سعود شکیل نے اولی رابنسن کی گیند پر ڈرائیو لگائی مگر کوور میں کھڑے کے کے جینینگز نے پھرتی دکھا کر ان کا کیچ پکڑا لیا۔ وہ ڈیبیو پر 76 رنز کی اننگز کھیل کر آؤٹ ہوگئے۔
تاہم پھر گذشتہ روز زخمی ہونے والے اظہر علی اور آغا سلمان نے مل کر 83 رنز کی شراکت جوڑی تو پاکستان کی امیدیں ایک بار پھر بحال ہوئیں۔
تاہم پاکستان کی جانب سے فاسٹ بولرز کے خلاف محتاط اور سپنرز کے خلاف جارحانہ انداز اپنانے کے پلان کے بعد انگلینڈ نے سپنرز کی بجائے فاسٹ بولرز کو ہی لمبے سپیلز دینا شروع کیے لیکن پاکستانی بلے بازوں کے پاس ان کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں تھا۔
آغا سلمان اور اظہر علی دونوں ہی اولی رابنسن کی ریورس سوئنگ کا نشانہ بنے اور پھر پاکستانی ٹیل اینڈرز پر اس میچ کو بچانے کی ذمہ داری آئی جو ظاہر ہے ایک انتہائی تجربہ کار بولنگ اٹیک کے سامنے ایک مشکل کام تھا۔
نسیم شاہ اور محمد علی نے میچ بچانے کے لیے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کیے رکھی لیکن آخر کار نسیم شاہ سپنر جیک لیچ کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر انگلینڈ کو اس ٹیسٹ میچ کو ایک انتہائی مردہ پچ پر جیتنے پر مبارک باد دی جا رہی ہے۔
اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انگلینڈ کی جانب سے جس طرح ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جا رہی ہے وہ آئندہ اس حوالے سے راستے کا تعین کرے گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ انگلینڈ کی تاریخی فتوحات میں سے ایک ہے اور پاکستان کے ہوم گراؤنڈ پر جا کر اسے ہرانا یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔
اس حوالے سے میچ کے بعد بات کرتے ہوئے جمی اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ سب سے بہترین نہیں تو کم از کم ان بہترین فتوحات میں سے ایک ہے جن کا میں حصہ رہا ہوں۔‘
اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سابق انڈین اوپنر وسیم جعفر نے کہا کہ ’اس پچ پر نتیجہ صرف اس لیے حاصل ہوا کیونکہ انگلینڈ نے پہلے 100 اوورز میں 600 رنز بنائے اور پھر دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈکلیریشن کا فیصلہ کیا۔ اس پر انھیں جتنا کریڈٹ دیا جائے اتنا کم ہے۔‘
ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’میں سمجھتا ہوں آج انگلینڈ نے پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی سب سے ذلت آمیز شکست دیدی پاکستان ٹیم کی منفی سوچ کی وجہہ سے ایسی شرمناک شکست ہوئی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
سابق آسٹریلوی بلے باز مارک وا نے لکھا کہ مکلم اور سٹوکس ٹیسٹ کرکٹ کے کھیل کو بدل رہے ہیں۔ وہ دلیر، نڈر اور مثبت مائنڈ سیٹ کے ساتھ راولپنڈی ٹیسٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے جہاں کی پچ مردہ تھی۔ مجھے نہیں لگتا دنیائے کرکٹ میں کسی اور ٹیم نے اس طرح کی حکمتِ عملی کے بارے میں سوچنا بھی تھا۔‘
ایک صارف نے پچ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’پی سی بی نے شکست کے ڈرسے ڈیڈ پچ بنائی،اس پربھی دوسری اننگزمیں انگلش پیسرزنے9وکٹیں اڑا دیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjr2q8g80y5o | بنگلہ دیش کی انڈیا کے خلاف سات سال بعد فتح: ’کرکٹ کی بلین ڈالر مارکیٹ بنگلہ دیش سے ہار گئی‘ | انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان پہلے ون ڈے کے دوران کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن آخر کار یہ بنگلہ دیش کرکٹ کی تاریخ کا یادگار میچ بن گیا۔
جب بنگلہ دیش کے تمام نمایاں بلے باز ایک ایک کر کے پویلین لوٹ چکے تھے اور پچ پر آخری جوڑی کھڑی تھی، اور انڈین بولرز کا غلبہ تھا جبکہ بنگلہ دیش کو جیت کے لیے اب بھی 51 رنز درکار تھے، تب کرکٹ کے تقریباً تمام پنڈتوں نے انڈیا کی جیت کو یقینی طور پر قبول کر لیا تھا۔
ایسے میں مہدی حسن ایک ستارے کی طرح چمکے اور انڈیا کی ناک کے نیچے سے فتح چھین کر لے گئے۔
انڈیا نے پہلے کھیلتے ہوئے صرف 186 رنز بنائے تھے اور اس کا دفاع کرنا ظاہر ہے اتنا آسان نہیں تھا لیکن دیپک چاہر نے پہلی ہی گیند پر وکٹ لے کر انڈیا کی امیدیں جگا دی تھیں۔
پھر محمد سراج نے درمیانی اوورز میں تین وکٹیں لے کر انڈین ٹیم کی میچ میں واپسی یقینی بنا دی تھی۔
187 رنز کے ہدف کے سامنے بنگلہ دیش کی ٹیم 40ویں اوور میں 136 رنز بنا چکی تھی لیکن اس کے نو کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔
بنگلہ دیش کے تجربہ کار بولر مستفیض الرحمان اور آل راؤنڈر مہدی حسن کریز پر موجود تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب ایسا لگتا تھا کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے لیکن کلدیپ سین کے اگلے ہی اوور میں مہدی حسن نے دو چھکے لگا کر اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
اس کے بعد روہت شرما نے میچ کا 44 واں اوور دیپک چاہر کے سپرد کیا۔ دیپک نے اس سے پہلے صرف چھ اوور کیے تھے اور میچ کی پہلے اوور پر صرف نو رنز دے کر وکٹ لینے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
تاہم مہدی حسن نے اس اوور میں تین چوکے لگائے اور بنگلہ دیش کی میچ پر گرفت مزید مضبوط کر دی۔
اس اوور کے اختتام کے بعد بنگلہ دیش نے 173 رنز بنائے تھے اور اب اسے جیت کے لیے 44 گیندوں پر صرف 15 رنز درکار تھے جو مہدی اور مستفیض نے مل کر بنا لیے اور یوں بنگلہ نے یہ ہدف حاصل کر کے سات برس بعد انڈیا کو ایک ون ڈے میں شکست دے دی۔
مہدی حسن نے اس میچ میں نہ صرف اپنے بلے سے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا بلکہ انھوں نے اچھی بولنگ کا مظاہرہ بھی کیا اور شیکھر دھون کو بولڈ کیا اور اپنے نو اوورز میں صرف 43 رنز دیے۔
اس حوالے سے انڈیا میں بالخصوص بنگلہ دیش کی فتح کے حوالے سے خاصی بحث کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بھی انڈیا اور بنگلہ دیش کا میچ خاصا دلچسپ رہا تھا لیکن اس میں انڈیا کو فتح حاصل ہوئی تھی۔
ماضی میں بھی انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے میچ خاصے دلچسپ اور کانٹے دار ہوتے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بنگلہ دیش اپنے ہوم گراؤنڈ پر پچز کے نوعیت کے باعث ایک انتہائی خطرناک ٹیم بن جاتی ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران بنگلہ دیش نے اپنے ہوم گراؤنڈ پر کئی مہمان ٹیموں کو شکست دے رکھی ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے میچ اور مقابلہ اب انڈیا پاکستان سے زیادہ سنسنی خیز ہو گیا ہے۔‘ جس پر ایک اور صارف نے لکھا کہ بنگلہ دیش کو مزید تسلسل دکھانا ہو گا کیونکہ اکثر انڈیا بنگلہ دیش کے خلاف باآسانی سے جیت جاتا ہے۔
ایک صارف شرت چندرا بھٹ نے لکھا کہ ’بنگلہ دیش کے خلاف یہ شکست انڈیا کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو گی کیونکہ انڈیا نے اس میچ میں اچھی بولنگ کا مظاہرہ اور 186 رنز کا دفاع کیا۔‘
انھوں نے اس ڈراپ کیچ کا بھی ذکر کیا جو میک شفٹ وکٹ کیپر راہل نے مہدی حسن کا انتہائی اہم موقع پو چھوڑا تھا۔ اس کیچ کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر خاصی بحث چل رہی ہے کیونکہ میچ سے قبل رشبھ پنت کو زخمی ہونے کے باعث سکواڈ سے رلیز کر دیا گیا تھا۔
صحافی سہیل عمران نے پی سی بی چیئرمین کی جانب سے بارہا استعمال کیا گیا فقرہ دہرایا جس میں انھوں نے انڈیا کو کرکٹ کی بلین ڈالر مارکیٹ قرار دیا تھا۔ سہیل عمران نے لکھا کہ ’کرکٹ کی اربوں ڈالر کی مارکیٹ کو بنگلہ دیش نے ہرا دیا ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3y58rpv87o | پاکستان اور انڈیا میں فٹبال کی جگہ کرکٹ کیوں مقبول ہوئی اور اس میں برطانیہ کا کیا کردار ہے؟ | فٹبال دنیا کے سب سے مشہور کھیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کھیل کا آغاز بنیادی طور پر سنہ 1863 میں انگلینڈ کے ایک پب میں ہوا جب چند لوگوں نے پیروں کی مدد سے کھیلے جانے والے اس مقبول کھیل کے اصول طے کیے اور اسے فٹبال سے ملتے جلتے کھیل رگبی سے پوری طرح الگ کر لیا۔
آئندہ آنے والی چار دہائیوں میں فٹبال نے دنیا بھر کے کئی ملکوں میں اپنی پہچان بنا لی۔ اس کھیل کے پھیلاؤ کی ایک وجہ برطانوی راج تھا جو اس وقت زمین پر طاقتور عالمی قوت تھی اور دنیا کے بڑے حصے پر قابض تھی۔
تاہم سابقہ برطانوی راج کے کئی خطوں میں فٹبال اتنا مقبول نہ ہوسکا جتنے دیگر کھیل۔ مثلاً آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں فٹبال سے زیادہ مقبول رگبی ہے جبکہ انڈیا اور پاکستان (جو برطانیہ ہی کی کالونیاں تھیں) میں کرکٹ زندگی کا اہم حصہ ہے۔
کھیلوں کے تاریخ دان جین ولیمز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب برطانوی آسٹریلیا یا انڈیا پہنچے تو انگلینڈ کا قومی کھیل کرکٹ تھا، نہ کہ فٹبال۔ اور رگبی ان اشرافیہ کا من پسند کھیل تھا جنھیں ان خطوں پر حکمرانی کے لیے بھیجا جاتا تھا۔‘
ولیمز وضاحت کرتے ہیں کہ اسی دوران برطانیہ میں مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس (ملازمت پیشہ طبقہ) کا پسندیدہ کھیل فٹبال یا ساکر تھا۔
ولیمز نشاندہی کرتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں فٹبال کی مقبولیت کی دو وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ برطانوی انجینیئرز کی جانب سے بنائی گئی ریلوے لائنز کا پھیلاؤ۔ دوم یہ کہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کے ساتھ تعلیمی تبادلہ، خاص کر لاطینی امریکہ اور ایشیا میں۔‘
18ویں صدی میں کرکٹ انگلینڈ کا قومی کھیل بن گیا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب برطانوی راج اپنے عروج پر تھا۔
مگر ایک دوسرا کھیل بھی اپنی مقبولیت قائم کیے ہوئے تھے: یعنی رگبی جس کے بارے میں کئی دہائیوں تک کہا جاتا رہا کہ یہ ’جینٹل مین کا وحشیانہ کھیل ہے۔‘
ولیمز کہتے ہیں کہ ’یہ کھیل اس وقت کا امیر طبقہ اور رہنما کھیلتے تھے۔ آسٹریلیا، انڈیا اور جنوبی افریقہ جیسے خطوں میں ان کھیلوں کو باقاعدہ طور پر متعارف کرایا گیا۔‘
مگر اس سے پہلے ہی 18ویں صدی کے دوران برطانوی تاجر انڈیا میں کرکٹ لا چکے تھے مگر 19صدی میں برطانوی راج کے قبضے کے بعد اسے آفیشل انداز میں متعارف کرایا گیا جہاں سے اس کی مقبولیت بڑھی۔ اور آج انڈیا اور پاکستان میں کرکٹ بظاہر سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔
رگبی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے 19ویں صدی کے وسط میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر علاقوں میں مقبولیت حاصل کی۔
تاریخ دان پیٹرک ہچیسن نے اپنی تحریر ’سپورٹس اینڈ برٹش کلونیئل ازم‘ میں درج کیا ہے کہ ’برطانوی راج میں کھیل اتحاد پیدا کرنے والی قوت تھے جو اکثر قوم پرستی میں جڑے رہتے تھے اور کھیلوں میں سماجی و سیاسی جدوجہد کی جھلک ملتی تھی۔‘
اسی اثر و رسوخ نے انڈیا، پاکستان اور آسٹریلیا کو کرکٹ پسند کرنے والے ملکوں میں بدلا۔ جبکہ رگبی میں نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور سابقہ برطانوی نوآبادیاتی علاقے عالمی چیمپیئن بن گئے۔
آسٹریلیا میں سب سے مقبول آسٹریلین رولز فٹبال یا آسٹریلوی فٹبال ہے جو کہ دراصل کرکٹ، رگبی اور فٹبال کا میلاپ ہے۔ یہ انگلش رگبی یونین سے ملتا جلتا ہے۔
دوسری طرف فٹبال کی دو خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے یہ ان علاقوں میں اس قدر مقبول نہیں: اس کے قوانین 1863 اور اس کے بعد طے کیے گئے اور یہ برطانوی مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس کے لوگ زیادہ پسند کرتے تھے۔
ولیمز کہتے ہیں کہ ’جب تک برطانیہ میں فٹبال ایک مقبول کھیل بنا، کرکٹ اور رگبی پہلے ہی نوآبادیاتی علاقوں میں مقبول ہو چکے تھے اور یہ ہمیشہ سے اپر کلاس اور اشرافیہ کا پسندیدہ کھیل تھے۔‘
تاہم برطانوی سامراج نے اپنے افریقی نوآبادیاتی علاقوں میں فٹبال کو بھی ’اتحادی قوت‘ کے طور پر استعمال کیا۔
