url
stringlengths
1
238
heading
stringlengths
7
166
content
stringlengths
7
33.8k
https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1dz3ye0xlo
جھنڈے سے ’اللہ‘ کا نام کیوں ہٹایا؟ ایران نے فیفا سے امریکہ کی شکایت کر دی
ایران کی فٹبال فیڈریشن نے امریکہ کی ٹیم کی جانب سے سوشل میڈیا پوسٹس میں اسلامی جمہوریہ کے جھنڈے میں ردو بدل کیے جانے پر فیفا سے شکایت کی ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ٹیموں کے درمیان منگل کو ہونے والے ورلڈ کپ مقابلے سے قبل امریکی ٹیم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹس کیں تو ان میں سے ایران کے جھنڈے پر موجود ’اللہ‘ کا لفظ غائب تھا۔ امریکی ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’ایران کے سرکاری پرچم کو اس لیے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ ایران میں بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والی خواتین سے اظہار یکجہتی کرنا چاہتے تھے‘ جو ملک میں حکومت مخالف مظاہروں کا حصہ ہیں۔ یاد رہے کہ ایران میں مبینہ طور پر اخلاقی پولیس کے ہاتھوں، حجاب کے قانون کی خلاف ورزی پر، گرفتاری کے بعد 22 سالہ مہسا امینی کی تشدد سے موت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جن کو سختی سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہ بھی پڑھیے مہسا امینی: ایران میں احتجاجی مظاہروں کے دوران 23 ہلاکتیں ملک میں جاری فسادات کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے: ایرانی رہبرِ اعلیٰ ایران میں امریکہ کا وہ خفیہ آپریشن جس پر صدر جمی کارٹر کو پچھتاوا رہا ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے کہا ہے کہ ’امریکی فٹبال فیڈریشن کے انسٹاگرام پیج نے ایک غیر پیشہ وارانہ اقدام میں ایرانی پرچم سے ’اللہ‘ کا نشان ہٹا دیا۔‘ ’اس اقدام کے بعد ایرانی فٹبال فیڈریشن نے فیفا کو ایک ای میل بھیجی ہے جس میں عالمی فٹبال فیڈریشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی فٹبال فیڈریشن کے خلاف سنجیدہ کارروائی کی جائے۔‘ امریکی ٹیم کے ترجمان نے بعد میں کہا کہ سوشل میڈیا سے متنازع پوسٹس کو ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ ایران کے درست پرچم کے ساتھ نئی پوسٹس لگا دی گئی ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ ’ہم اب بھی ایران کی خواتین کی حمایت کرتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ ایران نے امریکہ سمیت بیرونی عناصر پر الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں جاری مظاہروں کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے جبکہ امریکی حکومت نے حالیہ مظاہروں کے بعد چند ایرانی حکام کے خلاف نئی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان 1980 سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9229y7dzro
قطر فٹبال ورلڈ کپ: آمرانہ حکومتیں اور فیفا کی متنازع تاریخ
جب 12 سال قبل قطر کو سنہ 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے چنا کیا گیا تھا تب سے اس ملک کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے سبب اس پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ قطر پر تنقید صرف ملک کے خواتین اور ہم جنس پرستوں کے حقوق پر موقف کی وجہ سے ہی نہیں (کیونکہ قطر میں ہم جنس پرستی جرم ہے) بلکہ وہاں ورلڈکپ کے لیے سٹیڈیم تیار کرنے والے غیر ملکی مزدورں کے کام کے حالات پر بھی ہے جس کے بارے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان حالات کو غیر انسانی اور غلامی کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چیمپیئن شپ کا انتظام کرنے والی تنظیم فیفا (انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایسوسی ایشن فٹ بال) کا قطر پر حکومت کرنے والی مطلق العنان بادشاہت کی طرف رویے نے بھی متعدد مظاہروں کو جنم دیا ہے۔ فٹبال کی عالمی تنظیم عام طور پر میزبان ممالک پر مختلف قسم کے قواعد نافذ کرتی ہے جو اکثر ان ممالک کے مقامی قوانین سے متصادم ہوتے ہیں تاہم قطر میں فیفا نے ٹورنامنٹ کے آغاز سے دو دن قبل شاہی حکومت کی جانب سے سٹیڈیموں میں شراب کی فروخت پر پابندی کے اعلان کو بغیر کسی رکاوٹ کے قبول کر لیا اور کھلاڑیوں پر میچوں کے دوران کسی بھی قسم کے مظاہرے پر پابندی لگا دی۔ جرمنی کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس پابندی کے خلاف علامتی احتجاج کرتے ہوئے ٹیم کے پہلے میچ کی آفیشل تصویر کے دوران اپنے منھ کو ڈھانپ لیا تھا۔ ٹیم کے بہت سے ارکان میچ کے دوران ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے ’ون لو‘ بریسلٹ پہن کر کھیلنا چاہتے تھے لیکن فیفا نے اس بریسلٹ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو میں تاریخ کے پروفیسر اور فٹبال کے کھیل کے مؤرخ فلاویو ڈی کیمپوس کہتے ہیں ’فیفا کو انسانی حقوق سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ یہ کاروبار کے لیے ضروری نہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’جب سرگرمیاں یا پروگرامز کا انعقاد کرنے کی بات آتی ہیں تو تنظیم یہ تمام مسائل ایک طرف رکھ کر بہت عمل پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔‘ کیمپوس نہ صرف قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ پہلی ورلڈ کپ چیمپئن شپ کے بعد سے فیفا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی آمرانہ حکومتوں کے ساتھ تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم ان میں سے کچھ حکومتوں کے ساتھ فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سنہ 1978میں ارجنٹائن پر ایک ظالمانہ فوجی آمریت تھی جو دو سال قبل ایک بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی۔ فیفا نے اس کے باوجود اس ملک میں ورلڈکپ کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیپموس کہتے ہیں کہ ’اگرچہ وہاں بڑے پیمانے پر تشدد اور ظلم ہو رہا تھا پھر بھی ورلڈ کپ وہاں کھیلا گیا تھا۔ حکومت کیا کر رہی ہے اور کیا کر سکتی ہے اس سے کوئی غرض نہیں ہے جب تک پیسہ بنایا جا سکتا ہے اور اقتصادی عمل طاقتور ہے۔‘ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال کافی غیر مستحکم تھی اور ملک میں لاپتہ نوجوانوں کی مائیں اکثر مظاہرے کر رہی تھیں۔ ارجنٹائن میں اس وقت فٹبال کے عالمی مقابلے کا انعقاد مختلف تنازعات اور مسائل میں گھرا رہا تھا جیسا کہ آخری وقت تک بہت سے سٹیڈیم کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بعض میں نئی لگائی گئی گھاس میچوں کے دوران ہی اکھڑ گئی تھی۔ حکومت پر ارجنٹائن کی قومی ٹیم کی حمایت کا الزام بھی لگایا گیا تھا کیونکہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ میزبان ٹیم کے تمام میچ بیونس آئرس میں کھیلے گئے تھے جبکہ ان کے مخالفین کو ملک بھر کا سفر کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ ارجنٹائن کے انتخابات برسوں پہلے ہوئے تھے، لیکن آمریت کے جرائم کی وجہ سے فیفا کے اس وقت کے صدر جواؤ ہیولنج پر ٹورنامنٹ کا مقام یورپ منتقل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیمپوس بتاتے ہیں کہ ایسا آپریشن نا ممکن نہیں ہوتا، جیسا کہ اس کے بعد ہوا تھا جب 1986 میں کولمبیا ورلڈ کپ کی میزبانی سے دستبردار ہوگیا تھا اور اسے میکسیکو میں منعقد کیا گیا تھا۔ سنہ 1978 کا فٹبال ورلڈکپ کا جشن بھی بنا کسی احتجاج کے نہیں ہوا تھا۔ یونیورسٹی آف برازیلیا میں تاریخ کے پروفیسر میٹیوس گامبا ٹوریس بتاتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کے لیے ایک مضبوط مہم چلائی گئی تھی۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بہت سے بین الاقوامی مظاہرے ہوئے تھے۔ کچھ کھلاڑی بائیکاٹ میں شامل ہوئے اور کھیلنے نہیں گئے۔ اور دیگر جنھوں نے شرکت کی انھوں نے پلازہ ڈی میو میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔‘ مؤرخ نے اس وقت ارجنٹائن پر حکومت کرنے والے آمر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’فائنل میں پہنچنے والی ڈچ ٹیم نے اعلان کیا کہ اگر وہ جیت گئے تو وہ وڈیلا سے ورلڈکپ کی ٹرافی وصول نہیں کریں گے۔‘ بالآخر ایک مقامی ٹیم یہ ورلڈکپ جیتی تھی اور آمر نے ہی انھیں ٹرافی دی تھی۔ سنہ 1934 میں دوسرا فیفا ورلڈ کپ فاشسٹ آمر بینیٹو مسولینی کی حکومت میں اٹلی میں منعقد ہوا تھا۔ مسولینی اپنے ملک کی میزبانی کے لیے اس قدر عزم رکھتے تھے کہ انھوں نے فیفا کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک جنرل، جیورجیو ویکارو، کو اطالوی فٹ بال فیڈریشن کا صدر مقرر کیا۔ ویکارو نے ایونٹ میں بڑی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا، اور 1932 میں اٹلی نے سویڈن کو ورلڈکپ کی میزبانی کے مقابلے میں شکست دی تھی۔ کیمپوس روسی صدر ولادیمیر پوتن کو بھی ایک آمرانہ حکومت کے نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں جن کے ساتھ فیفا نے روس 2018 کے ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے شراکت داری کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کاغذوں میں روس ایک جمہوری ملک ہے اور وہاں انتخابات ابھی بھی ہوتے ہیں مگر اسے ایک آمرانہ حکومت تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ ولادیمیر پوتن جو گذشتہ 22 سال سے ملک پر حکومت کر رہے ہیں انھوں نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے بے شمار میکانزم بنائے ہیں۔‘ سنہ 2018 میں بھی، یوکرین پر حملے سے بہت پہلے، پوتن کے روس کو سیاسی مخالفین پر ظلم و ستم، پریس کو کنٹرول کرنے، ہم جنس پرست برادری کی جانب سخت ماحول اور نگرانی کے طریقہ کار کے استعمال پر پہلے ہی تنقید کا سامنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر معلومات پر کنٹرول اور امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزامات بھی تھے۔ مطلق العنان آمریت والے ممالک میں ورلڈ کپ کا انعقاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ جمہوریت کی کمی کو نہ صرف ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے بلکہ تاریخ دانوں کے مطابق اسے فیفا کے مثبت پہلو کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ خود فیفا نے پہلے ہی اعتراف کیا ہے کہ وہ ’بہت زیادہ جمہوریت‘ کو ایک ’مسئلہ‘ سمجھتی ہے۔ سنہ 2013 میں تنظیم کے اس وقت کے جنرل سکریٹری جیروم والکے نے کہا تھا کہ ’بہت زیادہ جمہوریت‘ ورلڈ کپ کی تنظیم میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ والکے نے ایک تقریب میں اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں کچھ کہنے جا رہا ہوں جو کچھ عجیب ہے لیکن کم جمہوریت کبھی کبھی ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے بہتر ہوتی ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’جب آپ کے پاس ایک مضبوط سربراہ مملکت ہے جو فیصلے کر سکتا ہے جیسا کہ پوتن 2018 میں کر سکتے ہیں، یہ ہمارے لیے، منتظمین کے لیے آسان ہے۔‘ انھوں نے سنہ 2014 میں برازیل میں ایونٹ کے انعقاد میں دشواریوں کی طرف اشارہ کیا، جس میں ورلڈکپ کے خلاف احتجاج اور 2014 کے ورلڈ کپ سے قبل سٹیڈیم کی تعمیر میں مزدوروں کی ہڑتال شامل تھی۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’برازیل میں مختلف لوگ، مختلف تحریکیں اور مختلف مفادات ہیں، اور ان حالات میں ورلڈ کپ کا انعقاد کافی مشکل تھا۔‘ بی بی سی نے اس وقت فیفا سے والکے کے بیان اور آمرانہ حکومتوں کے ساتھ ان کے تعلقات پر تنقید پر تبصرہ کرنے کو کہا، لیکن جواب نہیں ملا تھا تاہم، کئی مواقع پر فیفا کے موجودہ صدر گیانی انفانٹینو نے ادارے کے موقف اور قطر کے تارکین وطن مزدوروں، ہم جنس پرست افراد اور خواتین کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے تنقید کا جواب دیا ہے۔ انفانٹینو نے، جو سوئس اور اطالوی ہیں، ورلڈکپ کے افتتاح کی شام 19 نومبر کو دوحہ میں ایک تقریر میں یقین دلایا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ کسی کے خلاف امتیازی سلوک برتنا کیا ہوتا ہے اور یہ کیسا محسوس ہوتا ہے کیونکہ ’ان کے بال سرخ ہونے اور ان کے چہرے پر جھریاں ہونے پر انھیں بھی سکول میں تنگ کیا جاتا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’آج میں خود کو قطری، ایک عرب، ایک افریقی، ایک ہم جنس پرست، ایک معذور محسوس کرتا ہوں، میں خود کو ایک تارکِ وطن مزدور محسوس کرتا ہوں۔‘ انفانٹینو نے ایک اور موقع پر اس بات کی بھی تصدیق کی کہ قطر میں ورلڈ کپ کا انعقاد ایک مثبت چیز ہے کیونکہ اس تقریب کی طرف مبذول ہونے والی توجہ کی بدولت ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے ’بہت سی پیشرفت‘ ہوئی ہے۔ یہ بھی پڑھیے فٹبال ورلڈ کپ 2022: کیا قطر سٹیڈیمز میں شراب پر پابندی لگانے والا واحد ملک ہے؟ قطر: کیا یہ اب تک کا سب سے زیادہ سیاست زدہ فٹبال ورلڈ کپ ہے؟ فٹبال ورلڈ کپ: آکٹوپس سے لے کر مصنوعی ذہانت تک، فاتح کی پیش گوئی کیسے کی جاتی ہے؟ پروفیسر کیمپوس کا خیال ہے کہ فیفا کے پاس آمرانہ حکومتوں والے ممالک کا انتخاب کرنے کی ایک اقتصادی وجہ ہے کیونکہ ایسے ملک بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں جبکہ جمہوری ممالک میں عام طور پر تقریب کے لیے عوامی پیسے کے استعمال کے بارے میں زیادہ شفافیت اور جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف برازیلا سے تعلق رکھنے والے میٹیس گامبا ٹوریس کہتے ہیں کہ ’آمرانہ حکومتیں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہیں، ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ذرا دیکھیں کہ قطر نے 2022 میں کتنی سرمایہ کاری کی (220,000 ملین امریکی ڈالر، تاریخ کا سب سے مہنگا ورلڈ کپ) اور 1978 میں ارجنٹائن نے ان ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرمایہ کاری کی تھی جنھوں نے اس کا انعقاد چار اور آٹھ سال بعد کیا تھا۔‘ ٹوریس بتاتے ہیں کہ ’ایک آمرانہ ملک میں ہر چیز کو سینسر کیا جاتا ہے، کوئی ڈیٹا ظاہر نہیں کیا جاتا۔ کارکنان ہڑتال پر جانے پر بھی غور نہیں کرتے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے سختی سے دبایا جاتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’فیفا کو انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سٹیڈیم ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے تیار ہوں، سپانسر شپ فروخت کریں۔‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ کہتے ہیں کہ آمرانہ حکومتوں میں کاروباری نقطہ نظر سے بھی کچھ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک آمریت میں استحکام اور معاہدوں کی تعمیل کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر شراب پر پابندی کو ہی لے لیں جس کا اعلان قطر نے ورلڈ کپ شروع ہونے سے دو دن پہلے کیا تھا۔ یہ سپانسرز کے لیے اچھا نہیں ہوا ہو گا۔‘ کیمپوس کہتے ہیں کہ ’وہ اپنی تقاریر میں کہہ سکتے ہیں کہ ورلڈ کپ کی بدولت انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن یہ منافقانہ ہے، کیونکہ فیفا نے کبھی بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ ’اور وہاں فٹبال ورلڈکپ کے انعقاد کا فیصلہ کر کے وہ ان حکومتوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cz400lq27jgo
فٹبال ورلڈ کپ: لیاری والوں کے دل برازیل کے لیے ہی کیوں دھڑکتے ہیں؟
یہ ممکن ہی نہیں کہ فٹبال ورلڈ کپ ہو اور کراچی کے علاقے لیاری کے رہنے والے اس سے لا تعلق رہیں اور برازیل کی ٹیم کھیل رہی ہو اور لیاری والے خاموش بیٹھے ہوں، ایسا تو ناممکن ہے۔ درحقیقت لیاری والوں کے دل ہمیشہ برازیل کے فٹبالرز کے لیے ہی دھڑکتے ہیں اور لیاری کے گلی کوچوں میں اس کے فینز ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ فٹبال ورلڈ کپ میں کئی دوسری ٹیمیں بھی کھیلتی ہیں لیکن لیاری والے برازیل ہی کو پسند کرتے ہیں؟ اس سوال کا تفصیلی جواب سینئر صحافی نادر شاہ عادل کی طرف سے سامنے آیا۔ نادر شاہ عادل کہتے ہیں کہ لیاری کو اگر ’منی برازیل‘ یا ’لٹل برازیل‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے تو اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ ’لیاری کے لوگ عام طور پر سیاہ فام کھلاڑیوں اور خصوصاً برازیل کو اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ہم رنگ نظر آتے ہیں اس لیے ان کی جذباتی وابستگی بڑھ جاتی ہے۔‘ ’لیاری والے خود احساس محرومی کا شکار رہے ہیں لیکن انھیں کم ازکم اس بات کی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کے ہم رنگ کھلاڑی فٹبال کی بڑی ٹیموں کا مقابلہ کررہے ہیں۔‘ یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ لیاری سے تعلق رکھنے والے متعدد کھلاڑی برازیل اور لاطینی امریکہ کے کھلاڑیوں سے بڑی مماثلت رکھتے تھے۔ مثلاً اپنے دور کے مشہور فٹبالر غفور مجنا، برازیل کے رابرٹو کارلوس سے بہت ملتے جلتے تھے اور دونوں کے کھیلنے کا سٹائل بھی تقریباً ایک جیسا تھا۔ پچاس کے عشرے میں لیاری کے بچے اور نوجوان ماری پور روڈ پر واقع ایک میدان میں جا کر فٹبال کھیلنے کا شوق پورا کیا کرتے تھے جو ’گنجی گراؤنڈ‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس میدان کی زمین ریتیلی اور ایک جانب بہت زیادہ پھسلن تھی لہذا اس پر یہ سب ننگے پاؤں کھیلا کرتے تھے۔ یہ گنجی گراؤنڈ جس جگہ تھا وہاں بعد میں پیپلز پلے گراؤنڈ بن گیا۔ لیاری والوں کو اس گراؤنڈ میں کھل کر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع اس لیے بھی نہ مل سکا کہ ایک طویل عرصے تک یہ پیپلز پلے گراؤنڈ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے زیر استعمال رہا۔ لیاری والوں کی فٹبال سے گہری وابستگی کا غیرملکی سفارت خانوں کو بھی بخوبی اندازہ تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں ان سفارت خانوں کی گاڑیاں ہر دوسرے مہینے ایک مقررہ تاریخ پر رات کے وقت لیاری میں آتی تھیں۔ انھیں ’چلتا پھرتا سنیما گھر‘ کہا جاتا تھا۔ ان گاڑیوں میں پروجیکٹر، سکرین اور فٹبال میچوں کی فلمیں ہوا کرتی تھیں جو خاص طور پر لیاری کے فٹبال شیدائیوں کو دکھانے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔ سینیئر صحافی نادر شاہ عادل کا کہنا تھا ’میں اس زمانے میں سیفی سپورٹس کی طرف سے کھیلا کرتا تھا اور مجھے کئی دوسرے نوجوانوں کی طرح ان فلموں کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔‘ ’پروجیکٹر کے ذریعے دکھائی جانے والی ان فلموں میں پرتگال کے یوسیبیو اور برازیل کے پیلے کے میچ نمایاں ہوتے تھے۔ ہمارے نوجوان فٹبالرز شہرۂ آفاق پیلے کے میچ دیکھ کر انہی جیسا کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ پیلے کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ جس مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے کوئی دوسرا اس طرح نہیں کرسکتا تھا لیکن لیاری کے نوجوان کھلاڑیوں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔‘ پھر جب ٹی وی آیا تو لیاری کے ہر فٹبال کلب کے دفتروں اور گھروں میں فٹبال کے میچ دیکھے جانے لگے۔ بات آگے بڑھتی ہوئی علاقے میں بڑی سکرین تک آ پہنچی اور دیکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ یہ میچ دیکھنے والوں کے اپنے مخصوص لب و لہجے میں تبصرے بھی دلچسپ ہوا کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت برازیل کے علاوہ کسی دوسری ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ لیاری والوں کی برازیل سے محبت کے انداز مزید مستحکم ہوتے چلے گئے۔ ورلڈ کپ کے موقع پر لیاری کے گلی محلوں اور گھروں کی چھتوں پر ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے پرچم لہرانے لگے لیکن ان میں بھی برازیل کا پرچم نمایاں ہوتا ہے۔ دیواروں پر پرچم اور کھلاڑیوں کے چہرے پینٹ ہونا بھی معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ اس بار بھی لیاری کے علاوہ ملیر کے علاقے میں بھی یہ رنگ نکھرے نظر آتے ہیں البتہ ملیر میں اس مرتبہ پسندیدہ ٹیم جرمنی بتائی جا رہی ہے۔ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل نہیں ہوا تھا تو اس وقت لیاری سے تعلق رکھنے والے فٹبالرز وہاں جا کر پیشہ ورانہ فٹبال کھیلا کرتے تھے۔ نہ صرف ڈھاکہ بلکہ انڈیا اور دوسرے ملکوں میں بھی محمد عمر، غفور، جبار، حسین کلر، موسٰی غازی، علی نواز جیسے فٹبالرز کے چرچے تھے۔ ترکی کی ٹیم پاکستان آئی تھی تو جبار اور مولا بخش گوٹائی کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور دونوں کو ترکی کھیلنے کی دعوت دے گئی۔ دونوں نے انقرہ جا کر وہاں بھی اپنے کھیل کی خوب جھلک دکھائی۔ مشرقی پاکستان کے نہ ہونے سے بھی یہاں کے فٹبالرز معاشی طور پر متاثر ہوئے اور پھر جب پاکستان میں اداروں نے اپنی فٹبال ٹیمیں بند کرنا شروع کیں تو کئی فٹبالرز اور ان کے گھرانے فاقوں پر مجبور ہو گئے۔ لیاری ہر دور میں بنیادی سہولتوں سے محرومی کی شکایت کرتا رہا ہے۔ اس علاقے کی منفی شہرت منشیات کے گڑھ کے طور پر بھی رہی ہے اور پھر گینگ وار نے تو جیسے اس علاقے کو تاریکی میں دھکیل دیا۔ اس کے نتیجے میں جہاں تعلیم اور روزگار متاثر ہوئے تو دوسری طرف تفریح کے تمام ذرائع بھی بند ہو گئے۔ کبھی فائرنگ کے واقعات تو کبھی فٹبال گراؤنڈ میں دھماکے میں بچوں کی ہلاکت نے لیاری کا سکون برباد کررکھا تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ لیاری میں منفی شہرت کے حامل نام مثلاً رحمن ڈکیت، شیر محمد شیر، بابو اقبال ڈکیت اور عزیر بلوچ خود فٹبال کے اچھے کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckknnywgvpeo
ایران اور ویلز کے میچ کے دوران حکومت کے حامی اور مخالف مداحوں کا ٹکراؤ
جمعے کو قطر میں ایران اور ویلز کے درمیان فٹ بال میچ میں ایرانی حکومت کے حامی اور مخالف مداحوں کے درمیان ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی۔  احتجاج کرنے والے چند مداحوں نے کہا کہ ان کے پرچم ان سے لے لیے گئے جبکہ کچھ دیگر کا کہنا ہے کہ انھیں ہراساں کیا گیا۔  سٹیڈیم میں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے ایرانی حکومت مخالف نعروں پر مشتمل شرٹس اور دیگر اشیا بھی ضبط کر لیں۔  واضح رہے کہ جمعے کو ہونے والے میچ میں ایران نے ویلز کو شکست دے کر ورلڈ کپ کے اب تک کے بڑے اپ سیٹس میں سے ایک کیا ہے۔  اُنھوں نے ویلز کو دو صفر سے شکست دی۔  ایران میں ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں۔  تہران کی اخلاقی پولیس نے مہسا امینی کو مبینہ طور پر اپنے بال درست انداز میں نہ ڈھکنے کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ تین دن بعد وہ پولیس حراست میں ہلاک ہو گئیں۔  ملک بھر میں جاری مظاہروں میں لوگوں نے مزید آزادی سمیت حکومت کی برطرفی جیسے مطالبات کیے ہیں۔  حکومت نے جواباً مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے جس میں کئی لوگوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔  جمعے کو ایران کے ویلز کے خلاف ورلڈ کپ مقابلے میں کچھ مظاہرین کے انقلابِ اسلامی سے پہلے کے ایرانی پرچم حکومت کے حامی مداحوں نے چھین لیے۔  احمد بن علی سٹیڈیم میں کھیلے گئے اس میچ میں کچھ لوگوں نے ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے فقرے پر مشتمل ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ یہ فقرہ ایرانی حکومت کے خلاف مظاہروں کا اہم نعرہ بن چکا ہے۔  ایک ایرانی تماشائی نے الزام عائد کیا کہ قطری پولیس نے حکومت کے حامی مظاہرین کی شکایت پر اُنھیں اپنے بازوؤں اور سینے سے ایرانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے مظاہرین کے نام مٹانے کو کہا۔  ایک اور خاتون نے کہا کہ اُنھیں مہسا امینی کی تصویر کی حامل ٹی شرٹ پہن کر میچ دیکھنے سے روک دیا گیا۔  مردوں کے ایک گروہ کو ان خواتین پر جملے کستے ہوئے دیکھا گیا جو غیر ملکی پریس کو مظاہروں سے متعلق انٹرویوز دے رہی تھیں۔  کچھ لوگوں نے اپنے موبائلز سے ان خواتین کی ویڈیوز بنائیں جن پر لفظی حملے کیے جا رہے تھے جبکہ مرد ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ چلا رہے تھے۔  میچ کے آغاز سے قبل جب ایرانی کھلاڑیوں نے قومی ترانہ گایا تو کچھ لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا۔  اس سے قبل پیر کو انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل کھلاڑی بظاہر حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں خاموش کھڑے رہے تھے۔  سٹیڈیم میں کچھ تماشائیوں نے سابق ایرانی فٹ بال کھلاڑی ووریا غفوری کے نام والا ہیٹ پہن رکھا تھا۔  وہ ایرانی حکومت کے ناقد ہیں اور اُنھیں جمعرات کو ایرانی حکام نے پروپیگنڈا پھیلانے کے الزام میں حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔  وہ اپنی قومی ٹیم کی 28 مرتبہ قیادت کر چکے ہیں اور 2018 کے ورلڈ کپ میں بھی ٹیم کا حصہ تھے۔ 2022 کے ورلڈ کپ کی ٹیم میں ان کے نہ ہونے پر کئی لوگوں کو حیرانی ہوئی۔  رواں ہفتے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایران میں حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے حوالے سے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے قیام کی منظوری دی تھی۔  اقوامِ متحدہ نے کہا تھا کہ ایران بحرانی حالت میں ہے اور 300 لوگ قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ 14 ہزار دیگر کو گذشتہ نو ہفتوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔  ایران نے اسے نامعقول سیاسی مؤقف قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv27p8exkvmo
مردہ قرار دیا گیا فٹ بال کھلاڑی جو بعد میں اپنی قومی ٹیم کا کوچ بن گیا
اکتوبر 2016 میں کیمرون کی فٹ بال ٹیم کے کوچ اور سابق کھلاڑی ریگوبرٹ سونگ کا موت سے دوسری مرتبہ سامنا ہوا۔  پہلی مرتبہ ایسا 2003 میں ہوا تھا۔ یہ جون کا مہینہ تھا اور کیمرون کی ٹیم فرانس میں فیفا کنفیڈریشنز کے چیمپیئنز کا ٹورنامنٹ ’کنفیڈریشنز کپ‘ کھیل رہی تھی۔  سونگ سٹارٹر تھے اور 72 ویں منٹ میں مانچسٹر سٹی کے لیے کھیل رہے جب ایک کھلاڑی مارک ویوین فو میدان میں گر پڑے۔ اپنے ساتھیوں اور طبی عملے کی کوششوں کے باوجود مارک فو کو چند منٹوں بعد مردہ قرار دے دیا۔  میدان میں سونگ نے اپنے ساتھی کھلاڑی کو انتہائی غیر متوقع انداز میں مرتے ہوئے دیکھا۔  تیرہ برس بعد اس مرتبہ وہ تھے جو دماغ کی ایک شریان پھول جانے کی وجہ سے موت کے قریب جا پہنچے۔  سونگ نے بی بی سی کو بتایا: ’مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کیا ہوا تھا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ میں اس موقع پر موت کے کتنا قریب پہنچ چکا تھا۔‘ اور بھلے ہی اُنھیں سوشل میڈیا اور کچھ اخبارات و ٹی وی چینلز پر مردہ قرار دے دیا مگر سونگ قطر میں ہونے والے 2022 کے ورلڈ کپ میں اپنے ملک کی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ملک کو سنہ 1990 میں اٹلی میں ہونے والے ورلڈ کپ سے بھی آگے لے جانا چاہتے ہیں جب کیمرون کوارٹر فائنلز میں پہنچا تھا۔  ’یہ ایک مشکل صورتحال تھی۔ مگر اب میں حال میں جی رہا ہوں۔ میں ماضی میں نہیں جی رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ میری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں ٹھیک ہوں۔‘  ان کا ماضی وہ ہے جس میں وہ زندگی اور موت کے درمیان جھولتے رہے اور اب وہ اپنے ملک کے کوچ بن چکے ہیں۔  کیپٹن سونگ  ریگوبرٹ سونگ جنوبی کیمرون میں یکم جولائی 1976 کو پیدا ہوئے تھے۔  فٹ بال کھیلنے کے آغاز سے ہی ان کی دفاعی صلاحیتیں پہچان لی گئی تھیں اور اُنھوں نے یورپ کا اپنا پہلا دورہ 18 برس کی عمر میں کیا جب وہ فرانس میں میٹز کے پروفیشنل سکواڈ کا حصہ تھے۔  اپنے ہنر کے باعث وہ کیمرون کی قومی ٹیم میں بھی جگہ بنا پائے اور اُنھوں نے 1994 کا عالمی کپ کھیلا۔  وہ فرانس میں سنہ 98 کا ورلڈ کپ اور جنوبی افریقہ میں 2010 کا ورلڈ کپ بھی کھیلے۔  جنوبی افریقہ کا ورلڈ کپ کھیلنے کے کچھ ہی عرصے بعد سونگ نے پروفیشنل فٹ بال سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ وہ انگلینڈ میں لیورپول اور لیڈز کی ٹیموں کا بھی حصہ رہ چکے تھے۔  اب اُنھوں نے کوچ کے طور پر اپنے کریئر کی شروعات کی۔ فروری 2016 میں اُنھیں کیمرون میں پیدا ہونے والے کھلاڑیوں کی ٹیم کا مینیجر بنا دیا گیا۔  مگر قدرت نے ان کے ساتھ ایک کھیل کھیلا۔ اسی سال دو اکتوبر کو سونگ اپنے گھر میں گر پڑے اور اُنھیں کیمرون کے دارالحکومت یاؤندے کے مرکزی ہسپتال لے جایا گیا۔  تشخیص بہت تشویش ناک تھی: دماغ کی ایک شریان کے پھول جانے کی وجہ سے اُنھیں سٹروک ہوا تھا۔ اس صورتحال کی سنگینی کے پیشِ نظر ڈاکٹروں نے اُنھیں کوما میں رکھا۔  اُنھوں نے 2017 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں مکمل طور پر لاعلم تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہوں۔‘  کیمرون بھر میں یہ خبر فوری طور پر پھیل گئی۔ سونگ قومی ٹیم کے لیجنڈ تھے اور ان کی صحت نے ملک میں کئی لوگوں کی توجہ حاصل کی۔  سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر لوگ ان کی موت کی خبر دینے لگے۔ درحقیقت کیمرون ہی نہیں بلکہ نائیجیریا میں بھی کئی میڈیا اداروں نے ’افسوس ناک خبر‘ چلا دی۔  مگر سونگ تشویش ناک حالت میں ہونے کے باوجود موت سے کافی دور تھے۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے دو دن بعد سابق کپتان کوما سے باہر آ گئے اور اعلان کیا کہ وہ مرے نہیں ہیں۔  ’میں جب کوما سے باہر آیا تو مجھے پتا لگا کہ کیا ہوا ہے۔‘  اور اُنھیں فوراً اپنے ساتھی مارک ویوین فو کے ساتھ ہونے والا واقعہ یاد آیا۔  اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں لگتا ہے کہ کھلاڑی، فٹ بال کھلاڑی محفوظ ہوتے ہیں مگر ہم زیادہ خطرے کے شکار ہوتے ہیں۔‘  سونگ نے کہا: ’سٹروک کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ کے ساتھ کوئی اندرونی مسئلہ ہو اور آپ ایسی چیزیں کریں جس سے یہ پنپنے لگے۔‘  قومی ٹیم میں واپسی  ہسپتال سے باہر آنے کے بعد سونگ کو بحالی کے لیے پیرس بھیج دیا گیا اور چند ماہ بعد ہی وہ فٹ بال میدانوں میں واپس آ گئے۔  وہاں سے اُنھوں نے کیمرون کی نوجوان ٹیموں کی رہنمائی شروع کی اور ملکی فٹ بال فیڈریشن میں کئی عہدوں پر رہے۔  سنہ 2022 کے آغاز میں کیمرون نے افریقہ کپ آف نیشنز کی میزبانی کی۔ امیدیں بلند تھیں کیونکہ کیمرون چار مرتبہ یہ ٹائٹلز جیت چکا ہے اور انھیں امید تھی کہ وہ ٹائٹل کا دفاع کریں گے۔  مگر وہ اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے تیسرے نمبر پر آئے اور کوچ ٹونی کونسیکاؤ کو برطرف کر دیا گیا۔  ان کی جگہ سونگ نے لی۔ رواں برس مارچ میں الجیریا کے خلاف کیمرون نے پلے آفس کھیلے اور دو کڑے مقابلوں کے بعد کیمرون نے قطر 2022 میں اپنی جگہ بنا لی، حالانکہ وہ روس 2018 میں اپنی جگہ نہیں بنا پائے تھے۔  شاید موت سے سامنا ہونے کی وجہ سے وہ کیمرون کے کھلاڑیوں کو ایسی تربیت دے پائیں کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے والا پہلا افریقی ملک بن جائیں۔  وہ کہتے ہیں: ’اگر مجھے کسی کو کوئی ایک مشورہ دینا ہوا تو وہ یہ ہو گا کہ ’اپنی زندگی جیئیں! مگر محتاط رہیں، آپ کو احتیاط بھی کرنی ہو گی۔ مثلاً اگر سر میں درد ہو تو ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اور آپ کو زندگی میں پرسکون رہنا چاہیے، نارمل زندگی جیئیں، پریشر نہ لیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c881jx2jxz0o
کچھ فٹبال سٹارز چہرے پر ماسک کیوں پہن رہے ہیں؟
یہ ایک سپر ہیرو ماسک کی طرح لگتا ہے جیسا کہ’دی انکریڈیبلز‘ میں پکسر استعمال کرتا ہے، لیکن یہ ماسک محض اتنی ہی سپر پاور دیتا ہے کہ بس آپ کھیل سکیں۔ جنوبی کوریا کی فٹ بال ٹیم کے کپتان اور سٹار اسٹرائیکر سون ہیونگ من، اس جمعرات کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں یوروگوئے کے خلاف اپنے ملک کے پہلے میچ میں ایک سیاہ ماسک پہنے ہوئے سٹیڈیم میں داخل ہوئے۔ ماسک نے ان کے چہرے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ یہ میچ بغیر کسی گول کے برابری پر ختم ہوا۔ انکی جانب سے اس پروٹیکشن کو استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یکم نومبر کو انگلش ٹوٹنہم ہاٹ سپورکلب، جہاں جنوبی کوریا کے کھلاڑی کھیلتے ہیں، اور اولمپک ڈی مارسیلی کے درمیان کھیلے گئے میچ میں کانگو کے ڈفینڈر چنسل میبما سے ٹکرانے سےانکی بائیں آنکھ کے ساکٹ کے نزدیک فریکچر ہو گیا تھا۔ 30 سالہ سون ہیونگ من کی 4 نومبر کو سرجری ہوئی اور پانچ دن بعد انھوں نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے تیار ہیں، حالانکہ کچھ لوگوں کو شک تھا کہ وہ کیسے ورلڈ میں حصہ لیں گے کیونکہ ان کے صحت یاب ہونے میں کم از کم مزید تین ہفتے لگنے تھے۔ انٹسا پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا ’میں کسی بھی قیمت پر یہ ورلڈ کپ نہیں چھوڑ سکتا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ورلڈ کپ میں اپنے ملک کے لیے کھیلنا ہر بچے کا خواب ہوتا ہے جیسا کہ میرا بھی تھا۔‘ سون نے گزشتہ سیزن میں مشترکہ طور پر پریمیئر لیگ کے ٹاپ سکورر کا گولڈن بوٹ جیتا تھا لیکن ہاٹ سپور کے لیے تمام مقابلوں میں 19 گیمز میں پانچ گول کے ساتھ اس مہم میں دوبارہ میں آنے کی جدوجہد کی ہے۔ جنوبی کوریا کے سٹرائیکر قطر 2022 میں ماسک پہنے ہوئے اکیلے کھلاڑی نہیں ہیں۔ بیلجیئم کے ڈفینڈر تھامس مینیئر کو بھی بدھ کے روز کینیڈا کے خلاف اپنی ٹیم کے پہلے میچ میں ماسک پہنے ہوئے دیکھا گیا۔ 31 سالہ میونیئر کے چہرے پر بھی ایک ہڈی کا فریکچر ہوا تھا۔ یہ واقعہ 19 اکتوبر کو بوروسیا ڈورٹمنڈ، ان کی ٹیم، اور ہینوور 96 کے درمیان ایک میچ میں پیش آیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clwgq9x20jzo
قطر میں ورلڈ کپ: جرمنی کی فٹبال ٹیم کے احتجاجاً منھ پر ہاتھ رکھنے پر عرب دنیا میں اشتعال
اگر حالیہ ورلڈ کپ کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سے منسلک تنازعات کی دو متوازی دنیائیں ہیں۔  انسانی حقوق کے کارکنوں، یورپی ٹیموں اور بالخصوص ان سات کپتانوں کے لیے جنھوں نے ’ون لو‘ (ایک محبت) کا بینڈ بازو پر پہننے کا فیصلہ کیا، ان کے نزدیک ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں (ایل جی بی ٹی) کے حقوق، انسانی حقوق کا مسئلہ ہیں اور وہ اس حوالے سے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔  میزبان ملک قطر اور اکثریتی طور پر مسلمان عرب دنیا کے لیے یہ مذہب، ثقافت اور خطے کی روایات کا معاملہ ہے، اور عزت و احترام کا بھی جو ان کے نزدیک اُنھیں دی جا رہی ہے۔  یہ تناؤ اس ٹورنامنٹ میں بظاہر اب تک چلتا رہا ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے سٹیج پر بھی جاری ہے۔  بدھ کو جرمنی کے کھلاڑیوں نے ورلڈ کپ میں جاپان کے خلاف میچ سے قبل اپنے منھ پر ہاتھ رکھ لیے۔ ٹیم مینیجر ہانسی فلِک نے کہا کہ اس کا مقصد ’یہ پیغام دینا تھا کہ فیفا ٹیموں کو خاموش کروا رہا ہے۔‘  مگر جرمنی کے اس مؤقف پر عرب دنیا میں سخت اور متفقہ طور پر منفی ردِعمل سامنے آیا ہے۔  عربی میں جرمنی جاپان کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا مگر یہ جرمنی کی حمایت میں نہیں تھا۔ کئی لوگوں نے منھ پر ہاتھ رکھنے کو ایل جی بی ٹی حقوق کی حمایت، ’توہینِ آمیز‘ اور ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے فیفا سے کھلاڑیوں پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے بھی کہا۔  ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ’آپ ہمارے پاس آئیں (تو) ہمارے مذہب، ہماری ثقافت، ہماری روایات اور ہمارے قوانین کا احترام کریں۔ ورنہ آپ اپنا ہاتھ جہاں چاہے رکھ سکتے ہیں۔‘  ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا: ’بھوک، غربت، قلتِ آب، اور کئی دیگر عالمی مسائل موجود ہیں اور آپ نے صرف اسے اپنا مقصد بنایا۔‘  ایک فیس بک پوسٹ میں قطر ورلڈ کپ کے عرب و مسلمان پرستاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا: ’اگر وہ (جرمن ٹیم) اس مقصد کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں تو آپ بھی اپنے مذہب پر فخر کریں اور اس پر قائم رہیں۔‘  جرمنی کا یہ اقدام فٹ بال کی نگران تنظیم فیفا اور کئی یورپی ٹیموں کے درمیان تنازعے میں تازہ ترین ہے۔ ان یورپی ٹیموں نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے کپتان میچز کے دوران تنوع کو فروغ دینے کے لیے ’ون لو‘ کی پٹیاں پہنیں گے مگر فیفا نے دھمکی دی کہ اُنھیں یلو کارڈ دکھا دیا جائے گا۔ جرمن فٹ بال فیڈریش کے میڈیا ڈائریکٹر سٹیفن سائمن نے اس اقدام کو ’انتہا درجے کی بلیک میلنگ‘ قرار دیا تھا۔  جرمنی کو منھ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے کسی انضباطی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد کوئی ’سیاسی مؤقف‘ پیش کرنا نہیں تھا۔ جرمنی نے مزید کہا ہے کہ ’انسانی حقوق پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پٹی باندھنے سے روکنا ہماری آواز بند کرنے جیسا ہے۔ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔‘  ورلڈ کپ کے موقع پر فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو نے مغربی دنیا پر قطر کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے متعلق رپورٹنگ پر ’منافقت‘ اور ’یکطرفہ اخلاقی سبق‘ کا الزام عائد کیا۔  واضح رہے کہ قطر میں ہم جنس پرست تعلقات رکھنا یا ان کو فروغ دینا جرم ہے۔  یہ صرف ایک فٹ بال ٹورنامنٹ کی حد تک محدود نہیں ہے۔  کئی عربوں کے لیے یہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے جیسا ہے۔ قطر میں کئی لوگوں کا سوال ہے کہ جب روس نے سنہ 2018 میں فٹ بال ورلڈ کپ یا پھر چین نے سنہ 2008 میں اولمپکس کی میزبانی کی تھی تو تب ان ملکوں کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر اعتراضات کیوں نہیں اٹھائے گئے۔  جب قطر نے ورلڈ کپ کی میزبانی جیتی تو اسے عرب دنیا کی فتح کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ بالآخر دنیا کے سب سے بڑے مقابلوں میں سے ایک مقابلہ اب ایسے خطے میں ہونے والا تھا جو عام طور پر صرف جنگوں کے لیے مشہور ہے۔  ایک قطری مداح نے مجھے بتایا: ’یہ صرف قطر کے لیے نہیں بلکہ تمام عربوں اور مسلمانوں کے لیے ہے۔‘  منتظمین پر کسی بھی تنقید کو پورے خطے پر تنقید اور کسی عالمی مقابلے کی موزوں میزبانی کرنے کی اس کی قابلیت پر شک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  مگر لگتا ہے کہ خود قطر کو بھی اس بات پر حیرانی ہے کہ دنیا اس کا کس قدر کڑا جائزہ لے رہی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g17k8ge0ro
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے شیف عمر مزیان کون ہیں اور ٹیم انھیں اپنے ساتھ کیوں لائی ہے؟
پاکستان میں کرکٹ کے حلقوں میں یہ خبر دلچسپی کے ساتھ پڑھی اور سنی گئی کہ پاکستان کے دورے پر آنے والی انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم اپنے ساتھ  شیف بھی لا رہی ہے جن کا نام عمر مزیان ہے جو اس دورے کے دوران کھلاڑیوں کے کھانے پینے کے معاملات کی نگرانی کریں گے۔   لوگوں کی دلچسپی اس بات میں بھی ہے کہ عمر مزیان کون ہیں اور ان کا کھیلوں کی دنیا سے کیا تعلق ہے؟  پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ انگلینڈ کو اپنے ساتھ شیف لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔  اس سوال کا جواب انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے گذشتہ دورۂ پاکستان کے موقع پر کپتان معین علی کی لاہور میں پریس کانفرنس سے مل جاتا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ کھانے کے معاملے میں کراچی اچھا تھا لیکن لاہور میں وہ کھانے کے معیار سے مایوس ہوئے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے دورے سے واپس جانے کے بعد انگلینڈ کے کچھ کھلاڑیوں نے کھانے کے معیار کے بارے میں شکایت کی تھی جس کے بعد اب پاکستان آنے والی ٹیسٹ ٹیم کے سٹاف میں ایک شیف کی شمولیت بھی عمل میں آئی ہے حالانکہ ٹی ٹوئنٹی سیریز کے اُس دورے کے دوران کسی بھی کھلاڑی کے بیمار ہونے یا پیٹ خراب ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی تھی۔ عام طور پر غیرملکی دوروں پر ٹیموں کی کیٹرنگ کی ذمہ داری میزبان کرکٹ بورڈ کی ہوتی ہے تاہم اس سلسلے میں ان ٹیموں کی پسند کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کھلاڑی کس طرح کا کھانا چاہتے ہیں۔ غیرملکی ٹیمیں جن ہوٹلوں میں قیام کرتی ہیں وہاں بھی ان کی پسند اور ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ غیر ملکی دوروں میں مسلمان کرکٹرز کی موجودگی میں حلال گوشت کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عمر مزیان کا تعلق مراکش سے ہے۔ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے کوکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اُنھیں یہ شوق اپنے والد سے ملا جن کا ایک رسٹورینٹ تھا۔ عمر مزیان کا کھیلوں کی دنیا سے تعلق 2009ء میں قائم ہوا۔ اس دوران وہ انگلینڈ کی مختلف ٹیموں سے وابستہ رہ چکے ہیں جن میں کرکٹ، رگبی، فٹبال اور روئنگ قابل ذکر ہیں۔ انگلینڈ کی فٹبال ٹیم 2018ء کے عالمی کپ اور یورو 20 فٹبال میں ان کے تیار کردہ کھانوں سے لطف اندوز ہو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھیلوں کی دنیا سے اس تعلق کے باوجود عمر مزیان نے خود کوئی بھی کھیل نہیں کھیلا البتہ وہ لندن میراتھون میں دو مرتبہ حصہ لے چکے ہیں۔ عمر مزیان  نے رگبی کے مشہور کھلاڑی جیمز ہاکزیل کے ساتھ کوکنگ پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ پہلے بھی کسی ٹیم کے ساتھ شیف آیا ہے؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ غیر ملکی دورے میں کرکٹ ٹیم کے ساتھ شیف رہا ہو۔ اسی سال پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی آسٹریلوی ٹیم کے ساتھ بھی شیف موجود تھا لیکن اس بات کا زیادہ چرچا نہیں ہوا بلکہ آسٹریلوی کرکٹرز کافی مشین اور کافی کی بینز بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ سنہ 2013 میں جب انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ایشز سیریز کھیلنے آسٹریلیا گئی تو اس دورے میں اس کے کھانے پینے کا معاملہ انہی شیف عمر مزیان نے سنبھالا ہوا تھا۔ کرکٹ کی دنیا میں یہ بات عام ہے کہ کھلاڑی جس ملک میں بھی جاتے ہیں اُنھیں اپنے پسندیدہ کھانوں کی تلاش ہوتی ہے اور وہ صرف اپنے ہوٹل یا گراؤنڈ میں مہیا کیے جانے والے کھانوں پر قناعت نہیں کرتے بلکہ ایسے ریسٹورنٹ تلاش کرتے ہیں جہاں اُنھیں پسند کا کھانا مل سکے جیسا کہ 2004ء میں انڈین کپتان سورو گنگولی سکیورٹی کی نظریں بچا کر لاہور کی فوڈ سٹریٹ جا پہنچے تھے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں اختتام کو پہنچنے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ  میں شریک کرکٹرز مختلف ریسٹورنٹس میں پسند کے کھانے کھاتے ہوئے نظر آتے تھے مثلاً پرتھ کا بالٹی ریسٹورنٹ انڈین کرکٹرز کی پسندیدہ جگہ تھی جہاں اُنھیں انڈین کھانے مل جاتے تھے۔ جب انڈین ٹیم کا پرتھ میں میچ تھا تو اس موقع پراس ریسٹورنٹ کے مالک اشوانی نوتانی نے  پورے سٹاف کو انڈین کرکٹ ٹیم کی بلیو جرسیاں پہنائی تھیں جو دیکھنے والوں کے لیے ایک خوشگوار نظارہ تھا۔ اسی طرح پاکستانی کرکٹرز بھی آسٹریلیا کے مختلف شہروں میں ذائقہ دار کھانوں کے لیے پاکستانی ریسٹورنٹس کا رخ کر رہے تھے۔  سنہ 2015 کے عالمی کپ کے موقع پر ایڈیلیڈ میں افغان کباب اور پلاؤ پاکستانی کرکٹرز کی پسندیدہ خوراک تھے اور وہ ہائنڈلے اسٹریٹ کے اس ریسٹورنٹ کا باقاعدگی سے رخ کیا کرتے تھے جہاں یہ کھانے دستیاب تھے۔ اس بات پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ دنیا کے کئی مشہور کھلاڑیوں نے اپنے کھانے پینے کے معاملات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اپنے ساتھ ذاتی شیف رکھے ہیں ان میں بڑی تعداد فٹبالرز کی رہی ہے۔ لیونل میسی، ہیری کین، کرسٹیانو رونالڈو، زلیٹن ابراہمووچ اور کیون ڈی برائن پرائیویٹ شیف کی خدمات حاصل کرنے کے معاملے میں نمایاں رہے ہیں۔ ویلز کے گیرتھ بیل کا کہنا ہے کہ جب وہ پہلی بار ریال میڈرڈ کی طرف سے کھیلنے سپین گئے تو اُنھیں وہاں خود کو ایڈجسٹ کرنے میں اپنے ذاتی شیف سے بڑی مدد ملی۔ پال پوگبا جب پہلی بار مانچسٹر یونائیٹڈ میں گئے تو ایک اطالوی خاتون شیف کو ساتھ لے گئے تھے جنھوں نے پوگبا کو کھانا پکانا بھی سکھایا۔ فٹبال کی دنیا میں جس شیف کا سب سے زیادہ نام سننے کو ملتا ہے وہ جانی مارش ہیں۔ مانچسٹر سٹی کے بیشتر کھلاڑی ان کے تیار کردہ کھانوں کے مداح رہے ہیں۔ انڈین ٹیم کے 2008 میں دورۂ آسٹریلیا کے موقع پر دونوں ٹیموں کے درمیان تعلقات خاصے ناخوشگوار ہو گئے تھے اور جب دونوں ٹیمیں پرتھ پہنچیں تو پتہ چلا کہ دونوں ایک ہی وقت میں گوگو کے ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لیے پہنچ گئی تھیں۔  گوگو کا اصل نام گووردھن گوویندا راج ہے جن کا پرتھ میں مدراس کری کے نام سے دو کمروں کا مختصر ریسٹورنٹ تھا جو اب بند ہوچکا ہے۔  گوگو پریشان تھے کہ ایک کمرے میں آسٹریلوی کرکٹرز موجود تھے اور دوسرے میں انڈین ٹیم کھانے کی منتظر تھی۔ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کر رہی تھیں۔ گوگو نےیہ صورتحال دیکھ کر اپنے دوست جسٹن لینگر کو فوری طور پر بلایا جو اس وقت ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ جسٹن لینگر نے اس موقع پر جیسے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے انڈین کرکٹرز سے باتیں شروع کر دیں اور ماحول کو خوشگوار بنا دیا۔ گوگو نے 1999 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بھی پرتھ ٹیسٹ کے موقع پر کھانا تیار کیا تھا۔ رمضان کی وجہ سے کھلاڑی سارا دن روزے سے تھے اور اُنھیں افطار کے بعد اچھے کھانے کی تلاش تھی۔ اس موقع پر ویسٹرن آسٹریلین کرکٹ ایسوسی ایشن نے گوگو کو طلب کر کے ان سے کھانا تیار کروایا تھا۔ گوگو کے پاس کئی کرکٹرز کے دیے ہوئے تحفے موجود ہیں جن میں وسیم اکرم کی کیپ جو اُنھوں نے آخری ٹیسٹ میں پہنی تھی، سچن تندولکر کا بیٹ، وہ گیند جس سے انیل کمبلے نے چھ سوویں وکٹ حاصل کی اور محمد یوسف کی آٹوگراف والی شرٹ قابل ذکر ہیں۔ گوگو کی کہانی بھی عجیب ہے۔ انجینیئرنگ کی پڑھائی چھوڑی اور ہوٹل منیجمنٹ کی تعلیم حاصل کر لی۔ ان کے لیے انڈین کرکٹرز کے لیے کھانا تیار کرنا ہمیشہ چیلنج تھا کیونکہ گوشت سے پرہیز کرنے والے یہ کرکٹرز آتے ہی آواز لگاتے تھے ’گوگو دال چاول۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgz2zp75e7o
فٹبال ورلڈ کپ 2022: کیا قطر سٹیڈیمز میں شراب پر پابندی لگانے والا واحد ملک ہے؟
ایکواڈور کے مداح ہوزے نے اپنی ٹیم کا میچ دیکھنے کے بعد واپس جاتے ہوئے ورلڈ کپ سٹیڈیمز میں بیئر پر پابندی کے بارے میں کہا: ’بہت مایوس کن۔‘  ایمیلیو کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ ملا ہے جس میں زیرو (الکوحل) ہے، مگر کم از کم مجھے اس کا ذائقہ تو ملا۔‘  قطر میں سٹیڈیمز میں شراب کی فروخت پر پابندی کا آخری لمحات میں ہونے والا فیصلہ الکوحل سے متعلق فیفا کی لڑائیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔  گذشتہ کئی ورلڈ کپس میں سپانسرشپ پر تنازعے میں فیفا کی گورننگ باڈی پر کالونیل ازم اور پیسے کو مداحوں کے تحفظ پر ترجیح دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔  حالانکہ فیفا حال ہی میں میزبان ممالک کو الکوحل پیش کرنے پر قائل کرتی رہی ہے مگر یہ بین الاقوامی تنظیم پہلے مطالبہ کیا کرتی تھی کہ سٹیڈیمز میں شراب پر پابندی رہے۔  سنہ 2004 تک تمام بڑے ایونٹس کے لیے اس کے ضوابط میں لکھا تھا کہ منتظمین گراؤنڈز میں الکوحل فروخت نہیں کر سکتے اور نشے کی حالت میں موجود شخص کو سٹیڈیم سے نکال دیا جائے گا۔  مگر اب اس کی جانب سے یہ پالیسی واپس لینے اور ورلڈ کپس کے میزبان ممالک کو ورلڈ کپس میں الکوحل کی فروخت پر قائل کرنے کی بھرپور کوششوں کے باعث کچھ ممالک اور اس کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا ہے۔  سنہ 2014 میں ورلڈ کپ کی میزبانی برازیل کو دینا بہت موزوں معلوم ہوا تھا۔ فٹ بال کے لیے جنونی یہ لاطینی امریکی ملک پانچ مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیت چکا ہے اور بیئر یہاں بے حد مقبول ہے مگر کئی ممالک کی طرح برازیل کے مداحوں کا جوش بھی تشدد میں بدل جاتا ہے۔  نتیجتاً سنہ 2003 میں برازیلی فٹبال میچز میں الکوحل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ تشدد اور مخالف ٹیموں کے حامیوں کے درمیان لڑائیوں کو روکا جا سکے۔  مگر بیئر بنانے والی مشہور عالمی کمپنی بڈوائزر فیفا کی ایک طویل عرصے سے پارٹنر رہی ہے اور اس ٹورنامنٹ کی اہم سپانسر تھی۔ چنانچہ میزبان ملک کو بتا دیا گیا کہ اُنھیں قانون تبدیل کرنا ہو گا۔  اس وقت فیفا کے جنرل سیکریٹری جیروم والکے نے کہا تھا: ’الکوحل مشروبات فیفا ورلڈ کپ کا حصہ ہیں سو یہ ضرور ہوں گے۔ اگر میری بات بری لگے تو معاف کیجیے گا مگر یہ ایسی چیز ہے جس پر ہم بات نہیں کریں گے۔‘  اُنھوں نے کہا کہ ’بیئر فروخت کرنے کے ہمارے حق کو قانون کا حصہ ہونا ہو گا۔‘  برازیل کے وزیرِ صحت نے اس تبدیلی پر اعتراض کیا اور ملک کے صدر کے خصوصی مشیر مارکو اوریلیئو گارشیا نے والکے کو ’کالونیل‘ اور ’بڑ بولا‘ قرار دیا تھا۔  مگر احتجاج کے باوجود بالآخر 2014 کے ورلڈ کپ میزبانوں کو جھکنا پڑا اور قانون میں تبدیلی کر کے ٹورنامنٹ کے میچز کے دوران شراب کی فروخت کی اجازت دے دی گئی۔  مقابلوں کے دوران کئی مرتبہ مخالف ٹیموں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں جن میں ریو ڈی جنیرو میں یوراگوئے کے خلاف کولمبیا کا میچ بھی شامل ہیں جس میں سکیورٹی اہلکاروں کو مداخلت کر کے تماشائیوں کو الگ کرنا پڑا تھا۔  اس کے جواب میں والکے نے برازیلی سپورٹس ٹی وی چینل سپورٹی وی کو بتایا: ’میں شراب پیے ہوئے لوگوں کی تعداد اور شراب کی مقدار دیکھ کر حیران ہوا ہوں۔‘  جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مستقبل میں اپنی پالیسی بدلیں گے، تو اُنھوں نے کہا کہ اگر ہمیں لگے گا کہ (الکوحل کی فروخت) کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے تو ہم اسے کنٹرول کریں گے۔  مگر سنہ 2018 میں روس میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے بھی فیفا کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔  برازیل کی طرح روس کی بھی ایک طویل عرصے سے کھیلوں کے اہم مقابلوں میں الکوحل پر پابندی کی پالیسی رہی ہے۔  سنہ 2005 میں حکومت نے سٹیڈیمز میں الکوحل کی فروخت اور اشتہارات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سنہ 2014 میں سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں کوئی بڑی الکوحل برانڈ سپانسر نہیں تھی اور سنہ 2012 میں روس نے الکوحل کے اخبارات، انٹرنیٹ اور ٹی وی پر اشتہارات پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔  مگر اگلے برس صددر ولادیمیر پوتن نے ایک نئے قانون پر دستخط کیے جس کے تحت ورلڈ کپ میچز میں الکوحل کی فروخت کی اجازت دے دی گئی اور بیئر کے اشتہارات پر نئی پابندیوں کو بھی نرم کر دیا گیا۔  روس کے روستوو خطے نے مقامی سٹیڈیمز کو ’عوامی اجتماعات کے علاقے‘ قرار دے کر وہاں الکوحل کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی مگر قانونی ایکشن کی دھمکی کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئے۔  مگر بڑے ایونٹس میں الکوحل سے متعلق مسائل صرف فیفا اور عالمی کپ کے میزبان ممالک کے درمیان نہیں رہے ہیں۔  یورو 2022 میں یوئیفا کا ان کھلاڑیوں کے ساتھ تنازع ہوا جنھوں نے ٹورنامنٹ کے سپانسرز میں سے ایک ہائینیکن کی بیئر کی بوتلوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرنے پر اعتراض کیا تھا۔  ایک مقابلے کے بعد فرینچ مڈفیلڈر پال پوگبا نے سوالات لینے سے قبل کمپنی کی ایک بوتل ہٹا دی۔  ان کے ساتھی کریم بینزیما جو پال کی طرح ہی مسلمان ہیں، اُنھوں نے بھی بوتلوں کے بغیر ایک پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔  حالانکہ ٹورنامنٹ کے منتظمین نے ہائینیکن کی الکوحل سے پاک ڈرنکس کی بوتلیں رکھی تھیں مگر دونوں ہی کھلاڑیوں کو شراب بنانے والی ایک بڑی کمپنی سے منسلک نظر آنے پر اعتراض تھا۔  یوئیفا نے بعد میں آمادگی ظاہر کی کہ وہ پریس کانفرنسز کے دوران میز پر ہائینیکن کی بوتلوں کے بارے میں کھلاڑیوں اور کوچز کی رضامندی کے متعلق پوچھیں گے مگر اُنھوں نے خبردار کیا کہ اگر ٹورنامنٹ کے دوسرے سپانسرز کے ساتھ کسی نے ایسا کیا تو ٹیم پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔  سنہ 2022 کے ورلڈ کپ کے میزبان ملک قطر کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر اعتراض کے بعد فیفا نے آخری لمحات میں سٹیڈیمز میں بیئر کی پابندی پر اتفاق کر لیا ہے۔  قطر میں شراب کی فروخت پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔  تاہم وی آئی پی ٹکٹس کے حامل افراد کو اب بھی میچز سے پہلے، درمیان میں اور بعد میں ایگزیکٹیو باکسز سے الکوحل خریدنے کی اجازت ہو گی۔  یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس فیصلے کا بڈوائزر بنانے والی کمپنی سے فیفا کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔  اسّی کی دہائی سے ٹورنامنٹ کے بڑے سپانسرز میں شامل اس کمپنی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہر ورلڈ کپ کے لیے فیفا کو ساڑھے سات کروڑ ڈالر تک ادا کرتی ہے۔  مگر بڈوائز برانڈ کا تعلق امریکہ سے ہے جو سنہ 2026 کے ورلڈ کپ کے تین میزبان ممالک میں سے ہے، چنانچہ کمپنی کو امید ہو گی کہ وہ اگلے ٹورنامنٹ میں خوش قسمتی کے حامل رہیں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crg2nljkmlvo
ارجنٹائن اور میسی ڈھیر: سعودی عرب میں چھٹی کا تحفہ، تفریحی مقامات میں داخلے کی فیس ختم
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے فیفا ورلڈ کپ میں ارجنٹائن کے خلاف ملک کی فتح کے بعد قومی تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سعودی سرکاری چینل کے حوالے سے بتایا 86 سالہ شاہ سلمان نے کہا ہے کہ ’کل (یعنی آج) بدھ کو تمام نجی اور سرکاری شعبوں کے ملازمین اور تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ کے لیے چھٹی ہوگی۔‘ یہ اہم فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سعودی عرب میں بعض طلبہ کے حتمی امتحانات جاری ہیں۔ اب لگتا ہے کہ ان امتحانات کو ری شیڈول کرنا پڑے گا۔ دوحہ میں لیونل میسی کے پینلٹی گول کے بعد سعودی فٹبال ٹیم نے ارجنٹائن کو ورلڈ کپ کی تاریخ کے سب سے بڑے اپ سیٹس میں سے ایک سے دوچار کیا۔ پہلے صالح الشہری نے گول کر کے سکور برابر کیا اور پھر سالم محمد الدوسری نے دوسرے گول سے سعودی عرب کی فتح کو یقینی بنایا۔ میچ ختم ہونے کی سیٹی کے بعد سے ہی ریاض میں جشن شروع ہوگیا۔ شہریوں نے اپنی گاڑیوں پر قومی پرچم لہراتے ہوئے ریلی نکالی اور شائقین اپنے احباب کے ساتھ جھومتے نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان میچ کے بعد کافی پُرجوش ہیں اور وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کے ساتھ ٹی وی کے سامنے خوشی سے کھڑے ہیں۔ سعودی عرب میں رائل کورٹ کے معاون اور جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ترکی آلشیخ نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ریاض کے تمام بڑے تھیم پارکس اور تفریحی مقامات میں داخلے کی فیس ایک روز کے لیے ختم کر دی جائے گی۔ بہت کم لوگوں کو یہ امید ہوگی کہ عالمی رینکنگ میں 51 نمبر کی ٹیم دو مرتبہ کے عالمی چیمپیئن کو ہرا دے گی اور سٹار فٹبالر میسی، جنھیں سات مرتبہ نمایاں کارکردگی کے لیے بیلن ڈی او کے انعام سے نوازا گیا، کے جارحانہ کھیل سے خود کو بچا لے گی۔ سعودی عرب کا اگلا میچ پولینڈ کے خلاف سنیچر کو ہے۔ یہ بھی پڑھیے 200 ڈالر کے ’لگژری‘ خیمے شائقین کے لیے ’غیر معیاری ہاسٹل‘ ثابت ہوئے جب انڈیا نے فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے کا نادر موقع ضائع کیا ’یہ صرف قطر کا نہیں، تمام عربوں اور مسلمانوں کا ورلڈ کپ ہے‘ اسے فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ کے سب سے بڑے اپ سیٹس میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ میچ سے قبل سب یہی بات کر رہے تھے کہ یہ لیونل میسی کا سال ہوسکتا ہے اور ارجنٹائن 1986 کے بعد دوبارہ عالمی چیمپیئن بن سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کو لگتا تھا کہ اس میچ میں سعودی عرب کی جیت کا کوئی امکان نہیں۔ عالمی رینکنگ میں ارجنٹائن تیسرے نمبر پر ہے۔ اس نے ماضی میں 36 مرتبہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں فتح حاصل کی تھی۔ ادھر سعودی عرب نے ورلڈ کپ میں صرف تین میچ جیتے تھے۔ یہ ٹیم صرف 1994 میں ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچ پائی تھی۔ مگر سعودی عرب کی فتح نے تمام پیشگوئیاں غلط ثابت کر دیں۔ اس جیت نے 1982 میں سپین کے خلاف شمالی آئرلینڈ کی فتح، 1950 میں برطانیہ کی امریکہ سے ہار، 2002 میں جنوبی کوریا کی اٹلی سے جیت اور 1990 میں ارجنٹائن کی کیمرون سے ہار یاد دلا دی۔ فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ میں کئی اپ سیٹ دیکھے گئے ہیں مگر تجزیہ کار نیلسن گریسنوٹ کے مطابق ارجنٹائن کی سعودی عرب سے ہار سب سے بڑا ’شاک‘ یعنی جھٹکا ہے۔ گریسنوٹ کے تجزیے میں ٹیم کے کھلاڑیوں کی انفرادی مضبوطی اور مقابلے میں دونوں ٹیموں کے جیت یا ڈرا کے امکانات کو دیکھا جاتا ہے۔ کسی میچ کو اپ سیٹ اس وقت خیال کیا جاتا ہے جب وہ ٹیم جیت جائے جس کی جیت کا امکان سب سے کم ہو اور وہ کسی مضبوط ٹیم کو ڈھیر کر دے۔ سعودی عرب ایشیا کی پہلی ٹیم ہے جس نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں ارجنٹائن کو شکست سے دوچار کیا جبکہ یہ 1990 میں کیمرون کے بعد پہلی غیر یورپی ٹیم ہے جس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ جولائی 2019 میں برازیل کے خلاف دو ایک کی ہار کے بعد یہ ارجنٹائن کی پہلی شکست ہے۔ اس نے بیچ میں 36 میچ جیتے۔ سعودی عرب نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں چوتھی فتح حاصل کی ہے۔ اس نے کل 17 میچ کھیلے ہیں جن میں سے 11 بار اسے ہار کا سامنا کرنا پڑا اور دو میچ ڈرا ہوئے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cq57vx7ly2vo
فیفا ورلڈ کپ: 200 ڈالر کے ’لگژری‘ خیمے شائقین کے لیے ’غیر معیاری ہاسٹل‘ ثابت ہوئے
’یہ اب بھی زیرِ تعمیر ہے۔ دن کے وقت تو یہ جہنم جیسا ہوتا ہے۔ یہ صحرا ہے۔ یہاں بہت گرمی ہوتی ہے۔‘ حیران کن طور پر جب شوگو ناکاشیما اگلے دو ہفتوں کے لیے اپنے گھر کے بارے میں بتا رہے تھے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ایسی مسکراہٹ کہ ’اگر میں نہیں ہنسا تو میں رو دوں گا۔‘ ’میں اپنی رہائش تبدیل نہیں کر سکتا سو مجھے اسے قبول کرنا ہو گا اور جاپان کے میچ تک کا انتظار کرنا ہو گا۔ میں یہاں صرف سونے کے لیے آؤں گا۔ میں باہر جاؤں گا اور شہر دیکھوں گا۔ میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔‘ جاپان سے تعلق رکھنے والے 31 سالہ شوگو دوحہ کے شمال میں قطیفان آئیلینڈ فین ولیج میں پہنچنے والے اولین لوگوں میں سے ہیں جہاں اب بھی کچھ جگہوں پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام سائٹ پر ابھی تمام شائقین کے آنے میں وقت ہے مگر پھر بھی کچھ اشارے ایسے ہیں کہ چیزیں توقع کے مطابق نہیں ہوں گی۔  کیمپ سائٹ کی جانب جاتی طویل اور بل کھاتی سڑک پر بھاری مشینری شور مچاتے ہوئے کام کر رہی ہے۔ تعمیراتی کرینیں آسمان تک بلند ہیں اور مزدور لائٹوں کی وائرنگ کرنے سے لے کر پتھر بچھانے تک کے کاموں میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔  یہاں پر 1800 ٹینٹ ہیں جن میں دو دو لوگ سما سکتے ہیں۔  پیڈرو اور فاطمہ سپین میں رہتے ہیں مگر یہاں میکسیکو کی حمایت کریں گے۔ ان کی شادی اپریل میں ہوئی تھی اور یہ ان کے ہنی مون کا حصہ ہے۔  پیڈرو کہتے ہیں کہ اس کا خرچ 200 ڈالر فی رات ہے۔ صاف کہوں تو میں نے اس کی توقع نہیں کی تھی۔ جب آپ تصاویر دیکھتے اور اس کا تعارف پڑھتے ہیں تو آپ معیار کی توقع کرتے ہیں۔ یہ فیفا ورلڈ کپ ہے۔‘  ’یہ ایک غیر معیاری ہاسٹل جیسا ہے جو ایک بیگ کے ساتھ دنیا گھومتے ہوئے آپ کو ملے گا۔‘  وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ کسی گرین ہاؤس کی طرح ہے۔ سو ہم صبح نو بجے کے بعد نہیں سو سکے حالانکہ ہم پرواز کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے۔‘  موٹے پلاسٹک سے بنے ہوئے ٹینٹس میں دو سنگل بیڈ اور ایک سٹینڈ ہے جس پر ایک لیمپ رکھا ہے۔ پتلا سا کارپٹ کہیں کہیں سے اٹھا ہوا معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ مٹی اور بجری پر بچھایا گیا ہے۔ بجلی کا ایک پنکھا اس کمرے کو مکمل کرتا ہے۔‘ فاطمہ نے بی بی سی سپورٹ کو بتایا: ’یہاں کوئی ترتیب نہیں۔ کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ سٹورز بند ہیں، پینے کا پانی نہیں۔ یہ واقعی وہ جگہ نہیں، جس کی ہم نے ادائیگی کی ہے۔‘  وہاں گھومتے پھرتے ہم نے جس سے بھی بات کی اس کے ایسے ہی خیالات تھے۔  کچھ لوگوں نے کہا کہ اس حوالے سے فوری طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔ پیرس سے ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے آنے والے جمال نے فین ولیج میں تین ہفتے قیام کے لیے 2700 پاؤنڈز دیے ہیں مگر یہاں 24 گھنٹے سے بھی کم وقت گزارنے کے بعد وہ اپنا سامان باندھ رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ سے جڑے چند سوالات کے جواب قطر کا یہ حیا کارڈ کیا ہے جس کی سعودی عرب نے بھی منظوری دے دی؟ جب انڈیا نے فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے کا نادر موقع ضائع کیا ’میرے لیے یہ اچھا تجربہ نہیں رہا۔ یہاں نا ہی شاور جیل ہے، نہ ٹوتھ برش، نہ ٹوتھ پیسٹ۔‘  جمال نے ہمیں اپنی بکنگ کی تصدیقی رسید بھی دکھائی۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں لگا تھا کہ یہ ہوٹل جیسا ہو گا۔  ایک اچھی بات بھلے ہی معمولی ہو، وہ یہ کہ یہاں کا عملہ پرجوش، مددگار اور ہمیشہ مسکراتا ہوا ملتا ہے۔ بھلے ہی وہ متضاد معلومات بھی فراہم کر رہے ہوں جیسے پانی کہاں سے اور کب خریدا جا سکتا ہے، اور یہ کہ پانی خریدنے کے لیے ایک کلائی کا بینڈ پہننا لازمی ہو گا۔  فین ولیج سے تھوڑی ہی دور ایک بیچ کلب فین پارک ہے۔ یہاں ایک بڑی سکرین پر میچز دکھائے جائیں گے جبکہ الکوحل بھی فروخت ہو گی۔ حالانکہ حال ہی میں سٹیڈیمز میں اس کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔  بیچ کلب کو دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ یہ بروقت مکمل نہیں ہو گا۔ تعمیراتی سامان کے ٹیلے پوری سائٹ پر ہر جگہ بکھرے نظر آتے ہیں اور بھاری مشینری کا شور ہر جگہ سنائی دیتا ہے۔  مگر اس سب کے باوجود یہاں کا عملہ واضح طور پر نہایت پرامید اور پراعتماد ہے کہ فین پارک جلد مکمل ہو جائے گا۔ قطر اب تک اس ورلڈ کپ کے لیے 220 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے چنانچہ شاید ان کے زبردست منصوبوں پر سوالات نہیں اٹھائے جا سکتے، بھلے ہی ان پر کیسے بھی عمل کیا گیا ہو۔  مگر اس ملک کو سنہ 2010 میں ورلڈ کپ کی میزبانی دی گئی تھی۔ اس لیے ہزاروں خرچ کر کے یہاں دنیا بھر سے آنے والے شائقین کے لیے جلد بازی میں ہوتا کام دیکھنا کوئی اچھا نظارہ نہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce9vngx09qko
فٹبال ورلڈ کپ: انگلینڈ کا شاندار آغاز، ایران کا مایوس کن کھیل
انگلینڈ کی فٹ بال ورلڈ کپ کا آغاز انتہائی عمدہ انداز میں کیا ہے اواور اپنے پہلے میچ میں ایران کو با آسانی شکست دی دی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم کی شاندار کارگردگی میں نوجوان کھلاڑیوں بکائیو ساکا، جوڈ بلنگھم اور مارکوس ریشفورڈ نے اہم کردار رہا ہے۔ نوجوان کھلاڑی جوڈ بلنگھم نے میچ کے پینتسویں منٹ میں لیوک شا کے کراس پر ایک خوبصورت ہیڈر کے ذریعے ٹیم کو برتری دلوا دی۔ انگلینڈ کی ٹیم مسلسل کھیل پر حاوی رہی اور پہلے ہاف کے اختتام پر اسے تین گول کی برتری حاصل تھی۔ انگلینڈ کی ٹیم نے دوسری ہاف میں بھی اپنا غلبہ برقرار رکھا اور تین مزید گول کیے۔ انگلینڈ کی جانب سے بکائیو ساکا نے دو، بلنگھم، رحیم سٹرلنگ، مارکوس ریشفرو اور گریلش نے ایک ایک گول کیا۔ ایران کے مہدی ترینی نے دوسرے ہاف میں دو گول سکور کیے لیکن وہ کسی موقع پر بھی انگلینڈ ٹیم کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ کر سکے۔  ایران کو میچ کے آغاز سے ایک جھٹکا لگا جب اس کے نمبر ون گول کیپر زخمی ہو کر میدان سے چلے گئے۔ ایران کی ٹیم ایک ایسے وقت ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی ہے جب پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے اور گذشتہ کئی مہینوں سے ملک میں ہنگامے جاری ہیں جس میں اطلاعات کے مطابق سینکڑوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ملک کے اندار حالات ایران کے کھلاڑیوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ افسردہ کھلاڑی میچ سے قبل ایران کے کپتان نے اپنے ملک کے حالات پر افسوس کا اظہار کیا۔  ایرانی قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان احسان حاج صفی نے کہا تھا کہ ’ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں اور ہمارے لوگ خوش نہیں ہیں‘۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں تقریباً 400 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں اور دیگر 16,800 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ایران کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے ایران کے غیر ملکی دشمنوں کا ہاتھ ہے‘۔ مظاہروں کے سلسلے میں کم از کم پانچ مظاہرین کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c9e1ym205elo
فیفا فٹبال ورلڈ کپ:’یہ صرف قطر کا نہیں، تمام عربوں اور مسلمانوں کا ورلڈ کپ ہے‘
دوحہ میں گہما گہمی کے مرکز سوق واقف میں اس وقت جوش محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ مارکیٹ میں گھومتے ہیں تو آپ کو مختلف زبانوں میں بولنے والے فینز اپنی ٹیم کی سپورٹ میں جھنڈے لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی ایک گروپ اچانک سے شور مچانے لگتا ہے۔ میکسیکو، مراکش اور ارجنٹائن کے مداح خاص طور پر بہت پرجوش ہیں اور یہاں ریستورانوں میں بیٹھے شیشہ اور کھانے سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ ایک مصور لیونل میسی کی تصویر پر آخری برش لگا رہے ہیں۔ یہاں آپ کو بہت سے ایسے بچے دکھائی دیں گے جو قطر کی قومی جرسی پہنے ہوئے ہوں گے۔ ناصر جنھوں نے ہم سے اپنا آخری نام شیئر نہیں کیا، نے مارکیٹ میں مداحوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر سے لوگ یہاں موجود ہیں۔ ہم قطریوں کے لیے یہ ایک فخر کا لمحہ ہے۔‘ پھر جیسے ہی افتتاحی تقریب کا آغاز ہوتا ہے تو سب کی نظریں بڑی سکرینز پر جم جاتی ہیں۔ ناجی راشد النعیمی نے مجھے بتایا کہ ’میں یہ بیان بھی نہیں کر سکتا کہ میں کیا محسوس کر رہا ہوں۔ میرا چھوٹا سا ملک آج دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔‘ وہ مارکیٹ میں ’قطری داما کلب‘ کے سربراہ ہیں۔ داما ایک شطرنج کی طرح کی روایتی بورڈ گیم ہے۔ ہم ایک بڑے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں ان کے تمام دوست ٹی وی کے گرد جمع تھے۔ النعیمی نے مجھے بتایا کہ ’ہم نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت جدودجہد کی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں بہت ساری مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘ وہ اور ان کے دوست ہمیں افتتاحی تقریب کی علامتی اہمیت کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ہمیں قطر کی تاریخ اور اس خلیجی ریاست کی ترقی کی داستان کے بارے میں بھی بتا رہے ہیں۔ قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی اور ان کے والد سابق امیر حماد بن خلیفہ الثانی جیسے ہی سٹیڈیم میں پہنچتے ہیں تو تماشائی تالیاں بجانے لگتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں سابق سربراہ کو جوانی میں صحرا میں فٹبال کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ اب تک فٹبال سے زیادہ یہاں تنازعات بھاری رہے ہیں۔ ان میں تازہ ترین سٹیڈیمز میں بیئر کی فروخت پر پابندی تھی جو ٹورنامنٹ سے صرف دو روز قبل لگائی گئی۔ اس حوالے سے بھی خوف موجود رہا کہ ایل جی بی ٹی مداحوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا کیونکہ ملک میں شریعت کے قانون کی سخت پاسداری کی جاتی ہے۔ قطر میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اور یہاں دوسرے ممالک سے آنے والے کارکنوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر بھی سوال کیے گئے ہیں۔ تاہم آپ کو ان قطری مداحوں میں بیٹھ کر یہ ہر گز محسوس نہیں ہو گا کہ یہ سب سے زیادہ متنازع ورلڈ کپس میں سے ایک ہے۔ سلیم حسن الموحنادی نے مجھے بتایا کہ ’یہ ایک خواب کی طرح تھا، اب ہم اسے اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے بہت فخر ہے۔ جن لوگوں نے ہم پر تنقید کی۔۔۔ ہم نے انھیں کچھ نہیں کہا۔ آج ہم نے انھیں دکھا دیا ہے۔‘ سعد البدر نے قطر اور اکواڈور کے درمیان میچ دیکھتے ہوئے کہا کہ ’اس (تنقید) سے مجھے دکھ ہوا۔ 12 سال سے ہم پریشان تھے کہ پتا نہیں یہ ہو بھی پائے گا یا نہیں اور اب یہ ہمارے سامنے ہے۔‘ اس چھوٹے لیکن انتہائی امیر خلیجی ملک کے لیے حالات آسان نہیں رہے اور اب اسے بہت کچھ ثابت کرنا ہو گا۔ اگلے مہینے میں قطر کو دنیا کا مرکزی ملک بننے اور اپنی ثقافی، مذہبی اور قدامت پسند شناخت برقرار رکھنے کے درمیان توازن رکھنا بہت اہم ہو گا۔ یہ ایک بڑا دن ہے نہ صرف میزبان ملک کے لیے بڑے پورے خطے کے لیے جہاں یہ ٹورنامنٹ پہلی مرتبہ منعقد ہو رہا ہے۔ الموہنادی نے مجھے بتایا کہ ’یہ ورلڈ کپ صرف قطر کا نہیں۔ یہ تمام عربوں اور مسلمانوں کا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2lqxed1zqno
ورلڈ کپ کی تاریخ میں قطر اپنا افتتاحی میچ ہارنے والا پہلا میزبان ملک بن گیا
