Search is not available for this dataset
url
stringclasses 3
values | heading
stringclasses 3
values | content
stringclasses 3
values | ID
float64 0
3.39k
⌀ | URL
stringlengths 29
308
⌀ | Content
stringlengths 1
517k
⌀ | Title
stringlengths 2
256
⌀ |
---|---|---|---|---|---|---|
null | null | null | 195 | https://www.urduzone.net/judai-ka-taweez/ | ہمارے پڑوس میں عربی کے استاد رہا کرتے تھے۔ صفیہ ان ہی کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ ہم نے ساتھ میٹرک کیا تھا۔ ان دنوں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا رواج عام نہ تھا۔ میٹرک کے بعد صفیہ کے والد نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر بیٹی کی شادی کر دی۔ استاد صاحب نیک آدمی تھے۔ وہ حافظ قرآن بھی تھے، محلے کی اکثر خواتین ان سے دعا اور پیار پر درود دعا اور بیمار بچوں پر دم درود کرانے آیا کرتی تھیں۔ صفیہ کے گھر کا ماحول پاکیزہ تھا۔ اس کی تربیت والدین نے مشرقی طرز پر کی تھی۔ وہ والدین کی اطاعت گزار ، صوم و صلوۃ کی پابند لڑکی۔ ہمیشہ حجاب میں رہتی۔ اسکول بھی برقعہ اوڑھ کر آتی تھی، تبھی ماسٹر صاحب نے اپنی بیٹی کارشتہ بھی اپنے جیسے دین دار گھرانے میں کیا تھا۔ شادی کے بعد صفیہ سسرال میں گم ہو گئی۔ وہ سیدھی سادی لڑکی تھی، جس کو دنیا کالالچ یا زمانے کی نمود و نمائش چھو کر بھی نہ گزری تھی۔ کبھی اپنے خاوند سے فرمائشیں نہ کرتی، نہ اپنی ذات کے لئے میک آپ کے آرائشی سامان کے تقاضے کرتی۔ وہ ان چیزوں کا سرے سے استعمال ہی نہ کرتی تھی، پھر بھی اس کا چہرہ صاف ستھرا، دُھلا دُھلا، چمکتا ہوا، پر نور نظر آتا تھا۔ میں کبھی کبھی اس سے ملنے جایا کرتی تھی۔ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتی، خاطر مدارت کرتی۔ وہ اپنے خاوند کے گھر بہت خوش تھی۔ اس کا گھر مجھے سکون کا گہوارہ لگتا تھا۔ اس کا شوہر بھی حافظ قرآن تھا اور ایک سرکاری دفتر میں اوسط درجے کا ملازم تھا۔ میں نے ایم اے پاس کیا تو لیکچرر شپ پائی اور پھر میری شادی ہو گئی۔ میرے شوہر محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ اتفاق سے شادی کے بعد جس فیملی کی بہو بن کر گئی، ان کی رہائش صفیہ کے گھر سے دُور نہ تھی۔ میرے خاوند کا مکان اسی محلے میں تھا، جہاں صفیہ شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی تھی ، اس طرح ہم سہیلیوں کی پھر سے قربت ہو گئی۔ اس دوران صفیہ کے چار بچے ہو چکے تھے تبھی میرے گھر وہ بہت کم آ پاتی۔ میں ہی ایک دو ماہ بعد اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ میرے شوہر اور صفیہ کا خاوند قدیر ایک ہی محکمے میں تھے۔ گرچہ عہدوں کا فرق تھا تاہم میرے سسر اس گھرانے کو اچھی طرح جانتے تھے اور عزت کرتے تھے۔ مجھے انہوں نے بھی صفیہ کے گھر جانے سے منع نہیں کیا تھا۔ میری شادی کو چھ برس ہو گئے اس دوران صفیہ کے گھر دو اور بچوں کا اضافہ ہو گیا، پھر اس کے سسر کا انتقال ہو گیا۔ اس بزرگ کی وفات کے بعد گویا اس گھرانے کے بُرے دن شروع ہو گئے۔ صفیہ کے سُسر محلے کی مسجد کے امام تھے۔ ان کی تنخواہ کے علاوہ بھی لوگ اپنی خوشی اور عقیدت کے باعث ان کو نذر نیاز سے نوازتے تھے، تبھی اس گھرانے کا گزارہ اچھی طرح ہوتا تھا۔ امام صاحب کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد صفیہ کے شوہر کی طبیعت گری گری رہنے لگی تو دفتر سے چھٹیاں کرنے لگے۔ ایک دن میرے شوہر نے بتایا کہ قدیر بیمار رہتے ہیں، تم جا کر اپنی سہیلی کا حال احوال پتا کرو کیونکہ ڈاکٹر نے اُن کو کینسر بتایا ہے۔ خبر نہیں کہ اس بات کا ان کی بیگم کو علم ہے کہ نہیں۔ اپنے شوہر کے کہنے سے میں صفیہ کے پاس گئی۔ وہ واقعی بہت پریشان تھی، تاہم ابھی تک اس حقیقت سے لا علم تھی کہ اس کا سہاگ اس دنیا میں چند ماہ کا مہمان ہے۔ پھر وہ گھڑی آگئی، جب قدیر صاحب کو اسپتال لے جایا گیا اور پندرہ روز بعد ان کی وفات ہو گئی۔ صفیہ جوانی میں بیوہ ہو گئی۔ ابھی سولہ برس پورے نہ ہوئے تھے کہ شادی ہو گئی اور اب وہ چھ بچوں کی ماں تھی کہ بیوگی کی چادر اس پر پڑ گئی۔ اس کا کوئی دیور تھا اور نہ نند۔ سُسر پہلے ہی چل بسے تھے۔ بوڑھی ساس البتہ زندہ تھی، اس بیوہ کا بوجھ بھی اُسے نے اٹھانا تھا۔ بچے سبھی زیر تعلیم تھے اور آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اس پر بہت ہی برے دن آچکے تھے۔ جب گھر میں فاقے ہونے لگے تو ایک دن گھبرا کر وہ ایک مولوی صاحب کے پاس گئی، جو اس کے والد اور سُسر کو جانتے تھے۔ ان سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اب بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ شرم کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتی، مگر گزر بسر بہت مشکل ہو گئی ہے۔ ان بزرگ نے صفیہ کو ایک کتاب دی اور کہا کہ اس کتاب سے تمہارے علم میں اضافہ ہو گا، تعویذ لکھنے میں مدد ملے گی۔ میں تم کو اجازت دیتا ہوں کہ آج سے تم لوگوں کو دعائیں اور تعویذ لکھ کر دو گی اور وظائف بھی بتایا کرنا۔ تم پر اللہ کی رحمت ہو گی۔ اس کتاب میں وظائف لکھے ہوئے ہیں۔ اس وسیلے سے تمہاری محتاجی کٹے گی اور تم کو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت نہ رہے گی، لیکن بیٹی ایک بات میری یاد رکھنا۔ جب بھی کسی دکھی کو تعویز دو تو نیکی اور بھلائی کا دینا، حق کا ساتھ دینا، ناحق کا کبھی ساتھ مت دینا۔ بس یہی تم کو میری ہدایت ہے کیونکہ کتاب میں جہاں بھلائی کے لئے وظائف درج ہیں، برائی و دشمنی کے لئے بھی ہیں۔ لہٰذا سفلی عمل اور دشمنی نفرت جدائی والے عمل سے دور رہنا اور نہ لوگوں کو ایسے برائی کے کاموں میں مدد دینا۔ عالم صاحب نے صفیہ کو دعائیں دیں اور وہ دعائیں اور ان کی نصیحت کو گرہ میں باندھ کر گھر آگئی۔ اس نے سب سے پہلے گھر میں ایک محفل درس و دعا کا انعقاد کیا، جس میں محلے کی عورتوں کو مدعو کیا اور بتایا کہ کسی نے اگر بیمار بچے پر دم درود کرانا ہو یا اپنے شوہر کی محبت کے لئے وظائف وغیرہ پوچھنے ہوں تو بلا جھجھک میرے پاس آ جایا کریں۔ مجھے یہ علم میرے سسر صاحب کی وساطت سے ملا، لیکن میں نے اسے عام نہ کیا تھا لیکن اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور شوہر بھی حیات نہیں ہیں، اس لئے آپ لوگوں کی خدمت کر سکتی ہوں۔اگلے دن سے ہی ضرورت مند عورتوں نے اس کے پاس آنا شروع کر دیا۔ وہ اپنا دکھ سکھ اس سے بیان کرتیں اور وہ حسب حاجت دعا یا وظائف بتاتی۔ کبھی نقش بھی لکھ کر دے دیتی۔ رفتہ رفتہ اس کی شہرت پھیلنے لگی، عورتوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر وقت ایک جمگھٹا سارہتا تھا۔ وہ خود کبھی کسی سے کچھ طلب نہیں کرتی تھی۔ جو ان کا دل کرتا، وہ نذرانہ دے جاتی تھیں۔ ایک طرف پریشان حال محلے کی عورتوں کا جی ہلکا ہورہا تھا تو دو سری طرف صفیہ کے بچوں کی دال روٹی چلنے لگی تھی۔ اس کی نیت اچھی تھی ، اللہ تعالی نے اس کے رزق میں برکت ڈال دی تھی۔ گھر کے اخراجات اچھے طریقے سے چلنے لگے۔ مجھے صفیہ کو دیکھ کر افسوس ہوتا تھا۔ اگر اس کے والدین اسے پڑھا لکھا دیتے تو آج وہ کہیں ملازمت کر کے اپنے یتیم بچوں کا پیٹ پال رہی ہوتی لیکن اب اُسے اس حیلے اور وسیلے کا سہارا لینا پڑ گیا تھا۔ جب میں یہ بات صفیہ سے کرتی ، وہ جواب دیتی۔ اللہ بڑا کار ساز ہے ، جب وہ کسی کی بگڑی بنانے پر آتا ہے تو اسی طرح خود بخود رزق کے در کھول دیتا ہے۔ دیکھو اس طرح دنیا کے کام بھی چلتے رہتے ہیں اور میرے بھی۔ میں نے کبھی لالچ نہیں کیا، کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ میری کوئی فیس ہے اور نہ مانگ ہے۔ کوئی اپنی خوشی سے کچھ دے جائے تو اس میں گناہ نہیں۔ میں کسی کو گمراہ نہیں کرتی، نہ جدائی، دشمنی برائی یا نقصان کے تعویذ لکھ کر دیتی ہوں۔ یہ میری اہلیت بھی نہیں ہے۔ سب کو پتا ہے میں کوئی ماہر عالم نہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ بس ایک بزرگ سے دعالی اور ان کی ہدایت پر عمل کرتی رہی ہوں۔ میرے بچے اسکول سے کالج جانے لگے پھر بھی گھر میں کسی شے کی کمی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی اس بیوگی میں غیب سے دے رہا ہے ، مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دم درود کرانے والی عورتوں کا صفیہ پر اعتقاد بڑھتا گیا۔ ان عورتوں کے خیال میں دوا کے ساتھ دعا اور دم درود سے شفا یقینی ہو جاتی ہے۔ پریشان عورتوں کو صفیہ کی تسلی سے قرار ملنے لگا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کے بیمار بچے اسی وجہ سے جلد اچھے ہو جاتے ہیں کیونکہ صفیہ ایک نیک عورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ واقعی وہ ایک نیک اور اچھی عورت تھی۔ اس کو میں بچپن سے جانتی تھی۔ ایک روز صفیہ کے پاس ایک عورت آئی۔ وہ نوجوان اور خوبصورت تھی۔ اس نے کسی عورت سے کلام کیا اور نہ سلام، یہاں تک کہ تمام عورتیں چلی گئیں۔ جب آخر میں وہ عورت رہ گئی تو صفیہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ بی بی اب تم بھی کچھ کہو۔ بڑی دیر سے بیٹھی ہو۔ وہ بولی۔ ہاں، میں تنہائی میں آپ سے کلام کرنا چاہتی تھی۔ بلا جھجھک بتاؤ، کیا پریشانی ہے اس پر وہ حسینہ جس کا نام سوہا تھا، گویا ہوئی۔ میری شادی جس شخص سے ہوئی ہے، میں اس کو پسند نہیں کرتی بلکہ مجھے اس سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ میں اس کے ساتھ ہر گز نہیں رہنا چاہتی مگر اب میرا اس کے ساتھ رہنا محال ہو رہا ہے۔ ہیں خود پر جبر کرتے کرتے تنگ آچکی ہوں۔ بہت بار میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ تم اور شادی کر لو ، مجھے طلاق دے دو۔ میں حق مہر بھی معاف کرتی ہوں، مگر وہ مجھے طلاق نہیں دیتا اور زبردستی اپنے گھر رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ بتایئے میں کیا کروں عدالت سے طلاق لوں لیکن میرے خاندان والے عدالت بھی جانے نہیں دیتے۔ بی بی تم نے اپنا آدھا مسئلہ بتایا ہے۔ جب تک پوری بات نہ بتاؤ گی ، تب تک میں تمہاری مدد نہیں کر سکتی۔ شوہر سے نفرت کا کوئی نہ کوئی سبب تو ہو گا ہاں سبب تو ہے۔ میں صاف صاف بتاتی ہوں کہ شادی سے قبل میں اپنے ماموں زاد سے محبت کرتی تھی۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن میرے والد کو ماموں والوں سے بیر تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی فقیر سے تو بیٹی کی شادی کر دوں گا مگر انور سے نہیں۔ اس طرح انہوں نے مرضی کے خلاف میری شادی اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کر دی۔ اس طرح میں سلیم کی بیوی بن گئی مگر ابھی تک میرے دل سے انور کی محبت نہیں گئی۔ اب بھی میں اور انور اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے پہلے دن سے ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت تھی۔ میری اس مجبوری کا علم میرے شوہر کو بھی ہے لیکن وہ مجھے پھر بھی آزاد نہیں کرتا۔ تمہارے شوہر کو اس بارے کس نے بتایا ہے سوہا بی بی میں نے خود اس کو بتادیا کہ میری یہ مجبوری ہے۔ دل سے مجبور ہوں اسی لئے تم سے آزاد ہونا چاہتی ہوں۔ سمجھ رہی تھی کہ حقیقت جان کر وہ خود مجھ سے بیزار ہو جائے گا اور طلاق دے دے گا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اور سختی کرنے لگا۔ اس کا کہنا ہے کہ تم یونہی سسک سسک کر مر جاؤ گی مگر میں تم کو طلاق نہیں دوں گا تا کہ تم اپنی آرزو پوری نہ کر سکو اور اپنے چاہنے والے سے شادی نہ کر سکو۔ کیا تمہارا شوہر اچھا آدمی ہے اور تم سے وفادار ہے صفیہ نے پوچھا۔ وہ بولی۔ نہیں بی بی صاحبہ وہ ہر گزاچھا آدمی نہیں ہے۔ وہ دوسری عورتوں کا رسیا ہے ، زیادہ تر ان کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے پاس بہت دولت ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت طوائفوں کے پاس گزارتا ہے۔ اب تم کیا چاہتی ہو شوہر سے چھٹکار ا سوہانے جواب دیا۔ صفیہ نے مجھے بتایا کہ سلمیٰ یقین کرو، میں نے گرچہ آج تک کسی عورت کو کسی ایسے کام کے لئے نقش لکھ کر نہیں دیا تھا کیونکہ مجھے وظائف کی کتاب دینے والے بزرگ کی نصیحت یاد تھی کہ صرف اچھے کاموں کے لئے کلام اللہ کو وسیلہ بنانا اور جدائی و دشمنی نیز برائی کے نقش ہر گز نہ لکھنا، مگر اس روز جانے میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے نقش والی کتاب نکالی اور اس عورت سے پوچھا۔ اگر تم نے مراد پالی تو کیا کرو گی وہ بولی۔ آپ کو دس ہزار روپیہ نذر کروں گی۔ ان دنوں دس ہزار کی رقم بہت ہوا کرتی تھی۔ پس یقینا بے چاری صفیہ اس روز لالچ میں آگئی، کیونکہ اس عورت نے اسی وقت رقم نکال کر اس کے سامنے رکھ دی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ صفیہ نے اتنی بڑی رقم لے لی تھی ، کیونکہ اس کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی۔ اس کو رقم کی بہت ضرورت بھی تھی۔ صفیہ نے سوہا سے کہا۔ دیکھوبی بی میں جدائی کے نقش نہیں دیا کرتی مگر تمہاری حالت پر نجانے کیوں مجھے رحم آگیا ہے۔ تم پہلی عورت ہو ، جس کو میں جدائی کا نقش دے رہی ہوں۔ سوہا خوش ہو کر بولی۔ تو کیا اس نقش کے اثر سے جدائی ہو جائے گی ہاں، اگر اللہ کو منظور ہوا تو ضرور تم میں اور تمہارے شوہر میں جدائی ہو جائے گی۔ اور اگر اس نے پھر بھی طلاق نہ دی تو تو بھی جدائی کسی اور صورت ہو جائے گی۔ صفیہ نے اس کو یقین دلانے کی خاطر رسان سے کہا۔ عورت صفیہ کی بات سچ جان کر چلی گئی حالانکہ صفیہ کوئی پہنچی ہوئی شخصیت نہ تھی اور نقش جدائی میں بھی شاید ایسی کوئی حکمت پوشیدہ نہ تھی۔ نقش سے بھلا کہاں کہ کسی کو طلاق یا جدائی ہو سکتی ہے یا موت واقع ہو کر جدائی کی صورت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ یہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے ، جس کو چاہے زندگی دے، جس کو چاہے موت، مگر صفیہ موٹی رقم لے بیٹھی تھی تبھی اس عورت کو وثوق دلانے کو کہہ دیا تھا کہ جدائی کا یہ تعویذ بہت سخت ہے۔ جدائی ہو کر رہے گی، چاہے طلاق سے یا ناگہانی کسی حادثے کی وجہ سے۔ کبھی کبھی اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے۔ یہ بھی گویا صفیہ کے ایمان کا امتحان تھا، مگر اللہ کی کرنی کہ ایک ہفتہ بعد سوہا کے خاوند کی کار حادثے میں موت واقع ہو گئی۔ وہ تبھی ششدر رہ گئی۔ اس نے اس حادثے کو صفیہ کے لکھے ہوئے تعویذ کی کرامت سمجھا۔ خود نہ آسکی تو اپنی ایک سہیلی کو بی بی مرادوں والی کے پاس بھیج کر حالات سے آگاہ کر دیا۔ صفیہ نے بہر حال اس حادثے کو معیشت ایزدی جانا کیونکہ جانتی تھی کہ اس نقش میں ایسی کوئی کرامت نہ تھی اور نہ وہ کوئی پہنچی ہوئی عالم ہستی تھی کہ جس کا لکھا ہوا تعویذ اچھے بھلے انسان کو موت کی نیند سلادیتا۔ بے شک ان دونوں نے کسی انسان کو مارنے کی خاطر کار حادثہ نہیں کروایا تھا اور نہ ہی کسی انسان کو موت کی نیند سلانے کی قدرت رکھتی تھیں تاہم ان کی نیتوں میں فتور ضرور تھا۔ صفیہ کی نیت میں لالچ غالب آیا اور سوہا کے ارادے بھی نیک نہ تھے ، تبھی ان کو یہ سزا ملی۔ ہوا یوں کہ سوہانے ایک کیسٹ بھرا، جس میں اپنے محبوب انور کو مخاطب کیا، جو ان دنوں ریاض میں ملازمت کر رہا تھا۔ اس کیسٹ میں اس نے تمام حالات سے انور کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ایک بی بی سے تعویذ لیا تھا، جو شوہر سے چھٹکارا پانے کے لئے تھا۔ اس نے بی بی کی ہدایت کے مطابق زمین کھود کر تعویذ دفنادیا اور اگلے دن سلیم کی موت واقع ہو گئی۔ یہ سب تعویذ کی کرامت سے ہوا ہے کیونکہ میں نے مرادوں والی بی بی کو اس کے لئے دس ہزار روپے نذرانہ دیا تھا۔ اس نذرانے نے کام دکھا دیا ہے ، لہٰذا اب تم آجاؤ تا کہ ہم شادی کر سکیں۔ یہ کیسٹ اس نے اپنی ایک سہیلی کو چمڑے کی تھیلی میں سی کر دے دیا کہ جس کا شوہر ریاض جانے والا تھا۔ وہ دونوں ریاض میں ایک جگہ ہی کام کرتے تھے اور وہاں ، ایک ہی کرایے کے مکان میں رہتے تھے۔ صفیہ کو سہیلی اور اس کے شوہر پر اعتماد تھا، لیکن فی زمانہ کسی پر اندھا اعتماد کبھی کبھی بے وقوفی ثابت ہوتا ہے۔ سہیلی کو تجس ہوا کہ سوہانے انور کو کیا بھیجا ہے۔ اس نے تھیلی کی سلائی کھولی اور کیسٹ کو نکال کر سُنی تو خوفزدہ ہوگئی۔ جس وقت وہ محویت سے کیسٹ سن رہی تھی ، اچانک اس کا شوہر آگیا۔ اس نے بھی کیسٹ میں بھری ہوئی ساری باتیں سن لیں۔ اس شخص کو بہت غصہ آیا۔ کہنے لگا۔ اس خبیث عورت کی سنگدلی دیکھو۔ اس نے شوہر کو مروانے کے لئے ایسے تعویذ کئے ہیں کہ بندہ ہی اس جہان سے چلا گیا ہے۔ کل کو اگر میں تم کو اچھا نہ لگوں، تو کیا تم بھی اپنی سہیلی کے ساتھ جا کر اس مرادوں والی بی بی سے مجھے مروانے کے تعویذ لکھاؤ گی اس نے بیوی کو بہت لعنت ملامت کی کہ تم ایسی عورت کو کیوں سہیلی بناتی ہو جو شادی شدہ ہو کر سابقہ یاروں سے رابطہ رکھتی ہو۔ کیا خبر اس نے شوہر کو زہر سے لکھے تعویذ پلائے ہوں۔ شوہر کی ایسی باتیں سن کر وہ بے چاری پریشان ہو گئی کہ یہ مرد ذات بھی کتنی جلد بد گمان ہو کر وسوسوں میں پڑ جاتے ہیں۔ بہرحال اس شخص نے کیسٹ اپنے قبضے میں لی اور کہا کہ میں اسے حوالہ پولیس کرتا ہوں۔ اس شخص نے یہ کیسٹ جا کر سوہا کے جیٹھ کو دے دی۔ جیٹھ کیسٹ لے کر صفیہ کے گھر پہنچا اور پوچھا کہ کیا تم نے میری بھابھی کو تعویذ زہر سے لکھ کر دیا تھا کہ میرا بھائی مر جائے اس نے کہا کہ میں نقش زعفران سے لکھتی ہوں، جیسا کہ میرے مرشد نے ہدایت کی تھی، زہر سے نہیں لکھتی اور تعویذ پلانے کے لئے نہیں بلکہ زمین میں دبانے کے لئے تھا۔ اس کا شوہر کار کے حادثے میں فوت ہوا ہے، میرے تعویذ پینے سے نہیں مرا۔ پولیس کا کام تو مگر کسی نہ کسی بہانے رقم اینٹھنا ہوتا ہے۔ وہ صفیہ کے سر ہو گئے، تب اس نے مجھے فون کیا اور میں نے اپنے میاں کو بتایا۔ قدیر چونکہ ان کے ماتحت رہے تھے لہٰذا انہوں نے اسی وقت اپنے دوست ایس پی کو فون کیا اور معاملہ نہ صرف رفع دفع کرادیا بلکہ وہ کیسٹ بھی ضائع کروادی، کیونکہ ان کو مرحوم قدیر کی بیوہ اور بچوں کا خیال تھا۔ اس طرح صفیہ مرادوں والی بی بی بن کر بال بال پولیس تھانے جانے اور خوار ہونے سے بچ گئی۔ اسی برس صفیہ اور قدیر مرحوم کے بڑے بیٹے نے گریجویشن مکمل کی تو میرے میاں نے اُسے محکمہ تعلیم میں باپ کی جگہ لگوادیا۔ صفیہ کو بیٹے کی کمائی کا آسرا مل گیا تو اس نے نقش والے کام سے توبہ کر لی۔ وہ اب بھی جب ملتی ہے تو کہتی ہے۔ سلمیٰ سچ کہوں تو بہت مجبور ہو کر میں نے یہ کام کیا، ورنہ میرا ارادہ نقش وغیرہ لکھ دینے کا نہیں ہوتا تھا۔ بس دم درود تک ہی رہتی تو عافیت میں رہتی اور ایسی نوبت نہ آتی کہ آج بھی جب سوچتی ہوں تو خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔ کتاب دینے والے بزرگ نے بھی نصیحت کی تھی کہ برائی والے کاموں میں قلم مت چلانا اور اس روز میں نے دس ہزار کی رقم دیکھ کر ایسا جھوٹ موٹ کا تعویذ لکھ کر اس عورت کو دے دیا کہ اگر کیس بن جاتا میں پکڑی جاتی تو یقیناً خوار ہو جاتی۔ صد شکر کہ تم نے میرا ساتھ دیا، ورنہ مجھ بے آسرا کا اور کون تھا اب تو زندگی بھر کی نصیحت ہو گئی کہ کبھی برائی کا ساتھ نہیں دینا۔ | null |
null | null | null | 196 | https://www.urduzone.net/lamutnahi-intezar/ | والدین میری پیدائش سے بھی پہلے لندن شفٹ ہو گئے۔ میں وہیں پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور تعلیم حاصل کی۔ گرچہ ہمارے گھر کا ماحول کچھ مشرقی اور کچھ مغربی تھا یعنی کہ ماحول کے اثر سے مشرقیت میں تھوڑا سا مغربیت کا رنگ بھی شامل ہو گیا تھا، لیکن اپنے طور طریقے میرے والدین نے پوری طرح نہیں بھلائے۔ ان کی تو خواہش تھی کہ اولاد خالصتاً مشرقی اقدار کی پاسداری کرے اور اپنے دین کی طرف مائل رہے۔ ہوش سنبھالتے ہی بچہ جس ماحول میں رہتا ہے ، اس کا اثر کم و بیش ضرور لیتا ہے۔ ہم تو پھر پیدا ہی وہاں ہوئے۔ اسکول میں بھی انگریز بچوں کے ساتھ صبح سے شام تک واسطہ رہتا تھا۔ والدین کٹر قسم کے مذہبی نہ تھے۔ بین بین چل رہے تھے اور وقت کے تقاضوں سے مغلوب و مجبور تھے۔ پس ہم کو بھی انہوں نے تھوڑی سی پابندی اور تھوڑی سی آزادی دی ہوئی تھی۔ بچپن بے فکری سے ہنستے کھیلتے گزر گیا۔ جب جوانی کے دور میں قدم رکھا، مغربی طور اطوار میں ڈھلنے لگے ۔ ماں، باپ کو فکر لاحق ہو گئی کہ اولاد پر مزید پابندی ضروری ہے ورنہ بے لگام ہوتے جائیں گے ۔ انہوں نے ہم دونوں بہنوں اور عدنان بھائی کو بات بات پر روکناٹو کنا شروع کر دیا۔ وہ اب روز ہی کہتے کہ دوست بنانے میں احتیاط سے کام لو۔ لڑکیاں ہو، لڑکیوں کو دوست بنائو، ان کے ساتھ وقت گزار و، لیکن ہمارے دوست لڑکے بھی تھے اور ہم ان کے ساتھ گھومنے پھرنے میں زیادہ فرحت محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح عدنان بھائی کی دوست لڑکیاں ان سے بے تکلف ہو تیں تو والدہ کو پریشانی لاحق رہنے لگی کہ یہ بچے ایسی حرکات کو معمولی جانتے ہیں جن کی اجازت ہمارا دین نہیں دیتا تو یہ کیسے دیندار ہو سکتے ہیں۔ بہرحال لڑکپن خاصی خطر ناک عمر ہوتی ہے۔ اس دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ٹین ایج کے بچوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ بڑوں کو خود سے زیادہ عقلمند نہیں سمجھتے۔ ان کو خاص طریقے سے ہینڈل نہ کیا جائے تو یہ باغی اور منہ پھٹ ہونے لگتے ہیں۔ میرے ساتھ اسکول میں ایک لڑکا پیٹر پڑھتا تھا۔ مجھے وہ بہت اچھا لگتا۔ ہر دم میرے ساتھ ہی رہتا۔ میرے ساتھ وقت گزار نا پسند کرتا تھا۔ بڑھتے بڑھتے ہماری قربت بڑھ گئی ، تب وہ مجھ سے جسمانی تعلق کا خواہاں ہوا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اس بات کی اجازت ہمارا مذہب نہیں دیتا۔ دوستی صرف باتوں تک محدود ہونی چاہئے اور جسمانی قرب کو ہم لوگ شادی سے ے قبل گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ میری باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ وہ خفا ہو جاتا۔ کہتا کہ تم لوگ کیا فرشتے ہو انسانی جبلت کے لحاظ سے تو تمہاری بات عقل کے تقاضے پر پوری نہیں اترتی۔ میں نے کئی بار سمجھایا کہ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی جسمانی قرب سے دور رہیں ۔ بے شک محبت ایک ذہنی ہم آہنگی اور روحانی رشتے کا نام ہے لیکن وہ میری اس منطق کی سراسر نفی کرنے لگا۔ اس نے دلیل دی کہ محبت میں کوئی حد اور دوری نہیں ہو سکتی اور جذبات پر قدغن لگانے کا مطلب ہے کہ آپ فطرت کی نفی کر رہے ہیں وغیرہ وغیر ہ ۔ جب اس کا اصرار بڑھا۔ میں نے کہا کہ محبت سے زندگی کی خوشیاں عمر بھر کیلئے حاصل کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم شادی کر لیں اور بلا جھجھک زندگی بسر کریں۔ فطری جبلت کے تقاضوں کو کسی ضابطے کا پابند نہ کریں گے تو حیوان کہلائیں گے ۔ شادی کر کے ہم محبت بھری مسرتوں سے دامن بھر لیں گے، ہونے والی نسل کو تحفظ دیں گے ، ان کی بہترین تربیت مل کر کریں گے اور ان کو بے نام ، بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں گے ۔ ہمارے یہاں تو بس یہی طریقہ ہے اپنی نسل کو پروان چڑھانے کا ازدواجی بندھن باندھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی وفاداری، خلوص اور محبت کے معیارات کو چیک کریں، جس کیلئے نکاح سے پہلے ایک دوسرے کے ہمراہ رہنے اور وقت گزارنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس طرح بعد میں ہم سوچ سمجھ کر نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں گے تو ہماری اولاد گوناگوں مسائل کا شکار نہ ہو گی، کیونکہ ہم مکمل ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں گے ۔ یہ پیٹر کے خیالات تھے۔ اس کی باتیں مجھے حیران کر گئیں۔ میں نے تمہارے مذہب کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور عیسائیت کے بنیادی مذہبی اصول و قوانین کا مطالعہ کیا ہے ۔ وہاں بھی اس بارے میں کچھ حدود و قیود موجود ہیں۔ تمہارے مذہب میں بھی مرد و عورت کا ایسا تعلق جو بغیر نکاح قائم ہو، گناہ کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا قرابت کا صحیح پر مٹ نکاح ہے، شادی ہے کیونکہ اس طرح مرد و عورت دونوں معاشرے کی نظروں میں تکریم پاتے ہیں، ان کی اولاد بھی تکریم پاتی ہے اور جائز رشتے میں بندھ جانے سے حقوق و فرائض جو میاں بیوی پر لاگو ہوتے ہیں، انہیں پورا کرنے سے زندگی بہترین ہو جاتی ہے۔ میں اس انگریز کے بچے کو گھنٹوں سمجھاتی تھی مگر پیٹر ایسی سوچوں سے نابلد تھا۔ وہ صرف جوانی کے خمار کارسیا تھا، تبھی میری باتیں اسے ناگوار گزرنے لگیں اور وہ مجھ سے دور ہوتا گیا۔ اس کی دوری نے مجھے تڑپایا۔ قلق ہوا، لیکن پھر یہ سب برداشت کرنا پڑا کیونکہ والدین کا ڈر تھا۔ وہ بھی مجھ کو اس امر کی اجازت نہ دیتے کہ گھر سے غائب رہ کر میں اپنے پسندیدہ دوست کے ساتھ راتیں بسر کروں، نائٹ کلب جائوں اور کوئی غلطی کر بیٹھوں۔ ایک مرحلے پر پیٹر مجھ سے شادی کے بندھن میں بندھ جانے پر آمادہ بھی ہو گیا لیکن یہ شرط آڑے آگئی کہ پہلے وہ اسلام قبول کرے گا پھر ہماری شادی ممکن ہو گی۔ وہ چڑ گیا۔ اس نے کہا۔ یہ کیا بات ہوئی میں اپنے عقائد کے ساتھ جیوں گا اور تم اپنے دینی عقائد کے ساتھ زندگی بسر کرو گی۔ ہم ایک دوسرے کے مذہبی معاملات اور عقائد میں سر مو مداخلت نہیں کریں گے تو پھر کوئی مسئلہ کیوں کھڑا ہو گا۔ پیٹر ، مسلمان لڑکی کسی مرد سے اسی وقت شادی کر سکتی ہے جب تک کہ وہ لڑکا یا مرد کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کرلے ورنہ ہماری شادی نہیں ہو سکتی۔ اس بات پر اس نے مجھے چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ تم مخلص نہیں ہو۔ یہ دکھ بہت تھا لیکن میں نے سہہ لیا۔ اپنے دین اور والدین کی خوشنودی کی خاطر ۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی انگریز سے میری شادی کو قبول نہ کرتے۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان لڑکا ہو اور دیندار ہو۔ دیسی لڑکوں سے ہی ہماری لڑکیوں کی شادیاں ہوں گی۔ دل پر صبر کی سل رکھ لی یہ سوچ کر کہ اپنی اولاد کیلئے مسلمان لڑکی اور مسلمان لڑکے کو یہ قربانی دینی چاہئے ورنہ ہماری آئندہ نسل کا کیا ہو گا۔ میں صبر والی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن روبینہ سے زیادہ سمجھدار اور پختہ سوچ کی حامل تھی کیونکہ والد صاحب کی نگرانی میں دین کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ پیٹر اور دوسرے دوستوں نے مجھے بے شک ایک بیمار سوچ کی لڑکی اور مینٹلی سک قرار دے دیا۔ میں نے ان کے کسی کمنٹ کا اثر نہ لیا۔ جس بات کو درست سمجھتی تھی، اس کو مان کر صبر و تحمل سے کام لیا لیکن میری بہن روبی مجھ ایسی نہ تھی۔ اس کی عمر ابھی صرف سولہ سال تھی۔ اس کے اندر جذبات کا ایک جوالا مکھی ابل رہا تھا۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ کی ایسی دیوانی ہوئی کہ مذہب وغیرہ کی ساری حدود پار کر کے اس کے ہمراہ شب باسی کرنے لگی، یہاں تک کہ اپنے بوائے فرینڈ کو رات کو اپنے بیڈ روم میں لانے لگی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسی سے شادی کرنی ہے تو پھر صبر کا عذاب کیوں سہیں۔ والدہ نے روکا، وہ نہ تھمی۔ والد کے علم میں یہ بات آگئی۔ وہ سخت برہم ہوئے۔ سختی سے منع کیا تور وبینہ نے پولیس کو فون کر دیا کہ ابو مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ والدین کے خلاف رپورٹ لکھوادی کہ مار پیٹ کرتے ہیں۔ بات پولیس تک پہنچی۔ وہ ابو کو ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ کہا کہ یہ آدمی ذہنی مریض ہے ، اسے علاج کی ضرورت ہے۔ والد صاحب ذہنی مریض نہ تھے۔ بہر حال بڑی مشکلوں سے جان چھوٹی یوں کہ روبینہ گھر سے چلی گئی۔ امی ، ابو کسی طرح اسے منا کر لائے پھر ہم سب کو پاکستان لے آئے۔ بہانہ رشتے داروں سے ملانے کا تھا۔اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ ہم کو اس معاشرے سے دور رکھنا چاہتے تھے کہ جہاں شادی سے قبل مرد و عورت کے و عورت کے ملاپ کو غیر معمولی یا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے بن باپ کے بچوں اور سنگل مائوں کی بہتات تھی اور جب یہ مائیں بغیر باپ کے ان بچوں کی کفالت نہ کر سکتی تھیں تو گورنمنٹ کی تحویل میں دے دیتی تھیں، تبھی وہاں بے شمار چائلڈ ہوم کھلے ہوئے تھے۔ بہر حال جب ہم پاکستان آئے اور میں نے اپنے مشرقی کلچر کو دیکھا۔ مجھے یک گونہ سکون محسوس ہوا۔ ہم چچا کے گھر ٹھہرے تھے۔ مدت بعد ہم لوگوں کے آجانے سے وہ سبھی بہت مسرور تھے، خاص طور پر نوید جو میرے چچا کا بڑا بیٹا تھا اور مجھ سے دو برس بڑا تھا۔ خالدہ اس کی چھوٹی بہن، روبینہ کی ہم عمر تھی۔ چچا کے بچوں کی تو جیسے عید ہو گئی تھی، حالانکہ ان کے سالانہ پرچے ہو رہے تھے۔ وہ ہمارے پاس سے اٹھنے کا نام نہ لیتے تھے۔ چچی واری صدقے جاتیں اور سارا دن کچن میں ہمارے لئے نت نئی ڈشیں تیار کرتیں۔ چچا جان بھی ہمارے آجانے سے ایسے مسرور تھے جیسے ان کو کھوئی ہوئی جنت مل گئی ہو، تبھی میں نے سوچا یہ رشتے بھی کیا شے ہوتے ہیں جن کے بغیر انسان ادھورا ہی نہیں غریب ہو جاتا ہے۔ اب پتا چلا کہ اپنا وطن تو کھوئی ہوئی جنت جیسا ہے۔ نوید پندرہ دنوں میں امتحان سے فارغ ہو گیا۔ سارا وقت میرے ساتھ گزارنے لگا۔ پر کشش اور دلچسپ شخصیت کا مالک تھا۔ ہنس مکھ ، خندہ جبیں۔ حس مزاح اس کی بہت اعلیٰ تھی۔ سارا دن ہنساتا، لطیفے سناتا۔ پیٹر کی جدائی سے دل بجھا ہوا تھا۔ مرجھایا ہوا دل رفتہ رفتہ ایک نو خیز پھول کی مانند کھلتا گیا۔ کافی دنوں بعد ہنسی لبوں تک آئی اور اب میں نوید اور خالدہ کے ساتھ خوش خوش رہنے لگی۔ روبی کو کو البتہ لندن بھولتا نہ تھا۔ وہ چند دن بھی یہاں رکنا نہ چاہتی تھی۔ بار بار واپس لندن جانے کا تقاضا کرتی تھی۔ اس کو اپنا بوائے فرینڈ بہت یاد آتا جس کو وہ چند دنوں کے بعد واپس آجانے کا کہہ کر آئی تھی۔ میں تو خالدہ اور نوید کے ساتھ گھل مل گئی۔ ان کے ہمراہ شاپنگ اور سیر و تفریح کو جاتی تھی۔ تین ماہ تک روبی صبر کر سکی۔ اس نے اپنا برا حال کر لیا اور اکیلی ہی لندن جانے کا تہیہ کر لیا۔ وہ سفارت خانے سے رجوع کرنے جارہی تھی کہ والد صاحب نے روک دیا اور مجبور ہو کر ہم سب روبی کی وجہ سے دوبارہ لندن کیلئے عازم سفر ہوئے۔ روبی ہی نہیں میرا بھائی عدنان بھی اب یہاں مزید ر کنانہ چاہتا تھا اور وہ واپسی کیلئے پر تول رہا تھا، کیو نکہ اسے یہاں کی آب و ہوا، گرد و غبار ، فضائی آلودگی اور کنبہ سسٹم سب کچھ اذیت ناک محسوس ہو رہے تھے۔ جس روز ہم واپس لندن جارہے تھے ، نوید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ خالدہ بھی رور ہی تھی۔ چچا اور چچی بے حداد اس تھے اور امی ، ابوان کو تسلی دے رہے تھے کہ فکر نہ کریں، ہم بہت جلد واپس آئیں گے ۔ ہم اب جلد جلد واپس لوٹیں گے کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں اپنوں میں کریں۔ نوید کی آنکھوں میں نمی تھی لیکن امید کی کرن بھی چمک رہی تھی۔ اس خیال سے کہ میں واپس لوٹ کر آئوں گی اور بہت جلد اسے مل جائوں گی۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ ضرور آئوں گی، میرا انتظار کرنا، تم سے شادی کروں گی۔ ہمارے جانے کے بعد اس کے فون آتے ۔ وہ کہتا تھا کہ آپ لوگوں کے بعد اب دن بہت بو جھل گزرتے ہیں۔ اس کا رزلٹ آگیا، بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔ تقریباً سال بھر ہمارا آپس میں رابطہ رہا۔ جیسے میں پیٹر کو نہ بھولی تھی، وہ بھی مجھے نہ بھلا سکا۔ بالآخر اس نے ابو کی شرائط مان لیں۔ دین اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مجھ سے شادی کا خواہاں ہوا۔ میرے اصرار پر ابو نے میری خوشی کی خاطر رشتہ قبول کر لیا اور میں پیٹر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی۔ روبینہ نے بھی اپنی مرضی سے اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کر لی اور میرے بھائی نے اپنی دوست گوری میم میری کو مسلمان کر کے بیاہ رچا لیا مگر روبی اور عدنان بھائی کی شادیاں کامیاب نہ ہو سکیں۔ دونوں کی شادیاں طلاق پر ختم ہو گئیں، البتہ پیٹر کی میرے ساتھ نبھ گئی اور ہم کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے لگے، شاید اس لئے کہ ہم نے واقعی محبت کی تھی لیکن شادی بھی بہت سوچ سمجھ کر کی۔ میری شادی کے پندرہ برس بعد چچا جان کا پاکستان میں انتقال ہو گیا۔ چچی نے والد کو فون کیا کہ اب فیملی کے ہمراہ آجائے، ہم لوگ آپ کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انتظار میں آپ کے بھائی اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور اب جائداد کے کچھ مسائل درپیش ہیں۔ آکر ان کو حل کر جائے تو ہمارے کئی اور مسئلے حل ہو جائیں گے ۔ والد صاحب، امی، میں اور پیٹر مدت بعد ایک بار پھر پاکستان جارہے تھے۔ کچھ عجیب سے احساسات تھے۔ چچا جان کی رحلت کا دکھ اور اپنوں کا خلوص سب کچھ ساتھ تھا۔ ایئر پورٹ پر اترے نوید اور خالدہ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا۔ نوید کی آنکھوں میں تو امید کے دیئے جگمگار ہے تھے۔ اس نے ابھی تک شادی نہ کی تھی۔ ہمارے ساتھ پیٹر کو دیکھ کر ٹھٹھکا پھر یہ سمجھا شاید کہ وہ ہمارا کوئی فیملی دوست وغیرہ ہے جو پاکستان دیکھنے کے شوق میں ساتھ آگیا ہے۔ خالدہ نے بھی عدنان بھائی کے انتظار میں سہاگ جوڑا نہ پہنا تھا۔ بڑی امیدوں کے ساتھ ان لوگوں نے ہم کو ریسیو کیا اور گھر لائے۔ ان کی امیدوں پر یہ جان کر اوس پڑ گئی کہ میں نے پیٹر سے اور عدنان نے میری سے شادی کر لی ہے۔ اتنے عرصے تک بھی بھلا کوئی کسی کا انتظار کرتا ہے میں نے نوید سے کہا تھا۔ کیوں نہیں کوئی عمر بھر بھی انتظار کر سکتا ہے ، اگر محبت سچی ہو تو تم کم از کم مجھے اپنی شادی کے بارے میں مطلع تو کر تیں، لیکن کیسے کرتیں ، تم نے تو سال بھر کے بعد رابطے ہی ختم کر دیئے تھے لیکن ہمارادل دیکھو آج تک تم سے روح کا رابطہ قائم رکھا ہوا ہے ، ہے نا عجیب بات ہاں نوید ، واقعی یہ عجیب بات ہی ہے۔ تم دیسی لوگ ہوتے ہی عجیب ہو۔ بہت بھولے ہوتے ہو، کتنی جلدی کسی کا یقین کر لیتے ہو اور پھر انتظار کی آگ میں جلتے رہتے ہو، جل جل کر خاک ہو جاتے ہو۔ ہم ان کے گھر ایک ماہ رہے۔ جائداد کے مسائل حل کرنے کے بعد واپسی کا مژدہ سنادیا۔ نوید اب بالکل خاموش رہتا تھا، ایک مردہ انسان کی مانند جیسے گونگا ہوتا ہے۔ چلتے وقت جب میں نے اسے خدا حافظ کہا تو ایک فقرہ ہی کہہ سکا۔ آپ کا بہت انتظار تھا، پندرہ برس پندرہ صدیاں بن کر گزر گئے لیکن یہ ایک ماہ جو آپ نے یہاں گزارا ہے ، لگتا ہے ایک پل کا خواب تھا، بڑا ہی بھیانک خواب۔ اے کاش میں اس بھیانک خواب کو دیکھنے کیلئے زندہ نہ ہوتا۔امی نے عدنان سے پوچھا۔ میری تو تم کو چھوڑ گئی ، اب خالدہ کے بارے میں کیا خیال ہے اس نے کہا۔ ہاں ٹھیک ہے مما، جیسی آپ کی خوشی لیکن اس خوشی کو پورا کرنے دوبارہ آئیں گے ، ان کو انتظار تو کرنا ہو گا۔ انتظار خالدہ نے حسرت سے دہرایا۔ کتنا انتظار معلوم نہیں۔ یہ کہہ کر ہم چلے آئے تھے اور آج تک واپس نہ جاسکے ۔ خالدہ نے شادی کر لی ہے یا ابھی تک عدنان بھائی کا انتظار کر رہی ہے ، یہ بھی معلوم نہیں ہے کیونکہ دوبارہ ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ | null |
null | null | null | 197 | https://www.urduzone.net/muhabbat-ka-mara/ | عنایت خان سوار کو جب پنشن ملنے لگی تو سرکاری کوارٹر سے دست بردار ہونا پڑا۔ تب اس نے چھاؤنی گوالیار میں جمنا دائی کی حویلی کے سامنے ایک معمولی مکان میں رہائش اختیار کر لی، جس کا کرایہ صرف تین روپیہ ماہوار تھا۔ لو بھئی ، اب باقی کیا بچا صرف تین روپے۔ یہ تنگ دستی سوہان روح تھی۔ اس ایک ہی بیٹا تھا، نواب خان۔ نواب خان نے مڈل کا امتحان پہلے درجہ میں پاس کر لیا تو عنایت نے ایک دوست سے تنگ دستی کا حال بیان کیا تب اس نے صاحب بہادر کی سفارش سے نواب کو بیس روپیہ ماہوار پر اپنے اسٹاف میں شامل کر لیا۔ ان دنوں میں روپے آج کل کے دو ہزار کے برابر تھے۔ نواب فرمانبردار اور نماز روزے کا پابند نوجوان تھا، باپ نے اس کی شادی جھانسی میں کرادی تھی۔ جھانسی للت پور ، دینہ وغیرہ، بنڈھیل کھنڈ کا علاقہ کہلاتا تھا۔ یہاں کے اکثر و بیشتر باشندے بہت شاطر واقع ہوئے تھے جبکہ عورتیں ترقی پسند تھیں۔ یار لوگ تمثیل پیش کیا کرتے تھے کہ جھانسی گلے کی پھانسی، دینہ گلے کا ہار ۔ للت پور چھوڑ کر نہ جائیے جب تک ملے ادھار ۔ یہ کہاوتیں وہاں کے بارے میں مشہور تھیں۔ عنایت خان بہو کو چھاؤنی گوالیار لے آئے۔ دل میں بڑے خوش تھے کہ پالا مار لیا، لیکن کارکنان قضا و قدر اور فکر میں تھے۔ بہو نے بھی نمائشی طور پر ساس سسر کا احترام ملحوظ رکھا۔ بد قسمتی سے عنایت خان نمونیہ کی لپیٹ میں آگئے۔ بہو نے دوا میں زہر ملا کر ان کا خاتمہ کر دیا اور خود صدمہ سے نڈھال پڑ گئی۔ ظاہر ہے ، اپنا کیا تھا، دکھ کے اظہار کے لئے آنسو بہانے تو ضروری تھے۔اب تو گویا دروازہ کھل گیا۔ جھانسی کے وہ آوارہ لوگ، جن کے ساتھ بہو کے سابقہ تعلقات تھے تعزیت کے عنوان سے آنے جانے لگے۔ وہ بھی ان لوگوں کو اپنا قریبی رشتہ دار ظاہر کرتی رہی۔ بوڑھی ساس نے بہو کے یہ لچھن دیکھے تو ماتھا ٹھنک گیا۔ اس نے اپنا بگلے جیسا چونڈہ دھوپ میں تو سفید نہیں کیا تھا۔ اشاروں کنایوں سے طنز بھی کئے اور پردے ہی پردے میں سمجھانا بھی شروع کر دیا مگر بہو پہ اثر تو ہو۔ بیٹے سے کچھ کہنا، گویا پل بھر میں گھر کا اجاڑ دینا تھا۔ صدمے سے بیمار پڑ گئی تو عیار بہو نے اس کو بھی اسی ترکیب سے ملک عدم پہنچا کر سارے دکھوں سے نجات دلادی کہ جو بوڑھے سر پر آزمائی تھی۔ اب تو دونوں کانٹے راستے سے دور ہو گئے تھے۔ نواب سارا دن ڈیوٹی پر رہتا اور گھر میں آوارہ لوگوں کی عمل داری تھی۔ محلے والوں نے کان کھڑے کئے اور فضا میں خطرے کی بو سونگھنے لگے۔ اس پر عورت نے نئی چال چلی، نواب کو کہا کہ اس گھر میں اب دل نہیں لگتا۔ ساس سسر کی وفات کے بعد سے وحشت ہوتی ہے۔ یہ درو دیوار ان کی یاد دلاتے ہیں۔ خدارا اب تو جھانسی تبادلہ کروالیں۔ نواب نے بھاگ دوڑ کر کے جھانسی تبادلہ کروا لیا۔ اب تو بہو بیگم کے وارے نیارے ہو گئے۔ نواب کو آٹھ آٹھ دن گھر سے باہر رہنا پڑتا، جس دن گھر واپس آتا، نقشہ ہی بدلا ہوا پاتا۔ بیوی سے پوچھتا۔ یہ ساز و سامان کہاں سے آتا ہے وہ بتائی کہ ایک نورانی داڑھی والے بزرگ یہ چیزیں دے جاتے ہیں۔ ان کا انتباہ ہے کہ کسی سے ذکر نہ کرنا، مگر نواب آخر مرد ذات، ایسا بھی بے وقوف نہ تھا۔ اس جواب سے اس کا دل مطمئن نہ ہوا، وہ بولا۔ خواہ وہ نورانی بزرگ ہی کیوں نہ ہوں، سن لو اب کوئی یہاں نہ آنے پائے۔ ایک ملازمہ بھی اس نے بیوی کی نگرانی پر رکھ لی۔ اس بد گمانی سے بہو کا دل ایسا بدلا کہ اس کو نواب کی صورت سے ہی نفرت ہو گئی اور وہ بے قرار اور مقید پنچھی کی طرح پھڑ پھڑانے لگی۔ آخر رہائی کی یہ صورت نظر آئی کہ ایک شب جبکہ نواب اپنے بستر میں میٹھی نیند سورہا تھا، اس نے لحاف پر تیل چھڑک کر دیا سلائی دکھا دی۔ آگ نے آن واحد میں لحاف کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر اس اذیت نے نواب کو موت کے دہانے پر پہنچادیا کہ زندگی کی توقع ہی ختم ہو گئی تھی۔ بیوی نے اس حادثے کو عتاب جنات کے عمل پر محمول کیا اور نواب نے ماموں کو تار بھیجا۔ کفایت حسن فورا تار کے جواب میں پہنچے اور سوختہ بھانجے کو اپنے گھر کی چھاؤں میں ، چھاؤنی مراد لے آئے۔ یہاں عرصے تک نواب کا علاج ہوتا رہا۔ ممانی اور ماموں زاد بہن زرینہ دونوں ہی اس کی حالت سے کبیدہ خاطر تھیں۔ وہ تندرست ہو گیا تو ممانی اور ماموں نے اس کا عقد زرینہ سے کر دیا اور لڑکی کے بالغ ہونے پر رخصتی کا پرو گرام رکھا۔ نواب اس درجہ حیادار تھے کہ زرینہ کے سامنے آنے سے شرمانے لگے مگر اس کی خدمت گزاریاں اور بھولی بھالی صورت دل میں ایسے گھر کر گئی تھی کہ دیکھے بنا چین نہ پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنا بستر مردان خانے میں لگادیا۔ مبادا دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔ وہ خوش تھے کہ چلو بدچلن عورت سے جان چھوٹی اور اس کے عیوض خدا تعالیٰ نے زرینہ سا ہیرا ان کو بخشا مگر نواب کی قسمت کا ستارا بھی گردش میں تھا۔ چند دنوں میں ہی زرینہ تب محرقہ میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ماں باپ کے غم کا تو ٹھکانہ نہ تھا مگر نواب کی حالت بھی دیکھی نہ جاتی تھی۔ اجڑی ہوئی زندگی میں جو امید کی شمع روشن ہوئی تھی، وہ بھی کتنی جلدی بجھ گئی تھی۔ اب تو چار سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اہل محلہ زرینہ کو دفن کرنے کو لئے جاتے تھے۔ جس کی ڈولی کاندھوں پر اٹھائی جانے والی تھی اب اس دنیا سے اس کا لاشہ جارہا تھا۔ نواب سے یہ نظارہ دیکھا نہ گیا اور وہ اسی دن مجمع سے غائب ہو گئے۔ اب دوہری مصیبت پیش آگئی۔ ایک تو زرینہ کی موت کا صدمہ پھر نواب کی گمشدگی کی پریشانی، کفایت حسین اور بیوی دونوں سخت پریشان تھے کہ کیا کریں، کہاں جائیں کہاں سے نواب کو ڈھونڈ نکالیں۔ یہ خیال کر کے کہ کہیں غم سے خود کشی نہ کر لی ہو، انہوں نے شہر کے سب کنویں چھنوا لئے مگر نواب کا بال بھی دریافت نہ ہو سکا۔ شہر کے دائیں کنارے پر وسیع و عریض قبرستان تھا۔ اسی قبرستان میں ایک بزرگ کی پکی قبر تھی۔ عام طور پر مقبرے کے کوارٹر بند رہتے تھے۔ ہر جمعرات شہر سے ایک جاروب کش یہاں آتا اور کوارٹر کھول کر صفائی کر جاتا تھا۔ مقبرے میں پتھروں کی خوش نما جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ جمعرات کے دن وہ حسب معمول صفائی کے لئے آیا۔ ابھی تالا کھولا بھی نہ تھا کہ بند مقبرے سے تلاوت کی آواز سن کر حیران ہوا۔ جالیوں سے اندر جھانکا تو تھرا کر رہ گیا۔ ایک مردہ سفید کفن میں ملبوس تعویذ کے متوازی لیٹا ہوا تھا۔ بے چارہ اصل بات کیا جانتا، سمجھا، یہ کرامت بزرگ کا کرشمہ ہے۔ عطر و عنبر کی لپیٹیں آرہی تھیں، قرآن پاک کی تلاوت سے کمرہ گونج رہا تھا۔ وہ تو خوفزدہ ہو کر شہر کی جانب بھاگا اور رستے میں جو بھی ملتا گیا ، اسے معجزے سناتا گیا کہ آج تو صاحب قبر بزرگ قبر سے باہر لیٹے ہوئے ہیں۔ پھر کیا تھا سارے شہر میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سیکڑوں تشنہ کرامات زیارت کے لئے پہنچ گئے ، تاکہ کچھ بخشش ہو ، کچھ کفارہ گناہ ہو سکے۔ اس عجیب و غریب واقعہ کی خبر جب پولیس کے کانوں تک پہنچی تو عبد اللہ خان انچارج نے مجاور کو حکم دیا کہ مقبرے کا دروازہ کھولو۔ مجاور صاحب مقبرے کی دیوار کے شگاف میں چابی رکھ دیا کرتے تھے۔ دیکھا تو وہاں چابی ہے ، نہ تالا۔ گھبرا کر کہا۔ صاحب مزار نے چابی اور تالا دونوں چیزیں غائب کر دی ہیں۔ پولیس والوں نے لوہار کے ذریعہ چوبی کوارٹر الگ کروائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گم شدہ نواب دونوں آنکھیں بند کئے تلاوت قرآن میں مصروف ہے۔ پھولوں کے گجرے اور لوبان مہک رہے ہیں۔ قبر کے تعویذ کے متوازی زرینہ کی لاش کفن میں لپٹی رکھی ہے۔ تھانیدار نے گرج کر پوچھا۔ میاں یہ کیا ہو رہا ہے مگر عاشق بے نیاز نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ تلاوت جاری رکھی ، تب تھانیدار نے گردن پکڑ کر جھٹکا دیا اور اسے کھڑا کر دیا۔ یہ کیا ڈرامہ ہے میاں تمہاری تلاش میں تو تمہارے ماموں نے سارے شہر کے کنویں چھنوا مارے ہیں اور یہ میت بے گور کسی خستہ تن کی ہے نواب نے مجبوراً چونچ کھولی۔ یہ میری محبوبہ کا جسد خاکی ہے ، جسے میں کلام الہی کی طاقت سے زندگی عطا کرنا چاہتا ہوں۔ تھانیدار نے کہا۔ پاگل ہو گیا ہے تو مسلمان نہیں رہا ہے۔ ارے کہیں مردے بھی زندہ ہوتے ہیں۔ تھانیدار صاحب ایسی باتوں کے قائل نہیں تھے۔ عاشق نامراد کو وہیں پے ہتھکڑیاں پہنا دیں اور میت کا ڈاکٹری معائنہ کرانے بھجوادیا، پھر میت کا دوبارہ غسل ہوا اور وہ غریب آرام سے قبر میں جا سوئی۔ نواب محبت کے مارے نے پولیس کو بتایا کہ درد جگر کی ٹھسیں ایسی تھی کہ برداشت نہ ہوتی تھی۔ مجبور ہو کر میں نے اپنے دل کے سکون کی خاطر یہ غیر شرعی کام کیا۔ جس روز زرینہ کی لاش کو دفن کیا گیا، میں نے سر شام ہی گورکن سے پھاوڑا حاصل کیا۔ اب اس کو کیا معلوم کہ میں لاش کو قبر سے نکال رہا ہوں، ورنہ وہ مجھ کو پھاوڑا کیوں دیتا۔ میں ساری رات لاش کو باز و پر اٹھائے قبرستان میں پھرتا رہا اور روتا رہا۔ نماز فجر سے ذرا پہلے مقبرے کا رخ کیا۔ جانتا تھا کہ چابی کہاں رکھی جاتی ہے۔ میں نے تالا کھول کر لاش مقبرے کے قریب رکھ دی اور دروازہ بند کر کے محو تلاوت ہو گیا۔ مجھے یقین تھا کہ میری محبت کے جذبے سے مجبور ہو کر زرینہ کی لاش میں روح عود کر آئے گی مگر افسوس ہے تھانیدار صاحب تم نے مہلت نہ دی۔ خدا کی قدرت اسی شام نواب کا ہارٹ فیل ہو گیا اور اس نے اپنی محبوبہ کے پہلو میں جگہ پائی۔ تھانیدار اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ وہ دیوانہ وار مزار کی سمت بھاگا، وردی کو خیر باد کہا اور سادہ لباس پہن لیا، پھر بقیہ عمر دشت جنوں کی سیاہی میں گزار دی۔ | null |
null | null | null | 198 | https://www.urduzone.net/kacha-bandhan/ | ناجیہ سے میری بچپن کی دوستی تھی۔ آٹھویں میں تھی کہ ابو نے گائوں سے شہر میں سکونت اختیار کر لی اور ہم جدا ہو گئے۔ بی اے کے بعد میری شادی ہو گئی، بیاہ کر پنڈی چلی گئی اور مجھے اس کی کچھ خبر نہ رہی۔ دوبارہ اس کے گائوں جانانہ ہو سکا کیونکہ ابونے وہ جائداد ہی فروخت کر دی تھی جو گائوں میں تھی۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ دس برس بیت گئے، مجھے اب بھی اکثر ناجیہ یاد آتی تھی۔ اس جیسی مخلص اور پیار کرنے والی سہیلیاں کم ہی کسی کو ملتی ہیں۔ ناجیہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ سچ بولتی تھی اور جس بات کو سچ جانتی اس پر ڈٹی رہتی۔ صاف گو تھی اور یہی اس کی بڑی خرابی مانی جاتی تھی، جس باعث وہ منہ پھٹ کہلاتی تھی۔ لیکن وہ ہر اچھی طرح سے ملنے والے پر جلد اعتبار کر لیتی۔ یہ عادت اسے لے ڈوبی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے شیر از کو اسکول داخل کرانے گئی ، وہاں اچانک بچپن کی یہ دوست مل گئی۔ اسٹاف روم سے نکل رہی تھی، مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئی جیسے کہ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا ہو۔ لمحہ بھر بعد دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ زاہدہ یہ تم ہو اوہ یقین نہیں آتا کہ کبھی اس طرح مل جائو گی ۔ تم کتنی یاد آتی ہو، بتا نہیں سکتی۔ میں نے اپنے بیٹے شیر از کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔داخلہ کے لئے آئی ہو ہاں یہ اسکول قریب ہے ، دونوں بڑے بچے دوسرے اسکول جاتے ہیں۔ یہ کم سن ہے سو چافی الحال نزدیک ہی داخل کرا دیتی ہوں، پہنچانے اور لے جانے میں آسانی رہے گی۔ وہ مجھے پر نسپل کے کمرے میں لے گئی اور جھٹ پٹ داخلہ کرادیا۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ لیا۔ میں نے اسے اپنے گھر کاایڈریس سمجھا دیا اور فون نمبر بھی دے دیا۔ چار روز بعد جبکہ آدھی چھٹی کا دن آیا، ناجیہ میرے گھر آگئی۔ ہم نے خوب باتیں کیں لیکن جب میں نے پوچھا کیا شادی ہو گئی تو ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہو گئی۔ میں نے اصرار کیا بتائو تو کیوں نہ ہوئی شادی اور اس قدر افسردہ کیوں کیا مجھے دوست نہیں سمجھتی ہو بولی، زاہدہ مت پوچھو۔ دل میں وہ روگ لئے جی رہی ہوں کہ بیان کرنے کی تاب نہیں ہے لیکن تم سے ضرور بتا کر جی کا بوجھ ہلکا کر لوں گی، پھر یوں گویا ہوئی۔ تمہارے جانے کے بعد میرے حالات نے عجب موڑ لے لیا۔ پہلے تو ہم اکٹھے اسکول آتے جاتے تھے۔ تم روز میرے گھر سے اپنی گاڑی میں پک کر لیتیں اور واپسی میں ڈراپ کر دیا کرتی تھیں۔ تمہارے جاتے ہی یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اب میں اسکول کیسے جائوں۔ ملازمت کی وجہ سے ابو خود چھوڑنے نہ جاسکتے تھے اور بھائی بھی اپنے کام پر جاتے تھے۔ ابو معمولی تنخواہ دار تھے ، وہ میرے لئے سواری کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے۔ بڑی مشکل آپڑی۔ ان دنوں ہمارے محلے میں ایک گھرانہ آباد ہوا تھا جن کا بیٹا سوز و کی چلاتا تھا۔ محلے کے اور بچوں کو بھی سواری کی تکلیف تھی کیونکہ ہمارا گھر مضافاتی علاقے میں تھا جہاں کہیں بھی جانے کے لئے آسانی سے سواری دستیاب نہ تھی۔ تبھی محلے والوں نے روز روز کی اس تکلیف کا یہ حل نکالا کہ سوزو کی چلانے والے سے بات کی، یوں اس کے ساتھ ماہانہ کرایہ پر اسکول کے بچوں کے لئے مل جل کر سوزو کی کروالی گئی۔ جو شخص سوزو کی چلاتا تھا اس کا نام اقبال تھا اور عمر یہی کوئی پچیس تیس کے قریب تھی لیکن ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔ محلے اور گردو نواح کے تقریباً ہمیں بچے اقبال کی سواری میں جانے لگے ۔ ان کے ساتھ ہی میں بھی جانے لگی۔ اقبال چونکہ محلے دار تھا، لہٰذا سبھی کے والدین کو اس پر اعتبار تھا۔ لگتا بھی شریف آدمی تھا، باقی سارے بچوں سے عمر میں ذرا بڑی تھی، لہٰذا آگے والی سیٹ پر بیٹھتی تھی، چھوٹے بچوں کی ہڑبونگ اور شور و غوغا سے بچنے سے کے لئے۔ جانتی تو ہونا کہ میرا گھر جاتے ہوئے پہلے اور واپسی میں سب سے آخر میں آتا تھا۔ اقبال کافی خوبرو نوجوان تھا۔ وہ شائستہ اور مہذب تھا، تمام بچوں کے ساتھ بہت پیار سے پیش آتا تھا۔ تمام رہتے وہ خاموش رہتا اور مجھ سے بالکل بھی مخاطب نہ ہوتا۔ البتہ ابو سے ملتا تو بہت ادب سے پیش آتا۔ وہ ان کا بے حد احترام کرتا۔ ابو بھی اسے اقبال بیٹا کہہ کر مخاطب ہوتے کہ اقبال کے والد سے اچھی خاصی دعا سلام ہو گئی تھی۔دو ماہ اسی طرح گزرے۔ بالآخر ایک روز میں نے خاموشی کا روزہ توڑ کر مخاطب کر لیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ ایک ماہ کا کرایہ ابوادانہ کر سکے کیونکہ امی کی بیماری پر رقم خرچ ہو گئی تھی، تبھی والد صاحب نے معذرت کر لی کہ اگلے ماہ دے دوں گا۔ کوئی بات نہیں ، اپنے گھر جیسی بات ہے فکر نہ کریں۔ جب رقم ہو تب سہولت سے دے دینا۔ اس بار بھی پیسے نہ جڑ پائے ، تب میں نے اقبال سے کہا۔ ابو کہہ رہے تھے کہ دو چار دنوں میں ہی انتظام کر دیں گے ، وہ بولا ۔ بالکل فکر کی بات نہیں ہے۔ میں نے مانگے تو نہیں ہیں، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ ہم نے ایک بار بات کر لی تو بس پھر آڑ باقی نہ رہی۔ اب جب سب بچے اتر جاتے اور میں آخر میں رہ جاتی، اقبال خود مجھسے مخاطب ہوتا اور میرے گھر یلو حالات پوچھتا۔ میں نے اس سے کچھ نہ چھپایا۔ سب بتا دیتی کہ ابو بڑی مشکل سے خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ کم ہے اور بھائی پڑھ رہا ہے ۔ امی بیمار رہتی ہیں۔ ہم لوگ تنگی سے زندگی بسر کر رہے ہیں، وغیرہ۔ اس پر وہ کہتا۔ چاناراض نہ ہو جائیں ورنہ میں تو یہی چاہتا ہوں آپ سے کرایہ نہ لوں۔ آخر محلے داری ہے، کچھ حقوق تو ہوتے ہیں اور کچھ ہمارا بھی فرض بنتا ہے۔ ایسی باتیں سنتی مگر گھر میں نہ کہتی کہیں امی ابو یا بھائی بدگمان ہو جائیں ۔ ضرور وہ سوال کرتے کہ وہ تم سے یہ باتیں کیوں کرتا ہے بلکہ بات ہی کیوں کرتا ہے۔ وہ تو اسے نہایت شریف اور بھروسے کا آدمی سمجھتے تھے۔ وہ بھروسے کا آدمی تھا۔ تمام محلے والے اس پر بھروسہ کر کے اپنے بچے اس کے سپرد کرتے تھے۔ ایک روز میں نے پوچھ لیا آپ سارے بچوں سے پیار کرتے ہیں، کیا آپ کےا۔ ، کیا آپ کے اپنے بچے ہیں اس نے بتایا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں، لیکن مجھے چھوٹے بچے اچھے لگتے ہیں اس وجہ سے ان سے پیار کرتا ہوں۔آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہ کی۔ میری بھی ایک کہانی ہے۔ دراصل میں ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ وہ ایک غریب لڑکی تھی اور اسکول میں ٹیچر تھی۔ میں نے اسے حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن اس کے گھر والے نہ مانے۔ انہوں نے رشتہ دینے سے منع کر دیا کیونکہ اس کی منگنی اپنے چازاد سے ہو چکی تھی۔ مجھے بہت قلق ہوا۔ آخر کار میرے ابا جان نے سمجھا بجھا کر مجھے خاموش کرادیا۔ اس لڑکی کا نام مہ ناز تھا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ میرے سوا کسی سے شادی نہ کرے گی لیکن والدین نے اس کی نہ چلنے دی اور زبردستی اس کے منگیتر سے شادی کرادی۔ اس نے کہا تھا کہ میں شادی کے بعد یہ بندھن توڑ کر تمہارے پاس آجائوں گی لیکن دن مہینوں اور ماہ سالوں میں گزر گئے اور وہ نہ آسکی۔ اس کے انتظار میں شادی نہ کی۔ بالآخر گھر والوں نے مجبور کر دیا اور میری منگنی رشتہ داروں میں کرادی لیکن میں ابھی تک شادی سے گریز کر رہا ہوں ۔ شاید کبھی مہ ناز آجائے تو اسے کیا جواب دوں گا اب تک مہ ناز کو نہیں بھلا سکا۔ دل کسی اور سے شادی کرنے کو نہیں چاہتا۔ سخت تکلیف میں ہوں اور اپنی تکلیف کسی کو بھی نہیں بتا سکتا۔ آج نجانے کیسے تم کو بتادیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا، اقبال کا دکھ محسوس کر کے شدید تکلیف ہوئی۔ شاید کہ اس نے اپنی داستان میرے سوا آج تک کسی سے بھی نہ بتائی تھی۔ حالانکہ ان دنوں میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی اور میری عمر بمشکل چودہ پندرہ سال ہو گی، پھر بھی اس نے مجھے اس لائق سمجھا کہ اپنا رازداں بنا لیا اور میں بھی اس کی غمگسار بن گئی۔ مجھے لگا کہ میں بڑی ہو گئی ہوں۔ اس قابل ہو گئی ہوں کہ کوئی اپنا دکھ میرے ساتھ بانٹ رہا ہے۔ وہ تو اپنوں کا ستایا ہوا تھا اور میں حالات کی ستائی ہوئی تھی۔ ہمارے گھر اچھا کھانے کو تھا اور نہ اچھا پہنے کو بیس نوالے ہی گنے چنے مل جاتے تھے تو روز و شب گزر رہے تھے۔ اب میں بھی اپنے حالات ، اپنے دکھ اس کے ساتھ شیئر کرنے لگی۔ اسے سہارا چاہئے تھا، مجھے بھی سہارے کی ضرورت تھی۔ ماں بیمار تھی، ابو خرچہ پورا کرنے کی الجھن میں رہتے۔ بھائی بات نہ کرتے اور بہن کوئی تھی نہیں جس سے دل کی بات کہتی یا سنتی۔ ایسے میں ہر روز اقبال کا مختصر سا ساتھ میرے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ میری کوئی سہیلی نہ تھی، زاہدہ تمہارے سوا۔ تمہارے جانے کے بعد بھی میری کوئی سہیلی نہ بن پائی تو میں نے اقبال کو ہی سہیلی جیسا مان لیا کیونکہ وہ پختہ ذہن تھا اور میرے کم سن ذہن کو اس کی سوچیں اپنی گرفت میں کر سکتی تھیں۔ وہ یوں اداسی سے اپنی مہ ناز سے جدائی کا تذکرہ کرتا کہ میرا دل اس کے دکھ کو محسوس کر کے تڑپ جاتا۔ سوچتی تھی کیسے اس کا دکھ دور کر دوں۔ کاش میں ہی وہ لڑکی ہوتی تب اس کے درد کا مداوابن جاتی۔ وہ اتنا ہمدرد تھا کہ ہمارے حالات کے بارے میں کڑھتا اور فکر مند رہتا۔ کوشش کرتا کہ ہم کو اس کی سوزو کی کا کرایہ نہ دینا پڑے۔ دو تین ماہ گزر جاتے تو ہر گز تقاضا نہ کرتا۔ ابو رفتہ رفتہ قسطوں میں کرایہ ادا کرتے رہتے۔ اسی وجہ سے وہ میرے والد کی نظروں میں اور زیادہ پسندیدہ ہوتا گیا اور ان کے دل میں گھر کرتا گیا۔ والد اسے بیٹھک میں بٹھا لیتے، چائے پلاتے اور ادھر ادھر کی باتیں ہوتیں۔ والد صاحب اس کی باتوں سے متاثر ہوتے۔ اقبال باشعور، سلجھا ہوا اور نیک خیالات کا حامل تھا۔میں دل ہی دل میں اسے چاہنے لگی۔ ہمدردی چاہت میں بدل گئی، لیکن اظہار نہ کرتی۔ ایسی لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھتی تھی جو تھی جو عشق و محبت کے چکر میں بد نامی مول لے لیتی ہیں لیکن جب وہ مہ ناز کا ذکر کر کے افسردہ ہو تا مجھے اس پر بہت ترس آتا۔ ایک روز اس نے خود مجھ سے اظہار محبت کر دیا تب بہت پریشان ہوئی۔ میں نے اقبال سے کہا کہ آپ منگنی توڑ دیں۔ بولا یہ ممکن نہیں ہے۔ تو پھر پہلے میرے ساتھ شادی کر لیں بعد میں اپنی منگیتر کے ساتھ بھی کر لینا۔ رشتہ لائیں گے تو میرے والدین راضی ہو جائیں گے ۔ آپ یہی بتانا کہ منگنی ختم کر دی ہے۔ میرے ابو آپ کو پسند کرتے ہیں۔ تسلی دی کہ ہاں ایسا ہی کروں گا لیکن ایسا کچھ نہ کیا۔ دسویں جماعت کے پرچے ہونے والے تھے، پندرہ دن کی ہم کو چھٹیاں ملیں امتحان کی تیاری کے لئے، تبھی اس کے گھر شادی کی تیار یاں ہونے لگیں۔ شادی کا کارڈ ہمارے گھر آیا تو سن رہ گئی۔ جیسے کسی نے مجھ پر بم گرادیا ہو۔ ایسا لگا جیسے دنیا ختم ہو رہی ہو اور جیسے یہ میرا سفر آخرت ہو۔ اب تو چھٹیاں تھیں مل بھی نہ سکتی تھی۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں ، ان کی شادی کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ مجھے اسکول تو جانا ہی تھا، دسویں کا امتحان تھا کوئی مذاق نہ تھا۔ پہلے روز جب سب بچے سوز و کی سے اتر گئے اور میں اکیلی رہ گئی تو کہا۔ سنو ناجیہ ، مجھے وہ لڑ کی بالکل پسند نہیں، جس سے میری زبردستی شادی ہو گئی ہے۔ میرا اس کے ساتھ گزارا مشکل ہے۔ دو تین ماہ میں ہی دیکھ لینا میں اسے طلاق دے دوں گا۔ پھر شادی تو تم سے ہی کروں گا اگر تم راضی ہو جائو۔ بمشکل پرچے دیئے۔ آخری پرچے کے دن جب سوزوکی میں بیٹھی تھی۔ دل رورہا تھا، چہرہ اترا ہوا اور آنکھیں نم تھیں۔ اس نے نظر بھر کر میری جانب دیکھا۔ آج کم بچے تھے ، انہیں اتار کر اس نے سڑک سے سوزوکی کو موڑ لیا اور گھر سے کچھ دور ایک مکان کے سامنے سوزو کی روک لی۔ کہنے لگا آج تم سے ضروری بات کہنی ہے۔ اتر آئو۔ یہ میرے تایا کا گھر ہے لیکن خالی ہے ، وہ شہر شفٹ ہو گئے ہیں۔ میں نہ اتر رہی تھی ، اقبال نے کہا۔ امتحان ختم ہو گئے ہیں اب کہاں مل سکو گی ، ضروری بات رہ جائے گی۔ میری بات مان لو ، دو گھڑی کو اتر آئو۔ یہاں بیٹھ کر باتیں کرتے کسی نے دیکھ لیا تو برا ہو گا۔ میرا دل بھرا ہوا تھاد کھ سے۔ ناچار اتری، اس کی ضروری بات تو سننی تھی۔مکان کا قفل کھول کر وہ مجھے گھر میں لے آیا۔ بھاری قدموں سے وہاں گئی اور کمرے میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کر تا ضبط نہ ہو سکا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ اقبال نے میرا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھ دیا اور کہا۔ قسم کھاتا ہوں اگر تم سے نکاح نہ کیا تو خدا مجھے موت دے دے۔یہ بات سن کر تھرا گئی۔ بولا ، ہم چھپ کر نکاح کریں گے ۔ جب حالات ساز گار ہو جائیں گے تب تم کو لے جائوں گا اور ساتھ رکھوں گا۔ پہلے سبینہ کو طلاق دینے کا مرحلہ طے کرلوں۔ ویسے میرے ماں باپ تم کو قبول نہ کریں گے۔ سوچیں گے تمہاری وجہ سے طلاق دے رہا ہوں۔ میں رورہی تھی۔ مجھے چپ کراتے کراتے وہ جذبات کے طوفان میں پھنس گیا۔ ہم بہت نزد یک آگئے اور پھر طوفان تو طوفان ہوتا ہے ، سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ افسوس کے سوا کچھ نہ رہا۔ اس نے مجھ سے خفیہ نکاح کر لیا، اس وعدے پر کہ جب تک وہ اجازت نہ دے گا میں اپنی اور اس کی شادی کا راز افشا نہ کروں گی اور نہ اولاد کو جنم دینے کی خواہش کروں گی۔ میں نے ہر شرط کو منظور کر لیا کیونکہ جسے من کا مالک مانا تھا، تن کا مالک بھی وہی تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ میں نے ضد کر کے پڑھائی جاری رکھی اور ہر رشتے سے انکار کرتی رہی۔ اس راز کو مگر افشانہ کیا کہ میں اقبال کی منکوحہ ہوں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسکول میں ٹیچر لگ گئی، یوں دس سال گزر گئے ۔ اقبال نے نہ تو میرے نکاح کو ظاہر کرنے کی اجازت دی اور نہ پہلی بیوی کو طلاق دی۔ جس نے اقبال کے چار بچوں کو جنم دیا ہے وہ اسی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے اور میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہوں۔ اقبال نے ہی میر اتبادلہ گائوں سے شہر کرایا ہے تا کہ میں اس سے مل سکوں۔ ہمارا نکاح ہے ، وہ مجھ سے یہی کہہ کر شوہر کی حیثیت سے ملتا ہے۔ ایک مکان لیا ہوا ہے۔ اسکول سے چھٹی کے بعد میں دو تین گھنٹے وہاں جاتی ہوں اور پھر گھر آجاتی ہوں۔ ہم صرف دن کو ملتے ہیں۔ کبھی ایک رات بھی میں گھر سے غیر حاضر نہیں رہی۔ وہ بھی بیوی اور بچوں سے ایک رات بھی غیر حاضر نہیں ہوا۔ یہ ہے میری زندگی۔ اس کو تم شادی شدہ زندگی کہو یا غیر شادی شدہ سمجھو۔ ٹیچنگ کر کے خود کماتی ہوں۔ خود اپنے اخراجات پورے کرتی ہوں ۔ اقبال کا کہنا ہے کہ اس پر چار بچوں کا بوجھ ہے۔ وہ مجھے خرچہ نہیں دے سکتا۔ میں ناجیہ کی زبانی اس کی کہانی سن کر دنگ رہ گئی۔ عجیب و غریب تمہاری محبت ہے اور عجب سی زندگی تم بسر کر رہی ہو۔ نکاح خفیہ رکھنے کا معاہدہ ہر گز نہیں میری دوست ۔ تم اس بندھن کو کم از کم اپنے والدین پر تو ظاہر کر دو۔ وہ رو کر کہنے لگی۔ دوست میں ایسا نہیں کر سکتی، کیونکہ جس دن میں نے اپنے اور اقبال کے نکاح کا راز افشا کیا وہ میرے اور اس کے اس بندھن کا آخری دن ہو گا۔ وہ چلی گئی اور میں سوچتی رہ گئی کہ اگر یہ بندھن ایسا ہی کچا ہے تو نجانے ناجیہ اس کو توڑ کیوں نہیں دیتی لیکن مجھے ہزار بار سوچنے کے باوجود اس سوال کا جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ | null |
null | null | null | 199 | https://www.urduzone.net/zameer-ki-khalish/ | مجھے اقرار ہے کہ میں نے خود طلاق لی، مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ طلاق لینا عورت کے لئے کوئی فخر کی بات نہیں، میں اقرار کرتی ہوں کہ جس گھر میرا بیاہ ہوا وہاں مجھے کوئی تکلیف بھی نہیں تھی، بس اک ضمیر کی خلش کے سوا، لیکن ضمیر کی خلش بھی کچھ کم عذاب نہیں، سو میں نے طلاق لے لی اور اس پر مجھے کوئی پچھتاوا، شرمندگی یا افسوس نہیں ہے۔ مطلقہ ہونے کا داغ لے کر مجھے ایسا لگا جیسے یہ داغ نہیں بلکہ تمغۂ افتخار ہے۔ عیش و آرام بھری اس دنیا سے نکل کر اپنی مفلسی میں دوبارہ سما جانے سے جو راحت و سکون ملا ہے ، وہ جنت کی راحت سے کم نہیں ہے۔ آپ حیران نہ ہوں۔ میں بتاتی ہوں کہ کیوں میں نے اپنے ماتھے سے سہاگ کا جھومر نوچ کر طلاق کا داغ لگانے کے لئے اتنی دعائیں مانگیں تھیں۔ میں غریب مگر انتہائی شریف گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میرے والد اسکول ماسٹر تھے۔ وہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں روز و شب کوشاں رہتے تھے۔ ان کو نیکی، شرافت اور دیانت کا درس دیتے تھے۔ بچپن سے انہوں نے ہمیں اخلاقیات بھرے سبق رٹوائے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملاوٹ کرنے والے اور منافع خور دوزخی ہوتے ہیں۔ یہ قوم کی صحت سے کھیلتے ہیں اور ملت کو کمزور کر دیتے ہیں۔ ان کے رزق میں حرام اور پیٹ میں آگ اور انگارے بھر جاتے ہیں ان پر خدا کی لعنت ہوتی ہو گی۔ جب بچوں کے ذہنوں میں اس طرح کی باتیں راسخ ہو جائیں تو وہ بدی سے سمجھوتہ کرنے سے کترانے لگتے ہیں۔ والد صاحب نے مجھے ایم اے تک تعلیم دلوائی کہ مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ کتنی دقتیں اٹھا کر انہوں نے مجھے اس منزل تک پہنچایا، جب کہ ہم گائوں میں تھے اور یونیورسٹی شہر میں تھی۔ ایک پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ اس قدر قلیل ہوا کرتی تھی کہ دو وقت کی روٹی عزت سے بمشکل پوری ہو پاتی تھی۔ ایسے حالات میں انہوں نے ہمت ہاری اور میں چاہتی تھی کہ ایم اے کر کے ہائی اسکول میں ٹیچر لگ جائوں یا قسمت یاوری کرے تو لیکچرار بن کر والد صاحب کے دل کو ٹھنڈک پہنچاؤں۔ جب حالات کا ریلا آتا ہے تو برسوں کے خوابوں کو بھی بہالے جاتا ہے۔ ان دنوں میں نے لیکچر رشپ کی آسامی کے لئے درخواستیں دی ہوئی تھیں کہ والد صاحب کی ملاقات گائوں کے ایک امیر آدمی سے ہو گئی ، جس کا اپنا کاروبار تھا۔ وہ اپنے پوتے کا اسکول لیونگ سرٹیفکیٹ لینے آیا تھا۔ ابا جان سے ان کی اچھی گپ شپ ہوئی اور باتوں باتوں میں رشتوں کا ذکر چل نکلا۔ آفاق صاحب نے کہا۔ مجھے اپنے ڈاکٹر بیٹے کے لئے ایسی لڑکی کی تلاش ہے، جو کم از کم گریجویٹ ہو اور سادہ رہن سہن کی پروردہ ہو۔ امیری غریبی کے فرق کو میں اہمیت نہیں دیتا، لیکن جیسے ہر نوجوان کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کی شریک حیات تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ نیک سیرت اور خوش شکل بھی ہو، میرے زاہد کی بھی یہی آرزو ہے۔ میری بیوی نے کافی لڑکیاں دیکھی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسی لڑکی نہیں ملی جس میں یہ تمام خوبیاں یکجا ہوں۔ دراصل گائوں میں لڑکیاں خوبصورت تو بہت ہیں مگر تعلیم بس میٹرک۔ آپ ہی انصاف کیجیے ڈاکٹر لڑکے کے لئے لڑکی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کہ نہیں شہر میں تو بہت لڑکیاں مل جائیں گی مگر ہماری بیگم کی نجانے کیا منطق ہے کہ وہ اس بات پر اڑی ہوئی ہیں کہ مجھے بہو گائوں میں رہنے والے گھرانے سے ہی بہو چاہیے ۔ آفاق صاحب کی یہ باتیں سن کر میرے سادہ دل و صاف گو والد صاحب بولے۔ بھائی صاحب اگر آپ پسند کریں، تو اپنی بیگم کو ہمارے گھر بھجوا دیں۔ میری بیٹی گائوں کی پروردہ، لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے، جس کے لئے وہ دو سال یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں قیام پذیر رہی ہے۔ یہ سن کر آفاق صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ بولے۔ رشتے تو نصیبوں سے ہوتے ہیں، ہر حال میں آج ہی اپنی بیگم کو آپ کے گائوں بھیجوں گا تا کہ وہ ایک نظر آپ کی بچی کو دیکھ لیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ سے ہماری رشتہ داری ہو جائے۔ آپ تو بہت بھلے مانس ہیں یقیناً اولاد بھی آپ کے جیسی نیک سیرت ہو گی۔ خیر اس طرح آفاق کی بیگم ہمارے گھر تشریف لائیں۔ مجھے تو علم نہ تھا کہ یہ کیوں آئی ہیں۔ جیسا ہمارے مزاج میں تھا، خوش اخلاقی سے مہمان کی آئو بھگت کرنا، وہ ہم نے کی۔ والد صاحب نے بتایا تھا کہ ان کے دوست کے گھر سے خواتین آئیں گی، باتوں باتوں میں مسز آفاق نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر کافی اثر ورسوخ والے ہیں اور علاقے کے سیاست دان کی معاونت سے گائوں میں لڑکیوں کے لئے کالج کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں، پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔ مجھے یہ جان کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ گائوں میں رہ کر تم نے ماسٹر زکر لیا ہے۔ ان شا اللہ دو چار ماہ میں ہمارے گائوں میں لڑکیوں کا کالج کھلنے والا ہے۔ جونہی منظوری آئے گی ، عمارت بننا شروع ہو جائے گی۔ مجھ کو ان کی باتیں بہت پسند آئیں کہ وہ تعلیم کی اس قدر ، قدردان ہیں۔ بہر حال جب والد صاحب آئے تو امی نے مسز آفاق کی بہت تعریف کی۔ اسی طرح جب وہ گھر گئیں تو اپنے شوہر اور لڑکے سے میری بہت تعریف کی گویا ان کو میں بطور بہو پسند آگئی تھی گرچہ ایک سفید پوش پرائمری اسکول ٹیچر کی بیٹی تھی۔ والدین نے سوچا یہ بھی ان لوگوں کی بڑائی ہے۔ باوجود یہ کہ ہماری غریبی ثابت تھی، انہوں نے اس امر کو مسئلہ نہیں سمجھا اور ایک معمولی گھرانے میں بیٹے کا رشتہ کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ امی زاہد کا گھر دیکھنے گئیں تو ان کی وسیع و عریض حویلی دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ کیا دولت تھی، کیا شان و شوکت تھی۔ نوکر چاکر تھے ، گاڑیاں، سوزوکیاں ، ویگنیں تھیں۔ ہر شے منہ سے بول رہی تھی کہ دولت اس گھرانے کی باندی ہے۔ امی ابا کو تو یقین نہیں آرہا تھا کہ کیسے انہوں نے ہم سیدھے سادے کم مایہ لوگوں کے ساتھ رشتہ جوڑنا پسند کر لیا تھا۔ خیر ، یہ قسمت کا لکھا تھا۔ زاہد کے ساتھ میری شادی ہو گئی اور میں آفاق صاحب کی بہو بن کر ان کے گائوں آگئی۔ یہ بالکل غیر لوگ تھے مگر مجھے انہوں نے پہلے دن سے یہی احساس دیا کہ میں غیر نہیں ہوں۔ اپنائیت کے اس احساس سے دوماہ بہت سکون سے گزر گئے ، پھر رفتہ رفتہ اس گھر کے اسرار کھلنے لگے۔ پاس پڑوس سے سن گن ملی کہ پہلے یہ لوگ بہت غریب تھے۔ رفتہ رفتہ امیر ہو گئے ، میرے سسر صاحب تین قسم کا کاروبار کرتے تھے۔ ایک میٹھی چھالیہ بنانے کا کارخانہ تھا اور دوسرا کارخانہ مسالوں کا تھا، تیسر ا چائے کی پتی کا کاروبار تھا۔ اس کاروبار ہیں میرے چار دیور بھی برابر کے شریک تھے ، جب کہ میرے شوہر کی ایک ڈسپنسری تھی اور وہ ڈاکٹر کہلاتے تھے۔ شادی کے بعد مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ ڈاکٹر نہیں، بلکہ ڈسپنسر کا کورس کیا ہوا ہے اور قریبی دیہات میں چھوٹا سا مطب چلاتے ہیں۔ دیہات کے سادہ لوگ ان کو سچ مچ کا ڈاکٹر ہی سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی دواؤں کا ایک چھوٹا سا اسٹور بھی کھول رکھا تھا، جہاں سے دیہاتی بچارے ان کے بتائے ہوئے نسخوں سے دوا خریدتے تھے۔ جہاں میرے میاں مطب کرتے تھے ، وہ دیہات شہر سے صرف سات میل دور تھا۔ میں اپنی سسرال میں ہی رہتی تھی۔ میرے میاں ہفتے میں دو دن کے لئے ہی گھر آتے ، باقی دن وہ اپنے مطب پر رہتے تھے۔ ایک بار میں نے ساتھ جانے کو کہا تو بولے۔ میں تمہیں وہاں اس لیے نہیں لے جاسکتا کہ دیہات کا ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ تم وہاں اکیلی نہیں رہ سکو گی کیونکہ میں تو رات دن مریضوں میں الجھا رہتا ہوں۔ ان کا جواب سن کر میں چپ ہو گئی۔ ہمارے گھر کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میں ہم سب کی رہائش تھی، جب کہ دوسرا بڑا حصے میں ان کے کارخانے لگے ہوئے تھے۔ کارخانے میں اجرت پر مرد اور عور تیں کام کرتے تھے، تاہم کچھ کام گھر کی عورتوں کے بھی ذمے تھے ، جو وہ اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں۔ جب شادی کو تین ماہ گزر گئے تو ایک دن میری ساس نے کہا۔ دلہن اب تم بھی اس کام میں میرا ہاتھ بٹایا کرو۔ جی اچھا امی جان میں نے جواب دیا۔ جو کام آپ کہیں گی، میں کر دیا کروں گی۔ اگلے روز جس ہال کمرے میں پیسے ہوئے مسالے کی ڈھیریاں ہوتی تھیں ، وہ مجھے وہاں لے گئیں اور بولیں۔ تم ایسا کرو کہ ان دو قسم کی ڈھیروں کو اتنے تناسب سے ملاتی جائو۔ بس اتنا ہی کام ہے۔ انہوں نے مجھے ناک ڈھانپنے کو خاص قسم کا ڈوریوں والا رومال دیا۔ میں ناک منہ لپیٹ کر مرچوں والی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئی اور غور سے ان ڈھیریوں کو دیکھا تو ان میں ایک ڈھیری سرخ مرچوں اور دوسری رنگے ہوئے باریک برادے کی تھی۔ گویا ملاوٹ کا کام ہم گھر کی عورتوں کو کرنا تھا۔ یہی حال ہر مسالے کا تھا، حتیٰ کہ چائے کی پتی گھٹیا قسم کی اعلیٰ کوالٹی کے ڈبوں میں بھر کر زیادہ داموں میں بیچی جاتی تھی۔ چھالیہ گلی سڑی، مضر صحت رنگ میں رنگنے کے علاوہ سکرین کے زہر سے میٹھی کا جاتی۔ میرا سر چکرانے لگا۔ میرا ضمیر گوارہ نہ کرتا تھا کہ ایسے گھٹیا کاموں میں ان لوگوں کا ہاتھ بٹائوں جبکہ سسرال کے کسی ایک فرد کو بھی اس بات کا احساس نہ تھا کہ دولت کمانے کی خاطر وہ جو کام کر رہے ہیں، کس قدر گھٹیا اور اخلاق سے گرا ہوا ہے۔ یقین کریں جب پہلی بار میں نے پسی ہوئی سرخ مرچوں میں برادہ ملایا تو میرے دل میں ٹھیس سی اٹھی۔ دل اور ہاتھ کانپ رہے تھے ، مگر لب خاموش تھے۔ سسرال میں کسے کیا کہتی ، یہ تو سارا کنبہ ہی بگڑا ہوا تھا۔ ان پر میری نصیحت کا کیا اثر ہونا تھا۔ انتظار کرنے لگی کہ شوہر صاحب آئیں تو ان سے کہوں کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا اور نہ ملاوٹ کے اتنے بڑے جرم میں آپ لوگوں کی شریک بن سکتی ہوں۔ خدا خدا کر کے چھ دن گزر گئے، ساتویں روز زاہد آگئے۔ ان سے کہا۔ آپ کے والد اور بھائی، والدہ اور بہنیں، سب کے سب جس غلط کاروباری رنگ کو اختیار کئے ہوئے ہیں، میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ بظاہر تو آپ شریف کہلاتے ہیں، کوٹھی نما گھر میں رہتے ہیں، مگر ایسی دولت سے کیا فائدہ، جب رزق حلال اس میں شامل نہ ہو۔ ہمارے والد صاحب نے تو ہمیں ہمیشہ رزق حلال کھلایا ہے اور ہر کام ضمیر کی روشنی میں کرنے کی ہدایت کی ہے۔ میں خلاف ضمیر کوئی کام نہیں کروں گی۔ یہ کام کرنا تو کجا، میں گھر میں یہ دھاندلی اپنی آنکھوں کے سامنے برداشت بھی نہیں کر سکتی۔ یہ میری ایک ہفتہ کی گھٹن تھی جو شوہر کے سامنے ان الفاظ میں نکلی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ وہ میری باتوں کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے۔ بھلا، ملاوٹ کی چیزیں لوگوں کو کھلا کر انہیں بیماریوں میں مبتلا کرنا ایک گھنائونا جرم نہیں تو اور کیا تھا۔ میری باتیں سن کر زاہد نے فرمایا۔ اپنی بکواس بند کرو اور خبردار جو آئندہ ایسی خرافات مجھے سنائیں۔ طلاق دے دوں گا۔ مت پوچھئے ، کتنا دل کو صدمہ پہنچا۔ میرا سراپا ہی سلگ اٹھا۔ رورو کر پاگل ہو گئی۔ اب تو تمام گھر والوں کو میری پریشانی کا علم ہو گیا اور وہ مجھے ایسے دیکھنے لگے ، جیسے پرائی قوم کا جاسوس ان کے قبیلے میں گھس آیا ہو۔ میں سخت پریشان رہنے لگی تھی، لیکن انہیں میری پریشانی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ اب میں اس دن کو کوستی کہ ایسے بے ضمیر لوگوں میں رشتہ ہوا۔ میرے والد بے چارے تو ایک معمولی ٹیچر تھے، اپنی سادگی کی وجہ سے ان لوگوں کو نہ پہچان سکے۔ انہوں نے کتنے دکھ سہ کر مجھ کو ایم اے کرایا تھا۔ سوچتی تھی کہ اسی دن کے لئے، یہ لوگ تو صرف دولت مند ہی نکلے ۔ تعلیم یافتہ بھی نہ تھے کہ کم از کم میری بات سننے کا ہی ان میں حوصلہ ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میری ذرا سی بات پر طوفان اٹھا دیتے۔ سچ بات کہتی تو الٹا مجھ پر ہی لعن طعن کرتے کہ کیا بیوقوف لڑکی ہے۔ اپنے ہی گھر کی خوشحالی کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ کاش میرے والدین خوشحال گھرانے کی بجائے کسی ایماندار مگر غریب گھر میں بیاہ دیتے۔ میں پڑھی لکھی تھی، ملازمت کر کے اپنے گھر کے حالات سدھار لیتی۔ دل کو سکون تو میسر رہتا۔ اب میں ہر وقت غمزدہ و پریشان رہنے لگی۔ کھانا کھاتی تو کراہت آتی کہ رزق حرام کھارہی ہوں۔ آہستہ آستہ دل کی گھٹن بڑھتی گئی۔ جب پتا ہو کہ قریب ہی کھرے میں کھوٹ ملایا جا رہا ہے۔ جب علم ہو کہ ایسا کچھ غلط ہو رہا ہے جو لاکھوں انسانوں کی صحت کو برباد کرنے کا سبب بن رہا ہے ، اف کتنی روح فرسا بات تھی۔ سوچ سوچ کر ذہنی بیمار پڑتی گئی اور میری آنکھوں کے سامنے ملاوٹ کا کاروبار جاری رہا۔ اب میں نے نماز کی طرف دھیان دیا۔ ہر نماز کے بعد یہی دعا مانگتی که خدایا تو مجھے سکون دے اور ان لوگوں کو سدھار دے اور سیدھی راہ دکھا یا پھر مجھے اس گھرانے سے نجات دلا دے۔ اللہ تعالی نے میری دعا قبول کر لی۔ کارخانے پر چھاپہ پڑ گیا، سسر دھر لیے گئے۔ ایک لاکھ روپیہ دے کر پولیس سے جان چھڑائی۔ ابھی اس واقعہ سے سنبھلے بھی نہ پائے تھے کہ میرے شوہر گرفتار ہو گئے ، ایک دیہاتی عورت کو غلط انجکشن لگادیا، جس باعث وہ جاں بحق ہو گئی اور یہ اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے۔ ڈسپنسری پر پولیس نے قبضہ کر لیا۔ مطب کی تلاش لی تو کئی مضر صحت جعلی دوائیں نکلیں۔ اس کے علاوہ ادویات جو تاریخ گزر جانے کے بعد ضائع کر دینی چاہیں، وہ یہ خرید لیتے اور ان کو استعمال کر کے روپیہ کھرا کر لیتے تھے۔ کئی ڈبے ایسے سرکاری اسپتالوں سے اسمگل شدہ دواؤں کے نکلے ، جو حکومت غریب مریضوں کے لئے مفت مہیا کرتی ہے اور سرکاری اسپتالوں سے ضمیر فروش ملازموں کے ذریعے ایسے ہی عطائی ڈاکٹروں کے پاس فروخت کر دی جاتی ہیں۔ زاہد صاحب جیل سے باہر آئے تو انہوں نے مجھے طلاق کی دھمکیاں دیں۔ گرچہ میں نے ان کو اندر نہ کرایا تھا، قدرت کی طرف سے ان کے ساتھ یہ ہوا کہ جاں بحق ہو جانے والی مریضہ کے لواحقین نے ان کو اندر کرا دیا تھا۔ جب طلاق کی دھمکیاں ملیں تو والد صاحب نے عدالت کے ذریعہ ان بے ضمیر لوگوں سے نجات حاصل کر لی۔ سسر صاحب کے کارخانے بھی بند ہو گئے۔ یہ بھی سب قدرت کی طرف سے ہوا۔ جو لوگ اپنے مفاد کی خاطر غریبوں کا حق مارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آئیں گے ، وہ ضرور ایک دن گھیر لیے جاتے ہیں کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ وہ قانون سے بچ بھی جائیں تو کیا کہ اللہ تعالی کے انصاف سے بچ سکتے ہیں میں آج مطلقہ کا داغ لیے ہوں، مگر اس سے میری عزت پر کوئی حرف نہیں آیا۔ ہیں شکرا دا کرتی ہوں کہ خدا نے برے لوگوں سے نجات دی، ورنہ میری اولاد کا کیا حشر ہو گا۔ اب زیادہ آبرو بھری زندگی جی رہی ہوں۔ ایک کالج میں لیکچرار ہو گئی اور اپنے والدین بہن بھائیوں کی خدمت کا موقعہ میرے رب نے مجھے عطا کر دیا۔ | null |
null | null | null | 200 | https://www.urduzone.net/seerat-ka-phool/ | بچپن ہی سے مجھے چچی بہت اچھی لگتی تھیں۔ ہم لوگ ایک ہی گھر میں اوپر نیچے پورشن میں رہتے تھے۔ چچی بہت خوب صورت تھیں یہی وجہ ہے کہ میں ان سے بہت متاثرتھی۔ اور لاشعوری طور پر ہر وقت امی اور چچی کا موازنہ کرتی رہتی تھی۔ چچی کے گھر میں صبح گیارہ بجے ہوتی تھی۔ اور گھر کے تمام کام ماسی کے سپرد تھے۔ وہ اپنی جلد کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ ڈرینگ ٹیبل انواع اقسام کی کریموں اور لوشنز سے بھری ہوئی تھی۔ ہمہ وقت ہیئر کٹ اور نیل کلر ان کی شخصیت کا خاص جز تھے۔ مزاجوں کے کھلے تضاد کے باوجود امی سے ان کی بہت اچھی دوستی تھی۔ دونوں میں دیورانیوں، جیٹھانی والی کوئی بات نہ تھی۔ میں بچپن سے ہی کتابی کیڑا تھی اور یہ واحد شوق مجھے اپنی امی سے وراثت میں ملا تھا۔ لیکن چونکہ میں چچی سے بہت متاثر تھی لہذا ان کی ہی طرح ہمہ وقت بن سنور کر رہتی تھی۔ خاص طور پر مجھے ریڈ نیل بالش بہت پسند تھی لیکن چونکہ امی نے کبھی نماز چھوڑنے کی اجازت نہ دی تھی تو میں اپنا نیل کلر لگا کر فورا ہی چھڑانے بیٹھ جاتی۔ میری سوچ کا دائرہ اس وقت وسیع ہوا جب میں کالج میں آئی۔ جب میری فرینڈز مجھ سے پوچھتیں۔ نیہا تم اپنی امی میں ملتی ہو یا ابو میں تو میں جواب دیتی۔ بھئی میں تو اپنی چچی جیسی ہوں۔ کبھی میں سوچتی کاش چچی میری امی ہوتیں۔ امی زیادہ تر گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تھیں ۔ ان کا رنگ اور ناک نقشہ اچھا تھا جسے انہوں نے کبھی نکھارنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ وہ یونیورسٹی کی ٹاپر تھیں اس لیے اکثر وہ طلبا کو آن لائن پڑھایا کرتی تھیں۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اگر وہ چچی کی طرح نک سک سے رہتیں تو ان طرح نہیں تو ان سے کم بھی نہیں دکھائی دیتیں۔ امی مجھے چچی کی طرح کا ہیئر کٹ لینا ہے۔ بہت دنوں سے میں سوچ رہی تھی ۔ امی کا اچھا موڈ دیکھ کر بات کروں گی۔ مگر کیوں امی نے سوال کیا۔ کیونکہ مجھے پسند ہیں، ان کے جیسے بال۔ میں نے ضد کی۔ مگر بیٹا مجھے آپ کے لمبے بال ہی پسند ہیں ۔ امی نے جواب دیا۔ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ۔ امی منع نہ کرتیں مگر ہامی بھی نہ بھرتیں میں ٹھہری اچھی بیٹی سو ناچاہتے بھی میں امی کی بات سے اختلاف نہ کر پاتی۔ یار نیہا تم نے کبھی ہمیں اپنے گھر نہیں بلایا بس اس ویک اینڈ پر ہم تمہارے گھر آ رہے ہیں ہمارے گروپ کی انعم نے کہا۔ اچھا موسٹ ویلکم ۔ میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔ انٹی سے کہنا، اچھی اچھی ڈشز بنا کر رکھیں۔ ہمیں امید ہے تمہاری امی بھی تمہاری طرح ڈیشنگ ہوں گی ۔ صفیہ بولی۔ اور یہاں مجھے نئی فکر نے آلیا۔ گھر آ کر میں امی کے سر ہوگئی۔ امی آج آپ فیشل کروانے چلیں۔ امی حیران تھیں۔ دراصل اس ہفتہ میری فرینڈز آ رہی ہیں تو میں چاہ رہی تھی آپ ان کو فریش نظر آئیں میں نے اٹکتے اٹکتے وجہ بتائی۔ اچھا چلو، چلتے ہیں امی میری بات سن کر مسکرا دیں۔ اور جب وہ فیشل کروا کے آئیں تو مجھے لگا وہ واقعی چمک رہی ہیں۔ نیہا اپنی فرینڈ زکولنچ پہ انوائیٹ کر لینا ۔ امی نے کہا۔ جی اچھا، امی میری ایک بات اور مان لیں جب میری فرینڈز آئیں تو آپ چچی سے کوئی اچھا سا جوڑا لے لیں پہننے کے لیے۔ امی نے تیز نظروں سے مجھے گھورا۔ اصل میں چچی کے کپڑے بہت اسٹائلش ہوتے ہیں نا میں نے جلدی سے وضاحت دی۔ بیٹا شیر کی کھال پہن لینے سے گدھا شیر نہیں بن جاتا۔ امی نے جواب دیا۔ اور میں خاموش ہوگئی۔ آخر کار ویک اینڈ آگیا۔ یہ لوگ کالج سے میرے ساتھ ہی آئیں۔ میں نے ان کو خاص طور پر چچی اور امی سے ملوایا۔ جاتے وقت شیزا بولی۔ نیہا تمہارا گھر اور گھر کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ خاص طور پر تمہاری گریس فل سی مما مجھے بہت پسند آ ئیں۔ بہت لکی ہو تم۔ انہوں نے چچی کا ایک دفعہ بھی نام نہ لیا حالانکہ میں سوچ رہی تھی کہ وہ نہیں گی تمہاری چچی بہت اسٹائلش ہیں۔ بہرحال اپنی امی کی تعریف سن کر مجھے لاشعوری طور پر بہت خوشی ہوئی ۔ اور اس کے بعد میں نے کئی مرتبہ نظروں کا زاویہ بدل کرامی کو غور سے دیکھا کہ امی میں وہ کیا تھا جو مجھے کبھی نظر نہ آیا۔ میں نے اکثر اپنے خاندان میں دیکھا امی کو ہر جگہ اہمیت دی جاتی۔ ان کو ہر معاملے میں بہت عزت دی جاتی تھی۔ لوگ ان کو دیکھ کر ان کے لیے اپنی جگہ خالی کر دیتے۔ بہت سے لوگ مختلف معاملات میں مشورے کے لیے گھرآیا کرتے تھے۔ آخر کئی سالوں بعد یہ بات میری سمجھ میں آئی جب میرے شوہر نے مجھے کہا۔ نیہا تمہیں پتا ہے تم بالکل اپنی امی جیسی ہو۔ کیا واقعی مجھے حیرت ہوئی۔ ہاں تم نے کبھی غور نہیں کیا انہوں نے مجھے پکڑ کر آئینے کے سامنے کھڑا کیا دیکھو وہی ذہانت سے بھری ہوئی آنکھیں وہی تمکنت ، وہی وقار اور ویسے ہی خوب صورت لمبے بال۔ میں نے اپنی امی سے کہا تھا، شادی کے لیے لڑکی بھلے خوب صورت نہ ہو مگر اس کے بال لازمی خوب صورت ہونے چاہئیں۔ وہ میرے بالوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔ میری امی کے عام سے چہرے میں وہ خاص کیا تھا جو مجھے کبھی نظر نہ آیا۔ وہ اپنے فارغ وقت میں ہمیشہ کتا میں پڑھتی پائی جاتی تھیں وہ علم کے سمندر میں غرق تھیں جو ان کے ماتھے پر نور بن کر چمک رہا تھا۔ ان کی ذہانت ، تفکر تدبر ان کو چچی سے الگ کرتی تھیں۔ چچی جو ایک عام سی عورت تھیں ان کے خواب اور خواہشیں کپڑوں اور فیشن کی حد تک ہی محدود تھے۔ اپنے شوہر کے منہ سے تعریف سن کر آج مجھے احساس ہوا نسلیں پروان چڑھانے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے علم اور تربیت۔ میں نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ واقعی میں اپنی امی جیسی ہوں۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 201 | https://www.urduzone.net/khandani-log/ | جب میری شادی ظفر سے ہوئی تو میری نند کا نکاح میرے بھائی نوشیرواں سے کر دیا گیا تھا۔ رخصتی دو سال بعد ہونی تھی کیونکہ نوشیرواں ابھی پڑھ رہے تھے۔ والد صاحب اور ماموں ہمیشہ سے گاؤں میں رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ دونوں کی زمین مشترک تھی البتہ والد صاحب کی دو بسیں اور ایک پیٹرول پمپ بھی تھا، جو والد صاحب کے ایک رشتہ دار کی نگرانی میں چلتا تھا۔ نوشیرواں بھائی چونکہ پڑھائی کے سلسلے میں لاہور میں ہی رہتے تھے، اس لئے پیٹرول پمپ کی آمدنی وہی سنبھالتے تھے۔ یہ کہنا سچ ہوگا کہ وہ اس آمدنی کے مالک بنے ہوئے تھے۔ والد صاحب نے ان کو کہہ رکھا تھا کہ تم مناسب خرچہ لے لیا کرو اور باقی رقم بینک میں جمع کر دیا کر۔ بابا جان کو پیسے کی پروانہ تھی۔ سوچا تھا کہ بیٹا کاروبار میں دلچسپی لے گا تو کچھ تجربہ حاصل کرلے گا۔ ان دنوں میرے بھائی کی عمر بیس برس تھی۔ بابا جان سمجھ رہے تھے کہ کشمالہ جیسی اچھی لڑکی سے نوشیرواں کا نکاح کر کے انہوں نے گویا بیٹے کو کھونٹے سے باندھ دیا ہے اور اب اس کے کہیں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشمالہ خوبصورت تھی، بھائی کو پسند بھی تھی تبھی تو نکاح کر لیا تھا۔ میری اس ماموں زاد میں بلاشبہ کوئی کمی نہ تھی، البتہ وہ شروع سے گاؤں میں رہی تھی، اس لیئے شہری لڑکیوں جیسی ہوشیار نہ تھی، تاہم خوشحال گھرانے سے تعلق کے سبب پہننے اوڑھنے کا سلیقہ اور رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ پڑھی لکھی لڑکیوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ میٹرک پاس تھی۔ کالج نہ پڑھ سکی کہ ہمارے گاؤں میں کالج تھا ہی نہیں۔ بابا جان نے گلبرگ کے علاقے میں بنگلہ بنوا کر بھائی کے سپرد کر دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے بابا جان کو بتایا کہ بنگلہ کرایے پر دے دیا ہے کیونکہ کالج سے دور پڑتا تھا اور اتنے بڑے بنگلے میں اکیلے کیسے رہتے لہذا کالج کے پاس ہی ایک کمرے کا مکان لے لیا ہے۔ بابا جان نے یہ معاملہ بیٹے پر چھوڑ دیا اور خود تحقیق کرنے نہ گئے ۔ اس دوران ایک لڑکی عنبرین سے بھائی کی ملاقات ہو گئی ۔ یہ لڑکی بھائی کے پڑوسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتی تھی۔ وہ ایک غریب فیملی سے تھی۔ اس کے والد تقسیم کے وقت نئے وطن کی طرف آتے ہوئے شہید ہو گئے تھے، بیوہ ماں اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ ان لوگوں نے بچپن سے مفلسی کے دکھ دیکھے تھے۔ میرے بھائی نوشیرواں ایک رحم دل انسان تھے۔ ایک روز وہ کالج سے لوٹ رہے تھے کہ، عنبرین کو دیکھا جو تیز تیز قدموں سے تقریبا بھاگی جارہی تھی۔ اس کے پیچھے دو بدمعاش آرہے تھے، جو اس کے تعاقب میں تھے۔ یہ دیکھ کر بھائی نے عنبرین کے پاس گاڑی روک دی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ لڑکی اس وقت پڑوسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتی ہے۔ انہوں نے پوچھا۔ کیا بات ہے کیوں گھبرائی ہوئی ہو اتنے میں وہ لڑ کے نزدیک آگئے تو بھائی نے عنبرین سے کہا۔ تم گاڑی میں بیٹھوں میں ان سے نمٹ لوں ۔ جو نہی نوشیرواں ان کے قریب گئے، وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بھائی کی رہائش تھوڑی دور ہی تھی ، وہ عنبرین سے بولے کہ تم گاڑی میں بیٹھی رہو، میں تم کو گلزار صاحب کے گھر پر اُتار دوں گا۔ پانچ منٹ کی مسافت پر گھر تھا، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دروازے پر تالا لگا ہوا ہے۔ وہ پریشان ہو کر بھائی کو دیکھنے لگی۔ نوشیرواں نے کہا۔ کوئی بات نہیں گلزار صاحب والوں کو ایمر جنسی میں جانا پڑا ہوگا۔ تم ڈرو نہیں، میں تمہیں، تمہارے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔ وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ جب گھر کے دروازے پر اترنے لگی تو بولی۔ آپ میری امی سے مل لیجئے ، ورنہ وہ پونچھیں گی کہ کس کے ساتھ آئی ہو۔ یوں بھائی اس کے ساتھ گھر کے اندر چلے گئے، اس کی امی سے ملے ، احوال پوچھا اور کہا کہ بیٹی کو اتنی دور اکیلے مت بھیجا کریں ۔ باہر کے حالات آپ کو نہیں پتا۔ آپ کی بچی بہت سیدھی سادی ہے۔ کیا کروں بیٹا امالی مجبوری نہ ہوتی تو کیوں باہر جانے دیتی ۔ اسکول سے آکر ٹیوشنز پڑھاتی ہے تو خرچہ چلتا ہے، اس کا بھائی بھی پڑھ رہا ہے اور کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ اس طرح بھائی نے اس گھرانے کو سہارا دینے کی ٹھان لی اور ان کی مالی مدد کرنے لگے۔ عنبرین کے بھائی کو موٹر سائیکل لے کر دی تا کہ وہ بہن کو سہولت سے لے جا سکے۔ اس لڑکے کا نام عمر تھا۔ وہ ماں کا واحد سہارا تھا لیکن قسمت پر کسی کا بس نہیں۔ جو پہلے سے دکھی ہوتے ہیں، زیادہ دکھ بھی ان ہی کو ملتے ہیں، سو اس بیوہ دکھیاری کے بیٹے کو نیا موٹر سائیکل راس نہ آیا اور وہ ایکسیڈنٹ میں ختم ہو گیا۔ وہ تو جیتے جی مرگئی ۔ بھائی پر بھی اس کا بہت اثر ہوا اور انہوں نے ان ماں بیٹی کا مستقل سہارا بننے کی ٹھان لی۔ وہ بیوہ عورت تو پہلے ہی بیٹی کے رشتے کے لئے پریشان تھی ۔ اس نے فورا ہاں کہہ دی اور بیٹے کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد آس پڑوس کے دو چار لوگوں کو بلا کر عنبرین کا نکاح نوشیرواں سے پڑھوا دیا۔ اس خاتون نے لڑکے کے رشتہ داروں کی غیر موجودگی کو بھی اہمیت نہ دی۔ یوں بھائی نے والدین سے چھپ کر شادی کر لی اور ان ماں بیٹی کو لے کر بنگلے میں آگئے۔ ساس، اپنے بیٹے کو یاد کر کے بہت غمزدہ رہتی تھی اور نوشیرواں ان کی دل جوئی کرتے۔ انہیں گاڑی بھی لے دی اور ڈرائیور رکھ دیا۔ عنبرین نے گاڑی چلانا سیکھ لی تو وہ خود ڈرائیو کر کے ماں کو باہر لے جاتی ۔ جب تک نوشیرواں نے ایم ایس سی کیا، وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے اور ہمیں اس امر کی کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ ہم تو گاؤں میں رہتے تھے۔ یہ تمام عرصہ بھائی صاحب نے بہت احتیاط اور رازداری سے گزارا۔ بابا جان کا ارادہ تھا کہ تعلیم مکمل کرلے تو بیٹے کو پیٹرول پمپ سونپ کر ان کی شادی کشمالہ سے کر دیں گے اور وہ شہر والے بنگلے میں چلی جائے گی۔ خبر نہ تھی کہ وہاں تو پہلے سے ہی ایک بہو، پوتا پوتی کے ساتھ موجود ہے۔ ایک دن میرے شوہر نے مجھے کہا کہ ہم شہر شفٹ ہو جاتے ہیں۔ وہاں تمہارے بابا کا بنگلہ ہے۔ کشمالہ بیاہ کر وہاں چلی جائے تو ہم بھی اُس کے ساتھ رہنے لگیں گے۔ چونکہ ہمارے بچے اسکول جانے کے لائق ہو چکے تھے لہذا میں نے صلاح دی۔ ہمیں انہی دنوں شفٹ ہو جانا چاہئے کیونکہ یہ داخلوں کا سیزن ہے۔ انہوں نے اتفاق کیا اور ہم شہر میں شفٹ ہو گئے ۔ بھائی نے بتایا ہوا تھا کہ بنگلے میں کرایے دار ہیں، لہذا ہم نے کرایہ پر گھر لے کر قریب کے ایک اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کروا دیا۔ انہی دنوں بھائی کا ایم بی بی ایس کا رزلٹ آگیا اور بابا جان ان کی شادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ ایک روز میرا گزر بابا جان کے بنگلے کی طرف ہوا تو سوچا کہ دیکھوں تو کون لوگ بنگلے میں کرایے پر رہتے ہیں گیٹ پر بیل دی۔ ذرادیر میں گیٹ کھل گیا اور ملازمہ نے پوچھا۔ آپ کون ہیں۔ میں نے کہا کہ نوشیرواں صاحب کی مہمان ہوں۔ ملازمہ مجھے اندر لے گئی۔ عنبرین کمرے سے نکل کر آگئی اور پوچھا آپ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں میں نے بتایا کہ نوشیرواں میرے بھائی ہیں۔ اس نے شاید صورت حال بھانپ لی، کہنے لگی کہ میں ان کی کرایے دار ہوں، میرے شوہر دبئی میں ہوتے ہیں۔ وہ مجھے اچھی لگی تھی۔ میں نے اُسے بتایا کہ نوشیرواں کی شادی ہو رہی ہے اور میں ادھر اس کی شادی کی خریداری کے سلسلے میں آئی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ کیا آپ مجھے اپنے بھائی کی شادی میں نہ بلائیں گی کیوں نہیں ۔ تو پھر پتا لکھ دیجئے ۔ کچھ دنوں بعد وہ ہمارے گھر آئی لیکن دوبارہ نہ آئی۔ شاید بھائی نے منع کر دیا ہو۔ بچوں کی چھٹیاں تھیں میں بھی گاؤں چلی گئی اور اُسے دوبارہ نہیں ملی۔ جب میرے پاس ڈرائیور نہ ہوتا تو بھائی اپنا ڈرائیور لے آتے، وہ میرے بچوں کو اسکول چھوڑ دیتا۔ ایک روز میرے بیٹے نے بتایا۔ امی ماموں کا ڈرائیور پہلے دو بچوں کو ان کے گھر چھوڑتا ہے پھر ہمیں لاتا ہے۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ دو بچے کون ہیں ڈرائیور سے پوچھا۔ اس نے کہا۔ بیگم صاحبہ میرا ایک دوست ڈرائیور ہے۔ کبھی اس کی کوئی مجبوری ہوتی ہے تو میں اس کے صاحب کے بچوں کو اسکول سے لے لیتا ہوں۔ میں خاموش ہو گئی۔ ایک روز پھر سے گلبرگ کی طرف جانا ہوا۔ میں نے دیکھا بھائی کی گاڑی بنگلے کے گیٹ پر رکی ہوئی ہے اور دو بچے اتر کر اندر چلے گئے۔ تب میں نے ڈرائیور کو سختی سے ڈانٹا۔ اس نے بتا دیا کہ بی بی یہ آپ کے بھائی نوشیرواں کے بچے ہیں۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ میری شادی وٹے سٹے میں ہوئی تھی۔ سو یہ بات تو طے تھی کہ اب کشمالہ کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے والا ہے۔ اگر اسے طلاق ہوئی تو مجھے بھی طلاق ہو جائے گی۔ اگر اس پر سوتن ہے تو ظفر بھی مجھ پر سوتن لا ڈالے گا کیونکہ بھائی کا نکاح تو کشمالہ سے ہو چکا تھا۔ مجھے معاملات کی گمبھیرتا کا اس قدر خوف ہوا کہ دو دن بخار میں پڑی رہی ۔ بہت سوچنے کے بعد میں ایک دن پھر ان کے بنگلے پر گئی۔ عنبرین وہاں موجود تھی۔ میں نے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے وہ بولی۔ مجھے خبر نہیں۔ تبھی وہ مجھے ایک بیڈ روم میں نظر آگئے۔ میں نے کہا۔ بھائی تم نے یہ کیا کیا اپنا گھر تو بسالیا۔ اب میرا اور کشمالہ کا کیا بنے گا وہ ہاتھ جوڑ کر بولے۔ آپا مجھے معاف کر دو۔ میں نے بہت مجبوری میں یہ شادی کی تھی۔ کیا تمہیں اپنے بچپن کی منگیتر کا پاس نہیں تھا، جو تمہاری منکوحہ اور میری نند بھی ہے۔ کیا ہم اتنے رشتے توڑ سکتے ہیں میں عنبرین کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کا میرے سوا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ یہ بہت دکھی اور میرے بچوں کی ماں ہے۔ بتاؤ میں کیا کروں میں خود گھر والوں سے چھپ چھپ کر تنگ آگیا ہوں۔ اچھا ہوا، تم کو پتا چل گیا ہے۔ بے شک جائیداد ملے نہ ملے، مجھے بابا جان سے کچھ نہ چاہئے۔ ارے بھائی اصل چیز تو تمہارا کشمالہ سے نکاح ہے۔ کیا اُسے طلاق دو گے تب کیا ممانی مجھے اپنے گھر میں رہنے دیں گی یا اس سے شادی کر کے نکاح کی لاج رکھو گے۔ تب میرا شوہر بگڑے گا کہ میں بھی تم پر سوتن لاتا ہوں۔ نوشیرواں بھائی نے سر پکڑ لیا اور میں روتی ہوئی گھر آگئی ۔ گھر آئی تو دل پھٹ رہا تھا۔ ہمت کر کے ظفر کو بتا دیا اور رونے لگی۔ کچھ دیر گم صم رہنے کے بعد وہ بولے۔ فکرمت کرو، میں تم کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے بچے ہیں۔ ہم یوں ان کو برباد نہ کریں گے۔ یہ میرا تمہارا نہیں، صرف میری بہن اور امی ابا کا معاملہ ہے۔ اب ان لوگوں کو منانا اور سمجھانا ہے۔ پہلے بھائی سے تو پوچھو جو اتنے سالوں سے میری بہن کو منکوحہ بنا کر انتظار میں بٹھایا۔ میں نے نوشیرواں کو فون کیا کہ میرے گھر آجاؤ، ظفر سے بات کرلی ہے۔ یہ کشمالہ کے بڑے بھائی ہیں۔ یہاں جو فیصلہ ہوگا، وہی سب کو ماننا ہوگا۔ نوشیرواں، بچوں اور عنبرین کے ساتھ آگئے۔ آتے ہی عنبرین میرے بھائی کے قدموں میں بیٹھ کر بولی ۔ بھائی ہمیں معاف کر دیجئے اور اپنی بہن کشمالہ کے پاس لے چلئے۔ میں آپ کے والدین کے قدموں میں بیٹھ کر نوشیرواں کی معافی کی درخواست کروں گی۔ مجھے علم نہ تھا کہ یہ پہلے سے نکاح کئے ہوئے ہیں، نہ میری ماں کو خبر تھی ورنہ وہ بھی میری شادی ان کے ساتھ نہ کرتیں۔ اب اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا، تو سزا مجھے اور میرے بچوں کو ملے گی۔ ظفر اور میں نے ایک ساتھ ان کے بچوں کی طرف دیکھا اور ان معصوموں پر پیار آ گیا۔ اپنا ہی خون تھا۔ ماں کی باتیں سن کر وہ رونے لگے تھے، میں بھی رو پڑی۔ ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ کشمالہ اپنے چھوٹے بھائی مظہر کے ساتھ آگئی ۔ وہ شہر ، شادی کا سامان خرید نے آئی تھی۔ اس کی اچانک آمد پر ہم ہکا بکا رہ گئے۔ بھابھی یہ کون ہیں اس نے مجھ سے پوچھا۔ نوشیرواں دم سادھے بیٹھے تھے ، تب ظفر کو بتانا پڑا کہ یہ نوشیرواں کے بیوی بچے ہیں۔ تبھی عنبرین نے اس کے قدموں پر ہاتھ رکھ دیئے اور کہا۔ کشمالہ باجی میری کوئی خطا نہیں۔ جو کہنا ہے، ان سے کہئے، مجھے معاف کر دیجئے ۔ میں آپ کی نوکر بن کر رہوں گی ۔ کشمالہ کا چہرہ سرخ اور آنکھوں میں آنسو اٹکے ہوئے تھے۔ عجب دلدوزسین تھا۔ اس کا غصہ کیوں نہ نکلتا دل بری طرح ٹوٹا تھا اور مان بھی ۔ میں بھی عجب کیفیت سے گزر رہی تھی ۔ ایک طرف پیاری نند تھی، جو ماموں زاد بھی تھی۔ اس کے آنسو گر رہے تھے اور یوں چپ تھی۔ دوسری جانب عنبرین کی حالت پر بھی ترس آتا تھا۔ کشمالہ دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھ گئی تھی۔ میں اس کے پاس گئی اور کہا۔ تم ہاتھ منہ دھولو کشمالہ، ہم اس کا کوئی حل نکالتے ہیں۔ وہ بولی ۔ اچھا برا، جو مرضی حل نکالتی رہو، مجھے واپس جانا ہے ابھی۔ مظہر سے کہئے، مجھے گاؤں چھوڑ آئے۔ ٹھیک ہے، میں کہتی ہوں ۔ اُسے کچھ کھا لینے دو، تم بھی چائے پیالی پی لو، ابھی تو سفر سے آئی ہو مگر اس نے واپس جانے کی ٹھان لی تھی، چلی گئی۔ اس نے نوشیرواں کی بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ ظفر اسے روکتے رہ گئے مگر وہ رکنے والی نہ تھی کیونکہ غم کا طوفان ہی اتنا بڑا تھا۔ ظفر اور میں پریشان تھے اور نوشیرواں، اس کا حال کیا لکھوں۔ مجھے گاؤں جانا تھا، لیکن نوشیرواں کے بچے بیوی اکیلے تھے، وہ ان کو میرے سپرد کر کے ظفر کے ساتھ گاؤں چلے گئے تا کہ وہاں حالات کو سنبھالا جا سکے ۔ عنبرین نے الگ رونا مچایا ہوا تھا۔ کہتی تھی۔ باجی مجھ کو اب صرف آپ کا آسرا ہے۔ خدا کے لئے مجھے اور بچوں کو نوشیرواں سے جدا نہ ہونے دینا۔ خدا کی قسم، مجھے طلاق ہوئی تو زہر کھا کر مر جاؤں گی۔ ایک ہفتہ کے انتظار کے بعد ظفر واپس آئے اور بتایا کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے عنبرین کی طلاق کے لیئے شور مچایا تھا۔ سب کی ہمدردیاں ظاہر ہے کشمالہ کے لئے تھیں اور اس کی ایک ہی شرط ہے کہ جب تک عنبرین کو طلاق نہ ہو گی، میں نہیں مانوں گی۔ بے شک نوشیرواں بچے لے آئے ، ہم اُن کو پال لیں گے مگر سوتن کو میں برداشت نہیں کر سکتی۔ تب میں نے یہ آخری حربہ آزمایا۔ میں ظفر کے ساتھ نوشیرواں کے بچوں کو لے کر گاؤں چلی گئی اور ان کو کشمالہ کی گود میں ڈال کر کہا کہ لو، پہلے ان کو دیکھو۔ اگر انہیں پال سکتی ہو تو ٹھیک ہے، ہم بچے عنبرین سے لے کر اس کو طلاق کروا دیتے ہیں۔ بچے پریشان تھے۔ کشمالہ رونے لگی تو اُسے دیکھ کر وہ بھی رونے لگے ۔ ایک کی عمر پانچ اور دوسرے کی چار سال تھی۔ بڑا والا کشمالہ کے آنسو پوچھنے لگا اور چھوٹی گڑیا نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بولی۔ آنٹی، آپ نہ رویئے ۔ بڑے نے بھی کہا۔ ہاں آنٹی، آپ بابا جانی کے ساتھ رہئے۔ ہم اپنی امی کو لے کر دور چلے جائیں گے۔ میں نے بچوں کو بتا دیا تھا کہ یہ آپ کی دوسری امی ہیں اور اس لئے روتی ہیں کہ آپ کے بابا جانی نے، آپ کی امی سے شادی کر لی ہے۔ بچے کم سن ضرور تھے مگر سمجھ دار تھے ۔ وہ جس طرح کشمالہ کی اشک شوئی کر رہے تھے، اپنی پیاری پیاری باتوں سے اس کا غم کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یہ حیران کن تھا۔ ان کو دیکھ کر میری امی بھی رورہی تھیں، جو پہلے عنبرین کو طلاق دلوانے کے حق میں تھیں ، اب مہر بہ لب تھیں۔ اس کے بعد مردوں کی میٹنگ ہوئی۔ نوشیرواں کو لعنت ملامت کی گئی، برا بھلا کہا گیا، جو میرے بھائی نے سر جھکا کر سنا۔ بالآخر ماموں نے فیصلہ دیا۔ نوشیرواں کی کشمالہ سے شادی ہوگی اور وہ اُسے بھی شہر میں اپنے ساتھ رکھے گا لیکن علیحدہ گھر میں۔ چونکہ دوسری بیوی سے دو بچے ہو چکے ہیں، لہذا اُسے بے شک طلاق نہ دے مگر ہماری بیٹی کا ہر طرح سے خیال رکھنا اُس کا فرض ہے۔ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں ، ہمارے بڑوں نے بھی کیں، لہذا لازم نہیں کہ اس کہانی کو کسی المیے کے ساتھ بند کریں۔ بے شک یہ وٹے سٹے کا معاملہ سہی، مگر میں اب اس رواج کو بدلوں گا۔ یہ کہہ کر ماموں نے اپنے آنسو پونچھے تو نوشیرواں نے ان کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگی۔ ظفر نے بھی سکون کا سانس لیا کہ عنبرین کا بھی قصور نہ تھا۔ اس نے لو میرج نہیں کی تھی، صرف ماں کے فیصلے کو مانا تھا۔ یہ ساری کہانی عجیب و غریب نہیں تھی لیکن نہ بھلانے والی تھی۔ نوشیرواں نے ماموں سے جو وعدہ کیا، اس پر عمر بھر کار بند رہے۔ کشمالہ نے بھی سوتن کا گھاؤ لیا۔ دونوں بھا بھیاں اچھی ہیں، دونوں مجھے عزیز ہیں ۔ اگر عنبرین نے سر جھکا کر زندگی گزاری تو کشمالہ نے بھی انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کبھی کبھی زندگی میں بڑے مشکل فیصلہ کرنا پڑتے ہیں۔ تبھی اچھے لوگ جب حوصلے سے کام لیتے ہیں تو مسئلے سلجھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ہی خاندانی کہا جاتا ہے۔ | null |