ہچیسن نے کہا کہ ’زنجبار، مصر اور دوسرے نوآبادیاتی علاقوں میں کھیلوں کے ذریعے کنٹرول بڑھانے کے مقصد سے مختلف لیگز کرائی جاتی تھیں۔ فٹبال کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔‘
مگر فٹبال مزید طریقوں سے بھی پھیلتا رہا۔
یہ بھی پڑھیے
آمرانہ حکومتیں اور فیفا کی متنازع تاریخ
پہلی آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے قیام کی کہانی
20ویں صدی کے آغاز میں بھی برطانوی راج ایشیا، افریقہ اور کیریبین تک پھیلے اپنے علاقوں میں عالمی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
مگر یورپ بھر میں فٹبال برطانوی شہریوں کا جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور دیگر یورپی ملکوں میں جانے سے مقبول ہوا۔
ریلوے چونکہ ایک برطانوی ایجاد تھی اس لیے دوسرے علاقوں میں اس کی تعمیر بھی اثر و رسوخ کا ایک ذریعہ تھی۔
تاریخ دان کے مطابق ’کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ریلوے کے ملازم دنیا بھر میں فٹبال اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسا انجینیئرز کی مدد سے ہوا کیونکہ انگلینڈ میں فٹبال مڈل کلاس کا کھیل تھا۔‘
ولیمز کے مطابق ان لوگوں نے دوسرے علاقوں میں فٹبال کھیل کر اس کا اثر و رسوخ پیدا کیا اور وہ دوسرے ملکوں میں اسے سکھانے اور اس کی تنظیمیں بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے اشرافیہ نوآبادیاتی علاقوں میں اپنے ساتھ کرکٹ اور رگبی لے گئے تھے۔
20ویں صدی کے آغاز میں برازیل، ارجنٹائن اور یوراگوئے جیسے ملکوں میں فٹبال کلبز کا قیام عمل میں آیا۔ ان میں سے کئی کے انگریزی نام رکھے گئے جو آج بھی برقرار ہیں جیسے ارجنٹائن میں ریور پلیٹ اور بوکا جونیئرز، یوراگوئے میں کلب نیشنل دی فٹبال اور برازیل میں فلومنینس ایف سی۔
ولیمز بتاتے ہیں کہ ’فٹبال کی نمایاں بات یہ تھی کہ یہ طبقات میں بٹا ہوا نہیں، اس لیے یہ تمام سطحوں پر مشہور ہوا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ریلوے وہ واحد طریقہ نہیں تھا جس سے فٹبال دنیا بھر میں پھیلا۔ لوگ برطانیہ میں کاروبار اور تعلیم کے لیے آتے تھے اور یہ بھی کھیلوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔
ولیمز نے کہا ہے کہ ’لاطینی امریکہ اور ایشیا سے کئی لوگ انگلش یونیورسٹیوں میں آئے اور اسے مقبول کھیل پا کر اسے اپنے ساتھ واپس لے گئے۔‘
مثال کے طور پر کولمبیا کے مشہور کلبز میں سے ایک دیپورتیوو کالی کی بنیاد نزاریو برادران نے رکھی جنھوں نے 20ویں صدی کے دوران انگلینڈ میں پانچ سال گزارے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’فٹبال کا جنم انگلینڈ میں ہوا اور اس نے برطانوی راج سے باہر رہنے والوں کو بھی متاثر کیا۔ اس وجہ سے کئی فٹبال کلب ان لوگوں نے قائم کیے جو باہر سے برطانیہ آئے تھے۔‘
مگر امریکہ اور کینیڈا میں برطانوی اثر و رسوخ کے باوجود یہاں فٹبال اس طرح سے مشہور نہ ہو سکا۔ مؤرخ جیمز براؤن نے کہا ہے کہ ’فٹبال نے کئی بار امریکی تہذیب کا حصہ بننے کی کوشش کی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے اصول اور گول کرنے کے اعداد و شمار وہ چیزیں تھیں جس نے اسے زیادہ مشہور نہ ہونے دیا۔‘
ان کے مطابق امریکیوں کو وہ کھیل پسند ہیں جن میں زیادہ بڑے نمبرز شامل ہوتے ہیں۔ ’لیکن سچ یہ ہے کہ 16 سال کی عمر تک اس ملک کے نوجوان ساکر کھیلتے ہیں۔ تو یہاں اس کا مستقبل دیکھا جاسکتا ہے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c979ne99493o | انگلینڈ کی شارٹ پچ بولنگ پاکستانی بلے بازوں پر بھاری، پاکستان کو جیت کے لیے 263 رنز، انگلینڈ کو آٹھ وکٹیں درکار | ایک ایسی پچ پر جہاں تیسرے دن تک اکثر تجزیہ کاروں کو اس ٹیسٹ میچ کا نتیجہ ’ڈرا‘ نظر آ رہا تھا، اُسی پچ پر پانچویں روز ہر طرح کے نتائج ممکن نظر آ رہے ہیں اور اس کی وجہ انگلینڈ کی جانب سے اننگز ڈیکلیئر کرنے کا دلیرانہ فیصلہ ہے۔
پاکستان کو پہلے ٹیسٹ کے آخری روز فتح حاصل کرنے کے لیے 263 رنز درکار ہیں جبکہ انگلینڈ کو پاکستان میں 22 برس بعد ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے آٹھ وکٹیں درکار ہوں گی۔
انگلینڈ کی ٹیم نے اس ٹیسٹ میچ کے آغاز سے ہی جارحانہ انداز اپنایا ہوا ہے اور یہ نہ صرف ان کی بیٹنگ اور بولنگ میں عیاں تھا بلکہ آج انگلینڈ کی جانب سے کی گئی ڈیکلیریشن بھی خاصی دلیرانہ تھی۔
پہلے ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز انگلینڈ نے پاکستان کو 343 رنز کا ہدف دینے کے بعد ڈیکلیریشن کا اعلان کر دیا حالانکہ اس وقت میچ میں تقریباً 100 سے زیادہ اوورز موجود تھے۔
آج دن کا آغاز پاکستان نے 499 رنز سات وکٹوں کے نقصان پر کیا۔ پاکستان کی جانب سے نوجوان بلے باز آغا سلمان نے نصف سنچری سکور کی۔
تاہم انگلینڈ کے سپنر ول جیکس کی جانب سے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور انھوں نے پاکستان کی آخری تینوں وکٹیں حاصل کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ انگلینڈ کی میچ پر برتری برقرار رہے۔
انگلینڈ کی جانب سے ول جیکس نے چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ انگلینڈ نے جب اپنی دوسری اننگز شروع کی تو اسے 78 رنز کی برتری حاصل تھی۔
انگلینڈ کی جانب سے دوسری اننگز میں بھی جارحانہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا اور حالانکہ پاکستانی فاسٹ بولرز نسیم شاہ نے پہلے ہی اوور میں بین ڈکٹ اور محمد علی نے چھٹے اوور میں اولی پوپ کی وکٹیں حاصل کر لی تھیں لیکن جو روٹ اور زیک کرالی کی جانب سے اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا گیا۔
دونوں کے درمیان 60 رنز کی شراکت محمد علی نے زیک کرالی کو آؤٹ کر کے توڑی اور پھر ہیری بروک اور جو روٹ کے درمیان ایک اور جارحانہ شراکت کا آغاز ہوا۔
جو روٹ جو پہلی اننگز میں صرف 23 رنز بنا سکے تھے اس مرتبہ نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے اور ہیری بروک نے گذشتہ اننگز کی طرح جارحانہ انداز میں بیٹنگ جاری رکھی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو ایک ایسا ہدف دیا جائے جس کا تعاقب پانچویں روز کرنا مشکل ہو۔
انگلینڈ کی جانب سے چائے کے وقفے سے پہلے ڈیکلریشن کا اعلان کیا گیا اور یوں پاکستان کو جیت کے 343 رنز درکار تھے۔
پاکستان اوپنرز نے آغاز میں اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا لیکن انگلینڈ کی جانب سے اس پچ پر شارٹ بولنگ کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اور اس مرتبہ بھی بین سٹوکس اور اولی رابنسن کی جانب سے شارٹ پچ گیندوں کے ذریعے پاکستانی بلے بازوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کا یہ پلان کامیاب رہا۔
پہلے اوپنر عبداللہ شفیق شارٹ پچ گیند پر پُل کرتے ہوئے ڈیپ سکویئر لیگ پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ ان کی جگہ جب کریز پر اظہر علی آئے تو ان کا استقبال بھی ایک شارٹ پچ گیند سے کیا گیا۔
یہ گیند اظہر علی کی انگلی پر لگی اور فزیو کی جانب سے کوششوں کے باوجود وہ اس وقت بیٹنگ جاری نہیں رکھ سکے اور ریٹائرڈ ہرٹ ہو گئے۔ دیکھنا ہو گا کہ اب اظہر علی پانچویں روز بیٹنگ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے یا نہیں۔
ان کے بعد پہلی اننگز میں سنچری بنانے والے بابر اعظم کریز پر آئے لیکن وہ بھی صرف چار رنز بنانے کے بعد بین سٹوکس کی شارٹ پچ گیند کا نشانہ بنے اور وکٹ کیپر کو کیچ دے بیٹھے۔
پاکستان کے لیے اس وقت کریز پر اوپنر امام الحق 43 اور سعود شکیل 24 رنز پر موجود ہیں اور دونوں کی شراکت اب 55 رنز کی ہو چکی ہے۔
کل پاکستان کو جیت کے لیے 263 رنز درکار ہوں گے اور اسے امام اور سعود کی لمبی شراکت کی اشد ضرورت محسوس ہو گی۔
راولپنڈی میں پانچویں روز کا کھیل ایک مرتبہ پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے اور پیر کو تینوں نتائج ممکن ہیں یعنی کسی ایک ٹیم کی فتح اور دوسری کی ہار یا پہلے ٹیسٹ کا بے نتیجہ اختتام۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckr7kj0plgyo | سمیع چوہدری کا کالم: پی سی بی کو ’قرونِ اولیٰ‘ سے کون نکالے گا؟ | جیمز اینڈرسن نے پچ پر نظر ڈال کر ایک ٹھنڈی آہ بھری، خفیف سی مسکراہٹ سے بین سٹوکس کی طرف دیکھا اور دوبارہ اپنے بولنگ مارک کی سمت چل پڑے۔ راولپنڈی کی یہ پچ ایسی ہی ہے کہ یہاں فاسٹ بولر صرف ٹھنڈی آہیں بھر سکتے ہیں اور بہتر مستقبل کی دعا کر سکتے ہیں۔
امام الحق اور عبداللہ شفیق اپنے انداز میں انگلش اوپنرز کو بھرپور جواب دے چکے تھے اور بے جان پچ پر پاکستان کا سکورنگ ریٹ اینڈرسن کی الجھن میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ یہ الجھن فقط فاسٹ بولرز تک ہی محدود نہیں تھی، اس پچ پر سپنرز کی زندگی بھی برابر دشوار تھی۔
اسی پچ پر جب انگلش بیٹنگ نے ساڑھے چھ سو سے زیادہ کا مجموعہ جوڑا تو اس کے لیے پاکستانی بولنگ کو صرف 101 اوورز پھینکنا پڑے تھے مگر پاکستان کے روایتی رن ریٹ کے سامنے انگلش بولنگ کی مشقت دو چند ہو گئی۔
اور یہ جھنجلاہٹ اس وقت مزید بڑھی جب چیئرمین پی سی بی میڈیا سے مخاطب ہوئے اور راولپنڈی کی پچ کو خفت آمیز قرار دیا۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ انکشاف بھی کر دیا کہ معیاری پچز کی تیاری میں پاکستان قرونِ اولیٰ میں بس رہا ہے۔
یہی بات اگر کوئی ایسا شخص کہے جو پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے حالیہ نتائج سے باخبر نہ ہو تو پھر بھی لاعلمی کی گنجائش موجود رہتی ہے لیکن جب چیئرمین پی سی بی ہی ایسا کوئی انکشاف کر ڈالیں تو عقل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ یا العجب، کیا انھوں نے اپنے ہی بورڈ کے زیر انتظام منعقد ہونے والی قائداعظم ٹرافی کے رواں سیزن پر نظر نہیں ڈالی؟
رواں فرسٹ کلاس سیزن کے دوران راولپنڈی کی یہی پچ فاسٹ بولرز کو بھرپور سیم، سوئنگ اور مناسب باؤنس فراہم کر رہی تھی جبکہ بیٹنگ کے لیے یہاں 300 کا مجموعہ حاصل کرنا سخت دشوار تھا۔
رمیز راجہ کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی جو آخری ٹیسٹ میچ اسی راولپنڈی کی وکٹ پر کھیلا گیا تھا، اس میں یہ وکٹ اس قدر بولنگ کے لیے سازگار تھی کہ پاکستانی ڈریسنگ روم متحیر ہو کر ہوم ایڈوانٹیج ڈھونڈنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔
جنوبی افریقہ کے خلاف اس تاریخی فتح میں نہ صرف پاکستانی سیمرز نے پچ سے خوب فیض پایا بلکہ جنوبی افریقی سپنرز کیشو مہاراج اور جارج لنڈے بھی بہت کامیاب رہے تھے۔
رمیز راجہ نے چیئرمین بنتے ہی پاکستانی پچز میں انقلابی تبدیلیوں کا عندیہ دیا تھا مگر ان کی زیرِ نگرانی جو پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان نے کھیلا اس میں راولپنڈی کی اسی پچ سے ساری گھاس اڑا دی گئی تا کہ آسٹریلوی پیس اٹیک پاکستانی بیٹنگ پر حاوی نہ ہو جائے۔
یہ کوشش کامیاب بھی رہی مگر اس کے نتیجے میں وہ ٹیسٹ میچ محض پانچ روز کی سعی لاحاصل میں بدل گیا۔
یہ بھی پڑھیے
محض ٹکڑوں میں بٹی کپتانی کافی نہ ہو گی: سمیع چوہدری کا کالم
فارمولہ کرکٹ پاکستان کو مہنگی پڑ گئی: سمیع چوہدری کا کالم
پنڈی کی پچ: ’اس سے بہتر ہے ٹیموں کو نیشنل ہائے وے پر ٹیسٹ میچ کِھلا دیا کریں‘
حالانکہ چند ہفتے پہلے جب اسی پچ پر قائداعظم ٹرافی کے میچز کھیلے جا رہے تھے تب بھی سیمرز یہاں راج کر رہے تھے مگر نجانے پاکستانی تِھنک ٹینک کو کیا ابتلا درپیش ہے کہ جونہی ٹیسٹ میچ کا ذکر آتا ہے، ایک عجیب سی سراسیمگی طاری ہو جاتی ہے اور راتوں رات وکٹ سے ساری گھاس اڑا کر اسے بے جان کر دیا جاتا ہے۔
مگر جس برانڈ کی کرکٹ یہ انگلش ٹیم کھیل رہی ہے، اس کے مقابل کسی بھی طرح کی پچ پر ڈرا کے لیے کھیلنا دیوانے کے خواب سے بڑھ کر نہیں۔ سٹوکس ایسے کپتان ہیں جو ہر حال میں نتیجہ خیزی کی جستجو میں رہتے ہیں اور یہاں بھی وہ پاکستان کو مجبور کریں گے کہ چوتھی اننگز میں ایک خطیر ہدف ان کا منتظر ہو۔
پاکستان کے لیے محض یہ پچ ہی گھاٹے کا سودا ثابت نہیں ہوئی بلکہ بابر اعظم کی ٹیم سلیکشن اس سے بھی بڑھ کر خسارے کا معاملہ ہے۔ جو کمبینیشن انھوں نے ترتیب دیا ہے اس میں سے آل راؤنڈرز کو کیوں باہر رکھا گیا، یہ ایک معمہ ہے۔