اتوار کو ورلڈ کپ 2022 کے آغاز پر میزبان ملک قطر اور ایکواڈور کے درمیان ہونے والے پہلے میچ میں ایکواڈور نے قطر کو صفر کے مقابلے میں دو گول سے شکست دی ہے۔ اس طرح اب تک ہونے والے فٹبال کے عالمی مقابلے میں قطر وہ پہلا ملک بن گیا ہے جو میزبان ہو کر بھی اپنا پہلا میچ ہار گیا ہے۔ ایکواڈور کے اینر ویلنشیا نے میچ کے پہلے ہی ہاف میں دو گول کر کے اپنی فتح کو یقینی بنا لیا تھا۔ اس سے قبل 12 سال تک سوالات، تنقید اور افواہوں کا سامنا کرنے کے بعد قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا آغاز اتوار کی شام ہوا۔ پہلی بار ایک اسلامی ملک میں منعقد ہونے والا یہ ٹورنامنٹ ابتدا سے ہی تنازعات میں گھرا رہا تاہم فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی 32 ٹیموں کو فٹ بال پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ افتتاحی تقریب کے بعد ٹورنامنٹ کا آغاز میزبان قطر اور ایکواڈور کے درمیان میچ سے ہوا۔ اس رپورٹ میں اس ٹورنامنٹ سے جڑے چند تناعازت کا احاطہ کیا گیا ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ اس بار فٹ بال کا عالمی چیمپیئن کون بن سکتا ہے۔ قطر میں ہونے والا عالمی ٹورنامنٹ شاید تاریخ میں سب سے متنازع کپ ہو گا جس کے بارے میں انعقاد سے قبل ہی بہت سی باتیں ہوئیں۔ مشرق وسطی کے اس چھوٹے سے ملک نے جنوبی کوریا، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ کے مقابلے میں میزبانی کا حق حاصل کیا تاہم اس پورے عمل کے دوران کرپشن کے کئی الزامات بھی لگے جن کی قطر تردید کرتا ہے۔ فروری 2021 میں برطانوی اخبار گارڈین نے ایک خبر میں کہا کہ فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے کے بعد سے قطر میں انڈیا، پاکستان، نیپال بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ساڑھے چھ ہزار مزدور مر چکے ہیں۔ یہ تعداد ان اعداد و شمار کی بنیاد پر دی گئی جو قطر میں موجود ان ممالک کے سفارت خانوں نے فراہم کیے۔ تاہم قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمارگمراہ کن ہیں کیوںکہ ملک میں ہونے والی تمام اموات ان لوگوں کی نہیں جو ورلڈ کپ سے جڑے منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔ قطر حکومت کے مطابق 2014 سے 2020 کے درمیان ورلڈ کپ سٹیڈیمز کی تعمیر کے دوران 37 اموات ہوئیں جن میں سے صرف تین کام کی وجہ سے تھیں۔ دوسری جانب انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ قطر حکومت کے اعداد و شمار درست نہیں۔ ملک میں اسلامی قوانین کے اطلاق کی وجہ سے بھی خدشات موجود رہے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم جنس پرست شائقین کے ساتھ قطر میں کیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسی معاملے پر کھلاڑیوں پر بھی دباؤ رہا کہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں اور اس معاملے پر کھل کر بات کریں۔ انگلینڈ کے کھلاڑی کونور کوڈی نے جمعرات کو دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ہم سیاستدان نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم کبھی بھی سیاست دان نہیں ہو سکتے لیکن ہماری ٹیم نے گذشتہ چند برس میں بہت کچھ کیا اور لوگوں کی مدد کی۔‘ فیفا کے سابق صدر، سیپ بلیٹر، جن کے دور میں قطر کو فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق دیے گئے، نے گذشتہ ہفتے کہا کہ ’یہ فیصلہ ایک غلطی تھی۔‘ تاہم ٹورنامنٹ کے آغاز سے ایک دن قبل فیفا کے موجودہ صدر جیانی انفینٹینو نے مغرب پر قطر میں انسانی حقوق کے معاملے پر رپورٹنگ کے معاملے میں دوغلے پن کا الزام لگایا۔ دوحہ میں ایک غیر معمولی طویل پریس کانفرنس میں انھوں نے ایک گھنٹے تک بات کی اور قطر اور ٹورنامنٹ کا دفاع کیا۔ یہاں درجہ حرات موسم گرما میں 50 ڈگری تک جا پہنچتا ہے اور اسی لیے پہلی بار فٹبال ورلڈ کپ موسم سرما میں ہو رہا ہے تاہم یہاں موسم سرما میں بھی دن کے دوران 32 ڈگری تک درجہ حرات رہتا ہے جو شام میں 22 ڈگری تک نیچے آتا ہے۔ اسی وجہ سے یورپی فٹ بال لیگز کو سیزن کے درمیان میں کھیل روکنا پڑا۔ ایک اور تنازع حال ہی میں شروع ہوا جب ٹورنامنٹ کی انتظامیہ نے صرف دو دن قبل اعلان کیا کہ شائقین فٹ بال سٹیڈیمز کی حدود کے اندر شراب خرید اور پی نہیں سکتے۔ ارجنٹائین میں 1978 کے فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد یہ سب سے مختصر ورلڈ کپ ہو گا جو مجموعی طور پر 29 دن میں ختم ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ گروپ سٹیج کے دوران روزانہ کی بنیاد پر چار میچ کھیلے جائیں گے اور ناک آوٹ مرحلے سے قبل کوئی وقفہ بھی نہیں ہو گا۔ یہ بھی پڑھیے قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ سے جڑے چند سوالات کے جواب قطر میں پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے آنے والے مزدوروں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ قطر: ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی دنیا کی امیر ریاست کیسے بنی؟ قطر کی آبادی 30 لاکھ سے کم ہے لیکن فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران دنیا بھر سے 12 لاکھ سے زیادہ شائقین یہاں کا رخ کریں گے۔ گذشتہ ماہ فیفا نے بتایا تھا کہ اب تک 30 لاکھ ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں جن میں سے 37 فیصد ٹکٹ قطر کے رہائیشیوں نے خریدے ہیں۔ دوحہ میں فٹ بال ورلڈ کپ سے قبل جشن کا سماں ہے اور گلیوں میں ان تمام ممالک کے جھنڈے لہرا رہے ہیں جن کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ یہاں پر سٹالز بھی سجائے گئے ہیں جہاں ارجنٹائن کے لیونیل میسی کی شرٹ سب سے زیادہ فروخت ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ لیونیل میسی، جو فٹ بال کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں، پیرس سینٹ جرمین کی ٹیم کے لیے بھی کھیلتے ہیں جو قطر کی ملکیت ہے۔ قطر نے انفراسٹرکچر پر اربوں کا سرمایہ لگایا ہے۔ سڑکوں پر مقامی افراد کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک سعودی عرب سے آنے والے بھی نظر آتے ہیں جبکہ سڑکوں پر فیفا کی شٹل بسیں دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سوال ابھی باقی ہے کہ یہ نظام ان ہزاروں لاکھوں شائقین کا بوجھ کیسے اٹھائے گا جو دنیا بھر سے یہاں پہنچنے والے ہیں۔ ایک سٹیشن پر موجود اہلکار نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مشکل تو ہو گا۔ چھوٹے سٹاپس پر تو رش نہیں ہو گا لیکن سٹیڈیم کے پاس مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ہر دن چار میچ ہیں تو بہت رش ہو گا۔‘ البدا پارک میں منعقد ہونے والے فین فیسٹیول نے بھی ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل جشن کا سماں پیدا کر دیا جہاں اذان کی آواز کے وقت موسیقی روک دی جاتی ہے۔ ملک میں کھلے عام شراب نوشی پر پابندی ہے تاہم مخصوص علاقوں میں، جن میں فین پارک شامل ہے، اس کی خرید و فروخت کے لیے قوانین میں چھوٹ دی گئی۔ برازایل نے 2002 کے بعد سے ورلڈ کپ نہیں جیتا اور وہ یورپ کے باہر سے کپ جیتنے والی آخری ٹیم تھی۔ اوپٹا ماہرین نے اعداد و شمار اور پیشنگوئی کرنے والے ماڈل کا سہارا لیتے ہوئے برازیل کو فیورٹ قرار دیا ہے تاہم ارجنٹائن تیسری بار کپ جیتنے کے لیے دوسری فیورٹ ٹیم ہے۔ یاد رہے کہ ارجنٹائن اس وقت 36 میچز میں لگاتار ناقابل شکست ہے۔ انگلینڈ کی فارم کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ وہ گذشتہ چھ میچز میں نہیں جیت سکے۔ بی بی سی کے سپورٹس ماہرین میں سے سات نے برازیل کے حق میں جبکہ تین کے مطابق ارجنٹائن جیتے گا۔ دو نے فرانس اور انگلینڈ کے حق میں صرف ایک نے ووٹ دیا۔ ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل ہی ایک بڑا سٹار، فرانس کے کریم بنزیما، زخمی ہو کر باہر ہو گئے۔ سینیگال کے فارورڈ کھلاڑی سیدیو مین بھی گھٹنے میں چوٹ کی وجہ سے قطر میں میدان میں نہیں نظر آئیں گے۔ وہ بائیرن میونخ کے لیے کھیلتے ہوئے صرف 10 دن قبل ہی زخمی ہو گئے تھے۔ بینزیما اور مین کے علاوہ فرانس کے پال پوگبا، جرمنی کے ٹیمو ورنر، انگلینڈ کے ریس جیمز، پرتگال کے ڈیوگو جوٹا اور ارجنٹائن کے لو سیسلو بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہیں۔ مانچسٹر کے ارلنگ ہالانڈ اور لیور پول کے محمد صلاح میدان میں اس لیے نظر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے ملکوں کی ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyr5k8kke2mo
ننگے پاؤں کھیلنے کی اجازت نا ملنا یا پیسوں کی کمی: جب انڈیا نے فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے کا نادر موقع ضائع کیا
فٹبال ورلڈ کپ 20 نومبر سے قطر میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں فٹبال کھیلنے والی 32 بہترین ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس مقابلے کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ فٹبال کی دنیا کا بادشاہ کون ہے۔ پوری دنیا میں فٹ بال کے کھیل کے انتظام کو چلانے والی تنظیم ’فیفا‘ کے مطابق 20 نومبر سے شروع ہونے والے اس ورلڈ کپ کو تقریباً پانچ ارب لوگ براہ راست اور بذریعہ سکرین دیکھیں گے۔ یہ تعداد 2018 کے ورلڈ کپ کے ناظرین سے ایک ارب زیادہ ہو گی۔ قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ مجموعی طور پر 22 واں ورلڈ کپ فٹبال ایونٹ ہے۔ لیکن انڈیا کے کھیلوں کے شائقین میں اس کھیل کو لے کر کوئی جوش و خروش نہیں ہے، کیونکہ اب تک انڈیا بھی پاکستان کی طرح ایک بار بھی اس ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں بن سکا ہے۔ اگرچہ انڈیا فٹبال ورلڈ کپ میں کبھی شرکت نہیں کر سکا لیکن اس کھیل سے محبت کرنے والے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ایک وقت تھا جب انڈیا فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت کر سکتا تھا۔ یقین کرنا مشکل ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈین فٹبال ٹیم 72 سال قبل 1950 میں برازیل میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی تھی لیکن بوجوہ ٹیم اس میں شرکت نہیں کر سکی۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے 1942 اور 1946 میں ورلڈ کپ فٹبال کا انعقاد نہیں ہو سکا تھا۔ سنہ 1950 میں ورلڈ کپ 12 سال کے انتظار کے بعد ہونے والا تھا۔ صرف 33 ممالک نے برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ انڈیا کو برما (میانمار) اور فلپائن کے ساتھ کوالیفائنگ گروپ 10 میں جگہ ملی۔ لیکن برما اور فلپائن نے کوالیفائنگ راؤنڈ سے اپنے نام واپس لے لیے تھے۔ یعنی انڈیا نے بغیر کھیلے ہی ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا۔ ورلڈ کپ مقابلوں کے شروع ہونے کی تاریخ زیادہ دور نہیں تھی اور انڈین ٹیم کو پہلی بار فٹبال ورلڈ کپ میں اپنے کارنامے دکھانے کا موقع ملنے والا تھا۔ جب 1950 کے ورلڈ کپ فٹبال کے فائنل راؤنڈ کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تو انڈیا کو سوئیڈن، اٹلی اور پیراگوئے کے ساتھ تیسرے پول میں جگہ ملی تھی۔ اگر انڈیا اس ٹورنامنٹ میں شریک ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا؟ اس حوالے سے آنجہانی فٹبال صحافی نووی کپاڈیہ نے ورلڈ کپ فٹبال کی گائیڈ بک میں لکھا ہے کہ ’اس وقت پیراگوئے کی ٹیم زیادہ مضبوط نہیں تھی، اٹلی نے اپنے آٹھ اہم کھلاڑیوں کو ڈسپلن کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں کیا تھا۔ ٹیم کی اتنی بری حالت تھی کہ کوچ وٹوریو پوزو نے برازیل پہنچ کر استعفیٰ دے دیا تھا۔‘ ’سویڈن کی ٹیم انڈیا کے خلاف بہت اچھی پوزیشن میں تھی، اس لحاظ سے انڈیا گروپ میں دوسرے نمبر پر آ سکتا تھا لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ ٹیم اس بہترین موقع کا فائدہ اٹھائے۔‘ 1950 کی دہائی میں انڈین فٹبال کی ٹیم بین الاقوامی سطح پر زیادہ میچ نہیں کھیلی تھی لیکن انڈین ٹیم کی اچھا کھیلنے والی ٹیم کے طور پر شہرت رکھتی تھی۔ اس کی ایک جھلک انڈین ٹیم نے 1948 کے لندن اولمپک گیمز میں بھی دکھائی تھی۔ انڈیا فرانس جیسی مضبوط ٹیم سے محض 1-2 کے فرق سے ہار گیا تھا۔ اس دور میں ٹیم کے فارورڈ اور ڈریبلر کے کھیل کی وجہ سے انڈین فٹبال ٹیم اپنی شناخت بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ احمد خان، ایس رمن، ایم اے ستار اور ایس میوال جیسے کھلاڑی کھیل کے شیدائی تھے۔ انڈیا کے یہ تمام کھلاڑی لندن اولمپکس میں ننگے پاؤں فٹبال کھیلنے آئے تھے۔ تاہم دائیں جانب پیچھے کھیلنے والے تاج محمد جوتے پہن کر کھیلے تھے۔ انڈین فٹ بال ٹیم نے 1950 کے ورلڈ کپ میں شرکت کیوں نہیں کی اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ تاہم، آل انڈیا فٹبال فیڈریشن (اے آئی ایف ایف) کی طرف سے دی گئی سرکاری وجہ کے مطابق ٹیم کے انتخاب میں اختلاف اور پریکٹس کے لیے ناکافی وقت کی وجہ سے ٹیم دستبردار ہو گئی تھی۔ لیکن برسوں سے اس بارے میں بہت سے مباحثے ہوتے رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ بات یہ تھی کہ انڈین کھلاڑی ننگے پاؤں فٹبال کھیلنا چاہتے تھے اور فیفا نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔ لیکن نووی کپاڈیہ کے علاوہ، سینیئر سپورٹس صحافی جیدیپ باسو کی حالیہ کتاب بھی اس وجہ کو زیادہ معتبر نہیں مانتی۔ جے دیپ باسو کی ایڈٹ کردہ کتاب ’باکس ٹو باکس: 75 یئرز آف دی انڈین فٹبال ٹیم‘ میں لکھا ہے کہ  ’فیفا کی جانب سے انڈین کھلاڑیوں کے ننگے پاؤں کھیلنے پر اعتراض کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘ لندن اولمپکس میں حصہ لینے والے سات آٹھ کھلاڑیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، جیدیپ باسو نے لکھا کہ ’اس ٹیم کے سات آٹھ کھلاڑیوں کے سفری بیگ میں سپائک بوٹ تھے اور یہ کھلاڑیوں کے انتخاب کا معاملہ تھا۔‘ درحقیقت یہ وہ دور تھا جب فٹ بال کھلاڑی اپنے پیروں پر موٹی پٹیاں باندھ کر کھیلنے کو ترجیح دیتے تھے اور 1954 تک یہ رجحان دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی موجود تھا۔ یہ بھی پڑھیے پولینڈ کی فٹبال ٹیم F-16 طیاروں کی حفاظت میں دوحہ روانہ قطر: فٹبال ورلڈ کپ کے لیے کنٹینروں سے بنایا گیا عارضی سٹیڈیم   فٹبال ورلڈ کپ: ’جعلی مداح‘ بھرتی نہیں کیے، قطر کی تردید فٹبال ورلڈ کپ 2022: قطر میں منعقد ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کا کیلینڈر انڈیا کے فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کی ایک وجہ معاشی بھی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ جیدیپ باسو نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ٹیم کے برازیل پہنچنے کے لیے اخراجات کا مسئلہ تھا، لیکن اسے حل کر لیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس وقت انڈیا کی تین ریاستی سطح کی فٹبال ایسوسی ایشنوں نے اخراجات میں حصہ لینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ یہی نہیں نووی کپاڈیہ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ مارچ اور اپریل کے مہینوں میں برازیل نے انڈین فٹبال ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا اور ٹیم کے زیادہ تر اخراجات ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ نووی کپاڈیہ کی کتاب کے مطابق برازیل کے اعتماد کی دو وجوہات تھیں، ایک سکاٹ لینڈ، فرانس، ترکی اور چیکوسلواکیہ کی ٹیموں نے بھی فٹبال ورلڈ کپ سے اپنے نام واپس لے لیے تھے۔ اور دوسری یہ کہ برازیل کو مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی یادگاروں کی خواہش تھی۔ جے دیپ باسو کی کتاب کے مطابق انڈیا نے 16 مئی 1950 کو ورلڈ کپ میں جانے والی ٹیم کا اعلان کیا۔ انڈیا کے مجوزہ شیڈول کے مطابق انڈین ٹیم 15 جون کو برازیل کے لیے روانہ ہو گی اور انڈیا کا پہلا میچ 25 جون کو پیراگوئے کے ساتھ کھیلا جانا تھا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا، جے دیپ باسو اسے انڈین فٹبال کی دنیا کا سب سے بڑا معمہ قرار دیتے ہیں، جس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ تاہم، نووی کپاڈیہ اور جے دیپ باسو کی کتابوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو انڈین فٹبال کھلاڑی اور نہ ہی اس دور کے فٹبال حکام اس موقع کی اہمیت کو سمجھ سکے۔ درحقیقت اس وقت انڈین ہاکی ٹیم اولمپک گیمز کی چیمپئن ٹیم بن چکی تھی اور ہر کھلاڑی کی مقبولیت کا آخری پیمانہ ایک ہی تھا۔ ایسے میں انڈین فٹبال ٹیم میں کھیلنے والے اور کھیل کو چلانے والے دونوں لوگوں کے لیے اولمپک کھیلوں میں بہتر کارکردگی پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کے علاوہ 1951 کے ایشین گیمز بھی دہلی میں ہونے والے تھے۔ میزبان ٹیم کی حیثیت سے انڈیا کا مقصد اس میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ 1950 تک فٹبال ورلڈ کپ کی دنیا میں اتنی مقبولیت نہیں تھی جتنی بعد کے سالوں میں ہوئی تھی۔ پھر یہ گلیمر سے عاری کھیلوں کا ٹورنامنٹ تھا۔ ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ قواعد کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی انڈین فٹبال حکام نے ایسا فیصلہ کیا ہو گا۔ درحقیقت فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو اس وقت پیشہ ور کھلاڑیوں کا ٹیگ مل جاتا تھا۔ کھلاڑیوں کے پروفیشنلز ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انھیں اولمپکس اور ایشین گیمز میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کیونکہ ان دنوں ان ٹورنامنٹس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو امیچرز کہا جاتا تھا۔ اگرچہ اس قاعدے سے خامیاں تھیں، جیسا کہ ہنگری، روس اور دیگر سوشلسٹ ممالک نے یہ دعویٰ کیا کہ فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے کھلاڑی فوج کے رکن ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فوج کے ارکان پیشہ ور نہیں ہو سکتے۔ لیکن غالباً انڈین فٹ بال کے عہدیداروں کو اس وقت اتنا علم نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ انڈین فٹبال ایسوسی ایشن نے ایشین گیمز اور اولمپک گیمز میں شرکت سے ہٹائے جانے کے خوف سے 1950 کے ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ لیکن یہ فیصلہ ایک ایسی غلطی ثابت ہوا، جس کی کاٹ انڈیا کے کھیلوں کے شائقین کو گذشتہ 72 برسوں سے ستا رہی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0k1g9r00ewo
پولینڈ کی فٹبال ٹیم F-16 طیاروں کی حفاظت میں دوحہ روانہ
جمعرات کو قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ میں شمولیت کے لیے جب پولینڈ کی ٹیم ملک سے روانہ ہوئی تو ایک حیران کن منظر دیکھا گیا۔ قطر کے لیے سفر کرنے والی پولینڈ کی قومی فٹ بال ٹیم کے جہاز کے ساتھ ساتھ ہوا میں دو F-16 لڑاکا طیارے بھی موجود تھے۔ ٹیم کے آفیشل ٹؤٹر اکاؤنٹ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں F-16 فائٹر جیٹس کی جوڑی کو ٹیم کے طیارے کے ساتھ اڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹویٹ میں بتایا گیا کہ ’ہمیں F-16 طیاروں کے ہمراہ پولینڈ کی جنوبی سرحد پر لے جایا گیا۔‘ اس ٹویٹ کے ساتھ ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی گئی اور آخر میں ’آپ کا شکریہ اور پائلٹوں کو سلام!‘ بھی لکھا دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹیم کی طرف سے لی گئی تصاویر میں F-16 پائلٹوں میں سے ایک کو اپنے کاک پٹ کی کھڑکی میں قومی سکواڈ کے نام کا نشان رکھے ہوئے دکھایا گیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام یاد رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے دوران کچھ دن قبل ایک میزائل گرنے سے پولینڈ میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے پولینڈ کی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور پولینڈ کے مقامی میڈیا میں فٹبال ٹیم کے ہمراہ لڑاکا طیاروں کی روانگی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیے قطر: فٹبال ورلڈ کپ کے لیے کنٹینروں سے بنایا گیا عارضی سٹیڈیم قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ سے جڑے چند سوالات کے جواب قطر میں فٹبال ورلڈ کپ 2022 کے میچوں کا شیڈول اور لائیو نتائج قطر پہنچنے کے بعد پولش ٹیم اپنا پہلا میچ میکسیکو کی ٹیم سے 22 نومبر کو کھیلے گی اور چار دن بعد ان کا مقابلہ سعودی عرب سے ہو گا۔ پولینڈ کا گروپ سی ہے اور اس میں ارجنٹینا، سعودی عرب اور میکسیکو شامل ہیں۔ پولینڈ کے گروپ مرحلے کا آخری میچ 30 نومبر کو ہو گا جہاں ان کا مقابلہ لیونل میسی کی ارجنٹائن سے ہو گا۔ بارسیلونا کے سٹار سٹرائیکر رابرٹ لیوینڈوسکی اور ان کا عملہ 1986 کے بعد پہلی بار پولینڈ کو ناک آؤٹ مرحلے تک لے جانے کی کوشش کرے گا۔ پولینڈ کی موجودہ ٹیم فٹبال میں تاریخی لحاظ سے اتنی کامیاب نہیں رہی لیکن اس ورلڈ کپ میں شامل ہونے والے تقریباً تمام کھلاڑی دنیا کی بڑی لیگز میں کھیل رہے ہیں اور یہ تکنیکی لحاظ سے بھی مضبوط ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjlrk72w61go
قطر: فٹبال ورلڈ کپ کے لیے کنٹینروں سے بنایا گیا عارضی سٹیڈیم  
قطر میں اس اتوار سے شروع ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ یہ نہ صرف کسی بھی عرب ملک میں ہونے والا پہلا ورلڈ کپ ہے بلکہ یہ اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ سردیوں میں منعقد ہو رہا ہے۔ عموماً ورلڈ کپ مئی، جون یا جولائی میں کھیلا جاتا ہے۔   ایک طرف تو قطر اور فیفا انتظامیہ کو انسانی حقوق کے موضوع پر دنیا بھر سے سوالات کا سامنا ہے تو دوسری طرف شائقین اور فٹبال پنڈٹ اس ورلڈ کپ پر اٹھنے والے اخراجات سے لے کر اس کی مارکیٹنگ اور اس کے انعقاد کے انداز پر بھی بڑھ چڑھ کر بحث کررہے ہیں۔   یہ سب باتیں ایک جانب، لیکن اگر آپ قطر انتظامیہ کی طرف سے بنائے جانے والے سٹیڈیمز پر نظر ڈالیں تو ان میں سے کچھ کسی شاہکار سے کم نہیں۔ ٹورنامنٹ کے لیے بنائے جانے والے 9 سٹیڈیمز میں سے بہت سے میدان کسی نہ کسی وجہ سے منفرد ہیں، لیکن ان سب سے ایک سٹیڈیم ایسا ہے جو کہ نہ صرف ڈیزائن بلکہ اپنی ساخت کے حوالے سے بھی حیرت انگیز ہے۔     یہ دارالحکومت دوحہ کے ایک دریا کے کنارے واقع ہے اور حماد بین الاقوامی ہوائی اڈے سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔  سٹیڈیم کے ڈیزائن کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس میں قدرتی ہوا اسٹیڈیم میں گردش کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس میدان کو ائر کنڈیشنگ کے نظام کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے توانائی کے اخراجات کو کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ اس سٹیڈیم میں ورلڈ کپ کے سات میچز کھیلے جائیں گے۔ قطری حکام کا کہنا ہے کہ یہ پورا منصوبہ قریب واقع بندرگاہ اور دوحہ کی سمندری روایات اور تاریخ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ سٹیڈیم 974 واٹر فرنٹ سائٹ پر تعمیر کیا گیا ہے اور یہ ایک مصنوعی جزیرے پر واقع ہے۔ اس کا نام قطر کے لیے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ (+974) پر رکھا گیا ہے اور تو اور اس کی تعمیر میں 974 ری سائیکل شپنگ کنٹینرز شامل کیے گئے ہیں۔     انوکھی بات یہ ہے کہ یہ سٹیڈیم عارضی ہے یعنی کہ فٹبال ورلڈ کپ کے بعد سٹیڈیم میں استعمال ہونے والے شپنگ کنٹینرز اور سیٹیں ختم کر دی جائیں گی اور انھیں دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کو امداد کے طور پر عطیہ کردیا جائے گا ۔ فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ کے اس پہلے عارضی سٹیڈیم میں تقریباً چالیس ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔     سٹیڈیم کے اندر موجود کچھ کنٹینرز میں بیت الخلا، ویٹینگ روم اور چینجنگ رومز بھی بنائے گئے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c516pm38npjo
فٹبال ورلڈ کپ: ’جعلی مداح‘ بھرتی نہیں کیے، قطر کی تردید
قطر نے مغربی میڈیا اور انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ اس نے 20 نومبر کو شروع ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کی تشہیری پریڈز کے لیے جعلی مداحوں کا استعمال کیا۔  نجی خبر رساں ادارے دوحہ نیوز ویب سائٹ نے 15 نومبر کو ورلڈ کپ کے انعقاد کی ذمہ دار سپریم کمیٹی فار ڈیلیوری اینڈ لیگیسی کے حوالے سے ’جعلی‘ مداحوں کے بارے میں اطلاعات کو مسترد کیا۔  اس نے کہا کہ قطر میں ہر شعبہ زندگی اور قومیت سے تعلق رکھنے والے فٹ بال مداح موجود ہیں جنھوں نے ’حال ہی میں ملک بھر میں مداحوں کی واکس اور پریڈز منعقد کیں اور کئی قومی ٹیموں کا ان کے ہوٹلز میں استقبال کیا۔‘  بیان میں مزید کہا گیا کہ ’کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا مبصرین نے سوال کیا کہ آیا یہ ’حقیقی‘ مداح ہیں۔ ہم ان دعووں کو بھرپور انداز میں مسترد کرتے ہیں جو کہ مایوس کن تو ہیں مگر حیران کن نہیں۔‘  ایک ہوٹل کے باہر انگلینڈ کی ٹیم کا استقبال کرنے کے منتظر مداحوں کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مغربی میڈیا میں قطر پر ’جعلی‘ مداح بھرتی کرنے کا اعلان کیا گیا۔  ٹوئٹر صارفین نے بھی ایسی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے ان لوگوں کو ’جعلی‘ فینز قرار دیا۔  سرکاری خبر رساں ادارے قطر نیوز ایجنسی کے مطابق وزیرِ محنت علی بن صمیخ المری نے برسلز میں یورپی حکام کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات میں کہا کہ مغربی ممالک کے کچھ میڈیا ادارے قطر کے خلاف ہو کر اپنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ اقدار بھی کھو بیٹھے ہیں۔  اُنھوں نے کہا کہ ’قطر کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش میں یہ مہم تمام حدود پار کر چکی ہے جس میں تازہ ترین یہ دعویٰ ہے کہ ورلڈ کپ کے منتظمین نے پیسوں کے عوض میچ دیکھنے والے شائقین اکٹھے کیے۔‘  قطر نے بار بار اپنی ورلڈ کپ میزبانی کے خلاف مبینہ مہم کو مسترد کیا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے اس خلیجی ملک کو اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور خاص طور پر تارکینِ وطن مزدوروں کے ساتھ اپنے سلوک کے باعث تنقید کا سامنا ہے۔ اس تنقید کے جواب میں قطر نے لیبر اصلاحات کے نفاذ کا حوالہ دیتے ہوئے مسلسل اپنا دفاع کیا ہے۔  دوحہ نیوز ایجنسی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے قطر میں ’جنوب مشرقی ایشیائی‘ فٹبال مداحوں سے بات کی ہے جنھوں نے کہا کہ انھیں کوئی پیسے نہیں دیے گئے۔  رپورٹ میں کہا گیا کہ قطر بھر کے فٹبال مداحوں نے ورلڈ کپ سے قبل دارالحکومت میں کئی جگہ بڑے جلسوں اور پریڈز کا اہتمام کیا جس میں قطر میں مقیم غیر ملکی لوگوں نے بھی اپنی اپنی پسندیدہ ٹیموں بشومل قطر، انگلینڈ، برازیل اور ارجنٹینا کی شرٹس پہنیں۔  رپورٹ میں ایک فٹبال مداح کے حوالے سے کہا گیا کہ ’فٹبال پریڈز کی ایسی کوریج قطر کی آبادیاتی ترتیب اور ان تارکینِ وطن کے بارے میں آگہی کی کمی کی عکاس ہے جن کے تحفظ کے یہ دعوے دار ہیں، جبکہ یورپی سرحدوں سے باہر فٹبال مداحوں کی موجودگی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔‘  دوحہ نیوز نے کہا کہ ’مغربی میڈیا پریڈ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے شاید قطر کی آبادی کے اعداد و شمار بھول گیا ہے۔‘  اس نے مزید کہا کہ ’جنوب مشرقی ایشیائی باشندوں کو نسلی بنیاد پر ہدف بنانا بھی اب بظاہر دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔‘  کچھ ٹوئٹر صارفین نے بھی ان دعووں کو مسترد کیا۔ ایک صارف جوزف جون نے لکھا کہ برازیل اور ارجنٹینا کی شرٹس پہنے جو انڈین مداح ویڈیوز میں نظر آ رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے ہے جسے ’طویل عرصے سے فٹبال سے محبت ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/sport-63643382
قطر میں فٹبال ورلڈ کپ 2022 کے میچوں کا شیڈول اور لائیو نتائج
2022 قطر فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلوں کا آغاز ہو چکا ہے جو 18 دسمبر تک جاری رہیں گے۔ اس ٹورنامنٹ کے تمام میچوں کا شیڈول جاننے اور ٹورنامنٹ کے دوران تازہ ترین نتائج یہاں دیکھیں۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-61854861
قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ سے جڑے چند سوالات کے جواب
قطر میں رواں نومبر و دسمبر ہونے والا فٹ بال ورلڈ کپ وہ پہلا ورلڈ کپ ہو گا جو مشرقِ وسطیٰ میں ہو رہا ہے اور پہلی مرتبہ اسے سال کے ان مہینوں میں منعقد کیا جائے گا۔ قطر میں ورلڈ کپ منعقد کروانے کے فیصلے پر کافی تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ورلڈ کپ مقابلے 21 نومبر سے 18 دسمبر کے درمیان منعقد ہوں گے جب قطر میں درجہ حرارت تقریباً 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ اگر یہ مقابلے معمول کے مطابق جون یا جولائی میں ہوتے تو میچز کے دوران درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا اور ممکنہ طور پر 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی ہوتا۔ فٹبال ورلڈ کپ 2022 کے میچوں کا شیڈول اور لائیو نتائج فٹبال ورلڈ کپ 2022 کا کیلینڈر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں ابتدائی طور پر قطر نے تجویز دی تھی کہ وہ گرمیوں میں مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ سٹیڈیمز میں یہ میچ کروائے گا مگر یہ منصوبہ رد کر دیا گیا۔ نومبر اور دسمبر یورپی فٹ بال کلبز کے لیے عموماً مصروف مہینے ہوتے ہیں۔ صفِ اول کے زیادہ تر کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ میں اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کے لیے بلا لیا جائے گا۔ چنانچہ انگلینڈ کی پریمیئر لیگ، اٹلی کی سیری آ اور سپین کی لا لیگا نے اپنے اپنے سیزنز اس بین الاقوامی مقابلے سے ایک ہفتہ پہلے تک معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سنہ 2010 میں قطر نے فیفا کے 22 ایگزیکٹیو ارکان کے درمیان ہونے والی بیلٹنگ جیت کر ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق جیتے تھے۔ اس نے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا کی بولیوں کو پچھاڑا تھا۔ پہلی مرتبہ کوئی عرب ملک اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔ قطر پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے 37 لاکھ ڈالر کے عوض فیفا حکام کی حمایت خریدی ہے تاہم دو سالہ تحقیقات کے بعد اسے کلیئر کر دیا گیا۔ اس وقت فیفا کے چیئرمین سیپ بلیٹر نے قطر کی حمایت کی تھی تاہم اُنھوں نے تب سے کئی مرتبہ کہا ہے کہ فیفا نے غلط فیصلہ لیا ہے۔ سیپ بلیٹر اس وقت سوئٹزرلینڈ میں دھوکہ دہی، ہیرا پھیری اور دیگر الزامات کے ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے قطر پر ورلڈ کپ کی سہولیات کی تعمیر کرنے والے غیر ملکی کارکنان کے ساتھ برے سلوک کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ ورلڈ کپ 2022 کے لیے کوالیفائرز تین سال قبل شروع ہوئے تھے۔ سنہ 2018 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم فرانس نے کوالیفائی کیا مگر موجودہ یورپی چیمپیئن اٹلی کوالیفائی نہیں کر سکا۔ فائنلز کے لیے 32 ٹیموں کو چار چار کے گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک ہی برِاعظم کی ٹیموں کو الگ الگ گروپس میں رکھا گیا تاہم ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ دو یورپی ممالک ہو سکتے ہیں۔ برازیل، انگلینڈ اور فرانس فی الوقت بک میکرز کے نزدیک ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے فیورٹ ہیں۔ قطر کی آبادی 29 لاکھ ہے تاہم یہ تیل اور گیس کی برآمدات کے باعث دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ہے۔ اس نے خاص طور پر اس ٹورنامنٹ کے لیے سات سٹیڈیمز بنائے ہیں اور بالخصوص فائنل میچ کی میزبانی کے لیے ایک پورا شہر بسایا ہے۔ اس کے علاوہ 100 سے زیادہ نئے ہوٹلز، ایک نئی میٹرو سروس اور نئی سڑکیں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ ٹورنامنٹ کی تنظیمی کمیٹی نے کہا ہے کہ 15 لاکھ لوگ ورلڈ کپ میچز دیکھیں گے۔ یہ بھی پڑھیے فٹبال کا شوق پاکستانی کھلاڑی کو عراق لے گیا ورلڈ کپ 2022: قطر میں ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ اتنا متنازع کیوں؟ دنیائے فٹبال کے شہنشاہ ’پیلے‘ جنھیں برازیل نے ’قومی خزانہ‘ قرار دیا رونالڈو سے بھی زیادہ گول کرنے والے علی داعی کون ہیں؟ قطر ایک قدامت پسند مسلمان ملک ہے اور تماشائیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محتاط رویہ اختیار کریں۔ شراب پینے پر سخت پابندی ہے اور اسے صرف لگژری ہوٹلوں کے شراب خانوں میں خریدا جا سکتا ہے۔ بیئر کا ایک پنٹ 13 ڈالر تک کا ہو سکتا ہے۔ تاہم منتظمین کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران مداحوں کے لیے مخصوص علاقوں میں شراب دستیاب ہو سکتی ہے۔ قطر میں ہم جنس پرستی کی ممانعت ہے۔ ہم جنس پرست فٹ بال شائقین کے نمائندہ گروہوں نے قطری حکومت سے کہا ہے کہ وہ اُن کے تحفظ کی یقین دہانی کروائے۔ ویلز کے کچھ مداحوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے کوالیفائی کرنے کے باوجود اس ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کریں گے۔ ورلڈ کپ کے منتظمین نے جواباً کہا کہ وہ ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں مگر یہ تصدیق کی کہ قطر ٹورنامنٹ کے دوران ہم جنس پرستی سے متعلق قوانین میں نرمی نہیں کرے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-62322683
فٹبال ورلڈ کپ 2022: قطر میں منعقد ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کا کیلینڈر
2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلے 21 نومبر سے 18 دسمبر کے درمیان عرب ملک قطر میں منعقد ہوں گے جبکہ ٹورنامنٹ کا پہلا میچ سینیگال اور ہالینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا کوئی ملک اس عالمی مقابلے کی میزبانی کر رہا ہے اور ایسا بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ورلڈ کپ مقابلے موسمِ سرما میں منعقد ہو رہے ہیں۔ ورلڈ کپ 2022 کے لیے کوالیفائرز تین سال قبل شروع ہوئے تھے۔ سنہ 2018 کا ورلڈ کپ جیتنے والی فرانس کی ٹیم تو ان مقابلوں میں شامل ہے مگر موجودہ یورپی چیمپیئن اٹلی کوالیفائی نہیں کر سکا۔ فائنلز کے لیے 32 ٹیموں کو چار، چار کے آٹھ گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک ہی برِاعظم کی ٹیموں کو الگ الگ گروپس میں رکھا گیا تاہم ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ دو یورپی ممالک ہو سکتے ہیں۔ بارہ دن جاری رہنے والے مقابلوں کے گروپ مرحلے میں روزانہ چار میچ کھیلے جائیں گے اور ہر گروپ سے دو ٹیمیں اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ برازیل، انگلینڈ اور فرانس فی الوقت بک میکرز کے نزدیک ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے فیورٹ ہیں۔ اگر آپ فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلوں کا شیڈول دیکھنا اور اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتے ہیں توفٹبال ورلڈ کپ 2022 کا کیلینڈر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw0jg9z3xeeo
’ڈیڈیز آرمی‘: کیا روہت شرما کو ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سے ہٹانے اور بڑی تبدیلیوں کا وقت آن پہنچا ہے؟
عام طور پر ایسی تصویریں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کیمرہ آپ پر مرکوز ہو اور آپ رو رہے ہوں۔ روہت شرما کی ایسی ہی ایک تصویر اس وقت سامنے آئی جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے انڈیا کو 10 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ روہت انڈین ٹیم کے وہ کپتان ہیں جنھوں نے اپنی بلے بازی سے وائٹ بال کرکٹ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور وہ ون ڈے میں سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں سکور کر چکے ہیں۔ دنیا ان کو ’ہٹ مین‘ کے نام سے جانتی ہے اور وہ آئی پی ایل کے سب سے کامیاب کپتان ہیں تاہم ان کے اس تصویر نے ناصرف ان کے ساتھی کھلاڑیوں بلکہ انڈین کرکٹ کے کروڑوں مداحوں کو بھی غمزدہ کر دیا تھا۔ تاہم، روہت شرما کو ٹی ٹوئنٹی میں انڈین ٹیم کے کپتان بنے ہوئے صرف ایک سال ہوا ہے۔ لیکن ورلڈ کپ میں ایسی شکست کے بعد آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کیا انڈیا کا ٹی ٹوئنٹی کا مستقبل 35 سالہ روہت شرما کی کپتانی پر منحصر ہے؟ 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گیا تھا جس کے بعد کپتانی تبدیل کی گئی تھی اور ویراٹ کوہلی کی جگہ روہت شرما ٹیم کے نئے کپتان بن گئے تھے۔ نئے کپتان روہت کی قیادت میں انڈین ٹیم نے دو طرفہ سیریز میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران انڈیا نے نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کو شکست دی۔ انڈین ٹیم نے غیر ملکی دوروں میں آئرلینڈ، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز سے بھی سیریز جیتی۔ پھر، اس بار کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے، انڈین ٹیم نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو بھی ان کے گھر پر 2-1 سے شکست دی۔ اگر آپ ان نتائج کو دیکھیں گے تو ایسا لگے گا کہ انڈین ٹیم مسلسل جیت رہی ہے، اس لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انڈیا آئی سی سی کے بڑے ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ روہت شرما کی کپتانی میں پہلا بڑا چیلنج یو اے ای اور عمان میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں آیا۔ گروپ کے پہلے میچ میں انڈیا نے پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دی تھی تاہم بعد میں پاکستان اور سری لنکا دونوں سے ہار گئی اور فائنل کھیلنے کا موقع گنوا دیا۔ روہت شرما کی ٹیم کے سامنے دوسرا سب سے بڑا چیلنج ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 آیا، جس میں ٹیم نے شائقین کو ایک بار پھر مایوس کیا۔ انڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے آخری گیندوں پر بمشکل میچ جیتا۔ بعد میں جب دو بڑی ٹیمیں جنوبی افریقہ اور انگلینڈ سامنے آئیں تو نتیجہ انڈیا کے خلاف تھا۔ اس ورلڈ کپ میں انڈیا کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ٹیم کا بیٹنگ پاور پلے کا استعمال نہ کرنا تھا۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ روہت شرما، کے ایل راہول اور ویراٹ کوہلی کے ٹاپ آرڈر پر مشتمل انڈین ٹیم کا پاور پلے اوسط صرف متحدہ عرب امارات سے زیادہ ہے؟ انگلینڈ کے سابق کپتان ناصر حسین نے کہا کہ انڈیا کی شکست کی وجہ ان کی بیٹنگ تھی، وہ خوف سے کھیل رہے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انڈین ٹیم 10 سال پرانی طرز پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیل رہی ہے جس کا وقت گزر چکا ہے۔ انڈین ٹیم کی حکمت عملی یہ تھی کہ شروع میں وکٹیں بچائیں لیکن یہ حکمت عملی فلاپ ہوگئی اور کوچ راہول ڈریوڈ کے ساتھ کپتان روہت شرما کو بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ورلڈ کپ کسی بھی ٹیم کے لیے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ ٹیمیں ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے چار سال پہلے سے تیاری شروع کر دی جاتی ہیں۔ اگر ٹیم ورلڈ کپ میں توقعات پر پورا نہ اترے تو ٹیم میں بڑی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ کوچ راہول ڈریوڈ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ 1979 کے ورلڈ کپ کے بعد 2007 کا ون ڈے ورلڈ کپ انڈین ٹیم کے لیے بدترین تھا۔ سنہ 1979 میں انڈیا ایک بھی میچ نہیں جیتا تھا جب کہ 2007 میں انڈیا بنگلہ دیش اور سری لنکا سے ہارا تھا اور صرف برمودا کے خلاف ایک میچ جیتا تھا۔ انڈین ٹیم ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئی تھی۔ راہول ڈریوڈ اس ون ڈے ٹیم کے کپتان تھے اور کوچ گریگ چیپل تھے۔ شکست کے فوراً بعد کوچنگ سٹاف میں تبدیلی کی گئی اور چند ماہ بعد راہول ڈریوڈ کو بھی ون ڈے ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔ ٹیم میں نئے کپتان مہندر سنگھ دھونی آئے اور انھوں نے ٹیم کو ایک نئی سمت دی جس کے نتیجے میں 2011 میں چار سال بعد ورلڈ کپ جیتا گیا۔ کئی سابق کرکٹرز نے بھی کہا ہے کہ ٹیم میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے اور جب پہلے ایک ہارنے والے کپتان کو ہٹایا گیا تو اب کیوں نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ روہت شرما اگلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک 37 سال کے ہو جائیں گے، تو کیا وہ اب بھی کپتان رہیں گے یا ٹیم میں ان کی جگہ ہو گی؟ ان کا ماننا ہے کہ اگر تبدیلی لانی ہے تو جتنی جلدی کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ویسے اگر غور سے دیکھا جائے تو انڈیا کی ٹی 20 ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کا وقت پچھلے سال ہی آ گیا تھا۔ اگر آپ 2021 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف انڈین ٹیم کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس ٹیم کے تمام کھلاڑی پاکستان کے خلاف 2022 کے میچ میں حصہ لے رہے تھے۔ کیا وہی ٹیم جس نے 2021 میں بہت بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ اگلے سال ورلڈ چیمپئن بن سکتی ہے خاص طور پر جب ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بوڑھے ہو چکے ہوں اور ٹیم کو ’ڈیڈیز آرمی‘ کہا جا رہا ہو؟ یہ بھی پڑھیے انڈین ٹیم کو درپیش وہ پانچ بڑے مسائل جو اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لے ڈوبے ہاردک پانڈیا: انڈیا کے ’کپل دیو‘ کی غربت اور درد کو شکست دینے کی داستان ’ایسی فضول باتیں نہیں کرنی چاہیے‘ شامی کے طنز پر شاہد آفریدی ناراض ٹیم میں روہت شرما، ویرات کوہلی، کے ایل راہول، دنیش کارتک، روی ایشون، محمد شامی، بھونیشور کمار سبھی 30 اور زیادہ تر 34-35 کے آس پاس ہیں۔ ٹیم کی بڑھتی ہوئی اوسط عمر بھی فوری تبدیلی کی التجا کر رہی ہے۔ انڈیا کی 10 وکٹوں سے شکست کے بعد ہر طرف سے ٹیم کی کارکردگی کی مذمت کی گئی لیکن مائیکل وان جتنی تنقید شاید کسی اور نے نہیں کی۔ وان نے کہا کہ انڈین ٹیم توقعات کے مقابلے میں عالمی کرکٹ کی سب سے کم کامیاب ٹیموں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ اتنے ٹیلنٹ سے بھرپور ٹیم کیسی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلتی ہے؟ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے کہا کہ آپ مخالف باؤلرز کو پہلے 5 اوورز میں سیٹل ہونے کا موقع کیسے دیتے ہیں؟ دراصل وان انڈین ٹیم کی حکمت عملی کی مذمت کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاور پلے میں رنز نہ بنانا ایک کمزوری ہے جس کا تعلق ٹیلنٹ سے نہیں ذہنیت سے ہے۔ پاور پلے میں کمزور بلے بازی کے علاوہ لیگ سپنر چہل کو نہ کھلانا بھی ٹیم کو مہنگا پڑا۔ اسی ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے عادل رشید اور پاکستان کے شاداب خان نے شاندار لیگ سپن بولنگ کی۔ انڈین ٹیم کو سیمی فائنل میں بھی لیگ سپنر کی کمی محسوس ہوئی جب روی شاستری نے مایوس کن لہجے میں کمنٹری کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے پاس بہترین لیگ سپنر ہے لیکن میدان میں نہیں، ڈگ آؤٹ میں۔ کپتانی اور تبدیلی کی اس بحث میں عرفان پٹھان نے بھی ٹویٹ کرکے اپنی رائے دی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ کپتان کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں، تین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اوپنرز کو تیز کھیلنا چاہیے، ٹیم میں ایک لیگ سپنر ہونا چاہیے، اور بہت تیز گیند باز کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرفان کی تجاویز کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ ٹیم 2024 تک اسی کپتان کے ساتھ چلے گی یا نہیں، یہ فیصلہ ہونا ہے۔ کچھ ماہرین یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ انڈیا کو مختلف ٹیموں کے لیے مختلف کپتان رکھنے چاہییں۔ مطلب ٹیسٹ، ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے الگ الگ کپتان۔ ان کا ماننا ہے کہ ہاردک پانڈیا کی قیادت میں نیوزی لینڈ کے دورے پر جانے والی انڈین ٹیم کے ساتھ ہی تبدیلی شروع ہوئی ہے۔ نئے کپتان کا اعلان محض رسمی طور پر باقی رہ گیا ہے جس میں سوال یہ نہیں کہ ایسا ہوگا یا نہیں لیکن یہ کب ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce4gn7qx7r7o
ہیلز اور کمنز کا آئی پی ایل کھیلنے سے انکار: ’کرکٹرز کے لیے آرام بھی ضروری‘
آسٹریلوی فاسٹ بولر پیٹ کمنز اور انگلش بیٹر ایلکس ہیلز نے 2023 میں انڈیا پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ 25 مارچ 2023 میں شروع ہونے والے آئی پی ایل کے سیزن میں کمنز اور ہیلز کوکلتہ نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) کی طرف سے کھیلنے والے تھے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے اوپنر ہیلز نے اس لیے آئی پی ایل کھیلنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ انھوں نے آسٹریلیا، پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں کرکٹ لیگز کھیلنے کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف آسٹریلوی ٹیسٹ کپتان پیٹ کمنز کہتے ہیں کہ وہ ایشز اور 2023 میں 50 اوور کے ورلڈ کپ سے قبل کچھ آرام چاہتے ہیں۔ ایرون فنچ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 29 سالہ کمنز نے ون ڈے میچوں میں بھی آسٹریلوی کپتانی سنبھال لی ہے۔ کمنز نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’انٹرنیشنل شیڈول میں آئندہ 12 ماہ کے لیے ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں کی بھرمار ہے۔ میں ایشز اور ورلڈ کپ سے قبل کچھ آرام کروں گا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 نومبر میں آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلے گا۔ ایشز سے قبل جولائی میں اسے انڈیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف بھی سیریز کھیلنی ہے۔ جمعرات کو ایڈیلیڈ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان تین میچوں کی ون ڈے سیریز بھی شروع ہو رہی ہے۔ تاہم ہیلز سکواڈ کا حصہ نہیں۔ سیریز کا پہلا میچ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کے چار روز بعد ہو رہا ہے۔ انگلش آل راؤنڈر معین علی نے سیریز کی ٹائمنگ کو ’انتہائی بُرا‘ کہا ہے۔ رواں سال انگلش ٹیسٹ کپتان بین سٹوکس نے اچانک ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کرکٹ حکام کے لیے ایک ’ویک اپ کال‘ ہونی چاہیے۔ دریں اثنا انگلش بیٹر سیم بلنگز نے بھی آئی پی ایل کھیلنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کینٹ کے ساتھ کاؤنٹی چیمپیئن شپ پر دھیان دینا چاہتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 آئندہ سال آئی پی ایل کے لیے ٹیموں نے کچھ کھلاڑیوں کو ریلیز کر دیا ہے۔ کے کے آر کی طرف سے ان میں پیٹ کمنز، سیم بلنگز، محمد نبی، چمیکا کارونارتنے، ایرون فنچ اور الیکس ہیلز شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک بیان میں کے کے آر نے کہا کہ ’ذاتی وجوہات اور قومی ٹیموں سے کیے گئے وعدوں کے باعث سیم بلنگز، ایلکس ہیلز اور پیٹ کمنز نے آئی پی ایل نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور ہم اس کا کا احترام کرتے ہیں۔‘ ادھر ممبئی انڈینز کے کائرن پولارڈ اب ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہوں گے۔ چنائی سپر کنگز نے ڈوین براوو کو ریلیز کیا ہے جبکہ سنرائزز حیدرآباد نے اپنے کپتان کین ولیمسن اور نکولس پوران کو ریٹین نہیں کیا۔ لکھنؤ سپر جائنٹس نے ایون لیوس اور جیسن ہولڈر جبکہ راجستھان رائلز نے جمی نیشم کو ریلیز کر دیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی آئی پی ایل میں ریٹینشن اور پلیئر ریلیز کے حوالے سے تبصرے جاری ہیں اور کرکٹ شائقین نے چند کھلاڑیوں کے آئی پی ایل نہ کھیلنے کے فیصلوں پر ردعمل دیا ہے۔ وکرم مہتا نے لکھا کہ ’مجھے نہیں معلوم اور کتنے کھلاڑیوں نے اپنی قومی ٹیموں کے لیے آئی پی ایل 2023 کھیلنے سے انکار کیا‘ مگر یہ بات واضح ہے کہ ’پیسے سب کو نہیں خرید سکتے۔‘ ول مکپرسن نے کہا کہ ایلکس ہیلز آئی پی ایل نہیں کھیل رہے کیونکہ انھیں کے کے آر نے اچھی ڈیل نہیں دی۔ ’وہ دوسری لیگز جیسے بی بی ایل، ٹی ٹین، پی ایس ایل وغیرہ سے اچھا کماتے ہیں۔۔۔ ان کے لیے اپریل میں وقفہ لینا بُرا نہیں۔‘ ادھر سابق آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک نے تصبرہ کیا ہے کہ کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل شیڈول میں وقفے ملتے ہیں تاہم اگر وہ ان میں آئی پی ایل کھیلنے چلے جاتے ہیں تو انھیں شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 کئی انڈین صارفین نے انڈیا کے کرکٹ بورڈ سے گزارش کی ہے کہ بڑے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کھلانے کے بجائے آرام دیا جائے تاکہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے پوری طرح فٹ دستیاب ہوں۔ ٹوئٹر پر ریتیکا نامی صارف نے لکھا کہ جب کرکٹرز انڈیا کے لیے کھیلتے ہیں تو انھیں ورک لوڈ کی وجہ سے آرام درکار ہوتا ہے تاہم جب وہ آئی پی ایل کھیل رہے ہوتے ہیں تو انھیں کوئی آرام درکار نہیں ہوتا کیونکہ بظاہر اس میں کوئی ورک لوڈ نہیں۔ گوتھم نے کہا کہ ’سکائی جیسے کھلاڑیوں کو آرام کر کے 100 فیصد دھیان بین الاقوامی کرکٹ پر دینا چاہیے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
https://www.bbc.com/urdu/articles/cllrnp3mp0po
قطر: کیا یہ اب تک کا سب سے زیادہ سیاست زدہ فٹبال ورلڈ کپ ہے؟
قطر میں ہونے والا فٹ بال ورلڈکپ ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں ہے جس سے فیفا اور اس کے منتظمین بچنے کی امید کر رہے تھے۔ اس ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ سے صرف دو ہفتے قبل اس وقت ایک اور تنازع کھڑا ہو گیا جب ٹورنامنٹ کے ایک آفیشل ایمبیسیڈر نے ہم جنس پرستی کو ’دماغ میں خلل‘ قرار دیا ہے۔ قطر کے سابق بین الاقوامی کھلاڑی خالد سلمان کے جرمن نشریاتی ادارے ڈیڈ ڈی ایف کو دیے گئے ایک بیان نے ورلڈ کپ سے متعلق مسائل کی بڑھتی ہوئی فہرست میں اضافہ کر دیا ہے جس میں کارکنوں کے حقوق، آزادی اظہار رائے اور یوکرین جنگ شامل ہیں۔ بڑھتے ہوئے تنازعات کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اسے تاریخ کا سب سے زیادہ سیاست زدہ ورلڈ کپ قرار دیا ہے۔ لیورپول فٹ بال کلب کے ہم جنس پرست گروہ اور گروپ کوپ آؤٹ کے بانی پال امان کہتے ہیں کہ ’مجھے ابتدائی طور پر یہ امید تھی کہ وہ مہاجر کارکنوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہم جنس پرست افراد کی بہتری کے لیے بھی کوئی اقدامات کریں گے۔‘ انھیں 2019 میں اپنے شوہر کے ساتھ ورلڈ کپ آرگنائزنگ کمیٹی کی میزبانی کے دورے کے حصے کے طور پر قطر کی دعوت دی گئی تھی۔ ہم جنسی اور ہم جنس تعلقات کو فروغ دینا قطر میں غیر قانونی ہے جس کی سزا جرمانے سے لے کر سزائے موت تک ہے۔ لیکن ورلڈ کپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ میچ دیکھنے کے لیے قطر کے دورے پر ’سب کو خوش آمدید‘ اور دعویٰ کیا کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن خالد سلمان کے انٹرویو جیسے واقعات نے مقابلے کے بارے میں پال کی ابتدائی امید کو کچل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’افسوس کی بات ہے کہ جب سے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے، قطر نے ہم جنس پرست افراد کے ساتھ امتیازی سلوک دگنا کر دیا ہے۔‘ ہم جنس پرستوں کے جیل جانے اور ان کے جنسی رحجان کو تبدیل کرنے کی تھراپی کے استعمال کی اطلاعات کا مطلب یہ ہے کہ پال اب ورلڈ کپ میں جانے کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب فٹبال ورلڈکپ میں شرکت کرنے کے بارے میں سوچنا غیر معقول ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ قطری حکام ہم جنس پرست افراد کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ بین الاقوامی سیاست دانوں کی تنقید کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے گروپوں کے احتجاج بھی میدان میں سامنے آئے ہیں۔ ڈنمارک اس ٹورنامنٹ میں ایک ’ٹونڈ ڈاؤن‘ کٹ  یعنی کم رنگ والی کٹ پہنے گا جس پر ملک کا نام اور برانڈ لوگوز بمشکل نظر آئیں گے۔ ڈنمارک کی ٹیم کے کپتان سمیت دیگر نو ممالک کی ٹیم کے کپتان جن میں انگلینڈ، جرمنی، فرانس اور بلجیئم شامل ہیں اپنے بازوؤں پر ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے ون لو آرم بینڈ پہنیں گے جس پر قوس قزاح کے رنگوں کا لوگو بنا ہوا ہے۔ ٹیموں کی درخواست کے باوجود، فیفا نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا ان کا استعمال ورلڈ کپ کے قواعد کی خلاف ورزی ہو گی۔ ٹورنامنٹ کے دوران کھلاڑیوں کو سیاسی بیانات دینے کی ممانعت ہوتی ہے۔ ایک ماہر تعلیم اور بین الاقوامی کھیلوں کے وکیل، ڈاکٹر گریگوری لونیڈس کا خیال ہے کہ فٹ بال کی گورننگ باڈی کو ایک مشکل چیز کا سامنا ہے کہ وہ یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سب میں لکیر کہاں کھینچنی ہے۔ ’ناروے کے کھلاڑیوں نے حال ہی میں اپنی شرٹس پر ایک تحریر لکھی تھی اور پوچھا تھا کہ: ’کیا یہ ایک سیاسی بیان ہے؟‘ ’مجھے نہیں معلوم، کیا آپ میرے لیے اس کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ سیاسی بیان کیا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایسا کر سکتا ہے، اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کا فیفا اس وقت سامنا کر رہی ہے۔‘ پال امان کا خیال ہے کہ ہم جنس پرستوں کے حقوق ایک ’بنیادی سماجی مسائل ہیں، یہ سیاست کے بارے میں نہیں ہے‘ اور کھلاڑیوں کو ان کے بارے میں بولنے پر سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ٹورنامنٹ شروع ہو اور حامیوں (اور کھلاڑیوں) کو معلوم ہو کہ قوانین کو کیسے نافذ کیا گیا ہے۔ قطر میں مزدور کارکنوں کے لیے مدد ایک اور مسئلہ ہے جس کے بارے میں کچھ مہم چلانے والے صرف کھلاڑیوں کی طرف سے اس پر بات کرنے میں بہت خوش ہوں گے۔ قطر میں مزدورں کے حقوق اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کنسلٹینسی فرم ایکودم کے بانی مصطفیٰ قادری کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں فیفا کا یہ کہنا بہت غلط ہے کہ: اوہ یہ سیاسی ہے، آپ پر کسی قسم کی پابندی ہو گی۔‘ انھوں نے قطر میں مزدوروں سے بات کی ہے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے ورلڈ کپ کے لیے سٹیڈیم بنانے کے کام میں مدد کی ہے، اور پتہ چلا ہے کہ ان مزدورں سے ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے فیس وصول کی گئی ہے، انھیں اجرت حاصل کرنے میں مسائل تھے اور انھیں خطرناک حد تک زیادہ درجہ حرارت میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ چند رپورٹس کے مطابق سنہ 2010 میں قطر کی جانب سے ورلڈ کپ کی بولی جیتنے کے بعد سے 6000 سے زیادہ تارکین وطن مزدور ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم، قطری حکومت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی رپورٹ شدہ مجموعی تعداد گمراہ کن تھی، اور ورلڈ کپ سٹیڈیم کی تعمیراتی جگہوں پر مزدوروں میں 37 اموات ہوئیں، جن میں سے صرف تین ’کام سے متعلق‘ تھیں۔ قطری حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں’کفالہ‘ لیبر سپانسرشپ سسٹم جو غیر ملکی مزدوروں کو ملازمتیں تبدیل کرنے یا ملک چھوڑنے کے لیے اپنے آجر کی اجازت لینے پر مجبور کرتا تھا کا خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے۔ لیکن مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کچھ اصلاحات یقینی طور پر کچھ مزدوروں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں مگر  واضح طور پر کافی حد تک تبدیلیاں نہیں گئی ہیں۔‘ ہم جنس پرستوں اور مزدوروں کے حقوق پر ہونے والی تنقید سے بہت سے لوگوں کی طرف سے فیفا کے قطر کو ٹورنامنٹ کی میزبانی دینے کے فیصلے پر سوال اٹھانے کا باعث بنا ہے۔ اس سارے عمل کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور سنہ 2015 میں سوئس پراسیکوٹرز اور امریکہ محکمہ انصاف کی جانب سے اس پر دو تحقیقات بھی شروع کی گئی تھیں۔ قطر نے ہمیشہ کسی غلط کام کرنے کی تردید کی ہے، اور سنہ 2017 میں فیفا نے اپنی تحقیقات کے تحت بولی کو شفاف قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کے حامیوں نے مشورہ دیا ہے کہ کھیل کے ذریعے ممالک کو کھلنے اور تبدیلی لانے میں مدد کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن مصطفی کے خیال میں اس نے ’موجودہ انسانی حقوق کے مسائل پر زیادہ روشنی ڈالی ہے اور اس موقع کا اتنا استعمال نہیں کیا گیا۔ جتنا کیا جا سکتا تھا۔‘ ڈاکٹر گریگوری لونیڈس کا کہنا ہے کہ فیفا کی جانب سے قطر کو ٹورنامنٹ سے نوازنے کی ایک وجہ تبدیلی کو فروغ دینے کی کوشش کرنا ہے۔ ’وہ اس کے ذریعے ملکی معاشرہ میں ’شمولیت` کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ اور اگر آپ اس ملک کو دنیا کے لیے کھول دیتے ہیں تو آپ اس ملک کو انفرادی آزادیوں وغیرہ کے معاملے میں مختلف نقطہ نظر اختیار کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔‘ لیکن ہم جنس پرستوں اور مزدوروں کے حقوق پر مسلسل بحث اور تنقید نے بہت سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ فیفا نے غلط فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے قطر میں پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے آنے والے مزدوروں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ قطر کرین حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی: ’چھٹی ملنا مشکل ہے، فٹبال ورلڈ کپ کے بعد آنے کی کوشش کروں گا‘ ورلڈ کپ 2022: قطر میں ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ اتنا متنازع کیوں؟ فٹبال ورلڈ کپ: قطر میں مزدوروں کو واجبات نہیں ملے ایک شعبہ جہاں فیفا نے بین الاقوامی سطح پر زیادہ تعریفیں  سمیٹی ہیں وہ ہے کوالیفکیشن کے مراحل کے دوران روس کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کا فیصلہ۔ اگرچہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ ممالک کو میدان کے قواعد کی خلاف ورزی یا انتظامی خلاف ورزیوں پر معطل کیا جائے، یہ بہت زیادہ غیر معمولی بات ہے کہ کسی ٹیم کو فٹ بال سے متعلق جرم سے ہٹ کر ٹورنامنٹ کھیلنے سے روک دیا جائے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد صرف جرمنی اور جاپان، اور نسل پرستی کے دور میں جنوبی افریقہ کو اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر لونیڈس کہتے ہیں کہ ’فیفا سیاسی بیانات کو کھیل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن فیفا خود ایک سیاسی تنظیم ہے۔ اور لامحالہ فیفا کو سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔‘ روس کو ٹورنامنٹ سے نکالنے کا فیصلہ بالآخر اس وقت ہوا جب اس کے پلے آف مرحلے میں شامل دیگر ممالک، پولینڈ، جمہوریہ چیک اور سویڈن  نے یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج میں روسی ٹیم کے خلاف کھیلنے سے انکار کردیا۔ ڈاکٹر لوینڈس کا مزید کہنا ہے کہ اگر فیفا ایسا کرنے میں ناکام رہتا تو شاید دوسرے شریک ممالک سے انقلاب کا خطرہ تھا۔‘ تمام تر عالمی ردعمل کے باوجود قطر کے امیر، تمیم بن حمد الثانی نے اپنے ملک کی جانب سے ورلڈ کپ کی میزبانی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ’اب کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ امتیازی سلوک کا شکار ہے، اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اس طرح کے امتیازی سلوک، زیادہ تر اس بات پر مبنی ہے کہ لوگ ہمیں نہیں جانتے، اور بعض صورتوں میں، ہمیں جاننے سے انکار کرتے ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جب مختلف براعظموں میں دوسرے ممالک کی جانب سے کھیلوں کے میگا ایونٹ کی میزبانی کی گئی تھی تو لوگوں نے ’اس تیزی سے حملے نہیں کیے جس تیزی سے ہم پر حملے  کیے گئے ہیں، اور یہ کہ انھیں قطر کی جانب سے کی جانے والی ’ترقی اصلاحات اور پیش رفت پر فخر ہے۔‘لیکن ٹورنامنٹ کے قریب آتے ہی کھیل کے میدان سے اور اس سے باہر احتجاج اور تنازعات جاری رہنے کا امکان ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ورلڈ کپ فٹ بال کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر سرخیوں میں آتا رہے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/crgzre11gk0o
’ایسی فضول باتیں نہیں کرنی چاہیے‘ شامی کے طنز پر شاہد آفریدی ناراض
انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کی شکست ایک بار پھر انڈین اور پاکستانی شائقین کو آمنے سامنے لے آئی ہے اور کرکٹرز بھی اس معاملے میں کچھ پیچھے نہیں۔ جب انڈیا سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف دس وکٹوں سے ہارا تو اس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان فائنل کی تمام خواہشات کو دفن کر دیا۔ بہت سے پاکستانی شائقین نے انڈیا کی سست ٹاپ آرڈر بیٹنگ اور خراب بولنگ پر طنز کیا تھا مگر اب پاکستان کی شکست کے بعد انڈین شائقین کو بھی جوابی وار کا اچھا موقع ملا۔ لیکن اس دوران بہت سے انڈین اور پاکستانی شائقین ایسے بھی تھے جنھوں نے حریف ٹیم کے کرکٹرز کو داد دی اور ان کی صلاحیتوں کا دفاع کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 سابق پاکستانی فاسٹ بولر شعیب اختر نے ٹوئٹر پر جہاں انگلینڈ کو ان کی جیت پر مبارکباد دی تو وہیں پاکستانی بولرز کو سراہا اور کہا ’دل دکھا ہے، ٹوٹا نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ شاہین شاہ کا ان فٹ ہونا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ ’بین سٹوکس نے 2016 میں چھکے کھا کر میچ ہروایا تھا اور آج 2022 میں انھیں اپنی محنت کا صلہ مل گیا۔ کوئی بات نہیں پاکستان، میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں، آپ نے بہت اچھا کھیلا۔ میں مایوس ہوں لیکن کوئی بات نہیں۔ انشا اللہ انڈیا میں ورلڈ کپ اٹھائیں گے۔‘ اس سے قبل انھوں نے ایک ٹویٹ میں ٹوٹے دل کا ایموجی بنایا تو اس پر انڈین فاسٹ بولر محمد شامی نے لکھا ’سوری بھائی، اسے کرما کہتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 مگر شعیب اخبر اس جواب پر خوش نہ ہوئے اور انھوں نے انڈین کرکٹ تجزیہ کار ہرشا بھوگلے کی ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’اسے کہتے ہیں سمجھداری والا جواب۔‘ ہرشا نے کہا تھا کہ ’پاکستان کو کریڈٹ جاتا ہے۔ بہت کم ٹیمیں 137 رنز کا دفاع اس انداز میں کر پاتیں جیسے انھوں نے کیا۔ یہ بہترین بولنگ ٹیم ہے۔‘ خیال رہے کہ انڈیا کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے نکلنے پر شعیب اختر نے کہا تھا کہ ’کنفیوزنگ سلیکشن کے ساتھ شامی کو اٹھا کر لے آئے، اچھے فاسٹ بولر ہیں مگر بنتا نہیں تھا۔‘ ادھر مریم نامی ایک صارف نے شامی کو مشورہ دیا کہ انھیں اپنے ملک کے لیجنڈ سچن تندولکر سے کچھ سیکھنا چاہیے جنھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’فائنل میں کانٹے کا مقابلہ ہوا اور آفریدی انجرڈ نہ ہوتے تو یہ مزید دلچسپ ہوتا۔‘ اسی طرح بعض پاکستانی شائقین نے رضوان کے اس ٹویٹ کا حوالہ دیا جس میں گذشتہ سال انھوں نے شامی کی تصویر لگاتے ہوئے ان کے دفاع میں لکھا تھا کہ ’شامی ایک سٹار ہیں اور دنیا کے بہترین بولرز میں سے ایک ہیں۔ مہربانی فرما کر اپنے سٹارز کی قدر کریں۔ یہ کھیل لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے، نہ کہ انھیں تقسیم کرتا ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے پاکستانی فینز کےعرفان پٹھان سے چُن چُن کر بدلے محمد شامی کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر ورات کوہلی کا جواب انڈین ٹیم کو درپیش وہ پانچ بڑے مسائل جو اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لے ڈوبے ایک ٹاک شو میں شامی کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے سابق پاکستانی کپتان شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ہم کرکٹر رول ماڈل ہوتے ہیں۔۔۔ ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جس سے لوگوں کے بیچ نفرتیں پھیلیں۔ ’ہمیں اس تعلق کو بڑھانا چاہیے۔۔۔ اس طرح کی فضول باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ آپ ابھی ٹیم سے کھیل رہے ہو تو اس سے پرہیز کرو۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 پاکستان اور انڈیا کے دیگر سابق کرکٹرز نے بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ کی فتح پر تبصرے کیے ہیں۔ سابق انڈین بیٹر محمد کیف پوچھتے ہیں کہ ’پاکستان اور انگلینڈ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی دو بہترین ٹیمیں تھیں یا سب سے خوش نصیب؟‘ ایک دوسرے ٹویٹ میں انھوں نے کہا ’پاکستان صرف بولنگ سے کپ نہیں جیت سکتا۔ انڈیا صرف بیٹنگ سے کپ نہیں جیت سکتا۔ انگلینڈ کے پاس بیٹرز، سپنرز، پیسرز، فیلڈرز اور قسمت ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 سابق انڈین بولر عرفان پٹھان نے پاکستان پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’انگلینڈ کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں گریس فُل فتح رہی ہے۔‘ اس کے جواب میں وجیہہ نامی صارف نے کہا کہ ’کم از کم ہم پاکستانیوں کو فخر ہے کہ ہم آپ کی طرح (170/0) کے سکور سے نہیں ہارے۔ آپ کو مزید گریس فُل ہونے کی ضرورت ہے۔‘ سابق پاکستانی اوپنر عمران نذیر اور انڈین کھلاڑی وسیم جعفر کے درمیان بھی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ عمران نذیر نے وسیم کو سمجھایا کہ ’ایک سمجھدار انسان (جولیئس سیزر) نے کہا تھا کہ موت کے خوف سے زیادہ مجھے اپنی عزت پیاری ہے۔‘ دریں اثنا آگاش چوپڑا کے مطابق ’شاہین کی انجری سے سب ختم ہوگیا۔ گیم اوور۔‘ کوشک نے کہا کہ ’پاکستان نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے 138 کے ہدف کو 170 بنایا۔ اگر شاہین کی انجری نہ ہوتی تو مقابلہ اور بھی سخت ہوتا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp6j8drnjj6o
فارمولہ کرکٹ پاکستان کو مہنگی پڑ گئی: سمیع چوہدری کا کالم
دنیا بھر کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ایک طے شدہ روٹین کے تحت چلتی ہے۔ بیٹنگ سائیڈ پاور پلے میں دائرے کے اندر فیلڈنگ کا فائدہ اٹھاتی ہے، مڈل اوورز میں اننگز کو مستحکم کیا جاتا ہے اور ڈیتھ اوورز میں کشتیاں جلا دی جاتی ہیں کہ بڑے سے بڑا ہدف تشکیل دیا جا سکے۔ یہ فارمولہ لگ بھگ پوری دنیا میں اسی طرح سے چلتا ہے اور اکثر کنڈیشنز میں بار آور بھی ثابت ہوتا ہے۔ مگر میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کی جیومیٹری اس فارمولے کے برعکس ہے اور یہاں کسی بھی بیٹنگ ٹیم کے لیے یہ اپروچ تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی۔ جو پلیٹ فارم پاکستانی ٹاپ آرڈر نے ترتیب دیا تھا، وہاں سے بآسانی مجموعہ 165 رنز تک دھکیلا جا سکتا تھا بشرطیکہ حواس مجتمع رکھے جاتے اور وسیع و عریض گراؤنڈ میں اندھا دھند بلا چلانے کی بجائے وہ دانشمندانہ کرکٹ کھیلی جاتی جو شان مسعود نے کھیلی۔ شان مسعود کی اننگز اس گراؤنڈ کی جیومیٹری کے عین مطابق تھی۔ انھوں نے باؤنڈریز پر غیر ضروری توجہ کھپانے کی بجائے فیلڈ کی گہری پاکٹس کا استعمال کیا اور وکٹوں کے بیچ دوڑ دوڑ کر سکور بورڈ کو ایسی تقویت بخشی کہ بٹلر بارہا سر جھٹکتے نظر آئے۔ اس پچ پر یہ نہایت ضروری تھا کہ شان مسعود، بابر یا رضوان میں سے کوئی ایک عین آخر تک کریز پر موجود رہتا اور دوسرے اینڈ سے جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ شان نے بہت اچھا کھیلا مگر یہاں انھیں آخری گیند تک اپنی ٹیم اننگز کے ہمراہ رہنا تھا۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سیم کرّن ڈیٹتھ اوورز کے مشاق ترین بولر ہیں۔ پاکستانی تھنک ٹینک کو یقینی طور پر معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ ڈیتھ اوورز میں پچ کے اندر گیند ڈالتے ہیں اور میلبرن جیسی پچ پر انھیں اپنے قد سے کہیں زیادہ باؤنس ملنے والا تھا جس کے خلاف اونچے شاٹ کھیلنا خودکشی کے مترادف تھا۔ اگر پاکستانی تھنک ٹینک کی یہاں پلاننگ یہ تھی کہ حالات و واقعات سے قطع نظر ڈیتھ اوورز میں صرف باؤنڈریز کا پیچھا کرنا ہے تو یہ بے حد ناقص ثابت ہوئی۔ شان مسعود نے جو پیمانہ مقرر کیا تھا، اگر آخری اوور تک اسی کی پیروی کی جاتی تو یہ ٹرافی پاکستان سے بہت دور نہیں تھی۔ بابر اعظم کو اپنی قیادت کے انداز میں بھی اب کچھ انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ابھی تک وہ ایک ایسے کپتان کے طور پر ابھرے ہیں جو ڈریسنگ روم سے ایک طے شدہ سوچ لے کر نکلتا ہے اور گراؤنڈ میں حالات کے جبر کے باوجود اپنے فارمولے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ پاکستانی بولنگ سے یہاں کوئی بھی گلہ ناقابلِ جواز ہو گا کہ اس کم مارجن کے میچ کو بھی کھینچ تان کر نہ صرف آخر تک لے گئی بلکہ مڈل اوورز میں پاکستان کی بالادستی بھی برقرار رکھی۔ مگر بابر اعظم سے بہت بڑی تزویراتی غلطی یہ ہوئی کہ نسیم شاہ کو پہلے اوور میں بٹلر کے سامنے مہنگا ثابت ہونے کے باوجود پاور پلے میں دوبارہ اوور دے دیا گیا اور پاور پلے میں میچ کا توازن بگڑ گیا۔ پاکستان کی بیٹنگ کے دوران بھی بابر سے ایسی ہی غلطیاں سرزد ہوئیں اور پڑھی لکھی ترتیب کے مطابق افتخار احمد کو پانچویں نمبر پہ بھیج دیا گیا حالانکہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ وہاں عادل رشید کی لیگ سپن کے خلاف محمد نواز بہت موثر ثابت ہو سکتے تھے اور افتخار احمد بعد ازاں ڈیتھ اوورز میں پیس کے خلاف اپنا تاثر قائم کر سکتے تھے۔ بعینہ شاہین آفریدی کو بیٹنگ آرڈر میں نیچے دھکیل کر محمد وسیم کو اوپر بھیج دیا گیا۔ حالانکہ انڈیا کے خلاف اسی پچ پر شاہین آفریدی کے رنز ہی تھے جو پاکستانی مجموعے کو اس قابل کر پائے تھے کہ میچ آخری اوور تک زندہ رہا۔ پاکستان کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ شاہین آفریدی عین ضرورت کے وقت انجرڈ ہو گئے۔ ان کے دو اوورز اگر وہاں انگلش بیٹنگ میں کوئی دراڑ ڈال جاتے تو پہلے سے ہی دباؤ میں سہمی انگلش اننگز مدافعت پر مجبور ہو جاتی اور پاکستان کوئی معجزہ برپا کر پاتا۔ لیکن حتمی حقیقت یہی ہے کہ اگر پاکستانی بیٹنگ اننگز کے آخری لمحات میں اپنے حواس مجتمع رکھ پاتی اور فارمولہ کرکٹ کی بجائے میلبرن کی پچ کے تقاضے نبھا جاتی تو پاکستان کی ٹی ٹونٹی کرکٹ کا ایک نیا باب شروع ہو سکتا تھا لیکن انگلینڈ کی ڈیتھ بولنگ اور پاکستان کی فارمولہ بیٹنگ نے ون ڈے چیمپئنز کو ہی ٹی ٹونٹی کا تاج بھی ہدیہ کر ڈالا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce728lkx907o
’سب کچھ 92 والا تھا، بس وسیم اکرم کی دو گیندیں نہیں ہوئیں‘
ٹی ٹونٹی ورلڈ کے فائنل سے قبل 1992 کے ورلڈ کپ سے مماثلت کے انبار لگے لیکن اگر کچھ ویسا نہیں ہوا تو وہ فائنل کا حتمی نتیجہ تھا جو اس بار انگلینڈ کے حق میں آیا۔ پاکستان کی اننگز کا آغاز تو تقریبا ویسا ہی تھا جیسا کہ 92 میں تھا یعنی ابتدائی بلے باز کچھ جم کر نہیں کھیل سکے۔ یہ پچ کا اثر تھا، انگلیڈ کی باؤلنگ کا کمال یا پھر بڑے میچ کا دباؤ، بابر اعظم اور رضوان اپنا روایتی کھیل پیش نہیں کر سکے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے ایک بار پھر توپوں کا رُخ اوپننگ جوڑی کی جانب موڑ دیا۔ تاہم ایسے صارفین بھی تھے جن کا خیال تھا کہ پچ کو دیکھتے ہوئے اوپنرز نے سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ معظم رئیس نے لکھا کہ ’بال بلے پر نہیں آ رہا، پچ بہت سخت ہے، آوٹ فیلڈ بہت سلو، ایسے میں بڑے سٹروکس کے بجائے 2-3 سے کام لینا چاہیے جو بابر اعظم بخوبی کر رے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 لیکن یہ سمجھ داری زیادہ دیر نہیں چل سکی۔ پانچویں اوور میں رضوان آوٹ ہوئے تو حارث، بابر اعظم اور افتخار بھی یکے بعد دیگرے پولین لوٹ گئے۔ ایسے میں شان مسعود اور شاداب خان نے کسی حد تک بہتر بلے بازی کی۔ طہہ سجاد نے لکھا کہ ’انگلش بولرز نے چانس دیے لیکن شان مسعود کے سوا کوئی اور بلے باز پچ کو سمجھ نہیں سکا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 انگلینڈ کی بہترین بولنگ کے باعث پاکستان صرف 137 رن بنا پایا تو پاکستانی شائقین مایوس نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’ٹوٹل کم از کم بیس رن کم ہے۔ کیا اب ہم سو جائیں؟‘ اس کے باوجود کئی صارفین کی امیدیں پاکستان کے باؤلنگ اٹیک سے جڑی تھیں۔ تاہم ایک اور صارف نے یاد دلایا کہ ’انگلینڈ کا سکواڈ دیکھ لو، جواب مل جائے گا، آوٹ کر کر تھک جائیں گے لیکن بیٹنگ ختم نہیں ہو گی۔‘ انڈیا کے خلاف انگلینڈ اوپنرز کی تباہ کن بیٹنگ کی یاد بھی تازہ تھی تو پاکستانی صارفین آسمان کی جانب دیکھنے لگے۔ شمس مہر نے لکھا کہ ’بارش، طوفان، سیلاب، زلزلے اور تیسری جنگ عظیم چھڑنے کی امید کرتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 یہ امید تو پوری نہیں ہوئی لیکن پاکستان کی جانب سے شاہین نے پہلے ہی اوور میں ایلکس ہیلز کو بے بسی کی تصویر بنا کر پولین بھیجا تو صارفین کی امیدیں پھر جوان ہو گئیں۔ چوتھے اور چھٹے اوور میں حارث روف نے پہلے فل سالٹ اور پھر انگلینڈ کپتان جوز بٹلر کو آوٹ کیا تو میچ دلچسپ ہو گیا۔ انڈین صارفین نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ میچ کا نتیجہ جو بھی ہو، پاکستان نے بہترین بولنگ کی۔ انڈین صحافی ایوناش نے لکھا کہ ’حارث تو آگ اگل رہے ہیں۔ پڑوسیوں امید نہ چھوڑو۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک جانب سے حارث تو دوسری جانب سے نسیم شاہ نے بہترین گیند بازی شروع کی۔ ولید بٹ نے لکھا کہ ’ٹھپا پڑتے ہی گیند غائب ہو رہی ہے۔‘ اس بہترین گیند بازی کے نتیجے میں امید تو بندھی لیکن وکٹ نہیں گر سکی۔ ایسے میں سب کو 1992 کے اس لمحے کا انتظار تھا جب وسیم اکرم نے دو گیندوں پر انگلینڈ کے دو بلے بازوں کو بولڈ کیا اور پاکستان کو میچ میں واپس لائے۔ اسد حسین نے لکھا کہ ’دو گیندوں کی ضرورت ہے جو وسیم اکرم نے کی تھیں بس اب وہ ہی بچا سکتی ہیں پاکستان کو۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 لیکن شاہین آفریدی انجری کے سبب پولین لوٹے تو بین سٹوکس اور معین علی کے سامنے افتخار گیند تھامے آئے اور میچ کا پانسہ پلٹ گیا۔ 30 گیندوں پر 41 رن کا ہدف اس اوور کے خاتمے پر 24 گیندوں پر 28 رن رہ چکا تھا۔ محمد وسیم کے اگلے اوور میں رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی اور تین چوکے لگے تو تین اوور میں 12 رن باقی رہ گئے تھے۔ 19ویں اوور کی آخری گیند پر انگلینڈ کے بین سٹوکس نے وننگ رن سکور کیے تو پاکستانی صارفین نے اس بات سے خود کو سہارا دیا کہ کم از کم ٹیم نے میچ میں کم سکور کے باوجود پوری جان لڑائی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp0v8pl2jrgo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: آسٹریلوی نژاد پاکستانی فینز کی تیاریاں