null | null | null | 202 | https://www.urduzone.net/qadm-na-behakte/ | ناجیہ میری تایازاد تھی۔ ہمارے گھر پاس پاس تھے۔ ہم عمر ہونے کی وجہ سے ایک ساتھ اسکول میں داخلہ لیا تھا اور اب نویں جماعت میں آگئے تھے۔ مڈل گرلز اسکول گھر سے پندرہ میل دور تھا۔ لاری اڈے سے بس ملتی تھی۔ اکٹھی گھر سے نکلتیں اور اڈے تک پیدل سفر کر تیں۔ یوں ایک سے دو بھلے والے مقولے پر عمل پیرا تھیں۔ امی اور تائی کی کبھی نہ بنی۔ جب تک ایک گھر میں رہنا سہنا تھا، کسی طرح گزارا کر لیا۔ بچے کچھ بڑے ہوئے تو تایا ابو نے صحن کے بیچوں بیچ دیوار اٹھا دی۔ یوں ایک مکان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ناجیہ بھی مجھ سے ایک دیوار ادھر ہو گئی۔ مکان کی تقسیم سے ہماری محبت میں فرق نہ آیا۔ ہم روز ملتے پہلے کی طرح اکٹھے اسکول آتے جاتے۔ گرچہ اب تائی ہمارے گھر آتیں اور نہ امی سے ملتیں لیکن ہم نے اپنی مائوں کی تلخ روش کو نہ اپنایا اور اپنائیت کے رشتے کو قائم رکھا۔ مجھے اور ناجیہ کو ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ تایا ہمارے گھر آتے اور ہم سے پیار کرتے کیونکہ یہ تو عورتوں کی لڑائی تھی جس سے ابو اور تایا کے میل ملاپ میں رخنہ نہ پڑا تھا۔ نویں میں اسکول دور ہو گیا تھا۔ اب لاری سے جانا پڑتا تھا جس کے لئے صبح جلدی نکلنا ہوتا۔ ہم ٹھیک سات بجے اڈے پر پہنچ جاتے۔ سواری کے لئے ویگن، بس لاری جو اس وقت ملتی، اس میں سوار ہو جاتے تاکہ لیٹ نہ ہوں۔ زیادہ تر لاری اڈے سے بس پر ہی سوار ہوتے تھے جو ہم کو لب سڑک واقع ہمارے مڈل اسکول پر اتار دیتی تھی۔ روز کی سواریوں سے عموماً مقامی بس اور لاری ڈرائیور واقف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں اسکول بیگ دیکھ کر وہ ہمارے لئے گاڑی کو روکے رکھتے گرچہ ہم ابھی کچی سڑک پر ہوتیں۔ دوچار فرلانگ سے وہ ہم کو آتا ہوا دیکھ لیتے تھے۔ ایک بس ہمارے علاقے سے ہی اسٹارٹ ہوتی تھی۔ اس کا ڈرائیور ہم کو خوب پہچانتا تھا۔ وہ سات بجے بس لے کر گائوں سے آنے والی طالبات کا منتظر ہوتا۔ بس کو روکے رکھتا کیونکہ اسکول کی لڑکیاں اس کی مستقل سواریاں ہوتیں۔ ہم بھی اسی گاڑی میں سوار ہونے کو ترجیح دیتے۔ ہاں اگر کبھی یہ بس ہم سے مس ہو جاتی تب دوسری سواری پر جانا پڑتا تھا۔ اس روز بھی یہ بس ٹھیک ٹائم پر آگئی اور ہم صحیح وقت پر پہنچ گئیں۔ جونہی بس میں سوار ہوئیں، ہم سے پچھلی نشست پر ایک خوش شکل نوجوان بھی سوار ہو گیا۔ اس روز تو ہم نے نوٹس نہ لیا لیکن اگلے کئی روز تک ایسا ہی ہوتا رہا، تب محسوس ہوا جیسے یہ نوجوان لاری اڈے پر ہمارے آجانے کا انتظار کرتا ہو اور جونہی ہم بس پر چڑھتیں، یہ بھی چڑھ آتا۔ ہم خواتین کی مخصوص نشست پر بیٹھتیں اور یہ ہم سے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرتا۔اگر وہاں کوئی دوسرا شخص بیٹھ جاتا اور اسے جگہ نہ ملتی تو پہلے سے نشستہ آدمی سے درخواست کرتا۔ محترم آپ ذرا پچھلی سیٹ پر جانے کی زحمت گوارا کر لیں کیونکہ میرے ساتھ خواتین سفر کر رہی ہیں۔ کئی بار یہ قصہ ہوا، تب میں چوکنی ہو گئی کیونکہ اس کے ساتھ کوئی خاتون سوار نہ ہوتی تھی۔ وہ اکیلا ہی چڑھتا تھا۔ گویا کہ ہم ہی وہ خواتین تھیں جن کو وہ اپنے گھر کی خواتین ظاہر کرتا تھا۔ ہمارا توروز کا آنا جانا تھا۔ چند دن تک دھیان نہ دیا۔ لیکن ایک بار ماتھا ٹھنک گیا کیونکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر اس روز ہم دونوں کے علاوہ کوئی خاتون سوار نہ ہوئی تھی۔ وہ پھر بھی ہم سے عین پچھلی سیٹ پر پہلے سے بیٹھے ہوئے ایک شخص سے ملتجی تھا کہ برادر ذرا آپ بیک سیٹ پر چلے جائیے ، میرے ساتھ خواتین ہیں۔ یہ سن کر اس شخص نے موصوف کے لئے جگہ خالی کر دی اور خود پیچھے چلا گیا۔ گائوں میں یہی رواج تھا کہ اگر کسی مرد کے ہمراہ خواتین سفر کر رہی ہوتی تھیں تو درخواست پر ہمسفر خواتین کی مخصوص نشست سے قریبی سیٹ اس کے لئے خالی کر دیتے تھے۔ میں نے ناجیہ سے کہا۔ لگتا ہے یہ شخص ہمارا تعاقب کرتا ہے۔ کون ہے یہ نجانے کون ہے ، میں نہیں جانتی۔ اس نے جواب دیا۔ منزل آگئی اور ہم قریبی شہر کے اسکول اڈے پر اتر گئے، تبھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی نوجوان ذرا فاصلے پر ہمارے پیچھے چلا آرہا تھا۔ ناجیہ یقین مانو یہ ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔ ہاں آج کی بات نہیں ہے، یہ تو کئی دنوں سے اسی طرح ہمارا تعاقب کرتا ہے۔ تو تم کو پتا تھا، مجھے کیوں نہ بتایا ارے بھئی یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے۔ ایسے آوارہ تو روز ہی مل جاتے ہیں۔ بس تم اس کا کوئی نوٹس مت لو۔ اس کے بعد میں نے نوٹ کیا کہ ناجیہ اس نوجوان کے بارے میں بہت مضطرب ہو گئی ہے۔ جو نہی ہم بس سے اترتے، وہ اضطراری انداز سے پلٹ پلٹ کر دیکھتی جاتی۔ اگر ہمارے پیچھے وہ نوجوان آ رہا ہوتا تو زیادہ مضطرب ہو جاتی۔ اس کی حرکات و سکنات اس کے کنٹرول سے باہر ہوتیں۔ کبھی نقاب الٹتی اور کبھی گرادیتی۔ دھیان کہیں ہوتا، قدم کہیں پڑتے۔ وہ میری ہمدم دیرینہ تھی۔ تایا زاد تھی۔ کچھ کہہ کر اس کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اچھی طرح جان گئی تھی کہ یہ شخص ہمارا تعاقب کرتا ہے لیکن وہ خود احتجاج کرتی اور نہ مجھے کچھ کہنے دیتی۔ میں تعاقب میں آنے والے کی وجہ سے بڑ بڑاتی تو کہتی ۔ چھوڑو بھی یہ آوارہ لڑکے یونہی لڑکیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اس کے منہ لگنا نہیں ہے ، اس میں ہماری اپنی بدنامی ہو گی۔ ہمارا تو روز کا آنا جانا ہے۔ جب گھاس نہیں ڈالیں گے تو آپ ہی پیچھا چھوڑ جائے گا۔ ناجیہ کی خاطر میں چپ رہی اور اس کی آوارگی کو نظر انداز رکھا۔ سوچا یہ ٹھیک کہتی ہے۔ جب لفٹ نہ کرائیں گے، خود ہی مایوس ہو کر رہ جائے گا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ میری عزیز از جان کزن اچانک ہی یوٹرن لے گی اور مجھ سے اپنی راہ الگ کرلے گی۔ اب وہ اسکول کے لئے دیر سے نکلنے لگی۔ جان بوجھ کر لیٹ ہونے لگی۔ مجھے تو اپنی اسٹڈی عزیز تھی۔ چند دن یہ برداشت کیا لیکن روز روز استانی کی ڈانٹ کون سہتا، جبکہ اب ہم اسکول اسمبلی میں بھی ٹھیک وقت پر نہ پہنچ پاتے تھے۔ ڈانٹ تو ناجیہ کو بھی پڑتی تھی لیکن اس پر کوئی اثر ہی نہ ہوتا تھا۔ میں نے اس کا انتظار کئے بغیر وقت پر اسکول کے لئے گھر سے نکلنا شروع کر دیا۔ وقت مقررہ پر اسکول کو روانہ ہو جاتی اور ٹائم پر پہنچ جاتی لیکن ناجیہ دیر سے آتی۔ جرمانہ لگتا، ڈانٹ کھاتی، سزا ملتی۔ اس کے معمول میں تبدیلی نہ آئی۔ چند دنوں بعد یہ ہونے لگا کہ وہ اسکول سے غیر حاضر رہنے لگی۔ میں نے تایا کے گھر جا کر اس سے باز پرس کی تو آنکھیں دکھا بولی۔ تم چپ رہو اور اس معاملے سے دور رہو۔ مجھے دیر ہو جاتی ہے تو ڈانٹ اور بے عزتی کے خوف سے ناغہ کر لیتی ہوں۔ تم استانی کو کہہ دیا کرو کہ وہ بیمار ہے اس لئے نہیں آئی اور ہاں میری امی کو کچھ مت بتانا۔ تیور ایسے ہوں تو کوئی بے وقوف بھی سمجھ جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ تائی ہم سے ناک چڑھا کر رکھتی تھیں تو ہم بھی ان کے نزدیک نہیں پھٹکتے تھے۔ ان سے ناجیہ کی شکایت کرنے کی بھلا میری جرات کہاں تھی۔ اب صاف واضح ہو گیا تھا کہ ناجیہ میرے ساتھ اسکول جانے اور آنے سے کترانے لگی ہے اس لئے بہتر جانا کہ اس کا معاملہ اس پر چھوڑ دوں اور اس سے اپنا راستہ الگ کرلوں۔ میں نے اس کے ساتھ آنا جانا، ملنا ملانا حتی کہ بات چیت تک چھوڑ دی۔ اب ہم مختلف اوقات میں گھر سے نکلتی تھیں۔ میں ایک بس میں تو وہ دوسری میں سفر کرتی۔اب وہ نوجوان بھی اس بس میں نہ ہوتا جس میں ، میں ہوتی بلکہ وہ ناجیہ کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ آخر تو ان دونوں کے بیچ کوئی معاملہ طے ہو ہی گیا تھا۔ مجھے ناجیہ کی پروا نہ رہی۔ وہ اسکول آئے یا غیر حاضر رہے، میری بلا سے اس کی اپنی راہ تھی اور میری اپنی راہ تھی اور یہ فاصلہ اس نے خود پیدا کیا تھا۔ کبھی کبھار وہ مجھے بس اڈے پر کھڑی ملتی لیکن میرے ساتھ نہ آتی، جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ میں جانتی تھی اسے کس ہمسفر کا انتظار ہے جس کے ساتھ وہ ایک انوکھے سفر پر نکلی ہوئی تھی، کیونکہ ان دنوں روز ہی اس کی چھٹی کی درخواست آرہی تھی۔ میں نے اس بات کا کسی سے تذکرہ نہ کیا کیونکہ تائی اماں تو عجیب گلے پڑنے والی عورت تھیں اور وہی ایک تھیں جو بیٹی کو بھٹکنے سے روک سکتی تھیں، تاہم مجھے فکر اور پریشانی ضرور تھی کہ اگر وہ کسی بد معاش کے ہتھے چڑھ گئی تو نہ صرف خود کو نقصان پہنچائے گی بلکہ ہمارے خاندان کی عزت بھی خاک میں مل جائے گی۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ و وہ اسی نوجوان کے ساتھ کار میں جارہی ہے۔ یہ کار عین میری نگاہوں کے سامنے سے گزری تھی۔ اس وقت میں بس میں کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی۔ آنکھوں سے دیکھا تو یقین ہو گیا ناجیہ غلط راہ کی مسافر ہو چکی ہے اور اس کا ہمسفر بھی وہی ہمارے تعاقب میں آنے والا نوجوان ہے جس کے بارے مجھے اندازہ تھا کہ وہی ہو گا۔ وہ اسکول کے بہانے گھر سے نکلتی اور اس کے ہمراہ گھومتی پھرتی۔ وہ ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی، خاندان کی عزت مٹی میں ملا رہی تھی۔ آخر اس کا کوئی انجام تو ہونا ہی تھا۔ ایک روز تایا ابو نے خود اسے کسی غیر کے ساتھ گاڑی میں جاتے دیکھ لیا۔ وہ شہر سے لوٹے تو کافی اپ سیٹ تھے۔ انہوں نے ناجیہ کی خوب خبر لی اور پھر اس کا اسکول جانا بند کرادیا، اس کے ساتھ ہی رشتے کے لئے تگ و دو ہونے لگی، تبھی انکشاف ہوا کہ ناجیہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ تائی، لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں، جس نے بتادیا کہ تمہاری بچی امید سے ہے۔ تائی پر تو قیامت ڈھے گئی۔ اب تایا کو بتائے بغیر چارہ نہ تھا۔ ان کے بھی اوسان خطا ہو گئے۔ انہوں نے ناجیہ پر سختی کی تو اس نے اس نوجوان کا نام بتادیا جس کا نام شہاب تھا اور وہ اسی گائوں کے ایک ٹرک ڈرائیور کا بیٹا تھا۔ ہم معزز خاندان کے شریف لوگ تھے۔ تایا کی سارے علاقے میں عزت تھی۔ یہ رشتہ جوڑ کا نہ تھا لیکن اب مجبوری تھی کہ تایا کی عزت ایک ڈرائیور کے بیٹے کے ہاتھ میں تھی۔ معاملہ سنجیدہ تھا۔ والد صاحب سے مشورہ کیا۔ابو نے اپنے بڑے بھائی کو یہی مشورہ دیا کہ عزت بچانی ہے تو اس کو اسی لڑکے سے بیاہ دو۔بے شک بعد میں ہمیشہ کے لئے ناتا ختم کر دینا۔ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ ان حالات میں خاندان کا کوئی لڑکا بھی تمہاری بیٹی سے شادی نہ کرے گا۔ تایا نے شہاب کا پتا کرایا۔ معلوم ہوا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے، تین بچوں کا باپ ہے اور کام بھی کوئی نہیں کرتا۔ اولاد جیسی بھی بری ہو، کوئی باپ بیٹی کو جان بوجھ کر کنویں میں دھکا دینا نہیں چاہتا۔ والد صاحب سے رو کر کہنے لگے۔ ایک تو شہاب بد معاش ہے، ہمارے گھر میں نقب لگائی ہے، وہ ہماری عزت کا دشمن اور اوپر سے کم ذات شادی شدہ بھی ہے۔ تم کیا کہتے ہو اس سے بہتر ہے کہ ناجیہ کو زہر نہ دے دیں۔ اپنے بھائی کی مجبوری پر ابو کی آنکھوں میں آنسو آگئے کیونکہ تایا بھی رو رہے تھے۔ابانے کہا۔ آنکھوں دیکھی مکھی کوئی نہیں نگلتا پھر بھی تم بھائی ہو اور تمہاری مجبوری پر کلیجہ پسیجتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کو راضی کر کے نکاح کرائے دیتا ہوں، بعد میں دیکھ لیں گے ۔ ابھی تو بد نامی کی تلوار عین سر کے اوپر لٹک رہی ہے۔ کوئی چارہ نہ تھا۔ ابو اور تایا کی عزت تو ایک تھی۔ اگر بدنامی ہوتی تو سبھی کے منہ پر کالک لگتی۔ ناجیہ کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ والد نے یہ راز سینے میں چھپا لیا کہ ان کی بدبخت بھتیجی امید سے ہے۔ والدہ اور بھائی کو نہ بتایا اور جھٹ پٹ بھتیجی کا نکاح میرے بھائی ارسلان سے پڑھوا دیا جو ابھی بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ وہ واویلا کرتا رہ گیا کہ ابو آپ کو کیا ہو گیا ہے، کیوں اس قدر جلدی پڑ گئی ہے مجھے تعلیم تو مکمل کر لینے دیں۔ والد صاحب نے ایک نہ سنی۔ کہا کہ بس ہماری مانو گے، تعلیم مکمل ہوتی رہے گی۔ دراصل تو وہ خاندان کی عزت بچا رہے تھے جس کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ناجیه شادی ہو کر ہمارے گھر آگئی۔ تائی کو بھی گٹھنے ٹیک دینے پڑے۔ ان کا سارا غرور خاک میں مل گیا۔ امی سے جھک کر ملنے لگیں اور میری ماں حیران تھیں کہ تائی کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ کیسا معجزہ ہوا کہ بیٹی کا رشتہ بھی دے دیا اور اب غلام بنی جاتی ہیں۔ وہ طوفان جس کی ابھی آہٹ ہی سنائی دی تھی ، ٹل گیا۔ ناجیہ افسردہ تھی مگر ایک لفظ نہ بول سکتی تھی کہ اس کا کیا سبھی نے بھگتا تھا۔ بہر حال اس نے وقت مقررہ ایک بیٹے کو جنم دیا جس کو میرے سوا ہر کسی نے ہاتھوں ہاتھ اٹھایا۔ میرے سارے گھر والے اس پر فریفتہ تھے۔ میری ماں خوش کہ اللہ تعالیٰ نے پوتے سے نواز دیا ہے۔ بھائی ارسلان بیٹے پر نہال اور میری بہنیں واری صدقے ہوتی تھیں مگر میری جونہی بچے پر نظر پڑی، میں خدا کی قدرت پر لرز کر رہ گئی۔ ہوبہو اس آوارہ شہاب کی تصویر تھا۔ اس کی صورت واضح طور پر اس حقیقت کو منکشف کر رہی تھی کہ وہ شہاب کا بیٹا ہے۔ میں نے اسے دیکھا ہوا تھا اور نومولود کو دیکھ کر اب میں دھوکا نہ کھا پارہی تھی۔ ہمارے گھر میں اس حقیقت سے صرف چار افراد ناجیہ کے علاوہ واقف تھے۔ تایاجی اور ابو تائی اور چوتھی میں تھی۔ تبھی میں اس بچے کو آج تک دل سے پیار نہ کر سکی کہ دل اسے اپنا قبول ہی نہ کرتا تھا۔اے کاش میں کبھی اس تعاقب کرنے والے نوجوان کو نہ دیکھتی۔ ناجیہ نے حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ اس کی کمزوری جانتی تھی۔ اس نے کبھی میرے آگے سر نہ اٹھایا۔ وہ میری بھابی تو بن گئی مگر ہماری دوستی جاتی رہی۔ میں اس کے ساتھ واجبی سا تعلق رکھتی تھی جس کی وجہ صرف وہی جانتی تھی۔ باقی لوگ تو اس کو وہی عزت و تکریم دیتے تھے جو اس رشتے میں اس کو ملنی تھی۔ امی مجھے کہتی تھیں ۔ تم کیوں ناجیہ سے لئے دیئے رہتی ہو۔ کیا روایتی نند کا رول ادا کر رہی ہو اور میں جواب دیتی۔ ہاں نند بھی تو بن گئی ہوں اس کی پھر نند والا سلوک کیوں نہ کروں ناجیہ نے چار اور بچوں کو بھی جنم دیا جو سبھی مجھے پیارے لگتے ہیں۔ ان کو دل سے لگاتی ہوں تو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے مگر اس کے پہلے بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوتیں، دل میں چھن ہونے لگتی ہے اور سوچتی ہوں کہ اگر یہ یہ لا چھی ہونے لگتی ہے اور سوچتی ہوں کہ اگر یہ میرے بھائی کی اولاد نہیں ہے تو ان کے ساتھ کتنا بڑا دھو کا ہے، کتنی بڑی زیادتی ہے کہ وہ اس بچے کو بھی اپنی اولاد سمجھ کر پال رہے ہیں۔ یہی سوچ میرے دل کو کچوکے لگاتی ہے اور کبھی کبھی مجھے ناجیہ سے ہی نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔ اے کاش ناجیہ کے قدم نہ بہکتے۔ | null |
null | null | null | 203 | https://www.urduzone.net/nigar/ | میرے موبائل فون میں میرے دوستوں کے اتنے نمبر محفوظ نہیں تھے جتنے رشتہ کرانے والے لوگوں کے تھے۔ میری اماں کو میری شادی کی بہت فکر تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ میری شادی جلد ہو جائے، وہ کسی شادی کی تقریب میں جاتیں تو میرے لیے لڑکی زیادہ، کھانے کی ڈشیں کم دیکھتی تھیں۔ ہر ملنے والی کے ساتھ اگر اگر بات کسی اور موضوع پر بھی کر رہی ہوتیں تو بات گھما کر میری طرف لے جاتی تھیں اور میری تعریف شروع کر دیتی تھیں کہ شاید کوئی مجھ سے متاثر ہو جائے اور اس طرح میری شادی کی بات ہو جائے۔ میرے ابا بھی اپنے ملنے والوں سے کسی اچھے رشتے کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔ اب ایسا نہیں تھا کہ مجھ پر کسی نے جادو کر دیا تھا اور میری شادی نہیں ہورہی تھی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ جب بھی میری شادی کی بات چلتی تو کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب پہلی بار مجھے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے تھے تو جونہی وہ رکشہ میں سوار ہوئے تو رکشہ الٹ گیا۔ لڑکی کا باپ زخمی ہو گیا۔ انہیں اسپتال لے گئے۔ میرے ابا کو اطلاع ملی تو وہ اس خیال سے اسپتال جا پہنچے کہ اس عیادت کی وجہ سے یہ رشتہ ہاتھ سے نہ جائے گا اور تعلق مزید مضبوط ہو جائے گا۔ ابا نے اپنی جیب سے لڑکی کے باپ کے لیے بائیس سو بیالیس روپے کی ادویات بھی خرید کر دیں۔ اسپتال سے فارغ ہو کر وہ جب گھر چلے گئے تو تین دن کے بعد ابا نے انہیں فون کر کے کہا۔ آج موسم اچھا ہے چھٹی کا دن ہے ، آج آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف لے آئیں تو کتنا اچھا ہو ۔ مشکل ہے۔ دوسری طرف سے لڑکی کے ابا نے جواب دیا۔ کیا مشکل ہے ابا نےدریافت کیا۔ کل ہم آپ کی طرف آنے کا فون کرنے والے تھے کہ جس فون پر آپ کا نمبر ملایا وہ فون اچانک ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا، نیچے گرنے سے بچانے کے لیے میرے بیٹے نے اسے کیچ کرنے کی کوشش کی۔ فون اس کے ہاتھ سے ٹکرا کر اچھلا اور وہ سیدھا میری بیوی کے ماتھے پر لگا اور میری بیوی کا ماتھا زخمی ہوا سو ہوا موبائل فون بھی ٹوٹ گیا۔ لہٰذا اب ہم آپ کی طرف کبھی نہیں آئیں گے ۔ یہ بتانے کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ میں نے سنا تو اداس ہو گیا۔ اماں کا بھی منہ لٹک گیا اور ابا کو اس بات کا صدمہ زیادہ ہوا کہ ان کی جیب سے بائیس سو بیالیس روپے دوا کی مد میں نکل گئے تھے۔ اور ان کی واپسی ممکن نہ تھی۔ اس کے بعد ایسی خاموشی چھائی کہ کوئی رشتہ دور تک دکھائی نہیں دیا۔ ایک بار ابا مجھے ایک پیر جی کے پاس لے گئے۔ صحت مند پیر جی نے میری طرف دیکھتے ہی جلالی انداز میں دریافت کیا۔ کیا ہوا اس کی شادی نہیں ہو رہی۔ ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ابا نے بتایا۔ اس کار شته باندھا ہوا ہے۔ پیر جی بولے۔ کہاں باندھا ہوا ہے میرا رشتہ میں نے معصومیت سے پوچھا تو پیر جی نے میری طرف گھور کر دیکھا اور پھر اپنے ایک آدمی کی طرف نظر گھمادی۔ وہ آدمی میرے ابا کے پاس بیٹھ کر ان کے کان میں کہنے لگا جس کی آواز مجھ تک بھی آرہی تھی۔ توڑ کرنا پڑے گا۔ سات دیسی بکرے پیر جی کی نظر کرنے پڑیں گے۔ میں نے فوراً حساب لگایا۔ سات دیسی بکروں کی اتنی قیمت بنتی تھی کہ اس رقم میں باآسانی میری منگنی ہو سکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ابا کے کان میں کہتا کہ آپ صاف انکار کر دیں۔ اچانک پیر جی کا موبائل فون بجا۔ اس نے فون کان کو لگایا تو دوسری طرف سے ایک تیز آواز آئی جو میرے اور ابا کے کان میں بھی پڑرہی تھی۔ دوسری طرف سے کوئی خوشی سے چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ مبارک ہو مبارک ہو بڑی مشکل اور بڑی کوشش کے بعد آپ کا رشتہ طے ہو گیا ہے پیر جی اچھا واقعی پیر جی نے خوش ہو کر جونہی یہ کہا۔ ہم اس جگہ سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس کے نفع و نقصان کا حساب ہو رہا تھا۔ ہم اکائونٹس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے مسلسل اس کام میں مصروف تھے اور ہمیں گھر جانے کی چھٹی بھی نہیں ملی تھی۔ ہم سب کام میں اس قدر مصروف رہے کہ کسی نے بھی دو گھنٹوں سے زیادہ نیند نہیں لی تھی۔ لمبا چوڑا حساب تھا۔ کمپنی کے شراکت دار ہمارے سروں پر براجمان تھے۔ پھر جیسے ہی کام ختم ہوا تو دوسرے دن کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔ اتوار کا دن تھا۔ یعنی کمپنی نے ہماری عام تعطیل میں سے بھی کچھ گھنٹے اپنے کام کے لیے لے لیے تھے۔ نیند کا خوب زور تھا۔ میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ گھر جاتے ہی بستر پر ڈھیر ہو جائوں گا اور خوب مزے سے سوئوں گا۔ جب میں بائیک پر بیٹھ کر جانے کی تیاری میں تھا اور ابھی میں نے بائیک کو کک نہیں ماری تھی کہ گھر سے فون آگیا۔ دوسری طرف اماں تھیں۔ ظہیر تم کب گھر آ رہے ہو اماں نے پوچھا۔ بس اماں نکلنے والا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ اچھا آتے ہوئے شیو بنوا کر آنا۔ اماں نے کہا۔ کیوں اماں خیر تو ہے میں نے دریافت کیا۔ چار بجے لڑکی والے تمہیں دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ دوسری طرف سے اماں کی خوش کن آواز سنائی دی۔ اچھا اماں ۔ یہ سن کر میرے دل میں جلترنگ سانج اٹھا۔ یہ احساس ہی اتنا خوبصورت تھا کہ مجھے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔ اس بات نے جیسے میرے اندر توانائی بھر دی تھی اور جو نیند مجھ پر غالب ہو رہی تھی وہ خود بخود معدوم ہو گئی تھی۔ میں نے بائیک کو کک ماری اور وہاں سے چل پڑا۔ میرے دل و دماغ میں ابہام کاریلہ تھا۔ مجھے وہ سب رکاوٹیں یاد آرہی تھیں جو ہر بار کہیں نہ کہیں سے نکل آتی تھیں اور میرا رشتہ طے نہیں ہو پاتا تھا۔ دوسرے تمام واقعات کے ساتھ مجھے وہ واقعات بھی یاد آگئے تھے جو دادی اماں کے ساتھ منسلک تھے۔ ایک روز جب لڑکی والے مجھے دیکھنے کے لیے آرہے تھے تو ایک گھنٹہ قبل دادی اماں کی طبیعت خراب ہو گئی اور ہم ان کو اسپتال لے گئے۔ اس طرح لڑکی والے نہ آسکے۔ دادی اماں کو دو گھنٹوں کے بعد گھر لے آئے تو ابا نے لڑکی والوں کو فون کیا کہ وہ اب آنا چاہیں تو آجائیں۔ لڑکی والوں نے بتایا کہ ان کی نظر میں ایک اور رشتہ تھا اس لیے وہ وہاں چلے گئے اور انہیں لڑکا پسند آ گیا ہے۔ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ مجھے اپنا چہرہ دکھانے کا موقع نہیں مل تھا اور اس لڑکی کا رشتہ کسی اور جگہ طے ہو گیا تھا۔ پھر جب مجھے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے تھے تو دادی اماں گلی میں ٹہل رہی تھیں۔ اچانک گلی میں کھیلتے بچوں کی گیند دادی اماں کو لگ گئی اور دادی اماں بے ہوش ہو گئیں۔ ان کو اسپتال لے گئے ۔ لڑکی والوں کو فون کر کے پھر روک دیا کہ گھر میں مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس دن بھی دادی اماں دو گھنٹے اسپتال میں رہی تھیں، جب دادی اماں گھر آئیں تو ابا نے لڑکی والوں کو فون کیا اور انہیں کہا کہ وہ آجائیں تو لڑکی والوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا کہ لڑکی اپنے کزن کو پسند کرتی ہے۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے مطابق کر دیں۔ اس جواب سے گھر والوں کو جو پریشانی ہوئی سو ہوئی، میں نے اس رات کھانا ہی نہیں کھایا۔ میں دونوں بار خوب تیار ہو کر بیٹھا تھا اور دونوں بار دادی اماں کی وجہ سے لڑکی والے ہمارے گھر کی دہلیز تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ اس بار مجھے کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ دادی اماں تایا ابا کے گھر شیخو پورہ گئی ہوئی تھیں۔ اور اگر خدانخواستہ اس دوران دادی اماں کو کچھ ہو جاتا ہے تو لڑ کی والوں کو گھر بلا کر ان سے ملاقات کرنے کے بعد ہم آسانی سے انہیں دیکھنے کے لیے نکل سکتے تھے۔ اس طرح لڑکی والے مجھے تسلی سے دیکھ لیتے اور میری شادی کی راہ بھی ہموار ہو جاتی۔ میں کا کا ہیئر ڈریسر کے پاس جا پہنچا۔ بائیک ایک طرف کھڑی کی۔ اندر کرسیاں خالی تھیں۔ نیند کا خمار زوروں پر تھا۔ لیکن دودن کی بڑھی ہوئی شیو بنوانا بھی ضروری تھا کیونکہ اگر میں گھر جا کر سو جاتا تو پھر شیو کا ہونا مشکل ہو جاتا۔اس طرح شیو کرانے کے بعد سو تو سکتا تھا۔ جب مہمان آتے تو تیار ہو کر ان کے سامنے چلا جاتا۔ جب میں شیو کرانے کے لیے کرسی پر بیٹھ رہا تھا تو عین میری ساتھ والی کرسی پر ایک اور نوجوان براجمان ہو رہا تھا۔ ہم دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا تھا، میں نے کہا کہ میری شیو کر دو اور وہ بولا تھا کہ میری ٹنڈ کر دو۔میرے گلے کے گرد تولیہ لپیٹ کر اس نے جیسے ہی اپنے ماہر ہاتھوں سے میرے ماتھے اور پھر آنکھوں کے اوپر کے حصہ کو سہلایا تو مجھے ایسا سکون ملا کہ میں نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔ مجھے ہوش ہی نہ رہا۔ جب میری آنکھ کھلی تو کا کا ہیئر ڈریسر کہہ رہا تھا۔ اٹھ جائے نا۔ میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو مجھے کسی کے تیز بولنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے گردن گھما کر اس نوجوان کی طرف دیکھا جو میرے ساتھ سر گنجا کرانے کے لیے بیٹھا تھا۔ وہ غصے میں چیخ رہا تھا۔ دیکھو۔ مجھے نیندیوں آتی ہے جیسے نیند بنی ہی میرے لیے ہو۔ میں تم کو ٹنڈ کرنے کا کہہ کر سو کیا گیا تم نے میری شیو بنادی میری اسٹائلش داڑھی صاف کردی۔ آپ نے جو کہا تھا وہ میں نے کر دیا۔ اس نے معصومیت سے صفائی پیش کی۔ میں نے یہ کہا ہی نہیں تھا۔ وہ نوجوان غصے سے تلملا رہا تھا۔ہم غلطی نہیں کر سکتے جناب۔ وہ اپنی بات پر پوری اعتماد کے ساتھ قائم تھا۔ وہ مسلسل غصے سے بول رہا تھا۔ اسے اپنی اسٹائلش داڑھی کے صاف ہونے کا سخت تاسف تھا۔ جبکہ کا کا اس کے غصے کو نظر انداز کر کے دھیمے لہجے میں اس کی بات کی نفی کر رہا تھا۔میں نے سر جھٹک کر سامنے شیشے میں دیکھا تو چونک پڑا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ آخر سامنے میری شکل کا کون بیٹھا ہے جس کا سر بال نہ ہونے کی وجہ سے چمک رہا تھا۔ یہ کون ہے میں نے شیشے کی طرف اشارہ کر کے کاکا سے پوچھا۔ یہ آپ ہیں۔ اس نے تولیہ تہہ کرتے ہوئے بتایا۔یہ میں ہوں تو میرے سر کے بال کہاں ہیں مجھے سخت دھچکا لگا تھا۔ آپ نے ٹنڈ کرنے کا بولا تھا وہ میں نے کر دی۔ اس نے کہا۔ اس کا دھیما لہجہ میرے احتجاج کو روند رہا تھا۔ ابے ٹنڈ کرنے کا تو اس نے بولا تھا میں نے شیو کرنے کو کہا تھا۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے خوبصورت بال سر سے غائب ہو چکے تھے ۔ آج لڑ کی والے مجھے دیکھنے آرہے تھے اور اس کمبخت نے میرے سر کے بال اس طرح صاف کر دیے تھے جیسے میرے دشمنوں نے اسے اس کام کے لیے بھاری رشوت دی ہو۔ میری بات سن کر نوجوان میری طرف بڑھا اور مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔ تو اس نے آپ کی ٹنڈ کر دی اور میری شیو بنادی ابے تم دونوں بہرے ہو کیا وہ ایک بار پھر کا کا کی طرف متوجہ ہو کر چیخا۔ مجھے گنجا کیوں کر دیا میں اپنی جگہ تڑپا۔ تمہیں سنائی نہیں دیا تھا۔ میری اسٹائلش داڑھی صاف کردی گدھو اس نوجوان کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا جبکہ میرا غصہ بھی دو چند ہوتا جارہا تھا۔ وہ پوری قوت سے دھاڑا تھا۔اس نوجوان نے بس گدھو ، کہا ہی تھا کہ دونوں حجامت بنانے والوں نے اس نوجوان کو پکڑ لیا اور اس کی دھلائی شروع کر دی۔ ایسی دھلائی کہ اس نوجوان کی بولتی بند ہو گئی۔ میں ایک طرف سہم کر کھڑا ہو گیا۔ جو نہی وہ اس کی دھلائی سے فارغ ہوئے میں نے جلدی سے جیب ہیں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے اور ان کی طرف بڑھا کر شرافت سے دکان سے باہر نکلا جیسے میری ٹنڈ میری عین منشا کے مطابق ہوئی ہو۔ اب میں اس صورتحال میں کچھ کہہ کر ایسی دھلائی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹنڈ کے ساتھ اگر وہ میرے چہرے کے نقوش بھی بدل دیتے تو میں لڑکی والوں کو کیا دکھاتا سارے راستے میں روتا رہا۔ بس آنسو نہیں نکلے لیکن رہ رہ کر مجھے اپنا پیارا ہیئر اسٹائل یاد آتار ہا اور یہ سوچ کرمیری جان نکلی جارہی تھی کہ آج مجھے لڑکی والے دیکھنے آرہے ہیں۔ گلی میں داخل ہوا تو کھیلتے ہوئے بچے رک کر میری طرف دیکھنے لگے ۔ ہماری پرانی ہمسایوں نے مسکراتے ہوئے اپنے منہ پر دوپٹے رکھ لیے۔ گھر میں داخل ہو کر میں نے بائیک ایک طرف کھڑی کی اور ابھی صحن میں قدم رکھا ہی تھا کہ اماں دیکھتے ہی چلائیں۔ کون ہے تو ۔۔ ہمارے گھر دن دیہاڑے گھس آیا ارے کوئی پکڑوا سے اماں کا شور روکنے کے لیے میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا انہوں نے سمجھا میں ان کو قابو کر رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک طرف زور سے دھکا دیا اور میں صحن میں ٹہلتے ہوئے پالتو مرغ کے اوپر آن گرا جیسے میں اسے ہی اٹھانے آیا تھا۔ اماں دروازے کی طرف دوڑیں تا کہ محلے والوں کو جمع کر سکیں۔ میں، اپنی جگہ سے اٹھا اوربولا۔ اماں یہ میں ہوں میری آواز سنتے ہی اماں کے قدم رک گئے ۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگیں۔ پھر جب مجھے وہ پہچان گئیں تو میری طرف بڑھیں اور بولیں ۔ یہ تو کیا کرا کے آگیا ہے۔ میں نے شیو کا کہا تھا تم سر منڈا کر آگئے۔ اس حالت میں تم بالکل اچھے نہیں لگ رہے ، لڑکی والوں کو کیا خاک اچھے لگو گے ۔ اماں ہاتھ نچاتے ہوئے بولیں۔ میں نے اماں کو ساری بات بتائی تو وہ میرا منہ حیرت سے دیکھتی رہیں۔ ہیں چپ ہوا تو وہ بولیں۔ اس کمبخت کو پکڑ لینا تھا اس کا سر پھوڑ دیتے اچھی خاصی ٹھکائی کر کے آیا ہوں اماں ۔ اپنی غلطی پر معافی مانگی تب چھوڑا تھا۔ میں نے جھوٹ بول کر دراصل اپنے آپ کو تسلی دی۔ میں سوچ رہی تھی کہ آج تیری دادی نہیں ہے ، سب ٹھیک رہے گا، لیکن دادی کی کسر تو اس کمبخت نے نکال دی جس نے تیری ٹنڈ کی ہے۔ اماں کو تاسف ہو رہا تھا۔ابھی ہم اسی طرح کھڑے تھے کہ ابا باہر سے آگئے۔ وہ آتے ہی بولے۔ یہ برخوردار کون ہیں ظہیر ہے اور کون ہے اماں نے مرجھائے لہجے میں بتایا۔ ابا نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں ان کے سامنے ایکسرے کی فلم ہوں اور وہ کوئی ڈاکٹر ہیں۔ پھر ابا کی حیرت ناک آواز نکلی۔ یہ کیسے ہوا ابا کے اس سوال پر میں نے ان کو ساری کہانی سنادی۔ ابا سنتے رہے۔ سب کچھ سننے کے بعد انہوں نے میرا بازو پکڑا اور ایک طرف لے جا کر کہا۔ سچ بتائو اصل معاملہ کیا تھا، کسی کو چھیڑا تھا تم نے بابا کا مشکوک لہجہ اور ان کی نظریں میرے چہرے پر دوڑتی ہوئی مجھے پریشان کر گئی تھیں۔ بابا کیسی بات کر رہے ہیں۔ آپ میرے ساتھ دکان پر چلیں آپ کو پتا چل جائے گا۔ اس نے غلطی سے میری ٹنڈ کردی۔ میری اس بات سے ابا کو تسلی ہو گئی۔ وہ سوچنے لگے۔ بہت برا ہو گیا۔ وہ تو ماڈرن لوگ ہیں۔ ایک گنجے کو کیسے پسند کریں گے ۔ بابا بڑ بڑائے اور سوچتے رہے۔ بابا آپ ان کو روک دیں۔ میں نے مشورہ دیا۔میں اس سے پہلے دو بار لڑکی والوں کو روک چکا ہوں۔ اب ایسا نہیں کروں گا۔ لڑکی والے آئیں گے اور آج ہی آئیں گے۔ تم اپنا کوئی بند و بست کرو۔ بابانے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ میں سوچنے لگا کہ میں کیا بندوبست کروں۔ کہاں جائوں کیا کروں مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وگ کہاں سے ملتی ہے لیکن گنجے سر کے ساتھ لڑکی والوں کے سامنے جانا بھی ٹھیک نہیں تھا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی نا پسند کر دیتے۔ بہر حال مجھے کچھ کرنا تھا۔ ساری عمر کنوارا نہیں رہنا تھا۔ ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوتارہا اس طرح میرے کنوارے رہنے کے چانس زیادہ تھے۔ چار بجے لڑکی والوں نے آنا تھا، کچھ گھنٹے باقی تھے ، ان گھنٹوں میں میرے سر پر بال تو آنے سے رہے۔ ایسا کریں لڑکی والوں کو آپ میری تصویر دکھا دیں اور ان کو بتادیں کہ میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں آسکا۔ میں نے تجویز پیش کی۔لڑکی والے آرہے ہیں۔ تم ان سے ملو گے ۔ بات کرو گے ۔ بس یہ سوچو کہ تمہارا گنجا سر کس طرح کو ر ہو سکتا ہے۔ ابا تو فیصلہ کیے بیٹھے تھے۔ انہوں نے دوٹوک انداز اختیار کیا۔ ان کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ اماں گم صم کھڑی تھیں۔ اچانک مجھے پر وفیسر خلیل کا خیال آیا۔ پروفیسر خلیل تقریباً چار ماہ قبل ہمارے برابر والے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ وہ اکیلے ہی رہتے تھے۔ جب وہ شفٹ ہو رہے تھے تو ان کا ایک بیڈ ، کچھ کر سیاں اور ضرورت کا سامان آیا تھا لیکن کتا بیں اتنی تھیں کہ سب کو گمان ہوا کہ وہ پرانی کتابوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ پروفیسر خلیل بڑی پر اسرار شخصیت کے مالک تھے۔ پہلے تو کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ پھر کسی نے بتایا کہ وہ پروفیسر ہیں لیکن کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ فال نکالنے والے پروفیسر ہیں یا پڑھانے والے روزانہ وہ ایک کتاب بغل میں دبائے چلے جاتے اور واپسی پر ان کے پاس وہی ایک کتاب ہوتی، یا پھر دو ہو جاتی تھیں۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگ ان کو پاگل کہتے تھے ، کچھ کی رائے تھی کہ وہ اچھے انسان ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں لیکن ان کی اس پر اسرار شخصیت میں کیڑے نکالنے والے زیادہ تھے ۔ کوئی بھی ان کی حقیقت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ایک دن تیز ہوا میں ان کے سر پر رکھی وگ اڑ کر نیچے گر گئی۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ اصل بالوں کے قریب تر دراصل وہ وگ ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچا کہ اگر پروفیسر صاحب سے ایک دو گھنٹے کے لیے وگ ادھار مانگ لی جائے تو میر امسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایسی تھی کہ وہ وگ لگتی ہی نہیں تھی۔ بالکل اصل بال لگتے تھے۔ ایسی خاص وگ تھی وہ۔ایک دم اس مسئلے کا حل میری سمجھ میں آیا۔ میں اس خیال کے آتے ہی بولا۔ وہ کیا ابا اور اماں نے بیک وقت میری طرف دیکھا۔ ساتھ والے پروفیسر صاحب وگ لگاتے ہیں۔ میں ان سے وگ ادھار مانگ لاتا ہوں۔ میں نے بتایا۔ وہ تم کو وگ دے گا وہ تو کسی سے بات تک نہیں کرتا۔ کسی کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ کسی کو پتا ہی نہیں ہے کہ وہ کرتا کیا ہے۔ گھر سے جاتے اور آتے ہوئے اسے لوگ دیکھتے ہیں بس۔ آبانے کہا۔ باباجی اس مشکل گھڑی میں کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ میں نے سب کچھ جاننے کے باوجود امید کا پلو پکڑ لیا۔ کوشش کر دیکھو۔ لیکن جو کرنا ہے جلدی کرو۔ پونے تین ہو گئے ہیں۔ چار بجے انہوں نے آنا ہے۔ ابا بولے۔ میں ابھی آتا ہوں ۔ میں نے اٹھ کر اپنے سر پر ٹوپی رکھی تا کہ میری ٹنڈ اس کے اندر چھپ جائے۔ میں نے باہر نکل کر پروفیسر صاحب کے گھر کے دروازے کے سامنے پہنچ کر بیل پر انگلی رکھی۔ بیل شاید خراب تھی اس لیے مجھے اس کے بجنے کی آواز نہیں آئی۔ میں نے دروازہ بجایا۔ چار بار دروازہ بجایا تو اندر سے آواز آئی۔ کون ہے جی پروفیسر صاحب میں ہوں۔ میں نے بتایا۔ مسٹر میں سوری میں آپ کو نہیں جانتا۔ پر وفیسر صاحب کی اندر سے آواز آئی۔ انہوں نے شاید سمجھ لیا تھا کہ میرا نام میں ہے۔ جی میرا نام ظہیر ہے اور میں آپ کے برابر میں رہتا ہوں۔ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے وضاحت کی۔ میرے برابر تو کتا بیں ہوتی ہیں، یا پھر لیپ ٹاپ۔ ان کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ میرا مطلب ہے کہ آپ کے گھر کے ساتھ جس گھر کی دیوار ملتی ہے میں اس گھر میں رہتا ہوں۔ میں نے مزید وضاحت کی۔ گر آپ مجھے یہ بتانے آئے ہیں تو تشریف لے جائیے مجھے پتا چل گیا ہے ۔ پر وفیسر صاحب نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔ سر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ایک ضروری کام ہے مجھے آپ سے میں نے کہا۔ میں آپ کے صرف پانچ منٹ لوں گا۔ بولیں کیا کام ہے۔ انہوں نے دروازہ کھولنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ سر ذرا دروازہ کھولیں تو میں آپ سے بات کروں۔ میں نے کہا۔ اندر ایسی خاموشی چھا گئی جیسے بیوی نے اچانک شوہر سے خرچہ مانگ لیا ہو۔میں دس منٹ تک کھڑا رہا۔ اس کے بعد جب میں مایوس ہو کر جانے لگا تو دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پروفیسر صاحب نے اتنا در وازہ کھولا جس سے ان کا صرف چہرہ باہر نکل سکے ۔ بالکل ایسے جیسے کوئی باتھ روم کا تھوڑا سا دروازہ کھول کر اپنا سر باہر نکال کر کسی سے تولیہ مانگتا ہے۔ میری نظر پروفیسر صاحب کے سر پر جمی وگ پر گئی۔ میں نے کہا۔ کیا ہم اندر بیٹھ سکتے ہیں۔ میری بات سن کر پروفیسر صاحب کے ماتھے کی سلوٹیں ابھریں اور پھر انہوں نے خشک لہجے میں کہا۔ کیوں بات کرنی ہے آپ سے۔ ہاں تو کرو۔ ذرا اندر بیٹھ جاتے تو مہربانی ہوتی۔ میں نے پھر استدعا کی اور پروفیسر صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے بادل نخواستہ دروازہ کھول دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ آپ کے پاس بات کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ ہیں۔ پروفیسر صاحب نے یہ کہہ کر اپنی نگاہیں اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر مرکوز کر دیں۔ میں نے وقت کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے پہلے اختصار سے انہیں بتایا کہ میری ٹنڈ کس مغالطے میں ہو گئی تھی اور پھر بولا کہ مجھے ابھی لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ مجھے دو گھنٹوں کے لیے آپ کی وگ درکار ہے۔ وہ میری بات کو اپنی نگاہیں گھڑی پر مرکوز کیے سنتے رہے۔ جو نہی میں نے بات مکمل کی انہوں نے مجھے بڑے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔ آپ ذرا باہر نکلیں گے میں دروازے کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ دروازہ کھول کر باہر قدم رکھا تو انہوں نے ایک دم کہا سوری اور تیزی سے دروازہ بند کر دیا اور میں بند دروازے کو یوں دیکھتا رہا جیسے میں نے کھل جاسم سم کہا ہو اور دروازہ کھلا نہ ہو۔ مجھے پروفیسر صاحب کے اس رویے پر سخت غصہ آیا کہ یہ کون سا طریقہ ہے انکار کرنے کا۔ اگر ان کو انکار ہی کرنا تھا تو مجھے اس طرح باہر نکال کر انکار نہ کرتے۔ میں کچھ دیر اس جگہ کھڑا رہا اور پھر واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ جو نہی میں نے اپنے گھر کے اندر قدم رکھا میں چونک گیا۔ مجھے اندر سے آوازیں آرہی تھیں ۔ ابا پوچھ رہے تھے۔ آپ نے تو چارہ ربجے آنا تھا۔ آپ پہلے ہی آگئے کہنے کے بعد ا با ہنسے بھی تھے۔ ایک خاتون نے جواب دیا۔ دراصل ہم نے تین بجے ایک اور جگہ رشتہ دیکھنے جانا تھا وہاں گئے تو ہم لڑکے کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے لڑکے کے سر پر بال اتنے تھے کہ بس گنجا ہی سمجھ لیں۔ جی کوئی بات نہیں آجائیں ، ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہیں ۔ اماں کی آواز آئی۔ اماں کی آواز میں صاف گھبراہٹ عیاں تھی۔ ظاہر ہے وہ اس بات کی تھی کہ وہ اس لڑکے کو دیکھ کر بھاگ آئے جو پوری طرح سے گنجا نہیں تھا اور میری تو ٹنڈ ایسی تھی کہ وہ مجھے دیکھتے ہی بھاگنے کی بجائے شاید اسی جگہ کھڑے کھڑے غائب ہو جاتے۔ میں یہ سوچ کر متفکر ہو گیا تھا۔ میں باتیں سنتے ہوئے رکا نہیں تھا بلکہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا اور اس پریشانی کے عالم میں میں نے اپنے سر سے نادانستہ ٹوپی بھی اتار لی تھی۔ جب میں صحن میں پہنچا تو وہ سب مہمان ڈرائنگ روم میں جا چکے تھے بس ایک چھ سال کی بچی اندر کی طرف جارہی تھی کہ اچانک اس کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ چلائی ۔ ماما یہاں بھی ایک انکل گنجے ہیں جلدی آکر دیکھیں بچی یوں مما کو بلا رہی تھی جیسے کوئی عید کا چاند دیکھ کر شور مچائے کہ مجھے دکھائی دے گیا ہے۔ وہ دیکھو اس کا شور سن کر میں مضطرب ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ایک ۔ لمحے میں خیال آیا کہ دیوار میں گھس کر تحلیل ہو جائوں لیکن یہ میرے لیے ممکن نہیں تھا چنانچہ میں نے جلدی سے اوپر سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگادی اور کمرے میں جا کر دم لیا۔ پانچ منٹ کے بعد اماں میرے پیچھے آگئیں ۔ لے آئے وگ انہوں نے انکار کر دیا ہے ۔ میں نے منہ بنا کر جواب دیا۔ اب کیا کرو گے وہ ایسے لڑکے کو دیکھ کر بھاگ آئے ہیں جو ابھی پورا گنجا نہیں تھا۔ تمہارے سر پر استرے سے کمال کیا ہوا ہے اب جائو اور بازار سے وگ خرید لائو ۔ اماں نے پریشان ہو کر کہا۔ اماں جو وگ پر وفیسر صاحب کے سر پر ہے اسے دیکھ کر کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ وگ ہے۔ میں نے کہا۔ اور مجھے کیا پتا کہ وگ کہاں ملتی ہے اور اس عجلت میں جانے میں کوئی مصنوعی وگ خرید لائوں۔ پھر اب کیا کرنا ہے اماں نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ آپ جائیں مہمانوں کے پاس بیٹھیں اور انہیں بتائیں کہ آفس میں کام تھا بس لڑکا آہی رہا ہے۔ میں کچھ انتظام کر کے آتا ہوں۔ میں نے ایک دم سے کچھ اور سوچ لیا۔ کیا کرو گے آپ جائیں۔ میں گنجے سر کے ساتھ ان کے سامنے نہیں آئوں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔ میں نے اماں کو تسلی دی اور اماں پریشان کی نیچے چلی گئیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ پروفیسر کی وگ اپنے سر پر جما کر ہی دم لوں گا۔ کیونکہ وہ ایسی وگ تھی جو اصل بالوں کی طرح تھی۔ بالکل سلکی بال تھے اور پھر اتنی جلدی میں کسی دوسری وگ کا کہیں سے انتظام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ایک بار اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ساری زندگی کنوارا نہیں رہنا۔اس بار میں لڑکی والوں کے سامنے ضرور جائوں گا تا کہ بات آگے بڑھے۔ چنانچہ میں اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمرے سے باہر نکلا اور چار پائی پر کھڑا ہو کر ارد گرد کے گھروں کی چھتوں کی طرف دیکھنے لگا۔ کسی چھت پر مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا تھا۔میں بغیر لمحہ ضائع کیے دیوار کے پاس پہنچا اور جست لگا کر اوپر چڑھا اور پھر دوسری طرف کود گیا۔ اب میں پروفیسر صاحب کے گھر کی چھت پر تھا۔ میں سیڑھیوں کی طرف گیا۔ سیڑھیوں پر کمزور سا دروازہ لگا ہوا تھا۔ ایک طرف سے ٹوٹا تھا جس کے اندر ہاتھ ڈال کر میں نے آسانی سے کنڈی کھول لی۔ اس گھر میں میرا ایک دوست کرائے دار کی حیثیت سے رہ چکا تھا۔ اس لیے میں اس گھر سے خوب اچھی طرح واقف تھا اور یہ دروازہ میرے دوست نے ہی توڑا تھا جب ایک بار وہ اپنی بیوی کے ساتھ باہر سے تالا لگا کر گیا تھا۔ اور واپسی پر چابی گم ہو گئی تھی۔ تب وہ ہماری چھت سے اس طرف آیا تھا اور دروازہ توڑ کر اس نے کنڈی کھولی تھی اور پھر نیچے جا کر اس نے ڈرائنگ روم کا دروازہ جو باہر کی طرف کھلتا تھا اسے اندر سے کھول کر اپنی بیوی اور بچوں کو اندر لے گیا تھا۔ میں دھیمے قدموں سیڑھیاں اترا اور آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے لگا کہ بیڈ روم میں کوئی ہے۔ میں بغیر آہٹ پیدا کیے بیڈ روم کے دروازے تک پہنچا اور ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا۔ پورا کمر اکتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ دائیں بائیں کتابیں تھیں۔ بیڈ کے سرہانے اور میز پر بھی کتابیں تھیں۔ پروفیسر صاحب دوسری طرف منہ کیسے براجمان تھے اور انہوں نے کان سے موبائل فون لگایا ہوا تھا۔ ان کا سر چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ وگ اتار کر انہوں نے بیڈ کے ایک طرف رکھی ہوئی تھی اگر میں آگے بڑھتا تو بغیر آواز پیدا کیسے ان کے پیچھے سے وہ وگ اٹھا کر الٹے پیر واپس جا سکتا تھا۔ لیکن ان کی باتیں سن کر میں گھبرا کر وہیں رک گیا۔ وہ کسی سے کہہ رہے تھے ۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ میں راشد کو مروادوں اس کے قتل سے سحرش کی زندگی میں سکون آجائے گا۔ پروفیسر صاحب نے یہ بات اس قدر پر سکون انداز میں کہی کہ جیسے وہ کسی مکھی کو مارنے کی بات کر رہے ہوں جبکہ میں کانپ کر رہ گیا تھا۔ وہ دوسری طرف سے ہونے والی بات سننے لگے اور پھر بولے۔ میں نے پورا منصوبہ بنالیا ہے۔ راشد جب آفس کے لیے لفٹ میں بیٹھ کر اوپر جاتا ہے تو اسے لفٹ میں موجود ایک اجرتی قاتل اسے مار دے گا۔ ان کی باتیں سن کر میری سانس تیز ہو گئی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ محلے والے ٹھیک کہتے تھے کہ پروفیسر بہت پراسرار آدمی ہے۔ وہ پر اسرار کہتے تھے میری نظر میں تو پروفیسر ایک سفاک انسان تھے جو دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتا تھا۔ وہ کسی کو بھی اجرتی قاتل کے ذریعے قتل کرواسکتا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ پروفیسر کسی کو قتل کرنے کے لیے پیسے لیتا ہے۔ کتابوں کا انبار اور بغل میں کتاب دبا کر جانا دراصل ان کا اصل روپ چھپانے کی ایک چال تھی۔فی الحال مجھے وگ کی ضرورت تھی۔ کیونکہ میرا رشتہ طے ہو رہا تھا۔ میں پروفیسر کو فون پر باتوں میں منہمک دیکھ کر آگے بڑھا اور ہاتھ بڑھا کروگ اٹھالی۔ اس دوران وہ بولے ۔ راشد کے بعد میں سحرش کے باپ کو بھی روڈا ایکسیڈنٹ میں مروادوں گا یہ بہت ضروری ہے ، وہ ایماندار ہے اور اپنی ایمانداری کی وجہ سے کامران کے غبن کا بتادے گا۔ اچانک میرا موبائل فون بج اٹھا۔ میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ میں نے برق رفتاری سے جیب سے موبائل فون نکال کر اس کی بیل بند کی۔ ان لمحات میں فون سنتے ہوئے پروفیسر نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تب تک میں نیچے بیٹھ چکا تھا اور بیڈ کے نیچے بھس کر لیٹ گیا تھا۔ لمحوں میں سب کچھ ہو گیا تھا۔ میں نے اسی وقت فون سائلنٹ پر لگادیا۔ مجھے پروفیسر صاحب کی آواز سنائی دی۔ میں تمہیں دوبارہ کال کرتا ہوں۔ میں نے بیڈ کے نیچے سے دیکھا۔ ان کے قدموں نے حرکت کی اور وہ چلتے ہوئے دروازے کی طرف آئے وہاں کچھ دیر رکے اور پھر باہر چلے گئے۔ میں نے اماں کو کال کی اور جیسے ہی رابطہ ہوا میں نے سر گوشی کی۔ کیا بات ہے اماں دیکھو اطمینان سے وگ کا انتظام کر لو لڑکی کے ماموں کا انتظار ہو رہا ہے اور وہ آدھے گھنٹے تک پہنچ رہے ہیں۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ ظہیر ضروری میٹنگ میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کوئی بات نہیں وہ اطمینان سے آجائے ۔ اماں یہ بتاتے ہوئے خوش تھیں اور میں نے اچھا کہہ کر فون بند کر دیا۔ میں نے سوچا کہ جلدی سے یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کروں، لیکن اسی وقت پر وفیسر کی ٹانگیں مجھے دکھائی دیں۔ وہ دروازے کے پاس رک گئے۔ پھر مجھے ان کی آواز آئی۔ فون کی بیل مجھے اپنے قریب سے سنائی دی تھی۔ ہو سکتا ہے آپ کے کان بج رہے ہوں۔ ایک نسوانی آواز نے مجھے چونکادیا۔ میرے کان میں گھنٹیاں نہیں بج رہی تھیں۔ وہ موبائل فون کی اصل بیل تھی۔ پروفیسر نے ناگوار انداز میں کہا۔ آپ نے پورا گھر دیکھ لیا ہے۔ کوئی نظر آیا آپ کو نسوانی آواز آئی۔ کچھ نظر نہیں آیا۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر فون کریں۔ یہ آپ کا وہم تھا۔ نسوانی آواز نے کہا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ دیکھ سکوں کمرے میں جو خاتون ہیں وہ کہاں کھڑی ہیں لیکن مجھے محض پروفیسر صاحب کی دو بانس نما ٹانگوں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ ٹھیک ہے تم جائو میرے لیے چائے بنا کر لائو ۔ پروفیسر کہتے ہوئے اس کرسی کی طرف بڑھے جہاں وہ پہلے براجمان تھے۔ خاتون نے تنک کر جواب دیا۔مجھ سے نہیں بنتی چائے خود بنالیں۔تم بڑی بد تمیز ہو۔ یہ بد تمیزی آپ سے ہی سیکھی ہے۔ پروفیسر صاحب چپ ہو گئے۔ میں حیران تھا کہ کسی خاتون کی آواز اسی کمرے سے آرہی تھی لیکن مجھے اس خاتون کی ٹانگیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب کھڑے تھے۔ پھر ان کی آواز آئی۔ انہوں نے مو بائل فون پر رابطہ کیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ہیلو ہاں میں تمہارے پاس آتا ہوں۔ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ راشد کو قتل کرنے کا تم بھی اچھی طرح سے سوچ لو میں آرہا ہوں کیا تم آئو گے چلو تم آجائو میں انتظار کر رہا ہوں۔ انہوں نے فون بند کر دیا۔ کہاں جا رہے ہیں آپ اچانک نسوانی آواز پھر ابھری۔ اور میں نے چونک کر اپنی نگاہیں دوڑائیں کہ شاید مجھے اس کی ٹانگیں دکھائی دے جائیں۔ لیکن مجھے پر وفیسر کی ٹانگوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جہنم میں جارہا ہوں۔ پروفیسر صاحب نے اکتا کر کہا۔ آپ روز یہی کہہ کر جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں ، وہ آپ کو واپس آنے کیسے دیتے ہیں خاتون کی آواز میں تمسخر تھا۔اچھے تعلقات کی وجہ سے پروفیسر بیڈ کے ارد گرد چکر کاٹ رہے تھے۔ شاید جانے سے پہلے وہ کوئی چلہ کاٹ رہے تھے۔ پھر مجھے کچھ چیزیں مادھر سے ادھر کرنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔اچانک پروفیسر صاحب کی پریشان سی آواز آئی۔ ادھر آئو اور دیکھو کہ میری وگ کہاں گئی ہے۔ اور کتنا ادھر آئوں آپ کے ساتھ تو کھڑی ہوں۔ خاتون کے اس جواب نے مجھے چونکانے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی دیا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ مجھے بیڈ کے نیچے سے صرف پر وفیسر کی روٹانگیں ہی دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر وہ خاتون ان کے پاس تھیں تو اس کی دو ٹانگیں کہاں تھیں یہ سوچ کر مجھے خوف آنے لگا۔ مجھے گمان ہوا کہ وہ جن بھوت کو قابو کرنے والے پروفیسر ہیں۔ مجھے کمرے میں پھر ہلچل سی محسوس ہوئی۔ یقینا پروفیسر اپنی وگ تلاش کر رہے تھے۔ پھر مجھے ان کی ٹانگیں کمرے میں گھومتی دکھائی دیں۔ اور وہ غصے سے بولے ۔ میں نے یہاں وگ اتار کر رکھی تھی کہاں چلی گئی کوئی بھوت لے گیا کیا تم سے بڑا کوئی بھوت ہے اس گھر میں ۔ خاتون کی آواز نے میرے جسم میں سنسنی سی پھیلا دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ پروفیسر انسان نہیں بلکہ بھوت ہے اور جو خاتون اس کے ساتھ باتیں کر رہی ہے وہ کوئی چڑیل ہے اس لیے تو وہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پروفیسر عجیب سے انداز سے ہنسے اور پھر بولے ۔ گر میں بھوت ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ تم چڑیل ہو چڑیل ہی کسی بھوت کی بیوی ہو سکتی ہے۔ نسوانی آواز گونجی۔ چڑیل ہوں لیکن نیک اور معصوم ہوں۔نیک اور معصوم ۔ پر وفیسر خلیل کے لہجے میں تمسخر تھا۔ آپ کی ان طنزیہ باتوں کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہتا کہ میں آپ سے بات کروں۔ نسوانی آواز میں غصہ تھا۔ میرا دل دھڑکنے لگا تھا۔ پروفیسر صاحب ایک جگہ کھڑے تھے۔ شاید وہ کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر اچانک وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔ میں اس وقت بیڈ کے نیچے سے نکلا، کمرے میں دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے دروازے کے پاس جا کر باہر جھانکا۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں اوپر جانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف دوڑا، ٹھیک اسی وقت مجھے اوپر سے کسی کے اترنے کی آواز سنائی دی۔ میں واپس پلٹا اور سوچنے لگا کہ کہاں جائوں۔ سیڑھیوں کے نیچے باتھ روم کا دروازہ دکھائی دے رہا تھا میں نے وہ دروازہ کھولا اور اندر جاکر کھڑا ہو گیا۔ دروازے میں ایک سوراخ بھی تھا جس کی مدد سے میں آسانی سے باہر دیکھ سکتا تھا۔ مجھے پروفیسر کی آواز سنائی دی۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھلا ہوا ہے اس کا مطلب ہے وہ بد تمیز ہمسایہ جو مجھ سے وگ لینے آیا تھا وہ اس راستے سے آیا اور میری وگ اٹھا کر لے گیا۔ موبائل کی بیل بھی اسی کی تھی۔ اسے لڑکی والے دیکھنے کے لیے آرہے تھے وگ لینا اس کی مجبوری تھی۔ اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پروفیسر کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ میں حیران تھا کہ پروفیسر نے کس تیزی سے اندازہ لگا لیا تھا اور بات کی تہہ تک بھی پہنچ گئے تھے۔ اس کے دو ہی مطلب ہو سکتے تھے پروفیسر غیر معمولی ذہین تھے اور یا پھر وہ واقعی بھوت تھے۔ وہ اچانک بولے ۔ میں ابھی اس کے گھر جاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ چوری کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ اگر پروفیسر نے وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا تو عزت بھی نہیں رہے گی۔ آپ اس کے گھر جائیں گے خاتون کی آواز آئی۔ اور کیا سیر کو جا رہا ہوں پروفیسر صاحب غصے سے بولے۔ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ وگ وہ اٹھا کر لے گیا ہے ۔ خاتون نے میری دانست کے مطابق عقل کی بات کی تھی۔ کیونکہ وہ وگ مانگنے آیا تھا۔ یہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ الٹا ان کے گھر جانے پر اگر وہ آپ کے گلے پڑ گئے تو پھر نسوانی آواز آئی۔ کیا مطلب ہے تمہارا وہ الٹا آپ پر کوئی الزام لگادیں۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اس بات کا آپ کو یقین ہے پھر کیا کروں پروفیسر صاحب کا انداز سوچنے والا تھا۔تحمل سے کام لیں۔ اندر آئیں بتاتی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ کسی کے دروازے پر جا کر ہنگامہ کرنے کی بجائے بات کرنے کا کوئی اور طریقہ بھی ہو سکتا ہے۔ خاتون نے کہا مجھے لگا کہ پروفیسر چل رہے ہیں۔ میں نے تھوڑا سا دروازہ کھولا تو وہ بیڈ روم کی طرف جارہے تھے۔ جیسے ہی وہ اندر گئے میں باتھ روم سے باہر نکلا اور اوپر کی طرف دوڑ لگادی۔ چھت پر جاتے ہی میں نے دیوار پھلانگی اور اپنی چھت پر چلا گیا۔ میں سیدھا باتھ روم میں گیا۔ اماں کا فون آگیا۔ وہ کہہ رہی تھیں جلدی آجائو۔ اس کے ماموں بھی آگئے ہیں۔ میں نے وگ کا انتظام کر لیا ہے بس دس منٹ میں تیار ہو کر آرہا ہوں ۔ میں نے کہا اور جلدی سے کپڑے تبدیل کیے، وگ اپنے سر پر جمائی اور آئینے میں جائزہ لیا۔ بالکل نہیں لگتا تھا کہ میرے سر پروگ ہے۔ میں مسکرایا اور نیچے چلا گیا۔ جو نہی میں ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو چونک گیا کیونکہ پروفیسر سر پر ٹوپی رکھے ایک طرف براجمان تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر ایک معنی خیز مسکراہٹ عیاں کی میں نے سب کو سلام کیا اور بیٹھتے ہوئے ابا سے آہستہ سے پوچھا۔ پروفیسر صاحب یہاں کیا کر رہے ہیں انہوں نے بیل دی، میں باہر گیا تو بولے کہ اگر مجھے اندر لے کر نہیں گئے تو میں یہیں ہنگامہ کھڑا کر دوں گا کہ آپ کے بیٹے نے میرے گھر میں چوری کی ہے۔ میں انہیں اندر لے آیا اور اپنا بہت اچھا ہمسایہ بتا کر انہیں یہاں بٹھا دیا۔ ابانے بڑی تیزی سے سر گوشی کی اور پھر پوچھا۔ یہ وگ چوری کر کے لایا ہے مجبوری تھی ۔ میں نے آہستہ سے جواب دیا۔ پہلی بار میں لڑکی والوں کو اپنا چہرہ دکھا رہا تھا۔ وہ چہرہ جسے وہ اپنی بیٹی کے لیے پسند کرنے آئے تھے۔ میرے اندر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن مجھے یہ خوف کھل کر مسکرانے نہیں دے رہا تھا کہ جانے پر وفیسر یہاں کیا گل کھلادیں کہ میرا رشتہ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے ۔ جبکہ ابا اور اماں بھی اپنی جگہ مضطرب تھے۔ وہ مجھ سے گپ شپ کرتے رہے، مختلف سوال پوچھتے رہے ، چائے کا دور بھی چلتا رہا اور پھر اچانک پر وفیسر اٹھ کر میرے بالکل برابر براجمان ہو گئے جب اماں اور ابا ان مہمانوں کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے تو پروفیسر نے سر گوشی کی۔ ان کو بتائوں کہ جس لڑکے سے آپ اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر رہے ہیں وہ گنجا ہے اور وہ میرے گھر سے میری وگ چوری کر کے اپنے سر پر جمائے بیٹھا ہے آپ بتائیں گے تو میں بھی بتادوں گا کہ آپ کسی راشد کو قتل کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد آپ سحرش کے باپ کو بھی مار دیں گے۔ آپ پر وفیسر کے روپ میں قاتل ہیں ۔ میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے پروفیسر کو دھمکی دے دی۔ میری بات سن کر پروفیسر کامنہ کھل گیا۔ وہ مجھے اس طرح حیرت سے دیکھنے لگے جیسے میں نے ان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھین لیا ہو۔ ہمیں آپ کا بیٹا بہت پسند آیا۔ ہماری طرف سے ہاں سمجھیں ، اب آپ ہمارے گھر تشریف لائیں۔ اچانک لڑکی کے ماموں نے اعلان کیا تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں خوشی منائوں یا افسردہ ہو کر بیٹھ جائوں کیونکہ میرے برابر بیٹھے ہوئے پروفیسر میرے لیے کچھ اچھا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ میں ابھی تمہارا بھانڈا پھوڑتا ہوں۔ پروفیسر نے اچانک کہا۔ اور میں ابھی پولیس کو فون کرتا ہوں۔ میں نے بھی دھمکی دی۔ کچھ لوگ بالکل گنجے ہوتے ہیں اور انہوں نے وگ لگائی ہوتی ہے۔ اچانک پروفیسر بولے اور وہاں موجود ہر ایک نے ان کی طرف حیرت سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ابا اماں اور میں تو پروفیسر کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے انہوں نے اچانک پستول نکال کر ہم پر تان لیا ہو۔ میرا منہ ایسا بن گیا تھا جیسے بے چارگی کا پیکر ہو۔ بھائی جی ہم آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ لڑکی کے ماموں نے بڑی معصومیت سے دریافت کرنا چاہا۔ پروفیسر نے میری طرف گھوم کر اپنی شہادت کی انگلی میری طرف کی اور ابھی کچھ کہنے ہی والے تھے کہ میں نے لمحہ ضائع کیے بغیر پیچھے شیلف میں پڑی بھاری بھر کم ڈکشنری اٹھائی اور پروفیسر کے سر پر زور سے دے ماری۔ بے چارے پروفیسر ضخیم ڈکشنری کا وار برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو گئے جبکہ یہ منظر دیکھ کر سب مہمان سہم گئے۔ میں نے کہا۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ یہ دماغی طور پر بیمار شخص ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں، جیسے ہی ان کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اگر ان کے سر پر ہلکی سی چوٹ لگادی جائے تو یہ کچھ دیر اس طرح پڑے رہنے کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ یہ کیسی بیماری ہے۔لڑ کی کا ماموں بولا۔ یہ ایسی بیماری ہے کہ پورا محلہ ان کی اس بیماری کے بارے میں جانتا ہے۔ کئی لوگوں نے ردی فروش سے ایسی ہی بھاری بھر کم ڈکشنریاں خرید کر اپنے گھر میں رکھی ہوئی ہیں۔ میں نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ لوگ اس کو اپنے گھر آنے کیوں دیتے ہیں ۔ ایک مہمان خاتون نے سوال کیا۔ انکار نہیں کر سکتے ۔ میں بولا۔ وہ کیوں اسی خاتون نے پھر استفسار کیا۔ اگر انکار کر دیں تو یہ دروازہ پیٹنے لگتا ہے، اینٹیں اٹھا کر دروازے میں مارنے لگتا ہے ، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے ۔ میں بولا۔ یہ تو بہت خطر ناک ہے۔ وہ خاتون ڈر گئیں۔ ایسا ہے لیکن سارا محلہ ان کو سنبھال لیتا ہے۔ میری وضاحت سے مہمانوں کو تسلی ہوئی کہ نہیں البتہ وہ مسکرائے اور اماں ابا کو جلد اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر ڈرائنگ روم سے نکل گئے ، میں بھی پیچھے چل پڑا۔ جاتے ہوئے بھی مہمان باتیں کر رہے تھے اور میں یہ دیکھنے کے لیے پروفیسر کا کیا حال ہے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا تو مجھے خاتون کی آواز سنائی دی، اسی خاتون کی جس کی آواز میں نے پروفیسر کے گھر سنی تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ میں نے کہا بھی تھا کہ مت جائوان کے گھر جھوٹ مت بولو تم نے ہی مجھے کہا تھا کہ اس طرح ان کے گھر جائو۔ پروفیسر کی آواز آئی۔ میں ڈر گیا۔ پروفیسر تو اکیلے تھے۔ پھر وہ خاتون کیسے آگئیں۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ہیں اندر جاکر ان کو دیکھ سکوں۔ میرے قدم دروازے پر ہی جم گئے تھے۔ کچھ وقت گزرا تو اندر سے آواز آئی بند ہو گئی۔ میں نے ہمت کی اور آہستہ سے اندر کی طرف بڑھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اندر کوئی نہیں تھا اور ہمارے ڈرائنگ روم کا وہ درواز جو باہر کی طرف کھلتا تھا۔ وہ کھلا ہوا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ پروفیسر اس دروازے سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ خاتون کیا اسی دروازے سے اندر آئی تھیں میرے لیے یہ معمہ حیران کن تھا۔ میں، پروفیسر کی وگ واپس کرنا چاہتا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ کیسے وگ واپس کروں دو تین دن میں یہی سوچتا رہا۔ ایک دن آفس سے واپس آیا تو اماں نے بتایا کہ پروفیسر اپنا سامان لے کر چلے گئے ہیں۔ مجھے افسوس بھی ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ انہوں نے اچانک مکان کیوں چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ میں ان کے قتل کے منصوبے سے آگاہ ہو گیا تھا۔ میں یہ بھی جانا چاہتا تھا کہ وہ خاتون کون تھیں جو دکھائی نہیں دیتی تھیں میرے لیے تو وہ پروفیسر بھی ایک معمہ تھے کہ وہ کون تھے کوئی اجرتی قاتل کوئی بھوت کوئی ایسا عامل جس کے قبضے میں ایک بھوت اور ایک عدد چڑیل بھی تھی لیکن میرے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس بات کو کئی دن گزر گئے تھے۔ ایک دن مجھے میرا دوست اردو بازار لے گیا۔ ایک بڑی سی کتابوں کی دکان پر وہ کچھ کتابیں خرید نا چاہتا تھا کہ میں چونک گیا۔ کیونکہ اس دکان کے مالک کے پاس پروفیسر خلیل بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا وہ اٹھ کر میرے پاس آگئے اور بولے ۔ میری وگ کہاں ہے میرے پاس ہے گھر میں ۔ میں نے جواب دیا۔ تم نے میرے سر پر بڑے زور سے ڈکشنری ماری تھی۔ انہوں نے مسکرا کر شکوہ کیا۔ آپ بھی تو ولن بننے جارہے تھے۔ میں نے کہا۔ جانتے ہو میں اچانک وہاں سے کیوں چلا گیا تھا پروفیسر خلیل نے مجھ سے پوچھا۔ کیوں چلے گئے تھے میں نے سوالیہ انداز میں کہا۔ کیونکہ تم نے میری بیوی کی آواز سن لی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا۔ اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ تم میری بیوی کی آواز سنو۔ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ اور بولا ۔ میرا خیال ہے کہ اصل وجہ یہ تھی کہ میں جان گیا تھا کہ آپ ارشد کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے ایک شیلف کی طرف لے گئے۔ انہوں نے سامنے اشارہ کیا تو وہاں ایک در جن سے زیادہ ناول لگے ہوئے تھے جن پر بطور مصنف خلیل احمد لکھا ہوا تھا۔ پھر ایک ناول نکال کر انہوں نے اس ناول کی پشت پر اپنی تصویر بھی دکھائی اور بولے ۔ میں ناول نگار ہوں۔ یہ میرے پبلشر کی دکان ہے۔ اس دن میں اپنے پبلشر سے کہانی کے کردار راشد کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ چاہو تو وہ سامنے بیٹھے ہیں ان سے پوچھ لو۔ میں ان کی بات سن کر مزید حیران ہو گیا۔ پہلی بار مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وہ ناول نگار ہیں۔ آپ کی بیوی کی میں نے صرف آواز سنی تھی۔ اتنی سی بات آپ سے برداشت نہیں ہوئی۔ میں نے کہا۔ وہ کچھ توقف کے بعد بولے ۔ مجھے اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ ہماری پندرہ سالہ رفاقت ہنستے مسکراتے ، نوک جھونک کرتے گزری تھی ۔ وہ اچانک مر گئی اور میں اکیلا رہ گیا۔ پروفیسر خلیل نے کہا۔ وہ اداس ہو گئے اور میں مزید ششدر رہ گیا کہ اگر ان کی بیوی مر چکی تھی تو وہ باتیں کون کرتی تھی پھر انہوں نے یہ کہہ کر مجھے مزید حیران کر دیا۔ وہ بولے ۔ میں اپنی بیوی سے روز باتیں کرتا ہوں وہ میری تنہائی میں آتی ہے جس کا صرف مجھے پتا ہے کسی اور کو نہیں لیکن تم کو پتا چل گیا اور تم نے اس کی آواز بھی سن لی۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں وہ مرے چکی ہے اور آپ کی تنہائی میں آتی ہیں۔ آپ ان سے باتیں کرتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ وہ مجھ پر انکشاف کر کے مجھے مزید حیرت کے سمندر میں دھکیل کر اپنے پبلشر کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے کہا تھا۔ میں تنہائی میں اپنی مرحومہ بیوی کی آواز میں خود باتیں کرتا ہوں۔ کبھی میں بیوی بن جاتا ہوں اور کبھی شوہر ۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 204 | https://www.urduzone.net/sachi-rafaqat/ | میرے والد اور تایا پولیس کے محکمے میں تھے۔ ایک بار ڈاکوؤں سے مقابلہ ہواتو دونوں فائرنگ کی زد میں آئے اور جان بر نہ ہو سکے۔ یوں تائی اور امی ایک ساتھ بیوہ ہو گئیں۔ ایک گھر تھا۔ دادا حیات تھے وہ بھی پولیس کے ریٹائر ڈ آفیسر تھے۔ پنشن آتی تھی اور مکان بھی ذاتی تھا، جو دو منزلہ اور کافی بڑا تھا۔ دادا جان نے اوپر کا پورشن کرائے پر اٹھا دیا۔ دادا جان ہی اب ہمارے کفیل تھے۔ کرایہ اور پنشن کے علاوہ کچھ زرعی اراضی بھی تھی، جس کی آمدنی سے وہ ہم سب کی پرورش کر رہے تھے اور ہم سکون سے جی رہے تھے۔ جب تک دادا زندہ رہے، ہم سب اکٹھے ایک چھت تلے محبت، اخلاق و اتفاق سے زندگی بسر کرتے رہے۔ وہ ہماری ضروریات اور اخراجات کو پورا کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے بچے حسن سلوک سے رہیں۔ تبھی میری منگنی بچپن میں تایا زاد طفیل سے کرادی تاکہ ان کے بعد بھی یہ خاندان جڑا رہے۔ ان دنوں میں چھٹی اور طفیل آٹھویں میں پڑھتے تھے۔ ایک روز ہم چھت پر بیٹھے پڑھ رہے تھے ، سردیوں کے دن تھے دھوپ بھی سینک رہے تھے کہ کانوں میں ڈھول اور شہنائیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اٹھ کر دیکھا ہماری گلی سے بارات گزر رہی تھی۔ دلچسپ نظارہ تھا۔ دولہا نے سہر امنہ پر ڈالا ہوا تھا۔ اور وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ آگے آگے باجے تاشے والوں کے ساتھ لڑکے پائوں میں گھنگرو باندھے ناچ رہے تھے اور پیچھے بارات تھی۔ طفیل کی ہنسی نکل گئی۔ اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے سہرے سے منہ چھپا ہوا ہے اوپر سے گھوڑے پر براجمان ہیں، اتنے ہجوم اور ڈھول کی آواز سے اگر گھوڑا بدک جائے تو اوندھے منہ گریں گے یہ دولہا میاں بعض لوگوں میں رواج ہوتا ہے لیکن تمہیں کیا پرابلم ہے۔ جب تم دولہا بنو تو سہرا نہ باندھنا اور مت بیٹھنا گھوڑے پر ، گاڑی میں بارات لانا۔ گاڑی میں کیوں بھئی۔ تو کیا پیدل چل کر دلہن کے گھر جائو گے ۔ مجھے بارات لے کر دلہن کے گھر نہیں جانا پڑے گا۔ احمق میری ہونے والی دلہن تو آج بھی میرے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتی ہے۔ میں ہی تو وہ ہوں جو اس کی دلہن بنے گی۔ اچانک مجھے یاد آ گیا تبھی بات بدل دی۔ اچھا تو مت، باندھنا س سہرا اور مت لا نا بارات، بارات بھی لائوں گا اور سہر ابھی باندھوں گا لیکن گھوڑے پر ہر گز نہ بیٹھوں گا۔ سہر االبتہ ایک شرط پر باندھوں گا۔ اگر تم اپنے ہاتھوں سے مجھے سہرا باند ھوگی باند ھو گی نا کھائو قسم وہ پیچھے پڑ گیا تو میں نے جان چھڑانے کو قسم کھائی کہ اچھا بابا باندھوں گی۔ وہ وقت آنے دو۔ یادرکھنا یہ بات ورنہ میں سہرا نہ باندھوں گا، اس نے بات کو دہرا کر وعدے کو پکا کروایا۔ وہ تو بچپن تھا گلی سے جاتی بارات کی طرح یہ خوابوں بھرا بچپن بھی گزر گیا اور ہم جوان ہو گئے۔ دادا جان کی زندگی تک ہمارا کنبہ جڑا رہا۔ ان کی وفات کے بعد امی اور تائی میں وہ سلوک نہ رہا اور جائداد کی تقسیم کے مسئلے پر اختلاف رہنے لگا۔ بالآخرامی جان ناراض ہو کر بچوں کے ہمراہ میکے چلی آئیں۔ ہمارے طے شدہ رشتے اسی باعث کھٹائی میں پڑ گئے۔ تاہم طفیل کو مجھ سے محبت تھی، اپنی والدہ کو مجبور کر کے ہمارے گھر لے آیا تا کہ صلح صفائی کی سبیل نکلے اور ہماری شادی ہو سکے۔ تائی نے امی کو منانے کی پوری کوشش کی اور کہا کہ جیسا چاہوں گی میں کروں گی، ہر صورت راضی ہوں، تم بس مان جائو اور ماہرہ کو میری بہو بنادو۔ والدہ نے جواب دیا کہ پہلے جائیداد کا بٹوارہ میری مرضی سے کرنا ہو گا، بعد میں رشتے کی بات چلانا۔ امی چاہتی تھیں کہ وہ دادا کے مکان کا فرنٹ پورشن لیں اور پچھلا حصہ تائی کو دیں، جبکہ تائی کا کہنا تھا کہ درمیان سے آدھا آدھا کریں تا کہ سڑک پر دونوں کے گیٹ علیحدہ علیحدہ بن جائیں۔ امی کا مطالبہ درست نہ تھا۔ تبھی تائی خاموشی سے لوٹ گئیں، تاہم والدہ کے انکار سے ان کو صدمہ ہوا۔ میں نے لاکھ سمجھایا۔ امی جان آپ کا مطالبہ درست نہیں ہے تائی صلح کی آرزومند ہیں۔ وہ آدھا گھر دینے پر راضی ہیں، آپ مان جائیے ، امی نے طفیل کو داماد نہ بنانا تھا۔ اسی وجہ سے اڑی رہیں۔ وہ لوگ مایوس ہو گئے۔ رشتہ ٹوٹنے کا طفیل کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اس نے مزید تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ کہتا تھا میں ماہرہ کے لئے کچھ بننا چاہتا تھا ماہرہ نہ مل سکی تو اور محنت کر کے کیا کروں گا۔ حالانکہ وہ بہت لائق طالب علم تھا۔ اس کے ارادے بلند اور جب و ہی نہ مل مستقبل روشن تھا۔ امی کے انکار سے میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے تہیہ کر لیا۔ اب کبھی شادی نہ کروں گی۔ ایف ایس سی کر رہی تھی۔ سارا دھیان پڑھائی پر لگادیا۔ دن رات محنت کرتی تاکہ میرٹ بن جائے اور ڈاکٹر بن سکوں۔اللہ نے شکستہ دل کی سن لی، محنت رنگ لائی اور مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ تائی اور والدہ کا آپس میں ملنا جلنا ختم ہو چکا تھا۔ ایک دوسرے کے گھروں میں آتی جاتی نہ تھیں لیکن تا یا کی بیٹی صہبا سے میری بچپن سے گہری دوستی تھی اور اب تک وہی محبت دل میں جا گزین تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ ہم بچوں کا آپس میں کوئی جھگڑا اور اختلاف نہیں تھا۔ جب موقع ملتا میں صہبا سے ملتی اور خوب باتیں کرتی۔ ہم کبھی پھپھو کے گھر اور کبھی خاندان میں ہونے والی تقریبات میں مل جاتے تھے۔ لیکن طفیل سے شاذ و نادر ہی سامنا ہو پاتا۔ بات کرنے کا موقع نہ ملتا۔ طفیل نے مایوس ہو کر خود کو تنہا کر لیا، میرا بھی تایا ابو کے گھر جانا منع ہو گیا تھا۔ ہم دونوں یتیم تھے، امی کی ہٹ دھرمی نے ہمارے مرجھائے ہوئے دلوں کو اجاڑ ڈالا تھا۔ ایک دن صہبا ہمارے گھر آئی کہنے لگی ۔ ماہر ہ طفیل دبئی جا رہا ہے ، اسے وہاں ملازمت ملی ہے ،اس نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ امی سے چوری چھپے آئی ہوں پلیز ماہرہ میری بات مان لو۔ طفیل نے کہا ہے کہ ایک بار اس سے مل لو۔ میرا بھی جی چاہتا تھا کہ اس سے ملوں لہٰذا میں پھپھو کے گھر چلی گئی اور وہ بھی مقررہ وقت پر وہاں آگیا۔ یہ میری طفیل سے آخری ملاقات تھی، اس نے وعدہ لیا کہ میں اس کا انتظار کروں گی اور کسی اور سے ہر گز شادی نہ کروں گی، وہ دبئی سے واپس آکر مجھے اپنالے گا۔ وہ چلا گیا، مجھے میڈیکل میں داخلہ مل گیا تھا۔ اب پڑھائی میں مصروف رہتی تھی۔ ہر خیال کو جھٹک کر بس ذہن اسی بات پر لگا تھا کہ ہر صورت ڈاکٹر بن کر دکھائوں گی۔ زندگی کو ناکامیوں، نامرادیوں کے حوالے ہر گز نہ کروں گی۔ قسمت میں طفیل کا ساتھ نہ بھی ہوا تو خلق خدا کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنالوں گی۔ اس دوران کئی رشتے آئے، میں نے انکار کر دیا۔ امی جان کو باور کرا دیا کہ آپ میری شادی کا خیال دل سے نکال دیں، مجھے اپنا مقصد پورا کرنے دیں اور ڈسٹرب نہ کریں۔ ادھر میں نے ایم بی بی ایس مکمل کیا، ادھر دبئی سے طفیل لوٹ کر آگیا۔ اس کی ماں منتظر تھی، اپنی ایک سہیلی کی بیٹی سے رشتہ طے کر دیا۔ طفیل نے لاکھ منع کیا لیکن تائی نے ضد پکڑلی کہ شادی اب اسی لڑکی سے کرنی ہو گی۔ کیونکہ تمہاری چچی جب تک زندہ ہیں وہ ماہرہ کار شتہ نہ دیں گی، ان کی ہٹ دھرمی سے ہم واقف ہیں۔ ناچار بیٹے کو ماں کے آنسوئوں نے جھکا لیا اور طفیل کی شادی مریم سے طے ہو گئی۔ ان دنوں میں ہاسپٹل میں جاب کر رہی تھی۔ ایک روز صہبا آئی، کار ڈ دیا کہ طفیل بھائی کی شادی ہے اور انہوں نے ہی تمہارے پاس بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم نے ان کی سہرا بندھائی کے وقت ضرور آنا ہے ، ورنہ وہ سہرانہ باندھیں گے اور پھر یہ شادی نہ ہو گی۔ یہ سن کر میں عجیب مخمصے میں پڑ گئی، ہر گز تائی اماں کے سامنے جانانہ چاہتی تھی، حالانکہ ان سے کوئی گلہ نہ تھا۔ انکار خود میری ماں نے کیا تھا۔ انہوں نے تو مجھے بہو بنانے کو منتیں کی تھیں لیکن اب اس شادی میں میرا جانا بنتا نہ تھا کہ یہ میرے سابقہ منگیتر کی شادی تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے نے کے بعد میں نے صہبا سے کہا۔اچھا تم فکر مت کرو۔ تمہارا بھائی سہرا ضرور باندھے گا۔ میں پھپھو کے ساتھ آئوں گی ۔ طفیل کی شادی والے دن پھپھو کے گھر چلی گئی اور پھر ان کے ساتھ شادی میں پہنچی۔ سمجھا بجھا کر اپنے دل کو آمادہ کیا تھا کیونکہ چاہتی تھی کہ طفیل کا گھر آباد ہو جائے اور میری محرومیوں کا سایہ اس پر نہ پڑے۔ تایا کا گھر جو پہلے کبھی میرا گھر بھی ہوا کرتا تھا۔ خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف ہنستے مسکراتے چہرے دمک رہے تھے۔ تائی کو مبارک باد کہا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، گلے سے لگا کر بولیں بیٹی میں تو تمہی کو یہاں لانا چاہتی تھی لیکن تمہاری ماں نے یہ نہ ہونے دیا۔ ان کے یہ الفاظ میرے دل کو لہو لہو کر گئے۔ بڑی مشکل سے آنسوئوں کو ضبط کیا کیونکہ شادی میں تو چہرے کو مسکراہٹ سے سجانا ہی تھا۔ جب طفیل سے سامنا ہوا دل پر قیامت گزر گئی۔ وہ دولہا کے روپ میں سامنے تھا اس کی نظریں مجھ کو کھانے لگیں اور میں ادھر اُدھر منہ چھپانے لگی۔ صہبا سهر الئے کھڑی تھی، طفیل نے مجھ سے سہر امانگا اور میں نے قسم پوری کرنے کو سہرا اٹھا کر اس کو دیا۔ اس نے سر جھکایا اور سہر امجھ سے بند ھوایا۔ وہ مر دانے میں چلا گیا جہاں رسم نکاح کو عزیزو ا قارب جمع تھے لیکن وہ سہرا اندر سے ہی باندھ کر وہاں پہنچا اور پھر نکاح کی تیاریاں ہونے لگیں۔ یوں وہ پل بھر بعد کسی اور کا ہو گیا۔ گھر آئی تو ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ دامن میں جو تھا آج سب تایا ابو کے در پر ڈال کر آگئی تھی اور اب تہی دست و دامن خالی تھی۔ رات بھر روتی رہی۔ صبح اسپتال نہ جا سکی، امی نے یہ حالت دیکھی تو پوچھا کیا ہوا ہے ماہر ہ کیا روتی رہی ہو۔ طبیعت تو ٹھیک ہے۔ وہ میرے قریب آئیں تو میں اٹھ کر دور چلی گئی۔ آج میں ان کے قریب نہ جانا چاہتی تھی بلکہ اس واقعہ نے مجھے ہمیشہ کے لئے اپنی ماں سے بہت دور کر دیا تھا۔ طفیل مجھ سے دور ہو گیا اور شادی کے بعد اپنی بیوی کو لے کر دبئی چلا گیا۔ وقت گزرتا رہا، میں اسپیشلائزیشن کے بعد ایک بڑے اسپتال میں تعینات ہو گئی تھی۔ والدہ نے بہت کوشش کی کہ گھر بسالوں لیکن میں نے انکار کیا، کیو نکہ دل گھر بسانے کی امنگ سے خالی ہو چکا تھا۔ جب دل آباد نہ رہا گھر کیونکر آباد کر سکتی تھی۔ امی جان کو اب اپنے کئے پر پچھتاوا تھا کیونکہ جان چکی تھیں۔ امی سے رنج تھا کہ انہوں نے ہی مکان کی خاطر میرے دل کے نگر کو اجاڑا ہے۔ تائی نے ہمارے حصے کی قیمت سے بڑھ کر رقم دے کر سار امکان لے لیا۔ امی نے بھی ان سے منہ مانگی قیمت لی تھی لیکن روپیہ ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا۔ اب وہ خوب جان گئی تھیں کہ میں نے شادی نہ کرنے کی کیوں قسم کھائی ہے۔ طفیل دبئی میں بہت اچھا کمار ہا تھا اور اس کی بیوی عیش کر رہی تھی، جبکہ میں رات دن اپنی جاب میں مصروف رہتی تھی۔ ماں ٹھنڈی آہیں بھر تیں کہ ایسی دولت کس کام کی جب دل کی خوشیاں نہ رہیں۔ اب تو میں ایک روبوٹ تھی، ایک مشین تھی، جیتی جاگتی ارمانوں بھری لڑکی نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ شادی کے بعد پانچ سال تک طفیل کی بیوی کی گود ہری نہ ہو سکی، کافی علاج کرایا بالآخر وہ مصنوعی تولیدی عمل سے امید سے ہو گئی۔ لیکن یہ خوشی انہیں راس نہ آئی، بچی کی پیدائش پر ماں اور بچی دونوں ہی داغ مفارقت دے گئیں اور طفیل یہ غم سہنے کو پردیس میں تنہا رہ گیا۔ وہ بہت دلبر داشتہ تھا۔ اس کی بیوی کا آپریشن ہوا تھا جو کامیاب نہ ہو سکا، تبھی طفیل ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے وطن لوٹ آیا۔ اس واقعہ کے چند سال بعد امی کا بھی انتقال ہو گیا اور میں بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی۔ دنیا سے مایوس ہو کر میں نے بیمار مریضوں کی خدمت میں خود کو گم کر دیا۔ رات دن اسپتال میں گزرنے لگے۔ امی کے بغیر خالی گھر تو کاٹنے کو دوڑتا تھا، تبھی اسپتال کے اندر ، ڈاکٹر ز ہاسٹل میں رہا کرتی تھی۔ تھک ہار کر کبھی دن میں اور کبھی رات کو بستر پر آکر گر جاتی تھی۔ وقت کراہتے اور آہیں بھرتے مریضوں کے در میان گزرتا رہا، یہاں تک کہ زندگی کی شام ہو گئی۔ دل میں طفیل کی یاد آج بھی ایک تازہ گلاب کی طرح مہکتی تھی لیکن شادی کی خواہش باقی نہ رہی تھی۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی اس کی زندگی اب کیسی گزر رہی ہے اور وہ کہاں ہے، کیوں ہمارے درمیان ایک طویل عرصہ سے رابطہ نہ تھا۔ ایک روز وارڈ میں ایک مریض کے آنے کی خبر ملی، جسے ایمر جنسی میں لایا گیا تھا، اس کی حالت ٹھیک نہ تھی، تبھی اسے آئی سی یو میں منتقل کر دیا تھا۔ میری ڈیوٹی سر جن صاحب نے انتہائی نگہداشت یونٹ میں لگادی۔ جب نئے مریض کو دیکھا ہوش اڑ گئے۔ یہ طفیل تھا جیسے بہت تکلیف تھی، وہ سانس نہ لے سکتا تھا۔ اس حالت میں دیکھ کر لرز گئی، جو بن سکا، کیا اور بہت توجہ سے علاج ہوا۔ اسے ہوش آگیا اور مجھے سامنے دیکھ کر خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات میں ڈوب گیا۔ ہم پندرہ برس بعد ملے تھے ، یہ ملاقات اس کے لئے نئی زندگی کی نوید بن گئی۔ چند دنوں میں ہی وہ ٹھیک ہو گیا۔ اب ہم پھر سے ملنے لگے ، اس نے بتایا کہ اس کی بیوی آپریشن کے بعد جان ہار گئی۔ اب طفیل تنہا رہتا تھا اور اس تنہائی نے اسے دمے کا مریض بنادیا تھا۔ مجھ سے ملنے کے بعد وہ رفتہ رفتہ حیرت انگیز طور پر روبہ صحت ہونے لگا۔ ایک روز اس نے کہا۔ ماہرہ تم ملی ہو تو میری بیماری آدھی رہ گئی ہے ، خدارا اب مجھ سے جدا نہ ہونا۔ ورنہ شاید مایوسی کا اژدھا میری جان ہی لے لے۔ طفیل کو پاکر اس قدر خوش ہوئی کہ اس خوشی کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہی حال ان کا ہے ، ہم بڑھاپے کی سرحد پر بھی خود کو جواں سال محسوس کرتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ شادی صرف جذبات کے بہلانے کے لئے نہیں کی جاتی، سچی رفاقت کے لئے کی جاتی ہے اور اسی کا نام محبت ہے۔ | null |