بعینہٖ بہترین فارم میں چلے آتے ابرار احمد کو بینچ پر بٹھا کر زاہد محمود کے ساتھ جو ’انصاف‘ کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کی گئی وہ خود انہی کے ساتھ ایک نا انصافی میں بدل گئی۔
پاکستانی ٹاپ آرڈر نے بھی حریف انگلش ٹاپ آرڈر کی طرح اس وکٹ کے بھرپور مزے لوٹے اور بابر اعظم کی سینچری نے فالو آن کے خطرات بھی ٹال دیے مگر فی الوقت جو برتری سٹوکس کی ٹیم کو حاصل ہے، پاکستان کے لیے اس میچ میں بقا کی جنگ دشوار ہوتی جا رہی ہے۔
اور پاکستان کی دشواری صرف گراؤنڈ کے اندر تک ہی محدود نہیں بلکہ سوا دو سو میل دور قذافی سٹیڈیم لاہور کے پی سی بی آفس تک پھیلی ہوئی ہے جس سے یہ گتھی سلجھائے نہیں سلجھ رہی کہ پاکستان پچ بنانے کے عمل میں قرون اولیٰ کی سوچ سے کب نکل پائے گا؟ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c13kp71l8g3o | پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: تیسرے دن بابر اعظم کی سنچری اور گیند چمکاتے انگلش بولرز | پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان راولپنڈی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن پاکستان نے سات وکٹوں کے نقصان پر 499 رنز بنائے ہیں۔ پاکستان کو ابھی بھی انگلینڈ کی لیڈ ختم کرنے کے لیے مزید 158 رنز بنانے ہیں جبکہ ابھی اس کی تین وکٹیں باقی ہیں۔
یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ ہے جس میں پہلی اننگز میں دونوں ٹیموں کے اوپنرز نے ڈبل سنچری شراکت جوڑی ہے اور چاروں اوپنرز نے سنچریاں بنائی ہیں۔
اس مردہ پچ پر ہونے والی تمام بحث ایک طرف، یہاں پہلی دو اننگز میں اب تک سات بلے باز سنچریاں بنا چکے ہیں: انگلینڈ کے چار اور پاکستان کے تین۔
چائے کے وقفے تک پاکستان نے 113 اوور کھیلنے کے بعد تین وکٹوں کے نقصان پر 411 رنز بنائے جبکہ انگلینڈ کو اس وقت پاکستان پر 246 رنز کی برتری حاصل تھی۔ چوتھی وکٹ کے لیے کپتان بابر اعظم اور سعود شکیل نے 121 رنز جوڑے جبکہ اسی سیشن میں بابر اعظم نے 136 رنز بنا کر اپنی آٹھویں سنچری مکمل کی۔
یہ تیسرے روز کی تیسری سنچری تھی۔ خیال رہے کہ پہلے روز چار انگلش بلے بازوں زیک کرولی، بین ڈکٹ، اولی پوپ اور ہیری بروک نے سنچریاں بنائی تھیں۔ انھی کی مدد سے انگلینڈ نے پہلی اننگز میں 657 رنز بنائے تھے۔ اس سے قبل کھانے کے وقفے تک پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 298 رنز بنائے تھے۔
میچ کے تیسرے روز انگلش سپنرز کی قسمت کھلی اور وہ اوپنرز عبد اللہ شفیق اور امام الحق کے درمیان ڈبل سنچری شراکت توڑنے میں کامیاب ہوئے۔
عبد اللہ شفیق 114 رنز پر کھیل رہے تھے جب آف سپنر ول جیکس کی گیند پر کٹ لگانے کی آڑ میں ان کے بلے سے ایج نکلی اور وکٹ کیپر اولی پوپ نے ان کا مشکل کیچ تھام لیا۔ یہ ڈیبیو کرنے والے جیکس کی پہلی ٹیسٹ وکٹ تھی۔
صرف 20 رنز بعد 245 کے مجموعی سکور پر امام الحق نے جیک لیچ کو اٹیک کرنے کی کوشش کی اور اولی رابنسن نے ان کا کیچ پکڑ لیا۔ امام نے پنڈی سٹیڈیم میں اپنی تیسری سنچری بنائی تھی۔
پنڈی کی پچ: ’اس سے بہتر ہے ٹیموں کو نیشنل ہائے وے پر ٹیسٹ میچ کِھلا دیا کریں‘
پاکستان ٹیم میں شامل’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
برطانوی سفیر کا ’پنڈی بوائے‘ روپ: ’انگریز کو اُردو بولتے تو سُنا تھا لیکن پوٹھوہاری بولتے پہلی بار دیکھا‘
دونوں اوپنرز کی وکٹیں گِرنے کے بعد 73ویں اوور سے قبل وہ لمحہ خاصا انوکھا تھا جب جو روٹ لیچ کے گنجے سر پر گیند رگڑتے ہوئے اسے چمکنانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ پھر ایک موقع پر وہ اولی پوپ کے ماتھے سے گیند چمکاتے نظر آئے۔
اور انگلینڈ کو 80 اوورز کے بعد نئی گیند ملی تو دوسرا ہی اوور جو روٹ کو دے دیا گیا مگر اس سے زیادہ فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔
نمبر تین پر آئے اظہر علی محض 27 رنز بنا کر لیچ کی سیدھی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔
لنچ کے بعد کپتان بابر اعظم نے سکورننگ ریٹ میں اضافے کے لیے متعدد باؤنڈریاں لگائی اور اسی دوران اپنی ساتویں نصف سنچری مکمل کی۔ انھوں نے 68 گیندوں پر 51 رنز بنائے تھے۔
بابر اعظم نے چوتھی وکٹ کے لیے سعود شکیل کے ساتھ سو رنز جوڑے اور ساتھ ہی 111ویں اوور میں اپنی سنچری 126 گیندوں پر مکمل کی۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام |
https://www.bbc.com/urdu/articles/clmgdmexkkyo | پنڈی ٹیسٹ: انگلینڈ کے 657 رنز، امام الحق اور عبداللہ شفیق کی سنچری شراکت | پاکستانی بولرز اگرچہ راولپنڈی ٹیسٹ کے دوسرے دن انگلینڈ کی چھ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن وہ رنز کی رفتار کو پھر بھی نہ روک سکے اور پانی ان کے سر سے اوپر جاچکا تھا۔
انگلینڈ نے 657 رنز بناکراطمینان کا سانس لیا جو ٹیسٹ کرکٹ میں اس کا پاکستان کے خلاف سب سے بڑا سکور ہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کا پاکستان کے خلاف پانچواں سب سے بڑا سکور بھی ہے۔
اس بڑے سکور کے بعد پاکستانی بیٹسمینوں کی آزمائش شروع ہوچکی تھی جن کے سامنے پہلا سب سے بڑا چیلنج فالوآن سے خود کو بچانا ہے۔
دوسرے دن کھیل کے اختتام پر پاکستان نے بغیر کسی نقصان کے 181 رنز بنالیے تھے۔ امام الحق اور عبداللہ شفیق نے ُپراعتماد انداز میں بیٹنگ کرتے ہوئے آنے والے بیٹسمینوں کے حوصلے بھی بلند کردیے تھے۔
امام الحق 90 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔ انھوں نے اس اننگز کے دوران ٹیسٹ کریئر میں اپنے ایک ہزار رنز بھی مکمل کر لیے۔ یہ ان کا 17 واں ٹیسٹ ہے۔
فالوآن سے بچنے کے لیے پاکستان کو اب بھی 276 رنز بنانے ہیں۔ عبداللہ شفیق 89 رنز بناکر کریز پر تھے۔ ان دونوں نے اسی سال پنڈی ہی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ کی یاد دلادی، جس کی دوسری اننگز میں انھوں نے 252 رنز کی اوپننگ شراکت قائم کی تھی جس میں دونوں کی ناقابل شکست سنچریاں شامل تھیں۔
پنڈی ٹیسٹ کے پہلے دن جب انگلینڈ کے بیٹسمین تیز رفتاری سے رنز بنارہے تھے تو سابق ٹیسٹ کرکٹر اور اس سیریز میں کمنٹری کرنے والے بازید خان نے ٹوئٹ کی کہ اتنا تو پلے سٹیشن پر بھی نہیں ہوتا۔
انگلینڈ کے بیٹسمینوں کی مثبت سوچ میں دوسرے دن کے پہلے سیشن میں بھی کوئی فرق نہیں آیا اور انھوں نے سکورر حضرات کو کسی بھی موقع پر آرام سے نہیں بیٹھنے دیا۔
انگلینڈ کی ٹیم نے دوسرے دن جب بیٹنگ شروع کی تو سکور چار وکٹوں پر 506 رنز تھا اور جب اس کی آخری وکٹ گری تو وہ صرف 26 اوورز میں151 رنز کا اضافہ کرچکی تھی، یعنی اس نے فی اوور پانچ سے بھی زیادہ رنز کی رفتار برقرار رکھی۔
انگلینڈ کی اننگز میں پہلے ہی دن چار سنچریاں بن چکی تھیں اور دوسرے دن دلچسپی اس بات میں تھی کہ کیا مزید کوئی بیٹسمین تین ہندسوں کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوسکے گا؟ اگرچہ ایسا نہ ہو سکا لیکن ہیری بروک اپنے گذشتہ روز کے سکور میں 52 رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ہیری بروک نے پہلے دن سعود شکیل کے ایک ہی اوور کی چھ گیندوں پر چھ چوکے لگائے تھے۔ دوسرے دن زاہد محمود ان کی زد میں آگئے جن کے ایک اوور میں انھوں نے دو چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے27 رنز اسکور کرڈالے۔ آخری گیند پر تین رنز بنے۔ یہ 27 رنز ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ کے کسی بھی بیٹسمین کے ایک اوور میں بنائے گئے سب سے زیادہ رنز ہیں۔
ہیری بروک کی شکل میں انگلینڈ کو سپیشل ٹیلنٹ ملا ہے۔ اس نوجوان بیٹسمین کی صلاحیتیں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور اس سال کی پی ایس ایل میں ظاہر ہوچکی ہیں اور اب اپنے دوسرے ٹیسٹ میں سنچری کے بعد ان کا ٹیسٹ کریئر بھی روشن دکھائی دیتا ہے۔
دوسرے دن کے کھیل میں گرنے والی انگلینڈ کی پہلی تین وکٹیں فاسٹ بولر نسیم شاہ کے حصے میں آئیں جنھوں نے کپتان بین سٹوکس کو بولڈ کیا اور ہیری بروک اور لیئم لونگ سٹون کے کیچ سعود شکیل کے ہاتھوں میں محفوظ ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
پنڈی ٹیسٹ: کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن چار بیٹسمینوں کی سینچریاں
پنڈی کی پچ: ’اس سے بہتر ہے ٹیموں کو نیشنل ہائے وے پر ٹیسٹ میچ کِھلا دیا کریں‘
پاکستان ٹیم میں شامل’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کرنے والے لیگ سپنر زاہد محمود نے اگرچہ انگلینڈ کی پہلی اننگز میں چار وکٹیں حاصل کیں لیکن انھوں نے33 اوورز کی بولنگ میں 235 رنز دے ڈالے۔
یہ کسی بھی بولر کی اولین ٹیسٹ میں سب سے مہنگی بولنگ کا نیا ریکارڈ بھی ہے۔ اس سے پہلے انگلینڈ کے لیگ سپنر عادل رشید نے سنہ 2015 میں پاکستان کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 163 رنز دیے تھے اور انھیں کوئی وکٹ نہیں ملی تھی۔ تاہم وہ دوسری اننگز میں 64 رنز کےعوض 5 بیٹسمینوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
زاہد محمود سے قبل پاکستان کے پانچ بولرز ٹیسٹ کی ایک اننگز میں دو سو یا اس سے زیادہ رنز دے چکے ہیں جن میں خان محمد، فضل محمود، حسیب احسن، ثقلین مشتاق (دو مرتبہ) اور یاسر شاہ (تین مرتبہ) شامل ہیں۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cz40rz1q2qeo | پنڈی کی پچ: ’اس سے بہتر ہے ٹیموں کو نیشنل ہائے وے پر ٹیسٹ میچ کِھلا دیا کریں‘ | انگلینڈ کی ٹیم کی جانب سے جب بھی ایشیائی ممالک کا دورہ کیا جاتا ہے تو عموماً انھیں یہاں کی پچز سے یہی شکوہ ہوتا ہے کہ یہ ’ہوم ایڈوانٹیج‘ کا غیر ضروری استعمال کرتے ہوئے سپن بولنگ کے لیے موافق بنائی جاتی ہیں۔
تاہم اس مرتبہ 17 سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم کا راولپنڈی میں استقبال ایک ایسی پچ سے کیا گیا جسے پاکستانی مداحوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے اور اسے ’پچ کے نام پر سڑک‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس کی وجہ پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے روز انگلش بلے بازوں کی جانب سے ریکارڈ 500 رنز سے زیادہ کا سکور بنانا ہے۔
اس میں کیوی کپتان برینڈن مکلم کے بطور انگلش کوچ بننے کے بعد سے انگلینڈ کے بلے بازوں کا جارحانہ انداز تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی اس میں پچ کے مردہ پن کا بھی عمل دخل ہے جس کے باعث پاکستانی بولرز کو بالکل بھی مدد نہیں مل سکی۔
اس میچ میں پاکستان کی جانب سے فاسٹ بولر محمد علی اور حارث رؤف کو ٹیسٹ کیپ دی گئی تھی تاہم اوپنرز نے ہی 233 رنز کی شراکت بنا کر پاکستان کو آغاز میں ہی مشکلات سے دوچار کر دیا۔
انگلینڈ کی جانب سے چار بلے بازوں نے سنچریاں سکور کیں جن میں زیک کرالی، بین ڈکٹ، اولی پوپ اور ہیری بروک شامل ہیں۔
عام طور ٹیسٹ میچوں میں پہلے روز پچ فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ہوتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ یہ سپنرز کے لیے بہتر ہونا شروع ہوتی ہے۔ تاہم راولپنڈی کی پچ پر فاسٹ بولرز کی گیند نہ ہی سیم ہوتی دکھائی دی اور فاسٹ بولرز کو صرف پرانی گیند سے کچھ وقت کے لیے ریورس سوئنگ کی سہولت میسر آئی۔
اس کے علاوہ سپنر زاہد محمود بھی اس پچ سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں کم از کم پہلے روز تو ناکام رہے جس کے بعد ٹوئٹر پر پاکستان مداحوں نے اس پچ کے حوالے تنقید شروع کر دی ہے۔
اکثر صارفین اس کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو قرار دے رہے ہیں جنھوں نے گذشتہ سال عہدہ سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں پچز کے حوالے سے متنازع بیانات دیے ہیں۔
سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ نے پہلے پاکستان میں ڈراپ ان پچز کی بات کی تھی تاہم آئیڈیا کو کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد جب آسٹریلیا نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا تو پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں ایسی پچز تیار کی گئیں جہاں رنز بنانا بہت آسان جبکہ بولرز کے لیے بہت زیادہ مشکلات موجود تھیں۔