آج ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 کا فائنل پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان میلبرن میں کھیلا جائے گا اور آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی نژاد فینز کی خوشی دیدنی ہے۔ اس ویڈیو میں ایسے ہی کچھ فینز کی تیاریاں دیکھیے۔۔۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cmm52e63mppo
پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: سٹے بازی کی دنیا میں میچ سے قبل کون فیورٹ ہے؟
کرکٹ کا کوئی بھی میچ ہو، آپ گھر پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں یا گراؤنڈ میں، پیشگوئیاں ہر کوئی کرتا ہے۔ ’اس گیند پر آؤٹ ہو جائے گا‘، ٹارگٹ اتنے سکور سے زیادہ نہیں جائے گا‘ وغیرہ۔ تاہم اگر آپ کو اپنی پیشگوئیوں پر اتنا یقین ہو کہ آپ ان پر پیسے لگانے کے لیے بھی تیار ہو جائیں تو یہ سٹے بازی یعنی ’بیٹنگ‘ ہوتی ہے۔ کھیلوں میں سٹے بازی برسوں سے چلتی آ رہی ہے اور جہاں پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک میں یہ غیر قانونی ہے وہیں آسٹریلیا، انگلینڈ وغیرہ میں یہ ایک عام سی بات ہے۔ انگلینڈ اور پاکستان کے فائنل میچ سے قبل اس وقت سوشل میڈیا پر تبصروں کی بھرمار ہے۔ یہاں میلبرن میں بھی اکثر پاکستانی فینز پاکستان ٹیم کی جیت کے بارے میں پرجوش تو ہیں، لیکن انگلینڈ کی مضبوط بیٹنگ کی تعریف کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ تاہم ایک رائے ان لوگوں کی بھی ہے جو میچ سے قبل اس سے متعلق پیسہ لگاتے ہیں اور میلبرن میں ایسے ہی لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ہم نے یہاں موجود ایک سپورٹس بار کا رخ کیا۔ یہاں میلبرن میں یوں تو ہر کھیل پر ہی سٹہ لگتا ہے لیکن یہاں گھوڑوں کی ریس کا سالانہ ایونٹ میلبرن کپ اس بارے میں خاصا مقبول ہے تاہم یہاں سپورٹس شاپس کا رواج کوئی خاص مقبول نہیں بلکہ عام طور پر لوگ موبائل ایپس کے ذریعے بیٹ کرتے ہیں۔ ہم جس سپورٹس بار میں گئے وہ شہر کے وسط میں واقع تھا لیکن سنیچر کو شام کے وقت خالی ہو چکا تھا۔ اس بڑے سے ہال میں دو مشینیں نصب تھیں اور ان مشینوں کے ذریعے ہی ہمیں کل کے میچ میں سٹے بازی سے متعلق ’ریٹ‘ پتا چلنے تھے۔ اے ٹی ایم نما ان میشنوں میں پاکستان اور انگلینڈ کے میچ سے متعلق سٹہ لگانے کے متعدد آپشنز موجود تھے۔ اس وقت انگلینڈ سٹے بازوں کی رائے میں فائنل کے لیے فیورٹ ہے۔ سنیچر کی بیٹنگ مارکیٹ کے مطابق انگلینڈ کے ’آڈز‘ 1.58 ہیں جبکہ پاکستان کے 2.4۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ پاکستان پر 100 ڈالرز خرچ کریں گے تو آپ کو پاکستان کی جیت کی صورت میں 240 ڈالر ملیں گے لیکن اگر انگلینڈ کی جیت پر 100 ڈالرز لگائیں گے تو آپ کو بدلے میں 158 ڈالرز ملیں گے۔ یعنی جو ٹیم میچ سے پہلے فیورٹ ہوتی ہے اس کے آڈز کم ہوتے ہیں کیونکہ اس پر رقم لگانے کی صورت میں رقم ضائع ہونے کا خطرہ بظاہر کم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ ہفتے جنوبی افریقہ اور نیدرلینڈز کے میچ سے قبل جنوبی افریقہ کے آڈز کم اور نیدرلینڈز کے زیادہ تھے کیونکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم فیورٹ تھی۔ انگلینڈ کے میچ سے قبل فیورٹ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میلبرن میں ہی مقیم ایک سٹے باز نے ہمیں بتایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ کنڈیشنز ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’انگلش ٹیم ان کنڈیشنز کو جنوبی ایشیائی ٹیموں سے بہتر سمجھتی ہے، اگر یہی میچ ایشیا میں ہوتا تو پاکستان کو برتری حاصل ہوتی۔ ’حالیہ فارم کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، انگلینڈ نے جس طرح سے انڈیا کو شکست دی وہ بھی بکیز کو انگلینڈ پر زیادہ پیسے لگانے کی طرف مائل کر سکتا ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟ ’ویلکم ٹو پاکستان کرکٹ، کسی بھی دن کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ فائنل کے ٹکٹ بیچنے کے منتظر انڈین فینز اور پریکٹس سیشن میں محمد حارث پر سب کی نظریں اس سپورٹس بار میں موجود مشینیں آرکیڈ گیمز کی طرح تھیں جن میں ٹاس سے لے کر بہترین کھلاڑی اور پہلے چھ اوورز میں کتنے رنز بنیں گے تک مختلف چیزوں پر سٹہ لگایا جا سکتا تھا۔ انگلینڈ اور پاکستان کے اوپنرز کے آڈز بتاتے ہیں کہ ان سے سکور کرنے کی امید سب سے زیادہ ہے۔ جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز نے انڈیا کے خلاف ناقابلِ تسخیر شراکت جوڑی تھی جبکہ دوسری جانب نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں بابر اور رضوان نے نصف سنچریاں سکور کی تھیں۔ حیران کن طور پر اس ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افتخار احمد کے آڈز آٹھ اعشاریہ پانچ ہیں۔ یعنی 100 ڈالر لگانے پر ان کے سکور کرنے کی صورت میں 850 ڈالر وصول ہوں گے۔ بولنگ کی بات کی جائے تو سیم کرن اور مارک وڈ کے آڈز کم ہیں اور ان سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کی امید کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی بولرز کے آڈز میں زیادہ فرق نہیں اور شاید اس کی وجہ ان تمام بولرز کی اب تک ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی ہے۔ شاہین آفریدی کے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کے آڈز سب سے کم 3.6 ہیں جبکہ گذشتہ چند میچوں سے خاموشی سے اچھی بولنگ کروانے والے نسیم شاہ کے آڈز 5.5 ہیں۔ خیال رہے کہ سٹے بازی پاکستان میں ایک غیر قانونی عمل ہے لیکن پاکستان میں بھی اس کی غیر رسمی مارکیٹ موجود ہے جسے ایک پاکستانی سٹے باز نے ’اعتبار‘ کی بنیاد پر چلنے والی مارکیٹ قرار دیا۔ شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پاکستانی سٹے باز نے بتایا کہ ’حالانکہ یہاں پر اکثر بیٹنگ ایپس پر پابندی ہے لیکن پھر بھی کچھ ایپس اب بھی یہاں فعال ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کسی بھی جاننے والے بک میکر سے بات کر کے بھی سٹہ لگا سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اگر مقامی طور پر پیسے کا لین دین ہو رہا ہو تو ایسے میں تو کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے ’لیکن مسئلہ پیسے انٹرنیشنل بھجواتے ہوئے ہوتا ہے اور یہاں غیر قانونی طریقے کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بک کوئی بھی کھول سکتا ہے، اس شعبے میں موجود افراد کو پتا ہوتا ہے کہ کون معتبر ہے لیکن پھر بھی اگر آپ پیسے لے کر بھاگ جائیں تو آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہے تو یہ غیر قانونی عمل ہی۔‘ آسٹریلیا اور پاکستان دونوں میں ہی موجود سٹے باز اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عام طور پر میچ کے دوران سٹے بازی کا بازار صحیح معنوں میں گرم ہوتا ہے اور اس دوران ہی لوگوں کے پاس سب سے زیادہ پیسے لگانے کے آپشنز ہوتے ہیں۔ پاکستان کے انگلینڈ کے خلاف میچ میں بھی صورتحال ایسی ہی ہو گی لیکن شائقین کی طرح سٹے باز بھی چاہیں گے کہ میلبرن میں جو بھی جیتے مگر میچ بارش کے باعث منسوخ نہ ہو۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp0v8j804v4o
نہ یہ پچ ایڈیلیڈ کی ہے نہ یہ پیس اٹیک انڈیا کا، سمیع چوہدری کا کالم
تاریخ اس وقت بابر اعظم کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے ایک نیا باب کھلنے کو ہے اور اگر بابر اعظم اس امتحان میں سرخرو ہوتے ہیں تو یہ بطور کپتان ان کے ایک نئے عہد کا آغاز ہو گا۔ اپنے بلے سے وہ پاکستان کے لیے کئی یادگار فتوحات رقم کر چکے ہیں۔ اب اُنھیں عیاں کرنا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے بھی اس ٹیم کے مستقبل کو سینچ سکتے ہیں اور ایک ایسے کرکٹ کلچر کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو بجا طور پر چیمپیئن برانڈ کہلانے کا مستحق ہو۔ اگرچہ میتھیو ہیڈن کا کہنا ہے کہ فی الوقت جو مومینٹم پاکستان کو حاصل ہے، کوئی بھی ٹیم اس کا بوجھ سہارنے سے گریز ہی کرے گی مگر حقائق کی دنیا ابھی بھی اس حقیقت کو پوری طرح سے ہضم نہیں کر پائی کہ زمبابوے سے ہارنے والی ٹیم واقعی فائنل تک پہنچ چکی ہے۔ ادھر بٹلر کی ٹیم بھی ایک ایسا ہی جھٹکا آئرلینڈ کے ہاتھوں سہہ چکی ہے مگر اس کے باوجود حالات سے نبرد آزما ہو کر سیمی فائنل تک پہنچی اور شاہانہ انداز میں روہت شرما کی امیدوں کے سبھی چراغ گُل کیے۔ انگلش ٹیم ماڈرن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی سرخیل ہے۔ ایڈیلیڈ میں جو وحشت بٹلر اور ہیلز کی تباہ کاری نے انڈین اٹیک پر طاری کی، وہ کسی بھی بولنگ اٹیک کی نیندیں اڑانے کو کافی تھی اور بابر اعظم بھی یقیناً اپنی تمام تر توجہ اسی پہلو پر مرکوز کیے ہوئے ہوں گے کہ اُنھیں انگلش بیٹنگ لائن کا ڈنک کیسے نکالنا ہے اور سکور بورڈ کو 150 کے لگ بھگ کیسے محدود کرنا ہے۔ یہ بھی پڑھیے رمیز راجہ نے عمران خان کی 92 ورلڈ کپ والی تقریر دہرا دی بارش کے خدشے کے باعث ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کے قواعد میں ردوبدل یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟ ایسا نہیں کہ بابر کو وہ وسائل میسر نہیں جو کسی طوفانی بیٹنگ لائن کے آگے بند باندھ سکیں۔ میلبرن اگرچہ عموماً اس قدر باؤنسی پچ نہیں ہوتی مگر رواں سیزن کی بارشوں نے اس پچ کا مزاج کچھ یوں سا کر دیا ہے کہ شاہین شاہ، نسیم شاہ، حارث رؤف اور محمد وسیم کل بولنگ کے لیے بے قرار ہوں گے۔ شاہین شاہ نے انجری کے بعد اپنی بہترین فارم میں آتے آتے کچھ وقت ضرور لیا مگر اس کے بعد ان کی کارکردگی بالکل پیسہ وصول رہی ہے۔ وہ نئی گیند کے ساتھ اِن سوئنگ بھی ویسی ہی مہارت سے کر رہے ہیں جیسے انجری سے پہلے ان کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ میلبرن کی کنڈیشنز کو ملحوظ رکھتے ہوئے توقع کی جا سکتی ہے کہ بابر چاروں پیسرز کا کوٹہ مکمل کروائیں گے اور سپنرز کا کردار محدود رہے گا۔ پاکستانی پیس اٹیک کو یہ بھی ملحوظ رہے گا کہ انگلینڈ کا مڈل آرڈر اس ٹورنامنٹ میں پوری طرح آشکار نہیں ہوا۔ نیوزی لینڈ ہی کی طرح انگلینڈ کی فتوحات میں بھی کلیدی کردار ٹاپ آرڈر بیٹنگ کا رہا ہے اور پاکستانی بولنگ ایسے ٹاپ آرڈر میں نقب لگانے کے گُر جانتی ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پاور پلے میں جو بولنگ پاکستانی پیسرز نے کی، وہ کسی کوچنگ کلاس سے کم نہیں تھی۔ میلبرن میں بھی پاکستان کو وہی کارکردگی دہرانی ہو گی۔ انگلش بیٹنگ کو یہاں صرف پاکستانی پیس کا ہی چیلنج درپیش نہیں ہو گا، یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ یہ پچ ایڈیلیڈ کی پچ نہیں اور یہ پیس اٹیک انڈیا کا نہیں بلکہ یہ بابر کے وہ چار پیسرز ہیں جو پے در پے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اس فائنل میں بلاشبہ اپنی بولنگ کے بل پر پہنچا ہے اور آسٹریلین کنڈیشنز کا تقاضہ بھی یہی تھا۔ بابر اعظم کی ٹیم نے ان پچز کا تقاضہ نبھایا ہے اور اب ان کی آخری کاوش یہاں میلبرن میں ہو گی جہاں اُنھیں ایک بار پھر یہ دکھانا ہو گا کہ حرفوں کے ہیر پھیر سے ماورا یہ واقعتاً دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp3k85dv8mlo
جب ماجد خان نے کرکٹ آسٹریلیا کو فون کیا کہ ’میرا یادگار بیٹ کہاں ہے؟‘
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچوں کی کمنٹری کے لیے آسٹریلیا آئے تو ’اُنھیں اُس تاریخی کرکٹ بیٹ کی تلاش تھی جس سے ان کے والد اور اپنے دور کے مایہ ناز بیٹسمین ماجد خان نے ٹیسٹ میچ میں کھانے کے وقفے سے قبل سنچری بنائی تھی۔ بازید خان بی بی سی کو بتاتے ہیں ’میں جب پاکستان اور انڈیا کے میچ کی کمنٹری کے لیے میلبرن آیا تو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں واقع میوزیم میں گیا جہاں یہ بیٹ رکھا گیا تھا لیکن مجھے وہ بیٹ نظر نہیں آیا جس پر میں نے  والد سے بات کی۔ ’اُنھوں نے کرکٹ آسٹریلیا کو فون کیا اور اس بیٹ کے بارے میں استفسار کیا کہ یہ کہاں گیا؟‘ بازید خان کہتے ہیں ’والد صاحب کے فون کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے اس بیٹ کے بارے میں پتہ چلایا تو معلوم ہوا کہ وہ اسی میلبرن میوزیم کے نیچے واقع سٹوریج میں محفوظ ہے۔‘ ’دراصل اس میوزیم میں رکھی گئی کوئی چیز خراب ہونے لگتی ہے تو اسے مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے سٹوریج میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں کنٹرولڈ درجہ حرارت ہوتا ہے اور چیزیں خراب نہیں ہوتیں۔ اس بیٹ کی گرپ تھوڑی  خراب ہونے لگی تھی لہٰذا اسے بھی میوزیم سے ہٹا کر سٹوریج میں محفوظ کر دیا گیا۔‘ ان کے مطابق ’آسٹریلوی میوزیم میں محفوظ یادگار اشیا کے بارے میں مجھے یہ بتایا گیا کہ وہ کسی بھی چیز کو اس کی اصل شکل میں رکھتے ہیں۔ ’اس بیٹ کی گرپ اگرچہ معمولی خراب ہوئی ہے لیکن اس پر مزید گرپ نہیں چڑھائی جائے گی اور نہ ہی اسے ٹھیک کیا جائے گا۔ یہ بیٹ اب سٹوریج میں ہی رہے گا لیکن ہماری فیملی کا کوئی بھی فرد یہاں آتا ہے تو وہ اسے ضرور دکھائیں گے جیسے اُنھوں نے مجھے دکھایا۔‘ یہ ماجد خان کا پسندیدہ بیٹ تھا جس سے اُنھوں نے 30 اکتوبر 1976 کو نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ کے پہلے روز کھانے کے وقفے سے قبل سنچری بنائی تھی۔  نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے آسٹریلیا آئی تھی۔ وہ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پریکٹس کر رہی تھی کہ میلبرن کرکٹ کلب کے سیکریٹری، ماجد خان کے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے کہ کیا آپ اپنا یہ بیٹ ہمیں دیں گے تاکہ ہم اسے اپنے میوزیم میں رکھ سکیں۔  دراصل ماجد خان سے پہلے صرف تین بیٹسمینوں وکٹر ٹرمپر، چارلس میکارٹنی اور سر ڈان بریڈمین نے ٹیسٹ کے پہلے دن کھانے کے وقفے سے قبل سنچری سکور کی تھی اور ان تینوں کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ میلبرن کرکٹ کلب کے سیکریٹری چاہتے تھے کہ چونکہ ماجد خان یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے غیر آسٹریلوی بیٹسمین بنے تھے لہٰذا وہ اس بیٹ کو اپنے میوزیم میں رکھنا چاہتے تھے۔ آسٹریلیا کے خلاف اس سیریز میں آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈینس للی نے ماجد خان کو چیلنج کیا تھا وہ اپنے باؤنسر سے ان کے سر سے ہیٹ نیچے گرا دیں گے لیکن وہ تین ٹیسٹ میچوں میں تمام تر کوشش کے باوجود ماجد خان کا مخصوص ہیٹ  نیچے نہ گرا سکے، اس کے باوجود سیریز کے اختتام پر ماجد خان نے وہ ہیٹ ہنستے مسکراتے ڈینس للی کو تحفتاً دے دیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw4ny9w9849o
’کراچی کنگز کو اب اپنا نام صرف کراچی رکھ لینا چاہیے کیونکہ کنگ تو جا رہا ہے‘
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے نئے سیزن میں کچھ کھلاڑیوں کو ان کی ٹیموں نے ریٹین نہیں کیا جن میں سب سے بڑا نام پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا ہے۔ بابر اعظم اب پشاور زلمی کی کپتانی کریں گے جبکہ اس کے عوض کراچی کنگز کو شعیب ملک اور حیدر علی مل گئے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بھی بابر اعظم کو اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتی مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ زلمی میں اس وقت صرف بابر پلاٹینم کیٹگری کے کھلاڑی ہیں۔ جبکہ آئندہ ہونے والے ڈرافٹ میں ٹیمیں مقامی اور غیر ملکی کرکٹرز کو شامل کر سکیں گی۔ کنگز کے حیدر علی پلاٹینم جبکہ شعیب ملک، عماد وسیم اور محمد عامر ڈائمنڈ کیٹگری کے ہیں۔ دوسری طرف وہاب ریاض دوبارہ پشاور زلمی کی طرف سے کھیلیں گے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 باقی ٹیموں سے مختلف حکمت عملی اپناتے ہوئے زلمی نے صرف سات پلیئر ریٹین کیے ہیں۔ اب ڈرافٹ کے دوران ٹیمیں اپنے سکواڈ کو 18 کھلاڑیوں تک لے جا سکتی ہیں۔ ٹیموں کے پاس یہ موقع ہو گا کہ پلاٹینم، ڈائمنڈ اور گولڈ میں تین، تین کھلاڑی رکھ سکیں جبکہ سلور میں پانچ، ایمرجنگ اور سپلیمنٹری میں دو کرکٹرز حاصل کریں۔ اب تک لاہور قلندرز نے فخر زمان، راشد خان، شاہین آفریدی، حارث رؤف اور ڈیوڈ ویسے سمیت دیگر کو ریٹین کیا ہے۔ مگر محمد حفیظ اب لاہور کی ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے کپتان سرفراز احمد اور محمد نواز کو ریٹین کیا ہے مگر نسیم شاہ کو ریلیز کر دیا ہے اور وہ ڈرافٹ کا حصہ ہوں گے۔ توقع ہے کہ افتخار احمد، جیسن رائے، عمر اکمل اور ول سمیڈ بھی گلیڈی ایٹرز کی طرف ہی کھیلیں گے۔ ملتان سلطانز کی کپتانی ایک بار پھر محمد رضوان کریں گے۔ ملتان نے ٹِم ڈیوڈ، شان مسعود، رائلی روسو اور شاہنواز دھانی کو ریٹین کیا ہے جبکہ عباس آفریدی اور احسان اللہ ایمرجنگ کیٹگری میں ہوں گے۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: بارش کے خدشے کے باعث فائنل کے قواعد میں ردوبدل ’کنگ بابر، پچھلی تمام ٹویٹس کے لیے معذرت‘ انڈین ٹیم کو درپیش وہ پانچ بڑے مسائل جو اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لے ڈوبے اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 پاکستانی ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی نائب کپتان شاداب خان اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ اسلام آباد نے آصف علی، فہیم اشرف، حسن علی اور محمد وسیم کو ریٹین کیا ہے۔ جبکہ کالن منرو، پال سٹرلنگ، اعظم خان بھی اسلام آباد کی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ 493 غیر ملکی کھلاڑی پی ایس ایل ڈرافٹ کا حصہ ہوں گے جن میں انگلینڈ کے 140، افغانستان کے 43، آسٹریلیا کے 14، آئرلینڈ کے نو، زمبابوے کے 11، جنوبی افریقہ کے 25 اور ویسٹ انڈیز کے 38 کھلاڑی شامل ہیں۔ پی ایس ایل 2023 نو فروری کو شروع ہوگی جبکہ اس کا فائنل مقابلہ 19 مارچ کو کھیلا جائے گا۔ اس کے میچ لاہور،کراچی، راولپنڈی اور ملتان میں ہوں گے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 کرکٹ شائقین کا جہاں ایک طرف دھیان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل کی طرف ہے جہاں میلبرن میں انگلینڈ اور پاکستان کی ٹیمیں اتوار کو مدمقابل ہوں گی، وہیں پی ایس ایل کی ٹیموں میں تبدیلیاں بھی اُن کی نظروں سے گزر رہی ہیں اور وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہیمانشو نامی صارف تبصرہ کرتے ہیں کہ کراچی کنگز کو اب اپنا نام صرف کراچی رکھ لینا چاہیے کیونکہ ’کنگ تو جا رہا ہے۔‘ کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال نے بھی بابر اعظم کے جانے پر انھیں پیغام دیا ہے کہ بس اب کراچی کے خلاف ’کوور ڈرائیوز نہ مارنا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 ادھر کرکٹ سے متعلق ویب سائٹ کرکٹ پاکستان میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سرفراز احمد کپتانی چھوڑنے کے لیے تیار تھے اگر بابر اعظم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں آ کر اس کی کپتانی کرتے ہیں۔ افراح نامی صارف کہتی ہیں کہ اب جب بابر اعظم کراچی کنگز کو چھوڑ چکے ہیں تو اس ٹیم کو سپورٹ کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ مگر فاطمہ کہتی ہیں کہ ’کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کا میچ اب اتنا دلچسپ نہیں رہے گا کیونکہ بابر اور شاہین کے مقابلے کی ہائپ ہوا کرتی تھی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 7 دریں اثنا اسد پوچھتے ہیں کہ ورلڈ کپ فائنل سے قبل پی ایس ایل کی ٹیموں میں کھلاڑیوں کی تبدیلی کے بارے میں کیوں بتایا جا رہا ہے۔ زہرہ نے کہا ’ورلڈ کپ فائنل ہمارا اتوار کو ہے مگر ٹائم لائن دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ایس ایل شروع ہونے والا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 8 ایک انڈین صارف نے لکھا کہ اگر پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل جیت جاتا ہے تو دنیا بھر کی کرکٹ لیگز میں پی ایس ایل کی قدر مزید بڑھ جائے گی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 9
https://www.bbc.com/urdu/articles/cek29jzrplmo
فائنل کے ٹکٹ بیچنے کے منتظر انڈین فینز اور پریکٹس سیشن میں محمد حارث پر سب کی نظریں
پاکستان کا ایم سی جی کے باہر پریکٹس سیشن مکمل ہو چکا تھا، ایک آسٹریلوی شہری ہماری طرف آئے اور ہم سے پریکٹس سیشن کے بارے میں معلومات لینے لگے۔ اس سے قبل بہت سارے پاکستانی اور انڈین فینز بھی ہم سے پریکٹس کے بارے میں پوچھ چکے تھے تو ہم نے انھیں بھی یہی بتایا کہ پاکستانی ٹیم پریکٹس کر کے جا چکی ہے۔ جاتے جاتے انھوں نے کہا کہ ’آپ لوگوں نے انگلینڈ کو ضرور ہرانا ہے۔‘ ان کی یہ بات سُن کر احساس ہوا کہ اتوار کو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں جب پاکستان کی ٹیم فائنل کے لیے میدان میں اترے گی تو آسٹریلیا میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت تو اسے حاصل ہو گی ہی لیکن انگلینڈ سے بھاری مارجن سے ہارنے والی انڈین ٹیم کے فینز اور انگلینڈ کے روایتی حریف آسٹریلیا کے سپورٹرز بھی پاکستان کی جیت کے خواہاں ہوں گے۔ پاکستان نے فائنل کے لیے میلبرن پہنچنے کے بعد پہلی مرتبہ پریکٹس کی لیکن اس دوران پاکستانی آل راؤنڈر اور اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی واپسی کی ایک اہم وجہ شاداب خان اس پریکٹس سیشن کا حصہ نہیں تھے۔ شاداب خان سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف آغاز کے اوورز میں تو پھرتی سے فیلڈنگ کرتے دکھائی دیے تھے تاہم ایک دو مرتبہ ڈائیو لگانے کے بعد وہ کچھ تکلیف میں دکھائی دیے تھے تاہم تاحال یہ واضح نہیں کہ ان کی غیر موجودگی کی وجہ فٹنس تھی یا انھوں نے خود ہی آرام کرنے کو ترجیح دی۔ پریکٹس سیشن میں توجہ کا مرکز نہ ہی بابر اور رضوان تھے اور نہ ہی پاکستانی فاسٹ بولرز بلکہ توجہ ایک ایسے بلے باز پر تھی جو گذشتہ ہفتے ہی فخر زمان کی جگہ بطور ریزرو ٹیم میں شامل ہوئے تھے۔ محمد حارث کو جنوبی افریقہ کے میچ سے پہلے ٹیم میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا رہا تھا اور یقیناً یہ پاکستانی تھنک ٹینک کی جانب سے کیا گیا ایک ایسا فیصلہ تھا، جو اس ورلڈکپ میں پاکستان کی قسمت بدلنے کی وجہ بنا۔ حارث نے دوسرے پاکستانی بلے بازوں کی ’ڈاگ تھروئر‘ سے تھرو ڈاؤنز کے ذریعے پریکٹس کی۔ ڈاگ تھروئر دراصل ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جس میں گیند نصب کر کے پھینکی جاتی ہے اور یہ خاصی تیز رفتار سے بیٹسمین تک پہنچتی ہے۔ بلے باز عام طور پر جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کی تیز پچوں پر اس سے پریکٹس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ محمد حارث کے ساتھ محمد یوسف تھرو ڈاؤن سپیشلسٹ کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا میچ کھیل رہے تھے۔ حارث کو ایک اوور میں مخصوص رن بنانے تھے، اور اس کے لیے انھوں ہائی پیس کا سامنا تھا۔ وہ باؤنس پر ایک دو مرتبہ بیٹ ہوئے تو انھوں نے اونچی آواز میں انگریزی زبان میں کہا ’واٹ از گوئنگ آن (یہ کیا ہو رہا)۔‘ اس کے بعد جب انھیں پہلی گیند اوور پچڈ ملی تو انھوں نے کوّر اور مڈآف کے بیچ سے ویسے ہی ان سائیڈ آؤٹ شاٹ لگائی جیسی انھوں نے لوکی فرگیوسن کو نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں لگائی تھی۔ محمد یوسف نے اس شاٹ پر انھیں داد دی اور وہ ساتھ ساتھ ان کی غلطیاں درست کرتے رہے تاہم پھر جب محمد حارث کو بولنگ کروانے کے لیے محمد نواز آئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے حارث سپن کھیلنے میں زیادہ پراعتماد دکھائی نہیں دے رہے۔ اس ورلڈ کپ میں فی الحال ہم نے حارث کو ہائی پیس کے خلاف رنز کرتے دیکھا ہے لیکن اگر انگلینڈ کی جانب سے حارث کا مقابلہ سپن بولنگ سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انھیں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے تاہم اس پورے سیشن کے دوران جو بات حارث کے بارے میں خاصی عیاں تھی وہ ان کا اعتماد تھا اور وہ وکٹ کے پیچھے کھیلنے کو خاصی ترجیح دے رہے تھے۔ پاکستان کا یہ پریکٹس سیشن شروعات میں بارش کی نذر ہوا اور زیادہ تر پریکٹس ان ڈور کی گئی اور جب کھلاڑی باہر آئے تو کچھ دیر تو بابر اعظم اور محمد رضوان شاہین آفریدی کو بولنگ کرواتے نظر آئے۔ میلبرن میں اتوار کو بارش کی پیشگوئی ہے لیکن یہاں دوسری مرتبہ آنے پر بھی اس شہر کے غیرمتوقع موسم کو سمجھنے میں کم از کم ہم تو قاصر رہے ہیں۔ صبح دس بجے جب ہم ایئرپورٹ پہنچے تو یہاں تیز دھوپ تھی اور جیکٹ ہاتھ میں رکھتے ہوئے بھی گرمی لگ رہی تھی۔ جب تک ہم ہوٹل پہنچے تو کالی گھٹا چھا چکی تھی اور بارش ہونے کو تھی۔ ایم سی جی پہنچ کر پہلے آسمان نیلا تھا لیکن کچھ ہی دیر میں تیز ہوا اور کال بادل آسمان پر چھا چکے تھے۔ آسٹریلیا میں ہم جہاں بھی گئے یہاں ساحلی شہروں میں چلنے والی تیز ہواؤں کے باعث یہاں عموماً بادل جلد ہی سرک جاتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے بابر اعظم: آپ بھی انجوائے کریں شائقین بھی اور جو ٹی وی پر بیٹھے ہیں وہ بھی پاکستانی فینز کےعرفان پٹھان سے چُن چُن کر بدلے: ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن فائنل آپ کے بس کی بات نہیں‘ پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟ پاکستان کے پریکٹس سیشن پر انڈین فینز کی آمد کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل بھی پورے ورلڈ کپ کے دوران ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں اور خاص طور پر پاکستان انڈیا میچ سے پہلے پاکستان کی پریکٹس پر خاصے انڈین فینز موجود تھے۔ تاہم اب جس بھی انڈین فین سے بات ہوئی تو زیادہ دیر گفتگو فائنل میچ کے ٹکٹس کی خرید و فروخت اور انڈیا کی انگلینڈ سے بھاری مارجن سے شکست تک محدود رہی۔ اکثر انڈین فینز نے انڈیا پاکستان فائنل کی امید میں پہلے ہی ٹکٹ بک کروا لیے تھے اور کچھ کو یہ ٹکٹ بلیک میں بھی لینا پڑے تھے۔ ہم سے ملنے والے دو پاکستانی دوست محمد اور عمیر دفتر سے کھانے کی بریک پر خصوصاً پاکستانی ٹیم کی پریکٹس دیکھنے کے لیے ایم سی جی آئے ہوئے تھے۔ محمد نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ظاہر ہے آپ چاہتے ہیں کہ انڈیا پاکستان فائنل ہو، اور یہ دونوں ٹیمیں ایک ہی ورلڈ کپ میں دو مرتبہ آمنے سامنے آئیں۔‘ انھوں نے ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو واٹس ایپ کے میسج پڑھاتا ہوں بھائی ہر گروپ میں یہاں انڈین فین کسی طرح ٹکٹ فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’پہلے ٹکٹ بلیک میں بھی مل رہے تھے، میں نے تو آئی سی سی کی ویب سائٹ سے خرید لیے لیکن انڈیا کی شکست کے بعد مجھے نہیں لگتا اب کسی کو ٹکٹ خریدنے میں کوئی مسئلہ ہونا چاہیے۔‘ ہمیں ایسے پاکستانی فین بھی ملے جنھوں نے اس یقین کے ساتھ فائنل کا ٹکٹ بک کروا لیا تھا کہ پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا دے گا تاہم ہماری ملاقات ایک ایسی انڈین فیملی سے ہوئی جو خاص طور پر سڈنی سے میلبرن فائنل کے لیے سفر کر کے آئے ہوئے تھے۔ اس فیملی سے پدما نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سوچ رہے تھے کہ انڈیا فائنل میں آئے گا اور پاکستان انڈیا فائنل ہو گا، بلیک میں ٹکٹ خریدنے والے تھے، سب تیاریاں ہو گئی تھیں لیکن پھر انڈیا ہار گیا۔ برا لگتا ہے لیکن ۔۔۔ بیسٹ آف لک ٹو پاکستان۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کل کے میچ پاکستان کو سپورٹ کریں گے کیونکہ پاکستان ایشیائی ملک ہے اور ہمسایہ ہے، سیاسی صورتحال جو بھی ہو لیکن بطور انسان ہم بھائی بھائی بہن بہن ہیں سب۔‘ فیس بک کے مختلف گروپس میں بھی انڈین شائقین، جنھیں بظاہر اپنی ٹیم کے فائنل میں پہنچنے کی امید تھی، مایوس ہو کر اپنے پہلے سے خریدے ہوئے ٹکٹ پاکستانیوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راہل مہتا نامی ایک صارف نے فیس بُک پر طلبہ کے گروپ میں لکھا کہ ’میں نے ٹکٹ 295 ڈالر کی خریدی، اسی قیمت پر بیچنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ اگر آپ میلبرن میں رہتے ہیں تو میں خود آپ کے گھر یا کہیں اور مل کر ٹکٹ دے سکتا ہوں۔‘ اور بھی کئی پوسٹیں موجود ہیں جن میں بعض صارفین ٹکٹوں خریدنے کے لیے لوگوں سے جلد رابطہ کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ میران اپنی پوسٹ میں کہتے ہیں کہ ’شین وارن سٹینڈ کی ایک ٹکٹ 295 ڈالر میں دستیاب ہے‘ جبکہ ترنپریت نے کہا کہ ’قیمت 295 ڈالر ہے لیکن میں بھاؤ تاؤ کے لیے تیار ہوں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cp6j6yx4r79o
رمیز راجہ نے عمران خان کی 92 ورلڈ کپ والی تقریر دہرا دی: ’یہ اعصاب کا کھیل ہے، انجوائے کریں، میچ جیتیں‘
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اب مکمل طور پر سنہ 1992 کے عالمی مقابلے کے رنگ میں رنگ چکا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو وہی یادگار لمحات یاد دلا رہے ہیں۔ رمیز راجہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کے موقع پر میلبرن پہنچے ہیں۔ وہ جمعہ کے روز میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں ٹیم کی پریکٹس کے دوران بھی موجود رہے اور تمام کھلاڑیوں سے ملاقات بھی کی۔ اس موقع پر رمیز راجہ نے کھلاڑیوں کو 1992 کے عالمی کپ کا حوالہ دیا اور فائنل سے قبل عمران خان کی تقریر بھی دوہرائی۔ رمیز راجہ کے مطابق عمران خان نے اپنی تقریر میں کھلاڑیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ نے جو کرنا تھا وہ کر لیا۔ اب 24 گھنٹے میں آپ کی تیکنیک اچھی ہو سکتی ہے نہ خراب۔ یہ اعصاب کا کھیل ہے۔ 90 ہزار لوگ سٹیڈیم میں ہیں اور یہ موقع ہمارے کریئر میں دوبارہ نہیں آئے گا، لہذا آپ باہر جائیں، انجوائے کریں اور میچ جیتیں۔‘ رمیز راجہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا لیکن اگر پاکستان جیت گیا تو یہ خواب کی تعبیر جیسا ہو گا۔‘ ’دونوں عالمی مقابلوں میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ میں نے کھلاڑیوں سے یہی کہا کہ کوئی مقصد ہے کہ آپ لوگ یہاں تک پہنچے ہیں۔ اوپر والے نے یہاں تک پہنچا دیا ہے اور ایسی صورتحال میں پاکستانی ٹیم بڑی خطرناک بن جاتی ہے اور بہترین کھیل پیش کرتی ہے۔‘ میلبرن میں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا کہ ’اگر آپ میرا واٹس ایپ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ کس طرح بابر، رضوان اور شاہین کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ آپ ان کھلاڑیوں کو تبدیل کر دیں کیونکہ یہ نہیں چل پا رہے اور شاہین آفریدی کو ان فٹ ہونے کے باوجود آپ نے ٹیم میں کیوں رکھ لیا۔‘ رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت ہی مختلف بات ہے کہ پاکستان کی یہ اوپننگ جوڑی جمی ہوئی ہے ورنہ ماضی میں یہ شہ سرخیاں پڑھنے کو ملتی تھیں کہ پاکستان نے 25 اوپننگ پلیئر تبدیل کر دیے لیکن کوئی بھی سیٹ نہیں ہو سکا۔ رضوان اور بابر کی شکل میں اوپننگ جوڑی سیٹ ہو چکی ہے اور اسے توڑنے کی ضرورت نہیں۔‘ رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ ’بحیثیت کرکٹ بورڈ چیئرمین میں نے اس ٹیم کے ساتھ کوئی پنگا نہیں لیا کیونکہ مجھے اس ٹیم پر مکمل بھروسہ ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے انڈین ٹیم کو درپیش وہ پانچ بڑے مسائل جو اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لے ڈوبے عرفان پٹھان کے تبصروں پر پاکستانی شائقین کے چُن چُن کر بدلے: ’اس بار فائنل بھی اتوار کو آگیا ہے‘ یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟ دعائیں، قدرت اور کرکٹ کے انوکھے فینز: ’میں پیشگوئی کرتی ہوں پاکستان یہ ورلڈ کپ جیتے گا‘ ’ویلکم ٹو پاکستان کرکٹ، کسی بھی دن کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس ٹیم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ گھبرائی نہیں۔ ’میں اس ٹیم کی خراب کارکردگی پر ہارڈ ٹاک بھی کرتا ہوں لیکن میڈیا میں آ کر اس پر بات نہیں کرتا۔ میں کپتان کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔‘ رمیز راجہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں شاہین شاہ آفریدی کا چانس لینا تھا۔ آپ کا سپر سٹار اگر پچاس فیصد بھی فٹ ہے تو آپ کو چانس لینا پڑتا ہے۔ ہمارے سامنے عمران خان کی مثال موجود ہے جو 92 کا عالمی کپ شروع ہونے پر کندھے کی تکلیف میں مبتلا تھے۔‘ رمیز راجہ نے بتایا کہ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں اپنے ایک بیان پر انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ’انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں لاہور کے دو میچوں سے قبل میں نے کہا تھا کہ پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتے گا جس پر کرکٹ بورڈ میں، میرے ساتھیوں نے کہا کہ حالات بڑے نازک ہیں، ایسے میں آپ نے یہ بیان کیسے دے دیا لیکن میں نے انھیں جواب دیا کہ یہ میرا اس ٹیم پر مکمل یقین ہے۔‘ ’میں یہی کہتا ہوں کہ ہارنا آپشن نہیں۔ لوگ تمام پرفارمنس بھول جاتے ہیں اور جو آخری پرفارمنس ہوتی ہے، اسے یاد رکھتے ہیں۔‘ فائنل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا کہ انڈیا کے خلاف میچ کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ ’جذباتی اہمیت بھی ہوتی ہے اور ٹیکنیکل بھی لیکن ہمیں پتا ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم بہت مضبوط ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم ان سے ہوم سیریز کھیل چکے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cg3l31n18ggo
انڈین ٹیم کو درپیش وہ پانچ بڑے مسائل جو اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لے ڈوبے
آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کو انگلینڈ کے ہاتھوں بڑی اور تکلیف دہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس میچ سے قبل اگرچہ انڈیا میں یہ توقعات تھیں کہ میلبرن میں اتوار کے روز انڈیا اور پاکستان کا فائنل ہو سکتا ہے، مگر دوسری جانب جب انڈین ٹیم انگلینڈ کے خلاف گراؤنڈ میں اتری تو وہ انتہائی بے بس نظر آئی۔ اس شکست کی وجہ سے انڈین ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دو بار 10 وکٹوں سے ہارنے کا ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ اب اتوار کے روز میلبرن میں فائنل تو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ہو گا لیکن انڈین فینز میں اس شکست کو لے کر بحث ضرور جاری ہے۔ آئیے ان پانچ وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں جو انڈین ٹیم کی ناکامی کا باعث بنیں۔ ٹی ٹوئنٹی کھیل میں پہلے چھ اوور سب سے اہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بلے باز، بولرز پر حملہ کریں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چھ اوورز میں فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے صرف دو کھلاڑی ہی 30 گز کے دائرے سے باہر فیلڈنگ کر سکتے ہیں۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں انڈین ٹیم پاور پلے میں سب سے بُری کارکردگی دکھانے والی ٹیموں میں سے ایک تھی اور سیمی فائنل میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انڈیا نے میچ کی پہلی 36 گیندوں پر ایک وکٹ کے نقصان پر صرف 38 رنز بنائے تھے۔ اگر انگلینڈ کی بات کی جائے انگلینڈ نے فقط 3.2 اوورز میں ہی 36 رنز بغیر کسی نقصان کے بنائے۔ اگر پورے ٹورنامنٹ کی اوسط نکالی جائے تو پاور پلے میں انڈین ٹیم چھ رنز فی اوور بنا پائی لیکن یہ 50 اوور کی کرکٹ کی اوسط تو ہو سکتی ہے مگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی نہیں۔ سابق انڈین کرکٹر سری کانت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پورے ٹورنامنٹ میں ایسا محسوس نہیں ہوا کہ انڈین ٹیم پہلے چھ اوور میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ وکٹیں نہ گنوانے کے دباؤ کی وجہ سے سست ہو گئے ہوں لیکن جدید کرکٹ ایسے نہیں کھیلی جاتی۔‘ انڈین اوپنرز کی ناکامی صرف پاور پلے میں ہی نہیں بلکہ مخالف بولنگ پر حاوی نہ ہونے میں بھی نظر آئی۔ نیدرلینڈز اور زمبابوے کے خلاف میچوں کے علاوہ روہت شرما اور کے ایل راہول شاٹس کے لیے بے تاب تو نظر آئے لیکن وقت نے تعاون نہیں کیا۔ پاکستان کے خلاف پہلے میچ میں جس طرح سے دونوں تیز بولنگ سے بے چین نظر آئے، یہ تقریباً پورے ٹورنامنٹ میں ہی جاری رہا۔ اور اس سے بھی کم کوشش وکٹوں کے درمیان دوڑ کو تیز کرنے اور فیلڈرز کو قریب لانے کے لیے فیلڈنگ سائیڈ پر دباؤ ڈالنے کے لیے کی گئی۔ یہ بھی پڑھیے عرفان پٹھان کے تبصروں پر پاکستانی شائقین کے چُن چُن کر بدلے: ’اس بار فائنل بھی اتوار کو آگیا ہے‘  جواب ڈھونڈتے روہت شرما خود ہی کھو گئے  منطق سے عاری پاکستان ٹیم کی ’سڈنی پارٹی‘ آنے والے برسوں میں انڈین سلیکٹرز کے لیے ایک مضبوط اوپننگ جوڑی بنانا یقیناً ایک چیلنج ہو گا کیونکہ روہت 35 اور راہل 30 سال کے ہو چکے ہیں۔ ایڈیلیڈ میں موجود ’دی گارڈین‘ اخبار کے کرکٹ نمائندے سائمن برنٹن کے مطابق ’مجھے امید تھی کہ وہ دونوں آئی پی ایل کی طرح آزادانہ طور پر کھیلیں گے لیکن یہاں بہت زیادہ دباؤ تھا۔ عام طور پر بڑے کھلاڑی بڑے میچ کے لیے اپنی بہترین پرفارمنس رکھتے ہیں۔ بٹلر اور ہیلز نے بھی تو ایسا ہی کیا۔‘ اپنی مضبوط بلے بازی کے لیے مشہور انڈین ٹیم کے اس ٹورنامنٹ میں صرف تین بلے باز ہی اچھا کھیلے۔ ویراٹ کوہلی، سوریہ کمار یادو اور ہاردک پانڈیا۔ کوہلی اور سوریا کمار کو پہلے تین اوورز میں کئی بار کریز پر آنا پڑا۔ یقیناً اس چیز کا دباؤ کوہلی کی بیٹنگ میں بھی نظر آیا اور پاکستان کے خلاف میچ کے علاوہ وہ اتنی آزادی سے نہیں کھیل سکے جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ سیمی فائنل میں انھوں نے 50 رنز کی اننگز تو ضرور کھیلی لیکن اس کے لیے انھوں نے 40 گیندیں بھی استعمال کیں۔ اگر آپ انگلینڈ کے بلے بازوں سے موازنہ کریں تو جوس بٹلر نے صرف 49 گیندوں پر 80 اور ایلکس ہیلز نے صرف 47 گیندوں پر 86 رنز بنائے۔ سوریہ کمار اچھی فارم میں نظر آ رہے تھے لیکن ہر میچ میں ان سے ایک ہی اننگز کی امید رکھنا غلط ہو گا۔ ہاردک پانڈیا نے سیمی فائنل میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی ٹیم کو کم از کم 150 رنز سے آگے لے گئے، حالانکہ یہ سکور کافی نہیں تھا۔ گذشتہ ایک سال سے انڈین ٹیم کھلاڑیوں کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن پھر بھی سب کچھ ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ جسپریت بمرا اور رویندرا جدیجا کا ٹورنامنٹ سے قبل زخمی ہونا بڑا دھچکہ تھا۔ اکشر پٹیل کو بار بار ناکامی کے باوجود موقع دینا، کیا یہ خطرہ مول لینے سے بچنے کا اشارہ تھا؟ اگر انگلینڈ کے سپنر عادل رشید اس پچ پر کامیاب ثابت ہوئے تو یوزویندر چہل بھی اپنے لیگ سپن سے کچھ وکٹیں لینے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر رشبھ کو کھلانا تھا تو انھیں پاور پلے میں تیز کھیلنے کی ہدایت کی جانی چاہیے تھی۔ رشبھ ویسے بھی آخری اوور میں صحیح طرح سے استعمال نہیں ہو سکے، جس کی شروعات وہ بڑی ہٹ کے ساتھ کر سکتے تھے۔ آسٹریلیا کے سابق وکٹ کیپر اور بلے باز ایڈم گلکرسٹ کا خیال ہے کہ ’انڈین ٹیم کا رویہ کچھ زیادہ جارحانہ ہونا چاہیے تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہر مخالف ٹیم ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ کے پاس 15 کھلاڑیوں کی مضبوط ٹیم ہے تو اسے وکٹ اور مخالف ٹیم کے نقطہ نظر سے تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں سرپرائز کا عنصر ہونا ضروری ہے۔‘ جسپریت بمرا کے ٹورنامنٹ سے باہر ہوتے ہی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انڈیا کو بولنگ میں کوئی زیادہ فائدہ ہو گا۔ یہ بھی واضح تھا کہ محمد شامی کو گذشتہ تقریباً ایک سال سے راہل ڈریوڈ اور روہت شرما کی ٹی 20 ٹیم کے لیے موزوں نہیں سمجھا جا رہا تھا اور اس دوران وہ انجری اور کووڈ سے صحت یاب بھی ہوئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 22 سال کے فاسٹ بولر عمران ملک کو بڑے سٹیج پر خود کو ثابت کرنے کا موقع دینا غلط ہوتا؟ اگر گذشتہ آئی پی ایل کی کامیابی پر دنیش کارتک اور کے ایل راہول ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں تو اسی آئی پی ایل میں کئی بار 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکنے اور 14 میچوں میں 22 وکٹیں لینے والے عمران کیوں نہیں۔ جب بات سیمی فائنل کی ہو تو نہ صرف بھونیشور کمار اور شامی کو ہی بری طرح شکست نہیں ہوئی بلکہ اشون کو بھی انگلینڈ کی اوپننگ جوڑی نے اپنی فارم میں نہیں آنے دیا۔ میچ کے اختتام پر، کمنٹری باکس سے نیچے گراؤنڈ پر جاتے ہوئے، ہرشا بھوگلے نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’یہ بہت زیادہ احتیاط سے کھیلنے کا نقصان ہے۔ بیٹنگ مضبوط ہے لیکن اگر ٹھیک نہیں چل رہی تو بولنگ کیسے چلے گی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gjg0y0z3eo
پاکستانی فینز کےعرفان پٹھان سے چُن چُن کر بدلے: ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن فائنل آپ کے بس کی بات نہیں‘
انڈیا کے سابق کرکٹر اور فاسٹ بولر عرفان پٹھان کو پاکستانی ٹیم پر طنز اور تنقید خاصی مہنگا پڑ گئی ہے کیونکہ انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں انڈیا کی شکست کے بعد اب پاکستانی مداح عرفان پٹھان سے ان کی ٹویٹ پر گن گن کر بدلے لے رہے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ جب پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو عرفان پٹھان نے ٹویٹ کی کہ ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن ’گریس‘ یعنی وقارآپ کے بس کی بات نہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ان کا تبصرہ کھلاڑیوں کے بارے میں نہیں، جس کے بعد عرفان پاکستان میں ٹرینڈ کرنے لگے۔ پاکستانی کرکٹ کے مداح ابھی اس معاملے پر عرفان پٹھان کو برا بھلا کہہ ہی رہے تھے کہ انڈیا سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف میچ دس وکٹوں سے ہار گیا۔ بس پھر کیا تھا، غصے اور انتقام میں بھرے پاکستانیوں نے عرفان پٹھان کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 صحافی وجاہت کاظمی نے لکھا: ’انڈین ٹوئٹر سے غائب ہو گئے ہیں۔‘ انھوں نے عرفان پٹھان کی ٹویٹ کو کاپی کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’ہار جیت ہوتی رہتی ہے پڑوسیوں، عرفان پٹھان سے تھوڑا گیان لیں اور تھوڑا سا گریس دکھائیں۔۔۔‘ پاکستان کے سماجی کارکن جبران ناصر نے انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان سیمی فائنل پر تبصرہ کرتے ہوئے عرفان پٹھان کو بھی نشانہ بنایا اور لکھا کہ ’انگلینڈ نے بالکل بھی گریس کا اظہار نہیں کیا اور انڈین ٹیم کی بولنگ کو ذبح کر ڈالا۔ چھکوں کی بارش ہو رہی ہے۔‘ علیشہ نامی صارف نے لکھا کہ ’عرفان آخر کار قدرت کے نظام پر راضی ہو گئے۔‘ اس ساری بحث میں جہاں پاکستانی اداکاروں اور شائقین کرکٹ نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہیں پاکستان میں ٹرانسپورٹ سروس مہیا کرنے والی کمپنی کریم نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ کریم نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹوئٹر پر لکھا: ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن فائنل آپ کے بس کی بات نہیں۔۔۔‘ کچھ صارفین نے عرفان پٹھان کو نیوزی لینڈ کے کپتان سے ’گریس‘ سیکھنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 بہت سے صارفین نے الزام لگایا کہ عرفان پٹھان نے یہ بیان سستی شہرت کے لیے دیا جبکہ کچھ صارفین نے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش بھی کی۔ سعد قیصر نامی صارف نے لکھا ہے کہ دکھ ہے کہ انڈین مسلمان ہندوؤں کی گڈ بک میں رہنے کے لیے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ عرفان بھائی۔ جیت اور ہار آتی جاتی رہے گی لیکن پھر بھی آپ کو ہندوتوا حکومت سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا۔ منتصر خان نے شاہین شاہ آفریدی کی ایک تصویر شیئر کی، جس میں وہ اپنے ایک انڈین مداح کو انڈیا کے جھنڈے پر آٹوگراف دے رہے ہیں۔ انھوں نے لکھا ’گریس‘ اور عرفان پٹھان میں یہی فرق ہے‘۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اس سب کے درمیان عرفان نے ٹویٹ کر کے بابر اعظم اور محمد رضوان کی تعریف بھی کی۔ انھوں نے لکھا کہ ان دونوں کھلاڑیوں نے صحیح وقت پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستانی صارفین کا غصہ کم نہ ہوا اور اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ عرفان نے چند روز پہلے بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے طنزیہ ٹویٹ کی تھی۔ عرفان پٹھان نے لکھا تھا کہ ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پیچھے سے آنے کا سفر قابل تعریف ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51g1mj2125o
انڈیا کے باپ بیٹا جو آسٹریلیا میں پورا ورلڈکپ دیکھ رہے ہیں
’اگر آپ کو ویزا نہ ملا تو پھر؟‘ انڈیا میں آسٹریلوی سفارت خانے میں اقبال سنگھ آسٹریلیا کے لیے ویزا انٹرویو دینے آئے ہوئے تھے جب وہاں موجود ایک خاتون نے ان سے یہ سوال کیا۔ ماچھی وارا ضلع لدھیانہ کے رہائشی اقبال سنگھ نے انتہائی سادگی سے جواب دیا ’پھر ٹی وی پر ہی دیکھ لیں گے اپنے پنجاب میں، اگر مل گیا تو گراؤنڈ میں دیکھ لیں گے آسٹریلیا جا کر۔' اقبال سنگھ نے آج تک کسی گراؤنڈ میں کوئی میچ نہیں دیکھا تھا اور اب ان کے بیٹے جگجیت انھیں آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ دکھانے لے جانا چاہتے تھے۔ اقبال سنگھ کی بات سن کر سفارت خانے میں موجود خاتون اہلکار ہنسنے لگیں اور کچھ ہی دن میں اقبال سنگھ کو پیغام آ گیا کہ ان کا تین سال کا ویزا لگ گیا ہے۔ جگجیت کو ان کے ویزا لگنے کی ای میل آئی تو انھوں نے فوراً والد کو فون کر کے کہا ’ڈیڈی جی پارٹی ہو گئی۔‘ جس پر اقبال سنگھ نے انھیں بتایا کہ انھیں اس بارے میں پہلے ہی کال آ چکی تھی۔ جگجیت کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کہ کال بھی آئے اتنی جلدی اور ای میل بھی، لگتا ہے ڈیڈی 100 فیصد انٹرویو دے کر آئے تھے۔‘ جگجیت اور ان کے والد سے میری ملاقات میلبرن سے پرتھ جاتے ہوئے اتفاقاً ایئرپورٹ پر ہوئی۔ یہاں آسٹریلیا میں انڈین کمیونٹی بڑی تعداد میں مقیم ہے اس لیے ایسا اتفاق کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن ان سے بات کر کے معلوم ہوا کہ وہ خاص طور پر انڈیا کے میچ دیکھنے کے لیے آسٹریلیا آئے ہوئے ہیں۔ جگجیت نے پاکستان انڈیا میچ کے غیر معمولی ماحول کا ذکر کیا تو گفتگو ہونے لگی اور پھر ان کے ساتھ پرتھ میں ملنا طے پایا۔ تاہم وہ فلائٹ کینسل ہونے کے باعث پرتھ میں انڈیا اور جنوبی افریقہ کا میچ دیکھنے نہ آ پائے۔ اب ان سے ہماری ملاقات ایڈیلیڈ میں ہونا تھی جہاں وہ آسٹریلیا اور افغانستان کا میچ دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ ایڈیلیڈ اوول کے ساتھ ہی دریائے ٹورنز کے قریب ایک پارک میں ان سے ملاقات ہوئی اور وہ اپنے آسٹریلیا آنے کی کہانی سنانے لگے۔ ’بڑے بھائی پاکستان میں پیدا ہوئے لیکن میں نے نہیں دیکھا پاکستان‘۔  اقبال سنگھ کا خاندان تقسیم ہند سے قبل لاہور ضلع کی تحصیل نین وال میں رہائش پذیر تھا جہاں ’ہمارے  باغ تھے 22، 23 اور اگر کسی کا جھگڑا ہو جاتا تھا تو ہمارے پردادا ارجند سنگھ نمٹاتے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے سب سے بڑے بھائی پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن ہم نے نہیں دیکھا پاکستان۔‘  اب انڈیا میں وہ پنجاب کے علاقے ماچھی وارا میں رہتے ہیں اور ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں اور دونوں ہی ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ آسٹریلیا آنے سے چند ہفتے قبل ان کی اہلیہ کا گھٹنوں کا آپریشن ہونا تھا اور اقبال سنگھ پریشان تھے کہ وہ آسٹریلیا جا رہے ہیں تو پیچھے ان کا کیا ہو گا۔ تاہم ڈاکٹروں کی جانب سے تسلی ملنے کے بعد ہی انھوں نے اس سفر کا ارادہ کیا۔ آپ کی طرح میرے ذہن میں بھی یہ خیال آیا کہ یہ شوق تو کرکٹ کے ہر مداح کو ہوتا ہے کہ وہ ورلڈکپ دیکھے لیکن اس کے لیے اچھی خاصی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں اقبال سنگھ کے بیٹے جگجیت کی کہانی سنانا اہم ہے۔ جگجیت خود 29 برس کے ہیں اور امریکہ میں ان کی ایک ٹرکنگ کمپنی ہے۔   جگجیت کو بچپن سے تو کرکٹ کا شوق نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ڈیڈی ٹی وی پر کرکٹ دیکھتے تھے تو میں کہتا تھا کارٹون لگائیں، لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ  کا شوق بڑھتا گیا۔‘ انھوں نے کسی گراؤنڈ میں جا کر اپنا پہلا میچ انڈیا اور پاکستان کا 2011 ورلڈکپ کا سیمی فائنل دیکھا تھا جس کی ٹکٹ انھیں ٹورنامنٹ کے دوران ہی بلیک پر ملی تھی۔ جگجیت بتاتے ہیں کہ ’اس وقت ہم کچھ دوست تھے، اور ٹکٹ کی رقم دینے کے لیے ہم نے یہاں وہاں سے پیسے جوڑے۔‘ جب جگجیت سنہ 2011 کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کا میچ دیکھ  رہے تھے تو ان کے والد سٹیڈیم کے باہر لگی سکرین پر اس میچ کو دیکھ سکے تھے کیونکہ دوسری ٹکٹ نہیں ملی تھی اور نہ ہی بلیک میں خریدنے کے پیسے تھے۔ تاہم جگجیت نے اپنے کریئر کا آغاز پہلے بطور مرچنٹ نیوی افسر کیا اور پھر ان کا امریکہ کا چکر لگا تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’امریکہ گیا تو وہاں ایک ٹرک خود چلایا، دو سال تک چلانے کے بعد اس نیٹ ورک کو بڑھایا اور اپنی ٹرکنگ کمپنی کی بنیاد رکھی جو تور ٹرکنگ کمپنی کے نام سے ہے۔‘ جگجیت بتاتے ہیں کہ ’اب ہمارا ایک اچھا خاصا کاروبار ہے، تو میں ابو کو آسٹریلیا لانے کی استطاعت رکھتا تھا۔‘ تاہم انھوں نے دوستوں کے ساتھ آسٹریلیا جانے پر والد کو یہاں لانے کو ترجیح دی۔ انھوں نے کہا ’ہم پیسہ کماتے ہیں یہ سوچ کر کے ایک دن ڈیڈی کو عیش کروائیں گے۔ ’جب آپ کے پاس دولت ہے تو کیوں نہیں، ہم نے کوشش کی اور خوش قسمتی سے ویزا آ گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک خواب جینے جیسا ہے۔ دوستوں کے ساتھ جا کر بھی مزا آتا لیکن والدین کے ساتھ جو فخر کا احساس ہوتا ہے وہ مکمل طور پر مختلف ہے۔ ’انڈیا پاکستان دونوں نے ہی بہت زور لگایا‘ انڈیا کے میچوں میں اقبال سنگھ اور جگجیت کو پاکستان اور انڈیا کے میچ کا سب سے زیادہ مزہ آیا ہے۔ جگجیت کہتے ہیں کہ 'یہ ڈیڈی کا گراؤنڈ میں میچ دیکھنے کا پہلا تجربہ تھا اور آپ سوچیں نوے ہزار بندہ اگر ایک جگہ موجود ہو تو کیا ماحول ہو گا۔' اقبال سنگھ نے کہا کہ 'دونوں ٹیموں نے بہت زور لگایا، ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے اس کا کیا ہے، لیکن انڈیا کی قسمت چل گئی۔' 'لیکن زور بنگلہ دیش والے میچ میں بھی پورا لگا تھا۔' جگجیت  بولے اس وقت ڈیڈی نے کہا کہ ٹکٹ کب کروانی ہے واپسی کی۔ خیال رہے کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کے خلاف صرف پانچ رنز سے فتح حاصل کی تھی۔ ایک ساتھ میچ دیکھنے کے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جگجیت نے کہا کہ 'ڈیڈی گراؤنڈ میں پیشگوئیاں کرتے کہ اس بال پر آؤٹ ہو گا، اس بال پر چھکا لگے گا اور کبھی کبھار یہ سچ بھی ثابت ہوتا ہے۔' اقبال سنگھ نے اپنے بیٹے کے ساتھ رشتے کے بارے میں کہا کہ یہ سچے جذبات پر مبنی ہے اگر یہ  باتیں دل میں رکھے گا یا میں رکھوں گا تو پھر مسئلہ ہو گا۔ اقبال سنگھ اور جگجیت آسٹریلیا کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے اب ایڈیلیڈ میں موجود ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c1ded98z7pko
ہیلز اور بٹلر نے دھواں دھار بیٹنگ سے انڈیا سے سیمی فائنل چھین لیا، انگلینڈ دس وکٹ سے فاتح
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں عالمی رینکنگ کی نمبر دو ٹیم انگلینڈ  نے عالمی نمبر ون انڈیا کو 10  وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔ الیکس ہیلز اور کپتان جوز بٹلر ایڈیلیڈ اوول میں جارحانہ بیٹنگ کے زبردست مظاہرے سے یہ سیمی فائنل انڈیا سے چھین کر لے گئے۔ اب اتوار کو میلبرن میں ہونے والے فائنل میں انگلینڈ کا مقابلہ پاکستان سے ہوگا۔ پاکستان نے بدھ کے روز سڈنی میں کھیلے گئے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو سات وکٹوں سے شکست دی تھی۔ انگلینڈ کی ٹیم 2010 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت چکی ہے جبکہ پاکستان 2009 میں فاتح بنا تھا۔ جوز بٹلر نے بھوونیشور کمار کے پہلے ہی اوور میں تین چوکوں کے ساتھ169   رنز کے ہدف کی طرف قدم بڑھانے شروع کیےتو الیکس ہیلز نے بھی کمار کو اپنے نشانے پر رکھا جو اپنے دو اوورز میں 25 رنز دے چکے تھے۔ روہت شرما کو پاور پلے میں لیفٹ آرم اسپنر اکشر پٹیل کو لانا پڑا لیکن  وہ اور اشون رنز کی رفتار نہ روک سکے اور انگلینڈ نے پاور پلے میں 63  رنز بنا ڈالے۔ الیکس ہیلز نے 5 چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے اپنی نصف سنچری صرف 28گیندوں پر مکمل کی۔ جوز بٹلر بھی پیچھے نہ رہے اور انہوں نے اپنی نصف سنچری   36گیندوں پر مکمل کی جس میں 7چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ ہیلز اور بٹلر نے انگلینڈ کی سنچری 11 ویں اوور میں مکمل کرڈالی۔ انڈین کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج اور انڈین  شائقین کے چہرے بتا رہے تھے کہ بازی ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ دوسری جانب انگلینڈ کے شائقین کا جوش وخروش اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ بٹلر اور ہیلز کا طوفان انگلینڈ کو بڑی آسانی سے جیت کی طرف لے گیا۔ انگلینڈ نے جب مطلوبہ اسکور پورا کیا تو 24 گیندوں کا کھیل باقی تھا۔ بٹلر 80  رنز  پر کریز پر موجود تھے۔ ان کی گیندوں کی یہ اننگز 3 چھکوں اور 9 چوکوں پر مشتمل تھی۔ ہیلز نے صرف 47گیندیں کھیلیں اور وہ   85 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے جس میں 4 چوکے اور7  چھکے شامل تھے۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر انڈیا کو بیٹنگ دی جس نے 6 وکٹوں پر 168 رنز سکور کیے۔ انگلینڈ کو پہلی کامیابی کےلیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اننگز کے دوسرے ہی اوور میں کرس ووکس نے لوکیش راہول کو صرف 5 کے انفرادی اسکور پر وکٹ کیپر جوز بٹلر کے ہاتھوں کیچ کرادیا۔ لوکیش راہول نے اس ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف نصف سنچریاں بنائی تھیں۔ روہت شرما اور وراٹ کوہلی کی موجودگی میں بھارت نے پاور پلے کا اختتام 38 رنز ایک کھلاڑی آؤٹ پر کیا۔ روہت شرما کے لیے یہ اننگز بہت اہم تھی کیونکہ وہ اس ٹورنامنٹ میں صرف ہالینڈ کے خلاف ہی نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔ انھوں نے سیم کرن کو دو لگاتار چوکے مارے اور لیگ اسپنر عادل رشید کا استقبال بھی چوکے سے کیا لیکن 27 کے انفرادی اسکور پر وہ کرس جارڈن کی گیند پرڈیپ مڈ وکٹ پر سیم کرن کے ہاتھوں کیچ ہو گئے۔ 56 رنز پر دوسری وکٹ گرنے کے بعد شائقین سوریا کمار یادو کی جارحانہ بیٹنگ دیکھنے کے منتظر تھے جنہوں نے بین اسٹوکس کے ایک ہی اوور میں چوکا اور چھکا لگاکر اپنے خطرناک عزائم ظاہر کیے لیکن لیگ اسپنر عادل رشید اپنےآخری اوور میں انہیں ڈیپ کور میں فل سالٹ کے کیچ کی مدد سے ڈگ آؤٹ کا راستہ دکھانے میں کامیاب ہوگئے۔ عادل رشید پاور پلے میں بولنگ کے لیے آئے تھے اور انہوں نے ایک بار پھر مؤثر بولنگ کرتے ہوئے اپنے چار اوورز میں صرف 20 رنز دے کر ایک اہم وکٹ حاصل کی۔ عادل رشید اور کرس جارڈن کے درمیان وکٹوں کی سنچری مکمل کرنے کا مقابلہ جاری ہے۔ عادل رشید کی وکٹوں کی تعداد  91 ہوچکی ہے اور کرس جارڈن اب 93 تک جا پہنچے ہیں۔ بھارت کے 100 رنز15 ویں اوور میں مکمل ہوئے اور لونگ اسٹون کو  چوکے کے ساتھ وراٹ کوہلی نے  ٹی ٹوئٹی انٹرنیشنل میں  4 ہزار رنز مکمل کرنے والے پہلے بیٹسمین بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔  تین وکٹیں گرنے کے بعد بھارتی ٹیم کوہلی کی طرف  دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اپنی37  ویں اور اس ٹورنامنٹ میں چوتھی  نصف سنچری 39گیندوں پر مکمل کی جس میں ایک چھکا اور چار چوکے شامل تھے ۔  بھارتی ٹیم کے شائقین کا جوش بڑھانے والے ہاردک پانڈیا تھے جنہوں نے  پہلے سیم کرن کو ایک اور اگلے ہی اوور میں کرس جارڈن کو لگاتار دو چھکے مارے لیکن جارڈن کو اسی اوور میں وراٹ کوہلی کی قیمتی وکٹ مل گئی۔ پانڈیا اور کوہلی نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں61  رنز کا اضافہ کیا۔ پانڈیا نے اپنی جارحانہ بیٹنگ کی بھرپور جھلک دکھاتے ہوئے نصف سنچری صرف 29گیندوں پر مکمل کی جس میں 4 چھکے اور 3چوکے شامل تھے۔ وہ اننگز کی  آخری گیند پر 63 رنز بناکر ہٹ وکٹ ہوگئے۔ ان کی 33 گیندوں پر مشتمل  اننگز میں5  چھکے اور 4چوکے شامل تھے۔ ان کی اسی جارحانہ بیٹنگ کے سبب بھارتی ٹیم آخری پانچ اوورز میں 68  رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckmxm17nll2o
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: ’ہیلز اور بٹلر تو آج بابر اور رضوان جیسا کھیلے‘
ایڈیلیڈ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں انڈیا کی جانب سے 169 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کے اوپنرز نے جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے میچ کو یکطرفہ بنا دیا اور 10 وکٹوں سے فتح اپنی ٹیم کے نام کر دی۔ فائنل میں انگلینڈ کی ٹیم اتوار کو پاکستان سے ٹکرائے گی۔ ایلکس ہیلز اور جوز بٹلر نے 16 اوورز میں 169 رنز کا ہدف باآسانی حاصل کیا۔ ہیلز 47 گیندوں پر 86 اور بٹلر 49 گیندوں پر 80 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ انگلینڈ کی فتح کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں لوگ انگلینڈ کی تعریف کرتے نظر آئے تو وہیں کچھ لوگوں نے کہا کہ انگلینڈ اور پاکستان کا میچ کس قدر کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ یوسف زمان نے لکھا کہ انگلینڈ نے تباہی پھیر دی ہے۔ گرین شرٹس کے لیے ایک بہت خوفناک چیلنج ہو گا۔ انگلینڈ اور پاکستان کا فائنل میچ کیا ہی مقابلہ ہو گا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لکھا کہ اتوار کو 152/0 کا مقابلہ 170/0 سے ہو گا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے کہا کہ ہیلز اور بٹلر تو آج رضوان اور بابر جیسا کھیلے۔ ’پرفیکٹ‘ فائنل مقابلہ منتظر ہے، کیا 1992 کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ اُنھوں نے کہا کہ خزاں کی سیریز کے بعد انگلینڈ اور پاکستان کی ٹیمیں بلاشبہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 صحافی احتشام الحق نے وراٹ کوہلی کی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہیلو بابر، یہ فائنل میں کیسے آتے ہیں؟‘ واضح رہے کہ ابتدائی میچز میں ناکامی کے بعد جہاں پاکستان کا ٹورنامنٹ سے باہر ہو جانا یقینی تھا اور انڈیا کو فیوریٹ قرار دیا جا رہا تھا وہیں سیمی فائنل میں اب یہ بازی مکمل طور پر پلٹ چکی ہے اور پاکستان فائنل میں پہنچ چکا ہے جبکہ انڈیا کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 اسی موقع پر کئی لوگ انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما کی کپتانی پر سوالات اٹھاتے ہوئے اور وراٹ کوہلی اور مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی کو یاد کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ کیلاش نامی صارف نے لکھا کہ روہت کی کپتانی کس قدر مایوس کن تھی۔ اور آپ صرف دو تین اچھے کھلاڑیوں کی بنا پر میچ جیتنے کی توقع نہیں کر سکتے۔ ہر مرتبہ اچھے کھلاڑی بہترین نہیں کھیلتے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 شردھا نے لکھا کہ یہ ٹیم فائنل کھیلنے کی مستحق ہے بھی نہیں۔ ایک وکٹ نہیں لی جاتی ان سے۔ اُنھوں نے لکھا کہ فائنل میں جا کر ہارنے سے اچھا ہے کہ آج ہی ہار جاؤ، تھوڑی کم بے عزتی ہو گی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 ایشون نامی صارف نے لکھا کہ اب لوگوں کو روہت شرما اور دھونی کا موازنہ بند کر دینا چاہیے کیونکہ روہت پانچ آئی پی ایل ٹرافیاں جیت چکے ہیں۔ مہندر سنگھ دھونی ہمیشہ عظیم ترین کپتان رہیں گے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 7 انڈین کرکٹر عرفان پٹھان آج سارا دن ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتے رہے کیونکہ اُنھوں نے پاکستانیوں کو جیتنے کے بعد ’گریس‘ یعنی وقار کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ عرفان پٹھان پر تنقید تو پہلے ہی شروع ہو چکی تھی مگر انڈیا کی شکست کے بعد یہ تنقید مذاق میں بدل گئی اور لوگ انھیں ٹرول کرنے لگے۔ فیاض شاہ نامی صارف نے عرفان پٹھان کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ مبارک ہو، آپ نے دلی ایئرپورٹ کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 8 پشپ راج چوہان نے لکھا کہ آئی پی ایل کے 14 برس بعد بھی ہمیں ایسا کوئی ٹیلنٹ نہیں مل سکا جو بڑے سٹیج پر کارکردگی دکھائے۔ زیادہ تر ٹیلنٹ ان کے ڈومیسٹک سٹرکچر سے آتا ہے۔ اُنھوں نے لکھا کہ انڈیا میں کرکٹ صرف پیسے کمانے کا ذریعہ ہے اور وہ انڈین کرکٹ اور آئی پی ایل کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 9
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy6q38gj8v5o
پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: بارش کے خدشے کے باعث ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کے قواعد میں ردوبدل
دنیا بھر میں کرکٹ شائقین کی نظریں اتوار کو میلبرن کرکٹ گراونڈ پر ہیں کیونکہ اس دن پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا فائنل میچ کھیلا جا رہا ہے۔ ایسے میں جہاں دونوں ممالک کے مداحوں سمیت دنیا بھر میں کرکٹ کے دیوانوں میں جوش و جذبہ ہے، وہیں اس بڑے مقابلے کا موسم کے باعث متاثر ہو جانے کا خدشہ بھی موجود ہیں۔ پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ تو بنا لی مگر آسٹریلیا کے محکمۂ موسمیات کے مطابق 13 نومبر (اتوار) کو میلبرن میں کرکٹ کھیلنے کے لیے موسم زیادہ سازگار نہیں۔ اتوار کے بارے میں کی جانے والی موسم کی پیشگوئی کے مطابق میلبرن میں اتوار کے روز 95 فیصد بارش کا امکان ہے۔ میلبرن اس ٹورنامنٹ کے دوران مسلسل خراب موسم کی زد میں رہا ہے۔ گروپ مرحلے کے تین میچ بارش کی وجہ سے ایک بھی گیند کیے بغیر ختم کرنے پڑے تھے، جن میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کا میچ، افغانستان اور نیوزی لینڈ کا میچ اور افغانستان کا آئرلینڈ سے میچ شامل تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ورلڈ کپ فائنل کے منتظمین نے بارش سے کھیل رکنے کے باعث کھیل کے دورانیے پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کے قوانین میں رد و بدل کر دیا ہے۔   جیسا کہ اتوار کو پاکستان اور انگلینڈ کا فائنل پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے شروع ہو گا لیکن اس دن بارش کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ فائنل مقابلے کے لیے پیر کا دن بھی مختص کیا گیا ہے یعنی اگر اتوار کو تیز بارش کے باعث کھیل نہ ہو سکا تو پیر کے روز میچ کھیلا جائے گا۔ مگر پیر کے روز بھی بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے  اس لیے منتظمین نے پیر کے روز بارش کی صورت میں کھیل کے قوانین میں رد و بدل کرتے ہوئے اس میں دو گھنٹے کے وقت کا اضافہ کر دیا ہے یعنی اگر پیر کی صبح بارش سے میچ تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو اسے شام میں دو گھنٹے مزید جاری رکھا جائے گا تاکہ کھیل کے وقت کو زیادہ سے زیادہ کیا جا سکے۔    یاد رہے کہ جمعرات کو ایڈیلیڈ میں انگلینڈ نے دوسرے سیمی فائنل میچ میں انڈیا کو دس وکٹوں سے ہرا کر فائنل میں جگہ بنائی ہے جبکہ پاکستان بدھ کو نیوزی لینڈ کو سات وکٹوں سے ہرا کر فائنل میں پہنچا ہے۔   اس ٹورنامنٹ کے قواعد و صوابط میں کہا گیا ہے کہ پیر کا دن مختص کیے جانے کے باوجود ’ہر ممکنہ کوشش‘ کی جائے گی کہ فائنل مقابلہ اتوار کو ہی مکمل ہو اور اس کے لیے کھیل کو مختصر بھی کیا جا سکتا ہے یعنی میچ کو دس دس اوورز کا بھی رکھا جا سکتا ہے۔   منتظمین کا کہنا ہے کہ نئے قواعد کے مطابق اگر میچ اتوار کو مکمل نہ ہو سکا تو پیر کو وہیں سے شروع ہو گا جہاں اتوار کو روکا گیا تھا اور اس کو دوبارہ سے شروع نہیں کیا جائے گا۔   اور  پیر کو کھیل انھی حالات میں کھیلا جائے گا جس طرح اتوار کو شروع ہوا تھا، یعنی اگر اتوار کو 10 اوور فی سائیڈ میچ شروع ہوتا ہے تو پیر کے دن کے کھیل میں دس اوورز ہی ہوں گے۔ اضافی دن میں دو گھنٹوں کا اضافہ کرنے کا مطلب ہے کہ میچ کو مکمل کرنے کے لیے سات گھنٹے اور دس منٹ کا کھیل ہو سکے گا۔ اور اگر ضرورت پڑی تو یہ میچ پیر کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح نو بجے شروع ہو گا۔ اگر ریزرو ڈے میں بھی بارش کی وجہ سے میچ ممکن نہیں ہو پاتا تو پھر فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیموں کو مشترکہ فاتح قرار دے دیا جائے گا۔ آئی سی سی کے مقابلوں میں ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا کہ فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں مشترکہ فاتح قرار پائی ہوں۔ یہ 2002 میں کولمبو، سری لنکا میں منعقدہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں ہوا تھا جب انڈیا اور سری لنکا کے درمیان فائنل بارش کی نذر ہو گیا تھا۔ بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق میلبرن کے اپنے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس شہر کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ دن میں کئی رنگ بدلتا ہے تاہم شائقین کو یقین ہے کہ بارش فائنل میچ کے لیے خطرہ نہیں بنے گی اور میچ ضرور ہو گا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ 23 اکتوبر کو جب پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنے پہلے میچ میں مدمقابل آنے والی تھیں تو اس وقت بھی میلبرن میں بارش کی پیشگوئی کی گئی تھی، مگر میچ کے دوران بارش نہیں ہوئی تھی۔ اب تک تو یوں لگ رہا ہے کہ بارش کی اس پیشگوئی کے بعد میلبرن سے پہلے سوشل میڈیا پر مایوسی کے بادل چھا گئے ہیں۔ بعض شائقین نے تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل میلبرن کے بجائے کسی دوسرے مقام پر کرانے کی تجویز دے دی ہے۔ جیسے صفوان کہتے ہیں کہ میلبرن کی جگہ یہ فائنل ایڈیلیڈ یا سڈنی میں کھیلا جانا چاہیے۔ یہ بھی پڑھیے یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟ ’کنگ بابر، پچھلی تمام ٹویٹس کے لیے معذرت‘ پاکستان کرکٹ کا جوابی وار اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 جبکہ کرن کہتی ہیں کہ آئی سی سی کو اس حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ ’حل یہ ہے کہ جب پتا ہو بارش ہوگی تو وینیو بدل دیا جائے۔‘ اعجاز نامی صارف نے لکھا کہ ’میلبرن کا موسم گرل فرینڈ کے موڈ جیسا ہوتا ہے۔ کسی بھی وقت خراب سے ٹھیک اور ٹھیک سے خراب ہو جاتا ہے۔ سو ’گھبرانا نہیں‘۔ نہیں ہو گی بارش۔‘ وقاص نے آئی سی سی کو ٹوئٹر پر ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بارش سے میچ منسوخ ہونے پر یہ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
https://www.bbc.com/urdu/articles/cedvxxeqgl8o
ہاردک پانڈیا: انڈیا کے ’کپل دیو‘ کی غربت اور درد کو شکست دینے کی داستان
انڈین کھلاڑی کپل دیو جیسے ہی ریٹائر ہوئے تو انڈیا نے اُن کے متبادل کی تلاش شروع کر دی۔۔۔ ایک ایسا تیز رفتار بولر جو سنچریاں بھی بنا سکے۔ اس کردار کے لیے کئی نام سامنے آئے جن میں چیتن شرما، اجیت اگارکر، عرفان پٹھان اور بھونیشور کمار شامل رہے۔ اِن سب کو کامیابیاں بھی ملیں۔ اگارکر نے لارڈ میں سنچری سکور کی اور پھر آسٹریلیا میں ایڈیلیڈ میں انڈیا کی فتح میں چھ وکٹیں حاصل کر کے مرکزی کردار ادا کیا۔ تاہم ان کھلاڑیوں کو ان کی بولنگ کی بنا پر تو ٹیم میں شامل کیا جا سکتا تھا لیکن صرف اپنی بیٹنگ کے بل بوتے پر وہ ٹیم میں جگہ نہیں بنا سکتے تھے۔ کپل دیو ایک مختلف کھلاڑی تھے جو ہاتھ میں گیند پکڑ لیتے تو اتنے ہی خطرناک ہوتے جتنا اپنی بلے بازی کی بنا پر ہوتے۔ انھوں نے ایک الگ سے انداز اور شان سے وہ سب کچھ حاصل کیا جس نے ان کو ممتاز بنایا۔ 16 سال کے کیریئر میں انھوں نے انجری کی وجہ سے ایک بھی ٹیسٹ نہیں چھوڑا۔ کپل دیو کے تازہ ترین متبادل ہاردک پانڈیا ہیں جنھوں نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سری لنکا کے خلاف نصف سنچری سکور کی اور پھر اسی سیریز میں سات چھکوں کی مدد سے ایک سنچری بھی بنا ڈالی۔ جنوبی افریقہ میں اگلے ٹیسٹ میں انھوں نے 93 رنز سکور کیے۔ پھر جب انھوں نے نوٹنگھم ٹیسٹ میں انگلینڈ کے خلاف پانچ وکٹیں حاصل کیں، جن میں جو روٹ اور جونی بیئرسٹو کی وکٹیں بھِ شامل تھیں، اور ناقابل شکست نصف سنچری بھی بنائی تو ایسا لگا کہ وہ کپل دیو کی جگہ لے چکے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے دوران 29 سالہ پانڈیا ایک آل راؤنڈر کے طور پر ٹی ٹؤنٹی کرکٹ میں ابھرے ہیں۔ ان کا سٹرائک ریٹ 150 کے قریب ہے اور مشکل صورتحال میں وہ سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی کی طرح پرسکون نظر آتے ہیں۔ ٹی ٹؤنٹی ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے خلاف پانڈیا کی وراٹ کوہلی کے ساتھ پانچویں وکٹ پر ایک 113 رن کی شراکت داری نے انڈیا کی فتح میں مرکزی کردار ادا کیا۔ نومبر میں وہ نیوزی لینڈ کے خلاف انڈیا کی قیادت بھی کریں گے۔ پانڈیا کی بولنگ بھی تیز رفتار ہے اور ان کی سپیڈ اکثر 140 کلومیڑ فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ چار سال قبل دبئی میں ایشیا کپ کے دوران پانڈیا بولنگ کرتے ہوئے زخمی ہوئے تھے اور ان کو سٹریچر پر باہر لے جانا پڑا۔ کئی لوگوں کا اس وقت خیال تھا کہ اب پانڈیا کبھی اس لیول تک واپس نہیں آ سکیں گے۔ انڈیا کو ایک بار پھر ایک ایسی صورتحال کا سامنا تھا جہاں ان کو ایک بہترین آل راؤنڈر کی تلاش دوبارہ سے شروع کرنی پڑ سکتی تھی۔ پانڈیا نے آئی پی ایل ٹورنامنٹس میں بھی اپنی ٹیم ممبئی انڈینز کے لیے بولنگ نہیں کی۔ سابق کوچ روی شاستری بتاتے ہیں کہ جب پانڈیا زخمی ہوا تو ’ہم جانتے تھے کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔‘ انھوں نے سٹار سپورٹس کو بتایا کہ ’میڈیکل روم میں وہ ہل نہیں پا رہے تھا۔ بس وہ اپنا سر گھما سکتا تھا۔ وہ واقعی شدید درد میں تھے۔‘ اس جگہ سے واپس آنا بہت پختہ عزم کی نشان دہی کرتا ہے۔ رواں سال اگست میں ایشیا کپ کے پاکستان کے خلاف میچ میں پانڈیا نے پہلے 25 رن دے کر تین وکٹیں لیں اور پھر 17 گیندوں پر 33 رن سکور کیے جن میں آخری بال پر فتح سے ہمکنار کروانے والا چھکا بھی شامل تھا۔ کئی لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ پرفارمنس اسی گراؤنڈ پر اسی ٹیم کے خلاف اسی ٹورنامنٹ میں دی گئی جہاں سے چار سال پہلے ان کو سٹریچر پر میدان سے باہر لے جایا گیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے منطق سے عاری پاکستان ٹیم کی ’سڈنی پارٹی‘ ٹی 20 ورلڈ کپ: ’کنگ بابر، پچھلی تمام ٹویٹس کے لیے معذرت‘ ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان کرکٹ کا جوابی وار، سمیع چوہدری کا کالم پانڈیا اور ان کے بھائی، کرونال، کم عمری میں ہی انڈیا کے سورت شہر سے برودا منتقل ہوئے تھے اور اس کی واحد وجہ وہاں پر کرکٹ کی بہتر سہولیات کی دستیابی تھی۔ یہ فیصلہ ان کے والد نے کیا تھا اور دونوں بھائی ہمیشہ ان کے شکر گزار رہے کیوں کہ ان کا خاندان مالی اعتبار سے اتنا مستحکم نہیں تھا۔ دونوں بھائیوں نے سابق انڈین وکٹ کیپر کرن مورے کی اکیڈمی میں ٹریننگ حاصل کی۔ سنہ 2015 میں ممبئی انڈینز کے لیے نئے کھلاڑیوں کی تلاش کے دوران جان رائٹ نے ہاردک پانڈیا پر نظر رکھی۔ ان کی ابتدائی قیمت 16 ہزار امریکی ڈالر تھی۔ تین سال بعد ان کو 1.7 ملین (17 لاکھ) امریکی ڈالر کا معاوضہ دیا گیا۔ رواں سال کے آغاز میں ہاردک پانڈیا نے پہلی بار آئی پی ایل کھیلنے والی گجرات ٹائٹنز کو فتح سے ہمکنار کروایا اور فیصلہ سازی اور کپتانی کی عمدہ مثال قائم کی۔ حالات نے شاید ان کو ایک جدید کرکٹر بننے پر مجبور کر دیا یعنی ایک ٹی ٹونٹی سپیشلسٹ۔ اس فارمیٹ میں ٹیسٹ کرکٹ کی نسبت مختلف انداز اپنانا پڑتا ہے اور جسم پر دباؤ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ڈیبیو کے بعد سے انڈیا کے لیے صرف چھ ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جبکہ دوسری جانب ٹی ٹونٹی پر نظر ڈالیں تو وہ 60 فیصد میچ کھیل چکے ہیں۔ اپنی جسمانی ساخت کے باوجود وہ حیران کن طاقت سے بیٹنگ کرتے ہیں اور ان کی بولنگ کی رفتار بھی بلے بازوں کو چونکا دیتی ہے۔ وہ فیلڈنگ بھی کمال کی کرتے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات ہے کہ انڈیا ان کو ایک ہی فارمیٹ کا کھلاڑی سمجھتا ہے۔ شاید وہ دوسرے کپل دیو نہیں ہیں۔ لیکن وہ پہلے ہاردک پانڈیا ضرور ہیں۔ اور انڈیا کے لیے یہی کافی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c84gj4qd2qxo