null | null | null | 205 | https://www.urduzone.net/yaad-taza-rahe-ge/ | جانے والے چلے جاتے ہیں، پیچھے ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ میرے پاس آج بھی وہ آئینہ ہے اور اس کی یادیں ہیں جبکہ میں دو بچوں کی ماں اور ذیشان کی بیوی ہوں، جو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ میں عدیل کو اب بھلا چکی ہوں کہ یہی زندگی کا اصول ہے۔ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاسکتا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب تایا ابو، میرے بابا اور چچا جان سبھی اکٹھے ایک بڑے سے مکان میں رہا کرتے تھے۔ چونکہ دادی جان خاندان کی سربراہ تھیں، وہی اس مشترکہ فیملی سسٹم کے ذریعے ہم سب کو جوڑے ہوئے تھیں۔ ہمارا خاندان بڑا تھا اور سب ایک جگہ رہ رہے تھے۔ پوری برادری میں ہماری فیملی اتفاق اور محبت کی وجہ سے مشہور تھی۔ تینوں بھائیوں کے بچے جب ایک جگہ بیٹھتے ، وہاں پل بھر کی خاموشی ناممکن بات تھی۔ ہمارے بڑوں کا بھی آپس میں ایک رونق میلا لگا رہتا تھا۔ یہ ماہ رمضان کی بات ہے۔ پھوپھونے اپنے گھر ہم کو افطار پر بلایا تھا۔ ان کے کچن سے اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی۔ افطاری سے چند منٹ پہلے جبکہ سب دعا کر رہے تھے، میری کزن انوشے آئینے کے سامنے خود کو نک سک سے درست کر رہی تھی۔ ارے بھئی انوشے۔ بنو اب چل بھی پڑو۔ تم کیا چاہتی ہو وہ صرف تم ہی کو دیکھتا رہے اور افطاری نہ کرے ربیعه اف اس نے مجھ پر مکا تانا۔ تم بھی بس میں اس کے مصنوعی غصے سے محظوظ ہوتے ہوئے ہنسی اور بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل تک لے آئی۔ جب سارا خاندان کھانے کی میز کے گرد بیٹھ چکا تو دادی بھی آگئیں۔ آتے ہی ہم سب پر نظر ڈال کر کہا۔ ماشا اللہ میری اس کائنات کو نظر نہ لگے ، ہمیشہ ایسے ہی ہنستے بستے رہو۔ مجھے اپنے تایازاد عدیل کے سامنے جگہ ملی تھی اور انوشے جو بچپن سے پھوپی زاد ذیشان کو پسند کرتی تھی، وہ عین اس کے سامنے براجمان تھی سبحان اور شہروز بھی قریب بیٹھے تھے ۔ ہم چھ کزنز میں بہت دوستی تھی۔ مگر عدیل سے میری دوستی سب سے بالا تھی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا اور میں بھی اس کی ہر بات مان لیتی۔ دراصل اس کی کوئی بہن نہ تھی اور میرا کوئی بھائی نہ تھا۔ شاید اسی لئے وہ میری ہر فرمائش پوری کرتا اور میں اس کے حکم پر اس کے سب کام خود کرتی۔ مثلاً اس کیلئے چائے بنانا اور اس کی شرٹ استری کر دینا۔ افطاری کے بعد ہی باتوں باتوں میں پھو پھونے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ اس عید پر کچھ نیا پرو گرام کریں گے۔ کیا نیا پھوپھو میں نے سوال کیا تھا۔ یہ تو عید پر ہی پتا چلے گا۔ انہوں نے چہک کر جواب دیا۔ رات چائے پینے کے بعد بڑوں کی محفل ڈرائنگ روم میں سجی اور ہم سب باہر لان میں بیٹھے تھے۔ تبھی میری نگاہیں عدیل کو ڈھونڈنے لگیں۔ وہ کمرے میں ہو گا شاید یہ سوچتے ہی میں لان سے کمرے میں گئی۔ واقعی وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ ارے بھئی دیکھنا ہی ہے تو لان میں آجائو۔ یہاں اکیلے کیوں کھڑے ہو باہر ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتا۔ تبھی اندر سے سکون سے دیکھ رہا ہوں۔ اس نے یک گونہ بے خودی سے جواب دیا۔ اچھا اب باہر چلو بھی، سب وہاں گپ شپ کر رہے ہیں اور تم یہاں تنہائی کی دھیمی آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہو۔ مجھے لان میں نہیں بیٹھنا۔ تو پھر کہاں چلنا ہے باہر چلتے ہیں آئسکریم کھانے چاند رات تھی۔ ہم نے ڈھیر ساری شاپنگ کی اور آخر میں آئسکریم کھا کر گھر آگئے۔ میں اس امر سے بے خبر تھی کہ آج کی رات کے بعد میری زندگی یکسر بدل جائے گی۔ شاپنگ کے بعد رات میں کچن میں تھی جب عدیل آیا اور مجھے پیک کیا ہوا ڈبہ دیا۔ حیران تھی کہ ساری شاپنگ تو ہمارے ساتھ کی تھی پھر یہ کب خریدا کمرے میں جانا تو کھول کر دیکھ لینا۔ پر اتنا بتادوں کہ اس میں میرا چاند ہے۔ یہ کہتے ہی وہ مسکراتے ہوئے باہر چلا گیا۔ وہ مجھے بہت بدلا ہوا لگا۔ فورا اپنے کمرے میں گئی اور پیک کھولا۔ اس میں خوبصورت دل کے ڈیزائن کا لکڑی سے بنادروازہ تھا۔ دروازہ کھولا تو اس میں آئینہ تھا جس میں سوائے اپنے چہرے کے مجھے اور کچھ نظر نہ آیا۔ میں الجھ گی۔ یہ کیا یہ تو صرف آئینہ ہے۔ مسکرا کر میں نے اسے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا کہ بہت پیارا ہے۔ صبح عید تھی۔ خوشی کی نوید تھی۔ سبھی تیار ہوئے، نئے کپڑے پہن کر ایک دوسرے کو عید مبارک کہا۔ کچھ دیر بعد پھوپھو اپنے بیٹے ذیشان کے ساتھ آگئیں۔ میں اور انوشے ان کے لئے چائے بنانے چلے گئے۔ جب ہم چائے لے کر لوٹے تو پھوپھو ، دادی اور والد صاحب سے کہہ رہی تھیں۔ ربیعہ کو مجھے دے دو۔ میرے ذیشان کو، وہ بچپن سے پسند ہے۔ اب تو دونوں نے تعلیم بھی مکمل کر لی ہے۔ منگنی آج کل میں کر لیتے ہیں۔ یہ سن کر انوشے کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے چھوٹ گئی۔ ارے کیا ہوا میں نے انوشے سے پوچھا۔ میرے ہاتھ میں مٹھائی کی چینی تھی۔ کچھ نہیں ہوا، بس یہ سب ٹوٹ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ دادی نے کہا اور چائے بنالو اور شکور سے کہو کہ یہ سب صاف کر دے۔ چائے کے برتن ہی نہیں کسی کا دل بھی ٹوٹا ہے، اس کی کسی کو خبر نہ ہوئی۔ منگنی عید کے تیسرے دن رکھ لیتے ہیں۔ پھوپھونے کہا تھا۔ ٹھیک ہے۔ ابو نے جواب دیا۔ خوشی کے موقع پر خوشی سے مسرتیں دو چند ہوں گی۔ رات کو انوشے بغیر کسی سے بات کئے اپنے کمرے میں جا کر سو گئی۔ میں نے عدیل کو دیکھا جو آدھی رات تک پرانے گیت سنتا تھا، آج وہ بھی غائب تھا۔ دونوں کے اس غیر معمولی رویے پر میرے دل میں کھٹک سی ہوئی۔ جب امی ابو نے میرا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو میں نے کہا۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ تمہاری پھوپھو ایسا چاہتی ہیں بیٹے، تاکہ ہم سے جڑی رہیں۔ تبھی مجھے انوشے کے آنسو یاد آگئے۔ امی، انوشے بھی تو ہے ، اس سے کر دیں۔ ذیشان نے تمہارا نام لیا ہے بیٹی اگر انوشے کو پسند کرتا تو اسی کا نام لیتا۔ امی، ابوالجھن میں ڈال کر کر چلے گئے اور میں سوچتی رہ گئی کہ انوشے ذیشان کو چاہتی ہے اور ذیشان مجھے چاہتا ہے اور میں کس کو چاہتی ہوں عدیل کا خیال آگیا۔ رات کے دو بج گئے اور وہ صبح کا گھر سے نکلا تھا، ابھی تک نہیں آیا۔ نجانے کہاں چلا گیا تھا۔ تین بار فون لگا چکی تھی پر فون آف تھا اس کا میں اس کے انتظار میں لان میں ٹہلنے لگی۔ اچانک گیٹ پر نظر گئی۔ وہ اندر آ رہا تھا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور آنکھیں سوجی ہوئی جیسے کہ بہت رویا ہو۔ میں اس کی طرف لپکی۔ کہاں رہے سارا دن وہ خاموش بس میری طرف دیکھتا رہا پھر میرا ہاتھ پکڑ کر لان میں پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھ گیا۔ جہاں ہم دونوں اکثر بیٹھا کرتے تھے اور باتیں کیا کرتے تھے۔ اس پھولوں کی کیاری کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ بتائو کیا ہوا ہے میں نے ایک بار پھر پوچھا۔ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد اس نے پوچھا۔ کیا تم نے ذیشان کیلئے ہاں کردی نہیں تو مگر ہاں کر دو۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ تم کو خوش رکھے گا۔ تمہیں پسند کرتا ہے وہ اس نے ایک سانس میں ہی کہہ ڈالا۔ نہیں میں نہیں کر سکتی۔ میں نے جلدی سے کہا۔ کیوں کیا تم کسی اور سے پیار کرتی ہو نہیں نہیں پتا نہیں میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ گویا بہت سے سوال ہوں اس کے پاس۔ اور وہ بھی ایسے دیکھ رہا تھا جیسے بہت کچھ کہنا چاہتا ہو مگر کوئی روک رہا ہو۔ بالآخر میں نے پوچھ لیا۔ کیا بات ہے عدیل تم کچھ کہنا چاہتے ہو مجھ سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ہاتھ سے آنکھوں کو رگڑ کر بولا۔ ہاں بہت کچھ کہنا تھا پر اب نہیں کیوں اب کیوں نہیں بس تم شادی کیلئے ہاں کرو، وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔ یہ کہتے ہی وہ میرا ہاتھ چھوڑ، اٹھ کر کمرے کے اندر چلا گیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا۔ کچھ تھا میرے پاس جو نہیں ہے اب اس رشتے پر دادی اور میرے والدین مطمئن تھے۔ پھوپھو بہت خوش تھیں اور ذیشان بہانے بہانے سے تین بار کچن میں چکر لگا چکا تھا جہاں میں دادی جان کی فرمائش پر کھیر بنارہی تھی لیکن انوشے چپ تھی۔ وہ کچھ بھی نہیں بول رہی تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ جائو اور جا کے ذیشان سے اپنے دل کی بات کہہ دو۔ پر وہ نہ مانی۔ کہنے لگی۔ وہ مجھ سے نہیں، تم سے پیار کرتا ہے اور تم چاہتی ہو میں اس سے اپنے لئے پیار کی بھیک مانگوں وہ نہ سمجھی اور مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں، کس سے بات کروں، اوپر سے مجھے عدیل کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پتا نہیں اسے ہو کیا گیا تھا۔ آج پھر وہ صبح سے گھر پر نہیں تھا۔ جانے کہاں جاتا تھا۔ میں جانے انجانے بھی سارا دن اسے ڈھونڈتی پھری۔ تین دن گزرتے دیر نہ لگی۔ منگنی کی شام آگئی۔ انوشے خود مجھے رسم منگنی کیلئے تیار کرنے لگی۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ خوش نظر نہیں آرہی تھی۔ رسم منگنی کے وقت عدیل بالکل میرے سامنے کھڑا تھا لیکن اس کی نظریں نظریں مجھ پر نہیں ذیشان پر تھیں۔ وہ رشک بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تقریب کے دوران پھوپھونے ایک اور فرمائش کر دی۔ کہنے لگیں۔ بھئی مجھ سے اب اور انتظار نہ ہو گا، آپ مجھے شادی کی تاریخ دے دیں۔ بابا نے کہا۔ جب چاہو آ کر لے جائو اپنی بہو کو اب یہ ہمارے گھر تمہاری امانت ہے ۔ تبھی ایک ماہ بعد کی تاریخ کا تعین ہو گیا۔ میری حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں جانے کیا ہو گیا مجھے کہ ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ ایک مہینہ ایسے گزر گیا۔ تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں۔ اس دوران میرا بی۔اے کارزلٹ آگیا جبکہ انوشے جو میری کلاس فیلو بھی تھی، وہ سیکنڈ اور میں نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ مجھے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی لیکن جب انوشے نے رزلٹ دیکھا تو کہنے لگی۔ دیکھو میں ایک بار پھر تم سے ایک قدم پیچھے رہ گئی۔ یہ بات اس نے کچھ اس طرح یاسیت سے کہی کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں بہت غلط کر رہی ہوں۔ مجھے ذیشان سے شادی نہیں کرنی چاہئے۔ سوچتے سوچتے شادی میں دو دن رہ گئے۔ بالآخر میں نے فیصلہ کر لیا۔ رات آٹھ بجے کے قریب میں نے ذیشان کو چھت پر بلایا اور کہہ دیا دیکھو شانی میری بات غور سے سنو۔ انوشے تم سے پیار کرتی ہے۔ کیا کہہ رہی ہو تم انوشے مجھ سے اس نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا۔ ہاں تم سے میں نے جواب دیا۔ وہ بچپن سے تم سے محبت کرتی ہے۔ اور میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے، کیسے شادی کر سکتی ہوں تم سے لیکن ہو بھی کیا سکتا ہے۔ میں تو تم سے محبت کرتا ہوں وہ بھی بچپن سے ایشان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ میں نہیں جانتی۔ وہ میری پیاری دوست ہے۔ اس ایک ماہ میں اس نے مجھ سے صرف تین بار بات کی ہے۔ وہ جو ایک منٹ مجھ سے دور نہ رہتی تھی، میں نے اسے کھو دیا ہے شان اور شاید بہت کچھ کھو دیا ہے میں نے میں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔ ذیشان نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اب کچھ کروشان میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اب شادی میں دو دن رہتے ہیں، میں کیا کروں۔ اور ویسے بھی میں اس سے پیار نہیں کرتا۔ میری نظریں تو ہمیشہ تم پر لگی تھیں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑنا چاہا، تبھی میں تیزی سے نیچے جانے کو مڑی کیا دیکھتی ہوں انوشے زینے میں کھڑی میری باتیں سن رہی ہے۔ میرے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ تم کیا سمجھتی ہو میں اس کا خیرات میں دیا پیارے لوں گی ہر گز نہیں۔ جب وہ مجھ سے پیار ہی نہیں کرتا تو کیا فائدہ میں جب کبھی اس کی آنکھوں میں دیکھوں گی، مجھے تم نظر آئو گی۔ میں اس سے شادی کبھی نہیں کر سکتی۔ چاہے تم اس سے شادی کرویا نہ کرو۔ اور ہاں یہ کیا کہہ رہی تھیں تم کہ تم نے مجھے کھو دیا وہ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی۔ میں ابھی بھی تمہارے پاس ہوں، ویسی ہی ہوں۔ بس کچھ وقت تو لگے گا پھر ٹھیک ہو جائوں گی میں اب تم آرام سے سو جائو۔ اگلے دن مہندی تھی اور عدیل خاندان کی تمام عورتوں اور مردوں کے درمیان بیٹھا ڈھولکی بجارہا تھا۔ میرے ہاتھوں پرذیشان کے نام کی مہندی لگ رہی تھی پر میں اب بھی خوش نہ تھی۔ مہندی کی رسم ختم ہونے کے بعد سب اپنے کمروں میں جارہے تھے تبھی میں نے عدیل کو لان میں جاتے دیکھا۔ وہ پھولوں کی کیاری کے پاس بیٹھا تھا، جب میں نے اسے کہتے سنا۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں، بہت چاہتا ہوں میں تمہیں بچپن سے لے کر آج تک میں نے صرف اور صرف تم کو ہی تو چاہا ہے، پر میں کیا کروں تم میری بھی نہیں ہو سکتیں۔ شاید میں نے بہت دیر کر دی تم کو یہ بات بتا نہ پایا کہ پھو پھونے مجھ سے پہلے تم کو مانگ لیا۔ یا پھر اوپر والے نے تمہیں میری قسمت میں لکھا ہی نہیں تھا۔ میری سب سے بڑی ایک ہی آرزو تھی۔ تمہیں پالینے کی آرزو اگر عید کی صبح پھوپھو تمہارا ہا تھ نہ مانگتیں تو میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کرنے ہی والا تھا، پر اب نہیں اب تم میرے دوست کی ہم سفر بننے جارہی ہو۔ ربیعہ کاش تم میرے آئینے کے چاند کو سمجھ پاتیں۔ کاش ربیعہ میں اس کے پیچھے کھڑی یہ سب سن رہی تھی دم بخود رہ گئی۔ جیسے کسی نے میرے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔ اور مجھے یہ تک سمجھ نہ آرہا ہو کہ میں کھڑی کہاں ہوں۔ میں اس وقت اپنے آپ کو دنیا کی بے وقوف ترین لڑکی سمجھ رہی تھی۔ خاموشی سے اس کو مخاطب کئے بغیر میں اپنے کمرے میں چلی آئی۔ تب میں سوچ رہی تھی کیا میں بھی عدیل سے محبت کرتی ہوں یا نہیں شاید ایسا ہی تھا۔ میں اسے دو منٹ کیلئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل دیکھتی تو دل میں بے چینی ہونے لگتی۔ صبح سویرے کبھی اس کا چہرہ نہ دیکھ لیتی تو یوں لگتا کہ دن اچھا نہیں گزرے گا تو یہ سب کیا ہے آخر محبت ہی تھی نا سوچوں میں غلطاں تھی کہ اب کیا کروں۔ اچانک ذہن میں ایک خیال آیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ رات کے دو بج رہے ہیں۔ امی، بابا کے کمرے پر دستک دی۔ اس وقت کون ہے امی نے کہا۔ میں ہوں ربیعہ دروازہ کھولئے۔ خیر تو ہے بیٹا امی نے گھبرا کر دروازہ کھول دیا۔ میں نے والدین کو ساری الجھن بتا کر حقیقت سے آگاہ کر دیا۔امی، بابا دونوں ہی پریشان ہو گئے۔ یہ کیا کہہ رہی ہو ربیعہ بیٹی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ پلیز آپ لوگ کچھ کریں۔ جو جس کو پسند کرے، اس کی شادی اس سے ہونی چاہئے۔انوشے ذیشان کو اور عدیل مجھے اس سے آگے نہ بول سکی۔ اچھا تم اب سو جائو۔ صبح بات کریں گے لیکن نیند کہاں صبح تک کے چار گھنٹے میں نے کانٹوں پر جاگ کر گزارے۔ صبح ہی بابا نے ساری حقیقت دادی اور پھوپھو کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے پھر شان کو بلایا اور سمجھایا تب اس نے کہا۔ ٹھیک ہے آپ لوگ ربیعہ اور عدیل کی شادی کر دیں، اگر ربیعہ بھی یہی چاہتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ ربیعہ ہو کہ انوشے میرے لئے تو دونوں برابر ہیں۔ پھو پھونے افسردگی سے کہا۔ ذیشان نے عدیل کو فون کیا کہاں ہو مارکیٹ میں کچھ لینا تھا مجھے اچھا تو پھر جلدی گھر پہنچو اور ہاں اپنے سائز کی شیروانی بھی لیتے آنا۔ ارے یہ کیا کہہ رہے ہو تم میں تمہاری شادی پر شیروانی پہن کر کیا کروں گا۔ ویسے بھی بہت اچھا کرتا لے چکا ہوں۔ میری نہیں، بے وقوف تمہاری شادی کی بات کر رہا ہوں۔ کیا مطلب یار کھل کر بتائو، میں سمجھا نہیں۔ وہ الجھ گیا۔ تم جیسا احمق میں نے نہیں دیکھا یار تم ربیعہ سے شادی چاہتے تھے اور ایک بار بھی اسے یا مجھے اشارتا بھی نہ کہا اب ہم کو خواب تو نہیں آتا کہ تم کیا چاہتے ہو۔ تمہارے دل میں کیا ہے۔ یار تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ربیعہ نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ایسا کہنا نہیں پڑتا صرف محسوس کرنا پڑتا ہے۔ تم لڑکے ہو کر اس سے دل کی بات نہ کر سکے ، وہ تو پھر لڑکی ہے۔ اب اتنے مہان نہ بنو کہ میرے لئے قربانی دے کر مجھے ولن ہی بنا دو۔ بس اور کوئی بات نہیں کرنی، بس شیروانی لے لو اوریہ لو ربیعہ سے خود بات کر لو۔ آئینہ دے دیا اور سمجھایا نہیں کہ آخر یہ چاند کا معاملہ کیا ہے۔ میں ساری چاند رات سوچتی رہی کہ یہ چاند کا معاملہ کیا ہے۔ سوچا صبح تم سے پوچھوں گی۔ تم تو جانتے ہو کہ میں ازل کی بے وقوف ہوں اور صبح تو گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ اگر کل رات میں تمہاری اس پھول کی کیاری سے کی ہوئی باتیں نہ سنتی تو کبھی اپنے دل کی آواز اور اس آئینے میں اپنا چہرہ نہ دیکھ پاتی۔ اور تم نے تو ویسے ہی مجھے کچھ نہ بتانے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ اچھا اب شیروانی لے آنا۔ انوشے چھت پر تھی۔ فون بند کر کے میں اس کے پاس گئی۔ اسے بہت منایا کہ وہ ذیشان سے شادی کرلے۔ پر وہ نہ مانی۔ ضد کی پکی تھی شاید اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک تھی۔ نیچے آئی تو روم میں نیوز چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی جبکہ وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ پتا نہیں کون ٹی وی آن کر کے چلا گیا۔ میں ریموٹ اٹھا کر بند کرنے لگی تو ایک دم ساکت رہ گئی۔ لاہور کے کسی بڑے شاپنگ مال میں آگ لگی تھی، آٹھ لوگ جان سے گزر چکے تھے جبکہ پچاس زخمی تھے۔ اف پاکستان کے حالات جانے کب ٹھیک ہوں گے ۔ جو لوگ مر چکے تھے ، ان کی ڈیڈ باڈیز باہر لائن میں رکھی تھیں۔ یہ چہرہ یہ چہرہ نہیں یہ وہ نہیں ہو سکتا۔ سب نیچے آگئے۔ کیا ہوار بیعہ امی امی یہ دیکھیں۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا میری زبان لڑکھڑانے لگی تبھی میں دھڑام سے گر گئی۔ کسی کو یقین نہ آئے گا کہ وہ بے ہوشی ایک سال تک رہی۔ میں جب کومے سے بیدار ہوئی تواپنے کمرے کو اسپتال کی مانند پایا۔ امی میں کہاں ہوں تم اپنے کمرے میں ہو میری بچی تم ٹھیک ہو گئی ہو۔ ان کی خوشی دیدنی تھی لیکن اگلے ہی لمحے وہ اداس ہو گئیں۔ کیونکہ عدیل اس دنیا میں نہ رہا تھا۔ اسے مارکیٹ میں آگ کے حادثے نے نگل لیا تھا اور اس حادثے کو اب ایک سال گزر چکا تھا۔ بیٹی ہماری بات مان لو۔ ہم نے بہت دکھ دیکھ لیا۔ ہماری بات مانو گی، تبھی عدیل کی روح کو بھی سکون مل جائے گا۔ ماں، باپ، پھوپھو اور بوڑھی دادی کی خاطر بالآخر مجھے سر جھکانا ہی پڑا۔ اور میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی۔ اب میں اور ذیشان مل کر عدیل کی یاد تازہ کر لیتے ہیں جبکہ انوشے ایم فل کرنے لندن چلی گئی۔ عدیل چلا گیا مگر اس کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں تازہ رہیں گی۔ | null |
null | null | null | 206 | https://www.urduzone.net/bikhri-yadeen/ | ٹرین کو اسٹیشن پر آنے میں کچھ دیر ہے۔ میں ملتان کے پلیٹ فارم پر بیٹھا انسانی اجسام کو بھاگتے، دوڑتے دیکھ رہا ہوں۔ مسافر پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے ہیں۔ ٹکٹ گھر میں لمبی قطاریں لگی ہیں، اور چند مسافر ہاتھوں میں ٹکٹ لئے خراماں خراماں ویٹنگ روم کی طرف چل رہے ہیں۔ اور جو ویٹنگ روم میں بیٹھے ہیں، ٹکٹ کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ میں ملتان سے کراچی جانے کے لئے ایک بیگ کے ساتھ پلیٹ فارم پر موجود ہوں ۔ بیگ میں ایک ڈائری ہے، جو میرا کل اثاثہ زندگی ہے ۔ دوسوٹ ، دو جوڑی موزے، بنیان کھانے کے لئے نمکو اور بھنی ہوئی مونگ پھلی کے چند پیکٹ موجود ہیں۔ مونگ پھلی اور نمکو ہمیشہ میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں ان کا شوقین ہوں ۔ کیسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ شوقین بھی ہوں لیکن میرے خاص اپنے کی نشانی بھی ہے۔ جب بھی مونگ پھلی اور نمکو کے پیکٹ دیکھتا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے وہی چنچل شوخ سا چہرہ آجاتا ہے۔ ہاں وہی چہرہ جس کی برسوں پوجا کی ہے۔ جس کو چاہا ہے۔ جس کا مسکراتا چہرہ مجھے جینے کا راستہ دکھاتا ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوگے، میں کن باتوں کو لے بیٹھا ہوں۔ کسی پوجا گھاٹ میں منتر شتر پڑھ رہا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ چلیئے شروع سے اپنی کہانی بتاتا ہوں۔ آپ کو سمجھ بھی آجائے گی اور میرا سفر بھی کٹ جائے گا۔ کچھ باتیں ، کچھ یادیں زندگی کو حسین بنا دیتی ہیں۔ وہ بھی سردیوں کی ایک حسین صبح تھی۔ جس کو دیکھو تن کو چار چار کپڑوں سے ڈھانپے ادھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔ جرسیاں، دستانے، اور کوٹ، سر پر اونی ٹوپی اور جانے کیا کیا۔ جانے لوگ سردی سے کیوں گھبراتے ہیں۔ مجھے تو سردیاں بہت پسند ہیں۔ سردیوں کی لمبی راتیں ہوں۔ لحاف ہو، مونگ پھلی، چلغوزے،اخروٹ ہوں اور فرش پر پڑی انگیٹھی میں انگارے دہک رہے ہوں اور ساتھ زندگی ہو، تو زندگی جینے کا مزہ آتا ہے۔ سردیاں عاشقوں کے لئے عید کا سماں پیدا کرتی ہیں۔ عاشق محبوبہ کے ساتھ عہد و پیمان کے محل تعمیر کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ہر کسی کا محبوب ہوتا ہے اور میرا بھی ایک دوست ہے۔ روز میں اپنے سچے دوست سے خوب باتیں کرتا ہوں۔ ہاں میرا دوست ایسا ہے جس کی دوستی میں سکون وراحت ہے۔ سردیوں کی ان ٹھٹھرتی راتوں میں، میں اپنے دوست اللہ سے باتیں کر کے سکون کی وادیوں میں کھو جاتا ہوں۔ اللہ سے باتیں کرنا لطف دیتا ہے اور میں اس لطف کو کھونا نہیں چاہتا۔ دھند کی چادر نے دن کے اجالے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ ایک گز کے فاصلے پر بھی بندہ نظر نہیں آتا تھا۔ سورج کب کا محو خواب سے نکل کر دُھند کو بھگانے میں لگا ہوا تھا۔ میں ملتان کے پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اللہ اللہ کر کے آدھ گھنٹہ کے کرب ناک انتظار کے بعد ٹرین نے پلیٹ فارم سے تھوڑی دور سے وسل دی تو میری جان میں جان آئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسی ٹرین سے کراچی ذریعہ معاش کے سلسلے میں جا رہا تھا۔ دوستوں سے سُن رکھا تھا کہ کراچی میں بہت کام مل جاتا ہے ۔ پورے پاکستان سے مزدور ادھر کا رخ کرتے ہیں اور کمانے کے ساتھ ساتھ یہاں کے نظارے بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا گیا ہے۔ سمندر کنارے یہ شہر اپنی خوبصورتی سے ہر آنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ جو ادھر آتا ہے یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے دبئی کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے کراچی اب کرچی کرچی ہو کر رہ گیا ہے۔ افراتفری ،لوٹ مار، اسٹریٹ کلنگ معمول بن گیا ہے۔ خیر میں بھی کمانے کے غرض سے کراچی کا ٹکٹ ہاتھ میں تھامے سردی کی شدت کو انجوائے کر رہا تھا، اور ساتھ ساتھ مونگ پھلی کے مزے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ٹرین آئی تو میں نے اپنا بیگ اُٹھایا اور مطلوبہ کمپارٹ میں سوار ہو گیا۔ ڈبے میں چند مسافر تھے جو اپنی اپنی سیٹ پر پڑے شاید اونگھ رہے تھے۔ میں نے اپنا بیگ سامنے والی سیٹ پر رکھا اور خود ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ خوش قسمتی سے وہاں پہلے کوئی مسافر نہیں تھا۔ میں نے برتھ بھی لیا ہوا تھا۔ دس منٹ رکنے کے بعد ٹرین نے رخت سفر کا اعلان کرتے ہوئے وسل دی ۔ملتان کے پلیٹ فارم سے کافی مسافر سوار ہوئے تھے۔ ڈبے آہستہ آہستہ مسافروں سے بھر گئے ،لیکن میرے ساتھ والی سیٹ پر کوئی مسافر نہ آیا۔ ٹرین چلی تو میں پرسکون ہو گیا اور کھڑکی کے ساتھ لگ کر باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ ٹرین کی رفتار آہستہ ہونے لگی۔ میری نظریں باہر گھومتی پھرتی تھیں۔ اللہ کی کاریگری دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ ٹرین رُک گئی۔ یہ شجاع آباد کا اسٹیشن تھا۔ ٹرین یہاں بمشکل پانچ منٹ ڑکی ہو گی۔ چند مسافر سوار ہوئے اور ٹرین نے پھر مسافر وار ہوئے اور ٹرین نے پھر سے رینگنا شروع کر دیا اور پھر لمحوں میں اپنی رفتار میں آگئی۔ کھیت کھلیان، درخت، کوٹھیاں، سڑکیں پیچھے چھوڑتی ٹرین منزل کی طرف ڈوری جارہی تھی اور میں ان نظاروں میں گم تھا کہ میری سماعتوں سے نسوانی آواز ٹکرائی۔ ایکسوزمی ۔ میں قدرتی حسین نظاروں کی دُنیا سے باہر آیا اور نظریں مخاطب کرنے والی آواز کی طرف اُٹھ گئیں۔ سامنے خوبصورت چنچل سی مہ جبیں جس کی عمر سترہ اٹھارہ سال رہی ہوگی، کھڑی مجھے تکے جا رہی تھی۔ میری نظریں اُس حسین مکھڑے کا طواف کر رہی تھیں۔ رب تعالیٰ نے کیسا شاہکار بنایا تھا۔ گورا چٹا رنگ سنہری زُلفیں، سڈول جسامت، آنکھیں جھیل سی اور لبوں پر مسکراہٹوں کے پھول کھل دیکھ کر بنانے والے کے گن گانے لگا۔ مہ جبیں نے دوبارہ لب ہلائے۔ ایکسوز می جی فرمائیے۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں جس سیٹ پر میں نے بیگ رکھا ہوا تھا، اُس نے اُس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جی جی ۔ میں نے کہتے ہی اپنا بیگ اُٹھا لیا۔ اور وہ وہاں بیٹھ گئی۔ کیا یہ سیٹ آپ کی ہے میں نے گفتگو کا آغاز کیا۔ نہیں، لیٹ ہونے کی وجہ سے میں اپنے ڈبے میں سوار نہ ہوسکی اور بمشکل گرتے پڑتے اُس ڈبے میں سوار ہوگئی۔ ٹکٹ آفیسر سے بات کی تو اُنہوں نے یہاں بیٹھ جانے کو کہا۔ اگلے اسٹیشن پر ٹرین رُکے گی تو اپنے متعلقہ ڈبے میں چلی جاؤں گی۔ تھوڑی دیر برداشت کر سکتے ہو۔ وہ بے باکی سے محو گفتگو تھی۔ اوکے۔ ویسے تمھارے اندر لڈو تو پھوٹ رہے ہوں گے کہ ایک حسین لڑکی تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔ وہ بے باکی سے بول رہی تھی اور مجھے اُس کا یہ انداز بہت بھلا لگا۔ اُس کی مسکراہٹ پر میں قربان ہوا جا رہا تھا۔ حیران تھا کہ دنیا میں جسے دیکھو پریشانیوں، دُکھوں کا پرچار کر رہا ہوتا ہے۔ مجھے یہ نہیں ملا، مجھے وہ نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے ان گنت دُکھوں میں مبتلا کر دیا۔ اولاد نافرمان ہو گئی ہے۔ اپنے پرائے ہو گئے ہیں۔ غریبی کا رونا، دولت کی ہوس، جانے کیا کیا کفریہ باتیں روز سنے کو ملتی تھیں۔ اب اس حسینہ کو دیکھو کسی اور دنیا کی مخلوق لگتی ہے۔ جس کے چہرے پہ غم کی پر چھائی تک نہیں ہے۔ کوئی دکھ ہے نہ کوئی غم ۔ جانے کس گلشن کی مکین تھی۔ اللہ کرے اس کی مسکراہٹ سدا یو نہی رہے۔ میں نے دل ہی دل میں دُعا کی۔ وہ سیٹ پر بیٹھتے ہی ڈائری میں گم ہوگی۔ میں مسلسل اُسے گھور رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہا۔ مونگ پھلی کھاؤ گی۔ لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے میں نے کہا اور مونگ پھلی کا پیکٹ اُس کی طرف بڑھایا۔ بڑی ڈھیٹ حسینہ تھی۔ اُس نے بھی انکار نہیں کیا اور پورے کا پورا پیکٹ ہی ہڑپ کر گئی۔ میں نے بیگ سے دوسرا پیکٹ نکالا اور پھر باتوں کا طویل سلسلہ چل نکلا۔ آپ کی منزل کہاں ہے میری منزل اُس نے جوابا سوال کیا۔ دنیا میں تو بس سیر و تفریح کرنے آئی ہوں ۔ میری اصل منزل تو اور ہے۔ اُس نے جواب دیا۔ اُس کا فلسفا نہ جواب مجھے پسند آیا۔ میرے پوچھنے کا مطلب ہے کہ ابھی کہاں جا رہی ہو میں نے پوچھا۔ کراچی ۔ اُس نے مونگ پھلی چباتے ہوئے جواب دیا۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ اُس کا مزاج میرے جیسا ہی تھا۔ ہنس مکھ، شوخیانہ، نڈر، باتونی۔ پھر تو محفل خوب رہے گی۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔خوش فہمی اُس نے دھیمے سے زیرلب کہا۔ آپ کہاں ۔ کے لئے محو سفر ہیں ۔ میں بھی کراچی جا رہا ہوں۔گڈ ، ویری گڈی کوئی جاب ہے نہیں، جاب کی تلاش میں سرگرداں ہوں ۔ اسی سلسلے میں کراچی جا رہا ہوں ۔ سنا ہے وہاں بہت کام مل جاتا ہے۔ میں نے تفصیلاً جواب دیا۔ اوہ ۔ اُس نے ٹھنڈی آہ بھری۔ آپ کراچی میں نے اُس کے کراچی جانے کی وضاحت مانگی۔ میرا مستقل ٹھکانہ کراچی ہے۔ یہاں شجاع آباد میں خالہ کے ہاں آئی تھی۔ ایک ہی خالہ رہ گئی ہے۔ بیچاری بیمار رہتی ہے۔ کئی بار کہا کہ میرے ساتھ چلو، میں علاج کراؤں گی۔ مگر مانتی نہیں۔ کبھی کبھی رشتوں کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ ساری عمر بزنس بزنس کی گردان اچھی نہیں ہوتی ۔ اُس نے ٹرین کی چھت کی طرف گھورتے ہوئے جواب دیا۔ میں کاروباری مخلوق ہوں ۔ آفس میں سرکھپاتے کھپاتے عرصہ ہو گیا ہے ۔ مما پاپا، چند سال پہلے روڈ ایکسڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے اور مجھے تنہا کر گئے ۔ پاپا کا وسیع بزنس تھا۔ میں اکلوتی اولاد ہوں، اللہ تعالیٰ کی آزمائش تھی یا کوئی اور وجہ کہ میرا کوئی بھائی دنیا میں وارد نہ ہو سکا۔ پاپا نے مجھے بہت پیار دیا۔ میں اکثر اوقات اُن کے ساتھ آفس جاتی ۔ مختلف دوروں پر ساتھ ہوتی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروباری گر بھی سیکھنے لگی ۔ اب میں نے ایم اے کر لیا ہے اور مما پاپا کے گزرنے کے بعد کاروبار سنبھالے ہوئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے، خوشحال زندگی گزر رہی ہے۔ پاپا میری شادی برادری سے باہر کرنا چاہتے تھے یہاں تک کہ پاپا کو اور مجھے میرے مزاج کا ، ذہین سرتاج نہ مل سکا۔ کئی بادل منڈلائے بھی تو اُن میں ہوس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُن کی نظریں میری جائیداد، بینک بیلنس ، کوٹھی گاڑیوں پر تو ہوتی مگر کسی نے میری طرف نہ دیکھا۔ سچائی کسی کی آنکھوں میں نہیں جھلکتی تھی۔ حساس دل نہ ملا جو بھی ملا پتھریلی زمین کا وجود ملا ۔ مجھے خوشبو دار ، بھینی بھینی خوشبو دار نرم و نازک مٹی سے بنے انسان کی تلاش تھی۔ مما پا پا گزر گئے تو میں نے اپنی زندگی کو کاروبار میں ایڈجسٹ کر لیا۔ غموں، دُکھوں، پریشانیوں کو خود پر سوار کر کے ملتا ہی کیا ہے۔ چار دن کی زندگانی ہے ہنس کر گزارنی چاہیے۔ بس یہی وجہ ہے کہ ہر وقت مسکراہٹ چہرے پر رہتی ہے۔ چہرہ ہشاش بشاش رہتا ہے ۔ جب کاروباری ذہن سے تھک جاتی ہوں تو پارکوں میں ، دیہات بستیوں میں میں آوارگی کے لئے نکل جاتی ہوں ۔ غریبوں سے مل کر ، اُن کے بچوں سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے جو خوشی ملتی ہے۔ میں بتا نہیں سکتی۔ خود کو غموں ، دُکھوں کا مکین بنا کر ملتا ہی کیا بس یہی اپنی زندگی ہے۔ اور تم سناؤ اُس نے بے تکلفی سے پوچھا۔ ابھی تک اُس نے میرا نام تک نہ پوچھا تھا بس پہلے آپ اور اب تم پر آئی گئی تھی۔ نام تو میں نے بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ میرے تو دل میں جلترنگ بجنے لگنے لگے۔ باتیں کرتی اور مسکراتی ہوئی مجھے وہ بہت پیاری لگنے لگی۔ میں غریب انسان کا غریب بیٹا ہوں۔ غربت مجھے وراثت میں ملی ہے۔ اک ماں ہے جو چارپائی پر پڑی کھانستی رہتی ہے۔ میں ذریعہ معاش کے لئے مارا مارا پھر رہا ہوں ۔ ابو عرصہ ہوا فوت ہو گئے ہیں۔ ہم دو بہن بھائی ہیں۔ بہن کو امی کے پاس چھوڑ کر اپنے شہر سے مایوس ہو کر کراچی کمانے جا رہا ہوں ۔ میرے ساتھ دو زندگیاں جڑی ہیں۔ خود اور اُن کو زندہ رکھنے کے لئے جتن کر رہا ہوں ۔ یہی اپنی زندگانی ہے ۔ ابھی بہن کی شادی بھی کرنی ہے اور اپنا الله مالک ہے۔ میں نے آخری جملے پر زور دے کر کہا اور پھر خاموش ہو گیا۔ جو نہی میں خاموش ہوا وہ مسکرا دی ۔میری غربت پہ ہنس رہی ہو۔ میں نے ناگواری میں پوچھا۔ ارے ارے نہیں۔ میں تو تم پہ ہنس رہی ہوں کہ مرد ہو کر حالات سے لڑنے کی بجائے حوصلہ چھوڑے بیٹھے ہو۔ مایوسی اس کے انگ انگ سے ٹپکتی ہے ۔ ارے نادان جوان ہو، پڑھے لکھے ہو۔ پھر مایوسی ، اُداسی کیوں ابھی باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ٹرین نے رُکنے کا عندیہ دے دیا۔ یونہی گاڑی اسٹیشن پر ڑکی۔ میں نیچے جانے کے لئے اُٹھا اور اُس حسینہ سے عرض کی کہ یہی رُکنا میں کھانے کے لئے کچھ لے آتا ہوں ۔ گاڑی میں چائے ، گرم انڈے اور جانے کیا کیا بیچنے والے آئے تو تھے مگر میں نے کچھ نہیں لیا تھا۔ مونگ پھلی اور نمکو سے گزارہ کیا تھا۔ سادہ پانی کی بوتل ویسی ہی پڑی تھی ۔سردیوں میں پیاس کم ہی لگتی ہے ناں۔ آپ کو ۔ اُس نے مجھے جانے سے روک دیا۔ میں جاتی ہوں، پتا ہے آج کل لڑکیوں کی زیادہ چلتی ہے اور میں خوبصورت و حسین بھی ہوں۔ ہر دوسرا مرد میرا دیوانہ ہو گا۔ اُس نے کن انکھیوں سے مجھے دیکھا اور مسکرانے لگی۔ بڑی منہ پھٹ لڑکی تھی۔ اُس نے وہی کر بھی دکھایا۔ وہ نیچے اُتر گئی اور میں کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ جوان بوڑھے سب اُس کے ایک اشارے کے منتظر تھے۔ اُس کے اردگردیوں جمع ہو گئے جیسے کوئی قیمتی شئے مل جانے والی ہو۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اُس کی آوارہ زلفیں اُن کو گھائل کر رہی تھیں۔ اُس کی اس ادا پر کتنے مرد مرے جا رہے تھے۔ میں اندر بیٹھا یہ سین دیکھ رہا تھا اور مردوں کی عقل کو داد بھی دے رہا تھا۔ اپنی عورتوں کے حقوق پورے نہیں کر پاتے اور غیر محرم عورتوں لڑکیوں کے گرد بھنورے کی طرح منڈلاتے پھرتے ہیں۔ غیرت مندوں کی یہاں غیرت مر جاتی ہے اور شیطانیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں جانے وہ کیا کچھ لے کر واپس سیٹ پر آگئی۔ میری نظریں بھنی ہوئی مونگ پھلی کے پیکٹوں پر ٹک گئیں۔ اتنے پیکٹ میں نے پوچھا۔ ہاں مجھے پتا ہے تم مونگ پھلی کے شوقین ہو اور راستے میں باتوں کے دوران کتنے پیکٹ ہڑپ کر گئے ہو، یہ رکھالو میری طرف سے کام آئیں گے۔ آپ نے میری غربت کا مذاق اُڑایا ہے۔ میں نہیں لوں گا۔ تم بھی کتنے پاگل ہو اُس نے میری ناراضگی کو بھانپتے ہوئے کہا۔ میں تمھاری غربت کا مذاق نہیں اُڑا رہی، ایک دوست ہونے کے ناطے لائی ہوں۔ اور میں نے بھی تو کئی پیکٹ ہڑپ کیسے ہیں ، اور نیچے میں اس لئے اُتر گئی تھی کہ تمھیں دکھاؤں کہ ہمارے معاشرے میں کیا کیا ہو رہا ہے۔ اُس کی اک اک ادا پر پیار آتا تھا۔ ٹرین چل پڑی لیکن ہمارا ساتھ نہیں چھوٹا تھا۔ کئی اسٹیشن آئے لیکن اُس نے اپنے ڈبے میں جانے کی بات تک نہیں کی ۔ میں بھی اُس کا ساتھ چاہتا تھا۔ پھر بھی میں نے پوچھ لیا میری بابت پر کہنے لگی ۔اتنا اچھا ہم سفر ملا ہوکس پاگل کا دل چاہے گا کہ وہ اُس کو چھوڑ دے۔ لڑکی ہو کرکتی دلیرانہ باتیں کرتی تھی۔ ایسی باتیں تو مجھے کرنی چاہیے تھیں۔ لیکن میں مسکرا دیا۔ کتنا خوش بخت سفر تھا اور کتنا حسین ہم سفر مجھے میری قدر کرنے والامل گیا۔ ٹرین میرے لئے قیمتی ہیرے سے کم نہیں تھی ہرکس کوایسی ٹرین اور ہم سفر نہیں ملا کرتے۔ کراچی پہنچے تو اُس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہاں جاتے ہو بھگوڑے۔ میں اُس کے جملے سے حیران تو ہوا لیکن دوسرے لمحے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔اپنی منزل کو ڈھونڈ نے۔ ارے پاگل منزل خود چل کر تمھارے پاس آئی ہے اور تم منزل ڈھوند نے نکل پڑے بیوقوف۔ منزل تو تمھارے سامنے کھڑی ہے۔ راستے بھر میں اُس نے کئی القاب سے نوازہ تھا۔ کیا میں بیوقوف ہوں جو اتنے لمبے سفر میں تم سے محو گفتگور ہی۔ میں پہلی نظر تمھیں اپنا ہم سفرمان لیا تھا۔ اس کے ساتھ اُس نے اپنا سیل نکالا اور ڈرائیور کوفون کیا۔ چند منٹوں میں گاڑی اسٹیشن پر پہنچ گئی جیسے گاڑی اُس کے انتظار میں پہلے سے اسٹیشن پر موجود ہو۔شاندار چمکتی گاڑی۔ میں تو اُس کے ڈرائیور کے مقابل بھی نہیں تھا لیکن اُس نے مجھے پلکوں پر بیٹھا لیا۔ کہتے ہیں ناں عورت کو کوئی نہیں پہچان سکا۔ اس کے کئی روپ ہیں اور ہر روپ نرالا ہے۔ اب تمھیں کہیں جاب ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا سب کچھ تمھارا ہے بس میں نے تمھیں اپن اپنا سرتاج چُن لیا ہے، بولو منظور ہے میری تو باچھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں بھلا کیسے ٹھکرا سکتا تھا۔ منزل واقعی خود چل کر میرے پاس آئی تھی۔ میں منزل کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ یوں ہم میاں بیوی کے خوبصورت بندھن میں بندھ گئے۔ ہنسی خوشی زندگی بسر ہونے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹا اور پھر انیلہ کی صورت میں رحمت عطا کر دی۔ میں مستقل کراچی کا ہو کر رہ گیا۔ بہن کی شادی ملتان میں کر دی تھی اور امی کو اپنے پاس لے آیا تھا۔ میری شادی کے تیسرے سال ایک دن اماں ہمیں چھوڑ کر حقیقی دیس چلی گئی غم کی ان گھڑیوں میں میری ہم سفر نے بہت ساتھ دیا۔ اُس کا کا سہارا نہ ہوتا تو میں کمزور پڑ گیا ہوتا ۔ لیکن قدرت خداوندی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میری بہن اپنے گھر میں خوش باش زندگی جی رہی ہے لیکن میری چنچل سی ہم سفر میرے ساتھ نہیں ہے۔ میری منزل کہیں کھوسی گئی ہے۔ آج اُس کی یادیں ، اُس کی باتیں ہیں اور اُس کا کاروبار ہے جو میں نے سنبھال رکھا ہے۔ انیلہ ایف اے کر رہی ہے اور بیٹا ایم ایس یسی کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے انگلینڈ چلا گیا ہے۔ آج اپنی بہن سے مل کر واپس کراچی جا رہا ہوں ۔ وہی اسٹیشن آ گیا ہے ۔ یہاں سے میری ہم سفر پہلی بار ملی تھی ۔ ٹرین بھی وہی ہے ۔ سیٹ بھی وہی ہے ۔ کھڑ کی بھی وہی ہے اور پٹڑی بھی وہی ہے۔ ویسی ہی ٹرین کی چھک چھک سنائی دے رہی ہے لیکن نہیں ہے تو میری ہم سفر ، میری منزل ، میری شریک حیات نہیں ہے۔ جس نے میری زندگی بنا دی ۔ مجھے کوڑے کے ڈھیر سے اُٹھا کر محل کا مکین بنا دیا تھا۔ آج میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میں آج بھی اپنا وہی حلیہ برقرار رکھے ہوئے ہوں ۔ وہی کپڑے ، وہی بیگ، وہی موزے ، وہی مونگ پھلی کے خالی پیکٹ اور اُس کی ڈائری میرے پاس موجود ہے۔ جس سے اُس کی خوشبو آتی ہے اور میں اُس کی مہک سے سرشار رہتا ہوں۔ میں مہینے میں ایک بار کراچی سے ملتان اور ملتان سے کراچی سفر ضرور کرتا ہوں ۔ وہی ٹرین ہوتی ہے جس میں میری نیک صفت بیوی ملی تھی ۔ اس اُمید پر اسی ٹرین میں اُسی حلیے میں سفر کرتا ہوں کہ کہیں میری منزل مل جائے گی۔ مجھے میری بیوی مل جائے گی۔ لیکن میں بھی کتنا پاگل ہوں ۔ وہ تو وہاں جابسی ہے جہاں سے واپس کوئی نہیں آیا۔ وہاں نیک لوگ جا سکتے ہیں نیک اعمال کر کے ۔ البتہ میں بھی وہاں جاسکتا ہوں لیکن مجھے اُس جیسا نیک بننا پڑے گا۔ نیک اعمال کرنے ہوں گے تبھی میں وہاں جا کر اپنی منزل سے مل سکتا ہوں۔ دعا کیجیے گا کہ یہ ملن جلد از جلد ہو لیکن ایک سوچ میرے ذہن میں سوار رہتی ہے کہ کیا یہی ٹرین وہاں بھی ملے گی ٹرین اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے اور میں تھکے تھکے قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل پڑا ہوں۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 207 | https://www.urduzone.net/dum-saaz/ | احد مجھے پیسے چاہئیں۔ ثمرا نے احد کے سامنے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔ اپنے فون پر گیم کھیلتا احد فون سے نظریں ہٹا کر ثمرا کو گھورنے لگا۔ وجہ تو سن لیں کیوں پیسے چاہئیں۔ احد کی نظروں سے خائف ہوتے ہوئے ثمرا سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔ مجھے کوئی وجہ نہیں جاننی۔ پیسے کیا درختوں پر لگ رہے ہیں۔ جو توڑ توڑ کر تمہیں دیتا رہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور تم ہو کہ احساس کرنے اور بچت کرنے کے بجائے مجھے روز ایک نیا پیغام سنا دیتی ہو ۔ احد نے فون سائڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے ثمرا کو گھورا۔ اپنے لیے تھوڑی مانگ رہی ہوں ۔ رضا کے اسکول میں اسپورٹس ڈے ہے۔ اُسے بیٹ لے کر دینا ہے۔ اور ساتھ میں فیبا کے لیے اسکول بیگ اور شوز بھی چاہئے۔ ثمرا روہانسی ہوئی تھی۔ چائے کی طرف ہاتھ بڑھاتے احد کے ہاتھ رکے تھے۔ دس دن پہلے تو کلر ڈے منایا گیا ہے اسکول میں۔ بچوں کو گرین سوٹس لے کر دیئے تھے اور اب یہ اسکول والوں کا نیا ٹنٹا ۔ ہر دس پندرہ دن کے بعد اسکول میں کوئی نا کوئی ڈے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ماں باپ اسکول کے اخراجات اور فیس ہی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ ایسے میں اسکول والوں کے یہ نت نئے چونچلے۔ کم از کم میری تو برداشت اور حیثیت سے باہر ہیں۔ بہتر ہے تم بچوں کا اسکول چینچ کروا دو۔ احد نے کہتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا کرلبوں سے لگا لیا تھا۔ احد کی بات سنتی ثمرا، احد کی آخری بات پہ اچھل کر رہ گئی تھی۔ ارے ایسے کیسے اتنے آرام سے کہ رہے ہیں۔ اسکول چینچ کروا دو۔ یہ کوئی آسان تھوڑی ہے۔ ویسے بھی اب تو ہر اسکول میں ایسے ہی ہوتا ایسے نہیں ہوتا۔ احد نے تیزی سے ثمرا کی بات کاٹی تھی۔ کمال کے بچے بھی تو اسکول جاتے ہیں۔ ان بچوں کے اسکول والے تو آئے دن بچوں کے والدین کی جیب ہلکی کروانے کے چکر میں نہیں رہتے۔ تمہاری طرح بچوں کا اسکول بھی عجیب ہے۔ جس کا بس نہیں چلتا میرے والٹ سے کیسے پیسے نکلوائے۔ بہر حال میری طرف سے صاف انکار ہے۔ ثمرا میں اتنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ تم خود خیال کرو۔ دو دو جاب کرنے کے بعد بھی گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے مجھ سے۔ مجھے مزید فضول کے خرچوں میں مت الجھاؤ احد نے ہاتھ میں پکڑا جائے کا کپ میز پر غصے سے رکھا اور اپنا فون اٹھا کر باہر کی سمت بڑھ گیا۔ ارے بات تو سنیں چائے تو پی جائیں۔ ثمرا احد کو آوازیں دیتی رہ گئی تھی۔ لیکن احد سنی ان سنی کرتا وہاں سے جا چکا تھا۔ لو بتاؤ ابھی اتنی مہنگائی کا رونا رو رہے تھے اور اب چا کا آدھا کپ چھوڑ گئے ۔ یہ قوم فضول خرچی سے باز نہیں آسکتی ۔ ثمرا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور خودی اپنی بات پہ ہنس کر، احد کے کپ سے چائے اپنے کپ میں انڈ یل کر پینے لگی تھی۔ جب سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا تھا۔ متوسط طبقے کی تو کیا ، پیسے والے لوگوں کی بھی چیخیں نکل گئی تھیں۔ ایک چیز جو پہلے آدھی قیمت پہ مل جاتی تھی۔ اب دگنی تگنی قیمت پر مل رہی تھی۔ گھر میں کھانے پینے کی ضروریات ہی پوری کرنا مشکل ہو چکا تھا۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی دل چاہتا تھا بجلی کے میٹر کو اتار کر کسی انٹیک پیس کی طرح چھپا کر رکھ لیا جائے ۔ ہائے یہ دل اور اس کی ایسی کتنی خواہشیں جو دن میں کئی بار ثمرا کے دل میں آتی ہیں۔ اور وہ ہر بار اپنی سوچ پر خود ہی ہنس کر رہ جاتی تھی۔ اس کالونی میں ثمرا ہی کی نہیں، اس کے جیسی کتنی ہی خواتین کی ایسی خواہشیں۔ جو ہر روز مہنگائی کی طرح بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں، ہر چیز کی طرح بچوں کی فیس اور رکشے والے کے پیسے بڑھانے پہ ثمرا کا سر گھوم کر رہ گیا تھا۔ احد کا آفس تو پہلے بھی بچوں کے اسکول کے مخالف سمت تھا۔ اور حسب عادت احد نے بچوں کو اسکول سے ہٹا کر ، نزدیکی اسکول میں داخل کروانے کا حکم سنا دیا تھا۔ جو کہ ثمرا کو کسی بھی صورت منظور نہیں تھا۔ ایک سال پہلے ہی احد نے سیکنڈ ہینڈ گاڑی لی تھی۔ ثمرا کو ڈرائیونگ آتی تھی ۔ اس لیے اس نے بچوں کو خود اسکول چھوڑنے اور لے کر آنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اگرچہ ثمرا کے لیے صبح ، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور چبھتی دوپہر میں واپس گھر لے کر آنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ لیکن بچوں کی اچھی اسکولنگ کے لیے ثمرا نے اس کڑوے گھونٹ کو خوشی خوشی بھر لیا تھا۔ ایک مسل کا حل تو ثمرا نے نکال لیا تھا۔ لیکن بڑے بڑے خرچوں کے بعد اسکول میں آئے دن ہونے والے مختلف ڈیز کے، خرچوں نے ثمرا کو پریشان کر دیا تھا۔ اچھے اسکول میں اچھی پڑھائی کی لالچ میں کتنے ہی ماں باپ کو ا یسے کڑوے گھونٹ پینے پر مجبور کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی۔ ثمرا نے بچت کے پیسوں میں سے پیسے نکال کر بچوں کی ضروریات کو پورا تو کر دیا تھا۔ لیکن وہ اپنا دل مسوس کر رہ گئی تھی ۔ مہینوں کے بچائے ہوئے پیسے منٹوں میں خرچ کر کے وہ دو دن اُداس رہی تھی۔ لیکن پھر رضا کے ہاتھ میں میچ ونگ، کپ دیکھ کر وہ اپنی اداسی بھول گئی تھی۔ ابھی چند دن بھی نہیں گزرے تھے۔ جب بچوں کے اسکول سے بلاوا آ گیا تھا۔ کال سنتے ہی ثمرا پریشان ہو گئی تھی۔ اس کی پریشانی بلاوجہ نہیں نکلی تھی۔ پرنسپل نے فیس بڑھانے کی کیا بات کی ثمرا تو یہ سنتے ہی روہانسی ہو گئی۔ سوری مسزاحد، ہماری بھی مجبوری ہے۔ پرنسپل صاحبہ نے ثمرا کے چہرے کی ہوائیاں اڑتی دیکھ کر معذرت خواہانہ لہجے میں کہا تو ثمرا بمشکل مسکرا کر ان کے آفس سے باہر نکل آئی تھی۔ احد کو بتانے کا مطلب تھا۔ بچوں کو اسکول سے ہٹانا۔ ثمرا کا سوچ سوچ کر برا حال تھا۔ لیکن مرتے کیا نا کرتے کے مصداق اسے احد کو بتانا ہی پڑا تھا۔ حسب معمول احد نے فوری جواب دینے کے بجائے ثمرا کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ احد ، ہم کم کھائیں گے لیکن بچوں کو اچھا پڑھائیں گے۔ تاکہ آنے والا کل آج سے بہت بہتر ہو۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ثمرا نے کہنے کے بعد تائید بھری نظروں سے احد کی طرف دیکھا۔ اللہ بہتر کرے گا، کہہ کر کروٹ بدل چکا تھا۔ ثمرا بھی گہرا سانس لے کر لیٹ گئی۔ اور پھر کچھ دیر کے بعد خود بھی سوگئی تھی۔ ثمرا بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر جیسے ہی پلٹی، ساتھ گھر کے دروازے پہ آمنہ بھابھی پریشانی کے عالم میں کھڑی بچوں کےانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ رکشے والے کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ انہیں پریشان دیکھ کر ثمرا ، آمنہ بھابھی کے پاس آئی۔ کیا ہوا بھابی، رکشے والا نہیں آیا ابھی تک ثمرا نے سوال کیا۔ ہاں ابھی تک نہیں آیا۔ اور آج فہد کا ٹیسٹ بھی ہے۔ بچہ ساری رات جاگ جاگ کر تیاری کرتا رہا ہے۔ اور اب یہ رکشے والا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے نہ ہی فون اٹھا رہا ہے ۔ آمنہ بھابھی نے ہاتھ میں پکڑے فون کو شمرا کے سامنے کیا۔ اچھا اچھا آپ پریشان نہیں ہوں میں بچوں کو اسکول چھوڑ دیتی ہوں ۔ ثمرا نے تسلی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے آمنہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ آریوشیو آمنہ بھابھی نے پوچھا۔ جی جی ثمرا نے مسکرا کر کہا۔ تو آمنہ اُس کا شکریہ ادا کرتی بچوں کو اندر سے بلانے لگیں۔ اور پھر رکشے والے کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے دو تین دن ثمرا ہی بچوں کو اسکول چھوڑ دیا کرتی تھی۔ جب تیسرے دن، آمنہ بھابھی نے ثمرا کو باقاعدگی سے اسکول چھوڑنے کا کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہ جو پیسے وہ رکشے والے کو دیا کرتی تھیں۔ وہ معاوضہ وہ ثمرا کو دیا کریں گی۔ ارے نہیں بھابھی ثمرا شرمندہ ہوئی تھی۔ نہیں کیوں ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔ جو پیسے رکشے والے کو دیتی تھی وہ تمھارے کام آ جائیں گے۔ اور ساتھ میں مجھے بھی تسلی رہے گی۔ تمھارے ساتھ بچے اسکول آئیں جائیں گے۔ احمد نے مجھے کہا ہے۔ جو کرایہ تم رکشے والے کو دیتی ہو وہ تم ثمرا بھابھی کو دے دو۔ آخر کو پیٹرول سے گاڑی چلتی ہے۔ وہ حفاظت سے بچوں کو اسکول چھوڑ ، اور لے آتی ہیں یہ کم ہے کیا۔ باہر رہنے والوں کو بہت ساری باتوں کی فکریں ہوتی ہیں ثمرا اور سچ میں احمد کو جب سے میں نے بتایا ہے ثمرا بچوں کو لیے جاتی ہے۔ وہ زیادہ مطمئن ہو گئے ہیں۔ اور میں خود نہیں اپنی خوشی سے کر رہی ہوں، یہ کہتے ہوئے آمنہ نے اپنے ہاتھ میں موجود پیسوں کو زبردستی ثمرا کے ہاتھوں میں منتقل کیا تھا۔ لیکن بھابھی ثمرا ابھی بھی تذبذب کا شکار تھی۔ کوئی لیکن ویکن نہیں ۔ آمنہ بھابھی نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ تو ثمرا نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔ یہ بات جب احد کو پتا چلی تو حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔ میں نے بہت منع کیا تھا بھابھی کو لیکن وہ نہیں مانیں ۔ اور ٹھیک ہی تو ہے۔ رکشے والے کو بھی پیسے دیتی ہی تھیں نا۔ وہی پیسے مجھے دے دیے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان تینوں کو بھی لے جایا کروں گی۔ اس میں کیا برا ہے۔ احد کہا۔ ہاں اور جو لوگ باتیں بنائیں گے اس کا کیا ہوگا۔ احد غصہ ہوا۔ لوگوں کا کیا ہے احد ، لوگ تو ہر بات میں ہی اعتراض کرتے ہیں ۔ یہی لوگ مدد مانگنے پہ مدد نہیں کرتے۔ قرض مانگنے پہ قرض نہیں دیتے اور باتیں سناتے ہیں۔ بھوکے پیٹ کو کبھی کھانا نہیں دیتے تین ڈھانپنے کو کپڑا نہیں دیں گے۔ تب بھی صرف باتیں کرتے اور باتیں سناتے ہیں ہمیں اپنی زندگی کو چلانا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں عزت سے اپنے وقت کو گزارنا ہے۔ دو دو جابز کرتے ہیں آپ ہمارے لیے۔ مجھے بھی اگر موقع ملا ہے۔ تو ساتھ دینے دیں۔ میری گاڑی ہے۔ میری مرضی لوگ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے ثمرا نے مضبوط لہجے میں کہا تو احد اُس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔ سوسائٹی اور لوگوں کا ڈر اس کے دل میں تھا کہ لوگ کیا کہیں گے، وہ اپنی بیوی بچوں کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا جو ثمرا ڈ رائیور بن گئی۔ لیکن یہ چند دن کی بات تھی۔ احد جلد ہی اس فیر سے باہر نکل آیا تھا۔ کمانا مانگنے سے بہت بہتر ہے۔ احد جو آئے دن اپنے بڑے بھائی سے پیسے لے لیتا تھا۔ اسے اب اُس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب تو ثمرا خود بھی اچھا خاصا کمانے لگی تھی۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد وہ ایک چکر کالج جانے والی لڑکیوں کو کالج چھوڑنے کا لگالیتی تھی۔ مائیں ثمرا سے منتیں کرنے لگی تھیں۔ وین اور رکشے والے کے ساتھ بھیجنے سے زیادہ انہیں ثمرا کے ساتھ بھیجنا محفوظ لگتا تھا۔ پھر ثمرا کی دیکھا دیکھی کالونی کی تین چار اور خواتین بھی بچیوں کو اسکول چھوڑنے لگیں۔ ہاتھ میں چار پیسے آتے تو کتنے ہی چھوٹے چھوٹے خرچے خود بخود پورے ہونے لگے تھے۔ اگرعورت زندگی کو چلانے کے لیے اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ تو اس میں حرج ہی کیا ہو آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 208 | https://www.urduzone.net/qaatil-cigarette/ | نائل کی بیوی ماریہ ابھی تک سورہی تھی اور وہ خود بیڈ پر لیٹا، اسے بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔اس کے لئے اپنی بیوی کو نیند سے بیدار کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے ریاضی کا کوئی پیچیدہ سوال حل کرنا لیکن یہ تو اب اس کے لئے ایک معمول بن چکا تھا، خود بستر سے اٹھنے اور کوئی اور کام کرنے سے پہلے یہ معمہ اسے ہر صبح حل کرنا ہوتا تھا۔ ہر صبح ماریہ کو نیند سے بیدار کرتے ہوئے وہ غصے کی وجہ سے اندر ہی اندر کھول رہا ہوتا تھا، البتہ اس کے غصے کی یہ آگ شاید ہی اس کی بیوی تک کبھی گئی ہو۔ نائل نے ماریہ کے چہرے سے نظریں ہٹا کے دیوار کی طرف پہلو بدلا اور بولا۔ ماریہ سات بج گئے ہیں۔ ہر صبح یہ جملہ ایک طرح سے اس کی طرف سے اپنی بیوی کے لئے صبح کا پیغام ہوتا تھا۔ ماریہ سے اس نے پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ ماریہ اور وہ ایک ہی دفتر میں ملازمت کرتے تھے۔ ماریہ سے اس نے پسند کی شادی کی تھی، اس کے باوجود وہ اپنی بیوی سے سرد مہری روار رکھتا تھا اور اسے اس پر کبھی ندامت نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ اس سرد مہری کے اظہار کو اپنا حق سمجھے ہوئے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا رویہ اختیار کرنے سے اس کی شخصیت میں نکھار اور اس کے روز مرہ کے معمولات میں دانشمندی کی جھلک دکھائی دے گی۔ اس کو کسی طور پسند نہیں تھا کہ وہ اپنے دوستوں کی طرح اپنی بیوی کو خاندان سے باہر کی تقریبات میں لے کر جائے۔ اس کے دوستوں کے گھر میں جو دعوتیں ہوتی تھیں، ان میں لازمی اس کی بیوی کو بھی مدعو کیا جاتا، مگر نائل ہمیشہ اکیلا ہی جاتا۔ وہ جب پہلی بار ماریہ سے ملا تھا اس وقت اس کی پہلی بیوی رومیصہ زندہ تھی۔ ماریہ نے اس وقت آفس جوائن کیا تھا۔ اسے ماریہ پہلی نظر میں اچھی لگی تھی۔ اسے دیکھ کر نائل نے سوچا تھا کہ کاش اس نے شادی نہ کی ہوتی۔ نائل کو رومیصہ کوئی خاص پسند نہ تھی۔ رومیصہ سے اس نے شادی محض دولت کی خاطر کی تھی، اگر دولت نہ ملتی تو وہ اس کے آوارہ اور جواری بھائی کی بری شہرت کی وجہ سے اس سے کبھی شادی نہ کرتا۔ نائل کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس کی ماریہ سے اتنی جلدی انڈراسٹینڈنگ ہو جائے گی۔ رومیصہ کی ناگہانی موت نے اسے ماریہ سے شادی کا موقع فراہم کر دیا۔ ماریہ کو پانا نائل کا خواب تھا، اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ نائل تکیے سے ٹیک لگائے بستر پر بیٹھا نہایت خاموشی سے ماریہ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کرسی پر بیٹھی اپنے بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ تم کب تک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی رہو گی جا کر محب کو دیکھو ، وہ اپنے کمرے میں ناشتے کا منتظر ہو گا۔ نائل کا جملہ سنتے ہی ماریہ کوئی جواب دیے بغیر جلدی سے اٹھی اور بیٹے کے کمرے میں چلی گئی۔ نائل نے وال کلاک پر ایک نظر ڈالی اور اچھل کر بستر سے نیچے اتر آیا۔ بستر کے پاس کھڑے ہو کر اس نے لمبے لمبے سانس لئے ، بازو پھیلا کر ایک بھر پور جماہی لی۔ اسے اپنا سر وزنی لگنے لگا تھا۔ یہ سب اعصابی تنائو اور ذہنی کھنچائو کا نتیجہ ہے۔ اس کے ذہن میں ڈاکٹر کا جملہ گونجا۔ نائل نے سلیپر پہنے اور وہ بھی الٹے ، پھر انہیں درست پہننے کے بعد وہ واش روم میں چلا گیا۔ آفس کے لئے تیار ہونے کے بعد نائل ڈائننگ ٹیبل پر پہنچا تو ماریہ ناشتہ لگا چکی تھی۔ میں آپ کے لئے کافی بناتی ہوں۔ ماریہ نے نائل کی طرف قدرے شوخ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ہیلو محب تمہارا رزلٹ آگیا۔ نائل نے محب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ محب نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ ماریہ نائل کی خالی پیالی میں کافی انڈیل رہی تھی۔ اس کا ہاتھ کاپنے لگا۔ اس نے کہا۔ محب کی پروگریس رپورٹ اچھی نہیں تھی، میں نے رپورٹ پر خود سائن کر دیئے، آئندہ محنت کرے گا تو اچھے نمبروں سے پاس ہو گا۔ نائل نے غضب ناک نظروں سے ماریہ کو دیکھا۔ یہ تمہاری ڈھیل کا نتیجہ ہے جو یہ دن بہ دن پڑھائی میں کمزور ہوتا جارہا ہے۔ ہر وقت کمپیوٹر کے آگے بیٹھارہتا ہے یا کھیل میں مصروف رہتا ہے۔ میرے یہاں سے جانے کے بعد تو یہ بالکل آزاد ہو جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں، ایک مہینے کی تو بات ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ کراچی پہنچتے ہی ہمیں وہاں بلوالیں گے۔ ماریہ دھیمے لہجے میں بولی۔ گھر ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں، بڑی مشکل سے میں نے اپنا ٹرانسفر کروایا ہے۔ اب میرا اس شہر میں رہنے کو بالکل دل نہیں چاہتا، عجیب وحشت کا شکار رہنے لگا ہوں۔ دن بہ دن آپ کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم لوگ یہاں ملتان میں اچھے خاصے سیٹ ہیں، آپ کو کراچی جانے کی آخر کیوں سوجھ رہی ہے۔ میری مرضی میرا جہاں دل چاہے گا وہاں رہوں گا۔ محب ، آئندہ پڑھائی کے حوالے سے میں تمہاری کوئی شکایت نہ سنوں۔ نائل نے محب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جی پاپا ایسا ہی ہو گا ۔ محب یہ کہہ کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ماریہ تم نے میرے سامان کی پیکنگ کرنا شروع کی یا ابھی تک گھر کے فضول کاموں میں خود کو مصروف کیا ہوا ہے۔ نائل دوبارہ ماریہ سے مخاطب ہوا۔ آپ کی پیکنگ میں نے کافی حد تک کر لی ہے ، ابھی تو آپ کے روانہ ہونے میں پانچ روز باقی ہیں۔ ہاں مگر تمہیں اپنا کام مکمل کر لینا چاہئے۔ یہ کہتے ہوئے نائل ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ ماریہ کو خدا حافظ کہہ کر آفس روانہ ہو گیا۔ کچن میں مصروف ماریہ سوچ رہی تھی کہ نائل کو کیا ہو گیا ہے، خواہ مخواہ اپنا ٹرانسفر کراچی کرالیا۔ نائل پچھلے دو دن سے کراچی میں اپنے دوست روحان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ روحان کا ایک سو بیس گز کا مکان تھا، جس کی اوپری منزل میں ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ روحان نے اس کمرے میں نائل کو ٹھہرادیا تھا۔ صبح کے چار بج رہے تھے۔ نائل بستر پر بیٹھا سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔ اس نے نصف سے بھی کم جلا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔ سرہانے رکھے موبائل پر اس نے نگاہ دوڑائی۔ نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی۔ نائل نے بستر پر دوبارہ لیٹ کر کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کی لیکن جلتی ہوئی آنکھیں الفاظ کو پہچاننے سے قاصر تھیں، کوشش کے باوجود جب عبارت کا مفہوم اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو تنگ آکر اس نے کتاب بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ پانچ بجے اس کی آنکھ لگ گئی۔ پندرہ منٹ بعد ہی وہ ایک جھٹکے سے بیدار ہو گیا۔ ایک بھیانک خواب اس کا مسلسل پیچھا کر رہا تھا۔ دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ آج آفس نہیں جائے گا بلکہ ماہر نفسیات سے مل کر اپنے مسئلے کوڈسکس کرے گا۔ ساڑھے سات بجے روحان اس کے کمرے میں آیا تو وہ بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ کیا بات ہے تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔ میں ناشتے کے لئے بلانے آیا تھا۔ تمہیں دیکھ کر تو یوں لگ رہا ہے جیسے تم ساری رات سوئے نہیں ہو۔ روحان نے نائل کو بغور دیکھتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔ کیا کروں مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ سونے کی بہت کوشش کی، ٹیبلیٹ بھی کھائی۔ ہاں جگہ کی تبدیلی سے ایسا ہو جاتا ہے۔ ایک دو دن میں تم یہاں سیٹ ہو جائو گے۔ میری کوشش یہی ہے کہ میں جلد سے جلد یہاں کرائے کا مکان ڈھونڈ کر اپنی فیملی کو بلوالوں، آج میرا آفس جانے کا موڈ نہیں۔ کیوں کیا کہیں اور جانے کا پرو گرام ہے ہاں مجھے کسی سے ملنے جانا ہے۔ فی الحال میں ناشتے کے بعد سونا چاہوں گا۔ نائل نے دانستہ روحان سے، ڈاکٹر سے ملاقات کا ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا کہ کہیں وہ اسے نفسیاتی نہ سمجھ بیٹھے۔ چلو نیچے چل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ روحان نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ نائل بیڈ سے اتر کر اس کے ساتھ ہو لیا۔ دروازے پر لگی ہوئی نیم پلیٹ ڈاکٹر عمار حسن کے موجود ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ کیا آپ نے ملاقات کے لئے وقت لے رکھا ہے کائونٹر پر موجود لڑکی نے پوچھا۔ وہ بڑے غور سے نائل کو دیکھ رہی تھی۔ نائل کو اس کی یہ بات ناگوار لگ رہی تھی۔ جی، میں نے اپائنٹمنٹ لے لیا تھا۔ نائل نے جیب سے ایک پرچی نکال کر اسے دکھائی۔ ٹھیک ہے آپ بیٹھیں، میں نمبر آنے پر آپ کو اندر بھجواتی ہوں۔ نائل نے کائونٹر کے سامنے موجود کرسیوں پر نگاہ دوڑائی اور ایک کرسی پر بیٹھ کر سامنے رکھی میز سے اپنے لئے میگزین منتخب کرنے لگا۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ ڈاکٹر عمار کے کمرے میں موجود تھا۔ ڈاکٹر عمار حسن، فربہ جسم اور پھولے ہوئے چہرے کے مالک تھے۔ جی فرمائیں آپ کو کیا شکایت ہے ۔ ڈاکٹر عمار حسن نے نائل کو دیکھتے ہی سوال کیا۔ کم خوابی کا شکار ہوں۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ مہینوں ہو گئے ہیں۔ میں اچھی اور پر سکون نیند کو ترس گیا ہوں۔ ڈاکٹر عمار حسن کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔ بہت سے لوگ یہی شکایت کرتے ہیں، قسم کھاتے ہیں کہ ہفتوں سے نیند نہیں آرہی، جبکہ حقیقتاً یہ درست نہیں ہوتا۔ کم یا زیادہ انہیں نیند تو ضرور آتی ہے ، البتہ محسوس یہی کرتے ہیں کہ وہ بالکل نہیں سوئے۔ اس طرح تو کبھی کبھی میری آنکھ بھی لگ جاتی ہے، صرف پندرہ منٹ کے لئے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں ایک گھنٹے سے زیادہ بھی سویا ہوں، جب بھی سوتا ہوں کوئی بھیانک خواب میری نیند اڑا دیتا ہے۔ زیادہ تر میں دو ہی خواب دیکھتا ہوں، ایک خواب میں خود کو ہر طرف سے آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا۔ دوسرے خواب میں کوئی شخص میرے تعاقب میں ہوتا ہے جو مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگ رہا ہوتا ہوں۔ آپ اس شخص کو جانتے ہیں جو خواب میں آپ پر حملہ کرنے کے لئے تعاقب کر رہا ہوتا ہے۔ جی ہاں۔ وہ شخص میری پہلی بیوی کا بھائی ہے۔ آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں علاج کے لئے آپ کے بارے میں جانا ضروری ہے۔ میں نائل فاروقی، عمر چھتیس سال ہے۔ ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ میں نے دو شادیاں کیں، میری پہلی بیوی رومیصہ کی وفات کو آٹھ سال ہو چکے ہیں، اس کی موت کے فوراً بعد میں نے دوسری شادی کر لی تھی۔ دوسری بیوی سے میرا ایک بیٹا ہے جس کی عمر تقریباً سات سال ہے۔ آپ کی پہلی بیوی جوانی میں مر گئیں، ان کی موت کی وجہ ڈاکٹر عمار نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ ایک حادثہ۔ نائل نے قدرے آہستگی سے کہا۔ کیسا حادثہ کیا یہ بتانا ضروری ہے نائل کے لہجے میں ڈاکٹر کا سوال سن کر ناگواری آگئی۔ ہاں، ہو سکتا ہے اس سے مجھے آپ کا کیس حل کرنے میں مدد ملے۔ نائل نے ایک گہری سانس لی پھر بولا۔ وہ آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ نائل نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی اور خوابیدہ لہجے میں کہنے لگا۔ ڈاکٹر آپ کے سوال نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا ہے۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ آدھی رات کے وقت وہ حادثہ پیش آیا، جس کی وجہ سے رومیصہ کی موت واقع ہوئی۔ سردی کے باعث کمرے میں ہیٹر جل رہا تھا۔ پتا نہیں کس طرح بستر کی چادر میں آگ لگ گئی، کم از کم اس کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس آفیسر کا یہی خیال ہے۔ اس وقت نائل دل میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس کی بستر پر لیٹ کر سگریٹ پینے کی عادت نے یہ آگ بھڑکائی تھی۔ بد قسمتی سے میری آنکھ رومیصہ کے چیخنے پر کھلی۔ اس وقت پورا کمرہ آگ کی زد میں آچکا تھا۔ تمام کمرے میں دھواں بھرا ہوا تھا، رومیصہ کیا کہہ رہی تھی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا، مجھے اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ کمرے کے دروازے میں آگ لگ چکی تھی، میں اسے کھول نہیں سکتا تھا، یہ دیکھ کر میں باتھ روم کی طرف بھاگا۔ میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ باتھ روم کے روشندان سے میں نیچے کود گیا۔ میں نے رومیصہ کو بھی کہا کہ وہ اس راستے سے نکلے، مگر وہ اونچائی کے خوف سے کودنے کو تیار نہیں تھی، مجبوراً مجھے اسے چھوڑ کر اپنی جان بچانی پڑی۔ فرسٹ فلور سے کودنے پر مجھے زیادہ چوٹ نہیں آئی۔ گرائونڈ پر پہنچتے ہی میں نے اوپر کی طرف دیکھا، سارا گھر شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ اتنا کہہ کر نائل نے آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے وہ باتیں کرتے کرتے تھک گیا ہو۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا۔ جب تک فائر بریگیڈ پہنچا سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ رومیصہ آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اسے بچا سکتے تھے مگر آپ نے اسے بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ نائل ڈاکٹر کے سوال کا جواب دیئے بغیر خالی خالی نظروں سے سامنے والی الماری میں رکھی موٹی موٹی کتابوں کو گھورتا رہا۔ کیا آپ اپنے آپ کو اپنی بیوی کی موت کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ کیا اسی خیال نے آپ کی نیندیں چرالی ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ڈاکٹر ۔ نائل قدرے سخت لہجے میں بولا۔ اگر ہو تب بھی کوئی غیر فطری بات نہ ہو گی۔ آپ اپنی بیوی کو بچانے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کیوں نہ کر لیتے، پھر بھی یہ ممکن تھا کہ ضمیر آپ کو اس کی موت کا مجرم گردانتا۔ کیونکہ آپ بچ نکلے اور وہ جل گئی ۔ میں نے کہا ناڈاکٹر یہ بات نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لئے میں اپنے آپ کو مجرم کیوں سمجھوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ رومیصہ کا بھائی جو میرا جانی دشمن بنا ہے، اس نے میری راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ وہ مجھے اپنی بہن کی موت کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ مگر کیوں وہ ایسا کیوں سوچتا ہے۔ ڈاکٹر کے اس سوال پر نائل نے کندھے اچکائے۔ مجھے کیا معلوم، مجھے رومیصہ کا بھائی علمیر شروع سے پسند نہیں تھا، جس وقت حادثہ ہوا علمیر دوسرے شہر میں تھا۔ اس کے ذہن میں میرے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ اخبارات نے کچھ ایسی خبریں شائع کیں جن میں مجھے مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ کیسے شکوک و شبہات یہی کہ میں نے اپنی جان تو بچالی اور رومیصہ کو جل جانے دیا، اس نے رومیصہ کی تدفین کے موقع پر لوگوں کے سامنے کھل کر کہا کہ میں رومیصہ کی موت کا ذمے دار ہوں اور یہ کہ وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا، وہ تو شکر ہے کہ رومیصہ کی موت کے تیسرے روز پولیس نے اسے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس نے مجھے ایک خط بھی لکھا تھا۔ بڑا عجیب و غریب خط تھا۔ آپ دیکھتے تو آپ کو اس کے ذہنی توازن کے بارے میں شبہ ہو جاتا، مگر میں نے اس خط کو ضائع کر دیا۔ علمیر ابھی تک جیل میں ہے ڈاکٹر عمار نے پوچھا۔ نہیں دو مہینے پہلے وہ رہا ہو چکا ہے، اس نے مجھے فون کیا تھا۔ فون پر اس نے مجھے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ آپ نے پولیس کو مطلع کیا نہیں۔ دیکھئے ڈاکٹر صاحب علمیر کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ جذبات میں آکر مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس جیسے شخص سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔ کم عمری میں وہ برے لڑکوں کی صحبت کا شکار ہو کر چوری کرنے لگا تھا۔ محلے میں اس کی غنڈہ گردی مشہور تھی۔ اسے تو میرا احسان ماننا چاہئے کہ میں نے اس جیسے شخص کی بہن سے شادی کی۔ علمیر کے جیل سے آنے کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ میرا مشورہ مانیں پولیس کو اس سلسلے میں مطلع کریں، وہ شخص آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ دوائیں میں لکھ رہا ہوں۔ ایک ہفتے بعد آکر دکھائیں۔ ڈاکٹر عمار نے دوائیں لکھ کر پر چہ نائل کی طرف بڑھایا۔ نائل پرچے پر نظر ڈالتا ہوا ان کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ کلینک سے وہ سیدھا شاپنگ مال پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پسند کے ملبوسات خریدے، رات کا کھانا اس نے ایک ریسٹورنٹ میں کھایا۔ رات گیارہ بجے وہ روحان کے گھر پہنچا۔ دس منٹ روحان کے پاس بیٹھ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ پھر جانے اسے کب نیند آگئی۔ ایک گھنٹے بعد اچانک نائل کی آنکھ کھل گئی۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے سگریٹ سلگایا اور ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتا گیا۔ تین بجے اس نے جھلا کر سگریٹ کا خالی پیکٹ اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالا اور الماری سے نیا پیکٹ نکالنے کے لئے اٹھا، مگر معلوم ہوا کہ الماری میں کوئی پیکٹ موجود نہیں ہے۔ بے خوابی کی مصیبت کیا کم تھی کہ اب سگریٹ بھی ختم ہو گئے تھے۔ وہ بستر پر دوبارہ لیٹ گیا اور ڈاکٹر عمار سے اپنی ملاقات کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے ماہر نفسیات کے پاس جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمار نے اسے ایک ہفتے بعد بلایا تھا، مگر وہ اس سے دوبارہ ملنے کا خواہشمند نہیں تھا۔ ڈاکٹر عمار کے سامنے گزشتہ زندگی کا ذکر کرنے سے اس کے ذہن میں رومیصہ کا بار بار خیال آرہا تھا۔ وہ رومیصہ کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا، مگر ذہن بار بار اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اگر اس کا بھائی آوارہ اور جواری ہے تو اس میں اس بے چاری کا کیا قصور ہے نائل کے ذہن میں برسوں پہلے ابو کے کہے ہوئے الفاظ کی باز گشت ہوئی جو انہوں نے اسے رومیصہ سے شادی کے لئے رضامند کرتے ہوئے کہے تھے۔ رومیصہ نائل کے ابو کے سیکنڈ کزن کی بیٹی تھی۔ ابو کے یہ کزن جوانی میں انتقال کر گئے تھے، جب رومیصہ محض تین سال کی تھی۔ رومیصہ کی ماں فاخرہ بیگم اپنے اکلوتے بیٹے علمیر کی آوارگی اور مجرمانہ فطرت سے سخت پریشان رہتی تھیں۔ معقول شکل و صورت کی حامل ہونے کے باوجود رومیصہ کے لئے کوئی رشتہ نہیں آتا تھا۔ ایسے میں ایک دن نائل کے والد سلیم احمد نے اس کے سامنے رومیصہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ وہ نائل کی شادی رومیصہ سے کرنا چاہ رہے تھے۔ نائل نے فوراً انکار کر دیا کہ وہ رومیصہ سے شادی نہیں کرے گا۔ ایک تو رومیصہ اسے پسند نہیں تھی۔ اس نے اپنی شریک زندگی کے حوالے سے جو خواب دیکھے تھے، رومیصہ اس پر پورا نہیں اترتی تھی، دوسرے وہ علمیر کی مجرمانہ سر گرمیوں کی وجہ سے اس گھر میں رشتے پر رضامند نہیں تھا۔ سلیم احمد نے جب دیکھا کہ نائل اس رشتے پر کسی طرح راضی نہیں ہو رہا تو وہ فورا اصل وجہ پر آگئے، جس کی وجہ سے وہ نائل کی شادی رومیصہ سے کرنا چاہ رہے تھے۔ بیٹا رومیصہ کے باپ کی اچھی خاصی زمینیں ہیں۔ فاخرہ کا کہنا ہے کہ آدھی زمینیں تمہارے نام کر دے گی، جو تمہیں رومیصہ سے شادی کے موقع پر ملیں گی۔ میرے خیال میں تمہیں فوراً ہامی بھر لینی چاہئے ۔ مگر ابو میں نے ایسا کبھی سوچا نہیں۔ سوچا نہیں تو اب سوچ لو۔ تمہیں زندگی بنانے کا موقع مل رہا ہے، رومیصہ کا باپ زندہ ہوتا تو کبھی اس کی شادی ہمارے گھر میں نہیں کرتا، وہ دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو مجھ سے بہت برتر سمجھتا تھا۔ آج اس کے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ فاخرہ نے خود بیٹی کا رشتہ دیا ہے۔ سلیم احمد نے کہا۔ ان کے سمجھانے پر نائل کو ہامی بھرنا پڑی۔ رومیصہ سے شادی کر کے وہ ایسا ناخوش بھی نہیں تھا کہ اچانک ماریہ اس کی زندگی میں آگئی۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ اس نے رومیصہ سے کیوں شادی کی۔ پھر ایک دن قسمت نے اسے رومیصہ سے چھٹکارے کا موقع فراہم کر دیا۔ آدھی رات کو سگریٹ پیتے ہوئے وہ ماریہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سوچتے سوچتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے ادھ جلی سگریٹ ایش ٹرے میں رکھ دی تھی، نیند میں اسے پتا ہی نہیں چلا کہ ایش ٹرے بیڈ پر رکھنے کے باعث کب بستر پر گری اور چادر نے آگ پکڑلی۔ اس کی آنکھ رومیصہ کے چیخنے کے باعث کھلی، وہ رومیصہ کے ساتھ باتھ روم میں باہر نکلنے کے ارادے سے داخل ہوا تھا تو جان بوجھ کر وہ روشندان کے راستے پہلے کود گیا تھا۔ اسے اس وقت صرف اپنی جان بچانے کی پڑی تھی۔ علمیر اسے رومیصہ کی موت کا ذمے داری سمجھ رہا تھا۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ آگ لگنے کے واقعے پر غور کرتے ہوئے وہ ماضی سے حال میں آگیا۔ اپنے کمرے پر بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے اس کی آنکھ بڑی مشکل سے لگی۔ سات بجے گھڑی کا الارم بجا۔ نائل فوراً بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ آفس روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ کمپنی کا جنرل منیجر اس سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ فورا جنرل منیجر کے کمرے میں پہنچا۔ دیکھیں بھئی ۔ جنرل منیجر نے نائل کو دیکھتے ہی پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ آپ دھیان سے اپنا کام کریں۔ ابھی آپ کو آفس جوائن کئے ہوئے دن کتنے ہوئے ہیں، ایک دن آکر آپ کل غائب ہو گئے۔ پرسوں آپ نے جو فائل مکمل کر کے مجھے بھجوائی تھی، اس میں کئی غلطیاں تھیں، جو آپ کو نظر نہیں آئیں۔ میں شرمندہ ہوں سر ، آج کل میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، اسی وجہ سے کل چھٹی کرنا پڑی، میں کوشش کروں گا کہ آئندہ آپ کو مجھ سے شکایت نہ ہو۔ نائل نے آہستگی سے کہا۔ وہ تو آپ کی حالت سے لگ رہا ہے۔ لگتا ہے تھکاوٹ کا شکار ہیں، کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ یہاں آدمی کی قدر اس کے کام سے ہوتی ہے۔ کوشش کریں کہ آئندہ مجھے آپ کسی شکایت کا موقع نہ دیں۔ جی سر، ایسا ہی ہو گا۔ نائل نے کہا۔ دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی تمام پریشانیوں کی وجہ علمیر ہے۔ اس سے پہلے وہ کمپنی کا کام اچھی طرح کرتا رہا ہے، کبھی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ سارے دن دفتر میں مصروف رہنے کے بعد شام میں نائل گھر روانہ ہو رہا تھا تو وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ علمیر سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سے ملاقات کر کے یہ معلوم کرے گا کہ اس کی جان بخشی کے عوض اسے کیا دینا ہو گا۔ رات میں اس نے ہمت کر کے علمیر کو فون کیا۔ علمیر میں نائل بات کر رہا ہوں ۔ دیکھو، مجھے اپنے اور تمہارے باہمی تعلقات کا یہ انداز بالکل پسند نہیں، کیوں نہ ہم مل کر اس معاملے کو طے کر لیں۔ بہت جلدی خیال آگیا تمہیں۔ علمیر کی طنز بھری آواز ابھری۔ مجھے پتا ہے تم کراچی روانہ ہو گئے ہو، تم کیا سمجھ رہے ہو کہ میں تمہیں وہاں نہیں ڈھونڈ سکتا۔ میں کل شام تمہیں کراچی میں ملوں گا۔ کہاں نائل نے بے چینی سے پوچھا۔ یہ میں تمہیں کراچی پہنچ کر بتائوں گا۔ یہ کہہ کر علمیر نے فون بند کر دیا۔ نائل موبائل ہاتھ میں لئے سوچ رہا تھا کہ اس نے علمیر سے ملاقات کرنے کا فیصلہ صحیح کیا ہے یا غلط۔ رات کو لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں خود کو آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا دیکھا۔ ہیجانی کیفیت میں چلانے لگا، وہ پوری شدت سے چیخ رہا تھا اور علمیر کو برا بھلا کہ رہا تھا، جس کے خوف نے اس کی نیندیں حرام کر دی تھیں، کچھ دیر بعد جب وہ نارمل ہوا تو اپنے طرز عمل پر حیران تھا۔ صبح وہ روحان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا تو اس نے دبے لفظوں میں رات کے طرز عمل کے بارے میں شکایت کی۔ میں حیران تھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے۔ کس سے لڑ رہے ہو۔ میں اسی وقت اوپر آتا۔ ایک تو تمہارے چیخنے کی آواز بند ہو گئی تھی، دوسرے غزالہ نے مجھے منع کر دیا تھا، میں آدھی رات کو اوپر نہ جائوں۔ یہ کہتے ہوئے کن انکھیوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو اس کی باتوں سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔ بھابی سوری میری وجہ سے آپ کی نیند میں خلل پڑا، آئندہ آپ کو میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ آپ نے اپنے گھر کے لئے کسی اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کی۔ غزالہ نے پوچھا۔ روحان نے اسے گھورا وہ جانتا تھا کہ غزالہ چاہتی ہے نائل جلد از جلد اس گھر سے چلا جائے۔ کہا تو ہے۔ دعا کریں جلد از جلد گھر کا بندوبست ہو جائے اور میں آپ کی جان چھوڑ دوں۔ نائل کیسی بات کر رہے ہو۔ یہ تمہارا اپنا گھر ہے، جب تک دل چاہے یہاں رہو۔ روحان بولا۔ نائل نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور آفس روانہ ہو گیا۔ آج کا دن اس کے لئے بہت اہم تھا۔ آج اسے علمیر سے ملاقات کرنی تھی۔ وہ بے چینی سے شام کے ہونے کا منتظر رہا۔ شام سے رات ہو گئی، مگر علمیر کا فون نہیں آیا۔ اس نے اپنے موبائل سے اس کا نمبر ملایا، مگر علمیر کا فون بند تھا۔ ساری رات وہ بے چین رہا۔ اگلے دن وہ آفس سے گھر روانہ ہو رہا تھا کہ علمیر کا فون آگیا۔ علمیر اس سے ملاقات کا خواہشمند تھا۔ نائل آفس سے سیدھا اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ اس نے اسے ہائی وے پر واقع جس کالونی کا پتا بتایا تھا وہ ابھی پوری طرح آباد نہیں تھی۔ ڈور بیل بجاتے ہوئے انجانے خوف نے نائل کو گھیرا ہوا تھا۔ بیل بجاتے ہی نائل کی نظر علمیر پر پڑی۔ آٹھ سال کی قید بامشقت نے اس کے چہرے کے خدو خال تبدیل کر دیے تھے ، وہ ایک وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا۔ تمہاری ٹانگوں کو کیا ہوا نائل نے اس پر نظر پڑتے ہی پوچھا۔جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک ٹریفک حادثے میں میری ٹانگیں مفلوج ہو گئی ہیں۔ نائل کو اپنے خوف پر بے اختیار ہے ہنسنے کا دل چاہ رہا تھا۔ اس نے بڑے مطمئن انداز میں علمیر کی طرف دیکھا۔ علمیر نے وہیل چیئر ایک طرف کھسکاتے ہوئے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ نائل کو اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا کہ اسے پہلے پتا چل جاتا کہ علمیر معذور ہو گیا ہے تو وہ اس سے ملنے کی حماقت نہ کرتا۔ علمیر کے پیچھے چلتا ہوا وہ کمرے میں داخل ہوا۔ صوفے پر بیٹھتے ہی اس نے علمیر سے کہا۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اس حال میں دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا ہے۔ اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھو، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ علمیر نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ بہت نفرت کرتے ہو مجھ سے ہاں، میرے لئے تمہارے وجود کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ علمیر کے چہرے پر نفرت کے آثار پھیل گئے تھے۔ علمیر میں جانتا ہوں کہ اخباروں میں الٹی سیدھی خبریں پڑھ کر تم مجھے قاتل سمجھ رہے ہو مگر حقیقت وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ تم نے آج تک کبھی مجھے صفائی پیش کرنے کون سی صفائی پیش کرنا چاہتے ہو۔ اپنے دل سے پوچھو تم بے گناہ ہو۔ علمیر نے نائل کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ علمیر پرسکون ہو کر میری بات سنو، میں چاہتا ہوں کہ آج اس معاملے کو نمٹا لیا جائے، جذبات میں آکر تم اپنے مجرم دوستوں کے ذریعے میرے خلاف کوئی قدم اٹھائو میں اس سے تمہیں باز رکھنے آیا ہوں۔ تمہاری بہن میری وجہ سے نہیں مری۔ قدرت نے اس کے نصیب میں جل کر مرنا لکھا تھا۔ تم جو چاہے سوچتے رہو۔ یہ بات پولیس بھی ثابت نہیں کر سکی ہے۔ تمہاری دھمکیاں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ تم آخر چاہتے کیا ہو تمہاری موت۔ میں مانتا ہوں کہ میں ایک برا انسان ہوں۔ معاشرے کی نظر میں میں ایک مجرم ہوں اس کے باوجود میں نے آج تک کسی کی جان نہیں لی۔ مجھے اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ اس محبت کی شدت کا اندازہ مجھے اس کی موت کے بعد ہوا ہے۔ تم نے میری بہن سے کبھی محبت نہیں کی، محض جائداد ہتھیانے کے لئے اس سے شادی کی۔ وہ تو تمہیں اس بات کا دکھ ہے کہ میں تمہارے باپ کی جائداد پر عیش کر رہا ہوں۔ میں تمہیں کچھ رقم دینے کے لئے تیار ہوں۔ بشرطیکہ تم ہمیشہ کے لئے کہیں دفع ہو جائو، تم نے میرا ذہنی سکون تباہ کر دیا ہے۔ میں چاہتا تو اس معاملے میں پولیس کی مدد لے سکتا تھا مگر میری خواہش ہے کہ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے طے ہو جائے۔ علمیر اسے چند لمحوں تک گھورتا رہا، پھر بولا۔ مجھے بے حد افسوس ہو رہا ہے رومیصہ تمہارے پیچھے اتنی پاگل کیوں تھی۔ اس نے تم سے شادی کرنے کے لئے خود کشی کی کوشش کی، بدلے میں تم نے اسے کیا دیا اس سے بے وفائی کی۔ رومیصہ نے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی کب نائل حیرانی سے بولا۔ تم تو ہمارے گھر اکثر آیا کرتے تھے اس وقت میری مجرمانہ سرگرمیوں کی شہرت نہیں ہوئی تھی۔ رومیصہ سمجھتی تھی کہ تم اسے پسند کرتے ہو ، بعد میں تم نے ہمارے گھر آنا بند کر دیا تھا۔ رومیصہ نے وجہ پوچھی تھی، تو تم نے کہا تھا کہ تم میری بدنامی کی وجہ سے ہمارے گھر نہیں آنا چاہتے۔ اس نے تم سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو تم نے صاف انکار کر دیا تھا۔ رومیصہ تمہارے عشق میں اس حد تک گرفتار ہو چکی تھی، تمہاری باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کی کوشش کی ۔ امی کو جب ساری صورتحال پتا چلی تو وہ بیٹی کی محبت سے مجبور ہو کر تمہارے گھر خود رشتہ لے کر پہنچ گئیں۔ تمہارے لالچی باپ کی فطرت کو وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ چچا سلیم احمد خود تو زندگی بھر کچھ نہ کر سکے ، ہمیشہ دوسروں کی دولت پر ان کی نظر رہی، امی نے جب چچا کے سامنے رومیصہ اور تمہاری شادی کی تجویز رکھی اور ساتھ ہی آبائی زمینوں میں سے آدھی زمینیں تمہارے نام کرنے کا وعدہ کیا، تا کہ تم لوگوں کی طرف سے انکار کی گنجائش نہ رہے اور ہوا بھی یہی امی کی توقع کے مطابق رومیصہ کی شادی تم سے ہو گئی۔ شادی کے بعد رومیصہ بہت خوش تھی، اپنی موت سے دوماہ پہلے اس نے امی سے تمہارے بدلتے ہوئے رویے کی شکایت کی تھی۔ رومیصہ نے امی کو بتایا تھا کہ اسے یوں لگ رہا ہے کہ تمہاری زندگی میں کوئی دوسری عورت داخل ہو گئی ہے۔ رومیصہ کی اس طرح ناگہانی موت کی خبر میرے اور امی کے لئے کسی شاک سے کم نہیں تھی۔ امی نے اس کی موت کا بہت اثر لیا۔ ایک ہفتے بعد وہ اس دنیا سے چل بسیں۔ ماں اور بہن کو کھونے کے بعد مجھے رشتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ یہ رشتے ایسے ہیں جو دنیا کی کسی دولت سے نہیں خریدے جاسکتے۔ تم مجھے اتنا گرا ہوا انسان سمجھ رہے ہو کہ میں چند نوٹوں کے عوض تمہیں معاف کردوں گا، تمہیں مارنے کے لئے مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، میں اکیلا تمہیں موت کے گھاٹ اتار سکتا ہوں۔ تم اب کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک سسکتی ہوئی زندگی گزار سکتے ہو۔ مجھے دیکھو میں نے زندگی میں جو چاہا تھا پالیا اور ایک تم ہو اپنے باپ کی جائداد کو بے رحمی سے لٹادیا۔ بہت افسوس ہو رہا ہے مجھے تمہاری حالت پر ، اچھا تم مجھے قتل خود کرو گے مگر کیسے نائل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ علمیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ تم سمجھتے ہو کہ میں اپاہج ہو گیا ہوں اس لئے تمہیں ٹھکانے نہیں لگا سکتا۔ یہ تمہاری بھول ہے تمہاری موت تمہیں مجھ تک لے آئی ہے۔ علمیر یہ بولتے ہوئے وہیل چیئر پر تیزی سے گھوما اور حیرت انگیز رفتار سے کمرے کے ایک گوشے میں رکھی میز کے پاس پہنچ کر اس کی دراز کھولنے لگا۔ نائل بڑی دلچسپی سے اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا تھا، اس نے علمیر کو روکنے کے لئے ذراسی بھی کوشش نہیں کی وہ بڑے مطمئن انداز میں کھڑا تھا یہاں تک کہ جب علمیر نے دراز سے ریوالور نکال لیا، تب بھی نائل کے چہرے پر گھبراہٹ کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ اس کو پر سکون حالت میں کھڑا دیکھ کر علمیر نے ریوالور پر گرفت اور مضبوط کر لی۔ اس ریوالور کی گولی کو تمہارے سینے تک پہنچنے کے لئے ٹانگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ علمیر نے ریوالور کا رخ نائل کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ تم نے دیکھ لیا کہ میں اپاہج ہونے کے باوجود کسی طرح تمہیں ختم کر سکتا ہوں۔ میں اسے تمہاری حماقت کہہ سکتا ہوں، جذبات میں آکر بے وقوفی مت کرو۔ زندگی کا سفر خاصا طویل ہے۔ میری آفر قبول کرلو۔ تمہاری باقی زندگی سکون سے بسر ہو جائے گی۔ نائل اس کی طرف بڑھا۔ اس خطرناک کھلونے کو ایک طرف رکھ دو۔ نائل نے ریوالور لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور بڑی مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑ لی۔ مجھے مارنا چاہتے ہو، میں اتنی آسانی سے مرنے والوں میں سے نہیں۔ میں تمہیں اسی جگہ پہنچائوں گا جہاں میں نے تمہاری بہن کو پہنچایا تھا۔ نائل نے اس کے ہاتھ سے ریوالور چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ علمیر کے سوکھے ہاتھوں میں نائل کے اندازے سے زیادہ طاقت تھی، لیکن پھر بھی نائل اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ اس کشمکش کے درمیان وہیل چیئر کے پہیے اپنی جگہ سے پھسلے ، علمیر نے اپنا توازن سنبھالنے کے لئے دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا۔ نائل نے پلٹا کھایا اور ریوالور کی نال علمیر کے سر کی جانب اٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ اس نے انگلی ٹائیگر سے ہٹانے کی کوشش کی۔ نائل نے محسوس کیا، اب تک وہ جتنا علمیر سے ڈرتا رہا تھا وہ تمام دہشت اب اس کے دشمن میں منتقل ہو چکی ہے۔ علمیر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا۔ نائل نے پوری طاقت سے اس کی انگلی دبا دی اور اس وقت تک دباتا رہا جب تک فائر نہیں ہو گیا۔ ایک دھماکا ہوا اور علمیر کا چہرہ خون سے نہا گیا۔ نائل پیچھے ہٹ گیا۔ ریوالور علمیر کی بے جان انگلیوں سے چھوٹ کر فرش پر گر گیا۔ وہ مر چکا تھا۔ نائل کو اس کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ علمیر اپنے ریوالور سے ہلاک ہوا تھا، اس کی موت خود کشی کا تاثر دے رہی تھی۔ نائل نے کچھ سننے کی کوشش کی۔ اس مکان میں اس کے علاوہ کوئی اور تو نہیں، مگر اندر بدستور خاموشی تھی۔ گولی چلنے کی آواز کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا تھا۔ اسی وقت میز پر رکھا موبائل بجنے لگا۔ نائل تیزی سے وہاں سے باہر نکل گیا۔ وہ رات نائل نے پولیس کے خوف سے ڈرتے ہوئے گزاری۔ وہ خود کو تسلی دے رہا تھا کہ بھلا پولیس کو اس پر کیسے شک ہو سکتا ہے۔ پولیس کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک اپانچ آدمی نے اپنی بے سہارا اور محتاج زندگی سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔ اگلے دن نائل آفس سے نکلتے ہوئے پر سکون تھا۔ اس کا خوف ختم ہو گیا تھا۔ وہ شام اس نے سنیما ہال میں فلم دیکھ کر گزاری، فلم ختم ہوتے ہی وہ بال سے باہر نکلا تو اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں پہنچا وہاں پہنچ کر اس نے کھانے کا آرڈر دیا۔ کافی دنوں کے بعد وہ کھانے میں ایک نیا ذائقہ اور نئی لذت محسوس کر رہا تھا۔ کھانا کھا کر اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے وہ گھر پہنچا تو روحان اس کا منتظر تھا۔ کہاں چلے گئے تھے تم روحان نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ بس یار پکچر دیکھنے کا موڈ بن گیا تھا۔ کھانا میں نے باہر کھا لیا ہے۔ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور تم کھانا باہر کھا کر آگئے۔ میں غزالہ اور بچوں کو لینے سسرال جارہا ہوں، رات دیر سے واپس آئوں گا۔ ٹھیک ہے تم بے فکر ہو کر جائو، مجھے سخت نیند آرہی ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں۔ نائل بولا۔ ایک تو تمہیں نیند بہت آتی ہے گھر آتے ہی کمرے میں بند ہو جاتے ہو ، جائو تم آرام کرو، کل سنڈے ہے ۔ آرام سے بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔ جب سے تم آئے ہو تمہارے ساتھ اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ او کے خدا حافظ ۔ نائل نے کہا۔اسے بیزاری سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بڑ بڑایا۔ ہو نہہ ، مجھے بڑی نیند آتی ہے۔ اسے کیا پتا پر سکون نیند لئے مجھے کتنا عرصہ ہو گیا ہے ۔ پھر وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ اوپر اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے سگریٹ سلگایا اور کپڑے تبدیل کئے بغیر بستر پر دراز ہو گیا۔ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے اسے ایک فرحت بخش احساس ہوا۔ اس پر نیند طاری ہونے لگی۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی تھپک تھپک کر سلارہا ہو۔ پلکوں کا بھاری پن بڑھتا جارہا تھا۔ روحان انسپکٹر نواز کے سامنے پریشان کھڑا تھا۔ انسپکٹر صاحب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حادثے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں، نائل میرا دوست تھا۔ میری بھلا اس سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ آگ گھر والوں کی غفلت سے نہیں لگی۔ آپ پر کوئی الزام نہیں آسکتا۔ انسپکٹر نواز ، روحان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ آپ کا تو بڑا نقصان ہوا ہے، گھر کا خاصا حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ انسپکٹر صاحب کیا کہوں دوستی بڑی مہنگی مہنگی پڑ گئی۔ ایسے لوگوں کو کبھی عقل نہیں آئے گی۔ حالانکہ آپ نے انہیں ہزار بار منع کیا ہو گا کہ بستر پر لیٹ کر سگریٹ نہ پئیں لیکن کون سنتا ہے۔ انسپکٹر نے گھوم کر اسٹریچر پر پڑی نائل کی جھلسی ہوئی لاش پر نظر ڈالی جو ایک سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ انسپکٹر نواز کے چہرے پر ہمدردی اور تاسف کا تاثر ابھرا۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ یہ شخص ضرور گھوڑے بیچ کر سونے والوں میں سے تھا، بھلا اتنی گہری نیند کہ بستر الائو بن گیا مگر اس کی آنکھ نہیں کھلی۔ جاسوسی ڈائجسٹ سسپنس ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 209 | https://www.urduzone.net/shak-ka-saanp/ | آج ہی تو وہ آئی تھی، بانکی سجیلی سانولی سلونی لڑکی ، جس نے ابھی نئے نئے خواب اپنی آنکھوں میں بسانے شروع کئے تھے۔ ان خوابوں نے اس کی رنگین تتلیوں جیسی آنکھوں کا حسن اور بھی بڑھا دیا تھا، مگر وہ آتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب کسی نے اُسے تسلی کے دو بول نہ کہے تو اس نے گلے میں دو پٹہ کس کر خود کشی کی کوشش کی۔ وہ پندرہ برس کی نا سمجھ لڑکی تھی، بہت پاکیزہ اور معصوم صورت، مگر آج وہ زندگی کو کس رُخ سے دیکھ رہی تھی۔ ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی، جو اس کے سراپا کو جلا رہی تھی۔ وہ کہاں پناہ تلاش کرتی کسی سائبان تلے جا کر کھڑی ہوتی ماں باپ جو مضبوط سائبان ہوتے ہیں، مر چکے تھے۔ باجی، خدا کی قسم میرا کوئی قصور نہیں۔ میں کوئی بری لڑکی نہیں ہوں۔ میں نے تو کبھی تصور میں بھی کسی غلط بات کے بارے میں نہیں سوچا، مگر خدا جانے کیوں لوگ مجھ سے برائی کی توقع کرتے ہیں۔ شاید وہ اپنی غلط سوچوں کا پر تو مجھ میں دیکھتے ہیں۔ میں نے اس کی بات سن کر سوچا کہ جب یہ معصوم اتنی بری نہیں، تو کیوں اس کو بُرا سمجھا گیا ہے جس نے ابھی زندگی کا شعور بھی اچھی طرح حاصل نہیں کیا، جس نے ابھی زندگی کا اصل چہرہ نہیں دیکھا، اس کے لئے ابھی سے حیات اس قدر تلخ کیسے ہو گئی کہ ہر جانب نفرت کی گھٹائیں اس کی جانب بڑھنے لگیں۔ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ خود اس بے خبر کے علم میں بھی نہیں ہے۔ آج یہ لڑکی میرے پاس حواس باختہ آئی تھی۔ خدا جانے کس موڑ پر اس سے کیا خطا ہو گئی تھی کہ زندگی خود اس کی دشمن بن گئی اور سمندر کی ریت کی طرح اس کے پاؤں غلیظ حالات کی دلدل میں دھنسنے لگے ہیں۔ آج یہ نو خیز عمر کی لڑکی زندگی سے کس قدر مایوس تھی۔ وہ ایسی ہو گئی تھی کہ اگر کبھی کوئی خوشی بھولے سے بھی اس کی راہ میں آجائے گی تو وہ خوشی سے ہراساں ہو جایا کرے گی۔بچپن میں تو اس کو کبھی یہ احساس نہ ہوا تھا کہ اس کی آئندہ زندگی اتنی تلخ ہو جائے گی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کو اس کے اپنے ہی لوگوں نے یہ احساس دلا دیا کہ وہ اب کھل کر سانس بھی نہیں لے سکے گی۔ بالی عمر میں لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں، مگر رافعہ بولی۔ قسم ہے ، ابھی تو میں نے خواب دیکھنے شروع بھی نہیں کئے تھے۔ ایک شام بس میں خوش تھی، ایسے ہی بلاوجہ اور وہ شام میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ جب دو پہر کے وقت گھر کا کام ختم کر کے ہیں سستانے کو بیٹھی تھی۔ ٹھنڈی ہوا نے ماحول کو خوشگوار بنادیا تھا۔ شام ڈھلنے کو ہوئی تو وقت تھم سا گیا۔ سما اور بھی سہانا ہو گیا تو میر ادل خود بخود خوشی سے جھومنے لگا۔ جی چاہنے لگا کہ آنگن کے درخت میں پینگ پڑی ہوتی تو میں جھولے لیتی۔ میں اپنے صحن میں کھڑی نیم کے پیڑ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ابھی تو میں نے صحن صاف کیا ہے اور یہ پتے پھر ٹہنیوں پر سے بکھر گئے ہیں۔ کیوں نہ ان کو ایک بار پھر سے سمیٹ دوں کہ مجھے کوڑا کرکٹ سے اٹا آنگن بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ تبھی میں جھاڑو اٹھانے کے لئے برآمدے میں گئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ ان دنوں ہمارے گھر نیا نیا فون لگا تھا۔ اس خوشی میں کہ بھاگ کر فون اٹھالوں، میں نے ہاتھ میں پکڑی جھاڑو پھینک دی۔ مجھے خبر نہ تھی کہ بھائی چھت سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں فون اٹھانے کو کمرے میں بھاگی شاید اس نے بھی گھنٹی کی آواز سن لی تھی۔ بھا بھی گھر پر نہیں تھیں۔ مجھے خود نہیں پتا کہ مجھے فون اٹھانا کیوں اچھا لگتا تھا۔ شاید اس لئے کہ گھر میں یہ ایک نئی چیز آئی تھی، بس اس روز شوق کے سوا کوئی غلط بات نہ تھی۔ میں نے فون اٹھا کر ہیلو کہا۔ اُدھر سے ایک مرد کی اجنبی آواز سنائی دی۔ اس نے بھی جواب میں ہیلو کہا۔ جی فرمایئے آپ کو کس سے بات کرنی ہے اجی محترمہ تم ہی سے تو بات کرنی ہے۔ اس نے جھٹ سے جواب دیا۔ مجھ سے بات کرنی ہے حالانکہ میں تو آپ کو جانتی بھی نہیں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا نام کیا ہے میں کیوں اپنا نام بتاؤں اس لئے کہ پھر میں بھی تم کو اپنا نام بتادوں گا۔ کیوں بھئی نہیں بتاتی نام اور مجھے تم کو جاننے کا کوئی شوق بھی نہیں ہے۔ اچھا نام نہیں بتائی تو مت بتاؤ، مگر یہ بتادو کہ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو کیوں کیا تم نے میرے پرچوں کے نمبر لگانے ہیں اچھا بھئی، چلو اتناہی بتا دو کہ تم رہتی کہاں ہو کیوں کیا تم میرے ابا کو لینے آ رہے ہو خیر تو ہے شاید تمہارا دماغ کھسک گیا ہے۔ سچ کہتی ہوں میں نے اس کو کچھ بھی نہ بتایا۔ بھلا میں ایک اجنبی کو اپنا نام پتا کیوں بتا دیتی۔ میں فون بند کرنے لگی تو وہ بولا۔ آخری بات، پھر فون نہیں کروں گا۔ بولو آخری بات یہ کہ تمہاری آواز بہت پیاری ہے ، کالی کوئل جیسی۔ اس پر مجھے ہنسی آ گئی اور میں ہنستے ہوئے بولی۔ اور تم کالے کوئے جیسے۔ یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔ مجھے خبر نہ تھی کہ میرا بھائی میرے پیچھے کھڑا ہے۔ اس نے مجھے ہنستے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ رافعہ کس کا فون ہے اور تم کس سے باتیں کر رہی تھیں میں تو گھبرا ہی گئی۔ خوف سے پیلی پڑ گئی۔ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے اور گھبراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ بھائی کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔ اس نے گرج کر کہا۔ سچ سچ بتاؤ کہ کس کا فون تھا اور تم کس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں آخر کون کمبینہ تھا فون پر وہ برس رہا تھا۔ بھیا کہا نہ کہ رانگ نمبر تھا۔ رانگ نمبر تھا تو فوراً بند کیوں نہیں کر دیا اتنی دیر تک باتیںکرنےکی کیا ضرورت تھی کیا ہر سوال کا جواب رانگ نمبر کرنے والے کو دینا ضروری ہوتا ہے جواب دو مجھے اس بات کا بھیا میں کوئی بری باتیں نہیں کر رہی تھی۔ کہا نا کہ رانگ نمبر تھا۔ میں بچارگی سے بول رہی تھی، مگر بھائی کا غصہ بڑھنے لگا۔ تم ایسے نہیں بتاؤ گی۔ پھر وہ مجھے گھسیٹتا ہوا صحن میں لے گیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ جلدی بتا دو وہ کون شخص ہے ور نہ مجھے پوچھنا آتا ہے۔ میں تم کو جان سے مار ڈالوں گا۔ میں بالکل تیار نہ تھی۔ بہت زیادہ گھبرانے لگی تبھی بھائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور لگا مجھے چولہے کے پاس پڑی لکڑی سے پیٹنے۔ میں ہراساں ہو کر چلانے لگی، تبھی وہ پڑوسیوں کے خوف سے باز آ گیا۔ لکڑی پھینک دی اور پھنکارتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ اس دن کے بعد اس نے فون کو تالا لگادیا پھر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ اس نے مجھے شک اور شبہے کی آگ میں جلانا شروع کر دیا۔ ہر وقت اس کی نگاہوں میں میرے لئے نفرت بھری رہتی تھی۔ اب تو میں بڑے بھائی کے خوف سے تھر تھر کانپتی تھی۔ اس کے ڈر سے صحن میں بھی نہ نکلتی تھی۔ کھڑکی کے پاس بھی کھڑی نہیں ہوتی تھی۔ باہر گلی میں نہیں جھانکتی تھی کہ وہ آکر مجھے پیٹنا نہ شروع کر دے۔ اور تو اور ، مجھے فون سے نفرت ہو گئی۔ اس دن کے بعد پھر کبھی فون کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مجھے اب فون کی طرف دیکھنے سے بھی خوف آتا تھا۔ میری زندگی مسلسل ایک خوف کے تحت بسر ہونے لگی۔ ایسی اذیت تھی جو آہستہ آہستہ اثر کرنے والے زہر کی مانند مجھے اندر اندر سے کھارہی تھی۔ میں اس اذیت بھرے ڈر کو ہر گز الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ ابھی میں اس اذیت سے چھٹکار انہیں پاسکی تھی کہ ایک دن غضب ہو گیا۔ بتاتی چلوں کہ میرے ماں باپ مر چکے تھے اور میں بھائی کے پاس رہتی تھی۔ اس دن میں ، گھر میں اکیلی تھی۔ بھابھی میکے گئی ہوئی تھیں کہ اچانک کسی نے بیل دی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سمجھی شاید بھابھی آ گئی ہیں، مگر وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا۔ شاید کسی تنظیم سے وابستہ تھا، وہ چندہ مانگنے آیا تھا۔ میں نے بس اتنا ہی پوچھا تھا کہ تم کون ہو بھائی کہ اوپر سے میرا بھائی آ گیا۔ اس نے نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا، پھر کہا۔ بھاگ یہاں سے ، کوئی چندہ نہیں ہے۔ میں تو فوراً کمرے میں چلی گئی۔ جانے اور کیا کچھ بھائی نے اس سے سوال جواب کئے، مجھے نہیں معلوم، لیکن آکر بھائی صاحب میرے تو گلے ہی پڑ گئے۔ کون تھا وہ سچ بتا دو۔ تم اس سے کیا باتیں کر رہی تھیں۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں کہ ایسی کوئی بات نہیں میں تو اس آدمی کو جانتی نہیں۔ تو پھر جب بیل پر دوڑ کر دروازے پر جاتی کیوں ہو۔ بھائی جان ، جب گھر میں کوئی نہ ہو تو مجھے ہی جانا پڑتا ہے۔ جھوٹ بولتی ہو تم پہلے بھی کتنی بار یہ چندے کے بہانے آتا رہا ہے۔ کیا اس دن تم فون پر اسی سے باتیں کر رہی تھیں میں نے لاکھ یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں اس آدمی کو نہیں جانتی، یہ پہلے کبھی نہیں آیا، مگر ان کا شک دور نہ ہوا۔ وہ یہی چاہ رہے تھے کہ میں ہر صورت بس اقرار کر لوں کہ میں اس نوجوان کو پہلے سے جانتی ہوں۔ خدا جانے میر ابھائی کیا چاہتا تھا ۔ ایک دن وہی نوجوان اُسے پھر سے ہماری گلی میں نظر آ گیا۔ وہ اب ہمارے برابر والے دروازے کی بیل بجا رہا تھا۔ بھائی سمجھا کہ اُن کو آتا دیکھ کر وہ دوسرے گھر کے دروازے کی جانب چلا گیا ہے۔ بس انہوں نے اُسے جا لیا۔ بولے۔ کمینے اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ تیری تو میں جان لے کر چھوڑوں گا۔ جان چکا ہوں کہ تو ادھر کے چکر کیوں لگاتا ہے۔ وہ لاکھ کہتا رہا کہ بھائی صاحب، میں چندہ لینے آتا ہوں۔ آپ کی گلی کے بہت سارے گھرانے ہمارے مدرسے اور یتیم خانے کے لئے چندہ دیتے ہیں، مگر بھائی نہ مانا۔ اس سے اس کا ٹھکانہ اور نام پتاسب لکھوا لیا اور کہا۔ تم میرے پاس فلاں جگہ آجانا۔ وہاں میرا دفتر ہے ، وہاں آکر چندہ لے جانا، لیکن خبردار جو میرے گھر کی بیل بجائی۔ اس کے بعد تو میرے بھائی نے میری زندگی ہی اجیرن کر ڈالی۔ ہر وقت کہتے کہ اب اگر اس چندے والے کو ادھر دیکھا کہ آیا ہے ، تو میں نہ صرف تجھ پر تیزاب پھینک کر تیری صورت بگاڑ دوں گا ، اس کو بھی جان سے مار دوں گا، ورنہ تو باز آجا۔ تو اپنی اچھی شکل پر ہی اتراتی ہے۔ غیر مردوں سے عشق بازی کرتی ہے۔ تجھ کو گھر کی عزت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ بس میں اسی خوف سے تھر تھر کانپتی تھی کہ کسی روز سوتے میں میرا بھائی مجھ پر تیزاب نہ پھینک دے اور میری صورت بگاڑ دے۔ میں تو اب سکھ کی نیند سو بھی نہیں سکتی تھی۔ بھابھی بھی بھائی کو سمجھاتی تھیں کہ خواہ مخواہ کیوں اپنی معصوم بہن پر شک کرتے ہو اب تو وہ اسکول بھی نہیں جاتی۔ سارا دن گھر میں رہتی ہے مگر ان پر اثر نہ ہوتا تھا۔ ایک دن وہ بد نصیب چندہ مانگنے والا بھائی کے پاس دفتر چلا گیا۔ اسے تو چندہ مانگنا ہی تھا کیونکہ تنظیم کی طرف یہ کام اس کے سپر د تھا کہ مقررہ ہدف پورا کرے۔ اُسے دیکھتے ہی بھائی کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ نجانے کتنا بھاری گلدان اس کے سر پر مارا کہ وہ زمین پر گر گیا۔ گلدان پیتل کا تھا۔ وہ بے چارا دھان پان سا مصیبت کا مارا لڑکا، گلدان کی چوٹ سے ہی مر گیا۔ پولیس بھائی کو گرفتار کرنے کو سر گرداں تھی اور یہ چھپے ہوئے تھے۔ بھابھی کے بھائی نے آ کر خبر دی تو بھا بھی اور میں رونے لگے۔ بس اُسی رات میں خوف سے ، منہ اندھیرے گھر سے نکل پڑی۔ مجھے لگتا تھا کہ موقعہ ملتے ہی بھائی گھر آئے گا اور مجھے بھی جان سے مار دے گا۔ جب اس چندے والے پر رعایت نہیں کی ، اس کو جان سے مار دیا تو مجھے کیوں چھوڑیں گے ۔ گھر سے نکل تو گئی ، اب خود مجھے پتا نہیں تھا کہ کہاں جارہی ہوں۔ نہ منزل کا پتا تھا اور نہ رستوں کی خبر گشت پر پھرتے ہوئے ایک پولیس آفیسر نے مجھے پکڑ لیا اور عدالت لے آیا اور اب یہ مجھے دار الامان لے آئے ہیں۔ ان دنوں میں ہی دار الامان کی انچارج تھی، جب رافعہ کو وہاں لایا گیا تھا۔ اس کی باتیں سنیں تو دل خون کے آنسو رو دیا ۔ جن پھولوں کو حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے ہم ان کو کتنی بے دردی سے روند ڈالتے ہیں۔ ایک معصوم لڑکی کی زندگی، اپنے سگے بھائی کی نفرت اور شک و شبہ کی وجہ سے اجیرن ہو گئی تھی۔ وہ اب زندگی سے ہی مایوس نظر آتی تھی۔ گھر جو ایک لڑکی کی سب سے مضبوط پناہ گاہ ہوتا ہے وہ اس کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکی تھی۔ ٹیلی فون سے اس کو خوف آتا تھا۔ بھائی کی محبت پر شک کا سانپ پہرہ دے رہا تھا۔ وہ مایوسی کی باڑ میں کیوں نہ گھرتی۔ اس کی منزل دار الامان نہ تھی۔ جس بھائی کے گھر میں وہ رہتی تھی، اس کے باپ کا گھر تھا۔ اس گھر کی وہ بھی حصے دار تھی۔ کوئی بتائے کیا ایسی لڑکیاں عمر بھر کسی پر اعتماد کر سکتی ہیں یا کبھی خوشگوار زندگی جی سکتی ہیں معاشرے کے ایسے رویوں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ان معصوم لڑکیوں پر یا ان کے سر پرستوں پر ، جو اپنے ذہن کی تنگی سے گھر کے آنگن کو ان کے لئے عقوبت خانہ بنا دیتے ہیں تبھی تو یہ اس قید سے گھبرا کر بھاگ نکلتی ہیں، تو پھر ایسی کوئی لڑکی کسی غلط آدمی کے ہتھے چڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ کیا کبھی یہ سوچا ہے کسی نے | null |