رمیز راجہ نے ان دونوں پچز کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ تحفے کے طور پر تو نہیں دے سکتے تھے‘ اور ’ہمیں ہوم ایڈوانٹج کا بھی خیال رکھنا ہے۔‘
تاہم پاکستان کو الٹا آسٹریلیا سے لاہور میں شکست ہوئی اور یوں پاکستان کو اپنے ہی سرزمین پر آسٹریلیا سے ایک صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کی پچ کو ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا گیا تھا اور اس پر خاصی تنقید کی گئی تھی۔ سابق آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر مارک ٹیلر نے کہا تھا کہ ’اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ کہاں کھڑی ہے۔ حالانکہ ان کے پاس بہت اچھے کرکٹرز موجود ہیں لیکن ان کی انتظامیہ کو بہادر انداز اپنانا ہو گا۔‘
انھوں نے گذشتہ بی بی سی ٹیسٹ میچ سپیشل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ پچز کی صورتحال پر قابو نہیں پا سکے ہیں اور ان کے نزدیک ڈراپ ان پچیں ہی اس کا حل ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر سینٹر کی پچ دوسری سے مختلف ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اب بھی ایک بہترین پانچ دن کی وکٹ بنانے سے کئی سال پیچھے ہیں۔‘
تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا پر رمیز راجہ اور پی سی بی پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے اور ان پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا معیار خراب کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ کچھ ہفتے قبل قائداعظم ٹرافی کے میچوں میں اسی پچ پر اوسط سکور 250 کے لگ بھگ تھا۔
انھوں نے اس کے ساتھ پنڈی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ڈومیسٹک میچ کی تصویر بھی لگائی جس سے صاف ظاہر تھا کہ اس پچ پر خاصی گھاس موجود تھی لیکن پاکستان اور انگلینڈ کے ٹیسٹ کے لیے اس پر سے گھاس کو مکمل طور پر صاف کر دیا گیا تھا۔
رمیز راجہ کے بیان پر ایک صارف نے لکھا کہ ’پنڈی پچ جنوبی افریقہ کے میچ میں تو بتہرین تھی، (وہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان 2021 کے آغاز میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا حوالہ دے رہے تھے)۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
اکثر صارفین کی جانب سے اسے ایک سٹرک کہا جا رہا ہے اور کچھ صارفین نے تو اس پر فوٹوشاپ کر کے سائن بورڈ لگا دیے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’آپ نے انگلینڈ کے بیز بال طرز کھیل کے لیے بہترین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس بارے میں ہمیں کچھ نہ بتائیں کہ یہ ٹیسٹ کرکٹ کو کیسے تبدیل کر سکتا ہے۔‘
صحافی جیمی آلٹر نے لکھا کہ ’حیرانگی کی بات ہے کہ اربوں ڈالر اکانومی والی انڈین ٹیم کو ہرانے والی پاکستان ٹیم ایک اچھی ٹیسٹ میچ وکٹ نہیں بنا سکی۔‘
صارف حیدر عباسی نے لکھا کہ ’کمنٹری پر رمیز راجہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان ٹیم بہت سست کھیلتی ہے، اب انھوں نے ایسی پچز بنانا شروع کر دی ہیں کہ مخالف ٹیمیں ایک دن میں 500 رنز بنا دیتی ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ تباہ کر دی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
ایک صارف گرکیرات سنگھ نے لکھا کہ ’اس سے بہتر ہے ٹیموں کو نیشنل ہائے وے پر ٹیسٹ میچ کھلا دیا کریں کیونکہ کرکٹ کی کوالٹی پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1veqnvry5po | فٹبال ورلڈ کپ: وہ تاریخی میچ جب سیٹیاں خواتین ریفری بجائیں گی | قطر میں کھیلے جا رہے فٹبال کے عالمی مقابلوں میں آج جب کوسٹاریکا اور جرمنی کے درمیان میچ ہوگا تو یہ فٹبال کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہوگا جب ریفری کی سیٹیاں خواتین کے پاس ہوں گی۔
تاریخ رقم کرنے والی ان خواتین ریفریز میں فرانس کی سٹیفنی فریپارٹ، برازیل کی نویزا بیک اور میکسکو سے تعلق رکھنی والی کیرن ڈیاز مڈینا شامل ہیں۔
فریپارٹ نے چند روز پہلے ہی یہ انہونا کارنامہ انجام دے دیا تھا جب انھیں منگل کے روز میکسیکو اور پولینڈ کے میچ میں چوتھا ریفری مقرر کیا گیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فریپارٹ کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتی ہیں کہ ہم پر کتنا دباؤ ہے، لیکن ہمیں بڑے تحمل سے کام کرنا ہے اور نظریں کھیل پر ہی مرکوز رکھنی ہیں اور یہ نہیں سوچنا کہ میڈیا کیا کہہ رہا ہے۔ ہمیں بس اس پر نظر رکھنی ہے کہ کھیل کے میدان میں کیا ہو رہا ہے۔‘
ہر کام میں اوّل
38 سالہ فرانسیسی ریفری ورلڈ کپ سے پہلے ہی یورپی فٹبال کے مقابلوں میں تاریخ رقم کر چکی ہیں۔ انھیں پہلی خاتون ریفری بننے کا اعزاز اس وقت حاصل ہوا تھا جب سنہ 2019 میں انھوں نے یورپ کے سُپر کپ کے میچ میں یہ ذمہ داری نبھائی تھی۔ اور پھر سنہ 2020 میں وہ چیمیئن لیگ کے میچوں میں بھی ریفری تھیں۔
خاتون ریفری کا تجربہ کیسے رہا؟
بی بی سی نے جب پوچھا کہ آیا انھیں کبھی کھلاڑیوں، مینیجرز یا شائقین کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، فریپارٹ کا کہنا تھا ’میں نے جب سے یہ کام شروع کیا ہے مجھے فٹبال ٹیموں، کلبوں اور خود کھلاڑیوں کی طرف سے ہمیشہ تعاون اور حوصلہ افزائی ملی ہے۔ اسی لیے میں خود کو ایک عام ریفری ہی سمجھتی ہوں۔ مجھے ہمیشہ بخوشی قبول کیا گیا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ پہلے کی طرح آج بھی مجھے خوش آمدید کہا جائے گا۔‘
دوسری جانب نویزا بیک یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے لیے یہ سفر آسان نہیں تھا اور انھیں تلخ لمحات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ اب انھوں نے تنقید کرنے والوں سے نمٹنے کا گُر سیکھ لیا ہے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’جب مجھے کسی ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے جب لوگ ڈھکے چھپے انداز میں تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں، گھٹیا مذاق کرتے ہیں یا محض ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں، تو میں خود کو یہی بتاتی ہوں کہ لوگ جو سمجھتے ہیں یا میرے بارے میں جو کہتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ میں وہ نہیں ہوں۔‘
38 سالہ نویزا بیک کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ پروفیشنل فٹبال کی سطح پر خواتین کے خلاف تعصب میں مسلسل کمی آ رہی ہے، لیکن نچلی سطح پر اس حوالے سے ابھی ہمیں ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
’ایمیچئور یا (نچلی سطح) پر تعصب زیادہ ہے۔ ہم (خواتین ریفریز) کو چاہیے کہ ہم اپنا کام بہت اچھے انداز میں کریں، میدان میں ٹھیک فیصلےکریں، تو ہر چیز ٹھیک ہوتی جائے گی۔‘
آج کے میچ کی تیسری خاتون ریفری، ڈیاز مڈینا بتاتی ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ دوسری لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بنیں ’اور انھیں دکھاؤں کہ اگر آپ محنت کرتے ہیں اور اپنے کام سے پیار کرتے ہیں تو آپ کے خواب پورے ہو جاتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ اس ورلڈ کپ کے لیے فیفا نے کل 36 ریفریوں کا انتخاب کیا ہے جن میں سے چھ خواتین ہیں۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0w9wzr11yo | پنڈی ٹیسٹ : انگلینڈ کے ریکارڈ 506 رنز، کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن چار بیٹسمینوں کی سینچریاں | راولپنڈی ٹیسٹ شروع ہونے سے قبل انگلینڈ کے کیمپ میں موجود بے یقینی میچ شروع ہونے کے بعد پاکستانی ٹیم کی مایوسی میں بدل گئی۔
مہمان ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کے وائرس میں مبتلا ہونے کے نتیجے میں یہ سوال اہم تھا کہ کیا انگلینڈ کی ٹیم گیارہ فٹ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترپائے گی اور میچ وقت پر شروع ہوسکے گا؟ تاہم انگلینڈ نے اپنی پلیئنگ الیون میں بیمار بین فوکس کی جگہ ِول جیکس کو ٹیسٹ کیپ دے کروقت پر ہی یہ ٹیسٹ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔
پاکستانی ٹیم کے کپتان بابراعظم کے لیے پریشانی کی بات یہ رہی کہ ان کا ناتجربہ کار بولنگ اٹیک انگلینڈ کے بیٹسمینوں کو چیلنج نہ کرسکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ کا سکور پہلے ہی دن 506 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ تک جا پہنچا جو ٹیسٹ کرکٹ میں میچ کے پہلے دن کسی بھی ٹیم کا سب سے بڑا سکور ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا نے 1910 میں جنوبی افریقہ کے خلاف سڈنی ٹیسٹ کے پہلے ہی دن 494 رنز بنائے تھے۔
پاکستان نے پنڈی ٹیسٹ میں چار کھلاڑیوں فاسٹ بولرز حارث رؤف، حمد علی، لیگ سپنر زاہد محمود اور مڈل آرڈر بیٹسمین سعود شکیل کو ٹیسٹ کیپ دی ہے۔
یہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن چار بیٹسمینوں نے سینچریاں سکور کی ہیں۔
پنڈی کی وکٹ اسی سال آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں بھی رنز کی بھرمار کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہی تھی جس پر مجموعی طور پر1187 رنز بنے تھے اور صرف 14 وکٹیں گری تھیں۔ آئی سی سی کے میچ ریفری رنجن مدوگالے نے اسے اوسط درجے سے بھی کم قرار دیا تھا جس پر آئی سی سی نے پنڈی سٹیڈیم کے کھاتے میں ایک ڈی میرٹ پوائنٹ ڈال دیا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے ٹیسٹ سینٹرز پر نئی پچیں تیار کرائی ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ پنڈی کی اس پچ پر رنز کا سیلاب کہاں جاکر ٹھہرتا ہے۔
بین اسٹوکس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو میچ کے پہلے ہی اوور میں نسیم شاہ کی بولنگ پر زیک کراؤلی کے تین چوکوں سےانگلینڈ کی مثبت سوچ عیاں ہوگئی ۔یہ سوچ برینڈن مک کلم کے ہیڈ کوچ بننے کے بعد سے انگلینڈ کی کامیابیوں کی کنجی بن چکی ہے۔ زیک کراؤلی اور بین ڈکیٹ کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ شاہین شاہ آفریدی کے بغیر پاکستانی بولنگ اٹیک کے تینوں بولرز ٹیسٹ کرکٹ کے تجربے سے پہلی بار آشنا ہورہے ہیں لہذا انہوں نے ان تینوں بولرز کو خود پر حاوی ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔
زیک کراؤلی نے اسی سال مارچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچری اسکور کرنے کے بعد سترہ اننگز صرف ایک نصف سنچری کے ساتھ کھیل ڈالی تھیں اور ان کے سلیکشن پر سوالیہ نشان بھی لگا ہوا تھا لیکن پنڈی کی بیٹنگ وکٹ اور نئے بولنگ اٹیک نے انہیں ٹیسٹ کریئر کی تیسری سنچری اسکور کرنے کا موقع فراہم کردیا۔
زیک کراؤلی کے لیے ٹیسٹ میچ کے پہلے ہی دن لنچ سے قبل سنچری سکور کرنے والے انگلینڈ کے پہلے ٹیسٹ کرکٹر بننے کا موقع موجود تھا لیکن وہ اسوقت91 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔
لنچ کے بعد ان کی اننگز 99 رنز پر اسوقت ختم ہوتی ہوئی نظر آئی جب امپائر احسن رضا نے نسیم شاہ کی گیند پرانہیں ایل بی ڈبلیو دے دیا لیکن کراؤلی نے ریویو کا سہارا لیا جس کے مطابق گیند لیگ اسٹمپ کے باہر جارہی تھی۔ کراؤلی کے ساتھی بین ڈکیٹ بھی کسی طور پیچھے نہ رہے اور انہوں نے چھ سال بعد ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کو اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری سے یادگار بنادیا۔
ان دونوں نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 233 رنز کا اضافہ کیا جو پاکستان کے خلاف انگلینڈ کی پہلی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت ہے۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ 198رنز کا تھا جو جیف ُپلر اور باب باربر نے جنوری 1962ء میں ڈھاکہ ٹیسٹ میں قائم کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ زیک کراؤلی پاکستان کے خلاف انگلینڈ کی کسی بھی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت میں بھی شریک رہے ہیں جب انہوں نے 2020ء کے ساؤتھمپٹن ٹیسٹ میں جوز بٹلر کے ساتھ پانچویں وکٹ کی شراکت میں 359 رنز بنائے تھے۔