گنیش کے عقیدت مند اور ٹیٹوز سے محبت کرنے والے سوریا کمار جنھیں مشہور ہونے کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑا
انڈیا آج ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انگلینڈ کے مدمقابل ہو گا۔ اس بڑے میچ سے قبل انگلینڈ کے کپتان جوس بٹلر نے انڈین بیٹر سوریا کمار یادیو کو انگلش ٹیم کے لیے ’سب سے بڑا خطرہ‘ قرار دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں جوس بٹلر کا کہنا تھا کہ ’ظاہر ہے کہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ سوریا کمار یادیو ہیں، جو پورے ٹورنامنٹ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ وہ کھل کر بیٹنگ کرتے ہیں اور اپنے کھیل کے طریقے سے گیم کا پانسہ بدل سکتے ہیں۔‘ اس رپورٹ میں بی بی سی نے سوریا کمار یادیو کے کریئر پر ایک نظر ڈالی ہے۔ 15 دسمبر 2010 کو فرسٹ کلاس ڈیبیو کرنے والے سوریا کمار یادیو کو 14 مارچ 2021 کو انڈیا کے لیے کھیلنے کا پہلا موقع ملا، یعنی ڈومیسٹک کرکٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ تک کے سفر کے لیے انھیں 11 سال انتظار کرنا پڑا۔ اِن دنوں آسٹریلیا میں کھیلے جا رہے ورلڈ ٹی 20 ورلڈ کپ میں انھوں نے اپنی بلے بازی سے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ سوریا کمار نے انڈین ٹیم کو ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک لے جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھیں 360 ڈگری کا بلے باز کہا جاتا ہے یعنی ایسا بلے باز جو میدان کے کسی بھی کونے میں شاٹس کھیل سکتا ہے، اور اسی صلاحیت کی وجہ سے اُن کا موازنہ اے بی ڈی ویلیئرز سے کیا جا رہا ہے۔  لیکن سوریا کمار یادو کے لیے ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم میں جگہ بنانے کا یہ سفر اُتار چڑھاؤ سے بھرپور رہا۔ جب وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز بنا رہے تھے تو انھیں ٹیم میں جگہ نہیں مل رہی تھی، لیکن سوریہ کمار نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اپنی جدوجہد کے دنوں میں سوریا کمار نے آسٹریلوی کرکٹر مائیک ہسی کو اپنا رول ماڈل بنایا اور وہ ہمیشہ اُن کے ذہن میں رہتے تھے۔ یاد رہے کہ آسٹریلوی ٹیم میں اپنے وقت کے عظیم کھلاڑیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہسی کو بھی دس سال انتظار کرنا پڑا تھا۔ ہسی نے اس پر کوئی شکایت نہیں کی، اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا، بس رنز بناتے رہے اور بلآخر انھیں موقع مل گیا۔ درحقیقت کھیلوں کی تیز رفتار دنیا میں عمر کی تیسری دہائی کو کیریئر کا آخری مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ ہسی کو بھی بڑی عمر میں یہ موقع ملا اور اسی لیے اُن کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، لیکن جو موقع ملا اس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ہسی نے ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹوئنٹی 20 کرکٹ میں خود کو ثابت کیا اور ان کا شمار دنیا کے بہترین فنشرز میں ہوتا تھا۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ سوریا کمار کے والد انھیں وقتاً فوقتاً مائیک ہسی کی مثال دیتے تھے۔ آج سوریا کمار یادو بھی مائیک ہسی کی طرح کرکٹ کے میدان میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ ہسی کی طرح سوریا کمار کو بھی بڑی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا مگر موقع ملنے کے ڈیڑھ سال کے اندر سوریا کمار ٹی 20 فارمیٹ میں آئی سی سی بیٹنگ رینکنگ میں ٹاپ پر پہنچ گئے ہیں۔ سوریا کمار نے صلاحیت، مہارت، فٹنس، دباؤ کو سنبھالنے اور کھیل کو پڑھنے کی صلاحیت جیسے تمام محاذوں پر خود کو ثابت کیا ہے۔ وہ ممبئی ٹیم کے مضبوط کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ آئی پی ایل ٹورنامنٹس میں ممبئی انڈینز کے لیے بھی کھیلتے ہیں۔ اس سے قبل وہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لیے بھی کھیل چکے ہیں۔ گوتم گمبھیر نے سوریا کمار یادو کو کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لیے کھیلنے کا موقع دیا تھا، جس کے بعد ممبئی انڈینز کے کپتان روہت شرما کی نظر اُن پر پڑ گئی۔ سنہ 2018 میں روہت شرما نے سوریا کمار یادیو کو ممبئی انڈینز کے لیے خریدا اور تب سے ان کی قسمت بدل گئی۔ سوریا کمار بھلے ہی ممبئی انڈینز کی ریڑھ کی ہڈی بن گئے ہوں لیکن ان کے لیے انڈین ٹیم کے دروازے اتنی آسانی سے نہیں کُھلے۔ آئی پی ایل ٹورنامنٹ میں رنز بنانے کے باوجود سوریا کمار کو ویٹنگ لسٹ میں رکھا گیا مگر بالآخر انھیں 2021 میں انڈین ٹیم میں جگہ مل گئی۔ سوریا کمار یادو کے والد بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر میں کام کرتے ہیں۔ خاندان میں اُن کی والدہ، بہن اور اہلیہ شامل ہیں اور یہ خاندان انوشکتی نگر میں رہتا ہے۔ سوریا کمار کے اہلخانہ نے جب دیکھا کہ وہ کرکٹ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور علاقے میں ٹینس بال مقابلوں میں شاندار کارکردگی دکھا رہے ہیں چنانچہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور سوریا کمار نے ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن کے انڈر 15، انڈر 17 ٹورنامنٹس میں کھیلنا شروع کیا۔ یہ بھی پڑھیے منطق سے عاری پاکستان ٹیم کی ’سڈنی پارٹی‘ ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان کرکٹ کا جوابی وار، سمیع چوہدری کا کالم ٹی 20 ورلڈ کپ: ’کنگ بابر، پچھلی تمام ٹویٹس کے لیے معذرت‘ کچھ ہی عرصے میں سوریہ کو ممبئی کی ٹیم میں جگہ مل گئی۔ ممبئی کے کرکٹرز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آخری لمحات تک ہمت نہیں ہارتے، مراٹھی میں انھیں ’کھدو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سوریا کمار کو ایک ایسے کھلاڑی کے طور پر جانا جاتا ہے جو سخت حالات میں اپنا انداز بدلے بغیر کھیلتا ہے۔ سوریا کمار نے محسوس کیا کہ انڈین ٹیم کے دروازے اس وقت تک نہیں کھلیں گے جب تک وہ رنز نہیں بناتے۔ آئی پی ایل ٹورنامنٹ میں فنشر کے طور پر اور مڈل آرڈر کے طور پر ان کا کردار بدلتا رہا۔ سوریا کمار اس وقت بھی مایوس نہیں ہوئے جب ان کے ساتھ کھیلنے والوں کو تو ٹیم میں کھیلنے کے مواقع مل رہے تھے مگر وہ اس سے محروم تھے۔ سوریا کمار ممبئی میں پلے بڑھے ہیں، اس لیے وہ یقینی طور پر ممبئی والے ہیں۔ ’بریک فاسٹ ود چیمپیئنز‘ ایونٹ میں گورو کپور سے بات کرتے ہوئے سوریا کمار نے کھانے سے اپنی محبت کے بارے میں بتایا تھا کہ انھیں وڈا پاؤ، پاؤ بھاجی اور سڑک کے کنارے چائنیز فوڈ خاص طور پر ٹرپل شیزوان چاول بہت پسند ہیں۔ کرکٹ کھیلنے کے لیے کھانے پینے پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے اب وہ یہ چیزیں آسانی سے نہیں کھا سکتے ہیں۔ سوریا کمار مراٹھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں، مراٹھی صحافی ان سے مراٹھی میں سوال پوچھتے ہیں تو وہ بھی روانی سے مراٹھی میں جواب دیتے ہیں۔ ’سکائی‘ نام کیسے پڑا؟ سنہ 2014 کے سیزن سے سوریا کمار نے آئی پی ایل میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لیے کھیلنا شروع کیا۔ اس وقت کولکتہ ٹیم کے کپتان گوتم گمبھیر تھے۔ ورزش کے دوران گمبھیر انھیں ’سکائی‘ کہتے تھے، سوریا کمار نے پہلے اس پر توجہ نہیں دی۔ لیکن جب انھوں نے گوتم گمبھیر سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ سوریا کمار یادو کے نام کے ہر لفظ کے پہلے حرف کو شامل کیا جائے تو لفظ سکائی یعنی ’آسمان‘ بنتا ہے۔ سوریا کمار یادو ونائک گنپتی کی تصاویر باقاعدگی سے انسٹاگرام پر شیئر کرتے ہیں۔ سوریا کمار کے جسم پر بہت سے ٹیٹو ہیں۔ یہ ٹیٹو منفرد ہیں۔ سوریا کمار نے ایک طرف اپنے والدین کی تصویر کا ٹیٹو بھی بنوایا ہوا ہے اور ایک جگہ بیوی کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ بائیں کندھے پر ایک ٹیٹو ہے جو ماوری ثقافت کی علامت ہے۔ سوریا کمار جب دورے پر ہوتے ہیں تو انھیں اپنے دو پیارے کتے ’پابلو‘ اور ’اوریو‘ یاد آتے ہیں، یہ کتے فرانسیسی بل ڈوگ نسل کے ہیں۔ سوریا کمار کو کاروں کا بھی شوق ہے۔ انھوں نے اس سال مرسڈیز بینز کا ماڈل 2.5 کروڑ میں خریدا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس آوڈی آر فائیو، منی کوپر، رینج روور، نسان جونگا اور دیگر گاڑیاں بھی ہیں۔ آئی پی ایل سیزن کے دوران سوریا کمار کی 30 ویں سالگرہ تھی۔ ممبئی انڈینز کے کپتان روہت شرما نے اس موقع پر ان سے کہا کہ ’کیپ‘ زیادہ دور نہیں ہے۔ روہت کی بات سچ ثابت ہوئی اور چند ہی مہینوں میں سوریا کمار نے انڈیا کے لیے ڈیبیو کیا۔ سوریا کمار کی ترقی میں روہت نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ سوریا کمار نے میڈیا کے سامنے یہ بات کہی کہ ’جب میں نے اپنا ڈیبیو کیا تو روہت بیٹنگ کر رہے تھے، تب سے لے کر اب تک انھوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے۔‘ سوریا کمار اور دیویشا کی شادی سنہ 2017 میں ہوئی تھی، حالانکہ دونوں کے درمیان محبت 2010 سے تھی۔ سوریا کمار بار بار کہتے رہے ہیں کہ دیویشا کا کردار ان کے کیریئر کو ایک نئی جہت دینے میں اہم ہے۔ دیویشا نے سوریا کمار یادو سے کہا کہ آپ ممبئی کے لیے کھیلتے ہیں، آئی پی ایل کھیلتے ہیں لیکن آپ کا کریئر کیوں آگے نہیں بڑھ رہا؟ اس کے بعد ہی دونوں نے مل کر ایکشن پلان تیار کیا۔ اس کے بعد سوریا کمار یادو نے بیٹنگ کوچ، ڈائٹنگ کوچ وغیرہ سے مشورہ کیا، روٹین کو کنٹرول کیا۔ رات گئے پارٹیاں بند ہو گئیں اور محنت بالآخر رنگ دکھانے لگی۔ سوریا کمار یادو نے 6 اپریل 2012 کو آئی پی ایل میں اپنا ڈیبیو میچ کھیلا تھا۔ وہ بھی ممبئی انڈینز سے۔ پونے واریئرز کے خلاف میچ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سچن ٹنڈولکر نہیں کھیل سکیں گے۔ ان کی جگہ نوجوان سوریا کمار یادو کو موقع دیا گیا۔ سچن جیسے لیجنڈ کی جگہ بہت کم کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سوریا کمار اس میچ میں چھٹے نمبر پر بلے بازی کرنے آئے تھے لیکن زیادہ کچھ نہ کر سکے۔ سوریا کمار کو یاد ہے کہ اس وقت سچن نے خود مجھے سائیڈ پر بیٹھنے کی جگہ دی تھی اور تب سے میں وہیں بیٹھا ہوں۔ ممبئی ٹیم کے کارکردگی کے تجزیہ کار سوربھ واکر نے سوریہ کمار کے آل راؤنڈ کھیل کو دیکھا اور انھیں ’زی سنیما‘ کا نام دیا۔ ناگراج گولا پوڈی کے ساتھ کرک انفو ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے سوریہ کمار نے اس عجیب نام کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ سوربھ واکر نے کہا تھا کہ ’آپ کے کھیل میں ایکشن، مزہ، ڈرامہ سب کچھ ہے اسی لیے آپ زی سنیما ہیں۔‘ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ٹی ٹوئنٹی  ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے سوریا کمار نے پارسی جم خانہ میں گرین باؤنسی پچ بنانے کی درخواست کی تھی۔ سوریا کمار نے ممبئی کے سابق کھلاڑی ونائک مانے کی رہنمائی میں اس پچ پر انتھک مشق کی۔ سینیئر سپورٹس صحافی مکرند ویانگکر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ہر روز چار گھنٹے کے سیشن میں، انھوں نے سوریا کمار کے مختلف سٹروک کو زیادہ کمپیکٹ اور درست بنانے پر کام کیا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjkx48l855no
ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان کرکٹ کا جوابی وار، سمیع چوہدری کا کالم
سیانے کہتے ہیں کہ عجلت میں نہ تو کوئی فیصلہ لینا چاہیے، نہ ہی کوئی رائے باندھنی چاہیے ورنہ منہ سے نکلے قول پلٹ کر وار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ نے بھی یہاں پلٹ کر بھرپور وار کیا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ وقت ہو چکا کہ یہ ٹیم ہر سمت سے طنز و تنقید کے نشتر جھیل رہی ہے۔ بجا کہ مڈل آرڈر میں کمزوریاں موجود تھیں مگر تنقید ان کجیوں سے ماورا کچھ عزائم کے بطن سے پھوٹ رہی تھی۔  بلاشبہ رضوان اپنے سٹرائیک ریٹ سے جھوجھ رہے تھے مگر ناقدین صرف ان کی اوپننگ پوزیشن کے ہی درپے نہیں تھے۔ اگرچہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں شکست مایوس کُن تھی مگر ٹرائی سیریز میں معجزاتی فتح بھی اس تنقید کے سیلاب کو تھام نہ پائی جو انگلینڈ سیریز سے بہنا شروع ہوا تھا۔ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں جہاں تنقید غلط سلیکشن پر ہونی چاہیے تھی، وہاں بھی توپوں کا رخ اوپنرز کی ’خود غرضی‘ کی طرف رہا۔ پرتھ میں جہاں مشکل پچ پر زمبابوین پیس کی درستی قابلِ دید تھی، وہاں دراصل ناکامی پاکستانی بولنگ کی تھی جس نے پاور پلے میں مومینٹم زمبابوے کو دے دیا مگر قصوروار یہاں بھی بابر اور رضوان ہی ٹھہرائے گئے۔ انگلینڈ کے خلاف حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ناصر حسین نے بجا کہا تھا کہ اگر کوئی بابر اعظم اور محمد رضوان کو پاکستان کا مسئلہ سمجھتا ہے تو اس نے غالباً کرکٹ دیکھی ہی نہیں اور کہی سنی کا پرچارک ہے۔ گروپ سٹیج کے آخری تینوں میچز میں پاکستان نے بہتر کرکٹ کھیلی اور بلاشبہ ٹیم کی اس پیش رفت میں قسمت نے بھی پاکستان کی یاوری کی مگر جس عین درست لمحے پر اس ٹیم نے یہ مومینٹم حاصل کیا ہے، اب یہ تقریباً ناقابلِ تسخیر ہو چکی ہے۔ بابر اعظم کی کپتانی بھی عموماً زیرِ بحث رہتی ہے اور بلاشبہ اُن کے پاس بہت سے پہلوؤں میں بہتری لانے کی گنجائش ہے مگر یہاں اُنھوں نے ثابت کیا کہ اگر وہ مکمل طور پر لمحے میں مرتکز ہوں تو کوئی بھی ان کی جارحیت کا جواب نہیں دے سکتا۔ کیوی بیٹنگ لائن جس طرح کے خطرات سے بھرپور تھی اور ٹورنامنٹ کے آغاز میں جیسی تباہ کن کرکٹ اُنھوں نے آسٹریلوی پیس اٹیک کے خلاف اسی سڈنی کی وکٹ پر کھیل رکھی تھی، وہ پاکستانی بولنگ کو بھی مخمصے میں ڈال سکتی تھی۔ یہاں بابر اعظم کا امتحان تھا کہ وہ اپنے زبردست بولنگ اٹیک کو کس دانش سے استعمال کریں گے۔ شاہین آفریدی نے پہلی ہی گیند پر آف سٹمپ سے باہر لینتھ پر سوئنگ کھوجنے کی کوشش کی اور باؤنڈری جھیلنی پڑی مگر دوسری ہی گیند پر وہ اس پچ کی پرفیکٹ لینتھ بھانپ گئے تھے اور جو ابتدائی نقصان وہاں کیویز کو پہنچایا، اس نے کسی بھی خطیر ہدف کو ممکنات سے منہا کر دیا۔ جو مہارت اور لگن بولنگ کے شعبے میں اجاگر ہوئی، ویسی ہی حاضر دماغی پاکستانی فیلڈنگ میں بھی نظر آئی اور شاداب خان کی ڈائریکٹ تھرو نے ولیمسن کی بیٹنگ لائن کے سارے حساب کتاب گڈمڈ کر دیے۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جہاں سے کیوی اننگز مدافعتی خول میں جانے پر مجبور ہوئی اور بقا پہلی ترجیح ٹھہری۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام بابر اعظم قدرے خوش قسمت بھی رہے کہ عین اوائل میں جب بولٹ ان کے دفاع کا امتحان لے رہے تھے تو اندازے کی چُوک ہوئی مگر جہاں بابر سے غلطی ہوئی، عین وہیں کانوئے سے بھی وہی غلطی ہوئی اور وہ بھی ان سوئنگ کے دھوکے میں کیچ سے دور رہ گئے۔ بابر اعظم جس درجے کے بلے باز ہیں، اُنھیں فارم میں واپس آنے کے لیے ایسی ایک آدھ چھوٹ ہی بہت ہوتی ہے اور بابر نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سڈنی کا باؤنس بھی ان کے لیے کوئی امتحان نہیں تھا اور ان کے قدم پوری طرح متحرک نظر آئے۔ بلا مبالغہ یہاں وہ اپنے سابقہ بہترین کھیل سے بھی بہتر کھلاڑی دکھائی دیے۔ یہ بھی پڑھیے ٹی 20 ورلڈ کپ: ’کنگ بابر، پچھلی تمام ٹویٹس کے لیے معذرت‘ ہماری نظریں فائنل پر جمی ہیں، چاہے حریف انڈیا ہو یا انگلینڈ: بابر بابر اور رضوان کی یہ طویل پارٹنرشپ ورلڈ کپ کے لیے بھی ایک اور ریکارڈ بن گئی۔ ولیمسن کی بولنگ نے پاور پلے میں وہی غلطیاں کی جو سپر 12 کے پہلے میچ میں آسٹریلوی بولنگ نے ان کے خلاف کی تھیں۔ بولٹ بابر اعظم کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے مگر بہت جلد اُنھوں نے لینتھ کھینچنی شروع کر دی اور رضوان کا امتحان لینے کے بجائے خود ہی امتحان میں پڑ گئے۔ یہ کسی خواب سے کم نہیں کہ اپنے پہلے دو میچز کے بعد جو ٹیم اپنے گروپ سے ہی ناک آؤٹ کے قریب تھی، وہ اپنی بہترین کرکٹ کی بدولت اب فائنل میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن چکی ہے اور اب وہ منتظر ہے کہ اتوار کو میلبرن میں اس کا ٹاکرا کس سے ہو گا۔ انگلینڈ کی ٹیم کوئی کمزور حریف ہرگز نہیں ہے مگر اس میں دو رائے نہیں کہ حالیہ کچھ پرفارمنسز بٹلر کی الیون کا بہترین نمونہ نہیں تھیں۔ بٹلر کے لیے فکر کا سامان ہے کہ ایڈیلیڈ کی وکٹ عموماً سپنرز کے لیے سازگار رہا کرتی ہے اور انگلش سپنرز کی حالیہ مہم متاثر کن نہیں رہی۔  دوسری جانب وراٹ کوہلی اور سوریا کمار یادیو کی بہترین فارم کے اردگرد بُنی ہوئی انڈین بیٹنگ لائن ہمیشہ سپنرز کے خلاف جارحیت پر مائل رہتی ہے۔  انڈیا کا پیس اٹیک ہی نہیں، سپنرز بھی ان وکٹوں پر مؤثر رہے ہیں اور دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا عادل رشید اور معین علی انڈین بیٹنگ کو فائنل تک رسائی سے روک پاتے ہیں یا ایک اور سنسنی خیز پاک انڈیا ٹی ٹونٹی ورلڈ فائنل ہمیں دیکھنا نصیب ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c2lve41jd1jo
بابر اعظم: آپ بھی انجوائے کریں شائقین بھی اور جو ٹی وی پر بیٹھے ہیں وہ بھی
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پہنچنے پر کپتان بابر اعظم سے زیادہ خوش اور مطمئن اور کون ہو گا؟  اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ  ٹیم تو ہار رہی تھی لیکن خود ان کی اپنی پرفارمنس ان کے معیار سے کہیں زیادہ گری ہوئی تھی اور پاکستانی ٹی وی چینلز پر تبصرے کرنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی توپوں کا رخ ان کی طرف تھا۔ لیکن اب پاکستانی ٹیم نے اپنی کارکردگی سے ان توپوں کو خاموش کر دیا ہے اور کپتان بابر اعظم کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب وہ سیمی فائنل کے بعد میڈیا کے سامنے آئے تو اس سوال پر کہ آپ اور رضوان کی جوڑی کو الگ کرنے کی بہت باتیں ہو رہی تھیں اس پر بابر اعظم  کا کہنا تھا ’ہم اپنے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ ہماری سوچ واضح تھی یہ کرکٹ ہے اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ تنقید سب کرتے ہیں جب ہم اچھا کرتے ہیں تب بھی وہ تنقید کرتے ہیں۔‘  بابراعظم نے پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’یہ جیت آپ بھی انجوائے کریں۔ یہاں کا کراؤڈ اور پاکستانی عوام بھی انجوائے کریں اور وہ لوگ بھی جو ٹی وی پر بیٹھے ہیں۔‘  پاور پلے میں جارحانہ حکمت عملی بابر اعظم کہتے ہیں ’رضوان اور میں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ ہم نے پاور پلے کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا ہے اور جب ہم اٹیک کریں گے تب ہی حریف ٹیم بیک فٹ پر جائے گی۔ ہم اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوئے۔‘  بابر اعظم کہتے ہیں ’جب آپ ہدف کا تعاقب کرتے ہیں تو آپ کو رسک لینا ہوتا ہے۔ ہماری پارٹنرشپ سے ٹیم کو مومینٹم ملا  جسے ہم نے ادھورا نہیں چھوڑا۔ ہم دونوں میچ کو فنش کرنا چاہتے تھے بدقسمتی سے ہم دونوں آؤٹ ہو گئے لیکن محمد حارث نے ایک بار پھر بہت ہی زبردست اننگز کھیلی۔ اس نوجوان نے زبردست تاثر چھوڑا ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کا پہلا ورلڈ کپ ہے۔‘  خراب ابتدا کے بعد سنبھال لیا بابراعظم کہتے ہیں ’اس ٹورنامنٹ میں ہمارا سٹارٹ اچھا نہیں رہا لیکن ٹیم نے کم بیک کیا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف جیت سے ایک نئی امید ملی۔ ہماری ٹیم کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ ہم خود پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہم کرسکتے ہیں۔ ہم کر کے دکھائیں گے اور ہم نے کر کے دکھایا ہے۔‘  بابر اعظم کہتے ہیں میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹرائی سیریز میں ملنے والے اعتماد کے ساتھ یہاں آیا ہوں لیکن بدقسمتی سے کسی بھی میچ میں مجھ سے رنز نہیں ہوئے اسی طرح رضوان بھی تگ و دو کر رہے تھے لیکن ہمیں اس بات کا یقین تھا کہ اگر ہم سیٹ ہو گئے تو ہم صورتحال بدل سکتے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gxv9eyxzeo
ٹی 20 ورلڈ کپ: ’کنگ بابر، پچھلی تمام ٹویٹس کے لیے معذرت‘
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان کی جیت کی تو خوشی منائی جا رہی ہے مگر سوشل میڈیا پر آج سب سے زیادہ چرچا اگر کسی کا ہے تو وہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی کی شاندار پرفارمنس کا ہے۔  اس ٹورنامنٹ میں اب تک بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ بلے بازی کچھ خاص نہیں رہی ہے تاہم یہ وہ جوڑی ہے جو ماضی میں پاکستان کو کئی میچ جتوا بھی چکی ہے۔  چنانچہ آج پاکستانی کرکٹ کے شائقین یہی دعا کر رہے تھے کہ کاش یہ پارٹنرشپ گذشتہ سال ٹی 20 ورلڈ کپ کی یاد تازہ کر دے جب بابر اعظم اور محمد رضوان نے 152 رنز بنا کر انڈیا کو ہرا دیا تھا۔  یہ تو نہ ہو سکا کیونکہ بابر اعظم 53 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے تاہم اس کے بعد میچ پاکستانی ٹیم کو جیت کے لیے 44 گیندوں پر 48 رنز ہی درکار تھے۔  یہ میچ آخری اوور تک گیا جہاں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سات وکٹوں سے شکست دے دی اور محمد رضوان اپنی 57 رنز کی اننگز کے لیے پلیئر آف دی میچ قرار پائے۔ سوشل میڈیا پر سابق کرکٹرز، کمنٹیٹرز اور پاکستانی شائقین نے آج پاکستان کی بیٹنگ اور بولنگ کارکردگی کی کھل کر تعریف کی جس نے نیوزی لینڈ کو ان کی اننگز میں صرف 152 رنز پر محدود کر دیا تھا۔  معروف کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے لکھا کہ اگر آپ پاکستان سے کہتے کہ وہ ایسی واپسی کا سکرپٹ لکھیں، تو وہ شاید خود بھی یہ نہ لکھ پاتے۔  اس موقع پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ایک ٹویٹ بھی موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ ہوا کچھ یوں کے پاکستان کی فتح کی چند ہی منٹوں بعد عمران خان کی جانب سے پاکستان کو فتح کی مبارکباد دینے کی غرض سے ایک ٹویٹ کی گئی تاہم اس ٹویٹ کا متن کچھ یوں تھا: ’بابر اعوان اور ان کی ٹیم کو عظیم فتح پر مبارکباد۔‘ تاہم کچھ ہی دیر بعد اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا اور بعدازاں بابر اعوان کے بجائے بابر اعظم لکھ کر اس ٹویٹ کو دوبارہ پوسٹ کیا گیا۔ انڈیا کے سابق کرکٹر سنجے منجریکر نے لکھا کہ پاکستان کی شاندار بولنگ کی ان کی فیلڈنگ کے ساتھ کم ہی ہم آہنگی نظر آتی ہے مگر آج یہ ہوا ہے۔  اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 میر کاشی نامی صارف نے لکھا کہ منفی باتیں، تنقید، گالیاں، نفرت، حوصلہ شکنی اور فارم کی کمی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو بابر اعظم کے لیے اجنبی ہیں، آج بادشاہ نے اپنے آپ کو ثابت کر دیا ہے۔  اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 سوشل میڈیا صارف کرن نے لکھا کہ بابر اعظم باؤنڈریز کر رہے ہیں اور لوگ بابر بابر کے نعرے لگا رہے ہیں، مجھے رونا آ رہا ہے۔ اُنھیں کس قدر تنقید سہنی پڑی ہے۔  اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ہانیہ نے لکھا کہ الحمداللہ ہمارے لڑکوں کی واپسی، نمبر 1 اوپننگ جوڑی فارم میں واپس آ چکی ہے۔   اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 انڈیا کے سپورٹس صحافی وکرانت گپتا نے لکھا کہ بابر اعظم اور محمد رضوان نے اس دن کارکردگی دکھا دی ہے جس دن اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔  اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 شارجہ کی کنڈیشنز جہاں پاکستان کے لیے ہمیشہ موافق رہی ہیں اس کے بارے میں ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ سڈنی کی پچ ہے یا دبئی شارجہ کی، اتنا ایک طرفہ تعاقب، یا تو نیوزی لینڈ بہت برا کھیل رہا ہے یا پاکستان بہت اچھا کھیل رہا ہے۔  اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 صحافی شہریار جعفری نے لکھا کہ اُنھوں نے بابر اعظم اور محمد رضوان سے معافی کا فارم بھر دیا ہے، آپ سب لوگ بھی بھریں۔ اُنھوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ جیو بابر، مائی لارڈ کنگ، تمام پچھلی ٹویٹس کے لیے معذرت۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0xz334pv2yo
پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟
سنہ 1992 اور 2022 میں تھوڑا بہت نہیں بلکہ پورے 30 سال کا فرق ہے لیکن اِن 30 برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا موقع ہو جب 1992 کے عالمی کپ کی جیت کو کسی نے یاد نہ کیا ہو۔ بلاشبہ اُس عالمی کپ کی جیت کو پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ کہا جا سکتا ہے۔ آج 30 سال گزرنے کے بعد 1992 کے عالمی کپ کو پھر سے یاد کیا جا رہا ہے لیکن اس کی وجہ کچھ مختلف اور دلچسپ ہے۔ اس وقت اسے یاد کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کی 30ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے کیونکہ وہ تو اس سال 25 مارچ کو منائی جا چکی لیکن اب اسے یاد کرنے کا بڑا سبب پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم بنی ہے جو اس وقت آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیل رہی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ  1992 کے عالمی کپ کا 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے کیا تعلق؟ یقیناً آپ یہی سوچیں گے کہ دونوں مختلف فارمیٹ کے ٹورنامنٹس ہیں۔ 1992 کا عالمی کپ پچاس اوورز کا ٹورنامنٹ تھا جبکہ موجودہ ٹورنامنٹ بیس اوورز کے مختصر دورانیے کی کرکٹ کا ہے لیکن دونوں میں ایک بات قدِر مشترک ہے اور وہ ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم۔ پاکستانی ٹیم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے پُرستاروں کو جتنی تیزی سے مایوس کر دیتی ہے اتنی ہی تیزی سے انھیں خوش کرنے کا فن بھی جانتی ہے اور اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس کی کارکردگی کچھ اسی طرح کی رہی ہے کہ پہلے شائقین جتنا مایوس ہو سکتے تھے وہ ہو گئے لیکن اب ہر کوئی ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے پر خوش ہے۔ سنہ 1992 کے عالمی کپ میں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ رہا تھا جب ایک کے بعد ایک شکست کے نتیجے میں کوئی بھی اس کی جیت تو درکنار اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بارے میں بھی یقین نہیں کر رہا تھا لیکن وہ ٹیم نہ صرف فائنل میں پہنچی بلکہ انگلینڈ کو ہراکر فاتح بھی بنی۔ پہلے پاکستانی ٹیم کے 92 ورلڈ کپ کے سفر پر نظر ڈالتے ہوئے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ یہ ورلڈ کپ بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں ہوا تھا۔ پاکستانی ٹیم کا سفر میلبرن سے شروع ہوا تھا لیکن پہلے ہی میچ میں اسے ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں دس وکٹوں کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس میچ میں کپتان عمران خان کندھے کی تکلیف کی وجہ سے نہیں کھیلے تھے اور کپتانی جاوید میانداد نے کی تھی۔ پاکستانی ٹیم نے اگلے میچ میں زمبابوے کو 53 رنز سے ہرایا لیکن ایڈیلیڈ میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں پوری ٹیم صرف 74 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی تھی۔ انگلینڈ نے ایک وکٹ پر 24 رنز بنا لیے تھے اور اس کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی کہ بارش کی وجہ سے میچ ختم کر دینا پڑا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا۔ اگلے دو میچوں میں پاکستانی ٹیم انڈیا اور جنوبی افریقہ سے ہاری تو پاکستانی شائقین کی مایوسی میں اضافہ ہو چکا تھا اور ٹیم کے آگے بڑھنےکے بارے میں بے یقینی بڑھنے لگی تھی اور کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ ٹیم سیمی فائنل میں بھی جائے گی۔ ان تین لگاتار کامیابیوں کے بعد پاکستانی ٹیم کے اگرچہ 9 پوائنٹس ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود اس کا سیمی فائنل میں پہنچنا اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں تھا اور تمام تر نظریں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ورلڈ کپ کے آخری لیگ میچ پر لگی ہوئی تھیں۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ آسٹریلیا کے چھ اور ویسٹ انڈیز کے آٹھ پوائنٹس تھے۔ ویسٹ انڈیز وہ میچ جیت جاتی تو پاکستان کو باہر کرتے ہوئے دس پوائنٹس کے ساتھ  سیمی فائنل میں پہنچ جاتی لیکن میلبرن میں کھیلے گئے اس میچ میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو57 رنز سے ہرا کر پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو وہ ایک پوائنٹ سیمی فائنل میں لے گیا جو اسے انگلینڈ کے خلاف بارش سے متاثرہ میچ میں ملا تھا۔ پاکستانی ٹیم کی 92 ورلڈ کپ کی کارکردگی کے بعد اگر ہم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کارکردگی دیکھیں تو یہ سفر 30 سال پہلے والا ہی نظر آتا ہے۔ اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کا سفر میلبرن میں شکست سے شروع ہوا۔ تیس سال پہلے ٹیم ویسٹ انڈیز تھی اس مرتبہ اسے انڈیا نے ناکامی سے دوچار کیا۔ یہ بھی پڑھیے دعائیں، قدرت اور کرکٹ کے انوکھے فینز: ’میں پیشگوئی کرتی ہوں پاکستان یہ ورلڈ کپ جیتے گا‘ وہ کیچ جو پاکستان کو سیمی فائنل تک لے گیا، سمیع چوہدری کا کالم ’ویلکم ٹو پاکستان کرکٹ، کسی بھی دن کچھ بھی ہو سکتا ہے بانوے کے عالمی کپ کے آخری تین لیگ میچوں میں پاکستانی ٹیم نے کامیابیاں حاصل کی تھیں اسی طرح اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا اور زمبابوے سے ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے ہالینڈ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف لگاتار تین میچ جیتے۔ بانوے کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کو آخر وقت تک سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے انتظار کرنا پڑا تھا جسے آسٹریلیا کی ویسٹ انڈیز کے خلاف جیت نے ممکن بنا دیا تھا اس مرتبہ گروپ میچوں کے آخری دن ہالینڈ کی جنوبی افریقہ کے خلاف ڈرامائی جیت نے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ پاکستانی ٹیم سڈنی میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے مقابلہ کرنے والی ہے۔ بانوے کے عالمی کپ میں بھی اس نے اپنا سیمی فائنل نیوزی لینڈ کے خلاف جیتا تھا۔ بانوے کے عالمی کپ میں اس کا سفر میلبرن میں شکست سے  شروع ہوکر میلبرن میں ہی فاتحانہ انداز میں ختم ہوا تھا۔اس مرتبہ بھی اس نے پہلا میچ میلبرن میں ہارا اور اب پاکستانی شائقین یہی دعا کر رہے ہیں کہ ٹیم کا یہ سفر میلبرن میں جیت کے ساتھ اختتام پذیر ہو۔ پاکستانی ٹیم نے جس طریقے سے اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی ہے، سوشل میڈیا پر لوگوں نے دلچسپ تبصروں کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ ٹوئٹر پر ایک صارف نے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ایک شخص تیزی سے آنے والی گاڑیوں سے بچتے ہوئے سڑک عبور کر رہا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی لکھا ہےکہ قدرت  کا نظام جیت گیا۔ ایک اور صارف سیف اللہ نے بھی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ایک فوجی کو دروازے کو لات مار کر کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اس دوران ایک اور فوجی آ کر اطمینان سے دورازے کو کھول دیتا ہے، اس فوجی کو ہالینڈ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں کار ( پاکستانی ٹیم)  کو سڑک پر لگے ہوئے ایئرپورٹ اور سیمی فائنل کے اشاروں میں سیمی فائنل کی طرف مڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ اس طرح کے تبصرے بھی ہوئے ہیں کہ عمران خان نے 1992 میں ورلڈ کپ جیتا اور 2018 میں وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے تو کیا بابر اعظم 2022 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد 2048 میں ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/c808kwz0l11o
’ویلکم ٹو پاکستان کرکٹ، کسی بھی دن کچھ بھی ہو سکتا ہے‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ اور مینٹور میتھیو ہیڈن کو یقینی طور پر اب یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم سب کو کس طرح حیران کر سکتی ہے۔ میتھیو ہیڈن کہتے ہیں ’جب ہم اپنا آخری گروپ میچ کھیل رہے تھے تو ڈگ آؤٹ میں شاداب خان نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ویلکم ٹو پاکستان کرکٹ۔ ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ کسی بھی دن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘ میتھیو ہیڈن کہتے ہیں ’ہالینڈ کی جنوبی افریقہ کے خلاف جیت ہمارے لیے یادگار لمحہ تھی۔ ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ پاکستانی عوام ہمارے لیے دعا کر رہے تھے۔‘ میتھیو ہیڈن سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا بابراعظم کو اوپنر کے بجائے ون ڈاؤن پر نہیں کھیلنا چاہیے تو انھوں نے اس کا جواب ایڈم گلکرسٹ کی مثال سے دیا۔ ہیڈن کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بابراعظم اور محمد رضوان کی جوڑی ورلڈ کلاس ہے۔ جہاں تک بابراعظم کے بڑا سکور نہ کرنے کی بات ہے تو مجھے 2007 کا ورلڈ کپ یاد ہے جب میں اور ایڈم گلکرسٹ اوپنرز تھے اور گلکرسٹ کامیاب نہیں ہو رہے تھے لیکن ٹیم کا ان پر اعتماد قائم تھا اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے سری لنکا کے خلاف سنچری بناڈالی۔‘ ’کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ بابر بڑے میچ میں بڑا سکور کردیں۔ اتارچڑھاؤ ہر کرکٹر کے کریئر میں آتے ہیں۔‘ میتھیو ہیڈن محمد حارث کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حارث ٹیم میں شامل نہیں تھے لیکن بعد میں وہ ٹیم کا حصہ بنے۔ یہ بہت ہی دلچسپ کہانی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ حارث کو پہلے ہی ٹیم میں شامل ہونا چاہیے تھا۔‘ میتھیو ہیڈن کہتے ہیں ’محمد حارث کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹیم کے ہر پریکٹس سیشن میں بیٹنگ کے لیے موجود ہوتے ہیں جہاں وہ تمام فاسٹ بولرز کی بولنگ کا سامنا کرتے ہیں۔‘ ’یہ بڑی اہم بات ہوتی ہے کیونکہ ان بولرز کو کھیل کر آپ خود کو میچ کے لیے تیار کرتے ہیں جیسا کہ میں اپنے دور میں مک گرا، گلیسپی، بریٹ لی اور شین وارن کو نیٹ پر کھیلا کرتا تھا۔ حارث کی باؤنسی وکٹ پر بیٹنگ تکنیک بہت اچھی ہے۔‘ ہیڈن فخریہ انداز میں پاکستان کے پیس اٹیک کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’چاروں فاسٹ بولرز کمال ہیں۔ شان ٹیٹ نے ان فاسٹ بولرز پر بہت محنت کی ہے۔ پاکستانی ٹیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے بڑے میچوں میں کم بیک کرنا آتا ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے دعائیں، قدرت اور کرکٹ کے انوکھے فینز: ’میں پیشگوئی کرتی ہوں پاکستان یہ ورلڈ کپ جیتے گا‘ پاکستان سیمی فائنل میں، ’نیدرلینڈز کی پوری ٹیم کو پی ایس ایل کا کنٹریکٹ دو بھائی‘ ’قدرت کا نظام‘ پاکستان کی تائید کر پائے گا؟ سمیع چوہدری کا کالم میتھیو ہیڈن نیوزی لینڈ کو ایک خطرناک ٹیم سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نیوزی لینڈ کا پیس اٹیک خطرناک اور تجربہ کار ہے۔ ٹم ساؤدی میرے ساتھ کھیل چکے ہیں۔ ان کے پاس بولنگ کو تتر بتر کرنے والے بیٹسمین بھی ہیں۔‘ ’نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں آسٹریلیا کے خلاف 205 رنز کرکے میچ جیتا ہے لیکن آسٹریلیا میں اگر کوئی گراؤنڈ برصغیر کی ٹیموں کے لیے اچھا رہا ہے تو وہ سڈنی ہی ہے۔‘ میتھیو ہیڈن کی اس وقت مکمل توجہ پاکستانی ٹیم پر مرکوز ہے لیکن وہ اپنے ملک کی ٹیم کی کارکردگی پر خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں آسٹریلیا کو اپنی کرکٹ میں بہتری لانی ہوگی۔ ’میرے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ مچل سٹارک کو افغانستان کے خلاف میچ میں نہیں کھلایا گیا۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ آسٹریلیا کوابھی سے اگلے ورلڈ کپ کی تیاری شروع کردینی ہوگی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce947gdqgv3o
ٹی 20 ورلڈ کپ سیمی فائنل: اپنے نہیں، کیوی اوپنرز کا سوچیے، سمیع چوہدری کا کالم
پاکستان کی اوپننگ جوڑی میں تبدیلی سے متعلق جو سوال اس وقت پاکستان کے کرکٹ حلقوں میں زیرِ بحث ہے، کیا وہ واقعی پاکستان کے ڈریسنگ روم میں غوروخوض کا متقاضی ہونا چاہیے؟ کیونکہ کوئی بھی سٹریٹجک قدم لینے سے پہلے یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ شائقین کی یاداشت بہت محدود ہوا کرتی ہے۔ زیادہ پرانے نہیں، وہ ماضی قریب کے ہی دن تھے جب بابر اعظم شائقین کے دلوں کی دھڑکن ہوا کرتے تھے اور ان کا موازنہ وراٹ کوہلی سے کیا جاتا تھا اور تب نمبر ون بلے باز محمد رضوان کو سپرمین سے تشبیہہ دی جاتی تھی مگر انگلینڈ کے خلاف سیریزمیں بابر کی فارم کچھ گری اور شائقین کی محدود یاداشت بھی اچانک کہیں کھو گئی۔ مگر ثقلین مشتاق کے ڈریسنگ روم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بیرونی آرا پر زیادہ توجہ نہیں دیتا اور اپنی سی ہی کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ گو یہ اپروچ بعض اوقات خسارے کا بھی سبب ہوتی ہے، مگر اسی لائحہ عمل نے حال میں ہی کئی کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کے سٹرائیک ریٹ کا دنیا کی عظیم اقوام سے موازنہ کرتے ہوئے اس حقیقت سے صرفِ نظر کیوں کیا جاتا ہے کہ گذشتہ دو سال میں انھوں نے اپنی بیشتر کرکٹ سست ایشیائی وکٹوں پر کھیلی ہے۔ اسی سٹرائیک ریٹ کے ساتھ نہ صرف وہ ایک ناتجربہ کار مڈل آرڈر کا بوجھ بٹاتے رہے ہیں بلکہ کئی ریکارڈ کامیابیاں بھی پاکستان کے نام کی ہیں۔ لہٰذا سیمی فائنل جیسے نازک موقع پر محمد حارث سے اوپننگ کروانے کی تجویز اس کامیاب ترین اوپننگ جوڑی کے لیے کسی اہانت سے کم نہیں۔ بعض اوقات ایسے اہم ترین مواقع پر اچانک لیے گئے ایسے فیصلے ٹیم کی کیمسٹری میں ایسا بھونچال برپا کرتے ہیں کہ گتھی سلجھاتے سلجھاتے ہی اننگز تمام ہو جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں کھیلے گئے ورلڈ کپ 2015 میں جب پاکستان کو انڈیا کا سامنا تھا تو عمران خان نے یہ تجویز پیش کی کہ پاکستان کو اپنی بیٹنگ لائن مضبوط کرنے کے لیے یونس خان سے اوپن کروانا چاہیے۔ مصباح الحق نے بھی یہی فیصلہ کیا اور یونس خان اننگز شروع ہونے سے پہلے ہی نئی گیند پر شارٹ پچ کے سامنے ڈھیر ہو چکے تھے۔ اس کے بعد باقی ماندہ پاکستانی اننگز دھند میں راہ ہی ڈھونڈتی رہ گئی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ محمد حارث ایک لاجواب ٹیلنٹ ہیں اور مستقبل میں وہ پاکستان کے لیے اے بی ڈی ویلیئرز جیسا کردار بھی اداکر سکتے ہیں مگر یہ سمجھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ ایک پریشر میچ میں انھیں نئی گیند پر ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤدی کے حربوں کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کیوی بولر پاور پلے کے پہلے چار اوورز میں پیس اور لینتھ دونوں سے ہی ہاتھ تنگ رکھیں گے۔ ان کی میڈیم پیس چال بازیوں سے نمٹنے کے لیے بابر اعظم جیسے مشاق بلے باز کی ہی ضرورت ہو گی۔ آسٹریلوی وکٹوں پر یہ بحث لایعنی ہے کہ پاور پلے میں سٹرائیک ریٹ کیا رہا۔ یہاں اصل مقابلہ ہے ہی اننگز کے دوسرے حصے میں جہاں وسائل کا دانش مندانہ استعمال کسی ٹیم کو جیت کی راہ پر ڈالتا ہے۔ محمد حارث ہر طرح کی شاٹ کھیل سکتے ہیں اور لینتھ کو بھی اپنے فٹ ورک سے بخوبی استعمال کر سکتے ہیں مگر ان کی بہترین کرکٹ یہاں پیسرز کے خلاف ہی رہی ہے۔ لہذا یہاں انھیں ساؤتھی اور بولٹ کی آزمودہ کارمیڈیم پیس کے سامنے امتحان میں ڈالنا مناسب نہیں ہو گا۔ وہ فرگوسن کی پیس اور سوڈھی کی سپن کے خلاف زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کو یہاں اپنے اوپنرز کی بجائے کیوی اوپنرز کے بارے میں دماغ لڑانے کی ضرورت ہے۔ فن ایلن اور ڈیون کانوے دو ایسے بلے باز ہیں کہ اگر شروع میں ان کے قدم نہ اکھاڑے جائیں تو یہ کسی بھی بولنگ لائن کو اٹھا کر میچ سے باہر پھینک سکتے ہیں۔ یہاں اصل لڑائی بھی شاہین آفریدی اور فن ایلن کے بیچ ہی ہو گی۔ شاہین آفریدی نئی گیند سے فل لینتھ ان سوئنگ یارکرز پھینک کر وکٹیں حاصل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں جبکہ فِن ایلن کی شہرت آف سٹمپ سے باہر بھٹکتی لینتھ کو کراؤڈ کے بیچ اٹھا پھینکنا ہے۔ اس پر اگر انھیں پیس بھی مل جائے تو سونے پر سہاگہ۔ سپر 12 مرحلے کا افتتاحی میچ بھی سڈنی میں ہی کھیلا گیا تھا اور مچل سٹارک نے بھی وہی کرنے کی کوشش کی تھی جو شاہین آفریدی کی طرح اکثر لیفٹ آرم سیمرز پاور پلے میں کرتے ہیں۔ سوئنگ کی کھوج میں جب سٹارک آف سٹمپ سے ذرا باہر بھٹکتے پائے گئے تو ایلن نے پلک جھپکتے میں گیند کو باؤنڈری پار پھینک دیا۔ یہ بھی پڑھیے وہ کیچ جو پاکستان کو سیمی فائنل تک لے گیا، سمیع چوہدری کا کالم ٹی 20 ورلڈ کپ 2022: انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہونگی،بشرطیکہ۔۔۔ رفتار پہلے جیسی ہے، اللہ نہ کرے میرے جیسی انجری کسی کو ہو: شاہین شاہ آفریدی شاہین شاہ آفریدی کے لیے یہ ٹورنامنٹ تاحال حسبِ توقع نہیں رہا اور وہ خود بھی سیمی فائنل میں اپنی شہرت سے انصاف کرنے کی کوشش کریں گے۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں وہ انجری کے بعد اپنے مسائل سے کچھ سمجھوتہ کرتے ہوئے نظر آئے اور کامیاب بھی رہے۔ یہاں بھی انھیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ آسٹریلیا کی اس ٹھنڈ میں اگر وہ پہلی ہی گیند 144 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکنے کے لیے تیار نہیں تو آف سٹمپ سے باہر لینتھ دے کر سوئنگ کھوجنے کی کوشش مت کریں۔ اگر شاہین کا سپیل پاکستان کو ابتدائی کامیابیاں دلوا پایا تو پھر ڈینی موریسن بھی سمجھ پائیں گے کہ بنگلہ دیش کے خلاف فتح کے بعد شاہین کی نظریں سیمی فائنل نہیں، صرف فائنل پر ہی کیوں تھیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cld5qy1k93do
دعائیں، قدرت اور کرکٹ کے انوکھے فینز: ’میں پیشگوئی کرتی ہوں پاکستان یہ ورلڈ کپ جیتے گا‘
پرتھ کے آپٹس کرکٹ سٹیڈیم سے نکلتے ہوئے گیٹ پر موجود ایک آسٹریلوی نژاد گارڈ نے ہماری جانب دیکھ کر کہا ’آپ لوگوں کو یہ میچ نہیں ہارنا چاہیے تھا۔‘ وہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں زمبابوے کے ہاتھوں پاکستان کی ایک رن سے شکست کے بارے میں بات کر رہے تھے اور ان کے تاثرات سے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ انھیں بھی اکثر پاکستانی مداحوں اور صحافیوں کے طرح یہ یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان اب سیمی فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہے گا۔ صورتحال تھی بھی کچھ ایسی ہی۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ کا بہترین آغاز کیا تھا اور آسٹریلیا کی کنڈیشنز بھی ان کے لیے گھر جیسی تھیں۔ ایسے میں جنوبی افریقہ اور انڈیا دونوں ہی اس گروپ سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن جب ہم سٹیڈیم سے باہر نکل کر پاکستانی مداحوں سے بات کرنے لگے تو پہلے کیمرے پر تو انھوں نے برہمی کا اظہار کیا، لیکن جب کیمرا بند ہوا تو ان میں سے ایک نے کہا ’ٹیم تو اپنی ہے سر، ظاہر ہے بوائز کو سپورٹ تو کریں گے۔‘ دو روز بعد جب نیدرلینڈز کے میچ سے قبل پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن آپٹس سٹیڈیم سے واکا شفٹ کر دیا گیا تو انڈیا کی پریکٹس دیکھنے کے لیے بھی یہاں دو پاکستانی دوست موجود تھے۔ سمیع اور شاز، یہاں پڑھائی کے علاوہ نوکری بھی کرتے ہیں اور اگلے روز دونوں میچ اس امید پر دیکھنا چاہتے تھے کہ انڈیا کی جنوبی افریقہ پر جیت پاکستان کی راہیں ہموار کر دے گی۔ تاہم ایسا نہ ہو پایا اور پرتھ کی پچ پر انڈین بلے باز جنوبی افریقی اٹیک کا مقابلہ نہ کر پائے۔ میچ کے بعد کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستانی مداحوں کو انڈیا سے شکوہ تھا کہ وہ یہ میچ کیوں ہارے اور کچھ نے تو یہ الزام بھی لگایا کہ انڈیا نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔ اس کے بعد اصولاً امید ختم ہو جانی چاہیے تھی کیونکہ جب تک پاکستانی ٹیم سڈنی پہنچی تو صورتحال معجزوں، بارش کی دعاؤں اور’قدرت‘ پر منحصر تھی۔ تاہم یہی چیز شاید پاکستانی ٹیم اور اس کے فینز کو دوسری ٹیموں سے مختلف بناتی ہے۔ پاکستانی مداح آخری وقت تک امید نہیں چھوڑتے اور ٹورنامنٹس میں کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کی اگلے مرحلے تک رسائی کی سکیمز بناتے رہتے ہیں۔ سڈنی میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ پاکستان کے جنوبی افریقہ کے میچ سے ایک روز قبل ایک ایسے ہی پاکستانیوں کے اکثریتی علاقے آبرن میں جانا ہوا تو ایک شیشہ کیفے کے باہر لوگوں کا ہجوم موجود تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہ تمام لوگ انڈیا اور بنگلہ دیش کا میچ انتہائی انہماک سے دیکھ رہے تھے کیونکہ اگر بنگلہ دیش یہ میچ جیت جاتا تو پاکستان کی سیمی فائنل کی راہ ہموار ہو جاتی۔ یہ منظر دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی اور ان انوکھے فینز پر رشک بھی آیا۔ بنگلہ دیش بھی یہ میچ جیتنے میں ناکام رہا، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے لیے صورتحال مشکل تر ہونے لگی۔ تاہم جنوبی افریقہ سے میچ کے روز جب ہم سڈنی کرکٹ گراؤنڈ پہنچے تو کم از کم تماشائیوں خصوصاً پاکستانی شائقین کی قطاریں دیکھ کر ایسا محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ پاکستان کی اس ٹورنامنٹ میں کارکردگی اب تک ناقص رہی ہے۔ میچ شروع ہونے کے بعد بھی کافی دیر تک سٹیڈیم کے باہر شائقین کی قطاریں لگی رہیں جن میں سے اکثر پاکستانی مداح تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ پاکستان کا ’ہوم گیم‘ ہے۔ سڈنی میں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی فینز کی موجودگی کا اثر تھا یا کچھ اور لیکن شاداب خان اور افتخار احمد کی جارحانہ بیٹنگ اور پھر پاکستان کی بہترین بولنگ کے باعث جنوبی افریقہ بھاری شکست سے دوچار ہوا۔ اس فتح کے بعد احساس ہوا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستانی ٹیم کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، اعداد و شمار کے ذریعے ان کی کمزوری بتا سکتے ہیں یا کسی ایک پیٹرن کے مطابق پیشگوئی کر سکتے ہیں تو یہ ٹیم آپ کو اچانک حیران کر دیتی ہے۔ تاہم پھر بھی میچ کے بعد بات کرنے والے پاکستانی شائقین میں سے اکثریت کو یقین تھا کہ پاکستان سیمی فائنل کھیلے گا، اس کی وجہ کیا تھی، یہ بتانے سے بظاہر ہر کوئی قاصر تھا۔ ہمارا اگلا پڑاؤ ایڈیلیڈ میں تھا جہاں پہنچنے پر بارش سے جڑی امیدوں اور توقعات کو ایئرپورٹ سے ہوٹل چھوڑنے والے ڈرائیور نے ہی توڑ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایڈیلیڈ میں گذشتہ کئی ہفتوں سے بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا لیکن گذشتہ چند روز سے یہاں سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور اتوار کو موسم گرم رہنے کے امکان ہیں۔ پاکستان کی ایڈیلیڈ میں پریکٹس منسوخ کر دی گئی تھی۔ اب میچ سے پہلے پاکستانی شائقین کے دلوں کا حال جاننے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا، لیکن اچھے خاصے دیوانے فینز کو دل ہی دل میں معلوم تھا کہ نیدرلینڈز کی جنوبی افریقہ کو شکست دینے کی امید رکھنا، کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اتوار کے روز پاکستانی فینز نیدرلینڈز کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی گراؤنڈ میں موجود تھے۔ اکثر ایسے تھے جنھیں گراؤنڈ میں پہنچنے سے پہلے نیدرلینڈز کی فتح کے بارے میں علم ہوا اور انھوں نے سڈنی کے لیے بذریعہ روڈ سفر کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان سیمی فائنل میں، ’نیدرلینڈز کی پوری ٹیم کو پی ایس ایل کا کنٹریکٹ دو بھائی‘ وہ کیچ جو پاکستان کو سیمی فائنل تک لے گیا، سمیع چوہدری کا کالم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: پاکستان بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا، ہالینڈ نے کام دکھا دیا یہاں کئی ایسے مداح بھی موجود تھے جو ورلڈکپ میں پاکستان کے تمام میچ دیکھنے دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک جوڑا بریحہ جعفری اور سیف ملک کا بھی تھا جو دبئی سے آسٹریلیا خصوصاً پاکستان کے میچ دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ بریحہ کے شوہر کو تو باآسانی ویزا مل گیا تھا لیکن بریحہ کا ویزا انھیں پاکستان انڈیا میچ سے صرف دو روز قبل موصول ہوا اور یہ دونوں اپنی بیٹی مائل کے ساتھ گذشتہ ماہ آسٹریلیا پہنچے تھے۔ سیف نے بتایا کہ ’بریحہ ہمیں دو دن سے کہہ رہی ہے کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ کے ساتھ جو کر دیا ہے، وہ نیدرلینڈز کے خلاف ہار جائیں گے۔‘ اس پر بریحہ نے کہا کہ ’میں پیشگوئی کرتی ہوں کہ پاکستان یہ ورلڈ کپ بھی جیتے گا۔‘ سیف کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا کے فین پوری دنیا میں اپنی ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں تو ہم کیوں ایسا نہیں کر سکتے۔ مجھے پتا ہے کہ ہر کسی کے پاس اس کی استطاعت نہیں، ہم بھی بہت مشکل سے انتظامات کرتے ہیں، لیکن پاکستان کے لیے۔۔۔ دل نہیں مانتا اگر ہم نہ آتے تو۔‘ ایک پاکستانی مداح نے بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی جیت کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی ٹیم کے لیے ناممکن کبھی بھی ناممکن نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کر کے جیت جائیں گے۔‘ یہ قدرت کا کمال تھا یا 92 کے ورلڈکپ کا ری پلے؟ جو بھی ہے لیکن پاکستانی فینز کی اس ٹیم کے لیے مشکل وقت میں بھی بھرپور سپورٹ انھیں کسی بھی اور ٹیم کے فینز سے منفرد بناتی ہے۔ ایڈیلیڈ میں فینز سے بات کر کے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ 9 تاریخ کو ایک بار پھر سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل پاکستان کے لیے ہوم گیم ثابت ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpr783q0dpdo
وہ کیچ جو پاکستان کو سیمی فائنل تک لے گیا، سمیع چوہدری کا کالم
تیرہ سال پہلے جب رولوف وین ڈر مروے جنوبی افریقہ کے ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ تھے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز وہی رولوف کسی ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ میچ میں جنوبی افریقہ کو ہی ایونٹ سے بے دخل کرنے کی کلید بن جائیں گے۔  جنوبی افریقہ کے ساتھ یہ سانحہ پہلی بار نہیں ہوا۔ سنہ 2015 کے ورلڈ کپ میں بھی جنوبی افریقی نژاد گرانٹ ایلیٹ نے بھی اپنے ہم وطنوں پر ایسا ہی قہر ڈھایا تھا۔ اگرچہ یہاں ایڈیلیڈ کے اس ناک آؤٹ مقابلے میں جنوبی افریقی اننگز تمام تر خلفشار کے باوجود اس پوزیشن میں تھی کہ ڈیوڈ مِلر جیسے کہنہ مشق کی جارحیت سے ہدف عبور کر جاتی۔  مگر جو کیچ رولوف وین ڈر مروے نے کیا، وہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ جس وقت گیند ملر کے بلے کے کنارے سے ٹکرا کر ہوا میں بلند ہوئی، رولف فائن لیگ سے بھاگنا شروع ہوئے اور اپنی سبک رفتاری سے ایک لگ بھگ ناممکن چیز کو ممکن کر دکھایا۔ اس کیچ نے نہ صرف اُنھیں پہلی بار جنوبی افریقہ کے خلاف فتح سے نوازا بلکہ آئندہ ورلڈ کپ میں ڈچ ٹیم کی کوالیفکیشن بھی پکی کر دی۔ قدرت کے نظام سے سبھی امیدیں وابستہ کیے ہوئے پاکستان کے لیے وہ کیچ کسی غیبی تائید سے کم نہیں تھا۔ اس کیچ نے پاکستان کے لیے اگر مگر کی تمام شرائط توڑ دیں اور سیمی فائنل تک رسائی کے لیے اُنھیں محض شکیب الحسن کی ٹیم کو ہی مات دینی تھی۔ جب مقصدیت یوں واضح ہو گئی تو پھر پاکستانی بولنگ کا بھی عزم قابلِ دید تھا جو جنوبی افریقہ کے خلاف فتح کے بعد پہلے ہی بلند ترین مورال پر تھی۔ ایڈیلیڈ کی یہ استعمال شدہ پچ اپنی ساخت اور باؤنس کے اعتبار سے شاہین شاہ آفریدی کے لیے موزوں ترین سطح تھی۔ شاہین کو اس پچ پر کامیابی کے لیے زیادہ جوڑ توڑ نہیں کرنی پڑی اور بنیادی باتوں پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اُنھوں نے بنگلہ دیشی بلے بازوں کے طوطے اڑا دیے۔ محمد حارث نے جنوبی افریقہ کے خلاف جس طرح اپنی آمد کا نقارہ بجایا تھا، اس نے ایک افسردہ بیٹنگ لائن میں نئی روح پھونک دی تھی اور پاکستان نے ٹورنامنٹ میں عین درست وقت پر مومینٹم حاصل کیا جو نیدرلینڈز کی مدد شاملِ حال ہونے سے سوا ہو گیا۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہونگی،بشرطیکہ۔۔۔ پاکستان سیمی فائنل میں، ’نیدرلینڈز کی پوری ٹیم کو پی ایس ایل کا کنٹریکٹ دو بھائی‘ پاکستان بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا، ہالینڈ نے کام دکھا دیا بنگلہ دیش کی یہ ورلڈ کپ کیمپین ان کی تاریخ کے اعتبار سے کامیاب ترین رہی ہے اور اس میں کلیدی کردار شکیب الحسن کی فارم کا رہا ہے۔ مگر یہاں صرف پاکستانی بولنگ ہی نہیں، بیٹنگ بھی شکیب الحسن کے توڑ کے لیے پرعزم تھی اور اوائل میں شکیب الحسن کو پاکستانی بیٹنگ کی جو جارحیت جھیلنی پڑی، اس کے بعد ان کے بولنگ آپشنز بھی محدود ہوتے گئے۔ ایڈیلیڈ عموماً دھیمے باؤنس کی پچ رہی ہے مگر یہاں چونکہ پچ ایک میچ پہلے بھی استعمال ہو چکی تھی، سو باؤنس اتنا کم تھا کہ کسی بھی بلے باز کے لیے اونچے شاٹ کھیلنا دشوار تھا۔ محمد حارث کی اننگز لائقِ تحسین تھی کہ اُنھوں نے اپنی اننگز کو کنڈیشنز کی موافقت میں ڈھالا اور مطلوبہ رن ریٹ کے بوجھ کو سہل کر دیا۔ اگر بنگلہ دیشی بیٹنگ پاکستانی بولنگ کے سامنے ذرا اور مزاحمت دکھا پاتی تو یہ ہدف دشوار تر ہو سکتا تھا مگر جب یہ مختصر سا مجموعہ بھی پاکستانی ڈریسنگ روم کے اعصاب شل کرنے لگا تو شان مسعود کی نفاست اور دانش مندی نے کمال تجربے سے ناؤ پار لگائی۔ دوسری جانب زمبابوین پیسرز اپنی حالیہ شہرت سے انصاف نہ کر پائے اور سوریا کمار یادیو کے لیے تر نوالہ ٹھہرے۔ سوریا کمار کریز پر جس اعتماد اور روانی سے اپنی من مانی کرتے ہیں، وہ ماڈرن ٹی ٹونٹی بیٹنگ کے لیے ایک انقلاب کی نوید ہے۔ ان کی فارم یہاں بھی شرما کی ٹیم کے لیے کلیدی ثابت ہوئی اور مڈل اوورز کے منجدھار میں گِھری اپنی ٹیم کو کنارے لگایا۔  کریگ ایروِن کی کپتانی بہرطور بہت مایوس کن رہی۔ میلبرن کی اس پچ سے پیسرز کو قطعاً وہ مدد نہیں مل رہی تھی جس نے ٹورنامنٹ کے اوائل میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ روایتی میلبرن پچ تھی جہاں سپنرز کے لیے ماحول سازگار تھا اور سپنرز ہی بیچ کے اوورز میں زمبابوے کو میچ میں واپس لائے۔ مگر ایروِن کی پڑھی لکھی کپتانی نے سبھی کو حیران کر ڈالا جب وہ سولہویں اوور میں دن کے مہنگے ترین بولر بلیسنگ مزربانی کو واپس لے آئے اور ڈیتھ اوورز میں سپن کو بالکل شجرِ ممنوعہ سمجھا۔ حالانکہ سپنرز زمبابوے کو میچ میں واپس لا کر کسی اپ سیٹ کی راہ بھی ہموار کر سکتے تھے۔ ایونٹ کے آغاز میں بہت سی نظریں پاکستان اور انڈیا پر جمی تھیں۔ جہاں پاکستان اپنے سنسنی خیز پیس اٹیک کی بدولت شہ سرخیوں میں تھا، وہیں روہت شرما کی ٹیم پچھلے ورلڈ کپ کی تباہ کن یادوں کے سبب کئی نظروں میں تھی۔ مگر دونوں ٹیموں کی ٹورنامنٹ میں پیش رفت متاثر کن رہی ہے۔  اس سنسنی خیز ورلڈ کپ کے آغاز سے تاحال یہ پہلا وقفہ ہے جہاں دو دن کے لیے شائقین کو بھی سانس لینے کا موقع ملے گا اور یہ ہضم کرنے کا وقت میسر ہو گا کہ کیسے پاکستان نے سبھی اندازوں کو تہہ و بالا کر کے سیمی فائنل میں اپنی جگہ بنائی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/clm8j0mx527o
پاکستان سیمی فائنل میں، ’نیدرلینڈز کی پوری ٹیم کو پی ایس ایل کا کنٹریکٹ دو بھائی‘
’یہ آج تک کی سب سے غیر متوقع ٹیم ہے، آپ کبھی نہیں بتا سکتے کہ یہ کیا کرنے والے ہیں کیونکہ اس بات کا انھیں خود بھی نہیں پتا ہوتا‘ پاکستان کی بنگلہ دیش کے خلاف پانچ وکٹوں سے جیت کے فوراً بعد ان جذبات کا اظہار سوشل میڈیا صارف فرزین عمر نے کیا اور شاید آپ میں سے بھی بہت سے ان کی اس بات سے متفق ہوں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے ایڈیلیڈ کا میدان ماضی کی طرح ایک بار پھر آج اچھی خبر لے آیا ہے اور پاکستان نے بنگلہ دیش کو ہرا کر ٹی ٹوئٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک بالاخر رسائی حاصل کر لی ہے۔ اگر، مگر، ایسے، ویسے کے مخمصے کی صورتحال سے نکل کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرنے والی گروپ ٹو کی پہلی کرکٹ ٹیم پاکستان ابھی اپنے آخری گروپ میچ کے لیے میدان میں اتری بھی نہیں تھی کہ نیدرلینڈز نے جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچنے کی اس کی امیدوں روشن کر دیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 تو جناب ایسے میں جب پاکستان کو نیدرلینڈ کی صورت میں ایک لائف لائن بھی حاصل ہو اور پاکستان میچ بھی جیت جائے تو سوشل میڈیا صارفین مختلف ٹرینڈز کے ذریعے اپنی آرا دینے اور خوشی منانے سے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ کوئی نیدرلینڈز کی ٹیم کو پی ایس ایل کے کنٹریکٹ دینے کی بات کرتا دکھائی دیا تو کسی کو پاکستانی کوچ ثقلین مشتاق کے’قدرت کے نظام‘ کے فقرے یاد آئے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ایک سوشل میڈیا  صارف نے لکھا کہ میرے انڈین کرکٹ شائقین دوست کہہ رہے تھے کہ پاکستان کراچی کی پرواز کے لیے رسائی حاصل کرے گا، پاکستانی کرکٹ ٹیم کراچی کی بجائے اب سڈنی کے ایئرپورٹ پر اترے گی اور انڈیا سے پہلے سیمی فائنل کھیلے گی۔ اس کہتے ہیں قدرت کا نظام۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک اور صارف نے لکھا کہ ’پاکستانی ٹیم مبارک ہو، یہ ٹورنامنٹ قدرت کے نظام کے سہارے شاندار رہا ہے جس نے پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنے میں مدد دی۔ محمد حارث کی شمولیت نے پاکستانی ٹیم پر بڑا فرق ڈالا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 ایک صارف نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ سیمی فائنل تک رسائی میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا عمل دخل ایک فیصد جبکہ قدرت کے نظام کے تحت دعاؤں کا کردار 99 فیصد ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے ہر مرحلے کو انجوائے کیا اور ہر سیچویشن پر تبصرے اور رائے کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ چاہے وہ بنگلہ دیشی بلے باز شکیب الحسن کے ایل بی ڈبلیو آؤٹ کا فیصلہ ہوں یا شاہین شاہ کی 22 رنز کے عوض شاندار بولنگ ہو۔ یہ بھی پڑھیے ’قدرت کا نظام‘ پاکستان کی تائید کر پائے گا؟ سمیع چوہدری کا کالم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: پاکستان بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا، ہالینڈ نے کام دکھا دیا ’سُنا ہے آپ کے سابق وزیراعظم کو گولی لگی ہے، اور آپ کے ہاں حالات خراب ہیں‘ شکیب الحسن کے ایل بی ڈبلیو کے فیصلے پر جہاں انڈین صارفین پاکستانی ٹیم پر الزامات عائد کر رہے تھے وہی پاکستانی صارفین نے بھی اس فیصلے پر کھل کر رائے دی اور اس فیصلے کو غلط قرار دیا۔ اس بارے میں ’ناٹ آوٹ ‘ٹرینڈ کرتا رہا ایک پاکستانی صارف نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ’ اتنے اہم میچ میں ایسی تھرڈ امپائرنگ بالکل مجرمانہ ہے اور صرف اس لیے کہ یہ فیصلہ ہمارے حق میں گیا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس کی تائید کروں، یہ ناٹ آوٹ تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 5 ایک اور صارف نے انڈین سوشل میڈیا صارفین کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’کم از کم ہم پاکستانی یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ناٹ آوٹ تھا اور امپائر غلط تھا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 6 ایسے میں کچھ افراد پاکستان کو فتح کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ آگے کے میچز کے لیے مشورے دیتے بھی دکھائی دیے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’اوپنگ پلیئر تبدیل کریں، حارث اور شان کو اوپن کرنے دیں اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک الٹے اور سیدھ ہاتھ کا کمبینشن اور دوسرا پاور پلے کا فائدہ اٹھانے کا موقع۔ ہم اس ورلڈکپ کو جیتنا چاہتے ہیں مہربانی کر کے اگلے دو میچوں کے لیے ایسا کریں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 7 ایسے میں خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے بھی لکھا کہ ’پاکستان مبارک ہو، اب ہمیں اس دوسرے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 8
https://www.bbc.com/urdu/articles/ceqyjwj858zo
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: پاکستان بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا، ہالینڈ نے کام دکھا دیا
پاکستانی کرکٹ ٹیم ابھی اپنے آخری گروپ میچ کے لیے میدان میں اتری بھی نہیں تھی کہ سیمی فائنل میں پہنچنے کی اس کی ُامیدیں ہالینڈ نے روشن کردیں جس نے ایڈیلیڈ اوول میں اپنے سے بڑی جنوبی افریقہ کی ٹیم کو 13 رنز سے ہراکر ہلچل مچا دی۔ ہالینڈ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپ سیٹ کرنے کا فن خوب آتا ہے۔ اس سے قبل اس نے دو مرتبہ انگلینڈ کو شکست دے رکھی تھی۔ جنوبی افریقی ٹیم نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ آئی سی سی ایونٹنس میں وہ راہ سے بھٹک جاتی ہے، اسی لیے چوکر کہلاتی ہے۔ ہالینڈ کی اس یادگار جیت کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے سیمی فائنل میں قدم رکھنے کے لیے بنگلہ دیش کو ہرانا لازمی ہوگیا تھا اور اس نے اس بار کوئی غلطی کیے بغیر 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے آخری چار ٹیموں میں جگہ بنالی۔ پاکستانی ٹیم کے لیے ایڈیلیڈ کا میدان ایک بار پھر اچھی خبر لے آیا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں 1992 کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کی قسمت بدلی تھی۔ انگلینڈ کے خلاف وہ صرف 74 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی لیکن بارش کی وجہ سے دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا تھا اور یہی ایک پوائنٹ اسے آگے لے گیا اور اب تیس سال بعد پاکستانی ٹیم نے اس گراؤنڈ سے اہم موڑ لیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ٹی 20 ورلڈ کپ 2022: انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہونگی،بشرطیکہ۔۔۔ رفتار پہلے جیسی ہے، اللہ نہ کرے میرے جیسی انجری کسی کو ہو: شاہین شاہ آفریدی ’حارث بھائی ہتھ ہولا رکھو‘: دو شکستوں کے بعد بلآخر پاکستان کے لیے اچھی خبروں کا آغاز شکیب الحسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور بنگلہ دیش کی ٹیم 8 وکٹوں پر 127 رنز تک پہنچ پائی۔ پاکستانی ٹیم انہی گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اتری جس نے جنوبی افریقہ کے خلاف اہم جیت حاصل کی تھی۔ بنگلہ دیشی اوپنرز نجم الحسین اور لٹن داس اسی ٹورنامنٹ میں اپنی بہترین اننگز کھیل چکے ہیں۔ لٹن داس کو اوپنر کی حیثیت سے آزمانے کا تجربہ انڈیا کے خلاف میچ میں کامیاب رہا تھا۔ وہ شاہین شاہ آفریدی کےخلاف بھی جارحانہ موڈ میں نظر آرہے تھے لیکن آفریدی کا تجربہ انھیں شان مسعود کی مدد سے واپسی کا راستہ دکھا گیا اور وہ اس مرتبہ صرف 10 رنز بنا سکے۔ نجم الحسین اور سومیا سرکار نے محمد وسیم کے پہلے ہی اوور میں تیرہ رنز بٹورے لیکن اس اوور میں شاداب خان نجم الحسین کا کیچ لینے میں ناکام رہے۔ بنگلہ دیش نے پاور پلے میں ایک وکٹ گنوا کر 40 رنز بنائے تھے۔ نجم الحسین اور سومیا سرکار کی 52 رنز کی شراکت شاداب خان کے ہاتھوں ختم ہوئی جن کا 20 رنز پر کیچ شان مسعود نے لیا۔ بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑا دھچکہ کپتان شکیب الحسن کا پہلی ہی گیند پر شاداب خان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہونا تھا۔ امپائر نے انھیں آؤٹ دیا تو شکیب الحسن نے فوراً ریویو لے لیا لیکن تھرڈ امپائر نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ شکیب الحسن اس فیصلے پر مطمئن نہیں تھے اور وہ گراؤنڈ سے جانے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن تھرڈ امپائر کے فیصلے کے مطابق گیند بلے سے نہیں لگی تھی بلکہ بلا زمین پر لگا تھا جس کی وجہ اسنکو میٹر پر نشان دکھائی دیا تھا۔ عفیف حسین نے شاداب خان کو ہیٹ ٹرک سے باز رکھا۔ شاداب خان نے اپنے چار اوورز کا اختتام 30 رنز دو کھلاڑی آؤٹ پر کیا۔ نجم الحسین نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی دوسری نصف سنچری مکمل کی لیکن 54 رنز پر افتخار احمد کی آف سپن انھیں بولڈ کرگئی۔ بنگلہ دیش کی چوتھی وکٹ 91 رنز پر گری۔ افتخار احمد نے گیند پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہوئے بنگلہ دیشی بیٹسمینوں کو باندھ کر رکھا اور اپنے تین اوورز میں ایک وکٹ کے حصول کے لیے صرف 15 رنز دیے۔ شاداب خان اور افتخار احمد کی مؤثر بولنگ نے درمیانے اوورز میں سکور کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں کے سات اوورز میں صرف 45 رنز بنے اور اس کے بدلے انھوں نے 3 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ شاہین شاہ آفریدی اپنے دوسرے سپیل میں واپس آئے اور تیسرے اوور میں یارکر کے ذریعے مصدق حسین کو بولڈ اور نورالحسن کو محمد حارث کے ہاتھوں کیچ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے اپنی چوتھی وکٹ تسکین احمد کو بابراعظم کے کیچ کے ذریعے حاصل کی۔ شاہین شاہ آفریدی نے 22 رنز دے کرچار وکٹیں حاصل کی ہیں جو ان کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بہترین بولنگ ہے۔ اس سے قبل ان کی بہترین بولنگ تین روز پہلے ہی جنوبی افریقہ کے خلاف رہی تھی جس میں انہوں نے 14رنز دے کر3 کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔ پاکستانی اننگز کے پہلے ہی اوور میں دل کی دھڑکین تیز بھی ہوئیں اور بیٹھنے بھی لگیں۔ رضوان نے تسکین احمد کو چھکا مارا اور اگلی ہی گیند پر وہ وکٹ کیپر نورالحسن کے ہاتھوں کیچ ہونے سے بچ گئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر رضوان اور بابراعظم اس ٹورنامنٹ میں اپنی سب سے بڑی 57 رنز کی اوپننگ شراکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے قبل اس ٹورنامنٹ میں دونوں کی سب سے بڑی شراکت محض 16 رنز کی تھی۔ بابراعظم نے سنگل فگر سے باہر نہ نکلنے کا جمود ضرور توڑا لیکن 33 گیندوں پر 25 رنز بنا کر وہ نسوم احمد کے خلاف اپنی وکٹ نہ بچا سکے۔ صرف چار رنز کے اضافے پر سکور پر رضوان احمد نے بھی اپنی وکٹ عبادت حسین کی گیند پر گنوائی۔ انھوں نے 32 رنز اتنی ہی گیندیں کھیل کر بنائے۔ پاکستان نے 10 اوورز کے اختتام پر دو وکٹوں پر صرف 56 رنز بنائے تھے۔ محمد نواز نجم الحسن کی تھرو پر رن آؤٹ ہونے سے بال بال بچے لیکن دوسری بار یہ غلطی پاکستانی ٹیم کو بہت مہنگی پڑگئی۔ لٹن داس کی تھرو پر وہ صرف 11 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے۔ حارث نے پاکستانی ٹیم کے ڈگ آؤٹ میں پائی جانے والی بے چینی کو عبادت حسین کے ایک ہی اوور میں چوکے اور چھکے کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی جس کے بعد انھوں نے تسکین احمد کی گیند کو بھی باؤنڈری کے باہر پہنچادیا۔ وہ صرف اٹھارہ گیندوں پر ایک چوکے اور دو چھکوں کی مدد سے 31 رنز کی اہم اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو جیت صرف7 رنز کی دوری پر رہ گئی تھی۔ شان مسعود کے شکیب الحسن کے ایک اوور میں دو چوکے پاکستانی ٹیم کے لیے آکسیجن ثابت ہوئے لیکن ہدف تک پہنچنے سے قبل پاکستانی ٹیم کو افتخار احمد کی وکٹ سے بھی محروم ہونا پڑا۔ پاکستانی ٹیم نے جب مطلوبہ سکور پورا کیا تو گیارہ گیندیں باقی رہتی تھیں۔ مین آف دی میچ قرار دیے جانے والے پاکستانی بولر شاہین شاہ آفریدی جب میچ کے بعد پریس کانفرنس میں آئے تو ان سے یہ سوال خاص طور پر کیا گیا کہ کیا آپ لوگوں نے ہالینڈ کا میچ دیکھا، جس پر شاہین شاہ آفریدی نے اس کا جواب ہاں میں تھا۔ وہ کہنے لگے ʹہم ہالینڈ کا میچ ضرور دیکھ رہے تھے لیکن ذہن میں اپنا  میچ تھا اور ہمیں خوشی ہے کہ ہالینڈ نے اپنا میچ جیتا یہ نتیجہ ہمارے حق میں گیا۔ہالینڈ کو اس کا کریڈٹ جاتا ہےʹ۔ شاہین شاہ آفریدی کا کہنا تھا کہ ’مداحوں کی دعائیں ہمیشہ ہمارے لیے رہتی ہیں لیکن کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے سابق کرکٹرز ٹیم کا ساتھ اس وقت بھی دیا کریں جب وہ مشکل میں ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب ٹیم سیمی فائنل اور فائنل جیتے تب ہی وہ ٹیم کی حمایت کریں۔ ٹیم کو اس وقت حمایت چاہیے ہوتی ہے جب وہ ہار رہی ہوتی ہےʹ۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں بھی پاکستانی ٹیم ایک کم سکور کے ہدف تک پہنچنے تک پانچ وکٹوں سے محروم ہوئی جیسا کہ ہالینڈ کے خلاف میچ میں بھی اس نے ایک چھوٹا ہدف چار وکٹیں گنواکر حاصل کیا تھا لیکن شاہین آفریدی کا کہنا ہے کہ ڈگ آؤٹ میں کسی قسم کی بے چینی یا گھبراہٹ نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں ’یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے آسان نہیں تھی۔ اس پرسٹروکس کھیلنا مشکل تھا۔ رضوان اور بابر کے آؤٹ ہونے کے باوجود ہمیں اپنی بیٹنگ لائن پر اعتماد تھا۔ ہم کوشش کررہے تھے کہ اوپر والے بیٹسمین میچ فنش کردیں لیکن ہماری بیٹنگ لائن لمبی ہے لہذا ہم کسی قسم کا دباؤ محسوس نہیں کر رہے تھے اورہمیں یقین تھا کہ نچلے نمبر پر آنے والے بیٹسمین بھی میچ کو ختم کرسکتے ہیں‘۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cx76lg38p91o
