Search is not available for this dataset
url
stringclasses 3
values | heading
stringclasses 3
values | content
stringclasses 3
values | ID
float64 0
3.39k
⌀ | URL
stringlengths 29
308
⌀ | Content
stringlengths 1
517k
⌀ | Title
stringlengths 2
256
⌀ |
---|---|---|---|---|---|---|
null | null | null | 95 | https://www.urduzone.net/dil-ka-kiya-kijye-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | میں ایسے والدین کی بیٹی تھی جن کی شرافت کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ والد تہجد گزار اور امی پانچ وقت کی نمازی تھیں۔ ہمارے گھر کا ماحول بے حد پاکیزہ تھا۔ بڑی بہن کو والد نے گھر پر خود پڑھایا۔ آپی نے بطور پرائیویٹ طالبہ میٹرک کا امتحان دیا۔ رزلٹ آتے ہی ان کی شادی کردی گئی۔ بھائی اسکول جاتا تو میں اسے حسرت سے دیکھتی تھی۔ جی چاہتا کہ میں بھی اسکول جائوں، والد نے اجازت نہ دی۔ بولے۔ تمہاری بہن کو بھی میں نے خود پڑھایا تھا میٹرک پاس کرلیا اس نے۔ آگے اس کے خاوند کی مرضی کالج میں پڑھائے یا نہ پڑھائے۔ تمہیں شوق ہے تو مجھ سے پڑھ لو۔ باجی کا ذہن تیز تھا۔ وہ اباجی کے تھوڑے پڑھائے کو جلد سمجھ لیا کرتی تھیں لیکن میں اتنی تیز نہ تھی۔ چند دن ابو سے پڑھا وہ روز سبق دیتے۔ دوسرے دن سنتے تو یاد نہ ہوتا۔ ڈانٹ پڑتی جس سے میں بددل ہوجاتی۔ امی نے یہ صورت حال دیکھی تو کہا۔ رابعہ کے ابو یہ تم سے نہیں پڑھ سکے گی۔ اس کے لیے کسی استانی کا گھر پر انتظام کردو۔ پہلے وہ راضی نہ ہوئے، پھر اس شرط پر ہامی بھرلی کہ استانی ایسی ہونی چاہیے جو قرآن پاک بھی پڑھا سکے۔ دین اور دنیا دونوں کی تعلیم دے سکے تبھی ٹیوشن پر رکھوں گا۔ اب ایسی استانی کی تلاش شروع ہوگئی۔ بڑی تگ و دو کے بعد امی کی ایک جاننے والی کے توسط سے ایک میٹرک پاس لڑکی مل گئی جو کالج میں پڑھ رہی تھی اور ضرورت مند تھی۔ اسے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے رقم کی ضرورت تھی۔ شام کو پانچ بجے سے چھ بجے تک وہ مجھے گھر پر ٹیوشن دینے آنے لگی۔ استانی مومنہ کو آئے چار ماہ ہوئے تھے کہ ایک روز والد صاحب نے اسے لاری اڈے پر کسی لڑکے ساتھ کھڑے دیکھ لیا۔ وہ ڈرائیور کے پاس گئے اور پوچھا کیا تم ان دونوں کو جانتے ہو۔ ہاں کیوں نہیں یہ اکثر یہاں آتے ہیں، لاری میں بیٹھ کر اگلے اسٹاپ پر اتر جاتے ہیں۔ وہاں سامنے کیفے ہے۔ یہ وہاں بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں اور دوسری لاری جو یہاں آرہی ہوتی ہے اس پر سوار ہوکر واپس آجاتے ہیں۔ چھوٹے علاقے میں ایسے معاملات چھپتے نہیں۔ والد صاحب نے مزید تفتیش کی۔ جب ڈرائیور کے بیان کی تصدیق ہوگئی تو انہوں نے استانی مومنہ کو ہٹا دیا۔ والدہ کو بھی خوب برا بھلا کہا کہ بے وقوف عورت جو ٹیچر خود مرض عشق میں گرفتار ہو میری بچی کو کیا پڑھائے گی۔ کسی روز اسے بھی اس موذی مرض کی لذت سے آشنا نہ کردے آئندہ اس لڑکی نے ہمارے گھر میں قدم بھی رکھا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ میری بدقسمتی کہ مومنہ کا راز والد پر کھل گیا اور مجھ پر تعلیم کا در بند ہوگیا۔ ہمارے علاقے میں ٹیوشن سینٹر نہ تھے، ہوتے بھی تو جو باپ اپنی بیٹی کو اسکول بھیجنے کا روادار نہ تھا۔ وہ اسے اکیڈمی پڑھنے کیوں بھیجتا۔ استانی کیا گئی میں مرجھا کر رہ گئی۔ بھائی جان کو میری دلی کیفیت کا اندازہ تھا۔ وہ میرے دکھ کو پوری طرح محسوس کر رہے تھے۔ ان کے ایک کلاس فیلو کے ماموں ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ وہ قاری بھی تھے۔ والد صاحب سے دست بستہ عرض کی اگر آپ اجازت دیں تو میں رابعہ کے لیے ایک اچھے استاد کا انتظام کردوں۔ وہ عمر رسیدہ ہیں۔ میرے دوست کے ماموں ہیں۔ بہت سے گھروں میں جاکر لڑکیوں کو ٹیوشن دیتے ہیں۔ والد بولے، استانی نے عورت ہوکر کیا گل کھلایا اب مرد استاد کی کسر رہ گئی ہے۔ میرے اور دوستوں کی بہنیں بھی ان سے ٹیوشن پڑھتی ہیں۔ آپ بھروسہ رکھیے۔ دنیا میں سبھی آدمی برے نہیں ہوتے۔ غرض کافی سر کھپائی کے بعد بھائی اکبر نے والد صاحب کو میرے لیے اس عمر رسیدہ ٹیوٹر کے لیے راضی کرلیا۔ جس کی ضمانت ان کے دوست کے والد نے ابو کو دی۔ وہ واقعی شریف اور محترم تھے۔ سارے علاقے میں ان کی عزت تھی۔ ان صاحب کا نام کمال دین تھا۔ کمال دین مجھے روز پڑھانے لگے۔ بہت محنت اور جانفشانی سے پڑھاتے تو میں بھی توجہ اور لگن سے پڑھتی۔ ایک سال میں انہوں نے مجھے دو جماعتیں پڑھا دیں۔ میں پھر تیسری سے پانچویں کے نصاب میں آگئی۔ پانچویں میں بورڈ کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن لائی تو سب طرف سے واہ واہ ہونے لگی۔ والد صاحب کا بھی دل بڑھا اور کمال دین استاد سے مطمئن ہوگئے۔ ہمارے گھر میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی۔ اسکول کے نصاب کے ساتھ وہ مجھے دینی تعلیم بھی دے رہے تھے، اس بات سے ابا جان بہت خوش تھے۔ میں سات سال کی عمر میں ان سے پڑھنے بیٹھی اور چھ سال پڑھا۔ ایک روز بھی انہوں نے ناغہ نہ کیا سوائے جمعہ کے۔ اور ہمیشہ توجہ سے پڑھایا۔ ابو سے دوستی ہوگئی تو وہ ہمارے گھر کے فرد جیسے ہوگئے۔ اصرار کرکے والد ان کوکھانا کھلاتے اور چائے پلواتے۔ جب مجھے پڑھا چکتے تو تھوڑی دیر والد سے گپ شپ کرتے اور میری پڑھائی کی تعریف کرتے۔ سچ بات یہ ہے کہ میری یادداشت کچھ اچھی نہ تھی۔ پڑھا ہوا بار بار بھول جاتی تھی، یہ استاد صاحب کی ہمت تھی جو پڑھائی کے لیے میرا ذہن بنایا اور ذہن کے دریچے کھولے۔ میں رغبت کے ساتھ ان کا پڑھایا ہوا سبق یاد کرتی تھی۔ اب میں کافی بڑی ہوگئی تھی اور برقع اوڑھنے لگی تھی مگر استاد صاحب سے میں نے پردہ نہ کیا۔ اب میں ان کو استاد صاحب کی بجائے چچا جان کہتی تھی۔ میرے تمام گھر والوں کو ان پر اعتبار تھا۔ گھر میں کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اب رابعہ بڑی ہوگئی ہے اور استاد صاحب لاکھ اچھے انسان سہی، ہیں تو نا محرم۔ پہلے کی طرح میں اب بھی اکیلے کمرے میں ان کے ساتھ پڑھنے بیٹھتی تھی اور اس معمول میں کوئی فرق نہ آیا کہ وہ جتنی دیر چاہتے مجھے پڑھاتے رہتے۔ اس تنہائی نے اپنا کام کر دکھایا۔ استاد صاحب کے دل میں میرے لیے محبت پیدا ہوگئی اور ایک دن وہ مجھ پر اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھے۔ مجھے ان سے ایسی امید نہ تھی گھبرا گئی۔ میں ان کی ایسی عزت کرتی تھی جیسے لڑکیاں اپنے بزرگوں کی کرتی ہیں بھلا میں ان کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتی تھی۔ استاد صاحب کے اظہارِ محبت سے میرا دل ان سے برا ہوگیا۔ ارادہ کرلیا کہ اب ان سے پڑھنا ترک کردوں گی۔ میں نے پڑھنے سے انکار کردیا۔ گھر والے لعنت ملامت کرنے لگے کہ جب منزل قریب آگئی ہے، میٹرک کی تیاری کرنی ہے تو اب پڑھنے سے جی چرا رہی ہے۔ اب ایک سال باقی رہ گیا ہے میٹرک تک پہنچنے میں۔ استاد صاحب آتے میں ادھر ادھر ہوجاتی۔ ان کے پاس پڑھنے نہ جاتی۔ والد اور بھائی ڈانٹتے یہ کیا تماشا ہے۔ امی ہر وقت برا بھلا کہتیں۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں آخر کیوں پڑھائی سے دل اٹھا لیا ہے میں ان کو وجہ نہ بتاتی بس یہی کہتی کہ مجھے اب پڑھائی مشکل لگتی ہے، میٹرک نہیں کرسکتی۔ اتنی پڑھائی میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ استاد صاحب بھی پریشان تھے۔ سمجھ گئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کرکے کتنی بڑی غلطی کر ڈالی ہے۔ وہ مقررہ وقت پر آجاتے، دیر تک بیٹھک میں بیٹھے رہتے اور میں جانے کا نام نہ لیتی۔ جانتے تھے کہ مجھے میٹرک کرنے اور کالج میں داخلے کا کتنا شوق ہے۔ انہوںنے ابا جان کو بھی اس امر کے لیے راضی کرلیا تھا کہ اگر رابعہ نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرلیا تو اسے کالج میں داخلہ دلوائیے گا۔ ایسی ہونہار بچی پر علم کے در بند کرنا ظلم ہوگا۔ ان کی کوششیں بار آور نہ ہوئیں۔ میں نے ان سے پڑھ کر نہ دیا۔ پڑھنے سے صاف انکار کردیا۔ اور انہوں نے روزانہ آنا موقوف کردیا۔ اب وہ کبھی کبھی والد سے ملنے آتے تھے اور باہر سے ہی مل کر چلے جاتے تھے۔ بھائی جان بی اے کے پرچے دے چکے تھے۔ انہوں نے مجھے قائل کیا کہ وہ خود پڑھائیں گے اور تمہیں میٹرک کا امتحان دینا ہوگا۔ اپنے بھائی سے پڑھنے پر مجھے کیا اعتراض تھا۔ خوش خوش بھائی جان سے پڑھتی اور یوں انہوں نے تیاری مکمل کرا دی تو میں نے امتحان دے دیا۔ اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کرلیا۔ بے شک اس میں استاد کمال دین کی بہت محنت شامل تھی لیکن ان کی ایک غلطی نے یہ اعزاز ان سے چھین لیا کہ وہ ایک اچھے استاد اور قابل بھروسہ انسان ہیں۔ کالج میں داخلے شروع ہوگئے۔ والد صاحب بیمار پڑ گئے۔ بھائی نے وعدہ پورا کیا اور مجھے گرلز کالج میں داخل کرا دیا۔ یہاں بھی محنت اور لگن سے تعلیم جاری رکھی کیونکہ کالج میں پڑھنا میرا خواب تھا۔ ایک روز کالج سے گھر لوٹ رہی تھی کہ کسی کو اپنا تعاقب کرتے پایا۔ مڑ کر دیکھا حیرت زدہ رہ گئی۔ یہ میرے وہی استاد محترم تھے جنہوں نے مجھے تقریباً آٹھ سال پڑھایا تھا اور آخر میں اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا۔ انہیں دیکھ کر کچھ دیرکو وحشت زدہ تو ہوئی، پھر اعتماد بحال کرلیا اور بغیر پیچھے دیکھے اپنی راہ چلتی رہی، یہاں تک کہ بہ خیر و عافیت گھر پہنچ گئی۔ مجھے نہیں معلوم کب تک استاد کمال دین میرے پیچھے آئے اور کب راہ مڑ گئے۔ ہفتہ بعد پھر یہی واقعہ ہوا۔ اس بار بھی نظر انداز کیا۔ بازار میں ان کو تماشا بنانا چاہتی تھی اور نہ خود تماشا بننا چاہتی تھی۔ ان کا احسان بھی یاد تھا کہ مجھ کند ذہن پر انہوں نے کتنی محنت کی تھی جب میں چھوٹی سی تھی اور بار بار پڑھا ہوا سبق بھول جاتی تھی۔ تیسری بار میں ان کے تعاقب کو نظر انداز نہ کرسکی اور جب وہ میرا تعاقب کرتے ہوئے قریب آگئے تو رک گئی اور مڑ کر ان سے مخاطب ہوگئی۔ استاد صاحب کیا بات ہے۔ کیا کوئی مسئلہ ہے جو آپ یوں میرا پیچھا کررہے ہیں۔ کوئی پرابلم ہے تو بتائیے۔ میں بہت شرمندہ ہوں رابعہ اور تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ جس روز اظہارِ محبت کی غلطی ہوئی اس دن سے جان سولی پر ٹنگی ہے۔ جیتا ہوں اور نہ مرتا ہوں۔ شرمندگی اس قدر ہے کہ اپنے ضمیر سے بھی آنکھ نہیں ملا سکتا۔ اتنا پچھتاوا ہوتا ہے کبھی کبھی جی چاہتا ہے خودکشی کرلوں زندگی کی اب بس ایک خواہش تھی تم ایک بار کہیں مل جائو تو تم سے معافی مانگ لوں، اگر تم معاف کردو تو سکون آجائے گا۔ یقین کرو سکون سے مرسکوں گا اور قبر میں بھی سکون سے سو سکوں گا۔ وہ اس قدر نادم نظر آرہے تھے کہ مجھے ان پر ترس آگیا۔ ان کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔ یہ رستہ تھا۔ عام گزرگاہ تھی۔ مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ لوگ ہمیں دیکھ رہے ہوں گے تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ جب انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ رابعہ کہو تم نے مجھے صدقِ دل سے معاف کیا تو میں یہ الفاظ دہرائے بغیر نہ رہ سکی اور کہا استاد صاحب میں نے آپ کو صدق ِدل سے معاف کیا۔ بے شک بھول انسان سے ہوجاتی ہے اور آپ بھی ایک انسان ہی ہیں۔ بولے۔ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے اس کا دل مگر بوڑھا نہیں ہوتا اور دل پر کسی کا اختیار نہیں، اسے کوئی شے پسند آجائے تو بچہ بن جاتا ہے تم نے میری بھول کو معاف کیا۔ مجھے سکون آگیا۔ اللہ تم کو خوش رکھے۔ اب کبھی تمہارے رستے میں نہ آئوں گا۔ واقعی اس روز کے بعد استاد صاحب پھر کبھی میرے رستے میں نہ آئے۔ انہوں نے مجھ سے استدعا کی تھی کہ ان کے اس راز کو راز رکھوں گی اور کبھی کسی کو نہ بتائوں گی۔ میں نے بھی ان کی بزرگی کی لاج رکھتے ہوئے کبھی اس بات کا کسی سے ذکر نہ کیا۔ اور ایک انسانی غلطی سمجھ کر فراموش کردیا کہ انسان کا دل واقعی کبھی کبھی اس سے ایسی خطا کرا دیتا ہے جب کوئی اپنی دلی کیفیات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ میں اچھی لڑکی تھی۔ استاد کمال دین بھی باکردار آدمی تھے۔ تو یہ کہانی شروع ہونے سے پہلے ختم ہوگئی۔ میں رسوا ہوئی اور نہ وہ ذلیل و خوار ہوئے لیکن سوچتی ہوں ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسی کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔ یہ داستانیں کوچہ کوچہ بکھری پڑی ہیں۔ جب ناسمجھ اور نادان نوعمر لڑکیاں اپنے گھاگ قسم کے استادوں سے مرعوب ہوکر ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہیں اور آخر میں عمر بھر کا پچھتاوا پلے بندھ جاتا ہے۔ والد صاحب کی بیماری بہت بڑھی تو ان کو لاہور لے گئے جہاں کینسر تشخیص ہوا۔ یہ ایسی بیماری تھی کہ علاج کرائو تو مرو نہ کرائو تو مرو۔ بھائی کو ابھی نوکری نہ ملی تھی۔ والد کی تھوڑی سی پینشن میں گزر بسر ہورہی تھی۔ کینسر کے عفریت نے منہ کھولا تو اباجی کے علاج کی خاطر مکان بک گیا اور ہم کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے۔ یہ بعد میں پتا چلا کہ کرائے کا یہ مکان استاد محترم کا ہے جس کا ہم برائے نام کرایہ دیتے تھے۔ جب ہمارے مالی حالات بہت خراب ہوگئے تو پریشانی کے عالم میں ایک روز استاد کمال، بھائی کو ملے یوں کہ وہ اسپتال گئے تو وہاں والد صاحب کو بھائی جان معائنہ کے لیے لے گئے تھے، کینسر وارڈ میں ٹکرائو ہوگیا۔ استاد کمال اپنے بڑے بھائی کو چیک اَپ کے لیے لائے تھے۔ خیر خیریت دریافت کی۔ جب انہیں پتا چلا والد صاحب کینسر میں مبتلا ہیں تو بہت دکھی ہوئے۔ اب روز گھر آنے لگے۔ والد کی تیمارداری کے بہانے علاج کے لیے رقم اور دوائیں لاکر دیتے۔ ڈاکٹروں نے اباجی کا آپریشن بتایا۔ خرچہ بہت زیادہ تھا۔ استاد صاحب نے ہمت بندھائی اور ان کو آپریشن کے لیے آمادہ کیا۔ دوران آپریشن دن رات ساتھ رہے اور تمام خرچہ انہوں نے اٹھایا۔ یہ ان کا ایسا احسان تھا جس کو ہم لوگ کبھی نہیں بھلا سکتے۔ والد صاحب کی زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ کچھ عرصہ بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ لیکن استاد کمال نے ان سے وفا کی۔ میرے بھائی کو اپنے اثر و رسوخ سے ملازمت دلوا دی۔ میری تعلیم کا خرچہ اٹھایا اور دکھ سکھ میں کام آتے رہے، یہاں تک کہ جب میری شادی کا وقت آیا تو انہوں نے کافی رقم قرضِ حسنہ کے طور پر والدہ کو دی جو بعد میں معاف کردی۔ ان کی عنایت سے آج میں اپنے گھر میں خوش اور آباد ہوں۔ بھائی برسرروزگار ہے۔ امی ان کو ہر وقت دعائیں دیتی ہیں۔ اگر وہ مدد نہ کرتے تو ہمارا کیا بنتا۔ آج میں سوچتی ہوں انسان بھی عجب فطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو محبت کے دعوے دار ہوتے ہیں مگر محبت کو آڑ بناکر دوسرے کو شکارکرتے ہیں۔ ان کی عزتوں کو خاک میں ملاکر خاندانوں کو تباہ کردیتے ہیں اور ایک وہ جو واقعی محبت کرتے ہیں تو پھر صدقِ دل سے بغیر کسی طمع اور لالچ کے، اس جذبے کو دل میں چھپا کر رکھتے ہیں، عمر بھر اس پھول کو مرجھانے نہیں دیتے، ان کی مہک سے اپنی روح اور دوسروں کی زندگیوں کو معطر رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے اس دنیا میں بہار ہے۔ ر لاہور | null |
null | null | null | 96 | https://www.urduzone.net/saza-kisay-mile-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | آٹھ برس کی تھی جب ممانی نے اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بیٹے سہیل کو پسند تھی جبکہ وہ مجھ سے دس برس بڑا تھا۔ آٹھویں پاس کرتے ہی میری منگنی اس کے ساتھ کردی گئی اور دس روز بعد ہی یہ منگنی ٹوٹ گئی۔ منگنی ٹوٹنے کا قصہ بھی بڑا عجیب تھا۔ مڈل پاس کرنے کی مبارکباد دینے ممانی لاہور آئیں۔ اس مبارکباد کے پیچھے ان کا یہ ارادہ کارفرما تھا کہ رسم منگنی ادا کرکے جائیں گی، تبھی مٹھائی اور انگوٹھی ساتھ لائی تھیں۔ امی، ابو کو میری شادی کی جلدی نہ تھی مگر سہیل کو دھڑکا تھا، اس کے ڈاکٹر بننے تک میرا کہیں اور رشتہ طے ہوگیا تو وہ ہاتھ ملتے نہ رہ جائیں۔ ان دنوں وہ میڈیکل تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ لڑکے کے شاندار مستقبل کو دیکھتے ہوئے ابو نے امی کا دبائو قبول کرلیا اور رشتے کے لیے ہامی بھر لی تو ممانی نے یہ مسئلہ جلد نمٹا دیا کیونکہ میرے سگے تایا بھی رشتہ مانگ رہے تھے۔ ایسی باتیں خاندان میں پوشیدہ نہیں رہتیں۔ میری منگنی کی خبر جب تایا کو ملی تو ان کو سخت صدمہ ہوا۔ منجھلا بیٹا برہان تو خبر سنتے ہی خودکشی کی دلدل میں جاگرا۔ علم نہ تھا کہ مجھے اس قدر چاہتا ہے کہ جان پر کھیل جائے گا۔ اس نے میری منگنی کی خبر سنتے ہی کوئی زہریلی دوا پی لی۔ اللہ نے کرم کیا تایا عین وقت پر گائوں سے شہر پہنچ گئے اور برہان کو اسپتال میں فوری طبی امداد مل گئی، اس کی جان بچ گئی لیکن ہوش میں آنے تک وہ میرا نام لے کر پکارتا رہا۔ برہان کی اس حرکت سے سب کو معلوم ہوگیا کہ وہ مجھے چاہتا ہے۔ منگنی کا سن کر ہی خودکشی کی کوشش کی ہے۔ میں نے سنا تو دل تھام لیا۔ سچ بات تھی کہ مجھے بھی برہان پسند تھا اور اپنے ماموں زاد سہیل سے کوئی لگائو نہ تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں کافی بڑا تھا۔ جب گھر آتا، اس سے بات بھی نہ کرتی تھی جبکہ برہان اور میں ساتھ کھیلے تھے۔ بچپن کے وہ سنہری دن جب ہم ایک گھر میں رہا کرتے تھے، میں ابھی تک نہ بھولی تھی۔ ابو اپنے بھتیجے سے بہت پیار کرتے تھے۔ خودکشی کا سن کر اسپتال دوڑے گئے۔ برہان کو تسلی دی اور اپنے بھائی سے وعدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ برہان کی زندگی رکھے، وہ اس کو اپنا داماد بنائیں گے۔ گھر واپس آکر انہوں نے ماموں کو فون کرکے منگنی توڑنے کا اعلان کردیا۔ والد کی طرف سے رشتے سے انکار پر امی روہانسی اور ماموں، ممانی شدید ڈسٹرب ہوئے۔ انہوں نے ہم سے قطع تعلق کرلیا مگر تایا اور تائی نہال تھے۔ ان کے بیٹے کو نئی زندگی کی نوید جو ملی تھی۔ میں بھی خوش تھی۔ بچپن سے میرے معصوم دل پر برہان کی تصویر ثبت تھی، اسے مٹا دینا میرے بس میں نہ تھا۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ اگر میں برہان کی شیدائی تھی تو وہ بھی مجھے اس قدر چاہتا تھا کہ اس نے جان کی بازی لگا دی۔ سوچتی تو اس کی محبت پر فخر ہوتا۔ بھلا کون کسی کو اتنا چاہتا ہے کہ اپنی جان بھی دائو پر لگا دے۔ کتنا اعتماد اور یقین تھا مجھے اپنے تایا زاد پر مڈل سے ایف اے تک میں نے ہر دن گن گن کر گزارہ تھا۔ تایا کہتے تھے۔ برہان تعلیم مکمل کرلے تو بیٹے کے سر پر سہرا سجا کر بارات لے کر آئیں گے اور مجھے ڈولی میں بٹھا کر لے جائیں گے۔ منگنی کو چار سال گزر گئے۔ برہان نے تعلیم مکمل کرلی۔ ابو نے تایا کو کہلوایا کہ اب بیٹے کی شادی کی تیاریاں شروع کریں، میں بیٹی کو رخصت کرنا چاہتا ہوں۔ جواب آیا۔ چند ماہ ٹھہر جائو، برہان کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا ہے۔ اس کو آجانے دو، تاریخ بھی رکھ لیں گے۔ دو ہفتے تک انتظار کیا جواب نہ آیا تو ابو گائوں چلے گئے تاکہ تایا سے حتمی تاریخ لیں۔ پتا چلاکہ برہان روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر جارہا ہے۔ ہمیں ایک سال اور انتظار کرنا ہوگا۔ والد منہ لٹکا کر لوٹ آئے۔ برہان بیرون ملک چلا گیا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ سال پلک جھپکتے گزر گیا مگر میرے لئے انتظار کی گھڑیاں صدیوں جیسی تھیں۔ منگنی کے بعد برہان نے ہماری طرف آنا کم کردیا تھا۔ کبھی آتا بھی تو میں سامنے جانے سے گریز کرتی تھی۔ امی کا لحاظ، کبھی ابو بیٹھے ہوتے اور کبھی اس کے گرد چھوٹی بہنوں کا جمگھٹا لگا ہوتا۔ ایسے میں منگیتر سے دل کی باتیں کیونکر کرسکتی تھی۔ منگنی کو پانچ سال بیت گئے، دل کے ارمان حسرت بن گئے، برہان نہ لوٹا۔ امی، ابو بھی اب میرے فرض سے جلد سبکدوش ہونا چاہتے تھے کیونکہ چھوٹی بہنیں شادیوں کی عمر کو پہنچ رہی تھیں۔ اس دوران شومئی قسمت، تایا وفات پا گئے۔ باپ کی موت پر بھی بیٹا امریکا سے نہ لوٹ سکا۔ ابو نے برہان کے بھائی فرقان سے بات کی کہ اب کب تک ہمیں انتظار کروانا ہے۔ اس نے کہا۔ چچا جان خاطر جمع رکھئے، میں برہان کو خط لکھتا ہوں۔ فون تو وہ اپنی مرضی سے اٹھاتا ہے۔ میرا ایک دوست اس شہر میں جارہا ہے، جہاں برہان رہتا ہے۔ وہ بذات خود مل کر جواب لائے گا۔ ان دنوں فون کی اتنی سہولت نہ تھی جس قدر آج ہے۔ فرقان نے خط لکھ کر دوست کو دیا کہ میرے بھائی کے ہاتھ میں دینا تاکہ وہ شادی کے بارے میں بتائے یا فون کرے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے۔ برہان نے خط کے جواب میں لکھا۔ بھائی جان مجھے نازیہ سے شادی نہیں کرنی اور میرا وطن لوٹ کر آنے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں ہے۔ آپ میری فکر چھوڑ دیں، میں اپنی شادی خود کرلوں گا۔ دوبارہ مجھے اس موضوع پر خط تحریر کرنے کی کوئی تکلیف نہ کرے۔ فرقان نے جواب پڑھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ چچا کو کیا جواب دے۔ خط لے کر ابو کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور بولا۔ جو جواب دیا ہے، آپ خود پڑھ لیں، اپنے منہ سے کیا کہوں کہ منہ نہیں کھلتا۔ والد نے خط پڑھا تو سکتے میں آگئے کیونکہ یہ منگنی بھی خود برہان نے خودکشی کی کوشش کرکے اور سب کو ہلا کر کروائی تھی۔ امی نے میری بہن کو بتایا کہ وہاں سے ایسا جواب آیا ہے۔ نازی کو خط دکھا دو۔ بہن نے مجھے خط لا کر پڑھوا دیا۔ اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا لیکن فرقان بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے نہ تھا، تبھی وہ برہان کا اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ وہ خط لے کر آگیا تھا تاکہ کسی شک و شبہے کی گنجائش نہ رہے۔ میں نے خط پڑھا۔ غم و غصے سے خون کھول گیا بلکہ غصہ غم پر غالب آگیا۔ اب میں سمجھدار ہوچکی تھی، برداشت نہ ہوسکا۔ اسی وقت خط کا جواب لکھ کر فرقان کو دیا کہ اگر یہ خط لا سکتے ہو تو اس کا جواب بھی اپنے بھائی تک پہنچا دو۔ تمہارا احسان ہوگا۔ خط میں، میں نے تحریر کیا تھا۔ برہان تم نے جو مذاق ہم لوگوں سے کیا ہے، وہ شریفوں کا شیوہ نہیں۔ پانچ برسوں تک تم نے میرے والدین کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا اور پھر ایسا جواب دیا جسے پڑھ کر تم کو شوٹ کردینے کو جی چاہتا ہے۔ میری منگنی ہوگئی تھی، تم ہی نے میری خاطر خودکشی کرکے یہ منگنی ختم کروائی اور اب تم ہی ٹکا سا جواب دے رہے ہو، وہ بھی پانچ برس کے انتظار کے بعد کاش تمہاری اپنی کوئی بہن ہوتی اور اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو تمہیں پتا چلتا کہ بیٹی والے والدین کی اہانت کرنے سے ان کو کس قدر دکھ پہنچتا ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو تم کو ایسی سزا دیتی کہ عمر بھر یاد کرتے۔ کاش میں اتنی بے بس نہ ہوتی اور تم سے اپنی اہانت کا بدلہ لے سکتی۔ ایسا بدلہ کہ تم کو چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔ فرقان نے ایک امانت کی طرح میرا خط کسی طور اپنے بھائی کو بھجوا دیا۔ سوچتی تھی خط ملتے ہی رو پڑے گا مگر اس کٹھور پر کوئی اثر نہ ہوا۔ الٹا اس نے قسم کھا لی کہ یہ کیا بدلہ لے گی، میں اس کو مزہ چکھائوں گا۔ چند دن بعد اس نے اپنے بھائی کو خط بھیجا اور اپنے پہلے خط میں لکھی تحریر کی معافی مانگی اور میرے والد کے پاس جاکر معافی طلب کرکے شادی کی تاریخ لینے کی ہدایت کی۔ یہ خط لے کر تائی اور فرقان ہمارے گھر آئے۔ برہان کا خط دکھا کر اس کی طرف سے معافی کے خواستگار ہوئے۔ بتایا کہ پندرہ روز بعد برہان وطن پہنچ جائے گا، آپ شادی کی تاریخ دے دیں تاکہ ہم اسے فون کرکے بتا دیں۔ ابو، امی نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور تائی کو شادی کی تاریخ دے دی۔ وہ بڑی تھیں اور معافی مانگ لی تھی تو اب ان کو کچھ کہنا بداخلاقی ہوتی۔ بے شک برہان سے ناراض تھی لیکن دل میں ابھی تک محبت کے جذبات باقی تھے۔ میں اس وجہ سے خوش تھی کہ ابو صدمے سے بچ گئے تھے اور رشتے داروں میں جو ہماری سبکی ہونی تھی، اس سے بھی اللہ نے ہمیں بچا لیا تھا۔ برہان کی ہاں سے عزت رہ گئی اور میرا بھی اس نے مان رکھ لیا تھا۔ گویا میرے خط نے اس کے دل پر اثر کیا تھا لہٰذا یک گونہ خوشی ہوئی۔ پہلے خط نے جو صدمہ دیا، جاتا رہا۔ امی، ابو میری شادی کی تیاریوں میں لگ گئے تھے، بہنیں خوش تھیں۔ پندرہ روز پلک جھپکتے گزر گئے اور برہان پاکستان آگیا۔ ہمارے گھر خوشی کے گیت گائے جانے لگے۔ طویل انتظار ختم ہوچکا تھا۔ سہلیاں ڈھولک پر گیت گا رہی تھیں، مجھے ابٹن لگایا گیا، مہندی گھولی گئی اور سب سہیلیوں نے مہندی لگائی۔ امی نے منیاری بلا کو گھر پر ہی ان کو پسند کی چوڑیاں پہنا دیں۔ شادی میں ایک دن باقی تھا۔ اچانک برہان نے فرقان سے کہا۔ بھائی جان کل میری فلائٹ ہے۔ میں واپس جارہا ہوں، وہاں سے فوری بلاوا آگیا ہے۔ نہیں گیا تو پھر کبھی نہ جاسکوں گا، جانا ضروری ہے۔ یہ کیا کہہ رہے ہو بھائی کل تمہاری شادی ہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے بس مجبوری ہے، کیا کروں۔ معاملے کو تم سنبھال لینا۔ یوں بھی مجھے نازیہ سے شادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ امی کی خاطر پھانسی کا یہ پھندا گلے میں ڈال رہا تھا۔ تم ہوش میں تو ہو تائی نے گھبرا کر کہا۔ ہر جگہ دعوت نامے بٹ چکے ہیں اور گھر مہمانوں سے بھرا ہے۔ ان لوگوں سے کیا کہوں جو تمہاری شادی میں شرکت کرنے آس پاس کے گائوں سے آچکے ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کوئی مجبوری ہوگئی ہے، تبھی یہ شادی ملتوی کررہے ہیں۔ وہ واپس اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ معاملہ کیا ہے، کچھ بتائو تو فرقان نے اپنے چھوٹے بھائی کو قسم دی تو وہ منہ سے پھوٹا۔ نازیہ نے مجھے ایسا خط لکھا کہ سخت غصہ آیا۔ وہ مجھے سزا دینا چاہتی تھی اور بدلہ لینا چاہتی تھی۔ میں نے اس کو سزا دے دی ہے۔ وہ کیا بدلہ لے گی، منہ چھپا کر روئے گی اور تاقیامت یاد رکھے گی میری اس سزا کو اپنے بھائی کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر فرقان کا برا حال ہوگیا۔ شادی کا سارا انتظام اسی نے کیا تھا، والد کی وفات کے بعد وہی کنبے کا سہارا اور سربراہ تھا۔ اسی وجہ سے ابھی تک شادی بھی نہ کی تھی۔ اتنا کہہ کر برہان اپنا بیگ لے کر چلا گیا جبکہ فرقان اس کو روکتا رہ گیا۔ اب ساری برادری کا سامنا اسی نے کرنا تھا۔ رشتہ داروں کو جواب اسی نے دینا تھا۔ امی، ابو کا سامنا بھی اسی نے کرنا تھا۔ وہ سر پکڑے بیٹھا تھا۔ تائی بے چاری بوکھلا کر اِدھر اُدھر دوڑ رہی تھیں۔ ان کی حالت دیدنی تھی اور ان کا دکھ سننے والا کوئی نہ تھا۔ فرقان سوچ رہا تھا کہ وہ مہمانوں سے کیا کہے۔ کیا یہ کہہ دے کہ اس کے والد دوبارہ فوت ہوگئے ہیں، اسی لئے برہان شادی نہیں کررہا۔ فرقان پر یہ رات بہت بھاری گزری۔ اس میں ہمت نہ تھی جاکر دلہن والوں کو کہے کہ اس کے بھائی نے عین وقت پر دھوکا دیا ہے، شادی سے انکار کرکے چلا گیا ہے۔ شاید کہ برفانی ملک جاکر اس کا دل بھی برف کی طرح یخ اور خون سفید ہوگیا تھا۔ دل سے رشتوں کا احساس اور ان کا تقدس جاتا رہا تھا۔ یہ سوچ کر دل بیٹھا جاتا تھا کہ کل جب گائوں سے بارات شہر دلہن والوں کے گھر نہ جائے گی تو ہم لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔ فرقان بہت پریشان تھا۔ اس نے پھپھو کے بیٹے کو بلا کر احوال کہا۔ بولا۔ اب تم ہی جاکر چچا سے کہو کہ برہان یہ کرگیا ہے، میری تو ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رہی ہے۔ مجھے دلہن بنانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ سنار سے زیور لا کر سنگھار میز پر رکھ دیا گیا تھا، عروسی جوڑا استری ہوچکا تھا۔ مجھے نہلا کر آئینے کے سامنے بٹھا دیا گیا تھا۔ مشاطہ سجانے سنوارنے آچکی تھی۔ باہر بارات کے استقبال کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں۔ بارات کے انتظار میں شام کے چھ بج گئے۔ انہوں نے پانچ بجے آنے کا کہا تھا کیونکہ گائوں سے شہر آنا تھا، پھر دلہن کو لے کر واپس بھی جانا تھا۔ ابو نے ہدایت کی تھی، سرشام نکاح اور رخصتی ہوجائے گی تاکہ بروقت بارات کی واپسی ہوسکے۔ آٹھ، نو اور پھر رات کے دس بج گئے، بارات نہیں آئی تو والد صاحب نے فون کرایا۔ ان دنوں فون پولیس اسٹیشن پر ہوتا تھا یا پھر اسپتال میں ابو نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر کو اسپتال فون کیا کہ جاکر میرے بھائی کے گھر معلوم کریں، خیریت تو ہے ہم بارات کا انتظار کررہے ہیں۔ ادھر فرقان، تائی سے کہتا تھا۔ اب تم وہاں جائو، میں کس منہ سے جائوں، ان کو کیا کہوں۔ بالآخر تائی نے اپنے بھائی سے کہا کہ گاڑی نکالو۔ تین گھنٹے کا راستہ تھا۔ ملتان سے بہاولپور آنا تھا۔ ایک بجے رات یہ لوگ آگئے جب تک مہمانوں کو کھانا کھلایا جا چکا تھا اور مولوی صاحب دم بخود بیٹھے تھے کہ مزید انتظار کریں یا چلے جائیں۔ مہمان تو آدھے سے زیادہ کھانا کھا کر جا چکے تھے۔ فرقان اور تائی بغیر بارات پہنچے تو ابو نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ فرقان کے ماموں نے احوال بتایا جو فرقان نہ بتا سکا تھا۔ والد نے حواس بحال رکھے اور اعلان کیا کہ میری والدہ جو ضعیف ہیں اور گائوں میں ہیں، ان کی طبیعت بے حد خراب ہوگئی تو ان کو اسپتال لے جانے کی وجہ سے دیر ہوگئی ہے۔ باراتی صبح آئیں گے اور دلہن صبح رخصت ہوگی۔ ابھی صرف نکاح ہو گا، تبھی انہوں نے فرقان سے کہا۔ بیٹا تم برہان کے کئے کو سنبھال لو۔ تم میرے بھائی کے بیٹے ہو، اس وقت تم سے التجا کرسکتا ہوں کہ خاندان کی لاج رکھ لو۔ برہان نہ سہی تم سہی۔ امی ابو رو رہے تھے، تائی بھی رو رہی تھیں۔ ہمارے گھر میں قیامت کا سماں تھا۔ فرقان نے فیصلہ کرلیا۔ اس نے کہا کہ تایا میں رکھوں گا خاندان کی لاج۔ اب میں آپ کا بیٹا ہوں، لایئے وہ جوڑا جو آپ نے برہان کے لیے بنوایا تھا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر چچا کا ہاتھ تھام لیا۔ انہوں نے عروسی جوڑا پہنا دیا، سر پر سہرا بھی اپنے ہاتھوں سے باندھا۔ رات ڈیڑھ بجے فرقان کا مجھ سے نکاح کردیا گیا۔ جب نکاح میں مولوی صاحب نے برہان کی جگہ فرقان کا نام لیا تو میں سن ہوگئی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ سہواً یہ غلطی کرگئے ہیں یا پھر مجھ سے اس امر کو پوشیدہ رکھا گیا تھا۔ میں قبول ہے کہنے سے ہچکچائی، تبھی ابو نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ تم نے قبول ہے کہنا ہے، میری لاج رکھنی ہے ورنہ میرا دل بیٹھ جائے گا۔ مجھے صرف اپنے والد کا دھیما لہجہ جس میں التجا تھی، یاد رہ گیا، باقی ہر شے بھلادی اور قبول ہے، دہرادیا۔ صبح چھ بجے بارات گائوں سے آگئی اور سات بجے وہ مجھے لے کر واپس ہوگئے۔ تمام راستے ذہن سن اور حواس مختل رہے۔ سوچ نہ پائی یہ سب کیا ہے۔ دلہن کا کمرہ وہاں سجا ہوا تھا، دلہن بھی آگئی لیکن دولہا وہ نہ تھا جس کو دولہا بننا تھا۔ فرقان نے مجھے کہا۔ نازیہ گھبرانا مت، ہر بات بتاتا ہوں۔ میرا کوئی دوش نہیں ہے۔ چچا جان نے التجا کی اور میں ان کی التجا کو ٹھکرا نہ سکا۔ اب اگر تمہیں نامنظور ہے تو جو چاہے فیصلہ کرو، جو چاہے سزا دو۔ میں نے اپنے مرحوم والد کی عزت اور چچا جان کی لاج نباہی ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گرے اور میں نے ان کو اپنے رومال سے صاف کردیا۔ اب اگر میں تم کو قبول نہیں تو بتا دو، میں تمہارے فیصلے کا احترام کروں گا۔ جو ہوا، بہتر ہوا فرقان اس سے تم بہتر ہو جو ہمیں رسوا کرنے کا منصوبہ بنا کر بدیس سے آیا اور نجانے کس بات کی سزا دے کر چلا گیا لیکن اللہ نے مجھ پر مہربانی کی ہے۔ اس نے تم کو میرا ساتھی بنا دیا ہے۔ برہان اس لائق نہ تھا کہ میری اس سے شادی ہوتی تبھی اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔ جب اس کو پتا چلا کہ فرقان اس کی کھودی قبر میں لیٹ گیا ہے، اس کے بعد برہان کبھی نہ لوٹا۔ تائی راہ تکتی وفات پا گئیں۔ اس کو پتا تھا کہ اب خاندان اور گھر میں اپنوں کے دلوں میں اس کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔ پھر وہ کیوں لوٹ کر آتا۔ اچھا ہوا کہ نہیں آیا، آتا بھی تو ہم میں سے کون تھا جو اس کی شکل دیکھنا گوارا کرتا۔ آج میں اسی گھر کی بہو ہوں، جس گھر کی بہو مجھے بننا تھا۔ فرق یہ ہے کہ ایک نیک فطرت اور عمدہ سیرت انسان کی شریک حیات ہوں جس کے اچھے کردار پر مجھے فخر ہے۔ ن۔ م ملتان | null |
null | null | null | 97 | https://www.urduzone.net/hamari-kaun-khabar-le-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | لوگ دل کی تسکین کے لیے اس بازار جاتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہاں دل لبھانے اور رقص و سرود کی محفلیں سجانے والی یہ لڑکیاں کہاں سے آتی ہیں۔ کوئی بتائے یا نہ بتائے لیکن میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میں اس حسن کے بازار میں کہاں سے آئی تھی اور کس کی بیٹی تھی۔ یہ قصہ میری والدہ کی بدنصیبی کے اس دن سے شروع ہوا ہے جب شادی کے چھ ماہ بعد ایک رات ان کے شوہر یعنی میرے والد دیر سے گھر آئے تو ان کے بالوں میں گلاب کے پھولوں کی چند مرجھائی ہوئی پتیاں چپکی تھیں۔ والدہ نے ان مرجھائی پتیوں کو اپنی حنائی انگلیوں سے جدا کرکے کہا۔ کیا پوچھ سکتی ہوں یہ کہاں سے آئیں، کیا آپ کسی پھولوں بھرے بستر پر لیٹ کر آئے ہیں۔ والد صاحب کو بیوی کا یہ سوال برا لگا اور انہوں نے دھکا دے کر انہیں پرے کردیا اور خود بستر پر کروٹ بدل کر سوگئے۔ والدہ رات بھر روتی رہیں صبح ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ والد نے کلام نہ کیا، تیار ہو کر دفتر چلے گئے۔ وہ سمجھیں وقتی ناراضی ہے۔ بات کوئی ایسی نہ تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے بیوی کو چھوڑ دیتے۔ تاہم امی بہت دکھی تھیں جب ان کا دیور کمرے میں اپنے بھائی کے بارے میں پوچھنے آیا۔ امی کی سرخ آنکھوں کو دیکھا تو پوچھا۔ بھابی کیا آپ روئی ہیں امی کو جیسے کسی غمگسار کی ضرورت تھی، دیور کو چھوٹا بھائی سمجھ کر تمام بات بتادی۔ اس نے کہا روئیے نہیں، بھابی میں بھائی کے اس معاملے کا کھوج لگا کر آپ کو آگاہ کروں گا کہ کہاں جاتے ہیں اور قصہ کیا ہے دیور نے بھابی سے کیا وعدہ پورا کیا اور اپنے بھائی کا کسی طور پیچھا کرکے معلوم کرلیا کہ وہ کہاں جاتے ہیں۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے والد اس بازار کی ایک عورت کے عشق میں گرفتار تھے جو بہت خوبصورت تھی۔ والد امیر آدمی تھے اور امی جان غریب گھر سے تھیں لیکن میری دادی کو پسند تھیں۔ وہ ان کے کزن کی بیٹی تھیں۔ دادی نے تبھی ابو کی نہ چلنے دی اور اس بازاری عورت کو بہو بنانے پر راضی نہ ہوئیں۔ ضد کرکے امی کو بہو بنا کر لے آئیں۔ دادی خوش تھیں کہ من پسند لڑکی کو بہو بنا لائی ہیں لیکن والد خوش نہ تھے۔ وہ کسی طور امی سے جان چھڑانے کا بہانہ تلاش کررہے تھے۔ دیور جی نے جب امی کو رپورٹ دی اور اس عورت کا نام بتا دیا تو والدہ نے شوہر سے بات کی۔ آپ کسی بازاری عورت نیلم کے عشق میں گرفتار ہیں، اگر ایسا ہے تو آپ کو مجھ سے شادی نہ کرنی چاہیے تھی۔ اب میں امید سے ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ اپنے قدموں کو اس گند خانے کی طرف جانے سے روک لیں گے۔ شریف زادی اور اس بازار کی عورت میں کوئی مقابلہ نہیں۔ بیوی ہی اب آپ کے پیار کی حق دار ہے۔ والد خاموش سناکیے۔ امی نے بات ختم کی تو کہا، میں کب تم سے شادی کرنا چاہتا تھا، اماں نے یہ ڈھول گلے میں ڈالا ہے۔ عہد کیا تھا کہ مجھ کو میری برائیوں کے ساتھ قبول کرلوگی تو رکھوں گا ورنہ نکال دوں گا۔ آپ اس غلط جگہ جانا چھوڑ دیں باقی آپ کی سب اچھائیاں برائیاں قبول ہیں۔ تم کو چھوڑ سکتا ہوں، اس جگہ جانا نہیں چھوڑ سکتا۔ لیکن مجھے یہ بتائو کہ تم اس جگہ اور اس عورت کے بارے میں کیسے جانتی ہو اس بازار کی معلومات اتنی تفصیل کے ساتھ تم جیسی شریف زادی کو کیسے حاصل ہوئیں والدہ خاموش ہوگئیں۔ لب سی لیے کیونکہ دیور نے قسم دی تھی کہ بھابی آپ کے شوہر کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرکے دوں گا لیکن خدارا میرا نام نہ لیجیے گا ورنہ بھائی بڑے ظالم ہیں مجھے زندہ نہ چھوڑیں گے۔ دیور نے امی سے سچ کہا تھا اس کا ثبوت ان کو اس وقت مل گیا جب اس فرعون صفت شخص نے میری ماں کے سر پر برقع ڈالا اور اپنے چھوٹے بھائی سے کہا جائو اس کو اس کے باپ کے گھر چھوڑ آئو۔ امی ہی نہیں ان کی ساس اور دیور سبھی یہ سمجھے کہ حفیظ اس وقت غصے میں ہے چند روز بعد غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو ہم جاکر عفت کو لے آئیں گے لیکن ایسا نہ تھا۔ والد تو امی سے جان چھڑانے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے، وہ امی کو لینے نہ گئے، گھر والوں کو بھی منع کردیا کہ ہرگز مت لانا، ورنہ کھڑے کھڑے نکال دوں گا۔ بڑھاپے میں بچارے نانا ابو پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ داماد کے پاس گئے اور سبب دریافت کیا تو انہوں نے سسر کو یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ تمہاری بیٹی کا اس بازار سے کیا تعلق ہے جو وہاں کے بارے میں اتنی معلومات رکھتی ہے، یہاں تک کہ وہاں کی عورتوں کے نام تک جانتی ہے۔ ایسی عورت کو میں نہیں رکھ سکتا جس کو اس بازار سے اتنی آگاہی ہو۔ بچارے نانا ہکا بکا منہ تکتے رہ گئے اور والد نے امی کو طلاق دے دی۔ اور کہا کہ اب وہ بھولے سے بھی میرے گھر میں قدم نہ دھرے ورنہ بری طرح پیش آئوں گا۔ امی نے پھر بھی دیور کا نام نہ لیا کیونکہ وہ بچارا ایف ایس سی کا طالب علم تھا اور میرے والد کے ٹکڑوں پر پل رہا تھا، اس کا مستقبل تباہ ہوجاتا۔ اس نے بھی نہ بتایا کہ میں نے بھابی کو آپ کے کرتوتوں کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔ میرا جنم نانا کے گھر ہوا۔ باپ نے میری شکل دیکھی اور نہ میں نے ان کی بعد میں جب دادی وفات پاگئیں، انہوں نے اپنے من کی مراد پوری کی اور اپنی من چاہی عورت سے شادی کرلی۔ دو سال میں اور امی نانا کے گھر رہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک شریف انسان سے والدہ کی دوسری شادی کرادی۔ میرے سوتیلے والد غریب ضرور تھے لیکن بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے، دین دار تھے اور حقوق العباد کو مانتے تھے۔ انہوں نے ہم ماں بیٹی کو دل سے قبول کیا اور میری پرورش ایک حقیقی باپ کی طرح کی۔ کبھی مجھے یہ احساس نہ ہونے دیا کہ میں ان کی اولاد نہیں ہوں۔ وہ مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے مگر غربت آڑے آگئی اور میں صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کرسکی۔ سولہ برس کی تھی جب انہوں نے میری شادی اپنے بھانجے سے کردی اور ایک سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میری ساس اپنی بھابی یعنی میری والدہ سے جلتی تھی۔ وہ بالکل اپنے بھائی سے مختلف عورت تھی۔ والد کے انتقال تک تو صحیح رہیں مگر ان کی وفات کے بعد پنجے نکال لیے۔ وہ مجھے ماں سے ملنے نہ دیتی، ان کو آنے کی اجازت تھی اور نہ مجھے ان کے پاس جانے کی۔ وہ بیمار تھیں مگر میں ان کی عیادت کو نہ جاسکتی تھی۔ صرف اس دن اجازت ملی جس روز امی کا انتقال ہوگیا۔ اب میرا اس دنیا میں شوہر کے سوا کوئی نہ تھا اور وہ بے شک بہت اچھے انسان تھے لیکن اپنی ماں سے بہت ڈرتے تھے۔ میری ایک نند تھی وہ غلط چال چلن رکھتی تھی۔ ساس سارا دن پاس پڑوس میں پھرتیں۔ اور جب میرے شوہر اور سسر گھر پر نہ ہوتے، نند پڑوسی لڑکے کو بیٹھک میں بلاکر باتیں کرتی۔ مرد شام کو آتے ان کو کچھ خبر نہ ہوتی۔ گھر میں کیا ہوتا ہے۔ ساس کے ڈر سے میں زبان نہ کھولتی تھی۔ شوہر کو بتاتی تو ان کی ماں میرا جینا دوبھر کر ڈالتی۔خاموشی میں ہی میں نے اپنی عافیت جانی۔ یہ سوچ کر کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے۔ میں نند کی چغلی کرکے بری بنوں گی تو کہاں جائوں گی۔ سچ ہے برائی کو چھپانا کبھی بہت مہنگا پڑ جاتا ہے ۔ اے کاش اپنے خاوند کو آگاہ کردیتی، آخر کو ان کی بہن ہمارے گھر کی لاج تھی، ان کی عزت تھی۔ ایک روز دوپہر کا وقت تھا۔ میں کچن میں کھانا بنارہی تھی کہ وینا بھاگی بھاگی آئی، بولی بھابی مجھے چھپادو ابا اور بھائی آگئے ہیں، میں کچھ نہ سمجھی وہ بوکھلائی ہوئی تھی، میں نے اس کی حالت دیکھ کر اسے اپنے بیڈ روم میں چھپادیا۔ تبھی سسر اور شوہر کے کسی کو گالیاں دینے کی آوازیں آنے لگیں۔ دوڑی بیٹھک میں گئی، وہ پڑوسی لڑکے کو دونوں مل کر مار رہے تھے۔ نظارہ دیکھ کر خوف سے کانپ گئی اور میں نے ان کو روکنا چاہا کہ کہیں مار ہی نہ ڈالیں۔ میرے بیچ میں آنے سے لڑکے کو بھاگ نکلنے کا موقع مل گیا۔ اس کی جان بچ گئی۔ اب سارا غصہ سسر صاحب اور شوہر نے مجھ پر نکالا کہ وینا اگر بیٹھک میں لڑکے کے ساتھ تھی تو تم کہاں تھیں تم تو گھر میں تھیں اور اب وہ کہاں ہے۔ انہوں نے گھر میں اسے ڈھونڈا، کیسے بتاتی کہ وہ کمرے میں میری الماری کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ بالآخر انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ اور گھسیٹ کر باہر لائے، کس نے تمہیں یہاں چھپایا ہے۔ وہ بولی کچھ نہیں مگر ہاتھ سے میری جانب اشارہ کردیا۔ وہ تو پہلے ہی غصے میں آپے سے باہر ہورہے تھے سارا الزام مجھ پر دھر دیا کہ میں اپنی نند کو اس لڑکے سے ملاتی ہوں۔ میں نے لاکھ کہا کہ ایسا نہیں ہے مگر وہ نہ مانے۔ میرے خاوند نے کہا اگر تم میری بہن کے اس کھیل میں شریک نہیں ہو تو پہلے مجھے کیوں نہ بتایا کہ پڑوسی کا لڑکا گھر آتا ہے اور بیٹھک میں وینا سے ملتا ہے ۔ تم نے اسے اپنی الماری کے پیچھے کیوں چھپایا اصل میں تم ہماری عزت کی دشمن ہو۔ ابھی یہ قصہ چل رہا تھا کہ ساس آگئیں، وہ بھی چلانے لگیں کہ اسی نے میری بچی کو خراب کیا ہے، یہ اگر ساتھ نہ دیتی، اس کی پردہ پوشی نہ کرتی، کم از کم مجھے ہی بتا دیتی تو آج یہ تماشا نہ ہوتا۔ بھلا میں کیسے بتاتی اس ڈائن کو جو مجھے کچا چبا جانے کے درپے رہتی تھی۔ ساس کو موقع ملا تھا تو اس نے مجھے اسی وقت گھر سے باہر نکلوادیا۔ میرا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس وقت کہاں جاتی۔ منت کی کہ مت نکالو، کہاں جائوں گی۔ بولی جہاں جی چاہے چلی جائو ورنہ میری لڑکی کو مروا کر دم لو گی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی۔ میرے ننھیال میں صرف ماموں تھے۔ بڑی مصیبت اٹھا کر ان کے پاس لاہور پہنچی لیکن جونہی ممانی نے میری بربادی کی داستان سنی، مجھے رکھنے سے انکار کردیا۔ بولیں دوچار دنوں کی اور بات ہوتی ہے، عمر بھر کون کسی کو رکھتا ہے بی بی اپنا ٹھکانہ ڈھونڈو، نہیں تو اپنے باپ کے پاس چلی جائو۔ ممانی کا کہنا تھا، اچھی بھلی نیک سیرت بیوی کو یوں کوئی شوہر اپنے گھر سے نہیں نکالتا۔ ضرور کوئی عیب دیکھا ہوگا جو یوں کھڑے کھڑے نکال دیا۔ بیوی کی لن ترانیوں پر ماموں بھی خاموش تھے۔ مجھے اپنی ماں کے سگے بھائی سے ایسی امید نہ تھی۔ میں نے کہا ماموں آپ ہی ممانی کو سمجھائیے یا پھر کچھ دن بعد جاکر میرے سسر اور شوہر سے بات کیجیے۔ تب تک میں یہیں رہوں گی ممانی نے دوبارہ کہا کہ تمہارا سگا باپ موجود ہے اس دنیا میں ان کے پاس کیوں نہیں جاتی ہو۔ مجھے اپنے سگے باپ کا پتا معلوم نہیںہے۔ ماموں بولے۔ آئو میں تمہیں اس کے پاس چھوڑ آتا ہوں، جب اسے اپنے حالات بتائو گی تو کوئی اچھی تدبیر نکل آئے گی۔ ماموں مجھے میرے حقیقی والد کے دروازے پر چھوڑ کر چلے گئے، جیسے بس جان چھڑانا چاہتے ہوں۔ اس دنیا میں پہلی بار قدم باہر نکالا تھا۔ اب پتا چلا کہ دنیا کیسی بری جگہ ہے۔ تب سوچا تھا کہ باپ تو پھر باپ ہوتا ہے خواہ کتنا بھی سخت دل کیوں نہ ہو۔ مجھے دیکھ کر گلے لگالیں گے، میری بپتا پر دل پسیج جائے گا۔ آخر کو میں ان کا خون ہوں۔ ان کی اولاد ہوں۔ یہ گمان بھی خواب و خیال نکلا۔ سامنے سوتیلی ماں بیٹھی تھی۔ پوچھا کون ہو۔ کیوں آئی ہو۔ میں نے بتایا کہ سارہ ہوں اور حفیظ کی بیٹی ہوں۔ میری ماں کا نام عفت تھا جو ان کی پہلی بیوی تھیں۔ انہوں نے ان کو طلاق دی اور میں نے نانا کے گھر جنم لیا۔ تبھی والد سے کبھی نہ مل سکی۔ آج ماموں یہاں چھوڑ گئے ہیں۔ مختصر بپتا سنائی۔ وہ بولیں۔ کیا جائداد سے حصہ چاہیے جو اتنی مدت بعد تم کو باپ کی یاد آگئی ہے۔ اتنے میں والد اپنے کمرے سے نکلے، پوچھا کون ہے۔ میں نے کہا۔ آپ کی بیٹی ہوں۔ بولے کون بیٹی میں نے نام بتایا، جواب ملا ،میں نہیں جانتا تمہیں۔ میں تصویر حیرت بن گئی، واقعی وہ مجھے کب جانتے تھے، انہوں نے میرے جنم دن سے اب تک دیکھا کب تھا۔ آپ نے مجھے کس جرم کی سزا دی ہے بابا جان کہ میری صورت بھی نہ دیکھی آج تک۔ بولے۔ جب تمہاری ماں نے ہی مجھے صورت نہ دکھائی پھر کیسے دیکھتا۔ پتا نہیں تم میری بیٹی ہو بھی کہ نہیں۔ یہ الفاظ پگھلا ہوا سیسہ بن کر میرے کانوں میں گرے، بے بس ہو کر کہا۔ میرے شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے اور ماموں نے بھی نہیں رکھا اب کدھر جائوں سوتیلی ماں نے کہا۔ آج رہ لو، کل تک تمہارے رہنے کا بندوبست کردوں گی۔ وہ رات میں نے ایک اجنبی کی طرح اس گھر میں گزاری جس کے بارے میں گمان تھا یہ میرے باپ کا گھر ہے۔ صبح والد میرے اٹھنے سے پہلے چلے گئے، تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھی عورت سوتیلی ماں کے پاس آگئی۔ ماں سے کہا۔ کدھر ہے وہ لڑکی جس کو تم رکھنے پر راضی نہیں ہو۔ بلائو اسے۔ حقیقی باپ کی بے رخی اور اجنبیت دیکھ چکی تھی، جب سوتیلی ماں نے کہا کہ ان کے ساتھ چلی جائو یہ تمہیں اچھی طرح رکھیں گی، یہ تمہارا خیال کریں گی اور تم اس بوڑھی کی خدمت کرنا۔ میں اور تمہارے ابا تمہاری خبر گیری کرتے رہیں گے۔ باپ کی بے حسی سے میرا حقیقی رشتے اور محبت سے ایمان اٹھ گیا تھا۔ بوڑھی نے دل سے لگایا ، پیار کیا تو میں روتی ہوئی اس کے ہمراہ اس کے گھر آگئی۔ اس نے مجھے کہا کہ تم عفت کی بیٹی ہونا، جانتی ہوں اس کو میری لڑکی کی خاطر تیرے باپ نے طلاق دی تھی اور میری بیٹی کو بھی مجھ سے چھین لیا ہے حفیظ نے۔ تم میرے پاس رہوگی تو ماں جیسا پیار دوں گی۔ اس عورت کی زبانی اپنی ماں کا ذکر سن کر ڈھارس ہوئی۔ میں اسے نانی ہی سمجھی۔ نانی ایک شاندار کوٹھی میں رہتی تھی اس کے ساتھ دو لڑکیاں اور بھی تھیں جو اس کی بیٹیاں نہ تھیں۔ میری طرح بے کس لاوارث، بھٹکی ہوئی لڑکیاں تھیں جن کو اس نے پناہ دی تھی۔ مجھے بھی پناہ مل گئی مگر آبرومندانہ چھت کے تلے نہیں ،گناہ کی دلدل میں بسنے والی یہ بوڑھی، نوجوان لڑکیوں کی کمائی ہوئی دولت پر عیش کرتی تھی، وہ بھی جوانی میں یونہی بھٹک کر اس بازار تک آگئی تو عمر بھر کے لیے گناہ کی قبر میں اتر گئی۔ اب جینے پر مجبور رہی۔ اب عفت و عصمت کا کوئی تصور اس کے پاس باقی نہ رہا تھا۔ اچھائی اور برائی کی اقدار مٹ چکی تھیں۔ میں اس سیاہ روح کو نانی کہتی اور کیا کرتی۔ جب اپنے برے وقت میں منہ پھیر لیتے ہیں تو برے بھی اپنے لگنے لگتے ہیں۔ آج اگر میں اس بازار کی زینت بنی تو کس وجہ سے اور کہاں سے آئی ہوں میں اور مجھ جیسی لڑکیاں یہاں کہاں سے آتی ہیں، کیا یہاں آنے والوں نے کبھی سوچا۔ مجھے گلہ اس بڑھیا یا اس جیسی پناہ دینے والی عورتوں سے نہیں ہے، گلہ ان لوگوں سے ہے جن کے دم قدم سے بازار آباد ہے۔ اس پاکیزہ معاشرے سے ہے جو لڑکیوں کو لاوارث اور بے سہارا کرتے ہیں اور بے سہارا عورتوں کو پناہ دینا معیوب سمجھتے ہیں۔ س۔ ر لاہور | null |
null | null | null | 98 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-23/ | شیروانی والا شخص پروقار چال چلتا ہوا میرے سامنے آگیا۔ ان دونوں افراد نے میری طرف اشارہ کردیا۔ دوسرے فقیر ابھی ناشتہ ہی کر رہے تھے۔ آپ ناشتہ نہیں کر رہے میاں صاحب۔ پُر رعب شخص نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ ایل لو، کیسے ناشتہ کرے بے چارہ، وہ کالیا کلّن جو چار سو بیسی کر کے اس کا ناشتہ لے گیا۔ بے چارے کو اور دے دو میاں جی بھوکا ہے۔ عورت نے سفارش کی۔ آپ کو تھوڑی سی زحمت دینا چاہتا ہوں میاں صاحب، غریب خانے تک زحمت کرنی ہوگی۔ مم میں وہ وہ۔ میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ بعد میں آپ جہاں حکم دیں گے وہاں پہنچا دیا جائے گا، خدارا انکار نہ کیجیے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ میاں فتح محمد کوئی تانگہ کر کے میاں صاحب کو احترام سے گھر لے آئو۔ وہ دیکھو، وہ خالی تانگہ گزر رہا ہے۔ اس شخص نے ایک سمت اشارہ کیا، اور دوسرا آدمی تانگے کی طرف دوڑ گیا۔ میں گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ تقدیر کے فیصلے اہم ہوتے ہیں۔ ہر تحریک کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ آخر مجھے کسی کام کے لیے ہی یہاں بھیجا گیا ہے اور کام وہ تو شاید میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ تانگہ آگیا، اس شخص نے مجھے اپنے سامنے تانگے میں سوار کرایا۔ دونوں ملازم نما آدمی بھی تانگے میں بیٹھ گئے اور شیروانی والے نے تانگے والے سے کہا ہماری گاڑی کے پیچھے پیچھے آ جائو۔ جی سرکار عالی۔ تانگہ گھوڑا گاڑی کے پیچھے چلتا رہا۔ میں دونوں طرف بنی عمارتوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی بڑا شہر تھا مگر میرے لیے اجنبی تھا۔ اپنا تجسس نہ روک سکا اور پوچھ بیٹھا۔ یہ کونسا شہر ہے بھائی میرے قریب بیٹھے دونوں ملازم چونک پڑے۔ تانگے والا بے اختیار بول پڑا۔ دلی ہے بھائی میاں، کہیں باہر سے آئے ہو۔ تم تانگہ چلائو شیخ جی، میاں صاحب کا بھیجہ ٹلاّ ہے۔ فتح محمد نے کہا اور دوسرا ملازم اسے گھورنے لگا۔ تیری کترنی کبھی قابو میں نہیں آئے گی، فتے چپکا بیٹھ اماں تو مرچی کائے کو چبارئے ہو، میں نے کیا کر دیا فتح محمد نے برا مانتے ہوئے کہا۔ بس تو چپکا بیٹھا رہ کمال ہے۔ عمر قید نہیں۔ کائے کو میرے اوپر حکم چلاتے رہتے ہو، تمہارا دبیل ہوں لڑنا بری بات ہے بھائی تحمل سے کام لو میں نے انہیں ٹوکا۔ ابے لے، بول پڑے مرلی داس، میاں بھائی سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ فتح محمد نے کہا۔ میرا تو اور کیا میاں بھائی، وہ سانپ کاں سے نظر آگیا تمہارے کو سانپ۔ میں آہستہ سے بولا۔ سن لو بندو خاں صاحب، میاں جی بھول گئے، اور سنائو بڑے میاں صاحب کو سانپ کی کہانی۔ خدا کے لیے چپ رہو ۔ گھر جاکر بات کرلینا۔ دوسرے ملازم نے کہا۔ یہ شہر دہلی ہے میں نے پوچھا۔ اماں تم کیا بارہ بنکی سے آئے ہو۔ ہاں، میں یہاں اجنبی ہوں۔ کاں کے رہنے والے ہو۔ فتح محمد بولا۔ چندوسی سے آیا ہوں۔ تو یہ نہیں پتا کہ دلی میں اترے ہو۔ ابے بھائی میاں کیا ہوائی جہاز سے گر گئے تھے۔ نہیں بس یونہی۔ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ دلی میں ہو پہلوان اور فتح پوری کی جمعہ مسجد پر بیٹھے تھے۔ اب سمجھ میں آگئی مگر وہ سانپ کاں سے نظر آگیا تمہیں۔ فتح محمد بولنے کا مریض تھا وہ کون صاحب ہیں جو شیروانی پہنے ہوئے تھے شیخ عبدالقدوس اچھے نواب بہت بڑی سرکار ہے۔ آدھی دلی ان کی ہے اللہ کے فضل سے۔ فتح محمد بولا۔ وہ دونوں لڑکیاں کون تھیں میں نے پوچھا۔ ایک مہر النسا، شیخ صاحب کی چھوٹی بٹیا اور دوسری فتح محمد قسم کھا رہا ہوں اچھے نواب سے تیری شکایت ضرور کروں گا۔ رستے میں بک بک کیے جارہا ہے یہ کوئی اچھی بات ہے۔ ملازم بندو خان نے کہا اور فتح محمد برا سا منہ بناکر خاموش ہوگیا۔ میں نے بھی خاموشی اختیار کرلی لیکن حالات کا کچھ اندازہ ضرور ہو رہا تھا۔ وہ لڑکی میرے لیے معمہ بنی ہوئی تھی جس کے جسم پر میں نے پورے ہوش و حواس کے عالم میں سانپ لپٹے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر دوسرے اس سے لاعلم تھے۔ کیوں آخر کیوں پھر ایک قدیم طرز کی شاندار حویلی کے احاطے کے سامنے تانگہ رک گیا۔ گھوڑا گاڑی اندر داخل ہوگئی تھی۔ ہم تانگے سے نیچے اتر آئے۔ گھوڑا گاڑی کی سواریاں اندر چلی گئی تھیں۔ شیروانی والے شیخ صاحب ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ان کے پاس ایک اور شخص کھڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر اچانک میرے دماغ میں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ یہ چہرہ، یہ چہرہ میں پہچان گیا تھا۔ یہ وہی نواب قسم کا آدمی تھا جسے میں نے اس وقت دیکھا تھا جب لوگ مجھے رتنا کہتے تھے۔ اسی شخص کے ساتھ میں نے ماموں ریاض کو شکنتا کے کوٹھے پر جاتے ہوئے دیکھا تھا اور بعد میں یہ مجھے نہیں مل سکا تھا۔ مجھے اس کا نام نہیں یاد تھا مگر اتنا پتا چلا تھا کہ یہ لوگ الٰہ آباد کے رہنے والے تھے۔ بعد میں ان لوگوں کا کوئی پتا نہیں چل سکا تھا۔ آہ کیا ماموں ریاض بھی اس کے ساتھ ہیں۔ شیخ عبدالقدوس احترام سے آگے بڑھے اور بولے۔ تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں قبلہ دلی آرزو ہے کہ ایک مختصر وقت کے لیے مجھے شرف میزبانی بخشیں۔ آپ کو کوئی کام ہے ہم سے۔ میں نے پوچھا۔ اس حقیقت سے انکار کرکے جھوٹ بولنے کا جرم نہیں کروں گا۔ شیخ صاحب بولے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ہم آپ کے کسی کام آسکتے ہیں تو ہم حاضر ہیں۔ اگر آپ کا کام ہم سے نہ ہوسکے تو ہمیں مجرم قرار نہ دیجیے گا۔ وہ میری تقدیر ہوگی۔ آپ کے قدموں کی برکت ہی سے فیضیاب ہولوں گا۔ شیخ صاحب نے کہا۔ پھر فتح محمد سے بولے۔ میاں فتح محمد میاں صاحب کو مہمان خانے لے جائو اور عزت و احترام سے وہاں قیام کرائو۔ تمہاری خدمات ان کے لیے ہیں، انہیں کوئی تکلیف ہوئی تو سزا پائو گے۔ جی سرکار۔ فتح محمد نے خم ہوکر کہا۔ پھر میرے سامنے گردن جھکا کر بولے۔ آیئے میاں صاحب میں شانے ہلا کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ مہمان خانہ حویلی کے بغلی حصے میں تھا۔ اس میں داخل ہونے کا راستہ بھی دوسری سمت سے تھا۔ اس طرف آم اور شریفے کے درختوں کی بھرمار تھی۔ تین چوڑی سیڑھیاں عبور کرکے ایک عریض دالان آیا اور فتح محمد نے دالان میں بنے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا۔ سب سے بڑھیا کمرہ دے رہا ہوں میاں صاحب تمہارے کو قسم اللہ کی نصیب کھل گئے تمہارے تو۔ ابھی چار دن پہلے نواب مینڈو گئے ہیں۔ اس کمرے سے جاتے ہوئے سو روپے دے گئے تھے میرے کو، کہنے لگے میاں فتح جب بھی یاں سے نوکری چھوڑو، میرے پاس آجائیو نہال کردوں گا۔ ویسے بھائی میاں کونسی بینٹی گھما دی تم نے ہمارے شیخ صاحب پر بڑا دم بھر رہے ہیں تمہارا۔ تم واقعی بہت زیادہ بولتے ہو فتح محمد میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میاں صاحب ہم تو یہ سوچیں ہیں کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے اور مردہ دلی کو دلی سے باہر نکال پھینکنا چاہیے۔ بالکل ٹھیک کہا ہے مرزا جی نے میاں ہنس بول کر زندگی گزار لو۔ ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ ایک بات بتائو فتح محمد یہ شیخ صاحب کے ساتھ جو ایک صاحب کھڑے ہوئے تھے، وہ کون تھے نبّن میاں میں ان کا نام نہیں جانتا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ ابے وہ ہاں ایل لو میاں صاحب وہ اچھے نواب کی بڑی بٹیا فخرالنسا کے ممیا سسر ہیں۔ نام ہے ان کا الیاس خان الٰہ آبادی امرود پیار سے سب لوگ انہیں نبّن میاں کہتے ہیں۔ ایک بات بتائوں پتے کی۔ بتائو بس میاں کھائو کمائو ہیں۔ کبھی اس کے گھر جا پڑے، کبھی اس کے گھر جا پڑے۔ شیخ صاحب بٹیا کے سسرال کا خیال کرتے ہیں۔ اب کوئی بیس دن ہوگئے یاں پڑے ہوئے، کھا رہے ہیں، اینڈ رہے ہیں۔ الٰہ آباد کے رہنے والے ہیں۔ ہاں بڑی بٹیا کی سسرال الٰہ آباد میں ہے۔ ان کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ لو ان کے ساتھ اور کون ہوگا۔ آگے ناتھ نہ پیچھے پگا بس یار دوست ہیں اور رنگ رلیاں ابے کیا بتائوں میاں صاحب فتح محمد کی بات ادھوری رہ گئی۔ بندو خان ناشتہ لے آئے تھے۔ تم میاں باتیں منٹھار رہے ہوگے۔ پتا ہے میاں صاحب نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔ اماں ہاں لو بھول ہی گیا۔ تم بھی خدمت کر لو میاں صاحب کی۔ ایک سٹے کا نمبر مل گیا تو وارے نیارے ہوجائیں گے۔ فتح محمد نے ہنستے ہوئے کہا۔ ناشتہ بڑے اہتمام سے لایا گیا تھا۔ میری بھوک پھر چمک اٹھی۔ میں خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ بندو خان نے فتح محمد کو کوئی کام بتا کر وہاں سے بھیج دیا تھا۔ خود بندو خان سمجھدار اور سنجیدہ آدمی تھا۔ خاموش بیٹھا رہا۔ میں نے بھی اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ پھر وہ برتن اٹھا کر چلا گیا۔ مہمان خانے کا یہ کمرہ بے مثال سجاوٹ کا حامل تھا۔ مسہری بے حد قیمتی تھی، دوسری چیزیں بھی اسی معیار کی تھیں۔ میں گہری سانسیں لے کر ایک گوشے میں جا بیٹھا۔ جو کچھ ہوا تھا، اس پر غور کررہا تھا۔ چندوسی سے ریل میں بیٹھا تھا۔ کمبل پوش کے الفاظ سنے تھے اور بس اس کے بعد یہ سب کچھ۔ وہ کمبل اب میرے پاس تھا۔ اس سے بڑی حقیقت اور کیا ہوسکتی تھی۔ مگر دل سے سوال کرتا تو جواب ملتا کہ مجھے یہاں بھیجا گیا ہے اور یہ سب کچھ بے مقصد نہیں ہے۔ مجھے اس مقصد کے سامنے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ البتہ دل میں رہ رہ کر الٰہ آباد کے الیاس خان کا خیال آرہا تھا۔ اس شخص سے اگر ماموں ریاض کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکے تو۔ باہر آہٹیں ابھریں۔ پھر شیخ عبدالقدوس اندر داخل ہوگئے۔ میں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ مجھے گناہ گار نہ کیجیے میاں صاحب آپ تشریف رکھیے۔ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ سے حکم فرمایئے۔ میاں صاحب اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ اس نے آپ کو کیا دولت عطا کی ہے۔ آپ نے میری بچی کو دیکھ کر کچھ سانپ کا حوالہ دیا تھا، وہ کیا تھا تانگے میں بیٹھ کر میرے ملازموں نے یہ تذکرہ کیا تھا اور میرا دل بے اختیار چاہا تھا کہ آپ کو غریب خانے پر زحمت دوں۔ وہ خاتون آپ کی صاحبزادی ہیں۔ جی میری دو بیٹیاں ہیں۔ معبود کریم نے یہی دو بیٹیاں عنایت فرمائی ہیں۔ بڑی کے فرض سے سبکدوش ہوچکا ہوں، چھوٹی کے لیے ابھی کچھ نہیں سوچا تھا کہ وہ اس مصیبت کا شکار ہوگئی۔ وہ مصیبت کیا ہے آپ کے سوال کا جواب دینا میرا فرض ہے۔ حالانکہ میرا سوال تشنہ رہ گیا ہے۔ آپ نے اس وقت سانپ، سانپ کیوں کہا تھا کیا آپ لوگ ان کے بدن سے لپٹے ہوئے سانپ سے خوف زدہ نہیں ہوتے بدن سے لپٹے ہوئے سانپ سے شیخ صاحب نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ ہاں اس کا پھن ان کے سر پر رکھا ہوا تھا۔ وہ نیلا، چمکیلا سانپ گہرا سیاہ تھا اور وہ ان کے پورے بدن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔ میں نے کہا اور شیخ صاحب دہشت زدہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ وہ آپ کو نظر آیا تھا آپ کو نظر نہیں آتا نہیں ہمیں یہ بصیرت نہیں ملی، حضرت اب میں آپ کو پوری تفصیل بتانا چاہتا ہوں۔ مختصر عرض کرتا ہوں۔ میں دہلی کا قدیم باشندہ ہوں، اجداد دور مغلیہ سے یہاں آباد تھے، یہ حویلی بھی اسی دور کی ہے۔ دہلی میں تھوڑی بہت جائداد اور کاروبار ہے۔ اللہ کے کرم سے عزت سے گزر رہی ہے۔ اولاد نرینہ سے محروم ہوں اور یہی دو بچیاں سرمایۂ حیات ہیں۔ مہرالنسا میری چھوٹی بچی کا نام ہے۔ کوئی آٹھ ماہ پہلے وہ ایک خوش گفتار، ہنس مکھ اور زندگی سے بھرپور بچی تھی۔ اچانک ایک رات وہ خواب کے عالم میں ڈر گئی اور سانپ، سانپ چیخنے لگی۔ ہم سب جاگ گئے اور اسے بیدار کیا تو وہ پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی اور دہشت زدہ نظروں سے چھت میں لٹکے ہوئے فانوس کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ فانوس میں سانپ ہے۔ وہ نیچے لٹکا ہوا تھا اور اس پر گرنا چاہتا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ خواب دیکھ رہی تھی۔ تاہم اس وقت سارے ملازموں کو بلا کر بھاری فانوس اتارا گیا اور اس کے سامنے چکناچور کردیا گیا۔ سانپ کہیں نہیں تھا۔ اسے اطمینان تو ہوگیا تھا مگر وہ بدستور سہمی رہی۔ پھر دوسری صبح اس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ یہ سانپ کئی دن سے دیکھ رہی ہے۔ کبھی یہ اسے پائیں باغ کے کسی درخت کی جڑ میں بیٹھا نظر آتا ہے، کبھی پھولوں کے کسی کنج میں مگر پھر وہ غائب ہوجاتا ہے لیکن اس کی ننھی، چمکدار آنکھیں اسے نظر آتی رہتی ہیں۔ نذر نیاز کی گئی، صدقے اتارے گئے۔ جو ممکن تھا، کرلیا گیا مگر اسے افاقہ نہ ہوا۔ وہ ملول اور خوف زدہ رہنے لگی۔ دو تین بار اس نے سانپ کا تذکرہ کیا اور پھر خاموش ہوگئی۔ اس کے بعد بارہا اس سے سانپ کے بارے میں پوچھا گیا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا بلکہ اس تذکرے پر وہ خاموش ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ تمام صفات ختم ہوگئیں۔ پہلے وہ بلبل کی طرح چہکتی رہتی تھی، اب بالکل خاموش بلکہ ایک طرح سے نیند کے عالم میں رہتی ہے۔ بس کبھی کبھی وہ اس خول سے نکلتی ہے۔ اس سے کچھ پوچھا جاتا ہے تو رونے لگتی ہے۔ ساتھ ہی کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے ہیں جو ناقابل فہم ہیں۔ وہ کیا میں نے دلچسپی سے پوچھا اور شیخ صاحب کسی سوچ میں گم ہوگئے جیسے ان عجیب و غریب واقعات کو یاد کر رہے ہوں۔ پھر انہوں نے کہا۔ اس کے کمرے میں خوشبوئیں بکھری رہتی ہیں۔ گلدانوں میں ایسے ایسے حسین پھولوں کے گلدستے سجے نظر آتے ہیں جو شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہ ملیں، دہلی تو کیا۔ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ اس کے لباس کی الماری میں اطلس کا ایک ایسا جوڑا ملا جس میں ہیرے ٹنکے ہوئے تھے۔ وہ آدھی آدھی رات کو باغ میں چلی جاتی ہے اور وہاں بیٹھی رہتی ہے۔ بس ایک بار رات کا چوکیدار اسے دیکھ کر اس کے پاس چلا گیا تھا دوسری صبح وہ بے ہوش ملا اور پھر پاگل ہوگیا۔ ایسے ہی کچھ اور واقعات انہوں نے سانپ کا تذکرہ دوبارہ نہیں کیا۔ نہیں اس کے بعد نہیں۔ آپ لوگوں نے ان کے پاس کسی سانپ کو نہیں دیکھا کبھی نہیں آج کل بھی نہیں بالکل نہیں۔ آپ نے انہیں کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا میرے خاندان کے بزرگوں نے منع کردیا۔ کیوں ان کا کچھ اور خیال ہے۔ کیا مجھے منع کیا گیا ہے کہ اپنے منہ سے کچھ نہ کہوں۔ آٹھ ماہ سے ان کی یہ حالت ہے۔ ہاں لگ بھگ کوئی ایسا واقعہ جس کا رابطہ ان واقعات سے کیا جاسکے ہاں شیخ صاحب نے جھجکتے ہوئے کہا۔ بتایئے۔ دہلی سے کچھ فاصلے پر غازی آباد ہے۔ غازی آباد میں بھی میری زمینیں اور جائداد ہے۔ وہیں ایک قدیم حویلی بھی ہے جو کوئی سو سال سے ویران پڑی ہے۔ ایک ہندو بنیے نے اس پر اپنا حق جتا دیا اور ہمارے درمیان مقدمہ بازی شروع ہوگئی۔ میں وہ مقدمہ جیت گیا۔ مقدمے کے دوران حویلی سیل کردی گئی تھی۔ مجھے اس کا قبضہ دیا گیا اور چونکہ یہ تنازع عرصے سے چل رہا تھا اس لیے جب ہم قبضہ لینے گئے تو تمام گھر والے ساتھ تھے۔ مہرالنسا بھی تھی۔ حویلی تباہ حال پڑی ہوئی تھی، جھاڑ جھنکاڑ سے بھری ہوئی۔ میں نے ایک کمرہ صاف کرایا اور ہم نے ایک رات وہاں قیام کیا تھا۔ جی۔ پھر بس اس کے بعد ہی مہر النسا کی یہ کیفیت شروع ہوگئی۔ اس رات کے قیام میں کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔ بالکل نہیں۔ خوشگوار چاندنی رات تھی۔ بچے صاف ستھرے علاقے میں ساری رات آنکھ مچولی کھیلتے رہے تھے۔ آپ نے کسی عالم سے رجوع کیا نہیں دراصل میرا ذہن کچھ مختلف ہے۔ اس بارے میں، میں نے اپنے اہل خاندان سے اختلاف کیا ہے مگر اب۔ اور پھر میاں صاحب آپ نے براہ راست مجھے متاثر کیا ہے۔ ایسے کام میں کرتا رہتا ہوں۔ اس کا صدقہ اتارتا رہتا ہوں، کھانا وغیرہ اس طرح تقسیم کرتا رہتا ہوں جس طرح آج آپ نے دیکھا۔ میں کیا خدمت کرسکتا ہوں آپ بہتر سمجھتے ہیں میاں صاحب اللہ کا حکم ہوا ہے تو آپ میری مدد کریں۔ وہ بچپن سے اپنے پھوپھی زاد بھائی سے منسوب ہے۔ میری بہن، بہنوئی یورپ میں رہتے ہیں اور ہمارے درمیان طے ہے کہ ہم دونوں بچوں کی شادی کریں گے۔ سلطان میاں کی تعلیم مکمل ہونے والی ہے۔ صاحبزادی اپنے منگیتر سے مطمئن ہیں اس نے خالص مشرقی ماحول میں میری والدہ سے تربیت حاصل کی ہے اور مشرقی لڑکیاں صرف اتنا سوچتی ہیں جتنا انہیں بتایا جائے۔ اس کی اداسی اور غم آلود کیفیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اسے اپنے مستقبل کا خیال ہے۔ شیخ صاحب نے کہا اور میں سوچ میں ڈوب گیا۔ نہ میں عالم تھا، نہ درویش ان حالات پر اپنا تبصرہ کیا کرتا۔ مجھے تو رہنمائی درکار تھی۔ سوچنے لگا کہ شیخ صاحب کو کیا جواب دوں۔ بالآخر کہا۔ قبلہ شیخ صاحب میں آپ سے اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں خود بھی ایک ناواقف انسان ہوں۔ ہاں اس اعتراف سے گریز کرکے جھوٹ کا مرتکب نہ ہوں گا کہ میں نے مہرالنسا کے جسم سے ایک پتلا، لمبا سانپ لپٹے ہوئے دیکھا تھا جس کا پھن ان کے سر پر رکھا ہوا تھا، اسی لیے ناشتے کے دونے میرے ہاتھ سے گر گئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آپ سب لوگ بھی اسے دیکھ رہے ہوں گے مگر اللہ کا حکم اگر اس نے مجھے یہ بینائی بخشی ہے تو اس کی کچھ وجوہ بھی ہوں گی۔ میں دہلی میں نووارد ہوں، چندوسی سے آیا ہوں۔ بس یوں سمجھ لیجیے خدا کے نیک بندوں سے فیض حاصل کرنے نکلا ہوں۔ ہوسکتا ہے اس بارے میں، میں کوئی خدمت سرانجام دینے میں کامیاب ہوجائوں۔ آپ کے درِ دولت پر چند روز قیام کا خواہشمند ہوں۔ دو وقت کی روٹی کے سوا کچھ درکار نہ ہوگا۔ اگر بزرگان دین سے کچھ رہنمائی حاصل ہوئی تو یہاں ٹھہروں گا ورنہ آپ سے اجازت لے کر چلا جائوں گا۔ خدارا مجھے ایک گناہ گار انسان کے سوا کچھ تصور نہ فرمایئے گا۔ ہوسکتا ہے صاحبزادی کی صحت یابی کی سرخروئی مجھے عنایت ہوجائے۔ سبحان اللہ۔ میاں صاحب آپ کا لب و لہجہ بتاتا ہے کہ اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے۔ جسے عاجزی اور انکساری کی دولت مل جائے، اس سے زیادہ امیر کون ہوسکتا ہے ورنہ یہاں تو دو ٹکوں پر اچھلنے والوں کی بہتات ہے۔ آپ کا قیام میرے لیے بڑی ڈھارس کا باعث ہوگا۔ آپ یہاں قیام فرمایئے، میں آپ کا احسان مانوں گا۔ ویسے حضور کوئی نام تو ہوگا آپ کا جی آپ مجھے مسعود احمد کہہ سکتے ہیں۔ جس شے کی حاجت ہو، ارشاد فرما دیجیے گا۔ شکریہ مہرالنسا بیگم سے ملتے رہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ مجھے ان کے لیے بھائی کا درجہ دیا جائے اور حویلی کے اندرونی حصے میں داخل ہونے کی اجازت بھی سب کو ہدایت مل جائے گی۔ آپ اطمینان رکھیں۔ مہرالنسا پر کسی بھی وقت کوئی خاص کیفیت طاری ہو، مجھے ضرور اطلاع دیجیے گا۔ بہت بہتر۔ ویسے آپ چاہیں تو ابھی اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ نورجہاں میری بھتیجی ہے اور مہر کے ساتھ رہتی ہے۔ اسے سب سے زیادہ مہر سے لگائو ہے میں اسے بھی ہدایت کردوں گا۔ ابھی کچھ توقف فرمایئے، بعد میں ان سے ملاقات کرلوں گا۔ میں نے کہا اور شیخ صاحب اٹھ گئے۔ رخصتی الفاظ ادا کرکے وہ باہر نکل گئے اور میں احمقوں کی طرح دروازہ دیکھتا رہ گیا۔ کیا میں اس سلسلے میں کچھ کرسکوں گا، مگر کیسے۔ میرا عمل کیا ہونا چاہیے۔ بابا فضل میں نابینا ہوں، میں کچھ نہیں جانتا۔ آرام بڑی چیز ہے، منہ ڈھک کے سویئے۔ میرے کانوں میں آواز ابھری اور میں اچھل پڑا۔ آواز اتنی صاف تھی کہ کوئی دھوکا نہیں ہوا تھا اور یہ آواز یہ آواز میری نگاہ اس کمبل کی طرف اٹھ گئی۔ اس کمبل کا ان الفاظ سے گہرا تعلق تھا۔ مگر اس وقت پھر میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس طرح آیا کہ میں خود کو اس سے باز نہ رکھ سکا۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کمبل کو بڑے احترام سے اٹھا کر مسہری کی طرف بڑھ گیا۔ مسہری پر دراز ہوکر میں نے کمبل اوڑھ لیا۔ تاریکی پھیل گئی۔ سب کچھ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا مگر میں صبر و سکون سے لیٹا رہا۔ پھر اچانک میری نظروں میں روشنی کا ایک نکتہ ابھرا۔ یہ نکتہ رفتہ رفتہ پھیل رہا تھا۔ پھر احساس ہی نہ رہا کہ میں کہاں ہوں، کس حال میں ہوں۔ میرے اطراف تیز روشنی تھی اور اس روشنی میں، میں بہت کچھ دیکھ رہا تھا، سن رہا تھا، سمجھ رہا تھا۔ میرے ذہن کے دریچے کھلتے جارہے تھے اور ان دریچوں جانے کیا کیا تھا۔ دروازہ زور زور سے پیٹا گیا تو میں جاگا اور آنکھیں پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مہمان خانہ ہی تھا۔ میں مسہری پر تھا اور دروازہ مسلسل پیٹا جارہا تھا۔ کمبل احترام سے تہہ کرکے میں نے ایک طرف رکھا اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ فتح محمد تھا۔ اماں بھائی میاں روٹی نئیں کھائو گے کیا، ڈیڑھ بج رہا ہے۔ اماں گھوڑے بیچ کر سو گئے تھے کیا نہیں فتح محمد کھانا لے آئے ہو کیا اماں کھانا لانے میں کونسی دیر لگے گی، ابھی لائے۔ فتح محمد نے کہا اور چلا گیا۔ میرا سر چکرا رہا تھا۔ جو کیفیت طاری ہوئی تھی، وہ نیند نہیں تھی بلکہ کچھ اور تھا اور اس میں جو کچھ بتایا گیا تھا، اس نے مجھے بہت اعتماد بخشا تھا۔ کھانے کے بعد فرصت تھی۔ کچھ دیر آرام کیا پھر غسل کرکے لباس سلیقے سے پہنا۔ فراست کا دیا ہوا یہ لباس قیمتی تھا۔ مجھے وہ حلیہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جو درویشوں اور گوشہ نشینوں کا ہوتا ہے۔ کہا گیا تھا۔ وہ روپ ہوتا ہے، بہروپ نہیں۔ اور روپ ملتا ہے، بنایا نہیں جاتا۔ جذب کی وہ منزل عمر ناتمام کی گرفت میں نہیں ہاں کسی مرد حق کی نظر ہوجائے۔ سو جو بہروپ بھرتے ہیں، وہ جھوٹے ہوتے ہیں اور جھوٹ سے ہمیشہ خسارہ ہوتا ہے۔ سو دنیا کو دنیا داروں ہی کی طرح گزارنا بہتر ہے اور بہروپ بھرنا گناہ تب میں نے سوچا کہ مجھے دوسرے لباس بھی درکار ہیں اور میرے ہاتھ، پائوں مضبوط۔ کسی کے چھوٹے موٹے کام کے لیے اس کے در پر جانا پڑتا۔ رزق حلال کا حصول تو نہیں۔ اس کے لیے تو بساط بھر محنت کرنی ہوتی ہے۔ لیکن ابھی کچھ ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اس کے بعد یہ سوچوں گا کہ کیا کرنا چاہیے۔ شام کے چھ بجنے والے تھے۔ مہمان خانے سے نکلا اور حویلی کے باغ کی بہار دیکھتا ہوا درختوں کی آڑ میں دور نکل آیا۔ تب ایک برگد کا قدیم درخت نظر آیا جو کئی سو سال پرانا ہوگا۔ اس کی داڑھیاں بے شمار تھیں اور نیچے آکر زمین کی گہرائیوں میں اتر گئی تھیں مگر مجھے جس شے نے اپنی طرف متوجہ کیا وہ ایک زنگ خوردہ کلسا تھا جو تانبے کا بنا ہوا تھا اور زنگ تانبہ کھا گئی تھی مگر کلسے میں سونا چمک رہا تھا۔ کلسا چمکدار سونے کی گنیوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ مال تھا زمانہ قدیم کے ایک سود خور بنیے کا جس نے ہر اچھے برے ذریعے سے اسے جمع کیا اور یہاں دفن کردیا مگر وہ اسے استعمال نہ کرسکا اور مر گیا اور اب اسے کسی کی ملکیت بن جانا چاہیے مگر میری نہیں۔ نہ ہی میرے دل میں اس کی طمع پیدا ہوئی تھی مگر میں نے پائوں سے اس جگہ کو کرید کر دیکھا اور اندازہ ہوگیا کہ کلسا گہرائی میں ہے۔ پھر کچھ باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں اور گردن گھوم گئی۔ وہ دونوں اسی طرف آرہی تھیں اور زیادہ دور نہیں تھیں۔ میں نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے مجھے مگر وہ خود میری طرف بڑھ آئی تھیں۔ اور اس وقت مہرالنسا سانپ کی گرفت میں نہیں تھی۔ لو دیکھ لو یہی ہیں۔ نورجہاں نے شوخی سے مسکرا کر کہا اور مہرالنسا نے اسے ٹہوکا دیا۔ مجھے کیوں پیٹ رہی ہو۔ خود ہی تو دیکھنا چاہ رہی تھیں مگر کمال ہے اس عمر میں فقیری مجھے تو کچھ اور ہی لگتا ہے۔ کیوں جناب شاہ صاحب آپ کچھ بتائیں گے کیا بتائوں انہیں تو پہچان لیا ہوگا آپ نے نورجہاں نے مہرالنسا کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ جی ہاں اس وقت ہم نے بھی آپ کو غور سے نہیں دیکھا تھا۔ مگر بعد میں آپ کی بڑی تعریفیں سنیں۔ وہ تعریفیں سچ ہیں یا کوئی اور قصہ ہے قصہ کیا ہوسکتا ہے میں نے پوچھا۔ بس وہی کہ اک محلے میں تھا ہمارا گھر۔ وہیں رہتا تھا ایک سوداگر یعنی مثنوی زہرعشق۔ یا پھر زیب النسا اور عاقل خان والا معاملہ۔ نورجہاں بہت تیز اور شوخ تھی۔ اتنی بے لگامی اچھی نہیں ہوتی نورجہاں مہرالنسا نے واپس ہوتے ہوئے کہا۔ سنو تو، ارے رکو تو۔ نورجہاں نے کہا۔ مگر مہرالنسا تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی۔ مجبوراً نورجہاں کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔ میں خاموشی سے ان دونوں کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور دوبارہ اس وقت چونکا جب ایک درخت کے عقب سے تالیاں بجنے کی آوازیں سنیں۔ دیکھا تو الیاس خان، فتح محمد کے ساتھ نظر آئے اور درخت کے عقب سے نکل کر میرے پاس پہنچ گئے۔ سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بھی بعض اوقات بڑے ذہین نکل آتے ہیں جیسے ہمارے شاہ صاحب مگر تمہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نورجہاں سچ کہہ رہی تھی۔ میں نے الیاس خان کو دیکھ کر سلام کیا۔ اس شخص سے میں بھی راہ رسم چاہتا تھا۔ جیتے رہو، جیتے رہو۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔ الیاس خان مکاری سے بولا۔ صورت سے ہی شاطر آدمی معلوم ہوتا تھا۔ کیسے مزاج ہیں خان صاحب میں نے پوچھا۔ میاں ہم تو سدابہار ہیں مگر تمہارا چکر ذرا سمجھنے سمجھانے کا ہے۔ الیاس خان صاحب نے معنی خیز نگاہوں سے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ میں سمجھا نہیں خان صاحب خیر سمجھ تو سب کچھ گئے ہوگے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بننے کی کوشش کررہے ہو۔ مگر سنو ہم تو یاروں کے یار ہیں۔ بڑے چکر چلا چکے ہیں خود بھی جوانی کی عمر کا اندازہ ہے ہمیں یہ عمر ایسے ہی کھیل کھیلنے کے لیے ہوتی ہے مگر کسی سمجھدار کو رازدار بنا لینا اچھا ہوتا ہے۔ کیا چکر ہے جان من الیاس خان نے ایک آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے کہا اور میں بھی مسکرا دیا۔ گو آپ کی باتیں واقعی میری سمجھ میں نہیں آئیں لیکن سمجھنا چاہتا ہوں۔ ملی بھگت چل رہی ہے، کس سے نورجہاں سے یا مہرالنسا سے اوہ یہ بات ہے۔ نہیں خان صاحب ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کا یہ خیال غلط ہے۔ دیکھو میاں جب آدمی بہت زیادہ چالاک بننے کی کوشش کرے تو اگلے کو بھی غصہ آسکتا ہے اور پھر یہ تو تمہیں پتا چل ہی گیا ہوگا فتح محمد سے، فتح محمد نے ہمیں بتایا تھا کہ تم ہمارے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے۔ تو یہ تو تمہیں معلوم ہو ہی گیا ہوگا کہ اس گھر میں ہماری رشتے داری ہے دور کی سہی۔ مگر آتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور پھر بیچارے اپنے شیخ عبدالقدوس اللہ میاں کی گائے ہیں بلکہ اللہ میاں کے بیل ایک منٹ میں ہر ایک پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ملی بھگت کی بات ہے اور کوئی کھیل کھیل رہے ہو۔ صورت سے بھی فقیر نہیں معلوم ہوتے، یہ سوٹ بھی بڑھیا پہنا ہوا ہے، حلیہ بگاڑنے سے کیا ہوتا ہے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں لیکن یاروں سے یاری کرنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ یہ فتح محمد تو بائولا ہے، کہنے لگا کہ خان صاحب ذرا شاہ جی سے بات چیت کرکے سٹے کا نمبر معلوم کریں، اسی لیے پیچھے لگا آیا تھا۔ ہم نے تمہیں مہمان خانے میں دیکھا اور پھر اس طرف آتے ہوئے تب پتا چلا کہ صاحبزادے کوئی دوسرا ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ رازدار بنا لو، فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔ میں بدستور مسکراتا رہا۔ میں نے کہا۔ خان صاحب سٹے کا نمبر معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ پہلے تو یہی سوچا تھا کہ فتح محمد کی بات پر یقین کرلیں مگر اب جو کچھ سامنے آیا ہے، وہ کچھ اور ہے۔ ہوں آپ سے اس کے علاہ بھی کچھ باتیں کرنی ہیں مجھے خان صاحب ابے دیکھا، بھائی فتے بھیا اپنی عمر سے اونچی اڑان اڑنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہم نے بھی اچھے اچھوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔ چلو بولو کیا بات ہے، کیا قصہ ہے، ہوسکتا ہے ہم کام آہی جائیں۔ تنہائی میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ چل بے فتح محمد پھوٹ لے اور سن زبان بند رکھیو۔ ورنہ تو جانتا ہے الیاس خان کو۔ نہیں خان صاحب ہم تو نوکر ہیں آپ کے جی مجال ہے قسم اللہ کی کہ ادھر سے ادھر ہوجائیں، مگر ایک وعدہ کرلینا بھائی میاں کچھ ہاتھ لگے تو اس میں تھوڑا سا حصہ ہمارا بھی ہونا چاہیے۔ اب جاتا ہے یا لگائوں لات الیاس خان نے کہا اور فتح محمد ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔ الیاس خان ایک بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔ آئو پہلوان بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ کسی اچھے گھرانے کے لگتے ہو۔ صورت شکل سے بھی، حلیے اور لباس سے بھی کیا چکر تھا مہرالنسا سے کوئی معاملہ چل رہا ہے یا نورجہاں سے ویسے آدمی ذہین ہو۔ سانپ وانپ کا قصہ سن لیا ہوگا کہیں سے اور عین موقع پر پوبارہ کردیے اور شیخ عبدالقدوس تمہیں یہاں لے آئے۔ خان صاحب میں آپ کو جانتا ہوں۔ میں نے کہا اور الیاس خان چونک پڑے۔ چند لمحات میرا چہرہ دیکھتے رہے پھر بولے۔ فتح محمد سے پوچھا ہوگا میرے بارے میں نہیں میں نے آپ کو شکتی پور میں دیکھا تھا۔ کہاں خان صاحب چونک کر بولے۔ شکتی پور میں، شکنتا کے کوٹھے پر آپ کے ساتھ چند افراد اور تھے اور آپ شکنتا بائی کے ہاں رقص و سرود دیکھنے گئے تھے۔ الیاس خان صاحب نے حیران نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ دیکھتے رہے پھر ایک دم ہنس پڑے اور بولے۔ تم وہاں کیا کررہے تھے شہزادے۔ آپ کے ساتھ جو افراد تھے، الیاس خان صاحب میں ان کے بارے میں تفصیل جاننا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آپ کے اس خیال کا معاملہ ہے کہ میں یہاں مہرالنسا یا نورجہاں کے چکر میں آیا ہوں تو بہتر یہ ہوگا کہ اسے دل سے نکال دیجیے۔ میں کوئی فقیر یا درویش نہیں ہوں، ایک گناہ گار بندہ ہوں اللہ کا بس کبھی کبھی نظر عنایت ہوجاتی ہے اللہ والوں کی اور حکم ملتا ہے کہ کسی کا کوئی کام کردیا جائے تو کوشش کرتا ہوں۔ لے وہ کتے کی دم والی بات ہورہی ہے کہ بارہ برس نلکی میں رہی مگر ٹیڑھی کی ٹیڑھی یعنی اب تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہم نے اور تم پھر وہی رام کہانی سنا رہے ہو ہمیں۔ الیاس خان صاحب نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ میں آپ کو یقین دلا دوں گا الیاس خان صاحب لیکن ان لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جو شکتی پور میں آپ کے ساتھ تھے۔ چلو ٹھیک ہے مگر تمہاری اس معلومات سے ہمارے اوپر کیا فرق پڑتا ہے، بھائی دنیا دار ہیں، کم ازکم فقیر بن کر عشق و محبت کا ناٹک نہیں کھیلتے، جیسے تم کھیل رہے ہو۔ رنگین مزاج ہیں، شوق رکھتے ہیں، مال خرچ کرتے ہیں، کوٹھوں پر جاتے ہیں۔ اگر تمہیں یہ پتا چل گیا تو اس سے ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوگا شہزادے مگر تم ان لوگوں کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو ان میں ایک صاحب میرے شناسا تھے۔ ان کے بارے میں آپ سے معلومات کرنا چاہتا ہوں۔ کیا نام تھا الیاس خان نے پوچھا۔ ریاض میں نے جواب دیا اور الیاس خان سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولے۔ اس دن ہمارے ساتھ رشید خان صاحب تھے، غلام علی تھا، فرید احمد تھے۔ ہاں ہاں یاد آگیا۔ تم منشی ریاض کی بات کررہے ہو، بالکل ٹھیک ہے۔ فرید احمد کے ہاں منشی ہے وہ شخص فرید احمد ذرا یارباش قسم کا آدمی ہے، نوکروں سے بھی دوستی ہی رکھتا ہے۔ کسی کام سے گئے تھے ہم لوگ شکتی پور، منشی ریاض بھی ساتھ تھا اور جب ہم گانا سننے گئے تو منشی ریاض کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ بس اس کے علاوہ اور کوئی ریاض نہیں تھا ہمارے ساتھ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے حسرت بھرے لہجے میں پوچھا۔ کیا منشی ریاض صاحب، فرید احمد کے ساتھ الٰہ آباد میں رہتے ہیں ہاں بھئی فرید احمد الٰہ آباد کا ایک بڑا کاروباری ہے۔ منشی ریاض بہت عرصے سے اس کے ساتھ کام کرتا ہے۔ آپ کو کچھ اور بھی معلوم ہے اس شخص کے بارے میں میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا اور الیاس خان مجھے گھورنے لگے۔ ابے عقل کی بات کرو بھائی کسی آدمی کے منشی کے بارے میں، میں اس سے زیادہ اور کیا جان سکتا ہوں میرا مطلب ہے کہ منشی ریاض اس وقت بھی الٰہ آباد ہی میں ہیں۔ جب فرید احمد الٰہ آباد میں ہے تو منشی ریاض الٰہ آباد میں کیوں نہ ہوں گے مگر تمہارا اس شخص سے کیا تعلق ہے میں گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ الیاس خان کہنے لگے۔ اچھا اب تو بتا دو کہ قصہ کیا ہے اگر کوئی قصہ ہے بھی خان صاحب تو آپ اس میں دلچسپی کیوں لے رہے ہیں تمہارے بھلے کے لیے سمجھے، تمہارے بھلے کے لیے ہوسکتا ہے ہم تمہارے کسی کام آجائیں ویسے سچ مچ بتا دو یہ روپ بدلا ہے ناں تم نے یا کچھ جانتے بھی ہو۔ ان باتوں کو جانے دیجیے الیاس خان صاحب آپ اپنی بات کیجیے۔ سٹے کا نمبر معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ چلو بے وقوف بنانا شروع کردیا تم نے ہمیں بتا سکتے ہو تم سٹے کا نمبر الیاس خان نے پوچھا۔ نہیں لیکن آپ کی خواہش پوری کرسکتا ہوں۔ میں نے جواب دیا اور الیاس خان چونک پڑا۔ کیا مطلب میں آپ کو سٹے سے حاصل ہونے والی رقم یہیں اور اسی جگہ دے سکتا ہوں لیکن اس کے لیے ایک شرط ہوگی۔ الیاس خان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی سے مجھے گھورتا رہا۔ غالباً بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ سٹے کا نمبر معلوم کرکے ظاہر ہے آپ سٹہ کھیلیں گے، اس سے آپ کو رقم حاصل ہوگی۔ وہ سب کچھ اگر یہیں مل جائے تو کیا حرج ہے کیا آسمان سے دولت برسے گی الیاس خان کہا۔ نہیں زمین سے حاصل ہوگی، لیکن الیاس خان صاحب آپ پر وہ دولت اس وقت حلال ہوگی جب آپ میرا بھی ایک کام کردیں۔ الیاس خان عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے پھر کہا۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سا خزانہ دے رہا ہوں لیکن اس کے بدلے جب آپ الٰہ آباد جائیں تو فرید احمد کے ہاں موجود منشی ریاض سے ملاقات کریں اور ان سے کہیں کہ ایک شخص کچھ عرصے کے بعد آپ سے ملنے آرہا ہے، کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ اس شخص کا آپ سے ملنا بے حد ضروری ہے، آپ اس کا انتظار کریں، اس کا نام مسعود احمد ہے اور اس کے باپ کا نام محفوظ احمد بتایئے الیاس خان صاحب، آپ میرا یہ کام کردیں گے یہ سب کچھ تو خیر میں کر ہی دوں گا مگر تم وہ دولت والی بات کیا کہہ رہے تھے آپ وعدہ کرتے ہیں کہ میرا یہ کام کردیں گے میں نے پھر کہا۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا، آنکھوں میں امیدوں کی چمک آگئی تھی۔ الیاس خان نے شانے ہلاتے ہوئے کہا۔ کردیں گے بھائی کردیں گے چلو وعدہ کرتے ہیں۔ مگر وہ بات ادھوری رہ گئی۔ دولت کی ضرورت ہے کس کو نہیں ہوتی الیاس خان نے کہا۔ تمہاری ضرورت برگد کے اس درخت کے اس حصے کو کھود کر پوری ہوسکتی ہے جہاں وہ اس کی سب سے چوڑی داڑھی زمین میں پیوست ہوگئی ہے۔ کیا مطلب میاں تانبے کا ایک کلسا گڑھا ہوا ہے جس میں سونے کی اشرفیاں بھری ہیں۔ میں نے کہا۔ الیاس خان مجھے گھورنے لگا۔ پھر بولا۔ کیوں بے تکی چھوڑ رہے ہو شہزادے وہاں اشرفیاں گڑھی ہوئی ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہوئے ہو اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ وہ تمہارے لیے ہیں۔ لیکن انہیں نکالنے کے لیے مناسب وقت کا تعین کرنا اور پا لو تو میری بات کا خیال رکھنا۔ صلے میں مجھے بس وہی چاہیے جو میں نے تم سے کہا ہے۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 99 | https://www.urduzone.net/taqdeer-ka-likha-mit-ta-nahi-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | میں قابل نفرت نہ تھی لیکن لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگے اور اب یقین ہے کہ اگر ماں باپ زندہ ہوتے تو اپنی بیٹی کہنا پسند نہ کرتے۔ اس لئے کہ تقدیر نے وطن چھینا، پھر ایک بے غیرت مرد نے جسے عرف عام میں دلال کہتے ہیں، مجھے معصوم لڑکی سے طوائف بننے پر مجبور کردیا۔ میری کہانی سیدھی سادی سی ہے، مگر زندگی اور وقت کے دائو پیچ اتنے سیدھے نہیں ہیں۔ بس ذرا سا پیر پھسلنے کی دیر ہے۔ نادان عورت تو سیدھی حقارتوں کی دلدل میں جا گرتی ہے۔ حالات کے ہاتھوں یہ تباہ حال عورت پھر چاہے جتنا پکار پکار کر کہے کہ مجھے بچالو، اس دلدل سے نکال لو۔ لوگ اسے طوائف ہی جانتے ہیں اور اسے بچانے کے لئے ہاتھ بڑھانے سے ڈرتے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ گناہ سے نفرت کرنے کے باوجود اس بازار کی زینت بنوں گی کہ جہاں عصمت کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ میں بنگلہ دیش، کھلنا کے قریب ایک گائوں کی رہنے والی تھی۔ جب ہوش سنبھالا والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ ہم تین بہنیں تھیں اور میں ان میں بڑی تھی۔ غربت کی وجہ سے جب رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لیں تو دوسری شادی کرنے کی بجائے ماں نے دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھنے کو ترجیح دی۔ ان حالات میں بڑی مشکل سے میٹرک مکمل کیا۔ ماں تو انتھک محنت سے جلد ہی بوڑھی نظر آنے لگی تھی۔ میں نے میٹرک اسی لئے کیا تھا کہ کہیں نوکری کرسکوں، اپنی ماں اور چھوٹی بہنوں کا سہارا بن جائوں۔ اب میں نوکری کی تلاش میں در در بھٹکنے لگی، کہیں لوگ عزت کے بدلے نوکری کی پیش کش کرتے تو کہیں رشوت اور سفارش طلب کرتے۔ اب پتہ چلا کہ ملازمت تلاش کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ یہ دکھ وہی لڑکیاں جانتی ہیں جو ان حالات سے گزرتی ہیں۔ جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں ایک گھرانہ آباد تھا جو میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل تھا۔ گھرانے کے سربراہ کا نام صابر تھا۔ ان دنوں جب میں نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اور ہمارے گھریلو حالات بہت خراب تھے، ایک روز صابر ہمارے گھر آیا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ماں نے اسے اپنا دکھ سنایا اور التجا کی کہ میری بچی کو نوکری دلوا دو۔ صابر نے ماں کو تسلی دی اور کہا کہ اگر تم مجھ پر اعتبارکرو تو میں تمہاری لڑکی کو دبئی میں ملازمت دلوا سکتا ہوں، بہت اچھی تنخواہ ملے گی۔ میں خود وہاں جارہا ہوں اور بیوی بچے بھی ساتھ جا رہے ہیں۔ تمہاری بیٹی فریحہ وہاں میرے گھر پر رہے گی۔ میں ہر ہفتہ تمہاری اس سے فون پر بات کروا دیا کروں گا۔ غربت سے مجبور ماں اس کی باتوں میں آگئی اور ہامی بھرلی۔ صابر کچھ دن کے لئے بنگلہ دیش سے چلا گیا، جب واپس آیا تو ماں کو خوش خبری سنائی کہ اپنی فیملی کے ساتھ وہ میرا بھی ویزا لے آیا ہے۔ اب پاسپورٹ اور ٹکٹ کا بندوبست کرنا ہے۔ ماں نے اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر اسے دے دیں اور تمام مراحل مکمل ہوگئے۔ بالآخر روانگی کا وقت آگیا۔ میں صابر اور اس کی فیملی کے ساتھ ہوائی جہاز پر بیٹھ گئی اور ہم دبئی آگئے۔ یہاں چند دن اس نے مجھے اپنی فیملی کے ساتھ رکھا اور پھر وہ مجھے ایسی جگہ لے آیا جہاں مجھ سی اور بھی بدنصیب لڑکیاں تھیں۔ ان سے ملی تو پتہ چلا کہ صابر نے جھوٹ بولا تھا۔ وہ ہمیں لے کر پاکستان آگیا اور یہاں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ یہ بازار حسن کا دلال تھا جو بظاہر جعلی نکاح نامے پر دستخط کرکے مجھے بیوی بناکر لایا تھا لیکن اس کا کام عورتوں کو خرید کر بازار ِحسن کی زینت بنانا تھا۔ میں جس عزت کی حفاظت میں اتنی دور آئی تھی، یہاں اس کا نیلام ہونے لگا۔ میرا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ موت کی دعا کرتی تھی لیکن موت بھی نہیں آتی تھی۔ میں ہر روز جیتی اور ہر روز مرتی تھی۔ گڑگڑا کر دعا کرتی تھی کہ اے خدا کسی شریف انسان کو میرے پاس بھیج دے جو مجھے اپنی بیوی بنالے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس دلدل سے نکال لے۔ بالآخر خدا کو مجھ پر ترس آگیا اور ایک روز ایک شخص آیا جو شکل سے شریف اور اطوار سے بااخلاق لگتا تھا۔ اس نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا تم مجبور ہو یا خوشی سے اس کانٹوں بھری سیج پر بیٹھی ہو۔ میں نے اس کی طرف چونک کر ایسے دیکھا جیسے کسی نے بجلی کا جھٹکا دیا ہو۔ سال بھر سے جیسے کہ میں بس اسی سوال کے انتظار میں بیٹھی تھی، تبھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ گئیں۔ جیسے ساون بھادوں کا مہینہ اپنی پوری آب و تاب سے برستا ہے۔ جب رو کر دل کا غبار نکال چکی تو اس نے کہا۔ سچ کہا تھا میرے دوست نے، میں صحیح لڑکی کے پاس پہنچا ہوں۔ کیا کہا تھا آپ کے دوست نے اور کون ہے وہ آپ کا دوست میں نے رندھی ہوئی آواز میں دریافت کیا تو فہیم نے بتایا۔ میں اس بازار کا شوقین نہیں اور نہ ہی میرا وتیرہ ہے کہ یہاں آکر خود کو رسوا کروں۔ تاہم میرے چند دوست ایسے ہیں جو اس جگہ سکون تلاش کرنے آتے ہیں۔ ایک روز وہ میرے گھر پر بیٹھے آپس میں گفتگو کررہے تھے اور میں حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اسلم نے کہا کہ یار طبیعت بوجھل ہے۔ ادھر جانا چاہئے دوسرا بولا اس بار مشاہد سے کہنا، پھر اسی لڑکی سے نہ ملا دے جس کا نام ہم نے روتی صورت رکھا ہے ہر وقت روتی رہتی ہے۔ ارے ہاں یار وہ فریحہ۔ وہ تو نفسیاتی مریض ہے۔ خوبصورت تو بے حد ہے لیکن ابھی تک اس نے ماحول کو قبول نہیں کیا ہے۔ کوئی دل بہلانے جاتا ہے اور یہ رو رو کر غموں کو دگنا کردیتی ہے۔ دل خراب ہوجاتا ہے۔ آفتاب نے بھی تائید کی۔ سروش نے کہا۔ یار ترس آتا ہے اس پر، کم بخت ایک دلال اسے دھوکے سے یہاں لایا ہے، نوکری کا جھانسا دیا تھا۔ وہ بے چاری شریف لڑکی ہے۔ جب ہی روتی ہے۔ میں نے جب دوستوں سے ایسی باتیں سنیں تو تمہارا اتا پتا دریافت کیا اور یہاں تک آگیا۔ جب پہلی نظر تم پر پڑی تو تمہاری اچھی صورت سے متاثر ہوا۔ مگر تم سے بات کرتے ہی معلوم ہوگیا کہ تمہیں طوائف ضرور بنادیا گیا ہے مگر تمہارے اس سجے ہوئے جسم کے اندر ایک شریف عورت ابھی تک زندہ ہے۔ اچھا بتائو تم یہاں تک کیسے پہنچیں اور کون لایا تھا تم کو یہاں تبھی میں نے اپنی ساری کہانی فہیم کو سنادی۔ میری کہانی سن کر اس کے دل میں رحم جاگ گیا۔ اس نے کہا۔ فریحہ اگر واقعی تم سچی ہو اور اس گندگی سے چھٹکارا پانا چاہتی ہو تو یہاں سے اسی وقت نکل چلو۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ مگر میں راضی ہوگئی اور پھر رات کے بارہ بجے وہ مجھے وہاں سے کسی طرح نکال کر اپنے فلیٹ میں لے آیا۔ صبح ہم نے نکاح کیا اور میاں بیوی جیسے مقدس بندھن میں بندھ گئے۔ چند دن بعد فہیم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو خوش خبری دی کہ اس نے شادی کرلی ہے۔ وہ اس فعل پر ان سے اس لئے معافی کا طلب گار تھا کہ اپنوں سے اجازت لی تھی اور نہ اپنی شادی میں ان کو شامل کیا تھا۔ بہرحال اپنے تو اپنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے فہیم کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ کہا کہ اپنی دلہن کو ساتھ لے کر گھر آجائو۔ وہ جیسی بھی ہے ہمیں قبول ہے۔ ہماری بہو بن گئی ہے تو قبول کرنا ہی ہے۔ اس امید افزا جواب کے ملتے ہی فہیم خوش ہوگیا اور مجھے لے کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا۔ جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بہو بن گئی ہے تو جیسی بھی ہے ہم قبول کرلیں گے۔ فہیم کے ماں باپ بہن بھائیوں نے مجھے قبول کرلیا اور وہی عزت دی جیسی کہ ایک بہو کو ملنی چاہئے تھی۔ اب میں فہیم کے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے لگی۔ فہیم اور میں بہت خوش تھے کہ ہم اپنوں میں آگئے ہیں اور اکیلے جیون کی سختیاں سہنے سے بچ گئے ہیں۔ شادی کو چار برس بیت گئے لیکن میں اولاد کی نعمت سے اب تک محروم تھی۔ ساس لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں، اس نے بتادیا کہ ان کے اولاد نہیں ہوسکتی۔ اولاد نہ ہونے پر بھی فہیم مجھے بہت چاہتے تھے۔ میں ان سے کہتی تھی کہ میری طرف نہ دیکھو اور دوسری شادی کرلو اولاد تو اللہ کی نعمت ہے، آپ کیوں میری وجہ سے اس نعمت کو ترسیں۔ تب وہ کہتے تھے کہ میں تم پر کبھی سوتن نہ لائوں گا اور کبھی دوسری شادی نہ کروں گا۔ تمہارا کیا قصور ہے، میں کیوں تم پر ظلم توڑوں پہلے کیا تم دکھ اٹھایا ہے تم نے آپ نے ایک بار قربانی دی ہے، اس احسان کو نہیں بھول سکتی۔ اب دوسری قربانی نہ دیں، تو فہیم کہتے تھے۔ جب قربانی دی ہے تو پوری طرح دوں گا ورنہ قربانی ضائع ہوجائے گی۔ وہ مجھ سے جو اتنا پیار کرتے تھے، میں بھی دل و جان سے انہیں چاہنے لگی تھی۔ وہ بھی اچھے انسان تھے، میں بھی اچھے دل کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری جوڑی خوب ملائی تھی اور ہم بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک بار پھر میری زندگی میں قیامت کی گھڑی آگئی۔ ایک بار جبکہ فہیم گھر پر نہ تھے، ان کے ایک دوست اسلم اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ میں انجانے میں ان کے سامنے چلی گئی۔ اسلم نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ وہ کئی بار اس بازار میں آچکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو بتادیا کہ فہیم کی بیوی کا تعلق بازار حسن سے ہے۔ خدا جانے فہیم کی عقل کو کیا ہوا تھا جو ایک طوائف کو بیوی بناکر گھر لا بٹھایا ہے۔ اسے اپنی والدہ اور بہنوں کا بھی پاس نہ رہا کہ یہ عورت کیسے ان کے درمیان رہے گی۔ اسلم کی بیوی نے میری ساس کی بھانجی عظمٰی کو سارا قصہ بتایا کہ عظمٰی سے اس کی دوستی تھی۔ عظمٰی بھی پیٹ کی ہلکی نکلی اور یوں بات ہوتے ہوتے سارے خاندان میں پھیل گئی۔ میری ساس اور نندوں کو جب یہ قصہ پتہ چلا انہوں نے فہیم سے پوچھا۔ تب حقیقت انہوں نے بتا کر کہا کہ حالات نے فریحہ پر ستم کیا ہے، اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ میں اسے گناہ گار نہیں سمجھتا، نیکی سمجھ کر اس کے ساتھ نکاح کیا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، مجھے ہرگز اس کی پروا نہیں ہے۔ ہم اپنے گھر میں خوش ہیں، کوئی ہم سے ناتا رکھے یا نہ رکھے۔ میری ساس نے اعتراض کیا کہ اگر طوائف کو بیوی بنالیا تھا تو پہلے بتانا تھا۔ ہم تم کو یہاں اسے لا بسانے کا نہ کہتے۔ اب تم لوگ ہم سے الگ ہوجائو اور علیحدہ رہو کیونکہ میری بچیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔ ان کے رشتے ہونے ہیں اور جس گھر کی بہو طوائف زادی ہو، اس گھر کی بچیوں کے رشتے کون لے گا۔ میری بیٹیاں تو بن بیاہی رہ جائیں گی۔ کون سا شریف گھرانہ میری لڑکیوں کو رشتہ دے گا۔ جب میں نے ساس کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ میں تو ساس ہوں، اگر فریحہ کے والدین بھی اس کے حالات جان لیں تو اسے بیٹی کہہ کر بلانا پسند نہ کریں گے۔ یہ اور ایسی باتیں میرے لئے سوہان روح ہوگئیں، تبھی مجبور ہوکر فہیم نے کرایہ کا مکان تلاش کیا اور ہم علیحدہ ہوگئے۔ میں اب اپنے شوہر کے والدین کے گھر نہیں جاتی، ان کے بہن بھائی اور رشتہ دار بھی مجھ سے نہیں ملتے۔ اتفاقاً مل جائیں تو کترا کر نکل جاتے ہیں۔ تب بہت دکھ ہوتا ہے۔ میں سوچتی ہوں اگر طوائف ہونا قابل نفرت ہے تو پھر اس معاشرے کے کچھ افراد بھی قابل تعزیر ہیں، صرف طوائف سے ہی نفرت کیوں۔ ان لوگوں سے بھی نفرت کی جانی چاہئے جو عورت کو طوائف بناتے ہیں، اسے خریدتے اور بیچتے ہیں۔ وہ لوگ تو شرفا کی سوسائٹی میں ایسے گھل مل کر رہتے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے مگر عورت ہی قابل نفرت ٹھہرتی ہے، وہی گناہ گار سمجھی جاتی ہے، وہی سزا وار ہوتی ہے۔ آخر یہ بے انصافی کیوں افسوس تو یہ ہے کہ جس شخص نے مجھے دلدل سے نکالا، مجھے شریفانہ زندگی دی، نیکی اورثواب کا کام کیا، اسے بھی لوگ میرے ساتھ سزا دینے لگے۔ فہیم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے فریحہ سے کیوں شادی کی۔ کیا دنیا میں شریف لڑکیوں کی کمی تھی جو یہ گندگی میں جاگرا۔ اور میں کہتی ہوں کہ شریف گھرانے کی اچھی لڑکیوں کو تو سبھی اپناتے ہیں۔ آفرین تو اس شخص پر ہے جو گناہ کی دلدل میں پھنسی کسی ایسی عورت کو اس دلدل سے نکالتا ہے جو دل سے شریفانہ زندگی کی آرزو مند ہوتی ہے۔ اگر واقعی کوئی عورت ایسی ہو اور وہ شریفانہ زندگی کی آرزومند ہو تو اس کو شریفانہ زندگی دینا اور گناہ آلود زندگی سے نکال لینا ایک بڑی نیکی ہے۔ معاشرہ چاہے فہیم سے جتنی بھی نفرت کرے مگر میں تو یہی کہوں گی کہ فہیم نے مجھے اپناکر جو نیکی کی ہے، اس کا اسے بڑا اجر ملے گا۔ ف کراچی | null |
null | null | null | 100 | https://www.urduzone.net/pehle-toulo-phir-bolo-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | شہر ڈیرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہماری بستی تھی۔ اس کی بنیاد پردادا کے والد نے رکھی تھی۔ میاں داد کے دو بیٹے تھے۔ جب وہ جوان ہوئے اور ان کی شادیاں ہوگئیں تو باپ نے ان کے لئے دو گھروں کی تعمیر کرا دی۔ اب اس ویرانے میں ایک سے تین گھر بن گئے۔ ان کے بال بچے بڑے ہوتے گئے، آپس میں شادیاں ہوتی گئیں اور نئے گھر بنتے گئے۔ ان دنوں رہٹ چلتے تھے، کنویں کھود کر ان سے بنجر زمینوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔ زمین کے مالک قریبی آبادیوں سے غریب لوگوں کو اپنی زمینوں پر لاتے اور ان کیلئے کچے گھر تعمیر کرا دیتے۔ ان سے کاشت کاری کا کام لیتے، فصلوں کی پیداوار میں شراکت دار بھی بنا لیتے، یوں کئی کنبوں کے روزگار کا وسیلا بن جاتا۔ بے گھر لوگ جن کی زمینوں پر مفت رہائش حاصل کرتے اور کاشت کاری کرتے، انہیں وہ مزارع کہتے، جن کو دوچار بیگھے ان کی خدمات کے صلے میں بخش دیئے جاتے۔ وہ کسان کہلانے لگتے۔ تیسری نسل کے جوان ہونے تک یہ بستی میاں آباد کہلانے لگی اور میرے دادا نے گورنمنٹ کو تھوڑی سی زمین عنایت کرکے دو اسکول منظور کروا لئے۔ ایک لڑکیوں کیلئے دوسرا لڑکوں کیلئے جس آبادی تک تعلیم کے قدم پہنچ جائیں، وہاں کے مکین تیزی سے ترقی کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے بھی ان دیہاتی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی اور پھر کالج میں پڑھنے کے لئے قریبی شہر جانے لگے۔ میرے والد علاقے کے بڑے زمیندار تھے چونکہ اردگرد کی بنجر زمین بھی جن کے مالکان دوسرے لوگ تھے، آباد ہوگئی تھیں۔ گویا اب ہم ویرانے کے مکین نہ رہے تھے، بلکہ دوسرے زمینداروں کی زمینوں کی سرحدیں ہماری زمینوں سے ملی ہوئی تھیں اور نہری نظام بھی یہاں تک آگیا تھا۔ شکر کہ بیلوں سے ہل چلانے کے زمانے رخصت ہوگئے۔ ان کی جگہ ٹریکٹر ٹرالیوں نے لے لی۔ پیداوار میں دگنا چوگنا اضافہ ہونے لگا اور دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ہماری بستی کی خصوصیت یہ تھی کہ دادا جان کی ساری نسل پڑھ لکھ گئی تھی، تاہم انہوں نے اپنی زمین پر صرف مزارعوں کے علاوہ کسی غیر کو گھر تعمیر کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ غیروں کو اپنے گھروں کے قریب پھٹکنے دینا نہ چاہتے تھے اور نہ غیروں کا داخلہ اپنی برادری میں برداشت کرتے۔ اسی وجہ سے بچوں کے رشتے بھی آپس میں طے کئے جاتے۔ اگر کسی لڑکی کا رشتہ خاندان میں موجود نہ ہوتا تو وہ کنواری رہ جاتی۔ میرے والد، تایا اور چچائوں کی زمین مشترکہ تھی۔ سب ساتھ رہتے تھے، فصلیں ایک جگہ اترتیں اور سب مل کر فصل کو تقسیم کرلیتے تھے۔ اسی اتفاق کی وجہ سے برادری سسٹم مضبوط تھا اور کوئی دشمن ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا۔ میرے والد برادری کے بڑے تھے۔ خاندان کا ہر تنازع ان کے حضور پیش کیا جاتا۔ وہ جو فیصلہ کرتے، سب کو قبول کرنا پڑتا تھا، ورنہ فیصلہ قبول نہ کرنے کی صورت میں دربدر، زمین بدری اور گھر بدری کی سزا دی جاتی۔ ہمارے والد اور ان کے بھائیوں کی حویلی کے گرد جو چار دیواری تھی، اس کے اندر اتنی جگہ تھی کہ ہر گھر ایک سے دو بیگھے میں بنا ہوا تھا لیکن اس وسیع احاطے میں پندرہ گھروں کے درمیان کوئی دیوار نہ تھی۔ سبھی گھر اپنے بھائی، بہنوں کے تھے، پردے کا مسئلہ نہ تھا۔ سبھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ گویا اس حویلی میں اپنی دنیا آباد تھی۔ بچے اپنے اپنے گھروں کے آگے کھلے آنگن میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے تھے اور بچیاں درختوں کے مضبوط گدوں میں رسیوں سے بندھے جھولوں پر پینگیں لیتی تھیں۔ ابو اور ان کے بھائیوں کے حصے میں زیادہ زمین آئی تھی، جس کی وجہ سے ان کی حیثیت برادری میں زیادہ معتبر تھی، یہاں ہر گھر اپنے مکینوں کی حیثیت کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔ ہمارے احاطے کا سب سے کم حیثیت گھرانہ معاشی لحاظ سے مقبول چچا کا تھا۔ یہ میرے والد کے چچازاد تھے۔ ان کی بیٹی کا نام راحیلہ تھا، وہ میری ہم عمر تھی۔ بچپن میں ہم ساتھ اسکول جایا کرتے تھے۔ راحیلہ کو پڑھائی سے دلچسپی نہ تھی۔ سو اس نے بمشکل پانچویں تک پڑھا اور گھر بیٹھ گئی۔ جب میں نے مڈل پاس کیا تو بابا جان نے میرے لئے ایک استانی کا بندوبست کردیا جو قریبی شہر سے روز شام کو دو گھنٹے پڑھانے آتی تھی، اس کو لانے اور لے جانے کا انتظام ہمارا تھا، چونکہ راحیلہ نے پڑھائی میں دلچسپی نہ لی۔ اس کے والد نے اسے آگے پڑھانے کے لئے اس قسم کا کوئی تردد نہ کیا۔ راحیلہ کی شکل و صورت عام تھی اور اس کی تربیت میں بھی چچی نے لاپروائی برتی تھی، اسی لئے ہماری قیام گاہ کے احاطے میں اور احاطے سے الگ برادری کے اندر بھی کسی گھرانے میں اس کا رشتہ نہ ہوسکا۔ راحیلہ کی طبیعت عجیب اور مزاج الگ تھا۔ وہ ساری لڑکیوں سے مختلف تھی۔ اس کی ماں کو بھی کبھی یہ خیال نہ آیا کہ دوسرے لوگ اس کی بیٹی کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ وہ اکثر کھانے کے وقت ہمارے گھر آکر بیٹھ جاتی اور کھانا کھانے لگتی۔ والدہ تو برا نہ مناتیں مگر ہمارے احاطے کی لڑکیوں کا ایسا طورطریقہ بالکل نہ تھا۔ وہ بہت باتونی تھی اور اکثر بغیر سوچے سمجھے بول پڑتی۔ عجیب و غریب باتیں منہ سے نکال دیتی۔ ہم تو اپنے تھے کچھ نہ کہتے اور چپ ہوجاتے لیکن احساس ہوتا کہ یہ کہیں ہمارے خاندان کی ناک نہ کٹوا دے۔ چچا جان نے اپنی کافی زمین ایک دوسرے چچازاد کو فروخت کردی، کیونکہ چچی کی فرمائشیں رکتی نہ تھیں۔ کبھی وہ سیر و تفریح کے لئے دوسرے ممالک کی سوچتے اور کبھی ہر سال نئی گاڑی کا ماڈل بدلنے کی آرزو پوری کرتے۔ ان کے لڑکے بھی اسی طرح فضول خرچ تھے اور باپ کی دولت سے روز شاپنگ کرکے پیسہ اڑا دیتے تھے۔ جو انسان کفایت شعاری کا اصول بھلا کر اپنی خواہشوں کا غلام بن جائے، وہ بالآخر تہی دامن رہ جاتا ہے اور اگر آمدنی کو بڑھانے کی فکر نہ کی جائے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہوجاتا ہے۔ راحیلہ کے والد نے اپنی زمینوں کی کاشت پر توجہ نہ دی اور اخراجات بڑھاتے رہے، یہاں تک کہ خاندان کے سب سے کمزور زمیندار بن گئے۔ زمین سے عزت تھی۔ جس نے زمین کو ماں جیسی عزت نہ دی، اس کا یتیم ہونا لازم تھا۔ جب چچا مقبول مالی لحاظ سے خاصے کمزور ہوگئے تو خاندان والوں نے ان پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ راحیلہ کے رشتے کا مسئلہ بنا اس کے والدین کو فکر ہوئی کہ امیر گھرانوں کے لڑکوں میں سے کسی سے رشتہ ہو، مگر امیر رشتہ دار ان کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ چچا مقبول کے ایک دوست ملک اسحاق سے انہوں نے اپنی اس مشکل کا تذکرہ کیا۔ ملک اسحاق ہمارے ایک پڑوسی زمیندار تھے اور ان کی فیملی کا ہمارے یہاں آنا جانا تھا۔ وہ خوشی، غمی میں شریک ہوتے تھے۔ ملک اسحاق نے بیوی سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ تمہارا بھتیجا اور میرا بھانجا انعام ابھی غیر شادی شدہ ہے اور وہ لوگ بڑے زمیندار ہیں انعام کیلئے کسی زمیندار گھرانے سے لڑکی بیاہ کر لانا چاہتے ہیں۔ اپنے خاندان میں انعام کو کوئی لڑکی پسند نہیں آرہی۔ میں باجی سے ذکر کروں گی اور ان کو مقبول بھائی کے گھر لے جاکر راحیلہ کو دکھا دوں گی۔ لڑکی پسند آئی تو رشتہ کرا دوں گی۔ اسحاق نے مقبول چچا سے ذکر کیا۔ اگر تم کو غیر برادری میں رشتہ کرنا قبول ہے تو میں اپنی سالی کو تمہارے گھر لائوں گا۔ میری بیوی آپ کی بیگم سے ان کو ملوا دے گی۔ مقبول چچا نے کہا۔ مجھے منظور ہے، آپ ان لوگوں کو لایئے۔ جب میرے اپنے میری بیٹی کا رشتہ نہیں لے رہے تو لڑکی کو غیربرادری میں بیاہنا ہوگا۔ اس سلسلے میں مقبول چچا والد کے پاس آئے اور مشورہ مانگا۔ بابا جان نے کہا۔ بھائی مقبول ملک اسحاق کو جانتا ہوں، بہت بڑا زمیندار ہے، اچھا انسان بھی ہے۔ اس کا بھتیجا بھی دیکھا ہے، قبول صورت اور تعلیم یافتہ ہے۔ وہ لڑکا ہر لحاظ سے ٹھیک ہے لیکن ان کی ذات ہمارے ہم پلہ نہیں ہے۔ غیر لوگوں میں رشتہ کرو گے تو اپنوں سے کٹ جائو گے۔ خوشی، غمی میں تمہارے داماد اور ان کے رشتے داروں کو برادری والے اپنے گھر نہیں آنے دیں گے۔ پردے کا مسئلہ ہوگا۔ الگ نسل کے گھوڑے کو الگ کھونٹے سے باندھا جاتا ہے۔ تم بیٹی اور داماد کی وجہ سے ہم سے کٹ کر رہ جائو گے۔ میری مانو تو ان لوگوں سے رشتہ نہ کرو۔ چچا مقبول بولے۔ کوئی کام کم حیثیت نہیں ہوتا۔ سنار ہو یا لوہار ہر ایک کا اپنا ہنر ہوتا ہے۔ جدی پشتی زمینداروں میں سے بھی اکثر کو جاگیر انگریزوں کی وفاداری کے صلے میں ملی تھی۔ میں پرانے خیالات کا آدمی نہیں، صرف یہ دیکھوں گا کہ لڑکا اور اس کا باپ شریف آدمی ہیں یا نہیںٖ اگر وہ شریف ہیں، تعلیم یافتہ اور سب سے بڑھ کر باحیثیت زمیندار ہیں تو مجھے ذات پات سے کیا لینا۔ جب میری بیٹی کا رشتہ لینے سے میرے اپنے کترا رہے ہیں تو کیوں نہ غیروں کی طرف دیکھوں گا۔ میں اب رشتہ غیروں میں ہی کروں گا۔ مقبول چچا کی باتوں نے بابا جان کو لاجواب کردیا اور انہوں نے ان کو غیر برادری میں لڑکی بیاہنے کی اجازت دے دی۔ صرف اتنی شرط لگائی کہ آپ کا داماد اور اس کے گھر والے ہمارے گھروں میں داخل نہ ہوں گے۔ ہاں اگر یہ نئے رشتے دار آپ کے گھر آئیں گے تو ہماری خواتین ان کے سامنے نہ جائیں گی اور مکمل پردہ کریں گی۔ مجھے آپ کی شرط منظور ہے۔ چچا نے جواب دیا۔ بس مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت ہے۔ والد صاحب افسوس کرتے رہ گئے۔ امی سے کہا۔ صاحباں خاتون حقیقت یہ ہے کہ مقبول اس بات کو نہیں سمجھ رہا کہ اس کی بیٹی کا رشتہ اس وجہ سے برادری میں نہیں ہورہا کہ راحیلہ ان پڑھ رہ گئی ہے اور اس کی عادات بھی مہذبانہ نہیں ہیں۔ یہ سب احاطے والے جانتے ہیں ورنہ راحیلہ کا رشتہ کب کا ہوجاتا۔ جب حویلی والوں کو پتا چلا مقبول اپنی لڑکی کا رشتہ برادری سے باہر دے رہے ہیں تو دل مسوس کر رہ گئے۔ یہ اس احاطے کی روایت تھی کہ باہر سے کسی اچھے خاندان کی لڑکی حویلی میں بیاہ کر آسکتی تھی لیکن یہ اپنی لڑکی کا رشتہ باہر نہیں دیتے تھے۔ راحیلہ کی شادی ملک اسحاق کے بھتیجے انعام جنید سے کرکے چچا مقبول نے پہلی بار خاندان کی روایت کو توڑا اور بیٹی کی شادی غیر برادری میں کردی لیکن جب خاندان والوں نے راحیلہ کے سسرال والوں کے ٹھاٹ باٹ دیکھے تو دنگ رہ گئے۔ اب راحیلہ کی شان کچھ اور تھی۔ اس کی شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ سب حیران رہ گئے۔ راحیلہ کے مقدر پر سبھی حیران تھے۔ خاندان بھر کی عورتیں کہہ اٹھیں۔ یہ مقبول ہی تھے جس نے ایسی جرأت کر ڈالی، ورنہ خاندان کا کوئی بھی لڑکا اوچھی طبیعت کے باعث راحیلہ کو منہ لگانے پر تیار نہ تھا اوپر سے صرف پرائمری پاس تھی۔ بدسلیقہ اتنی کہ جو شادی کرتا، سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔ شادی کے بعد بھی وہ خوش و خرم تھی۔ والدین سے ملنے آتی تو نہال ہوتی۔ پھوپھیاں، تائیاں، چچیاں دیکھ کر حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتیں۔ دعا کرتیں خدا کرے یونہی خوش رہے۔ اب راحیلہ کافی بدل گئی تھی۔ معمولی صورت نے بھی رنگ روپ پکڑ لیا اور غرور بھی آگیا تھا، شاید یہ قدرتی ردعمل تھا کہ جس کو کوئی منہ نہ لگاتا تھا، غیروں نے سر پر بٹھا لیا تھا۔ انہی دنوں میری منگنی ہوگئی پھپھو کے بیٹے سے اور پھوپھا، ابو کے تایا زاد تھے۔ رشتہ اپنوں میں ہوا تھا۔ بیاہ کر بھی اسی خاندانی احاطے میں رہنا تھا۔ منگنی والے دن راحیلہ بھی آگئی۔ والدہ نے ٹوکرا بھر مٹھائی اسے دی کہ اپنے سسرال لے جاکر ان میں بانٹ دینا آخر تمہاری بہن کا رشتہ طے ہوا ہے۔ اس نے غرور سے کہا۔ یہ مٹھائی اس قابل نہیں کہ سسرال لے کر جائوں، وہ اس کو کوڑے میں ڈال دیں گے۔ اسے رکھ لیجئے اپنے پاس اس کی بدتمیزی پر والدہ پسینہ پسینہ ہوگئیں لیکن بھری محفل میں کوئی جواب دینا مناسب نہ جانا کہ ہمسایہ زمیندار گھرانوں کی معزز مہمان خواتین وہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ امی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد ایک روز راحیلہ آئی تو اس کی شکل پر بارہ بج رہے تھے۔ راحیلہ کو انہوں نے دھتکار کر میکے بھیج دیا تھا۔ سارے خاندان میں یہ بات اڑ گئی کہ راحیلہ اجڑ کر آگئی ہے۔ ایسا واقعہ کبھی ہمارے خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ نہ ہوا تھا۔ سارے احاطے پر خاموشی چھا گئی، جیسے خدانخواستہ مرگ ہوگئی ہو۔ بابا جان اور امی، چچا مقبول کے گھر گئے کہ اصل حالات معلوم کریں۔ چچا نے بتایا کہ کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اچانک ایک معمولی سی بات پر انعام جنید، راحیلہ کو گھر کے دروازے پر لا کر چھوڑ گیا ہے۔ والد صاحب چچا کے ہمراہ جاکر جنید سے ملے اور وجہ دریافت کی، تب اس نے کہا کہ میں آپ کی بیٹی کو اس وجہ سے طلاق دے رہا ہوں کہ یہ مجھے کہتی ہے کہ میں اسے پسند نہیں ہوں تو پھر میں کیوں ایسی عورت کے ساتھ زندگی گزاروں جو مجھے پسند ہی نہیں کرتی۔ یہ بات سن کر والد اور چچا مقبول ہکابکا رہ گئے۔ گھر آکر انہوں نے راحیلہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ بات صحیح ہے ہمیں تفصیل سے بتائو تاکہ ہم دوبارہ ان لوگوں سے بات کریں۔ تب راحیلہ نے بتایا کہ جنید بہت اچھے ہیں، مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اتنا چائو کیا کہ میں زمین سے آسمان پر جا پہنچی تھی۔ سوچا نہ تھا کہ ذرا سی بات پر یوں بگڑ جائیں گے۔ ایک روز ہنسی مذاق میں پوچھا۔ سچ بتائو راحیلہ کیا تم مجھے پسند کرتی ہو میں نے مذاق میں کہہ دیا ہرگز نہیں۔ میں کب آپ کو پسند کرتی ہوں۔ اماں، بابا نے شادی کردی تو آگئی، جبکہ میں ان کو بہت پسند کرتی ہوں۔ جانے اس وقت کیا جی میں آئی کہ ستانے کو الٹ کہہ دیا۔ سوچا تھا ابھی منانے لگیں گے، منتیں کریں گے یا پھر روٹھ جائیں گے تو میں منالوں گی۔ کہوں گی کہ مذاق تھا۔ میں تو آپ کو بہت چاہتی ہوں، اس کی انہوں نے نوبت ہی نہ آنے دی۔ میرے لبوں سے یہ فقرہ سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا بولے۔ پسند نہیں ہوں تو پھر کیوں رہ رہی ہو میرے ساتھ اپنے ماں، باپ کے گھر جائو۔ جو پسند ہے رہو جاکر اس کے ساتھ اسی سے شادی کرلو۔ وہ دولت مند ہیں، اتنی سی بات کسی کے منہ سے سننا ان کو گوارا نہیں ہوگا، یہ تصور میں نے نہ کیا تھا۔ معافی مانگنے کا بھی موقع نہ دیا۔ بازو سے پکڑ کر کار میں دھکیلا، یہاں در پر لا کر چھوڑ دیا۔ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ بس اتنی سی بات تھی جس نے میرا گھر بگاڑ دیا۔ امی نے کہا۔ بیٹی ہر بات سوچ سمجھ کر منہ سے نکالنی چاہئے یہ نہیں کہ جو منہ میں آئے، کہہ دو۔ یہ تمہارے بچپن کی عادت تھی۔ ہم ٹوکتے تھے تو تم ماں سے جاکر کہتی تھیں، وہ ناراض ہوجاتی تھیں ہم سے اور جس بات کو تم معمولی سمجھ رہی ہو، یہ ہرگز معمولی نہیں ہے۔ یہ بات مرد کبھی اپنی شریک حیات کے منہ سے سننا پسند نہیں کرتے۔ اگر تمہاری شادی اپنے خاندان میں ہوجاتی تو تمہارے تایا سمجھا بجھا کر معاملے کو ٹھیک کرا دیتے لیکن اب غیروں کا معاملہ ہے، کوشش کرتے ہیں کہ بگڑی بات سنور جائے۔ لیکن جنید نے معاف نہ کیا۔ وہ بھی تکبر سے بھرا ہوا انسان تھا۔ اس نے راحیلہ کو آزاد کردیا بالآخر بابا جان نے ایک سال بعد اس کا نکاح اپنی ایک عزیزہ کے بیٹے سے کرا دیا۔ لڑکا میٹرک پاس تھا۔ وہ ہمارے احاطے سے باہر لیکن ہماری بستی کے اندر رہتے تھے۔ تھوڑی سی زمین تھی۔ بہت امیر نہ تھے لیکن یہ ڈر نہ تھا کہ راحیلہ کی کم عقلی کی وجہ سے نباہ نہیں کریں گے۔ وہ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ نباہ کرنے والے لوگ تھے۔ فخر عالم سے شادی کے بعد راحیلہ کی زندگی پرسکون ہوگئی مگر وہ اب بھی پچھلے عیش و عشرت کے دن بھلا نہ پائی تھی۔ جب آتی، ان دنوں کو یاد کرکے اداس ہوجاتی۔ کہتی۔ کاش سوچ سمجھ کر بولتی تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔ طلاق کے واقعہ نے اس کے والدین کو ہی نہیں اسے بھی ہلا کر رکھ دیا، بلکہ یکسر بدل دیا۔ اب وہ ہر بات سوچ سمجھ کر کرتی ہے، ورنہ زیادہ تر خاموش ہی رہتی ہے۔ مسز قریشی ڈیرہ میاں آباد | null |