null | null | null | 210 | https://www.urduzone.net/barish-bijli-aur-baqr-eid/ | چار دن رہ گئے ہیں عید میں اور ابھی تک جانور نہیں خریدا ہم نے ۔ گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھے فقیر علی نے کہا۔ وہ لوگ فردوس کے گھر کے نیچے بنی بیٹھک میں بیٹھے تھے۔ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں، بارش کی وجہ سے منڈی جانا تو ممکن نہیں رہا ، یہیں قریب سے ہی خرید لیتے ہیں ہے ۔ ہیں ۔ فردوس بولا ۔ یہاں قریب تو جانور کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ عمران نے کہا۔ آگ لگی ہوئی ہے یا بجھی ہوئی ہے۔ جانور تو خریدنا ہے نا ۔ ایسا کرتے ہیں ابھی چلتے ہیں۔ بارش رکی ہوئی ہے۔ فردوس کے کہنے پر ان دونوں نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ اتنے میں فردوس کا بیٹا ریحان چائے لے کر آ گیا۔ ساتھ پکوڑے بھی تھے۔ اور چٹنی بھی۔ واہ آج تو جنت بھابھی نے بڑا اہتمام کیا ہوا ہے ۔ وہ دونوں پکوڑے دیکھ کر خوش ہو گئے۔ ہاں تمہاری جنت بھابھی بارش میں پکوڑے ضرور بناتی ہے اور مجھے بھی زبردستی کھلاتی ہے۔ فردوس نے منہ بنا کر کہا۔ اسے پکوڑے خاص پسند نہیں تھے۔ بڑا نا شکرا ہے تو ۔ ہم تو ترستے ہیں کہ ہماری بیویاں ہمیں بارش میں پکوڑے بنا کر کھلا دیں اور یہاں تجھے مل رہے ہیں تو تو نخرے کر رہا ہے ۔ فقیر علی نے گرم گرم پکوڑا چٹنی میں ڈبو کر کھاتے ہوئے کہا۔ تجھے کیا پتا ، اس بارش میں یہ پکوڑے کتنی بڑی نعمت ہیں ۔ عمران نے بھی پکوڑوں سے انصاف کرنا شروع کیا۔ فردوس مسکرا دیا اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔ ویسے تمہاری جنت اور فردوس کی جوڑی بہت خوب ہے۔ فردوس ہنس پڑا وہ یہ بات ہزار بار لوگوں کے منہ سے سن چکا تھا، اللہ نے جنت اور فردوس کی جوڑی بہت اچھی بنائی ہے جنت اور فردوس لازم ۔ بلکہ کچھ لوگ تو اسے جنت الفردوس کہہ کر چھیڑتے بھی تھے۔ ویسے تو ہمیں آسمان والے جنت الفردوس میں بھی پکوڑے کھانے کو ملیں گے جو یقینا بڑے شان دار ہوں گے۔ مگر یہ پکوڑے بھی بڑے مزے دار ہیں۔ جنت الفردوس کا ہماری طرف سے شکریہ۔ عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا اس کے انداز پر فقیر علی بھی ہنس پڑا۔ باتیں کم کرو، جلدی سے کھاؤ پھر جانور لینے بھی جانا ہے۔ فردوس کی بات پر وہ دونوں جلدی جلدی ہاتھ اور منہ چلانے لگے۔ امی ابو گائے کب لے کر آئیں گے جبران نے کوئی دسویں بار جنت سے پوچھا تھا وہ جو دروازے اور کھڑکیوں کے پردے بدل رہی تھی، زچ ہوگئی۔ آجائیں گے بیٹا تھوڑی دیر تک اور یہ لو آ گئے آپ کے ابو۔ شکر ہے، آپ آ گئے ان دونوں نے دماغ کھا لیا تھا میرا۔ ابو آ گئے۔ ابو آپ گائے لے آئے۔ جبران باپ سے لپٹ کر بولا۔ یہ کیا طریقہ ہے۔ پہلے ابو کو آرام سے بیٹھنے دو جنت نے سارے کام چھوڑے فردوس کے ہاتھ سے چھتری لے کر ایک طرف رکھی اور جلدی سے پانی کا گلاس بھر کر لے آئی۔ ابو آپ گائے لے کر آئے ہیں۔ ریحان نے پھر پوچھا۔ بیٹا میں نے گائے لے لی ہے مگر ابھی لے کر نہیں آیا۔ بارش کی وجہ سے وہیں واڑے میں چھوڑ آیا ہوں۔ جب بارش رک جائے گی تو ہم اپنی گائے لے آئیں گے یہ لو تب تک آپ لوگ اپنی گائے کی تصویریں دیکھ لو۔ فردوس نے پلاسٹک کے شاپر میں لپٹا اپنا موبائل نکال کر بچوں کو دیا تو وہ موبائل لے کر باہربھاگ گئے۔ خرید لیا آپ نے جانور جنت اس کے قریب بیٹھتے ہو بولی۔ ہاں اس بار بیل خریدا ہے۔ بچوں کو تو آپ گائے کا کہہ رہے تھے۔ انہیں مذکر اور مونث کا کیا پتا وہ مسکرا کر بولا۔ کتنے میں خریدا جنت نے پوچھا۔ ایک لاکھ دس ہزار کا۔ اف جنت کے منہ سے بے ساختہ نکلا اتنا مہنگا۔ ہمارا ایک لاکھ دس ہزار کا ہوا ہے ۔ فقیر اور عمران نے تو ڈیڑھ لاکھ کا خریدا ہے۔ فردوس پہلے فقیر اور عمران کے ساتھ قربانی کرتا تھا، وہ لوگ ایک تگڑا جانور خرید لیتے جس کے ساتھ ہوتے۔ دو سال سے فردوس ان سے الگ ہو گیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے ساتھ دو بندے اور شامل کر لیے تھے۔ جبکہ فردوس اپنے بھائی مزمل کے ساتھ مل کر قربانی کرتا تھا۔ جانور خرید تو لیے ہیں ابھی تو وہیں چھوڑ دیے ہیں مگر پریشانی یہ ہے کہ قربانی کہاں کریں گے۔ روڈوں پر تو اتنا پانی جمع ہے۔ اوپر سے بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ کہیں جگہ نہیں ہے قربانی کرنے کی۔ فردوس فکر مندی سے بولا۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اس بار قربانی بیٹھک میں کر لیں ۔ جنت کی بات سن کر فردوس نے حیرت سے بیوی کو دیکھا۔ بیٹھک میں کیسے کر سکتے ہیں دیکھیں ہمارا فرنیچر تو کمرے میں ہے۔ آپ کمرے کا دروازہ بند کر لینا۔ برآمدہ تو خالی ہے۔ آپ آرام سے قربانی کر سکتے ہیں بعد میں پائپ لگا کر سارا فرش دھو دیا۔ اب مجبوری ہے اور یہ آخری حل ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر بیل کو اوپر کیسے چڑھائیں۔ بیٹھک زمین کے اتنی اوپر تھی کہ پانچ چھ سیڑھیاں چڑھنا پڑتا تھا۔ اب یہ تو آپ کا کام ہے دو تین لڑکوں کو ساتھ لگا لینا ۔ آسانی ہو جائے گی۔ ہاں بات معقول ہے تمہاری۔ یہی کرنا پڑے گا۔ فردوس پر سوچ انداز میں بولا۔ شکر ہے کہ تم میری بیوی ہو، اتنا اچھا مشورہ دیتی ہو دل خوش ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تو نہیں لوگ ہمیں جنت الفردوس کی جوڑی کہتے ہیں۔ جنت ہنستے ہوئے بولی۔ ہاں ایک موٹو اور پتلو کی جوڑی ہے اور ایک ہماری جنت اور فردوس کی جوڑی ہے۔ فردوس بھی ہنس کر بولا ۔ کھانا لاؤں آپ کے لیے جنت اٹھتے ہوئے بولی۔ نہیں ، کھانے کا موڈ نہیں ہے ۔ ایک کپ اچھی کی چائے پلا دو۔ پکوڑے بھی لاؤں ساتھ ۔ جی نہیں، خود ہی کھاؤ پکوڑے۔ وہ منہ بنا کر بولا مگر عمران کی بات یاد آئی تو خود بخود ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ آج نو ذی الحج کا دن تھا۔ صبح سے بارش ہورہی تھی ، جنت اوپر چھت پر آ کر برستی ہوئی بارش میں کپڑے دھونے لگی ۔ اسے بارش میں کپڑے دھونا بہت پسند تھا ، بندہ نہا بھی لیتا اور کپڑے بھی دھل جاتے۔ بجلی تو تھی نہیں جو مشین لگاتی ۔ سو ہاتھ سے ہی سارے کپڑے دھو کر چھت پر ایک طرف بنے اسٹور میں بندھی تاروں پر پھیلا دیے یہ اسٹور اسی مقصد کے لیے تھا۔ یہاں پرانا سامان بھی پڑا تھا اور بارش میں یہاں کپڑے بھی سکھا لیے جاتے تھے۔ نیچے آکر اس نے نہا کر کپڑے تبدیل کیے اور نماز پڑھنے لگی۔ جنت جیسے ہی نماز سے فارغ ہوئی۔ بجلی آگئی۔ اس نے شکر کیا اور جلدی سے استری لگالی۔ عید پر پہنے سارے کپڑے استری کیے۔ کھڑکی سے آواز دے کر د یورانی سے ساس کے کپڑے منگوائے اور وہ بھی استری کر دیے کیونکہ اس کی دیورانی ذرا ست واقع ہوئی تھی۔ کہیں ایسا نہ ہو، عید کے دن پہننے کے لیے ساس کے کپڑے استری نہ ہوں لائٹ کا کیا بھروسا پھر چلی گئی تو اور یہ لو پھر چلی گئی لائٹ، صرف ڈیڑھ گھنٹے کے لیے آئی تھی اور پھر چلی گئی ۔ شمام کو فردوس اور فقیر جانور لے کر آگئے تھے۔ بچوں کا ایک پورا جم غفیر تھا جو گلی میں جمع ہو گیا تھا۔ قدرے بڑے ہوتے ہوئے لڑکے بڑے فخر سے جانور کے قریب جاتے پیٹھ تھپتھپاتے گردن پر ہاتھ پھیرتے۔ جانور کے ساتھ سیلیفیاں بنواتے۔ اور قدرے چھوٹے بچے آنکھوں میں انوکھی خوشی کی چمک ، حیرت اور حسرت لیے ان بڑے لڑکوں کو دیکھتے۔ ڈرتے ڈرتے جانور کے قریب جاتے اور ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے۔ جانور آچکے تھے سب لوگ خوش اور پرجوش تھے اور بارش تھی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اب تو سب کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی۔ یا اللہ بارش رک جائے۔ عید کا دن اپنی مخصوص رونق اور گہما گہمی لیے نمودار ہوا تھا۔ کل سارا دن برسنے والی بارش رات کو رک چکی تھی ۔ آسمان صاف تھا ، بادل چھٹ چکے تھے۔ سورج صاحب بھی تین چاردن کی غیر حاضری کے بعد آسمان پر جلوہ افروز ہو کر دنیا کو رونق بخش چکے تھے نہیں آئی تو صرف بجلی نہیں آئی تھی جس کا ساری رات انتظار کرنے کے بعد لوگ اب مایوس ہو چکے تھے۔ مگر آج تو عید کا دن تھا۔ عید کی تیاری تو کرنی تھی ۔ فردوس نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر بچوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ جنت جلدی جلدی قربانی کا سامان ایک جگ اکٹھا کرنے لگی۔ چھریاں، چاقو ، کلہاڑی ، ٹوکہ، رسیاں فالتو کپڑے اور سب سے ضروری چیز وہ بھاگ کر گئی اور الماری سے چھوٹی سی دعاؤں کی کتاب نکالی جس میں قربانی کرنے کی دعا لکھی ہوئی تھی ، سب سامان ایک جگہ رکھ کر وہ ساس کے لیے ناشتہ بنانے لگی۔ عید کی نماز پڑھا کر امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، ساری امت مسلمہ کے لیے خلوص دل کے ساتھ دعا مانگی آمین کہہ کر دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیے۔ مرد حضرات اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے سے عید ملنے لگے۔ ہر لب پر عید مبارک تھا۔ چوڑے سینے، مضبوط ہاتھ جو ایک دوسرے سے مل رہے تھے، پر نور چہرے کتنا خوب صورت اور مکمل منظر ہوتا ہے۔ ہے کسی مذہب میں اتنا خوب صورت منظر تو دکھاؤ ہمیں سب سے عید مل کر فردوس نے گھر جانے کے لیے قدم بڑھائے مگر امیر علی فقیر علی اور عمران وہیں کھڑے رہے۔ حیرت سے مڑکر فردوس نے ان کو دیکھا کیوں گھر نہیں جانا کیا چلے جائیں گے گھر بھی۔ کیا کرنا ہے گھر جا کر عمران آرام سے بولا۔ کیا مطلب کیا کرنا ہے۔ قربانی کرنی ہے اور کیا کرنا ہے۔ جلدی کرو، دیر ہو جائے گی۔ قربانی کیسے کر سکتے ہیں یار بجلی جو نہیں ہے۔ فقیر علی بولا ۔ بجلی کا قربانی سے کیا تعلق ہے فردوس نے پوچھا۔ یارفریج کل سے بند پڑے ہیں۔ قربانی کر لی تو گوشت کے ساتھ کیا کریں گے۔ سارا گوشت خراب ہو جائے گا۔ او کچھ نہیں ہوتا۔ قربانی کرو۔ اللہ پر بھروسا رکھو آ جائے گی بجلی بھی۔ اللہ پر تو بھروسا ہے مگر کے الیکٹرک والوں پر نہیں ہے نہ آئی بجلی تو کیا کریں گے۔ کرنا کیا ہے۔ بانٹ دیں گے اللہ کے نام پر اللہ کے بندے بہت سارے ہیں۔ دعائیں دیں گئے ہمیں۔ ہاں تو جو اللہ کے نام کا حصہ ہوتا ہے، وہ تو بانٹ دیتے ہیں ۔ اپنا حصہ تو خود کھا ئیں گے نا ، وہ تو نہیں بانٹ سکتے ، اب ویسے بھی قربانی تین دن تک ہوتی ہے۔ ہم کل قربانی کریں گے۔ بے شک قربانی تین دن تک ہوتی ہے مگر جو مزہ ، خوشی اور ثواب پہلے دن ہے۔ وہ دوسرے دن نہیں۔ کہ تو تم ٹھیک رہا ہے مگر یار ساری پریشانی بجلی کی ہے اگر بجلی نہ آئی تو بہت سارا گوشت خراب ہو جائے گا اور تجھے کیا جلدی پڑی ہے کل کریں گے سب مل کر قربانی تو بھی کل کرنا ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مجھے اپنے اللہ پر توکل اور پورا یقین ہے۔ آجائے گی لائٹ ۔ اور اگر نہ بھی آئی تو میں سارا گوشت بانٹ دوں گا قربانی آج ہی کروں گا۔ میں نے اپنی پینتالیس سالہ زندگی میں اپنے باپ کو ہمیشہ پہلے دن قربانی کرتے دیکھا ہے اور ان کے بعد میں نے بھی ہمیشہ پہلے ہی دن قربانی کی ہے۔ ویسے بھی جن عظیم پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت میں ہم قربانی کرتے ہیں، انہوں نے آج کے دن قربانی کی تھی۔ آج کے دن کا جو ثواب ہے وہ دوسرے دن سے بہت زیادہ ہے۔ فردوس کی بات پر وہ لوگ چپ ہو گئے۔ چھوڑیں بھائی ان کو۔ آج ان کی بیویوں کی طرف سے اجازت نہیں ہے قربانی کرنے کی۔ مزمل مسکراتے ہوئے بولا۔ بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ہے اس نے ہمیں گھر سے اجازت نہیں ملی۔ قربانی کرنے کی تو کیسے کر سکتے ہیں۔ عمران منہ بنا کر بولا۔ چلو ، جیسے تمہاری مرضی۔ میں تو چلا قربانی کرنے۔ فردوس نے کہا اور مزمل کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا۔ اماں تین بڑے شاپروں میں ذرا اچھا صاف ستھرا گوشت ڈال دیں۔ فردوس تھکا تھکا سا خون سے بھرے کپڑوں میں زمین پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ کیوں بیٹا کس کو دینا ہے اماں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ عمران اور فقیرعلی لوگوں نے قربانی نہیں کی ہے آج۔ ان کے لیے لے کر جا رہا ہوں۔ پھر خود ہی آگے بڑھ کر تین شاپروں میں گوشت ڈالا اور اٹھا کر گھر سے باہر آ گیا۔ ان کے دروازے کے پاس جا کر اس نے تینوں کو آواز لگائی۔ وہ تینوں جلدی سے باہر آئے جہاں بکھرے بالوں اور خون سے بھرے کپڑوں میں ملبوس فردوس کھڑا تھا۔ ہاتھ میں گوشت کے شاپر تھے۔ یہ لو، گوشت لایا ہوں تمہارے لیے۔ گوشت پکا کر کھاؤ۔ کیا یاد کرو گے تم لوگ بھی۔ یار ہم تو تیرا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھیں گے۔ عمران نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے کہا۔ قسم سے یارا ابھی تیری بھابھی سے کہہ رہا تھا کہ سادے چاول پکا لیتا مگر دال نہ پکانا۔ عید کے دن دال حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔ فقیر علی بھی ممنونیت سے بولا ۔ مان گئے تجھے، دوست ہو تو تیرے جیسا۔ بہت بہت شکریہ آپ کا فردوس بھائی امیر علی نے کہا اور شاپر لے کر گھر کے اندر چلا گیا۔ میری والی بھی ابھی بھنڈیاں دھو رہی تھی او ارسلان ادھر آ عمران نے بیٹے کو آواز دی اور گوشت کا شاپر اسے پکڑایا۔ امی سے کہو، ابو کہہ رہے ہیں اچھی سی کڑاہی بنائیں ۔ اتنے میں ایک شور بلند ہوا۔ بجلی آگئی۔ بجلی آ گئی۔ سارے گھر میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ بچے خوشی سے ناچنے لگے۔ جہاں فقیر علی اور عمران نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا، وہیں فردوس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا اور بے اختیار کہا۔ یا الله تیرا شکر ہے۔ مان گئے یار تیرے کو تو کوئی بزرگ ہے یا پھر ولی اللہ فقیر علی حیرت سے نکلتے ہوئے بولا۔ نہ میں کوئی بزرگ ہوں نہ ولی اللہ ۔ بس اللہ پر توکل اور یقین ہو تو اللہ اپنے بندوں کی ایسے ہی مدد کرتا ہے۔ فردوس کی آواز میں تشکر ہی تشکر تھا۔ اب کیا کرو گے تم لوگ اس نے پوچھا کیا مطلب کیا کریں گے۔ بجلی آگئی ہے تو قربانی کریں گے اور آج ہی کریں گے۔ چلو ٹھیک ہے، اب تم لوگ قصائی بنو ۔ قربانی کرو۔ میں تو چلا جا کر نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر میں بھی بابو صاحب بن جاؤں۔ او تو کدھر چلا ۔ ادھر آہمارے ساتھ ۔ قربانی کر مل کر میں کیوں تمہارے ساتھ قربانی کرواؤں ۔ خود کرو اور یہاں میرے لیے ایک کرسی رکھوا دینا واپس آکر میں یہاں بیٹھ کر تمھیں دیکھوں گا اور تم کام کرنا۔ میں جا کر تیار ہو کر اپنی جنت سے عید ملوں۔ ابھی تک میں اس سے عید بھی نہیں ملا۔ او نہیں نہیں جاتی تیری جنت مل لینا عید اس سے۔ ویسے بھی جنت اور فردوس کا ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تو ادھر آ ۔ ہمارے ساتھ کام کروا۔ اوپکڑواسے ۔ بھاگنے نہ پائے۔ فقیر علی تیزی سے بولا۔ عمران اس کے پیچھے بھاگا۔ فردوس نے ٹاٹا۔ ہائے ہائے کہا اور اپنے گھر کی طرف دوڑ لگادی۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 211 | https://www.urduzone.net/dil-ki-chubhan/ | مناہل اپنے بھائی مجیب سے سات برس بڑی تھی۔ یوں بھی لڑکیاں جوہی کی بیل کی مانند بڑھتی ہیں۔ مجیب ابھی سات برس کا ہی تھا کہ اس کی بہن چودہ برس کی دوشیزہ بن گئی۔ ان کا چچازاد بھائی عامر، مناہل سے چار سال بڑا تھا۔ وہ مجیب سے تو بری طرح پیش آتا اور اس کو نوکروں کا درجہ دیتا، جبکہ مناہل سے بہت کھل مل کر رہتا تھا اور اس پر التفات کی نظر رکھتا تھا۔ مناہل اس کی چاپلوسی کو محبت پر محمول کرتی، بھلا جس گھر میں کوئی ایک فرد بھی اس سے محبت کرنے والا نہ تھا وہاں عامر کی محبت ایک نعمت ہی تو تھی۔ وہ اس توجہ میں پناہ تلاش کرتی تھی۔ مجیب معصوم تھا، کچھ نہ سمجھتا تھا۔ ایک روز جب گھر میں صرف یہی دونوں بہن بھائی تھے، سب گھر والے سیر کو گئے ہوئے تھے، اچانک عامر گھر آگیا۔ مناہل بستر میں لیٹی کتاب پڑھ رہی تھی اور مجیب برابر کے کمرے میں کاغذ کے ٹکڑوں سے کوئی کھلونا بنا رہا تھا ۔ عامر، مناہل کے پاس گیا۔ وہ دیر تک باتیں کرتے رہے جس کو مجیب نہیں سن پایا، نہ ہی ان کی باتوں پر توجہ دی۔ وہ بدستور کاغذوں کو گتے پر چپکانے میں محو رہا۔ اچانک مناہل کی چیخ و پکار اور سسکیاں اس کے کانوں میں پڑیں تو وہ دوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا ۔ وہاں اس نے جو منظر دیکھا وہ اس کے ذہن کو پارہ پارہ کر گیا۔ اس کی بہن ایک درندے کے ظلم کا شکار ہو رہی تھی ۔ جب اس نے مجیب کو جھانکتے ہوئے پایا۔ تو کسی جانور کی طرح اس پر غرایا اور اس کو دھکیل کر کمرے میں بند کر دیا۔ وہ خوف سے فرش پر گر پڑا اور اس کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ ذرا دیر بعد عام گھر سے باہر چلا گیا تو دونوں بہن بھائی گلے لگ کر خوب روئے۔ مناہل نے اس کو سمجھایا کہ یہ بات کسی سے نہ کہنا، ورنہ چچا چی ہم دونوں کو مار مار کر گھر سے نکال دیں گے۔ ہمارے ماں باپ تو مر چکے، ہم کہاں جائیں گے۔ ہم تو یتیم ہیں اور یتیموں کو کوئی اپنے گھر میں نہیں رکھتا۔ چاچی نے ہم کو ترس کھا کر رکھا ہوا ہے۔ بہن کی باتوں سے مجیب کے دماغ میں دھواں بھر گیا پھر یہ دھواں ہر دم اس کو پریشان رکھنے لگا۔ اس کے بعد کئی بار اس نے یہ ظلم دیکھا۔ جب بھی گھر والے کہیں باہر جاتے، عامر امتحان کی تیاری اور پڑھائی کا بہانہ کر کے گھر میں رک جاتا اور اس کی بہن کے ساتھ وہی ظلم دوہراتا۔ بہن کی سسکیاں اس کے کانوں میں برچھیوں کی طرح لگتیں اور دماغ میں دھواں بارود کے گولوں کی طرح پھٹنے لگتا۔ وہ خوف سے تھرتھر کانپتا، کبھی نیم جان ہو کر اپنے کمرے میں بستر پر گر جاتا۔ مناہل اور عامر بظاہر نارمل رہتے تھے بلکہ اب تو اس کی بہن کا التفات بھی اپنے کزن کی طرف زیادہ ہو گیا تھا۔ مجیب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ آخر کیوں اس کی بہن اس گھناؤنے ظلم کے باوجود عامر سے نفرت نہیں کرتی۔ اس کا رویہ، عامر سے محبت بھرا کیوں ہو گیا ہے۔ دراصل، عامر نے مناہل سے شادی کا وعدہ کر کے اس کا دل اپنی مٹھی میں کر لیا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ جانے پھر کیا ہوا کہ اس کی بہن بیمار رہنے لگی۔ گھر والے پریشان تھے۔ عامر کو برا بھلا کہا گیا، پھرچچا نے اس کو دبنی اپنے ایک دوست کے پاس بھیجوا دیا۔ مناہل کا الٹا سیدھا علاج ہونے لگا۔ چچی تو اس پر تھوکتی تھیں۔ تبھی وہ مختلف قسم کی دوائیں کھانے کے باعث سخت بیمار پڑ گئی اور بالآخر اس نے جان دے دی۔ گھر والوں نے اس کو خاموشی سے دفنا دیا۔ اس حادثے کو دس سال گزر گئے۔ اب ساری باتیں مجیب کی سمجھ میں آگئیں کیا کیونکہ وہ اب چھوٹا نہیں رہا تھا۔ پہلے اس کے دماغ میں بھرا دھواں اسے پریشان کرتا تھا، مگر اب دل میں بھی آگ لگی رہتی تھی، جو اس کے تن من کے ساتھ روح کو بھی جلاتی تھی۔ وہ اب صرف دو باتیں سوچتا تھا۔ خوب پڑھوں لکھوں پھر کسی طرح دوبئی جاؤں، جہاں عامر گیا اور وہاں کا ہو رہا تھا۔ انتقام کا سانپ اس کے اندر پلتا رہا۔ اس کے چچا کی بیٹی شہنیلا، جو اس کی ہم عمر تھی، اب سترہ برس کی تھی، مجیب نے اس سے پیار کا رشتہ قائم کر لیا۔ وہ بھی اس کی دیوانی تھی۔ جب کوئی شدید جذبہ انسان کو ہر لمحہ بے چین رکھتا ہو، تو وہ زور زبردستی اپنا مقصد پالیتا ہے۔ مجیب نے بھی اتنی محنت سے پڑھائی کی کہ صوبے بھر میں اول نمبر پر رہا، یوں اسے بیرون ملک کا اسکالر شپ ملا اور وہ امریکہ پڑھنے چلا گیا۔ اس کے چچا چچی بھی خوش تھے کہ چلو اپنے گھر کا لڑکا اتنا لائق فائق نکلا ہے، ہمیں اپنی بیٹی کے لئے باہر رشتہ تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ سب خوش تھے مگر شہنیلا اس کی جدائی کا سوچ کر اداس تھی۔ ماں بھی اس کے اداس رہنے سے سمجھ گئی کہ اسے مجیب کی جدائی شاق گزر رہی ہے۔ پھر وہ دن بھی آگیا جب مجیب کو امریکہ روانہ ہونا تھا۔ روانگی سے ایک شب قبل اس نے شہنیلا سے کہا کہ رات جب سب سو جائیں تو تھوڑی دیر کے لئے میرے کمرے میں آجانا۔ ہم کچھ دیر باتیں کریں گے، پھر نجانے کب ہماری ملاقات ہو۔ محبت کی ماری نے اس کی یہ فرمائش گرہ میں باندھ لی اور رات بارہ بجے کے بعد اس کے کمرے میں چلی گئی۔ انہوں نے کچھ دیر باتیں کیں، وہ رو رہی تھی اور مجیب اس کے آنسو پونچھ رہا تھا، اسے سمجھا رہا تھا کہ میں واپس آکر تم کو دلہن بنالوں گا۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے مجیب کو ایئر پورٹ پہنچنا تھا، لہذا شہنیلا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مجیب چلا گیا۔ شہنیلا نہ صرف اسے فون کرتی بلکہ خطوط بھی لکھتی تھی۔ وہ اس کے سارے خطوط جمع رکھتا جاتا تھا۔ جب اس کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اس نے امریکہ میں ہی اپنی ایک کلاس فیلو سے شادی کر لی اور شہنیلا اس کے انتظار میں گھڑیاں گنتی رہ گئی۔ چار سال بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ وطن آیا۔ اس کے ساتھ ایک گوری کو دیکھ کر شہنیلا کو ایسا صدمہ ہوا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔ یہ اچانک سرپرائز تھا جو اس نے دیا تھا۔ چچا چچی بھی انگشت بداں تھے لیکن کیا کر سکتے تھے۔ مجیب خود مختار تھا، وہ اسے ڈانٹ پھٹکار بھی نہ سکے۔ اس کے بعد شہنیلا کی ذہنی حالت نہ سنبھلی۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اس کی شادی کر دیں۔ نئی زندگی کی خوشی ملے گی تو شاید بہتری ہو جائے۔ ماں باپ نے اس کی شادی کا اہتمام کیا۔ ایک جگہ رشتہ طے ہوا، مگر وہ نہ مانی۔ جب کوئی اس کے سامنے شادی کا نام لیتا اسے پھر سے دورہ پڑ جاتا، پھر دوبئی سے عامر آگیا۔ اس نے جب ، بہن کی یہ حالت دیکھی تو وہ بہت دکھی ہوا، مگر شہنیلا کے غم کا علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ ماں نے اسے بتایا کہ تمہاری بہن، مجیب سے محبت کرنے لگی تھی اور اس سے شادی کے انتظار میں دن گزار رہی تھی۔ اس نے شہنیلا کو دھوکا دیا۔ اس سے شادی کا وعدہ کر کے گیا۔ ہم سے بھی طے کیا تھا کہ واپس آکر آپ کی امنگوں پر پورا اتروں گا مگر جب واپس آیا تو امریکن بیوی کا تحفہ ساتھ لے کر آیا۔ شہنیلا اس صدمہ کو سہ نہ سکی اور شدید ڈپریشن میں چلی گئی۔ مجیب نے بڑی زیادتی یہ کی کہ امریکہ سے شہنیلا کو فون کرتا تھا اور محبت بھرے خطوط بھی لکھتا تھا۔ اس طرح اس نے شہنیلا کی اس بندھائے رکھی اور اسے دھوکا دیتا رہا۔ یہ سن کر عامر آپے سے باہر ہو گیا۔ وہ مجیب پر پھنکارا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اگر میری بہن سے شادی نہ کرنی تھی تو کیوں اس سے جھوٹے وعدے کئے اور جھوٹی آس امید میں رکھا ۔ اس پر مجیب نے شہنیلا کی طرف سے لکھے گئے محبت بھرے خطوط اس کو دے کر کہا کہ ان کو پڑھ لو۔ محبت میں نہیں کر رہا تھا، تمہاری بہن کر رہی تھی۔ میں تو صرف اس کا دل رکھنے کو جواب دے دیا کرتا تھا۔ اتنی دور سے اور کیا کر سکتا تھا تم مگر اپنا وہ سلوک یاد کرو، جو تم نے میری معصوم بہن کے ساتھ کیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ اس وقت بے شک میں بچہ تھا، ناتواں تھا، تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا مگر قدرت طاقت ور ہے۔ جب کوئی کمزورا اپنا بدلہ خود نہیں لیتا تو قدرت خود ظالم سے بدلہ لے لیتی ہے۔ وہ بولا ۔ اگر میں مجرم تھا تو اے ظالم بدلہ تم نے مجھ سے لینا تھا۔ بھلا میری معصوم بہن نے تیرا کیا بگاڑا تھا یہی سوال تو میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اے ظالم میری معصوم بہن نے تیرا کیا بگاڑا تھا، جو تم نے اس کو برباد کر دیا۔ ہم لوگ تمہارے رحم و کرم پر تھے اور یتیم تھے۔ تو کیا یتیموں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جو تم نے اور تمہارے ماں باپ نے کیا۔ انہوں نے بھی مناہل پر رحم نہ کھایا اور اس کو موت کے ہاتھوں میں بخش دیا۔ عامر نے مجیب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں مگر یہ محض دھمکیاں تھیں ۔ وہ اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور مجیب اپنی بیوی کے ہمراہ واپس امریکہ چلا گیا۔ اس واقعے کو بہت دن گزر گئے ۔ رفتہ رفتہ علاج معالجہ سے شہنیلا بہتر ہونے لگی۔ سب گھر والوں نے سیر و تفریح سے اسے خوش رکھ کر کسی طرح اس کو سنبھال لیا اور بالآخر شادی پر بھی آمادہ کر لیا ۔ یوں اس کی شادی اپنے والد کے دوست کے بیٹے حبیب سے ہوگئی جو اس کو بیاہ کر امریکہ لے گیا ۔ وہ اب مجیب کو یاد بھی نہ کرنا چاہتی تھی، مگر ہمہ وقت ایک کسک اس کے دل میں رہتی تھی ۔ اب وہ دو بچوں کی ماں بن گئی تھی۔ اتفاق سے ایک دن جب وہ اپنے بچوں کے کپڑے خریدنے ایک مال میں داخل ہوئی تو اس کی ملاقات مجیب سے ہو گئی۔ مجیب اس سے آنکھیں بچا کر نکلنے لگا لیکن شہنیلا نے اس کا دامن پکڑ لیا۔ بولی۔ ذرا ٹھہرو۔ دل میں ایک کسک رہتی ہے جو ہر وقت مجھے تکلیف دیتی رہتی ہے۔ میری بات سن لو، شاید میرے دل کی کسک مٹ جائے ۔ مجیب کو ٹھہرنا پڑا اور دونوں کیفے میں جابیٹھے۔ شہنیلا نے کہا۔ گھاؤ کتنے بھی گہرے ہوں ، آخر کار وقت کا مرہم ان کو بھر دیتا ہے لیکن کسک باقی رہتی ہے۔ مجھے تم سے ایک سوال کا جواب لینا ہے۔ تم نے آخر میرے ساتھ ایسا کیوں کیا کہ میں مرتے مرتے بچی۔ وہ بولا ۔ تم صدمے سے مرتے مرتے پھر بھی بچ گئیں لیکن میری بہن تو مر ہی گئی۔ جانتی ہو اس کا قاتل کون ہے تمہارا بھائی عامر اور تمہارے ماں باپ ، جنہوں نے اس کی شادی بیٹے سے کر دینے کی بجائے اسے باہر بھگا دیا اور مناہل کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ بے شک اس وقت میں بچہ تھا مگر اس ظلم کا عینی گواہ بھی میں تھا۔ میں اس ظلم کو آج تک نہیں بھلا سکا۔ میری بے وفائی تمہارے بھائی کی سنگدلی اور تمہارے والدین کے ظلم سے زیادہ نہیں ہے۔ تو تم نے اس بات کا مجھ سے بدلہ لیا ہے نہیں۔ میں نے جو بدلہ لینا تھا، وہ اس حد تک تھا کہ میں بجائے منفی ہو جانے کے اپنی توانائیاں علم کے حصول میں صرف کر دوں اور اعلیٰ مقام پالوں، وہ مقصد میں نے پالیا۔ جب پڑھ لکھ لیا تو بدلے کی آگ سرد ہوگئی مگر میرا دل نہ چاہتا تھا کہ ان ظالم لوگوں کی بیٹی سے شادی کروں ، جنہوں نے میری بہن کو سترہ برس کی عمر میں موت کے حوالے کر دیا۔ مگر میں تو کسی کی مجرم نہ تھی، پھر سزا مجھے کیوں دی مجھے اس سوال کا جواب چاہئے۔ یقین مانو ، میں نے انتقام نہیں لیا۔ بس میرے حالات ایسے ہی بنتے گئے۔ ے اب زیادہ کیا کہوں، اگر تم دکھی ہو تو میں بھی دکھی ہوں، چین تو مجھے بھی نہیں ملا ہے اور شاید عمر بھر ملے گا بھی نہیں ۔ یہ کسک یونہی ہمارے دل میں رہے گی۔ | null |
null | null | null | 212 | https://www.urduzone.net/shadi-raas-aagai/ | میرے شوہر سجاول بچپن میں ہی والدین کے سایے سے محروم ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ دادی کی گود میں پناہ لی، مگر تھوڑے دنوں بعد وہ چل بسیں اور یہ دونوں پھپھیوں کے رحم و کرم پر آگئے۔ کٹھن وقت بیتتا رہا۔ سجاول میری خالہ کے بیٹے تھے، میٹرک پاس کر کے نوکری پر لگ گئے۔ سسر صاحب ذاتی مکان ورثے میں چھوڑ گئے تھے۔ پھوپھی اب بوڑھی ہو چکی تھیں، انہوں نے سجاول کی شادی کرادی تا کہ گھر بس جائے ۔ میں ان کی بچپن کی منگیتر تھی، میرے والدین ان کی مجبوریاں جانتے تھے، لہذا سادگی سے شادی ہو گئی۔ مجھے سجاول کے دکھوں اور محرومیوں کا احساس تھا، اس لئے میں نے ان کے گھر کو سنبھالا اور پیار بھرا ماحول رکھا، یوں سجاول تو شادی کے بعد پر سکون ہو گئے لیکن ان کا چھوٹا بھائی عادل اب تک والدین کی محرومی کے احساس سے نہیں نکل پایا تھا۔ گاؤں میں ہمارے کئی رشتہ دار رہتے تھے، جب موقع ملتا ، وہ ان کے گھروں میں جا گھستا۔ میں اسے سمجھاتی بھی کہ تم اب بڑے ہو گئے ہو، یہ مناسب بات نہیں کہ لوگوں کے گھر میں جا بیٹھو۔ وہ میری بات ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔ وہ دراصل محبت کا بھوکا تھا۔ برداری کے ایک رشتہ دارلڑ کے فاضل سے اس کی دوستی ہوگئی تھی ۔ یہ اکثر ان کے گھر جاتا۔ ایک دن نہ جانے کس بات پر فاضل والوں کی ہم سے ان بن ہوگئی ۔ فاضل کی شادی پر تبھی انہوں نے ہمیں نہ بلایا لیکن عادل چوری چھپے اس کی شادی میں شرکت کرنے چلا گیا۔ فاضل اکثر اپنی دلہن کو بتایا کرتا تھا کہ اس کا ایک پیارا دوست عادل ہے مگر خاندان میں ناراضی کے سبب نہیں آتا۔ وہ میرے دیور کو بہت یاد کرتا تھا، تب ہی اس کی بیوی کے دل میں بھی عادل کو دیکھنے کی آرزو پیدا ہوگئی ۔ آخر ایک دن عادل اور فاضل میں صلح ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں عادل ایک دن کپڑے استری کروانے کے بہانے ان کے گھر چلا گیا۔ اس روز ہمارے گھر بجلی نہیں تھی اور عادل کو شام میں ایک دوست کی سالگرہ میں جانا تھا۔ اس نے فاضل کی امی سے کہا۔ خالہ مجھے کپڑے استری کرنے ہیں، تب ہی آیا ہوں۔ خالہ نے اسے پیار سے بٹھایا اور استری لگا کر دی۔ جب وہ کپڑوں پر استری پھیرنے لگا، تب ہی فاضل کی دلہن آگئی۔ ساس سے پوچھنے لگی اچھا یہی وہ عادل صاحب ہیں جن کا ذکر اکثر آپ کا بیٹا مجھ سے کرتا رہتا ہے، پھر وہ عادل سے مخاطب ہوئی ۔ لاؤ میں کپڑے استری کردوں ۔ آپ تکلیف نہ کریں بھا بھی میں خود ہی کیے لیتا ہوں ۔ گھر میں بھی اپنے کپڑے میں خود استری کرتا ہوں ۔ دلہن نہ مانی۔ اس نے عادل کے ہاتھ سے استری لی اور کپڑے پریس کرنے لگی۔ اس کا دھیان نہ جانے کدھر تھا۔ استری قمیض پر دھری رہ گئی اور دھواں اٹھنے لگا۔ یہ دیکھ کر عادل کو بہت غصہ آیا مگرنئی دلہن تھی، لحاظ کر گیا۔ اسے مزید غصہ تب آیا، جب وہ افسوس کے بجائے ہنسی ٹھٹھول کرنے لگی۔ عادل سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی عورت ہے، ذرا بھی اس کی آنکھ میں لحاظ نہیں۔ وہ اپنی جلی ہوئی قمیض اٹھا کر گھر آگیا۔ اس روز موڈ اتنا خراب ہوا کہ تقریب میں بھی نہ گیا، بلکہ اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔ هفته بمشکل گزرا تھا کہ یہ دلہن کے صاحبہ جس کا نام بلقیس تھا، ہمارے گھر آگئیں۔ عادل کرسی پر بیٹھا کوئی اخبار دیکھ رہا تھا۔ نہ سلام، نہ دعا آتے ہی فٹ سے بولی۔ عادل تم دوبارہ کیوں نہیں آئے دوست سے ملنے تو آ جاتے۔ فاضل کتنا تم کو یاد کرتے ہیں۔ کیا قمیض کے جل جانے سے ناراض ہو گئے ہو۔ نہیں بھابھی ، ایسی بات تو نہیں ہے۔ میں مصروف رہتا ہوں۔ بھائی کے ساتھ کھیتوں میں کام دیکھنا پڑتا ہے، وہ کہنے لگی۔ بھابھی کیوں کہتے ہو، میرا نام تو دلربا ہے۔ عجیب نام ہے۔ کیا تمہارے ماں باپ نے یہ نام رکھا ہے نہیں، انہوں نے تو بلقیس رکھا مگر مجھے یہ پرانی ٹائپ کا نام پسند نہیں۔ میں نے خود اپنا نام دلربا رکھ لیا ہے۔ خیر، ہرکسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے، مگر میں تو آپ کو بھابھی ہی کہوں گا۔ عادل نے نگاہیں نیچی کر کے کہا۔ وہ اس خاتون کی جرات پر حیران تھا۔ وہ جناتی یھی کہ آج وہ گھر میں اکیلا ہے۔ اس نے فون کرکے معلوم کر لیا تھا کہ گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ عورت کسی طرح جلدی سے چلی جائے مگر وہ اٹھ کر اس کے بالکل قریب بیٹھ گی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ بے چارہ عادل پیسنے پینے ہو گیا۔ ظاہر ہے، اس نئی نویلی دلہن کی یہ بے تکلفی اسے ایک آنکھ نہ بھائی تھی مگر خاموش رہا کہ پہلی بار ہمارے گھر آئی تھی۔ یا اللہ کسی بے باک عورت ہے، اس نے سوچا۔ وہ گھبرا گیا اور اس کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتے ہوئے اس نے اٹھ کر دروازے کی چٹخنی لگا دی، بولی ۔ عادل تم کو دیکھا تو سب کچھ بھول گئی تم جیسا بانکا نوجوان کبھی نہیں دیکھا۔ دراصل تم کو میرا جیون ساتھی ہونا چاہیے تھا۔ تمہارے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ عادل کے کان سنسنا رہے تھے۔ اس کی عقل میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ اس کو کیا ہو گیا ہے عادل مرد ہو کر شرم سے سرخ ہوا جاتا تھا اور وہ عورت ہو کر اس قدر اس کے قریب بیٹھی تھی کہ اس کی سانسیں اس کے رخساروں کو چھورہی تھیں ۔ عادل لاکھ شریف سہی لیکن فرشتہ نہیں تھا۔ تنہائی میں کوئی نئی نویلی دلہن بنی سنوری خوب صورت اگر کسی غیر شادی شده نوجوان کے گلے میں بانہیں ڈال دے، وہ کیا کرے گا۔ وہ تو ہر بات سے بے پروا بے باکی سے ہنسے جاتی تھی۔ عادل کی نگاہوں میں اپنے دوست کا چہرہ پھرنے لگا۔ اس نے بلقیس کو دھکا دیا اور دروازے کھول آنا فانا باہر نکل گیا۔ اس کے بعد وہ فاضل کے گھر نہیں گیا۔ نہ اس نے کسی سے اس واقعے کا ذکر کرنا مناسب سمجھا مگر ادھر بلقیس کو چین نہ تھا۔ وہ بے قراری سے عادل کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ بات کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ ایک روز وہ کسی سہیلی کا بہانہ کر کے ہمارے گھر آگئی اور آتے ہی عادل کے کمرے میں چلی گئی ، بولی۔ تم ہمارے گھر کیوں نہیں آتے کیا واقعی تم اس گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہو عادل نے سوال کیا۔ ہاں بلقیس نے جواب دیا۔ پھر تو تم اچھی اپنی گھر کی رکھوالی کر رہی ہو۔ اس پر وہ کہنے لگی۔ عادل فاضل کا گھر اپنی جگہ ہے لیکن میرے جسم میں بھی تو ایک گھر ہے اور اس میں روحوں کا بسیرا ہوتا ہے یہ گھر اگر جیتےجی خالی رہے تو کیا اچھا نہیں ہے کہ آدمی سسکنے کی بجاے مر جائے ۔ آخر فاضل میں کیا کمی ہے کہ اس کے ہوتے تمہارے جسم کے اندر کا گھر خالی ہے کوئی کمی ہے تو عادل اس کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر بیھٹی اور چلی گئی۔ وہ عادل کو اکثر بلا بھیجتی مگر وہ اس کے گھر نہیں جاتا تھا لیکن وہ باز نہ آئی اور مجھ سے ملنے کے بہانے آنے گی۔ پتھر پر بھی مسلسل پانی کی بوند گرتی رہے تو وہاں گڑھا پڑ جاتا ہے۔ عادل تو پھر انسان تھا۔ بالآخر اس نے بے رخی چھوڑ دی اور جب آتی وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگتا۔ مجھے کہتا۔ بھابھی یہ میری مہمان ہے، اس کے لیے چائے بنا دیئے۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ محض عادل کا دیدار کرنے آتی ہے۔ وہ تھوڑی دیر باتیں کرتی اور چلی جاتی۔ عادل نے اس کو یہاں تک محدود کردیا تھا تا کہ وہ کہیں ادھر ادھر بھٹک کر بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائے ۔ اس طرح اسے بلقیس کو گاہے بہ گاہے سمجھانے کا موقع بھی مل جاتا تھا اور وہ شانت ہو جاتی تھی۔ دراصل عادل چاہتا تھا کہ وہ نفس کی آرزو کو پش پشت ڈال کر اس کے ساتھ روح کا رشتہ قائم کرلے تو بھی بلقیس کو سکون ملے گا اور ایسا ہوتا نظر آتا تھا۔ گویا یہ ایک قسم کا نفسیاتی علاج تھا۔ عادل اپنی دانست میں اس کا نفسیاتی علاج کر رہا تھا لیکن خود بہت بے چین رہنے لگا تھا۔ بارہا یہ سوچ اسے پریشان رکھتی تھی کہ فاضل میں آخر کیا کمی ہے ، جو یہ عورت اسے چھوڑ کر اس کی جانب کھنچی چلی آتی ہے، تاہم بلقیس سے وہ اس قسم کا سوال کر کے بات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا تھا۔ جو بھی راز تھا، اس پر پردہ بنا ہی بھلا تھا۔ یہ آڑ باقی تھی تو ان کی ملاقاتیں پاکیزہ تھیں۔ ڈر تھا کہ راز سے پردہ ہٹ گیا تو کہیں ان کے تعلق کی پاکیزگی کوٹھیس نہ پہنچ جائے ۔ چھ ماہ اسی طرح گزر گئے۔ عادل نے سوچا کہ ان پاکیزہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی کب تک اور میں یعنی اس کی بھابھی بھی کب تک خاموش رہ پاؤں گی۔ چونکہ میرا ضمیر مرا نہ تھا، سوچتی تھی اگر فاضل کو پتا چلا کہ اس کی بیوی اس کے دوست کے ساتھ گپ شپ کر کے وقت سنہرا کرتی ہے، تو عادل کیا اس کو منہ دکھائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بات کھل جائے اور یہ گناہ کیے بغیر اپنے دوست کا مجرم بن جائے۔ اس سے بہتر تھا کہ عادل کسی اور جگہ چلا جاتا۔ شہر سے کچھ دور، ہماری تھوڑی سی زمین تھی جس کی دیکھ بھال عادل کرتا تھا، کیونکہ میرے میاں ملازمت کرتے تھے۔ وہاں کھیتوں میں ہمارا دو کمروں کا ایک پرانا سا مکان تھا جو اپنی زندگی میں سسر صاحب نے بنوایا تھا۔ جب سجاول اور عادل فصل کی دیکھ بھال کے لئے جاتے تو اس گھر میں قیام کرتے تھے۔ ایک دن میں نے عادل کو مشورہ دیا کہ بھیا بلقیس ٹھیک اطوار کی عورت نہیں ہے۔ یہ کسی دن تم کو تمہارے دوست کے روبرو شرمندہ کر دے گی۔ بہتر ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے زمینوں پر چلے جاؤ۔ جب عادل نے سوچا کہ میں وہاں رہوں گا تو گناہ کی دلدل سے بچ جاؤں گا۔ وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں گیا اور پھر وہیں رہنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ اس طرح چلے آنے پر بھائی پریشان ہوں گے اور وہی ہوا۔ دو دن بعد سجاول زمینوں پر چلے گئے۔ ان کو یقین تھا کہ عادل وہیں ہوگا۔ عادل نے انہیں بتایا کہ یہاں پانی کے مسئلے پر کچھ ان بن ہونے لگی ہے۔ ہمسایے ہمارے نوکر کی سنتے نہیں، میں نے سوچا کہ کوئی جھگڑا نہ چھڑ جائے، تو یہاں کچھ روز ٹک کر رہنے کا پروگرام بنا لیا۔ آپ کو اس لیے نہیں بتایا آپ میرے یہاں مستقل رہنے سے پریشان ہوتے اور منع کرتے۔ سجاول نے کہا۔ ٹھیک ہے، مگر دھیان سے رہنا۔ جھگڑے کا ماحول محسوس کرو تو فوراً مجھے اطلاع کر دینا۔ اس وقت تو بات بن گئی اور سجاول کی پریشانی کم ہوگئی لیکن بلقیس کی پریشانی دیدنی تھی۔ وہ ہمارے گھر کے چکر پر چکر لگانے لگی۔ آخر ایک دن اس نے مجھ سے عادل بارے سوال کر ہی دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کی میرے شوہر سے ناراضی ہوگئی ہے، اس لیے وہ زمینوں پر رہنے چلا گیا ہے، لیکن یہ وقتی بات ہے فصل کی بوائی کے بعد وہ آجائے گا۔ بلقیس نے اسے واپس لانے کی ترکیب نکالی اور اپنے شوہر سے کہا۔ فاضل تمہا را دوست عادل اپنے بڑے بھائی کو ناراض کر کے گھر چھوڑ کر کھیتوں میں جا کر رہ رہا ہے۔ اس کی بھابھی نے مجھے گھر بلا کر کہا ہے کہ میں تم سے اس کی طرف سے درخواست کروں کہ اسے منا کر گھر لاؤ۔ وہاں اکیلا وہ بیمار پڑ جائے گا۔ اس کا پانی پر ہمسایوں سے تنازعہ بھی چل رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے اکیلا پا کر نقصان پہنچائیں۔ اس کی بھابھی نے قسم دہی ہے کہ تم جا کر اسے گھر لے آؤ۔ یہ ساری باتیں مجھ پر رکھ کر اس چالاک عورت نے خود سے کہی تھیں۔ ادھر عادل بھی گھر سے دور تنہائی میں خوش نہ تھا۔ خاص طور پر اس کو میری بیٹی اور بیٹے کی بہت یاد آئی تھی۔ جن سے وہ بہت محبت کرتا تھا۔ ان سب کی دوری وہ زیادہ دنوں برداشت نہ کر سکا اور جب فاضل اسے منانے گیا تو اس کی منت سماجت پر وہ گھر لوٹ آیا۔ اب وہ اپنے دوست کو کیونکر بتاتا کہ تیری ہیوی کی وجہ سے ہی یہ بن باس لیا تھا۔ فاضل اصرار کر کے اس کو اپنے گھر لے گیا اور بولا۔ یار کھیتوں میں رہ کر اچھا کھانا نہیں کھا پائے ، دیکھو تو کتنے کمزور ہو گئے ہو۔ آج تمہاری بھابھی نے تمہاری دعوت کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے۔ اب کچھ دن ہمارے گھر کھانا کھاؤ ۔ بلقیس کا اصرار ہے کہ وہ تمہاری پسند سے روز اچھے اچھے کھانے بنائے گی ۔ عادل شرمندہ ہو گیا، گرچہ وہ چور، لٹیرا نہ تھا، پھر بھی چور بنا بیٹھا تھا۔ اس وقت اس کی حالت عجیب تھی ، اوپر سے بلقیس کی باتیں چارچاند لگا رہی تھیں ۔ وہ کہہ رہی تھی ۔ فاضل اس بے چارے کو دیکھو ۔ اکیلا ہے، بھائی بھابھی کے گھر رہتا ہے۔ اس کا اپنا تو گھر ، نہ بار اور تمہارے سوا کوئی دوست، نہ مخلص رشتے دار، اوپر سے بھائی خفا رہتا ہے کہ ساجھے کی زمین ہے۔ یہ تو بس کھیتی باڑی کے آسرے پر پڑا ہے، جہاں سو طرح کی دشمنیاں ہیں۔ اپنے دوست کی کچھ مدد کرو۔ اس کی زندگی بدلنے کی کوشش کرو۔ کوئی ملازمت ہے اور نہ کاروبار کی آس ہے، کب تک ویرانے کی مٹی میں عمر گھلاتا رہے گا، کب اپنا گھر بسائے گا ایسا کرو تم دونوں مل کر کوئی کاروبار کر لو۔ تمہاری تنخواہ بھی تھوڑی ہے۔ اللہ کاروبار میں ترقی دے گا۔ عادل اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو بڑے بھائی کا محتاج نہ رہے گا، لیکن سرمایہ کہاں سے آئے گا جبکہ کاروبار کے لیے تو سر ما یہ چاہیے۔ تم میرا زیور لے لو۔ لیکن سجاول بھائی نہیں مانیں گے۔ وہ ملازمت کرتے ہیں، زمین کی پیداوار کو تو عادل ہی دیکھتا ہے۔ ان کی کھیتی بنجر ہو جائے گی، بھابھی گھر سے نکال دے گی اس بے چارے کو۔ لوگ مزارے رکھ لیتے ہیں، خود ہل بیل تھوڑا ہی ہانکتے ہیں۔ اگر اس کے بھابھی بھائی ان بن کریں تو ہم کچھ دن عادل کو یہاں رکھ لیں گے۔ یہاں کھانا کھا لیا کرے گا اور زمین پر بھی وقت نکال کر چکر لگایا جاسکتا ہے۔ مگر کھیتی تو وقت دینے سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔ اچھا بس اب رہنے دو۔ تم عادل کو بزنس کی طرف مائل کرو تا کہ اس کا بھی گھر بسے اور زندگی سنور جائے ۔ بیوی کے کہنے پر فاضل کو بھی اس پر ترس آگیا۔ آخر وہ بچپن کے دوست تھے اور رشتہ دار بھی۔ فاضل ، عادل کو مجبور کرنے لگا، تب ہی اس نے لڑجھگڑ کر اپنی فصل کا آدھا حصہ فروخت کیا اور بینک میں جمع پونچھی نکلوا کر فاضل کے ہاتھ پر رکھ دی۔ فاضل نے بیوی کا زیور دیا اور دونوں نے مل کر ایک جنرل اسٹور کھول لیا۔ عادل زیادہ تر دکان پر بیٹھتا تھا ۔ وہ بہت کم ان کے گھر آتا ۔ بلقیس بے چین رہتی کہ اتنے قریب دکان ہونے کے باوجود عادل اس کے گھر بہت کم آتا ہے۔ وہ بھی تب، جب اس کا شوہر گھر میں موجود ہوتا ۔ عادل کو اب اور زیادہ اپنے دوست کی عزت کا پاس رہنے لگا تھا مگر اس عورت ذات کو نہیں جو اس کی شریک حیات تھی ۔ ایک بار بلقیس اور فاضل کی بہت سخت لڑائی ہوگئی۔ اس نے بیوی کو مارا، پھر دکان پر آیا اور کہا کہ میری بیوی سے لڑائی ہوگئی ہے۔ میں آج دکان پر ہی سوؤں گا۔ وہ اکیلی ہے ، اس لیے تم میرے گھر جا کر سو جاؤ۔ عادل نے بہت منع کیا، بہانے بنائے، مگر فاضل نے ایک نہ سنی اور دکان پر ہی سو گیا ۔ ناچار عادل کو اس کے گھر جانا پڑا۔ سوچا، کم از کم یہ تو معلوم کروں کہ لڑائی کیوں ہوئی ہے اس کے بعد بھتیجے اور بھتیجی کو ساتھ لا کر اس کے پاس سلا دوں گا۔ اس وقت میرا بیٹا بارہ سال اور بیٹی چھ برس کی تھی ۔ وہ فاضل کے گھر گیا۔ بلقیس رو رہی تھی۔ عادل نے وجہ پوچھی۔ اس نے وجہ تو نہ بتائی مگر عادل کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئی۔ شکوہ کیا کہ اتنے دن بعد آئے ہو۔ تم بے حد سنگدل آدمی ہو۔ آج نہ جانے کیسے محبت کی دیوی مجھ پر مہربان ہوگئی ہے۔ تم بیٹھو، میں کھانا لاتی ہوں ۔ عادل نے کہا۔ میں کھانا بعد میں کھالوں گا، پہلے گھر پر اطلاع دے آؤں کہ آج رات میں یہاں سوؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگا تو بلقیس نے اس کو روک لیا، بولی۔ میری بات تو سن لو میں تمہاری منت کرتی ہوں، مجھے فاضل سے نجات دلا دو۔ میں اس کے ساتھ خوش نہیں۔ اس میں جو کمی ہے وہ کسی عورت کے بخت نہیں جگا سکتی۔ میں فاضل سے بھی نہیں کہہ سکتا کہ بیوی کو طلاق دے۔ ہاں اگر اس نے خود سے طلاق دے دی تو بعد میں مجھ سے تمہاری جو مدد ہو سکے گی، کروں گا ۔ کیا تم مجھ سے شادی کر لو گے یہ مجھے نہیں معلوم کیونکہ شادی مقدر کا لیکھ ہے۔ جس کے ساتھ لکھی ہوتی ہے، اس سے ہوتی ہے۔ تمہارے لیکھ کو تو تمہاری بھائی بھابھی نے اپنی خود غرضی کے آنچل سے ڈھانپ رکھا ہے کہ شادی ہوگی نہ بچے ہوں گے جو جائیداد میں حصہ دار بنیں۔ تم ادھیڑ عمر ہونے کو آئے ہو، آخر کب وہ تمہاری شادی کریں گے۔ انہیں تو اس کی فکر ہی نہیں ہے۔ انہیں فکر ہو یا نہ ہو جب اللہ کا حکم ہوگا میری شادی ہو جائے گی۔ تم اس بارے مت سوچو اور اپنے گھر کے بسائے رکھنے کی کوشش کرو۔ وہ اتنا برا نہیں ہے کہ بیوی بلاوجہ اسے چھوڑ دے۔ کوئی بڑی وجہ ہوتی ہے، تب ہی تو بیویاں ان جیسے شوہروں کو چھوڑ دیتی ہیں اور یہ حق تو ہمارے دین نے بھی دیا۔ اب عادل کے کان کھڑے ہو گئے کہ یہ عورت کیا کہہ رہی ہے۔ بہرحال اس وقت وہ میرے پاس آیا اور کہا۔ بھابھی ایسا ایسا معاملہ ہے اور میں بلقیس کے گھر میں نہیں سونا چاہتا، جبکہ وہ اکیلی ہے۔ میں بولی تم فکر نہ کرو، میں بوا کو بھیج دیتی ہوں۔ وہ ہماری دور کی رشتہ دار تھیں اور ہمارے گھر برسوں سے رہتی تھیں۔ بیوگی کے بعد کوئی ٹھکانہ نہ رہا تو بڑی پھپھو ان کو ہماری دیکھ بھال کے لیے گھر لے آئی تھیں۔ میں اور ہوا اس کے ساتھ فاضل کے گھر آئیں ، بوا کو وہاں چھوڑا اور عادل میرے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ اس کے بعد بلقیس اس سے ناراض ہو گئی۔ کئی روز بات نہ کی۔ ایک دن پھر اس کی اپنے شوہر سے لڑائی ہوگئی۔ فاضل نے کہا۔ اب میں گھر نہیں جاؤں گا ، دکان پر سوؤں گا۔ تم بلقیس کے پاس یا تو بوا کو بھجوا و یا خود جا کر سوجاؤ۔ فاضل یہ روز ، روز کا جھگڑا ٹھیک نہیں، کسی روز محلے میں اس بات کا بھانڈا پھوٹ گیا تو برا ہوگا۔ اگرتم مجھے دوست سمجھتے ہو تو سچ بات بتا دو کہ جھگڑے کی وجہ کیا ہے پہلے تو اس نے آنا کانی کی، پھر جب عادل نے اس کو چھوڑ جانے کی دھمکی دی تو کہنے لگا ۔ کیا تم یقین کر لوگے اور اس کے بعد تمہارا رد عمل کیا ہوگا، میں اس بات سے بھی خائف ہوں ۔ تم بلا خوف کہہ دو۔ میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے بعد فاضل نے جو بات کہی ، اسے سن کر عادل حیران رہ گیا۔ واقعی اس معاملے میں بلقیس نہیں ، فاضل مجرم تھا۔ وہ شادی کے قابل نہ تھا، پھر بھی اس نے بلقیس سے شادی کی ، کیونکہ وہ بے آسرا اور یتیم تھی اور فاضل کے ماں باپ نے اس پالا تھا اوراپنے لڑکے کے پلے باندھ دیا تھا جو کسی عورت کو ازدواجی خوشیاں نہیں دے سکتا تھا۔ جب تک اس کے ماں باپ زندہ تھے بلقیس چپ رہی ۔ ان کی شادی کے دو ماہ بعد ہی فاضل کے ماں باپ دونوں ٹرین کے حادثے میں چل بسے۔ اب بلقیس کے صبر کا پیمانہ بھی رفتہ رفتہ لبریز ہونے لگا اور جو نتیجہ نکلا ، وہ سامنے تھا۔ جب عادل بلقیس کی بے بسی کے راز سے واقف ہو گیا تو اس نے سوچا کہ اس سے بیشتر یہ اٹھارہ انیس برس کی لڑکی اپنی عمر کے تقاضے نہ سنبھال سکے اور گناہ کی دلدل میں اتر جائے ، جائز طریقے سے اس کا مسئلہ حل کر دینا چاہیے۔ اس نے مجھے سب معاملے سے آگاہ کر کے مدد کی درخواست کی، میں نے سجاول سے بات کی۔ سجاول نے فاضل سے رابطہ کیا اور پوچھا۔ تمہاری بیوی اگر ایسی صورت حال میں تمہاری شریک حیات نہیں رہنا چاہتی تو تم نے آئندہ کے بارے کیا سوچا ہے کیا عمر بھر اسے جلانا اور خود جلتے رہنا ہے یا کوئی دوسرا حل ہے وہ بولا۔ میں اب مزید اس معاملے کو نہیں چلا سکتا، یہ عورت میرے پاس ٹکنے والی نہیں۔ میں اس کو طلاق دینا چاہتا ہوں، مگر یہ یتیم ہے۔ والد نے وعدہ لیا تھا کہ اس کو بے آسرا نہیں چھوڑنا ۔ کوئی اس کو آسرا دے دے تو میں آج طلاق دے دیتا ہوں ۔ سجاول نے مجھ سے مشورہ کیا او پھر عادل سے۔ عادل کے دل میں بلقیس کے لیے نرم گوشہ تھا، سو اس نے فیصلہ بڑے بھائی پر چھوڑ دیا۔ یوں فاضل نے بلقیس کو طلاق دے دی اور ہم نے عادل کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔ ہمیں ڈر تھا کہ گر یہ بدفطرت ہوئی تو کہیں ہمیں اس فیصلے پر پچھتانا نہ پڑ جائے لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ بلقیس اور عادل کو یہ شادی راس آ گئی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں۔ فاضل اپنے گھر میں اکیلا ہی رہتا ہے۔ عادل نے دوستی کا حق یوں نبھایا کہ تمام کاروبار اس کے حوالے کر دیا، حالانکہ جنرل اسٹور بہت اچھا چل رہا تھا، مگر ایک شخص نے بیوی سے محرومی اختیار کی تھی اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خامی کا اظہار کر دیا تھا، اسے کچھ تو ملنا چاہیے تھا۔ | null |
null | null | null | 213 | https://www.urduzone.net/aaj-chaand-raat-hai/ | آج کل عنایہ بے چاری کچھ گھبرائی کچھ بوکھلائی اور تھوڑا بہت شرمائی بھی پھر رہی تھی کیونکہ اس کا رشتہ طے ہونے جا رہا تھا اور گھر میں ہر وقت ہی موضوع زیر بحث رہتا تھا۔ کہاں تو سال بھر سے کوئی ڈھنگ کا رشتہ ہی نہیں آ رہا تھا۔ اماں ہر وقت آہیں بھرتی رہتی تھیں اور کہاں اب اچانک سے اکٹھے چار رشتے آ ٹپکے تھے اور گھر والے شش و پنج میں تھے کہ کسے منتخب کریں اور کسے نہ کریں۔ اماں نے صلاح مشورے کے واسطے بڑی آپا کو بھی بلوا رکھا تھا۔ یوں تو اس کی بھی رائے لی گئی مگر وہ کیا کہتی۔ اجنبی انجان لوگ، غیر خاندان، پرانے زمانے کی فلمی ہیروئن کی طرح دانتوں تلے دوپٹا مروڑتے ہوئے فقط یہی کہا۔ جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔ یوں باہمی رضا مندی سے قرعہ فال جس موصوف کے نام نکلا وہ مکینکل انجینئر تھے۔ شکل وصورت بھی اچھی تھیں۔ خاندان مختصر تھا۔ دونوں بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں۔ ماں باپ حیات تھے اور چک نمبر میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ایک وسیع و عریض آبائی حویلی تھی جہاں وہ شریک برادری سمیت مقیم تھے۔ والدین کی صحت نہایت شان دارتھی اور وہ اپنا گھر بار بخوبی چلا رہے تھے۔ جبکہ موصوف خود چونکہ شہر میں نوکری کرتے تھے ، اس لیے مستقل طور پر وہیں رہنے کا ارادہ رکھتے تھے اور عنقریب ایک گھر بھی خرید رہے تھے۔ رشتہ بے حد معقول تھا۔ سب ہی خوش تھے۔ ان کے ہاں منگنی صرف زبانی کلامی ہی طے ہوئی تھی کوئی روایتی فنکشن وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بھی ساس بات پکی ہونے پر اس کی تھیلی پر کئی ہزار روپے اور انگلی میں وزنی طلائی انگھوٹی پہنا گئی تھیں۔ چونکہ رمضان میں بات طے ہوئی تھی اور اب عید آ رہی گی تو اسے یہ سوچ سوچ کر ہی گدگدی ہو رہی تھی کہ سسرال سے عیدی ضرور آئے گی۔ در اصل ان پانچ لڑکیوں کا گروپ تھا۔ پہلے تو اس کے علاوہ وہ سب منگنی شدہ ہیں ۔ صرف وہی اس اعزاز سے محروم تھی۔ ہر سال ان چاروں کے سسرال سے خوب دھوم دھڑکے کے ساتھ عیدی آتی تھی، جو آتے ہی اسٹیٹس پر بھی لگ جاتی۔ خوب تبصرے ہوتے اور وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔ یہ بات نہیں تھی کہ اسے کوئی عیدی ویدی ملتی نہیں تھی۔ عیدی تو بہت ملتی تھی۔ ماموں، پھوپھو ، تایا، خالہ، نانی سب ہی کی طرف سے، مگر سسرال سے آنے والی عیدی کا تو چارم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اور پھر لڑکیاں اس معاملے میں بہت حساس اور جذباتی بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ عیدی کے سامان میں انہیں اپنے ہونے والے ان کے جذبات کی جھلک نظر آتی ہے۔ بعض کو تو خاص طور پر ان کی طرف سے علیحدہ پیکٹ بھی ملتا تھا۔ پچھلے سال فاریہ کے اسٹیٹس نے خوب داد سمیٹی تھی۔ نہ صرف اس کی ساس نندوں نے دیدہ زیب جوڑے اور جوتے بھجوائے تھے بلکہ اس کے ان نے بھی الگ سے کچھ خاص تحائف بھیجے تھے۔ اور اس سے پچھلے سال دانیہ کی عیدی نمبرون رہی تھی۔ اس کی نند نے نجانے کہاں سے چن چن کر لپ اسٹک کے ایسے شیڈ گفٹ کیے تھے ، جو انہوں نے پہلے کبھی مارکیٹ میں نہیں دیکھے تھے۔ یوں ہر سال ہی سسرال عیدی پر رنگ برنگے تبصرے ہوتے۔ اور اس کے سوئے ہوئے ارمان انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتے مگر اس بار اس کی بھی عیدی آنی تھی۔ اور وہ ابھی سے ڈھیر سارے خواب سجائے بیٹھی تھی۔ آخر اچھے خاصے خوش حال اور با ذوق لوگ تھے۔ عیدی بھی یقینا عمدہ اور بڑھیا ہی آنے والی تھی۔ یوں انتظار کرتے کراتے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو گیا۔ اور آخر ایک شام اس کی ساس گاڑی میں سامان سے لدی پھندی آپہنچیں۔ اس کی تو باچھیں کھل گئیں۔ گاؤں کی سوغات گر، چاول، دیسی گھی، ساگ اور کینوں کے ٹوکروں کے ہمراہ ایک بھاری بھر کم سا شاپنگ بیگ بھی تھا۔ وہ تو خاطر تواضع میں مصروف تھی ورنہ اسی وقت کھول کردیکھ لیتی۔ افطاری کے بعد وہ رخصت ہوئیں تو اس نے تو نے جھٹ بیگ اٹھایا اور اپنے کمرے کی راہ لی۔ دروازہ بند کر کے جلدی سے سارا بیگ بیڈ پر الٹ دیا مگریہ کیا۔ سامان دیکھ کر اس کے جوش و خروش پر اوس پڑ گئی۔ بڑے بڑے پھولوں والے تیز رنگوں کے چار جوڑے جو شاید خاصے قیمتی تو تھے مگر رنگ اور ڈیزائن اف توبه تین منزلہ جھمکوں کی دو جوڑیاں۔ لیدر کے دو عجیب سی ساخت کے پرس اور موتی ستاروں سے مزین ایڑی والی تین جوڑی جوتیاں اور ایک شیشوں والا پراندہ اف توبه کیا یہ سب لگاؤں اسٹیٹس پر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ کتنا مذاق بنے گا۔ بھابھی اسے ڈھونڈتے ہوئے اندر آئیں تو وہ بیڈ پر لٹی پٹی سی بیٹھی تھی۔ عید کے سامان پر نظر پڑی تو وہ سب سمجھ گئیں۔ گڑیا دل برا نہ کرو۔ دراصل تمہاری ساس کا ٹیسٹ تھوڑا پرانے زمانے کا ہے۔ پھر شاپنگ بھی انہوں نے اکیلے ہی کی۔ تمہاری ایک نند تو چھلے میں تھی اور دوسری کے میاں کی طبیعت ناساز تھی۔ اگر وہ ساتھ ہوتیں تو شاید آخر میں فاریہ وغیرہ کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ کتنا مذاق اڑے گا میرا گروپ میں۔ تو چندا تمہارے پاس چیزوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے۔ تم کچھ اور لگا دینا اسٹیٹس پر۔ لوجی اب کیا میں رمضان میں روزے کے ساتھ جھوٹ بولوں۔ اور پھر جھوٹے اسٹیٹس کا مزہ بھی تو نہیں آتا۔ انسان خود سے ہی شرمندہ شرمندہ سا رہتا ہے۔ وہ رو دینے کو تھی۔ بھابھی اسے تسلی دلاسا دیتے ہوئے چلی گئیں تو اس نے بے دلی سے سامان سمیٹا اور الماری کے سب سے نچلے خانے میں ڈال دیا۔ عید بے حد قریب آچکی تھی۔ عیدی کے اسٹیٹس لگنا شروع ہو چکے تھے مگر اس کی جانب سے خاموشی تھی۔ دوستوں نے پوچھا تو اس نے ٹال دیا کہ ابھی عیدی ہی نہیں آئی۔ ایک دن وہ افسردہ سی لان میں بیٹھی تھی جب بیل بجی۔ اس کا بھتیجا قریب ہی کھیل رہا تھا۔ بھاگا ہوا گیا۔ پھوپھو کوریئر والا یہ دے کر گیا ہے۔ وہ ہاتھ میں پکڑا ایک گفٹ پیک لہرا رہا تھا۔ اس نے لے کر دیکھا اس کا نام لکھا تھا۔ اس نے حیرت سے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر احتیاط سے کھولا۔ ایک مخملیں ڈبیا برآمد ہوئی۔ اس پر چٹ لگی تھی۔ ڈیر عنایہ کے نام۔ امید ہے کہ آپ کو اماں کے گفٹ بالکل پسند نہیں آئے ہوں گے۔ ان کے لیے معذرت مگر یہ ضرور پسند آئے گا۔ نیچے اس کے منگیتر کا نام لکھا تھا۔ وہ شرم وحیا یسے گل و گلزار ہوگئی۔ ڈبیا کے اندر بے حد نازک اور نفیس سا گولڈ کا بریسلیٹ جگمگا رہا تھا۔ اس کے ارد گرد جڑے ننھے ننھے نگینے اس کی آنکھوں میں پنہاں خوابوں کی ماند دمک رہے تھے۔ اس نے ڈبیا کو کسی قیمتی متاع کی مانند آنچل میں چھپایا اور اپنے کمرے کا رخ کیا۔ آج چاند رات تھی۔ فضا میں خوش گوارسی نمی اور ٹھنڈک گھلی تھی۔ ابھی ابھی تمام گھر والے چاند دیکھ کر نیچے اترے تھے مگر وہ اپنا فون تھامے ابھی وہاں کھڑی تھی۔ ایک اہم کام جو رہتا تھا اس نے وہی نمٹانا تھا۔ وہ منڈیر کے قریب آئی۔ یہاں روشنی زیادہ تھی۔ دایاں بازو سامنے کیا۔ آستین ہٹائی۔ کلائی میں خوب صورت بریسلیٹ اپنی چھب دکھلا رہا تھا۔ مرمریں کلائی پر گولڈ کا بریسلیٹ اس نے موبائل کا رخ سیدھا کیا اور کھٹ سے تصویر کھینچ لی۔ عنایہ کیا کر رہی ہو پیچھے سے بھابھی کی آواز آئی وہ چائے کا کپ اس کی جانب بڑھا رہی تھیں۔ وہ بھابھی یہ ان کے گفٹ کا اسٹیٹس لگا رہی تھی۔ یہ ضروری ہے کیا ان کا لہجہ اور سوال دونوں عجیب سے تھے۔ کیا مطلب ہے آپ کا وہ چونکی۔ دیکھو چندا یہ کچھ مناسب نہیں ۔ محبتوں اور نعمتوں کی تشہیر نہیں کرتے۔ ان کو چھپا کر رکھنا چاہیے۔ کہیں محروم لوگوں کی حسرت انہیں نظر نہ لگا دے۔ اب بھلا ہر لڑکی کو عیدی میں اتنا قیمتی تحفہ تو نہیں ملتا ہوگا۔ پھر بھلا ہم کیوں خواہ مخواہ دوسروں کو حسرت اور احساس کمتری میں مبتلا کریں۔ وہ دھیرے دھیرے سمجھا رہی تھیں اور بات اسے سمجھ میں آہی گئی۔ وہ بھی تو فاریہ وغیرہ کا اسٹیٹس دیکھ کر کم مائیگی کا شکار ہوتی تھی اور اب پھر وہ خود کسی اور کو کیوں کرے۔ وہ چپ چاپ بھابھی کے ساتھ نیچے سیڑھیاں اترتی چلی آئی۔ رات گئے اس کے موبائل کی اسکرین روشن ہوئی اور دوستوں کے گروپ میں اس کا خوب صورت اسٹیٹس ان الفاظ کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ دوستو آج چاند رات ہے۔ اور شکر ہے اس رب تعالیٰ کی عظیم ذات کا جس کی عطا کر وہ تمام نعمتیں میرے ساتھ ہیں۔ وہ ان نعمتوں، ان محبتوں کو سلامت رکھے۔ آؤ اس حسین چاند رات کو ہم سب شکر گزار ہوں۔ اس عظیم ہستی کے جس نے ہمیں ایک اورعید کی خوشیاں دیکھنا نصیب کیں۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 214 | https://www.urduzone.net/hazrat-ans-ka-dasterkhawan/ | ایک دفعہ حضرت انس بن مالک کے گھر کچھ مہمان آئے۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو حضرت انس نے دیکھا کہ دستر خوان بہت میلا ہو گیا تھا۔ انہوں نے خادمہ کو حکم دیا کہ اس دستر خوان کو فوراً تنور میں ڈال دو۔ خادمہ نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ مہمانوں کا خیال تھا کہ دسترخوان کے جلنے سے دھواں اور شعلے تنور سے نکلیں گے لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آگ نے دستر خوان کو چھوا تک نہیں تھا اور خادمہ نے اسے صحیح سلامت تنور سے نکال لیا۔ اس وقت وہ نہایت سفید اور صاف ہو گیا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے دھو کر اس کی میل بالکل نکال دی ہے۔ ایک مہمان نے حضرت انس سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ یہ دسترخوان آگ سے محفوظ رہا ہے اور پھر صاف بھی ہو گیا ہے حضرت انس نے فرمایا کہ اس دسترخوان سے رسول اکرم اپنے دست مبارک صاف کر چکے ہیں۔ مہمانوں نے اب خادمہ سے پوچھا کہ جب تجھے علم تھا کہ حضور کے دست مبارک اس دسترخوان سے مس ہو چکے ہیں تو تو نے اس قیمتی دستر خوان کو آگ میں کیوں پھینکا اس نے جواب دیا کہ مجھے یقین تھا کہ حضور کی برکت سے اس دستر خوان کا کچھ بھی نہ بگڑے گا۔ یہ تو محض کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ اگر خود مجھ کو حکم ملتا کہ آگ میں کود پڑو تو میں بلا تامل کود پڑتی۔ | null |
null | null | null | 215 | https://www.urduzone.net/aik-kashti-kay-musafir/ | میرے شوہر کی منگنی اپنی خالہ زاد سے ہو چکی تھی ۔ شادی میں دو ماہ باقی تھے کہ انہوں نے مجھے ایک رشتہ دار کی شادی میں دیکھا اور فریفتہ ہو گئے ۔ دل میں ٹھان لی کہ اس لڑکی سے شادی کروں گا۔ اس فیصلے پر ان کے گھر والے دنگ رہ گئے۔ والدہ کو غشی کے دورے پڑنے لگے کہ بیٹے کی منگیتر ان کی بھانجی تھی جو ان کو بہت پیاری تھی، پھر منگنی بھی سات سال رہی تھی، شادی کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی۔ ایسے موقع پر اس خبر سے ان کے میکے میں بھونچال آجاتا۔ ان کے سب بہن بھائی ان سے تعلق قطع کر لیتے ۔ ماں نے بہت شور مچایا، خودکشی کی دھمکی دی، باپ نے بھی سمجھایا ، بہنوں نے قطع کلامی کر لی مگر دانیال ضد کے ایسے پکے تھے کہ کسی کی نہ سنی اور خود منگیتر کے گھر جا کر اس کے والدین سے منگنی ختم کرنے کی بات کر کے آگئے۔ لڑکی والوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔ بس پھر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا، میرے ساس کا اپنے میکے سے ہمیشہ کے لئے ناتا ختم ہو گیا۔ ان دنوں دانیال ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور گھر انہی کے دم قدم سے چل رہا تھا۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو کماتا ہے، سرپرست بھی وہی بن جاتا ہے اور زور بھی اسی کا چلتا تھا۔ گھر والے مانتے یا نہ مانتے ، وہ شادی میں شامل ہوتے یا نہیں، دانیال نے کہہ دیا کہ گھر والوں میں جس کو یہ شادی قبول نہیں، بے شک وہ شادی میں نہ بیٹھے۔ وہ کورٹ میرج کر لیں گے۔ یہ بڑی دھمکی تھی۔ سبھی نے جان لیا دانیال جو کہہ رہا ہے، کر دکھائے گا۔ تب ان کا کیا رہ جائے گا۔ کمانے والا گھر سے چلا جائے گا تو اخراجات کیسے چلیں گے۔ وہ بھائی بہنوں کو پڑھا رہے تھے، ماں باپ کا تمام خرچہ اٹھا رہے تھے ۔ سارا گھرانہ معاشی لحاظ سے ان کا دست نگر تھا، لہذا وہ اختلاف کے متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ دانیال کے والد سمجھ دار تھے۔ وہ میرے والد کے چچا زاد بھی تھے، اس وجہ سے انہوں نے اس رشتے پر مخالفت نہیں کی۔ ان دنوں کالج میں میرا دوسرا سال تھا۔ میرے والدین کو بھی میری شادی کی فکر تھی لہذا انہوں نے رشتے کے لئے ہاں کر دی۔ بارہویں کا امتحان دیا ہی تھا کہ میری شادی دانیال سے ہو گئی۔ وہ مجھ سے شادی کر کے بہت خوش تھے اور میں بھی ، کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بیسویں گریڈ کے آفیسر تھے۔ مجھ سے عمر میں بے شک بڑے تھے لیکن باوقار اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ میں اپنی قسمت پر نازاں تھی اور میرے والدین پھولے نہیں سما رہے تھے۔ خیر، جو خدا کو جو منظور تھا، ہو گیا۔ میں بیاہ کر سرال آگئی ۔ جلد ہی عقدہ کھلا کہ سسر صاحب کے علاوہ باقی سارا خاندان مجھ کو ناپسند کرتا تھا۔ دانیال کے گھر کے کسی فرد نے بھی مجھ کو دل سے بہو تسلیم نہیں کیا۔ بس ایک سسر صاحب تھے ، جو اچھے لب و لہجے میں بات کر لیتے تھے۔ خیر، گھریلو ریشہ دوانیوں کا میں نے صبر کے ساتھ مقابلہ کیا۔ دانیال نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ میری والدہ اور بہن بھائی تمہارے ساتھ جو سلوک کریں برداشت کر لینا کیونکہ میں نے ماں کی بھانجی سے منگنی توڑ کران کا دل دکھایا ہے۔ اب تمہارا حسن سلوک اور صبر ہی ان کو رام کر سکتا ہے۔ میں نے ان کا یہ حکم اپنے پلو سے باندھ کر صبر و شکر کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ ساس سسر کی خدمت میں کوئی کثر نہ رکھی ، نندوں کا بھی حکم مانتی حالانکہ ایک عمر میں میرے برابر اور دو مجھ سے چھوٹی تھیں دیور کا خیال رکھتی۔ مگر یہ ریاضت بھی کام نہ آئی یہاں تک کہ تین بچوں کی ماں بن گئی۔ میں بھی انسان تھی۔ میرا دل ان کی نفرت اور بدسلوکی پر کڑھتا تھا، مگر اب تین بچے سامنے تھے۔ ان کی خاطر قربانی دے رہی تھی۔ ساس کھلم کھلا مجھے برا بھلا کہتیں، گالیوں سے بھی گریز نہ کرتیں۔ ہر بات پر اعتراض اور ہر کام میں کیڑے نکالتیں۔ جب میرے صبر کی انتہا ہو گئی تو میں نے بھی ان کے سامنے بولنا شروع کر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا ، جس میں ان کی بیٹیوں نے بھر پور ساتھ دیا۔ ان دنوں میرے شوہر ٹریننگ کے لئے امریکا گئے ہوئے تھے۔ ادھر ساس نے مجھے مار کر گھر سے نکال دیا۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد دانیال لوٹے تو ان کو واقعے کا علم ہوا۔ وہ فوراً میرے میرے میکے آئے، مجھ سے اور میرے والدین سے معافی مانگی اور منا کر گھر لے آئے۔ اب اکثر یہ ہونے لگا۔ ساس جھگڑا کرتیں اور گھر سے نکال دیتیں۔ میں میکے چلی جاتی اور دانیال منا کر واپس گھر لے آتے۔ ان حالات میں میرا حسن گہنا گیا ، دل افسردہ ہر وقت روتا رہتا۔ اب میں دانیال سے مطالبہ کرنے لگی کہ مجھے علیحدہ گھر میں رکھو، ورنہ میں نہ رہو گی ۔ وہ تسلی دیتے کہ تھوڑے دن اور صبر کر لو۔ بہن کی شادی ہونے دو، پھر ہم علیحدہ گھر لے لیں گے۔ دراصل سسر صاحب نہیں چاہتے تھے کہ دانیال ان سے علیحدہ رہے۔ وہ گھر کے معاملات کو احسن طریقے سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہر بار مجھ کو سمجھاتے، شفقت سے درخواست کرتے کہ دانیال میرا بڑا بیٹا ہے۔ اس کو ہم سے جدامت کرو۔ میں گھر والوں کو سمجھالوں گا۔ ان کے احترام کی وجہ سے میں ان کی بات کی لاج رکھ لیتی تھی کہ دانیال تو میرے ساتھ اچھے ہیں۔ مجھ سے پیار کرتے ہیں حالانکہ میں ہی پریشان نہ تھی، میرے بچے بھی سہمے سہمے رہتے تھے۔ ایک دن میرے کالج کی سہیلی اپنے بھائی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی۔ اس بیچاری کو ہمارے گھر یلو ماحول کا کیا پتا تھا۔ اس نے کہا کہ میرا بھائی باہر کھڑا ہے، اسے اندر بٹھا لو۔ میں نے اس کے بھائی کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور شرمین کو اپنے ساتھ کمرے میں لے آئی ۔ ہم باتیں کرتی رہیں کہ کھانے کا وقت ہو گیا۔ شرمین کالج میں میری بیسٹ فرینڈ تھی ہماری دانت کاٹے کی دوستی تھی۔ اخلاقاً سے کھانے کا کہا تو بولی۔ ارے بھئی لے آؤ کھانا ، ہم کھا کر جائیں گے۔ تبھی جو گھر میں پکا تھا، اسے اپنے کمرے میں کھلایا اور اس کے بھائی کے لئے ڈرائنگ روم میں بھجوا دیا۔ بس اتنی سی بات تھی جس کا بہت بڑا بتنگڑ بن گیا۔ جب یہ بھائی بہن چلے گئے تو ساس نے شور مچادیا کہ بہو بیگم نے حد کر دی ۔ کالج میں کسی سے مراسم تھے، وہ شخص اس کی سہیلی کے ساتھ آیا، گھنٹوں بیٹھا۔ یہ بے حیائی میں اپنے گھر برداشت نہیں کر سکتی میری جوان بیٹیاں ہیں۔ غرض رورو کر انہوں نے سسر صاحب کو بھڑکایا۔ وہ جانے کس موڈ میں تھے تھکے ہوئے گھر آئے تھے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے تھپڑ رسید کر دیا۔ میں یہ صدمہ نہ سہ سکی۔ وہ تو میرے ساتھ شفیق و مہربان سلوک رکھتے تھے ، وہ بھی عورتوں کی باتوں میں آگئے میرا ان پر مان تھا، وہ بھی ٹوٹ گیا۔ ساس بدستور شور مچاتی رہیں کہ دال میں کچھ تو کالا ہے۔ اتنا بڑا الزام اتنی آسانی سے مجھ پر تھوپ دیا گیا میرا کلیجہ شق ہو گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر روئی مگر وہاں کس کو پروا تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ کسی طرح دانیال مجھے طلاق دے دیں تو وہ اپنے میکے والوں کو منا کر بھانجی کو بہو بنا کر لے آئیں جس قدر بھی جھگڑا ہوتا میں، دانیال کو اطلاع کئے بغیر گھر یسے نہ جاتی تھی۔ روٹھنا بھی ہوتا، تو ان کو خبر کر کے میکے جاتی تھی لیکن اس بار مجھ سے اپنی اہانت سہی نہ گئی۔ دانیال اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ ان کو فون کیا۔ وہ شاید میٹنگ میں تھے، انہوں نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے چادر اوڑھی اور رکشہ کر کے میکے چلی آئی۔ اس دن سخت دل جلا ہوا تھا۔ جوں جوں سوچتی ، ذہن اور سلگتا تھا۔ اس بار والدین نے میری ذہنی کیفیت سے اندازہ کر لیا کہ اب معاملہ سمجھا بجھا کر واپس بھجوانے سے نہ سنورے گا لیکن اس بار عجب بات یہ ہوئی کہ تین چار ماہ گزر گئے اور دانیال مجھ کو لینے آئے اور نہ فون ہی کیا۔ انہوں نے بھی اپنے گھر والوں کی بات کا یقین کر لیا کیونکہ اب تو مخالف پارٹی میں ان کے ابا جان بھی شامل ہو گئے تھے۔ خدا جانے انہوں نے ان سے کیا کہا کہ انہوں نے مجھ سے حقیقت جاننے کی کوشش نہ کی اور میں پوری طرح ٹوٹ کر رہ گئی۔ وقت اس طرح کسمپرسی میں گزرنے لگا۔ ان دنوں شدت سے دل چاہتا تھا کوئی ایسا مل جائے کہ اپنے دل کا سارا غم اس کے دل میں انڈیل دوں۔ انہی دنوں مجھ کو عظیم ملا۔ وہ سچ مچ ہی عظیم لگا۔ اپنے کردار سے، حوصلے سے گفتار سے ، غرض اس کی ہر ادا میں مردانہ شان تھی۔ بتاتی چلوں کہ وہ مجھے کیسے اور کہاں ملا۔ یہ میری بدنصیبی کا ایسا دن تھا جس نے میری زندگی میں اور اندھیرا بھر دیا۔ اس روز بھابھی کی بھائی سے کسی بات پر چپقلش ہوگئی تو بلاوجہ مجھ سے الجھ پڑیں اور مجھے منحوس، برباد، نا شکری، در بدر کہہ دیا۔ جس پر میں چادر اوڑھ کر خود کشی کرنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ سوچا کہ جب اپنے ایسے لفظ منہ سے نکالنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے میں ان کے گھر مزید رہوں۔ ریلوے اسٹیشن ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں سیدھ میں چلتی ریلوے لائن پر پہنچ گئی۔ مجھے نہیں خبر تھی کہ ٹرین آنے والی ہے، سر پکڑے پٹڑی پر بیٹھی تھی کہ ایک شخص بھاگا ہوا آیا اور اس نے پوری قوت لگا کر مجھے ٹرین کی زد سے بچالیا۔ اگر یہ فرشته صفت بروقت مجھے نہ بچالیتا تو میرے ٹکڑے اڑ چکے ہوتے۔ اس وقت تو میں نہ سمجھ پائی کہ کیا ہوا ہے لیکن جب اسپتال میں آنکھ کھلی تو بچانے والے شخص نے اپنا نام بتادیا کہ اگر میں تمہیں نہ دیکھ رہا ہوتا تو آج تم زندہ نہ ہوتیں۔ غرض اس ملاقات کے بعد وہ ہمارے گھر آیا کیونکہ اس نے میرے والد کو فون کر کے بلایا اور ساری کارروائی نمٹائی تھی، ورنہ مجھ پر خود کشی کا کیس بن سکتا تھا۔ اس وقت میں صدمے سے بے ہوش ہوگئی تھی۔ اسپتال میں، میں نے اپنا زخمی دل عظیم کے سامنے کھول دیا۔ اس درد کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محسوس بھی کیا۔ مجھے اپنے دل میں جگہ دی اور اب میں خود کو پھرایک مہکتا گلاب محسوس کرنے لگی۔ اس کے بعد میں گھر والوں سے چھپ چھپ کر اس سے ملنے لگی۔ اب دانیال اور اپنے گھر کا خیال کم کم ہی ستاتا تھا۔ میں نے عظیم سے وعدہ کر لیا کہ اگر میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں اس کے لئے زندگی کی بہترین ساتھی بنوں گی۔ اس نے بھی وعدہ کیا کہ اگر بچے تمہارے پاس رہیں گے تو وہ میرے بچوں کو باپ جیسی محبت دے گا۔ اب میں سسرال واپس نہ جانا چاہتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ ایک بار دانیال ضرور مجھے منانے آئیں گے کیونکہ جب بچے بیمار ہو گئے اور ساس ان کو نہ سنبھال سکیں تو انہوں نے از خود بچوں کو میرے پاس بھجوادیا تھا۔ حسب امید دانیال چھ ماہ بعد ایک روز اچانک آگئے اور خوشامد سے بولے۔ جو غلط فہمی گھر والوں نے میرے دل میں ڈالی ، وقت کے ساتھ وہ دور ہوگئی ہے۔ میرا دل صاف ہو گیا ہے، اب تم گھر چلو۔ میں دانیال کی بات ماننا نہیں چاہتی تھی مگر بچے باپ سے لپٹ گئے اور رو رو کر مجھے منانے لگے۔ امی ، بابا کی بات مان لو گھر چلو ہم کو یہاں نہیں رہنا، بابا جان کے ساتھ رہنا ہے۔ بچوں کے آنسوؤں نے میری قوت ارادی چھین لی۔ اور میں مجبور ہو کر شوہر کے ساتھ گھر آگئی۔ عظیم کو اطلاع بھی نہ کر سکی کہ میں واپس گھر جا رہی ہوں ۔ اسے جانے کتنا صدمہ ہوا ہوگا ۔ وہ بھی شادی شدہ تھا، اس کے بھی بچے تھے، پھر بھی اس نے عمر بھر ساتھ نباہنے کی حامی بھری تھی۔ وہ ریلوے آفیسر تھا، پڑھا لکھا تھا اور یہ فیصلہ اس نے یقینا سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ گھر آ کر چار دن سکھ کے نہ گزرے پھر وہی سلوک جو پہلے دن سے تھا، وہی سب کا رویہ۔ ساس بے نقط سناتیں، تب میں نے بھی دو چار کرارے جواب دے دیئے۔ ان کو تو سکتہ ہو گیا کہ بہو پہلے چپ رہتی تھی، آنسو بہاتی تھی ، اب اس کو کیسے زبان مل گئی ان کو کیا خبر کہ محبوب کے وعدوں نے مجھے اس قدر باحوصلہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے بیٹے سے کہا۔ بہو آج میرے سامنے بولنے لگی ہے، کل کو جوتیاں اٹھا کر سر پر مارے گی۔ تین لفظ طلاق کے کہو اور چلتا کرو، مگر میں نے بھی اس بار جی کڑا کر کے دل کی بھڑاس نکال دی، کہا۔ بڑی بی اب تم ہوش میں رہنا۔ تم کیا طلاق کی دھمکی دیتی ہو، میں خود ہی طلاق لینے آئی تھی۔ اپنے پوتے پوتی رکھنے ہیں تو رکھ لو۔ پالتی رہنا، ان کو۔ یہ بات تو مرے پر سو درے ثابت ہوئی ۔ وہ بے چاری وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور مجھ کو ایک طلاق مل گئی۔ باقی دو طلاقیں دانیال نے مقررہ وقفے سے دینا تھیں۔ مجھے اگر طلاق کا ملال تھا تو صرف اپنے بچوں کی خاطر ، ورنہ تو میں خود بھی اس زندگی، اس کنبے سے تنگ آچکی تھی۔ ادھر عظیم میرا منتظر تھا۔ میرے ادھورے خواب پورے ہونے والے تھے، افسوس کہ گھر والوں کو پتا چل گیا کہ میں اس سے چھپ چھپ کر ملتی ہوں۔ انہوں نے یہ جانا کہ میں نے عظیم کی خاطر سسرال سے جھگڑا کیا۔ تبھی گھر والوں نے مجھے خوب برا بھلا کہا۔ میرے والد عظیم کے آفس چلے گئے۔ اسے لعنت ملامت کی اور میری اس سے ملاقات پر کڑی پابندی لگا دی گئی۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ اس شخص نے میری زندگی بچائی اور مجھے محبت دی، تو ٹھوس سہارا بھی ملے گا لیکن اگر دل کی بات پوری ہو جائے تو رونا کس بات کا قسمت میں بربادی لکھی تھی سو اس نے بیچ منجدھار میں ساتھ چھوڑ دیا۔ میرے والد کا بھرم رکھ لیا۔ اپنا تبادلہ اور شہر کروالیا اور مجھے ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا۔ شوہر نے ایک بار طلاق دی تھی لہذا صلح کی گنجائش باقی تھی۔ انہوں نے والد صاحب کے ساتھ قانونی کاروائی کی اور مجھے گھر لے گئے۔ اس بار انہوں نے مجھے علیحدہ گھر میں رکھا، بچے اس نئے گھر میں میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر دوڑتے آئے اور مجھ سے لپٹ گئے۔ میں نے بھی اپنے جگر گوشوں کو کلیجے سے لگا لیا۔ دانیال کی اتری صورت بتارہی تھی کہ وہ بھی ٹھوکر لگنے سے میری جانب واپس آئے ہیں اور میں بھی ٹھوکر کھاکرہی لوئی تھی۔ اب سوچتی ہوں کاش کچھ دن اور انتظار کر لیتی کیونکہ دانیال میرے لئے الگ بنگلہ بنوا ر ہے تھے۔ کچھ عرصہ بعد سسر صاحب ساس کے ہمراہ آئے۔ مجھ سے معافی مانگی۔ وہ بزرگ تھے، میں نے ان کی لاج رکھ لی اور ان کے سامنے احترام سے جھک گئی، لیکن ساس نجانے کس مٹی کی بنی تھیں۔ شاید اپنے پوتے پوتیوں کی خاطر انہوں نے مجھے قبول کر لیا۔ میں نے بھی تو ہتھیار اپنے بچوں کی وجہ سے ڈالے تھے۔ یوں ہم سب اولاد کی خاطر ایک کشتی کے سوار ہو گئے۔ | null |
null | null | null | 216 | https://www.urduzone.net/bheyanak-mazaq/ | سڑک پر کھڑی رونا کو ایک شناسا چہرہ نظر آیا اور وہ گم صم ہوگئی ۔ رفیع نے آگے بڑھ کر اس کو سوچوں کے حصار سے نکال لیا۔ وہ اس کی سہیلی صوفیہ کا کلاس فیلو تھا۔ وہ اس سے کہہ رہا تھا۔ یہ تم ہو رونا میں تو تم کو پہلی نظر میں پہچان بھی نہ سکا۔ تم تو اب واقعی خوبصورت ہوگئی ہو۔ خوبصورت یہ لفظ ایک دھماکے کی طرح اس کے دماغ میں پھٹا اور وہ سوچنے لگی۔ کہیں یہ طنز تو نہیں کر رہا کیا یہ وہی رفع ہے یا اس کی آنکھیں بدل گئی ہیں یا خود اس کا اپنا رنگ بدل گیا ہے۔ یا پھر میری پھولی ہوئی ناک غائب ہوگئی ہے یا میرے بھدے ہونٹ کسی خوبصورت لبوں والی سے بدل گئے ہیں ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میں تو خود کو دنیا کی بدصورت ترین عورت سمجھتی ہوں، آج میں کیسے اچانک خوبصورت ہو گئی تبھی رفیع نے اس سوچوں میں گم لڑکی کو یہ کہہ کر چونکایا۔ آؤ میرے ساتھ، سامنے ریسٹورنٹ میں چل کر کافی پیتے ہیں۔ اس نے پیار سے رونا کا ہاتھ تھام لیا تبھی وہ ہر سوچ کو بھلا کر اس کے ہمراہ چلتے ہوئے خود کو شہزادی سمجھنے لگی۔ رونا بچپن سے ہی بدصورتی کے حصار میں قید تھی ۔ اس احساس نے اسے اذیت ناک احساس محرومی میں جکڑا ہوا تھا۔ رشتہ داروں کے بچے، پڑوسی حتی کہ اس کے اپنے بھائی بہن تک اس کو بدصورتی کا طعنہ دیتے تھے۔ اسکول میں لڑکیاں اس کی بدصورتی پر ترس کھاتیں، کچھ حقارت سے دیکھتیں۔ کالج پہنچ کر تو حد ہو گئی۔ لڑکوں نے اس کی شکل پر آوازیں کسیں اور بے وقوف بھی سمجھا۔ یہ حقارتیں اور ناکامیاں، یہ دل آزاریاں اس کی بڑی کمزوری بن گئیں اور پھر کالج چھوڑ کر اس نے ملازمت کر لی ، کیونکہ ایسے میں شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اچھی اچھی صورتوں والی ماہ لقا ئیں، ابھی تک بر کی آس میں بیٹھی سوکھ رہی تھیں، پھر اس کی کیا اوقات تھی۔ اس نے سمجھ لیا کہ تنہائی میں ہی عافیت ہے، مگر پھر وہ اکیلے رہ رہ کر بھی اکتا گئی اور تنہائیاں اس کے لئے ببول کا درخت بن گئیں، جس میں کانٹے تو بھرے تھے مگر چھاؤں نہیں تھی۔ وہ کتنے دنوں سے کسی کی پکار کی منتظر تھی، کہ آج سڑک کنارے رفیع نے دیکھا اور پکار لیا۔ نہ صرف پکارا بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے بہت خوشگوار ماحول میں باتیں کیں۔ وہ دوسرے روز ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ اس نے اگلے دن رونا کو فون کر کے ملنے کو کہا، پھر یہ ملاقاتیں بڑھتی چلی گئیں۔ اس کے لئے یہ ملاقاتیں خوشگوار احساس کے ساتھ ایک معمہ بھی تھیں ۔ وہ حیران تھی کہ رفیع جیسا خوبرو شخص جو صوفیہ کی موجودگی میں آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا، اب کیونکر اس کی بدصورتی کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اچانک زندگی کے پینتیسویں سال میں قدم رکھتی، رونا پر ملتفت ہو گیا تھا۔ وہ اس سے روز اصرار کر کے ملتا اور بہت پیار سے باتیں کرتا۔ ایک روز ڈرتے ڈرتے ، رونا نے بالآخر رفیع سے دل کی بات کہہ ڈالی۔ تمہیں مجھ میں ایسی کیا دلکشی نظر آنے لگی کہ بے اختیار میری جانب کھنچے چلے آتے ہو وہ تمہاری اتنی خوبصورت محبوبہ ، دلنواز صوفیہ کہاں چلی گئی ہے یہ سن کر رفیع پہلے ہنسا، پھر بولا ۔ عقل مند خاتون خوبصورتی سے چوٹ کھایا ہوا انسان ہی تو بدصورتی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ کم از کم بدصورتی بے وفا تو نہیں ہوتی۔ تب رونا نے اس کو غنیمت جانا اور سمجھی کہ وفا شعاری بدصورتوں ہی کی میراث ہے اور وہ خلوص کے ساتھ اس کی جانب قدم بڑھانے لگی۔ اس کو حالات کے بدل جانے پر یقین نہیں آتا تھا۔ وہ تو اس وقت کو ایک عارضی حسین خواب سمجھ رہی تھی۔ تب ہی ایک دن اس نے رفیع سے شادی کا تذکرہ کر دیا۔ جواب میں، غیر متوقع ایسا باعتماد اور مثبت انداز ملا کہ وہ حیران رہ گئی۔ اس خوشی کی تو اس سے توقع ہی نہ تھی۔ اب اس کی زندگی میں بھی بہار کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی اور وہ اپنے گھر کی آرائش کے متعلق سوچنے لگی۔ اس نے اپنی برسوں کی جمع پونجھی گھر کی اشیا خریدنے پر صرف کر دی اور اپنے اجڑے پجڑے گھر کو سنوار نے لگی ۔ خود کو بھی نک سک سے درست رکھنے لگی۔ بیوٹی پارلر سے بالوں کو انداز میں ترشوایا، جدید فیشن کے خوبصورت ملبوسات خریدے۔ رفع نے اس کی بنت ٹھنت دیکھ کر اسے شادی کا پروپوزل دیا تو رونا خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ بیٹھی ۔ شادی کا دن مقرر ہوا، کارڈ چھپ گئے اور پھر دونوں کے دوست ، احباب میں تقسیم ہو گئے۔ ہر شخص حیران تھا یہ کیسا جوڑ ہے۔ کہاں حسین و جمیل رفیع اور کہاں بے چاری پینتیس برس کی بد شکل بھدی ناک والی رونا مگر یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ جو جسے چاہے، پسند کر لے۔ یہ سب کھیل بھی خدا کی قدرت کے ہی ہوتے ہیں کہ کون اس کا جوڑا بنتا ہے اور جوڑے تو سنا ہے کہ آسمان پر بن جاتے ہیں۔ بہرحال جس نے بھی سنا کہ رفیع اور رونا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے جارہے ہیں، وہ انگشت بہ دنداں رہ گیا۔ کسی کو بھی یقین نہ آرہا تھا مگر یقین تو کرنا تھا کہ شادی کے کارڈ آنکھوں کے سامنے تھے اور حقیقت عیاں تھی۔ ایک کارڈ رفیع نے اپنی روٹھی ہوئی محبوبہ کو بھی بھیجا اور وہ جس رد عمل کا متمنی تھا ، وہی ہوا۔ وہ اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ صوفیہ آگئی ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ کسی اور لڑکی کے نام کے ساتھ اس کا نام برداشت نہیں کر سکتی اور وہ بھی رونا جیسی بدصورت کے ساتھ، یہ تو اس کے حسن اور محبت کی سراسر توہین تھی۔ رفیع جانتا تھا کارڈ ملتے ہی وہ ساری نخوت چھوڑ کر آجائے گی۔ صوفیہ کی صورت اتری ہوئی تھی۔ روتے روتے اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ غم سے اس کا برا حال تھا، جیسے ابھی جان سے چلی جائے گی۔ رفیع بھی اس سے محبت کرتا تھا ۔ اسے دکھ نہیں دینا چاہتا تھا لیکن اسے اپنی طرف موڑ لانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہ تھا، تبھی اس نے یہ ترپ کا پتا کھیلا تھا۔ صوفیہ کو اذیت میں دیکھ رفیع کا دل بھی تڑپ گیا۔ گلے شکوے ہوئے پھر رونا کا وجود دودھ میں سے مکھی کی طرح ان کے درمیان سے نکال پھینکا گیا۔ اگلے روز اخبار میں اشتہار آگیا کہ چند نا گزیر وجوہ کے سبب رفیع اور رونا کی شادی منسوخ ہو گئی ہے۔ کارڈ بھی منسوخی کے اشتہار میں ساتھ چھپا ہوا تھا۔ لکھا تھا، ہم دعوت کی منسوخی کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ صبح صبح جب رونا نے اخبار میں شادی کی منسوخی کا اشتہار دیکھا، اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ سر چکرا کر رہ گیا۔ اس نے فوراً اپنے دفتر جا کر رفیع کو فون کیا۔ یہ سب کیا ہے رفیع ڈیئر رونا جو کچھ میں کھو چکا تھا، تمہاری وجہ سے مجھے دوبارہ مل گیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ میری طرف سے تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن میں بے بس ہوں، مجھے معاف کر دو۔ امید ہے، تم اتنی عظیم اور اعلیٰ ظرف ضرور ہوگی کہ مجھ کو معاف کر دو گی۔ یقین کرو، میں تمہاری سہیلی کی وجہ سے بہت مجبور ہو گیا ہوں ۔ نہیں چاہتا کہ ہم دونوں تو خوشیوں بھرے رستے پر گامزن ہو جائیں اور وہ موت کی راہ کی مسافر ہو جائے۔ ہم دونوں اس کے دوست ہیں تبھی اس کی زندگی بھی پیاری ہے۔ میں تم سے شادی نہیں کر سکتا ۔ خدارا رونا ہم کو معاف کر دینا۔ رفیع نے جواب دیا۔ فون رونا کے ہاتھ سے گر پڑا ۔ اس کا سر گھومنے لگا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کوئی اسے کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ اتنا بھیانک مذاق کر سکتا ہے۔ وہ پریشان نہیں دم بخود رہ گئی ۔ اسے اپنی اس قدر توہین محسوس ہوئی کہ وہ اس اذیت کو سہنے کی متحمل نہ ہو سکی۔ شام کو اس نے خواب آور گولیوں کی پوری شیشی معدے میں انڈیل لی۔ پڑوسی اسے اسپتال لے گئے۔ اس کی پڑوسن کسی کام سے اس کے گھر آئی تو رونا کو فرش پر بے سدھ پڑا پایا۔ اس کے شوہر نے پولیس کو فون کیا اور اسے اسپتال پہنچا دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہے۔ وہ اس بے رحم دنیا سے منہ موڑ چکی تھی۔ یہ تھی ہماری ہم جماعت اور سہیلی کی مختصر سی کہانی ، جو آج تک میرے دل پر لکھی ہوئی ہے۔ | null |