’قدرت کا نظام‘ پاکستان کی تائید کر پائے گا؟ سمیع چوہدری کا کالم
پاکستانی ڈریسنگ روم اس وقت بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ فقط اپنے زورِ بازو پر بھروسہ اس کے لیے ناکافی ہو چکا ہے اور ٹورنامنٹ میں بقا کا سوال درپیش ہے جبکہ بقا صرف ’قدرت کے نظام‘ کی تائید سے ہی ممکن ہے۔ پاکستانی شائقین کے ذہنوں میں بھی 1992 کے ورلڈ کپ کی معجزاتی بارشیں منڈلا رہی ہیں اور وہ کسی بھی طرح پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس رسائی کا دارومدار آج کھیلے جانے والے تینوں میچز پر ہے۔ جنوبی افریقہ اور نیدرلینڈز ایڈیلیڈ میں مدِ مقابل ہوں گے اور اگرچہ اس میچ سے پہلے ایڈیلیڈ میں بارشیں برستی رہی ہیں مگر اس میچ کے لیے مطلع صاف رہنے اور میچ مکمل ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس ورلڈ کپ میں اگرچہ کافی اپ سیٹ ہوئے ہیں اور نیدرلینڈز بھی کوئی ایسا ہی جادو جگانے کی کوشش کرے گی مگر زمینی حقائق ان توقعات کو قدم نہیں جمانے دے رہے۔ جنوبی افریقہ نے پاکستان کے خلاف ڈیوڈ ملر کو معمولی انجری کی بنا پر آرام دیا مگر اس ایک فیصلے سے ٹیم ایسے پریشر میں آئی کہ بیٹنگ تو درکنار، بولنگ بھی فراموش کر بیٹھی۔ ڈچ بلے باز یقیناً محمد حارث کی طوفانی اننگز سے سیکھتے ہوئے جنوبی افریقی بولنگ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب بنگلہ دیشی کوچ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی ٹیم انڈیا کو مشکل میں ڈال سکتی ہے تو پھر پاکستان بھی ان کے لئے کوئی تگڑا حریف نہیں ہو گا اور وہ بھرپور کرکٹ کھیلنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بنگلہ دیش کی ورلڈ کپ تاریخ میں حالیہ مہم ان کی کامیاب ترین رہی ہے جہاں وہ سپر 12 مرحلے کے دو میچز جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان اگرچہ حالیہ ٹرائی سیریز میں اسی بنگلہ دیشی ٹیم کو دو بار مات کر چکا ہے مگر ورلڈ کپ کے میچ میں محض صلاحیت اور قوت پر ہی سب منحصر نہیں ہوتا، پریشر اور دیگر عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بہرطور اپنا بہترین کھیل پیش کرنا ہو گا۔ بابر اعظم کے لیے یہ ورلڈ کپ ان کے کیرئیر کا مایوس ترین لمحہ رہا ہے اور یہاں ان کے پاس آخری موقع ہو گا کہ وہ اپنی فارم کو مہمیز دیں۔ دوسری جانب تسکین احمد بھی چاہیں گے کہ وہ بابر کی حالیہ فارم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اہم ترین وکٹ اپنے نام کر کے پاکستانی اننگز میں رخنے ڈالیں۔ اگر نیدرلینڈز اور جنوبی افریقہ کا میچ موسم کی نذر ہو جائے تو یکساں پوائنٹس کے باوجود پاکستان بنگلہ دیش پر فتح پانے کے سبب سیمی فائنل تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو پھر پاکستان کی امیدوں کا رخ زمبابوے کی جانب ہو گا کہ وہ انڈیا کو بھی ویسے ہی حیران کر ڈالے جیسے کچھ روز پہلے پاکستان کو متحیر کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے شان مسعود: ’انڈیا اور زمبابوے کو ہرا دیتے تو آج سیمی فائنل میں ہوتے‘ ٹی 20 ورلڈ کپ 2022: انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہونگی،بشرطیکہ۔۔۔ محمد حارث نے گویا نئی روح پھونک دی: سمیع چوہدری کا کالم مگر زمینی حقائق اس معاملے میں بھی پاکستان کی امیدوں کو زیادہ تقویت نہیں دیتے۔ اس ٹورنامنٹ میں انڈیا نے بہترین کرکٹ کھیلی ہے اور جنوبی افریقہ کے خلاف بیٹنگ کی ناکامی کے سوا ان کی باقی ساری مہم بہت حوصلہ افزا رہی ہے۔ اب تک جتنے ٹی ٹؤنٹی ورلڈ کپ کھیلے گئے ہیں، رواں ٹورنامنٹ اپنے نتائج کے اعتبار سے بہترین رہا ہے۔ اگرچہ آسٹریلوی ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں کھیل رہی تھی اور اس کا پیس اٹیک بلا مبالغہ دنیا کا تجربہ کار ترین اٹیک ہے مگر اپنی ہی کنڈیشنز میں وہ ایسا بے اثر ثابت ہوا کہ ٹائٹل کے دفاع کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ پاکستانی ڈریسنگ روم میں اب یہ احساس شدت سے موجود ہے کہ انڈیا اور زمبابوے کے خلاف شکست نے ان کے امکانات کو گزند پہنچائی۔ اگرچہ ان دو حوادث کے بعد ٹیم اپنے اصل کی طرف لوٹی ہے مگر اب پیش قدمی فقط زورِ بازو پر ہی موقوف نہیں، قدرت کے نظام کی تائید بنیادی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2pv40rlkgo
وہ شخصیات جو مر کر بھی کروڑوں ڈالر کما رہی ہیں
دنیا بھر کے دولت مند افراد پر نظر رکھنے والے فوربز میگزین نے رواں ہفتے ان 13 مشہور شخصیات کی فہرست شائع کی ہے جنھوں نے اپنی موت کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ کمایا۔ ان میں ایسے کھلاڑی، فنکار اور تفریح ​​کی دنیا سے وابستہ افراد شامل ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی آمدنی ایک کروڑ امریکی ڈالرسے زیادہ ہوئی ہے۔ میگزین نے سنہ 2001 سے مشہور مردہ شخصیات کے مالی معاملات کی چھان بین شروع کی تھی۔ میگزین کے مطابق رواں سال ان مردہ مشاہیر کی کمائی میں سنہ 2021 کے مقابلے میں 72 فیصد اضافہ ہوا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ میگزین نے فہرست بنانے کے لیے سیلز ٹیکس، ٹرانسفر اور لائسنس کے معاہدوں کے اشاریوں کو مدنظر رکھا۔ اس تخمینے کے لیے انھوں نے صنعت کے ماہرین کے ساتھ انٹرویوز بھی کیے۔ اس گروپ میں سرفہرست مشہور مصنف جے آر آر ٹولکین ہیں جو ’لارڈ آف دی رِنگز‘ اور ’دی ہوبٹ‘ جیسی مشہور داستانوں کے مصنف ہیں۔ آکسفورڈ کے سابق پروفیسر سنہ 1973 میں انتقال کر گئے تھے، لیکن ان کی افسانوی دنیا سے متعلق فلموں، ویڈیو گیمز اور دیگر مصنوعات کے کاپی رائٹس (جملہ حقوق) سے آمدن کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ مصنف ٹولکین کے بعد باسکٹ بال سٹار کوبی برائنٹ کا نمبر آتا ہے۔ سپورٹس ڈرنک کمپنی باڈی آرمر میں ان کے حصص کوکا کولا نے خریدے جس سے ان کی میراث میں 40 کروڑ ڈالر آئے۔ برائنٹ جنوری 2020 میں کیلیفورنیا کے شہر سینٹا مونیکا میں ہونے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ تیسرے نمبر پر گلوکار ڈیوڈ بووی ہیں جنھوں نے 25 کروڑ امریکی ڈالر کمائے۔ اس فہرست میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں ہے جبکہ لاطینی امریکہ کے سٹارز میں صرف میکسیکن میوزک سٹار خوآن گیبریل اس فہرست میں شامل ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3g80xrgqvdo
شان مسعود: ’انڈیا اور زمبابوے کو ہرا دیتے تو آج سیمی فائنل میں ہوتے‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنا آخری گروپ میچ اتوار کے روز بنگلہ دیش کے خلاف ایڈیلیڈ اوول میں کھیلے گی۔ اسی روز مزید دو میچز کھیلے جائیں گے جن میں جنوبی افریقہ کا مقابلہ ہالینڈ سے ہو گا جبکہ انڈیا کی ٹیم زمبابوے کے مدمقابل ہو گی۔ ان تینوں میچوں کے نتائج طے کریں گے کہ گروپ ٹو سے سیمی فائنل میں پہنچنے والی دو ٹیمیں کونسی ہیں۔  پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹسمین شان مسعود کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’انڈیا اور زمبابوے کو بہت قریب آکر نہ ہرانے کا افسوس ہمیشہ رہے گا اور اگر یہ دونوں میچ جیت جاتے تو آج پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں ہوتی۔‘ شان مسعود کہتے ہیں’ہم زمبابوے سے بھی ہارے لیکن ذاتی طور پر مجھے انڈیا کے خلاف شکست زیادہ تکلیف دے رہی ہے۔ اس میچ میں ہم اچھی کرکٹ کھیل رہے تھے لیکن اس شکست نے کھلاڑیوں کی نیندیں خراب کردیں اور مورال بھی ڈاؤن ہوا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے جو کچھ ہوا وہ غلط وقت پر ہو گیا جو ہمارے لیے مہنگا ثابت ہوا اور ہم ٹاپ پوزیشن پر نہ آسکے۔‘ شان مسعود کہتے ہیں ’انڈیا کے خلاف میچ میں ایک موقع پر جب آٹھ گیندوں پر 28 رنز درکار تھے اس وقت ہمیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ نتیجہ ہمارے حق میں ہو گا، لیکن ہم اہم مواقعوں کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام رہے اور یہ میچ آخری گیند پر چلا گیا۔ اسی طرح زمبابوے کے خلاف میچ میں بھی ہم نے ان کے سات کھلاڑی پچانوے پر آؤٹ کر دیے تھے لیکن وہ 130 رنز کر گئے۔‘ شان مسعود کا کہنا ہے کہ ’زمبابوے کے خلاف میچ میں ہمارا بیٹنگ پاور پلے اچھا نہیں تھا اس کے باوجود  ہمیں یہ میچ اس وقت ختم کردینا چاہیے تھا جب میں اور شاداب بیٹنگ کر رہے تھے۔ اگر ہم نے صورتحال کو اچھے طریقے سے استعمال کیا ہوتا تو اس وقت ہم چاروں میچ جیتے ہوئے ہوتے ۔‘ شان مسعود کا کہنا ہے ’کرکٹ میں ہر دن ایک جیسا نہیں ہوتا اور ہر ٹیم ایک جیسی نہیں ہوتی۔ پاور پلے میں آپ کو لچکدار رہنا ہوتا ہے۔ اگر آپ  اچھی کنڈیشنز میں ٹی ٹوئنٹی کھیلتے ہیں تو آپ کو پاور پلے کا فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔‘ شان مسعود کہتے ہیں ’اگر اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو دیکھیں تو اس میں پاور پلے میں تیس چالیس کےقریب رنز بھی بنے ہیں اور وکٹیں بھی گری ہیں۔ ٹیموں نے آخری دس اوورز میں اسے کور کیا ہے جیسا کہ انڈیا کی ہمارے خلاف پوزیشن تھی۔ اس میں اس کے دس اوورز میں پنتالیس رنز پر چار آؤٹ ہو چکے تھے۔ سڈنی میں جس طرح حارث نے جنوبی افریقہ کے بہترین بولرز کے خلاف بیٹنگ کی اور جس طرح کے شاٹس کھیلے آپ ماڈرن کرکٹ میں کسی بھی بیٹسمین سے اس کی توقع رکھتے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے ٹی 20 ورلڈ کپ 2022: انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہونگی،بشرطیکہ۔۔۔ ’سُنا ہے آپ کے سابق وزیراعظم کو گولی لگی ہے، اور آپ کے ہاں حالات خراب ہیں‘ راہل دراوڈ: مشکل وقت میں ذمہ داری سنبھالنے والے کوچ انڈیا کی کامیابی میں کیسے کردار ادا کر رہے ہیں؟ ’امپائر صاحب، بیٹسمین میں سکہ ڈالیں تاکہ یہ چل پڑے‘، سڈنی کا وہ تماشائی جو ہر میچ دیکھتا ہے شان مسعود نے انڈیا کے خلاف ناقابل شکست 52 رنز سکور کیے۔ زمبابوے کے خلاف وہ 44  رنز بناکر سٹمپڈ ہوئے جبکہ ہالینڈ کے خلاف وہ 12 اور جنوبی افریقہ کے خلاف دو رنز ہی بنا پائے۔ شان مسعود کہتے ہیں کہ ’میں خود اپنا نقاد ہوں۔ مجھے زمبابوے کے خلاف میچ ختم کر کے آنا چاہیے تھا، اس کا مجھے بہت دکھ ہے اور یہ دکھ اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔‘ شان مسعود کہتے ہیں کہ ’اتوار کے روز ایک میچ ہم سے پہلے اور ایک ہمارے بعد ہے۔ گویا ہم سینڈوچ بنے ہوئے ہیں لیکن ہمیں اپنا میچ بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔ ہالینڈ اور جنوبی افریقہ کے میچ  کا نتیجہ ہمارے حق میں ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cgrx3g810gdo
راہل دراوڈ: مشکل وقت میں ذمہ داری سنبھالنے والے کوچ انڈیا کی کامیابی میں کیسے کردار ادا کر رہے ہیں؟
آسٹریلوی ہوائی کمپنی ’کنٹاس ایئرویز‘ کی پرواز نے مغربی آسٹریلیا کے شہر پرتھ سے ایڈیلیڈ کے لیے اڑان بھری تو اس کی تمام سیٹیں مسافروں سے بھری ہوئی تھیں۔ انڈین کرکٹ ٹیم بھی اسی پرواز میں سوار تھی اور ایک روز قبل جنوبی افریقہ سے میچ ہارنے کے بعد تمام کھلاڑی کچھ آرام کر رہے تھے کیونکہ پرواز کا دورانیہ بھی لگ بھگ چار گھنٹے تھا۔ لیکن اس فلائٹ کی اکانومی کلاس کی کونے والی سیٹ پر بیٹھے ایک شخص نے جہاز کے اڑان بھرتے ہی اپنے بیگ سے لیپ ٹاپ نکالا اور اس میں محو ہو گئے۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما بزنس کلاس سے اٹھ کر دو بار اُن کے پاس آئے، جھک کر بات کی اور واپس چلے گئے۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ انڈین کرکٹ ٹیم کے کوچ اور سابق مایہ ناز بلے باز راہل دراوڈ تھے۔ راہل دراوڈ کا کام کرنے کا انداز کچھ مختلف ہے۔ بحیثیت کوچ، راہل دراوڈ اب بھی نیٹ پریکٹس کو اتنی ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں جیسا کہ وہ ایک کھلاڑی کے طور پر گھنٹوں نیٹس میں بیٹنگ کی پریکٹس کرتے ہوئے لیتے تھے۔ آسٹریلیا کے دورے پر پہنچنے کے بعد پہلے ہی نیٹ پریکٹس سیشن سے راہل دراوڈ نے ہر کھلاڑی کو پریکٹس کرنے، تجاویز دینے میں مدد دی ہے اور انڈین کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ وکرم راٹھور اور بولنگ کوچ پارس مہمبرے کو ہر سرگرمی میں شامل رکھا ہے۔ پرتھ میں کھیلے گئے میچ میں جنوبی افریقہ نے انڈیا کو شکست دی لیکن میچ کے وقفے کے دوران انڈین اننگز ختم ہونے کے بعد کھلاڑی فیلڈنگ پریکٹس کر رہے تھے کہ اچانک راہل دراوڈ بلا اور گیند لے کر آئے اور کے ایل راہول کو سلپ فیلڈنگ کی مشق کروانے لگے۔ ابھی جنوبی افریقہ کی اننگز شروع ہوئے ایک اوور ہی ہوا تھا کہ کوئنٹن ڈی کاک نے ارشدیپ سنگھ کے آؤٹ سوئنگر کو کھیلا اور کے ایل راہل نے سلپ میں کیچ لے کر انھیں آؤٹ کر دیا۔ کھلاڑیوں کے ڈگ آؤٹ میں بیٹھے راہل دراوڈ نے ایک بار ری پلے دیکھنے کے لیے بڑی سکرین پر نظر ڈالی اور پھر میچ پر توجہ مرکوز کر دی۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی، جنھوں نے راہل دراوڈ کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور اب ان کی کوچنگ کی پیروی کرتے ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ ’راہل اب سیٹ ہیں۔‘ ڈیرن سیمی کا کہنا ہے کہ ’میں نے راہل دراوڈ جیسے محنتی کھلاڑی کم ہی دیکھے ہیں،  وہ پہلے اسی طرح انڈیا کی جونیئر کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کرتے تھے اور اب وہ ایک ایسی ٹیم کے کوچ ہیں جس میں آدھے سے زیادہ سپر سٹار کھلاڑی ہیں۔ یہ کوئی  آسان کام نہیں ہے۔‘ یہ اتفاق تھا کہ پرتھ سے ایڈیلیڈ جانے والی فلائٹ کی بزنس کلاس کی پہلی نشست پر انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ روی شاستری بھی موجود تھے جہاں راہل دراوڈ بیٹھ کر کام کر رہے تھے۔ جس صورتحال میں راہول ڈریوڈ کو انڈین کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری سونپی گئی وہ بھی چیلنجنگ کہلائے گی۔ یہ بھی پڑھیے ٹی 20 ورلڈ کپ 2022: انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہوں گی، بشرطیکہ۔۔۔ دسمبر 2021 میں بطور کوچ جنوبی افریقہ کے اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر جانے سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم 18 کھلاڑیوں کے ساتھ جا رہے ہیں جو تمام باصلاحیت، بہترین ہیں۔ لیکن ان میں سے صرف 11 کھلاڑی ہی کھیل سکیں گے اور میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ نہ کھیلنے والے کھلاڑی مایوس ہوتے ہیں۔ ہمیں اکثر کھلاڑیوں کے ساتھ مشکل فیصلے لینا پڑتے ہیں لیکن ہم سب پروفیشنل ہیں۔‘ انڈیا کی ٹیسٹ یا ون ڈے ٹیم پر ایک نظر ڈالی جائے تو راہل دراوڈ کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گذشتہ سال جنوبی افریقہ کے ٹیسٹ دورے پر جانے والی ٹیم کے 18 میں سے سات کھلاڑیوں کی عمریں 30 سال سے زیادہ تھیں۔ اس وقت آسٹریلیا میں کھیلے جا رہے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا کے لیے کھیلنے والے کھلاڑیوں میں سے آٹھ کی عمریں 30 سال سے زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ راہل دراوڈ کو نہ صرف سٹار کھلاڑیوں کو متحد رکھ کر نتائج حاصل کرنے ہوں گے بلکہ نوجوان کھلاڑیوں کی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے مشکل فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔ کرکٹ پر لکھنے والے اور پاکستان کے مشہور سپورٹس صحافی شاہد ہاشمی کہتے ہیں کہ ’میری راہل دراوڈ کے بارے میں اب بھی وہی رائے ہے جو ان کے دوروں کے دوران رپورٹنگ کے وقت تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’راہل دراوڈ اتنے عظیم کھلاڑی تھے کہ انھوں نے ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں میں، تقریباً 500 میچوں میں 23،000 سے زیادہ رنز بنائے۔ جب آپ ویراٹ کوہلی اور روہت شرما جیسے لیجنڈز کے کوچ ہوں تو آپ کا اثر بھی ہونا چاہیے۔ ڈریوڈ کے پاس تجربہ ہے، کامیابی ہے اور انھوں نے بہت زیادہ گلیمر دیکھ رکھا ہے، اب وہ صرف کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے وراٹ کوہلی: ’پہلی بار ایک ماہ تک بیٹ کو ہاتھ نہیں لگایا، بابر کو کھیلتا دیکھ کر اچھا لگتا ہے‘ ’امپائر صاحب، بیٹسمین میں سکہ ڈالیں تاکہ یہ چل پڑے‘، سڈنی کا وہ تماشائی جو ہر میچ دیکھتا ہے بنگلہ دیش کی شکست کے بعد کوہلی پر ’فیک فیلڈنگ‘ کا الزام: ’بس سیدھا انڈیا کو ٹرافی ہی دے دیں‘ کمرے کی ویڈیو پر کوہلی، انوشکا ناراض: ’اگر بیڈروم میں بھی یہ ہوسکتا ہے تو حد کیا ہے؟‘ ٹیم کے ساتھ راہل دراوڈ کا تعلق بھی کافی مضبوط نظر آ رہا ہے۔ کے ایل راہل اس ٹورنامنٹ کے پہلے تین میچوں میں فلاپ رہے تھے۔ اگر راہل دراوڈ ان کی جگہ کسی اور کھلاڑی کو موقع دینے کی تنقید اور دباؤ کے سامنے جھک جاتے تو نہ کے ایل راہل کو بنگلہ دیش کے خلاف چوتھے میچ میں نصف سنچری بنانے کا موقع ملتا اور نہ ہی ان کا اعتماد واپس آتا۔ ویراٹ کوہلی کی فارم میں واپسی کی کہانی میں کہیں راہل دراوڈ کا ہاتھ بھی واضح نظر آ رہا ہے۔ راہل دراوڈ نے گذشتہ سال سے مسلسل ان کا ساتھ دیا اور ویراٹ ایشیا کپ کے بعد اپنی فارم میں واپس آئے۔ راہل دراوڈ گھنٹوں نیٹ پر کوہلی کو بیٹنگ پریکٹس کرتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں اور اس دوران انھیں تجاویز بھی دیتے ہیں۔ میچز کے دوران ڈرنکس بریک یا اوور بریک کے دوران، راہل دراوڈ اکثر گراؤنڈ میں کھلاڑیوں کے پاس بھاگتے ہوئے جاتے ہیں اور خود اہم پیغامات دیتے ہیں۔ ان دنوں راہل دراوڈ جس طرح جیت کا جشن مناتے ہیں، کھلاڑیوں کو گلے لگاتے ہیں، یہ ان کی پرسکون طبیعت سے تھوڑا مختلف ہے اور نیا بھی۔ سابق کپتان اور چیف سلیکٹر کے سریکانت کا ماننا ہے، ’راہول ڈریوڈ کا اعتماد ہی ان کی سب سے بڑی خاصیت ہے جو بڑے فیصلوں کے لیے اہم ہو ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckd50nydk4ro
ٹی 20 ورلڈ کپ 2022: انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں فائنل میں ہونگی،بشرطیکہ۔۔۔
اگر آپ کو کرکٹ کا شوق ہے تو آسٹریلیا میں جاری ٹی20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل اور فائنل کے حساب یا ایکویشن کو سمجھنے کے لیے یہ تاریخ آپ کو یاد رکھنی چاہیے۔   تاریخ 6 نومبر، 2022 دن- اتوار یہ ہے ٹی ٹوئنٹی کے ورلڈ کپ میں بڑے مقابلوں کا دن۔ وہ دن جب یہ طے ہوجائے گا کہ کرکٹ کے دیوانوں کو کیا اس ٹورنامنٹ میں ایک بار پھر انڈیا اور پاکستان کے درمیان مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ شاید وہ دن جس کا ہر انڈین اور پاکستانی کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔ اتوار کو ایڈیلیڈ اوول میں جنوبی افریقہ کا مقابلہ نیدرلینڈز سے ہوگا تو کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اسی میدان میں پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش کے مد مقابل ہوگی۔ اس میدان سے سینکڑوں کلومیٹر دور میلبرن کے ایم ایس جی میں انڈیا اور زمبابوے کی ٹیمیں ایک دوسرے کے ساتھ دو دو ہاتھ کریں گی۔ جمعرات کو سڈنی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر سیمی فائنل میں پہنچنے کی اپنی امیدوں کو زندہ رکھا ہے۔ بارش ہونے کی وجہ سے اس میچ میں ڈک ورتھ لوئیس کے قانون کو نافذ کرنا پڑا تھا جس کے بعد پاکستان کی ٹیم نے جنوبی افریقہ کو 33 رنز سے شکست دی۔ دراصل سپر 12 اور خاص کر گروپ 2 کے مقابلوں میں غضب کا جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تقریبا ہر میچ کے بعد ناک آؤٹ سٹیج میں پہنچنے کا نقشہ بن اور بگڑ رہا ہے۔ فیصلہ کن مقابلوں سے پہلے یہ نقشہ اتنا الجھا ہوا ہے کہ انڈیا، پاکستان، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور زمبابوے کی ٹیمیں کسی نہ کسی طرح سے سیمی فائنل میں جگہ بنا سکتی ہیں۔ گروپ 2 سے اگر انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچے گی وہ گروپ 1 میں سر فہرست یا ٹاپ پر رہنے والی ٹیموں کا مقابلہ کریں گے۔   گروپ 2 سے اگر انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچے گی وہ گروپ 1 میں سر فہرست یا ٹاپ پر رہنے والی ٹیموں کا مقابلہ کریں گے یعنی اس بات کی امید بنی ہوئی کہ 13 نومبر کو میلبرن میں ٹی 20 ورلڈ کپ کا فائنل مقابلہ انڈیا اور روایتی حریف پاکستان کے درمیان ہوسکتا ہے۔ یہ امید کیسے برقرار ہے اس کے لیے سمجھیے کہ چار چار مقابلے کے کھیلنے کے بعد ٹیموں کی ابھی کیا حالت ہے اور وہ کس مرحلے پر ہیں۔   انڈیا کل میچ -4 پوآنٹس6 نیٹ رن ریٹ- 0۔730 زمبابوے سے مقابلہ ابھی باقی۔۔ یوں تو ابھی انڈیا پوائنٹس کی فہرست میں سب سے اوپر ہے لیکن پھر بھی سیمی فائنل یعنی ناک آؤٹ سٹیج میں پہنچنے کی گارنٹی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ روہت اینڈ کمپنی نے جنوبی افریقہ کے ساتھ مقابلہ گنوا کر اس گتھی کو کم سے کم 6 نومبر تک الجھائے رکھا ہے۔ ابھی تک تین امکانات ہیں۔ انڈیا اور زمبابوے کو شکست دیتا ہے تو بغیر کسی جوڑ توڑ کر آٹھ پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں اپنی جگہ پکی کر لے گا۔ اگر بارش کی وجہ سے میچ میں رخنہ پڑتا ہے تو دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوآئنٹ ملے گا۔ انڈیا سات پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ اگر زمبابوے کے ہاتھوں انڈیا کو شکست برداشت کرنی پڑی اور بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان جیت گیا وہ نیٹ رن ریٹ ہی اہم کردار ادا کرے گا۔( فی الحال نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر ہی پاکستان آگے ہے)۔ زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے بعد بھی دو صورتحال میں انڈیا کی آخری چار ٹیموں میں پہنچنے کی امید بنی رہے گی۔ پہلا جنوبی افریقہ اپنا آخری میچ نیدرلینڈز کے خلاف ہار جائے اور دوسرا بنگلہ دیش کی ٹیم پاکستان کو شکست دے دے اور نیٹ رن ریٹ اس کا انڈیا سے کم رہے۔ اتوار کو کیونکہ گروپ 2 کا آخری میچ انڈیا کو کھیلنا ہے اس لیے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی معلوم ہوگا کہ آخری چار میں پہنچنے کے لیے فیصلہ کن ایکویشن کیا ہونگیں۔   پاکستان کل میچ کھیلے- 4، پوائنٹس 4، نیٹ رن ریٹ ۔117۔1 مقابلہ بنگلہ دیش سے ہونا باقی جنوبی افریقہ پر بہترین فتح حاصل کرنے کے باوجود پاکستان کی سیمی فائنل تک کی راہ اگر مگر پر ٹکی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان کو بنگلہ دیش کو ہرا بھی دیتا ہے تو بھی یہ ناک آؤٹ تک پہنچنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اگر انڈیا اور جنوبی افریقہ اپنے اپنے میچ جیت جاتے ہیں تو پاکستان کا سفر یہیں ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے بنگلہ دیش سےجیت کے علاوہ جنوبی افریقہ یا تو نیدرلینڈز کے خلاف میچ ہار جائے یا بارش کی وجہ سے میچ رد ہوجائے۔ ایسے میں پاکستان اور جنوبی افریقہ دونوں کے 6-6 پوائنٹس ہوں گے، لیکن کیونکہ پاکستان کے کھاتے میں تین فتح درج ہونگیں اور جنوبی افریقہ کے کھاتے میں صرف 2 (پوآنٹس کی برابری پر رہنے کی صورتحال میں پہلے نمبر آف ونس اور پھر نیٹ رن ریٹ کو دیکھا جاتا ہے)۔ دوسرا یہ کہ زمبابوے کے خلاف انڈیا میچ ہار جائے، ایسے میں دونوں ٹیموں کے 6-6 پوائنٹس ہوں گے لیکن رن ریٹ کی بنیاد پر پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ جنوبی افریقہ کل میچ 4، پوائنٹس 5، نیٹ رن ریٹ 441۔1 مقابلہ نیدرلینڈز سے باقی جنوبی افریقہ کو سیمی فائنل میں پہنچنے کےلیے نیدرلینڈز کو ہرانا ہی ہوگا۔ اگر اس میچ میں بارش ولن بن گئی اور دونوں ٹیمیں پوائنٹس بانٹنے پر مجبور ہوئیں تو جنوبی افریقہ مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ حالانکہ محکمہ موسمیات کے مطابق اتوار کو ہونے والے میچوں میں بارش کے ولن بننے کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس لیے اس بات کا پورا امکان ہے کہ جنوبی افریقہ کو پورا میچ کھیلنے کا موقع ملے گا اور وہ نیدرلینڈز کو کوئی بڑی الٹ پھیر کرنے سے سے روک سکتی ہے۔   بنگلہ دیش کل میچ 4، پوائنٹس 4، نیٹ رن ریٹ 276۔1 مقابلہ پاکستان سے ہونا باقی بنگلہ دیش کی ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے کے امکانات اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ ان کا انتہائی خراب نیٹ رن ریٹ ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ خود تو آگے نہ بڑھ سکے لیکن وہ دوسری ٹیموں کا کھیل خراب کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہاں ابھی ایک امکان باقی ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کی ٹیم آخری چار میں پہنچ سکتی ہے۔ اور وہ ہے کہ پہلے وہ  پاکستان کے خلاف میچ جیت جائے اور دعا کرے کہ زمبابوے بھی انڈیا کو شکست دے۔ اس کے علاوہ جیت اور ہار کا فرق اتنا بڑا ہو کہ وہ نیٹ رن ریٹ میں انڈیا سے اوپر آجائے۔ دوسرا، جنوبی افریقہ کی ٹیم ہالینڈ کے خلاف ایک سے زیادہ پوائنٹ حاصل نہ کر سکے۔ زمبابوے   کل میچ 4، پوائٹنس 3، رن ریٹ 313۔0 انڈیا سے مقابلہ ابھی باقی اگر زمبابوے کسی طرح انڈیا کو شکست دے دیتا ہے تب بھی وہ مجموعی طور پر صرف 5 پوائنٹس حاصل کر سکے گا۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والا میچ بارش کی نظر ہوجاتا ہے  تو ایسی صورت حال میں تینوں ٹیموں کے پوائنٹس برابر ہو جائیں گے لیکن زمبابوے نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر بہت پیچھے ہے۔ اگر وہ انڈیا کو 50 رنز سے ہرا بھی دے تو اسے دعا کرنی پڑے گی کہ نیدرلینڈز نے جنوبی افریقہ کو بھی اسی فرق سے شکست دے۔ اس وجہ سے ان کا ناٹ آؤٹ مرحلے تک پہنچنے کا دعویٰ بہت کمزور ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c72nyx87v3do
’سُنا ہے آپ کے سابق وزیراعظم کو گولی لگی ہے، اور آپ کے ہاں حالات خراب ہیں‘
’سنا ہے آپ کے سابق وزیراعظم کو گولی لگی ہے؟‘ یہ وہ پہلا سوال تھا جو مجھ سے سڈنی سے ایڈیلیڈ پہنچنے پر ایئرپورٹ سے ہوٹل آتے ہوئے ترکی سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیور نے کیا۔ جب ٹیکسی ڈرائیو کو یہ علم ہوا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے کہ تو انھوں نے سوال کیا کہ ’سنا ہے آپ کے ہاں حالات خراب ہیں۔ آپ کے سابق وزیراعظم کو گولی لگی ہے۔ یہ بات مجھے ایک پاکستانی دوست نے بتائی ہے۔‘ اس ٹیکسی ڈرائیور کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک ترکی میں بھی سیاست زوروں پر رہتی ہے، اگلے سال الیکشن ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے کچھ لوگ طیب اردوغان سے خوش ہیں اور کچھ نہیں۔‘ اس مختصر سی سیاسی گفتگو کے دوران میرا ذہن ایڈیلیڈ کرکٹ گراؤنڈ کے بارے میں سوچ رہا تھا جہاں اتوار کے روز پاکستانی کرکٹ ٹیم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنا آخری گروپ میچ بنگلہ دیش کے خلاف کھیلنے والی ہے اور ذہن میں یہی بات آئی کہ کیا اس میچ کے بعد پاکستانی ٹیم کا سفر تمام ہوجائے گا یا قدرت اسے سیمی فائنل کھیلنے کا موقع فراہم کرے گی؟ یہ وہی ایڈیلیڈ کرکٹ گراؤنڈ ہے جہاں قدرت پاکستانی کرکٹ ٹیم پر 1992  کے عالمی کپ میں مہربان ہوئی تھی جب انگلینڈ کے خلاف اس کا میچ بارش کی وجہ سے مکمل نہیں ہوا تھا۔ اگر میچ مکمل ہو جاتا تو 74 رنز پر ڈھیر ہو جانے والی پاکستانی ٹیم کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہ تھا لیکن بارش نے وہ ایک قیمتی پوائنٹ پاکستانی ٹیم کو دلوا دیا جو بعد میں اسے سیمی فائنل تک لے گیا تھا۔ پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف جیت میں اگرچہ نمایاں کردار افتخار احمد اور شاداب خان کی شاندار بیٹنگ کا نظر آتا ہے جن کی نصف سنچریوں کی بدولت پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں اپنا سب سے بڑا سکور کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن اگر دیکھا جائے تو دلیری سے بیٹنگ کرنے کا سبق محمد حارث دے گئے۔ محمد حارث ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ٹریولنگ ریزرو میں شامل تھے کہ فخر زمان کے ان فٹ ہوجانے کے سبب انھیں پلیئنگ سکواڈ میں شامل کیا گیا۔ محمد حارث  بی بی سی اردو کے سوال پر کہتے ہیں ’میں یہی سوچ کر بیٹنگ کرنے گیا تھا کہ بہادری سے کھیلنا ہے اور ان کے کسی بھی بولر کے بارے میں یہ نہیں سوچنا کہ وہ کتنے تجربہ کار ہیں یا کتنے مشہور ہیں۔ میں نے ذہن میں یہی ایک بات رکھی ہوئی تھی کہ صرف گیند کو دیکھنا ہے، فاسٹ بولرز کو نہیں۔‘ حارث کہتے ہیں کہ ’چونکہ مجھے سب گوگل کہہ کر پکارتے ہیں لہذا مجھے ان تمام فاسٹ بولرز کا اچھی طرح پتہ تھا میں ان کی ویڈیوز دیکھتا رہا ہوں۔ میچ سے قبل بھی ان بولرز کی ویڈیوز دیکھی تھیں۔‘ حارث کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹنگ سے گھر والے بہت خوش ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی بہنوں کو ہوئی ہے ان کے میسجز سب سے پہلے آئے۔ ان کے علاوہ بھی اتنے زیادہ میسجز آئے ہیں کہ میرا موبائل ہی ہینگ ہو گیا۔‘  حارث کہتے ہیں کہ ’آسٹریلوی وکٹیں میری بیٹنگ کے سٹائل کے مطابق ہیں اور میں اسی اعتماد کے ساتھ بیٹنگ کرنے گیا تھا۔ یہ اعتماد مجھے کپتان بابراعظم اور ٹیم منیجمنٹ نے دیا تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ڈائری: انڈیا، پاکستان میچ اور میلبرن میں تیاریاں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ڈائری: پاکستان انڈیا میچ کے بعد ’کہیں خوشی تو کہیں غم‘ کیا پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب بھی ممکن ہے؟ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں انڈیا کو شکست، کیا پاکستان اب بھی سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے؟ حارث کہتے ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ میری کارکردگی جو پاکستان سپر لیگ میں ہوئی ویسی کارکردگی میں پاکستان کی طرف سے نہیں دکھا سکا تھا۔ کوشش ہو گی کہ پرفارم کروں اگر آپ پرفارمنس نہیں دیں گے تو یہاں نہیں رہ سکیں گے۔‘ یاد رہے کہ محمد حارث نے اس سال پاکستان سپر لیگ میں پشاور زلمی کی نمائندگی کرتے ہوئے کراچی کنگز کے خلاف میچ میں صرف 27 گیندوں پر 49 رنز کی  جارحانہ اننگز کھیلی تھی جس میں چار چھکے اور تین چوکے شامل تھے۔ یہ کارکردگی انھیں مین آف دی میچ ایوارڈ دلانے کا سبب بنی۔ محمد حارث نے ایک اور قابل ذکر اننگز اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلی جس میں انھوں نے پانچ چھکوں اور سات چوکوں کی مدد 70 رنز سکور کیے اور دوسری مرتبہ مین آف دی میچ بنے تھے۔ وہ پاکستان کی طرف سے چار ون ڈے انٹرنیشنل میں صرف 10 رنز بنا پائے ہیں جبکہ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ سے قبل انھوں نے جو ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا تھا اس میں وہ صرف سات رنز بنا سکے تھے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c51gzg36kn8o
’امپائر صاحب، بیٹسمین میں سکہ ڈالیں تاکہ یہ چل پڑے‘، سڈنی کا وہ تماشائی جو ہر میچ دیکھتا ہے
آسٹریلوی کرکٹ کی تاریخ کو جاننے کے لیے ضخیم کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کچھ وہ دھاتی مجسمے آسانی سے بیان کر دیتے ہیں جو آسٹریلیا کے مختلف ٹیسٹ گراؤنڈز میں نصب ہیں۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں ہر سٹینڈ کے باہر سابق ٹیسٹ کرکٹرز کے مجسمے اُن کے تعارف کے ساتھ ہر آنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔ ان میں عظیم سر ڈان بریڈمین اور ان کے ساتھ کھیلنے والے بل پونسفرڈ بھی شامل ہیں اور جدید دور میں بیٹرز کے اعصاب کو بُری طرح جھنجھوڑنے والے ڈینس للی اور شین وارن بھی۔ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں داخل ہوں تو ایک جانب سابق کپتان رچی بینو کا مجسمہ آنے والوں کو خوش آمدید کہتا نظر آتا ہے تو دوسری جانب سٹیو اپنے دونوں بازو پھیلائے فاتحانہ انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ہی فاصلے پر سٹین مک کیب کا مجسمہ جارحانہ بیٹنگ کے انداز کی عکاسی کر رہا ہے۔ ان مجسموں کے علاوہ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ کی ایک خاص بات یہ بھی کہ پریکٹس ایریا کے اطراف چند مشہور آسٹریلوی کرکٹرز کے مختصر تعارف والی دھاتی تختیاں چھوٹے ستونوں پر نصب  ہیں جن میں سر ڈان بریڈمین، بابی سمپسن، آرتھر مورس اور بلی براؤن قابل ذکر ہیں۔ پرانے زمانے میں استعمال ہونے والا رولر بھی یہاں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں جہاں سابق ٹیسٹ کرکٹرز کے مجسمے موجود ہیں وہیں گراؤنڈ کے ایک سٹینڈ کے اندر نشت پر ایک ایسا مجسمہ بھی موجود ہے جو کسی ٹیسٹ کرکٹر کا نہیں ہے لیکن آسٹریلوی کرکٹ کی تاریخ میں اس کی اہمیت کسی سے کم نہیں۔ اس مجسمے کو دور سے دیکھ کر ایک لمحے کو یہ گمان ہوتا ہے کہ کوئی جیتا جاگتا شائق اپنی سیٹ پر بیٹھا زور سے آواز لگا رہا ہے۔ لیکن قریب جاکر پتہ چلتا ہے کہ یہ تو محض ایک مجسمہ ہے۔ یہ یابا ہیں۔ آپ کہیں گے کون یابا؟ تو ان کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ یابا دراصل ایک ایسے تماشائی تھے جن کا اصل نام سٹیون ہیرلڈ گیسکوئن تھا۔ وہ بچپن سے باتونی ہونے کی وجہ سے اپنے اصل نام کے بجائے یابا کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ وہ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں آ کر میچوں کے دوران کرکٹرز پر دلچسپ فقرے کسا کرتے تھے لیکن ان کے برجستہ جملوں میں شائستگی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں گراؤنڈ کی مشہور سڈنی ہل (پہاڑی) ہوا کرتی تھی جہاں آ کر وہ بیٹھتے اور انہماک سے میچ دیکھا کرتے۔ میدان میں کھیلنے والے کرکٹرز ان کے دلچسپ جملوں کے رحم و کرم پر ہوا کرتے تھے۔ سر ڈان بریڈمین جیسا عظیم کرکٹر بھی ان کے ان فقروں سے خود کو نہ بچا سکے۔ ایک مرتبہ نواب آف پٹودی سینیئر بہت سست بیٹنگ کر رہے تھے تو سڈنی ہل سے یابا کی آواز گونجی: ’امپائر صاحب، بیٹسمین میں سکہ ڈالیں تاکہ یہ چل پڑے۔‘ پتہ چلا اس میچ کے امپائر گیس میٹر انسپکٹر تھے۔ اس زمانے کے کرکٹرز بھی یابا کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ سر جیک ہابس نے جب سڈنی میں اپنا الوداعی میچ کھیلا تو وہ خاص طور پر یابا کے پاس گئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ یابا کی آٹھ جنوری 1942 کو 63 سال کی عمر میں دل کے عارضے کے سبب وفات ہوئی۔ ان کی موت کے بعد سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل ان کی یاد میں چند لمحے کی خاموشی اختیار کی گئی۔ سڈنی ہل کو بعد میں یابا ہل کا نام دیا گیا۔ سنہ 2007 میں یہ پہاڑی اور ڈگ والٹرز سٹینڈ کو مسمار کر کے وکٹر ٹرمپر سٹینڈ بنا دیا گیا۔ لیکن یابا سے محبت کے سبب اس سٹینڈ کی ایک نشست پر ان کا دھاتی مجسمہ نصب کر دیا گیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c516zx3qvqeo
محمد حارث نے گویا نئی روح پھونک دی: سمیع چوہدری کا کالم
چیمپیئنز ٹرافی میں جس روز پاکستانی ٹیم سرفراز احمد کی قیادت میں میدان میں اتری تو ایک ان کہے سے دباؤ کا شکار نظر آتی تھی۔ بیٹنگ لائن ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی اور پہلے ہی میچ میں انڈیا کے خلاف خفت آمیز شکست نے ڈریسنگ روم کو مضطرب کر چھوڑا تھا۔ پاکستانی بولنگ نے بہترین کاوش دکھلائی اور کوئنٹن ڈی کوک، ہاشم آملہ، فاف ڈوپلیسی، جے پی ڈومنی، اے بی ڈی ولیئرز اور ڈیوڈ ملر پہ مشتمل جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کو برمنگھم کی وکٹ پہ پچاس اوورز میں 219 رنز تک محدود کر ڈالا۔ مگر اصل دباؤ ایک بار پھر ناقابلِ اعتبار پاکستانی بیٹنگ لائن پہ تھا جو انڈیا کے خلاف اندوہناک شکست کا صدمہ سہنے کے بعد شدید دباؤ کا شکار تھی۔ مگر جونہی فخر زمان نے پارنیل کے خلاف اپنے بازو کھولے، پاکستانی اننگز کی سمت بدلنے لگی۔ فخر زمان کا کریز پہ قیام زیادہ طویل نہیں تھا مگر اس محدود سے وقت میں انھوں نے نہ صرف جنوبی افریقی اٹیک پہ دباؤ دوگنا کر دیا بلکہ اپنی بے خطر کرکٹ سے اپنے ساتھی بلے بازوں پہ بھی توقعات کا بوجھ بڑھا دیا۔ جیسے اس اہم جیت نے پاکستان کی چیمپیئنز ٹرافی کی مہم میں نئی روح پھونک دی تھی اور آٹھویں نمبر کی ٹیم سرفراز احمد کی قیادت میں پہلی بار چیمپیئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کر گئی تھی، کچھ ویسا ہی عکس یہاں محمد حارث کی اننگز میں نظر آیا، گو کہ سیمی فائنل تک رسائی اب پاکستان کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہی اور انھیں قدرت کے نظام کا بھی منتظر رہنا ہے۔  فخر زمان کی انجری نے پاکستانی تھنک ٹینک کو مجبور کر ڈالا کہ وہ محمد حارث پہ تکیہ کریں اور حارث نے بھی جواب میں اپنی ٹیم کو بالکل مایوس نہیں کیا بلکہ اپنے پیشرو فخر زمان ہی کی طرح اپنی بیٹنگ لائن کی مہم جوئی کو ایک نئی جہت سے آشنا کر دیا۔ فخر زمان ہی کی طرح ان کا بھی کریز پہ قیام محدود رہا مگر اس مختصر سے دورانئے میں انھوں نے جنوبی افریقی پیس کا وہ حشر کیا کہ ٹیمبا باوومہ کے سبھی عزائم پسپائی اختیار کر کے مدافعت پہ مائل ہونے لگے۔ ربادا کی پیس کو جس طرح حارث نے اپنے مفاد میں استعمال کیا، اس کی بدولت بعد ازاں افتخار احمد کو اننگز کی ابتدا میں سانس لینے کا موقع مل گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ پاکستانی بیٹنگ لائن میں سے افتخار احمد ان کنڈیشنز کے لیے بہترین تکنیک کے مالک ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ جس طرح سے وہ پچھلے قدموں پہ جم کے پیس کے خلاف اپنے زورِ بازو کا استعمال کرتے ہیں، وہ آسٹریلین وکٹوں پہ عموماً بار آور ثابت ہوتا ہے۔ اور پھر جب شاداب خان نے بھی اپنے کیریئر کی ایک یادگار اننگز کھیل ڈالی تو جنوبی افریقی کیمپ میں خدشات کے بادل منڈلانے لگے۔  جس نئے عزم کا اظہار پاکستانی بیٹنگ نے کیا، عین اسی کا اعادہ بولنگ لائن نے بھی کیا۔ شاہین شاہ آفریدی انجری کے بعد اپنی پیس سے سمجھوتہ کر کے صحیح لینتھ پہ حملہ آور ہوئے اور پہلے ہی اوور میں  کوئنٹن ڈی کوک کی وکٹ حاصل کر کے ڈیوڈ ملر کی خدمات سے محروم بیٹنگ لائن پہ بوجھ بڑھا دیا۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان کی جنوبی افریقہ پر 33 رنز سے جیت، شاداب  کی آل راؤنڈ کارکردگی بنگلہ دیش کی شکست کے بعد کوہلی پر ’فیک فیلڈنگ‘ کا الزام اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹورنامنٹ میں ایک مایوس کن آغاز کے بعد دھیرے دھیرے پاکستانی ٹیم اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہے اور جنوبی افریقہ کے خلاف ایسے خطیر مارجن سے کامیابی ایک بہت مثبت اشاریہ ہے جہاں یہ ٹیم خوف کے بتوں کو پاش پاش کرتی نظر آئی ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ یہ نشاطِ ثانیہ سیمی فائنل تک رسائی کی کوئی سند نہیں دے سکتی۔ اگر پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف بھی ایسی ہی مکمل کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو بھی اسے زمبابوے اور نیدرلینڈز کی مدد درکار ہو گی۔ پاکستان کی آئی سی سی ایونٹس میں کامیابیوں اور قسمت کا بہت تعلق رہا ہے اور آسٹریلیا میں جاری حالیہ موسمیاتی لہر نتائج کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ پاکستانی شائقین کے ہاں ابھی بھی مثبت پسندی کی گنجائش موجود ہے کہ اگر جنوبی افریقہ اور نیدرلینڈز کا میچ بارش کی نذر ہو جائے تو پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس ساری اگر مگر کے بیچ اس خوش شگونی سے صرفِ نظر ممکن نہیں کہ سڈنی میں پاکستان ایک یکسر الگ ٹیم نظر آئی۔ بے خوفی چہروں سے عیاں تھی اور کاوش میں ایک واضح عزم تھا۔ پاکستانی شائقین کو نہ صرف ایسی مزید بے خوفی کی دعا کرتے رہنا ہو گا بلکہ دیگر میچز کے نتائج کے لئے بھی آسمان کی طرف تکنا ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c9eplezdd8no
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: پاکستان کی جنوبی افریقہ پر 33 رنز سے جیت، شاداب  کی آل راؤنڈ کارکردگی  
اس ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم  نے اپنا سب سے بڑا اسکور بناتے ہوئے  جنوبی افریقہ کو 33 رنز  سے شکست دیدی۔ اس میچ کا فیصلہ ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت ہوا۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں پر 185 رنز بنائے۔ بارش کے باعث کھیل روکنا پڑا۔ جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو جنوبی افریقہ کو جیتنے کے لیے 14 اوورز میں 142 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا اسوقت تک جنوبی افریقہ نے9  اوورز میں 4 وکٹوں پر69 رنز بنا لیے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ اسے پانچ اوورز میں مزید73 رنز بنانے تھے تاہم  جنوبی افریقہ نے14 اوورز کا اختتام 9  وکٹوں پر108  رنز پرکیا۔ یہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی دوسری جیت ہے۔ اس جیت کے بعد اس کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات اب  بھی موجود ہیں۔  اگر وہ اتوار کے روز بنگلہ دیش کو شکست دے دے اور جنوبی افریقہ اور ہالینڈ کا میچ بارش کی نذر ہوجائے یا بھارت زمبابوے سے ہار جائے  تو پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔ افتخار اور شاداب نے لاج رکھ لی بابراعظم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ  اس میچ سے قبل سڈنی میں کھیلے گئے پندرہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں آٹھ میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں جیتی تھیں۔ پاکستانی ٹیم میں ایک تبدیلی ناگزیر تھی ۔ فخرزمان کی جگہ سکواڈ میں شامل کیے گئے محمد حارث فوراً ہی میدان میں اتار دیے گئے۔ اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں محمد رضوان اور بابراعظم کی اوپننگ شراکت مسلسل چوتھے میچ میں ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ پہلے ہی اوور میں چوکا لگانے کے بعد رضوان وین پارنل کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ اس ٹورنامنٹ میں مایوس کن بیٹنگ کی وجہ سے رضوان کو اپنی عالمی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلی پوزیشن بھی بھارت کے سوریا کمار یادو کے حوالے کرنی پڑگئی ہے۔ ان چار میچوں میں بابر اور رضوان کی سب سے بڑی شراکت 16 رنز کی ہالینڈ کے خلاف رہی ہے۔ محمد حارث نے ٹورنامنٹ کے درمیان ٹیم میں شمولیت کا دباؤ نہ لیتے ہوئے ربادا کے پہلے ہی اوور میں لگاتار گیندوں پر دو چھکے اور ایک چوکا لگاکر اپنے اعتماد کی بھرپور جھلک دکھائی۔ محمد حارث نے نوکیا کو چھکا لگایا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ شام ان کی ہے لیکن اگلی ہی گیند پر نوکیا انہیں ایل بی ڈبلیو کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ حارث نے صرف گیارہ گیندوں پر دو چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے28 رنز بنائے۔ حارث کے آؤٹ ہونے نے جنوبی افریقہ کے لیے راستہ کھول دیا۔ کپتان بابراعظم کے لیے یہ ورلڈ کپ ابتک کسی بھیانک خواب کی طرح رہا ہے۔ اس مرتبہ وہ 15 گیندیں کھیل کر6 رنز بناکر واپس جانے پر مجبور ہوئے۔ کون سوچ سکتا ہے کہ اس ورلڈ کپ کے چار میچوں کے بعد بابراعظم کا سب سے بڑا اسکور 6 رنز ہوگا۔ شان مسعود نے  2 رنز بناکر واپسی لی تو پاکستان کا سکور چار وکٹوں پر صرف 43 رنز تھا ۔ فاسٹ بولر ربادا افتخار احمد اور محمد نواز کے نشانے پر رہے جو اپنے تین اوورز میں چھتیس رنز دے چکے تھے۔اگرچہ وہ اپنے آخری اوور میں افتخار کی وکٹ لینے میں کامیاب ہوئے لیکن اسوقت تک پاکستانی ٹیم ایک معقول سکور تک پہنچ چکی تھی۔ پاکستانی اننگز کے نصف اوورز مکمل ہوئے تو سکور چار وکٹوں پر 68 رنز تھا۔ افتخار اور نواز کی 52 رنز کی شراکت سکور کو 95 تک لے آئی لیکن اس مرحلے پر پاکستان کو نواز کا نقصان اٹھانا پڑگیا جو چار چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 28 رنز بناکر لیفٹ آرم سپنر تبریز شمسی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ شاداب خان نے سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں نواز چھوڑ کر گئے تھے۔ انہوں نے تبریز شمسی کے آخری اوور میں چودہ رنز بٹورے تو دوسری طرف افتخار احمد نے بھی اینگی ڈی کو چھکا جڑ دیا۔ شاداب خان ہاتھ روکنے کے لیے تیار نہ تھے انہوں نے نوکیا کے ایک اوور میں بھی ایک چھکا اور ایک چوکا لگا کر سکور بورڈ کو متحرک رکھا۔ افتخار احمد نے اپنی نصف سنچری 34 گیندوں پر3 چوکوں اور 2چھکوں کی مدد سے مکمل کی۔وہ 51 رنز بناکر آؤٹ ہوئے ۔ شاداب خان ان سے تیز نکلے انہوں نے اپنی نصف سنچری صرف 20 گیندوں پر مکمل کی جس میں تین چوکے اور چار چھکے شامل تھے۔ وہ  52 رنز بناکر اپنا کام بخوبی ادا کرگئے۔ ان دونوں نے چھٹی وکٹ کی شراکت میں 82 رنز کا اضافہ کیا جو اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی  سب سے بڑی شراکت ہے۔ اس سے  قبل افتخار اور شان مسعود نے بھارت کے خلاف 76  رنز کی شراکت  قائم کی تھی۔ پاکستان کی تین وکٹیں 177 رنز پر گریں۔ پاکستان نے آخری پانچ اوورز میں 65 رنز کا اضافہ کیا۔ جنوبی افریقہ کی طرف سے فاسٹ بولر نوکیا چار وکٹوں کے ساتھ کامیاب بولر رہے۔  پانچ اوورز میں 73 رنز درکار  محمد نواز، افتخار اور شاداب خان کی بیٹنگ نے پاکستانی بولرز کو 185 رنز کے دفاع کا حوصلہ فراہم کردیا۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ شاہین شاہ آفریدی نے اننگز کے پہلے ہی اوور میں خِطرناک بیٹسمین ڈی کوک کو صفر پر آؤٹ کردیا۔ یہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں چھٹا موقع ہے کہ شاہین شاہ آفریدی نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اپنے پہلے ہی اوور میں وکٹ حاصل کی ہے۔ اسی سڈنی گراؤنڈ پر بنگلہ دیش کے خلاف سنچری بنانے والے رائلے روسو صرف سات رنز بناکر شاہین شاہ آفریدی کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 50 ویں وکٹ بن گئے۔ دو بڑی وکٹیں گرنے کے بعد کپتان باووما اور ایڈن مارکرم کی نصف سنچری شراکت جنوی افریقہ کے زخم پر مرہم رکھتی نظر آئی۔ حارث رؤف اپنے پہلے ہی اوور میں بیس رنز دے گئے اور جب وہ اپنا دوسرا اوور کرنے آئے تو اس میں بھی سترہ رنز دے کر انہوں  نے جان چھڑائی۔ یہ شاداب خان ہی تھے جنہوں نے اپنی پہلے ہی اوور میں کپتان بفوما اور مارکرم کی وکٹیں لے کر جنوبی افریقہ کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ جنوبی افریقہ کی اننگز کے نویں اوور میں بارش کی وجہ سے کھیل روکنا پڑا اسوقت اسکور چار وکٹوں پر69  رنز تھا۔ ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت پار اسکور 84 رنز تھا جبکہ جنوبی افریقی ٹیم 15 رنز پیچھے تھی۔ ٹرسٹن اسٹبس اور ہینرک کلاسن نے کریز پر واپس آکر جارحانہ انداز اختیار کیا لیکن شاہین شاہ آفریدی نے ہینرک کلاسن کو 15 رنز پر آؤٹ کرکے پاکستانی ٹیم کو جیت سے مزید قریب کردیا اس کے بعد گرنے والی مزید پانچ وکٹوں نے پاکستان کی جیت کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c16x2yyz69do
بنگلہ دیش کی شکست کے بعد کوہلی پر ’فیک فیلڈنگ‘ کا الزام: ’بس سیدھا انڈیا کو ٹرافی ہی دے دیں‘
بدھ کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں بنگلہ دیش کی انڈیا کے خلاف پانچ رنز سے شکست کے بعد بنگلہ دیشی کرکٹر نور الحسن نے وراٹ کوہلی پر ’فیک فیلڈنگ‘ کا الزام عائد کیا، جس سے ممکنہ طور پر بنگلہ دیش کو اہم پینلٹی رنز مل سکتے تھے۔ مبینہ فیک فیلڈنگ کا یہ واقعہ 185 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیش کی اننگز کے ساتویں اوور کے دوران پیش آیا جب ارشدیپ سنگھ نے باؤنڈری سے تھرو پھینکی مگر اسی دوران سرکل کے اندر موجود کوہلی نے تھرو پھینکنے کا اشارہ کیا۔ دونوں امپائرز مریز ایراسمس اور کرس براؤن نے اسے نہیں دیکھا اور نہ ہی دونوں بلے بازوں لٹن داس اور نجمل حسین شانتو نے اسے دیکھ کر کوئی ردعمل دیا۔ اس حوالے سے ان فیئر پلے پر کرکٹ کا قانون 41.5 کہتا ہے کہ ’جان بوجھ کر بلے باز کی توجہ بٹانا، اسے دھوکہ دینا یا اس کے راستے میں رکاوٹ بننے‘ پر امپائر ڈیڈ بال کا فیصلہ کر کے بیٹنگ سائیڈ کو پانچ رنز دے سکتا ہے۔ نور الحسن نے میچ کے بعد اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹرز کو بتایا کہ ’ہم سب نے دیکھا کہ گراؤنڈ گیلا تھا۔‘ ’ایک فیک تھرو پھینکی گئی۔ اس کے پانچ پینلٹی رنز مل سکتے تھے۔ یہ بات ہمارے حق میں جا سکتی تھی۔ تاہم بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 اس واقعے کے ری پلے میں کوہلی کے برتاؤ کو جانے انجانے میں دھوکہ دہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ارشدیپ کا تھرو اسی وقت پر کوہلی کے دائیں ہاتھ کے پاس سے گزرا تھا جب انھوں نے فیک تھرو پھینکنے کا اشارہ کیا۔ خیال رہے کہ اس حوالے سے امپائر موقع پر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا بلے باز کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی نہ کہ اس بارے میں کہ کیا واقعی بلے باز نے دھوکہ کھایا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 یہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان اس میچ کے دوران ان تین واقعات میں سے ایک ہے جن میں امپائر کے فیصلے زیرِ بحث آئے ہیں۔ پہلا واقعہ انڈیا کی بیٹنگ کے دوران 16ویں اوور میں ہوا جب کوہلی نے یہ مانتے ہوئے کہ حسن محمود نے اپنے اوور میں دوسرا باؤنسر پھینکا ہے، سکوائر لیگ امپائر سے نو بال دینے کی اپیل کی جس پر امپائر ایرازمس نے کوہلی کی اپیل کو درست سمجھ کر نو بال دی۔ اس پر کوہلی اور کپتان شکیب الحسن کے درمیان بحث ہوئی اور آخر میں دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور اپنے اپنے راستے پر چلے گئے۔ بارش سے میچ رکنے کے بعد دوسرا واقعہ ہوا جس میں امپائرز نے وقفے کے بعد کھیل کو دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں ڈگ آؤٹ کے قریب شکیب سے رابطہ کیا۔ اس وقت بنگلہ دیش بغیر کسی نقصان کے 66 رنز بنا کر ڈی ایل ایس پر 17 رنز سے آگے تھا۔ میچ آفیشلز سے بات کرنے سے پہلے شکیب نے گیلے آؤٹ فیلڈ کا جائزہ لیا۔ روہت شرما بھی اس بحث میں شامل ہوئے لیکن شکیب کے متحرک اشاروں سے پتا چل رہا تھا کہ وہ حالات سے مطمئن نہیں۔ تاہم میچ کے بعد پریس کانفرنس میں شکیب نے اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کی۔ یہ بھی پڑھیے کیا پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب بھی ممکن ہے؟ پاکستان انڈیا میچ کے بعد ’کہیں خوشی تو کہیں غم‘  آسٹریلیا میں مقیم وہ جوڑا جس کی شادی انڈیا پاکستان کرکٹ سیریز کے ویزا پر ہوئی اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 ایک صارف نے اس پر تبصرہ کیا کہ اس طرح کی چیزیں تو کرکٹ میں بہت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بس یہ بلے بازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھے بغیر کریز تک پہنچیں کہ بال کس کے ہاتھ میں ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے کے لیے ایک انڈین کرکٹ کے مداح نے اس خاص لمحے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ رن آوٹ کی اصل تصویر ہے۔ اس میں کوہلی صرف کھڑے نظر آتے ہیں اور کیپر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ الزام تراشی کے بجائے اپنی شکست تسلیم کر لیں۔ ایک صارف نے امپائرنگ کے معیار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا ٹرافی انڈیا کو ہی دے دیں، بارش کے وقفے کے بعد بنگلہ دیش کو گیلی وکٹ پر کھیلنے کی دعوت دی گئی، کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا تھا کہ بلے باز سکور نہیں کر پا رہے ہیں۔ کرکٹ کے اعدادوشمار پر گہری نظر رکھنے والوں کے خیال میں کوہلی جن کی ہر بات مان لی جاتی ہے اگر ان کے اس ایکشن پر ردعمل دیا جاتا تو بنگلہ دیش کو پانچ اضافی رنز مل سکتے تھے اور بنگلہ دیش اس میچ میں ہارا بھی پانچ رنز سے ہی ہے۔ کرکٹ میں ایسے تنازعات تو سر اٹھاتے رہتے ہیں مگر یہ پہلو بھی اہم ہے کہ یہ رنز میچ کے دوران کی بات تھی یعنی آخری اوور یا آخری بال سے اس تنازع کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وگرنہ بنگلہ دیش کا درد پاکستان سے زیادہ نہیں تو شاید برابر ضرور ہو جاتا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
https://www.bbc.com/urdu/articles/c89pqrlrrxno
پاکستان کا لٹن داس کون ہو گا؟ سمیع چوہدری کا کالم
کے ایل راہول نے بنگلہ دیش کا اس قدر نقصان شاید اپنی بیٹنگ سے نہیں کیا جتنا ان کی اس ایک تھرو نے کر دیا۔ اس ایک تھرو نے بنگلہ دیش کو میچ سے باہر کر دیا اور انڈیا کی سیمی فائنل تک رسائی کو مزید ممکن کر دیا۔ شانتو کریز سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے، ایشون نے لینتھ بدلی اور شانتو کو مجبوراً اپنا شاٹ بدلنا پڑا۔ مڈ وکٹ پہ کھڑے کے ایل راہول پوری طرح اس لمحے میں مرتکز تھے اور جونہی گیند ان کے پاس آئی، ایک میکانکی عمل کے تحت نہایت درستی سے ان کا تھرو سٹمپس سے جا ٹکرایا اور لٹن داس کی سر توڑ ڈائیو بھی کم پڑ گئی۔ جب بارش نے کھیل کو معطل کیا، بنگلہ دیشی ڈریسنگ روم یک گونہ اطمینان کی تصویر بنا ہوا تھا جبکہ دوسری جانب راہول ڈریوڈ کے ڈریسنگ روم میں خاصے مضمحل چہرے نظر آتے تھے۔ اگر بارش بروقت نہ تھمتی اور مزید کھیل ممکن نہ ہو پاتا تو بنگلہ دیش فاتح ٹھہرتا۔ لٹن داس اگرچہ عموماً شہ سرخیاں بنانے والے بلے باز نہیں ہیں مگر بڑے مواقع پہ تگڑے حریفوں کے خلاف گویا خود ہی سے کوئی شرط سی باندھ لیتے ہیں اور پھر بسا اوقات ایسی کرکٹ کھیلتے ہیں کہ حریف کیمپ کی ساری دانشوری دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اگر بارش ان کی اننگز کے بہاؤ میں خلل نہ ڈالتی تو مقررہ وقت سے کہیں پہلے ہی وہ میچ ختم کر جاتے۔ مگر بارش نے صرف ان کا ارتکاز ہی متاثر نہیں کیا بلکہ کنڈیشنز میں بھی ذرا سا بدلاؤ آ گیا۔ فاسٹ بولرز کو پچ سے وہ اضافی مدد ملنے لگی جو بارش سے پہلے ویسی میسر نہ تھی۔ اور پھر اننگز کا دورانیہ مختصر کرنے سے ڈیتھ اوورز کا خسارہ بھی ہو گیا جو روٹین کے میچ میں بلے بازوں کو سولہ اوور پرانی گیند سے کھیلنا پڑتے ہیں مگر یہاں مقابلہ بارہ اوور پرانی گیند کو دھڑلے سے باؤنڈری پار پھینکنے کا تھا۔ روہت شرما اور ان کے ساتھی اوپنر کے ایل راہول اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک اپنے ٹیلنٹ سے انصاف نہیں کر پائے تھے مگر یہاں راہول اپنے زون میں واپس آتے نظر آئے۔ ان کی اننگز میں روانی تھی اور ایڈیلیڈ کی وکٹ نے بھی ان کی گیم کی تائید کی۔ آسٹریلیا کی تمام پچز میں سے ایڈیلیڈ اور سڈنی ہی دو ایسی پچز ہیں جہاں ایشین بلے بازوں کو کچھ سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔ سمیع چوہدری کے دیگر کالم قدم منجمد، سوچ محتاط، اعصاب محبوس یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا پرتھ کراچی نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ انڈیا کی ورلڈ کپ کیمپین کے روحِ رواں ورات کوہلی ہیں جو چھ ماہ پہلے کسی پلان کا بھی حصہ نہیں تھے مگر ایشیا کپ میں جس طرح سے انھوں نے واپسی کی، اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اوپر تلے کئی بڑی اننگز کھیلتے چلے آ رہے ہیں۔ جبکہ ان کے موازنے میں لائے جانے والے بابر اعظم اپنے چار سالہ پرائم کے پست ترین مقام پہ کھڑے ہیں اور ان جیسے مصدقہ بلے باز کی فارم بگڑنا کوئی ناقابلِ یقین سا امر محسوس ہوتا ہے۔ ان کی اس فارم نے پاکستان کی مہم جوئی کو شدید زک پہنچائی ہے۔ مگر کل سڈنی میں انھیں میلبرن اور پرتھ جیسے باؤنس کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ سڈنی کی پچ عموماً سپنرز کو مدد فراہم کرتی رہی ہے اور ایشیائی بلے بازوں کی تکنیک کے لیے سہل ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان یہ امید رکھے گا کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کل اپنی رینکنگ سے انصاف کریں گے اور جنوبی افریقہ کے اندازوں کو مات کریں گے۔ نورکیا کی پیس، ربادا کی جادوگری اور لنگی نگدی کی ورائٹی ہر طرح کی کنڈیشنز میں ہر طرح کی بیٹنگ لائن کے لیے چیلنج ہو سکتی ہیں مگر پاکستان کی خوش بختی ہے کہ اسے افریقی پیس اٹیک کا سامنا کرنے کے لیے پرتھ، میلبرن یا برسبین جیسے باؤنس کی اضافی مصیبت درپیش نہیں ہو گی۔ گذشتہ چند میچز میں فاتح ٹیموں پہ نظر دوڑائی جائے تو ہر جیت میں ایک زبردست انفرادی کاوش نظر آتی ہے۔ کل بٹلر نے جو کاوش کی، آج اسی کا عکس لٹن داس کی اننگز میں جھلک رہا تھا۔ ان کنڈیشنز میں حریف کو مات کرنے کے لیے ہر ٹیم کو ایک لٹن داس کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس کا لٹن داس کون ہے؟
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2nznn722xo
فخرزمان کا متبادل وکٹ کیپر بیٹسمین محمد حارث ٹیم میں شامل
وکٹ کیپر بیٹسمین محمد حارث کو ان فٹ فخر زمان کی جگہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی پاکستانی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے۔ آئی سی سی کی ٹیکنیکل کمیٹی نے محمد حارث کی ٹیم میں شامل کرنے کی پاکستان کی درخواست منظور کرلی ہے۔ فخرزمان ہالینڈ کے خلاف میچ میں گھٹنا مڑجانے کے سبب عالمی ایونٹ سے باہر ہوگئے ہیں۔ اکیس سالہ محمد حارث چار ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمادگی کرچکے ہیں۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچ سے ایک روز قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں پریکٹس ختم ہوئی تو میڈیا کے نمائندے پریس کانفرنس روم میں فاسٹ بولر نسیم شاہ کا انتظار کر رہے تھے جنھیں میڈیا ٹاک کرنی تھی۔ لیکن ہال میں داخل ہونے والے نسیم شاہ نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کے ڈاکٹر نجیب سومرو تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی کھلاڑی کی فٹنس کے بارے میں کوئی بات کرنے والے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب سومرو نے یہ خبر سنائی کہ پاکستانی ٹیم کے بیٹسمین فخر زمان دوبارہ گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی نئی انجری نہیں بلکہ وہی پرانی انجری ہے جو ہالینڈ کے خلاف میچ کے دوران گھٹنا مڑ جانے کے سبب ہوئی۔ ان کا سکین ہوا ہے اور وہ سو فیصد فٹ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر نجیب سومرو کا کہنا تھا کہ فخر زمان کا ری ہیبلیٹیشن ہوا جس کے بعد ان کی ٹیم میں واپسی ممکن ہوئی تھی۔ ہم سب کو پتہ تھا کہ گھٹنے کی تکلیف ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے۔ فخرزمان اور ہم سب کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے ورلڈ کپ کھیلنے میں رسک بھی موجود تھا۔ چونکہ وہ ٹیم کے ایک اہم کھلاڑی ہیں اسی لیے انھیں ٹیم میں واپس لایا گیا۔ ‘ ڈاکٹر نجیب سومرو کہتے ہیں کہ کرکٹ یا کسی بھی دوسرے کھیل میں رسک لیے جاتے ہیں کبھی یہ رسک کامیاب ہوجاتے ہیں کبھی نہیں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب سومرو اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ فخر زمان کو ٹیم میں واپس لانے کے لیے جلدی کی گئی۔ ’فخرزمان کی فٹنس کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔ ان کے ٹیسٹ لیے جا رہے تھے اور یہی نظر آرہا تھا کہ فخر زمان فٹ ہونے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہر کھلاڑی کے فٹ ہونے کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے جو کسی دوسرے کھلاڑی سے قطعاً مختلف ہوتا ہے۔ ‘ یاد رہے کہ فخر زمان ایشیا کپ کے دوران گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے تھے اور وہ انگلینڈ کےخلاف ہوم سیریز نہیں کھیل پائے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں علاج کے لیے انگلینڈ بھیجا تھا۔ وہ ورلڈ کپ کے ٹریولنگ ریزرو میں شامل کیے گئے تھے لیکن عثمان قادر کے ان فٹ ہونے کے بعد انھیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے حتمی اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نجیب سومرو نے اس تاثر کو بھی مسترد کر دیا کہ فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو بھی ٹیم میں واپس لانے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ طبی نقطہ نظر سے شاہین شاہ آفریدی فٹ ہیں جس کا ثبوت ان کی ہر میچ میں بولنگ ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیکل پینل نے ان کی فٹنس پر بہت کام کیا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر نسیم شاہ کہتے ہیں کہ ’ہر ٹیم یہی سوچ کر اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں آئی کہ وہ اسے جیتے گی۔ ہم بھی جب پاکستان سے چلے تھے تو ذہن میں یہی بات تھی کہ اچھا کھیلیں گے اور ورلڈ کپ جیتیں گے۔ ‘ ’ہر کھلاڑی اپنے طور پر کوشش کرتا ہے۔ اب یہ دو میچز ہیں جن میں اچھی پرفارمنس دکھانے کی کوشش کریں گے۔ جو کچھ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ‘ نسیم شاہ کہتے ہیں ’جو کچھ ہوا اس پر یقیناً ہمیں دکھ ہے۔ لیکن آپ کو آگے کی طرف سوچنا اور بڑھنا ہوتا ہے۔ ‘ نسیم شاہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ انڈیا کے خلاف شکست کے بعد پاکستانی ٹیم سنبھل نہیں پائی اور اس کا اعتماد متاثر ہوا۔ یاد رہے کہ نسیم شاہ اب تک اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تین میچوں میں دو وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ انڈیا کے خلاف انھوں نے لوکیش راہول کو چار رنز پر بولڈ کیا تھا جبکہ ہالینڈ کے خلاف میچ میں انھوں نے کپتان اسکاٹ ایڈورڈز کی پندرہ رنز پر وکٹ حاصل کی تھی۔ یہ بھی پڑھیے ’کوہلی نے پاکستان کو مایوس کر دیا‘: ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، سمیع چوہدری کا کالم رفتار پہلے جیسی ہے، اللہ نہ کرے میرے جیسی انجری کسی کو ہو: شاہین شاہ آفریدی ’حارث بھائی ہتھ ہولا رکھو‘: دو شکستوں کے بعد بلآخر پاکستان کے لیے اچھی خبروں کا آغاز پاکستانی کرکٹ ٹیم درحقیقت ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہے۔ انڈیا اور زمبابوے کے خلاف شکست کے بعد اس نے اگرچہ ہالینڈ کو شکست دی ہے لیکن اگر وہ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف اپنے دونوں میچ جیت بھی لیتی ہے تب بھی سیمی فائنل تک اس کی رسائی اس کے اپنے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلے گئے 21 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان نے 11 جیتے ہیں جبکہ جنوبی افریقہ نے10 میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم سڈنی میں پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیل رہی ہے۔ پاکستانی ٹیم اس گراؤنڈ میں ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف کھیل چکی ہے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا تھا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کی سب سے اچھی کارکردگی 2009 اور 2014 میں رہی جب اس نے سیمی فائنل کھیلا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cljwe2zxypwo
کمرے کی ویڈیو پر کوہلی، انوشکا ناراض: ’اگر بیڈروم میں بھی یہ ہوسکتا ہے تو حد کیا ہے؟‘
انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وراٹ کوہلی آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور نیدرلینڈز کے خلاف اپنی کارکردگی کے سبب سرخیوں میں ہیں، لیکن اس دوران کوہلی نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ویڈیو میں بظاہر یہ لگتا ہے کہ کوئی شخص کوہلی کے ہوٹل کے کمرے کے اندر موجود ہے اور اس کی ویڈیو بنا رہا ہے۔   انسٹاگرام پر اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کوہلی نے لکھا کہ ان کی پرائیویسی یا نجی زندگی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔  ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی لکھا کہ کھلاڑیوں اور معروف شخصیات کو صرف دل بہلانے کا سامان نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس پوسٹ کے ساتھ انھوں نے جو ویڈیو شیئر کی ہے اسے کسی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ویڈیو مبینہ طور پر کوہلی کے ہوٹل کے کمرے میں ان کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کی گئی۔   اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام کوہلی نے لکھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ فینز اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دیکھ کر پُرجوش ہو جاتے ہیں اور ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اس کی تعریف کی ہے۔ لیکن یہ ویڈیو تکلیف دہ ہے، میں اپنی پرائیویسی کے بارے میں فکرمند ہوں۔‘ کوہلی نے لکھا ’اگر میرے ہوٹل کے کمرے میں بھی مجھے پرائیویسی نہیں مل پائے گی تو میں کہیں اور اپنی پرسنل سپیس کی امید کیسے کر سکتا ہوں؟ میں اس قسم کے جنون اور پرائیویسی میں دخل دینے کے طریقوں کو پسند نہیں کرتا۔ برائے مہربانی لوگوں کی پرائیویسی کا احترام کریں اور اپنا دل بہلانے کا سامان نہ سمجھیں۔‘ کوہلی کے انسٹاگرام پوسٹ پر آسٹریلیا کے کھلاڑی ڈیوڈ وارنر نے لکھا ’یہ کوئی مذاق ہے؟ یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔‘ کوہلی کے کمرے کی ویڈیو لیک ہونے پر ان کی اہلیہ اور بالی وڈ اداکارہ انوشکا شرما نے بھی شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ انوشکا نے اپنی انسٹاگرام سٹوری پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ماضی میں بھی اس قسم کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جب مداحوں نے ہم پر بالکل بھی رحم نہیں کیا۔ یہ بہت ہی گھٹیا اور انسانیت کے خلاف حرکت ہے۔‘ انھوں نے آگے لکھا ’جو بھی اسے دیکھ کر یہ سوچتا ہے کہ سیلیبریٹی ہو تو برداشت تو کرنا پڑے گا، انھیں پتا ہونا چاہیے کہ وہ لوگ بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔ ’خود پر تھوڑا کنٹرول رکھنا سب کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے بیڈ روم میں ایسا ہو سکتا ہے، تو کوئی حد کہیں رہی ہے کہیں؟‘ رواں برس جنوری میں کوہلی نے اس وقت پرائیویسی کا سوال اٹھایا تھا جب کیپ ٹاؤن میں سٹیڈیم میں موجود ان کی بیٹی وامیکا کی تصاویر اتار لی گئی تھیں۔ اس وقت بھی کوہلی اور انوشکا نے اعتراض کیا تھا اور لوگوں سے اپیل کی تھی کہ ان کی بیٹی کی تصاویر کہیں شائع نہ کی جائیں۔ اس سال اگست میں جب کوہلی انوشکا اور وامیکا کے ساتھ چھٹیاں منا کر پیرس سے ممبئی لوٹ رہے تھے، تب بھی ان کی بیٹی کی ایئر پورت پر تصاویر لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ تب انھوں نے کہا تھا ’وامیکا کو جانے دو۔ کیمرا نیچے کر دو۔ بہت نیند میں ہے۔ گاڑی میں جانے دو۔ پھر آئیں گے۔‘ بعد میں بیٹی کو گاڑی میں چھوڑ کر کوہلی اور انوشکا واپس آئے اور تصاویر بنوائی۔ جس ہوٹل سے کوہلی کی ویڈیو لیک ہوئی اس کی ا نتظامیہ نے معافی مانگی ہے۔ ہوٹل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم کھلے دل سے اس واقعے سے متاثرہ مہمان سے معافی مانگتے ہیں۔ ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔‘ ہوٹل کی انتظامیہ نے یہ بھی کہا کہ ’کراؤن ہوٹل نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے ہیں۔ اس واقعے کے لیے ذمہ دار شخص کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ’کراؤن اس معاملے میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے ساتھ مل کر (آزادانہ) تفتیش کر رہا ہے۔ تفتیش کے بعد ایسے اقدامات کیے جائیں گے جس سے اس طرح کا واقعہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔‘ یہ بھی پڑھیے: آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں خاموش کرنے والے انڈین کپتان کی خوب سے خوب تر ہونے کی کہانی وراٹ کوہلی: رنز کے انبار لگانے والے انڈین سپر سٹار کے بلے کو ’زنگ‘ کیسے لگا؟ بابر اعظم کے پیغام پر کوہلی کی دعائیں کرکٹ کی بین الاقوامی تنظیم آئی سی سی نے اس واقعے کو بے حد افسوس ناک قرار دیا ہے۔ آئی سی سی نے کہا ’پرائیویسی کی اس طرح کھلم کھلا خلاف ورزی بہت افسوس ناک ہے۔ اس واقعے نے کوہلی کو نقصان پہنچایا ہے۔‘ آئی سی سی نے یہ بھی کہا کہ ’ہم ایسے ہوٹلوں اور وہاں سکیورٹی فراہم کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو اور کھلاڑیوں کی پرائیویسی پرآنچ نہ آئے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjr5z729z1po
’کوہلی نے پاکستان کو مایوس کر دیا‘: ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، سمیع چوہدری کا کالم
نہ تو حد سے چڑھی خود اعتمادی کسی کو مددگار ہو سکتی ہے اور نہ ہی حد سے بڑھی خود احتیاطی گہرے پانیوں میں کوئی سہارا فراہم کر سکتی ہے۔ انڈیا اپنی بے جا خود اعتمادی کے ہاتھوں زیر ہوا جبکہ پاکستان نے اپنی بے پناہ احتیاط سے ایک آسان سا ہدف بھی کافی جوکھم اٹھا کر عبور کیا۔  ورلڈ کپ کے اس سپر ویکنڈ پہ تین ایشیائی ٹیمیں تین غیر ایشیائی ٹیموں کے مدِ مقابل تھیں اور ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایشیائی ٹیموں میں سب سے عمدہ کھیل بنگلہ دیش نے پیش کیا۔ زمبابوے جس خود اعتمادی سے میچ کو کھینچے چلا جا رہا تھا، بنگلہ دیشی بولنگ نے عین آخری لمحے پہ اسے مبہوت کر چھوڑا۔  پاکستان کے لیے نیدرلینڈز سے مقابلہ محض ٹورنامنٹ میں بقا کے سوال پر ہی موقوف نہیں تھا اور رہی سہی لاج داؤ پہ لگ جانے کا ڈر ایسا تھا کہ رن ریٹ میں بہتری کے خیالات کو قریب تک پھٹکنے نہیں دیا۔ حالانکہ گمان یہ کیا جا رہا تھا کہ جیسی جارحیت پاکستانی بولرز نے دکھائی تھی، بلے باز بھی اسی کی کچھ جھلک دکھائیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ کہاں رن ریٹ میں بہتری کی سوچ اور کہاں ایک حقیر ترین ہدف کے تعاقب میں آخری تیس رنز ہی ایک معمہ سا بن گئے۔ بہرطور یہ جیت بھی اس ٹیم کے لیے یادگار رہے گی کہ پاکستان نے پہلی بار آسٹریلوی سرزمین پہ کوئی ٹی ٹونٹی میچ جیتا۔  محمد رضوان نے فارم میں واپسی کا عندیہ دیا ہے اور فخر زمان کی شمولیت سے بھی پاکستان کسی حد تک بابر اعظم کی فارم کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ ٹورنامنٹ میں آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے مڈل آرڈر میں زیادہ استحکام کی توقع باندھی جا سکتی ہے کیونکہ تجربے کا بہرحال کوئی بدل نہیں اور اب وہ تجربہ اس مڈل آرڈر کو میسر ہو چکا ہے۔  مگر پاکستانی کیمپ میں یہ احساس پختہ ہے کہ بہتری کے یہ درست آید آثار ایونٹ کی رفتار کے لحاظ سے خاصے دیر آید ہیں۔ پاکستان کی سبھی امیدیں انڈیا کی جنوبی افریقہ پہ فتح سے جڑی تھیں مگر وراٹ کوہلی کی جلد بازی نے امکانات کا نقشہ ہی بدل دیا۔  جب سے وراٹ کوہلی نے اپنی روٹھی ہوئی فارم بحال کی ہے، ان کے گیم پلان میں ایک واضح تبدیلی دکھائی دی ہے۔ جیسے عمر ڈھلتے پیسرز اپنی رفتار کم ہونے کے بعد ورائٹی اور تجربے کی آمیزش سے کام چلانے کی کوئی سبیل نکال لیتے ہیں، ویسے ہی وراٹ نے بھی اپنی اننگز کا ٹیمپو بدل لیا ہے۔ اب وراٹ کوہلی آتے ہی مار دھاڑ کی کوشش نہیں کرتے بلکہ شروع میں کچھ وقت لیتے ہیں اور پچ کی پیس، باؤنس سے شناسائی حاصل ہونے کے بعد اپنی اصل گیم پہ آتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ان کی اننگز اس پلان کا خوبصورت ترین نمونہ تھی جہاں انھوں نے ایک دفن ہوئے میچ کو پھر سے زندہ کر ڈالا اور پاکستان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ جس طرح کی فارم کوہلی نے پہلے دو میچز میں دکھائی تھی، اگر یہاں بھی اس کی کچھ جھلک دکھلا جاتے تو شاید بابر اعظم کی امیدوں کو کچھ تقویت مل جاتی۔ مگر جو کام انھوں نے پاکستانی بولنگ کے خلاف میلبرن کی پچ پہ پندرہویں اوور کے بعد کیا تھا، یہاں انہوں نے وہی کام پاور پلے کے فوری بعد کرنے کا سوچا۔ اس شاٹ کے لئے کوہلی کی تکنیک بالکل بجا تھی اور ان کے بلے نے بھی بھرپور ساتھ دیا مگر تب تک کوہلی پچ اور گراؤنڈ کے احوال سے پوری طرح آشنا نہیں ہوئے تھے اور اپنے تئیں ایک متوقع چھکا ان کی اننگز کی ناگہانی میں بدل گیا۔ سوریا کمار یادیو نے ایک بار پھر مشکل ترین سٹیج پہ ثابت کیا کہ ان کی تکنیک سدا بہار ہے مگر دوسرے کنارے سے انھیں اپنی کاوش کا عشرِ عشیر بھی میسر نہ ہو پایا۔ انڈین فاسٹ بولنگ بہرحال لائق تحسین ہے کہ ڈیوڈ ملر کی ایسی فارم کے باوجود میچ آخری اوور تک جمائے رکھا۔ لیکن انڈین مڈل آرڈر پرتھ کے چیلنج سے نبٹنے کے لئے جو حد سے چڑھی خود اعتمادی لے کر آیا تھا اور آگ کا مقابلہ آگ سے کرنے کی کوشش کی، وہ کامیابی کی راہ نہ دیکھ سکی۔ انڈیا کو ابھی بھی مزید دو میچز میسر ہیں جہاں وہ سیمی فائنل تک رسائی کا مقدمہ لڑ سکتا ہے مگر پاکستان کے لئے کوئی انہونی ہی یہاں امید جگا سکتی ہے۔ پچھلے اتوار میلبرن میں پاکستانی شائقین کی دعائیں کوہلی کے ہمراہ نہیں تھیں مگر انھوں نے اپنی یادگار اننگز سے پاکستان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ اگرچہ پرتھ میں انڈین شائقین سے کہیں زیادہ دعائیں پاکستان کی طرف سے کوہلی کے ہمراہ تھیں مگر ان کی جلد بازی نے ایک بار پھر پاکستان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔۔۔ کوہلی نے پاکستان کو مایوس کر دیا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cyex3jw0299o