null | null | null | 101 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-24/ | اور اگر نہ پائوں تو وہ بولا۔ مجھے اپنی پسند کے مطابق سزا دے لینا۔ کان کھول کر سن لو شہزادے مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش خطرناک ثابت ہوگی تمہارے لیے میرا نام الیاس خان ہے۔ اس نے کہا اور میں مسکرا دیا۔ وہ چلا گیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھایا اور پھر بستر پر دراز ہوگیا۔ دل کمبخت بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔ کچھ بھی ہوجائے، یہ سرکشی ضرور کرتا ہے۔ الیاس خان کے مل جانے سے نہ جانے کیا امنگیں جاگ اٹھی تھیں۔ ایک بار پھر وہ سارے چہرے آنکھوں میں آبسے تھے۔ ایک بار پھر اسی پُر بہار زندگی کے خواب نظر آنے لگے تھے۔ ماموں ریاض نوکری کررہے ہیں۔ محمود ملک سے باہر ہے۔ ہوسکتا ہے ابو ان حالات کا شکار ہوکر صاحبِ فراش ہوگئے ہوں اور گھر کی ذمہ داریاں ماموں نے سنبھال لی ہوں۔ ایک بار، صرف ایک بار ان لوگوں کے سارے حالات معلوم ہوجائیں۔ اس کے بعد اس کے بعد۔ دروازہ زور سے بجا اور سارے خیالات چکناچور ہوگئے۔ جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ بندو خان صاحب تھے۔ سلام کرکے بولے۔ وہ حضور اچھے نواب نے سلام کہا ہے۔ شیخ صاحب جی بلایا ہے۔ خیریت ہے بٹیا کی طبیعت بگڑ گئی ہے، آپ کو بلا رہے ہیں۔ رکو۔ چلتا ہوں۔ میں نے کہا اور جلدی سے متبرک کمبل شانے پر ڈال کر بندو خان کے ساتھ چل پڑا۔ حویلی کے اس حصے میں پہلی بار داخل ہوا تھا جو قابل دید تھا۔ بندو خان میری رہنمائی کررہے تھے۔ راستے طے کرتا ہوا اندرونی حصے میں داخل ہوگیا۔ مکمل خاموشی طاری تھی مگر ایک کمرے کے سامنے روشنی میں کئی افراد نظر آئے ان میں خواتین بھی تھیں جنہوں نے دوپٹے سر پر ڈال لیے۔ شیخ صاحب کراہتے ہوئے میرے قریب آگئے۔ پھر پھر حالت بگڑی ہے۔ انہوں نے کہا۔ کیا کیفیت ہے آپ کو طلب کیا ہے۔ شیخ صاحب نے کہا۔ مجھے ہاں نام لے کر کہا بلائو اس استاد اعظم کو۔ ذرا اس سے بات کرلوں۔ اس کی یہاں آنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ میں نے پوچھا کسے تو جواب ملا مسعود کو اور میں نے آپ کو بلا بھیجا۔ خوب مجھے انتظار تھا آیئے۔ میں نے کہا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ حسین خواب گاہ تھی۔ ایک تپائی پر مہرالنسا بیٹھی ہوئی تھی۔ دراز گھنے سیاہ بال چھتری کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ دروازے کی طرف پشت تھی اور رخ دوسری طرف تھا لیکن اچانک گردن گھومی اور چہرہ مڑ کر پیچھے ہوگیا۔ بڑا خوفناک انداز تھا۔ یعنی جسم کا رخ دوسری طرف تھا اور چہرہ مکمل میری طرف مہرالنسا کو شام کو بھی دیکھا تھا۔ سبک اور ملیح چہرہ، چمپئی رنگ، نرم و نازک نقوش، گہری سیاہ آنکھیں لیکن اس وقت جو چہرہ نظر آیا، یہ شام والا چہرہ نہیں تھا۔ خدوخال بگڑے ہوئے تھے، آنکھیں شرر بار تھیں اور ان میں نیلاہٹیں جگمگا رہی تھیں۔ رنگ میں تپش تھی۔ السلام علیکم۔ میں نے کہا۔ مگر وہ مجھے گھورتی رہی۔ میں نے ترش لہجے میں کہا۔ کیا والدین نے سلام کا جواب دینا بھی نہیں سکھایا وعلیکم السلام۔ ایک کرخت مردانہ آواز مہرالنسا کے منہ سے ابھری۔ میں مسکرا دیا۔ پھر میں نے کہا۔ جب ہم ایک دوسرے کی سلامتی کے خواہاں ہیں تو دشمنی کا تصور تو خودبخود مٹ جاتا ہے۔ اس دشمنی کی داغ بیل تو تم ڈال رہے ہو۔ میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔ یہاں سے چلے جائو۔ یہی مطالبہ میرا ہے۔ تم کون ہوتے ہو وہ مردانہ آواز میں بولی۔ بندئہ خدا ہوں اور اس بچی کو مشکل سے بچانا چاہتا ہوں۔ خود مشکل میں پڑ جائو گے۔ اللہ مالک ہے۔ سوچ لو۔ سوچنا تو تمہیں ہے غلام جلال، مسلمان کے بیٹے ہو، سب کچھ جانتے ہو، تمہیں علم ہے کہ وہ بچپن سے ایک نوجوان سے منسوب ہے۔ نیک والدین کی نیک اولاد ہے اور اس تصور سے دور نہیں ہوسکتی جو بچپن سے اس کے ذہن میں ہے۔ تم اسے کیوں پریشان کررہے ہو بہت کم وقت رہ گیا ہے جب اس کے دل میں میرے سوا کوئی تصور نہیں ہوگا۔ یہ تصور نہیں، تسلط کہلائے گا اور اس سے ایک خاندان بدترین المیے کا شکار ہوجائے گا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ بات شرافت کے منافی ہے۔ جو کچھ بھی ہو۔ میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں۔ نہ مانوں تو۔ خود ذمہ دار ہوگے۔ تم نے مجھے بلایا ہے اور اب جب میرا اور تمہارا آمنا سامنا ہوگیا ہے تو پھر فیصلہ ہی ہوجانا چاہیے۔ میں تمہیں فنا کردوں گا۔ یہ الفاظ کفر کے مترادف ہیں۔ آئو ذرا تمہاری قوت کا جائزہ لے لیا جائے۔ میں آگے بڑھا اور میں نے مہرالنسا کے چھتری کی طرح بکھرے بالوں کا کچھ حصہ اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔ شیخ صاحب کے ساتھ کچھ دوسری چیخیں بھی سنائی دی تھیں۔ نہ جانے کون کون اندر آگیا تھا مگر میں کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ میں نے شانے پر پڑا کمبل مہرالنسا پر ڈال دیا۔ اس کے ساتھ ہی مہرالنسا تپائی سے نیچے آرہی۔ مگر فوراً ہی کمبل کے ایک کھلے ہوئے حصے سے ایک کالے ناگ کا پھن برآمد ہوا اور وہ برق کی سی تیزی سے باہر نکل آیا۔ باہر آتے ہی اس نے پھن اٹھا کر مجھ پر حملہ کیا مگر میں غافل نہیں تھا۔ میں نے پینترا بدل کر ایک زوردار تھپڑ اس پھن پر رسید کیا اور سانپ اچھل کر دیوار سے ٹکرا گیا۔ کمرے میں ڈری ڈری چیخیں ابھر رہی تھیں۔ سانپ ایک لمحے بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر وہ ادھر ادھر رینگنے لگا جیسے نکل بھاگنے کی راہ تلاش کررہا ہو۔ میری نظر اس کھلی کھڑکی پر پڑی جو کمرے کی پشت پر تھی۔ اس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے، سانپ دیواروں سے ٹکریں مار رہا تھا جیسے اسے نظر نہ آرہا ہو۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا اور کھلی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اسے پھینکتے ہوئے میں نے کہا۔ بہتر یہ ہوگا غلام جلال کہ آئندہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ورنہ اس کے بعد جو کچھ ہوگا، اس میں میرا قصور نہیں ہوگا۔ میں نے کھڑکی کے دونوں پٹ بند کیے اور واپس پلٹا۔ پھر میں نے کمبل سمیٹ کر تہہ کیا اور اسے شانے پر ڈال لیا۔ مہرالنسا بے سدھ پڑی ہوئی تھی۔ میں نے شیخ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ انہیں مسہری پر لٹا دیں۔ میری ہدایت کی تعمیل کی گئی۔ عورتیں کمرے میں رہ گئیں۔ شیخ صاحب میرے ساتھ باہر نکل آئے۔ ان کا بدن کپکپا رہا تھا اور منہ سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ خود کو سنبھالیے شیخ صاحب آپ مسعود صاحب آپ تو میرے لیے امداد غیبی ثابت ہوئے۔ سخت شرمسار ہوں کہ آپ کو وہ مقام نہ دے سکا جو ہونا چاہیے تھا۔ آہ میں آپ کو آپ کے شایان شان تعظیم نہ دے سکا۔ شیخ صاحب نے کہا۔ گناہ گار نہ کریں شیخ صاحب مجھے اور کیا درکار تھا۔ بڑی عزت دی ہے آپ نے مجھے اللہ آپ کو عزت بخشے۔ آپ اس کا نام بھی جانتے تھے شاہ صاحب وہ کون تھا اور ابھی خاموشی اختیار کریں۔ جوانی سرکش ہوتی ہے۔ اگر اس نے مزید سرکشی کی تو اسے نقصان پہنچانا پڑے گا لیکن آپ اطمینان رکھیں، ہم فیصلہ کرکے ہی واپس جائیں گے۔ اجازت ہے شیخ صاحب میرے ساتھ اٹھنے لگے تو میں نے انہیں روک دیا اور خود باہر نکل کر خاموشی سے مہمان خانے کی طرف چل پڑا۔ مجھے یہی کرنا تھا اور اسی کی ہدایت کی گئی تھی مجھے۔ اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ نہ جانے کب تک لیٹا اس بارے میں سوچتا رہا۔ غلام جلال کا نام بھی مجھے بتایا گیا تھا ورنہ میں اس کو کیا جانتا البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس کے بعد غلام جلال کا قدم کیا ہوگا۔ پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کوشش میں شاید کامیاب ہوگیا تھا مگر یہ رات سونے کے لیے نہیں تھی۔ پھر دروازہ بجایا گیا تھا۔ دروازہ کھولا تو اندھیرے میں کوئی کھڑا نظر آیا لیکن جو کوئی بھی تھا، کالی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ میں اسے پہچان نہ پایا کہ اس کی آواز ابھری۔ پیر و مرشد میں الیاس خان ہوں۔ الیاس خان اندر آجائو۔ میں نے کہا اور الیاس خان اندر داخل ہوتے ہی جھک کر میرے پیروں سے لپٹ گیا۔ معاف کردیں مرشد معاف کردیں شاہ صاحب بڑی گستاخیاں کی ہیں آپ کی شان میں۔ معاف کردیں۔ آپ تو اللہ والے ہیں۔ میں نے بڑی بدتمیزی کی آپ سے۔ خدا کے بندے اٹھو کیوں مجھے گناہ گار کررہے ہو۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں مجھے وہ مل گیا جو آپ نے بتایا تھا۔ دلدر دور ہوگئے میرے تو بڑا مقروض تھا مرشد عزت پر بنی ہوئی تھی۔ قرض خواہوں سے چھپتا پھرتا تھا۔ اب آپ کی عنایت سے عزت سے جی سکوں گا۔ اتنا عاجز آگیا تھا اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں چڑھ جانے والے قرض سے کہ دو ہی صورتیں رہ گئی تھیں میرے لیے یا تو جرم کروں یا خودکشی مگر مرشد آہ آپ کتنے رحم دل ہیں۔ میری بدتمیزی کو نظرانداز کرکے آپ نے مجھے نئی زندگی دے دی۔ الیاس خان کا رنگ ہی بدلا ہوا تھا۔ نہ وہ تیکھا پن تھا، نہ اکڑفوں مجسم نیاز بنا ہوا تھا۔ چلو تمہارا کام بن گیا۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی مگر ہماری وہ شرط قائم ہے۔ حضور میرے ساتھ ہی الٰہ آباد چلیے، غلاموں کی طرح خدمت کروں گا۔ سارے کام کروں گا جو آپ حکم دیں گے۔ ہمیں بس اپنا پتا بتا دو۔ ہم آئیں گے تمہارے پاس، ابھی یہاں کام ہے۔ آپ مجھے بس حکم دے دیں، خود لینے آجائوں گا دوبارہ آپ کہیں تو ریاض صاحب کی بھی خدمت کروں۔ جو تمہارا دل چاہے کرنا، ہمیں پتا بتا دو۔ میں نے ہنس کر کہا اور الیاس خان نے مجھے الٰہ آباد میں اپنا پتا ذہن نشین کروایا۔ اس کے بعد وہ نہ جانے کیا کیا اول فول بکتا رہا تھا۔ بمشکل تمام ٹلا۔ صبح کو جارہا تھا۔ یہ سونا چاندی بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ انسان میں کیا کیا تبدیلیاں رونما کردیتی ہے۔ سورج کی کرنوں نے پپوٹے چیرنے شروع کر دیئے۔ نیند ایسی ٹوٹی تھی کہ آنکھ کھولنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ دفعتاً ہی حواس جاگے اور ہڑبڑا کر اُٹھ گیا۔ فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ دِل ہی دِل میں لاحول پڑھتا ہوا اُٹھ گیا۔ نہ جانے آنکھ کیوں نہیں کھلی تھی۔ غسل خانے جا کر وضو کیا اور قضا پڑھنے بیٹھ گیا۔ غلطی مجھ سے ہی ہوئی تھی۔ جائے نماز بچھانے سے پہلے دروازہ کھول دینا چاہیے تھا۔ نماز شروع ہی کی تھی کہ دروازہ بجایا جانے لگا۔ جو شخص بھی دروازہ بجا رہا تھا نہایت احمق تھا۔ اسے جواب نہ ملنے پر رُکنا چاہیے تھا۔ مگر وہ ہاتھ ہٹانے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سخت غصّہ آیا مگر کیا کرتا۔ خدا خدا کر کے سلام پھیرا اور غصّے سے دروازے کی طرف بڑھا، اندازہ ہوگیا تھا کہ فتح محمد کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا۔ شکر ہے اللہ کا زندہ ہو۔ ہمیں تو اندیشہ ہو گیا تھا کہ چل بسے۔ اماں کیا ازار بند نکل گیا تھا فتح محمد، تم نہایت بے وقوف انسان ہو۔ لو اول لو، ماں بھائی جی یہ تو سب ہی کہتے ہیں تم نے کونسی نئی کئی، کچھ خبر بھی ہے بسنت کی کیا ہوا بندئہ خدا بھائی پھوٹ لیے نہار منہ، خبر دینے آئے ہیں۔ کون الیاس خاں، منہ اندھیرے بسترا بغل میں دبا کر نکل لیے۔ اللہ خیر کرے اچھے نواب کو دَبی زبان سے بتا تو دیا ہے، کچھ بولے نہیں، بس اتنا کہا کہ فتح محمد انہیں جانا تھا مگر قسم اللہ کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ وہ دو دن پہلے سے کہتے ہیں جانا ہے۔ ناشتے کے بعد جانے کا فیصلہ کرتے ہیں پھر سوچتے ہیں کھا کر جائیں گے۔ مگر اس مرتبہ تو وہ چپ چاپ نکل لیے۔ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔ اماں کچھ ہاتھ لگ گیا، لے کر نکل لیے بھائی کے سُسرال کا مال سمجھ کے۔ کیا تمہیں ایسی باتیں کرنی چاہئیں فتح میں نے ملامت کرتے ہوئے کہا۔ اماں تو کونسی کسی غیر سے کر رئے ہیں، تم اتے شریف آدمی ہو کہ دل کی کہہ لیتے ہیں۔ پر ایک بات ہے بھائی میاں، غریب کا کوئی نئیں ہوتا، گھٹنے پیٹ کی طرف ہی مڑتے ہیں۔ کل تم نے بھی انہیں سٹّے کا نمبر بتاتے ہوئے ہمیں بھگا دیا۔ اماں ان کی کیا ہے خود بھی گھر کے کھاتے پیتے ہیں اور پھر اِدھر اُدھر سے مارتے کھاتے رہتے ہیں۔ اماں بھائی میاں ہمیں بھی کچھ دے دو بڑے غریب آدمی ہیں۔ بال بچوں کو دُعا دیں گے۔ میں نے انہیں سٹّے کا نمبر نہیں دیا فتح محمد میں نے کہا۔ اماں ہم سے اَڑ رہے ہو۔ اُڑتے کبوتر کے پر گن لیتے ہیں، ہم بھی تاڑ میں لگے رئے تھے ان کی، رات کو برگد کی جڑ میں تعویذ گاڑتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا ہم نے۔ تعویذ گاڑتے ہوئے میں حیرت سے بولا۔ قسم اللہ کی برگد کی جڑ میں گڑھا کھود رئے تھے۔ پھر برابر بھی کر دیا۔ جب چلے گئے تو ہم نے قریب جا کر بھی دیکھا مٹی برابر کی گئی تھی۔ تعویذ کی بات نہ ہوتی تو کھود کر دیکھتے۔ اوہ۔ میں نے گہری سانس لی بات سمجھ میں آ گئی تھی، باہر سے آواز آئی۔ فتح محمد، او فتے لگ گئے باتیں بنانے میں۔ لو وہ آ گئے نصیحت علی خاں، اب نصیحتیں کریں گے۔ اماں آ رہا ہوں بندو خاں پوچھ رہا تھا کہ ناشتے کی پوچھنے آئے تھے تم اور یہاں جم گئے لو چلو ناشتہ رکھو سنبھال کر۔ بندو خاں خود ناشتے کی ٹرے لے آئے تھے۔ فتح محمد نے جلدی سے ٹرے سنبھال لی۔ ناشتے کے بعد رحیم الدین کے پاس چلے جانا۔ اور کچھ فتح محمد نے پوچھا۔ اور یہ کہ میاں صاحب کا بھیجہ مت کھایا کرو۔ بہت بڑھ بڑھ کر بولنے لگے ہو بندو خاں صاحب برابر کے عہدے ہیں ہمارے تمہارے۔ حکم مت چلایا کرو میرے پر عہدے برابر ہیں فتح محمد، مگر عمر تم سے زیادہ ہے سمجھے۔ بندو خاں مسکرا کر بولے اور پھر کہنے لگے۔ اچھا یوں کرو تم میاں کو ناشتہ کرائو، میں رحیم الدین کے پاس چلا جاتا ہوں۔ اچھا چلتا ہوں۔ بندو خاں مسکرا کر باہر نکل گئے۔ فتح محمد نے گردن ٹیڑھی کی، منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور اس کے بعد میرے لیے ناشتہ لگانے لگا۔ میں نے اسے بھی ناشتے کی پیشکش کی تو وہ کہنے لگا۔ نہیں میاں صاب، آپ کر لو آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں پوچھا، مگر شکایت یہی کرتے رہیں گے غریب آدمی کی بھی سننی چاہیے، اصل ضرورت ہماری ہے ان کا کیا ہے، سٹّہ لگائیں گے، مال کمائیں گے، عیاشی کریں گے، یہاں تو بارہ بچوں کا معاملہ ہے۔ میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا پھر میں نے کہا۔ برتن لے جائو وہ شاید مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکا تھا۔ برتن اُٹھا کر باہر نکل گیا۔ میں تھوڑی دیر تک بیٹھا سوچتا رہا اور اس کے بعد خود بھی باہر نکل آیا۔ حویلی کے ملازم اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ مالی کیاریاں دُرست کر رہا تھا۔ دُوسرے لوگ اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ صفائی کرنے والا، صفائی کر رہا تھا، میں ٹہلتا ہوا دُور تک نکل آیا اور اتفاق سے ہی اس وقت برگد کے اسی درخت کے قریب پہنچ گیا، جس کی جڑ سے الیاس خاں کا کام بنا تھا، یونہی نگاہ اس کی جڑ پر جاپڑی اور بس، قدرت نے یہ عطیہ عطا فرما دیا تھا، جس کا احساس اس وقت پھر ہوا، آنکھوں نے ان گہرائیوں میں دیکھا، کلسا غائب تھا لیکن مٹی میں چند اشرفیاں نظر آ رہی تھیں، دس بارہ سے کم نہیں ہوں گی، فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ وہ اشرفیاں ہیں جو مٹی میں مل جانے کی وجہ سے الیاس خاں کو نظر نہیں آ سکیں، ویسے بھی اس نے یہ کام رات میں کیا تھا اور یقینی اَمر ہے کہ افراتفری کے عالم میں کیا ہوگا، چنانچہ یہ اشرفیاں رہ گئیں۔ دل خوش ہو گیا بیچارے فتح محمد کے کام آ سکتی ہیں۔ یہ بتا دوں گا اسے پھر وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چلا تھا کہ فتح محمد نظر آ گیا، میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور وہ بھی مسکراتا ہوا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے ابھی اسے کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ چھوٹا آدمی تھا، چھوٹی طبیعت کا مالک، میرے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی پاگل ہو جاتا اور پھر خواہ مخواہ کہانی عام ہو جاتی، دُوسروں کو پتا چلتا تو نجانے کیا کیا قیاس آرائیاں ہوتیں۔ ٹہلتا ہوا حویلی کے عقبی حصے میں جا نکلا اور اس وقت پیچھے سے مہرالنسا ، نورجہاں کے ساتھ آتی ہوئی نظر آئی، دونوں تیز تیز قدموں سے میری طرف آ رہی تھیں، نورجہاں نے مجھے سلام کیا۔ مہرالنسا البتہ عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں بھی رُک گیا، سلام کا جواب دے کر میں نے ان دونوں کی خیریت پوچھی، اور مہرالنسا کہنے لگی۔ مسعود صاحب، ہم مہمان خانے میں آپ کی قیام گاہ تک گئے تھے۔ آپ اس طرف چہل قدمی کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مہرالنسا میں نے سوال کیا۔ بہت عرصے کے بعد میں اپنے آپ کو زندہ محسوس کر رہی ہوں اور مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں بھی جینے والوں میں شامل ہوں، مطلب یہی ہے کہ جو کچھ مجھ پر بیت رہی تھی میں صحیح الفاظ میں تو ان لوگوں کو نہیں بتا سکتی تھی لیکن، لیکن زندگی سے بیزار تھی۔ میں آہ کاش میری یہ کیفیت مستقل ہو، میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اور اسی لیے آپ کے پاس پہنچی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مکمل صحت عطا فرمائے، میری یہی دُعا ہے۔ اب جبکہ مہرالنسا نے آپ کو، آپ کے نام سے مخاطب کیا ہے مسعود صاحب، تو میں بھی اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی، براہ کرم آپ ہماری گستاخی کا برا نہ مانئے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ ہماری ہی عمر کے ہیں، اور اگر ہم آپ کو کسی احترام کے نام سے پکاریں تو بڑا مضحکہ خیز لگے گا۔ کوئی ہرج نہیں ہے نورجہاں صاحبہ آپ کو میرا نام معلوم ہے، بس اتنا کافی ہے۔ آپ مجھے میرے نام سے پکار لیجیے۔ بے حد شکریہ، دراصل مہرالنسا چاہتی ہیں کہ اگر آپ کسی بھی طرح یہاں قیام کے لیے کچھ وقت نکال سکیں تو ان کا خوف دُور ہو جائے۔ مجھ سے باتیں کرتی رہی ہیں اور شیخ صاحب سے بھی، انہوں نے یہی کہا ہے۔ اوہو دیکھیے وہ شیخ صاحب آ گئے۔ نورجہاں ایک دَم بولی اور میری نظریں بھی اس جانب اُٹھ گئیں، شیخ عبدالقدوس ادھر ہی چلے آ رہے تھے۔ سلام کر کے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھر کہنے لگے۔ یہ اچھا ہوا کہ یہ لڑکیاں خود ہی آپ کے پاس آ گئیں مسعود میاں، کیا انہوں نے اپنا مقصد بتایا آپ کو جی جی، مہرالنسا صاحبہ کا کہنا ہے کہ اگر میں یہاں کچھ عرصے قیام کروں تو ان کے دل سے خوف نکل جائے گا، لیکن اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے، آپ کے سامنے کچھ حقیقتیں عرض کر دوں۔ میں بے شک ابھی کچھ وقت یہاں ہوں، لیکن جائوں گا تو ایک ایسا اطمینان بخش حل چھوڑ جائوں گا جس کے بعد یہ خطرہ موجود نہ رہے گا۔ اس سے زیادہ قیام ظاہر ہے کسی بھی طرح میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ مہرالنسا اور نورجہاں اس اطمینان کے بعد واپس لوٹ گئیں کہ ابھی میں یہاں قیام کروں گا۔ نورجہاں واقعی بڑی شوخ و شریر تھی، نجانے کیا کیا مہرالنسا کے کان میں بدبداتی رہی تھی، لیکن مہرالنسا سنجیدہ لڑکی تھی۔ بہرحال شیخ صاحب بھی چلے گئے اور میں واپس اپنی آرام گاہ میں آ گیا۔ اب یہاں قیام کرنا واقعی ایک مشکل اَمر تھا۔ دِل میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیا عمل ہو جس کی بنیاد پر مہرالنسا مکمل محفوظ سمجھی جائے، اور میں یہاں سے الٰہ آباد کا رُخ کروں۔ وہاں ہو سکتا ہے ماموں ریاض کے ساتھ ساتھ امی، ابو اور بہن بھی مل جائیں، آہ کیا ایسا ہو سکے گا۔ کیا میری زندگی میں ایک بار پھر وہی دن لوٹ آئیں گے۔ بس حسرتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ نجانے کیوں تقدیر پر اتنا بھروسہ نہیں رہا تھا کہ وہ مجھے میری لٹی ہوئی دُنیا واپس کر دے۔ شام کو تقریباً ساڑھے آٹھ بجے میں نے خود فتح محمد کو اپنے پاس بلایا اور وہ میرے قریب آ گیا۔ لگتا ہے فتح محمد کچھ ناراض ہوگئے ہو مجھ سے۔ کیا لے لیں گے میاں جی آپ سے ناراض ہو کر ہم نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ بس شکایت ہے ہمیں تم سے۔ فتح محمد دیکھو، میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ الیاس خان کو میں نے کوئی نمبر وغیرہ نہیں بتایا، وہ وہاں کیا کر رہا تھا، یہ وہ جانتا ہے لیکن میرے علم نے مجھے بتایا ہے کہ برگد کے اسی درخت پر، اس کے نیچے نظر آنے والے مٹی سے ڈھکے ہوئے گڑھے میں کوئی ایسی چیز موجود ہے، جو تمہارے کام آ سکتی ہے۔ ایں فتح محمد نے منہ پھاڑ کر کہا۔ ہاں فتح محمد تم بھی اسی وقت جب الیاس خاں نے درخت کی جڑ میں گڑھا کھودا تھا وہاں پہنچنے کے بعد وہ گڑھا کھودنا اس کی مٹی کو اچھی طرح تلاش کر لینا، ممکن ہے تمہیں اس میں کوئی ایسی چیز مل جائے جو تمہارے لیے کارآمد ہو۔ بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اگر واقعی کچھ مل جائے تو اسے اپنے پاس پوشیدہ کر کے برابر کر دینا سمجھ رہے ہو ناں۔ ابھی چلا جائوں۔ فتح محمد نے کہا۔ ابھی تمہیں وہاں دیکھ لیا جائے گا اور جو کچھ تمہارے ہاتھ لگا وہ اس گھر کے مالکوں کی ملکیت ہوگا تم اسے اپنے قبضے میں نہیں لے سکو گے۔ اماں تو کیا الیاس کو بھی وہاں کچھ مل گیا تھا فتح محمد نے پوچھا۔ اب یہ تو مجھے نہیں معلوم، الیاس خاں نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی مگر تم یہ کام احتیاط کے ساتھ کر لینا، بعد میں مجھ سے یہ مت کہنا کہ میں نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا۔ ارے بھائی میاں تم نے تو دِل ہولا دیا ہے قسم اللہ کی، اب میرے کو صبر کیسے آئے گا، ابے کیا کروں پیارے بھائی، بب بس، خدا جانے رات کس وقت ہوگی۔ جائو جائو سکون سے اپنا کام سرانجام دینا، جلد بازی کی تو جو نقصان اُٹھائو گے اس کے خود ذمّے دار ہو گے۔ نہیں، نہیں، میاں صاحب جو آپ نے کہہ دیا ہے وہی کروں گا قسم اللہ کی۔ فتح محمد نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ بس اس کے بعد کوئی خاص مشغلہ نہیں تھا لیکن یہاں اس حویلی میں گھسے رہنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ رات کو دل میں یہ آئی کہ یہاں دہلی میں جو مقدس مزارات کا شہر ہے۔ کیوں نہ مزارات کی زیارتیں کروں اور کچھ نہیں تو کم از کم دل کو سکون ہی ملے گا۔ زیادہ تو نہیں سن سکا تھا، لیکن تھوڑی بہت باتیں کانوں تک پہنچی تھیں کہ دہلی میں بڑے بڑے جیّد بزرگوں کے مزارات ہیں، اب مجھے ان تمام چیزوں سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ دُوسرے دن صبح معمول کے مطابق جاگا۔ ناشتہ فتح محمد لایا تھا۔ آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ زبان بند تھی۔ چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا مقصد ہے کہ فتح محمد کا کام ہوگیا۔ اس نے ناشتہ میرے سامنے رکھا، حیرت انگیز طور پر خاموش تھا، میں نے ہی اسے مخاطب کیا۔ فتح محمد اور وہ اس طرح اُچھل پڑا جیسے بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔ کتنی تھیں میں نے سوال کیا۔ تیرہ۔ وہ بے اختیار بولا اور پھر چونک کر کہنے لگا۔ کیا میاں صاحب کیا کام ہو جائے گا تمہارا میں نے پوچھا اور فتح محمد ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ چند لمحات سوچتا رہا پھر جلدی سے آگے بڑھا اور جھک کر میرے پائوں پکڑ لیے۔ قسم اللہ کی، زندگی بھر غلام رہوں گا آپ کا میاں صاحب، دن پھیر دیے آپ نے میرے، معاف کر دیجیے مجھے معاف کر دیجیے، رات کو یہ سوچ رہا تھا بلکہ ساری رات سوچتا رہا تھا کہ آپ سے قبول کر ہی نہیں دوں گا چپ لگا جائوں گا مم مگر غلطی تھی گستاخی تھی میری، معاف کر دیجیے۔ ارے فتح محمد ہم سے چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔ بھئی ہم بھلا کس سے کہنے جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے اب تم جانو اور تمہارا کام۔ میاں صاحب آپ نے، آپ نے بس بس بیکار باتوں سے گریز کرو۔ اچھا ہاں ذرا ہمیں یہ بتائو یہاں کون کون سے بزرگوں کے مزارات ہیں اور کہاں سے کہاں جانا ہوگا ہمیں مزارات ابے لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ دلی کی کسی بھی سڑک پر نکل جائو، کسی چلتے پھرتے سے پوچھ لو، وہ سارے کے سارے مزاروں کے پتے بتا دے گا۔ پہلے تو حضرت سلطان جی ہی ہیں ان کے دربار میں جائو، میاں صاحب مزا آ جائے گا۔ قسم اللہ کی کیا جگہ ہے۔ اس کے بعد فتح محمد تمام بزرگوں کے نام گنانے لگا اور میں نے انہیں ذہن نشین کرلیا۔ فتح محمد بولا جانے کا ارادہ ہے کیا ہاں فتح محمد، جی چاہتا ہے۔ تو پھر موٹر نکلوا لو شیخ صاحب کی، ڈرائیور سارے میں گھما دے گا۔ نہیں فتح محمد ،میں پیدل ہی جائوں گا۔ تمہاری مرضی ہے میاں صاحب۔ فتح محمد بولا۔ آج اس نے ایک بھی فضول بات نہیں کی تھی اور میں جانتا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ پھر ناشتے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میں وہاں سے باہر نکلا، فتح محمد سے کہہ دیا تھا کہ اگر شیخ صاحب پوچھیں تو بتا دے کہ میں سیر کرنے نکلا ہوں، شام تک واپس آ جائوں گا۔ دہلی کی سڑکوں پر آ گیا۔ پتے پوچھتا رہا، روایتوں کا شہر تھا، وقت کتنا ہی گزر جائے دلی کی قدیم روایتیں کبھی دم نہیں توڑیں گی۔ اس کی ادائوں میں فرق نہیں آئے گا۔ ایک جگہ رُک کر ایک شخص سے حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کا پتہ پوچھا اور اس نے حیرت سے منہ کھول دیا۔ اماں نئے لگتے ہو، دلی میں کہیں باہر سے آئے ہو۔ یہی بات ہے۔ میں نے جواب دیا اور وہ سر ہی پڑ گیا، مجھ سے پوچھے بغیر تانگہ روکا اور مجھے سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ کیوں اماں آ جائو تکلف نہ کرو، ہمارے سلطان جی کی زیارت کو آئے ہو، چلو ہم پہنچا دیں ان کے کنے۔ لاکھ منع کیا نہ مانا، تانگہ چل پڑا اور وہ مجھے راستوں کے بارے میں بتانے لگا۔ یہ ببر کا تکیہ ہے، یہ مٹکوں والے پیر کا مزار ہے اور یہ نیلی چھتری۔ یہاں سے تانگہ دائیں ہاتھ کو مڑ گیا۔ یہ بائیں ہاتھ والی سڑک ہمایوں کے مقبرے کو جاتی ہے۔ میرے راہنما نے بتایا بالآخر درگاہ شریف پہنچ گئے۔ وہ اسی تانگے میں واپس چلا گیا۔ اس کی محبت نے دل پربڑا اَثر کیا تھا، اندر داخل ہوگیا۔ زیارت سے دل شاد ہوگیا۔ فاتحہ خوانی کی اور بہت دیر تک یہاں رُکا رہا۔ اُٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال آگے بڑھنا تھا۔ وہاں سے نکلا، کوٹلہ، پرانا قلعہ شیر منڈل پھر مہر ولی اور پھر قطب صاحب، دوپہر کا وقت تھا، تیز دُھوپ پڑ رہی تھی، ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ گرمی اور دُھوپ کی وجہ سے کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہوائوں کے مرغولے ریت کو بلند کرتے اور بعض جگہ بھنور کی شکل میں بلند ہوتے اور چکراتے دُور نکل جاتے۔ بچپن کی کچھ باتیں یاد آ گئیں۔ اکثر دوپہر کو کھیلنے نکل جاتا تھا ایسے ہی جھکڑ چل رہے ہوتے، اماں دیکھ لیتیں تو کہتیں۔ ایسی دوپہر میں گھر سے نہ نکلا کرو چمر بائولے اُٹھا لے جاتے ہیں۔ یہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا تو ماں نے مجھے چمر بائولے دکھائے، ہوا کے بھنور جو ریت کو رول کرتے ہوئے انسانوں کی طرح چلتے نظر آتے تھے۔ ان میں کیا ہوتا ہے۔ جنوں کی سواری، جن اِن پر سوار ہو کر سیر کو نکلتے ہیں اور اگر کوئی ان کے راستے میں آ جائے تو انہی میں لپٹ کر چلا جاتا ہے اور جن اُسے اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بچپن کی باتیں شاید عمر کے آخری حصے تک یاد رہتی ہیں اور انہیں بھلانا ناممکن ہوتا ہے۔ ان بگولوں کو دیکھ کر دل میں وہی خوف طاری ہوگیا جو بچپن میں ہو جایا کرتا تھا۔ اس خوف میں بھی ایک لذت کا احساس ہوا۔ ماں یاد آ گئی تھی اور یہ یاد تو اب ایک ایسی کیفیت اختیار کر چکی تھی جسے الفاظ میں منتقل کرنا ممکن نہیں۔ آگے بڑھتا رہا اور پھر ایک چمربائولے کی زد میں آ گیا۔ اچانک ہی ہوا کا ایک زوردار جھکڑ عقب میں نمودار ہوا، اِس جھکڑ نے ایک وسیع دائرے کی شکل اختیار کرلی۔ گہری اور گاڑھی مٹی کئی فٹ اُونچی بلند ہوئی اور چکراتی ہوئی اس برق رفتاری سے میری جانب بڑھی کہ میں اس کی لپیٹ سے نہ نکل سکا۔ یوں لگا جیسے زمین سے پائوں اُکھڑ گئے ہوں۔ بڑا شدید دبائو تھاہوا کا۔ میں نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور تیز ہوائوں کا یہ زوردار جھکڑ مجھے زمین سے بلند کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تمام محسوسات جاگ رہے تھے اور کسی بھی قسم کے وہم کا گمان نہیں تھا بس میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب زمین پر گرا تب گرا سنبھلنے کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں۔ ہوا کا یہ جھکڑ پلک جھپکتے مجھے میری جگہ سے کافی دُور لے گیا اور اس کے بعد میں گر پڑا۔ گھٹنوں میں چوٹ لگی تھی۔ باریک باریک پتھروں کے ٹکڑے ہتھیلیوں میں چبھ گئے تھے اور میں گرد کی وجہ سے آنکھوں میں کڑواہٹ محسوس کر رہا تھا۔ ہوا کا یہ تیز جھکڑ مجھ پر سے گزر گیا۔ کئی فٹ دُور لا پھینکا تھا اور اب وہ مجھ سے آگے نکل گیا تھا۔ آنکھیں کھولیں تو مٹی چبھنے لگی۔ بمشکل تمام شانے سے کمبل اُتار کر ایک سمت رکھا اور قمیض کے دامن سے آنکھیں صاف کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے آنکھیں اس قابل ہوگئی تھیں کہ زمین نظر آ سکے۔ مسکراہٹ آ گئی تھی چہرے پر اور بدستور ماں کی ہدایت یاد کر رہا تھا، پھر زمین پر ہاتھ ٹکا کر اپنے آپ کو سنبھالا اور سیدھا کھڑا ہوگیا، لیکن دماغ کو جو خوفناک جھٹکا لگا تھا اس نے آنکھیں تاریک کر دیں۔ جو منظر نظر کے سامنے آیا تھا اس پر یقین کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، چند لمحات تک جھنجھناتے ہوئے دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اردگرد کا ماحول دیکھا۔ خدا کی پناہ یہ وہ جگہ ہی نہیں تھی جہاں اب سے چند لمحے پیشتر موجود تھا۔ یہ تو ماحول ہی بدلا ہوا تھا۔ لکھوری اینٹوں کی بنی ہوئی ایک انتہائی بوسیدہ اور وسیع عمارت، ٹوٹی پھوٹی دیواریں، بڑے بڑے جھروکے، عجیب سے فصیل نما ستون اور جگہ جگہ لکھوری اینٹوں کے ہیبت ناک ڈھیر، کہیں ٹوٹے ہوئے دروازے تو کہیں محرابیں۔ کہیں چبوترے جو صاف ستھرے اور کشادہ اور کہیں کچھ منبر نما جگہ، کوئی ایک بات جو سمجھ میں آئی ہو نگاہوں کا دھوکا تو ہو نہیں سکتا اور اگر دماغ کی کوئی خرابی ہے تو ان باتوں کو محسوس کرنے کی قوت ذہن میں کیسے موجود ہے۔ لیکن کچھ بھی نہیں تھا۔ جنوں کی سواری گزر رہی تھی اور میری ماں کے کہنے کے مطابق جن مجھے یہاں اُٹھا لائے تھے۔ بھلا اس کے علاوہ اور کیا سوچ سکتا تھا۔ بچپن کی حدود سے گزرا تھا اور ماں کی ہدایات پر غور کیا تھا تو یہی سوچا تھا کہ ماں دُھوپ سے بچانے کے لیے یہ الفاظ ادا کر کے خوف زدہ کرنا چاہتی ہے تا کہ دُھوپ مجھ پر اثرانداز نہ ہو، لیکن وہ کہانی اس وقت مجسم تھی۔ چمر بائولوں میں سفر کرنے والی جنوں کی سواری کے بیچ آ گیا تھا اور انہوں نے مجھے یہاں لا پٹخا تھا۔ کیا اسی بات پر یقین کر لوں مگر جگہ کونسی ہے اور جو کچھ ہوا ہے وہ کیا واقعی سچ ہے۔ ایک انوکھا سچ، اب کسی شبے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ اُٹھا، کمبل احترام سے اُٹھا کر شانے پر ڈالا، اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ یہ ٹوٹی عمارت کہاں ہے کچھ اندازہ تو ہو۔ آس پاس ٹوٹی دیواریں، جھاڑیاں اور ویران اور ہیبت ناک مناظر کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اینٹوں سے بنے ہوئے اس چبوترے کی جانب بڑھ گیا جس کی سیڑھیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے بلندی پر کھڑے ہو کر کچھ اندازہ ہو سکے۔ چبوترے پر پہنچا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دُور تک ویران میدان بکھرے ہوئے نظر آ رہے تھے جن میں جگہ جگہ چھدرے درخت سنسان کھڑے ہوئے تھے۔ پتھریلے چبوترے کے ایک گوشے میں ایک کنواں نظر آیا جس کے کنارے اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ وہاںپانی کا ایک ڈول رکھا ہوا تھا اور رسّی کا لچھا بہت بڑا نظر آ رہا تھا جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ کنواں بہت گہرا ہے، لیکن جگہ، یہ جگہ کونسی ہے، دفعتاً ہی قدموں کی آہٹیں سنائی دیں اور سمت کا اندازہ کر کے دہشت زدہ سا اس طرف مڑ گیا۔ تین در ایک ساتھ بنے ہوئے تھے اور ان کے دُوسری طرف اندھیرا سا چھایا ہوا تھا اس طرف کا حصہ سالم نظر آ رہا تھا۔ آنے والے انہی دروں سے برآمد ہوئے تھے۔ تینوں دروں سے ایک ایک فرد باہر نکلا تھا۔ شانوں سے لے کر ٹخنوں تک کے سفید لباس میں ملبوس چہروں پرداڑھیاں تھیں اور یہ چہرے عام انسانوں جیسے ہی تھے۔ میں ان کے مخصوص لباس سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں۔ یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ میری یہاں موجودگی سے واقف ہیں اور میرے ہی لیے اندر سے نکل کر آئے ہیں۔ بہرطور انسان تھے، خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں انہیں دیکھنے لگا اور وہ تینوں قدم بڑھاتے ہوئے میرے نزدیک پہنچ گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے کے لیے کہا، لیکن میں نے فوراً ہی انہیں سلام کیا تھا۔ سلام کا جواب تینوں نے دیا اور اس کے بعد اس شخص نے جس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے کے لیے کہا تھا مدھم لہجے میں کہا۔ اندر چلو تمہیں طلب کیا گیا ہے۔ میں کچھ اور سوال پوچھنا چاہتا تھا لیکن ان میں سے دو میرے عقب میں آ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہاتھ سے میرے شانوں کو ڈھکیلا، خاصا طاقتور دھکا تھا۔ میں کئی قدم آگے بڑھتا چلا گیا اور اس کے بعد یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی سے ان کی ہدایت پر عمل کروں، ان کا انداز سخت تھا۔ وہ لوگ مجھے لیے ہوئے درمیان کے بڑے در سے اندر داخل ہوگئے۔ یہاں چھت تھی اور یہ جگہ خاصی وسیع تھی، اس کے دُوسری جانب ایک دروازہ نظر آ رہا تھا جس سے روشنی چھن رہی تھی اور یہ روشنی قدرتی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ دُوسری طرف بھی کوئی کھلی جگہ موجود ہے۔ وہ لوگ مجھے اسی دروازے کی سمت لے چلے اور پھر میں اس دروازے سے بھی دُوسری طرف نکل گیا۔ تب میں نے اس کھنڈر نما عمارت کا وہ صحیح و سالم حصہ دیکھا جو بہت خوبصورتی سے بنا ہوا تھا۔ غالباً عمارت کا بیرونی حصہ ٹوٹ پھوٹ کر تباہ و برباد ہو گیا تھا لیکن یہ اندرونی حصہ بالکل دُرست تھا اور یہاں بڑے بڑے دروازے نظر آ رہے تھے۔ کچی زمین تھی اور اس پر گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اسی گھاس سے گزار کر مجھے ایک بڑے دروازے تک لایا گیا اور پھر وہاں دو آدمی رُک گئے۔ البتہ ان میں سے ایک مجھے اسی طرح لیے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ یہ ایک وسیع و عریض کمرہ تھا جس پر دری اور چاندنی بچھی ہوئی تھی۔ سامنے ہی بڑا سا گائو تکیہ لگائے ہوئے ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا ہوا تھا۔ سر پر صافہ بندھا ہوا تھا۔ شانوں پر خاص طریقے سے چادر ڈالی گئی تھی۔ ڈھیلے ڈھالے سفید لباس میں ملبوس تھا۔ براق داڑھی سینے تک پھیلی ہوئی تھی۔ سرخ و سفید چہرے کے ساتھ بڑی پُر رعب شخصیت کا مالک نظر آتا تھا۔ اس کے دونوں سمت نیم دائرے کی شکل میں دس بارہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ کچھ فاصلے پر ہٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے لانے والے نے بڑھنے کا اشارہ کیا اور اس شخص نے گردن اُٹھا کر مجھے دیکھا۔ پھر انگلی سے ایک سمت اشارہ کر دیا۔ مجھے ایک الگ گوشے میں بٹھا دیا گیا۔ لیکن معمر شخص سے میرا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ اس وسیع و عریض کمرے میں اور بھی دروازے تھے۔ ایک دروازے سے چند افراد اندر داخل ہوئے اور پھر ایک اور دروازے سے جو شخص اندر آیا وہ میرے لیے بڑا حیران کن تھا۔ ایک خوبصورت سی شکل کا نوجوان جس کی پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور جس کی تیز نگاہیں مجھے گھور رہی تھیں۔ معمر شخص کے قریب آ کر وہ دوزانو بیٹھ گیا۔ اس کے برابر ہی ایک اور کالی داڑھی والا شخص آ کر بیٹھ گیا تھا۔ معمر شخص نے گردن اُٹھا کر گہری نگاہوں سے مجھے دیکھا پھر کالی داڑھی والے شخص کو اور اس کے بعد اس کی آواز اُبھری۔ ثابت جلال اپنے بیٹے غلام جلال سے پوچھو کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس پر غلام جلال نے اپنے آپ کو زخمی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ جس شخص کو ثابت جلال کہہ کر پکارا گیا تھا، اس نے خونی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر پاس بیٹھے ہوئے نوجوان کو لیکن غلام جلال کا نام سن کر میں خود چونکا تھا، میری جس قدر رہنمائی ہوئی تھی اس میں غلام جلال کا نام تو شامل تھا لیکن اس کی صورت سے آشنائی نہ ہو پائی تھی۔ ایک لمحے میں مجھے ساری حقیقت کا اندازہ ہو گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی دل سے خوف بالکل ختم ہو گیا تھا۔ نوجوان لڑکے نے مجھے گھورتے ہوئے مؤدب انداز میں کہا۔ ہاں معزز قاضی صاحب، حقیقت یہی ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مجھے زخمی کیا۔ اے شخص تیرا نام کیا ہے جس شخص کو قاضی کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا اور جس کی سفید داڑھی اس کے سینے پر لہرا رہی تھی اس نے کرخت لہجے میں مجھ سے پوچھا۔ میرا نام مسعود احمد ہے اور میرے والد کا نام محفوظ۔ ہم تجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ غلام جلال سے تیرا کیا اختلاف تھا اور اس جھگڑے کی بنیاد کیا تھی۔ کیا تجھے اس بات کا علم تھا کہ غلام جلال ہمارے قبیلے سے ہے اور کیا تو یہ نہیں جانتا تھا کہ ہمارے قبیلے کے ایک نوجوان کو زخمی کرنے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ معزز قاضی صاحب نہایت احترام کے ساتھ تفصیل عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ میں نے بے خوفی سے کہا۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے قاضی محترم یہ شخص کتنا سرکش ہے۔ اس کا انداز گفتگو ایسا ہے جیسے یہ ہمیں گردانتا ہی نہ ہو ثابت جلال نے کہا۔ تمہیں خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ثابت جلال۔ باریش بزرگ نے کہا اور سیاہ داڑھی والا ثابت جلال خاموش ہوگیا۔ باریش بزرگ نے مجھے دیکھا تو میں نے کہا۔ غلام جلال نے ایک ایسی پاکباز لڑکی پر تسلط قائم کرلیا تھا جو بچپن سے ایک نوجوان سے منسوب تھی اور اسے چاہتی تھی۔ اس نے اس کے اہل خاندان کو خوفزدہ کر رکھا تھا اور وہ نیک مسلمان گھرانہ غمزدہ اور پریشان تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی مگر اس نے مجھے ضرر پہنچانا چاہا اور میں نے اپنے دفاع کے لیے اسے جھٹک دیا۔ یہ سانپ کی شکل میں مجھے ڈسنا چاہتا تھا۔ یہ دیوار سے جا ٹکرایا اور زخمی ہو گیا۔ کیا یہ میرا قصور ہے۔ کیا یہ سچ ہے غلام جلال۔ ہاں قاضی محترم۔ وہ دوشیزہ میرے جی کو بھا گئی تھی۔ وہ تجھے کہاں ملی تھی اسی بوسیدہ حویلی میں، یہ حویلی اس کے باپ کی ملکیت ہے۔ وہ چاندنی رات میں کلیلیں کر رہی تھی اور اچانک میرے سامنے آ گئی تھی۔ گویا وہ شیخ عبدالقدوس کی بیٹی ہے۔ دُرست ہے قاضی محترم۔ مگر یہ تو گناہ کبیرہ ہے۔ اوّل تو شیخ عبدالقدوس ایک دیندار اور خدا ترس انسان ہے۔ مسلمان ہے، سخی اور پابند احکامات الٰہی ہے۔ دوم وہ دوشیزہ نسبت رکھتی ہے۔ تجھے یہ لازم نہ تھا غلام جلال کہ اس پر فریفتہ ہوتا اور اسے گمراہ کرتا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص بے قصور ہے اور جو کچھ ہوا اس میں غلام جلال کی نادانی تھی۔ چنانچہ ثابت جلال تجھ پر لازم ہے کہ اسے ہرجانہ ادا کرے اور وہیں پہنچائے جہاں سے اسے لایا گیا ہے۔ قاضی محترم میرا بیٹا غمزدہ ہو جائے گا۔ ثابت جلال نے کہا۔ تو کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی غیر شرعی فیصلہ کیا جائے۔ دُوسرے احتجاج پر تو بھی سزا کا حق دار ہوگا۔ تیرا فرض ہے کہ تو اپنے سرکش بیٹے کی نگرانی کرے، اگر اسے نافرمانی کا مرتکب پایا گیا تو اس کے لیے سزائے موت تجویز کی جائے گی۔ قاضی کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔ ثابت جلال نے کہا اور قاضی صاحب اپنی جگہ سے اُٹھ گئے۔ ان کے ساتھ بقیہ افراد بھی اُٹھ گئے تھے۔ ثابت جلال نے ایک تھیلی ہرجانے کے طور پر مجھے دی جو مجھے لینا پڑی۔ پھر وہ مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے چل پڑا۔ حویلی کے بیرونی صحن میں ایک گھوڑا کھڑا ہوا تھا۔ یہ جانتا ہے تجھے کہاں جانا ہے۔ اس پر سوار ہوجا۔ میں نے رکاب پر پائوں رکھا اور گھوڑے کی پشت پر بیٹھنا چاہا مگر دُوسری سمت جا گرا۔ بڑی خفت ہوئی تھی مگر معاملہ دُوسرا ہی تھا، جگہ ایک دم بدل گئی تھی۔ وہی دُھوپ، وہی ہوائیں، وہی ماحول جہاں سے میں ہوائوں کا قیدی بنا تھا۔ واپس چل پڑا اور شیخ صاحب کی حویلی پہنچ گیا۔ یہاں کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اپنی آرام گاہ میں آکر میں اس پورے واقعے پر غور کرنے لگا۔ کیا کچھ عطا ہوگیا تھا مجھے۔ جنوں کی نگری پہنچ گیا تھا۔ ان کی عدالت میں حاضری ہوئی تھی اور مقدمہ جیت گیا تھا۔ جو کچھ ظہور پذیر ہوا تھا اس کے بعد مہرالنسا بالکل محفوظ ہوگئی تھی۔ چنانچہ اب شیخ صاحب کی حویلی میں قیام بے معنی تھا۔ یہ لوگ خدشے کے پیش نگاہ مجھے اجازت نہیں دیں گے اور میرے دل کو اب الٰہ آباد کی لگن لگی ہوئی تھی۔ ثابت جلال نے ہرجانے کی جو تھیلی دی تھی اس میں ضرورت کے لیے بہت کچھ تھا، چنانچہ حویلی کے مکینوں سے غائبانہ معذرت کرکے ایک بار پھر وہاں سے نکل آیا۔ کمبل شانے پر موجود تھا لیکن چند جوڑے لباس درکار تھے جو بازار سے خریدے انہیں یکجا کرکے ایک سوٹ کیس میں رکھا اور اسٹیشن پہنچ گیا۔ الٰہ آباد جانے والی ریل کے بارے میں معلوم کیا اور جب ریل آئی تو اس میں بیٹھ گیا۔ اب دل والدین میں اُلجھ گیا تھا۔ ایک عجیب ہوک اُٹھ رہی تھی۔ کانوں میں ان کی آواز اُبھر رہی تھی۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 102 | https://www.urduzone.net/main-thee-kam-naseeb-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | مراد میرے چچا کا بیٹا تھا اور ہماری منگنی اس وقت بزرگوں نے کردی جب ہم ابھی چھٹی، ساتویں میں پڑھتے تھے۔ چچا سبحان اور بابا جان میں بہت محبت تھی۔ وراثت اور کاروبار جو دادا جان کی ملکیت تھا، ان کی وفات کے بعد بھی دونوں بھائیوں نے آپس میں تقسیم نہ کیا تاکہ ایک جگہ رہیں اور مل کر زندگی گزاریں کہ اتفاق میں برکت ہے۔ وقت گزرتا رہا، ہم سب ساتھ رہتے رہے۔ والد اور چچا، بھائی ہی نہیں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ سچ ہے اتفاق میں برکت ہے۔ جب دونوں نے ایک دوسرے پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بزنس میں اتنی وسعت اور برکت عطا کی کہ دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ہم ایک پرعیش خوش باش زندگی گزارنے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں بھائیوں کے بچے جوان ہوچکے تھے۔ چچی ہماری شادی کرنے کا سوچ رہی تھیں، تبھی والد صاحب نے تجویز دی کہ اب گھر چھوٹا پڑتا ہے، بچوں کو شادیوں کے بعد علیحدہ گھر کی ضرورت محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے، کیوں نہ پہلے گھر بنوا لیں اور پھر شادیاں کریں چچا جان بولے۔ بھائی صاحب اب جو چاہیں کریں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ والد صاحب نے ایک اچھے علاقے میں دو پلاٹ خریدے اور ان پر ایک جیسی دو کوٹھیاں تعمیر کرا لیں۔ ارادہ تھا کہ نئے گھر میں منتقل ہوتے ہی میری شادی مراد اور میرے بھائی اشعر کی شادی مراد کی بہن شہربانو سے کردیں گے۔ وہ خوشی کا دن بھی آگیا جب کوٹھیوں کے لئے نیا سامان اور فرنیچر خریدا گیا اور ہم دونوں کنبے اپنی اپنی کوٹھی میں شفٹ ہوگئے۔ دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھی لیکن گھر الگ ہوگئے۔ چچی امی کی خالہ زاد تھیں، ان کا نام فرح تھا۔ اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنا چچی کے نصیب میں نہ تھا۔ وہ نئے گھر میں جاتے ہی بیمار پڑگئیں اور چھ ماہ بعد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ہم سب کو چچی کی وفات کا شدید صدمہ تھا، مگر اللہ کی رضا کے آگے بے بس تھے۔ کچھ دن سوگوار رہے۔ چچا کے گھر میں رہنے کے لئے پھپھو آگئیں تاہم وہ بھی زیادہ عرصہ نہ رہ سکتی تھیں، ان کے اپنے بچے تھے۔ وہ فیصل آباد میں رہتی تھیں۔ ایک دن چچا سے کہا کہ سبحان بھائی کب تک تمہارے گھر رہوں گی۔ باربار ان کے فون آرہے ہیں کہ اب گھر آجائو، مجھے اجازت دو تاکہ میں فیصل آباد جاسکوں۔ چچا یہ سن کر اداس ہوگئے۔ کہنے لگے۔ بہن تمہاری مجبوری اپنی جگہ لیکن تم چلی گئیں تو میرے گھر اور بچوں کا کیا ہوگا۔ ابھی مجھے بڑے دونوں بچوں کی شادیاں کرنی ہیں۔ مراد اور شہر بانو کی شادی تک تو ٹھہر جائو۔ یہ ممکن نہیں ہے بھائی میری مانو تو تم اپنی شادی کا پہلے سوچو، تمہارے پانچ بچے ہیں۔ مراد اور شہر بانو کے بعد ان کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ وہ ابھی اسکول جاتے ہیں، شہر بانو کو بیاہ دو گے تب تمہارے گھر اور دوسرے بچوں کا کیا بنے گا شادی کرلو گے تو تمہاری دوسری بیوی گھر سنبھال لے گی۔ ابھی تم جوان ہو، آگے بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ غرض پھپھو نے دن، رات چچا کے کان کھائے اور ان کو دوسری شادی پر آمادہ کرلیا۔ پھپھو کی ایک نند عظمیٰ جو شادی کے دو سال بعد بیوہ ہوگئی تھی، انہوں نے چچا جان سے اس کی شادی کروا دی۔ اپنے سر سے بھی بوجھ ہلکا کیا اور بھائی کا گھر بھی اپنی دانست میں دوبارہ آباد کرا دیا۔ گھر تو آباد ہوگیا لیکن عظمیٰ زیادہ وسیع دل کی مالک عورت نہ نکلی۔ اس نے آتے ہی مختلف قسم کی منصوبہ بندیاں شروع کردیں۔ پہلے چچا کو دن، رات یہ باور کرایا کہ بزنس میں سارا وقت محنت تم کرتے ہو اور مفت میں تمہارا بھائی منافع کا مالک بن جاتا ہے۔ مراد اور فراز دونوں کے مستقبل کا سوچو، ان کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرلو اور جیٹھ کو علیحدہ کاروبار کرنے دو۔ ان کے بھی بیٹے ہیں بعد میں جھگڑے جنم لیں گے۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ چچا کبھی ابو سے علیحدہ ہونے کا سوچیں گے، مگر عظمیٰ میں کچھ ایسی طاقت تھی، وہ شوہر کو میرے والد سے بدگمان کرکے رہی۔ جہاں محبت بڑھ جائے، حاسد آگ بھی لگا دیتے ہیں۔ نئی چچی نے ایسا ہی کیا۔ ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ وہ حد آگئی جب چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے سامنے کاروبار الگ کرنے کی تجویز پیش کردی۔ حساب کتاب پر اصرار کیا اور پھر روپے پیسے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ غلط فہمیاں بڑھتی ہیں تو دل بھی ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں۔ بالآخر والد صاحب کو کاروبار الگ کرنا پڑا۔ بابا جان اپنے بھائی سے ازحد محبت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے حصے کا سرمایہ لے لیا اور چلتا ہوا کاروبار چچا جان کو دے دیا۔ اس بٹوارے کا سب سے بڑا نقصان ہم بچوں کو ہوا۔ بچپن کے طے شدہ رشتے کھٹائی میں پڑ گئے اور والد صاحب نے ایک اور شخص کے ساتھ شراکت میں نیا کاروبار شروع کردیا۔ ہر شخص کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔ بابا جان کا ستارہ گردش میں آچکا تھا کہ نئے پارٹنر کے ساتھ کاروبار جم نہ سکا۔ وہ من مانی کرنے والا شخص تھا جس نے میرے والد کے تجربے اور دانش سے زیادہ اپنی رائے کو اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا نیا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ والد صاحب کو نیا گھر فروخت کرنا پڑا، جس کو چچا جان نے خرید لیا اور درمیانی دیوار گرا کر کوٹھی کو وسیع و عریض کرلیا۔ والد صاحب ہم کو لے کر شہر کے پرانے علاقے میں بوسیدہ سے گھر میں شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئے۔ چچا کی قسمت کا ستارہ ان دنوں عروج پر تھا۔ ان کے دونوں بیٹے جوان تھے۔ انہوں نے ان کو اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کرلیا۔ دونوں سمجھدار اور تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے محنت اور لگن سے کام میں معاونت کی تو ان کے بزنس کو چار چاند لگ گئے۔ دو سال میں ہی وہ امیر کبیر ہوگئے۔ بیٹوں نے کاروبار کو سارے ملک میں پھیلا دیا۔ اب دولت سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ چچا کہتے تھے۔ عظمیٰ بڑی زیرک اور سمجھدار خاتون ہے۔ میری کتنی اچھی قسمت ہے کہ ایسی دانا عورت مجھے ملی ہے۔ اس کے آنے سے میرے بخت کھل گئے ہیں۔ والد کو کاروبار سے الگ کرکے بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن بابا جان کے مقدر کا سورج غروب ہوگیا۔ غلط شخص کو پارٹنر بنا کر وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ ادھر کاروباری پریشانیاں تھیں، ادھر انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جاتی تھی۔ میں بی اے کرنے کے بعد گھر بیٹھ گئی تھی اور اشعر ابھی انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا۔ باقی بھی زیرتعلیم تھے۔ والد سے چچا نے ملنا جلنا کم کردیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ عید پر بھی انہیں فرصت نہ ملتی تھی کہ بابا جان کی خبر لیتے۔ زیادہ تر بیوی کے رشتے داروں میں مگن رہنے لگے تھے۔ عظمیٰ چاہتی تھی کہ اپنے سوتیلے بچوں کے رشتے اپنے بہن، بھائیوں کے بچوں سے کرا دے، کیونکہ یہ امیر باپ کے بچے تھے۔ بابا جان سخت الجھن میں تھے۔ میری شادی کی عمر نکلی جاتی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ماضی سے رشتہ توڑا جاسکتا تھا اور نہ جوڑا جاسکتا تھا۔ جب عظمیٰ چچی نے مراد کی شادی کا ذکر چھیڑا تو اس نے والدین سے کہا کہ نویدہ سے منگنی ہوئی تھی، میں شادی اپنی منگیتر سے ہی کروں گا۔ ادھر امی جان نے میرے لئے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا تو میں نے ان کو صاف کہہ دیا کہ شادی مراد کے سوا کسی اور سے نہیں کروں گی۔ والدہ نے سمجھایا۔ ان لوگوں نے ہم سے بہت دوری اختیار کرلی ہے لہٰذا اب ایسا ممکن نہیں۔ وقت وقت کی بات تھی، اب ہم ان کے برابر کے نہیں رہے۔ وہ تم سے مراد کی شادی نہ کریں گے۔ اگر عمر بھر بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تو اتنی ترقی کبھی نہ کرسکتا ان سے الگ ہوکر ہی اب ہم بڑے صنعتکاروں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ چچا سبحان نے پھپھو سے کہا تھا۔ والد جان چکے تھے کہ سبحان کی سوچ میں بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ ان کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے قائم ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے غریب بھائی کو خاطر میں لانے والے نہیں ہیں۔ میں نے امی سے اصرار کیا کہ آپ لوگ بھی تو ان سے نہیں ملتے۔ اگر وہ نہیں آتے تو آپ ہی چلے جایئے۔ معلوم تو ہو کہ ان کے دل میں ہمارے لئے کتنی جگہ باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مراد نہیں بدلا ہے۔ اس کا دل کبھی نہیں بدل سکتا۔ کم ازکم یہ تو معلوم کریں کہ منگنی قائم رکھی ہے یا توڑ چکے ہیں۔ اگر توڑ دی ہے تو اعلان کردیں۔ میرے کہنے پر والدین وہاں گئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم پرانے رشتے کو ختم کرچکے ہیں۔ بزرگوں کی، کی ہوئی منگنیوں کے پابند نہیں رہے۔ امی نے مجھے بتایا تو ذہن میں دھماکا ہوا۔ مراد بھی والدین کو قائل نہ کرسکا جو کہتا تھا کہ میں تمہارے لئے اپنی جان دے دوں گا۔ چار سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ اشعر نے تعلیم مکمل کرلی، ملازمت پر لگ گیا جس سے گھر کے حالات کچھ سنبھل گئے۔ چچا جان نے اس کی منگیتر شہربانو کی شادی ایک صنعتکار کے بیٹے سے کردی۔ کار، بنگلہ اور لمبا چوڑا جہیز بھی دیا۔ اسی طرح انہوں نے مراد کی شادی بھی ایک بہت زیادہ امیر گھرانے میں کی۔ لڑکی قیمتی، جہیز اور وہ سب کچھ لائی جس کی توقع کی جاسکتی تھی۔ انہی دنوں میرے دوسرے بھائی انور نے بھی تعلیم مکمل کرلی اور اسے بینک میں نوکری مل گئی۔ اشعر چار سال کیلئے بیرون ملک چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ برے دنوں کے بعد اچھے دن ضرور لاتا ہے۔ رفتہ رفتہ والد صاحب کا کاروبار جمنے لگا۔ جب تک اشعر کی واپسی ہوئی، ہم پھر سے خوشحال ہوچکے تھے۔ اس کو آتے ہی اعلیٰ عہدہ مل گیا۔ والد نے دوبارہ نئی کوٹھی خرید لی۔ ادھر چچا جان بیمار پڑ گئے اور کاروبار سنبھالنے سے معذور ہوگئے۔ تمام معاملات بیٹوں کو سنبھالنے پڑ گئے۔ فراز چھوٹا بھائی، مراد سے الجھنے لگا۔ وہ برے دوستوں کے چنگل میں پھنستا گیا۔ ان میں اختلافات شروع ہوگئے۔ دونوں کی بیویوں میں بھی نہیں بنتی تھی۔ پہلے گھر علیحدہ ہوئے پھر کاروبار الگ ہوا۔ بالآخر ان کی خوشحالی کو زوال آنے لگا۔ مراد کی بیوی بڑے امیر گھرانے کی لڑکی تھی۔ شوہر کے مالی حالات ٹھیک نہ رہے تو اس نے بھی مسائل پیدا کرنے شروع کردیئے۔ روز جھگڑ کر میکے جا بیٹھتی۔ ایک دن باپ کے گھر گئی تو واپس نہ آئی اور خلع لے لیا۔ جب مراد سے اس کی بیوی نے طلاق لے لی اور چھوٹے بھائی کی بیماری کا سنا تو والد صاحب ایک بار پھر گئے تاکہ بھائی کی مدد کریں اور میرے اور مراد کے دوبارہ رشتے کی بات کریں۔ عظمیٰ نے بیمار شوہر کی نہ چلنے دی اور مجھے بطور بہو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے مراد تک یہ معاملات پہنچنے سے پہلے ہی بات مٹی میں ملا دی۔ والدین پریشان لوٹ آئے۔ میں جو امید کی بادصبا سے کھل اٹھی تھی، پھر سے مرجھا گئی۔ کچھ عرصے بعد سنا کہ چچا جان فیصل آباد چلے گئے ہیں جہاں ان کی بیوی کا میکہ تھا۔ انہوں نے مراد کیلئے اپنے بھائی یعنی پھپھو کے دیور کی بیٹی لے لی۔ پھپھو نے بھی اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر دیور اور نند یعنی عظمیٰ کا ساتھ دیا۔ مراد کو فیصل آباد میں ان لوگوں نے کاروبار کروا دیا اور مالی طور سے سیٹ کردیا۔ غالباً اسی باعث اس نے سوتیلی ماں اور پھوپی کی بات مان لی کہ چچا کی علالت بڑھ گئی تھی۔ اس نے چھوٹے بہن، بھائیوں کو بھی سہارا دینا تھا۔ مراد سے دوسرے نمبر والے بھائی فراز نے سب سے الگ اپنی دنیا آباد کرلی تھی۔ وہ ماں، باپ کو پوچھتا تھا اور نہ بھائی، بہنوں کو اپنی بیوی کا ہوکر رہ گیا تھا۔ مجھے مراد کی شادی کے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ میں ابھی تک اس کی آس میں جی رہی تھی۔ اس کی بیوی اچھی ثابت ہوئی مگر وہ اپنے دل سے میری محبت کو نہ نکال سکا۔ چچا جان کا انتقال ہوگیا۔ چچی نے اطلاع دی۔ ہم فیصل آباد گئے۔ مدت بعد مراد سے سامنا ہوا۔ میں نے شکوہ کیا کہ تم ہمارے گھر نہیں آتے۔ کسی نے تمہارے ہاتھ، پائوں تو نہیں باندھ دیئے۔ وہ شرمندہ تھا کہا کہ کسی روز ضرور آئوں گا۔ واپسی پر والد صاحب کو ایک اچھا رشتہ بتایا گیا تو سب نے مجھے سمجھا بجھا کر مجبور کردیا۔ والدہ نے بھی کہا کہ مراد دوبارہ شادی کرچکا ہے۔ اگر چاہتا تو پہلی بیوی کی طلاق کے بعد شادی کرسکتا تھا، مگر اس کے دل میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تم کس لئے شادی نہ کرکے ہم کو تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے ہو۔ ماں، باپ کو مجبور دیکھ کر میں نے ان کی رضا کے آگے سر جھکا لیا اور میری شادی بابا جان کے دوست کے بیٹے انیس سے ہوگئی۔ میری شادی کے بعد مراد ایک دن اچانک بابا جان کے گھر آگیا۔ میں بھی اتفاق سے میکے آئی ہوئی تھی۔ جب امی نے اسے بتایا کہ نویدہ کی شادی ہوگئی ہے تو وہ سکتے میں آگیا جیسے اس خبر سے اسے بہت دکھ پہنچا ہو جو شخص دوسری شادی کرچکا تھا۔ وہ اب بھی میری شادی کی خبر سن کر صدمے میں آگیا تھا۔ حیرت کی بات تھی وہ تمام وقت بجھا بجھا رہا اور بغیر کچھ کھائے پیئے چلا گیا۔ میرے شوہر کا بھی سامنا نہ کیا۔ یہ سب تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں۔ شادی اور ملاپ، جینا مرنا انسان تو بس ایک کھلونا ہے، تقدیر کے ہاتھوں مراد کے جانے کے بعد میں نے سوچا تھا وقت کو کون تھام سکتا ہے۔ اسے گزرنا ہوتا ہے، گزرتا چلا جاتا ہے۔ دس برس پلک جھپکتے بیت گئے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہ نوازا جس کا میرے خاوند کو بہت قلق تھا۔ میں سمجھاتی تھی۔ آپ دکھ نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی بندے کی بندگی میں شامل ہے۔ میں نے کبھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا، آپ کیوں کرتے ہیں زندگی بری بھلی جیسی تھی، گزر رہی تھی کہ ایک روز حادثے نے میری رہی سہی امید کو بھی بجھا دیا۔ انیس کام پر گئے، واپسی میں ان کے زخمی ہونے کی اطلاع آگئی۔ ایک ٹرک سے ان کی کار ٹکرا گئی تھی۔ ہم دوڑے ہوئے اسپتال گئے مگر وہ اتنے شدید زخمی تھے کہ جانبر نہ ہوسکے۔ سسرال میں عدت کے دن پورے کرکے میکے آگئی۔ وہاں اب کس کے لئے رہتی۔ جس سے ناتا تھا، وہ ٹوٹ چکا تھا۔ اس واقعہ کی اطلاع مراد کو بھی ہوگئی۔ وہ امی کے پاس تعزیت کرنے آیا اور مجھے بھی تسلی دی۔ کہا۔ میرے ہوتے خود کو بے سہارا مت سمجھنا۔ میں جب تک زندہ ہوں، تم بے سہارا نہیں ہو۔ اس کے ان الفاظ نے میرے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی اور میں پھر سے جی اٹھی۔ پانچ برس بیت گئے۔ امی، ابو بھی اس دنیا سے جاچکے تھے، بھابھیوں کا سلوک مجھ سے بہت برا اور ہتک آمیز تھا۔ بھائی بھی میری پروا نہ کرتے تھے۔ دل زندگی سے بیزار ہوچکا تھا۔ بالآخر ایک روز مراد کے آفس کا پتا معلوم کرکے اس سے ملنے چلی گئی۔ شکر کیا وہ آفس میں موجود تھا۔ اب وہ اور میں خودمختار تھے اور اپنے فیصلے کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ اس نے میری آمد پر حیرت اور خوشی کا اظہار کیا اور آنے کا سبب دریافت کیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ تم نے کہا تھا میرے ہوتے ہوئے تم خود کو بے سہارا مت سمجھنا۔ جب تک میں زندہ ہوں، تم بے سہارا نہیں ہو۔ ہاں کہا تھا مگر خیریت تو ہے بھابھیاں مجھ سے اچھا سلوک نہیں کرتیں۔ تمہیں یاد دلانے آئی ہوں۔ مراد میں چاہتی ہوں تم مجھ سے نکاح کرلو تاکہ مجھے باعزت سہارا اور اپنا گھر مل جائے۔ تم اتنے خوشحال ہو کہ مجھے اپنی پہلی بیوی سے علیحدہ مکان میں رکھ سکتے ہو۔ آئو ہم ایک ہوجائیں اور باقی زندگی ساتھ گزاریں۔ میری بات سن کر وہ میرا منہ تکنے لگا جیسے میں نے انہونی بات کہہ دی ہو۔ نویدہ لیکن یہ ایک مشکل بات ہے۔ میری بیوی ہے اور چار بچے ہیں۔ میں ان کو کیسے سمجھائوں گا، کیا جواب دوں گا جبکہ بیوی نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ہر طرح سے میرے آرام اور سکون کا خیال رکھا ہے۔ بے شک تم اپنی بیوی، بچوں کا پوری طرح خیال رکھنا۔ ان کو زیادہ وقت دینا، میں تمہیں کبھی پریشان نہ کروں گی، لیکن مجھ سے شادی کرلو۔ تمہارے سوا میں اب کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی لیکن مجھے بقیہ زندگی کے لئے سہارا چاہئے۔ اپنے بھائیوں کے گھر باقی زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔ نویدہ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ ہماری شادی کی عمر نکل چکی ہے۔ تمہیں سہارے کی ضرورت ہے، وہ میں تمہیں دوں گا۔ ہر ماہ جتنی رقم تمہیں درکار ہوگی، باقاعدگی سے تمہارے بینک اکائونٹ میں جمع کراتا رہوں گا لیکن تم سے شادی نہیں کرسکتا۔ بیوی کو ناراض کروں گا، اولاد بھی مجھ سے ناراض ہوجائے گی۔ میرا کنبہ مجھ سے دور ہوجائے گا۔ ان کو صدمہ دینا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ میری دوسری شادی سے جو اولاد کے مسائل پیدا ہوں گے، وہ ہم دونوں کو سکون سے جینے نہ دیں گے۔ اس سے آگے میں نہ سن سکی۔ وہ روکتا رہ گیا، میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اس کے دفتر سے اسٹیشن آگئی اور واپس لاہور کے لئے روانہ ہوگئی۔ گھر آکر لگا جیسے زندگی بھر اپنے دل میں جس محبت کے سرمائے کو ساری دنیا سے چھپا کر رکھا تھا، وہ کہیں گرا آئی ہوں، کھو دیا ہے یا کسی نے چھین لیا ہے۔ میں اتنی خالی خالی ہوگئی کہ اپنی حیثیت مجھے تنکے سے بھی ہلکی لگی۔ آج پتا چلا کہ جس خواب کے سہارے جی رہی تھی، وہ بس کانچ کا کھلونا تھا۔ اتنی مدت اسے سنبھالتی رہی مگر اسے ٹوٹنا تھا سو ٹوٹ گیا۔ اب باقی عمر ویسے ہی گزارنی تھی، جیسی گزر رہی تھی۔ بھابھیوں اور ان کے بچوں کی خدمت کرکے، ایک اہانت بھری زندگی جیسے میں بوجھ ہوں ان پر اور خود پر بھی سو آج تک اسی طرح زندگی کے دن پورے کررہی ہوں کہ یہی میرا نصیب ہے۔ ن لاہور | null |
null | null | null | 103 | https://www.urduzone.net/kumhar-wale-ki-bhujiya/ | null | null |
null | null | null | 104 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-14/ | شہروز نے اپنی زبان یا اپنے کسی انداز سے اپنی محبت کا اظہار نہ کیا تھا۔ جب وہ جانتی ہی نہیں تھی کہ کوئی اسے اس قدر چاہتا ہے کہ اس کی خاطر موت کی وادی میں چھلانگ لگا دینے کا حوصلہ رکھتا ہے تو وہ اگر اپنے بڑوں کے فیصلے پر سر جھکا کرکسی اور کی بن گئی تو اس میں اس کا کیا قصور زویا کو اپنی چند لمحوں پہلے والی سوچ پر تعجب ہوا اور افسوس بھی، یہ محبت بھی انسان کو کبھی کبھی جانبدار اور بے انصاف بنا دیتی ہے۔ اپنے بھائی کی محبت میں وہ فریحہ سے کس قدر نفرت محسوس کر رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ فریحہ کے گھر جا کر اُس سے ملے۔ کاش فریحہ کو پتا چل سکتا کہ ایک شخص اُس کی خاطر دُنیا سے منہ موڑ کر بستر پر پڑا ہے اُس نے ایک بار پھر باہر دیکھا۔ فریحہ گھر کے اندر جا چکی تھی۔ تب وہ بھی گہری سانس لے کے اندر چلی گئی۔ ٭ ٭ ٭ فضلو بابا دلکش کو ساتھ لیے شاپنگ سینٹر میں داخل ہوگئے تھے۔ اس سینٹر کے ٹاپ فلور پر کچھ دفاتر تھے جو زیادہ تر وکلا کے تھے۔ انہی میں مصعب کے علاوہ جلیل شاہ کے وکیل کا بھی آفس تھا اور اس وقت عدیل وکیل سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ وہ پلاٹ کے ٹرانسفر کے معاملے سے اب تنگ آ چکے تھے۔ شادی کے حادثے نے بھی انہیں بددل اور مایوس کیا تھا گو کہ اپنے پیارے چچا کی خواہش کے مطابق اس سارے معاملے کو ایک ڈرائونے خواب کی طرح ذہن سے جھٹک دیا تھا، مگر پھر بھی کبھی کبھی خمار آلود آنکھیں اور وہ معصوم چہرہ انہیں ڈسٹرب کرتا تھا۔ ہر بات کو سچ ماننے کے باوجود کبھی کبھی اُن کا دل منکر ہونے لگتا تھا۔ اب وہ اس کشمکش سے عاجز آ چکے تھے اور جلد از جلد واپس لوٹ جانا چاہتے تھے۔ مگر چاہتے تھے کہ جانے سے پہلے یہ کام مکمل ہو جائے۔ اسی لیے آج وہ خود وکیل سے ملنے چلے آئے تھے۔ وکیل نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ کوشش کر کے ہفتے بھر میں یہ کام نمٹا دے گا۔ وہ مطمئن ہو کر لفٹ سے نکل کر جونہی بیرونی ٹیرس کی طرف بڑھے تب اچانک ہی دلکش کی نظر اُن پر پڑی۔ عدیل۔ اُس نے حیران اور بے یقین لہجے میں دُہرایا۔ وہ اکیلے تھے اور ٹیرس کی طرف جا رہے تھے۔ دلکش نے پلٹ کر فضلو بابا کی طرف دیکھا، وہ دُکان کے اندر کہیں اسے دکھائی نہیں دیے، ایک لمحے کو رُک کر اُس نے کچھ سوچا پھر وہ تیزی سے عدیل کی طرف لپکی۔ وہ اُن سے مل کر اُن سے بات کر کے جلیل شاہ کی حقیقت اُن تک پہنچانا چاہتی تھی اور اپنی بے بسی اور بربادی کی داستان انہیں سنانا چاہتی تھی۔ آج قسمت سے وہ شخص اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا اور وہ اس لمحے کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ بہت تیزی سے لپکی تھی مگر اس کے اور عدیل کے مابین کافی فاصلہ تھا۔ اب وہ ٹیرس کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عدیل۔ انہیں خود سے دُور جاتے دیکھ کر وہ بے اختیار انہیں پکار بیٹھی تھی، اور اس کی پکار عدیل کی سماعت تک پہنچ بھی گئی تھی۔ وہ چلتے چلتے اچانک رُک گئے تھے۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تھا۔ مگر دلکش اُن سے خاصے فاصلے پر تھی اس لیے وہ اسے نہیں دیکھ سکے تھے اور اُس آواز کو اپنی سماعت کا وہم سمجھ کر وہ دوبارہ سیڑھیاں اُترنے لگے تھے۔ دلکش اُونچے ستونوں کے درمیان راستہ بناتی تیزی سے اُن کی جانب لپکی جا رہی تھی۔ تب ہی کسی نے اس کا بازو تھام کر اسے ایک ستون کے پیچھے گھسیٹ لیا۔ اُس نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا۔ فضلو بابا حیران اور غصیلی نظروں سے اُسے گھور رہے تھے۔ بابا وہ عدیل عدیل شاہ دلکش نے سامنے اشارہ کیا۔ دیکھ رہا ہوں میں انہیں ذرا تم بھی ستون کی آڑ لے کر دیکھ لو، اُن کے ساتھ کون ہے فضلو بابا کے کہنے پر اُس نے ستون کی آڑ سے دیکھا۔ ٹیرس کے نیچے سیڑھیوں کے ساتھ جلیل شاہ کی جیپ کھڑی تھی اور وہ جیپ کے باہر بازو پھیلائے عدیل شاہ کا سواگت کرنے کے لیے منتظر کھڑا تھا۔ اُف۔ دلکش نے سر تھام لیا۔ اگر فضلو بابا اس کا بازو پکڑ کر اسے ستون کے پیچھے کھینچ نہ لیتے تو وہ ٹیرس پر نکل گئی ہوتی اور نیچے کھڑے جلیل شاہ اور مرید خان نے اُسے ایک ہی نظر میں دیکھ لیا ہوتا بلکہ اگلے ہی لمحے اُسے گرفت میں بھی لے لیا ہوتا۔ عدیل شاہ، جلیل شاہ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ اس کے ساتھ ایک خوش شکل اور خوش لباس شخص بھی کھڑا تھا۔ عدیل شاہ کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کے لبوں پر مشفقانہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔ یہ برہان ہیں۔ جلیل شاہ نے اپنے قریب کھڑے شخص کی طرف اشارہ کیا۔ میرے دوست ارسلان کے صاحب زادے۔ آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ویسے یہ رہتے اسلام آباد میں ہیں۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ عدیل نے برہان کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ جلیل شاہ نے انہیں بتایا تھا کہ برہان آج کل کسی کام سے کراچی آیا ہوا تھا اور اتفاق سے عدیل کے ہوٹل میں اُسی فلور پر مقیم تھا جس فلور پر عدیل کا کمرہ تھا۔ جلیل شاہ نے مزید بتایا۔ میں تم سے ملنے تمہارے ہوٹل گیا تو پتا چلا تم ایڈووکیٹ تمثیل سے ملنے اس کے آفس گئے ہوئے ہو۔ میں واپس جانے والا تھا کہ برہان مل گیا۔ جب اسے پتا چلا کہ تم آج کل پاکستان آئے ہوئے ہو اور میں تمہیں پک کرنے وکیل کے آفس جا رہا ہوں تو یہ بھی ساتھ چلے آئے۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ برہان کا کمرہ بھی تمہارے کمرے کے پاس ہے اس لیے اب تمہیں اکیلے رہ کر بور نہیں ہونا پڑے گا، برہان تمہیں کمپنی دے گا۔ جی انکل۔ عدیل کے چہرے پر تسکین آمیز مسکراہٹ بکھر گئی۔ اب چلو تم دونوں جیپ میں بیٹھو۔ جلیل شاہ نے بزرگانہ شان سے کہا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ عدیل کو یہ اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اس کے پیارے چچا نے بلاوجہ اسے پک کرنے کے لیے اتنی زحمت کی تھی۔ دراصل عدیل کی گاڑی ڈرائیور ورکشاپ لے گیا تھا۔ پرانی گاڑی تھی کوئی نہ کوئی کام نکلتا ہی رہتا تھا۔ اس لیے جلیل شاہ نے اُن کے لیے ایک نئی گاڑی بک کروا دی تھی۔ کل شام تک تمہارے پاس تمہاری نئی گاڑی پہنچ جائے گی۔ جلیل شاہ نے بتایا۔ لیکن انکل اب شاید اس کی ضرورت نہ پڑے۔ عدیل نے ہچکچاتے لہجے میں کہا۔ آج وکیل سے جو بات ہوئی ہے اُس سے یہی اندازہ ہوا کہ پلاٹ کے ٹرانسفر کا مسئلہ دوچار دن میں حل ہو جائے گا۔ ویری گڈ۔ جلیل شاہ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ یہ تو بہت اچھا ہوگا، ورنہ میں نے سوچا تھا یہ معاملہ جانے کب نمٹے، تمہیں واپس بھیج دیا جائے، بلاوجہ تمہاری پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔ دراصل جلیل شاہ، عدیل کو امریکہ سے بلا کر ہی پچھتا رہا تھا۔ اگر کروڑوں کی مالیت کے پلاٹ کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ کب کا اسے روانہ کر چکا ہوتا۔ آج کل اس کے ستارے ترچھی چال چل رہے تھے جو وہ سوچتا تھا کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ دلکش کو دیکھ کر اُس نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ اُلٹا پڑ گیا تھا۔ وہ لڑکی اس کے گلے کی ہڈی بن گئی تھی۔ جب سے عدیل شاہ اور دلکش کا نکاح نامہ غائب ہوا تھا جلیل شاہ خاصا فکرمند ہوگیا تھا۔ شاید وہ نکاح نامہ اُس لڑکی کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ وہ اس کی شادی کا ثبوت تھا اور اس کے حق کو ثابت کرنے کا بھرپور گواہ اب وہ بے حد محتاط ہوگیا تھا۔ کبھی جلیل شاہ کا دل چاہتا کہ پلاٹ پر لعنت بھیج کر عدیل کو فوری طور پر واپس بھیج دے۔ مبادا وہ لڑکی عدیل تک پہنچ کر سچائی سے پردہ نہ اُٹھا دے۔ کبھی خیال آتا جہاں اتنا وقت گزر گیا دو چار دن اور سہی، شاید پلاٹ کا مسئلہ حل ہی ہو جائے۔ اب اُس نے سوچ لیا تھا کہ دلکش کو عدیل تک رسائی حاصل نہیں کرنے دے گا۔ سو اُس نے عدیل کی نگرانی کے لیے ایک پرائیویٹ جاسوس برہان کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسے عدیل کے سامنے ایک دیرینہ دوست ارسلان کا بیٹا بنا کر پیش کیا تھا۔ جلیل شاہ نے برہان کے لیے عدیل کے فلور پر ہی کمرہ بک کروا دیا تھا اور اسے سائے کی طرح عدیل کے ساتھ رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔ جیپ ہوٹل کے سامنے آ ٹھہری تھی۔ برہان اور عدیل کو ہوٹل کے سامنے اُتار کر جلیل شاہ گائوں کے لیے روانہ ہوگیا۔ ٭ ٭ ٭ کھنڈر نما مکان کے شکستہ تہہ خانے میں لالٹین کی مدھم روشنی میں عقیل شاہ ماضی کی دردناک یادوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ پورے پانچ سال بعد جلیل شاہ، وکیل خواجہ نوید اور اپنے ڈرائیور مرید خان کے ساتھ بھائی کے گھر پہنچا تھا۔ عقیل خان اور نوشابہ بانو نے پرانی باتیں بھلا کر اپنے گھر اور اپنے دل کے دروازے جلیل شاہ کے لیے کھول دیے تھے۔ جہاں دیدہ اور زمانے کے سرد و گرم چشیدہ انوار خان نے جلیل شاہ کے دل و دماغ میں پنپتی سازشوں کو پہلی ہی نگاہ میں بھانپ لیا تھا، جلد ہی اُسے بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا۔ یہ بڈھا ہماری راہ کی رُکاوٹ بن سکتا ہے۔ ایک شام اُس نے خواجہ سے کہا۔ اس کا کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ہوں۔ خواجہ نے پُر سوچ انداز میں سر ہلا کر اسے مشورہ دیا۔ آج تم اس کے کمرے میں جائو گے اور اُس منحوس بڈھے کو ہمیشہ کی نیند سلا دو گے۔ میں نہیں میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ جلیل شاہ کے لہجے سے خوف جھلک رہا تھا۔ یہ کام کسی اور سے بھی تو لے سکتے ہیں۔ ہاں مگر خواجہ نے سر ہلایا۔ مگر ذرا سوچو ابھی ہمارے کام کا آغاز ہے۔ ہم کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ اگر اُس نے عقیل شاہ یا نوشابہ کے سامنے بھانڈا پھوڑ دیا تو سوچو ہمارا کیا حشر ہوگا۔ لمحہ بھر کو رُک کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔ ہم یہ رسک نہیں لے سکتے یہ کام تم کو ہی کرنا ہوگا۔ اور اُسی رات جلیل شاہ نے اپنی مجرمانہ زندگی میں پہلا قدم رکھا تھا اور اپنی زندگی کا پہلا قتل کیا تھا۔ ڈاکٹروں کے نزدیک یہ سیدھا سادا ہارٹ فیل ہونے کا کیس تھا۔ کسی نے گمان تک نہ کیا کہ انوار خان جلیل شاہ کی بربریت کا شکار ہوگئے۔ پانچ سالہ عدیل اپنے نانا انوار خان سے بہت مانوس تھا۔ اسکول سے آنے کے بعد سارا وقت انہی کے ساتھ گزارتا تھا۔ نانا کی موت کا اُس پر بے حد اثر ہوا تھا اور ایسے میں جلیل شاہ نے آگے بڑھ کر محبت و شفقت کا جال پھینکا تھا اور معصوم عدیل چچا کے جال میں نہایت آسانی سے آ پھنسے تھے۔ اب وہ ہر وقت جلیل شاہ کے ساتھ ہی نظر آتے۔ جلیل شاہ کو بھتیجے پر واری صدقے ہوتے دیکھ کر عقیل شاہ اور خود نوشابہ بھی مطمئن اور خوش تھے، وقت کا ریلا بہتا چلا جا رہا تھا۔ اب جلیل شاہ نے مزید ہاتھ پائوں نکالنے شروع کیے۔ عقیل شاہ کی اجازت لے کے دھیرے دھیرے اُس نے اندر باہر کے کاموں میں ہاتھ ڈالنا شروع کیا۔ پھر رفتہ رفتہ اپنا کنٹرول مضبوط کرنے لگا۔ خواجہ جیسے عیار شاطر کی رہنمائی اسے حاصل تھی اورمرید خان، حمید اور مٹھل جیسے گرگے بھی اُس نے پال لیے تھے۔ ان تمام مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کی صحبت میں دیکھتے ہی دیکھتے جلیل شاہ ان سے آگے نکل گیا۔ اب وہ خود خواجہ کو لیڈ کرنے لگا تھا اور مرید خان تو اب اس کا ایک معمولی خادم بن کے رہ گیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال بیت گئے اب عدیل نو برس کے ہوگئے تھے۔ جلیل شاہ کی محبت اور چاہت اُن سے بدستور قائم تھی اور خود عدیل بھی چچا کے بغیر ایک منٹ نہیںرہ سکتے تھے۔ گائوں کی زمینوں، جاگیروں، باغات اور شہر کی تمام جائداد کا حساب کتاب جلیل شاہ کے پاس تھا۔ اب وہ اپنے فن میں پختہ ہو چکا تھا جسے چاہتا تگنی کا ناچ نچا دیتا جو ناچنے سے انکار کرتا اُسے وہ ملک عدم کو روانہ کر دیتا۔ تم وقت سے پہلے حد سے بڑھ رہے ہو جلیل شاہ۔ اب اکثر اس کا گرو خواجہ نوید اسے ٹوکنے لگا۔ عقیل شاہ اور نوشابہ بیگم کے ہوتے تمہارا اس قدر آپے سے باہر ہونا ہم سب کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ خواجہ کی روک ٹوک اور تنقید اب جلیل شاہ کو گراں گزرنے لگی تھی۔ اب وہ کسی خواجہ نوید کی ہدایت اور کسی مرید خان کی مشاورت قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ بالآخر ایک رات اُس نے خواجہ نوید کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ تم پاگل تو نہیں ہوگئے جلیل شاہ خواجہ نوید نے اس کے ارادے بھانپ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ مت بھولو کہ انوار خان کو تم نے قتل کیا ہے اور اُس قتل کا ثبوت میرے پاس محفوظ ہے۔ اس راز سے پردہ اُٹھا کر خواجہ نے خود ہی اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی تھی۔ جلیل شاہ نے یکایک پستول نکال لیا۔ جلیل ذرا سوچو میں تمہارا بہی خواہ ہوں۔ خواجہ گھگھیا کر بولا۔ آج تم اپنے بھائی کی ہر چیز پر جتنی آسانی سے قابض ہوگئے ہو یہ سب میرے مشوروں اور رہنمائی کی وجہ سے ہوا ہے، میرے احسان کا یہ بدلہ چکا رہے ہو۔ خواجہ، جلیل شاہ کو باتوں میں لگا کر دروازے تک آ گیا تھا، اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلتا اچانک نوشابہ بیگم اندر داخل ہوئی تھیں۔ اندر آ کر انہوں نے جو منظر دیکھا تو اُن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ عقیل شاہ معاملات نمٹانے شہر گئے ہوئے تھے۔ بھابی جی بھابی جی مجھے بچایئے انہیں دیکھتے ہی خواجہ اُن کی طرف لپکا اور جلیل شاہ پستول لیے اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ یہ شخص مجھے اسی طرح مار دینا چاہتا ہے جس طرح اس نے آپ کے والد انوار خان کو مارا تھا، یہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو برباد کر کے ساری دولت اور جاگیر پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔ سائلنسر لگے پستول کی ہلکی سی کلک کے ساتھ ایک شعلہ سا لپکا اور خواجہ نوید کے سینے میں اُتر گیا۔ اور اس کی تیزی سے چلتی زبان ایک دَم رُک گئی اور وہ کسی ٹوٹے ہوئے شہتیر کی طرح تیورا کر زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ نوشابہ بیگم اپنی جگہ پتھر کی ہوگئی تھیں۔ جلیل شاہ کے اس اقدام نے خواجہ کی ہر بات پر مہر تصدیق لگا دی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے جلیل شاہ کو دیکھ رہی تھیں جسے وہ اپنے شوہر، اپنا اور اپنے بیٹے کا سب سے بڑا بہی خواہ سمجھتی تھیں۔ سب سے بڑا دُشمن نکلا تھا۔ اپنی آستین میں خنجر چھپائے اُن کی ہنستی بستی دُنیا کو اُجاڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا۔ جلیل شاہ۔ کئی لمحوں تک ہکا بکا رہنے کے بعد آخر نوشابہ بیگم کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ یہ سب یہ سب کیا ہے مکافاتِ عمل۔ جلیل شاہ مطمئن انداز میں سفاکی سے مسکرایا۔ ہر شخص جو بوتا ہے ایک نہ ایک دن ضرور کاٹتا ہے۔ میں سب جان گئی ہوں۔ نوشابہ بیگم نے کہا۔ اس کے باوجود یہ سب کر رہے ہو۔ تمہیں ذرا خوف نہیں ہے نہیں۔ جلیل شاہ بے خوفی سے بولا۔ خوفزدہ تمہیں ہونا چاہیے کیونکہ تمہارا اکلوتا اور چہیتا بیٹا عدیل میرے آدمیوں کے قبضے میں ہے لیکن یقین رکھو وہ مجھے بھی عزیز ہے اور پھر وہ تمہارے مرحوم باپ کی کروڑوں کی جائداد کا بھی وارث ہے ذرا سوچو تم نے مجھ سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ جلیل شاہ نے زہرخند لہجے میں کہا۔ تمہارا باپ میری بجائے عقیل شاہ کو اپنا داماد بنانا چاہتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ تم اسے پسند کرتی تھیں اسی لیے تم نے میرا رشتہ ٹھکرایا۔ تمہارے انکار نے مجھے کتنی تکلیف دی تھی اور مجھے یہ تکلیف اُس دولت کی وجہ سے ہوئی تھی جو تمہارے ساتھ ہی عقیل شاہ کی دسترس میں چلی گئی تھی۔ وہ دولت اور جائداد آج بھی کانٹا بن کے میرے دل میں چبھ رہی ہے یہ کہہ کر وہ نوشابہ کی طرف بڑھا۔ وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ کر بولیں۔ جلیل شاہ تمہیں جو چاہیے مل جائے گا مگر خدا کے لیے میرے شوہر اور میرے بیٹے کو کچھ نہ کہنا۔ اگر تم اُن دونوں کو زندہ دیکھنا چاہتی ہو تو تمہیں مرنا ہوگا۔ جلیل شاہ سفاکی سے بولا۔ کیونکہ تم بہت کچھ جان چکی ہو اس لیے اب تمہارا زندہ رہنا میرے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور مرید خان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ لمحہ بھر میں اسے ساری صورتِ حال سمجھ میں آ گئی تھی۔ اُس نے لپک کر دروازہ اندر سے لاک کر دیا اور بولا۔ سائیں غضب کرتے ہو۔ دروازہ بھی بند نہیں کیا۔ مرید خان کے لہجے میں خوف کے ساتھ ہلکی سی سرزنش بھی تھی۔ یہ میری حویلی ہے مرید خان۔ جلیل شاہ نے سینہ تان کر کہا۔ یہاں میں کچھ بھی کرسکتا ہوں تو ایک کام کر جا کر منٹھار کو بلالا۔ وہ سائیں نیچے موجود ہے۔ مرید خان نے اطلاع دی۔ اسے میں نے ساری سچویشن سمجھا دی ہے۔ مرید خان نیچے جا کر لمحوں میں ایک مریل سے آدمی منٹھار کو لے کر اُوپر آ گیا۔ تم یہ سب کیا کرنے جا رہے ہو جلیل شاہ نوشابہ بیگم نے وحشت زدہ آواز میں کہا۔ تم نے آخر سوچا کیا ہے۔ میں نے یہ سب بہت پہلے سوچ لیا تھا۔ جلیل شاہ مکروہ انداز میں ہنسا۔ یہ ساری دولت، جائداد یہ سب جو کچھ تمہارے باپ کا تھا اور وہ سب کچھ جو میرے باپ کا تھا آخر کار اسے میرے پاس آنا تھا۔ آج فیصلے کی مبارک گھڑی آ پہنچی ہے۔ آج حق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔ تم جانتے ہو تم اپنا حق بہت پہلے وصول کر چکے ہو۔ نوشابہ بیگم نے غصیلے لہجے میں کہا۔ اپنے حصے کی ساری دولت تم اپنی عیاشیوں کی نظر کر چکے ہو۔ اب تمہارا اس جائداد پر کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سب تمہارے بھائی عقیل شاہ کا ہے۔ اس کے بعد ان سب چیزوں کا وارث ہمارا اکلوتا بیٹا عدیل شاہ ہے۔ راہِ طلب میں کون کسی کا جلیل شاہ کمینگی سے مسکرایا۔ اپنے ہی بیگانے ہیں دولت کسی کی بھی ہو اب میری ہے۔ پھر وہ منٹھار کی طرف مڑا۔ منٹھار تجھے معلوم ہے نا تجھے کیا کرنا ہے کرنے کو تو یہ کام میں خود بھی کر سکتا تھا مگر میں چاہتا ہوں یہ کام تیرے مشّاق ہاتھوں سے ہو۔ سائیں۔ مرید خان تعریفی لہجے میں بولا۔ کلہاڑی چلانے میں منٹھار کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جلیل شاہ۔ منٹھار کو کلہاڑی تانے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر نوشابہ بیگم نے لرزیدہ لہجے میں کہا۔ تمہیں جو کچھ چاہیے لے لو مگر ہم تینوں کی جان بخش دو میرے بچّے کو ابھی میری ضرورت ہے۔ اُس بچّے کی خاطر میری جان بخش دو میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کبھی کسی کے سامنے زبان نہیں کھولوں گی۔ او اچھا۔ جلیل شاہ نے جنون بھرے انداز میں قہقہہ لگا کر منٹھار کو اشارہ کیا۔ اگلے ہی لمحے منٹھار نے پیچھے کھسکتی نوشابہ پر کلہاڑی سے وار کیا۔ پہلا ہی وار اتنا کاری تھا کہ وہ فرش پر ڈھیر ہوگئی تھیں۔ کلہاڑی کا تیز دھار پھل اُن کے کاندھے سے ہوتا گردن میں اُتر گیا تھا۔ خون کا ایک فوارہ سا اُبلا تھا اور دُور تک فرش کو رنگتا چلا گیا تھا۔ چند ہی لمحوں میں جیتی جاگتی نوشابہ بیگم بے جان نعش میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ بابا اب تو بھاگ نوشابہ بیگم کی موت کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد جلیل شاہ نے منٹھار کو مخاطب کر کے کہا۔ تو کلہاڑی لہراتا ہوا سیڑھیوں سے یوں بھاگ جیسے کوئی واردات کر کے بھاگ رہا ہے۔ مگر سائیں یہ بات منصوبے میں تو نہیں تھی منٹھار نے حیرانی سے سوال کیا۔ بابا اب میں نے منصوبہ بدل لیا ہے۔ جلیل شاہ نے جلدی سے کہا۔ تیرا ادھر رُکنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے تو اپنی کلہاڑی لے کے ادھر سے فرار ہو جا۔ فاقہ زدہ اور مفلوک الحال منٹھار تو انعام کا منتظر تھا مگر وڈیرے کے حکم پر وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ بھاگ بابا بھاگ۔ اسے اپنے پیچھے جلیل شاہ کی گھٹی گھٹی آواز سنائی دی۔ اُس نے ایک دَم سے اپنی رفتار بڑھا دی۔ تب جلیل شاہ کے ہاتھ میں دبے پستول سے ایک شعلہ لپکا تھا اور منٹھار کی پیٹھ میں عین دل کے مقام پر پیوست ہوگیا۔ مٹھل، حمید مرید خان کدھر مرگئے تم سب جلیل شاہ شور مچاتا اس کے پیچھے لپکا۔ منٹھار نے آن کی آن میں پلٹ کر جلیل شاہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ شکایت بھی تھی، اور اگلے ہی لمحے وہ دھڑ سے زینے پر گر گیا تھا اور لڑھکتا ہوا نیچے جا پہنچا تھا۔ مرید خان پولیس کو فون کرو جلیل شاہ نے پریشان آواز میں کہا اور اگلے ہی لمحے وہ ٹیلی فون کی طرف دوڑ پڑا تھا۔ عقیل شاہ کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی پولیس پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے بیگم نوشابہ کی لاش تحویل میں لے کے اُن کے قاتل منٹھار کی لاش ضروری کارروائی کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کر دی تھی۔ آج عقیل شاہ اپنے مشیر قانون ایڈووکیٹ ظفر بھٹی سے ملنے گئے تھے۔ تمام معاملات احسن طریقے سے طے پا گئے تھے۔ پھر وہ اپنی چہیتی بیوی کے لیے ایک ڈائمنڈ نیکلس لیتے ہوئے گھر آ گئے تھے، جونہی وہ حویلی کے قریب پہنچے ٹھٹھک کر رُک گئے۔ حویلی کا بڑا گیٹ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ حویلی کے احاطے میں پولیس وین اور ایک ایمبولینس کھڑی ہوئی تھی۔ انہیں گاڑی سے اُترتے دیکھ کر انسپکٹر اُن کی طرف بڑھا تھا۔ وہ عقیل شاہ کے نوشابہ بیگم کے کمرے تک پہنچنے سے پہلے انہیں اس اندوہناک حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلینا چاہتا تھا۔ ایک مفلوک الحال چور حویلی میں گھس آیا تھا۔ انسپکٹر نے تمہید باندھی۔ وہ بیگم صاحبہ کے زیورات کی تجوری صاف کرنا چاہتا تھا، پر وہ تجوری تک نہیں پہنچ سکا اس سے پہلے ہی بیگم صاحبہ اُس تک پہنچ گئیں۔ اوہ پھر کیا ہوا عقیل شاہ نے بے تابی سے سوال کیا۔ انسپکٹر نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ سامنے دُور تک فرش خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ کونے میں دیوار کے ساتھ سفید چادر سے ڈھکا ایک وجود بے حس و حرکت پڑا تھا۔ کیا وہ چور مارا گیا عقیل شاہ نے پوچھا۔ ہاں، وہ تو جہنم واصل ہوگیا۔ انسپکٹر نے دھیمے لہجے میں کہا۔ مگر مرنے سے پہلے بیگم صاحبہ کو انسپکٹر نے آگے بڑھ کر وجود سے چادر ہٹا دی۔ عقیل شاہ پھٹی پھٹی بے یقین آنکھوں سے نوشابہ بیگم کے بے جان وجود کو تکے جا رہے تھے چند لمحوں بعد ہی بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے۔ اگلی صبح انہیں ہوش تو آ گیا مگر وہ خود ہوش و خرد کی دُنیا میں واپس نہ لوٹ سکے، اس اچانک حادثے نے اُن کے ذہن پر اثر کیا تھا اور ڈاکٹر بخشی کا خیال تھا کہ چند دنوں میں حادثے کے اثر کے زائل ہوتے ہی وہ دوبارہ ہوش و خرد کی دُنیا میں لوٹ آئیں گے۔ مرید خان جلیل شاہ نے مرید خان کو مخاطب کیا۔ بابا تو ڈاکٹر بخشی سے معاملہ طے کر اب ادا عقیل شاہ کوہوش میں نہیں آنا چاہیے میرا مطلب ہے کہ اس کا دماغ متاثر ہوا ہے نا تو اب اسے ٹھیک نہیں ہونا چاہیے۔ اُس سے کہو، وہ عقیل شاہ کے لیے ایسی دوائوں کا انتخاب کرے جن کے زیراثر وہ کبھی ہوش مند نہ ہو سکے۔ نوشابہ بیگم کے والد انوار خان کی تمام دولت اور جائداد تو پہلے ہی عدیل شاہ کے نام تھی، اُس دوپہر عقیل شاہ بھی اپنے قانونی مشیر سے مل کر اپنی تمام جائداد اور دولت عدیل شاہ کے نام لگاکر آئے تھے یہ تمام دولت عدیل شاہ کے بالغ ہونے تک وکیل کی نگرانی میں رہتی اور تب تک تمام دولت و جائداد کا نگراں جلیل شاہ قرار پایا تھا۔ ایسے حادثوں میں جسے سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے والا ہوتا ہے پولیس کا اُس پر سب سے زیادہ شک ہوتا ہے۔ جلیل شاہ جانتا تھا اُس پر الزام آ سکتا ہے اس لیے اُس نے شہر کے سب سے بڑے وکیل مصعب احمد کو اس کیس کے لیے منتخب کیا تھا۔ کیس کی تفتیش کرنے والا ایس ایس پی، اعظم خان کیونکہ اُن کے بچپن کا دوست تھا، اس لیے معاملات زیادہ نہیں بگڑے، دُوسرے تمام پراپرٹی اور دیگر دولت و کاروبار کا مالک کیونکہ پہلے ہی عدیل شاہ کو بنا دیا گیا تھا اور جلیل شاہ کے پاس نگرانی کے سوا کوئی اختیارات نہ تھے، اس لیے وہ آسانی سے بچ گیا تھا۔ عقیل شاہ کے اس عمل سے اسے شدید صدمہ پہنچا تھا۔ سب کچھ کر کے بھی وہ بے نیل و مرام رہ گیا تھا مگر وہ مایوس نہیں تھا۔ سو اُس نے ننھے عدیل کو سینے سے لگا لیا اور اپنی محبتیں اور نوازشیں پہلے سے زیادہ اُن پر لُٹانے لگا تھا۔ اب اُن کے جوان ہونے تک اسے انہیں اسی طرح پرورش کرنا تھا کہ وہ اس کی کسی بات پر شک نہ کر سکیں اور نا نہ کہہ سکیں۔ تمام بستی میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ عقیل شاہ چہیتی بیوی کے غم میں پاگل ہو چکے ہیں۔ پھر جلیل شاہ نے پرانے خادم دین محمد کو مجبور کر کے ایک رات انہیں حویلی سے نکال کر ٹیلوں کے اُس پار کھنڈر نما گھر کے تہہ خانے میں قید کروا دیا تھا اور یہ مشہور کروا دیا تھا کہ بیوی کے غم میں وہ پاگل ہو کر کہیں نکل گئے، تلاش کروانے کے باوجود اُن کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ تب سے عقیل شاہ اس بوسیدہ گھر میں قید تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دین محمد کے اندر بیدار ہوتے احساس نے کئی بار انہیں باور کروایا کہ وہ زنجیر کھول دے، عقیل شاہ اس قید و بند کی زندگی سے آزاد ہو جائیں۔ مگر وہ سوچتے تھے آزادی اور زندگی کی اب ضرورت ہی کیا ہے۔ بیوی مر چکی تھی اور بیٹے کے لیے بھی اُن تک یہی خبر پہنچائی گئی تھی کہ عدیل شاہ کو قتل کروا کر جلیل شاہ نے تمام دولت جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اس کے بعد اُن کے اندر جینے کی اُمنگ بھی باقی نہ رہی تھی مگر آج برسوں بعد اُس دلکش سی لڑکی کو دیکھ کر، اُس سے مل کر وہ دوبارہ زندہ ہوگئے تھے۔ اُن کا عدیل زندہ تھا اور وہ بہادر لڑکی اس کی دُلہن تھی اس خبر نے اُن کے بے جان وجود میں ایک نئی رُوح پھونک دی تھی اور انہیں پورا یقین تھا کہ اُن کی پیاری بہو اُن کے لیے ضرور کچھ کرے گی اب وہ زندہ رہنا چاہتے تھے، اپنے بیٹے عدیل سے ملنا چاہتے تھے۔ ٭ ٭ ٭ بر وقت طبی امداد نے شہروز کو موت کے منہ سے تو نکال لیا تھا۔ مگر تین روز گزرنے کے باوجود وہ اب تک زندگی کی طرف واپس نہ لوٹ سکا تھا اس کی خالی خالی آنکھیں ہر احساس سے عاری محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے سپاٹ چہرے پر ایک سکون سا چھایا ہوا تھا۔ گو کہ اسے آئی سی یو سے اسپیشل کمرے میں شفٹ کردیا گیا تھا مگر اس کے چہرے پر اب تک پژمردگی چھائی ہوئی تھی۔ اس مشکل وقت میں ہر ہر قدم پر تارہ حسن نے اس پریشان حال خاندان کا ساتھ دیا تھا۔ تب سے اب تک وہ شہروز کی پٹی سے لگی بیٹھی تھی۔ شہری اتنا اندھا کیوں ہے اسے تارہ کی بے لوث محبت کیوں نظر نہیں آتی ربیعہ بیگم اب تک کتنی بار یہ بات سوچ چکی تھیں۔ انہیں اور ڈاکٹر بہروز کو تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ تارہ شہروز کو پسند کرتی ہے مگر اس مشکل وقت میں جس طرح اُس نے ساتھ دیا تھا اس سے یہ بات کھل کر سب کے سامنے آگئی تھی کہ وہ شہروز سے سچی محبت کرتی ہے اور یہ سچی محبت ہی تھی کہ وہ شہری کو بے پناہ چاہنے کے باوجود اس کے اور فریحہ کے ملاپ کے لیے دُعاگو تھی۔ وہ شہروز کو خوش دیکھنا چاہتی اور جانتی تھی وہ فریحہ سے شدید محبت کرتا ہے، اُسی کے ساتھ خوش رہ سکتا ہے اُس نے اپنی پوری کوشش کی تھی۔ صفیہ کے منع کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر بہروز کو فریحہ کے دادا کے پاس بھیجنے کا مشورہ تارہ نے ہی دیا تھا۔ مگر شاید تقدیر کو یہ منظور نہ تھا۔ فریحہ شہروز کی محبت کے بارے میں جانے بنا ہی ایک انجانے شخص کے ساتھ پیا گھر سدھار گئی تھی۔ خاصا دن چڑھ آیا تھا، موسم سرما کی ٹھٹھری ہوئی دُھوپ منڈیروں پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج ہفتہ تھا اور صفدر میاں کی چھٹی تھی۔ اس لیے وہ اطمینان سے بستر پر پائوں پھیلائے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ تب ہی اُن کی بیگم صفیہ چائے کا مگ لیے آ موجود ہوئی تھیں۔ تم نے بنائی ہے انہوں نے مگ تھامتے ہوئے کسی قدر حیرت بھری مسرت سے پوچھا۔ ظاہر ہے۔ صفیہ بیگم دھپ سے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ناخوشگوار لہجے میں بولیں۔ فریحہ بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی، فروا اسکول گئی ہوئی ہے اور وہ ہماری ہونے والی بہو بیگم انہیں یونی ورسٹی سے ہی فرصت نہیں۔ امتحان کب کے ختم ہو چکے، آج کل میں رزلٹ بھی آ جائے گا۔ مگر یونی ورسٹی سے اُن کا ناتا نہیں ٹوٹا، آج بھی یونی ورسٹی گئی ہوئی ہیں۔ اچانک صفدر میاں کو یاد آیا۔ بھئی آج تو ڈین نے فون کر کے خاص طور پر بلایا تھا۔ آپ کو یہ بات پتا تھی تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا صفیہ نے تڑختے لہجے میں پوچھا۔ ارے بھئی میرے ذہن سے نکل گیا۔ صفدر میاں جلدی سے بولے۔ ابھی تم نے یونی ورسٹی کا نام لیا تو مجھے یاد آیا۔ یوں کیوں نہیں کہتے کہ اس گھر میں سارے کام مجھ سے چھپا کر کیے جاتے ہیں۔ صفیہ بیگم نے غصے سے کہا۔ ارے ایسا کیسے ممکن ہے۔ صفدر میاں نے چائے کا مگ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ تم سے کوئی بات کس طرح چھپائی جا سکتی ہے۔ دیواروں کے کان ہوں نہ ہوں، مگر تمہارے کان اُف۔ میاں کا مذاق انہیں پسند نہیں آیا۔ بگڑ کر بولیں۔ میں سب سے بُری ہوں اس گھر میں۔ ابھی صفدر میاں اُن کی بات کا جواب بھی نہ دے پائے تھے کہ اشعر گنگناتا ہوا اندر داخل ہوا۔ امتحان سر پر کھڑے ہیں اور تم گانے گنگناتے پھر رہے ہو۔ اُن کے غصّے کا رُخ اشعر کی طرف ہوگیا۔ یا پھر اُن اُوباش سے لڑکوں کے ساتھ گھومتے دکھائی دیتے ہو۔ کون اُوباش لڑکے صفدر میاں کے کان کھڑے ہوئے۔ انہی سے پوچھیے کون ہیں صفیہ بیگم نے طنزیہ انداز میں اشعر کی طرف اشارہ کیا۔ جب دیکھو انہیں بلانے کے لیے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں۔ یہ میں کیا سن رہا ہوں اشعر صفدر میاں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ اس گھر میں تمہاری بہنیں ہیں اور بہنوں والے گھروں کے دروازے پر اگر بھائیوں کے دوست روز آ کر ڈیرے جمانے لگیں تو یہ بات اکثر بہنوں کی بدنامی کا باعث بن جاتی ہے۔ نہیں ابو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اشعر نے پُرزور انداز میں احتجاج کیا۔ روز کہاں صرف ایک بار آئے تھے دادا ابا سے ملاقات بھی ہوئی تھی اس کے بعد تو انہیں منع کر دو۔ صفدر میاں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ بلکہ تم بھی اب گھومنے پھرنے کے بجائے پڑھائی پر توجہ دو۔ اشعر خاموشی سے سر ہلا کر واپسی کے لیے مڑ گیا۔ اس کے جانے کے بعد بھی کئی لمحوں تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر صفیہ بیگم نے دھیمی آواز میں بات کا آغاز کیا۔ میں چاہتی ہوں آپ اشعر پر کچھ توجہ دیں، خدا جانے کس قسم کے لڑکوں کے ساتھ سارا دن مارا مارا پھرتا ہے اور دُوسرے میری شدید خواہش ہے کہ جلدی سے اظفر کے سر پر سہرا سج جائے۔ ہاں ٹھیک ہے، اب تاخیر کی گنجائش ہے ہی کہاں صفدر میاں کھل کے مسکرائے۔ فاریہ کا ایم ایس سی مکمل ہو چکا ہے اور اظفر کی دُکان بھی چل نکلی ہے۔ میں فاریہ کے ایم ایس سی سے خوش ہوں۔ صفیہ بیگم بیزار لہجے میں بولیں۔ اور نہ عدیل کی دکان سے، بھلا بتائو ایم اے پاس کر کے پرچون کی دُکان کھول کے بیٹھ گئے۔ بس آپ ابا جی سے بات کر لیجیے۔ اگلے ہفتے فاریہ اور اظفر کی شادی ہو جانی چاہیے اب میں بالکل انتظار نہیں کرسکتی۔ ٹھیک ہے میں ابا جی سے بات کر لوں گا۔ صفدر میاں نے ٹالنے والے انداز میں کہا اور صفیہ بیگم منہ بنا کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ ٭ ٭ ٭ شام کے سرمئی سائے رات کی سیاہیوں میں گھل گئے تھے مگر دلکش ماحول سے بے خبر برآمدے کی سیڑھی پر بیٹھی جانے کن سوچوں میں گم تھی فضلو بابا کچن سے باہر نکلے تو اسے یوں گم صم بیٹھے دیکھ کر حیرانی سے بولے۔ کیا سوچ رہی ہو بیٹی فضلو اُس نے چونک کر سر اُٹھایا۔ کسی بھی بات کا سرا نہیں ملتا۔ ہر بات بند گلی میں جا کر گم ہو جاتی ہے۔ دلکش کل شام کو عدیل شاہ کو دیکھنے کے بعد بے حد اُلجھی ہوئی تھی۔ عدیل کو دیکھ کر اس کے کسی انداز سے پتا نہیں چلتا تھا کہ اتنے بڑے حادثے کا اُس پر کوئی اثر ہوا ہے۔ جلیل شاہ سے ہنس ہنس کر محبت بھرے انداز میں بات کرنے سے یہ اظہار ہوتا تھا کہ جلیل شاہ نے اپنے تئیں کوئی کہانی سُنا کر انہیں مطمئن کر دیا تھا۔ اگر عدیل، جلیل شاہ کے اسی قدر زیراثر ہیں تو انہیں سچائی باور کروانا کس قدر دُشوار ہوگا۔ دلکش نے مایوس انداز میں سوچا۔ خدا جانے جلیل شاہ نے اُس رات کے اندوہناک واقعے کو کس طرح اُن کے سامنے پیش کیا ہوگا خدا جانے انہوں نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہوگا، کیا رائے قائم کی ہوگی دلکش کا ننھا سا دل خدشوں سے بھر گیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا دارومدار صرف عدیل کے ملن پر تھا۔ اُس آس پر بھی وہ زندہ تھی ورنہ زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی اور جواز نہ تھا۔ اُس نے نگاہ گھما کر مصعب کے کمرے کی طرف دیکھا۔ وہ کل شام ادارے کی ایک ورکر سجیلہ سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر اپنے کمرے میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ وہ کل شام سے اب تک اپنے کمرے سے نکلے ہی نہیں تھے۔ دلکش کو اُن کی فکر ہونے لگی تھی۔ اس کے پوچھنے پر فضلو بابا نے بتایا تھا ماضی کی یادیں جب ایک دم حملہ کرتی ہیں یا کوئی ایسی بات ہو جائے جس سے انہیں اپنی بربادی یاد آ جائے تو وہ اسی طرح اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو سنیاس لینے کا یہ وقفہ کئی کئی ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔ برآمدے کی سیڑھی پر موجود فضلو بابا اور دلکش کی آوازیں سن کر مصعب اُٹھ بیٹھے تھے۔ کمرے میں ملگجا اندھیرا بھرا ہوا تھا۔ اُن کی چہیتی بیوی کوکب کی موت کے بعد ان اندھیروں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ یہ اندھیرے کوکب کو کھو کر انہیں ملے تھے اس لیے انہیں بہت عزیز تھے۔ مگر کل شام کے بعد سے اُس اَجنبی اور انجانی لڑکی سے ملنے کے بعد کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ وہ شروع سے ہی کرن کو کوکب کا قاتل مانتے آئے تھے مگر کل سجیلہ کے احساس دلانے پر ایک نیا بالکل انوکھا جذبہ سر اُٹھا رہا تھا۔ وہ اس جذبے سے خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اسے دبا دینا اور کچل دینا چاہتے تھے مگر وہ بے بس ہوگئے تھے۔ وہ غیر محسوس طور پر اپنے خول سے نکل رہے تھے۔ پہلی بار وہ اپنی اس سوچ پر حیران رہ گئے تھے کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی عزیز از جان بیوی کا غم بھول کر وہ زندگی کی رونقوں کی طرف لوٹ آئیں۔ انہیں اپنی وفا پر شبہ ہو رہا تھا بھلا وہ یہ سب کس طرح کر سکتے تھے وہ دلکش کو پناہ کس طرح دے سکتے تھے وہ بیگم تمنا آغا کے اپاہج خانے سے آنے والی لڑکی سے کس طرح ملاقات کر سکتے تھے اور ملاقات کے بعد اس کی ہر بات کا کس طرح اثر لے سکتے تھے مگر یہ سب کچھ ہوا تھا اور ہو رہا تھا مصعب نہ چاہتے ہوئے بھی سجیلہ کے حوالے سے اُس اَن دیکھی بچی کے بارے میں سوچ رہے تھے جس کا نام کرن تھا اور جو اُن کی بیٹی تھی۔ انہوں نے بے بسی سے کرسی کی پشت سے سر ٹکاتے ہوئے بے اختیار سوچا۔ تم کون ہو جس نے یوں لمحوں میں برسوں سے کھڑی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر انہوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں اور آنکھیں بند کرتے ہی سجیلہ کا مسکراتا چہرہ سامنے آ گیا تھا۔ اوہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے انہوں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دی تھیں۔ کرن، کوکب کی آخری نشانی ہے۔ وہ لمحہ لمحہ آپ کی محبت اور توجہ کے لیے تڑپ رہی ہے، ترس رہی ہے۔ سجو کی جذبوں میں ڈوبی آواز اُن کے کانوں میں گونجی وہ آہستگی سے کرن کی تصویر کی طرف بڑھے اور بالکل بے خیالی میں انہوں نے وہ تصویر اٹھا لی، آج پہلی بار وہ اس کی تصویر کو توجہ سے دیکھ رہے تھے۔ پاپا پاپا انہیں بے ساختہ اپنے کانوں میں کسی بچی کی آواز سنائی دی تھی۔ انہوں نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا۔ مگر دروازے پر کوئی موجود نہ تھا۔ ٭ ٭ ٭ فضلو بابا کچن کا کچھ سودا سلف لینے قریبی مارکیٹ جا رہے تھے۔ دلکش نے گھر میں بیٹھ کر پریشان سوچوں کا سامنا کرنے کی بجائے فضلو بابا کے ساتھ جانے کا ارادہ کر لیا۔ ہاں چلو نا۔ فضلو بابا مسکرا کر بولے۔ کچھ زیادہ دُور جانا نہیں ہے، دو بلاک آگے ایک بہت اچھی مارکیٹ ہے۔ جلد لوٹ آئیں گے۔ آپ مصعب صاحب کو تو بتا دیجیے۔ دلکش نے انہیں یاد دلایا۔ ارے وہ روکیں گے تھوڑی۔ فضلو بابا پورے اعتماد سے مسکرائے۔ تم چادر لے آئو پھر چلتے ہیں۔ چند لمحوں بعد اُن کی جیپ ہموار راستے پر دوڑی چلی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ گروسری مارکیٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ گو کہ شام ڈھل کر رات کی آغوش میں سمٹ گئی تھی۔ اس کے باوجود مارکیٹ کی چہل پہل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ فضلو بابا بیگ لٹکائے تیزی سے آگے جارہے تھے۔ دلکش اپنی چادر کا بکل مارے اُن کے پیچھے چل جا رہی تھی۔ تب ہی کوئی اسے دیکھتے ہی ایک دَم رُک گیا تھا۔ ایک ہاتھ بڑھا تھا اور کسی نے آہستگی سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس کے آگے کی جانب بڑھتے قدم ایک دم رُک گئے، اُس نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا۔ ٭ ٭ ٭ ڈین نے فون کیا تھا۔ فاریہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی۔ ادھر صفیہ چچی کی تگ و دو اس کی نظروں سے کچھ پوشیدہ نہ تھی۔ وہ رزلٹ آنے کے انتظار کے حق میں بھی نہ تھیں۔ گھڑی کی چوتھائی میں اس کی اور اظفر کی شادی کر دینا چاہتی تھیں۔ اظفر کی آنکھوں میں بھی اب تو دھنک رنگ سپنے سجنے لگے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک انہوں نے صرف ایک ہی لڑکی کے بارے میں سوچا تھا اور اپنی سوچ پر وہ کبھی پشیمان نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ لڑکی بچپن میں ہی اُن کے نام سے وابستہ کر دی گئی تھی۔ فاریہ انہیں بے حد عزیز تھی۔ اُن کا ہر تصور فاریہ کے نام سے تابندہ تھا۔ ہر خیال فاریہ سے شروع ہو کر اُسی پر ختم ہوتا تھا اور یہ بات کتنی عجیب تھی کہ فاریہ اس بات سے واقف نہ تھی، وہ بس اتنا جانتی تھی کہ صفیہ چچی جلد از جلد اسے، اپنی اور اپنے بیٹے کی غلامی میں دیکھنے کی متمنی تھیں مگر اب اس سے کسی طور مفر ہی نہ تھا۔ صفیہ چچی تو بی ایس سی کے بعد ہی شادی کی خواہش مند تھیں۔ دادا ابا کے سمجھانے پر وہ بہ مشکل تمام ایم ایس سی تک رُکنے پر آمادہ ہوئی تھیں اور اب جبکہ امتحان ہو چکے تھے اور کسی پل بھی رزلٹ متوقع تھا۔ اُن کا شادی کی تاریخ لینے کے لیے مضطرب ہونا ایسا کچھ غلط بھی نہ تھا۔ فاریہ نے بھی خود کو اس امر کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلیا تھا۔ رزلٹ کا کیا تھا شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد بھی آسکتا تھا۔ مگر رزلٹ سے پہلے اس کے ڈین کا فون آ گیا اور انور ضیا کے کہنے پر وہ ڈین سے ملنے یونی ورسٹی جا پہنچی۔ تب اسے پتا چلا تھا کہ رزلٹ آ گیا تھا اور حسب سابق اُس نے ٹاپ کیا تھا۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ڈین نے فون کر کے بطور خاص اسے کیوں بلوایا تھا۔ ڈاکٹر اشرف نقوی کے کمرے میں داخل ہوئی تو انہوں نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا تھا۔ فرسٹ پوزیشن اور گولڈ میڈل لینے پر اسے مبارک دی تھی، اور ساتھ ہی مسرور لہجے میں اسے خوش خبری دی تھی۔ آپ کے لیے ایک اسکالر شپ ہے۔ لندن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے دو ہفتوں میں آپ کو لندن کے لیے روانہ ہونا ہے دو سال کے لیے دو سال کے لیے لندن یونی ورسٹی میں فاریہ کے خشک ہوتے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ یس۔ ڈاکٹر نقوی فخریہ ہاتھ اُٹھا کر بولے۔ تم اس اسکالر شپ کی حقدار ہو۔ مجھے یقین ہے تم آئندہ بھی اسی طرح شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرو گی۔ سر بے شک یہ ایک بڑی آفر ہے فاریہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔ مگر مگر شاید میں اسے قبول نہ کر سکوں آئی ایم سوری سر وہ جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مس فاریہ۔ ڈاکٹر نقوی نے حیرت اور افسوس سے اس کی طرف دیکھا۔ اتنی جلدی فیصلہ مت کیجیے۔ گھر جا کر اپنے بڑوں سے مشورہ کیجیے۔ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے۔ اب وہ ڈین کو کیا سمجھاتی کہ اس کی ہونے والی ساس صفیہ چچی کل کی بجائے آج ہی اس کی شادی کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہیں۔ بھلا وہ اسے دو سال تک پردیس میں جاکر پڑھنے کی اجازت کس طرح دے سکتی تھیں اور وہ خود کس منہ سے اپنے گھر جا کر اپنے بڑوں سے یہ بات کرسکتی تھی اسی لیے اُس نے فوراً ہی منع کر دیا تھا۔ میرا مشورہ ہے آپ اپنے دادا سے مشورہ کرلیں۔ ڈاکٹر نقوی جانتے تھے اس کے والد حیات نہیں ہیں اور اس کے سر پرست اس کے دادا ہیں۔ یہ داخلہ فارم اپنے ساتھ لے جائیں اسے جمع کروانے کے لیے آپ کے پاس پورا ہفتہ ہے مجھے اُمید ہے کہ ایک ہفتے میں آپ ضرور اس آفر کو قبول کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ نا چاہتے ہوئے بھی فاریہ نے فارم تھام لیا اور آہستگی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔ کتنی بڑی خوش خبری تھی۔ کتنا بڑا اعزاز تھا مگر اس کا دل بجھ سا گیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اس اعزاز کو حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر جانے کے لیے بس اسٹینڈ کی طرف مڑ گئی۔ فاریہ گھر پہنچی تو سب سے پہلے اس کا سامنا انور ضیا سے ہوا۔ اُن کے پوچھنے پر اُس نے رزلٹ کے باے میں بتا دیا۔ فروا کے کانوں تک بھی اس کی پوزیشن کی خبر پہنچ گئی۔ او میرے خدا وہ ایک دم فاریہ سے لپٹ گئی۔ اتنی بڑی خوش خبری اور کتنی آہستگی سے سُنا رہی ہیں، امی ذرا سنیے تو کیا بات ہے کیوں شور مچا رہی ہو فوزیہ بیگم آنچل سے ہاتھ پونچھتی اندر داخل ہوئیں اور جب اصل بات پتا چلی تو اُن کا چہرہ بھی فرطِ مسرت سے دمکنے لگا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر فاریہ کو گلے سے لگا لیا۔ فروا، فریحہ کو فون کرنے کے لیے اندر کی طرف دوڑ گئی۔ فوزیہ بیگم یہ خوش خبری صفدر میاں اور صفیہ کو سنانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی تھیں۔ جانتی تھیں کہ صفیہ کو فاریہ کی تعلیم سے دلچسپی ہے نا رزلٹ سے۔ وہ تو لڑکیوں کے زیادہ پڑھنے کے حق میں ہی نہیں تھیں۔ اُن کا خیال تھا کہ زیادہ پڑھ لکھ کر لڑکیوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور وہ ساس اور میاں کو گھاس نہیں ڈالتیں۔ فوزیہ بیگم کی زبانی فاریہ کی اوّل پوزیشن کی خبر سن کر اُن کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھری اور اگلے ہی لمحے مطمئن انداز میں وہ سانس لے کے بولیں۔ شکر ہے رزلٹ تو آیا بس آج ہی میں ابا جی سے کہہ کر شادی کی تاریخ لے لوں گی اب میں ایک دن بھی انتظار نہیں کر سکتی۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 105 | https://www.urduzone.net/ajnabe-ka-kya-aitbaar-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | ابا ایک اسکول ٹیچر تھے ۔ ان کو دادا کی وراثت سے تھوڑی سی اراضی ملی تھی۔ یوں ٹھیک گزارہ ہو رہا تھا۔ والد چونکہ خود ٹیچر تھے اسی لیے تعلیم کے حق میں تھے۔ ہم چاروں بہنوں کو اسکول میں داخل کرادیا جبکہ باجی صرف پانچ جماعت پڑھ کر گھر بیٹھ گئیں کیونکہ والدہ کا گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے والا کوئی نہ تھا۔ ان دنوں میں پانچویں جماعت میں تھی جب ایک روز ابا اپنے ساتھ ایک شخص کوگھر لے آئے۔ وہ آدمی میرے والد صاحب کی عمر کا تھا۔ اور صورت شکل سے شریف آدمی لگتا تھا۔ آتے ہی والد نے پوچھا زاہدہ کی ماں کیا کھانا تیار ہے جی ہاں۔ سرسوں کا ساگ اور چاولوں کے آٹے کی روٹی بنائی ہے، آپ ہاتھ منہ دھولیں، میں کھانا ابھی لاتی ہوں۔ صحن میں ہی چولہا تھا جس کے چاروں طرف چھوٹی سی چار دیواری بنی ہوئی تھی۔ اماں نے جلدی جلدی ساگ کو مکھن اور لہسن کا تڑکا لگایا اور بڑے سے قلعی والے کٹورے میں دیگچی سے انڈیل کر کٹورا بھردیا۔ چنگیری میں نیا رومال بچھا کر روٹیاں لپیٹ دیں۔ اس وقت تک ابا، مہمان کے ہاتھ دھلاچکے تھے اور دونوں آمنے سامنے چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے، میری ماں نے روٹیاں اور ساگ کا کٹورا ان کے درمیان رکھ دیا۔ وہ دونوں ہی صبح سے بھوکے تھے۔ بہت اشتیاق اور رغبت سے کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔ ہم ساری بہنیں مہمان کوگھر میں داخل ہوتے دیکھ کر کمرے میں چلی گئی تھیں۔ جب والد کھانا کھاچکے تو خالی برتن اٹھاکر چوکے کی طرف آئے تو ماں نے سرگوشی میں سوال کیا زاہدہ کے ابا یہ مہمان کون ہے میرا بھائی ہے۔ مدت بعد اچانک مل گیا۔ ان کو سلام کرو۔ اماں نے سر پر دوپٹہ ٹھیک کیا اور مہمان کے قریب پہنچ کر ادب سے کہا، سلام بھائی جی اجنبی مرد نے اس کا جواب دیا۔ ابا نے ہمیں آواز دی ادھر آؤ تمہارا چاچا آیا ہے، انہیں سلام کرو۔ ہم نے اس چاچے کو جسے پہلی بار دیکھا تھا، ادب سے کہا سلام چاچا جی ۔ جیتی رہو انہوں نے پیار سے جواب دیا۔ ایک لمحہ رکے بغیر ہم دوبارہ اپنے کمرے میں آکر پڑھنے بیٹھ گئیں۔ مغرب ہوچکی تھی۔ سب نے نماز پڑھی، ہمارے گاؤں میں ان دنوں بجلی نہ تھی، لالٹین جلاکر کمرے میں رکھی تھی اور اسے بجھا کر اپنے اپنے بستروں پر لیٹ گئیں۔ ہمارے گھر میں دوکمرے قریب قریب تھے، ان کے آگے برآمدہ تھا۔ صحن کی دوسری جانب ایک اور بھی کمرہ تھا جو نسبتاً چھوٹا تھا اور اکثر بند رہتا تھا۔ دراصل یہ مہمان خانے کے طور پر بنوایا گیا تھا۔ اس کا ایک دروازہ باہر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ آنے والے مہمان کو کمرہ کھول کر والد نے وہاں ٹھہرا دیا۔ پانی کا جگ اور گلاس بھی لے جاکر رکھ دیا۔ دودھ کا گلاس بھرکر لے گئے اور کہا بھائی اگر کچھ اور ضرورت ہو تو درکھٹ کھٹا دینا اور رات کو یہ دودھ پی لینا۔ جب مہمان داری سے فارغ ہوئے تو ابا اپنے کمرے میں آئے۔ اماں عشا کی نماز پڑھ چکی تھیں اور ان کی آمد کی منتظر تھیں۔ پوچھا۔ زاہدہ کے ابا یہ مہمان کون ہے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا۔کیا کہیں پردیس سے آیا ہے۔ آہستہ بولو، ابا نے کہا۔ یہ میرا کچھ نہیں ہے۔ آج صبح اسکول سے کھیتوں میں گیا تھا، یہ وہاںمنڈیر پر بیٹھا مل گیا۔ بہت خستہ حال اور بھوکا پیاسا تھا۔ اس کی حالت زار دیکھ کر سوال کیا بھائی کیا پردیسی ہو، راستہ بھول گئے ہو۔ اس گاؤں میں کس کے پاس آئے ہو۔ فضل دین کے پاس، اس سے دور کی رشتے داری ہے۔ وہ تو مرچکا کب کا۔ اسے مرے ہوئے دس برس ہوچکے ہیں۔ کیا تم کو اس بات کی خبر نہیں تھی۔ نہیں، اگر ہوتی تویہاں کیوں آتا۔ اس کا تو گھر بھی بک گیا۔ اس کا ایک بیٹا تھا جودبئی چلاگیا اور پھر نہیں لوٹا۔ شام ہورہی ہے اب تم کدھر جاؤگے۔ بڑی دور کا سفر کرکے بڑی آس لے کر آیا تھا۔ یہ آخری سہارا بھی ہاتھ سے نکل گیا، کیا بتاؤں کہ اب کدھر جاؤں گا، اس نے بے بسی سے کہا تو مجھے اس پر ترس آگیا۔ میرے ساتھ چلو میرے گھر۔ یہ فوراً ساتھ ہولیا۔ بہت مشکور ہوا۔ راستے میں بتایا کہ اس کا اس دنیا میں اب کوئی نہیں ہے۔ بے اولاد ہے۔ بیوی مرچکی ہے۔ شہر میں نوکری کرتا تھا، سیٹھ نے نکال دیا کہ تم بوڑھے ہوگئے ہو۔ کام ٹھیک سے نہیں کرسکتے۔ آنکھوں سے بھی کم نظر آتا ہے۔ میں اس کی گاڑی چلاتا تھا، ایک روز رات کے وقت سامنے سے آتی گاڑی نظر نہ آئی، آنکھوں میں لائٹ پڑی تو ٹکر مار دی اس کی نئی گاڑی کا کافی نقصان ہوا، شکر ہے کہ جان بچ گئی ۔ سیٹھ نے فوراً نوکری سے فارغ کردیا۔ کافی دن بیمار رہا۔ معمولی چوٹیں آئیں جب ٹھیک ہوکر اسپتال سے نکلا تو رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ سوچا فضل دین کے پاس چلا جاتا ہوں، میری مرحومہ بیوی کا چچا زاد ہے۔ کچھ دن آرام کروں گا پھر دیکھی جائے گی ۔ بچارا بہت دکھی تھا۔ اسے گھر لے آیا ہوں، اب آگے کی سوچو کب تک رکھو گے ۔ سوچ لیں گے کچھ دن تو آرام کرلینے دو۔ ابھی تک چوٹیں درد کرتی ہیں۔ سخت کام نہیں کرسکتا۔ یہ کہانی سن کر اماں کے دل میں بھی رحم نے جگہ بنالی۔ دونوں کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد سوگئے۔ امی اور ابا سارا دن کام کرتے تھے۔ تھک جاتے تھے تو عشا کے فوراً بعد سوجاتے تھے، صبح تڑکے جو اٹھنا ہوتا تھا۔ میری بہنیں بھی گہری نیند میں جاچکی تھیں لیکن میں جاگ رہی تھی، جانے کیوں دیر تک نیند نہ آئی۔ بار بار اس بیچارے پردیسی کا خیال آتا رہا جس کا کوئی نہ تھا اور ہمارے گھرآکر پناہ لی تھی ابا نے اسے بھائی بتاکر تعارف کروایا تھا جبکہ وہ ہمارا کسی رشتے سے بھی چچا نہیں ہے۔ والد نے اس شخص یعنی شفیق کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ نہ کی، بس دکھی اور بے سہارا جان کر ٹھہرالیا۔ رفتہ رفتہ شفیق چچا ہم سے اور ہم ان سے مانوس ہوتے گئے۔ انہوں نے جانے کا نام نہ لیا اور میرے والدین نے بھی جانے کو نہ کہا۔ وہ ہمارے گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگے۔ والد صاحب جیسے سادہ لوح تھے۔ والدہ بھی ویسی ہی تھیں، وہ شفیق کی عزت کرتے تو ہم بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ ہمارا کوئی چچا، تایا یا ماموں نہ تھا تبھی ہم اس شخص سے پیار کرنے لگے۔ حسب معمول، والد صبح سویرے اٹھ کر مسجد چلے جاتے، نماز پڑھ کر لوٹتے،امی ناشتہ تیار کرچکی ہوتیں، وہ ناشتہ کرکے اسکول چلے جاتے ہم بھی ان کے جانے کے بعد ناشتہ کرکے اپنے اسکول چلی جاتیں۔ امی گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتیں جبکہ شفیق چچا اپنی کوٹھری میں لیٹے رہتے۔ کچھ دن بعد انہوں نے والد سے کہا، آپ اسکول پڑھانے کے بعد اپنے کھیتوں میں کام کرنے نکل جاتے ہو اور میں سارا دن بیکار رہتا ہوں۔ بیکار رہنے سے گھبرا گیا ہوں، مجھے بھی کھیتوں میں کسی کام پر لگا دو تاکہ کچھ کام کاج کرکے بیکاری سے نجات پالوں۔ ارے بھائی پوری طرح توانا ہوجاؤ، ابھی تک تمہاری ٹانگ میں درد ہوتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کی چوٹ سے سخت محنت والا کام نہیں کرپاؤ گے اور کھیتوں کاکام بے حد محنت مشقت والا ہوتا ہے۔ بہتر ہے فی الحال گھر پر آرام کرو، گھر میں بھی چھوٹے موٹے بہت سے کام ہوتے ہیں تمہاری بھابھی جن سے پریشان رہتی ہے تم وہ کام کردیا کرو۔ اس کے بعد چچا شفیق بھینسوں کو چارہ ڈالتے اور ماں کو لکڑیاں کاٹ کردیتے تھے۔ مٹکوں میں پانی بھرتے، کھیت سے ساگ توڑ کر لادیتے، غرض وہ گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے لگے۔ ایک دن امی اور دونوں چھوٹی بہنیں خالہ کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ ابا گھر لوٹے تو ان کے اچانک گردے میں درد ہونے لگا۔ چچا نے کہا چلو میں تمہیں اسپتال لے چلتا ہوں۔ پڑوسی سے ٹرک مانگ لو ، میں ڈرائیونگ کر لیتا ہوں۔ والد کو درد میں شدت محسوس ہونے لگی تو انہوں نے مجھے کہا۔ فائزہ جاکر چاچا کرم داد کو کہو کہ اپنا ٹرک دے دیں۔ شفیق مجھے اسپتال لے جائے گا۔ چاچا کرم داد موجود نہ تھا۔ اس کی بیوی نے چابی دے کرکہا بے شک لے جاؤ، کرم داد تو کھیتوں کو پانی لگانے گیا ہے۔ میں نے چابی لاکر ابا کو دی۔ انہوں نے شفیق کو کہا، ٹرک پڑوس سے اپنے دروازے پر لے آؤ۔ وہ لے آیا اور سہارا دے کر ابا کو اس میں بٹھایا، وہ ان کو شہر کے اسپتال لے گیا۔ دوگھنٹے کے بعد چچا آگیا مگر ابا ساتھ نہیں تھے۔ بولا، ڈاکٹر نے ان کو داخل کرلیا ہے کل ایکسرے وغیرہ کریں گے پھر دیکھیں گے کہ آپریشن کرنا ہے یا کیا کرنا ہے۔ والدہ شام کو لوٹیں تو بہت پریشان ہوئیں۔ چچا شفیق سے کہا کہ مجھے ابھی اسپتال لے چلو۔ وہ بولے۔ ابھی جانے کا فائدہ نہیں، وہ وہاں بستر پر آرام سے لیٹے ہیں، درد کم کرنے کا انجکشن ان کو لگا دیا تھا، سو رہے ہوں گے تم رات کو بچیوں کو اکیلے چھوڑ کر اسپتال کیوں جارہی ہو، وہاں کیا کروگی جاکر، صبح تڑکے میں خود چلا جاؤں گا۔ بچیوں کو اکیلے گھر میں چھوڑ کر تمہارا جانا مناسب نہیں ہے۔ چچا شفیق کی بات امی کے دل کو لگی، بولیں۔ بھائی جی کہتے توآپ ٹھیک ہو۔ اللہ ان کو شفا دے رات تو کسی نہ کسی طرح کاٹنی ہے۔ اماں رات بھر اپنے سہاگ کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ہم بچیوں کو کچھ دیر بعد نیند آگئی اور چچا آج کوٹھری میں سونے کی بجائے دروازے کے پاس چارپائی ڈال کر سوگئے جیسے ہمارے گھر کی نگرانی کررہے ہوں۔ صبح سویرے وہ اسپتال چلے گئے۔ قریب ہی لاری اڈا تھا اور ویگن شہر کو جانے کے لیے آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوپہر تک ہم اور والدہ بے چین رہے، بے قراری سے چچا کا انتظار کرتے رہے ۔ دوپہر کے بعد کہیں وہ آئے بولے۔ چھوٹا آپریشن ہوا ہے، درد گردے میں نہیں تھا بلکہ اپنڈکس کا آپریشن ہوا ہے۔ دوچار روز میں ٹھیک ہوکر گھر آجائیں گے۔ ان کے لیے یخنی وغیرہ تیار کردیں تو میں جاکر دے آتا ہوں۔ رات وہاں رک جاؤں گا صبح آؤں گا آپ لوگ اپنا خیال رکھنا۔ بھائی جی گاؤں میں کسی بات کا ڈر نہیں ہے آپ بس زاہدہ کے ابا کا خیال رکھنا۔ ہوسکے تو کل مجھے لے چلنا۔ ٹھیک ہے بھابھی جی۔ اب میں چلتا ہوں۔ یخنی کا ٹفن لے کر وہ چلے گئے۔ وہ رات بھی ہم نے دعائیں مانگتے بے چینی میں کاٹی۔ صبح چچا آگئے، خالی ٹفن ہاتھ میںتھا۔ بولے۔ دو دن اور ان کو اسپتال میں رہنا ہے پھر چھٹی ہوجائے گی۔ اب ٹھیک ہیں، فکر مت کریں۔ والدہ بہ ضد ہوگئیں کہ مجھے اسپتال جانا ہے آج میں ان کے پاس رکوں گی۔ جیسی آپ کی مرضی۔ بھابھی تیار ہوجائیے۔ امی نے جلدی سے دلیہ بنایا، ٹفن میں بھرا اور صاف جوڑا پہن کر تیار ہوگئیں۔ وہ چچا کے ساتھ لاری اڈے چلی گئیں۔ دو گھنٹے بعد شفیق چچا لوٹ آئے۔ کہا کہ آپ کے والدین نے مجھے بھیج دیا ہے، آپ بچیاں اکیلی ہو نا آج تمہاری امی وہاں رک گئی ہیں، میں نے بہت کہا وہ نہ مانیں بولیں کہ ان کی پھوپھی کاگھر قریب ہے ان کو رات کوبلا کر گھر میں بچیوں کے پاس سلا لینا۔ یہ سن کر میں دوڑی ہوئی پڑوس میں گئی اور کرم داد کی بیوی سے کہا۔ پھپھو آج تم ہمارے پاس ہمارے گھر سونا اماں ابا دونوں اسپتال میں ہیں۔ وہ ہماری سگی پھوپھی نہ تھیں مگر ہم ان کو پھوپھی ہی کہتے تھے۔ فوراً سر پر برقع ڈال کر میرے ساتھ ہمارے گھر آگئیں اور رات کو ہمارے پاس رہیں جبکہ شفیق چچا گھر کے باہر دروازے پر چارپائی ڈال کر سوگئے۔ صبح سویرے زاہدہ باجی اٹھ گئیں۔ پھپھو اپنے گھر چلی گئیں اور میری بہن نے چولہا چوکا سنبھال لیا۔ اماں کی طرح ہم سب کا ناشتہ بناکر اسکول روانہ کیا۔ ابا کے لیے کھچڑی بنائی اور ٹفن میں بھر کردے دی کہ آپ اسپتال جاکر دے آئیں۔ وہ بولے۔ زاہدہ بیٹی تم بھی ساتھ چلو میں تمہارے ابا کے پاس رک جاؤں گا۔ تمہاری ماں شہر سے یہاں اکیلی کیسے آئے گی تم ساتھ ہوگی تو دونوں اکٹھی آجانا، ابا کوبھی دیکھ لوگی۔ باجی تو دل سے چاہ رہی تھی کہ ابا کو اسپتال جاکر دیکھے، فوراً تیار ہوگئی اور چچا شفیق کے ساتھ چلی گئی۔ جاتے ہوئے پھپھو کو بتاگئی کہ تم ہمارے گھر کا خیال رکھنا میں اسپتال جارہی ہوں۔ امی کے ساتھ دوگھنٹے تک آجاؤں گی۔ اس دن کے بعد میری بہن زاہدہ ایسی غائب ہوئی کہ ان کا کوئی نشان نہ ملا۔ امی ابو اسی شام کوگھر آگئے۔ ابا کو اسپتال سے چھٹی مل گئی تھی۔ وہ چچا کرم دادکے ٹرک پر آئے تھے جو ان کی عیادت کو اسپتال گئے تھے۔ ہم بھی اسکول سے گھر آگئی تھیں مگر زاہدہ باجی اور چچا شفیق کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ روتے روتے امی کو دورے پڑنے لگے، ابا بھی ماتھا پیٹ کرکہتے تھے ہائے میں نے کیوں ایک اجنبی پر اعتبار کیا۔ اب میں آپریشن کے سبب اٹھ بھی نہیں سکتا۔ زاہدہ کو ڈھونڈنے کے لیے کیوں کر بھاگ دوڑ کروں۔ وہ ظالم انسان جو مظلوم بن کر آیاتھا نجانے ہماری بیٹی کو کہاں لے گیا۔ پولیس میں رپورٹ لکھوائی جہاں تک ممکن ہوسکا، باجی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، انہیں اب کہاں ملنا تھا، ابا کی زمین بک گئی مگر بیٹی کو نہ ڈھونڈ سکے۔ وقت کے ساتھ صبر توکرلیا مگر صبر کہاں آتا ہے ایسے معاملات میں، جیتے جی مر گئے تھے۔ یونہی دوسال گزر گئے۔ ایک دن اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک شخص کراچی شہر سے آیا تھا اس نے بتایا کہ آپ کی بیٹی فلاں جگہ ہے، اس نے مجھے پتا دیا ہے کہ جاکر آپ لوگوں کو بتاؤں میرے ساتھ چلو، میں زاہدہ کے پاس لے چلتا ہوں۔ والد نے گاؤں کے دو معزز لوگوں کو ہمراہ لیا اور پولیس کو بھی اطلاع کرائی۔ سب لوگ کراچی روانہ ہوگئے۔ چھ روز بعد اباجی، زاہدہ باجی کو لے آئے۔ وہ سوکھ کرکانٹا ہوگئی تھیں۔ شفیق چچا اسپتال لے جانے کے بہانے انہیں شہر لے گئے جہاں ایک گاڑی میں بٹھایا۔ گاڑی میں ان کے دوآدمی تھے جنہوں نے باجی کو بیہوش کردیا اورکراچی لے گئے، باجی زاہدہ نے بتایا۔ شفیق مجھے ایک فلیٹ میں لے گیا جہاں چند لوگ تھے وہاں ایک فارم پر میرا انگوٹھا لگوایا اور ایک نوجوان کے حوالے کردیا کہ یہ تیرا شوہر ہے اور اب تم نے اسی کے ساتھ رہنا ہے۔ اس جعلی نکاح کے بدلے شفیق نے اس آدمی سے کافی موٹی رقم لی، گویا باجی کو بیچ دیا۔ دوسال تک باجی اس آدمی کے پاس رہی جو خود کو ان کا شوہر کہتا تھا اور میری بہن بادل نخواستہ اس کے ساتھ رہنے پر مجبور تھی۔ وہ کہیں بھاگ کر بھی نہ جاسکتی تھی کیونکہ مکان کے دروازے پر ایک مسلح گارڈ پہرہ دیتا تھا۔ ایک روز اس گارڈ کو ترس آگیا اس نے زاہدہ باجی سے حال معلوم کیا اور اپنا ایک بھروسے کا آدمی گاؤں ہمارے گھر بھیج دیا۔ یوں باجی بازیاب کرانے میں اباجی کامیاب ہوگئے۔ وہ شخص جس نے نکاح کیا تھا، اس کے پاس نکاح نامہ موجود تھا۔ اس نے ہماری بہن کا پیچھا نہ کیا لیکن شفیق مردود کا پھر کبھی پتا نہ چلا۔ ابا کہتے تھے اگر کبھی مل جائے تو اسے جان سے ماردوں گا لیکن اسے ملنا تھا اور نہ ملا۔ صد شکر کہ ہماری بہن ہمیں مل گئی سچ ہے جس گھر میںبیٹیاں ہوں، کبھی کسی اجنبی کوگھر کے اندر نہیںٹھہرانا چاہیے کیونکہ اجنبی کا کیا اعتبار۔ م ملتان | null |
null | null | null | 106 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-20/ | null | null |