null | null | null | 217 | https://www.urduzone.net/dolut-ka-laluch/ | خاور جمیل دو سال بعد جیل سے رہائی پاکر سیدھا کراچی جانے والی مسافر کوچ میں جا بیٹھا اور منصوبے کے مطابق گولڈ مارک سپر اسٹور کا رخ کیا۔ یہ شہر کا جدید اور وسیع رقبے پر پھیلا ہوا اسٹور تھا۔ وہ اندر وہ داخل ہو کر کاسمیٹکس کے شبے کی جانب چل دیا۔ اسے پوری توقع تھی کہ نگہت وہیں ملے گی۔ ایسے میں یونیفارم میں ملبوس خاتون اس کے قریب آ کر مستفسر ہوئی۔ آپ کو کیا چاہیے عنابی کلر کی لپ اسٹک اور کہتے ہوئے وہ ذرا رک کر شیلف میں سجی دیگر اشیا کو دیکھنے لگا پھر بولا مسز نگہت آصف یہاں کام کرتی ہیں جی بولئے میں ہی نگہت آصف ہوں۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اسے یاد آیا کہ آصف ہر روز رات کو اپنی بیوی کا تذکرہ کرتا تھا، جس کے مطابق اس کی بیوی نگہت ، لانبے قد کی گوری اور خوب صورت عورت تھی، یہاں تک کہ وہ اکثر اس کو انڈین فلم کی مشہور ایکٹریس سے بھی تشبیہ دے ڈالتا تھا کہ وہ اسی کی طرح خوب صورت ، دلکش اور جواں ہے۔ دراز قامت تو تھی ہی، حسن و شباب میں بھی کم نہیں۔ کوئی بد عادت اسے چھو کر بھی نہیں گزری اور ہاں، جہاں تک پیار کا سوال ہے تو اس کے بعد آصف کی تعریف بڑی پراسرار ہو جاتی تھی۔ اس نے یادوں ۔ کے اوراق پلٹے ، ماضی کی تہیں کھولیں مگر سامنے کھڑی عورت سے مشابہت رکھتی ہوئی ایسی کسی عورت کا تذکرہ اسے نہ ملا۔ سیلز وومین دراز قد تھی۔ بس اس کے علاوہ اس تذکرے سے اس کی کوئی مماثلت نہیں تھی۔ اس کا وزن بھی زیادہ تھا ، وہ بے ڈول اور بھدی تھی۔ شاید آصف سے جدائی یا پھر اس کی غلط کاریوں اور بد روش نے نگہت کو ایسا بنا دیا ہو۔ اس نے دیکھا، عورت کے بال ہلکے براؤن تھے اور وہ نظر کا موٹے فریم والا چشمہ بھی لگائے ہوئے تھی، جس کے عقب سے اس کہ غیر دلکش سی آنکھیں اسے ہی گھورے جارہی تھیں۔ معاف کیجئے ۔ خاور نے اسے بدستور گھورتے پا کر کہا۔ میں جس نگہت آصف کا ذکر کر رہا ہوں، وہ صائمہ اسکوائر میں رہتی تھی، وہ آصف کی بیوی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں قدرے گھبراہٹ اور چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ نگہت نے پلکیں جھپکائیں اور بولی۔ وہ میں ہی نگہت ہوں، فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں میں آپ کے شوہر کا پیغام لایا ہوں۔ میرے شوہر وہ تو مر چکے ہیں۔ مجھے معلوم ہے۔ اس کی موت سے چند منٹ پہلے تک میں اس کے پاس ہی تھا۔ میرا نام خاور جمیل ہے۔ ہم دونوں دو سال تک جیل کی ایک ہی کوٹھڑی میں رہتے تھے۔ اس نے دیکھا کہ نگہت کے چہرے پر چھائے ہوئے تاثرات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کیا پیغام لائے ہیں آپ اس نے پہلے جیسے لہجے میں کہا۔ یہ بات میں یہاں نہیں بتا سکتا۔ آپ بتائیے کہ آپ کی چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے ساڑھے سات بجے ٹھیک ہے، میں آپ کو باہر گیٹ پر ملوں گا۔ وہ ذرا ہچکچائی، پھر بولی ۔ سڑک کے اس پار موڑ پر ملئیے گا، وہاں ایک پبلک پارک ہے۔ خاور نے اثبات میں سر ہلایا پھر تیزی سے باہر چلا گیا۔ آصف نے اپنی بیوی نگہت کے بارے میں جو کچھ اسے بتایا تھا، اسے مد نظر رکھتے ہوئے وہ کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ آصف کی خوبصورت بیوہ سے پوشیدہ دولت کے بارے میں بات کرے گا اور اس سے شادی کر کے دھوم مچادے گا ، تاہم اسے افسوس تھا کہ اس کا وہ پلان اب مٹی میں مل چکا تھا۔ اس موٹی، بیوقوف عورت کو حاصل کرنے کی اسے ذرا بھی تمنا نہیں تھی۔ خاور سوچتا رہا کہ آصف دو سال تک اپنی بیوی کے بارے میں جھوٹ بولتا رہا، پھر یکایک سب کچھ اس کی سمجھ میں آگیا۔ یقینا آصف نے اپنی کسی ایسی خوب صورت محبوبہ کا ایک حسین تصوراتی خاکہ اپنے دماغ میں بٹھا لیا تھا جس سے اس کی شادی نہ ہو سکی ہوگی۔ پھر بھی خاور کو امید تھی کہ آصف کی ڈیڑھ کروڑ والی بات صحیح ہوگی، تاہم اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ اس کی بیوہ نگہت سے اس طرح بات کرے گا کہ وہ اس سے خوف زدہ نہ ہو۔ نگہت جب پبلک پارک میں اس سے ملی تو اس وقت وہاں اندھیرا چھا چکا تھا اور یہ خاور جمیل کے حق میں اچھا تھا، کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے کوئی انہیں اکٹھے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ دونوں ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آصف نے مجھے تمہارے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا۔ اس نے ہولے سے کہنا شروع کیا۔ آپ کے بارے میں بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا تھا، اپنے خطوط میں وہ بھی اسی لہجے میں بولی ۔ ان کا خیال تھا کہ آپ ان کے بہت اچھے دوست ہیں ۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے۔ آصف کے بارے میں بھی میرے خیالات بہت اچھے ہیں۔ دراصل اس جیسے شخص کو اس کوٹھری میں قید ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہی خیال ان کا آپ کے بارے میں بھی تھا۔ نگہت نے لقمہ دیا۔ ہم دونوں بد قسمتی سے پکڑ لیے گئے تھے۔ میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ میں ان دنوں معاشی مسائل میں گھرا ہوا تھا، کھانے کو پھوٹی کوڑی نہیں تھی میرے پاس۔ میں بھی آصف کے ساتھ اس فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ سارا فساد بریف کیس سے شروع ہوا تھا، جو اس نے انورشاہ سے چھینا تھا، جو اس دفتر کا کیشئر تھا۔ اس میں تنخواہوں کی خطیر رقم تھی، تقریبا ڈیڑھ کروڑ روپے چوں کہ میں آصف کا کلوز فرینڈ تھا، اس لیے شبے کی بنیاد پر مجھے بھی پولیس کے حوالے کیا گیا، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ فیکٹری کا مالک اثر و رسوخ والا آدمی تھا، چنانچہ مجھے بھی دو سال کی سزا ہو گئی ۔ آصف نے اس بارے میں لکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا گیا۔ ایسا ہی برا سلوک تو اس کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ خاور کے لہجے میں نرمی عود آئی تھی، جو اس کے مطابق اس ڈرامے کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھی۔ آگے بولا ۔ وہ بے چارہ بھی تو بہت سیدھا آدمی تھا، جبکہ انورشاہ اس کا دوست بھی تھا۔ وہ اسے ہلاک نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ایسے کاموں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کئی کڑوے گھونٹ پینے ہی پڑتے ہیں۔ خیر، آصف نے اپنے دفتر کے کیشئر کی لاش کو اس طرح ٹھکانے لگایا کہ پولیس اسے برآمد ہی نہ کر پائی۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ انور شاہ کی لاش اب تک نہیں ملی نا کیوں نگہت کہتے ہوئے اس نے چالاکی سے پوچھ بھی لیا۔ ان واقعات کا ذکر نہ ہی کریں، تو بہتر ہے۔ وہ ہولے سے بولی۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں ان کی یاد سے دُکھ ہوتا ہو گا۔ بڑی رسانیت سے کہتے ہوئے اس نے نگہت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ نگہت کی موٹی ہتھیلی پسینے سے تربتر تھی۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ گوشت کے ٹکڑے کی طرح نگہت کا ہاتھ خاور کے ہاتھ میں ہی رکھا رہا۔ خاور نے پھر کہا۔ حالات سے ہی محسوس ہوتا تھا کہ آصف کو پھانسا گیا تھا۔ نگہت بولی۔ حالاں کہ اس دوپہر، آصف نے انور شاہ کو اپنی کار میں لفٹ بھی دی تھی۔ انور دفتر کے ملازمین کی تنخواہوں کا روپیہ لے کر بینک سے واپس آ رہا تھا۔ اس کی اپنی کار راستے میں خراب ہو گئی تھی اور اتفاقاً ہی آصف مل گیا۔ انور اسی کی کار میں آیا تھا۔ بس، اسی قدر معلومات پولیس کے لیے کافی تھیں ۔ آصف کے کپڑوں پر لگا ہوا خون دھلنے بھی نہ پایا تھا کہ پولیس نے آکر اسے گرفتار کر لیا۔ بچاؤ کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ میں نے بہت بتایا کہ وہ سارا دن گھر پر ہی رہا تھا مگر میری کسی نے نہیں سنی ہی نہیں اور اسے دس سال قید کی سزا دے دی گئی۔ مگر یہ اس نے کبھی نہیں بتایا کہ انور شاہ کی لاش اس نے کہاں ٹھکانے لگائی تھی اور نہ ہی یہ کہ وہ رقم کہاں چھپائی تھی۔ اس دھند لکے میں بھی خاور نے دیکھ لیا کہ نگہت نے اثبات میں اپنے سر کو جنبش دی تھی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ میرا خیال ہے کہ پولیس والوں نے آصف کو کافی مارا پیٹا بھی تھا، مگر یہ باتیں اس نے پولیس کو نہیں بتا ئیں۔ خاور ایک لمحہ خاموش رہا، پھر سگریٹ سلگا کر ایک گہرا کش لیا اور بولا۔ کیا یہ باتیں اس نے کبھی تمہیں نہیں بتائی تھیں تمہارا کیا خیال ہے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ مجھے انہی باتوں اور بدنامی کی وجہ سے ہی تو اپنا اپارٹمنٹ چھوڑنا پڑا تھا۔ ہر کوئی مجھے ایک مجرم اور قاتل کی بیوی ہونے کا طعنہ دیتا تھا۔ اب گزشتہ دو سال سے میں اس سپر اسٹور، پر بڑی مشکلوں سے ملنے والی یہ نوکری کر رہی ہوں ۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوگا میں تو ایسے حالات سے گزر رہی ہوں کہ نہ رو پاتی ہوں نہ ہنس سکتی ہوں۔ خاور نے جلدی سے ادھ جلا سگر سکریٹ پھینک دیا۔ اندھیرے میں کتنی دیر تک سلگتے ہوئے سگریٹ کی لال لال نوک چمکتی رہی ۔ اس نے اسی طرف دیکھتے ہوئے اب مقصد کی بات کی طرف آتے ہوئے کہا۔ اچھا نگہت اگر وہ روپے تمہیں مل جائیں تو تم ان کا کیا کرو گی کیا اسے پولیس کے حوالے کر دو گی نگہت نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا، پھر بولی ۔ کس لئے کیا اس لیے کہ پولیس نے میرے شوہر کو جیل میں سڑا کر مارا ہے، وہ روپیہ انہیں دے کر میں ان کا شکریہ ادا کروں مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ نمونیہ کے شدید حملے سے اس کی موت واقع ہو گئی مگر میں جانتی ہوں کہ کیسا ہوتا ہے ان جیلوں کا نمونیہ اور ماحول ۔ اس کی آواز بھرانے لگی۔ جمیل کا ڈاکٹر کہتا تھا، آصف کو انفلوئنزا ہوا ہے۔ اس پر میں نے بہت شور مچایا اور وہ اسے اُٹھا کر مریضوں کے کمرے میں لے گئے۔ خاور بولا ۔ میں تو کہوں گی کہ جیل والوں نے ہی اسے جان سے مارا ہے۔ اپنے جرم کی قیمت آصف نے اپنی جان دے کر چکائی۔ میں اب اس کی بیوہ ہوں ، اب تو وہ دولت اگر مل بھی جائے تو ساری کی ساری میری ہوگی ۔ ہماری کہو، ہماری۔ خاور بولا تو اس کے ہاتھ میں موجود نگہت کی انگلیاں کس سی گئیں۔ اس کے ناخن خاور کو اپنی ہتھیلی میں گڑھتے محسوس ہوئے ، پھر وہ آہستہ سے بولی۔ کیا آصف نے تمہیں بتایا ہے کہ وہ دولت اس نے کہاں چھپائی تھی ہاں بتایا تو تھا خاور دانستہ گومگو سے لہجے میں بولا۔ جب وہ لوگ اسے کوٹھری سے لے جانے لگے تو اس کی حالت بہت نازک تھی۔ اس حالت میں وہ زیادہ بات تو نہیں کر سکتا تھا ، مگر مجھے کچھ اشارہ مل گیا۔ میں نے سوچا جیل سے رہا ہونے کے بعد تم سے مل کر اس پوشیدہ دولت کا پتا لگا سکوں گا۔ اس نے بتایا تھا کہ ڈیڑھ کروڑ کی خطیر رقم ہے۔ اگر ہم اس کا نصف نصف بھی کر لیں تو پچھتر لاکھ کچھ کم رقم نہیں ہوتی۔ اگر تم جانتے ہی ہو کہ وہ رقم کہاں ہے، تو اس طرح اشاروں کنایوں میں کیوں بات کر رہے ہو صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے۔ نگہت نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ خاور نے بات صاف کرتے ہوئے کہا۔ مجھے جو اشارہ ملا ہے، اسے سمجھنے کے لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، پھر ہم ساتھ ساتھ اس رقم کی کھوج لگائیں گے۔ میں یہاں اجنبی ہوں، اگر میں اس رقم کے لیے بھاگ دوڑ کروں گا تو لوگ خواہ مخواہ مجھ پر شک کریں گے لیکن اگر تم میری مدد کرو گی تو شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں اس رقم کا پتا جلد ہی چل جائے۔ اچھا تو نصف نصف کی بات پکی ہے نا نگہت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ جلتا ہوا سگریٹ کا ٹکڑا اب بھی راکھ میں دبی چنگاری کی طرح چمک رہا تھا۔ خاور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ پکی کیا تم جانتی ہو کہ آصف کے اور میرے درمیان کتنی گہری چھنتی تھی۔ وہ ہر وقت تمہارا ذکر کرتا رہتا تھا۔ کچھ دونوں بعد مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں بھی تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں جتنا آصف تمہیں جانتا تھا۔ میں تمہیں اور بھی قریب سے جاننا اور سمجھنا چاہتا ہوں۔ خاور کا لہجہ دھیما ہی تھا۔ نگہت کے ناخن اسے پھر اپنی ہتھیلی پر چبھتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس بار اس نے بھی نگہت کا ہاتھ آہستہ سے دبا دیا، پھر کہا ۔ نگہت معلوم نہیں کہ تم مجھے کیسا آدمی خیال کرو، مگر میں دو سال قید رہا ہوں ، جیل کی کوٹھری میں کیا تم سمجھ سکتی ہو کہ دو سال تک عورت کی قربت سے دور رہنا ایک مرد کے لیے کیسا ہوتا ہے میں نے بھی تو دو سال بالکل تنہا بسر کئے ہیں۔ میں تم سے دوبارہ کب ملوں میرا مطلب ہے اگر خاور لہجے میں محبت بھری نرمی سموتے ہوئے بولا ۔ تم میرے ساتھ ہی چلو۔ جب رقم نصف نصف طے ہوگئی ہے تو پھر دوری کیسی خاور کو اپنا دل خوشی سے بلیوں اُچھلتا محسوس ہونے لگا۔ جو بات وہ کہنا چاہتا تھا، وہ نگہت نے خود کہہ کر اس کی پلاننگ کو گویا حتمی شکل دے ڈالی ۔ تم نے بالکل صحیح سوچا، میں تیار ہوں ۔ اس نے فوراً کہا اور دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بس میں سوار ہو کر اپارٹمنٹ میں پہنچے۔ نگہت یہاں اکیلی رہتی تھی۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا فلیٹ تھا، جو سالوں پرانے پروجیکٹس کا حصہ تھا۔ دونوں ہی تھکے ہوئے تھے۔ نگہت بیڈ پر سوگئی اور خاورزمین پر چادر بچھا کر لیٹ گیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ سب کچھ اس کی منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہا تھا، بلکہ اس نے اندازہ لگایا کہ کچھ زیادہ ہی جلدی ہو رہا تھا۔ ایسا ہی ہوتا ہے، جب تقدیر مہربان ہو تو راہیں آسان ہونے لگتی ہیں۔ ایک بات کا تو اس نے اندازہ لگا ہی لیا تھا کہ نگہت کو ابھی تک وہ دولت نہیں ملی ہے، ورنہ بھلا وہ اس سڑے اور کابک جیسے چھوٹے فلیٹ میں کیوں رہ رہی ہوتی، تاہم اب بھی اس نے جلدی بازی سے کام نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ پچھلی بار اس نے سوچا تھا کہ وہ نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس کو لے کر عقبی دروازے سے نکل جائے گا، مگر اس کی اُمید کے برخلاف عقبی دروازے پر پولیس کانسٹیبل مل گیا تھا اور وہ پریشانی میں پھنس گیا تھا۔ پھر جیل میں آصف سے دوستی بڑھا کر ہی اس نے بہت سی باتیں معلوم کر لی تھیں۔ آصف کی بیوی کا ایڈریس اسے معلوم ہو گیا تھا۔ ڈیڑھ کروڑ کی رقم جیل آنے سے پہلے اس نے کہیں چھپا دی تھی، مگر آصف نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ رقم اس نے چھپائی کہاں تھی ، پھر وہ بیمار پڑ گیا اور یہ سنہرا موقع بھی خاور کومل گیا کہ وہ دباؤ ڈال کر اس سے اس پوشیدہ خزانے کے بارے میں پوچھ لیتا، مگر آصف اسے یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہوا، تب خاور نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی تھی، مگر اس میں بھی شاید وہ جلد بازی اور زیادتی کر گیا تھا، کیونکہ عین اسی لمحے پہرے دار وہاں آ گیا تھا اور اس کے قدموں کی آواز سنتے ہی خاور نے آصف کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد آصف کو جیل کے اسپتال میں لے جایا گیا۔ خاور کو ڈر تھا کہ آصف کو ہوش آ گیا تو وہ اس کے حملے کی بابت پولیس کو کہیں آگاہ نہ کردے لیکن اسی رات آصف چل بسا اور جیل کے ڈاکٹر نے رپورٹ دے دی کہ وہ نمونیہ سے مر گیا۔ خاور صاف بچ گیا تھا، اسی لیے وہ یہ پلان بنارہا تھا اور اب تک اس کا پلان کامیاب رہا تھا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ پہلی ہی بس سے کراچی آن پہنچا تھا۔ اب اسے نگہت کی مدد کی سخت ضرورت تھی۔ وہ اس کے لیے ڈھال بن گئی تھی، مگر اس کے بارے میں آصف نے جو اسے بتایا تھا کہ وہ گڑیا جیسی خوب صورت ہے یہ بات غلط ثابت ہوئی تھی ، کیوں اس نے سوچا، تاہم اب اسے نگہت کی مدد کی سخت ضرورت تھی اور وہ اسے اس قدر شیشے میں تو اُتارہی چکا تھا کہ اس وقت اس کے فلیٹ میں موجود تھا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر آرام سے غور کر رہا تھا۔ تم جاگ رہے ہو کیا اچانک نگہت نے پوچھا۔ وہ کانپ گیا اور بولا۔ ہاں میرے خیال میں ہمیں آئندہ کے لیے پلان بنا لینا چاہیے۔ بالکل ، مجھے تم جیسی عقل مند عورتیں ہی پسند ہیں ۔ وہ چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔ تم ٹھیک کہتی ہو، کام جتنی جلدی شروع کر دیا جائے اُتنا ہی اچھا رہے گا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اتنی خطیر رقم کے حصول کے بارے میں جان کر وہ بھی اس کی طرح بے چین ہو گئی تھی۔ یہ ایک طرح سے اس کے منصوبے کے لیے اچھا ہی تھا۔ آصف نے مجھے مرنے سے پہلے اتنا ضرور بتایا تھا کہ وہ رقم اب بھی انور شاہ کے پاس ہے۔ میرا مطلب ہے اس کی لاش کے پاس یا ساتھ اس لیے پولیس جب تک لاش کا پتا نہیں لگا سکتی، اس وقت تک وہ رقم بھی پولیس کے ہاتھ نہیں لگ سکتی ۔ نگہت خاموشی سے سنتی رہی پھر مستفسر ہوئی۔ بس اتنا ہی بتایا تھا آصف نے تم اور کیا چاہتی ہو ساری بات بالکل صاف تو ہے۔ وہ رقم انور کی لاش کے پاس ہی کہیں چھپائی گئی ہے۔ نگہت اُٹھ کر اس کے پاس قریب میٹریس پر بیٹھ گئی اور بولی۔ دو سال سے پولیس انور کی لاش کو تلاشتی پھر رہی ہے، مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ پھر ایک لمبی ہمکاری بھر کے بولی۔ میرا خیال تھا کہ تمہیں کوئی خاص بات معلوم ہوگی لیکن ایسا نہیں ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ پولیس اب تک لاش کو کہاں کہاں تلاش کر چکی ہے ہم ان دنوں کرایے کے جس مکان میں رہتے تھے، سب سے پہلے اس کی تلاشی ہوئی تھی، مگر ایک بار تلاشی لینے کے بعد بھی پولیس مطمئن نہ ہوسکی تھی، تین دن بعد پولیس نے پھر گھیرا ڈالا تھا اور اس بار ساری الماریاں اور ایک ایک تختہ اُکھاڑ کر دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس کے آدمی ایک ماہ تک لاش کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ انور غیر شادی شدہ نوجوان تھا۔ اس کا فلیٹ شہر کے وسط میں تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ اس نے شہر کے ساحلی علاقے کی طرف بھی کوئی بڑا سا پلاٹ، جو نجانے اس نے خرید رکھا تھا یا اس کے مرحوم باپ کی ملکیت تھا، وہاں دوستوں کے ساتھ شکار پر جایا کرتا تھا، اس طرف اس نے ایک جھونپڑی ٹائپ مکان بنوا رکھا تھا۔ اس کی بھی تلاشی لی گئی، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ خاور چند ثانیوں کی پر سوچ خاموشی میں مستغرق رہا پھر بولا ۔ آصف نے جس وقت انور شاہ کو اپنی کار میں بٹھایا تھا اس کے کتنی دیر بعد وہ گھر واپس آیا تھا تقریبا تین گھنٹے بعد اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اسے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یقیناً یہیں آس پاس ہی اس نے انور شاہ کی لاش کو چھپایا ہوگا۔ پھر ذرا وقف کے بعد بولا۔ اچھا تم ذرا اپنے ذہن پر زور دے کر بتاؤ۔ کیا واقعی انور کی آصف کے ساتھ دوستی تھی ہاں، میں نے ان میں ہمیشہ گہری چھنتی دیکھی۔ نگہت جواب میں بولی۔ وہ دونوں ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ ان کی کوئی خاص مشغولیات تم میرا مطلب سمجھ رہی ہونا زیادہ تر وہ مچھلی کا شکار کھیلتے تھے۔ وہ دونوں اکثر اس نیم ساحلی علاقے کی طرف چلے جایا کرتے تھے جدھر انور شاہ کے مرحوم باپ کا پلاٹ تھا۔ دو ایک بار آصف کے ساتھ میں بھی وہاں جا چکی ہوں ۔ کھلی فضا کے سبب مجھے وہ جگہ پسند تھی ، مگر مچھلی کے شکار سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ علاقہ میرے خیال کے مطابق مغرب میں چالیس سے پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ خاور نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ میں نے بتایا تو ہے کہ پولیس نے وہاں کی تلاشی لے لی ہے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ وہاں ضرور کوئی شیڈ یا بوٹ ہاؤس ہوگا ۔ خاور نے وضاحت کی۔ انور شاہ ایسا کوئی مال دار آدمی نہیں تھا ۔ نگہت بولی۔ دونوں جب بھی شکار کے لیے وہاں جاتے تھے تو کرائے پر کشتی لے کر جاتے تھے ۔ نگہت نے جانے کیوں ایک گہری سانس لی تھی، جیسے اس موضوع سے اُکتانے لگی ہو۔ خاور نے مضطر بانہ انداز میں ایک سگریٹ سلگایا پھر کہا ۔ دیکھو نگہت اگر ڈیڑھ کروڑ کی رقم حاصل کرنی ہے تو اس معمہ کو حل کرنا ہوگا۔ جس روز انور شاہ مارا گیا تھا، اس دن کے واقعات یاد کرو، شاید تم اب بھی کوئی بات بھول رہی ہو۔ میں گھر پر تھی، اس لئے نہیں جانتی کہ کیا واقعات پیش آئے تھے۔ اس روز آصف کی چھٹی تھی اور وہ باہر گھومنے نکلا ہوا تھا۔ جانے سے پہلے کیا اس نے کچھ کہا تھا کیا وہ نروس دکھائی دے رہا تھا نہیں، میں نہیں سمجھتی کہ اس نے پہلے سے کوئی پلان تیار کر رکھا ہو۔ اچانک ہی جب انور اتنی رقم کے ساتھ کار میں بیٹھا ہو تو یقینا اس وقت ہی اس کے ذہن میں کوئی منصوبہ تشکیل پایا ہوگا۔ مگر لوگوں کا تو یہی خیال تھا کہ آصف نے پہلے سے منصوبہ بنا رکھا تھا، کیونکہ گہری دوستی کے سبب اس کو یہ معلوم ہی تھا کہ انور اس روز بینک سے اپنے دفتر کے تمام ملازمین کی تنخواہ نکلوا کر لاتا ہے۔ خاور نے سر ہلا کر کہا۔ آصف کار پر اکیلا ہی واپس آیا تھا اس نے تم سے کیا کہا تھا انہوں نے کوئی خاص بات نہیں کی تھی۔ وقت ہی کہاں تھا ان کی آمد کے دو منٹ بعد ہی پولیس آگئی تھی۔ بھلا کس نے پولیس کو اتنی جلد خبر کر دی خاور کو حیرت ہوئی۔ جب انور کافی دیر تک نہیں لوٹا تو فیکٹری کے مالک ثاقب جنیدی کو تشویش ہوئی، اس نے بینک فون کیا۔ کیشئر اور چوکیداروں سے پوچھ کچھ کی گئی، چوکیداروں نے بتایا کہ انور اپنی کار وہیں چھوڑ کر اپنے دوست کی گاڑی میں چلا گیا تھا، اسی لیے پولیس ان کی تلاش میں یہاں آ پہنچی تھی۔ جب آصف لوٹ کر آیا تھا اس وقت کیا وہ گردوغبار میں اٹا ہوا تھا خاور نے پوچھا۔ نہیں، صرف ان کے ہاتھ کچھ گندے تھے۔ گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی تھی جس سے پولیں کچھ پتا لگا سکتی۔ البتہ ان کے جوتوں میں کیچڑ لگی ہوئی تھی ، ان کا ذاتی پستول بھی گھر میں نہیں تھا، جس پر کافی اعتراضات کئے گئے۔ وہ اگر پستول لے کر نہ گئے ہوتے تو شاید بچ جاتے ۔ وہ کہتے رہے کہ ان کا پستول گزشتہ کئی ماہ سے غائب ہے مگر کسی نے ان کی اس بات پر یقین ہی نہیں کیا۔ اچھا اور کوئی خاص بات۔ ہاں، وہ جب لوٹ کر آئے تھے، اس وقت ان کا ہاتھ زخمی تھا۔ میں نے زخم دیکھ کر اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے چوہوں کے بارے میں کچھ کہا تھا، جبکہ عدالت میں انہوں نے بتایا تھا کہ کار کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ جانے سے ان کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کار کی سیٹ پر جو خون ٹپکا ہوا ملا تھا وہ ان کے زخمی ہاتھ کا ہی تھا۔ معائنہ کرنے پر کار کا شیشہ ٹوٹا ہوا ملا بھی تھا، مگر ڈاکٹری معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خون ان کا نہیں تھا، بلکہ انور کے خون سے مماثلت رکھتا تھا ۔ مگر یہ بات تو آصف نے تمہیں بتائی نہیں تھی تم سے اس نے یہی کہا تھا کہ اسے چوہے نے کاٹ لیا ہے۔ تو خاور نے کہا ۔ انہوں نے چوہوں کے بارے میں کچھ کہا ضرور تھا جسے میں ٹھیک طرح سن نہ سکی تھی۔ میں اس وقت کچن میں چولہے کی بھڑکتی ہوئی آگ کم کر رہی تھی۔ عدالت میں، گرفتاری کے بعد ان کا طبی معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے بیان دیا تھا کہ بلیڈ سے انہوں نے اپنا ہاتھ زخمی کرلیا تھا۔ پولیس کو باتھ روم میں وہ بلیڈ بھی رکھا ہوا مل گیا تھا اور اس پر خون بھی لگا ہوا تھا ۔ ذرا ٹھہرو خاور نے اپنی ذہنی ہلچل پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ آصف نے تم سے چوہوں کے بارے میں کچھ کہا تھا، پھر وہ باتھ روم گیا تھا، وہاں اس نے بلیڈ سے اپنی انگلی تھوڑی سی اور زخمی کر لی تھی ، اب اُلجھن حل ہوتی جا رہی ہے، کیا تم سمجھ نہیں رہی ہو نگہت پل کے پل خاور کا چہرہ کامیابی کی امید تلے سرخ ہونے لگا، مگر نگہت نا سمجھ میں آنے والے انداز سے اسے تکتی رہی تو وہ اسی جوش سے آگے بولنا شروع ہوا۔ آصف کی انگلی میں چوہے نے ہی کا ٹا تھا۔ شاید اس وقت جب وہ انور کی لاش کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا مگر یہ بات اس نے پولیس کو نہیں بتائی تھی۔ کیوں اس لیے کہ اگر پولیس یہ جان جاتی تو شاید لاش کا پتا بھی لگا لیتی ۔ وہ ایسی جگہوں کی تلاشی لیتی، جہاں چوہے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اس بات کو پوشیدہ رکھنے کے لیے اس نے اپنی انگلی بلیڈ سے مزید زخمی کر لی تھی تا کہ کوئی شناخت ہی نہ کر سکے۔ ہو سکتا ہے۔ نگہت بولی۔ مگر ان معلومات سے بھی ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے کیا ہم اس مغربی ساحلی علاقے کے قرب و جوار کی ان تمام جگہوں پر لاش کو تلاش کریں، جہاں چوہے بکثرت ہوں نہیں خاور نے نفی میں سر ہلایا۔ ابھی تم نے بتایا تھا کہ آصف اور انور کشتی کرایے پر لیا کرتے تھے۔ وہ کن لوگوں سے کشتی لیا کرتے تھے اور کشتی کو کہاں کھڑا کرتے تھے، یہ معلوم ہے تمہیں ایک بوٹ ہاؤس میں۔ جن کا بوٹ ہاؤس ہے، کیا اس روز وہ وہاں تھے نہیں۔ وہ بوٹ ایک مقامی زمیندار کی تھی اور انہی کا بوٹ ہاؤس بھی تھا، انور کی موت سے دو ہفتے پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔ یہ بات آصف کو معلوم تھی انہوں نے ہی یہ بات مجھے بتائی تھی۔ نگہت کی آواز کچھ بھرا اُٹھی۔ ان دنوں مچھلی کے شکار کا بھی موسم نہیں تھا۔ آج کل اس بوٹ ہاؤس میں کون رہتا ہے کوئی نہیں، زمیندار سائیں رکھیو کا کوئی وارث نہیں تھا۔ گورمنٹ نے ابھی تک ان کی جائیداد فروخت نہیں کی ہے۔ یہی حال انور شاہ کی جائیداد کا ہے کیونکہ اس کا بھی کوئی وارث نہیں ہے۔ میں وہاں جانے کے پلان پر سنجیدگی سے غور کرنے لگا ہوں ۔ بالاخر خاور نے متقی لہجے میں کہا ۔ نگہت اس کی طرف تکتی رہی۔ اور تم بھی میرے ساتھ چلوگی ۔ دوستی اور تعلق داری اپنی جگہ مگر جہاں پیسوں کا معاملہ ہو، وہاں بات صاف رہنی چاہیے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ میں رقم تقسیم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کیونکہ، خاور نے اس کی طرف پیاری بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے دانستہ اپنا جملہ اُدھورا چھوڑ دیا اور نگہت کا چہرہ شرم سے سرخ ہونے لگا۔ وہ اس کا اشارہ سمجھ رہی تھی ، جبکہ اس کی نیت میں کیا تھا، وہ نہیں جانتی تھی۔ ایک بار رقم ہاتھ لگ جائے بی بی پھر تمہارا بھی بندوبست ہمیشہ کے لیے کر ڈالوں گا اور رقم ساری میری ہوگی۔ خاور نے دل ہی دل میں کہا اور بظاہر محبت بھرے انداز میں مسکراتا رہا، پھر جلدی سے بولا ۔ تم کسی طرح گاڑی کا بندوبست کرو۔ کل میری ہفتہ وار چھٹی ہے، میں اپنی ایک سہیلی سے کار لے آؤں گی۔ تو پھر مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ خاور نے کہا۔ انہیں نکلتے نکلتے دوپہر ہو ہی گئی اور وہ ایک گھنٹے میں اس نیم ساحلی علاقے میں پہنچ گئے۔ یہاں بڑی سی جھیل نظر آرہی تھی۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ وہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں۔ وہ اس جھونپڑ نما کا ٹیج پر پہنچ کر رک گئے ۔ دور دور تک سردست سناٹے کا راج تھا۔ خاور کو اندازہ ہو رہا تھا کہ اس جھونپڑے اندر تو انور شاہ کی لاش نہیں ہو سکتی۔ دونوں کار سے اُتر آئے۔ میرا خیال ہے اب تم بوٹ ہاؤس چلنا پسند کرو گے۔ یہاں سے بائیں سمت چلو، میں راستہ بتاتی ہوں۔ سنبھل کر چلنا، راستے میں کافی پھسلن ہے ۔ اندھیرے میں چلنا خطرناک ہی تھا، کیونکہ شام ہونے کے سبب تاریکی کا غلبہ ہونے لگا تھا، مگر روشنی لے کر چلنا بھی ٹھیک نہ تھا۔ بوٹ ہاؤس جھیل کے کنارے پر ہی واقع تھا۔ خاور نے دروازہ ٹٹولا، اس پر قفل لگا ہوا تھا۔ تم ٹھہرو، میں اس کا انتظام کرتا ہوں ۔ اتنا کہہ کر وہ دوڑ کر ایک نوک دار پتھر اٹھا لایا۔ قفل پرانا اور زنگ آلود تھا۔ دو تین وار سے ہی نیچے آ رہا۔ خاور نے نگہت کے ہاتھ سے فلیش لائٹ لی اور دروازہ کھول کر روشنی اندر پھینکی تو ڈھیر ساری سرخ انگارے سے نظر آئے جیسے سگریٹوں کے جلتے ہوئے ٹکڑے ہوں ۔ ایک لمحہ کے اندر اندر وہ سمجھ گیا۔ وہ آنکھیں تھیں، چوہوں کی آنکھیں۔ خاور کو چوہوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ فلیش لائٹ کی روشنی میں جب چوہے ادھر اُدھر بھاگ گئے تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے فرش پر روشنی پھینکی ۔ وہ جگہ جگہ سے اُدھڑا ہوا تھا۔ تو پولیس یہاں آچکی ہے۔ وہ بدبدا یا۔ میں نے تو تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ پولیس ہر ممکن جگہ تلاش کر چکی ہے ۔ نگہت بولی۔ خاور نے روشنی ادھر اُدھر ڈالی ۔ بوٹ ہاؤس تمام تر خالی تھا۔ اس میں کشتی بھی کوئی نہیں تھی۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نگہت نے نا اُمید ہوتے ہوئے کہا۔ ٹھہرو تو ، جب یہاں تک آئے ہی گئے۔ ہیں تو کیوں نہ پورے مکان کو اچھی طرح دیکھ لیں پھر اس نے آگے بڑھ کر فلیش لائٹ کی روشنی چھپر پر ڈالی اور ٹھٹھک گیا۔ وہ دیکھو نگہت اس کی چھت چھپر سے کافی نیچے ہے۔ تو اس سے کیا ہوتا ہے ممکن ہے چھت اور چھپر کے درمیان کچھ جگہ ہو۔ ہاں لیکن اوہ سنو اس نے نگہت کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ چھت پر کھڑکھڑاہٹ سی ہو رہی تھی ۔ صاف ظاہر تھا کہ چھت اور چھپر کے درمیان چوہے دوڑ رہے تھے اور کوئی چیز کھڑکھڑ کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ آؤ باہر شیڈ میں سیڑھی تلاش کریں۔ انہیں بوٹ ہاؤس کے قریب ہی ٹین کے ایک چھوٹے سے شیڈ میں ایک سیڑھی مل گئی اور نگہت کو لوہے کا ایک گرز پڑا مل گیا۔ خاور نے سیڑھی لگائی اور نگہت نے فلیش لائٹ سے چھت پر روشنی پھینکی۔ وہاں ساری سیلنگ پر موٹے کاغذ چسپاں تھے۔ خاور نے لوہے کے اس گرز سے ان کاغذوں کو اکھاڑا۔ کاغذوں کے نیچے پلائی ووڈ کے دوتین تختے بے ترتیبی سے ٹھونکے گئے تھے۔ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ کام گھبراہٹ اور جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ خاور نے اسی گرز سے تینوں تختے اُکھاڑ ڈالے، تو چوہے ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ خاور نے نگہت سے فلیش لائٹ لے کر کھڑکی نما دراز سے روشنی اندر ڈالی اور اس کی مسرت کی انتہا نہ رہی۔ لوہے کا وہ سیاہ بکس سامنے ہی رکھا تھا اور اس کی بغل میں ایک بھیانک ڈھانچہ پڑا ہوا تھا۔ خاور ڈھانچے کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ وہ انور شاہ کی لاش ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر بکس کو اپنے قریب کھینچا اور اس کا ڈھکن اُونچا کر کے دیکھا تو اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اندر ڈیڑھ کروڑ کی رقم موجود تھی۔ تعفن اور بدبو کے باوجود خاور کو صندوق میں سے خوشبوؤں کی لپیٹیں اُٹھتی محسوس ہوئیں۔ کچھ ہے وہاں نگہت نے کانپتے لہجے میں پوچھا۔ ہاں ۔ خاور نے جواب میں کہا ۔ سیڑھی پکڑی رہو، میں اسے لے کر اُترتا ہوں۔ وہ اتر نے لگا۔ اب نگہت کا کام تمام کرنے کا وقت اب آگیا تھا۔ وہ یہی سوچتا اور پلان بناتا رہا مگر اسے نگہت کے کا منصوبے کے بارے میں تو کچھ علم ہی نہ تھا، لہذا جوں ہی وہ صندوق لے کر نیچے اترا، نگہت نے پوری طاقت سے لوہے کا گرز گھمایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ وار اتنا بھر پور تھا کہ وہ آہ بھی نہ کر سکا اور چکرا کر زمین پر آرہا۔ تقریباً پندرہ منٹ تک وہ بے ہوش پڑا رہا۔ اس دوران نگہت نے ایک رسی تلاش کرلی یا شاید اپنے ساتھ لائی تھی۔ بہر کیف وہ اسے استعمال میں لانا اچھی طرح جانتی تھی۔ جب خاور ہوش میں آیا تو اس نے خود کو رسی میں جکڑا ہوا پایا۔ نگہت نے اس کا منہ رومال سے کس کر باندھ دیا تھا۔ وہ فرش پر بے حس و حرکت پڑا دیکھتا رہا۔ نگہت نے بکس کھول کر دیکھا اور ایک قہقہہ لگا کر ہنس پڑی فلش لائٹ فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کی روشنی میں خاور کو اس کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔ وہ اب چشمہ نہیں لگائے ہوئے تھی۔ نگہت نے اس کو یوں اپنی طرف ٹکٹکی باندھے گھورتے ہوئے پایا تو مسکرا کر بولی۔ مجھے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب تو اس ڈرامے کا ایک حصہ تھا۔ میں نے اپنے بالوں کا رنگ ذرا بدل لیا تھا اور وزن بھی جان بوجھ کر بڑھایا تھا تا کہ کسی کی مشکوک نظریں مجھ پر نہ پڑیں۔ جانتے ہو، کبھی کبھی انسان کو بہروپیہ بنا پڑتا ہے۔ خاور نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کے منہ میں رومال ٹھونسا ہوا تھا۔ اس کی بے بسی دیکھ کر نگہت کو مزہ آگیا۔ وہ اسی لہجے میں بولی آصف کو اس رقم کا لالچ نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انور شاہ کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔ ہم دونوں تقریباً چھ ماہ سے آصف کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آصف کے کانوں تک یہ بات کس طرح پہنچی۔ بہرحال اسے مجھ پرشک ہو گیا اور وہ مجھ پر کڑی نظر رکھنے لگا۔ وقوعے کے روز وہ اپنا پستول لے کر انور شاہ کو ختم کرنے کے ارادے سے ہی نکلا تھا۔ ممکن ہے کہ بعد میں وہ مجھے بھی مار ڈالتا۔ اس رقم کے بارے میں تو اس وقت تک اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا، مگر یہ نگہت نے اس کو یوں اپنی طرف ٹکٹکی باندھے گھورتے ہوئے پایا تو مسکرا کر بولی۔ مجھے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب تو اس ڈرامے کا ایک حصہ تھا۔ میں نے اپنے بالوں کا رنگ ذرا بدل لیا تھا اور وزن بھی جان بوجھ کر بڑھایا تھا تا کہ کسی کی مشکوک نظریں مجھ پر نہ پڑیں۔ جانتے ہو، کبھی کبھی انسان کو بہروپیہ بنا پڑتا ہے۔ خاور نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کے منہ میں رومال ٹھونسا ہوا تھا۔ اس کی بے بسی دیکھ کر نگہت کو مزہ آگیا۔ وہ اسی لہجے میں بولی آصف کو اس رقم کا لالچ نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انور شاہ کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔ ہم دونوں تقریباً چھ ماہ سے آصف کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آصف کے کانوں تک یہ بات کس طرح پہنچی۔ بہرحال اسے مجھ پرشک ہو گیا اور وہ مجھ پر کڑی نظر رکھنے لگا۔ وقوعے کے روز وہ اپنا پستول لے کر انور شاہ کو ختم کرنے کے ارادے سے ہی نکلا تھا۔ ممکن ہے کہ بعد میں وہ مجھے بھی مار ڈالتا۔ اس رقم کے بارے میں تو اس وقت تک اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا، مگر یہ بات وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ تنخواہ کی تقسیم کے روز انور شاہ با آسانی بینک میں مل سکتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ انور کو بے ہوش کر کے یہاں لایا تھا۔ یہاں پہنچ کر مرنے سے پہلے انور کو ہوش آگیا تھا اور وہ کہتا رہا تھا کہ وہ بے قصور ہے ۔ واپس پہنچ کر آصف نے ہی مجھے یہ بات بتائی تھی، مگر اس سے مجھے یہ پوچھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ اس نے انور شاہ کی لاش کہاں ٹھکانے لگائی ہے۔ میں اس سے پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک پولیس آگئی اور ہمارے مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ اس کی گرفتاری کے بعد بھی مجھے ایسا کوئی موقع نہیں ملا کہ میں اس سے اس رقم کے بارے میں پوچھ سکتی اور میرا نہیں خیال کہ میری اور انور کی حقیقت جان لینے کے بعد وہ مجھے کچھ بتاتا بھی۔ خیر، اب میرے لیے یہی ایک راستہ تھا کہ میں آصف یا اس کے کسی ساتھی کی رہائی کا انتظار کروں اور اس سے پوشیدہ دولت کے بارے میں معلومات حاصل کروں ، بس یہی تھا میرا منصوبہ خاور نے پھر کچھ کہنا چاہا مگر اس کا منہ بہت کس کر بندھا ہوا تھا ، وہ کچھ بھی نہ بول سکا۔ جانتے ہو، میں نے تم پر حملہ کیوں کیا وہ پھر بولی ۔ اس لیے کہ تم مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جیل سے سزا کاٹ کر نکلنے والے اسی طرح کی باتیں سوچا کرتے ہیں۔ میں خود بھی تو ایک قیدی کی طرح رہ چکی ہوں، تنہائی، تنگ دستی اور حالات کی قیدی میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم نے میری ہمدردی لینے اور مجھ سے محبت دکھانے کے لیے، کچھ باتیں جھوٹ بھی بولی تھیں ، کیونکہ میں تو کافی حد تک بہت کچھ جانتی تھی ، اس سے بھی مجھے تمہاری نیت پر شک کرنے کا پورا حق حاصل رہا۔ خیر ، اب میں اس رقم کا مناسب استعمال کرنے کا پلان بناؤں گی اور تم ادھر اپنی موت کا۔ مجھے یقین ہے کہ آصف سے بھی تم نے رقم کے بارے میں اُگلوانے اور اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی ہوگی، خیر، یہی تو ہوتا ہے دولت کے لالچ میں اب تم اپنی موت کا انتظار کرو تمہیں چوہوں سے ڈر لگتا ہے نا یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑی۔ اس بار خاور نے کچھ بولنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی بندھی ہوئی ٹانگیں اُٹھا کر نگہت پر دے ماریں، وہ اس اچانک حملے سے لڑکھڑا کر گر پڑی۔ اس کے گرتے ہی خاور نے پیروں سے اس کے پیٹ پر وار کرنے شروع کر دیئے۔ نگہت تڑپ کر پرے ہوئی تو اس کا پیر دروازے سے ٹکرایا اور کواڑ ایک جھٹکے سے بند ہو گیا ، مگر خاور اس وقت تک اس پر وار کرتا رہا، جب تک اسے یقین نہ ہو گیا کہ وہ بے ہوش یا مر چکی ہے۔ نگہت کا بے جان جسم دروازے سے لگا پڑا رہا۔ کچھ دیر بعد فلش لائٹ بھی فرش پر لڑھک کر بجھ گئی اور ہولناک تاریکی نے اپنا تسلط جما لیا۔ تب وہ لڑھک کر اس کے پاس آیا اور اپنا چہرہ اس کے جسم پر رکھا تو اس کے سارے بدن میں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ نگہت کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ خاور نے ادھر اُدھر لڑھک کر اپنے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی۔ فرش پر ہاتھ رگڑ کر بندھی رسی کو کاٹنا چاہا۔ اس کی کلائیوں سے خون رسنے لگا مگر رسی نہ ٹوٹی۔ نگہت کا مردہ جسم دروازے سے لگا پڑا تھا اور دروازہ بند تھا۔ اس نے بار بار اپنا سر پٹخ کر اس کے بے جان جسم کو دروازے سے ہٹانے کی کوشش کی، مگر سب بے سود وہ کافی بھاری بھر کم تھی۔ وہ لڑھک کر ڈیڑھ کروڑ سے بھرے ہوئے صندوق سے ٹکرا گیا۔ اس قید میں اس کا دم گھٹا جا رہا تھا۔ وہ مسلسل کوشش کرتا رہا، مگر باہر نہ نکل سکا۔ تھوڑی دیر بعد ہی قبر ایسی کالی گھپ تاریکی میں سرخ قمقمے نظر آنے لگے اور وہ لرز کر رہ گیا۔ چوہے واپس آگئے تھے اور انہوں نے جگہ جگہ سے اس کے جسم کو کترنا شروع کر دیا تھا۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 218 | https://www.urduzone.net/beti-ki-maan-na-banti/ | جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے ، دروازے سے ہی اسے آواز لگائی اور اس نے جلدی سے نکل کر ان کے ہاتھ سے شاپر تھام لئے ۔ وہ صحن میں لگے واش بیسن پر منہ ہاتھ دھونے لگے۔ ابو کھانا لگا دوں۔ وہ پھلوں کو شاپر سے نکال کر باسکٹ میں رکھتے ہوئے بولی۔ ہاں بیٹا لگا دو بھوک بھی بڑی زور سے لگی ہے اور نور دین نظر نہیں آرہا۔ نوردین ان چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ نام سے لگتا تھا کہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہو گا، نام رکھتے ہوئے امی کی ایک اپنی ہی سوچ تھی۔ بہنوں نے کتنے ہی پیارے پیارے نام سوچے تھے مگر انہوں نے صاف کہہ دیا میرے بیٹے کا نام نور دین ہی ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو میرا بچہ دین کی روشنی پھیلانے کا کام کرے گا انشا اللہ، اپنے نور دین کو عالم بناؤں گی، امی کی خواہش دیکھتے ہوئے وہ سب بھی راضی ہو گئے۔ اس کے مدرسے سے فون آیا تھا کسی دوسرے شہر سے مفتی صاحب تقریر کے لئے آرہے ہیں۔ اس لئے جلدی کھانا کھا کر اپنے دوست کے ساتھ چلا گیا۔ چلو اچھا ہے، نیکی کی بات سننے سے بھی طبیعت نیکی کی طرف مائل رہتی ہے۔ ابو مطمئن ہو گئے۔ اس نے جلدی جلدی کھانا لگایا اور تینوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے، کھانے سے فارغ ہوئے تو ابو نے چائے کی فرمائش کر دی۔ وہ برتن سمیٹ کر چائے بنانے چل دی اور امی ان سے دن بھر کی مصروفیت پوچھنے لگیں۔ ابو نے جیب سے چند ہزار کے نوٹ نکال کرامی کو تھمائے، جو انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر تھام لئے۔ کام تو ٹھیک چل رہا ہے ناں غفار۔ رب کا بڑا کرم ہے اپنی بیٹیوں کے نصیب سے اس نے رزق کے دروازے کھول رکھے ہیں ہم پر۔ وہ عشنا کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے بولے۔ بیٹا جاؤ اپنی امی کے لئے پھل کاٹ کر لے آؤ۔ وہ جانتے تھے کہ امی چائے نہیں پیتیں۔ وہ جلدی سے پھل کاٹنے کے لئے اٹھی، تو امی نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ابھی میرا جی نہیں چاہ رہا۔ اری نیک بخت کھالو، بعد میں بھی تو گلا کرکھاؤ گی۔ اور یہ بات سنتے ہی امی کو پتنگے لگ گئے۔ ہاں گلا کر ہی کھاؤں گی، ساری عمر تمہاری ماں نے مجھے گلے سڑے پھل ہی دیئے کھانے کو، تو اب یہ تازہ پھل میرے حلق سے کیسے اتریں گے۔ امی کا دکھڑا شروع ہوگیا اور ابو ہنستے ہوئے بولے۔ اب تو بخش دو ہماری مرحومہ ماں کو، جب تم ساس بنو گی تو دیکھوں گا کتنی اپنائیت اور چاہت کا سلوک کروگی اپنی بہو کے ساتھ۔ ہاں زندہ رہی تو دکھاؤں گی بیٹیوں سے بڑھ کر چاہوں گی، صرف زبانی کلامی نہیں کہہ رہی عملاً کر کے دکھاؤں گی۔ امی سینے پر ہاتھ مار کے بولیں۔ تمہاری ماں کی طرح کولہو کا بیل بنا کر نہ رکھوں گی آزادی سے جینے کا حق دوں گی۔ ابو کے ماتھے پر ہلکی سی شکنیں ابھر آئیں۔ اس سے پہلے کہ بحث طول پکڑتی اس نے ابو کو عشا کی اذان کی طرف متوجہ کیا اور وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے وضو کرنے چل دیئے اس کی ہنسی نکل گئی، ان دونوں کے درمیان ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی ہی رہتی تھی مگر دونوں ایک دوسرے کا خیال بھی بہت رکھتے تھے۔ ہاں بھئی آج کی شاپنگ نے تو بہت تھکا دیا ۔ حرا باجی نے شاپر کارپٹ پر پھینکے اور خود صوفے پر دراز ہوگئیں۔ عشنا جلدی سے بہن کے لیے پانی لے آؤ۔ امی لاؤنج سے ہی پکاریں اور وہ جھٹ سے پانی کا گلاس لے آئی۔ تھکی ہوئی تو میں بھی ہوں حرا باجی مگر آپ تو ایسے ظاہر کر رہی ہیں جیسے اکیلی شا پنگ کر کے آئی ہیں۔ حرا سے چھوٹی نمرا نے شکوہ کیا۔ ارے میری بہن تم تو جوان چھڑی چھانٹ ہو، ابھی سے تمہیں کیوں تھکن ستانے لگی ۔ میں چار بچوں کی ماں، بھلا مجھ میں اب تمہاری جیسی سکت کہاں۔ وہ پانی کا گلاس عشنا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں۔ نمرا کی شادی کو تین سال ہو گئے تھے اور ابھی کوئی بچہ بھی نہ تھا۔ صحیح تو کہہ رہی ہے سارا دن گھر کے کاموں میں نوکروں کی طرح جتی رہتی ہے، جوان نندیں ہل کر پانی تک نہیں پیتیں۔ میری پھول سی بچی کملا کر رہ گئی ۔ اس کی محبت امڈ آئی اور فوراً ان کا سر دبانے لگیں۔ حرا باجی فوراً ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔ گناہگارنہ کیا کریں آپ چھوڑیں یہ دیکھیں کتنے خوبصورت سوٹ خریدے ہیں عشنا کے سسرال والوں کے لیے۔ وہ ایک ایک کر کے سوٹ نکال کر دکھانے لگیں وہ بھی اشتیاق سے دیکھنے لگی سوٹ واقعی بہت خوبصورت تھے۔ یہ دیکھیں ساس کا جوڑا کتنا پیارا ہے کیسی نفیس ایمبرائیڈری ہوئی ہے۔ نمرا نے ایک سوٹ نکال کرامی کے ہاتھ میں تھمایا وہ جوڑا ہاتھ میں لے کر خاموش سی ہو گئیں۔ کیا بات ہے امی سوٹ پسند نہیں آیا ارے نہیں بیٹا سوٹ سارے ہی بہت پیارے ہیں ، بس اللہ کرے اس کے سسرال والوں کو پسند آجائیں۔ انہوں نے عشنا کی طرف دیکھا۔ ارے واہ کیوں پسند نہیں آئیں گے کوئی بھی سوٹ تین ساڑھے تین ہزار سے کم کا نہیں ہے، رنگ، ڈیزائن، کڑھائی ہر چیز منفرد ہے۔ نمرا تنک کر بولی۔ چلو آج تم دونوں بہنوں نے یہ کام بھی مکمل کر دیا۔ اللہ تمہیں اپنے گھروں میں آباد اور خوش رکھے۔ اللہ میری عشنا کو بھی ڈھیر ساری خوشیاں دئے۔ امی آبدیدہ ہوگئیں۔ آپ خدشات کو ذہن سے جھٹک دیں بس اللہ سے اس کے اچھے نصیب کی دعا کیا کریں۔ ماؤں کی دعا ئیں اللہ ضرور سنتا ہے۔ حرا باجی نے ان کو تسلی دی۔ عشنا چلو اٹھو جلدی سے کھانا لگاؤ قسم سے پیٹ میں چوہوں کی بڑی زبردست ریس شروع ہو چکی ہے۔ نمرا نے عشنا کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور دونوں بہنیں کھانا لگانے چل دیں۔ شادی کی ڈیٹ فکس ہوتے ہی تیاریاں بھی عروج پر پہنچ گئیں، تینوں بہنیں خوب دل سے اپنی سب سے چھوٹی لاڈلی بہن کی شادی کی تیاری کر رہی تھیں۔ وہ تھی ہی ایسی ہر ایک کا خیال رکھنے والی ہمدرد، پرخلوص، بھانجوں، بھانجیوں میں تو اس کی جان تھی۔ کوئی بھی بہن میکے آجاتی خوب خدمت کرتی ان کے بچے سنبھالتی اور وہ اسے دعائیں دیتے نہ تھکتی، بہنوئیوں کی بھی خوب دل سے عزت کرتی اور وہ تینوں بھی اس سے بہت خوش تھے۔ امی بار بارا سے اپنے ساتھ لپٹاتیں، نصیحت کرتیں صبر و شکر کے ساتھ سسرال میں رہنے کی تلقین کرتی اور وہ چپ چاپ ان کی باتیں سنتی رہتی۔ ماں باپ سے جدائی کا خیال اس کی آنکھوں کو پانیوں سے بھر دیتا اور چھوٹا بھائی نور دین وہ تو باقاعدہ اس کے گلے لگ کر رونا شروع کر دیتا۔ عشنا آپی میرا آپ کے بغیر دل کیسے لگے گا میرے کپڑے کون پریس کرے گا اور میرے دوستوں کو اتنے مزے مزے کے کھانے کون بنا کر کھلائے گا۔ ایسی باتیں سب کر وہ اداس ہو جاتی۔ تمہاری پڑھائی مکمل ہونے میں صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں ماشا اللہ پھر تو تم عالم دین بن جاؤ گے اور امی فوراً ہی تمہارے سر پر سہرا سجا دیں گی۔ بس پھر تنہائی ختم اور ہر سال بچوں کی انٹری شروع ، کیونکہ مولانا صاحب فیملی پلاننگ کے حق میں تو ہونے سے رہے۔ عروج نے اس کے شرارت سے بال بکھیرے تو وہ جھینپ گیا اور سب ہنس پڑے۔ اسی طرح ہنستے گاتے ، آنسو بہاتے وہ دن بھی آگیا۔ جب باپ کے گھر کی دہلیز پار کر کے اپنے مجازی خدا کے گھر کو رونق بخشی تھی۔ باپ کی کندھے بیٹی کی جدائی پر جھک گئے ، چہرے پر صدیوں کی تھکن اتر آئی۔ جیسے آج چوتھی بیٹی بھی وداع کر کے اپنا سب کچھ ہار دیا ہو ، نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر کل جمع پونچھی لٹادی ہو۔ بھائی کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ بہنوں کے ہاتھ اور ماں کے کانپتے لب مسلسل اس کی خوشیوں کے لئے دعا کر رہے تھے۔ اور وہ روتے سکتے ماں باپ کو چھوڑ کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنے اصل گھر کی طرف روزانہ ہوگئی۔ وہ بیاہ کر فیصل آباد جارہی تھی جو اس کے شہر سے چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ ارے بھئی فائزہ اسے کسی طرح چپ کراؤ مجھے تو خفقان ہونے لگا ہے۔ الله معاف کرے ماں باپ ایسے بلک رہے تھے، جیسے پہلی بار کسی بیٹی کو رخصت کیا ہو۔ انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اپنے چاروں فرضوں سے سبکدوش ہو گئے۔ بھائی ایک طرف اشکوں کی برسات لئے کھڑا ہے تو بہنوں کی آنکھوں سے ساون کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ تو یہ لگتا تھا کہ آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا ہو۔ قدرے ناگواری سے بولتی ساس نے ایسے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو اس کی ہچکیوں کو بریک لگ گئے اور باقی کا سفر خاموشی سے گزارنے پر مجبور ہو گئی مگر اب آنسواس کے دامن پر نہیں اس کے دل پر گر رہے تھے۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی اسے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ ماؤں کے تجربات کچھ غلط نہیں ہوتے۔ واقعی سسرال میں ہر لمحہ کا نپتے ہوئے ہی گزرتا ہے کہ خدا جانے کب کسی بات پر قہر نازل ہو جائے۔ اس کی سسرال والوں نے منگنی کے عرصہ کے دوران جو شرافت و محبت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ایکدم ہی اتار کے دریا برد کر دیا۔ لگتا ہی نہ تھا کہ یہ وہی ساس نندیں ہیں، جو واری صدقے ہوتی تھیں۔ ان کے منہ سے باتیں کرتے پھول جھڑتے تھے۔ اور وہ ان کی مومنہ صورتیں دیکھ کر دل سے ہر خدشے کو جھٹک دیتی تھی اور تصور میں ایک مشفق ماں، پیار لٹاتی نندیں دیکھتی اور اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہ رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں ناں ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ان کے اس دوغلے پن اور منافقانہ رویے پر اس کا دل کڑھ کے رہ جاتا صبح سے شام تک کاموں میں ایسی غرق ہوتی کہ اپنا ہوش ہی نہ ہوتا۔ شوہر سے بھی شکوہ بیکار تھا کیونکہ اس نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا مجھے یہ ساس بہو کے جھگڑے سے ذرا دور ہی رکھنا۔ امی اور بہنوں کے فون آتے تو جلدی سے بات کر کے بند کر دیتی۔ اور وہ یہی شکوہ کرتیں کہ کبھی دو گھڑی فرصت سے بات بھی کر لیا کرو کیا بتاتی ان کو کہ فرصت ہو تو بات کروں ایک کے بعد ایک کام تیار ہوتا۔ ویسے بھی جب وہ فون سن رہی ہوتی نندیں دروازے سے کان لگائے کھڑی ہوتیں۔ ایسے حالات میں وہ ان سے کیا باتیں کرتیں تو ٹھیک تو ہے ناں گڑیا سب تیرے ساتھ صحیح رہ رہے ہیں ناں ایک دن حرا باجی نے پوچھ ہی لیا اور وہ جھٹ سے بولی۔ میں بہت خوش ہوں باجی سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس نے آنسوؤں کی نمی کو اپنے اندر اتارا۔ اللہ تمہیں خوش رکھئے وہ مطمئن سی ہو گئیں۔ آج کل وہ امی کے گھر رہنے آئی ہوئی تھی اور ابو بھائی سب اس کا بے حد خیال رکھ رہے تھے۔ میکے آکر احساس ہو کہ آزادی کیا چیز ہوتی ہے۔ مرضی کی سانسیں کیسے لی جاتی ہیں۔ بہنیں ایک شہر میں ہونے کی وجہ سے روز ملنے آجاتیں اور گھر میں خوب رونق ہو جاتی۔ سچ بتانا عشنا سب کا رویہ تیرے ساتھ ٹھیک تو ہے۔ امی کھوجتی نظروں سے پوچھتیں تو وہ اثبات میں سر ہلا دیتی۔ تو اتنی کمزور کیوں ہوگئی ہے عدنان بیٹا تو تیرا خیال رکھتا ہے ناں۔ انہوں نے پھر سے سوال داغا۔ سب بہت اچھے ہیں عدنان بھی میرا خیال رکھتے ہیں بس آپ کی دوری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے اور امی نے فورا ہی ہو کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ صبح سے اس کی طبیعت عجیب سی ہورہی تھی اور سر بھی چکرا رہا تھا۔ امی نے جب اس کی یہ کیفیت دیکھی تو فوراً حرا باجی کو فون کر کے بلا لیا اور ان کے ساتھ ڈاکٹر کی طرف روانہ کیا۔ وہیں ڈاکٹر کی زبانی یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ وہ ماں کے رتبے پہ فائز ہونے والی ہے۔ شادی کے بعد جس خبر نے پہلی بار اس کی لبوں پہ مسکراہٹ کے پھول بکھیرے تھے۔ وہ یہی خبر تھی ، ماں بننا عورت کی اولین خواہش بھی ہوتی ہے۔ اور خوش نصیبی بھی، چند دن امی کے گھر رہنے کے بعد وہ عدنان کے ہمراہ اپنے گھر آگئی، ماں نے بے تحاشا چیزیں اور دعائیں دے کر رخصت کیا تھا، شوہر کو جب یہ خبر سنائی تو اچھا کہہ کر خاموش ہو گئے، نہ خوشی اور نہ ہی کوئی خوش آئند بات۔ ساس نندیں حتی کہ سسر نے بھی اس خبر پہ کوئی خاص تاثر نہیں دیا۔ اور وہ ان کے اس رویے پر حیران رہ گئی کہ دادا دادی بننے کی خوشی ان کے چہروں سے کیوں ظاہر نہیں ہوتی۔ اس خبر کے بعد بھی ان کے رویوں میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ ساس بیماری کا بہانہ بنا کر لیٹ جاتیں ، نندوں کو ٹی وی ڈراموں سے فرصت نہ تھی۔ ویسے بھی ان کو کوئی کام کہہ دینا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مساوی تھا۔ اس کی طبیعت میں ہر وقت کسلمندی رہتی، نیند کا غلبہ رہتا مگر کیسا آرام اور کہاں کی نیند، ہاں اتنا فرق ضرور پڑا تھا کہ عدنان کچھ خیال کر لیتے تھے کبھی کبھار چوری چھپے کوئی کھانے کی چیز بھی لے آتے ۔ سرِعام تو بیوی کے لیے کچھ لانے کی اجازت نہ تھی ۔ دستر خوان ایک بار لگتا کسی کو بھوک ہے یا نہیں، کھانا ہے تو کھائے ، ورنہ بھاڑ میں جائے۔ کچن کو تالا لگا دیا جاتا جو کہ شام کوہی کھلتا اور اس گھٹیا پن پر حیران و پریشان کہ کیا سسرال میں کھانے پینے کی بھی آزادی چھن جاتی ہے، پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور اس کی طبیعت ایسی ہو رہی تھی کہ جب کھانا سامنے ہوتا تو دیکھنے کو بھی دل نہ کرتا اور بعد میں بھوک ستاتی تو کچھ کھانے کونہ ملتا، شرمندگی سے خاموش رہتی۔ پیٹ میں بھوک سے بل پڑ جاتے۔ آج تو ڈھیٹ بن کر ساس سے کچن کی چابی مانگ لی جوناگواری سے ہاتھ میں اس طرح پکڑائی کہ وہ شرم سے زمین میں گڑ گئی، کچن کھول کر اس نے جلدی جلدی وہیں پر بڑے بڑے نوالے کھانے شروع کر دیئے ۔ شکر ہے ہاٹ پاٹ میں روٹی موجود تھی۔ وہ بری طرح کھانے میں مصروف تھی کہ فائزہ یکدم کچن میں داخل ہوئی۔ توبہ ہے پتا نہیں لوگ کیسے چار چار ٹائم کھا لیتے ہیں اور کھایا پیا نظر تک نہیں آتا۔ اس نے عشنا کی پتلی جسامت پر طنز کیا اور نوالہ اس کی ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ حلق میں آنسوؤں کا پھندا بن گیا اور وہ چپ چاپ کچن سے باہر نکل آئی کمرے میں آ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ تو عشنا صاحبہ یہ ہے تمہاری سسرال میں اوقات کہ نوالے بھی گئے جاتے ہیں۔ امی کی باتیں کتنی سچ ثابت ہوئیں تھیں، وہ جب کبھی سسرال کا ذکر شکوؤں میں کرتیں تو وہ اکثر مبالغہ آرائی کا نام دے دیتی مگر اب اندازہ ہو رہا تھا کہ سسرال والے کسی حد تک بھی گر سکتے ہیں۔ سسرال میں اس کی پہلی شب برات تھی اور ساس نے پہلے ہی سنانا شروع کر دیا۔ فلاں کی بہو اتنے من شب برات لے کر آئی تھی پتا نہیں بہو کے میکے والے کیا لے کر آئیں گے کہیں ہماری ناک ہی نہ کٹ جائے اگر شاپروں میں شب برات کا سامان لے کر آگئے۔ اماں کچھ اچھی امید نہ رکھو بھابھی کے گھر والوں سے ، شادی پر دیکھا تھا کیسا کھانا دیا تھا، کسی کو بھی پسند نہیں آیا تھا۔ کیسی ہنسی اڑی تھی ہماری نند نے لقمہ دیا۔ وہ چپ چاپ کچن میں کام کرتی رہی اور ان کی باتیں سن کر جلتی رہتی، ایسی ہی سماعتوں کو چھید دینے والی باتیں کانوں سے ٹکراتیں رہتیں اور وہ ضبط کی تصویر بنی کاموں میں الجھی رہتی۔ ابو نے شادی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ بہت شاندار انتظام کیا گیا تھا کئی ڈشز بنوائی گئی تھیں اور کھانا بھی بہت لذیز تھا۔ ہر ایک نے تعریف کی تھی، دیکھنے والوں نے یہی کہا لگتا نہیں ہے غفار کی چوتھی بیٹی کی شادی ہے۔ یوں لگ رہا ہے پہلی بیٹی بیاہ رہا ہے، جہیز میں کون سی ایسی چیز تھی جو اسے نہ دی گئی ہو۔ اعلی سے اعلی چیزیں تھیں مگر اس میں بھی کیڑے نکالے جاتے چیزوں کو حقارت سے دیکھا جاتا۔ اماں صوفہ دیکھنا ذرا، کیا دھان پان سا ہے اسے تو اٹھا کے سائیڈ پر رکھوا دو، ذرا سا کوئی صحت مند بیٹھا اور یہ تڑاخ سے ٹوٹا کہیں بے عزتی ہی نہ ہو جائے۔ چھوٹی نند صوفے پر بیٹھ کر جانچتی ہوئی بولی اور وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا، ماں کی نصیحتیں جو گرہ میں باندھی تھیں چاہتے ہوئے بھی نہ کھول پائی۔ وہ ماں کو شرمندہ نہیں کروانا چاہتی تھی، ان کی تربیت پر حرف آئے وہ یہ کسی طور پر گوارا نہیں کر سکتی تھی، ہر ظلم، زیادتی ، چپ چاپ برداشت کرتی چلی گئی، ساتواں مہینہ شروع ہوتے ہی ایک نیا شوشا ساس نے چھوڑ دیا۔ بہو میکے والوں کو خبر کر دو کہ ہم ستوانسہ لگارہے ہیں۔ مگر امی یہ تو ہندوانہ رسم ہے اب کون یہ رسمیں کرتا ہے اور اچھا بھی نہیں لگتا۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔ ارے واہ کیوں اچھا نہیں لگتا، میرے بچے کی پہلے خوشی ہے میں تو ضرور کروں گی اور ہاں میں بتادوں گی کہ رسم میں کیا کچھ لے کر آتے ہیں۔ میں کہے دیتی ہوں اماں سے کہہ دینا کسی چیز کی کوئی کمی نہ ہو، سارے رشتہ دار ا کٹھے ہونگے۔ میری سبکی نہ کروا دینا سوا من مٹھائی سے کم بات نہیں چلے گی، ساس سسر کے جوڑے، شوہر کا سوٹ، جوتوں، جراب سمیت ۔ اور پتا نہیں وہ کیا کیا فہرست بنا رہی تھیں وہ چکرا کر رہ گئی۔ میرے اللہ میرا باپ کیا اسی طرح لگتا رہے گا، بوڑھے و ناتواں کندھے بیٹیوں کے سسرال والوں کی فرمائشیں پوری کرتے اب تو جھک سے گئے تھے۔ شوہر سے جب اس کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی۔ بھئی مجھے تو تم ان معاملات میں نہ گھسیٹو یہ تم عورتوں کا معاملہ ہے اماں جو بہتر سمجھتی ہیں وہی کریں گئی۔ اور وہ ان کی بات سن کر سر تھام کر رہ گئی۔ ستوانے کی رسم پر اسے اپنی امی کے ساتھ بھیج دیا گیا اور وہ دل میں شکر ادا کرنے لگی کہ جسمانی و ذہنی اذیت اٹھاتے اب وہ تھک چکی تھی اگر کچھ دن اور یہاں رہتی تو دماغ کی رگیں پھٹ جاتیں، امی صبح شام اس کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھتیں، ابو نے اس کی شادی کے بعد ایک مستقل ملازمہ رکھ لی تھی تا کہ امی کو کام کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو اپنا گھر اسے جنت کا ایک ٹکڑا لگتا۔ جہاں ممتا لٹاتی ماں محبت سے لبریز باپ کا کشادہ سینہ اور بہن بھائی کی چاہتیں یہاں آکر وہ اپنے آپ کو ایک زندہ وجود محسوس کرنے لگی میرا بچہ میری خوشیوں کا محور یقینا اس کے آنے سے میرے سارے غم و کلفتیں راحتوں میں بدل جائیں گی۔ امی نے اس کے بچے کے لیے ڈھیروں ڈھیر چیزیں خریدنی شروع کر دیں اور وہ خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کرتی رہتی کہ آخر یہ کب تک دینے کا سلسلہ چلتا رہے گا ، عدنان کا اکثر فون آجاتا اس کی خیریت دریافت کرتے اور وہ اسی میں خوش ہو جاتی کل رات سے اسے بخار ہورہا تھا، طبیعت بھی عجیب سی خراب ہورہی تھی اس کی حالت کے پیش نظر حرا باجی اسے ڈاکٹر پر لے گئی جہاں انہوں نے چیک اپ کے بعد فوراً ایڈمٹ کر لیا کیونکہ اس کی کنڈیشنڈ کچھ ایسی پیچیدہ ہورہی تھی کہ انہوں نے فوری آپریشن کی تیاری شروع کر دی، اس کے سسرال والوں کو مطلع کر دیا گیا، ابو صدقہ و خیرات کرنے میں مصروف ہو گئے ، امی کے وظیفے شروع ہو گئے اور بہنیں عشنا کو تسلی دینے لگیں اور وہ وسو سے لئے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو گئی۔ اسے اپنے آس پاس ڈھیروں لوگوں کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کچھ عجیب سا شور شرابا تھا، عدنان اور ان کی امی کی باتوں کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور امی کو اپنے پاس کھڑا ہو پایا، سامنے ہی بینچ پر ساس گود میں بچہ لئے بیٹھی تھیں۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر عدنان بھی اس کے پاس چلے آئے۔ میں میں کہاں ہوں امی بیٹا تم ہاسپٹل میں ہو، میرے رب نے تمہیں چاند سی بیٹی عطا کی ہے۔ امی نے اس کا ماتھا چوم لیا اور عدنان بھی اس کا ہاتھ پکڑ کر مسکرا دیئے۔ مگر اس کے ہونٹ بیٹی کا لفظ سن کر خشک ہو گئے۔ پورے جسم پر ایک کپکپی سے طاری ہو گئی۔ بیٹی بیٹی میری بیٹی ہوئی ہے مگر مجھے تو بیٹی نہیں چاہیے تھی میں بیٹی کی ماں کیوں بنی ۔ شکوہ اس کے لبوں پہ مچلا۔ کیسی باتیں کر رہی ہو بیٹی تو خدا کی طرف سے تحفہ ہے رحمت آئی ہے تمہارے گھر میں امی قدرے برہم ہوئیں ہاں میں جانتی ہوں کہ میری جھولی میرے اللہ نے رحمت سے بھر دی ہے مگر عدنان ہم بیٹی کو پال پوس کر اچھی تربیت و تمام خواہشات پوری کر کے جب اسے اپنے گھر سے رخصت کریں گے تو ہم کیسے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت کریں گے، اللہ نہ کرے اگر میری بیٹی بھی میرے جیسا نصیب لے کر پیدا ہوئی تو اس کے دکھوں کی اذیت تو ہمارا دل چیر دے گی، اسے شکم سیری بھی نصیب نہ ہوئی تو نوالے تو ہمارے حلق میں ہی اٹک جائیں گے تم اپنی بیٹی کو دنیا کی ہر نعمت دے کر بھیجو گے اور اس کے سسرال والے پھر بھی اسے چین سے نہ جینے دیں تو تم کیسے سکون کی نیند سو سکیں گئے۔ وہ ہذیانی انداز میں عدنان کا گریبان پکڑ کر چیختے ہوئے بولتی جا رہی تھی، عدنان نے ندامت سے گردن جھکالی تھی اور ساس اس سے نظریں چرا کر بچی کو پیار کرنے لگیں، امی اس کے دکھوں سے باخبر ہو کر سسکیاں لے رہی تھیں۔ اور عشنا کی آنکھوں سے تواتر سے بہتے اشک تکیے میں جذب ہوتے جارہے تھے ۔ آج اسے احساس ہوا کہ بیٹیوں کی مائیں بیٹی کی پیدائش پر کیوں بجھ سے جاتی ہیں اور دل میں کہیں یہ خواہش ضرور سر پٹیخ رہی ہوتی ہے کہ کاش میں بیٹے کی ماں بنتی اے کہ کاش۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 219 | https://www.urduzone.net/jaldbazi-ka-nateja/ | ایک روز میں پریشان بیٹھی تھی کہ میری دوست طوبی آگئی۔ کہنے لگی ۔ کیا ہوا پنکی تیرا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے میرا موبائل خراب ہو گیا ہے۔ وہ بولی ۔ بس اتنی سی بات ، اس میں ایسا سڑا ہوا منہ بنا کر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس میں اپنے نوٹس سیو کر رکھے ہیں ۔ اب پڑھائی کیسے کروں نئے زمانے کی یہی تو مشکل ہے۔ جب موبائل فون نہیں آئے تھے سبھی طالب علم اپنے ہاتھ سے کاپیوں پر نوٹس لکھ کر محفوظ کر لیتے تھے ۔ اب اگر موبائل نہ چلے تو بس گئے کام سے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو۔ اب تم اس مسئلے کا حل بھی نکالو گی یا بھاشن دیتی رہو گی۔ مسئلہ کا حل یہی ہے کہ موبائل ٹھیک کرنے والے کی دکان پر جا کر دکھاتے ہیں کہ کیا مسئلہ ہے۔ ارے نہیں بھئی ، بھائی نے سختی سے منع کیا ہے کسی دکان والے کو نہیں دکھانا۔ وہ جب فارغ ہوں گے خود دیکھ لیں گے یا کسی اعتبار والے کو دکھا کر ٹھیک کرادیں گے۔ چلو تو پھر انتظار کر لو۔ کیسے کرلوں انتظار کل ٹیسٹ ہے۔ اچھا تو پھر میرے گھر چلو کوئی معمولی مسئلہ ہوگا۔ میرے بھائی کو یہ فون ٹھیک کرنا آتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے، میں نے سوچا کے گھر کہ یہ ٹھیک رہے گا۔ پریشان بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ اس کے بھائی کو دکھا دوں۔ شاید وہ میرا فون ٹھیک کر دیں۔ میں اس گھر چلی گئی، جو زیادہ دور نہیں تھا۔ اتفاق سے اس کا بھائی زاہد گھر پر موجود تھا۔ اس نے میرا فون دیکھا اور بولا ۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ، بس یہ لاک ہو گیا ہے تبھی ایک منٹ میں اس نے صحیح کر دیا ۔ دراصل یہ موبائل میرے بھائی نے انہی دنوں دیا تھا۔ اس سے پہلے میرے پاس کوئی موبائل نہیں تھا، لہذا میں اس کو آپریٹ کرنے سے نا واقف تھی ۔ میں بہت خوش ہوئی کی کہ میرا مسئلہ طوبیٰ نے ایک سکینڈ میں حل کرا دیا تھا۔ میں اتنی دیر سے ٹینشن میں مبتلا رہی تھی۔ زاہد سے میری یہ پہلی ملاقات نہیں تھی ۔ جب میں ان کے گھر جاتی تو اکثر اس سے آمنا سامنا ہو رجاتا جاتا تھا۔ زاہد ہم سے بڑے ہونے کے ناتے اپنے بڑے پن میں رہتے اور میں بھی دور سے سلام کر کے آگے بڑھ جاتی ۔ پہلی بار فون کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ خیر، اس بات کو چند روز گزرے تھے کہ ایک دن طوبی ہمارے گھر آئی اور یونہی مذاق میں کہنے لگی کہ اگر تم میرے بھائی کو پسند کر لو اور میری بھابھی بن جاؤ تو پھر کوئی ہمیں جدا نہ کر سکے گا۔ میں طوبیٰ کا منہ تکنے لگی تو وہ بولی ۔ ایسے کیوں تک رہی ہو کیا میں نے کوئی بری بات کہہ دی ہے طوبی پلیز ایسا مذاق نہ کرو جو ہماری پیاری دوستی پر شعلہ بن کر لپک جائے۔ تم جانتی ہو، میری منگنی ہو چکی ہے اور اس منگنی میں میری اپنی پسند اور رضا کا بھی دخل ہے۔ یہ منگنی ٹوٹ بھی تو سکتی ہے میرے بھیا تم کو اس قدر چاہنے لگے ہیں، تم کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتے ہیں۔ جب سے ان کو تمہاری منگنی کا بتایا ہے، وہ بہت افسردہ رہنے لگے ہیں۔ مجھ سے تو اپنے بھائی کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ تم ایسی باتوں سے باز رہو۔ میں نے اس کو سمجھایا۔ تمہارا بھائی شادی شدہ ہے اور اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہے۔ بھلا اس کا میرا کیا جوڑ وہ جھٹ سے بولی ۔ طلاق دے چکا ہے تو کیا، ایسے تو کئی واقعات ہو جاتے ہیں۔ زاہد ا چھی شکل کا ہے، جوان ہے اور دولت مند بھی ، اس میں کوئی کمی نہیں۔ تمہیں اور کیا چاہیے تبھی میں نے اس کو ڈانٹ دیا۔ تب وہ چپ ہو گئی۔ میں نے اسے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر اس نے دوبارہ یہ بات منہ سے نکالی تو یقینا ہماری دوستی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی تبھی وہ مجھ سے ناراض ہو گئی۔ کافی دن میں اس کے لئے اداس رہی۔ آخر وہ بچپن کی سہیلی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبّت تھے مگر میں اس کو اپنے منگیتر پر ترجیح تو نہ دے سکتی تھی جبکہ منگنی بھی میری پسند کے لڑکے سے ہو چکی تھی۔ ایک ماہ گزر گیا۔ وہ بھی شاید میرے لئے اداس تھی۔ آخر وہ خود میرے گھر آگئی اور اپنی باتوں کے لئے معذرت کرنے لگی۔ میں نے اسے معاف کر دیا۔ ایک دن میں اس کے بلانے پر اس کے گھر چلی گئی ۔ تب اس کی امی نے باتوں باتوں میں پوچھا۔ تیری کس کے ساتھ منگنی ہوئی ہے پنکی، میری باجی کے دیور کے ساتھ۔ میں نے بتایا تو وہ بولیں۔ آج تمہاری ماں زندہ ہوتیں تو بات کرنا میرے لئے بھی آسان ہو جاتا۔ میں خاموش ہو رہی ۔ اس روز طوبی گھر پر نہ تھی۔ میں اس سے ملے بغیر ہی واپس آگئی ۔ دوسرے دن اس کی بھابھی نے ایک خط لا کر دیا۔ میں سمجھی طوبی کا ہوگا۔ چونکہ ملاقات نہ ہو سکی تھی ، اس لئے خط لکھ دیا ہو گا۔ خط دیکھا تو سکتے میں آگئی۔ یہ خط طوبی کا نہیں، اس کے بھائی زاہد کا تھا۔ لکھا تھا۔ برانه مانو تو ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ میں بہت عرصے تک سے تمہیں پسند کرتا ہوں ۔ میں شریف اور عزت دار آدمی ہوں۔ اگر تم اقرار کر لو تو اپنی امی کو تمہارے گھر پیام کے لئے میں بھیج دوں مجھے بہت غصہ آیا ۔ اسی وقت خط کو پھاڑ کر پھینک دیا اور سوچنے لگی کہ یہ لوگ کس قدر ڈھیٹ ہیں۔ میں اپنے منگیتر کے سوا کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے ان کی بھانجی کے سامنے زاہد کو بہت برا بھلا کہا اور طولی سے قطع تعلق کر لیا۔ کئی دن گزر گئے، آخر ایک دن اس کی امی آگئیں ۔ باجی ان سے اخلاق سے ملیں ، عزت سے بٹھایا، چائے پلائی۔ باتوں باتوں میں بیٹے کی تعریفیں کرنے لگیں اور اشاروں کنایوں میں رشتہ مانگا۔ باجی نے صاف کہہ دیا کہ اس کی میرے دیور کے ساتھ منگنی ہو چکی ہے۔ اب کہیں اور رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس روز باجی ہمارے گھر ٹھہری ہوئی تھیں ۔ طوبی کی امی نے بہت ضد کی ، آخر کاران کو مایوس لوٹنا پڑا۔ چند دن گزرے ہوں گے کہ زاہد، شرجیل بھائی جان کی دکان پر آیا اور ان سے کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنا ہے۔ وہ زاہد سے بخوبی واقف تھے، لہذا دکان بند کی اور اس کو قریبی کیفے لے گیا چاے منگوای اور پوچھا۔ کافی دن میں اس کے لئے اداس رہی۔ آخر وہ بچپن کی سہیلی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبّت تھے مگر میں اس کو اپنے منگیتر پر ترجیح تو نہ دے سکتی تھی جبکہ منگنی بھی میری پسند کے لڑکے سے ہو چکی تھی۔ ایک ماہ گزر گیا۔ وہ بھی شاید میرے لئے اداس تھی۔ آخر وہ خود میرے گھر آگئی اور اپنی باتوں کے لئے معذرت کرنے لگی۔ میں نے اسے معاف کر دیا۔ ایک دن میں اس کے بلانے پر اس کے گھر چلی گئی ۔ تب اس کی امی نے باتوں باتوں میں پوچھا۔ تیری کس کے ساتھ منگنی ہوئی ہے پنکی، میری باجی کے دیور کے ساتھ۔ میں نے بتایا تو وہ بولیں۔ آج تمہاری ماں زندہ ہوتیں تو بات کرنا میرے لئے بھی آسان ہو جاتا۔ میں خاموش ہو رہی ۔ اس روز طوبی گھر پر نہ تھی۔ میں اس سے ملے بغیر ہی واپس آگئی ۔ دوسرے دن اس کی بھابھی نے ایک خط لا کر دیا۔ میں سمجھی طوبی کا ہوگا۔ چونکہ ملاقات نہ ہو سکی تھی ، اس لئے خط لکھ دیا ہو گا۔ خط دیکھا تو سکتے میں آگئی۔ یہ خط طوبی کا نہیں، اس کے بھائی زاہد کا تھا۔ لکھا تھا۔ برانه مانو تو ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ میں بہت عرصے تک سے تمہیں پسند کرتا ہوں ۔ میں شریف اور عزت دار آدمی ہوں۔ اگر تم اقرار کر لو تو اپنی امی کو تمہارے گھر پیام کے لئے میں بھیج دوں مجھے بہت غصہ آیا ۔ اسی وقت خط کو پھاڑ کر پھینک دیا اور سوچنے لگی کہ یہ لوگ کس قدر ڈھیٹ ہیں۔ میں اپنے منگیتر کے سوا کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے ان کی بھانجی کے سامنے زاہد کو بہت برا بھلا کہا اور طولی سے قطع تعلق کر لیا۔ کئی دن گزر گئے، آخر ایک دن اس کی امی آگئیں ۔ باجی ان سے اخلاق سے ملیں ، عزت سے بٹھایا، چائے پلائی۔ باتوں باتوں میں بیٹے کی تعریفیں کرنے لگیں اور اشاروں کنایوں میں رشتہ مانگا۔ باجی نے صاف کہہ دیا کہ اس کی میرے دیور کے ساتھ منگنی ہو چکی ہے۔ اب کہیں اور رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس روز باجی ہمارے گھر ٹھہری ہوئی تھیں ۔ طوبی کی امی نے بہت ضد کی ، آخر کاران کو مایوس لوٹنا پڑا۔ چند دن گزرے ہوں گے کہ زاہد، شرجیل بھائی جان کی دکان پر آیا اور ان سے کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنا ہے۔ وہ زاہد سے بخوبی واقف تھے، لہذا دکان بند کی اور اس کو قریبی کیفے لے گیا چاے منگوای اور پوچھا۔ آپ نے کیوں زحمت کی فرمائیے میں سیدھے سادے طریقے سے مدعا بیان کر دیتا ہوں۔ میں آپ کی بہن سے رشتہ چاہتا ہوں۔ چونکہ آپ کی والدہ حیات نہیں ہیں اور آپ ہی گھر کے سربراہ ہیں تو میں نے آپ سے براہ راست بات کرنا مناسب سمجھا۔ برامت مانیے گا، جہاں لڑکیاں ہوں ، تو رشتے بھی آتے ہی ہیں۔ میری بہن کی منگنی ہو چکی ہے اور جلد شادی ہونے والی ہے، اس لئے رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کی امی بھی یہی مدعا بیان کرنے آئی تھیں اور میری بہن ان کو بھی یہ بتا چکی ہیں۔ آپ نے خواہ مخواہ دوبارہ زحمت کی ۔ آپ کو ایسا نہی نہیں کرنا چاہیے۔ اب آئندہ ہمیں ہمیں پر پریشان نه کیجئے گا۔ بھیا کا روکھا اور سیخ جواب سن کر زاہد آپے سے باہر ہو گیا اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔ دوبارہ تو آنا پڑے گا۔ آپ کو شاید سوچنے کے لئے وقت چاہیے، سوچ کر رکھیے گا۔ میں دو ہفتے بعد آؤں گا۔ میں آپ کی بہن کو پسند کرتا ہوں اور اس کا خیال دل سے نہیں نکال سکتا، ورنہ میری زندگی برباد ہو جائے گئی۔ زاہد کی ہٹ دھرمی پر بھائی کو بہت غصہ آیا۔ وہ خود پر قابونہ رکھ سکے اور آگے بڑھ کر اس کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔ اس پر وہ بولا ۔ اب یا درکھنا میں اس بے عزتی کا ضرور بدلہ لوں گا۔ بھائی نے گھر آ کر ساری بات ہمیں بتائی۔ باجی اور میں خوش ہو گئے کہ اچھا ہوا انہوں نے زاہد کو سزا دی۔ وہ تو پنجے جھاڑ کر ہمارے پیچھے پڑ گئے تھے۔ کچھ دنوں بعد میری شادی ہوگئی اور میں بیاہ کر اپنے سسرال چلی آئی یہ میرے شوہر مجھ کو بہت چاہتے تھے اور میں ان کو پا کر خوش تھی ۔ ہمارے دن سکون سے گزر رہے تھے۔ ابھی محض پانچ ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ ایک روز سجاد کی دکان پر ایک خط آیا، جس میں ان کو برے الفاظ سے نوازا گیا تھا اور میرے نام سے لکھا تھا کہ میری محبوبہ کو چھوڑ دو ورنہ تم کو کہیں کا نہ چھوڑوں گا۔ یہ بھی لکھا تھا تمہاری بیوی شادی سے پہلے مجھے چاہتی تھی اور اب بھی ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ سجاد کو مجھ پر بھروسہ تھا تبھی کسی بدخواہ کی شرارت سمجھ کر خط مجھے نہ دکھایا اور پھاڑ دیا۔ وہ مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ایک اور خط آگیا ، اس کے بعد تیسرا ۔ لکھا تھا کہ دو ہفتے کے اندر اندر میری محبوبہ کو طلاق دے دو ورنہ میں اسے اغوا کر کے لے جاؤں گا اور تم کو پچھتانا پڑے گا۔ میری محبوبہ نے مجبوری کے تحت تم سے نکاح کیا ہے کیونکہ اس کا بے غیرت بھائی اس پر بری نیت رکھتا تھا۔ اب میرے شوہر کے لئے یہ بات نا قابل برداشت ہوگئی ۔ وہ پریشان ہو گئے اور خط لے کر بھائی کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے مجھ سے بھی پوچھا کہ کیا کبھی تمہار اسی سے تعلق یا واسطہ رہا کیا تمہاری مجھ سے شادی کسی مجبوری کے تحت زبردستی کی گئی ہے جبکہ تم نے تو اپنی بڑی بہن سے میرے لئے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سب کیا ہے اور یہ شخص کون ہے، کیا چاہتا ہے تمہیں کیسے جانتا ہے اور تم سے اس کا کیا واسطہ ہے انہوں نے یہ کہ کر مجھے خط دکھایا تھا بولے ایسے کئی سے خط آے اور میں نے پھر ڈالے کہ ان خرافات سے پریشان نہ ہو جو کیونکہ تم امید سے ہو۔ میں تم کو ایسی حالت میں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اب تم ہی بتاؤ یہ ہے کون میں کیا بتاتی ، رونے لگی۔ کہا ۔ آپ مجھ پر یقین کریں۔ میں بے تصور ہوں یہ کسی کی سازش لگتی ہے۔ بولے۔ میں جانتا چاہتا ہوں یہ ہے کون جو تم کو جانتا ہے اور بیٹھے بٹھائے اس نے سازش سوچی ہے ۔ کچھ تو یاد کرو۔ میں جان گئی تھی کہ سوائے طوبی کے بھائی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ میں نے ان کو بتایا۔ مجھے ہے لگتا ہے کہ یہ میری سہیلی طوبی کا بھائی ہو سکتا ہے، پھر میں نے ان کو تمام رام کہانی سنادی ۔ میں رورہی تھی۔ میں سچی تھی ، اس لئے میری باتوں میں اثر تھا۔ انہوں نے کہا۔ ٹھیک ہے، میں تم کو بے قصور مانتا ہوں مگر اس سلسلے کو بند ہونا چاہیے۔ میں اس پریشانی کو کب تک جھیلوں گا۔ ایک لمحے کو سوچوا گر کوئی لڑکی میری محبوبہ بن کر تم کو خط لکھتی تو تمہاری کیا حالت ہوگی ۔ خدا نہ کر ہے جو میں ایسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤں ۔ آپ میرے بھائی کو یہ خط دکھایئے ، وہی اس کا توڑ کریں گے۔ سجاد فورا ہی میرے میکے چلے گئے۔ بھائی اسی وقت دکان سے آئے تھے۔ ان کو یہ خط دکھایا۔ بس پھر کیا تھا، قیامت ہی آگئی۔ خط پڑھتے ہی میرے بھائی کا خون کھول اٹھا۔ وہ سجاد سے بولے۔ تم گھر جاؤ۔ میں اس مخط لکھنے والے شخص اور اپنی بہن کی بے گناہی سے آگاہ ہوں۔ پنکی بے قصور ہے اور یہ ہمارا خبیث محلے دار ہے۔ یہ ہمیں اس وجہ سے بلیک میل کر رہا ہے کہ میں نے اسے رشتہ نہیں دیا۔ یہ ایک شادی شدہ آدمی ہے اور بیوی کو طلاق دے چکا ہے۔ بھائی کے تیور دیکھ کر سجاد ڈر گئے۔ اندازہ کر لیا کہ وہ کوئی ہلکا قدم اٹھانے والے نہیں، بلکہ کچھ برا کرنے والے ہیں۔ تاہم وہ میرے تحفظ کے خیال سے گھر آگئے کہ میں گھر میں اکیلی تھی۔ ایک گھنٹہ گزرا تھا سجاد کو گھر آئے کہ بھابھی نے فون کیا۔ وہ رو پیٹ رہی تھیں کہ غضب ہو گیا۔ خدا جانے، سجاد کیسا خط بھائی کو پکڑا گیا ہے کہ انہوں نے ریوالور نکالا اور جا کر زاہد کا خون کر دیا، جو چوک پر کھڑا ہوا تھا۔ وہ وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ پولیس بھائی کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ یہ سن کر میں نے اور سجاد نے دل تھام لیا، بولے۔ کاش میں خود اس آدمی سے بات کر لیتا اور بھائی شرجیل کو خط نہ دیتا۔ معلوم نہ تھا کہ وہ اسے مل کر کے اپنے لئے پھانسی کا سامان کر لیں گے۔ کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں جن پر کسی کا بس نہیں ہوتا اور کچھ ڈھیٹ لوگ ایسے ہوتے ہیں باوجود غلط ہونے کے اپنی ہٹ دھرمی پر اڑ بے رہتے ہیں، چاہے اپنی جان جائے یا کسی اور کی، ان کو پروا نہیں ہوتی۔ اے کاش میں سہیلی کی باتوں میں آکر اپنا موبائل فون ٹھیک کرانے کو اس کے بھائی کے پاس نہ جاتی۔ اپنے بھائی کے آجانے کا انتظار کر لیتی۔ جلد بازی بعض اوقات بڑے المیے سے دو چار کر دیتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آج میں تو اپنے گھر میں خوش اور آباد ہوں لیکن میری بھابھی کا گھر اجڑ گیا ہے، ان کے چار بچے یتیم ہو گئے ہیں کہ عینی گواہوں کی شہادت کے سبب بھائی جان کو پھانسی ہو گئی ہے۔ | null |
null | null | null | 220 | https://www.urduzone.net/thandi-chaon/ | ان لوگوں میں سے ہوں، جو ماضی کی یادوں کے سہارے زندہ رہتے ہیں یا پھر مستقبل کی آس میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ حالات کے بہائو میں بہہ کر میں نے جو بھی کیا، آج تک فیصلہ نہ کر سکی کہ اچھا کیا یا برا۔ ان دنوں میں پانچ برس کی تھی ، جب ماں کی وفات کے فوراً بعد والد نے دوسری شادی کر لی، یوں مجھ پر روایتی ستم کا دور شروع ہو گیا۔ وقت گزرتا رہا، شعور کی منزلیں طے ہوتی رہیں اور میں اچھے مستقبل کی آس میں جیتی رہی کہ کبھی تو مجھے دوسری امی کے چنگل سے چھٹکارا ملے گا۔ ابھی میرا ایف اے کارزلٹ نہ نکلا تھا کہ ماں نے میری شادی کر دی، حالانکہ ان کو معلوم تھا کہ میرے شوہر کی ایک بیوی پہلے سے موجود ہے، جس کے ہاں اولاد نہیں۔ شوہر میرے دامن کے لیے بچی کچی محبت لے کر آئے تھے۔ جہاں مجھ سے یہ حقیقت چھپائی گئی تھی ، وہاں زبیر نے پہلی بیوی کو بھی یہ علم نہ ہونے دیا کہ انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ وہ میرے پاس چوری چھپے آتے تھے۔ دو سال بعد جب میں صاحب اولاد ہو گئی، تو یہ راز کھل گیا، تب ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ان کی پہلی زوجہ محترمہ نے اپنے شوہر کو اور مجھے بہت پریشان کیا اور اپنی انا کو ٹوٹتا دیکھ کر طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ میرے شوہر نے بھی عافیت اسی میں سمجھی اور ان کا مطالبہ پورا کر دیا۔ شوہر صاحب ثروت تھے ، اولاد نرینہ کی آرزو رکھتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر بجھ کر رہ گئے۔ سب نے سمجھایا کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اولاد تو ہو گئی۔ وہ مالک دو جہاں بیٹا بھی دے گا۔ ان کو یہ بات سمجھ میں آ گئی، انہوں نے بیٹی کو اٹھایا، پیار کیا اور سینے سے لگا لیا۔ اب میں ان کی پوری محبت کی وارث تھی۔ زندگی میں پہلی بار اطمینان سا محسوس کرنے لگی۔ بچی کی پیدائش کے وقت شدید بیمار ہو گئی تھی ، ڈاکٹروں۔ نے میاں کی اجازت سے میرا بڑا آپریشن کیا تھا۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ آپریشن کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے ماں بننے سے محروم ہو گئی۔ جب مجھے اور زبیر کو اس حقیقت کا علم ہوا تو انہوں نے خود کو سنبھالا کہ یہی مشیت ایزدی ہے۔ انہوں نے مجھے بھی سنبھالا، دلجوئی کی کہ کوئی مسئلہ نہیں، بیٹی ہے تو کیا ہوا ہم اولاد والے تو ہیں۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد دنوں میں ان کا کاروبار چمک اٹھا۔ میں کہتی تھی کہ یہ ہماری بیٹی کے نصیب سے ہے ، تب وہ اور بھی میری طرف مائل ہو گئے۔ ایک سال کے اندر اندر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ سکون سے گزرا، مگر دنیا والے کب کسی کو چین سے دیکھ سکتے ہیں۔ میرے میاں کے رشتہ داروں نے ان کے کان بھر ناشروع کر دیے۔ ان کو احساس دلایا کہ بغیر بیٹے کے تمہاری نسل ختم ہو جائے گی اور تمہارا نام لیوا کوئی نہ رہے گا۔ پتھر پر بھی اگر مسلسل پانی کا قطرہ پڑتا رہے تو اس میں بھی شگاف پڑ جاتا ہے اور ان کے سینے میں تو گوشت پوست کا دل تھا۔ رفتہ رفتہ وہ رنجور اور میری محبت سے دور ہونے لگے۔ ان کے دل میں تیسری شادی کا خیال جڑ پکڑنے لگا۔ وہ اس خیال کے خلاف نبرد آزما رہنے لگے۔ آخر شکست کھا گئے اور تیسری شادی بارے سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ بچی پانچ سال کی تھی کہ انہوں نے اپنی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور تیسری بار دولہا بن گئے۔ میری اشک شوئی کے لیے میرے نام ایک کوٹھی لگادی اور ایک فلیٹ بھی، یوں میرے در سے وہ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب میں اس بھری دنیا میں تنہا تھی۔ ماں نہ باپ، بھائی نہ بہن کو ٹھی کا کرایہ اچھا خاصا آتا تھا، سومیری گزر بسر با آسانی ہونے لگی۔ اب میں ایک نیم معذور بیٹی کو پالنے اور سنبھالنے کا فرض ادا کر رہی تھی۔ بس یہی میری زندگی تھی۔ کوئی روشنی کی کرن میرے جیون میں نہ تھی۔ ارد گرد کے فلیٹ والوں سے میل جول بہت ہی کم رکھا کہ ان کو میری بد نصیبی کا علم نہ ہو جائے کیونکہ لوگ تو مجبوروں کا مذاق بنا لیتے ہیں۔ دو سال انتہائی اذیت ناک تنہائی میں گزرے، کوئی خوشی، کوئی دلچسپی زندگی میں نہ تھی۔ بیٹی بھی معذور کہ جو میرے جذبات ہی نہ سمجھ سکتی تھی، ورنہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی۔ یہ تو حال کی بات تھی، ماضی کی یادیں تکلیف دہ تھیں اور مستقبل کوئی نہیں تھا۔ زندگی گزاروں تو کس کے سہارے ان حالات سے گزر رہی تھی کہ ساتھ والے فلیٹ میں ایک کرایے دار آ گیا۔ یہ کوئی انجینئر صاحب تھے۔ اپنی بالکونی سے ان کو آتے جاتے دیکھتی۔ عمر پینتس سال اور شکل صورت سے مہذب لگتے تھے۔ ایک روز کسی کام سے اپنے فلیٹ سے نکل رہی تھی کہ ان سے سامنا ہو گیا۔ میں زینہ اتر رہی تھی اور وہ چڑھ رہے تھے۔ ہم دونوں اچانک ایک دوسرے کے روبرو آ گئے۔ انہوں نے سلام کیا اور بولے۔ میں آپ کا نیا پڑوسی ہوں طارق۔ آئیے پڑوسی ہونے کے ناتے میرے گھر میں تشریف لائیے اور چائے نوش فرائیے۔ انہوں نے تو اخلاقا کہا تھا مگر میں تنہائی کے عذاب سے تنگ تھی۔ میں نے کہا۔ ابھی تو میڈیکل اسٹور تک جا رہی ہوں، واپسی میں کسی وقت ملاقات رہے گی۔ وہ اپنے گھر میں چلے گئے اور میں بیٹی کے لیے دوا لینے سامنے کے میڈیکل اسٹور میں چلی گئی۔ واپسی میں نہ جانے کیا سوجھی کہ بغیر سوچے سمجھے ان کے فلیٹ کی گھنٹی بجادی۔ سوچا، پوچھ لوں گی ، آپ نئے آئے ہیں، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیجئے گا۔ وہ مجھے اپنے دروازے کے سامنے کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئے ، پھر چونک کر دروازے سے ہٹ کر ایک طرف ہو گئے اور ہاتھ کے اشارے سے راستہ دیا۔ آئیے آئیے ، زہے نصیب۔ یہ تھے ان کے استقبالیہ فقرے اور ہماری پہلی ملاقات۔ وہ ضرور اس طرح میرے آ جانے پر حیران تھے مگر دل مضبوط کر کے میں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ آپ کئی دن سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ میں آپ سے نہیں پوچھ سکی کہ کسی شے کی ضرورت تو نہیں۔ سامنے آئے تو سوچا کہ آپ بھی کیا سوچیں گے ، پڑوسیوں کے آداب تک سے یہاں کے لوگ واقف نہیں ہیں تو معذرت کرنے چلی آئی۔ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف مانگ لیا کریں۔ آپ کے گھر والے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ ملتان میں ہیں۔ فی الحال میں ملازمت کے سلسلے میں آیا ہوا ہوں۔ وہ آنا چاہیں گے تو بلوا لوں گا۔ میں نے گھر والوں کی وضاحت نہ چاہی تو انہوں نے بھی اس بارے زیادہ بات نہیں کی۔ آپ فی الحال اکیلے رہتے ہیں ، اگر پسند کریں تو کھانا پکا کر بھیجوایا کروں ہر وقت ہوٹل کا کھانا اچھا نہیں رہتا۔ جواب میں ہلکی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ میں نے فلیٹ میں نظر دوڑائی، تھوڑا سا مگر ہلکا پھلا معیاری سامان تھا۔ ان کے چہرے پر نہ جانے کیا تھا کہ پہلی ہی ملاقات میں ، میں نے اپنی زندگی کھول کر ان کے سامنے رکھ دی، جواب تک کسی پڑوسی کو بھی معلوم نہیں تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اظہار ہمدردی کر رہے تھے۔ مجھے اپنے دکھ کا بوجھ ہلکا ہوتا محسوس ہوا۔ آج پتا چلا کہ میں اتنی تنہا اور اندر کے دکھ سے مجبور تھی کہ پہلی مرتبہ کسی شخص سے حال دل کہا تھا اور وہ بھی ایک اجنبی سے پہلی ملاقات میں۔ میں اس احساس کو کوئی نام نہیں دے سکی، بیٹی گھر میں سو رہی تھی۔ تارا کا خیال آتے ہی میں کسی خواب سے جاگ گئی۔ ہنستے ہنستے بیٹھی تھی اور روتے روتے اٹھی۔ تارا جسمانی طور پر بھی بہت کمزور تھی۔ سات سال کی عمر میں چار پانچ برس کی لگتی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے دروازے سے ہی خدا حافظ کہا اور میں اپنے فلیٹ میں چلی گئی۔ اگلے دن کے انتظار میں نیند نہ آئی۔ سچ پوچھیں تو یہ بیس گھنٹے میں نے بے چینی میں گزارے۔ دو پہر کوپلاؤ بنایا اور ایک ڈش بھر کر طارق صاحب کے لئے رکھ دی۔ کان دروازے پر لگے تھے۔ جوں ہی قدموں کی مانوس چاپ سنی، ڈش لے کر اپنے دروازے پر کھڑی ہو گئی۔ انہوں نے سلام کیا۔ میں نے جواب دیا اور کہا کہ آج پلاؤ بنایا ہے ، سوچا کہ مہمان نوازی کا تقاضا پورا کروں۔ یہ ڈش لے لیجئے۔ لاک کھول لوں ، آپ تب تک اسے پکڑے رکھنے کی زحمت اور اٹھا لیجئے۔ انہوں نے در کھولا اور بولے۔ آئیے ، اندر ٹیبل پر رکھ دیجئے۔ میں ذرا ہاتھ منہ دھو لوں۔ میں نے ایک معمول کی طرح ان کے حکم کی تعمیل کی اور ٹی وی لاؤنج میں پڑی ڈائننگ ٹیبل پر ڈش رکھ دی، ساتھ دہی اور سلاد بھی تھا۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر لوٹ آئے۔ میں قریب پڑے صوفے اور وہ میرے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ بہت شکریہ آپ نے کیوں تکلیف کی بے شک مجھے خوشی ہوئی ہے ، اپنے پڑوسی کی مہمان نوازی دیکھ کر مگر آئندہ یہ تکلیف نہ کیجئے گا۔ میں اکثر کھانا باہر سے کھا لیتا ہوں۔ اس میں تکلیف کی کیا بات ہے اور ضروری تو نہیں کہ آپ روز ہی کھانا باہر کھائیں۔ مجھے دیکھ کر وہ ایسے ہشاش بشاش ہو گئے ، جیسے میرے ہی منتظر تھے۔ آج اور بے تکلفی کے ماحول میں باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کافی بنائی، بولے۔ اگر آپ پڑوسی ہونے کے حقوق ادا کر رہی ہیں، تو مجھے بھی یہ حقوق نبھانا چاہئیں۔ میں نے کہا کہ میں بنادیتی ہوں، آپ تھکے ہوئے آئے ہیں۔ میں بہت اچھی کافی بناتا ہوں ، ورنہ ضرور آپ سے بنواتا۔ آج میرے ہاتھ کی پی لیں، کل آپ بنا دینا۔ کافی پیتے ہوئے میں نے کہا۔ آپ کے گھر والوں سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے جگ بیتی اور آپ بیتی سنانے لگے ۔ ان کے بیان کا انداز مزاح لیے ہوئے تھا۔ میں بات بات پر ہنس رہی تھی، جیسے مدت بعد کسی کو ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کی ٹیبل اور کرسیاں بے ترتیب رکھی ہوئی تھیں، ان کی اجازت سے میں نے ترتیب بدل دی۔ ان کو بھی یہ بدلاؤ اچھا لگا۔ آہستہ آہستہ ان کے گھر کی دوسری چیزوں میں بھی میں نے دخل دینا شروع کر دیا۔ روز ہی کچھ نہ کچھ بنا کر لے جانے لگی۔ کبھی ذرا دیر بیٹھ جاتی، کبھی کھڑے کھڑے دے کر آجاتی۔ وہ کہتے ضرور تھے کہ بیٹھ جائو، لیکن میں بچی کے دھیان کی وجہ سے زیادہ ٹھہر نہ پاتی تھی، پھر وہ بھی غالباً اس بات سے آگاہ تھے۔ وہ اکیلے رہتے تھے اور میں بھی، مگر بلڈ نگ میں بہت سے لوگ رہتے تھے، کہیں کوئی بات نہ بن جائے۔ وہ کافی بناتے ، میں برتن دھو دیتی، پھر بھی ہماری بات چیت رہتی۔ میں بستر کی چادر بدل دیتی۔ ان کاموں سے میرا ذہنی تنائو دور ہوتا اور سکون ملتا۔ لگتا تھا مجھے میرا کھویا ہوا حال مل گیا ہے۔ وہ میری آرزوئیں اور تمنائیں جو کسی گوشہ گمنامی میں پڑی سسک رہی تھیں، اچانک توانا ہو کر کھل اٹھی تھیں، جیسے میں سولہ سال کی الہڑ دوشیزہ بن گئی ہوں جو پہلی بار محبت کے نشے میں سر شار ہوتی ہے تو زمانے کو بھلا کر احمقانہ حرکتیں کرنے لگتی ہے ، حالانکہ یقین تھا کہ انجینئر صاحب کا تعلق محض ہمدردی اور خلوص پر مبنی تھا، مگر مجھے اپنے اوپر اختیار نہ رہا اور میں ان کے خیال میں ڈوبتی چلی گئی۔ اب یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اس شخص کے بنا میری زندگی بے کار ہے۔ آخر کب تک محرومیاں میرا مقدر رہیں گی۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر یہ شخص مجھے نہ ملا، تو میں اپنے آپ میں گھٹ کر مر جائوں گی۔ میں اپنے اس حال کے دوبارہ کھو جانے کو برداشت نہ کر سکوں گی۔ میں ان سے قریب تر ہونا چاہتی تھی اور اس خیال کو خود پر مسلط کر لیا۔ دن رات انہی کی سوچیں اور انہی کا خیال، زندگی کو جیسے کھوئی ہوئی سمت مل گئی تھی۔ طارق کے فلیٹ کی ایک چابی میں نے لے لی، تا کہ اپنی کام والی سے صفائی کروا سکوں۔ جی چاہتا تھا کہ اس کے گھر کو میں ہی سجا سنوار دوں ۔ جب کام والی آتی تو پہلے ان کے فلیٹ میں لے جاتی۔ وہ صفائی کرتی رہتی، میں ان کی کتابیں الماریاں وغیرہ دیکھتی رہتی۔ ان کے بیڈ پر لیٹ کر ان کا پسندیدہ میوزک سنتی۔ اپنے گمان میں ، میں ان کی ہر شے کو الٹ پلٹ کر اس کو اپنا حق سمجھنے لگی تھی۔ طارق صاحب کو اب میری ذات سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ میرے خلوص، خوب صورتی اور خدمت سے متاثر ہو چکے تھے۔ اس اعتماد کی فضا میں ایک روز کہنے لگے۔ میں نے آج تک تم کو یہ نہیں بتایا کہ میری بیوی ہے اور بچے بھی۔ انہوں نے اپنی بیوی کی تعریفیں کیں ، تب ہی میرا رنگ زرد ہونے لگا۔ میرا چہرہ دیکھ کر انہوں نے بات بدل دی اور خطوط کا ایک پلندہ اٹھالائے۔ کہنے لگے۔ میں آپ سے بیوی کی جھوٹی تعریفیں کر رہا تھا اور آنے والے دنوں میں بھی ایسی جھوٹی تعریفیں کرتا مگر آپ کارنگ دیکھ کر سچ بات کہنا پڑ گئی ہے کہ آپ بہر حال ایک عورت ہیں۔ طے کیا تھا کہ اگر یہ تعریفیں برداشت کر لیتی ہیں، تو دل میں چھپی بات ظاہر نہ کروں گا لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ عورت اس شخص کے منہ سے کبھی کسی اور عورت کی تعریف برداشت نہیں کر سکتی، جس سے وہ محبت کرتی ہو۔ اب جان لیا کہ تم اور میں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، لہٰذا بتاتا ہوں۔ یہ وہ خطوط ہیں جو میری بے وفا بیوی نے اپنے محبوب کو لکھے تھے اور کسی طور مجھ تک پہنچ گئے۔ گو وہ اب میرے بچوں کی ماں ہے۔ یہ خطوط جب میں نے اسے دکھائے، تو وہ بہت شرمسار ہوئی۔ اس نے بہت معافیاں مانگیں۔ میں نے بچوں کی خاطر معاف تو کر دیا مگر دل نے معاف نہ کیا۔ ایک بندھن تو ہے، مگر محبت نہیں کر سکتا۔ میرا اعتماد اس پر سے اٹھ گیا ہے اور گمان رہتا ہے کہ موقع ملا تو پھر بے وفائی کرے گی۔ میں ہر وقت ذہنی اذیت میں رہتا ہوں۔ جب سے تم ملی ہو ، تمہارے شوہر کی تیسری شادی کی وجہ سے تم رنجیدہ تھیں، مجھے بھی رنج ہے۔ وہ تو تم سے ملنے تک نہیں آتا۔ تم بھی اکیلی ہو، میں بھی۔ تم بھی ایک بے وفا کی ستائی ہو اور میں بھی۔ آج جو بات میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اگر تم چاہو۔ تنہا کب تک رہو گی، جبکہ ایک ذہنی معذور بچی کا بھی ساتھ ہے۔ میں تو اسی دن کے انتظار میں تھی۔ صحرا میں ایک تنہا پودے کو پانی مل گیا تھا۔ خوشیوں کے ساتھ جینا میرا بھی حق تھا۔ ایک ساتھی کا ساتھ ، دکھ سکھ میں اس کی شراکت، یہی تو اصل زندگی ہوتی ہے۔ تنہا عورت اور وہ بھی بے بس جبکہ معذور بچی کا بھی ساتھ ہو۔ اگر اس نے کوٹھی دی، رہنے کو فلیٹ دیا تو اپنی بچی کے لیے کہ آخر وہ اس کا باپ تھا۔ آج میرا ہم نوا مجھے مل رہا تھا، میں فورا ہاں کہنا چاہتی تھی لیکن نسوانیت نے روک دیا اور میں کل جواب دینے کا وعدہ کر کے چلی آئی۔ رات کو بستر پر لیٹی تو مجھے نیند نہیں آئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ نہیں کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قدرت ایسے موقع خوش نصیبوں کو ہی دیتی ہے۔ اتنی زندگی گزارنے کے بعد پہلی بار خوشی کا منہ دیکھنے جارہی تھی، پھر بھلا کیوں میں نہ کہتی ، تب ہی مجھے بچی کا خیال آیا۔ تارا اپنے باپ سے الگ ہونے کے بعد کئی مرتبہ بیمار ہوئی۔ ایک بار تو طارق صاحب بھی اسے اسپتال لے گئے ، تب میں نے ایک جیون ساتھی کی کمی شدید محسوس کی تھی۔ تارا بیماری کی حالت میں ہمیشہ اپنے باپ کو یاد کرتی تھی۔ وہ بس دو ہی لفظ بول سکتی تھی، مما اور بابا۔ ان دونوں ہستیوں کا ایک بچے کے ساتھ رہنا کتنا ضروری ہوتا ہے، یہ کوئی میرے دل سے پوچھے۔ اگلے دن میں کام والی کو لے کر طارق کے فلیٹ میں گئی۔ وہ آفس میں تھے۔ صفائی کرواتے ہوئے میری نظر میز پر پڑے ایک لفافے کے کونے پر پڑ گئی جو کتاب کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ میں نے اٹھا کر دیکھا۔ لفافہ کھلا ہوا تھا، گویا طارق نے پڑھ لیا تھا۔ لفافے میں اس کی بیٹی کا خط تھا، جو اس نے اپنے بابا کو لکھا تھا۔ بابا آجائو، میں بہت اداس ہوں۔ میں ٹھیک طرح سے پڑھ بھی نہیں پا رہی۔ آپ کی یاد ستاتی ہے تو تصویر کو دیکھتی ہوں۔ کب آئو گے میرے بابا میرے امتحان ہونے والے ہیں، کہیں میں فیل نہ ہو جائوں۔ خط پڑھ کر دل مٹھی میں آ گیا۔ مجھے لگا، جیسے یہ تارا ہے ، جو اپنے باپ کو بلا رہی ہے ، مگر وہ ظالم باپ ہے ، جس نے آج تک مڑ کر نہیں دیکھا۔ جو میرے دل پر گزرتی تھی، میں جانتی تھی۔ اگر زبیر سے خلع لے کر میں نے طارق سے شادی کر لی، تو مجھے یقین تھا، وہ میرا ہو کر رہ جائے گا اور مڑ کر اپنے بچوں کو نہیں دیکھے گا۔ ان کی ماں کے دل پر کیا بیتے گی اور بچوں کے دلوں پر کیا گزرے گی۔ مجھے چکر سا آ گیا۔ خوشی اور انبساط کی جو لہریں میرے اندر اٹھ رہی تھیں، ساکت ہو گئیں۔ اگلے روز دو پہر کو میں طارق کے گھر گئی۔ چھٹی کا دن تھا، وہ گھر پر میرے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ میرے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں کچھ دیر چپ رہی، پھر کہا۔ طارق میں نے تم سے جو محبت کی ہے ، وہ محض خود غرضی کی بنا پر کی ہے۔ تم کو کچھ دینے کے لیے نہیں، بلکہ تم سے کچھ لینے کے لیے۔ میں بے سہارا تھی اور کسی بھی وقت زبیر مجھے طلاق دے دیتے۔ میں اپنے لیے ایک سمت تلاش کر رہی تھی، جو تم میں مل گئی۔ اب میں تمہیں حاصل نہیں کرنا چاہتی مگر تمہاری اور تمہارے بچوں کی خوشیوں میں شریک رہوں گی۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ میرا ضمیر اجاز ت نہیں دیتا کہ میں تمہارے بچوں کو ان کے باپ سے دور کر دوں۔ ایک ماں ہوں اور اس درد کو سمجھتی ہوں کہ باپ کسی اور عورت کا ہو جائے تو معصوم دلوں پر کیا گزرتی ہے۔ وہ بے یقینی سے مجھے تکتے رہے۔ کچھ کہنا چاہتے تھے، مگر ان کو کچھ کہنے کا موقع دینے سے پہلے میں وہاں سے چلی آئی۔ ان دنوں کوٹھی کے کرایہ دار چلے گئے تھے ، وہ خالی تھی۔ میں نے فلیٹ کو تالا لگایا اور کوٹھی میں آ گئی تاکہ طارق کو اپنے گھر ملتان جانے میں آسانی ہو کہ میری وجہ سے وہ کئی ماہ سے بچوں سے ملنے گھر نہیں گیا تھا۔ لیکن اب میرا دل پر سکون تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نے اپنی تارا کے لئے باپ کی چھاؤں کا انتظام کر دیا ہو۔ | null |