کھیل کے دوسرے سیشن میں کراؤلی122 رنز بناکر حارث رؤف کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ زاہد محمود کو بین ڈکیٹ( 107) اور جو روٹ( 23) کی وکٹیں ریویو کی مدد سے ملیں۔
میچ کے ابتدائی ایک گھنٹے کے دوران ڈی آر ایس ٹیکنالوجی نے کام کرنا چھوڑدیا تھا تاہم اس دوران کوئی ایسا فیصلہ سامنے نہیں آیا جو امپائرز کے لیے مشکلات کا سبب بنتا۔ رہی سہی کسر پوپ اور بروک نے پوری کردی۔
دوسرے سیشن میں انگلینڈ نے سکور میں 158 رنز کا اضافہ کیا جبکہ آخری سیشن میں مہمان ٹیم 174 رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہی۔ وکٹ کیپر اولی پوپ اور ہیری بروک نے رنز کی رفتار کو تھمنے نہیں دیا۔ یہ دونوں چوتھی وکٹ کی شراکت میں 176 رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہے۔ اولی پوپ دسویں نصف سنچری مکمل کرنے میں کامیاب ہوئےلیکن درحقیقت ان کی نظریں اپنی تیسری ٹیسٹ سنچری کی طرف لگی ہوئی تھیں جو انہوں نے 90گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے مکمل کرڈالی ۔وہ 108 رنز بناکر محمد علی کی پہلی ٹیسٹ وکٹ بنے۔
چھ گیندوں پر چھ چوکے
ہیری بروک بھی رنز کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں اپنے تین ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے اپنے دوسرے ٹیسٹ میں پہلی بار تین ہندسوں کی اننگز کا مزا چکھ لیا۔
ان کی اس اننگز کا سب سے خوبصورت لمحہ سعود شکیل کے ایک ہی اوور کی چھ گیندوں پر چھ چوکے لگانا تھا۔ ہیری بروک پاکستانی شائقین کے لیے اجنبی نہیں ہیں ۔اس سال وہ لاہور قلندرز کی طرف سے پاکستان سپر لیگ کھیلے تھے جس میں اسلام آباد یونائٹڈ کے خلاف ان کی پانچ چھکوں اور دس چوکوں کی مدد سے بنائی گئی 102 رنز کی اننگز آسانی سے بھلائے جانے والی نہیں ہے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg95wql1dwo | برطانوی سفیر کا ’پنڈی بوائے‘ روپ: ’انگریز کو اُردو بولتے تو سُنا تھا لیکن پوٹھوہاری بولتے پہلی بار دیکھا‘ | ’کِتھے جولسو۔۔۔؟ راجہ جی پنڈی جُلساں، تے میچ تکساں۔۔۔‘ یہ مکالمہ دو پاکستانیوں کے درمیان نہیں بلکہ پاکستان میں برطانیہ کے سفیر کرسچن ٹرنر اور ایک رکشہ ڈرائیور کے درمیان ہوا، جس کی سوشل میڈیا پر خاصی دھوم مچی ہوئی ہے اور کرسچن ٹرنر کو ’پنڈی بوائے‘ کا لقب بھی مل چکا ہے۔
تو قصہ کچھ یوں ہے کہ راولپنڈی میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان جاری ٹیسٹ میچ سے قبل پاکستان میں برطانیہ کے سفیر کرسچن ٹرنر نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں وہ دونوں ملکوں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کے حوالے سے انتہائی دلچسپ، منفرد اور ’پنڈی بوائے‘ سٹائل میں پیغام دے رہے ہیں۔
ایک رنگ برنگے رکشے کے آگے کھڑے برطانوی سفیر اس ویڈیو میں فرفر اردو بولتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اسلام و علیکم۔۔۔ انگلینڈ اور پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں دھوم مچا دی ہے، ٹی ٹوئنٹی کا دلچسپ مقابلہ رہا اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی یادگار تھا۔ دونوں بار انگلینڈ کرکٹرز بازی لے گئے۔ اب سب کی نظریں ٹیسٹ پر ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کون سی ٹیم ہے بیسٹ؟ پہلی سے 21 دسمبر تک، جیت اسی کی ہو گی جو گرم جوشی دکھائے گا، لڑکوں جم کر کھیلنا کیونکہ ہے جذبہ جنون تو یہ میچ نہ ہار۔۔۔۔‘
اس گفتگو کے بعد اُن کے بعد پیچھے کھڑے رکشے کا ڈرائیور ان سے پوٹھوہاری زبان میں پوچھتا ہے کہ ’کتھے جولسو‘ یعنی ’آپ کہاں جائیں گے‘ تو برطانوی سفیر اسی انداز میں جواب دیتے ہیں کہ ’راجہ جی پنڈی جُلساں، تے میچ تکساں، چلو چلیں۔۔۔‘ یعنی میں پنڈی جاؤں گا اور میچ دیکھوں گا۔
اور پھر برطانوی سفیر اس رنگ برنگے رکشے میں بیٹھ پر پنڈی سٹیڈیم کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
برطانوی سفیر کی اس ویڈیو سے سوشل میڈیا صارفین انتہائی محظوظ ہو رہے ہیں اور ان سے پوٹھوہاری لہجے میں ہی سوال جواب کر رہے ہیں اور دلچسپ مشورے بھی دے رہے ہیں۔
جیسے ایک صارف نے لکھا: ’راجا جی ماموں برگر دا انڈے آلا برگر لازمی کھایو، چس اشنی وی۔۔۔‘ یعنی آپ پنڈی میں ماموں برگر سے انڈے والا برگر ضرور کھائیے گا، آپ کو بہت مزہ آئے گا۔‘
صحافی وسیم عباسی نے لکھا: ’راجہ جی جان دیو، سٹاپ و سٹاپ۔۔۔‘ ایک اور صارف نے لکھا: ’جی او راجہ جی۔۔۔ باوا جی، چھک کے رکھسو۔۔۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
صارف عبدالسلام مرزا نے برطانوی سفیر کو گجرات آنے کی دعوت بھی دی اور لکھا: ’کدی آؤ نہ گجرات توانوں روٹی شوٹی کھاوائیے راجہ جی‘ یعنی ’آپ گجرات آئیں ہم آپ کو کھانا کھلائیں گے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’اچھو اج اساں اکھٹے میچ تکساں۔۔‘ یعنی آج ہم آپ کے ساتھ میچ دیکھیں گے۔
احمد وسیم ہاشمی نے لکھا: ’راجہ جی پنڈی کی جانب سے خوش آمدید۔۔۔ سیور اور پپو کا سوڈا بھی حاضر ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
صارف عمران وسیم نے برطانوی سفیر کے لب و لہجے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’انگریز(گورے) کو اردو بولتا تو سنا تھا لیکن پہاڑی بولتا انگریز پہلی بار دیکھا اور سنا۔‘
یاسر عرفات نے لکھا ’کرسچن اب آپ آدھے برطانوی اور آدھے پنڈی بوائے ہیں‘۔
سپورٹس جرنلسٹ عالیہ رشید نے لکھا کہ ’مسٹر ٹرنر یقین کریں اس وقت پنڈی کی پچ سے زیادہ تفریح کا باعث آپ ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
ہارون شریف نے تعریف کرتے ہوئے لکھا: ’بہترین پرفارمنس اور کرکٹ ڈپلومیسی، بہت عمدہ مسٹر ہائی کمشنر۔۔۔‘
انیق ناجی نے لکھا: ’اردو بولتا ایسا نوجوان سفارتکار جو سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دے۔ اپنے بزرگ سفیر یا تو پتھر چہرہ جنرل حضرات ہوتے ہیں یا پھر سخت مزاج دکھائی دیتے سول بزرگ فرعون۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg95d9ww5yo | محض ٹکڑوں میں بٹی کپتانی کافی نہ ہو گی: سمیع چوہدری کا کالم | پچھلے چند برسوں میں جس تیزی سے انگلش کرکٹ نے اپنا حلیہ بدلا ہے، وہ دنیائے کرکٹ کے لیے خاصی حیران کن رہی ہے۔
اگرچہ 2019 کی ورلڈ کپ کی فتح کے بعد محدود فارمیٹ میں انگلش حکمرانی مسلّم ہو چکی تھی مگر تب بھی ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا سکہ نہیں چل پا رہا تھا۔
جو روٹ بلاشبہ دنیا کے چنیدہ بلے بازوں میں سے ہیں مگر بطور کپتان وہ اپنی ٹیم میں کوئی عقابی روح بیدار کرنے سے قاصر رہے اور رواں سیزن میں انگلش کرکٹ بورڈ نے بجا طور پر ان کی سبکدوشی کا فیصلہ کر کے برینڈن میکلم اور بین سٹوکس کے ہمراہ ایک نئے عہد میں قدم رکھا۔
یہ نیا عہد محض انگلش کرکٹ کے لیے ہی نیا نہیں تھا، یہ ٹیسٹ کرکٹ کے مروجہ طور اطوار کے لیے بھی نیا ثابت ہوا ہے۔ جس طرح سے اوئن مورگن نے محدود فارمیٹ کی کرکٹ کو از سرِ نو پروان چڑھایا، بعینہٖ میکلم کی کوچنگ اور سٹوکس کی کپتانی میں جدید ٹیسٹ کرکٹ بھی اپنا تعارف بدل رہی ہے۔
اس انگلش سیٹ اپ کی بہترین بات یہ ہے کہ یہ بے خوف کرکٹ کھیلنے پر مرکوز رہتا ہے اور برے بھلے کی پرواہ کیے بغیر نتائج کی جستجو میں رہتا ہے۔ اسے شکست سے بھی کوئی دقت نہیں، یہ محض ڈرا سے خائف ہے۔
اسی امر کا اعادہ برینڈن میکلم نے راولپنڈی میں بھی کیا کہ وہ شکست و فتح سے بے نیاز ہو کر اپنی تمام تر توانائیاں نتائج کے حصول میں جھونکیں گے کہ بہر حال ڈرا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ غالباً اپنی تاریخ کے اس اکلوتے المیے میں گِھری نظر آتی ہے جہاں وہ اس مخمصے کا شکار ہے کہ ہوم کنڈیشنز میں فتح یاب ہونے کے لیے کس طرح کی پچز تشکیل دی جائیں اور مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کون سی حکمتِ عملی مرتب کی جائے۔
ماضی میں پاکستانی مڈل آرڈر سپن کے خلاف بہترین تکنیک کے حامل بلے بازوں سے بھرے رہے ہیں اور ہوم کنڈیشنز میں کامیابی کے لیے سپن وکٹوں کی تشکیل ایک آسان سا کلیہ رہا ہے۔ مگر اب المیہ یہ ہے کہ سپن بعض اوقات خود پاکستانی مڈل آرڈر کو ہی الجھا کر رکھ دیتی ہے۔
آسٹریلیا کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں یہ ستم ظریفی درپیش رہی کہ آسٹریلوی پیسرز کا ڈنک نکالنے کے لیے سست رو وکٹیں بنائی گئیں جہاں ڈرا ہی بہترین نتجہ ہو سکتا تھا۔ بابر اعظم کی قیادت بھی اس حوالے سے خوب رہی کہ وہ دو میچز کو ڈرا کرنے میں کامیاب رہے اور لاہور ٹیسٹ بھی ڈرا کرنے کے عین قریب تھے تاآنکہ آسٹریلوی پیس اٹیک نے پرانی گیند سے ریورس سوئنگ کی یلغار کر کے پاکستان کی دفاعی لائن میں دراڑیں ڈال دیں۔
مگر یہ انگلش سیریز پاکستان کے لیے ایک طرح کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو سکتی ہے کیونکہ وہ کچھ نئے چہروں پر تکیہ کر کے میدان میں اتریں گے اور اسی سیریز میں پاکستان کا آئندہ سیزنز کے لیے سپن اٹیک بھی طے ہو گا۔ سپن اٹیک کے ساتھ ساتھ پاکستان کا مڈل آرڈر بھی ازسرِ نو ترتیب پائے گا جہاں اب فواد عالم دستیاب نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
انگلینڈ، پاکستان کے درمیان راولپنڈی ٹیسٹ کا آغاز آج شیڈول کے مطابق دن 10 بجے کرنے کا اعلان
پاکستان ٹیم میں شامل’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
پاکستان اور انگلینڈ کے کرکٹ مقابلے، تنازعات اور تلخیاں
فٹ بال کو اگر کوچز کا کھیل کہا جائے تو کرکٹ کو کپتانوں کا کھیل کہا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں کوچنگ سیٹ اپ کی اہمیت کپتان سے زیادہ ہوتی ہے مگر جوں جوں کرکٹ کا کھیل اپنے دورانیے میں بڑھتا جاتا ہے، توں توں کپتان کا کردار اہم تر ہوتا جاتا ہے۔
بابر اعظم کو قیادت سنبھالے خاصا وقت بیت چکا ہے اور اب انھہیں مزید کسی ناتجربہ کاری یا نو آموزی کے شبہات کا فائدہ میسر نہیں ہو سکتا۔ اب انھیں طے کرنا ہو گا کہ وہ اس ٹیسٹ ٹیم کو کسی نئی جہت سے آشنا کروا سکتے ہیں یا نہیں۔
قائدانہ صلاحیتوں کی بات کی جائے تو ایسا ہرگز نہیں کہ بابر اعظم ان سے یکسر محروم ہیں۔ ہم اس امر کی بے شمار جھلکیاں دیکھ چکے ہیں کہ بابر اعظم میں ایک بہترین کپتان بننے کے بیشتر اجزائے ترکیبی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا وقت آنے پر وہ ان تمام اجزائے ترکیبی کو درست تناسب میں یکجا کر کے کامیابی کے حتمی نسخے میں بدل پائیں گے؟
ماضی کے کئی ٹیسٹ مچز اس امر کے گواہ ہیں کہ بابر ٹکڑوں میں اچھی کپتانی کرتے ہیں۔ پانچ دس اوورز کے کئی ایسے مراحل آتے ہیں جہاں بابر اپنی دانشمندانہ حکمتِ عملی سے حریف بلے بازوں کا ناطقہ بند کر چھوڑتے ہیں۔ مگر جونہی کاؤنٹر اٹیک ہوتا ہے اور دباؤ بڑھنے لگتا ہے تو ان کے تخمینے گڑبڑا جاتے ہیں۔
یہ انگلش ٹیم نہایت جارحانہ کرکٹ کھیلنے کا عزم لیے پاکستانی سرزمین پر اتری ہے اور بابر اعظم کے پاس بھی یہ بہترین موقع ہے کہ یہ سیریز جیت کر ایک بڑی ٹرافی اپنے نام کریں مگر اس کے لیے صرف انگلش جارحیت کی راہیں مسدود کرنا ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ جوابی جارحیت میں بھی ویسی ہی شدت درکار ہو گی جو میکلم کے ڈریسنگ روم سے پاکستان کی راہ میں آئے گی۔
مدافعانہ حکمتِ عملی اور ٹکڑوں میں بٹی اچھی کپتانی سے میچز اور سیریز ڈرا تو کیے جا سکتے ہیں مگر بین سٹوکس کی اس انگلش ٹیم کے خلاف محض ’ٹکڑوں میں بٹی اچھی کپتانی‘ کافی نہیں ہو گی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c9wgdl799zxo | انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان راولپنڈی ٹیسٹ کا شیڈول کے مطابق آغاز: مہمان ٹیم کی بیٹنگ جاری | پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان راولپنڈی میں پہلا ٹیسٹ میچ آج دن 10 بجے شیڈول کے مطابق شروع ہو گا۔ یہ فیصلہ جمعرات کی صبح اس وقت سامنے آیا جب انگلینڈ کرکٹ حکام نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو مطلع کیا کہ میڈیکل پینل کے مشورے کے بعد وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ 11 فٹ کھلاڑی میدان میں اتارے جا سکتے ہیں۔