null | null | null | 107 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-13/ | کرن پر نظر پڑتے ہی دلکش اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کرن بغلوں میں بیساکھیاں دبائے اُداس آنکھوں میں حیرانی لیے دلکش کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ کرن اوہ میری پیاری کرن۔ دلکش نے بے ساختہ اسے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔ آپ کون ہیں آنٹی کرن کے سوال پر دلکش لمحہ بھر کو سٹپٹائی۔ پھر مسکرا کر بولی۔ مجھے آپ اپنی خالہ یا پھپھو سمجھ سکتی ہیں۔ پھپھو کرن نے حیرانی سے سوال کیا۔ یہ کون ہوتی ہے پھوپھی۔ دلکش نے تحفے کا ڈبا کرن کی طرف بڑھایا۔ پاپا کی بہن ہوتی ہے۔ کرن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ آپ آپ کا مطلب ہے۔ آپ میرے پاپا کی بہن ہیں کرن نے ڈبا تھام لیا تھا مگر اس کی حیران اور پُر اشتیاق نگاہیں اب بھی دلکش کے دلکش چہرے پر جمی تھیں۔ آپ میرے پاپا کی بہن ہیں اُس نے ایک بار پھر تصدیق چاہی۔ آپ تو بہت اچھی ہیں مگر میرے پاپا وہ مجھے پسند نہیں کرتے کیونکہ میں اپاہج ہوں ایک معذور لڑکی۔ تم سے کس نے کہا کہ تم معذور ہو دلکش نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا۔ تم تو بہت خاص ہو۔ ایک دم خاص الخاص۔ دلکش نے اس کی پیشانی پر مہر محبت ثبت کرتے ہوئے پورے یقین سے کہا۔ اور تم دیکھنا بہت جلد تمہارے پاپا بھی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہیں بہت خاص ماننے لگیں گے۔ کچھ دیر بعد جب دلکش واپسی کے لیے اُٹھی تو کرن اُداس ہوگئی تھی تب دلکش نے اسے یقین دلایا کہ بہت جلد وہ پھر آئے گی اور وہ دن دُور نہیں جب اس کے پاپا اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائیں گے۔ واپسی میں دلکش بہت افسردہ تھی۔ فضلو بابا کے پوچھنے پر اُس نے سچائی سے بتا دیا تھا کہ وہ مصعب کے بارے میں سوچ رہی ہے کہ جو شخص اپنی سگی بیٹی کا نہ ہوا وہ بھلا ایک انجانی لڑکی کے لیے کیا کرے گا فضلو بابا نے سر گھما کر دلکش کے مایوس چہرے کی طرف دیکھا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ مصعب صاحب ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ لمحہ بھر توقف کے بعد وہ پھر بولے۔ اور کل رات کے واقعے کے بعد سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔ دلکش کے چونک کر پوچھنے پر انہوں نے بتایا تھا۔ تمہارے گائوں سے ناکام واپس لوٹنے کے بعد وہ تمہارے نکاح نامے کے لیے بہت فکرمند تھے، انہیں یقین تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ نکاح نامہ جلیل شاہ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا، گویا اسے حاصل کرنے کے لیے بس وہی ایک رات تھی۔ تو دلکش نے پُرتجسس لہجے میں دریافت کیا۔ تو کیا فضلو بابا بے نیازی سے مسکرائے۔ انہوں نے مجھے سرشام ہی گائوں روانہ کر دیا تھا، گائوں جا کر مولوی کے لڑکے کی مدد سے میں وہ نکاح نامہ اُسی رات وہاں سے نکال لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ کیا دلکش حیرت سے بولی۔ کیا واقعی آپ وہ نکاح نامہ لے آئے مگر یہ کیسے ہوا یہ سب مصعب میاں کی وجہ سے ہوا۔ فضلو بابا کے لہجے میں مصعب کے لیے پیار چھلکنے لگا۔ اب وہ بدل رہے ہیں اور تم دیکھنا وہ تمہارے لیے اور کرن بٹیا کے لیے ان شا اللہ بہت کچھ کریں گے اور دیکھنا بہت جلد تمہارے ہر خواب کی تعبیر تمہیں مل جائے گی۔ فضلو بابا نے پریقین لہجے میں کہا اور شاپنگ سینٹر کے سامنے جیپ روک دی۔ ٭ ٭ ٭ اُونچے نیچے چھوٹے بڑے ٹیلوں کے عقب میں کھنڈر نما گھر کے تہہ خانے میں قید عقیل شاہ ماضی کے کھنڈرات میں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ گائوں میں زمینوں اور پھلوں کے باغات کے علاوہ شہر میں بھی کارخانے، کمرشل پلاٹس اور ایک وسیع کاروبار تھا۔ ایک پوش علاقے میں شاندار کوٹھی بھی موجود تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے زمانے میں جلیل شاہ اور عقیل شاہ اُسی کوٹھی میں رہتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عقیل شاہ گائوں لوٹ آئے تھے۔ انہیں گائوں کی کھلی فضا بے حد پسند تھی مگر تعلیم مکمل کرنے کے باوجود جلیل شاہ شہر میں ہی مقیم رہا۔ شہر کی رنگین فضا کا سحر دھیرے دھیرے اُسے اپنی گرفت میں لیتا جا رہا تھا۔ پھر اس کی زندگی میں مرید خان داخل ہوا تھا جو ایک مجرمانہ ذہن کا شخص تھا، اُس نے اُسے اپنے پاس ڈرائیور رکھ لیا۔ مرید خاں جلیل شاہ کا ڈرائیور کیا بنا اُس نے جلیل شاہ کے سوچ کے انداز ہی بدل دیے۔ رفتہ رفتہ وہ جوئے اور شراب کا عادی ہوتا چلا گیا۔ اب آئے دن کوٹھی میں شراب و شباب کی محفلیں سجنے لگیں۔ انہی دنوں رئیس خلیل شاہ کے بچپن کے دوست انوار خان کی بیگم کا انتقال ہوگیا۔ وہ شہر کے ایک بڑے صنعت کار تھے۔ بیگم کی اچانک موت نے انہیں بہت بددل اور مایوس کر دیا۔ وہ اب جلد از جلد اپنی اکلوتی اور چہیتی بیٹی نوشابہ بانو کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے۔ نوشابہ ایک حسین، ذہین اور سلیقہ شعار لڑکی تھی۔ رئیس خلیل شاہ جب بھی انوار خان سے ملنے جاتے تو نوشابہ سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ البتہ جلیل شاہ اور عقیل شاہ سے اس کا کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس کی بیوی کے انتقال کی خبر سن کر خلیل شاہ اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ انوار خان کے گھر پُرسے کے لیے گئے تو پہلی بار اُن دونوں نے نوشابہ کو دیکھا تھا۔ اُس کی بھیگی پلکیں اور معصوم چہرہ دیکھ کر بے اختیار عقیل شاہ کا دل دھڑک اُٹھا تھا۔ رئیس خلیل شاہ اور عقیل شاہ، انوار خان سے تعزیت کے بعد گائوں کے لیے روانہ ہوگئے جبکہ جلیل شاہ مرید خان کے ساتھ اپنی کوٹھی کی طرف چل دیا۔ راستے میں مرید خان نے اُس سے کہا تھا۔ سائیں آپ نے سائیں انوار خان کی چھوکری دیکھی نا ہاں دیکھی۔ اچھی ہے۔ جلیل شاہ نے جواب دیا۔ پر وہ ایک کروڑ پتی باپ کی بیٹی ہے۔ اسے ہم اپنی محفلوں کا حصہ نہیں بنا سکتے ویسے بھی وہ بابا سائیں کے دوست کی بیٹی ہے۔ تو سائیں میں کب کہہ رہا ہوں کہ آپ اُس سے فلرٹ کریں۔ مرید خان چمک کر بولا۔ سائیں میں تو شادی کی بات کر رہا ہوں۔ شادی جلیل شاہ حیران ہوا۔ کس کی شادی جلیل نے آج تک کبھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا نہ وہ اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہتا تھا۔ مگر مرید خان نے اسے باور کروایا کہ اسے نوشابہ سے شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ نوشابہ انوار خان کی تمام دولت جائداد کی اکلوتی وارث تھی۔ انوار خان دِل کا پرانا مریض تھا، دو اَٹیک اسے پہلے بھی ہو چکے تھے تیسرا اٹیک جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔ اُدھر انوار خان دُنیا سے گیا اِدھر ساری دولت کی مالک اس کی بیٹی اور باالفاظ دیگر اس کا داماد مالک ہوگا۔ مرید خان کی باتوں نے جلیل شاہ کو سوچنے پر مجبور کر دیا مگر وہ اب بھی شادی کے حق میں نہیں تھا۔ مرید خان نے اسے مزید سمجھایا۔ نوشابہ بی بی کے بارے میں سوچیں، ایک پڑھی لکھی سیدھی سادی بے زبان بیوی کسی مرد کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ جبکہ وہ اپنے ساتھ کروڑوں کی دولت و جائداد بھی لا رہی ہو تو کہنا ہی کیا۔ آپ بڑے رئیس سے بات کریں۔ اس سے پہلے کہ آپ کا عقل مند بھائی عقیل شاہ اُس سے شادی کی آرزو کر بیٹھے، آپ پہل کر دیں۔ مرید خان کے سمجھانے پر جلیل شاہ کی سمجھ میں بات آ گئی تھی اور اگلے دن ہی گائوں جا کر اُس نے باپ کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔ خود رئیس خلیل شاہ کو نوشابہ پسند تھی اور وہ اسے اپنے گھر کی زینت بنانا چاہتے تھے مگر اس سلسلے میں اُن کے ذہن میں عقیل شاہ کا نام تھا۔ ایک تو بڑا بیٹا ہونے کے ناتے شادی کے لیے پہلا نمبر انہی کا تھا۔ دُوسرے نوشابہ جیسی معصوم اور سادہ لوح لڑکی کے لیے سیدھے سادے اور محبت کرنے والے عقیل شاہ ہی مناسب لگتے تھے۔ مگر اب جبکہ جلیل شاہ نے نوشابہ سے شادی کا عندیہ دیا تو خلیل شاہ اگلے ہی دن اپنے دوست کے پاس جا پہنچے۔ اُن کا مدعا سن کر انوار خان سنّاٹے میں آ گئے۔ انہیں توقع تھی کہ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے وہ پہلے عقیل شاہ کی شادی کا فیصلہ کریں گے۔ ذاتی طور پر انوار خاں کو عقیل شاہ پسند تھے۔ اپنی بیٹی نوشابہ کی نگاہوں میں بھی انہوں نے عقیل شاہ کے لیے پسندیدگی کے سائے دیکھے تھے مگر اس پل خلیل شاہ اپنے نکمّے اور بدکردار بیٹے جلیل شاہ کے رشتے کی بات کر رہے تھے۔ وہ جلیل شاہ کے کرتوتوں کے بارے میں پوری طرح واقف تو نہ تھے مگر جتنی خبریں اُن تک پہنچی تھیں اُن کے ہوتے وہ بھلا آنکھوں دیکھی مکھی کیسے نگل سکتے تھے اور یہاں تو اُن کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی کی زندگی کا سوال تھا۔ سو انہوں نے نہایت سلیقے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ نوشابہ گائوں کی زندگی پسند کرتی ہے جبکہ تم نے کہا کہ جلیل شاہ شہر میں رہنا چاہتا ہے سو میں اپنی بیٹی کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے کسی ایسے لڑکے کا انتخاب کرنا چاہتا ہوں، جسے گائوں میں رہنا اور گائوں کی زندگی پسند ہو انوار خان نے واضح طور پر عقیل شاہ کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ خود خلیل شاہ کو نوشابہ کا جوڑ عقیل شاہ کے ساتھ ہی مناسب لگتا تھا مگر جب جلیل شاہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ دامن پھیلائے انوار خان کے سامنے آ بیٹھے تھے۔ اب انوار خان کے انکار کے بعد عقیل شاہ کا خیال اُن کے ذہن میں آیا۔ انہیں نوشابہ بہت پسند تھی۔ وہ ہر حال میں اسے اپنی بہو بنانا چاہتے تھے سو انہوں نے آن کی آن میں عقیل شاہ کا نام پیش کر دیا۔ انوار خان بھی یہی چاہتے تھے۔ چشم زَدن میں نوشابہ بانو اور عقیل شاہ کا رشتہ طے ہوگیا۔ نوشابہ اور عقیل شاہ کے لیے یہ رشتہ مسرت و شادمانی کا باعث تھا۔ ایک ہی نگاہ میں وہ دونوں کیوپڈ کے تیر کا شکار ہو چکے تھے۔ جہاں تک جلیل شاہ کا تعلق تھا اُسے نوشابہ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ مرید خان کے کہنے پر وہ شادی کے لیے آمادہ ہوا تھا انکار ہونے پر اُسے کوئی خاص ملال نہیں ہوا تھا مگر مرید خان نے عقیل شاہ اور رئیس خلیل شاہ کے خلاف جلیل شاہ کے خوب کان بھرے اور کروڑوں کی جائداد کا آسانی سے ہاتھ سے نکل جانے کا کچھ اس طرح نقشہ کھینچا کہ جلیل شاہ غصّے اور حسد سے سُلگ اُٹھا۔ ایک ضد اور حرص اس کے اندر جاگ اُٹھی۔ اب وہ کسی بھی قیمت پر نوشابہ کو حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ سو وہ سینہ تان کے باپ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ رئیس خلیل شاہ نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر نفرت اور غصّے کے بڑے نمایاں آثار تھے۔ تم نے صرف ایک بار نوشابہ کو دیکھا ہے۔ خلیل شاہ ضبط بھرے لہجے میں بولے۔ وہ تمھیں اچھی لگی بس اتنی بات تھی نا تمہارا اُس سے کوئی عشق نہیں چل رہا تھا۔ دھیرے دھیرے خلیل شاہ کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر کس لیے تم یہ بات کرنے میرے سامنے آ گئے۔ میں نے تمھیں بتایا کہ پہلے میں نے تمہاری ہی بات کی تھی۔ اس کے باپ کے منع کرنے پر میں نے تمہارے بھائی کا رشتہ ڈالا، اس میں تمہارا غصّہ کہاں بنتا ہے۔ وہ بابا سائیں وہ۔ سارا غصّہ اور احتجاج جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور وہ ہکلانے لگا۔ بس۔ رئیس خلیل شاہ دھاڑ کر بولے۔ آئندہ اس موضوع پر میں کوئی بات سننا پسند نہیں کروں گا۔ نوشابہ کا عقیل شاہ سے رشتہ طے ہو چکا اور آئندہ ہفتے وہ بہو بن کر اس حویلی میں آنے والی ہے۔ رئیس خلیل شاہ نے تیکھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ویسے بھی جائداد کے بٹوارے کے بعد تمہارا اب اس حویلی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ تمہاری دُنیا شہر میں ہے اس لیے تمہیں گائوں، اس حویلی، عقیل شاہ اور اس کی دلہن کی زندگی کی طرف پلٹ کر بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہنے کے لیے تو جلیل شاہ کے پاس بہت کچھ تھا۔ بے اَدب، بد لحاظ اور بد تمیز انسان کے پاس ذخیرئہ الفاظ کی کمی نہیں ہوتی مگر باپ کے جلال کے سامنے جلیل شاہ کی بولتی بند ہوگئی تھی۔ دل کا پیچ و تاب دل ہی میں دبا کر وہ خاموشی سے واپس پلٹ گیا۔ ہفتے بھر بعد ہی نوشابہ اپنی تمام تر رعنائیوں، وفائوں اور محبتوں کے ساتھ دُلہن بن کر حویلی میں چلی آئی تھیں۔ حویلی کے خاموش در و دیوار ایک دَم گنگنا اُٹھے تھے، ہر سمت خوشیاں ناچتی محسوس ہو رہی تھیں۔ عقیل شاہ اور نوشابہ بانو ایک دُوسرے کو پا کر بے حد خوش تھے۔ اُن دونوں کو مسرور دیکھ کر رئیس خلیل شاہ بھی بے حد خوش تھے۔ نوشابہ کا پہلے جلیل شاہ نے انتخاب کیا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی اس خواہش کو پوری نہ کر سکے تھے۔ اس بات کا انہیں قلق تھا مگر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ نوشابہ دُنیا کی آخری لڑکی تو نہیں ہے۔ وہ اپنے جلیل شاہ کے لیے نوشابہ سے بھی اچھی لڑکی دُلہن بنا کر لائیں گے مگر زندگی نے انہیں اس بات کی مہلت ہی نہ دی۔ حج کے دوران وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اللہ کے گھر جانے والے اس زائر کو اپنے گھر واپس لوٹنا نصیب نہیں ہوگا۔ ایسا لگتا تھا جیسے انہیں اس حادثے کا پہلے سے ہی ادراک ہوگیا تھا تب ہی اپنی زندگی میں ساری دولت اور جائداد دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم کر گئے تھے۔ ٭ ٭ ٭ جلیل شاہ شہر کی کوٹھی میں رہائش پذیر تھا۔ شہر کا تمام کاروبار اور کارخانے اس کے حصّے میں آئے تھے۔ اسے نہ کاروبار کی سمجھ تھی، نہ محنت کی عادت۔ باپ کے بعد اب وہ پوری طرح خود مختار تھا۔ تمام دن وہ شراب کے نشے میں دُھت پڑا رہتا اور رات ہوتے ہی اس کی زندگی انگڑائی لے کے جاگ اُٹھتی۔ شراب کے ساتھ پانی کی طرح دولت بہہ رہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے سارا بینک بیلنس ختم ہوگیا۔ اب جائداد کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُن دنوں نوشابہ کے والد انوار خان کی طبیعت خراب تھی اور وہ اسپتال میں تھے۔ عقیل شاہ کو اطلاع ملی تو نوشابہ کو لے کے اسپتال پہنچے۔ خود نوشابہ پورے دن سے تھیں، اور اُسی رات اُن کی طبیعت خراب ہوگئی۔ شہر سے لیڈی ڈاکٹر بلوائی گئی۔ گائوں کی مشاق دائی خیرالنسا بھی موجود تھی اور صبح دم نوشابہ نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ نواسے کی خوش خبری نے انوار خان کو پھر سے زندہ کر دیا تھا۔ انہوں نے بہت چائو سے نواسے کا نام عدیل شاہ رکھا۔ عقیل شاہ اصرار کر کے انوار خان کو اپنے ساتھ گائوں ہی لے آئے تھے۔ ننھے نواسے کے ساتھ اُن کا دل لگا رہتا۔ وہ عدیل شاہ کو پا کر بے حد خوش تھے۔ انہوں نے اپنی ساری جائداد اور دولت ننھے عدیل شاہ کے نام منتقل کر دی تھی۔ اُدھر عقیل شاہ کی دولت و جائداد اور خوشیوں میں دن دُگنا رات چوگنا اضافہ ہو رہا تھا، تو دُوسری طرف جلیل شاہ کی جائداد ایک ایک کر کے بکتی جا رہی تھی۔ اور اب اُس کوٹھی کے بکنے کی نوبت آ گئی تھی جس میں وہ رہ رہا تھا۔ یہ کوٹھی بک گئی تو ہم کہاں رہیں گے مرید خان پہلی بار جلیل شاہ کے چہرے پر تشویش کے سائے لرزے۔ نہیں نہیں، ہم یہ کوٹھی نہیں بیچ سکتے۔ سائیں آپ کوٹھی نہیں بیچیں گے تو قرض خواہ آپ کو جیل بھجوا دیں گے۔ یہ کوٹھی ہر صورت فروخت کرنی پڑے گی۔ مرید خان نے حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے کہا۔ اور رہا سوال کہ کوٹھی بکنے کے بعد آپ کہاں رہیں گے تو سائیں سیٹھ انوار خان کی شاندار کوٹھی قریب ہی موجود ہے وہ خود تو ادھر بیٹی داماد کے ساتھ گائوں میں پڑا ہے اور سنا ہے آج کل سخت بیمار ہے۔ چند دنوں کا ہی مہمان ہے۔ پھر بھی جلیل شاہ نے کہا۔ جس شخص نے مجھے ریجیکٹ کیا تھا، میں اس کی کوٹھی میں سائیں اس کی کوٹھی کدھر ہے اب۔ مرید خان نے وضاحت کی۔ اُس نے یہ کوٹھی آپ کے بھتیجے عدیل شاہ کے نام کر دی ہے صرف یہی کوٹھی نہیں بلکہ اپنی ساری جائداد اپنے نومولود نواسے کے نام کر دی ہے عدیل شاہ جب بالغ ہو گا تو ہر چیز کا بلا شرکت غیرے مالک بن جائے گا۔ اچھا۔ جلیل شاہ نے آنکھیں پھیلا کر مرید خان کی طرف دیکھا۔ دیکھا تو نے مرید خان، میرا بھتیجا کتنا بھاگوان ہے کہ پیدا ہوتے ہی ارب پتی بن گیا، ایک میں بدبخت آپ بدبخت کیسے ہو سکتے ہیں سائیں۔ مرید خان نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ آخر آپ اُس بچّے کے چاچا جی ہیں اس کے باپ کے چھوٹے بھائی آپ کو اُن سے ملنا چاہیے۔ اپنی حماقتوں کی معافی مانگنی چاہیے بات کو ذرا سمجھیں خود آپ کے بھائی عقیل شاہ کی کتنی بڑی جاگیر ہے۔ میرے بوڑھے باپ نے یہاں بھی ڈنڈی ماری۔ جلیل شاہ کے لہجے سے غصّہ چھلکنے لگا۔ ساری زندگی میرے مقابلے میں وہ عقیل شاہ کو زیادہ چاہتا رہا وہ سونے کی چڑیا بھی اُس نے اس کے حوالے کر دی۔ جائداد کی تقسیم میں بھی اُس نے بے انصافی کی گائوں کی حویلی اور ساری جاگیر عقیل شاہ کے نام کر دی۔ اس ناانصافی کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کا حق عقیل شاہ کی جائداد پر بنتا ہے۔ لوہا گرم دیکھ کر مرید خان نے ضرب لگائی۔ اب یہ دیکھیے اگر بڑے رئیس نے آپ کی شادی نوشابہ بیگم سے کر دی ہوتی تو آج شہر کی کوٹھی، پلازے، پلاٹ سب آپ کے ہوتے گویا ان سب چیزوں پر پہلا حق تو آپ کا ہی بنتا ہے۔ مرید خان کی بات نے اُس پر سوچ کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ اس کے سوکھے دھانوں میں گویا کہ پھر سے پانی پڑ گیا تھا۔ سائیں آپ نے اپنا تو سب کچھ ناسمجھی اور ناتجربہ کاری میں گنوا دیا۔ مرید خان نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اب عقیل شاہ کا سب کچھ، اپنا بنانے کے لیے بہت سمجھ داری، ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں کسی کہنہ مشق وکیل کی ضرورت ہوگی۔ اور سائیں خوش بختی سے میں ایک ایسے وکیل کو جانتا ہوں اس کا نام ہے خواجہ نوید۔ اور اُسی رات وکیل اور جلیل شاہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا۔ کوٹھی فروخت کر کے قرض خواہوں میں رقوم تقسیم کر کے بالکل قلاش ہو کر جلیل شاہ، وکیل خواجہ نوید اور مرید خان کے ساتھ گائوں کے لیے روانہ ہوگیا۔ آج وہ پورے پانچ سال بعد اپنے بڑے بھائی عقیل شاہ اور اس کے بیوی بچّے سے ملنے گائوں جا رہا تھا۔ اس کے دل میں بھائی بھتیجے کی محبت نہیں بلکہ ایک زبردست سازش تھی جو اس کے وکیل اور عیار خادم مرید خان نے مل کر تیار کی تھی۔ ٭ ٭ ٭ غفار نے آذر کو فون کیا اور ایک ہی سانس میں ساری کہانی کہہ سنائی۔ آذر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ کیا کہہ رہے ہو غفار انہوں نے بے یقینی سے سوال کیا۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں صاحب دُوسری طرف سے غفار کی گھبرائی ہوئی آواز اُبھری۔ آپ کی شادی کی خبر سنتے ہی کنزہ میم کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا، انہوں نے کہا کہ وہ آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں اور انہوں نے خودکشی کرلی۔ خودکشی آذر ایک دَم گھبرا گئے۔ وہ اس وقت کہاں ہے جی وہ آپ کے کمرے میں آپ کی کرسی پر مردہ حالت میں پڑی ہوئی ہیں۔ غفار نے جو محسوس کیا تھا وہ بتا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ کنزہ مر چکی ہے۔ آذر کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ وہ تیزی سے اپنی کار کی جانب لپکے۔ اب تک کار سے بیگم تیمور، نورجہاں اور فریحہ باہر آ چکی تھیں وہ دروازہ کھول کر عجلت میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اور آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔ اُن کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اس خبر نے انہیں بدحواس کر دیا تھا کہ کنزہ نے اُن کے نام پر اپنی جان دے دی تھی۔ وہ ایک میچور، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین لڑکی تھی۔ وہ بھلا ایسی بے وقوفی کس طرح کر سکتی تھی اُن کی آنکھوں میں کنزہ کی تصویر گھوم رہی تھی۔ اس کا محنت، دیانت داری، ذمے داری اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے پیچھے محبت کا احساس کارفرما ہوگا یہ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ہاں، کبھی کبھی اس کی آنکھوں سے چھلکتے کچھ ان کہے جذبے انہیں چونکا ضرور دیتے تھے مگر ان جذبوں پر غور کرنے کے لیے انہیں کبھی فرصت ہی نہیں ملی تھی، نہ ہی خود کنزہ نے کھل کر کبھی اظہار کیا تھا۔ وہ آفس پہنچے غفار انہیں ہال کے دروازے پر ہی کھڑا ہوا مل گیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کنزہ کو ایمبولینس میں ڈالے اسپتال کی طرف جا رہے تھے۔ اسپتال پہنچتے ہی کنزہ کو اسٹریچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا گیا اور وہ کائونٹر پر ضروری کارروائی سے نمٹنے کے بعد آپریشن تھیٹر کے باہر آ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا ساڑھے بارہ ہو چکے تھے۔ وقت چیونٹی کی طرح رینگ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کنزہ کی زندہ سلامت بچ جانے کی دُعا مانگ رہے تھے۔ کنزہ کے اس خود ساختہ فیصلے میں اُن کا کوئی قصور نہ تھا لیکن وہ خود کو قصوروار تصور کر رہے تھے۔ انہیں اپنے ہاتھ کنزہ کے خون میں رنگے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ بھی کتنے بے حس اور بے خبر تھے۔ ایک لڑکی انہیں دل ہی دل میں اتنی شدّت سے چاہ رہی تھی کہ ان کی شادی کی خبر سنتے ہی اُس نے موت کی وادی میں چھلانگ لگا دی تھی اور ایک وہ وہ اس کی محبت کو محسوس نہ کرسکے تھے۔ وہ حیران و پریشان مسلسل کنزہ کے بارے میں سوچے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں انہیں اطلاع دی گئی کہ کنزہ اب خطرے سے باہر ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ کنزہ میم زندہ ہیں غفار نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ کچھ ہی دیر میں اسے پرائیویٹ روم میں منتقل کر دیا گیا۔ کنزہ کو ہوش آ گیا تھا اور وہ پژمردہ سی بستر پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ چہرے پر ہلدی کھنڈی ہوئی تھی۔ ایک گہرے اضمحلال نے اس کے وجود کو اپنے احاطے میں لیا ہوا تھا۔ آذر بے آواز چلتے کنزہ کے بستر کے قریب چلے آئے تھے۔ غفار کمرے کے دروازے کے باہر ہی رُک گیا تھا۔ کنزہ۔ آذر نے کنزہ کی سمت جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں اسے پکارا۔ اُن کی آواز سنتے ہی اُس نے فوراً آنکھیں کھول دی تھیں۔ چند لمحے وہ کرب بھری نظروں سے انہیں تکتی رہی، چند لمحے انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھنے کے بعد اُس نے ایک دَم اُٹھ کر اپنے بازو اُن کے گلے میں حمائل کر دیے اور اُن کے سینے پر سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ آذر کسی ایسی صورت حال کے لیے تیار نہ تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں اپنے سینے پر دھرا کنزہ کا آنسو لٹاتا سر اُن کے وجود میں ایک عجب کیفیت جگا رہا تھا۔ مجھے کیوں بچا لیا آذر کیوں وہ سسکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔ مجھے مر جانے دیا ہوتا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ مجھے مر جانے دو یا مجھے اپنا بنا لو پلیز آذر میری محبت کو مت ٹھکرائو مجھے اپنی محبت کی پناہ دے دو مجھے اپنی محبت دے دو آذر سچّے جذبوں میں گندھی اس کی سسکتی آواز کانوں کی راہ سے قطرہ قطرہ اُن کے دل پر گر رہی تھی۔ لمحہ بھر کو تو وہ یہ بات بالکل ہی بھول گئے تھے کہ کچھ دیر قبل ہی وہ اپنا آپ اور اپنے تمام حقوق ایک انجانی اَجنبی لڑکی کے نام لکھ چکے ہیں۔ اب وہ کسی کے شوہر ہیں۔ کسی کے شریک حیات ہیں۔ انہوں نے نگاہ اُٹھا کر روتی بلکتی کنزہ کی سمت دیکھا اور ایک مضبوط اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ بازو پھیلا کر اسے اپنی محبت کی پناہ میں سمیٹ لیا۔ کنزہ بس اب کے اُن کے لہجے میں ایک اپنا پن تھا۔ پیار کا سچا اور بھرپور احساس تھا۔ بس اب یہ آنسو پونچھ ڈالو اب میں کبھی بھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔ کنزہ کے آنسو تھم گئے۔ وہ آذر کی بانہوں میں سمٹی ہوئی تھی۔ اس کے آنسو تھمتے ہی جیسے آذر ہوش و خرد کی دُنیا میں واپس آ گئے تھے۔ اسے اپنے اتنے قریب پا کر وہ ایک دَم خجل سے ہوگئے۔ انہوں نے اسے بازوئوں کے حصار سے آزاد کر کے آہستہ سے بستر پر لٹا دیا۔ وہ تکیہ پر سر دھرے ٹکٹکی باندھے اُن کی جانب تکے جا رہی تھی۔ اب تم آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گی۔ انہوں نے اس کی کلائی پر بندھی بینڈیج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تمہیں زندہ رہنا ہے اپنی خاطر اور میری خاطر میرے لیے۔ اَدھ کھلے دروازے کی آڑ میں کھڑی بیگم تیمور نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ایک بار پھر اندر جھانک کر دیکھا۔ وہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے پہنچی تھیں۔ اس اسپتال کے بارے میں انہیں غفار نے فون پر بتایا تھا۔ یہاں پہنچنے کے بعد وہ پہلے غفار سے ہی ملی تھیں پھر آہستگی سے اُس کمرے کی طرف بڑھ گئی تھیں جہاں کنزہ کو رکھا گیا تھا۔ دروازہ پوری طرح بند نہیں تھا، دَبے پائوں چلتی وہ بالکل دروازے کے قریب پہنچ گئی تھیں، اندر جھانک کر دیکھنے پر اندر کے منظر نے انہیں لمحے بھر کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ کنزہ کو آذر کے قریب آنے سے روکنے کی خاطر ہی انہوں نے لپک جھپک ایک انجانی لڑکی کو آذر کی زندگی کا ساتھی بنا دیا تھا۔ وہ معصوم لڑکی آنکھیں بند کیے گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے اُن کی خواب گاہ میں اُن کی راہ تک رہی تھی اور اسپتال کے اس روم میں کنزہ موت کا ناٹک رچا کر اُن کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ ایک لمحے کو بیگم تیمور کو اپنی ساری تگ و دو رائیگاں جاتی محسوس ہوئی۔ وہ بے حد کوششوں سے آذر اورکنزہ کے درمیان جو دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں وہ دیوار کنزہ کے چند آنسوئوں میں لمحوں میں بہہ گئی تھی۔ ناکامی کا شدید احساس غصہ بن کر اُن کے نس نس میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ آج تک انہیں کبھی شکست نہیں ہوئی تھی، انہوں نے جو چاہا تھا کیا تھا، جو چاہا تھا پایا تھا۔ مگر آذر کے ہاتھوں میں دبا کنزہ کا پٹّی زدہ ہاتھ انہیں ان کی شکست کا احساس دِلا رہا تھا۔ انہوں نے تحقیر بھری نظروں سے کنزہ کی طرف دیکھا اور تمام تر وقار اور رکھ رکھائو کے ساتھ واپسی کے لیے مڑ گئیں۔ غفار، آذر اور کنزہ کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ ہم یہاں آئے تھے انہوں نے غفار کو تنبیہ کی اور اُس نے جلدی سے سعادت مندی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ آذر کے ہاتھ میں دبا کنزہ کا ہاتھ، بالکل اچانک بج اُٹھنے والی موبائل ٹون سے لمحہ بھر کو لرز کر رہ گیا۔ انہوں نے ہڑبڑا کر کنزہ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگا لیا۔ یس مام بیٹا کہاں ہو صاعقہ تیمور کی فکرمند آواز سنائی دی۔ بنا بتائے یوں چلے گئے میں کس قدر پریشان ہوں۔ سوری مام۔ آذر ایک دم شرمندہ ہوگئے۔ وہ بس مام غفار سے پتا چلا کہ کسی ورکر کے ساتھ ایمرجنسی ہوگئی تھی خیر یہ سب باتیں چھوڑو اور فوراً چلے آئو پھر وہ رُک کر بولیں۔ میں جانتی ہوں تم ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہو۔ اپنے ورکرز کا بہت خیال رکھتے ہو، مگر اس کے ساتھ تم ایک اچھے انسان اور ایک اچھے بیٹے بھی ہو اور اب تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ تم ایک شوہر بھی بن چکے ہو۔ بس آدھے گھنٹے کے اندر گھر پہنچ جائو۔ اتنا کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ انہیں یقین تھا کہ اب آذر ہر قیمت پر مقررہ وقت میں گھر پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ کنزہ نے گہری نگاہوں سے آذر کے چہرے کا جائزہ لیا۔ فون بند کرتے ہی وہ ایک دم سے کھڑے ہوگئے۔ مام کا فون تھا مجھے جانا ہوگا۔ وہاں آپ کے بیڈ روم میں نئی نویلی دُلہن آپ کی راہ تک رہی ہوگی۔ کنزہ نے کرب بھرے لہجے میں کہا۔ آذر کو اچانک ہی اُس اجنبی لڑکی سے جسے اب اُن کی دُلہن ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکا تھا ایک عجب سی بیزاری اور نفرت کا احساس ہوا۔ اس سارے فساد کی اصل ذمّے دار وہی لڑکی تھی نہ ان کی شادی اُس لڑکی سے ہوتی نہ کنزہ خودکشی کرتی۔ اُن کا دل چاہا وہ کبھی اس لڑکی کی شکل نہ دیکھیں اور انہوں نے اپنے اس احساس کا اظہار کنزہ کے سامنے بھی کر دیا۔ یہ سن کر کنزہ کا چہرہ ایک دَم روشن ہوگیا تھا۔ آپ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ آپ اپنی دُلہن کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں کنزہ نے کسی چھوٹے بچّے کی طرح ضدّی لہجے میں کہا۔ کنزہ اگر تم نے پہلے یہ سب کچھ کہہ دیا ہوتا تو اس کی نوبت آتی ہی نہیں، میں مام کے سامنے تمہارا نام لے دیتا اور وہ کسی اجنبی لڑکی کو میرے لیے منتخب کرنے کی بجائے بے حد اہتمام اور پیار سے تمہیں اپنی بہو بنا لیتیں۔ واہ رے خوش فہمی۔ کنزہ نے جل کر دل میں سوچا۔ تمہاری گھاگ ماں کو میری دلچسپی کا اندازہ ہوگیا تھا تب ہی وہ کسی راہ چلتی لڑکی کو چشم زدن میں تمہاری دُلہن بنا کے لے آئی۔ کیا سوچنے لگیں آذر نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔ یہی کہ آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ کون سی بات آذر انجان بن گئے۔ آپ کو وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ صرف میرے اور صرف میرے ہی رہیں گے۔ میرے دل کی دُنیا میں اب تمہارے سوا، کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔ آذر نے یقین دلایا اور واپسی کے لیے مڑ گئے۔ دروازے پر غفار مستعد کھڑا تھا۔ اسے ہدایات دیتے وہ پارکنگ کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ٭ ٭ ٭ نورجہاں کافی دیر بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے فریحہ کو اُسی پوزیشن میں سر جھکائے محجوب سی بیٹھے دیکھا تو اس کا دل اس کے لیے رحم اور ہمدردی سے بھر گیا۔ دُلہن بیگم آپ ذرا تکیہ پر ٹک جاتیں تو اچھا تھا۔ اللہ جانے آذر میاں کب تک واپس لوٹیں، آدھی سے زیادہ رات تو گزر گئی آپ کے لیے پانی لائوں نورجہاں نے اگلے ہی لمحے جگ سے گلاس میں پانی اُنڈیل کر اس کی طرف بڑھایا۔ فریحہ نے شکریہ ادا کر کے گلاس تھام لیا۔ میں تو کہہ رہی ہوں، آپ سو جایئے نورجہاں نے اس کے چہرے سے مترشح تھکن کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ کل ولیمہ ہے آپ کے سب گھر والے آئیں گے کل آپ کو اپنے گھر والوں کے سامنے کم از کم خوش نظر آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ نور جہاں نے دروازے کی طرف دیکھ کر مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ لیجیے آذر میاں آ گئے۔ آذر تھکے تھکے قدموں سے اندر داخل ہوئے نور جہاں کو دیکھ کر لحظہ بھر کو ٹھٹکے۔ میں دُلہن بیگم کو پانی پلانے آئی تھی۔ انہوں نے آپ کی راہ تکتے ہوئے پوری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔ آذر نے بے ساختہ فریحہ کی طرف دیکھا۔ وہ گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ باتھ روم کی طرف مڑ گئے، کچھ دیر بعد سلیپنگ سوٹ میں ملبوس باتھ روم سے برآمد ہوئے، آہستگی سے چلتے ہوئے فریحہ کے قریب سے گزر کر بیڈ کی داہنی جانب آئے۔ فریحہ دَم سادھے دھڑکنیں روکے اُن کے قدموں کی آہٹیں گن رہی تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ سے تکیہ اُٹھایا اور واپسی کے لیے مڑنے سے پہلے غیرارادی طور پر اُن کی نگاہ فریحہ کی طرف اُٹھ گئی۔ آپ اس طرح کیوں بیٹھی ہیں چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی آواز میں سرد مہری پیدا نہ کر سکے۔ لباس تبدیل کرلیجیے اور سوجایئے پھر وہ تکیہ سنبھالے سامنے کی جانب پڑے صوفے کی طرف بڑھ گئے۔ فریحہ کئی لمحوں تک اپنی جگہ ساکت بیٹھی رہی۔ پھر گھونگھٹ سرکا کر آذر کی طرف دیکھا۔ وہ ایک جانب تکیہ رکھ کر صوفے پر لیٹ چکے تھے۔ ایک بازو آنکھوں پر دھرا تھا۔ فریحہ کی آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی اُتر آئی۔ وہ آہستگی سے بستر سے نیچے اُتر آئی۔ اچانک ہی اس کے پیروں میں پڑی پازیب زور سے بج اُٹھی تھی۔ آذر نے بے اختیار آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر بیڈ کی طرف دیکھا، وہ مجرم کی طرح سر جھکائے خجل سی کھڑی تھی اس کے معصوم چہرے پر کچھ عجب سی کیفیت تھی۔ وہ لمحہ بھر کو بے خود سے اُسے دیکھے گئے۔ اُس نے گھبرا کے قدم باتھ روم کی طرف بڑھا دیے تھے۔ اس کی پازیبوں میں پڑے گھنگھروئوں کی نقرئی جھنکار ایک تسلسل کے ساتھ گونجتی رہی اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس مدھر موسیقی کو سنتے رہے۔ کچھ دیر بعد لباس تبدیل کر کے وہ باتھ روم سے باہر نکلی تو پازیب بھی اُتار چکی تھی۔ سارے زیور بھی اُس نے اُتار کر ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں رکھ دیے، کئی لمحوں تک وہ بیڈ پر بیٹھی آذر کی طرف دیکھتی رہی۔ انہوں نے دوبارہ آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا۔ وہ آہستگی سے چلتی آذر کے پاس چلی آئی۔ سنیے۔ اس کی دھیمی مترنم آواز پر بے ساختہ انہوں نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ کچی نیند کے خمار سے بھری آنکھوں میں لمحہ بھر کو حیرت لہرائی ابھی کچھ ہی دیر پہلے انہوں نے اسے ٹیکہ، جھومر، تیز میک اَپ اور سُرخ زرتار لباس میں دیکھا تھا اور اس وقت وہی لڑکی ہلکے گلابی نائٹ گائون میں اُن کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے لمبے سیاہ گھنے بال شانوں سے گزر کر پُشت پر لہرا رہے تھے، ہر طرح کے بنائو سنگھار سے بے نیاز اس کا معصوم چہرہ بے حد دلکش لگ رہا تھا۔ یہ معصوم سی لڑکی سادگی میں کس قدر منفرد اور دلکش نظر آ رہی ہے۔ آذر سوچے بنا نہ رہ سکے۔ وہ بے ساختہ اُٹھ بیٹھے۔ فریحہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے یوں گھبرا کر پیچھے ہٹنے پر آذر کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ مسکراتے سمے اُن کے خوبصورت چہرے پر کیسی رعنائی اور دلنوازی بکھر گئی تھی۔ فریحہ نے حیران نظروں سے اُن کے دلکش چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا ۔ امی جان بتا رہی تھیں آپ کے آفس کے کسی ورکر کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا تھا۔ اب ان کی طبیعت کیسی ہے اب وہ ٹھیک ہے۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں کنزہ کا خیال آ گیا تھا، ساتھ ہی اُس سے کیا گیا وعدہ بھی یاد آ گیا۔ اُن کے نرم اور مہربان چہرے پر ایک غیر محسوس سا تنائو پیدا ہوگیا۔ آپ صوفے پر کیوں بیٹھے ہیں فریحہ نے ہمت مجتمع کر کے اَٹکتے لہجے میں کہا۔ آپ ادھر بستر پر چلے جایئے میں اِدھر۔ پلیز آذر نے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھا لیکن اب اُن کی آنکھوں سے اَجنبیت ٹپک رہی تھی۔ ڈونٹ ڈسٹرب می میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ انہوں نے دوبارہ آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔ فریحہ نے واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ ورکر کے ساتھ پیش آنے والے حادثے نے آذر کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا ہے اور وہ ذہنی طور پر اَپ سیٹ ہیں۔ وہ کسی بدگمانی کو دِل میں جگہ دیے بغیر خاموشی سے بیڈ پر آ کر دراز ہوگئی۔ ٭ ٭ ٭ دروازے پر ہلکی سی دستک پر آذر بے ساختہ اُٹھ بیٹھے تھے۔ اگلے ہی لمحے بیگم تیمور اندر داخل ہوئی تھیں، دروازے کے قریب لحظہ بھر کو تھم کے انہوں نے گہری نظروں سے صوفے پر بیٹھے آذر اور بیڈ پر بے خبر سوئی فریحہ کی طرف دیکھا۔ تب ہی نورجہاں چائے کی ٹرالی دھکیلتی اندر داخل ہوئی۔ میں نے سوچا آج کا آغاز اپنے پیارے بیٹے اور اس کی نئی نویلی دُلہن کے ساتھ چائے پی کر کیا جائے۔ بیگم تیمور نے مسکرا کر کہا اور آذر سر ہلا کر رہ گئے۔ نور جہاں فریحہ کو جگا چکی تھی۔ اُس نے خمار آلود نگاہوں سے پہلے نور جہاں پھر بیگم تیمور کو دیکھا اور ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ چائے کے بعد بیگم تیمور کمرے سے باہر چلی گئی تھیں اور آذر دوبارہ صوفے پر لیٹ کے سو گئے تھے۔ پھر کافی دن چڑھے اُٹھے اور نہا کر تیار ہو کے نیچے چلے گئے تھے۔ اُن کے جاتے ہی نور جہاں کے ساتھ انوشہ اُن کے کمرے میں گھس آئی تھی۔ بھابی آج آپ کو میں تیار کروں گی۔ انوشہ نے فریحہ کو دیکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ میں کب سے بھیّا کا کمرے سے باہر جانے کا انتظار کر رہی تھی اور ایک بھیّا تھے کہ کمرے سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ انوشہ کے لہجے میں شرارت بھری شکایت تھی۔ فریحہ سر جھکا کر بے اختیار مسکرا دی۔ نور جہاں بہت غور سے فریحہ کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی مگر اس کے چہرے پر کوئی شکوہ کوئی شکایت، کوئی پریشانی نہ تھی۔ انوشہ نے عنابی رنگ کے ایک خوبصورت سوٹ کا انتخاب کیا تھا۔ عنابی رنگ میں فریحہ کا صندلی رنگ بے حد نمایاں ہو گیا تھا تب ہی بیگم تیمور کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ آداب امی جان۔ فریحہ کے آداب کہنے پر وہ سر ہلاتی اس کے قریب چلی آئی تھیں۔ آذر اور انوشہ مجھے مام کہتے ہیں۔ انہوں نے نرم اور اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔ میرے لیے تم بھی انوشہ جیسی ہو اس لیے میں چاہوں گی تم بھی مجھے مام کہو۔ جی بہتر فریحہ نے سعادت مندی سے جواب دیا۔ یہ دیکھو انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود ڈبّا کھولا۔ یہ نولکھا ہار ہے۔ فریحہ انوشہ اور نور جہاں دونوں ایک ساتھ ہی متوجہ ہوگئی تھیں۔ او مائی گاڈ۔ انوشہ دیوانہ وار ہار کی جانب لپکی۔ اِٹ اِز سو بیوٹی فل۔ قیمت بھی تو دیکھیے۔ نور جہاں نے اپنی معلومات کا رُعب جھاڑا۔ اُس زمانے میں پورے نو لاکھ کا بنا تھا۔ اچھا۔ انوشہ نے حیرت سے پلکیں جھپکیں۔ بیگم تیمور ہار لیے فریحہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اب تم اس گھر کی بہو ہو۔ انہوں نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ اس گھر کی مالکن ہو اس ناتے اب یہ تمہارا ہے لو اسے پہن لو۔ شکریہ فریحہ نے حیران لہجے میں کہا۔ اور ہاں۔ چلتے چلتے وہ ذراکی ذرا رُکیں۔ نور جہاں اور انّو تم دونوں مل کر دُلہن کو ذرا جلدی سے تیار کر دو ان کے بہن بھائی انہیں لینے کے لیے آنے والے ہیں۔ جی اچھا۔ نور جہاں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ٭ ٭ ٭ ہلکی دستک کے ساتھ کمرے میں اشعر، فاریہ اور فروا داخل ہوئے۔ آپا۔ کہتے ہوئے فروا فوراً ہی فریحہ سے لپٹ گئی۔ انوشہ نے لبوں پر استقبالیہ مسکراہٹ سجا کر سب کی طرف دیکھا تھا۔ آپ لوگ بیٹھ کر باتیں کریں۔ اُس نے فاریہ اور فروا کی طرف دیکھ کر کہا۔ میں آپ کے لیے چائے بھجواتی ہوں۔ آپ بھی بیٹھیں نا۔ فروا نے کہا۔ مگر وہ ہاتھ ہلاتی باہر چلی گئی تھی۔ اشعر اور فروا حیران نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ واہ، اسے کہتے ہیں بیڈروم۔ اشعر نے ستائشی لہجے میں کہا۔ بس کمرہ ہی دیکھنے آئے ہو یا مجھ سے بات بھی کرو گے فریحہ نے آگے بڑھ کر اس کا کان پکڑتے ہوئے کہا۔ سچ فریحہ آپا، آپ کی تو لاٹری نکل آئی کیا محل نما گھر ہے۔ یہ بڑی بڑی گاڑیاں اور آذر بھائی بس اُس نے ہاتھ اُٹھا کر آذر کے شاندار ہونے کا اشارہ کیا۔ تب ہی بالکل اچانک آذر کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن سب کو دیکھ کر وہ ایک دَم واپسی کے لیے پلٹ گئے۔ اشعر نے بے ساختہ لپک کر اُن کا راستہ روک لیا۔ ارے رے آپ کہاں چلے نہیں وہ۔ اشعر کے یوں بے ساختہ راستہ روکنے پر وہ بے اختیار مسکرا دیے۔ دراصل میں نے سوچا کہ آپ لوگ اپنی بہن سے۔ جناب بہن سے تو برسوں سے مل رہے ہیں۔ اشعر نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ آج ہم صرف آپ سے ملنے آئے ہیں۔ ناچار آذر رُک گئے، اُن سب سے باتیں کرنا انہیں اچھا لگ رہا تھا۔ تب ہی اشعر نے اچانک پوچھا۔ آذر بھائی یہ بتایئے آپ کو ہماری فریحہ آپا کیسی لگیں۔ آذر نے چونک کر بے ساختہ فریحہ کی طرف دیکھا۔ اُس دم فریحہ بھی انہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یکبارگی دونوں کی نگاہیں ٹکرا گئی تھیں اور دونوں ہی کے دل بے اختیار دھڑک اُٹھے۔ آذر نے جلدی سے نظریں چرا لیں جبکہ فریحہ نے شرما کر نگاہیں جھکا لی تھیں۔ آذر کے جانے کے بعد فروا نے کہا۔ سچی آپا، آذر بھائی تو بہت ہی اچھے ہیں۔ تب فریحہ مسکرا کر گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرنے لگی۔ سب ٹھیک ہیں مگر ڈاکٹر انکل کے گھر کچھ گڑبڑ چل رہی ہے۔ فروا نے معنی خیز لہجے میں بتایا۔ کیسی گڑبڑ ربیعہ آنٹی تو ٹھیک ہیں نا فریحہ نے جلدی سے پوچھا۔ ربیعہ آنٹی ٹھیک ہیں اور زویا بھی۔ فروا نے رازدارانہ انداز میں بتایا۔ اصل میں شہروز بھائی کی طبیعت خراب ہے۔ شہروز بھائی کی فریحہ نے حیرانی سے فروا کی طرف دیکھا۔ انہیں کیا ہوا انہیں عشق ہوگیا تھا۔ فروا منہ پر ہاتھ رکھ کر مضحکہ اُڑانے والے انداز میں ہنسی۔ اُس لڑکی کی کہیں شادی ہوگئی تو انہوں نے زہر کھا کر مرنے کی کوشش کی۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ ہنسنے لگی۔ ہیں۔ فریحہ نے اسے ٹوکا۔ ایسے نہیں کہتے۔ کوئی اور بات ہوگی، وہ اس قسم کے انسان نہیں ہیں خیر اللہ انہیں شفا دے۔ ٹھیک اسی لمحے نور جہاں چائے اور دیگر لوازمات سے لبریز ٹرالی دھکیلتی کمرے میں داخل ہوئی۔ چائے کے بعد بیگم تیمور نے فریحہ اور اس کے بہن بھائیوں کو اپنی گاڑی میں اپنے ڈرائیور اکبر کے ساتھ فریحہ کے گھر کے لیے روانہ کر دیا۔ ٭ ٭ ٭ جانے کس کام سے زویا گیلری میں آئی تھی۔ گاڑی رُکنے کی آواز پر اُس نے گیٹ سے جھانک کر دیکھا۔ انور ضیا کے گیٹ پر ایک سیاہ مرسیڈیز رُکی تھی۔ جس سے فریحہ اُتر رہی تھی۔ عنابی جوڑے، بیش قیمت زیور اور میک اَپ میں سجی وہ گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار زویا کو اپنے دل میں فریحہ کے لیے شدید نفرت کا احساس ہوا تھا۔ اُس کی وجہ سے اس کا اکلوتا چہیتا بھائی شہروز موت کی کشمکش سے گزر کر دُنیا و مافیہا سے بے خبر بستر پر پڑا تھا۔ اور وہ سجی سنوری خوش باش گھوم رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ملال کا کہیں نشان تک نہ تھا۔ زویا کا دل چاہا کہ اس کے بھائی کو برباد کرنے والی کو وہ بددُعا دے مگر اگلے ہی لمحے اُس نے خود کو سنبھال کر سوچا۔ بھلا اس میں فریحہ آپا کا کیا قصور۔ انہیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ شہری بھائی اُن سے محبت کرتے تھے۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 108 | https://www.urduzone.net/rooh-larz-jati-hai-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 109 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-11/ | افسردہ چہرے اور شکستہ قدموں سے ڈاکٹر بہروز انور ضیا کے گھر سے نکلے تھے مگر اپنے گیٹ تک پہنچنے تک انہوں نے خود کو سنبھال لیا تھا۔ گیٹ فضیلت بوا نے کھولا تھا۔ بات ہوگئی انہوں نے بے تابانہ پوچھا۔ جی ہوگئی۔ ڈاکٹر بہروز نے گول مول سا جواب دیا۔ اب دیکھیے پھر وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ انہوں نے سوچ لیا تھا رات کو ربیعہ کو سلیقے سے بتادیں گے اور تاکید کردیں گے کہ وہ تسلی بخش انداز میں گھر کے لوگوں اور خاص طور پر شہروز کو سمجھادیں۔ نصیبوں کے فیصلے آسمانوں میں ہوتے ہیں۔ اب اگر فریحہ ہمارے بیٹے کے نصیب میں نہیں ہے تو صبر کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ ٭ ٭ ٭ دھماکا اس لیے ہوا تھا کہ سامنے ٹین کے بکسوں پر دھرے ڈھیروں رجسٹروں میں سے کئی رجسٹر اٹھاکر دلکش نے اپنی جانب بڑھتے مرید خان کے سر پر دے مارے تھے۔ اور وہ اگلے ہی لمحے کھڑکی سے باہر کود گئی تھی۔ مرید خان کو اس اچانک افتاد کی قطعاً امید نہ تھی۔ ابھی اس نے دونوں بازو سامنے کرکے اپنا چہرہ اور سر بچانے کی کوشش ہی کی تھی کہ اتنی دیر میں دلکش کھڑکی سے کود کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ مرید خان تیزی سے کھڑکی کی طرف لپکا مگر کھڑکی اتنی بڑی نہیں تھی کہ وہ یا ان کا کوئی ساتھی کھڑکی سے کود کر باہر نکل سکتا۔ چنانچہ وہ تینوں بدحواس ہوکر حجرے کے داخلی دروازے کی طرف لپکے تھے۔ مسجد کا چکر کاٹ کر جب وہ حجرے کے پیچھے پہنچے تو تب تک دلکش کھیتوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ وہ تینوں اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کافی دور تک آئے تھے۔ پھر مرید خان نے رک کر حمید کو حکم دیا بابا حمید تو جلدی سے ادھر جیپ لے آ یہ چھوکری کھیتوں میں گھس کر ادھر پکی سڑک کی طرف نکلے گی۔ ہم جیپ میں اُدھر پہنچیں گے اور اسے پکڑ لیں گے۔ لیکن اگر وہ پکی سڑک کی بجائے پیچھے ٹیلوں کی طرف نکل گئی تو مٹھل نے خدشہ ظاہر کیا۔ ہاں یہ تو ہے۔ مرید خان نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔ تو بابا تو ایسا کر کھیتوں میں اس کا پیچھا کر ہم ادھر سے پیچھے آرہے ہیں۔ حمید جیپ لینے چلا گیا تھا جبکہ مرید وہیں رک کر اپنی چڑھی ہوئی سانسیں اعتدال پر لانے کی کوشش کرتا رہا۔ حجرے سے یہاں تک دوڑ کر آنے میں وہ بری طرح ہانپ گیا تھا۔ البتہ مٹھل چھریرے جسم کا پھرتیلا شخص تھا وہ تیزی سے دلکش کے پیچھے دوڑ پڑا تھا۔ دلکش کھیتوں میں راستہ بناتی آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے سمت کا بالکل اندازہ نہیں تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ کھیتوں کے اختتام پر وہ کس جگہ پہنچے گی۔ اُس نے دوڑتے دوڑتے پلٹ کر دیکھا، کافی فاصلے پر اسے مٹھل اپنی جانب آتا دکھائی دیا، لمحہ بھر کو رک کر اُس نے سانس لی اور پھر دوبارہ تیز رفتاری سے دوڑ پڑی۔ کھیتوں کے اختتام پر ایک کھلا میدان تھا۔ میدان میں کہیں کہیں اکا دکا جھاڑیاں اور پیڑ تھے۔ اور تھوڑا آگے اونچے ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ عموماً یہ علاقہ بالکل سنسان پڑا رہتا تھا۔ شاید ہی کوئی بھولا بھٹکا کبھی اس طرف کا رخ کرتا تھا۔ دلکش میدان میں آکر ایک پیڑ سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئی، مسلسل بھاگتے رہنے سے اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ حلق خشک ہوچکا تھا اور وہ بری طرح تھک چکی تھی۔ ابھی اس کی سانس اعتدال پر نہیں آئی تھی کہ اُس نے دور کھیتوں کے آخری سرے سے مٹھل کو نکلتے دیکھا۔ مٹھل نے بھی اسے دیکھ لیا تھا اس لیے اس کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔ دائیں طرف کچی سڑک دور دور تک سنسان پڑی تھی، دلکش نے اپنی چادر سمیٹی اور ایک بار پھر دوڑنے کے لیے تیار ہوگئی۔ مٹھل تیز رفتاری سے اس کی جانب بڑھا چلا آرہا تھا۔ دلکش نے سامنے دور تک پھیلے چھوٹے بڑے اور اونچے نیچے ٹیلوں کی طرف دیکھا، اگر وہ اُن ٹیلوں تک پہنچ جائے تو مٹھل تو کیا وہ حمید اور مرید خان کی نظروں سے بھی محفوظ رہ سکتی تھی۔ چنانچہ اُس نے ایک بار پھر تیزی سے دوڑنا شروع کردیا تھا۔ اتنی دیر میں مٹھل اس کے بالکل سر پر پہنچ چکا تھا، مگر اس سے قبل کہ وہ اسے پکڑ پاتا ٹھوکر کھاکر منہ کے بل زمین پر گرا اور پھر اٹھ نہ سکا۔ کافی دیر بعد حمید جیپ لے کے اس طرف پہنچا تو اُن دونوں نے مٹھل کو بے سدھ زمین پر پڑے پایا۔ مٹھل مرید خان اور حمید نے اسے اٹھایا۔ وہ بے ہوش نہیں تھا مگر ہوش میں بھی نہیں تھا۔ چہرہ مٹی میں اٹ گیا تھا۔ ماتھے پر زخم سے خون رس رہا تھا، گھٹنے بھی چھل گئے تھے۔ پانی پی کے کچھ دیر بعد وہ کچھ بولنے کی حالت میں آیا۔ بابا چھوکری کدھر گئی اور تو اس حال میں کیسے آیا مجھے ٹھوکر لگی تھی مجھے معلوم نہیں میرے گرنے کے بعد وہ کس طرف نکل گئی۔ مٹھل کا جواب سن کر مرید خان نے فکر مند نظروں سے دور تک پھیلے ٹیلوں کی طرف دیکھا۔ ٭ ٭ ٭ دلکش دوڑتی ہوئی ایک سنسان سی جگہ پر پہنچ گئی۔ کچھ دور کچے ٹوٹے پھوٹے گھر دکھائی دے رہے تھے، لگتا تھا کہ جیسے اُن گھروں میں کوئی نہیں رہتا۔ یہ خستہ حال گھر جانے کیوں، اور کب سے خالی پڑے ہوئے تھے۔ سامنے ایک اونچے ٹیلے کے پیچھے ایک پرانا کھنڈر نما گھر نظر آرہا تھا۔ دلکش نے پلٹ کر دیکھا دور ٹیلوں کے درمیان مرید خان اور حمید بھاگتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ اُن دونوں سے خاصے فاصلے پر مٹھل بھی لنگڑاتا ہوا چلا آرہا تھا۔ دلکش ٹیلوں کی آڑ لیتی تیزی سے سامنے والے خستہ حال گھر کی طرف بڑھ گئی۔ سامنے ایک دروازہ تھا جو اس کے ہاتھ لگاتے ہی کھلتا چلا گیا۔ سامنے نیچے کی جانب سیڑھیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ دلکش بے سوچے سمجھے سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔ سیڑھیوں کے اختتام پر ایک دروازہ تھا وہ دھڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ سامنے ایک چھوٹا مستطیل نما کمرہ تھا جس میں دو دروازے موجود تھے۔ وہ قریبی دروازے میں داخل ہوکر ایک نیم تاریک کوٹھری میں جاگھسی۔ وہ تینوں شکستہ اور خالی گھروں کے پاس آکر ٹھہر گئے اور متلاشی نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بدبخت اسی طرف گئی ہوگی۔ مرید خان نے ٹیلے کی آڑ میں موجود کھنڈر نما گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ مرید خان کے ساتھ حمید اور مٹھل بھی گھر کی جانب بڑھے۔ مرید خان کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا نچلے دروازے تک جاپہنچا۔ کمرے میں ایک سفید داڑھی والا بوڑھا پرانی پگڑی باندھے دیوار کے ساتھ کیل پر لٹکی لالٹین اتار رہا تھا۔ مرید خان کے دروازہ کھولنے پر اُس نے پلٹ کر گھبرائے ہوئے انداز میں دیکھا اور بولا۔ مرید خان تم دینو بابا۔ مرید خان نے بوڑھے کو مخاطب کیا۔ وڈیرے کے پنجرے سے ایک بلبل اڑ گئی ہے ادھر تونہیں آئی تب ہی زنجیروں اور ہتھکڑیوں کی تیز آواز سن کر مرید خان نے سامنے کی طرف دیکھا۔ سامنے دروازے میں ایک بوڑھا کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں تھیں۔ کپڑے پرانے اور پھٹے ہوئے تھے اور پائوں چپلوں سے محروم تھے۔ شاباش اس بلبل کی ہمت کو۔ بوڑھے نے تحسین آمیز اور حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ جو اس ظالم صیاد کا قفس توڑ کر نکل بھاگی۔ ہم سے تو وہی اچھی رہی۔ مرید خان نے ناگوار نظروں سے نیم خبطی بوڑھے کی طرف دیکھا پھر دینو بابا سے اشارے سے پوچھا۔ وہ لڑکی ادھر تو نہیں آئی پاتال میں بنے اس قید خانے میں خود سے کون آتا ہے مرید خان دینو بابا نے افسردہ لہجے میں بوڑھے پابہ سلاسل شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہاں تو بندوں کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جاتا ہے۔ اس پاگل کے ساتھ رہتے رہتے تو بھی پاگل ہوگیا ہے۔ مرید خان نے تلخ اور غصیلے لہجے میں کہا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔ اور سارے دروازے کس لیے کھلے پڑے ہیں، اوپر کا دروازہ بھی کھلا ہے دروازے کے پاس رک کر اُس نے سخت لہجے میں دینو بابا سے سوال کیا۔ یہاں موجود قیدی کو برسوں بیت گئے۔ دینو بابا نے دکھ بھرے لہجے میں جواب دیا۔ اب تو وہ باہر کا راستہ بھی بھول گیا۔ دروازہ کھلا رہے یا بند اُسے کیا فرق پڑتا ہے۔ اچھا زیادہ بک بک نہ کر۔ مرید خان نے زچ ہوکر کہا۔ چل دروازہ بند کر اور اگر کوئی خاص بات نظر آئے تو فوراً سائیں کے موبائل پر اطلاع دینا سمجھا۔ مرید خان کے جاتے ہی دینو بابا نے دروازہ بند کرلیا۔ دروازے کی چوکھٹ سے لگا بوڑھا اب تک اسی طرح کھڑا تھا۔ کلائیوں میں بیڑیوں کے باعث زخم پڑگئے تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ سرکار آپ کو اس حال میں پہنچانے میں میرا بھی حصہ ہے۔ دینو بابا بوڑھے کے زخم دیکھ کر بولا۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ میرا اکلوتا بیٹا وڈیرے کے قبضے میں تھا۔ اگر میں یہ سب نہ کرتا تو کیا کرتا دلکش دائیں جانب کی نیم تاریک کوٹھری میں چھپی ہوئی تھی۔ مرید خان کے جاتے ہی وہ کوٹھری سے نکل کر دروازے تک آگئی۔ اب اسے اس لمحے کا انتظار تھا کہ جب یہ دونوں بوڑھے اندر جاتے اور وہ لپک کر سیڑھیاں چڑھتی اوپر جاپہنچتی۔ سرکار میں آپ کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھول دیتا ہوں۔ آپ اس قید و بند سے آزاد ہوجائیں اور یہاں سے نکل جائیں۔ بوڑھے قیدی نے مایوس اور دکھی نظروں سے دینو بابا کی طرف دیکھا اور حسرت بھرے لہجے میں بولا۔ میں کس کے لیے باہر جائوں۔ دینو بابا تڑپ کر بولا۔ مجھے حال ہی میں پتا چلا کہ آپ کا بیٹا سلامت ہے۔ میرا بیٹا بوڑھے نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں سوال کیا۔ جی سرکار آپ کا بیٹا عدیل شاہ دینو بابا کی آواز دلکش کی سماعت تک پہنچی تو وہ حیرت زدہ ہوگئی اور ساری بات سمجھنے میں اسے ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔ اس رات جب وہ حویلی کے پچھلے گیٹ سے کود کر بھاگنے والی تھی، اسے بے ساختہ اُن دو دیہاتیوں کی باتیں یاد آگئی تھیں۔ سائیں عقیل شاہ تو بیوی کے قتل کے بعد اس کے غم میں پاگل ہوکر جانے کس طرف نکل گیا جلیل شاہ نے بہت تلاش کروایا مگر اس کا کچھ پتا نہیں چلا کوئی خبر نہیں ملی اف۔ دلکش نے اپنا سر تھام لیا۔ جلیل شاہ نے اپنی بھاوج کو ناصرف قتل کروایا تھا بلکہ اپنے بڑے بھائی عقیل شاہ کو پاگل ظاہر کرکے اس دور افتادہ ویرانے میں قید کروا دیا تھا۔ باہر دینو بابا عقیل شاہ کو یقین دلانے کی کوشش کررہاتھا کہ اُن کا اکلوتا بیٹا زندہ ہے مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ یقین کریں سرکار نا صرف عدیل شاہ زندہ ہیں بلکہ ابھی ہفتہ دس دن پہلے ان کی شادی بھی ہوئی ہے۔ نہیں دینو یہ سب کہانی ہے عدیل شاہ تو کب کا مرچکا۔ نہیں بابا۔ دلکش ایک دم دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ زندہ حقیقت ہے کہ عدیل شاہ ناصرف زندہ ہے بلکہ پچھلے دنوں اس کی شادی بھی ہوئی ہے۔ کون ہو تم دینو بابا اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ عقیل شاہ بھی حیران اور بے یقین نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ تم یہاں کیسے پہنچیں دینو بابا کے لہجے میں سراسیمگی جھلکنے لگی تھی۔ میں وہ پرندہ ہوں جو شکاری کے جال سے نکل کر اپنی آزادی کے لیے برسرپیکار ہے۔ دلکش نے دھیمے لہجے میں کہا اور قدم بڑھاکر عقیل شاہ کے قریب چلی آئی۔ آپ عقیل شاہ ہیں نا اُس نے ہاتھ پکڑتے ہوئے تصدیق چاہی۔ یہ نام تو میں خود بھی بھول چکا ہوں۔ عقیل شاہ نے حیرت سے دلکش کی طرف دیکھا۔ تم میرا نام کیسے جانتی ہو کبھی کبھی تقدیر خود شناخت کا کتبہ اٹھائے سامنے آجاتی ہے۔ دلکش نے دھیمے لہجے میں کہا۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ دینو بابا جو بات کہہ رہے ہیں، وہ درست ہے۔ نا صرف آپ کا بیٹا عدیل شاہ زندہ ہے بلکہ حال ہی میں اس کی شادی بھی ہوئی ہے۔ مگر۔ عقیل شاہ نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔ تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا تم کیسے جانتی ہو یہ کہانی کیونکہ۔ دلکش نے گہرا سانس لیا۔ اس کہانی کا میں بھی ایک کردار ہوں۔ عقیل شاہ کے اس سوال پر کہ تم کون ہو جانے اس سوال میں ایسا کیا تھا کہ دلکش کا دل پگھل کر آنکھوں سے بہہ نکلا۔ وہ بے اختیار روپڑی اور پھر سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان اُس نے شروع سے آخر تک کی ساری بپتا کہہ سنائی۔ اوہ جلیل شاہ کمینے پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ عقیل شاہ نے غصیلے لہجے میں کہا۔ اُن کے لیے یہ بات انتہائی شرمناک اور کرب انگیز تھی کہ عدیل شاہ کی دلہن کو جلیل شاہ نے بے عزت کرنے کی کوشش کی تھی۔ کاش تم میرے بھائی نہ ہوتے۔ چند لمحوں بعد وہ شرمسار لہجے میں دلکش سے مخاطب ہوئے۔ بیٹی میں تم سے شرمندہ ہوں اور اس نابکار کی اس حرکت میں تم سے معافی کا خواستگار ہوں۔ اوہ بابا۔ دلکش نے بے ساختہ عقیل شاہ کے ہاتھ تھام لیے۔ وہ میرا ہی نہیں، آپ کا بھی مجرم ہے۔ اسی کی وجہ سے تو آپ آج اس مقام پر ہیں اس کا یہ ظلم کچھ کم تو نہیں۔ میری بچی تم سے مل کر مجھے ایک انوکھی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ برسوں سے تاریک پڑے ایوانِ دل میں اجالا پھیل گیا ہے۔ دینو بابا کا مشورہ تھاکہ دلکش شام ڈھلنے کے بعد یہاں سے باہر نکلے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شام ڈھلتے ہی وڈیرے کے گرگے عموماً بھنگ گھوٹنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ مگر دلکش فوری طور پر نکلنا چاہ رہی تھی۔ اسے توقع تھی کہ شاید مصعب اسے تلاش کرتے ہوئے کہیں مل جائیں۔ اس کے اصرار پر دینو بابا اندر گیا تھا اور ایک بڑی اجرک لاکر اسے دی کہ اپنی چادر کے اوپر اسے اوڑھ لیں تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔ سہ پہر ڈھل رہی تھی۔ ہر سمت قبرستان کی سی خاموشی تھی۔ اسے کس طرف جانا چاہیے ابھی وہ فیصلہ نہ کرپائی تھی کہ دور کچی سڑک کی طرف کچھ حرکت سی محسوس ہوئی۔ اُس نے ایک دم ٹیلوں کی جانب دوڑ لگادی۔ پھر وہ ٹیلوں کی آڑ لیتی گائوں کی جانب چل دی۔ دلکش کے جانے کے بعد عقیل ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے والد رئیس خلیل شاہ کے ساتھ زمینوں اور جاگیر کے معاملات میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ رئیس خلیل شاہ اب خاصے بوڑھے ہوچکے تھے۔ جوانی میں ہی اُن کی شریک حیات انہیں تنہا چھوڑ کر ملک عدم کو سدھار گئی تھی۔ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں عقیل شاہ اور جلیل شاہ کی خاطر دوسری شادی نہیں کی تھی اور اپنے دونوں بچوں کو باپ ہی نہیں بلکہ ماں کا بھی پیار دیا تھا۔ عقیل شاہ بڑے تھے اور فطرتاً نیک اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انہیں ناصرف باپ بلکہ چھوٹے بھائی جلیل شاہ سے بھی بے پناہ محبت تھی، مگر جلیل شاہ نے باپ اور بھائی کی محبتوں کا غلط مطلب لیا تھا اور اُن کے لاڈ پیار نے اسے خاصا بگاڑ دیا تھا۔ ضد، خودسری، خودغرضی اور لالچ اس کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔ ٭ ٭ ٭ حارب کے جانے کے بعد انوشہ آذر کے فیصلے کی منتظر تھی۔ اُسے اپنی پسند پر اعتبار تھا ، ساتھ ہی بھائی کی محبت پر بھی بے حد مان تھا۔ جانتی تھی وہ ہرگز ایسا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے جس سے اس کی خوشی غم میں بدل جائے۔ اس کی خوشی کی خاطر وہ کچھ بھی کرسکتے تھے۔ سو انہوں نے انوشہ کی خوشی کی خاطر حارب کو اس گھر کا داماد بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ان کے لیے یہ بات اطمینان اور خوشی کا باعث تھی کہ شادی کے بعد بھی انوشہ اپنے شوہر کے ساتھ اُن کی اور اپنی والدہ کی نظروں کے سامنے اسی گھر میں رہے گی۔ اس سلسلے میں وہ حارب کے شکر گزار تھے کہ وہ انوشہ سے شادی کے بعد اسی گھر میں رہنے پر آمادہ ہوگیا تھا۔ آذر کی رضا مندی نے انوشہ کا دل مسرت سے بھر دیا تھا۔ آذر نیچے لائونج میں بیٹھے ماں کا انتظار کررہے تھے۔ تب ہی اُن کے موبائل کی بب گنگنا اٹھی۔ کنزہ کا فون تھا۔ وہ اُن سے جلد جانے کا سبب پوچھ رہی تھی۔ آذر نے مسکراتے لہجے میں اسے حارب کے بارے میں ساری بات بتادی۔ اوہ اچھا۔ کنزہ کے لہجے میں حیرت کے ساتھ تشویش بھی سمٹ آئی تھی۔ آج سہ پہر کو بھی وہ حارب سے ملنے اس کے ٹھکانے پر گئی تھی۔ وہ اسے انوشہ سے دور رہنے کی تلقین کرنے گئی تھی مگر اس نے اسے دوستی کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ وہ انوشہ کو سیڑھی بناکر آذر تیمور کی بے تحاشا دولت سے انوشہ کا حصہ حاصل کرنا چاہتا تھا، کنزہ کو اس پرکوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ جانتی تھی آذر، انوشہ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور انوشہ کی جس سے بھی شادی ہوتی آذر نہایت دیانت داری سے انوشہ کا حصہ اسے سونپ دیتے۔ اب یہ حصہ اگر حارب کے حصے میں آجاتا تو بھلا کنزہ کا کیا نقصان تھا ابھی وہ آذر سے اس کے فیصلے کے بارے میں سوال کرنا چاہ رہی تھی کہ تب ہی گاڑی کے رکنے کی آواز پر آذر نے جلدی سے کہا۔ شاید مام آگئیں۔ یہ کہہ کر آذر نے فون بند کردیا۔ صاعقہ تیمور ہنستی مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھیں۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب لوٹی تھیں۔ ماں کوخوش دیکھ کر آذر کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھر گئی تھی، ادھر اُدھر کی چند باتوں کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف آگئے تھے۔ انہوں نے حارب سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتاکر کہا۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے مام وہ ہماری انو کی پسند ہے وہ ہر لحاظ سے انو کے لائق ہے بس مام اب آپ بھی اوکے کردیجیے۔ آذر اسے دیکھے بنا میں کس طرح اوکے کرسکتی ہوں۔ آذر کی معصومانہ فرمائش پر انہوں نے قدرے حیرت سے کہا۔ آپ جب حکم کریں وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائے گا۔ چلو ٹھیک ہے آئندہ ہفتے اسے بلوالینا۔ وہ دھیمے سے مسکرائیں۔ میں بھی دیکھ لوںگی کہ اُس لڑکے میں ایسا کیا جادو ہے کہ تم دونوں بہن بھائی اُس کے نام کی مالا جپ رہے ہو۔ ماں کی رضا مندی پر آذر کھل اٹھے تھے۔ ساری بات جان کر انوشہ بھی بے حد مسرور تھی اور صاعقہ تیمور بھی بے حد خوش تھیں۔ آج وہ آذر کے نکاح کی تاریخ طے کرکے آئی تھیں۔ جمعے کو یہ مبارک کام ہونا قرار پایا تھا۔ اب تک انہوں نے نہایت رازداری سے یہ سب کیا تھا حتیٰ کہ انوشہ اور خود آذر اس کارروائی سے لاعلم تھے۔ آذر کو اس شادی کے لیے کس طرح آمادہ کرنا تھا یہ وہ بہت پہلے سوچ چکی تھیں۔ ویسے بھی انہیں آذر کی سعادت مندی اور فرمانبرداری پر بے حد ناز تھا۔ انہوں نے آذر کی شریک زندگی کے لیے ایک اچھی لڑکی کا انتخاب کیا تھا۔ کنزہ جیسی تیز طرار اور عیار لڑکی کے مقابلے میں فریحہ کسی معصوم فرشتے جیسی تھی۔ وہ فریحہ کا انتخاب کرکے بے حد خوش تھیں۔ آخر کار وہ اپنے معصوم اور سیدھے سادے بیٹے کو کنزہ جیسی عیار اور لالچی عورت کے شر سے بچانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ گوکہ نکاح کے لیے ابھی کچھ وقت باقی تھا، اس کے باوجود وہ خود کو کامیاب و کامران محسوس کررہی تھیں۔ ٭ ٭ ٭ دوسری منزل کی منڈیر سے دھوپ نیچے اتر آئی تھی۔ شام کے سرمئی سایے دبے پائوں آگے بڑھتے چلے آرہے تھے۔ سجیلہ نے فائلیں سمیٹ کر رضیہ کو دیں اور گہرا سانس لے کر کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شروع سے ہی اس کا میھتس بہت اچھا تھا۔ اسی لیے تمنا باجی نے اکائونٹ کا سیکشن اس کے حوالے کردیا تھا۔ اکائونٹ سیکشن کے لیے مولوی بشیر خان پہلے سے موجود تھے مگر اب سجو کی وجہ سے انہیں کام میں خاصی آسانی ہوگئی تھی۔ اکائونٹس کے علاوہ وہ اسکول میں اردو پڑھانے کا کام سرانجام دیتی تھی۔ یہ ذمے داری اس نے خود کہہ کرلی تھی۔ ننھے اپاہج بچوں کے بیچ اسے بے انتہا خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ اپنی بے کسی اور اکیلے پن کا احساس قدرے کم ہوجاتا تھا۔ خاص طور پر کرن کی کلاس میں اسے ایک عجب سا اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔ کرن شروع سے ہی اُس سے ایک والہانہ لگائو رکھتی تھی۔ رفتہ رفتہ سجو کو بھی کرن سے انسیت ہوگئی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انسیت محبت میں بدلتی جارہی تھی۔ کرن کا بس چلتا تو وہ ہر دم سجو کے ساتھ ہی رہتی۔ جب موقع ملتا، اس کے پاس چلی آتی اور سجو کے سامنے بیٹھ کر پیار بھری نظروں سے اسے تکے جاتی۔ کرن بھلا اس طرح ہر وقت کیا دیکھتی رہتی ہو سجو نے ایک دن پوچھ ہی لیا۔ پتا نہیں آنٹی۔ کرن نے معصومیت سے جواب دیا۔ بس آپ کو دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ تم خود بھی بہت اچھی ہو۔ اُس نے پیار سے کہا۔ نہیں آنٹی۔ کرن افسردہ لہجے میں بولی۔ اگر میں اچھی ہوتی تو میرے پاپا کیوں مجھے اس طرح اس ادارے میں پھینک دیتے وہ آج تک مجھ سے ملنے نہیں آئے۔ بھلا میں کس طرح اچھی ہوسکتی ہوں کرن کے رنجیدہ لہجے کی تڑپ نے سجو کو تڑپا کر رکھ دیا۔ اس کے پوچھنے پر تمنا باجی نے بتایا تھا۔ ہم تو اپنی سی کوشش کرکے ہار کے بیٹھ گئے ہیں۔ کتنے ہی خطوط بھیج کے دیکھ چکے مگر مصعب احمد کسی چیز کا کوئی جواب دیتا نہ فون ہی ریسیو کرتا ہے۔ صولت آپا کئی بار اس کے گھر اس سے ملنے بھی گئیں کئی کئی گھنٹے اس کے دروازے پر انتظار کرکے لوٹ آئیں مگر اس نے ایک بار بھی ملنا گوارا نہیں کیا۔ عجب سنگ دل اور بے رحم انسان ہے۔ سجو نے افسردہ اور دکھی لہجے میں کہا۔ آپ مجھے پلیز اس کی تفصیلات بتائیے۔ اور اس بات کے جواب میں تمنا باجی نے کرن کی فائل نکلواکر سجو کے حوالے کردی۔ رات کے کھانے کے بعد اپنے بستر پر بیٹھ کر اس نے وہ فائل کھولی۔ فائل کھولتے ہی پہلے صفحے پر کرن کے والد ایڈووکیٹ مصعب کی تصویر لگی تھی۔ ساتھ ہی نام، پتا اور دیگر تفصیلات تحریر تھیں۔ سجو تفصیلات پر سرسری نظر ڈالتی تصویر کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔ دلکش اور مسکراتی آنکھوں والا یہ نرم و گداز سا انسان اس قدر سخت کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس نے پچھلے دس برسوں میں ایک بار بھی اپنی اپاہج بیٹی کی خبر نہیں لی تھی۔ سجو تصویر سے نظر ہٹاکر دوسرے صفحے پر موجود تفصیلات پڑھنے لگی، اس میں وہی کچھ تحریر تھا جو تمنا باجی اُسے بتاچکی تھیں۔ چہیتی بیوی کے انتقال کے بعد وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا اور اپنی بیوی کی موت کا ذمہ دار اپنی اپاہج بیٹی کو سمجھنے لگا تھا۔ اسے بیٹی سے شدید نفرت ہوگئی تھی اور اس نے بچی پر اک نگاہ ڈالنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ اس نے میٹرنٹی ہوم کی ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر مسز تمنا آغا سے رابطہ کرکے بچی کو ادارے میں داخل کرنے کی درخواست کی تو مسز آغا نے کرن کو اپنی آغوش محبت میں سمیٹ لیا تھا۔ اب تک دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ رفتہ رفتہ مصعب کی دماغی حالت بہترہوگئی تھی۔ اس کے باوجود اس نے دنیا سے رابطہ توڑ کر تنہائی کو اپنا مقدر بنالیا تھا۔ برسوں پہلے وکالت بھی چھوڑ دی تھی اور اب کچھ جائداد اور زمینوں سے آنے والی آمدن کے سہارے زندگی بسر ہورہی تھی۔ بیگم تمنا کے بار بار بلوانے کے باوجود مصعب ایک بار بھی اس ادارے میں نہیں آیا تھا۔ البتہ ہر چھ ماہ بعد اس کا گھریلو ملازم فضل دین ایک خاصی بڑی رقم کا چیک ادارے کو دے جاتا تھا اور بچی کی خیر خبر لے جاتا تھا۔ مصعب کی یہ بات سجو کے لیے حیران کن ہونے کے ساتھ خوش آئند بھی تھی کہ اتنی نفرت، دوری اور فاصلے کے باوجود اسے اپنی ذمہ داری کا احساس تھا۔ اس کے پتھر دل میں کہیں نہ کہیں بیٹی کے لیے نرم گوشہ موجود تھا۔ وہ ایک بار پھر اس کی تصویر کی طرف متوجہ ہوگئی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ خمار آلود آنکھیں کسی کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ان روشن آنکھوں سے اپنائیت کا احساس چھلکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ سجو کو یکایک اپنا دل عجب سے انداز میں دھڑکتا محسوس ہوا۔ ہوش سنبھالنے سے اب تک کبھی اس کا دل اس انداز سے نہیں دھڑکا تھا۔ زندگی میں آج پہلی بار اس کی سوچوں کی سنسان ڈگر پر اس انجانے اجنبی شخص کے قدموں کی آہٹ جاگ اٹھی تھی اور اپنے اس پاگل پن پر وہ حیران اور پریشان ہوگئی تھی۔ شاید اکیلے پن کے احساس نے اسے اس قدر زودرنج بنادیا تھا۔ وقت کے عفریت نے ایک ایک کرکے اس کے ہر رشتے کو نگل لیا تھا۔ اب جیون بتانے کے لیے نئے رشتوں کی ضرورت تو تھی اور آج اس پل مصعب کی تصویر دیکھ کر اس کا دل بالکل اچانک ہی ایک نئے رشتے کی تمنا کر بیٹھا تھا۔ وہ نگاہ چرا کر ایک بار پھر مصعب کی تصویر دیکھنے لگی۔ کرن کی شکل اس سے بہت ملتی جلتی تھی۔ کرن کا خیال آتے ہی اسے خیال آیا کہ کرن نے کیسے پہلی ہی نگاہ میں اس سے کیسا اٹوٹ رشتہ قائم کرلیا تھا اور باپ نے تصویر کے ذریعے اسے تسخیر کرلیا تھا۔ سجو بٹیا تمہارے لیے چائے لے آئوں۔ رضیہ کی آواز پر وہ چونک کر سیدھی ہوتے ہوئے بولی۔ نہیں میں کرن کی فائل دیکھ رہی تھی۔ تم کبھی کرن کے والد سے ملی ہو نہیں، وہ کبھی یہاں نہیں آئے۔ رضیہ نے تصویر پر نگاہ ڈالتے ہوئے دھیمے لہجے میںکہا۔ سنا ہے بیوی سے بہت محبت کرتے تھے۔ بچی کی ولادت میں بیوی کا انتقال ہوگیا۔ بس اس کے بعد دنیا تیاگ کر گوشہ نشین ہوگئے، بہت کامیاب وکیل تھے، وکالت بھی چھوڑ دی۔ یہ ان کی دس سال پرانی تصویر ہے۔ رضیہ نے تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ بیوی کی موت کے صدمے نے ان کا دماغی توازن بگاڑ دیا تھا۔ جانے ان دس سالوں میں ان کی شکل و شباہت میں کتنا فرق آیا ہوگا۔ یہ بات تو سجو نے سوچی بھی نہیں تھی۔ واقعی دس سالوں میں مصعب میں جانے کتنی تبدیلیاں آئی ہوں گی اس سے ملنے اور اسے دیکھنے کی شدید خواہش یکایک ہی اس کے دل میں جاگ اٹھی تھی۔ رضیہ تم آفس سے ایک لفافہ لے آئو۔ میں مصعب صاحب کو ایک لیٹر بھیجنا چاہتی ہوں۔ جی بہتر۔ رضیہ کے جانے کے بعد سجو ایک بار پھر مصعب کی تصویر کی طرف متوجہ ہوگئی۔ یک ٹک تصویر کو تکنے کے بعد اس نے فائل بند کردی۔ کتنی عجیب اور ناقابل یقین بات تھی کہ وہ اس فائل میں کرن کے گمشدہ باپ کو تلاش کرنے چلی تھی مگر ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خود کو کہیں کھوبیٹھی ہے۔ ٭ ٭ ٭ حارب اور آذر کی ملاقات نے کنزہ کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ گو کہ خود حارب اسے اپنے ارادے سے آگاہ کرچکا تھا اور اس سے دوستی کا ہاتھ ملانے کے بعد اسے کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس خبر نے اسے ایک عجب سی رنجیدگی میں مبتلا کردیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ دونوں کالج میں پڑھتے تھے تو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ وہ دونوں ہی دولت کی تلاش میں تھے مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے محبت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ جہاں تک کنزہ کا تعلق تھا ہوش سنبھالتے ہی یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی کہ دولت کے بغیر یہ زندگی بے رنگ بے معنٰی اور بے قیمت ہے۔ صرف چھ برس کی عمر میں باپ کے انتقال کے بعد اس کے چچا نے ان کے گھر پر قبضہ کرکے اسے اور اس کی ماں شمسہ کو گھر سے نکال دیا تھا۔ اس کی ماں اسے لے کے اپنے ایک دور پرے کے رشتے دار کے گھر چلی آئی تھی۔ سلطان ماموں نے بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا تھا مگر ان کی بیوی نادرہ ممانی اور ان کے نو سالہ بیٹے واحد نے کسی خاص خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ ممانی کے چہرے پر باقاعدہ ناگواری اور بے زاری کے آثار تھے۔ خود کنزہ کو یہ ٹوٹا پھوٹا کچا چھوٹا سا مکان اور مکان کے چھوٹے دل کے مکین پسند نہیں آئے تھے۔ خاص طور پر ممانی اور ان کا بدتمیز بیٹا، مگر سلطان ماموں کا رویہ اس کے اور اس کی ماں کے ساتھ بے حد اچھا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نادرہ ممانی کی فطرت کھل کر سامنے آگئی تھی۔ اس کی بے زبان ماں نے پورے گھر کی ذمے داری اٹھالی تھی۔ صبح سے رات تک نوکرانی کی طرح گھر کے کام کاج میں لگی رہتی مگر نادرہ ممانی پھر بھی لڑائی جھگڑے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی۔ تب اس کی ماں نے کہیں نوکری کرلینے کے بارے میں سوچا مگر اس سے پہلے کہ وہ کہیں نوکری کرتی نادرہ ممانی نے خود ایک فیکٹری میںنوکری کرلی۔ وہ صبح گھر سے نکلتی اور رات گئے گھر میں داخل ہوتی۔ شمسہ نوکرانی کی طرح اس کے سامنے کھانا رکھتی اور وہ بیگموں کی طرح کھانا کھاکر پائوں پسار کر سوجاتی۔ اسے گھر، شوہر اور بچے سے کوئی غرض نہ تھی۔ وہ جلد از جلد بہت ساری دولت کما لینا چاہتی تھی۔ خود اس کا بیٹا واحد بھی چھوٹی سی عمر میں پیسے کی طمع کا شکار ہوگیا تھا، ماںکی ہر وقت کی پیسے پیسے کی رٹ نے واحد کے دل میں بھی دولت کی طلب جگادی تھی۔ وہ جس اسکول میں پڑھتا تھا، اسے جب موقع ملتا وہ کسی نہ کسی بچے کے پیسے، کتابیں اور دیگر اشیا اڑا لیتا۔ پھر وہ ان کتابوں کو ردی میں بیچ کر پیسے کھرے کرلیتا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر سلطان ماموں اسے اپنے سیٹھ کے پاس لے گئے تھے۔ ان کا سیٹھ ایک بے حد اچھا انسان تھا۔ اس نے واحد کی تعلیم و تربیت کا ذمہ لے لیا تھا۔ اس کی بیگم نے واحد کو ایک بہت اچھے اسکول میں داخل کرادیا۔ مگر جلدہی وہ وہاں سے بھاگ کر دوبارہ اپنی ماںکے پاس آگیا۔ نادرہ ممانی کی بے اعتنائی اور گھر کے کشیدہ ماحول کے باعث سلطان ماموں بے حد بددل اور دکھی رہنے لگے تھے۔ ان کے اندر کا اکیلاپن انہیں شمسہ کی طرف راغب کرنے کا باعث بن گیا اور ایک رات وہ شمسہ کو ساتھ لے کر اس گھر اور اس شہر سے کہیں دور چلے گئے۔ ممانی پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ جس سلطان کو وہ منہ نہیں لگاتی تھیں اس کے جانے کے بعد اب رات دن تڑپتی دامن پھیلا پھیلا کر ان دونوں کو بددعائیں دیتی تھیں۔ شاید ان کی بد دعائوں کا ہی اثر تھا کہ ایک دن اطلاع ملی کی سلطان اور شمسہ ملتان جاتے ہوئے ٹرین کے حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ خبر نادرہ ممانی کے لیے بے حد تسکین و مسرت کا باعث تھی۔ اس نے اگلے ہی دن کنزہ کو یتیم خانے میں داخل کرادیا اور گھر بیچ کر واحد کو ساتھ لے کر فیکٹری کے کوارٹر میں شفٹ ہوگئی۔ یتیم خانے میں کنزہ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ وہ دولت مند بننا چاہتی تھی اور اس مقصد کے حصول کے لیے اسے سمجھایا گیا تھا کہ اسے خوب دل لگاکر تعلیم حاصل کرنی چاہیے تاکہ پڑھ لکھ کر کسی بڑے عہدے پر فائز ہوکر خوب دولت کما سکے۔ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی اور اس نے خو ب دل لگا کر پڑھنا شروع کردیا تھا۔ میٹرک میں اس کی پہلی پوزیشن آئی تھی۔ اس کی تعلیمی لگن اور کارکردگی دیکھتے ہوئے اسے یتیم خانے کی طرف سے شہر کے سب سے بڑے کالج میں داخلہ دلوایا گیا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور وہ انٹر پاس کرکے تھرڈ ایئر میں آگئی۔ وقت نے اسے خاصا بدل دیا تھا۔ اب وہ چھ سال کی معصوم سہمی ہوئی کنزہ نہیں رہی تھی بلکہ اب وہ ایک حسین پُرکشش دوشیزہ بن چکی تھی۔ وقت کے ساتھ ایک بات اور اس کی سمجھ میںآئی تھی کہ تعلیم کا حصول اپنی جگہ مگر حصول دولت کے لیے تعلیم کے علاوہ بھی کئی راستے ہیں اور انہی راستوں میں سے ایک راستہ یہ بھی ہے کہ کسی رئیس زادے کو اپنے حسن کے جال میں پھنساکر اس کی دولت پر عیش بھری زندگی گزاری جائے اور سوچ کا یہی زاویہ اسے حارب کے قریب لے گیا تھا۔ حارب اس سے دو سال سینئر تھا اور لباس و انداز اور رکھ رکھائو سے خاصا دولت مند نظر آتا تھا۔ اسے دیکھ کر کنزہ کو ایک غیر محسوس سی شناسائی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اسے بہت دولت مند سمجھ کے اس کے قریب آئی تھی مگر جلدہی اسے احساس ہوگیا کہ حارب بھی اسی کی طرح ایک قلاش انسان ہے، اس کے باپ کا انتقال ہوچکا تھا اور ماں کسی فیکٹری میں کام کرتی تھی اور اس کے تعلیمی اخراجات کسی سیٹھ کی بیگم اٹھاتی تھی۔ اصلیت جان کر کنزہ کو مایوسی ہوئی تھی۔ وہ اپنا دامن چھڑاکر الگ ہوجانا چاہتی تھی، مگر دلوں میں موجود محبت نے اسے ایسا نہ کرنے دیا اور چاہتے ہوئے بھی وہ حارب سے الگ نہ ہوسکی۔ خود حارب بھی کسی دولت مند لڑکی کی تلاش میں تھا۔ اس کی ماں بھی اپنے بیٹے کی وجاہت اور صلاحیت سے واقف تھی اسی لیے وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ اپنے شاندار بیٹے کی شادی کسی بہت ہی دولتمند گھرانے میں کرے تاکہ اس کی دولت کی ہوس پوری ہوسکے مگر حارب نا چاہتے ہوئے بھی کنزہ کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا اور اب ان دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جب وہ اسے اپنی ماں سے ملوانے اپنے گھر لے کے آیا تو حارب کی ماں نے کنزہ کو دیکھتے ہی ہذیانی انداز میں چیخ کر کہا۔ شمسہ کی منحوس بیٹی، تیری ماں نے مجھ سے میرا شوہر چھینا اور تو اب مجھ سے میرا بیٹا چھیننے آئی ہے۔ اور اب اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ حارب کو دیکھ کر جو اسے شناسائی اور انسیت کا احساس ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی بچپن کی یادوں کا حصہ تھا، سلطان ماموں کا بیٹا تھا۔ واحد جس سے وہ بچپن میں ہمیشہ نفرت کرتی رہی تھی اسے حیرت تھی کہ وہ اس بدتمیز لڑکے کو پہچان کیوں نہ سکی اور یوں اس کی اور حارب کی محبت کی کہانی ادھوری رہ گئی۔ گو کہ اسے اس کہانی کے ادھورا رہ جانے کا کوئی خاص صدمہ نہیں ہوا تھا۔ خود حارب کے انداز سے بھی کسی دکھ کا پتا نہیں چلتا تھا۔ دونوں آسانی سے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے۔ کنزہ کی نگاہیں اب کسی دولت مند لڑکے کی تلاش میں تھیں۔ تلاش بسیار کے بعد اس کی نگاہ انتخاب آذر تیمور پر آٹھہری تھی۔ حیدرآباد سے کراچی آنے کے بعد آذر کی فرم میں ملازمت اختیار کرنے سے قبل اس نے باقاعدہ آذر کی ماں صاعقہ تیمور اور اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں پوری تحقیق کی تھی اور اس سلسلے میں وہ حارب کی ماں کی بھی شکر گزار تھی کہ اگر وہ اسے نہ بتاتی تو وہ آذر کے ماضی کے بارے میں اتنا کچھ نہ جان پاتی۔ آذر سے زیادہ اس کی ماں صاعقہ تیمور کا ماضی معنٰی خیز اور اہم تھا۔ جوں جوں وہ ان کے ماضی اور حال کے بارے میں معلومات اکٹھا کرتی رہی اسے اپنی کامیابی کا یقین بڑھتا گیا۔ پھر وہ باقاعدہ تیاری اور منصوبے کے ساتھ سرفراز سے ملی اور سرفراز نے اس کی تعلیمی لیاقت، قابلیت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ملازم رکھ لیا۔ جب اس نے پہلی بار آذر کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئی تھی۔ اتنی عیار، چالاک اور جوڑ توڑ کی ماہر ماں کا بیٹا اتنا سادہ اور معصوم ہوگا اس کا کام آسان ہوگیا تھا۔ آذر جیسے سادہ لوح انسان کو محبت کے جال میں پھنسانا کون سا مشکل کام تھا۔ لیکن جلدہی اسے احساس ہوگیا کہ صاعقہ تیمور جیسی ماں کی موجودگی میں اس کے چہیتے بیٹے کو زلفِ گرہ گیر کا اسیر بنانا، اتنا آسان نہیں تھا۔ مگر اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ اسے ہر حال میں اپنے مشن میں کامیاب ہونا تھا۔ دوسری طرف بیگم تیمور نے بھی بھانپ لیا تھا کہ وہ اس فرم میں محض جاب کرنے نہیں آئی بلکہ اس کے عزائم خطرناک ہیں۔ سو انہوں نے بھی آذر کو کنزہ سے بچانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا۔ حارب کی انوشہ سے شادی کی پیش رفت دیکھ کر جانے کیوں کنزہ کو ایک عجیب سی تکلیف محسوس ہوئی تھی اور اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب اسے بھی اپنی محبت کا سفر آگے بڑھانا ہوگا۔ اب اسے بھی کھل کر آذر کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہوگا۔ سو اس نے دل میں مصمم ارادہ کرلیا کہ آج وہ آذر کے سامنے اپنا دل کھول کے رکھ دے گی سو وہ بہت اہتمام سے تیار ہوئی اور بہت جلد آفس پہنچ گئی۔ عموماً آذر نو بجے تک آفس پہنچ جاتے تھے مگر اب دس بجنے کو تھے۔ وہ بے چینی سے ان کا انتظار کررہی تھی، کئی بار دل چاہا انہیں فون کرکے پوچھے مگر وہ اپنی اس خواہش کو دباتی رہی۔ کوئی سوا دس کے قریب آذر آفس پہنچے تھے، انہیں دیکھ کر اس کا دل عجب انداز سے دھڑک اٹھا تھا۔ معمول کی کارروائی کے بعد وہ کافی کے گرم کپ لیے ان کے پاس جا پہنچی تھی۔ کافی کا مگ آذر کے سامنے رکھتے ہوئے کنزہ نے سرسری سے لہجے میں سوال کیا۔ کل آپ نے فون پر بتایا تھا کہ انوشہ کے سلسلے میں کوئی لڑکا آپ سے ملنے آیا تھا آپ کو کیسا لگا حارب آذر کے لہجے میں پیار اور اپنا پن سمٹ آیا۔ بہت اچھا لڑکا ہے ابھی اس کی مام سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مام مل لیں گی تب ہی شادی کا فیصلہ ہوگا۔ آپ انوشہ میم سے عمر میں بڑے ہیں۔ کنزہ نے اچانک سوال کیا۔ اصولاً انوشہ میم سے پہلے آپ کی شادی ہونی چاہیے۔ میری شادی آذر اپنی شادی کے ذکر پر قدرے جھینپ کر بولے۔ اس بارے میں کبھی سوچا نہیں۔ ویسے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کنزہ کے سوال پر وہ مسکراکر بولے۔ میرا خیال ہے یہ مام کا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ جب انوشہ میم اپنے لیے کسی لڑکے کو پسند کرسکتی ہیں تو آپ کیوں نہیں کنزہ کی بات میں وزن تھا۔ اب دیکھیے نا انسان کی اپنی بھی کوئی پسند ہوتی ہے۔ کبھی کوئی چہرہ اچھا لگتا ہے۔ کبھی کسی کی کوئی بات، کوئی ادا اچھی لگتی ہے۔ کنزہ۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں اسے مخاطب کیا۔ زندگی کی راہ میں بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں مگر ہر اچھے لگنے والے فرد سے آپ شادی تو نہیں کرسکتے شادی کے لیے کیا ہونا چاہیے میرا مطلب ہے کنزہ نے پرتجسس لہجے میں سوال کیا۔ شادی کے لیے صرف ایک چیز ہونی چاہیے۔ آذر نے بحث سمیٹتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ماں کا اپروول۔ میرا مطلب ہے ماں کی اجازت ۔ سچ کہوں کہ میں نے آج تک کبھی اس سلسلے میں نہیں سوچا کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ مام کا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ بیٹوں کی شادی کا خواب مائوں کی آنکھوں میں پنپتا ہے تو اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا حق بھی ان کو ہی ہونا چاہیے۔ کنزہ نے کوئی جواب نہیں دیا بس آنکھوں میں بے بسی اور حیرانی لیے آذر کو دیکھے گئی۔ ٭ ٭ ٭ آذر جس قدر راست گو، معصوم اور بے ریا انسان تھے، صاعقہ تیمور ان کے بالکل برعکس تھیں۔ انہوں نے پہلے دن ہی کنزہ کے عزائم کا اندازہ کر لیا تھا اور ہر قیمت پر آذر کو کنزہ کے شر سے بچانا چاہتی تھیں۔ اس وقت وہ اپنے بیڈ روم میں بیٹھی اس مسئلے پر غور کر رہی تھیں۔ آج جمعہ تھا اور آج شام کو آذر اور فریحہ کا نکاح تھا جبکہ انہوں نے یہ بات اب تک آذر کو نہیں بتائی تھی۔ انہوں نے وال کلاک کی طرف دیکھا اور موبائل نکال کر سرفراز کا نمبر ملانے لگیں۔ ٭ ٭ ٭ کنزہ آہستگی سے ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔ آذر صاحب۔ اس نے دھیمے سروں میں انہیں پکارا۔ وہ انہیں ہمیشہ سر ہی کہتی تھی مگر اس وقت اس کا آذر صاحب کہنا انہیں عجیب سا لگا مگر برا نہیں لگا۔ میرا آپ کا نام لینا آپ کو برا تو نہیں لگا۔ اس کے سوال پر وہ بے ساختہ ہنس پڑے۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ سے ایک سوال کروں۔ کنزہ کے لہجے کی معنی خیزی پر آذر نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ بولے کچھ نہیں۔ سر آپ نے کبھی کسی سے محبت کی ہے کنزہ نے براہ راست ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا اور وہ اس غیر متوقع سوال پر سٹپٹا گئے تھے۔ اگر آپ مجھ سے یہ سوال کرتے کئی لمحوں تک انتظار کرنے کے بعد کنزہ نے دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا۔ تو میرا جواب اثبات میں ہوتا۔ آج سے چار ماہ قبل اگر کسی نے مجھ سے یہی سوال کیا ہوتا۔ تو میں حیرت سے الٹا اس سے سوال کرتی کہ، بھلا یہ محبت کس چڑیا کا نام ہے مگر آج میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ میں محبت کرتی ہوں، شدید اور بے پناہ اپنے دل کی تمام گہرائیوں اور روح کی تمام تر سچائیوں کے ساتھ آذر حیرت اور دلچسپی سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ آپ یہ نہیں پوچھیں گے میں کس سے محبت کرتی ہوں آذر منہ سے کچھ نہیں بولے۔ مگر ان کی بڑی اور گہری آنکھوں میں بڑا واضح سوال تھا۔ میں آپ کو بتاتی ہوں کنزہ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ وہ شخص جو مجھے بے حد عزیز ہے وہ کنزہ کا جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ دھڑ سے دروازہ کھلا اور سرفراز گھبرائے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ میں بلااجازت کمرے میں داخل ہونے پر معافی کا خواستگار ہوں مگر کیا کروں بات ہی ایسی ہے آپ کی والدہ والدہ آذر نے سوالیہ نظروں سے سرفراز کی طرف دیکھا۔ پھر حیرت سے بولے۔ یو مین مام جی آپ کی مام سرفراز صاحب کے لہجے میں ملال کے ساتھ وحشت بھی شامل ہو گئی۔ انہیں دل دل کا دورہ انہوں نے مارے گھبراہٹ کے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ کیا کہہ رہے ہیں آپ آذر بے تابانہ سرفراز کی طرف بڑھے تھے۔ ہاں۔آذر میاں، آپ کو فوراً میرے ساتھ گھر چلنا ہو گا ۔ انہوں نے آذر کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ کنزہ حیرت بھری نظروں سے آذر کی پریشانی اور وحشت دیکھ رہی تھی۔ اسے سرفراز کی اس غیر متوقع آمد اور اس بے جا دخل در معقولات پر غصہ آرہا تھا۔ کس مشکل سے وہ آج آذر کو محبت کے موضوع پر بولنے پر آمادہ کر پائی تھی اور مہینوں بعد پہلی بار اسے یہ موقع ملا تھا کہ وہ اپنا دل کھول کے ان کے سامنے رکھ دے۔ مگر سرفراز رنگ میں بھنگ ڈالنے آگئے تھے۔ اگر وہ دس منٹ اور نہ آتے تو وہ اظہار محبت کر کے ان سے اقرار محبت لینے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔ مگر وہ کیسے وقت پر نازل ہو گئے تھے اور خوشگوار کہانی کا رخ اچانک ٹریجڈی کی طرف مڑ گیا تھا۔ ماں کی بیماری کی خبر سنتے ہی آذر بے تابانہ سرفراز کے ساتھ فوراً روانہ ہو گئے تھے۔ اور وہ گہرا سانس لے کر دھپ سے کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ ٭ ٭ ٭ آذر ، سرفراز کے ساتھ گھر پہنچے توماں کو بے سدھ بستر پہ پڑے پایا۔ مام۔ وہ دیوانہ وار ماں کی طرف لپکے۔ ڈاکٹر بھی موجود تھا جس نے بتایا کہ مائنر ہارٹ اٹیک تھا۔ مگر اب بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور ان کی کسی بات انکار کر کے انہیں صدمہ نہ پہنچایا جائے ورنہ صورت حال خطر ناک ثابت ہوسکتی ہے۔ پلیز ڈاکٹر آذر تڑپ کر بولے۔ پلیز ایسی بات نہ کریں۔ آذر۔ بیگم تیمور نے ان کا ہاتھ تھام کر انہیںاپنے قریب بٹھا لیا۔ مجھے تمہاری محبت پہ ناز ہے میری ایک خواہش ہے میں مرنے سے پہلے تمہارے سر پہ سہرا دیکھنا چاہتی ہوں پچھلے دنوں ایک تقریب میں مجھے ایک بہت ہی اچھے خاندان کی بے حد پیاری لڑکی نظر آئی تھی۔ وہ سانس لینے کو رکیں۔ اسے دیکھتے ہی میرے دل نے کہا میں اسے تمہاری دلہن بنائوں گی۔ بس میں نے ان سے رابطہ کیا اور وہ لوگ راضی ہو گئے۔ آذر حیران نظروں سے ماں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ تو خوشی کی خبر ہے۔ سرفراز درمیان میں مسرور لہجے میں بولے۔ بیگم صاحبہ آپ کو مبارک ہو۔ شکریہ سرفراز صاحب۔ وہ پہلی بار مسکرائیں۔ پھر آذر کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ میں نے تم سے پوچھے بنا تمہارا رشتہ طے کر دیا، تمہیں برا تو نہیں لگا۔ آذر کے نفی میں سر ہلانے پر وہ پھر گویا ہوئیں۔ تو بس پھر ٹھیک ہے میں آج ہی اپنے بیٹے کو دولہا بنائوںگی۔ سرفراز صاحب بارات کی تیاری کیجیے۔ ہم آج ہی اپنے بیٹے کا نکاح کریں گے۔ مگر مام آذر اس اچانک افتاد پہ حیران ہونے کے ساتھ پریشان بھی ہو گئے تھے۔ یوں اچانک۔ منع مت کرنا بیٹا۔ بیگم تیمور نے التجا کی ۔ میں لڑکی کے گھر والوں سے بات کر چکی ہوں۔ میری طبیعت کے پیش نظر وہ بھی رضا مند ہوگئے اب تم بھی مان جائو۔ میں تمہیں دولہا بنے دیکھنا چاہتی ہوں۔ ماننے کے سوا چارہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔ مجھے تم سے یہی امید تھی۔ بیگم تیمور نے آذر کو تھام کر گلے سے لگالیا۔ سرفراز صاحب۔ پھر وہ سرفراز صاحب سے مخاطب ہوئیں۔ ہمیں شام سات بجے روانہ ہونا ہے۔ اب ان کی آواز کی نقاہت بالکل غائب ہو چکی تھی۔ آپ آذر کو اپنے ساتھ لے جائیں اور میرے بیٹے کو بہت شان سے دولہا بنائیے۔ شیروانی، کلاہ اور دیگر سامان آذر کے بیڈ روم میں موجود ہے۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 110 | https://www.urduzone.net/kahan-ho-tum-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 111 | https://www.urduzone.net/parwaz-episode-6/ | کارلا ابھی دروازے سے اندر داخل بھی نہیں ہوئی تھی کہ میں دوڑ کر اس تک پہنچی اور میں نے ای میل کے وہ پرنٹ آئوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیئے۔ وہ اندر آکر ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور کاغذات کھول کر پڑھنے لگی۔ جیسے جیسے وہ انہیں پڑھتی جاتی تھی، اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جاتی تھیں۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔ یہ تم نے کہاں سے لی ہے پہلے سب پڑھ لو۔ میں نے رپورٹس کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ ان چیزوں کو زیادہ اچھی طرح سمجھتی ہے۔ میں بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ ممی کی طرح وہ بھی ان کاغذات کو کوئی اہمیت نہیں دے گی، مگر اس کا ردعمل بہت مختلف تھا۔ ممی کے مقابلے میں بالکل مختلف تم نے یہ سب ممی کو دکھایا ہے ہاں میں نے بولے بغیر اثبات میں سر ہلایا۔ انہوں نے کیا کہا یہ سب کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ میں نے سرگوشی میں کہا۔ کارلا چند لمحے میرے چہرے کی طرف تکتی رہی۔ پھر کچھ سوچ کر بولی۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں حقائق معلوم کرنے چاہئیں۔ کیسے حقائق میں نے پوچھا۔ یہی کہ اس میں کوئی غلط فہمی ہے یا نہیں یہ درست کیسے ہوسکتی ہے کارلا اس میں ضرور خاموش اس نے اشارے سے مجھے چپ رہنے کے لئے کہا۔ ابھی ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ مگر ہمیں اتنا تو معلوم ہے کہ میں ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہوں۔ میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی، گھر سے باہر میرے لئے موت ہے اور کچھ نہیں کارلا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم معلوم ہوتی تھی۔ اس نے ایک آدھ بار نگاہ اٹھا کر یوں میری طرف دیکھا جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر کہہ نہ پاتی ہو یا کہنا نہ چاہتی ہو۔ کارلا تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ نہیں کوئی بات ضرور ہے۔ میں نے اصرار کیا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور بولی۔ قسم سے مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن کبھی کبھی مجھے شک سا ہوتا ہے۔ شک مثلاً کیا کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہوسکتا ہے تمہاری ممی کی تشخیص میں کوئی خامی ہو۔ میں ٹھٹھک گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے کمرے میں یکلخت آکسیجن کی کمی ہوگئی ہے۔ میں کسی سرنگ میں گھر گئی ہوں، جس کی دیواریں مجھے پیس دینے کے لئے میری طرف بڑھ رہی ہیں۔ مجھے شدید متلی ہونے لگی۔ میں اٹھ کر واش روم کی طرف دوڑی اور الٹی کرنے کی کوشش کی مگر میری پسلیوں میں شدید کھنچائو کے باوجود میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ میں نے اپنی بے چینی اور حدت دور کرنے کو منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھپاکے مارے۔ کارلا کی بات مجھ پر بری طرح طاری ہوگئی تھی۔ میں بیسن کا سہارا لئے بمشکل اپنے قدموں پر کھڑی تھی، کارلا نے آکر مجھے تھاما۔ میں باربار کہہ رہی تھی۔ میں اس بات کو ضرور معلوم کروں گی۔ مجھے ایک دن دو، میں غور کرتی ہوں۔ کارلا نے مجھے اپنے ساتھ لپٹانا چاہا۔ میں نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔ میں نے اسے خود سے علیحدہ کرلیا اور قطعی لہجے میں کہا۔ مجھے حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔ میں حقائق جاننا چاہتی ہوں۔ ٭ ٭ ٭ میں چاہتی تھی کہ کسی طرح سوجائوں تاکہ میرا دماغ ان سوچوں سے نجات حاصل کرسکے، جنہوں نے میرے اندر ہلچل مچا رکھی تھی، لیکن ایسا کیسے ممکن تھا۔ میرا دماغ جیسے ایک ایسا کمرہ بن گیا تھا جس میں ہر طرف دروازے تھے اور ان سے بہت کچھ اندر آتا رہتا تھا جسے روکا نہیں جاسکتا تھا۔ کارلا کی بات میرے اندر جیسے کھب کر رہ گئی تھی کہ ہوسکتا ہے تمہاری ممی کی تشخیص میں کوئی خامی ہو۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ ابھی ایک بجا تھا۔ کارلا کے آنے میں پورے سات گھنٹے باقی تھے۔ ہم نے سوچا تھا کہ وہ میرے کچھ بلڈ ٹیسٹ کرے گی اور ہم انہیں اس بیماری کے اسپیشلسٹ کے پاس بھیجیں گے تاکہ دوسری ماہرانہ رائے بھی لی جاسکے لیکن ابھی سات گھنٹے باقی تھے۔ مجھے سو جانا چاہئے تھا کہ وقت گزرنے کا پتا نہ چلے۔ میں نے اسی ارادے سے آنکھیں بند کرلیں اور جب انہیں کھولا تو ابھی ایک بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ میرے اندر شدید بے چینی نے سر اٹھایا۔ میں پورے سات گھنٹے انتظار نہیں کرسکتی تھی۔ اتنی مدت میرے لئے صبر کرنا بہت مشکل تھا۔ مجھے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ مجھے سچ کو تلاش کرنا ہوگا۔ میں پھر ممی کے ہوم آفس کی طرف چل پڑی، حالانکہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ دوڑ کر وہاں تک پہنچوں مگر ممی کے جاگ جانے کا خطرہ تھا۔ ایک لمحے کو میں ہچکچائی کہ کہیں کمرہ لاک نہ ہو، پھر مجھے سات گھنٹے انتظار کرنا ہوگا لیکن میں ایک پل بھی انتظار نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے بڑی احتیاط سے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ شکر ہے کہ وہ یوں کھل گیا جیسے وہ میرے ہی انتظار میں تھا۔ میں اندر داخل ہوئی۔ ممی کا آفس بہت صاف ستھرا اور بے حد سلیقے سے سجا ہوا ہے۔ میں اس بڑے ڈیسک کی طرف بڑھی جو کمرے کے درمیان میں رکھی ہوئی تھی۔ اس میں ایک دراز فائلوں کے لئے بھی تھی۔ میں نے سوچا کہ مجھے یہاں سے شروع کرنا چاہئے۔ میرا دل دھک دھک کررہا تھا۔ میرے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ یہ کوئی معمولی لرزش نہیں تھی، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میرے اندر زلزلہ آرہا ہو۔ ممی ریکارڈ رکھنے میں بہت محتاط تھیں۔ وہ ایک ایک چیز کا ریکارڈ بڑے سلیقے کے ساتھ فائل میں لگا کر رکھتی ہیں۔ کچھ فائلوں میں خریداری کی رسیدیں تھیں، وارنٹی کارڈ اور ایسی ہی چیزیں ممی نے کوئی چیز ضائع نہیں کی۔ انہوں نے سنیما اور تھیٹر کے ٹکٹ بھی سنبھال کر فائل میں لگائے ہوئے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں اس بڑے فولڈر تک پہنچی جس پر بڑے لفظوںمیں لکھا ہوا تھا۔ میڈلین میں نے اسے احتیاط سے نکال لیا اور فرش پر بیٹھ کر وہ فولڈر سامنے رکھا۔ میرے دل کی دھڑکن اور تیز ہوئی اور میرا حلق خشک ہونے لگا۔ ممی نے اس فائل میں ہر چیز لگائی ہوئی تھی۔ اپنے حاملہ ہونے کے بعد ڈاکٹر کے یہاں جانے کے معاملات، نسخے اور بہت کچھ میری پیدائش کا سرٹیفکیٹ بھی فائل میں موجود تھا۔ میں نے ایک اور فائل کو کھنگالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں پیدائشی طور پر بیمار تھی۔ اس دوران مجھے جو جو بیماریاں ہوئیں، اس کا تمام ریکارڈ موجود تھا کہ مجھے کب کب ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور کس کس ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ تمام رسیدیں اور نسخے موجود تھے۔ جب میں پانچ مہینے کی تھی تو میرے ڈیڈی اور بھائی کا حادثے میں اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت میں اچانک ایک وائرس کا شکار ہوگئی جس سے مجھے سانس کی تکلیف ہوگئی۔ یہ اتنا شدید تھا کہ مجھے تین دن اسپتال میں رہنا پڑا۔ اس کا بھی تمام ریکارڈ موجود تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے تین مختلف ڈاکٹروں سے میرا معائنہ کروایا گیا، جن میں سے ایک الرجی کا ماہر بھی تھا لیکن انہوں نے کوئی غیر معمولی تکلیف تشخیص نہیں کی تھی۔ تینوں کا یہی خیال تھا کہ یہ ایک وائرس تھا جس کے اثرات ختم ہوچکے تھے۔ اس کیبنٹ میں بس اتنی ہی فائلیں تھیں۔ اس کے بعد میری صحت کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ میں نے دوسری دراز کی تلاشی لی کہ شاید وہ فائل اس میں ہو جس میں میری موجودہ بیماری کا ریکارڈ موجود ہو لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ میں نے ایک ایک صفحہ چھان مارا لیکن مجھے کوئی سراغ نہیں ملا۔ میں نے میز پر پڑی فائلوں کو دیکھا اور جتنا میں تلاش کرسکتی تھی، کیا مگر مجھے کچھ بھی نہیں ملا۔ میرا سانس بڑی تیزی سے چل رہا تھا۔ اگر کوئی چیز نہ ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ہے ہی نہیں ابھی میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں پوری تسلی کرلینا چاہتی تھی۔ بھلا ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ ممی جو ہر چیز کو سلیقے سے رکھنے کی عادی تھیں، میری اس بیماری کے بارے میں کوئی فائل نہ بنائیں۔ شاید وہ کہیں اور ہو۔ میں نے چند لمحے غور کیا۔ یہ بات بڑی تیزی کے ساتھ میرے ذہن میں آئی کہ یقیناً اس کا ریکارڈ ممی کے کمپیوٹر میں ہوگا۔ مجھے ان کا پاس ورڈ جاننے میں تھوڑا سا وقت لگا۔ میرے اگلے دو گھنٹے ان کے کمپیوٹر میں موجود تمام فائلوں کو دیکھنے میں گزرے۔ میں نے کمپیوٹر کو کھنگالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر لاحاصل۔ میں نے سر جھٹکا کہ وہ سب ٹیسٹ اور دستاویزات کہاں تھیں جن کے مطابق میں گزشتہ اٹھارہ برس سے زندگی گزار رہی تھی، مگر کہیں کچھ نہیں تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں تھا، ایسا کیوں کیا گیا تھا۔ کیا ڈاکٹر فرینک کی تشخیص درست تھی کہ میں بیمار نہیں تھی میرا ذہن اس بات کو سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا اسی لئے یہ بات میرے ذہن میں ابھری کہ کہیں میری بیماری کا ریکارڈ ممی کے بیڈ روم میں تو نہیں وہاں بھی دیکھنا ضروری تھا لیکن جب تک وہ سو کر نہیں اٹھ جاتیں اور اسپتال نہیں چلی جاتیں، میں ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ میں اتنی دیر انتظار کس طرح کروں گی میں اسی سوچ میں تھی کہ دروازہ کھلا۔ اچھا تم یہاں ہو ممی کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی۔ میں پریشان ہوگئی، تم اپنے کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ کمرے میں چلی آئیں اور حیران رہ گئیں۔ ان کی فائلیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں اور کمرے میں ایک عجیب اکھاڑ پچھاڑ کا سا سماں تھا۔ انہوں نے الجھ کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ یہاں تو لگتا ہے جیسے کوئی طوفان آیا ہے۔ یہ سب کیا ہے میڈی کیا میں واقعی بیمار ہوں میرے خون کی گردش میرے کانوں میں جھنجھنا رہی تھی۔ ان کی جھنجھلاہٹ اور غصہ پریشانی میں بدل گیا۔ کیا تم خود کو بیمار محسوس کررہی ہو انہوں نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا لیکن میں نے اسے جھٹک دیا۔ اس سے ان کے چہرے پر جو محرومی جھلکی، اس نے مجھے پریشان تو کیا لیکن میں اس سے بڑی پریشانی میں گرفتار تھی۔ میں نے زور دے کر پوچھا۔ ممی مجھے بتائیں کیا میں واقعی الرجی کی مریض ہوں کیا ابھی تک تم اس ای۔میل کے چکر سے نہیں نکلیں ہاں اور کارلا کا بھی یہ خیال ہے کہ شاید تشخیص میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ میں نے کہا۔ کیا مطلب وہ الجھیں۔ میری بیماری کا تمام ریکارڈ کہاں ہے وہ ایک گہرا سانس لے کر بولیں۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو میڈلین آپ کے پاس فائلوں میں ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر نہیں ہے تو میری اس بیماری کا، الرجی کا آخر کیوں میں نے فرش سے سرخ فولڈر اٹھا کر انہیں دکھایا۔ تم کیسی باتیں کررہی ہو میڈی وہ اس میں ہے۔ وہ بولیں اور انہوں نے وہ سرخ فولڈر اپنے ساتھ یوں بھینچ لیا جیسے اس سے زیادہ عزیز کوئی اور چیز نہ ہو۔ تم نے اچھی طرح دیکھا ہے نا میں ہر چیز کا ریکارڈ رکھتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنی ڈیسک تک گئیں اور وہاں بکھری ہوئی فائلوں کو ہٹا کر ایک جگہ خالی کی، پھر بکھری ہوئی فائلوں کو ترتیب سے رکھا، کاغذات کو سمیٹا۔ میں بغور ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر انہوں نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ کہیں تم نے تو انہیں یہاں سے نہیں نکال لیا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ یہیں تھے۔ ان کی آواز خوف اور الجھن کی وجہ سے بھاری ہورہی تھی۔ اس لمحے مجھے اندازہ ہوگیا۔ مجھے یقین آگیا کہ میں بیمار نہیں تھی۔ میں کبھی بیمار نہیں تھی۔ ٭ ٭ ٭ یہ خیال آتے ہی میں دوڑ کر ممی کے ہوم آفس سے نکلی۔ دوڑتے دوڑتے میں نے ہال کو طے کیا جو یوں لگ رہا تھا جیسے کبھی ختم نہیں ہوگا۔ میرے چاروں طرف جیسے ہوا بند تھی، مجھے آکسیجن نہیں مل رہی تھی۔ میں گھر سے باہر نکل آئی تھی۔ نہ جانے میری سانس چل رہی تھی یا نہیں مجھے اپنے دل کی دھڑکنیں بھی سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ میرا جی مالش کررہا تھا۔ میرا پیٹ خالی تھا، مگر میں پھر بھی ابکائیاں لے رہی تھی۔ میرے منہ میں کڑواہٹ گھل رہی تھی۔ میں روتی جارہی تھی۔ صبح کی خنک ہوا سے میرے آنسو میرے رخساروں پر سردی کا احساس پیدا کررہے تھے۔ شاید میں ایک ہی وقت میں ہنس رہی تھی اور رو بھی رہی تھی۔ اوہ خدایا میں بیمار نہیں ہوں میں کبھی بھی بیمار نہیں تھی۔ پچھلے چوبیس گھنٹے میں، میں جن جذبات کو اپنے اندر دباتی رہی تھی، وہ یکدم ابل کر باہر آگئے تھے۔ کبھی امید، کبھی مایوسی، کبھی تذبذب، کبھی غصے، کبھی خوشی یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ہی وقت میں انسان میں مختلف جذبات ایک ساتھ ابھر آئیں۔ میں جیسے کسی سیاہ سمندر میں ہاتھ، پائوں مار رہی تھی مگر میرے پائوں میں لنگر تھا جو مجھے آگے نہیں بڑھنے دیتا تھا۔ ممی میرے پیچھے پیچھے آئیں اور انہوں نے مجھے شانوں سے تھام لیا۔ ان کا چہرہ عجیب ویرانی کا عکاس تھا۔ یہ تم کیا کررہی ہو یہ تم کیا کررہی ہو چلو تمہیں اندر رہنا چاہئے۔ میری آنکھوں کے سامنے دھند سی چھا رہی تھی۔ میں نے اپنی نگاہوں کو ان پر جمانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ کیوں ممی مجھے کیوں اندر رہنا چاہئے تم بیمار ہو تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ کہہ کر ممی نے مجھے اپنے بازوئوں میں لینے کی کوشش کی۔ نہیں نہیں میں اندر نہیں آئوں گی۔ میں نے انہیں جھٹک دیا۔ پلیز میڈلین انہوں نے منت کی۔ مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں ہے کہ تمہیں کھو دوں پہلے ہی میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔ ممی کی آنکھیں مجھ پر لگی تھیں لیکن صاف معلوم ہورہا تھا کہ وہ کہیں اور دیکھ رہی ہیں۔ میں پہلے ہی انہیں کھو چکی ہوں میں نے تمہارے ڈیڈی کو کھو دیا، تمہارے بھائی کو کھو دیا۔ اب میں تمہیں نہیں کھو سکتی نہیں ہرگز نہیں ممی کا چہرہ دفعتاً یوں لگ رہا تھا جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہو۔ ان کا مسکراتا ہوا چہرہ جو ہمیشہ نظر آتا تھا، یہ اس سے بہت مختلف تھا۔ صدمے سے چور، غم سے نڈھال یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ڈیڈی اور بھائی کا حادثہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوا ہے۔ میں ٹھٹھک گئی۔ گویا ممی، ڈیڈی اور بھائی کی موت کے صدمے سے اب تک نہیں نکلی تھیں۔ میں نے جو میرے منہ میں آیا، کہنا چاہا لیکن وہ میری بات سن ہی نہیں رہی تھیں۔ وہ جیسے خود کلامی کی سی کیفیت میں بولے جارہی تھیں۔ ان دونوں کی موت کے بعد تم بہت بیمار ہوگئی تھیں۔ تمہاری سانس مشکل سے چل رہی تھی۔ تمہیں سانس لینے میں شدید تکلیف ہورہی تھی۔ میں دوڑ کر تمہیں ایمرجنسی میں لے گئی اور ہمیں وہاں تین دن تک ٹھہرنا پڑا، مگر ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تمہاری اس تکلیف کی وجہ کیا تھی۔ بالآخر انہوں نے یہی تشخیص کیا کہ تم کسی الرجی کا شکار تھیں۔ انہوں نے مجھے ایک فہرست دے دی، ان چیزوں کی جن سے تمہیں الرجی تھی یا ہوسکتی تھی۔ مجھے تمہاری حفاظت کرنی تھی۔ تمہیں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا تھا۔ کچھ برا کچھ پریشان کن جو تمہاری جان کے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔ یہ باتیں سن کر میرے اندر شدید غصہ ابل رہا تھا۔ جس نے ہر جذبے کو میرے اندر دبا دیا۔ میں چلائی۔ نہیں میں بیمار نہیں ہوں میں کبھی بیمار نہیں تھی۔ یہ آپ ہیں جو بیمار ہیں، آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ وہ عجیب انداز میں پیچھے ہٹیں اور ملائمت سے کہنے لگیں۔ آئو اندر چلو میں تمہاری حفاظت کروں گی تم میرے پاس رہو میرے پاس تمہارے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان کی یہ محبت، ان کی یہ چاہت، یہ جنون کسی سمندر کی طرح تھا یا کوئی ایسی دنیا تھی جس کا کوئی کنارہ نہیں تھا لیکن مجھے یہ سب نہیں چاہئے تھا۔ میں اب اسے اور برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری تمام زندگی محض ایک فریب تھی جو پلک جھپکتے میں کبھی میری دسترس سے نکل جاتی تھی اور کبھی میری گرفت میں آجاتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ چار دن گزر گئے۔ میں کھانا کھا لیتی تھی، اپنی کلاسز لے لیتی تھی، ہوم ورک کرتی تھی لیکن کتابیں پڑھنے کو میرا جی نہیں چاہتا تھا۔ ممی کھوئے کھوئے انداز میں میرے آس پاس رہتی تھیں، مگر یوں لگتا تھا جیسے انہیں کوئی احساس نہیں تھا کہ کیا ہوچکا ہے یا حالات میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔ بعض اوقات وہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن میں ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی۔ اکثر انہیں نظرانداز کردیتی تھی۔ میں انہیں نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ اس صبح جب مجھے اس بات کی خبر ہوئی تھی کارلا نے میرے خون کے نمونے لئے تھے۔ وہ انہیں ایک الرجی اسپیشلسٹ کے پاس لے گئی تھی۔ آج ہم اس ڈاکٹر کے کلینک میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ میں شدت سے منتظر تھی کہ اس کی ماہرانہ رائے کیا ہے۔ جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر حتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا وہ اپنی تصویروں میں نظر آتا تھا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس کی کنپٹیوں کے بال سفید تھے۔ اس کی آنکھیں سیاہ اور چمکدار تھیں۔ اس نے میری طرف کچھ ہمدردی اور تجسس سے دیکھا۔ میں بیٹھ گئی تو اس نے مجھے مخاطب کیا۔ تمہارا کیس اس نے کہنا شروع کیا مگر پھر خاموش ہوگیا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کچھ کہتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ آپ بتائیں بہت کچھ میں پہلے سے جانتی ہوں۔ میں نے اس کی ہچکچاہٹ دور کرنے کے لئے وضاحت کی۔ اس نے ایک فائل نکال کر اپنی میز پر رکھی۔ اسے کھولا اور کچھ الجھے ہوئے سے لہجے میں بولا۔ مس میڈلین میں نے تمہاری رپورٹس کے رزلٹ باربار دیکھے ہیں۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی اس پر بات کی ہے۔ ہم سب اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تم بیمار نہیں ہو۔ میں جانتی ہوں۔ میں نے سر ہلایا۔ تمہاری نرس کارلا نے مجھے تمہاری ہسٹری بتائی ہے۔ تمہاری ممی چونکہ خود بھی ڈاکٹر ہیں، انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے تھا۔ الرجی کی یہ بیماری بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، مگر تمہارے اندر اس بیماری کی کوئی ایک علامت نہیں ہے۔ تمہاری ممی کو اگر کوئی غلط فہمی تھی تو وہ مزید ٹیسٹ کروا کر اپنی تسلی کرسکتی تھیں۔ حالانکہ یہ سب میں جان چکی تھی لیکن ڈاکٹر کی اس رائے نے جیسے کمرے کی ساری دیواروں کو گرا دیا۔ مجھے ایک لمبی سرنگ نظرآ نے لگی جو کہیں نہیں جاتی تھی۔ میں جھرجھری سی لے کر خود میں واپس آئی۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ کیا آپ کوئی سوال پوچھنا چاہتی ہیں ہاں میرے ذہن میں چند سولات ہیں۔ میں نے کہا۔ ضرور ضرور پوچھیں۔ وہ خوشدلی سے بولا۔ میں جزیرے میں اتنی بیمار کیوں ہوگئی تھی لوگ بیمار ہوجاتے ہیں، نارمل تندرست لوگ بھی تم بھی اسی طرح بیمار ہوگئی تھیں۔ مگر میرے دل کی دھڑکن بھی رک گئی تھی، کیوں میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر فرینک سے بات کی ہے۔ ہمارا یہی خیال ہے کہ تم جیسی زندگی گزارتی آئی تھیں، اس وجہ سے تمہاری قوت مدافعت کمزور پڑچکی تھی، اس لئے تمہارے جسم کا ردعمل شدید تھا۔ اب میں نے کچھ اور نہیں پوچھنا تھا۔ نہ ہی مجھے اس کی ضرورت تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بہت شکریہ ڈاکٹر مگر ایک بات کا ابھی خیال رکھنا ہوگا کہ جس طرح تم نے اٹھارہ سال گزارے ہیں، ان کا اثر ابھی تمہارے سسٹم پر باقی ہوگا۔ اس بات کا کیا مطلب ہے ہم نے ایسا کوئی کیس کبھی دیکھا تو نہیں مگر ہماری یہی رائے ہے کہ شروع شروع میں جب تم عام انداز میں رہنا شروع کرو گی تو تم دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی بیمار ہوجائو گی اور زیادہ شدت کے ساتھ جس طرح تم جزیرے میں ہوئی تھیں۔ پھر اس کا کیا ہوگا کیا میں اب بھی بیمار ہوں نہیں ہم کچھ عرصہ تمہیں نگرانی میں رکھیں گے تمہیں بھی احتیاط کرنا ہوگی کہ بڑے ہجوم میں نہ جائو۔ وہ کھانے آہستہ آہستہ تھوڑے تھوڑے کرکے استعمال کرو جو تم نے کبھی نہیں کھائے اور کوئی ایسا کام نہ کرو جو تمہیں بہت زیادہ تھکا دے۔ ٭ ٭ ٭ میں نے اگلے کچھ دن یہ ریسرچ کرنے میں گزارے کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ تھا اور ممی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اگر مجھے کوئی ایسی ڈائری مل جاتی جس میں ممی اپنے تاثرات لکھتیں تو مجھے ان کے خیالات جاننے کا موقع ملتا۔ آخر انہوں نے میری زندگی کی ہر خوشی اور ہر لطف کو کیوں چھین لیا تھا۔ انہوں نے مجھے فطری طریقے پر پلنے بڑھنے کیوں نہیں دیا تھا۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ انہیں کسی ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔ ڈیڈی اور بھائی کی اچانک موت نے انہیں جو ذہنی صدمہ پہنچایا تھا، وہ اس سے نکل نہیں پائی تھیں۔ وہ مجھے اپنے قریب اور محفوظ رکھنا چاہتی تھیں کہ کہیں میں ان سے چھین نہ لی جائوں۔ کارلا نے بہت کوشش کی کہ مجھے اس بات سے روکے کہ میں گھر نہ ممی کی خاطر اور خود میری صحت کے لئے ضروری تھا کہ میں محتاط رہوں۔ میں چاہتی تھی کہ اولے سے بات کروں لیکن وہ لوگ نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ اولے نہ جانے کس حال میں تھا۔ اس کا ذہن بدل چکا تھا یا نہیں اس نے کوئی اور لڑکی تلاش کرلی تھی یا اب تک اسے میرا خیال تھا۔ میں اس سے رابطہ کرتے ہوئے ڈرتی تھی کہ کہیں مجھے دل شکستگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کارلا نے بالآخر مجھے قائل کر لیا کہ مجھے گھر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ مجھے ممی کے پاس ہی رہنا چاہئے۔ میرے چلے جانے سے ان پر بہت برا اثر پڑ سکتا تھا۔ میں نے بادل نخواستہ اپنا فیصلہ بدل تو لیا لیکن اس کے ساتھ ہی جیسے میری زندگی بھی بدل گئی۔ سچ کہیں مرگیا تھا یا ابھی زندہ تھا۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ مقفل کرلیا تھا۔ اب ممی میرے کمرے میں داخل نہیں ہوسکتی تھیں۔ اپنی مریضانہ محبت کے ساتھ انہوں نے ایک دو بار دروازہ کھٹکھٹایا لیکن میں نے نہیں کھولا۔ میں اولے کے نام ای میلز لکھتی رہتی تھی لیکن اسے بھیجتی نہیں تھی۔ میں نے انہیں ڈرافٹ کے خانے میں محفوظ کررکھا تھا۔ میں نے وہ تمام حفاظتی اقدامات ختم کردیئے تھے جو کبھی اس گھر میں موجود تھے اور جن سے گزر کر کوئی اندر داخل ہوسکتا تھا۔ میں نے تمام کھڑکیاں کھول دیں۔ میں نے فوارے میں ڈالنے کے لئے کچھ مچھلیاں بھی منگوا لیں جو فوارے کے پانی میں اٹکھیلیاں کرتی رہتی تھیں۔ میرے وہ استاد جو پہلے مجھے اسکائپ پر پڑھاتے تھے، ان میں سے کچھ کو گھر آنے کی اجازت دے دی تھی۔ میں باقاعدہ تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا چاہتی تھی لیکن ڈاکٹر نے ابھی مجھے اس سے منع کردیا تھا کہ اسکول میں طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جراثیموں سے بچنا مشکل ہوگا۔ میں کچھ عرصہ گھر سے باہر بھی گزارتی تھی۔ اس وقت کارلا میرے ساتھ ساتھ رہتی تھی تاکہ مجھے کوئی نقصان نہ ہونے پائے لیکن میں جانتی تھی کہ کارلا وہ بات کہنے کی کوشش میں ہے جو میرے ٹوٹے ہوئے دل کو کچھ اور توڑ دے گی۔ اسی لئے میں نے خود ہی یہ بات اس سے کہہ دی۔ کارلا مجھے چھوڑ کے نہ جانا مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ اگر واقعی تمہیں میری ضرورت ہوتی تو میں ضرور تمہارے ساتھ رہتی لیکن تمہیں اب میری ضرورت نہیں ہے۔ کارلا میرا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولی۔ نہیں مجھے ہمیشہ تمہاری ضرورت رہے گی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے انہیں بہنے سے نہیں روکا۔ ہاں تمہیں میری ضرورت ہے، مگر ایک نرس کے طور پر نہیں وہ نرمی سے بولی۔ اس کی بات ٹھیک تھی۔ مجھے اب چوبیس گھنٹے طبی لحاظ سے نگرانی کی ضرورت نہیں تھی مگر یہ بات مجھے پریشان کررہی تھی کہ میں اس کے بغیر کیا کروں گی۔ یہ سوچ سوچ کر میں سسکیاں لینے لگی تھی۔ کارلا نے مجھے اپنے بازوئوں میں لے لیا اور میں اتنا روئی کہ بالآخر میرے آنسو خشک ہوگئے۔ تم کیا کرو گی میں نے آنسوئوں سے بھیگا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ میں پھر اسپتال میں کام شروع کردوں گی۔ تم نے ممی کو بتا دیا ہے ہاں آج صبح انہوں نے کیا کہا میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے تمہاری بہت اچھی دیکھ بھال کی ہے۔ میں نے غصے سے سر جھٹکا۔ کارلا مسکرائی اور میری ٹھوڑی تھام کر بولی۔ تمہارا دل اس پر کب رضامند ہوگا کہ تم ممی کو معاف کردو ممی نے میری زندگی کے ساتھ جو کیا ہے، میں انہیں کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ وہ نفسیاتی مریض ہیں میڈی وہ اب بھی اس کے زیراثر ہیں۔ میں نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔ انہوں نے میری زندگی ضائع کردی ہے۔ میری زندگی سے پورے اٹھارہ سال نکل گئے ہیں اور آئندہ بھی میں ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکتی۔ تم زندہ سلامت رہو میڈی ابھی تمہاری بہت زندگی پڑی ہے اور تم اس کا لطف اٹھا سکتی ہو۔ وہ اٹھ کر اندر آئی اور اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔ آخری مرتبہ کبھی نہ واپس آنے کے لئے اور میں آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔ ٭ ٭ ٭ کارلا کے جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد ممی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں وہیں بیٹھی رہی جہاں میں بیٹھی ہوئی تھی۔ دستک دوبارہ ہوئی اور مجھے جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید ہمارا آپس کا رشتہ کبھی برقرار نہیں ہوگا۔ فی الحال میں انہیں بالکل معاف نہیں کرسکتی تھی، کیونکہ انہیں اس کا احساس تک نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔ ایک دستک اور ہوئی تو میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور بے رخی سے کہا۔ اس وقت بات کرنے کا میرا بالکل موڈ نہیں ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے غصہ آنے لگتا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ انہیں باربار دکھ پہنچائوں۔ میرا خیال تھا کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ اسے بھول جائوں گی۔ یہ بات میرے ذہن سے نکل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا تھا۔ انہوں نے ایک گہرا سانس لیا اور بولیں۔ میرے پاس تمہارے لئے کچھ ہے۔ ان کی آواز میں الجھن تھی۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ تحفے اس کی تلافی کرسکتے ہیں، جو نقصان ہوچکا ہے مجھے معلوم تھا کہ میں نے ان کا دل دکھایا ہے لیکن میں خود کو اس سے روک نہیں سکتی تھی۔ پیکٹ ان کے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر وہ پکڑ لیا۔ میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی، نہ ہی میں ان پر ترس کھانا چاہتی تھی۔ وہ جانے کے لئے پلٹیں مگر پھر رک گئیں اور مجرمانہ سے لہجے میں بولیں۔ میڈی میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ تمہیں اب بھی مجھ سے محبت ہے۔ تمہارے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے، اس کو ضائع مت کرو۔ مجھے معاف کردو۔ ٭ ٭ ٭ میں نے کمرے میں واپس آکر ممی کا تحفہ کھولا۔ یہ ایک موبائل فون تھا۔ ممی اب مجھے کوئی روک ٹوک نہیں کرسکتی تھیں۔ میں اب اس حد تک آزاد تھی کہ میں گھر سے باہر نکل سکتی تھی۔ میں اکثر باہر چلی جاتی تھی، حالانکہ مجھے راستوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، نہ ہی مجھے ٹریفک کی کوئی سمجھ تھی اور نہ ہی میں زیادہ شور برداشت کرسکتی تھی۔ میں شیشے کے کمرے میں دنیا سے دور اور دنیا کی ہر شے سے اٹھارہ سال دور رہی تھی۔ ایک روز میں بغیر سوچے سمجھے باہر نکل آئی۔ میں نے خود کو اولے کے لان میں پایا۔ وہاں وہ سیڑھی ابھی تک لگی ہوئی تھی جو چھت تک جاتی تھی اور جہاں اولے کا کمرہ تھا۔ میں غیر ارادی طور پر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ چھت پر ابھی اولے کی بہت سی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کی بنائی ہوئی چھوٹی چھوٹی چیزیں میں وہاں کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا واقعی آج سے پانچ ماہ پہلے میں یہاں اولے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ صدیوں پہلے کی بات ہے۔ جو لڑکی یہاں اولے کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کررہی تھی، کیا واقعی وہ میں تھی جو اتنے خطروں کے باوجود گھر سے نکل آئی تھی۔ جب میں بچی تھی تو میرا سب سے پسندیدہ کھیل یہ تھا کہ اپنے اندر ایک دنیا کو تصور میں بنائوں اور اس میں اس طرح آزادی سے دوڑتی بھاگتی پھروں جس طرح میں کارٹون فلموں میں مختلف کرداروں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھتی تھی۔ ان سب باتوں کا تصور کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا لیکن اب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کون ہوں اور جس دنیا میں، میں نے قدم رکھا تھا، وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ میری زندگی اس کے بعد شیشے کے کمرے میں محدود ہوگئی تھی، جب ڈیڈی اور بھائی کی حادثاتی موت ہوئی۔ کاش میں ان لمحوں کو بدل سکتی تو میری زندگی کے پورے اٹھارہ سال ضائع نہ ہوجاتے۔ میرے بچپن کی خوشیاں مجھ سے چھین نہ لی جاتیں اور نہ ہی ممی اس حالت کو پہنچتیں کہ میں ان سے نفرت کرنے پر مجبور ہوجاتی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اولے کو میل ضرور بھیجوں گی خواہ اس پر اس کا اثر ہو یا نہ ہو، چاہے وہ اسے بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ میں نے گھر آکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اولے کے نام ایک ای میل بھیج دی۔ وقت کے ساتھ جب تم سب کچھ سمجھ لو گے تو شاید مجھے بھی معاف کردو گے۔ ٭ ٭ ٭ میں جہاز کی چھوٹی سی گول کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوں۔ حدنگاہ تک پھیلے ہوئے سرسبز و شاداب مرغزاروں کا سلسلہ تھا جو آنکھوں کو ایک عجیب ٹھنڈک اور تراوٹ بخش رہا تھا۔ کہیں کہیں چمکتا ہوا سنہری مائل نیلا پانی بھی نظر آتا تھا، جس میں ہیرے جیسی چمک اور فیروزے جیسی رنگت تھی۔ کئی ہزار فٹ کی بلندی سے ساری دنیا یوں معلوم ہوتی تھی جیسے بہت ہی نظم و ضبط اور خوبصورتی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ہو۔ میں جانتی تھی کہ ابھی یہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔ خودرو، خوبصورت، بے ترتیب جگہ پر قائم اور انوکھا میں نے جب اس سفر کا فیصلہ کیا تھا تو ڈاکٹر کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے اتنی جلدی ہوائی سفر نہیں کرنا چاہئے لیکن میرا ارادہ کچھ اور تھا۔ اس کا کیا بھروسہ تھا کہ ہمیشہ سب کچھ ٹھیک رہے گا۔ انسان ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔ زندہ رہنے کے لئے بہت کچھ ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر زندہ رہنے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ممی کو جب پتا چلا تو انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے جیسے اپنے سارے خوف اور اندیشے اندر ہی اندر نگل لئے حالانکہ ان کی کیفیت سے اب بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ میں بیمار نہیں ہوں۔ انہیں اپنے مقابلے میں ڈاکٹروں کی پوری ایک ٹیم سے ہار ماننا پڑی تھی لیکن وہ اب بھی بے یقینی کے عالم میں تھیں۔ محبت محبت لوگوں کو دیوانہ بنا دیتی ہے۔ محبت کھو جائے تو بھی انسان پاگل ہوجاتا ہے۔ ممی نے میرے ڈیڈی سے ٹوٹ کر محبت کی تھی۔ یہ محبت ان کی زندگی کا سرمایہ تھی۔ میرے بھائی کی محبت بھی ان کی زندگی کا حاصل تھی اور میں ان کی آخری امید اور متاع حیات تھی۔ ڈیڈی اور بھائی کی موت ان کی زندگی میں ایک دھماکے کی طرح تھی، جس نے زندگی کا رس، رنگ نچوڑ لیا تھا۔ میں یہ سب کچھ جانتی تھی، میں ان کی مجبوریاں سمجھتی تھی۔ میں کوشش کررہی تھی کہ اس کے ساتھ مفاہمت کرسکوں لیکن اتنی جلدی ایسا ممکن نہیں تھا۔ تم کب واپس آئو گی ممی نے پوچھا۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتی مجھے خود بھی کچھ معلوم نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے میں ان کے اندر کی اذیت کو ان کے چہرے پر پھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی، مگر انہوں نے مجھے روکا نہیں، مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا مطلب تھا کہ انہوں نے حالات کو سمجھنا شروع کردیا تھا۔ باہر کی فضا میں بادلوں نے ڈیرا ڈال لیا تھا۔ وہ تہہ در تہہ گہرے ہوتے جارہے تھے۔ وہ کہیں سے سیاہ، کہیں برائون اور کہیں سفید روئی کے گالوں کی طرح تھے۔ ان بادلوں کی وجہ سے میں کھڑکی سے باہر کچھ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ اسی لئے میں نے اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی اور کتاب پڑھنے لگی۔ وہ کتاب جو میں کئی بار پہلے بھی پڑھ چکی تھی لیکن ہر بار حالات کی مناسبت سے اس کے معنی بدل جاتے تھے۔ میں اتنے بڑے شہر میں اکیلی آگئی ہوں، اسی طرح کہ جس طرح میں ایک رات اولے کے گھر چلی گئی تھی۔ بغیر کسی چیز کی پروا کئے، بغیر کسی سے خوف کھائے یہ شہر ہنگاموں، بلند آوازوں اور تیز ٹریفک کا شہر تھا۔ مگر یہ سب مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں، فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں کے کندھے ایک دوسرے سے چھو رہے تھے۔ میں ٹیکسی کے شیشوں سے یہ ساری رونقیں حیرت کی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ میں اپنی آنکھوں میں دنیا کے ان نظاروں کو بھر لینا چاہتی تھی جن کو دیکھنے سے میں اٹھارہ سال محروم رہی تھی۔ جس طرح میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا، اس طرح میں نے اولے کو بھی نہیں بتایا تھا کہ میں اپنے گھر سے چل پڑی ہوں، اس شہر کی طرف جہاں وہ رہتا ہے۔ چونکہ وہ اس شہر میں موجود ہے اس لئے مجھے اس شہر سے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اولے نے میری ای میل کا جواب دیا تھا اور مجھے بتایا تھا کہ وہ اس شہر سے بہت دور چلا گیا تھا جہاں میں رہتی تھی۔ میں نے اولے کو صرف یہ بتایا تھا کہ پرانی کتابوں کی ایک دکان میں اس کے لئے ایک تحفہ ہے، وہ وہاں جاکر اسے وصول کرلے۔ میں نے اس دکان کے بارے میں انٹرنیٹ پر پڑھا تھا۔ میں یہی چاہتی تھی کہ میں اولے سے کتابوں کے درمیان ملوں۔ کتابوں نے بچپن سے اب تک میرا ساتھ دیا تھا، باہر کی دنیا سے میرا رابطہ ان کتابوں کے ذریعے سے ہی تھا۔ میں اولے کے ساتھ بھی گھنٹوں ان کتابوں کے بارے میں چیٹنگ کرتی تھی، جو میں نے پڑھی ہوتی تھیں۔ وہ بھی مجھے ان کتابوں کے بارے میں بتاتا تھا جو اس نے پڑھی ہوتی تھیں۔ کتابوں کے ساتھ ہم دونوں کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔ ہم ایک بار پھر کتابوں کے درمیان ملیں گے تو اس کا لطف بڑھ جائے گا۔ میں نے پرانی کتابوں کی دکان کا انتخاب کیا تھا تاکہ ان کتابوں سے ملاقات کرسکوں جو بہت سے لوگوں نے پڑھ رکھی تھیں۔ ٹیکسی نے مجھے اس دکان کے باہر اتار دیا۔ میں دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں بہت سا وقت بغیر کسی اعتراض کے گزارہ جاسکتا تھا۔ کتابوں کا یہ اسٹور بہت بڑا نہیں تھا۔ اس کی دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے شیلف چھت تک پہنچے ہوئے تھے اور ان میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہر شیلف کے ساتھ روشنیاں جل رہی تھیں، تاکہ انہیں آسانی کے ساتھ دیکھا جاسکے۔ دکان میں ایک انوکھی سی خوشبو تھی، پرانی کتابوں کی خوشبو جو مجھے اچھی لگ رہی تھی۔ اس سے مجھے سانس لینے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہورہی تھی۔ میرے پاس پندرہ منٹ تھے اس کے بعد اولے یقیناً یہاں پہنچ جائے گا۔ میں کتابوں کو چھو کر دیکھ رہی تھی تاکہ میرا نام بھی ان کتابوں کو پڑھنے والوں میں شامل ہوجائے۔ بعض کتابیں بہت پرانی تھیں، ان کے عنوان بھی نہیں پڑھے جاتے تھے۔ میں نے اپنے موبائل میں وقت دیکھا۔ اولے کے آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ میں کتابوں کی الماریوں کے پیچھے چلی گئی تاکہ اسٹور میں آنے والے مجھے نہ دیکھ سکیں۔ میں بظاہر خود کو کتابیں دیکھنے میں مصروف ظاہر کررہی تھی لیکن حقیقت میں میرا دھیان باہر کے دروازے کی طرف تھا۔ پھر اولے دکان میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر میرے دل کی دھڑکنیں بڑھنے لگیں۔ وہ آہستہ آہستہ شیلفوں کو دیکھتا ہوا چلنے لگا۔ اس نے بال بڑھا لئے تھے۔ یہ اسٹائل اس پر بہت جچ رہا تھا۔ آج اس نے سیاہ لباس نہیں پہن رکھا تھا۔ اس کی ٹی شرٹ کا رنگ سلیٹی تھا۔ وہ مجھے پہلے سے زیادہ لمبا لگ رہا تھا۔ میں مسکرائی۔ شاید میں بھی اس کو بدلی بدلی سی نظر آئوں گی۔ میں پچھلے ہفتے سے کچھ نئے تجربات سے گزر رہی تھی جیسے کارلا کو رخصت کرنا، ڈاکٹر کی مخالفت کے باوجود سفر کرنے کی تیاری کرنا اور ممی کو ان کی افسردگی کے ساتھ چھوڑنے کی ہمت کرنا۔ لیکن ان تمام جذبات سے انوکھا اور کچھ گھبرا دینے والا تجربہ اتنے عرصے بعد اولے کا سامنا کرنا اور اس سے ملنا تھا۔ اولے نے اپنا فون جیب سے نکال کر دیکھا تھا۔ یقیناً وہ میری دی ہوئی ہدایات پر غور کررہا تھا۔ اس نے فون اپنی جیب میں ڈال لیا اور کتابوں کے شیلفوں کی لمبی قطار کو ایک مرتبہ پھر دیکھا۔ میں نے کتابوں کے سامنے وہ کتاب رکھ دی جو ہم دونوں کو بہت پسند تھی۔ میں یہ کتاب اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ یہاں سے گزرے گا تو ضرور اسے دیکھ لے گا۔ وہ یہاں رکا ضرور مگر اس نے کتاب اٹھانے کے بجائے اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال لئے۔ چند لمحوں بعد ہی اس نے کتاب اٹھا لی۔ اس کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آئی اور خوشی میں اپنی ایڑیوں پر تھوڑا سا گھوما۔ میں الماری کے پیچھے سے یکدم باہر نکلی اور اس کی جانب لپکی۔ اولے کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ میں جو روشنی تھی، اس پر پوری زندگی زندہ رہا جاسکتا تھا۔ ختم شد | null |