null | null | null | 221 | https://www.urduzone.net/dyne-wala-hath/ | ریشم اپنے موبائل میں گم ، دنیا جہاں سے بے خبر صوفے میں دھنسی بیٹھی تھی۔ بچوں کی پیدائش کے بعد وزن بڑھ گیا تھا۔ اور اصل عمر سے کچھ بڑی بڑی دکھائی دے رہی تھی۔ میں آج بھائی، بھابھی سے ملنے آئی تو پتا چلا کہ ان کی اکلوتی بیٹی بھی دو دن سے میکے آئی ہوئی ہے بھائیوں، بہنوں کی اولاد میں میری سب سے زیادہ دوستی ریشم کے ساتھ تھی ۔ مجھ سے مل کر اور حال چال پوچھ کر وہ پھر سے موبائل میں گم ۔ بھائی نے کہا۔ آؤ شائستہ اندر بیٹھتے ہیں۔ یہاں بچوں نے پھیلاوا کیا ہوا ہے۔میں فورا بولی۔ ارے نہیں نہیں بھائی نہیں لاؤنج میں ٹھیک ہے۔ میں کوئی مہمان تھوڑی ہوں۔ صاف اور نفیس طبیعت کے بھائی کے لاؤنج کو دیکھ کر مجھے تھوڑا خود بھی عجیب محسوس ہو رہا تھا۔ ریشم کا ایک پانچ سالہ بیٹا ، ماں کی طرح ہی ہاتھ میں آئی پیڈ پکڑے، قالین پر لیٹا کھا رہا تھا۔ قالین اور کشن پر چپس اور چاکلیٹ کے خالی ریپر تھے۔ جب کہ اس کی بیٹی کھلونوں کی پوری ٹوکری الٹ چکی تھی۔ اور پھر بھی اس کی پسند کا کھلونا نہیں مل رہا تھا۔ ادھر ادھر کھلونے بسکٹ کے ریپر ، اور کیچپ کی بوتل اور جانے کیا کیا الا ہلا پڑا تھا۔ بھائی کی گھوری پر ریشم نے کچن کا رخ کیا۔ ننگے پیر قالین پر کوئی ٹوٹا کھلونا اس کے پاؤں پر لگا اور زور سے کراہتے ہوئے ایک ہاتھ بیٹی کو جڑ دیا جس نے یہ سارا گند پھیلایا تھا۔ ریشم کی بیٹی نے وہ شورڈالا کہ خدا کی پناہ بھائی فورا اٹھ کر بچی کو بہلانے لگے لیکن اس کے شور میں کمی واقع نہ ہوئی۔ شور سے ویڈیو دیکھتا بیٹا متاثر ہو رہا تھا سو فوراً اٹھا اور بہن کو ڈانٹنے لگا۔ چپ کر جاؤ مجھے سنائی نہیں دے رہا۔ پانچ سال کے بچے کا یہ لہجہ سن کر میں حیران رہ گئی اپنے پرس سے چاکلیٹ نکال کر بچی کو دی۔ اور بیٹے کو پاس بلا کر پوچھا۔ آپ کیا دیکھ رہے ہو فورا بولا۔ میں اسپائیڈرمین دیکھ رہا ہوں ۔ میں نے بہلا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور کہا۔ واہ آپ کا اسپائیڈرمین تو بڑا ہیرو ہے لیکن ان سے بھی بڑےیرو کی اسٹوری سناؤں آپ کو۔ بچہ تھا اور خوش ہو کر بولا ۔اس سے بھی اسٹرونگ ۔ میں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قصہ جو انہوں نے قلعہ خیبر کا دروازہ ، اپنے ہاتھوں سے اکھیڑا تھا کو بچوں کی ذہنیت کے مطابق کر کے سنایا تو خوش ہو کر بولا۔ آپ کے پاس اوراسٹوری بھی ہیں یعنی بچوں میں کہانیاں سننے کی چاہ ہے لیکن ہم نے انہیں آسان اور نقصان دہ آلات کے ساتھ چھوڑ دیا کہ خود دیکھیں اور تربیت حاصل کریں۔ میں نے جھٹ ریشم سے کہا جو چائے اور لوازمات رکھ رہی تھی۔ بیٹا شام کو آنا میری طرف اتنے عرصے بعد آئی ہو۔ ریشم نے فورا ہامی بھر لی۔میں شام کو ریشم کو دینے والی میں ذہن میں ٹپس تیار کرنے لگئی۔ چائے پی کر میں گھر روانہ ہوئی۔ ریشم کی پسندیدہ چاٹ اور پاستا کی تیاری کرنے لگی۔ کام سے فارغ ہوئی نماز مغرب ادا کی تو ریشم آ گئی۔ بیٹے کو ساتھ لائی تھی اور بچی کو نانی کے پاس چھوڑ آئی تھی ۔ پھوپھو آپ تو ابھی بھی جوان لگتی ہیں۔ آتے ہی میرے گلے لگ گئی۔ مجھے دیکھیں کتنی موٹی ہو گئی ہوں ۔ میں نے یہیں سے شروع کر دیا۔ بیٹا دینے والا ہاتھ ہو اور لینے والا نہیں ۔ ریشم نے نا سمجھی سے مجھے دیکھا اور پھر فورا بولی پھوپھو میں تو ہر ماہ صدقہ نکالتی ہوں۔ اور بلکہ ہر ہفتے اپنی کام والی ماسی کو تنخواہ کے علاوہ بھی دیتی رہتی ہوں بس اللہ دینے والا ہاتھ رکھے۔ میں مسکرائی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی۔ بیٹا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دینے والا ہا تھ یعنی پیسے سے مالی مدد کرنا۔ ایک دوسرا مفہوم بھی ہے جس پر ہم سب مسلمانوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیا مطلب پھوپھو ریشم نے فوراً سوال کیا۔ بیٹا جو شخص اپنا وقت، اپنی توانائی، اپنی ذاتی خوشیاں، آسانیاں دوسروں کو دے دیتا ہے وہ اصل میں دینے والا ہا تھ ہوتا ہے۔ جیسے تم اگر اپنا وقت موبائل کے بجائے اپنے بچوں کو دو۔ اپنی خوشی کو چھوڑ کر اپنی آسانی کو چھوڑ کر اپنی ماں اور ساس کے ساتھ بیٹھو۔ گھر داری میں اپنی جسمانی کوشش کو استعمال کرو۔ سارا گھر ماسی پر چھوڑنے کی بجائے خود بھی ساتھ ساتھ کام کرو تو وزن بھی کم اور دوسروں کو خوشی، سکون دے کر جو مخلص دعائیں تم لو گی وہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ یہ دعائیں تمہارے اور بچوں کے مستقبل کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ تمہیں قدم قدم پر احساس ہوگا۔ پھوپ ھولینے والا ہاتھ اور دینے والا ہاتھ ۔ اس مفہوم پہ تو میں نے سوچا ہی نہ تھا۔ ریشم کے چہرے پر ایک انوکھی چمک تھی اور کچھ کرنے کا عزم ۔ سچ ہے اس نسل کی تربیت پر ہم نے محنت کر لی تو اگلی نسلوں پر اس تربیت کا اچھا اثر ہوگا۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 222 | https://www.urduzone.net/raaz-khul-jaye-ga/ | ہمارے علاقے میں ڈوم قوم کے کچھ گھرانے آباد تھے جن کا ذریعہ معاش بھیک مانگنا تھا۔ انہوں نے بڑے بڑے تھیلے بنا رکھے تھے۔ وہ صبح منہ اندھیرے ہی سے گاؤں گاؤں پھرتے رہتے اور جب شام کو واپس آتے تو ان کے تھیلے آٹے سے بھرے ہوتے۔ طویل عرصے تک ان کا یہی کام رہا۔ جب ان کی اولاد جوان ہو گئی اس نسل نے اپنے بزرگوں کو اس دھندے سے منع کر دیا اور یہ لوگ محنت مزدوری کرنے کی طرف مائل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ کھیتی باڑی کرنے لگے اور کسی نے گاؤں کا چوکیدارہ سنبھال لیا۔ ایک گھرانہ ہاکو تھا۔ یہ ریوڑ ہانکتے تھے ، سو چرواہے بن گئے۔ ہاکو چرواہے کے بہت سے بچے تھے ، جن میں ایک لڑکا کمالا بھی تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا مگر اس کا باپ اسے پڑھنے نہیں دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ہمارا کام لوگوں کے ڈھور ڈنگر چرانا ہے ، لکھنا پڑھنا نہیں۔ باپ کے منع کرنے کے باوجود کمالا چھپ چھپ کر پڑھنے کا شوق پورا کرتا تھا۔ ان دنوں میرے والد صاحب بھی ایک طالب علم تھے۔ ان کا اسکول گاؤں سے کوئی تین میل کے فاصلے پر تھا۔ کمالے کی ابو جان سے دوستی ہو گئی۔ جس راستے پر ابو اسکول پڑھنے جاتے تھے ، کمالا اس راستے پر جانور چرانے جاتا تھا۔ ابو کو بستہ اٹھائے جاتے دیکھ کر اس کا دل کرتا کہ وہ بھی اسکول جائے، تبھی اس نے ابو سے دوستی کر لی۔ آخر اس نے ابو جان کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ ان کے گھر سے اُن کا کھانا اسکول لے کر آیا کرے گا اور بدلے میں وہ اپنی کتابیں اس کو دیا کریں گے۔ میرے ابو نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اس کے بعد کمالا اباجی کا کھانا اسکول لے جانے لگا اور وہ نہ صرف اسکو اپنا سبق پڑھا دیا کرتے بلکہ اپنی کتابیں بھی پڑھنے کو دیا کرتے تھے۔ ایک دن کمالے کے باپ کو اس بات کا پتا چل گیا۔ بس پھر کیا تھا، اسے اتنی مار پڑی کہ بدن پر نیل پڑ گئے۔ وہ تکلیف کی شدت سے سارا دن تڑپتا رہا۔ شام کو ماں نے ہلدی اور گھی گرم کر کے اس کے جسم کی ٹکور کی۔ دو تین دن تک وہ گھر میں پڑا رہا۔ وعدہ کیا کہ آئندہ نہیں پڑھے گا مگر کچھ دنوں بعد پڑھائی کے شوق نے پھر سر اٹھایا تو اس نے پھر سے اباجان کے پاس آنا شروع کر دیا۔ یوں ، اب وہ اکثر مار بھی کھاتا مگر پڑھائی سے باز نہ آتا، آخر تھک کر ماں باپ چپ ہو رہے اور کمالے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ باقاعدہ اسکول جانے لگا۔ چرانے کا کام چھوڑ شوق و لگن سے پڑھائی میں لگ گیا۔ چرواہے کی ڈیوٹی اب اس کے چھوٹے بھائی نے سنبھال لی تھی۔ کمالا ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا، گھر والوں کو اس کے پاس ہونے یا نہ ہونے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ انہیں خوشی تھی ، نہ غم۔ دو وقت کی روٹی دے کر وہ اسے سینکڑوں صلواتیں سناتے تھے کہ حرام خور ڈھور ڈھنگر چھوڑ کر کتابیں لیے بیٹھا ہے ، کام چوری کا اچھا بہانہ تلاش کیا ہے۔ کمالا کے سینے میں بھی جیسے پتھر کا جگر تھا۔ اس نے کسی بات کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ بالآخر فرسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کر لیا اور شہر جا کر چھوٹی سی نوکری تلاش کرلی تا کہ آگے تعلیم جاری رکھ سکے۔ گریجویشن کے بعد اسے ایک اچھی نوکری مل گئی۔ ماں باپ کو اب اس کی شادی کی فکر ہوئی اور انہوں نے خاندان کی ایک ان پڑھ ، گنوار لڑکی گوراں سے اس کی شادی کر دی۔ کمالے نے اس کا نام بدل کر عالمہ رکھ لیا ۔ اب وہ مسز عالمہ کہلانے لگی۔ عالمہ جب چھ ماہ شہر میں رہ کر گاؤں آئی تو پہچانی نہ جاتی تھی کہ یہ وہی گوراں ہے جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے سارا سارا دن گندم کوٹتی اور دھان پھٹکتی تھی۔ جانوروں کو چارہ ڈالتی، اب تو ایسار نگ نکالا کہ اس کا اصلی روپ ہی بدل گیا تھا۔ اب وہ سلیقے سے کپڑے پہنے ہوتی۔ اس کے بال بھی طرح دار بنے ہوتے۔ جب وہ دوسری بار گاؤں آئی تو اس کا لب ولہجہ بھی بدل چکا تھا۔ اب وہ اردو اچھی طرح بول سکتی تھی۔ گاؤں کی لڑکیاں، خاص طور پر اس کی قوم کی لڑکیاں گوراں کو حیرت و حسرت سے دیکھتی تھیں۔ جب وہ اونچی ہیل کا جوتا پہن کر ہاتھ میں پرس تھامے ایک ادا سے چلتی تو گاؤں کی عورتیں منہ میں انگلی داب لیتیں اور لڑکیاں اس کو پر شوق نگاہوں سے تکتی رہ جاتیں۔ گوراں کے میکے والوں کے تو قدم زمین پر نہیں پڑتے تھے۔ وہ اس نخوت سے مسرور تھے کہ ان کی بیٹی عیش کر رہی تھی۔ اچھے پہناوے سے اس کا مرتبہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ لوگ اس کو دیکھ کر رشک کرتے۔ گوراں نے ان کی عزت بڑھا دی تھی۔ گاؤں والے بھی اب ان کو کچھ سمجھنے لگے تھے چونکہ کمالہ افسر بننے کے بعد اب کمال صاحب بن گیا تھا اور وہ اس کے سسرالی تھے۔ ایک انہی کو کیا ساری برادری کو اس پر فخر تھا۔ کوئی کہتا، کمال رشتے میں می راماموں لگتا ہے تو کوئی کہتا، وہ میرا چچا ہے۔ کوئی بتلاتا بچپن کا دوست ہے میرا اور کوئی منہ بولا بھائی بتا کر فخر کا اظہارکرتا۔ کمال کے چار بچے ہو گئے ، دو لڑکے اور دو لڑکیاں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد اس کی ملاقات اپنے ساتھ کام کرنے والی لڑکی عروسہ سے ہو گئی تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو پڑھا لکھا اور بڑا افسر ہے ، لیکن اس کی بیوی ان پڑھ اور گنوار دیہاتن ہے۔ اس کی زندگی برباد ہے کہ اپنے جیسا جیون ساتھی نہیں ملا۔ اچانک اس کی سوچوں ہیں، ایسا انقلاب آ گیا کہ اس کے ذہن کی بساط ہی پلٹ گئی۔ اب وہ اپنی بیوی سے بیزار بیزار سا رہنے لگا۔ بالا کر ایک دن اس نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلی اور عالمہ کو پھر سے گوراں بنا کر گاؤں بھیجوا دیا۔ بچوں سے کہا کہ تم لوگوں کی چھٹیاں ہیں، کچھ دن نانا نانی کے پاس گاؤں رہ آؤ۔ جب اس کی بیوی بچے گاؤں چلے گئے تو اس نے سسر صاحب کو بیٹی کا طلاق نامہ بھجوا دیا۔ اس گھرانے پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی اور وہ سوگ میں چلے گئے۔ گوراں سے عالمہ تک کا سفر جتنی آسانی سے طے ہوا تھا ، اب واپسی اتنی ہی دشوار اور محال تھی۔ گوراں نے رو رو کر حال برا کر لیا۔ کئی دنوں تک چار پائی سے لگی رہی۔ ذہن کسی طور پر یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ وہ محل سے پھر گھورے پر آ گئی ہے۔ کتنے ہی دن بعد لوگوں کے سمجھانے بجھانے سے اپنے ٹوٹے بکھرے وجود کو پھر سے جمع کیا کہ چار بچوں کا ساتھ تھا، ان کے کچھ تقاضے، کچھ ضرورتیں تھیں۔ باپ نے ساتھ چھوڑ دیا، اگر ماں بھی بچوں کا ساتھ نہ دے گی تو یہ معصوم کدھر جائیں گے یہ سوچ کر اس نے خود میں نئے سرے سے ہمت پیدا کی۔ کمالے نے چند ماہ بچوں کا خرچہ بھیجا، پھر رفتہ رفتہ یہ عنایت کم ہوتی گئی۔ بچوں کے دادا دادی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رہتے تھے ، مگر یہ مدد نہ ہونے کے برابر تھی۔ بچے اب بڑے ہو رہے تھے اور ان کے اخراجات بھی بڑھتے جاتے تھے۔ نانی غریب تھی۔ اس صورت حال میں گوراں کو ہی کچھ کرنا تھا۔ اس نے تن تنہا ہی کمر کس لی۔ کوئی اور کام تو آتا نہیں تھا، تب اس نے بان بٹنا شروع کر دیا۔ کہاں تو گھر میں نوکر چاکر تھے اور کہاں یہ مشقت جھیلنی پڑ رہی تھی۔ سارا دن محنت مزدوری کرتی، تب بڑی مشکل سے اتنا کما پاتی کہ دو وقت اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی۔ سسر خود کثیر العیال تھا، وہ کتنی مدد کرتا۔ جب ان بچوں کے باپ کو رحم نہ آیا تو دادا کو کیوں آتا۔ اس دوران بچوں کا نانا دنیا سے کوچ کر چکا تھا، ور نہ گوراں کو یوں خون پسینہ ایک نہ کرنا پڑتا۔ وہی عالمہ جو کبھی اونچی ایڑی کا جوتا پہن کر اتراتی تھی ، ہوائی چپل بھی دور نگ کی پہننے لگی۔ چپل ٹوٹ جاتی تو اپنے ہاتھ سے موٹے دھاگے سے گانٹھ کر پھر سے پہن لیتی۔ پرس پکڑنے والے ہاتھ بان بٹ کر خراب ہو گئے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا باپ کی بے وفائی سے انتظامی سوچوں کا شکار ہو گیا اور ماں کو ستا کر اپنی محرومیوں کا انتقام لینے لگا۔ چھوٹا اسکول جاتا تھا مگر فیس نہیں دے پاتا تھا لہٰذا اسکول چھوڑ وہ گلی کے بچوں کے ساتھ گولیاں کھیل کر وقت گزار نے لگا۔ گوراں نے جب اس کا شوق دیکھا تو ہر دم اس کو کہنے لگی کہ گولیاں ہی کھیلنی ہیں تو اتنی مہارت سے کھیلو کہ ہر دم تم ہی جیتو ۔ ان کو جمع کر کے بیچو گے تو فیس اور کتابوں کے پیسے جمع ہو جائیں گے ۔ لڑکا گولیاں کھیلتے کھیلتے فیس کے پیسے تو اکٹھے نہ کر سکا مگر جوا کھیلنے لگا اور پکا جواری بن گیا اور گوراں کے دل میں ایک اور گہرا گھاؤ بڑھ گیا۔ ہمارے گاؤں والے کہتے کہ گوراں نے جتنے دکھ اٹھائے ہیں، وہ ضرور جنت میں جائے گی اور کمالے کو اس کے کئے کی سزا ملے گی کیونکہ اس نے بیوی بچوں پر ظلم کیا ہے، مگر وہ تو دن بہ دن اونچے سے اونچا ہوتا جارہا تھا۔ دوسری بیوی سے اس کے دو بیٹے ہو گئے تھے۔ وہ ہوائی کمپنی میں افسر تھا۔ اس نے دو بار حج کیا، عمرے بھی کر لئے۔ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ بچپن میں بکریاں ہانکنے والا کمالا اپنے معصوم بچوں اور بیوی کو بھول جائے گا۔ بھلا ایسی تعلیم ایسی افسری کا کیا فائدہ اس سے تو اچھا تھا وہ ایک چرواہا ہی رہتا۔ کم از کم اس کے بیوی بچے اس کے پیار کو نہ ترستے۔ بے شک وہ بڑا افسر بن کر گاؤں والوں کو بھول گیا تھا، لیکن میرے والد کو اس نے نہیں بھلایا۔ جب ابو شہر جاتے ، اس سے ملتے تو وہ بہت عزت سے پیش آتا۔ ان کی خاطر مدارات کرتا۔ ایک بار میرے ابو جان نے بیٹے کی نوکری کے بارے کہا تو اس نے میرے بھائی کو نجی ہوائی کمپنی میں ملازمت دلوا دی۔ والد کے احسان کا بدلہ اس نے اس طرح چکا دیا۔ کہتا تھا کہ آپ کی بدولت پڑھ پایا ہوں ورنہ میں کہاں تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ عمر بھر چرواہا ہی رہتا۔ ابوجی نے بہت بار اسے یاد دلایا کہ تمہارے بچے گاؤں میں مفلوک الحال رہتے ہیں، تمہیں ان کا خیال کرنا چاہیے۔ تم نے ان کو بالکل بھلا دیا ہے ، یہ درست نہیں ہے۔ اس پر وہ خاموش ہو جاتا یا یہ جواب دیتا کہ چھوٹی بیوی نے قسم دلوا دی تھی کہ پہلے گھر والوں سے واسطہ نہ رکھوں گا۔ مجبور ہوں، گاؤں کے رشتے داروں کا آنا جانا ہو گیا تو میری شہر والی بیوی اور سسرال پر یہ راز کھل جائے گا کہ میں ڈوم ذات سے ہوں اور میرے آباؤ اجداد بھیک مانگا کرتے تھے۔ | null |
null | null | null | 223 | https://www.urduzone.net/bharum-ka-rishta/ | ان دنوں عمر سولہ سترہ برس تھی، اچھے برے کی تمیز اور دنیا کو برتنے کا ڈھنگ نہیں آیا تھا۔ سوچوں میں گہرائی نہ تھی کہ زندگی اور مستقبل کے فلسفے کو سمجھتی ۔ بس اچھی شکلوں پر مرمٹنے کو جی چاہتا تھا۔ یہ عمر کا وہ دور تھا جب دل کو ساتھی تلاش ہوتی ہے۔ میں بھی بے مقصد نہیں جھانکتی تھی۔ نظریں کسی حسین ساتھی کی آرزو میں بے قرار رہتی تھیں اور میری بھولی ماں میری نظروں کا مفہوم نہ سمجھتی تھیں۔ تبھی انہوں نے کبھی چھت پر جانے سے منع نہیں کیا۔ ان کا خیال ہو گا یہ اور تو کہیں آتی جاتی نہیں، ایک چھت ہی تو ہے، کھلی فضا میں سانس لے لے۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ کافی دنوں سے سامنے والی بلڈنگ میں بالائی منزل پر جو فلور خالی تھا، آج وہاں زندگی کے آثار نظر آئے۔ ایک خوبرو نوجوان گیلری سے جھانک رہا تھا۔ اچانک اس نے نظر اوپر اٹھائی اور مجھے چھت کی منڈیر سے اپنی جانب تکتے پایا۔ بے اختیار وہ معنی خیز انداز میں مسکرادیا اور میں جھینپ کر پیچھے ہو گئی، پر اب چین کہاں تھا۔ ذرادیر بعد پھر جھانکا۔ اس شوخ نے خوش دلی سے ہاتھ ہلا دیا۔ میری نوید سے شناسائی بس ایسے ہی ایک جھلک سے شروع ہو کر ایک مکمل داستان پر ختم ہوئی، مگر میری زندگی کا یہ سفرمنزل پا لینے کے باوجود بھی نامکمل رہ گیا۔ ایک روز جبکہ چھت سے جھانک رہی تھی اور نوید مجھے اشارے کر رہا تھا، میری شامت اعمال والد صاحب گلی سے نمودار ہو گئے۔ وہ گھر کی جانب آرہے تھے۔ میں تو اپنی دنیا کی رنگینی میں کھوئی ہوئی تھی، ان کے آنے کا احساس نہ ہوا لیکن ابو نے مجھ کو نگاہوں کی زبان میں نوید سے گفتگو کرتے دیکھ لیا۔ گھر آئے تو والدہ سے پوچھا۔ سلطانہ کدھر ہے۔ چھت پر ہو گی یا یہیں کہیں ہو گی۔انہوں نے شان بے نیازی سے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ صغرا بیگم کمال ہے تم جوان بیٹی کی ماں ہو اور تم کو خبر ہی نہیں کہ تمہاری بیٹی کہاں ہے۔ اگر چھت پر بھی ہے تو اس بھری دو پہر میں وہاں کیا کر رہی ہے اب مجھے کیا خبر بھئی میں تو کچن میں کھانا بنانے میں مصروف ہوں۔ کھانے کو چھوڑو اور بیٹی کی خبر لو۔ چھت پر جاؤ د یکھو تو وہاں کڑکتی دھوپ میں کیا کر رہی ہے۔ والد صاحب کے سخت تیور دیکھ کر امی اوپر آنے کو زینے پر چڑھنے لگیں۔ ان کے قدموں کی آواز پر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ زینے پر پہنچ گئی کہ ان کے چھت تک پہنچنے کی نوبت نہ آئے۔ چلو تمہارے ابو آ گئے ہیں اور تم کو پوچھ رہے ہیں۔ میرا دل دھڑک اٹھا۔ خدا نہ کرے مجھے نوید سے اشاروں میں باتیں کرتے تو نہیں دیکھ لیا۔ دل درست خدشے سے دھڑکا تھا۔ انہوں نے ڈپٹ کر پوچھا۔ اتنی تپش ہے اس وقت چھت پر کیا کر رہی تھیں۔ کیا سامنے کی بلڈ نگ میں تمہاری کوئی سہیلی رہتی ہے ان کا ذو معنی جملہ مجھے تازیانے کی طرح لگا اور میں نے جھرجھری لی۔ نہیں تو ابو بس اسی قدر کہہ سکی۔ وہ بھی اس وقت تو غصہ پی گئے لیکن ان کے دل میں جس خدشے نے سر اٹھایا تھا، اس نے ایک ایسی فکر کا روپ دھار لیا جو تپ دق کی مانند بابا جانی کی ہڈیوں کو گھلانے لگی۔ والدہ کچھ ٹھنڈے مزاج کی تھیں اور بالکل بھی عجلت پسند نہ تھیں۔ جو کام مائوں کا ہوتا ہے ، وہ بھی والد صاحب نے خود سر انجام دینے کی ٹھان لی۔ وہ دن، رات مجھے بیاہنے کی چارہ سازی میں لگ گئے۔ قریبی دوستوں سے ذکر کیا کہ میری بیٹی کا رشتہ تلاش کرنا ہے۔ خاندان میں اس کے لئے کوئی اچھار شتہ موجود نہیں ہے۔ آدمی کسی جستجو میں لگ جائے تو کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ ایک دوست کے توسط سے والد صاحب کو بھی میرے لئے مناسب رشتہ مل گیا۔ ایک روز والد کے دوست شاکر صاحب کی بیگم ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور پسند کر لیا۔ جب والدہ نے آگاہ کیا کہ تمہارے ابو نے ایک لڑکا پسند کر لیا ہے تو میں پریشان ہو گئی، تاہم ماں کی تسلی کو کہا۔ مجھے اس لڑکے کی فوٹو تو دکھائے، تبھی ہاں کروں گی۔ اگلے روز امی نے ایک فوٹود کھائی۔ موصوف کی شکل ایک آنکھ مجھ کو نہ بھائی۔ ذرا بھی خوبصورت نہ تھے اوپر سے کچھ پختہ عمر لگتے تھے کہ سر پر بال بہت کم تھے۔ دیکھتے ہی میں نے فوٹو کو پرے پھینک دیا اور کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔ توبہ توبہ کیا آپ کو میرے لئے یہی بر جڑا ہے ہر گز اس سے شادی نہ کروں گی۔ مر جانا پسند کروں گی۔ اماں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھ کو مزید اس معاملے پر بحث کرنے سے روک دیا کہ تمہارے ابا آجائیں تو ان سے بات کروں گی۔اگلے روز جب ابو دفتر چلے گئے۔ ماں نے کہا۔ میں نے بات کی ہے۔ انہوں نے یہی سوال کیا کہ بیٹی سے پوچھو انکار کی کیا وجہ ہے محض صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اصل شے سیرت ہوتی ہے۔ اماں سیرت کے ساتھ لڑکی، لڑکے کی پسند کو بھی تو خاطر میں رکھنا پڑتا ہے۔ تو کوئی پسند ہے تیری بتادے یہ بھی میں تیرے باوا سے پوچھ لوں گی۔ سوچا موقع اچھا ہے ، ماں کے کان میں ڈال ہی دوں۔ ایسا نہ ہو بعد میں کہیں میں نے تو پوچھا تھا لیکن تم نے ہی اپنی پسند نہ بتلائی۔ ماں سامنے والی بلڈ نگ میں جو لوگ آئے ہیں، ان کا لڑکا ہے۔ نوید نام ہے۔ میں زیادہ نہیں جانتی لیکن مجھے وہ لڑکا پسند ہے۔ وہ بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ابا سے کہیں میرا رشتہ اس کے ساتھ کر دیں۔ لڑکا کون ہے، کیا کرتا ہے، کس خاندان سے ہے ارے بھئی کچھ تو معلوم ہو۔ مجھے نہیں معلوم اماں میں اس سے ملتی تھوڑی ہوں، بس چھت سے ہم بات کر لیتے ہیں۔ وہ نئے لوگ آئے ہیں اور معلومات لینا تو ابا کا کام ہے۔ امی نے اپنا کہا نبھا دیا۔ میری پسند سے ابو کو آگاہ کر دیا۔ وہ تو چراغ پا ہو گئے کہ سب جانتا ہوں، مجھے معلومات لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں کوئی فیملی نہیں بلکہ ایک لڑکا تنہا رہتا ہے ، کرائے پر فلیٹ لیا ہے۔اس کے گھر والوں کا اتا پتا کیا معلوم کروں، مجھے وہ سرے سے پسند نہیں ہے۔ اوباش لگتا ہے ، اس کی فیملی بھی ہوتی تب بھی وہ مجھے قبول نہیں ہوتا۔ جو رشتہ شاکر صاحب کے توسط سے آیا ہے ، وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ بیٹی کو سمجھا دو کہ یہ تاک جھانک کا سلسلہ بند کر دے، ورنہ ایسی مار ماروں گا کہ بچے گی نہیں۔ اماں مجھے کیا بتاتیں، وہ یہ سب بلند آواز کے ساتھ گرج برس کر کہہ رہے تھے کہ اب ان کا کہا پتھر کی لکیر ہے اور مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کسی اجنبی سے رشتہ نہ کریں گے۔ اگلے روز شام کو شاکر صاحب کے ہمراہ ان کے عزیز اور میرے رشتے کے طالب قیوم صاحب اور ان کے صاحبزادے بھی تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کو والد صاحب نے چائے پر بلایا تھا تا کہ امی بھی لڑکے کو دیکھ لیں۔اس سے بات چیت کر لیں کہ ماں کی تسلی بھی ہونی چاہئے۔ والدہ نے بات چیت کر لی اور انہیں بھی فہد پسند آ گیا بلکہ وہ تو اس رشتے کی زیادہ طرف دار ہو گئیں۔ جب یہ لوگ ڈرائنگ روم میں تھے، میں چھت پر گئی اور ان لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا۔ پہلی ہی نظر میں مجھے یہ شخص بے حد بر الگا جو کہ اس گھر کا متوقع داماد تھا۔اس وقت سوچ لیا کہ جان دے دوں گی مگر شادی اپنے خوابوں کے شہزادے نوید سے کروں گی جو اس قدر خوبصورت اور ہینڈسم تھا جیسے کسی ملک کا پرنس ہو۔ جب ابلتے چشمے کو راستہ نہ ملے تو وہ پہاڑ کو شق کر ڈالتا ہے۔ میں نے بھی عجلت میں ایک خط لکھ کر نوید کی طرف اچھال دیا۔ وہ دوڑ کر آیا اور خط گلی سے اٹھا لیا۔ خط میں تمام احوال درج کر کے استدعا کی تھی۔ کسی طرح ایک بار ملو تا کہ ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ شام کو اس نے گیلری سے قریبی پارک کی جانب اشارہ کیا اور دو انگلیوں سے گیارہ بجے کا وقت بتایا۔ والد صبح دفتر چلے جاتے۔ میں نے کبھی امی سے نہ کہا تھا کسی سہیلی کی طرف جانا ہے۔ پہلی باران کی منت کی کہ رافعہ سے ملنا ہے ۔ وہ بولیں۔ ذرا کام سے فارغ ہولوں تو چلتی ہوں۔ آپ کبھی بھی فارغ نہیں ہو سکتیں کیونکہ آپ کے کام تو ختم ہونے میں نہیں آتے۔ تب تک ابو کے گھر لوٹ آنے کا وقت ہو جائے گا۔ رافعہ کا گھر نزدیک ہی تو ہے ، ساتھ والے پارک کے پاس بھولی ماں کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میری منت سے باتوں میں آگئیں۔ بولیں۔ اچھا جائو لیکن جلدی واپس آجانا۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ دیر نہ لگانا، ورنہ میں خود تم کو لینے رافعہ کے گھر آجائوں گی۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ دوڑی ہوئی کمرے میں گئی، جلدی سے لباس تبدیل کر کے گھر سے نکل گئی۔ پارک کاراستہ صرف پانچ سات منٹ کا تھا۔ وہ پہلے سے منتظر تھا۔ پہلی بار ملی تھی، روبرو ایک دوسرے سے قریب، ایک دوجے کو دیکھ رہے تھے۔ میری مسرت کا کوئی کنارہ نہ تھا لیکن جس خوف سے یہ جرات کی تھی،اظہار ضروری تھا۔ اس نے کہا۔ مجھ سے بچھڑنے کا ڈر ہے تو مضبوط قدم اٹھانا ہو گا۔ کہو تو تمہارے والد سے رشتے کی بات کروں، وگرنہ میرے ساتھ چلو، کورٹ میں نکاح کر لیتے ہیں۔ وہ رشتہ نہ دیں گے ۔ ابو فیصلہ کر چکے ہیں، فہد سے ہی رشتہ کریں گے ۔انہوں نے وہاں ہاں کہہ دی ہے۔ تو پھر کیا کرنا ہے کورٹ میرج کچھ سوچ کر میں نے سر جھکا لیا۔ دیکھو میں تن تنہا ہوں، اپنے بزنس کے سلسلے میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے، نہ بزرگ کہ تمہارے ابا سے رشتہ لینے آئے،البتہ دوا ایک دوست ہیں، وہ آسکتے ہیں میرے ساتھ بس رہنے دو ابا کہیں گے کہ خاندان کا اتا پتا نہیں اور چلے آئے ہو رشتہ مانگنے۔ کیارشتے یوں طے ہوتے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ وہ ایسا ہی کہیں گے ۔ دو تین دن سوچ بچار میں گزر گئے۔ ادھر اماں باوا میری شادی کے تذکروں میں لگے تھے۔ ادھر میں نوید کے ساتھ ہمیشہ زندگی گزارنے کے خواب بن رہی تھی۔ آخر اس کے ہمت دلانے پر ایک رات جبکہ امی، ابو سور ہے تھے، چپکے سے در کھول کر نکل آئی اور اس کی کار میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ دیا۔ یوں والدین کی بے خبری میں ان کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کی شادی کر لی۔ نوید نے اس واقعے سے چند دن قبل سامنے والا فلیٹ چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس دوسرے فلیٹ میں مجھے لے آیا جو کرائے پر لے لیا تھا۔ نوید سے کورٹ میرج کر کے خوش تھی۔ گرچہ والدین کو دھوکا دینے کا قلق ضرور تھا مگر اس وقت اپنی خوشی اور اپنے خواب زیادہ عزیز تھے۔ نوید نے کوئی کمی نہ کی، اچھا کھلایا پلایا، روز شام کو سیر پر جاتے۔ یہ فلیٹ ہمارے گھر سے کافی دور ایک پوش علاقے میں تھا۔ مجھ کو اپنے شوہر کے ساتھ کبھی خرچے کی تنگی محسوس نہ ہوئی، لیکن اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں، بس یہی کہتے تھے کہ ایک چھوٹا موٹا اپنا بزنس ہے۔ تم کو میرے بزنس کی تفصیل جاننے سے کیا غرض، تمہیں تو بس خرچے سے مطلب ہونا چاہئے ، وہ تم کو مل جاتا ہے۔ چار سال سکون کے گزر گئے۔ ایک بار نوید سے چھپ کر امی سے فون پر بات کی۔ فون رافعہ کے گھر لگا ہوا تھا۔ اس کو منت کر کے کہا۔ امی کو بلا لائو۔ والدہ نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اب میں دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ جس فلیٹ میں ہم رہتے تھے ، اس کے برابر والے فلیٹ میں ایک عمر رسیدہ نرس مریم رہا کرتی تھی۔ جب بچیوں کی پیدائش ہوئی، اس کو بلا لیتی۔ وہ میرے شوہر کی بہن بنی ہوئی تھی اور نوید اس کو مریم آپا بلاتے تھے۔ نوید چلے گئے اور پھر ان کی خبر نہ آئی۔ آپا کو پتا تھا کہ وہ کسی ایجنٹ کے ذریعے گئے ہیں۔ انہوں نے اس آدمی کا کھوج لگایا اور پوچھا کہ نوید کو گئے ایک ماہ ہو گیا ہے ، کوئی خیر خبر نہیں آرہی۔ تب اس نے بتایا کہ وہ غیر قانونی طریقے سے جانے کی وجہ سے پکڑے گئے ہیں اور انہوں نے ان کو قید کر لیا ہے ، وہ دیار غیر میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ تین سال گزر گئے نوید لوٹے، نہ کوئی رابطہ کیا۔ میں کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئی۔ دو چھوٹی بچیوں کا ساتھ تھا، زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی کہ نوکری کر لیتی۔ آپا خود بیوہ تھی اور ایک اسپتال میں جزوقتی کام کرتی تھی۔ بیچاری کی تنخواہ ہی کیا تھی۔ اس کی اپنی مشکل سے پوری ہو رہی تھی پھر بھی جہاں تک بن سکا، سہارا دیا۔ آخر جمع پونجی ، زیور سب ختم ہو گیا۔ میں فلیٹ کا کرایہ دینے سے بھی قاصر تھی۔ ایک روز مالک مکان نے میر اسامان باہر نکلوادیا۔ رہنے کا بھی آسرا نہ رہا۔ آپا نے رحم کھا کر مجھے کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر میں رکھ لیا مگر یہی کہا کہ اب تم خود اپنے قدموں پر کھڑی ہونے کا چارہ کرو، میں تم کو مستقل سہارا نہیں دے سکتی۔ نوکری کی تلاش کو نکلی، گھریلو کام کے لئے ملازمہ جیسی نوکری ہی کر سکتی تھی، وہ بھی نہ ملی۔ دو چھوٹی بچیوں کا ساتھ تھا جن کی وجہ سے کوئی مجھے اپنے گھر ملازمہ رکھنے پر بھی تیار نہ تھا، جبکہ بچیاں دودھ کے لئے روتی تھیں۔ ایک کوٹھی میں ملازمہ ہونے کے لئے گئی۔ یہ کسی فوٹو گرافر کا گھر تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا۔ کہنے لگا۔ اگر ماڈلنگ پر تیار ہو جائو تو ملازمت مل سکتی ہے ، سرونٹ کوارٹر بھی رہنے کو مل جائے گا۔ تم بہت خوبصورت ہو۔ ایسا چہرہ لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔ دنوں میں مفلسی دور ہو جائے گی ۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب لڑکیوں کے لئے ماڈلنگ اور اداکاری معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن میری مجبوری تھی۔ پیٹ میں روٹی تھی اور نہ سر پر چھت راضی ہو گئی۔ اس نے میرے چند فوٹو لئے اور پھر مجھ پر دولت کے در کھل گئے۔ قسمت نے یوں ماڈل گرل بنا دیا۔ مجھ کو کسی شے سے بھی زیادہ اپنی بچیوں کا پیٹ پالنا مقدم تھا۔ یہ میری اشد ضرورت اور مجبوری تھی۔ پھر ان کی اچھی تعلیم کی خاطر روپوں کی حاجت تھی۔ میں دولت کمانے کی مشین بنتی گئی اور وقت گزرتا گیا۔ اب ایک کوٹھی کی مالک تھی، بچیاں بڑی ہو رہی تھیں۔ وہ اچھا کھاتیں، بہترین پہنتیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھ رہی تھیں۔ ان کے شاندار مستقبل کی خاطر میں نے کسی بات کی پروانہ کی۔ ان کے لئے گھر میں نوکر، آیا، خانساماں تھے اور میرے وارڈروب نت نئے فیشن ڈیزائن کے ملبوسات سے بھرے تھے۔ اب میں ایک نئی جگمگ کرتی دنیا میں تھی جہاں امارت کی چکا چوند غریبوں کو شرماتی تھی، دولت کی ریل پیل تھی۔ میرے اشاروں پر مشہور مصنوعات بنانے والی کمپنیاں دولت میرے پائوں میں رکھتی تھیں۔ سبھی کچھ مل گیا مگر نوید نہ تھے اور ان کی یاد میرے دل میں ہر دم چٹکیاں لیتی تھی۔ مجھ کو ان سے واقعی محبت تھی۔ ان کے ساتھ گزارے دن جنت کا خواب معلوم ہوتے تھے۔ جب شوہر سے جدائی کا خیال روح کو مجروح کرتا تو دل بے بس ہو جاتا۔ وہ موسم سرما کی ایک سرد رات تھی۔ سات سال بعد مریم کے ہمراہ اچانک نوید آگئے۔ مریم میرا گھر جانتی تھی۔ ان کو سامنے دیکھ کر آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا۔ سوچ رہی تھی جب صبح بچیاں اپنے باپ کو دیکھیں گی تو ان کا کیا رد عمل ہو گا، خوشی سے پاگل ہو جائیں گی۔ نوید کو تمام رات اپنے اوپر گزرے دکھوں کا ایک ایک لمحہ بتاتی رہی۔ میں نے کہا۔ مجھے معاف کر دو، یہ سب مجبوراً کیا ہے۔ اب تم آگئے ہو تو ہر گز گھر سے قدم نہیں نکالوں گی، میں ماڈلنگ ترک کر دوں گی اور اپنی بچیوں کے لئے ایک مثالی ماں بن جائوں گی۔ ہم ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔ یقین تھا کہ نوید اب ہمارے لئے کچھ کریں گے۔ میری اور میری بچیوں کی خاطر انہوں نے مجھے معاف کر دیا اور کہا کوئی بات نہیں تم نے ماڈلنگ کی ہے اور میں دنیا گھوم آیا ہوں۔ کوئی بھی کام برا نہیں، بشرط یہ کہ آدمی خود برا نہ ہو۔ دنیا گھومنے سے میرے خیالات میں تبدیلی آگئی ہے ۔ وہ ہمارے ساتھ کوٹھی میں رہنے لگے لیکن ان کو اب بیکار بیٹھنے سے غرض تھی، کمانے سے کوئی سروکار نہ رہا تھا۔ کہتے تھے بھٹکتے بھٹکتے تھک گیا ہوں، اب ذرا آرام کرنا چاہتا ہوں، سستانا چاہتا ہوں، مجھے سانس لینے دو۔ انہوں نے اتنا لمبا آرام کیا تھا کہ کمانے جو گے نہ رہے۔ آرام کی سانسیں ہی راس آ گئیں۔ مجھے کہتے ۔ ماڈلنگ نہ چھوڑنا، اب اتنی محنت کر چکی ہو، اپنے پیشے کو ترک مت کرنا۔ وقت ٹھہرتا نہیں۔ میں بھی سن رسیدگی کی طرف جارہی تھی، حسن میں وہ کشش وہ بات نہ رہی تو میں نے کام چھوڑ دیا کیونکہ نئی، خوبصورت ، تازہ رو لڑکیاں آرہی تھیں۔ ان کی مانگ تھی۔ مجھ ادھیڑ عمر کا کیا کام ایسے میں عزت سے گھر بیٹھ جانا بھلا تھا۔ بچیاں جوان ہو گئی تھیں۔ جب کمائی کا راستہ بند ہوتا گیا۔ نوید کو پھر سے جگانے لگی کہ بہت ہو چکا آرام ، اب تم کچھ کام کرو۔ ہاتھ ، پیر ہلائو ، تم مرد ہو۔ کما کر کھلانا اور گھر چلانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں نے تو آدھی زندگی گنوادی ہے۔ وہ میری زندگی کی بچی کچھی خوشیوں اور امید کا آخری دن ثابت ہوا جب اس نے کھل کر کہہ دیا۔ میں کچھ نہیں کر سکتا، کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے کمانے کی عادت نہیں رہی ہے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو ماڈلنگ کے میدان میں لے آتے ہیں۔ یہ تم سے زیادہ خوبصورت ہیں، نوخیز چہروں کی مانگ ہوتی ہے نا تم آرام کرو، یہ تمہاری جگہ لے لیں گی۔ بیٹیوں کے باپ کے اس ارادے پر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کیا اسی خاطر میں نے کٹھن راستہ چنا تھا اور اتنے کشٹ اٹھائے تھے۔ اب میرے چمن کی ان نوخیز کلیوں پر ان کے باپ کی نظر تھی کہ یہ کمائیں گی اور وہ کھائے گا۔ جب بھرم کا رشتہ ٹوٹ گیا تو میں نے بھی طلاق حاصل کر کے جان چھڑالی تاکہ بچیوں کو وقت پر ان کے گھروں کا کر سکوں۔ | null |
null | null | null | 224 | https://www.urduzone.net/khamoshi-ka-raaz/ | عادل کالج کے زمانے میں مجھے ملا تھا۔ امی سے ذکر کیا، تو انہوں نے مجھے کالج سے ہی ہٹالیا۔ اپنی دانست میں انہوں نے اپنی اکھڑ اور نادان بیٹی کو نوخیز عمر میں ایک بڑی غلطی سے بچا لیا تھا اور میں عرصہ تک سوچتی رہی کہ ممکن ہے وہی میری منزل ثابت ہوتا۔ بہر حال اب تو نہ منزل سامنے تھی اور نہ منزل کا نشان۔ وقت گزرتا رہا اور میں چپکے چپکے سرکتی عمر کے متعلق سوچتی اور کڑھتی رہی۔ اس سوچ نے روز بہ روز میری سنجیدگی میں اضافہ کر دیا، جبکہ چہرے پر شادابی اور لبوں پر مسکراہٹ ہی تو انسان کو پرکشش بناتی ہیں مگر میں کسی اور ہی فکر کا شکار تھی۔ وقت نے کروٹ لی اور ماں کا انتظار ختم ہوا۔ خدا خدا کر کے ہمارے مقبرے جیسے گھر میں بھی کوئی امیدوں کے چراغ جلانے والا داخل ہوا۔ مہروز خان نے میری سنجیدگی سے متاثر ہو کر میرا رشتہ بھجوایا۔ وہ ہمارے دور کے رشتہ دار ہوتے تھے۔ اس رشتے کو فوراً منظور کر لیا گیا کیونکہ مہروز میں بجز اس کے اور کیا کمی تھی کہ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ وہ نامی گرامی وکیل تھے، اچھی پریکٹس تھی۔ صاف ستھرا بنگلہ، دو کاریں اور زندگی کی ہر آسائش کا سامان موجود تھا۔ شکل واجبی تھی تو میں کون سی حسن کی پری تھی۔ شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ دلہن بن کر جب مہروز خان کے گھر آئی انہوں نے ان الفاظ میں میرا خیر مقدم کیا۔ رقیہ میری کوشش رہے گی کہ تم کو کوئی تکلیف نہ ہو، مگر میری پہلی بیوی کے بارے میں بھی کوئی سوال مت کرنا۔ میرے دل کے زخم کو چھیڑنے کی کوشش نہ کرنا ، ورنہ یہ راز تمہارے لئے بھی غم کا باعث ہوگا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، مگر خاموش ہو گئی تب وہ میرا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولے میری ہم سفر زندگی تنہا نہیں گزرتی، ایک زخم کھا چکا ہوں دوسرا تم نہ لگانا ۔ میں سر جھکائے یہ سب سنتی رہی۔ مجھے لگا وہ مجھ سے شادی کر کے بہت خوش ہیں ۔ منہ دکھائی میں بہت قیمتی اور خوبصورت ہونے کا سیٹ دیا، جس میں ہیرے کی لگے ہوئے تھے۔ وقت خوش اسلوبی سے گزرنے لگا۔ میں ہر طرح سے خوش اور مطمئن تھی مگر ایک سوال کبھی کبھی ذہن میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ مہروز اتنے اچھے ہیں تو ان کی پہلی شادی ناکام کیوں ہوگئی آخر اس کے پیچھے ایسا کیا راز ہے ایک روز ہم اپنے کسی رشتہ دار کی شادی میں گئے، وہاں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو بہت خوبصورت تھی۔ قریب بیٹھی تھی، لہذا بات چیت ہونے لگی۔ اُس نے بتایا کہ مہروز اس کے سابقہ بہنوئی ہیں۔ ان کی پہلی شادی اس کی باجی سے ہوئی تھی۔ دونوں میں بہت محبت تھی اور یہ بڑی کامیاب شادی تھی لیکن شادی کے دو سال بعد اچانک مہروز نے میری باجی کو طلاق دے دی۔ وجہ انہوں نے بتائی، نہ باجی نے ۔ ان دنوں میری بہن امید سے تھیں مگر اس سنگدل انسان نے کبھی اپنی بیٹی کی شکل بھی نہ دیکھی۔ میری بہن نے بیٹی کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ وہ نوکری کرتی ہیں اور اپنی بیٹی کے لئے جی رہی ہیں۔ اس خاتون نے بات ختم کی اور چلی گئی۔ وہ راز جو میں جاننا چاہتی تھی ، آج اتفاق سے اس عورت نے بتادیا، جو میرے لئے اجنبی تھی لیکن راز پھر بھی راز ہی رہا۔ آخر مہروز نے بیوی کو کیوں طلاق دی اور دونوں نے اس کی وجہ کیوں کسی کو نہ بتائی۔ کسی نے بھی دنیا کے سامنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور نہ عیب گنوائے ۔ اب میں زیادہ آپ سیٹ رہنے لگی۔ کچھ دن خود پر قابورکھا، پھر آخر بے چینی نے وہی سوال کرنے پر مجبور کر دیا ، جو میں نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھ کو اب مہروز پر اعتماد ہو گیا تھا کہ وہ ناراض ہوئے بھی تو وقتی طور پر ہوں تھے، لہذا ہمت کر کے ان سے پوچھ ہی لیا۔ آپ نے پہلی بیوی کو طلاق کیوں دی تھی ہم اب اتنے جھل مل گئے تھے کہ یہ پوچھنا معمولی بات لگتی تھی ، مگر وہ ایک لمحے کو تو ساکت ہو گئے اور ان کے چہرے پر کرب نمایاں ہو گیا۔ تھوڑی دیر دم سادھے رہنے کے بعد بالآخر وہ بولے۔ میں اس سے محبت کرتا تھا۔ مجھے اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔ طلاق دیتے وقت بھی دلی تکلیف ہوئی تھی، لیکن یہ کہ کر چپ ہو گئے۔ میں بے چینی سے ان کا منہ تک رہی تھی۔ بتا بھی دیجئے کیا اس نے نے خود طلاق نہیں مانگی تھی اس کے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ میں اچانک اس کو ایسا مژدہ سناؤں گا۔ اس نے تو مجھے ایک خوش خبری سنائی تھی ، جس کے سبب میں نے اُسے طلاق دے دی۔ بہر حال، جو ہونا تھا ہو گیا۔ وجہ تم کو کبھی نہ کبھی معلوم ہو ہی جائے گی فکر مت کرو۔ یہ راز بھی کسی روز کھل جائے گا۔ میں نے جان لیا کہ مزید اصرار کرنا ان کے زخم کو اُدھیڑنا ہے کیونکہ ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ ناراض ہیں، لہذا اس وقت خاموشی میں ہی عافیت جانی تبھی انہوں نے کہا۔ اپنا دل چھوٹا مت کرو ایک نہ ایک دن تم جان لوگی میری کم نصیبی کوجاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے لگا۔ انہوں نے یہ بات کچھ اس طرح بے بسی سے کہی کہ میں شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ اتنی محبت کرنے والے شوہر کو میں کوئی اذیت دینا نہ چاہتی تھی۔ خود سے وعدہ کر لیا کہ کبھی بھول کر بھی ایسا سوال پوچھ کر انہیں آزمائش میں نہ ڈالوں گی۔ عرصے تک خاموش رہی ، شادی کو پانچ برس گزر گئے مگر میرے اندر کے فطری حس نے چین نہ لینے دیا۔ گھر میں پڑا پرانا سامان کھول کھول کر دیکھنا شروع کر دیا۔ جب وقت ملتا ، تو ان کی کتابوں کی الماریاں چھانتی۔ بالآخر مجھے ایک فائل سے ایک تصویر مل گئی جو ان کے شادی کے اول دن کی تھی۔ دلہن اتنی خوبصورت تھی کہ میں مبہوت رہ گئی ۔ یا اللہ ایسی حسین لڑکی ، جس کا حُسن حوروں کو شرمائے ، وہ اس سے محبت کرتے تھے، جس کے لئے اب بھی اُداس رہتے ہیں کیونکر اس کو طلاق دے دی غصے میں یا کسی شک کی بنا پرلیکن کبھی بھی اس پر کوئی الزام نہ لگایا ، نہ اس کی بے وفائی کے بارے میں زبان کھولی۔ میرے دل میں ہلچل مچ گئی اور میں سوچ سوچ کر بیمار ہو گئی ۔ ایک روز مہروز نے میرے چہرے کو بہت غور سے دیکھا، پھر بولے۔ تم روز بہ روز مرجھائی جاتی ہو۔ چلو میں تم کوکسی ڈاکٹر کو دکھا دوں۔ میں بیمار نہیں ہوں، گھر میں بہت تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ آپ صبح کورٹ چلے جاتے ہیں اور تمام دن مصروف رہتے ہیں۔ شام کو بھی آرام نہیں کر پاتے۔ کبھی کیس کی تیاری تو بھی موکلوں سے سرکھپانا ، میں آپ کی منتظر رہتی ہوں ۔ آپ کے پاس وقت نہیں میں بات کس سے کروں کہنے لگے۔ ایسا کرو، کچھ دن کے لئے میکے چلی جاؤ۔ وہاں تمہارے بہن بھائی ہیں، امی، بھانجے بھتیجے ہیں، تمہارا دل لگ جائے گا۔ جب تک جی چاہے رہنا، پھر گھر آجانا۔ میں نے تو تم کو کبھی میکے جانے سے منع نہیں کیا ہے۔ میرا دل نہیں کرتا اپنا گھر چھوڑ کر کہیں جاؤں۔ مجھے اپنے گھر سے محبت ہے، یہاں ہی سکون ملتا ہے۔ ٹھیک ہے۔ وہ بولے۔ لیکن انسان کو کبھی کبھی بھیڑ بھاڑ میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ ہے۔ تیار ہو جاؤ، میں خود تم کو اماں کے پاس چھوڑ آتا ہوں۔ مہروز کے اصرار پر میں میکے آگئی ۔ امی نے بھی کہا۔ تم بیمار نظر آرہی ہو۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے تم شوہر کے ساتھ خوش تو ہو۔ ہاں ہاں، میں ان کے ساتھ بہت خوش ہوں ۔ وہ بہت اچھے ہیں، لیکن مجھے اب تنہائی محسوس ہونے لگی ہے۔ میں نے تو تم سے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ تم کسی اچھی ڈاکٹر سے علاج کراؤ۔ شادی کو چھے سال ہونے والے ہیں اور ابھی تک تمہاری گود ہری نہیں ہوئی ہے۔ تنہائی تو محسوس ہو گئی ہے۔ امی جب میرے شوہر کو اس بارے فکر نہیں، پھر مجھے کیوں ہو۔ انہوں نے تو ایک بار بھی نہیں کہا کہ ہمارے یہاں اولاد کی کمی ہے بلکہ میں نے ایک دو بار کہا تو بولے۔ اولاد اللہ کا مال ہوتی ہے وہ جب چاہے دے دے مایوس نہ رہا کرو، اللہ نے چاہا تو ہو جائےگی۔ امی خاموش ہو گئیں۔ مہروز ہر ہفتے آتے، صبح سے شام تک میرے ساتھ رہتے۔ کہتے سوچا مت کرو، خوش رہا کرو۔ دیکھو، یہاں آکر تمہاری صحت پہلے سے کہیں بہتر ہوگئی ہے۔ واقعی امی کی توجہ اور دیکھ بھال سے میں بہل گئی تھی اور اب میرا دل ان کے گھر میں لگنے لگا تھا۔ گھر آتی ، چند روز بعد جی چاہتا پھر سے ماں کے پاس چلی جاؤں۔ میرا دل واقعی ماں کے ٹوٹے پھوٹے مکان میں ہی بہلتا تھا۔ مجھے اب بنگلہ، کاریں، ملازمین سب بُرے لگتے ، کیوں کہ مہروز کی مصروفیت کھلتی اور تنہائی کلیجہ کھانے لگتی۔ یہ بات انہوں نے بھی محسوس کر لی تھی، اس لئے وہ خود مجھے امی کے پاس چھوڑ جاتے اور کبھی کوئی روک ٹوک نہ کرتے ، نہ بدظن ہوتے بلکہ ان کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا۔ میں بھی ان سے محبت کرتی تھی مگر اب میرا دل ان کے ساتھ خوش نہ ہوتا تھا، کیونکہ ان کی خاموشی نے مجھے ڈس لیا تھا۔ جن دنوں میں اس الجھن میں گرفتار تھی، امی مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ اس نے کچھ دوائیں دیں اور کہا کہ آپ شاید سوچتی بہت ہیں ۔ کسی بات کی ٹیشن نہ لیا کریں اور خوش رہا کریں۔ آپ صحت مند ہیں اور ان شا اللہ اولاد بھی ضرور ہوگی۔ ایک ماہ بعد امی نے اصرار کیا کہ میں پھر سے ڈاکٹر کے پاس جاؤں اور علاج پورا کراؤں تا کہ کوئی کمی بیشی نہ رہے۔ جس روز ہم نے ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لیا تھا، اس دن امی کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ وہ بولیں۔ بہن کو فون کر کے بلوا لو اور اس کے ساتھ چلی جاؤ ۔ بہن کو فون کیا تو وہ بولیں۔ تمہارے بہنوئی کے مہمان آنے والے ہیں، میں نہیں آسکتی۔ تم یہیں آجاؤ، فارغ ہو کر ساتھ چلی جاؤں گی۔ میں ان کے گھر جا پہنچی اور دعوت کا کھانا بنوانے میں مدد کی اور بہن کے ساتھ کھانے کی میز لگادی۔ جب بہنوئی صاحب اور ان کے مہمان نے کھانا کھا لیا اور ڈرائنگ روم میں چلے گئے، جب میں نے بہن سے کہا کہ بھائی صاحب کے مہمان تو ابھی بیٹھے ہیں۔ جانے کب جائیں، ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت ہو چلا ہے۔ اس دن میں ڈاکٹر کی طرف جانا نہیں چاہتی تھی مگر اماں کے ڈر سے جانا تھا۔ بہن تیار ہونے لگی، اتنے میں بہنوئی اندر آئے تو انہیں ہم نے اسپتال جانے کا بتایا تو کہنے لگے۔ میرا دوست عادل اُدھر ہی جا رہا ہے، وہ تم کو کلینک پر ڈراپ کر دے گا ۔ بہن تیار ہوئیں انہوں نے برقعہ لیا اورمیں نے چادر اوڑھ لی۔ کار میں بیٹھتے ہوئے میری نظر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص پر پڑی اور میرے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اتنے برسوں بعد اپنے کلاس فیلو عادل سے یوں اچانک ملاقات ہو جائے گی۔ اس نے بھی مجھے پہچان لیا مگر ہم دونوں ہی چپ رہے۔ اس نے ہمیں کلینک پر اتار دیا اوربولا۔ میری رہائش یہاں قریب ہی ہے۔ آپ کو سواری کی دقت ہو تو مجھے فون کر دیجے گا، میں آجاؤں گا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ دراصل وہ مجھ کو رابطے کا ذریعہ دے گیا تھا۔ اگلے روز شام میں عادل میرے بہنوئی کے ساتھ گھر آگیا۔ امی کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ وہی میرا کلاس فیلو ہے، جس نے مجھ سے شادی کی خاطر میری والدہ سے ملنے کی خواہش کی تھی اور جب میں نے امی سے کہا تھا تو انہوں نے مجھے کالج سے ہٹا لیا تھا۔ امی کے ذہن سے اب تو اس کا نام تک محو ہو چکا تھا، لیکن وہ مجھے نہ بھولا تھا۔ جب اُسے پتا چلا کہ میں اس کے دوست ارشد کی سالی ہوں تو بہنوئی کے توسط سے اس نے میرے بھائی سبحان کو دوست بنالیا۔ ان دنوں بھائی نوکری کی تلاش میں تھے۔ نوکری نہ ملی تو دبئی جانے کا خیال ظاہر کیا۔ تب بہنوئی نے ان کو عادل سے ملوادیا کہ اس کا کام دبئی کے ویزے دلوانا تھا۔ یوں وہ امی کے گھر آنے جانے لگا اور ان کا منہ بولا بیٹا بن گیا۔ بھائی سبحان تو دبئی چلا گیا مگر عادل نے ہمارے گھر میں پنجے گاڑھ لیے۔ امی سے کہا کہ میں تو دبئی ہوتا ہوں وقتا فوقتا یہاں آنا جانا رہتا ہے تبھی کبھی ہوٹل میں اور کبھی کسی دوست کے پاس ٹھہر جاتا ہوں ۔ اس پر میری ماں نے کہا۔ بیٹا تم یہاں رہ لیا کرو، کہیں اور ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دراصل امی چھوٹے بیٹے کے لئے بھی دبئی کے ویزے کی توقع کر رہی تھیں اور سبحان بھائی کی وجہ سے بھی عادل کی احسان مند تھیں۔ مجھے اپنے شوہر مہروز خان سے محبت تھی۔ میں بے وفائی کو گناہ سمجھتی تھی اور عادل نے بھی ایسا کوئی اشارہ نہ دیا تھا جس سے مجھے گمان ہوتا کہ وہ ماضی کے رشتے کو پھر سے استوار کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے درمیان محبت کا کوئی کھیل تو چلا ہی نہیں تھا۔ جب اس نے محض پسندیدگی کا اظہار اور شادی کا عندیہ دیا تھا۔ میں نے امی کو بتایا تو انہوں نے تو اس بات کو کسی اور رنگ میں لیا اور خوفزدہ ہو کر مجھے کالج ہی نہ جانے دیا۔ بس اتنی سی کہانی تھی، جو ختم ہو گئی۔ وہ امی کے پاس آتا تو مجھ سے بھی باتیں کرتا۔ نہیں معلوم کہ اس کے دل میں کیا تھا۔ اس نے امی کو بتایا تھا کہ اس کی شادی دبئی میں ایک عربی کے بیٹی سے ہوئی تھی لیکن کچھ ماہ بعد طلاق ہوگئی ۔ میں اس کے سوا کوئی اور بات اس کے بارے نہ جان سکی اور نہ ہی جاننے کی سعی کی ، کیونکہ مجھے اس سے اب کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس بار زیادہ دن میکے رہنے سے امی کو فکر ہونے لگی۔ بولیں۔ اب تم اپنے گھر چلی جاؤ تو بہتر ہے۔ ان کے کہنے پر میں نے گھر جانے کی تیاری کرلی ۔ امی مجھے چھوڑنے جارہی تھیں۔ انہوں نے محلے کے ایک لڑکے سے رکشہ منگوایا ۔ اسی وقت عادل آگیا اور بولا ۔ ماں رکشہ کیوں کیا آپ مجھے غیر سمجھتی ہیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، گاڑی ہے میرے پاس۔ میں نے منع کرنا چاہا تو بولا۔ رقیہ آپ کی والدہ دل کی مریضہ ہیں ۔ رکشے میں ان کو تکلیف ہوگی ۔ میں آپ لوگوں کو پہنچا دوں گا، اس میں کیا قباحت ہے۔ اس نے کچھ اس طرح کہا کہ میں خاموش ہوگئی اور اس نے ہمیں، میرے گھر کے دروازے پر پہنچادیا۔ امی مجھے گیٹ پر چھوڑ کر عادل کے ہمراہ واپس لوٹ گئیں ۔ مہروز کورٹ گئے ہوئے تھے ۔ شام کو آئے تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، بولے۔ میں کچھ دنوں سے ایک کیس کی پیروی میں الجھا ہوا ہوں۔ سوچا تھا کہ اتوار کو لینے چلا جاؤں گا، لیکن تم خود آگئیں، یہ بہت اچھا ہو گیا ہے۔ کیا رکشے پر آئی ہو نہیں ، امی خود چھوڑ گئی ہیں۔ دراصل ان کی طبیعت ٹھیک نہ تھی ، اس لئے وہ رکی نہیں ۔ ہم رکشے پر نہیں آئے۔ ارشد بھائی کے ایک دوست امی کی طبیعت پوچھنے آگئے تھے، انہوں نے ہی ہمیں اپنی گاڑی میں ڈراپ کیا ہے۔ اس بات کا مہروز نے کوئی نوٹس نہ لیا بلکہ کہا کہ آنٹی کی طبیعت خراب تھی ، اچھا ہے کہ تم لوگ گاڑی میں آئے۔ مہروز میں یہ خوبی بہت بڑی تھی ۔ وہ بھی کسی کے بارے غلط نہیں سوچتے تھے۔ مجھ پر کبھی بھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وہ کافی عرصہ ہمارے محلے میں رہ چکے تھے اور امی پر بھی انہیں پورا بھروسہ تھا۔ مجھے گھر آئے ہفتہ ہوا ہوگا کہ اچانک عادل کا فون آگیا۔ رقیہ سبحان نے دبئی سے کچھ سامان بھیجوایا ہے۔ میرا دوست، جو پاکستان آرہا تھا، وہ سامان دینے آنٹی کے پاس گیا تھا۔ وہ سبحان کا خط اور اس کا بھیجا ہوا سامان دیکھ کر بہت خوش تھیں کہ اچانک ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور ان کو اسپتال داخل کرانا پڑا۔ میں صبح سے ان کے پاس ہوں اگر آنا چاہو تو ابھی آجاؤ۔ میں تم کو لینے آجاتا ہوں۔ میں نے فون بند کر کے مہروز کو کال کی۔ وہ بولے۔ میں کورٹ سے فارغ ہو کر تم کو فون کرتا ہوں ، تم چاہو تو ابھی اسپتال چلی جاؤ ممکن ہے تمہاری والدہ کو اس وقت تمہاری ضرورت ہو۔ میں نے فون رکھا تو پھر سے گھنٹی بجنے گئی ۔ یہ عادل کا فون تھا کہنے لگا۔ رقیہ، دیر نہ کرو۔ میں صاف بات بتا دوں تمہاری والدہ کو اٹیک ہوا ہے۔ تم فوراً آجاؤ۔ میں کیسے آؤں مجھے نہیں پتا یہ اسپتال کہاں ہے۔ میں نے کہا نا کہ آکر لے جاتا ہوں۔ اس نے میرا گھر تو دیکھا ہوا تھا وہ پندرہ منٹ میں پہنچ گیا۔ امی اسپتال میں داخل تھیں لیکن ان کی حالت سنبھلی ہوئی تھی۔ ان کی حالت تشویش ناک نہیں تھی۔ جب انہوں نے مجھ سے اچھی طرح سے باتیں کیں تو مجھے اطمینان ہو گیا۔ مہروز کو فون کر کے بتایا کہ امی کی حالت اب اطمینان بخش ہے۔ آپ کام چھوڑ کر مت آئیے۔ شام کو گھر آئیں گے تو میں آپ کے ساتھ دوبارہ اسپتال آجاؤں گی۔ اب عروج آگئی ہے اور میں گھر واپس آرہی ہوں ۔ جیسی تمہاری مرضی ۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا۔ مجھے عادل نے گھر ڈراپ کیا اور اپنی رہائش گاہ چلا گیا۔ رات کو میں دوبارہ مہرروز کے ساتھ اسپتال آئی۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد وہ امی کے پاس چھوڑ کر چلے گئے ۔ رات میں نے ماں کے پاس جاگ کر گزار دی ۔ اگلی صبح مہروز کی اہم پیشی تھی ۔ انہیں لازماً عدالت جانا تھا لہذا وہ کورٹ چلے گئے اور مجھے وہاں سے فون کر دیا کہ تم گھر آجانا ، فی الحال میں مصروف ہوں ۔ اب میں گھر جانے کی سوچ رہی تھی کہ عادل آگیا۔ امی کی خیریت پوچھی، پھر مجھ سے کہا۔ اگر تم کو گھر جانا ہے تو تمہیں ڈراپ کرتا جاؤں گا۔ یوں میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ امی کے بارے میں سوچتی جا رہی تھی اور آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ نیند سے جھپکی آگئی تھی گاڑی رکی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا، یہ میرے گھر کا گیٹ نہیں تھا۔ عادل بولا ۔ رقیہ سوری، مجھے یہاں سے اپنا پاسپورٹ اٹھانا ہے۔ تمہیں زحمت تو ہوگی۔ میں اندر جا کر پاسپورٹ اُٹھالوں کوئی بات نہیں، میں گاڑی میں بیٹھی ہوں ۔ تم دو منٹ کے لئے اُتر آؤ۔ دراصل یہ گاڑی میرے دوست کی ہے۔ گیراج میں دوسری گاڑی ہے۔ اس میں بیٹھو، میں تب تک پاسپورٹ لے لوں۔ میں بلا جھجک اس گاڑی سے اتر گئی تھی گیٹ کھلا اور ایک شخص باہر نکلا۔ عادل نے کہا۔ ڈرائیور یہ گاڑی شفیع کو دے آؤ۔ گیٹ کھلا تھا، گیراج میں کھڑی گاڑی نظر آرہی تھی۔ عادل نے مجھ سے کہا کہ مجھے پاسپورٹ نہیں مل رہا، جب تک تم چائے پی لو۔ میں نے کمرے میں جھانکا، وہ الماری میں رکھی چیزیں ٹٹول رہا تھا اور میز پر گرم گرم چائے کی پیالی دھری تھی۔ میں تھکن اور نیند سے بے حال صوفے پر بیٹھ گئی اور پیالی اٹھا کر چائے پینے میں محو ہو گئی۔ عادل نے الماری سے کچھ کپڑے اور دوسری چیزیں نکال کر بیڈ پر پھینکیں ، پھر خوشی سے بولا ۔ مل گیا، یہ میں نے اپنے کپڑوں کے نیچے رکھ دیا تھا۔ تم یہ کپڑے الماری میں رکھ دو تب تک میں چائے پی لوں گا۔ میں نے بکھرے ہوئے کپڑے الماری میں رکھے کبھی کبھی بھروسے میں آدمی بڑی فاش غلطی کر جاتا ہے اور جب پلٹی تو عادل کمرے کا دروازہ بند کر چکا تھا۔ کبھی کبھی بھروسے میں آدمی بڑی فاش غلطی کر جاتا ہے اور اُسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ اگلے کی نیت کیا ہے۔ میں لٹی ہوئی روتی دھوتی اپنے گھر کے گیٹ پر اُتار دی گئی۔ عادل مجھے میری منزل پر پہنچا کر چلا گیا ، وہ منزل جواب میری نہ رہی تھی، مگر فی الحال مجھے اس کا علم نہ تھا۔ میں نے رو دھو کر اور اپنے خدا سے معافی مانگ کر خود کو شام تک سنبھال لیا کیونکہ یہ میری غفلت کے باعث ایک ظالمانہ سانحہ ہوا تھا۔ اگلے دن عادل دبئی فلائی کر گیا۔ امی ابھی اسپتال میں تھیں۔ اب یہ بات کسی کو بتانے سے کیا حاصل تھا۔ دو ماہ گزر گئے ، دل کے اندر ایک سسکی دبی رہتی تھی، جس کی آواز میرے سوا کوئی دوسرا نہیں سن سکتا تھا۔ تیسرے ماہ میرے شوہر نے کہا۔ رقیہ میں اپنے بھائی کے پاس امریکہ جانا چاہتا ہوں۔ تم چاہو تو تمہارا بھی ویزا لے لوں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، مجھے لگتا ہے کہ میں سفر نہ کر سکوں گی۔ کیا ہوا تمہیں میں انہیں کہنا چاہتی تھی کہ آپ کہتے تھے نا کہ اللہ چاہے گا تو ہم بھی صاحب اولاد ہو جائیں گے، تو اللہ نے ہماری سن لی ہے لیکن میں ان کو سرپرائز دینا چاہتی تھی لہذا میں نے کہا۔ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔ اگر وہ کہے گی کہ سفر پر چلی جاؤ تو میں آپ کے ساتھ چلوں گی ، ورنہ نہیں ۔ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ میں سمجھ رہی تھی کہ جب خوش خبری کی تصدیق ہو جائے گی تو وہ بہت خوشی کا اظہار کریں گے کہ ہم صاحب اولاد ہونے جا رہے ہیں، مگر معلوم نہ تھا کہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہی میری منزل کھوٹی ہو جائے گی۔ جب وہ گھر لوٹے ان کے چہرے پر خوشی کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں نے پوچھا۔ کیا ہوا کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی بہت ہوئی ہے۔ انہوں نے مردہ لہجے میں کہا۔ پھر آپ اتنے افسر وہ کیوں ہیں یہ سوچ کر کہ اب تم میرے ساتھ نہیں جارہیں۔ مجھے انہوں نے گھر چھوڑ اور اپنے کچھ کاغذات لے کر چلے گئے۔ رات بھر گھر نہیں آئے۔ اگلے روز گیارہ بجے کے بعد آئے اور پنا سفری بیگ اٹھا کر کہنے لگے۔ آج میری فلائٹ ہے۔ اپنا خیال رکھنا۔ وہاں پہنچ کر خیریت کی اطلاع کردوں گا۔ اور ہاں، تم گھر میں اکیلی مت رہنا۔ جب تک میں واپس نہ آجاؤں، اپنے میکے میں رہنا۔ خدا حافظ ۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر چلے گئے۔ میں ان کے سرد لہجے سے تعجب میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد بے تحاشا روئی ۔ شام کو بیگ میں کچھ کپڑے ڈالے اور امی کے پاس چلی گئی۔ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ وہ ایسے مجھ سے ملے بغیر کیونکر چلے گئے، جبکہ ان کی فلائٹ تو رات کی تھی۔ امی کے گھر آئے ہفتہ ہوا ہوگا کہ گھر پر امریکا سے ایک رجسٹری آئی ۔ خوشی سے کمرے میں آکر کھولا تو کچھ کا غذات تھے اور ایک خط ، جو مہروز کی طرف سے تھا، لکھا تھا۔ ڈئیر رقیہ تم کو بہت چاہ تھی یہ راز جاننے کی کہ میں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق کیوں دی تھی اور میں نے تم کو کہا تھا کہ جلدی مت کرو ایک نہ ایک دن تم ضرور جان ہی لوگی ۔ تو تم نے جان لیا ہوگا کہ میں نے اُسے کیوں طلاق دی تھی، سوتم کو طلاق دینے کی بھی وہی وجہ ہے ۔ تم سمجھ دار ہو، امید ہے تم نے سمجھ لیا ہے کہ میں باپ بننے کے لائق نہیں ۔ یہ میرے راز کی بات ہی تیری وفا کا امتحان تھا۔ یہ خط پڑھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی سمجھ گئی کہ دینہ نے ان کے ساتھ بے وفائی کی تھی لیکن میں نے بے وفائی نہیں کی تھی، میرے ساتھ تو دھوکا ہوا تھا اور میں نے یہ سوچ کر اس کی پردہ پوشی کی تھی کہ خدا معاف کرنے والا ہے۔ آئندہ تو میں ایسا کچھ کرنے نہیں جارہی۔ جو ہوا ایک بد قسمت حادثہ ہی تھا۔ سو چپ میں عافیت جان کر میں نے جس بات کی پردہ پوشی کی ، وہی چپ میرا گھر بار اور زندگی کی سب خوشیاں بہالے گئی، کیونکہ میرے شوہر کی چپ میں بھی راز تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ صاحب اولاد نہیں ہو سکتے، لہذا اب میں انہیں اپنے بے قصور ہونے پر قائل نہیں کر سکتی تھی۔ عادل پھر کبھی نہ آیا اور شوہر کو کھو دینے کے بعد ہر خوشی مجھ سے روٹھ گئی۔ میں بیوہ ماں کے سینے کا ایسا بوجھ بن گئی کہ جس کو میری بیٹی کی پیدائش نے دگنا کر دیا اور مجھے بھی ویسے ہی چپ سادھ کر زندگی گزارنی تھی جیسے کہ مہروز کی پہلی بیوی دینہ نے گزاری ہوگی۔ | null |
null | null | null | 225 | https://www.urduzone.net/bhyanak-haqeeqat/ | میرے شوہر لطیف جب ٹرانسفر ہو کر رام گڑھ ریلوے اسٹیشن آئے تو بہت خوش تھے، کیونکہ چھوٹے سے گاؤں سے شهر آنا ان کی دیرینہ خواہش تھی۔ ان کی ڈیوٹی اسٹیشن کے سگنل کیبن پر تھی۔ لطیف نے ایک دن مجھے بتایا تھا کہ رام گڑھ میں ان کے والد اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اسی اسکول میں انہوں نے بھی تعلیم پائی، یوں لطیف کا بچپن یہاں گزرا۔ رام گڑھ سے ان کی بہت سی پرانی یادیں وابستہ تھیں۔ لطیف کی عادت تھی کہ وہ خوشگوار موڈ میں ہوتے تو خوب باتیں کرتے ورنہ خاموش ہی رہتے یا کسی سوچ میں ڈوبے رہتے۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں ، ان کی عادات سے میں واقف نہ تھی ، لہذا ان کو خاموش دیکھ کر باتیں کرنے کی کوشش کرتی ۔ وہ ہوں ہاں کر کے ٹال دیتے تو میں دل مسوس کر رہ جاتی۔ بالآخر سمجھ لیا کہ ان کو بے وجہ ڈسٹرب کرنا درست نہیں۔ وہ اس طرح اور زیادہ خاموش ہو جاتے یا پھر بے دلی سے باتیں کرنے لگتے ، تب میرا دل اور پریشان ہو جاتا۔ جب بیوی اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھ جائے اور ایسی بات نہ کرے جس سے اس کے جیون ساتھی کو الجھن ہو، تو زندگی سکون سے گزرتی ہے۔ یہ نکتہ سمجھ کر میں نے بھی ان کی توجہ زبردستی اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش چھوڑ دی۔ یوں بھی عورت اور مرد کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔ باہر کی جو فکریں مرد کو ستاتی ہیں، بیوی کو ان سے آگہی نہیں ہوتی ۔ ہو سکتا ہے ان کی ڈیوٹی سخت ہو، نیند پوری نہ ہوتی ہو یا جس افسر کے ماتحت ہوں ، وہ سخت مزاج ہو۔ ملازمت میں کئی طرح کی دفتری فکریں ہوتی ہیں۔ پس یہ سوچ کر میں نے اپنے دل کو مطمئن کر لیا، کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتے تھے اور میرا ہر طرح سے خیال بھی رکھتے تھے، پھر مجھے ان کے خاموش رہنے سے کیا مسئلہ تھا۔ وہ عورتوں کی طرح ہر وقت کئی طرح کی باتیں نہیں کر سکتے تھے ، یہ ان کا مزاج تھا۔ ان کی ڈیوٹی حساس تھی۔ کبھی دن بھی رات کی ڈیوٹی ہوتی۔ اس رات بھی مال گاڑی آنے والی تھی ۔ وہ مجھے بتا کر گئے کہ آج رات میں دیر سے آؤں گا۔ تم میرا انتظار مت کرنا۔ میں دن بھر کے کام کاج سے تھک گئی تھی۔ رات ہوتے ہی بستر پر لیٹ گئی۔ یہ محکمے کی طرف سے دیا ہوا مکان تھا۔ رات بارہ بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا۔ کون ہے باہر سے کسی نے جواب نہ دیا تو میں گھبرا کر اٹھی اور لالٹین جلا کر دیکھا کہ دروازے کی کنڈی خود ہی کھل گئی اور ساتھ ہی دروازہ بھی کھل گیا، مگر کوئی بھی نظر نہیں آیا ۔ تا ہم ، مجھ کو محسوس ہوا کہ کوئی ہے، جو گھر کے اندر آچکا ہے تبھی خوف سے ٹھنڈی سی پڑ گئی اور چپ چاپ بستر پر آ کر لیٹ گئی۔ اب مجھ میں اٹھنے کی ہمت تھی اور نہ گھر میں یہ دیکھنے کی طاقت کہ دیکھوں، کون آیا ہے میں دم سادھے پڑی رہی۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی تھی، پھر نجانے کسی وقت آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور کوئی عورت گھر کے اندر چلی آئی ہے۔ میں اس سے پوچھتی ہوں کہ تو کون ہے اور میرے گھر کیوں آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میرا نام شاہدہ ہے اور میں آپ کے شوہر کو بیس سال سے جانتی ہوں ۔ میں نے اس کا بہت برس انتظار کیا ہے ۔ اب میرا انتظار ختم ہونے کو ہے۔ تم سے اس کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت لینے آئی ہوں ۔ پھر خواب میں ہی مجھ کو جھٹکا لگا اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس وقت سردی بہت تھی لیکن لحاف میں بھی مجھے ٹھنڈا پسینہ آرہا تھا اور سارا بدن کپکپا رہا تھا۔ باہر کچھ شور سنائی دے رہا تھا اور تیز بارش بھی کمرے سے باہر دیکھا۔ واقعی میرے مکان کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ہمت یکجا کر کے میں صحن سے دروازے کی سمت گئی اور دوڑ کر کنڈی لگا دی اور فورا ہی ہانپتی کانپتی کمرے کے اندر آ گئی بستر پر لیٹتے ہی بے ہوش ہوئی ۔ مجھے کچھ ہوش نہیں کہ میرے شوہر کب گھر آئے اور مجھے کیسے ہوش میں لائے ۔ دروازہ کھٹکھٹاتے جب وہ تھک گئے تو دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے تھے۔ وہ ڈر گئے تھے کہ جانے مجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ دروازہ نہیں کھولتی۔ میری حالت ذرا سنبھلی تو میں نے اپنے شوہر سے پوچھا۔ کیا آپ کسی شاہدہ نامی عورت کو جانتے ہیں وہ یہ نام سن کر چونک گئے۔ کہنے لگے۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو تب میں نے انہیں بتایا کہ رات جب میں جاگ رہی تھی ، دروازے کی کنڈی کھلنے کی آواز سنی تھی، تب مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اندر آ گیا ہو۔ ڈر کے مارے اٹھ کر دیکھا نہیں ۔ کمرے کا دروازہ بند کئے پڑی رہی ۔ جب آنکھ لگی تھی تب عجیب خواب دیکھا کہ ایک عورت آئی ہے اور کہتی ہے کہ میرا نام شاہدہ ہے اور میں تمہارے شوہر کو جانتی ہوں ، بس پھر میں ڈر کر اٹھ بیٹھی ۔ کمرے کا دروازہ کھول کر صحن میں جھانکا تو باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا حالانکہ میں آپ کے جانے کے بعد کنڈی لگا کر سوئی تھی۔ اسی خوف کے سبب کمرے میں آتے ہی میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ یہ ساری بات میں نے شوہر کو بتا دی مگر یہ نہیں بتایا کہ خواب میں وہ عورت کہہ رہی تھی کہ میں تمہارے شوہر کو لے جانے آئی ہوں تم مجھے اجازت دو۔ نجانے کیوں یہ بات منہ سے نکالنے کو میرا دل نہیں چاہا۔ لطیف نے میرے لبوں سے شاہدہ کا نام سنا تو ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ کہنے لگے۔ کیا واقعی خواب میں عورت شاہدہ نام لے رہی تھی میں نے کہا۔ کیوں آپ کو یقین کیوں نہیں آ رہا وہ سوچ میں پڑ گئے اور چہرے کا رنگ پھیکا ہو گیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔ یہ ایک کہانی ہے۔ میرے اصرار پر انہوں نے یہ کہانی مجھے سنا دی، شاید میرے تجسس پر یا اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ، انہوں نے بتایا۔ آج سے انیس سال قبل جب میں اس گاؤں میں اپنے والد صاحب کے ساتھ رہتا تھا، ایک لڑکی والد صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھنے آئی تھی۔ ایک دن اتفاق سے وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ اس وقت بادل چھائے ہوئے تھے اور ہوا بھی بہت ٹھنڈی چل رہی تھی۔ گھر میں ہم دونوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔ لڑکی ٹھنڈی ہوا سے کانپ رہی تھی۔ میں نے اس کو سردی سے بچنے کے لئے ایک موٹا کمبل دیا، اس کے باوجود اس کی کپکپی نہ گئی۔ وہ مجھ سے کہنے لگی کہ میرے ہاتھ دیکھو کتنے ٹھنڈے ہیں۔ جب میں نے اس کے ہاتھ چھو کر دیکھے وہ بہت ٹھنڈے تھے۔ اس کے بعد جانے کیسے جذبات نکلے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اگلے دن وہ ٹیوشن پڑھنے نہیں آئی ۔ اسی اثنا میں والد صاحب کا تبادلہ رام گڑھ سے جودھ پور ہو گیا اور پھر میری شادی تم سے ہوئی ۔ دو ماہ بعد والد صاحب بھی وفات پا گئے۔ میں نے تمہاری خوشیوں میں شریک رہنے کی خاطر پچھلے تمام واقعات بھلا دیے اور تمہارے ساتھ زندگی کا آغاز کر دیا۔ آج تم نے شاہدہ کا نام لے کر میری پچھلی زندگی پھرسے یاد دلا دی۔ ابھی لطیف مجھ سے یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ریلوے کا ملازم آیا اور کہنے لگا۔ لطیف صاحب، بارش اور تیز ہوا کی وجہ سے اگلا سگنل گر گیا ہے اور گاڑی آنے میں تھوڑا سا وقت رہ گیا۔ میرے شوہر نے اس سے کہا۔ تم یہاں بیٹھوں میں ابھی سگنل صحیح کر کے آتا ہوں ۔ لطیف کا انتظار کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی تھی کچھ لوگوں کے شور و غل سے آنکھ کھلی تو میں باہر گئی۔ ہمارے دروازے پر ریلوے کا ملازم ابھی تک تھا۔ میں نے پوچھا۔ صاحب ابھی تک نہیں آئے بی بی نہیں آئے ۔ وہ بولا ۔ کچھ لوگ البتہ یہاں سے گزرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ صبح چار بچے والی مال گاڑی کے ڈرائیور نے لوگوں کو بتایا ہے کہ سگنل خراب ہونے کی وجہ سے میں گاڑی کنٹرول نہ کر سکا اور ایک آدمی ریل کی بوگیوں کی زد میں آکر جاں بحق ہو گیا۔ بیٹی میں بہت عرصے سے ریلوے کا ملازم ہو۔ یہ سگنل بڑا خونی ہے۔ بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک شاہدہ نامی عورت تھی ، وہ کسی مشکل میں گرفتار ہیں۔ عزت کی خاطر اسی سگنل کے قریب اس نے ٹرین کے نیچے آ کر جان دے دی تھی۔ بوڑھے ملازم کی بات سن کر مجھے چکر سا آ گیا۔ میں نے کہا۔ بابا خدا کے لئے جا کر دیکھو، صاحب کیوں نہیں آئے۔تمہاری بات سن کر میرا دل ڈوب رہا ہے۔ کون آدمی تھا جو ٹرین کی زد میں آ کر ابھی میں جملہ پورا بھی نہ کر پائی تھی کہ لوگ میرے دروازے پر آ گئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بی بی کو بتا دو لطیف صاحب ٹرین کی زد میں آ کر جاں بحق ہوگئے۔ میں نے اتنا ہی سنا تھا کہ بے ہوش ہو کر گر گئی۔ جب ہوش آیا تو اسپتال میں بھی ۔ ارد گرد میرے رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے۔ میری دنیا لٹ چکی تھی۔ اس کے بعد زندگی کیسے گزری ، قافلے والوں کے ساتھ کیسے پاکستان آئی، یہ الگ داستان ہے۔ اب قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوں۔ زندگی کی سب تلخیاں، بہت سے واقعات، خود پر گزری بھی بیتیاں بھلا چکی ہوں۔ نہیں بھلا سکی تو اس واقعے کو، اس خواب کو، جس نے مجھے خبردار کر دیا تھا کہ تمہارے اوپر کوئی طوفان آنے والا ہے۔ میں یونہی خوفزدہ نہیں ہوئی تھی۔ کچھ خواب ہم دیکھتے ہیں، بھلا دیتے ہیں کچھ یاد رہتے ہیں مگر وہ بے معنی بے اثر سے ہوتے ہیں لیکن کوئی خواب ایسا ہوتا ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے۔ خدا کرے، ایسا خواب کسی سہاگن کو نہ آئے، جو ایک بھیانک حقیقت کے روپ میں آج بھی شعور میں ایک جیتی جاگتی تصویر کی طرح زندہ ہے۔ | null |
null | null | null | 226 | https://www.urduzone.net/pachtave-ki-aag/ | بابا جان کی وفات کے بعد امی شدید حالات کے سبب بیمار رہنے لگیں۔ انہیں ٹی بی تھی ۔ میرے آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے وہ ہمت ہار چکی تھیں۔ ان کے بعد اب میرا سب سے قریبی رشتہ خالہ کا تھا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں۔ خالہ کا ایک ہی سپوت راحت تھا۔ ہم دونوں ساتھ ہی پڑھتے تھے، جب ذرا ہوش سنبھالا تو خالہ ہماری منگنی کر کے ہر اندیشے سے آزاد ہوئیں۔ ادھر خاندان بھر میں خالہ کی نیک دلی کے چرچے ہونے لگے کہ انہوں نے رحم دلی سے کام لے کر سگی بھابھی کو دردر کی ٹھوکروں سے بچا لیا ہے۔ خالو میرے چچا تھے۔ ایک ہی گھر میں اپنے منگیتر کے ساتھ کھیلتے ہوئے بڑی ہو گئی ، جب رشتوں کی سمجھ آئی تو منگیتر سے حجاب بھی آنے لگا اور میں راحت سے الگ تھلگ رہنے لگی ۔ بات بھی کرنے سے گریز کرنے لگی۔ اس کو شرم و حیا کہہ لیں یا خالہ کی تربیت ، جو اپنے سپوت سے میری منگنی کر کے بظاہر ہر اندیشے سے بے نیاز ہو گئی تھیں۔ لیکن اندیشے شانت بھی ہو جائیں تو شیطان انسان کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ جب موقع پاتا ہے وار کرنے سے نہیں چوکتا۔ بے شک میں راحت سے دوری اختیار کئے رہتی تھی لیکن بہرحال وہ میرا منگیتر تھا، مجھے اس سے لگاؤ تھا۔ وہ ایک خوبرو اور دلکش نو جوان تھا، لیکن میرا تو بچپن کا ساتھی تھا، حالانکہ مجھ سے دس برس بڑا تھا، پھر بھی وہ میرے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ ایک روز کی بات ہے۔ خالہ کسی تقریب میں گئی ہوئی تھیں کہ اچانک راحت گھر آ گیا۔ میں اکیلی تھی ، دو پہر کے تین بج رہے تھے۔ وہ سیدھا میرے کمرے میں چلا آیا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر مسہری پر بٹھا دیا۔ میں بھی اس طرح اس سے بے تکلف نہ ہوئی تھی اور یہ احساس بھی تھا کہ گھر میں دوسرا کوئی نہیں ہے۔ میں خوف سے ٹھنڈی پڑ گئی، تو وہ ہنسنے لگا۔ عجیب لڑکی ہو، اپنے ہونے والے شوہر سے ڈرتی ہو۔ دیکھو تم میری ہونے والی بیوی ہو۔ کافی دیر تک وہ مجھ سے ایسی باتیں کرتا رہا اور میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔ گھبراہٹ کے مارے میرا برا حال تھا۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی سے خالہ آجائیں تاکہ میری راحت سے جان چھوٹے۔ وہ بہت غور سے میرا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ آخر کہنے لگا۔ تم مجھ سے اتنا کیوں شرماتی ہو کیوں اس قدر دور دور رہتی رہو مجھے یہ بات پسند نہیں ہے۔ آج میں تمہارے اور اپنے درمیان ان بے معنی فاصلوں کو مٹا ڈالنا چاہتا ہوں تا کہ تم بے تکلفی سے مجھ سے بات کر سکو۔ میں نے بہت اس سے دامن چھڑانا چاہا۔ بد قسمتی سے وہ میرا منگیتر تھا اور اسی حق کے واسطے سے میں وقت سے پہلے سہاگن ہو گئی۔ وہ تو چلا گیا، مگر جب خالہ واپس آئیں تو شام تک میری آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں، انہوں نے کچھ پوچھنا چاہا لیکن میں افسردہ تھی کہ خالہ کی ہمت نہ پڑی۔ وہ اکثر مجھے اداس دیکھ کر یہ خیال کر لیتی تھیں کہ مجھے اپنی مرحومہ ماں کی یاد آئی ہو گی ۔ اس پر وہ مجھے کہتی کچھ نہ تھیں، البتہ پیار بھرا سلوک زیادہ کرنے لگتی تھیں۔ اس دن بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے کام نہ کرنے دیا، کھانا خود پکایا اور کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کر کے میرا جی ہلکا کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ دنوں میں ارادہ کرتی رہی کہ اس واقعہ کا ذکر خالہ سے کر دوں ، مگر کیسے کرتی حجاب مانع تھا اور میں راحت سے بھی ڈرتی تھی۔ تب ہی یہ سوچ کر چپ ہو گئی کہ خالہ کے دل میں ہرائی ڈالنے سے کیا فائدہ، جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب آخر تو میں نے راحت ہی کی دلہن بنتا ہے۔ دراصل مجھ میں ہمت نہ تھی جانے کیوں یتیم بچیاں بزدل ہو جاتی ہیں لیکن قدرت کو میری یه راز داری منظور نہ تھی ۔ اس نے خود میرا راز افشا کر دیا۔ تب خالہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ یہ سب کیا ہے اپنے صاحبزادے سے پوچھئے، وہی اس غلطی کے ذمہ دار ہیں۔ خالہ نے راحت سے پوچھا تو وہ قسمیں کھانے لگا۔ اماں میں قصور وار نہیں ، انعم جھوٹ بولتی ہے۔ نہ جانے کون ہمارے گھر کی عزت کو خاک میں ملا گیا ہے اور اب یہ جھوٹی تہمت مجھ پر ہے۔ میں کسی غیر کا کیا، اپنے سر کھلوانے کو ہرگز تیار نہیں اور اگر تم نے مجھے مجبور کیا تو میں ہمیشہ کے لیے چلا جاؤں گا۔ خاله سن کر دنگ رہ گئیں، گرچہ ان کا دل نہیں مان رہا تھا۔ میں سچی تھی ، ان کا بیٹا جھوٹا تھا مگر انہوں نے ایک ہی بات کی۔ اگر تم سچی تھیں انعم تو جب میرے بیٹے نے تمہاری جانب ہاتھ بڑھایا تو تم نے مجھے تب ہی کیوں نہ آگاہ کیا۔ اب جبکہ راز چھپ نہیں سکتا، تم اس کا بھانڈہ پھوڑ رہی ہو۔ میں جان گئی کہ خالہ پر اولاد کی محبت غالب آ گئی ہے۔ یوں انہوں نے اپنے کو سچا اور مجھے جھوٹا قرار دے دیا۔ ان کو اپنے شوہر سے بھی خوف آرہا تھا کہ ان کو معلوم ہو گیا تو پہلی بات یہی منہ سے نکالیں گے کہ راحت کو گھر بدر کرو۔ منگنی تو ہو ہی گئی تھی، پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے کیوں چھوٹ گیا یا پھر بیٹے کو مورد الزام ٹھہرایا تو اسے آڑے ہاتھوں لیں گے کہ گھر میں یہ کیا تماشا ہو رہا ہے۔ خالو غصے کے بہت تیز تھے، سب ان سے ڈرتے تھے۔ خالہ نے مجھے ہی قصور وار ٹھہرایا۔ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ لڑکا ہے، تم تو لڑ کی ہو۔ میں نے ایسی کیا غلط تربیت دی تھی کہ جو تمہارے ساتھ ہو گزرے، مجھے کانوں کان خبر نہ کرو ۔ اب تو وہی مثال تم پر صادق آئے گی کہ جس تھالی میں کھاؤ، اس میں چھید ۔ اس کے بعد ماں بیٹے نے جو سلوک میرے ساتھ کیا، میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔دونوں نے طوطے کی طرح میری طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ میں ہی بدکردار ٹھہرائی گئی۔ میں خالہ کی بے رخی سے رو رو کر دیوانی ہوئی جاتی تھی۔ مجھے راحت کی بے وفائی سے زیادہ خالہ کی محبت کے چھن جانے کا دکھ تھا۔ اب رہ ہی کیا گیا تھا میری دنیا میں، اک خالہ کی محبت کا سہارا بچا تھا، سو وہ بھی ٹوٹا۔ دل سے راحت کے لیے بد دعائیں نکلنے لگیں۔ سوچتی تھی کہ اگر میں پسند نہ تھی، تو مجھ سے شادی نہ کرتا۔ منع کر دیا ہوتا ۔ یہ سب چال چلنے کی کیا ضرورت تھی، بیٹے کے تیور دیکھ کر سے ڈر گئیں صاف کہ دیا کہ میں یہ پھندہ اپنے گلے میں نہیں ڈال سکتا شادی بعد میں جائے گی ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے اس طرح کی ہے تکی باتیں کر مجھے بلکہ خالہ کو بھی مایوس کر دیا۔ مجبور ہو کر انہوں نے ایک لیڈی ڈاکٹر کا سہارا لیا ، جو ان کی رشتہ داری تھی۔ اس کو عزت و ناموس کا واسطہ دیا اور بڑی مشکل سے رضا مند کیا۔ یوں انہوں نے ناموسی تو بچائی لیکن ایک گناہ کبیرہ اپنے سر لے لیا۔ اس بات سے خالو کو بھی آگاہ نہ کیا۔ میری بے گناہی جانتی تھیں، پھر بھی مجھے سے پوچھا۔ اگر کوئی پسند ہے تو میں تمہاری اس سے شادی کر دیتی ہوں تا کہ دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہو میں کیا جواب دیتی۔ میری تو زبان پتھر کی ہو گئی تھی ۔ جو ملزم تھا، ان کی ممتا نے اسکو بری کر دیا اور میں فریاد بھی نہ کر سکی۔ اب مجھے گھر میں رکھنا ان کے لیے خطرہ تھا۔ لہذا کوشش کر کے میرا رشتہ تلاش کیا اور میری شادی کر دی خالو ایسا نہ چاہتے تھے مگر بیٹے کے انکار سے مجبور گئے تھے سوچا تھا شوہر سہاگ رات سے نکال دیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا، وہ مجھے پا کر خوش ہو گئے۔ پیار و محبت سے پیش آئے اور بعد میں بھی بہت اچھا رکھا۔ ہر طرح کا سکھ اور آرام دیا۔ ان کی محبت اور تحفظ پاکر میں پچھلے داغ کو بھول گئی۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ اب میں خاوند کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی۔ بچپن سے یتیمی کی زندگی ملی تھی۔ سوچا کرتی کہ برے دنوں کے بعد اچھے دن بھی ضرور آئیں گے۔ شادی کے بعد جوں ہی یتیمی کا تکلیف دہ دور ختم ہوا، اللہ تعالی نے مجھ پر رحمتوں کی بارش کر دی۔ دن سکون سے گزر رہے تھے۔ یہ میری خام خیالی تھی۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ شوہر کے گھر میں میرے لئے سکھ کی گھڑیاں بہت کم تھیں ۔ چونکہ خالو سگے چچا تھے۔ اگر چہ انہوں نے مجھے بیٹی کی طرح رخصت کیا تھا ، لیکن میری شادی کے بعد ان کو احساس ہوا کہ جو پیار ایک بیٹی کو دیا جاتا ہے ، وو ایسا پیار مجھے نہیں دے سکے۔ انہیں اپنی خفت کا تب احساس ہوا، جب میں ان کے گھر سے رخصت ہو گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے ان کی خدمت میں بھی غفلت نہ کی تھی۔ ہر وقت ان کی تابعداری کیا کرتی تھی۔ ان کے سارے کام بہت خلوص اور نیک نیتی سے کرتی تھی۔ علی الصباح اٹھ کر چائے ان کے ہاتھ میں دینا وقت پر ناشتہ دینا، ان کے کپڑے دھو کر استری کرنا، جوتے پالش کر کے رکھنا فرض تھا ، جو کام بیٹیاں بھی شاید اتنی توجہ سے نہ کرتی ہوں گی میں کرتی تھی۔ میرے وجود سے ان کو راحت تھی یہ بات اس وقت خالو کو سمجھ میں آئی جب میں ان کے گھر نہ رہی تھی تھی۔ خالہ اتنا خیال نہ رکھ پاتی تھیں۔ وہ دیر سے اٹھتی تھیں اور خالو کو جلدی کام پر جانا ہوتا تھا ۔ اب وہ خود چائے تیار کر کے کام پر نکل جاتے ، خالہ کو نہ جگاتے۔ ان کو وقت پر دھلے ہوئے کپڑے ، وقت پر کھانا ، اب ہر چیز کی تکلیف ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ انعم میرا کتنا خیال کرتی اور میں نےاس کی پروا نہ کی ۔ اپنی اس خطا کا ازالہ کرنے ، وہ اکثر میرے گھر آتے اور کہتے کہ بیٹی میرا گھر تیرا ، میں تمہارے باپ جیسا ہوں، لہذا تمہاری خیر خبر لینا میرا فرض بنتا ہے۔ عید، شب برات یا جب بھی میرے گھر آتے تو خالہ کو مجبور کرتے کہ چلو، بیٹی کو لے آتے ہیں۔ اس کا ہمارے سوا اور تو کوئی ہے نہیں۔ بچیاں شادی کے بعد تہواروں اور تقریبات پر میکے آتی ہیں۔ بے چاری خود سے تو نہیں آتی ، ہم ہی اسے لے آتے ہیں تاکہ اسے یہ احساس تنگ نہ کرے کہ اس کا میکہ نہیں ہے۔ خالو کو اندر کے معاملے کا تو کوئی علم نہ تھا۔ خالہ آنا کانی کرتیں تو ان کو برا بھلا کہتے وہ دونوں مجھے لینے آجاتے۔ بے شک خالہ دل سے یہی چاہتی تھیں کہ میں ان کے گھر نہ آؤں تا کہ میرا سامنا ان کے بیٹے سے نہ ہو مگر خالو کی وجہ سے مجبورا ان کو آنا پڑتا تھا۔ میں لاکھ نہ نہ کرتی، مگر میرے شوہر جو بھلے مانس تھے، کہتے تمہارے بزرگ ہمارے گھر چل کر آتے ہیں تمہارے والدین کی جگہ ہیں، انہوں نے پالا پوسا ہے، محبت سے آتے ہیں۔ تم ان کو منع نہ کرو اور دو چار روز کے لیے چلی جاؤ۔ اب میں بھی مہر بہ لب کہ کیا کہوں کیوں جانا نہیں چاہتی جانا ہی پڑتا تھا۔ خالو کو اس بات کا دکھ تھا کہ راحت نے مجھ سے شادی سے انکار کیا تھا، ایک یتیم بچی کا دل توڑا تھا۔ وہ بیٹے سے اس وجہ سے ناخوش تھے ، تب ہی اور زیادہ میرا خیال کرتے تھے۔ گرچہ میں خالہ کے گھر کم کم جاتی۔ کبھی بچوں کی بیماری کا بہانہ بناتی اور بھی کوئی اور بہر حال جس بات کا ڈر تھا وہ ہو کر رہی۔ ایک روز میں چھت پر کپڑے پھیلانے گئی تو راحت اوپر آ گیا۔ خالہ سورہی تھیں اور خالو گھر پر نہ تھے۔ عید میں دو دن باقی تھے۔ وہ آتے ہی بولا ماضی کو کتنی جلد فراموش کر دیا تم نے بے وفا عورت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ میں نے بے وفائی نہیں کی تم نے مجھے پر ستم ڈھایا اور بے وفائی بھی تم ہی نے کی، مجھ سے شادی سے انکار کیا۔ میں تمہاری خالہ کی لڑکی تھی کوئی غیر نہیں۔ چچازاد بھی تھی مگر تم نے نجانے کیوں مجھ پر اتنا ظلم ڈھایا ۔ معاف کردو۔ اس کے بعد اس نے مجھے پھر سے ماضی کے رستے پر لے جانا چاہا مگر میں نے صاف انکار کر دیا۔ میں پیار کرنے والے شوہر اپنے بچوں کے باپ سے دھوکا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں نے اسے سختی سے جھٹکا تو وہ بولا ۔ یاد رکھنا تمہارے شوہر کو ایک دن ساری بات بتا کر تمہیں اس کے گھر کے قابل نہ چھوڑوں گا، جس کی ملکہ بن کر تم اس قدر اتراتی ہو۔ میں اندر سے تو سہم گئی مگر اوپر سے ظاہر کیا کہ میں اس کی دھمکی سے ڈرنے والی نہیں ہوں ۔ اسے جتلا دیا کہ جو کہنا ہے کہہ دو۔ وہ مجھ پر اعتبار کرتے ہیں ، تم ہی برے بنو گے۔ میں سمجھتی تھی کہ وہ یوں ہی دھمکی دے رہا ہے۔ تہیہ کر لیا کہ اب دوبارہ اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی، چاہے خالو ناراض ہو جائیں۔ مجھے ہر حال میں اپنے شوہر کی عزت اور اپنا خوشیوں بھرا گھر بچانا تھا۔ راحت کے دل میں خدا جانے کیا ارادہ چھپا ہوا تھا۔ میں نے دل سے دعا کی۔ اے خدا وہ وقت آنے سے پہلے کہ میرے شوہر کا اعتماد چکنا چور ہو، یا تو مجھے اٹھا لینا یا پھر راحت کو موت دے دیتا، تا کہ وہ گھڑی آنے کا خوف باقی نہ رہے۔ چاہے یہ کوثر کو میرے اوپر گزرے برے واقعہ کا بتائے یا نہ بتائے ، صاف ظاہر تھا کہ وہ جھوٹا معاملہ گھڑ کر بتاتا۔ میرے دل سے نکلی دعا قبول ہو گئی مگر کس طرح کہ میں ہی اجڑ گئی۔ ابھی میں خالہ کے گھر میں تھی عید کو تین دن گزر چکے تھے۔ کوثر عید کے دن بچوں سے مل کر گئے تھے اور اب مجھے لینے کے لئے آرہے تھے۔ میں گھر جانے کی تیاری میں لگی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میرے رشتے کے دیور آئے تھے، جن کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا۔ انہوں نے اطلاع دی کہ کوثر بھائی کا اچانک ہارٹ فیل ہو گیا ہے۔ جب دورہ پڑا وہ گھر میں اکیلے تھے۔ ان کو طبی امداد کے لیے ڈاکٹر تک لے جانے والا کوئی نہ تھا۔ صبح چار بجے ہارٹ اٹیک ہوا اور دس بجے منیر بھائی نے انہیں فون کیا کیونکہ ان کی گاڑی ورکشاپ میں تھی اور کوثر نے ان بھائی سے گاڑی مانگی تھی تاکہ مجھے اور بچوں کو میکے سے گھر لے آئیں ۔ منیر نے سوچا کہ ڈیوٹی سے ان کو دیر نہ ہو جائے لہذا فون کیا تو جواب نہ آیا۔ تب اپنی چھت پر گئے کہ کوثر بھائی کو آواز دے کر بلا لوں ، خبر نہیں فون کیوں نہیں اٹھا رہے ۔ چھت پر سے جھانکا تو دم بخود رہ گئے۔ وہ صحن میں پڑے تھے ان کے بڑے بھائی کو فورا فون کیا۔ وہ آ گئے، ان کے پاس گھر کی دوسری چابی تھی۔ انہوں نے دروازہ کھولا اندر گئے ، وہ اس جہاں سے جا چکے تھے۔ پڑوس میں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں، انہوں نے موت کی تصدیق کی اور اب آپ کو اطلاع کرنے آیا ہوں۔ آپ لوگ میرے ساتھ چلیں۔ یہ احوال انہوں نے خالو کو بتایا تھا۔ وہ بے چارے بھی سٹھیا گئے۔ ان کی ہمت نہ ہو رہی تھی کہ کس طرح مجھ کو اتنی بری خبر سنائیں ۔ خالہ کو بتایا، وہ میرے پاس آئیں، بولیں۔ بیٹی تمہارے شوہر کی طبیعت خراب ہے تہمارا دیور لینے آیا ہے ۔ جلدی جلدی بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور خالہ خالو کے ہمراہ گھر پہنچی راسته بهر انکی عمردرازی کی دعائیں پڑھتی آئی مگر ایک بھی دعا قبول نہ ہوئی۔ راحت کی دھمکی کا ڈر تو گیا لیکن ساتھ ہی میری خوشیاں بھی منہ موڑ گئیں ۔ یہ دھمکی اس نے جھوٹ میں دی تھی یاں سچ میں یہ وہی جانتا ہے مگر میرا تو کلیجہ ہی نکال لیا ۔ میں نے دل سے دعا کی تھی کہ کوئی میرے ماضی کا داغ ، میرے شوہر کونہ بتائے۔ یہ بھی دعا کی تھی کہ خدا مجھے اٹھا لے یا راحت کو موت دے دے۔ دعا کیسے بدل گئی۔ نہ تو مجھے موت نے اٹھایا اور نہ راحت کو آئی لیکن میرے رحم دل اور محبت کرنے والے جیون ساتھی کو ساتھ لے گئی۔ عدت تک میں کوثر کے گھر رہی، اس کے بعد خالہ اور خالو سر ہو گئے کہ چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے۔ تم جوان ہو، اس عمر میں کیسے اکیلی رہ سکتی ہو۔ سسرال والوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ تمہارے خالو خالہ صحیح کہتے ہیں ۔ جب تک بچے باشعور نہیں ہو جاتے تم اپنے خالو کے گھر جا کر رہو۔ سسرال میں کوئی بھی میرے بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہ تھا۔ کوئی چارہ نہ دیکھ کر مجھے خالو کے گھر آنا پڑا مگر کس دل سے یہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ جب اللہ تعالی کسی کا دل پلٹتا ہے، تو دیر نہیں لگتی۔ جس کو میں اپنے لیے ایک زہریلا سانپ ، اپنا سب سے بڑا دشمن جانتی تھی ، وہی میرے اور میرے بچوں کے یتیم ہو جانے پر بے حد دکھی ہوا۔ اس کے بعد اپنا سامان اٹھا کر چھت پر بنے کمرے میں منتقل ہو گیا۔ راحت بہت اچھا کما رہا تھا اس کا کاروبار جم چکا تھا۔ ان کے پاس روپے کی کمی نہ تھی لیکن اس نے ابھی تک دوسری شادی نہ کی ، جبکہ پہلی بیوی جو اس کی پسند سے اس گھر کی بہو بن کر آئی تھی ، شادی کے سال بعد ہی طلاق لے کر چلی گئی میری بیوگی میں اس نے اپنی خطا کا حق اس طرح ادا کیا کہ ہمارے خرچے کے لیے خالہ اور خالو کو علیحدہ رقم دینے لگا لیکن مجھے اس بات کا علم نہ تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ خالو ہمارا خرچہ اٹھاتے ہیں، جبکہ وہ تو اب برائے نام دکان پر جاتے تھے تمام کاروبار راحت کو سونیا ہوا تھا۔ اس بات کا علم مجھے بعد میں ہوا مجھے بیوہ ہوئے چار سال بیت گئے مگر میں اس دکھ کو نہ بھلا سکی تھی، ہمہ وقت افسردہ رہتی تھی۔ خالو اب بیمار رہنے لگے تھے۔ چیک کرایا تو پتا چلا کہ کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو چکا ہے، یہ بڑی دکھ دینے والی خبر تھی۔ ایک روز خالو میرے پاس آئے اور کہا۔ بیٹی میری ایک بات مانو گی کیوں نہیں خالو جی آپ کی ہر بات مانوں گی۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ اس لیے بیٹی کہ مجھے جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے اور تمہاری خالہ کی صحت بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ موت تو ہر ایک کے ساتھ ہے، ہمارے بعد تمہارے اور تمہارے بچوں کا کیا ہوگا یہی سوچ کر ہم دونوں پریشان رہتے ہیں۔ بیٹی میری بات مانو ا تم راحت سے نکاح کر لو۔ اگر تم راضی ہو جاؤ تو تم اور تمہارے بچے محفوظ ہو جائیں گے۔ در در بھٹکنے سے بچ جائیں گے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر راضی ہو جاؤ ۔ ہم تم کو بہو بنائیں گے، میں تب ہی سکون سے مرسکوں گا۔ میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ خالو اچانک ایسی بات کہہ دیں گے۔ میں نے کہا۔ آپ میرے لیے والد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ کبھی راحت کے ساتھ جس نے بچپن کی منگتی کو توڑا اور خود شادی سے انکار کیا، بھلا اب جبکہ میں بیوہ اور تین بچوں کی ماں ہوں، کیسے نکاح کر سکتا ہے۔ اس نے اصرار کیا ہے۔ اب وہ دل سے پچھتاتا ہے اپنی غلطی پر کہ تم کو کیوں ٹھکرایا اللہ نے اسے اس کی سزا دے دی۔ جس لڑکی سے محبت کی شادی کی اور چاہت سے بیوی بنایا ، اسی نے وفا نہ کی۔ اس کی بے وفائی کو جھیلنے کے درد نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بے وفائی سہنے کی تکلیف کتی ہوتی ہے۔ خالو کی زبان سے یہ سب سن کر میں دنگ رہ گئی ، لیکن میرا دل نہیں مانتا تھا جبکہ راحت میرے بچوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ان کو گھمانے، پھرانے لے جاتا، ان کے لیے ہرشے لے کر آتا لیکن ہم دونوں آپس میں کلام نہ کرتے تھے۔ بالآخر اس نے جب میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگی تو میں نے بھی سوچا کہ خالو سچ کہتے تیں۔ ان کے بعد میرا کیا ہوگا میرے بچوں کا کون سہارا بنے گا راحت سہارا بنا بھی تو دنیا ہم کو ایک ساتھ رہنے نہ دے گی۔ بچوں کی بھلائی تو اسی میں تھی کہ میں راحت کو معاف کر دیتی اور جس گھر نے مجھ کو یتیمی میں پناہ دی تھی ، ان سے ان کو محروم نہ ہونے دیتی۔ بہت غور و خوض کے بعد میں نے خالو خالہ کی بات مان لی اور یوں ایک بار پھر اسی گھر کا حصہ بن گئی، جس گھر میں بچپن گزارا تھا۔ تین ماہ بعد ہی خالو کی وفات ہو گئی۔ اب خالہ، میں اور میرے بچے راحت کی ذمہ داری بن گئے تھے ۔ اس نے ہمیں احسن طریقے سے رکھا کہ میں پچھلے سارے غم بھلانےپر مجبور ہوگئی۔ کبھی کبھی یہ شکوہ ضرور میرے لبوں پر آجاتا کہ راحت اگر تم نے مجھ سے شادی کرنا ہی تھی ، تو وقت پر کیوں نہ کی کیوں مجھے اتنا دکھ دیا اور بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا۔ ایک روز اس نے جواب دے ہی دیا۔ انسان سے بھول ہو جاتی ہے اور وہ غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے۔ دراصل میں نے اپنے دوست کو ساری بات بتا کر مشورہ لیا تھا۔ اس نے کہا کہ اب تم ہرگز یہ شادی مت کرنا، ورنہ لوگ تمہاری بیوی اور اولاد پر عمر بھر انگلیاں اٹھائیں گے، کیونکہ تمہاری منگیتر نے واقعہ کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد انہونی سے پردہ اٹھایا۔ اگر وہ پہلے اس بات سے تمہاری والدہ کو آگاہ کر دیتی تو غلطی پر پردہ پڑ جاتا لیکن اب اسے چھپایا نہ جاسکے گا اور سارا خاندان تم لوگوں پر تھو تھو کرے گا۔ بس میں نے اپنے ذہن سے نہ سوچا اور تم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا مگر تمہاری شادی کے بعد بہت پچھتایا اور یہی پچھتاوا دوزخ کی آگ بن کر میرے وجود کو جلاتا رہتا تھا۔ مجھے کسی پل چین نہ آتا تھا۔ صد شکر کہ تم مل گئی ہو تو سکون ملا ہے ۔ انسان جب راہ راست پر آجاتا ہے تو اسے واقعی سکون مل جاتا ہے، اب تو میں تم کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ | null |