رفتار پہلے جیسی ہے، اللہ نہ کرے میرے جیسی انجری کسی کو ہو: شاہین شاہ آفریدی
کسی بھی فاسٹ بولر کے لیے وہ لمحات بڑے تکلیف دہ ہوتے ہیں جب وہ کسی انجری کی وجہ سے کرکٹ سے دور ہونے کے باعث اس ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ کب دوبارہ کھیلنے کے قابل ہو سکے گا؟ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی اس صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد اب دوبارہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ تو بن چکے ہیں لیکن وہ اُن گئے دنوں کو بھولنے کے لیے تیار نہیں جب وہ اپنے گھٹنے کا علاج کروا رہے تھے۔ اس عرصے میں پاکستانی ٹیم بھی انھیں شدت سے یاد کر رہی تھی اور خود شاہین بھی جلد واپسی کے لیے بے قرار تھے۔ شاہین آفریدی کو گھٹنے کی تکلیف سری لنکا کے خلاف گال ٹیسٹ میں فیلڈنگ کے دوران ہوئی تھی۔ اُن کی واپسی تک پاکستانی ٹیم ایک ٹیسٹ، تین ون ڈے انٹرنیشنل اور 18 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اُن کے بغیر کھیلی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کہتے ہیں کہ ’اگر اس طرح کی انجری کسی کھلاڑی کو ہوتی ہے تو اس کے تین مہینے کے بعد اس کے لیے واپس آنا آسان نہیں ہوتا۔ اور جیسی انجری مجھے ہوئی اللہ نہ کرے کسی کو ہو کیونکہ جسے یہ انجری ہوتی ہے اسے  پتہ ہوتا ہے کہ اس میں کتنی مشکلات ہیں۔‘ شاہین آفریدی کہتے ہیں کہ ’مجھے پہلے کبھی انجری نہیں ہوئی تھی لیکن جس صورتحال سے میں دوچار ہوا وہ بہت مشکل وقت تھا۔ دو ماہ میں اکیلے ایک کمرے میں تگ و دو کر رہا تھا لیکن اس عرصے میں اپنے ٹیم کے ساتھی اور دوست آپ کی ہمت بڑھاتے ہیں۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ فٹ ہوکر یہ ورلڈ کپ ضرور کھیلوں گا اور اللہ نے مجھے فٹ کر دیا۔‘ شاہین بتاتے ہیں کہ ’پہلے تو میں صحیح طرح چل بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ سوجن زیادہ ہو جاتی تھی لہذا میں صرف جم میں جایا کرتا تھا۔ آخری دو ہفتے میں انڈور میں بولنگ کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں چاہتا تھا کہ آسٹریلیا کے سخت میدانوں میں بولنگ کے لیے مجھے پریکٹس مل جائے۔ چونکہ آؤٹ ڈور سیزن ختم ہو چکا تھا لہذا میرے پاس یہی انڈور بولنگ کا آپشن موجود تھا۔‘ شاہین شاہ آفریدی کی اس انجری کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ معاملہ اس وقت اُٹھا جب شاہد آفریدی نے ایک نجی ٹی وی چینل پر پاکستان کرکٹ بورڈ پر الزام عائد کیا کہ اس نے شاہین شاہ آفریدی کو انگلینڈ بھیجنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور یہ کہ شاہین اپنے خرچ پر علاج کے لیے گئے ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور عام شائقین نے اس بات پر بھی سخت غصے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین شاہ آفریدی کو فوری طور پر لاہور میں اپنے ہائی پرفارمنس سینٹر بھیجنے کے بجائے ٹیم کےساتھ ہالینڈ اور متحدہ عرب امارات میں ساتھ رکھا اور علاج کے لیے انگلینڈ بھیجنے میں تاخیر کی۔ شاہین آفریدی کہتے ہیں کہ ’میری رفتار پہلے بھی 135 اور 140 کے درمیان ہوتی تھی، یہ رفتار اب بھی پہلے جیسی ہی ہے۔ میری کوشش ہے کہ اپنی فٹنس کو مکمل بحال کروں کیونکہ میچ فٹنس بالکل مختلف ہوتی ہے اور جب آپ تین ماہ بعد میچ کھیلتے ہیں تو پوری جان نہیں لگتی۔‘ ٹورنامنٹ  میں پہلی وکٹ شاہین آفریدی کے لیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے دو میچ وکٹ سے خالی رہے تھے۔ انڈیا کے خلاف چار اوورز میں انھوں نے 34 رنز دیے تھے۔ زمبابوے کے خلاف ان کے چار اوورز میں 29 رنز بنے تھے۔ وہ شان ولیئمز کی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے اگر افتخار احمد کیچ ڈراپ نہ کرتے۔ ہالینڈ کے خلاف میچ میں شاہین آفریدی نے اپنے دوسرے ہی اوور میں مائی برگ کی وکٹ حاصل کر کے وکٹ نہ لینے کا جمود توڑا۔ وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ اگلے میچوں میں وہ ان کی بولنگ میں مزید بہتری آئے گی۔ شاہین آفریدی 25 ٹیسٹ میچوں میں 99 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان کا دورہ کرنے والی ہے اور شاہین آفریدی کے لیے موقع ہوگا کہ وہ یکم سے پانچ دسمبر تک راولپنڈی میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں سو وکٹوں کا سنگ میل عبور کر لیں۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ckv211q758lo
’حارث بھائی ہتھ ہولا رکھو‘: دو شکستوں کے بعد بلآخر پاکستان کے لیے اچھی خبروں کا آغاز
دو ہارٹ بریکس کے بعد آج پاکستانی مداحوں کے لیے بالآخر اس ورلڈ کپ میں اچھی خبروں کا دن ہے۔ پہلے بنگلہ دیش نے زمبابوے کو برسبین میں شکست دی اور اب پاکستان نے نیدرلینڈز کو سات وکٹوں کے بھاری مارجن سے ہرا کر سیمی فائنل تک پہنچنے کی امید برقرار رکھی ہوئی ہے۔ آج پاکستانی بولرز نے ہالینڈ کے بیٹرز کو زیادہ دیر کریز پر ٹکنے نہیں دیا اور جہاں حارث رؤف نے اپنی پیس کے ذریعے متاثر کیا وہیں شاداب خان نے بھی تین وکٹیں حاصل کیں اور نیدرلینڈز کو صرف 91 رنز تک محدود رکھا۔ اور اب پاکستان کے لیے انڈیا کی جیت ٹورنامنٹ میں اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے اہم ہو گی، اسی لیے انڈیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان جاری میچ میں پاکستانی صارفین انڈین ٹیم کی جیت کی دعائیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پے در پے دو شکستوں کے بعد ہالینڈ کے خلاف ملنے والی فتح سے بظاہر تمام سوشل میڈیا صارفین کچھ زیادہ خوش نہیں دکھائی دیے اور وہ آج کے میچ کے دوران پاکستان کی پرفارمنس کا تنقیدی جائزہ بھی لیتے نظر آئے۔ صرف 91 رنز کا ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی ٹیم اتنے بہتر انداز میں نہیں کھیلی جتنا اسے کھیلنا چاہیے تھا یا جس کی اس سے امید کی جا رہی تھی۔ پاکستانی ٹیم کو اپنا نیٹ رن ریٹ بہتر کرنے کے لیے 91 رنز کے ہدف کو 12 اوورز میں حاصل کرنا تھا لیکن پاکستان کے بلے باز ایسا کرنے میں ناکام نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’آج نیٹ رن ریٹ بہتر کرنے کا بہت اچھا موقع تھا مگر پاکستان نے 6.87 رنز فی اوور کی اوسط سے 13.5 اوورز میں چار وکٹوں کے نقصان پر 95 رنز بنائے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 بہت سے صارفین حارث رؤف کی پیس کے بارے میں بات کرتے نظر آئے۔ اتوار کو ہونے والے میچ کے دوران حارث رؤف کی ایک تیز گیند ہالینڈ کے بیٹر باس ڈی لیڈے کی ناک پر لگی اور انھیں میدان چھوڑنا پڑا، اس وقت وہ چھ رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے اور وہ دوبارہ بیٹنگ کے لیے نہ آ سکے کیونکہ ان کی چہرہ زخمی ہو گیا تھا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 اس کے علاوہ شاداب خان جنھوں نے ہالینڈ کے مڈل آرڈر کو بڑی کامیابی حاصل کرنے سے روکے رکھا کی بھی تعریف کی جا رہی ہے۔ صارف علی اسد نے لکھا کہ ’میرے نزدیک شاداب خان دنیا بھر میں سب سے قیمتی ٹی ٹوئنٹی کرکٹر ہیں۔ کم رنز دے کر وکٹیں لینے والا سپنر جو اوپر کے پانچ نمبروں پر بیٹنگ بھی کرتا ہے۔ ان کا بین الاقوامی ریکارڈ ناقابل یقین ہے۔ ہر طرح کی کنڈیشن میں بہترین بولنگ۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہالینڈ کے خلاف میچ سے قبل نہ جانے کیوں یہ بات بار بار یاد دلائی جا رہی تھی کہ ہالینڈ وہ ٹیم ہے جو ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں دو مرتبہ انگلینڈ جیسی بڑی ٹیم کو بھی ہرا چکی ہے۔ یہ یاد دہانی شاید اس لیے بھی تھی کہ پاکستانی ٹیم تین روز قبل زمبابوے سے ہار چکی تھی تو کیا ہالینڈ کی ٹیم بھی ایسا ہی کچھ کر سکتی تھی؟ لیکن اتوار کے روز پرتھ سٹیڈیم میں ایسا کوئی تماشہ دوبارہ نہیں ہوا۔ پاکستانی ٹیم نے چھ وکٹوں سے کامیابی کے ذریعے اس ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں پہلے دو پوائنٹس حاصل کر لیے ہیں۔ یہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی ہالینڈ کے خلاف دو میچوں میں دوسری جیت ہے۔ اس سے قبل اس نے 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں لارڈز میں کھیلے جانے والے میچ میں 82 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر انڈیا اور زمبابوے کے خلاف آخری اوور میں اوسان خطا نہ کیے ہوتے تو پاکستانی ٹیم اس وقت چھ پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل کے قریب پہنچ چکی ہوتی۔ پاکستان اور ہالینڈ کے میچ سے قبل زمبابوے اور بنگلہ دیش کے میچ کی اہمیت بھی پاکستان کے لیے کم نہ تھی کہ کہیں زمبابوے کی ٹیم ایک اور اپ سیٹ نہ کر دے لیکن زمبابوے نے میچ کی آخری گیند پر چوکا مار کر جیتنے کا سنہری موقع گنوا دیا اور اس کی یہ شکست پاکستانی ٹیم کو خوشی دے گئی۔ پاکستانی ٹیم کو اب دوسری خوشی کا انتظار انڈیا کی جنوبی افریقہ کے خلاف جیت کا ہے۔ ہالینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن اس کے بیٹسمین مکمل طور پر پاکستانی بولرز کے رحم و کرم پر رہے اور ڈچ ٹیم نو وکٹوں پر صرف 91 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکی۔ پاکستانی ٹیم ایک تبدیلی کے ساتھ میدان میں اُتری تھی، فخرزمان جو پہلے ٹریولنگ ریزرو کا حصہ تھے گھٹنے کے علاج کے بعد حتمی ٹیم میں شامل کیے گئے تھے اور پہلی بار اس ٹورنامنٹ میں نظر آئے جس کے لیے آؤٹ آف فارم حیدر علی کو جگہ چھوڑنی پڑی لیکن ٹیم منیجمنٹ نے بابر اور رضوان کی اوپننگ جوڑی کو توڑنے کی کوشش نہیں کی اور فخرزمان کو نمبر تین پر کھلایا گیا۔ پاکستانی ٹیم کو پہلی کامیابی کےلیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور اننگز کے تیسرے ہی اوور میں شاہین آفریدی نے سٹیفن مائی برگ کو محمد وسیم کے ہاتھوں کیچ کروا دیا۔ یہ اس ٹورنامنٹ میں شاہین آفریدی پہلی وکٹ تھی۔ ہالینڈ نے پاور پلے میں ایک وکٹ کے نقصان پر صرف 19 رنز بنائے تھے۔ شاہین آفریدی، نسیم شاہ، محمد وسیم اور حارث رؤف کے پیس اٹیک کے سامنے ڈچ بیٹسمینوں کے لیے کھل کر کھیلنا آسان نہ تھا۔ حارث رؤف کی ایک تیز گیند باس ڈی لیڈے کی ناک پر لگی اور انھیں میدان چھوڑنا پڑا، اس وقت وہ چھ رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے اور وہ دوبارہ بیٹنگ کے لیے نہ آ سکے۔ پاور پلے کے ختم ہونے کے اگلے ہی اوور میں شاداب خان نے ٹام کوپر کی ایک رن کی برائے نام اننگز کو محمد وسیم کے ایک اور کیچ کی بدولت اپنے انجام کو پہنچا دیا۔ ہالینڈ کے لیے سب سے بڑا دھچکہ اس کے سب سے قابل ذکر بیٹسمین میکس او ڈاؤڈ کا آؤٹ ہونا تھا جو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 1500 سے زائد رنز بناچکے ہیں۔ وہ صرف آٹھ رنز بنا کر شاداب خان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے تو ہالینڈ کا سکور تین وکٹوں پر صرف 26 رنز تھا۔ اننگز کے نصف سفر میں ہالینڈ کی ٹیم تین وکٹوں پر صرف 34 رنز بنانے میں کامیاب ہو پائی تھی اور پاکستانی ٹیم کی گرفت مکمل طور پر مضبوط تھی۔ کپتان سکاٹ ایڈورڈز اور کالن ایکرمین کی 35 رنز کی شراکت بھی شاداب خان نے ہی ختم کی جب انھوں نے 27 رنز بنانے والے کالن ایکرمین کو ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ شاداب خان نے اپنے چار اوورز کا اختتام 22 رنز کے عوض 3 وکٹوں کی متاثرکن کارکردگی پر کیا۔ یہ بھی پڑھیے پرتھ سٹیڈیم جہاں آج پاکستانی فینز بھی انڈیا کی جیت کی دعا کریں گے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ2022: 'پرتھ کراچی نہیں ہے' کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا: وسیم اکر پرتھ کا مشہور واکا گراؤنڈ جو پاکستان کرکٹ ٹیم کو کبھی راس نہیں آیا کپتان سکاٹ ایڈورڈز 15 رنز بنا کر نسیم شاہ کی گیند پر فائن لیگ پر افتخار احمد کے عمدہ کیچ پر آؤٹ ہوگئے جس کے بعد ہالینڈ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ ہالینڈ کی اننگز کے 19ویں اوور میں سب کے لیے دلچسپی کی بات یہ تھی کہ کیا محمد وسیم ہیٹ ٹرک کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے جنھوں نے لگاتار گیندوں پر ٹم پرنگل اور فریڈ کلاسن کو بولڈ کر دیا تھا تاہم میکرین اپنی وکٹ بچا گئے۔ بابراعظم اور محمد رضوان نے اننگز کا آغاز کیا تو ان کے ارادے بتا رہے تھے کہ وہ رن ریٹ کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ ہیں، دونوں نے ایک ایک چوکے سے اس کا اظہار بھی کیا لیکن بدقسمتی بابراعظم کے تعاقب میں رہی، اس مرتبہ وہ چار رنز بناکر رن آؤٹ ہوگئے۔ اس وقت پاکستان کا سکور دو اوورز میں 16 رنز تھا۔ اس سے قبل بابر انڈیا کے خلاف صفر اور زمبابوے کے خلاف چار رنز ہی بنا پائے تھے۔ فخر زمان اور رضوان کی شراکت 37 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی جس کا خاتمہ فخر زمان کے 20 رنز پر آؤٹ ہونے پر ہوا۔ ایشیا کپ میں ہانگ کانگ کے خلاف نصف سنچری کے بعد سے فخرزمان کی جانب سے ایک قابل ذکر اننگز کا انتظار ہے۔ رضوان اور شان مسعود سکور کو 83 تک لے آئے۔ اس موقع پر محمد رضوان اپنی23 ویں نصف سنچری سے صرف ایک رن کی کمی سے رہ گئے اور میکرین کی گیند پر وکٹ کیپر اسکاٹ ایڈورڈز کے ہاتھوں کیچ ہو گئے۔ میکرین اسی اوور میں افتخار احمد کو بھی صفر پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتے لیکن وان بیک نے بیک ورڈ پوائنٹ پر کیچ گرا دیا۔ پاکستان کو جیت کے لیے صرف ایک رن درکار تھا جب شان مسعود کی وکٹ بھی گرگئی۔ پاکستانی ٹیم نے 14 ویں اوور میں مطلوبہ سکور شاداب اور افتخار کی موجودگی میں پورا کر لیا۔اُس وقت 37گیندوں کا کھیل باقی تھا۔ پاکستانی ٹیم کا اگلا میچ تین نومبر کو جنوبی افریقہ کےخلاف سڈنی میں ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cevgz5q85zvo
جنوبی افریقہ کے ہاتھوں انڈیا کو شکست، کیا پاکستان اب بھی سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے؟
’پاکستان بھی اپنا میچ جیت جائے اور انڈیا بھی تاکہ پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنے میں آسانی ہو۔‘ اتوار کو پرتھ کرکٹ سٹیڈیم میں انڈیا پاکستان کا میچ تو نہیں تھا لیکن میدان کے مناظر گذشتہ اتوار کو ایم سی جی میں ہونے والے میچ جیسے ہی تھے بس فرق یہ تھا کہ میدان کے اندر انڈینز اور باہر پاکستانی انڈیا کی جنوبی افریقہ پر فتح کے لیے دعاگو تھے۔ گروپ بی میں اتوار کو پہلے میچ میں زمبابوے کی بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست اور پھر نیدرلینڈز پر پاکستان کی فتح تک تو مداحوں کی دعائیں کام آئیں لیکن تیسرے میچ میں نتیجہ پاکستانیوں کی امیدوں کے برعکس نکلا۔ سٹیڈیم انتظامیہ کی جانب سے پرتھ میں پاکستان اور نیدرلینڈز اور انڈیا اور جنوبی افریقہ کے میچوں کے لیے شائقین کو ایک ٹکٹ پر ہی دونوں میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی جس کے باعث گراؤنڈ میں انڈیا اور پاکستان دونوں کے شائقین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ لیکن پاکستانی شائقین جو گذشتہ اتوار کو انڈیا کی ہار کے لیے بے تاب تھے آج پاکستان کی فتح کے ساتھ ساتھ انڈیا کی فتح کے لیے بھی دعاگو تھے کیونکہ پاکستان کی سیمی فائنل تک ممکنہ رسائی میں انڈیا کی فتوحات کا کردار بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ انڈیا نے جنوبی افریقہ کو فتح کے لیے 134 رنز کا ہدف دیا تھا اورجنوبی افریقہ کے بلے بازوں کی فارم دیکھ کر بظاہر لگ رہا تھا کہ یہ میچ یکطرفہ ہو سکتا ہے لیکن انڈین فاسٹ بولرز نے میچ کو ابتدا میں وکٹیں لے کر دلچسپ بنا دیا۔ تاہم ایک بڑا ہدف نہ ہونے کی وجہ سے جنوبی افریقہ نے ابتدائی نقصان کے بعد مڈل آرڈر میں ڈیوڈ ملر کی نصف سنچری کی بدولت میچ پانچ وکٹوں سے جیت لیا۔ پاکستان کی زمبابوے سے اپ سیٹ شکست کے بعد سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات پہلے ہی کم تھے اور جہاں آج پاکستان کی نیدرلینڈز پر فتح اور زمبابوے کی بنگلہ دیش سے شکست کے بعد ان امکانات میں بہتری آئی تھی وہیں انڈیا کی اس شکست کے بعد اب پاکستانی مداحوں کو اپنی فتوحات اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بارش کی دعا بھی کرنا ہو گی۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام اس وقت اکثر پاکستانی مداح امید بھی چھوڑ چکے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اب پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ تاہم اب بھی پاکستان سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر نہیں ہوا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کے ذریعے پاکستان کی اگلے مرحلے تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ 1۔ پاکستان اپنے تمام میچ جیت جائے سب سے پہلے تو پاکستان کو اپنے تمام میچ جیتنے ہوں گے، کسی بھی ایک میچ میں شکست پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دے گی۔ اب پاکستان نے سڈنی میں تین نومبر کو جنوبی افریقہ کے خلاف گروپ 2 کا اہم میچ کھیلنا ہے اور پھر ایڈیلیڈ میں پاکستان اور بنگلہ دیش مدِ مقابل ہوں گے۔ پاکستان کو نہ صرف یہ میچ جیتنے ہوں گے بلکہ انھیں بڑے مارجن سے بھی جیتنا ہو گا تاکہ اگر بات نیٹ رن ریٹ پر آئے تو پاکستان کو برتری حاصل ہو۔ 2۔ جنوبی افریقہ اور نیدرلینڈز کا میچ بارش کے باعث منسوخ ہو پاکستان کو اب ساتھ ہی ساتھ گروپ 2 کی ٹیموں کے میچوں کے نتائج کا بھی سہارا درکار ہو گا۔ اس وقت پاکستان کی دوڑ بظاہر گروپ میں دوسری پوزیشن کے لیے ہو گی کیونکہ پاکستان زیادہ سے زیادہ دو میچ جیت کر چھ پوائنٹس حاصل کر سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان چاہے گا کہ یا تو جنوبی افریقہ کا نیدرلینڈز کے خلاف بارش منسوخ ہو جائے یا اس میں نیدرلینڈز فتح حاصل کر لے۔ یہیں نہیں بلکہ انڈیا بھی زمبابوے کو شکست دے۔ 3۔ انڈیا کے بقیہ میچ بارش کے باعث منسوخ ہو جائیں بارش اس ٹورنامنٹ میں خاصا اہم کردار ادا کر رہی ہے، اس لیے پاکستانی مداحوں کو اب یہ امید کرنی ہو گی دوسری صورت میں انڈیا کے بقیہ دو میچ بارش کے باعث منسوخ ہو جائیں یا بنگلہ دیش انڈیا کے خلاف میچ میں فتح حاصل کر لے۔ اس صورت میں بات ایک بار پھر نیٹ رن ریٹ پر آئے گی اور پاکستان کے لیے اپنے بقیہ دو میچوں میں بھاری فتوحات ضروری ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتحال ہر میچ کے ساتھ تبدیل ہو گی، تاہم اس موقع پر یہ کہنا درست ہو گا کہ پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب صرف دوسری ٹیموں کی ہار جیت تک ہی نہیں بلکہ موسم پر بھی منحصر ہے۔ سنیچر کو پاکستان ٹیم نے واکا سٹیڈیم جبکہ انڈین ٹیم نے پرتھ سٹیڈیم میں پریکٹس کی تھی جس میں اکثر نامور انڈین کھلاڑیوں نے آرام کو ترجیح دی۔ تاہم اس پریکٹس سیشن کے دوران جہاں انڈین شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی وہیں پاکستانی شائقین بھی ویک اینڈ پر بڑے شوق سے انڈیا کی پریکٹس دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ اور ان کے شوہر ورن، جن کا تعلق انڈیا سے ہے، یہاں پاکستان اور انڈیا دونوں کی شرٹس سے مل کر بنی ایک چھوٹی سی شرٹ لے کر آئے ہوئے تھے۔ اس شرٹ پر انھوں نے پاکستان کے کھلاڑیوں سے تو آٹو گراف لے لیے تھے تاہم اب انھیں انڈیا کے کھلاڑیوں سے بھی آٹو گراف لینا تھے۔ یہ بھی پڑھیے کیا پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب بھی ممکن ہے؟ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ڈائری: پاکستان انڈیا میچ کے بعد ’کہیں خوشی تو کہیں غم‘ پاکستان بمقابلہ انڈیا: محمد نواز کے آخری اوور میں نو بال اور فری ہٹ پر بحث: ’اس پر نظرثانی ہونی چاہیے‘ یہ شرٹ دراصل ان کی نومولود بیٹی کے لیے ہے جسے وہ دونوں ایسی شرٹ پہنانا چاہتے ہیں۔ عظمٰی نے کہا کہ ’دل سے دعائیں یہی ہیں کہ پاکستان سیمی فائنل میں جائے اور ہم دعا کریں گے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ہی اپنا اپنا میچ جیتیں۔‘ اس پر ان کے شوہر ورن نے کہا کہ ’جتنی دعائیں ہو سکتی ہیں اتنا بہتر ہے، جنوبی افریقہ بہت ہی اچھی ٹیم ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ انڈیا ہمیشہ جیتے اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ انڈیا پاکستان کا دوبارہ مقابلہ ہو۔‘ یہیں انڈیا سے تعلق رکھنے والی شالی بھی موجود تھیں اور ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ’انڈیا کے جیتنے سے اگر پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے تو یہ بھی اچھا ہے، ہماری نیک تمنائیں پاکستان کے ساتھ ہیں۔‘ یہیں موجود اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سمیع پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے امکانات کے بارے میں خاصے پُرامید تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان ایسی ہی جگہوں سے ٹورنامنٹ میں واپسی کرتا ہے اور ایسے ہی موقعوں پر آپ ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں، امید ہی کر سکتے ہیں بس۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cz5v082rdx4o
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ2022: 'پرتھ کراچی نہیں ہے'
نیدرلینڈز کے کوچ ریان کُک کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ کے آغاز میں ہی جس خستگی کا  شکار نظر آئی ہے، وہ یقیناً ان کے نشانے پہ ہو گی۔ زمینی حقائق کی روشنی میں کک کا گمان کچھ بے جا بھی نہیں ہے۔ وین میکرن جیسے مشاق بولر اور پرتھ کی وکٹ کا تال میل پاکستانی بلے بازوں کے لیے دشوار کن ثابت ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستانی کوچ ثقلین مشتاق کافی پہلے واضح کر چکے ہیں کہ دنیا کی دنیا جانے، وہ تو اپنی سی کرکٹ ہی کھیلیں گے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس اپنی سی کرکٹ کی کامیابی کی یہ دلیل ثقلین نے کراچی میں بیٹھ کر دی تھی جبکہ پرتھ کراچی نہیں ہے۔  پرتھ کی پیس اور باؤنس تو ایک طرف رکھیے، چار ہفتے پہلے کراچی کی پچ پہ ہی طویل قامت انگلش بولرز کی شارٹ پچ بولنگ پاکستانی بلے بازوں کے لیے مہلک ثابت ہو رہی تھی۔ شارٹ پچ ہمیشہ ہی پاکستانی بلے بازوں کی کمزوری رہی ہے اور آسٹریلین وکٹوں پہ تو بیک آف لینتھ بھی باؤنسر کی سی محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت یہ بحث کوئی راہ نہیں سجھا سکتی کہ اوپننگ جوڑی کو توڑ کر بیٹنگ آرڈر بدل لیا جائے کیونکہ ایسے ٹورنامنٹ کے بیچ اتنا بڑا فیصلہ کسی بھی سمت جا سکتا ہے۔ جہاں پاکستان کی ٹورنامنٹ میں بقا محض قسمت پہ منحصر ہو چکی ہے، وہاں ایسے مباحثے قطعاً ثمر آور نہیں ہو سکتے۔  یہ بحث خاصی پرانی ہے کہ پاکستان کو کتنے بلے باز کھلانے چاہئیں اور کتنے پیسرز الیون میں رکھنے چاہئیں مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر چھ بلے باز اور ساتواں آل راؤنڈر ٹیم کو منجدھار سے نہیں نکال سکتے تو وہاں ساتواں بلے باز کیا کرشمہ کر پائے گا؟  یہ مسائل یقیناً پاکستانی تھنک ٹینک کو ایک سال پہلے زیرِ غور لانا چاہیے تھے۔ اب ورلڈ کپ کے بیچ، ایسی صورتِ حال کے راتوں رات تکنیک بدلی جا سکتی ہے، نہ ہی کمبینیشنز کے تجربات کیے جا سکتے ہیں۔ اور نہ ہی اب اچانک چوتھے پیسر کے لیے فہیم اشرف کو کہیں سے بلا کر الیون میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اب امتحاں ہے تو فقط دلیری اور کھیل کے شعور کا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ زمبابوین بولرز کی پیس اور طویل قامت باؤنس کسی بھی بیٹنگ لائن کا امتحان ہو سکتا تھا مگر جس قدر حقیر ہدف پاکستان کے سامنے تھا، اس کے تناظر میں پاکستانی بیٹنگ حقیر تر ثابت ہوئی۔  پاکستانی بولنگ کے لیے بھی سوچنے کا مقام تھا کہ جہاں زمبابوین بولنگ نے پاور پلے میں ہی میچ پاکستان کے ہاتھ سے کھینچ لیا تھا، وہاں وہ پرتھ کی درست لینتھ کیسے سمجھ نہ پائے اور پاور پلے میں ہی زمبابوے کی امیدوں کے دیے کیونکر روشن کر دیے۔ سو، بیشتر آئی سی سی ایونٹس کی طرح اس بار بھی پاکستان کی ساری امیدیں دوسروں کے اگر مگر سے جڑی ہیں۔ اگرچہ انڈیا کو سیمی فائنل تک رسائی کے لیے کل کے میچ میں جیت ناگزیر نہیں ہے مگر یہاں پاکستانی شائقین کی دعاؤں کا محور انڈین ٹیم ہی ہو گی۔   اگرچہ پرتھ کے باؤنس پہ نورکیہ کی 150 کلومیٹر فی گھنٹہ شارٹ پچ گیندیں وراٹ کوہلی اور انڈین ٹاپ آرڈر کا کڑا امتحان ہوں گی مگر انڈین ٹیم اپنے وننگ مومینٹم میں تعطل سے گریز کو ہی ترجیح دے گی۔ انڈیا یقیناً گروپ میں پہلی پوزیشن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے گا۔ نورکیہ کہہ چکے ہیں کہ پرتھ کی وکٹ کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ چار سیمرز کے ساتھ میدان میں اترنے کو ترجیح دیں گے۔ اس صورت حال میں یہ انڈین بیٹنگ کے لیے کڑا امتحان ہو گا کہ وہ کوئی بڑا مجموعہ بورڈ پہ کیسے سجائے۔ لیکن اگر وراٹ کوہلی اپنی فارم برقرار رکھ پائے اور شروع کے اوورز نکال گئے تو انڈیا کی جیت کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔  جنوبی افریقہ کے لیے یہ جیت تقریباً ناگزیر ہے کیونکہ ٹیمبا باوومہ کی ٹیم یہ نہیں چاہتی کہ مزید کوئی میچ بارش کی نذر ہو اور ان کی سیمی فائنل تک رسائی آخر تک معلق رہے۔ جنوبی افریقی بلے بازوں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پرتھ کی کنڈیشنز میں اچھا کھیلیں گے مگر اصل امتحان کل دو ایشیائی ٹیموں کی بیٹنگ کا ہو گا جو اس گروپ کی سمت متعین کرے گا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cjjvz2vqy26o
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا: وسیم اکرم
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں مبتلا ہو گئے تھے تاہم انھوں نے اپنی پہلی بیوی کی وفات کے بعد اس عادت کو ترک کر دیا تھا۔ 56 سالہ سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم نے 2003 میں ریٹائرمنٹ تک 900 سے زیادہ انٹرنیشنل وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اپنی نئی سوانح عمری میں وسیم اکرم کہتے ہیں کہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دنیا بھر میں ٹی وی پر بطور تجزیہ کار خدمات سرانجام دے رہے تھے کہ جب انھوں نے کوکین کا استعمال شروع کیا۔ انھوں نے ’دی ٹائمز‘ کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’جنوبی ایشیا میں شہرت کے کلچر سے آپ کا ذہن بھر جاتا ہے، یہ پُرکشش ہوتا ہے اور آپ کو خراب بھی کر سکتا ہے۔‘ ’آپ ایک رات میں 10 پارٹیوں پر جا سکتے ہیں۔ اور کچھ جاتے بھی ہیں۔ اس کا میرے پر بہت بُرا اثر ہوا۔‘ وسیم اکرم کی پہلی اہلیہ ہما کی وفات 2009 میں ایک نایاب فنگل انفیکشن کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہما کا آخری بے غرض اور لاشعور اقدام میری منشیات کی لت چھڑوانا اور میرا علاج کرنا تھا۔‘ ’پھر یہ طرز زندگی ختم ہو گیا اور میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘ وسیم اکرم نے 1984 میں انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے لیے 104 ٹیسٹ اور 356 ون ڈے میچ کھیلے اور 1992 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے چمکتے ستارے تھے۔ انھوں نے 1993 سے 2000 کے درمیان 25 ٹیسٹ اور 109 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔ انھیں کرکٹ کی تاریخ کے بہترین بولرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ وسیم کہتے ہیں کہ جب وہ اپنی بیوی ہما اور مانچسٹر میں دو بیٹوں سے دور ہوتے تھے تو اس دوران ان کا کوکین پر انحصار بڑھ جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انگلینڈ میں ایک پارٹی کے دوران انھیں کوکین کی ایک لائن کی آفر کی گئی تو یہ لت بے ضرر انداز میں شروع ہوئی۔ ’میرا استعمال مسلسل بڑھتا گیا اور سنجیدہ ہو گیا۔ میں ایک ایسے لمحے کو پہنچ گیا کہ مجھے کچھ بھی کرنے کے لیے اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔‘ یہ بھی پڑھیے وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟ کیا وسیم اکرم تاحیات پابندی کے ہی مستحق تھے؟ وسیم اکرم نے بتایا کہ ’ہما نے میرے بٹوے میں کوکین کا پیکٹ دیکھا۔۔۔ اس نے کہا آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ یہ معاملہ ہاتھ سے نکل رہا تھا، میں اسے کنٹرول نہیں کر سکتا تھا۔ (کوکین کی) ایک لائن دو میں تبدیل ہوسکتی تھی، دو چار میں، چار ایک گرام میں، ایک گرام دو میں۔ میں سو نہیں پاتا تھا۔ ’میں کچھ کھا نہیں سکتا تھا۔ مجھے میری ذیابیطس کی فکر نہیں رہتی تھی۔ اس سے میرے سر میں درد اور مزاج میں تبدیلیاں آتی تھیں۔ لت میں مبتلا بہت سے لوگوں کی طرح، میرے اندر ایک حصے نے اس دریافت کا خیرمقدم کیا: اسے خفیہ رکھنا مجھے تھکا رہا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ اس وقت ہما تنہا ہوتی تھیں۔ وہ کراچی میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس جانے کی خواہش کا اظہار کرتی تھیں۔ میں اس پر ہچکچاتا تھا۔‘ ’کیوں؟ شاید اس لیے کیونکہ میں خود سے کراچی جانا پسند کرتا تھا، یہ دکھاوا کرتا تھا کہ کام کے لیے جانا ہے جبکہ دراصل اس کی وجہ وہاں پارٹی کرنا تھی۔ اکثر یہ ایک وقت میں کئی دنوں تک جاری رہتی تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں ان کی بیوی کو پتا چلا جس کے بعد انھوں نے منشیات کی لت چھٹکارے کے لیے مدد طلب کی۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور کے ایک ری ہیب (منشیات کی لت چھڑوانے کے ہسپتال) میں ان کا تجربہ بُرا رہا تھا اور 2009 کی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران وہ دوبارہ اس لت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس دوران وہ بطور کرکٹ تجزیہ کار کام کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے منشیات کا استعمال مقابلوں میں ’ایڈرینالائن رش‘ کا متبادل تھا ’جسے وہ بہت زیادہ یاد کرتے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ٹورنامنٹ کے بعد ہما کی موت ہوئی اور اس پر انھوں نے یہ عادت ترک کر دی۔ وسیم اکرم نے دوبارہ شادی کی تھی اور اپنی دوسرے بیوی کے ساتھ ان کی ایک نوجوان بیٹی ہے۔ وسیم اکرم نے اپنی کتاب میں کیریئر کے دوران میچ فکسنگ کے الزامات کا بھی جواب دیا ہے۔ انھوں نے کسی بھی طرح کی کرکٹ کرپشن میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ سال 2000 میں پاکستانی کھلاڑی سلیم ملک اور عطا الرحمان پر میچ فکسنگ کے الزامات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس سکینڈل پر جسٹس ملک قیوم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وسیم اکرم کے خلاف میچ فکسنگ کے ناقابل تردید ثبوت نہیں پائے گئے تاہم شک کی بنیاد پر بورڈ کو سفارش کی گئی کہ  انھیں نہ صرف قومی ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دیا جائے بلکہ ان کی سرگرمیوں اور مالی معاملات پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اس کے علاوہ اُن پر تین لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ تاہم وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب لکھنے تک یہ رپورٹ نہیں پڑھی۔ ’مجھے معلوم تھا کہ میں بے قصور ہوں۔‘ ’ہر چیز اس بارے میں بھی کہ اِس نے کہا، اُس نے کہا۔ میں نے کسی سے سنا ہے۔ وسیم کے کسی اور کے ذریعے پیغام بھیجا وغیرہ۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سننے میں بھی درست نہیں لگتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور وہ سوال پوچھتے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c4n34x0w566o
شاہین آفریدی کی پریکٹس سیشن میں شرکت: ’وہ 100 فیصد فٹ نہیں، دوسرا رن لیتے ہوئے بے بس نظر آئے‘
پاکستان کی زمبابوے کے خلاف شکست اور سیمی فائنل تک رسائی میں حائل مشکلات کے پیش نظر سابق کرکٹرز اور شائقین اس موضوع پر بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آیا صف اول کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی مکمل طور پر فٹ ہیں یا نہیں۔ انڈیا کے خلاف شاہین نے 34 رنز دیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کی جبکہ زمبابوے کے خلاف چار اوورز میں 29 رنز دے کر بھی وہ وکٹ لینے میں ناکام رہے تھے۔ جولائی 2021 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شاہین نے دو لگاتار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں کوئی وکٹ حاصل نہیں کی ہے۔ انجری کے بعد کم بیک کرنے والے شاہین نے بظاہر دوسرے میچ کے دوران بہتر ردھم کے ساتھ بولنگ کی مگر شائقین سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو شیئر کر رہے ہیں جس میں زمبابوے کے خلاف آخری گیند پر دوسرا رن بنانے کی کوشش میں وہ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ اس گیند پر دوسرا رن مکمل کرنا واضح طور پر مشکل تھا اور شاہین نواز کے آؤٹ ہونے کے بعد اپنی پہلی گیند کھیل رہے تھے۔ مگر شائقین کو خدشہ ہے کہ جس طرح شاہین دوسرے رن کے لیے بھاگ رہے تھے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ پوری طرح فٹ نہیں۔ یوں تو اتوار کو نیدرلینڈز کے خلاف میچ کے لیے شاہین کو پریکٹس سیشن میں حصہ لیتے دیکھا جا سکتا ہے تاہم بعض شائقین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آیا انھیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے مزید میچوں میں کھیلنا چاہیے؟ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کے دوران اب تک کے دو میچوں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناکامی پر سابق کرکٹرز شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی تنقید کا ایک موضوع یہ بھی ہے کہ اگر شاہین مکمل فٹ نہیں تو وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسا بڑا ایونٹ کیوں کھیل رہے ہیں۔ ایک ٹاک شو میں فاسٹ بولر وہاب ریاض نے کہا کہ شاہین کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وہ ڈھائی ماہ بعد ایک انجری سے آیا ہے، انھیں کھلانا قبل از وقت تھا۔ محمد عامر نے کہا کہ قصوروار وہ لوگ ہیں جنھوں نے شاہین کو کھلایا۔ ’شاہین گن پوائنٹ پر نہیں کہہ رہا کہ مجھے کھلاؤ۔ گھٹنے کی انجری سے بولرز کے کیریئر ختم ہوئے۔۔۔ شاہین کو کھلانے والوں سے سوال بنتا ہے۔ ہمیں یہاں بیٹھ کر نظر آ رہا ہے۔ ‘ ایک دوسرے شو میں سابق سٹار آل راؤنڈر شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ آخری گیند پر دوسرا رن تیز ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ شاہین کا قد لمبا ہے اور وہ انجری سے آیا تھا اور اوپر سے وہاں ٹھنڈ تھے، جسم کُھلنے میں وقت لگتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی تین اہم میچز باقی ہیں۔۔۔ مجھے وہ پہلے سے زیادہ دوسرے میچ میں بہتر لگا ہے۔‘ شاہد آفریدی نے کہا کہ ’وکٹوں کی شکل میں ہی شاہین کی فارم اور اعتماد واپس آ سکتے ہیں۔‘ انڈیا کے خلاف پہلے میچ کے بعد سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ ایسا لگا کہ شاہین کے پاس میچ پریکٹس نہیں۔ جبکہ وقار یونس کا کہنا تھا کہ ’میں نے نیوزی لینڈ نے میڈیکل پینل اور بابر اعظم سے پوچھا تھا کہ شاہین ورلڈ کپ کھیلنے جا رہے ہیں مگر وہ وہاں کیوں نہیں۔‘ ’انھوں نے وارم اپ میچوں میں صرف دو اوورز کروائے۔ بڑے اور دباؤ والے میچوں میں آپ کو میچ پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ 92 ورلڈ کپ میں فاتح ٹیم کے فاسٹ بولر اور لاہور قلندرز کے کوچ عاقب جاوید نے کہا ہے ’شاہین 100 فیصد نظر نہیں آئے۔ وہ فٹ نہیں اور بھاگنے میں انھیں مشکل ہو رہی ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ بھاگ نہیں پا رہے۔ اگر کچھ ہوا تو انھیں کھلانا بہت بڑا بلنڈر ہو گا۔ یا وہ 100 فیصد فٹ ہیں یا وہ فٹ نہیں ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 شاہین شاہ آفریدی کی فٹنس کے حوالے سے ٹوئٹر پر بھی بحث جاری ہے اور بعض صارفین کا خیال ہے کہ اگر وہ فٹ نہیں تو انھیں آرام دینا چاہیے۔ دوسرے رن کے لیے شاہین کی دوڑ کا حوالہ دیتے ہوئے سمرہ نامی صارف کہتی ہیں کہ ’میں یہ بھول نہیں سکتی کہ شاہین کتنے بے بس تھے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ شاہین نے پوری طرح فٹ نہیں۔ انھوں نے پوری کوشش کی مگر وہ رن مکمل نہ کر سکے۔‘ ثنا نے لکھا کہ شاہین ’میچ فٹ نہیں۔ ان پر دباؤ نہ ڈالو۔ وہ دوسرے رن کے لیے صحیح طرح بھاگ نہیں پائے۔‘ ادھر علی حسن کی رائے ہے کہ اگر شاہین کی ریکوری میں ابھی وقت ہے تو حسنین کو بھی ان کی جگہ کھلایا جا سکتا ہے جو کہ کوئی بُری آپشن نہیں۔ ’انھوں نے پانچ بی بی ایل میچز کھیلے ہیں اور چھ کی اکانومی کے ساتھ سات وکٹیں حاصل کی ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 عبدالباسط اس حوالے سے پریشان ہیں کہ ’یہ وہ شاہین نہیں۔ وہ اس ٹورنامنٹ کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے پرانے رن اپ اور پیس کی طرح نہیں بھاگ رہے۔‘ حسن ضمیر کے مطابق آخری گیند پر تین رن درکار تھے اور یہ ظاہر تھا کہ کم از کم دو رنز مکمل کرنے ہیں۔ ایسے میں شاہین کو بھیجنا اچھا فیصلہ نہیں تھا۔ مگر خیال رہے کہ اس سے قبل انڈیا کے خلاف میچ میں شاہین نے ایک چھکے اور ایک چوکے کے ساتھ آٹھ گیندوں پر 16 رنز بنائے تھے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
https://www.bbc.com/urdu/articles/cy0ep5v33pno
پرتھ کا مشہور واکا گراؤنڈ جو پاکستان کرکٹ ٹیم کو کبھی راس نہیں آیا
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سلسلے میں پرتھ آنے کے بعد روزانہ نئے پرتھ سٹیڈیم جاتے ہوئے ُپرانے واکا گراؤنڈ کے سامنے سے گزرتے ہوئے یہی ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ وہی مشہورگراؤنڈ ہے جس نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہمیشہ دکھ دیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ گراؤنڈ کبھی پاکستانی ٹیم کو راس نہیں آیا۔ یہاں پاکستانی ٹیم تنازعات میں بھی الجھی رہی اور رہی کارکردگی تو واکا ( ویسٹرن آسٹریلین کرکٹ ایسوسی ایشن ) گراؤنڈ کی پچ پر پاکستانی بیٹسمین ہمیشہ تگ ودو کرتے ہی نظرآئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں تیز ترین پچ سمجھی جاتی تھی، جس پر بلے بازوں کے لیے جیسے بارودی سرنگیں بچھی ہوں۔ دسمبر 1981 میں پاکستانی ٹیم عمران خان کی چار وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے آسٹریلیا کو پہلی اننگز میں صرف 180 رنز پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن جب پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ آئی تو ڈریسنگ روم میں حواس باختگی کا عالم تھا کیونکہ جو بیٹسمین کھیلنے جا رہا تھا وہ فوراً ہی واپس آرہا تھا۔ دونوں اوپنرز رضوان الزماں اور مدثر نذر سکور بورڈ کو کوئی زحمت دیے بغیر صفر پر پویلین لوٹ چکے تھے اور اس کے بعد وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح گرنے لگی تھیں حالانکہ اس بیٹنگ لائن میں ماجد خان، کپتان جاوید میانداد، وسیم راجہ اور منصور اختر جیسے مستند بیٹسمین شامل تھے۔ ڈینس للی اور انٹرنیشنل کرکٹ میں اسی سال آنے والے سوئنگ بولر ٹیری آلڈرمین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔دونوں کا یہ ہوم گراؤنڈ تھا۔ یہ دونوں مل بانٹ کر پاکستان کی آدھی ٹیم کا صفایا کر چکے تھے۔ سب سے دلچسپ واقعہ سرفراز نواز کے ساتھ پیش آیا۔ جب وہ بیٹنگ کر رہے تھے تو انھوں نے پاکستانی ٹیم کی انتہائی بری حالت دیکھ کر امپائر سے پوچھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کا سب سے کم سکور کتنا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ 26 رنز جو نیوزی لینڈ نے بنائے تھے اس مرحلے پر پاکستان کا سکور 26 ہی تھا اور اس کی 8 وکٹیں گرچکی تھیں چنانچہ سرفراز نواز نے فوراً چوکا لگا کر پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کم سکور پر آؤٹ ہونے کے خطرے سے بچا لیا۔ سرفراز نواز چار چوکوں کی مدد سے 26 رن بنا کر آؤٹ ہونے والے آخری بیٹسمین تھے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ڈبل فگر میں نہیں آ سکا تھا۔ پاکستانی ٹیم اس اننگز میں صرف 62 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی جو اس وقت ٹیسٹ کرکٹ میں اس کا سب سے کم سکور تھا۔ دوسری اننگز میں اس نے قدرے بہتر بیٹنگ کرتے ہوئے 256 رنز بنائے تھے لیکن 286 رنز کی شکست اس کے مقدر میں لکھی تھی۔ اسی پرتھ ٹیسٹ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے وزڈن المینک نے کرکٹ کی تاریخ کے چند ناخوشگوار اور کرکٹ کی روح کو متاثر کرنے والے واقعات میں سے ایک قرار دیا۔ اس ناخوشگوار واقعے کے دو مرکزی کردارپاکستانی ٹیم کے کپتان جاوید میانداد اور آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈینس للی تھے۔ پہلی اننگز میں صرف 62 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کی دوسری اننگز میں جاوید میانداد اور منصور اختر بیٹنگ کررہے تھے کہ اس موقع پر ڈینس للی کی ایک گیند کو میانداد نے سکوائر لیگ کی طرف کھیلا اور رن کے لیے دوڑ پڑے لیکن ڈینس للی ان کی راہ میں آ گئے اور میانداد ان سے ٹکرائے۔ اس واقعے کی ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈینس للی نے میانداد کا راستہ روکا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا اس پر سب حیران تھے۔ للی میانداد کی طرف بڑھے اور انھیں لات مار دی لیکن میانداد کہاں چپ رہنے والے تھے۔ انھوں نے للی کو ڈرانے کے لیے بلا لہرایا اور ان کی طرف لپکے جس پر امپائر ٹونی کرافٹر کو مداخلت کرنی پڑی۔ اگرچہ کپتان گریگ چیپل بھی بیچ بچاؤ کرانے آ گئے اور للی کو دور لے جانے لگے لیکن للی اپنے سخت مزاج کی وجہ سے دوبارہ میانداد کی طرف بڑھے۔ اس موقع پر ٹونی کرافٹر اور گریگ چیپل انھیں روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ جاوید میانداد اور ڈینس للی دونوں نے اپنی سوانح حیات میں اس واقعے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا۔ آسٹریلیا کے سابق کپتان کیتھ ملر کا کہنا تھا کہ ڈینس للی کو پورے سیزن کے لیے معطل کر دینا چاہیے تھا۔ ایک اور سابق کپتان ای این چیپل نے للی کی حرکت کو ایک بگڑے ہوئے ناراض بچے سے تشبیہ دی۔ ان تمام باتوں کے باوجود آسٹریلوی ٹیم کے مینیجر نے سارا ملبہ میانداد پر ڈالتے ہوئے ڈینس للی پر صرف 200 آسٹریلوی ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا۔ اس واقعے کے اگلے روز ڈینس للی نے پاکستانی ڈریسنگ روم میں جا کر معذرت بھی کی لیکن کپتان میانداد اور مینیجر اعجاز بٹ نے اسے قبول نہیں کیا۔ 1978 میں پاکستانی ٹیم سرفراز نواز کی 9 وکٹوں کی شاندار بولنگ سے میلبرن ٹیسٹ جیت کر پرتھ پہنچی تو کسی نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ یہ ٹیسٹ تنازعات سے بھرا ہوا میچ ثابت ہو گا لیکن اس کی بنیاد میلبرن ٹیسٹ میں رکھی جا چکی تھی۔ اس میچ میں آسٹریلوی فاسٹ بولر راڈنی ہاگ کا جاوید میانداد کے ہاتھوں رن آؤٹ ہونا موضوع بحث بن گیا تھا۔ پرتھ کے دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلوی اوپنر اینڈریو ہلڈچ اور سکندر بخت شہ سرخیوں میں آ گئے۔ پاکستان کی دوسری اننگز میں سکندر بخت کو آسٹریلوی فاسٹ بولر ایلن ہرسٹ نے بولنگ کرتے ہوئے اس وقت رن آؤٹ کر دیا جب وہ اپنی کریز سے باہر تھے لیکن ایلن ہرسٹ نے انھیں پہلے سے کوئی وارننگ نہیں دی۔ اس طرح آؤٹ ہونا کرکٹ میں ’منکڈ‘ کے نام سے مشہورہے۔ جس وقت یہ واقعہ ہوا اس وقت اینڈریو ہلڈچ کم ہیوز کی غیرموجودگی میں قائم مقام کپتانی کر رہے تھے لیکن انھوں نے سکندر بخت کو آؤٹ دیے جانے کی اپیل واپس لینے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ پاکستانی ٹیم ایلن ہرسٹ کی اس حرکت پر سخت غصے میں تھی اور اسے اسی دن بدلہ لینے کا موقع مل گیا لیکن اس نے اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا وہ بھی درست نہیں تھا۔ آسٹریلوی ٹیم کی دوسری اننگز میں رک ڈارلنگ نے سرفراز نواز کی گیند کو مڈ آف کی طرف کھیلا جہاں سکندر بخت نے فیلڈنگ کر کے بولر کی طرف گیند پھینکی۔ نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے اینڈریو ہلڈچ نے گیند زمین سے اٹھا کر سرفراز نواز کو دی لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سرفراز نواز نے امپائر سے ہینڈل دی بال کے طریقے سے ہلڈچ کو آؤٹ دینے کی اپیل کر ڈالی۔ امپائر ٹونی کرافٹر کے پاس آؤٹ دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لیکن اس انداز کو کسی نے بھی پسند نہیں کیا۔ دسمبر 2004 میں پاکستانی ٹیم کو انضمام الحق کی قیادت میں پرتھ ٹیسٹ میں 491 رنز کی بھاری شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پاکستانی ٹیم کے لیے دوسری اننگز کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھی۔ اسے 564 رنز کا پہاڑ جیسا سکور کر کے میچ جیتنے کا ہدف ملاا تھا لیکن پوری ٹیم صرف 72 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ پاکستانی ٹیم کو اس حال تک پہنچانے والے فاسٹ بولر گلین مک گرا تھے جنھوں نے صرف 24 رن دے کر 8 وکٹیں حاصل کرڈالیں جو ان کے ٹیسٹ کریئر کی بہترین بولنگ بھی تھی۔ مک گرا کی اس زبردست بولنگ کی زد میں آنے والے سات بیٹسمین دس رنز تک بھی نہ آسکے جن میں کپتان انضمام الحق کی کارکردگی اس لیے سب سے زیادہ مایوس کن رہی کہ وہ پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ پاکستانی اننگز میں صرف محمد یوسف واحد بیٹسمین تھے جو ڈبل فگر میں آتے ہوئے 27 رن بنانے میں کامیاب ہو سکے تھے۔ محمد سمیع اور محمد خلیل دو ایسے بیٹسمین تھے جو گلین مک گرا سے اپنی وکٹیں بچانے میں کامیاب رہے ان دونوں کو مائیکل کاسپورووچ نے آؤٹ کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے کرکٹ بیٹ سے متعلق دلچسپ تنازعات: جب ایک بیٹسمین کی وجہ سے کرکٹ بیٹ کے قوانین بدلنے پڑے آسٹریلیا اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچوں کی تلخ یادیں اور تنازعات پرتھ میں پاکستان ٹیم کی پریکٹس: شہر میں گاؤں جیسا سکون اور شاہین آفریدی کے بولنگ ردھم کی واپسی 2010 میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میں مدمقابل تھی۔ شاہد آفریدی، محمد یوسف کی غیرموجودگی میں ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ رانا نوید الحسن بولنگ کررہے تھے کہ ٹی وی سکرین پر جو منظر دیکھا گیا اس نے سب کو چونکا دیا ۔ سب نے دیکھا کہ شاہد آفریدی نے دو مرتبہ گیند کو چبایا اور بولر کو واپس کردی جس پر امپائرز نے نہ صرف گیند تبدیل کردی بلکہ اس واقعے کو میچ ریفری کے سامنے رپورٹ بھی کردیا۔ میچ کے بعد شاہد آفریدی کو آئی سی سی میچ ریفری رنجن مدوگالے کے سامنے پیش ہونا پڑا جنھوں نے بال ٹمپرنگ کی پاداش میں ان پر دو ٹی ٹوئنٹی میچوں کی پابندی عائد کردی۔ شاہد آفریدی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ غلط تھا وہ میچ جیتنے کے لیے اپنے بولرز کی مدد کررہے تھے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی ٹیم ایسی نہیں، جو بال ٹمپرنگ نہ کرتی ہو۔ عام طور پر ایشیائی ٹیمیں آسٹریلیا پہنچتیں تو پہلا ٹیسٹ انھیں پرتھ میں کھیلنے کو ملتا تھا جہاں کی تیز ترین وکٹ ان کے استقبال کے لیے موجود ہوتی تھی۔ 1983 میں پاکستانی ٹیم عمران خان کی قیادت میں آسٹریلیا پہنچی تو وہ خود ان فٹ ہونے کے سبب پانچ میں سے تین ٹیسٹ میچوں میں کھیلنے کے قابل نہ تھے لہذا ظہیرعباس کو کپتانی کرنی پڑی۔ پرتھ میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 436 رنز بنانے کے بعد پاکستانی ٹیم کو دو بار آؤٹ کرکے ٹیسٹ میچ اننگز اور9 رنز سے جیت لیا۔ پاکستانی بیٹسمینوں کو اس مرتبہ ڈینس للی اور راڈنی ہاگ کے بجائے ایک نئے بولر کارل ریکمین کی شکل میں طوفان جھیلنا پڑا جنھوں نے اسی سال کے اوائل میں اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کیا تھا۔ کارل ریکمین نے پہلی اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرکے پاکستانی ٹیم کو صرف 129 رنز پر آؤٹ کردیا۔ پاکستان نے فالوآن کے بعد دوسری اننگز شروع کی تو کارل ریکمین پاکستانی بیٹسمینوں کو ایک بار پھر گہرے زخم دینے کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے چھ وکٹیں حاصل کرڈالیں اور پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 298 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پرتھ کے واکا گراؤنڈ پر اب انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوتی اور اب تمام میچ نئے سٹیڈیم میں کھیلے جاتے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کے لیے اس نئے سٹیڈیم میں بھی قسمت نہیں بدل سکی۔ پہلے 2019 میں آسٹریلیا نے اسے دس وکٹوں کی شکست سے دوچار کیا اور اب زمبابوے نے اسے ایک ایسی شکست سے دوچار کیا ہے جسے وہ کبھی نہیں بھول پائے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cpv17p7v6y4o
انڈیا: خواتین کرکٹرز کے لیے مردوں جتنی میچ فیس مگر ’پکچر ابھی باقی ہے‘
جمعرات 27 اکتوبر انڈین ویمنز کرکٹ کے لیے ایک زبردست خبر لے کر آیا۔ بورڈ فار کرکٹ کنٹرول ان انڈیا (بی سی سی آئی) کے سیکریٹری جے شاہ نے ٹویٹ کی کہ اب خواتین کرکٹرز کو بھی مرد کرکٹرز جتنی ہی میچ فیس ملے گی۔  جے شاہ نے ’کنٹریکٹ کرکٹرز کے لیے مساوی تنخواہوں کی پالیسی‘ کے نفاد کا اعلان کیا۔ اسے ’تفریق کے خاتمے کے لیے پہلا قدم‘ قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے لکھا کہ ’مردوں اور خواتین کے لیے میچ فیس‘ برابر ہو گی ایسے وقت میں جب ہم انڈین کرکٹ کے صنفی مساوات کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔  گذشتہ ہفتے ہی بی سی سی آئی نے اعلان کیا تھا کہ اگلے کرکٹ سیزن میں خواتین کا آئی پی ایل بھی منعقد کروایا جائے گا۔  اب تک خواتین کرکٹرز کو بین الاقوامی ون ڈے اور ٹی 20 کے لیے ایک لاکھ روپے اور ٹیسٹ میچ کے لیے چار لاکھ روپے مل رہے تھے۔  مگر اب اُنھیں ٹیسٹ میچ کے لیے 15 لاکھ روپے، بین الاقوامی ون ڈے کے لیے چھ لاکھ روپے اور ٹی 20 کے لیے تین لاکھ روپے ملا کریں گے۔  یہ خواتین کرکٹرز کی فیس میں بہت بڑا اضافہ ہے۔  موجودہ اور سابقہ خواتین کرکٹرز نے اس فیصلے کا زبردست خیر مقدم کیا ہے۔ بی سی سی آئی کی انتظامی کمیٹی کی سابق رکن اور سابق کپتان ڈیانا ایڈلجی نے اس فیصلے کو خواتین کرکٹرز کے لیے ’دیوالی کا تحفہ‘ قرار دیا ہے۔  اُنھوں نے کہا: ’میں بی سی سی آئی کے اس اعلان سے بہت خوش ہوں اور جے شاہ، روجر بنی اور ایپکس کونسل کا اس تاریخی فیصلے کے لیے شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘  ایڈلجی نے بی بی سی کو بتایا: ’اُنھوں نے خواتین کی کرکٹ کو دیوالی کا تحفہ دیا ہے اور میں خواتین کی کرکٹ کے لیے سوچنے پر ان کا شکریہ کرتی ہوں۔‘  اُنھوں نے مزید کہا کہ ’خواتین کی آئی پی ایل اگلے برس سے شروع ہونے والی ہے۔ خواتین کی بین الاقوامی سطح پر کارکردگی اب ثمر لا رہی ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ خواتین کی باری ہے کہ وہ بڑی آئی سی سی ٹرافی جیت کر بی سی سی آئی کو تحفہ دیں۔‘  اسی طرح سابق کپتان متھالی راج نے بھی ٹوئٹر پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے کہا: ’یہ انڈیا میں خواتین کی کرکٹ کے لیے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ میچ فیس کا برابر ہونا اور اگلے برس سے آئی پی ایل بھی ہو گی، ہم انڈیا میں خواتین کے کرکٹ کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ شکریہ جے شاہ اور بی سی سی آئی اسے حقیقت بنانے کے لیے۔ میں آج بہت خوش ہوں۔‘  اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام بی سی سی آئی کی یہ مساوی تنخواہ کی پالیسی صرف ان خواتین کرکٹرز کے لیے ہے جن کے ساتھ بورڈ سالانہ کنٹریکٹ کرتا ہے۔ اگر ہم کنٹریکٹ کی بات کریں تو اس اعلان کے باوجود خواتین کو مرد کھلاڑیوں کے مقابلے میں کہیں کم پیسے ملیں گے۔  اس وقت ریٹینر گروپ میں خواتین کرکٹرز کو 50 لاکھ روپے ملتے ہیں، جبکہ گریڈ بی اور سی کی کھلاڑیوں کے بالترتیب 30 لاکھ اور 10 لاکھ روپے ملتے ہیں۔  مرد کھلاڑیوں کو چار زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اے پلس گریڈ کے کھلاڑیوں کو سات کروڑ، اے، بی اور سی گریڈ کے کھلاڑیوں کو بالترتیب پانچ، تین اور ایک کروڑ روپے ملتے ہیں۔  اس وقت گریڈ اے پلس میں تین اور گریڈ اے میں 10 مرد کھلاڑی ہیں جبکہ گریڈ اے میں صرف چھ خواتین کھلاڑی ہیں۔  چنانچہ مردوں کے مقابلے میں کہیں کم خواتین کنٹریکٹ کی حامل ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بورڈ سے کنٹریکٹ میں بھی اُنھیں مردوں سے کہیں کم پیسے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے میچز کی تعداد پورے برس میں مردوں کے میچز سے کہیں کم ہوتی ہے۔  تو جہاں برابر میچ فیس ایک خوش آئند اقدام ہے وہیں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مزید کیا کیا جانا چاہیے۔  انڈیا میں حالیہ برسوں میں خواتین کی کرکٹ نے بہت ترقی کی ہے مگر مردوں کے مقابلے میں خواتین کے ٹورنامنٹس میں بہت فرق ہوتا ہے، حالانکہ یہ فرق اب بتدریج کم ہو رہا ہے۔  ڈیانا ایڈلجی کا کہنا ہے کہ آپ کو سب کچھ ایک ساتھ نہیں مل سکتا۔  انتظامی کمیٹی کے رکن کے طور پر ایڈلجی نے خواتین کی کرکٹ کو مردوں کے مقابل لانے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔  بی سی سی آئی میں ان کے دور میں کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں خواتین کھلاڑیوں کو مردوں کی طرح یکمشت الاؤنس، ٹیسٹ کھلاڑیوں کے لیے پینشن، سفری اور دیگر رہائش کی مساوی سہولیات شامل ہیں۔  وہ کہتی ہیں کہ ’بتدریج ہم اس مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سینٹرل کنٹریکٹ کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔‘  رپورٹ کے مطابق بی سی سی آئی پہلے ہی اس بات پر غور کر رہا ہے حالانکہ خواتین کو مردوں کی طرح مساوی کنٹریکٹس دلوانے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔  مرد کرکٹرز کو زیادہ پیسے دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں زیادہ سپانسرز ملتے ہیں اور ان کی برانڈ ویلیو خواتین کی کرکٹ سے زیادہ ہے۔  خواتین کرکٹرز حال ہی میں بی سی سی آئی کے ماتحت آئی ہیں اور انھیں بہتر سہولیات ملنی شروع ہوئی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ان کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ مگر خواتین کرکٹرز کو مداحوں اور تماشائیوں کے علاوہ خود کھلاڑیوں سے بھی زیادہ سپورٹ کی ضرورت ہے۔  یہ بھی پڑھیے ’پاپا کی وفات کے بعد سے میں ہی گھر چلا رہی ہوں‘ ایک کمرے سے او پی ڈی شروع کرنے والی پاکستانی ڈاکٹر جنھیں امریکی لاریٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ڈیانا کہتی ہیں کہ ’خواتین کی آئی پی ایل براڈکاسٹ اور فرنچائزنگ، یہ سب خواتین کی کرکٹ کے لیے اچھی علامات ہیں۔‘  وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہم خواتین کی کرکٹ کی اچھی مارکیٹنگ کریں اور کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی دیکھیں تو مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دن خواتین کی کرکٹ کے لیے کافی  خوشگوار ہوں گے۔ بی سی سی آئی نے درست اقدامات اٹھائے ہیں مگر جیسے کہا جاتا ہے، پکچر ابھی باقی ہے۔‘  سنہ 2020 میں بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق جب انعامی رقم کی بات آئے تو 85 فیصد انڈینز کا خیال ہے کہ مردوں اور خواتین کو مساوی آمدنی ملنی چاہیے۔ چنانچہ ملک بھر میں اسے خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک اچھی علامت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔  بلی جین کنگ کو اکثر کھیلوں میں خواتین کی غیر مساوی تنخواہ کے خلاف آواز اٹھانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے 70 کی دہائی میں ٹینس میں مساوی تنخواہ کے لیے آواز بلند کی تھی۔  ان کی کوششوں کے باعث خواتین کو یو ایس اوپن ٹورنامنٹ میں مردوں جتنے پیسے دیے گئے اور بالآخر مردوں اور خواتین کو تمام چار گرینڈ سلیمز کی دونوں کیٹیگریز میں مساوی پیسے دیے گئے۔  مگر ایسا نہیں کہ ہر چھوٹی ٹورنامنٹ نے یہ قاعدہ اپنایا ہو۔ آج بھی کئی خواتین کو کنٹریکٹ میں پیسے کم دیے جاتے ہیں۔ ہاکی اور سکواش میں کھلاڑیوں کو مساوی رقم ملتی ہے تاہم سب سے بڑا فرق گولف، باسکٹ بال اور فٹ بال میں ہے۔  سنہ 2016 میں مساوی ادائیگی کے لیے ایک قانونی درخواست نے امریکی فٹ بال میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس وقت کی خاتون فٹ بالر ہوپ سولو امریکی فٹ بال فیڈریشن کے خلاف عدالت میں چلی گئی تھیں۔  امریکی مینز ٹیم اس برس ورلڈ کپ کے راؤنڈ آف 16 میں پہنچنے میں ناکام رہی تھی مگر اس کے باوجود اُنھیں خواتین کی فٹ بال ٹیم سے 70 لاکھ ڈالر زیادہ ملے جنھوں نے سنہ 2014 میں ملک کے لیے ویمنز ورلڈ کپ جیتا تھا۔  تنازعے کو حل کرنے کے لیے امریکی فٹ بال فیڈریشن نے مردوں اور خواتین کی قومی ٹیموں کو مساوی کنٹریکٹس کی پیشکش کی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/ce5grg8l5xgo
سکندر رضا: نیند غائب تھی اور میں پاکستان کے میچ کے بارے میں سوچ رہا تھا
زمبابوے کے کرکٹر سکندر رضا کے لیے یہ سال انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے جس میں وہ ایک کے بعد ایک قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے ہیں لیکن پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں ایک رن کی ڈرامائی جیت کو وہ اپنے کریئر کا سب سے یادگار لحمہ قرار دیتے ہیں۔ اس میچ میں سکندر رضا بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن بولنگ میں شان مسعود، حیدر علی اور شاداب خان کی اہم وکٹیں لے کر کھیل کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ زمبابوے نے محض دوسری مرتبہ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شکست دی ہے۔ اس سے قبل 2021 میں ہرارے میں بھی اس نے ایک کم سکور 118 کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو صرف 99 رنز پر آؤٹ کر کے میچ 19 رنز سے جیتا تھا۔ سکندر رضا کہتے ہیں ’میں جب سے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنا ہوں یہ جیت میرے کریئر کی سب سے بڑی اور یادگار جیت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ورلڈ کپ ہے اس سے بڑا ایونٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا اور پھر سب سے اہم بات کہ سامنے پاکستان کی شکل میں ایک بڑی ٹیم تھی جس کےخلاف ایک کم سکور کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے صرف ایک رن کے فرق سے کامیابی حاصل کرنا کبھی نہ بھولنے والی بات ہے۔‘ میچ میں کب یہ احساس ہوا کہ زمبابوے کی ٹیم جیت سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں سکندر رضا کا اعتماد جھلک رہا تھا ’میچ کی پہلی ہی گیند سے پہلے ہمیں جیت کا یقین تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے کیا پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب بھی ممکن ہے؟ ’اگلی بار اصلی مسٹر بین بھیجنا‘، زمبابوے کے صدر کی جیت کے بعد پاکستان کو ’وارننگ‘ اور انڈین صارفین کی خوشی قدم منجمد، سوچ محتاط، اعصاب محبوس: سمیع چوہدری کا کالم ’ہم نے پندرہ، بیس رنز کم سکور کیے تھے لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر ہم نے اچھی بولنگ اور خاص طور پر اچھی فیلڈنگ کرتے ہوئے رنز روکے تو ہم یہ میچ جیت سکتے ہیں۔ ہمارے بولرز نے جس طرح وقفے وقفے سے وکٹیں حاصل کیں ہم اچھی پوزیشن میں آتے گئے جس طرح بریڈ ایونز نے آخری اوور کیا ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔‘ سکندر رضا کا کہنا ہے ’ہماری ساری توجہ اور توانائی پاکستان کے خلاف میچ پر مرکوز تھی ایک وقت میں ہم ایک میچ کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اب ہماری توجہ بنگلہ دیش کے خلاف میچ پر ہو گی۔ پاکستان کے خلاف جیت سے اب یہ گروپ اوپن ہو گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ زمبابوے کی ٹیم آگے بھی بہت کچھ کر سکتی ہے۔‘ زمبابوے نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کو چونکا دینے والی شکست سے دوچار کیا تو سکندر رضا اپنے ہیڈ کوچ ڈیوڈ ہاؤٹن سے پوچھ رہے تھے کہ ورلڈ کپ مقابلوں میں زمبابوے کی کون سی جیت بہترین ہے؟ پاکستان کے خلاف یہ جیت یا پھر 1983 کے عالمی کپ میں آسٹریلیا کے خلاف کامیابی؟ اتفاق سے ڈیوڈ ہاؤٹن 1983 کے عالمی کپ میں آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کرنے والی زمبابوے کی ٹیم میں بھی شامل تھے۔ یہ زمبابوے کا اولین ون ڈے انٹرنیشنل بھی تھا جس میں اس نے تاریخی جیت حاصل کی تھی۔ سکندر رضا کہتے ہیں ’1983 کے عالمی کپ کے بارے میں میری معلومات زیادہ نہیں ہیں یہ میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔ ابتدا میں میری تمام توجہ تعلیم پر تھی میں نے زمبابوے کی کرکٹ کو اس وقت فالو نہیں کیا تھا۔ خود میں نے کرکٹ قدرے تاخیر سے شروع کی۔‘ سکندر رضا کہتے ہیں ’پاکستان کے خلاف میچ سے قبل رات کو میں صحیح سو نہیں سکا۔ چونکہ اس میچ کی میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت تھی لہذا میں اس بارے میں سوچتا رہا تھا کہ کس طرح بیٹنگ کرنی ہے۔‘ ’میں نے کچھ نوٹس بھی تیار کیے اور میں انھیں بار بار پڑھتا رہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ زمبابوے کو بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا موقع کم ملتا ہے۔ فلڈ لائیٹ میں ہمیں کھیلنے کا کم ہی موقع ملا ہے۔ میں خود پرتھ میں پہلی بار کھیلا ہوں۔میرا جسم سو رہا تھا لیکن دماغ جاگ رہا تھا اور اس میچ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘ سکندر رضا کہتے ہیں ’میں جب صبح اٹھا تو میرے ایک دوست نے مجھے پیغام بھیجا کہ کیا آپ نے آئی سی سی کی ویب سائٹ پر کلپ دیکھا جس میں سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ زمبابوے کی کرکٹ اور خاص کر آپ کا ذکر کر رہے ہیں۔ میں نے جواب نفی میں دیا۔ اس دوست نے مجھے وہ کلپ بھیجا جس نے مجھ میں پاکستان کے خلاف میچ کے لیے ایک نئی توانائی دی۔‘ یہ سال سکندر رضا کے لیے شاندار رہا ہے جس پر وہ کہتے ہیں ’اگر میں ایک لفظ میں اس کارکردگی کا جواب دے سکوں تو وہ ہے الحمد للہ۔‘ یاد رہے کہ سکندر رضا نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اب تک چھ نصف سنچریاں بنائی ہیں جن میں سے پہلی نصف سنچری 2015 میں بنی تھی جبکہ 2022 میں وہ اب تک پانچ نصف سنچریاں سکور کر چکے ہیں اور ان کے بنائے گئے مجموعی رنز کی تعداد 661 ہے۔ ان سے زیادہ صرف دو بیٹسمین سوریا کمار یادو 867 رنز اور محمد رضوان 839 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ سکندر رضا اس سال ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پندرہ میچوں میں 645 رنز بنا چکے ہیں جن میں 3 سنچریاں اور 2 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ سکندر رضا کی پیدائش پاکستان کے شہر سیالکوٹ کی ہے۔وہ پاکستان ایئرفورس میں پائلٹ بننا چاہتے تھے لیکن آنکھوں کے ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہونے پر اُن کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ اور پھر وہ اپنے والدین کے ساتھ سکاٹ لینڈ چلے گئے جہاں انھوں نے سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سنہ 2007 سے زمبابوے کی کرکٹ سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز 2013 میں پاکستان ہی کے خلاف ہرارے میں کیا تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cnew0xe7lnwo
قدم منجمد، سوچ محتاط، اعصاب محبوس: سمیع چوہدری کا کالم
ثقلین مشتاق خلاؤں میں گھور رہے تھے، بابر اعظم اپنی ہتھیلیوں میں منھ چھپا رہے تھے اور ایک یاسیت کا سایہ پاکستانی ڈریسنگ روم پر چھائے چلا جاتا تھا۔  خوف جب ذہنوں کو جکڑ لیتا ہے تو تمام زمینی حقائق دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور فیصلے شکوک و شبہات کی بھول بھلیوں میں الجھے رہ جاتے ہیں۔  جو خوف پرتھ میں پاکستانی بیٹنگ پر طاری نظر آیا، اس کے بعد اگر رینگ رینگ کر جیت مل بھی جاتی تو بدمزہ ہی رہتی۔   چھ برس پہلے آسٹریلیا جاتے ہوئے اسد شفیق نے ان کنڈیشنز کا خلاصہ کچھ یوں کیا تھا کہ یہاں بس جلدی جلدی رنز بٹورنے چاہییں قبل اس کے کہ کوئی اچھی گیند آپ کو پویلین کے سفر پر روانہ کر دے۔ آسٹریلیا کے بیشتر میدانوں بالخصوص پرتھ اور برسبین کا مزاج بالکل ایسا ہی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے میلبرن میں جو میچ کھیلا، وہ کنڈیشنز بھی باؤنسی تھیں مگر پرتھ کا معاملہ ہی کچھ الگ ہے۔ اور اگر وکٹ پر کچھ گھاس بھی ہو تو پاکستانی ڈریسنگ روم پر 2007 کے ورلڈ کپ والے آئرلینڈ میچ کے بھوت منڈلانے لگتے ہیں۔ 2015 کے کوارٹر فائنل میں بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہوا تھا۔ عقدہ صرف یہ ہے کہ جن کنڈیشنز میں پاکستانی پیسرز بولنگ کر رہے تھے، ان سے بولنگ کوچ شان ٹیٹ کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ انہی وکٹوں پر شان نے اپنی ساری کرکٹ کھیلی۔ تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ شان کے دیے گئے پلان پاور پلے میں ہی کارگر ثابت نہ ہوئے اور ایسی تباہ کن پچ پر زمبابوے ہنستے کھیلتے پاور پلے کے مزے لوٹ گیا۔ یہ عقل تسلیم کرنے کو ہی آمادہ نہیں کہ جہاں مزربانی، نگروا اور ایونز ٹی ٹونٹی کے مسلمہ بلے بازوں کے پلے نہیں پڑ رہے تھے، وہاں آخر ایسا کیا کرشمہ ہوا کہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ زمبابوین اوپنرز کے لیے تر نوالہ بن گئے؟ پاور پلے میں پاکستان نے جو مومینٹم زمبابوے کے سپرد کیا تھا، مڈل اوورز میں اگرچہ حارث رؤف، شاداب اور وسیم جونئیر اسے واپس کھینچ کر لے آئے مگر تب تک کندھے جھک چکے تھے اور خوف امیدوں پر حاوی ہونے لگا۔ زمبابوین پیسرز نے پاکستانی بیٹنگ پر قہر برپا کر دیا۔ اس میں بلاشبہ ان کی پیس اور مہارت کا بھی کردار تھا مگر اصل وجہ پرتھ کا باؤنس تھا جو پاکستانی بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہو چکا تھا اور وہ مسلسل کریز کے اندر گھستے جا رہے تھے۔ قدم منجمد ہو چکے تھے اور احتیاط نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔  یہ بھی پڑھیے کیا پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب بھی ممکن ہے؟ پاکستان انڈیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ: قصور محمد نواز کا نہیں تھا، سمیع چوہدری کا کالم جس انداز میں پاکستانی اوپنرز نے اننگز کا آغاز کرنے کی کوشش کی، وہ شاید دبئی یا لاہور میں تو کامیاب ہو پاتی، پرتھ میں اس کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہاں زمبابوے نے شارٹ پچ کا بھی خوب استعمال کیا جبکہ پاکستانی پیسرز پاور پلے میں سوئنگ کھوجتے فل لینتھ سے سر پٹختے رہ گئے۔ پاکستان کی ورلڈ کپ تاریخ میں یہ شکست ایک ایسا سانحہ ہے جسے ہر کوئی جلد بھلانا چاہے گا مگر یہ پھر بھی ناقابلِ فراموش رہے گی۔ نہ صرف یہ ایک بھوت بن کر منڈلائے گی بلکہ بیشتر کرکٹنگ اذہان کے لیے یہ ہمیشہ ناقابلِ تشریح بھی رہے گی۔ یہ المیہ اس سے بھی بدتر ہے کہ پاکستان دراصل یہاں رن ریٹ بہتر کرنے کے لئے میدان میں اترا تھا۔ گویا فتح کا ایسا کامل یقین تھا کہ اب محض مارجن پہ غور ہو رہا تھا۔ مگر جہاں پاکستان رن ریٹ بہتر کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، وہاں دنیا ہی لگ بھگ اندھیر ہو گئی اور اب پاکستان کی ٹورنامنٹ میں بقا دواؤں سے زیادہ دعاؤں پر منحصر ہے۔ دوسری جانب انڈیا کو اگرچہ قدرے آسان حریف کا سامنا تھا مگر روہت شرما کی ٹیم نے بھرپور کرکٹ کھیلی۔ سڈنی اور ایڈیلیڈ دو ایسی پچز ہیں جہاں ایشین بلے بازوں کے لیے اچھے رنز بنانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ انڈین ٹاپ آرڈر نے پاکستان کے خلاف کھوئے گئے اعتماد کو بخوبی بحال کیا اور ایک اچھا مجموعہ ترتیب دے کر گروپ میں اپنی ٹاپ پوزیشن کو مستحکم کیا۔ انڈیا اور پاکستان دونوں کو ہی اب جنوبی افریقہ کو مات دینی ہو گی تاکہ پاکستان کے لیے امکانات پیدا ہو سکیں۔ مگر یہی نہیں، پاکستان کو یہ بھی دعا کرنی ہو گی کہ بنگلہ دیش زمبابوے کو شکست دے ڈالے جبکہ پاکستان کو اپنے باقی ماندہ میچز بھی اچھے رن ریٹ سے جیتنے ہوں گے۔ پاکستان کو اگلے مقابلے میں بھی پرتھ کی انہی کنڈیشنز کا سامنا کرنا ہو گا اور یہ انسانی طور پر ممکن نہیں کہ کوئی کھلاڑی چار ہی دن میں اپنا فٹ ورک اور تکنیک تبدیل کر لے۔ اب جو رختِ سفر باندھ کے پاکستان نکل چکا ہے، فقط اسی پر تکیہ ہے۔ انڈیا کے لیے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات روشن ہیں۔ اگرچہ جنوبی افریقہ کے خلاف پرتھ میں نورکیہ اور ربادا کی پیس کا مقابلہ ہرگز آسان نہیں ہو گا مگر فی الوقت انڈین ٹیم ایک شکست کا بوجھ اٹھا سکتی ہے اور بعید نہیں کہ جنوبی افریقہ بھی انڈیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے۔ لیکن پاکستان نے اپنی مہم کا آغاز جس شکست خوردہ ذہنیت اور خوف کے حصار میں کیا ہے، اگر یہ قسمت کی مہربانی سے سیمی فائنل تک رسائی پا بھی لے تو ٹرافی پھر بھی پہنچ سے دور ہی رہے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/cgxve2q440qo
کیا پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب بھی ممکن ہے؟