null | null | null | 112 | https://www.urduzone.net/aaj-bhe-afsoos-hai-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 113 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-21/ | دوسرے لمحے میں نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ کم بخت بے حد حسین تھی۔ کوئی بھی بری فطرت کا انسان اس کا یہ حسن جمال دیکھ کر فریب کھا سکتا تھا۔ وہ بدستور مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرے ذہن میں فوراً ہی کلام الٰہی کی ایک آیت ابھری اور بے اختیار میرے ہونٹوں تک آگئی۔ آیت پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک اس نے چیخ ماری اور اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ اس کا سانس تیز چلنے لگا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ کا کرے ہے رے اس نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا۔ میرا ورد جاری تھا۔ اچانک اس کا تمتماتا لال بھبھوکا چہرہ تاریک پڑنے لگا۔ پھر اس کی آنکھ میں گڑھا نمودار ہوگیا، ہونٹ مڑ گئے، رنگ کوئلے کی طرح سیاہ ہوگیا۔ اس نے دوسری زوردار چیخ ماری اور کہا۔ ارے دیا رے دیا۔ یہ تو پاپی مسلّیٰ ہے۔ ارے او جھمبردا رے جھمبردا رے۔ ارے دیکھ ای سسروا مسلّیٰ ہمکا مارے ہے، مارے جھمبردا وہ دہری ہوکر بل کھانے لگی۔ اسی وقت درخت کی ایک شاخ پر دو پائوں نظر آئے اور دوسرے لمحے کوئی درخت سے نیچے کود گیا۔ یہ ایک کالے رنگ کا توانا آدمی تھا لیکن اس کا سارا بدن موجود تھا البتہ سر، شانوں پر موجود نہیں تھا۔ وہ سرکٹا تھا۔ ارے دیکھ ای کا۔ دیکھ سسروا کو۔ عورت چیخی اور کٹے سر والا میری طرف لپکا لیکن دو قدم آگے بڑھ کر رک گیا۔ اری رام دئی ری۔ جرا ہمار کھوپڑیا دیجو۔ ایک آواز ابھری۔ چڑیل جو مسلسل بل کھا رہی تھی، رک گئی۔ اس نے ایک جھولی اٹھائی اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ یہ ایک انسانی سر تھا۔ کالا چہرہ، خدوخال موٹے اور بھدے آنکھیں گہری سرخ، سر گھٹا ہوا، درمیان میں چوہے کی دم جیسی اٹھی ہوئی چوٹی۔ عورت نے انسانی سر اس کی طرف بڑھا دیا جسے اس نے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے شانوں پر رکھنے لگا۔ مگر اس نے سر الٹا رکھ لیا تھا۔ اس کا سینہ سامنے تھا اور چہرہ دوسری طرف پھر وہ بولا۔ کون ہے ری رام دئی۔ ادھر کو تو ہونا رے۔ ہت تیرا ستیاناس ارے کھوپڑیا تو الٹی ٹانگ لئی ہے تے نے ادھر ناہیں ادھر۔ عورت نے کہا اور مرد گھوم گیا۔ وہ سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھا۔ دلچسپ تماشا تھا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک اس کا کام تمام ہوچکا ہوتا۔ مگر میں پرسکون تھا۔ اب ایسے خوفناک مناظر میرے لیے غیر اہم ہوگئے تھے اور میرے اندر ایک انوکھی قوت بیدار ہوگئی تھی جسے میں خود بھی کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ مرد مجھے گھورتا رہا پھر اس کی پھٹی پھٹی آواز ابھری۔ کا بات ہے رے۔ کاہے ہمار جنانی کو ستائے ہے ہمکا نا جانت ہے۔ تو بھی مجھے جان لے۔ میں نے کسی غیر محسوس قوت کے زیراثر کہا اور ایک قدم آگے بڑھا۔ اس نے گھبرا کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا اور خوف زدہ لہجے میں بولا۔ کوئی بکٹ رہے بھئی، بھاگ۔ عورت کا چہرہ بے حد بھیانک ہوگیا تھا۔ ایک آنکھ کی جگہ گہرا گڑھا نمودار ہوگیا تھا۔ دانت باہر نکل آئے تھے، بدن کے کھلے ہوئے حصوں سے ہڈیاں جھانک رہی تھیں مگر اس کے زیورات ویسے ہی تھے۔ دونوں پلٹ کر بھاگے۔ مرد الٹا ہی بھاگ لیا تھا۔ عورت اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی۔ میں سکون سے دونوں کودیکھتا رہا۔ چند قدم دوڑنے کے بعد ہی وہ دونوں غائب ہوگئے۔ میں نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی۔ پھر اچانک ہی مجھے اپنی بے خوفی کا احساس ہوا۔ مجھے اس خوفناک صورتحال کا کوئی احساس نہیں ہوا تھا بلکہ میں نے یہ سب کچھ بہت معمولی سمجھا تھا۔ فضل بابا کی سرگوشی ابھری۔ اب بھی حیران ہورہے ہو مسعود بار بار بھول جانا بری بات ہے۔ یہ آواز میں نے صاف سنی تھی۔ آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ آواز پھر ابھری۔ تمہیں سپاہی بنایا گیا ہے۔ اپنے فرائض ذمہ داری سے سرانجام دو اور تم جانتے ہو ایک سپاہی کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد کسی کو آواز نہ دینا۔ میں ساکت رہ گیا۔ اس سے زیادہ کھلے الفاظ اور کیا ہوسکتے تھے۔ مجھے آخری تلقین کی گئی تھی۔ دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی۔ بے اختیار بیٹھ جانے کو جی چاہا اور میں بیٹھ گیا۔ درخت کے نیچے کافی ٹھنڈک تھی اور اس چلچلاتی دھوپ میں یہ ٹھنڈک بڑی دلکش لگ رہی تھی۔ وہ الفاظ جو مجھ سے کہے گئے تھے، روح میں مسرت کی لہریں بیدار کررہے تھے، ساتھ ہی ساتھ ایک سپاہی کی ذمہ داری کا احساس بھی دلا رہے تھے۔ مجھے بہت سے کام سرانجام دینے تھے۔ سب کچھ بھول کر ماضی میں جو کچھ ہوا تھا، وہ تو ایک ایسی کہانی تھی کہ اس پر ذہن دوڑایا جاتا تو ہوش و حواس ہی ساتھ چھوڑتے محسوس ہوتے۔ آہ نجانے کیا کیا تصورات تھے، نجانے کیا کیا آرزوئیں تھیں لیکن کتنی باتوں کو اپنے ذہن میں دہراتا۔ کہا گیا تھا کہ پہلے پھل چکھوں پھر کھانے کا موقع ملے گا۔ شکر ہے کہ امتحان کا دور ختم کردیا گیا تھا۔ جو گناہ کئے تھے، ان کی سزا شاید پوری ہوگئی تھی اور اب اس کے بعد قرض چکانا تھا۔ ممکن ہے کبھی یہ قرض ختم ہوجائے اور اس کے بعد موسم بہار کا آغاز ہو۔ آہ موسم بہار کے مہمانو میری آنکھیں شدت سے تمہاری منتظر ہیں لیکن ابھی پھل کھانے کا وقت نہیں آیا، ابھی قرض کی ادائیگی ہوجائے۔ چشم تصور سے ماں کو دیکھا۔ باپ اور بہن، بھائی کو دیکھا۔ ماموں ریاض بھی دل میں آئے اور ان سب کے تصور سے دل کو بڑی ڈھارس ہوئی۔ ان کے بارے میں خود سے کوئی سوال نہیں کیا تھا جبکہ سارے سوالات کے جواب اندر موجود تھے۔ یہی امتحان تھا اور یہی قرض ادا کرنا تھا۔ یہ پرچے حل ہوجائیں تو پھر اپنے آپ پر غور کروں۔ ہاں اس وقت تک کے لیے سب کو بھلانا ضروری ہے اور یہ بات بھی مجھے ذمہ داریاں سونپنے والوں ہی کو بتانی پڑے گی کہ کب امتحان کا دور ختم ہوگا۔ مگر ابھی تو آغاز ہی ہوا ہے۔ نجانے کتنی دیر اس طرح گزر گئی۔ چلچلاتی دھوپ مسلسل حشر سامانیاں برپا کررہی تھی۔ اس کا احساس ہورہا تھا۔ کبھی کبھی چیلوں کی آواز آجاتی تھی۔ اچانک ذہن اس طلسم سے نکل آیا۔ میں بیٹھا کیوں ہوں، مجھے جائزہ لینا ہے کالی موری کے ان کھنڈرات کا جہاں ان جادوگروں نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ سفلی علوم کے یہ ماہر بھی کیا انوکھی چیز ہیں۔ ایک باقاعدہ نظام ہے ان کا اور اب اس کے بارے میں مجھے مکمل طور پر معلوم ہوچکا تھا۔ بھوریا چرن کالے علم کا سب سے بڑا ماہر بننا چاہتا تھا اور اس نے اس کے لیے اپنی تمام تر کارروائیوں کے ساتھ مجھے بھی اس جنجال میں پھنسا دیا تھا۔ سب کو دیکھ لوں گا۔ سب کو دیکھ لوں گا۔ اپنی جگہ سے اٹھا اور بے خودی کے سے عالم میں آگے بڑھ گیا۔ بہت فاصلے پر بڑ کے درختوں کا ایک طویل و عریض سلسلہ چلا گیا تھا۔ دور سے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بہت سے درخت سر جوڑے کھڑے ہوں۔ انہی درختوں کے دامن میں گنگولی نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔ ہو کا عالم طاری تھا۔ اول تو یہ علاقہ ہی چندوسی کا ایک ایسا حصہ تھا جو بالکل بے مصرف تھا اور ادھر سے انسانوں کا گزر ہی نہیں ہوتا تھا۔ دوم یہ کہ تیز دھوپ اور شدید گرمی نے ماحول کو آگ بنا رکھا تھا اور بھلا آگ کے اس سمندر میں جھلسنے کے لیے کون گھر سے باہر نکلے۔ بڑ کے درختوں کے نیچے بڑی گھنی چھائوں تھی۔ میں نے وہاں کچھ چیزیں رکھی دیکھیں۔ برتن تھے، کالے رنگ کا ایک کمنڈل تھا، کچھ گدڑیاں سی پڑی ہوئی تھیں اور ایسی ہی نجانے کیا کیا چیزیں میں ابھی ان چیزوں کے سامنے ہی پہنچا تھا کہ درختوں کے عقب سے لمبے چوڑے جسم والا ایک سادھو نما شخص باہر نکل آیا۔ شکل و صورت عام سادھوئوں سے مختلف نہیں تھی۔ بکھرے ہوئے مٹی میں اٹے ہوئے بال، بڑھی ہوئی داڑھی، اس کے بدن پر ریچھ کی طرح لمبے لمبے سیاہ بال تھے۔ لباس بہت مختصر پہنا ہوا تھا۔ دھوتی ہی کا ایک پلو اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا گیا تھا۔ لکڑی کی کھڑائوں پہنے ہوئے تھا۔ کھٹ کھٹ کرتا ہوا بڑ کے درخت کے چوڑے تنے کے پیچھے سے باہر نکل آیا اور اپنے بھنچے ہوئے پتلے پتلے ہونٹوں کو مزید بھینچ کر مجھے گھورنے لگا۔ اس کی آنکھیں بہت سفید تھیں اور پتلیاں بہت چھوٹی چھوٹی ایک عجیب سی کیفیت ان آنکھوں میں پائی جاتی تھی۔ وہ مجھے دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔ کیا بات ہے، کون ہے تو اور ادھر کیوں آیا ہے گنگولی ہے تیرا نام ہاں گنگولی ہی ہوں۔ کیسے جانتا ہے مجھے گنگولی میں تجھ سے سری رام کی بیٹی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ سری رام نے بھیجا ہے تجھے اپنے کالے جادو سے معلوم کر۔ کالے جادو کا نام مت لے بے وقوف۔ اگر تو نے مجھے کالے جادو کی طرف لوٹا دیا تو تیرا کیا بنے گا تو پھر ٹھیک ہے۔ بس یوں سمجھ لے کہ میں اسی کام سے یہاں آیا ہوں۔ تجھے جس مقصد کے لیے بلایا گیا تھا، وہ پورا کرنے کے بجائے تو سری رام کی بیٹی کے چکر میں پڑ گیا۔ میرے ان الفاظ پر گنگولی ہنس پڑا۔ بڑا مکروہ قہقہہ تھا اس کا ہنسنے کے بعد وہ بولا۔ دیکھا ہے اسے ہاں دیکھا ہے۔ پھر بھی یہ بات کررہا ہے۔ وہ تم لوگوں کی ملکیت تو نہیں ہے۔ آخر تم نے ایک شریف آدمی کو کیوں پریشان کررکھا ہے شریف آدمی ارے چھوڑ چھوڑ، اپنی کہہ میرے پاس سوداگر بن کے آیا ہے یا بیچ کا آدمی نہ میں سوداگر بن کر آیا ہوں، نہ بیچ کا آدمی، تو یوں کر گنگولی کہ اپنا یہ سازوسامان اٹھا کر یہاں سے بھاگ جا ورنہ کیا پتا نقصان اٹھا جائے۔ اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ دیکھتا رہا۔ پھر ہنس پڑا اور بولا۔ میاں جی ہو، یہ بات ہے۔ سوچا ہی نہیں تھا ہم نے اب تک، ارے میاں جی کس پھیر میں پڑ گئے تم۔ جادو نگری ہے یہ جائو، جائو اپنا کام دیکھو، ہمیں ہمارا کام کرنے دو۔ جس شریف آدمی کی تم بات کررہے ہو نا، وہ ضرورت سے زیادہ ہی شریف ہے۔ جائو جائو بھاگ جائو۔ دیکھ گنگولی یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ میں تجھے سمجھانا چاہتا ہوں۔ اور اس کے بعد کیا کرو گے اس کے بعد جو کچھ کروں گا، وہ تیرے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ ہمارے لیے کیا اچھا ہے، کیا برا یہ تم کیا جانو۔ جائو پہلے اپنی خیر منائو۔ ذرا یہاں سے واپس جاکر دکھا دو تُو تو میری بات نہیں مانے گا نہیں مانیں گے سمجھے، جائو چلے جائو۔ آگے بڑھو، دوپہر کا وقت ہے، آرام کرنے کا وقت، تم نے یہاں آکر خواہ مخواہ ہمیں پریشان کردیا۔ جاتے ہو یا پھر واپس بھجوائیں تمہیں۔ گنگولی نے کہا اور میں پرسکون نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔ سات دن دے رہا ہوں تجھے گنگولی صرف سات دن اور یہ سات دن بہت ہوتے ہیں۔ سات دن میں اگر تو یہاں سے نہ گیا تو اسی جگہ تجھے راکھ کرکے رکھ دوں گا۔ گنگولی پھر ہنسا اور بولا۔ ابھی غصہ نہیں آیا ہمیں، ابھی تو ہم اپنا کام کررہے ہیں اور اچھی بات ہے ذرا میاں جی تمہارے کس بل بھی دیکھ لیں گے۔ چلو بس اب جائو، بات ہوگئی نا ہماری۔ میرا انتظار کیے بغیر وہ مڑا اور واپس درخت کے پیچھے چلا گیا۔ میں چند لمحات سوچتا رہا اور پھر گردن ہلا کر وہاں سے واپس پلٹ پڑا۔ مجھے جو کہنا تھا، میں نے اس سے کہہ دیا تھا۔ ان سات دنوں کے اندر اندر اگر ان لوگوں نے اپنے ڈیرے نہ اٹھا دیے تو پھر جو کچھ بھی کرسکوں گا، ضرور کروں گا۔ دو قدم آگے بڑھا تھا کہ دفعتاً ہی ایک گہرا گڑھا نظر آیا۔ میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ گڑھے کی چوڑائی کوئی آٹھ فٹ کے قریب تھی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ گڑھا موجود نہیں تھا، اب پڑ گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی تھی لیکن پھر دوسرے لمحے میں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور گڑھا عبور کرگیا۔ دس بارہ قدم آگے بڑھا تھا کہ پھر ویسا ہی ایک گڑھا نظر آیا۔ میں حیرانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ یہ گڑھا تقریباً بارہ فٹ چوڑا تھا۔ آٹھ فٹ لمبی چھلانگ تو میں نے جس طرح بھی بن پڑا، لگا ڈالی تھی لیکن اب یہ احساس ہورہا تھا کہ یہ خاصا چوڑا گڑھا ہے۔ دفعتاً ہی میرا ذہن جیسے مفلوج سا ہوگیا اور میں نے آنکھیں بند کرکے آگے قدم بڑھا دیے۔ میں اس گڑھے پر پائوں جماتا ہوا اسے عبور کر گیا۔ جب تقریباً اندازے سے بارہ، چودہ فٹ آگے بڑھ گیا تو میں نے آنکھیں کھول دیں اور پیچھے مڑ کر اس گڑھے کو دیکھنے لگا لیکن گڑھا پیچھے نہیں، آگے تھا اور اب میرے اندر ایک ایسی انوکھی قوت بیدار ہوگئی تھی جس کا میں خود کوئی تجزیہ نہیں کر پا رہا تھا۔ یہ گڑھے میرا راستہ روکتے رہے لیکن میں انہیں بڑے اطمینان سے عبور کرتا رہا۔ اب تو میں چھلانگ بھی نہیں لگا رہا تھا۔ پیروں کے نیچے زمین نہ ہوتی لیکن میرے قدم آگے بڑھتے رہتے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد میں ان کھنڈرات کے سامنے تھا جو کالی موری کے کھنڈرات کہلاتے تھے۔ میری ذہنی قوت اس وقت کچھ عجیب سی ہورہی تھی۔ بس کام کی باتیں سوچ رہا تھا، دوسری کوئی بات ذہن تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ کالی موری کے کھنڈرات دھوپ میں جل کر سیاہ ہوچکے تھے۔ غالباً شبنم کی نمی اور دھوپ کی تیزی نے انہیں یہ رنگ بخشا تھا۔ میں اندر داخل ہوا اور کھنڈرات میں ایک چوڑے در کو عبور کرکے اندر پہنچ گیا پھر میرے حلق سے آواز نکلی۔ گووندا او گووندا کہاں چھپا پڑا ہے سامنے آ سامنے آ میں اپنی آواز کی بازگشت محسوس کرتا رہا۔ پھر میں نے دوسری بار اسے آواز دی اور تھوڑی ہی دیر کے بعد کھڑبڑ کی آوازیں آنے لگیں لیکن جو چیز میرے سامنے آئی، وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ یہ ایک لمبا چوڑا بیل تھا جس کے پورے جسم پر کالے کالے دھبے پڑے ہوئے تھے لیکن اس کا چہرہ انسانی تھا البتہ اس چہرے پر دو سینگ اُگے ہوئے تھے۔ اتنے اونچے اونچے سینگ کہ کسی بیل کے سر پر اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے ہوں گے۔ وہ نتھنوں سے آوازیں نکال رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی پھنکاریں سی گونج رہی تھیں۔ اس نے مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر اپنے دونوں پائوں زمین پر مارے اور زمین کریدنے لگا۔ پھر اس نے بدن کو تھوڑا سا نیچے جھکایا اور اس کے بعد ایک طوفانی دھاڑ کے ساتھ میری جانب لپکا۔ اس کے لمبے چوڑے جسم کو دیکھ کر ایک لمحے میں یہ احساس ہوا تھا کہ اگر وہ مجھ پر آپڑا تو میری ہڈیاں تک سرمہ بن جائیں گی لیکن میں نے دونوں ہاتھ سامنے کئے اور اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے گردن جھکا کر میرے سینے پر زور دار ٹکر مارنا چاہی لیکن اس کے دونوں سینگ میرے ہاتھوں میں آگئے اور دوسرے لمحے میرے اور اس کے درمیان طاقت آزمائی شروع ہوگئی۔ میں پوری طاقت سے اس کے سینگوں کو داہنی جانب موڑ رہا تھا اور وہ اپنے جسم کی قوت صرف کررہا تھا۔ زمین پر اس کے پیروں کے نیچے آنے والی اینٹیں چُورچُور ہوتی جارہی تھیں لیکن وہ مجھے ایک قدم بھی پیچھے نہیں دھکیل پایا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے اس کی گردن پوری طرح موڑ دی اور اس کا قوی ہیکل جسم بڑی تیز آواز کے ساتھ زمین پر آرہا۔ میں نے اسے پٹخ دیا تھا۔ بہت زور دار آواز ہوئی تھی اور بیل گرنے کے بعد پھر نہ اٹھ سکا تھا اور ہاتھ، پائوں مار رہا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس کا جسم چھوٹا ہوتا جارہا تھا۔ میں اپنی جگہ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اچانک ہی مجھے پیچھے سے آواز سنائی دی۔ کون ہے تو یہاں کیا کررہا ہے میں ایک دم گھوم گیا۔ تب میں نے ایک نوجوان آدمی کو دیکھا۔ باریک ململ کا کرتا اور دھوتی پہنے ہوئے تھا۔ بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے، چہرہ بھی خوبصورت تھا۔ میں اس کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا۔ تو گووندا ہے ہاں مگر تو کون ہے ابھی تک تیرا دشمن نہیں ہوں، اگر تو میری بات مان لے۔ وہ میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر اچانک مسکرا پڑا اور بولا۔ آ اندر آجا آجا وعدہ کرتا ہوں کہ تجھ سے بات کروں گا اور تجھے کوئی نقصان نہ پہنچائوں گا۔ آجا مرد بچہ ہوں، وچن دے رہا ہوں تجھے۔ میں نے پلٹ کر بیل کو دیکھا اور چونک پڑا۔ وہ اب وہاں موجود نہیں تھا۔ لمبا چوڑا بیل غائب ہوگیا تھا۔ گووندا نے کہا۔ وہ میرا بیر تھا، تجھے نقصان نہ پہنچاتا۔ بس ڈرا رہا تھا۔ یہ وقت ہم کالے جادو والوں کے لیے گیان کا ہوتا ہے اور ہم کسی سے ملتے نہیں۔ میں نے بیر اس لیے چھوڑے ہیں کہ ضرورت مند لوگ ہر وقت آجاتے ہیں مگر تو نے میرا بیر ہی مار گرایا۔ چل آجا اندر آجا وہ واپس مڑ گیا۔ میں اس کے ساتھ کھنڈرات کے دوسرے حصے میں آگیا۔ اندر ایک جگہ بالکل درست حالت میں تھی مگر وہاں کوئی چیز نہیں تھی بس چند پتھر پڑے ہوئے تھے البتہ جگہ بالکل ٹھنڈی تھی۔ بیٹھ جا گووندا نے پھر کہا اور میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ میرا علم بتاتا ہے کہ تو مسلمان ہے۔ الحمدللہ یہاں کیوں آیا ہے تجھ سے بات کرنے۔ کیا بات کرنے تو پوجا وتی کا پیچھا چھوڑ دے۔ اوہ۔ تیرا اس سے کیا سمبندھ ہے کچھ نہیں۔ بس وہ ایک انسان ہے۔ بس یا اور کچھ نہیں بس یہی بات ہے۔ میں نے جواب دیا۔ انسان تو میں بھی ہوں مورکھ اگر بات صرف انسانیت کی ہے تو تجھے میرا بھی خیال کرنا چاہیے۔ میں بھی تو انسان ہوں۔ تجھے کیا تکلیف ہے گووندا۔ تو اچھا خاصا ہے۔ جو کچھ میں نے تیرے بارے میں سنا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ تو نے گندے علم کا کاروبار کررکھا ہے اور لوگوں کو تجھ سے نقصان پہنچتا ہے۔ گووندا ہنس پڑا۔ پھر بولا۔ ایک طرف کی سن کر دوڑ پڑے مہاراج کمار گووندا پر گووندا کے بارے میں بھی انہی لوگوں سے پوچھ لیتے جو اب کراہ رہے ہیں مگر تمہیں کیا پڑی۔ خیر اب ہمیں بتائو ہمارے پاس کیسے آئے ہو ایک بیر کو پچھاڑ مارنا کوئی کارنامہ نہیں، کسی خوش فہمی کا شکار مت ہوجانا۔ ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں، ابھی تک کسی مسلمان کو ہمارے ہاتھوں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہمیں اس کے لیے مجبور مت کرو۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں گووندا کہ تو پوجا کا پیچھا چھوڑ دے باقی تو جو کچھ کررہا ہے، اس سے مجھے سروکار نہیں ہے۔ میں نے کہا اور وہ ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔ واہ رے میاں مٹھو جو پڑھایا گیا ہے تجھے، وہی بول رہا ہے۔ ارے کہاں سے پکڑا گیا ہے تجھے اور کس نے پکڑا ہے کیا سری رام نے، اب وہ دوسرے دھرم والوں سے مدد لینے دوڑ پڑا ہے ارے بھائی ہمارے جیون کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے پوجا۔ پوجا کے لیے ہی تو ہم نے یہ ناٹک رچایا ہے سارا۔ تجھے معلوم تو کچھ ہے نہیں بس طوطے کی طرح پڑھا اور آگیا ہمارے سامنے۔ تو پوجا کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے آخر عمر تو تیری بھی زیادہ نہیں ہے۔ پریم کیا ہے کبھی تو نے تو تو پوجا سے محبت کرتا ہے مگر کیسا عاشق ہے یار تیری پوجا کا ایک اور دعویدار تجھ سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ہے اور وہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ پوجا کو حاصل کرکے چھوڑے گا۔ گووندا ایک دم سنجیدہ ہوگیا۔ پھر اس نے غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ پوجا کے چرنوں کی دھول بھی نہ پا سکے گا۔ اس کے پاس ہے کیا۔ ایک لونا چمارن کا جاپ کرلیا ہے اس نے۔ بس یہی اس کا گیان ہے۔ جب چاہوں گا اس کا ناس کردوں گا۔ تو ایسا نہیں کرسکتا گووندا۔ ابھی میں اس کے پاس بھی گیا تھا۔ میں نے کہا اور وہ مجھے گھورنے لگا۔ پھر اس کا انداز بدل گیا۔ گن کے پکے لگتے ہو میاں جی دیکھو سمجھا رہے ہیں تمہیں۔ ہماری کہانی دوسری ہے، اس پھیر میں مت پڑو۔ ہوسکتا ہے تمہارے پاس گیان ہو۔ ہم سے جھگڑا مت کرو۔ ہم نے بڑی تپسیا کی ہے، بڑے دکھ اٹھائے ہیں ہم نے۔ ہمارا علم کالا ہے، ہم مانتے ہیں اور ہم تمہارے علم کا احترام کرتے ہیں۔ تم سے جھگڑا نہیں کرنا چاہتے۔ جہاں تک گنگولی کا معاملہ ہے تو لگتا ہے اب بات بڑھ گئی ہے۔ سری رام اپنی ہٹ میں اپنی بیٹی کو نقصان پہنچا دے گا۔ اس لیے اس لیے پہلے ہم گنگولی کو ٹھکانے لگائے دیتے ہیں۔ دیکھنا چاہو تو رات کو آجانا۔ نہ آسکو تو کل جاکر اس کا استھان دیکھ لینا۔ کل وہ تمہیں وہاں نہ ملے گا، جہاں ہے۔ اب تک تو نے ایسا کیوں نہیں کیا بس نہیں کیا، اب کرلیں گے۔ مگر اس کے بعد تم ہمارا سامنا مت کرنا۔ ہم تم سے بنتی کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تمہارا علم ہم سے بڑا ہو۔ ہم کبھی کسی مسلمان کے علم سے نہیں ٹکرائے۔ اگر تم نے مجبور کیا تو مقابلہ کریں گے تمہارا۔ ہاریں یا جیتیں، یہ الگ ہے مگر جان لڑا دیں گے۔ جیتے جی ہار نہ مانیں گے۔ بس اب جائو۔ ہم نے تم سے کوئی بری بات نہیں کی ہے مگر سری رام کے جھگڑے میں مت پڑو۔ اگر گنگولی تجھ پر بھاری پڑ گیا گووندا تو تو ایک یار والی بات کہیں تم سے کہو تم اپنا علم گنگولی سے لڑا دینا۔ جیتا مت چھوڑنا سسرے کو۔ ورنہ پوجا کو پریشان کرے گا۔ اس نے دلسوزی سے کہا اور جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کہاں چلا گووندا بس مہاراج اجازت دو اس نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھا۔ چند قدم چلا اور پھر میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر اس کے چاروں طرف دیکھا مگر گووندا نظر نہ آیا۔ میں دیر تک وہاں گم صم کھڑا رہا تھا۔ عجیب سی گفتگو کی تھی اس نے، بڑا عجیب لگا تھا وہ مجھے۔ نہ جانے کیسا احساس ہورہا تھا۔ پھر وہاں سے واپسی کے علاوہ کیا کرسکتا تھا مگر راستے بھر گووندا کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اس جگہ سے بھی گزرا جہاں اس پچھل پہری کو دیکھا تھا مگر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بستی میں داخل ہوگیا مگر کالے جادو کے دونوں ماہروں سے یہ ملاقات بہت دلچسپ تھی۔ گووندا نے جو دعویٰ کیا تھا، وہ بھی بے حد دلچسپ تھا اور بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ رات کو میں یہاں موجود نہ ہوں۔ سلامت علی صاحب کے مکان میں داخل ہوا تو سورج ڈھل رہا تھا۔ فرخندہ بیگم سامنے آگئیں۔ مجھے گھورتے ہوئے بولیں۔ غضب خدا کا۔ یہ آپ کہاں آوارہ گردی کرتے پھر رہے ہیں جناب ذرا آئینہ دیکھئے چہرہ دھوپ سے کالا پڑ گیا ہے۔ میں کہتی ہوں یہ دھوپ میں باہر نکلنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی آپ کو۔ لو لگ جاتی تو کیا ہوتا۔ بیمار پڑنا ہے بس یونہی آپ کا چندوسی دیکھنے نکل گیا تھا فرخندہ۔ میں نے معذرت آمیز لہجے میں کہا۔ سنئے مسعود صاحب۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہاں آپ کا کوئی سرپرست موجود نہیں ہے۔ جو چاہیں گے، کریں گے۔ کس سے پوچھ کر باہر نکلے تھے آپ فرخندہ سخت لہجے میں بولی۔ کیا بکواس کررہی ہے فرخندہ۔ دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یہ تو مسعود میاں سے کس لہجے میں بات کررہی ہے ارے پاگل ہوگئی ہے کیا۔ نہ جانے کہاں سے سلامت علی نکل آئے۔ انہوں نے فرخندہ کے الفاظ سن لیے تھے۔ کوئی غلط کہہ رہی ہوں ابو۔ آپ ان کا چہرہ خود دیکھ لیں۔ آخر یہ دھوپ میں کیوں نکلے تھے۔ فرخندہ بلاجھجھک بولی۔ تو کون ہوتی ہے۔ میں دماغ ٹھیک کردوں گا تیرا۔ معاف کردیں مسعود میاں، معاف کردیں۔ نہ جانے کس جھونک میں یہ بکواس کرگئی۔ آئندہ میں اسے سمجھا دوں گا۔ سلامت علی پریشانی سے بولے۔ نہیں سلامت علی صاحب۔ خدا کے لیے نہیں۔ آپ، آپ ان الفاظ اور لہجے کی قیمت نہیں جانتے۔ آہ خوش نصیبوں کو یہ ڈانٹ ملتی ہے۔ مجھ سے میری یہ خوش بختی نہ چھینیں۔ آپ نے مجھے فراست کا درجہ دیا ہے۔ ہم بہن، بھائی کے درمیان نہ آئیں اوہ اچھا ٹھیک ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو سلامت علی شرمندگی سے کہنے لگے۔ فرخندہ اسی طرح تنی کھڑی تھی۔ اتنی پیاری لگی وہ مجھے کہ جی چاہا بڑھ کر پیشانی چوم لوں مگر یہ بھی حکم نہ تھا مجھے۔ اس نے پھر کہا۔ چلیے غسل کیجئے۔ میں چائے تیار کراتی ہوں۔ میں خاموشی سے اندر چل پڑا تھا اور سلامت علی سر کھجاتے رہ گئے تھے۔ غسل کرتے ہوئے میں گووندا کے کردار کے بارے میں سوچتا رہا۔ انوکھا کردار تھا۔ ایک عجیب سا احساس ہورہا تھا مجھے۔ دن بھر کی لو اور تپش کے بعد شام ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ چائے وغیرہ پی لی گئی۔ سات بجے کے قریب سلامت علی میرے پاس آگئے۔ دوپہر کو کالی موری گئے تھے مسعود میاں جی ہاں۔ رات کو بھی جانا ہے۔ اوہ وہ آہستہ سے بولے۔ یوں لگا جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر رک گئے ہوں۔ چند لمحات خاموش رہے۔ پھر بولے۔ کیا بتائوں مسعود میاں میں خود گھن چکر بن گیا ہوں۔ کیوں سلامت علی صاحب تمہارا وہ احترام نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے بلکہ یہ بچے۔ ناواقفیت کی بنا پر اس قدر بے تکلف ہوگئے ہیں کہ مجھے خوف آنے لگا ہے۔ بیٹے دراصل تمہارا تعارف اس انداز میں ہوا ہے کہ وہ تمہیں سمجھ نہیں پائے ہیں اور پھر تمہاری عمر بھی انہی کے لگ بھگ ہے اور پھر میں خود۔ بھلا یہ باتیں پوچھنے کی ہیں جو میں پوچھ رہا ہوں۔ آپ خود یہ ساری باتیں سوچ رہے ہیں جبکہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ان لوگوں کی بے تکلفی مجھے اپنے گھر کا ماحول یاد دلاتی ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے میں بھی بھائی، بہن اور ماں، باپ والا ہوں۔ وہ لوگ کہاں ہیں سلامت علی نے بے اختیار پوچھا۔ اللہ کی اسی زمین پر میں نہیں جانتا۔ میں نے جواب دیا۔ سلامت علی خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد پھر بولے۔ کالی موری رات کو بھی جائو گے ہاں۔ شاید کچھ ہوجائے۔ کیا وہ بولے اور میں نے انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھا تو وہ جلدی سے بولے۔ میرا مطلب ہے کہ تمہیں تو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے۔ افوہ بھئی نہ جانے کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بس اپنا بھی خیال رکھنا۔ جی بہتر میں نے ادب سے جواب دیا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس خوش بختی کو میں نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی جدا ہوگئے تھے مگر ان کی محبتوں کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آجاتی تھیں۔ کبھی کسی شکل میں، کبھی کسی شکل میں۔ سلامت علی صاحب بھی بس میرے لیے فکرمند ہوگئے تھے۔ کھل کر کچھ نہیں کہہ پا رہے تھے۔ مطلب یہی تھا کہ کالے جادوگروں سے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد رات کا کھانا کھایا اور دل بے چین ہوگیا۔ کالی موری کا فاصلہ بھی زیادہ تھا، چل پڑنا چاہیے۔ فراست کے بارے میں سلامت علی صاحب نے بتایا تھا کہ وہ ایک کام سے بلند شہر گیا ہے اسی لیے وہ نظر نہیں آیا تھا۔ بالآخر میں خاموشی سے گھر سے نکل آیا اور کالی موری کے فاصلے طے کرنا لگا۔ چھوٹے شہر تاریکی کے ساتھ ہی سنسان ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت چندوسی کی تھی حالانکہ ابھی رات کا آغاز ہوا تھا مگر گلیاں، بازار اس طرح سنسان اور تاریک پڑے تھے جیسے آدھی رات گزر گئی ہو۔ میں چلتا رہا۔ سڑکوں پر کتوں کا راج تھا۔ بھونک رہے تھے۔ لڑ رہے تھے، مگر کوئی مجھ پر نہیں لپکا تھا۔ شہر پیچھے رہ گیا۔ میری رفتار تیز ہوگئی۔ اس جگہ ذرا سی جھجھک ہوئی جہاں چڑیل اور سر کٹا دیکھا تھا مگر اب خاموشی تھی۔ ایک لمحے میں فیصلہ کرلیا کہ گنگولی کی طرف رخ کروں اور اسی طرف میں بڑھا۔ دونوں کے بارے میں اندازہ لگا چکا تھا کہ دونوں ہی سفلی علوم جانتے ہیں۔ اگر گووندا کا دعویٰ درست تھا تو ان کے درمیان جادو کی معرکہ آرائی زبردست ہوگی یا ممکن ہے کہ میرے آنے سے پہلے ہوچکی ہو۔ درختوں کے سلسلے کے پاس رک گیا۔ بس کچھ فاصلے پر گنگولی کا استھان تھا۔ میں ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ اچانک ایک سرسراہٹ سنائی دی اور میں چونک کر آنکھیں پھاڑنے لگا مگر آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ ہوسکتا ہے کوئی گیدڑ یا دوسرا جانور ہو۔ پھر اچانک درختوں کے دوسری طرف روشنی سی نظر آئی اور میں ادھر دیکھنے لگا۔ روشنی متحرک تھی۔ پھر وہ درختوں کے پیچھے سے نکل آئی۔ ایک مشعل روشن تھی لیکن اس سے شعلے نہیں نکل رہے تھے۔ غور سے دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک انسانی کھوپڑی تھی جو ایک ڈنڈے میں اُڑسی ہوئی تھی۔ روشنی اسی سے پھوٹ رہی تھی اور یہ مشعل گنگولی کے ہاتھ میں تھی۔ گنگولی اس وقت دن سے مختلف نظر آیا۔ وہ گلے میں بہت سی کھوپڑیاں ہار کی شکل میں پہنے ہوئے تھا۔ ان کھوپڑیوں کی آنکھوں کے گڑھے بھی روشن تھے۔ وہ تھرکتا ہوا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ میں سنبھل گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے میری آمد کا علم ہوگیا تھا۔ اب میں نے اپنے آپ کو چھپانا مناسب نہیں سمجھا اور گنگولی کے سامنے آگیا۔ گنگولی نے ہاتھ سیدھا کیا اور مشعل کے نچلے حصے کو ایک درخت کے تنے میں زور سے مارا اور درخت کا ٹھوس اور مضبوط تنا ایسا نہیں تھا کہ کسی معمولی ضرب سے اس میں سوراخ ہوجائے لیکن مشعل کوئی آٹھ انچ کے قریب درخت کے تنے میں پیوست ہوگئی۔ گنگولی نے اسے چھوڑ دیا۔ آس پاس تیز روشنی پھیل گئی تھی۔ ارے میاں جی تم کیوں اپنی جان گنوانے پر تلے ہوئے ہو، بار بار آجاتے ہو۔ یہ بھیروں کا استھان ہے، نجانے کون کون یہاں آتا جاتا ہے۔ کوئی گردن مڑوڑ لے گا۔ اب کیسے آن مرے بس گنگولی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم کیا کررہے ہو ایسے کام نہ دیکھا کرو میاں جی تو ہی اچھا ہے۔ تم نجانے کیا کیا سوچ رہے ہو اپنے من میں، بالی سی عمریا ہے، کھانے پینے کے دن ہیں اور پڑ گئے ہو کالے جادو کے پھیر میں۔ اب تو آگئے ہو، ادھر آئندہ مت آنا۔ دراصل گنگولی تجھ سے کئی باتیں کرنا رہ گئی تھیں۔ سو وہ کرنے چلا آیا۔ ارے شکر کرو کالی راتوں کا موسم ہے۔ نکلا ہوتا چاند تو تمہیں مزہ آجاتا یہاں آنے کا۔ کیوں چاند سے کیا ہوتا میں نے سوال کیا اور گنگولی پھر ہنس پڑا۔ سبھالگی ہوتی ہے چاندنی راتوں میں، بیروں اور ویروں کی۔ سارے کے سارے اپنی اپنی کتھائیں کہہ رہے ہوتے ہیں، لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے کو نوچتے ہیں، بھنبھوڑتے ہیں اور اگر بیچ میں کوئی آجائے تو اسے بھی چٹ کر جاتے ہیں۔ واقعی یہ تو اچھا ہوا گنگولی کہ چاندنی راتیں نہ ہوئیں۔ اچھا تم ایک بات بتائو۔ تمہیں پتا ہے کہ گووندا سری رام جی کی بیٹی پوجا کو حاصل کرنے کے چکر میں ہے اور تمہیں اسی کے خلاف یہاں بلایا گیا تھا، تم خود پوجا کے چکر میں پڑ گئے اور تم نے یہاں ڈیرہ ڈال لیا۔ اس طرح ڈیرہ ڈالنے سے کیا تمہیں پوجا مل جائے گی واہ میاں جی واہ اچھی سوچی، جو یہ سارے بائولے نہیں سوچ سکے۔ میاں جی گووندا کا اور ہمارا ابھی تک آمنا سامنا نہیں ہوا۔ جانتے ہو کیوں ارے ہم نے بھی گووندا کو آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ نہ اس نے ہم پر وار کیا نہ ہم نے اس پر۔ ہم انتظار کررہے ہیں کہ گووندا سری رام کو پریشان کرے اور جب ان کی ناک میں دم آجائے تو وہ دوڑیں ہماری طرف اور ہم پوجا کو ان سے مانگ لیں۔ اگر ہم نے گووندا کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو پھر بھلا سری رام کو کیا پڑی کہ ہماری مانے۔ جب تک گووندا ہمیں نہیں چھیڑتا، ہم اسے نہیں چھیڑیں گے۔ اور اگر گووندا کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ تمہارا کیا ارادہ ہے تو کیا وہ تمہیں چھوڑ دے گا میں نے پوچھا۔ یہ تو ہونا ہے میاں جی جھگڑا تو رہے گا ہمارا اس سے اگر ہمارے من میں پوجا کو حاصل کرنے کا خیال نہ آجاتا تو ہم اس کام کے لیے تو آئے تھے۔ گووندا سے ہماری ٹکر ہوتی مگر تم نے اگر پوجا کو دیکھا ہے تو تمہیں بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ کیسی سندر ہے۔ بات ہم نے بیچ میں اس لیے چھوڑ دی کہ اب اگر جھگڑا ہو گووندا سے، تو پوجا کے لیے ہو۔ دفعتاً ہی ایک عجیب سی آواز فضا میں ابھری اور ایک بھیانک منظر نگاہوں کے سامنے آگیا۔ گنگولی کی گردن میں کھوپڑیوں کا جو ہار پڑا ہوا تھا، اس میں پروئی ہوئی کھوپڑیوں کے منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکلنے لگی تھیں۔ منمناتی ہوئی آوازیں جو کچھ کہہ رہی تھیں۔ کوئی بھاری آواز، کوئی باریک آواز، کسی کھوپڑی کے منہ سے معصوم بچے جیسی آواز نکل رہی تھی، تو کوئی نسوانی آواز میں چیخ رہی تھی۔ ان کے الفاظ تو سمجھ میں نہیں آئے مگر گنگولی کے انداز سے یہ پتا چلتا تھا جیسے اسے کوئی خاص اطلاع ملی ہو۔ وہ اچانک ہی اچھل کر تھوڑے فاصلے پر پڑے ہوئے ایک بڑے سے پتھر پر چڑھ گیا اور اس نے اِدھر اُدھر گردن گھمانا شروع کردی اور پھر ایک جانب کچھ دیکھنے لگا۔ میری نظریں بھی اسی طرف اٹھ گئی تھیں۔ مدھم تاریکی میں، میں نے بھی اس متحرک ہیولے کو دیکھ لیا جو اس سمت آرہا تھا اور پھر وہ ہیولا میری نگاہوں میں روشن ہوگیا۔ کالے رنگ کے ایک بھینسے پر گووندا سوار تھا اور بھینسا اس سمت بڑھ رہا تھا۔ گووندا نے اپنے سر پر ایک پروں کا تاج پہن رکھا تھا لیکن جو چیز میں نے انوکھی دیکھی، وہ اس کے بہت سے ہاتھ تھے جو اس کے جسم سے لگے ہوئے تھے۔ ان ہاتھوں میں طرح طرح کے ہتھیار دبے ہوئے تھے۔ کسی میں لمبی سی ہڈی، کسی میں کلہاڑی، کسی میں نیزہ وہ بھینسے کو دوڑاتا اس سمت آرہا تھا۔ گنگولی پتھر سے نیچے اتر آیا۔ اس نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے، زمین کی طرف چہرہ جھکایا اور چکر سے کاٹنے لگا۔ پھر ایک دم سیدھا ہوگیا۔ اس کے حلق سے ایک ہولناک چیخ نکلی۔ دو بار وہ اسی انداز میں چیخا اور پھر اس کا بدن بری طرح کانپنے لگا۔ ایک لمحے میں وہ دوبارہ ساکت ہوگیا اور پھر میری طرف گردن گھما کر بولا۔ تو بھاگ جا یہاں سے، چل بھاگ جا یہاں سے اس حرام خور کو مستی آگئی ہے آج، لڑنے آرہا ہے ہم سے، جان بچانا چاہتا ہے میاں جی تو بھاگ جا یہاں سے۔ یہ کہہ کر وہ خود درختوں کے پیچھے بھاگ گیا۔ البتہ میں اپنی جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ میں نے ایک چوڑے تنے کی آڑ لے لی۔ اتنی دیر میں گووندا قریب پہنچ گیا۔ وہ بڑا پروقار نظر آرہا تھا۔ پھر میں نے گنگولی کو بھی درختوں کی آڑ سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سیدھے کئے ہوئے تھے، گردن جھکائی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں سے خوفناک نیلی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ جے جے بھدرنا مچنڈا۔ گنگولی نے کہا۔ کالی کنتھوریا کلکتے کا باز تجھے ہمارے بارے میں پتا کرلینا چاہیے تھا۔ کرلیا تھا پتا تیرے بارے میں گووندا بھدرنا مچنڈا بھی کالی کا داس ہے اور جب بات من کے پھیر میں آجائے تو سب کچھ جائز ہوجاتا ہے، ہو سکتا ہے ہم کالی کنتھوریا کو مان لیتے، پر پرتھوی راج نے سنجوگتا کے لیے کنتھوریا کنٹھ کیا تھا۔ سو ہم بھی اسی کا بنس دہرا رہے ہیں۔ موت آئی ہے تیری تو میں بھدرنا بھینٹ دے دوں گا۔ دفعتاً ہی گووندا کے ہاتھ سے ایک نیزہ سنسناتا ہوا نکلا اور گنگولی کے سینے میں جا لگا لیکن گنگولی کے سینے میں بڑا سا سوراخ ہوا اور نیزہ اس کے دوسری طرف سے نکل کر عقب میں موجود درخت میں پیوست ہوگیا۔ گنگولی نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور بھیانک آواز میں چیخا۔ جے بھدرنا مچنڈا۔ اور پھر وہ دونوں ہاتھ زمین پر ٹکا کر ہاتھوں اور پیروں کے بل چکر لگانے لگا۔ اسی وقت گووندا نے اپنے بھینسے کو اس پر دوڑا دیا۔ شاید گنگولی کو اس کا احساس نہیں تھا، وہ خود بھی کوئی جادوئی عمل کرنے کو جارہا تھا۔ اس نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ اب گووندا اس پر کوئی دوسرا ہتھیار پھینک کر مارے گا اور وہ اس سے بچائو کرے گا مگر گووندا نے بھی چالاکی سے کام لیا تھا اور بھینسے ہی کو اس پر دوڑا دیا تھا۔ نتیجے میں گنگولی بھینسے کی لپیٹ میں آگیا اور بھینسا اسے روندتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ گنگولی زمین پر جا پڑا تھا۔ گووندا نے کچھ فاصلے پر جاکر بھینسے کا رخ تبدیل کیا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا ہتھیار جو کلہاڑی کی شکل میں تھا، گنگولی پر کھینچ مارا۔ نشانہ سچا تھا، کلہاڑا گنگولی کی گردن پر لگا اور گنگولی کی گردن کٹ کر کئی فٹ دور جا پڑی۔ اس کا دھڑ اپنی جگہ سے اٹھا اور تیزی سے ایک سمت دوڑنے لگا۔ سامنے ایک لمبے تنے والا درخت نظر آرہا تھا۔ گنگولی کے بے سر کا جسم درخت کے تنے پر پھرتی سے چڑھنے لگا۔ گووندا نے فوراً ہی بھینسے کو دوڑایا اور اس درخت کے قریب پہنچ گیا اور پھر اس نے گنگولی کے جسم پر مختلف ہتھیاروں سے بے شمار وار کئے اور اسے نیچے گرا لیا لیکن میری آنکھوں نے اس ہولناک منظر کے ساتھ ساتھ ایک اور خوفناک منظر بھی دیکھا۔ گنگولی کا کٹا ہوا سر آہستہ آہستہ میری جانب سرک رہا تھا۔ پھر وہ تقریباً چار فٹ اونچا بلند ہوگیا اور اس کے منہ سے ایک سرگوشی سی نکلی۔ اپنا شریر مجھے ادھار دے دو میاں جی واپس کردوں گا، اس پاپی گووندا کو نیچا دکھانے کے بعد جلدی کرو، اپنا شریر مجھے دے دو۔ ہاتھ بڑھا کر میرے سر کو اپنے سر پر رکھ لو۔ ارے دیر ہورہی ہے۔ اگر وہ پلٹ پڑا تو برا ہوجائے گا۔ گنگولی کا سر آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنے لگا اور پھر میرے چہرے سے اس کا فاصلہ ایک فٹ سے زیادہ نہ رہ گیا۔ میں نے دایاں ہاتھ سیدھا کیا اور ایک زوردار تھپڑ اس کٹے ہوئے سر کے رخسار پر رسید کردیا۔ سر بہت دور جاکر گرا تھا اور گووندا اس کی جانب متوجہ ہوگیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں ایک گھٹی گھٹی سی چیخ ابھری اور عقب میں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی چیز گری ہو۔ توجہ ایک لمحے کے لیے بٹ گئی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسری طرف گووندا نے گنگولی کے سر کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دوسرے نیزے میں پرو لیا تھا۔ اس کے مختلف ہاتھ اپنے ہتھیاروں سے گنگولی کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرچکے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے گووندا کو میری یہاں موجودگی کا علم نہ ہو۔ اس نے اپنا کام سرانجام دیا۔ گنگولی کا سر نیزے میں سنبھالا اور بھینسے کا رخ تبدیل کردیا اور پھر بھینسا اسی جانب دوڑ پڑا، جدھر سے آیا تھا۔ میں سنسنی خیز نگاہوں سے جاتے ہوئے بھینسے کو دیکھتا رہا۔ بھوریا چرن بھی ایک بار اسی طرح بابا فضل کے مقابلے پر آیا تھا۔ کالا بھینسا، کالے جادو کے ماہروں کی خاص سواری معلوم ہوتا تھا۔ اور گووندا یقینی طور پر کنگولی سے بڑا جادوگر تھا۔ وہ اپنے قول میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اگر میرا اندازہ غلط نہیں تھا تو اب گنگولی کا وجود ختم ہوگیا تھا۔ عجیب لڑائی تھی۔ بے حد بھیانک، بڑی دہشتناک۔ فضا میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ بغور جائزہ لینے کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ بدبو گنگولی کے جسم کے ان ٹکڑوں سے اٹھ رہی تھی جو اب پانی کی طرح پگھل رہے تھے اور گٹر کے کالے پانی کی طرح زمین پر بہہ رہے تھے۔ بدبو ناقابل برداشت تھی۔ یہاں اب کچھ نہیں رہ گیا تھا چنانچہ واپسی کے سوا اور کیا کرتا۔ واپس پلٹا ہی تھا کہ پھر کچھ سرسراہٹیں سنائی دیں۔ پھر ایک ہانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔ مسعود میاں۔ مسعود میاں مجھے، مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ مجھے بھی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔ وہ چیخ اور کچھ گرنے کی آواز یاد آگئی۔ اس وقت ذہن میں ہیجان تھا اس لیے پوری توجہ نہیں دے سکا تھا لیکن یہ آواز یہ شناسا تھی۔ میں اس درخت کے پیچھے پہنچ گیا جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہ سلامت علی ہی تھے جو زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ میں نے آہستہ سے کہا۔ معاف کردینا مجھے۔ معاف کردینا تمہارے پیچھے چلا آیا تھا۔ آہ میرا بدن بیکار ہوگیا ہے، مجھ سے اٹھا نہیں جارہا۔ نہیں۔ آپ ٹھیک ہیں۔ آیئے میرا سہارا لے لیجئے۔ میں نے ان کے جسم کا بوجھ سنبھالا اور انہیں کھڑا کردیا۔ وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگے تھے۔ میں۔ میں اب چل سکتا ہوں۔ میں چل سکتا ہوں۔ یہ دیکھو میں وہ دو قدم آگے بڑھے۔ میں نے ان کا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔ آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ آیئے واپس چلیں۔ سب کچھ چھوڑ دیا میں نے، اگر سلامت علی نہ ہوتے تو شاید میں گووندا کے پاس جاکر اسے مبارک باد دیتا مگر اب گھر واپس جانا ضروری تھا۔ میں پھر معافی چاہتا ہوں۔ نہ جانے تمہارے کس کام میں حرج ہوا۔ بس تجسس پیدا ہوگیا تھا۔ چھپ کر تمہارا پیچھا کیا اور آہ میں نے یہ سب کچھ، اس سے پہلے میں نے یہ سب کچھ سوچا بھی نہیں تھا۔ آئندہ خیال رکھئے سلامت علی صاحب۔ یہ جادو کی کالی دنیا ہے اور ایسے مناظر جان لے لیتے ہیں۔ خدا کے لیے مجھے میرا کام کرنے دیں۔ اس میں مداخلت سے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ سخت۔ سخت شرمندہ ہوں۔ آئندہ کبھی مگر۔ میرے خدا یہ یہ سب یہ سب کیا تھا۔ آپ کے دوست سری رام کی ایک مشکل کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ گنگولی کا کھیل تو ختم ہوگیا ہے اور اب گووندا رہ گیا ہے، صرف گووندا۔ وہ بھی ختم ہوجائے گا اطمینان رکھیں۔ میں نے کہا۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 114 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-12/ | جی بہتر۔ سرفراز ایک دَم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر وہ آذر کی طرف مڑ کر قدرے شوخ لہجے میں گویا ہوئے۔ آیئے دولہا میاں۔ مام یہ سب اس طرح اچانک۔ آذر کشمکش اور مخمصے کا شکار تھے۔ اب کچھ نہ سوچو۔ بیگم تیمور نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ وقت کے اس خوبصورت فیصلے کے لیے خود کو تیار کرو۔ آذر اور سرفراز کے جانے کے بعد انہوں نے انوشہ کو بلوایا۔ وہ بھی اس فیصلے سے بے خبر تھی۔ جب بیگم تیمور نے ساری بات اسے بتائی تو وہ حیران رہ گئی۔ کیا کہہ رہی ہیں مام، شادی وہ بھی بھیا کی یوں خامشی سے اس طرح اچانک آئی کانٹ بلیو اِٹ۔ بیگم تیمور نے اس کا ہاتھ پکڑ کے قریب بٹھا لیا اور دیر تک اپنی طبیعت کے بارے میں بتانے کے بعد بولیں۔ میں اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کا گھر بسا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ ماں کی بھرّائی ہوئی آواز نے انوشہ کے دل پر خاصا اَثر کیا۔ وہ تو ٹھیک ہے مام۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔ بھیّا کی شادی کے لیے میں نے اتنا کچھ سوچا ہوا تھا مہندی میں اپنی فرینڈز کو بلانا تھا مگر آپ نے تو یہ سب کچھ اچانک اور سادگی سے آج صرف نکاح ہے۔ بیگم تیمور سمجھانے والے انداز میں بولیں۔ دو دن بعد کسی بڑے فائیو اسٹار میں ہم آذر کے ولیمے کی تقریب کریں گے۔ ایسی شاندار پارٹی ہوگی کہ لوگ برسوں یاد کریں گے تم اپنی تمام فرینڈز کو اُسی دن بلا لینا۔ یہ ٹھیک ہے۔ انوشہ خوش ہوگئی۔ مگر یہ بتایئے ہماری بھابی کیسی ہیں۔ تمہارے دِل و ذہن میں بھابی کا جو بھی تصور ہے۔ بیگم تیمور پُراعتماد انداز میں مسکرائیں۔ سمجھو فریحہ اُس تصور کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ہیں مام۔ انوشہ کا چہرہ مسرت سے کھل اُٹھا۔ وہ تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ ٭ ٭ ٭ فوزیہ بیگم جس بیٹی کی شادی کے لیے کب سے پریشان تھیں۔ آج اُن کی اُس بیٹی کی بارات آنے والی تھی۔ صاعقہ تیمور نے سادگی سے شادی اور رُخصتی کی شرط رکھی تھی مگر اُن کی طرف سے آنے والی بری میں سادگی کا کوئی دخل نہ تھا۔ بیش قیمت عروسی جوڑا، یاقوت کا جڑائو سیٹ، ہیرے کے کنگن، سونے کی درجن بھر چوڑیاں اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ یہ سب اُنہیں خواب جیسا لگ رہا تھا۔ کبھی انہیں فریحہ کی خوش بختی پر شبہ ہونے لگتا۔ خود صفیہ بھی حیران تھیں۔ نکاح کا جوڑا اور زیور دیکھ کر وہ خاصی اَپ سیٹ اور مغموم ہو گئی تھیں۔ کیا ہوا تم اتنی دُکھی کیوں نظر آرہی ہو صفدر نے پوچھا۔ آپ نے فریحہ کے نکاح کا جوڑا اور زیور دیکھے۔ اُنہوں نے میاں کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اُلٹا انہی سے سوال کر دیا۔ بری جیسی بری ہے نکاح کا جوڑا بھی کم از کم ایک لاکھ کا ہوگا۔ اور زیور بھی تو دیکھو یاقوت کا یہ بڑا جڑائو سیٹ بالشت بھر کے جھالے ہیں، سونے کی یہ موٹی موٹی چوڑیاں اور ہیرے کے کنگن۔ وہ ایک دم سے چپ ہوگئیں۔ اپنی بہو فاریہ کے لیے میں نے جو سیٹ بنا کر رکھا ہے وہ تو اس زیور کے سامنے نظر بھی نہیں آئے گا، اُنگل بھر کے بندے اور ستلی جیسا نیکلس۔ ارے تو یہاں تمہاری بہو کے زیور کا کیا موازنہ ہے۔ صفدر میاں حیرانی سے بولے۔ گھر میں جتنی بھی بیٹیاں ہوں سب کے نصیب جدا جدا ہوتے ہیں اور عقل مند وہی ہے جو اپنی تقدیر پر شاکر رہے، میں جانتا ہوں فاریہ ایک پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکی ہے۔ وہ یہ بات سوچے گی بھی نہیں جو بات تم کر رہی ہو۔ تو میں فاریہ کی بات کب کر رہی ہوں۔ صفیہ بیگم چٹخ کر بولیں۔ میں تو اپنی بات کر رہی ہوں۔ کیسی سبکی اور احساس کمتری محسوس ہو رہا ہے۔ کل کو میں اپنے بیٹے کی بری لے کے اُسی گھر میں جائوں گی تو نکاح کی تقریب میں ایک آدھ قریبی رشتے دار کو ہی بلایا گیا تھا۔ باقی گھر کے ہی لوگ تھے، پڑوس سے صرف ڈاکٹر بہروز اور اُن کی فیملی کو مدعو کیا گیا تھا۔ دوپہر ڈھلتے ہی فاریہ نے فریحہ کو نہلا دُھلا کر دُلہن بنانے کا کام شروع کر دیا تھا۔ مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے ڈرائنگ روم میں انتظام کیا گیا تھا۔ فوزیہ بیگم کی بڑی خواہش تھی کہ مہمانوں کو رات کا کھانا کھلائیں مگر بیگم تیمور صرف کولڈ ڈرنک پینے پر بہ مشکل آمادہ ہوئی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر بہروز اور ربیعہ بیگم آ گئے۔ زویا اور شہروز کہاں ہیں۔ فوزیہ بیگم نے پوچھا۔ شہروز کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ربیعہ نے جواب دیا۔ زویا اُسی کے پاس ہے۔ ہم بھی ذرا جلد جانا چاہ رہے ہیں۔ ٹھیک سات بجے بیگم صاعقہ تیمور، انوشہ، نورجہاں، خیرالنسا ، سرفراز اور آذر کے ساتھ آ موجود ہوئی تھیں۔ فریحہ کو دیکھ کر انوشہ خوش ہو گئی تھی۔ اُس پر ایسا رُوپ چڑھا تھا کہ جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ مغرب سے پہلے آذر اور فریحہ کے نکاح کی رسم ادا کی گئی۔ پھر ٹھنڈی بوتلوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی اور مغرب کے فوراً بعد رُخصتی کر دی گئی۔ ٭ ٭ ٭ رُخصتی کے بعد ڈاکٹر بہروز اور ربیعہ بھی گھر جانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ گیٹ فضیلت بوا نے کھولا تھا۔ وہ دونوں شکستہ قدموں سے چلتے لائونج میں جا بیٹھے۔ فضیلت بوا کے پوچھنے پر ربیعہ نے بتایا۔ دُلہن بن کر فریحہ بے حد پیاری لگ رہی تھی۔ دولہا بھی بہت پیارا ہے۔ تب ہی اُن کی نظر لائونج کے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑے شہروز پر پڑی۔ اس کے چہرے پر حیرت اور بے یقینی تھی۔ اُس نے لرزتی ہوئی آواز میں سوال کیا۔ یہ کس کی شادی کا ذکر ہو رہا ہے فریحہ بٹیا کی شادی کا۔ فضیلت بوا نے سرسری سے انداز میں بتایا۔ آج ان کا نکاح اور رُخصتی تھی۔ بہروز میاں اور ربیعہ بیگم وہیں سے آ رہے ہیں۔ امی۔ شہروز حیران و پریشان سا ماں کی طرف پلٹا۔ یہ فضیلت بوا کیا کہہ رہی ہیں یہ غلط ہے نا کہہ دیجیے فریحہ کی شادی نہیں ہوئی یہ جھوٹ ہے غلط ہے۔ ربیعہ نے اثبات میں سر ہلا کر نگاہیں جھکا لی تھیں۔ وہ چند لمحوں تک حیرت و اذیت کی تصویر بنا ماں کا جھکا سر دیکھتا رہا۔ پھر تیزی سے لائونج سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ شہروز شہری ربیعہ تیزی سے اس کے پیچھے لپکی تھیں مگر اُن کے پہنچنے سے پہلے ہی شہروز نے کمرے میں داخل ہو کر اندر سے دروازہ بند کر لیا تھا۔ شہری، میرے بچے کیا کر رہے ہو وہ دروازے کو پیٹتے ہوئے بے بسی سے پوچھے جا رہی تھیں۔ شہری سنو بیٹا۔ مگر شہروز اس وقت سننے اور سمجھنے کی منزل سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ اسے خبر تک نہ ہوئی اور اس کی دُنیا لٹ گئی تھی۔ جسے وہ برسوں سے چاہتا چلا آ رہا تھا وہ فریحہ چشم زدن میں کسی اور کی دُلہن بن کر رُخصت ہو چکی تھی۔ اب زندہ رہنے کی آرزو تھی نہ خواہش۔ خواب کرچی کرچی ہو کر پلکوں میں چبھ گئے تھے۔ آنکھیں ہی نہیں دل بھی لہو لہان ہوگیا تھا۔ اُس نے میز کی دراز سے خواب آور گولیوں کی شیشی نکالی۔ میز پر دھرے جگ سے گلاس میں پانی اُنڈیلا۔ پھر شیشی کھول کر تمام گولیاں حلق میں اُلٹ لیں، دو گھونٹ پانی پی کر گولیاں حلق سے اُتاریں اور ڈگمگاتے قدموں سے بیڈ کی طرف بڑھا اور دَھپ سے بستر پر گر گیا۔ ٭ ٭ ٭ مصعب نے جیپ مسجد اور مسجد کے پچھواڑے بنے مولوی کے حجرے سے کافی فاصلے پر روکی تھی اور دلکش کو اکیلے ہی مولوی کے پاس جانے کو کہا تھا۔ مگر اب اسے گئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ پھر اُنہوں نے مسجد کے سامنے ایک جیپ رُکتے دیکھی تھی۔ تب ہی اُن کا ماتھا ٹھنکا تھا اور وہ اپنی جیپ اسٹارٹ کر کے حجرے کے سامنے پہنچے تھے۔ اُنہوں نے حجرے میں دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہاں مکمل سنّاٹا تھا۔دلکش وہاں موجود نہیں تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ اس وقت دلکش کہاں ہوگی کیا وڈیرے کے گرگے اسے پکڑ کے لے گئے یا وہ بھاگ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایسی صورت میں وہ کھیتوں کے آس پاس کہیں چھپی ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ کھیتوں کے ساتھ ساتھ چلتے دُور پھیلے ٹیلوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اُن کا دل دلکش کے لیے عالم اضطراب میں دھڑک رہا تھا اور وہ اپنے دل کی کیفیت پر حیران تھے۔ اُن کے اس دل نے ایک عرصے سے کسی بھی واقعے کا اثر لینا چھوڑ دیا تھا مگر آج اُن کا دل دلکش کے لیے پریشان ہو رہا تھا۔ دلکش تہہ خانے سے نکل کر پہلے کچے راستے کی طرف چلی تھی۔ پھر اسے اُس راستے پر کسی شخص کی موجودگی کا احساس ہوا تو وہ جلدی سے ایک اُونچے ٹیلے کے پیچھے دُبک کر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد اُس نے ٹیلوں کے مخالف سمت چلنے کا فیصلہ کیا۔ کافی دُور چلنے کے بعد وہ کھیتوں کی جانب آ نکلی، تب ہی اس کے کانوں میں جیپ کے انجن کی آواز گونجی تھی۔ وہ فوراً کھیتوں میں جا چھپی۔ وہ جیپ مصعب کی بھی ہو سکتی تھی اور جلیل شاہ کے غنڈوں کی بھی۔ اس لیے اُس نے چھپ کر جیپ کا معائنہ کیا۔ اگلے ہی لمحے اُس کے تنِ ناتواں میں ایک نئی توانائی سمٹ آئی۔ جیپ میں مصعب ہی تھے۔ وہ کھیت سے نکل کر کچے راستے پر دوڑ پڑی۔ اسے دیکھ کر مصعب تیزی سے جیپ دلکش کے قریب لے آئے۔ دلکش اُچھل کر جیپ میں سوار ہوگئی تو مصعب نے ایکسیلیٹر پر دبائو بڑھا دیا۔ نکاح نامہ حاصل نہ کر سکنے کا دلکش کو ملال تھا۔ اب یہ خدشہ بڑھ گیا تھا کہ جلیل شاہ نکاح نامہ وہاں سے غائب کروا دے گا۔ جہاں نکاح نامہ نہ ملنے پر اسے افسوس تھا وہیں عدیل شاہ کے والد عقیل شاہ سے اچانک اور غیرمتوقع ملاقات پر اسے حیرت اور مسرت تھی۔ عقیل شاہ کی یہ طویل اسیری جلیل شاہ کے کالے کرتوتوں کا ثبوت ثابت ہوسکتی تھی۔ جیپ شہر جانے والی پکی سڑک پر تیزی سے رواں دواں تھی۔ ٭ ٭ ٭ جب اُنہوں نے اسے بخیر و عافیت پا لیا تھا تو انہیں اپنے دل و رُوح میں ایک اطمینان کا احساس اُترتا محسوس ہوا تھا۔ وہ اپنے رویوں کی اس تبدیلی پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی اسی پریشانی میں وہ دلکش سے اس کے سفر کے بارے میں کوئی سوال نہ کر سکے۔ خود دلکش بھی بے حد تھکی ہوئی اور دل شکستہ سی بیٹھی تھی، اسی لیے سارا سفر خاموشی سے اُن دونوں نے طے کیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ جیپ رُکنے کی آواز سنتے ہی فضلو بابا نے لپک کر گیٹ کھول دیا۔ اُن دونوں کے خاموش اور شکستہ چہرے دیکھتے ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ کامیابی نہیں ہوئی، اس لیے کوئی سوال کیے بنا وہ چائے بنانے کے لیے کچن میں چلے گئے۔ دلکش نے کمرے میں جا کر منہ ہاتھ دُھویا تو اُسے خاصا سکون ملا۔ تب ہی فضلو بابا نے اسے چائے کے لیے مصعب کے کمرے میں بلا لیا۔ مصعب بھی منہ ہاتھ دھو کر خاصے فریش لگ رہے تھے۔ چائے کے ساتھ سموسے اور کباب بھی تھے۔ مگر دلکش کا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ کیا بات ہوئی فضلو بابا مصنوعی غصّے سے آنکھیں نکال کر بولے۔ دن بھرکچھ نہیں کھایا اور اب بھی کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا، چلو لو جلدی سے کھا کر بتائو سموسے کیسے بنے ہیں۔ آج برسوں بعد تمہارے لیے ہم نے یہ سموسے بنائے ہیں۔ کوکب بٹیا کو ہمارے ہاتھ کے سموسے بے حد پسند تھے۔ ان کے بعد ہم نے سموسے بنانے ہی چھوڑ دیے تھے۔ کوکب کے ذکر پر مصعب کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا مگر آج ایسا نہیں ہوا تھا۔ دلکش کا خیال تھا کہ کوکب کی یاد کی وجہ سے مصعب سموسہ نہیں کھائیں گے مگر نا صرف اُنہوں نے سموسہ لیا تھا بلکہ سموسے کی تعریف بھی کی تھی۔ فضلو بابا کے چہرے پر حیرت کے ساتھ مسرت اور اُمید کے رنگ بکھر گئے تھے۔ چائے کے بعد فضلو بابا کے پوچھنے پر دلکش نے سارا واقعہ کہہ سُنایا تھا اور دلکش نے جب عقیل شاہ کے بارے میں بتایا تو وہ دونوں حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ کیا تم یقین سے کہہ سکتی ہو وہ اسیر شخص عقیل شاہ ہی تھا مصعب نے جرح والے انداز میں سوال کیا۔ جی بالکل۔ دلکش نے پورے وثوق سے جواب دیا۔ اور یقین مانئے عدیل کی ماں کا قتل بھی جلیل شاہ کے سوچے سمجھے منصوبے کا شاخسانہ ہے۔ بھاوج کو قتل کروا کے بھائی کو نشہ آور چیزیں دے کر نیم پاگل کرکے اُس نے انہیں زنجیروں میں جکڑ کر تہہ خانے میں قید کر رکھا ہے۔ کتنی ہی دیر وہ تینوں، عقیل شاہ کی حالت اور ان حالات میں کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں بات کرتے رہے تھے۔ ان سب باتوں میں اصل بات تو رہ گئی فضلو بابا کو اچانک یاد آیا۔ پہلے یہ سوچنا ہے کہ نکاح نامہ کیونکر حاصل کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ جلیل شاہ کو اس نکاح نامے کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ اسے ضائع کروا دے ہمیں کسی طرح اُسے حاصل کر لینا چاہیے۔ بات تو آپ کی بالکل صحیح ہے۔ مصعب نے اثبات میں سر ہلایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیسے اس کا جواب ہے ہمارے پاس۔ فضلو بابا معنی خیز انداز میں مسکرائے۔ ٭ ٭ ٭ رات نے اپنے سیاہ آنچل میں ہر شے کو سمیٹ لیا تھا۔ ہوا میں خنکی کا احساس جاگ اُٹھا تھا۔ گائوں کی واحد مسجد کا مولوی خدا بخش آج عشا کی نماز پڑھاتے ہی اپنے حجرے میں آ کر سو گیا تھا۔ دن کو پیش آنے والے واقعات نے اسے خاصا تھکا دیا تھا۔ دلکش کا نکاح نامے کا مطالبہ، پھر مرید خان اور اس کے ساتھیوں کا اسے پکڑنے کی کوشش کرنا اور لڑکی کا فرار ہونے میں کامیاب ہو جانا۔ اب کل تک اسے جلیل شاہ کے حضور پیش ہونا تھا تاکہ نکاح نامہ وڈیرے کے حوالے کر دے۔ وہ تو جلیل شاہ گائوں میں نہیں تھا ورنہ وہ ابھی جا کر یہ نکاح نامہ اس کے حوالے کر دیتا۔ ہر سمت ایک خاموشی کا عالم تھا کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے سے کچھ دیر کو یہ خاموشی ٹوٹتی اور ذرا دیر میں دوبارہ سکوت چھا جاتا۔ تب ہی ایک سایہ دیوار کود کر صحن میں اُترا۔ پھر وہ دبے پائوں کوٹھری میں داخل ہوا اور اُس نے مولوی کے پیچھے دھرے، ٹین کے بکسے پر موجود رجسٹر اور فائلیں کھنگالنا شروع کر دی تھیں۔ ٹارچ کی ہلکی روشنی میں وہ ایک ایک کاغذ غور سے چیک کر رہا تھا۔ اچانک ایک رجسٹر زوردار آواز میں مولوی کے سرہانے آگرا۔ کیا ہوا کیا ہوا مولوی بدحواسی میں چیختا ہوا اُٹھ بیٹھا۔ کون ہو تم اندھیرے کے باوجود مولوی نے چند قدم کے فاصلے پر موجود کھیس میں لپٹے شخص کو دیکھ لیا۔ کون ہو تم یہاں کیا کر رہے ہو مولوی نے کراری آواز میں للکارا۔ اوئے آرام سے اَجنبی نے دوبارہ ٹارچ جلاتے ہوئے قدرے نیچی آواز میں کہا۔ میں ہوں مرید خان۔ مرید خان مولوی کے لہجے میں حیرت کے ساتھ وحشت بھی ٹپک رہی تھی۔ تم رات کو اس طرح میرے حجرے میں کیا تلاش کر رہے ہو نکاح نامہ۔ مرید خان نے اطمینان سے جواب دیا اور دوبارہ رجسٹروں اور فائلوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کافی دیر تلاش کے باوجود جب اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو اس کے چہرے پر حیرانی کے ساتھ پریشانی پھیل گئی۔ پھر اُس نے مولوی سے نکاح نامہ تلاش کرنے کے لیے کہا تھا۔ مگر کافی دیر کی تلاش کے باوجود وہ دونوں نکاح نامہ نہ تلاش کر سکے۔ اوئے مولوی یہاں تو سرے سے کوئی نکاح نامہ ہے ہی نہیں۔ مرید خان نے قدرے متعجب اور غصیلے لہجے میں پوچھا۔ میں خود حیران ہوں۔ مولوی سر کھجاتا ہوا بولا۔ قسم اللہ پاک کی میں نے تو یہیں رکھا تھا۔ اللہ جانے کہاں چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ ایڈووکیٹ مصعب احمد کو کئی خط روانہ کیے جا چکے تھے مگر اتنے دن گزر جانے کے باوجود ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ کرن کی محبت اور تڑپ دیکھتے ہوئے سجو نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ باپ کی محبت کے لیے ترسی ہوئی اس بچی کو اس کے باپ کی محبت ضرور دلوائے گی، مگر اب کبھی کبھی اس کی ہمت بھی جواب دینے لگتی تھی۔ ایسا بے حس انسان جس نے دس سالوں میں ایک بار بھی اپنی معذور بچی سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی ایسے سنگ دل انسان سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی تھی۔ مگر جب وہ کرن کی طرف دیکھتی تو اسے حیرت ہوتی کہ وہ کمزور سی معذور اور معصوم بچی کس طرح، برسوں سے اپنی آنکھوں میں اُمید کے دیے جلائے اپنے باپ کی راہ تک رہی تھی۔ اسے اُمید ہی نہیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے پاپا نہ صرف اس سے ملنے آئیں گے بلکہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بہت سوچ بچار اور تمنّا باجی سے مشورے کے بعد سجیلہ نے کرن کے باپ سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ تم جب جانا چاہو تمہیں ڈرائیور لے جائے گا۔ وہ ایک بار صولت آپا کو بھی لے جا چکا ہے، وہ اُن کے گھر سے واقف ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج شام کو ہی چلی جائوں۔ سجیلہ نے قدرے ہچکچاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ تمنّا آپا نے جواب دیا۔ پھر چند لمحے رُک کر رَسان بھرے لہجے میں بولیں۔ دیکھو سجو مصعب احمد ایک انتہائی جذباتی بحران کا شکار ہے۔ وہ آج تک اُس گرداب سے نہیں نکل سکا۔ تنہائی اور دُنیا سے لاتعلقی نے اس کے اندر ایک اکھڑ پن اور بیزاری پیدا کر دی ہے۔ اس لیے تم اُس سے زیادہ اُمید نہ رکھنا۔ جی مگر وہ کرن۔ سجو نے کچھ کہنا چاہا۔ کرن کو تو کبھی اس نے اولاد ہی تسلیم نہیں کیا۔ وہ اسے اپنی چہیتی بیوی کا قاتل سمجھتا ہے۔ تم ہرگز یہ اُمید نہ رکھنا کہ ایک ملاقات میں ہی تم اس کے پتھر دل پر جونک لگانے میں کامیاب ہو جائو گی۔ سجو اپنے کمرے میں آ کر مصعب کے بارے میں سوچتی رہی۔ جب سے اُس نے اس کی تصویر دیکھی تھی تب سے اسے مسلسل اس کا خیال گھیرے ہوئے تھا۔ ایک انوکھا سا احساس، ایک انجانا اَن دیکھا جذبہ اس کے دل کے نہاں خانوں میں کہیں موجود تھا جسے وہ اب تک سمجھ نہیں پائی تھی۔ کوئی نام نہ دے پائی تھی۔ ایک خلش اب خواہش بنتی جا رہی تھی۔ وہ مصعب سے صرف کرن کے لیے نہیں ملنا چاہتی تھی۔ اُس سے ملنے کی خواہش کے پیچھے خود اس کا تجسس، اس کا شوق بھی شامل تھا۔ وہ اُس شخص سے ملنا چاہتی تھی جو محبت اور نفرت کی انتہائی حدوں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ بیوی سے اس قدر محبت کہ اس کی موت کے بعد وہ خود جیتے جی دُنیا سے کنارہ کش ہو کر مُردوں کی سی زندگی بتانے لگا تھا۔ اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ دس سال سے اپنی اکلوتی اولاد کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے اپنی چہیتی بیوی کی قاتل محسوس ہوتی تھی۔ یہ وقت بھی کیسے کیسے ستم ڈھاتا ہے جب یہ بچی دُنیا میں آنے والی ہوگی تب مصعب نے اپنی محبوب بیوی کے ساتھ آنے والے بچے کے لیے کیسے کیسے خواب دیکھے ہوں گے مگر وقت کی ایک کروٹ نے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ کرن کی ماں کوکب نے جیتے جی کب سوچا ہوگا کہ جس اولاد کی خاطر وہ جان کی بازی لگا رہی ہے وہ بچی ایک اپاہج خانے میں بے آسرا بچوں کے ساتھ زندگی گزارے گی۔ خود اس کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ کچھ دن قبل اُس نے کب سوچا تھا کہ سانپ کے کاٹنے سے باپ چل بسے گا۔ ماں اور بہن یوں اچانک اُس سے بچھڑ جائیں گی اور وہ بھری دُنیا میں تنہا رہ جائے گی۔ اور پھر اپنا گھر بار، گائوں، بستی چھوڑ کر ایک خیراتی ادارے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس محرومی، بے بسی و مایوسی کے عالم میں اس کے دل کے تاریک گوشے میں مصعب ایک اُمید کی کرن بن کر چمکا تھا۔ وہ اس روشنی کو کوئی نام دیے بغیر اپنے دل میں چھپا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ دلکش نے اپنی چادر دھو کر الگنی پر پھیلا دی تھی۔ وہ ایک ہی جوڑا کتنے دن سے پہن رہی تھی۔ فضلو بابا نے کئی بار کہا بھی کہ وہ اس کے گھر جا کر اس کے کپڑے لے آتے ہیں مگر مصعب نے انہیں سختی سے منع کر دیا تھا کیونکہ قرین قیاس یہی تھا کہ اُدھر دلکش کے گھر پر جلیل شاہ نے کسی کو نگرانی کے لیے چھوڑ رکھا ہوگا اس طرح وہ پیچھا کرتا ہوا یہاں تک آ پہنچے گا۔ یہ بات دُرست تھی مگر سوال یہ تھا کہ ایک جوڑے میں دلکش کب تک گزارہ کر سکتی تھی۔ مصعب برآمدے میں کھڑے اُن دونوں کی بات سن رہے تھے۔ وہ دھیمے لہجے میں بولے۔ آپ دلکش کو آج ہی مارکیٹ لے جا کر کپڑے وغیرہ دلوا دیں۔ ہاں بات تو آپ نے ٹھیک کی ہے۔ فضلو بابا کھل اُٹھے۔ یہ خیال ہمارے ذہن میں آیا ہی نہیں تھا۔ مگر دلکش کچھ خریدنے کے حق میں نہیں تھی مگر مصعب کے کہنے اور فضلو بابا کے بے حد اصرار پر وہ اُن کے ساتھ بازار جانے پر آمادہ ہوگئی۔ جیپ کی طرف بڑھتے ہوئے اچانک اس کی نظر لیٹر بکس سے جھانکتے لفافے پر پڑی۔ فضلو بابا یہ لیٹر اُس نے لیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ لیٹر فضلو بابا نے ہاتھ بڑھا کر لفافہ نکالا اور ایک نگاہ ڈال کر دوبارہ وہیں رکھ دیا۔ یہ کرن بٹیا کے ادارے سے آیا ہے۔ وہی لکھا ہوگا جو ہر بار لکھا ہوتا ہے۔ کرن اپنے والد کو بہت یاد کرتی ہے انہیں اپنی بیٹی سے ملنا چاہیے۔ کتنی عجیب بات ہے۔ دلکش نے لفافے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مصعب صاحب پر ان خطوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہاتھ دُھویا تو اُسے خاصا سکون ملا۔ تب ہی فضلو بابا نے اسے چائے کے لیے مصعب کے کمرے میں بلا لیا۔ مصعب بھی منہ ہاتھ دھو کر خاصے فریش لگ رہے تھے۔ چائے کے ساتھ سموسے اور کباب بھی تھے۔ مگر دلکش کا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ یہ کیا بات ہوئی فضلو بابا مصنوعی غصّے سے آنکھیں نکال کر بولے۔ دن بھرکچھ نہیں کھایا اور اب بھی کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا، چلو لو جلدی سے کھا کر بتائو سموسے کیسے بنے ہیں۔ آج برسوں بعد تمہارے لیے ہم نے یہ سموسے بنائے ہیں۔ کوکب بٹیا کو ہمارے ہاتھ کے سموسے بے حد پسند تھے۔ ان کے بعد ہم نے سموسے بنانے ہی چھوڑ دیے تھے۔ کوکب کے ذکر پر مصعب کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا مگر آج ایسا نہیں ہوا تھا۔ دلکش کا خیال تھا کہ کوکب کی یاد کی وجہ سے مصعب سموسہ نہیں کھائیں گے مگر نا صرف اُنہوں نے سموسہ لیا تھا بلکہ سموسے کی تعریف بھی کی تھی۔ فضلو بابا کے چہرے پر حیرت کے ساتھ مسرت اور اُمید کے رنگ بکھر گئے تھے۔ چائے کے بعد فضلو بابا کے پوچھنے پر دلکش نے سارا واقعہ کہہ سُنایا تھا اور دلکش نے جب عقیل شاہ کے بارے میں بتایا تو وہ دونوں حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ کیا تم یقین سے کہہ سکتی ہو وہ اسیر شخص عقیل شاہ ہی تھا مصعب نے جرح والے انداز میں سوال کیا۔ جی بالکل۔ دلکش نے پورے وثوق سے جواب دیا۔ اور یقین مانئے عدیل کی ماں کا قتل بھی جلیل شاہ کے سوچے سمجھے منصوبے کا شاخسانہ ہے۔ بھاوج کو قتل کروا کے بھائی کو نشہ آور چیزیں دے کر نیم پاگل کرکے اُس نے انہیں زنجیروں میں جکڑ کر تہہ خانے میں قید کر رکھا ہے۔ کتنی ہی دیر وہ تینوں، عقیل شاہ کی حالت اور ان حالات میں کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں بات کرتے رہے تھے۔ ان سب باتوں میں اصل بات تو رہ گئی فضلو بابا کو اچانک یاد آیا۔ پہلے یہ سوچنا ہے کہ نکاح نامہ کیونکر حاصل کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ جلیل شاہ کو اس نکاح نامے کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ اسے ضائع کروا دے ہمیں کسی طرح اُسے حاصل کر لینا چاہیے۔ بات تو آپ کی بالکل صحیح ہے۔ مصعب نے اثبات میں سر ہلایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیسے اس کا جواب ہے ہمارے پاس۔ فضلو بابا معنی خیز انداز میں مسکرائے۔ ٭ ٭ ٭ رات نے اپنے سیاہ آنچل میں ہر شے کو سمیٹ لیا تھا۔ ہوا میں خنکی کا احساس جاگ اُٹھا تھا۔ گائوں کی واحد مسجد کا مولوی خدا بخش آج عشا کی نماز پڑھاتے ہی اپنے حجرے میں آ کر سو گیا تھا۔ دن کو پیش آنے والے واقعات نے اسے خاصا تھکا دیا تھا۔ دلکش کا نکاح نامے کا مطالبہ، پھر مرید خان اور اس کے ساتھیوں کا اسے پکڑنے کی کوشش کرنا اور لڑکی کا فرار ہونے میں کامیاب ہو جانا۔ اب کل تک اسے جلیل شاہ کے حضور پیش ہونا تھا تاکہ نکاح نامہ وڈیرے کے حوالے کر دے۔ وہ تو جلیل شاہ گائوں میں نہیں تھا ورنہ وہ ابھی جا کر یہ نکاح نامہ اس کے حوالے کر دیتا۔ ہر سمت ایک خاموشی کا عالم تھا کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے سے کچھ دیر کو یہ خاموشی ٹوٹتی اور ذرا دیر میں دوبارہ سکوت چھا جاتا۔ تب ہی ایک سایہ دیوار کود کر صحن میں اُترا۔ پھر وہ دبے پائوں کوٹھری میں داخل ہوا اور اُس نے مولوی کے پیچھے دھرے، ٹین کے بکسے پر موجود رجسٹر اور فائلیں کھنگالنا شروع کر دی تھیں۔ ٹارچ کی ہلکی روشنی میں وہ ایک ایک کاغذ غور سے چیک کر رہا تھا۔ اچانک ایک رجسٹر زوردار آواز میں مولوی کے سرہانے آگرا۔ کیا ہوا کیا ہوا مولوی بدحواسی میں چیختا ہوا اُٹھ بیٹھا۔ کون ہو تم اندھیرے کے باوجود مولوی نے چند قدم کے فاصلے پر موجود کھیس میں لپٹے شخص کو دیکھ لیا۔ کون ہو تم یہاں کیا کر رہے ہو مولوی نے کراری آواز میں للکارا۔ اوئے آرام سے اَجنبی نے دوبارہ ٹارچ جلاتے ہوئے قدرے نیچی آواز میں کہا۔ میں ہوں مرید خان۔ مرید خان مولوی کے لہجے میں حیرت کے ساتھ وحشت بھی ٹپک رہی تھی۔ تم رات کو اس طرح میرے حجرے میں کیا تلاش کر رہے ہو نکاح نامہ۔ مرید خان نے اطمینان سے جواب دیا اور دوبارہ رجسٹروں اور فائلوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کافی دیر تلاش کے باوجود جب اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو اس کے چہرے پر حیرانی کے ساتھ پریشانی پھیل گئی۔ پھر اُس نے مولوی سے نکاح نامہ تلاش کرنے کے لیے کہا تھا۔ مگر کافی دیر کی تلاش کے باوجود وہ دونوں نکاح نامہ نہ تلاش کر سکے۔ اوئے مولوی یہاں تو سرے سے کوئی نکاح نامہ ہے ہی نہیں۔ مرید خان نے قدرے متعجب اور غصیلے لہجے میں پوچھا۔ میں خود حیران ہوں۔ مولوی سر کھجاتا ہوا بولا۔ قسم اللہ پاک کی میں نے تو یہیں رکھا تھا۔ اللہ جانے کہاں چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ ایڈووکیٹ مصعب احمد کو کئی خط روانہ کیے جا چکے تھے مگر اتنے دن گزر جانے کے باوجود ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ کرن کی محبت اور تڑپ دیکھتے ہوئے سجو نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ باپ کی محبت کے لیے ترسی ہوئی اس بچی کو اس کے باپ کی محبت ضرور دلوائے گی، مگر اب کبھی کبھی اس کی ہمت بھی جواب دینے لگتی تھی۔ ایسا بے حس انسان جس نے دس سالوں میں ایک بار بھی اپنی معذور بچی سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی ایسے سنگ دل انسان سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی تھی۔ مگر جب وہ کرن کی طرف دیکھتی تو اسے حیرت ہوتی کہ وہ کمزور سی معذور اور معصوم بچی کس طرح، برسوں سے اپنی آنکھوں میں اُمید کے دیے جلائے اپنے باپ کی راہ تک رہی تھی۔ اسے اُمید ہی نہیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے پاپا نہ صرف اس سے ملنے آئیں گے بلکہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بہت سوچ بچار اور تمنّا باجی سے مشورے کے بعد سجیلہ نے کرن کے باپ سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ تم جب جانا چاہو تمہیں ڈرائیور لے جائے گا۔ وہ ایک بار صولت آپا کو بھی لے جا چکا ہے، وہ اُن کے گھر سے واقف ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج شام کو ہی چلی جائوں۔ سجیلہ نے قدرے ہچکچاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ تمنّا آپا نے جواب دیا۔ پھر چند لمحے رُک کر رَسان بھرے لہجے میں بولیں۔ دیکھو سجو مصعب احمد ایک انتہائی جذباتی بحران کا شکار ہے۔ وہ آج تک اُس گرداب سے نہیں نکل سکا۔ تنہائی اور دُنیا سے لاتعلقی نے اس کے اندر ایک اکھڑ پن اور بیزاری پیدا کر دی ہے۔ اس لیے تم اُس سے زیادہ اُمید نہ رکھنا۔ جی مگر وہ کرن۔ سجو نے کچھ کہنا چاہا۔ کرن کو تو کبھی اس نے اولاد ہی تسلیم نہیں کیا۔ وہ اسے اپنی چہیتی بیوی کا قاتل سمجھتا ہے۔ تم ہرگز یہ اُمید نہ رکھنا کہ ایک ملاقات میں ہی تم اس کے پتھر دل پر جونک لگانے میں کامیاب ہو جائو گی۔ سجو اپنے کمرے میں آ کر مصعب کے بارے میں سوچتی رہی۔ جب سے اُس نے اس کی تصویر دیکھی تھی تب سے اسے مسلسل اس کا خیال گھیرے ہوئے تھا۔ ایک انوکھا سا احساس، ایک انجانا اَن دیکھا جذبہ اس کے دل کے نہاں خانوں میں کہیں موجود تھا جسے وہ اب تک سمجھ نہیں پائی تھی۔ کوئی نام نہ دے پائی تھی۔ ایک خلش اب خواہش بنتی جا رہی تھی۔ وہ مصعب سے صرف کرن کے لیے نہیں ملنا چاہتی تھی۔ اُس سے ملنے کی خواہش کے پیچھے خود اس کا تجسس، اس کا شوق بھی شامل تھا۔ وہ اُس شخص سے ملنا چاہتی تھی جو محبت اور نفرت کی انتہائی حدوں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ بیوی سے اس قدر محبت کہ اس کی موت کے بعد وہ خود جیتے جی دُنیا سے کنارہ کش ہو کر مُردوں کی سی زندگی بتانے لگا تھا۔ اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ دس سال سے اپنی اکلوتی اولاد کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے اپنی چہیتی بیوی کی قاتل محسوس ہوتی تھی۔ یہ وقت بھی کیسے کیسے ستم ڈھاتا ہے جب یہ بچی دُنیا میں آنے والی ہوگی تب مصعب نے اپنی محبوب بیوی کے ساتھ آنے والے بچے کے لیے کیسے کیسے خواب دیکھے ہوں گے مگر وقت کی ایک کروٹ نے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ کرن کی ماں کوکب نے جیتے جی کب سوچا ہوگا کہ جس اولاد کی خاطر وہ جان کی بازی لگا رہی ہے وہ بچی ایک اپاہج خانے میں بے آسرا بچوں کے ساتھ زندگی گزارے گی۔ خود اس کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ کچھ دن قبل اُس نے کب سوچا تھا کہ سانپ کے کاٹنے سے باپ چل بسے گا۔ ماں اور بہن یوں اچانک اُس سے بچھڑ جائیں گی اور وہ بھری دُنیا میں تنہا رہ جائے گی۔ اور پھر اپنا گھر بار، گائوں، بستی چھوڑ کر ایک خیراتی ادارے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس محرومی، بے بسی و مایوسی کے عالم میں اس کے دل کے تاریک گوشے میں مصعب ایک اُمید کی کرن بن کر چمکا تھا۔ وہ اس روشنی کو کوئی نام دیے بغیر اپنے دل میں چھپا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ دلکش نے اپنی چادر دھو کر الگنی پر پھیلا دی تھی۔ وہ ایک ہی جوڑا کتنے دن سے پہن رہی تھی۔ فضلو بابا نے کئی بار کہا بھی کہ وہ اس کے گھر جا کر اس کے کپڑے لے آتے ہیں مگر مصعب نے انہیں سختی سے منع کر دیا تھا کیونکہ قرین قیاس یہی تھا کہ اُدھر دلکش کے گھر پر جلیل شاہ نے کسی کو نگرانی کے لیے چھوڑ رکھا ہوگا اس طرح وہ پیچھا کرتا ہوا یہاں تک آ پہنچے گا۔ یہ بات دُرست تھی مگر سوال یہ تھا کہ ایک جوڑے میں دلکش کب تک گزارہ کر سکتی تھی۔ مصعب برآمدے میں کھڑے اُن دونوں کی بات سن رہے تھے۔ وہ دھیمے لہجے میں بولے۔ آپ دلکش کو آج ہی مارکیٹ لے جا کر کپڑے وغیرہ دلوا دیں۔ ہاں بات تو آپ نے ٹھیک کی ہے۔ فضلو بابا کھل اُٹھے۔ یہ خیال ہمارے ذہن میں آیا ہی نہیں تھا۔ مگر دلکش کچھ خریدنے کے حق میں نہیں تھی مگر مصعب کے کہنے اور فضلو بابا کے بے حد اصرار پر وہ اُن کے ساتھ بازار جانے پر آمادہ ہوگئی۔ جیپ کی طرف بڑھتے ہوئے اچانک اس کی نظر لیٹر بکس سے جھانکتے لفافے پر پڑی۔ فضلو بابا یہ لیٹر اُس نے لیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ لیٹر فضلو بابا نے ہاتھ بڑھا کر لفافہ نکالا اور ایک نگاہ ڈال کر دوبارہ وہیں رکھ دیا۔ یہ کرن بٹیا کے ادارے سے آیا ہے۔ وہی لکھا ہوگا جو ہر بار لکھا ہوتا ہے۔ کرن اپنے والد کو بہت یاد کرتی ہے انہیں اپنی بیٹی سے ملنا چاہیے۔ کتنی عجیب بات ہے۔ دلکش نے لفافے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مصعب صاحب پر ان خطوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دیکھتے ہوئے وہ مزید بولا۔ آفس میں سب کو ہی اس نکاح کی خبر ہے اور کلیم تو نکاح کے گواہوں میں شامل تھا۔ آپ خود کلیم کو فون کر کے پوچھ لیں۔ کنزہ نے فوراً ہی فیصلہ کرلیا کہ وہ کلیم سے فون کر کے اس جان لیوا خبر کی تصدیق کرے گی اور جب کلیم نے تصدیق کر دی تو وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح کرسی پر گر پڑی تھی۔ محبت اور جنگ کے اس محاذ پر وہ ہار گئی تھی۔ اس کی مہینوں کی محنت لمحوں میں ضائع ہو گئی تھی۔ یہ سچ تھا وہ دولت کی طمع میں یہاں آئی تھی، مگر یہاں آ کر وہ آذر کی چاہت میں گرفتار ہوگئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ صاعقہ تیمور اس کی محبت کی کامیابی کی راہ میں رُکاوٹ ڈالے گی مگر اُس نے یہ کب سوچا تھا کہ وہ اس کی محبت کی دُنیا پر یوں شب خون مارے گی اور ایک ہی وار میں اُس سے ہمیشہ کے لیے آذر کو چھین لے گی۔ کنزہ کچھ حاصل کرنے سے پہلے ہی اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی۔ اس کے دل و دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اس کے رَگ و پے میں سنسناہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ کسی بھی طرح اپنی اس ہار کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ غفار اس کی متغیر کیفیت دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بے بسی، محرومی، شکستگی کے سائے تھے جبکہ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ آپ ٹھیک تو ہیں میڈم غفار نے پُرتشویش لہجے میں سوال کیا۔ تم جانتے ہو غفار کنزہ نے شکستہ لہجے میں غفار کو مخاطب کیا۔ میں یہاں جاب کرنے آئی تھی مگر میں یہاں محبت کر بیٹھی تمہارے باس سے۔ لگ رہا تھا جیسے کنزہ ہوش میں نہیں رہی تھی۔ تمہارے آذر صاحب سے مجھے محبت ہوگئی۔ شدید اور بے پناہ محبت وہ میرے دل میں ہی نہیں میری رُوح میں سما گئے۔ غفار پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ غفار ہی نہیں آفس کے سب لوگ جانتے تھے کہ کنزہ آذر کی طرف راغب و ملتفت ہے اور عام طور پر باس اور سیکرٹری کے باہمی تعلقات کو کچھ ایسا معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا مگر کون سوچ سکتا تھا کہ کنزہ جیسی ماڈرن اور فیشن ایبل لڑکی اپنی محبت کے سلسلے میں اس قدر سنجیدہ بھی ہو سکتی ہے آذر نے اپنا گھر بسا کر میری دُنیا اُجاڑ دی ہے۔ کنزہ نے گھٹے گھٹے لہجے میں کہا۔ میں آذر کو کھو کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ غفار تم سن رہے ہو نا تم گواہ رہنا غفار کہ میں آذر کے لیے اپنی محبت کے لیے جان دے رہی ہوں۔ غفار کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ متوحش سا کنزہ کی بدلتی حالت کو دیکھ رہا تھا۔ وہ چند لمحوں تک سوچتی نظروں سے غفار کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے ٹیبل سے پیپر نائف اُٹھا لیا تھا۔ غفار حیران نظروں سے اس کی طرف تکے جا رہا تھا۔ کنزہ نے اپنی بائیں کلائی اُوپر کی اور دائیں ہاتھ سے چاقو کی کند دھار پوری قوت سے بائیں کلائی میں پیوست کر دی۔ اس کی کلائی کی نس سمیت دُور تک گوشت چر گیا اور خون کا ایک فوارہ سا پھوٹا۔ میڈم۔ غفار چیختا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ یہ کیا کیا آپ نے تم آذر کو بتانا غفار میں اس کی خاطر جان دے رہی ہوں۔ کنزہ دھپ سے کرسی پر بیٹھ گئی اس کا ہاتھ پھسل کر نیچے لٹک گیا اور کٹی ہوئی نس سے تیزی سے خون بہہ کر فرش کو خون رنگ کرنے لگا۔ اُس نے اپنا سر میز پر رکھ دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ میں مر رہی ہوں میں مر رہی ہوں۔ اس کی دھیمی آواز ڈُوبتی چلی گئی۔ غفار تیزی سے فون کی طرف لپکا۔ ٭ ٭ ٭ بیگم تیمور اپنی نئی نویلی بہو فریحہ کو رُخصت کروا کر اپنی شاندار کوٹھی کی طرف روانہ ہو چکی تھیں۔ اُنہوں نے کن انکھیوں سے آذر کی طرف دیکھا۔ اُن کے دلکش چہرے پر اب تک حیرانی اور بے یقینی کے آثار تھے۔ آذر ایک محنتی اور باعمل انسان تھے۔ کاروبار کی ترقی اور وسعت ہی اُن کی پہلی ترجیح تھی۔ اس کے بعد ماں اور بہن کی خوشی اُن کے لیے اہم تھی۔ ماں اور بہن کی محبت سے آگے کسی اور محبت کے بارے میں اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور اپنی شادی کا تو انہیں کبھی بھولے سے بھی خیال نہیں آیا تھا۔ آج کل وہ انوشہ کی شادی کے خواب بُن رہے تھے۔ اپنی شادی کا تمام تر اختیار وہ ماں کو سونپ کر مطمئن و بے نیاز ہو بیٹھے تھے۔ محبت جیسے موضوع پر سوچنے کے لیے اُن کے پاس وقت ہی کہاں تھا۔ البتہ کنزہ کی کچھ کہتی کچھ بولتی آنکھوں نے اکثر انہیں چوکنے پر مجبور کیا تھا مگر اس سے قبل کہ وہ اس کی آنکھوں کا مفہوم سمجھ سکتے اُن کی چہیتی ماں نے اُن کی سوچوں پر پہرے بٹھا دیے تھے۔ اُن کے اُڑنے سے قبل ہی انہیں ازدواجی رشتے کی زنجیر میں جکڑ دیا تھا۔ اُنہوں نے بھی ماں کی خوشی کے سامنے سر جھکا دیا تھا اور ایک اَجنبی اور اَنجانی لڑکی کو شریک حیات بنا کر گھر لے آئے تھے۔ تین کاروں پر مشتمل یہ مختصر سی بارات تیمور ولا کے سامنے آٹھہری تھی۔ سب سے آگے آذر کی کار تھی۔ وہ جونہی دروازہ کھول کے باہر نکلے اچانک اُن کا موبائل چیخ اُٹھا۔ ہاں بولو غفار بیگم تیمور نے غفار کے نام پر چونک کر آذر کی طرف دیکھا۔ دُوسرے دروازے سے نور جہاں نے سہارا دے کے دُلہن کو باہر اُتارا۔ ساتھ ہی انوشہ بھی باہر آگئی اب وہ دونوں فریحہ کو تھامے اندر کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ بیگم تیمور بظاہر اُن تینوں کے پیچھے چلتی لائونج کی طرف جا رہی تھیں مگر اُن کے کان آذر کی طرف لگے ہوئے تھے۔ کیا کہہ رہے ہو غفار آذر کی حیران سی آواز گونجی۔ اوہ او مائی گاڈ۔ ایک دَم ہی اُن کے لہجے سے گھبراہٹ اور وحشت جھانکنے لگی۔ یہ سب کیسے ہوا اچھا ٹھیک ہے۔ چند لمحوں تک دُوسری طرف کی بات سننے کے بعد وہ بے تابی سے بولے۔ اوکے اوکے تم خود کوسنبھالو میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔ اگلے ہی لمحے وہ اپنی گاڑی کی جانب تیزی سے لپکے۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی اُنہوں نے کار اسٹارٹ کر دی۔ نورجہاں اور انوشہ دُلہن کو لیے سیڑھیاں چڑھتی دُلہن کے حجلۂ عروسی کی طرف بڑھ گئی تھیں۔ یہ آذر کا بیڈروم تھا جسے گلاب کے تازہ پھولوں کی معطر لڑیوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ نورجہاں اور انوشہ نے فریحہ کو بے حد پیار سے آرام دہ اور کشادہ بیڈ پر بٹھا دیا تھا۔ آذر کا یوں بوکھلائے ہوئے انداز میں کسی کو کچھ بتائے بنا، عجلت سے گھر سے روانہ ہونا بے حد معنی رکھتا تھا۔ بیگم تیمور کے چہرے پر تفکر کی لکیریں کھنچ گئی تھیں۔ چند لمحوں پہلے تک چہرے پر بکھرا اطمینان اور فتح کا احساس اب فکرمندی اور تشویش میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اُنہوں نے اپنا موبائل نکالا اور آذر کے آفس کا نمبر ملانے لگیں۔ آذر کے کمرے کی گھنٹی بجتی رہی۔ کئی لمحوں تک انتظار کرنے کے بعد وہ فون بند کرنے ہی والی تھیں کہ غفار کی گھبرائی ہوئی آواز سُنائی دی اور اُن کے پوچھنے پر غفار نے سارا واقعہ من و عن کہہ سنایا۔ اوہ تو اُس نے یہ ڈرامہ کیا ہے صاعقہ تیمور کی رُوح تک سلگ کر رہ گئی تھی۔ آج رات کے کھانے پر نورجہاں نے خاص اہتمام کیا تھا۔ مگر غفار سے بات کرنے کے بعد بیگم تیمور کی تو بھوک ہی اُڑ گئی تھی۔ البتہ دُلہن اور انوشہ کے لیے نورجہاں کھانے کی ٹرے سجا کر اُوپر بیڈ روم میں پہنچا آئی تھی۔ فریحہ کو بھی کہاں بھوک تھی، پر انوشہ نے بے حد پیار اور اصرار سے اُسے کھانا کھلایا تھا۔ کھانے کے بعد اس کا میک اَپ دُرست کر کے چھوٹا سا گھونگھٹ نکال وہ واپسی کے لیے پلٹ گئی تھی۔ بھابی وش یو گڈلک۔ چلتے چلتے رُک کر اُس نے فریحہ کے گھونگھٹ میں جھانک کر کہا۔ میرے بھیّا لاکھوں میں ایک ہیں۔ آپ کو ضرور پسند آئیں گے اور جہاں تک آپ کا تعلق ہے آپ تو اتنی پیاری ہیں کہ بھیّا آپ کو دیکھتے ہی عاشق ہو جائیں گے۔ فریحہ نے شرما کر جھکا سر کچھ اور جھکا لیا تھا اور اس کے لبوں پر شرمیلی سی مسکان پھیل گئی تھی۔ انوشہ کے جانے کے بعد فریحہ نے ذرا سی گردن سیدھی کر کے اپنے اطراف پر نگاہ ڈالی۔ یہ ایک کشادہ اور شاندار بیڈ روم تھا۔ کمرے کی پوری فضا گلاب کی مسحورکن خوشبو میں ڈُوبی ہوئی تھی۔ سب کچھ خواب سا لگ رہا تھا۔ کمرے کا سرسری سا جائزہ لینے کے بعد اُس نے آنکھیں موند لی تھیں۔ بند پلکوں کے اُس پار اس کی شرمگیں آنکھوں میں اُس انجانے اَن دیکھے شخص کا انتظار تھا جو یک جنبشِ قلم اور یک جنبشِ زبان اس کے جسم کا ہی نہیں بلکہ اس کی رُوح کا بھی بلا شرکت غیرے مالک بن گیا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار میں آگے بڑھتا رہا۔ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا۔ سر جھکائے جھکائے فریحہ کی گردن دُکھنے لگی تھی تب ہی بیگم تیمور کمرے میں داخل ہوئی تھیں اور اُنہوں نے بتایا تھا کہ آذر کے آفس میں ایک ایمرجنسی ہوگئی ہے اسی لیے اُنہیں فوری طور پر آفس جانا پڑا۔ کوئی ورکر حادثے کا شکار ہوگیا ہے اسے اسپتال لے جانے میں ممکن ہے کچھ وقت لگ جائے۔ پھر وہ فریحہ کے سامنے ذرا سا جھک کر بولیں۔ کوئی اتنی اہم بات نہیں ہے تم پریشان مت ہونا بس وہ آتے ہی ہوں گے۔ اُن کے آتے ہی میں انہیں تمہارے پاس بھیج دوں گی۔ وہ ممتا بھرے انداز میں مسکرائیں۔ چاہو تو لباس چینج کر لو۔ اس بھاری جوڑے اور زیور میں تو تم خاصی اَن ایزی فیل کر رہی ہوگی ہے نا۔ میں نور جہاں کو بھیجتی ہوں۔ بیگم تیمور نے چلتے چلتے کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئیں۔ ٭ ٭ ٭ فضلو بابا جیپ ڈرائیو کرتے ہوئے مین روڈ پر لے آئے۔ دلکش آج پہلی بار کرن سے ملنے جا رہی تھی، اس لیے وہ اس کے لیے کوئی تحفہ خرید کے لے جانا چاہتی تھی۔ چنانچہ اس کے کہنے پر فضلو بابا نے کھلونوں کی ایک بڑی دکان کے سامنے جیپ روک دی اور وہ تیزی سے دکان میں داخل ہوگئی۔ کچھ دیر بعد وہ دکان سے نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت سا ڈبا تھا۔ اس کے جیپ میں بیٹھتے ہی خاصی تیز رفتاری سے جیپ ڈرائیو کرتے وہ بیگم آغا کے رفاہی ادارے کے سامنے آ ٹھہرے تھے۔ پھر وہ دلکش کو لیے بیگم آغا کے آفس کی طرف بڑھ گئے۔ بیگم آغا نے خنداں پیشانی اور گرم جوشی سے اُن کا استقبال کیا۔ ارے فضلو بابا۔ آیئے آیئے۔ فضلو بابا نے دلکش کا تعارف کروایا۔ میں انہیں آپ اور کرن بٹیا سے ملوانے لایا تھا۔ اوہ اچھا۔ بیگم آغا نے پُرشوق نظروں سے دلکش کی طرف دیکھا۔ پھر بھی کبھی آیئے گا۔ سجیلہ بھی آپ سے مل کر خوش ہوگی۔ سجیلہ دلکش نے چونک کر بیگم کی طرف دیکھا۔ یہ نام سنتے ہی دل میں کیسی کسک جاگی تھی کہ آپ ہی آپ نگاہوں میں سجو کا معصوم چہرہ گھوم گیا۔ یہ سجیلہ کون ہیں وہ بے ساختہ سوال کر بیٹھی تھی۔ میری چھوٹی بہن سمجھیے۔ مسز آغا محبت بھرے لہجے میں بولیں۔ اسی ادارے میں ہمارے ساتھ کام کرتی ہیں۔ اچھا۔ دلکش نے گہرا سانس لیا۔ یہ اس کی بہن سجیلہ کس طرح ہو سکتی تھی۔ کہاں وہ گائوں کی سیدھی سادی لڑکی کہاں اس بڑے ادارے کی فعال ورکر سجیلہ، اس کا دل بجھ سا گیا۔ کہاں ہیں مس سجیلہ سجیلہ ایک بہت ذمّے دار اور محبت کرنے والی ورکر ہے۔ خاص طور پر کرن سے تو وہ خصوصی محبت رکھتی ہے۔ مسز آغا نے دھیمے لہجے میں بتایا۔ آج وہ کرن کے سلسلے میں ہی اس کے والد مصعب صاحب سے ملنے اُن کے گھر گئی ہے۔ یعنی ہم یہاں آئے اور وہ وہاں ہمارے گھر گئی ہیں۔ فضلو بابا حیرانی سے ہنس کر بولے۔ تب ہی رضیہ کرن کو لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 115 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-22/ | سلامت علی صاحب چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے۔ مجھے ان کی حالت کا اندازہ ہوگیا۔ وہ خود کو لاکھ سنبھالنے کی کوشش کررہے تھے مگر خوف سے ان کا برا حال تھا۔ غلطی کی تھی انہوں نے ان جادوگروں کی زد میں آسکتے تھے۔ میں نے انہیں سہارا دیا اور انتہائی مشکل سے یہ طویل سفر طے ہوا۔ ہم گھر میں داخل ہوگئے۔ اب کیاکرو گے انہوں نے پوچھا اور میں مسکرا دیا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ میں جائوں جی۔ آرام کیجیے۔ میں نے جواب دیا۔ سلامت علی اندر چلے گئے اور میں اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوگیا۔ پھر نہ جانے کب تک بستر پر میں اس بارے میں سوچتا رہا تھا۔ دوسری صبح معمول کے مطابق تھی ناشتے پر سلامت علی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ فراست بھی نہیں ملا تھا۔ فرخندہ کچھ دیر کے بعد نظر آئی کچھ پریشان تھی۔ کیا بات ہے ابو کا بخار اور تیز ہوگیا ہے۔ اس نے تشویش سے کہا اور میں چونک پڑا۔ سلامت علی صاحب کو بخار آگیا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا بھی نہیں۔ شدید بخار ہے۔ بے ہوشی طاری ہے۔ بحرانی کیفیت ہے اور نہ جانے کیا کیا بڑبڑا رہے ہیں۔ کبھی بھینسا بھینسا چیختے ہیں۔ کہتے ہیں ہٹ جائو سینگ مار دے گا۔ کبھی کہتے ہیں لے گیا لے گیا سر لے گیا فرخندہ نے بتایا اور میں نے گہری سانس لی۔ اس بات کا خدشہ تھا مجھے رات ہی کو ان کی کیفیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ فراست کہاں ہیں کسی کام سے گئے ہیں۔ آپ چاہیں تو ابو کے پاس چلیں۔ ہاں ضرور میں نے کہا۔ سلامت علی کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ کبھی آنکھیں کھول کر دیکھتے کبھی عجیب عجیب سا منہ بناتے کسی پر نگاہ نہیں جما رہے تھے۔ میں نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ چیخ پڑے۔ ٹکر مار دی۔ سر پھٹ گیا۔ گردن کٹ گئی اور دیکھو وہ دیکھو گردن لے گیا۔ سلامت علی صاحب۔ مجھے دیکھیے میں کون ہوں۔ میں نے کہا اور انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ پھر گردن گھما کر مجھے دیکھا۔ میں نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ دل میں ایک آیت کا ورد کیا اور وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ اتنی دیر میں فراست واپس آگیا۔ ڈاکٹر اشتیاق بھی گئے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے میں نہیں فراست، ضرورت نہیں ہے۔ بخار ابھی تھوڑی دیر میں اتر جائے گا۔ میں نے کہا۔ فراست نے عجیب سے انداز میں مجھے دیکھا اور پھر ماں کی طرف دیکھنے لگا سب پریشان تھے۔ فراست میرے ساتھ باہر نکل آیا پھر بولا۔ کچھ دیر پہلے میں نے ٹمپریچر دیکھا تھا۔ تم یقین کرو ایک سو پانچ بخار ہے یہ بہت خطرناک ہے۔ نہیں ٹھیک ہوجائیں گے فکر مت کرو مسعود ایک بات بتائو گے فراست عجیب سے لہجے میں بولا۔ ہوں۔ ضرور۔ پچھلی رات تم اور ابو کہاں گئے تھے۔ فراست عجیب سے لہجے میں بولا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اس نے کہا اس وقت میں جاگ رہا تھا۔ میں نے تمہیں اور ابو کو آتے ہوئے دیکھا اور پھر صبح کو امی نے بتایا کہ بخار رات ہی کو چڑھ آیا۔ وہ سردی سے کپکپا رہے تھے۔ مجھے گمان ہوا کہ فراست کسی بدگمانی کا شکار ہورہا ہے۔ ایک لمحے سوچنے کے بعد میں اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ پھر میں نے کہا۔ رات کو میں کالی موری گیا تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ سلامت علی صاحب میرا پیچھا کررہے ہیں۔ وہ کالے جادو کی بستی ہے۔ بس وہاں پہنچ کر وہ ڈر گئے ہیں اور کوئی بات نہیں ہے۔ گویا ہمارا اندازہ ٹھیک تھا۔ فرخندہ کہہ رہی تھیں کہ تم مانو یا نہ مانو مسعود اس ساحرہ کا شکار ہوگئے ہیں، ان کے انداز سے پتہ چلتا ہے۔ کیا میں حیرت سے بولا۔ اس کا حسن شیطانی صفات کا حامل ہے اس کی آنکھوں میں سحر ہے جسے دیکھ لیتی ہے وہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے وہ ضرور جادو گرنی ہے۔ کون خدا کے بندے۔ میں نے حیرت سے کہا۔ بننے کی کوشش مت کرو، میں پوجا کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ فراست نے سرد لہجے میں کہا۔ میں حیران نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے ملامت آمیز لہجے میں کہا۔ فراست، وہ ہندو ہے اور میں خدا کے فضل سے مسلمان، میرے اور اس کے درمیان ایسا کوئی رابطہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے فراست نے سنجیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر بولا۔ اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر تم کالی موری کیوں گئے تھے تمہارے خیال میں کیوں جاسکتا تھا میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ بھئی ہمارے ذہن میں تو صرف یہی آتا ہے کہ تم بھی اس کے حسن سے متاثر ہوگئے اور اس کے چکر میں مارے مارے پھر رہے ہو۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ بلکہ تھا فراست کہ چونکہ سری رام جی اور سلامت علی صاحب کے انتہائی گہرے دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ تمہاری دادی جان کی دعائوں سے سری رام جی کے ہاں پوجا پیدا ہوئی تھی، ایسے حالات میں تم دونوں بہن بھائی کے بھی اس سے گہرے تعلقات ہوں گے، لیکن یوں لگتا ہے جیسے تم دونوں کے دل میں اس کے لیے کوئی کدورت ہے یا پھر یا پھر نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے مسعود صاحب، حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگوں نے بچپن ساتھ گزارا ہے۔ پوجا بہت حسین ہے اسے اپنے حسن پر ناز بھی تھا لیکن ہمارے لیے وہ صرف چاچا جی کی بیٹی ہے۔ ہم نے کبھی اسے نہ بہت زیادہ حسین سمجھا اور نہ کوئی مختلف شے مگر بس عجیب و غریب فطرت کی مالک ہے وہ اور پچھلے کچھ عرصے سے تو اس کی کیفیت عجیب ہی ہوگئی ہے، کسی کو منہ ہی نہیں لگاتی لیکن ہمیں ہمیں فراست نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ ہاں کہو آگے کہو نہیں بس، فرخندہ کا یہ خیال تھا کہ تم اس میں غیر معمولی دلچسپی لینے لگے ہو۔ دلچسپی تو میں اس میں لے رہا ہوں فراست کیوں اس کے متعلق جو کہانیاں میں نے سنی ہیں وہ بڑی سنسنی خیز ہیں۔ کوئی خاص کہانی نہیں سنی ہوگی، سوائے ابو کی زبانی، ابو نے جوکچھ تمہیں بتایا ہوگا، بس اتنا ہی ہوگا اور ابو بھلا حقیقتیں کیسے بتاسکتے ہیں کیونکہ معاملہ ان کے دوست سری رام کا ہے۔ اچھا کچھ اور حقیقتیں بھی ہیں ہاں ہیں، بہت سے لوگ جانتے ہیں، مگر مجھے معلوم ہے کہ یہاں چندوسی میں تمہاری ملاقات ہوئی ہی کتنے لوگوں سے ہے۔ کیا کہانی ہے فراست مجھے بتائو کوئی طویل کہانی نہیں ہے، بس یوں سمجھ لو کہ گووندا اور اس کا خاندان ہندوئوں کی زبان میں نیچ ذات لوگوں کا خاندان ہے۔ گووندا کے ماں باپ سری رام کے نوکر تھے۔ گووندا خود بھی بچپن سے سری رام کی چاکری کرتا رہا تھا اور اسی دوران اسے پوجا سے محبت ہوگئی۔ پوجا بھی سب کچھ بھول کر کہ وہ نیچ ذات ہے یا اونچ ذات اس سے محبت کرنے لگی۔ اب یہ کوئی ایسی بات تو نہیں تھی۔ دونوں جوان ہوگئے اور پھر سری رام جی کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ اوہ تو تمہارا مطلب ہے کہ پوجا بھی گووندا کو چاہتی ہے یقینی طور پر ایسے معاملات یکطرفہ نہیں ہوتے اور اس کے بعد جب سری رام جی کو یہ بات معلوم ہوگئی تو بس یوں سمجھو کہ گووندا کے خاندان پر عتاب نازل ہوگیا۔ ان کا ذریعۂ معاش ہمیشہ سے سری رام جی کی ملازمت تھا۔ سری رام جی نے انہیں اس سے محروم کردیا۔ وہ بھوکے مرنے لگے۔ گووندا کی ماں مرگئی۔ کچھ عرصے کے بعد باپ مرگیا، بس خاندان کے دوسرے لوگ باقی رہ گئے تھے۔ خود گووندا کی حالت بھی بہت زیادہ خراب تھی۔ سری رام جی نے جب اس سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ وہ پوجا کو چاہتا ہے تو اس نے سچائی سے اظہار کردیا تھا۔ نتیجے میں اسے چار دن تک بھوکا پیاسا سری رام جی کے گھر کے ایک بند کمرے میں رہنا پڑا اور جب سری رام جی نے یہ محسوس کیا کہ وہ بھوک سے مرجائے گا اور اپنی ضد نہیں چھوڑے گا تو اسے جوتے مار کر وہاں سے نکلوادیا کہ کہیں وہ ان کے گھر میں ہی نہ مرجائے۔ نجانے کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں بے چارے گووندا نے، اور اس کے بعد وہ یہاں سے غائب ہوگیا تھا، پھر اس نے کیا کیا، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ واپس آیا تو وہ شیطان کے مقابلے میں شیطان بن چکا تھا۔ اب یہ دیکھو ناں مسعود کہ اونچی اور نیچی ذات کیا ہوتی ہے۔ ہمارے مذہب میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کے بعد اب گووندا نے سری رام جی کو صحیح طور پر سنبھال رکھا ہے۔ پوجا خود کچھ نہیں کہتی۔ نہیں وہ پاکباز خاتون بس خاموش رہتی ہیں ہر ایک سے ملنا جلنا بات کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سری رام جی سے بھی کوئی شکایت نہیں کرتیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں، لیکن لیکن یہ سب دکھاوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی گووندا کی سازش میں شریک ہے۔ کمال ہے، کمال ہے۔ میں نے کہا اور اس کے بعد میں خاموش ہوگیا۔ یہ کہانی واقعی عجیب اور دلچسپ تھی اور اب میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ فراست تو کچھ دیر میرے پاس بیٹھنے کے بعد چلا گیا۔ میں نے اسے اطمینان دلایا تھا کہ ایسا کوئی احمقانہ تصور میرے ذہن میں موجود نہیں ہے، اور شاید اسے یقین بھی آگیا تھا لیکن اب میرے لیے ذرا الجھن کا مقام پیدا ہوگیا تھا۔ اونچ نیچ ذات کا معاملہ تھا۔ گووندا نے شیطانی علوم سیکھ لیے تھے اور اس کے ذریعے اب وہ طاقت حاصل کرچکا تھا لیکن مجھے اب اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے، دو محبت کرنے والے جن کا تعلق ایک دوسرے سے روحانی تھا، میری وجہ سے کسی عذاب میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ یہ مجھے نہیں کرنا چاہیے اور جواب دینے والا ضمیر تھا، اور ضمیر میرے اس خیال سے غیر مطمئن نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ کسی بھی طرح اس کے اس مسئلے میں ٹانگ اڑانا مناسب نہیں ہے۔ اگر میں گووندا کو کوئی نقصان پہنچادوں تو یہ ظلم ہوگا۔ کیونکہ وہ ظلم سے مجبور ہونے کے بعد شیطانی حرکتوں پر اترا ہے، البتہ میں اس کی کسی شیطانی حرکت میں اس کا ساتھ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ بہت غور کرنے کے بعد میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس مسئلے میں سری رام جی کی کوئی مدد نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی گووندا کا کوئی ساتھ دیا جاسکتا ہے۔ مجھے ان دونوں کے معاملات سے الگ ہوکر چندوسی سے نکل جانا چاہیے۔ پابند تو تھا نہیں کسی کا، کوئی قید نہیں تھی میری مرضی تھی، جس مسئلے میں چاہتا ٹانگ اڑاتا اور جس میں نہ چاہتا نہ اڑاتا۔ یہ فیصلہ قطعی اور آخری تھا لیکن اب ایسی مصیبت بھی نہیں آئی تھی کہ میں فوراً ہی یہاں سے فرار ہوجاتا۔ کافی وقت یہاں گزرا، فراست تو پہلے ہی چلا گیا تھا، میں اپنی آرام گاہ میں خاصا وقت گزارنے کے بعد باہر نکلا تو فرخندہ نظر آگئی۔ میں نے اسے روک کر سلامت علی صاحب کے بارے میں پوچھا تو اس نے پرسکون لہجے میں بتایا کہ بخار اتر چکا ہے اور اب وہ گہری نیند سو رہے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ بخار اتر جائے گا۔ فرخندہ اب خاصی مطمئن نظر آرہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں تیار ہوکر چل پڑا۔ گووندا سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ پچھلی رات ہی کو اس سے ملتا، اگر سلامت علی صاحب میرا پیچھا کرتے ہوئے وہاں نہ پہنچ جاتے۔ گھر سے نکل آیا، پیدل چلتا رہا۔ کالی موری کا فاصلہ اچھا خاصا تھا۔ دھوپ آہستہ آہستہ تیز ہوتی جارہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں کالی موری کے کھنڈرات میںداخل ہوگیا۔ یہاں وہی لامتناہی سناٹا چھایا ہوا تھا اور کہیں کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ میں گووندا کو تلاش کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا اور پھر میں نے اسے آواز دی۔ میرے آواز دینے پر وہ ایک بڑے سے پتھر کے پیچھے سے باہر نکل آیا۔ عجیب سا حلیہ بنا رکھا تھا۔ چہرے پر سنگین خاموشی طاری تھی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرادیا اور وہ سنجیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔ میں نے کہا۔ تمہیں مبارکباد دینا چاہتا ہوں گووندا کہ تم نے نہ صرف اپنا قول نبھایا بلکہ اپنے دشمن کا خاتمہ بھی کردیا وہ ہمارا دشمن نہیں تھا میاں جی۔ وہ، بس یوں سمجھ لیں کہ ہم نے یہ سب کچھ نہیں چاہا تھا۔ کالا جادو کرتے ہیں مگر کسی کا جیون نہیں لیتے، پر آپ نے ایسی بات کہہ دی تھی اور، اور وہ نہ ماننے والوں میں سے تھا۔ سو ہم نے اس سے مقابلہ کیا اور وہ ہمارے سامنے شکست کھاگیا۔ مجھے اس کا علم ہے گووندا اور تمہاری کہانی بھی میرے علم میں آگئی ہے۔ تم پوجا سے محبت کرتے ہو گووندا کے چہرے پر عجیب سے آثار پھیل گئے، اس نے کہا۔ یہ کہانی، میاں جی تمہیں چندوسی والوں ہی نے سنائی ہوگی لیکن چندوسی والے سری رام جی کے خوف سے ہمیشہ ادھوری کہانی سناتے ہیں۔ اگر پوری کہانی سننا چاہو تو میں تمہیں سنا سکتا ہوں۔ نہیں گووندا میں نے پوری کہانی ہی سنی ہے۔ مجھے علم ہوگیا ہے کہ سری رام جی نے تمہارے اہل خاندان کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے اور اور تمہیں بھی کافی اذیتیں پہنچائی ہیں۔ اگر سن چکے ہو میاں جی تو پھر خود فیصلہ کر لو کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ میں سری رام جی کے مظالم سے تنگ آکر باہر نکل گیا۔ میرے اندر ہمت تھی، میں اگر چاہتا تو بے شمار دولت کما کر ایک امیر آدمی بن سکتا تھا لیکن سری رام جی جیسے ہٹ دھرم کبھی اس بات کو تسلیم نہ کرتے اور یہ نہ مانتے کہ، کہ ایک نیچ ذات ان کا برابر والا ہوسکتا ہے۔ بس اس خیال نے میاں جی دماغ گھمادیا اور پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسی طاقتیں حاصل کی جائیں جن کے ذریعے سری رام جی کو مجبور کردیا جائے۔ میں نے یہاں پر بھی دھوکہ نہیں کیا اور سری رام جی کو یہ سمجھا دیا کہ میرے پاس کالی قوتیں ہیں۔ وہ اگر سیدھی طرح نہ مانیں گے تو پھر میں بھی انگلیاں ٹیڑھی کر لوں گا۔ میاں جی سب کچھ کر سکتا تھا میں ان کالی قوتوں کو حاصل کرنے کے بعد لیکن میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں سری رام جی کو دھوکہ بھی دے سکتا تھا۔ پوجا کو ایسے نقصانات پہنچا سکتا تھا کہ اس کے بعد سری رام جی اسے اپنے ہاتھوں سے نکال کر گھر سے باہر ڈال دیتے، مگر، مگر میں پوجا کو اسی عزت کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں جس طرح لڑکیاں اپنے گھروں سے وداع ہوتی ہیں۔ یہ اس کی عزت کے لیے ہے میاں جی کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ ورنہ میرے کالے جادو کے سامنے کیا سری رام جی اور کیا ان کی اوقات۔ گووندا نے کہا۔ میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔ ٹھیک ہے گووندا، بہرطور میں تمہیں دعائیں ہی دے سکتا ہوں، اس کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہوں۔ میاں جی، دیکھو ہمارے کالے علم نے بتایا ہے کہ تم کالے علم کے خلاف عمل کرتے ہو۔ ہمارے ساتھ ایسا مت کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یہ ایک مظلوم کے ساتھ اور ظلم ہوگا۔ بس اس کے علاوہ ہم تم سے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ گووندا نے کہا اور میں پُرخیال انداز میں گردن ہلانے لگا۔ پھر میں نے کہا۔ نہیں گووندا۔ یہ سب کچھ معلوم کرنے کے بعد میں تمہارے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتا مگر تم سے کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ کہو مہاراج گووندا۔ میرا تجربہ زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بات سب ہی جانتے ہیں محبت آسمانی جذبہ ہوتا ہے۔ تمہارے دین دھرم میں بھی اسے بھگوان کا روپ کہا جاتا ہے۔ بھگوان کے اس سندر روپ کو تم نے شیطان کی آغوش میں کیوں دے دیا گووندا میری صورت دیکھتا رہا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولا۔ جیون سے زیادہ پیاری ہے وہ ہمیں۔ بچپن سے ہماری ہے وہ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سوا کچھ نہیں سوچا۔ بچپن میں بھی وہ کہتی تھی کہ گووندا ہم ہمیشہ ساتھ کھیلا کریں گے، چاہے بوڑھے ہوجائیں، چاہے مرجائیں۔ جوانی میں بھی اسے پوری امید تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ماتا پتا کی اکیلی ہے وہ اس کے لیے جیون دے دیں گے۔ وہ اس کے لیے اونچ نیچ کی ساری دیواریں گرادیں گے اور ہمیں ایک کردیں گے، مگر یہ نہ ہوا۔ سری رام جی اتنے کٹھور ہوگئے کہ انہوں نے ان پر بھی دیا نہ کی جنہوں نے جیون بھر ان کی سیوا کی۔ ہم نے اپنے ماتا پتا اپنے پریم کی بھینٹ چڑھا دیئے۔ میاں جی ہمیں یہ حق نہ تھا۔ ہزار بار مرجاتے ہم اپنے ماتا پتا کے لیے مگر۔ مگر سری رام جی نے۔ پھر ہم پر شیطان آگیا اور، اور ہم شیطان بن گئے۔ سب کچھ کھودیا ہم نے۔ جیون میں بس ایک آشا ہے، پوجا۔ نہیں میاں جی، اتنا بڑا بلیدان دینے کے بعد ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب پوجا ہماری ہوگی ورنہ کسی کی نہ ہوسکے گی۔ وہ بھی اس سنسار سے جائے گی ہم بھی جائیں گے۔ شیطان اب انسان نہیں بن سکتا میاں جی، ہمیں معاف کردینا۔ وہ مڑا اور واپس چلاگیا۔ یہ بات میں خود بھی جانتا تھا کہ شیطان انسان نہیں بن سکتا۔ نتیجہ کیا ہوگا۔ مگر نتیجہ کچھ بھی ہو میرے لیے اب یہ معاملہ غیر اہم ہوگیا تھا۔ میں وہ نہیں کرسکتا تھا جو سری رام چاہتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد میں واپس چل پڑا سلامت علی کی حویلی کا ماحول عجیب ہورہا تھا۔ چچی جان یعنی بیگم سلامت علی سب سے پہلے نظر آئی تھیں، مجھے دیکھ کر یکدم ساکت ہوگئیں۔ پھر بے اختیار مجھے سلام کیا اور غڑاپ سے کمرے میں گھس گئیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ حیران حیران اپنے کمرے میں داخل ہوگیا۔ ایک ملازم کھانے کے لیے پوچھنے آیا تو میں نے کہا۔ کھانا نہیں کھائوں گا۔ فراست کہاں ہے اندر ہیں۔ میرے پاس بھیج دو۔ میں نے کہا اور ملازم چلاگیا۔ میں انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر گزر گئی فراست نہیں آیا تھا۔ نہ جانے کیا قصہ تھا۔ صورت حال معلوم کرنے کے لیے نکلنا ہی چاہتا تھا کہ دروازے پر آہٹیں محسوس ہوئیں پھر فرخندہ اور فراست ایک ساتھ اندر آئے تھے۔ دونوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے سلام کیا تھا۔ میں مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھنے لگا، پھر میں نے کہا۔ یہ کوئی نیا ڈرامہ ہے ہمارا قصور نہیں ہے۔ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا تھا فرخندہ نے کہا۔ جو بدتمیزی ہوئی صرف اس خیال کے ساتھ ہوئی کہ آپ ابو کے دوست کے بیٹے ہیں اور پھر آپ ہمارے ہم عمر بھی ہیں۔ فراست بولا۔ کیا ہوگیا تم دونوں کو ہمیں اصل بات پتا چل گئی ہے۔ کونسی اصل بات سری رام چچا، ابو کے پاس آئے تھے۔ ہم دونوں نے ان کی باتیں سنیں اور ہمیں سب معلوم ہوگیا۔ رات کو گنگولی مارا گیا نا ہمیں معاف کردیجیے شاہ صاحب ہم نے واقعی آپ کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں۔ ارے خدا تمہیں سمجھے۔ تم نے مجھے ایک اور نام دے دیا۔ آئو بیٹھو کیا بات ہوئی سری رام جی اور سلامت علی صاحب کے درمیان میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ دونوں بڑے احترام سے میرے سامنے بیٹھ گئے۔ پوری طرح سنجیدہ نظر آرہے تھے۔ چاچا جی ابو کے بخار کی سن کر آئے تھے، مگر ابو تو اسی وقت ٹھیک ہوگئے جب آپ نے کہا تھا کہ بخار ابھی تھوڑی دیر میں اتر جائے گا۔ ان کی بحرانی کیفیت بھی اسی وقت ٹھیک ہوگئی تھی۔ ابو نے چاچا جی سے کہا کہ سری رام میں تمہیں ایک ایسی خوشخبری سناتا ہوں کہ تم خوشی سے پاگل ہوجائو گے۔ ہمیں بھی دلچسپی پیدا ہوگئی اور ہم دونوں نے چھپ کر ان کی باتیں سنیں تب ہمیں معلوم ہوا۔ کیا معلوم ہوا یہی کہ آپ ایک نوجوان درویش ہیں اور جمال گڑھی میں آپ نے بہت کچھ کیا ہے جس کی بنا پر بھلاّ صاحب اور سری رام آپ کو وہاں سے بلاکر لائے اور پچھلی رات آپ کے علم سے گنگولی مارا گیا۔ یہ غلط ہے۔ اسے گووندا نے مارا ہے لیکن تم دونوں نے اوہ میرے خدا کیاچچی جان کو بھی سب کچھ معلوم ہوگیا ہے تبھی وہ بھی سلام کررہی تھیں تو یہ قصہہے۔ شاہ صاحب۔ آپ ہمیں معاف کردیں۔ فرخندہ نے کہا۔ ہم نے انجانے میں بڑی گستاخیاں کی ہیں۔ میں نے تو نہ جانے کیا کیا بکواس کی ہے۔ میں نے کیا کم حماقتیں کی ہیں۔ فراست بولا۔ بھئی تم لوگوں نے خوب روپ بدلا ہے۔ میں بدستور ہنستے ہو ئے بولا۔ آپ اتنی چھوٹی سی عمر میں درویش کیسے بن گئے شاہ صاحب اور یہ سب کچھ آپ کو کیسے آگیا چلو تم لوگوں کو یہ معلوم ہو ہی گیا تو میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں خوب غور کر کے مجھے جواب دینا۔ جی شاہ صاحب گووندا پوجا سے محبت کرتا ہے۔ پوجا بھی اسے چاہتی ہے۔ تم لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوگا۔ سری رام جی اپنی جیسی کر کے ہار گئے اور اب وہ میرے ذریعہ گووندا کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہوگا بالکل نہیں فرخندہ نے فوراً کہا۔ ہمارے مذہب میں تو اونچ نیچ نہیں ہے، جو صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے وہ دوسرے کلمہ گو کا ہم پلہ ہے اور پھر سری رام نے گووندا کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ اب اگر اس نے مجبور ہو کر شیطانی طاقتوں کا سہارا لے لیا ہے تو سری رام چاچا بھاگتے پھر رہے ہیں۔ فراست بولا اور مسکرا خاموش ہوگیا۔ ان دونوں کے الفاظ نے مجھے ڈھارس دی تھی۔ شام کو سری رام جی پھر آگئے ۔ میں سلامت علی کے پاس آکر بیٹھا ہی تھا اور ہم کوئی گفتگو شروع بھی نہ کر پائے تھے کہ سری رام جی کے آنے کی اطلاع ملی تھی۔ سلامت علی نے انہیں یہیں بلوا لیا۔ سری رام جی ہاتھ جوڑے اندر آگئے تھے۔ آج ان کی کھیسیں نکلی ہوئی تھیں۔ جے ہو مہاراج کی۔ اندھے ہیں، ہم کیا جانیں کہ کونسا روپ مہان ہے وہ سیوا نہ کر پائے آپ کی جو کرنی چاہیے تھی۔آپ نے تو مشکل ہی ختم کردی ہماری۔ ہمارے آدمی دیکھ آئے سلامت ، پاپی گنگولی کا ڈیرہ اجڑا پڑا ہے۔ بدبو پھیلی ہوئی ہے چاروں طرف سڑاند اٹھ رہی ہے، جے ہو مہاراج کی اب اس پاپی گووندا کا کریا کرم اور کر دیں مہاراج، جان چھوٹ جائے کمینے سے۔ کچھ کہنا ہے آپ سے سری رام جی، اچھا ہے آپ آگئے۔ حکم دیں مہاراج حکم دیں۔ سری رام مجسم نیاز بنے ہوئے تھے۔ آپ کا ذاتی معاملہ ہے ہم کسی بات پر زور نہیں دیں گے مگر پتا چلا ہے کہ آپ کی بیٹی بھی بچپن سے گووندا کو چاہتی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں مہاراج، بال ہٹ جانتے ہیں آپ، مگر ذات پات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ریت رواج بھی کچھ ہوتے ہیں، ہم کھرے برہمن ہیں اور وہ سسرا اچھوت ہے، کوئی جوڑ تو ہو، کوئی میل تو ہو۔ ہمارے در کے ٹکڑے کھا کر جوان ہوا ہے۔ ہمارے برابر کیسے کھڑا ہوسکتا ہے۔ ذات برادری ہے ہماری، بھول کر بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتے۔ آپ نے اس پر سختیاں بھی بہت کی ہیں۔ غلطی بھی کی ہے ہم نے۔ رحم کھا گئے اس پر زندہ پھنکوا دیا۔ بس اسی کئے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اسی وقت کھیل ختم کر دیتے تو اچھا تھا مگر سمے گزر گیا، اب آپ ہی اسے ٹھکانے لگا سکتے ہیں مہاراج۔ نہیں سری رام جی، یہ کام ہم نہیں کرتے، ہمارا ہر قدم اللہ کے حکم سے اٹھتا ہے۔ کسی انسان کو دوسرے انسان کی زندگی لینے کا حق نہیں ہے۔ اگر اس کا عمل شیطانی ہے تو اسے قدرت سے سزا ملے گی۔ ہم اس کے جادو کا توڑ کر سکتے تھے مگر اس کا ایک مقصد ہے۔ وہ برائی کے راستے چھوڑ کر نیک راستوں پر آسکتا ہے۔ ہمارے دین میں اونچ نیچ نہیں ہوتی۔ انسان سب ایک جیسے ہوتے ہیں، نہ کوئی اچھوت نہ برہمن۔ وہ اگر چاہتا تو شیطانی طاقتوں کا سہارا لے کر کبھی کا آپ کی بیٹی کو اٹھا لے جاتا لیکن بقول آپ کے نیچ ذات ہو کر بھی اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے اپنے پیار کی بے حرمتی نہیں کی۔ وہ اب بھی یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ آپ نے اس کے کالے جادو کی قوتیں اب تو خود دیکھ لیں، میرے خیال میں اب ضد نہ کریں اسے اپنالیں ورنہ وہ آپ کو آسانی سے تباہ کرسکتا ہے۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ سلامت علی نے کہا۔ ہاں سلامت علی صاحب، بات ذات پات کی آگئی ہے اور یہ تفریق ہمارے مذہب میں گناہ ہے۔ میں اس بنیاد پر کچھ نہیں کرسکتا، مجبوری ہے اگر کوئی شیطان، سفلی قوتوں کا سہارا لے کر کسی بے گناہ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا تو دوسری بات تھی مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ ارے یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ سلامت انہیں سمجھائو، کیا میں، کیا میں اپنی بیٹی اس اچھوت کو، اس چمار کو دے دوں۔ سری رام کلس کر بولے۔ ایسا ہوتا نہیں ہے مسعود میاں۔ سلامت علی بولے۔ اللہ جانے، میں معذور ہوں۔ ڈر گئے ہو گووندا سے میاں جی، یہ کیوں نہیں کہتے۔ سری رام بولے۔ آپ کو سب کچھ کہنے کا اختیار ہے، سری رام جی۔ ارے بھائی، ہمارا کام کر دو۔ جو مانگو گے دیںگے۔ بیس ہزار، پچاس ہزار بولو کیا لو گے۔ سلامت انہیں سمجھائو۔ سری رام بے حواس ہوتے جارہے تھے۔ یہ پیشکش آپ گووندا کو دیں، ممکن ہے وہ راضی ہو جائے۔ ویسے میری یہی رائے ہے۔ آپ چاہیں تو خاموشی سے کسی دوسرے شہر جا کر یہ کام خاموشی سے کردیں، کچھ بھی کریں یہ ہوگا ضرور۔ ہوں، ٹانگ برابر چھو کرے ہو میاں جی باتیں لمبی کرتے ہو۔ بڑے آئے پیر ٹنڈن شاہ بن کر۔ ارے تم سن رہے ہو اس کی باتیں سلامت علی۔ سری رام بگڑ گئے۔ میں مسکراتا رہا۔ سلامت علی دم بخود تھے۔ سری رام کھڑے ہوگئے۔ پھر بولے۔ میں جارہا ہوں سلامت، آگ لگا دی ہے میرے من میں اس نے۔ اسے سمجھائو، نہ مانے تو تو تم جانو تمہارا کام۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ سلامت علی مسلسل خاموش تھے میں نے مسکرا کر انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔ جی محترم سلامت صاحب، کیا حکم ہے آپ کا۔ سلامت علی خاموشی سے کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کہا۔ دوستی دنیا تک ہے۔ مسعود شاہ صاحب، اس کے بعد قبر میں جانا ہے۔ ایک ایسے کام کی حمایت کیسے کرسکتا ہوں، جس کی اجازت مذہب نہ دیتا ہو۔ آپ سب کچھ بہتر سمجھتے ہیں، میں بھلا یہ بینائی کہاں رکھتا ہوں۔ آپ کا فیصلہ بہتر ہے اب وہ جانے اور اس کا کام۔ شکریہ بیشک وہ ہمارے ہم مذہب نہیں مگر جیتے جاگتے انسان ہیں۔ خیر میرا فیصلہ اٹل ہے مگر اب یہاں میرا رکنا مناسب نہیں ہے۔ آپ کی دوستی میں رخنہ پڑے گا۔ سری رام میرے یہاں رہنے سے خوش نہیں ہوگا چنانچہ آپ مجھے اجازت دیجیے۔ ابھی اسی وقت۔ ہاں جب ایک کام کرنا ہے تو دیر مناسب نہیں ہے۔ آپ سری رام سے کہہ دیں کہ اس گفتگو کے بعد میں یہاں نہیں رکا۔ میں نے کہا اور سلامت علی صاحب افسردہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا۔ ہمیں تو خدمت کی سعادت حاصل ہی نہ ہو سکی۔ کم نگاہ تھے کہ آپ کو سمجھ ہی نہ سکے۔ بچے آپ کے جانے سے اداس ہو جائیں گے۔ میں نے سلامت صاحب سے کہا کہ وہ فراست اور فرخندہ کو کچھ نہ بتائیں ورنہ وہ مجھ سے رکنے کی ضد کریں گے۔ انہیں دونوں کی وجہ سے میں جلدی وہاں سے چل پڑا۔ سلامت علی کو میں نے اسٹیشن تک چلنے کے لیے منع کردیا تھا اور خود تانگے میں بیٹھ کر چل پڑا تھا۔ چندوسی کے چھوٹے سے اسٹیشن پر کہیں سے ایک ٹرین آکر رکی تھی۔ میں خاموشی سے اس میں سوار ہوگیا۔ سلامت علی نے انتہائی خوشامد کر کے کچھ پیسے دے دیئے تھے۔ مجبوری تھی کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، ٹکٹ وغیرہ خریدنے کے جھمیلے میں اس لیے نہیں پڑا تھا کہ کہیں فراست اور فرخندہ کو میری روانگی کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے اور وہ جذباتی ہو کر اسٹیشن دوڑ پڑیں۔ ٹرین کہاں سے آئی ہے کہاں جائے گی، کچھ پتا نہیں تھا، چند لمحات کے بعد اس نے اسٹیشن چھوڑ دیا۔ نچلے درجے کا ڈبہ تھا۔ معمولی قسم کے مسافر بھرے پڑے تھے۔ ایک مسافر نے اپنے قریب جگہ دے دی اور میں بیٹھ گیا۔ ٹرین کی آواز ذہن کو سلائے دے رہی تھی، رات کے بارہ بجے کے قریب ٹکٹ کلکٹر آگیا اور سوتے ہوئے مسافروں کو جگا جگا کر ٹکٹ مانگنے لگا۔ میں نے جیب سے پیسے نکال لیے اور ٹکٹ کلکٹر کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا، جب وہ قریب پہنچا تو میں نے پیسے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ چندوسی کے اسٹیشن سے سوار ہوئے ہیں بھائی، یہ ریل جہاں جا رہی ہے وہاں کا ٹکٹ دے دو۔ ٹکٹ چیکر نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر سلام کر کے آگے بڑھ گیا۔ میں ہاتھ میں پیسے لیے منہ کھولے اسے دیکھتا رہ گیا۔ میرے برابر ہی ایک میلے کچیلے سے کمبل میں منہ ڈھک کر سوتے ہوئے شخص نے کمبل کا کونہ سرکایا اور شی شی کا اشارہ کر کے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک بوڑھا باریش آدمی تھا، ہنس کر بولا۔ آرام بڑی چیز ہے، منہ ڈھک کر سوئیے۔ میں نہیں سمجھ سکھا کہ اس نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ اس نے دوبارہ کمبل منہ پر ڈھک لیا تھا۔ میں پریشان نظروں سے دور پہنچ جانے والے ٹکٹ چیکر کو دیکھنے لگا تو اچانک باریش شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور بڑی زور سے مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور پھر کمبل میرے چہرے پر بھی ڈھک دیا۔ میرے بدن میں سناٹا سا پھیل گیا تھا۔ کمبل کی تاریکی میں ایک لمحے کے لیے گھٹن کا احساس ہوا اور پھر فنا ہوگیا۔ مدھم مدھم سے مناظر نگاہوں میں ابھرنے لگے۔ آہستہ آہستہ عجیب سی روشنی پھیلتی جارہی تھی۔ میں حیرانی سے اس روشنی کو دیکھنے لگا۔ ایک شخص ہاتھ میں جھاڑو لیے قریب آتا ہوا محسوس ہوا اور پھر مجھ سے کچھ فاصلے پر رک کر اس نے جھاڑو دینا شروع کردی۔ گرد اُڑ رہی تھی۔ میں نے گرد سے بچنے کے لیے کمبل سر پر اوڑھ لیا اور چہرہ ڈھک لیا۔ جھاڑو کی آوازیں مسلسل ابھر رہی تھیں۔ جب وہ دور چلی گئیں تو میں نے چہرہ کھول کر دیکھا۔ صبح کا سہانا وقت تھا۔ کافی فاصلے پر لال رنگ کے پتھروں سے بنی ہوئی ایک عمارت نظر آرہی تھی۔ غالباً مسجد تھی، اس کی سیڑھیوں سے نمازی نماز پڑھ کر نیچے اتر رہے تھے۔ دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا، چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ نہ ٹرین تھی، نہ ٹرین کے مسافر اور نہ ہی وہ کمبل پوش مسافر، لیکن کمبل میرے پاس تھا اور سو فیصدی وہی تھا جس میں مجھے چھپا لیا گیا تھا۔ دل کو احساس ہوا جیسے میرے پاس کائنات کی ساری دولت آگئی ہو، مگر حیرانی اپنی جگہ تھی۔ یہ سب ہوا کیا۔ ہوش و حواس کے عالم میں ریل میں بیٹھا تھا اور سب کچھ غائب ہوگیا۔ یہ کونسی جگہ ہے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دور سے ایک گھوڑا گاڑی نظر آئی جو اسی طرف آرہی تھی۔ میرے قریب سے گزر کر وہ مسجد کے سامنے رک گئی۔ اس سے کچھ لوگ نیچے اترے اور کچھ سامان اتارنے لگے۔ پھر کچھ خواتین گھوڑا گاڑی سے نیچے اتر آئیں۔ قیمتی لباس پہنے ہوئے تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس سے بہت سے گدڑی پوش مرد عورتیں گھوڑا گاڑی کے پاس آگئے اور ہنگامہ آرائی ہونے لگی، لیکن گاڑی سے اترنے والے چار آدمیوں نے انہیں دھکے دے کر پیچھے ہٹایا اور پھر شاید ان کے کہنے سے وہ قطار بنا کر بیٹھ گئے۔ میں دلچسپی سے یہ تماشا دیکھنے لگا۔ انہیں شاید کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ میرے پیٹ میں ایک دم کھلبلی مچ گئی۔ شدید بھوک کا احساس ہوا مگر قدم اس طرف نہ اٹھ سکے۔ میں خاموشی سے ادھر دیکھتا رہا۔ اچانک ایک آدمی میری طرف بڑھا اور قریب آگیا۔ ناشتہ لے لو بابا جی۔ ادھر قطار میں آجائو۔ ایک دم سے دل میں انا جاگی۔ میں فقیر تو نہیں ہوں مگر ذہن نے فوراً ٹوکا۔ رزق ٹھکرانا گناہ ہے اور جھوٹی انا دشمنی۔ رزق کے لینے کے لیے بڑھنے والے ہاتھ انسان کے سامنے نہیں اللہ کے سامنے پھیلتے ہیں۔ اٹھا اور اس شخص کے ساتھ چل پڑا کمبل جسم سے لپٹا ہوا تھا۔ اس لیے جسم کا صاف ستھرا لباس چھپا رہا، فراست کے ہوئے کپڑے تھے، قیمتی اور خوبصورت۔ ان لوگوں نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے۔ اس لیے کمبل اور سنبھال لیا۔ اس شخص نے مجھے بھی قطار میں بٹھا دیا۔ حلوہ پوریاں اور ترکاری تھی۔ یہ چیزیں بڑے بڑے تھالوں میں سجی ہوئی تھیں۔ ڈھاک کے پتوں کے دونے بنے ہوئے تھے۔ ایک شخص تھال سنبھالے ہوئے تھا۔ دو اس کے پیچھے تھے۔ دونوں جوان لڑکیاں جو قیمتی پوشاک پہنے ہوئے تھیں تھال کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ ایک لڑکی دونے اٹھا کر دوسری کو دیتی اور دوسری یہ دونے فقیروں کو دے دیتی۔ غالباً یہ خیرات دوسری لڑکی کے ہاتھوں تقسیم کرائی جارہی تھی۔ تھال خالی ہوتا تو دوسرا تھال گھوڑا گاڑی سے آجاتا۔ آہستہ آہستہ وہ میرے قریب پہنچتے جارہے تھے۔ دونوں لڑکیاں بے حد خوبصورت تھیں۔ میں نے ایک نگاہ ان پر ڈال کر جھکائی مگر اس سرسری نگاہ ہی سے مجھے ایک انوکھا احساس ہوا۔ میں نے کچھ دیکھا تھا اور جو کچھ دیکھا تھا ناقابل یقین تھا۔ گہرے کالے رنگ کا ایک ناگ ایک لڑکی کے جسم کے گرد بل ڈالے لپٹا ہوا تھا۔ وہ بہت لمبا اور پتلا تھا۔ اس کا نچلا حصہ لڑکی کی کمر سے لپٹا ہوا تھا اور باقی بدن بل کھاتا اوپر چلا گیا تھا۔ اپنے اس شہبے کو یقین کی شکل دینے کے لیے میں نے جلدی سے گردن اٹھائی، اسے دوبارہ دیکھا۔ وہ دونوں اب میرے سامنے تھیں۔ دونے لڑکی کے ہاتھ میں تھے اور وہ مجھے دینے کے لیے جھک رہی تھی۔ میں نے اس بار سانپ کو بخوبی دیکھ لیا، اس کا پھن لڑکی کے سر کے اوپر رکھا تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم انسانی کمزوری کا غلبہ ہوا۔ لڑکی جھکی تو میں چیخ مار کر پیچھے ہٹ گیا۔ اور میرے منہ سے آواز نکلی۔ سانپ، سانپ۔ دونے لڑکی کے ہاتھ سے نیچے گر گئے اور ان کا سامان بکھر گیا۔ سب چونک پڑے تھے۔ دونوں لڑکیاں بھی متوحش ہوگئی تھیں۔ کہاں ہے سانپ کیسا سانپ تھال سنبھالنے والوں نے کپکپاتے ہوئے بمشکل تھال سنبھال کر نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ یہ میں انگلی سے سانپ کی طرف اشارہ کر کے ایک دم کھڑا ہوگیا۔ سانپ کا اونگھتا ہوا سر جنبش کرنے لگا۔ اس نے ایک دم آنکھیں کھول دیں اور اس کی ننھی سرخ چنگاریوں جیسی آنکھیں مجھے گھورنے لگیں۔ ان میں کینہ توزی کی جھلک تھی۔ میرا اشارہ چونکہ لڑکی کے جسم کی طرف تھا اس لیے ان لوگوں نے لڑکی کو بھی دیکھا۔ پھر ایک بولا۔ پاگل لگتا ہے۔ اٹھا یہ رزق سب کچھ گرا دیا۔ تم لوگ تم لوگ۔ میرے منہ سے نکلا۔ میرے چہرے سے کمبل سرک گیا تھا۔ دوسری لڑکی نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر سے دونے اٹھا کر تقسیم کرنے والی لڑکی کو دے کر بولی۔ لو مہر، زمین پر گری چیزیں خراب ہوگئی ہیں اور دے دو میں شدت حیرت سے گنگ ہوگیا۔ یہ لوگ لڑکی کے جسم سے لپٹے سانپ کو دیکھ نہیں پا رہے یا اس بار دونے میرے ہاتھوں میں آگئے تھے مگر میں نے کچھ پیچھے ہٹ کر انہیں لیا تھا۔ وہ آگے بڑھ گئیں مگر میں پاگلوں کی طرح انہیں دیکھ رہا تھا۔ یا الٰہی یہ کیا قصہ ہے۔ کالے سانپ نے لڑکی کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور یہ لوگ نہ تو اس سے خوف کھا رہے ہیں اور نہ اسے کوئی اہمیت دے رہے ہیں۔ دونوں لڑکیاں ناشتہ تقسیم کرنے والے آخری فقیروں کو بھی ناشتہ دے چکے تو واپس پلٹے۔ انہوں نے مجھے دیکھا میں اسی طرح دونے پکڑے بیٹھا ہوا تھا۔ اس بار انہوں نے مجھے ہمدردی سے دیکھا تھا۔ سب گھوڑا گاڑی میں بیٹھ گئے اور کوچوان نے اپنی جگہ سنبھال لی۔ ابے پیٹ بھرا ہوا ہے کیا پہلوان۔ میرے برابر بیٹھے ہوئے فقیر نے للچائی ہوئی نظروں سے میرے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ایں میں چونک پڑا۔ میرے کو دے دے خلیفہ، کلّن کا پیٹ چار پوریوں سے نہیں بھرنے کا۔ دے دے استاد اللہ تیرا بھلا کرے گا۔ اس نے لجاجت سے کہا اور میں نے دونے اس کی طرف بڑھا دیئے۔ ارے ارے، کھانے دے اسے کلن، اللہ تیرا پیٹ کبھی نہیں بھرے گا۔ قریب بیٹھی ایک عورت نے کہا۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے جو جلدی سے نیچے گری ہوئی پوریاں اور حلوہ اٹھا کر بھاگے۔ اے بی تمہیں کیا ہو رہا ہے۔ اپنی خوشی سے دیا ہے اس نے، آئیں کہیں سے بی ہمدرد۔ کلّن نے پوریوں کے نوالے بناتے ہوئے کہا۔ اسی وقت دوسرا فقیر چیخا۔ لو اور ناشتہ آرہا ہے کلّن استاد گھوڑا گاڑی پھر واپس آرہی تھی۔ کلّن نے سرگوشی میں کہا۔ میاں بھائی۔ تیرے کو اگر ضرورت نہیں ہے تو میرے لیے لے لیجیئو۔ اللہ تجھے خوش رکھے میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ گھوڑا گاڑی کچھ فاصلے پر رک گئی۔ اس بار اس سے عورتیں نیچے نہیں اتری تھیں بلکہ ایک بھاری جسامت کا دراز قامت شخص نیچے اترا تھا۔ اس کے جسم پر قیمتی شیروانی تھی، چوڑی دار پاجامہ، سیاہ وارنش کے پمپ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے پیچھے ہی دونوں آدمی بھی نیچے اترے تھے جو پہلے تھال اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ تینوں اس طرف بڑھنے لگے۔ کلّن نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ابے لو، پھوٹ لے خلیفہ کوئی اور چکر ہے نکل لے، نکل لے۔ وہ جلدی سے اٹھا اور پیچھے کھسک گیا۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 116 | https://www.urduzone.net/lot-aao-episode-1/ | گھر کے بڑے کمرے میں خاندان کے سبھی افراد جمع تھے۔ گھر کا سربراہ رحمت دین گہری سوچ میں مستغرق تھا۔ اس کے اردگرد خاندان کے بیٹھے ہوئے دوسرے افراد بھی کچھ سوچ رہے تھے۔ ایک جگہ اتنے افراد ہونے کے باوجود خاموشی طاری تھی۔ رحمت دین نے کچھ دیر کے بعد اپنا سر اوپر اٹھایا اور اپنے دائیں جانب دیکھا۔ اس چارپائی پر اس کے تینوں بیٹے براجمان تھے۔ پھر اس نے بائیں جانب دیکھا جہاں اس کے تینوں بیٹوں کی بیویاں بیٹھی بظاہر سوچتی ہوئی نظر آرہی تھیں لیکن ان تینوں کو معلوم تھا کہ اگر انہوں نے کوئی بات اپنے سسر رحمت دین کو بتا بھی دی تو وہ سن کر چپ رہیں گے اور دھیان اس بات پر دیں گے جو ان کے بیٹوں نے کہی ہوگی۔ اور فیصلہ وہ کریں گے جو ان کو پسند ہوگا۔ ان کے سامنے بشیر بیٹھا تھا۔ وہ ان کا رشتے دار تھا۔ کچھ دیر قبل بشیر نے آکر رحمت دین سے کہا۔ میں آپ کے پاس ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔ کیا کام ہے، پیسوں کی ضرورت ہے رحمت دین نے مسکرا کر کہا۔ پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل مجھے نثار احمد نے بھیجا ہے۔ بشیر بغیر وقت ضائع کئے اصل بات کی طرف بڑھا۔ اس کی بات سن کر رحمت دین نے بشیر کی طرف دیکھا۔ بشیر جانتا تھا کہ رحمت دین کا غصہ پورے خاندان میں مشہور ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اگلی بات سننے سے قبل اسے یہاں سے چلے جانے کا حکم دے دے لیکن اس کی سوچ کے برعکس رحمت دین نے نرم لہجے میں کہا۔ کیوں بھیجا ہے اس نے نثار احمد آپ کا تایا زاد ہے۔ پانچ سالوں سے آپ کے درمیان شدید ناراضی چلی آرہی ہے، بول چال بند ہے مجھے ماضی مت پڑھائو، کام کی بات کرو کہ اس نے کیوں بھیجا ہے رحمت دین کو بشیر کی تمہید پسند نہیں آئی۔ اس نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ بشیر فوراً سنبھل کر بولا۔ نثار احمد بیمار ہے۔ وہ اپنا قصور مانتے ہوئے آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے آپ کے ساتھ صلح ہوجائے۔ بشیر کی بات سن کر رحمت دین نے اپنے سر کو جنبش دی۔ جب میں نے کہا تھا کہ اپنی غلطی مان لو اور معافی مانگ لو، میں ناراضی ختم کردوں گا، تب تو اس نے میری بات نہیں مانی تھی۔ اب انہیں احساس ہوگیا ہے اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہیں۔ بشیر نے کہا۔ اب میں نہیں مانوں گا۔ اسے کہو کہ بغیر صلح کئے مر جائو۔ رحمت دین نے سنگ دلی کا مظاہرہ کیا۔ ایسا نہ کہیں صلح کو اللہ پسند کرتا ہے۔ بشیر نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔ مجھے سبق مت پڑھائو اور جو میں نے کہا ہے، اسے جاکر بتا دو۔ رحمت دین نے اتنا کہہ کر منہ دوسری طرف کرلیا۔ نثار احمد کا سارا خاندان آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔ وہ آپ کو اپنا بڑا مانتے ہیں اور آئندہ بھی بڑا مان کر چلنا چاہتے ہیں۔ بشیر نے کہا۔ رحمت دین دوسری طرف منہ کئے بیٹھا رہا۔ بشیر اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ جب دس منٹ گزر گئے تو بشیر سمجھ گیا کہ اب رحمت دین اس کی طرف چہرہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کی عادت تھی کہ جب اسے بات نہ کرنا ہوتی منہ پھیر کر بیٹھ جاتا اور سامنے والے کے جانے کا انتظار کرتا تھا۔ ناچار بشیر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا تو اچانک عقب سے رحمت دین کی آواز سنائی دی۔ ٹھہرو بشیر فوراً رک گیا اور اس نے پرامید نظروں سے رحمت دین کی طرف دیکھا۔ رحمت دین کچھ توقف کے بعد بولا۔ بیٹھ جائو میں بچوں سے اس بارے میں پوچھ لوں، وہ کیا کہتے ہیں۔ بشیر بہ خوشی بیٹھ گیا۔ رحمت دین نے اپنے بچوں اور ان کی بیویوں کو بلالیا۔ سب سے چھوٹا بیٹا گھر میں نہیں تھا اس لئے وہ اس مشورے میں شامل نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ غیر شادی شدہ تھا، اس لئے اسے گھر کے فیصلوں میں کم ہی شامل کیا جاتا تھا۔ وہ آمنے سامنے چارپائیوں پر بیٹھ گئے اور بشیر کی بات ان کے سامنے رکھ کر اس نے پوچھا۔ سوچ کر بتائو مجھے اب کیا کرنا چاہئے رحمت دین کی بات سن کر سب سوچنے لگے۔ اس طرح پندرہ منٹ گزر گئے۔ رحمت دین نے خاموشی توڑتے ہوئے اپنے بیٹوں سے پوچھا۔ کیا سوچا ہے تم لوگوں نے بڑا بیٹا بولا۔ ابا جی میرا خیال ہے کہ آپ کو ان سے صلح کرلینی چاہئے۔ وہ ایک غلط فہمی تھی اور اس وجہ سے ہمارے خاندان ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ چچا نثار دل کے اچھے آدمی ہیں۔ بڑے بیٹے کی رائے سن کر رحمت دین نے دوسرے بیٹوں کی طرف دیکھا۔ ان کی بھی یہی رائے تھی۔ اپنے شوہروں کے جواب سن کر ان کی بیویوں نے بھی وہی جواب دیئے۔ بشیر دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ پانچ سال کی جدائی اب ختم ہونے کو ہے۔ کچھ توقف کے بعد رحمت دین نے کہا۔ ٹھیک ہے بچوں کی یہ رائے ہے، تو میں سب کچھ بھلا کر صلح کرنے کو تیار ہوں۔ رحمت دین کے فیصلے نے سب کو خوشی سے نہال کردیا تھا۔ بشیر سب سے زیادہ خوش تھا۔ اس نے پوچھا۔ تو پھر کب ان کی طرف چلنا ہے ہم اس کی طرف نہیں جائیں گے۔ وہ چھوٹا ہے، وہ لوگ میرے پاس آئیں، میں کیوں جائوں رحمت نے فیصلہ سنایا۔ لیکن نثار احمد بیمار ہے، چل پھر نہیں سکتا۔ چارپائی سے لگا ہوا ہے۔ بشیر نے اس کی مجبوری بتائی۔ رحمت دین سوچنے لگا تو بڑے بیٹے نے راہ دکھائی۔ ابا جی کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ان کی طرف چلتے ہیں اس سے ہماری اور عزت ہوگی۔ جمال بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ بشیر نے جلدی سے اس کی تائید کی۔ ایسی بات ہے تو پھر ہم نثار احمد کی طرف چلے چلتے ہیں۔ رحمت دین نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔ یہ ہوئی نا بات بشیر خوش ہوگیا تو رحمت دین کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ ان سے زیادہ خوش انور تھا جو کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ یہ جان کر اس کی خوشی دوچند ہوگئی تھی کہ چچا نثار سے صلح ہورہی ہے۔ انور کی خوشی کی وجہ دراصل چچا نثار کی بیٹی روبینہ تھی۔ دونوں خاندانوں میں ناراضی تھی، بول چال بند تھی، لیکن انور اور روبینہ میں بول چال بھی تھی اور دلوں میں محبت بھی تھی۔ انور کی روبینہ سے سال قبل ملاقات ہوئی تھی۔ انور ایک سرکاری محکمے میں کلرک بھرتی ہوا تھا۔ اس دن موسم نے اچانک انگڑائی لی تھی اور بادل اس تیزی سے آسمان پر چھائے کہ سارا آسمان انہوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ آفس ٹائم ختم ہوچکا تھا اور انور اپنی بائیک پر براجمان گھر کی طرف جارہا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ اس نے جلدی سے ایک بند دکان کے شیڈ کے نیچے بائیک روک لی۔ وہاں روبینہ پہلے سے موجود تھی۔ وہ اکیڈمی سے واپس آرہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چپ چاپ ایک طرف ہوکر کھڑے ہوگئے۔ بارش رفتہ رفتہ زور پکڑتی جارہی تھی۔ انور کو جانے اچانک کیا سوجھی کہ روبینہ سے مخاطب ہوا۔ اگر ہمارے بڑوں میں ناچاقی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں، ہم بھی ایک دوسرے سے بات نہ کریں روبینہ نے ایک نظر انور کی طرف دیکھا اور پھر بولی۔ ہم بول کر کیا کریں گے آپس میں باتیں کریں گے۔ اس کا فائدہ کیا ہوگا ضروری نہیں ہے کہ ہر کام فائدے کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ انور نے جواب دیا۔ بہتر ہوگا کہ ہم خاموشی سے بارش رکنے کا انتظار کریں اور پھر اپنے اپنے گھروں کا رخ کریں۔ روبینہ نے خشک لہجہ اپنا لیا۔ اس کی وجہ شاید آپ کو کوئی فرق نہ پڑے لیکن ہوسکتا ہے کہ میرے گھر والوں کو آپ سے بات کرنا اچھا نہ لگے اور وہ مجھے گھر بٹھا لیں اور میں پڑھائی سے بھی جائوں۔ روبینہ نے وجہ بتائی۔ کیا پڑھ رہی ہو انور اس کے کچھ اور قریب ہوگیا۔ بی اے کی تیاری کررہی ہوں۔ کہاں سے آرہی ہو اس وقت اکیڈمی سے آرہی ہوں۔ روبینہ نے جواب دیا۔ اکیلی آتی جاتی ہو یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر میرا گھر ہے اور وہ سامنے اکیڈمی ہے۔ اگر بارش نہ ہوتی تو میں یہاں نہ رکتی۔ روبینہ نے بتایا۔ چچا کیسے ہیں انور نے پوچھا۔ ٹھیک ہیں تایا ابا کی صحت تو ٹھیک ہے روبینہ بولی۔ ہاں وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اچھا ایک بات پوچھوں انور نے بارش کی طرف دیکھتے ہوئے زیرلب مسکرا کر کہا۔ پوچھو تم نے ایک بار ہمارے گھر روٹی بنائی تھی، ٹیڑھی سی اب بھی ویسی ہی بناتی ہو انور نے پوچھا تو پہلے روبینہ نے انور کی طرف دیکھا پھر ہنسی۔ انور بھی ہنسنے لگا۔ یہ تھی دونوں کے درمیان خاندان میں ناراضی کے بعد پہلی ملاقات جو باتوں سے شروع ہوئی اور ایک دوسرے کے موبائل فون نمبرز کے تبادلے پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد دونوں موبائل فون پر باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں دونوں کے بیچ محبت ہوگئی۔ دونوں موقع نکال کر باہر کھانا کھانے لگے اور اس بات سے پریشان بھی ہونے لگے کہ ان کی یہ ملاقاتیں فضول ہیں، کیونکہ دونوں کے خاندان میں خلیج ہے۔ اس کے باوجود ملاقاتیں اور محبت کم نہیں ہوئی اور ان دونوں کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ ان کے تعلق کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوسکا تھا۔ اب جو انور نے روبینہ کے گھر والوں کے ساتھ صلح کی بات سنی تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اسے امید ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے ہوجائیں گے اور ان کی محبت خاموشی سے جیت جائے گی۔ ٭ ٭ ٭ ایک گھنٹے کے بعد رحمت دین اپنے سارے بیٹوں اور ان کی بیویوں کو لے کر نثار احمد کے گھر چلا گیا۔ نثار احمد نے دیکھا تو بیماری کی حالت میں بھی اس نے اٹھ کر اپنے بھائی کا استقبال کرنے کی کوشش کی لیکن رحمت دین نے اسے اٹھنے نہ دیا اور اسے لیٹے لیٹے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس طرح دونوں خاندانوں کا ملاپ ہوگیا۔ نثار احمد کے برادرنسبتی اکبر کو ان کی صلح بالکل پسند نہیں آئی۔ وہ نثار احمد کی دکان پر منشی تھا اور ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ وہ ہیرپھیر کا ماہر تھا۔ نثار احمد کا ایک ہی بیٹا تھا جو باپ کی بیماری کے بعد دکان پر جانے لگا تھا۔ سارا کام اکبر کرتا تھا۔ اب جو ان دونوں بھائیوں کے درمیان صلح ہوتی دکھائی دی تو اکبر نے سوچا کہ اب رحمت دین اسے کاروبار کے بارے میں مشورے بھی دے گا اور مداخلت بھی کرے گا۔ نثار احمد پہلے ہی رحمت دین کو اہمیت دیتا تھا۔ اگر اس نے دکان کی نگرانی اس کے سپرد کردی تو اکبر جو ہیرپھیر کرتا تھا، وہ سلسلہ رک جائے گا۔ اکبر کے کانوں میں ابھی یہ خبر نہیں پڑی تھی کہ نثار احمد اور اس کی بیوی رحمت دین سے صلح کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں ورنہ وہ بشیر کو اس کے گھر تک جانے نہ دیتا۔ اس رات دونوں خاندانوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا اور ڈھیروں باتیں کیں اور رات گئے واپس آئے۔ واپس آکر رحمت دین نے اپنے بڑے بیٹے جمال اور بہو کو اپنے کمرے میں بلا کر کہا۔ تم دونوں نے وہاں کچھ اور بھی دیکھا کہ بس ہنس کھیل کر ہی آگئے ہم آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ جمال نے اپنی بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد دریافت کیا۔ نثار کی بیٹی بڑی ہوگئی ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ پڑھ رہی ہے۔ رحمت دین نے سوچتے ہوئے کہا۔ ہاں میری باتیں ہوئی ہیں روبینہ سے بہو نے کہا۔ کیسی لگی رحمت دین نے پوچھا۔ اچھی ہے ابا جی بہو اپنے سسر کی بات کا مطلب سمجھ کر مسکرائی۔ میں راستے میں سوچ رہا تھا کہ اب اس تعلق کو اتنا مضبوط کردوں کہ کوئی دراڑ آنے ہی نہ پائے۔ کیوں نہ ہم انور کا رشتہ مانگ لیں رحمت دین نے دونوں کی طرف باری باری دیکھ کر پوچھا۔ ابا جی یہ تو آپ نے بہت اچھا سوچا ہے۔ جمال نے کہا۔ تم ایک بار انور سے بات کرکے دیکھ لو پھر میں کل ہی بات کرتا ہوں۔ رحمت دین نے کہا۔ ابا جی ابھی بات کروں جمال نے پوچھا۔ ابھی کرلو بلکہ سب کو اس کے کمرے میں لے جاکر بات کرو۔ پھر جو بات ہو، مجھے صبح بتانا۔ میں اب سونے لگا ہوں، فجر کی نماز کے لئے مجھے وقت پر اٹھنا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔ رحمت دین نے کہا اور دونوں مسکراتے ہوئے کمرے سے چلے گئے۔ ٭ ٭ ٭ انور جو چاہتا تھا، وہ آسانی سے ہوگیا تھا۔ جو بات اس کے دل میں تھی، وہ رحمت دین نے روبینہ کو دیکھ کر انور کا کام آسان کردیا تھا۔ جب اس کے بھائی اور بھابی نے روبینہ کے بارے میں بات کی تو اس نے مسکرا کر سر جھکاتے ہوئے کہا۔ جو ابا جی اور آپ لوگ چاہیں۔ اس جملے کے اندر انور اور روبینہ کے بیچ جو تھا، وہ بآسانی چھپ گیا تھا۔ اب انور بظاہر باپ کی خواہش پر روبینہ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوا تھا۔ صبح ناشتے کے دوران انور کی رضامندی رحمت دین تک پہنچا دی گئی۔ اسی دوپہر کو رحمت دین نے نثار احمد کے گھر کا رخ کرلیا۔ پھر جیسے ہی رحمت دین نے انور اور روبینہ کی بات چھیڑی، نثار احمد اور اس کی بیوی کے چہروں پر خوشی تیرنے لگی۔ وہ انکار کر ہی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے رحمت دین کا منہ ہی میٹھا نہیں کرایا بلکہ اسے مٹھائی دے کر واپس بھیجا اور یوں انور اور روبینہ کا رشتہ طے ہوگیا۔ دونوں گھرانے اب بہت خوش تھے۔ ٭ ٭ ٭ وہی ہوا جس کا اکبر کو ڈر تھا۔ جب رحمت دین تیسری بار نثار احمد سے ملنے آیا تو اکبر بھی وہاں موجود تھا۔ رحمت دین نے پوچھا۔ اکبر کیا کرتا ہے آج کل جب سے میں بیمار ہوا ہوں، اکبر دکان پر جانے لگا ہے۔ نثار احمد نے بتایا۔ تمہاری دکان پر جاتا ہے رحمت دین نے ایک نظر اکبر کی طرف دیکھا تو وہ گھبرا گیا۔ ساری دکان اس نے سنبھالی ہوئی ہے۔ نثار احمد نے بتایا۔ بہت محنتی ہے، ہر کام اچھا کررہا ہے۔ دھیان رکھنا نثار احمد کہیں ساری دکان ہی نہ سنبھال لے۔ رحمت دین کی اس بات نے اکبر کے تن بدن میں آگ لگا دی اور نثار احمد نے ایک نظر اکبر کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا۔ اکبر بہت اچھا ہے۔ ہمیں اکبر پر پورا بھروسہ ہے۔ آج کل وہی نقصان پہنچاتے ہیں جن پر ہم بھروسہ زیادہ کرتے ہیں۔ رحمت دین نے کہا۔ بھائی صاحب آپ نے میرے منہ پر یہ بات کہہ کر مجھے بھی بے ایمان لوگوں میں شامل کردیا ہے۔ اکبر نے مسکراتے ہوئے لیکن زخم خوردہ لہجے میں کہا۔ نثار احمد کیا، ساری دنیا جانتی ہے کہ میں سچی بات منہ پر کہنے کا عادی ہوں۔ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ تم بے ایمان ہو میرا مطلب یہ تھا کہ اپنا ہو یا پرایا، اپنے کام اور مال پر نظر رکھنی چاہئے۔ رحمت دین نے وضاحت کی۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ نثار احمد نے اثبات میں سر ہلایا۔ امجد نے بھی دکان پر جانا شروع کردیا ہے امجد ابھی بچہ ہے۔ اسے سمجھانا کہ دکان پر نظریں اور کان کھول کر بیٹھا کرے۔ ماموں اپنی جگہ اور کاروبار الگ رکھے۔ اکبر کے دل میں چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ابھی اٹھ کر رحمت دین کا گلا دبا دے۔ فی الحال وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے رحمت دین کی زبان کو بند کرنے کا کوئی طریقہ سوچنا شروع کردیا تاکہ وہ زبان پھر کبھی اس کے خلاف زہر نہ اگلے۔ ٭ ٭ ٭ اکبر کے لئے رحمت دین کی باتیں بہت اذیت ناک تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ دونوں گھرانوں کو دوبارہ ایک دوسرے سے دور کیسے کرے۔ اکبر نے ساری زندگی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ نثار احمد کے بیمار ہونے کی وجہ سے اسے بیٹھے بٹھائے کاروبار کرنے کا موقع مل گیا تھا اور اب وہ چاہتا تھا کہ جلد ازجلد جو سمیٹ سکتا تھا، سمیٹ کر اپنی دنیا بنا لے۔ اکبر جس دکان سے پان کھاتا تھا، اس نے اپنے بھائی سے الگ ہوکر ایک دوسرے محلے میں دکان کھول لی تھی۔ وہ اکثر اکبر کو کہتا تھا کہ اس کی دکان پر آئے۔ اکبر کا اس محلے میں آنا جانا تھا اس لئے وہ ایک شام اس کی دکان پر پہنچ گیا۔ اکبر کی نظر باربار ایک مکان کی طرف اٹھ رہی تھی۔ اس کا دکاندار دوست گاہکوں میں مصروف تھا۔ اچانک اکبر چونکا کیونکہ اس مکان سے انور باہر نکلا تھا۔ دروازے تک اسے ایک نوجوان چھوڑنے کے لئے آیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے مسکرا کر باتیں کررہے تھے۔ اس اثنا میں دکاندار گاہکوں سے فارغ ہوگیا تھا۔ تم اس مکان کے بارے میں جانتے ہو اکبر نے جلدی سے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ بالکل جانتا ہوں۔ وہ مسکرایا۔ کیا جانتے ہو اکبر نے پوچھا۔ یہی کہ اس مکان میں ٹینا بائی رہتی تھی۔ اس نے بتایا۔ رہتی تھی اکبر کو حیرت ہوئی۔ ہاں رہتی تھی۔ ایک مہینہ پہلے وہ یہ مکان بیچ کر چلی گئی ہے۔ اب یہ ساری گلی شریفوں کی ہوگئی ہے۔ وہ اتنا کہہ کر ہنسا۔ اکبر کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ ٹینا بائی نے اس محلے میں اس وقت مکان بنایا تھا جب یہاں خال خال مکان دکھائی دیتے تھے۔ وہ مکان اس قدر مشہور تھا کہ آس پاس کے لوگ بھی ٹینا بائی کے بارے میں جانتے تھے۔ پھر آبادی بڑھنے لگی۔ جن لوگوں کو ٹینا بائی کے بارے میں پتا چلا، انہوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی لیکن ٹینا بائی کے تعلقات نے شرافت کو دبا کر رکھ دیا۔ پھر اچانک ٹینا بائی وہ مکان بیچ کر چلی گئی۔ اکبر کی نظریں انور پر مرکوز تھیں۔ اس نے دکاندار سے کہا۔ تم اس لڑکے کو جانتے ہو ہاں جانتا ہوں۔ اکثر اس گھر میں آتا جاتا ہے۔ اس کے دوست کا گھر ہے۔ کل رات یہاں دوستوں کی دعوت ہے۔ دکاندار نے ایک نظر انور کی طرف دیکھ کرکہا۔ کل یہاں دعوت ہے۔ تمہیں کیسے پتا اکبر نے پوچھا۔ انہوں نے مجھے ٹھنڈی ٹھار بوتلوں کا آرڈر دیا ہے۔ دوستوں کی محفل جمے گی۔ اس نے بتایا۔ یہ سن کر اکبر کی آنکھیں گھوم گئیں اور وہ معنی خیز انداز میں مسکرا کر بولا۔ پکی بات ہے کہ کل رات یہاں دعوت ہے اور سب دوست یہاں جمع ہوں گے بتایا تو ہے کہ مجھے ٹھنڈی بوتلوں کا آرڈر دیا ہے لیکن تم کیوں باربار پوچھ رہے ہو دکاندار بولا۔ آج تمہاری طرف آنا میرے لئے بڑا سودمند ثابت ہوا۔ اکبر مسکرایا۔ وہ کیسے اپنا کان میرے پاس لا اکبر بولا اور پھر اس نے اس کے کان میں کچھ کہہ کر اسے حیران کردیا۔ ٭ ٭ ٭ نثار احمد اور اس کی بیوی متحیر نگاہوں سے اپنے سامنے براجمان اکبر کی طرف مسلسل دیکھے جارہے تھے۔ تم سچ کہہ رہے ہو نثار احمد کی بیوی بولی۔ میری بات کا یقین نہیں ہے تو کل رات کو وہ پھر اس گھر میں جائے گا۔ وہ روز وہاں جاتا ہے۔ سارا شہر جانتا ہے کہ ٹینا بائی کون ہے۔ اکبر نے معصوم صورت بنا کرکہا۔ اکبر کی بات سن کر دونوں میاں، بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اکبر نے دونوں سے بات ہی ایسی کہی تھی کہ انور بدنام زمانہ ٹینا بائی کے گھر میں آتا جاتا ہے اور اسے یہ بات اس کے دوست نے بتائی ہے جس کی اس مکان کے پاس پان کی دکان ہے اور وہ انور کو جانتا ہے۔ دونوں میاں، بیوی کو چپ دیکھ کر اکبر نے کہا۔ میں کہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ امجد کو بھیج دیں، وہ خود دیکھ لے۔ میرا دوست بتا رہا تھا کہ وہ کل رات پھر آئے گا، وہاں کوئی محفل ہے۔ تمہاری بات پر ہمیں یقین ہے، امجد کو بھیجنا ضروری تو نہیں ہے۔ نثار احمد نے کہا۔ پھر بھی آپ اس سے بات کریں، وہ میرے ساتھ کل چلے۔ اکبر نے اصرار کیا۔ میں تو کہتی ہوں کہ ایک بار خود دیکھ کر تسلی کرلیں۔ سنی ہوئی بات اور آنکھوں دیکھی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ نثار احمد کی بیوی نے کہا۔ نثار احمد سوچتے ہوئے بولا۔ کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ شاید اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو اور ہم اس غلط فہمی کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کربیٹھیں۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ آپ ایک بار تسلی سے خود دیکھ لیں۔ اکبر نے کہا۔ ٹھیک ہے، امجد تمہارے ساتھ چلا جائے گا۔ نثار احمد نے ہامی بھر لی۔ روبینہ یہ ساری باتیں دروازے کے پیچھے کھڑی سن رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ انور ایسا کرسکتا ہے۔ اسے انور پر بھروسہ تھا لیکن وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کا بھائی امجد کیا خبر لے کر آتا ہے۔ ٭ ٭ ٭ اکبر نے بڑی ہوشیاری سے جال بنا تھا۔ وہ امجد کو اپنے دوست کی دکان پر لے گیا اور دونوں اندر بیٹھ گئے۔ جس جگہ وہ بیٹھے تھے، وہاں سے اس مکان کا دروازہ واضح دکھائی دیتا تھا۔ اس مکان کے باہر تین موٹرسائیکلیں کھڑی تھیں۔ وہ مکان دراصل انور کے دوست کے والد نے خریدا تھا۔ نئے مکان کی خوشی میں انور کے دوست نے اپنے دوستوں کی دعوت کی تھی۔ اکبر نے امجد اور اس کے گھر والوں پر یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ گھر بک چکا ہے۔ وہ اس بدنام مکان کو انور کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔ میں خود یہاں سے دکان چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں۔ جانے کون لوگ یہاں آتے ہیں اور مجھ سے سگریٹ، پان مفت لے جاتے ہیں۔ پیسے مانگو تو مارنے کو دوڑتے ہیں۔ اکبر کے دوست نے اس کا پڑھایا ہوا سبق دہرانا شروع کیا۔ یاد کرو جب تم نے مجھ سے بات کی تھی تو میں نے کہا تھا کہ وہ بدنام گلی ہے، مت لو دکان اکبر نے فوراً لقمہ دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس جگہ پان، سگریٹ کے گاہک زیادہ ہوتے ہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ سب مفت خورے اور بدمعاش لوگ ملیں گے۔ دکاندار بولا۔ بہتر یہی ہے کہ تم اب دکان چھوڑ دو۔ اکبر نے مشورہ دیا۔ ویسے ایک بات کہوں، اگر آپ برا محسوس نہ کریں دکاندار نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا بات ہے، بولو اکبر بولا۔ یہ جو آپ کا رشتے دار ہے دکاندار کہتا ہوا رک گیا۔ بولو بولو کیا کہنا چاہتے ہو اکبر جلدی سے بولا۔ یہ اس جگہ کا کچھ زیادہ ہی دیوانہ ہے۔ شاید ہی کوئی رات ہو جب یہ یہاں نہ آیا ہو۔ اس نے آگ بھڑکائی۔ کل جب میں تمہاری دکان پر آیا تھا تو میں نے اچانک انور کو اس گھر سے نکلتے دیکھا تو میں تو دنگ رہ گیا تھا۔ بھئی ہماری تو بیٹی کا معاملہ ہے، ہم نے اس کے ساتھ رشتہ طے کیا ہے۔ اکبر نے تاسف سے کہا۔ برا نہ منانا اکبر بھائی آپ کا یہ رشتے دار غلط ہے۔ اس کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے۔ اس نے آگ بھڑکائی۔ ہماری بیٹی ہی جب اس کے ساتھ خوش نہیں رہے گی تو پھر ہم کس طرح چین پائیں گے۔ اکبر بولا۔ یہ بات تو ہے۔ دکاندار نے سر ہلایا۔ کافی وقت ہوگیا تھا اس لئے اب دوست باہر نکلنے لگے تھے۔ انور بھی باہر نکلا تو یہ محض اتفاق تھا کہ اس کا پیر پھسل گیا اور وہ گرتے گرتے بچا۔ اس بات کو بھی اکبر نے فوراً پکڑتے ہوئے کہا۔ لگتا ہے نشے میں ہے۔ آپ کو لگ رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ نشے میں ہے۔ دکاندار نے فوراً لقمہ دیا۔ امجد کی نگاہیں انور پر مرکوز تھیں۔ پھر وہ سب لوگ اپنی اپنی موٹرسائیکلوں پر بیٹھ کر چلے گئے۔ امجد نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اب کیا کہتے ہو ان کے جانے کے بعد اکبر نے امجد کی طرف دیکھا۔ گھر چلتے ہیں۔ اکبر کی بات کا جواب دینے کی بجائے امجد اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس کے ساتھ اکبر بھی کھڑا ہوگیا۔ گھر پہنچ کر امجد نے بتایا کہ وہ واقعی اس مکان سے نکلا تھا اور یہ کہ وہ نشے میں تھا۔ امجد کی تصدیق سے نثار احمد اور اس کی بیوی کا دل بیٹھ گیا تھا۔ ان کے چہرے افسردگی سے لٹک گئے تھے۔ یہ سب کچھ روبینہ کا بھائی اپنی آنکھوں دیکھا حال سنا رہا تھا، کوئی ابہام نہیں تھا۔ روبینہ دکھی ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ انور ایسا نکلے گا۔ وہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس نے غصے میں موبائل فون پوری قوت سے دیوار پر دے مارا کہ وہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ امجد نے یہ سستا سا موبائل فون اسے اس لئے لے کر دیا تھا تاکہ وہ کالج اور اکیڈمی آتے جاتے اگر کسی مسئلے سے دوچار ہوجائے تو اسے اطلاع کرسکے۔ اس کے علاوہ اسے موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ روبینہ اس موبائل فون پر انور سے باتیں کرنے لگی تھی اور اب اس نے وہ موبائل فون توڑ کر انور سے بات کرنے کا ذریعہ بھی ختم کردیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ نثار احمد اور اس کی بیوی سوچ رہے تھے کہ وہ رحمت دین سے کیسے بات کریں۔ اس سوچ بچار میں دو دن گزر گئے تھے۔ پھر اکبر نے کہا۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں بات کروں تم کیا بات کرو گے نثار احمد نے پوچھا۔ میں ان سے انور کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ ان کے علم میں لاتا ہوں کہ انور کیا کررہا ہے۔ پھر باتوں باتوں میں ان پر یہ واضح کردیتا ہوں کہ ہم روبینہ کی شادی انور سے کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ اکبر بولا۔ اس طرح بات کرنا مناسب ہوگا نثار احمد کے لہجے میں تشویش اور پریشانی تھی۔ بات تو کرنی ہے یا پھر چپ چاپ روبینہ کی شادی کردیتے ہیں۔ جو اس کا نصیب اکبر نے کہا۔ ہم مکھی دیکھ کر کیسے نگل سکتے ہیں۔ روبینہ کی امی جلدی سے بولی۔ پھر مجھے اجازت دیں، میں بات کرتا ہوں۔ بلکہ جو موقع محل ہوگا، میں اس حساب سے بات کرلوں گا۔ اکبر نے دونوں کی طرف دیکھا۔ بات کرنی بھی ضروری تھی۔ اس بات کو زیادہ لٹکایا بھی نہیں جاسکتا تھا اس لئے روبینہ کے ماں، باپ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اکبر کو اجازت دے دی۔ ٭ ٭ ٭ اکبر اسی دن رحمت دین کے پاس پہنچا۔ کچھ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اکبر نے کہا کہ وہ ان سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہے۔ رحمت دین اسے دوسرے کمرے میں لے گیا۔ کچھ توقف کے بعد اکبر بولا۔ ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ کیا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے رحمت دین نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ یہ بات بھائی نثار اور آپا، آپ سے کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کے اندر ہمت نہیں ہورہی تھی۔ اکبر نے معصوم سی صورت بنا لی تھی اور آنکھیں بھی جھکا لی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے کسی بات پر شرمندگی ہو۔ بات کیا ہے رحمت دین نے پوچھا۔ کچھ توقف کے بعد اکبر نے بولنا شروع کیا۔ جب اولادیں اسکول سے کالج جاتی ہیں تو پھر ان کو پر لگ جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگ جاتی ہیں۔ اتنا کہہ کر اکبر چپ ہوگیا۔ آگے بولو۔ رحمت دین کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ روبینہ کچھ اور چاہتی ہے۔ اکبر نے کہا۔ کیا چاہتی ہے رحمت دین نے جاننا چاہا۔ وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے اس رشتے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اکبر بولا۔ یہ سن کر رحمت دین کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ میں ابھی نثار کے پاس جاکر بات کرتا ہوں۔ وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اکبر نے جذباتی رحمت دین کے سامنے کھڑا ہوکر کہا۔ کیوں کوئی فائدہ نہیں ہے وہ دونوں بہت شرمندہ ہیں، وہ آپ کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ آپ وہاں چلے بھی گئے تو وہ آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ اکبر نے پراطمینان لہجے میں بات کی۔ رحمت دین اسی جگہ رک گیا۔ انکار روبینہ نے کیا ہے جی ہاں اکبر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ نثار نے روبینہ کے منہ سے ایسی بات سن کر اس کی گردن تن سے جدا کیوں نہیں کردی رحمت دین کو سخت غصہ آرہا تھا۔ وہ دانت پیستا ہوا بولا۔ ہم سے جتنا ہوسکا، ہم نے روبینہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر امجد نے کہا کہ وہ ویسا ہی کریں جیسا روبینہ چاہتی ہے۔ اب ہم جلاد تو ہیں نہیں کہ اپنی اولادوں کے سر کاٹ دیں۔ ہمارے دبائو کی وجہ سے اگر روبینہ گھر سے چلی جائے تو ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، یہ سوچ کر ہم روبینہ کی بات ماننے پر مجبور ہوگئے۔ اکبر بولا۔ رحمت دین سوچتا رہا کہ وہ کیا کرے۔ ابھی نثار کے پاس چلا جائے لیکن اکبر نے بتا دیا تھا کہ وہ اتنا شرمندہ ہے کہ وہ اس سے نہیں ملے گا۔ امجد کی رضامندی کا سن کر رحمت دین نے بھی فیصلہ کرلیا۔ ٹھیک ہے۔ اگر وہ اپنی بیٹی کی بات ماننے پر راضی ہیں تو پھر مجھے فضول ضد نہیں کرنی چاہئے۔ جاکر نثار احمد کو بتا دینا کہ انور کے لئے رشتوں کی کمی نہیں ہے اور یہ بھی بتا دینا کہ ہم دونوں گھرانوں میں دوری ہی اچھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ نثار احمد کی بیٹی اتنی بے باک ہے کہ ماں، باپ کی عزت کا بھی خیال نہیں ہے اسے رحمت دین کی بات سن کر اکبر دل ہی دل میں مسکرایا۔ آپ دوری قائم نہ کریں۔ جس طرح انہوں نے روبینہ کی بات کو قبول کرلیا ہے، آپ بھی قبول کرلیں۔ بہتر ہے کہ تم مجھے مشورہ دینے کی بجائے یہاں سے چلے جائو، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اندر کا سارا غصہ تم پر نکل جائے اور تم کو اپاہج ہوکر یہاں سے جانا پڑے۔ رحمت دین نے غصے سے اسے آنکھیں دکھائیں۔ اکبر نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ چلا جائے۔ اس نے اپنا کام کردیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ رحمت دین جتنا غصے کا تیز اور جذباتی ہے، وہ پلٹ کر بھی نثار احمد کی دہلیز پر قدم نہیں رکھے گا۔ اکبر کے جانے کے بعد رحمت دین نے جب گھر والوں کو بتایا کہ روبینہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور وہاں شادی کرنا چاہتی ہے تو سب نے اپنے اپنے ہونٹوں پر حیرت سے انگلیاں رکھ لیں، جبکہ انور کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی۔ اس نے دوسرے کمرے میں جاکر روبینہ کو فون کیا۔ اس کا فون مسلسل بند جارہا تھا۔ فون کا بند ہونا انور کو مشکوک کررہا تھا۔ ٭ ٭ ٭ اکبر نے واپس جاکر نثار احمد اور اس کی بیوی اور امجد کو نئی کہانی سنائی۔ جب میں نے ان سے بات کی کہ انور اس بدنام گھر میں جاتا ہے تو میری بات سن کر رحمت بھائی ہنسنے لگے اور لاپروائی سے بولے۔ اس میں کیا برائی ہے، جوانی میں ایسا ہوجاتا ہے۔ بھائی صاحب نے ایسا کہا نثار احمد کی بیوی کو سن کر حیرت ہوئی۔ اور بھی بہت کچھ کہا جو میں یہاں کہنا نہیں چاہتا۔ اکبر نے جلدی سے ایسی شکل بنا لی جیسے اسے وہ تلخ باتیں مضطرب کرنے لگی ہوں۔ اور کیا کہا نثار احمد نے کہا۔ چھوڑیں اس بات کو اب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ انہوں نے اک بار پھر تعلق ختم کردیا ہے۔ وہ کیوں نثار احمد چونکا۔ ہم نے ان کے بیٹے کے عیب جو بتا دیئے، اس پر انہوں نے غصہ کیا اور مجھے ذلیل کرکے اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔ میں بھائی رحمت سے بات کرتا ہوں۔ نثار احمد نے کہا۔ اب آپ بھی اپنی بے عزتی کرائیں گے بہتر نہیں ہے کہ چپ چاپ اپنے گھر بیٹھ جائیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ غصے کے کتنے تیز ہیں۔ جو میں سن آیا ہوں، وہ مجھ تک ہی رہنے دیں تو اچھا ہے۔ اکبر نے روک دیا۔ لیکن نثار احمد نے کچھ کہنا چاہا۔ ماموں ٹھیک کہہ رہے ہیں ابا جی امجد متانت سے بولا۔ ہم ان کے غلام نہیں ہیں کہ اپنی بے عزتی کرانے ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائیں۔ ہمیں ایسے رشتے داروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے صلح ہوئی تھی۔ نثار احمد کے لہجے میں تاسف تھا۔ جب ان کے ساتھ صلح نہیں تھی تو کیا ہمارے گھر میں روٹی نہیں پکتی تھی اکبر نے غصے سے کہا۔ نثار احمد اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اکبر نے یکدم اپنے لہجے میں مٹھاس کا رنگ بھرتے ہوئے کہا۔ بھائی جی آپ کی بھی عزت ہے۔ کوئی آپ کو یہ کہہ دے کہ نثار کی جرأت نہیں ہے کہ وہ میرے سامنے آنکھ اٹھا سکے اور تم میرے سامنے میرے بیٹے کی شکایت لے کر آگئے ہو۔ ایسا رحمت بھائی نے کہا تھا نثار احمد نے پوچھا۔ اس سے بھی زیادہ زہر اگلا ہے انہوں نے جو میں آپ کو بتانا نہیں چاہتا، اس لئے خاموشی ہی بھلی ابا جی ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جلدی روبینہ کی شادی کہیں اور کردیں گے تاکہ وہ ہماری دہلیز پر قدم ہی نہ رکھیں۔ امجد نے کہا۔ امجد کی بات سن کر اکبر خوش ہوگیا۔ امجد نے بڑی صحیح بات کی ہے۔ نثار احمد کا وہ بھائی تھا۔ اس اچانک دوری نے اسے اداس کردیا تھا لیکن وہ جوان بیٹے کے سامنے کچھ نہیں بول سکا۔ ویسے بھی وہ بیمار تھا، چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ کچھ کہہ کر وہ بیٹے کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نثار احمد نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا تو اس کی بیوی بولی۔ امجد ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ٹھیک ہے۔ نثار احمد نے بھی آہستہ سے رضامندی کا اظہار کردیا۔ اکبر کی چال کامیاب رہی۔ دونوں گھر ایک بار پھر ایک دوسرے سے دور ہوگئے تھے۔ ٭ ٭ ٭ انور کے لئے یہ سب بہت حیران کن تھا لیکن روبینہ سے رابطہ نہیں ہورہا تھا۔ اس کا فون مسلسل بند جارہا تھا جس سے انور کو یقین ہورہا تھا کہ جو کچھ اکبر کہہ گیا ہے، وہ سچ ہی ہوگا۔ انور اس بات پر حیران تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ روبینہ ایسی نہیں ہوسکتی۔ اس نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی لیکن یہ بھی ممکن تھا کہ اسے کوئی ایسا لڑکا پسند آگیا ہو جو اس سے زیادہ اچھا ہو۔ پھر انسان کا دل اور سوچ بدلتے دیر کتنی لگتی ہے۔ ایک شام انور نے ڈرتے ڈرتے رحمت دین سے کہا۔ میرا خیال ہے ابا جی آپ کو ایک بار چچا نثار سے ملاقات کرنی چاہئے۔ وہ کیوں رحمت دین نے اسے گھور کر دیکھا۔ انور نے پھر ہمت پکڑی۔ اصل بات کا تو چچا نثار سے ہی پتا چلے گا۔ میرے پاس جو آیا تھا، وہ کوئی غیر نہیں تھا، وہ روبینہ کا ماموں ہے۔ جو اسے کہا گیا تھا، وہ مجھے بتا کر چلا گیا۔ رحمت دین نے غصے سے کہا۔ کیوں نہ ہم بشیر چچا سے بات کریں اس بار جمال نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ اب کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ میں اس تعلق کو ختم کرچکا ہوں، تم لوگ بھی ان سب کو بھول جائو، یہ میرا فیصلہ ہے۔ رحمت دین اتنا کہہ کر اُٹھ گیا۔ انور سوچتا رہا۔ وہ اپنے اور روبینہ کے تعلق کو اپنے والدین پر عیاں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان کو کیسے بتاتا کہ روبینہ ایسی نہیں ہے، آپ اچھی طرح تصدیق کرلیں۔ وہ مجبوراً چپ رہا۔ انور مسلسل روبینہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کا موبائل بند جارہا تھا۔ یہ بات انور کو شک میں مبتلا کررہی تھی۔ ٭ ٭ ٭ دو ماہ کے اندر نثار احمد کے گھر والوں نے روبینہ کا رشتہ تلاش کیا اور اپنے مقدر پر روتی روبینہ اس گھر سے رخصت ہوگئی۔ روبینہ کی شادی کی خبر رحمت دین کے گھر والوں کو بھی مل گئی تھی۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 117 | https://www.urduzone.net/good-girl-nay-thikana-badal-liya/ | جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو انہیں ایسا ہی پایا۔ وہ صبح سویرے ہمیں جگاتیں لیکن خود تو وہ بہت پہلے سے ہی جاگ رہی ہوتیں، تاکہ ہم سب کو ناشتا دے کر بروقت اسکول بھیج سکیں۔ ناشتا کرانے کے بعد وہ ہمیں تیار کرتیں اور تیار بھی بس واجبی سا نہیں، بہت اہتمام سے۔ مجھے یاد ہے وہ ہمیں پیار سے رخصت کرتیں اور جب تک ہم ان کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوجاتے وہ دروازے پر کھڑی اپنے خوب صورت ہاتھ ہلاتی رہتیں۔ شاید میں غلط کہہ گئی ہوں، ہم تو ان کی آنکھ سے ہاں بینا آنکھ سے کبھی اوجھل ہی نہیں ہوئے، اور ہاتھ تو ان کے کاموں کی وجہ سے تھمے ہی نہیں، تھکے ضرور ہوں گے، لیکن کبھی انہوں نے اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ہاں ان کے نازک سے پھول کی پنکھڑی سے لب مسلسل کپکپاتے رہتے، نہ جانے کیا پڑھ کر ہم پر پھُوکتی رہتیں وہ۔ پھر ہم تو اسکول چلے جاتے لیکن وہ کاموں میں جُت جاتیں۔ آدھی چھٹی میں وہ ہمارا لنچ لے کر اسکول پہنچ جاتیں۔ اسکول بھر میں وہ اپنی ممتا میں مشہور تھیں۔ ہم انہیں منع بھی کرتے کہ مت تکلیف اٹھایا کریں جواب میں بس وہ مسکراتیں رہتیں۔ میں نے فرشتوں کو مسکراتے نہیں دیکھا، لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ فرشتے بھی ان کی مسکراہٹ پر رشک کرتے ہوں گے، وہ تھیں ہی ایسی۔ اتنی خوب صورت کہ بس، آواز ایسی کہ سماعتوں میں رس گھول دے۔ ایسا میں ہی نہیں کہتی اب تک لوگ کہتے ہیں۔ اپنی مدھر آواز میں جب وہ حمد بیان کرتیں تو سماں باندھ دیتیں اور نعت پڑھتیں تو سب وجد میں آجاتے، ہاں وہ خود بھی۔ لوگ انہیں میلاد کی محفلوں میں بہ اصرار بلاتے اور وہ بہت اہتمام، شوق اور عقیدت سے جاتیں۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں ان کے ساتھ ان محافل میں کئی بار گئی ہوں، لوگ ان سے اتنی عقیدت رکھتے کہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اور اتنی محبت کرتے کہ بس، وہ اس کے لائق تھیں، رب نے انہیں اس قابل بنایا تھا۔ محبت، اخلاص، ایثار، قربانی، صبر و رضا کو ان میں مجسّم دیکھا جاسکتا تھا، ہاں جیتا جاگتا، سانس لیتا ہوا، چلتا پھرتا۔ معصوم بچوں سے زیادہ معصوم تھیں وہ، اس لیے کہ بچے تو شرارت بھی کرتے ہیں ناں، وہ تو ہمیشہ شانت رہتیں۔ غصہ، نہیں نہیں میں نے انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا، کبھی نہیں۔ ہاں افسردہ دیکھا ہے انہیں۔ کسی بات پر افسردہ اور خاموش۔ جب وہ خاموش ہوجاتیں تو لگتا تھا کائنات کی ہر شے ساکت و افسردہ ہوگئی ہے۔ لیکن ایسا بس کچھ دیر کے لیے ہوتا تھا۔ پھر ان کی عشق نبی میں گندھی ہوئی مدھر آواز سنائی دیتی پیغام صبا لائی ہے گل زار نبی سے آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے ایسا ہی لگتا تھا کہ ان کا بلاوا آگیا ہے۔ وہ ظاہر میں تو سامنے نظر آرہی ہوتیں، حقیقت میں تو وہ دربار نبی میں ہی ہوتی تھیں۔ اپنے تو یہ سمجھتے ہی تھے کہ وہ سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی ہیں، لیکن غیر بھی یہی سمجھتے تھے۔ شاید نہیں، یقیناً میں غلط کہہ گئی ہوں، ان کی لیے کوئی بھی غیر نہیں تھا، سب اپنے تھے۔ ہر ایک بس یہی سمجھتا تھا کہ وہ سب سے زیادہ اس سے وابستہ ہیں۔ وہ سراپا محبت تھیں، ہر ایک پر سلامتی بھیجنا ان کا طریق تھا، راہ چلتے لوگوں پر بھی۔ وہ ان لوگوں پر بھی سلامتی بھیجتیں جنہیں لوگ کسی قابل ہی نہیں سمجھتے۔ وہ نبی اکرم کے فرمان سب پر سلامتی بھیجو ہاں بچوں پر بھی پر کامل عمل پیرا تھیں۔ گھر کے لوگ ان سے کہتے یہ آپ کیا کرتی رہتی ہیں، وہ جواب میں مسکراتیں بس۔ سخاوت ان کی گھٹی میں تھی، جیسے ہی کچھ بھی ان کے سامنے آیا بس اگلے لمحے ہی تقسیم کردیا، ہاں نقدی بھی۔ وہ اپنے پاس کچھ بچا کے رکھنے کی عادت بد میں مبتلا نہیں تھیں۔ کوئی بھی ہاں کوئی بھی تو ان کے پاس سے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ کچھ نہ ہوا تو اسے دعا دی، حوصلہ دیا، پیار دیا اور اسے پھر سے تازہ دم کردیا۔ ایسی تھیں وہ۔ ان کی باتیں تو ختم نہیں ہوں گی، ہاں کبھی نہیں۔ ہاں اب مجھے اپنی بات کرنی ہے۔ میں جس کا نام انہوں نے غوثیہ رکھا تھا، اور پھر غوثیہ نہ جانے کون کون سی منزلیں طے کرتی ہوئی پہلے انیلا اور پھر سعدیہ بن گئی تھی۔ بس وہی تھیں جو مجھے کبھی غوثیہ، انیلا اور کبھی سعدیہ کہتی تھیں، پیار میں بسا ہوا ان کا دہن، شہد جیسا، معطر اور پاکیزہ۔ کیا بات تھی ان کی۔ عجیب بے نیازی تھی ان میں۔ سادگی کا پیکر، ریا، بناوٹ اور تصنع سے دور، کوسوں دور۔ سنا ہے اور حق ہے یہ بات اور سچ کہ رب تعالیٰ جو لامکانی ہے، لامحدور ہے، اپنی کارسازی میں یکتا و تنہا۔ جو کہیں نہیں سما سکتا، بس وہ دل میں سما سکتا ہے۔ کیا ہر دل میں۔۔۔۔ نہیں ہر دل میں نہیں۔ اس دل میں جو کدورت سے پاک ہو، بغض، کینہ، حسد نے جسے چھوا بھی نہ ہو، بدگمانی سے جو دور ہو، جو آلائش دنیا سے آلودہ نہ ہو، کھرا، خالص اور بے ریا ہو۔ ایسا دل جو دوسروں کے لیے دھڑکے اس کی دھک دھک میں رب کی مخلوق کا درد بسا ہو اور وہ جس کے ساز پر حمد و ثنائے رب جلیل ہو۔ ہاں ایسا دل جو کسی کی بھی تکلیف میں، پریشانی میں، دکھ اور درد میں مبتلا ہوجائے اور ایسا مبتلا کہ جب تک اسے وہ راحت میں نہ دیکھ لے جو تکلیف اور دکھ میں مبتلا تھا، سکون نہ پائے، ہاں ایسا دل مسکن خدا ہوتا ہے۔ وہ جو رب نے کہا ہے ناں کہ تم مومن بن ہی نہیں سکتے جب تک جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے دوسرے بھائی کے لیے نہ پسند کرلو۔ ایک اور کلیہ بھی ہے اور وہ یہ کہ مال و زر کی طلب اور اسے جمع کرنے کا شوق، کیا جان لیوا شوق ہے یہ، پناہ مانگنی چاہیے اس سے۔ مخبر صادق نے فرمایا انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے لیکن اس کے اندر دو خواہشات جوان ہوتی رہتی ہیں، ایک درازی عمر کی خواہش اور دوسری مال و منال جمع کرنے کی ہوس۔ لیکن سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح کی ہوس میں مبتلا نہیں تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا ایسا، ابھی تک بس انہیں۔ خالق نے انہیں اپنا قرب عطا کیا تھا ایسا قرب کہ اسے بیان کرنے کے لیے لفظ نہیں ہیں، ہاں آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ اور میں نے محسوس کیا اور انہیں دیکھا بھی، اک بار نہیں، ہر بار ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر ساعت۔ ایسی سکینت تھی ان پر۔ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ مومن کی بصیرت سے ڈرو کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ اور وہ جو کہا گیا ہے کہ دل کی سماعت سے سنو، قلب کی آنکھ سے دیکھو۔ یہ شرف ایسے ہی نہیں ملتا، یہ تو بس انہیں ملتا ہے جنہیں توفیق ملے، قرب ملے، اذن ملے۔ ہاں یہ کوئی عام سی دولت نہیں کہ ہر کس و ناکس کو مل جائے، راہ میں پڑی ہوئی نہیں ہوتی یہ۔ کوئی بھی ان سے ملتا تو اسے مسکرا کر دیکھتیں اور پھر پیار سے اسے حیرت میں مبتلا کردیتیں۔ تمہارے ساتھ یہ حادثہ ہوا تھا اور پھر ایسا ہوا تمہارے ساتھ، لیکن تم تو بہت بہادر ہو، دیکھنا ا سب صحیح کردے گا، بس حوصلے سے رہنا۔ اور سننے والا دانتوں میں انگلی دبائے حیرت سے انہیں دیکھتا اور پھر پوچھتا یہ ساری باتیں جو آپ بتا رہی ہیں یہ تو میں نے اپنے آپ سے بھی چھپا کر رکھی ہوئی تھیں، آپ کو کیسے معلوم ہوگئیں۔۔۔۔ اور پھر وہ ان کی مسکراہٹ دیکھتا اور خاموشی۔ ایسی وارداتیں ایک نہیں ان گنت ہیں اور وہ لوگ اب بھی جیتے ہیں جن کے ساتھ ایسا ہوا۔ عجیب سے باتیں ہے ناں یہ۔ ہاں بہت عجیب سی لیکن ذرا سا غور کریں تو اتنی عجیب بھی نہیں ہیں اور وہ اس لیے کہ وہ اپنے رب کے نور سے دیکھتی تھیں، مجھے یہ کہنے میں ذرا سا بھی تعامل نہیں ہے کہ وہ رب کی چہیتی تھیں، بہت لاڈلی۔ ان جیسا تو میں نے اب تک کوئی نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ میں اور وہ خریداری کے لیے بازار گئے۔ واپسی میں ہم نے رکشہ لیا اور جب ہم گھر کے دروازے پر اترے تو میں نے رکشے والے کو پیسے دیے، دوسرے ہی لمحے وہ رکشے والے کو ایک تھیلا دینے لگیں تو رکشے والے نے حیرت سے کہا، ماں جی یہ میرا نہیں ہے، مسکرائیں اور کہنے لگیں، لو یہ میں نے تمہارے لیے ہی لیا تھا اپنے بچوں کو کھلانا اور فکر نہیں کیا کرو، بس محنت کرو کہ رب نے محنت کا حکم دیا ہے۔ میں ہاں مجھے یہ اعزاز اور سعادت حاصل ہے کہ میں ان کی بیٹی، دوست، رازدار تھی۔ ہم آپس میں ہر بات کرتے۔ میں انہیں گُڈگرل کہتی تھی، وہ تھیں ہی گُڈگرل۔ میں ان کی کیا خدمت کرتی، وہ کرنے دیتی تب ناں۔ میری شادی ہوگئی تو ان کا پیار اور سوا ہوگیا۔ ہم روزانہ رات گئے ایک گھنٹے سیل فون پر باتیں کرتے۔ وہ مجھے نعتیں سناتیں اور میں انہیں گیت، اور نہ جانے کیا کیا باتیں۔ میں اکثر انہیں چھیڑتی، میڈم کیا حال ہے بس کریں اب، جب وہ کال اٹینڈ کرنے میں تاخیر کرتیں تو میں ان سے کہتی آپ بہت گندی اماں ہیں، جائیں میں آپ سے نہیں بولتا اور پھر ان کی آواز آتی۔ تم کب آؤگی سعدیہ۔۔۔ میں پوچھتی کیوں کیا آپ میرا انتظار کرتی ہیں تو ہنس کر کہتیں ہاں تمہاری کال اور تمہارا انتظار۔ پھر وہ کہتیں اب تم سو جاؤ میں تمہیں لوری سناتی ہوں اور پھر وہ لوری سناتیں اور آخر میں ان کا پیار بھرا ہوائی بوسہ ملتا اور میں نیند کی وادی میں اتر جاتی، پرسکون اور میٹھی نیند کی وادی میں۔ میں ہر ویک اینڈ پر ان کے پاس ہوتی اور پھر تو ہم دونوں کی عید ہوجاتی، ہم ساتھ سوتے، بچوں کی طرح اٹکھیلیاں کرتے، کیا مزے مزے کی باتیں، رس بھری اور جاں فزا۔ جب میری واپسی کا وقت ہوتا تو کہتیں تم جا رہی ہو۔۔۔ اب کب آؤ گی۔۔۔ تب میں کہتی میں تو آپ کے ساتھ ہی ہوں، اور میں تمہارے ساتھ ہوتی ہوں سعدیہ۔ ہر بار میں نے یہی سنا اور ایسا ہی ہے، ہاں ایسا ہی ہے، ہاں اب تک۔ دنیا سے رخصتی سے تین ماہ پہلے سے انہوں نے مجھے کہنا شروع کیا سعدیہ مجھے جانا ہے بس اب۔ میں پوچھتی کہاں جانا ہے موٹی۔۔۔ وہ مسکراتیں اور کہتیں بس وہاں جانا ہے جو اصل ٹھکانا ہے انسان کا۔ اور میں انہیں کہتی۔ مشکل ہے ماں جی ابھی تو آپ جوان ہیں۔ جب انہوں جانا ہے مجھے کی تکرار کرنا شروع کی تو میں نے چڑ کر کہا، کیا مجھے چھوڑ کے جائیں گی گندی اماں۔ ہاں تب میں نے سنا، نہیں میں تمہیں کبھی تنہا چھوڑ کر نہیں جاؤں گی لیکن مجھے اب جانا ہے، آگیا وہ وقت کہ اب جانا ہوگا مجھے ۔ میں نے سمجھا اس عمر میں ایسا ہی سوچتے ہیں سب۔ اور بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن پھر اس جملے کی تکرار میں شدت آتی گئی، لیکن وہ اسی طرح ہنستیں مسکراتیں اور اپنے امور انجام دیتیں۔ اچانک ہی انہیں بخار ہوگیا میں نے کہا اماں معمولی سا بخار ہی تو ہے ا جی صحیح کردے گا ناں ۔ وہ حسب معمول مسکرائیں اور بس۔ لیکن ۔۔۔۔ وہ صحیح کہتی تھیں انہوں نے کبھی غلط کہا ہی نہیں کہا تھا جو وہ اب کہتیں۔۔۔۔۔ بس دو دن وہ بیمار رہیں اور اپنا کہا سچ ثابت کرگئیں۔ وہ چلی گئیں وہاں جہاں ہم سب کو جانا ہی ہے۔ میں اپنے حواس کھو چکی تھی، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، وہ مجھے ایسے کیسے چھوڑ کے جاسکتی ہیں، وہ تو اپنے وعدے کی پاس داری کرنے والی تھیں، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ میرے سنگ ہی رہیں گی، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے، میں ان سے لڑتی رہی اور پھر ان کے اصل گھر جا پہنچی۔ کیا شان دار جگہ اپنا گھر بسایا میری ماں جی نے، میری گڈ گرل نے۔ مسجد کے بیرونی گیٹ کے سامنے جہاں سے پنج وقتہ اذان کی آواز آتی اور بتاتی ہے کہ بس فلاح یہی ہے، جہاں سے حمد و نعت کی خوش بو آتی ہے، جہاں وہ ایک گھنے ہرے بھرے نیم کے پیڑ کے سائے میں آسودہ ہیں، ہاں آسودہ، جہاں کوئل کوکتی اور چڑیاں چہچہاتی ہیں، جہاں سکون ہے، اطمینان ہے، امن اور شانتی ہے، وہ بستی جہاں کوئی کسی کی برائی نہیں کرتا، کوئی کسی کو آزار نہیں پہنچاتا، جہاں سب اس کار جہاں کی نفسانفسی سے امان میں ہیں۔ مجھے ایسا لگا، میں پھر غلط کہہ گئی ہوں مجھے یقین ہوا کہ جب میں وہاں پہنچی تو ماں جی میری منتظر تھیں، ویسی ہی مسکراتی ہوئی، ہنستی ہوئی، کھل کھلاتی اور مطمٔن۔ ہاں ایسا ہی تھا۔ اب میں کہہ سکتی ہوں وہ مجھے چھوڑ کر جا ہی نہیں سکتیں ہاں وہ میرے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گی۔ میں جانتی ہوں وہ وعدے کی پاس دار تھیں اور رہیں گی۔ چلیں میں آپ کو راز کی بات بتاؤں وہ اب بھی مجھے نعتیں حمد اور لوری سناتی ہیں، ہنستی مسکراتی ہیں، ہاں بس گڈگرل نے اپنا ٹھکانا بدل لیا اور اچھا ہی کیا، کیا بدلا کچھ بھی تو نہیں، بس ان کا پتا بدل گیا ہے۔ ارے آپ اتنا حیران کیوں ہیں جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں سعدیہ نعیم | null |
null | null | null | 118 | https://www.urduzone.net/azdavaji-zindagi-ki-uljhi-dour-kaise-suljhae-jae/ | ازدواجی زندگی کی الجھی ڈور کیسے سلجھائی جائے کہتے ہیں اختلاف رشتوں کا حسن ہے۔ دنیا کے ہر رشتے میں کم یا زیادہ اختلافات کا ہونا صحت مند رشتے کی نشانی ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی اختلافات کا ہونا کوئی حیران کن بات نہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ یعنی دن رات کا ساتھ، ہر مسئلے کی شراکت اور ایک گھر کی مشترکہ ذمہ داری۔ ان امور کی انجام دہی میں اختلاف ہونا بھی لازمی ہے۔ عمومی طور پر چھوٹے موٹے جھگڑے آپس میں روٹھ کر منا کر ، کبھی ضد سے اور کبھی تھوڑا سا جھک کر یا سمجھوتے سے سلجھا لئے جاتے ہیں لیکن کہیں کہیں یہ معاملہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور لڑائی جھگڑا روز کا معمول بننے لگتا ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ روز کی چیخ پکار سے کوئی مثبت نتیجہ تو بر آمد نہیں ہوتا البتہ رشتے کی خوبصورتی ماند پڑنے لگتی ہے اور دل میں ایک دوسرے کے لئے عزت ہر گزرتے روز کے ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آخر ان سب سے کیسے بچا جائے یہی اس مضمون کا موضوع ہے۔ اہم مسئلہ اختلافات کا ہونا نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اختلافات یا جھگڑے کو ہینڈل کس طرح کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جو کسی بھی اختلاف کی بنیاد ہے۔ کہا جاتا ہے کسی جھگڑے کو سمجھنے کیلئے آپ ایک پیاز کی مثال لیں۔ عموماً میاں بیوی جس بات پہ جھگڑا کرتے ہیں اس کی مثال پیاز کی بیرونی سطح کی طرح ہے جبکہ اصل مسئلہ اس بیرونی سطح سے کئی تہوں کے نیچے چھپا ہوتا ہے یعنی جھگڑا عموماً جس بات پر ہوتا ہے وہ اصل مسئلے کا نتیجہ ہوتا ہے اصل مسئلہ نہیں۔ یاد رکھیے آپ کے شریک حیات آپ کا ذہن پڑھنے پر قادر نہیں۔ وہ آپ کے بتائے بغیر جان بھی نہیں سکتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اس لئے بے حد ضروری ہے کہ آپ انہیں اس بات سے آگاہ کریں جو آپ کو ناگوار گزرتی ہے۔ آپ کو کہنا پڑتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کون سی بات آپ کو پریشان کر رہی ہے۔ محض اندازہ لگانا کہ آپ کے شوہر یا بیوی کو آپ کے مسئلے کا لازمی ادراک ہے اور پھر اس مفروضے کی بنیاد پہ نتائج بھی اخذ کرلینا عقلمندی نہیں۔ اگر آپ اور آپ کے شریک حیات میں اکثر جھگڑا رہتا ہے اور اس کی وجہ بھی کم و بیش ایک ہی ہو تو آپ کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اصل بات یا وجہ کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی اور بات پہ پریشان ہوں اور لاشعوری طور پر دوسری بات یا وجہ کو بنیاد بنا کر اپنے پارٹنر سے جھگڑا کرتے ہوں یعنی فرسٹریشن کی وجہ کچھ اور ہی ہو۔ مثال کے طور آپ کے سسرالی رشتوں سے تناؤ، خواتین کے میکے کا کوئی مسئلہ ، کوئی معاشی پریشانی وغیرہ۔ جھگڑوں کی ایک اور وجہ ایک دوسرے کو کوالٹی ٹائم نہ دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کوالٹی ٹائم سے مراد خالص وہ وقت ہوتا ہے جب آپ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں مثلاً ایک دوسرے سے بات کرنا، ایک ساتھ چائے پینا، واک کرتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں خواہشات اور مسائل شئیرکرناہے۔کچھ وقت ضرور نکالیں جب آپ صرف اپنے حوالے سے بات کریں اپنے مستقبل کیمنصوبہ بندی ، بچوں کے معمول، ان کی شرارتوں پر گفتگوکرنا ، پرانے دوستوں اور بچپن کی باتیں وغیرہ۔ اس طرح کی خوشگوار باتیں میاں بیوی کے تعلقات کو مضبوط کرتی ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی عادت کو مضبوط کرتی ہیں۔ جھگڑوں کو کم کرنے کے لئے دوسرا اہم کام جو کیا جاسکتا ہے وہ ہے بات چیت سے مسئلے کو حل کرنا لیکن اس کے لئے سب سے پہلے اپنے جذبات پر کنڑول کریں اور بات چیت اس وقت کریں جب آپ دونوں ہی غصے یا جذباتی کیفیت میں قطعی نہ ہوں۔ اچھے موڈ اور مناسب وقت اور جگہ پر بات کریں۔ عموماً ہمارے ہاں مسائل کو نمٹنے کے لئے بات چیت کا آغاز ماضی کی کسی ناخوشگوار بات، سلوک یا واقعے سے کیا جاتا ہے جو جھگڑے کو سلجھانے کے بجائے کئی اور مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ اپنے ماضی کے جھگڑوں یا ناگوار باتوں کو بار بار نہ دہرائیں۔ اگر آپ واقعی شریک حیات سے ہونے والے جھگڑوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بات کا آغاز کسی طنز اور طعنے سے نہ کریں بلکہ بات کا آغاز میں اور مجھ سے کے جملے سے کریں یعنی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تعلقات کچھ عرصہ پہلے تک ٹھیک تھے لیکن اب ہم دونوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں جنہیں ہم دونوں مل کر سلجھا سکتے ہیں۔کوشش کریں کے جملے میں تم یا تمہیں استعمال نہ کریں۔ اس سے شریک حیات کچھ سننے اور غور کرنے کے بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کرلیتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ صرف اسے موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے اور آپ اپنی غلطیوں کے لئے بھی انہیں ذمہ دار قرار دیتے دیتی ہیں۔ اپنے مسائل پر بات کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے شوہر یا بیوی کے نقطہ نظر سے سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنیں اور سمجھیں۔ ممکن ہے کہ آپ جس معاملے پر جو بھی سوچ رکھتے ہوں ،شریک حیات کی نظر میں وہ معاملہ قطعی مختلف ہو۔ مثال کے طور ہر آپ شادی کے بعد محسوس کرتی ہیں کہ آپ کے شوہر ویسے تو آپ کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ میں پیسے نہیں دیتے یا بہت لگی بندھی رقم دیتے ہیں اور گھر کے مالی معاملات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اب اگر آپ اس پر خود ہی منفی سوچنا شروع کریں کہ آپ کے شوہر ظالم ہیں یا کنجوس ہیں وغیرہ۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ ان سے بات کریں اور پوچھیں کہ اس روئیے کی وجہ کیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس روئیے کہ وجہ صرف اتنی سی ہو کہ انہوں نے اپنے والد کو خوش اسلوبی سے ایسا ہی کرتے دیکھا ہو اور وہ سمجھتے ہوں یہی بہتر طریقہ ہے۔ ممکن ہے کہ آپ ان کی ذمہ داری شئیر کرنے کے فوائد اور اپنے احساسات بتائیں اور وہ اس سلسلے میں آپ کی بات مان کر آپ کا مان بڑھا دیں۔ میاں، بیوی دونوں کبھی انتہائی غصے میں ایک دوسرے سے بحث میں نہ الجھیں یا بات نہ بڑھائیں۔کوشش کریں کہ خود کو وقت دیں اور غصے اور جذبات پر قابو پا کر ایک دوسرے سے آرام سے بات کریں اور اپنا اختلاف واضح کریں۔ممکن ہے کہ آپ کے منہ سے غصے یا اشتعال میں کوئی ایسی بات نکل جائے جس پر آپ بعد میں بہت پچھتائیں، آپ نہ چاہتے ہوئے بھی شریک ِ حیات کو تکلیف پہنچانے کا باعث بن جائیں۔ ہم باہمی جھگڑوں میں ہم کئی ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو مسئلہ حل کرنے کے بجائے مزید سنگین بنا دیتی ہیں۔ اگر آپ واقعی اپنے عموماً بے مقصد قسم کے جھگڑوں کو کم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو آپ کو درج ذیل چند باتوں پر سختی سے اور سنجیدگی سے عمل کرنا ہوگا ٭انداز گفتگو بہتر بنائیں۔ اگر آپ عموماً شریک ِحیات پر طنز کرنے اور طعنے دینے کے عادی ہیں تو یہ آپ کے رشتے کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اچھا اندازِگفتگو اور اچھے الفاظ کے استعمال سے آپ کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ عزت کرنا اور ایک دوسرے سے عزت سے پیش آنا اس رشتے کی پہلی شرط ہے۔ یاد رکھئے عزت کا درجہ محبت سے کہیں بلند تر ہے۔ اس لئے اگر آپ واقعی شریک حیات سے محبت کے دعویدار ہیں تو اسے اپنے روئیے، انداز و الفاظ سے ظاہر کرنے کی عادت ڈالئے اور محبت سے پہلے ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھئے۔ ٭ہر بات پر اور ہر وقت تنقید یوں تو کسی بھی رشتے کے لئے مناسب نہیں لیکن میاں بیوی کے رشتے کے لئے تو قطعی نہیں۔ جب آپ ہر بات پر یہ کہیں کہ یہ بات تم کبھی یاد نہیں رکھتے یا نہیں رکھتی یا یہ کہ کبھی مجھے اہمیت نہیں دیتے یا دیتیں۔ تو آپ سامنے والے کے بارے میں پہلے ہی منفی فیصلہ صادر کردیتے ہیں اور یہ بات ایک نئے جھگڑے کا نقطہ آغاز بن جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ وہ لاشعوری طور پر یا ضد میں آپ اسی طرح کا رویہ رکھنا شروع کردیتے کردیتی ہیں۔ جس کا شکوہ آپ بڑھا چڑھا کر کرتے ہیں۔ ٭ایسی بات مذاق میں بھی نہ کریں جس سے مخاطب کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ مثال کے طور پر آپ خود کو بہت چالاک سمجھتے سمجھتی ہیں یا تم میرے گھر والوں سے کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتے کرتیں۔ ایسی گفتگو سے مخاطب شرمندگی اور توہین محسوس کرتاہے۔ اسی طرح دفاعی پوزیشن میں رہ کر بات کرنا بھی اپ کے لائف پارٹنر کی بے عزتی یا اسے کمتر سمجھنے کا باعث ہوسکتا ہے۔مثلاً ہمارے معاشرے میں مرد بیوی سے اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ تمہیں کیا پتہ ہمیں باہر کیا کچھ کرنا پڑتا ہے، تمہیں تو گھر بیٹھے سب کچھ مل جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ بیگمات بھی کبھی اپنی ذمہ داریوں کا احسان جتانا نہیں بھولتیں۔ ٭میاں بیوی ایک دوسرے کے کام اور ذمہ داریوں کو منطقی طور پر سمجھیں۔ دونوں کا کام ہی اپنی اپنی جگہ اہم بھی ہے اور ذمہ داری والا بھی۔ کوئی کسی سے کمتر یا برتر نہیں بلکہ کئی صورتوں میں خواتین زیادہ مشکل اٹھاتی ہیں خصوصاً ماں بننے کے مرحلے میں، چھوٹے بچوں کی پرورش انتہائی محنت طلب معاملہ ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ایک مرتبہ بات چیت سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ جھگڑوں سے بچنے کے لئے آپ دونوں کو اپنے رویوں اور عادتوں میں کچھ تبدیلی لانا لازم ہے تو دیر نہ کیجئے۔ اپنی خامیوں کو پہچانئے اور ان سے اچھی نیت کے ساتھ چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہ آسان کام نہیں لیکن مثبت تبدیلی کے لئے بعض اوقات مشکل مراحل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آہستگی سے ہی سہی لیکن آپ دونوں کے روئیے کی تبدیلی آپ کی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔ لیکن یہ زندگی کے اچھے مرحلوں میں سے ایک مرحلہ ہے۔ ازدواجی زندگی ایک مسلسل سفر ہے جس میں اونچے نیچے راستے آتے رہتے ہیں اور آپ کا مثبت رویہ ہی آپ کی رفاقت کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔ حرف آخر معاف کرنا سیکھئے، یہی ازدواجی زندگی کا سب سے سنہرا اصول ہے، شریک حیات کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا سیکھئے، ان کے سمجھنے اور تبدیل ہونے پر ان کی حوصلہ افزائی کیجئے اور جس بات پر انہیں ایک مرتبہ معاف کردیں اسے کبھی نہ دہرائیے۔ | null |
null | null | null | 119 | https://www.urduzone.net/lehroun-poch-lo-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 120 | https://www.urduzone.net/tumhein-abhi-tak-nahi-bhooli-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 121 | https://www.urduzone.net/khush-ho-kay-nahi-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 122 | https://www.urduzone.net/qabar-kay-phool/ | null | null |
null | null | null | 123 | https://www.urduzone.net/parwaz-episode-4/ | null | null |
null | null | null | 124 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-9/ | null | null |
null | null | null | 125 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-19/ | null | null |
null | null | null | 126 | https://www.urduzone.net/zindagi-barbad-hovi-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 127 | https://www.urduzone.net/kahan-gae-tum-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 128 | https://www.urduzone.net/ghurbat-buri-bala-hai-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 129 | https://www.urduzone.net/wada-wafa-na-huwa-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 130 | https://www.urduzone.net/kia-yehi-muhabbat-hai-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 131 | https://www.urduzone.net/parwaz-episode-5/ | null | null |
null | null | null | 132 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-17/ | null | null |
null | null | null | 133 | https://www.urduzone.net/woh-mil-na-saka-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 134 | https://www.urduzone.net/zindagi-kay-khyel-nirale-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 135 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-7/ | null | null |
null | null | null | 136 | https://www.urduzone.net/aaj-bhi-intazaar-hai-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 137 | https://www.urduzone.net/khawab-mehngay-par-gae-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 138 | https://www.urduzone.net/suhagan-na-ban-paien-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 139 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-10/ | null | null |
null | null | null | 140 | https://www.urduzone.net/rasam-ulfat-episode/ | null | null |
null | null | null | 141 | https://www.urduzone.net/shadi-aur-mohabbat-main-kia-farq-hai/ | null | null |
null | null | null | 142 | https://www.urduzone.net/saari-khushiyaan-mil-gaien-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 143 | https://www.urduzone.net/aik-misali-mohabbat-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 144 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-11/ | null | null |
null | null | null | 145 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 146 | https://www.urduzone.net/ye-trapti-zindagi-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 147 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-8/ | null | null |
null | null | null | 148 | https://www.urduzone.net/mazloom-burhiya-nay-dua-di-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 149 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-2/ | null | null |
null | null | null | 150 | https://www.urduzone.net/baitey-ki-mujrim-houn-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 151 | https://www.urduzone.net/apna-ghur-pyara-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 152 | https://www.urduzone.net/khatarnaak-mansooba-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 153 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-12/ | null | null |
null | null | null | 154 | https://www.urduzone.net/khatarnaak-mansooba-episode/ | null | null |
null | null | null | 155 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-3/ | null | null |
null | null | null | 156 | https://www.urduzone.net/ishq-nahi-assan-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 157 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-14/ | null | null |
null | null | null | 158 | https://www.urduzone.net/jannat-gava-di-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 159 | https://www.urduzone.net/bohat-zulm-hova-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 160 | https://www.urduzone.net/dua-qabool-hovi-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 161 | https://www.urduzone.net/yeh-uss-ka-naseeb-tha-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 162 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-13/ | null | null |
null | null | null | 163 | https://www.urduzone.net/aaj-bhi-yaad-atey-hain-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 164 | https://www.urduzone.net/wo-jo-apna-na-ho-saka-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 165 | https://www.urduzone.net/deir-ayad/ | امی میں رفیعہ خالہ کی طرف جا رہی ہوں۔ شام تک لوٹ آؤں گی ۔ ابرش نے کچن میں جھانک کر مطلع کیا تو فوزیہ بیگم کی تیوری چڑھ گئی یہ تم کیا روز کالج سے واپسی پہ سیر سپاٹوں پہ نکل جاتی ہو پرسوں وقار ماموں کی طرف گئی تھیں، کل قبیلہ پھپھو کی طرف چلی گئیں، آج خالہ کی طرف جارہی ہو تو کل بشری چاچی کی طرف جانے کا پروگرام بن جائے گا ۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں کل بشری چاچی کے گھر جاؤں گی اس نے معصومیت سے استفسار کیا تو فوزیہ بیگم سیخ پا ہوئیں۔ کیونکہ پچھلے کئی ہفتوں سے تمہاری یہی روٹین دیکھ رہی ہوں۔ ایسی لڑکی نہ دیکھی نہ سنی کچن کے کاموں میں ماں کی مدد کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ یہی لچھن رہے تو اگلے گھر جا کر خوب ناک کٹواؤ گی ہماری پھر کب بھیج رہی ہیں مجھے وہ پر سوچ اندازمیں بولی۔کہاں اگلے گھر فوزیہ بیگم نے سرعت سے جوتا فائر کیا مگر ابرش برق رفتاری سے غائب ہو گئی وہ پیچھے دیر تک اسے کوستی رہیں۔ رفیعہ خالہ کے گھر کے حالات آج کل کافی کشیدہ تھے ، ان کے میاں کی معمولی آمدنی میں مہینہ مشکل سے گزرتا تھا۔ سونے پہ سہاگہ ان کا چھوٹا بیٹا پیڑ سے گر کر بازو تڑوا بیٹھا تھا۔ ان کی ساس آتے جاتے رفیعہ خالہ کو باتیں سنا تیں کہ ان سے بچے نہیں سنبھا لے جاتے ۔فوزیہ بیگم بھی ہر ممکن طریقے سے بہن کی مدد کرنے کی کوشش کرتیں۔ اس دن بھی بھانجے کی مزاج پرسی کے لیے آئیں تو ابرش کے لان کے کئی ان سلے سوٹ ان کی بچیوں کے لیے لے آئیں۔ اس چکمیلی سہ پہر کو پسینے سے شرابور ابرش ان کے آنگن میں وارد ہوئی تو سامنے برآمدے میں طاوسی تخت پر براجمان رفیعہ خالہ کی ساس اسےدیکھتے ہی بڑ بڑانے لگیں۔اس گرمی میں بھی تمہیں اپنے گھر چین نہیں ان کو اس کی وقت بے وقت آمد ناگوار گزرتی تھی۔ بجا فرمایا آپ نے سارا سکون تو آپ کے گھر ہے ابرش نے ان کے پاس سوئےموسی کے گال چٹا چٹ چومے پھر ان کے ہاتھ سے شربت کا گلاس اچک کر چار پائی پہ جا بیٹھی۔ پیڈسٹل فین کا رخ بھی اپنی طرف کر لیا۔ انہوں نے ہکا بکا ہو کر اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھا۔ ابھی انہوں نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا۔ رفیعہ خالہ نے تنبیہی نظروں سے اپنی اس کم عقل بھانجی کو دیکھا پھر کچن میں دوبارہ ساس کے لیےشربت بنانے چلی گئیں۔لڑکی تہذیب کے دائرے میں رہا کرو۔میں تمہاری سہیلی نہیں ہوں ۔ انہوں نے گو شمالی کی۔ سہیلی نہیں ہیں تو بن جائیں ناں ۔ اس میں حرج ہی کیا ہے میں نے سوچا کہ آپ کو خود سے تو کچھ پیش کرنے کی توفیق نہیں ہو گی خود ہی ہمت کر لوں۔ مگر آپ کا دل تو بہت چھوٹا ہے۔ یہ لیں پکڑیں اپنا گلاس گلاس تقریباً آدھا خالی ہو چکا تھا۔ پی لیں سوچیں جھوٹا پینے سے محبت بڑھتی ہے۔ وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پہ سجا کر کچن کی سمت بڑھ گئی۔ تو یہ لڑکی ہے کہ آفت کی پڑیا کیسے قینچی کی طرح زبان چلاتی ہے۔ آفرین ہے اس کی ماں پہ جو اسے روز جھیلتی ہے۔ وہ تسبیح کے دانےگراتی اپنی بھڑاس نکالتی رہیں۔رفیعہ خالہ نے پہلے ساس کو شربت پیش کیا پھر کچن میں جا کر کریلے فرائی کرنے لگیں۔ ابرش کو آتا دیکھا تو خفگی سے ڈانٹنے لگیں۔ ابرش تم بہت فضول بولتی ہو۔ بزرگوں سے بات کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو آنٹی اسے سخت سناتیں ۔ وہ فوزیہ آپا کی وجہ سے تمہار ا لحاظ کر جاتی ہیں۔ خلاف معمول وہ خاموشی سے سنتی ان کی مدد کرنے لگ گئی۔ اچھا اخلاق اور نیک سیرتی ہر خوبی پر حاوی ہوتی ہے بزرگوں سے بات کرتے ہوئے ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے تم کسی کی عزت نہیں کروگی تو تمہاری بھی کوئی عزت نہیں کرے گا خالہ متانت سا بولتی چلی گئیں پلیز خالہ نو لیکچر، اس نے پیشانی پر ان گنت لکیریں سجالیں خالہ نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ کاسنی اور پیچ دیدہ زیب کڑھائی سے مزین لان کے سوٹ میں وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ ابھی پرسوں ہی ان کی دیورانی کہہ رہی تھی کہ ابرش کی من موہنی صورت دیکھ کر کوئی بھی اس کا گرویدہ ہو جائے مگر اس کی بڑوں کے سامنے بے تکا بولنے کی عادت اور بلا وجہ کی اچھل کود اس کی خوب صورتی کو عیب لگاتی ہے۔ مگر اسے کون سمجھائے نمک ذرا کم ڈالیے گا خواہ مخواہ بی پی ہائی ہوگا ۔ اس کی فضول گوئی پر خالہ نے اس کو گھوری سے نوازا اور اپنے کاموں میں مشغول ہو گئیں ۔ سارا وقت ان کا دماغ کھانے کے بعد شام کو اپنے گھر جانے کے لیےنقاب لینے لگی تو خالہ نے آواز دی۔ابرش کھانا کھا کر جانا خالہ اگر میں لیٹ ہوئی تو آپ کی ہمشیرہ صاحبہ جوتوں سے میری خاطر تواضع کریں گی۔آپ کے ہاتھ کے بنے کریلے بھی مس نہیں کرنا چاہتی آپ مجھے پلیٹ میں ڈال دیں۔ میں گھر جا کر کھا لوں گی پھر خود ہی کچن میں جاکر پلیٹ میں کریلوں کا پہاڑ بنا کر لے آئی۔ یہ سوچے بنا کر پیچھے بچ جانے والے کر یلے ان گھر کے افراد کے لیے ناکافی ہو سکتے تھے رفیعہ خالہ نے اس کو دیکھا مگر مروت کے مارے چپ رہیں۔ صد شکر کہ ان کی ساس کا دھیان دوسری طرف تھا۔ گندمی رنگت اور گھنگھریالے بالوں والے سر معاذ کی آنکھیں انہیں بہت پر کشش بنا دیتی تھیں۔ وہ کالج میں آتے ہی ہر دوسری لڑکی کے دل میں بلا تکلف قدم رنجہ فرما چکے تھے مگر انہیں استاد اور شاگرد کے رشتے کا تقدس عزیز تھا اس لیے حتی الامکان کوشش کرتے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ۔بعض لسوڑا بنتی لڑکیوں کو تو انہوں نے اوائل دنوں میں بھی سیدھا کر دیا تھا مگر یہ ابرش آفتاب تھی جس نے ان کے دل میں شگاف کر دیا اسے دیکھتے ہی ان کے ارادے متزلزل ہونے لگتے ، ان کی نگاہوں کے پیام پڑھ کر وہ اپنی قسمت پہ نازاں تھی۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں غلطاں بے سبب مسکرائے جارہی تھی جب فوزیہ بیگم کڑے تیوروں سے اس کے پاس آ کھڑی ہوئیں۔ ابرش یہ تم نے کیا حرکت کی ہے ابرش کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔کون سی حرکت اس نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا تم نے صدف سے بد تمیزی کی تمہاری حماقت کے سبب وہ زینش سے بھی ناراض ہے۔ وہ برافروختہ ہوئیں۔میں کچھ اور سمجھ رہی تھی اور یہ صدف کی وجہ سے مشتعل ہیں اس کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں۔ امی میں جب بھی زینش آپی کے گھر جاتی ہوں ان کی نند صدف کے تقریبا در جن بھر بچے وہاں ہر وقت اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ ادھر آپی صفائی کر رہی ہیں ادھر وہ چیزیں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ آپی سارا وقت انہیں سنبھالنے میں ہلکان ہوتی رہتی ہیں اوپر سے اتنے ندیدے اور چٹورے ہیں کہ جب دیکھو فریج میں گھسے بیٹھے ہیں۔ میں نے تو صرف آپی سے صرف اتنا کہا کہ جب بچے سنبھالے نہیں جاتے تو پیدا کیوں کرتی ہیں اور یہ کہ دوسروں کے گھر بھیجنے سے پہلے انہیں کچھ کھلا پلا دیا کریں وہ نان اسٹاپ بولتی جارہی تھی جب اڑتے ہوئے جوتے نے اس کا منہ بند کیا۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔صدف بیچاری بیمار تھی اس لیے بچوں کو ان کی نانی کے گھر بھیج دیتی تھی۔تم بچوں کے کھانے پینے پہ نظر رکھتی ہو۔ ہر بات منہ پہ کہنے والی نہیں ہوتی ۔ لڑکیوں کو اتنا منہ پھٹ اور خود سر نہیں ہونا چاہیے تم کو ان کے گھریلو معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں تھی وہ غصہ سے بولتی جارہی تھیں کہ ابرش کے اترے چہرے پہ نگاہ پڑتے ہی چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئیں پھر متانت سے اسے سمجھانے لگیں کبھی تم نے سوچا کہ تمہاری دنیا کتنی محدود ہے رشتہ داروں کے گھروں میں گھومنا، لگائی بجھائی کر کے چسکے لینا فیشن، میک اپ ، گوسپ اور بس صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لو مطالعہ کرو، کوکنگ سیکھو، اسپورٹس میں حصہ لو، گارڈ نگ کرو پھر بھی فرصت مل جائے تو کوئی کورسز کرلو وہ کھسیانی ہو کر سنتی رہی۔ صدف کا چھوٹا بیٹا ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے۔ آج شام کو اس کی عیادت کے لیے جاؤں گی تم بھی ساتھ چلنا اور اپنے رویے کی معافی مانگ لینا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سینٹرل ملٹری ہاسپٹل کی چائلڈ وارڈ خسرہ کے مریضوں سے بھری ہوئی تھی ابرش نے صدف کو سرسری انداز میں سوری کہا پھر ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگی ساتھ والے خالی بیڈ پر ابھی ابھی ایک بچے کو لایا گیا تھا۔ بچے کو فٹس جھٹکے پڑ رہے تھے۔ بچے کی والدہ خاصی پر وقار اور خوش شکل خاتون پروقار تھیں ۔ وہ کچھ پڑھ کر بچے پہ پھونک رہی تھیں فوزیہ بیگم کے موبائل پہ کال آ رہی تھی ، وہ موبائل مُھٹی میں دبائے وارڈ سے باہر نکل گئیں۔ فوزیہ بیگم صدف کے لیے بریانی بنا کر لائی تھیں۔صدف نے دو پلیٹوں میں بریالی نکالی اور ایک پلیٹ اس خاتون کی سمت بڑھا دی جو انہوں نے رسماً انکار کرنے کے بعد تھام لی۔ صدف کھانا کھانے کے ساتھ موبائل میں مصروف تھی۔ ابرش سخت کبیدہ خاطر نظر آرہی تھی۔ معاً اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی، وہ اشارے سے اسے بلا رہی ہیں ۔ ابرش ان کے پاس چلی گئی۔ بیٹا آپ سے ایک بات پوچھنی تھی یہ جنہوں نے مجھے بریانی دی ہے یہ کہیں غیر مسلم تو نہیں ہیں میں ان کو جانتی نہیں ان کے ہاتھ سے لے کر کھانا شروع کر دیا۔ ابرش نے بے ساختہ ہنسی کو بمشکل روکا۔صدف آپی آپ ، یہودی یا ہندو تو نہیں ہیں اس نے بآواز بلند صدف کو پکارا ارد گر د سب ہی لوگ متوجہ ہوگئے۔کیا بد تمیزی ہے صدف کے سر پہ لگی تلوؤں پہ بھجی ۔ آنٹی صاحبہ الجھن میں ہیں کہ آپ سے لی ہوئی بریانی کھا کر ان کو گناہ تو نہیں ملے گا۔ حالانکہ اس وقت ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ آپ کے بچے کے خسرہ کے جراثیم ان کے بچے میں داخل نہ ہو جا ئیں ۔ مسکرا کر بولتے ہوئے وہ زہر لگ رہی تھی۔ آنٹی کا رنگ بھی اڑا۔ تو بہ ہے آپ کو یا کسی اور کو میرے مذہب کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اتنا ہی شک ہو رہا تھا تو نہ کھائیں۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے جب پیش کی جانے والی چیز حلال ہے تو کھانے میں کیا قباحت ہے مگر نہ جی سب کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہم تو بڑے ہی سچے مسلم ہیں۔ صد ف ان کی عمر کا لحاظ کیے بنا انہیں سخت سنانے لگی۔ ارد گرد دوسری خواتین بھی انہیں برا بھلا کہنے لگیں۔ ابرش تو جیسے بھس میں تیلی پھینک کر تماشے سے محفوظ ہو رہی تھی۔ وہ آنٹی اب ابرش کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ فوزیہ بیگم فون پر بات کر کے واپس آئیں تو صدف کا منہ پھولا ہوا تھا۔ ابرش کے کارنا مے سے بے خبر عجلت میں صدف کو خدا حافظ کہہ کر جانے لگیں۔مگر ان کی معیت میں گھر لوٹتی ابرش نے محسوس کیا کہ اس خاتون کی نگا ہیں اس کے چہرے پہ گڑی ہوئی تھیں وہ لائبریری سے نکل رہی تھی جب سر معاذ نے اسے پکارا اور بنا کسی تمہید کے اپنا مدعا بیان کیا۔ ان کے پیرنٹس ابراڈ میں تھے وہ اپنی آپی کے گھر رہتے تھے اور آج شام اپنی آپی کے ہمراہ ابرش کے گھر کسی خاص مقصد سے آنا چاہتے تھے۔ ان کتھئی آنکھوں میں ڈوب کر اس کے دل کی دھڑکنیں اعتدال پہ نہ رہیں وہ اٹھتے کہیں پڑتے کہیں قدموں سے گھر پہنچی تو نئی فکر نے آن گھیرا۔ اتنی اہم بات فوزیہ بیگم سے چھپانا بھی نہیں چاہتی تھی مگر بتانے میں ہچکچاہٹ اور شرم مانع تھی۔ اس ادھیڑ پن میں وہ کچن میں جا کر ان کی ہیلپ کروانے لگی تو وہ چونکیں۔ ابرش طبیعت تو ٹھیک ہے امی آج کچھ ایکسٹرا ڈشز بنالیں۔ شاید کوئی آجائے۔ کس نے آنا ہے اس نے پوری کہانی سنائی۔ اس نے امی کے ساتھ مل کر رول ، چکن کے کٹلس کے ساتھ ڈونٹس اور میکرونی اور میٹھے میں پڈنگ تیار کی اور خود نہانے چلی گئی۔ بے بی پنک کلر کے دیدہ زیب کڑھائی سوٹ میں وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی میک اپ کے نام پر اس نے صرف کا جل اور لپ گلوس لگایا تھا۔ کافی دیر آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھتی رہی پھر کچھ سوچ کر دو پٹا سر پہ لیا۔ وہ سر معاذ کی آپی کو پوری طرح متاثر کرنا چاہتی تھی باہر سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ فوزیہ بیگم انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا رہی تھیں۔ ابرش نے برانڈڈ پر فیوم کا بے دریغ چھڑکاؤ کیا۔ فوزیہ نے بیگم کے بلانے پردہ جھجکتے ہوئے ڈرائنگ روم میں گئی۔السلام علیکم اسے دیکھتے ہی ان خاتون کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ یہ یہ ابرش ہے ان کی آنکھیں تحیر سے پھیلیں۔ جی آپی کتھئی آنکھوں میں اس کے لیے ستائش تھی۔معاذ ان دونوں کا گم صم انداز دیکھ کر چونکا کیا ہوا معاذ اس دن ہاسپٹل میں ملنے والی جس لڑکی کے بارے میں نے تمہیں بتایا تھا وہ لڑکی یہی ہے۔ معاذ کو دھچکا لگا۔ اب وہ فوزیہ بیگم کو ابرش کی کارگزاری کی تفصیل بتا رہی تھیں ۔ ابرش کا رنگ کورے لٹھے کی مانند سفید ہو چکا تھا۔ معاذ کا سنجیدہ انداز اس کا دل دہلا رہا تھا۔ مانا کہ کسی کے مذہب کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے مگر میں نے ایک سوال ہی تو پوچھا تھا ابرش اسی وقت ٹوک دیتی یا مناسب جواب دے کر ٹال دیتی مگر نہیں ابرش نے بات بڑھا چڑھا کر بیان کی آئی ایم ساری ہمارا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں ہے مگر ہم آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگل سکتے۔ میرا بھائی تو اس کی بھولی صورت پہ فدا تھا صدشکر کہ اصلیت وقت پر آشکار ہوگئی ۔ دونوں بہن بھائی عجلت میں خدا حافظ کہ کر نکل گئے سامنے ٹیبل پہ فوڈ آئٹمز ان چھوئے پڑے تھے۔فوزیہ بیگم نے یاسیت سے ابر ش کو دیکھا انہوں نے لاڈ پیارسے بھی سمجھایا تھا سختی کر کے بھی دیکھ لیا تھا۔ ابرش نے اپنی خو نہ چھوڑی تھی۔ خالہ، پھوپھی چچی سب کو ہی اس سے شکایتیں تھیں مگر ان باریکیوں کو اس نے درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ دوسروں کو زچ کر کے لطف اٹھاتے ہوئے اسے اندازہ نہ تھا اس کی ان حرکتوں کے سبب جان سے پیارا اسے مسترد کر کے ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی سے چلا جائے گا۔ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزر رہی تھی، پشیمان تھی۔ سوری امی میری وجہ سے آپ کو شرمسار ہونا پڑا ۔ اس شرمندہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ ابرش میں ماں ہوں ہر خطا معاف کر دوں گی مگر دنیا معاف نہیں کرتی ۔ وہ گلو گیر ہوئیں۔ میں کوشش کروں گی کہ آئندہ کسی کو شکایت کا موقع نہ دوں ۔ اس نے ان کے ہاتھ تھامے ۔سچ ہے کہ کچھ لوگ ٹھو کر کھائے بنا نہیں سنبھلتے دیر سے ہی اسے عقل آ گئی تھی۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 166 | https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-5/ | null | null |
null | null | null | 167 | https://www.urduzone.net/ghayal-episode/ | null | null |
null | null | null | 168 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-15/ | null | null |
null | null | null | 169 | https://www.urduzone.net/sacha-khavab/ | تین آدمی اکٹھے سفر کر رہے ۔ تھے۔ ان میں سے ایک مسلمان، ایک یہودی اور ایک عیسائی تھا۔ راستے میں ایک گاؤں میں انہوں نے قیام کیا۔ ایک نیک آدمی ان کے لیے شہد کے حلوے کی ایک قاب لے آیا۔ اتفاق سے یہودی اور عیسائی دونوں بد ہضمی میں مبتلا تھے اور ان کا جی کسی چیز کے کھانے کو نہ چاہتا تھا۔ ادھر مسلمان روزے سے تھا۔ اس لیے وہ بھی حلوہ نہ کھا سکتا تھا۔ جب شام ہوئی تو مسلمان کو تو سخت بھوک لگی لیکن اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اس وقت تو ہم سیر ہیں اس لیے اس حلوے کو کل کے لیے رکھ چھوڑیں۔ مسلمان نے کہا نہیں اسے تازہ تازہ کھا لینا چاہیے۔ آخر کل تک صبر کرنے میں کیا تک ہے۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم تیری نیت کو بھانپ گئے ہیں۔ تو چاہتا ہے کہ اکیلا ہی سارہ حلوہ ہڑپ کر جائے۔ مسلمان نے کہا کہ دوستو ہم تین آدمی ہیں۔ چونکہ ہم میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس حلوے کو آپس میں بانٹ لیں۔ پھر جس کا جی چاہے ابھی کھائے اور جس کا جی چاہے کل کے لیے رکھ چھوڑے۔ لیکن یہودی اور عیسائی اپنی ضد پر اڑے رہے۔ اب بیچارے مسلمان کے لیے خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ تینوں سو گئے اور صبح اٹھ کر ضروریات اور عبادت سے فارغ ہو کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ایک نے کہا کہ رات کو جس نے جو خواب دیکھا ہو وہ بلا کم و کاست بیان کر دے جس کا خواب سب سے اچھا ہو وہ سارا حلوہ کھالے۔ سب نے اس بات پر اتفاق کر لیا۔ سب سے پہلے یہودی نے کہا کہ رات کو میں نے خواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ کوہ طور کی طرف جارہے تھے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ کوہ طور پر پہنچے تو ایک نور نے ہم کو ڈھانپ لیا۔ پھر اس نور میں سے ایک اور نور پھو ٹا جس کی چمک میں کوہ طور، حضرت موسیٰ اور میں تینوں گم ہو گئے۔ پھر نور حق نے اس میں پھونک ماری تو کوہِ طور کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ ایک ٹکڑا سمندر میں گرا اور اس کا تلخ زہر پانی میٹھا ہو گیا۔ دوسرا ٹکڑازمین پر گرا تو وہاں سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔ اس پانی کو حق تعالیٰ نے بیماریوں کے لیے شفا بنا دیا۔ پہاڑ کا تیسرا ٹکڑا کعبے کے قریب عرفات پر جا گرا۔ پھر جب مجھ کو ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ طور اپنی جگہ پر قائم تھا لیکن وہ حضرت موسیٰ کے پاؤں کے نیچے برف کی طرح پگھل رہا تھا اور اس کی بلندیاں پستیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ پھر میں نے ہزار ہا انبیا اور فرشتے دیکھے جو طور کی طرف آرہے تھے۔ غرض یہودی بڑی دیر تک اسی قسم کی باتیں بنا تا رہا۔ جب وہ خاموش ہوا تو عیسائی نے اپنا خواب بیان کرنا شروع کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے خواب میں حضرت مسیح کی زیارت کی۔ میں ان کے ساتھ چوتھے آسمان پر گیا اور وہاں ایسے ایسے عجائبات دیکھے کہ زبان ان کے بیان کرنے سے عاجز ہے۔ بس یوں سمجھو کہ اس دنیا کی چیزوں کو ان آسمانی اشیا سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ غرض اس نے بھی زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ اب مسلمان کی باری آئی۔ اس نے کہا کہ میرے دوستو میں خواب میں اپنے آقا و مولا جناب محمد مصطفے کی زیارت سے مشرف ہوا۔ وہ سرداروں کے سردار ، دو جہان کے باد شاہ، ہادی اکرم، فخر کو نین آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تیرے ساتھیوں میں سے ایک طور پر گیا ہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھ عشق الہی میں مشغول ہو گیا ہے۔ دوسرے کو حضرت عیسی صاحبقران چوتھے آسمان پر لے گئے ہیں۔ یہاں اب تو اکیلا رہ گیا ہے اٹھ اور اس حلوے کو کھالے۔ ان دونوں کو تو بڑے مرتبے حاصل ہو گئے اور وہ فرشتوں میں جاملے ہیں تو یہاں عاجز و درماندہ ہو کر بیٹھا ہے اس حلوے کی قاب پر ہی قناعت کر۔ یہ سن کر یہودی اور عیسائی دونوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا اے بیوقوف لالچی کیا تو سارا حلوا کھا گیا ہے اس نے کہا صاحبو جب مجھ کو میرے آقا و مولا دونوں جہان کے بادشاہ کوئی حکم دیں تو میری کیا مجال کہ آپ کے حکم سے سرتابی کروں۔ اے یہودی اگر تجھ کو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کوئی حکم دیں تو کیا تو اس کے ماننے سے انکار کر دے گا اور اے عیسائی تو حضرت عیسیٰ کا حکم ماننے سے سرتابی کر سکتا ہے اگر تم اپنے پیشواؤں کے کسی حکم کو نہیں ٹال سکتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اپنے آقا و مولا فخر انبیا کے حکم سے سرتابی کرتا۔ میں نے تو حضور کے حکم کی تعمیل میں وہ حلوا فوراً کھا لیا۔ یہ سن کر وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے کہ خدا کی قسم تیرا خواب سچا ہے۔ تو نے جو کچھ دیکھا ہے وہ ہمارے سو خوابوں سے بھی اچھا ہے۔ تیرا خواب عین بیداری ہے کیونکہ تو نے خواب میں اپنی مراد حاصل کرلی۔ تیرا یہ خواب تو انبیا کے خواب کی مانند ہے جو کہ بے تعبیر سچا ہو گیا۔ | null |
null | null | null | 170 | https://www.urduzone.net/kahani-aik-khat-ki/ | شعبہ حادثات سے اسپتال کے اسپیشل وارڈ میں ایک مریضہ داخل کی گئی اس وقت میری ڈیوٹی اسی وارڈ میں تھی ۔ اس لئے اس کی نگرانی کا کام مجھے سونپا گیا تھا، جوں ہی میں اس کے کریب گئی اور حال پوچھا تو اس نے بے بسی سے کراہتے ھو ہوئے سر پٹخ دیا اور پھر اس کو دورہ پڑ گیا۔ ہاتھ پاؤں اکڑ گئے، وہ ہلنے جلنے سے معذور ہو گئی۔ یہ کفیت چھ، سات گھنٹے طاری رہی۔ یہ پہلی مریضہ تھی کہ جس کی حالت پر میرا دل پسیج گیا اور مجھ سے رہا نہ گیا۔ ابھی ڈاکٹر کے راؤنڈ میں کچھ وقت باقی تھا، مگر میں نے ڈاکٹر صاحب کی منت کی ۔ وہ بہت رحم دل انسان تھے ۔ مریضہ کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا اور منہ سے کبھی کبھی ہلکی سی سسکی بھی نکل جاتی تھی۔ وہ وقفے وقفے سے کسی کو پکارتی تھی۔ میں نے غور سے سنا۔ وہ کسی کا نام لے کر پکار رہی تھی۔ اب میں ڈر رہی تھی کہ اگر ڈاکٹر نے میری استدعا پر کان نہ دھرا اور آنے میں تاخیر کردی تو کہیں یہ بے چاری چل بسے اور میرا ضمیر ہمیشہ مجھ کو ملامت کرتا رہے۔ صد شکر کہ ڈاکٹر صاحب فورا میرے ساتھ آگئے۔ مریضہ کو دیکھا، پھر مجھ سے پوچھا۔ اس کے گھر سے کوئی نہیں آیا جی نہیں، بس وہ لوگ ایڈمٹ کر وا گئے تھے، اس کے بعد سے کوئی نہیں آیا۔ میں نے بتایا۔ اچھا انہوں نے کہا۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں ۔ تمہیں اس خاتون کی دیکھ بھال خاص طور پر کرنی ہے۔ اگر حالت زیادہ خراب ہو، تو مجھے فوراً آگاہ کرنا۔ یہ ہدایت دے کر وہ چلے گئے۔ ہفتہ بھر ، میں اور ڈاکٹر صاحب جانفشانی ہے اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ سات روز کے بعد ایک شخص اس خاتون سے ملنے آیا۔ وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ ہلکے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس، ایک چرمی بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار تھے۔ میں سمجھ گئی کہ یہی اس لاوارث عورت کا رشتہ دار ہے۔ عورت کا نام در شہوار تھا اور وہ بستر پر آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ ہلدی سیاہ پیلا رنگ لئے ، وہ ایک زندہ لاش لگ رہی تھی ۔ شاید سورہی تھی یا انجکشن کی وجہ سے مدہوش تھی ، بہر حال وہ اپنے گردو پیش سے بے نیاز تھی۔ یہ آپ کی کیا لگتی ہیں میں نے آنے والے سے پوچھا تو وہ سرد مہری سے بولا ۔ بیوی ہے میری۔ اس کے اس طرح جواب دینے پر میں حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ بیوی ہے تو اتنے دنوں آپ ان کی خبر گیری کو کیوں نہیں آئے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوا۔ آپ کو کیا معلوم کہ گھر پر چھوٹے چار بچے ہیں ۔ بچوں کے پاس رہوں یا ادھر آؤں۔ پھر اس نے بٹوہ نکالا اور کچھ رقم مریضہ کے سرہانے پر رکھ دی اور بولا ۔ اچھا سسٹر میں چلتا ہوں ۔ یہ ہوش میں آجائے تو تم اس کو دے دینا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں دیر تک سوچتی رہی کہ یہ کیسا سنگدل شوہر ہے، جس کو اپنے چار بچوں کی ماں کے جینے مرنے کی پروا نہیں۔ اس آدمی کے جانے کے دو گھنٹے کے بعد در شہوار نے آنکھیں کھول دیں اور ہوش میں آتے ہی پوچھا۔ کوئی نہیں آیا میں نے بتایا دیا تمہارے شوھر آئے تھے، کچھ رقم دیے گئے ہیں ۔ تمہارے تکیے کے نیچے پڑی ہے، اٹھا لو۔ یہ سن کر اس نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں اور بولی۔ میں کیوں زندہ ہوں اے اللہ مجھے موت کیوں نہیں دے دیتا۔ وفا کا کیا یہی صلہ ہے میں نے کہا۔ زیادہ مت سوچو، نہ زیادہ باتیں نہ کرو۔ وہ تو دیر تک بیٹھے رہے تھے، تم ہی نے آنکھ نہ کھولی ۔ لو، پانی پی لو۔ اس کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اٹھنا چاہا مگر تکلیف کی وجہ سے اٹھ نہ سکی، میں نے ہی اس کے حلق میں پانی ٹپکایا۔ دو چار دن کے بعد اس کی طبیعت میں کچھ افاقہ ہوا تو میں نے اصرار کر کے اس کو راز دل کہنے پر مجبور کر دیا۔ وہ پہلے تو کچھ بتانے پر تیار نہ تھی ، لیکن جب میں نے اپنی آپ بیتی اس کو سنائی تو اس نے بھی خود پر بیتی سے مجھ کو آگاہ کر دیا۔ میں نے درشہوار کو بتایا کہ دیکھو دکھ سکھ ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ مجھ کو دیکھو، جانے کیسے حالات سے مجبور ہو کر نرس بنی اور اب دن رات مریضوں کی خدمت پر معمور ہوں ۔ تو اپنے بارے میں بتاؤ سسٹر در شہوار بولی۔ بتاتی ہوں۔ میں لاہور کی رہنے والی ہوں۔ کالج میں پڑھتی تھی کہ ایک کلاس فیلو نے مجھ میں دلچسپی لی۔ امیر باپ کا بیٹا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ میں پڑھائی جلد ختم کرنا چاہتی تھی کیونکہ ابا جان کو دمہ تھا، گرچہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور لائق طالبہ تھی لیکن گھر کے مالی حالات اچھے نہ رہے ، جس کی وجہ سے والد کا علاج نہ ہوسکتا تھا۔ ابا کمانے سے رہ گئے اور ہمارے گھر فاقے ہونے لگے ۔ میرے حالات جان کر کلاس فیلو ساتھی خاور نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں بہت غریب تھی اور وہ بہت امیر تھا۔ میں نے درمیان میں پڑھائی چھوڑ دی اور گھر کے حالات کو سہارا دینے کی خاطر ڈاکٹر بنے کے خواب کو بھول کر نرسنگ ٹرینگ لی اور پھر اسپتال میں ملازمت کرلی، جبکہ وہ میرا ساتھی خاور ڈاکٹر بن کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ اب اسی کی یاد میں عمر گزارنے کا عہد کیا ہے۔ بس اتنی سی میری کہانی ہے۔ ایک دکھیاری کی باتیں دوسری دکھیاری کو اچھی لگیں۔ یوں در شہوار کہنے لگی۔ اس دنیا میں وفا کی کوئی قیمت نہیں اور مرد سے وفا تم اپنی زندگی گنوا رہی ہو۔ مجھے دیکھو اور میری زندگی سے سبق سیکھو۔ تو بتاؤ نا تمہارے ساتھ کیا ہوا کیسے تم اس حالت کو پہنچیں آخر وہ بے تکلف ہو گئی اور مجھے اپنا دل زندگی کھول کر دکھا دیا۔ تم جانتی ہو، میں کس حال میں یہاں آئی تھی۔ مجھے کتنی تکلیف تھی اور جسمانی تکلیف سے زیادہ روح تکلیف میں مبتلا تھی۔ میں اس بات کے تصور سے ہی خوف زدہ تھی کہ میرا شوہر مجھے طلاق دے دے گا اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے مجھ سے جدا کر دیے جائیں گے۔ اسی خیال سے میں نے گولیاں پھانک لی تھیں۔ پھر تم نے دیکھ لیا نا در شہوار کہ زندگی اور موت تو خدا کے اختیار میں ہے۔ جب تم آئی تھیں تو جانتی ہو تمہاری کیا حالت تھی تمہارے منہ سے خون جاری تھا اور تم تکلیف سے تڑپ رہی تھیں ۔ تمہیں ہم لوگ آپریشن تھیٹر میں لے گئے تھے۔ مہربان ڈاکٹر صاحب نے تب کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تمہیں اللہ کے کرم سے بچالیا اور ایک رات تو میں صبح گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک تمہارے سرہانے بیٹھی رہی تھی۔ وہ تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھتی رہی، پھر گویا ہوئی۔ میری شادی چودہ برس قبل ہوئی، شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہماری زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ ہم میاں بیوی اپنے چار بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش تھے کہ اچانک ایک خط نے میری زندگی میں آگ لگادی، اس خط کی بھی اپنی ایک کہانی ہے۔ میری ایک سہیلی تھی رشیدہ۔ ہم ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ رشیدہ ان دنوں میٹرک میں تھی۔ ایک لڑکے سے اس کی محبت کا چکر چل رہا تھا۔ یہ دونوں آپس میں شادی کرنا چاہتے تھے، مگر ماں، باپ راضی نہیں تھے۔ وہ دونوں چھپ کر ملتے تھے۔ یہ تو آگ اور پانی کا کھیل ہوتا ہے۔ محبت کے ہاتھوں، رشیدہ کا دامن کانٹوں پر جا پڑا اور دریدہ ہو گیا۔ ادھر اس کی منگنی اس کے والدین نے اپنے رشتہ داروں کے ہاں کر دی۔ وہ بہت پریشان تھی اور اس سے زیادہ اس کی ماں پریشان تھی کیونکہ جو ہو چکا تھا، اس کا نتیجہ بہت جلد ظاہر ہونے والا تھا اور یہ بڑی پریشانی و بدنامی کی بات تھی۔ رشیدہ اور اس کے گھر والوں کے لیے یہ تو زندگی اور موت کا سوال تھا۔ کوئی راہ نہ پاکر رشیدہ کی ماں میری ماں کے پاس آئی اور ان کو اپنی پریشانیاں بتائیں۔ امی بہت رحم دل تھیں، اسے روتے دیکھ کر بولیں۔ بہن مجھ سے اور تو کچھ نہیں ہو سکتا، صرف تمہاری لڑکی کی جان اور تیری عزت بچانے کی خاطر تمہاری بیٹی کو رکھ لیتی ہوں ۔ رشیدہ کو تم میرے پاس چھوڑ جاؤ ۔ خدانے جو چاہا وہی ہوگا۔ یوں وہ بیٹی کو ہمارے گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔ اپنے رشتہ داروں اور شوہر سے کہہ دیا کہ رشیدہ بیمار تھی ۔ ڈاکٹروں نے آب و ہوا کی تبدیلی کا کہا ہے، اس لئے میں نے اس کو خالدہ کے گھر مری بھیج دیا ہے۔ ان دنوں ہم مری میں رہتے تھے، جہاں ہمارا ددھیال تھا۔ والد کویت میں ملازمت کر رہے تھے۔ وہ ہر ماہ اچھی خاصی رقم ہم کو بھجواتے تھے۔ خود وہ دو تین سال بعد چکر لگاتے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں رشیدہ کا ہمارے گھر رہنا اور راز کا راز رہنا دونوں ہی ممکن ہو سکے تھے کیونکہ رشیدہ کی ماں امی کی دور کی رشتہ دار بھی تھیں ۔ رشیدہ اپریل میں آئی اور اگست میں ایک بے بی کو جنم دیا۔ ایک ہفتے بعد وہ واپس اپنے والدین کے گھر پنڈی چلی گئی ۔ چند ماہ بعد اس کی شادی ہوگئی۔ رشیدہ کی خواہش تھی کہ یہ بچہ یتیم خانے یا لا وارثوں کے ادارے میں دینے سے بہتر ہے ، اس شخص کے حوالے کر دیا جائے جو اس کو اس دنیا میں لانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ مجھے اس کا پتا دے گئی تھی۔ میں نے امی سے مشورہ کیا اور رشیدہ کے دیے ہوئے پتے پر اس شخص کو خط لکھ دیا کہ اپنا بچہ آکر لے جاؤ۔ خط لکھنے کے ہفتہ بعد وہ آیا اور اپنا بچہ لے گیا۔ اس کے بعد وہ پھر کبھی نہیں آیا۔ اس دوران میری شادی ہوگئی اور بچے بھی ہو گئے۔ شادی کو چودہ پندرہ برس بیت گئے تھے اور میں اپنی زندگی کی خوشیوں گم تھی ۔ یہ واقعہ میرے ذہن کے تہہ خانے میں ڈوب گیا، لیکن رشیدہ اس بچے کی یاد کو اپنے دل سے نہ نکال سکی۔ قدرت کی کرنی کہ شادی کے بعد اس کے اولاد بھی نہ ہوئی اور نہ بخار میں افاقہ ہوا۔ وہ جب آتی ، مجھ سے اپنے اس بچے کا ذکر ضرور کرتی تھی ، جسے اس نے سات دن کا چھوڑا تھا اور پھر اس کی صورت بھی نہ دیکھ سکی تھی۔ جب رشیدہ بیمار تھی تو وہ اور زیادہ اس بچے کو یاد کر کے روتی تھی کیونکہ اس کے شوہر نے اولاد کی خاطر دوسری شادی کرلی تھی اور اس کی سوکن کے گھر میں اس کی نگاہوں کے سامنے پانچ بچے کھیلتے پھرتے تھے۔ خدا جانے یہ غم تھا یا وہ کسی دیرینہ بیماری کا شکار تھی، بہر حال اس کا انتقال ہو گیا۔ یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ، اگر وہ خط میں موصول نہ ہوتا ، جو رشیدہ کے اس محبوب نے مجھے لکھا تھا، جس کا بچہ ہم نے اس کے سپر د کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ لڑکا اب بڑا ہو چکا ہے اور اپنی ماں کو صرف ایک بار دیکھنا چاہتا ہے۔ شاید ماں بھی اپنے بچے کی صورت دیکھنے کو ترستی ہو، تو کیا تم ایک بار اور ترس نہ کھاؤ گی۔ ایک بار ترس کھا کر تم نے اس معصوم جان کی زندگی بچائی تھی اور اس کو اس کے باپ کے حوالے کر کے، اسے اس دنیا میں زندہ رہنے کا حق دیا تھا۔ کیا دوسری بار تم اس کو اس کی ماں کا چہرہ نہ دکھاؤ گی میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آخری دفعہ تم کو زحمت دے رہا ہوں، اس کے بعد میں اور میرا بیٹا اس ملک سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے، پھر بھی تم کو دوبارہ تنگ نہ کریں گے۔ یہ میرا وعدہ ہے، ایک احسان اور کر دو۔ اس شخص نے اپنا فرضی نام تحریر کیا تھا۔ اس نے خط کو کسی القاب کے بغیر ہی شروع کیا تھا، یعنی اوپر نہ تو میرا نام لکھا تھا اور نہ رشیدہ کا۔ شاید لکھنے والے نے اپنے طور پر احتیاط سے کام لیا تھا، مگر اس نادان شخص کی احتیاط میری زندگی برباد کر گئی۔ جب یہ خط میرے شوہر نے پڑھا تو وہ آگ بگولہ ہو گئے ۔ وہ یہی سمجھے کہ میں ماضی میں کئے گئے کسی گناہ کی قصور وار ہوں ۔ اس خط نے تو میرے گھر میں آگ لگادی۔ میری بے گناہی کا کوئی ثبوت، میرے پاس نہیں تھا۔ رشیدہ اور اس کی ماں فوت ہو چکی تھیں۔ میری امی بھی انتقال کر چکی تھیں ۔ ہمارے سوا اس راز کا امین وہی شخص تھا، جس نے وہ خط مجھے لکھا تھا۔ اس نے میرا پتا وہاں کسی رشتہ دار سے معلوم کر لیا تھا ، جہاں ہم ان دنوں مری شہر میں قیام پذیر تھے، تاہم اس نے اپنا پتا خط میں صرف یہ لکھا تھا کہ فلاں دن ، فلاں وقت ، فلاں جگہ ہم آئیں گے۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی ، صرف اس بچے کی خاطر کیونکہ اس کے گردے خراب ہو گئے ہیں ۔ ڈاکٹروں نے بیرون ملک علاج کرانے کا کہا ہے اور یہ ماں کی دعا لے کر کے جانا چاہتا ہے۔ اس فلاں جگہ، فلاں وقت میرے شوہر گئے، مگر ان کو کوئی نہ ملا کہ یہ ایک ریسٹورنٹ تھا۔ ہزاروں لوگ تھے ۔ ہجوم میں بھلا کون کس کے دل کی بات جان سکتا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے درشہوار کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ، وہ کہہ رہی تھی۔ میں رو رو کر پاگل ہوگئی۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں کہ مجھے اس شخص کا پتا نہیں معلوم ، مگر میرے شوہر نہ مانے۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ تم ہی اس بچے کی ماں ہو، ور نہ یہ شخص تمہارا پتا ڈھونڈ کر تم کو خط کیوں لکھتا ۔ رشیدہ کا قصہ ڈھونگ ہے ۔ تم اس شخص کا اتا پتا خوب جانتی ہو۔ آخر مجھے شوہر اور طلاق کے خوف سے زہریلی گولیوں کا سہارا لینا پڑا، کہ اب موت ہی میری بے گناہی کا ثبوت ہو سکتی ہے۔ درشہوار کی کہانی سن کر میں نے اسے تسلی دی اور ڈاکٹر صاحب کو اس کی کہانی سنائی ۔ انہوں نے اس کے گھر فون کیا ، پھر خود جا کر اس کے شوہر سے ملے اور اپنی مریضہ کی سچائی ثابت کرنے کی اس حد تک کوشش کی کہ اخبار میں اس خط کی چند سطور کے حوالے سے اشتہار دے کر اس شخص کا پتا مانگا اور اشتہار میں لکھا کہ ایک ماں اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے ہیں برس سے ترس رہی ہے۔ خدا را پتا بھیجئے تا کہ ملاقات کی سبیل پیدا ہو۔ اس اشتہار کی اشاعت کے پانچویں روز ایک خط در شہوار کے نام آیا، جو اس کے خاوند نے وصول کیا۔ اس میں اس شخص نے اپنا نام پتا درج کیا تھا اور در شہوار کو بہن کے لقب سے مخاطب کر کے خط کی ابتدا کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب در شہوار کے شوہر کو لے کر اس شخص سے ملے اور تمام حالات اس کی زبانی سنے، تب کہیں جا کر اس بے چاری خاتون کے شوہر صاحب کو اعتبار آیا اور پھر ڈاکٹر صاحب کی ذاتی کوشش سے ایک اجڑی ہوئی عورت کا گھر دوبارہ آباد ہو گیا ، جس نے شدید عالم مایوسی میں خودکشی کوشش کی تھی مگر اس کی زندگی باقی تھی ، سو وہ بچ گئی اور اپنے شوہر کے ہمراہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ خوش و خرم ہو گئی ۔ وہ جب تک زندہ رہے گی ، ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دیتی رہے گی۔ | null |
null | null | null | 171 | https://www.urduzone.net/ghayal-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 172 | https://www.urduzone.net/duaa-ki-qaboliyat/ | ساون کا مہینہ تھا۔ پل میں بارش ، پل میں دھوپ۔ تبھی ایک روز کالج جاتے ہوئے بارش نے آلیا۔ نپے تلے قدم اٹھاتی کالج جارہی تھی۔ سڑک پر ایک جگہ نشیب میں پانی جمع تھا، کسی منچلے نے تیزی سے گاڑی نکالی اور گدلے پانی کے چھینٹوں نے میرے اجلے یونیفارم کو خراب کر دیا۔ گھبرا کر مڑی تو پائوں رپٹ گیا اور میں پوری کی پوری اسی گدلے پانی میں جاپڑی۔ کار تو فراٹے بھرتی نکل گئی لیکن ایک نوجوان جو اس کار کے پیچھے آرہا تھا، اس نے اپنی بائیک روک لی اور آگے بڑھ کر مجھ کو اٹھنے میں سہارا دیا۔ کتابیں پانی میں جاپڑی تھیں ، ان کو چن کر اٹھایا۔ خفت سے اپنی چوٹ بھول چکی تھی۔ اس نے پوچھا۔ آپ ٹھیک تو ہیں چل سکتی ہیں آپ نے جانا کہاں ہے پہلے تو کالج جارہی تھی لیکن اب میں نے روہانسی ہو کر اپنے یونیفارم کو دیکھا جو بارش کے پانی سے چیزی پرنٹ ہو گیا تھا۔ اگر برا نہ مانیں تو آپ کے گھر تک ڈراپ کردوں مجھے لنگڑاتے دیکھ کر بولا ۔ واقعی مجھ سے چلا نہ جا رہا تھا۔ مجھے رکشہ لادیں، خود چلی جائوں گی۔ اس نے اپنی موٹر بائیک فٹ پاتھ پر ایک دکان کے چھجے کے نیچے کھڑی کر دی اور میرے لئے رکشہ لینے چلا گیا۔ میں اس کی بائیک کے پاس کھڑی تھی۔ دس منٹ بعد وہ رکشہ لے آیا۔ بڑی مشکل سے سوار ہوئی کیونکہ چوٹ درد کر رہی تھی۔ گھر پہنچی تو والدہ نے کہا۔ خیریت ہے ، واپس آگئی ہو ہاں امی جان بارش کی وجہ سے میرے کپڑے دیکھ کر سمجھ گئیں۔ سہارا دے کر پلنگ پر لٹایا۔ پین کلر دے کر میرے لئے چائے بنانے چلی گئیں۔ سارا دن اسی نوجوان کا خیال آتارہا، جو کہ خوش اخلاق تھا اور خوش شکل بھی اس کی نیکی سے دل متاثر تھا، جس نے مجھ کو چلتے ٹریفک میں مزید ہزیمت سے بچا لیا تھا۔ چوٹ لگنے کی وجہ سے تین روز تک کالج نہ جا سکی۔ تیسرے روز اسی جگہ اس کو کھڑے پایا، جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ میں نے شکریہ کہا تو پوچھا۔ اس روز گرنے سے آپ کو چوٹ آئی تھی، اب تکلیف تو نہیں ہے تین روز تک کالج نہیں آئیں۔ کیا تین روز تک آپ میری راہ دیکھتے رہے ہاں، میں تو پہلے بھی آپ کو دیکھتا رہا ہوں۔ دراصل میر ا دفتر بھی آپ کے کالج کے قریب ہے اور ہمارا راستہ بھی ایک ہے۔ اس روز پڑھائی میں جی نہ لگا۔ سوچ اس نوجوان کے خیال میں اٹکی تھی، جس نے میرے ساتھ بھلائی کی تھی۔ دل میں پچھتاوا تھا کہ اس کا نام ہی پوچھ لیتی کیونکہ وہ اچھا لگا تھا۔ خدا کی کرنی انہی دنوں والد صاحب کا تبادلہ ہو گیا اور ہم کو وہ شہر چھوڑنا پڑا۔ تبادلے کے بعد سامان کی پیکینگ ، پھر نئی جگہ ، نئے گھر میں شفٹنگ ۔ امی پر کام کا ایسا لوڈ پڑا کہ بیمار پڑ گئیں اور میں کالج میں دوبارہ داخلہ نہ لے سکی۔ بیماری تو ایک بہانہ تھی۔ ان کے اندر شاید پہلے سے ہی کسی مرض نے جڑ پکڑ رکھی تھی۔ جو نہی کام کا بوجھ پڑا ، مرض ظاہر ہوا اور رفتہ رفتہ بالآخر وہ ایک روز وہ ہم سے منہ موڑ گئیں۔ ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ جینا اور سانس لینا بھی ان کے بنا محال لگنے لگا۔ اب کالج کیسے جا سکتی تھی ، فوری طور پر گھر سنبھالنا تھا۔ چھوٹے دونوں بہن اور بھائی اسکول جاتے تھے۔ جب کبھی فرصت ملتی اسی نوجوان کا خیال آجاتا جو بارش والے دن میرے لئے رکشہ لایا تھا۔ دل میں کسک سی ہوتی تھی۔ سوچتی تھی کہ اے کاش ایک بار پھر ملوں۔ اس کا نام پوچھ لوں مگر ہم تو وہ شہر ہی چھوڑ آئے تھے لہٰذاد و بارہ اس سے مل سکی اور نہ ہی رابطہ ہو پایا کیو نکہ میرے پاس اس کا پتا نہ تھا۔ امی کی وفات کو تین برس گزر چکے تھے۔ چھوٹی بہن نے میٹرک کر لیا تو ابو کو میری شادی کی فکر ہو گئی۔ کچھ رشتے آئے بھی تو ان کو پسند نہ آئے۔ ایک روز خالہ لاہور سے پنڈی آئیں۔ انہوں نے ایک رشتہ والد صاحب کو بتایا کہ لڑکا بیرون ملک کام کرتا ہے۔ لڑکی کا نکاح ٹیلیفون پر قبول ہو تو یہ رشتہ بہت اچھا ہے۔ یہ ہمارے خالو کے رشتے دار تھے۔ تبھی خالہ نے اس رشتے کی ضمانت دی تھی۔ والد صاحب نے تصویر دیکھی، تفصیلات حاصل کیں اور رشتہ قبول کر لیا۔ یوں میرا انکاح ٹیلیفون پر ہو گیا۔ نکاح کے بعد بھی مجھے بیرون ملک جانے کے لئے ڈیڑھ برس انتظار کرنا پڑا۔ بالآخر انہوں نے میر اویز بھیجا اور میں اکیلی ہی روانہ کر دی گئی۔ شادی کا ہنگامہ اور نہ ڈھول، شہنائیاں بجیں، شاید کہ ایسی ہی رخصتی میری تقدیر میں تھی۔ جب ایئر پورٹ پر اتری عرفان کی تصویر ہاتھ میں تھی، لیکن ان کو پہچانتی نہ تھی۔ ان کے ہمراہ جو دوسرا شخص مجھے لینے آیا تھا، اس نے مجھے اور میں نے اسے پہچان لیا۔ بے اختیار ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ یہی الفاظ ادا ہوئے ۔ آپ عرفان نے حیرت سے ہم دونوں کو دیکھا اور بولے۔ تم دونوں تو ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے پہچانتے ہو، ہم یو نہی پریشان تھے۔ یہ دوسرا شخص عرفان کا چھوٹ بھائی فرقان تھا۔ وہی نوجوان جو بر سات کے دن ملاتھا اور میرے لئے رکشہ لایا تھا۔ جس کو دوبارہ دیکھنے کی آرزو دل میں کسک پیدا کرتی تھی اور آج دعا قبول ہوئی بھی تو کس موڑ پر، کسی رشتے سے کہ میں اس کی بھائی اور وہ میر ادیور تھا۔ پہلی نظر دیکھ کر تو سچ مچ حیران ہوئی۔ خوشی بھی ہوئی پھر نجانے کیوں دل بجھ سا گیا۔ وہ بھی مجھ سے بیگانہ سا اور ریز رو ہو گیا۔ جو سوالات ایئر پورٹ پر ذہن میں اٹھے تھے، گھر پہنچ کر ان کا جواب مل گیا۔ یہ کہ وہ عرفان کا چھوٹا بھائی ہے۔ ایف ایس سی کے بعد پڑھائی چھوڑ کر کوئی ڈپلوما کیا اور پھر عرفان صاحب نے اس کو اپنے پاس بلوا لیا۔ اب وہ بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تھا۔ دیور کے رشتے کو مانتے ہوئے میں نے اسی وقت ماضی کی آرزو کو اپنے سینے میں دفن کرنے کا تہیہ کر لیا کیونکہ اب میں عرفان کی منکوحہ تھی لیکن پہلے ہی دن میرے عہد کرنے کے باوجود شوہر کے دل میں شک پڑ گیا کہ ہم دونوں کیونکر ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تب ہم نے بات بنادی۔ ان کا دل مطمئن نہ کر سکی۔ اگرچہ فرقان نے اس روز کے بعد بلا ضرورت کلام ترک کر دیا تھا، مجھ سے کترانے لگا لیکن میرے سرتاج کے دل کے وسو سے نہ گئے اور وہ چپ چپ سے رہنے لگے۔ آخر ایک دن انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ تم شادی سے پہلے کسی سے پیار تو نہ کرتی تھیں، کسی سے ملتی تو نہ تھیں میں نے کہا۔ ہر گز نہیں۔ سوچا کہ شاید فرقان نے اپنے بھائی کو میرے بارے میں کچھ بتا دیا ہے تبھی میں نے بھی ان کو مطمئن کرنے کی خاطر بتادیا کہ ایک روز جبکہ صبح سویرے کالج جانے کو گھر سے چلی تھی، اچانک برسات ہونے لگی اور سڑک پر ایک جگہ نشیبی میں کچھ پانی جمع ہو گیا۔ ادھر سے گزرتے ہوئے ایک کار نے ٹکر مارنے کی کوشش کی اور میں گر گئی۔ چوٹ تو معمولی آئی مگر اس وقت کیچڑ میں گر جانے سے بھیگ گئی۔ ایک نوجوان نے رکشہ لا کر دیا اور میں گھر واپس چلی گئی۔ وہ نوجوان تمہارا بھائی فرقان تھا۔ وہ بولے ۔ اگر ایسی بات تھی تو پہلے ہی روز تم نے مجھے یہ سیارا قصہ کیوں نہ سنایا اور بات کو گول مول کر گئیں اس لئے کہ آپ مزید شک نہ کریں۔ بات اس سے زیادہ کچھ تھی بھی نہیں۔ کیا تم لوگ دوبارہ کبھی نہ ملے میں نے کہا۔ نہیں قسم کھائو، میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائو۔ تبھی میں ہچکچائی تو انہوں نے اس بات کا اور غلط مطلب لے لیا۔ ان کا دل گھٹ گیا، مگر خاموش ہو گئے جیسے کسی مصلحت سے کام لے رہے ہوں۔ اب ان کارویہ میرے ساتھ سرد مہری اور بے دلی کا سارہنے لگا۔ یہ بات بہت تکلیف دیتی تھی۔ چاہتی تھی کسی طرح ان کا دل میری طرف سے صاف ہو جائے کیونکہ میر ا فرقان کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہ رہا تھا کہ کسی کو اعتراض ہوتا۔ حقیقتا بس دو چار بار راستے میں ملے تھے اور کچھ خاص بات نہ تھی۔ مجھے تو اس کا نام تک معلوم نہ تھا، کسی برائی میں پڑنا تو دور کی بات تھی۔ جب غلط فہمی دل میں جنم لے لیتی ہے تو پھر اسے دور کر نالازم ہو جاتا ہے ، ورنہ کون کسے سمجھا سکتا ہے، مگر میں شوہر کی معنی خیز خاموشی کا جواب خاموشی سے دے رہی تھی۔ از خود اپنی صفائی پیش کرنے سے جی ڈرتا تھا۔ جانتی تھی کہ ایک نامعلوم اندیشے کی بنا پر میرے شوہر خواہ مخواہ شک کا شکار ہیں اور وہ بھی ایک مقدس رشتے کے بارے میں۔ یہ صورتحال کسی کے لئے بھی زیادہ عرصے تک نا قابل برداشت تھی، تبھی ایک روز میں نے فرقان سے کہا۔ تم کہیں چلے جائو ، خدارا اور کوئی نوکری تلاش کر لینا تا کہ میرا گھر تباہ ہونے سے بچ جائے اور تمہارے بھائی کو بھی سکون مل جائے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ ایک دن وہ اپنے بھائی کو خدا حافظ کہے بغیر چلا گیا۔ ایئر پورٹ سے فون کر کے عرفان کو کہا کہ جلدی میں تھا، ضروری جانا پڑ رہا ہے۔ کمپنی بھجوار ہی ہے لہٰذا آپ کو خدا حافظ نہیں کہہ سکا۔اب میں شاید ہی لوٹ کر آئوں۔ جہاں کمپنی چاہے گی، تعینات کر دے گی۔ جانتی تھی کہ یہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ وہ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ واپس لانے کو یہاں سے چلا گیا ہے۔ جلد ہی پتا چل گیا کہ وہ نوکری سے استعفیٰ دے گیا ہے۔ اس کے جانے سے تھوڑا سا کھلا سانس لیا، مگر پھر میرے دل پر مردنی چھا گئی کیونکہ ناحق اسے سزاوار کرنے کا قلق تھا۔ قلق بھی جاتارہتا اگر فرقان کے چلے جانے سے عرفان کو خوشی اور سکون مل جاتا۔ایسانہ ہو سکا اور ان کو خوشی پھر بھی نہ ملی، شاید کہ فرقان کے یوں چلے جانے کا انہیں بھی قلق ہوا تھا۔ آخر کار ایک روزانہوں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا۔ سچ بتادو کیا تم شادی سے قبل فرقان سے ملا کرتی تھیں، کیا تم دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ تھا ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں قسم کھاتی ہوں، پھر بھی یقین نہیں تو بھی معاف کر دیجئے کہ مجھ سے اب یہ گھٹن برداشت نہیں ہوتی۔ انہوں نے یقین نہ کیا۔ ان کا رویہ میرے ساتھ بیگانہ تر ہوتا چلا گیا۔ تکلیف دہ حد تک خاموشی ہر وقت گھر میں براجمان تھی۔ یہاں تک کہ وہ مجھ سے ہنس کر اور میں ان سے مسکرا کر بات کرنے کو ترسنے لگے ، جیسے کوئی شیطانی قوت ہمارے درمیان جدائی کی چادر تانے کھڑی تھی۔ کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے ایک عورت سے دوستی کر لی اور اب وہ زیادہ وقت باہر گزارنے لگے ، جبکہ میں دن بھر قیدی کی مانندا کیلی گھر میں رہتی تھی۔ اپنی اس زندگی سے تنگ تھی۔ وطن جانے کو کہتی تو عرفان بھڑک اٹھتے کہ کس سے ملنے کی آرزو ہے، کس کی یاد تم کو بلاتی ہے۔ میں نے اپنے شوہر کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہی۔ پاکستان سے کبھی کبھی فرقان کا خط آجاتا، یہ جواب نہ دیتے۔ وہ خدا کے واسطے دیتا کہ بھائی جان میرا قصور تو بتادیجئے جو مجھ کو جواب نہیں دیتے لیکن اس پتھر دل پر کچھ اثر نہ ہوا۔ واقعی عرفان ایک پتھر دل انسان تھا۔ ہماری کوئی بھول نہ تھی، پھر بھی ہم کو ایسی سزادی کہ جس کو سہنا ہمارے بس کی بات نہ رہی۔ انہوں نے یہ ستم بھی ڈھایا کہ ایک عورت سے دوستی کر لی۔ اس سے فون پر باتیں کرتے اور ملنے کا وقت مقرر کرتے۔ کوئی خطانہ کر کے بھی ایسی پاپن بن گئی تھی کہ ان کے سب گناہ و ثواب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور اف نہ کر سکتی تھی۔ وطن کو چھوڑے چار سال بیت گئے تھے۔ گو د ہری ہوئی اور نہ وطن جا سکی۔ اب مجھے ابو اور بہن بھائی کی یادستاتی تھی۔ جی چاہتا وہ آجائیں یا میں ہی اڑ کر ان کے پاس پہنچ جائوں۔ دن رات دعا کرتی۔اے اللہ کوئی معجزہ ہو جائے اور میں پاکستان چلی جائوں۔ دعا تو قبول ہو گئی مگر جو وطن جانے کا سبب بنا اچھانہ تھا۔رضائے الٰہی سے ہماری ساس کا انتقال ہو گیا۔اب تو وطن جانا ہی تھا۔ عرفان نے فوری چھٹی لی اور ہم پاکستان آگئے۔ میرے ابو بھی فوتگی پر آئے، ایک روز رہ کر چلے گئے۔ پندرہ دن بعد دوبارہ آئے تعزیت کرنے کے بہانے اور عرفان سے کہا کہ جب سے ہم نے اپنی بیٹی تمہارے ساتھ بیاہی ہے ، اس کو دوبارہ میکے آنا نصیب نہیں ہوا۔ آج اسے لے جانا چاہتا ہوں تا کہ فلزا چند روز میرے پاس بھی رہ لے۔ بہن اور بھائی سے ملے۔ امی کا چالیسواں ابھی نہیں ہوا ہے اور یہ گھر سے جارہی ہے ، ہمارے رشتے دار کیا کہیں گے کہ بہو آتے ہی میکے چلی گئی۔ آپ اس کو چالیسویں تک یہاں ہی رہنے دیجئے۔ میں خود بعد میں آپ کے گھر آجائوں گا، فلزا کو ساتھ لے کر۔ ابو داماد کا یہ عذر سن کر خاموش ہو گئے۔ چالیسواں گزرا تو چھٹی میں ایک ہفتہ رہ گیا۔ عرفان کو واپس جانا تھا۔ابو نے فون کیا۔ تمہاری چھٹی ختم ہو رہی ہے ، فلزا کو ہمیں ملوانے کب لائو گے مارے باندھے یہ مجھے لاہور سے پنڈی ابو کے گھر لے آئے لیکن ایک روز کے لئے کہا کہ بہن، بھائی سے مل لو پھر واپس چلتے ہیں۔ یہ سن کر میں روپڑی۔ابو نے مجھے از حد افسردہ پاکر عرفان سے اصرار کیا کہ ابھی اسے رہنے دو۔ دو چار روز بعد میں خود چھوڑ جائوں گا۔ عرفان مجبور سے ہو گئے۔ ابو کے تیور کڑے دیکھ کر دم نہ مار سکے لیکن جاتے ہوئے تنہائی میں بولے۔ دیکھو یہ معاملہ الجھ جائے گا۔ اگر ابھی تم میرے ساتھ نہ چلیں۔ جان لو کہ میں پھر کبھی تم کو لینے نہیں آئوں گا۔ اس خیال سے کہ یہ نہ بھی آئے، ابو مجھے سسرال پہنچادیں گے۔ میں نے کہا۔ جو بھی ہو، ابھی تو میں میکے میں دو چار دن رہوں گی۔ بہن اور بھائی سے عرصے کی جدائی ہے ، جی بھر کے باتیں بھی نہیں کر سکی۔ سوچ لوا گر معاملہ سنجیدہ ہو گیا تو پھر مت پچھتانا۔ آپ کی بات کا مطلب میں سمجھی نہیں۔ جانتا ہوں میرے بغیر رکنا چاہتی ہو، پاکستان آنے کے لئے تم بے قرار تھیں، نجانے کس سے ملنے کی آرزومند ہو۔ انہوں نے فرقان کا نام نہ لیا مگر میری سمجھ میں پھر بھی نہ آیا کہ جب فرقان اپنی والدہ کی وفات پر بھی اپنے گھر لاہور نہیں آیا تو پھر یہ کس کی بابت شک و شبے کا اظہار کر رہے ہیں۔ عرفان نے ان پانچ برسوں میں مجھے اس قدر اذیت دی تھی کہ بے اختیار منہ سے نکلا۔ جو ہونا ہے ہو جائے ، مجھے پر وا نہیں ہے۔ اب مزید ذہنی اذیت برداشت نہیں ہوتی۔ یہ الفاظ سنتے ہی خاموشی سے اپنا بیگ اٹھا کر بغیر کسی کو خدا حافظ کہے گھر سے چلے گئے۔ اگلے روزانہوں نے دیارِ غیر واپسی کے لئے پر تولے اور پھر بغیر ہم کو اطلاع کئے وطن سے روانہ ہوگئے، جیسے کہ مجھ کو چھوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ چار دن بعد میں نے ابو سے کہا۔ مجھے گھر چھوڑنے چلئے۔ وہ بولے۔ ارے بھئی ایک ہفتہ پوراتو ر ہو، میں عرفان سے بات کر لیتا ہوں۔ ابو نے فون ملایا۔ ہمارے سسر صاحب نے اٹھایا اور بتایا کہ عرفان واپس چلا گیا ہے۔ یہ سن کر والد صاحب پریشان ہو گئے۔ مجھ سے سوال کیا۔ آخر اس نے ایسا کیوں کیا، کیا کوئی خاص مسئلہ تھا، تم دونوں کے درمیان کوئی بدمزگی چل رہی تھی میں کیا بتاتی۔ ابو کچھ بھی ایسی بات نہ تھی شاید ان کو اپنی جاب کی وجہ سے جلد جانا پڑ گیا ہو گا۔ والد صاحب جہاندیدہ تھے، عرفان کا رویہ، میراخوف زدہ چہرہ اور میری گرتی صحت اس بات کی چغلی کھارہی تھی کہ کوئی سنگین بات ہے جو میں ان سے چھپارہی ہوں۔ دیکھو بیٹی مجھ سے کچھ مت چھپاؤ اور ہر بات سچ سچ بتادو، اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ابو کو میں نے بتادیا کہ عرفان شکی مزاج ہیں اور وہ مجھ پر شک و شبہ رکھتے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ والد نے زیادہ کرید نامناسب نہ سمجھا۔ وہ مجھ کو مزید پریشان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ تبھی انہوں نے عرفان کو فون کیا۔ عرفان نے بھی اپنے ذہن کے اندرونی خلفشار کے بارے میں روشنی نہ ڈالی۔ بس اتنا کہا۔ آپ کی بیٹی میرے ساتھ خوش نہیں ہے۔ اسی لئے میں اس کو طلاق دے رہا ہوں اور چند دنوں بعد طلاق کے کاغذات بھیجوا دیئے گئے۔ میں بے قصور سزاوار ہو گئی۔ گھر اجڑ جانے کا دکھ کس کو نہیں ہوتا، مجھے بھی بے حد ہوا لیکن کیا کر سکتی تھی، شاید کہ یہ میری تقدیر کا لکھا تھا جو پورا ہو کر رہا۔ اپنی بد نصیبی سے سمجھوتہ کر لیا۔ سال بعد والد صاحب نے نکاح ثانی کے لئے کہا تو میں نے ہاتھ جوڑ لئے کہ اب مجھے دوبارہ اس تجربے سے نہیں گزرنا۔ ایک ہی شادی کافی ہے میرے لئے ۔ آپ کو میری ضرورت ہے۔ ماہم بیاہ کر چلی جائے گی، بھائی بھی اپنی بیوی کے ساتھ مصروف زندگی ہو جائیں گے۔ آپ کا کیا بنے گا۔ بڑھاپے میں اپنی خدمت سے محروم نہ کیجئے۔ اکلوتی بہو اتنا خیال کرے نہ کرے جس قدر میں کروں گی۔ وقت گزرنے لگا۔ ماہم کی شادی ہو گئی اور وہ آسٹریلیا چلی گئی۔ میرا بھائی بھی اب شادی شدہ تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنی بیوی کے ہمراہ سعودی عربیہ چلا گیا۔ گھر میں ابو اور میں رہ گئے ۔ ابو بیمار رہنے لگے تھے ،ان کو واقعی میری ضرورت تھی اور میں خوش تھی کہ اللہ نے والد کی آخری عمر میں مجھ کو خدمت کی سعادت نصیب کی ہے۔ والد کا بہت خیال رکھتی تھی اور دیکھ بھال میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتی۔ ان کو میری بے حد فکر تھی۔ بیٹھے بیٹھے ٹھنڈی آہ بھرتے اور دعا کرتے۔ اے خالق دو جہاں میری زندگی میں ہی فلزا کو اپنے گھر کی خوشیاں نصیب ہوں۔ ایک روز اچانک ایک بری خبر سنی۔ یہ اطلاع دینے ہمارے سسر اور ساتھ فرقان آئے تھے۔ انہوں نے ابو کو بتایا کہ عرفان کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا ہے۔ دیارِ غیر سے میت آرہی ہے۔ میں خاص طور پر خود آیا ہوں کیونکہ میری روح دکھ سے بے قرار و بے چین ہے۔ عرفان اللہ کی امانت تھی، اس نے سنبھال لیا لیکن مجھ کو فلزا کی طلاق کا از حد رنج ہوا تھا اور آج بھی وہ رنج دل میں موجود ہے۔ گرچہ طلاق کا فیصلہ عرفان کا اپنا تھا، ہم کو اس نے اس فیصلے میں شامل نہیں کیا، پھر بھی میں بیٹی فلز اسے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ اس کو بے قصور طلاق ہو گئی ہے اور مجھے فرقان نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اس واقعہ کو دو سال گزر گئے۔ والد صاحب اب بہت زیادہ بیمار تھے۔ ہمارے سسر کبھی کبھی ابو سے بات کرتے اور خیریت بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ جب علالت کی شدت کا سنا تو ایک روز خود عیادت کو آگئے۔ والد صاحب ان کو دیکھ کر رو پڑے کہ میں تو دم رخصت ہوں، میرے بعد فلزا کا کیا ہو گا سسر صاحب نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دی اور کہا۔ اگر مجھ پر بھروسہ اور فرقان پر اعتماد کرو تو فلزا کا ایک بار پھر ہاتھ مانگتا ہوں۔ عرفان نے غلطی کی اور اب وہ اس دنیا میں بھی نہیں ہے۔ فلزا کو بیٹی بنایا تھا، آج بھی میری بیٹی ہے۔ والد صاحب نے نے بھی ملتجی نگاہوں سے میری جانب دیکھا، جیسے کہتے ہوں۔ بیٹی مجھ پر رحم کھا کر ہی اس فیصلے کو قبول کر لو کہ یہ تمہارے حق میں اچھا ہے اور میں بھی سکون سے مر سکوں گا۔ سسر صاحب نے بھی مجھ سے استدعا کر دی کہ بیٹی اب تو فیصلہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ فرقان نے بھی ابھی تک شادی نہیں کی ہے ۔ تم ایک بار پھر ہمارے گھر کی رونق بن سکتی ہو۔ کہا گیا ہے کہ باپ کی دعا قبول ہوتی ہے اور بیمار کی بھی اور اس شخص کی بھی جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہو۔ اپنے والد کی حالت دیکھتے ہوئے مجھے انکار کی جرات نہ ہوئی۔ فرقان سر جھکائے بیٹھا تھا اور پھر میں نے بھی اپنے دونوں بزرگوں کی التجا پر سر جھکا لیا۔ شاید کہ میری شادی فرقان سے لکھی تھی کہ اتنے کٹھن مراحل سے گزر کر بھی میں ان کی شریک حیات بن گئی۔ اسی گھر میں دوبارہ بہو کی حیثیت سے داخل ہو گئی جہاں پہلے ایک بار دلہن بن کر گئی تھی۔ میرے فرقان سے نکاح کے چوتھے روزا با جان کا انتقال ہو گیا۔ان کے چہرے پر ایسا سکون تھا جیسا ان لوگوں کے چہروں پر ہوتا ہے جن کی دعا زندگی کی آخری سانس لینے سے پہلے قبول ہو جاتی ہے۔ | null |