گذشتہ روز انگلینڈ کی ٹیم کے متعدد کھلاڑی وائرس میں مبتلا ہو گئے تھے جس کے پیش نظر میچ شروع کرنے کا فیصلہ بدھ کی رات کو کرنے کے بجائے جمعرات کی صبح تک مؤخر کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ راولپنڈی میں سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ سے صرف ایک دن قبل پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے آٹھ کرکٹرز وائرس کا شکار ہو گئے تھے جن میں ٹیم کے کپتان بین سٹوکس بھی شامل تھے۔
انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے بیمار پڑنے کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے کہا تھا کہ چونکہ انگلینڈ کے متعدد کھلاڑی وائرل انفیکشن کا شکار ہیں اس لیے وہ راولپنڈی ٹیسٹ سے قبل انگلینڈ کرکٹ بورڈ سے رابطے میں ہیں اور اس سلسلے میں تازہ ترین اپ ڈیٹ سے جمعرات کی صبح کیا جائے گا۔
گذشتہ روز انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم کی بدھ کے روز آپشنل پریکٹس تھی جس میں ہیری بروک، جو روٹ، کیٹن جیننگز، اولی پوپ اور زیک کرالی نے حصہ لیا اور یہ کہ ٹیم کے متعدد کھلاڑی جن میں کپتان بین سٹوکس بھی شامل ہیں طبعیت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل میں آرام کر رہے ہیں جس کی انھیں ہدایت کی گئی تھی۔
پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں اسلام آباد کے ایک ہی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہیں۔
اس وائرس کی نوعیت اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن بتایا گیا ہے تھا کہ یہ علامات کورونا کی نہیں ہیں بلکہ یہ کھلاڑی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم مراکش سے تعلق رکھنے والا شیف عمر مزیان بھی اپنے ساتھ اس دورے پر لائی ہے جو ٹیم کے کھانے پینے کے معاملات کی نگرانی کررہے ہیں۔
توقع کی جا رہی تھی کہ یہ کھلاڑی اگلے 24 گھنٹے میں صحت یاب ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے شیف عمر مزیان کون ہیں اور ٹیم انھیں اپنے ساتھ کیوں لائی ہے؟
پاکستان ٹیم میں شامل’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
ہیلز اور کمنز کا آئی پی ایل کھیلنے سے انکار: ’کرکٹرز کے لیے آرام بھی ضروری‘
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے بیٹسمین جو روٹ نے بدھ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فوڈ پوائزننگ یا کورونا کا معاملہ نہیں ہے اور امید ہے کہ کھلاڑی جلد خود کو بہتر محسوس کریں گے۔
انھوں نے کہا تھا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کھلاڑی پہلے ٹیسٹ سے قبل مکمل فٹ ہو جائیں گے لیکن وہ اس کے لیے کوشش ضرور کریں گے۔
جو روٹ کا کہنا تھا کہ غیر ملکی ٹورز کے دوران انجریز اور بیماری جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
جو روٹ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر بین سٹوکس نہیں کھیلتے تو کیا وہ دوبارہ انگلینڈ کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں جس پر ان کا جواب تھا میرا نہیں خیال۔
جو روٹ کو امید ہے کہ اس سیریز میں اچھی کرکٹ کھیلی جائے گی اور ان کی ٹیم اس تسلسل کو برقرار رکھے گی جو وہ پچھلی چند سیریز میں قائم کر چکی ہے۔
’ہماری سوچ واضح ہے کہ سمارٹ کرکٹ کھیلنی ہے، تیز کھیلنا ہے اور وکٹیں لینی ہیں۔‘
جو روٹ کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو ٹاپ ٹیم بننا ہے تو اس کے لیے ہر کنڈیشنز میں جیتنا ضروری ہے۔
انگلینڈ کے کرکٹرز کے وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سیریز کی ٹرافی کی تقریب رونمائی بھی ملتوی کر دی گئی۔ اب یہ تقریب میچ شروع ہونے سے قبل منعقد ہو گی۔
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم سترہ برس کے طویل عرصے کے بعد ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئی ہے۔ اس نے پہلے ٹیسٹ کے لیے اپنے سکواڈ کا اعلان بھی کر دیا تھا جس میں بین سٹوکس (کپتان)، زیک کرالی، بین ڈکیٹ، اولی پوپ، جو روٹ، ہیری بروک، بین فوکس، لیئم لونگسٹن، اولی رابنسن، جیک لیچ اور جیمز اینڈرسن شامل ہیں۔
لیئم لونگسٹن اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کریں گے جبکہ بین ڈکیٹ چھ سال بعد پہلا ٹیسٹ کھیلیں گے۔ وہ آخری مرتبہ 2016ء میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ کھیلے تھے۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cgrendze8pro | پاکستان اور انگلینڈ کے کرکٹ مقابلے، تنازعات اور تلخیاں | پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے متعدد اراکین نامعلوم وائرس کا شکار ہوئے جس کے بعد یہ خبریں زیر گردش ہیں کہ جمعرات کے روز شروع ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ کو ایک یا دو روز کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے، تاہم اس حوالے سے حتمی اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی گئی کرکٹ سیریز ماضی میں بھی تنازعات سے خالی نہیں رہی ہیں اور ان میں سے بعض بین الاقوامی کرکٹ کے چند بڑے تنازعات میں شامل ہیں۔
ذیل میں ہم چند اہم واقعات کا احاطہ کریں گے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کے موقع پر سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے مرکزی کردار سابق کپتان سلمان بٹ اور فاسٹ بولرز محمد آصف اور محمد عامر تھے۔
ان تینوں کے بارے میں برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے بک میکر مظہر مجید کے انکشافات کی روشنی میں یہ خبر دی کہ لارڈز ٹیسٹ میں مخصوص اوورز میں یہ بولرز نوبال کرائیں گے جس کا انھوں نے معاوضہ وصول کیا ہے اور ہوا بھی وہی جو کہا گیا تھا۔
برطانوی پولیس نے لارڈز ٹیسٹ کے دوران ٹیم کے ہوٹل پر چھاپہ مارا۔ کھلاڑیوں کے کمروں کی تلاشی لی اور کچھ کرنسی بھی برآمد کی۔ بعدازاں آئی سی سی نے تینوں کھلاڑیوں پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی، ساتھ ہی لندن کی عدالت نے بھی تینوں کھلاڑیوں اور مظہرمجید کو سزائیں سنائیں اور انھیں جیل جانا پڑا۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم پر اوول ٹیسٹ کے دوران آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے بال ٹمپرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے پنالٹی کے پانچ رنز دے دیے۔
پاکستانی کپتان انضمام الحق کا مؤقف تھا کہ ڈیرل ہیئر نے کسی انتباہ کے بغیر یہ قدم اٹھایا ہے چنانچہ پاکستانی ٹیم نے چائے کے وقفے کے بعد میچ جاری رکھنے سے انکار کر دیا اور جب اسے میچ کھیلنے کے لیے آمادہ کیا گیا تو امپائر ڈیرل ہیئر کھیل جاری رکھنے کے لیے تیار نہ تھے اور انھوں نے میچ ختم کرتے ہوئے انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا۔
یہ تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا جس کا نتیجہ اس انداز سے سامنے آیا کہ کسی ٹیم کے کھیلنے سے انکار پر حریف ٹیم کو فاتح قرار دیا گیا ہو۔
امپائر شکور رانا اور انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ کے درمیان فیصل آباد ٹیسٹ میں یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب شکور رانا نے گیٹنگ پر اعتراض کیا کہ وہ بولر کے گیند کرنے کے دوران اپنے فیلڈر کی پوزیشن تبدیل کرا رہے ہیں۔
دونوں کے درمیان میدان میں تکرار اس حد تک بڑھ گئی کہ امپائر شکور رانا نے گیٹنگ سے معافی کا مطالبہ کر ڈالا۔
اس صورتحال کے نتیجے میں ایک پورا دن کھیل نہ ہو سکا اور مائیک گیٹنگ کو تحریری طور پر معافی مانگنی پڑی۔
پاکستانی فاسٹ بولرز وسیم اکرم اور وقاریونس کا طوطی سرچڑھ کر بولا اور انھوں نے اپنی ریورس سوئنگ سے انگلش بیٹسمینوں کو آؤٹ کلاس کردیا۔
لیکن پاکستانیبولرز پر مبینہ طور پر گیند کے ساتھ گڑبڑ کر کے وکٹیں حاصل کرنے کا الزام عائد کیاگیا۔
انگلینڈ کے کرکٹر ایلن لیمب نے پاکستانی ٹیم پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا جس پر سرفراز نواز نے ان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تاہم بعد میں انھوں نےیہ مقدمہ واپس لے لیا۔
ایلن لیمب اور ای این بوتھم نے عمران خان کے خلاف بھی مقدمہ دائر کیا تھا لیکن دونوں یہ مقدمہ ہارگئے۔
متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سعید اجمل کی 24 وکٹوں نے پاکستانی ٹیم کے کلین سوئپ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
لیکن سیریز کے آغاز سے ہی انگلینڈ کے سابق فاسٹ بولر باب ولس نے ان کی مخصوص گیند ’دوسرا‘ پر اعتراض کر دیا اور سیریز کے اختتام تک ان کا بولنگ ایکشن موضوع بحث بن چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان ٹیم میں شامل’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘
جب ماجد خان نے کرکٹ آسٹریلیا کو فون کیا کہ ’میرا یادگار بیٹ کہاں ہے؟‘
باسل ڈی اولیورا: نسلی تعصب کا تنازع جس نے جنوبی افریقہ پر کرکٹ کے دروازے بند کر دیے
ای این بوتھم کو پاکستان کا دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس جانا پڑا تھا۔
لیکن انھوں نے جاتے ہی پاکستان کے بارے میں یہ متنازع بیان دے ڈالا کہ پاکستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ اپنی ساس کو ایک ماہ کے لیے بھیج سکتے ہیں۔
اس طنزیہ بیان پر بوتھم کو زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی ٹیم کے منیجر عمرقریشی نے لارڈز ٹیسٹ کے دوران الزام عائد کیا کہ پچ اس حالت میں نہیں تھی جسے وہ تیسرے دن چھوڑ کر گئے تھے۔
اس زمانے میں پچ کو ڈھانپا نہیں جاتا تھا۔
اس وکٹ پر ڈیرک انڈرووڈ نے پاکستان کی آٹھ وکٹیں حاصل کر ڈالی تھیں تاہم پاکستانی ٹیم میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
کراچی ٹیسٹ میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کرکے سیریز بھی اپنے نام کی۔ نیشنل سٹیڈیم میں پاکستان کو پہلی بار شکست ہوئی۔
کپتان معین خان کی فیلڈ میں بار بار کی تبدیلیاں امپائر سٹیو بکنر کو وقت ضائع کرنے کی کوششیں معلوم ہوئیں اور وہ کم ہوتی ہوئی روشنی میں بھی میچ جاری رکھنے پر مصر دکھائی دیے۔
اور جب انگلینڈ نے میچ جیتا تو تقریباً اندھیرا ہو چلا تھا۔
فیصل آباد ٹیسٹ کے دوران اقبال سٹیڈیم میں شاہد آفریدی یہ جان کر کہ کوئی انھیں دیکھ نہیں رہا وکٹ پر رقص کرنے لگ گئے جس کا مقصد اسے خراب کرنا تھا۔
وہ کیمرے کی زد میں آ گئے جس کےبعد میچ ریفری روشن مہانامہ نے ان پر ایک ٹیسٹ اور دو ون ڈے کی پابندی عائد کر دی۔ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/cldn72qe7wvo | ڈیبیو پر سات وکٹیں لینے والے ’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے‘ | پاکستان کی جانب سے ملتان ٹیسٹ میں ڈیبیو کرنے والے ’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد نے انگلینڈ کے بلے بازوں کو آغاز میں ہی مشکل میں ڈال دیا ہے اور اپنے پہلے ہی میچ میں سات وکٹیں حاصل کر لی ہیں۔
ابرار ڈیبیو میچ میں سات وکٹیں حاصل کرنے والے تیسرے پاکستانی بولر ہیں۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کے سکواڈ کا اعلان ہوتے ہی ابرار احمد خاص طور پر سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی سپنر نہیں بلکہ وہ لیگ بریک گگلی کے ساتھ ساتھ کیرم بال بھی کر لیتے ہیں۔
آج انھوں نے انگلینڈ کے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے ٹاپ فائیو بلے بازوں کو اپنی مسٹری سپن خصوصاً کیرم بال سے بیٹ کیا اور ان کی جانب سے کاؤنٹر اٹیک کے باوجود اپنی لینتھ پر بولنگ کرتے رہے۔
خیال رہے کہ ابرار احمد کو راولپنڈی ٹیسٹ میں شامل نہ کرنے پر پاکستان کی مینجمنٹ کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابرار احمد نے اس سیزن کی قائداعظم ٹرافی میں 43 وکٹیں حاصل کی ہیں جو اس سال کسی بھی بولر کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں اور یہی کارکردگی ان کی پاکستانی ٹیم میں پہلی بار شمولیت کا سبب بنی ہے۔