null | null | null | 227 | https://www.urduzone.net/safyed-motiyon-ki-maala/ | کبھی کبھی ہوتا ہے کہ راہ چلتے چلتے اچانک کچھ ایسا نظروں کے سامنے آجاتا ہے کہ انسان پل بھر میں سب بھول جاتا ہے کہ وہ کہاں ہے، کیوں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ کئی بار کوئی چھوٹی سی بے جان چیز بھی ہمارا راستہ روک لیتی ہے۔ ہمارا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ جیسے کہ عرصے کے بعد ملا کوئی پرانا ساتھی۔ بچپن میں کوئی ہوئی کھوئی انمول چیز ، یا پھر ماضی سے جڑی کوئی یاد امشال سحر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ وہ مری کے مال روڈ کے ایک طرف اس نو، دس سالہ لڑکے کے پاس کھڑی کہیں کھوئی گئی تھی۔ وہ بھول ہی گئی تھی کہ اس کے گھر والے سب گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں۔ وہ مری جیسی خوب صورت جگہ پہ تین دن گزار کر اب واپس جا رہے تھے۔ تو بڑی نند کے کہنے پہ وہ ان کی شال لینے کی خاطر ، مال روڈ سے نیچے کی طرف آئی تھی اور اب وہ شال پسند کر کے واپس گاڑی کی طرف جارہی تھی، جب سڑک کنارے کھڑے لڑکے کے اسٹال پر اس سفید موتیوں والی مالا نے اسے رکنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ وہ دور کھڑی ان سفید موتیوں کو دیکھ رہی تھی۔ جب وہ لڑکا بیزارسی شکل بنائے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ باجی تم کو کچھ لینا بھی ہے یا پھر صرف دیکھتی ہی رہو گی وہ حال میں لوٹی تھی اور پھر فورا شہریار کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا ۔ وہ پیچھے دوکان میں ہی کھڑا تھا۔ جب وہ شال پسند کر کے نکلی تھی مگر اب نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے پاس نہ موبائل تھا اور نہ والٹ۔ دونوں وہ اپنے پرس میں چھوڑ آئی تھی جو گاڑی میں رکھا تھا۔ تب ہی اسے شہر یار نیچے کی جانب سے آتا نظر آیا۔ مگر چار قدم چل کر ادھر ہی رک گیا اور وہیں سے آوازیں دینے لگا کہ جلدی آؤ۔ دیر ہو رہی ہے۔ مگر وہ وہیں کھڑی رہی تو اسے ہی آنا پڑا۔ اب یہاں کیوں کھڑی ہو۔ ہم نے پہلے ہی اتنی دیر کر دی ہے۔ صبح صبح نکل جانا چاہیے تھا ۔ شیری مجھے یہ ملا لینی ہے۔ اور شہریار نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جو سڑک کنارے لگے اسٹال سے مالا لینے کی بات کر رہی تھی۔ تم پاگل تو نہیں ہو۔ کیا کرو گی یہ بے کار چیزیں ہیں ساری۔ شیری پلیز مجھے صرف یہ سفید موتیوں والی مالا لے دو۔ میرا والٹ گاڑی میں پڑا ہے۔ ورنہ میں اب تک لے چکی ہوتی ہے۔ پتا ہے امشال کبھی کبھی تم بالکل پاگلوں والی حرکت اور بات کرتی ہو۔ وہ جیسے ہار گیا اور والٹ نکالتے ہوئے اس لڑکے کو مالا اتارنے کو کہا۔ وہ کچھ دوسری مالا میں اتار اتار کر دکھا رہا تھا۔ جب وہ بولی۔ یہ سفید موتیوں والی دو۔ شہر یار نے جب قیمت پوچھی تو وہ چالاک سا لڑکا مالا ہاتھ میں لیے بولا صرف ہزار روپے۔ شہریار کا تو حیرت سے منہ کھل گیا۔ خان پاگل تو نہیں ہو۔ یہ کیا خود سمندر سے نکال کر مالا بنائی ہے۔ سو روپے بھی اس کے زیادہ ہیں۔ رکھو اپنے پاس ہی۔ مگر شیری مجھے ہر حال میں لینی ہے۔ تم دے دونا میں گاڑی میں جا کر دے دوں گی لڑکے کو لگا کہ وہ ہر حال میں لے کر جائے گی۔ اور ایسا ہی ہوتا جو اس کے پاس پیسے ہوتے۔ مگر شہریار اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چل ہی پڑا۔ جب پیچھے سے وہ آوازیں دیتا رہا۔ اچھا پانچ سو دے دو۔ چلو دو سو میں لے لو۔ شیری نے رک کر صرف اتنا کہا۔ اب مفت میں بھی دو تب بھی ہم نہیں لیتے۔ وہ اس کے ساتھ بے حس سی پیچھے چلتی جارہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ کچھ بہت خاص پیچھے رہ گیا ہے۔ کچھ بہت انمول ، ہاتھ بھر کی دوری سے پھر اس کے ہاتھوں سے کھو گیا ہے۔ ارے یہ لڑکے بڑے تیز ہوتے ہیں۔ وہ بے کار چیز تم تو ہزار میں لے لیتں۔ جو میں نہ روکتا۔ پیسے بڑے مشکل سے کمائے جاتے ہیں۔ یوں بے کار خرچ نہیں کرتے ۔ اور امشال سحر کی آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ صرف سات برس پہلے۔ جب ایک شام خالہ نسرین اس کے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آئی تھیں۔ اسے تو جیسے آگ ہی لگ گئی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خالہ کوہی سنا ڈالے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی کیونکہ خالہ بھی اسے امی کی طرح پیار کرتی تھیں وہ خالہ سے تو کچھ نہ کہ سکی۔ مگر یہ ضرور سوچ لیا تھا کہ اب جب بھی گجرات کی اس حویلی جانا ہوا۔ جہاں پہ ساتھ کھیل کر وہ سب بڑے ہوئے تھے۔ تو وہ خالہ کے گھر جا کر اس بدذات علی کی عقل ضرور ٹھکانے لگائے گی۔ اس کی اتنی ہمت ہوگئی کہ اس نے شادی کا سوچا وہ بھی امثال سحر سے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر نانا کی حویلی چلی جائے اور اس کی خوب خبر لے مگر رات جب خالہ نسرین کی بات اس کے کانوں میں پڑی تو اس کا غصہ کم ہو گیا۔ خالہ امی سے کہہ رہی تھیں۔ یہ تو ہماری بچی کی مرضی پہ ہی بات آگے جانی ہے۔ تم بھائی صاحب سے پہلے اس سے پوچھنا۔ یہ تومیری آرزو تھی۔ میں نے سوچا کہ گھر کی بات ہے۔ میرے علی کو تو خبرہی نہیں ہے کہ میں اس لیے آئی ہوں۔ اگر امشال کی مرضی نہ ہوئی تو یہ بات ہم دونوں ادھر ہی دفن کر دیں گے۔ دروازے کے باہر کھڑی وہ سوچ رہی تھی کہ بات تو دفن ہو چکی ہے خالہ اب تو صرف مٹی ہی ڈالنا باقی ہے ۔ اس نے پہلا کام گجرات سلمی کو کال کرنے کا کیا تھا اور ساری کتھا سنا ڈالی تھی۔ دوسرے ہی دن اس کی کزن اور دوست سلمی بھی چلی آئی۔ ممانی اور ماموں بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے بڑی محبت سے امشال کا رشتہ مانگا تھا۔ امشال کی خوشی دیکھتے ہوئے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔ خالہ بھی اسے بچپن سے جانتی تھیں اور اس کا لہجہ بھی خوب سمجھتی ہیں۔ اس لیے چپ چاپ ایک طرف ہوگئیں۔ بیٹے کی خواہش پہ آئی تھیں۔ مگر یہاں آکر انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ بیٹے کی خواہش کو اپنی آرزو بنا ڈالا۔ مگر بیٹے کی خواہش ادھوری رہ گئی تھی وہ وجہ جاننا چاہتی تھیں اور وجہ دوسرے روز ہی ان کو مل گئی۔ جب اپنے بھائی اور بھابھی کو اتنے پھل اور مٹھائی کے ساتھ آتے دیکھا۔ اسی شام رشتہ بھی پکا ہو گیا تھا۔ جب امی نے اس کے سامنے الی اور شیری کا نام رکھا اور بتایا۔ باجی کی بھی بڑی خواہش ہے اوراب تمہارے ماموں بھی اسی وجہ سے آئے ہیں۔ میرے لئے تو دونوں برابر ہیں۔ مگر میرے پاس بیٹی ایک ہی ہے۔ تو فیصلہ بھی تم پہ چھوڑا ہے۔ مجھے تو دونوں بچے عزیز ہیں پرکسی ایک کو تو نہ کرنی ہے۔ وہ تو فیصلہ بہت پہلے کر چکی تھی۔ کہاں شیری اور کہاں وہ علی۔ جس نے ابا کی دکان پر ہی بیٹھنا تھا۔ اور ساری زندگی وہیں پہ گزارنی تھی اس چھوٹے سے گھر میں اور کہاں شہری اتنی بڑی حویلی کا اکیلا مالک مگر پھر بھی کہتا تھا کہ شہر میں اپنے لیے خوب صورت سا گھر بناؤں گا۔ جس کے بڑے بڑے خواب تھے۔ جو خود اپنے زور بازو پہ کچھ کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے وہ دبئی گیا تھا۔ ان دونوں میں فیصلہ کرنا کچھ مشکل تھوڑی تھا۔ پھر اس نے کئی بار شیری کی آنکھوں میں اپنی تصویر دیکھی تھی۔ پھر کیا مقابلہ تھا شیری اور علی کا۔ جو اگر وہ سامنے بھی جاتی تو فورا نظریں کیا سر بھی جھکا لیتا تھا۔ عجیب بات تھی۔ اس کے پاس سب کچھ تھا۔ بہت اچھا اور بہت بڑا خوب صورت گھر ۔ گاڑی پیسہ وہ سب کچھ جو اس کی آرزو تھی۔ مگر اب اس کی خواہشیں بڑی عجیب اور انوکھی ہو چکی تھیں۔ جو پیسے سے پوری نہیں ہو پارہی تھیں۔ اور شیری اس کی ایسی باتوں کوہنسی میں اڑا دیتا تھا۔ تم پاگل ہو۔ اس کے جانے میں صرف گیارہ روز باقی تھے۔ جب ایک دن امشال نے کہا۔ میرا جی چاہتا ہے ہم گجرات والی حویلی جائیں۔ باہر بڑے صحن میں بیٹھیں ۔ اور ہمارے سامنے اپنے باغ کے مالٹے پرات میں کاٹ کر رکھے ہوں۔ اور ہم سب کالانمک ڈال کر کھا رہے ہوں ۔ تب بھی وہ مسکرایا اور اسے پاگل کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ مگر اس بار وہ سوچ چکی تھی۔ کہ اس نے حویلی میں باہر صحن میں بیٹھ کر باغ کے مالٹے ضرور کھانے ہیں۔ اس لیے اس نے ماہ روش کو آگے کیا۔ پاپا مجھے دادو کے بڑے گھر جانا ہے۔ وہ فوراً مان گیا۔ یوں آج وہ گجرات کے سفر پہ تھے۔ ممانی بھی ساتھ آئی تھیں ان کو بھی حویلی عزیز تھی۔ مگر شہریار کی ضد کی وجہ سے حویلی کو چھوڑنا پڑا۔ کیونکہ ماموں کے بعد وہ سب اپنی مرضی سے کرتا تھا۔ حویلی آئے تو حیرت ہوئی اسے علم نہ تھا کہ کچھ عرصے سے خالہ ادھر ہی رہ رہی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے گھر کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کروا رہے تھے۔ اسے دکھ ہوا کہ اتنا عرصہ بیت گیا۔ اس نے اس حویلی کا رخ ہی نہ کیا جبکہ نانا نانی کے بعد وہاں اس کی خالہ کا گھر بھی تھا مگر نہ جانے کیوں شہر یار سے شادی کے بعد اسے کچھ عرصے کے لیے سب کچھ ہی بھول گیا تھا۔ مگر آج جیسے حویلی میں قدم رکھا۔ تو بچپن کی ایک، ایک بات ایک ایک یاد ہاتھ تھامنے کو بے چین کھڑی تھی خالہ اتنے پیارے ملیں، کھانا بھی سب اس کی پسند کا بنایا۔ اسے حیرت ہوئی کہ خالہ کو اس کی پسند ابھی تک یاد تھی۔ رات کے لیے بھی خالہ اس کی اور شیری کی پسند سے بنانا چاہتی تھیں۔ ماہ روش کیا شوق سے کھاتی ہے خالہ امی اس کو تو رہنے ہی دیں۔ وہ باہر کے کھانے شوق سے کھاتی ہے یا پھر پیزا برگر کھا لیتی ہے۔ چلو کل باہر سے لے آئے گا علی۔ آج پھر گھر کا کھانا ہی کھانا پڑے گا اسے۔ اورعلی کے نام پر اسے یاد آیا کہ وہ ابھی تک نظر نہیں آیا۔ خالہ امی علی ہے کہاں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی اس سے۔ وہ بے چارہ بھی کیا کرے۔ ایسے ٹائم ہی نہیں ملتا ہے۔ کبھی کبھی تو آدھی رات ہو جاتی ہے اسے گھر آتے آتے۔ صبح پہلے ٹائم اپنے ابا کے ساتھ دکان کو دیکھتا ہے، پھر اپنی بیکری کو دینا اور گھر بھی چکر لگانا پڑتا ہے کہ مزدور کام ٹھیک سے کر بھی رہے ہیں یا پھر نہیں۔ خیر میں نے فون کر دیا تھا کہہ رہا تھا کہ جلدی آجاؤں گا۔ خالہ امی اٹھ کر ممانی کی طرف چل دیں، اور وہ اٹھ کر باہر نکل آئی۔ جہاں پہ ماہ روش کھیل رہی تھی۔ ساتھ ہی پیپل کے بڑے سے درخت پہ وہ جھولا بھی موجود تھا۔ جو ہر وقت آباد رہا کرتا تھا۔ بچوں کا رش لگا رہتا تھا۔ ماہ روش جھولے پہ آؤ ناں۔ نہیں ماما، مجھے ایسے جھولے سے ڈر لگتا ہے۔ گر جاؤں گی اس نے ماہ روش کو کہا تھا۔ وہ اپنا بچپن تلاش کر رہی تھی ۔ مگر ماه روش نے انکار کر دیا تو یوں ہی جھولے کے پاس کافی دیر کھڑی رہی۔ شیری تو جب سے آیا تھا اپنے کمرے سے ہی نہیں نکلا تھا۔ نہ جانے کیا کر رہا تھا۔ اسے بے خیالی سی تھی کہ سامنے سے آتے اس شخص کو دیکھ ہی نہ سکی۔ جب قریب آ کر اس نے سلام کیا تو جیسے ہوش میں آئی۔ سامنے کھڑا وہ شخص تو بالکل ہی بدل گیا تھا یہ تو اس علی سے بہت مختلف تھا۔ جس کو وہ جانتی تھی۔ کیسی ہو شہر یار بھی آیا ہے وہ پوچھ رہا تھا۔ جبکہ امشال ابھی تک حیران تھی۔ ہاں شیری آیا ہے ناں، اوپر اپنے کمرے میں ہے اور تم کیسی ہو وہ بھول ہی گئی تھی کہ وہ اس کا حال بھی پوچھ رہا تھا۔ ہاں میں بالکل ٹھیک تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو۔ مگر دوسرے ہی لمحے وہ نظریں جھکا کر یہ کہتا ہوا اندر کی طرف چل پڑا۔ میں شہر یار سے مل لوں۔ شاید سامنے کھیل رہی ماہ روش اسے نظر ہی نہیں آئی۔ انکل کیا یہ اتنا بڑا باغ سچ مچ میں ہمارا ہے ماہ روش نے کوئی تیسری بار یہی سوال پوچھا تھا۔ جبکہ باغ پہلے جیسا رہا بھی نہ تھا، بہت سارے درخت سوکھ گئے تھے۔ ہاں امرود اور مالٹے کے درخت موجود تھے۔ شیری مجھے حویلی میں بیٹھ کر اپنے باغ کے مالٹے بھی کھانے تھے۔ جب وہ باغ سے نکلنے لگے تھے۔ تب ہی اسے خیال آیا۔ تو بی بی کچھ ٹائم پہلے آنا تھا ناں۔ نظر نہیں آرہا ہے کہ مالٹے ختم ہو چکے ہیں۔ شہریار نے مسکرا کر کہا۔ امثال نے بے اختیار درختوں کی طرف دیکھا۔ جو سچ مچ خالی ہی تھے۔ کسی کسی پہ ایک دو مالٹے نظر آ رہے تھے۔ وہ سامنے دیکھو۔ چار مالٹے لگے ہیں۔ دور ہیں شاید اسی لیے بچوں سے بچ گئے۔ یا پھر ان پہ میرا نام لکھا تھا۔ پاگل ہو کیا اتنی اونچی جگہ پہ لگے ہیں۔ پھر اوپر سے مالٹے کے کانٹے یہاں پہ لگتے ہیں تین روز درد نہیں جاتا۔ اس لیے مجھے معاف کرو۔ بازار سے آجائیں گے مالٹے تم حویلی میں بیٹھ کر کھا لینا۔ شہریار نے بات ہی ختم کر دی ۔ مجھے یہی کھانے ہیں تم ۔۔ ابھی بات اس کے منہ میں تھی۔ جب وہ ذرا غصے سے بولا تھا۔ حد ہوتی ہے امشال تم بچوں جیسی باتیں کیوں کرتی ہو۔ چپ چاپ گھر چلو امشال کی آنکھیں بھرآئیں۔ وہ ہمیشہ ایسا کیوں کرتا تھا تم یہ میری چادر اور چشمہ پکڑو میں مالٹے اتار کر لاتا ہوں۔ جب وہ مڑنے لگی تو علی نے اپنی چادر اور چشمہ اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ اور پھر نہ اسے وہ مالٹے دور نظر آئے اور نہ کانٹوں کا درد محسوس ہوا۔ پانچ منٹ میں وہ چھ سبات مالٹے اتار کر نیچے اترا تو ہاتھوں اور چہرے پہ کافی جگہ کانٹے لگ چکے تھے۔ مگر پرسکون سا اس کے ہاتھوں سے چادر اور چشمہ لیتا ہوا آگے چل پڑا وہ بے جان سے ہاتھوں میں مالٹے کا شاپر تھامے پیچھے تھی شہری تو پہلے ہی فون پہ بات کرتے ہوئے باغ سے نکل گیا تھا۔ وہ علی کے پیچھے پیچھے ماہ روش کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔ اور وہ ماہ روش سے چھوٹی چھوٹی باتیں کر رہا تھا۔ جبکہ جانے پہچانے راستے جیسے امثال کا دامن تھام کر اس کا حال پوچھ رہے تھے۔ تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں ، ماہ روش گڑیا وہ سامنے بڑا سا بیری کا درخت کا دیکھ رہی ہو اس پہ پریاں رہتی ہیں۔ اور امشال سحر کا سانس رک گیا۔ پاؤں زمین نے پکڑ لیے۔ کیا سچ سچ کی پریاں رہتی ہیں انکل ہاں بالکل ہمیں ہماری نانی نے بتایا تھا۔ بے شک اپنی ماما سے پوچھ لو ۔ اب وہ امشال کی طرف دیکھ رہی تھی، جس نے صرف سر ہلا دیا۔ اور اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ پریوں کو جو بچی پسند آجاتی ہے۔ وہ اسے گفٹ میں سفید موتیوں کی مالا دیتی ہیں۔ وہاں اوپر رکھ دیتی ہیں۔ پھر وہ مالا اس بچی کو نظر آتی ہے۔ تو وہ اتارلیتی ہے مگر انکل بچی کیسے اتارے گئی۔ میں تو نہیں اتار سکتی ہوں۔ ہاں پھر کوئی شہزادہ آتا ہے اور وہ اوپر جا کر اتار لاتا ہے۔ پھر اس بچی کو دے دیتا ہے۔ ابھی پریاں تم کو دیکھ رہی ہیں۔ اگر تم ان کو پسند آئیں تو کیا پتا تم کو بھی دے دیں۔ ماہ روش مالا کے چکر میں بڑی خوب صورت مسکراہٹ سجائے درخت کو دیکھ رہی تھی۔ امشال سحر کے کانوں میں آوازیں آرہی تھیں کہیں دور سے۔ تم پاگل ہو۔ اس درخت پہ سایہ ہے۔ نہ بابا میں نے مرنا تھوڑی ہے جو موتوں کا ہار اتار لاؤں نانی کی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔ اس درخت پرکانٹے بھی بہت تھے۔ مشی تم دودھ کی بالٹی پڑو۔ میں اتار کر لاتا ہوں۔ اور دو منٹ بعد وہ سفید موتیوں کی مالا اس کے ہاتھوں میں تھی ، جس کو بل دے کر گلے ڈالا تو خود کو سچ مچ رانی سمجھا تھا۔ مگر رات کو ہی نانی اماں نے اس کے سونے کے بعد وہ مالا غائب کر دی۔ اور صبح کہا کہ پریاں لے گئیں۔ انکل اگر مجھے مالا نظر آئی تھے آپ میرے لیے اتار لاؤ گے ۔ ماہ روش پوچھ رہی تھی تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔ میں کوئی شہزادہ تو نہیں ہوں۔ ماہ روش کا چہرہ اتر گیا۔ وہ آگے آئی۔ پھر بولی۔ ماه روش میرے لیے بھی ایک شہزادے نے مالا اتاری تھی۔ میں مالا میں کھو گئی اور شہزادے کو پہچان ہی نہ سکی پھر مالا بھی مجھ سے کھوگئی اور شہزادہ بھی چپ چاپ کہیں چھپ گیا۔ اور آج اتنے برسوں کے بعد موتیوں کی مالا کے درخت کے نیچے وہ مجھے ملا۔ میرے ہاتھوں میں نہ مالا ہے اور نہ ہی شہزادے کو کچھ کہنے کاحق ۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہ رہا۔ ماہ روش دیکھو میرے ہاتھ خالی ہیں۔ وہ پتا نہیں بے خیالی میں کیا کیا کہہ رہی تھی لیکن اس کے لب خاموش تھے وہ ان دونوں کے قریب چلی آئی تھی۔ چلو ماه روش گھر چلتے ہیں۔ اس درخت پہ سایہ ہے وہ ہم سے ہمارا کچھ نہ کچھ چھین لیتا ہے ۔ اتنا کہ کر وہ پھر خاموش ہو گئی لیکن پھر بھی اندر سر گوشی سی ابھری تھی۔ جیسے کہ میرا مان اور بھرم آج چھین لیا اس نے وہ بیٹی کا ہاتھ تھامے چل پڑی اور وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔ اس کے قدموں میں مالٹوں والا شاپر پڑا تھا۔ تو یہ رہی حاصل اور لاحاصل کی کہانی۔ برسوں پہلے بھی وہ پاگل تھی۔ اور شیری کو کانٹے سے درد ہوتا تھا اور آج بھی وہ پاگل تھی اور شیری کو مالٹے کے کانٹے سے ڈر لگتا تھا۔ تب بھی اس نے مالا اتار کر دی تھی اور آج مالٹے بھی اس نے مڑ کر دیکھا وہ اب بھی وہیں کھڑا تھا اکیلا۔ وہ کافی دور نکل آئی تھی، واپسی ناممکن تھی۔ ہاں اس بار گجرات میں نانا ابو کی حویلی سے جاتے ہوئے اس کا ہم سفر پچھتاوا تھا عمر بھر کا پچھتاوا ۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 228 | https://www.urduzone.net/warisha-ki-eidi/ | مجال ہے یہ لڑکی ایک لمحے کو بھی موبائل چھوڑ دے۔ آج آئے اس کا باپ اس کے سامنے ہی توڑوں گی۔ زیب النسا کچن میں سنک کے آگے کھڑی برتنوں کا ڈھیر دھو رہی تھیں۔ ابھی کئی کام ان کے منتظر تھے۔ روزے کی حالت میں اکیلے کام کرنا خاصا دشوار تھا۔ وریشہ کام چور کو بھی ماں کی حالت پر ترس نہ آیا بلکہ جب بھی وہ کام کرنے کو کہتیں وہ پڑھائی کا بہانا کر دیتی۔ اب زیب النسا کو لگتا تھا کہ بچوں کو بچپن سے ہی ایک دائرے میں رکھنا چاہیے۔ ورنہ بڑے ہو کر وہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد وریشہ کمرے سے نکل کر ماں کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔ زیب النسا نے نظر انداز کرتے ہوئے سر جھٹکا۔ جانتی تھیں کوئی غرض ہی لائی ہو گی ماں کے پاس۔ پتا ہے آپ کو ، ابرش کے سسرال سے کتنی اچھی عیدی آتی ہے اس کی انہیں اس کا ندیدہ پن سخت برا لگتا تھا یہ دیکھیں، اس نے اسٹیٹس لگایا ہے۔ کیا بتاؤں امی، برانڈڈ کپڑے جوتے ، جیولری، چوڑیاں، مہندی ، مٹھائیاں ، پھل ، میک اپ کا سامان اور نہ جانے کیا کیا ۔ وہ ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے عیدی ابرش کی نہیں اس ہو۔ جاؤ جاؤ میرا سر نہ کھاؤ، وہ تلملا گئیں۔ ایسی بے شرم اولاد ہے اتنا نہیں ہے کہ ماں کا ہاتھ بٹا دے لگی مجھے قصے کہانیاں سنانے۔ مگر وریشہ انتہائی ڈھیٹ بنی اپنے سلکی بالوں سے کھیلتی، وہیں کھڑی مسلسل دانت نکال رہی تھی۔ جس کا مطلب تھا اس کے ذہن میں کوئی بات چل رہی تھی۔میں بھی عمر سے پوچھتی ہوں، وہ لوگ کب میری عیدی لا رہے ہیں۔ اوہ، تو ابرش کی عیدی کا قصہ بلاوجہ نہیں سنایا جا رہا تھا۔ خبردار تم نے عمر سے ایسی کوئی فضول بات کی۔ انہوں نے سختی سے تنبیہ کی۔ ارے امی آج انیسواں روزہ ہو گیا ہے، ان لوگوں کی طرف سے کوئی خیر خبر نہیں ۔ اس نے منہ بتایا۔ ان کے ہاں عیدی کا رواج نہیں ۔ زیب النسا نے نہایت سکون سے کہہ کر وریشہ کا سارا سکون غارت کر دیا لک کیا یہ کس نے کہا آپ سے وہ گرتے گرتے بچی۔ کس نے کہنا ہے مجھے اللہ نے عقل دی ہے۔ اس کو استعمال کر کے نتیجہ اخذ کیا ہے میں نے۔ ایسے کیسے نتیجہ اخذ کر لیا آپ نے۔ وہ ماں کے مقابل کھڑی ہوئی۔ دیکھو وریشہ عمر کے ابا کی چھوٹی سی دکان ہے اور عمر کو کام پر جاتے دن نہیں ہوئے ، گھر کا دال دلیہ پورا ہونا دشوار ہو گیا ہے آج کل ، اوپر کے خرچوں کی گنجائش نہیں ان کے پاس۔ تو کیوں اتنے غریب گھر میں رشتہ کیا تھا میرا ۔ وہ روہانسی ہوگئی۔ غریب گھر کا رشتہ ہو نہہ، اس کے لیے کسی سیشن جج کے گھر سے رشتہ آنا چاہیے تھا۔ وہ سر جھٹکتی باہر نکل گئیں لیکن میں عمر سے بات کروں گی ۔ وہ پیر پٹختی پیچھے آئی۔ زیب النسا نے اسے سخت گھوری سے نوازا۔ میری دوستوں میں میری کیا عزت رہے گی امی تمہیں بات سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی ۔ اگر انہوں نے عیدی لانی ہو گی تو لے آئیں گے ورنہ ہم انہیں خود سے کیوں کہیں گے۔ اس لیے اب اپنی زبان کو لگام دو اور چلو میرے ساتھ یہ کپڑے دھلواؤ۔ وریشہ نے ماں کی نہ مانی، اپنی من مانی کی اور عمر کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ عیدی لے کر آئے۔ اس نے دو گھروں کو مصیبت میں ڈال دیا تھا، عمر کو چیزوں کی ایک طویل فہرست بھیجی تھی۔ اسے اس کی عیدی مانگنے والی بات سخت بری لگی تھی لیکن یہ تو اس کی ماں کا سبھاؤ تھا کہ انہوں نے ، وریشہ کی بچگانہ حرکت سمجھ کر کوئی اعتراض نہ اٹھایا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ وریشہ کی امی کی دور پرے کیا رشتہ دار تھیں ورنہ وریشہ کو اس کا منہ کھول کر مانگنا مہنگا بھی پڑسکتا تھا۔ لیکن اب مہنگا تو زیب النسا کو پڑ گیا تھا محدود آمدنی، جہاں کئی ضرورتوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اچھا خاصا خرچا کروا دیا تھا۔ ان کی نالائق اولاد نے۔ انہوں نے کتنا سمجھایا تھا کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں ۔ مگر وریشہ نے اپنی من مانی کرتے ہوئے طویل فہرست باپ کو تھما دی تھی اور اب دونوں ماں بیٹی کچن میں جتی ہوئی تھیں۔ افطاری سے کچھ پہلے ہی وہ لوگ پہنچے تھے۔ وریشہ کے تو مانو سر پر لگی تلوں پر بھجی ۔ چند عام سے تھیلے جن کے اندر کچھ سامان تھا وہ یقینا عام سے سستے بازار سے خریدا گیا تھا۔ زیب النسا نے اسے جلدی جلدی دسترخوان لگانے کو کہا زیب بہن، اتنا تکلف کیوں کیا آپ نے عمر کی امی دستر خوان پر نت نئی چیزیں دیکھ کر پریشان ہوئیں ۔ انہیں خوب اندازہ تھا کہ اس سب کے پیچھے کتنا خرچا آیا ہوگا۔ آنٹی ، میں نے وریشہ کو صاف منع کیا تھا کہ ہم افطاری کے وقت نہیں آئیں گے۔ مگر اس نے بہت مجبور کیا مجھے اور پھر میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ یہ کوئی تکلف نہیں کرے گی ۔ زیب النسا نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا جو شاید اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ کوئی بات نہیں۔ یہ سب تو کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے محبت سے کہا۔نہیں زیب بہن، یہ سب کیوں کرنا پڑتا ہے۔ اگر اپنوں نے ایک دوسرے کو نہیں سمجھنا تو پھر اپنے پین کا کیا فائدہ ۔ عم کی امی واقعی افسردہ تھیں دیکھو وریشہ جو رشتے دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جائیں وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے محبت سے اسے سمجھایا۔ وریشہ کی عیدی میں سستا سا لان کا سوٹ ، چوڑیاں، مہندی، سوٹ اور مٹھائی کا ڈبہ تھا۔ وہ اسٹیٹس لگانے کی خواہش ، سہیلیوں میں گردن اکڑا کر چلنے کا خواب ، ابرش کو نیچا دکھانے کی آرزو خاک میں مل گئی۔ ابرش اس کی کلاس فیلو تھی ، جو پوری کلاس میں اپنی امارت کا رعب جھاڑتی تھی ۔ کہاں وہ اور کہاں میں۔ اس کی عیدی اس کے بیڈ پر پڑی ا س کا منہ چڑا رہی تھی اور وہ دکھ و اذیت کی کیفیت میں تھی۔ تب ہی موبائل پر میسج کی بیپ سے اس نے مرے دل سے اپنا فون اٹھایا۔ اس کی سہیلی عریشہ کا واٹس ایپ پیغام تھا۔ عریشہ بڑے جذباتی انداز میں بتا رہی تھی۔ کچھ سنا ابرش کی منگنی ٹوٹ گئی۔ بقر عید پر اس کی شادی ہوئی تھی یار بڑے ہی کوئی گھٹیا قسم کے لوگ تھے پہلے تو جہیز کی لمبی لسٹ پکڑا دی اور پھر گاڑی کی فرمائش میں تو کہتی ہوں کہ عریشہ ہولے جارہی تھی اور وریشہ کی آنکھیں جھلمل کر رہی تھی۔ جو رشتے دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جائیں وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ عمر کی امی کی بات بازگشت بن کر گونج رہی تھی ۔ اس نے لپک کر اپنی عیدی کا جوڑا اٹھایا اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا۔ میری عیدی تو سب سے بیسٹ ہے۔ وہ مسکرا دی تھی۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 229 | https://www.urduzone.net/zamane-ka-dastoor/ | منورہ میری خالہ کی بہو تھیں۔ وہ بہت نیک اور اچھے اخلاق کی تھیں۔ ان کے شوہر کا نام انور تھا۔ وہ اور اجمل بچپن کے دوست تھے۔ ایک کالج سے تعلیم مکمل کی۔ کچھ عرصہ مختلف جگہ کام کرنے کے بعد بالآخران کو سعودی عربیہ کی ایک مشہور کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ ان کی دوستی مثالی تھی۔ ہر جگہ ساتھ رہے۔ گھر کرائے کے تھے، مگر قریب قریب تھے۔ انہوں نے دیار غیر جا کر خوب کمایا۔ اتنا سرمایہ جمع کر لیا کہ ذاتی گھر خریدنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ پاکستان آئے تو ایک پرانی کوٹھی پسند آگئی جو اگلے وقتوں کی مگر مضبوط اور اچھی حالت میں تھی۔ یہ ایک پوش علاقہ تھا۔ یہاں ہر طرح کی سہولتیں میسر تھیں، تاہم مذکورہ رہائش گاہ کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ تبھی انور بھائی اور ان کے دوست اجمل نے یہ فیصلہ کیا کہ آدھی آدھی رقم ملا کر کو بھی خرید لیتے ہیں۔ فی الحال ساتھ رہیں گے۔ جب بٹوارہ کرنا ہو گا تو کوئی پوری کوٹھی لے لے گا یا پھر درمیان سے دیوار اٹھا کر مکان کو آدھا آدھا کر لیں گے۔ کوٹھی وسیع تھی اور دونوں کی فیملی مختصر تھی۔ انور بھائی کی بیوی، بوڑھی ماں اور ایک بیٹا تھا، جبکہ اجمل کی سرے سے کوئی اولاد ہی نہ تھی۔ دونوں مرد ملازمت کی وجہ سے سعودی عربیہ رہتے تھے ، ایسے میں ان کی فیملیز کا ایک ساتھ رہنا ہی بہتر تھا۔ غرض کوٹھی خرید لی گئی۔ میری بھابی منورہ، خالہ جان کے ہمراہ اجمل کی بیوی اور والدہ اس کوٹھی میں شفٹ ہو گئے۔اپنے اہل خانہ کو نئے گھر میں منتقل کرنے کے بعد انور اور اجمل واپس سعودی عربیہ چلے گئے۔ ان دنوں انور بھائی کا بیٹا کاشف بارہ سال کا تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تبھی سے اجمل کی بیگم صائمہ نے اسے گود لے لیا تھا۔ وہ اس بچے سے بہت پیار کرتی تھیں اور یہ بھی ان سے بہت مانوس تھا۔ اسکول سے آتے ہی ان کے گھر چلا جاتا۔ ممتا کی پیاسی صائمہ بھی کاشف کا انتظار کرتی رہتی۔ ٹھنڈے شربت اور اکثر کھانے سے تواضع کرتی۔ دیر تک اس کے پاس رہتی۔ کبھی منورہ بھابی نے برا نہ منایا کہ یہ ممتا کی محرومی ہے۔ وہ صائمہ کا دل سے احترام کرتی تھیں۔ صائمہ بھابی، کاشف کو خوش دیکھنے کے لئے اس کے لئے مہنگے کھلونے لاتیں، اچھے اور قیمتی کپڑے بنواتیں۔ جو فرمائش کرتا، اسی وقت پورا کرتی تھیں ۔ اللہ نے ان کی سنی کہ رہنے کو ایک ہی گھر دے دیا۔ اب یہ بچہ ہمہ وقت ان کی نظروں کے سامنے تھا اور وہ اس کو اپنے گھر کی رونق سمجھتی تھیں۔ جس روز کاشف پیدا ہوا، اسی دن سے وہ اس کو اٹھاتی اور کھلاتی آئی تھیں لیکن صائمہ کی ساس اور نند کو ہرگزان کی یہ ادا نہیں بھاتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ عورت بجائے روپیہ بچانے کے ہمارے بھائی کی خون پسینے کی کمائی کس طرح غیرکی اولاد پر لٹاتی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ اپنے غریب رشتے داروں کی مدد کر دیا کرے کہ وہ حق دار تو تھے۔ انسان کو جس کام سے خوشی اور سکھ محسوس ہوتا ہے ، وہی کرتا ہے۔ بھابی صائمہ بھی ساس، نند کی ان باتوں پر کان نہ دھرتیں۔ صائمہ کی نند شادی شدہ تھی اور اس کے چار بچے تھے۔ شوہر کی تنخواہ معمولی تھی اور اس کا مسئلہ یہ تھا کہ چاہتی تھی صائمہ بجائے کاشف کی فرمائشیں پوری کرنے کے اس کے بچوں پر خرچ کیا کرے، جبکہ نند بھاوج کی بنتی نہ تھی۔ ساس آئے دن بیٹی کو بلاتی اور صائمہ کو نند کے اعتراض کھلتے، تبھی وہ اس کو منہ نہ لگاتی ۔ ساری الجھن یہی تھی۔ جہاں تک کاشف کا مسئلہ تھا، صائمہ کہتی۔ یہ گھر کا بچہ ہے، ایک دن کا تھا تبھی سے گود میں اٹھایا۔ اپنی اولاد جیسا پیارا لگتا ہے۔ ساس، نند خواہ مخواہ اس معصوم سے جلتی ہیں۔ منورہ بھابی اور صائمہ کی بہت بنتی تھی۔ دونوں کوٹھی میں سکون سے رہ رہی تھیں۔ ان کی محبت کی وجہ سے گھر کا ماحول پرسکون تھا۔ میری شادی ہو چکی تھی۔ کبھی کبھار ہی بھابی کے یہاں جانا ہوتا۔ میں زیادہ تر اپنے بچوں میں مصروف رہتی۔ والدہ آجاتیں تو بتاتیں کہ منورہ اور صائمہ آپس میں محبت سے رہ رہی ہیں۔ اللہ جانے صائمہ کی ساس کیوں دشمن بنی ہوئی ہے۔ کسی دن یہ دونوں گھرانوں میں جدائی ڈال کر رہے گی۔ میں امی سے کہتی کہ اس بڑھیا کے جلنے سے کیا ہوتا ہے ، جبکہ انور بھائی اور اجمل بھائی کی دوستی بچپن کی ہے۔ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے، اکیلی عور تیں رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے سوچ سمجھ کر انہوں نے مشترکہ گھر خریدا تھا، تاکہ ان کی خواتین اکیلی نہ رہیں۔ وقت گزرتا رہا۔ چھٹی پر دونوں حضرات وطن آتے اور کچھ دن رہ کر واپس لوٹ جاتے۔ یوں سات سال پلک جھپکتے گزر گئے، وقت گزرنے کا پتا بھی نہ چلا۔ کاشف اب ماشا اللہ انیس برس کا نوجوان ہو گیا تھا۔ اس بار جب بھائی آئے تو بھابی نے کاشف کی شادی کا تذکرہ چھیڑا۔ انہوں نے اپنی ایک دور پرے کی رشتے دار کی بیٹی پسند کر لی تھی، کیونکہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ چاہتی تھیں کہ جلد از جلد بہو کو گھر لے آئیں۔ بھائی نے بھی بیوی کی رضا پر ہاں کہی اور کاشف کی منگنی لائبہ سے کر کے واپس سعودی عربیہ چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ پیسے اور کمالوں تا کہ اکلوتے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کر سکوں۔ خدا کی کرنی کہ زندگی نے مہلت نہ دی اور بھابی منورہ، کاشف کی شادی کی خوشی نہ دیکھ سکیں۔ ایک روز اچانک ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بھابی کی وفات کا سبھی کو دکھ تھا۔ یہ اللہ کی مرضی تھی، سب بے بس تھے۔ منورہ بھابی کا چالیسواں گزار کر بھائی واپس لوٹ گئے۔ بوڑھی ماں اور نو عمر بیٹے کی دیکھ بھال اور کھانے کی ذمہ داری بھابی صائمہ نے سنبھال لی کہ وہی اب گھر کی سر براہ تھیں۔ کھانا ایک جگہ پکنے لگا۔ وقت مقررہ پر خالہ جان اور کاشف کو بھابی صائمہ کھانا دے دیتیں۔ ملازمہ کی بھی نگرانی کرتیں جو صفائی کرنے اور برتن دھونے آتی تھی۔ اپنی والدہ اور بیٹے کا خرچ انور بھائی اجمل کو دے دیا کرتے تھے۔ ایک سال بعد بھائی انور نے بیٹے کی شادی کر دی اور بہو گھر لے آئے تاکہ ان کی والدہ کو کوئی سنبھالنے والا ہو۔ بیوی نہ رہی تو گھر میں دل نہ لگا، نیا معاہدہ کر لیا اور سعودی عربیہ لوٹ گئے ۔ اجمل ابھی تک وہاں تھے۔ گھر میں بہو آ گئی مگر وہ کمسن تھی، بمشکل پندرہ سولہ برس کی ، اس کو دنیا کی سمجھ نہ تھی۔ کچھ خالہ بتاتیں اور کچھ صائمہ رہنمائی کرتی تاکہ وہ کھانا پکانا اور صحیح طریقے سے امور خانہ داری سیکھ لے۔ کاشف بھی کم عمر تھا، زمانے کی اونچ نیچ کو نہیں سمجھتا تھا۔ جو بات صائمہ کہتی، وہ مانتا۔ لائبہ کی بات پر زیادہ توجہ نہ دیتا۔ جس پر وہ برا مانتی۔ خالہ نے لائبہ کو افسردہ دیکھ کر کئی بار پوتے کو سمجھایا کہ بیٹا تم اپنی دلہن کا خیال کیا کرو۔ جیسا وہ کہے ، ویسا کیا کرو لیکن کاشف نے دادی کی بات پر کان نہ دھرے۔ اس پر لائبہ نے جھگڑا بھی کیا لیکن ہر بار کاشف نے یہی جواب دیا کہ تائی صائمہ ماں جیسی ہیں۔ میری ماں جا چکی ہیں ، اب یہی تمہاری ساس ہیں۔ انہوں نے شروع دن سے میرا خیال رکھا ہے، اب بھی رکھتی ہیں۔ جیسا یہ کہتی ہیں، ویسا ہی کرو۔ وہ ان کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا تھا۔ صائمہ کی ساس نے دیکھا کہ بہو پہلے کاشف پر پیسہ لٹاتی تھی۔ اب اس کی بیوی پر بھی خرچ کرتی ہے۔ لڑکی نادان، پھر بھی منہ بسورے رکھتی ہے۔ اس نے صائمہ کو کہا۔ جب یہ لڑکی تیری چودھراہٹ کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں تو خواہ مخواہ کیوں ان کے گھر میں دخل اندازی کرتی ہو بلا سے کھانا بنائے یا نہ بنائے، سالن جلا دے یا کروا کر ڈالے ہمارا کیا ہے ، یہ جانیں ان کا کام ان کے معاملات میں پڑنا چھوڑ دو، ان کو ان کی زندگی گزارنے دو۔ ساس تو ازل کی دشمن تھی۔ صائمہ نے ان کی تنبیہات کو درخوراعتنا نہ جانا۔ بحث کی کہ کاشف میرے لئے بیٹے جیسا ہے اور لائبہ اسی ناتے میری بہو ہے۔ میں اسے نہیں سمجھائوں گی، تو کون سمجھائے گا وہ کاہلی سے کام لیتی ہے ، تب کیا خالہ جی اس بڑھاپے میں بھوکی پڑی رہیں گی۔ نئی شادی شدہ لڑکیوں کو سمجھانا ہی پڑتا ہے۔ وقت پر کھانا نہ بنائے گی، سارا دن مسہری توڑے گی تب کوئی تو کہے گا خالہ جی کی وہ سنتی نہیں ہے۔ اب اگر سدھرنے سے گریز کیا تو بے شک میکے چلی جائے۔ میں کاشف اور خالہ جی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔ صائمہ نے یوں ہی بات کی تھی۔ وہ کب چاہتی تھی کہ لائبہ سچ مچ میکے جائے، مگر صائمہ کی ساس نے اس بات کو خوب ہوا دی اور بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ یہاں تک کہ بات لائبہ کے میکے تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرائی عورت ہماری بیٹی کی نجی زندگی میں اس قدر دخیل کیوں ہے ایک گھر میں ایک ساتھ رہنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہماری بچی کی زندگی اجیرن کردے۔ دادی دونوں کو خوش و خرم دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ کبھی پوتے کو سمجھاتی اور کبھی لائبہ کو کہتی کہ تم محسوس نہ کیا کرو۔ صائمہ نے شروع دن سے کاشف کو ماں جیسا پیار دیا ہے، اسی لئے زیادہ خیال رکھتی ہے اور کا شف بھی احتراماً اس کی ہر بات مانتا ہے۔ کاشف کی یہ عادت تھی کہ وہ آفس سے آنے کے بعد سیدھا صائمہ کے کمرے میں چلا جاتا، کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا، پھر کھانے کی ٹرے پکڑ کر اپنے کمرے میں آجاتا۔ یہ طریقہ اس نے شادی کے بعد بھی جاری رکھا۔اس کے والد اجمل ، تایا کے ساتھ وطن سے باہر تھے۔ اس گھر کے تمام کام اسی کے ذمے تھے۔ وہ صائمہ کے بھی کام کرتا تھا۔ اس معمول پر لائبہ کو اعتراض رہنے لگا۔ وہ نو عمر لڑکی تھی، شاید اس کو بھی اس گھر میں پیار کی ضرورت تھی۔ جب صائمہ اس کو سمجھاتی بیٹی وقت پر شوہر کے کپڑے تیار کر کے رکھو ، استری کردو، اس کے کمرے کی صفائی کرو تو اس کو محسوس ہوتا کہ جو عورت اس کی ساس نہیں بلکہ کچھ بھی نہیں، وہ کیوں اس کو اس کے فرائض یاد دلاتی ہے۔ اس کی حیثیت اس گھر میں کسی نوکرانی سے زیادہ نہیں ہے۔ صائمہ کی ساس لائبہ کے ان احساسات سے واقف ہو گئی۔ وہ اب اس کے کان بھرنے لگی۔ بیٹی اپنے شوہر کو قابو میں رکھو ایسا نہ ہو کہ صائمہ اس کی دوسری شادی کرا دے اور اپنی کوئی قریبی رشتے دار لڑکی لے آئے، تب تم ہاتھ ملتی رہ جائو گی۔ آخر وہ کیوں تمہاری پروا نہیں کرتا، ہر بات اس کی مانتا ہے۔ کاشف کو تمہاری پروا کر نی چاہئے۔ اس طرح کی باتیں کر کے صائمہ کی ساس نے لائبہ کے دل و ذہن کو خراب کر دیا۔ وہ خالہ جی کو بھی سمجھاتی کہ تم بچی نہیں ہو ، کیوں اپنے پوتے کو نہیں سمجھاتیں کہ لائبہ نئی دلہن ہے ، اس کی دل جوئی کرے مگر وہ صائمہ کے کمرے میں بیٹھا رہتا ہے اور وہ بیچاری انتظار کر کے سو جاتی ہے۔ خالہ جی جواب دیتیں۔ بڑی آپا تم بوڑھی ہو کر سچ مچ سنکی ہو گئی ہو۔ بجائے بڑوں کا ادب سکھانے کے میرے پوتے اور اس کی دلہن کو بدتمیز اور بےادب بنانے پر تلی ہو۔ ایسا بھی کیا حسد شروع دن سے ہم ایک گھر میں رہے ہیں۔ آج اگر میری بہو منورہ زندہ ہوتی تو کیا وہ کاشف کو تائی کے پاس جانے سے روکتی تم بجائے مثبت سوچوں کے منفی کردار ادا کر رہی ہو۔ انہی دنوں عید آگئی۔ عید سے ایک روز پہلے صائمہ کی بہن اور بھانجی ان سے ملنے اور عید مبارک پیشگی کہنے آئیں۔ اس وقت کاشف گھر پر تھا۔ صائمہ نے اسے جلدی سے کچھ چیزیں لینے بھیجا۔ جب وہ کھانے پینے کی اشیا لے کر آیا تو کہا۔ بیٹا مجھے کچھ اور بھی منگوانا ہے۔ کل عید ہے مجھے خبر نہ تھی کہ آپا اور شگفتہ آج آنے والے ہیں۔ میں نے ان کے لئے عید کا سامان تو لیا نہیں ۔ ایسا کرو کہ جب تک یہ کھانا کھاتی ہیں ، ان کے لئے بازار سے یہ سامان لے آئو۔ یہ کہہ کر فہرست کاشف کے ہاتھ میں تھمادی۔ اس میں شگفتہ کے لئے چوڑیاں اور کون مہندی، اپنی بہن کے لئے ایک کڑھائی والی سفید رنگ کی چادر کی فرمائش کی تھی، جس کے لئے انہوں نے دکاندار کو فون بھی کر دیا تھا۔ جب یہ سامان لے کر کاشف گھر لوٹا تو لائبہ دادی کے کہنے پر شگفتہ اور اس کی ماں سے ملنے ان کے کمرے میں چلی گئی۔ اس وقت وہ صائمہ کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ لائبہ نے جلدی جلدی شاپر کھولا اور منگوائی ہوئی اشیا دیکھیں۔ اس کا منہ اتر گیا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ بند کر کے رونے لگی۔ خالہ اور کاشف آگئے۔ در بند پا کر دوسرے دروازے سے کمرے میں گئے اور رونے کی وجہ پوچھی۔ وہ بولی کہ تم صائمہ کی بھانجی کے لئے عید کے تحفے کیوں لائے ہو جبکہ میرے لئے کچھ نہیں لائے۔ صائمہ تائی نے فی الفور بھیج دیا اسی لئے چلا گیا۔ تم کو شام کو بازار لے جا کر شاپنگ کرادوں گا۔ یہ جھوٹ ہے، تم جھوٹ بول رہے ہو۔ صائمہ کی ساس صحیح کہتی ہیں کہ وہ اپنی بھانجی کے لئے تمہیں گھیر رہی ہے۔ بس جو اول فول منہ میں آیا، لائبہ بکنے لگی۔ تبھی کاشف کو غصہ آگیا۔ بولا ۔ قسم کھاتا ہوں شگفتہ میری بہن جیسی ہے، کبھی بھی اس بارے میں سوچا تک نہیں، پھر وہ مجھ سے بڑی ہے۔ نجانے ایسی فضول باتیں تمہارے ذہن میں کیوں آتی ہیں۔ تم ان کے پاس رہو ، تم کو میری ضرورت نہیں ہے تو میں میکے چلی جاتی ہوں۔ ٹھیک ہے پھر تم چلی جائو میکے ، میں نے کب تم کو روکا ہے۔ تمہاری یہی مرضی ہے تو پھر یہی سہی۔ یہ کہہ کر وہ غصے میں کمرے سے باہر نکلا۔ صحن تک آیا ہی تھا کہ صائمہ نے آواز دی۔ کاشف بیٹے ان کو ان کے گھر تک ڈراپ کر دو۔ ڈرائیور عید کی چھٹی پر چلا گیا ہے۔ کاشف نے صائمہ کو کچھ بتانا ضروری نہ جانا کہ کہیں مہمانوں کے سامنے اس کی سبکی نہ ہو جائے۔ اس نے کہا۔ جی امی اور پھر اپنی گاڑی نکال کر وہ شگفتہ اور اس کی والدہ کو ان کے گھر پہنچانے چلا گیا۔ کاشف چاہتا تھا اس سے پہلے کہ لائبہ مزید جھگڑا بڑھادے اور صائمہ کے مہمانوں کے کانوں میں کوئی ایسی بات پڑ جائے جس سے صائمہ کی بے عزتی یا مہمانوں کو اہانت محسوس ہو تو وہ ان کو یہاں سے فورا لے جائے۔ جب وہ دونوں خواتین کو گھر پہنچا کر لوٹا تو لائبہ گھر میں موجود نہیں تھی۔ دادی نے بہت روکا لیکن وہ نہ رکی اور رکشہ منگوا کر میکے چلی گئی۔ اس نے صائمہ کو بھی ایسی بے نقط سنائیں کہ وہ دنگ رہ گئی۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ لائبہ کے میکے والوں نے بات اتنی بڑھائی کہ بالآخر انور اور اجمل کو سعودی عربیہ سے لوٹنا پڑا۔ آخر کار صائمہ کی ساس کی مراد بر آئی کوٹھی اجمل نے خرید لی اور آدھی کوٹھی کی قیمت ادا کر کے وہ انور کی فیملی سے علیحدہ ہو گئے۔ انور بھائی نے دوسرا گھر خرید لیا جو کافی دور تھا۔ اب کاشف سے صائمہ کو بھی دور ہو جانا پڑا، جس کو بیٹا سمجھ کر چاہا اور پالا ، اب اس پر کوئی حق باقی نہ رہ گیا تھا۔ اس بات کا تائی صائمہ کو بہت دکھ تھا مگر یہ دکھ سہنا ہی تھا کیونکہ کاشف ان کا منہ بولا بیٹا تھا۔ یہاں تو شادی کے بعد سگے بیٹے بھی اپنے حقیقی والدین کو چھوڑ جاتے ہیں یا پھر ان سے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ بیوی چیز ہی ایسی ہے۔ کبھی ساسوں کو زبردست اور برا خیال کیا جاتا ہے اور کبھی بہو کا وار چل جاتا ہے تو ساس بیچاری منہ تکتی رہ جاتی ہے۔ شاید زمانے کا دستور یہی ہے۔ | null |
null | null | null | 230 | https://www.urduzone.net/dolat-bani-dushman/ | کہتے ہیں، جہاں دولت کا سکھ ہوتا ہے ، وہاں اولاد کی طرف سے ضرور دکھ ملتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے والدین کے ساتھ ہوا میری ماں بہت خوبصورت تھیں مگر بے حد غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ڈیڈی نے غربت پر حسن کو ترجیح دی اور امی سے شادی کر لی۔ مما اور ڈیڈی کی آپس میں محبت تھی۔ وہ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ جب میں بڑی ہوئی تو مما کی خوشیوں کو نظر لگ گئی اور میں نے ڈھیر سارے دکھ ان کی جھولی میں ڈال دیئے۔ یہ سب میری ناسمجھی کے باعث ہوا، ورنہ میں آج اتنی دکھی اور برباد نہ ہوتی ۔ ہمارے گھر کے سامنے والے گھر میں نئے لوگ آکر آباد ہوئے تھے، انہوں نے یہ بنگلہ خرید لیا تھا جو عرصے سے برائے فروخت تھا۔ کبھی کبھی ان سے ہماری ملاقات ہو جاتی تھی۔ جب جان پہچان بڑھی تو میں ان کے گھر بھی جانے لگی کیونکہ رابیل کی امی مجھ سے بہت پیار کے ساتھ ملتی تھیں۔ کسی دن رابیل گھر پر ہوتا، اس سے بھی بات چیت ہو جاتی۔ رابیل آنٹی کا خوبصورت بیٹا بہت خوش گفتار تھا۔ زیادہ تر ہماری ملاقات گیٹ کے قریب ہونے لگی تھی، کیونکہ میں روز ٹہلنے کے لئے قریبی پارک جاتی ، اس وقت وہ بھی اپنے گھر سے چہل قدمی کے لئے نکل رہا ہوتا۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور خدا حافظ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔ سب جانتے ہیں کہ زیادہ تر اپر کلاس گھرانوں میں تکلیف نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بیرون ملک آنے جانے کی وجہ سے ان کا طرز زندگی بھی عام لوگوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ کسی سے ملنے پر پابندی نہیں ہوتی۔ بیرون ملک آنے جانے کی وجہ سے ان کا طرز زندگی بھی عام لوگوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ کسی سے ملنے پر پابندی نہیں ہوتی۔ میں چاہتی تو رابیل کو اپنے گھر مدعو کر سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہ کیا، کیونکہ ابھی تک میرے ذہن نے اس کو بطور دوست قبول نہیں کیا تھا۔ اکثر تو میں اس کو نظر انداز کرنا چاہتی لیکن سامنا ہو جاتا تو ہیلو ہائے کرنا پڑتی۔ کچھ دنوں بعد جانے کیا ہوا کہ جب تنہائی میں بیٹھتی تو اس کا خیال تنگ کرنے لگتا۔ میں اس کے خیال کو جھٹک دینا چاہتی تھی مگر ایسا نہ کر سکی۔ وہ نظر نہ آتا تو پریشان ہو جاتی ۔ عجیب مصیبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ ابھی تک میرے ذہن کی سلیٹ صاف تھی ۔ اس پر کسی کا نام نہیں درج تھا۔ اب میں سمجھی کہ کسی کو چاہنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ سچ کہتے ہیں، اس جذبے پر کسی کا اختیار نہیں۔ محبت تو خود بخود گلے کا ہار ہوئی جاتی تھی۔ یہ کیسا جذبہ ہوتا ہے آدمی نہ بھی چاہے خیالات پیچھا نہیں چھوڑتے۔ یہ شاید عمر کا تقاضا تھا یا میرا ذہن اس قدر کیا تھا۔ رابیل کا خیال میرے وجود پر چھاتا گیا اور میں بے بس ہوگئی ۔ اب وہ سامنے ہوتا تو میرا چہرہ سرخ ہو جاتا اور دل پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ۔ وہ نہ ملتا تو بے چینی بڑھ جاتی۔ کبھی وہ بات کر رہا ہوتا اور میں گم صم ہو جاتی تبھی بات جلدی ختم کر کے واپس لوٹنے کی کوشش کرتی ۔ ان حرکتوں سے وہ میری دلی کیفیت کا انداز ہ لگا چکا تھا۔ ہماری گفتگو اکثر پارک میں چہل قدمی کے دوران ہوتی تھی۔ ڈیڈی میری حالت کو نوٹ کر رہے تھے۔ میں پہلے کی طرح ہنستی بولتی نہ تھی ۔ میرے اندر اب وہ زندہ دلی نہ رہی تھی جو میری طبیعت کا خاصہ تھی۔ ایک دن ڈیڈی بولے۔ میں دیکھ رہا ہوں تم بہت دنوں سے چپ چپ ہو۔ جاؤ، شاپنگ کر آؤ ۔ انہوں نے مجھے کافی رقم دی لیکن میں شاپنگ پر نہ گئی۔ ڈیڈی نے پوچھا تم نے شاپنگ نہیں کی کیسے جاتی ڈیڈی ، گاڑی تو بھائی لے گئے تھے ۔ آپ کی گاڑی آپ کے پاس ہوتی ہے اور ممی کی گاڑی میں نہیں چلا سکتی ۔ اب میں اس وقت کہیں جاؤں گی، جب آپ مجھے علیحدہ گاڑی لے دیں گے۔ والد صاحب نے اگلے روز علیحدہ گاڑی خرید کر مجھ کو گفٹ کر دی۔ اب میں صاحب کارتھی ۔ جب چاہے، جہاں چاہے جاسکتی تھی۔ اسی روز کار نکال کر ایک کیفے میں پہنچ گئی۔ وہاں اکیلی بیٹھی چائے پی رہی تھی ۔ آج میں بہت خوش تھی ۔ اس خوشی میں مگن تھی کہ رابیل وہاں آ گیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس نے میرا تعاقب کیا تھا۔ اس دن ہم نے بہت سی باتیں کیں۔ میں نے اس سے اظہار محبت کر دیا۔ اس نے بھی وعدہ کیا کہ اس رشتے کو نباہے گا جو ہمارے دلوں کے درمیان جڑ چکا تھا ، تبھی نئی گاڑی پر ہم نے خوب سیر کی ۔ وہ بار بار یہی الفاظ کہتا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہے، تمہارے والد کی دولت سے غرض نہیں ۔ مجھے تم آزما لینا ۔ اب یہ ہمارا معمول ہو گیا روز شام کو اکٹھے گھومنے پھرنے نکل جاتے ۔ ایک روز رابیل نے کہا۔ چلو ہاکس بے چلتے ہیں۔ میں نے بتایا وہاں ہمارا ہٹ بھی ہے ۔ تب تو سارا دن وہاں گزاریں گے، بڑا مزہ آئے گا۔ اگلی صبح ہی کچھ سامان لے کر ہم دونوں ہاکس بے چلے گئے۔ دوپہر تک بہت اچھا وقت گزرا۔ خوب انجوائے کیا، لہروں سے اٹکھیلیاں ہوئیں ، دوپہر کے بعد ہم تھک کر ہٹ میں آکر بیٹھ گئے۔ میں میوزک سننے لگی اور وہ مشروب پینے وہ لگا جو اپنے بیگ میں ساتھ لایا تھا۔ جب میری نظر اس کی بوتل پر پڑی تو کہا۔ رابیل یہ کیا کر رہے ہو یہاں مت پیو۔ تم کو زیادہ نشہ چڑھ گیا تو میں کیا کروں گی یوں بھی یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ میں جانتا ہو سونی لیکن کبھی کبھی ریلیکس ہونے کے لئے پینا اچھا رہتا ہے۔ اتنا خوبصورت موسم ، یہ فضا یہ ہوا، پھر کہاں ملے گی تم ساتھ ہو تو سیر کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ کیا میرا ساتھ کافی نہیں ہے جو اسے پینے کی ضرورت پڑگئی ہے۔ وہ پیگ ختم کر چکا تھا، میں نے بوتل اس کے سامنے سے ہٹالی اور دوبارہ کہا۔ کیا میرا ساتھ کافی نہیں تھا دل کی خوشی کے لئے ، اب بھی جھوٹے نشے کی ضرورت ہے اچھا تم کہتی ہو تو اور نہیں پیوں گا ۔ وہ بولا ۔ ہم نے کھانا کھایا اور ذرا ستانے کو دراز ہو گئے ۔ یہ ایسا دن تھا جب خوبصورت عمر تھی، امنگیں تھیں ، خواب تھے، تنہائی تھی اور دلربا محبت بھی تھی۔ ایسے میں کسی غلطی کا امکان غالب تھا۔ محبت کی پاک دامنی کو جذبات کی جھلستی آگ سے نہ بچا سکتے تھے۔ اس روز میں اس ظالم آگ کی لپیٹوں سے اپنا دامن جلا بیٹھی ۔ ہوش آیا تو پاکیزہ محبت کا تاج محل جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ میں افسردہ بیٹھی تھی اور وہ معافی طلب کر رہا تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا اور بہت جلد۔ ایک ہفتے تک میں اس سے نہ ملی اور نہ سامنا کیا۔ تبھی اس نے اپنے والدین کو رشتے کے لئے ہمارے گھر بھیج دیا۔ ممی نے آؤ بھگت کی مگر وہ ہمارے لگاؤ سے واقف نہ تھیں۔ یہی سمجھ رہی تھیں کہ یہ لوگ پڑوسی ہونے کے ناتے آتے ہیں۔ جب آئٹی نے رابیل کے ساتھ میرے رشتہ کی بات چھیڑی تو میرے والدین نے برا منایا کیونکہ یہ لوگ مال و دولت میں ہم سے کمتر تھے۔ ان سے صاف کہہ دیا کہ ہمارا آپ کا جوڑ نہیں ہے۔ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ ہم پلہ خاندان میں کریں گے۔ رابیل کے والدین بڑی توقع کے ساتھ آئے تھے، یہ توہین گوارہ نہ کر سکے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا۔ بے شک آپ کو ہم سے رشتہ کرنے میں قباحت ہو رہی ہے، مگر آپ کی لڑکی کو تو یہ رشتہ منظور ہے۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ۔ یہ بات انہوں نے اس قدر چھبتے لہجے میں کہی کہ ڈیڈی نے اسے اپنی بے عزتی خیال کیا اور رابیل کے والدین کو کھری کھری سنا دیں کہ تم لوگ پہلے خود کو ہمارے لائق تو بنا لو۔ پھربات کرنا۔ پڑوسی ہونے کی وجہ سے برداشت کر لیا ہے، ورنہ منہ توڑ جواب دیتا۔ وہ لوگ خجل ہو، اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔ رابیل نے مجھے فون کیا۔ کہنے لگا۔ دیکھو سونی اگر تم نے مجھ سے شادی نہ کی ، تو تم برباد رہوگی اور میں بھی۔ میں تم سے سچی محبت کرتا ہوں ورنہ اپنے والدین کو تمہارے گھر کیوں بھیجتا میں ان دنوں جذباتی ہو رہی تھی۔ ماں باپ سے خوب جھگڑا کیا اور خود کشی کی دھمکی دے دی۔ آخر ڈیڈی کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ میں ان کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ انہوں نے کبھی میری کسی خواہش کو رد نہ کیا تھا۔ انہوں نے رابیل کے والدین کو فون کیا اور معذرت خواہ ہو کر کہا کہ مجھے بچوں کے انٹرسٹ کا علم نہ تھا، میں رشتہ دینے کو تیار ہوں۔ یوں جلد ہی ہماری شادی ہوگئی ، مگر میرے والد نے سادگی سے مجھے رخصت کیا کیونکہ وہ رابیل کی فیملی کو اپنے اسٹیٹس سے نیچا جانتے تھے اور اسی بات کا ان کو دکھ تھا کہ یہ ہمارے جیسے دولت مند نہیں ہیں محض کھاتے پیتے لوگ ہیں ۔ انہوں نے میری شادی میں اپنے حلقہ احباب اور رشتہ داروں کو بھی نہیں بلایا۔ میں رخصت ہو کر رابیل کے گھر آگئی ۔ مجھے کسی بات کی پروانہ تھی ، بس اپنی محبت کو پا کر بہت خوش تھی ۔ شادی کے بارے لڑکیاں کیسے کیسے سہانے خواب دیکھتی ہیں اور جب شادی محبت کی ہو تو عورت پیا گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی گھر کو جنت کا نمونہ بنانے کے بارے سوچنے لگتی ہے۔ چھ دن میں کائنات بنی تھی، میری شادی بھی چھ دنوں کے اندر اندر ہوگئی ، مگر خوشیوں کی یہ بیل ساتویں دن لٹ گئی۔ رابیل نے تبھی مطالبہ کر دیا کہ میں اپنے والد سے پانچ لاکھ روپے لے کر آؤ تا کہ ہم نئی خوشیوں بھری زندگی شروع کر سکیں۔ ان دنوں پانچ لاکھ بڑی رقم ہوتی تھی۔ رابیل بار بار اصرار کرنے لگے تو مجبوراً آنسوؤں کی گھٹن میں، میں نے والدین سے رقم مانگی لیکن یہ نہ بتایا کہ رابیل کے مطالبے پر مانگ رہی ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں سیر کے لیئے ملک سے باہر جانا چاہتی ہوں۔ رابیل کے پاس اتنی رقم نہیں کہ مجھے سیر کو لے جاسکیں۔ ڈیڈی سمجھ گئے کہ میں ہنی مون کی خوشی دامن میں بھرنا چاہ رہی ہوں کہ یہی زندگی کیے یادگار دن ہوتے ہیں، تاہم ان دنوں بے شک یہ رقم زیادہ تھی ، وہ کچھ سوچ کرخاموش ہو گئے۔ بہر حال میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی ، میری خوشی ان کو ہر حال میں عزیز تھی ۔ یہ رقم ان کے نزدیک میری خوشی کے مقابلے بہت معمولی تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ رقم لینے کے بعد رابیل کا دل موم ہو جائے گا اور میں اس کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی گزار سکوں گی مگر یہ میری خام خیالی تھی کیونکہ اس رقم سے رابیل نے اپنے چھوٹے بھائی کو پڑھنے کے لئے امریکہ بھجوادیا اور اس کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کرنے لگا۔ بھلا اتنی رقم میں دوبارہ اپنے ڈیڈی سے کیونکر مانگ سکتی تھی۔ جب میں نے انکار کیا تو اس نے ایک چال اور چلی ۔ وہ مجھے اپنے دادا دادی سے ملانے کے لئے اپنے گاؤں لے گیا اور کہا کچھ دن میرے بزرگوں کے پاس رہ لو۔ میں جلد آ کر لے جاؤں گا۔ وہ سیدھے سادے شفیق لوگ تھے۔ میں رابیل کی بات مان لی ۔ وہ مجھے اپنے لوگوں کے پاس چھوڑ کر چلا گیا اور شہر جا کر ڈیڈی کو فون کیا کہ آپ کی بیٹی اغوا ہو گئی ہے۔ اگر ہم نے تاوان کی رقم نہ دی تو وہ لوگ اسے قتل کر دیں گے۔ والد اتنے بے وقوف نہ تھے۔ انہیں شک پڑ گیا کہ یہ ضرور رابیل ہی کی کوئی چال ہے۔ انہوں نے کہا۔ ٹھہرو پہلے مجھے پولیس کے پاس یہ معاملہ لے جانے دو۔ یہ سن کر رابیل ڈر گیا اور مایوس ہو کرکہیں روپوش ہو گیا۔ اب ڈیڈی پریشان تھے کیونکہ اس وقت اس کا روپوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی ۔ وہ پولیس کو اطلاع کرنا چاہتے تھے۔ میں نے چونکہ امی کے کان میں پہلے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ رابیل رقم کا مطالبہ کر رہا ہے لہٰذا انہوں نے ڈیڈی کو پولیس کی کارروائی سے روکا اور کہا کہ ممکن ہے اس طرح ہماری بیٹی کی سلامتی پر آنچ آجائے ۔ ہمیں رقم دے دینی چاہیے۔ اگر رابیل واقعی سچ کہہ رہا ہے تو یہ روپیہ کس کام کا، جبکہ اس کی خاطر ہماری بیٹی ہی جان سے چلی جائے۔ میں نے گاؤں سے امی کو فون کیا کہ آپ رقم دے دیں۔ میں محفوظ ہوں ، رابیل مجھے فون کرتا ہے۔ فی الحال اسے راضی کر لیں، پھر جب میں وہاں آجاؤں تو اس سے حساب کر لینا۔ ماں نے والد کو راضی کیا کہ بچی کو لوٹ آنے دو، بعد میں رابیل سے نمٹ لینا۔ والد صاحب نے رقم رابیل کی والدہ کو دے دی اور کہا کہ میرے بیٹی کو دو دن کے اندر اندر یہاں بلا لو، وہ جہاں بھی ہے ورنہ میں آپ لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کروں گا۔ میں اب بھی کارروائی کر سکتا ہوں مگر بیٹی کی خاطر مجبور ہوں ۔ مجھے رابیل نے گاؤں سے لا کر گھر چھوڑا اور خود رقم لے کر غائب ہو گیا۔ میں والدین کے گھر چلی گئی اور وہ میری محبت کے خواب اپنے دامن میں سمیٹ کر ملک سے چلا گیا۔ ڈیڈی قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے انہیں روک دیا کہ اب کیا حاصل تھا سوائے رسوائی کے۔ جب میری محبت، میرے خواب اور سہاگ ہی نہ رہا، تو قانون کی مدد سے بھی میرا دل بر باد خوشیوں سے دو چار نہیں ہو سکتا۔ ان کی اربوں کی عزت کورٹ کچہریوں میں اچھلتی۔ لوگ جو ان کو بہت معزز جانتے تھے، کیسی باتیں بناتے کہ سیٹھ نے کسی راہ چلتے لالچی اٹھائی گیرے کو اپنا داماد بنالیا ہے۔ میرے مجبور کرنے پر ڈیڈی خون کے گھونٹ پی کر چپ گئے۔ میرے ساس سسر بنگلہ بیچ کر ہمارے علاقے سے چلے گئے ۔ وہ خود بھی بیٹے کی اس حرکت پر سخت ناراض اور غمزدہ تھے۔ ڈیڈی ان کو ذلیل کرتے بھی تو کیا ملتا، سوائے لوگوں کی لعنت ملامت سہنے کے۔ انسان کو اپنی عزت کی خاطر کیا کچھ نہیں سہنا پڑتا ۔ غلطی میری تھی۔ انہوں نے تو مجھے روکا تھا، پھر میری ضد کے آگے خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو گئے اور میں ہوں کہ اب تک خون کے آنسو بہا رہی ہوں۔ اگر اللہ نے ڈیڈی کو دولت دی تھی ، وہ مجھے اتنی آزادی نہ دیتے تو بھلا تھا۔ | null |
null | null | null | 231 | https://www.urduzone.net/yadon-kay-sahare/ | ابا جان معمولی ملازم تھے، تبھی ہمارے گھر مالی پریشانی رہتی تھی۔ ماں باپ کے پریشان رہنے سے ہم بچے بھی متاثرہوتے۔ آج آٹا نہیں تو کل گھی نہیں ہے تنخواہ تو بچوں کی فیسوں اور بلوں میں ختم ہوگئی، اب اگلے بیس دن کیا پکائیں گے کیا کھائیں گے۔ میرے بہن بھائیوں کو اسکول کی فیسیں وقت پرادا نہ ہوتیں تو ڈانٹ پڑتی۔ والدین کو ہمہ وقت فقر وفاقہ کا خوف گھیرے رہتا۔ کھانے پینے کے علاوہ پانچ بچوں کے تعلیمی اخراجات نے ابا جان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان دنوں ہم شیخوپورہ میں رہا کرتے تھے۔ ایک روز چچا ملنے آئے ۔ انہوں نے ہماری خستہ حالی دیکھی۔ میرے بہن بھائیوں کے یونیفارم پرانے اور چہرے مرجھائے ہوئے دیکھ کر والد صاحب سے پوچھا۔ بچوں کی چھٹیاں کب ہو رہی ہیں تین دن بعد ابا کی بجائے باجی نے جواب دیا۔ تم سب لوگ میرے ساتھ چلنے کی تیاری کرو۔ اس بار چھٹیاں ہمارے گھر منانا ، میں تم کو کوہ مری کی سیر کراؤں گا، آزاد کشمیر لے جاؤں گا۔ یاد رہے کہ ان دنوں گرمیوں کی چھٹیاں ڈھائی ماہ کی ہوا کرتی تھیں۔ میرے بہن بھائیوں نے خوشی خوشی تیاری کرلی اور کپڑوں کے ساتھ بستے بھی سامان میں رکھ لئے کہ چچا کے ہاں جا کر گرمیوں کی چھٹیوں کا کام بھی کر لیں گے۔ میں ساڑھے تین سال کی، ابھی نادان تھی۔ گھریلواور مالی حالات بارے اتنا پتا نہیں تھا، مگر میرے باقی بہن بھائی سیانے تھے۔ جب جہلم پہنچے تو چچا کا بڑا سا افسر شاہی گھر اور ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہاں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ روز مزیدار قسم قسم کے کھانے پکتے ۔ نوکر چاکر، گاڑیاں ، غرض دولت کی ریل پیل تھی۔ ایسے ٹھاٹ باٹ میرے بہن بھائیوں نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ چچا ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے گھر خوشحالی کا دور دورہ تھا لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود خود کو تہی دامن سمجھتے تھے اور چچی ناخوش رہتی تھیں کیونکہ ان کا دامن مراد اولاد کی خوشیوں سے خالی تھا۔ جب ہم چچی کی عالی شان کوٹھی پہنچے تو انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کی سونی کوٹھی ہم بچوں کی چہکاروں سے گونج اٹھی، تو مدت بعد ان کے گھر کا سکوت ٹوٹا۔ چچا چچی ، دونوں بہت خوش تھے۔ میں سب سے چھوٹی تھی ۔ وہ مجھ کو زیادہ پیار کرتے، کہتے۔ نوشی تو ہماری بیٹی ہے۔ دو ماہ پلک جھپکتے گزر گئے۔ تبھی والدہ نے ابا جان کو خط بھیجا۔ بچوں کے اسکول کھلنے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں، آکر ہمیں لے جائیے ۔ جب ہم چاچی کے گھر سے رخصت ہونے لگے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں ان کی گود سے اترتی نہ تھی۔ بتاتی چلوں کہ چچی میری والدہ کی خالہ زاد تھیں اور دونوں کا بچپن سے پیار تھا، تبھی میری قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ میرے والدین نے اس دن مجھے چاچی کو سونپ دیا، یوں میں ان کی لے پالک بیٹی بنی۔ چاچی کی تو مراد بر آئی تھی۔ انہوں نے خود کو میری ذات میں گم کر لیا۔ ہروقت میرے ناز اٹھاتے اور میری فرمائشیں پوری کرتے۔ اب اولاد سے محرومی کا احساس ان کو نہیں ستاتا تھا۔ جب میں پانچ برس کی ہوگئی تو ایک اچھے اسکول میں داخل کروا دیا۔ امی ابو کہیں سال بعد ملنے آتے اور میں یہاں آرام اور سکون سے رہتی رہی کہ گود لینے والوں نے مجھے اپنے پیار سے حقیقی والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی جبکہ میں نے ماں باپ کو بھلا دیا۔ امی ابا اس بات سے نہال تھے کہ میں ایک بڑے اور مہنگے اسکول میں پڑھتی ہوں، قیمتی لباس پہنتی ہوں ۔ بھلا اتنی آسائشیں مجھے میرے کلرک باپ کے گھر میں کب مل سکتی تھیں۔ میں تو چچا چچی کو اپنے والدین سجھتی تھی لیکن تین سال بعد جبکہ میں چھ برس کی تھی، اللہ تعالی نے ان کو حقیقی اولاد کی خوشی سے آشنا کیا اور ایک بیٹا عطا کیا۔ میں پھولے نہیں سمائی تھی کہ ایک ننھا منا کھلونا گھر میں آگیا تھا۔ چچا چچی مجھ کو اپنے لئے خوش قسمتی کی علامت سمجھتے تھے۔ شروع میں حالات معمول پر رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ بدلاؤ آنے لگا۔ چچا کے پیار میں تو کوئی فرق نہ آیا مگر چچی کا رویہ بدلنے لگا۔ سگی ماں بھی جب نیا بچہ گود میں آجائے تو اس کی طرف زیادہ توجہ دینے لگتی ہے ، تبھی بڑے بچے کو ماں کے پیار میں تشنگی محسوس ہوتی ہے، میں نے تو پھر ان کی کوکھ سے جنم نہیں لیا تھا۔ میں اس بات کو نہیں سمجھتی تھی اور نہ مجھے گود لینے والی اس امر کو جانتی تھی ۔ اب مجھے وہ بات بات پر ٹوکنے لگیں، ڈانٹ پڑنے لگی۔ ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ان کا اپنا بچہ تھا۔ مجھ کو اس بچے سے حسد رہنے لگا۔ اس کے آجانے سے ماں کا پیار مجھ سے چھن گیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ بلال کے بعد، شجیح اور پھر بازغہ۔ اتنے بچوں میں گھر کر چچی نے مجھے یکسر فراموش کر دیا۔ میں جو اپنے ماں باپ کو بھلا چکی تھی ، ان کی نظر میں اب ایک فالتو شے تھی، البتہ چچا پہلے کی طرح پیار کرتے ، بیوی کو احساس دلاتے کہ تم اس بچی کو نظر انداز کرتی ہو۔ وہ اور مجھ سے چڑنے لگیں ۔ مجھ پر اب واپسی کے راستے بند تھے کہ میرا معصوم ذہن تو انہی کے پیار میں گندھا ہوا تھا۔ یہی سمجھتی تھی کہ یہ ہی میرے ماں اور باپ ہیں۔ شاید میرے والدین کا یہ خیال ہوگا کہ انہوں نے بیٹی بنالیا ہے، تو اب نوشی کو وہاں ہی رہنے دیں۔ ایک دولت مند گھر کی بیٹی بن جانے کے بعد اب یہ ہمارے گھر مفلسی میں آکر خوش نہ رہ سکے گی۔ رفتہ رفتہ میرے ذہن نے حالات کے بدلاؤ سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا اور میں پڑھائی پر دھیان دینے لگی۔ یہاں تک کہ کالج کی تعلیم مکمل کرلی ۔ کالج کی سالانہ تقریب کے دوران مجھ کو ایک امیر زادے مراد نے دیکھا اور پسند کر لیا۔ چند دنوں بعد ہی ان کے والدین ہمارے گھر رشتہ مانگنے آگئے ۔ چچی چاہتی تھیں کہ جلد از جلد میرا رشتہ طے کر دیں۔ ان کو یہ رشتہ پسند آگیا کہ لڑکا خوبصورت تعلیم یافتہ اور لوگ شریف و دولت مند تھے۔ اس سے بڑھ کر بیٹی والوں کو اور کیا چاہئے۔ ان کا بڑا بزنس تھا۔ دو بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔ مراد دونوں بہنوں سے چھوٹا اور اکلوتا تھا۔ اس کی ماں اور بہنوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ وہ لوگ جلد شادی کرنا چاہتے تھے، جبکہ چچا ابھی سوچنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے بے حد اصرار کیا کہ بے شک چھان بین کر لینا مگر بات ابھی طے کر دیں۔ یوں میری منگنی ہوگئی منگنی پر جب میرے والدین آئے تو حقیقی والد ، مراد کو دیکھ کر چونک گئے۔ انہوں نے اس نوجوان کو کسی ایسی محفل میں دیکھا تھا، جہاں اچھے لوگ نہیں جاتے ۔ یہ منگنی کا دن تھا ، خوب دھوم دھام مچی ہوئی تھی ۔ مراد اور اس کی بہنیں خوش تھیں ، چچا چچی بھی خوش تھے مگر میرے حقیقی والدین کو کسی کروٹ چین نہیں تھا۔ منگنی کے بعد بھی ابا جان آرام سے نہ بیٹھے اور چھان بین میں مصروف رہے۔ ایک ماہ بعد بالآخر انکشاف ہوا کہ مراد منشیات کا عادی ہے۔ ابا جان نے چچا کو فون کر کے یہ بات بتائی مگر چچی کسی صورت یہ بات ماننے پر تیار نہ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اتنا اچھا رشتہ ہے، کسی حاسد نے مراد کے بارے یہ غلط رپورٹ دی ہے۔ لوگ عموماً ایسے معاملات میں، رنگ میں بھنگ ڈال دیتے ہیں۔ چچا نے رشتہ ختم کر دینے کی بات کی تو ان کی بیگم جھگڑ پڑیں کہ اب میں یہ رشتہ نہ توڑ نے دوں گی۔ بھلا شریفوں میں کہیں یہ ہوتا ہے کہ ایک بار بیٹی کسی شخص سے منسوب کر دو، پھر منگنی توڑ کر رشتہ کسی اور شخص سے جوڑ لو۔ ادھر مراد اور اس کی بہنوں کا آنا جانا بڑھتا گیا۔ وہ جلد از جلد شادی کی تاریخ لینا چاہتے تھے۔ میرے ابا جان اس رشتے پر ناخوش تھے۔ جب آتے متفکر اور بجھے بجھے سے ہوتے جبکہ اور سب مجھ سے لاتعلق سے تھے۔ میں دل دل میں خوفزدہ تھی، جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ شادی میں ہفتہ باقی تھا کہ ابا جان، چچا کے پاس آئے کہا۔ مراد واقعی نشے کا عادی ہے اور آج کل، اسپتال میں داخل ہے۔ چچی تب بھی یہی بولیں کہ کسی بدخواہ نے غلط کہا ہوگا ۔ ہفتہ بعد تو اس کی شادی ہے اور وہ اسپتال میں داخل ہے۔ ابا اور چچا کہنے لگے۔ چلو، چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ یہ مذاق تو نہیں ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ میں دعا کر رہی تھی کہ خدا کرے یہ خبر غلط ہو لیکن جب ابا اور چچا آئے تو ان کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر پریشانی دیکھ کر سمجھ گئی کہ خبر غلط نہیں ہے۔ ابا جان نے ڈاکٹر سے بات کی تھی ، مراد جس کے زیر علاج تھا۔ اس نے بتادیا کہ یہ نوجوان نشے کا عادی ہے۔ فی الحال آپ شادی ملتوی کر دیں تو بہتر ہوگا۔ منشیات کے مسلسل استعمال نے اس کی صحت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ میری والدہ اور چچی جب اس کو دیکھنے اسپتال گئیں تو اس کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ بے ہوش تھا۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں شادی کیسے ہو سکتی تھی۔ بہر حال منگنی توڑنے کا اعلان ہم لڑکی والوں کی جانب سے ہوا۔ جہاں میرے سب گھر والوں کو صدمہ تھا وہاں مجھے ملال ہوا۔ مراد مہینہ بھر اسپتال میں رہا۔ جب وہ اسپتال سے گھر آیا تو اس کو منگنی ٹوٹنے کا علم ہوا۔ وہ آپے سے باہر ہو گیا ۔ چچا چی کے پاس آیا ، مسلسل اصرار کرتا رہا کہ وہ منشیات ترک کر دے گا۔ اس لئیے تو علاج کروا رہا ہے، مگر چچا کسی صورت راضی نہ ہوئے، تبھی مراد مشتعل ہو کر دھمکیاں دیتا ہمارے گھر سے چلا گیا کہ میں بھی دیکھوں گا تمہاری بیٹی کیسے کسی اور کا گھر بساتی ہے۔ چچا پر کسی بات کا اثر نہ ہوا کہ نشہ باز لوگ ایسے ہی گیدڑ بھپکیاں دیتے ہیں، البتہ میرا دل ڈرتا تھا کہ غصے میں جانے وہ کیا کر بیٹھے۔ کچھ عرصے بعد ہی ایک شریف گھرانے سے میرے لئے رشتہ آگیا۔ یہ سیدھے سادے لوگ تھے، زمیندار تھے۔ ابو نے چھان بین کا معاملہ ابا جان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ واقعی یہ لوگ اپنے علاقے کے عزت دار اور شریف ہیں۔ لڑکے میں بھی کوئی ایسی خامی کسی نے نہ بتائی جس کا ہمیں تجربہ ہو چکا تھا۔ شادی کی تیاریاں تیزی سے ہو رہی تھیں۔ میں اپنی سہیلیوں میں گھری بیٹھی تھی تبھی میری کزن نے آکر بتایا۔ نوشی تیرا فون آیا ہے۔ یہ مراد تھا۔ اس نے کہا۔ اب بھی وقت ہے، انکار کر دو، ورنہ بعد کے حالات کی تم ذمہ دار ہوگی ۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ خوف سے میرا لہو خشک ہو گیا۔ ظاہر ہے میں کیا کرسکتی تھی ۔ میں تو خود ایک مجبور لڑکی تھی۔ اس خوف میں شادی کا دن آپہنچا۔ میں اندر ہی اندر خوفزدہ تھی۔ والدین سے خوف کا اظہار کرتی تو وہ بھی پریشان ہو جاتے۔ شادی تو کسی صورت نہیں رک سکتی تھی ، ورنہ دنیا والوں کو ہم کیا منہ دکھاتے۔ یہی سوچ کر دل کو تسلی دے لی کہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ وہ جو کرے گا وہی بہتر کرے گا۔ محسن بہت اچھے تھے۔ ان کے تحفظ کو پاتے ہی ہر خوف میرے دل سے جدا ہو گیا۔ میرے رفیق حیات نے مجھے بے حد محبت دی۔ اتنی چاہت اور عزت کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ساس سسر مجھ کو بے حد چاہتے تھے۔ دیور نندیں، جیٹھ، جیٹھانیاں بہت بڑا کنبہ تھا کہ میں اتنے بہت سے لوگوں میں کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کرتی تھی۔ سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ وہ ایک ماہ کی تھی کہ محسن ایک روز اپنی زمینوں پر گئے۔ انہیں گئے ہوئے دو روز گزرے تھے کہ اطلاع آئی، ان پر کسی نے گولی چلا دی ہے ۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے ۔ یہ خبر ہمارے لئے صدمہ جانکاہ تھی ۔ جب ان کا خون میں ڈوبا ہوا بے جان جسم گھر لایا گیا تو کہرام مچ گیا۔ مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا حتی کہ ان کا چالیسواں بھی ہو گیا مگر مجھ کو یقین نہ آیا کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ محسن کے قاتل کو جلد گرفتار کر لیا گیا کیونکہ میرے سر کا سیاسی اثر و رسوخ تھا۔ پولیس نے مکمل تعاون کیا۔ گھر والوں نے آکر بتایا کہ گولی چلانے والے کا نام مراد ہے اور باپ کا نام بھی بتا دیا تبھی میرے کانوں میں اس کی دھمکیاں گونجنے لگیں۔ بدبخت انسان نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ مجھ کو اجاڑ کر، میری بچی کو باپ کے سایہ شفقت سے محروم کر کے نجانے اسے کیا مل گیا۔ ابا جان اور چچا جان چاہتے تھے کہ میکے لوٹ آؤں مگر میں اپنی بیٹی سے اس کا پیار کرنے والا ددھیال اور اس کے باپ کا گھر نہیں چھینا چاہتی تھی ۔ یہ گھر مجھے بہت عزیز تھا، جہاں مجھے عزت اور میری بچی کو دادا، دادی ، پھپو اور چچا کا پیار ملا تھا۔ اس گھر کے ہر گوشے سے میری یادیں وابستہ تھیں، جو پیار بھری اور خوشگوار تھیں۔ وہ خوبصورت دن میرے دل و ذہن پر نقش تھے جو محسن کے ساتھ یہاں گزارے تھے۔ امی، ابا جان، چچا، چچی مجھے لے جانے کے لئے آتے تو ساس سسر، دیور، دیورانی کا پیار پاؤں کی زنجیر بن جاتا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک گھر کے مکین مجھ کو نہیں نکالیں گے، میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ یوں میں نے بیوگی کے تیس برس اس گھر میں گزار دیئے، پھر میری بیٹی کی شادی میرے دیور کے بیٹے سے ہوگئی، تو میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے لگی۔ اس طرح میں نے ساری زندگی اس گھر میں گزار دی اور مرحوم شوہر کے مکان کی دہلیز سے قدم باہر نہیں نکالا ، جہاں دلہن بن کر آئی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ اس عورت پر تو وہی مثال صادق آتی ہے کہ جب پرانے وقتوں کے لوگ بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ بیٹی جس گھر دلہن بن کر جا رہی ہو، وہاں سے تمہارا جنازہ ہی آئے ، یعنی مرکر ہی اپنے گھر کو خیر باد کہنا۔ میں تو بیوہ ہوگئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس گھرانے کی ایسی محبت بھر دی کہ نہ میں نے ان کو چھوڑا اور نہ انہوں نے مجھے۔ ہمیشہ پہلے دن کی طرح عزت دی۔ آج لوگ میری مثال دیتے ہیں کہ میں نے کس طرح حو صلے اور صبر سے پہاڑ جیسی زندگی سسرال میں گزار دی لیکن کوئی کیا جانے ایسی تنہا زندگی گزارنا کتنے حوصلے کا کام ہے۔ | null |
null | null | null | 232 | https://www.urduzone.net/armanon-ka-khoon/ | ہمارے مالی حالات کچھ زیادہ ٹھیک نہ تھے، تبھی والدین چاہتے تھے کہ میرے دونوں بھائی پڑھ لیں اور میں میٹرک کے بعد گھر بیٹھ جائوں۔ ایک اور وجہ ابا کے انکار کی یہ بھی تھی کہ ہمارے علاقے میں کوئی گرلز کالج نہ تھا۔ ایک بوائز کالج ضرور تھا جس میں لاہور سے تبادلہ ہو کر آئے افسران کی لڑکیاں داخلہ لے لیتی تھیں لیکن سخت ماحول ہونے کے سبب مقامی لڑکیاں میٹرک کے بعد کالج جانے کا نام بھی لینے کی ہمت نہ کرتی تھیں۔ ایسے میں والد کی طرف سے مجھے اجازت مل جانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ میں نے جب کالج میں داخلے کی ضد کی سب سے پہلے دونوں بھائیوں نے میرے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔انہوں نے کہا۔ اگر کشمالہ نے کالج میں داخلہ لیا تو ہم پڑھائی چھوڑ دیں گے ۔ ہم کو یہ ہر گز گوارہ نہیں کہ وہ لڑکوں کے ساتھ پڑھے۔ والد صاحب اسکول ماسٹر تھے اور ان کو ان کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے قائل کیا کہ بیٹی کو ضرور کالج بھیجنا۔ آج نہ کل ہمارے علاقے میں لڑکیوں کا کالج ضرور بنایا جائے گا تو اس میں پڑھانے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کہاں سے آئیں گی۔ یہ تو وہ بچیاں ہوں گی جو آج پڑھیں گی تو کل کو لیکچرار بنیں گی، ڈاکٹر بن کر علاقے کی خدمت کریں گی۔ والد صاحب کی سمجھ میں بات آگئی کہ آگے وقت بہت تیز رفتار ہو جائے گا۔ ہمارے بچے زمانے سے قدم ملا کر نہ چل سکے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ انہوں نے بیٹوں کو سمجھایا۔ تم کو بہن کے کالج میں داخلہ لینے سے ایسی ہی غیرت آرہی ہے تو بے شک کالج چھوڑ دو لیکن میری کشمالہ ذہین ہے اور پڑھ لکھ کر دیکھ لینا ہمارے خاندان کا نام روشن کرے گی۔ بھائیوں نے دیکھا کہ ابا کسی اور نہج سے سوچنے لگے ہیں۔ انہوں نے بوریا بستر باندھا اور نزدیکی شہر پڑھنے چلے گئے کیونکہ وہاں ہمارے نانا ، ماموں اور خالائوں کے گھر تھے لہذا شہر ملتان بھی اجنبی نہ تھا اور ہمارے علاقے سے صرف ساٹھ ستر میل دور تھا۔ والد صاحب نے انہیں جانے دیا لیکن مجھے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی۔ میں جانتی تھی کہ یہ سب کلثوم کی وجہ سے ہوا ہے جو ہیڈ ماسٹر صاحب کی بیٹی تھی اور میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ وہی تو ایک سب سے قریبی اور پیاری دوست تھی اور ہم اپنا ہر دکھ سکھ ایک دوسرے سے بلا جھجک کہہ دیا کرتے تھے۔ جب والد صاحب کی طرف سے انکار ہوا اور میں مایوس ہو گئی تو میں نے کلثوم سے کہا کہ اب میں آگے نہ پڑھ سکوں گی۔ ابا نے منع کر دیا ہے اور دونوں بھائی تو دھمکی دے رہے ہیں اگر میں نے داخلہ لیا، وہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ انہیں کسی طور یہ گوارہ نہیں کہ ہم اور وہ ایک کالج میں ہوں۔ تم ضرور کالج میں داخلہ لو گی ۔ اگر تم نے داخلہ نہ لیا، میں بھی نہ جائوں گی۔ آج ہی بابا سے کہتی ہوں، وہ تمہارے ابا سے بات کریں گے۔ کلثوم نے صحیح کہا تھا۔ اس نے میرا کیس لڑا، اپنے والد کو وکیل بنایا، یوں ہماری جیت ہو گئی کیونکہ ہیڈ ماسٹر صاحب، والد کے محسن تھے۔ انہی کی کوششوں سے میرے باپ کو نوکری ملی تھی اور دونوں بچپن کے ساتھی تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات وہ کبھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ میں بہت خوش تھی۔ پہلے روز ہی سے میں اور کلثوم اکٹھے کالج جانے لگے۔ کالج گھر سے کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہم پیدل ہی جاتے تھے۔ یہ ہمارا کالج کا چوتھا دن جب ایک نوجوان کو اپنے پیچھے آتے دیکھا۔اُف میرے خدا سوچا کہ یہ اچانک کیا مصیبت نازل ہو گئی۔ اتنی مشکل سے تو اجازت ملی تھی، شاید اسی لئے ابا منع کر رہے تھے، بھائی مخالفت کرتے تھے۔ انہیں معلوم تھا اس علاقے میں کالج جانے والی لڑکیاں ایسے لڑکوں کیلئے عجوبہ ہوتی ہیں کہ جن لڑکوں کو کوئی اور کام نہیں ہوتا، وہ طالبات کا تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ اس میں لڑکیوں کا کیا قصور ، لیکن سزا انہی کو ملتی ہے اور ان کو گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ شاید شہری لڑکیوں کو ایسے مسائل در پیش نہ ہوں لیکن ہم دیہات کی باسی لڑکیاں تو پرانی روایات کے ہاتھوں بس مر مر کر جیتی ہیں۔ ہمارا علاقہ تو ایک بستی جیسا تھا۔ سبھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ نجانے یہ کون شخص تھا جو ہمارا پیچھا کر رہا تھا یا کہ ہم کو گمان ہوا تھا کہ ہمارا وہ تعاقب کر رہا ہے۔ کچھ دیر برداشت کیا۔ سوچا اگر آج پہلے دن اسے نہ روکاٹوکا تو روزہی یہی و تیرہ اپنائے گا۔ ہماری بد نامی مفت میں ہو گی۔ تعلیم سے تو جائیں گے ہی، کہیں کے نہ رہیں گے ، تب ابا اور بھائیوں کو کیا جواب دیں گے۔ چلتے چلتے ٹھہر گئی اور اپنے پیچھے چلتے آنے والے نوجوان کو خوب سنادیں کہ تم کو حیا نہیں آتی آوارہ انسان، لڑکیوں کا پیچھا کرتے ہو۔ اس نے خاموشی سے ہماری لعن طعن سن لی اور بغیر کچھ کہے چلا گیا اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔ میں نے بھی شکر کیا کہ جان چھوٹی۔ کچھ دنوں بعد اچانک ایک روز یہ خیال آیا کہ ہو سکتا ہے وہ ویسے ہی اپنی راہ آرہا ہو اور ہمارا پیچھا کرنے کی غرض نہ ہو۔ کچھ اپنے آپ میں مگن بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں گمان ہو گیا کہ تعاقب کر رہا ہے۔ اگر شریف آدمی نہ ہوتا تو تنگ کرنے کو دوبارہ آتا، تب کیا کر لیتے مگر وہ کبھی دوبارہ کالج کے راستے میں ہم کو نظر نہ آیا۔ کلثوم سے کہا کہ اس دن جانے مجھے کیا ہوا جو اس شریف آدمی پر برس پڑی اور بھرے بازار میں اسے ذلیل کر کے رکھ دیا۔ شریف آدمی تھا تم کو یہ کیسے معلوم کہ وہ واقعی شریف آدمی تھا ہاں بھئی اگر شریف نہ ہوتا اور ہم کو تنگ کرنا ہی مقصود ہوتا تو شاید ہمارا کالج جانا بھی دو بھر ہو جاتا۔ وہ بار بار ہمارا تعاقب کرتا اور ہم زچ آکر تعلیم چھوڑ دیتے۔ میری تاویل سن کر اس نے سر پکڑ لیا۔ کہنے لگی۔ افسانوں، کہانیوں میں ایسی باتیں پڑھتے تھے کہ پہلے ہیروئن، ہیرو سے ٹکرائی۔ لڑکی نے اس معصوم کو ڈانٹ ڈپٹ سے نوازا، بعد میں اس کے تصورات میں کھو کر آہیں بھرتی۔ ارے بابا ایک بار تمہارے ساتھ بھی کچھ ایسا واقعہ ہو گیا تو بھول جائو ، اسے ذہن سے محو کر دو۔ پیچھے آیا تو آیا، چلا گیا تو چلا گیا۔ اب دھڑ کا کس بات کا اس روز پہلی بار اپنی یہ بچپن کی سہیلی مجھے بہت بری لگی۔ کس قدر نامعقول ہے۔ میں نے سوچا۔ ہر بات کو مذاق سمجھ لیتی ہے۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ ہم نے بخیر و عافیت ایف اے پاس کر لیا اور اب تھر ڈایئر میں آگئے۔ ایک روز میں اور کلثوم کچھ کتابیں خریدنے گئے۔ بک شاپ قریب ہی تھی۔ واپسی پر ایک موٹر بائیک والا اس قدر تیزی کے ساتھ گزرا کہ کلثوم گر گئی اور سڑک سے لڑھکتی ڈھلوان پر جاپڑی۔ اسے کافی چوٹ آئی کہ اٹھنے سے قاصر تھی، تبھی پیچھے آتی کار ہمارے قریب آکرر کی اور اس میں بیٹھا آدمی اتر کر میرے پاس آیا۔ آپ اجازت دیں تو آپ کی سہیلی کو سہارا دے کر ڈھلوان سے اوپر لے آئوں ۔ لگتا ہے کاری چوٹ لگی ہے ، وہ بے سدھ پڑی ہیں۔۔۔ میں چونکہ کافی پریشان کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں، ڈھلان کے نشیب میں پھسلن تھا۔ خود اتر کر اس کی مدد کرنے سے قاصر تھی۔ مجبور ہو کر اس کی مدد قبول کرنی پڑی اور وہ نشیب میں اتر گیا۔ بڑی دقت سے کلثوم کو سہارا دے کر اوپر سڑک تک لایا۔ کلثوم کی بری حالت تھی، شاید پائوں میں موچ آگئی تھی۔ ایک قدم نہیں چل سکتی تھی، درد سے کراہ رہی تھی۔ کشمالہ پلیز مجھے پکڑو ورنہ گر پڑوں گی۔ دونوں پیروں میں چوٹ آئی ہے، کھڑی نہیں ہو سکتی، ٹانگ میں بھی درد ہے۔ تبھی وہ شخص گویا ہوا۔ گڑھے میں گرنے سے آپ کو شاید کوئی اور بھی گہری چوٹ لگی ہے۔ آپ میری کار میں بیٹھ جائے۔ میں اسپتال تک چھوڑ دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے ٹانگ میں فریکچر ہو گیا ہو۔ مجھے بھی اپنی دوست کی حالت ٹھیک نہ لگ رہی تھی۔ اس کے سر سے خون رس رہا تھا۔ جس گڑھے میں وہ پیچھے ہوتے ہوئے لڑھک کر گری تھی، اس کی گہرائی کافی تھی۔ اس نوجوان نے تسلی دی اور میں نے ہمت کی۔ کلثوم کو اس کی کار میں سوار کرایا، خود ساتھ بیٹھ گئی اور وہ ہم کو اسپتال لے آیا جو نزدیکی شہر میں میں تھا۔ طبی امداد ملنے سے میری سہیلی کی حالت سنبھل گئی۔ پین کلر انجکشن لگا، ٹانگ اور پائوں کے ایکسرے ہوئے، تب تک وہ ہمارے ساتھ رہا کیونکہ ڈاکٹر اس کا دوست تھا۔ ہم کو اسپتال میں بڑی سہولت ہو گئی۔اسپتال سے بوائز اسکول میں، میں نے چاچا فیض کو فون کر کے صورتحال بتائی۔ وہ بولے۔ بیٹی ابھی آتا ہوں، تم لوگ وہیں ٹھہروہ کلثوم کے ابو آدھ گھنٹے بعد آگئے۔ اسپتال ہمارے علاقے سے دور تھا۔ وہ اپنے ایک شاگرد کے گھر سے ان کی کار مانگ کر لائے تھے۔ جب ہم چلنے لگے تو میں نے کہا۔ انکل ان کا شکریہ ادا کریں، انہوں نے ہماری مدد کی۔ انکل فیض نے اجنبی لڑکے سے ہاتھ ملایا تو پہچان لیا۔ بولے تم زمیندار اللہ یار صاحب کے بیٹے ہونا اب گائوں میں کبھی نظر نہیں آتے جی میں لاہور کالج میں پڑھ رہا ہوں اور وہاں ہاسٹل میں رہتا ہوں، چھٹیوں میں گھر آتا ہوں۔ بہت شکریہ بیٹے تمہارے ابو سے سلام دعا ہے۔ میں کبھی آئوں گا شکریہ ادا کرنے۔ ضرور آئے گا، ان کو خوشی ہو گی ۔ وہ چلا گیا۔ تبھی اچانک جیسے ذہن میں گزری یاد کا کوندا لپکا۔ یہ شکل جانی پہچانی لگی۔ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے مگر کہاں ذہن پر زور دیا۔ یہ وہی تھا جو ایک روز ہمارے پیچھے چل رہا تھا اور میں نے بھرے بازار میں اسے ذلیل کیا تھا، ہمارے تعاقب میں آنے والا دوسرے روز کلثوم کی عیادت کو اس کے گھر گئی تو بتایا کہ کل جس نے ہماری مدد کی تھی، جانتی ہو وہ کون تھا وہی تعاقب والا ارے نہیں وہ تو کب کا غائب ہو گیا، کبھی دوبارہ نظر نہیں آیا۔ ہاں بھئی وہی تھا، بالکل وہی میں نے ذہن کے پردے پر خوب زور دیا ہے اور وہ دوبارہ نظر بھی کیسے آتا، وہ تو لاہور میں پڑھتا ہے، انجینئرنگ کر رہا ہے۔ جانتی ہو کس کا بیٹا ہے گائوں کے پاس جو صاحب داد صاحب نے اپنی اراضی فروخت کی تھی، وہ ان کے والد اللہ یار صاحب نے خریدی۔ اس وقت والد صاحب بھی اس خرید و فروخت میں گواہ تھے۔ بابا جان مراد کے والد کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ تو ان کا نام مراد ہے ۔ ہاں ابو نے بتایا ہے ۔ دل میں اس کا نام دہرا کر مسرت کی ایک لہر محسوس کی۔ کشمالہ کتنا خوبصورت ہے وہ، اے کاش اور اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ یہ موضوع مزید چھیڑنا نہ چاہتی تھی۔ جانے کیوں میرا دل کلثوم سے آج پہلی بار راز داری برت رہا تھا۔ وہی ہوا جس کا دھڑکا ہر نوجوان دل کو ہوتا ہے۔ میں مراد کے خیالوں میں گم ہو چکی تھی۔ کتاب کھولتی تو اس کا چہرہ نظرآتا، کتاب بند کرتی تو اس کا چہرہ نظر آتا۔ یا اللہ یہ کیسی بیماری تھی۔ کیا میں ایک پرچھائیں کی شیدائی ہو گئی تھی، ایک سائے کے تعاقب میں جارہی تھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ دن رات کسی کے خیال میں کھوئے رہنا۔ انسان پھر تو دنیا کے کسی کام کو کرنے کے لائق نہیں رہتا، بیکار ہو جاتا ہے ۔ اب تو امتحان کی تیاری ایک مشکل امر ہو گیا۔ کتاب پر لکھے حروف کو گھورتی رہتی اور گھنٹوں مفہوم ہی سمجھ میں نہ آتا۔ گزشتہ کا پڑھا بھی بھول جاتی تھی۔ خدا جانے یہ کیسی بیماری لاحق ہو گئی تھی کہ جس کے لئے کوئی طبیب ملتا تھا اور نہ علاج تھا کوئی اس مرض کا۔ سالانہ پیپرز ہو گئے۔ رزلٹ نکلا۔ کلثوم پاس اور میں فیل ہو گئی تھی۔ ابا نے بہت ڈانٹا اور میرا کالج جانا بند کرادیا۔ بھائیوں نے شور مچادیا کہ خواہ مخواہ پڑھانے سے فائدہ جب محترمہ کا دل ہی پڑھائی میں نہیں لگتا۔ میرا کس قدر نقصان ہوا، بتا نہیں سکتی لیکن مجھے اس خسارے کا بھی احساس نہ تھا کہ کسی اور دنیا میں رہنے بسنے لگی تھی اور وہ تھی مراد کے ساتھ تصورات کی دنیا۔ ایک دن کلثوم آئی۔ بہت افسردہ تھی۔ کہنے لگی۔ ابو میری شادی کر رہے ہیں، دیکھو تو کشمالہ ان کو کیا ہو گیا ہے ۔ وہ جو زمانے بھر کو سمجھاتے ہیں کہ اپنی لڑکیوں کو پڑھائو، گریجویشن بھی مکمل نہیں کرنے دے رہے اور شادی کی تاریخ رکھ دی ہے۔ کہتے ہیں لڑکا بہت اچھا ہے ، اس کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے اور بیرون ملک جارہا ہے، اس لئے شادی کر کے جانا چاہتا ہے تاکہ بیوی کو لے جانے میں آسانی ہو۔ پڑھائی کے بارے میں کیا کہتے ہیں بعد میں ہو جائے گی، پہلے شادی ضروری ہے۔ بہت اچھا رشتہ ملا ہے ،ایسے رشتے نہیں ملتے۔ کس سے کر رہے ہیں تمہاری شادی اس سوال پر جھنجھلا کر بولی۔ مجھے نہیں خبر کسی نے نہیں بتایا کس سے کر رہے ہیں اور جس سے بھی کر رہے ہیں، میں نے اسے دیکھا تھوڑی ہے ۔ یا اللہ یہ کیا معمہ ہے کیا چچا کا دماغ پلٹ گیا ہے یا پھر ان پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ ہاں واقعی جادو کر دیا تھا ان پر زمیندار اللہ یار نے جن کو بیٹے کی خوشی ہر حال میں عزیز تھی اور وہ اپنے صاحبزادے مراد کا رشتہ مانگ لیا تھا۔ سر میں گھی پڑ جانے سے سر نہیں جلتا، کڑوے تیل کی مالش سے جلتا ہے اور یہ رشتہ تو گھی شکر جیسا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اتنے اچھے رشتے کو کیوں گنواتے بھلا جبکہ ان کی بیٹی شادی کے بعد کینیڈا جار ہی تھی اور وہ بھی اتنے امیر کبیر گھرانے کی بہو بن کر مراد نے اسی روز اس کو پسند کر لیا تھا جب اسے افتادہ گڑھے سے نکالا تھا۔ واقعی کلثوم تھی بھی خوبصورت نرم و نازک، حور شمائل وہ کیوں نہ اسے پسند کرتا۔ والدین پر دبائوڈالا کہ ہیڈ ماسٹر کی لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ اللہ یار صاحب نے مان لیا کیونکہ کلثوم کے والد کی نیک نامی اور اچھی شہرت تو سارے علاقے میں مشہور تھی۔ ان کو سمدھی بنانے میں انہیں عار نہ تھا۔ بے شک مالی اعتبار سے ان کے ہم پلہ نہ تھے لیکن زمانے میں عزت دار اور ایماندار تو تھے ۔ دیانتداری کی دھوم تھی ان کی۔ جس روز کلثوم دلہن بنی بیٹھی تھی، میں سج سنور کر اچھے کپڑے تن زیب کر کے اس کی رخصتی میں گئی۔ کیوں نہ جاتی آخر تو وہ میری بچپن کی دوست ، میری سب سے پیاری سہیلی تھی۔ وہ سرخ جوڑا پہنے ، زیورات میں لدی مسکرارہی تھی۔ اس کے دل کی خوشی مدھم مسکراہٹ کے پس پردہ جھلک رہی تھی لیکن میرا ادل رورہا تھا۔ مسکراہٹ لبوں پر آتی اور پھر لوٹ جاتی تھی۔ بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا تھا۔ اچانک ہی اس نے میری جانب گہری نظروں سے دیکھا۔ حیرت سے بولی۔ کشمالہ تم اداس ہو، کیا میری شادی سے تم کو خوشی نہیں ہوئی خوشی تو ہے مگر صدمہ بھی ہے۔ کیوں نہ ہو جائوں میں اداس، تیری جدائی کا دکھ بھی تو سہنا ہے۔ جانتی ہو کہ تمہارے سوامیری کوئی ساتھی، کوئی اور دوست ، کوئی سہیلی نہیں۔ تیرے بعد کس قدر تنہا ہو جائوں گی، کیسے گزرے گی تیرے بغیر یہ کہہ کر اس کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ اس قدر شدت سے جیسے اس کے بعد رونے کی گھڑی پھر نہ آئے گی۔ وہ تسلی دے رہی تھی، مجھے پیار کر رہی تھی لیکن میرے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ دل آج کیوں اداس تھا کیا کلثوم سے بچھڑ جانے کی وجہ سے۔ نہیں ۔۔۔ سہیلیوں نے تو بچھڑ جانا ہوتا ہے۔ ایسے میں دلہن ضرور روتی ہے مگر سہیلی تو اسے تسلی دیتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہر گز نہ تھا۔ مجھے کلثوم سے بچھڑنے کا دکھ نہ تھا۔ میرے رونے کی وجہ تو کچھ اور تھی۔ میرے خوابوں کا شہزادہ مراد آج کسی اور کا ہونے جارہا تھا۔ وہ جو دن رات، صبح شام ، ہر لمحہ ، ہر پل میرے ساتھ رہتا تھا۔ میرے خیالوں میں مہکتے پھولوں کی طرح، میرے خوابوں میں چمکتے چاند کی مانند وہ میری روح کی تازگی اور میرے دل کا سنگھار ، میری تو زندگی تھا۔ دن رات جس کیلئے دعا کیا کرتی تھی، ایک بار اسے مجھ سے ملادے۔اے میرے رب بس ایک بار رو برو ہو کر اسے دیکھ لوں، اس سے بات کرلوں۔ دعا کس روپ میں قبول ہوئی، وہ رو برو آیا بھی تو دولہا کے روپ میں لیکن یہ میرا نہیں کسی اور کا دولہا بن کر آیا تھا۔ میری جان سے پیاری دوست کلثوم کا اور میں شادی کی رسومات دیکھنے سے پہلے ہی طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے گھر آگئی۔ آہ کیسے دیکھ سکتی تھی وہ منظر جس نے تلوار بن کر میرے خوابوں کی سر زمین کو، میرے ارمانوں کے خون لہو لہو کر دیا تھا۔ | null |
null | null | null | 233 | https://www.urduzone.net/kiye-ki-saza/ | شیریں ہماری کرایے دار تھی ۔ وہ اسم باسمی تھی ۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے کہ زبان شیریں، تو ملک گیریں مطلب یہ کہ جس کی باتوں میں مٹھاس ہو، دنیا اس کی دیوانی ہو جاتی ہے سو شیریں نے اپنی گفتگو سے میری ماں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ہمارا مکان دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ بڑے پورشن میں ہم رہتے تھے اور دوسرا پورشن جس میں دو کمرے تھے ، کرایے پر اٹھا دیتے تھے۔ اس بار جو میاں بیوی کرایے پر آئے ، ان کا ایک بچہ تھا۔ شروع میں مبین صاحب اکیلے آئے تھے، یہ شور کوٹ کے رہنے والے، درمیانی عمر کے آدمی تھے۔ ہفتے میں دو دن ان کو لاہور آنا ہوتا تھا، لہذا عارضی رہائش کی ضرورت رہتی تھی، انہوں نے اس مختصر رہائش کو کرایے پر لے لیا۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ انہوں نے یہ رہائش دراصل اپنی بیوی شیریں کے لیے لی تھی ، جو فی الحال اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی تھی۔ جب مبین صاحب لاہور آتے ، اس کو وہاں لے آتے ۔ یہ لوگ دو تین دن رہتے تھے، پھر مبین واپس جاتے ہوئے شیریں کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ جاتے۔ کچھ عرصے تک یہی معمول رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ، ہماری جان پہچان اس انوکھے جوڑے سے بڑھتی گئی۔ پتا چلا یہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ اس کی مبین سے محبت کی شادی تھی ۔ متوسط گھرانے کی یہ لڑکی بھلی صورت کی تھی۔ جب یہ جوڑا ہمارے مکان میں رہنے کے لیے آتا، بچہ ان کے ساتھ ہوتا ، جو تین چار برس کا تھا۔ سال بعد وہ مستقل یہیں رہنے لگی اور بچے کو قریبی اسکول میں داخل کرادیا۔ اپنے مکان کا جو حصہ ہم نے مبین اینڈ فیملی کو کرایے پر دیا تھا، اس کا ایک دروازہ ہمارے اس کمرے میں بھی کھلتا تھا، جو ہم نے کرایے پر نہیں دیا تھا۔ اس کمرے میں ہمار ا سامان رکھا ہوا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس کو مقفل کر دیتے لیکن جب شیریں مستقل یہاں رہنے لگی ، اس کی سہولت کی خاطر اماں نے وہ دروازه مقفل نہ کیا، تاکہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو اور باہر آنے جانے میں آسانی ہو۔ اب وہ اپنے کمرے سے ہمارے کمرے میں داخل ہو کر اس راہ داری میں آسکتی تھی جو ہماری بھی گزرگاہ تھی۔ شیریں نے اس سہولت کا فائدہ اٹھایا اور بے دھڑک آنے جانے لگی۔ اس نے اپنی طرف کے دروازے سے آنا جانا ترک کر دیا، ورنہ باہر جانے کے لئے اسے سارے گھر کا چکر کاٹنا پڑتا۔ یہی نہیں ، وہ بے دھڑک جب چاہتی ہمارے گھر میں آجاتی کبھی ٹیلی فون کے بہانے، کبھی کسی اور بہانے ۔ وہ ہماری پرائیویسی کو بھی مدنظر نہیں رکھتی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ہمیں یہ محسوس کروانے کی کوشش کرتی کہ اسے ہم سے بہت ہمدردی ہے اور وہ ہمارے ہی گھر کی ایک فرد ہے۔ چونکہ وہ اکیلی رہتی تھی تو اماں بھی اس کے ساتھ رعایت برت لیتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ تنہا آدمی مجبور ہوتا ہے، تب ہی لوگوں کا ساتھ ڈھونڈتا ہے۔ اس کے صلے میں شیریں میری ماں کا خیال رکھتی ۔ کام کاج میں ہاتھ بٹا دیتی اور ہر طرح سے ان کو سکھ پہنچانے کی کوشش کرتی ، جبکہ ہم سب تو صبح سے ہی پڑھائی کے سلسلے میں گھر سے چلے جاتے تھے، پیچھے اماں اور شیریں ہی رہ جاتے ۔ یوں یہ خاتون ہمارے گھر والوں پر اپنے اخلاق سے اعتبار جتلانے میں کامیاب ہوگئی ۔ میرے والدین کو اس نے پوری طرح اعتماد میں لے لیا، یہاں تک کہ ہم کبھی کہیں جاتے تو سارا گھر بند کر دیتے لیکن اس کے کمرے میں کھلنے والا دروازہ بند نہ کرتے۔ ہمارا گھر اس کی طرف سے کھلا رہتا تھا، کسی نے اس بات پر دھیان نہ دیا کہ اس دروازے کو بھی بند کر دینا چاہیے۔ ایک بار بجلی کے کام کے لیے ایک الیکٹریشن کو بلانا پڑا۔ دو تین دن کا کام تھا، وائرنگ تبدیل کرانی تھی ۔ اس دوران ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ہمارا لیپ ٹاپ جو بلکل نیا تھا اور ان ہی دنوں تایا نے میرے بھائی کے لیے دبئی سے بھیجوایا تھا، ڈبا بند رکھا ہوا تھا، وہ غائب ہو گیا۔ یہ لیپ ٹاپ شیریں کے ساتھ والے کمرے میں رکھا ہوا تھا اور ابھی استعمال بھی نہیں ہوا تھا۔ امی جان جب کسی کام سے اس کمرے میں آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ میز پر سے لیپ ٹاپ والا ڈبا غائب ہے۔ بھائی، جس کا یہ لیپ ٹاپ تھا ، وہ ان دنوں اسلام آباد گیا ہوا تھا، تب ہی گھر والوں نے اس کو وصول کرنے کے باوجود کھولا نہیں تھا۔ یہ سوچ کر کہ ایک دو دن میں بھائی آجائیں گے تو خود کھولیں گے۔ امی پریشان ہو گئیں، انہوں نے ابا جان کو بتایا۔ گھر کے ہر فرد سے پوچھا۔ سب ہی نے لاعلمی ظاہر کی۔ ایسے واقعے پر سب سے پہلے خیال باہر کے آدمی کی طرف جاتا ہے، لہذا وہ الیکٹریشن ہی ہو سکتا تھا کیونکہ اس کے سوا اور کوئی ہمارے گھر نہیں آیا تھا۔ سب ہی گھر والوں کے سامنے وہ بجلی ٹھیک کرنے والے سامان کا تھیلا بھی لایا تھا اور تین دن تک ہر کمرے میں جا کر کام کیا تھا۔ ابا جان نے اس سے پوچھ گچھ کی ، اس نے لاعلمی ظاہر کی۔ اسی دوران میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ کام شیریں بھی تو کر سکتی ہے، وہ بھی اس کمرے سے گزرتی رہتی ہے۔ ایک بات جو میں نے نوٹس کی کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ باہر جائے تو اپنے کمروں میں کسی کی بھی کمرے کی بتی جلتی چھوڑ جائے ، ہمیشہ وہ ہر سوئچ آف کر کے جاتی تھی، مگر ان دنوں وہ گھر میں موجود ہوتی یا نہ ہوتی، اس کے کمرے کی بتی جلتی رہتی ۔ ایک روز وہ باہر سے لوٹ رہی تھی، تب میں راہ داری میں کھڑی تھی۔ میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ کیا آپ باہر جاتے ہوئے کمرے کی بتی جلتی چھوڑ گئی تھیں وہ بولی نہیں ، مگر جب سے الیکٹریشن نئی فٹنگ کر کے گیا ہے، سوئچ میں جانے کیا مسئلہ ہو گیا ہے کہ کبھی کبھی ٹیوب لائٹ خود بخود جل جاتی ہے۔ امی نے الیکٹریشن کو بلا کر کہا کہ سوئچ کو ٹھیک کر دو ۔ دیکھو، اس میں کیا خرابی رہ گئی ہے ۔ اس نے چیک کیا تو سوئچ ٹھیک تھا اور ٹیوب لائٹ بھی ٹھیک تھی۔ میں نے سوچا کہ شیریں نے دوبار باہر جاتے ہوئے ہمیں یہ تاثر دینے کی کوشش کیوں کی کہ جیسے وہ کمرے میں موجود ہے، تب ہی بتی جل رہی ہے۔ ادھر ادھر کے پڑوسیوں کو بھی پتا چل گیا کہ الیکٹریشن آیا تھا، تب ہی سے ہمارا لیپ ٹاپ غائب ہوا ہے۔ احسن صاحب ہمارے دائیں طرف والے گھر میں رہتے تھے۔ جب انہوں نے ابا جان کی زبانی یہ تذکرہ سنا تو کہنے لگے۔ چار روز پہلے جب دوپہر کے وقت تمہارے گھر سے تمہاری کرایہ دار نکلی تھی ، اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا، جس میں کوئی چوکورسی چیز ہو سکتی تھی، جیسا لیپ ٹاپ کا ڈبا ہوتا ہے۔ یہ خاتون کچھ عجلت میں لگتی تھیں۔ تھوڑی دور ایک گاڑی کھڑی تھی، یہ تیز تیز قدم اٹھاتی ، اس میں جا کر بیٹھ گئیں اور گاڑی چلی گئی۔ میں نے عورت کی چال سے کچھ غیر مانوس سی کیفیت کا اندازہ کیا تھا۔ جس طرح کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کی حرکات و سکنات سے مجرمانہ راز داری عیاں ہونے لگتی ہے۔ اس وقت میں سامنے والے جنرل اسٹور پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ جنرل اسٹور احسن صاحب کے بیٹے کا تھا۔ انہوں نے میرے والد کو مشورہ دیا کہ آپ چوری کی رپٹ لکھوا دیں اور اس خاتون کا نام ضرور لکھوائیں۔ اس الیکٹریشن کو برسوں سے محلے کے گھروں میں کام کو بلایا جاتا ہے، اس کے بارے میں آج تک چوری کی شکایت نہیں ملی۔ بہرحال کسی انسان کا بھروسہ نہیں، کل کو یہی واردات بڑے پیمانے پر بھی ہو سکتی ہے۔ ابا جان شاید یہ بات پولیس تک نہ لے جاتے لیکن ان کے سمجھانے پر انہوں نے چوری کی رپٹ تھانے میں کر دی۔ پولیس والے آئے ، تمام گھر کا جائزہ لیا اور ایسے اشخاص کے نام مانگے جن پر شبہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ نام دے دیے گئے، جن میں الیکٹریشن ریاض اور شیریں کا بھی نام شامل تھا۔ ان سب سے پوچھ گچھ ہوئی ، چوری پھر بھی نہ پکڑی جاسکی، تاہم پولیس کا خیال تھا کہ چور گھر میں ہی ہے۔ اس واقعے کے بعد امی نے شیریں کے کمرے کا وہ دروازہ جو ہمارے گھر کے اندر کھلتا تھا، بند کر دیا۔ یوں اس کا ہر وقت ہمارے گھر میں آنا جانا ختم ہو گیا۔ ہماری اس احتیاط سے وہ بھی محتاط ہو گئی ۔ پہلے اماں اپنی سادگی کے باعث شیریں کی آمد و رفت پر نظر نہیں رکھتی تھیں ۔ اب جب ذرا غور کیا تو ہمیں اس کی عادات و حرکات مشکوک محسوس ہونے لگیں ۔ مثلاً ان کے شوہر بہت کم آتے تھے اور وہ بالکل آزادانہ زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ وہ جب چاہے گھر سے جاسکتی تھیں اور رات دس بجے کے بعد بھی گھر آتیں تو اکیلی ہوتی تھیں ۔ میکے سے کوئی ان کو چھوڑنے ساتھ نہیں آتا تھا۔ شیریں کا شوہر تو اپنی پہلی بیوی اور کنبے کی مجبوریوں کا اسیر تھا، وہاں اس کی پراپرٹی تھی ۔ دوسری عورت کو اس کی غیرموجودگی نے پوری آزادی عطا کر رکھی تھی۔ شیریں مردوں سے ہم کلامی میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی تھی۔ اس کا لہجہ نہایت نرم تھا، جو اکیلی رہنے والی عورت کے لیے ایک پر خطر بات تھی۔ ایک دو ماہ گزرے ہوں گے کہ شیریں میری ماں کے پاس روتی ہوئی آئی، کہنے لگی۔ خالہ جان مبین سے شادی کر کے میں بہت پچھتا رہی ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے وہ تو اپنی پہلی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہتا ہے اور میں اس کے انتظار میں، اکیلی سلگتی رہتی ہوں ۔ اس بار وہ تین ہفتوں بعد آیا ہے۔ اس دوران میری خبر تک نہ لی ، جیتی ہوں کہ مرگئی ہوں۔ آتے ہی جب میں نے مبین سے اس بات کا شکوہ کیا تو وہ تلخ کلامی پر اتر آیا۔ کہنے لگا۔ رہنا ہے تو اسی طرح رہو، ورنہ، اس نے مجھے مارا پیٹا بھی ہے۔ یہاں تک کہ میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھایا۔ ایسی سنگ دلی کوئی عورت برداشت نہیں کر سکتی۔ اماں آخر عورت تھیں۔ شیریں کو روتے دیکھ کر، اس کے ساتھ ہمدردی جتانے لگیں اور کہا۔ مبین کا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ بچے کو بھی مارا ہے۔ اپنے بچے کو کوئی باپ اس طرح بغیر خطا کے مارتا ہے بھلا ٹھہرو میں اس سے پوچھتی ہوں۔ تب ہی شیریں پھٹ پڑی، کہنے لگی۔ بچہ دراصل میرے پہلے شوہر کا ہے۔ میرے دو بچے ہیں، دوسرا بیٹا اس کی دادی کے پاس سمن آباد میں ہے۔ میرے پہلے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ بیوگی سے نجات پانے کے لیے تو میں نے مبین سے شادی کی تھی لیکن یہ عذاب پہلے عذاب سے بھی بڑھ کر ہے۔ میں توکسی دوست کے ذریعے نوکری کے لیے ان سے ملی تھی۔ انہوں نے ہمدردی جتلا کر مجھ سے شادی کر لی۔ ہماری اماں کو ایک بار پھر اس عورت سے ہمدردی ہوگئی ، کہنے لگیں ۔ اگر تمہارے بچے کو مبین برداشت نہیں کرتا ، تو اس کو بھی اس کی دادی کے پاس چھوڑ دو۔ ایک بیٹا تو ان کو دے دیا ہے، مگر دوسرا نہیں دے سکتی۔ تو پھر اپنی والدہ کے پاس چھوڑ آؤ، اس طرح اس سے ملتی بھی رہو گی ۔ وہ بوڑھی ہیں، پھر بھی بھابھی میری اچھی ہے۔ ان سے بات کرتی ہوں ۔ میری ماں نے تو ایسے ہی بات کہہ دی تھی۔ شیریں نے فوراً اس پر عمل کیا۔ دوسرے دن میکے گئی، بھابھی کو کسی طرح منایا اور بچے کو نانی کے حوالے کر آئی۔ اس کے بعد تو یہ رکاوٹ بھی نہ رہی ، وہ اب ہر پابندی سے آزاد ہوگئی۔ ہم اب ان کرایے داروں سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے، لیکن وہ آسانی سے مکان چھوڑنے والے نہیں تھے۔ ان ہی سوچوں میں ابا جان گھل رہے تھے کہ ایک دن خود بخود اس کا سامان قدرت کی طرف سے ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ ایک شام پولیس آئی اور شیریں کو حراست میں لے لیا۔ ہمارے گھر کے باہر ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی اور پولیس کا سپاہی اس پر تعینات تھا۔ ایک پولیس انسپکٹر شیریں کے ہمراہ تھا اور اس کے گھر کی تلاشی لے رہا تھا۔ اسی وقت ابا جان آگئے ۔ انہوں نے گیٹ پر پولیس والوں اور شیریں کو کھڑے دیکھا تو ان کے پاس گئے۔ پتا چلا ، شیریں نے قتل جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کیا ہے، ہم یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے ۔ بات پھر یوں کھلی کہ شیریں اور مبین شام کے وقت موٹر سائیکل پر میڈیکل اسٹور گئے ہوئے تھے کہ وہاں ایک شخص سے اچانک مڈ بھیڑ ہوگئی، جو کسی کام کے سلسلے میں وہاں آیا ہوا تھا۔ اس وقت شیریں اسٹور پر دوائیں خرید رہی تھی اور اس کا شوہر کچھ دور موٹرسائیکل پر بیٹھا اس کے لوٹنے کا انتظار کر رہا تھا۔ جس اسٹور پر شیریں کھڑی تھی ، وہ شخص بھی اسی اسٹور میں گیا اور اس نے اچانک شیریں کو دیکھا تو ہاتھ پکڑ کرہے، میں اسے نہیں دینا چاہتی ۔ وہ اسی بات پر تکرار کرنا چاہ رہا باہر لایا۔ وہ اس سے ہاتھ چھڑانے اور غصہ ہونے لگی۔ سامنے سڑک کے کنارے مبین کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، لیکن اس شخص کو علم نہیں تھا کہ مبین اسے دیکھ رہا ہے۔ شیریں بھی شدت سے اپنے غصے کا اظہار کر رہی ہے۔ مرد کہہ رہا تھا کہ تھوڑی دیر ٹھہر کر میری بات سن لو، مگر وہ اس کی بات نہیں سننا چاہ رہی تھی ۔ لہذا جب اصرار کرنے والا اس کے پیچھے آنے لگا، وہ دوڑ کر سڑک تک گئی اور موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ مبین نے یہ سوچ کر موٹر سائیکل چلا دی کہ سڑک پر تماشا نہ بنے۔ گھر آ کر اس نے شیریں کے ساتھ جھگڑا کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ تم اپنے سابقہ شوہر سے اب بھی ملتی ہو، جبکہ وہ مصر تھی کہ ہرگز نہیں ملتی ۔ آج اتفاقیہ سامنا ہو گیا۔ وہ ایک بچہ لے چکا، اب دوسرا لینا چاہتا ہے، مگر بچہ ابھی چھوٹا تھا۔ مبین نے شیریں سے قسم اٹھوائی ۔ وہ بولی ۔ بچے کے سلسلے میں زبر دستی اس نے مجبور کیا تو میں ملی ہوں، لیکن صرف اور صرف بچے کی سپردگی کا تنازعہ ہے، ورنہ میں ہرگز اس سے نہیں ملنا چاہتی ۔ میں تو اس کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔ کیا تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو اگر کرتی ہو تو اس کا ثبوت دو۔ جو تم کہو، میں کرنے کو تیار ہوں مگر مجھ پر شک مت کرو۔ شیریں نے جواب دیا۔ وہ تم سے ملنے کے لیے بچے کا بہانہ تراش رہا ہے۔ کیا تم اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہو ہاں ہاں ۔ وہ چلائی۔ کیسے تم کو یقین دلاؤں کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتی ، مگر پیچھا کیسے چھڑاؤں ۔ تم نے بھی تو میرے بچے کو مارا تھا۔ میرا بچہ تمہارے پاس بھی تو تشدد کے خوف سے سہما رہتا ہے۔ میں نے اسے بلا وجہ نہیں مارا تھا، مجھے شک تھا کہ تم اسے باپ سے ملانے کا بہانہ بنا کر اپنے سابقہ شوہر سے ملتی ہو یا پھر وہ یہ بہانہ بنا کر تم سے ملتا ہے۔ اب تمہیں کیسے شک ہوا ہے پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ کسی نے تم کو دیکھا ہے، میں سمجھ رہا تھا کہ بتانے والے کو مبالغہ ہوا ہے، لیکن شک مجھے بے آرام کر رہا تھا ، تب ہی میں نے اس پر ہاتھ اٹھا دیا تھا، ورنہ وہ تو ہے اور میں بھی بچوں والا ہوں ، مگر مجھے لگتا ہے کہ جب تک تم لڑکا اس کے حوالے نہ کروگی اور وہ تمہارا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ اب یا تو تم طلاق لے لو یا پھر جیسا میں کہتا ہوں ویسا کرو تم کیا کہنا چاہتے ہو تم اس کو فون کر کے کہو کہ آکر اپنا بیٹا یٹا ۔ لے جائے۔ ظاہر ہے، وہ ضرور آئے گا تم اس کو جہاں میں کہوں وہاں آنے کا کہو اور وہ ہی وقت دو، جو میں بتاؤں ۔ تم کیا کرنے والے ہو میں کچھ نہیں کروں گا۔ تم اکیلے جا کر بات کرنا۔ جو بات تم نے اس سے کرنا ہے وہ موقع پر بتاؤں گا، پھر وہ تم کو نہیں بلائے گا، تمہارا پیچھا چھوڑ دے گا اور تمہارا بچہ بھی تم سے نہیں لے سکے گا۔ ٹھیک ہے۔ تھک ہار کر شیریں نے ہامی بھر لی۔ منصوبے کے مطابق ، شیریں نے فون کر کے رات کے دس بجے اپنے سابقہ شوہر کو ایک سنسان جگہ بلایا اور کہا۔ مبین شور کوٹ گیا ہوا ہے ، تم فلاں پارک آجاؤ۔ بچے سے بھی مل لو اور ہم فیصلہ کر لیں کہ بچے کو کس کے پاس رہنا ہے۔ اس کا سابقہ شوہر گاڑی میں اس جگہ آگیا، جہاں مبین کچھ دور اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھ لیا کہ ایک گاڑی اس کی بتائی ہوئی جگہ پر آچکی ہے، تب شیریں سے کہا کہ تم اس سے پیار سے بات کرنا ، کہنا کہ بچہ تم اس کی سپردگی میں دینے کو تیار ہو، بشرطیکہ وہ اس کو تم سے ہر ماہ، دو بار ملنے دے بلکہ دونوں بچوں کو ملنے دے، تو تم دوسرا بیٹا اس کے سپرد کرو گی اور یہ سپردگی کسی وکیل یا عدالت کی معرفت ہوگی ۔ یقیناً وہ اس پر راضی ہو جائے گا۔ اگر اسے واقعی دوسرا بیٹا چاہے اس دوران تم اس کی خاطر تواضع بھی کرنا۔ اس نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بیوی کو دیں اور ایک مشروب کی بوتل بھی۔ کہا کہ تم یہ مشروب مت پینا۔ شیریں نے اسی طرح عمل کیا، جیسے مبین نے بتایا۔ وہ اپنے سابقہ شوہر کی گاڑی کی طرف گئی۔ مبین کی گاڑی اندھیرے میں درختوں کی آڑ میں چھپی ہوئی تھی، جبکہ سابقہ شوہر کی گاڑی سڑک کنارے کھڑی تھی۔ شیریں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ کسی ریسٹورنٹ میں چلیں۔ اس کے سابقہ شوہر نے کہا اور تم احمر کو نہیں لائیں نہیں ۔ وہ بولی ۔ یہیں ذرا دیر کو بات کر لیتے ہیں۔ رات کا وقت ہے، دیر زیادہ ہوگئی تو مالک مکان کو کیا جواب دوں گی ۔ وہ گیٹ بھی نہ کھولیں گے۔ میں کچھ کھانے پینے کو لائی ہوں، اکٹھے کھا لیتے ہیں اور بات بھی کر لیتے ہیں۔ اس طرح طریقے سے بات شروع کی اور دونوں ڈبے کھول دیے، جس میں سنیکس وغیرہ تھے۔ وہ اس کے ساتھ کھائی جا رہی تھی اور بات بھی کرتی جا رہی تھی ۔ اس دوران مشروب کی بوتل کھولی اور دو گلاسوں میں انڈیل کر خود جھوٹ موٹ گلاس لبوں پر لگاتے ہوئے دوسرا اس کے حوالے کیا۔ اس شخص نے بغیر یہ سوچے کہ شیریں اس کو زہر آلود مشروب بھی دے سکتی ہے، اسے پی لیا۔ کیونکہ وہ شاید اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتا ہوگا کہ یہ عورت میری جان لینے آئی ہے۔ پولیس کو جو بیان شیریں نے دیا، اس میں یہی کہا کہ اسے خود بھی علم نہ تھا کہ مشروب میں زہر کی آمیزش کی گئی ہوگی ، لیکن پولیس نے اس عذر کو اس وجہ سے رد کر دیا کہ خود اس عورت نے مشروب نہیں پیا تھا اور دیر ہونے کا بہانہ کر کے گاڑی سے اس وقت اتر گئی تھی۔ جب اس کے سابقہ رفیق حیات کی طبیعت خراب ہو رہی تھی اور گلا بند ہو جانے سے سانس رکنے لگی تھی ۔ وہ گاڑی چلانے کے بھی قابل نہ رہا تھا، جبکہ اس کو شیریں نے کہا تھا کہ تم واپسی میں مجھے گھر سے ذرا دورا تار دینا۔ وہ اترتے ہی دوڑتے ہوئے مبین کی گاڑی میں آگئی۔ اس نے اسے ہمارے گھر کے گیٹ پر لا کر اتارا۔ اس وقت میں رات کے بارہ بج کر چالیس منٹ ہو چکے تھے۔ مبین نے میرے والد سے کہا۔ ہم کسی تقریب میں گئے تھے، میں اب شور کوٹ روانہ ہورہا ہوں ، آپ گیٹ بند کر لیں۔ والد صاحب نے گیٹ بند کر کے تالا لگا دیا اور شیریں اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد ایک شام کو پولیس آگئی اور اسے حراست میں لے لیا۔ ہوا یہ کہ بیوی کو ہمارے گیٹ پر اتار کر مبین دوبارہ اس جگہ واپس گیا۔ شیریں کے سابقہ شوہر کی گاڑی اسی طرح موجود تھی۔ مبین اس بار اپنے ایک وفادار کو بھی لے گیا تھا۔ انہوں نے اس شخص کو اس کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا اور ڈرائیور سے کہا کہ یہ گاڑی تم گاؤں لے جا کر چھپا دو اور خود اپنی گاڑی میں شور کوٹ روانہ ہو گیا۔ ادھر شیرین کا سابقہ دیور فتح محمد بھائی کی گمشدگی سے بہت پریشان تھا۔ وہ اپنے شہر سے پتا کرنے لاہور آیا۔ خدا کی کرنی، ایک روز اتفاق سے اس کا گزر قلعہ گجر سنگھ سے ہوا۔ اس نے وہاں اپنے مرحوم بھائی کی گاڑی کھڑی دیکھی، گرچہ س کی نمبر پلیٹ بدلی ہوئی تھی لیکن اس بدلی ہوئی نمبر پلیٹ سے ہی اس کو شک ہوا کہ یہ پلیٹ اور پلیٹوں جیسی نہیں ہے۔ ایک روز اس نے گاڑی کا پیچھا کیا اور ہمارے گھر تک پہنچ گیا۔ بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ پہلے سے ہی درج تھی ، اس کے بھائی نے گاڑی کے بارے پولیس کو اطلاع دے دی ۔ مقتول کی گاڑی میں ہی اس وقت مبین ہمارے گھر آیا تھا۔ شیریں اور مبین گرفتار ہو گئے۔ ان لوگوں نے سمجھا تھا کہ چھ ماہ گزر گئے ہیں، اب معاملہ دفن ہو گیا ہے۔ مبین کی شامت اعمال کہ اس نے گاڑی نکالی اور اس کو اپنی آمد و رفت کے لیے پہلی بار استعمال کیا تھا اور پکڑا گیا۔ تھوڑی سی تفتیش والد صاحب سے بھی کی مگر ہمارا پیچھا چھوٹ گیا، البتہ شیریں اور مبین کے ساتھ تو وہی کچھ ہوا ہو گا جو ایسے کیسوں میں مجرموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ عجیب کہانی ہے، جس کا چرچا اخباروں میں بھی ہوا تھا۔ نہیں پتا کہ شیریں نے مبین کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا تھا، تا کہ وہ اسے طلاق نہ دیے یا پھر واقعی وہ اپنے بیٹے کو سابقہ شوہر کے سپرد نہیں کرنا چاہتی تھی اور تب ہی اس نے مبین کے کہنے پر اس کا ساتھ دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسرے شوہر کے ساتھ رہتی ہو مگر اس سے چھپ کر پہلے شوہر سے ملتی ہو۔ اسی وجہ سے مبین اسے سزاد دینا چاہتا ہو۔ کہتے ہیں کہ نیتیں تو خدا ہی جانتا ہے، مگر ہر انسان کو کسی نہ کسی دن اپنے کیے کی سزا ضرور ملتی ہے۔ | null |