null | null | null | 173 | https://www.urduzone.net/naeki-ka-sila/ | ییٹا میری کچھ مدد کر دو میرا بٹوہ کھو گیا ہے ۔ مجھے گھر جانا ہے، میرے پاس کرایے کے پیسے نہی ہیں، مجھے صرف ڈیڑھ سو روپے چا ہئیں ۔ دوائیوں کی لائن میں لگی عورتوں سے وہ ضعیف عورت کہ رہی تھی ۔ کسی نے دس روپے ، کسی نے بیس روپے دیئے۔ کچھ کہنے لگیں۔ ان عورتوں کے پاس بھی مانگنے کے نت نئے طریقے ہوتے ہیں۔ ہم تو خود پریشان ہیں ۔ فاطمہ نے بھی پچاس روپے دیئے۔اماں آپ کے پاس فون نمبر نہیں ہے میں فون کر دیتی۔ کوئی آپ کو آپ کے گھر سے لینے آجاتا ۔ فاطمہ نے اس عورت سے پوچھا۔ بیٹا نمبر بھی میرے بٹوے میں تھا۔ پتا نہیں پرچیاں نکالتے ہوئے بٹوہ گر گیا ۔ وہ عورت بولی۔ فاطمہ بھی دوائیوں کی لائن میں لگی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہی اماں ایک کونے میں پریشان کھڑی اپنے آنسو صاف کر رہتی ہیں۔ اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس نے اشارے سے اماں کو اپنے پاس بلایا۔ اماں آپ کے پیسے پورے نہیں ہوئے بیٹا پیسے تو پورے ہو گئے۔ اب دوا کے لیے کھڑی ہوں ۔ جو آتا ہے مجھے دھکیل کر آگے آجاتا فاطمہ نے اسے دوائیاں لے کر دیں تو وہ عورت فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیروں دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوگئی۔ دوائیوں وغیرہ سے فارغ ہو کر ایک جگہ بیٹھ کر فاطمہ نے کیک کا پیکٹ نکالا کھانے کے لیے چونکہ سرکاری اسپتالوں میں بچ جلدی جانا ہوتا ہے، اکثر جلدی میں وہ بغیر ناشتے کے نکل جاتی تھی۔ صرف جائے پی کر جیسے ہی کیک نکالا برابر میں بیٹھا بچہ دیکھنے لگا۔ وہ اس نے اسے دے دیا۔ بچے کو مسکراتا دیکھ کر اس کے دل میں ڈھیروں سکون اور اطمینان اتر آیا۔ ناشتہ تو میں گھر جا کر بھی کرلوں گی ۔ فاطمہ نے اسپتال سے باہر آتے ہوئے سوچا۔ باہر آ کر رکشہ دیکھنے لگی، چونکہ اسپتال کے باہر واپسی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ملتی ، صدر آ کر ہی ملتی ہیں۔ بھائی صدر جانے کے کتنے لوگے کوئی بولا دو سو کسی نے ڈیڑھ سو بتائے ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ بھی رکشہ دیکھ رہی تھی جب وہ رکشہ میں بیٹھ گئی تو فاطمہ کو آواز دی سنیں آپ ادھر آجا ئیں۔ مجھے بھی صدر جانا ہے ۔ اس اسٹوڈنٹ نے فاطمہ سے کہا۔ یہ کتنا کرایہ لے رہے ہیں فاطمہ نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے پوچھا آدھا میں دے دوں گی ۔ کوئی نہیں آپی کرایہ میں دے دوں گی۔ مجھے تو ویسے بھی جانا تھا۔ آپ بھی بیٹھ گئیں تو کیا ہوا ۔ فاطمہ نے بہت زور دیا مگر وہ اسٹوڈنٹ نہیں مانی کرایہ اس نے ہی دیا۔ آپی آپ بس دعا کرنا میرے پیپر اچھے ہوں ۔ اس طالبہ نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ۔ بیٹا ضرور اللہ تعالیٰ تمہیں ہر امتحان میں کامیاب کرے فاطمہ نے بھی مسکراتے ہوئے اسے الوداع کہا اور بس میں بیٹھی۔ اسے اپنی دوست نازی کے پاس جا نا تھا وہ عدت میں تھی ، وہ گھر پر بتا کر آئی تھی، کہ وہ نازی سے ملتی ہوئی آئے گی۔ صبح نو بجے سے گھر سے نکلی ہوئی دو پہر دو بج گئے ۔ اسٹاپ پر سوچا کچھ کھالوں، بھوک لگ رہی ہے۔ پھر سوچا روزے رکھتے ہیں تب بھی تو صبر ہوتا ہے۔ اب اپنے گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔ راستے میں اس نے فروٹ اور چیزیں لیں، نازی کے گھر پہنچی تو تین بج گئے تھے۔ اب پہنچی ہیں آپ کہاں رہ گئی تھیں۔ میں بارہ بجے سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں ۔ نازی نے گلے ملتے ہوئے کہا۔ اس نے فون پر صبح بتا دیا تھا اسپتال سے واپسی پر تمہاری طرف ہوتی ہوئی آؤں فون کہاں ہے آپ کا نمبر بند جا رہا تھا ۔ نازی نے کہا۔ چار جنگ ختم ہوگئی ، صبح جلدی جلدی میں چارج نہیں کیا ۔ میں پریشان ہوگئی راستے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی تھی ہاں آج کچھ زیادہ دیر ہوگئی ۔ اب کیا بتاتی کہ کسی کو پانی لا کر دیا۔ کسی کو چائے ناشتہ لا کر دیا کسی کا بیٹھ کر دکھ درد سنا ۔ آپ منہ ہاتھ دھولیں۔ میں کھانا نکال رہی ہوں۔ نازی اٹھتے ہوئے بول۔ میں کھانا گھر جا کر کھاؤں گی تم بس چائے پلا دو ۔ سر میں درد ہو گیا ۔ چپ کر کے بیٹھ جائیں آپ ، آپ کے انتظار میں نہ ہم نے ناشتہ کیا اور نہ ہی کھانا کھایا ۔ نازی نے مصنوعی غصے سے کہا۔ فاطمه کنزا نازی کی بیٹی سے اس کی پڑھائی وغیرہ کے متعلق پوچھنے لگی ۔ تم لوگ کھانا تو کھا لیتے۔ اتنا ٹائم ہو گیا ۔ فاطمہ نے پیار سے کہا۔ بس سوچا آپ آئیں گی تو آپ کے ساتھ ہی کھائیں گے۔ کنز امعصومیت سے بولی۔ نازی کھانا لے آئی۔ چکن بریانی، راستہ ، سلاد پانی لا کر رکھا ، فاطمہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ نازی یہ سب کیا ہے۔ تم عدت میں ہو۔ اتنی تکلف کیوں کى میں تو جو مل جائے خوشی سے کھا لیتی ہوں۔ نہیں آپ کھانا کھائیں وہ نازی کے شوہر کہتے تھے کہ آپ کو بریانی بہت پسندہے۔ نازی کے شوہر فاطمہ کی خالہ کے بیٹے تھے۔ تینوں نے نم آنکھوں سے کھانا کھایا، ناز یہ شہزاد کی باتیں کرنے لگی۔ مما آپ آنٹی کو اداس نہ کریں۔ کنزا نے فاطمہ کی نم آنکھیں دیکھیں تو بولی۔ ارے بیٹا کیسی بات کر رہی ہو تم ، نازی مجھ سے نہیں کہے گی تو اور کس سے کہے گی۔ میں اس کی دوست ہوں۔ بس آنٹی ہمارے رونے سے اداس ہونے سے پاپا تو واپس نہیں آئیں گے ورنہ سب سے زیادہ میں روتی ہوں ۔ ہم خوش رہیں گے تو پاپا بھی خوش ہوں گے۔ واقعی آج کل کے بچے بہت سمجھ دار با ہمت اور بلند حوصلہ کے ہیں۔ فاطمہ نے کنز ا کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ اچھا میری اماں اب تم جاؤ ۔ کو چنگ کے لیے دیر ہو جائے گی ۔ فاطمہ نے اس کو پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ آنٹی میری واپسی تک آپ نے آج جانا نہیں ہے ۔ بیٹا میں پھر آؤں گی صبح سے نکلی ہوئی ہوں۔ تمہارے انکل کا جاب پر جانے کا وقت ہو رہا ہے اور پھر بچوں کو ٹیوشن بھی بھیجتا ہے۔ رک جائیں نا تھوڑی دیر سے چلی جائیے گا، باتیں کریں گے ابھی تو دل بھی نہیں بھرا۔ نازی نے بھی اصرار کیا۔ واپسی پر فاطمہ یہی سوچتی ہوئی آئی ، اللہ کی ذات کتنی بڑی ہے ۔ ہم کسی کے ساتھ نیکی کریں تو کہیں نہ کہیں ہمارے راستے آسان ہو رہے ہوتے ہیں۔ نیکی کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور ان شا الله اللہ تعالی آخرت میں بھی اجر عطا فرمائے گا۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 174 | https://www.urduzone.net/sone-ka-lalach/ | میری ایک ہی خالہ تھیں۔ امی سے چھوٹی تھیں، تبھی ہم ان کو چھوٹی خالہ کہا کرتے تھے۔ بہت پیاری صورت اور من موہنی شخصیت کی مالک تھیں، وہ ہم سے اور ہم ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی شادی ہوئی تو امی جان نے انہیں جہیز میں کافی کچھ دیا چو نکہ نانا جان وفات پاچکے تھے اور ماموں ہم لوگوں کی بات نہ پوچھتے تھے۔ وہ ایک امیر گھرانے کے گھر داماد ہو گئے تو ہم سے رشتہ ناتا ختم کر دیا۔ یوں ایک طرح سے چھوٹی بہن کی شادی کا فرئضہ امی جان نے ادا کیا۔ صد شکر کہ خالہ کی شادی اچھے گھرانے میں ہو گئی۔ بے حد شریف لوگ تھے۔ سفید پوش تھے اور مختصر فیملی تھی۔ ہم خالہ سے ملنے جاتے تو وہ بہت ہماری قدر کرتے۔ مقدور بھر خاطر مدارت کرتے اور گویا بچھ بچھ جاتے تھے۔ مجھے خالہ کے سسرال والے اچھے لگتے۔ وہاں ہم لوگوں کو محبت اور عزت ملتی۔ امی جان، خالہ کی طرف سے مطمئن ہو گئیں کہ وہ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ کہتے ہیں کہ خوشیوں کے دن سدا نہیں رہتے ، یہی ہماری خالہ جان کے ساتھ ہوا۔ خدا کی کرنی، ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی کہ خالو جان کا عین جوانی میں ہارٹ فیل ہو گیا اور ہماری پیاری چھوٹی خالہ بھری جوانی میں بیوہ ہو گئیں۔ وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔ بیٹی چھ سال کی اور بیٹا احمد ابھی آٹھ برس کا تھا۔ دونوں ہی پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے۔ نانی جان نے کافی سمجھایا کہ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے اور زندگانی کاسفر لمبا ہے۔ نکاح ثانی کر لو، بچوں کو بھی تحفظ مل جائے گا اور میں سکون سے مر سکوں گی۔ خالہ نے انکار کر دیا، نجانے دوسرا شوہر کس قماش کا ہو۔ خالہ کے ساس سسر بوڑھے تھے۔ نندیں بیاہتا تھیں۔ چھوٹی خالہ نے اپنے ضعیف ساس سسر کو تنہا چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ خالو کا مکان ذاتی تھا جس میں یہ لوگ رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چلتی ہوئی کتابوں کی دکان تھی جس کو ان کے چھوٹے دیور نے سنبھال لیا۔ یوں ان کی گزر بسر بہ دستور سفید پوشی میں ہوتی رہی اور ان کے دونوں بچے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ نسیمہ اور احمد جوان ہو گئے اور انہوں نے تعلیم مکمل کر لی۔ نسیمہ کی شادی اس کی پھپھو کے گھر ہو گئی اور احمد نوکری کی تلاش میں سر گرداں پھرنے لگا کہ بیوہ ماں کو سکھ پہنچا سکے۔ میں دسویں جماعت میں تھی، ہم اب بھی خالہ کے گھر جاتے اور میں احمد سے ملتی، باتیں کرتی۔ ہمارے درمیان پسندیدگی کارشتہ استوار ہو گیا۔ یہ والدہ نے محسوس کر لیا، تبھی دونوں بہنوں نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا اور میری نسبت احمد سے ٹھہرادی گئی۔ جن دنوں بی اے کے فائنل ایئر میں تھی، والد صاحب بیمار پڑ گئے۔ ان کے علاج پر کافی خرچہ آیا جس کی وجہ سے ہمارے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو گئے۔ ضرورت وقت کے تحت والدہ نے مکان کے درمیان دیوار اٹھا کر گھر کا آدھا حصہ کرائے پر دے دیا۔ ہمارے کرایہ دار کا لڑ کا فہد خوبرو نوجوان تھا۔ وہ پہلے ہی روز اچھا لگا۔ ہم ان کے گھر جاتے اور وہ ہمارے گھر آتے ۔ رفتہ رفتہ میں اور فہد ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے ۔ بی اے کے فائنل پرچے ہونے والے تھے۔ امتحان کی تیاری کے لئے اپنی ایک کلاس فیلو مدیحہ کے گھر روز شام کو جانے لگی۔ اس کا گھر ہمارے مکان کے عقب میں تھا۔ مدیحہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور اس کے والد بیرون ملک رہتے تھے۔ گھر میں صرف یہ ماں بیٹی ہوتیں۔ جب میں ان کے گھر جاتی، اکثر ان کی والدہ سوئی ہو تیں یا پھر ملنے ملانے اپنے رشتہ داروں کے یہاں گئی ہو تیں۔ مدیحہ ایک لاابالی سی لڑکی تھی مگر سنجیدگی سے پڑھائی کرتی۔ وہ کلاس میں اچھی پوزیشن لیتی تھی، خاص طور پر انگریزی میں شاندار نمبر آتے۔ میں اس سے مدد لیا کرتی۔ فہد کو علم ہوا کہ میں اپنے گھر کے عقبی مکان میں روز جاتی ہوں تو وہ وہاں آنے لگا۔ گلی میں ٹھہر کر میرا انتظار کرتا، میں اس سے کہتی جب ہم گھر میں باتیں کر سکتے ہیں تو تم یہاں آکر کیوں کھڑے ہوتے ہو۔ بلاخراس نے بتادیا کہ اس گلی میں ایک مکان ہے جو خالی پڑا ہوا ہے ، اس گھر کی چابی میرے پاس ہے۔ وہ کس کا مکان ہے اور تمہارے پاس چابی کیسے ہے کبھی ہم دوست یہاں گپ شپ کرنے آ بیٹھتے ہیں۔ اپنے دوستوں کا انتظار کرتا ہوں۔ مکان کے مالک ابو کے دوست ہیں جو ان دنوں بیرون ملک گئے ہوئے ، مکان کی چابی ابو کو دے گئے ہیں۔ میں کبھی کبھی وہ چابی ان کی الماری سے اٹھا کر یہاں آجاتا ہوں اور اپنے نوکر سے صفائی کرا دیتا ہوں۔ یہ کام ابو نے میرے ذمے لگادیا ہے کیونکہ ان کو فرصت نہیں ملتی۔ اس نے بتایا۔ ایک دن وہ بدستور پچھلی گلی میں ملا۔ مجھے دیکھ کر ٹھہر گیا اور بولا۔ کیا تم ابو کے دوست کا مکان دیکھو گی بہت خوبصورت ہے اندر سے ، اس قدر شاندار ہے کہ دیکھو گی تو حیران رہ جائو گی۔ میں نے تجسس کے مارے کہا۔ اچھاد کھائو تو اس نے گیٹ کھولا اور مجھے اندر لے گیا۔ واقعی مکان بہت شاندار تھا۔اعلیٰ فرنیچر اور بیرون ملک سے لائی گئی سجاوٹ کی عمدہ اور قیمتی چیزیں تھیں۔ ہم چند منٹ وہاں بیٹھے اور پھر باہر آگئے ، میں اپنے گھر چلی گئی۔ وہ گیٹ کو تالا لگانے کے لئے وہیں رک گیا۔ مجھے علم نہ ہوا کہ ہم دونوں کو خالی مکان کے اندر جاتے اور اکٹھے باہر آتے ہمارے ایک پڑوسی کے نوکر نے دیکھ لیا ہے۔ اس نے ابو کو بتادیا کہ آپ کی بیٹی آپ کے کرایہ دار کے لڑکے کے ساتھ پچھلی گلی کے خالی مکان میں گئی تھی، میں نے خود دونوں کو وہاں جاتے دیکھا ہے۔ والد صاحب یہ سن کر آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے اطلاع دینے والے شخص سے منت کی کہ اس بات کا کسی سے تذکرہ نہ کرے۔ آتے ہی انہوں نے کرایہ دار کو مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا اور میرا بھی مدیحہ کے گھر آنا جانا بند کرادیا۔ کہا کہ بی اے کے پرچے دے کر اب تم گھر بیٹھ جائو گی۔ چھ ماہ تک اسے فون نہ کیا تھا۔ احمد کی نوکری لگ گئی۔ اگرچہ معمولی ملازمت تھی لیکن وہ بہت خوش تھا، تبھی خالہ بار بار آنے لگیں۔ وہ شادی کی تاریخ لینے آئیں۔ ان کے ساس سسر بوڑھے اور بیمار تھے۔ چاہتی تھیں کہ یہ دونوں بزرگ، پوتے کی شادی کی خوشی دیکھ لیں۔ ایک روز بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ خالہ تاریخ لینے آرہی ہیں، بالآخر ایک روز تاریخ رکھ دی جائے گی اور میں ہمیشہ کے لئے احمد کی ہو جائوں گی۔ شادی کے بعد تو فہد سے فون پر بات کرنا ممکن نہ ہو گا، کیوں نہ آخری بار فون کر کے اسے بتادوں کہ میں بابل کے گھر سے رخصت ہونے جارہی ہوں۔ اسی دن مدیحہ کے گھر چلی گئی اور اس کے گھر سے فہد کے دیئے ہوئے نمبر پر فون ملادیا۔ اتفاق کہ اس کے دوست نے اٹھالیا۔ بولا، آپ کو ثر بات کر رہی ہیں۔ اچھا ہوا کہ آپ کا فون آگیا، فہد آپ کو بہت یاد کر رہا ہے۔ دراصل اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ، وہ زخمی ہے اور فلاں اسپتال میں ہے۔ پلیزا اگر ممکن ہو تو ایک نظر اسے دیکھ لیں۔ یہ سن کر پریشان ہو گئی۔ مجھے فہد سے محبت نہ تھی۔ احمد ہی میرے بچپن کی پسند تھا لیکن فہد سے ایک لگائو ضرور تھا۔ پہلے دن سے ہی اچھا لگا تھا۔ دراصل وہ ایک بھولا بھالا سا لڑکا تھا، اس سے بات کر کے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا اور بس اس نے کبھی مجھ سے غلط یا لغو قسم کی بات نہ کی تھی۔ اعتبار تھا تبھی اس کے دوست کے بتانے پر میں فہد کو دیکھنے اسپتال چلی گئی۔ وہ واقعی وارڈ میں داخل تھا اور زخمی ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوا اور خوشی سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہاں چند منٹ رکی اور فہد سے دوچار باتیں کیں۔ اسے بتایا کہ میری شادی احمد سے ہونے والی ہے ، شاید اب دوبارہ تم کو نہ مل سکوں، تمہاری خیریت فون پر پوچھ لوں گی۔ جب اسپتال سے نکلی تو اس کے دوست نے کہا، آپ پیدل مت جائیے۔ میں آپ کو جہاں کہتی ہیں، پہنچادیتا ہوں۔ میں چلی جائوں گی رکشہ لے کر میں نے کہا تو فہد بولا۔ صابر کے ساتھ چلی جائو کو ثر ، یہ تم کو گھر کے پاس اتار دے گا۔ یہاں سے رکشہ پر کیونکر جائو گی۔ یہ ادھر ہی جا رہا ہے۔ فہد نے اعتبار دلایا تو میں صابر کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ رستے میں اس نے کہا، تمہارے برابر ایک ڈبہ رکھا ہے۔ ذرا اسے کھول کر دیکھو شاید تم کو کچھ پسند آجائے۔ تمہاری شادی ہو رہی ہے تو فہد کی طرف سے تم گفٹ رکھ لینا۔ میں پچھلی نشست پر بیٹھی تھی۔ برقع لیا ہوا تھا۔ صابر کی گاڑی میں رکھا ڈبہ کھول کر دیکھا۔اس میں زیورات بھرے ہوئے تھے۔ ارے اتنے سارے زیور کیا سونے کے ہیں۔ میرے منہ سے نکل گیا۔ ہاں بھئی سونے کے ہیں۔ کس کے ہیں مارے تجسس سے پوچھا۔ میرے ہیں اور کس کے ہیں۔ میں جیولر کا بیٹا ہوں اور ہم سونے کا کاروبار کرتے ہیں، صراف ہیں۔ ہمارے لئے سونا کچھ نہیں۔ جو لینا ہے پسند کر لو۔ نہیں بھئی ۔ میں نے کچھ نہیں لینا۔ تحیر میرے لہجے میں تھا۔ ویسے یہ سب تمہارے ہو سکتے ہیں، اگر تم مجھ سے شادی کر لو تم مجھے پسند آئی ہو۔ کیا تمہارے والدین با قاعدہ رشتہ لائیں گے میں نے یونہی سوال کر دیا۔ ہاں ہاں بھئی میں تم کو عزت سے بیاہ کرلے جائوں گا اور سونے سے لاد دوں گا۔ بھلا احمد سے شادی کر کے تم کو کیا ملے گا۔ یقیناً وہ مجھ سا امیر نہ ہو گا، اس بارے سوچنا ضرور کیونکہ شادی ایک بار ہوتی ہے اور قسمت سے کسی لڑکی کو اتنا امیر گھر نصیب ہوتا ہے۔ گھر کے قریب وہ مجھے اتار کر چلا گیا اور میں اس کے کہے ہوئے جملے ذہن میں بٹھا کر گھر تک آگئی۔ رات بھر سونے کے زیورات سے بھر اوہ ڈبہ اور اس کے کہے ہوئے الفاظ ذہن میں گونجتے رہے۔ سوچتی رہی کہ احمد ایک معمولی تنخواہ دار ہے، وہ کبھی ترقی بھی نہ کرے گا۔ خالہ نے بیوگی میں عمر کاٹ دی، بھلا ان کے پاس کیا ہے اور مجھے کیا ملے گا ساری عمر کی وہی سفید پوشی اور کھانے کو روکھی سوکھی۔ میرے بچوں کا بچپن کیا ہو گا۔ اگر اس وقت درست فیصلہ نہ کیا، عمر بھر کی غربت گلے پڑ جائے گی۔ صابر نے درست کہا ہے کہ ایسے امیر گھر کے رشتے کسی نصیب والی کو ہی ملتے ہیں۔ صبح تک سوچتی رہی اور جاگتی رہی۔ اگلے روز خالہ آئیں اور امی سے کہا کہ بری نہ جہیز ، بس دو کپڑوں میں کوثر کو بیاہ لیں گے۔ اپنے گھر کی تو بات ہے۔ مجھے ان کے یہ الفاظ برے لگے ۔ میرا ذہن تو زیورات سے بھرے ڈبے میں اٹک گیا تھا۔ میں نے احمد سے شادی سے انکار کر دیا اور جب والدہ نے پوچھا تو بتادیا کہ میں ایک امیر گھرانے کے لڑکے صابر کو پسند کرتی ہوں۔ وہ زندگی کی ہر نعمت سے مالا مال ہیں اور آپ کی بہن کے پاس رکھا ہی کیا ہے۔ بری میں چڑھانے کو دو جوڑے اور ایک زیور تک نہیں ہے۔ ماں نے کہا جہاں شادی کرنا چاہتی ہو ، ان لوگوں سے کہور شتہ لے آئیں، میں پھر فیصلہ کروں گی۔ میں نے صابر کو فون کر کے خوشخبری سنادی۔ وہ تو نہال ہو گیا۔ دو دن بعد اپنی بڑی سی گاڑی میں ماں کو لے آیا۔ امی نے گھر دیکھنے کی فرمائش کی تو انہوں نے گھر دکھایا۔ گھر کیا تھا گویا ایک نواب کا شاندار محل تھا۔ اعلیٰ قیمتی فرنیچر ، مخملیں پر دے، کیا شے نہیں تھی۔ والدہ توان کی امارت دیکھ کر بس دنگ رہ گئیں۔ والد بیمار رہنے لگے تھے، ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ انہی دنوں ان کا انتقال ہو گیا تو والدہ میرے لئے فیصلہ کرنے میں آزاد ہو گئیں۔ انہوں نے میری خوشی کے لئے اپنی بہن کے مفلس بیٹے کارشتہ رد کر دیا۔ بہن ان کو بہت پیاری تھی لیکن اولاد سے زیادہ پیاری نہ تھی۔ میری شادی صابر سے ہو گئی۔ بیاہ کر اس کے بنگلے میں آگئی ، بہت خوش تھی۔ اپنی قسمت پر نازاں رہنے لگی کہ واقعی اتنے سارے زیورات میرے پاس تھے کہ جن کا تو عام عورت تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ چھ ماہ خوشیوں بھرے گزرے۔ اس قدر عیش و آرام کب سوچا تھا۔ صابر سے شادی پر کوئی پچھتاوا نہ ہوتا تھا بلکہ احمد سے شادی نہ کر کے خوش تھی اور خود کو عقل مند سمجھتی تھی کہ بروقت فیصلہ کر کے اپنی قسمت جگالی تھی۔ یہ چار دن کی چاندنی تھی۔ وہی ملتا ہے جو نصیب میں ہوتا ہے۔ دولت ملی تو مگر خالہ کی سفید پوشی میں جو محبت اور شرافت تھی وہ نہ ملی۔ شادی کے چھ ماہ بعد ایک روز پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور وہ صابر کو پکڑ کر لے گئے۔ تب پتہ چلا کہ وہ ڈکیت ہے اور اس کا تعلق ڈکیتی کرنے والے ایک گروہ سے ہے۔ گھر میں زیورات اور سارا کچھ چوری کا تھا۔ صابر کو جیل ہو گئی اور سامان پولیس نے ضبط کر لیا۔ اب پتہ چلا کہ اتنی دولت کہاں سے آئی تھی۔ آج میں محفوظ ہوں اور نہ میری اولاد محفوظ ہے۔ صابر جیل سے رہا ہو کر بھی نہ سدھرا۔ میں نے پچھتاوے سے دامن بھر لیا ہے کہ خالہ کی شرافت اور سفید پوشی سونے سے زیادہ قیمتی تھی۔ | null |
null | null | null | 175 | https://www.urduzone.net/shakhsiat-mein-kami/ | میں نے کراچی کے ایک مشہور شاپنگ سینٹر میں اس کو پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ وہاں سیلز مین تھا اور کافی اسمارٹ اور خوبصورت تھا۔ اس میں گاہک کو مائل و قائل کرنے کی خداداد صلاحیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مالک کا منظور نظر تھا کیونکہ اس کی چرب زبانی کے باعث سیل خاطر خواہ ہوتی تھی۔ میں اپنی دوست نتاشہ کے ساتھ اس شاپنگ مال کے کاسمیٹک کارنر میں گئی تھی، جہاں زیادہ تر خواتین کی دلچسپی کا سامان سجا ہوا تھا۔ میں نے ذرا دیر میں ہی اندازہ کر لیا کہ یہ نوجوان سیلز مین خواتین کو گھیر کر خریداری کروانے کا ماہر ہے۔ اس کا نام ارباب خان تھا۔ نیلی آنکھیں، سنہرے بال، اونچ لمبا اور گورا چٹا، کیا با نک پن تھا موصوف میں ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ کوئی عورت اس کی طرف جائے اور کچھ خریدے بغیر چلی جائے۔ ارباب خان کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کو مذہب سے کچھ خاص شغف نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ شوخ رنگ لباس میں ملبوس ہوتا ، شاید یہ اس کی ملازمت کا تقاضا تھا۔ امیر نہ ہونے کے باوجود اونچے خواب دیکھتا تھا۔ اس کی باتوں سے میں نے جلد ہی اندازہ کر لیا تھا کہ وہ اس کوشش میں ہے، کہ کسی طرح جلد بہت سی دولت کمالے جو سیلز مین والی ملازمت میں ممکن نہ تھی۔ برے کاموں کا ارباب میں حوصلہ نہ تھا لہذا شرافت سے امیر بنے کا ایک ہی سیدھا سادہ سا طریقہ تھا کہ کسی امیر والدین کی اکلوتی لڑکی کو پھانس کر اس سے شادی کر لے۔ جب اس نے اپنی چرب زبانی سے میری سہیلی نتاشہ کو لبھانا شروع کیا تو مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ وہ نتاشہ کے ساتھ دوستی کر کے کس طرح سے جیتے جاگتے خواب دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کاسمیٹک سینٹر پر ہر طبقے کی لڑکیاں آیا کرتی تھیں۔ وہ اس تلاش میں تھا کہ اس کی نظر نتاشہ پر پڑ گئی ۔ حالانکہ وہ معمولی شکل وصورت کی تھی لیکن اس نے میری سہیلی کے شاپنگ کے انداز سے بھانپ لیا کہ یہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہو یا نہ ہو، بے حد لاڈلی ضرور ہے۔ نتاشہ ایک بڑے صنعت کار کی بیٹی تھی۔ اس کی عادت تھی کہ جب شاپنگ کرتی ، بے تحاشا روپے خرچ کر دیتی ۔ اس کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی تبھی شاپنگ کرنا اس کا محبوب مشغلہ بن گیا تھا اور مجھے ساتھ لے کر چلنا بھی گویا اس کی کمزوری تھی کہ میرے بغیر وہ خود کو ادھورا خیال کرتی تھی۔ میں نے ارباب خان کی باتوں سے بھانپ لیا کہ یہ لڑکا میری دوست کی دولت سے مرعوب ہو گیا ہے۔ اس نے ہمیں بڑی سی قیمتی گاڑی سے اترتے بھی دیکھ لیا تھا، ورنہ معمولی صورت کی نتاشہ میں سوائے دولت مند ہونے کیے اور کوئی کشش نہ تھی۔ لباس بھی وہ ایسے فیشن کے منتخب کرتی کہ عجوبہ لگتی ، اوپر سے گفتگو بھی بے اثر ہی کرتی تھی۔ چالاک ارباب نے اس کو غیر معمولی توجہ دینی شروع کر دی تو وہ بار بار اس کے کاسمیٹک سینٹر جانے لگی اور تبھی میرے دل میں خطرے کی گھنٹیاں بچ گئیں۔ نتاشہ اس کی غیر معمولی توجہ سے سرشار ہو کر رفتہ رفتہ ارباب خان کی جانب ملتفت ہونے لگی۔ یوں بات بڑھتے بڑھتے روایتی محبت کے قصہ پر آ کر ٹھہر گئی ۔ بس پھر کیا تھا، ارباب نے برسوں پہلے جو خواب دیکھا تھا ، اس کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ یہ لڑکی کسی اعتبار سے اس کا آئیڈیل نہ تھی ، تاہم اس نوجوان نے میری دوست کو اپنی محبت کا پکا یقین دلا دیا۔ اب اسے اپنے خواب کی تعبیر پوری ہوتی نظر آنے لگی کیونکہ بھولی بھالی نتاشہ اس کے مردانہ حسن اور خوش گفتاری سے اتنی متاثر ہو گئی تھی کہ اب اس کا ارباب سے ملے بغیر جی نہیں لگتا تھا۔ ارباب کی ڈیوٹی آدھا دن بعد بدل جاتی تھی۔ صبح نو سے چار بجے تک اس کی ڈیوٹی ہوتی ۔ اس کے بعد دوسرے سیلز مین کی باری آجاتی اور وہ محبت کی منزلیں طے کرنے کو آزاد ہو جاتا۔ میں جانتی تھی کہ ارباب خان جو متوسط اور مذہبی گھرانے سے ہے، اس کے خاندان میں ایسی باتوں کو برداشت نہیں کیا جاتا کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ آزادانہ گھومے پھرے اور غیر خاندان میں شادی پر ان کے ہاں سخت پابندی تھی۔ جو ایسا کرتا تھا ، اس کو اچھی نظروں سے نہ دیکھا جاتا تھا مگر اس پر تو دولت مند ہونے کا بھوت تھا حالانکہ یہ لوگ اتنے صاحب حیثیت بھی نہ تھے کہ نتاشہ کے والد جیسے دولت مندوں کے چونچلے اٹھاتے ۔ ارباب خان کو شام میں کلب جانا اور ڈانس کرنا نتاشہ نے سکھایا۔ حتی کہ تمبولا کھیلنا بھی اسے نہیں آتا تھا، جب کہ یہ میری دوست کا محبوب کھیل تھا۔ تاش بھی وہ بہت شوق سے کھیلتی تھی۔ وہ جب ارباب سے ملنے جاتی تو کچھ نہ کچھ رقم زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیتی۔ اس نے ارباب کوکبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ غریب ہے اور نتاشہ امیر ۔ کبھی کبھی ساحل سمندر کسی خوب صورت تفریحی مقام پر یاکسی رومانی ماحول میں جب دونوں ساتھ بیٹھتے تو وہ اس قدر کھو جاتی کہ بس سے باہر ہونے لگتی حالانکہ ارباب بھی ایک نوجوان لڑکا تھا لیکن اس نے بھی اپنی طرف سے برائی کے لئے پہل نہ کی ، نہ ہی اس حوالے سے میری دوست کی ہمت افزائی کی یہ دراصل ارباب کے دل میں اس جذباتی لڑکی کے لئے اس قسم کے جذبات تھے ہی نہیں ، وہ تو اپنے مقصد یعنی اس کی دولت پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ شرافت سے شادی کر کے امیر ہو جائے تبھی اس نے نتاشہ کی نسوانیت کو برباد کرنے کی کوشش نہ کی ۔ وہ اکثر شکوہ کرتی کہ ارباب حد سے زیادہ شریف ہے۔ مڈل کلاس آدمی ہے نا ، ان لوگوں کو بچپن سے یہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ اپنے جذبوں پر قابورکھو، تب ہی یہ ایسا ہے۔ یوں بھی اسے ارباب کی سرد مہری سے شکوہ ہوتا اور کبھی فخریہ کہتی کہ دیکھو میں نے کتنے صحیح بندے کا انتخاب کیا ہے، جس کو ہوس نہیں بلکہ سچی محبت سے سروکار ہے۔ ارباب کے محتاط رویئے کو اس نے شرافت جانا اور دل میں اس کی قدر و منزلت کئی گنا بڑھتی گئی۔ وہ اس سے سچ مچ خلوص دل سے شادی کی خواہش مند ہوگئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے ارباب کی اتنی تعریفیں کیں کہ گھر والوں کو قائل ہونا پڑا۔ جب بیٹی کا اصرار بڑھا تو اس کے ڈیڈی نے ارباب کو ملاقات کے لئے گھر بلایا اور کافی آؤ بھگت کی۔ انہوں نے ارباب سے ہر وہ بات پوچھی جو داماد بنانے کے لئے پوچھنا ضروری تھی اور اسے کہا کہ ہفتہ بعد سوچ بچار کر کے جواب دیں گے کہ تم کو داماد بنانا چاہیے یا نہیں، تاہم اس کو گرمجوشی سے ہی رخصت کیا۔ ایک ہفتہ بعد جب ارباب نتاشہ کے والد سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو راضی ہیں مگر تم پہلے یہ بتاؤ کیا تم ہماری بیٹی کو وہی آسائشیں مہیا کر سکو گے جو اس کو یہاں حاصل ہیں کیا تمہارا گھر بھی ایسا ہی ہے جیسا ہمارا ہے یہ باتیں سن کر سیلز مین نوجوان سکتے میں آگیا۔ ایک بڑا بزنس مین ہونے کی وجہ سے اس کے والد نے شاید ارباب کا دماغ پڑھ لیا تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے، تبھی انہوں نے اس کی ذہنیت کو اس کے سامنے عیاں کر دیا۔ ان کی کھری کھری باتوں نے ارباب کی آنکھیں کھول دیں اور دولت حاصل کرنے کا نشہ ہرن ہو گیا۔ تھوڑی دیگر گم صم رہنے کے بعد ارباب نے نتاشہ کے ڈیڈی کو جواب دیا کہ یہ تمام چیزیں مہیا کرنا میرے بس میں نہیں ۔ میں تو خود ایک شاپنگ سینٹر پر معمولی نوکری کرتا ہوں اور اپنی پوری تنخواہ اپنے گھر والوں ہے کو دے دیتا ہوں ۔ مہینے کی آخری تاریخوں میں بھی دودھ والے اور کبھی ترکاری والے سے میرا جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ میں آپ کی بیٹی کو کچھ نہیں دے سکتا ، نہ کار، نہ کوٹھی اور نہ نوکر چاکر ہے آپ کی لڑکی میری حقیقت جانتی ہے ۔ تاہم اس نے خود مجھ سے شادی پر آمادگی ظاہر کی ہے اور اس کے حوصلہ دینے پر میں آپ کے در دولت پر آیا ہوں ۔ بے شک میری بات کی سچائی جاننے کے لئے آپ اپنی صاحب زادی سے پوچھ سکتے ہیں۔ میں نے تو ان کو بتا دیا ہے کہ میں ایک غریب کے آدمی ہوں۔ ارباب کے بیان پر گھاگ بزنس مین نے ذرا ٹھہر کر کہا۔ ٹھیک ہے تو تم جس قدر بھی اونچے خواب دیکھو مگر زیادہ لانچ برا ہوتا ہے اور لالچی انسان کو کوئی تبھی اپنی بیٹی دینا پسند نہیں کرتا۔ میں تم جیسے خالی ہاتھ آدمی کو اپنا داماد بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ رشتہ ہمیشہ یا تو اپنی برادری میں کیا جاتا ہے ، جہاں امیری غریبی کی تفریق کبھی کبھار نظر انداز کرنا پڑتی ہے یا پھر اپنی برابر کے لوگوں میں، ورنہ اتنی تفریق ہو تو داماد نو کر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا تمہیں نوکر والی حیثیت قبول ہوگی یا پھر میں اپنی بیٹی کی خوشی کو مدنظر رکھوں کہ ۔ وہ مجھے بہت عزیز ہے لیکن اس کو صرف ایک جوڑے میں رخصت کر دوں تا کہ اسے پتا چل جائے کہ محض محبت سے گزر بسر نہیں ہوسکتی۔ زندگی میں خوشیاں لانے کے لئے دولت بھی بے حد اہم اور ضروری ہوتی ہے۔ اگر تم کو اس صورت میں میری بیٹی سے شادی منظور ہے کہ میں اس کو جائیداد میں سے کچھ نہیں دوں گا، صرف ایک جوڑے میں رخصت کروں گا، جہیز میں بھی پھوٹی کوڑی اسے نہ ملے گی۔ اگر تم کو اس صورت نتاشہ قبول ہو تو میں تمہارا اس سے نکاح پڑھوانے پر تیار ہوں ۔ تم اپنے والدین کو میرے پاس بھیج دو۔ میں چاہتا ہوں کہ جس کو میں نے اتنے نازوں سے پالا ہے، وہ لاڈلی یہ بھی جان لے کہ زندگی کی حقیقتیں کیسی ہوتی ہیں ۔ بے شک اسے تلخ حقائق سے بھی ٹکرانا چاہیے تاکہ اسے والدین کی نافرمانی کی سزامل سکے۔ ایسے ناعاقبت اندیش اور سرکش بچوں کا یہی علاج ہے ۔ یہ محض دھمکی یا مذاق نہیں، میرے اس فیصلے کو تم ہلکا مت لینا۔ میں نے دولت بڑی مشکل سے کمائی ہے، لہذا میں جو کہتا ہوں وہی کرتا بھی ہوں۔ تمہیں میرا فیصلہ قبول ہو تو اپنے والدین سے کہہ دو۔ وہ آکر شادی کی تاریخ طے کر لیں لیکن مجھ سے کچھ ملنے کی امید نہ رکھیں۔ اس کے بعد جو تم لوگوں کی قسمت ، جو حالات ہوں گے مجھ سے شکوہ مت کرنا ۔ زندگی جیسی بھی ہو، اپنے بل بوتے پر گزارنا اور اگر تم کو یہ صورت حال منظور نہیں ہے، تو خبر دار جو آئندہ میری بیٹی سے ملنے کی کوشش کی۔ میں اپنی عزت کی حفاظت کرنا جانتا ہوں۔ میں جان لینا بھی جانتا ہوں اور دینا بھی۔ تم نے نتاشہ سے ملاقاتیں جاری رکھیں تو اس دنیا سے اوپر بھجوا دوں گا اور یہ میرے لئے مشکل بات نہیں ہے۔ اس ملک میں کرایے کے قاتل بہت ہیں۔ ارباب کا ایک رئیس سے پہلی بار سابقہ پڑا تھا۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ دولت صرف دو وصاف سے حاصل ہوتی ہے، ایک عقل اور محنت سے اور دوسرا ذریعہ فراڈ، ریا کاری اور کرپشن کا ہے۔ یہ ذریعہ تو بہر حال اس کی دسترس میں ہی نہ تھا۔ وہ نہ تو کوئی بد معاش چور اچکا اور لیٹرا تھا اور نہ ڈکیت اور نہ ہی کوئی بددیانت بیوروکریٹ یا برا سیاست دان تھا۔ وہ تو متوسط طبقے کا ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا، جو معمولی نوکری کر کے حلال روزی کما رہا تھا۔ بس اس کے کچھ خواب تھے جو کچھ بے لگام سے بھی تھے تبھی اس نے شارٹ کٹ سے اپنے خواب پورے کرنے کی کوشش کی تھی۔ بہر حال اب اسے اپنی چال پر نظر ثانی کا موقع ملا۔ اس نے سوچا کہ کیا خبر، نتاشہ جس نے کبھی غربت میں ایک دن بھی نہیں گزارا ، غربت میں اس کا ساتھ دے بھی سکے یا نہیں وہ مجھ سے اس وجہ سے طلاق طلب کر لے کہ میں اس کی آسائشیں پوری نہ کر سکوں ۔ اسے اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑ جائے اور وہ نا آسودہ ہو جائے تو بہتر یہی ہے کہ میں اس سے نہ ملوں اور کنارہ کرلوں۔ اس نے یہ بھی غلط سوچا۔ جیسا اس دولت کے لالچی نے ابتدا میں غلط سوچا تھا مگر میں اپنی دوست نتاشہ کو اس کے بچپن سے جانتی تھی۔ وہ ایسی لڑکی تھی کہ غربت میں بھی کبھی اس کا ساتھ نہ چھوڑتی اور اس پل صراط کو پار کرنے میں اس کی مدد کرتی۔ اس کے ڈیڈی کا مقصد بھی ارباب کے پختہ ارادے کو اس کے حوصلے اور ہمت کو آزمانا ہی تھا، ورنہ کوئی بھی دولت مند باپ اپنی بیٹی کی خوشی کے لئے قربانی دیتا ہے تو پھر وہ اس کی خوشیوں کا نگہبان بھی بن جاتا ہے۔ ارباب کی کوتاہ سوچ نے اس بیچ راستے سے واپس پلٹ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ اصل بات یہی تھی کہ اس نے نتاشہ سے نہیں بلکہ اس کی دولت سے محبت کی تھی۔ وہ اس کی دولت کے حصول کی خاطر محبت کا جال پھینک کر خود ہواؤں میں اڑ رہا تھا اور جب دولت کے تصور کو جدا کر کے اس نے نتاشہ کو دیکھا تو وہ اسے محض کاغذ کا ایک پھول نظر آئی ، جس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ اس کا فیصلہ یہی ثابت کرتا تھا کہ وہ لالچی اور ایک خود غرض انسان ہے۔ نتاشہ کے ڈیڈی سے ملاقات کے تیسرے روز اس نے جب میری دوست کو فون کیا تو میں اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے اسپیکر آن کر دیا۔ وہ کہ رہا تھا کہ میں پاکستان سے باہر جارہا ہوں۔ میرا انتظار مت کرنا، میں شاید واپس نہ آ سکوں ۔ یہ سن کر نتاشہ کا رنگ زرد ہو گیا اور وہ رونے بلکنے لگی، مگر ادھر سے جواب نہ آیا اور فون بند کر دیا گیا۔ ارباب کےایک دوست نے اس کے ویزے کا بندو بست کر دیا ، یوں وہ یونان یا اٹلی جانے کی بجائے دبئی چلا گیا۔ کافی عرصہ وہاں رہنے کے بعد اس نے اتنا کما لیا کہ خود کو مالدار کہہ سکے، وہ خوشحال تو ہو گیا مگر اس نے لڑکی کی والد کی باتوں سے خوفزدہ ہو کر نتاشہ کو کھو دیا شاید اس کی شخصیت میں کچھ کمی تھی۔ محبت میں خلوص نہ تھا کہ خود پر بھروسہ رکھتا۔ اگر یہ دو اوصاف انسان کی شخصیت میں نہ ہوں تو اس کے لئے سچی خوشیوں کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ | null |
null | null | null | 176 | https://www.urduzone.net/mazi-ka-zakham/ | میری عمر پندرہ سال تھی کہ امی کی چچازاد بہن خالہ سکینہ شادی کی تاریخ مانگنے آگئیں ۔ امی نے کہا۔ بہنا ابھی تو میری گلزار کم سن ہے۔ ایک دو سال ٹھہر جاؤ ، تب تک ہم جہیز بھی بنالیں گے۔ خالہ کہنے لگیں۔ میرا گھر بھی تیرا گھر ہے۔ یہ یہاں رہے کہ وہاں رہے ۔ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے۔ تجھے کس بات کی فکر ہے سوہنی رہی جہیز کی بات ، تو اس کی تو فکر نہ کر۔ تیری بیٹی کا جہیز ہم بنا کر دیں گے آخر تو جہیز ہمارے گھر ہی آنا ہے۔ امی نے لاکھ منع کیا، مگر وہ نہ مانیں۔ یوں ہاں کرنا پڑی۔ دو ماہ میں انہوں نے میرا جہیز بنایا اور پھر میری شادی ان کے بیٹے عقیل ہو گئی ۔ میں خالہ سکینہ کے گھر بہت خوش تھی۔ میرا شوہر بھی ہر طرح سے میرا خیال رکھتا تھا۔ ہم ہنسی خوشی زندگی گزار نے لگے۔ ہم گاؤں میں رہتے تھے۔ میں بھینسوں کو چارہ ڈالتی، اپلے بناتی، گھر میں جھاڑو دیتی، برتن مانجھتی حتی کہ گھر کا سب کام خود کرتی تھی ۔ شادی کے سال بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاند سا بیٹا دیا۔ بیٹے کی پیدائش پر عقیل بہت خوش تھے مگر یہ خوشی عارضی تھی ۔ وہ چند ماہ کا ہو کر چل بسا۔ اس کے بعد دو بیٹیاں ہوئیں ، وہ بھی چند ماہ بعد فوت ہوگئیں ۔ اس کے بعد سات برس تک میں دوبارہ اولاد کی خوشی نہ دیکھ سکی۔ اس پر میرے شوہر کے رشتہ داروں نے کہا کہ تمہاری بیوی کو اٹھرا کی بیماری ہے، اسے اولاد نہیں ہوگی ، اور ہوئی تو جیے گی نہیں ۔ کب تک اولاد کی خوشی کی آس میں وقت گنواؤ گے۔ بہتر ہے کہ دوسری شادی کرلو۔ لوگوں کے کہنے سننے سے عقیل دوسری شادی پر آمادہ ہو گئے ۔ مجھ سے کہا۔ میں تم کو بھی اپنے ساتھ رکھوں گا اور پہلے سے زیادہ پیار اور عزت دوں گا۔ تم مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دو۔ میرا جینا مرنا شوہر کے ساتھ تھا ، سو مرتا کیا نہ کرتا ، ان کو دوسری شادی کی اجازت دے دی کہ میری عزت اسی میں تھی۔ اگر میرے واویلا کرنے کے باوجود وہ دوسری کو بیاہ کر گھر لے آتے تو بھی میں کیا کر سکتی تھی۔ عقیل نے اپنے وعدے کا پاس کیا اور دوسری بیوی کو مجھ پر فوقیت نہ دی۔ مجھے پہلے کی طرح عزت اور پیار دیا کبھی کسی شے کی کمی نہ آنے دی۔ زیور ، کپڑے جو شے بھی اسے لا کر دیتے، بالکل ویسے ہی میرے لئے لاتے ۔ میری سوتن سمیرا میری ماموں زاد بہن بھی تھی ، اس لئے ہم میں کوئی جھگڑا نہ ہوتا تھا ۔ ہم بالکل بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔ ایک سال بیت گیا، اب سمیرا کو بخار رہنے لگا، جو اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوا اور وہ چند دنوں کے اندر اندر چل بھی۔ میرے شوہر کو اس کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ نجانے وہ کیسے بہک گئے ۔ انہوں نے مجھ پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ تم نے سمیرا کو زہر دیا ہے۔ تم اس سے جلتی تھیں ، اس کو تم ہی نے بے موت مار دیا ہے۔ میں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے زہر نہیں دیا ، مگر وہ سنگدل انسان مانتا ہی نہ تھا۔ اس نے لوگوں سے بھی کہنا شروع کر دیا کہ گلزار نے سمیرا کو زہر دے کر مار دیا ہے۔ وہ شخص جو میرے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے رہا تھا ، اب چھوٹی سی بات پر مارنے کو دوڑتا۔ کون ساظلم تھا جو اس نے مجھ پر نہ کیا ہو۔ گویا ، اجل نے جو ظلم اس پر ڈھایا تھا، اس کا بدلہ وہ مجھ سے لے رہا تھا، جیسے سمیرا کے بغیر گھر میں میرا وجود اچھا نہ لگتا تھا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ سمیرا سے اس کی دنیا خوشنما تھی۔ مجھ سے تو وہ اس لئے پیار محبت کرتا تھا کہ گھر کا سکون برقرار رہے۔ میں شوہر کو غمزدہ جان کر اس کی یہ بدسلوکی سہتی رہی کہ سمیرا کی موت کا صدمہ رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا تو عقیل پھر سے نارمل ہو جائیں گے۔ یوں پانچ سال گزر گئے ۔ ایک دن میرے بھائی کا خط آیا۔ امی بیمار ہیں ، ان کو دیکھنے آجاؤ۔ میں جانے کے لئے تیار ہوئی تو میرے شوہر نے مجھے کوئی چیز بھی ساتھ نہ لے جانے نہ دی۔ میں نے جو تین کپڑے پہنے ہوئے تھے، انہی میں خاموشی سے میکے چلی آئی۔ بس کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں ۔ امی سخت علیل تھیں۔ میرے میکے آنے سے چار روز بعد وہ چل بسیں ۔ ابا تو سال پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ اب اس بھری دنیا میں صرف ایک بھائی رہ گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میری دوسری خالہ فوت ہو گئیں ۔ وہ اسی گاؤں میں رہتی تھیں، جہاں میرے شوہر کا گھر تھا۔ خالہ کی وفات پر ہم گاؤں گئے۔ عقیل بھی وفات والے گھر آئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ میری اس خالہ کی شادی ہوئی تھی جو فوت ہو گئی تھیں ۔ مرحومہ خالہ کا گھر میرے دیور ہی کا گھر تھا۔ میرے بھائی نے عقیل سے کہا کہ تم میری بہن کو اپنے گھر لے جاؤ ۔ تب انہوں نے جواب دیا کہ میں اسے اپنے پاس نہیں رکھوں گا ۔ مجھے اس پر اعتبار نہیں ہے۔ جو میری دوسری بیوی کو زہر دے کر مار سکتی ہے، وہ مجھے بھی زہر دے دے گی ۔ میرا بھائی خاموش ہو گیا۔ تب میری دوسری خالہ مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ جب عقیل ، میرے بھائی سے یہ باتیں کہہ رہا تھا، تب میرا دیور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اسے افسوس ہوا اور اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ٹھیک ہے تم اگر اسے طلاق دو گے تو میں اسے سہارا دوں گا۔ دیور نے میرے بھائی سے بھی یہی بات کہی کہ صفدر بھائی آپ فکر مت کریں۔ اگر بڑا بھائی گلزار کو نہیں رکھے گا اور طلاق دے گا تو میں اس سے نکاح کرلوں گا ۔ جلیل میرا خالو تھا اور دیور بھی تو میں نے کہا کہ عقیل مجھے طلاق دے بھی دے دو تو میں آپ کے ساتھ نکاح نہیں کروں گی ۔ میرے آپ کے ساتھ جو رشتے ہیں، وہی برقرار رہیں گے ۔ آپ مجھ پر ترس نہ کھاؤ۔ میرے مستقبل کا اللہ مالک ہے۔ بھائی کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ واپس میکے لے آیا۔ میرے میکے جانے کے بعد عقیل نے تیسری شادی کر لی ، جو اس شرط پر ہوئی کہ لڑکی والوں نے کہہ دیا تھا کہ عقیل صاحب اپنی موجودہ بیوی کو طلاق دو پھر ہم لڑکی دیں گے ۔ ادھر مجھے طلاق ہوئی ادھر عقیل نے تیسری بیوی کو گھر لا کر اپنا نگر پھر سے آباد کر لیا۔ اس کے بعد وہ نئی دلہن کے ہمراہ حج پر چلا گیا ۔ میرا کوئی گھر نہ رہا تھا۔ بھائی نے تو پناہ دی مگر بھا بھی نہ چاہتی تھی کہ میں ان کے گھر پر رہوں ۔ بیوی کے تیور دیکھ کر بھائی نے ایک روز سمجھایا کہ بہن اب تم اپنا گھر بسانے کی کرو تو اچھا ہے۔ دوسری شادی کر کے عزت سے اپنے گھر کی ہو جاؤ، ورنہ میری بیوی ہر وقت تم کو نوکرانی بنا کر بھی ذلت سے ہمکنار کرتی رہے گی۔ بھائی کو بے بس پا کر میں نے ان سے کہہ دیا کہ اب آپ ہی میرے وارث ہو جو میرے بارے میں بہتر سمجھو کرو۔ مجھ کو آپ کا ہر حکم منظور ہے۔ تبھی انہوں نے میر ا نکاح اپنے ایک دوست سے کروادیا جس کی بیوی وفات پاچکی تھی ۔سبھی مرد برے نہیں ہوتے ۔ ایک بار قسمت کھوٹی ہوئی مگر اس بار الله نے رحم کر دیا اور بقیہ زندگی کا اچھا ساتھی مل گیا۔ صابر نے میرا بہت خیال رکھا اور میں نے ان کے ساتھ پچھلے سارے دکھ بھلا دیئے ۔ صابر بہت اعلیٰ ظرف ہیں۔ مجھے ان کے گھر میں رتی بھر تکلیف نہیں ہے۔ میں ان کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ میری ساس بالکل ماں جیسی شفیق ہیں ۔ وہ بے حد پیار کرنے والی خاتون ہیں۔ لگتا ہے کہ سگی ماں کھوئی تو ایک بار پھر مجھے ماں مل گئیں۔ بے شک زندگی میں اب سکون ہی سکون ہے مگر کبھی بھی ماضی کا زخم جاگ جاتا ہے تو دل میں پھانس سی چھنے لگتی ہے۔ جبھی ایسی سوچیں آتی ہیں کہ ہمارے دین نے ہم کو حقوق دیئے ہیں۔ مگر معاشرے میں عورت کو کیا مقام ملا ساری عمر اور خدمت کے بدلے بس یہی کچھ جانے وہ کون سی گھڑی تھی کہ عقیل کے دل میں یہ بدگمانی جاگزیں ہوئی تھی۔ یہ کتنا بڑا اور خوفناک الزام ہے کہ میں سوتن کی قاتلہ ہوں۔ مجھے تو ایسا سوچ کر ہی وحشت ہوتی ہے۔ ان سوچوں کو جو مجھے جلاتی ہیں ، آنسو بہا کر مٹانے کی کوشش کر دیتی ہوں، لیکن ماضی تو ایک ایسا عذاب ہے جو بھی نہ کبھی آپ کے گزرے دنوں کی یادوں کو چھیڑ کر سوئے درد جگا دیتا ہے۔ | null |
null | null | null | 177 | https://www.urduzone.net/allah-tawakal/ | ہم سب پر جیسے کوئی بجلی سی آگری تھی۔ ہم میں سے کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہو جائے گا جو ہمیں دہلا کر رکھ دے گا اور غم کے پہاڑ ایک ایک کر کے ٹوٹ پڑیں گے۔ میں گھر میں اپنے والد کی اچانک موت پر سب سے زیادہ پریشان تھا، کیونکہ گھر کا تمام بوجھ میرے کندھوں پر آپڑا تھا جو کسی چٹان سے کم بھاری نہ تھا۔ اس وقت میری عمر ہی کیا تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ پریشانی کیا ہوتی ہے ، مسائل کیا ہوتے ہیں۔ زندگی بے فکری اور سکون سے گزر رہی تھی۔ میری دو جوان بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کا رشتہ خاندان سے باہر طے پا چکا تھا، تین مہینے کے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ میرا کوئی اور بھائی نہیں تھا جو یہ بوجھ اٹھاتا اور ساتھ دیتا۔ چا یا ماموں کی حالت بھی ایسی نہ تھی کہ وہ ہماری کفالت کر سکتے۔ ان کی خود گزر بسر بمشکل ہو پارہی تھی۔ جو کچھ کرنا تھا، وہ مجھے ہی کرنا تھا۔ مجھے ایک سرکاری دفتر میں ملازمت کرتے ہوئے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا۔ والدہ کو ملا کر ہمارا کنبہ کل چار افراد پر مشتمل تھا۔ بد قسمتی سے مکان بھی کرائے کا تھا۔ میری تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ گھر چلا سکوں۔ والد صاحب ایک آڑھتی کے ہاں منشی تھے۔ اگر وہ حیات ہوتے تو ہم دونوں کی آمدنی میں گھر نہ صرف اچھی طرح چلتا بلکہ خاصی بچت بھی ہو جاتی کیونکہ والد صاحب پارٹ ٹائم بھی کیا کرتے تھے اور رات دس گیارہ بجے گھر لوٹتے تھے۔ وہ دور بڑی سادگی اور قناعت کا تھا۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور نمائشی زندگی کا مظاہرہ نہ ہوتا تھا۔ جھونپڑی میں رہ کر محلوں کے خواب نہ دیکھے جاتے تھے۔ حلال رزق کی بڑی قدر تھی۔ دو وقت کی روٹی عزت سے مل جاتی تو بارگاہ الہی میں شکر بجالاتے، خوش رہتے تھے۔ دوسرے دن میرے عربی کے استاد مولانا عبدالباری صاحب، والد صاحب کی وفات پر تعزیت کرنے کے لئے گھر تشریف لائے تھے۔ وہ انتقال کے دن کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے ،اس لئے انہیں میرے والد کی رحلت کی خبر نہ ہو سکی تھی۔ میں نے انہیں اپنے گھر یلو حالات سے آگاہ کیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا۔ وہ میری باتیں بڑی غور سے سنتے رہے۔ جب میں انہیں اپنا ساراد کھڑ ا سنا چکا تو وہ بولے ۔ ظفر بیٹے تمہارے مسائل اور پریشانیاں بڑی آسانی سے دور ہو سکتی ہیں۔اس قدر فکر مند رمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں ان کی بات سن کر دل میں بہت خوش ہوا۔ ایک دم میرے اعصاب پھول کی طرح ہلکے ہو گئے۔ یہ واحد شخص تھے جنہوں نے میری دل جوئی کی اور دلا سا دیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی مخیر شخص سے مجھے مالی امداد دلوائیں گے۔ وہ صاحب حیثیت گھرانوں میں جاکر ان کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ شاید وہ کسی سے میری سفارش کریں گے۔ میں نے اشتیاق آمیز لہجے میں پوچھا۔ وہ کیسے وہ ایسے کہ تم صرف اور صرف اللہ کی ذات پر توکل کرو بیٹے انہوں نے جو جواب دیا، اسے سن کر میرا دل بجھ گیا، چہرہ اتر گیا۔ انہوں نے میر ابشرہ جیسے بھانپ لیا۔ وہ بولے ۔ دیکھو بیٹے الہ اپنے ان بندوں کو کبھی ماپوس اور نامراد نہیں کرتا ہے جو صرف اس سے مانگتے اور اس پر توکل کرتے ہیں ، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ جو شخص بندوں پر بھروسہ کرتا ہے ، اس سے امیدیں باندھ لیتا ہے ،اسے کچھ نہیں ملتا ہے۔ میں ایسی باتیں مولویوں سے ہزار بار سن چکا تھا۔ پھر بھی میں نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں آپ کے ارشاد پر کار بند رہنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ مگر یہ تو کل غیر متزلزل ہونا چاہئے ۔ وہ ناصحانہ انداز میں بولے۔ اس کے ساتھ تم صبر و شکر اور نماز کا دامن مضبوطی سے تھام لو تو اللہ تم پر اور فضل کرے گا۔ میں نے ان کی نصیحت گرہ میں باندھ لی۔ یوں بھی اللہ پر توکل کے۔ سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ بہن کی شادی کے اخراجات پورے ہونے کا دور تک کوئی امکان نہ نظر نہیں آتا تھا۔ رشتے داروں سے کسی قسم کے زر ، تعاون اور مدد کی ذرہ بھر امید کے نہیں تھی۔ان سے توقع رکنا فضول تھا، کیونکہ انہوںنے مان جای لئے رک کر دیاتھا کہ ہم سوال نہ بن جائیں۔ شادی کی تاریخ دو مہینے آگے بڑھ گئی تھی، اس لئے کہ شادی والدہ کی عدت کے بعد ہی ہو سکتی تھی۔ جیسے جیسے شادی دن قریب آرہے تھے ، ویسے ویسے میری فکر اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ والدہ کی عدت ختم ہونے کے پانچ دن بعد لڑکے کے والد ہمارے ہاں آئے۔ میں ایک بات بتانا بھول گیا کہ میری والدہ، بہن کی شادی کے سلسلے میں ذرہ بھر بھی پریشان نہیں تھیں۔ وہ مجھے پریشان دیکھ کر کہتی تھیں۔ بیٹے تم فکر مند کیوں ہوتے ہو الله بڑا کار ساز ہے ، مسبب الاسباب ہے۔ لڑکے کے والد کو دیکھ کر میں نے دل میں سوچا کہ ان سے شادی کے لئے ایک سال کی مہلت لے لوں گا۔ جب میں نے ان سے شادی کے لئے ایک سال کی مہلت مانگی تو انہوں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ کس لئے اس لئے کہ حالات اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ ایک برس کی مہلت مل جائے گی تو اس کے اندر ہم تیاری کر لیں گے۔ اگر ایک سال میں بھی تم تیاری نہ کر سکے تو کیا کرو گے مزید ایک سال کی مہلت مانگو گے وہ بڑے نرم اور محبت بھرے لہجے میں بولے۔ جی نہیں میں نے بڑے اعتماد سے کہا۔ اللہ نے چاہا تو ایک سال کے اندر اندر ہم کسی نہ کسی طرح تیاری کر لیں گے۔ تمہاری جو آمدنی ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے تم تیس برس میں بھی کچھ نہیں کر سکتے ، کیونکہ یہ سو پچاس روپے کی بات نہیں ہے ۔ کیوں انہوں نے یہ بات غلط نہیں کہی تھی۔ ان کی بات سن کر میری گردن جھک گئی، جیسے میں نے اعتراف کیا ہو، پھر بھی میں نے کمزور لہجے میں کہا۔ آپ سچ فرماتے ہیں۔ لیکن کوشش تو کرنے دیں دو میں یہاں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ میری بہن کا بیٹا ہے ساجد وہ میری طرف متوجہ ہو کر بولے۔ سے تم نے منگنی کے موقع پر ضرور دیکھا ہو گا۔ اس کا اپنا چلتا ہوا کاروبار ہے آپ لوگ پسند کریں تو اپنی چھوٹی بہن زینب کارشتہ دے دیں اور ان دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی دن اور ایک ساتھ کر دیں۔ اس طرح خرچ خاصا کم ہو جائے گا اور آپ لوگ ایک بڑے فرض سے سبکدوش بھی ہو جائیں گے ۔ ان کی بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ رب العزت نے بن مانگے ایک بہت اچھا رشتہ بھیج دیا تھا۔ ایسے رشتے تو خواب میں بھی نہیں ملتے اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم تھا۔ میر ادل خوشی سے بھر گیا۔ بھائی صاحب رشتہ تو بہت اچھا ہے۔امی نے ممنونیت سے کہا۔ آپ نے ہماری بچی کو اس لائق سمجھا۔ پہلے بڑی بچی کی شادی تو ہونے دیں۔ دونوں بچیوں کی شادی ایک ساتھ کرنے ہیں حرج ہی کیا ہے اس طرح دونوں فرض بیک وقت ادا ہو جائیں گے اور آپ کے سر سے بوجھ بھی اتر جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا۔ ہمارے حالات کیا ہیں، آپ سے کیا چھپانا ایک بہن کی شادی کے لئے ہی ساز گار نہیں ہیں، اسی لئے تو آپ سے مہلت مانگ رہے ہیں۔ یہ آپ کا خلوص اور محبت ہے کہ دونوں بہنوں کی شادی ایک ساتھ چاہتے ہیں۔ آپ کی اس خواہش کا ہم دل سے احترام کرتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ نا ممکن ہے ۔ میں نے معذرت کی۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ لوگ کن حالات سے دوچار ہیں لیکن آپ شادی کے اخراجات کی بالکل پروانہ کریں۔ وہ امی سے کہنے لگے۔ آپ دونوں بچیوں کو ایک جوڑے میں رخصت کر دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن میں جانتا ہوں کہ دنیا والوں کی خاطر کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ دیکھیں زینت اور زینب میری بیٹیوں کی طرح ہیں۔۔۔ آپ کی عزت، میری عزت ہے۔ میں پانچ ہزار روپے ساتھ لایا ہوں۔ دونوں بچیوں کی شادی کے لئے دے رہا ہوں لیکن اس بات کی بھنک میرے گھر کے کسی فرد کے کانوں میں پڑے اور نہ ہی آپ کے رشتے داروں کو اس بات کا علم ہو۔ یہ راز ہم تینوں کے درمیان رہے گا۔ کل میری بہن اور بھانجیاں آکر زینب کی بات پکی کر جائیں گی۔ اتنا کہہ کر انہوں نے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا جس میں پانچ ہزار کی رقم موجود تھی۔ ان کے جانے کے بعد میری والدہ سجدے میں گر پڑیں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ میں بھی اس قدر متاثر اور جذباتی ہوا تھا کہ میری آنکھ ی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی مانند بہنے لگے ۔ وہ کتنے مخلص، عظیم اور بلند شخص تھے۔ رب العزت نے جو سبب بنا یا تھا، اس کے بارے میں خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اللہ نے ہمیں اس بہانے سے نوازا تھا، کیونکہ ہم نے صرف اور صرف اس کی ذات پر بھروسہ کیا تھا۔ اس روز سے اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہو گیا۔ ایک غیر متزلزل یقین عبدالباری صاحب جب بھی ملتے، یہی کہتے کہ باری تعالیٰ کی ذات پر جو یقین رکھتا ہے، وہ اسے بھی مایوس نہیں کرتا ہے۔ میں نے سوچا کہ انہیں بتادوں کہ زینت کے سسر نے ہماری اس طرح مدد کی ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہیں لیکن معاملہ چونکہ رازداری کا تھا، اس لئے چاہتے ہوئے بھی میں نہیں بتا سکا۔ بہنوں کی شادی کے بعد میری زندگی میں اور بھی واقعات پیش آئے۔ میری راہ میں مشکلات بھی پیش آئیں۔ چونکہ میں نے ہر قسم کے حالات میں اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیا تھا اس لئے اللہ نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ اس نے میری بڑی سے بڑی مشکل کو آسان کیا۔ وہ بے شک بڑا مشکل کشا ہے۔ میں ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں کہ اس نے کس طرح میرا مستقبل بنا دیا اور مجھے ایک ایسی مشکل سے نکالا جس کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بہنوں کی شادی کے کوئی ایک برس بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان بننے کے ایک برس بعد میں اپنی والدہ کو لے کر پاکستان آگیا۔ کراچی شہر میں سکونت اختیار کر لی۔ میں بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان آیا تھا۔ کچھ دن ایک رشتے دار کے ہاں رہا، پھر میں نے ایک مکان کرائے پر لے لیا چونکہ میرے پاس ہندوستان میں ملازمت کا تجربہ تھا، اس لئے سرکاری ملازمت مل گئی اور میں نے ایک دور کی رشتے دار لڑکی سے شادی کر لی۔ دیکھتے دیکھتے چالیس برس بیت گئے۔ میرے سامنے لوگ کیا سے کیا بن گئے مگر میں ایک ادنی سرکاری ملازم ہی رہا۔ میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نجی دفتر میں ملازمت کر لی۔ میرے دوست احباب اور رشتے دار طعنے دیتے کہ تم جس محکمے میں پچیس برس بھاڑ جھو سکتے رہے، چاہتے تو رشوت سے نہ صرف اپنا گھر بنالیتے بلکہ پر تعیش زندگی گزار سکتے تھے۔ میں ان لوگوں کے طعنے سن کر غصے میں آنے کے بجائے دھیرے سے مسکرا دیتا۔ پھر ان سے کہتا کہ اس میں شاید اللہ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔ میں جو ہوں، جیسا ہوں، خوش ہوں۔ اس نے مجھے ضمیر کی دولت عطا کی ہے۔ اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے عزت و آبرو سے رکھا ہے۔ کوئی مجھ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس نے مجھے کسی شخص کا محتاج نہیں بنایا۔ میں صرف اس کا محتاج ہوں، مجھے اس کی ذات پر پکا یقین ہے کہ وہ میرے بچوں کی زندگی تابناک بنا دے گا۔ میری دولڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ میری بیوی عابدہ صرف نام کی عابدہ نہ تھی۔ وہ ایک سگھڑ ، سلیقہ مند اور کفایت شعار بیوی تھی۔ اس کی قناعت پسندی کی وجہ سے قلیل آمدنی میں گھر چل رہا تھا۔ وہ لڑکیوں کی شادی کے خیال سے فکر مند اور پریشان ہو جاتی تھی۔ میری لڑکیوں کے لئے رشتوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ وہ بہت خوبصورت اور پر کشش تھیں۔ لڑکیوں کی مائیں ایسی ہی چاند سی بہو کے خواب دیکھتی تھیں۔ پھر وہ اپنی ماں کی طرح نیک سیرت، سگھڑ اور سلیقہ مند تھ رتھیں۔ ان کا چرچانہ صرف محلے بلکہ رشتے داروں اور خاندان میں تھا، لیکن بات جہیز اور فضول رسموں کے معاملے پر اٹک جاتی تھی۔ لڑکے والے یہ بات بھول جاتے کہ میں نیو کراچی کے ایک کوارٹر میں کرائے پر رہتا ہوں، تنہا کمانے والا ہوں، میں ایک نجی دفتر میں ملازمت کرتا ہوں، میری تنخواہ پچاس ہزار نہیں پانچ ہزار روپے ہے۔ آج کی مہنگائی میں پانچ ہزار روپے میں کیا ہوتا ہے۔ پھر بھی خدا کا شکر تھا کہ قناعت اور سادگی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح گزر بسر ہو جاتی تھی۔ پھر میرے گھر میں رنگین ٹیلیویژن تھا نہ فریج اس کے باوجود لڑکوں کی مائیں اپنا منہ کسی عفریت کی طرح کھول دیتی تھیں۔ عجیب اتفاق دیکھئے کہ میری بہنوں کی طرح میری دونوں بیٹیوں کا رشتہ بھی ایک ہی خاندان کے دولڑکوں سے ۔ طے پا گیا۔ شادی سات مہینے کے بعد طے ہونا پائی۔ لڑکے والوں نے جہیز اور مایوں کی کوئی شرط نہیں رکھی۔ میرے اصرار پر انہوں نے مہندی کی رسم بھی ختم کر دی۔ میں نے یہ دیکھ کر لڑکیاں اس خاندان میں دی تھیں کہ لڑکے شریف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ان کی کمائی حلال رزق پر مبنی تھی۔ وہ میری بیٹیوں کی رخصتی ایک ہی دن میں چاہتے تھے۔ میں نے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی ہر بات مان لی۔ عابدہ نے دونوں بیٹیوں کے جہیز کے لئے ایک جگہ بی سی ڈالنے کی بات کی۔ پانچ سو روپے مہینے کی بی سی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شادی سے ایک ماہ قبل دس ہزار روپے کی بی سی دیں گے۔ میں نے دفتر کے مالک سے بات کی تو انہوں نے میں ہزار روپے کی رقم بطور قرض دینے کا وعدہ کر لیا۔ اس طرح تیس ہزار روپے کا مسئلہ حل ہو گیا لیکن اب بھی خاصی رقم کی ضرورت تھی۔ عابدہ بہت زیادہ فکر مند اور پریشان رہنے لگی تھی۔ یہ ایک فطری امر تھا۔ اسے لڑکیوں کی ماں ہونے کے ناتے گھر کی عزت اور وقار کا بڑا خیال تھا۔ میں لڑکیوں کے چہروں اور آنکھوں میں حزن و ملال دیکھتا تھا۔ وہ بڑی حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ماں، باپ کے دکھ کو سمجھتی تھیں لیکن زبان سے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ ایک روز مجھے دفتر سے آنے کے بعد ایک مڑا تڑا کاغذ ملا۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو اس پر بڑی بیٹی بتول کی تحریر نظر آئی۔ امی جان میں اور ماریہ یہ محسوس کر رہی ہیں کہ جب سے ہم دونوں بہنوں کا رشتہ طے ہوا ہے ، آپ اور ابو مالی حالات کی وجہ سے سخت پریشان ہیں کہ شادی کے اخراجات کے لئے رقم کہاں سے لائیں۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ ہم اس گھر کی بیٹیاں ہیں، آپ دونوں ہمیں جان سے بھی پیارے ہیں۔ ہم سے آپ دونوں کی فکر مندی، پریشانی اور دکھ دیکھا نہیں جارہا ہے ۔ کہنا تو نہیں چاہئے لیکن یہ بات کہنے کے لئے مجبور ہیں کہ یہ رشتہ توڑ دیں۔ اس رشتے کے ختم ہونے پر ہمیں کوئی غم نہیں ہو گا، خوشی ہو گی کہ ایک بڑے بوجھ سے نجات مل گئی۔ ہم دونوں بہنیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کسی اسکول میں استانی کی ملازمت کر لیں گی یا کسی ادارے میں ملازم ہو جائیں گی۔ آخر سیکڑوں لڑکیاں ملازمت کرتی ہیں۔ ہم اولاد ہونے کے ناتے والدین پر بوجھ بننا نہیں چاہتیں۔ آپ اور ابو نے جس طرح ہماری پرورش کی اور تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں۔ اگر کسی اسکول یا دفتر میں ہمار املازمت اختیار کرنا نا مناسب ہے تو پھر گھر میں سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ ہماری گلی کی کئی لڑکیاں گھروں میں سلائی کا کام کرتی ہیں اور ہر ماہ ایک معقول رقم حاصل کر لیتی ہیں۔ ہماری یہ تحریر ابو کو نہ دکھائیں اور نہ ہی ان سے اس موضوع پر کوئی بات کریں۔ آپ کی بیٹیاں بتول صابره یہ خط پڑھ کر میں آبدیدہ ہو گیا۔ مسجد میں عشا کی نماز کے بعد اللہ کو یاد کر کے خوب رویا۔ میری لڑکیاں کتنی حساس اور حقیقت پسند تھیں۔ عابدہ نے اس موضوع پر مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے ظاہر ہونے دیا کہ میں نے خط پڑھ لیا ہے۔ جب میں رات سونے کے لئے دراز ہوتا تو عابدہ پوچھتی ۔ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیسے اور کہاں سے ہو گا کیا آپ کوشش کر رہے ہیں وہ راتوں کو سوتے ہوئے اچانک بیدار ہو جاتی اور گھٹ گھٹ کر رونے لگتی۔ مجھے بیدار کر کے کہتی۔ آپ کو ذرہ بھر فکر نہیں، آپ گھوڑے بیچ کر سو جاتے ہیں آخر یہ شادی کیسے ہو گی سوچ سوچ کر مجھے اختلاج ہونے لگتا ہے۔ میں اسے دلاسا دیتا اور سمجھاتا۔ اللہ کی بندی تم آرام سے سو جائو۔ کسی بات کی فکر مت کرو ہم نے اللہ پر توکل کیا ہے ، اب وہی اس کے اسباب بنائے گا۔ وہ آسمان پر جوڑے بناتا ہے تو دنیا میں انہیں رخصت کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اللہ پر جو بھروسہ کرتا ہے ، وہ اسے کبھی مایوس نہیں کرتا۔ مایوسی کفر کفر ہے۔ اس نے چاہا تو سب کام بخیر و خوبی انجام پا جائیں گے ۔ میرے دفتر میں کئی لوگ ہر مہینے انعامی بانڈ کی پرچیاں خریدتے تھے۔ ان کے کبھی چھوٹے بڑے انعام نکل آتے تھے۔ یہ ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ لوگ پر چیاں خرید کر تباہ ہو رہے تھے۔ بہت کم لوگوں کی قسمت یاوری ہوتی تھی۔ دفتر کے ساتھی مجھے مشورہ دیتے کہ میں بھی ہر مہینے دو تین سو روپے کی پرچیاں خرید کر اپنی قسمت آزمائی کروں، کیا پتا کوئی بڑا انعام نکل آئے۔اس طرح بچیوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے ہو جائیں گی۔ تمام مسئلے چٹکی بجاتے حل ہو جائیں گے۔ میں ان لوگوں سے کہتا کہ مجھے ان پر چیوں پر نہیں، اللہ پر بھروسہ ہے۔ میں کوئی ایسا کام کرنا نہیں چاہتا جو غلط اور غیر شرعی ہو یہ ایک طرح کا جوا ہے۔ میری مشکل وہی حل کرے گا، یہ میرا ایمان اور یقین ہے۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ کر نہیں آتی، اچانک آتی ہے۔ جہاں دس ہزار کی کمیٹی ڈال رکھی تھی، وہ عورت ایک حادثے کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہوگئی لہٰذا یہ بی سی پس پشت چلی گئی۔ اس کے تیسرے دن جس کمپنی میں میں ملازمت کر رہا تھا ، اس کمپنی کا دیوالیہ نکل گیا لہٰذا ایک مہینے کی تنخواہ دے کر ملازمین کو فارغ کر دیا گیا۔ میں نے اس خیال سے دو تین دوستوں سے ہیں ہزار کی رقم قرض لی تھی کہ کمپنی سے قرض ملتے ہی انہیں لوٹا دوں گا۔ کمپنی کے دیوالیہ ہوتے ہی مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ادھر بی سی کے دس ہزار روپے بھی ہاتھ سے گئے۔ مالک مکان نے میرے حالات کے پیش نظر مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا۔ میری بیوی اور دونوں لڑکیوں کارورو کر برا حال تھا۔ اس اچانک اور غیر متوقع افتاد کے باوجود میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ میں نے اپنی بیوی اور لڑکیوں کو سمجھایا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کی آزمائش ہے۔ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت اور بہتری ہے۔ اس نے چاہا تو مصیبت کے یہ بادل جلد چھٹ جائیں گے۔ ہم نے اس کی ذات پر بھروسہ کیا ہے ، وہ ہماری مشکل ضرور آسان کر دے گا۔ شادی میں میں دن باقی رہ گئے تھے۔ میں دن رات دوڑ دھوپ کر رہا تھا کہ کہیں سے اتنی رقم کا بندوبست ہو جائے کہ کسی طرح شادی کے فرض سے سبک دوش ہو جائوں لیکن ایسی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔ ہر سمت گھپ اندھیرا تھا۔ ایک روز میرے بچپن کے ایک دوست احسن صدیقی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ کلیئرنگ ایجنٹ تھے۔ ان کی بڑی کوشش ہوتی تھی کہ مجھے کسی طرح فائدہ پہنچائیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیرون ملک سے دو سو استعمال شدہ فریج کی ایک لاٹ آئی ہے جسے ایک پارٹی نے کسٹم سے خریدا ہے۔ ان میں کوئی نہ کوئی ایسا نقص ہے جسے وہ لوگ اونے پونے بیچ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا نقص ہزارہ، پانچ سوروپے میں درس رست ہو جائے گا۔ تم تم ایک فریج خرید لو، اسے میں بکوادوں گا۔ اس طرح چار چھ ہزار روپے تمہیں منافع مل جائے گا۔ اگر تمہارے پاس رقم ہے تو اسی وقت میرے ساتھ چلو اور ایک فریج اٹھا کر لے آئو۔ میں نے دل میں سوچا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں اگر چھ ہزار روپے منافع کے مل جائیں تو کیا برے ہیں۔ میرے پاس قرض لی ہوئی رقم پڑی تھی۔ اس رقم کو ابھی تک کسی وجہ سے خرچ نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے عابدہ سے مشورہ کیا۔ وہ غریب خود بھی یہی چاہتی تھی کہ کہیں سے کسی طرح بھی دو چار پیسے ہاتھ آجائیں۔ اب جو دو چار پیسے مل رہے ہیں تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ فورام حسن بھائی کے ساتھ چلے جائیں۔ احسن کے ساتھ میں اسٹور پہنچا۔ وہاں مختلف سائز کے فریج موجود تھے۔ ایک بڑا فریج اچھی طرح پیک تھا لیکن ایک طرف کا گتا پھٹا ہوا تھا جس سے اس کا ڈینٹ جھانک رہا تھا اور وہاں جو گاہک موجود تھے ، وہ اس ڈینٹ کی وجہ سے خریدنے سے احتراز کر رہے تھے۔ احسن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اسے خرید لوں، یہ ڈینٹ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی اچھی قیمت مل جائے گی۔ میں یہ فریج لے کر گھر پہنچا۔ اسے صحن میں ایک طرف رکھ دیا اس لئے کہ میر ادو کمروں کا مکان تھا۔ پہلے ہی اتنا سامان موجود تھا کہ اسے اندر نہیں رکھ سکتا تھا۔ پڑوسیوں نے یہ سمجھا کہ ہم نے یہ فریج جہیز میں دینے کے لئے خریدا ہے۔ وہ ہمارے گھر آکر مبارکباد دینے لگے ۔ فریج کو ہم نے اس طرح رکھا تھا کہ اس کا ڈینٹ دکھائی نہ دے تا کہ وہ یہ اعتراض نہ کریں کہ لڑکی کو جہیز میں دینے کے لئے سیکنڈ ہینڈ فریج خرید کر لائے ہیں۔ موسم کئی دنوں سے ابر آلود تھا۔ آسمان پر سفید اور کالے کالے بادل تیرتے رہتے تھے۔ کبھی تو سیاہ گہرے بادل چھا جاتے اور کبھی سورج نکل آتا تھا۔ اس رات سخت گرمی تھی لیکن بارش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں اور عابدہ اس رات بڑی دیر تک جاگتے اور اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے رہے تھے۔ میں اس کی دل جوئی کرتا رہا تھا کہ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھو، نا امید نہ ہو ، وہ بڑا کار ساز ہے۔ عابدہ کا کہنا تھا کہ شادی سر پر کھڑی ہے ، ہم ایسے نیک بندے نہیں ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی معجزہ ہو جائے۔ پھر ہم کب سوئے، کچھ پتا نہیں چلا۔ ہم گہری نیند کی آغوش میں تھے کہ اچانک عابدہ نے مجھے جھنجوڑ کے جگاد یاتر اس وقت رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے اس کا متوحش چہرہ دیکھا تو اچھل پڑا۔ ایسالگ رہا تھا جیسے گھر میں چور گھس آئے ہوں۔ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ کیا ہوا تم اس قدر پریشان اور خوف زدہ کیوں ہو رہی ہو ہور کیا آپ یہ آواز نہیں سن رہے اس کی آواز حلق میں اٹک رہی تھی۔ وہ بمشکل بولی ۔ بارش کی آواز دیکھئے کیسی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے جیسے آسمان پھٹ پڑا ہو۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور ہنس کر بولا۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے۔ کئی دنوں سے سخت گرمی پڑ رہی ہے، بارش کی وجہ سے کم ہو جائے گی، موسم سہانا اور خوشگوار ہو جائے گا۔ اس وقت بارش زحمت بنی ہوئی ہے۔ باہر فریج بارش میں بھیگ رہا ہے ، اسے جلدی سے اندر لائیں، نہیں تو وہ پانی سے خراب ہو جائے گا۔ کیا کہا فریج میں اس طرح اچھل پڑا جیسے سر پر ہتھوڑا پڑا ہو۔ میں فوراً بستر سے نکلا اور دروازہ کھول کر صحن میں آیا تو دیکھا کہ فریج موسلا دھار بارش میں نہا رہا ہے۔ فریج خاصا بڑا اور نہایت بھاری ری تھا۔ میں اسے اپنی جگہ سے ہلا تو سکتا تھا، اٹھا نہیں سکتا تھا۔ اسے اندر لانے کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنے بچوں کو جگایا۔ جب فریج کے پاس پہنچے تو میں نے دیکھا کہ فریج بارش میں پوری طرح بھیگ چکا ہے۔ اس کی پیکنگ کا بیڑا غرق ہو رق ہو چکا تھا۔ تھا۔ گئے کا کارٹن بھیگ کر پھٹ چکا تھا۔ فریج کا یہ حشر دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ عابدہ کا چہرہ سفید پڑتا چلا گیا۔ اس کی حالت مردے سے سے بھی بد تر ہو رہی تھی۔ لڑکیوں کے چہر۔ کے چہرے فق ہو گئے تھے۔ انہوں نے بھی گہرا اثر لیا تھا۔ ان کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔ کہاں تو پانچ چھ ہزار روپے کا فائدہ سوچاتھا، کہاں ہزاروں کی رقم کا نقصان ہو گیا تھا۔ مفلسی میں آٹا گیلا ہو گیا تھا، لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ ہم نے جلدی سے ایک کمرے کا سامان ایک طرف کر کے فریج کو کمرے میں لا کر رکھا۔ فریج چونکہ بہت بھاری تھا اس لئے اسے اٹھاتے اٹھاتے ہم بھی بارش میں بھیگ گئے۔ ہم سب نے جلدی سے کپڑے تبدیل کئے۔ میں اس کمرے میں آکر کرسی پر غمگیں سا بیٹھ گیا جس میں فریج رکھا تھا۔ سوچوں میں ڈوب گیا کہ اب کیا ہو گا دل کی حالت غیر ہونے لگی۔ عابدہ بھی سامنے والی کرسی پر آبیٹھی تھی۔ وہ سسکیاں بھرنے لگی تھی۔ میں نے تسلی کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ دل بھر کے رولے تاکہ ساری بھڑاس نکل جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب عابدہ کے آنسو تھے تو وہ زخم خوردہ لہجے میں بولی۔ اللہ میاں آخر ہمیں کن گناہوں کی سزا دے رہا ہے ہو سکتا ہے ہم سے نادانستگی میں کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہو گا۔ کسی کی دل آزاری ہو گئی ہو۔ میں نے دلگرفتہ لیجے میں جواب دیا۔ دہم نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو دھوکا نہیں دیا، حرام کا نہیں کھا یا پھر یہ سب کچھ کس لئے ہو رہا ہے شاید اللہ کو ہم لوگوں کی آزمائش منظور ہو۔ میں نے اس کے رخساروں پر ڈھلکتے آنسو پونچھے ۔ دعا کرو کہ ہم ثابت قدمی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں شکوہ اور ناشکری نہ کریں۔ آپ ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے عابدہ نے سسکتے ہوئے کہا۔ لڑکیوں کی شادی سر پر ہے اور مشکل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ اتنی رکاوٹیں قدم قدم پر کھڑی ہو رہی ہیں۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ شادی نہیں ہو پائے گی۔ اللہ کو کیا ہمارا امتحان اس وقت لینا تھا ہر بات میں اس کی کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ ایک طرح سے میں نے اسے ہی نہیں اپنے آپ کو بھی تسلی دی۔ شاید اس میں اس کی کوئی بہتری ہو۔ بس آپ جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں۔ وہ اپنے چہرے کو دوپٹے سے ڈھانک کر رونے لگی۔ فریج کو اس کمرے میں لانے کے بعد میرابیٹا اور لڑکیاں اس کے اوپر کا کارٹن جو بھیگ چکا تھا، صحن میں ایک طرف پھینک کر فریج کو کپڑے سے صاف کرنے لگے۔ فریج کے دروازے میں جو تالا تھا، اس میں چابی لٹک رہی تھی۔ میرا بیٹا ندیم فریج کا دروازہ کھولنے لگا تو میری بیٹی نے اسے ڈانٹا مگر وہ شریر اپنی حرکت سے باز نہیں آیا۔ اس نے موقع پاکر چابی گھمادی اور دروازہ کھول لیا پھر فریزر کا دروازہ کھول کر اندر جھانکنے لگا۔ چند لمحوں تک جھانکتا رہا پھر ایک دم پر ہیجان لہجے میں چیخا۔ امی ، ابو ادھر آئیں، دیکھیں یہ کیا ہے پھر کیا کوئی نئی مصیبت نازل ہو گئی عابدہ نے چہرے سے دوپٹہ ہٹا کر سخت لہجے میں کہا۔ اس منحوس فریج کو گلی میں لے جا کر پھینک دو۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر فریج کے پاس پہنچا تو میری آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ مجھے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا۔ یوں لگا جیسے کوئی بہت ہی سہانا خواب دیکھ رہا ہوں۔ مجھ پر ایک لمحے کے لئے سکتہ سا چھا گیا۔ میں دم بخود کھڑا اندر جھانک رہا تھا۔ میری عقل کام نہیں کر رہی تھی۔ اس میں سونے کی بیس عدد سلاخیں اور نوٹوں کی گڈیاں پولی تھین کی تھیلیوں میں پیک کی ہوئی رکھی تھیں۔ ہر سلاخ دس تولے کی تھی۔ پھر میں نے نوٹوں کی گڈیاں دیکھیں۔ یہ بھی ہیں عدد تھیں۔ دس گڈیاں برٹش پائونڈ کی تھیں، پانچ گڈیاں امریکی ڈالر کی اور پانچ گڈیاں درہم کی تھیں، پھر ایک چرمی تھیلی میں زیورات موجود تھے۔ میں اور عابدہ فوراً ہی سجدے میں گر گئے اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے ۔ اللہ نے چھپر پھاڑ کے اتنادے دیا تھا کہ سارے دلد را یک دم دور ہو گئے تھے۔ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا کہ وہ مجھے اس قدر عطا کرے گا۔ مجھے بے پناہ دولت اس لئے دی تھی کہ میں نے اس کی ذات پر غیر متزلزل تو کل کیا تھا، یقین کیا تھا۔ میں نے بیوی، بچوں کو سختی سے منع کر دیا کہ اس بات کی کسی کے کان میں بھنک نہ پڑے۔ میں نے سب سے پہلے ایک مکان خریدا، پھر اپنی بچیوں کی شادی نہ صرف سادگی سے کی بلکہ زندگی بھی سادگی سے گزاری۔ میں نے پر تعیش زندگی گزارنے کی بجائے اپنے خاندان کی ان غریب لڑکیوں کی شادی کے لئے پچاس پچاس ہزار روپے جن کی شادی والدین کی مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں ہو پارہی تھیں، دے دیئے۔ میں نے ملازمت چھوڑ کر ایک جنرل اسٹور کھول لیا۔ کم منافع اور رعایت کے باعث میرا اسٹور خوب چلتا ہے۔ میں آج بھی چراغ سے چراغ جلاتا رہتا ہوں ۔ اللہ نے مجھے یہ چراغ اس لئے دیا ہے کہ میں اس چراغ سے دوسروں کے چراغ روشن کرتا رہوں۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 178 | https://www.urduzone.net/burai-ka-anjam/ | ایک روز میں کھانا بنا رہی تھی کہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو میرے شوہر حمید سامنے کھڑے تھے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ تب ہی میرے شوہر بولے ۔ آج دفتر سے جلدی آنا ہو گیا ۔ اچانک مہمان آگیا، کیا کھانا تیار ہے۔ جی تیار ہے تقریباً یہ کہہ کر میں باورچی خانے میں چلی گئی اور حمید دوست کو لے کر بیٹھک میں جا بیٹھے۔ انہوں نے کھانا کھا کر مہمان کو بیٹھک میں پڑی چار پائی پر آرام کرنے کو کہا اور مجھے اس دوست کے بارے میں بتایا که فیروز میرے بچپن کا دوست ہے آج کل برے حالات کا شکار ہی تو اب مرے پاس آیا ہے یہاں نہ تو اس کے رہنے کا ٹھکانہ ہے اور نہ ہی روزگار میں پریشان ہوں کہ اس کو کہاں ٹھہراؤں بیٹھک میں ٹھہرا لیجئے۔ میں نے شوہر کو پریشان دیکھ کر کہا۔ وہ بھی ایک طرح سے رضا مندی لینا چاہ رہے تھے کیونکہ مہمان کی کھانے کا انتظام تو مجھے ہی کرنا تھا۔ حمید پر سکون ہو گئے اور بولے کے میں نے اسے تسلی دے ہے کہ جب تک تمہارے روزگار کا بندوبست نہیں ہو جاتا تب تک کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس رہ جاؤ۔ رہنے کا ٹھکانہ روزگار سب اللہ کی مہربانی سے ہو جائے گا۔ حمید نے گھر کی بیٹھک فیروز کے لئے خالی کر دی اور میں صبح و شام کھانا پکا کر بھیجوانے لگی۔ دو ماہ یہ شخص ہمارے گھر مہمان رہا۔ کچھ اس کو بے فکری اور سکون میسر آیا تو دلجمعی سے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ حمید بھی اپنے جاننے والوں سے کہتے تھے کہ میرے دوست فیروز کو ملازمت کی ضرورت ہے، کوئی سلسلہ بنے تو مدد کرنا۔ آخر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور فیروز کو ایک محکمے میں مناسب نوکری مل گئی ۔ مالی محتاجی دور ہو گئی تو وہ رہنے کا ٹھکانہ ڈھونڈ نے لگا۔ تبھی حمید نے اپنی مکان مالکن سے تذکرہ کیا۔ ہمارے برابر والا مکان خالی پڑا تھا۔ اس عورت نے یہ گھر فیروز کو مناسب کرایے پر دے دیا۔ یوں اب وہ ہمارا پڑوسی بن گیا۔ اس کے پڑوس میں خود مکان مالکن کی رہائش تھی ۔ سب کچھ تو ہو گیا، لیکن اب ایک مسئلہ اسے یہ در پیش تھا کہ اسے کھانا بنا کر دینے والا کوئی نہ تھا۔ میں بھی چاہتی تھی کہ وہ اپنا کوئی انتظام کر لے ۔ وہ بھی تکلف محسوس کرنے لگا تھا ۔ کہتا تھا کہ بھابھی نے بہت ہے تکلیف اٹھائی ہے مزید ان کو زحمت نہیں دینا ہے چاہتا۔ آخر حمید نے مشورہ دیا ۔ کہ فیروز میاں شادی کرلو ۔ کب تک کوئی تم کو کھانا کھلائے گا اور کب تک ہوٹل کا مضر صحت کھانا کھا پاؤ گے۔ اس پر وہ ہنس دیا، بولا ۔ حمید یار میرا کون ہے ، جو میری شادی کرائے گا۔ بھائی یہ تو وہی بات ہوئی نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ انہی دنوں میری چھوٹی بہن علاج کی خاطرگاؤں سے ہمارے گھر آئی ہوئی تھی۔ وہ کچھ عرصہ سے بیمار رہتی تھی حمید نے مجھ سے ذکر کیا کہ تم کہو تو میں فیروز سے بات کروں پہلے اپنی ماں سے صلاح لے لو۔ وہ مان جائیں تو روشن کی شادی فیروز سے ہو سکتی ہے۔ لیکن مجھے تو نہیں خبر کہ آپ کا دوست کیسا آدمی ہے ارے بھئی، نہایت شریف آدمی ہے۔ ہم بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں۔ آگے پیچھے کوئی نہیں۔ دو ماہ میں تم نے بھی اس کو جانچ پرکھ لیا ہوگا۔ کوئی بری عادت اس میں نہیں ۔ ٹھیک ہے میں امی اور بہن سے بات کرتی ہوں ، تم بعد میں دوست سے بات کرنا۔ میں نے ماں سے بات کی ، وہ بولیں ۔ کون ماں نہیں چاہتی کہ اس کی لڑکی وقت پر بیاہی نہ جائے ۔ تم کو پتا ہے کہ دو تین ماہ سے تمہاری بہن کچھ علیل رہنے لگی ہے، تبھی یہاں لائی ہوں ۔ پہلے یہ ٹھیک ہو جائے ۔ ہاں ماں علاج ہوگا تو ٹھیک ہو جائے گی۔ آپ نے آخر اسے بیاہنا تو ہے۔ پھر تم اور حمید خود سوچ سمجھ کر رشتہ طے کر لو۔ ہمارے مالی حالات کا بھی تم لوگوں کو علم ہے۔ اس کی آپ فکر نہ کریں ۔ آپ رضا مند ہیں تو میں حمید سے بات کر لیتی ہوں۔ یوں میں نے حمید سے اور انہوں نے فیروز سے اس کے رشتے کا تذکرہ کیا ۔ جواب میں فیروز چپ رہا۔ اس چپ کا کیا مطلب ہے یار میری سالی، دیکھی بھالی ہے۔ اپنے گھر کی لڑکی ہے۔ اگر تم شادی کرنا چاہتے ہو تو منڈی ہلا دو۔ تیرا گھر آباد ہو جائے گا اور کھانے پینے کی مشکلات سے بھی اے نجات مل جائے گی ۔ فیروز نے کہا۔ جو تم بہتر سمجھو، مجھے منظور ہے۔ اب تم ہی میرے بھائی بھی ہو اور دوست بھی ۔ بات اتنی جلدی بن جائے گی مجھے گمان بھی نہ تھا کہ کل تک جو مہمان ہے تھا، اب ہمارے گھر کا ایک فرد بننے جا رہا تھا۔ فیروز نے حمید سے یہ بھی کہا تھا کہ میری مالی حالت تم سے پوشیدہ نہیں ہے، ابھی میری نوکری لگی ہے ۔ اس کی تم فکر مت کرو۔ وہ سب انتظام ہو جائے گا۔ تم رضا مند ہو تو پھر میں ساس اور سالی سے بات کر لیتا ہوں۔ یوں فیروز کی شادی میری بہن روشن سے ہو گئی۔ زیور کپڑا سب میں نے اپنی طرف سے بہن کو دیا کیونکہ فیروز کے پاس بری اور زیور کے لئے رقم نہ تھی۔ لڑکے کی طرف سے شادی کا خرچہ بھی ہم نے کیا۔ مجھے یقین تھا کہ روشن شادی کے بعد خوشی ملنے سے ٹھیک ہو جائے گی کیونکہ اس کی شادی کی عمر نکلی جارہی تھی اور میرے والدین کے مالی حالات درست نہ ہونے کے سبب کوئی اچھا رشتہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ اس صورت حال میں اکثر لڑکیاں نا امید ہو کر بیمار پڑ جاتی ہیں اور ان کی بیماری کسی کے سمجھ میں نہیں آتی۔ ہوا بھی یہی کہ شادی کے بعد روشن کی رنگت سرخ ہونے لگی اور وہ تندرست دکھائی دینے لگی ۔ حمید نے بھی یہی سوچا تھا کہ ان کی ذراسی قربانی سے یعنی شادی کا خرچہ اٹھانے پر ان کے دوست کا گھر بس جائے گا اور سسرالی بھی خوش ہو جائیں کہ ان کی لڑکی کو اچھا برمل گیا ہے۔ دونوں کا گھر بن گیا۔ فیروز اور روشن خوش رہنے لگے اور اپنی دنیا میں مگن ہو گئے ۔ ہم بھی خوش تھے کہ چلو اچھا ہوا، یہ بیل منڈھے چڑھی۔ حمید سسرالیوں میں سرخرو تھے کہ روشن شادی کے بعد خوش تھی ۔ سال بعد اس نے بچی کو جنم دیا، جس کا نام اس نے حوریہ رکھا۔ وہ بہت پیاری صورت والی ، گول مٹول بھی تھی۔ ہمارے گھر کوئی بچہ نہ تھا۔ میں اسے گھر لے آتی ، گھنٹوں اپنے پاس رکھتی۔ مجھ کو اپنی بھانجی بہت پیاری لگتی تھی ۔ اب تو وہ ہمہ وقت میرے پاس ہی رہتی ۔ وہ مجھ سے اتنی مانوس گئی تھی کہ جب رات کو سو جاتی ، تب ماں اسے اٹھا کر لے جاتی۔ اب وہ دو سال کی ہو گئی تھی اور میری اتنی عادی ہو گئی تھی کہ ایک منٹ بھی میرے بغیر نہ رہتی ۔ خدا کی کرنی کہ میری بہن پھر سے بیمار رہنے لگی اور اس کی بیماری اتنی بڑھی کہ لاغر ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کیا اور وہ چھ ماہ بعد چل بسی۔ جوان موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی لیکن فیروز کا تو گھر اجڑ گیا تھا اور خور یہ بے آسرا ہو گئی تبھی فیروز نے اسے مکمل طور پر میرے سپرد کر دیا کہ اب یہ آپ ہی کی بچی ہے، آپ نے اس کی پرورش کرنا ہے ۔ بہن کی وفات اور بھانجی کے بن ماں ہو جانے پر میں بہت رویا کرتی تھی۔ حمید بھی غمزدہ تھے کہ ان کے پیارے دوست کا گھر اجڑ گیا تھا۔ اس عرصہ میں یہ کسی کو پتا نہ چلا کہ ہم آپس میں رشتہ دار ہیں یا غیر ۔ روشن نے اپنی وفات سے دو دن قبل فیروز سے وعدہ لیا تھا کہ میری بچی کو باجی کو دے دینا اور خود جہاں مرضی ہو، شادی کر لینا۔ سال بعد میں نے اور حمید نے فیروز کو مشورہ دیا کہ وہ دوبارہ شادی کرلے ۔ بچی تو ہمارے پاس ہے، مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اب میں اور شادی نہیں کروں گا بس ایسے ہی زندگی گزار لوں گا۔ کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ وہ گھر کی مالکن سروری بیگم کے گھر بھی آتا جاتا ہے۔ اس کا شوہر سعودی عرب کمانے گیا ہوا تھا۔ وہ گھر میں بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی تھی ۔ ہم نے ان دونوں کے بارے میں چہ میگوئیاں سنیں تو حمید نے فیروز سے پوچھا۔ وہ برہم ہو گیا، کہنے لگا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لوگ تو یونہی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں ۔ اس بیچاری کا مرد پردیس میں ہے۔ اس کو باہر کے کام کروانے ہوتے ہیں تو مجھے کہلوا دیتی ہے، میں کر دیتا ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے جس پر لوگ ہمیں بد نام کر رہے ہیں۔ حمید یہ سن کر خاموش ہو رہے حالا نکہ لوگوں نے یہ تک کہا تھا که سروری بیگم رات کو بھی فیروز کے گھر آتی جاتی ہے۔ محلے اور پاس پڑوس کے لوگوں نے دیکھا تھا۔ تبھی سردیاں آئیں۔ فیروز نے مجھ سے کہا کہ باجی میری رضائی دھلوا کر بھر دادیں ۔ مجھے رات کو سردی محسوس ہونے لگی ہے۔ میں نے کہا۔ بھیا مکان اور پیٹی کی چابیاں دے جانا، میں جا کر رضائی نکال لوں گی۔ اس نے مجھے چابیاں دے دیں میں اسی روز گئی اور بستروں والی پیٹی میں سے رضائی نکالنے لگی۔ جونہی میں نے ایک رضائی باہر نکالی، اس کے اندر سے کئی خط بھی نکل کر فرش پر گر پڑے۔ میں یہ دیکھ کر گھبرا گئی ۔ یہ سروری بیگم کے محبت نامے تھے جو فیروز کے نام تھے۔ ایک شادی شدہ عورت اور دو بچوں کی ماں ، جس کا خاوند اس کو سکھ پہنچانے کی خاطر پردیس میں تھا، اس کے ایک غیر آدمی سے اس قسم کی جان پہچان دیکھ کر مجھے پڑوسن سے بہت نفرت محسوس ہوئی ، ساتھ ہی اپنے بہنوئی کے اچھے کردار کے بارے میں جو رائے تھی ، وہ زمیں بوس ہو کر گر پڑی۔ میں تو فیروز کو نہایت نیک چلن اور سے با کردار شخص سمجھتی تھی۔ ان خطوط میں ہمارے گھر کی باتیں بھی تھیں۔ میں یہ سارے خطوط اٹھا کر گھر لے آئی۔ جب فیروز کو پتا چلا کہ خط میں اٹھا لائی ہوں تو وہ بہت ناراض ہوا اور ہم سے جھگڑ پڑا اور اپنا زیور جو ہمارے پاس تھا، طلب کیا ۔ جو اس کی رقم ہمارے پاس امانت رکھی تھی وہ بھی ہم سے لے لی ۔ یہی نہیں ، اپنی بچی بھی لے گیا۔ ہم سے بول چال بند کر دی اور بچی کو سروری بیگم کے سپرد کر دیا۔ میرے لئے یہ سب کچھ بے حد تکلیف دہ تھا۔ بچی آنکھوں کے سامنے ساتھ والے گھر میں روتی رہتی اور ہم اس کو اپنے پاس نہیں لا سکتے تھے۔ وہ مجھ کو امی کہہ کر بلاتی تھی۔ وہ امی ، امی کی دہائیاں دیتی رہتی اور میں دیوار سے ادھر اس کی پکاریں سن کر روتی اور تڑپتی رہتی ۔ حمید سے میری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ آخر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ فیروز سے لڑنے کے بجائے گھر ہی تبدیل کرلیں، تا کہ نہ بچی کی آواز ہمارے کانوں تک آئے گی اور نہ ہی جھگڑا ہوگا ۔ ہمارا صرف یہی قصور تھا کہ ہم نے فیروز کو سمجھایا تھا کہ وہ ایک غیر عورت سے غلط مراسم نہ رکھے، کیونکہ یہ بری بات ہے اور بری باتوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ بس ہماری یہی نصیحت اس کو ہم سے برافروختہ کر گئی۔ جس دن ہم گھر چھوڑ کر جارہے تھے، سارا محلہ اکٹھا ہو گیا۔ سب نے پوچھا۔ کیا بات ہے کیوں تم مکان تبدیل کر رہے ہو اتنے برسوں کا ساتھ ہے، جانے اب کیسے لوگ کرایے دار آئیں ۔ حمید ان کو کیا وجہ بتاتے یہی کہا کہ مجبوری ہے، اس لئے جارہے ہیں۔ وہ کچھ سامان لے کر چلے گئے ۔ باقی سامان اور مجھے انہوں نے دوسرے چکر میں لے کر جانا تھا۔ جب واپس آئے تو دیکھا کہ میرا اچھا خاصا جھگڑا سروری بیگم سے ہو چکا ہے۔ جب کسی معاملے میں عورتیں بول پڑیں، تو بات جلدی ختم نہیں ہوتی ۔ محلے کی عورتیں جمع ہو گئیں ۔ سب نے کہا ۔ دس سال تم لوگ رہے، آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ آخر کیوں اب گھر چھوڑ کر جا رہے تھے اور اب جھگڑا بھی ہو گیا۔ تب میں پھٹ پڑی کہ یہ عورت اپنے محبت نامے مانگ رہی ہے، جو اس نے میرے بہنوئی فیروز کو لکھے ہیں ، مگر میں نہیں دوں گی، کیونکہ ان خطوط میں ہماری برائیاں بھی لکھی ہوئی ہیں ۔ اگر دوں گی تو فیروز کو دوں گی کیونکہ میں نے اس کی بستروں والی پیٹی سے اٹھائے تھے۔ یہ مانگنے والی کون ہوتی ہے اگر آپ لوگوں کو یقین نہیں آتا تو سارے خطوط آپ کو بھی دکھا سکتی ہوں ۔ میرے یہ کہنے سے تو طوفان ہی آگیا اور بات مار کٹائی تک پہنچ گئی۔ جب حمید پہنچے تو ہماری مار کٹائی اور ہاتھا پائی ہو رہی تھی ۔ حمید نے مجھ سے کہا۔ اسما مجھے تمہاری نادانی پر بہت افسوس ہے۔ جب میں نے تم سے کہا تھا کہ جھگڑا نہ کرنا اور خطوں کی کوئی بات منہ سے مت نکالنا، تو یہ بات تمہارے منہ سے کیوں نکل گئی اصل میں مجھے تو اپنی نھی بھانجی سے جدائی کا بے حد غم تھا، جو اس عورت کے قبضے میں تھی جبکہ یہ اس کی کچھ بھی نہیں لگتی تھی۔ وہ بچی کو میرے پاس آنے نہ دیتی تھی، بس اسی غصے کے رد عمل نے مجھ سے ایسی بات کھلوادی۔ ہم نئے مکان میں چلے گئے مگر میں یہاں آ کر قطعی خوش نہ تھی۔ بے حداد اس اور بجھی بجھی رہتی تھی۔ حوریہ کی جدائی اور بہن کی وفات نے مجھ پر برا اثر ڈالا تھا۔ میں اپنی مرحومہ بہن کی نشانی سے بہت محبت کرتی تھی۔ چند ماہ تو میں اس غم میں گھلتی رہی، پھر آخر ضبط نہ کرسکی تبھی ایک روز اپنے پرانے محلے چلی گئی ۔ جو نہی رکشہ پرانے گھر کے قریب رکا، حوریہ، جو باہر کھڑی تھی ، اس نے مجھ کو پہچان لیا اور امی کہتی دوڑتی ہوئی آکر رکشہ میں چڑھ کر بیٹھ گئی۔ اس کی والہانہ محبت سے بے قابو ہو کر مجھے جانے کیا سوجھی کہ دل پر قابو نہ رہا میں آنا فانا اسی رکشے میں اپنے ساتھ گھر لے کر آگئی۔ جب حمید گھر لوٹے تو یہ واقعہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے مجھے برا بھلا کہا اور بولے تم نے یہ کیا حرکت کی ہے اب تمہارا بہنوئی ہم پر اپنی بیٹی کے اغوا کا کیس داخل کر دے گا۔ میں تو بچی کو محبت میں اٹھالائی تھی، مگر فیروز بھاگ دوڑ میں لگ گیا کیونکہ آس پڑوس کی عورتیں بھی دیکھ رہی تھیں کہ میں فیروز کی بیٹی کو رکشہ میں بٹھا کر لے جا رہی تھی۔ پس میرے بہنوئی نے ہم پر بچی کے اغوا کا کیس درج کرادیا۔ تبھی حمید بھاگے ہوئے اس کے پاس گئے کہ ایسا نه کرد میری بیوی محبت سے مجبور ہو کر بھانجی کو ذرا دیر کے لئے لے آئی تھی۔ میں خود ابھی اسے واپس پہنچانے آرہا تھا۔ تم پریشان نہ ہو اور نہ بات تھانے تک لے جاؤ مگر وہ بضد کہ تھانے چلو، بات وہیں ہوگی۔ بڑی مشکل سے حمید نے اس کو باز رکھا کہ آئندہ ایسا نہ ہوگا ۔ کل صبح ہی ہم تمہاری بچی کو تمہارے حوالے کر دیں گے۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے تم بچی کو ایک دو دن رکھ لو تا کہ میں کیس کو ختم کرادوں۔ دو دن گزرے تھے۔ دو پہر کے بعد جب حمید دفتر سے آئے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور دیکھا کہ فیروز بہت گھبرایا ہوا کھڑا ہے۔ تن پر لباس بھی موزوں نہیں ہے ، نہ پاؤں میں چپل ہے۔ حمید اس کی حالت پر حیران رہ گئے۔ پوچھا۔ کیا ہوا خیریت تو ہے خیریت نہیں ہے۔ فیروز نے جواب دیا۔ تم ٹھیک کہتے تھے کہ برے کام کا انجام برا ہوتا ہے۔ میں پھنس گیا ہوں، مجھے اب صرف تم ہی بچا سکتے ہو۔ حمید اس کو اندر لے آئے ۔ پانی پلایا، اپنے کپڑے دیئے اور تسلی بھی کہ جو کچھ ہوا، اس سے قطع نظر میں تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گا۔ بتاؤ تو سہی ، بات کیا ہے فیروز نے بتایا کہ آج دو پہر میں سروری کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھا کہ اچانک بغیر اطلاع اس کا شوہر گھر میں آگیا۔ میں نے دروازے کی کنڈی صحیح طرح نہیں لگائی تھی۔ وہ صحن میں سے ہوتا ہوا کمرے میں ہمارے سروں پر آپہنچا۔ ہم تو بے خوف بیٹھے تھے کہ اس کا شوہر باہر ملک میں ہوتا تھا۔ اب یہ اچانک آفت نازل ہوئی تو ہمارے دماغ سن رہ گئے۔ دراصل وہ بغیر اطلاع کے آگیا۔ گھر پہنچا تو اس کے بچوں نے بتایا کہ ماں ساتھ والے مکان میں انکل فیروز سے ملنے گئی ہے۔ بچوں کو خبر تھی کہ وہ اکثر دو پہر میرے گھر آجاتی تھی اور ان سے کہتی تھی کہ گھر کا دھیان رکھنا بھر مت نکلنا۔ جب اس شخص نے اپنی بیوی کو میرے بہت قریب دیکھا تو چراغ پا ہو گیا۔ میں تو وہاں سے کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس نے پتا نہیں اپنی بیوی کو کتنا مارا کہ محلے والے اکٹھے ہو گئے تھے۔ میں تو اس جگہ جانے سے ڈرتا ہوں میرے مکان کا دروازہ کھلا پڑا ہے۔ وہاں سب سامان ، زیورات ، نقدی سوٹ کیسوں میں موجود ہے۔ تم ہی کسی طرح اس محلے میں جا کر پتا کرو کہ کیا ہوا ہے میں تو اب وہاں نہیں جاسکتا۔ لوگ مجھے ماریں گے، محلے بھر میں رسوائی بھی ہوگی۔ حمید نے اس وقت موٹر سائیکل نکالی اور پرانے محلے چلے گئے۔ وہاں جا کر صورت حال دیکھی ۔ فیروز کے مکان کی کنڈی بجائی ، وہاں کوئی ہوتا تو بولتا ۔ اتنے میں محلے کے تین چار آدمی اکٹھے ہو گئے۔ شاید وہ تاک میں تھے کہ وہ آئے تو اس سے دو دو ہاتھ کریں۔ حمید نے ان سے کہا۔ آپ کو پتا ہے کہ فیروز کا مجھ سے جھگڑا ہو گیا تھا ، اسی وجہ سے میں یہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ آج کسی کام سے ادھر سے گزر رہا تھا، کام یہ تھا کہ فیروز نے اپنی بچی کے اغوا کا پرچہ ہم میاں بیوی پر درج کرادیا تھا جب کہ میری بیوی اپنی بھانجی کو محبت کی وجہ سے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اس سلسلے میں فیروز سے ملنا چاہتا تھا، مگر یہاں تو صورت حال کچھ اور معلوم ہوتی ہے ۔ محلے والوں نے فیروز کو خوب گالیاں دیں کہ وہ تمہارا ہم زلف تھا ، اب تم ہی اس کا سامان یہاں سے اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ ہم اس کے سامان کو آگ لگا دیں گے۔ ہم کسی صورت اس کو دوبارہ ادھر دیکھنا نہیں چاہتے ، در نہ خون خرابہ ہوگا۔ غضب خدا کا ایک شریف آدمی کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی نقب لگارہا تھا۔ سروری کا شوہر تو بیوی کو قتل کر ڈالتا، اگر ہم نے درمیان پڑ کر اس عورت کو نہ بچا لیا ہوتا۔ وہ اتنی زخمی تھی کہ اسے اسپتال لے گئے ہیں اور اس کا مرد تھانے بیٹھا ہے ۔ ہم نے گواہی دی کہ میاں بیوی کا کسی معمولی گھر یلو بات پر جھگڑا تھا ، بات رفع دفع کردیں۔ ہم نے فیروز کا نام نہیں آنے دیا، ورنہ ہمارا محلے دار جو بچارا اتنے عرصے بعد دیار غیر سے بچوں کے لئے خوشیاں کما کر لایا تھا، اس کے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتے ۔ آپ اس وقت اس کا مکان خالی کر دیں اور سامان لے جائیے، پولیس کے چکر میں پڑ گئے تو اور زیادہ یہاں مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ حمید نے ہی فیروز کو یہ مکان کرایے پر دلوایا تھا اور سب جانتے تھے کہ یہ دونوں ہم زلف ہیں۔ وہ میرے شوہر پر بھروسہ کرتے تھے، ان کی عزت کرتے تھے۔ ہم بہت عرصہ یہاں رہ چکے تھے۔ حمید کی ساکھ اچھی تھی تو محلے والوں نے ان پر اعتماد کیا۔ میرے شوہر نے ان لوگوں سے وعدہ کیا کہ یہ کام ہو جائے گا فکر نہ کریں۔ فی الحال میں سامان لے جا کر اپنے گھر امانتا رکھ لیتا ہوں اور فیروز بھی ادھر اب نہیں آئے گا۔ اچھا ہوا آپ لوگوں نے پولیس میں ایسا بیان نہ دے کر ہماری عزت رکھ لی، ورنہ تو سچ ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اس طرح کچھ معزز محلے داروں کی موجودگی میں حمید نے فیروز کا سامان اٹھایا اور رسید بھی لکھ کر دی تا کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے۔ اس کے بعد وہ بھی اس محلے میں نہیں گئے اور فیروز نے تو خود کو کافی عرصہ روپوش ہی رکھا۔ خبر نہیں سروری کو اس کے شوہر معاف کر دیا، یا طلاق تھمادی لیکن اس واقعہ سے فیروز کے تو مزاج ٹھکانے ہی آگئے۔ اس نے برائی سے توبہ کر لی اور اپنی بیٹی کو ہمارے سپرد کر دیا۔ مجھ سے کہا کہ باجی حوریہ کو آپ ہی رکھو، اسے اپنی ہی بیٹی سمجھو۔ تب میں نے بھی سکھ کا سانس لیا اور اپنی مرحوم بہن کی بیٹی کو ہمیشہ گلے سے لگا کر رکھا۔ | null |
null | null | null | 179 | https://www.urduzone.net/dusri-shadi-aurat-ka-haq/ | میں نے ایسے گھرانے میں جنم لیا، جہاں تکلیف کو حمل اور غربت کو شرافت کے لبادے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ کچھ یاد نہیں بچپن کیسے بیتا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں پائی جب ذرا ہوش سنبھالا ، گھر کی فضا کو مکدر پا یا ۔ وجہ والد صاحب کی تنک مزاجی تھی ۔ دنیا نے ترقی کر لی مگر ان پر زمانے کی تیز رفتاری کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اب بھی اپنی سوچ و چار میں ایسے ہی تھے، جیسے ان کے دادا پر دادار ہے ہوں گے۔ جب سے ہوش سنبھالا ، یہی دیکھا کہ ہمارے والدین میں ہمہ وقت ایک فاصلہ اور خاموشی کی دیوار حائل رہتی ہے۔ خدا جانے ، کب وہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنائیت سے بات کرتے تھے۔ ہاں کبھی کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے لڑ پڑتے تو اس جھگڑے کا خمیازہ ہم بچوں کو بھگتنا پڑتا اور دنوں تک گھر کی فضا مکدر ، تناؤ بھری بلکہ زہریلی ہو جاتی ، اس کھنچاؤ بھری فضا میں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ۔ بات بات پر کبھی اماں، کبھی ابا کے ہاتھوں ہماری پٹائی ہو جاتی۔ ابا کے سامنے تو اتنی ہمت نہ ہوتی کرکھل کر بات کر سکتے ۔ ہماری شوخیاں اور شرارتیں ان کے قدموں کی چاپ میں دب کر رہ جاتی تھی تھیں۔ گھر میں ہم دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔ مجھے اللہ نے اچھی صورت دی تھی، تبھی نو خیز عمر میں ہی رشتوں کا تانتا بندھ گیا۔ کبھی خالہ آرہی ہیں تو کبھی پھو پھی ، انہی دنوں میری امی کی خالہ رشتے کے لئے آئیں ۔ میرے والدین نے ان سے وعدہ کر لیا کہ وہ سائرہ یعنی میرا رشتہ ان کے بیٹے مسرور کو دیں گے۔ بس پھر کیا تھا، لڑکیاں مجھ کو اس کے نام چھیڑنے لگیں۔ یہیں سے میرے دل میں منگیتر سے محبت کی ابتدا ہوئی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں ایک نظر مسرور کو دیکھوں کہ وہ کیسا ہے پھر یہ خواہش دل میں جڑ پکڑتی گئی۔ مجھے اپنے ننھیال والوں سے بہت محبت تھی۔ نانی جان ان دنوں کسی دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ میں اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں اس آس پر وہاں جاتی تھی کہ شاید وہ لوگ بھی وہاں آجائیں۔ میں اکثر اپنی کا پیوں پر ایم ایم لکھتی رہتی ۔ یہ کم عمر لڑکیوں کے مشغلے ہوتے ہیں ۔ میں بھی ان ہی جذباتی لڑکیوں کی مانند خود کو ان مشغلوں سے بہلائے رھتی تھی۔ مسرور کی خیالی محبت نے میرے ارد گرد حصار سا بنا لیا تھا۔ میں نے اپنے روز و شب اس کے تصورات سے سجا رکھے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ میرے ذہن میں اس کی محبت کے نقش گہرے ہوتے جاتے تھے۔ ممکن ہے یہ نو خیز عمر کی خود فریبی ہو ، لیکن ان دنوں تو یہ بات زندگی اور موت کے سوال سے اہم لگتی تھی۔ آخر ایک دن خدا نے میری سن لی۔ ابا جان موٹر سائیکل کے حادثے میں زخمی ہو گئے تو مسروران کو دیکھنے تھوڑی دیر کے لئے ہمارے گھر آیا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور مجھے اس کے سامنے جانے سے گھبراہٹ سی ہو رہی تھی۔ یوں وہ مجھے دیکھے اور بات کئے بناواپس چلا گیا۔ میں نویں جماعت میں تھی کہ خالہ سجو اپنے بیٹے کی منگنی کی رسم کرنے کی غرض سے آگئیں ۔ جب ابا جان کو پتا چلا کہ مسرور صرف آٹھویں تک پڑھا ہے تو انہوں نے اس بات پر میرا رشتہ دینے سے منع کر دیا اور بولے۔ لڑکا میٹرک پاس بھی نہیں ہے۔ میں بیٹی کا رشتہ اس کو کیوں کر دے سکتا ہوں خالہ کو انکار کی توقع نہ تھی کہ بچپن میں بات طے ہو چکی تھی۔ ان کو بہت صدمہ ہوا اور وہ بجھے دل کے ساتھ واپس لوٹ نہیں ۔ ان کے اس طرح افسردہ جانے کا مجھ کو بے حد دکھ ہوا، لیکن میں اس دکھ کا اظہار کس سے کرتی چپکے چپکے آنسو بہا کر رہ گئی۔ اب میں ہر اپنی ہتھیلیوں ، کتابوں اور کاپیوں کے پنوں پر ایم لکھتی رہتی تھی۔ تبھی سنا کہ اس کی منگنی رشتہ داروں میں ہوگئی ہے ۔ اس خبر کو سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی نے میری بہت قیمتی چیز چھین لی ہے اور اب میں خالی ہاتھ رہ گئی ہوں ۔ میں نے شادی نہ کرنے کی قسم کھائی۔ جب بھی ہمارے گھر رشتے کے لئے کوئی آتا ، جی چاہتا کہ میں خودکشی کرلوں۔ بچپن سے جس کے خیال نے ذہن میں رنگ بھرے ہوئے تھا، اس کو دل سے نکالنا میرے لئے محال تھا۔ میں نے اپنا غم اپنے دل میں چھپا لیا۔ اب جب بھی کوئی ہم جولی مجھے مسرور کے نام سے چھیڑتی تو میں آنسو پی کر رہ جاتی نہیں چاہتی تھی کہ ان میں سے کسی کو اس بات کا علم ہو کہ میری شادی اب اس سے نہیں ہو رہی ہے تا کہ میری سبکی نہ ہو۔ جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو سجو خالہ کے بڑے لڑ کے فاضل کی شادی کا بلاوا آگیا۔ اپنے گھر والوں کے ہمراہ میں بھی دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی شادی میں گئی ۔ معلوم نہیں تھا کہ مسرور اپنی منگنی ٹوٹنے کے بعد خوش ہے یا نا خوش میں تو بہر حال خیالی محبت کی آگ میں جل رہی تھی۔ اس کے گھر والوں کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا مگر وہ اکھڑا اکھڑا اور خاموش تھا۔ اس نے مجھ سے بالکل بات نہ کی ۔ البتہ اس کی بہن عائشہ میرے ساتھ بہت دوستانہ انداز سے بات کرتی تھی۔ اس کی زبانی پتا چلا کہ بھائی جان منگنی کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن والدین نے مجبور کر دیا۔ اب وہ بہت پریشان رہتے ہیں ۔ کسی سے ہنستے بولتے نہیں جیسے کوئی دکھ لگ گیا ہو۔ شاید مجھ سے رشتے سے انکار پر اس کی بھی وہی کیفیت ہوئی تھی ، جو میری ہوئی تھی۔ بارات والے دن اس کو مجھ سے بات کرنے کا موقعہ مل گیا۔ کہنے لگا۔ آپ تو امیر ہیں ، ہم غریب لوگ ہیں ، اسی لئے آپ کے والد نے ہمیں ٹھکرا دیا۔ میں نے اسے اپنی مجبوری بتائی کہ میں والد صاحب کے آگے مجبور ہوں ورنہ بچپن سے دل میں بسا آپ کا خیال دل سے جاتا نہیں ہے۔ بس میں اتنا ہی اظہار کر سکی۔ اس نے بھی اپنے دل کا سارا غبار نکال دیا۔ کہنے لگا کہ یہ کتنا ظلم ہے۔ بچپن سے ہمیں کہا جاتا ہے کہ فلاں لڑکی تیری دلہن بنے گی۔ تبھی آدمی خوابوں اور خیالوں میں اس کے پیکر کو سجائے رکھتا ہے، پھر اچانک پتا چلتا ہے کہ وہ کبھی ہماری نہیں بن سکی گی۔ میں نے مسرور کو نصیحت کی کہ اب تو تمہاری منگنی کسی اور سے ہو چکی ہے۔ تم بچپن کی اس بات کو اور مجھے بھول جاؤ ۔ دوسرے دن ولیمہ تھا۔ ہماری دوبارہ بات چیت نہ ہو سکی اور میں افسردہ دل لئے واپس آگئی۔ وہ ہم کو لاری میں سوار کرانے آیا تھا۔ بس جتنی دیر لاری اڈے پر کھڑی رہی ، وہ بھی بس کی کھڑکی کے پاس کھڑا رہا ۔اس نے مجھ سے فون کرنے کو کہا تھا مگر یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ ہمارے گھر لڑکیوں کے لئے فون کرنا آسان نہیں تھا۔ اچھا خط لکھ دینا۔ وہ بولا ۔ خط لکھنا تو اور بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کو پوسٹ کیسے کیا جائے گا۔ یہ بھی مشکل ہے۔ ایسی باتوں پر سخت پابندیاں ہیں۔ جب سے میں مسرور سے مل کر آئی تھی ، دل اور زیادہ پریشان تھا۔ کچھ دن گزرے تھے کہ وہ ہمارے گھر آگیا اور موقع ملتے ہی ایک چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ مجھے تھمادیا، جس پر لکھا تھا کہ اگر تم ساتھ دو، تو میں اپنی منگنی ختم کروادوں گا۔ اس نے اپنی بھابھی کو ساری بات بتا کر التجا کی کہ وہ ہماری مدد کریں۔ اس کی بھابھی نے کچھ ایسی باتیں اس کے سسرال والوں تک پہنچا دیں کہ سچ مچ اس کی منگنی ٹوٹ گئی ۔ اس کی بھابھی ہمارے گھر آئی اور ساری با تیں مجھے بتا کر چلی گئی۔ ان باتوں سے میں پریشان ہو گئی تھی اپنی بہن سے ذکر کر دیا۔ انہوں نے امی جان کو بتادیا۔ امی نے بجائے معاملہ سلجھانے کے ابا جان کے حضور بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا کہ ایسا نہ ہو کہ مسرور کی منگنی ٹوٹنے کا الزام ہماری بچی پر لگ جائے اور خاندان بھر میں ہماری عزت دو کوڑی کی ہوکر رہ جائے ۔ ابا جان تو تھے ہی آتش مزاج ، یہ بات سن کر بھڑک اٹھے، حالانکہ بات کچھ بھی نہ تھی۔ نہ میں نے اور نہ مسرور نے محبت کی کوئی ریہرسل کی تھی یا ملاقاتیں کی تھیں۔ قدرت کی طرف سے ہمارے دلوں میں کی جو محبت موجود تھی، وہ بھی انہی بزرگوں کی وجہ سے تھی، جو چاند طرح شفاف تھی۔ مسرور کو اس بات کا غم تھا کہ کم تعلیم کی وجہ سے اس کو ٹھکرا دیا گیا لہذا اس نے آگے پڑھنے کی کوششیں تیز کر دیں اور سپر وائزر کی ٹریننگ بھی لی ۔ اس دوران میں نے بھی ایک اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت کر لی ۔ اس دوران ہمارے درمیان ایک سہیلی کے ذریعہ تین خطوط کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں نے اسے لکھا کہ رشتہ عزت سے طے کرنا ہے تو اپنے والدین کو پھر سے ہمارے گھر بھیجو۔ اس طرح سجو خالہ ایک بار پھر میرا ہاتھ مانگنے ہمارے گھر آئیں ۔ والد صاحب کو بھی ہماری محبت کا تھوڑا بہت علم ہو چکا تھا لیکن ان کو جو باتیں میرے اور مسیر دور کے بارے میں بتائی گئیں، وہ لگائی بجھائی کے روپ میں تھیں اور بالکل جھوٹ تھیں ، جب کہ ابا جان نے اپنے اور ہم بیٹیوں کے در میان اتنا فاصلہ رکھا ہوا تھا کہ میں ان باتوں کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی ، لہذا جب خالہ دوبارہ رشتہ مانگنے آئیں تو منہ کی کھا کر چلی گئیں۔ ابا جان نے ان کو نہ صرف رشتہ دینے سے انکار کر دیا، بلکہ تلخ لب ولہجہ میں انہیں ، ان کی کم تر حیثیت کا بھی احساس دلایا اور ان کے بیٹے کو نکما ، بد کردار اور نجانے کیا کیا کہہ دیا کہ جس لڑکی سے اس کی منگنی ٹوٹی تھی ، وہ میرے والد کے رشتہ دار تھے۔ مجھ کو بھی میری بہن کے ذریعے کہلوا دیا کہ اگر میں اس رشتے پر مصر ہوں تو وہ مجھے خالی ہاتھ گھر سے چلتا کر دیں گے۔ اس دھمکی نے یہ اثر کیا کہ میں صرف منمنا کر اتنا ہی کہہ سکتی کہ ابا جان میں تو آپ کی مرضی اور رضا پر راضی ہوں۔ میری اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔ اس پر بھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے مجھ سے بات چیت ہی بند کر دی ۔ امی نے بھی سمجھ داری نہ دکھائی، بلکہ دن رات مجھے طعنوں کا نشانہ بنانے لگیں، یہاں تک کہ بات بے بات مجھے بھی جوتا اور بھی چمٹا کھینچ مارتیں۔ میں حیران تھی کہ میں نے ایسا کون سا قدم والدین کی مرضی کے خلاف اُٹھا لیا ہے کہ ان کی بدسلوکی کی مستحق ٹھہری ہوں۔ اسکول میں ، ایک ٹیچر میرا بے حد خیال کرتی تھیں ۔ ان کو میرے گھر یلو حالات کا اچھی طرح علم تھا۔ وہ مجھ سے ہمدردی کرتی رہتیں اور تسلی دیتیں۔ انہوں نے اپنی والدہ سے میرے دکھوں کا ذکر کیا تو ان کی والدہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آئیں۔ ان کا آنا غضب ہو گیا۔ امی ابا تو پہلے ہی شکی مزاج بنے بیٹھے تھے، یہی سمجھے کہ شاید اب بھی میری وجہ سے یہ لوگ رشتہ مانگنے آگئے ہیں۔ میں ان کے صاحبزادےمیں دلچسپی رکھتی ہوں۔ میں بھی گھر کے حالات اور والدین کی محدود سوچ سے تنگ تھی۔ اب میری زبان کا تالا بھی کھل گیا۔ اماں نے پوچھا۔ کیا اس رشتے کے آنے میں تیری مرضی تھی ۔ میں نے جواب دیا۔ ہاں، اب اس رشتے کو ہاں کر دو، ورنہ ایسا نہ ہو اس سے بھی گیا گزرا رشتہ آجائے اور آپ لوگوں کو ہاں کہتے بنے ۔ ماں نے ابا کو آمادہ کیا کہ یہ رشتہ ٹھیک ہے، ہاں کر دو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے بعد ایسے ویسے رشتے آئیں ، تب لڑکی کا کیا کریں گے کیا عمر بھر گھر میں بٹھائے رکھیں گے۔ تب ہماری بدنامی اور بڑھ جائے گی۔ اس طرح میری شادی ٹیچر کے بھائی نذیر احمد سے ہو گئی۔ اور شادی بھی ایسی ہوئی، جیسے گھر سے کوئی جنازہ اُٹھا ہو۔ ابا نے تو رخصتی تک مجھ سے ترک کلام ہی رکھا۔ یوں میں دُکھے دل سے روتی ہوئی بابل کے گھر سے رخصت ہو گئی۔ یہی سوچتی رہی کہ یا الہی میرا کیا قصور تھا جو باپ نے اتنی بے رخی برتی۔ ٹیچر جو پہلے غم گسار سہیلی جیسی تھی ، جب تند بنی تو یک دم بدل گئی۔ شروع میں شوہر کا رویہ میرے ساتھ اچھا تھا، آہستہ آہستہ اس کا اصل روپ بھی سامنے آتا گیا، کیونکہ میری نند اس کو شادی سے قبل کی ہر بات بتا چکی تھی۔ اس نے وہ باتیں جن کی قطعی کوئی اہمیت نہ تھی ، وہ بھی نذیر سے کہہ دیں اور یہ بھی کہ میں مسرور سے شادی کرنا چاہتی تھی ، وہ میرے بچپن کی چاہت تھا۔ اس سے شادی نہ ہونے پر مجھ کو دکھ ہے اور میرے دل سے اس کی یاد جاتی نہیں ہے۔ یہ باتیں میں نے نجمہ سے تب کہی تھیں، جب میں پڑھائی میں دلچسپی نہ لیتی تھی تو وہ میری ہمدرد بن کر میرے دکھ پوچھا کرتی تھی اور میں اس پر اعتبار کر کے، اسے سہیلی جیسا جان کر دل کی بات کہہ دیا کرتی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ جس کو میں ماضی کا راز دار بنا رہی ہوں ، کبھی میرے نند بن بن کر دشمن بن جائے گی۔ اس نے تو نذیر کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ لڑکیاں مجھے مسرور کے نام سے چھیڑا کرتی تھیں اور یہ بھی کہ میرے والد مسرور کی وجہ سے مجھ سے بدظن ہوئے، تبھی انہوں نے مجھے رخصتی کے وقت دعا دے کر رخصت نہ کیا تھا۔ نجمہ کے کمینے پن کی وجہ سے نذیر مجھ سے ایسے بدظن ہوئے کہ میری زندگی دکھوں کا الاؤ بن گئی ۔ سچ ہے ، مرد اگر تنگ نظر ہو تو اتنی سی بات بھی بیوی کی زندگی کو جہنم بنانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میرے شوہر نے مجھ سے ناکردہ گناہوں کا انتقام لینا شروع کر دیا۔ ان کو میرے غم اور خوشی کا کوئی احساس ہی نہ رہا۔ میرے ساتھ ان کا بندھن تو جیسے بس وقت گزاری کا سلسلہ تھا۔ اگر میں پریشان ہوتی تو فوراً طعنہ دیتا کہ میں مسرور کے لئے پریشان ہوں۔ میں نے قسم اٹھا کر یقین دلایا کہ میرے لئے اب وہی سب کچھ ہیں، میں ماضی کو بھلا چکی ہوں۔ ہاں مگر جب وہ میرے ساتھ اہانت بھر اسلوک کرتا تو ضرور یہ خیال آتا کہ کیوں میں نے ٹیچر کے ہمدردانہ رویہ سے متاثر ہو کر اس کے بھائی کا رشتہ قبول کر لیا تھا۔ لوگ باہر سے کچھ نظر آتے ہیں، اندر سے کچھ ۔ جب برتاؤ ہوتا ہے، ان کی اصل حقیقت تب کھلتی ہے۔ میں گھر یلو پریشانیوں میں نیم جان ہو گئی تھی ، جن میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ دوبار حالات سے عاجز آ کر میکے چلی گئی مگر وہاں بھی میرے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ ابا جان مجھ سے کلام نہ کرتے تھے اور امی بات بات پر طعنہ دیتیں کہ تیری وجہ سے مسرور نے اپنی منگنی تڑ والی۔ اب اس کی ماں جہاں ملتی ہے، مجھے قہر آلود نگاہوں سے دیکھتی ہے، تیرے کرتوتوں نے خاندان بھر میں مجھ کو ذلیل کر دیا ہے۔ آخر میں نذیر کے گھر واپس آگئی۔ شادی کے گیارہ ماہ بعد میرے یہاں ایک بچی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد تو حالات انتہائی مایوس کن ہو گئے بھی میں نے اس طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کی ٹھان لی۔ ایک روز میں بازار گئی اور دوکاندار سے چوہے مار د و ا طلب کی۔ ایک پیکٹ خریدا اور رات ساری دوانگل گئی اور مرنے کے انتظار میں لیٹ گئی مگر سوائے تھوڑ اسا جی متلانے کے کچھ نہ ہوا۔ الٹی تک نہ آئی۔ مجھے لگا، جیسے یہ زہریلی دوا نہ تھی بلکہ میں نے پرانا سا آٹا پھانک لیا تھا۔ نیند نجانے رات کے کسی پہر آئی۔ گر چه طبیعت بھاری بھاری تھی ۔ صبح آنکھ کھولیں تو حیرت زدہ تھی کہ میں زندہ تھی اور دنیا کو دیکھ رہی تھی۔ حیرت میں ڈوب گئی کہ مری نہیں تو کم از کم طبیعت تو خراب ہوتی۔ اس کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ دوا جعلی تھی ۔ شوہر نے بچی کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد میکے بھیجا اور بعد میں ابا جان کو خط لکھ دیا کہ میں آپ کی بیٹی کو نہیں رکھ سکتا۔ آپ اس کو اپنے پاس ہی رکھیں۔ یہ ہر وقت افسردہ رہتی ہے۔ شاید اس کے دل سے ابھی تک اپنے بچپن کے منگیتر کی یاد نہیں گئی۔ سسرال میں، میں اپنے آدھے سے زیادہ اخراجات خود برداشت کرتی تھی۔ سروس کرتی تھی اور گھر کو بھی سنبھالتی تھی۔ خاوند کے کپڑے جوتوں، بنیان اور رومال تک میں خود پورے کرتی تھی لیکن میری کوئی خدمت میرے خاوند کا دل نہ جیت سکی ، صرف نند کی بدخواہی کی وجہ سے جو روایتی حسد کا شکار ہو کر میری دشمن بن گئی ۔ بہر حال ، میکے والوں نے منت سماجت کر کے سسرال والوں کو راضی کیا اور مجھے گھر بھیج دیا۔ اب میں فٹ بال کی طرح تھی ۔ ادھر والے ٹھوکر مارتے تو اُدھر جا پہنچتی تھی ، دوسری طرف والے ٹھوکر مارتے تو پھر میکے کے آنگن میں آگرتی ۔ اسی دوران اللہ تعالی نے بیٹے جیسی نعمت سے نواز دیا ، مگر شوہر کے تیور چڑھے ہی رہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہفتوں مجھ سے بات نہ کرتے اور نجمہ سے کہتے کہ میرے لئے کوئی دوسری لڑکی ڈھونڈ وتا کہ میں دوبارہ گھر آباد کر سکوں ۔ اس نے اپنا کمرہ، بوریا بستر ، سب کچھ الگ تھلگ کر لیا تھا۔ میرا تیسرا بچہ سترہ دن کا تھا اور میں اب بھی نوکری کرنے پر مجبور تھی۔ وہ کہتے کہ اسکول جاؤ تو بچے کو ساتھ لے کر جاؤ ۔ بات بات پر کہتے کہ میرے گھر سے چلی جاؤ۔ میں کہاں جاتی میرے تین بچوں کا بوجھ کون برداشت کرتا۔ مجبور ہو کر میں بچوں کو شوہر کے گھر چھوڑ کر آگئی۔ میں صرف چھوٹا بچہ ساتھ لائی تھی۔ میرا خاوند اور نند شاید اسی دن کے انتظار میں تھے۔ میکے آتے ہی انہوں نے مجھے طلاق بھجوادی اور طلاق کے چار ماہ بعد نذیر نے دوسری شادی کر لی۔ ادھر میکے میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی رہی۔ کسی نے سر پر پیارسے ہاتھ نہ رکھا، نہ میرے بچے کو پیار اور باپ کی شفقت دی۔ سروس کر کے اپنے اور بچے کا پیٹ پالتی تھی اور باقی دونوں بچوں کی دید کو ترستی تھی ، جو اپنے باپ کے پاس تھے۔ ایک روز سجو خالہ امی سے ملنے آئیں ۔ وہ کافی ضعیف ہو چکی تھیں۔ مجھ کو بتایا کہ مسرور بیرون ملک چلا گیا تھا۔ آٹھ برس بعد لوٹا ہے لیکن ابھی تک شادی نہیں کی ۔ ایک روز میں نے تمہارا احوال بتایا تو رود یا۔ بیٹی اس کے دل میں اب تک تیری محبت موجود ہے ۔ خدا جانے یہ کیسی محبت ہے کہ وقت کی گرداب تک اس پر نہیں پڑی۔ اس کے دل میں تیری تصویر پہلے دن کی طرح اُجلی اجلی ہے۔ میں خاموشی سے ساری باتیں سنتی رہی تب خالہ نے تنہائی میں کہا۔ بیٹی شاید تیرے ماں باپ اس بات پر راضی نہ ہوں ۔ خدا جانے روز اول سے تمہارے باپ کو ہم سے کیوں اللہ واسطے کا بیر ہے، لیکن تم اگر ایک بار مسرور سے بات کر لو تو شاید تم دونوں کو سکون مل جائے گا۔ انہوں نے مجھے ایک پرچہ دیا جس پر اس کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ میں بھی اپنی ویران اور دکھوں بھری زندگی سے تنگ تھی۔ بھا بھیاں مجھے اور میرے بچے کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھتی تھیں۔ خود کماتی ، خود کھاتی تھی پھر بھی بھائی مجھے بوجھ جانتے تھے۔ سو ایک روز جب گھر میں کوئی نہ تھا میں نے مسرور کو فون کر دیا۔ کچھ باتیں ، کچھ پچھتاوے، کچھ مایوسیاں اور افسوس کے تذکرے ، آخر اس نے سیدھی بات کہہ دی۔ سائرہ وقت بہت بدل چکا ہے۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ تم بھی کئی برس سے طلاق یافتہ زندگی بسر کر رہی ہو۔ اب بھی وقت ہے۔ ہم نکاح کر کے گھر بسا لیتے ہیں۔ اگر تم راضی ہو تو مجھے دو چار دن میں بتادینا، ورنہ میں دوبارہ تم کو بھی فون نہ کروں گا۔ میں نے کافی سوچا اور پھر مجھے اس کی پیش کش میں ہی عافیت نظر آئی ۔ ابا ضعیفی اور بیماری سے جھوج رہے تھے اور اماں کی بہوؤں کے آگے کیا چلتی ۔ میں نے مسرور کو ہاں کہہ دی، البتہ پہلے امی سے مشورہ کیا تھا۔ تب انہوں نے ناک پر انگلی رکھ کر کہا تھا۔ اے نوج چالیس سال کی ہو رہی ہو، کیا اب دوسری شادی تم کو زیب دے گی وہ بھی اُسی کے ساتھ جس کے ساتھ مفت میں بدنام ہوئیں۔ لوگ باتیں کر کر ہمارا کلیجہ چھلنی کر دیں گے۔ اچھا اماں ، ٹھیک ہے۔ میں ایسے ہی گزارلوں کی باقی زندگی بھی۔ ماں کو تو میں نے چپ کرادیا مگر میرا دل چپ نہ ہوا۔ وہ سسکے جاتا تھا ۔ بچے بڑے ہو گئے تھے ، باپ کے گھر میں پلے بڑھے ماں کے گھر کا راستہ بھول چکے تھے۔ میں نے تو حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ مسرور نے میری سلگتی تنہائی میں پھر سے پتھر پھینک دیا تھا۔ شاید اُسے بھی تنہائی کا عذاب مٹانے کو کسی سہارے کی ضرورت تھی ، سونے گھر میں کسی زندگی کی آرزوتھی۔ میں سوچا کرتی تھی کہ کون ہوگا جو بڑھاپے میں ساتھ دے گا یہ دنیا والے یا میرے بچے جو میرے نہ ر ہے تھے۔ ان کو تو اب میری صورت بھی یاد نہ رہی ہوگی ۔ پہلے کبھی دوسری شادی کا سوچا تک نہ تھا کہ میرے بچے دورسہی ان کے ذہن میں ماں کا تصور تو ہوگا ۔ وہ کیا سوچیں گے اور پھر لوگوں کی حقارت بھری نگاہوں کی تاب کیوں کر لاسکوں گی کہ چالیس برس کی ہو چکی ہوں ۔ رشتہ داروں کی حقارت بھری باتیں میرے وجود کوریزہ ریزہ کر دیں گی اور آج جب تنہائی نے مجھے ریزہ ریزہ کرڈالا تھا تو مجھ کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا تبھی میں دوبارہ شادی کے بارے سوچنے پر مجبور ہوگئی ۔ سوچا کہ اگر مرد دوسری شادی کرلے تو کچھ انوکھی بات نہیں ، بیوی کا کفن تک میلا نہیں ہوتا اور دوسری شادی ہو جاتی ہے، پھر اگر عورت کرلے تو مجرم کیوں یہاں تک کہ اس کی اپنی اولاد اسے نہیں بخشتی۔ میں تو فیصلہ کرنے سے ڈر رہی تھی آخر مسرور نے ہمت بندھائی کہ دنیا والوں سے میں مقابلہ کروں گا مگر بڑھاپا تنہا کا ٹنا بھی ایک سزا ہے کیوں نہ ہم دونوں مل کر اسے کاٹیں۔ تمہارے پاس تو اولاد جیسا نازک سہارا بھی نہیں ہے۔ تیسرا بیٹا بھی باپ کی طرف اُڑان بھرنے کی سوچ رہا ہے، تبھی میں نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔ آج لوگ مجھ سے خفا ہیں، کچھ مجھ پر ہنس رہے ہیں لیکن مجھے کسی کی پروا نہیں ۔ میرا شوہر میرا سہارا ہے ۔ مسرور ہر قدم پر مجھ کو مضبوط تحفظ کا احساس دلاتا ہے۔ خدا کا شکر کہ میں نے وقت پرصحیح قدم اُٹھا لیا ۔ دنیا کا کیا ہے، بے سہارا عورت پر باتیں تو سب بناتے ہیں، بُرے وقت کام کوئی نہیں آتا۔ اگر دوسری شادی مرد کا حق ہے تو دین نے عورت کو بھی حق دیا ہے۔ | null |