ان پر زاہد محمود کو ترجیح دینے کے حوالے سے جب ایک پریس کانفرنس میں ثقلین مشتاق سے سوال پوچھا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم انصاف کرنا چاہتے تھے۔ ایک طرف ایک لڑکا (زاہد) جو ٹیم کے ساتھ ایک سال سے ہے اور کئی مرتبہ ٹیم میں کھیلنے کے بہت قریب بھی آیا لیکن اس کو موقع نہیں ملا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ابرار نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھا پرفارم کیا ہے تاہم ہم لائن نہیں توڑنا چاہتے تھے اور کسی کو فاسٹ ٹریک نہیں کرنا چاہتے تھے جب ایک کھلاڑی ایک سال سے انتظار کر رہا ہے۔ زاہد ویٹنگ لسٹ میں تھا اس لیے ہم نے اس کے ساتھ انصاف کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیزن میں انھوں 43 میں سے 40 وکٹیں راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں 17 کی اوسط سے حاصل کی تھیں۔
ان کی پانچ وکٹوں میں زیک کرالی، بین ڈکٹ، جو روٹ، اولی پوپ اور ہیری بروک کی وکٹیں شامل ہیں اور ان میں جو روٹ کے علاوہ تمام ہی بلے باز پنڈی ٹیسٹ میں سنچری سکور کر چکے ہیں۔
ایسے موقع جب یاسر شاہ آؤٹ آف فارم تھے اور پاکستان نعمان علی سمیت دیگر سپنرز کو آزما چکا ہے تو ابرار احمد کی پاکستان ٹیم میں شمولیت اور بہترین کارکردگی یقیناً پاکستانی ٹیم کے لیے ریلیف سے کم نہیں۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ابرار احمد ہیں کون اور ان کا کرکٹ کھیلنے کا سفر کب شروع ہوا اور اس دوران انھیں کتنی مشکلات جھیلنی پڑیں۔
24 سالہ ابرار احمد کے والد کا تعلق شنکیاری سے ہے جبکہ ان کی والدہ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔
والد کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے اور یہ فیملی کافی عرصے سے کراچی میں مقیم ہے۔
ابرار احمد کی پیدائش کراچی کی ہے انھوں نے کرکٹ اپنے علاقے جہانگیر روڈ کے گلی محلے کی ٹینس بال سے شروع کی۔
ابرار احمد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’میں بچپن میں بہت شرارتی تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کا اگر فائدہ ہے تو نقصان بھی ہے۔ ایک بھائی کا کام کرو تو دوسرے نے بھی کام کرانا ہوتا تھا لیکن میں اپنے بچاؤ کے لیے امی کو آگے کردیتا تھا۔‘
ابرار احمد بتاتے ہیں ’میرے بڑے بھائیوں کو کرکٹ کا شوق تھا۔ وہ نشتر پارک اور دوسرے میدانوں میں جا کر کھیلا کرتے تھے میں وہاں جا کر بیٹھ جاتا اور انھیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔
’پھر وہ وقت بھی آ گیا جب میں کھیل رہا تھا اور بھائی مجھے دیکھ رہے تھے۔‘
کراچی کے کئی نوجوان کرکٹرز کی طرح ابرار احمد کے ابتدائی کریئر میں کوچ محمد مسرور کا عمل دخل نمایاں ہے جنھوں نے ان میں چھپا ہوا ٹیلنٹ دیکھ کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔
محمد مسرور کے کہنے پر ہی راشد لطیف نے ابرار احمد کو اپنی کرکٹ اکیڈمی میں بھی شامل کیا تھا۔
ابرار احمد کہتے ہیں ’میں نے سنا تھا کہ جب آپ کسی اکیڈمی میں جا کر کھیلتے ہیں تو آپ کو فیس وغیرہ کے پیسے دینے پڑتے ہیں لیکن ڈسٹرکٹ کی سطح پر میری بولنگ اتنی اچھی تھی کہ اس زمانے میں مجھ سمیت تین چار کرکٹرز ایسے تھے جنھیں راشد لطیف اکیڈمی کی طرف سے ہر ماہ سات ہزار روپے ملتے تھے۔‘
ابرار احمد بتاتے ہیں ’اگرچہ میرے بڑے بھائی بھی کرکٹ کھیلتے تھے اور مجھے بھی بہت شوق تھا لیکن میرے والد چاہتے تھے کہ میں پڑھائی پر توجہ دوں مگر میں کرکٹ میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔
’جب میرا نام ڈسٹرکٹ کی ٹیم میں آیا تو میں نے اپنے کزن شفیق سے کہا کہ آپ میرے والد سے بات کریں کہ وہ مجھے کھیلنے کی اجازت دے دیں۔ میرے کریئر کا وہ سب سے اہم لمحہ تھا جب میرے کزن نے والد کو قائل کرلیا۔
’انھوں نے میرے والد سے کہا کہ ابرار کو ایک سال دے دیں اس دوران اگر وہ کچھ کرلیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ آپ کے کہنے پر عمل کر لے گا۔‘
ابرار احمد کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ صرف محدود اوورز کی کرکٹ میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ کوچ مسرور ہی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ ابرار احمد ریڈ بال کرکٹ میں بھی کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں تاہم کراچی کے ایک سلیکٹر انھیں موقع دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے اور انھوں نے راشد لطیف سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ محمد مسرور جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے چنانچہ وہ ریڈبال کی ٹیم میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
ابرار احمد کی ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی سے کوچ مکی آرتھر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔
ابرار احمد کہتے ہیں کہ ’میں سنہ 2017 کی پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی طرف سے دو میچ کھیلا تھا اگرچہ میں کوئی وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا لیکن پشاور زلمی کے خلاف میچ میں اوئن مورگن کے خلاف میرے سپیل سے مکی آرتھر، کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے بہت متاثر ہوئے تھے۔‘
بدقسمتی سے ان کی کمر میں ہیئر لائن فریکچر ہو گیا اور میں تقریباً دو سال کرکٹ سے دور رہا لیکن اس عرصے میں مکی آرتھر نے مجھ پر بہت توجہ دی اور مجھے چالیس روز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں رکھ کر میری فٹنس کی بحالی پر کام کروایا۔‘
یہ بھی پڑھیے
جب ماجد خان نے کرکٹ آسٹریلیا کو فون کیا کہ ’میرا یادگار بیٹ کہاں ہے؟‘
نسلی تعصب کا تنازع جس نے جنوبی افریقہ پر کرکٹ کے دروازے بند کر دیے
جب انتخاب عالم کے چٹکلے سن کر بشن سنگھ بیدی کھل ُاٹھے
معین علی کے والد منیر علی، جنھوں نے اپنے بیٹے کے لیے دن رات محنت کی
ابرار احمد کہتے ہیں کہ ’وہ دو سال بہت مشکل تھے لیکن میں نے خود سے یہی کہہ رکھا تھا کہ مجھے صرف فٹ ہونا ہے کیونکہ جو کرنا ہے وہ انگلیوں نے کرنا ہے۔‘
ابرار احمد کہتے ہیں ’میں نے پروفیشنل کرکٹ میں آنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے سنیل نارائن اور سری لنکا کے اجانتھا مینڈس کی وڈیوز باقاعدگی سے دیکھی ہیں کہ یہ دونوں بولرز کس طرح بیٹسمینوں کو ٹریپ کرتے ہیں۔‘
کوچ محمد مسرور کہتے ہیں کہ ’ابراراحمد کی انگلیوں میں بڑی جان ہیں اور وہ یکساں مہارت سے گیند کو اندر بھی لے آتے ہیں اور باہر بھی نکالتے ہیں جیسا کہ اجانتھا مینڈس اور افغانستان کے مجیب الرحمن کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک مکمل پیکج ہیں انھیں وکٹیں لینے کا فن خوب آتا ہے۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pv82e12plo | فٹبال ورلڈ کپ اور قطری شیخ کے فارم ہاؤس میں ایک شام: ’ہم چاہتے ہیں دنیا قطر کے بارے میں مزید جانے‘ | ’یہ فٹ بال، دوستوں اور اچھے کھانے کی رات ہے۔ ہم سیاست کو اس سے دور رکھیں گے۔‘
بو سالم نے قطر کے دارالحکومت دوحہ سے تقریباً 15 کلومیٹر دور ام سلال میں اپنے خاندان کے فارم ہاؤس پر میرا استقبال کیا تو یہ ان کے پہلے الفاظ تھے۔
میرا ان سے تعارف ایک قریبی دوست کے ذریعے ہوا جس کے بعد انھوں نے مجھے پرتگال بمقابلہ گھانا اور سربیا بمقابلہ برازیل کے میچ دیکھنے کی دعوت دی۔
اس فارم ہاؤس پر قطر کے مقامی شہریوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے لوگ بھی موجود تھے۔
یہ جمعرات کا دن تھا۔ یہاں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے اور لوگ عموماً جمعرات کی رات کو آرام کرتے ہیں۔ آج کل ورلڈ کپ کی وجہ سے شام میں لوگ میچ دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ لگاتار دو شکستوں کے باوجود قطر کی فٹبال ورلڈ کپ میں امیدیں باقی ہیں۔
دارالحکومت دوحہ میں فلک بوس عمارتیں، فٹ بال ورلڈ کپ کے وسیع میدان اور مستقبل کا انفراسٹرکچر تو میں دیکھ چکا تھا۔ شہر سے دور، اب یہ میرے لیے مقامی لوگوں اور ان کی ثقافت کو سمجھنے کا ایک بہترین موقع تھا۔
قطر میں ورلڈ کپ کی کوریج کے دوران مقامی لوگوں سے بات کرنا آسان نہیں رہا۔ یہ ایک متنازعہ ورلڈ کپ ہے اور بہت سے لوگ پریس سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
لیکن میں ایک ایسے ملک کے بارے میں مزید جاننے کے لیے متجسس تھا جو گزشتہ ایک دہائی سے ورلڈ کپ کے تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔
فارم ہاؤس میں ایک بڑا خیمہ بھی لگا ہوا تھا جس میں 30 سے زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ بڑے بڑے ٹی وی سیٹ نصب تھے اور درجنوں لوگ آگ کے گرد بیٹھے تھے۔
کئی ذائقوں کے شیشوں سے دھواں اُڑ رہا تھا۔
جب لوگ مجھے دیکھتے تو عربی اور انگریزی میں سلام کہتے ہیں لیکن جیسے ہی لوگوں کو پتہ چلتا کہ میرا تعلق کیوبا سے ہے اور میرے پاس سگار نہیں، تو ایک مذاق شروع ہو جاتا ہے۔
قطر میں ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزارنے کے بعد، مجھے احساس ہوا ہے کہ سگار یہاں دوست بنانے کا ایک آسان ترین طریقہ ہے۔ لوگ فیڈل کاسترو کو بھی پہچانتے ہیں۔
اس فارم میں ایک باغ بھی ہے جس کے ایک کونے میں بکریاں اور جانور پالے جاتے ہیں۔ ہم ایک بڑی شاہراہ سے گزرنے کے بعد یہاں تک پہنچے۔
یہاں بنی جائیدادیں اونچی دیواروں کے پیچھے چھپی ہیں۔ ان میں جھانکنا آسان نہیں لیکن یہاں کے کئی دروازے کھلے رہتے ہیں۔
قطر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتنا محفوظ ہے کہ لوگ گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے۔ یہ بات ایک مفروضہ لگتی تھی لیکن یہاں پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ سچ ہے۔
یہ ایک بڑا فارم ہاؤس ہے جو پتھروں سے بنا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ جگہ ہے۔ قطر میں موسم گرما میں جب درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر جاتا ہے تو لوگ یہاں اکھٹے ہوتے ہیں۔
بدو طرز کے اس جدید کیمپ میں رات کے وقت باہر کھانا ایک پرتعیش آسائش ہے جو صرف سردیوں کی راتوں میں ممکن ہے جب درجہ حرارت 20 ڈگری تک ہو اور حالات بہت آرام دہ ہوں۔
بو سالم نے مجھے کچھ چیزیں دکھائیں جن میں قطر کے امیر کی تصویر بھی ہے۔ میں نے پوچھا کہ جس طرح فیڈل کاسترو کی تصویر کیوبا میں ہر جگہ ہے، اسی طرح قطر میں ہر جگہ امیر کی تصویر ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
انھوں نے جواب دیا کہ ’محبت۔۔۔ امیر ہمیں مفت تعلیم اور صحت کی خدمات فراہم کرتا ہے۔‘
قطر میں بہت سے لوگوں کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے ملک نے کس طرح مختصر عرصے میں بہت ترقی کی ہے جس کے پیچھے گیس اور تیل سے حاصل ہونے والا پیسہ ہے۔
بو سالم ترقی کے اس سفر کی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ ’وہ جگہ جہاں میں پلا بڑھا، اب ناقابل شناخت ہے۔ دوحہ میں بھی ایسی گلیاں ہیں جہاں جا کر لگتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔‘
باتوں باتوں میں ہی بو سالم نے چولہے پر 50 لیٹر کی ایک بڑا کڑاہی کھانا پکانے کے لیے رکھ دی۔ وہ روایتی عربی پکوان کبسہ بنا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس میں مرغی یا کوئی اور گوشت شامل کیا جا سکتا ہے لیکن آج خاص مہمانوں کی وجہ سے بکرے کا گوشت استعمال کر رہے ہیں۔‘
تھوڑی دیر میں مزید مہمان آ گئے۔ وہاں پہلے سے ہی 25 لوگ موجود تھے لیکن بو سالم خوش ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں لوگوں کا استقبال کرنا پسند ہے۔‘
میں نے دیکھا کہ یہاں موجود تمام مہمان مرد تھے۔ میں نے بو سالم سے پوچھا کہ ’کیا عورتیں بھی آئیں گی؟‘
فیس بک پر تصاویر دکھاتے ہوئے بو سالم کا کہنا تھا کہ ’ہاں، کل ایک غیر ملکی خاتون آئی تھی، اس کی سالگرہ تھی۔ ہم نے اسے مبارکباد دینے والا گانا بھی گایا۔ وہ بہت خوش تھی۔‘
اب میچ شروع ہو چکا تھا۔
پرتگال اور گھانا کے میچ کے پہلے ہالف میں کوئی گول نہیں ہو سکا تاہم دوسرے ہالف کے شروع میں کرسچیانو رونالڈو نے پرتگال کی جانب سے پینلٹی پر گول کیا اور میچ دلچسپ ہو گیا۔