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں زمبابوے کے خلاف کانٹے کے مقابلے میں شکست نے پاکستانی شائقین کو حیران اور پریشان کر دیا ہے اور وہ مسلسل اس سوال کے گرد بحث کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آیا اس کے بعد بھی پاکستان کے لیے ٹورنامنٹ میں واپسی کے کوئی امکان موجود ہیں۔ پہلے میلبرن میں انڈیا کے خلاف ایک رن کے فرق سے شکست اور پھر اب پرتھ میں زمبابوے کی ایک رن سے فتح نے ان اعداد و شمار کو مزید نمایاں کر دیا ہے کہ پاکستان نے آج تک آسٹریلیا میں ایک بھی ٹی ٹوینٹی انٹرنیشنل میچ نہیں جیتا ہے۔ انڈیا کے دیے زخم ابھی شائقین کے دلوں میں تازہ تھے کہ اب ایک اور شکست نے پاکستانی سکواڈ اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تبصروں کا سلسلہ تیز کر دیا۔ تکنیکی اعتبار سے پاکستان ابھی ٹورنامنٹ سے باہر نہیں ہوا لیکن بظاہر اب گروپ ٹو میں اس کے ٹاپ دو ٹیموں میں آنے اور سیمی فائنل تک رسائی کے امکان سکڑ گئے ہیں۔ زمبابوے نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جارحانہ آغاز کیا مگر حارث رؤف نے بریک تھرو دلا کر ان کے بلے بازوں کو بیک فٹ پر دھکیل دیا۔ محمد وسیم نے تین وکٹیں حاصل کیں اور شاداب کی نپی تلی بولنگ اور دو وکٹوں کی بدولت زمبابوے کی ٹیم 20 اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر محض 130 رنز بنا سکی۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ 131 رنز کا ہدف تو ماڈرن کرکٹ میں حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی شائقین کی نظریں بابر اعظم اور محمد رضوان پر ٹکی ہوئی تھیں جنھوں نے انڈیا کے خلاف سکور بورڈ پر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا تھا۔ تاہم اس میچ میں بھی پاکستان کی سلامی جوڑی ناکام رہی اور تمام امیدوں کا دار و مدار مڈل آرڈر کی غیر یقینی سے وابستہ ہوگیا۔ نگاراوا اور مزربانی نے آغاز میں ہی پاکستانی بلے بازوں پر دباؤ بنائے رکھا۔ افتحار کی وکٹ گِرنے کے بعد شان مسعود اور شاداب خان نے 52 رنز کی شراکت سے ٹیم کو کندھا دیا۔ تاہم شاداب سکندر رضا کو ایک چھکا لگانے کے بعد اگلی ہی گیند پر باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہوگئے جس کے بعد حیدر علی پہلی گیند پر ایل بی ڈبلیو پر پویلین لوٹ گئے۔ حیدر کی حالیہ کارکردگی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی وکٹ ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ اس کے بعد محمد نواز (جنھوں نے آج کوئی اوور نہیں کرایا اور بطور بلے باز کھیلے) اور محمد وسیم (جنھیں آصف علی کی جگہ بطور آل راؤنڈر شامل کیا گیا تھا) نے ایک ساتھ 34 رنز جوڑے۔ آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے جن میں سے آٹھ رنز تو محمد وسیم نے پہلی تین گیندوں پر ہی بنا لیے تھے۔ تاہم ایک ڈاٹ گیند کے بعد نواز کی وکٹ گِر گئی اور آخری گیند پر شاہین دوسرا رن بنانے کی کوشش میں رن آؤٹ ہوگئے۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 پاکستان کی اس شکست نے شائقین کو شدید مایوس کیا ہے اور ٹیم کے حوالے سے صارفین کے تبصرے سوشل میڈیا پر بھی جاری ہیں۔ سابق فاسٹ بولر شعیب اختر لکھتے ہیں کہ سب سے شائستہ انداز میں بھی اسے شرمناک ہار کہا جائے گا۔ ’اگر زمبابوے ہے تو خود ہی ہو جائے سب کچھ؟ نہیں، خود نہیں ہوتا، کرنا پڑتا ہے۔‘ شعیب اختر مزید کہتے ہیں کہ ’اوسط ذہنیت، اوسط نتائج۔ یہ حقیقت ہے، اس کا سامنا کریں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 تجزیہ کار ریحان الحق کہتے ہیں کہ ’کوئی الفاظ، وضاحت یا تجزیہ نہیں۔ یہ دل توڑنے کے مترادف ہے۔‘ صبا بانو نے کپتان بابر اعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اس وقت کسی بہترین بلے باز سے ہاتھ ملائیں اور اپنی خراب فارم انھیں منتقل کر دیں۔ ’کوہلی کی طرح آپ خود بھی ایسا کریں۔‘ ارفا فیروز کہتے ہیں کہ ’ورات کوہلی کی فارم میں واپسی کے بعد سے بابر اعظم کی کارکردگی گِری ہے۔ دنیائے کرکٹ نے اب تک وہ وقت نہیں دیکھا جب بابر اعظم اور ورات کوہلی ایک ساتھ بہترین کھیل پیش کر رہے ہوں۔‘ عاطف نواز کہتے ہیں کہ ’ٹی ٹوئنی کرکٹ ایسا فارمیٹ ہے جس میں کسی بھی دن کوئی بھی ٹیم ہار سکتی ہے۔ اس ورلڈ کپ میں ہم نے کئی حیرت انگیز نتائج دیکھے ہیں۔ ’(جیسے) انگلینڈ کی آئرلینڈ سے شکست۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بُری ٹیم ہے۔ مایوسی کا جواز ضرور ہے۔ پاکستان بھی کوئی بُری ٹیم نہیں۔‘ رواں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا فارمیٹ کچھ یوں ہے کہ 12 ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گروپ ون میں نیوزی لینڈ تین پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے مگر اس کے بعد صورتحال غیر واضح ہے کیونکہ سری لنکا، انگلینڈ، آئرلینڈ اور آسٹریلیا سب کے دو میچ کھیلنے کے بعد دو، دو پوائنٹس ہیں۔ اور یوں گروپ میں پہلی دو پوزیشنز (یعنی جو ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکتی ہیں) کی دوڑ کافی حد تک برقرار ہے۔ مگر گروپ ٹو میں پاکستان کے لیے جگہ تنگ ہو گئی ہے۔ انڈیا اس گروپ میں اپنے دونوں میچز جیتنے کے بعد پہلے نمبر پر ہے جبکہ جنوبی افریقہ اور زمبابوے تین، تین پوائنٹس کے ساتھ ترتیب میں دوسرے اور تیسرے نمبروں پر ہیں۔ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہوگیا تھا اور دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملا تھا۔ جنوبی افریقہ نے بنگلہ دیش کے خلاف میچ 104 رنز کے بڑے مارجن سے جیتا لہذا اس کا رن ریٹ بہتر ہے۔ بنگلہ دیش نے نیدرلینڈز کے خلاف اپنا میچ جیتا تھا لہذا یہ دو پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ مگر پاکستان نے اب تک دونوں میچوں میں شکست کھائی ہے اور یوں یہ پانچویں نمبر پر ہے۔ اگر اس صورتحال میں پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنا ہے تو اسے ایک جملے میں کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے: پاکستان اور انڈیا اپنے تمام بقیہ میچز جیت جائیں۔ مگر بات اس سے زیادہ پیچیدہ ہے اور ٹورنامنٹ میں اب بھی کچھ میچز کے دوران بارش اور اپ سیٹس کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 تجزیہ کار ریحان الحق کے مطابق اب سیمی فائنل تک رسائی کے لیے یہ ہونا ضروری ہے: مگر چھ پوائنٹس حاصل کرنا بھی شاید سیمی فائنل تک رسائی کے لیے ناکافی ثابت ہو کیونکہ عین ممکن ہے کہ گروپ میں مزید اپ سیٹس دیکھنے کو ملیں یا بارش کی وجہ سے میچز متاثر ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ پھر سے کسی میچ میں بارش کی وجہ سے ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملے اور پوائنٹس برابر ہونے کی صورت میں بات رن ریٹ تک پہنچ جائے۔ ریحان لکھتے ہیں کہ ’رواں سال آسٹریلیا کے موسم کی پیشگوئی بہت مشکل ہے۔ پاکستان اور انڈیا کا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہونے کا امکان تھا مگر ہم نے مکمل میچ ہوتا دیکھا۔ دوسرے مواقع پر بارش ہوئی جبکہ اس کی پیشگوئی کم تھی۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 4 آئی سی سی کی ویب سائٹ کے مطابق سیمی فائنل تک رسائی کے لیے کپتان بابر اعظم کو اپنے تینوں بقیہ میچز جیتنا ہوں گے۔ ان میں اتوار کو نیدرلینڈز، جمعرات کو جنوبی افریقہ کے خلاف اور اس سے اگلے اتوار (چھ نومبر) کو بنگلہ دیش کے خلاف مقابلے شامل ہیں۔ ’تاہم اب معاملہ صرف پاکستان کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر انڈیا، زمبابوے یا جنوبی افریقہ میں سے صرف دو ٹیمیں اپنے بقیہ تین میچوں میں سے دو میچ جیت جائیں تو ان کے چھ سے زیادہ پوائنٹس ہوجائیں گے۔‘ پاکستان اب تینوں میچ جیتنے پر بھی زیادہ سے زیادہ چھ پوائنٹس حاصل کر سکتا ہے۔ آئی سی سی کے مطابق ’نیٹ رن ریٹ بھی ایک فیکٹر ہوسکتا ہے۔ تو پاکستان کو بقیہ تین میں سے کم از کم ایک میچ میں بڑے مارجن کی فتح سبقت دلا سکتی ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gjpmjedxdo
’اگلی بار اصلی مسٹر بین بھیجنا‘، زمبابوے کے صدر کی جیت کے بعد پاکستان کو ’وارننگ‘ اور انڈین صارفین کی خوشی
پاکستان اور زمبابوے کے درمیان ہونے والا ورلڈ کپ ٹی ٹوئٹنی کا میچ ایک اپ سیٹ کے ساتھ زمبابوے نے ایک رن سے جیت لیا۔ یہ جیت کھیل کے میدان میں تو زمبابوے کی جیت تھی ہی لیکن سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی زمبابوے کے لیے یہ کامیاب دن رہا کیونکہ انھوں نے برسوں پہلے اپنے ساتھ ہونے والے ’دھوکے کا بدلہ‘ لے لیا تھا۔ میچ میں کامیابی کے بعد زمبابوے کے صدر نے ایک ٹویٹ میں اپنی ٹیم کو مبارکباد دی اور ساتھ ہی پاکستان سے کہا کہ ’اگلی بار اصلی مسٹر بین بھجوانا۔‘ ان کی اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹویٹ کی کہ ’ہمارے پاس شاید اصلی مسٹر بین تو نہیں لیکن کرکٹ کھیلنے کا اصلی جذبہ ضرور ہے اور ہم پاکستانیوں میں دوبارہ ابھرنے کی ایک دلچسپ عادت ہے۔۔۔‘ شہباز شریف نے مزید لکھا کہ ’صدر صاحب مبارک ہو آپ کی ٹیم بہت اچھا کھیلی۔‘ دراصل مسٹر بین کے حوالے سے بات شروع ہوئی تھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستانی ٹیم کی پریکٹس کی تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے کے بعد جس کے ساتھ کہا گیا کہ ’یہ اگلا چیلنج ہے۔‘ اس ٹویٹ کے جواب میں زمبابوے کے ایک شہری نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’ہم بطور زمبابوے کے شہری آپ کو معاف نہیں کریں گے۔۔۔ ایک بار آپ نے ہمیں مسٹر بین کی جگہ دھوکے باز مسٹر بین دیا تھا۔۔۔ ہم یہ معاملہ کل حل کریں گے۔ دعا کرو کے بارش آپ کو بچا لے۔‘ زمبابوے کی جانب سے میچ جتینے کے بعد اسی ٹوئٹر صارف نے ایک اور ٹویٹ کی کہ ’میں تو پہلے ہی بتا دیا تھا۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ زمبابوے کی پاکستان کے خلاف جیت پر زمبابوے سے زیادہ انڈین سوشل میڈیا صارفین خوش نظر آ رہے ہیں۔ انڈیا میں یہ میچ اور اس سے متعلق میمز ٹرینڈ کر رہی ہیں۔ انڈین سوشل میڈیا صارفین زمبابوے کو مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ وہاں کے شہری بھی اسی جوش و خروش سے سوشل میڈیا پر جشن منائیں۔ اس لیے ایک میم میں انڈین صنعت کار مکیش امبانی کی تصویر کے ساتھ میم بنائی گئی ہے جس پر لکھا ہے ’زمبابوے والوں کو دو دو جی بی کا ڈیٹا مفت بھیجو۔‘ پاکستانی مسٹر بین جو خود کو ’پاک بین‘ کہلواتے ہیں ان کا اصلی نام آصف میمن ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز ان کے سنہ 2016 میں کیے گئے زمبابوے کے دورے کی ہیں۔ میچ سے قبل انھوں نے بتایا تھا کہ وہ سنہ 1990 سے اپنا کاروبار کرتے ہیں تاہم سنہ 2010 میں حبیب بینک نے انھیں اپنا برانڈ ایمبیسیڈر بنایا تو انھیں شہرت ملی۔ جس کے بعد وہ بحیثیت پاکستانی مسٹر بین نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا تھا کہ وہ زمبابوے ایک انڈین تاجر محمد عارف کی دعوت پر گئے تھے۔ انھوں نے بتایا ’مجھے وہاں جانے پر جو پروٹوکول دیا گیا میں خود حیران تھا۔ میرے آگے پیچھے اس قدر گاڑیاں تھیں کہ مجھے لگا شاید میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ لیکن بعد میں دیکھا یہ تو صرف میرے لیے تھا۔ پروٹو کول ایسا تھا جسیے ہمارے ہاں کسی وزیر مشیر کو دیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس دورے کے دوران انھوں نے مختلف شہروں میں دس مقامات پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اور اس دوران تمام بینرز پر واضح الفاظ میں ’پاک بین‘ لکھا گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ لوگوں سے بالکل دھوکا نہیں کیا گیا تھا کہ انھیں اصلی مسٹر بین دیکھنے کو ملیں گے۔ آصف میمن کے بقول چھ سال میں پہلی بار انھوں نے اس دورے سے متعلق سوشل میڈیا پر ایسا ردعمل دیکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو وہ سوشل میڈیا پر کمنٹس دیکھ کر ناراض ہوئے تھے اور پھر انھیں تھوڑا افسوس ہوا۔۔ ان کا کہنا تھا کہ زمبابوے کے لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں اور انھیں خود کو دیا گیا گرم جوش استقبال اب بھی یاد ہے۔ محمد آصف یعنی پاک بین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے بعد سے وہ کسی غیر ملکی دورے پر نہیں گئے تاہم وہ کئی ملکوں میں پاکستانی بین کی حیثیت سے پرفارم کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’پہلے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اصلی مسٹر بین آ گئے ہیں لیکن جب میں بولنا شروع کرتا ہوں تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔‘ پاکستان کے زمبابوے کے خلاف میچ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نقلی مسٹر بین تھا لیکن ہماری کرکٹ ٹیم اصلی ہے اس لیے وہ اچھا کھیل کر میچ ضرور جیتیں گے۔‘   اس موضوع کو لے کر سوشل میڈیا پر اس قدر دلچسپ تبصرے ہونے لگے کہ پاکستان میں مسٹر بین ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔ کچھ شائقین کا کہنا تھا کہ اب یہ میچ پاکستان اور زمبابوے کا نہیں بلکہ زمبابوے بمقابلہ مسٹر بین ہے۔ ایک اور پاکستانی صارف نے لکھا ’مسٹر بین آج آپ جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں، کل ہمارے کھلاڑی  کھیلیں گے۔‘ ایمن شہیل نامی صارف نے لکھا ’زمبابوے کے شہریوں سے معذرت، ہم اگلی دفعہ احتیاط کریں گے بطور ہرجانہ اگلی بار شو کرنے کے لیے پروفیسر سرگیؤ ماکوینا کو شو کرنے کے لیے بھیجیں گے۔ بس کل ذرا آرام سے کھیلنا۔‘ کچھ صارفین اور پاکستان میں مختلف سلیبریٹیز جیسے دکھنے والے افراد کی تصاویر شیئر کرنے اور میمز بنانے لگے۔ انھیں میں سے ایک صارف عبدالباسط جنجوعہ کا کہنا تھا ’میں  اس کی سختی سے مذمت کرتا ہوں اور ہم کشیدگی ختم کرنے کے لیے تصفیے کے طور پر شاہ رخ خان کو بھیج رہے ہیں۔‘ ٹوئٹر صارفین صورتحال کا لطف لیتے ہوئے استہزائیہ تبصرے کرتے نظر آئے۔ نامعلوم افراد نامی ٹوئٹر ہنڈل نے لکھا ’ہم سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ ہم دفتر خارجہ سے اس بابت فوری معافی اور وضاحت کی توقع کر رہے ہیں۔ ہم کرکٹ میں دشمنیاں نہیں چاہتے۔‘ اذہان مرزا نے اس صورتحال کے پیش نظر آج کے میچ کا نیا بینر بنا ڈالا۔ جس کا عنوان تھا ’دنیا مسٹر بین بمقابلہ پاکستانی بین کے لیے تیار نہیں۔‘ حجاب زاہد نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ’مسٹر بین تنازع کی وجہ سے کل کے میچ کے حوالے سے جوش و خروش صفر سے 100 پر چلا گیا ہے۔ اگر سٹیڈیم میں کوئی مسٹر بین کے حلیے میں نہیں آتا تو وہ موقع ضائع کر دے گا۔‘ ایک اور صارف نے لکھا ’میں مرتے دم تک پاکستانی کی جانب سے نقلی مسٹر بین زمبابوے جانے کے معاملے کو یاد کر کے ہنستا رہوں گا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/cw57g4lgv64o
پرتھ میں پاکستان ٹیم کی پریکٹس: شہر میں گاؤں جیسا سکون اور شاہین آفریدی کے بولنگ ردھم کی واپسی
میلبرن میں ہم جس کو بھی بتاتے تھے کہ ہم پرتھ جا رہے ہیں تو اُن کے تاثرات ویسے ہی ہوتے تھے جیسے آپ لاہور یا کراچی میں کسی کو یہ بتائیں کہ آپ اسلام آباد جا رہے ہیں۔ یعنی خوبصورت جگہ ہے، سکون ہو گا لیکن لوگ جلدی سو جاتے ہیں۔ نقشے پر نظر ڈالیں تو آسٹریلیا کی ریاست ویسٹرن آسٹریلیا کا دارالحکومت پرتھ ملک کے ایک کونے میں واقع شہر ہے۔ پرتھ کا ٹائم زون بھی مختلف ہے اور یہاں کے ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی آپ کو یہاں کی ثقافت میں بھی فرق دکھائی دیتا ہے۔ ویسٹرن آسٹریلیا رقبے کے اعتبار سے ایک بڑی ریاست ہے اور جب آپ پرتھ ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو یہاں پر آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈینس للی کی مونچھوں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اکثر مرد آپ کو بڑی بڑی مونچھوں اور کاؤ باؤ ہیٹ پہنے دکھائی دیں گے اور یہاں کی زندگی میلبرن سے قدرے سست معلوم ہو گی۔ تاہم یہ ہفتہ پرتھ کے لیے خاصا مصروف ہے کیونکہ یہاں پاکستان کی ٹیم اپنے دو میچ کھیلنے والی ہے بلکہ جنوبی افریقہ اور انڈیا کے درمیان گروپ بی کا انتہائی اہم میچ بھی 30 اکتوبر کو یہیں کھیلا جائے گا۔ پرتھ پہنچتے ہی جو چیز آپ کو اپنی طرف سب سے پہلے کھینچتی ہے وہ یہاں کی خوبصورتی ہے۔ پرتھ شہر کے بیچوں بیچ دریائے سوان اور کیننگ گزرتے ہیں، پرتھ کے ساحلوں کے بھی چرچے ہیں اور ایک ساحلی شہر ہونے کے باعث یہاں مسلسل ہوا چلتی رہتی ہے۔ یہ آسٹریلیا کے ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں موسم گرم رہتا ہے اور دن میں ایک طویل وقت کے لیے دھوپ نکلی رہتی ہے۔ پرتھ کی یہ خصوصیت بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ تاہم یہاں میلبرن یا سڈنی کے مقابلے میں آپ کو پاکستانی اور انڈین کمیونٹی قدرے کم دکھائی دے گی اور یہاں موجود دیسی ریستورانوں کا فقدان بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پریکٹس سیشنز کے دوران بھی اسے دیکھنے والوں کی تعداد خاصی کم تھی۔ پاکستان کے دوسرے پریکٹس سیشن کے دوران پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک بائیو میڈیکل انجینیئر سیف الرحمان بتاتے ہیں کہ پرتھ ایک انتہائی خاموش شہر ہے جہاں آپ کے پاس کام کے علاوہ بھی دوسری چیزوں کو وقت دینے کا موقع ملتا ہے۔ پریکٹس پر انڈیا کی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے سیتن بھی موجود تھے جن کے بھائی راہل اس سیشن میں بطور نیٹ بولر موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’مجھے سڈنی کی مصروف زندگی چھوڑ کر یہاں آنے کا فیصلہ کرنے میں چار سال لگے لیکن یہاں آ کر مجھے اچھا لگتا ہے، آپ گھر والوں کو وقت دے سکتے ہیں۔‘ یہیں موجود ایک پاکستانی سے ہماری بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ’یہاں سہولیات تو شہر والی ہیں، لیکن سکون آپ کو پنڈ جیسا ملے گا۔‘ اس کی ایک وجہ تو یہاں شام سات بجتے ہی سڑکوں کا سنسان ہو جانا ہے، پرتھ بہت جلدی سو جاتا ہے لیکن پورا دن یہاں کے لوگ آپ کو دریاؤں میں بوٹنگ کرتے، مچھلیاں پکڑتے اور ٹریکس پر دوڑتے، سائیکلنگ کرتے یا چہل قدمی کرتے دکھائی دیں گے۔ پرتھ میں مائننگ انڈسٹری میں لوگوں کی اکثریت کام کرتی ہے اور یہاں پر آسٹریلیا کی اوسط کے اعتبار سے قوتِ خرید قدرے زیادہ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مہنگائی کی شرح باقی بڑے شہروں سے کم ہے۔ سیف الرحمان بتاتے ہیں کہ پرتھ کی ایک خاص بات یہاں کی مکّھیاں بھی ہیں ’جو ایک مرتبہ آپ کو چپک جائیں تو پھر جان نہیں چھوڑتیں۔‘ اس کی وجہ گندگی ہرگز نہیں ہے، پرتھ ایک صاف ستھرا شہر ہے لیکن یہ مکّھیاں عموماً آسٹریلیا کے زرعی رقبے اور بش لینڈز سے چلنے والی ہواؤں کے ساتھ یہاں آتی ہیں اور گرمیوں کے وسط میں شہر کے مضافاتی علاقوں میں شہریوں کا جینا دو بھر کر سکتی ہیں۔ انھیں ہٹانے کے لیے آپ کو یہاں اپنے ہاتھ لہراتے افراد اردگرد دکھائی دیں گے جسے یہاں ’دی آسٹریلین سیلوٹ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر آپ مختلف انواع کے پرندے بھی دکھائی دیں گے جو اکثر دریاؤں کے اردگرد نظر آتے ہیں اور یہاں پورے آسٹریلیا کی طرح بائیو ڈائیورسٹی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کا پریکٹس سیشن دو دن چلتا رہا لیکن یہاں پر پریکٹس سیشن کے دوران کی کہانی ہمیں یہاں کے پاکستانی اور انڈین نیٹ بولرز نے سنائی۔ دوسرے روز کے سیشن میں اکثر بڑے نام جیسے شاہین آفریدی، حارث رؤف، شاداب خان اور نسیم شاہ موجود نہیں تھے لیکن بابر اعظم اور محمد رضوان علیحدہ علیحدہ نیٹس میں تھرو ڈاؤنز لے رہے تھے اور خاص طور پر سنگ مر مر کی بڑی سی ٹائل پر بیٹنگ پریکٹس کر رہے تھے۔ یہ پرتھ کی پچ کے لیے تیاری کا انداز ہے جو اس سے قبل بھی پاکستانی ٹیم کی جانب سے آسٹریلیا کی باؤنسی اور تیز پچوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پریکٹس سیشن سے قبل پرتھ سٹیڈیم میں بیٹنگ کوچ میتھیو ہیڈن پچ کا معائنہ کرتے دکھائی دیے لیکن ان کا انداز خاصا انوکھا تھا۔ وہ بیٹنگ کریز پر پہنچے اور وہاں جا کر لیٹ گئے۔ خیال رہے کہ پرتھ میں یہ سٹیڈیم چند سال قبل تعمیر کیا گیا ہے اور یہ دلکش ’ملٹی پرپز‘ گراؤنڈ دریائے سوان کے کنارے واقع ہے۔ اس سے قبل یہاں کا تاریخی واکا کرکٹ سٹیڈیم اپنے پیس اور باؤنس کے لیے بہت مشہور تھا اور عام طور پر ایشیائی بلے بازوں کے لیے یہ ایک خطرناک پچ تصور کی جاتی تھی۔ تاہم واکا میں ہی میتھیو ہیڈن نے سنہ 2003 میں زمبابوے کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ میں 380 رنز کی تاریخی کی اننگز کھیلی تھی جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا۔ تاہم بعد میں ان کا ساتھ دینے آسٹریلوی فاسٹ بولر شان ٹیٹ بھی آ گئے جو بعد میں پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں حارث رؤف اور شاہین آفریدی کو بتا رہے ہیں کہ ’پرتھ کی پچ میں باؤنس اچھا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ زیادہ شارٹ گیندیں کراوئیں بلکہ اچھی لینتھ پر ہی بولنگ کرنی ہے۔‘ یہاں موجود نیٹ بولرز پاکستانی نژاد سید نقی سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ یہاں کی پچ پر گیند بلے پر اچھا آتا زیادہ سوئنگ نہیں ہوتا لیکن باؤنس قدرے زیادہ ہوتا ہے جس کے لیے عادی ہونا ہوتا ہے۔ سید نقی خود بھی ایک فاسٹ بولر ہیں اور انھوں نے شاید پاکستانی شائقین کے لیے ایک خوشخبری سنا دی۔ ان کے مطابق گذشتہ روز کے پریکٹس سیشن کے دوران ’شاہین بھائی کا ردھم اچھا آ رہا تھا اور ان کی گیند ہل بھی رہی تھی۔ انڈیا والے میچ (ورلڈکپ 2021) جیسی بولنگ تو نہیں لیکن گیند پورا کر رہے تھے اور گیند پڑ کے سوئنگ ہو رہا تھا۔ انھوں نے حیدر بھائی کو ایک دو بار پھیرا بھی۔‘ ایک اور نیٹ بولر محمد سارم اشفاق جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے بتاتے ہیں کہ نیٹس میں پاکستانی بلے بازوں مخصوص پلان دیے گئے تھے کہ انھوں نے صرف مخصوص شاٹس ہی کھیلنی ہیں۔ انڈین سے شکست کے بعد شاید پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے پرتھ کا سکون اچھا ثابت ہو لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا پاکستانی بلے باز پرتھ کے تیز اور باؤنسی وکٹ پر ٹک پائیں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gzm78ve03o
افتخار احمد: کپتان اور مینجمنٹ نے ایک کام دیا ہے کہ وکٹ پر آخر تک رکنا ہے
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹسمین افتخار احمد کے ساتھ عجیب صورتحال ہے۔ پرفارمنس نہ کرنے پر تو تنقید سمجھ میں آتی ہے لیکن پرفارمنس کرنے کے باوجود ناقدین ان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اس تنقید کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں طنزیہ جملے پڑھنے کو عام ملتے ہیں۔ افتخار احمد بھی شاید اس صورتحال کے عادی ہو چکے ہیں اور جب پرتھ میں پاکستانی ٹیم کی پریکٹس کے بعد گفتگو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید پر آپ کا کیا ردعمل ہوتا ہے تو افتخار احمد نے پرسکون انداز میں کہا ʹمجھے بتائیے کہ آپ کے خیال میں کیا جواب دوں، میرے پاس تو کوئی بھی جواب نہیں ہے۔ میں ہمیشہ تنقید کو مثبت انداز میں لیتا ہوں ʹ۔ یاد رہے کہ افتخار احمد نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پہلے میچ 51 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی تھی جس میں دو چوکے اور چار چھکے شامل تھے جبکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنا دوسرا میچ جمعرات کو زمبابوے کے خلاف پرتھ میں کھیلنے والی ہے۔ افتخار احمد کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ مصباح الحق کے انداز میں اپنی اننگز کو آگے بڑھاتے ہیں یعنی پہلے کچھ گیندیں کھیل کر سیٹ ہونا اور پھر بولنگ پر اٹیک کرنا۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں ʹمصباح الحق ہمیشہ سے میرے فیورٹ رہے ہیں۔ انھوں نے میرے ساتھ بہت کام بھی کیا ہے لیکن میں ٹیم میں اپنے کردار کے بارے میں ضرور بتانا چاہوں گا کہ جب ابتدائی وکٹیں جلد گر جاتی ہیں تو مجھے اننگز کو آگے لے کر چلنا پڑتا ہے۔ ’یہ کام مجھے میرے کپتان اور ٹیم منیجمنٹ نے دے رکھا ہے کہ وکٹیں گرنے کے بعد آپ نے آخر وقت تک کریز پر رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں تھوڑا سا وقت لیتا ہوں اور پھر اٹیک کرتا ہوں۔ میری یہی کوشش رہتی ہے کہ میری پرفارمنس پاکستانی ٹیم کے کام آئے چاہے میں ایک گیند کھیلنے کے لیے آؤںʹ۔ افتخار احمد بہت صاف گوئی سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک بڑے میچ میں شکست کے بعد دل خفا ہے۔ وہ کہتے ہیں ʹیہ کہنا غلط ہوگا کہ کچھ نہیں ہوا۔ دراصل ہم بیس، پچیس کروڑ عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں اسی لیے ہمارا دل بھی دکھی ہے لیکن جس طرح کپتان اور ٹیم منیجمنٹ نے شکست کے بعد تمام کھلاڑیوں کو حوصلہ دیا وہ بہت اہم ہے۔‘ ان کے مطابق ’کپتان بابراعظم کا پیغام واضح تھا کہ یہ ہمارا آخری میچ نہیں تھا۔ تمام کھلاڑیوں نے سخت محنت کی اپنے طور پر کوشش کی اور ہمیں اگلے میچوں کے لیے تیار رہنا چاہیےʹ۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا نے سنسنی خیز مقابلہ آخری گیند پر جیت لیا، کوہلی کی 82 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز پاکستان انڈیا میچ کے بعد ’کہیں خوشی تو کہیں غم‘ قصور محمد نواز کا نہیں تھا افتخار احمد کے لیے پرتھ سٹیڈیم نیا نہیں ہے۔ اسی میدان میں انھوں نے 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف چھ چوکوں کی مدد سے 45 رنز بنائے تھے۔ یہ وہ میچ تھا جس میں پاکستانی ٹیم آٹھ وکٹوں پر صرف 106 رنز بنا کر دس وکٹوں سے ہاری تھی اور افتخار احمد اور محمد رضوان ہی دو بیٹسمین ڈبل فگرز میں آ سکے تھے۔ اسی سیریز میں افتخار احمد نے کینبرا میں کھیلے گئے میچ صرف 34 گیندوں پر 62 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی تھی جس میں تین چھکے اور پانچ چوکے شامل تھے۔ افتخار احمد کا کہنا ہے ʹ یقیناً میں نے اس میدان میں اس سے قبل ایک میچ کھیلا ہے لیکن ہر میچ اور ٹیم نئی ہوتی ہے۔میری کوشش ہوگی کہ ٹیم اچھا کھیلے۔ ’زمبابوے کو ہم کسی طور پر بھی کمزور نہیں سمجھ سکتے ہمیں اس کے خلاف اسی بھرپور طریقے سے کھیلنا ہوگا جس طرح کسی بڑے ٹیم کے خلاف کھیلتے وقت سوچ ہوتی ہے ʹ۔
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0xzd67e6zqo
ایک ریاضی دان جادوگر نے کیسے کسینو کی ایک بڑی غلطی کی نشاندہی کی
انڈسٹری کے اعلی افسران پریشان تھے۔ اُن کی کمپنی کسینو (جوا خانہ) کے لیے ایسی مشینیں بناتی تھی جو تاش کے پتوں کو شفل یعنی مِکس کر کے بالکل صحیح کارڈ نکالتی تھیں۔ ان کی اس طرح کی ہزاروں مشینیں لاس ویگاس اور دنیا کے مختلف شہروں میں موجود کسینوز میں زیر استعمال تھیں۔ ان مشینوں کے کرائے سے کمپنی ہر برس دسیوں لاکھ ڈالر کماتی تھی اور کمپنی نیو یارک سٹاک ایکسیچ میں تجارتی کمپنیوں کی فہرست میں بھی شامل تھی۔ کمپنی کے افسران کو حال میں یہ پتہ چلا کہ ان کی کمپنی کی مشینوں کو دھوکے بازوں کے ایک گینگ نے ہیک کر لیا ہے۔ اس گینگ نے شیشے کی ایک کھڑکی کے ذریعے ایک ایسا خفیہ کیمرہ نصب کر دیا جس سے کارڈز کی شفلنگ کا طریقہ کار ریکارڈ کیا جا سکے۔ کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کی گئی تصاویر گینگ کے اس ممبر کے پاس جاتی تھیں جو کسینو کے باہر کار پارک میں بیٹھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ سلو موشن یعنی آہستہ رفتار پر ان تصاویر کو چلاتا تھا جس سے یہ پتہ چل سکے کہ آخر کار مشین کس طرح اور کس ترتیب میں کام کرتی ہے۔ بعد میں یہ معلومات کسینو میں جوا کھیلنے والوں کو دے دی جاتی تھی۔ جب تک اس گروہ کا پتہ چلا تب تک کسینو کو دسیوں لاکھ ڈالر کو نقصان ہو چکا تھا۔ کمپنی کے افسران نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ ان مشینوں کو دوبارہ ہیک نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے شفلنگ مشین کا ایک نیا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ تیار کرایا جس کو انھوں نے ایک غیر شفاف یا شیشے کے ایک ایسے باکس میں رکھا جس میں آر پار نہیں دکھائی دیتا تھا۔ ان کے انجینیئروں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ مشین ایک بار میں کارڈ اتنی تیزی اور بے ترتیب طریقے سے گڈمڈ کرے گی کہ جس سے ایک باری سے دوسری باری کے درمیان وقت بھی کم لگے گا اور دھوکہ دہی کرنے والے جواریوں کو مات دینے میں مدد ملے گی۔ لیکن کمپنی کے افسران کو اس بات کی یقین دہانی کرانی تھی کہ ان کی مشین کارڈز کو صحیح طریقے سے شفل کرے۔ اس کے لیے انھوں نے پرسی ڈایاکونس سے رابطہ کیا۔ ڈایاکونس امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی میں ایک ریاضی دان تھے جو پہلے ایک جادو گر ہوتے تھے۔ وہ کارڈ شفلنگ کے طریقہ کار کو سمجھنے والے دنیا کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ کارڈ شفلنگ کے موضوع پر جتنا بھی لٹریچر اور معلومات موجود تھی اس میں ان کا نام بار بار سب سے زیادہ آتا تھا۔ کسینو کمپنی کے افسران نے جب ان سے کارڈ شفل کرنے والی مشین کی اندرونی جانچ کے لیے رابطہ کیا تو انھیں اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں ہوا۔ سٹینفرڈ میں ان کی ساتھی سوزن ہولمز کے ساتھ ڈایاکونس نئی مشینوں کا معائنہ کرنے لاس ویگاس پہنچے۔ دونوں نے بہت جلد مشینوں میں ایک نقص نکال لیا۔ شفلنگ کا جو طریقہ کار تھا وہ تو ویسا ہی تھا جیسا کہ ہونا چاہیے لیکن نتیجہ نکالنے والی ڈیک میں نمبر جس ترتیب سے نکلتے تھے ان کے بارے میں پیشن گوئی کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ان مشینوں سے جو کارڈ نکلتے تھے یا تو ان کے نمبر بڑھتے ہوئے یا گھٹتے ہوئے آرڈر میں نکلتے تھے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ڈایا کونس اور سوزن ہولمز نے کارڈ کے نمبر کے بارے میں پیشن گوئی کرنے کا ایک طریقہ نکالا۔ شفلنگ کے بعد جو پہلا کارڈ آیا اگر اس کا نتیجہ پانچ ہارٹس والا کارڈ تھا تو انھوں نے اندازہ لگایا کہ ایک کارڈ جو نکلے گا وہ چھ ہارٹس والا ہو گا۔ انھوں نے یہ اندازہ اس بات سے لگایا کہ نمبر بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر اس سے اگلے کارڈ کے نمبر کم ہو رہے تھے تو اس کا مطلب تھا کہ نمبر اب کم ہونے لگلے تھے اور ان کا اندازہ تھا کہ اس سے اگلا کارڈ تین ہارٹس والا ہو گا۔ اس سادہ سی حکمت عملی سے وہ کارڈ کی ایک گڈی میں کم از کم 9 سے 10 کارڈز کے نمبروں کے بارے میں بالکل صحیح اندازہ لگا پائے جس سے کسی بھی باصلاحیت کارڈ کاؤنٹر کا دوگنا یا تین گنا فائدہ ہو سکتا تھا۔ کارڈ کاؤنٹنگ یا کارڈوں کی گنتی ایک ایسا طریقہ کار ہے جس سے جوا کھیلنے والا شخص اس بات کا ریکارڈ رکھ سکتا ہے کہ کون سے کارڈ نکل چکے ہیں جس کے بعد جیتنے یا ہارنے کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار دہائیوں سے زیر استعمال ہے۔ برج نامی گیم میں اس طریقہ کار کی اجازت ہوتی ہے لیکن کسینو میں بلیک جیک جیسے کھیلوں میں یہ بالکل ممنوع ہے۔ کسینو میں اس تکنیک کا استعمال غیر قانونی ہے۔ ڈیاکونس کی تفتشیش کا نتیجہ سُن کر کمپنی کے افسران بے حد غصہ اور خوفزدہ ہو گئے۔ انھوں نے ڈیاکونس کو لکھا ’ہم آپ کے نتائج سے خوش نہیں ہیں۔‘ کمپنی نے خاموشی سے اس نئی مشین کو ہٹا دیا اور ایک مختلف مشین لگا لی۔ ڈیاکونس نے اپنی پوری زندگی آرڈر یعنی ترتیت اور نمبروں کی بے ترتیبی کو سمجھنے میں صرف کر دی۔ پھر چاہے اس میں ’پیغامات کی ڈیکوڈنگ‘ ہو یا ویب سرچ انجنز کی اوپٹیمائزیشن ہو اور اسی معلومات کو انھوں نے کارڈ شفلنگ سے متعلق بے حد اہم سوالات کو سمجھنے میں استعمال کیا۔ تاش میں ان کی دلچپسی ایک محض اتفاق تھا۔ سنہ 1958 میں جب ان کی عمر تیرہ برس تھی نیو یارک کے ٹائمز سکوائر میں واقع تانین میجک ایمپوریم میں اُن کی ملاقات سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور جادوگر ایلیکس ایمزلی سے ہوئی جنھیں کارڈز کو بالکل صحیح طریقے سے شفل کرنے یعنی ’پرفیکٹ شفل‘ پر مہارت حاصل تھی۔ پرفیکٹ شفل کو ’فیرو شفل‘ بھی کہتے ہیں۔ اس میں کارڈز کی ایک گڈی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصے میں 26 اور دوسرے حصے میں بھی 26 کارڈ ہی ہوتے ہیں اور کارڈ کی گڈی کے دونوں حصوں کے جب ملایا جاتا ہے تو وہ ایک زپر کی طرح ایک دوسرے پر بیٹھتے ہیں۔ بہت کم لوگ دس سیکنڈ سے کم میں یہ کام کرسکتے تھے۔ ڈیاکونس کو یہ مہارت حاصل تھی۔ جادوگر اور جواری کارڈ شفل کرنے کے اس طریقے کا صدیوں سے استعمال کررہے ہیں۔ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ کارڈوں کو بے ترتیت طریقے سے شفل کیا جارہا ہے لیکن یہ بالکل میں بے ترتیب نہیں ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پرفیکٹ شفل کے اس طریقے کو ایک ساتھ آٹھ بار دوہرایا جائے تو کارڈ اپنے اصل آرڈر پر آ جاتا ہے۔ ڈیاکونس کارڈ کی نئی گڈی لے کر اس کے ایک کنارے پر کالے رنگ کی سیاہی سے ’رینڈم‘ لفظ لکھ کر پرفیکٹ شفل دکھاتے تھے۔ جب وہ اپنے ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں تو الفاظ الٹے پلٹے ہوجاتے ہیں۔ کارڈ شفل کرتے وقت کبھی دکھائی دیتے اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب آخری اور آٹھویں بار شفل کرتے ہیں تو واپس ’رینڈم‘ لفظ کارڈ کی گڈی کی سائڈ پر لکھا نظر آنے لگتا ہے۔ کارڈ بالکل اسی ترتیب میں ہوتے ہیں جس میں وہ پہلے تھے۔ تانین میجک ایمپوریم میں ایمزلی نے ڈیاکونس کو اس چال کے پیچھے کے حساب یا میتھس کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا ذرا سوچو کے تم نے کارڈ کی ایک نئی گڈی میں تاشوں کو ایک سے 52 تک کے نمبر دیے ہیں جس میں سب سے اوپر والا کارڈ نمبر ون ہے اور سب سے نیچے والے کارڈ کا نمبر 52 ہے۔ جب پرفیکٹ شفل کرتے ہیں تو کارڈ کے نمبر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو کارڈ دوسرے نمبر پر تھا وہ تیسرے نمبر چلا گیا اور جو کارڈ تیسرے نمبر پر تھا وہ پانچویں نمبر پر چلا گیا۔ اسی طرح سے جو کارڈ 27ویں نمبر پر تھا وہ دوسرے نمبر پر آجائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ایمزلی کے ساتھ اس ملاقات کے بعد ہاتھ کی صفائی کے ماہر جادوگر کی نگرانی میں جادو سیکھنے کے لیے ڈیاکونس چودہ برس کی عمر میں گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دونوں نے دس برس سڑک پر گزارے اور اس دوران شفلنگ کے ہر طریقہ کار کو سیکھا اور ہر اس دھوکہ باز جواری کو ڈھونڈ نکالا جسے کارڈ شفل کرنے کی ایک سے ایک نئی اور کامیاب تکنیک آتی تھی۔ ایمزلی کے ساتھ بات چیت کے بعد ڈیاکونس کو یہ تجسّس ہوا کہ ریاضی اور جادوگری کے درمیان مزید اور کیا رشتہ ہے؟ ڈیاکونس کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ کارڈوں کو پرفیکٹ شفل کرنے کے لیے سات بار شفل کرنا کافی ہوتا ہے۔ اس طریقے کو ’رفل شفل‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کا استعمال پیشہ ور جواری اور کسینو کرتے ہیں۔ ساس طریقہ کار کے تحت کارڈز کی گڈی کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور کارڈز کو ایک کے اوپر ایک ملانے کے بجائے بے ترتیب طریقے سے ملایا جاتا ہے جس میں ضروری نہیں کہ ایک کارڈ کو دوسرے کارڈ پر بٹھایا جائے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کارڈ کو ایک اور کبھی دو کارڈز کے اوپر بھی بٹھایا جا سکتا ہے۔ رفل شفل کے تحت ایک یا دوسری بار ہی کارڈوں کو ملانے میں بعض کارڈ تو اپنی اصل ترتیب میں رہتے ہیں لیکن جب آپ کارڈوں کا ساتویں بار شفل کرتے ہیں تو کارڈ بالکل بے ترتیب ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد آپ کتنا بھی کارڈز کو شفل کریں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس طریقے کو سمجھنے کے لیے ڈیاکونس نے ایک طاقتور ریاضی ٹول مارکو چینز کا استعمال کیا۔ جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں ریاضی دان سمیی حائس آصف کہتے ہیں کہ ’مارکو چینز کوئی بھی بار بار کیے جانے والا ایک ایسا ایکشن ہوتا ہے جس کے نتیجے کا انحصار اس کے حالیہ صورتحال پر ہوتا ہے نا کہ اس نتیجے کو کیسے حاصل کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مارکو چین کو اس بات کی کوئی یاداشت نہیں ہوتی کے اس لمحے سے پہلے کیا ہوا تھا۔‘ کارڈ شفلنگ کے لیے یہ ایک بہترین ماڈل ہے۔ کارڈز کو ساتویں بار شفل کرنے کا نتیجہ چٹھی بار جو شفلنگ ہوئی اس سے متاثر ہوتا ہے ناکہ پانچویں یا چوتھیں بار والی شفلنگ سے۔ مارکو چینز کا سٹیٹسٹکس اور کمپوٹر سائنئس میں رینڈم نمبروں کی ترتیت کو سمجھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سرچ انجن میں مختلف ویب سائٹس کی مقبولیت کس ترتیب سے ہو گی اس کے لیے گوگل مارکو چينز جیسے سادہ طریقے کا استعمال کرتا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ان اربوں انٹرنیٹ صارفین کی پسندیدہ ویب سائٹس کا اندازہ لگایا جاتا ہے جو بغیر سوچے سمجھے ویب سائٹس پر کلک کرتے ہیں اور اس سے ہی گوگل یہ اندازہ لگاتا ہے کہ کون سے ویب سائٹ سب سے زیادہ مقبول ہے جس کے بعد گوگل سب سے مقبول ویب سائٹ سب سے پہلے صفحے پر دکھاتا ہے۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے ریاضی دان ڈیو بیئر کے ساتھ کام کر کے ڈیاکونس نے یہ دکھایا کہ رفل شفل میں ساتویں بار میں ترتیب سے لگے کارڈ بالکل صحیح طرح سے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ یا رویہ ریاضی میں ’کٹ آف فنومنا‘ کہلاتا ہے اور جن پروبلمز میں مکسنگ شامل ہوتی ہے اس میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ تصور کیجیے کہ آپ کافی میں کریم مکس کر رہے ہیں۔ جب آپ کریم مکس کر رہے ہوتے ہیں تو وہ پہلے کالی کوفی میں سفید سفید لکریں بناتی ہے اور آخر کار وہ کوفی میں بالکل گُھل مِل جاتی ہے۔ یہ یاد رکھنا کہ کہ کارڈ کس طرح شفل کیے جا رہے ہیں۔ کارڈ پوری طرح مکس ہو گئے ہیں یا ان کی ترتیب کے بارے میں کچھ یاد ہے اس سے جواریوں کو دوسرے جوا کھیلنے والوں پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ 1990 کی دہائی میں ہاروڈ اور ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے تب اس پر کامیابی پائی تھی جب انھوں نے امریکہ کے مختلف کسینو میں بلیک جیک کھیلا اور اس دوران کارڈ کاؤنٹنگ اور کارڈ شفل کرنے کے دیگر طریقوں کا استعمال کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کارڈز کی گڈی صحیح سے شفل ہوئی تھی یا نہیں۔ اس کے جواب میں کسینو کے مالکان نے کارڈ شفل کرنے کی بہتر مشینیں لگائیں اور جوے کا کھیل شروع ہونے سے پہلے کارڈوں کی گڈی کو اچھی طرح ملایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کھلاڑیوں کی نگرانی زیادہ کرنی شروع کر دی۔ لیکن آج بھی ایسا کم ہی دکھائی دیتا ہے کہ ایک کارڈ کی گڈی کو صرف سات بار شفل کیا گیا ہو۔ کسینو کے اعلی افسران نے ڈیکانوس اور ان کی ریسرچ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن ریاضی دانوں، سٹیٹکس پڑھنے والوں اور کمپیوٹر کے ماہرین پر ان کا اثر و رسوخ برقرار ہے جو ’رینڈمنیس' یا نمبروں کے بے ترتیبی کے پیچھے کی سائنس کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ ڈیاکونس کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر سٹینفورڈ یونیورسٹی میں جنوری 2020 میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ پوری دنیا سے اُن کے ساتھیوں نے ریاضی کے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے جن میں گتے کے ڈبے کو زور سے ہلانے کے بعد سیریلر کیسے ہلنا بند کرتے ہیں اور کارڈ کی شفلنگ شامل تھے۔ ڈیکانوس کی خود کی کبھی بھی جوے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں پیسے کمانے کے اس سے بہتر اور دلچسپ طریقے ہیں لیکن وہ ان لوگوں سے حسد نہیں رکھتے جو اپنے دماغ کا استعمال کر کے دوسروں پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’سوچنا چوری کرنا نہیں ہے۔ سوچنا تو سوچنا ہے۔ شین کیٹنگ سائنسی موضوعات پر لکھتے ہیں اور سڈنی کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں ریاضی اور اوشیانوگرافی کے سینیئر لیکچرر ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63369870
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: جب ٹیم ہو پاکستانی لیکن شوہر ہندوستانی
انڈیا پاکستان کا میچ جب بھی ہو دونوں اطراف سے شائقین کے جذبات ویسے ہی عروج پر ہوتے ہیں لیکن جب ایک گھر میں شوہر کا تعلق انڈیا اور بیوی کا پاکستان سے ہو تو سوچیں کیا صورتحال ہوتی ہو گی۔ آسٹریلیا میں مقیم ایک ایسے ہی ایک جوڑے سے آپ کو ملوا رہے ہیں ہمارے ساتھی محمد صہیب اور نئیر عباس اس ویڈیو میں۔۔۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63369868
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: آسٹریلیا میں مقیم وہ جوڑا جس کی شادی انڈیا پاکستان کرکٹ سیریز کے ویزا پر ہوئی
لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے عالی اقبال نے آج تک انڈیا کا جو بھی میچ گراؤنڈ میں جا کر دیکھا، اس میں جیت انڈیا کی ہوئی اور گذشتہ روز بھی ان کی خوش قسمتی کا یہ تسلسل قائم رہا۔ تاہم اس وقت کراچی سے تعلق رکھنے والی ان کی اہلیہ قرۃ العین نے شاید انھیں کم سے کم دو روز کے لیے واٹس ایپ پر بلاک کر دیا ہو کیونکہ سنہ 2015 کے انڈیا پاکستان میچ کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ایڈیلیڈ میں ہونے والے اس میچ میں عینی اور ان کے بیٹے کو سٹینڈ چھوڑ کر اس وقت جانا پڑا تھا جب پاکستان کی بری پرفارمنس اور انڈین شائقین بشمول ان کے شوہر کی خوشی انھیں ’ناگوار‘ گزرنے لگی تھی۔ عینی بتاتی ہیں کہ ’ویسے تو آپ ہر وقت دعا کرتے ہیں کہ اللہ انھیں خوش رکھے لیکن ان کی یہ والی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔‘ انڈیا پاکستان کا میچ جب بھی ہو اور جہاں بھی کھیلا جائے دونوں اطراف سے شائقین کے جذبات ویسے ہی عروج پر ہوتے ہیں لیکن جب ایک گھر میں شوہر کا تعلق انڈیا اور بیوی کا پاکستان سے ہو تو سوچیں کیا صورتحال ہوتی ہو گی۔ عالی جب کبھی گھر پر انڈیا پاکستان میچ دیکھیں اور انڈین بلے باز چوکے چھکے لگانا شروع کریں تو ’وہیں سے ماحول میں کافی تناؤ آ جاتا ہے۔‘ تاہم عالی اور عینی کی کہانی میں انڈیا اور پاکستان صرف کرکٹ میچ تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں کے پہلی بار ملنے سے لے کر بارات پاکستان آنے تک ہر موڑ پر ہی کہیں انڈیا پاکستان تعلقات تو کہیں کرکٹ سیریز کا عمل دخل رہا۔ گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ فیملی آسٹریلیا میں مقیم ہے لیکن آج سے لگ بھگ 20 سال قبل ان کے لیے انڈیا اور پاکستان آنا جانا بھی بہت مشکل تھا۔ تقسیمِ ہندوستان کے دوران عینی اور عالی کا خاندان بھی انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تھا تاہم بعد میں بھی دونوں اطراف سے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ عینی آٹھویں جماعت میں تھیں جب وہ پہلی بار لکھنؤ گئیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہیں کہ ’پتا نہیں میں کیوں گئی تھی، ورنہ بچت ہو جاتی آج۔‘ یہ 80 کی دہائی کی بات ہے جب ظاہر ہے آج کل کی طرح سوشل میڈیا نہیں تھا تو عالی اور عینی کے درمیان خط کے ذریعے بات چیت ہوتی تھی۔ ایسا خط جو پہلے ہی دو مہینے کے انتظار کے بعد پہنچتا، اسے پہلے عینی کے والدین پڑھتے اور پھر بالآخر یہ عینی کے پاس جاتا۔ عالی بتاتے ہیں کہ ’اس وقت بس خط میں حال احوال ہی پوچھ لیا کرتے تھے کیونکہ معلوم ہوتا تھا کہ پہلے امی اور پھر ابو پڑھیں گے۔‘ تاہم پھر انٹرنیٹ آنے کے بعد بات میسنجرز کے ذریعے ہونا شروع ہوئی اور دونوں خاندانوں کی رضامندی سے شادی طے ہوئی۔ عینی بتاتی ہیں کہ ’میری اماں کہا کرتی تھیں کہ کہیں بھی شادی کریں گے انڈیا میں نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مواصلات کے ذرائع کم تھے اور آنے جانے کے اعتبار سے بھی مشکلات تھیں۔‘ اس وقت انڈیا اور پاکستان کے درمیان فلائٹس بھی بذریعہ دبئی آیا کرتی تھیں اس لیے شادی کے انتظامات کے حوالے سے فلائٹس کے ساتھ ساتھ ویزا کے مسائل بھی تھے۔ پھر سنہ 2004 میں جب اس وقت کی انڈیا اور پاکستان حکومتوں کے درمیان حالات میں بہتری آنا شروع ہوئی تو ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز کھیلنے کا اعلان کیا گیا جسے ’دوستی سیریز‘ کا نام دیا گیا۔ انڈیا نے سنہ 2004 میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا اور اس دوران عالی اور ان کے خاندان کے لیے پاکستان آنے کی امید بنی۔ انھیں کراچی ون ڈے کے لیے 14 دن کا ویزہ ملا جس میں ان کے دوست اور خاندان کے دیگر افراد بھی کراچی آئے۔ عالی بتاتے ہیں کہ ’ہم اسی میچ کے ویزہ پر آئے، وہ میچ دیکھا، یہ بھی میرے ساتھ گئی تھیں۔ اس دوران ہم میچ سے بھی بہت لطف اندوز ہوئے اور میچ بھی انڈیا جیتا تھا تو کافی اچھا لگا تھا۔‘ اس پر عینی نے فوراً کہا کہ ’لیکن مجھے بہت برا لگا تھا، وہیں آپ کی بدقسمتی شروع ہو گئی تھی یہ بھی آپ یاد کر لیں۔‘ عینی کے مطابق پاکستان انڈیا کا میچ ان کے گھر میں ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب سارے جذبات سامنے آ جاتے ہیں۔ ’دشمن دشمن ہی لگنے لگتا ہے، سب بھول جاتے ہیں کہ آدمی کیسا ہے، بڑی تکلیف ہوتی ہے خوشی دیکھ کر اس وقت، ویسے تو آدمی دعائیں کرتا ہے کہ خوش رہیں لیکن یہ واحد موقع ہوتا ہے جب یہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں تو مجھے بڑی جلن ہوتی ہے۔ میں سچ ہی بولوں گی۔‘ ادھر عالی کو کرکٹ سے بچپن سے لگاؤ تھا اور وہ فاسٹ بولنگ کیا کرتے تھے۔ اب بھی وہ نہ صرف انڈیا کے میچ بلکہ ایشز سیریز بھی دیکھنے جاتے ہیں اور کرکٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں چاہے ٹیم کوئی بھی ہو۔ تاہم گھر پر میچ دیکھتے وقت صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوشش میں انھیں کئی مرتبہ اپنی خوشی بھی چھپانی پڑتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’چوکے چھکے پڑنا شروع ہوتے ہیں ظاہر ہے خوش تو ہوتا ہوں لیکن اس دوران گھر کا بھی خیال ہوتا ہے کہ کہیں کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔‘ تاہم عینی اس بارے میں مختلف تاثرات رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سچائی یہ ہے کہ مشکل سے ہی مسکرا پاتے ہیں یہ کیونکہ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے کہ کوئی بہت خوش ہے اس لیے کہ انڈیا جیت گیا اور میں برداشت نہیں کر پاتی۔‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’اگر میرے ابا پاکستان سے آئے ہوں اور پاکستان اور انڈیا کا میچ ہو تو اتنا تناؤ آپ ایم سی جی میں محسوس نہیں کریں گے جتنا آپ اس گھر میں محسوس کریں گے۔‘ یہ بھی پڑھیے جب انڈیا اور پاکستان کے کھلاڑیوں نے جنگ کے دوران کرکٹ کھیلی ورلڈ کپ ڈائری: پاکستان انڈیا میچ کے بعد ’کہیں خوشی تو کہیں غم‘ میلبرن گراؤنڈ کے کیوریٹر بھی انڈیا پاکستان میچ کے لیے پُرجوش یہ تقسیم صرف عینی علی تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے بچوں میں بھی اس حوالے سے سائیڈز لی جاتی ہیں۔ ان کے بیٹے پاکستان کی طرف ہوتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے جبکہ بیٹی والد کو سپورٹ کرتی ہیں کیونکہ وہ ان سے زیادہ قریب ہیں۔ تاہم اس دوران فیملی میں احترام کے رشتے کو برقرار رکھنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ عینی بتاتی ہیں کہ انھیں اپنے بیٹے کو کبھی کبھی کہنا پڑتا ہے کہ ’اپنے والد کے ساتھ احترام سے پیش آؤ اور یہ نہ بھولو کہ ہم ایک ہی فیملی کا حصہ ہیں۔‘ بیٹی کی سپورٹ والد کی طرف اس لیے ہوتی ہے کیونکہ ’اسے لگتا ہے کہ اس کے ڈیڈی اکیلے ہو گئے ہیں اور گھر میں دو لوگ پاکستان کی طرف ہیں تو اسے انڈیا کی طرف ہونا چاہیے۔‘ تو میچ کے بعد یہ تناؤ کتنے دن تک رہتا ہے؟ عالی بتانے لگے کہ بس تھوڑے دن کے لیے رہتا ہے لیکن عینی نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ’ایک دو دن کے لیے بس واٹس ایپ پر میں بلاک کر دیتی ہوں۔‘ عینی کہتی ہیں کہ ’ظاہر ہے اگر برابر میں بیٹھا آدمی ہر تھوڑی دیر بعد اپنی نشست سے اٹھ کر خوشی سے ییس، ییس کہے گا، تو مجھے بتائیں کیسے لگا، برا ہی لگے گا نہ۔‘ پہلے انڈیا پاکستان میچ کے دوران بریانی کو دونوں ملکوں کا سانجھا کھانا سمجھ کر پکایا جاتا تھا لیکن عینی کو کچھ عرصے بعد خیال آیا کہ ’پاکستان میچ ہار رہا ہوتا ہے اور یہ بریانی بھی انجوائے کر رہے ہوتے ہیں اس لیے میں نے کہا نہیں، اب سے پیزا آرڈر کیا جائے گا۔‘ کل کے میچ میں پاکستان کی شکست کے بعد بھی صورتحال کشیدہ ہونے کے امکانات ہیں لیکن امید ہے کہ یہ تلخی کچھ دنوں سے زیادہ نہیں رہے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63369867
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ڈائری: پاکستان انڈیا میچ کے بعد ’کہیں خوشی تو کہیں غم‘
میلبرن میں پیر کو دن کا آغاز ہوا تو کرکٹ شائقین کے لیے کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا کیونکہ جو کچھ تھا وہ اتوار کو ہو چکا تھا۔ اتوار کے روز صبح سے میلبرن میں نیلی اور سبز شرٹس کا سمندر پورے شہر میں نظر آ رہا تھا جس کی منزل میلبرن کرکٹ گراؤنڈ تھی۔ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا میچ کسی بھی ایونٹ میں آ جائے تو شائقین کے لیے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی ہے۔ میچ شروع ہونے سے قبل دونوں ملکوں کے شائقین کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور جو بھی میڈیا ان کی طرف مائیک بڑھاتا جوشیلے نعرے اور الفاظ، جذبات کی عکاسی کرتے۔ کوئی بھی ہارنے کی بات نہیں کر رہا تھا، ہر کوئی یہی کہتا سنائی دیا کہ ’ہماری ٹیم جیتے گی، آج ہمارا دن ہے‘ لیکن جیت ایک کی ہی ہوتی ہے اور ایک کو ہارنا ہی ہوتا ہے۔ اس میچ میں پاکستان ہار گیا جبکہ انڈیا جیت گیا اور یہ نتیجہ شائقین کے موڈ پر بھی اثر انداز ہو چکا تھا۔ میچ کے بعد میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے باہر پاکستانی شائقین مایوسی میں واپس جا رہے تھے اور ان کے چہرے اترے ہوئے تھے لیکن انڈین شائقین کی ٹولیاں گراؤنڈ کے باہر اب بھی موجود تھیں۔ کچھ میڈیا والوں سے بات کر کے اپنی اس خوشی کو مزید دوبالا کر رہے تھے کہ ’دیکھا ہم کہہ رہے تھے نہ کہ ہم جیتیں گے۔‘ اس میچ کے نتیجے سے قطع نظر یہ بات بہت اہم ہے کہ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں نوے ہزار سے زیادہ لوگ میچ دیکھنے کے لیے موجود تھے اور غالباً یہ آسٹریلیا کے قانون کا اثر ہے اور تہذیب یافتہ معاشرے کی خوبصورتی بھی کہ اس میچ کے بعد کسی نے غصے میں آ کر کسی کا گریبان پکڑا نہ شائستگی کا دامن چھوڑا، نہ کسی سٹینڈ میں توڑ پھوڑ ہوئی اور نہ ہی کرسیاں اکھاڑ کر مخالفوں کی طرف پھینکی گئیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم میلبرن سے اپنی اگلی منزل پرتھ کی طرف روانہ ہو گئی ہے لیکن اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گئی ہے، جن کا تعلق انڈیا کے خلاف میچ سے ہے۔ میچ کے بعد جب بابر اعظم سے محمد نواز کو آخری اوور دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ درمیانی اوورز میں وکٹیں لینے کی غرض سے اپنے تیز بولرز کو بولنگ کے لیے لے کر آئے تھے لیکن انھیں وکٹیں نہ مل سکیں۔ بابر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ میچ بہت کلوز گیا، یقیناً لوگوں نے کافی انجوائے کیا ہو گا۔ یہ میچ آخری گیند تک رہا تو خاصا دلچسپ لیکن نتیجہ پاکستانی شائقین کے لیے کافی تکلیف دہ رہا۔ ایک بڑا میچ اور وہ بھی پہلا میچ ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم پر دباؤ بڑھ گیا ہے تاہم اس کے اگلے دو میچ نسبتاً کم تجربہ کار ٹیموں زمبابوے اور ہالینڈ کے خلاف ہیں جس کے بعد اسے ایک اور مضبوط حریف جنوبی افریقہ کا سامنا کرنا ہے۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان انڈیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ: قصور محمد نواز کا نہیں تھا نواز کے آخری اوور میں نو بال اور فری ہٹ پر بحث: ’اس پر نظرثانی ہونی چاہیے‘ وہ حکمتِ عملی جو مداحوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے قریب لے آئی یہ گروپ 2 تین بڑی ٹیموں انڈیا، پاکستان اور جنوبی افریقہ میں سے ایک ٹیم کو سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر کرے گا لہذا اگر پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچنا چاہتی ہے تواس کے پاس اب مزید کسی شکست کی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے خوش آئند بات افتخار احمد کی عمدہ بیٹنگ تھی لیکن پاکستانی شائقین یہ سوال کر رہے ہیں کہ آصف علی کا بیٹ کب چلے گا؟ گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں افغانستان کے خلاف میچ میں چار چھکوں والی اننگز اور ویسٹ انڈیز کے خلاف اننگز کے علاوہ ابتک وہ کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے میچ کے بعد انڈین بولر ارشدیپ سنگھ کے چرچے ہیں، جنھوں نے محمد رضوان، بابر اعظم اور آصف علی کی وکٹیں حاصل کیں۔ یہ وہی ارشدیپ سنگھ ہیں جو ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف آصف علی کا کیچ ڈراپ کرنے پر زبردست تنقید کی زد میں آئے تھے۔ انڈیا کے سابق سپنر انیل کمبلے کا کہنا ہے کہ ارشدیپ سنگھ اب ایک پختہ بولر کا روپ دھار چکے ہیں جو پریشر کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ انڈین کپتان روہت شرما بہت خوش ہیں کہ ان کی ٹیم کو اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اچھا آغاز مل گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی بھی ٹیم کو ایک بڑے میچ میں جیت مل جائے تو اس کا بقیہ سفر آسان اور پر اعتماد ہو جاتا ہے۔ روہت شرما اس سلسلے میں پاکستانی ٹیم کی ہی مثال دیتے ہیں جس نے گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم کو شکست دی تھی اور اس کے بعد وہ سیمی فائنل تک پہنچی تھی۔ ایسا نہیں کہ انڈین ٹیم پاکستان کے خلاف میچ جیتی ہے تو سب اچھا ہے۔ انڈین ٹیم دو طرفہ سیریز میں کامیابیاں تو حاصل کر لیتی ہے لیکن عرصہ ہو گیا وہ آئی سی سی کا کوئی ایونٹ اپنے نام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یاد رہے کہ انڈیا نے آخری بار آئی سی سی کا کوئی ایونٹ سنہ 2013 میں چیمپیئنز ٹرافی کی شکل میں جیتا تھا اور انڈین فینز اب اس انتظار میں ہیں کہ کیا یہ جمود اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ٹوٹ پائے گا؟
https://www.bbc.com/urdu/world-63365062
پاکستان انڈیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ: قصور محمد نواز کا نہیں تھا، سمیع چوہدری کا کالم
کرکٹ میں وننگ کمبینیشن بہت اہمیت کا حامل ہے اور بڑے ایونٹس میں ٹیمیں اسے چھیڑنے سے گریز کرتی ہیں۔ مگر ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بعض اوقات یہ کمبینشن الٹے بھی پڑ جاتے ہیں اور گیارہ کھلاڑی اپنے اپنے حصے کی بہترین کاوش کے بعد بھی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ جیسے ٹی ٹونٹی میں بیٹنگ آرڈر کبھی حتمی نہیں ہو سکتا اور ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کرنے والے کپتانوں کے لیے کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ویسے ہی بہترین ٹیمیں کنڈیشنز کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایک آدھ تبدیلی کی گنجائش بھی رکھتی ہیں۔ پاکستان نے کئی ایک تجربات کے بعد اپنی بہترین الیون کی شکل نکالی ہے جو مسابقتی سطح کی دشوار گزار کرکٹ سے نبرد آزما ہونے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ کرکٹ میں جب کوئی ٹیم اپنی بہترین الیون دریافت کرے تو پھر تھنک ٹینک بسا اوقات زمینی حقائق کو درخورِ اعتنا نہیں جانتے اور ہمہ قسمی کنڈیشنز میں اپنے ثابت شدہ فارمولے پہ سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ مگر میلبرن کی یہ پچ اس امر کی متقاضی تھی کہ بہترین الیون میں سپن کی نسبت پیس کا پلڑا بھاری ہوتا۔ جیسا باؤنس اس وکٹ میں تھا، حق تو یہ تھا کہ پاکستان جیسی ذرخیز پیس بیٹری رکھنے والی ٹیم چار پیسرز کے ساتھ میدان میں اترتی۔ جس پچ پہ ارشدیپ سنگھ اور بھونیشور کمار نئے گیند کے ساتھ ایک معمہ بنے ہوئے تھے، وہاں اگر محمد حسنین بھی حارث رؤف، نسیم شاہ اور شاہین شاہ کے ہمرکاب ہوتے تو بھارتی مڈل آرڈر پہ بھلا کیا گزرتی؟ اور اگر بیچ میں سپنرز کے چھ اوورز سانس لینے کی جگہ نہ دیتے تو کیا کوہلی اور پانڈیا آخر تک ایسے ہی اپنے حواس مجتمع رکھ پاتے؟ روہت شرما کی خوش بختی رہی کہ ٹاس جیت گئے اور پچ کے تازہ ترین باؤنس کا بھرپور استعمال کیا۔ انڈین بولنگ کی پلاننگ بھی عمدہ تھی کہ دونوں پاکستانی اوپنرز پہ بھرپور ریسرچ کا اہتمام کیا اور یقینی بنایا کہ دونوں بلے باز پاور پلے کے بعد پاکستانی اننگز کا حصہ نہ رہیں۔ میلبرن کی پچ پہ جیسی تباہ کن بولنگ انڈین پیسرز نے پاور پلے میں کی، پاکستان بالکل پچھلے قدموں پہ جاتا نظر آیا اور اگر شان مسعود ایک کنارہ نہ سنبھالتے تو حالات نہایت دگرگوں ہو سکتے تھے مگر افتخار نے پچ کے مزاج سے جو موافقت پائی، اس نے شان کا بوجھ بھی خاصا کم کر دیا۔ یہ پچ پیسرز کی جنت تھی اور فرق صرف سپن کے اوورز سے پڑنا تھا۔ شرما نے چار پیسرز استعمال کئے اور پانڈیا جیسے بہترین آل راؤنڈر کی موجودگی سے انھیں یہ سہولت بھی میسر ہے کہ وہ دو سپنرز کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ سو، جونہی سپن کے اوورز مہنگے پڑنے لگے تو وہ فورا پیسرز کو اٹیک میں واپس لائے اور مڈل اوورز میں پاکستانی بیٹنگ کے سبھی پلان ملیا میٹ کر دیے۔ بابر اعظم کو مگر ایسی کوئی سہولت دستیاب نہ تھی۔ مصباح الحق اور وقار یونس کی مینیجمنٹ نے بہت محنت کر کے فہیم اشرف کی شکل میں ایک ایسا فاسٹ بولنگ آل راؤنڈر تیار کیا تھا جو کسی بھی فارمیٹ میں کنجوسی سے اپنا کوٹہ پورا کر سکتا تھا۔ مگر ثقلین مشتاق کے تھنک ٹینک نے پراسرار وجوہ کے سبب، فہیم اشرف پہ سرمایہ کاری ترک کر دی اور یہ بھی نہ سوچا کہ آسٹریلیا میں چوتھے پیسر کی ضرورت کیونکر پوری کریں گے۔ یہ بھی پڑھیے نواز کے آخری اوور میں نو بال اور فری ہٹ پر بحث: ’اس پر نظرثانی ہونی چاہیے‘ میلبرن میں انڈیا اور پاکستان کا ٹاکرا آج، لاہور کے بابر اور دلی کے وراٹ توجہ کا مرکز جب انڈیا اور پاکستان کے کھلاڑیوں نے جنگ کے دوران کرکٹ کھیلی بہرحال اس فیصلے کے بعد بھی پاکستان کا بولنگ اٹیک ہر لحاظ سے بہترین رہا ہے اور اس نے مختلف کنڈیشنز میں بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ لیکن میلبرن کی کنڈیشنز کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے پاس بھرپور گنجائش تھی کہ شاداب اور نواز کی بیٹنگ صلاحیتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آصف علی اور حیدر علی میں سے کسی ایک کو آرام دے کر چوتھے پیسر کو الیون کا حصہ بنایا جاتا۔ جب سرفراز احمد کو کہیں ایسے گھمسان کا سامنا ہوا کرتا تھا تو ان کے پاس بھرپور سہولت میسر ہوتی تھی کہ اپنے سات بولنگ آپشنز کو گھما پھرا کر اپنے کمزور بولر کا کوٹہ بچا جائیں۔ مگر بابر کو یہاں میلبرن میں ایسی کوئی سہولت میسر نہ تھی کیونکہ وہ اپنے ساتھ پیس کے محض بارہ اوورز ہی لائے تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان نے شاندار کرکٹ کھیلی اور ٹاپ آرڈر کے انہدام کے بعد بہترین کاؤنٹر اٹیک کیا۔ جہاں مڈل اوورز میں اچانک وکٹیں لڑکھڑائیں، وہاں لوئر آرڈر کی کاوش کام آئی اور ایک قابلِ قدر مجموعہ تشکیل دیا گیا۔ پاور پلے کی تباہ کن بولنگ اور شاداب کے سپیل نے انڈین اننگز کے دو تہائی حصے تک یہ میچ پاکستان کی جیب میں رکھا۔ مگر پھر بابر اعظم کے بولنگ وسائل آڑے آئے اور وراٹ کوہلی یہ میچ ان کی جیب سے لے اڑے۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63363445
پاکستان بمقابلہ انڈیا: محمد نواز کے آخری اوور میں نو بال اور فری ہٹ پر بحث: ’اس پر نظرثانی ہونی چاہیے‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس کانٹے کے مقابلے میں یوں تو کوہلی کی ناقابل شکست اننگز نے روہت شرما الیون کو چار وکٹوں سے فتح دلا دی ہے مگر بعض پاکستانی فینز اب بھی آخری اوور میں امپائرز کے کچھ فیصلوں پر ناخوش نظر آ رہے ہیں۔ انڈیا کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان نے 160 رنز کا ہدف دیا۔ اوپنرز کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کی وکٹیں گِرنے کے بعد پاکستانی بیٹنگ مشکل میں تھی مگر شان مسعود اور افتخار احمد کی نصف سنچریوں نے اننگز کو سہارا دیا۔ دوسری طرف پاکستانی پیس اٹیک نے آغاز میں ہی انڈیا کی وکٹیں حاصل کر کے انھیں بیک فٹ پر ڈال دیا۔ چار وکٹوں کے نقصان کے بعد کوہلی اور پانڈیا کے درمیان 113 رنز کی شراکت قائم ہوئی جس نے میچ کو آخری اوور میں داخل کروا دیا۔ وکٹوں کی تلاش میں بابر اعظم اپنے تمام فاسٹ بولرز کو استعمال کر چکے تھے اور اسی وجہ سے آخری اوور میں 16 رنز بچانے کے لیے گیند محمد نواز کو دی گئی۔ نواز کو چھ گیندیں کرا کر 16 رنز بچانا تھے اور ان کے سامنے 113 رنز کی شراکت پر کوہلی اور پانڈیا موجود تھے۔ پہلی گیند پر انھوں نے پانڈیا کو کیچ آؤٹ کیا۔ یہ کیچ بابر اعظم نے پکڑا اور جیت کو قریب دیکھ کر وہ پُرجوش ہوگئے۔ اب کریز پر دنیش کارتک آئے جنھیں ایک عمدہ فنشر مانا جاتا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے نئے رولز کے تحت دنیش کارتک کو ہی سٹرائیکر اینڈ پر آنا تھا۔ کارتک نے نواز کی پہلی گیند پر ایک رن بنایا اور اگلی گیند پر کوہلی نے دو رنز بنا لیے۔ مگر میچ کا رُخ تب بدلا جب چوتھی گیند کو کوہلی نے باؤنڈری پار چھکا لگا دیا۔ یہ فُل ٹاس تھا اور امپائر نے اسے ویسٹ ہائٹ نو بال قرار دیتے ہوئے فری ہٹ کا اشارہ کیا۔ بابر اعظم اس فیصلے سے انتہائی ناخوش نظر آئے۔ زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے نواز نے وائیڈ کرا دی اور اب انڈیا کو تین گیندوں پر صرف چھ رنز درکار تھے۔ نواز نے فری ہٹ کی گیند پر کوہلی کو بولڈ کر دیا۔ گیند پیچھے کی باؤنڈری کی جانب گئی اور انڈین بیٹرز نے تین رنز بھاگ لیے۔ امپائر نے اسے بائیز کے رن قرار دیا۔ پانچویں گیند پر کارتک کو رضوان نے رن آؤٹ کیا۔ ایشون کی آمد پر نواز نے ایک مزید وائیڈ کرائی، پھر ایشون نے آخری گیند پر چوکا لگا کر انڈیا کو جیت دلائی۔ مگر آخری اوور تک جانے والے اس میچ نے پاکستانی شائقین کو زیادہ مایوس نہیں کیا کیونکہ ان کی ٹیم نے بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ٹوئٹر پر یہ بحث بہت شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا نواز کی چوتھی گیند نو بال تھی یا نہیں کیونکہ یہ میچ کا انتہائی موڑ تھا۔ سابق آسٹریلوی کرکٹر اور کمنٹیٹر بریڈ ہوگ نے اس نو بال کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس نو بال کو (پاکستان نے) ریویو کیوں نہیں کیا۔ کوہلی فری ہٹ پر بولڈ ہوئے تو اسے ڈیڈ بال (یعنی وہ گیند جس پر کوئی رن نہیں مانا جاتا) کیوں نہیں کہا گیا؟‘ یہ بھی پڑھیے حارث رؤف، راولپنڈی کی موبائل شاپ سے میلبرن کے کرکٹ گراؤنڈ تک جب انڈیا اور پاکستان کے کھلاڑیوں نے جنگ کے دوران کرکٹ کھیلی وہ حکمتِ عملی جو مداحوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے قریب لے آئی کرکٹر ایمن انور کہتی ہیں کہ ’نو بال، فری ہٹ، بولڈ، تین رن۔۔۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انگلینڈ سب سے زیادہ باؤنڈریوں کی مدد سے ورلڈ کپ جیتا۔ کبھی کبھار جنٹلمین گیم کے اصول بہت سخت ہوتے ہیں۔‘ انیرودھا گوہا کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ فائنل اوور کا احوال سلیم جاوید نے لکھا ہے۔‘ رے نامی صارف کا سوال ہے کہ ورات کوہلی کریز سے باہر تھے اور گیند ویسٹ ہائٹ پر تھی۔ بولر بھی سپنر تھا۔۔۔ یہ غلط نو بال تھی اور اگلی گیند پر ورات کلین بولڈ ہوگئے۔ اگر وہ فری ہٹ پر آؤٹ نہیں ہوئے تو اسے ڈاٹ بال ہونا چاہیے تھا۔‘ ڈاکٹر نعمان نیاز نے کرکٹ کے قوانین شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اگر بلے باز فری ہٹ پر کیچ آؤٹ ہوجائے تو وہ رنز بھاگ سکتے ہیں اور سکور ان کے ٹوٹل میں شامل کیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ ایج پر بولڈ ہوجائیں تو وہ بھاگ کر رن لے سکتے ہیں اور رنز ان کے ٹوٹل میں شامل کیے جاتے ہیں۔ ’لیکن اگر وہ بغیر ایج کے بولڈ ہوجائیں تو وہ بھاگ کر رنز لے سکتے ہیں اور اسے ایکسٹراز (بائیز) میں شمار کیا جاتا ہے۔‘ اسی طرح ونکت کہتے ہیں کہ ’اگر فری ہٹ پر وکٹ گِرے تو اسے ڈیڈ بال نہیں کہا جاسکتا۔ لگتا ہے بریڈ ہاگ نے اصول نہیں پڑھے۔‘ کرکٹ میگزین کے ہوو ٹربرول کہتے ہیں کہ ’اس اوور پر کئی برسوں تک بات کی جائے گی۔ میری رائے میں اگر آپ فری ہٹ پر بولڈ ہوجائیں تو آپ کو رنز لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ صدیق کہتے ہیں کہ اس اصول پر آئی سی سی کو نظرثانی کرنی چاہیے۔ نیوزی لینڈ کے کرکٹر جمی نیشام طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ’لا کہتا ہے کہ اگر آپ الٹی کلا بازی کریں تو آپ کو 10 رنز اور فری ہٹ ملتا ہے۔ انھوں نے تجویز دی ہے کہ تمام کھلاڑیوں کی ٹورنامنٹ سے پہلے لمبائی دیکھ لینی چاہیے اور ہاک آئی کی مدد سے فُل ٹاس پر نو بال کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ پیٹر پینا کہتے ہیں کہ ’ڈی کے (دنیش کارتک) فری فٹ پر کریز سے باہر تھے جب انھوں نے بھاگ کر تین رنز بنائے۔‘ ایک انڈین صارف نے شعیب اختر کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں انھوں نے فری ہٹ پر بلے باز کو بولڈ کیا اور انھوں نے بھاگ کر رن بنایا۔ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام بعد ازاں ایک ٹاک شو کے دوران نو بال کے تنازع کے حوالے سے پاکستانی فاسٹ بولر وقار یونس کا کہنا تھا کہ ’گیند ڈپ کر رہا تھا۔ امپائر نے گیند بلے پر لگنے کے فوراً ساتھ نو بال کا اشارہ نہیں دیا۔‘ خیال رہے کہ کرکٹ کے قوانین کے مطابق اگر بولر کی کوئی گیند ویسٹ ہائٹ سے اوپر ہے تو امپائر اسے نو بال قرار دیتا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63363022
پاکستان بمقابلہ انڈیا: شائقین کیا سوچ رہے ہیں؟
ٹی 20 ورلڈ کپ کا میدان سج چکا ہے، پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیموں کا آمنا سامنا ہونے والا ہے اور تیاریاں زوروں پر ہیں۔ ایسے میں دونوں ممالک کے شائقین کیا سوچ رہے ہیں، جانیے ہماری اس ویڈیو میں۔۔۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63362755
پاکستان بمقابلہ انڈیا: انڈین ٹی وی اشتہارات جن میں ’پاکستان کے ہاتھوں شکست بھلائے نہیں بھولتی‘
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کا میچ ہو اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کی دھوم نہ ہو یہ ناممکن ہے۔ اگرچہ دونوں ٹیموں کے مابین مقابلوں کے ریکارڈ میں مجموعی طور پر پاکستان کا پلڑا بھاری رہا ہے لیکن ورلڈ کپ ایک ایسا ایونٹ رہا ہے، جس میں انڈیا کی جیت کا تناسب زیادہ ہے۔ بہرحال گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی انڈیا کے خلاف دس وکٹوں سے جیت نے پاکستان کے کرکٹ فینز کے لیے گویا کایا ہی پلٹ دی۔ اس کے بعد بھی دونوں ٹیموں کے درمیان ایشیا کپ کے دو مقابلے ہوئے جن میں سے ایک میچ میں انڈیا کو کامیابی ملی تو دوسرے میں پاکستان نے فتح حاصل کی۔ آج پاکستان اور انڈیا کے درمیان آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں میچ ہے اور پورے برصغیر کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے کرکٹ شائقین اس عظیم ترین مقابلے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کرکٹ مقابلوں میں آپ کو ’موقع موقع‘ والے اشتہار اور میمز تو یقیناً یاد ہوں گے اور اب جب آسٹریلیا میں کرکٹ ورلڈ کپ میں دونوں ٹیمیں ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں ایسے میں انڈین ٹی وی چینلز پر دو اشتہار بار بار دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ اشتہارات یوٹیوب پر بھی دستیاب ہیں۔ ان میں سے ایک اشتہار میں گذشتہ برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں دس وکٹوں سے شکست کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک بچہ ٹیم انڈیا کو پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے: ’ہیلو ٹیم انڈیا! میں شرما جی کا بیٹا۔۔۔ اور یہ ہے دردنا پور۔ ہمارے پاس نام میں درد ہے لائف میں نہیں۔‘ اس کے بعد اشتہار میں ایسے کئی مناظر دکھائے جاتے ہیں جن میں پہلوان نما افراد کو سخت جسمانی تکلیف پہنچنے پر بھی درد نہیں ہوتا اور پھر انڈیا کی فتح کا منظر دکھایا گیا ہے جبکہ بچہ کہتا ہے کہ ’ہم اپنی جیت کا جشن پوری جان سے مناتے ہیں۔‘ اس کے بعد منظر میں بہت سے پہلوان ایک جگہ بیٹھے زارو قطار رو رہے ہیں اور پیچھے ٹی وی پر بابر اعظم کا جشن اور انڈین ٹیم افسردہ ہو کر میدان سے نکلتی نظر آتی ہے جبکہ پس منظر میں کمنٹیٹر کی آواز سنائی دیتی ہے کہ ’پاکستان نے تاریخ رقم کر دی۔۔۔‘ اس کے بعد ویڈیو میں نظر آنے والا بچہ ٹیم انڈیا کو مخاطب ہو کر کہتا ہے ’دل سے درخواست ہے، اس بار جیت کر بھلا دو پچھلی ہار اور ختم کرو انتظار‘ جبکہ آخر میں ’دردناپور‘ قصبے کے لوگ انڈین ٹیم کا جشن مناتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر انڈیا اور پاکستان کے میچ کی تاریخ 23 اکتوبر کے ساتھ ہیش ٹیگ ’سب سے بڑا ٹاکرا‘ لکھا نظر آتا ہے۔ اسی طرح سے ایک اور ٹی وی اشتہار بھی شائقین کو ہار جیت کے خمار میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ جس کی شروعات ریگستان میں ایک بزرگ شخص سے ہوتی ہے جو کسی چیز کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے اور پھر وہ اپنے بیگ سے ایک شیشہ نما تراشہ نکالتا ہے جیسے کوئی سراغ ڈھونڈ رہا ہو اور پس منظر سے آواز آتی ہے کہ ’بے صبری کسے کہتے ہیں یہ کوئی ہم سے پوچھے۔‘ پھر اسی صحرا میں ایک ٹی وی رکھا نظر آتا ہے جس پر کچھ لوگ میچ دیکھ رہے ہیں اور پھر ایک راویتی راجستھانی بوڑھی ماں کا مسکراتا چہرہ ابھرتا ہے اور ساتھ ہی بیک گراؤنڈ سے ایک آواز کہ ’زمانے بیت گئے، جیت کے وہ نظارے نہیں ملے‘ اور پھر زمین پر کسی بادل کا سایہ اتر آتا ہے۔‘ پھر منظر بدلتا ہے اور ایک ماں اپنے بچے کو آسمان میں ستارے دکھا رہی ہے جبکہ بیک گراؤنڈ سے آواز ابھرتی ہے ’آنکھیں ترس گئیں، آسمان میں نئے ستارے نہیں ملے، ایک اشارے سے جھوم گئے تھے، پر (لیکن) 15 سال ہو گئے یار، وہ اشارے بھی نہیں ملے، دن مہینے، موسم، بدل گئے ہیں کئی سال، اب لے آؤ یار، بہت ہوا انتظار۔‘ یہ بھی پڑھیے میلبرن گراؤنڈ کے کیوریٹر بھی انڈیا پاکستان میچ کے لیے پُرجوش پاکستان انڈیا میچ اور ’موقع موقع‘: ’کوئی چانس نہیں بھائی، ہماری ٹیم بہت مضبوط ہے‘ پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: کیا ʹموقع موقعʹ کے بعد اب بات ʹبدلہ بدلہʹ کی ہے؟ اس سب کے درمیان بھیڑ میں ایک لڑکے کو دکھایا جاتا ہے جس کی جرسی کے پشت پر 18 لکھا ہے اور پھر معروف انڈین کرکٹر وراٹ کوہلی نظر آتے ہیں جو کہ ایک گیراج میں کھڑے ایک پرانے ٹرک کو لوگوں کے ساتھ مل کر دھوتے ہیں، اس کے کل پرزے درست کرتے ہیں، انجن سٹارٹ کرتے ہیں اور اس ٹرک پر لکھا جاتا ہے ’وجے رتھ‘ یعنی ’فتح کا رتھ۔‘ یہ اشتہار اگرچہ انڈین ناظرین کو ورلڈکپ کے میچوں کے لیے راغب کرنے کی کوشش ہیں لیکن اس میں یہ بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ انڈیا کو ورلڈ کپ جیتے بہت عرصہ ہو گیا اور یہ کہ ’پاکستان کے ہاتھوں شکست بھلائے نہیں بھولتی‘ ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آج انڈیا میں دیوالی کا تہوار منایا جا رہا ہے جس میں ملک بھر میں چراغاں اور آتشبازی کا ایک شور بپا رہتا ہے لیکن آتشبازی تو انڈیا پاکستان کے میچ کے بعد بھی ہوتی ہے اب یہ چند گھنٹوں میں طے ہو جائے گا کہ اصل آتشبازی کہاں ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63357489
پاکستان بمقابلہ انڈیا: حارث رؤف، جو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے لیے اجنبی نہیں
پاکستان کی کرکٹ ٹیم آج جب انڈیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں اُترے گی تو اس کے ایک کھلاڑی کے لیے ماحول کسی طور بھی اجنبی نہیں ہو گا اور یہ کھلاڑی فاسٹ بولر حارث رؤف ہوں گے۔ حارث رؤف کے لیے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ ایک لحاظ سے ہوم گراؤنڈ کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آسٹریلوی بگ بیش میں میلبرن سٹارز کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم سے یہ سوال کیا گیا کہ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ حارث رؤف کا ہوم گراؤنڈ ہے تو اس کا پاکستانی ٹیم کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس پر بابر اعظم کا جواب تھا کہ حارث رؤف کو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کی کنڈیشنز کے بارے میں کافی باتیں معلوم ہیں اور انھوں نے ہمیں کافی معلومات فراہم کی ہیں جس کا ہمیں بہت فائدہ ہو گا۔ بابر اعظم حارث رؤف کی حالیہ کارکردگی سے بہت خوش بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حارث رؤف اپنی بولنگ میں غیر معمولی بہتری لائے ہیں خاص کر شاہین شاہ آفریدی کی غیر موجودگی میں انھوں نے بہت عمدہ بولنگ کی اور شاہین آفریدی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں حارث کی بولنگ ہمارے لیے بہت اہم ہو گی۔ حارث رؤف نے آسٹریلوی بگ بیش میں تین سیزن کھیلے ہیں جن میں انھوں نے 18 میچوں میں 30 وکٹیں حاصل کی ہیں، جن میں سب سے بہترین بولنگ میں 27 رنز دے کر پانچ وکٹیں شامل ہیں۔ حارث رؤف کی بولنگ کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے ان 30 میں سے 11 وکٹیں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں حاصل کی تھیں جن میں سڈنی تھنڈرز کے خلاف ہیٹ ٹرک بھی شامل تھی۔ حارث رؤف پاکستان کی طرف سے اب تک 50 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیل چکے ہیں جن میں انھوں نے 64 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حارث رؤف نے جب سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی ابتدا کی ہے اس کے بعد سے کوئی بھی دوسرا بولر ان سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل وکٹیں حاصل نہیں کر سکا۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن اور انڈین شائقین کی دلچسپی: ’سب سے زیادہ خطرہ نسیم شاہ سے ہو گا‘ ’یہ تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے‘: پاکستان، انڈیا میچ میں بارش کا ڈر اور روہت شرما کی امید یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم حارث رؤف کا کریئر کرکٹ سے ان کے جنون اور انتھک محنت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے کھلاڑی کی کہانی ہے جو صرف ٹیپ بال کھیلا کرتا تھا اور راولپنڈی کی ایک موبائل شاپ میں کام کرتا تھا لیکن موبائل کی بیٹری سے یہ سفر اب پاکستانی کرکٹ ٹیم کی پیس بیٹری کے ایک اہم ترین بولر کا روپ دھار چکا ہے۔ حارث رؤف لاہور قلندرز کی پراڈکٹ ہیں جو گوجرانوالہ کے ٹرائلز میں لاہور قلندرز کی انتظامیہ اور کوچ عاقب جاوید کی نظروں میں آئے۔ انھیں آسٹریلیا کلب کرکٹ کھیلنے کے لیے بھیجا گیا اس کے بعد وہ پاکستان سپر لیگ کا حصہ بنے اور پھر آسٹریلوی بگ بیش میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور اب وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے چند اہم کھلاڑیوں کے طور پر آسٹریلیا میں موجود ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63361715
آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ: میلبرن کے دو اہم کردار وراٹ کوہلی اور بابر اعظم مداحوں کے دل جیت سکیں گے؟
آج اتوار کے روز انڈیا اور پاکستان آئی سی سی ٹی 20 عالمی کپ کے اپنے پہلے میچ میں ایک لاکھ تماشائیوں کی گنجائش والے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گے۔ ان دونوں ٹیموں کے کے درمیان ہونے والے میچ دو کرداروں کے ارگرد گھومتی کسی بالی ووڈ فلم کی طرح ہے جس کا اختتام، دلچسپ، ٹریجک اور پریشان کُن ہو سکتا ہے لیکن اس بار کا سکرپٹ ذرا الگ سا نظر آتا ہے۔ گذشتہ برس 24 اکتوبر کو دبئی میں انڈیا کے خلاف پاکستان کی دس وکٹ سے فتح نے کہانی میں نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ دونوں طرف کے کھلاڑی تناؤ میں نہیں۔ گراؤنڈ پر ان کی یار، دوست جیسی بات چیت سکون دینے والی ہے۔ تناؤ بڑھانے میں آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کرنے والے سابق کرکٹرز بھی قدرے خاموش ہیں۔ سنیل گاؤسکر کا بابر اعظم کی سالگرہ میں شامل ہونا فضا کو بہتر بناتا ہے۔ اس سارے پس منظر میں اس میچ کا رتبہ کہیں زیادہ بڑا ہے۔ اس کی وجہ وراٹ کوہلی اور بابر اعظم جیسے دو کرداروں کی موجودگی ہے بشرطیکہ بارش شو کو خراب نہ کر دے۔ وراٹ کوہلی کا یہ خراب دور ہے۔ کپتانی جانے کے بعد وہ پہلی بار کسی بڑے ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ پاکستان کے خلاف وراٹ کے نو میچوں میں 341 گیندوں پر 119 کے سٹرائک ریٹ سے 406 رن ہیں۔ ان میں چار نصف سنچریاں بھی شامل ہیں ۔ واضح رہے کہ پاکستان کی جیت اور ہار کے درمیان بُرے دور کا سامنا کرنے والے وراٹ کوہلی ایک اہم کھلاڑی ہوں گے۔ پاکستان کے خلاف اکیلے اپنے دم پر میچ جیتنا ان کے پرانے ’چارم‘ اور رتبے کو بحال کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ اگر انڈین ٹیم ٹورنمامنٹ میں کامیاب ہوتی ہے اور اس میں وراٹ کا اہم رول ہوتا ہے تو اس بات پر بھی بحث تھم جائے گی کہ ان کا ٹی-20 کریئر کتنا اور چلے گا۔ سنہ 2009 سے اب تک وراٹ نے آٹھ ون ڈے ، دو ٹی -20 ایک ٹسٹ میچ فائنل کھیلا ہے۔ سنہ 2013 کے عالمی ٹی-20 میں سری لنکا کے خلاف ان کے 77 رنز کے سکور کو چھوڑ کر وہ سبھی مین ناکام رہے ہیں۔ ویسے بھی عمر کے لحاظ سے یہ ٹورنامنٹ ان کا آخری عالمی کپ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایک بہترین کرکٹر کے طور پر اپنے رتبے اور اپنی برینڈ ویلیو کو بچائے رکھنے کے لیے وراٹ کو اپنے بلے کو دلی کے آٹو رکشہ کے میٹر سے بھی تیز چلانا ہو گا۔ دوسری جانب بابر اعظم ہیں۔ کسی فلم کے ایسے سائڈ ہیرو کی طرح جو کبھی بھی آسکر حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لاہور کے اس بیٹسمین نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر دوسرے سرے پر انھیں رضوان جیسا کھلاڑی میسر آ جائے تو وہ کسی بھی ٹیم کے خلاف میچ جتوا سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستانی سپورٹس میڈیا کا ایک طبقہ بظاہر ان سے خوش نہیں ہے۔ اسے لگتا ہے کہ سکور بنانے میں بابر زیادہ گیند خرچ کرتے ہیں اور وہ آئی سی سی ٹرافی جتوانے میں ان کی صلاحیت پر شک کرتے ہیں۔ لیکن بھروسے مند بابر رنز کا ایک ایسا چیک ہے جو صرف سپیلنگ یا تاریخ غلط ہونے پر ہی باؤنس ہو سکتا ہے۔ بابر کی عمدہ فارم سے وراٹ کو ترغیب ملنی چاہیے۔ ایشیا کپ میں شاہین آفریدی کا باؤنڈری پرملاقات کے دوران وراٹ سے یہ کہنا کہ ’بھائی جان آپ کے لیے دعائیں کر رہے ہیں کہ آپ واپس فارم میں آئیں‘ اس بات کا عکاس ہے کہ دلی کے اس بیٹسمین کو پاکستان میں بھی مقبولیت حاصل ہے۔ انڈیا میں بھی بابر کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ میچ اور ٹورنامنٹ بابر اور وراٹ کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہاں انھیں خود کو دنیا کا سب سے عمدہ بلے باز ثابت کرنے کا موقع ملے گا۔ اس نسل کے کھلاڑیوں میں جو روٹ کو چھوڑ دیں تو کین ولیمسن اور سٹیو سمتھ بھی وراٹ کی طرح خراب فارم سے گزر رہے ہیں۔ بابر اس میں ٹاپ پر ہیں۔ ٹورنامنٹ مین دو بڑے میچ ایک بار پھر ان دونوں کو ٹاپ کا درجہ حاصل کرنے کی جد وجہد کی طرف لے جائیں گے۔ ٹیم انڈیا کے اعداد و شمار اگر دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس کے ٹاپ کے پانچ بلے باز ہی پورے میچ کو سنبھالتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل انڈیا میں ’کوہلی کو گرفتار کرو‘ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟ ’یہ تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے‘: پاکستان، انڈیا میچ میں بارش کا ڈر اور روہت شرما کی امید پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن اور انڈین شائقین کی دلچسپی: ’سب سے زیادہ خطرہ نسیم شاہ سے ہو گا‘ گذشتہ دو برس میں فائیو ڈاؤن سے نیچے کے بییٹسمین کو میچ میں رن بنانے کے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ جب کبھی ایسے حالات سامنے آئے تو ٹیم تاش کے پتوں کی طرح ڈھے گئی۔ جسپریت بومرا زخمی ہونے کے سبب ٹورنامنٹ سے باہر ہیں۔ ابتدائی دو اوورز میں ٹاپ آرڈر کی وکٹ حاصل کرنے کی بومرا کی صلاحیت انڈیا کے میچ جیتنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ انڈین ٹیم کو بومرا کے بغیر میج جیتنے کا ہنر ابھی سیکھنا باقی ہے۔ ان کی جگہ محمد شامی پر داؤ لگایا گیا ہے جو اس ٹونامنٹ کے لیے کسی بھی سکیم کا حصہ نہیں تھے۔ یہ مجبوری انڈین ٹیم کی طاقت بنتی ہے یا کمزوری یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63357487
پاکستان بمقابلہ انڈیا: میلبرن گراؤنڈ کے کیوریٹر بھی انڈیا پاکستان میچ کے لیے پُرجوش
مائیکل سلواٹور کو میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کی مٹی اور گھاس سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی بھی باغبان کو اپنے باغ سے اور کسان کو اپنے کھیت سے ہوتا ہے۔ مائیکل سلواٹور کا تعلق اٹلی سے ہے لیکن ان کے لیے اب سب کچھ آسٹریلیا ہے جس نے انھیں شناخت دی ہے۔ وہ میلبرن شہر کے تاریخی میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے کیوریٹرز سٹاف میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ذمے سب سے اہم کام ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں میلبرن میں ہونے والے میچوں کی پچ تیار کرنا ہے جن میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان اتوار کے روز ہونے والا میچ بھی شامل ہے۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں چونکہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ آسٹریلین فٹبال بھی کھیلی جاتی ہے لہٰذا کرکٹ میچوں کے لیے اس میدان میں ڈراپ ان پچ استعمال کی جاتی ہے۔ مائیکل سلواٹور کا کہنا ہے کہ ’جب کرکٹ سیزن آتا ہے تو ڈراپ ان پچ کو یہاں نصب کیا جاتا ہے۔ یہ ڈراپ ان پچ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے قریب واقع وکٹ نرسری سے تین ہفتے قبل لاکر یہاں نصب کر دی گئی تھی۔‘ مائیکل سلواٹور کہتے ہیں کہ جب کرکٹ سیزن ختم ہوتا ہے تو اس ڈراپ ان پچ کو یہاں سے نکال کر واپس وکٹ نرسری لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی خاص طور پر دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ مائیکل سلواٹور کہتے ہیں کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے سلسلے میں بہت زیادہ پُرجوش ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ صرف کرکٹ میچ نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے لوگوں کے جذبات اس کرکٹ سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم ’یہ تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے‘: پاکستان، انڈیا میچ میں بارش کا ڈر اور روہت شرما کی امید پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن اور انڈین شائقین کی دلچسپی: ’سب سے زیادہ خطرہ نسیم شاہ سے ہو گا‘ ان کا کہنا ہے کہ اتوار کے میچ کے تمام ٹکٹ فروخت ہوچکے ہیں اور پورا میلبرن کرکٹ گراؤنڈ تماشائیوں سے بھرا ہوگا اس لیے وہ یہ منظر دیکھنے کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں یہ ان کے لیے ایک منفرد تجربہ ہو گا۔ مائیکل سلواٹور اپنی نظروں کے سامنے نہ جانے کتنے کرکٹرز کو کھیلتا دیکھ چکے ہیں لیکن جب بات پاکستان اور انڈیا کے پسندیدہ کھلاڑیوں کی ہو رہی ہو تو وہ فوراً وسیم اکرم اور سوروگنگولی کے نام لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وسیم اکرم جیسا سوئنگ بولر انھوں نے نہیں دیکھا جبکہ سورو گنگولی کی فائٹنگ اسپرٹ نے انہیں ہمیشہ متاثر کیا۔ مائیکل سلواٹور نے کیوریٹر کی حیثیت سے آسٹریلیا کے مختلف گراؤنڈز میں ذمہ داریاں نبھانے کے بعد پندرہ سال قبل میلبرن کرکٹ گراؤنڈ سے ایسا تعلق قائم کیا جو آج تک برقرار ہے اس عرصے میں وہ ترقی پاکر ایگزیکٹیو منیجر آف ٹرف کے عہدے تک بھی پہنچے ہیں۔ ان کے ذمے تمام انٹرنیشنل میچوں کی پچ اور آؤٹ فیلڈ کی تیاری پر نظر رکھنا شامل ہے۔ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھانے پر انھیں ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63310178
پاکستان، بمقابلہ انڈیا: میچ کے دن بارش کا خطرہ جو انڈیا، پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی تجسس میں مبتلا کیے ہوئے ہے
پاکستان اور انڈیا کے درمیان اتوار (کل) کو میلبرن میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچ کو سب سے بڑا خطرہ بارش سے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اتوار کے روز میلبرن میں موسم کیسا ہو گا؟ اس بارے میں موسم کی پیشگوئی کرنے والی مختلف ویب سائٹس مختلف معلومات دے رہی ہیں۔ میلبرن میں موجود نمائندہ بی بی سی عبدالرشید شکور کے مطابق موسم سے متعلق آسٹریلیا کی سرکاری ویب سائٹ پر اتوار کے روز میلبرن میں بارش کا امکان 70 فیصد ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک اور ویب سائٹ ’ویدر ڈاٹ کام‘ کے مطابق اتوار کے روز علی الصبح بارش کا امکان 40 فیصد ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق ہر گھنٹے کی صورتحال کے مطابق شام پانچ بجے 39 فیصد بارش کا امکان ہے جو شام سات بجے (جب شیڈول کے مطابق میچ شروع ہو گا) 37 فیصد تک ہو گا۔ تاہم رات دس بجے تک بارش کا امکان کم ہو کر 18 فیصد رہ جائے گا۔ بارش کے امکان نے نہ صرف شائقین کو تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ کھلاڑی بھی اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے ہم بچوں کو لوری نہیں سُنا رہے ہیں، موسم ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بابر اعظم کا کہنا تھا کہ صورتحال کے مطابق ہم اس میچ کے لیے تیار ہیں۔ ہفتے کے روز انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما سے جب یہ سوال کیا گیا کہ بارش اس میچ کو کتنا متاثر کر سکتی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ اوپر والے کے ہاتھ میں ہے' لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ میچ نہ صرف ہو بلکہ پورے چالیس اوورز کا ہو کیونکہ شائقین نے پورے میچ کا ٹکٹ لے رکھا ہے وہ پورا میچ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر بارش کی وجہ سے یہ میچ پانچ آٹھ یا دس اوورز تک محدود ہوجائے تو سب کے لیے مایوس کن بات ہوتی ہے۔‘ روہت شرما کا کہنا ہے کہ کھلاڑی بھی مکمل میچ کھیلنا چاہتے ہیں کیونکہ مقابلہ پورے چالیس اوورز کے میچ میں ہی نظر آتا ہے لیکن اگر یہ میچ کم اوورز کا ہوا تب بھی کھلاڑیوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ پاکستان اور انڈیا کا میچ برِصغیر پاک و ہند کی ڈیڑھ ارب آبادی سمیت دنیا بھر میں رہنے والے ان ممالک کے افراد اور دوسری اقوام کے کرکٹ شائقین کے لیے بھی بہت دلچسپی کا حامل ہوتا ہے کیونکہ روایتی حریفوں کے درمیان یہ کھیل کھیل نہیں بلکہ جنگ کا سماں پیدا کرنے لگتا ہے۔ اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان میچز کے درمیان بارش ہو گئی تو پھر کھیل کا کیا بنے گا؟ آئی سی سی قوانین کے مطابق اگر بارش کی وجہ سے میچ بالکل بھی نہ ہو سکا تو دونوں ہی ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا جائے گا۔ گروپ میچز کے لیے کوئی ایسا ریزرو ڈے نہیں رکھا گیا جس دن بارش سے متاثر ہونے والا میچ دوبارہ منعقد کر دیا جائے، تاہم یہ سہولت سیمی فائنلز اور فائنل مقابلوں کے لیے رکھی گئی ہے۔ تاہم اگر میچ ہو گیا اور کوئی ایک ٹیم جیت گئی تو جیتنے والی ٹیم کو دو پوائنٹس ملیں گے اور ہارنے والی ٹیم کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ یہ بھی پڑھیے یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم ’پرفارمنس ایسی ہو کہ رات کو آرام سے نیند آئے‘ پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن اور انڈین شائقین کی دلچسپی: ’سب سے زیادہ خطرہ نسیم شاہ سے ہو گا‘ آئی سی سی قوانین کے مطابق اگر ایک ٹیم نے مکمل بیٹنگ کر لی تو دوسری ٹیم کو کم از کم پانچ اوورز کھیلنے ہوں گے تبھی ڈک ورتھ لوئس قواعد کے ذریعے فاتح ٹیم کا تعین ہو گا۔ ڈک ورتھ لوئس میتھڈ ایک ریاضیاتی فارمولا ہے جس کے ذریعے بارش یا خراب لائٹنگ کی وجہ سے متاثر ہونے والے اوورز کا ازالہ کر کے دوسری اننگز کھیلنے والی ٹیم کے لیے ہدف کا دوبارہ تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے جن چیزوں کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے وہ یہ کہ کتنے اوورز کا نقصان ہوا ہے اور یہ کہ دوسری ٹیم کے پاس کتنی وکٹیں دستیاب ہیں۔ اس کی بنا پر دوسری بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے لیے ہدف گھٹ بھی سکتا ہے اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ تاہم اگر پانچ اوورز بھی نہیں کھیلے گئے تو ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کا اطلاق نہیں ہو گا اور یہ میچ ’واش آؤٹ‘ قرار پائے گا، نتیجتاً دونوں ٹیموں کے درمیان پوائنٹس تقسیم ہو جائیں گے۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63352959
انڈیا بمقابلہ پاکستان: جب دو روایتی حریفوں نے جنگ کے دوران بھی کرکٹ کھیلی
انڈین کرکٹ بورڈ کے ایک حالیہ بیان کے بعد سنہ 2023 میں پاکستان میں ہونے والے ایشیا کپ میں انڈیا کی شمولیت پر شکوک کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں انڈیا سے آنے والے بیانات کے بعد پاکستانی کرکٹ بورڈ یہ عندیہ دے چکا ہے کہ ایسا کرنے سے بین الاقوامی کرکٹ متاثر ہو گی اور انڈیا میں منعقد ہونے والے 2023 ورلڈ کپ میں پاکستان کی شمولیت بھی اثر انداز ہو گی۔ ایشیا کپ کے حوالے سے بحث کا سلسلہ تو جاری ہے ہی مگر اتوار (کل) کو آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ سے قبل بی بی سی نے ماضی کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح دو حریفوں نے کرکٹ کے میدان میں جنگ کے دوران بھی اچھے تعلقات قائم رکھے۔ انڈین کھلاڑی سنیل گواسکر کو یاد ہے جب اُن کی ٹیم نے تقریباً چار ماہ تک ایک ایسے وقت میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ڈریسنگ روم شیئر کیا جب دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر جنگ ہو رہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اپنے ملکوں سے 7000 کلومیٹر دور، آسڑیلیا میں، دونوں ملکوں کے کھلاڑی ریسٹ آف ورلڈ ٹیم کا حصہ تھے۔ سنہ 1971 کی جنگ دسمبر کے مہینے میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ختم ہوئی تھی۔ اپنی آپ بیتی میں گواسکر نے لکھا کہ اس سب کے باوجود انڈین اور پاکستانی کھلاڑیوں کے درمیان کسی قسم کا تناؤ نہیں تھا۔ گیری سوبرز کی قیادت میں ریسٹ آف دی ورلڈ ٹیم میں 17 کھلاڑی شامل تھے جن میں سے چھ برصغیر سے تھے۔ گواسکر کے علاوہ بشن سنگھ بیدی اور فروخ انجینیئر انڈین کھلاڑی تھے جبکہ پاکستان کی نمائندگی ظہیر عباس، انتخاب عالم اور آصف محمود کر رہے تھے۔ اپنی کتاب ’سنی ڈیز‘ میں گواسکر لکھتے ہیں کہ ’ہم تقریباً ہر شام ایک پاکستانی ریستوران پر اکھٹے ہوتے تھے جس کا مالک خبریں سُن کر اُردو میں ایک کاغذ پر لکھ کر انتخاب عالم کو دے دیتا۔ انتخاب اس کاغذ پر نظر ڈالتے اور اسے پھینک دیتے تھے۔‘ میدان میں دوسرے بین الاقوامی کھلاڑی اِن روایتی حریفوں پر فقرے کستے رہتے تھے۔ ہلٹن ایکر مین، جو جنوبی افریقن بلے باز تھے اور گواسکر کے ساتھ اوپننگ کرتے تھے، اس صورت حال میں مزاحیہ چیزیں سوچتے تھے۔ ’ان میں سے ایک میں انتخاب عالم اور فروخ انجینیئر بندوق کی سنگینوں سے لڑ رہے ہوتے، میں جہاز اڑا رہا ہوتا اور آصف محمود میرا پیچھا کر رہا ہوتا جب کہ بشن اور ظہیر فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے۔‘ گواسکر لکھتے ہیں کہ ایکر مین کی ایسی سوچ پر ہم لطف اندوز ہوتے تھے۔ تاہم کچھ پریشانیاں ضرور تھیں۔ بشن سنگھ بیدی فروخ انجینیئر سے ناخوش تھے کہ انھوں نے ایک مقامی صحافی کو یہ بیان کیوں دیا کہ بمبئی میں سمندر کے قریب گھر ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کے لیے فکر مند ہیں اور یہ کہ وہ ان کو برطانیہ منتقل ہونے کا کہیں گے۔ اور خود بشن سنگھ بیدی جو صحافیوں سے بات نہیں کرتے تھے اس بات پریشان تھے کہ ان کا شہر امرتسر پاکستانی سرحد کے قریب تھا۔ گواسکر کی آپ بیتی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس جنگ کے دوران بھی دو ملکوں کے درمیان تنازعے نے کم از کم انڈیا اور پاکستان کے کھلاڑیوں کے تعلقات کو متاثر نہیں کیا۔ پاکستان نے آزادی کے بعد پانچ سال تک بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ سنہ 1952 میں پاکستان کی ٹیم نے انڈیا کا دورہ کیا جہاں ان کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ راما چندرا گوہا نے ’اِن اے کارنر آف اے فارن فیلڈ‘ میں لکھا ہے کہ کس طرح اس دورے نے دو ملکوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کے تضاد کو نمایاں کیا۔ پاکستان کے اخبار ’ڈان‘ نے اس وقت اس امید کا اظہار کیا کہ ٹیم ایک اچھا تاثر چھوڑے گی کیوں کہ وہ خیر سگالی کے سفیر ہیں۔ دوسری جانب اسی اخبار میں ایک شہ سرخی تھی کہ ’انڈیا نے ’مقبوضہ‘ کشمیر میں فوج میں اضافہ کر دیا ہے۔‘ پاکستان کا یہ پہلا دورہ کامیاب رہا۔ انتہا پسند ہندو گروپ کی جانب سے کلکتہ ٹیسٹ کے بائیکاٹ کی کوشش بھی ناکام ہوئی اور شائقین بڑی تعداد میں میچ دیکھنے پہنچے۔ انڈیا نے سیریز دو ایک سے جیت لی۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان ٹیم کا پریکٹس سیشن اور انڈین شائقین کی دلچسپی: ’سب سے زیادہ خطرہ نسیم شاہ سے ہو گا‘ پاکستان، انڈیا کرکٹ میچ کے دن اگر بارش ہو گئی تو کیا ہو گا؟ یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم اس وقت سے اب تک انڈیا اور پاکستان نے صرف 58 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان 102 میچ ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان آغاز میں ہونے والی زیادہ تر سیریز کا نتیجہ ڈرا رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان سنہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کی وجہ سے خراب ہوتے تعلقات کے باعث اگلے 17 سال تک کوئی میچ نہیں کھیلا گیا۔ اور بلآخر ایک سفارتی کوشش کے نتیجے میں کرکٹ تعلقات سنہ 1978 میں بحال ہو گئے اور انڈیا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اگلی دو دہائیوں کے دوران کرکٹ ہوتی رہی لیکن سیاست ایک بار پھر اس وقت آڑے آئی جب انڈیا نے پاکستان پر کشمیر میں شدت پسندی کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی۔ کارگل تنازعے کے بعد ایک اور سفارتی کوشش کے نتیجے میں انڈیا کی ٹیم نے سنہ 2003-2004 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اگلے چار برسوں کے دوران سالانہ بنیادوں پر دوطرفہ دورے دیکھنے میں آئے اور پھر نومبر 2008 کے ہولناک ممبئی حملوں کے بعد دو طرفہ دوروں کا سلسلہ رک گیا۔ پاکستان نے سنہ 2013-2012 میں صرف ایک موقعے پر انڈیا کا دورہ کیا اور پانچ روزہ ایک روزہ میچوں کی سیریز 2-3 سے جیتی تھی۔ تاہم پاکستانی کھلاڑیوں کو مسلسل دنیا کے سب سے امیر کرکٹ مقابلے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) سے باہر رکھا گیا۔ ایک انڈین مؤرخ مکل کیساوان نے ایک مضمون میں لکھا کہ 'دنیائے کرکٹ میں ان سرد گرم تعلقات کی کوئی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔‘ کھلیوں کے بارے میں لکھنے والے سوریش مینن کا کہنا ہے کہ انڈیا پاکستان کی روایتی دشمنی عمومی طور پر کھلاڑیوں سے زیادہ عوام کے دلوں اور ذہنوں میں زیادہ رہی ہے۔ انڈین کھلاڑیوں نے ہمیشہ پاکستان میں شائقین کرکٹ سے ملنے والی محبت اور تعریف کے بارے میں بات کی ہے۔ سنہ 1955 میں، ہزاروں شائقین کراچی ایئرپورٹ پر انڈین کرکٹرز کے استقبال کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اپنے دوروں کے دوران جب بھی کبھی انڈین کھلاڑی پاکستانی بازاروں میں خریداری کرنے گئے تو دکانداروں نے اکثر ان سے پیسے لینے سے انکار کیا۔ مزید پڑھیے انڈیا پاکستان کا وہ میچ جب کرکٹ سٹیڈیم ’چھاؤنی‘ بن گیا پاکستان انڈیا کرکٹ کے یادگار لمحات: جب گنگولی کباب کھانے لاہور کی فوڈ سٹریٹ پہنچے پاکستان کے75 برس: جب انڈین کرکٹ کپتان نے طنز کیا کہ ’پاکستانی ٹیم تو سکول کی ٹیم ہے‘ آج کل سوشل میڈیا پر لڑائیاں وہ شائقین لڑ رہے ہیں ’جن کا ماننا ہے کہ کرکٹ کے میدان میں جیت اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ ایک سیاسی نظام یا ایک مذہب یا ایک قوم دوسرے سے برتر ہے۔‘ دنیا کے بڑے کھلیوں میں سے ایک کھیل کرکٹ میں یہ منفرد دشمنی برصغیر کی ہنگامہ خیز سیاست کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63352955
نیٹ سیشن کے دوران نسیم شاہ کی عمدہ بولنگ: ’یہ تو بہت اچھی بولنگ کر رہا ہے، سب سے زیادہ خطرہ اسی سے ہو گا‘
’جس طرح آپ کے ملک میں حکومتیں بدلتی ہیں ویسے ہی میلبرن کا موسم بدلتا ہے، کچھ پتا نہیں چلتا کب کیا ہو جائے۔‘ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں کام کرنے والی رجنی، جن کا تعلق انڈیا سے ہے، کی خواہش ہے کہ ’جو بھی ہو لیکن بارش کے باعث میچ منسوخ نہ ہو‘ کیونکہ ’بہت دور دور سے لوگ یہاں میچ دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔‘ پاکستان اور انڈیا کے میچ سے قبل پاکستانی ٹیم میلبرن کرکٹ گراؤنڈ سے ملحقہ میدان میں پریکٹس کے لیے داخل ہوئی تو بڑی تعداد میں اردگرد کھڑے انڈین اور پاکستانی شائقین آسمان سےگرتی ہوئی بوندوں اور موسم کے بدلتے تیور دیکھ کر دل ہی دل میں پریشان ہو رہے تھے۔ اس پریکٹس سیشن کے بھی بارش کے باعث منسوخ ہونے کے امکانات تھے لیکن بادل آئے، تھوڑی سی بارش برسی اور پھر دھوپ نکل آئی۔ میلبرن کے ہی ایک رہائشی نے ہمیں بتایا کہ میلبرن ایسا شہر ہے جہاں آپ ایک ہی دن میں چاروں موسموں کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ اس پریکٹس سیشن کی خاص بات بڑی تعداد میں انڈین شائقین کی موجودگی تھی جو خاص کر اس کھلاڑی کو دیکھنے آئے تھے ’جو ہیلمٹ میں وراٹ کوہلی جیسا دکھتا ہے۔‘ بابر اعظم جیسے ہی پریکٹس کے لیے نیٹس میں داخل ہوئے تو بابر، بابر کی صدائیں بلند ہوئیں اور لوگ ان سے کور ڈرائیو مارنے کی فرمائش کرنے لگے۔ انڈیا کے شہر دہلی سے آنے والے شتج اپنے بیٹے کے ساتھ میلبرن خاص طور پر یہ میچ دیکھنے آئے ہیں اور اپنا شوق پورا کرنے کے ساتھ اسے پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام بتا رہے تھے۔ امریکہ کی ریاست سان فرانسسکو سے خاص طور پر اس میچ کے لیے اپنی اہلیہ پارشا کے ساتھ کئی ماہ سے اس میچ کے لیے میلبرن آنے کی تیاریاں کرنے والے پاکستانی نژاد پون بھی بارش نہ ہونے کی دعائیں کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں انڈین شائقین کا پاکستان کا پریکٹس سیشن اتنے انہماک سے دیکھنا یوں تو خاصا حیرت انگیز معلوم ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ان سے بات کرنے پر اس کی وجہ معلوم ہوئی۔ اس پریکٹس سیشن میں ایک 16 سالہ نیٹ بولر وشوا بھی موجود تھے اور ان کے والد رام کمار اپنے بیٹے کو پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف لیگ سپن کرتا دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ رام کمار نے بتایا کہ انھوں نے گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی ٹیم کو فالو کرنا شروع کیا ہے۔ ’میرے نزدیک اس پاکستانی ٹیم کی اچھی بات ان سے ملنے والا ایک مثبت تاثر ہے جو اس سے پہلے کی ٹیموں سے نہیں ملتا تھا۔‘ ’مہارت کی کمی تو ان میں کبھی بھی نہیں تھی لیکن اب ان کے کھیل میں ایک تسلسل ہے۔۔۔ پہلے تو انڈیا پاکستان کے یکطرفہ مقابلے ہوتے تھے لیکن اب میچ دیکھنے میں مزا آتا ہے۔‘ پریکٹس سیشن کا آغاز ہوا تو میڈیا سمیت سب ہی شائقین اس نیٹ کے گرد جمع ہو گئے جہاں بابر اعظم اور محمد رضوان کو شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ بولنگ کروا رہے تھے۔ یعنی دنیا کے بہترین بولرز بمقابلہ بہترین بیٹرز آمنے سامنے اور اس آدھے گھنٹے کے سیشن نے کسی کو مایوس نہیں کیا۔ رضوان نے نیٹ شروع ہونے سے قبل تینوں بولرز کے لیے پچ پر ایک ڈبہ بنایا اور ان سے اس میں گیند کروانے کا کہا۔ حارث جب بھی کوئی گیند اس ڈبے میں کرواتے تو فاتحانہ انداز میں اس کا اعلان کرتے۔ تاہم اس پورے سیشن کے دوران شاید آنے والے دنوں میں پاکستانی بولنگ کی ایک جھلک نظر آ گئی۔ شاہین شاہ آفریدی ابھی پوری طرح ردھم میں دکھائی نہیں دیے اور شاید انھیں انجری سے واپسی پر یہ کھویا ہوا ردھم واپس لانے میں کچھ وقت لگے گا۔ وہ دائیں ہاتھ کے بیٹرز کو بولنگ کرواتے ہوئے گیند باہر کی جانب تو باآسانی نکال رہے تھے، لیکن ان کی مشہور ان سوئنگ گیند فی الحال نیٹ پریکٹس کے دوران دکھائی نہیں دی۔ تاہم جس بولر نے سب کی توجہ حاصل کی وہ نسیم شاہ تھے۔ ان کی ایک گیند یقیناً رضوان کی جانب سے بنائے گئے ڈبے میں پڑی ہو گی اور انھیں بیٹ کرتے ہوئے آف سٹمپ زمین سے اکھاڑ کر لے گئی۔ میرے ساتھ کھڑے انڈین طالبعلم نے اپنے ساتھی سے پوچھا ’اس کی ویڈیو بنائی تھی؟‘ جب اس نے نفی میں جواب دیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ تو بہت اچھی بولنگ کر رہا، سب سے زیادہ خطرہ اسی سے ہو گا۔‘ نیٹ سیشن کے دوران بابر اور رضوان کی ہر اچھی شاٹ کو داد دی جاتی رہی۔ ادھر شان مسعود نے اپنی بیٹنگ کا آغاز سپنر شاداب خان کے خلاف کیا جو شاید ٹیم میں ان کے رول کی نشاندہی بھی ہے۔ تاہم اس بہترین ماحول میں جب سب ہی بہترین موسم اور اپنے من پسند کھلاڑیوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ایسے میں شان مسعود کے ساتھ ہونے والے واقعے نے اچانک ماحول افسردہ کر دیا۔ شان مسعود سپنرز کے خلاف نیٹ سیشن مکمل کر کے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے جب ایک گیند ان کے سر پر آ لگی اور وہ زمین پر لیٹ گئے۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان، انڈیا کرکٹ میچ کے دن اگر بارش ہو گئی تو کیا ہو گا؟ یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا: سمیع چوہدری کا کالم ’پرفارمنس ایسی ہو کہ رات کو آرام سے نیند آئے‘ ٹیم فزیو کی جانب سے ان کا معائنہ کیا گیا جس کے بعد انھیں فوری طور پر سکین کے لیے ہسپتال پہنچایا گیا تاہم پی سی بی کی جانب سے موصول ہونے والی تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق ان کے سکین معمول کے مطابق ہیں۔ کل انھیں دوبارہ ٹیسٹ کے لیے لے جایا جائے گا۔ جیسے ہی شان مسعود کو گراؤنڈ سے لے جایا گیا تو تمام نظریں فخر زمان پر مرکوز تھیں جو تاحال صرف تھائی پیڈ پہنے کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے مزید کچھ دیر بھی بیٹنگ نہیں کی اور جب بالآخر بیٹنگ کے لیے آئے تو صرف سپن بولرز کے خلاف ہی بیٹنگ کرتے رہے۔ انھیں ریزرو پلیئر سے 15 رکنی سکواڈ میں شامل کیا گیا تھا، لیکن کم از کم پہلے پریکٹس سیشن کے دوران وہ فاسٹ بولرز کے سامنے کھیلتے دکھائی نہیں دیے اور ان کی شمولیت کے بارے میں جب میچ کے بعد شاداب خان سے بھی سوال کیا گیا تو انھوں نے بات ٹال دی۔ اگر شان اور فخر زمان دونوں ہی اتوار کو سلیکشن کے لیے دستیاب نہ ہوئے تو پھر شاید پاکستان کو نمبر تین پر حیدر علی کو آزمانا پڑے اور زخمی کھلاڑیوں کی جگہ خوشدل شاہ کو ٹیم میں شامل کیا جائے جو گذشتہ کئی میچ سے آؤٹ آف فارم دکھائی دے رہے ہیں۔ ’قادر بھائی کا بیٹا ہے بھائی تو‘ پریکٹس کے اختتام پر شاہین آفریدی اور حارث رؤف نے بیٹنگ کر کے بھی داد وصول کی اور شاداب خان اور دیگر بلے بازوں نے سنگِ مر مر کی ٹائل پر پانی چھڑک کر شارٹ گیند کھیلنے کی مشق کی۔ پاکستان کے بیٹنگ کوچ محمد یوسف نے آخر کار پریکٹس کے اختتام پر پیڈ باندھے اور گزرے وقتوں کی یادیں تازہ کیں۔ انھیں گیند کروانے کے لیے عثمان قادر آئے جنھوں نے گیند کروانے سے پہلے کہا کہ ’لیجینڈ بمقابلہ نا تجربہ کار بولر۔‘ محمد یوسف اس بات پر ہنس دیے لیکن کچھ گیندوں کے بعد جب عثمان قادر کی ایک گوگلی کھیلنے میں وہ ناکام رہے تو انھوں نے کہا کہ ’قادر بھائی کا بیٹا ہے بھائی تو۔‘ ہوٹل واپس پہنچنے کے بعد موسم نے پھر انگڑائی لی اور اس تحریر کو لکھتے وقت بھی میلبرن میں موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے اور باہر یخ بستہ ہوائیں چل رہی ہیں۔ اس پر مجھے رام کمار کی یہ بات یاد آ گئی کہ میلبرن کا موسم ایسا ہے کہ یہاں آپ ایک ہی دن میں چاروں موسموں کا تجربہ کر لیتے ہیں۔ یہاں موجود دنیا بھر سے کئی گھنٹوں کا سفر کر کے آنے والے شائقین یقیناً یہی امید کریں گے کہ اتوار کے روز موسم جیسا بھی ہو، بس بارش نہ ہو۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63346840
سمیع چوہدری کا کالم: یہ ’جینئس‘ کا ورلڈ کپ ہو گا
تین اپریل 2016 کو جب ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سامی دوسری بار آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھا رہے تھے تو بین سٹوکس کے ساتھ ساتھ ساری دنیائے کرکٹ بھی اس محدود فارمیٹ میں ویسٹ انڈیز کی واضح برتری کا اقرار کر رہی تھی۔ اس اختتامی تقریب کے دوران ڈیرن سامی نے اپنے کرکٹ بورڈ اور کرکٹ کلچر کے بارے میں جو انکشافات کئے تھے، وہ نہ صرف چشم کُشا بلکہ حیران کن بھی تھے کہ ایسی بے سروسامانی کے باوجود ان کی ٹیم نے کیسی جی دار کرکٹ کھیلی جو دوسری بار عالمی چیمپئین قرار پائے۔ کارلوس براتھویٹ نے بین سٹوکس کے ساتھ جو کیا، اسے جینئس کی ایک جھلک قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تب اگر ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ اپنا وقار مجروح ہونے کا غصہ ڈیرن سامی اور کوچ فِل سمنز پہ نکالنے کی بجائے ان انکشافات پہ سنجیدگی سے غور کرتا اور واقعی اپنے وقار کی بحالی کی کوئی تگ و دو کرتا تو آج شاید حالات ایسے دگرگوں نہ ہوتے کہ دو بار کی فاتح ٹیم اس بار ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے سے بھی رہ گئی۔ یہ پہلا ورلڈ کپ ہو گا جس میں ویسٹ انڈیز ہمیں نظر نہیں آئے گی جبکہ اسی ایونٹ میں ہمیں پہلی بار زمبابوے کی ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کھیلتی نظر آئے گی۔ زمبابوے کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ بالآخر انہوں نے ایک ایسی ٹیم ترتیب دے لی ہے جو ذمہ داریاں نبھانے اور بوجھ بانٹنے میں خود کفیل ہے۔ ایونٹ کے آغاز سے پہلے ہی سکندر رضا نے واضح کیا تھا کہ وہ اس بار محض کوالیفائر کھیلنے نہیں آئے بلکہ مین ایونٹ میں جگہ پا کر ہی دم لیں گے۔ اور اپنی بہترین آل راؤنڈ کاوشوں کے سبب سکندر رضا نہ صرف اس کوالیفائر مرحلے کے اوّلین کھلاڑی ثابت ہوئے بلکہ اپنی ٹیم سے کیا عہد بھی خوب نبھایا۔ نمیبیا اگرچہ سال بھر پہلے ہی دنیائے کرکٹ کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی جب اس نے پہلی بار کسی آئی سی سی ایونٹ کے لئے کوالیفائی کیا تھا مگر اس بار وہ مین ایونٹ میں جگہ پانے میں ناکام رہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ اس مرحلے میں بھی سب سے چونکا دینے والی ہیڈلائن نمیبیا کی طرف سے ہی آئی جب انہوں نے ایشیا کپ کی تازہ فتح کے خمار میں چُور سری لنکا کو پہلے ہی میچ میں حیران کن شکست سے دوچار کر کے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ سپنرز کی آماجگاہ کہلانے والی سری لنکن کرکٹ یہاں خود نمیبیا کے سپنرز کے ہاتھوں ڈھیر ہو گئی۔ بحیثیتِ مجموعی کوالیفائر مرحلے میں خاصی دلچسپ اور بسا اوقات سنسنی خیز کرکٹ بھی دیکھنے کو ملی۔ مقابلے کا معیار ایسا عمدہ تھا کہ راؤنڈ کے آخری میچ تک سری لنکا کے علاوہ باقی تین کوالیفائرز کا حتمی فیصلہ نہ ہو پایا۔ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی مختصر سی تاریخ میں یہ آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا پہلا ٹورنامنٹ ہے اور آسٹریلین کنڈیشنز کبھی بھی اجنبی کرکٹرز پہ مہربان نہیں رہیں۔ سو گمان یہی ہے کہ مسابقت کا معیار یہاں بہت بلند رہے گا اور جو ٹیمیں اننگز کے دوسرے حصے میں اپنے حواس کو مجتمع رکھ پائیں، ان کے لئے کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ کوالیفائر مرحلے میں یہ بات بارہا عیاں ہوئی کہ نئی گیند کے خلاف بازو کھولنا آسان نہیں تھا اور غلطی کے امکانات زیادہ تھے جبکہ کئی میچز میں آخری دس اوورز کا مجموعی سکور پہلے دس اوورز سے لگ بھگ دو گنا تھا۔ آسٹریلین کنڈیشنز کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کچھ ایسا ہی رجحان ایونٹ کے سپر 12 مرحلے میں بھی جاری رہے گا کیونکہ نئے گیند کے باؤنس کو جھیلنا بسا اوقات بہت مہنگا پڑ جاتا ہے اور پرانی گیند بلے پہ بہتر آتی ہے۔ اسی لئے بیٹنگ ارڈرز میں بھی ہمیں ایسی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں جو مڈل اوورز کے جمود کو توڑنے کی کوشش کریں اور کچھ قیمتی وکٹیں ڈیتھ اوورز کے لئے بچا کر رکھی جائیں۔ آسٹریلین کنڈیشنز کا خاصہ یہ ہے کہ یہاں مقابلے کبھی بھی بے جان نہیں ہوتے۔ چیزیں مسلسل وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں اور صورت حال لمحہ بہ لمحہ تغیر سے گزرتی جاتی ہے۔ ٹاپ آرڈر پہ زیادہ انحصار رکھنے والی بیٹنگ لائنز کے لئے یہاں زندگی آسان نہیں ہو گی اور لوئر آرڈر پہلے سے کہیں زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ چونکہ اس بار موسم بھی بار بار آڑے آتا رہے گا تو مقابلہ محض اننگز کا اننگز سے نہیں ہو گا بلکہ منظر نامے کا منظر نامے سے ہو گا اور منظر نامہ تسخیر کرنے کے لئے محض مہارت اور قسمت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ذہانت کی وہ معراج بھی درکار ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں جینئس کہا جاتا ہے۔ یہ ورلڈ کپ جینئس کا ورلڈ کپ ہو گا۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63346841
شاداب خان: پرفارمنس ایسی ہو کہ رات کو آرام سے نیند آئے
پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ راتوں کی نیندیں ُاڑا دیتا ہے۔ میچ سے قبل سخت دباؤ کی وجہ سے، ہارنے کی صورت میں دکھ اور افسوس کے سبب اور اگر جیت گئے تو خوشی کے مارے نیند غائب ہوجاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اہم میچ میں مدمقابل ہونے والی ہیں لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر شاداب خان کی سوچ بہت سادہ سی ہے ۔ وہ کہتے ہیںʹیقیناً پاکستان اور بھارت کامیچ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ہوتا ہے۔جیت ہار کھیل کا حصہ ہے۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میری سوچ یہی ہے کہ آپ اپنی سو فیصد کارکردگی دکھائیں اور یہ کارکردگی ایسی ہونی چاہیے کہ جب آپ میچ کے بعد واپس جائیں تو آپ کو نیند آنی چاہیے کیونکہ آپ کو پتہ ہو کہ میرے اندر جو صلاحیت تھی میں نے اسےمطابق پرفارمنس دی ہے ʹ۔ شاداب خان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان کے اور محمد نواز کے نمبر چار پر بیٹنگ کرنے سے پاکستانی ٹیم کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں ʹمیں اور نواز آل راؤنڈر کی حیثیت سے کھیلتے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا کہ ہماری بیٹنگ نہیں آئی ہے لیکن اب ٹیم نچلی نمبر والی وکٹوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ نمبر چار ایک اہم پوزیشن ہے کہ اگر پاور پلے میں مومینٹم ملا ہوتا ہے تو اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا اور اگر نہیں ملا تو دوسری بیٹنگ کے دوران ہمیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ ہمیں کیا رن ریٹ چاہیے لہذا ہم اسی کے مطابق کوشش کرتے ہیں ۔ہم دونوں چونکہ آل راؤنڈرز ہیں لہذا ہمیں بیٹنگ میں بھی اسی طرح پرفارم کرنا چاہیے جس طرح ہم بولنگ میں کرتے ہیں۔ شاداب خان اور نواز کو جب سے اوپر کے نمبر پر بیٹنگ کا موقع ملا ہے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں بھی فرق آیا ہے۔ شاداب خان نے اس سال ایشیا کپ میں افغانستان کےخلاف پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 26گیندوں پر 36 رنز بنائے تھے جس میں ایک چوکا اور تین چھکے شامل تھے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے34 رنز صرف 22 گیندوں پر بنائے جس میں دو چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔ محمد نواز کی کارکردگی زیادہ نمایاں رہی ہے ۔ ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف انہوں نےچوتھے نمبر پر آکر صرف 20گیندوں پر 42 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر پاکستان کی پانچ وکٹوں کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا اس میچ میں انہوں نے ایک وکٹ حاصل کرنے کے علاوہ تین کیچز بھی لیےتھے۔ محمد نواز نے کچھ اسی طرح کی میچ وننگ پرفارمنس بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف سہ فریقی سیریز میں بھی دی تھی ۔بنگلہ دیش کے خلاف انہوں نے ایک چھکے اور پانچ چوکے لگاتے ہوئے محض 20 گیندوں پر 45 رنز بناکر پاکستان کو میچ جتوایا تھا جبکہ فائنل میں وہ 22گیندوں پر تین چھکے اور دو چوکے لگاتے ہوئے 38 رنز ناٹ آؤٹ بناکر مین آف دی میچ رہے تھے۔ محمد نواز اور شاداب خان کو اوپر کے نمبر پر کھلانے پر یہ اعتراض بھی سامنے آیا کہ یہ مڈل آرڈر کے مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے جیسا کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد حفیظ نے بھی اس سلسلے میں ٹوئٹ کی تھی۔ شاداب خان کہتے ہیں ʹ ابھی چونکہ ورلڈ کپ ہے لہذا اسی کو دیکھا جائے۔ مسئلے کا کوئی بھی مستقل حل نہیں ہوتا ۔ کہیں نہ کہیں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ میں نے اور نواز نے پاکستان سپر لیگ میں بھی پرفارمنس دے رکھی ہے اسی لیے پاکستانی ٹیم منیجمنٹ نے بھی ہم پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ خود ہمیں بھی اپنے آپ پر بھروسہ ہے ʹ شاداب خان بہت صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ʹ پاکستانی ٹیم اچھا کھیل رہی ہے لیکن ہم ابھی چیمپئن ٹیم نہیں بنے ہیں اور یہی ایک اسائنمنٹ باقی ہے۔ہم نے گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اور ایشیا کپ کا فائنل کھیلا لیکن پریشر والی صورتحال میں جو چھوٹی غلطیاں ہو رہی ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ وہ غلطیاں نہ ہوں۔ بھارت کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا پہلا میچ بھی پریشرگیم ہے لہذا کوشش کرینگے کہ اسے جیتیں تاکہ مورال بلند ہو ʹ ۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63310377
ایشیا کپ 2023: ’پاکستان میں سکیورٹی خدشات ہیں، فیصلہ انڈیا کی وزارت داخلہ کرے گی‘
انڈیا میں کھیلوں کے وزیر انوراگ ٹھاکر نے کہا ہے کہ سنہ 2023 میں پاکستان میں ہونے والے ایشیا کپ کے لیے انڈین کرکٹ ٹیم کی پاکستان روانگی کے حوالے سے ملک کی وزارت داخلہ فیصلہ کرے گی کیونکہ پاکستان میں سکیورٹی کے خدشات ہیں۔ خیال رہے کہ ایشیئن کرکٹ کونسل اور انڈین کرکٹ بورڈ دونوں کے صدر جے شاہ کے اس بیان نے پاکستانی کرکٹ بورڈ کو ناراض کیا تھا جس میں انھوں نے پاکستان میں آئندہ سال متوقع ایشیا کپ کو کسی نیوٹرل مقام پر منتقل کرنے کی بات کی تھی۔ اس پر پی سی بی نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ یہ بیان دینے سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی گئی اور ایسے کسی فیصلے سے 2023 میں انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کی شمولیت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں 23 اکتوبر کو میلبرن کے میدان میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا پہلا میچ کھیلنے جا رہی ہیں اور اس تنازع سے دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات ایک بار پھر زیرِ بحث آئے ہیں۔ جمعرات کو ’انڈیا یوتھ گیمز‘ نامی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹھاکر نے کہا کہ 'کرکٹ کی دنیا انڈیا کے علاوہ ہے ہی کیا؟ انڈیا کا کرکٹ کی دنیا میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ انڈیا میں کرکٹ ورلڈ کپ کا انعقاد تاریخی ہو گا۔‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بی سی سی آئی (انڈین کرکٹ بورڈ) کا معاملہ ہے اور وہ ہی اس پر تبصرہ کرے گا۔۔۔ اگلے سال (انڈیا میں) ورلڈ کپ بھی ہو گا اور دنیا بھر کی ٹیمیں بھی کھیلیں گی۔ کھیلوں میں انڈیا کو کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایشیا کپ کے حوالے سے وزارت داخلہ فیصلہ کرے گی کیونکہ پاکستان میں سکیورٹی خدشات ہیں۔ ’بات صرف کرکٹ کی نہیں، انڈیا ایسی پوزیشن میں نہیں کہ کسی کی بات سُنے۔‘ ’ہم ورلڈ کپ کے لیے تمام ملکوں کو مدعو کریں گے اور ان کی شمولیت کی امید کریں گے۔‘ کرکٹ بورڈ نے ایشیئن کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کے ایشیا کپ کو پاکستان سے منتقل کرنے کے بیان کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بیان سے سنہ 2023 میں انڈیا میں شیڈول ورلڈکپ اور سنہ 2024 سے 2031 کے دوران انڈیا میں شیڈول متعدد کرکٹ ایونٹس میں پاکستان کی شرکت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ترجمان پی سی بی کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ جے شاہ کی جانب سے ’سوچے سمجھے بغیر دیے گئے اس بیان کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘ منگل کو ممبئی میں انڈین کرکٹ بورڈ یعنی بی سی سی آئی کی سالانہ جنرل میٹنگ کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کے دوران جے شاہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’انڈیا ایشیا کپ غیر جانبدار مقام پر کھیلے گا۔‘ واضح رہے کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق اگلا ایشیا کپ پاکستان میں ہونا ہے اور یہ فیصلہ ایشیئن کرکٹ کونسل (اے سی سی) کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے کیا تھا۔ جے شاہ ایشیئن کرکٹ کونسل کے بھی صدر بھی ہیں جبکہ منگل کے روز انھیں بی سی سی آئی کی سالانہ جنرل میٹنگ میں دوسری مدت کے لیے سیکریٹری منتخب کیا گيا ہے۔ اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ بیان ایشیئن کرکٹ کونسل یا پاکستان کرکٹ بورڈ کی مشاورت کے بغیر دیا گیا ہے۔ پی سی بی نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ شیڈول ایشیا کپ کی پاکستان سے منتقلی کا بیان آئی سی سی اور اے سی سی کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ کرکٹ بورڈ نے واضح کیا کہ جے شاہ ہی کی صدارت میں منعقدہ اے سی سی اجلاس میں ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے سپرد کی گئی تھی اور تاحال ایشیئن کرکٹ کونسل کے صدر کے بیان پر اے سی سی سے کوئی باضابطہ وضاحت موصول نہیں ہوئی ہے۔ پی سی بی نے اے سی سی سے اس اہم اور حساس معاملے پر ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست بھی کی ہے۔ یاد رہے کہ جب سے انڈیا میں کرکٹ کے نگراں ادارے بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ نے یہ کہا ہے کہ ایشیا کپ میں انڈیا پاکستان کے بجائے کسی غیر جانبدار مقام پر کھیلنا چاہے گا اس کے بعد سے پاکستان میں کرکٹ کے مداح سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ایشیا کپ کا انعقاد نیوٹرل مقام پر ہوتا رہا ہے۔ سری لنکا میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے کرکٹ کا ٹورنامنٹ منعقد کرانے سے انکار کے بعد 2022 کا ایشیا کپ گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی تناؤ کی وجہ سے دونوں ممالک کی ٹیموں کے درمیان گذشتہ کئی برسوں سے دوطرفہ کوئی سیریز نہیں ہو رہی ہے اور دونوں ممالک صرف ایشیا کپ اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتے ہیں۔ گذشتہ ماہ کھیلے گئے ایشیا کپ میں دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے خلاف دو میچ کھیلے تھے جبکہ آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں دونوں ممالک 23 اکتوبر کو میلبورن میں مدمقابل ہوں گی۔ انڈیا نے 2008 کے ایشیا کپ کے بعد سے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ پاکستانی ٹیم آخری بار دو طرفہ سیریز کے لیے سنہ 2012 میں انڈیا آئی تھی۔ بی سی سی آئی کے اس بیان کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر کافی ردعمل سامنے آیا ہے۔ صارف اسرار احمد ہاشمی نے ٹویٹر پر لکھا: ’انڈین حکومت نے ایک بار پھر کھیل کے بجائے سیاست کا انتخاب کیا ہے، یہ شرمناک ہے۔‘ ایک صارف نے پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’بات پاکستان پر آجائے تو نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا، عزت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہم کوئی دو ٹکے کی قوم نہیں۔ ہم پاکستانی ہیں، سر۔ اب پورے پاکستان کی نظریں آپ پر ہیں، پلیز مایوس نہیں کیجیے گا۔‘ اسی درمیان انڈیا کے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کی خبروں کے درمیان رمیز راجہ کا ایک پرانا ویڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ کلپ میں رمیز راجہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی 50 فیصد فنڈنگ سے چلتا ہے اور آئی سی سی کی فنڈنگ یہ ہے کہ وہ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتا ہے اور اس کے پاس جو رقم ہوتی ہے، وہ اسے اپنے ممبروں میں تقسیم کرتا ہے۔‘ ’اور آئی سی سی کی اس فنڈنگ کا 90 فیصد انڈین مارکیٹ سے آتا ہے۔۔۔‘ یہ بھی پڑھیے وہ حکمتِ عملی جو مداحوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے قریب لے آئی پاکستان انڈیا کرکٹ مقابلوں کا جنون جس میں صحافی بھی مبتلا ہو جاتے ہیں انڈیا پاکستان سمیت چار ملکوں کی سیریز، کیا رمیز راجہ کا خواب سچ ہو پائے گا؟ محمد حمزہ نے ٹویٹر پر ہیش ٹیگ ایشیا کپ 2023 کے ساتھ لکھا کہ ’انڈیا کے بغیر ایشیا کپ قبول ہے، لیکن پاکستان سے باہر ایشیا کپ قبول نہیں ہے۔‘ احمد نواز نے لکھا کہ ’اگر انڈیا ایشیا کپ کے لیے نہیں آ رہا تو پاکستان کو بھی کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے انڈیا نہیں جانا چاہیے۔ دونوں ٹورنامنٹ غیر جانبدار مقامات پر منعقد ہونے چاہییں۔‘ صارف توصیف راجپوت نے لکھا کہ ’رمیز راجہ کو جلد از جلد پاکستان کا موقف واضح کرنا چاہیے، اگر وہ ایشیا کپ کے معاملے پر انڈیا کا موقف مان لیں تو چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھول جائیں، میچز پاکستان میں نہیں ہوں گے۔ بی سی سی آئی کو ایک مضبوط پیغام دیا جانا چاہیے۔‘ دوسری جانب انڈیا میں اس بات پر مباحثہ جاری ہے کہ جے شاہ کو دوسری مدت کے لیے بی سی سی آئی میں سیکریٹری کیوں منتخب کیا گیا ہے اور سورو گنگولی کو دوسری مدت کیوں نہیں دی گئی ہے۔ انڈین میگزن ’دی کارواں‘ کے ہینڈل سے یہ ٹویٹ کیا گیا ہے کہ جے شاہ کے ماتحت ’بی سی سی آئی بی جے پی حکومت کی نوکرانی اور اس کا اضافی بازو‘ بن گیا ہے۔ موٹیرا میں سردار پٹیل سٹیڈیم کا نام مودی کے نام پر رکھنے کے علاوہ، بی سی سی آئی نے پی ایم کیئرز فنڈ میں 51 کروڑ روپے کا تعاون کیا ہے۔‘ مصنف ڈیریک او برائن نے جے شاہ کی دوسرے مدت پر تبصرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے لکھا: ’میں جے شاہ ہوں، پھر سے بی سی سی آئی کا سیکریٹری بن رہا ہوں۔ میرے پاپا مرکزی وزیر داخلہ ہیں۔‘ ’میں ارون سنگھ دھومل ہوں، آئی پی ایل کا نیا چیئرمین۔ میرے بڑے بھیا انوراگ ٹھاکر مرکزی وزیر برائے کھیل ہیں۔ ہم بی جے پی کے ’پریوار واد‘ (خاندانی وراثت) سے پاک انڈیا اور مودی کے ڈائناسٹس کلب کر رکن ہیں۔‘ واضح رہے کہ بی جے پی کانگریس پر پریوار واد کے الزامات لگاتا رہا ہے۔ اس دوران بی سی سی آئی کے سبکدوش ہونے والے خزانچی اور آئی پی ایل کے نئے چیئرمین ارون دھومل نے بتایا کہ کرکٹ بورڈ کا بینک بیلنس تین برسوں میں 3648 کروڑ روپے سے بڑھ کر 9629 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم سے تشکیل دی گئی کمیٹی آف ایڈمنسٹریٹرز (سی او اے) کی 33 ماہ کی مدت کے بعد سنہ 2019 میں سورو گنگولی کی ٹیم نے بی سی سی آئی کی کمان سنبھالی تھی۔ ارون دھومل نے کہا: ’جب موجودہ ٹیم نے سنہ 2019 میں بی سی سی آئی کا چارج سنبھالا تو کرکٹ بورڈ کے خزانے میں 3648 روپے تھے۔ ہم نئی ٹیم کو ایک ایسی تنظیم کو سونپ رہے ہیں جس کے خزانے میں 9629 کروڑ روپے ہیں۔ ہم نے اس میں تین گنا اضافہ کیا ہے۔‘ انھوں نے کہا: ’ریاستی کرکٹ ایسوسی ایشنز کو دی جانے والی رقم میں بھی تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ سی او اے کے دور میں یہ رقم 680 کروڑ روپے تھی جو اب 3295 کروڑ روپے ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/sport-63324779
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ڈائری: انڈیا، پاکستان میچ اور میلبرن میں تیاریاں
ʹپاکستان کے سیاسی حالات کیا کہہ رہے ہیں؟‘ ذرا سوچیں آپ کے ذہن میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو اور آپ اس کے علاوہ کسی دوسرے موضوع پر بات کرنا نہ چاہتے ہوں لیکن کوئی شخص آپ سے اچانک سیاست پر بات شروع کر دے۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ اس وقت ہوا جب دو پروازوں کے ذریعے 16 گھنٹے کا تھکا دینے والا سفر ختم کر کے میں میلبرن ایئرپورٹ سے باہر آیا۔ تھکاوٹ اور نیند کے غلبے کے باوجود ذہن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا لیکن میں نے ایئرپورٹ سے ہوٹل کے لیے جو ٹیکسی لی اس کے ڈرائیور سعید صاحب راولپنڈی کے رہائشی نکلے اور پھر انھوں نے وہی موضوع چھیڑ دیا جو ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی ملنے پر اکثر کیا کرتے ہیں: یعنی پاکستان کے سیاسی حالات کہاں جا رہے ہیں؟ آپ کو کیا لگتا ہے کیا ہو گا؟ ’صاحب میں تو ایک ہی بات جانتا ہوں کہ سیاستدان کوئی بھی ہو وہ پاکستان سے مخلص نہیں ہے۔ پاکستان میں بھائی بہن رہتے ہیں لیکن اب وہاں جانے کا دل نہیں کرتا۔ آسٹریلیا میں ہی رہ کر پاکستان کی باتیں سن لیتے ہیں تو فرسٹریشن (پریشانی) بڑھ جاتی ہے۔‘ سعید صاحب نے سیاست میں میری عدم دلچسپی دیکھتے ہوئے خود ہی بتایا۔ میلبرن پہنچنے کے بعد میں نے ورلڈ کپ ایکریڈیٹیشن کارڈ کے لیے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کا رُخ کیا تو ایک عجیب سی خاموشی نے اس گراؤنڈ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ گراؤنڈ کے تمام اطراف آسٹریلیا کی کھیلوں کی تاریخ میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے کھلاڑیوں کے مجسمے ہر نظر کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔ ان میں عظیم سر ڈان بریڈمین بھی شامل ہیں۔ اس خاموش ماحول میں گہما گہمی صرف گراؤنڈ سے باہر قائم آئی سی سی میڈیا سینٹر میں نظر آئی جہاں صحافی اپنے کارڈ کے حصول کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ دو تین دن کی تو بات ہے پھر یہ خاموشی کیسی؟ اتوار کے روز یہ خالی گیٹ بالکل مختلف منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے لیکن دنیا کو 23 اکتوبر کا شدت سے انتظار ہے۔ اس روز پاکستان اور انڈیا میلبرن کے ایم سی جی میں مدمقابل ہونے والے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان، انڈیا کرکٹ میچ کے دن اگر بارش ہو گئی تو کیا ہو گا؟ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل انڈیا میں ’کوہلی کو گرفتار کرو‘ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟ جے شاہ کے بیان سے انڈیا میں ورلڈ کپ میں پاکستان کی شرکت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں: پی سی بی ہمیشہ کی طرح شائقین کی بہت بڑی تعداد دنیا بھر سے میلبرن کا رُخ کر رہی ہے تاکہ اس میچ کے ایک ایک لمحے سے بھرپور لطف اٹھایا جا سکے۔ عام شائقین ہوں یا بولی وڈ سٹار یا پھر بزنس ٹائیکون یہ سب اس میچ کے شدت کے منتظر ہیں لیکن سب ہی کو صرف ایک بات کا دھڑکا لگا ہوا ہے کہ بارش رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ جب سے آسٹریلوی محکمہ موسمیات نے اتوار کے روز بارش کی پیشگوئی کی ہے، ہر کوئی اس بات سے پریشان ہے کہ اگر یہ میچ نہ ہو سکا تو پھر دوبارہ نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ ایسا میچ نہیں ہے جس میں ریزرو ڈے رکھا جاتا ہے۔ میلبرن کے رہائشی انڈیا، پاکستان میچ کو کسی فیسٹیول کی طرح منانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ میلبرن میں مقیم شاعرہ عندلیب صدیقی نہ صرف خود بلکہ ان کی پوری فیملی کھیل کے معاملے میں جذباتی واقع ہوئی ہے۔ عندلیب صدیقی ورلڈ کپ کی شرٹ ملنے پر بہت زیادہ خوش ہیں۔ وہ میلبرن میں ایک مقامی چینل پر پروگرام بھی کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی عام شاعری سے ہٹ کر انڈیا پاکستان میچ کی مناسبت سے ایک گانا لکھ کر اپنے پروگرام میں گا دیا جس کے بول کچھ اس طرح تھے: ’ورلڈ کپ کے آئے زمانے، کیا دن ہیں سہانے، تو بلا (بیٹ) لے کر آ جا بالما۔‘ عندلیب صدیقی نے بتایا کہ ’میلبرن اور سڈنی میں پاکستانی اور انڈین کمیونٹی بہت بڑی تعداد میں رہتی ہے۔ یہ سب اپنی اپنی ٹیموں کی زبردست انداز میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن ان میں آپس میں کبھی بھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اتوار کے روز ہونے والے میچ کے لیے بھی پاکستانی کمیونٹی نے خوب تیاری کر رکھی ہے اور پاکستانی شائقین شہر کے مرکز میں واقع یارا ریور (دریا) کے قریب جمع ہوں گے اور وہاں سے ایک ساتھ پیدل چلتے ہوئے گراؤنڈ جائیں گے۔ ورلڈ کپ میں ابھی پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں مدمقابل نہیں آئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ میلبرن کے قدرے ٹھنڈے موسم میں کرکٹ کا ماحول ابھی گرم نہیں ہوا ہے۔ لیکن انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے سیکریٹری جے شاہ نے یہ بیان داغ کر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے کہ آئندہ سال ایشیا کپ پاکستان کے بجائے نیوٹرل مقام پر ہو گا۔ جے شاہ ایشین کرکٹ کونسل کے بھی صدر ہیں اور انڈین کرکٹ بورڈ میں اثر و رسوخ کے معاملے میں سب سے نمایاں ہیں۔ اس کی وجہ ان کے والد امیت شاہ ہیں جو بی جے پی کی حکومت میں انتہائی اہم پوزیشن رکھے ہوئے ہیں۔ جے شاہ نے اس بیان کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب پاکستان اور انڈیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا اہم میچ کھیلنے والے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس لیے بھی سب کے لیے حیران کن ہے کہ ابھی ایشیا کپ میں کئی ماہ باقی ہیں، لہذا ابھی انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایشیا کپ کا میزبان پاکستان ہے لہذا ایشیین کرکٹ کونسل نے یا جے شاہ نے پاکستانی کرکٹ بورڈ سے بات کیے بغیر یہ کیسے کہہ دیا کہ ایشیا کپ نیوٹرل مقام پر ہو گا؟ پاکستان کرکٹ بورڈ نے جے شا کے بیان پر سخت مایوسی ظاہر کی ہے اور اس کا کہنا ہےکہ اس کا اثر پاکستانی ٹیم کے 2023 اور 2031 کے انڈیا کے دوروں پر بھی پڑسکتا ہے جن میں اسے ورلڈ کپ کھیلنا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/sport-63293913
پی سی بی کی وہ حکمتِ عملی جو سوشل میڈیا پر پاکستانی مداحوں کو کرکٹ ٹیم کے قریب لے آئی
شاداب اور حارث رؤف کے درمیان کیک کھانے پر دوستانہ نوک جھونک ہو یا ثقلین مشتاق کا بابر اعظم کو نیٹ پریکٹس کے دوران آؤٹ کرنا، تمام کپتانوں کی ورلڈ کپ سے قبل بابر اعظم کی سالگرہ میں شرکت ہو یا بسمہ معروف کی بیٹی کے ساتھ انڈین ٹیم کی دل موہ لینے والی تصاویر اور ویڈیوز، پاکستانی کرکٹ شائقین کو گذشتہ کچھ سال سے کھلاڑیوں کے بارے میں وہ سب کچھ معلوم ہو رہا ہے جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے۔ پاکستانی مداحوں کا کرکٹ سے رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ ایک عرصے تک یہ اپنے میدانوں میں کرکٹ دیکھنے کو ترستے رہے جس کے دوران ایک پوری نسل پاکستانی کرکٹ ٹیم کو صرف ٹی وی پر ہی کھیلتا دیکھ سکی۔ تاہم گذشتہ برسوں میں نہ صرف پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ہوئی بلکہ پاکستان سپر لیگ کی شروعات اور سوشل میڈیا کے عام ہونے سے کھلاڑیوں کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کا موقع ملا اور اس سب کے درمیان مداحوں کا کھلاڑیوں سے رشتہ گہرا ہونے لگا۔ اس کی ایک وجہ تو پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس میں بہتری اور تسلسل ہے لیکن دوسری اہم وجہ پی سی بی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنایا جانے والا وہ دلچسپ مواد ہے جو ان کے ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو جاتا ہے۔ نہ صرف کرکٹ کے روایتی مداح اس مواد سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ پی سی بی کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد بھی اب کرکٹ کی جانب متوجہ ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے نوجوان خاص طور پر کھلاڑیوں کے دیوانے ہو چکے ہیں۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایک زمانے میں صرف روایتی میڈیا کے لیے مواد بنانے والے پی سی بی کو ڈیجیٹل میڈیا کا خیال کیسے آیا، یہ سفر کب شروع ہوا اور اس تبدیلی کے پیچھے حکمتِ عملی کیا تھی؟ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 یہ کہانی سنانے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ہی کھیلوں سے متعلق مواد وقت کے ساتھ تبدیل ہوا ہے اور اب ’سپورٹس کمیونیکیشن‘ ایک باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے۔ کرکٹ میں شاید اس حوالے سے کرکٹ آسٹریلیا کو سبقت حاصل ہے جنھوں نے سوشل میڈیا پر مواد بنانے سے متعلق بہت پہلے ہی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی تھی تاہم پی سی بی میں یہ تبدیلی سنہ 2019 کے بعد سے آنا شروع ہوئی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سمیع الحسن نے اس حکمتِ عملی کو ’مداحوں کو کھلاڑیوں سے قریب لانے کی کوشش‘ قرار دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’پی سی بی کی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ کھیل مداحوں سے ہوتا ہے اور مداحوں کو کھلاڑیوں سے قریب رکھنا بہت اہم ہے کیونکہ یہ ہر وقت ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔‘ ’مداح یہ جاننا چاہتے ہیں کہ گراؤنڈ سے باہر کھلاڑی کس طرح رہتے ہیں، کیا کرتے ہیں اور اپنے کو بہتر کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔‘ پی سی بی کی میڈیا حکمتِ عملی میں تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ہو رہی تھی اور بڑی ٹیموں کو پاکستان میں لانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ ایسے میں پی سی بی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنایا گیا مواد باقی دنیا کے لیے ’پاکستان کرکٹ کا چہرہ‘ تھا۔ سمیع الحسن کہتے ہیں کہ ’آپ دنیا کو اپنی کرکٹ کس طرح دکھاتے ہیں یہ بھی اہم تھا کیونکہ اس وقت ٹیمیں پاکستان نہیں آ رہی تھیں تو یہ اپنا پیغام باہر بھیجنے کا بھی اہم ذریعہ تھا تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ پاکستان میں کرکٹ کے بارے میں جذبہ کتنا زیادہ ہے۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 2 ظاہر ہے جس قسم کا مواد آج کل پی سی بی کے میڈیا پلیٹ فارمز پر دیکھنے کو ملتا ہے اس کو تیار کرنے کے لیے اسی طرح کی مہارت والے افراد بھی درکار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے نئے سرے سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کا کام میڈیا مینجمینٹ کے علاوہ مواد بنانا بھی تھا یعنی پاکستانی ٹیم کے ساتھ جانے والے میڈیا مینیجر اگر ماضی میں صرف میڈیا مینجمنٹ کرتے تھے تو اب ان کا کام گراؤنڈ سے باہر اور کیمرے کی آنکھ سے اوجھل کھلاڑیوں کی زندگیوں کے بارے میں مداحوں کو آگاہ رکھنا بھی تھا۔ تاہم یہ تمام عمل کرنے کے بعد ایسی حکمتِ عملی کی تشکیل بھی ضرروی تھی جو مداحوں کی پسند جانچ سکے کیونکہ تمام مواد میڈیا ٹیم کی جانب سے خود ہی پروڈیوس کیا جاتا ہے۔ سمیع الحسن کہتے ہیں کہ ’جو ٹیم ہم نے بھرتی کی وہ دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق کام کرتی تھی اور اس قسم کے آئیڈیاز لے کر آتی تھی جو سوشل میڈیا صارفین کی خواہشات کے مطابق ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اصل بات مداحوں کی خواہشات کو تسلیم کرنا اور پھر اسے مواد میں تبدیل کرنا تھی، ہمارے پاس جتنا بھی آؤٹ آف دی باکس آئیڈیا آتا ہم اسے تسلیم کرتے اور اس پر کام کرنے کی کوشش کرتے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے نہیں کیونکہ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ اگر آپ ایک ہی چیز بار بار دکھائیں گے تو صارفین اس سے تنگ آ جائیں گے۔‘ ’تو ہم ہر وقت نئے آئیڈیاز سامنے لا رہے ہوتے ہیں، وہ ہمیں ٹیم سے بھی ملتے ہیں، سوشل میڈیا سے بھی اور یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ سے بھی آئیڈیاز ملتے ہیں جنھیں ہم مواد میں تبدیل کرتے ہیں۔‘ اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔ Twitter پوسٹ کا اختتام, 3 پی سی بی کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 اور 2022 کے درمیان پی سی بی کے ٹوئٹر پر 35 لاکھ، فیس بک پر 41 لاکھ، یوٹیوب پر 32 لاکھ، انسٹاگرام پر 17 لاکھ جبکہ ٹک ٹاک پر سات لاکھ سے زیادہ فالوئرز ہیں۔ تاہم اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو آپ کو پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ مواد پر خواتین اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تبصرے کرتی دکھائی دے گی۔ یہ اس عام رائے کے برعکس ہے کہ خواتین کرکٹ میں کم دلچسپی لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کرکٹ ٹیم سے متعلق مواد بھی خاصا پسند کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پاکستانی کپتان بسمہ معروف کی بیٹی کے ساتھ انڈیا کی ٹیم کی ویڈیوز اور تصاویر خاصی وائرل ہوئی تھیں۔ سمیع الحسن کے مطابق ’یہ ہماری حکمتِ عملی کے دو اہم پہلو تھے کہ ہم نے خواتین اور نئے لوگوں کو کرکٹ کی جانب راغب کرنا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’خواتین ہماری آبادی کا 49 فیصد ہیں اور ہماری ڈیجیٹل سٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ ہیں اور اس کے علاوہ ہم ایسی نسلوں کو کرکٹ کی جانب لانے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے ایک عرصے تک پاکستانی ٹیم کو ہوم گراؤنڈز میں کھیلتے دیکھا ہی نہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں آج کے دور میں مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق کام کرنا ہو گا کیونکہ آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل آمدن کا اہم ذریعہ ہو گا۔ یہ بھی پڑھیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل انڈیا میں ’کوہلی کو گرفتار کرو‘ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟ بابر اعظم کا کور ڈرائیو نویں جماعت کے نصاب میں شامل ’لڑکے ہوں یا لڑکیاں، پاکستانی کرکٹرز دنیا کی کسی بھی ٹیم کو پچھاڑ سکتے ہیں‘ ظاہر ہے جب حکمتِ عملی یا سوچ میں تبدیلی لائی جائے تو اس میں مشکلات بھی سامنے آتی ہیں۔ تاہم سمیع الحسن کے مطابق چیلنجز ادارے کے اندر سے کم اور روایتی میڈیا کی طرف سے زیادہ تھے، جو اس کے باعث ’عدم تحفظ‘ کا شکار ہو رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم روایتی میڈیا سے نئے میڈیا پر منتقل ہو رہے تھے تو روایتی میڈیا کے افراد عدم تحفظ کا شکار نظر آئے کہ شاید ہم ان کی قدر میں کمی کر رہے تھے، ہمارا یہ مقصد کبھی بھی نہیں تھا۔‘ ’جہاں روایتی میڈیا ہمارا سٹیک ہولڈر ہے اسی طرح مداح بھی ہمارے اتنے ہی اہم سٹیک ہولڈرز ہیں اور ہم انھیں کھیل کے قریب لانا چاہتے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’کچھ مخالفت ضرور دیکھنے کو ملی روایتی میڈیا کی طرف سے لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی اس بات کو سمجھا ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا پر خاصے متحرک ہیں۔‘ خیال رہے کہ اکثر صحافیوں کو شکوہ تھا کہ پی سی بی صحافیوں کو کھلاڑیوں تک وہ رسائی فراہم نہیں کرتا جو اس سے پہلے کی جاتی تھی۔ تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گذشتہ کئی دہائیوں سے دی نیوز کے لیے کام کرنے والے صحافی عبدالمحی شاہ نے بتایا کہ ’یہ تاثر ایک وقت میں قائم تھا لیکن یہ اس لیے غلط تھا کیونکہ پی سی بی ہی دنیا کے لیے پاکستان کی کرکٹ کے بارے میں جاننے کا ذریعہ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ صحیح معنوں میں صحافی ہیں تو آپ رسائی کے مسائل کے باوجود بھی سٹوری نکال لیتے ہیں اور ایسا کوئی مسئلہ اس وقت درپیش نہیں۔‘ سمیع الحسن کا کہنا ہے کہ ’یہ تنقید اس لیے بھی سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ کسی بھی ادارے کی کمیونیکیشن ٹیم کا کام اپنے ادارے کی اچھی چیزیں دکھانا ہوتا ہے اور یہی ہم کر رہے ہیں لیکن یہ روایتی میڈیا کو اپنا کام کرنے سے روک تو نہیں رہا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/sport-63267890
انڈین کرکٹ بورڈ، جہاں رہنے کے لیے امت شاہ کا ’یس مین‘ ہونا ضروری ہے
آئندہ منگل کو انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے عہدیداروں کا انتخاب ہونے والا ہے۔ سابق انڈین کپتان اور کرکٹ بورڈ کے موجودہ صدر سورو گنگولی اس بااثر بورڈ کے انتخاب سے بظاہر باہر ہو چکے ہیں۔ بورڈ کے صدر کے لیے 1983 کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے ایک رکن راجر بنی نے صدر کے عہدے کے لیے اپنا نام داخل کرایا ہے۔ امکان یہی ہے کہ وہ بلا مقابلہ جیتیں گے۔ ابھی تک کسی اور نے اپنی نامزدگی داخل نہیں کروائی ہے۔ بی سی سی آئی کے اس الیکشن میں وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جے شاہ دوبارہ سیکریٹری کے عہدے کی تیاری میں ہیں۔ ملک کے وزیر اطلاعات اور نشریات انوراگ ٹھاکر کے بھائی ارون دھومل 280 ارب 390 کروڑ مالیت کے آئی پی ایل چیئرمین ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی جگہ بی جے پی ممبئی کے صدر آشیش شیلر بورڈ کے خزانچی بن سکتے ہیں۔ انڈیا کا کرکٹ بورڈ دنیا کا امیر ترین کرکٹ بورڈ ہے۔ ابھی حال ہی میں کرکٹ بورڈ نے آئی پی ایل کے نشریاتی حقوق ایک ٹی وی کمپنی کو 10 برس کے لیے 230 ارب 574 کروڑ روپے میں فروخت کیے۔ بورڈ کی آمدنی اور اثر و رسوخ کے پیش نظر سیاسی رہنما اس پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ معروف تجزیہ کار پردیپ میگزین کہتے ہیں ’بی سی سی آئی پر ہمیشہ سے سیاست حاوی رہی ہے۔ ابتدا میں یہ بیوروکریٹس اور کاروباری شخصیات کے زیر اثر رہا لیکن گذشتہ 20-25 برسوں میں اس پر سیاسی رہنما حاوی ہو گئے ہیں جس میں حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں دونوں کے رہنما شامل ہوتے تھے، لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس نے کرکٹ بورڈ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔‘ کئی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ سورو گنگولی کرکٹ بورڈ کی سیاست کی نذر ہو گئے ہیں۔ بعض رہنماؤں کا الزام ہے کہ بی جے پی چاہتی تھی کہ سورو بنگال میں بی جے پی میں شامل ہوں لیکن جب وہ نہیں ہوئے تو انھیں کرکٹ بورڈ سے باہر کر دیا گیا۔ پردیپ میگزین کہتے ہیں ’اس معاملے کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ سورو گنگولی امت شاہ کیمپ کی حمایت سے صدر بنے تھے۔ اب ان کے پاس وہ حمایت نہیں ہے۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے: سورو یس مین نہیں ہیں۔ گذشتہ دو برس سے امت شاہ اور ان کے بیٹے جے شاہ سے ان کے تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں۔ کئی فیصلوں میں ان کے اختلافات کُھل کر سامنے آئے۔ رہی بات سیاست کا شکار بننے کی تو سورو خود سیاست کے سبب بورڈ کے صدر بنے تھے اور اب اسی سیاست کی وجہ سے انھیں جانا پڑ رہا ہے۔‘ معاملہ اب صرف کرکٹ بورڈ کی کمائی اور اس کی طاقت کا نہیں رہا ہے۔ انڈیا کی حکومت نے حالیہ برسوں میں کرکٹ کا استعمال سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے منصوبوں اور پالیسیوں کو مشتہر کرنے اور اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے بھی کیا ہے جو اس سے پہلے کی حکومتوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ سابق کپتان وراٹ کوہلی کے پانچ کروڑ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ باقی سوشل میڈیا کے اعداد و شمار اگر دیکھیں تو وہ حیران کُن ہیں۔ اگر کوہلی حکومت کے کسی منصوبے کے بارے میں کچھ لکھتے ہیں یا وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں وہ یہ لکھیں کہ انھیں تر‏غیب انھیں سے ملتی ہے تو عوام پر اس کا اثر گہرا پڑتا ہے۔ آئندہ ہفتے کرکٹ بورڈ سے سورو گنگولی کو الوداع کہے جانے کی خبروں کے درمیان انھوں نے کہا کہ کوئی کھلاڑی نہ تو ہمیشہ کھیل سکتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے منتظم کی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ ایک پروگرام میں انھوں نے کہا ’میں بنگال کرکٹ بورڈ کا پانچ برس تک صدر رہا۔ بی سی سی آئی کا بھی کئی برس تک صدر رہا۔ اس مدت کے بعد آپ کو اسے چھوڑنا ہی ہو گا اور آگے بڑھنا ہو گا۔‘ سورو کے جانے کے بعد کرکٹ بورڈ میں وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کا رتبہ اور بھی بلند ہو جائے گا۔ ان کے پاس اب خود اپنی اور اپنوں کی ٹیم ہے۔ یہ اُنھیں بہت طاقتور بناتا ہے۔ بی سی سی آئی پر کنٹرول کا مطلب ہے کہ اب وہ دوسری ریاستوں کے کرکٹ بورڈوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں جو سیاسی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ پھر ان کے پاس نشریاتی حقوق کا اختیار ہے۔ اس سے بہت سے معاہدے منسلک ہوتے ہیں جو کاروباری برادری کو اپنی طرف مائل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ جے شاہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ساتھ کرکٹ بورڈ کی سرگرمیاں ممبئی سے ہٹ کر اب پوری طرح احمدآ باد منتقل ہوتی جا رہی ہیں۔ سپورٹ تجزیہ کار پردیپ میگزین کہتے ہیں ’گنگولی ہاں میں ہاں ملانے والے شخص نہیں تھے۔ نئے صدر راجر بنی اچھے کھلاڑی رہ چکے ہوں گے لیکن وہ امت شاہ کیمپ کے یس مین ہوں گے۔‘