null | null | null | 180 | https://www.urduzone.net/wahm-buri-bala/ | چچا کی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے عید پر چوڑیاں لینے گئے تھے۔ دو تین گھنٹے گزر گئے، مگر چچا نہیں لوٹے ۔ تب ہماری دادی کو گھبراہٹ محسوس ہوئی ، کیونکہ بازار تو سامنے ہی تھا۔ صرف سڑک کرنا پڑتی تھی ، پھر ان کے بیٹے نے کیوں اتنی دیر لگادی شام ہو رہی تھی اور ماں کا دل دھڑک رہا تھا۔ دادی بہت وہمی تھیں کیونکہ ایک بار جب دادا ان کے لیے چوڑیاں خریدنے گئے تھے تو سڑک پار کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کو ایک گاڑی نے ٹکر مار دی تھی۔ چوڑیاں سڑک پر ٹوٹ کر بکھر گئیں مردہ دادا کے خون میں بھی رنگ گئی تھیں، کیونکہ وہ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ بیوی کی خوشیاں خریدنے والا واپس گھر نہ لوٹا، بلکہ اسپتال سے جسد خاکی گھر آیا۔ اس دن سے دادی کو چوڑیوں سے خدا واسطے کا بیر ہو گیا۔ وہ اپنی لڑکیوں کو بھی چوڑیاں پہننے سے منع کرتیں کہ یہ منحوس چیز ہے، یوں لگتا تھا کہ ہولناک حادثے کی یاد چوڑیوں کے ساتھ ان کے ذہن سے چپک گئی تھی ۔ حادثے تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور کئی لوگ اتفاقا یا کہ بدقسمتی سے ان کی بھینٹ بھی چڑھ جاتے ہیں، دنیا میں یہ سب ہوتا رہتا ہے مگر ہماری دادی کوکون سمجھاتا انہوں نے پھر کبھی چوڑیاں نہ پہنیں، مگر ہمارا کیا قصور تھا۔ دادی کی سب ہی باتیں اچھی تھیں مگر بس یہی ایک بات مجھ کو ناگوار گزرتی تھی کہ وہ مجھے چوڑیاں پہنے سے منع کرتیں، پہن لیتی تو ٹوکتیں کہ یہ منحوس چیز پھر تو نے کلائیوں میں چڑھالی ہے۔ ان کے ٹوکنے سے میں اس قدر چڑ جاتی کہ چوڑیاں اتار کر پرے پھینک دیتی تھی۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے مگر ان پر ہمارے آنسوؤں کا کوئی اثر نہ ہوتا ، بلکہ اطمینان کا سانس لیتیں کہ چوڑیوں کی چھن چھن جو ان کے کانوں میں زہر گھول رہی تھی ، وہ اب بند ہوگئی تھی۔ دنیا میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ایسے ہوتے ہیں جو تو ہمات کا شکار رہتے ہیں۔ پس جب میری شادی ہوئی اور سسرال سے کانچ کی چوڑیاں آئیں تو امی نے انہیں دادی سے چھپا لیا کہ پھر ان کا دل اندیشوں میں ڈوب جائے گا۔ دادا کا سانحہ انہیں یاد آ جائے گا اور یہ اول فول بکنے لگیں گی۔ ظاہر ہے کہ دیگر زیور زیادہ قیمتی ہوتے ہیں، لیکن کانچ کی چوڑیاں جو سہاگ کی نشانی ہوتی ہیں، ان کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ میری شادی کو سال گزرا تھا کہ عید آگئی۔ مجھے چوڑیاں پسند تھیں ، خاص طور پر عید کے موقع پر اگر کوئی چوڑیوں کا تحفہ دیتا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ یہ عید سے تین دن پہلے کی بات ہے۔ اس روز موسم بھی بھیگا بھیگاتھا۔ صبح سے آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی ہلکا سا چھینٹا پڑتا اور بند ہو جاتا۔ دو پہر سے یوں ہی ہو رہا تھا۔ سڑکیں گیلی ہو چکی تھیں اور کہیں کہیں تھوڑا تھوڑا پانی بھی جمع ہو گیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور بادلوں کو اپنے دوش پر لیے ادھر ادھر اٹھائے پھر رہی تھیں ۔ دنیا کے تفکرات میں گھرے اور معاشی بندھنوں میں جکڑے ہوئے لوگ بھی قدرت کے اس رنگین و دلفریب موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن میرے لیے موسم کی یہ دلفریبی بے معنی تھی۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے اس وقت نہ تو یہ برکھا کی کالی کالی گھٹائیں بھلی معلوم ہو رہی تھیں اور نہ ہی ان ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا کوئی اثر ہورہا تھا۔ میں نہ جانے کیوں دادی جیسے وہم کا شکار ہورہی تھی۔ دل خود بخود بہت زیادہ اداس اور پریشان تھا۔ میرے شوہر کو گھر سے گئے کافی وقت گزر چکا تھا۔ تب ہی طرح طرح کے پریشان کن خیالات اور وسوسے دل میں امنڈ تے چلے آ رہے تھے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر اچھے خیالوں کی جگہ برے خیالات وہم اور وسوسے حملے کر دیتے ہیں۔ ناشگوار خیالوں کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کرو تو اتنی ہی قوت سے یلغار کر دیتے ہیں۔ جب بے چینی حد سے بڑھنے لگی تو میں بے قراری سے اٹھ کر ٹہلنے لگی۔ بار بار بالکونی کی ریلنگ کے پاس جا کھڑی ہوئی ، دور تک سڑک کو تکتی اور پھر پر شوق نگاہیں شہباز کو نہ پا کر مایوس لوٹ آتیں۔ آج بار بار یہی خیال ذہن میں اجاگر ہو رہا تھا کہ دادی کہتی تھیں، اس خاندان کو کانچ کی چوڑیاں راس نہیں ۔ یہ وہم وسو سے کفر ہوتے ہیں لیکن انسان کا ان پر شدت سے یقین کبھی کبھی ان کو سچ بنا دیتا ہے۔ میں بھی اس لئے سوچوں کے گھن چکر میں پھنسی تھی کہ شہباز میرے لیے چوڑیاں لینے گئے ہوئے تھے۔ اب تک تو ان کو آ جانا چاہیے تھا۔ نہ جانے کیوں ابھی تک نہ لوٹے تھے۔ مجھے یاد ہے جب امی نے مجھ سجی ہوئی دلہن کے لیے چوڑیوں کا بنڈل میری سہیلیوں کے ہاتھوں میں دیا تو دادی نے دیکھ لیا۔ وہ بولیں ۔ یہ بنڈل مجھے دے دو، میں اپنی پوتی کی کلائیوں میں نہ ڈالنے دوں گی ۔ مگر یہ تو سباگ چوڑیاں ہیں دادی اماں آپ ہم کو پہنانے سے نہ روکیے۔ سہیلیوں نے یک زبان ہو کر کہا تو دادی رونے لگیں۔ اس وقت مجھے بھی ان چوڑیوں سے نفرت محسوس ہونے لگئی کہ جن کی وجہ سے میری پیار کرنے والی دادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ میں دادی کی خاطر ان کو نہیں پہن رہی تھی کیونکہ یہ اب مجھے اپنی کلائی میں ڈسنے والی ناگنوں جیسی لگ رہی تھیں، گو یا دادی نے میرے دل میں بھی وہم بٹھا دیا۔ تب ہی سہیلیوں نے سمجھایا۔ اری پگلی یہ تو رواج ہے۔ ایسا برسوں سے ہوتا آیا ہے اور آگے بھی یوں ہی ہوتا رہے گا۔ کسی کی شادی ہو اور سرخ گلابوں کی طرح دمکتی ہوئی چوڑیاں نہ ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے کہا۔ مجھ کو تو بچپن سے چوڑیاں اچھی لگتی ہیں، مگر ان کو دیکھ کر دادی کا دکھ جاگ جاتا ہے، وہ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔ میں ان کو دکھی نہیں دیکھ سکتی جب ہی ان کو پہننے کو منع کر رہی ہوں ۔ انہوں نے میری بات نہ مانی اور سہاگ کی نشانی پہنا کر رسم ورواج کو پورا کیا۔ سرخ سرخ انگاروں کی طرح دیہکتی چوڑیاں میری نرم و نازک کلائیوں میں سجادی گئیں اور دادی دور کھڑی بے بس پنچھی کی طرح اپنے خیالوں میں برے شگن کو اداس نظروں سے دیکھتی رہ گئیں۔ جب شہباز نے میرا گھونگھٹ اٹھایا تو اس سے پہلے ان کی نظر میری کلائیوں پر گئی اور انہوں نے سرخ دمکتی چوڑیوں کو چوم لیا۔ بولے۔ کتنی خوب صورت لگتی ہیں یہ کانچ کی چوڑیاں، تمہارے گورے گورے ہاتھوں میں ۔ ان کو ہمیشہ پہنے رکھنا، کبھی نہ اتارنا۔ اپنے دولہا کے منہ سے پہلی تعریف سن کر میں پھولی نہ سمائی اور خود مجھے اپنی چوڑیوں بھری کلائی پر پیار آگیا۔ میں دادی کے تو ہمات کو یکسر بھلا بیٹھی ، جیسے ان کے یہ وہم میرے لاشعور کی پرتوں تلے دب کر مر گئے ہوں ۔ اب میں اپنی خوشیوں کی پیاری سی دنیا میں مگن تھی۔ مجھے شہباز کے پیار کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔ میں ایک چھوٹے سے خوب صورت گھر کی مالک تھی، جس میں میرے لیے زندگی کی آسائش و آرام کی ہر چیز مہیا تھی ۔ سب سے بڑھ کر خوشی کی یہ بات تھی کہ مجھے ایک وفاشعار اور دل کی گہرائیوں سے چاہنے والا شوہر مل گیا تھا، جو ہمہ وقت اپنی محبت کے خوشنما پھول میرے قدم میں بکھیرتا رہتا تھا، ہر لحہ مجھ پر وہ جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ہماری شادی کو ابھی دن ہی کتنے گزرے تھے کہ عید آگئی۔ شہباز نے کہا۔ عید پر کیا تحفہ لاؤں تمہارے لیے سب ہی کچھ تو ہے میرے پاس۔ پھر بھی، یہ ہماری پہلی عید ہے، تحفہ تو میں لاؤں گا۔ جو آپ کو پسند ہو، وہی لے آئیں ۔ مجھے تو تمہاری کلائی میں کانچ کی سرخ چوڑیاں بہت بھلی لگتی ہیں ۔ یہ سن کر جانے کیوں مدت بعد میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ میں بولی ۔ چوڑیاں ہی کیوں اور کچھ لے آئیں۔ چوڑیاں تو میرے پاس بہت ہیں۔ وہ بولے۔ مگر سرخ رنگ کی نئی نہیں ہیں، وہی جو تم نے سہاگ رات کو پہنی ہوئی تھیں۔ تب ہی میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھنے لگی ، یہ اچانک ان کو کانچ کی سرخ چوڑیاں کیوں یاد آ گئیں۔ سہاگ کی نشانی جس سے دادی کو خوف آتا تھا۔ مدت بعد پہلی بار مجھے بھی خوف آیا اور اپنا وہم سمجھ کر میں نے خوف پر قابو پالیا۔ یا اللہ میرے سہاگ کو سلامت رکھنا۔ ان کو کچھ ہونے سے پہلے ، مجھے کچھ ہو جائے ۔ میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی۔ مجھے تو آپ کے لائے سارے ہی تحفے قیمتی لگتے ہیں۔ شہباز میری بات سن کر مسکرائے اور یہ کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئے تھے کہ میں ابھی آیا۔ اس بار تو اپنی پسند ہی کا تحفہ لاؤں گا تمہارے لیے۔ میں کہنا چاہتی تھی کہ یہ چوڑیاں نہ لائیں، مگر وہ تو کچھ سنے بغیر ہی چلے گئے اور میں الماری میں سے سرخ چوڑیوں کا ڈبا نکال کر دیکھنے لگی۔ بالکل صحیح سلامت ہیں یہ، ان ہی کو پہن لیتی ہوں ، آج انہیں سرپرائز دوں گی۔ تب ہی میں نے ساری چوڑیاں پہن لیں اور سونے کے کڑے جو پہلے سے پہنے ہوئے تھے، اتار کر رکھ دیے۔ ان کی چمک دمک میں ذرا بھی تو فرق نہیں پڑا تھا۔ بچپن میں جب ابو سے چوڑیاں لانے کی ضد کرتی تو وہ اسی وقت بازار جا کر چوڑیاں لے کر واپس صحیح سلامت آجاتے تھے، مگر اف اللہ دادی کو مگر کتنا وہم تھا۔ میرے دل کو اس سوچ سے طاقت ملی اور میں مسکرا دی ۔ کتنا پیار ہے شہباز کو اے مجھ سے ، بالکل میرے ابو کی طرح ہی میرا خیال کرتے ہیں۔ بارش اب تیز ہونے لگی ، کب سے بالکونی میں کھڑی سڑک پر آتے جاتے ٹریفک کو دیکھ رہی تھی۔ کچھ لوگ پیدل جا رہے تھے، قریب سے گزرتی کاریں ان کے کپڑوں پر چھینٹے اڑاتی گزر رہی تھیں۔ مجھے یہ نظارہ بے معنی سالگ رہا تھا۔ موسم کا سہانا پن بھی نہ لبھا رہا تھا۔ انتظار تھا تو بس شہباز کے آجانے کا۔ میں نے ان کی پسند کا کھانا بنایا تھا اور وہ کھانا کھائے بغیر نکل گئے تھے کہ واپس آ کر کھا لوں گا۔ ان کو گئے تین گھنٹے گزرے تھے۔ مجھے ایک ایک پل بھاری پڑ رہا تھا۔ میں کھڑکی میں جا کر کھڑی ہو گئی اور اس کی سلاخوں سے سر ٹکا لیا۔ تب ہی سڑک پر تیزی سے آتی گاڑی کو اچانک بریک لگی اور اس کے پہیوں سے چیخیں نکل گئیں۔ شاید کوئی راہ گیر نیچے آ گیا ہے۔ بدن نے جھر جھری لی اور میں نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ اے میرے معبود میرا شہباز تیری امان میں ہے۔ اس کو اپنی عافیت کے سایے میں رکھنا۔ میں دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگی ۔ جی بیٹھنے لگا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ گاڑی کے ارد گرد لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ ایک ہجوم دیکھ رہا تھا۔ یقینا سڑک پر کوئی حادثہ ہوا تھا۔ ایک برے خیال نے میرا کلیجہ جکڑ لیا۔ اشک موتیوں کی صورت گرتے اور میری آستین کو تر کرتے رہے۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میں کب تک روتی رہی تھی۔ تب ہی موٹر سائیکل کی مخصوص آواز سن کر میں چونک پڑی۔ میرا شہباز آ گیا تھا۔ دیوانوں کی طرح نیچے بھاگی۔ شہباز نے مجھے تیزی سے زینہ پھلانگتے دیکھ لیا تھا ، وہ ہاتھ ہلاتے جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے کو میری طرف لپکے، مگر بارش میں تر سیڑھیوں پر میں خود کو سنبھال نہ سکی، پیر پھیسلا اور میں لڑکھڑاتی ہوئی اوپر سے نیچے رول ہوئی اور صحن کے فرش پر جا گری۔ تب ہی شہباز مجھ تک آن پہنچے۔ میں چوٹ لگنے سے حواس کھو چکی تھی اور میری کلائی میں پڑی شادی کی چوڑیوں کا پورا دستہ ٹوٹ کر چورا چورا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد مجھے نہیں پتا کب، کیسے وہ مجھے اٹھا کر اسپتال لے گئے۔ میں بے ہوش ہو چکی تھی۔ میری کلائی اور بازو کے گوشت میں پیوست ہونے والے کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکالے گئے ۔ مرہم پٹی ہوئی، دو دن اسپتال میں رہی۔ جب ہوش آیا ، شہباز ، اپنی روح کو سامنے زندہ سلامت پایا۔ پہلے تو حیرت سے انہیں دیکھا، پھر دل کو سکون آگیا۔ حالت سنبھلنے کے بعد اسپتال سے چھٹی ملی۔ جس دن ہم گھر آئے اس روز عید کا تیسرا دن تھا مگر میرے لیے تو آج کا دن ہی عید تھا کہ میرے شوہر چوڑیاں خرید کر زندہ سلامت آگئے تھے۔ جس حادثے کی آواز سنی تھی وہ کسی اور بد نصیب کے ساتھ پیش آیا تھا۔ خدا نے اس وقت میرے دل سے نکلی دعاسنی اور میرے شوہر زندہ سلامت آگئے ، ورنہ میں تو وہم میں ڈوبی کب سے اس سڑک کو تک رہی تھی۔ ان کی راہ تکتے تکتے جب وہاں حادثہ دیکھا، تب ہی جان نکل گئی تھی میری۔ سچ ہے وہم سے بڑی اور کوئی شے نہیں کہ کوئی واقعہ نہ ہونے والا بھی ہو جاتا ہے مگر میرا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ دل سے نکلی دعا کو ضرور سنتا ہے۔گرچہ میں گھبراہٹ میں اپنی غلطی سے گر گئی لیکن میں پھر بھی یہی سمجھتی ہوں کہ جو بلا اس وہمی خیال کی وجہ سے آئی تھی، وہ مجھ پر آگئی، کیونکہ جب انہوں نے آخری زینہ سے مجھے اٹھایا تو میرا سر پھٹ گیا تھا اور گیلے فرش پر بہت سا گاڑھا گاڑھا خون پھیل گیا تھا۔ اس خون میں میری چوڑیاں ٹوٹ کر رنگ برنگی کانچ کے ٹکڑوں کی صورت بکھری ہوئی تھیں۔ اب تو میں ہر کسی کو کہتی ہوں کہ کبھی وہم نہ کرنا۔ یہ حادثے محض اتفاق سے ہوتے ہیں۔ وہم ایسا ظالم دشمن ہے جو انسان کی خوشیاں نگل جاتا ہے، یہ شرک ہے بلکہ بدعت ہے۔ بندے کو اپنا سب کچھ اپنے خالق پر چھوڑ دینا چاہیے ، جس نے اپنے رب پر بھروسہ کیا ، اس نے عافیت پالی۔ جب میری کلائی کے زخم ٹھیک ہو گئے شہباز نے میری کلائی میں اپنی لائی ہوئی کانچ کی سرخ چوڑیاں پھر سے پہنا دیں۔ اس وقت ہم دونوں کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑک رہے تھے اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، وہ ایک یادگار دن تھا، اس دن کو میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ | null |
null | null | null | 181 | https://www.urduzone.net/soken-resham-ki-guriya/ | دونوں ماں بیٹیاں رحیم یار خان کے نزدیکی ایک مضافاتی علاقے سے تلاش روزگار کی خاطر کراچی آگئی تھیں۔ ماں کا نام جنت خاتون اور بیٹی کا صفیہ تھا۔ جنت کے نقوش تیکھے تھے لیکن غربت نے اس کے حسن کو نگل لیا تھا۔ اس کا خاوند فالج سے معذور تھا۔اسے اپنے گائوں میں کسی رشتہ دار کے پاس چھوڑ کر آگئی تھی۔ جنت کو شروع میں کوئی کام نہ ملا۔ وہ ایک کچی آبادی میں اپنے دور کے رشتہ دار کے یہاں ٹھہری تھی۔ جلد ہی قریبی چند کو ٹھیوں میں اسے برتن دھونے اور جھاڑو پونچھے کا کام مل گیا۔ یہ دونوں ماں بیٹیاں صبح سویرے گھر سے نکلتیں اور پانچ گھروں میں کام کر کے شام سات بجے گھر لوٹ آتیں۔ فی بنگلہ دو ہزار او سطاً آ جرت ملتی، یوں مہینے کے دس بارہ ہزار کما لیتی تھیں۔ ایک کمرے کا کرایہ ہزار اور پانچ سو بجلی کے بل میں ادا کرنے کے بعد ماہانہ آٹھ ہزار روپے باقی رہ جاتے تھے۔ جنت با قاعدگی سے اپنے شوہر کو گائوں چار ہزار بھجوادیتی۔ باقی رقم گزارے کے لئے کافی ہو جاتی۔ چھ ماہ اسی طرح کام کرنے کے بعد جنت سست پڑ گئی۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ ایک روز اس نے ہمارا د ر کھٹکھٹایا۔ میں لان میں کرسی ڈالے دھوپ سینک رہی تھی۔ ان دنوں ملازمہ کام چھوڑ کر چلی گئی تھی اور کام والی ماسی کی مجھے اشد ضرورت تھی۔ گیٹ کھولا تو لگا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے نکلی دعا قبول کر لی ہے، کیونکہ پچھلے پندرہ دن سے گھر میں صفائی نہ ہوئی تھی۔ کھانا پکانے اور برتن دھونے سے ہی ایسی تھکن ہو جاتی کہ نڈھال ہو جاتی۔ باقی کام پڑا رہتا۔ جنت اندر آ گئی۔ وہ خود تو لا غرسی تھی لیکن اس کی سالہ بیٹی تنومند اور خوبصورت تھی۔ سمجھ گئی تھی ان کو کام کی ضرورت ہے ، پھر بھی آنے کا مقصد دریافت کیا۔ بیگم صاحبہ ہم کو کام چاہئے ، جنت نے کہا۔ کیا کام کرو گی جھاڑو پونچھا، بر تن، کپڑے دھلائی، کھانا بنانا جو کام آپ بتائیں گی کر دیں گے۔ تم تو لا غرسی لگتی ہو، کام کیسے کرو گی۔ کیا بیمار ہو نہیں بیگم صاحبہ بیمار تو نہیں ہوں، کام کی زیادتی نے یہ حال کر دیا ہے۔ جب گائوں سے آئی تھی تگڑی اور صحت مند تھی۔ کتنے گھروں کا کام پکڑ لیا ہے تم نے۔ پانچ گھروں کا اب چھٹے گھر کا کرو گی میں نے بے یقینی سے کہا اور وہ بھی اس حالت میں۔ باقی گھروں کا چھوڑ دوں گی اگر آپ اچھی تنخواہ تنخواہ دیں گی۔ ہم بھی گھر ، گھر کام کر کے تھک جاتے ہیں۔ ہاں مجھے بھی سارے دن کے لئے کوئی گھریلو ملازمہ چاہئے ۔ کھانا میں خود بناتی ہوں۔ باقی کا سب کام کرنا ہو گا۔ آپ کیا تنخواہ دیں گی ہم دونوں ماں بیٹیاں کام کریں گی۔ آٹھ ٹھیک ہیں۔ نہیں بیگم صاحب پانچ گھر چھوڑ کر ایک گھر کا اسی لئے کرنا چاہتی ہوں کہ کم از کم دس ہزار مل جائیں۔ دو ہزار کرایہ اور چار اپنے بیمار شوہر کی دوا کے لئے۔ میرے پلے سے ہر ماہ چلے جاتے ہیں۔ باقی میں گزارا مشکل سے ہوتا ہے ، بڑی مہنگائی ہے۔ ہاں وہ تو ہے ، میں نے تھوڑی دیر سوچا۔ بڑی مشکل سے ہاتھ لگی تھیں۔ اگر ابھی ان کو نہ رکھا تو خبر نہیں پھر کب کوئی معاون ملے۔ اچھا، ٹھیک ہے لیکن صبح سات بجے کچن میں موجود ہونا۔ ناشتہ بنانے میں مدد درکار ہو گی۔ صاحب سویرے کام پر جاتے ہیں، ان کو ٹھیک ساڑھے سات بجے ناشتہ چاہئے۔ ٹھیک ہے بی بی شام کو کب تک رہو گی۔ جب تک آپ کا کام ختم نہ ہو گا۔ جب چھٹی ملے گی تب جائیں گے۔ میں نے جنت اور اس کی بیٹی کو رکھ لیا۔ ایک ماہ میں ان دونوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بہترین معاون خدمت گار ہیں۔ جو کام بتاتی خوش اسلوبی سے کرتیں۔ میرے بنگلے کا سرونٹ کوارٹر خالی پڑا تھا۔ حبیب نے کہا ان کو کوارٹر دے دو۔ دن رات رہیں گی تو تم کو شام کے بعد بھی سہولت مل جائے گی۔ میں نے کہا کل سے اپنا سامان لے آنا اور یہاں ہی رہنا سہنا۔ پانی بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آرام سے رہو گی۔ اگلے روز وہ ایک رکشے پر اپنا مختصر سا سامان لے آئی اور کوارٹر کی صفائی کر کے اسے آباد کر دیا۔ سرونٹ کوارٹر میں جنت اور صفیہ کے دن رات رہنے سے مجھے واقعی سہولت ہو گئی تھی۔ جنت تو شام کو کوارٹر میں جا گھستی سو جاتی، صفیہ کو جب آواز دیتی وہ دوڑی آتی۔ دونوں ناشتہ اور کھانا ہمارے گھر سے کھاتی تھیں۔ اس طرح اچھا کھاناملتا ان کی بچت ہو جاتی۔ دوادار و کبھی خود لیتیں کبھی میں لے دیتی۔ جنت میرے پاس خوش تھی۔ میں اس کے آجانے سے پر سکون تھی۔ خاص طور پر صفیہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ اس نے اتنی سہولت دی کہ اب میں بغیر ہاتھ پیر ہلائے اپنے بیڈ روم میں لیٹی ٹی وی دیکھتی رہتی، وہ پانی بھی ہاتھ میں لا دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صفیہ نکھر نے لگی، خوبصورت تو تھی۔ اچھا کھانے سے اور زیادہ رنگ روپ نکال لیا۔ محنت مشقت نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ زیادہ تنو مند ہو گئی لیکن جنت روز بہ روز کمزور اور نڈھال رہنے لگی۔ جیسے کسی مرض نے اندر اندر اسے گھلا دیا ہو ۔ بالآخر وہ بیمار پڑ گئی۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے کچھ ٹیسٹ وغیرہ لکھ کر دیئے۔ پتا چلا اس کے گردے کام چھوڑ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ آئی تو میں دہل گئی۔ اب وہ زیادہ تر کوارٹر میں لیٹی رہتی لیکن صفیہ نے جنت کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ وہ زیادہ تن دہی سے کام کرنے لگی تا کہ ان کو ملازمت سے ہم جواب نہ دے دیں۔ ظاہر ہے جس لڑکی کے ماں باپ دونوں بیمار ہوں اور کمانے والا کوئی نہ ہو ، وہ غربت سے ڈر کر کام کی مشین نہ بنے گی تو اور کیا کرے گی۔ انہی دنوں جبکہ جنت بیمار تھی، گائوں سے اس کے رشتہ دار کا فون آگیا کہ تمہارا شوہر زیادہ بیمار ہے جلد آئو۔ بی بی کچھ رقم ایڈوانس دے دیں۔ بے شک صفیہ کو اپنے پاس رکھ لیں۔ وہاں نہ جانے کیا حالات در پیش ہوں۔ رقم تو چاہئے ہو گی۔ میں نے اس کے حال پر ترس کھاتے ہوئے تنخواہ کے علاوہ دس ہزار اور بھی دیئے کہ پیشگی تنخواہ سمجھ لو۔ حبیب سے کہا کہ اماں جنت کو رحیم یار خان جانے والی کوچ پر بٹھا آئو۔ وہ خود اسے اپنی کار میں اڈے تک لے گئے اور ٹکٹ بھی خرید کر دیا۔ اماں جنت ، صفیہ کو میرے حوالے کر کے گائوں چلی گئی۔ جاتے ہوئے اس نے اپنی بچی کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے کر کہا تھا۔ بیگم صاحبہ یہ میری نہیں آپ کی بچی ہے اور اسے اپنی بچی ہی سمجھنا۔ اگر میں لوٹ کر نہ آسکوں تو سمجھ لینا کہ اس کا آپ کے سواد نیا میں کوئی نہیں ہے۔ اسے کسی کے حوالے مت کرنا۔ اس کی شادی بھی آپ ہی کسی اچھے انسان سے کر دینا۔ میں اس کا منہ تکتی رہ گئی اور وہ یہ چند باتیں میرے گوش گزار کر کے روانہ ہو گئی۔ شاید اس کی چھٹی حس بتارہی تھی کہ کے اب اسے لوٹنا نصیب نہ ہو گا۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھی اور ہم سے چھپاتی رہی تھی۔ اپنی ہمت سے کام لیتی رہی، آخر کو پاپی پیٹ کو پالنا تھا۔ گائوں پہنچی تو پتہ چلا کہ اسی روز صبح دم اس کا شوہر فوت ہو گیا ہے۔ وہ بین کرنے کو وقت پر آموجود ہوئی تھی۔ شوہر کی وفات کے ہفتہ بعد اماں جنت بھی اس جہان سے سدھار گئی۔ اس کے رشتہ دار جو عظیم گوٹھ میں مکین تھے۔ انہوں نے آکر اطلاع دی لیکن صفیہ کو لے جانے کی بات نہ کی اور ہم نے بھی اس تذکرے کو نہ چھیڑا۔ حبیب نے کہا کہ اگر لڑکی کا سگا بھائی بہن ماموں وغیرہ آتا تو بات کر لیتے۔ دور کے رشتہ داروں کے پاس تو صفیہ خود بھی جانانہ چاہتی تھی۔ صفیہ نے بتایا تھا کہ وہ اکلوتی ہے۔اس کا کوئی بہن بھائی نہیں ہے ، ماموں بھی نہیں ہے۔ سوتیلے چچا اور پھو بھی ہیں لیکن وہ صفیہ اور اس کی ماں سے ملتے نہ تھے۔ ان سے کوئی توقع عبث تھی باقی رشتہ دار رشتہ لینے کے چکر میں ضرور آئیں گے لیکن وہ کسی کے ساتھ نہیں جائے گی بلکہ ہمارے پاس ہی رہے گی۔ بچی نے اپنا فیصلہ ہم کو سنادیا۔ یہ ایک خوش آئند بات تھی کہ صفیہ کسی کے پاس جانے کی بجائے ہمارے ساتھ رہنا چاہتی تھی، اس کے رہنے سے ہم کو بہت سکھ اور آرام تھا۔ اس کی ماں سے وعدہ کیا تھا سو نباہنے میں بھی ہمارا فائدہ ہی تھا لہٰذا میں نے اسے تسلی دی کہ اس کی مرضی کے بغیر کسی رشتہ دار کے حوالے نہ کروں گی۔ بلکہ ہم بیٹی بنا کر رکھیں گے۔ وہ اس تسلی پر خوش اور مطمئن ہو گئی، پہلے سے بھی زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرتی۔ مجھے نت نئے لباس پہننے کا شوق تھا۔ چند دن ایک جوڑا پہنتی تو پھر جی اوب جاتا۔ نئے جوڑے بنوا لیتی اور اپنے پہنے ہوئے نئے نئے جوڑے صفیہ کو بخش دیتی۔ اچھے لباس میں تو وہ شہزادیوں جیسی لگتی۔ مہمان آتے تو اسے ہمارا رشتہ دار سمجھتے ۔ پانچ برس اور بیت گئے ، وہ چوبیس کے لگ بھگ ہو چکی تھی لیکن میرے دل میں اس کو بیاہنے کا خیال نہ آیا۔ بھلا کیسے بیاہ دیتی اگر وہ شادی ہو کر اپنے گھر کی ہو جاتی تو میرے گھر کا کام کاج کون کرتا۔ جس طرح دلجمعی سے وہ کرتی تھی۔ اتنی مخلص اور ایماندار گھریلو ملازمہ کا ملنا، جو چوبیس گھنٹے خدمت میں حاضر رہتی ہو اور آف بھی نہ کرے۔ کسی کام سے انکار نہ کرے اور جس کا کوئی ولی وارث بھی نہ ہو۔ فی زمانہ ممکن ہی نہ تھا۔ اب تو مجھے اسے تنخواہ دینے کی بھی فکر نہ تھی، صفو کہتی باجی میں ان پیسوں کا کیا کروں گی، آپ اپنے پاس جمع کرتی جائیں۔ تب خیال آتا تھا شاید یہ اس لئے تنخواہ میرے پاس جمع کرانا چاہتی ہے کہ کبھی اس کی شادی ہو گی تو یہ جمع شدہ رقم کام آئے گی۔ تین بچوں کے بعد میں نے فیملی پلانگ پر عمل کیا لیکن کچھ ایسی دوائیاں دس برس لگاتار استعمال کیں کہ بالآخران دوائیوں کارد عمل شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں بیمار رہنے لگی۔ اس بیماری میں صفونے میری جان توڑ کر خدمت کی۔ علاج سے افاقہ نہ ہوا کئی ماہ ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹر ز کو دکھایا، دوائیاں جو مسلسل کھارہی تھی، انہوں نے بند کرادیں۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، بالآخر بستر سے لگ گئی۔ بیٹی ماہ رخ اب پندرہ برس کی تھی۔ اس سے چھوٹی تیرہ کی اور جواد نو سال کا ہو گیا تھا۔ جب ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کو کینسر کا خطرہ ہے بہتر ہے کہ جسم کے اندرونی اس حصے کو نکلوادیں جس میں کینسر کا اندیشہ ہے۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں ڈر رہی تھی آپریشن نہ کرانا چاہتی تھی حبیب نے یہی مشورہ دیا کہ ہمارے ماشا اللہ تین بچے ہیں اور اولاد کی خواہش تو نہیں ہے جو آپریشن ڈاکٹر کہتے ہیں کرالینا چاہئے۔ وقت پر علاج ہو جائے تو بڑے اور نا قابل علاج مرض سےبچا جا سکتا ہے۔ حبیب کے کہنے پر آپریشن کے لئے تیار ہوگئی۔ وہ دن آگیا جب آپریشن تھا۔ بچوں کو صفیہ کے پاس چھوڑ کر ہم لاہور چلے گئے۔ آپریشن ہو گیا۔ رپورٹس صحیح آئی تھیں۔ کوئی کینسر وغیرہ نہ تھا۔ پندرہ دن اسپتال میں رہ کر گھر آگئے۔ رفتہ رفتہ میں صحت یاب ہو گئی۔ دو سال بالکل ٹھیک ٹھاک رہی۔ اچانک ایک روز طبیعت بگڑ گئی۔ فورا اسپتال لے گئے جریان خون سے بہت کمزور اور زرد پڑ گئی تھی۔ ڈاکٹرز کی کوشش سے عارضی طور پر افاقہ ہوا۔ پندرہ روز بعد پھر سے بیمار ہو گئی۔ وہی کیفیت، دوبارہ اسپتال لے گئے ، بتایا کہ کینسر ہے۔ بمشکل دوماہ جی پائیں گی۔ پہلے تو حبیب نے مجھے نہ بتایا لیکن ایک روز فون پر ڈاکٹر سے بات کر رہے تھے کہ اپنی بیماری کے بارے میں سن لیا۔ دل تھام کر رہ گئی سوچا۔ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہو گا اور حبیب کیا کریں گے۔ کیا خبر یہ دوسری شادی کر لیں۔ بچے سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے ۔ خدا جانے سوتیلی ماں ان سے کیا سلوک کرے۔ سوچ سوچ کر پریشان رہنے لگی۔ اپنے سے زیادہ بچوں کی فکر کھائے جاتی تھی، صفیہ تنہائی میں تسلی دیتی۔ باجی حوصلہ رکھیں۔ ایسا کچھ نہ ہو گا۔ یہ آپ کا وہم ہے لیکن میں کیسے اس کی طفل تسلیوں سے بہل جاتی۔ حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے جو روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ صفیہ میری خدمت میں گھلی جاتی تھی۔ وہ دبلی ہو کر آدھی رہ گئی۔ اسے میرا غم کھائے جاتا تھا۔ ایک دن جبکہ بچے سو گئے دوا کھلانے کے بعد وہ پلنگ پر بیٹھ گئی اور میری ٹانگیں دبانے لگی۔ صفیہ میں نے کہا زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میری زندگی تو پھر ایک بجھتا چراغ ہے۔ ایک بات کہوں برا تو نہ مانو گی ۔ کہئے باجی میں ہر گز برا نہ مانوں گی۔ سنو میری حیات کے دن گنے جاچکے ہیں۔ چاہتی ہوں کہ اپنی زندگی میں صاحب سے تمہار انکاح کرادوں۔ کیا تم میری خاطر یہ قربانی دے سکتی ہو آپ کی خاطر جان بھی دے سکتی ہوں باجی لیکن حبیب صاحب سے نکاح وہ میرے بڑے بھائی ہیں۔ ہمیشہ ان کو اسی نظر سے دیکھا ہے۔ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ صفیہ، سمجھنے کی کوشش کرو۔ دیکھو میں تو بستر مرگ پر ہوں اور تمہاری شادی کی عمر نکل رہی ہے، وقت پر تم کو دلہن نہ بنایا۔ تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور اب اپنے اس ظلم کا کفارہ بھی ادا کرنا چاہتی ہوں۔ صاحب تم سے عمر میں کچھ بڑے سہی لیکن بوڑھے نہیں ہیں۔ ان کو بھی بیوی کی ضرورت ہو گی اور تم بھی اس گھر میں سکون سے رہو گی۔ میرے بعد بچوں کو ماں کا پیار دو گی۔ مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ میں اس امر کیلئے اپنے صاحب کو منالوں گی ۔ بس تم راضی ہو جائو۔ کافی لیت و لعل کے بعد اس نے بالآخر میری مرضی کے آگے سر جھکادیا۔ شاید یہ سوچ کر کہ میرے بعد اس کا بھی تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کیا پتہ آئندہ حالات میں اسے در بدر ہونا پڑ جائے۔ حبیب کو میں نے منالیا اور صفیہ کا نکاح ان سے کرادیا۔ بچے بھی اس امر پر ناخوش نہ تھے۔ صفیہ سوکن بن گئی۔ اسے سوکن بنا کر مجھے ملال نہ ہوا ایک طرح سے خوشی ہوئی۔ وہ اب بھی ویسے ہی میری تابعدار تھی اور حبیب میرا اس قدر خیال کرتے تھے کہ میرے سامنے اس کے ساتھ کلام کرنے سے بھی احتراز کرتے تھے۔ گھر اور امور خانہ جیسے چل رہے تھے ویسے ہی چلتے رہے۔ حبیب کو بیرون ملک جانے کا موقع مل گیا تو مجھے بھی ساتھ لے گئے ، امریکا میں علاج کرایا۔ خدا کے فضل سے اصل مرض کا پتہ چل گیا۔ مجھے کینسر نہیں تھا، میں صحت یاب ہو گئی۔ گھر لوٹی تو خوشیاں دامن میں بھر کر۔ بچوں کو خوب گلے لگا کر روئی اور ہنسی بھی کہ خدا نے مجھے نئی زندگی دے دی تھی۔ صفیہ بھی خوش تھی لیکن وہ کبھی کبھی بھجی بھجی لگتی کیونکہ حبیب نے نکاح ضرور کیا تھا لیکن وہ سوتے میرے ہی بیڈ روم میں تھے۔ صفیہ کے بیڈ روم میں بدستور میرے بچے اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ صفیہ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ میری سوکن ہے لیکن ہم بہنوں کی طرح رہتی ہیں۔ میں نے اسے اور اپنے شوہر کوان کے جائز حقوق بھی دے دیے ہیں۔ اللہ تعالی کے خوف اور خوشنودی کی خاطر لیکن جس دن میری سوکن کی باری میرے شریک زندگی کے ہمراہ رہنے کی ہوتی ہے میں بہت اداس ہو جاتی ہوں اور چھپ چھپ کر آنسو بہاتی ہوں۔ سچ ہے کہ سوکن ریشم کی گڑیا بھی ہو تو گراں ہوتی ہے۔ | null |
null | null | null | 182 | https://www.urduzone.net/naqam-mard/ | سامعہ میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے اپنے کئے پر سخت ندامت ہے۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تم بھی میرے بغیر ادھوری ہو اور میں بھی تمہارے بنا ادھورا اور نامکمل ہوں ۔ تمہارے لئے بھی زندگی کا لمبا سفر تنہا کا ٹنا ممکن نہیں۔ مجھے ایک بار موقع دو، میں تمہارے پیر پکڑ کر تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔ سامعہ پلیز مجھے معاف کر دو اور لوٹ آؤ میرے پاس ہمیشہ کے لئے ۔ میں تمہیں پلکوں پر بٹھا کر رکھوں گا، بہت پیار دوں گا۔ بس ایک بار میرے پاس لوٹ آؤ۔ میرے دل اور گھر کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ اف سامعہ نے صبح صبح بہرام کا اتنا لمبا میسج دیکھا تو سر تھام لیا۔ یوں تو دو تین بار اس کی طرف سے بلینک میسجز ملے تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتا ہے ،لیکن وہ نظر انداز کر رہی تھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا بہرام نے خود اپنے منہ سے اسے تین طلاقیں دے کر، اس کی ساری محبت ، ریاضت کو بھاڑ میں جھونک کر رشتے کی پاکیزگی ، خلوص ، ہم آہنگی، ہمدردی، سامعہ کی خدمتوں کو اپنی مردانگی حیثیت کا ناحق و نا جائز استعمال کر کے اپنے پیروں تلے کچل ڈالا تھا اور آج ، بہ مشکل دو سال گزرنے کے بعد، وہ اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کر رہا تھا، پچھتا رہا تھا۔ اس وقت سامعہ کی سسکیاں، تڑپ اور ردا کی معصومیت بھی اسے اس سفاک فیصلے سے روک نہ پائی تھی ۔ یہ بات آج بھی یقینی تھی کہ سامعہ کی زندگی میں بہرام سے پہلے کوئی تھا اور نہ اس سے تعلق ختم ہونے کے بعد کوئی آیا۔ اس کو تو بہرام سے عشق تھا۔ وہ سیدھی سادی اور معصوم سی لڑکی تھی ، جس نے متوسط گھرانے میں جنم لیا تھا۔ صوم وصلوٰۃ کی پابند ، شریف فیملی تھی۔ والد اسکول ماسٹر جبکہ والدہ گھر یلو عورت تھیں۔ سامعہ اور اشعر بس یہ دو بہن بھائی تھے ، جن کی پرورش دینی احکامات اور خاندانی شرافت و روایات کی کسوٹی پر ہوئی تھی، تب ہی اس نے عام لڑکیوں کی طرح مستقبل کے حوالے سے اونچے اونچے سپنے نہیں دیکھے تھے، خوب صورت ہونے کے باوجود کسی خیالی شہزادے کو اپنے خوابوں میں نہیں بسایا تھا۔ اس نے اپنا پیار، محبت، خلوص، اپنے ہونے والے شوہر کی امانت سمجھ کر سنبھال کر رکھا تھا اور اس امانت میں کبھی خیانت نہ کی ۔ یہی بات تھی کہ جب اس کے بی اے کرنے کے فوراً بعد اماں نے اشعر کے لئے لڑکی دیکھنی شروع کی تو ساتھ ہی اس کی شادی کا فیصلہ بھی کر لیا کیونکہ اس کے لئے بہرام کا معقول رشتہ آگیا تھا۔ شریف لڑکا تھا، اچھا کماتا تھا۔ سو جھٹ پٹ شادی ہو گئی ۔ سامعہ بہت خوش تھی۔ بہرام بہت سنجیدہ اور جاذب نظر لڑکا تھا۔ وہ دل میں بے شمار سپنے سجا کر اس کی زندگی میں آگئی۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرتا ، اس کا خیال کرتا اور عزت دیتا تھا۔ شروع کے دن کافی اچھے گزرے۔ بہرام اکثر اس کو میکے لے جاتا تھا۔ دونوں خوش گوار زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے میکے کی پڑوس میں جو فیملی رہتی تھی، وہ بہت اچھے لوگ تھے ۔ ذاکر صاحب ، ان کی بیوی عطیہ بیگم اور ایک بیٹا سالک۔ ذاکر صاحب معقول جاب کرتے تھے اور مالی لحاظ سے مستحکم تھے لیکن اللہ پاک کی جانے کیا مصلحت تھی کہ ایک ہی بیٹا تھا ، جو تقریبا اشعر کی عمر کا تھا، مگر ذہنی لحاظ سے نارمل نہیں تھا۔ عموماً وہ کئی کئی دن نارمل رہتا ، ہر بات میں سمجھ داری کا مظاہرہ کرتا اور کبھی عجیب و غریب بچکانہ حرکتیں کرنے لگتا، جیسے ایب نارمل لوگ ہوتے ہیں۔ ذاکر صاحب نے اس کا بہت علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے مریض شادی کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن جانتے بوجھتے بھلا کون ،مکھی نگل سکتا ہے۔ مالک کبھی کبھار سامعہ کے گھر بھی آجاتا اور تمام گھر والوں سے بہت اچھی طرح باتیں کرتا، کیرم کھیلتا، لوڈو کھیلتا۔ دردانہ بیگم بالکل اشعر کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی سامعہ نے محسوس کیا کہ بہرام کچھ شکی مزاج ہے۔ وہ کسی وقت کوئی ایسی بات کر جاتا اور سامعہ محتاط ہو جاتی تاکہ اس کو پھر شکایت نہ ہو۔ اس عرصے میں ان کی زندگی میں ردا آگئی۔ بیٹی کو پا کر سب خوش تھے ۔ ابھی ردا ایک سال کی تھی کہ بہرام کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی فوتگی کے بعد اس کا رویہ کچھ عجیب سا ہو گیا۔ روک ٹوک، بے جا پابندیاں، اکیلے باہر آنے جانے پر پابندی کبھی آفس سے آکر ایک دم پوچھتا۔ کوئی آیا تھا کیا نہیں تو کیوں سامعہ حیرانی سے پوچھتی ۔ مجھے سگریٹ کی بو آرہی ہے، جیسے کوئی آدمی آیا ہو ۔ بہرام سنجیدگی سے کہتا لیکن انداز شا کی ہی ہوتا۔ ارے اپنے ہاں کون سگریٹ پیتا ہے نہ ابو، نہ بھائی اور نہ ہی آپ پھر آپ کو کہاں سے بو آگئی وہ ہنس کر کہتی لیکن بہرام کا انداز اسے خطرے کی علامت محسوس ہوتا۔ کبھی کہتا۔ میں سبزی تو لے کر نہیں آیا تھا پھر یہ آلو کہاں سے آگئے کیا کسی سے سبزی منگوائی ہے وہی شکی لہجہ ۔ ارے نہیں بھی ہم کل اماں کے پاس گئے تھے نا، تو اماں نے دو تین سبزیاں دے دی تھیں۔ گھر کی ہی اگی ہوئی ہیں اماں کے وہ تسلی دیتی۔ بہرام آپ ایسے سوالات کیوں کرتے ہیں آپ کو کیا اندیشہ ہے آخر ایک دن ہمت کر کے سامعہ نے پوچھ ہی لیا۔ دیکھو سامعہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ اماں تھیں تو اطمینان تھا لیکن اب دن بھر تم اکیلی ہوتی ہو۔ زمانہ بہت خراب ہے ۔ آج کل بڑے واقعات ہو رہے ہیں۔ تم خوب صورت ہو، کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ شیطان انسان کو بہکانے کے لئے ہر جگہ موجود ہوتا ہے اور تم بھی تو انسان ہو، تم بھی بہک سکتی ہو ۔ لا حول ولا قوة حد کرتے ہیں آپ بھی بہرام کیا فضول باتیں سوچتے ہیں۔ مجھے آپ سے محبت نہیں عشق ہے۔ مجھے اپنی عزت اور آپ کی محبت اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور جہاں محبت ہوئی ہے، وہاں اعتماد اور بھروسہ پہلی شرط ہے ، تب ہی زندگی سہل اور پر سکون رہتی ہے۔ اپنے ذہن سے ایسے بے تکے خیالات نکال دیں ۔ سامعہ کو غصہ تو بہت آیا تھا کہ کس قدر بے تکی اور فضول بات کر رہا تھا وہ ۔ کیسے بے سر و پا وا ہمات اور شکوک و شبہات پال رہا تھا۔ ردا کی طبیعت کچھ خراب ہوئی۔ بہرام آفس میں بزی تھا۔ سامعہ نے اس کو کال کر کے ردا کی طبیعت کا بتایا۔ میرا آنا تو ممکن نہیں۔ میں بہت مصروف ہوں۔ تم برف کی پٹیاں رکھو ۔ بہرام نے پریشان ہو کر مشورہ دیا۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہی کر رہی ہوں۔ ایک پوائنٹ بھی بخار کم نہیں ہوا۔ میں رکشہ کر کے اماں کے پاس چلی جاتی ہوں ، وہاں سے بھابی کے ساتھ ہاسپٹل چلی جاؤں گی۔ سامعہ نے کہا۔ او کے۔ احتیاط سے جانا، اچھی طرح نقاب لگا کر اور رکشہ کر کے نمبر کی پک لے کر مجھے سینڈ کر دینا اور ہاں یہ رکشہ ٹیکسی والے باتونی ہوتے ہیں۔ ان سے بات وات کرنے اور پیسوں پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو بولے خاموشی سے دے دینا اور اس طرح بیٹھنا کہ رکشے کے شیشے میں نظر نہ آؤ اف تو یہ لگتا ہے میں کسی جنگ پر جارہی ہوں۔ سامعہ پہلے ہی پریشان تھی اوپر سے بہرام کی ہدایات سن کر اس کا دماغ گھوم گیا ، تب ہی بنا جواب دئے اس نے کال کاٹ دی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی آخر اس شخص کا مطلب کیا ہے آج حقیقت میں اس کو بہرام پر غصہ آیا تھا۔ بچی بخار میں پھنک رہی تھی اور باپ کو اتنے تحفظات تھے۔ شام چار بجے تک ردا کا بخار اتر گیا تھا۔ بہرام کو آج دفتر سے دیر سے آنا تھا۔ سامعہ نے کہہ دیا تھا کہ وہ اشعر کے ساتھ گھر آجائے گی، جس پر بہرام مطمئن تھا۔ ردا کا بخار اترا تو وہ اٹھ کے بیٹھی ۔ دردانہ بیگم اس کو بریڈ کھلانے کی کوشش کر رہی تھیں ، مگر وہ نہیں کھا رہی تھی ، تب ہی سالک آگیا۔ ارے واہ ردا گڑیا آئ ہے۔ ردا کو دیکھ کر خوش ہو گیا ۔ رد ا بھی اسے دیکھ کر مسکرائی ۔ اس کو مسکراتا دیکھ کر سب خوش ہو گئے۔لیکن آپ کی ردا گڑیا کچھ نہیں کھا رہی ۔ سامعہ نے کہا۔ گڑیا ہم گڈ فرینڈز ہیں۔ آپ فرینڈ کے ہاتھ سے تو کھاؤ گی نہ پھر میں آپ کو چاکلیٹ دوں گا۔ سالک نے سلائس سامعہ کے ہاتھ سے لے کر ردا کی طرف بڑھایا تو اس نے منہ کھول کر چھوٹا سا بائٹ لے لیا ارے واہ سالک انکل تو گڑیا کے اچھے والے فرینڈ ہیں ۔ گڑیا ان سے کھالے گی۔ سامعہ نے مسکرا کر کہا۔ تو اور کیا رد ا مجھ سے کھائے گی ، پھر ہم لوگ لان میں کھیلیں گے اور چاکلیٹ بھی کھائیں گے۔ سالک نے بھر پور ہنسی کے ساتھ کہا۔ اسی وقت دردانہ بیگم عصر کی نماز کے لئے اٹھ گئیں۔ صحن میں بچھے تخت پر سامعہ اور سالک، ردا کے ساتھ بیٹھے تھے اور رد ا کے خوشگوار موڈ پر ہنس رہے تھے۔ عین اسی وقت باہر کا دروازہ کھلا اور بہرام اندر داخل ہوا۔ اس کی پہلی نظر ہی سامعہ اور سالک کے مسکراتے چہروں پر پڑی اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اسے سامعہ کا اس طرح کسی غیر مرد کے ساتھ بیٹھنا اور مسکرانا بہت برا لگا تھا۔ سامعہ اس نے غصے سے آواز دی۔ ارے آپ کب آئے وہاں کیوں کھڑے ہیں سامعہ چونکی اور جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔ پانچ منٹ ہو چکے ہیں مجھے آئے ہوئے تم خوش گپیوں میں اس قدر مصروف تھیں کہ نہ تمہیں دروازہ ناک کرنے کی آواز آئی اور نہ میرے آنے کی خبر ہوئی ۔ بھلا ایسا کون سا لطیفہ تھا، جس پر قہقہے لگائے جا رہے تھے وہ خونخوار نظروں سے سامعہ اور سالک کو دیکھتے ہوئے زہر خندلیجے میں بولا ۔اس کے انداز پر سامعہ تو بری طرح گھبرا گئی اور سالک بالکل چپ ہو کر بہرام کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے جارحانہ انداز پر ڈر سا گیا اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ نہیں بہرام ایسی کوئی بات نہیں۔ صبح سے ردا نڈھال تھی، ابھی کچھ طبیعت بحال ہوئ ہے اس کی۔ اب سالک کے ہاتھ سے سلائس کھا رہی ہے۔ صبح سے اب جا کر تو مسکرائی ہے۔ تو ہم بھی اس کو بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔سامعہ نےشرمندہ ہوتے ہوئے صفائی پیش کی۔ بہت اچھا انداز ہے بہلانے کا وہ بھی کسی غیر محرم کے ساتھ۔ تم تو صبح اس قدر واویلا مچا رہی تھیں، جیسے ردا کی حالت بہت خراب ہو اور تم بہت پریشان ہو۔ مجھے پریشان کر کے بہانے سے یہاں آکر یہ گل چھرے اڑائے جارہے ہیں۔ میں اپنا کام چھوڑ کر، پریشان ہو کر باس سے لڑ جھگڑ کر آیا کہ ردا نہ جانے کس حال میں ہوگی مگر یہاں تو سین ہی کچھ اور ہے بہرام آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ابھی اماں نماز کے لئے اندر گئی ہیں۔ بھابھی چائے بنانے گئی ہیں۔ سالک تو ابھی آیا تھا۔ اس سے رد ا بہل جاتی ہے۔ وہ ہمدرد اور سیدھا ساد الڑکا ہے۔ اس کا بچوں جیسا بی ہیور ہے۔ بس سالک نامہ بند کرو اور فضول جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب سمجھ آئی کہ ہر ہفتے تمہارا یہاں حاضری لگانا کیوں ضروری ہے جانتی ہونا کہ مجھے یہ سب پسند نہیں ۔ بہرام کا لہجہ بدستور کاٹ دار تھا۔ اسی وقت دردانہ بیگم بھی آئیں۔ بہرام نے ان کو سلام کیا، وہ ابھی تک کھڑا ہوا تھا۔ وعلیکم السلام بیٹا آؤ بیٹھو۔ انہوں نے شفیق لہجے میں کہا۔نہیں آنٹی میں جلدی میں ہوں۔ اٹھو سامعہ، گھر چلو۔ بہرام نے روکھے لہجے میں کہا تو وہ فوراً ہی کھڑی ہو گئی۔ ارے سامعہ اپنے بھائی کے آنے تک رک جاتیں۔ بہرام کھانا کھا کر چلے جاتے تم لوگ بھابی نے اس کو تیار دیکھ کر کہا۔شکریہ بھابی پیٹ بھر چکا ہے میرا بہرام نے پہلا جملہ زور سے اور دوسرا تیکھے انداز میں سامعہ کے کان میں ادا کیا۔ اس نے تاسف سے اس عجیب شخص کی جانب دیکھا، پھر نظریں جھکا کر قدم آگے بڑھا دیئے ۔ بہرام آپ ایک بے بنیاد اور چھوٹی سی بات کو خواہ مخواہ بڑھا رہے ہیں ۔ آپ کیسے آدمی ہیں مجھ پر ذرا سا بھی اعتماد نہیں آپ کو سامعہ کو رونا آ رہا تھا، تب ہی گھر آ کر وہ گلہ کر بیٹھی ۔ ہاں، میں ایسا ہی ہوں کیونکہ مجھے تم سے پیار ہے ۔ تم پر صرف میرا حق ہے۔ وہ پورے حق سے بولا ۔ اس بات سے میں نے کب انکار کیا ہے جانتی ہوں کہ آپ مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی آپ ہی آپ ہیں لیکن صرف میاں بیوی کا آپس میں ہی تعلق نہیں ہوتا اور رشتے تعلقات ہوتے ہیں ، وہ بھی نبھانے پڑتے ہیں ۔ سامعہ نے نرم لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی۔ ہاں تو میں نے رشتے داریاں ختم کرنے کب کہا کب تمہیں ماں، بھائی اور بھائی سے ملنے سے روکا ہے مگر غیروں سے بات کرنا مجھے قطعی نا پسند ہے۔ مجھے تو تمہارا شاپ کیپرز سے ڈیلنگ کرنا ، بھاؤ تاؤ کرنا ، ٹھیلے والے سے سبزی خرید نا رکشه، ٹیکسی والے کے ساتھ سفر کرتا بھی زہر لگتا ہے۔ بہرام جذباتی ہو رہا تھا۔سامعہ نے سر تھام لیا اور فی الحال خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ کچھ دن نارمل گزرے، مگر زندگی میں بے شمار بکھیڑے تھے۔ گھر کے بیسیوں کام ہوتے ۔ بہرام کی ہدایات کی وجہ سے وہ محلے میں بھی کسی سے ملتی جلتی نہیں تھی۔ کبھی کبھی تو اسے سخت جھنجھلاہٹ ہوتی ، جب چھوٹے سے کام یا معمولی کی ضرورت کی کسی چیز کے لئے ایسے صبح سے شام تک انتظار کرنا پڑتا، اسے سخت کوفت ہوتی ۔ اس نے میکے جانا بھی کم کر دیا تھا۔ ایسے میں کبھی اماں اور بھابی آجاتیں، تو دل بہل جاتا۔ زندگی اسی طرح نرم گرم انداز میں گزر رہی بھی کہ اچانک بہت بڑا طوفان آگیا، ایسا طوفان جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا، محبت، ریاضت، صبر، برداشت سب رائیگاں ہو گیا۔ اتوار کا دن تھا۔ حسب معمول آج بہرام گھر پر تھا۔ چھٹی والے دن وہ دیر سے سو کر اٹھتا تھا ۔ سامعہ کی آنکھ کھلی تو نو بج رہے تھے ۔ دو سالہ ردا، جو اب خوب پٹر پٹر باتیں کرتی تھی ، وہ بھی جاگ گئی تھی۔ سامعہ اس کو لے کر روم سے باہر برآمدے میں آگئی اور بیڈ روم کا دروازہ بند کر دیا تا کہ بہرام کی نیند خراب نہ ہو۔ فیڈر بنا کر رد ا کو تھما کر وہ واش روم چلی گئی ۔ واش روم سے واپس آئی تو موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ نمبر دیکھ کر اس نے کال ریسیو کر لی۔ہپی برتھ ڈے ڈیئر ضرور ضرور کیوں نہیں آپ کے لئے تو ہر وقت حاضر ہیں۔ ان شا اللہ باقی باتیں بعد میں ، صبح صبح اچھی نیوز دی آپ نے لو یو سومچ سامعہ نے کھلکھلا کر کہا۔ اس کا موڈ انتہائی خوشگوار ہو گیا تھا ، جیسے اچانک کوئی بڑی خوشی ملی ہو۔ کال بند کر کے وہ مسکراتی ہوئی کچن کی طرف چل دی تا کہ بہرام کے اٹھنے سے پہلے ناشتہ تیار کرلے اور پھر اس کو خوش خبری بھی سنائے کہ بھائی کی کال آئی تھی۔ بھائی نے نئی گاڑی لے لی ہے اور اگلے اتوار کو سب کو پکنک پر لے جا رہے ہیں ۔ وہاں سامعہ اور بہرام کی شادی کی سالگرہ بھی منائیں گے۔ وہ اس بات سے قطعی بے خبر تھی کہ بہرام جاگ گیا تھا اور روم سے باہر آتے ہوئے سامعہ کی ہنسی اور خوشگوار لہجے پر ٹھٹک کر و ہیں ٹھہر کر ساری باتیں سن رہا تھا۔ اسے سامعہ کا انداز سخت ناگوار گزرا تھا۔ وہ کچن میں ہی تھی کہ بہرام خاموشی سے اس کا موبائل لے کر کمرے میں آگیا۔ ان کمنگ کالز پر جا کر دیکھا تو کوئی نیا نمبر تھا، بغیر کسی نام کے ایسا کون ہو سکتا تھا جس سے اتنی بے تکلفی اور پیار سے بات ہو رہی تھی۔ لویو بولا جا رہا تھا۔ بہرام کا ماتھا ٹھنکا۔گو کہ بات معیوب تھی لیکن، اس نے اس نمبر پر کال بیک کی ۔ ہیلو سامعہ دوسری جانب گمبھیر مردانه آواز سن کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ اس نے کال بند کر کے موبائل زور سے دیوار پر دے مارا اور اتنی زور سے چلایا کہ سامعہ گھبرا کے بھاگی چلی آئی۔ بہرام کی آنکھیں غصے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔ چہرے پر غضب کا جلال اور وحشت تھی۔ اپنے موبائل کے ٹکڑے دیکھ کر سامعہ کی آنکھیں پھیل گئیں ۔ بهرام یہ صبح صبح آپ کو کیا ہو گیا ہے کوئی خواب دیکھ لیا کیا وہ سخت حیران تھی۔ بے غیرت عورت اتنی معصوم مت بن کیا گل کھلا رہی ہے، مجھے کمرے میں بند کر کے میری ناک کے نیچے کیا کھیل کھیل رہی ہے مجھ سے چھپ کر کس سے بات ہو رہی تھی اتنی خوش تھی اور لو یو کہہ رہی تھی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بال جکڑ لئے تھے۔یا اللہ بہرام آپ تسلی سے میری بات سنیں۔ اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہیں اتنے گھٹیا الزامات لگانے سے پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ میں کس سے بات کر بکواس بند کر ۔ مجھے ضرورت نہیں صفائی لینے کی۔ جو دیکھا، جو سنا اور پھر خود تصدیق بھی کر لی۔ وہ عورت ہی بری ہے جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے، اس کی مرضی کے خلاف جائے ۔ مجھے ایسی عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ غضبناک ہو کر چلایا۔ ردا سہم کر رونے لگی، جبکہ سامعہ کی آنکھیں پھیل گئیں ۔ اس کی برداشت جواب دینے لگی تھی۔ کیسا انسان تھا کتنی محدود سوچ تھی اس کی۔ اتنا جاہلانہ انداز تھا۔ بھلا ایسے بھی زندگی گزرتی ہے بہرام آپ زیادتی تو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں لیکن اب اب آپ حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آپ نفسیاتی ہو چکے ہیں ۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور آپ وہ ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ آپ کو شرم نہیں آتی اپنی بیوی پر ایسے گھٹیا الزام لگاتے ہوئے بس اگر ایک لفظ بھی کہا تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ تین لفظ کہہ کر تیرا کام تمام کر سکتا ہوں ۔ وہ شدید غضبناک ہو کر بولا ۔بہرام ہوش کے ناخن لیں۔ ایک بیٹی ہے ہماری یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سامعہ کانپ گئی۔یہ تمہیں سوچنا چاہئے کہ تم ایک بیٹی کی ماں ہو۔وہ غرایا۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ آپ غلط اور بے بنیا د گھٹیا الزامات لگا رہے ہیں ۔ بکواس بند کرو۔ میں گھٹیا ہوں اور تم بڑی پاکباز جو میکے جا کر غیر لڑکوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی ہو۔ پتا نہیں کس کس سے باتیں کرتی ہو میرے پیچھے نہ جانے کیا کیا گل کھلاتی ہو بہرام میرے صبر اور برداشت کا اب اور امتحان مت لیں۔ اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو میں بھی اپنی برداشت کھو بیٹھوں گی۔ آپ اس قدر گر سکتے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔ بہرام کو شاید سامعہ کی مصلحت والی فطرت سے اتنے سخت لہجے اور الفاظ کی امید نہ تھی۔ وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتا ہوا آگے بڑھا اور اس کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کر دیا۔ سامعہ نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔گھٹیا انسان تم نے ہاتھ کیسے اٹھایا مجھ پر وہ بھر کر آگے بڑھی لیکن بہرام نے اس کی دونوں کلائیوں کو اپنے آہنی ہاتھوں کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ تکلیف کی شدت سے وہ بلبلا اٹھی ۔ جاہل انسان چھوڑو مجھے میں ایسی عورت کو رکھنا بھی نہیں چاہتا۔ جا، میں نے تجھے طلاق دی۔ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے مجھے طلاق دی ۔ ایک ایک لفظ ادا کرتے ہوئے اس نے سامعہ کو زور دھکا دے کر کری کی جانب پھینکا۔ سامعہ کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ یہ کیا کہہ گیا تھا وہ اتنا بڑا فیصلہ ایک لمحے میں سب کچھ ختم ۔ سامعہ کو لگا کہ اس کے وجود میں انگارے بھر گئے ہوں۔ اس کے ماتھے پر داغ لگ چکا تھا، رشتہ ختم ہو چکا تھا، تبھی وہ دھاڑا۔ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ۔تم ایک نفسیاتی انسان ہو۔ تمہیں رشتوں کے تقدس کا احساس نہیں۔ تم نے میاں بیوی کے پاک رشتے کو اپنی غلط سوچ کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے رشتہ قائم رکھنے کی امید رکھی جائے کیونکہ تمہارے دل میں صرف اور صرف منفی خیالات پہنچتے ہیں۔ لعنت بھیجتی ہوں تم پر تمہاری سوچ پر اور تمہارے گھر پر بس یہی اوقات تھی تمہاری ، دیکھ لینا بہت پچھتاؤ گے تم نفرت سے کہتے ہوئے اس نے اپنے دکھتے وجود کو سنبھالا اور ردا کو گود میں لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس گھٹن زدہ ماحول سے نکل آئی۔ بکھری تو وہ اماں سے گلے لگ کر تھی ۔ بھائی ، بھابی اس کی حالت پر غصے سے پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ اشعر تو بہرام کی خبر لینے جارہا تھا لیکن سامعہ نے منع کر دیا۔ اب جب اس شخص سے سارے رشتے ختم ہو چکے تو اس کے منہ لگنے سے کیا فائدہ ویسے بھی کیچڑ میں پتھر پھینکا جائے تو چھینٹے خود پر ہی آتے ہیں۔ بہر حال ، طلاق کا لفظ شریف عورت کے لئے کلنک کا داغ ہے۔ کچھ دن بعد زندگی روٹین میں آگئی۔ سامعہ کی عدت ختم ہوئی تو اس نے اسکول میں چاب کرلی۔ ردا اس کے ساتھ جاتی تھی۔ ذاکر صاحب اور عطیہ بیگم کو بھی سامعہ کی طلاق کا بہت دکھ تھا۔ سالک اب بھی ان کے گھر آتا کبھی وہ نارمل تو کبھی بچگانہ حرکتیں کرتا۔ بہرام کے محلے میں سامعہ کے طلاق کی خبر پھیلی تو سب نے سامعہ کی حمایت ہی کی ۔ بہرام بالکل اکیلا ہو گیا تھا آفس سے نکلتا تو یونہی ادھر اُدھر آوارہ گردی کرتا اور رات گئے گھر آ کر سو جاتا۔ گھر بھی کباڑ خانے جیسا ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے جب گھر میں عورت نہ ہو تو ہر چیز ہی بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک سال کا عرصہ ہو گیا تھا۔ ایک روز بازار میں عطیہ بیگم کو بہرام نظر آیا۔ بہرام نے بے ساختہ انہیں سلام کر ڈالا ۔ عطیہ بیگم کو غصہ تو بہت آیا مگر جواب میں سلامتی بھیجنا فرض ہے، سو بادل ناخواستہ انہوں نے جواب دیا اور با وجود کوشش کے چپ نہ رہ پائیں، کیونکہ بہرام کی حالت بہت ابتر تھی ۔ پہلے جب وہ سسرال آتا تھا تو عطیہ بیگم سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ صاف ستھرا نکھر انکھرا، شیو بنی ہوئی، بال سلیقے سے سیٹ کئے ہوئے ہوتے ، جوتے چمک رہے ہوتے ۔ چہرے پر اطمینان اور سکون ہوتا لیکن اب ملگجے کپڑے، بے ترتیب بال ، بڑھی ہوئی شیو اور بنا پالش کے جوتے پہنے ، وہ جسمانی لحاظ سے بھی کمزور اور نحیف نظر آرہا تھا۔ یہ کیا حالت ہو گئی ہے تمہاری اچھی بیوی کی قدر نہیں کی نا تم نے ایک بے بنیاد بات پر نہ صرف اس بے قصور کو بلکہ خود کو بھی سزا دی ۔ کم از کم اس کی بات تو سن لیتے کہ اس نے فون پر اپنی بھابی سے بات کی تھی۔ فون بھائی کا تھا۔ اس کی نئی سم پر بات ہوئی تھی ۔ عطیہ بیگم نے بازار میں ہی دل کی بھڑاس نکالی ۔ اس کا سر چکرا گیا۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ اور کہتا عطیہ بیگم تیزی سے آگے بڑھ گئیں۔ وہ سر تھام کر کھڑا رہ گیا تھا۔ گھر آ کر بھی یہی خیال اسے ستاتا رہا۔ سامعہ کو طلاق دینے کے بعد ویسے بھی وہ سب کی نظر میں گر گیا تھا ۔ اس کا گھر ویران ہو گیا تھا۔ سامعہ نے کتنے سلیقے سے سب کچھ مینیج کر رکھا تھا۔ اب نہ وقت پر کھانا ملتا، نہ بیماری میں کوئی دوا دینے والا ہوتا۔ وہ ویسے بھی بیزار رہنے لگا تھا، اوپر سے عطیہ بیگم سے حقیقت معلوم ہوئی تو پچھتاوا بھی ہونے لگا۔ خود پر غصہ آرہا تھا۔ کئی دن وہ سوچ سوچ کر بے چین رہا۔ اس کی نیندیں اڑ گئیں، سکون ختم ہو چکا تھا۔ آخر بہت سوچنے کے بعد اس نے سامعہ کو درد بھر امیج کر ڈالا۔ اپنے کئے کی معافی مانگی ۔ وہ ایک بار پھر اس کو اپنانا چاہتا تھا۔ یہ اس کی مجبوری بھی تھی۔ وہ ساری زندگی یوں مسافروں کی طرح اکیلے تو گزار نہیں گزار سکتا تھا۔ جب بار بار بہرام کے میسجز آتے رہے تو سامعہ نے کئی بار نظر انداز کرنے کے بعد کچھ سوچ کر اسے رپلائی دیا۔ بہرام اب آپ کے پچھتانے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ جو ہونا تھا، ہو چکا۔ اب آپ میرے لئے نا محرم ہیں اور ہم کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے۔ اس رپلائی کے جواب میں بہرام کی کال آگئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کال ریسیو کر لی۔ بہرام با قاعدہ رورہا تھا، گڑگڑارہا تھا۔ سامعہ میں جانتا ہوں کہ ساری غلطی میری ہی ہے۔ میں تمہارا مجرم ہوں۔ میں نے جان لیا ہے کہ تم نے مجھ سے پہلے اور میرے بعد بھی بھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔ تمہاری قدر نہ کر کے میں نے گناہ کیا ہے۔ جانتا ہوں کہ تم کہیں اور شادی بھی نہیں کروگی۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں سامعہ مجھے ایک موقع دے دو اور میری زندگی میں چلی آؤ۔ بہرام آپ جو بھی کہہ لیں ، اب سب بے کار اور بے مقصد ہے ، کیونکہ اب ہم ایک نہیں ہو سکتے ، یہ ناممکن ہے۔ سامعہ نے یہ کہہ کر کال بند کر دی۔ مگر بہرام باز نہ آیا اور برابر میجر کرتا رہا۔ ان میں وہی گڑ گڑانا اور معافیاں مانگنا۔ تقریبا ایک ماہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن اس نے سامعہ کو راستہ دکھایا۔ سامعہ اج تمہارے دل میں میرے تھوڑی سی بھی جگہ ہے بہرام آپ سب جانتے تو ہیں۔ سامعہ نے مختصر جواب دیا۔ تو پھر ایک راستہ ہے، جس سے ہم ایک بار پھر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، قانونا اور شرعی طریقے سے رشتہ استوار کر سکتے ہیں، اگر تم حلالہ کر لو۔ بہرام آپ کیسے باتیں کر رہے ہیں میں ایسا نہیں کر سکتی، کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی۔ اور کون ایسا شخص ہوگا، جو چند دن کے لئے شادی کرے گا سامعہ نے صاف انکار کر دیا۔ وہ تمہارا پڑوسی سالک اور یہ کام کر سکتا ہے۔ وہ تو نارمل بھی نہیں ہے اور بقول تمہارے ہمدرد بھی ہے۔ اس کی فیملی بھی تو تم کو سپورٹ کرتی ہے۔ اگر تم چاہو تو ایساہو سکتا ہے آپ کا دماغ تو درست ہے بہرام کیسے ہو سکتا ہے یہ سب سامعہ نے کہا۔ دیکھو سامعہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔ دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ ایسی غلطیوں کو سدھارنے کے لئے، غلط اور جذباتی فیصلوں کے ازالے کے لئے اللہ پاک نے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ راستہ بھی رکھا ہے۔ بہرام سامعہ کو رضامند کرنے کے لئے ہر حربہ آزما رہا تھا۔ وہ چپ ہوگئی اور اس کی چپ نیم رضامندی تھی۔ ٹھیک ہے بہرام اسوچ کر جواب دوں گی ۔ سامعہ کے ذومعنی جواب سے وہ کسی حد تک مطمئن ہو گیا تھا۔ ایک ہفتہ بڑی بے چینی اور بے قراری میں گزارنے کے بعد سامعہ نے اس کو خوشخبری سنادی تھی ۔ او تھینک یو سوئچ سامعہ ا مجھے امید تھی کہ تمہیں مجھ پر ضرور رحم آجائے گا۔ میری دعائیں قبول ہو جائیں گی ۔ بس اب جلدی سے نکاح کر لو اور پھر جتنی جلدی ہو سکے میری زندگی میں آجاؤ ۔ وہ خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔ اگلے ہفتے میرا نکاح ہے۔ اب آپ مجھ سے تب تک رابطہ نہیں کریں گے، جب تک میں نہ کہوں ۔ سامعہ نے چار دن بعد اطلاع دی۔ او کے باس جو آپ کا حکم اب آپ کے احکامات پر ہی چلنا ہے۔ وہ خوش دلی سے بولا ۔ اس کے دل کی مراد جو پوری ہو رہی تھی۔ ایک بہت مشکل کام کتنی آسانی سے ہونے جا رہا تھا۔ شاید قسمت پوری طرح سے اس پر مہربان تھی۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے دردانہ مجھے تو سامعہ سے دلی لگاؤ ہے۔ بہت پیاری اور معصوم بچی ہے۔ اس کے ساتھ جو ہوا، مجھے لگتا ہے جیسے میری اپنی بچی کے ساتھ ہوا ہو۔ وہ ابھی جوان ہے، خوب صورت ہے۔ اس کو اچھا رشتہ مل سکتا ہے۔ میں جانتی ہوں میرا بچہ نارمل نہیں ہے۔ اس سے شادی ایک رسک ہے۔ چالیس فیصد چانس ہے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نہیں چاہتی کہ سامعہ یہ رسک ہے۔ وہ مجھے اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہے ۔ عطیہ بیگم سے دروانہ بیگم نے مالک اور سامعہ کی شادی کی بات کی تو انہوں نے صاف اور سچے انداز میں اپنا موقف بیان کیا۔ آپا یہ سامعہ کی خواہش ہے۔ دیکھیں نا ، ہم نے سوچ سمجھ کر اس کی شادی بہرام سے کی تھی لیکن اس کے نصیب میں طلاق تھی ۔ اب یہ رسک لینے کو وہ خود تیار ہے۔ ہماری نیتیں صاف ہیں ۔ اللہ پاک بہتری کے راستے خود بنائے گا۔ ہو سکتا ہے، سالک بیٹا بالکل ٹھیک ہو جائے ۔ ہم یہ نیک کام ، نیک ارادے اور دعاؤں کے ساتھ کریں گے۔ اس بھروسے پر کہ اللہ پاک ہمارے بچوں کے نصیب روشن کر دے۔ دردانہ بیگم کی پر امید اور حوصلہ افزا بات پر عطیہ بیگم بھی پر امید ہوگئیں۔ اشعر اور اس کی بیوی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ سالک بھی خوش تھا کہ اس کی دلہن سامعہ بنے گی ، یوں وہ اس کی دلہن بن گئی ۔ ردا، دو سال میں اپنی نانی اور ممانی سے اتنا مانوس ہو گئی تھی کہ سامعہ کے جانے کے بعد تنگ بھی نہیں کرتی تھی۔ کچھ نیتوں کا اثر تھا، کچھ جذبے سچے تھے کہ سالک پر شادی کا مثبت اثر پڑا مکمل ایب نارمل تو وہ پہلے بھی نہیں تھا۔ کبھی کبھی دور ے پڑتے تھے، مگر شادی کے بعد اس میں واضح تبدیلی آئی تھی۔ ادھر بہرام کانٹوں پر لوٹ کر دن گزار رہا تھا کہ کب سامعہ کا میسج آئے اور کب وہ سالک سے طلاق کی خوشخبری سنائے لیکن سامعہ کی جانب سے مکمل خاموشی تھی۔ دو ماہ ہونے کو آئے تھے۔ طلاق کے بعد سامعہ کو عدت بھی گزارنی تھی، پھر کہیں جاکے دوبارہ بہرام سے نکاح ہوتا۔ اس میں بھی اچھا خاصا وقت درکار تھا۔ ایک پل کاٹنا محال تھا جبکہ مہینوں کا انتظار ننگی تلوار کی طرح بہرام کے سر پر لٹک رہا تھا۔ دو ماہ پورے ہوتے ہی جھنجلا کر بہرام نے خود ہی سامعہ کو کال کر ڈالی۔ ان دو ماہ کے عرصے میں سامعہ کی محبت، توجہ ، پیار، دیکھ بھال نے اور سب کی دعاؤں سے ڈاکٹرز کے مطابق، میڈیکل سائنس نے یہ بات سو فیصد درست ثابت کر دی تھی کہ اٹھائیس سالہ سالک، جسمانی لحاظ سے صحت مند و توانا اور ذہنی طور پر بھی بالکل فٹ اور نارمل ہو چکا ہے اور ہر لحاظ سے عام نوجوان کی طرح زندگی گزار سکتا ہے۔ سامعہ کا مکمل طور پر اس کو وقت دینا، اس کا خیال رکھنا اور چھوٹی چھوٹی ایکسر سائز کروانے سے اس میں بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی۔ اللہ کے کرم سے سامعہ کی دن رات کی محنت رنگ لائی تھی۔ بقول ڈاکٹرز کے ایسے کیسز میں اس طرح بہت کم ہوتا ہے۔ سب ہی خوش تھے۔ اللہ پاک نے معجزہ کر دکھایا تھا۔ ۔ عطیہ بیگم اور ذاکر صاحب تو سجدے میں گر کر زار و قطار رو رہے تھے، شکرانے پڑھ پڑھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کر رہے تھے۔ ساتھ ہی سامعہ کے بھی شکر گزار تھے کہ جس کی آمد سے ان کا بیٹا مکمل نارمل ہو گیا تھا۔ سامعہ حد ہوتی ہے انتظار کی بھی تم تو بالکل چپ ہو کے بیٹھ گئی ہو۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک ایک پل کانٹوں پر گزار رہا ہوں ، تم دو ماہ سے آخر اتنا لمبا ٹائم کس لئے بس جلدی سے فیصلہ کرو اور سب کچھ ختم کر دو۔ عدت کے دن بھی تو پہاڑ کی مانند کھڑے ہیں۔ بس فٹافٹ اس ادھورے انسان سے چھٹکارا حاصل کر لو۔ سامعہ جو چپ چاپ سن رہی تھی ، دھیرے سے بولی ۔ میں آپ کو مسیج کرنے والی تھی، خوشخبری دینے کے لئے کہ آپ کل اماں کے گھر آسکتے ہیں۔ میں بھی کل سب کے سامنے فیصلہ کروں گی اور آپ کے حق میں فیصلہ ہوگا۔ سچ کہا آپ نے وہ واقعی ادھورا انسان ہے، پاگل اور بے وقوف سا اس کے ساتھ وقت گزارنا محض میری مجبوری تھی۔اب یہ کھیل بھی ختم کر دوں گی کل شام کو، ان شا اللہ کل ہماری ملاقات ہو گی ۔ اس کی بات پر بہرام خوشی سے اچھل پڑا۔ ویری گڈ۔ بہت اچھی بات ہے۔ ان شا اللہ بہت جلد ہم ایک ساتھ ہوں گے۔ سر جھکائے، نادم نادم ، شرمسار سا بہرام گیٹ پر کھڑا تھا۔ اسلام علیکم دردانہ بیگم نے سلام کا جواب دے کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا اور صحن میں رکھی کرسی کی طرف اشارہ کر کے اس کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ دیگر کرسیوں پر اشعر، اس کی بیوی، ذاکر صاحب اور عطیہ بیگم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آئی ایم سوری آنٹی اور آپ سب سے بھی میں معافی چاہتا ہوں ۔ میں نادم ہوں کہ میں نے جلد بازی اور جذبات میں آکر بہت غلط فیصلہ کر لیا تھا لیکن اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ امید ہے آپ سب بھی سامعہ کی طرح مجھے معاف کر دیں گے اور آپ سے کس نے کہا کہ سامعہ نے آپ کو معاف کر دیا ہے۔ سامعہ کی تیکھی اور تیز آواز پر بہرام سمیت سب آواز کی سمت متوجہ ہوئے ۔ بہرام گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ سامنے دروازے سے وہ داخل ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ سالک تھا، دراز قد اور خوب صورت سا اور وہ بے حد نکھری نکھری مطمئن و پر اعتماد ، سالک کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے کھڑی تھی۔ دونوں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتےہوئے آگے بڑھے۔ سامعہ تم آگئیں سامعہ ، جلدی سے ان سب کو اپنا فیصلہ سناؤ۔بہرام بے قراری سے دو قدم آگے بڑھا۔ تب ہی سالک تیزی سے آگے آکر اس کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور شہادت کی انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز سے، اپنی بھاری آواز اور گمبھیر لہجے میں بولا ۔ اے مسٹر ہوش میں آئے۔ میں نے اپنی بیوی سے اتنی بے تکلفی سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی آپ کو اس لئے اپنی حد کا خیال رکھیں ۔ اور ہاں آپ میری بیوی کے لئے نامحرم ہیں۔ اس بات کا خیال آپ سے بہتر کوئی نہیں رکھ سکتا ۔ بہرام نے آنکھیں پھاڑ کر اس کو دیکھا۔ وہ بالکل نارمل تھا، پھر سامعہ کی طرف دیکھا۔ یہ سامعہ سب کیا ہے یہ کیا کہہ رہا ہے میری اور تمہاری کمٹمنٹ تھی ۔ تم نے تو فیصلہ میرے حق میں کرنے کا کہا تھا۔ ان سب کو بتا دو کہ تم کیا چاہتی ہو تم نے یہ شادی کیوں کی تھی تم ایک ادھورے انسان کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتیں بس اب ایک لفظ بھی مت بولنا بہرام رضا ادھورے انسان تو تم ہو، پاگل تو تم ہو، ایب نارمل یہ نہیں تم ہو۔ ایک لفظ ہوتا ہے مطلبی جو بہت خطرناک ہے اور اس سے زیادہ خطر ناک لفظ مفاد پرست ہوتا ہے۔ تم مفاد پرست ہو۔ تم نے مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے آج بھی تم بازی لگانے آئے ہو، اپنے مطلب کے لئے، اپنا مستقبل محفوظ کرنے مجھے تم سے پیار تھا بہرام ہے نہیں اب مجھے تم سے نفرت ہے، شدید نفرت تم مرد کہلانے کے لائق نہیں ہو۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا، اس کو اپنی جاگیر سمجھ لینا، مردانگی نہیں ہوتی۔ میاں بیوی کے رشتے میں شکوک اور بے اعتمادی نہیں ہوتی۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی بهرام رضا جسے تم ادھورا سمجھ رہے ہو، وہ الحمد للہ ایک مکمل انسان ہے ۔ وہ بالکل نارمل اور محبت کئے جانے کے قابل ہے۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ میں نے سالک سے شادی کا فیصلہ تمہارے لئے نہیں، بلکہ اپنے دل کے کہنے پر کیا تھا۔ یہی تمہیں دکھانا اور سنانا بھی تھا۔ جو رشتوں کے تقدس کی اہمیت کو جانتا ہے۔ میں نے کہا تھا نا کہ تم ایک دن پچھتاؤ گے اور اب ساری زندگی پچھتاتے رہنا۔ میری نظروں اور میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جاؤ ۔ جو مرد عورت کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے ، وہ ہمیشہ ادھورے اور نا کام ہی رہتے ہیں ۔ سامعہ بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئی ۔ بہرام منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے صرف سن رہا تھا۔ پانسہ پلٹ چکا تھا۔ جو راہ اس نے خود دکھائی تھی ، آج اس کے گلے پڑ گئی تھی ۔ اب سب کچھ ختم ہو چکا تھا، وہ بازی ہار گیا تھا اور اب سر جھکائے سب کچھ لٹا کر کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح مرے مرے قدموں سے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ جس شخص پر اس نے شک کیا تھا ، آج اس کے سامنے اپنی کل متاع ہار چکا تھا۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 183 | https://www.urduzone.net/zameen-ka-laluch/ | میں نے ایک زمیندار گھرانے میں جنم لیا اور ہم ایک بڑی فیملی لیکن مشتر کہ خاندانی نظام کے تحت رہا کرتے تھے۔ دادا کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن میں میرے والد سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ دادا نے اپنی وفات سے قبل بیٹیوں کی شادیاں کر دیں، اب دادی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ بیمار رہتی تھیں اور ہم ان کی دل سے دیکھ بھال کرتے تھے۔ امی جان نے ہم کو یہی تربیت دی تھی لیکن ہماری چاچی ، ان کی پروانہ کرتی تھیں تب ہی ان کے بچے بھی دادی کو نظر انداز رکھتے تھے، تاہم وہ سب ہی سے پیار کرتیں۔ چاہتی تھیں کہ تمام زرعی زمینیں اور جائداد اپنی موت سے قبل اولاد میں انصاف سے تقسیم کر جائیں۔ والد صاحب سرکاری ملازم تھے اور وہ زمین داری کے بکھیڑوں میں پڑنا نہ چاہتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کو اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں سے وقت ہی نہ ملتا تھا۔ لہٰذاز مین داری کے امور ہمارے چچا ہی دیکھتے اور سنبھالتے تھے۔ زمینداری میں اکثر مقدمات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے اور کبھی کبھار اس قسم کے جھگڑے فساد بھی ہو جاتے ہیں کہ اثر و رسوخ سے کام لینا پڑتا ہے ور نہ جائز بات بھی تسلیم نہیں کی جاتی۔ چچا جان کوئی اور کام نہ کرتے تھے لہٰذا ان کو شروع سے دادا اپنے ساتھ رکھتے اور وہ زمینداری کے رموز سے واقف تھے جبکہ والد صاحب کو بالکل بھی ان رموز کی سمجھ نہ تھی۔ وہ بس اپنے کام سے کام رکھتے اور تعلیم کی جانب متوجہ رہے۔ دادا کی وفات کے بعد جب چچا کو زمینداری سے متعلق مختلف معاملات کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ دادی اور والد صاحب سے کہتے کہ مجھے مختیار نامہ لکھواد و تا کہ میں بغیر کسی دقت اور محتاجی کے پیچیدہ زرعی امور نمٹالیا کروں، کیونکہ کبھی زرعی قرضے کی حاجت در پیش ہوتی تو کبھی لگان کے معاملات آپڑتے تھے۔ سب کے بیانات و دستخط در کار ہوتے تب ہی دادی نے بابا اور چاروں بیٹیوں سے کہا کہ رمیز جیسا کہتا ہے ویسا کر دو تا کہ اسے مشکلات نہ ہوں اور پٹواری وغیرہ بھی گھپلا نہ کر سکیں۔ ایک جانب مزارعوں کو کنڑول کرنا، دوسری جانب زمین کو مکاوے پر دینا اور وصولی وقت پر لینا۔ غرض کئی طرح کے مرحلے تھے جن میں چچا کو بھائی اور بہنوں کے دستخطوں کی ضرورت پڑتی یا پھر ان کی رضا لینی ہوتی۔ بابا کو بھائی پر بھروسہ تھا۔ شروع میں چچا ان کی ہر بات مانتے تھے۔ میرے والد نے ماں کے کہنے پر چھوٹے بھائی رمیز کو کل اختیار دے دیا۔ ایسا ہی ہماری پھوپھیوں نے کیا جس سے ان کیلئے زمین داری کو سنبھالنا آسان ہو گیا۔ پیداوار میں اضافہ ہونے لگا۔ اور مٹے ، یعنی مکاوے کی رقم سب کو شرعی حساب سے ملنے لگی۔ شروع میں چچانے حق و انصاف سے کام لیا۔ بھائی بہن ان سے خوش تھے وہ اپنی باتوں اور اخلاق سے بھی سب کو اپنی طرف مائل رکھتے تھے۔ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ ان کی نیت کیا ہے اور وہ در پردہ کیسے منصوبے بنارہے ہیں۔ وہ ہمارے اپنے تھے اور اپنوں پر اعتماد تو کیا ہی جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے دادی مسلسل بیمار تھیں، یہاں تک کے بڑھاپے سے نڈھال رہنے لگیں تو بابا نے ان کو اسپتال میں داخل کرادیا۔ وہاں رہ کر ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ گھر آنے کی ضد کرنے لگیں۔ وہ گھر اور ہمارے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ بابا جان انہیں بھر لے آئے۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ زندگی کا چراغ بجھنے کو ہے تو بابا اور چچا کو بلا کر زبانی وصیت کی کہ اپنا اپنا حصہ خوشی اور شرعی حساب سے لے لینا اور زمین میں سے بہنوں کو بھی ان کا حصہ دینا۔ وہ زبانی ہی یہ وصیت کر سکیں لکھت پڑھت کی مہلت موت نے نہ دی اور جب دوبارہ وہ اسپتال گئیں تو وفات پا گئیں۔ دادی کی وفات کے چند دنوں بعد ہی ان کی اولاد میں اتفاق جاتا رہا۔ ہر کسی کا منہ دوسری طرف ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ چچا اپنی سی کرنے لگے ، بابا کچھ کہتے تو وہ منہ زوری کرتے۔ وقت گزرتارہا۔ چچا اور زیادہ خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک ہوتے گئے۔ ہم سب اپنے والد کی وجہ سے چپ رہتے رہے، جبکہ چاچی اور ان کے بچے ہم سے زیادتی بھی کر جاتے۔ والدہ برداشت کرتیں کہ ایک گھر میں رہنا تھا اور برداشت کرنا تو مشتر کہ فیملی سسٹم کا تقاضا ہوتا ہے ورنہ سب اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اکٹھے رہنا بھی ہماری مجبوری تھی کیونکہ زمینداری مشترکہ اور آبائی گھر بھی ایک تھا۔ کوئی اپنا گھر چھوڑ کر کہاں جاتا۔ ہم سب ہی صبر سے کام لے رہے تھے اور اس صبر و تحمل و تحمل کا فائدہ ہمارے چچا اور ان کی فیملی کو ہو رہا تھا۔ وہ چپکے سے زمین کا کوئی ٹکڑا بیچتے اور گاڑی خرید لیتے ، اپنے کمروں میں اے سی لگوا لیتے ۔ ان کے گھر کبھی کوئی شے اور کبھی کوئی چیز آجاتی۔ بچوں کو بھی مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے تھے کہ پیداوار کی آمدنی چچا کے کنڑول میں تھی، جتنا چاہتے بتاتے جس قدر چاہتے نہ بتاتے۔ زمین ٹھیکے پر دیتے لیکن ابو اور پھوپھیوں کو نہ بتاتے ۔ روپیہ خود رکھتے تھے اور اپنی فیملی کے آرام و آسائشوں پر خرچ کرتے رہتے۔ بابا ز مینوں پر نہ جاسکتے تھے ، وہاں تو چاچا کا حکم چلتا اور میرے والد کو کوئی پہچانتانہ تھا۔ چچا کے عیش و آرام بہت بڑھ گئے تو پیداواری آمدنی میں ہمارا اور پھو پھیوں کا حصہ کم سے کم ہونے لگا تب ہماری چاروں پھوپھیاں نے مل کر اس بات کا نوٹس لیا اور چچا سے اپنے حق کا مطالبہ کر دیا کہ زمین کا بٹوارہ کرواور ہمارا شر عی حصہ ہم کو دو۔ وہ ہاں ، ہاں کرتے لیکن عرصے تک اسی طرح ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ یہاں تک کہ والد صاحب سروس سے ریٹائر ہو گئے۔ میری والدہ اور پھوپھیوں کے کہنے پر اب وہ بھی اپنی زمینوں پر جانے لگے ۔ وہاں جا کر چچا جان کے گھپلوں کا پتہ چلا۔ انہوں نے دادا کی زمین کو پٹواری سے مل کر کافی ایکڑ فروخت کر دیئے تھے اور دوبارہ قریب کی زمینیں اپنے نام سے خرید لی تھیں۔ باباجان نے جھگڑا نہ کیا اور پھوپھیوں کو بھی جھگڑے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ باپ اور ماں کے ترکے اور وراثت کی زمینوں میں سے رمیز کا بھی حصہ ہے تو سمجھ لو کہ اس نے اپنے حصے کی زمین بیچ کر دوسری جگہ لے لی ہے۔ جب بٹوارہ ہو گا اس کا فروخت کردہ حصہ اس کے حق سے کٹ جائے گا اور باقی زمین ہم کو شرعی حق سے مل جائے گی۔ جب بٹوارے کا مرحلہ آیا۔ چاچا نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور زمین کے فروخت کردہ حصے کو شامل نہ کیا۔ بٹوارہ ساری زمین پر کرنے کی بجائے جو باقی تھی اس میں پورا شرعی حصہ لینے کا مطالبہ کر دیا، کہتے تھے دیکھ بھال تو میں کرتا ہوں۔ محنت میری ہوتی تو میں زیادہ کیوں نہ لوں گا۔ شرعی حصہ پورا کسی کو نہ ملے گا کیونکہ مختیار نامہ تو میرے پاس ہے۔ حصہ شرعی انصاف سے تو سب کو مل سکتا تھا لیکن اس کیلئے مقدمہ بازی لازمی تھی جو کہ بابا جان نہ چاہتے تھے کہ ایک گھر میں ساتھ رہتے ہیں تو بٹوارہ بھی اتفاق اور صلح سے ہو گا۔ زمین کی خاطر لڑیں گے بچوں میں دشمنیاں ہوں گی ہم کمزور ہوں گے ، دشمن فائدہ اور رشتہ دار انگلیاں اٹھائیں گے تو عزت گھٹے گی۔ خاندان کی خاطر والد تو سمجھ داری سے کام لے رہے تھے لیکن چچا پر لالچ غالب آچکا تھا۔ ان کا بس چلتا تو بھائی اور بہنوں سے ساری زمین اونے پونے خرید لیتے اور کسی کو ایک انچ اس کا حصہ نہ دیتے۔ جب بٹوارے پر انہوں نے کوئی سمجھو تہ قبول نہ کیا تو پھوپھیوں کو غصہ آیا اور وہ لڑنے آگئیں۔ انہوں نے مقدمے بازی کی بھی دھمکیاں دیں۔ چچا پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ جعل سازی سے اپنے ساتھ اندر خانہ مضبوط کر چکے تھے یوں چچار میز خفیہ طور پر زمین بیچتے رہے پھر انکار کر دیتے جبکہ قبضہ دار وہ لوگ ہو جاتے جو زمین خرید لیتے تھے۔ یہ باتیں رفتہ رفتہ میرے والد کے علم میں آنے لگیں تو وہ ششدر رہ گئے کہ سگا بھائی یہ کیا کر رہا ہے جس کا تصور بھی نہ کیا تھا۔ والد نے ریکارڈ نکلوایا، پتہ چلا کہ چھوٹے بھائی نے تمام زمین اپنے نام کرالی ہے اور بہنوں کے حصے اپنے قبضے میں کر لئے ہیں۔ ایسی بات ان کو کیسے برداشت ہوتی۔ وہ والد سے لڑنے آگئیں کہ تمہارے ٹھنڈے مزاج اور تسلیوں کی وجہ سے رمیز کو یہ موقع ملا ہے اور ہمارا حق اس نے غضب کیا ہے۔ اب تم ہی اس سے ہمارا حصہ دلوائو گے ۔ والد اپنا حصہ نہ لے پارہے تھے بہنوں کو کیونکر دلواتے۔ کاغذات سب چچا کے قبضے میں تھے ، جبکہ پھو پھیوں کا کہنا تھا کہ تم بھی چھوٹے بھائی سے مل گئے ہو۔ ایک روز چچا نے زمین کا ایک بڑار قبہ فروخت کیا ، رقم جیب میں ڈالی اور کراچی چلے گئے۔ وہ وہاں بنگلہ خرید نا چاہتے تھے تا کہ اپنی فیملی کو بڑے شہر شفٹ کر سکیں۔ قدرت بھی اتنی بے انصاف نہیں ہوتی۔ وہ بنگلہ دیکھ کر واپس آئے تو بیمار پڑ گئے۔ دوبارہ کراچی نہ جاسکے ۔ ادھر پھوپھیوں نے میرے والد کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ وہ بہت پریشان تھے بہنیں کہتی تھیں کہ رمیز پر مقدمہ کرواور جس گھر میں رہ رہے ہیں اس کا بھی بٹوارہ کرو۔ حالانکہ دادی نے کہہ دیا تھا کہ میرے گھر میں صرف بیٹے حصہ دار ہوں گے بیٹیوں کو زرعی اراضی سے انصاف کر دینا کیونکہ یہ شادی شدہ ہیں ، ان کے اپنے اپنے گھر ہیں، لیکن اب وہ غصے میں گھر بھی بکوانے کا کہتی تھیں۔ والد صاحب کی کمزوری کا چچانے خوب فائدہ اٹھایا اور زیادہ دیدہ دلیر ہوگئے۔علاقے کی پولیس ان کو مانتی اور سیاست میں بھی ان کا عمل دخل رہتا۔ والد زمینوں پر جاتے بھی تو ان کو کوئی نہ پوچھتا۔ چھوٹے بھائی نے نجانے کیسا جال بچھایا تھا کہ مزارعے بھی ان کو نہ گردانتے تھے۔ وہ زمین کے کاغذات نکلوانے کی تگ و دو کرتے رہے لیکن بہنوں سے صبر نہ ہو رہا تھا۔ وہ ہمارے گھر آکر دھر نا دے کر بیٹھ گئیں کہ مقدمہ کر دیا پھر اس آبائی گھر کا بٹوارہ کر دو۔ کیسے بٹوارہ کرتے اگر گھر بیچ دیتے تو ہم کہاں جاتے۔ خدا کی کرنی کہ چچار میز اس بار جب زمینوں پر گئے وہاں کسی سے ان کا جھگڑا ہو گیا ۔ تنازعہ پہلے سے چل رہا تھا۔ کچھ ایکٹر خفیہ زمین کسی کو بیچی تھی اور اب ان کو قبضہ نہ دیتے تھے۔ کیونکہ طبیعت میں لالچ آچکا تھا، پس وہاں اس تنازعے کی وجہ سے کچھ ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے انہیں رات کے وقت ڈیرے پر سوتے ہوئے گولیاں مار دیں اور اس طرح چچا جان جاں بحق ہو گئے۔ جب یہ اطلاع ہم کو ملی، دھچکا لگا۔ بے شک بٹوارے کا تنازعہ تھا لیکن کوئی بھی ان کی جان کا دشمن نہ تھا کہ ہم اس اطلاع پر شاد ہوتے۔ سب ہی رونے لگے ۔ پھوپھیاں بھی آنسو بہارہی تھیں اور چچی جو ہمارے درمیان اکڑ کر ایسے رہتی تھیں کہ جیسے یہ راج دھانی ان ہی کی ہو ، وہ بھی غم سے نڈھال امی جان سے لپٹ لپٹ کر رورہی تھیں کہ ان کا تخت و تاج سب کچھ چلا گیا تھا۔ شاید خدا کو یہ نظارہ دکھانا مقصود تھا۔ بہر حال والد نے ان کو بہت تسلی دی جبکہ خود بھی وہ غم سے نڈھال تھے۔ وقت ہر زخم مندمل کر دیا کرتا ہے ۔ ہم لوگ بھی چچا کے غم سے سنبھل گئے لیکن اب مسئلہ ان کی فیملی کا تھا۔ چچی خوفزدہ تھیں کہ سرتاج نہیں ہے تو یہ لوگ مجھ سے اور میرے بچوں سے ہمارے کئے کا بدلہ لیں گے لیکن کسی نے ایسانہ کیا اور والد نے سب کو ایک کنبے کی طرح سنبھال لیا۔ والد کو ساری زمین اور ملکیت کا اختیار مل گیا تو انہوں نے انصاف سے کام لیا۔ چچا اور ان کے بچوں کا حق ان کو دیا اور پھو پھیوں کا حصہ انہیں دے دیا۔ دو پھوپھیاں بہت امیر تھیں، انہوں نے اپنا حصہ نہ لیا اور یتیم بھتیجوں اور بیوہ بھابی کے حق میں وہ از خود دست بردار ہو گئیں۔ جبکہ دو پھو پھیوں نے اپنا حصہ لے لیا۔ والد نے چچا مر حوم کے یتیم بچوں اور بیوہ بھابی کے سر پر ہاتھ رکھا، اپنی سر پرستی میں ان کی زمینوں اور ترکے کی دیکھ بھال اس وقت تک کرتے رہے جب تک کہ وہ بالغ اور سمجھدار نہ ہو گئے۔ جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی وراثت کو سنبھال سکیں تو قبضہ واختیار ان کے حوالے کر دیا۔ چچی اس حسن اتفاق سے بہت مشکور تھیں۔ اپنے بچوں کے رشتے ہمارے ساتھ کرنے کی آرزومند ہو گئیں تو والد صاحب نے میر انکاح چچازاد طارق سے اور میری بہن فوزیہ کا نکاح چچا کے چھوٹے بیٹے سے کر دیا۔ ایسے ہی چچی کی اکلوتی بیٹی ماریہ میرے بھائی کے نکاح میں آگئی۔ یوں وہ زمین جس کے بٹوارے پر شدید نفاق پیدا ہوا تھا ختم ہو گیا اور زمین بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ گئی۔ ہمارا خاندان اب بھی ایک مثالی خاندان ہے اور ہم بہت سکون اور پیار سے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا گھر اتنا بڑا ہے کہ اس میں کئی فیملیاں سما سکتی ہیں۔ پھوپھیاں جب آتی ہیں خندہ پیشانی سے ملتی ہیں اور والد صاحب کی عزت کرتی ہیں۔ | null |
null | null | null | 184 | https://www.urduzone.net/sakoon-nahi-mila/ | جس دن میں نے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا، دادی جان بہت روئی تھیں۔ امی بھی افسردہ تھیں، تبھی لیڈی ڈاکٹر نے کہا۔ آپ لوگ کیوں رورہی ہیں کیوں افسردہ ہیں بیٹی کی پیدائش پر ، جبکہ یہ چار بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے، کیا بیٹی خدا کی رحمت نہیں ہوتی ہوتی ہے۔ دادی جان نے کہا۔ لیکن اس کی قسمت سے ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ بیٹیاں بہت پیاری ہوتی ہیں اور ان کا دکھ دیکھا نہیں جاتا۔ قسمت بھی وہی بناتا ہے جس نے پیدا کیا ہوتا ہے۔ اس کا شکر ہر حال میں ادا کرنا چاہئے ۔ ڈاکٹر تو یہ کہہ کر چلی گئی لیکن میراگھرانہ تادیر اس تاسف میں ڈو بارہا کہ نجانے اس بچی کی کیسی قسمت ہو گی۔ زمانہ کیا سلوک کرے گا۔ جب میں بڑی ہو گئی تو ایک روز یہ ساری باتیں میری پھوپھی نے مجھے بتائی تھیں جو میرے رشتے کی تلاش میں پریشان تھیں۔ ان کا اپنا کوئی بیٹا، بیٹی نہ تھے۔ بے اولاد تھیں بیچاری لیکن مجھے بہت پیار سے پالا تھا اولاد کی طرح۔اسی لئے چاہتی تھیں کہ امیر گھرانے میں رشتہ ہو اور مومل سکھی گھر کی بہو بن جائے۔ کئی رشتے میرے لئے آئے۔ سبھی ہمارے جیسے سفید پوش گھرانوں سے تھے، پھو پھی نے کسی رشتے کو قبول نہ کرنے دیا۔ کہتی تھیں، میری مومل اتنی خوبصورت ہے تو رشتہ بھی ایسے گھرانے میں ڈھونڈیں گے جہاں رانی بن کر رہے گی اور ملکہ بن کر راج کرے گی۔ اس آرزو میں انہوں نے ایک رشتہ کرانے والی کو کافی موٹی رقم دے کر امیر گھرانے کا رشتہ ڈھونڈ لانے کا کہہ دیا۔ وہ میرا کالج کا آخری دن تھا۔ تیز دھوپ میں بس اسٹاپ سے گھر کی طرف آتے ہوئے بدن پسینے سے نہا گیا اور چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہورہا تھا۔ آتے ہی میں نے کتابیں میز پر رکھیں اور پانی پینے کو کولر کی طرف گئی تھی کہ گول کمرے سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ قدم ٹھٹھک گئے، نامانوس آواز تھی۔ شاید کوئی مہمان تھے، تبھی امی آگئیں۔ بیٹی میں تیرا ہی انتظار کر رہی تھی، جلدی سے ہاتھ منہ دھو اور کپڑے بدل کر آجائو۔ امی کے حکم کی فوراً تعمیل کی اور جب کمرے میں پھپھو کے ساتھ دوا جنبی عورتوں کو بیٹھے دیکھا تو ماتھا ٹھٹک گیا۔ ایک عورت نے مجھے غور سے دیکھا، پھر پاس بلا کر پیار کیا۔ میں سمجھ گئی کہ یہ میرا رشتہ دیکھنے آئی ہیں۔ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر میں اپنے کمرے میں چلی آئی، مگر اجنبی خاتون کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہم کو گھر بار نہیں دیکھنا ہے، ہمیں تو بس لڑکی پسند آگئی ہے۔ بہت خوبصورت ہے۔ کمرے میں آکر میں پلنگ پر دراز ہو گئی۔ میرے لئے شادی کی بات کچھ اچھنبے کی بات نہ تھی۔ سمجھدار لڑکی تھی اور میرے نزدیک شادی ایک ٹھوس حقیقت تھی جو ہونا ہی تھی۔ یہ تو ازل سے ہوتا آیا ہے ، پھر شادی کے خیال سے گھبرانا کیا اور شرمانا کیا۔ یہ والدین کا ایک فرئضہ تھا، جس کو انہوں نے ایک نہ ایک دن ادا کرنا تھا۔ مجھے کسی گھر جا کر آباد ہونا ہی تھا اور زندگی کو اک نئی ڈگر پر چلنا تھا۔ میں نارمل رہی لیکن آج پھپھو کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کی یہ آرزو پوری ہوتی نظر آرہی تھی کہ ہماری بیٹی رانی امیر گھر کی بہو بنے اور راج کرے۔ جس روز یہ خبر سنی کہ شادی کا دن طے ہو گیا ہے ، دل ذرا سا پریشان ہوا۔ یہ سوچ کر کہ جن گھر والوں کے ساتھ عمر کا طویل حصہ ہنستے کھیلتے گزرا، ان سے دور چلی جائوں گی۔ اپنے پرائے بن جائیں گے ۔ وہ دن بھی آگیا جب والد صاحب نے سادہ طریقے سے میری شادی کر دی۔ سکھیوں کے سنگ چند قدم چل کر ڈولی میں بیٹھی اور پیاسنگ ان کے گھر آگئی۔ زیور نہ جہیز ۔ یہی طے ہوا تھا۔ جب والد نے سر پر ہاتھ رکھ کر وداع کیا اور ماں نے بھیگی آنکھوں سے دیکھا تو اس لمحے جی بھر آیا۔ پہلی بار یہ احساس بجلی بن کر کو ندا۔ نجانے میں کہاں جارہی ہوں۔ کیسے لوگ ہوں گے ، وہاں کیسی گزرے گی۔ آنسور و مال میں جذب کر لئے۔ میں رورہی تھی اپنے مستقبل کا سوچ کر۔ نئی نویلی دلہن کے کچھ ارمان ہوتے ہیں لیکن حاکم کی دلہن کیا بنی، ہر ارمان کھو بیٹھی۔ میں ایک حقیقت پسند لڑکی تھی اور فضول قسم کے رسم ورواج سے حجت نہ تھی لیکن یہ تو میر احق تھا کہ دولہا میرا استقبال کرے۔ وہ سہاگ رات بھی مطلق نہ بولے ۔ میکے سے واپسی پر اگلی راتوں کا بھی یہی سر در ویہ دیکھ کر میں اداس ہو گئی۔ کیا میں زبردستی ان کے پہلے باندھ دی گئی ہوں جو یہ مجھے مصیبت سمجھ بیٹھے ہیں اور بادل ناخواستہ جھیل رہے ہیں۔ سوچ سوچ کر پریشان تھی۔ طبیعت پریشان رہنے کی وجہ سے صحت پر اثر پڑنے لگا حتی کہ بخار ہو گیا۔ بخار کیا ہوا کہ لوگ مجھ سے بدک گئے۔ کوئی میرے قریب نہ آیا۔ نندوں، بھاوجوں کا تو بڑا ساتھ ہوتا ہے لیکن میری نندوں نے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نا کیا، تیمار داری تو کیا کرتیں۔ میرے کھانے پینے کی کسی کو فکر اور نہ کوئی پاس بیٹھا، کسی نے پانی کو بھی نہ پوچھا۔ بخار میں خود اٹھ کر پانی پیتی تھی۔ ان کا ایسا اخلاق دیکھ کر حیران رہ گئی۔ رواں رواں رو پڑا۔ صائمہ تو کن پتھر دل لوگوں میں آگئی۔ یہ تیرے کچھ نہیں لگتے پر تو تو ان کی کچھ لگتی ہے، اس گھر کی بہو بن کر آئی ہے کسی سے برائی کی ہے اور نہ جھگڑا ہوا ہے۔ ابھی کل ہی تو آئی ہے، شکل بھی بری نہیں۔ آخر یہ سب کیا ہے ہفتہ بھر بستر پر پڑی رہی تو طعنے ملنے لگے ۔ کھانے کو سب تیار لیکن کام سے بیمار بنے ہیں۔ میں نے دعا کی۔ یا اللہ مجھے صحت دے دے تا کہ اٹھ کر کام کروں اور ان سب پتھر دلوں کو خدمت سے موہ لوں۔ دواتو کجا کسی نے دعا بھی نہ دی۔ خود ہی کچھ روز بعد ٹھیک ہو گئی۔ نوکر چاکر تھے لیکن مجھ کو کام کرتے دیکھ کر ہی ان کو سکون ملتا تھا۔ میں کچن میں جت گئی تو ان کو سکون ہوا۔ ایک رات میں نے حاکم سے ان کے گھر والوں کا شکوہ کیا کہ کسی نے دوا دار و بھی نہ لا کر دی اور بیماری میں قریب نہ آئے تو جواب ملا۔ تم غریب لوگ نجانے اتنے حساس کیوں ہوتے ہو ارے بھئی بیمار سے دور رہنا چاہئے تاکہ دوسرے بیمار نہ پڑ جائیں۔ پڑھی لکھی ہو، جہالت پھر بھی نہیں گئی۔ اگلے روز طعنہ دیا۔ ہلکا بخار ہی تو تھا، کام کاج کیوں چھوڑ دیا تھا۔ ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر دل کرچی کرچی ہو گیا۔ گویا یہ امتیازی سلوک محض اس لئے تھا کہ میں ان کی کلاس سے نہ تھی۔ اب بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی تھی۔ زندگی کے اس موڑ پر احساس ہوا کہ امیر گھرانے کی بہو بن کر مصلوب کر دی گئی ہوں، میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ اب کچھ کہنا یا بولنا فضول تھا۔ وہ پڑوسیوں کو کہتے ، کچھ نہیں لائی غریب گھر سے آئی ہے۔ میں کیا جواب دیتی۔ دن عجیب سے گزرنے لگے ۔ دن بھر کچن میں نت نئے کھانے بناتی لیکن کوئی مجھ سے خوش نہ تھا، الٹا طعنے ملتے۔ کچھ یہ کیوں نہ کیا دیسی کھانے کون کھاتا ہے یہاں۔ ڈھنگ کا پکانا آتا ہے یہ کیوں کیا چاروں نندیں میرے نقص پکڑنے میں لگی رہتیں۔ کوئی عورت دلہن کو دیکھنے آتی، یہ شروع ہو جاتیں۔ کچھ ڈھنگ نہیں ہے۔ ماں نے تمیز نہیں سکھائی۔ ادب آداب سے تو بالکل ہی واقف نہیں ہے۔ میں چپ چاپ ان کا منہ تکتی رہ جاتی۔ جب خود شریک زندگی میرے ساتھ نہ تھا تو کسی سے کیا شکوہ دوماہ میں ہی غم سے آدھی رہ گئی۔ میرے لئے اس سے بڑا غم کوئی نہ تھا کہ کام چور تھی اور نہ بے ایمان اور بد تمیز تھی۔ آوارہ مزاج بھی نہ تھی پھر یہ لوگ کیوں مجھ سے بد ظن تھے۔ میکے گئی تو سبھی انگشت بدنداں تھے۔ ہر ایک نے کئی طرح کے سوال کئے۔ کوئی جواب بھی نہ دے سکی۔ میری زندگی ایک جلتا الاؤ تھی۔ کسی سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ غم غلط کرنے کو رات میں مطالعہ کی عادت اختیار کر لی لیکن یہ بھی میرا عیب گنا گیا کہ مطالعہ کے بہانے جانے راتوں کو جاگ کر کیا کرتی رہتی ہے۔ مطالعہ کا سہارا بھی گیا۔ حاکم بھی آدھی رات کو گھر لوٹتے، مجھے نیند نہ آتی۔ شادی سے پہلے تک کی زندگی بڑے سکون سے گزری تھی۔ دعویٰ تھا کہ ہر قسم کے حالات میں صبر سے گزار سکتی ہوں مگر یہاں آکر ضبط و تحمل کی تاب ختم ہو گئی۔ اکثر چپکے چپکے روتی اداس رہتی۔ یہ اداسی بھی میرے لئے عیب بن گئی، اس نے تو گھر میں نحوست پھیلا رکھی ہے۔ کہا کرتی تھی کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے لیکن اب مان گئی کہ ایسا نہیں ہے۔ یہی میری قسمت کا چکر نہیں تو اور کیا تھا اپنے دل کے لہو سے سسرال میں محبت کا چراغ روشن کرنے کی سعی کرتی رہتی مگر ناکام رہی۔ ان کی راہ میں پھول بچھانے میں لگی تھی اور وہ کہتے تھے کہ خوشامد کرتی ہے۔ اپنے شوہر کی آخری عدالت کا در کھٹکھٹاتی تو وہ بات ہی نہ سنتے۔ یہ میرے مقدر کی کمی ہی تو تھی کہ ہر کوشش کے بعد بھی بد بخت ہی رہی۔ کسی دن اچھے کپڑے پہن کر لپ اسٹک لگا لی تو آوارگی کے طعنے بھی سنے۔ ایک روز جبکہ شام گہری ہو رہی تھی۔ حاکم باہر سے آئے اور بغیر کھانا کھائے لیٹ گئے۔ میں ان کے پاس گئی اور پوچھا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے جواب نہ دیا تو ان کے پاس بیٹھ گئی اور سر دبانے لگی تبھی یک لخت دھکا دے دیا کہ میں پیٹھ کے بل گر پڑی۔ بولے۔ کیا کنیز خرید کر لایا تھا اسی لمحے پگھلتا ہوا سیسہ کانوں میں چلا گیا۔ اٹھ کر بیٹھ گئے، بولے ۔ ہماری سوسائٹی میں تمہاری جیسی بیوی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میرا کیا قصور ہے تم کو شوہر کو خوش رکھنا آتا ہی نہیں ہے بلکہ کسی کو بھی سب کو خوش رکھنا چاہتی ہوں لیکن آپ کے گھر میں کوئی بھی مجھ سے راضی نہیں۔ آخر میں کیا کروں کچھ مت کرو، بس تم ہماری جان چھوڑو اور میکے چلی جائو۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ یا تو یہ شخص ذہنی طور پر احساس کمتری کا شکار ہے یا مجھے پہچان ہی نہیں سکا۔ جوں جوں صبر کرتی رہی، ان کا جور و ستم بڑھتا گیا اور میری زندگی حرام ہوتی گئی۔ میں زندہ در گور ہو گئی۔ ایک دن جبکہ ساس اپنی عادت کے مطابق مجھ پر بڑ بڑارہی تھیں ، امی آگئیں۔ ساس میرے نقائص گنوانے لگیں۔ اس گھڑی کو کوس رہی ہوں جب صائمہ کا رشتہ لیا تھا۔ ساتھ ہی امی کو بھی برابھلا بول گئیں۔ والدہ رنجیدہ ہو گئیں۔ میں ان کو اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ مجھے فوراً ساتھ چلنے کو کہنے لگیں۔ اس پر بات بڑھ گئی۔ انہوں نے امی کو برابھلا کہا اور امی مجھے مجبور کرنے لگیں کہ ساتھ چلو اور اب مزید یہاں میری بے عزتی نہ کرائو۔ ہماری ساس نے کہا۔ چلو چلو دونوں ہی اس گھر سے نکلو۔ تب میں برداشت نہ کر سکی اور والدہ کا ہاتھ پکڑ کر چلی آئی۔ اب بات چھپی نہ رہی۔ والد اور بھائیوں کو پتہ چلا وہ غصہ میں آگئے اور ان لوگوں پر تلملانے لگے ۔ والدہ کی اتنی تو ہین کون برداشت کرتا لیکن میں نے کسی طرح کے جھگڑے سے روکے رکھا۔ امید تھی حاکم مجھے کسی روز لینے آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ انہوں نے خط بھیجا کہ تم میرے گھر سے رقم اور زیور چوری کر کے لے گئی ہو۔ خط پڑھ کر والد آگ بگولا ہو گئے۔ بھائی تو تصادم پر آمادہ تھے لیکن میں نے ہاتھ جوڑ کر ان کو روک دیا۔ اب ہم دونوں گھروں میں مقدمے بازی ہو گئی۔ اپنے والدین کی پریشانی دیکھ کر مر مر جاتی۔ اف میرے خدا میں کا ہے کو پیدا ہو گئی، ان کی زندگیوں کو روگ لگا دیا۔ کاش پیدا نہ ہوتی، میری جگہ پانچواں بھی بھائی پیدا ہوتا۔ مقدمہ کافی عرصہ چلتا رہا، نتیجہ یہ کہ گھر پر غریبی اور اداسی چھا گئی۔ شریف لوگوں نے اس مقدمہ میں والد صاحب کی مدد کی اور الزام غلط ثابت ہو گیا۔ الٹا حاکم پر حرجانہ ہوا اور عدالت کے ذریعہ مقدمے کا خرچہ بھی اسی کو دینا پڑا۔ والد صاحب نے تنسیخ کا دعویٰ کر دیا۔ میرا اب وہاں جانا ممکن نہ تھا، حاکم نے انتقاما مجھے لٹکایا ہوا تھا۔ مالی حالات اور کمزور ہو گئے تو میں نے ملازمت کی ٹھان لی۔ اس دور میں ملازمت بڑی ٹیڑھی کھیر تھی۔ کئی جگہ درخواستیں دیں۔ انٹرویو دینے جاتی تو لگتا کہ کچھ کی نگاہیں تو میرے سراپے کا ایکسرے کر رہی ہیں۔ گھبرا کر چلی آتی ۔ گھر سے باہر نکلی کب تھی۔ باہر کی دنیا کو فیس کرنے کی عادت ہی نہ تھی۔ قدم پھونک پھونک کر رکھتی، بالآخر ایک اچھی ملازمت حاصل ہو گئی۔ گھر میں غریبی نے جو ڈیرے ڈال رکھے تھے بالآخر اس کے نشان مٹنے لگے اور ہم آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگے ۔ سوچتی تھی اللہ تعالی نے حاکم جیسے شخص کا دست نگر نہیں رکھا تو بہتر ہی ہوا۔اس روز میں اپنے دفتری اوقات میں کام میں مشغول تھی وہ وہاں آ گیا۔ شر مندہ و نجل کھڑا تھا۔صائمہ ، ملازمت چھوڑ دو۔ لوگ میرا مذاق بناتے ہیں۔ میری بے عزتی مت کرائو پلیز۔ وہ لجاجت سے بولا۔ اس روز دنیا کا خیال نہ آیا جب مجھے عدالت میں کھینچا تھا۔ مجھ پر چوری کا الزام لگایا تھا۔ مجھے زمانے میں تماشا بنا کر رکھ دیا۔ اس روز تم کو لحاظ نہ آیا جب میرے خلاف اپنی والدہ اور بہنوں سے گواہیاں لیں۔ میں کوئی بھیک نہیں مانگ رہی۔ میں تو ایک باعزت ملازمت کر رہی ہوں۔ سر بازار ناچ تو نہیں رہی۔ آج تم کسی تعلق سے حق لینے آگئے ہو۔ میں خود تو تمہارے گھر سے نہیں نکلی۔ مجھے اور میری ماں کو نکالا گیا ہے اور تم مجھے لینے بھی نہیں آئے بلکہ عدالت میں میری طلبی کرائی۔ مجھے معاف کر دو صائمہ ۔ حالات ابھی اتنے قابو سے باہر نہیں ہوئے۔ تنسیخ کا مقدمہ والد سے کہو واپس لے لیں۔ حاکم نے گڑ گڑا کر کہا۔میں یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنے مقام کو پہچان لے۔ اسے اپنے سامنے گڑ گڑاتے دیکھ کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ سکون کا سانس آیا۔ میرے انتقام کی بس اتنی سی ہی طلب تھی۔سب لوگ اب تم کو یاد کرتے ہیں۔ میں تباہ ہو کر رہ گیا ہوں۔ کیا تم ہمیں معاف نہیں کر سکتیں۔نہیں حاکم۔ اب تو عدالت ہی فیصلہ کرے گی۔ میں نے سختی سے جواب دیا۔ بالآخر وہ چلا گیا۔ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ والدین نے سکھ کا سانس لیا۔ میں بظاہر بڑی کامیاب اور مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔ سکون و قرار پھر بھی نہیں ہے، نجانے سکون و قرار کہاں ملے گا، کب ملے گا اب ہم دونوں گھروں میں مقدمے بازی ہو گئی۔ اپنے والدین کی پریشانی دیکھ کر مر مر جاتی۔ اف میرے خدا میں کا ہے کو پیدا ہو گئی، ان کی زندگیوں کو روگ لگا دیا۔ کاش پیدا نہ ہوتی، میری جگہ پانچواں بھی بھائی پیدا ہوتا۔ مقدمہ کافی عرصہ چلتا رہا، نتیجہ یہ کہ گھر پر غریبی اور اداسی چھا گئی۔ شریف لوگوں نے اس مقدمہ میں والد صاحب کی مدد کی اور الزام غلط ثابت ہو گیا۔ الٹا حاکم پر حرجانہ ہوا اور عدالت کے ذریعہ مقدمے کا خرچہ بھی اسی کو دینا پڑا۔ والد صاحب نے تنسیخ کا دعویٰ کر دیا۔ میرا اب وہاں جانا ممکن نہ تھا، حاکم نے انتقاما مجھے لٹکایا ہوا تھا۔ مالی حالات اور کمزور ہو گئے تو میں نے ملازمت کی ٹھان لی۔ اس دور میں ملازمت بڑی ٹیڑھی کھیر تھی۔ کئی جگہ درخواستیں دیں۔ انٹرویو دینے جاتی تو لگتا کہ کچھ کی نگاہیں تو میرے سراپے کا ایکسرے کر رہی ہیں۔ گھبرا کر چلی آتی ۔ گھر سے باہر نکلی کب تھی۔ باہر کی دنیا کو فیس کرنے کی عادت ہی نہ تھی۔ قدم پھونک پھونک کر رکھتی، بالآخر ایک اچھی ملازمت حاصل ہو گئی۔ گھر میں غریبی نے جو ڈیرے ڈال رکھے تھے بالآخر اس کے نشان مٹنے لگے اور ہم آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگے ۔ سوچتی تھی اللہ تعالی نے حاکم جیسے شخص کا دست نگر نہیں رکھا تو بہتر ہی ہوا۔اس روز میں اپنے دفتری اوقات میں کام میں مشغول تھی وہ وہاں آ گیا۔ شر مندہ و نجل کھڑا تھا۔صائمہ ، ملازمت چھوڑ دو۔ لوگ میرا مذاق بناتے ہیں۔ میری بے عزتی مت کرائو پلیز۔ وہ لجاجت سے بولا۔ اس روز دنیا کا خیال نہ آیا جب مجھے عدالت میں کھینچا تھا۔ مجھ پر چوری کا الزام لگایا تھا۔ مجھے زمانے میں تماشا بنا کر رکھ دیا۔ اس روز تم کو لحاظ نہ آیا جب میرے خلاف اپنی والدہ اور بہنوں سے گواہیاں لیں۔ میں کوئی بھیک نہیں مانگ رہی۔ میں تو ایک باعزت ملازمت کر رہی ہوں۔ سر بازار ناچ تو نہیں رہی۔ آج تم کسی تعلق سے حق لینے آگئے ہو۔ میں خود تو تمہارے گھر سے نہیں نکلی۔ مجھے اور میری ماں کو نکالا گیا ہے اور تم مجھے لینے بھی نہیں آئے بلکہ عدالت میں میری طلبی کرائی۔ مجھے معاف کر دو صائمہ ۔ حالات ابھی اتنے قابو سے باہر نہیں ہوئے۔ تنسیخ کا مقدمہ والد سے کہو واپس لے لیں۔ حاکم نے گڑ گڑا کر کہا۔میں یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنے مقام کو پہچان لے۔ اسے اپنے سامنے گڑ گڑاتے دیکھ کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ سکون کا سانس آیا۔ میرے انتقام کی بس اتنی سی ہی طلب تھی۔سب لوگ اب تم کو یاد کرتے ہیں۔ میں تباہ ہو کر رہ گیا ہوں۔ کیا تم ہمیں معاف نہیں کر سکتیں۔نہیں حاکم۔ اب تو عدالت ہی فیصلہ کرے گی۔ میں نے سختی سے جواب دیا۔ بالآخر وہ چلا گیا۔ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ والدین نے سکھ کا سانس لیا۔ میں بظاہر بڑی کامیاب اور مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔ سکون و قرار پھر بھی نہیں ہے، نجانے سکون و قرار کہاں ملے گا، کب ملے گا آج پتہ چلا ہے کہ دادی کیوں میری پیدائش پر روئی تھیں اور امی کیوں افسردہ ہوئی تھیں، مگر پھپھو سے ایک ہی سوال ہے۔ اپنے سے اونچے لوگوں میں میری شادی کرا کر کیا خوشی اور سکون مل گیا۔ کیا یہ اچھا نہ تھا کہ اپنے برابر کے لوگوں میں رشتہ ہو جاتا لیکن خوشی اور سکون مل جاتا۔ یہی ایک سوال میرے جی کو پریشان رکھتا ہے جس کی وجہ سے میں خود ایک سوال بن گئی ہوں۔ | null |
null | null | null | 185 | https://www.urduzone.net/koun-woh/ | یہ عید کا موقع تھا اور میں نے بھائی جان سے مہندی اور چوڑیوں کی فرمائش کی تھی۔ امی بیمار تھیں اور ہم شاپنگ نہ کر سکے تھے۔ بھائی جان نے بات مان لی اور وہ میرے لئے بازار چلے گئے۔ چوڑیوں کی دکان پر پہنچے تو دکاندار سے کہا کہ کانچ کی چوڑیاں دکھائو۔ اب سامنے کانچ کی چوڑیوں کا ڈھیر لگا تھا اور بھائی جان پریشان سے کھڑے اس ڈھیر کو تک رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کون سی خریدوں، کسی رنگ اور سائز کی لینی ہیں کیونکہ میری چوڑی کا سائز تو گھر بھول گئے تھے۔ اسی وقت دکان میں ایک خاتون اپنی والدہ کے ہمراہ داخل ہوئی۔ دونوں نے برقعہ پہن رکھا تھا۔ وہ میرے بھائی کو پریشان دیکھ کر مسکرا دیں۔ نقاب الٹ کر نوجوان لڑکی نے پوچھا۔ کس کے لئے چوڑیاں خرید رہے ہیں، کیا سمجھ میں نہیں آرہا اس قدر اپنائیت بھرا لہجہ تھا جیسے کوئی اپنے گھر کے فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ بھائی نے مخاطب کی جانب دیکھا تو اس کے چاند چہرے کی آب و تاب دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ کہاں تو کانچ کی رنگ برنگی چوڑیوں میں الجھے تھے اور ادھر اس ماہتاب رخ حسینہ کی نشیلی کاجل بھری نگاہوں سے نگاہیں الجھ کر رہ گئیں۔ ایک پل میں اس پری چہرہ نے میرے بھائی کے احساسات کو بھانپ لیا۔ مزید قریب آکر بولی۔ رشتہ بتادو تو میں مدد کروں۔ بہن کیلئے خریدنی ہیں۔ بھائی جان نے شرما کر کہا۔ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ غیر شادی شدہ ہیں۔ بھائی جان یہ کہتے ہوئے اور زیادہ لجا گئے تو وہ ہنس دی۔ ایک کھنکھناتی ہیں۔ عید کا تحفہ ہے۔ اچھا تو پھر ہم پر چھوڑ دیجئے۔ خاتون نے الٹ پلٹ کر لچھوں میں سے نہایت حسین، دیدہ زیب اور نفیس چوڑیاں نکال دیں۔ یہ ٹھیک رہیں گی۔ بھائی نے بغیر سوچے اثبات میں گردن ہلا دی۔ اچھا تو پھر سائز بتائیے۔ وہ تو میں گھر بھول آیا ہوں۔ خفیف ہوئے اور پسینے سے شرابور ہو گئے۔ شاید اس حسینہ کے حسن کا رعب تھا کہ اس قدر نروس تھے۔ کیا میرے سائز کی ٹھیک رہیں گی پری رخ نے اپنی گلابی کلائی آگے کر کے دکھائی۔ بھائی نے گھبرائی نظر ڈالی اور بولے۔ ہمشیرہ کا سائز کچھ کم ہو گا۔ ایک سائز کم دے دو۔ دکاندار نے کہا۔ کتنی دوں دو درجن چوڑیاں پیک ہو گئیں تو خواتین اپنے لئے آرائش کی اشیا نکلوانے لگیں۔ منصور بھائی رقم ادا کر کے دکان سے باہر آگئے۔ ذرا دور جاکر پھر واپس پلٹے۔ یاد آیا کہ چوڑیوں کا ڈبہ جو دکاندار نے پیک کر کے کائونٹر پر رکھا تھا، وہ تو وہیں چھوڑ دیا ہے۔ بوکھلاہٹ میں دوبارہ گئے۔ خواتین مسکرارہی تھیں۔ دکاندار نے بھی بھائی جان کی بوکھلاہٹ کو محسوس کر لیا تھا۔ اس نے بغیر کچھ کہے خوش اخلاقی سے ڈبہ بھائی کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ اب جونہی باہر نکلے ، وہ دونوں عورتیں بھی دکان سے باہر آگئیں۔ بڑی بی بولیں ۔ارے بیٹا کیا صرف چوڑیاں ہی خریدنی تھیں، بہن کے لئے جیولری نہ لوگے آنٹی مجھے ان چیزوں کا پتا نہیں۔ میں نے کبھی خریدی نہیں ہیں۔ اچھا تو آئو ہمارے ساتھ اب وہ آگے آگے اور میرا بھائی ان کے پیچھے پیچھے جیولری میں پہنتی نہ تھی، بھائی کو پتا تھا لیکن ان اجنبی عورتوں نے گویا ان پر جادو کر دیا تھا کہ ان کے حکم کے تابع ہو گئے، جیسے کوئی نادیدہ قوت ان کی طرف کھینچے لئے جارہی تھی۔ کچھ آگے جا کر خواتین ایک جیولری کی دکان میں گھس گئیں اور دکاندار سے جیولری دکھانے کو کہا۔ تبھی بھائی نے اپنی ساری قوت گویائی جمع کر کے حلق سے آواز نکالی۔ یہ نہیں لینی، میری بہن نہیں پہنتی۔ اچھا تو پھر پہلے کیوں نہ بتایا۔ تینوں شاپ سے باہر آئے۔ تب وہ کہنے لگیں۔ تیز دھوپ اور گرمی بہت ہے ، آجائو ہمارے ساتھ ، ذرادیر کو دم لے لو اور ٹھنڈا پانی پی لو۔ وہ رہا سامنے ہمارا گھر بزرگ خاتون کے اصرار پر بھائی نے بات مان لی اور پھر سے ان کے ساتھ ہو لیا۔ ایک بلڈ نگ پر پہنچ کر وہ رک گئیں۔ آئو اوپر چلو۔ اب ذرا میرے بھائی کے حواس قابو میں آچکے تھے۔ سوچا کہ ایسے اکیلی خواتین کے ہمراہ ان کے گھر جانا مناسب نہیں ہے۔ ابھی دیر ہو رہی ہے، میں پھر آئوں گا۔ اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ آپ گھر بتا دیجئے۔ دوسری منزل پر تیسرا فلیٹ ہے۔ تبھی میرا بھائی ان کو خدا حافظ کہہ کر گھر آگیا۔ میں نے چوڑیاں دیکھیں اور خوش ہو گئی، بہت عمدہ تھیں۔ کیا پسند آئیں ہاں بھائی جان یہ تو بہت خوبصورت ہیں۔ اب پتا چلا کہ ہمارے بھائی کا ذوق کس قدر اعلیٰ ہے۔ بھابی کے تو عیش ہو جائیں گے۔ مذاق مت کرو۔ تم جانتی نہیں ہو کہ میں نے کتنے جتن سے خریدی ہیں۔ امی قریب بیٹھی تھیں۔ ارے واہ چوڑیوں کیلئے بھی جتن کرنے پڑے۔ بھلا بتائو تو کیا جتن کئے ہیں تبھی بھائی جان نے والدہ کو احوال بتایا اور بولے۔ میں نے اکیلا جانا مناسب نہیں سمجھا مگر وعدہ کر آیا ہوں کہ اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ آئوں گا۔ آپ عید کے بعد چلئے گا میرے ہمراہ ان لوگوں کے گھر ۔ روانی میں انہوں نے حسینہ کے حسن کی تعریف بھی کر دی۔اماں، بیٹے کے جذبات بھانپ کر مسکرادیں۔ ہاں بھئی ضرور چلوں گی۔ کیا خبر اسی بہانے لڑکی پسند آجائے اور تیرا گھر بس جائے۔ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں، کوئی لڑکی دل کو نہیں بھاتی۔ سمیرا تجھے پسند نہیں حالانکہ بچپن سے نسبت ہے۔ دوسری حور شمائل کو کہاں سے لائوں جو تجھے پسند آجائے۔ عید کے تیسرے روزامی اور میں بھائی جان کے ہمراہ وہاں گئے ، جہاں بھائی جان ہم کو لے گئے ۔ فلیٹ کا در کھٹکھٹایا۔ اسی جواں سال حسینہ نے در کھولا، ہم کو اندر بٹھایا اور بولیں۔ اماں گھر پر نہیں ہیں۔ وہ رشتے داروں سے ملنے گئی ہیں۔ آپ بیٹھئے میں اطلاع کراتی ہوں۔ نہیں ان کو زحمت نہ دیں۔ ہم دوبارہ ملنے آجائیں گے اور رشتے داروں سے بھی عید ملنے کو جانا ہے۔ والدہ نے بھر پور نظر اس پر ڈال کر جواب دیا۔ میں تو اس لڑکی کے حسن کو تکنے میں محو تھی جو واقعی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی اور ایسی سج دھج کہ جیسےعروس نو ہو۔ ریشمی قیمتی ملبوس، خوش رنگ اور زرق برق زیور پہنے چاند کا نور لگتی تھی۔ اس کی رنگت چمکدار اور نقوش دلنشین تھے۔ میں نے تو ایسے حسن کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تھا اور آج پہلی بار آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، شاید ایسی ہی ماہ پارہ کے بارے میں لکھا جاتا ہو گا کہ آسمانی حور جیسی تھی۔ بھائی سر جھکائے بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی کن انکھیوں سے لڑکی کو دیکھ لیتا تھا اور یہ دزدیدہ نگاہی اس کے من کے چور کی چغلی کھارہی تھی۔ اماں بھی بیٹے کا عندیہ بھانپ گئی تھیں۔ تبھی سوال کر دیا۔ بیٹی کیا شادی شدہ ہو نہیں خالہ جی وہ ایک ادا سے شرمائی، تبھی والدہ نے کہا۔ اب ہم چلتے ہیں، پھر آنا ہو گا تو آپ کی والدہ سے بھی مل لیں گے۔ چلتے چلتے میں نے پوچھا۔ اپنا نام بتایئے۔ ماہتاب اس نے ایک آن سے بتایا۔ واقعی تم ماہتاب ہو۔ میں نے دل میں تصدیق کی۔ جب ہم گھر واپس آگئے۔ میری والدہ نے فرمایا۔ بیٹے اس گھرانے کا خیال دل سے نکال دو، یہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ کیوں اماں آپ کو کیسے پتا بیٹا میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ زمانہ سمجھتی ہوں اور تم تو ابھی بچے ہو۔ بھائی کا چہرہ اتر گیا، دل بجھ سا گیا۔ میں نے ان کو افسردہ دیکھ کر کہا۔ بھائی جان ہو سکتا ہے کہ اس لڑکی کا رشتہ طے ہو گیا ہو یا کسی اور کو پسند کرتی ہو۔ منگنی شدہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ سب بھی نہ ہوا ہو تو بھی کیا عجب کہ یہ لوگ جو اتنے مالدار لگتے ہیں، ہم کورشتہ ہی نہ دیں۔ ضروری تو نہیں کہ وہ بھی ہمیں اس حوالے سے پسند کر لیں، رد بھی تو کر سکتے ہیں۔ بھائی نے کوئی جواب نہ دیا، سارا راستہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ گھر آکر ہم نے فوری طور پر منصور سے کلام نہ کیا لیکن میں جان چکی تھی کہ میرے بھائی کا چین سکون کوئی لے گیا ہے۔ وہ تمام وقت بے چین مضطرب رہنے لگے تھے۔ انہوں نے اماں سے مزید اس بارے میں بات نہ کی، لیکن میری کہی ہوئی بات ذہن نشین ہو گئی کہ کیا خبر وہ بھی ہم کو پسند کریں یا نہ کریں کیا خبر لڑکی کی منگنی ہو گئی ہو یا پھر کسی کو پسند کرتی ہو دل کی لگی بری ہوتی ہے۔ بھائی جان دل کی لگی کو بجھانے کی خاطر دوبارہ اس فلیٹ پر گئے تاکہ ان سوالات کی تصدیق کرنے کی سعی کر لیں۔ فلیٹ پر آج بھی ماہتاب ہی تھی۔ اس نے در کھولا اور کہا۔ امی گھر پر نہیں ہیں۔ منصور تم ایسا کرو کہ ذرا دیر کو نیچے چلو۔ میں تیار ہو کر ابھی آتی ہوں۔ بھائی جان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، پھر بھی تابعداری کی اور فلیٹ کے نیچے فٹ پاتھ پر انتظار کرنے لگے۔ پندرہ منٹ بعد لڑکی برقعہ اوڑھ کر آگئی۔ وہ خود کو سنوارے رکھتی تھی۔ نک سک سے درست تھی۔ اس وقت بھی کپڑے بہت عمدہ تھے۔ اس نے بھائی سے کہا۔ گھر میں نہیں بیٹھتے اماں موجود نہیں ہیں۔ ایسے میں کوئی رشتہ دار آ جائے اور ہم کو اکیلا پائے تو لوگ باتیں بنانے لگتے ہیں۔ میں نے گھر کو تالا لگا دیا ہے، دوسری چابی اماں کے پاس پرس میں ہوتی ہے۔ یوں وہ ابھی جلدی آنے کی نہیں، اپنی خالہ زاد بہن کے پاس گئی ہیں جو بہت دور رہتی ہیں۔ ہم کہیں باہر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ تم آئے ہو تو اب در سے تو لوٹا نہیں سکتی۔ دونوں نے ایک مہنگے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس دوران منصور نے پوچھا۔ آپ کے ابو اور والدہ ساتھ نہیں رہتے کیا وہ لندن میں رہتے ہیں۔ ماہتاب نے بتایا۔ بھائی جان اپنی کار پر گئے تھے۔ پوچھا اب کہاں چلنا ہے اس نے کہا۔ دریا کنارے سیر کریں گے اور باتیں بھی کر لیں گے۔ دریا پر پہنچ کر کشتی کرائے پر لی اور دونوں نے دریا کی سیر کی۔ ماہتاب نے کچھ اس طرح گفتگو کی، جس سے واضح ہوا کہ وہ بھی منصور بھائی کو پسند کرنے لگی ہے۔ پہلی ہی نظر میں شیدائی ہو گئی تھی۔ بتایا کہ ابھی کہیں رشتہ ہوا ہے اور نہ منگنی وغیرہ بھائی جان کے دل میں مسرت کے پھول کھل اٹھے ۔ توقع نہ تھی کہ یہ گوہر نایاب اتنی جلد ان کی مراد بر لائے گا اور جیون ساتھی بنانے کی امید روشن ہو جائے گی۔ دو گھنٹے بعد یہ واپس گھر لوٹ آئے۔ لڑکی نے میرے بھائی سے دوبارہ آنے کا وعدہ لیا۔ جمعہ کے جمعہ آیا کرو، اس روز اماں کہیں نہیں جاتیں ، گھر ہوتی ہیں۔ تبھی اس نے بلڈنگ کے دروازے پر ہی منصور کو خداحافظ کہہ دیا اور فلیٹ پر چلنے کا نہ کہا۔ منصور بھائی سوچنے لگے ۔ لڑ کی احتیاط سے کام لینا چاہتی ہے اور مجھ سے ملنا بھی اس کے لئے خوشی کا باعث ہے، تبھی پبلک پلیس پر لے گئی اور تنہائی میں مجھے اپنے ساتھ گھر بٹھانے سے گریز کیا، حالانکہ وہ میرے بھولے بھالے بھائی پر یہ تاثر جمارہی تھی کہ جب گھر پر اکیلی ہو، کسی غیر مرد کو گھر کے اندر آنے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ ادھوری ملاقات دل کی لگی کو دو آتشہ کر گئی۔ وہ زیادہ بے چین و بے قرار ہو گئے۔ رات کو نیند نہ آتی اور کمرے سے نکل کر صحن میں ٹہلتے۔ اماں نے نوٹ کیا اور بولیں۔ بیٹا کیا مسئلہ ہے ، بتائو تو سہی۔ اماں آپ پہلے اصرار کرتی تھیں کہ شادی کرو اور اب جب میں چاہتا ہوں شادی کرنا تو نام نہیں لیتیں۔ بیٹا شادی ضرور کرانی ہے تمہاری اور بہت جلد چاہتی ہوں کہ ہو جائے۔ بہو گھر میں آجائے مگر ماہتاب ہرگز نہیں۔ اماں آخر اس میں کیا کمی ہے آپ کیوں ایک نظر دیکھ کر ہی اس سے چڑ گئی ہیں ارے بیٹا اس لئے کہ یہ ٹھیک عورتیں نہیں لگیں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ دو نمبر عورتیں ہیں۔ ان کی سج دھج، انداز گفتگو اور پھر اکیلے رہنا۔ تم بچے ہو نا زمانے کو نہیں پر کھ سکتے۔ اماں آپ بھی عجیب ہیں۔ شادی کروں گا تو ماہتاب سے اور آپ پر یہ ثابت کر دوں گا کہ یہ برے لوگ نہیں ہیں۔ آپ کے اندازے غلط ہوتے ہیں۔ اس کے بعد منصور امی سے بد گمان رہنے لگا۔ وہ دو تین بار ماہتاب سے ملا لیکن وہ فلیٹ میں نہ لے گئی بلکہ باہر ملتی اور گھر کے پاس پہنچ کر خدا حافظ کہہ دیتی۔ ایک روز منصور نے کہا کہ تم کل اپنی والدہ کو پابند رکھنا، میں اپنی ماں کو تمہاری امی کے پاس لائوں گا۔ وقت بھی بتادیا۔ اگلے روز شام کو وہ خودا کیلا ہی وہاں چلا گیا کیونکہ امی نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر لیا۔ دراصل وہ رشتہ ڈالنے سے پہلے کسی ذریعے سے ان لوگوں کے چال چلن اور خاندان کی تفصیل چاہتی تھیں۔ بھائی نے ماہتاب کو بتایا۔ امی آج نہیں آسکتی تھیں، ان کی طبیعت خراب ہے۔ اب بھائی کو کرید تھی کہ کسی طرح ماہتاب ان کو گھر کے اندر بلائے ۔ امی تو ساتھ چلنے پر تیار نہ تھیں، سوچ بچار کے بھنور میں پھنسی تھیں۔ ماہتاب نے کہا کہ ہم کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر جارہے ہیں، پندرہ دن بعد آنا ہو گا۔ وہ چاہتا تھا شاید اس دوران امی رشتے کے لئے مان جائیں۔ اس ملاقات کے دسویں روز بھائی جان پھر وہاں چلے گئے شاید دل پر قابو نہ رکھ سکے تھے۔ دروازہ بجایا تو ایک بزرگ باریش جس کے ہاتھ میں تسبیح تھی، باہر نکلے اور پوچھا۔ بیٹا کس سے ملنا ہے ماہتاب کی والدہ خالہ بانو سے۔ بیٹا، اس نام کی خواتین یہاں نہیں رہتیں۔ ان کو مالک مکان نے نکال دیا ہے۔ اس گھر میں اب میں اور میری بیوی رہتے ہیں۔ ہم نے کرائے پر لے لیا ہے۔ پاس پڑوس والوں نے سابقہ کرائے داروں کے بارے میں اچھی رائے نہیں دی لیکن بیٹے تم کیوں ان کا پوچھ رہے ہو تم تو کسی شریف گھرانے کے چشم و چراغ لگتے ہو۔ بھائی جان پریشان ہو گئے۔ بزرگ سے کہا۔ کیا خبر ہے کہ کدھر گئے ہیں یہ لوگ میں نے کہانا کہ وہ ٹھیک نہیں تھیں۔ اڑوس پڑوس سے خود معلوم کر لو۔ پڑوس والوں کی شکایت پر ہی مالک فلیٹ نے نکالا ہے ۔ارے بیٹا بلڈ نگ میں کوئی ان سے ملنا جلنا پسند نہ کرتا تھا۔ پڑوسی رابطہ رکھنا نہ چاہتے تھے ، تو وہ کیسے ان کا اتا پتا لیتے ۔ تم شریف بچے لگتے ہو، ناتجربہ کار ہو۔ ان کا خیال اگر دل میں پال لیا ہے تو نکال دو۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے گھر کا دروازہ بھیٹر دیا۔ مردہ قدموں سے منصور بھائی زینہ اتر کر آگئے۔ گھر آتے ہی امی جان سے بولے ۔ ماں میری شادی کرادیں مگر ماہتاب سے نہیں۔ وہ کیوں ۔ تم کو تو وہ بہت پسند آگئی تھی۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا۔ وہ صحیح عورتیں نہ تھیں۔ ابھی ان کے پڑوسی سے ملاقات کر کے آرہا ہوں۔اس نے بتایا ہے کہ مالک مکان نے ان کو نکال دیا ہے ، ان کے خراب چال چلن کی وجہ سے ایسا کہتے ہوئے بھیانے میری جانب کن انکھیوں سے دیکھا۔ میں نے منہ پھیر لیا تا کہ وہ میرے چہرے کے تاثرات نہ دیکھ لیں اور ان کی خواہش تھی کہ میں یہ بات نہ سن سکوں۔ بھائی جان کافی دن افسردہ رہے تو میں بھی دکھی ہو گئی کہ اے کاش ماہتاب اچھی لڑکی ہوتی تو اس کے ساتھ رشتہ کروانے میں مدد کرتی۔ امی کو کسی طرح منالیتی۔ اس کے بعد میرے بھائی کی شادی ہماری چچازاد سمیرا سے ہو گئی، جس کے ساتھ وہ پہلے شادی سے انکار کرتے تھے۔ | null |
null | null | null | 186 | https://www.urduzone.net/oulad-ki-khater/ | ہمارے گھر کے سامنے ایک صاحب آکر رہنے لگے۔ صاحب کیا تھے طالب علم تھے لیکن ٹیپ ٹاپ سے صاحب بنے رہتے تھے۔ میں بھی طالبہ تھی، کالج آتے جاتے اس سے سامنا ہو جاتا تھا۔ وہ بھی جیسے تاک میں ہوتا۔ جو نہی اس کے گھر کے سامنے سے گزرتی وہ اپنے دروازے سے نکل رہا ہوتا۔ اس کا انداز مجھے اچھا لگا۔ چھٹی کے دن ہمارا سامنانہ ہو پاتا تو اپنے کمرے کی کھڑکی کے پیٹ نیم واکر کے اس کے مکان کی طرف چوری چھپے دیکھتی شاید کہ وہ بھی کھڑ کی میں موجود ہو۔ کچھ دن گزرے کہ اس نوجوان کی مڈ بھیڑ میرے والد صاحب سے ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے دریافت کیا، نئے پڑوسی ہو میری بیٹھک میں آجاؤ چائے پیتے ہیں۔ انہوں نے نام پوچھا تو نوجوان نے بلند بخت بتایا۔ نام تو خوب ہے۔ والد کا کیا نام ہے کہاں سے آئے ہو والد کا نام میر عالم ہے اور قصور سے آیا ہوں۔ لاہور گور نمنٹ کالج میں داخلہ ہوا ہے اور یہ مکان جس میں رہائش ہے والد صاحب کے دوست عبید اللہ صاحب نے کرایہ پر دلوایا ہے۔ واہ بھئی واہ کیا خوب۔ قصور کے میاں میر عالم صاحب تو میرے کلاس فیلو تھے۔ وکیل ہیں نا تمہارے ابا جان جی ہاں بالکل ٹھیک۔ بیٹھک میں اور بھی باتیں ہوئیں بلند بخت کے والد سےسچ مچ کا دیرینہ تعلق نکل آیا تھا۔ تو والد صاحب نے کہا، بلند میاں، اب اکیلے گھر میں رہنے اور خود چولہا پھونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے گھر سے متصل ایک چھوٹا سا انیکسی ٹائپ پورشن ہے اپنا سامان اٹھا لو اور اس میں آ جائو۔ کرایہ بھرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ والد صاحب کمال شفقت سے ملے تو بلند بخت کو بھی انکار کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ اگلے دن وہ کرائے کا گھر واپس کر کے ہمارے بنگلے کی انیکسی میں آبسا۔ اب کھانا ہمار املازم صبح و شام بلند انیکسی میں پہنچانے لگا۔ والد نے اسے اپنا بیٹابنالیا کیو نکہ ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ وہ بھی اباجان کے اخلاق سے بہت متاثر تھا۔ اس نے لاکھ منع کیا کہ کھانا بھجوانے کی تکلیف نہ کیا کریں لیکن والد نہ مانے کہنے لگے خود کیا پکا پائو گے اور بازار کے کھانے صحت خراب کرتے ہیں۔ خانساماں بناتا ہے اور ملازم پہنچاتا ہے۔ ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اب وہ بھی امی جان کو سلام کرنے کبھی کبھی ہمارے ڈرائنگ روم میں آجاتا تھا۔ ابو گھر موجود ہوتے تو ان کی خاصی گپ شپ رہتی۔ ورنہ امی دو چار باتیں کر لیتیں لیکن میں اس کے سامنے نہ جاتی تھی۔ ایک روزا با جان نے اسے کہا بیٹا، زیبا کو ایف ایس سی کے پیپرز دینے ہیں اور سائنس کے ایک دو مضامین اسے مشکل لگتے ہیں۔ اگر تم ایک ماہ شام کو اس کی تیاری کراد و تو بڑا احسان ہو گا۔ انکل احسان کی کیا بات ہے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ کے حکم کی تکمیل کروں۔ میں ضرور زیبابی بی کو پڑھا دیا کروں گا۔ میرے دل میں تو شروع سے اس کے لئے پسندیدگی کے جذبات تھے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں وہ سبق بھی پڑھنے لگی جو طلب گار محبت اپنے محبوب کے حضور پڑھا کرتے ہیں۔ بڑے طریقے اور سلیقے مگر صبر کے ساتھ ، بالآخر میں نے اسے اپنی سوچوں کا شریک سفر کر لیا۔ وہ میری جانب متوجہ ہوا اور میں نے سمجھ لیا کہ اس کے دل میں بھی میرے لئے محبت کی جوت جاگنے لگی ہے۔ امتحان ختم ہو گیا، اس سے ملاقات کا جواز بھی ختم ہو گیا۔ مگر دل کی لگی اور بے چین رکھنے لگی۔ وقت گزرنے لگا، اب والدین میری شادی کی فکر میں لگ گئے۔ ابو کی نظر میں بلند بخت ایک شریف نوجوان تھا۔ اگر وہ اشار تا بھی کہتا تو وہ فوراًمیرے اس کے ساتھ شادی کر دیتے مگر بلند بخت نے ایسا کوئی اشارہ نہ دیا۔ بالآخر میں نے اس سے کہا بلند تم جلد اپنے والدین کو لائو اور میرا رشتہ مانگوورنہ ابو میری شادی کسی اور سے کر دیں گے۔ میں فی الحال شادی کرنے سے مجبور ہوں۔ جب تک کوئی بہت عمدہ نوکری نہیں مل جاتی۔ ابھی مجھے کم از کم پانچ سال دیر ہے۔ اگر تم پانچ سال انتظار کر سکتی ہو، پھر میں کسی نہ کسی دن رشتہ مانگنے تمہارے والدین کے پاس ضرور آئوں گا۔اس کے جواب سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ لگا وہ مجھے حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ وقت پاس کرنے کو ملتا تھا، لیکن میں تو بہت سنجیدہ تھی۔ میں اس معاملے میں دوسری لڑکیوں سے مختلف تھی۔ آہیں بھرنے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے میں نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ اس میں میری بھلائی تھی کہ والدین کی خوشنودی کو ان کی اطاعت کروں۔ انہی دنوں اس کا تبادلہ ہو گیا اور وہ ہمارا شہر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے بعد وہ کبھی نہیں آیا۔ اس نے میرے حالات جاننے کی بھی زحمت نہ کی کہ میں کیسی ہوں، کہاں ہوں۔ میری شادی ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی۔ مجھے اس کی یاد شدت سے آتی تھی لیکن صبر کر لیا کہ جو چیز حاصل نہ ہو اس کے لئے آرزو میں ہلکان ہونا کیا وہ بھی شاید اپنی زندگی کی نئی دلچسپیوں میں گم ہو گیا تھا کہ پھر کبھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ تاہم میرے دل میں اس کی یاد رہ رہ کر ٹھیسں اٹھاتی تھی۔ میری شادی والدین کی مرضی سے ہو گئی۔ وقت گزرتا رہا۔ میں دو بیٹیوں کی ماں بن گئی۔ شوہر اچھے انسان تھے ، متوسط آمدنی تھی تاہم میرا ہر لمحہ خیال رکھتے تھے۔ ایک مطمئن زندگی گزار رہی تھی۔ بلند بخت کی یاد آتی تھی لیکن میں نے اپنی ناکام محبت کو زندگی کا روگ نہ بنایا۔ شوہر اور بچوں کی خدمت و پرورش کے ساتھ گھر گرہستی کی مصروفیات میں وقت گزرنے لگا۔ شادی کے دس برس بعد امی ابو کا یکے بعد دیگر انتقال ہو گیا۔ اب میرا سب کچھ میرے شوہر ہی تھے۔ بیٹیوں کی خوشیوں اور ان کے مستقبل کا تمام تر انحصار ان ہی پر تھا۔ خدا کی مرضی کہ ایک روز وہ دفتر جاتے ہوئے موٹر بائیک حادثے کا شکار ہو کر موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ یہ صدمہ بہت بڑا تھا کہ میں بے آسرا اور بچیاں یتیم ہو گئی تھیں۔ ہماری کفالت کرنے والا بھی کوئی نہ رہا تھا۔ اب پتہ چلا کہ شوہر ایک عورت کیلئے کتنی بڑی پناہ اور نعمت ہوتا ہے۔ در در کی ٹھوکریں تو نہ کھانی پڑیں کہ والد صاحب مکان میرے نام کر گئے تھے۔ تاہم والد کے مکان میں قیام نہ کیا کہ اسے ٹھیک ٹھاک کرانا تھا تا کہ کرایہ پر اٹھا سکوں، جس کیلئے رقم کی ضرورت تھی۔ سر دست میرے پاس تو گزارے کیلئے بھی رقم موجود نہ تھی۔ بی ایس سی کیا تھا، نوکری کی تلاش میں نکل پڑی۔ ایک اخبار میں ضرورت ملازمت کا اشتہار دیکھا۔ لکھے ہوئے پتے پر پہنچی۔ کلرک نے بتایا کہ درخواست دے جائیں ، پر سوں انٹرویو ہیں، صبح ٹھیک دس بجے آنا ہو گا۔ مقررہ دن دوبارہ گئی۔ جب انٹرویو کے لئے صاحب نے بلایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ان کے برابر والی کرسی پر ایک اور صاحب بھی براجمان تھے ، لگتا تھا جیسے خواب دیکھ رہی ہوں۔ بلند بخت کو سترہ برس بعد دیکھ رہی تھی۔ وہ بالکل ہی ویسا تھا جیسا کہ سترہ برس قبل تھا۔ وقت کی گردش نے اس پر کوئی اثر نہ کیا تھا۔ یقین نہ آرہا تھا کہ وہ میرے سامنے بیٹھا ہے۔ اس نے حیران نگاہوں سے دیکھا۔ شاید اسے بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا کیونکہ وقت نے میرے رنگ وروپ کافی بدل دیا تھا لیکن اب پر وقار ہو گئی تھی اور پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی آگیا تھا۔صاحب نے سوالات کئے اور میں نے جواب دیئے۔ وہ مجھ سے متاثر نظر آئے تھے۔ انہوں نے کچھ نجی زندگی کے بارے میں بھی سوال کئے۔ میں نے بتایا کہ ایک سال قبل بیوہ ہوئی ہوں۔ شوہر کا حادثے میں انتقال ہو گیا ہے اور اپنی دو بچیوں کی پرورش کی خاطر ملازمت کرنا چاہتی ہوں۔ اس سے پہلے کبھی ملازمت نہیں کی ہے۔ پھر تو مشکل ہے، باس نے کہا۔ ہم کو آفس ورک کیلئے کچھ تجربہ کار لوگ درکار ہیں۔ آپ سے پہلے جن خواتین نے انٹر ویو دیے ہیں ان کو ملازمت کا خاصا تجربہ ہے۔ میں کچھ مایوس سی انٹر ویو لائونج سے باہر نکلی تھی، امید نہ تھی کہ مجھے بلا لیں گے شاید کہ قدرت بلند بخت کی ایک جھلک دکھانے کو مجھے وہاں لے گئی تھی۔ اگلے روز فون آگیا کہ صاحب نے بلایا ہے ، آپ کا سلیکشن ہو گیا ہے فوراً آ کر اپائنٹمنٹ لیٹر لے لیں۔ سمجھ گئی کہ بلند بخت نے سفارش کی ہے کیونکہ وہ وہاں موجود تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کمپنی میں وہ اچھے عہدے پر فائز ہے تب ہی اسے انٹرویو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ میرا اندازہ درست نکلا، بلند بخت نے ہی میری سفارش کی تھی اور باس نے ملازمت پر رکھ لیا تھا۔ میں اس کی سفارش پر نوکری کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی کیونکہ مجھ سی ناتجربہ کار کو نوکری ملنی مشکل تھی۔ یہ تو ایک اتفاق ہی ہو گیا تھا ور نہ ملازمت کیلئے کتنے دھکے کھانے پڑتے ہیں، جانتی تھی۔ اگلے روز بلند بخت کا فون آگیا۔ زیبا میں بول رہا ہوں، صد شکر تم مل گئیں۔ جب ملنا تھا ملے نہیں،اب کیوں شکر کر رہے ہو میں نے بے رخی سے جواب دیا۔ امریکا سے آنے کے بعد ایک بار تمہارے شہر گیا تھا۔ محلے کے ایک صاحب سے تم لوگوں کا پوچھا۔ انہوں نے بتایا تمہارے والد کا انتقال ہو گیا ہے ، تمہاری شادی ہو چکی ہے اور تم کراچی جاچکی ہو۔ اس اطلاع سے تو قصہ ہی ختم ہو گیا، اور کھوج لگا کر کیا کرتا کیا تم نے شادی کرلی ہاں کی تھی لیکن غیر ملکی لڑکی تھی، نباہ نہ ہو سکا۔ جلد ہی اس نے طلاق لے لی تو پھر شادی نہ کی، واپس پاکستان آ گیا۔ سوچا اب تو تم جیسی لڑکی ملے گی تب ہی شادی کروں گا۔ کافی عرصہ بیت گیا، میری زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں لیکن تم جیسی نہ ملی۔ مجھ کو ہمیشہ تم ہر ایک سے ممتاز اور الگ تھلگ لگیں۔ اب تم اچانک مل گئی ہو تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ سوچا کہ تم سے معافی مانگوں گا اور شادی کی درخواست پیش کروں گا۔ تہیہ کر لیا ہے کہ اب اگر شادی کی تو تم ہی سے ہوگی۔ یہ ممکن نہیں، میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں جواب جوانی کے دور میں قدم رکھ چکی ہیں، میرا خیال دل سے نکال دو اور دوبارہ مجھے فون مت کرنا۔ یہ کہہ کر میں نے ریسیور رکھ دیا۔ اسے میری سرد مہری سے جیسے دھچکا لگا ہو۔ دوبارہ فون ملایا، گھنٹی بجتی رہی اور میں نے فون نہ اٹھایا۔ میں اس بیتے وقت کو پھر سے آواز دینا نہ چاہتی تھی۔ اپنی بچیوں کا ہر شے سے زیادہ خیال تھا، انہیں اپنے ماضی کے بارے میں بالکل بھی آشنانہ کرنا چاہتی تھی کہ ان کی نظروں میں میرا امیج خراب ہو جاتا۔ وہ مجھے ایک اچھی ماں سمجھتی تھیں اور میں اچھی ماں ہی رہنا چاہتی تھی۔بلند بخت مسلسل فون کرتا، میں نے نہ اٹھایا تو ایک دن وہ خود اس کمرے میں آگیا جہاں میں دفتر میں بیٹھ کر کام کرتی تھی۔ اس نے معافی طلب کی اور کہا کہ میری درخواست پر غور کرو میں تمہیں شریک حیات بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میں نے اس کی درخواست کو رد کر دیا اور سیدھے منہ بات نہ کی۔ میں نے کہا، بلند صاحب شادی کی ایک عمر ہوتی ہے ، اب میں دو بچیوں کی ماں ہوں اور مجھے ان کا مستقبل بنانا ہے جو ہر شے سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ یہ ملازمت میں انتہائی مجبوری کی وجہ سے کر رہی ہوں۔ مجھے تنگ مت کرنا اور نہ میرا پیچھا کر ناور نہ ملازمت چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائوں گی۔ اس پر میری باتوں سے اوس پڑ گئی ، وہ بجھ کر رہ گیا۔ پہلے تو میں اس کے انکار پر رورو کر پاگل ہوئی تھی اور اب اسی کورد کر رہی تھی۔ یہ تو وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ جب میں نے ملازمت سے استعفیٰ دیا تو بلند بخت میرے پاس آیا اور کہا آخری بار مخاطب ہوں پھر کبھی تم کو نظر نہیں آئوں گا۔ اس نے خود کو لعنت ملامت کی کہ میری وجہ سے تم ملازمت چھوڑ رہی ہو۔ اگر میں تم سے اصرار نہ کرتا تو تم یہ قدم نہ اٹھائیں۔ تم نے اپنی زندگی کو مسائل کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اب بھی کہتا ہوں نوکری مت چھوڑو میں یہ شہر چھوڑ جائوں گا تم کو دوبارہ کبھی نظر نہ آئوں گا میر ایقین کرو۔ میں نے مگر اس کا یقین نہ کیا۔ اس کا دکھ جیسے بڑھ گیا ہو۔ میرا بھی دکھ بڑھ گیا۔ میں کیا اسے مورد الزام ٹھہراتی اس نے خود کو مجرم بنالیا تھا۔ اس کے بعد کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، بتا نہیں سکتی۔ اپنی بچیوں کو ان کی منزلوں تک پہنچانے کے لئے میں اس طرح حالات کی بھٹی میں پگھلتی رہی جیسے سونے کی اینٹ بھٹی میں پگھلتی ہے۔ آج میری بیٹیاں باعزت زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ایک ڈاکٹر ، دوسری انجینئر بن چکی ہے۔ ان کی شادیاں اچھے گھرانوں میں ہو گئی ہیں۔ وہ خوشحال زندگی بسر کر رہی ہیں اور اکثر میرے ہاتھ چوم کر کہتی ہیں کہ ماں ہو تو آپ جیسی، اماں آپ کتنی مقدس ہیں اور میں نم آنکھوں سے جواب دیتی ہوں خدا تم کو زندگی کی ساری خوشیاں دے میں تمہاری خوشیوں کے لئے ہی تو زندہ ہوں۔ | null |