جب رونالڈو نے اپنے مخصوص پوز میں 'Siu' کہہ کر جشن منایا تو یہاں بھی بہت سے لوگ اچھل پڑے جن میں ایک پرتگالی مہمان بھی شامل تھا۔
یہ ورلڈ کپ قطر کے لوگوں کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔
ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ قطر ناکام ہو جس سے مجھے غصہ آتا ہے۔ وہ انفراسٹرکچر اور سٹیڈیم میں سرمایہ کاری پر تنقید کرتے ہیں، لیکن یہ انگلش پریمیئر لیگ کی طرح ہے۔‘
اچانک میرا نام پکارا گیا اور مجھے اس جگہ بلایا گیا جہاں کھانا تیار ہو رہا تھا۔ وہ سب نہیں چاہتے تھے کہ اس شام کا کوئی اہم عمل میری نظر اور کیمرے کی آنکھ سے دور رہے۔
ایک شخص نے مجھے سمجھاتے ہوئے بتایا کہ ’ہم گوشت کو اس وقت تک پکاتے ہیں جب تک کہ وہ نرم نہ ہو جائے۔‘ میں نے یہ سب کچھ بہت غور سے سنا کیونکہ میں لندن واپس جا کر یہ نسخہ ضرور آزمانا چاہوں گا۔
کچھ ہی دیر میں ایک قطری نوجوان برازیل کی جرسی پہنے وہاں پہنچ گیا۔ اس نے بتایا کہ ’ہم 12 سال سے اس موقعے کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں لیکن اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ قطر نے اتنے بڑے پیمانے پر کبھی کسی تقریب کی میزبانی نہیں کی، دباؤ بھی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عربی میں ایک کہاوت ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ہر ملک کا اپنا قبرستان ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم نے حالیہ برسوں میں جو کچھ حاصل کیا ہے اس پر بھی بات کی جائے۔‘
یہ بھی پڑھیے
قطر: ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی دنیا کی امیر ریاست کیسے بنی؟
’یہ صرف قطر کا نہیں، تمام عربوں اور مسلمانوں کا ورلڈ کپ ہے‘
قطر فٹبال ورلڈ کپ: آمرانہ حکومتیں اور فیفا کی متنازع تاریخ
پرتگال نے گھانا کو سنسنی خیز مقابلے میں 3-2 سے شکست دی۔
جب برازیل کا میچ شروع ہوا ہے تو ہم عربی کافی اور شیشہ پینا شروع کر دیتے ہیں۔ فلسطینی نژاد قطری شہری نبیل نے مشورہ دیا کہ ’آہستہ پیو، اگر آپ اس کے عادی نہیں تو آپ گر سکتے ہیں۔‘
اس کافی کی رنگت زرد سی ہے اور یہ مصالحے سے بھرپور ہوتی ہے۔ یہاں کی کافی مغرب کی کافی کی طرح نہیں۔
نبیل بتاتے ہیں کہ ’کافی کی پھلیاں زیادہ بھنی ہوئی نہیں ہوتیں، اسی لیے یہ رنگ ایسا ہے۔ ہو سکے تو اسے میٹھی چیز کے ساتھ پی لیں کیونکہ یہ بہت کڑوی ہوتی ہے۔‘
میں اس گفتگو کے دوران عربی ثقافت میں کھانے کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ نبیل بتاتے ہیں کہ ’اپنے سیدھے ہاتھ سے کھائیں۔ جو آپ کے سامنے ہے اسے اٹھائیں۔‘
تاہم وہ مجھے یقین دلاتے ہیں کہ میں جو بھی کھاؤں، کوئی میرے بارے میں کچھ نہیں سوچے گا۔ چند قطری شہریوں نے روایتی قطری سفید لباس پہن رکھا تھا جو گھٹنوں تک آتا ہے اور سر پر سفید پگڑی پہن رکھی تھی۔ کچھ ٹی شرٹس اور ٹراؤزر میں ہیں۔
ایک قطری شخص ہاتھ میں تسبیح لیے کہتا ہے ’آج میں نے سر پر سکارف پہنا ہے کیونکہ میں ایک رسمی ملاقات سے آرہا ہوں۔‘
گفتگو کا رخ کبھی مذہب کی طرف ہو جاتا ہے اور پھر مشرق و مغرب کی ثقافتوں کے درمیان کشمکش پر بات ہوتی ہے۔
ایک شخص نے کہا کہ ’مغربی لوگ بعض اوقات اسلام کو نہیں سمجھتے۔ ہمارے لیے یہ ایک طرز زندگی ہے کہ دوسروں سے کیسے برتاؤ کرنا ہے، یہاں تک کہ سڑک پر کیسے چلنا ہے۔ اسلام پرامن ہے۔‘
نبیل بھی اس گفتگو میں شامل ہوتا ہے اور ان روایات اور قواعد کا دفاع کرتا ہے جنھیں مغربی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ انسانی حقوق کے خلاف نظر آتے ہیں۔
وہ تحمل سے بھری آواز میں کہتا ہے کہ ’میں دوسروں کی روایات کا احترام کرتا ہوں۔ دوسروں کو بھی ہماری عزت کرنی چاہیے۔ میڈیا قطر کے بارے میں پوری سچائی نہیں دکھا رہا۔‘
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے قطر میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے۔ میں ان کی توہین کیے بغیر کہتا ہوں، ’خواتین کو اتنی بڑی تعداد میں چھپے ہوئے دیکھنا۔‘
تاہم، وہ میرے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہیں۔ ’ہم یہاں ملنے، سیکھنے، اور کچھ بحث کرنے کے لیے آئے ہیں۔‘
سربیا اور برازیل کے میچ میں وقفہ ہوا تو عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ ہم کیمپ میں ننگے پاؤں بیٹھ گئے۔ پہلے اس قبیلے کے لوگ صحرا میں اس طرح اکٹھے کھانا کھاتے اور آرام کرتے تھے۔
بہت سے لوگ فرش پر بیٹھ کر ہاتھ سے کھا رہے ہیں۔ میرے جیسے لوگ چمچوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ گوشت کے ساتھ چاول بھی پیش کیے جا رہے ہیں اور پیاز کا سلاد بھی۔ پانی اور سوڈا تو ہے لیکن شراب کا ایک قطرہ نہیں۔
بو سالم نے بہترین کھانا تیار کیا۔ مہمان کہتے ہیں کہ ’جب بھی وہ کھانا پکاتا ہے، اس کا ذائقہ بہترین ہوتا ہے۔‘
میرے سامنے بیٹھا ایک نوجوان بتاتا ہے کہ اس نے مجھے بی بی سی منڈو کی ایک ویڈیو میں دیکھا ہے۔
کسی نے پوچھا، آپ کی ویڈیوز کتنے لوگوں تک پہنچتی ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ ’یہ بہت سی چیزوں پر منحصر ہے۔ دماغ پر بھنگ کے اثرات سے متعلق ویڈیو کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔‘
ادھر برازیلین سٹرائیکر رچرلسن نے گول کر دیا اور باہر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ برازیل کے سب سے زیادہ حامی قطر میں ہیں۔ اگرچہ ارجنٹائن کے میسی کے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں۔
’ہم چاہتے ہیں کہ دنیا قطر کے بارے میں مزید جانے۔ ہم عام لوگ ہیں جو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
چار گھنٹے کے دوستانہ اور خوش گوار ماحول کے بعد ہمارے میزبان کا یہ آخری پیغام تھا لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ دوبارہ آنا چاہتے ہیں تو آپ کا استقبال ہے، لیکن اس بار سگار لے کر آئیں۔‘ |
https://www.bbc.com/urdu/articles/c6pndrk5zy6o | فٹبال: ہیڈرز سے دماغی امراض کا خطرہ، سکاٹ لینڈ میں ٹرینِنگ کے دوران ہیڈرز پر پابندی کی ہدایت | سکاٹ لینڈ میں فٹبال کے کھلاڑیوں پر کسی بھی میچ سے ایک دن پہلے اور بعد میں تربیت کے دوران فٹبال کو سر سے ہیڈر مارنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ فٹبال کلبوں سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ سے زیادہ ایسے ٹریننگ سیشن نہ منعقد کریں جن میں پیشہ ور فٹبالرز کو ہیڈنگ کی مشق کرائی جاتی ہے۔
سکاٹ لینڈ کے فٹبال کلبز کے لیے یہ نئی ہدایات گلاسگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کی روشنی میں جاری کی جا رہی ہیں جس میں دیکھا گیا ہے کہ فٹبال کے کھلاڑیوں کے دماغی امراض سے مرنے کے امکانات دوسرے لوگوں کی نسبت ساڑھے تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا تعلق اس بات سے ہو سکتا ہے کہ پیشہ ور فٹبالر کھیل کے دوران بار بار سر کا استعمال کرتے ہیں اور یوں سر پر فٹبال کے ٹکرانے سے ان کے دماغ پر بھی اثر پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ سکاٹِش فٹبال ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے پہلے ہی ہدایات جاری کر رکھیں ہیں جن کے مطابق 12 سال سے کم عمر کے کے کھلاڑیوں کی تربیت میں آپ ایک حد سے زیادہ ہیڈرز نہیں استعمال کر سکتے۔
اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ دنیا کا و ہ پہلا ملک تھا جس نے تمام کھیلوں میں ’اگر شک ہوتا ہے تو کھلاڑیوں کو باہر بٹھائیں‘ کا اصول اپنایا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کھلاڑی کو سر پر کسی قسم کی چوٹ لگتی ہے اور اسے کنکشن ( سر چکرانا یا کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہوجانا) ہو جاتا ہے تو اسے میدان سے باہر بھیج دیا جائے۔
تازہ ترین ہدایات سے پہلے حکام نے ہیڈرز کے حوالے سے سکاٹِش فٹبال ایسوسی ایشن کے ایک جائزے کی روشنی میں مردوں اور خواتین کے 50 فٹبال کلبوں سے صلاح و مشورہ کیا ہے۔
یادداشت کی خرابی
ڈاکٹر جان میکلین 20 برس سے زیادہ عرصے تک سکاٹِش فٹبال ایسوسی ایشن سے طبی ماہر کی حیثیت سے منسلک رہے ہیں اور وہ ان ماہرین بھی شامل تھے جنھوں نے سنہ 2019 میں ماضی کے پیشہ ور فٹبالرز کے کھیل اور بعد کے برسوں میں ان کی یادداشت کی کمزوری (ڈمنشیا) کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ اس سلسلے میں تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، تاہم ہیڈِنگ اور دماغ پر اس کے اثرات کے حوالے سے ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ اگر کوئی کھلاڑی (میچ میں) بار بار ہیڈر مارتا ہے تو اس کے 24 سے 48 گھنٹے بعد تک اس کی یادداشت میں خرابی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہیڈر کے فوراً بعد لیے جانے والے خون کے نمونوں میں ایسی پروٹین نظر آتی ہے جو انسانی دماغ میں پائی جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر میکلین کا مزید کہنا تھا کہ ’ ہم نے (یہ ہدایات جاری کرنے میں) وقت لگایا ہے کیونکہ ہماری پوری کوشش رہی ہے کہ ہم تمام فریقوں سے مشورہ کرنے کے بعد بات کریں۔‘
’ہم چاہتے تھے کہ بنیادی اعداد وشمار جمع کرنے سے پہلے اس بات کا اچھی طرح جائزہ لے لیں کہ ٹرینِنگ کے دوران کھلاڑیوں کو ہیڈنگ کی کتنی تربیت دی جاتی ہے۔‘
’اور پھر فریقوں سے مشورے کا سلسلہ تھا، جس میں نہ صرف سکاٹ لینڈ بھر کے کھلاڑیوں بلکہ ان کے مینیجز اور کوچِز سے بھی صلاح و مشورہ کیا گیا۔‘
’ہمارا مقصد اس تمام معاملے کو سب فریقوں کی مجموعی ذمہ داری کے طور پر دیکھنا تھا تاکہ کھلاڑیوں کی صحت اور ان کی بہبود کو یقنی بنایا جا سکے۔‘
’فطرتی ردعمل‘
سکاٹ لینڈ کے خواتین کے ایک کلب کی کھلاڑی جوئلی مرے کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ حالیہ ہدایات کو سراہتی ہیں لیکن یہ توازن قائم رکھنا مشکل ہے کیونکہ میچ سے ایک دن پہلے تمام ٹیمیں ’سیٹ پِیس‘ کی پریکٹس کرتی ہیں، یعنی فری ہِٹ اور کارنر وغیرہ کی مشق جس میں ہیڈرز کا استعمال بھی شامل ہوتا ہے۔‘
’یقیناً ، ہم اس تحقیق اور اس کے نتائج سے کنارہ کشی نہیں کر سکتے، تاہم ہمیں اپنی ہفتہ وار ٹرینِنگ کی شکل تبدیل کرنا پڑے گی۔‘
’لیکن، آپ یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ کھلاڑی اپنا فطری کھیل کھیلنا چھوڑ دیں، فٹبال میں ہیڈر ایک فطری چیز ہے۔‘
’ماضی کے ایسے بے شمار کھلاڑی موجود ہیں جو بدقسمتی سے اب یادداشت کی خرابی اور ڈمنشیا جیسے دیگر دماغی امراض کا سامنا کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے دوران ہیڈرز کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے رہے ہیں۔‘
میچ کے دوران ہیڈرز
اس حوالے سے ایس ایف اے کے چیف فٹبال آفیسر، اینڈی گولڈ کا کہنا تھا کہ میچ کے دوران ہیڈرز کے بارے میں ہمارے پاس بہت سے اعداد وشمار پہلے سے ہی موجود ہیں ’تاہم حالیہ تحقیق اس لحاظ سے گراں قدر ہے کہ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ تربیت کے دوران ہیڈرز کے استعمال کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں کلبز، مینیجرز اور کھلاڑیوں کا مشکور ہوں کہ انھوں نے ہمیں معلومات اور اپنے اپنے نکتۂ نظر سے آگاہ کیا جس کی مدد سے ہم اعداد وشمار کی بنیاد پر ایک بہتر صلاح و مشورہ کرنے میں کامیاب ہوئے، اور اس کے نتیجے میں ہم ایسی ہدایات شائع کر سکے جن کا مقصد ہمارے کھلاڑیوں کا تحفظ اور ان کی بہبود ہے۔‘
اسی سال انگلیڈ کی فٹبال ایسوی ایشن نے بھی فٹبال کلبز کے لیے ایسی ہدایات متعارف کرائی ہیں جن کے تحت کھلاڑیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹرینِنگ کے دوران ایک ہفتے میں زیادہ سے زیادہ دس زوردار ہیڈرز مار سکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ برسوں میں ماضی کے کئی بڑے بڑے فٹبالرز ڈمنشیا کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں سکاٹ لینڈ کے کلب ’کیلٹِک‘ کے سابقہ کپتان بِلی میکنیل اورانگلیڈ کو ورلڈ کپ میں فتح دلوانے والے جیک چارلٹن بھی شامل تھے۔ |