null | null | null | 187 | https://www.urduzone.net/zindagi-badal-gai/ | ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ شفیق والد اور پیارے بھائی جان اچانک بم دھماکے کی لپیٹ میں آجائیں گے اور ہماری امیدوں کے چراغ ہمیشہ کیلئے بجھ جائیں گے۔ لیکن ایسے سانحوں کا شکار ہم اکیلے نہیں اور بھی ہم جیسے بہت ہوئے تھے جن کے پیاروں کے جسد خاکی تک نہ ملے اور وہ گوشت کے لوتھڑوں کی صورت میں خاک و خون میں ڈوب گئے۔ تبھی ان کے مرقد بنے اور نہ قبروں کا کوئی نشان کہ جہاں فاتحہ پڑھ کر بے قرار دل تسکین پاسکیں۔ اس روزا ابو اور بھائی جان عید کا سامان خریدنے گئے تھے۔ ان کے ہمراہ چاچا رحمت بھی تھے جو ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ وہ عید نہ تھی، ایک قیامت تھی جو اچانک ہم پر ٹوٹی تھی۔ کیسے رقم کروں کہ اس روز امی اور ہم بہنوں کی کیا حالت تھی جب صبح کے گئے ابو اور بھائی شام تک گھر نہ لوٹے۔ بالآخر رات کو چاچا رحمت یہ خبر لائے کہ وہ بم دھماکے کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ ان سے کچھ دور ہی خریداری کر رہے تھے کہ ایک شناختی کارڈ اڑ کر ان کے پاس آ گرا۔ چاچا نے اٹھا کر دیکھا یہ ابو کا تھا۔ یہ ہماری خوشیوں کا آخری دن تھا۔ اس کے بعد تو کبھی لوٹ کر نہ آنے والوں کی یاد تھی اور زندگی کا بوجھ تھا، عمر بھر جو ہمیں خود اٹھانا تھا۔ ابو گھر کے واحد کفیل تھے اور بھائی ادریس نے انہی دنوں ایم بی اے مکمل کیا تھا اور وہ ملازمت کیلئے تگ و دو کر رہے تھے تاکہ ابو کا سہارا بنیں اور معاشی حالات کو کاندھا دے سکیں۔ ان دنوں میں ایف اے اور میری بہن شائستہ میٹرک میں تھی، جب یہ سانحہ گزرا۔ کچھ دن گھر پر سوگ کی فضا طاری رہی۔ بالآخر شائستہ سب سے پہلے ملازمت کی تلاش میں گھر سے نکلی کیونکہ میں اپنی گریجویشن ہر صورت مکمل کرنا چاہتی تھی۔ ملازمت ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ ہر جگہ کسی کورس میں ڈپلومہ یا کسی ہنر میں ٹریننگ یافتہ لوگوں کی ضرورت تھی، محض میٹرک پاس کو نوکری کیا ملتی۔ والدہ پانچویں پاس تھیں۔ میری چار بہنیں چھوٹی تھیں، بھلا وہ انہیں چھوڑ کر کہاں محنت مزدوری کرنے جاتیں۔ مجبوراً مجھے کالج کو خیر باد کہنا پڑا کہ فاقوں تک نوبت آگئی تھی۔ چچا رحمت ہمارے حالات جانتے تھے۔ وہ خود اس روز موت کو چھو کر واپس آئے تھے جہاں بم دھماکا ہوا تھا۔ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے کے مصداق معجزہ ہی ہوا کہ وہ زندہ بچ گئے شاید کہ انہیں ہم کو ہمارے والد اور بھائی کی شہادت کی خبر پہنچانی تھی اور ان کے شناختی کارڈز اس واقعہ کی گواہی تھے۔ چچانے موت کی ہولناکی کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کر لیا تھا۔ محلے میں اک وہی تھے جن کے دل میں ہمارے لئے حقیقی درد تھا، تبھی حسب استطاعت مالی مدد کر رہے تھے لیکن ان پیسوں سے ایک وقت کی روٹی مشکل سے میسر آتی تھی۔ گھر کے دیگر اخراجات پورے نہ ہو سکتے تھے۔ جب حالات کسی طور نہ سنبھلے اور ہم دونوں بہنوں کو کہیں ملازمت بھی نہ ملی تو چاچا رحمت نے امی کو نکاح ثانی کا مشورہ دیا۔ بولے، بہن زینت کسی خوشحال شخص سے عقد ثانی کر لو تا کہ تم اور تمہاری بچیاں عزت کی زندگی بسر کر سکیں۔ میرے ایک واقف کار کا بھانجا ہے۔ بیوی کو کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی، اولاد کوئی ہے نہیں۔ میں نے ایک روز اپنے واقف کار سے تمہاری بچی کی ملازمت کیلئے کہا تو یہ شخص اس کے پاس موجود تھا۔ اس کا نام گلاب احمد ہے۔ گلاب کہنے لگا۔ بیوہ سے نکاح ثواب کا کام ہے جبکہ اس کی یتیم اور معصوم عمر بچیاں بھی ہیں تو ان بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھنا، ان کی کفالت اور ان کی شادیاں کرانا اللہ کی خوشنودی کا بڑا سبب ہو گا۔ گلاب کے بہت اصرار کرنے پر چاچا رحمت اسے ہمارے گھر لے آیا۔ والدہ سے ملوایا اور اس آدمی نے میری ماں کو یقین دلا دیا کہ وہ ایک ہمدرد اور مخلص انسان ہے۔ کسی بیوہ سے شادی اللہ کو راضی کرنے کی خاطر کرنا چاہتا ہے۔ عورت کی عمر، خوبصورتی، بد صورتی سے غرض نہیں ہے۔ بس یتیم بچیوں کی دعا ہی کافی ہے۔ گلاب نے کچھ اس طرح ہمدردی جتلائی کہ حالات سے ٹوٹی ہوئی ماں نے اس کے ساتھ عقد ثانی کا عندیہ دے دیا۔ یہ سوچ کر کہ اس قربانی سے اس کی بچیاں عزت کی زندگی جی لیں گی، اچھے گھروں میں بیاہی جائیں گی اور سب سے بڑی بات کہ گلاب احمد ہمارے سارے گھرانے کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار تھا۔ دو تو ناسمجھ تھیں لیکن ہم دو بڑی بیٹیاں والدہ کے اس فیصلے سے خوش نہ تھیں۔ مصلحتاً خاموش ہونا پڑا کہ حالات کی سنگینی کو ہم زیادہ جھیل رہی تھیں۔ باشعور ہونے کی وجہ سے غربت کے دکھوں کا زیادہ اثر ہمارے ذہنوں پر ہوا تھا اور ماں نے ہم کو ہی تو بھوک کے عذاب اور غربت سے چھٹکارا دلوانے کیلئے یہ قربانی دی تھی۔ ہمارے پیارے بابا جان جو ہم بیٹیوں کی عزت کے محافظ تھے ، انہیں کیا خبر کہ بعد میں دو وقت کی روٹی کیلئے ان کی بیوہ کو کسی اور سے نکاح کرنا پڑے گا اور وہ شخص بالکل بھی ان کی بیٹیوں کی عزتوں کا محافظ نہ ہو گا۔ والدہ سے نکاح کے بعد گلاب ان کو اپنے گھر لے آیا۔ ہم ایک ہفتہ چاچا رحمت کے گھر رہے اور پھر والدہ سوتیلے والد کے ہمراہ آکر ہم کو بھی ساتھ لے گئیں۔ یوں ہمارے حقیقی والد کے تین مرلہ مکان کو تالا لگ گیا کہ گلاب کا مکان کشادہ، عمدہ اور بہت شاندار تھا۔ وہ ہم سے بے حد محبت اور شفقت سے پیش آتا تھا۔ کھانے پینے کو سب نعمتیں اس نے ہمارے آگے ڈھیر کر دیں کہ جیسے ہر روز گھر میں دعوت ہوتی تھی۔ اس کے پاس کچن میں کھانا بنانے کیلئے دو خانساماں تھے، ڈرائیور، مالی، چوکیدار اور ملازمہ عورت سبھی ہماری خدمت پر مامور تھے۔ گھر میں دو گاڑیاں تھی اور دونوں ہمارے لئے ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔ غربت کے بعد یہ زندگی ایک خواب تھی۔ ایک روز گلاب نے ماں سے کہا کہ رخسانہ کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں۔ امیر کبیر فیملی ہے، اسے اچھے کپڑے پہنا دینا۔ وہ رشتے کیلئے لڑکی دیکھنے آئیں گے۔ خاطر مدارات کا انتظام میں کرادوں گا۔ تم بس ذراسی ایک جھلک مہمانوں کو دکھا کر ماں، بیٹی وہاں سے اٹھ جانا باقی بات میں سنبھال لوں گا۔ امی نے ہدایت کی کہ تیرے رشتے کیلئے کچھ مہمان آرہے ہیں، ٹھیک طرح سے تیار ہو کر سامنے آنا۔ گلاب کہہ رہے تھے کہ بہت اچھے اور امیر لوگ ہیں۔ زیادہ بات مت کرنا۔ اب تو امیری غریبی کے عیب ثواب سمجھ چکی تھی۔ سوتیلے باپ کو دعائیں دیتی تھی کہ اس نے مفلسی کے عذاب سے بچالیا اور آئندہ بھی بچانا چاہتا ہے۔ ماں نے ہدایت کی، اسی طرح تیار ہو کر بیٹھ گئی۔ مہمان ڈرائنگ روم میں آچکے تو گلاب نے ماں کو کہا۔ بیٹی کو لے آئو اور صرف پانچ منٹ وہاں بیٹھنا کیونکہ لڑکا بھی اپنے والدین کے ساتھ آیا ہے۔ اس کے رو برو رخسانہ کا زیادہ بیٹھنا معیوب بات ہے۔ اس ملاقات کا بس اتنا ہی مقصد ہے کہ دونوں لڑکا اور لڑکی ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو آگے بات چلائی جائے۔ آج کل کا دور ہی ایسا ہے کہ بغیر لڑکی کو دیکھے لڑکے ہاں نہیں کرتے۔ میں دھیرج سے ماں کے ساتھ مہمانوں کے سامنے جا بیٹھی۔ بس پانچ منٹ کیلئے اور کن انکھیوں سے لڑکے کی طرف دیکھا لیکن ایسی گھبرائی ہوئی تھی کہ خاک نظر نہ آیا۔ لڑکا کس ڈھب کا ہے۔ وہاں صرف تین افراد آئے تھے۔ ایک لڑکا، دوسرا اس کا والد اور تیسری والدہ یہی گلاب نے بتایا تھا۔ میں نے نظریں جھکائے رکھیں، سلام کیا اور ایک طرف صوفے پر بیٹھ گئی۔ میرے کانوں نے ایک عورت کی آواز سنی تھی۔ ماشا اللہ بہت خوبصورت ہے، اللہ نصیب اچھے کرے۔ کیا خبر تھی اچھے نصیب کی دعا دینے والی لڑکے کی ماں نہیں بلکہ کٹنی ہے۔ اس بازار کی نائیکہ ہے اور میری ماں سے عقد ثانی کرنے والا گلاب کوئی نیک طینت، شریف کردار آدمی نہیں بلکہ بازار حسن کا دلال ہے جس نے ایک نیک دل شخص کا روپ دھار رکھا ہے۔ چار بچیوں کی ماں سے عقدثانی بھی محض اس سبب کیا ہے کہ خوبصورت مگر لاوارث اور فاقوں سے سراسیمہ دو جوان اور دو معصوم لڑکیاں ہاتھ آجائیں گی۔ کاروبار خوب چلے گا اور اس کی چاندی ہو جائے گی۔ وہ میرا رشتہ نہیں کر رہا تھا بلکہ میری خوبصورتی، نوخیزی اور دوشیزگی کا پہلا سودا کر رہا تھا۔ سوتیلا باپ میری دوشیزگی کی قیمت لے کر چلتا بنا تھا۔ میری سادہ لوح ماں کو دھوکا دے کر مجھے ایسی دلدل میں دھکیل گیا کہ جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ماں کو یہی بتایا کہ میں نکاح کے اگلے روز سوئٹزر لینڈ چلی جائوں گی اور نکاح صبح ہو گا۔ میں بے رحم زمانے کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئی۔ قابل اعتراض تصویریں اتار کر میرا منہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا تا کہ میں خوف زدہ ہو کر خاموش رہوں۔ بدنامی کا طوق گلے کی زینت نہ بن جائے جس سے میری بہنوں کی نیک نامی متاثر ہو۔ یہ ایک کارگر حربہ تھا۔ ان کا معصوم ذہن تو ان تصویروں کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ تبھی میں نے ویسا ہی کیا جیسا گلاب نے کہا۔ اب اس کی تفصیل کیا لکھوں کہ میں کب کب، کہاں کہاں لوٹی جاتی رہی۔ لیکن میری روح میں پاکیزگی کا جو تصور رچ بس گیا، وہ مجھے ہر لمحہ تڑپاتا رہا حالانکہ میرے پاکیزہ خیالات اور نیک جذبات کو کند چھرے سے ذبح کیا جاتا رہا۔ میں نے صرف اس لئے برداشت کیا کہیں میری بہنوں کا میرا جیسا حال نہ کیا جائے۔ میں انہیں ہر صورت اس دلدل سے بچانا چاہتی تھی۔ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اس توہین آمیز زندگی سے نجات حاصل کر کے رہوں گی۔ گھر کے اخراجات کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ میری بہنیں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ اس جہنم سے نکلنے کی امید نے مجھ میں ظلم و ستم سہنے کی سکت پیدا کی لیکن میں ہمیشہ دلی طور پر اس بے ہودہ زندگی سے نفرت کرتی رہی۔ قسم کھالی کہ حالات سے مقابلہ کروں گی مگر اپنی چھوٹی بہنوں کو اس خار زار سے زخمی نہ ہونے دوں گی۔ میں نے ایک بوڑھے مالدار شخص کو شادی کیلئے راضی کر لیا۔ اس نے گلاب سے بھی بات کی، مول تول کیا اور بہت سا روپیہ اس کو بھی دیا اور مجھے خرید لیا۔ بہت بھاری قیمت چکا کر نکاح کر لیا۔ وہ بے حد مالدار شخص تھا۔ میرے سارے کنبے کا خرچا اٹھاتا تھا۔ افسوس کہ اس کی حیات کے دن تھوڑے تھے۔ اس کی زندگی نے وفانہ کی اور مالک حقیقی سے جاملا۔ اس کے بعد مجھے وہ سب کچھ تو مل گیا جو اس نے میرے نام کر دیا تھا لیکن اس کے گھر والوں اور اس کی جوان اولاد نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت نہ دی۔ ایک بار پھر ماں اور بہنوں کی خاطر میں گلاب خان کے در پر آگئی۔ اب میری بہنیں بڑی ہو گئی تھیں خاص طور پر شائستہ پر گلاب خان کی نظر تھی۔ وہ اب اس کو بھی اسی دلدل میں دھکیلنے کے منصوبے بنارہا تھا جس میں مجھے دھکیلا تھا لیکن میں تب نادان تھی اور خوف زدہ ہو گئی تھی، اس کی دھمکیوں سے ڈر گئی تھی۔ زندگی کے تلخ تجربات نے اب مجھے دلیر بنادیا۔ ٹھان لی کہ گلاب خان سے نمٹوں گی۔ اب تو اپنی ان ممنوع قسم کی تصاویر کا بھی خوف نہ رہا تھا کہ جن کے عیاں ہونے سے ڈرتی تھی اور جو مجھے خوف زدہ رکھنے کیلئے اتاری گئی تھیں۔ میں نے والدہ کو اعتماد میں لیا کہ آپ اس شخص سے چھٹکارا پایئے، اس سے خلع لے لیں، ورنہ یہ آپ کی دوسری بیٹیوں کو بھی تباہی کی طرف لے جائے گا۔ میرے پاس ایک گھر تھا جو میرے مرحوم شوہر نے میرے نام کر دیا تھا۔ ہم وہاں رہ لیں گے اور میں حالات کا مقابلہ کروں گی۔ خدا کی کرنی گلاب کو انہی دنوں گولی لگ گئی۔ دراصل اس کی کچھ لوگوں سے دشمنی چل رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ماں خلع لیتی یا وہ میری بہنوں کے دام لگاتا، اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اس طرح اس ظالم کے ساتھ ظلم کا یہ باب بھی بند ہوا۔ شائستہ اور عظمیٰ نے تعلیم مکمل کر لی تھی جبکہ لبنیٰ ابھی پڑھ رہی تھی۔ میں اپنے کنبے کے ساتھ اپنے مرحوم شوہر کی دی ہوئی کوٹھی میں چلی آئی اور گلاب کا گھر چھوڑ دیا۔ اس کوٹھی سے میری عزت وابستہ تھی لہٰذا میرے شوہر کے ملنے جلنے والے مجھ سے رابطے میں آگئے۔ انہی کے توسط سے بہنوں کی شادیاں اچھے گھروں میں ہو گئیں۔ میں اور والدہ اکیلے رہ گئے۔ میں نے شادی نہ کرنے کی قسم کھائی کہ مجھے مردوں سے نفرت ہو چکی تھی۔ والدہ کی خدمت کیلئے جی رہی تھی اور وہ میرے لئے زندہ تھیں۔ | null |
null | null | null | 188 | https://www.urduzone.net/hazrat-dawood-ka-insaaf/ | حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص ہمیشہ یہ دعا کیا کرتا تھا کہ الہی مجھے بغیر محنت مشقت کے روزی عطا کر۔ جب تو نے مجھے کاہل اور ناکارہ پیدا کیا ہے تو میری مثال ان گدھوں کی ہے جن کی پیٹھ زخمی ہو اور ان پر گھوڑوں اور اونٹوں کا بوجھ نہ لادا جا سکے۔ تو رزاق اور رحیم ہے اور مجھ جیسے کاہلوں اور راحت پسندوں کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے روزی دیتا ہے۔ جب بچہ چل پھر نہیں سکتا تو ماں اس کی روزی کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح میں روزی کمانے کے لیے محنت نہیں کر سکتا۔ تو دست غیب سے مجھے روزی عطا کر۔ لوگ اس کی دعا سنتے تھے اور ہنستے تھے کہ یہ احمق اور بے شعور کیسی دعا مانگتا ہے۔ شاید اس نے بھنگ پی رکھی ہے۔ روزی کے حصول کے لیے تو محنت کرنا شرط ہے۔ اس کے خلاف ہونا تو بعید از قیاس ہے۔ حضرت داؤد ہمارے بادشاہ اور خدا کے رسول ہیں۔ وحوش و طیور بھی ان کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ محنت مشقت کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔ جب تک وہ زرہ تیار کرنے پر اپنا خون پسینہ ایک نہیں کر لیتے ان کو روزی میسر نہیں آتی۔ لیکن یہ بے ہنر آدمی خدا سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسے بغیر تکلیف اٹھائے روزی عطا کرے۔ بھلا آسمان پر کوئی بغیر سیڑھی کے بھی چڑھ سکتا ہے۔ اس احمق کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی شخص خالی تھیلے سے پنیر تلاش کرے۔ وہ شخص لوگوں کی باتیں سنتا تھا لیکن اپنی دعا سے باز نہ آتا تھا۔ آخر اس دھن کے پکے کی مراد بر آئی۔ ایک دن وہ بڑے خشوع و خضوع سے دعا میں مشغول تھا کہ ایک گائے نے سینگ مار کر اس کے گھر کا دروازہ توڑ دیا اور اندر گھس آئی۔ اس شخص نے اٹھ کر فورا اس گائے کے پاؤں باندھ دیئے اور اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ پھر اس کو قصاب کے پاس لے گیا تاکہ اس کی کھال اتار لے۔ گائے کے مالک کو پتہ چلا تو وہ دہائی دیتا آیا کہ ارے ظالم یہ تو نے کیا کیا۔ میری گائے راستہ بھول کر تیرے پنجے میں آپھنسی اور تو نے بے دریغ اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ اس سینہ زوری کا تجھے عدالت میں جواب دینا ہو گا۔ اس نے کہا کہ میں برسوں سے دعا مانگا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بے محنت روزی عطا کرے۔ خدا نے آج میری سن لی اور اس نے یہ گائے میرے گھر بھیج دی۔ میں نے اس کو ذبح کر ڈالا۔ کیونکہ یہ میرا رزق تھا۔ گائے کا مالک اس کا جواب سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ اس کو گریبان سے پکڑ کر تین چار گھونسے لگائے اور کہا کہ اے مکار ظالم میرے ساتھ داؤد نبی کی عدالت میں چل وہاں تجھے معلوم ہو جائے گا کہ پرائے مال کو ہڑپ کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ جو تیرے جی میں آئے کر۔ مجھے تو یقین ہے بارگاہ الہی میں میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ گائے کے مالک نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔ کہ اے مسلمانو ذرا اس کی بکواس سنو۔ یہ اپنی دعا کی بنا پر پرائے مال پر اپنا حق جتاتا ہے اگر دنیا میں یہی قانون ہوتا تو لوگ دعائیں مانگ مانگ کر دوسروں کا مال چھین لیتے اور یہ فقیر تو سب کے سب دولت مند بن جاتے جو دن رات یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے خدا تو ہم کو مال و دولت عطا کر۔ لوگوں نے کہا کہ گائے کا مالک سچا ہے۔ اس دعا فروش نے اس پر صریح ظلم کیا ہے۔ اس کے تو مسلمان ہونے میں بھی شک ہے۔ بھلا دعا مانگ کر دوسرے کے مال پر کیسے حق جتا سکتا ہے۔ ایسی دھاندلی کی تو شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ کسی چیز کے مالک ہونے کا دعوئی تو وہی کر سکتا ہے جو اس کو خریدے یا خیرات میں حاصل کرے یا وصیت میں پائے یا کوئی اپنی خوشی سے اسے بطور انعام دے دے۔ پھر وہ اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اس کی گائے واپس کرو یا قید خانے کی ہوا کھاؤ۔ اس دعا مانگنے والے نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ الہی تو نے ہی یہ دعا میرے دل میں ڈالی۔ اب تو ہی میری لاج رکھ۔ اندھا تو اپنی نادانی کی بنا پر مخلوق سے سوال کرتا ہے مگر میں نے تیرے سوا کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہیں کیا۔ تو جانتا ہے کہ میں ہمیشہ سچے دل سے تیرے سامنے گڑگڑایا کرتا تھا۔ لوگ میرے بھید کو نہیں جانتے اور میری باتوں کو بیہودہ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی سچے ہیں۔ کیوں کہ غیب کے راز جاننے والا اور عیبوں کو چھپانے والا تیرے سوا کوئی نہیں ہے۔ گائے کے مالک نے کہا ارے پاکھنڈی آسمان کی طرف کیا دیکھتا ہے ۔ میری طرف دیکھ۔ بھلا اس طرح تیرے دھوکے میں کون آئے گا تیرا دل تو مردہ ہے لیکن دعوا خدا رسیدہ ہونے کا کر رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں سارے شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا۔ اس دعا کرنے والے نے اپنا سر سجدے میں رکھ دیا اور بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ اے خدا اپنے اس ناچیز بندے کو رسوا نہ کر۔ اگر میں بُرا بھی ہوں تو میرا راز فاش نہ کر۔ تو جانتا ہے کہ میں نے کتنی طویل راتیں بصد عجز و نیاز دعائیں مانگنے میں صرف کی ہیں۔ میری دعاؤں کی قدر اگر مخلوق کو نہیں تو نہ سہی مگر تجھے تو ہر شے کا علم ہے۔ الہی یہ لوگ مجھ سے گائے مانگتے ہیں حالاں کہ اسے تو نے میرے پاس بھیجا تھا۔ اس میں میری خطا نہیں تھی۔ جب یہ جھگڑا حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ مدعی نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ اے نبی اللہ میں آپ کے سامنے اس شخص کے ظلم کے خلاف فریاد کرتا ہوں۔ میری گائے اتفاق سے اس کے گھر چلی گئی۔ اس نے خوفِ خدا سے بے نیاز ہو کر اس کو ذبح کر لیا۔ اس سے دریافت فرمائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا اے شخص بتا تو نے دوسرے کا مال کیوں تلف کیا۔ ادھر اُدھر کی باتیں نہ کر ۔ بلکہ اپنے موقف کے حق میں کوئی معقول دلیل پیش کرتا کہ ہم صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ اس نے کہا کہ اے نبی اللہ میں سات سال تک رات دن یہی دعا مانگتا تھا۔ کہ اے خداوند کریم تو مجھ کو بے محنت رزق عطا کر۔ میری دعا اور آہ وزاری سے اس شہر کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ آپ کسی سے پوچھیں وہ میری بات کی تصدیق کرے گا۔ اتنی مدت کی دعاؤں کے بعد ایک دن میں نے یکایک ایک گائے اپنے گھر میں دیکھی۔ میں یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمالی اور اس نے یہ رزق میرے لیے بھیج دیا۔ چنانچہ میں نے گائے کو ذبح کر دیا تا کہ اپنی دعا کے قبول ہونے کے شکرانہ میں اس کا گوشت فقرا اور مساکین میں تقسیم کر دوں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑ۔ اگر کوئی شرعی حجت ہے تو وہ بیان کر۔ کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں بغیر کسی دلیل کے شریعت میں کوئی باطل چیز داخل کر دوں۔ وہ گائے تجھے کس نے بخشی یا تو نے خریدی کہ اس کا وارث بن بیٹھا۔ آخر کوئی فصل ہوئے بغیر تو اس کو کیسے کاٹ سکتا ہے۔ زیادہ بک بک نہ کر اور گائے کے مالک کو اس کے مال کی قیمت ادا کر ۔ اگر پاس نہیں ہے تو قرض لے کر دے۔ اس نے کہا کہ اے بادشاہ آپ بھی وہی بات کہتے ہیں جو یہ بے درد کہتے ہیں۔ پھر اس نے ایک آہ بھری اور کہا کہ اے دونوں جہاں کے مالک تو ہی غیب کا حال جانتا ہے۔ یہ بھید داؤد نبی پر ظاہر فرما دے۔ یہ کہہ کر زار زار رونے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر حضرت داؤد کا دل دہل گیا اور انہوں نے مدعی سے کہا کہ اے شخص اس کو ایک دن کی مہلت دے۔ اس اثنا میں میں بھی مراقبہ کروں گا اور اللہ تعالیٰ سے حقیقت حال ظاہر کرنے کی دعا کروں گا۔ اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام خلوت میں تشریف لے گئے اور دروازہ بند کر کے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گئے۔ حق تعالیٰ نے ان کو اپنے بھید سے آگاہ کر دیا اور وہ صحیح نتیجے پر پہنچ گئے۔ دوسرے دن آپ کی عدالت میں پھر لوگ جمع ہوئے اور مدعی و مدعاعلیہ بھی حاضر ہوئے۔ مدعی نے چھوٹتے ہی مدعاعلیہ پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیئے کہ اے نابکار میری گائے واپس دے اور اپنے خدا کے سامنے شرمسار ہو۔ پیغمبر حق کے عہد میں ایسا صریح ظلم کرتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی کہ دوسرے کی گائے مار کر کھا گیا۔ پھر وہ حضرت داؤد علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اے رسول برحق یہ کیسے روا ہو سکتا ہے کہ میری گائے خدا اس کو اس طرح دے دے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ اے شخص اس مسلمان کو اپنی گائے معاف کر دے۔ جب اللہ تعالٰی ستار العیوب گناہوں کو چھپانے والا ہے تو تو بھی اس کی استاری کے صدقے میں صبر کر۔ یہ سن کر گائے والا واویلا مچانے لگا کہ یہ کیسا انصاف اور کیسی شریعت ہے کہ مجھ غریب کے لیے نیا قانون بن گیا۔ اے نبی اللہ آپ کے عدل کی زمین و آسمان میں دھوم ہے۔ مجھ پر جو ظلم ہوا ہے ، ایسا تو اندھے کتوں پر بھی نہیں ہوتا۔ اس تعدی سے تو پتھر اور پہاڑ بھی پناہ مانگتے ہیں۔ اے پیغمبر خدا مجھ پر ایسا ظلم نہ کیجئے۔ آپ کا حکم تو سراسر زیادتی اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ غرض وہ دیر تک حضرت داؤد علیہ السلام کو طعنے دیتا رہا اور آپ خاموشی سے سنتے رہے۔ جب اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ بدذات اپنا سارا مال مویشی اس کے حوالے کر دے کیونکہ تیری سلامتی اسی میں ہے۔ یہ سن کر وہ اور بھی زور زور سے واویلا کرنے لگا یہ تو آپ نے ظلم میں اور اضافہ کر دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا کہ ارے بد بخت اب بھی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ اور اس شور و غل سے باز آجا اگر تو باز نہیں آتا تو تیرے گھر والے اس کے غلام بنا دئیے جائیں گے۔ یہ سن کر وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ کوٹنے لگا اور سر پر خاک ڈالنے لگا۔ لوگوں کو حقیقت حال کا علم نہ تھا۔ ان کو اس پر بڑا ترس آیا، اور انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام سے عرض کیا کہ اے نبی اللہ آپ کا حکم بظاہر انصاف سے بعید معلوم ہوتا ہے۔ از راہ شفقت اس پر نظر ثانی فرمائیے۔ حضرت داود نے فرمایا کہ دوستو اب وقت آگیا ہے کہ تم کو اصل واقعات کا علم ہو جائے۔ سب لوگ میرے ساتھ دریا کے کنارے فلاں جنگل میں چلو۔ وہاں ایک بہت تناور اور گھنا درخت ہے۔ مجھے اس کی جڑ سے انسانی خون کی بو آتی ہے۔ جانتے ہو یہ کون سے انسان کا خون ہے۔ یہ انسان مدعا علیہ کا باپ تھا اور یہ مدعی اس کا غلام تھا۔ اس بد بخت غدار نے مال و دولت کے لالچ میں اپنے مالک کو قتل کر کے اس درخت کی جڑ میں دبا دیا اور اس کے سب مال و جائیداد کا مالک بن بیٹھا۔ مدعا علیہ اس وقت بہت کم سن تھا اس لیے اس کو اس واقعہ کا علم نہیں۔ یہ ظالم اپنے مالک کے اہل و عیال کی خبر گیری تک سے غافل ہو گیا۔ یہ جانتا تھا کہ مدعا علیہ اس کے مالک کا فرزند ہے۔ لیکن یہ ایک حقیر گائے کے لیے اس کی رسوائی کے درپے ہو گیا۔ اس طرح اس نے خود ہی اپنا راز فاش کرنے کا سامان مہیا کر دیا۔ ورنہ شاید خدا اس کے جرم پر پردہ پڑا رہنے دیتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ارشادات سن کر سب لوگ انگشت بدنداں ہو گئے پھر وہ سب حضرت کے ساتھ اس درخت کے پاس پہنچے۔ آپ نے حکم دیا کہ مدعی کے ہاتھ پیچھے باندھ دو۔ پھر آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے کتے پہلے تو نے مدعا علیہ کے دادا کو قتل کیا اور اس کی سزا میں تجھ کو مقتول کے فرزند کا غلام بنایا گیا۔ پھر تو نے اس کے ساتھ بھی غداری کی اور اس کو قتل کر کے اس کے مال و دولت پر قبضہ جما بیٹھا۔ تیری بیوی تیرے مقتول مالک کی لونڈی تھی۔ لہذا اس سے جو اولاد پیدا ہوئی ان سب کا وارث یہی مدعاعلیہ ہے۔ تو بھی اس کا غلام ہے اور تیرا مال و دولت بھی اس کی ملک ہے۔ تو نے شرع کے مطابق فیصلہ چاہا تھا تو لے اب یہ شرع کا فیصلہ ہے، جا اور اس کی تعمیل کر۔ ارے ظالم تو نے اسی جگہ اپنے مالک کو کیسی بیدردی سے قتل کیا۔ اس بیچارے نے تیری کس قدر منت سماجت کی لیکن تجھے ذرا ترس نہ آیا۔ اس بے گناہ کا سرکاٹ کر تو نے چھری سمیت اس درخت کے نیچے دفن کر دیا۔ اے لوگو یہاں سے زمین کھودو۔ سر اور چھری دونوں مل جائیں گے ۔ چھری پر اس کتے کا نام بھی کندہ ہے جو اس کے قاتل ہونے کا بین ثبوت ہے۔ لوگوں نے زمین کھودی تو جیسا حضرت داؤد نے فرمایا تھا ویسا ہی ظاہر ہوا۔ لوگوں کی فرط حیرت سے چیخیں نکل گئیں۔ پھر حضرت داؤد نے درخت سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے درخت تو اس واقعہ کے متعلق کیا جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس درخت کو قوت گویائی عطا فرمائی اور اس کی ایک ایک شاخ اور ایک ایک پتہ پکار اٹھا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے بالکل سچ فرمایا اس واقعہ کا شاہد خود حق تعالی ہے۔ یہ دیکھ کر لوگ اپنی بدظنی پر سخت پشیمان ہوئے اور حضرت داؤد سے رو رو کر معافی مانگی اور عرض کیا کہ اے نبی اللہ ہم اندھے تھے۔ اسی لیے آپ نے جو کچھ فرمایا تھا اس پر ہم نے اعتبار نہ کیا۔ ہمیں معذور جان کر درگزر فرمائیں۔ آپ کے معجزہ نے لاکھوں دلوں کی آنکھیں کھول دی ہیں اور ہر شخص کا اللہ تعالٰی پر ایمان پختہ ہو گیا۔ ایک ظالم کیفر کردار کو پہنچا اور ایک جہاں زندہ ہو گیا۔ اے عزیز تو بھی اپنے نفس کو مار اور ایک جہاں کو زندہ کر۔ | null |
null | null | null | 189 | https://www.urduzone.net/sadda-ki-budqismat/ | میں بچپن میں کھوگئی تھی۔ بسکٹ لینے گھر سے نکلی اور گلی بھول گئی۔ عمر ساڑھے تین سال تھی۔ روتی روتی گھر سے دور نکل گئی۔ امی سورہی تھیں، ہمیشہ ان کے ساتھ بسکٹ خریدنے جاتی تھی۔ اس روز ماں کا پرس سامنے پڑا تھا، کھولا تو روپے نظر آگئے۔ ایک نوٹ مٹھی میں دبایا اور دروازہ کھول کر نکل پڑی۔ اس کے بعد اصل ماں باپ، گھر، جو میرا اپنا تھا، سبھی ماضی کا حصہ ہو گئے۔ نجانے کیسے ایک عورت مل گئی اور رو رو کر ہلکان ہوتی بچی سے پوچھا۔ کیوں رو رہی ہو ماں باپ گھر بار کے بارے سوال کئے۔ میں کچھ نہ بتا سکی۔ نوٹ ابھی تک میری مٹھی میں دیا تھا۔ وہ سمجھ گئیں کہ گم گئی ہوں ۔ صبح کی نکلی تھی ، اب شام ہونے آئی تھی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں ، کھانا کھلایا، پیار کیا تھکی ہوئی تھی جلد ہی سو گئی۔ صبح اٹھی تو نہ وہ گھر تھا نہ وہ آنگن، جہاں رہتی اور کھیلتی تھی اور نہ وہ صورتیں تھیں ، جو اس گھر میں میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ رفتہ رفتہ ماں باپ، بہن بھائی بھلا دیئے۔ مجھے اپنے ساتھ لانے والی نے یقیناً میرے ماں باپ کو ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے اپنا نام روشی بتایا۔ اصل نام کیا تھا وہ بھی یاد نہ رہا۔ ان نئے لوگوں کے گھر میں گویا میرا دوسرا جنم تھا۔ ان کی دو بیٹیاں وفات پا گئی تھیں، پھر اولاد نہ ہوئی۔ میرا انہیں یوں مل جانا گویا ان کی دعاؤں کا ثمر تھا۔ گرچہ یہ غریب یہ لوگ تھے مگر مجھے نازونعم سے پالاجب میں گیارہ برس کی ہوئی تو امی بیمار رہنے لگیں ۔ ڈاکٹروں کا علاج جاری تھا، مگر ماں کو یہ وہم تھا کہ وہ اب زیادہ نہ جئیں گی۔ یہی مجبوری تھی جس نے مجھے وقت سے پہلے دلہن بننے پر مجبور کر دیا۔ جس ڈاکٹر سے والدہ کا علاج ہو رہا تھا ، وہاں ایک بڑی عمر کے آدمی آیا کرتے تھے، جن کا اپنا چھوٹا سا میڈیکل اسٹور تھا۔ وہ دوائیں پہنچانے اسپتال آتے تھے۔ ابا جان سے ان کی سلام دعا ہوئی۔ نام ان کا قمر تھا۔ تب والد صاحب انہی کے میڈیکل اسٹور سے دوائیں لینے لگے۔ ایک دوبار میں بھی اماں کے ساتھ ڈاکٹر کے گئی تبھی قمر نے مجھے دیکھا اور ابا سے بعد میں پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بچی کا رشتہ کرنا ہے ہاں، کرنا تو ہے، دراصل اس کی ماں کو اس کی بہت فکر ہے، مگر میں ابھی اس کو بیاہنا نہیں چاہتا۔ اس کی عمر بہت چھوٹی ہے۔ ٹھیک ہے، جب بیٹی کا رشتہ کرنے کا خیال ہو مجھے بتانا۔ میرے پاس ایک اچھا رشتہ موجود ہے۔ والد نے ایک روز قمر کی کہی بات کا امی سے تذکرہ کر دیا۔ وہ بولیں۔ اگر رشتہ ٹھیک ہو تو بات کر لیں لیکن ہماری خوش بخت تو ابھی بارہ سال کی بھی نہیں ہے۔ نہیں ہے تو کیا ہوا ہو جائے گی کچھ دنوں میں۔ رشتہ پہلے سے طے کر لینے میں تو کوئی حرج نہیں۔ دو تین سال تک منگنی رہے گی پھر شادی کر دینا۔ ابا کو ماں کی یہ بات ٹھیک لگی۔ ایک روز قمر نے پھر سے رشتے کی بات چھیڑ دی تو انہوں نے کہہ دیا کہ رشتہ دکھا دو۔ پسند آیا تو بات پکی کر لیں گے اور جب ہماری بیٹی پندرہ برس کی ہو جائے گی تو شادی کریں گے۔ مجھے منظور ہے۔ وہ بولے لڑکے بارے فکر نہ کریں ، وہ شریف آدمی ہے۔ اپنا کاروبار، اپنا مکان اور تین دکانیں ہیں، جو کرایے پر لگی ہوئی ہیں۔ روپے پیسے کی بھی کمی نہیں ہے۔ دراصل میری بیوی بیمار ہیں۔ کافی علاج کروایا ٹھیک نہیں ہوئیں ۔ اب ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ پتے میں پتھری ہے، آپریشن کرانا پڑے گا لیکن اس کے لئے کافی رقم درکار ہے۔ ارے بھائی ، آپ اس کی فکر نہ کرو۔ جتنے پیسے چاہئیں مجھ سے لے لو۔ میں کہیں نہیں بھاگا جا رہا اور تم بھی کہیں نہیں جا رہے۔ رقم جب تمہارے پاس آ جائے دے دینا آپریشن ضروری ہے میں گاؤں سے شہر آتا ہوں بیوی کے علاج کی خاطر یہاں آنے جانے پر ہی کافی پیسے لگ جاتے ہیں۔ پرائمری اسکول کا ماسٹر ہوں معمولی تنخواہ ہے۔ آپریشن کے دوران کہاں قیام کروں گا بڑے مسائل ہیں۔ قیام بھی میرے گھر کر لینا آپ لوگ۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ میرا پانچ کمروں کا بڑا سا مکان ہے اور اس میں فی الحال میں اکیلا ہی رہتا ہوں ۔ اللہ کا دیا اتنا ہے کہ سماتا نہیں۔ یہ دولت کس کام کی جو کسی ضرورت مند کے کام نہ آئے۔ ابا کو اس آدمی نے ایسا حوصلہ دیا کہ وہ شہر کے بڑے اسپتال سے امی کا آپریشن کرانے پر راضی ہو گئے ۔ آپریشن بھی ہو گیا۔ امی ابو نے اس دوران قمر صاحب کے گھر قیام کیا۔ اسپتال آنے جانے میں بھی آسانی رہی اور امی صحت یاب ہو کر گھر لوٹ آئیں۔ اس دوران مجھے انہوں نے اپنی بہن کے گھر بھیج دیا تھا۔ خالہ نے میرا بہت خیال رکھا۔ امی تو صحت یاب ہو کر گھر آ گئیں، لیکن قرض کے بوجھ سے والد صاحب کی کمر جھک گئی۔ وہ کمر ہی نہیں آنکھیں بھی جھکا کر بات کرنے لگے۔ قرض کی واپسی کا ذہن پر بڑا بوجھ تھا۔ ان دنوں پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ بہت قلیل ہوا کرتی تھی۔ چھ ماہ تو قمر صاحب چپ رہے، پھر انہوں نے دبے لفظوں پیسوں کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ والد صاحب تسلی دیتے کہ ذرا صبر کریں۔ کچھ دنوں میں آپ کی رقم لوٹا دوں گا۔ لوٹاتے کہاں سے، ان دنوں تو غربت گھر کی لونڈی تھی۔ میرے ابا بہت حساس، غیرت مند اور دیانت دار آدمی تھے ۔ وہ جو وعدہ کرتے، چاہتے کہ پورا کریں ورنہ ان کی جان پر بن آتی تھی۔ ادھر چھ ماہ بعد قمر صاحب کے خطوط موصول ہونے لگے ، جن میں رقم کا تقاضا ہوتا ۔ والد صاحب بالآخر شہر گئے تاکہ قمر سے مل کر قرضہ کی ادائیگی میں کچھ وقت کی اور مہلت لے لیں۔ انہیں اپنی مجبوریاں بتائیں تو وہ بولے ۔ اچھا میاں صاحب اس مسئلے کو چھوڑیں۔ آپ کی زوجہ محترمہ تو اب ما شا اللہ سے صحت یاب ہو چکی ہیں۔ آپ نے مٹھائی تک نہ کھلائی لیکن یہ بات پرانی ہو چکی ہے، کچھ نئی بات ہو تو مٹھائی کھائیں۔ والد صاحب سمجھے نہیں تبھی وہ کہنے لگے۔ آپ کے گھر میں بچی ہے، رشتے کی بات کی تھی، بھول گئے۔ میں نے آپ ، سے کہا تو تھا کہ لڑکا اور اس کا گھر بار دکھا دیجیے تو بات آگے چلاتے ہیں۔ لڑکا او رگھر بار دونوں ہی آپ کے دیکھے بھالے ہیں۔ لڑکا آپ کے سامنے بیٹھا ہے اور گھر میں میرے آپ قیام کر چکے ہیں۔ قمر کی بات سن کر ابا جان سکتے میں آگئے۔ چالیس سال کا آدمی ، جو بدصورت بھی تھا، کالا، بھدی ناک والا ، ان کی تیرہ سالہ بیٹی کا رشتہ طلب کر رہا تھا۔ وہ اس شخص کے قرض دار تھے، اس لیے احسان مند تھے ، لہذا کوئی حیل و حجت کئے بغیر بولے۔ گھر جا کر بیوی سے بات کرتا ہوں اور آپ کا قرضہ لوٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ سوچ رہا ہوں گھر فروخت کر کے آپ کا احسان اتار دوں۔ ارے میاں صاحب اس کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو بے گھر کرنا نہیں چاہتا، آپ کا بوجھ کم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھیک ہے آپ کر لیجیے اپنی بیگم سے مشورہ، میں اور انتظار کیے لیتا ہوں۔ والد گھر آئے تو اس طرح جیسے کسی نے بدن سے طاقت کھینچ لی ہو۔ ٹھیک طرح سے چل نہیں پارہے تھے۔ امی نے پوچھا۔ کیا ہوا آپ کو طبیعت تو ٹھیک ہے۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ تو شہر گئے تھے قمر صاحب سے ملنے ہاں ، انہوں نے ایسی بات کہہ دی کہ میری سر اٹھانے کی سکت چھین لی۔ کہا ہے کہ قرضہ واپس کرو یا بیٹی کا رشتہ دے دو۔ سوچ رہا ہوں، یہ گھر بیچ کر قرض چکتا کر دوں ۔ کیسی بات کرتے ہو سر پہ چھت نہ رہے تو کیا در بدر ہونا ہے ہم نے بڑھاپے میں بیٹا تو پہلے ہی اللہ نے نہیں دیا۔ گھر بھی نہ رہے گا تو کیا سڑک پر بیٹھیں گے ۔ عزت سے روکھی سوکھی کھا کر بھی سر تو چھپائے ہوئے ہیں اور بیٹی بھی آخر بیاہنی ہے۔ آج نہیں تو کل ۔ قمراتنا برا نہیں، بس ذرا شکل دبتی ہے۔ اس کا کاروبار ہے، روپیہ پیسہ ہے ۔ ہماری بیٹی عیش کرے گی اور کیا چاہئے ایسے رشتے قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ خاندان میں کوئی ایک آدھ رشتہ نکل بھی آیا تو سبھی غریب لوگ ہیں ۔ یہاں بھی اس بچاری نے مفلسی دیکھی اور آگے بھی یہی سوغات جہیز میں لے کر جائے گی ارے میاں قمر کو ہاں کہو۔ قرضے کا بوجھ بھی نہ رہے گا اور بیٹی بھی خوشحال گھر میں آباد ہو جائے گی۔ میں تو تم کو دانا جانتی تھی مگر تم تو سخت نادان نکلے۔ قمر صاحب کو ہرگز مایوس نہ کرنا۔ وہ بہت مہربان اور شفیق آدمی ہے۔ ہماری رانی کو بہت خوش رکھے گا۔ غرض ایسی باتیں کر کے امی نے ابا کا نہ صرف دل ہلکا کر دیا بلکہ ان سے میری قمر سے شادی کے لئے ہاں بھی کروادی ۔ ہاں کہنے کی دیر تھی قمر نے فوری شادی کا تقاضا کر دیا۔ یوں چودہ برس کی عمر میں ہی میری شادی ہو گئی۔ میں شادی کے تقاضوں کو سمجھتی نہ تھی۔ چند دن تو اس نے چاؤ سے رکھا اس کے بعد اس کے مزاج بگڑنے لگے۔ وہ مجھ پر شک کرنے لگا کسی سے بات نہ کرنے دیتا، نہ کسی کے گھر جانے دیتا، خاموشی سے سب ظلم اٹھاتی۔ گھر میں میرے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ اسٹور پرچلا جاتا اور میں رو کر چپ ہو جاتی ۔ ماں باپ دور تھے، ان سے بھی بات نہ ہو سکتی تھی۔ ایک دن میں بالکونی میں میں کپڑے ڈال رہی تھی کہ میرا شوہر آ گیا۔ کوئی شخص گلی سے گزر رہا تھا۔ قمر نے گلی میں جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔ بتاؤ یہ کون تھا مجھے کیا پتا کون تھا۔ کوئی راہ گیر ہوگا، ایسے تو لوگ روز گزرتے رہتے تھے۔ قمر نے اگلا سوال کیا۔ سچ سچ بتاؤ کل جب میں مال خرید نے کراچی گیا ہوا تھا، تو رات تیرے پاس کون آیا تھا میں نے جواب دیا۔ کوئی بھی نہیں۔ اس پر اس نے چاقو نکال لیا اور اتنا ڈرایا دھمکایا کہ میں خوف سے بے ہوش ہوگئی ۔ مجھ پر جو بھی گزر رہی تھی، تنہا جھیل رہی تھی۔ فون گھر میں نہ تھا۔ والدین کو خط لکھ نہیں سکتی تھی کیونکہ مجھے اس کی اجازت نہیں تھی۔ میرا شوہر کاپی کے صفحے گن کر رکھ جاتا تھا کہ اس کے پیچھے کسی کو خط نہ لکھ سکوں ۔ ادھر میں اکیلی گھر میں ڈرتی رہتی تھی۔ میں ڈر کر بیمار ہو گئی اور تین دن کھانا نہ کھایا، تب اس نے مجھے کہا کہ چلو والدین کو خط لکھ دو۔ میں جلدی سے خط لکھنے بیٹھ گئی۔ میں سمجھی وہ خط کھول کر نہیں پڑے گا تبھی خط میں ساری باتیں لکھ دیں لیکن اس نے خط کھول کر پڑھ لیا۔ میری خوب مرمت کی اور خط پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ، بولا ۔ جو میں کہتا ہوں ، وہی لکھتی جاؤ۔ دِل خون کے آنسو رو رہا تھا اور میں وہ لکھ رہی تھی جو وہ لکھوا رہا تھا کہ میں بہت خوش ہوں۔ میرا شوہر میرا بہت خیال رکھتا ہے اور فی الحال ابھی میں آپ کے پاس آنا نہیں چاہتی۔ خط لکھوا کر وہ سو گیا۔ تبھی میں چیکے سے اٹھی اور ایک پرچہ لکھ کر لفافے میں ڈال دیا، جس میں لکھا تھا۔ ابا جان جلد آ کر مجھے لے جائیے ۔ میری حالت خراب ہے، بہت پریشان ہوں۔ میں نے لفافے کو پھر سے بند کر کے جہاں رکھا تھا، وہیں رکھ دیا۔ میرے شوہر نے لفافہ سپر ڈاک کر دیا تو میں نے شکرانے کے نفل پڑھے کہ خیریت گزری جو اس کو خبر نہ ہوئی۔ اس کے آٹھ دن بعد ابا جان آگئے ۔ جب انہوں نے گھر میں قدم رکھا تو میں نے لاکھ کوشش کی صبر سے بات کروں ، مگر صبر کہاں اس وقت تو مجھے سب دکھ یاد آگئے اور جی بھر کر روئی ۔ ابا جان ایک دن بڑی مشکل سے رکے۔ کچھ کھایا نہ پیا اور قمر سے کہا کہ اس کی ماں سخت بیمار ہے۔ بیٹی کو لینے آیا ہوں ۔ قمر ابو کے سامنے انکار نہ کر سکا اور بولا کہ اس کو جلد واپس پہنچا دینا اور اکیلے میں مجھ سے کہا کہ خبردار والدین کو کچھ نہ بتانا ، ورنہ جان سے مار دوں گا۔ ماں نے جب میرے حالات سنے تو خوب روئیں ۔ ابا سمجھانے لگے تو ان کے پاؤں پڑگئیں۔ بولیں۔ یہ میرا کیا دھرا ہے۔ جب تک زندہ ہوں، میں اس کو اس ظالم کے پاس جانے نہ دوں گی۔ میرے دل میں بھی اب قمر کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ پندرہ روز بعد جب وہ مجھے لینے آیا میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ کہہ دیا کہ جان سے بھی مار ڈالو تو اس کے ساتھ نہ جاؤں گی ۔ وہ واپس چلا گیا اور وہاں جا کر مجھے طلاق بھجوا دی۔ مجھے اب شادی سے نفرت ہو چکی تھی۔ جب کسی لڑکی کو دلہن بنا ہوا دیکھتی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی کہ ہائے اللہ کیا اس بچاری کا بھی مجھ سا انجام ہوگا۔ فیصلہ کر لیا کہ اب کبھی شادی نہ کروں گی۔ میری ایک خالہ کا لڑکا ہمارے گھر میں رہنے لگا تھا۔ ایک دن وہ ہماری امی کے آگے بہت رویا کہ خوش بخت جیسی لڑکی کے آپ نے بخت جلا دیئے۔ وہ اب طلاق یافتہ بھی ہے تو مجھے قبول ہے۔ اب اگر آپ نے اس کی اور کسی سے شادی کی تو میں آپ کے گھر سے چلا جاؤں گا۔ آپ کو پھرا کیلے ہی رہنا ہوگا۔ میں نے اس کی ساری باتیں سنیں، مگر چپ رہی۔ ہمارے گھر خالو کے ایک دوست کا لڑکا زبیر سے ملنے آتا تھا، اس کا نام ابراہیم تھا۔ زبیر کی وجہ سے کوئی اس سے پردہ نہیں کرتا تھا۔ ایک دن ابراہیم نے امی سے کہا۔ میں آپ کی بیٹی کو سہارا دینا چاہتا ہوں ۔ بے شک اسے طلاق ہو گئی ہے، مگر اس کو دوبارہ گھر بسانے کا حق ہے۔ امی یہ سن کر چپ ہوئیں کیونکہ جانتی تھیں کہ ابراہیم کی منگنی ہو چکی ہے۔ انہی دنوں زبیر کی امی، خالہ بانو ہمارے گھر آگئیں اور انہوں نے امی کو رضامند کر لیا۔ خالہ بھی غریب تھیں، لہذا کسی نے زیور جوڑوں وغیرہ کا مطالبہ نہیں کیا۔ چار دن میں میری شادی کی تیاری ہو گئی ، جس دن میری شادی تھی ابراہیم آگیا۔ امی سے شکایت کی کہ میں نے خوش بخت کا رشتہ مانگا تھا اور آپ نے میرے آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ میں آپ کو بتا کر گیا تھا کہ صرف پندرہ دن کے لئے دبئی جا رہا ہوں۔ مجھ میں کیا کمی تھی دبئی میں کاروبار سبھی کچھ تھا۔ اگر آپ مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دیتیں تو آپ کی بیٹی کو میں بہت خوش رکھتا۔ اتفاق سے کمرے کی کھڑکی سے زبیر یہ سب سن رہا تھا۔ بس اتنی سی بات نے اس کے دل میں شکوک نے جنم لے لیا۔ میرا تو ابراہیم سے کچھ تعلق بھی نہ تھا۔ وہ جب ہمارے گھر ز بیر سے ملنے آتا تو میں اس کے سامنے بھی نہ جاتی تھی۔ اس نے غالباً میری داستان سن رکھی ہو گی اور ہمدردی میں رشتہ مانگ لیا ہو گا لیکن میری زندگی میں تو سیاہی بھر گیا۔ زبیر سے میری شادی تو ہو گئی مگر اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ شادی کی رات انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کیا ابراہیم سے بھی تمہاری بات چیت ہوئی تھی میں نے جواب دیا۔ نہیں کبھی بات نہیں ہوئی ۔ پھر وہ تمہاری میری شادی سے اتنا پریشان کیوں تھا مجھے نہیں معلوم ۔ یہ میرا مختصر جواب تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ابراہیم نے میرے بارے زبیر کو کوئی بات کہی ہوگی، بہر حال شادی کی رات ان کی طبیعت خراب ہو گئی اتنی کہ اسپتال لے جانا پڑا۔ پتا چلا کہ انہوں نے خواب آوار گولیاں کھالی ہیں۔ خیر ، فوراً طبی مدد ملی اور وہ تین روز بعد ٹھیک ہو گئے۔ وہ دن اور اس کے بعد کے سبھی دن جو ہمارے ایک ساتھ گزرے، ان کے دل سے شک نہ گیا۔ انہوں نے مجھ سے کلام پاک پر بھی قسم لی، مگر تب بھی میرا اعتبار نہ کیا۔ پہلے کام چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔ امی ابا نے ملازمت چھوڑنے پر پریشانی کا اظہار کیا تو مجھ سے بول چال چھوڑ دی۔ آخر مجھے میرے والدین کے گھرلا کرچھوڑ دیا۔ یوں مجھ تباہ حال کی قسمت ایسی لکھی گئی تھی کہ مجھے پیدا ہونے کہ بعد کوئی گھر راس نہ آیا۔ والد وفات پا گئے، پھر امی چل بسیں اور میں انہی کے گھر میں تنہا ہی زندگی کے دن پورے کرتی رہی۔ اب بھی وہی چھت میری پناہ گاہ، میرا سائبان ہے۔ خدا مجھ ایسی قسمت کسی کو نہ دے۔ | null |
null | null | null | 190 | https://www.urduzone.net/zehni-mareez/ | ساتویں جماعت میں ہماری ایک ٹیچر بہت خوبصورت تھیں لیکن کچھ دن ان کی شادی چلی اور پھر طلاق ہوگئی۔ وہ دوبارہ اسکول آنے لگیں۔ ایک روز، دوسری ٹیچر نے ان سے طلاق کی وجہ پوچھی تو وہ بولیں کہ میرا شوہر مینٹلی ڈس آرڈر تھا، اس لئے میں نے طلاق لے لی۔ اس وقت مجھے اس جملے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا لیکن اب آگیا ہے۔ وہ کیسے آپ کو بتاتی ہوں ۔ جن دنوں میں آٹھ سال کی تھی، ہمارے گھر کا ماحول عجیب بحران کا شکار تھا۔ ابا زیادہ وقت گھر سے باہر رہا کرتے اور اماں دن بھر سلائی کرتی تھیں۔ والد جب گھر آتے، امی سے پیسے مانگتے۔ ان کے جو پلے ہوتا چپ چاپ دے دیتیں ، پھر بھی وہ اُن سے حسن سلوک نہ رکھتے۔ والدہ چپ چاپ ان کی زیادتیاں سہتی تھیں۔ شاید، اولاد کے جوان ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہمارا باپ جب گھر میں قدم رکھتا، ہم یوں سہم جاتے جیسے چوہے بلی کو دیکھ کر سہم جاتے ہیں، کیونکہ ماں کے ساتھ ہم بھی کبھی کبھی باپ سے تشد د کا نشانہ بن جاتے تھے۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے نانی کا مکان تھا، جس میں نانی، ماموں ممانی اور ایک خالہ رہتی تھیں۔ بچوں کے دل میں کب یہ ارمان نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ماں کو اچھے کپڑوں میں دیکھیں ۔ ایک دن ہم سب بہن بھائیوں نے ماں سے فرمائش کی کہ وہ اچھا سا سوٹ پہنیں۔ انہوں نے ہماری فرمائش پر نجانے کب سے رکھا ہوا ریشمی ساٹن کا غرارہ سوٹ نکالا اور پہن لیا۔ ہم سب خوش ہو گئے اور اپنی ماں کو اشتیاق سے دیکھنے لگے۔ آپ اسے اتفاق کہہ لیں یا اماں کی بد قسمتی کہ اس وقت ابا تشریف لے آئے۔ آتے ہی پوچھا۔ یہ ریشمی جوڑا پہن کر تم کس کے گھر گئی تھیں میری ماں نے لاکھ کہا کہ وہ کہیں بھی نہیں گئیں تھیں، بچوں کے کہنے پر پہنا ہے، پر ابا نے اس بات پر یقین نہ کیا اور بولے۔ تم جھوٹ بول رہی ہو اور مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ انہوں نے اماں کو گھسیٹا اور مارنے لگے۔ ہم سب بچے سہم کر دیوار سے چپکے اپنی ماں کو مار کھاتے دیکھتے رہے اور روتے رہے، مگر ابا کے سامنے چوں تک نہ کر سکے۔ وہ یہی کہتے جا رہے تھے کہ تم ابھی کہیں سے ہو کر آرہی ہو۔ اتفاق سے میں آگیا، ورنہ مجھے کہاں خبر ہوتی ہے کہ تم میرے پیچھے کیا کرتی پھرتی ہو۔ ماں رو دھو کر چپ ہو گئیں۔ بھلا کسے کچھ کہنے کی مجال تھی والد تو بھوکے شیر کی طرح گھر میں ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ اس دن کے بعد میری مسکین اور محنت کش ماں نے کبھی اچھے کپڑے نہ پہنے، نہ ہی ہم نے پھر فرمائش کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار امی گھر میں اکیلی تھیں اور ابا بھی بیٹھے تھے کہ ایک عورت ماں سے کپڑے سلوانے آئی ۔ اس کو دیکھتے ہی وہ آگ بگولہ ہو گئے اور کچھ کہے بغیر ایک گھونسہ امی کے منہ پر جڑ دیا۔ ماں کے منہ سے خون نکل آیا۔ ابا گرج رہے تھے کہ خبردار آئندہ یہ عورت یہاں نہ آئے ، حالانکہ یہ عورت پہلی بار ہمارے گھر آئی تھی۔ ابا نے عورت کے بارے میں کچھ نہ بتایا کہ کیوں اس کے بارے ایسا کہا ہے۔ ان کے جانے کے بعد میری ماں بیچاری اس دن اتنا روئیں کہ شاید ہی کبھی اتنا روئی ہوں گی۔ میں نے پوچھا بھی کہ ابا نے کیوں اس عورت کے لئے ایسا کیا ہے کیا وہ اسے جانتے تھے یا وہ اچھی عورت نہیں ہے وہ کچھ نہ بولیں، بس اتنا کہا۔ اگر مجھے تم لوگوں کا خیال نہ ہوتا تو کبھی کی گئی ہوتی۔ اس وقت میں نادان تھی ، اب سمجھ گئی ہوں کہ ابا کو دراصل شک یا وہم کی بیماری تھی یا وہ ذہنی مریض تھے اور ان کو علاج کی ضرورت تھی ، یعنی ابا مینٹلی ڈس آرڈر تھے۔ امی کو ابا نے بہت رسوا کیا تھا کہ یہ عورت میری وفادار نہیں ہے، حالانکہ میری شریف ماں نے کبھی اکیلے گھر سے قدم باہر نہ نکالا تھا۔ وہ سب جاننے والوں میں کہتے پھرتے تھے کہ یہ عورت دراصل میری نہیں ہے، کوئی ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتا تھا کیونکہ سبھی اماں کو جانتے تھے کہ وہ ایک پاک دامن اور نیک خاتون ہیں، جو دن بھر مشین چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں اور شوہر نجانے کہاں غائب رہتا ہے۔ خدا جانے والد کی مضطرب طبیعت کیسی تھی کہ نہ خود چین سے رہتے تھے اور نہ کسی کو چین سے رہنے دیتے تھے۔ میری پھوپھی ، چچی چچا سب امی کے طرف دار تھے۔ وہ ابا کو ہی غلط کہتے تھے۔ ہر ایک ان کی عادتیں جانتا تھا۔ میری پھوپھی صرف دو سال کی تھیں ، جب ہماری دادی فوت ہو گئی تھیں تبھی ان کو امی کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔ انہوں نے ان کو اولاد کی طرح پالا پوسا اور جب ان کی شادی ہو گئی تو ہمارے باپ نے ان کا بھی گھر میں آنا جانا بند کر دیا۔ ہم ان کے لئے تڑپتے تھے اور وہ بھی ۔ امی پھوپھی کو یاد کر کے روتیں مگر شوہر کے ڈر کی وجہ سے ملنے نہ جاتیں کبھی کسی قریبی رشتہ دار کی شادی پر البتہ ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ میری بڑی بہن کی شادی ہوئی مگر وہ سسرال والوں سے سمجھوتہ نہ کر سکیں تو ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ انہیں سسرال والے ہمارے گھر چھوڑ گئے ۔ جب ان کو دورہ پڑتا وہ اول فول بکتیں ۔ ایک روز ابا بیٹھے بیٹھے بولے۔ یہ پاگل نہیں ہے، بنتی ہے۔ میں اس کو ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔ وہ لکڑی لے کر باجی کو مارنے لگے۔ امی سے نہ دیکھا گیا، تو رونے لگیں ۔ ہم سب بھی رونے لگے۔ ابا نے باجی کو مار مار کر بے دم کر دیا اور بولے ۔ اب یہ اسی طرح ٹھیک ہوگی ۔ چند دن بعد پھر انہوں نے بیٹی کو بید سے مارا کہ اچانک دولہا بھائی آگئے ۔ انہوں نے جو دیکھا کہ علاج اس طرح ہو رہا ہے تو وہ باجی کو ساتھ لے گئے ۔ امی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہاں سے تو وہاں اچھی رہے گی اور واقعی، دولہا بھائی نے جب ان کا علاج کروایا اور سسرال والوں نے بھی پیار دیا تو وہ ٹھیک ہوگئیں۔ اور وہ رات تو مجھے خون کے آنسو رلاتی ہے، جب امی بخار سے تڑپ رہی تھیں اور ابا ان کے سامنے بیٹھے ، بے فکری سے سگریٹ پی رہے تھے۔ میری ماں رات بھر بخار میں پھنکتے ہوئے صبح ہر غم سے نجات پاگئیں۔ ان کو پوری زندگی سکون نہ ملا مگر قبر میں جا کر تو سکون ملا ہوگا۔ وہاں تو کوئی انہیں ستانے والا نہ تھا، مگر انہیں کیا خبر کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنی پیاری نند کے حوالے کر کے گئیں، ان کے شوہر نے انہیں اس خاتون کی ممتا سے بھی محروم کر دیا ہے۔ پھوپھی اب بھی ہمارے گھر نہیں آسکتی تھیں ۔ خدا جانے ابا کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی چھ بیٹیاں ہیں۔ بیٹا ایک ہی ہے لیکن اسے بھی ماں کے پیار کی ضرورت ہے۔ پھوپھی میرے بھائی کو بہت چاہتی تھیں، بھائی بھی ان کو چاہتا تھا لیکن والد اس کو بھی برداشت نہ کرتے کہ گھر میں ماں کے نہ ہونے سے بیٹیوں کو کیسی مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے وقت تو اپنے بھی آنکھیں بدل لیتے ہیں۔ ابا گھر پر ہوتے تو سارا گھر بے چینی کا شکار رہتا، وہ سب کو مشکل میں ڈالے رکھتے۔ انہوں نے ایک روز بھائی کو بھی گھر سے نکال دیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ بغیر اجازت پھوپھی سے ملنے چلا گیا تھا۔ بھائی کے جانے سے ہم اور بھی غیرمحفوظ ہوگئیں، کیونکہ باپ کے بعد بھائی ہی بہنوں کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں مگر یہ نجانے کیسا غیرت مند باپ تھا، بیٹیاں تنہا رہیں تو پروا نہیں مگر کوئی رشتہ دار ہم سے ملنے نہیں آسکتا۔ خالہ اگر خالو کے ساتھ آجاتیں تو خالو گیٹ سے اندر نہیں آسکتے تھے۔ خود ہفتوں بعد بھی نہ آتے تو پروا نہیں۔ خرچہ پورا نہ دیتے ، پھوپھی چوری چھپے کچھ بھجوا دیتیں یا ماموں ممانی دے جاتے ۔ عجیب کسمپرسی کی زندگی تھی۔ ابا نے دوسری شادی کر لی۔ وہ عورت اچھی تھی۔ ہمارا احساس کرتی، مگر اس کا بھائی اس کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ لڑکا ٹھیک نہ تھا۔ ابا کا خیال تھا نوکری والا ہے، اپنی کسی لڑکی کا بیاہ اس سے کر دیں گئے وہ مگر مجھ پر بری نظر رکھنے لگا۔ سوتیلی ماں ہمارا خیال کرتی تھی سو اس سے بھی اس کے بھائی کی شکایت نہ کر سکتی تھی کہ اس کا دل میلا نہ ہو جائے۔ یہ بات میں کسی کو نہ بتا سکتی تھی اور خوف کے مارے سو بھی نہ سکتی تھی۔ عادت کے موجب، ایک روز ذراسی بات پر ابا نے دوسری بیوی کو بھی دھنک کر رکھ دیا۔ پھر کیا تھا۔ اس نے تو اسی وقت سامان اٹھایا اور اپنے بھائی کو لے کر چلی گئی۔ ابا سے بولی ۔ میرا بھائی کماؤ ہے، مجھ کو پال لے گا مگر تیری بچیاں بن ماں کے ہیں۔ ان کا خیال کون رکھے گا جب وہ چلی گئی تو ابا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ناچار نانی کو منت سماجت کر کے لے آئے اور اس کے بعد ایسے گئے کہ پھر نہ لوٹے۔ خدا جانے کوئی حادثہ ہو گیا یا کیا ہوا ماموں نے تھانے اور جیل سے بھی پتا کروایا مگر وہ نہ ملے ۔ ہم نے دعا کی کہ جہاں رہیں، عافیت سے رہیں مگر ہمیں ستانے کے لئے نہ ہی آئیں تو اچھا ہے۔ بیچارے ماموں نے ہمارا بکھیڑا یوں سمیٹا کہ ہم سب کو گھر لے آئے اور اپنی بیٹی سے میرے بھائی کی شادی کر دی۔ وہ ابا کے گھر رہنے لگے اور ہم بہنیں ماموں کے گھر ، یوں ماموں نے رفتہ رفتہ سب بہنوں کی شادی کی۔ ایک چھوٹی رہ گئی تھی، وہ پھوپھو کے پاس چلی گئی ۔ اس طرح ہمارے گھر تو بس گئے مگر ہمارے ابا کے گھر کا گھروا ہو گیا۔ اب سوچتی ہوں کہ کہیں میرے والد مینٹلی ڈس آرڈر کا شکار تو نہ تھے کیا خبر، مردوں کو یہ مرض کن حالات میں لاحق ہوتا ہے اور ان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔ کیا خبر ابا کسی پاگل خانے میں ہوں ۔ ایسا سوچتی ہوں تو بھی دکھ ہوتا ہے۔ خدا جانے ہمارے معاشرے کے یہ دکھ کب دور ہوں گے اور ان کو کون دور کرے گا | null |
null | null | null | 191 | https://www.urduzone.net/zinda-laash/ | والد کشمیری اور والدہ ایرانی تھیں۔ دونوں ہی حسین تھے۔ اللہ نے مجھے بھی بے پناہ حسن سے نواز دیا۔ تبھی کسی کو خاطر میں نہ لاتی کہ مجھے اپنے خوبصورت ہونے پر ناز تھا۔ خاندان کے لڑکے سبھی کہتے ، لڑکی تو ہیرا ہے لیکن اس کا دل پتھر کا ہے۔ جتنی بھی قدر کرو، یہ موم ہوتا ہی نہیں۔ دل آویز خان ہمارے دور کے رشتے داروں میں سے تھا۔ اس کی والدہ نے مجھے شادی میں دیکھا تو امی کے ہاتھ پکڑ لئے کہ مہ ناز پرور کو میری بہو بنا دو، عمر بھر تابعدار رہوں گی۔ والد صاحب میری شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کرانا چاہتے تھے لیکن دل آویز کی ماں پیچھے پڑگئی۔ بالآخر والد صاحب کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ یہ لوگ امیر کبیر تھے ۔ سوچا اپنے بھتیجے کے پاس کیا رکھا ہے ، اس پر تعلیم یافتہ بھی نہیں۔ بہتر ہے کہ بیٹی کا مستقبل دیکھوں اور رشتہ داری پر اولاد کو قربان نہ کروں۔ ابو نے آنٹی فریدے کا بھرم رکھا اور ان کے بیٹے سے میری بات پکی کر دی جو پنڈی میں اعلیٰ افسر تھے۔ میرے سسرال والوں کا شمار شہر کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ یہ ایک بھائی، چار بہنیں تھیں۔ اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ شروع میں ساس، سسر اور نندوں نے بہت خیال رکھا۔ دل آویز خان بھی واری صدقے ہوتے تھے۔ ان دنوں یوں محسوس ہوتا جیسے میں ہی اس راج دھانی کی ملکہ ہوں۔ جس کو اپنا گھر، اپنی جنت کہتے ہیں۔ بہت جلد خدا نے ایک بیٹا دے دیا۔ میں اسے پا کر نہال اور اس کے پیار میں سرشار ہو گئی۔ جن دنوں سلیمان ڈیڑھ سال کا تھا میرے جیون ساتھی کا تبادلہ ہو گیا اور ہم پنڈی سے پشاور چلے گئے۔ دوسری بار امید سے تھی، تبھی ننھے سے ماں کا دودھ چھڑانا تھا۔ یہاں آکر سکون تو ملا لیکن ننھے سلیمان کو اکیلے سنبھالنے کی مجھے عادت نہ تھی۔ دادی کا وہ دلا را، میری نندوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ زیادہ وقت وہی سنبھالتے اور میں آرام کرتی۔ یہاں آکر پتا چلا کہ اکیلے رہ کر بچہ سنبھالنا کس قدر دشوار امر ہے۔ بیٹے کا دودھ چھڑایا تو وہ ہلکان ہو گیا۔ اب سلیمان کا یہ حال کہ وہ دادی اور پھوپھیوں کو یاد کر کے روتا۔ رات کو اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ ہماری ساس سارا دن سلیمان کیلئے طرح طرح کے کھانے تیار کرتی تھیں۔ جو وہ کھاتا، وہی بنا دیتیں۔ کبھی قیمے والی کھچڑی تو کبھی آلو کے کٹلس، سوجی کا حلوہ غرض سو طرح کے کھاجے بناتیں کہ بچہ کچھ تو کھالے گا۔ ایسانہ ہو کمزور ہو جائے۔ پشاور آکر مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ سب سکھ حاصل تھا۔ شوہر بھی ہر طرح سے خیال رکھتے تھے لیکن سلیمان نے پریشان کر دیا تھا۔ میرے ہاتھ کی پکی کوئی چیز نہ کھاتا، فیڈر بھی نہ لیتا۔ چھوٹا اتنا تھا کہ زبردستی نہ کر سکتی تھی۔ جب کھانے کی کوئی چیز منہ تک لے جاتی، ہونٹ بھینچ کر چہرہ دوسری طرف موڑ لیتا۔ بازار کی کوئی شے دل آویز خان بچے کو نہ کھلانے دیتے کہ پیٹ خراب ہو گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا لخت جگر روز بروز کمزور ہوتا گیا، کھڑا ہوتا تو گر پڑتا تھا۔ اپنے شوہر کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھی کہ وہ پل بھر بھی میرے بغیر نہیں رہتے تھے۔ ادھر بچے کو دادی اور پھوپھیوں کی اداسی کھائے جاتی تھی۔ بالآخر یہی فیصلہ کیا کہ کچھ دنوں کیلئے پنڈی چلی جائوں تا کہ سلیمان اپنی دادی اور پھوپھیوں سے مل لے۔ دل آویز خان کافی افسردہ تھے۔ شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا ہم جدا ہونے جارہے تھے۔ شوہر کو اداس دیکھ کر میرا دل گھبرانے لگا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تبھی وہ بولے۔ ناز، کیوں روتی ہو۔ ارے بھئی دو ہفتے کیلئے ہی جارہی ہو، عمر بھر کیلئے تو نہیں میں نے آنسو پونچھ دیئے اور اس وقت تک انہیں دیکھتی رہی جب تک کہ وہ ہماری نظروں سے او جھل نہ ہو گئے۔ سلیمان گھر پہنچ کر پر سکون ہو گیا۔ دادی اور پھوپھیوں کو دیکھتے ہی نہال تھا۔ ایک کی گود سے اترتا تو دوسرے کی گود میں چڑھ جاتا۔ اس کی دادی نے گاجر کا حلوہ بنایا، بڑے شوق سے کھایا۔ وہ جو چیز بنا کر اسے کھلاتیں، پیٹ بھر کر کھاتا اور رات بھر آرام سے سویا رہتا۔ ساس نے مجھے کہا۔ بیٹی ناز، تم مجھ سے کچھ کھانا بنانا سیکھ لو، خاص طور پر سلیمان کی پسند کی چیزیں جو وہ شوق سے کھاتا ہے۔ روز دو تین قسم کے کھانے بنالیا کرو اس کیلئے، ایک کو نہ کھائے گا تو دوسری ڈش کھالے گا۔ جب سے ہم پنڈی آئے تھے، واقعی سلیمان نے رغبت سے کھانا شروع کر دیا تھا۔ سونے سے پہلے ہماری ساس خود اسے کھلادیتیں اور وہ ساری رات کروٹ بھی نہ لیتا ، صبح سویرے اٹھتا تھا اور اس کے اٹھنے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی شے مثلاً گھیر ، سوپ ، دلیہ وغیرہ تیار کر دیتی تھیں۔ سسرال میں رہ کر سلیمان کی طرف سے مجھے بہت آرام تھا لیکن دل آویز صاحب روز فون کر کے پوچھتے تھے۔ ہاں بھئی تو کب آنے کا پرو گرام ہے اتنے دن گزر گئے تمہارے بغیر، اب تو آجائو۔ آنٹی تو سلیمان کی خاطر ابھی بھی روکتی تھیں کہ کچھ دن اور ٹھہرو، بچے میں ذرا جان پڑی ہے تو جانے لگی ہو۔ وہاں جا کر یہ پھر سے کمزور ہو جائے گا۔ آخر کب تک خان صاحب نے چھٹی لی اور مجھے خود لینے آگئے۔ پشاور آکر جی اور برا رہنے لگا۔ سلیمان نے پھر سے و ہی روش اپنالی۔ کچھ نہ کھانا اور روتے رہنا۔ دل آویز نے یہ حل نکالا کہ ایک اچھی میڈ کی تلاش میں دن رات ایک کر دیا جو بچے کو سنبھالنے ، اسے کھلائے، پلائے، نہلائے اور مجھے آرام کرنے دے۔ بہت جلد ایک میڈ کا انتظام ہو گیا۔ یہ ادھیڑ عمر تھی اور دو بچوں کی ماں تھی۔ اس کو رہنے کا ٹھکانہ درکار تھا۔ ہمارے صاحب نے سرونٹ کوارٹر دے دیا۔ اس نے آتے ہی سلیمان کو سنبھال لیا۔ اسے بچوں کی پرورش کا تجربہ تھا۔ یوں بھی نیک اور مخلص عورت تھی۔ خاوند اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا اور دو سال سے اس کا کچھ پتا نہ تھا۔ یہ بیچاری بچوں کا پیٹ پالنے کو ہمارے گھر ملازمہ بن کر آگئی تھی اور اسے لانے والا ہمارا چوکیدار تھا جس کی زیب بی بی رشتہ دار تھی۔ زیب چونکہ ضرورت مند تھی لہٰذا اس نے سلیمان کے فرائض اچھی طرح سنبھال لئے ۔ طرح طرح کے مزیدار کھانے بناتی تھی اور اس کے دونوں بچے سلیمان کے ساتھ کھیلتے۔ وہ بہت خوش رہنے لگا۔ مجھے ایک بڑی پریشانی سے نجات مل گئی ، سکون سے ہو گئی۔ زیب ایک گھریلو عورت تھی۔ میرے دیگر گھریلو کام بھی کر دیتی تھی۔ میں اس کی شکر گزار تھی اور وہ میری شکر گزار تھی کہ اب میں اور سلیمان رات بھر بھر پور نیند سوتے تھے۔ جن دنوں میرے یہاں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع تھی، زیب کا گمشدہ خاوند لوٹ کر آگیا اور وہ ہم سے معذرت کر کے اپنے گھر چلی گئی۔ شوہر نے اسے ملازمت کرنے اور گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ وہ دوبارہ نہیں آئی البتہ اس بار چوکیدار نے ایک ایسی خاتون کا انتظام کر دیا جس نے نرسنگ ٹریننگ لی تھی اور ایک اسپتال میں بطور نرس کچھ عرصے کام بھی کیا تھا۔ اس کا نام شمسہ تھا۔ مطلقہ تھی، معمولی شکل وصورت تھی۔ سراپا پرکشش تھا، لباس نک سک سے درست اور حلیہ ہر وقت ٹھیک رکھتی تھی۔ یعنی سلیقے میں باکمال تھی۔ بات کرنے میں بھی ایک طریقہ تھا۔ قصہ مختصر بڑی اسٹائلش قسم کی تھی۔ پہلی بار جب ادب کے ساتھ گھل مل کر باتیں کیں تو مجھ کو اچھی لگی۔ اس میں کچھ ایسے ہنر تھے کہ مالکہ ہونے کے باوجود میں نے اس سے دوستانہ رویہ اختیار کر لیا۔ اب وہ میری ملازمہ نہیں بلکہ میری سہیلی بن گئی تھی۔ ہم ایک میز پر ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے اور جب میں بور ہوتی تو وہ شگفتہ شگفتہ باتوں سے بناتی ۔ جی خوش ہو جاتا۔ کچھ ہی دنوں بعد میرے ہاں ولادت متوقع تھی اور اب بالکل ہی گھر کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ شمسہ ہمارے سارے معاملات دیکھتی۔ نوکر، خانساماں سبھی اس کی نگرانی میں کام کرتے تھے۔ سودا سلف منگوانا، اس کی دردسری تھی۔ مہینے بھر کے راشن، کچن کے سامان کی لسٹ وہ پہلے سے تیار کر لیتی ہے تھی۔ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے زیادہ سمجھدار رتھی۔ ہر معاملے میں خوب سوجھ بوجھ سے کام لیتی۔ سلیمان کو بھی کچھ اس طرح رجھا لیا کہ وہ زیب کو بھول کر آنٹی شمسہ کا گرویدہ ہو گیا۔ شمسہ کی عمر تیس کے لگ بھگ ہو گی لیکن اپنا خیال رکھنے کی وجہ سے وہ بمشکل سترہ اٹھارہ کی نظر آتی۔ میرے خاوند کو بھائی صاحب کہتی۔ میرے گمان سے تو وہ بھی اسے بڑے بھائی ہی کی نظر سے ہی دیکھتے تھے اور سسٹر شمسہ کہا کرتے تھے۔ جتنا سکون زیب نے دیا، اس سے کہیں زیادہ شمسہ سے ملا۔ بچے کی پیدائش کے وقت میں اسپتال میں تھی۔ اس نے سلیمان اور گھر کو سنبھالا ۔ جب میں ننھی بیٹی لئے گھر آئی تو شمسہ نے بہت خوشی منائی۔ ہماری ساس سفر نہ کر سکتی تھیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو بھیج دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ اپنی بھابی اور بچوں کو لیتی آنا۔ سلیمان کیلئے تو بہت اداس تھیں۔ جب تک پشاور میں رہی، شمسہ نے میری خوب دیکھ بھال کی۔ اب چھلا ہو گیا تھا۔ نندوں نے اصرار کیا۔ بھابی امی کے پاس چلئے ، وہ اپنی نو مولود پوتی کیلئے بہت اداس ہیں۔ سلیمان کے بابا نے بھی کہا۔ ہاں ہاں چلی جائو ، ان لوگوں کا ساتھ ہے پھر کیسے جا پائو گی ۔ امی جان تمہارا شدت سے انتظار کر رہی ہیں۔ کچھ دن وہاں آرام کر لو ، جب فون کرو گی لینے آجائوں گا۔ مجھے خان کی فکر نہ تھی۔ شمسہ تو گھر میں تھی ہی۔ میرے والد ان دنوں بیمار تھے اور ان کی فکر کھائے جاتی تھی۔ میں پنڈی آگئی ۔ خان صاحب کا پہلے روز فون آجاتا پھر ہفتہ بعد آنے لگا۔ مجھے یہاں آئے ایک ماہ بیت گیا، لینے بھی نہ آئے تو میں نے فون کر کے کہا۔ اب آجایئے ہیں اور بچے آپ کیلئے بہت اداس ہیں۔ بولے ایک ضروری دورے پر کل جانا ہے ، ہفتہ بعد آکر لے جائوں گا۔ انہی دنوں والد شدید بیمار پڑ گئے اور پھر رضائے الہی سے وفات پاگئے۔ میرے خان وفات پر آئے اور ایک روز بعد واپس پشاور چلے گئے۔ اس موقع پر میں ساتھ نہ جاسکی کیونکہ امی کے پاس رہنا واجب تھا۔ ابو کے چالیسویں تک میکے میں رہی اور پھر واپسی کی تیاری باندھ لی۔ حیرت اور دکھ اس بات کا تھا کہ میرے والد کی فوتگی پر غیروں کی طرح آکر چلے گئے تھے ، حالانکہ اس دوران دو تین بار آنا ان کا بنتا تھا۔ پنڈی سے پیشاور بہت دور نہ تھالیکن میری اور والدہ کی دلجوئی کو اپنے فرائض منصبی کا بہانہ کر کے نظر انداز کر دیا اور میں سوچتی رہ گئی۔ ایک روز ہمارے خانساماں کا فون آگیا۔ تعزیت کے بعد کہا۔ بی بی آپ کو گئے بہت دن ہو گئے ہیں۔ اب لوٹ آیئے ۔ خان صاحب کو اتنے دن اکیلے چھوڑ دینا درست نہیں ہے، فوراً آیئے۔ باباشاہ کے لہجے سے چونک گئی۔ کوئی ایمر جنسی لگتی تھی۔ خدا خیر کرے۔ میرے خان ٹھیک ہوں ۔ ایسے تو بابا نے بھی فون نہ کیا تھا۔ ابو کی تعزیت کے بہانے سے فون کر کے مجھے جیسے ہوشیار کرنا چاہتے ہوں۔ میں نے رخت سفر باندھا اور ڈرائیور کے ساتھ پشاور چلی آئی۔ مجھے یوں اچانک دیکھ کر شمسہ حیران رہ گئی۔ وہ گھر میں ہی تھی حالانکہ خان کہتے تھے۔ میں نے اسے چھٹی دے دی ہے۔ جب تم آئو گی آجائے گی، ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ شمسہ تم موجود ہو خان تو کہہ رہے تھے کہ ناز بی بی میں آج ہی آئی تھی آپ کا پتا کرنے ، ویسے میں چھٹی پر ہی تھی۔ شکر ہے کہ تم آج آگئی ہو، ورنہ دو بچوں کو سنبھالنا اکیلے تو میرے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ خان صاحب ہم کو دیکھ کر بظاہر خوش ہو گئے۔ بچوں کو پیار کیا، بولے تم نے اچانک آکر سر پرائز دیا ہے ورنہ میں کل روانہ ہو رہا تھا تم لوگوں کو لینے آرہا تھا۔ کچھ دن معمول کے مطابق گزرے۔ میں نے سلیمان اور فرحان دونوں کی ذمہ داری شمسہ پر ڈال دی۔ خود آرام سے سو جاتی۔ ابو کی وفات کے بعد ویسے بھی کافی ڈسٹرب رہی تھی۔ یہاں آکر لگا سکون کی وادی میں آگئی ہوں اور جنت میں قدم رکھ دیا ہے۔ کچھ دنوں بعد ایک روز کچن میں گئی تو خانساماں شاہ بابا نے میرے کان میں کھسر پھسر کی ۔ بی بی اس کم ذات شمسہ کو نکالو ور نہ پچھتائو گی۔ کیوں بابا یہ بدنیت آپ کے گھر بار پر قبضہ نہ کرلے میں دنگ رہ گئی شاہ بابا کے منہ سے ایسی بات سن کر کانوں پر یقین نہ آیا کہ خان بابا ایک ذمہ دار اور سنجیدہ بزرگ تھے۔ وہ ہر گز حقائق سے بعید محض کسی شک یا گمان کے تحت اتنی بڑی بات نہ کر سکتے تھے۔ میں بھی شک کی بھٹی میں جلنے لگی لیکن کوئی ثبوت نہ تھا کہ شمسہ سے باز پرس کرتی۔ اس کا رویہ پہلے جیسے ہی تھا اور خان بھی اس سے لئے دیئے رہتے تھے ، تاہم اپنے اندر کی کھولن آرام نہ دیتی تھی۔ بلا جواز شمسہ سے الجھنے لگی۔ بات بات پر ٹوکنے لگی۔ اسے برا لگتا لیکن نوکری اس نے پھر بھی نہ چھوڑی۔ میں بھی اسے نکالنے کا سوچ کر سوچ میں پڑ جاتی تھی۔ اگر یہ چلی گئی تو کیا کروں گی دو چھوٹے بچوں کو کیسے سنبھالوں گی۔ اتنے سارے کام بچوں کے اکیلی کیونکر سر انجام دوں گی اتنی اچھی خدمت گار پھر کہاں ملے گی ایسا نہ ہو وہم کے مارے اس کو نکال بیٹھوں پھر بعد میں پچھتائوں، گویا وہ میری زندگی کا لازمہ بن گئی تھی۔ ایک روز دل آویز خان نے کہا کہ وہ لاہور سرکاری کام سے جارہے ہیں۔ تین دن بعد لوٹیں گے۔ ان کے جانے کے بعد اگلے روز شمسہ نے بھی چھٹی مانگ لی۔ کہنے لگی۔ میری امی بیمار ہیں اور مجھے ان کے پاس نو شہرہ جانا ہے۔ ابھی چھوٹی بہن کا فون آیا ہے ،امی شدید بیمار ہیں۔ وہ پریشان لگ رہی تھی۔ میں نے جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ اگر ضرورت ہو تو میں گاڑی، ڈرائیور تمہارے ساتھ بھیج دوں کہنے لگی۔ شکریہ میں چلی جائوں گی۔ اس نے ہفتہ بھر کی چھٹی لی تھی۔ دو دن میں ہی دونوں بچوں نے رورو کر میرا برا حال کر دیا۔ دن میں تارے دکھا دیئے۔ پچھتانے لگی کہ کیوں اتنے سارے دنوں کیلئے اس کو رخصت دے دی، میاں کو تو آنے دیا ہوتا۔ خدا جانے یہ عور تیں کیسے اپنے چار چار ، پانچ پانچ بچے سنبھالتی ہیں۔ دل آویز خان کو گئے تیسرا دن تھا کہ چھوٹا بیٹا بیمار ہو گیا۔اسے اسہال کے ساتھ بخار نے آلیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو ، فرحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ دونوں بچوں کو لے کر میں بچوں کے ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ گھر لوٹتے ہوئے ایک جگہ ہماری گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی۔ سامنے ایک ریسٹورنٹ نظر آرہا تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے شمسہ اور اپنے خاوند کو اس ریسٹورنٹ سے نکلتے دیکھا۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ گویا دونوں اسی شہر میں تھے اور دونوں نے مجھ سے جھوٹ بول کر میری آنکھوں میں دھول جھونکی تھی۔ یہ وقت کیسے گزرا، کیا بتائوں۔ دونوں کے واپس آنے تک انگاروں پر بسر ہو رہی تھی۔ بالآخر دل آویز آئے، چھوٹا بچہ کافی بیمار تھا، میرا جھگڑا اس وقت بنتا نہ تھا لیکن خود پر قابو نہ رکھ سکی اور پھٹ پڑی۔ ان کو مجھ سے ایسی امید نہ تھی۔ بچے کی بیماری کا خیال کرتے ہوئے مجھ پر ہاتھ نہ اٹھایا۔ غصے میں آگ بگولہ گھر سے چلے گئے۔ شمسہ کو انہوں نے مطلع کر دیا کہ اب گھر مت جانا۔ وہ نہ آئی لیکن کچھ دن بعد میری امی کے ماموں کا فون آگیا جو کہ پشاور میں ہی رہتے تھے لیکن ہمارے گھر نہیں آتے تھے۔ بولے ناز بیٹی احمد خان میرا دوست نکاح خواں ہے۔ اس کے ذریعے پتا چلا ہے کہ دل آویز خان نے شمسہ نامی خاتون سے نکاح کر لیا ہے اور میں نے تصدیق کر لی ہے کہ تمہارے شوہر نے نکاح کیا ہے۔ فی الحال تمہاری ماں کو نہیں بتایا کہ وہ سوگ کی حالت میں ہے اور عدت میں ہے۔ تم کو بتارہا ہوں، حوصلہ رکھنا اور کوئی ایسا قدم مت اٹھانا جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے نقصان دہ ہو۔ ساس کو فون کیا۔ اس نے بھی کہا کہ مردوں سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ اچھی بیوی کی طرح اپنے بچوں کی خاطر حالات سے سمجھوتہ کر لو اور اپنے گھر کو چھوڑ کر مت جانا۔ اس وقت میں اس قدر صدمے میں تھی کہ مجھے کسی کی نصیحت ، کسی کی آواز بھی سنائی نہ دے رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا۔ رشید بابا مجھے پنڈی لے چلو اور چابیاں میں نے چوکیدار کے حوالے کر دیں کہ جب صاحب آئیں تو ان کو دے دینا، وہ شوق سے دوسری بیوی کو گھر لے آئیں۔ بس یہی میری غلطی تھی۔ جب آشیانہ چھوڑا تو وہ ہمیشہ کیلئے چھوٹ گیا۔ ماں کہا کرتی تھیں۔ بیٹی جب ایک چڑیا اپنا گھونسلا چھوڑ کر اڑ جاتی ہے تو وہ دوسری کیلئے جگہ چھوڑ دیتی ہے پھر اس میں دوسری چڑیا آجاتی ہے۔ میکےآ کر امی کو بھی نہ بتایا میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ سوگ کی حالت میں ان کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی مگر دکھ برداشت بھی نہ ہو رہا تھا۔ سوچا ہی نہیں کہ امی بیچاری کی کفالت کرنے والا نہیں رہا، میری کفالت کون کرے گا۔ ایک ہفتہ بمشکل ضبط کیا اور پھر شاہ بابا کو فون کیا۔ شاہ بابا، کیا صاحب گھر آگئے ہیں ہاں بی بی وہ آگئے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی آپ کا پوچھا۔ جب بتایا کہ آپ بچوں کو لے کر چلی گئی ہیں تو چھ سات دن بعد وہ دوسری بیوی کو گھر لے آئے۔ اسی بدبخت شمسہ کو آپ صاحب کے آنے سے پہلے کیوں گئیں بی بی آپ کو ان کا انتظار کرنا چاہئے اپنا گھر نہ چھوڑنا تھا۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ دل آویز اپنے بچوں کی خاطر میرے پاس ضرور آئے گا لیکن اس مغرور کو شاید اپنی دولت کا گھمنڈ تھا۔ وہ نہیں آیا لیکن مجھے طلاق بھجوا دی۔ اس نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا کہ بچوں کی ماں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ عدالت نے بڑا بیٹا باپ کے حوالے کرنے کا آرڈر دیا اور چھوٹی کو میرے پاس رہنے دیا۔ سلیمان سات سال کی عمر میں اس ۔ عمر میں اس لئے باپ کی حوالگی میں دے دیا گیا کہ اس کی غریب ماں اس کی ضروریات بحسن و خوبی پوری نہ کر سکے گی جبکہ باپ اس کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا مقدور رکھتا تھا۔ بچے کے اچھے مستقبل کی خاطر یہ فیصلہ ہوا تھا لیکن یہ کسی نے نہ سوچا کہ وہ تو میرے جگر کا ٹکڑا اور میری امیدوں کا مرکز تھا۔اس کا وجود میرا سہارا تھا، میری زیست کا دیپک اسی سے جلتا تھا اور اب میں زندہ ہو کر بھی مردہ ہوں۔ بیٹی بھی شاید باپ کے پاس چلی جائے۔ بے شک کہ میں نے اس روز اپنے شوہر سے بد زبانی کی تھی۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ بے شک میں آرام طلب تھی، کام سے میری جان جاتی تھی لیکن کسی عورت کو سگھڑ نہ ہونے کی اتنی بڑی سزا تو نہ ملنی چاہئے ۔ آج ساس کہتی ہیں کہ پھوہڑ تھی اس لئے اپنے بخت کو ٹھکراگئی اور میرے بچوں کا باپ کہتا ہے سگھڑ نہ تھی، طلاق اس لئے نہیں دی بلکہ اس لئے دی کہ بغیر اجازت کیوں میرا گھر چھوڑ کر گئی۔ اگر اس دن گھر چھوڑ کر نہ جاتی تو میں ناز کو کبھی طلاق نہ دیتا۔ | null |
null | null | null | 192 | https://www.urduzone.net/laluch-kay-teen-harf/ | ایک غریب دھوبی کا گدھا برے حالوں زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ اس کی پیٹھ زخمی ، پیٹ خالی اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ بے چارہ بے آب و گیاہ پہاڑیوں کے درمیان پھر تا رہتا تھا۔ کہیں سبزہ آگیا تو منہ مار لیا ورنہ اللہ اللہ ۔ ان پہاڑیوں کے قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا۔ جس میں ایک خوفناک شیر رہتا تھا۔ ایک دفعہ اس شیر کا ایک جنگلی ہاتھی سے مقابلہ ہو گیا۔ اس مقابلے میں شیر سخت زخمی ہو گیا۔ چند دن میں وہ لوٹ پوٹ کر بچ گیا۔ لیکن شکار کرنے کے قابل نہ رہا۔ اپنی کچھار میں چپ چاپ پڑا رہتا۔ جب کئی دن اسی طرح گزر گئے تو جنگل کے دوسرے چھوٹے درندوں میں سخت تشویش پیدا ہوئی۔ کیونکہ وہ شیر کے پس خوردہ پر ہی گزر کرتے تھے۔ اب ان کو یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ اگر شیر کا یہی حال رہا تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ ایک دن شیر نے ایک لومڑی کو بلایا اور اس سے کہا کہ کسی گدھے یا گائے کو باتوں میں لگا کر میرے پاس لاتا کہ میں آسانی سے اس کا شکار کرلوں۔ جب اس کے گوشت سے میرے جسم میں کچھ توانائی آجائے گی تو پھر اچھا شکار کروں گا۔ تھوڑا سا میں کھاؤں گا اور باقی تم اور تمہارے بھائی بند کھائیں گے۔ لومڑی نے کہا بہت بہتر میں اپنی مکاری کے جال میں کسی نہ کسی کو پھانس ہی لوں گی۔ یہ کہہ کر لومڑی کسی شکار کی تلاش میں روانہ ہوئی۔ راستے میں اس کو وہ خستہ حال گدھا نظر آیا۔ اس نے بڑے ادب سے گدھے کو سلام کیا اور کہا کہ صاحب آپ ان چٹیل پہاڑوں کے درمیان کیسے گزر اوقات کرتے ہیں۔ گر ہے نے کہا کہ آسودہ حالی اور عسرت سب خدا کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں عسرت لکھ رکھی ہے اور میں اسی پر راضی ہوں۔ چرندوں، پرندوں، کیڑوں مکوڑوں غرض کا ئنات کی ہر چیز کا رازق اللہ ہی ہے۔ وہ مجھے جتنا رزق دیتا ہے اور جیسے بھی دیتا ہے میں اس پر شکوہ کیوں کروں۔ لومڑی نے کہا حضرت لوگ توکل کا صحیح مفہوم نہیں سمجھتے اور گمراہ ہو جاتے ہیں۔ توکل کوشش کرنے میں ہر گز مانع نہیں ہے اور پھر یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات بھی نہیں۔ پیغمبر خدا نے اگر چہ فرمایا ہے کہ قناعت ایک خزانہ ہے مگر یہ خزانہ ہر ایک کو نہیں ملتا۔ آپ کو روزی حاصل کرنے کے لیے کوششن کرنی چاہیے۔ گدھے نے کہا میں نے آج تک نہیں سنا کہ کوئی شخص قناعت سے مر گیا ہو اور کوئی حریص آدمی محض اپنی کوشش سے بادشاہ بن گیا ہو۔ اگر کوئی ذی نفس تعجیل میں مبتلا نہ ہو تو رزق خود بخود اس کے پاس پہنچ جائے گا۔ لومڑی نے کہا کہ یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ کوشش کے بغیر کامیابی محال ہے۔ غرض لومڑی اور گدھے میں دیر تک اسی طرح بحث و تکرار ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دونوں تھک گئے۔ آخر لومڑی نے آخری پانسہ پھینکا اور کہا کہ حضرت اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑی۔ یہاں قریب ہی ایک وسیع سبزہ زار ہے جس میں ہر طرف چشمے اور ندیاں بہہ رہی ہیں اور کمر کمر تک گھاس اُگی ہوئی ہے۔ یہ سبزہ زار تمام جانوروں کے لیے بہشت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر آپ اس بیابان میں ایڑیاں رگڑتے رہیں تو اس کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ بیچارہ بھوکا پیاسا گدھا یہ دار نہ سہہ سکا اور لومڑی کے ساتھ چل پڑا۔ ابھی وہ شیر کی کچھاڑ سے کچھ دور تھے کہ شیر نے گدھے کو دیکھ لیا۔ گو وہ چلنے پھرنے سے عاجز تھا لیکن بھوک سے جان لبوں پر آئی ہوئی تھی صبر نہ کر سکا اور بلندی سے چھلانگ لگا دی۔ گدھے نے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو الٹے پاؤں بھاگا اور ہانپتا کانپتا اپنے بیابان میں پہنچ گیا۔ لومڑی نے شیر سے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ تھوڑی دیر صبر کرتے تو یہ گدھا کبھی بیچ کر نہ جاسکتا تھا۔ شیر نے کہا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھوک نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا۔ اے عقلمندوں کی سردار اب پھر کوئی ترکیب کر کہ یہ گدھا پھر میرے پاس آجائے۔ لومڑی ۔ نے کہا جہاں پناہ میں تو اپنی کر گزروں گی لیکن اب کی بار آپ جلد بازی نہ کیجئے گا۔ شیر نے کہا میری تو بہ جب تک گدھا میری زد میں نہ آجائے میں کان تک نہ ہلاؤں گا۔ اب لومڑی دوڑتی ہوئی پھر گدھے کے پاس پہنچی۔ گدھے نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ اے حرافہ میرے ساتھ تجھے کیا دشمنی تھی جو تو مجھے شیر کا لقمہ بنانے لے گئی۔ لومڑی نے مسمسی صورت بنا کر کہا کہ واہ صاحب واہ آپ کو خوب دھوکا ہوا۔ بات یہ ہے کہ یہ محض آپ کی نظر کا واہمہ تھا۔ اس سبزہ زار میں جو بھی پہلی دفعہ جاتا ہے اس کو خیالی شیر نظر آتا ہے اور وہ خوفزدہ ہو کر اس میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتا۔ اگر یہ جادو کی ڈھٹ بندی نہ ہوتی تو یہ سبزہ زار کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔ حقیقت میں وہاں کوئی شیر و یر نہیں ہے۔ گدھے نے کہا اری مکار زیادہ بکواس نہ کر اور یہاں سے دفع ہو جا۔ تیری صورت پر جو لعنت برس رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تو جھوٹی ہے اور میرے خون کی پیاسی ہے۔ ایک دفعہ موت کے کنوئیں سے نکل کر میں دوبارہ اس میں نہ کو دوں گا۔ لومڑی نے کہا کہ آپ نا حق مجھ سے بد گمان ہو گئے ہیں۔ میرے دل میں آپ کے خلاف مطلق کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ آخر آپ نے میرا کیا بگاڑا ہے۔ دوستوں سے کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہیے۔ یقین کرو کہ وہ صرف جادو کی ڈھٹ بندی تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو اس جنگل میں دوسرے جانور کیسے سلامت رہ سکتے تھے۔ غرض لومڑی نے کچھ ایسی چکنی چپڑی باتیں کیں کہ نادان گدھا پھر اس کے فریب میں آگیا اور اس کے ساتھ پھر اپنے مقتل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب وہ شیر کے قریب پہنچا تو اس نے ایک ہی پنجہ مار کر بیچارے کو ڈھیر کر دیا۔ اتنی سی محنت سے معذور شیر کو پیاس لگ گئی اور وہ ایک چشمے پر پانی پینے چلا گیا۔ اس کی غیر حاضری میں لومڑی گدھے کا دل اور جگر مزے سے چٹ کر گئی۔ شیر واپس آکر اپنے شکار کے کھانے میں مشغول ہوا تو گدھے کے جسم سے دل اور جگر غائب پایا۔ لومڑی سے پوچھا کہ اس کا دل اور جگر کدھر گیا لومڑی نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ جہاں پناہ اس کا دل اور جگر ہو تا تو دوبارہ آپ کا شکار بننے کے لیے یہاں کیسے آتا | null |
null | null | null | 193 | https://www.urduzone.net/dunyadar-darweish/ | ایک دن میں نے بہت غصّے اور جلن کی حد تک پہنچ کر خداوند تعالی سے کہا تھا۔ اے میرے مالک یہ کیسی تپش ہے جسم سلگ رہا ہے، روح تڑخ رہی ہے اور تیری دنیا کے لوگ ہیں کہ آکر مجھ سے کہتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کروں تو ہی بتا میرے مالک ایسی ناتوانی میں طاقت کہاں سے لاؤں دل تو چاہتا ہے کہ ایک چھڑی ہوا میں لہراؤں اور جس کی جو بھی مانگ ہو ، جھٹ پوری کردوں، مگر میری ایسی اوقات کہاں میں جو بذات خود ایک ناکام، نااہل، نالائق انسان ہوں جو نہ دین کی ہے نہ دنیا کی، بھلا تیرے سامنے میری دعائیں کیا اہمیت رکھ سکتی ہیں یہ شرف تو برگزیدہ اشخاص کو ملتا ہے۔ وہ تیرے سامنے جھولی پھیلاتے اچھے بھی تو کتنا لگتے ہیں اور میں۔ میں تو بہت ہی گناہ گار اور بے کار انسان ہوں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب مجھ سے دعائیں مانگنے کا کہہ کر میرا مذاق اڑا رہے ہیں یا آئینہ دکھا رہے ہیں ان سب کو کیسے سمجھاؤں کہ جب یہ مجھ سے دعا مانگنے کا کہتے ہیں تو مجھے اپنے وجود سے اور بھی نفرت ہونے لگتی ہے۔ دل چاہتا ہے میرے مالک میں کہیں روپوش ہو جاؤں ۔ ایسی جگہ چلی جاؤں کہ نظر آنا بند ہو جاؤں یا پھر ان سب کے سامنے میری اصلیت کھل جائے دوسرے ہی لمحے مجھے اپنے بلاوجہ کے جذباتی پن پر ہنسی آنے لگی۔ ایک شیطانی خیال سا کوندا۔ ایسا بھی کیا مسئلہ ہے جب بھی کوئی دعا کرنے کا کہے تم بھی جھٹ سر پر دوپٹہ ڈال کر بڑے مذہبی سے تاثرات چہرے پر طاری کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر بڑبڑا دیا کرو۔ کم از کم جو دعا کی درخواست کر رہا ہے اسے تو اطمینان ہو جائے گا ناں پھر میں سوچنے لگی کہ آخر یہ سب کب اور کیسے رونما ہوا وہ کون سا دن تھا یا تاریخ تھی جس روز مجھ سے پہلی بار کسی نے دعا کے لیے کہا تھا یاد کرنے پر بھی یاد نہ آیا بس اچانک ہی جیسے میرے ارد گرد ایسے لوگ جمع ہونے لگے، جو ٹوٹے دل اور شکستہ شخصیت کے حامل تھے۔ دنیا سے مایوس اپنوں کی بے رخی کا زخم کھائے، جب وہ میرے آگے اپنی محرومیوں اور امیدوں کی پٹاری کھولتے تو مجھے لگتا میں ایک گہرے کنویں میں بیٹھی ، اوپر گول دائرے میں نظر آتے آسمان کو تک رہی ہوں ۔ جب میری اپنی ہی بصارت اتنے محدود آسمان کی حامل تھی تو بھلا کسی اور کے لیے میں راستے کی راہیں کہاں سے نکال سکتی تھی مگر پھر بھی میں خیالوں میں اپنے حصے میں آئے، محدود گول دائرے جیسے آسمان کو تکتی جاتی اور پھر کسی بے اختیار لمحے میں سامنے والے کے لیے دعا مانگ لیتی۔ اتنا تو میں کر سکتی تھی اور کر بھی دیتی تھی۔ اور یہ الگ طرح کا معمہ تھا میرے لیے کئی دنوں سے یہ بھی سننے کو ملنے لگا تھا کہ جس نے بھی مجھ سے دعا کروائی تھی ان میں سے دو چار کے لیے کی گئی دعا واقعی قبول ہوگئی تھی ۔ اب کیا یہ ضروری ہے کہ میری ہی دعا قبول ہوئی ہو یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہی دعا کسی اور کے لبوں سے نکل کر بارگاہ الہی میں قبولیت کے درجے تک پہنچی ہو اور میرے لبوں سے نکلی دعا آسمان کے کسی نچلے درجے میں ہی ایک کر رہ گئی ہو سب سے بڑا شکر کا مقام تو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے دعا قبول ہونے پر کامیاب انسان کے نام ، ایسا کوئی رقعہ نہیں نکلتا جو اسے یہ بھی بتا دے کہ اس کے لیے کی گئی دراصل کس کی دعا قبول ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اکثر ہمیں یہ پتا نہیں چلتا کہ آخر ہمارے ہاتھ آئی چند لمحوں کی مسافت پر موجود دیرینہ ، دل لبھائی اور پسندیدہ منزل دوسرے ہی لمحے ہمارے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کا نصیب کیسے بن جاتی ہے کیا یہ صرف قسمت کا کھیل ہے یا اس میں کسی انسان کی بدنیتی، بد دعا یا پھر شدت طلب کا بھی لینا دینا ہے اور اگر وہ جو مجھے لگتا تھا کہ میرے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ مجھے ہی سونپا جائے گا اور میرے ساتھ ہی بوڑھا ہوگا کسی اور کے ساتھ خوش و خرم، مکمل اور جامع نظر آ رہا ہے تو اس کے پیچھے ایسا کیا راز ہے جو صرف مجھے ہی سمجھ میں نہیں آرہا یا پھر ایسا دنیا میں ہوتا ہی ہے، بیچ میں کسی ولن کے آئے بغیر دو محبت کرنے والے بچھڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی نہیں۔ بس ہوتا یوں ہے کہ اس معمولی سی بات کے بعد، بغیر جتائے بغیر بتائے، ناکامی کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اور اب سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ دور دونوں طرف برابری سے چلتا ہے۔ اس وقت جب میں نے نیا نیا ناکام ہونا شروع کیا تھا تو مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اگر آپ زندگی میں تسلسل سے نا کام ہونا شروع کر دیں، تو لوگ آپ کو ناکام کہنا چھوڑ دیتے ہیں بلکہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آپ دنیادارنہیں ہیں اور جو دنیادارنہیں ہوتے وہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتے ہیں ۔ ہو بھی سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو مگر میرا معالمہ ذرا مختلف ہے، میرے ساتھ یوں ہوا کہ وہ شخص نہیں ملا تو جیسے میرا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ کھاتی پیتی ہوں مصروف لاتعلق اور بے پرواہ دکھائی دینے کے لیے۔ نوکری بھی کر رہی ہوں مگر کئی سال ہوئے میں نے آئینہ نہیں دیکھا ۔ کسی بھی تقریب کے لیے خود کو سنوارا نہیں ، تعلقات استوار رکھنے کی کوششیں یکسر ترک کر دیں اور اکثر تو یوں بھی ہوا کہ اپنے ساتھ کی گئی کسی کی برائی دیکھ لینے پر غصہ تو کیا حیران تک نہ ہو پائی، جیسے مجھے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ میرے ساتھ یہی ہونا تھا۔ سمجھا جائے تو اب میں ردو عمل دکھانے سے مکمل طور پر قاصر ہو چکی ہوں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ایک مشترکہ کزن کی بیٹی کی شادی میں، ایک خوب صورت سا نوجوان جس کو میں بالکل نہیں جانتی تھی میرے شادی ہال میں داخل ہوتے ہی مجھ سے پر تپاک انداز میں ، ایسے ملا جیسے برسوں کی شناسائی ہو اور پھر یوں میرے ساتھ سائے کی طرح لگ گیا کہ شرمندگی کی محسوس ہونے گئی۔ میں دوسرے بزرگ رشتہ داروں سے علیک سلیک کرتے اس کو بغور دیکھتی بھی جاتی۔ کون ہے یہ کس کا لڑکا ہے کئی سال ہوئے میں نے تو رشتہ داروں سے ایسا کوئی تعلق ہی رکھنا چھوڑ دیا ہے کہ ان کے جوان ہوتے بچے مجھے دیکھتے کے ساتھ ہی ملنے دوڑے آئیں ۔ وہ بھی آج کل کے بچے، جن کے پاس اپنے ہی ماں باپ کے لیے وقت نہیں وہ کسی پھوپھی خالہ کو کہاں گھاس ڈالیں گے ۔ وہ میرے ساتھ سائے کی طرح کچھ وقت رہا، پھر اپنے چھوٹے بھائی کے بلانے پر دوسری طرف چلا گیا ۔ تب میں نے دیکھا کہ اس تقریب میں وہ اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ آیا تھا۔ اس کی ماں جو کہ چند دن پہلے ہی پاکستان اپنی بہن کی شادی پر آئی تھی اور اتفاق سے اسے ہمارے کزن کی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ بھی مل گیا۔ میں شروع میں پہچان نہ سکی مگر میز پر بیٹھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا۔ وہ اپنے دونوں نوجوان لڑکوں کے ساتھ تھی ، پتا نہیں کیوں مجھے نظر انداز بھی کرنا چاہ رہی تھی اور مجھے اپنی آسودہ زندگی کے بارے میں بتانے پر بھی بضد تھیں تب ہی وہ مجھ سے براہ راست بات کرنے کے بجائے کسی نہ کسی بہانے سے میری میز پر ارد گرد بیٹھے دیگر رشتہ دار کے ساتھ بیٹھ کر اپنا حال احوال سنانے لگی۔ یہی کہ وہاں کی زندگی بہت سخت ہے۔ گھر کی صفائی ، برتن کپڑے دھونا ، کھانا پکانا سب خود ہی کرنا پڑتا ہے جبکہ وہاں جا کر بھی ہمارے مردوں میں ذرا بدلاؤ نہیں آتا وہ ویسے ہی سارا کام عورت کے ذمے کر کے بس ایک نوکری کرتے ہیں اوپر سے چاہتے ہیں کہ وہاں پیدا ہونے والے بچے خاص طور سے لڑکوں کی تربیت بھی ، یہاں کی روایت کے مطابق ہی ہو اور یہ کہ حالانکہ وہاں زندگی سخت، تیز اور بہت بے رحم ہے۔ پھر بھی وہاں ہزار قسم کی سہولیات بھی ہیں۔ وہ اور اس کا شوہر ایک دوسرے کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں کیونکہ وہاں یہ اصول ہے کہ میاں بیوی کو ہر روز نہیں تو ہفتہ بھر میں تنہائی ضرور دی جاتی ہے اور یہ وقت وہ دونوں بہت زیادہ خوش رہ کر گزارتے ہیں۔ میں ناچاہتے ہوئے بھی اس کوسنتی چلی جارہی تھی ایک وقت تو مجھے لگا جیسے وہ مجھ پر احسان جتا رہی ہو کہ اگر وہ ہمارے بیچ میں نہ آتی تو ابھی اتنا سب کچھ مجھے برداشت کرنا پڑ رہا ہوتا اور دوسرے ہی لمحے مجھے چڑا بھی رہی ہو کہ دیکھو پینگیں تو تمہارے ساتھ بڑھائیں مگر تنہائی میں وقت میرے ساتھ بتاتا ہے۔ میں انجانے میں ہی، اس کو گھر میں دوڑ دوڑ کر کام کرتے بچوں کو ناشتہ دیتے ان کے بستے ان کو کو پکڑاتے تصور کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی میرا تصور اس طرف بھی گھوم گیا جو میرے لیے نامحرم تھا۔ آفس جانے کے لیے سلیقے سے تیار، اخبار میز کے ایک طرف پھیلائے نظر اخبار پر رکھتا، مگر دوسرے کونے پر موجود پلیٹ میں تلے ہوئے انڈے کو ڈبل روٹی کے ٹکرے کے ساتھ کانٹے میں سلیقے سے پروکر کھاتا ہوا اپنے ارد گرد ہوتے روز کے اس گھریلو ہنگامے سے بے پرواہ اور مطمئن وہ کس قدر جاذب نظر اور پرکشش لگتا ہے۔ مگرعجیب بات تھی، مجھے یہ سب تصور کرنے پر بھی اس کی بیوی سے نہ تو حسد ہی محسوس ہوا اور نہ ہی اس کی زندگی پر رشک آیا۔ وہ مجھ سے لا تعلق سی بنی رہنا چاہتی تھی تو میرا بھی فرض تھا کہ ایسا ہی ظاہر کرتی جاتی جیسے میں اس کی بات سن ہی نہیں پا رہی ہوں۔ ٹھیک ہی تو ہے، میں شاید اس کے لیے اس قدر فعال ثابت نہ ہو پاتی ، بقول اس کی مرحوم والدہ وہ میرے آگے بھیگی بلی بن جایا کرتا تھا۔ میری چھوٹی سی خواہش کو بھی اپنے لیے حکم سمجھ لیا کرتا تھا۔ اس کی والدہ کو ہمیشہ ہی لگتا تھا کہ میں ابھی ان کے بیٹے کو اس قدراستعمال کرتی ہوں تو شادی کے بعد تو وہ میرا بالکل ہی بے دام غلام بن کر رہ جائے گا اور شوہر اگر بیوی کے بے دام غلام بن جائیں تو ہمارے معاشرے میں مرد نہیں سمجھے جاتے۔ لہٰذا انہوں نے جان توڑ محنت کے بعد اپنے لڑکے کو نا مرد ہونے سے بچا لیا تھا۔ اس کی بیوی پہلے تو اس قدر باتونی نہ تھی جیسا کہ اب لگ رہی تھی۔ لوگ کہتے ہیں جو مرد اپنی بیویوں کوخوش رکھتے ہیں وہ ایسی ہی باتونی ہوجاتی ہیں اور اپنے شوہر کی برائی بھی بڑے مان سے کرتی ہیں۔ کھانا شروع ہونے پر وہ اپنے دونوں لڑکوں کے ساتھ دوسری میز پر چلی گئی تھی۔ اتنے میں بڑی پھوپھی ایک ہاتھ میں بڑی سی پلیٹ پر ذرا سی بریانی اور تلی مچھلی کا ننھا سا قتلہ جمائے ، دوسرے ہاتھ سے کرسیوں کا سہارا لیتی لڑکھڑاتی آ کرمیرے پاس بیٹھ گئیں تم بھی جا کر جلدی سے کھانا لے آؤ۔ موئے بیرے تو فورا سمیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ جتنی زیادہ ڈشیں ہوں گی۔ اتنا ہی کم کھانے کا وقت دیتے ہیں یہ لوگ ساری ملی بھگت ہوتی ہے دونوں انتظامیہ اور میزبان کی اور کیا بڑی پھوپھی کو شاید یاد نہیں رہا تھا کہ یہ ان کی ہی سگی پوتی کی شادی ہے۔ اے ذرا ان کی تو سنو امریکہ اب کون سا دور ہے، پل پل کی خبریں ملتی رہتی ہیں یہاں، یہ اور بات کہ ہم کبھی کبھی باہر والوں کو خود سے زیادہ خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ بڑی پھوپھی نے اس کی میز کے ارد گرد جم گھٹا لگاتی لڑکیوں اور ان کی ماؤں کو دیکھ کر راز داری سے کہا۔ ہم نے بھی چھ بچے پالے ساتھ میں ساس، سسر اور دو چھوٹے دیور اور ایک نند کو بھی سمجھو پالا مگر ہم نے تو کبھی اپنے منہ اس طرح اپنی تعریف نہ کی، وہ بھی اس قدر جھوٹ اللہ معافی بڑی پھوپھی کی بات پر میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ یہ بات تو سچ ہے کہ پورا خاندان بڑی پھوپھی کی سلیقہ مندی، خندہ پیشانی اور سسرالیوں کے لیے قربانیوں سے واقف بھی تھا اور خوب سراہتا بھی تھا۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی تو گیا تھا ریاض بڑی پھوپھی کا بڑا پوتا اپنی کمپنی کی کسی میٹنگ کے سلسلے میں امریکہ تو میں نے ہی کہا تھا کہ جارہے ہو بیٹا تو اپنے مرحوم باپ کے چچازاد سے بھی مل لینا، مانا سگا چچا نہیں مگر ہے تو رشتہ دار ہیں۔ وہ بتانے لگا کہ اتنا چھوٹا سا تو گھر تھا کہ دونوں ہاتھ پھیلاو تو کمرے کی چار دیواری سے ٹکرانے لگے۔ اس قدر تنگ سا ڈرائینگ روم اور پھر فرنیچر کے نام پر ایسے گندے پیلے صوفے رکھے ہو تھے ، جیسے گھر والے رات میں اسی پر سوتے ہوں اور سوتے ہی ہوں گے دو ہی تو کمرے تھے پورے گھر میں ایک بیڈ روم ایک ڈرائنگ روم بڑی پھوپھی اپنی دانست میں شاید، مجھے خوش کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہی تھیں مگر میرے حالیہ تراشے گئے خوب صورت تصور کو جیسے کسی نے کنکر مار کر چکنا چور کر دیا تھا۔ میں نے بے چین ہو کر پہلو بدلا ۔ بڑی پھوپھی اپنی ہی دھن میں بولتی چلی گئیں۔ اب کوئی پوچھے کہ اسی طرح رہنا تھا تو یہاں ہی رہ لیتے اللہ بخشے اس کی مرحوم ماں کو ہی بہت شوق تھا کہ امریکہ جائے۔ وہاں ترقی کرے گا، ڈالر کمائے گا، ڈالر تو خاک کمائے، ماں ہی آخر وقت میں مل نہ سکی۔ یہ بھی وہاں جما بیٹھا رہا کہ چھٹی نہیں مل رہی نہیں آسکتا ۔ اور سچ پوچھو تو اس چکر میں ڈالنے والی بھی تو مرحومہ ہی تھی۔ یہ تو جانا ہی نہیں چاہتا تھا اچھی خاصی نوکری بھی کرنے لگا تھا زبردستی سب چھڑا کر وہاں بھیجا گیا ، اصل میں تو مرحومہ کو جلن کسی اور بات کی تھی۔ کسی اور کی بیٹی کے لیے گڑھا کھودا تو اپنا ہی لڑکا اس میں گر پڑا اور کیا۔ آخر وقت تک میں سمجھاتی رہی کہ اتنی ضد اچھی نہیں ہوتی۔ تمہارے آگے بھی بیٹیاں ہیں مگر نہیں بھی اللہ بچائے ایسی حسد کی آگ سے جو اپنا ہی گھر پھونک ڈالے۔ میں دھیرے سے مسکرائی کیونکہ مجھے بڑی پھوپھی پر بڑا پیار آ گیا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ واقعی ایک واحد بڑی پھوپھی ہی تھیں جنہوں نے ہم دونوں کی بات بنانے کے لیے کیا کیا نہ کیا تھا۔ اس نے تو مجھے چھوڑ کر نہ جانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ادھر میرے والدین بھی اس کی والدہ سے کھلے لفظوں میں میری برائیاں سن کر اس سے ہی ناراض ہو گئے تھے۔ اچھا خاصا گھن چکر بن گئے تھے ہم دونوں بہت کھٹن دن تھے وہ، میں اپنے گھر والوں کو مناتی رہتی۔ وہ اپنی ماں کو میری طرف سے دل صاف کرنے کا کہتے نہ تھکتا۔ ہم دونوں اس بات سے بے خبر سے زیادہ نڈر ہو گئے تھے کہ ایسے تماشے رشتہ دار، ساری عمر یاد رکھتے ہیں۔ مگر پھر بھی کوئی کسی رشتہ دار کی برائی میں اس قدر آگے نہیں بڑھ جاتا، جس طرح اس کی والدہ اور بہنیں میری دشمنی پر اتر آئی تھیں۔ پہلے اس کو امریکہ روانہ کیا اس کے بعد تاک میں بیٹھ گئیں جہاں میرا کوئی رشتہ آتا ، وہ سب پتا چلا کر ان لوگوں کو متنفر کرنے پہنچ جاتیں۔ ویسے میں جھوٹ کیوں بولوں ، یہ تو ان سب نے مجھ پر رحم ہی کیا کہ میں تو خود نہیں چاہتی تھی کہ اب میں کسی اور کے گھر جاؤں، حالانکہ یہ بھی جان چکی تھی کہ جدائی ختم ہونے والی نہیں پھر یہ بھی سوچتی کہ کسی کے ساتھ کی خاطر لوگوں کی نظروں میں اس قدر گر جانے کے بعد کیا کسی اور کی نظروں میں اپنے لیےعزت دیکھنا زیب ہی دیتا ہے مجھ کو شروع شروع میں تو ہر رشتہ دار میری برائیاں سن کر محفوظ ہی ہوتا رہا، مگر جب وہ دو سال بعد آ کر یہاں سے ایک غیرخاندان کی لڑکی کو بیاہ کر واپس امریکہ سدھارا تو جیسے رشتہ داروں میں آہستہ آہستہ میرے لیے الگ طرح کی ہمدردی پیدا ہونے لگی اور پھر یہ ہمدردی جانے کب احترام میں بدل گئی۔ کسی کو میری ثابت قدمی بھائی تو کوئی میری خاموشی سے متاثر ہو گیا۔ پھر بڑی پھوپھی کچھ سنبھل کر مجھے غور سے دیکھ کر ایک بار پھر تیز تیز لہجے میں بولنے لگیں۔ اور بھئی ترقی کیسی وہی جان توڑ محنت جو وہاں کرتے ہو یہاں کر لو تو شاید ملک کے حالات بھی سنور جائیں۔ یہاں تو بڑی اچھی نوکری مل گئی تھی۔ سب چھوڑ چھاڑ ماں کی ضد پر گیا مگر وہاں قدم نہ جما سکا۔ پہلے ٹیکسی چلائی کسی شرابی کو گھر پہنچانے پر کرایہ کے ذرا سے جھگڑے پر گولی کھائی پھر زیادہ آمدنی کے چکر میں ٹرک چلانے لگے اور سنا کہ چند ماہ پہلے ایک دن ہائی وے پر ٹرک کولوٹ لیا گیا تو نوکری سے بھی گئے اور اب ٹرک کمپنی کا نقصان پورا کرنے کے لیے بیوی لڑکوں کو بھیجا ہے کہ جا کر ابا سے اپنا حصہ مانگ کر لاؤ۔ اس عمر میں بچارے علیم الدین کو اپنا گھر بیچنا پڑ رہا ہے۔ بقول علیم الدین اس کو آفس سے جو ریٹائرمنٹ پر رقم ملی تھی اس سے یہ مکان کھڑا کیا تھا۔ اس کی تو محنت کی کمائی تھی ناں اور یہ کچھ کما کر دینے کے بجائے الٹا مانگنے آگئے ۔ دونوں بہنیں اپنے حصے کے لیے الگ شور مچا رہی ہیں مگر اس نے تو بات بھی ایسی ڈال دی۔ بچارا علیم الدین کیا کرے۔ سنا ہے کہ کمپنی کا نقصان پورا نہ کیا تو ساری عمر جیل میں گزار ہے گا۔ پلیٹ پر غائب دماغی سے چلتا چمچ میرے ہاتھ سے گر پڑا اور منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا کہ یہی تو چاہ رہا ہے وہ خود کو تباہ کرنے کے لیے ہر حد پار کرے گا۔ بڑی پھوپھی اپنی ہی دھن میں بولتی چلی گئیں۔ اللہ بچائے ایسے متلون مزاج مرد کے ساتھ نباہ کرنا آسان نہیں۔ ہم نے تو سنا ہے با قاعدہ پینے پلانے بھی لگا ہے، وہاں تو فیشن ہی ہے۔ مگر مہنگی بہت ہوتی ہے تب ہی تو آمدنی سے برکت اٹھ گئی۔ ارے ہر کسی کو راس نہیں آتے یہ کفار کے ملک اس قدر دنیا داری میں پڑ گیا جیسے مرنا ہی نہیں اچھا خاصا تھا یہاں اور نماز کی پابندی بھی کرتا تھا وہاں جا کر تو اس نے دنیا کی خاطر عاقبت ہی گنوادی۔ اب یہ دولڑ کے ہیں۔ دیکھو شاید یہ دونوں ہی کچھ طریقے سے زندگی گزار لیں دل چاہا کہ بڑی پھوپھی کو بتاؤں کہ وہ متلون مزاج بالکل نہیں ہے ، ابھی تک جانے انجانے میں اپنی بات پر اڑا ہوا ہے کہ میرے بغیر زندگی نہیں ویسے تو مجھے سب کچھ سن کر دلی طور پر مطمئن ہو جانا چاہیے تھا مگر پتا نہیں کیوں میں خود کو مطمئن محسوس نہیں کر پارہی تھی۔ کئی دنوں بعد، اس طرح کے جذبات محسوس کر کے اپنے زندہ ہونے کا احساس خوش آیندہ بھی تھا مگر ساتھ میں اس کی خانہ خراب زندگی کا تصور کرتے دل بھی دکھ گیا تھا۔ جھوٹ کیوں بولوں مجھے واقعی دکھ محسوس ہو رہا تھا۔ کھانا سمیٹا جا چکا تھا۔ دور دراز کے رشتہ دار آہستہ آہستہ لوٹ رہے تھے اور میرے لیے بھی رکنا مشکل تھا حالانکہ آج میں باقاعدہ بڑی پھوپھی کی بہت بار کی ڈانٹ اور پیار بھری تلقین کے بعد کسی تقریب میں آئی تھی اور یہی سوچا تھا کہ بڑی پھوپھی کی پوتی کی شادی میں اس کی رخصتی تک رکوں گی۔ بڑی پھوپھی کو میری بے چینی کا اندازہ ہو گیا تھا وہ خود بھی کچھ بد مزہ ہو رہی تھیں، بقول ان کے ان کی بہو نے ان کو بتائے بغیر دعوت نامہ بھیج دیا تھا۔ میں نے اجازت مانگی تو انہوں نے باز پرس کے بغیر فورا ہی اجازت دے دی۔ ہاں جاؤ پر سوچنا کچھ نہیں بس جو قسمت میں ہوتا ہے، وہ بھی ہمارے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے ناں بڑی پھوپھی نے الوداعی کلمات کے بعد گلے لگاتے مجھے دلاسا دیا۔ کئی دنوں بعد میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں مگر یہ موقعہ مناسب نہ تھا۔ میں خراماں خراماں ہال سے جانے کے لیے مڑی تو راستے میں اس کا بڑا بیٹا پھر مجھ سے آملا۔ آپ جا رہی ہیں اتنی جلدی۔ آپ کے ساتھ تو کچھ وقت بتانا تھا مجھے۔ وہ زیر لب مسکراتے ہوئے بولا۔ کوئی اور بچہ مجھ سے ایسی خواہش کا اظہار کرتا تو میں با خوشی اس سے کہتی کہ کسی دن شام کی چائے وہ میرے ساتھ پی سکتا ہے۔ میں نے جواب دینے کے بجائے صرف مسکرا کر بات ٹالنی چاہی۔ پتا۔ نہیں کیوں میری خاموشی یا اس کی بات کو نظر انداز کرنے پر وہ بددل سا ہو کر میرے ساتھ چلتا ہوا ہال میں چاروں طرف نظریں گھمانے لگا۔۔ بہت چھوٹا ہوں آپ سے مگر اتنی تو اجازت دیں کہ آپ کو بابا کا پیغام ہی دے سکوں میرے قدم لڑکھڑا گئے، خود کو سنبھالنے کے لیے میں نے اس کا مضبوط بازو تھاما اور ساتھ ہی منہ سے بے اختیار یااللہ نکل گیا۔ ۔ اب وہ عمر نہیں رہی مگر قسمت سے مقام پھر ایسا آگیا کہ بے اختیار دل اچھل کر حلق میں آ ٹکا ہے میں اس کے کچھ اور کہنے سے پہلے بول پڑی۔ مجھے وہ پیغام نہیں سننا ہے۔ وہ چلتے چلتے ٹھٹکا جیسے اسے میری بات پر یقین نہ آیا ہو۔ پھر بچوں کی طرح مچل کر بولا۔ تو پھر جب بابا پوچھیں گے تو کیا کہوں یہی کہنا کہ جب تم نے مجھے پیغام دینا چاہا تو میں نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ میرے صاف جواب دینے پر اسی طرح چاروں طرف دیکھتا، جیسے بس یوں ہی میرے ساتھ چلنے لگا ہو وہ تھوڑی دیر بعد پھر گویا ہوا۔ تو پھر آپ میری ایک التجاہی سن لیں۔ کم از کم بابا کے لیے دعا تو کرہی دیجیے گا۔ میں نے سنا ہے آپ کی دعائیں فورا قبول ہو جاتی ہیں۔ شاید آپ کی دعا بابا کے کام آجائے میں شادی ہال کے داخلی دروازے پر سانس لینے کے لیے رکی اور پھر اپنے ڈرائیور کو گاڑی سمیت دروازے پر منتظر پا کر اس کو کوئی جواب یا اشارہ دیے بغیر آگے بڑھ گئی۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 194 | https://www.urduzone.net/wadi-hayrat/ | اسٹامپ پیپر کو سلیقے سے تین تہوں میں موڑ کر جب میں ، کمرے میں داخل ہوئی تو بابا جان کو اپنا منتظر پایا اور اس کے ساتھ مجھے امی جان کا جملہ بھی سنائی دے گیا۔ چلتی بھی تو آہستہ ہے۔ آنے میں وقت تو لگے گا۔ گو ساری دنیا کو معلوم تھا کہ میں بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئی تھی جس جس کے باعث میری دائیں ٹانگ چھوٹی رہ گئی تھی ۔ میری چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ آگئی تھی اور مجھ سے بھاگنا تو دور کی بات تیز چلا بھی نہ جاتا تھا مگر امی جان ہر وقت ہر کسی کے سامنے اور ہر موقعے پر میری لنگڑاہٹ پر ایک آدھ جملہ کسے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔ وہ شاید اور بھی کچھ کہتیں مگر مجھے دیکھ کر خاموش ہوئیں۔ بابا جان نے ہمیشہ کی طرح بہت تپاک سے میرا استقبال کیا اور میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بابا جان کا رویہ ہمیشہ مجھ سے ایسا ہی والہا نہ رہا مگر صرف رویه وہ بھی کبھی مجھے، میری ذات یا میری انا کو تحفظ نہ دے سکے۔ جب بھی میں نے ان سے مدد چاہی وہ بڑی شدومد سے مجھے یقین دلاتے کہ وہ میرے مطالبے کے لیے امی جان کو ضرور راضی کرلیں گے اور میرے مطالبے تھے بھی کیا جو بچین میں تو کبھی کیے ہی نہیں کیونکہ اتنی عقل ہی نہ تھی مگر ایک عمر کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشات نے سر اٹھایا کہ اچھے رزلٹ کے باعث جس بڑے کالج میں داخلہ مل رہا ہے وہاں داخلہ لے لوں، کالج کا بلا وجہ ناغہ نہ کروں اور پڑھائی کے لیے دن بھر میں کچھ وقت اور اس دو منزلہ بڑے سے گھر میں میرا کمرا نہ سہی مگر پڑھائی کی جگہ مختص کر لوں جہاں کم از کم میری کتب تو سلیقے سے رہ سکیں۔ کچھ ایسے گھریلو کام جو میری توانائی و ہمت سے بڑھ کر تھے، وہ کسی اور کے ذمے ڈال دوں یا پھر اتناہی ہو کہ گھر کا بھی کوئی فرد یا ملازم باورچی خانے میں میری مدد کرے۔گھر کے ڈھیروں کاموں کے ساتھ ساتھ بڑی بھا بھی جو کہ شرعی پردہ کرتی ہیں اور بڑے بھیا کے اصرار پر ان کو گھر کی تقر یباً خالی اور کم استعمال کی جانے والی دوسری منزل میں رہائش دی گئی تھی تا کہ بڑی بھا بھی سکون واطمینان سے کمرے سے باہر بھی بے حجاب رہ سکیں ہمارے ملازم اور گھر کے تمام مرد جو بھابھی کے لیے غیر محرم تھے سب کو سختی سے ہدایات تھیں کہ دوسری منزل پر جانے سے پہلے سیڑھی کے دروازے کو کھٹکھٹا کر جائیں اور بھابی کے جواب کا انتظار کریں۔ ایسے میں چند ہی دنوں میں بھیا، بھابھی کو کھانا، چائے یا کوئی بھی سامان پہنچانے ، دھلے یا میلے کپڑوں کے لینے دینے کی ذمہ داری مجھ پر آپڑی۔ اس کے علاوہ بھی اکثر کئی کام کروانے کے لیے بھا بھی مجھے ہی آواز دیا کرتیں شاید وہ بھی گھر میں میری حیثیت سے واقف ہو چکی تھیں۔ ویسے تومجھے بھائی کے کام کرنا اچھا لگتا تھا میں اپنی بہنوں کے بھی تو کام کیا ہی کرتی تھی مگر مسئلہ یہ ہوتا کہ ایک سے دوبارہی سیڑھیاں چڑھ اتر کر میری جان پر بن آتی۔ میری دائیں ٹانگ میں بے تحاشا درد ہو جاتا شکایت کی صورت میں یہی کہہ دیا جاتا کہ یہ پیر کا درد کالج جاتے ہوئے کیوں نہیں ہوتا یا پھر کالج کی چھٹی کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔ میں ڈر کر چپ کر جاتی اور ہر روز ہی مجھے دو سے تین بار اوپر نیچے کرنا ہی پڑتا۔ میں نے بابا جانی کو بہت بار کہا کہ کسی طرح امی جان سے کہہ کر، بھابھی کی خدمت مجھے معاف کروادیں مگر ہمیشہ ہی ایسا ہوا کہ بابا مجھے امید دلا کر خاموشی اختیار کر لیتے اور میں تھک ہار کر تکلیف سہتی رہتی۔ یہ بھی میری بے خبری تھی کہ میں بابا جان کے اس والہانہ رویے کو اپنے لیے محبت سمجھتی تھی اور اب جا کر حقیقت کا اندازہ کر سکتی تھی۔ خیر گزرگئے وہ دن بھی۔ مجھے دیکھ کر امی جان نے کھسک کر دیوان پر میرے لیے جگہ بنائی مگر میں ان کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ کر بابا جان کی میز کے سامنے رکھی واحد کرسی پر بیٹھ گئی ۔ جس کے باعث امی جان کی طرف میری پیٹھ ہوگئی لہذا میں امی جان کا رد عمل نہ دیکھ سکی مگر مجھے اندازہ تھا کہ میری اس حرکت کو امی جان نے محسوس کر کے ضرور تاسف سے سر ہلایا ہو گا۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی مجھ سے اس رویہ کی امید نہ ہوگی کیونکہ ان گزرے چند مہینوں پہلے اگر امی جان نے مجھے یوں اپنے برابر جگہ دی جاتی تو میں تو خوشی سے پاگل ہی ہو جاتی ۔ کچھ ایسا ہی شوق تھا مجھے ان کے ساتھ ساتھ رہنے کا مگر وہ بھی ایک دور تھا جب امی جان نے مجھے بھی اس طرح کی محبت یا عزت دینا گوارا نہ کیا تھا۔ یا پھر یوں ہے کہ میرے پاس خود بھی اتنا وقت ہی نہ ہوتا تھا کہ اپنی دونوں بڑی بہنوں کی طرح ان کے پہلو سے لگ کر بیٹھوں۔ بچپن میں تو خیر ہمت نہ ہوتی تھی کہ امی جان سے ایسی کوئی امید کروں مگر جب بڑی دونوں بہنوں کی ایک ساتھ ایک ہی گھر میں یعنی بڑی پھوپھی کے دونوں بیٹوں سے شادی ہوگئی اور وہ ہر ہفتے کی صبح سے شام تک کے لیے امی جان سے ملنے آتیں تو ایسا لگتا کہ جیسے کسی نے گوند لگا کر تینوں کو ساتھ بٹھا دیا ہو۔ میں تینوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے کے محبت و عقیدت نچھاور کرتی ، خدمت کی ہر حد پار کر کرتی ان دونوں کے لیے چائے ، ناشتا، کھانا لگاتی اس امید میں رہتی کہ شاید کسی وقت دونوں بڑی بہنوں کو مجھ سے بھی دو باتیں کر لینے کا دل ہو جائے ۔ وہ مجھ سے بھی کہیں کہ مجھے یاد کرتی ہیں مگر اس کے بالکل برعکس یوں ہوتا کہ میں باورچی خانے میں تینوں کے قہقے سن رہی ہوتی، مگر جیسے ان کے سامنے میز پر ناشتا پانی لگاتی کمرے میں خاموشی چھا جاتی اور جب تک میں کمرے میں رہتی تینوں سپاٹ چہرے لیے ادھر ادھر دیکھتی رہتیں۔ کچھ دنوں بعد مجھے لگنے لگا کہ وہ تینوں میری غیرموجودگی میں بھی ایسی خاموش رہتی ہیں بس میرے ہی ہاں کان بجتے ہیں۔ میرے بڑے بھائی بہنوں کے ہاں اولاد ہوتے گئی اور گھر میں خوب رونق لگنے لگی مگر جھوٹ کیوں بولوں ۔ یہ رونقیں میری ناتو اں ذات کے لیے با قاعدہ زحمت بننے لگی تھیں۔ کیونکہ ان رونقوں کو کھلاناپلانا ، نہلانا دھلانا ، سلانا، بیماری میں تیمار داری، سب میرے ذمہ لگ گیا تھا۔ اکثر ہی دونوں بہنیں کبھی بھی کسی بھی وقت اپنے بچے میرے ذمہ چھوڑ جاتیں اور ان کی دیکھ بھال میں کوئی میرا ہاتھ نہ بٹاتا اور تب نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنے والدین کی اپنے لیے اس طرح کی ناانصافیوں کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ دیکھو بیٹا خدا گواہ ہے ہم نے کبھی تم میں اور اپنے بچوں میں فرق نہیں کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ تم ہمیں اپنے بڑے پانچوں بچوں کی طرح ہی عزیز ہو۔ جو ان کو کھلایا، وہیں تم کو کھلایا جو ان کو پہنایا، ویسا ہی تم کو پہننے کے لیے دیا تم سمجھ رہو ہو ناں حالاں کہ اگر میرا مرحوم چھوٹا بھائی اور تمھارا باپ بھی زندہ ہوتا تو شاید کبھی بھی اپنے بیٹی سے یہ بات نہ کر پاتا مگر میں اسے یہی سمجھاتا ، ہم ان میں سے نہیں جو اپنی عزت و وقار کی خاطر اپنی لڑکیوں کو جہنم میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ مانا ہم سے غلطی ہوئی۔ تمہاری شادی کے وقت یہ لوگ جیسے نظر آرہے تھے، ویسے بالکل نہیں نکلے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں تم کو اسی طرح اس جہنم میں جھونکے رکھوں۔ نہیں نہیں یہ میں نہیں کر سکتا آخر مجھے اپنے مرحوم بھائی کو بھی جواب دینا ہے چاہے دنیا کچھ کہے یہ رشتہ دار، محلے والے، دوست احباب مجھے کسی کی بھی پروا نہیں ہے۔ میں نے اور تمہاری امی جان نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بس اب تم کو واپس نہیں بھیجنا۔ ارے تم ہم پر بھاری تھوڑی ہو غضب خدا کا ان لوگوں نے تو تم کوالا وارث ہی سمجھ لیا ہے مگر اب بس بہت ہو گیا بھی اب تم یہیں رہو اور میں تو سمجھتا ہوں کہ جلد از جلد ۔ بابا جان کو کبھی کبھار ہی غصے میں دیکھا گیا تھا اور وہ بھی ان کے دفتری معاملات کا شاخسانہ رہا، مگر آج شاید زندگی میں پہلی بار ان کو اپنے لیے یوں گرجتے دیکھ کر مجھے ان پر بے تحاشا پیار آ جانا چاہیے تھا مگر ایک بار پھر مجھ سے ایسا کچھ سر زد ہو گیا کہ بابا جانی اپنی بات نہ کر سکے اور چند لمحے مجھے غور سے دیکھنے کے عمل بعد ان کی تیوری پر تل پڑ گئے۔ یہ تم کسی طرح میری باتوں پر منہ بنارہی ہو تمہیں لگ رہا ہے میں مذاق کر رہا ہوں یہ بے وقوفوں کی طرح مسکرائے چلی جارہی ہو بابا جانی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی آواز کی گرج کو بر قرار نہیں رکھ سکے تھے، صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میرے رویے سے خائف ہو چکے ہیں ۔ میرے پیچھے بیٹھی امی جان نے بابا کو میرے سامنے یوں کمزور پڑتے دیکھ کر یقیناً پہلو بدلا ہو گا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ بھول جاؤں جب تمہارے لیے یہ رشتہ آیا تھا تب تم نے ہی تو کہا تھا کہ تم کو یہ لوگ پسند نہیں آ رہے۔ اور تم آگے پڑھتا چاہتی ہو اور ہمیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتیں، کتنا روئی تھیں تم یاد ہے ناں بس ہم سے ہی غلطی ہوگئی ۔ دراصل کچھ رشتہ داروں اور میل ملاپ والوں نے ہمارے گھر میں تمہاری رہائش اور تمہارے مستقبل پر رائے زنی شروع کر دی تھی اور ایسے مشہور کرنے لگے تھے جیسے ہم تمہارے تایا تائی نہیں بلکہ دشمن ہوں ۔ لہذا میں نے ہی تمہاری خواہش کو رد کر کے تمہارے بابا جان سے کہا کہ جو بھی رشتہ آرہا ہے، جیسا بھی آ رہا ہے آپ بس اس کی شادی کر کے اسے رخصت کریں۔ میں جانتی ہوں کہ تم نے تو یہی سمجھا ہوگا کہ اس میں ہمارا مقصد تمہارے مرحوم باب کی جائیداد ہڑپ کرنا تھا بلکہ دیکھو ناں اچھا ہی ہوا کہ ہم نے اس وقت تمہاری شادی سادگی سے کر کے رخصت کر دیا تھا۔ ان لوگوں کو اگر پتا چل جاتا کہ تم پیسے والی ہو تو ابھی تک تو تم سے بہت کچھ کھوا چکے ہوتے اور پھر اب جب کہ ہمیں اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا ہے اور تمہارے بابا جان تمہاری ہی خواہش کے مطابق فیصلہ کر رہے ہیں تو ایسا رد عمل کیوں دکھا رہی ہو یہ تو میں مان نہیں سکتی کہ اتنے سے دنوں میں وہ لوگ تمہیں ہم سے زیادہ عزیز ہو گئے ہیں اور اس سے پہلے تو کبھی تم نے ہماری کسی بات پر اقرار کرنے میں اتنا وقت نہیں لیا تو پھر آخر تمہارے دل میں کیا چل رہا ہے امی جان اپنی حیرت ظاہر کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ حالانکہ حیرت میں تو میں تھی کہ زندگی میں پہلی بار مجھے اس قابل سمجھا جارہا تھا کہ میری پسند ناپسند کے بارے میں بات کی جارہی تھی۔ میرے انکار یا اقرار کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ میں نے گہری نظروں سے اپنے منہ بولے والدین کو باری باری دیکھا۔ یہ لوگ وہ تھے جنہوں نے کبھی میرے بھلے کی کوئی بات یا کام نہیں کیا تھا کبھی زندگی میں میرے حق میں کچھ ہوا بھی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کی مرضی سے۔ جیسے کسی وقت خود خداوند تعالیٰ کی قدرت جوش مار جاتی اور ان دونوں کے منہ سے میرے حق میں فیصلہ صادر کروا دیا جاتا ہو۔ ایسا ہی ایک فیصلہ میری شادی کا تھا۔ وہ خاندان جس کو غریب، نادار، بیکار سمجھ کر اور وہ لڑکا جس کو کمتر، نا کام اور نا اہل سمجھ کر مجھے روانہ کیا گیا تھا ان چند ہی مہینوں میں معاشرے میں کافی بہتر انداز میں اپنی جگہ بنا رہا تھا۔ میرے سسر صاحب کی برسوں سے عدالتی کارروائیوں میں پھنسی پرکھوں کی جائیداد ان کو واپس مل چکی تھی۔ میرے شوہر کی نوکری ایک اچھی اور بڑی فرم میں ہو گئی تھی ، میری نند کا ناراض شوہر اپنی بیوی کو عزت سے واپس لے جا چکا تھا اور میرا دیورسی ایس ایس کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔ ایک کے بعد ایک خوش خبری کی مٹھائیاں بانٹتے میری ساس صاحبہ جس سے بھی ملتیں ، میری ہزار ہا تعریف کرتی جاتیں اور ہر بار احسان کی وہ کہانی ضرور سناتیں کہ کسی طرح جوانی میں میرے مرحوم والد نے سسر صاحب کے مشکل وقت میں جان اور پیسے سے ان لوگوں کی مدد کی تھی۔ حالانکہ اس گھر میں ان سب کے درمیان چند ہی دن رہ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس ذرا سے احسان کے بدلے مجھ جیسی کو اپنے خوش شکل صحت مند اور توانا بیٹے کے لیے پسند کر کے انہوں نے دراصل مجھ پر احسان کیا تھا ۔ اس قدر گرمی ہے اس پر ان درندوں کو دیکھو کہ سب کے سب اے سی والے کمرے میں گھسے بیٹھے ہیں اور تم کو باورچی خانے میں جھونکا ہوا تھا۔ اوپر سے اپنی بیاہی بیٹی کو بھی بلا کر بٹھایا ہوا ہے۔ ارے تب ہی تو اس کا شوہر ناراض رہتا تھا، چار دن سکون سے سسرال میں گزارتی نہیں کہ بھاگ کر میکے آجاتی ہے اور بھئی اب تو مفت کی نوکرانی جوملی ہوئی ہے سارے کام تو جیسے خود بخود ہو جاتے ہیں۔ ارے میں جانتی ہوں پورے گھر کی ذمہ داری تم پر ڈال کر سب مزے کر رہے ہیں۔ میں امی جان کے اپنے لیے ہمدردی کے الفاظ سن کر مسکرا کر گویا ہوئی۔ شادی کے چند دنوں بعد ہی میری فرمائش پرسسر صاحب نے اپنی کتب کی الماری سے مجھے ایک کتاب پڑھنے کے لیے دی ۔ وہ ایران کے صوفی فلسفی شاعر فرید الدین عطار کی کتاب منطق الطیر تھی۔ دراصل اس کتاب کا مقصد قاری کو فلسفہ حیات دینا تھا ۔اس کتاب کی رو سے ہر ذی روح جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اپنی پوری زندگی میں سات طرح کے حالات سے گزرتا ہے، ان حالات کو مختلف وادیوں کے نام دیے گئےتھے۔ ان سات وادیوں میں ایک وادی حیرت تھی۔ محبت کی اس وادی میں پہنچ کر ہر بات ہر چیز حیران کرنے لگتی ہے۔ ہر طرف ہر وقت ایسا کچھ ہوتا ہے جو پرانی اورسیکھی ہوئی ہر بات کی نفی کر دیتا ہے اور نئے سرے سے سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ میں اپنے والدین کے سامنے آج تک اس قدر اعتماد اور اطمینان سے بیٹھ کر اس طرح کی باتیں نہ کر سکی تھی۔ مجھے خود پر حیرت بھی ہو رہی تھی اور فخر بھی۔ میں نے چند لمحے سانس لینے کے دوران رک کر بابا جان اور امی جان کو بغور دیکھا۔ آج وہ دونوں میرے آگے دم سادھے بیٹھے تھے۔ میں نے شادی کے چند ہی دنوں میں وادی حیرت کے کئی چکر کاٹ لیے۔ مجھے زندگی میں پہلی بار خاندان میں باہمی ہمدردی، محبت، انسیت، انسانیت اور کئی طرح کے ایسے جذبوں کا پتا چلنا شروع ہوا ۔ مجھے پتا چلا کہ ایک باپ اپنے بچوں کو کس طرح آگے بڑھنے کی ہمت دیتا ہے۔ نئی راہ دکھاتا ہے۔ ایک ماں کیسے اپنے تمام بچوں میں تفریق کیے بغیر سب کو ایک جیسی محبت دیتی ہے اور بھائی بہن کے درمیان محبت کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ چھوٹا بھائی کیسے اپنی محدودی آمدنی میں، اپنی سگی بہن کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی کی بیوی کے لیے بھی چھوٹے موٹے تحائف لاتا ہے۔ نند کس طرح بھابھی کے ساتھ ہر کام میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ ساس کو بہو کی نا ساز طبیعت کا کس قدر اندازہ رہتا ہے اور کیسے انجانے اور را از دارانه انداز میں، خاندان کا ہر فرد ایک دوسرے کی خوشی اور طمانیت کے کام کرتا جاتا ہے ایسے خاندان کا ایک فرد جب کسی لڑکی کو بیاہ کر اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے تو اپنے پورے خاندان کو ملا کر بغیر جتائے بتائے ، وہ اپنی بیوی کو ہر طرح سے خوش و مطمئن رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ امی جان آپ کو اس دن مجھے باورچی خانے میں کام کرتے دیکھ کر افسوس ہوا مگر میں افسردہ بالکل نہیں تھی کیونکہ وہ ایک خوشی کا دن تھا۔ دیور کو ایک بڑا سرکاری عہدہ ملنے کی خبر ملی تھی اور پورا خاندان مل کر اس خوشی کو منانا چاہتا تھا۔ نند اپنے شوہر کے ساتھ دن میں جا کر اپنے چھوٹے بھائی کے لیے کچھ تحائف لائی تھی۔ ساسں صاحبہ اور سسر صاحب اپنے بیٹے کو مسلسل پیار بھری نصیحتیں کر رہے تھے اور شوہر صاحب آفس سے جلدی چھٹی لے کر آنے کا کہہ کر گئے تھے۔ میں نے بھی اپنی خدمات پیش کیں کہ آج دو پہر کا کھانا دیور کی پسند کا میں بناؤں گی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ آج اگر اپنی مرضی اور خوشی سے میں گھر میں زیادہ کام کر بھی لوں گی تو اگلے دن مجھے میری ساس صاحبہ ضرور آرام دیں گی۔ حالانکہ آج کل میری یونی ورسٹی دو ہفتوں کے لیے بند ہے۔ جی ہاں امی جان میرے جابر اور چالاک سسرالیوں نے بہت چاؤ سے مجھے یونی ورسٹی میں داخلہ دلوایا ہے۔ تو ان چھٹیوں میں بھی میرے حصے کے کام میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ ہاں میرے امتحان چل رہے ہوتے ہیں تو مجھ سے میرے حصے کے کام بھی نہیں لیے جاتے ہیں۔ میں تھک جاتی ہوں یا پاؤں کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہوں تو بھی سست کاہل یا کام چور جتانے کے بجائے سارا دن آرام کرنے کا کہا جاتا ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو محبت، خلوص اور اپنائیت مجھے آپ لوگوں سے ملنی چاہیے تھی اس کے نہ ملنے کا اندازہ مجھے سسرال میں جاکر ہوا۔ آپ لوگ اس بات پر پریشان نہیں ہیں کہ میں پریشان ہوں بلکہ اس بات سے پریشان ہیں کہ میں پریشان کیوں نہیں ہوں مجھے ان چند ہی مہینوں میں پتا چلا ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن کے لیے بھاگ بھاگ کر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ محبّت خلوص انسیت اس طرح بھی دکھائی جاتی ہے اور جہاں یہ اعتبار کروا دیا جائے کہ محبت کا جواب محبت سے ہی ملے گا تو چاہے وہ سسرال ہی کیوں نہ ہو سکے۔ ماں باپ ، بھائی بہن کی جگہ ساس سسرنند دیور ہی کیوں نہ ہوں، ان کی خوشی کے لیے جی جان ایک کرنے میں بالکل بھی کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا ۔ میں نے رک کرتایا اور تائی کو دیکھا ان لوگوں کو کبھی میں بڑے چاؤ اور محبت سے ان کے بچوں کی طرح بابا جان اور امی جان پکارتی تھی مگر ان لوگوں نے مجھے کبھی اپنی اولاد کے برابر نہیں سمجھا۔ شاید آج کے بعد میں ان لوگوں سے ایک بیٹی کی طرح ملنے بھی نہ آسکوں لہذا ضروری تھا کہ ان کو مکمل طور پر آئینہ دکھا کر جاؤں۔ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا اسٹامپ پیپر تایا جی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ تایا جی اور تائی جی آپ لوگ جس بات سے گھبرا رہے ہیں، وہ میرے سسر صاحب اور شوہر صاحب مجھے یہاں بھیجنے سے پہلے ہی سمجھا چکے ہیں۔ بقول میرے سسر صاحب اگر ان کے پرکھوں کی جائیداد نہ بھی ملی تو بھی وہ کبھی میرے ذریعے آپ لوگوں سے میرے مرحوم والد کی جائیداد کا حصہ مانگنے کا نہ کہتے ۔ شاید آپ لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ اب کیونکہ میرے سسرال والے با حیثیت ہو چکے شاید آپ سے باقاعدہ عدالتی کارروائی کے ساتھ جائیداد نکلوا لیں گے۔ لہذا اس اسٹامپ پیپر پر میں نے آپ کو اپنے مرحوم والد کی جائیداد رکھ لینے کا لکھ دیا ہے۔ اور اس پر گوہان کے طور پر سسر صاحب اور شوہر صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں۔ تایا جی کو جلدی سے اسٹامپ پیپر میرے ہاتھ سے لے کر پڑھتے دیکھ کر مجھے تھوڑی تکلیف ہوئی شاید دل میں امید باقی تھی۔ عطار کی سات وادیوں میں آخری وادی عشق ہے جہاں پہنچ کر انسان دنیا کی دولت و آسائش سے بے پروا ہو جاتا ہے اور صرف محبت کرتا ہے۔ اسٹامپ پیپر پڑھ کرتایا جی بخود ہو کر مجھے تکنے لگے تھے۔ میں ایک بار پھر مسکرادی۔ میں اس دور سے گزرچکی تھی لہذا اچھی طرح تایا جی کی حالت سمجھ رہی تھی، وادی حیرت اب ان پر طاری ہو چکی تھی۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
Subsets and Splits