null | null | null | 234 | https://www.urduzone.net/baryani-ki-plate/ | گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر دوپہر میں ذرا سی دیر کے لیے ستانے لیٹی تو موبائل کی بیپ سنائی دی ۔ کسی انجان نمبر سے میسج تھا۔ بریانی کی پلیٹ بریانی کی پلیٹ بھی کیا ۔ عجب شے ہے۔ پڑوس سے آنے والی اچانک بریانی کی پلیٹ ہنستے بستے بہن بھائیوں میں پھوٹ ڈال دیتی ہے۔ اس نے زیر لب پڑھا اور پھر افسردگی سے مسکرادی۔ تصور میں میکے کی یادیں آنکھ مچولی کھیلنے لگیں۔ ماں باپ کے گھر کا وسیع و عریض آنگن، بہن بھائیوں کا ہجوم اور مہنگائی کے عالم میں مہینے بھر بعد کہیں جا کر پکنے والا بریانی کا دیگچہ جس میں لوازمات بھی بامشکل ہی پورے ہوتے تھے اور گوشت بھی ناکافی مقدار میں شامل ہوتا تھا مگر ماں نجانے اپنی مامتا کا کیسا لذت بھرا ذائقہ گھول دیتی تھی کہ آنا فانا سارا دیگچہ چٹ حیت ہو جاتا اگر کبھی ایک آدھ پلیٹ بچ جاتی تو ماں فریج میں ڈھک کر رکھ دیتی۔ اگلے دن اس پر تمام بہن بھائیوں کی چھینا جھپٹی۔ دانہ دانہ تقسیم ہوتا۔ ماں چیختی رہ جاتی۔ کم بختو ابھی کل ہی تو اتنی بریانی ٹھونسی تھی۔ پھر بنا دوں گی۔ مگر سنتا کون اسی طرح جب بھی یونہی بیٹھے بٹھائے پڑوس کی خالہ کے ہاں سے بریانی کی پلیٹ آجاتی تو وہ شور اٹھتا کہ الامان الا حفیظ ایک پلیٹ کے پیچھے بھاگم دوڑی۔ کوئی بوٹی اچک کر لے جاتا اور کوئی چمچے کے تکلف میں پڑے بغیر ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیتا۔ ندیدو اب کیا خالہ کی پلیٹ بھی کھا جاؤ گے اماں گھورتیں ابا چشمے کے اوپر سے دیکھ کر زیر لب مسکراتے۔ کتنے اچھے دن تھے۔ اب تو خواب و خیال ہی ہوگئے۔ ایک ایک کر کے تمام تمام بہنوں بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ وہ بیاہ کر بہت خوش حال گھر میں آئی تھی۔ جیٹھانی خاندانی بہوتھی اور کچن پر اس کی مکمل اجارہ داری تھی۔ ہر تیسرے چوتھے دن پر پانی کا بڑا سا پتیلا چڑھتا۔ بے شمار لوازمات اور وافر گوشت کے ساتھ۔ مگر نجانے کیوں اسے مزا نہ آتا۔ شاید اجزا کی بھر مار کے باعث کسی بھی شے کا اصل ذائقہ نہ اُبھرتا۔ عجیب گھلا گھلا سا ٹیسٹ ہوتا۔ مرچ مسالے کی بھی زیادتی ہوتی۔ وہ پانی کے گھونٹ سے چاول اندر اتارتی۔ جب کبھی میکے کا چکر لگتا تو ماں نے فریج کے کسی کونے میں اس کے حصے کی بریانی ضرور ہی فریز کی ہوتی ۔ وہ ٹوٹ پڑتی۔ بھائی مذاق اڑاتے۔ لگتا ہے آپا صرف بریانی کھانے ہی آتی ہیں۔ کیوں آپا کیا تمہارے سرال میں بریانی نہیں بنتی۔ بنتی ہے بلکہ بہت زیادہ بنتی ہے مگر ماں جیسی نہیں ۔ وہ سارا کا سارا باؤل ہڑپ کر جاتی۔ پھر وقت مزید آگے سرکا۔ وہ خود بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کے اپنے بچے اس سے فرمائشیں کر کر کے پکواتے مگر اس کی زبان کو ماں کے ہاتھ کی بریانی کا چسکا لگا رہا۔ ایک شام ماں چپ چپاتے ہی گزر گئی۔ وہ کئی دن تک بے یقین رہی۔ ہائے مائیں کتنی آسانی سے دامن چھڑا کر چلی جاتی ہیں۔ ماں کی وفات کے بعد بھائیوں نے آنگن کے بیچ دیوار اٹھا کر اپنے اپنے پورشن تقسیم کر لیے۔ وہ وسیع و عریض آنگن سمٹ کر مختصر سا رہ گیا۔ ایک کنوارہ بھائی تھا وہ چھت پر بنے کمرے میں مقیم ہو گیا۔ اب تو اس کا میکے جانا بھی بہت کم ہو گیا۔ کچھ تو بچوں کی تعلیمی مصروفیات اورسچی بات تو یہ تھی کہ کچھ اب ماں جتنے اصرار اور خلوص سے کوئی بلاتا بھی نہیں تھا۔ پھر چھوٹے بھائی کی بھی شادی ہوگئی۔ عین شادی کے دنوں میں اس کے تمام بچوں کو خسرہ نے آ لیا۔ وہ بامشکل ہی گھڑی دو گھڑی کے واسطے فنکشن میں شریک ہوئی۔ نئی نویلی بھاوج سے ایک طرح تعارف ہی نہ ہو پایا۔ اس دن دولہا دلہن کی دعوت کی تو وہ معذرت کر کےہنی مون پر روانہ ہو گئے اس کا بھی بعد میں جانا نہ ہوا ایک دن وہ بازار بچوں کے یونیفارم خریدنے گئی۔ وہاں سے میکے کا گھر قریب ہی تھا۔ لاشعوری طور پر اس نے واپسی پر رکشے والے کو وہاں تک چلنے کا کہہ دیا نیچے والی تو دونوں بھابیاں غائب ہیں۔ ایک بھائی کے گھر گئی تھی اور دوسری کی خالہ کا چہلم تھا۔ البتہ ني والی موجود تھی۔ لپک کر آئی۔ بڑی گرم جوشی سے کتنی دیر گلے لگی رہی۔ پھر اپنے کمرے میں بٹھا کر ٹھنڈا ٹھار لیموں پانی بنالائی۔ آپا آپ آرام سے بیٹھیں۔ میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں ۔ کیا بنا ہے دلہن اسے بھی زوروں کی بھوک لگی تھی۔ بے تکلفی سے پوچھ بیٹھی۔ آپا بھنڈی گوشت بنارہی ہوں۔ اس میں تو ابھی کچھ دیر ہے۔ میں آپ کے لیے کچھ اور لاتی ہوں۔ پھر کچھ دیر تک وہ کچن میں کھٹر پٹر کرتی رہی اور جب واپس آئی تو ٹرے میں ایک پلیٹ بریانی رکھی ہوئی اسے کے سامنے دھری ۔ واہ بھئی واہ کیا بریانی بھی بنائی ہے۔ وہ کھل اٹھی۔ نہیں آپا یہ تو اتنے دن پہلے بنائی تھی۔ حاشر نے بتایا تھا کہ آپ بریانی بہت شوق سے کھاتی ہیں تو میں نے ایک ڈبہ فریز کر لیا۔ اب وہی اوون میں گرم لائی ہوں۔ بڑی آپا نے ایک دن بتایا تھا کہ اماں مرحومہ بریانی بہت اچھی بناتی تھیں۔ ان ہی سے پوچھ کر اماں کے طریقے سے بنائی ہے۔ میں نے ان کے ہاتھ کی کھائی تو نہیں ہے۔ اب پتا نہیں ان جیسی بنی ہے یا نہیں۔ وہ نان اسٹاپ بولے جارہی تھی اور وہ حیرت سے گنگ لا پروا سے حلیے میں اونچی پونی ٹیل بنائے بظاہر لاابالی سی نظر آنے والی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس نے ماں سے اس کی جذباتی وابستگی کو کیسے یاد رکھا تھا۔ ماں کی ذات سے جڑی یہی جذباتی وابستگی اس کی موت کے بعد لڑکیوں کو میکے والوں سے شاذ ہی ملتی ہے۔ بات ماں کے ہاتھ کے بنے کھانوں اور چیزوں کی نہیں ہوتی ، بات تو مامتا کے انمول رشتے میں موجود خلوص اور محبت کی ہوتی ہے جس سے اس کے جانے کے بعد لڑکیاں محروم ہو جاتی ہیں۔ اگر پیچھے رہ جانے والے ان کا مان اور بھروسا قائم رکھیں تو نقصان کی کسی نہ کسی حد تک تلافی ہو جاتی ہے۔ اس نے اپنے سامنے دھری بریانی کی پلیٹ کو دیکھا۔ دل میں ماں کی یاد سے ایک ہوک سی اٹھی۔ آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔ اس نے ایک چمچ بھر کر منہ میں ڈالا۔ کیسی ہے آپا اماں جیسی ہے نا چند ماہ پرانی بھاوج نے اشتیاق سے پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں پر خلوص سی چمک تھی۔ اس کے اشک گالوں تک بہنے لگے۔ ہاں بالکل ماں جیسی ہے۔ اس نے چاول حلق سے اتارے اور آگے بڑھ کر بھاوج کو گلے سے لگا لیا۔ ہاں بالکل ماں جیسی ہے ۔ اس نے پھر اسی جملے کی تکرار کی۔ بھاوج نے اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کے آنسو صاف کئے اور پھر دونوں نم آنکھوں سے مسکرا دیں۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 235 | https://www.urduzone.net/oulad-ya-ghulam/ | اس کا دل پتے کی طرح لرز رہا تھا وجہ امی کا بلند ہوتا پارہ تھا۔ ماں نوکرانی ہے ان کی کہ پکا پکا کر کھلاتی رہے ان مہارانیوں کو اور یہ کھا کر چلی جائیں۔ ارے دوسروں کی اولاد بھی تو ہے جو سارے گھر کو ناشتہ کروا کر اسکول جاتی ہے۔ تم ایسا کونسا انوکھا پڑھتی ہو وہ بھی تو ہیں ایک جنہوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر سنبھال رکھا ہے۔ اسے کالج سے دیر ہو رہی تھی وہ ناشتا کرنے کے لیے کچن میں آئی جیسے ہی اس نے ہاٹ پاٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو فارہ بیگم نے فورا سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ اپنا ناشتہ بناؤ۔ میرے پکے ہوئے کو ہاتھ نہ لگاؤ ۔ اس کے دل پر دھکا سا پڑا۔ آنکھوں میں جمع ہوتے پانی کو پیچھے دھکیلتی وہ بھوکی ہی کالج چلی آئی۔ اور اب ہانیہ نے باتوں باتوں میں اس سے پوچھا۔ آج کیا کھایا ناشتے میں پھر اس کا جواب نہ پا کر خود ہی بتانے لگی کہ آج میرا دل چاہ رہا تھا پوریاں کھانے کو تو مما جانی نے میرے کہنے پر حلوہ پوریاں منگوا ئیں پھر ہم نے گرما گرم پوریاں ناشتے میں کھائیں ۔ ہاں میں نے بھی گرما گرم صلواتیں ناشتے میں کھائیں ، وہ دل ہی دل میں کہہ کررہ گئی۔ اس نے کپڑوں کی وارڈ روب پر نظر دوڑائی ۔ گلابی رنگ کا جوڑا نکالا اور باتھ لینے چلی گئی۔ وہ واپس آئی تو سامنے امی جان کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ اس نے ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی پھر سوچا کیا ہوا پہننے اوڑھنے کا تو بڑا پتا ہے۔ نئے نویلے سوٹ دکھائی دے جاتے ہیں بس ماں ہی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم تو گھسے پٹے کپڑوں میں ھی سال نکال دیتے ہیں۔ میری ماں ہر بار پانچ ، پانچ ہزار دیتی ہے کپڑوں کے لیے اور میں اولاد کی بھلائی کے لیے گھر کے خرچوں میں ہی لگا دیتی ہوں۔ ورنہ ہوتی جو تمہاری تائی جیسی تو خوب نئے نکور کپڑے پہنتی۔ احسان مانو اپنی ماں کا۔ مگر نہ انہیں کیا احساس اور وہ اپنی جگہ پر بددل سی کھڑی رہ گئی۔ ابو فیس دے دیں۔ اس نے ہلکی آواز میں کہا۔ یہ جو رات دن کام کر کے فیس بھرتے ہیں نا انہیں احسان مانو ہمارا ۔ ورنہ دیکھا نہیں رقیہ نے کیسے دس ، دس کرا کے گھر بٹھا لیا کہ ہم سے نہیں بھری جاتی فیسیں ۔ اس مہنگائی کے دور میں تمھیں پڑھا لکھا رہے ہیں ورنہ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اڈے پہ سلائی پہ بٹھا رکھی ہیں بیٹیاں۔ ابو جیب خرچ اور خلاصے اس نے بات ادھوری چھوڑی دی۔ درختوں پر لگتے ہیں نا پیسے جہاں سے تمہارا باپ توڑ توڑ کر لاتا رہے۔ نہ جانے کیا کرے گا ان کا باپ اتنا پیسا لٹا لٹا کر۔ نہیں اگلے گھر کی فکر کرو۔ ہمیں تو انہوں نے نہ کل سکھ دیا ہے نہ آج ۔ شادی کریں فکر اتاریں۔ وہ دل میں اٹھتی ٹیسوں کو دباتی وہاں سے چلی آئی۔ فاره ذرا اپنی بٹیا کو تو دیکھو کیسی پیلی پھٹک رنگت ہو رہی ہے آنکھیں ڈوبتی جا رہی ہیں اس کی۔ کیا ہو رہا ہے کچھ علاج کراؤ۔ کچھ کھلاؤ پلاؤ۔ جان بنے کچھ بے چاری پڑھائی کے زور تلے ہی دبی ہوئی ہے۔ ممانی نے اسے دیکھتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔ ارے کیا کریں اور اب اپنی استطاعت کے مطابق تو خوب اچھا کھلاتے ہیں پلاتے ہیں۔ باپ نے تو شہزادیاں بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اور میں تو خود سارا کام آپ ھی کرتی ہوں بیٹھ کر کھاتی ہیں پر بھی مریض ۔ ارے یہیں دیکھ لو بڈھے وارے سارا کام کرتی ہوں لوگ کہتے ہیں بیٹیوں کی مائیں تو رانی ہوتی ہیں۔ نہ جانے کون سی بیٹیاں ہوتی ہوں گی وہ جورانی بنا کر رکھتی ہوں گی ہمیں تو ہماری بیٹیوں نے نوکرانی بنا رکھا ہے۔ بیٹیاں اچھی ہوں تو دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ ماں کے ان الفاظ نے اس کے جسم سے رہی سھی توانائی بھی کھینچ نکالی وہ قریب پڑے صوفے پر ڈھے سی گئی۔ اسے آج تک سمجھ نہ آئی کہ اس کی ماں کو ان سے پرخاش کیا ہے۔ وہ ہر وقت تلخ کلامی کیوں کرتی ہیں۔ کبھی اسے لگتا کہ ماں کو صرف کام سے غرض ہے ہر وقت گھر کے کام نہ کرنے کے طعنے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کام چورتھی یا بہت پوہڑ۔ وہ سارے کاموں میں امی کی مدد کرواتی تھی مگر آگے بڑھنے سے ڈرتی تھی ہر کام کے وقت یہ خوف ہمہ گیر رہتا کہ کہ اگر یہ خراب ہو گیا تو اگر یہ غلط ہو گیا تو اماں بہت ڈانٹیں گی۔ درحقیقت فاره بیگم سخت مزاج اور تنقیدی نگاه ہر کام میں نکتہ چینی، کیڑے نکالنا اور نقص بتانا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ صرف یہی نہیں تھوڑی سی بھی غلطی ہوجاتی تو وہ رائی کا پہاڑ بنا لیتیں۔ اس غلطی کو اتنا اچھالتی کہ وہ خطا وار سے سزاوار بن جاتا۔ ان کی دوسری بری عادت ان کی میں تھی۔ ہر وہ کام جو انہوں نے کیا ہوتا وہ حسن، سلیقے کی مثال ہوتا ۔ باقیوں کو تو مطعون کر کے طنز کے تیر برسا کر زخمی ہی رکھتیں۔ خصوصاً اپنی اولاد کا دوسروں سے موازنہ کرنا ۔ ہر وقت کی مقابلہ بازی سے وہ خود تو کیا جلتی کڑھتیں البتہ بیٹیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا کہ بیٹے گھر میں کم ہی پائے جاتے یا ایسی صورت حال ہوئی وہ کھسک لیتے۔ وانیہ سب سے بڑی تھی سو وہ سب سے زیادہ ان کی اس بدسلوکی کی زد میں رہتی باقیوں کی بچت ہو جاتی دوسرا وہ عادی ہو گئے تھے انہیں کوئی فرق ہی نہ پڑتا تھا کہ جو مرضی بولتی رہیں۔ وہ حساس تھی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اس کے دل پر جا کے لگتی ، دل کو چھبتی محسوس ہوتی کبھی کبھی تو وہ سوچتی کہ وہ بھی دوسروں کی طرح بے حس کیوں نہیں ہو جاتی کیوں ہر بار نئے سرے سے تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ امی چاولوں میں پانی کتنا ڈالنا ہے۔ آج اس نے ڈرتے ڈرتے چولہا چوکی کا میدان سنبھال ہی لیا۔ تمہیں نہیں پتا کیا تم تو اتنے سالوں سے اس گھر میں ہی نہیں رہتی۔ اتنے سالوں سے اس گھر میں یہ کام ہو ہی نہیں رہا۔ لوگوں کی بیٹیاں تو سارے گھر کو پکا پکا کر کھلاتی ہیں۔ ایک ہماری بیٹیاں ہیں جو بیس بیس سال کی ہوگئیں اور آٹا تک صحیح سے گوندھنا نہیں آتا اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس نے جو بھی پکایا وہ خراب ہو جاتا۔ سالن میں نمک مرچ کا تناسب نہ رکھ پاتی تو روٹی گول نہ ہوتی جل جاتی۔ اور امی نے اس کو اتنی سنائی گھر بھر کو روٹیاں پکڑ پکڑ کر دکھاتیں رہیں وہ اتنی دل برداشتہ ہوئی کہ اس کا کچن کے کاموں سے ہی دل اٹھ گیا۔ اس نے کھانا پکانے کی کوشش ہی ترک کردی مگر امی کے طعنے ترک نہ ہو سکے کہ کھانا آتا ہے بس اور کوئی کام نہیں آتا ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ بے اختیار ہی دل سے شکوہ اٹھایا ۔ اللہ میں اولاد ہوں یا غلام اپنی مرضی سے پڑھ نہیں سکتی ۔ کھا نہیں سکتی ۔ پہن نہیں سکتی وہ عورت جس سے میرا رشتہ ماں کا ہے اسے صرف کام سے غرض ہے۔ ایسا تو پہلے زمانے کی لونڈیوں کے ساتھ ہی ہوتا تھا کہ ہر وقت ہر چیز کا احسان جتا کر دینا اور صرف اور صرف کام سے غرض کام کیا تو روٹی مقدر ورنہ صلواتیں ۔ کاش کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسی ماں ہے تو وہ سدھر جائے۔ یا اللہ تو ہدایت دے یا مجھے میری ماں سے دور کر دے۔ اتنی دور جہاں ان کی پرچھائی بھی نہ پڑے ۔ ہر رات اس کا تکیہ بھیگتا اور نیند سے خالی رت جگے کی غمازی کرتی آنکھیں ہر وقت ذہن میں ابھرتی سوچیں ۔ منفی سوچیں، افسردگی مایوسی۔ رات دن کی سوچوں نے اسے بیمار کر ڈالا تھا مگر افسوس تو یہ کہ اس کی بیماری بھی ان کا دل موم نہ کر پائی الٹا اس کی ذات طعنہ بن گئی۔ مریض نہ ہو تو، اسے خواب بھی عجب پریشان کن دکھائی دیتے۔ دیکھ لوں گی تمہیں میں آگے کون بٹھا بٹھا کر کھلاتا ہے۔ دن میں تارے نہ دکھائی دیئے نہ انہوں نے تو میرا نام بھی فارہ نہیں ۔ امی کے اس قول نے اسے شادی سے خوف زدہ کر رکھا تھا ۔ امی اگر ایسی ہیں تو ساس کیسی ہوتی ہوں گی سارے لوگ ہی ساس کی تو برائیاں کرتے ہیں۔ کیا بنے گا میرا آگے یہ سوچ ہی اس کا دم نکالنے کو تیار رہتی ۔ آخر میں وہ صرف رو دیتی کہ اس کا اختیار اتنا ہی تھا۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 236 | https://www.urduzone.net/mout-ka-elaj/ | جب حضرت سلیمان تخت شاہی پر رونق افروز ہوئے تو سب پرندے ان کو مبارک باد دینے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور پھر آپ کے سامنے اپنی عقل و ہنر اور خداداد صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔ یہ اظہار خودستائی اور تکبر کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس لیے کہ وہ ہدایت پھیلانے کے کام میں حضرت سلیمان کے کام آسکیں۔ جب ہدہد کی باری آئی تو اس نے عرض کی اے بادشاہ میرے پاس صرف ایک ہنر ہے اور وہ یہ کہ جب میں انتہائی بلندی پر اڑتا ہوں تو میری نگاہ دوربین پانی کو زیر زمین بہتے ہوئے بھی دیکھ لیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے رنگ اور گہرائی کا اندازہ بھی کر لیتی ہے۔ اور یہ بھی کہ پانی زمین سے ابل رہا ہے یا کسی پتھر سے اگر حضور سفر میں مجھ کو اپنی معیت کا شرف بخشیں گے تو امید ہے کہ یہ عاجز بہت کارآمد ثابت ہو گا۔ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ رہا کرو اور بے آب و گیاہ ریگستانوں میں پانی ڈھونڈھنے میں ہماری مدد کیا کرو۔ ہمیں یقین ہے کہ تمہاری رفاقت ہمارے لشکر کو پیاس کی تکلیف سے بے نیاز کر دے گی۔ کوے نے جب ہدہد کی باتیں سنیں اور بارگاہِ سلیمانی میں اس کی مقبولیت کا حال دیکھا تو وہ حسد سے جل بھن گیا اور حضرت سلیمان سے عرض کی کہ اے بادشاہ ہدہد نے آپ کے سامنے جو ڈینگ ماری ہے وہ بالکل جھوٹ اور لغو ہے۔ آپ جیسے شاہ ذی جاہ کے سامنے ایسی یاوہ گوئی بے ادبی کے مترادف ہے۔ اگر فی الواقع اس کی نظر ایسی تیز ہوتی تو اس کو مٹھی بھر خاک کے نیچے چھپا ہوا جال پھندا کیوں نظر نہیں آتا اور وہ اس میں کیوں پھنستا حضرت سلیمان نے ہدہد سے مخاطب ہو کر فرمایا اے ہدہد یہ کیا معاملہ ہے کیا تو نے واقعی ہمارے سامنے لاف زنی کی ہے ہدہد نے عرض کی کہ اے بادشاہ بلاشبہ میں ایک مسکین اورعاجز پرندہ ہوں لیکن خدا کے لیے آپ میرے خلاف دشمن کی باتوں کو چنداں اہمیت نہ دیں۔ اگر میرا دعویٰ غلط ثابت ہو جائے تو میرا سر تن سے جدا کر دیں۔ یہ کوا تو خدا کے حکم کا منکر ہے اور عقل رکھنے کے باوجود نرا کافر ہے۔ شاید یہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتا ہے یا اس کو معلوم ہی نہیں کہ موت کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں۔ اے بادشاہ اس میں جھوٹ نہیں ہے کہ میں آسمان سے تہ خاک پھندے کو بھی دیکھ لیتا ہوں لیکن جب قضا آ پہنچتی ہے تو میری عقل و ہنر پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ میری نگاہ کو اللہ تعالی نے زبر دست قوت بخشی ہے لیکن اس قدر نہیں کہ یہ مشیت الہی کے سامنے دم مار سکے۔ جب قضا آتی ہے تو عقل سو جاتی ہے۔ چاند سیاہ ہو جاتا ہے اور سورج گہن میں آجاتا ہے۔ | null |
null | null | null | 237 | https://www.urduzone.net/gul-farosh/ | دیکھ پگلی تیرے ابا کو راجہ سے بہت پیار ہے۔ وہ تیرتی پھپھو کو کبھی منع نہیں کریں مجھے گے۔ اماں نے آٹا گوندھتے ہوئے، پاس ہی بیٹھی ، ہانڈی میں تیز تیز ڈوئی چلاتی گل سے کہا۔ اونہہ غریبوں کا راجہ اگر ابا کو اپنے غریب بھانجے سے پیار ہے تو کرتے رہیں مگر دوسروں کی زندگی کیوں خراب کرنا چاہتے ہیں گل نے ہاتھ روک کر کہا۔ اماں نے ایک نظر ہانڈی میں لگتے مسالے پر ڈالی اور پاس پڑے پانی کے برتن میں سے سے چند چھینٹے مسالے میں ڈالے تو شوں کی آواز کے ساتھ تھوڑا دھواں بھی اٹھا ۔ گل منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانسنے لگی۔ کیا ہے اماں جب سب کچھ خود کرنا ہوتا ہے تو مجھے کیوں آواز دیتی ہیں گل کو بہانہ چاہیے تھا، اس لیے فورا وہاں سے اٹھ کر باورچی خانے سے باہر نکل گئی۔ سن لے گل تیرا ابا آج کل میں تیری پھپھو سے رشتے کی بات کرنے والا ہے اور تو ہے کہ ۔۔ پگلی ماں ، باپ کے گھر کے لاڈ یہاں تک ہی رہ جاتے ہیں ۔ مانا کہ تیری پھپھو بہت اچھے مزاج کی عورت ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد بھی نکمی ہو تو زیادہ دیرتک ان کے لاڈ نخرے بھی نہیں اٹھائے جاتے۔ اور تو تو بہو بن کے جائے گی ، اس لیے کام سیکھ لے اب نہیں تو سب کہیں گے کہ اکلوتی بیٹی کو کچھ سکھا کر نہیں بھیجا ہے۔ کبھی پھپھو کہیں گی، کبھی لوگ کہیں گے اماں میری زندگی کیا ان باتوں کے گرد ہی گھومتی رہے گی مجھے نہیں کرنی شادی وادی نہ کسی راجہ سے اور نہ شہزادے مجھے بس پڑھنا ہے ۔ ڈھیر سارا ۔۔ وہ جیسے ٹی ۔ وی میں لڑکیاں آتی ہیں نا کتابیں ہاتھ میں پکڑے ، تیزی سے کالج کی سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی ہوئی ، نئے اور اچھے کپڑے پہنے ہوئے خوبصورت بال ہوا میں لہراتے ہوئے ہنستی کھلکھلاتی ہوئی ، ہر فکر سے آزاد ۔۔ اماں مجھے بھی ایسی زندگی جینی ہے۔ اماں کیا ایسی زندگی ملنا بہت مشکل ہے ہانڈی میں کئی سبزی ڈالتے ہوئے اماں نے گردن موڑ کر صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھی گل کو دیکھا تھا۔ دونوں ٹانگوں کو جھلاتے ، اور چہرہ دونوں ہتھیلیوں میں سجائے ، اپنے تصور میں کھوئی، وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔ اس لمحے اماں کا دل چاہا کہ ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہوتی تو وہ اس کی ہر خواہش پلک جھپکتے ہی پوری کر دیتیں مگر وہ سر جھٹک کر ادھورے رہ جانے والے کاموں کی طرف متوجہ ہوئیں۔ تجھے میں اسی لیے پگلی کہتی ہوں ۔ کتنی بار منع کیا ہے کہ زرینہ کے گھر ڈرامے دیکھنے مت جایا کر نت نئی چیزیں دیکھ دیکھ کر تیرا دماغ خراب ہوتا ہے۔ زندگی آسان تو کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھایا تو وہ سیدھی ہوتے ہوئے گہری سانس لے کر بولی۔ مگر اماں ہماری زندگی تو کچھ زیاده ہی مشکل ہے نا اتنی مشکل کم میرے چھوٹے چھوٹے خواب اس چھوٹے اور کچے صحن کی مٹی میں کہیں گر کر گم ہو گئے ہیں۔ کتنا شوق تھا مجھے پڑھنے کا مگر آٹھویں سے آگے پڑھ ہی نہیں سکی۔ گل کے چہرے پر گہری اداسی رقم تھی۔ اماں کے دل کو کچھ ہوا۔ اس سے پہلے کہ اماں کچھ کہتیں ، لکڑی کا دروازہ، زور دار آواز کے ساتھ کھلا۔ اماں اور گل نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا ۔ ابا تھکے ہوئے قدموں سے سائیکل اندر کر رہا تھا۔ ابا نے سائیکل دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور صحن میں بیھٹی گل کو دیکھ کر بے اختیار مسکرا دیا۔ میرے پھولوں میں سے سب سے پیارا اور خوبصورت پھول ہے میری بیٹی ابا نے پاس آکر اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا شاپر اس کی طرف بڑھایا۔ کیا لائے ہیں ابا گل ساری اداسی بھول کر تجس سے لفافے کے اندر جھانکنے لگی۔ برفی سفید برفی کے کچھ ٹکڑے دیکھ کر گل کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ میری بیٹی کو بہت پسند ہے نا چل آرام سے بیٹھ کر کھا اور سن ابا نے پاس آتی اماں کی طرف دیکھا، اپنی اماں کو بالکل مت دینا اس کے لیے زیادہ میٹھا اچھا نہیں ہے۔ ابا نے شرارت سے کہا تو گل کھلکھلا کر ہنس پڑی جبکہ اماں حیرت سے دونوں باپ بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔ لو بھلا میں نے کب فرمائش کی ہے کسی چیز کی۔ اماں نے منہ بنا کر کہا اور بڑبڑاتے ہوئے روٹی بنانے چلی گئیں ۔ گل پٹر پٹر بولی، ابا کے پاس بیٹھی سارے دن کی روداد سنا رہی تھی ۔ تھکا ہارا ابا مسکراتی نظروں سے اپنی بلبل کو چہکتے ہوئے دیکھنے لگا۔ اچھا اب بس کر اپنے ابا کو سکون سے روٹی تو کھانے دے اماں نے روٹی کی چنگیر لکڑی کی میز پر رکھی اور سالن لینے چلی گئیں۔ گل جلدی سے اٹھ کر پانی کا جگ اور گلاس لے آئی ۔ تینوں نے سکون سے کھانا کھایا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے دستر خوان سے اٹھ گئے۔ گل چائے کا پانی چڑھا دے اماں نے باورچی خانے کی طرف منہ کر کے آواز لگائی ۔ ابا کھانے کے بعد چائے ضرور پیتے تھے۔ جو زیادہ تر گل ہی بنا کر پیش کرتی تھی۔ جب تک گل چائے بنا کر لائی ، ابا اور اماں کسی بحث میں مصروف ہو چکے تھے۔ گل کو دیکھ کر دونوں چپ ہو گئے۔ گل آبا کے سامنے چائے کا کپ رکھ کر، برفی کا شاپر ہاتھ میں پکڑے واحد کمرے کی طرف طرف چل پڑی۔ اماں اور ابا نے سارے دن کی باتیں کر کے کمرے میں آنا تھا ، گل نے پرانے رسالے میں سے ایک کہانی بہت آرام سے پڑھ لینی تھی ۔ یہ رسالے بھی اسے زرینہ نے دیے تھے۔ گل نے رضائی کھولی اور اس میں گھس کر نیم دراز ہو کر مزے سے برفی کھاتے رسالہ کھول لیا ۔کہانی بہت طویل تھی یا اس کی نیند بہت کچی ۔۔ جب اماں سونے کے لیے کمرے میں آئیں تو گل سو چکی تھی اور پاس ہی رسالہ اوندھا پڑا ہوا تھا۔ سچ میں پگلی ہے یہ اماں نے مسکراتے ہوئے بوسیدہ رسالہ اٹھا کر بہت احتیاط سے طاق پر رکھا تھا۔ وہ ان پڑھ عورت یہ نہیں جانتی تھی کہ اس پرانے ، بوسیدہ رسالے میں کیا ہے وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ ان بوسیدہ اوراق کو ہاتھ میں لیتے ہی گل کے چہرے پر خوشی کے ان گنت رنگ پھیل جاتے تھے۔ میں گیارہ بجے تک راجہ کو بھیجوں گا تب تک یہ گجرے بنا دینا۔ آج مجھے جلدی جانا ہے۔ صبح ہی صبح گاہک آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ قریبی مارکیٹ میں، دہی بھلوں کی مشہور دکان کے سامنے ، ابا پھولوں کا ٹھیلا لگاتا تھا۔ روز کے اتنے پھول بک جاتے تھے کہ ان کی دال روٹی عزت کے ساتھ چل رہی تھی ۔ ابا اور اماں نے ساری زندگی خواہشوں کے بجائے ، ضرورتوں کو پورا کرنے میں گزاری تھی۔ یہ سبق ہی وہ گل کو بھی پڑھانے کی کوشش کرتے تھے مگر انسان پڑھ تو کسی سے بھی لیتا ہے مگر سبق سب سے نہیں سیکھتا ہے۔ ایسا ہی گل کے ساتھ تھا۔ وہ ضدی یا ہٹ دھرم تو نہیں مگر جیتی جاگتی ، سانس لیتی لڑکی ضرور تھی۔ جو اپنی آنکھوں میں نو عمری کے سب سب خواب سجانے کا پورا حق رکھتی تھی۔ گل دیکھ کر بنا کیا کر رہی ہے گلاب کے پھولوں کے الگ سے بنیں گے اور موتیے کے پھولوں کے الگ سے ان کو ملا کیوں رہی ہے ایک تو پہلے ہی اتنے کم کرنے والے پڑے ہیں اوپر سے اس لڑکی کی حرکتیں چھوڑ میں خود کرلوں گی۔ اماں نے جھنجھلا کر اس کے سامنے سے دونوں ٹوکریاں اٹھائی تھیں۔ کیا ہے اماں ہر بات پر پابندی کیوں لگاتی ہیں بس میرا دل کرتا ہے کہ دونوں پھولوں کو ملا کر گجرے بناؤں بلکہ ڈھیر سارے پھولوں کو ملا دوں۔ ایک دوسرے میں اس طرح ملاؤں کہ سب مل کر ایک نیا پھول بن جائیں ۔ ڈھیر سارے رنگوں کا مختلف خوشبوؤں میں بسا ایک پھول اماں آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں اتنے ڈھیر سارے مختلف رنگوں کے پھول ہیں اور ۔۔ گل نے اپنے دونوں بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔ تجھے کیسے پتا ہاں ضرور اس زرینہ کے گھر چھوٹے سے ڈبے میں دیکھا ہوگا تیرا وہاں جانا بند کرنا ہی پڑے گا اس سے پہلے کہ گل کوئی جواب دیتی، ہلکی آواز میں سلام کرتا کوئی آگے بڑھا۔ اس چھوٹے سے محلے میں صبح کے وقت ، دروازے بند کرنے کا رواج بہت کم تھا۔ جنید عرف راجہ کو دیکھ کر گل کے منہ کے زاویے بہت تیزی سے بگڑے تھے۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ ان کی باتیں سن چکا ہے۔ آو بیٹا ابھی گجرے تیار ہو جاتے ہیں گل چائے کا پانی رکھو اماں کو متوقع داماد کا سوچ کر آو بھگت کی پڑ گئی تھی۔ گل پاؤں پٹختی کونے میں بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں چلی گئی۔ راجہ اماں کی باتوں کے جواب دیتا ہوا گجرے بنانے لگ گیا۔ اماں چائے ابھی بنا دی تو ابا کی چائے کے لیے پتی نہیں بچے گی۔ گل نے باورچی خانے سے جھانک کر کہا ۔ اماں کا دل کیا پاس پڑی جوتی اٹھا کر اسے مار دیں مگر اپنے چہرے کے تاثرات پر قابو پاتے ہوئے آرام سے بولیں۔ پتی کا لفافہ ٹین کے کنستر میں بھی رکھا ہوا ہے ۔ تو فکر مت کر ۔ جلدی سے چائے بنا کے لے آ۔ اماں نے باورچی خانے کی طرف منہ کر کے کہا۔ ان کی کوشش تھی کہ آنکھوں سے جھلکتی ڈانٹ گل تک به آسانی پہنچ جائے مگر گل اندر سے ہی شور مچائے جا رہی تھی۔ جان کے مذاق کر رہی ہےعادت ہے اس کی۔ ساتھ ہی اماں نے راجہ کو تسلی دی۔ جو سر جھکائے کام میں مشغول تھا۔ اماں چینی بھی تھوڑی ہے کوئی بات نہیں ، راجہ کم چینی ہی پیتا ہے۔ تو بس بنالا چائے۔ اماں دودھ پتی بنانی ہے یا کڑک چائے ایک اور سوال حاضر تھا۔ دودھ پتی بنا اماں نے ہائی ہوتے بلڈ پریشر کے ساتھ ، لہجہ نرم ہی رکھا تھا۔ اچھا پھر تو نہیں بنے گی دودھ بھی تھوڑا ہے گل نے اطمینان سے کہا۔ اگر میں اٹھ کر آگئی تو سب بن جائے گا مجھے مجبور مت کر گل اماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس لیے غصے سے بولیں ۔ راجہ نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ کوئی بات نہیں مامی جان اس کی عادت ہے مذاق کرنے کی راجہ کے کہنے پر اماں سر جھٹک کر بڑ بڑانے لگیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد گل چائے کا کپ تھامے حاضر ہوئی۔ یہ لیں گل نے چائے کا کپ اتنے زور سے میز پر رکھا کہ چائے چھلک گئی۔ بد سلیقہ لڑکی اماں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گل کی دھلائی کر دیں۔ بیٹا میں ابھی آئی۔ اماں کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھیں اور گل کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے غصے سے گھورا۔ گل کھیسا کر پیچھے ہٹی۔ کچھ دیر کے بعد وہ پلیٹ میں بسکٹ رکھ کر لے آئیں۔ ارے مامی جان اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے کچھ دیر پہلے ہی تو ناشتہ کیا ہے ۔ راجہ نے نرمی سے منع کیا۔ نہیں بیٹا اس میں تکلف والی کیا بات ہے میں نے سوچا اس لڑکی کو کہا تو اس کے سوال پورے ہونے تک تمہاری چائے ہی ختم ہو جاتی اس لیے خود ہی زحمت کر لی اماں ان نے جلے بھنے انداز میں کہا تو راجہ بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑا گل چڑ کر بولی۔ اماں میں زرینہ کے گھر جا رہی ہوں ۔ گل کہتے ہوئے اندر کمرے کی طرف چادر لینے چلی گئی۔ ایک تو اس کی یہ سہیلی زرینہ کسی دن اسے بھی سیدھا کرنا پڑے گا ۔ سب پٹیاں وہ ہی پڑھاتی ہے اماں کا مزاج آج گرم تھا۔ راجہ نے چائے ختم کی تب تک گجرے بھی بن گئے تھے ۔ راجہ نے اجازت لی۔ راجہ بیٹا گل کو بھی زرینہ کے گھر چھوڑ دینا۔ اس وقت گلی میں آوارہ لڑکوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔ اکیلی لڑکی کا جانا اچھا نہیں لگتا۔ اماں نے کہا تو گل تپ کر بولی۔ میں خود چلی جاؤں گی ایک گلی چھوڑ کر تو ذرینہ کا گھر ہے۔ اگر راجہ کے ساتھ نہیں جانا تو اندر جا کر بیٹھ جا۔ آج تیرا باپ آتا ہے تو بات کرتی ہوں بہت سرچڑھ گئی ہے تو۔۔ اماں نے پاس پڑی جوتی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ جسے دیکھ کر گل فورا کھلے دروازے سے باہر نکل گئی۔ اب راجہ کے سامنے اماں کی ہوائی چپل کھاتی، کیا اچھی لگتی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چل رہی تھی ، جب پاس آ کر راجہ نے سائیکل کی گھنٹی بجائی گل نے رکے بغیر سر اٹھا کر تیکھی نظروں سے گھورا۔ مامی جان کو کیوں تنگ کرتی ہو راجہ نے پوچھا۔ میری مرضی میری اماں ہیں۔ میں جو چاہے کروں میری مرضی اس نے تنک کر جواب دیا۔ راجہ زیر لب مسکرایا۔ تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگتا کیا راجہ نے ہلکی آواز میں پوچھا۔ نہیں لگتا ۔ پھر گل کا انداز روکھا تھا۔ وہ زرینہ کے گھر پہنچ چکے تھے۔ مگر مجھے تو اچھا لگتا ہے راجہ کی مسکراہٹ پر گل تپ گئی ۔ وہ رک گئی اور کمر پر ایک ہاتھ رکھا اوربولی۔ تمہیں کیوں اچھا لگتا ہے وہ جارحانہ تیوروں کے ساتھ اسے گھورنے لگی۔ میری مرضی راجہ نے شرارت سے کہا اور گھنٹی بجاتا ہوا، تیزی سے آگے نکل گیا۔ آج تو بچ گئے راجہ صاحب کسی دن عاشقی جھاڑ کر دیکھیں پھر بتاؤں گی گل پیچ و تاب کھاتی کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔ آپ ہنس رہے ہیں اماں نے حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھ کر ابا کو دیکھا۔ جن کی آنکھیں مسلسل ہنسنے سے بھیگ گئی تھیں۔ گل کے ابا ہر بات ہنسی مذاق میں مت اڑا دیا کریں اپنی لاڈلی کو بلا کر اچھی طرح ڈانٹیں اور اس کی عقل ٹھکانے لائیں ۔ کل کو اگلے گھر جا کر کیا کرے گی اماں تپ کر بولیں تو ابا نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا اور گل کو آواز دی۔ ڈھائی مرلے کے چھوٹے سے گھر میں ان کی آواز گونجی تو گل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائی کمرے سے باہر نکلی۔ آج اماں نے اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی تھی۔ س لیے اس کا منہ سوجا ہو اور آنکھیں بھگی ہوئی تھیں۔ ارے میری گل کو کیا ہوا کیا تم رو رہی تھیں ابا سب بھول بھال کر اس کی آنکھوں کی نمی پر تڑپ اٹھا۔ اماں نے سر پر ہاتھ مارا۔ سمجھا لیا آپ نے اور سمجھ گئی آپ کی لاڈلی اماں بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں۔ گل باپ کے بازو سے لگ کر بیٹھ گی اور ان کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی۔ ابھی پوچھتا ہوں تمہاری اماں سے ابا نے کہا تو گل نے فورا سر ہلا کر منع کیا۔ کیا پوچھنا ہے، پوچھ لیں باپ بیٹی کو کوئی حسرت نہ رہے اماں نے بھاپ اڑاتی چائے کا کپ ابا کو پکڑایا تو وہ گڑبڑا کر رہ گئے۔ وہ میں کہہ رہا تھا کہ چائے اتنی دیر سے کیوں لائی ہو کوئی کام تو ڈھنگ سے کر لیا کرو۔ بس ہر وقت میری بیٹی کے پیچھے پڑی رہتی ہو ابا نے بلاوجہ کا رعب جمایا تو اماں کے ساتھ ساتھ گل بھی بے ساختہ ہنس پڑی۔ ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر ابا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ بس اتنی سی بات تھی بلاوجہ ہی ڈانٹ کر میری بیٹی کا دن خراب کیا ۔ ابا نے پیار بھری نظروں سے گل کے مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ گل کے ابا مجھے کب اسے کچھ کہنا اچھا لگتا ہے مگر اماں بات ادھوری چھوڑ کر وضو کرنے چلی گئیں ۔ گل ابا کو زرینہ کے گھر میں دیکھے نئے ڈرامے کی تفصیل سنانے لگی۔ میں اپنی بیٹی کے لیے ٹی۔ وی ضرور خریدوں گا اس کی اشتیاق بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ابا نے ہر بار کی طرح خود سے عہد کیا تھا۔ مگر غربت کی چھت تلے، خواہشیں نہیں، صرف ضرورتیں پروان چڑھتی ہیں۔ دیکھ ساجدا کسی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے گل کو میں بہو نہیں بیٹی بنا کر لے کرجاؤں گی۔ مانا کہ ہمارے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے مگر تجھے خلوص اور محبت میں کبھی کمی نہیں ملے گی بس تو جلدی سے ہاں کر دے کلثوم پھپھو صبح ہی مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ پہنچ گئی تھیں۔ راجہ اور شمسہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ شمہ تو گل کے پاس کمرے میں چلی گئی تھی ۔ ان دونوں کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ اس لیے دوستی بھی بہت تھی ۔ گل جو اماں کے آگے پٹر پٹر اس رشتے کے خلاف بولتی تھی، اب شمسہ کی ذومعنی باتیں سن کر گھبرا رہی تھی۔ چھٹی کا دن تھا مگر ابا کے لیے نہیں۔ وہ چھٹی کے دن بھی پھول فروخت کرتے تھے۔ وہ کام پر جانے لگے تو راجہ بھی ان کے ساتھ ساتھ چلا گیا۔ ان کے جانے کے بعد ، گل اور شمسہ بھی باہر صحن میں آگئی ۔ کلثوم پھپھونے سارا دن وہیں گزارا۔ ان کا رویہ معمول کے مطابق تھا ۔ گل کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابا نے کیا جواب دیا ہے ۔ ابا نے دوپہر کے کھانے کی خاص ہدایت کی تھی اور جاتے ہوئے اماں کو سامان خرید کر دے گئے۔ کلثوم پھپھو نے بہت منع کیا کہ وہ کھانے تک نہیں رکیں کی مگر ابا بضد رہے کہ کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ دوپہر کے کھانے پر اماں نے کلثوم پھپھو کے اعزاز میں مرغی کا سالن پکایا اور ساتھ ہی سوجی کا حلوہ۔ دوپہر کے کھانے پر پر ابا اور راجہ بھی آگئے۔ چھوٹے سے صحن میں بچھے دستر خوان پر محبت اور خلوص کی فضا میں کھانا کھایا گیا ۔ کھانے کے کچھ دیر کے بعد چائے کا دور چلا اور کلثوم پھپھو پھر آنے کے وعدے پر چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد، ابا نے گل کو پاس بلایا۔ گل جھجکتے ہوئے ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ گل بیٹی تم جانتی ہو کہ تمہاری پھپھو کس مقصد سے آج آئی تھیں اگر میں چاہتا تو اپنی بہن کے مان اور بھروسے پر تمہاری قسمت کا فیصلہ سنا دیتا مگر گل تم مجھے بہت عزیز ہو، تمہاری اماں اور میں دل و جان سے اس رشتے کے لیے راضی ہیں کیونکہ ہم غریبوں کے گھر اس سے بہتر کوئی اور رشتہ نہیں آئے گا مگر تمہاری مرضی جانے بغیر میں ہاں نہیں کر سکتا تم کیا کہتی ہو بیٹی ابا نے امید بھرے لہجے میں پوچھا تھا جبکہ اماں پریشان نظروں سے اس کے جھکے ہوئے سر کی طرف ہو رہی تھیں ۔ وہ باپ کی لاڈلی بیٹی تھی۔ اماں کے سامنے وہ ہر بار اس رشتے سے منع کر چکی تھی۔ اس لئے وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگیں کہ گل کوئی بے وقوفی نہ کرے۔ ابا کچھ دیر کے بعد گل نے سر اٹھا کر باپ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جن کی آنکھوں میں امید مگر چہرے پر ناامیدی کے سائے لہرا رہے تھے۔ مجھے آپ لوگوں کی محبت پر کبھی کوئی شک نہیں رہا ہے۔ آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر گل نے سعادت مندی سے کہا تو ابا نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اماں بھی دوپٹے کے پلو سے گیلی آنکھیں صاف کرتی ہوئی آگے بڑھیں اور گل کو خود سے لگا لیا۔ میں اپنی بیٹی کو نادان سمجھتی رہی مگر میری بیٹی بہت سمجھ دار ہے۔ اماں کے کہنے پر گل مسکرادی۔ اماں اور ابا کو باتوں میں مگن دیکھ کر وہاں سے اٹھ گئی۔ آج ابا کے دیئے اعتماد اور یقین نے اس سے وہ فیصلہ کروایا تھا جو عام حالات میں، وہ شاید کبھی نہ کر سکتی۔ آج اسے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوا تھا کہ زندگی بڑی بڑی باتوں یا گھروں میں نہیں بستی۔ بلکہ زندگی بہت چھوٹی چھوٹی باتوں میں سانس لیتی ہے اس نے اپنے چھوٹے سے ، غربت کے دارودیور سے سجے گھر میں خود کو پورے قد سے دیکھا ہے اور محسوس کیا تھا ۔ کلثوم پھپھو کے گھر کے حالات کچھ بہتر ضرور تھے مگر ہاں بھی خواہشوں سے زیادہ ضرورتوں کو پہلے پورا کیا جاتا تھا۔ سادگی سے بیاہ کر گل اس آنگن میں خوشبو بن کر آ چکی تھی۔ اس کی آمد نے سارے گھر میں روشنی پھیلا دی تھی۔ وہ کلثوم پھپھو کی لاڈلی تو تھی ہی ، راجہ کی بھی من بھائی اور شمسہ سے بھی اس کی خوب بنتی تھی ۔ شادی کو تین مہینے گزر گئے ۔ گل گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی ۔ وہ تینوں مل جل کر کام کر لیتی تھیں اس لیے کسی ایک پر بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ راجہ اس کی بہت سے خواہشات سے واقف تھا۔ اس لیے انھیں پوری کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا۔ اس نے شادی سے پہلے ایک پرانا سا ٹی وی بھی گل کے لیے کے لیے خریدا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ گل کو ڈرامے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ اب گل اور شمسہ فراغت پاتے ہی ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتیں۔ اکثر کلثوم پھپھو بھی ان کا ساتھ دیتیں مگر جلد ہی اکتا کر محلے کے دورے پر نکل جاتیں کہ جو مزہ گھر گھر گھومنے اور باتیں کرنے میں تھا، وہ ایک جگہ بیٹھ کر چھوٹے سے ڈبے کو دیکھنے میں نہیں تھا۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ دھند میں ڈوبی راتیں سردیوں کا حسن تھیں ۔ ان دنوں راجہ بہت دیر سے گھر آنے لگا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ شادیوں کا سیزن ہے۔ اس لیے پھولوں کی فروخت بہت بڑھ گئی تھی ۔ راجہ کی خواہش تھی کہ وہ تھوڑے پیسے جوڑ کر مین مارکیٹ میں چھوٹی سی ایک دکان کرائے پر لے لے ۔ تاکہ وہ اپنے کام کو مزید ترقی دے سکے۔ امی میری جیکٹ ٹھیک کر دی تھی صبح ناشتے کے بعد راجہ نے ہاتھ دھو کر تو لیے سے پونچھتے ہوئے ماں سے پوچھا۔ ہاں بیٹا مگر اتنے سال پرانی جیکٹ ہے۔ کب تک ساتھ دے گی جگہ جگہ تو ٹانکے لگا دیئے ہیں ۔ ایسا کر لنڈے سے نئی جیکٹ خرید لے کلثوم نے بیٹے سے کہا تو وہ پر سوچ انداز میں سر ہلا کر رہ گیا۔ امی باجی رانو سے پوچھنا کہ نیا مال آیا ہے دکان پر لے جانے سے پہلے دکھا دیں۔ میں کچھ پیسے بچا کرنئی جیکٹ لے لوں گا ہاں ٹھیک ہے۔ آج جاتی ہوں رانو کی طرف اس کے پاس ہوئی تو کبھی منع نہیں کرے گی چھوٹا بھائی کہتی ہے تجھے کلثوم کے کہنے پر راجہ سر ہلاتے ہوئے، جیکٹ پہنے لگا اور پھر کام پر چلا گیا۔ سب کاموں سے فارغ ہو کر کلثوم پھپھو ، گل اور شمسہ کو بھی اپنے ساتھ لے گئیں ۔ رانو کا شوہر لنڈے سے مال لا کر فروخت کرتا تھا۔ بہت مناسب داموں میں چیزیں مل جاتی تھیں۔ رانو انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اچھا کیا خالہ آپ آگئیں ابھی مال دکان پر نہیں گیا ہے۔ آپ دیکھ لیں۔ اس بار کچھ بہت خاص چیزیں بھی آئی ہوئی ہیں ۔ رانو نے خوش دلی سے کہا۔ اور انھیں کونے میں بنے چھوٹے سے کمرے میں لے گئی۔ شام کو راجہ آئے گا تو اپنی پسند کے مطابق دیکھ لے گا۔ مجھے تو سب بہت اچھی لگ رہی ہیں کلثوم پھپھو نے معصومیت سے کہا تو رانو ہنس پڑی۔ شمسہ نے اپنے لیے ایک سوئٹر پسند کر لیا ۔ کلثوم نے گل سے بھی کہا کہ وہ اپنے لیے سوئٹر پسند کر لے۔ گل کی نظر جس چیز پر اٹکی ہوئی تھی وہ لینا کلثوم پھپھو کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ ارے بچی دیکھ تو سہی کتنے پیارے رنگ کے سوئٹر ہیں کلثوم پھپھو نے اصرار کیا مگر گل دھیرے سے مسکرادی ۔ اگلی بار دیکھ لوں گی پھپھو اچھا جیسے تیری مرضی کلثوم پھپھو رانوسے باتیں کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ یہ کوٹ کیسا ہے گل اچانک شمسہ نے لال رنگ کا بہت خوبصورت سا لیڈیز کوٹ اٹھا کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو گل چونک گئی۔ اچھا ہے ۔ کیوں گل نے حیرت سے پوچھا یہ کوٹ بالکل ویسا ہی ہے نا جیسا اس دن ڈرامے میں لڑکی نے پہنا ہوا تھا شمسہ نے کوٹ خود سے لگاتے ہوئے کہا۔ اچھا ہو گا مجھے نہیں یاد گل لا پروائی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔ رات کو راجہ گھر آیا تو کلثوم نے ایسے ساری بات تفصیل سے بتاتے ہوئے کل رانو کے گھر چکر لگانے کا کہا۔ اچھا امی صبح چلا جاؤں گا گل نے کیوں سوئٹر پسند نہیں کیا اس کے پاس تو کوئی اچھا سوئٹر ہے بھی نہیں راجہ نے فکر مندی سے کہا تو کلثوم سر ہلا کر رہ گئی۔ بہت کہا تھا مگر اسے کچھ پسند ہی نہیں آیا۔ کہہ رہی تھی کہ اگلی بار دیکھ لے گی جب مال آئے گا۔ مگر امی سردی بہت بڑھ گئی ہے۔ اچھا میں خود ہی لے آوں گا اس کے لیے راجہ نے مسئلے کا حل نکالا تھا۔ جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے ، وہ زندگی میں خوش رہنے کے کتنے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں اب دیکھو میں نے آنکھ کھلتے ہی اپنے باپ کو پھول فروخت کرتے دیکھا۔ مگر کتنی حیرت کی بات ہے کہ وہ پھول صرف پیسے والوں کے لیے ہی تھے ۔ ان پھولوں کی خوشبو ، پر صرف ان کا حق تھا جو اسے خرید سکتے تھے ۔ ہم نے کبھی کسی خوشی یا غم میں بھی ان پھولوں کو استعمال نہیں کیا۔ ہاں میری شادی پر پھولوں کا زیور ضرور میرا مقدر بنا اور دنیا میں دیکھو گل نے ٹی۔ وی کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں لڑکا نئے سال کے آغاز پر لڑکی کو اسکرین پر سرخ گلاب پیش کر رہا تھا ۔ راجہ نے باہر سے گزرتے وئے ایک لمحے کو رک کر اسکرین کی طرف دیکھا اور پھر گل کے چہرے کی طرف ، جہاں خواہشوں کے کتنے ہی چراغ ، حسرت کا دھواں چھوڑ رہے تھے۔ اس کے دل میں ایک کانٹا چبھا تھا۔ اپنی تین مہینے کی شادی شدہ زندگی میں پہلی بار شدت سے یہ احساس ہوا تھا کہ گل خوش نہیں ہے میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس کی خوشی کسی میں ہے یا شاید میری اتنی اوقات ہی نہیں کہ میں اس کی کوئی خواہش بھی پوری کرسکوں راجہ نے دل گرفتہ ہو کر سوچا۔ اس کے دل پر مایوسی کا چھایا کا غبار، وجود پر خاموشی بن کر چھا گیا کہ اس کی محبت کی روشنی میں جگمگاتی گل ، ایک دم پریشان ہو کر رہ گئی۔ راجہ اس سے کوئی بات کر رہا تھا اور نہ اس سے نظر ملا رہا تھا۔ گل کو ایسا لگا جیسے ساری کائنات میں سے آواز میں ختم ہوگئی ہوں۔ ابھی تو اس کا من محبت کی چھاؤں میں کھلا تھا ابھی تو اس نے محبت کا ذائقہ چکھا تھا اور اچانک ہی اس سے سب کچھ چھین لیا گیا ۔ وہ راجہ کی خاموش آنکھوں میں ، بولتی محبت ڈھونڈتی ، اس کے سلے ہوئے لبوں پر ، محبت میں ڈوبی مسکراہٹ کی ننھی کرن تلاش کرتے ہوئے تھک کر رو پڑی۔ کیا غربت کے سرد آنگن میں ، محبت کی دھوپ کبھی نہیں اترتی ہے گل کے خاموش آنسو رخسار پر نہیں ، دل پر گر رہے تھے۔ امی خرچے کے علاوہ یہ پیسے بھی رکھ لیں راجہ نے ماں سے کہا تو پیسے ہاتھ میں لے کر وہ گننے لگیں ۔ پچھلے کئی دنوں سے جیکٹ خریدنے کے لیے وہ خرچے میں سے کچھ پیسے نکال کر ماں کے پاس جمع کروارہا تھا۔ آٹھ سو ہو گئے ہیں راجہ بس سو روپیہ اور مل جاندے تو میں تیرے لیے رانو کے پاس رکھوائی جیکٹ آپ ہی لے آؤں گی کلثوم نے پر جوش لہجے میں کہا۔ تو راجہ بے دلی سے سر ہلا کر رہ گیا۔ حالانکہ کے اس نے اپنے لیے جیکٹ خود پسند کی تھی۔ کافی عرصے سے اسے ایسی ہی جیکٹ کی تلاش تھی۔ اب اس کی پہنچ میں آنے والی تھی تو اسے کوئی خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ امی آج مجھے واپسی میں دیر ہو جائے گی ۔ آج کمائی کا دن ہے نیا سال شروع ہونے والا ہے نا پھولوں کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے۔ باقی پیسے میں آپ کو رات تک دے دوں گا۔ راجہ نے کہا تو کلثوم کچھ سوچ کر بولیں۔ شمسہ نے ابھی رانو کے گھر جانا ہے ۔ اس نے کام سے بلوایا ہے۔ ایسا کر تو یہ پیسے اسے دے کر جیکٹ لے لینا۔ سو روپیہ ہی رہ جائے گا۔ وہ کل دے آوں گی ۔ کم از کم تو سردی سے تو بچے گا نا امی کے کہنے پر راجہ پہلے تو نہیں مانا مگر پھر ان کے بے حد اصرار پر پیسے لے کر شمسہ کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔ پتا نہیں آج کل کل کو کیا ہو گیا ہے نہ بات کرتی ہے، نہ ٹی وی دیکھتی ہے بس خاموشی سے کسی سوچ میں گم رہتی ہے کیا آپ سے لڑائی ہوئی ہے شمسہ نے سوال کیا تو راجہ چونک گیا۔ نہیں میری لڑائی تو نہیں ہوتی ویسے وہ خوش بھی کسی بات پر ہوگی ایسا کیا ہے ہمارے گھر میں راجہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ نہیں بھی ایسا نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ شمسہ کچھ کہتی رانو کا گھر آ گیا۔ رانو ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور انھیں چھوٹے سے کمرے میں لے گئی۔ بھائی راجہ یہ پکڑ اپنی جیکٹ پیسے جب کبھی آئیں گے، ، تب دے دینا وہ اماں پروین کا پوتا آیا تھا کل ۔ وہ تو اس جیکٹ کے پیچھے پڑ گیا۔ بہت مشکل سے ٹالا ہے اسے۔ اس سے پہلے کہ راجہ کچھ کہتا ، رانو نے جیکٹ اسے پکڑا دی۔ راجہ نے جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ رانو با جی ایک سو روپیہ کم ہے۔ وہ آج رات تک دے جاؤں گا ۔ بہت شکریہ راجہ کے کہنے پررانو نے مسکرا کر پیسے تھام لیے۔ اچھا میں چلتا ہوں شمسہ تم رات ہونے سے پہلے گھر واپس چلی جانا راجہ نے جاتے ہوئے ہدایت کی۔ بے فکر رہو بھائی منے کے ساتھ میں خود جاؤں گی اسے گھر چھوڑنے رانو نے کہا تو راجہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ یہ کوٹ ابھی تک بکا نہیں رانو باجی شمسہ نے سرخ رنگ کا کوٹ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے سوال کیا نہیں بھئی پہلے خالہ نسرین نے اپنی بیٹی کے کے لیے یہ کوٹ پسند کیا تھا۔ اتنے دن پڑا رہا اب کہتی ہے ہیں کہ نہیں چاہیے منے کے اہا کہ رے که کل دکان پر لے جائیں گے یہ تو ہاتھوں ہاتھ بک جائے گا ۔ اتنا پیارا جو ہے رانو باجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پیارا ہے تب ہی تو ہماری گل کو بہت پسند آیا تھا ۔ اس دن بار بار کوٹ کو دیکھ رہی تھی مگر امی کے سامنے چپ رہی ۔ شمسہ کے کہنے پر دروازے کے پاس پہنچے راجہ نے مڑ کر دیکھا ۔ وہ کئی دنوں سے اسی سوچ میں گم تھا۔ کہ گل کی خوشی کس میں ہے اور آج اسے وہ خوشی اس لال رنگ کے کوٹ میں چھپی ہوئی نظر آئی تھی اس نے اپنی پھٹی پرانی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کی جیب میں چند پیسے تھے مگر وہ چند پیسے گل کی خوشی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ۔ کیا میں اس کی خوشی کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتا اس کا دل جانتا تھا کہ یہ اتنا کتنی بڑی قربانی مانگتا ہے۔ کچھ لمحے لگے ۔ اسے اپنی ضرورت اور محبوب کی خوشی میں سے ایک چیز کو چننا تھا ۔ اور اس نے محبوب کی خوشی کو چن لیا۔ گل باہر سے آتے شور کو سن رہی تھی۔ کچھ من چلے نئے سال کا آغاز گانے بجانے اور آتش بازی سے کر رہے تھے۔ شمسہ اور کلثوم پھپھو سونے کے لیے اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔ گل راجہ کے انتظار میں اندر باہر کے چکر لگا رہی تھی۔ شدید دھند اور ٹھنڈ میں اس کے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے۔ رات کے تقریبا دو بجے دروازہ بجا۔ گل نے پہلی ہی دستک پر دروازہ کھول دیا۔ راجہ نے سردی سے ٹھٹھرتی گل کی طرف دیکھا تھا۔ جس نے پرانی شال اوڑھ رکھی تھی۔ کھانا گرم کروں گل نے اس کے پیچھے پیچھے آتے ہوئے سوال کیا۔ راجہ نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا شاپر میز پر کھا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ نہیں۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ کیوں گل نے پوچھا۔ بھوک نہیں ہے راجہ نے منہ پھلا کر کہا۔ بھوک کیوں نہیں ہے گل بھی آج ضد پر اڑی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ تم آؤ گے تو ساتھ کھانا کھائیں گے مگر گل منہ بسور کر رہ گئی۔ راجہ نے چونک کر دیکھا۔ تم نے میری وجہ سے کھانا نہیں کھایا لہجے میں واضح حیرت تھی۔ نہیں وقوف تمہارے لیے نہیں کھایا مگر تمہیں تو کسی بات کی فکر ہی نہیں گل نے چڑ کر کہا تو راجہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ آج کتنے دنوں کے بعد اسے لگا تھا کہ دل پر چھائے مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ اچھا ادھر آؤ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں راجہ نے مسکراتے ہوئے میز سے شاپر اٹھا کراس کی طرف بڑھایا۔ گل نے جلدی سے تھام لیا۔ کیا لائے ہوا گل نے شاپر کھولا اور اس میں سے لال رنگ کی چیز باہر نکال لی۔ یہ گل حیرت سے اپنے ہاتھ میں لال رنگ کے کوٹ کو دیکھنے لگی ۔ جو اسے پہلی نظر میں ہی بہت پسند آیا تھا۔ یہ تو بہت مہنگا تھا راجہ پورے نو سو روپے کا گل نے کوٹ کی ملائم سطح پر ہاتھ پھیرا کر کہا کئی بار ہی خیالوں ہی خیالوں میں اس نے لال رنگ کے اس کوٹ کو چھو کر دیکھا تھا، پہن کرواک کی تھی اس کی قیمت تمہاری ایک مسکراہٹ ہے گل میرے لیے یہ سودا زیادہ مہنگا نہیں تھا ۔ راجہ نے اطمینان سے کہا تو گل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی پھٹی پرانی جیکٹ کو راجہ ۔۔۔ وہ سب سمجھ گئی ۔ اس لیے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ ایک اور چیز بھی ہے میرے پاس راجہ نے کہا اور اپنے جیکٹ کی زپ کھول کر ہاتھ اندر ڈالا۔ نیا سال مبارک ہو گل راجہ نے نے سرخ گلابوں کا چھوٹا سا گلدستہ اس کی طرف بڑھایا۔ گل حیرت سے دیکھتی ہی رہ گئی۔ تمہیں بھی بہت شوق ہے نا کہ جیسا ٹی ۔ وی پر دکھاتے ہیں، تمہاری زندگی بھی ویسی ہی ہوا میں زیادہ تو نہیں کر سکتا مگر تمہاری خوشی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں راجہ نے سادگی سے کہا تو گل اس کے سانولے ہاتھوں میں پکڑے پھولوں کو دیکھتی رہ گئی۔ مٹی سے اٹے پرانے جوتوں پر سارے دن کی محنت مشقت کی گرد جمی ہوئی تھی۔ پھٹی پرانی جیکٹ پرجگہ جگہ سلائیاں ، سرد ہوا کو روکنے میں ناکام رہتی تھیں مگر غربت اور یتیمی میں پلے بڑھے، راجہ کو آج بھی اپنی خوشی اور آرام سے زیادہ کل کی فکر تھی۔ کیا ایسی محبت ، آنکھوں سے دیکھے گئے کسی خواب میں بھی سوچی تھی گل کی زندگی میں یہ دوسرا لمحہ تھا۔ جب اس نے جانا تھا کہ خوشی اور محبت بڑی باتوں یا گھروں میں نہیں بستی بلکہ اکثر بہت چھوٹی باتوں اور گھروں میں سانس لیتی ہیں۔ اور وہ بھی اپنی نم ہوتی آنکھوں سے محبت کومجسم کھڑا دیکھ رہی تھی۔ گل باہر سے آتے شور کو سن رہی تھی۔ کچھ من چلے نئے سال کا آغاز گانے بجانے اور آتش بازی سے کر رہے تھے۔ شمسہ اور کلثوم پھپھو سونے کے لیے اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔ گل راجہ کے انتظار میں اندر باہر کے چکر لگا رہی تھی۔ شدید دھند اور ٹھنڈ میں اس کے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے۔ رات کے تقریبا دو بجے دروازہ بجا۔ گل نے پہلی ہی دستک پر دروازہ کھول دیا۔ راجہ نے سردی سے ٹھٹھرتی گل کی طرف دیکھا تھا۔ جس نے پرانی شال اوڑھ رکھی تھی۔ کھانا گرم کروں گل نے اس کے پیچھے پیچھے آتے ہوئے سوال کیا۔ راجہ نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا شاپر میز پر کھا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ نہیں۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ کیوں گل نے پوچھا۔ بھوک نہیں ہے راجہ نے منہ پھلا کر کہا۔ بھوک کیوں نہیں ہے گل بھی آج ضد پر اڑی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ تم آؤ گے تو ساتھ کھانا کھائیں گے مگر گل منہ بسور کر رہ گئی۔ راجہ نے چونک کر دیکھا۔ تم نے میری وجہ سے کھانا نہیں کھایا لہجے میں واضح حیرت تھی۔ نہیں وقوف تمہارے لیے نہیں کھایا مگر تمہیں تو کسی بات کی فکر ہی نہیں گل نے چڑ کر کہا تو راجہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ آج کتنے دنوں کے بعد اسے لگا تھا کہ دل پر چھائے مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ اچھا ادھر آؤ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں راجہ نے مسکراتے ہوئے میز سے شاپر اٹھا کراس کی طرف بڑھایا۔ گل نے جلدی سے تھام لیا۔ کیا لائے ہوا گل نے شاپر کھولا اور اس میں سے لال رنگ کی چیز باہر نکال لی۔ یہ گل حیرت سے اپنے ہاتھ میں لال رنگ کے کوٹ کو دیکھنے لگی۔ جو اسے پہلی نظر میں ہی بہت پسند آیا تھا۔ یہ تو بہت مہنگا تھا راجہ پورے نو سو روپے کا گل نے کوٹ کی ملائم سطح پر ہاتھ پھیرا کر کہا کئی بار ہی خیالوں ہی خیالوں میں اس نے لال رنگ کے اس کوٹ کو چھو کر دیکھا تھا، پہن کرواک کی تھی اس کی قیمت تمہاری ایک مسکراہٹ ہے گل میرے لیے یہ سودا زیادہ مہنگا نہیں تھا۔ راجہ نے اطمینان سے کہا تو گل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی پھٹی پرانی جیکٹ کو راجہ۔۔۔ وہ سب سمجھ گئی۔ اس لیے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ایک اور چیز بھی ہے میرے پاس راجہ نے کہا اور اپنے جیکٹ کی زپ کھول کر ہاتھ اندر ڈالا۔ نیا سال مبارک ہو گل راجہ نے نے سرخ گلابوں کا چھوٹا سا گلدستہ اس کی طرف بڑھایا۔ گل حیرت سے دیکھتی ہی رہ گئی۔ تمہیں بھی بہت شوق ہے نا کہ جیسا ٹی۔ وی پر دکھاتے ہیں، تمہاری زندگی بھی ویسی ہی ہوا میں زیادہ تو نہیں کر سکتا مگر تمہاری خوشی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں راجہ نے سادگی سے کہا تو گل اس کے سانولے ہاتھوں میں پکڑے پھولوں کو دیکھتی رہ گئی۔ مٹی سے اٹے پرانے جوتوں پر سارے دن کی محنت مشقت کی گرد جمی ہوئی تھی۔ پھٹی پرانی جیکٹ پرجگہ جگہ سلائیاں، سرد ہوا کو روکنے میں ناکام رہتی تھیں مگرغربت اور یتیمی میں پلے بڑھے، راجہ کو آج بھی اپنی خوشی اور آرام سے زیادہ کل کی فکر تھی۔ کیا ایسی محبت، آنکھوں سے دیکھے گئے کسی خواب میں بھی سوچی تھی گل کی زندگی میں یہ دوسرا لمحہ تھا۔ جب اس نے جانا تھا کہ خوشی اور محبت بڑی باتوں یا گھروں میں نہیں بستی بلکہ اکثر بہت چھوٹی باتوں اور گھروں میں سانس لیتی ہیں۔ اور وہ بھی اپنی نم ہوتی آنکھوں سے محبت کومجسم کھڑا دیکھ رہی تھی۔ تو نے اپنی جیکٹ کے بدلے ، گل کے لیے کوٹ لے لیا بیٹا کوٹ کے بغیر تو اس کا گزارہ ہو جاتا مگر تو کیا کرے گا اتنی ٹھنڈ ہے اور کلثوم نے باورچی خانے میں پیڑی پر بیٹھے گرم گرم پراٹھے سے انصاف کرتے راجہ سے ہلکی آواز میں کہا۔ دن کے دس بج چکے تھے۔ آج راجہ کو دیرسے جانا تھا۔ گل اور شمسہ کسی کام سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ امی کچھ نہیں ہوتا میں نے اسے آج تک دیا بھی کیا ہے یہ معمولی سی خوشی بھی نہیں دے سکتا تھا کیا راجہ نے لاپروائی سے کہا اور ناشتہ ختم کر کے اپنی جگہ سے اٹھ گیا ۔ کپڑے بدل کر وہ جیکیٹ لینے کمرے میں آیا۔ اسی وقت گل گھر کے اندر داخل ہوئی اور سیدھا کمرے کی طرف بڑھی۔ میری جیکٹ کہاں گئی راجہ نے چھوٹے سے کمرے میں پھیلے سامان پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ یہ لیں اسی وقت گل نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ راجہ اس کے ہاتھ میں پکڑی نئی جیکٹ دیکھ کر چونک گیا۔ اسے سب سمجھ میں آگیا۔ گل کوٹ واپس دے کر جیکٹ لے آئی تھی۔ اس کے دل کا تکلیف پہنچی تم راجہ کو ایک دم ہی غصہ آگیا کہ گل نے اس کے تھفے کی قدر نہیں کی تھی ۔ وہ اپنے غصے کو ضبط کرتا رخ پھیر گیا۔ گل تم نے میری غربت کا مذاق اڑایا ہے راجہ کا لہجہ اپنی بے بسی کے احساس سے پست تھا۔ نہیں راجہ تم مجھے سمجھ نہیں سکے میری اولین خواہش اور چاہت صرف تمہارا ساتھ اور تمہاری محبت ہے گل نے مدھم لہجے میں کہا تو اس کے منہ سے پہلی بار لفظ محبت سن کے راجہ خوشی سے اچھل ہی پڑا بولا۔ گل کیا سچ وہ ایک دم ہی پلٹ کر بولا تو گل نے حیرت سے دیکھا ۔ راجہ کو اپنی بے ساختگی کا احساس ہوا تو خجل ہو کر سر کھجانے لگا۔ گل بے ساختہ ہنس پڑی۔ بات صرف اتنی سی ہے جناب گل نے جیکٹ اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔ گل فروش کی بیٹی ہوں اصلی اور خالص پھولوں کی قیمت بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں اور میرا دل تسلیم کرتا ہے کہ کیا راجہ نے پر اشتیاق لہجے میں پوچھا۔ تمہاری محبت کی خوشبو بھی بہت انمول اور خالص ہے، بالکل ان پھولوں کی طرح گل نے آگے بڑھ پر میز پر رکھے سرخ پھولوں کو چھوا تھا۔ کیا سچ میں گل تم خوش ہو پچھلے کئی دنوں سے میں اسی سوچ میں جلتا رہا کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو۔ میں تمہاری کوئی خواہش پوری کرنے کے قابل نہیں ۔ راجہ نے افسردگی سے کہا تو گل گہری سانس لے کر رہ گئی۔ اور میں پاگلوں کی طرح تمہاری خاموشی کی وجہ سوچتی رہی خود سے الجھتی رہی اور تب میں نے جانا کہ میرے لیے تمہاری محبت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے گل کے اعتراف نے راجہ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ اس نے خوشی سے جیکٹ پہنی اس نے اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر دیکھا تو اسے اس جیکٹ میں سے گل کے خلوص اور محبت کی مہک آرہی تھی۔ گل نے اس کی فکر اور محبت میں اپنی خوشی کو قربان کیا راجہ کو ایسا لگے رہا تھا کہ جیسے وہ سچ سچ کا راجہ ہو۔ صرف ایک گل کی محبت اور ساتھ کی وجہ سے ۔ آج اس کا دل محبت کی نعمت سے مالا مال تھا۔ اچھا امی میں جا رہا ہوں راجہ نے ماں کے پاس آ کر کہا تو کلثوم نے پہلے حیرت اور پھر مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ راجہ گنگناتا ہوا چلا گیا ۔ کلثوم نے کمرے سے باہر نکتی گل کو آواز دے کر بلایا اور اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیر کر بولی۔ میری گل کا دل بھی ، اس کی طرح ہی اجلا ہے اللہ تیرے دل کا آنگن آباد رکھےامین گل نے زیر لب کہا اور مسکرانے ہوئے پلٹ گئی۔ محبت کو زمین کے فاصلوں یا فیصلوں سے مطلب نہیں ہوتا ، اسے رہنے کے لیے چھوٹا ۔ پر خلوص دل مطلوب ہوتا ہے اور جہاں اسے اپنے مطلب کی چیز ملے، وہ فورا بسیرا ڈال لیتی ہے ابن آدم کے سینے میں دھڑکتا سرخ دل گل ہے اور محبت اس کا ئنات میں گل فروش ۔۔۔ اب چاہے وہ دل ، تنگ گلی کے کونے میں ہے چھوٹے سے گھر میں رہنے والے ایک عام سے کیا سے گل فروش کا ہو یا کسی گل فروش کے آنگن میں کھلتی ، سانس لیتی گل کا ۔۔۔۔۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 238 | https://www.urduzone.net/muqadam-rishta/ | ان دنوں بڑے بھائی فراز پولیس میں ملازم تھے۔ ان کا تبادلہ ہمارے چک سے کچھ دور واقع گاؤں میں ہو گیا۔ وہاں ان کو کھانے پینے کی پریشانی تھی۔ وہ بازار کا کھانا نہیں کھا سکتے تھے، لہذا ہم اپنا چک چھوڑ کر وہاں آئے۔ وہاں ہمارے اور بھی رشتہ دار رہتے تھے، جن سے میں کبھی نہیں ملی تھی۔ ایک دن ایک نوجوان امی سے ملنے آیا۔ اُس کا نام اسد تھا۔ میں نے اُسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بڑی بہن نے تعارف کروایا۔ تابندہ اس سے ملو۔ یہ رشتے میں تمہارا بھانجا ہے۔ بھانجا میں نے حیرت سے پوچھا۔ ان دنوں میں پندرہ سولہ برس کی ہوں گی۔ ہاں، ہماری خالہ زاد بہن صفیہ کا بیٹا۔ میں نے تو اپنی خالہ زاد کو بھی کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ پہلے پنڈی میں رہا کرتی تھیں۔ بہرحال اس رشتہ کے سبب میں اس کی خالہ ہی بنتی تھی تبھی باجی نے اُس سے کہا۔ اسد تابندہ کو سلام کرو۔ مگر یہ تو مجھ سے چھوٹی ہیں تو کیا ہوا رشتے میں تو بڑی ہے۔ تب اس نے بڑی تعظیم سے مجھے سلام کیا۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ۔ شام تک وہ ہمارے گھر پر رہا، رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھایا، پھر چلا گیا۔ اس سے میری دوسری ملاقات عجیب حالات میں ہوئی۔ اُس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا بہت چوٹیں آئیں، جن کے سبب وہ چل پھر نہیں سکتا تھا۔ باجی صوفیہ کا تو رو رو کر برا حال تھا۔ ہم سب گھر والے اُس کی عیادت کو گئے ۔ دو ماہ بعد وہ مکمل صحت یاب ہو گیا۔ اس کے بعد ایک بار اور میں اُن کے گھر گئی۔ اس وقت ان کے گھر میں کوئی نہ تھا، سوائے اسد کے۔ باجی کو یہ بات معلوم نہ تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں بازار ہو کر آتی ہوں ، تب تک تم صوفیہ کے گھر، ان کی بیٹی سے گپ شپ کرو۔ اسد نے مجھے بتایا کہ سب لوگ شادی میں گئے ہوئے ہیں۔ تم اپنی باجی کا انتظار کرلو۔ اس کے بعد وہ اخبار پڑھنے میں محو ہو گیا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ میرے بڑے بھائی فراز بھی وہاں آگئے۔ چونکہ تھانہ قریب تھا تو جانے کیا سوچ کر وہ ادھر آگئے تھے۔ یہاں مجھے اور اسد کو دیکھا تو ٹھٹھک گئے کہ گھر میں ہم دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ پوچھا تم یہاں کیسے میں نے بتایا کہ باجی چھوڑ کر گئی ہیں لیکن میری بات پر ان کو یقین نہ آیا تو اسد سے یہی سوال کیا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے خبر نہیں ہے۔ تابندہ نے یہی بتایا ہے، مگر میں نے آپ کی باجی کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ اندر نہیں آئی تھیں۔ باہر سے چھوڑ کر چلی گئی ہوں گی۔ فراز بھائی نے اسے کچھ نہ کہا، مجھ سے بولے کہ چلو تم کو گھر چھوڑ دوں۔ تمام راستے وہ چپ رہے۔ گھر پہنچے تو باجی نہیں آئی تھیں ۔ وہ ڈیوٹی پر واپس چلے گئے لیکن یہ بات ان کے دل میں شبہے کا سبب بن گئی۔ ابھی وہ ڈیوٹی پر ہی تھے کہ باجی کے شوہر انہیں لینے آگئے اور وہ اپنے گھر چلی گئیں۔ فراز بھائی ان سے اپنی بات کی تصدیق نہ کر سکے۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ مجھے بازار ساتھ لے جانا چاہتی تھیں، لیکن میری ایڑی میں درد ہورہا تھا۔ میں نے انہیں راستے میں ہی گھر واپس جانے کا کہا تھا۔ سامنے ہی صوفیہ باجی کا گھر تھا تبھی وہ مجھے ان کے گھر چھوڑ گئی تھیں۔ اس واقعہ کو دو دن گزرے ہوں گے کہ بھائی فراز نے اسد کو سیر پر چلنے کا کہا اور گاؤں سے دو میل دور ایک قبرستان کے پاس پارک میں جا کر بیٹھ گئے اور اسد کو خوب برا بھلا کہا۔ یہ بھی جتلایا کہ اگر تم میری بہن پر بری نظر رکھو گے تو میں یہ برداشت نہیں کروں گا۔ تم اس حرکت سے باز رہو، ورنہ مجھے سے برا کوئی نہ ہوگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ وہ خاموش بیٹھا رہا۔ ایسی بے تکی باتوں کا جواب کہاں تھا اس کے پاس اگلے دن وہ ہمارے گھر آیا۔ شاید وہ امی یا باجی سے فراز کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا کہ مجھ بے خبر نے، اسے دیکھتے ہی پوچھا۔ کل تو تم نے بھائی کے ساتھ خوب سیر کی ہوگی اس نے کوئی جواب نہ دیا اور پریشان سا واپس اپنے گھر چلا گیا لیکن وہ دل میں غمزدہ تھا، جیسے اس کے سینے میں آنسوؤں کا طوفان بھرا ہو۔ بہرحال کسی کو کچھ نہ بتا پانے کے سبب ، وہ اپنے گھر جا کر خوب رویا۔ گھر والوں نے رونے کا سبب پوچھا، تب بھی اس نے کچھ نہ بتایا۔ اسکول سے سرٹیفکیٹ لیا اور ماں سے کہا کہ میں گاؤں سے جانا چاہتا ہوں ۔ باجی صوفیہ پوچھتی رہ گئیں کہ کیوں اور کہاں جانا چاہتے ہو شہر جانا چاہتا ہوں، یہاں کی پڑھائی معیاری نہیں ہے۔ ماں روکتی رہ گئی، مگر وہ کسی قریبی شہر جانے کی بجائے اپنے ایک دوست کے پاس کراچی پہنچ گیا۔ جاتے ہوئے وہ امی کے پاس آیا اور ان کو بتایا کہ میں گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ میں بھی وہیں بیٹھی تھی۔ مجھے بھائی کے تیوروں سے شک ہو چکا تھا۔ میں نے پوچھا۔ اسد سچ بتاؤ کسی وجہ سے پڑھائی اور گھر بار چھوڑ کر جا رہے ہو امی کے کچن میں جاتے ہی اس نے مجھے سچ بتا دیا اور کہا۔ تابندہ خدا گواہ ہے، خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے اور تم میری خالہ ہوتی ہو۔ بے شک رشتے کی ہی سہی، میں تم کو سگی خالہ کی طرح سمجھتا ہوں۔ اگر چہ تم عمر میں مجھ سے کافی چھوٹی ہو، مگر تمہارے بھائی نے مجھے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے کہ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کو ابھی اسی وقت ختم ہو جانا چاہئے۔ اگر میں اس گاؤں میں رہا تو ممکن ہے، وہ دوبارہ ایسی بات منہ سے نکال دیں، کیونکہ شک بُرا ہوتا ہے۔ انسان کو مٹا دیتا ہے ممکن ہے، اس سے تمہاری بدنامی ہو جائے ، اس لئے میں جا رہا ہوں۔ میرے دل میں اس کی عزت دوگنی ہو گئی کیونکہ اس نے میری خاطر بڑی قربانی دی گی۔ ماں باپ بہن بھائی ، گھر بار چھوڑ کر وہ ایسی جگہ چلا گیا ، جہاں وہ بالکل اجنبی تھا۔ کراچی میں اس کا کوئی سہارا نہ تھا۔ جب انسان اپنے رب پہ بھروسہ کرتا ہے تو مالک دو جہاں اسے مایوس نہیں کرتا۔ وہاں دوست کے توسط سے اُسے ایک مل میں معمولی ملازمت مل گئی تھی۔ اسد کے جانے کے چھ ماہ بعد میرے والد صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ امی کو ان کا ایسا غم لگا کہ عدت کے دوران ہی وہ بھی بخار میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میرے امی ابو نے بہت پیار و محبت کے ساتھ اس طرح زندگی گزاری تھی کہ لوگ ان کی محبت کی مثال دیتے تھے۔ ان کے چلے جانے سے میں بالکل بے سہارا رہ گئی ۔ دو بھائی شادی شدہ تھے۔ ان کے لئے میرا وجود اتنا اہم نہ تھا۔ مجھ پر بڑا مشکل وقت آن پڑا تھا ۔ فراز بھائی ہی غیر شادی شدہ تھے۔ انہوں نے ایک عورت اغوا کی اور پنڈی جا کر اس سے بیاہ رچا لیا تھا۔ پہلے سب ساتھ رہتے تھے، والدین کی وفات کے بعد الگ الگ ہو گئے۔ آپس میں چیزیں تقسیم ہونے لگیں۔ میرے حصے کا سامان فراز بھائی کے کمرے میں چلا گیا۔ میرے لئے جو زیور بنا تھا وہ بھی فراز بھائی نے لے لیا تھا اور میں منہ دیکھتی رہ گئی۔ انہی دنوں سنا کہ اسد واپس آگیا ہے۔ وہ کراچی میں کچھ بیمار رہنے لگا تھا، اس لئے گھر آگیا۔ میں سوچتی تھی کہ میری وجہ سے اس غریب کو نجانے کیا کیا تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں۔ اس کی بیماری کا سن کے سوچا کہ مجھے اس کی عیادت کے لئے جانا چاہئے ۔ اب تو وہ بات پرانی ہوگئی۔ بھائی بھی بیاہ رچا کر شانت ہو گئے تھے۔ بس یہی میری ملی تھی جس نے میری زندگی تباہ کردی۔ صوفیہ کے گھر میرا جانا کیا تھا کہ بھائی نے سب سے کہہ کہ میری بہن کے اسد کے ساتھ برے تعلقات ہیں۔ بھابھی نے بھی سب میں مشہور کر دیا کہ تابندہ عشق میں آپے سے باہر ہوئی جاتی ہے تبھی اسد کے آنے پر وہ اپنے قدم نہ روک سکی اور اس سے ملنے چلی گئی۔ فراز بھائی کی طرف سے اسد کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ بات جب بہت بڑھی، تو اسد نے بیماری کے باوجود دوبارہ گھر سے جانے کی نیت کر لی ۔ اُدھر فراز بھائی نے بڑے دونوں بھائیوں کے ایسے کان بھرے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اور مجھ سے پوچھے، آنا فانا میری شادی چچا زاد سے کر دی۔ شادی کی پہلی رات شوہر نے مجھ پر الزام لگایا کہ تم اسد کو چاہتی تھیں۔ میں نے اس کے ساتھ تمہارے غلط تعلقات کی باتیں سن رکھی ہیں۔ اگر اس میں صداقت ہوئی تو میں اس کو قتل کرادوں گا۔ اگر وہ کبھی بھولے سے بھی ادھر آیا تو میں اُسے جان سے مار ڈالوں گا۔ میں نے رو رو کر یقین دلایا کہ یہ جھوٹ ہے ، مگر میرے دولہا کو میری یقین نہ آیا۔ ساتویں روز جب میں میکے آئی تو چہار سو یہ داستان گرم تھی ۔ دولہا میاں نے نجانے کس کس سے فریاد کی تھی کہ ان کی دلہن کی شادی ان سے نہیں اسد سے ہونا چاہئے تھی۔ میں نے اس پر احتجاج کیا تو سات روز کی دلہن کو میاں نے اتنا مارا کہ بدن پر نیل پڑ گئے اور میں بے ہوش ہوگئی ۔ یہ خبر جب اسد کی امی کو ہوئی تو انہوں نے اسد سے کہا کہ تم کچھ دنوں کے لئے یہاں سے چلے جاؤ، کیونکہ کوئی ہے جو آگ کو اور بھڑکا رہا ہے۔ ناحق بچاری تابندہ پٹ رہی ہے۔ اس کی زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے بدخواہوں نے ۔ اس کا بھائی شکی مزاج اور اس سے بڑھ کر اس کی بیوی ہے جو خود اپنے ماں باپ کے گھر سے بھاگ کر آئی ہے۔ یہ لوگ اس کے حصے کی ہر شے پر قابض ہونا چاہتے ہیں تا کہ تابندہ کبھی بھی اپنے حق کے لئے آواز نہ اٹھا سکے۔ اسد اپنے ماموں کے گھر چلا گیا، جہاں یہ باتیں پہلے ہی پہنچ چکی تھیں، اس کے ماموں نے اُسے رکھنے سے انکار کر دیا۔ وہ بیچارا گھر کا رہا، نہ گھاٹ کا۔ ایک روز میں بس اڈے پر اپنی بہن کے گھر جانے کے لئے سواری تلاش کر رہی تھی کہ اسد نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ سامنے ہوٹل میں بیٹا کھانا کھ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر باہر آیا اور پوچھنے لگا کہ آپ کو سواری چاہئے یہیں رکیے، میں کوئی ٹانگہ لاتا ہوں۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ وہ کہنے لگا۔ خالہ کوئی بات نہیں ، آپ کبھی میرے گھر نہ جانا۔ اس طرح آپ کی خوشیاں بچ سکتی ہیں کہ میں ملک سے ہی چلا جاؤں تو میں ہمیشہ کے لئے چلا جاؤں گا اور پھر کسی کو نظر نہ آؤں گا لیکن بدنصیبی پیچھے پڑ جائے تو کوئی کسی کونہیں بچا سکتا۔ جس لاری سے میں اسٹاپ پر اتری تھی ، اُس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں ہی میرے میاں کے واقف اور ایک گاؤں کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے گاؤں میں جا کر کہ دیا کہ شجیع کی بیوی اسد سے ملنے بس اڈے گئی تھی، حالانکہ اسد تو اتفاقا مل گیا تھا۔ اس بات پر جہاں میرے شوہر نے مجھے زدو کوب کیا، وہاں فراز بھائی نے بھی جینا حرام کر ڈالا اور چند دوستوں کے ساتھ جا کر اسد سے ہاتھا پائی کی کہ وہ غریب مرتے مرتے بچا۔ ان حالات نے میرے دل میں اس قدر بغاوت کو جنم دیا کہ جی چاہتا تھا میں وہ اب میں کھلم کھلا اس سے ملوں اور وہ سب کر دکھاؤں، جس کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتی تھی ۔ حالانکہ میرے دل میں کبھی اس کے لئے برا خیال نہ آیا تھا اور نہ اس نے مجھے بری نظر سے دیکھا تھا۔ صوفیہ باجی ان حالات سے پریشان ہوئی جاتی تھیں۔ مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہ جاتی ۔ آخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب بزدلی کا طوق گلے سے اتار دوں گی اور نڈر بن کر حالات کا مقابلہ کروں گی۔ خود جا کر اسد کوگھر لاؤں گی اور ماں بیٹے کو ملادوں گی، جو شرافت میں در بہ در ہورہا تھا کہ فراز بھائی پولیس والے تھے اور وہ سب کی ایسی کی تیسی کر سکتے تھے۔ اب دیکھوں گی کہ کون میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ جو بگاڑنا تھا یہ لوگ بگاڑ چکے۔ میرے پاس بچا ہی کیا تھا کہ میں ہر لمحہ ان کے خوف سے مرتی رہتی۔ میں نے صوفیہ باجی سے بات کی۔ انہوں نے مجھے سمجھا بجھا کر روک دیا اور کہا کہ میں خود اس کو لے آؤں گی۔ تم اپنے لئے دوزخ کو مزید نہ بھڑکاؤ ۔ انہوں نے اپنے بھائی کو تمام احوال کہا اور بیٹے کی بے گناہی کا یقین دلایا، تب ان کا دل موم ہو گیا اور وہ اسد کو منا کر گھر لے آئے۔ اسد کا گاؤں لوٹنا تھا کہ کہرام برپا ہو گیا۔ میرے لئے زندگی کا دائرہ تنگ اور مزید بدنامیوں کے باب کھل گئے۔ اس بربادی میں میری بھابھی نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور یہ الزام لگایا کہ تابندہ جو زیور لے گئی ہے، واپس کر دے، جبکہ زیور تو انہوں نے ہی رکھے ہوئے تھے۔ میرے شوہر کو یہ باور کرایا کہ ہم نے تو شادی کے دن زیور دے دیا تھا اس نے اسد کو دے دیا ہے ۔ اب بھلا میری بربادی میں کون سی کسر رہ گئی تھی ۔ یہ وہ عورت تھی جو خود تو گھر سے بھاگ کر آئی تھی اور اپنی بے قصور نند کو اور بے سہارا کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ زیادہ دکھ کی بات تو یہ تھی کہ فراز بھائی پہلے دن سے اس خاردار درخت کو بونے میں ہر اول بنے تھے۔ میری اتنی بربادی کے باوجود شک کا کانٹا ان کے دل سے نہیں نکلا تھا۔ ظلم کی شاید کوئی حد نہیں ہوتی کہ مجھے پوری طرح برباد کرنے کے بعد بھی ان لوگوں کو چین نہ تھا۔ طرح طرح سے مجھے بھابھی نے تنگ کیا اور میرا سگا بھائی اُس کا بازو بنا رہا۔ ہر وقت رو رو کر اپنے خدا سے یہی دعا کرتی کہ خدارا فراز سا لالچی بھائی اور حوریہ جیسی بھابھی کسی کی نہ ہو، جنہوں نے ناحق مجھ ایسی بے ضرر کو گھر سے بے گھر کر دیا اور بے چارے اسد کو شہر بدر کر کے چھوڑا۔ اس پر بھی ان کو چین نہیں ملا۔ ایک دن کراچی سے اطلاع آئی کہ اسد اسپتال میں ہے اور شدید بیمار ہے۔ باجی صوفیہ تڑپ کر رہ گئیں۔ خط پر اسپتال کا پتا درج تھا۔ مجھے میری بڑی بہن نے بتایا تو میں فوراً باجی صوفیہ کے پاس گئی اور کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔ وہ بولیں۔ میاں نے الزام لگا کر نکالا ہے، بھابھی بھائی کے در پر پڑی ہو۔ اگرمیرے ساتھ گئیں تو پکی طلاق مل جائے گی۔ میں نے بھی کہہ دیا۔ ملتی ہے تو مل جائے ، ویسے بھی کون سی سے آباد ہوں۔ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ اب مجھے پروا نہیں جو کرنا ہے کر لیں۔ میں نے بھائی سے بھی نہ پوچھا اور باجی صوفیہ کے ساتھ کراچی چلی گئی۔ اسد کی حالت بہت خراب تھی۔ اس کے ساتھ کوئی اپنا نہ تھا۔ ایک دوست تھا ، وہ ڈیوٹی پر جاتا اور جب چھٹی ملتی آکر دیکھ جاتا ۔ ہمیں دو ماہ کراچی رہنا پڑا۔ جب اسد بالکل ٹھیک ہو گیا تو ہم واپس آئے۔ پتا چلا کہ میری طلاق کے نوٹس آئے رکھے ہیں۔ مجھے کوئی قلق نہ ہوا۔ بہت رو دھولی، ہاتھ پاؤں جوڑے، منتیں ، سب کر لیا مگر شوہر کے دل میں شک نے ایسا ڈیرا ڈالا کہ پھر نہ اُٹھایا۔ بھائی نے گھر میں رکھنے سے انکار کردیا ، دوسرے بھائی بھی ان کے ہم نوا ہو گئے۔ بہنیں اپنے گھروں کی تھیں ۔ اب کہاں جاتی دل نے کہا اور کر بغاوت۔ اس معاشرے میں عورت کا یہی مقدر ہے۔ سک سسک کر جیئے یا پھر بغاوت کرے تو اپنے ہی سڑک پر بٹھا دیتے ہیں۔ باجی صوفیہ واحد ہستی تھیں، جس نے اس وقت میرا ساتھ دیا اور مجھے اپنے گھر میں رکھا۔ بولیں۔ ناحق داغ تو انہوں نے لگا ہی دیا ہے۔ میری مانو تو جس کے ساتھ بدنامی لگائی ہے، اس کے ساتھ نکاح کر لو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں نے منع کر دیا کہ جب اسد نے مجھے سگی خالہ کہا ہے اور میں نے دل سے اسے بھانجا مانا ہے تو ہرگز اس مقدس رشتے کو ختم نہیں کر سکتی۔ اسد نے بھی انکار کر دیا۔ سوال یہ تھا کہ طلاق تو مجھے اس کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اب کہاں جاتی یہ گھرانہ مجھے سہارا دینا چاہتا تھا ، سو، صوفیہ باجی نے اور راہ نکالی اور کہا کہ میرا چھوٹا لڑکا تمہارا ہم عمر ہے۔ بہتر ہے کہ میں فہد سے تمہارا نکاح کر دیتی ہوں۔ اس بات پر تم راضی ہو جاؤ، ورنہ تمہاری بے سہارا زندگی برباد ہو جائے گی، کیسے گزر بسر کرو گی ۔ انہوں نے فہد سے بات کی۔ وہ مجھے اپنانے پر رضامند ہو گیا۔ میں نے بھی بہت سوچنے کے بعد سپر ڈال دی۔ قسمت میں باجی صوفیہ کی بہو بننا اور فہد سے نکاح ہونا لکھا تھا، سو پورا ہو گیا۔ آج میں خوش حال جیون جی رہی ہوں۔ اسد اب بھی مجھے، بھابھی کی بجائے خالہ ہی کہہ کر بلاتے ہیں اور میری عزت کرتے ہیں۔ میں بھی ان کی عزت کرتی ہوں ۔ ہمارے درمیان احترام کا جو رشتہ پہلے دن سے تھا وہ آج بھی ہے اور یہ رشتہ ہم کو بہت مقدم ہے۔ | null |
null | null | null | 239 | https://www.urduzone.net/jhoti-khushiyan/ | بچپن سے میرے ذہن میں عورت کا تصور بہت پیارا تھا کیونکہ بیٹیاں ، اپنی ماں کو ہی اپنا آئیڈیل بناتی ہے۔ ہم نے بھی ہمیشہ اپنی ماں کو شفیق ، محبت کرنے والی اور شوہر پر جان نثار کرنے والی بیوی کے روپ میں دیکھا تھا۔ میری والدہ ایک مثالی خاتون ہونے کی وجہ سے ہر دلعزیز تھیں۔ میں اور میرا بھائی دونوں ہی یہ سمجھتے تھے جس طرح وہ میرے والد کی وفادار اور خدمت گزار ہیں، ہر عورت ایسی ہی ہوتی ہوگی۔ امی کو بھائی اکرام کا سہرا دیکھنے کی بڑی آرزو تھی۔ تب بھائی پڑھ رہے تھے اور شادی کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ امی کے تصور میں اپنی بہو کا حسین مکھڑا چمکتا رہتا اور اکرام بھیا کہتے۔ جب تک زندگی کی ہر آسائش اس کے لئے مہیا نہ کرلوں، بیاہ کر نہ لاؤں گا۔ اکرام کا نظریہ، یہ تھا کہ اپنی بیوی کو ہر آسائش مہیا کرنا چاہیے۔ وہ اگر کوئی فرمائش کرے تو مرد کو چاہئے کہ اسے پورا کرے تا کہ عورت کو زندگی کی چھوٹی موٹی چیزوں کی حسرت نہ رہے۔ اس طرح مرد کی برتری بھی اس پر قائم رہتی ہے اور وہ ادھر ادھر سوچنے کی بجائے صرف اپنے شوہر کی ذات کے بارے سوچتی ہے۔ سو اکرام نے اچھے گھر اور پیاری بیوی کے تصور میں دل لگا کر محنت کی اور ہر قدم پر کامیاب رہا۔ آخر وہ دن آگیا، جب وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہو گئے تبھی انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اب ان کی شادی ہو جانا چاہیے۔ والدہ نے بھی محسوس کر لیا کہ اکرام گھر بسانا چاہتا ہے۔ انہوں نے میری ماموں زاد سے اس کی شادی کروانا کروانا چاہی مگر بھائی کو وہ پسند نہ تھی۔ انہوں نے دور کے ایک رشتہ دار کی لڑکی صبا کا نام لیا، جو دراز قد اور خوبصورت تھی ۔ امی نے سوچا کہ چلو، جہاں میرا بیٹا راضی ہے، ادھر ہی رشتہ کردوں تو اس میں کیا ہرج ہے ۔ یوں صبا کے والدین کے گھر پیغام دیا۔ وہاں سے فوراہاں ہو گئی اور دو ماہ کے اندر اندر شادی ہو گئی۔ اکرام بھیا، صبا جیسی دلہن پا کر بہت خوش تھے، جو چاند کا ٹکڑا تھی۔ وہ فخر کرتے کہ مجھ کو اتنی اچھی بیوی مل گئی ہے۔ وہ جیسی شریک حیات چاہتے تھے، وہ اس سے بڑھ کر حسین تھی۔ ایک ماہ کی چھٹیاں پلک جھپکتے گزر گئیں اور وہ اپنے فرائض کی بجا آوری کے لئے راولپنڈی چلے گئے تبھی انہوں نے اچانک اپنی بیوی کے رویئے میں کچھ تبدیلی محسوس کی ۔ شروع میں اسے وقتی کیفیت خیال کیا۔ وہ پیار کا جواب بے رخی سے دینے لگی تھی۔ یہ اسے بھی ناز و انداز سمجھ رہے تھے۔ یہ تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ہمارے گھر میں ایسا ڈرامہ کھیلا جائے گا۔ جس پر مرد قتل اور عورتیں خود کشی کر لیتی ہیں۔ ایک روز وہ دفتر سے گھر آئے تو انہیں لگا کہ ملازم کچھ کہنا چاہتا ہے، مگر کہ نہیں پاتا۔ وہ صاحب جی کہتا پھر چپ ہو جاتا۔ بھائی سمجھے، اس کو کچھ رقم چاہئے، تبھی دینو بابا نے وہ بات کہہ ڈالی جو کہتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ بتاتی چلوں کہ بھائی کو دفتر کی طرف سے جو گھر ملا تھا، وہ الگ تھلگ کسی ایک آبادی میں تھا، جہاں ان کے ساتھ بابا دینو بھی رہتے تھے اور ہم سب گھر والے اپنے شہر میں تھے۔ جو بات بابا دینو نے کہی، اس سے میرے بھائی کو شدید ذہنی صدمہ پہنچا۔ اس نے بتایا کہ اکرام صاحب آپ کی غیر موجودگی میں اکثر ایک شخص صبا بی بی سے ملنے آتا ہے اور آپ کے آنے سے پہلے چلا جاتا ہے۔ ان الفاظ نے اکرام بھائی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دوسرے روز انہوں نے دفتر سے چھٹی لی اور وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے ۔ انہوں نے دروازہ بجایا۔ صبا سمجھی کہ دینو بابا ہے۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے شوہر کو پا کرفق رہ گئی، حالانکہ اس نے دینو کو کہہ رکھا تھا کوئی آئے تو مجھے فوراً باہر سے فون کر کے اطلاع کرنا۔ شاید اسے اس بوڑھے بابا پر اعتماد تھا حالانکہ یہ اس کی بھول تھی۔ وہ ملازم تو اکرام بھائی کا تھا۔ بہرحال بھائی کا غصہ آسمان پر تھا مگر ارد گرد کے گھروں کا خیال تھا، لہذا غصے پر قابو پایا کیونکہ اپنی بدنامی ان کو کسی صورت گوارہ نہ تھی ، ورنہ شاید وہ اسی وقت دونوں کو شوٹ کر دیتے ۔ انہوں نے بیوی کو دوسرے کمرے میں بلا کر پوچھا۔ اندر کون ہے اور تم نے کمرے کو لاک کیوں کر رکھا تھا یہ میرا مہمان ہے۔ کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے ہاں، اس لئے کہ تم نے پہلے اس کے بارے بھی مجھے نہیں بتایا اور میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ یہ میری غیر موجودگی میں ہی آتا ہے۔ اب وضاحت کرو کہ تمہارا اس کے ساتھ کیا لینا دینا ہے۔ مہمان ہے تو ڈرائنگ روم میں کیوں نہ بٹھایا اس پر صبا بھابھی نے اندازہ کر لیا کہ اب جھوٹ سے کام نہیں چلے گا کیونکہ جب وہ دونوں دوسرے کمرے میں بات کر ہے تھے تو مہمان صاحب گھر سے بھاگ نکلے اور بھائی کے سامنے آنے یا اپنا تعارف کروانے کی جرات بھی نہ کی ۔ معاملہ سامنے تھا تبھی صبا نے صاف کہہ دیا کہ میں اس شخص سے محبت کرتی ہوں ۔ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی ، مگر میرے والدین نے زبردستی تمہارے ساتھ شادی کرادی۔ انہوں نے مجھ پر ظلم کیا۔ میرا ذہن اس جبر کو برداشت نہیں کر سکا۔ میں ایک دو ماہ تو برداشت کرتی رہی ، اس کے بعد دل پر قابو نہ رکھ سکی۔ میرا دل تمہارے ساتھ جیون بتانے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ اس نے یہ باتیں دیدہ دلیری سے کہیں اور پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اب اکرام بھائی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش کہاں باقی رہ گئی تھی کہ جس کی آڑ میں وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے ۔ بلک بلک کر رونے کے سبب وہ بیوی کے ساتھ سختی سے بھی پیش نہیں آسکتے تھے۔ کبھی کبھی ، صاف گوئی اور اقرار جرم بھی اگلے کو بے بس کر دیتا ہے کہ وہ مجرم کے ساتھ سختی کرے یا نہ کرے۔ صبا نے سچ بات کہہ کر اکرام بھائی کو اتنا بے بس کر دیا کہ ایک لفظ بھی ان کی زبان سے ادانہ ہو پایا۔ ظاہر ہے، ایک پڑھا لکھا آدمی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو تو اس میں قصور لڑکی کا نہیں ، اس کے والدین کا ہوتا ہے۔ پس انہوں نے بھی یہی سوچا کہ بیوی کی بجائے ، اس کے والد سے بات کرنا چاہیے۔ انہوں فوراً سسر کو ساری صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ یہ بھی بتایا کہ آپ آکر اپنی بیٹی کو لے جائیے ، میں اس کو طلاق دے رہا ہوں۔ وہ میرے ساتھ زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہیں۔ بہتر ہے آپ اس کی شادی اسی شخص کے ساتھ کر دیں جس کو یہ پسند کرتی ہے۔ سسر صاحب فورا آپہنچے۔ بھائی نے کہا۔ بزرگوار میں آپ کا احترام کرتا ہوں مگر آپ کی بیٹی نے مجبور کر دیا ہے۔ آپ ہی انصاف کیجئے ۔ وہ اپنی زبان سے کہہ رہی ہے کہ بطور شوہر اس کا ذہن مجھے قبول کرنے پر تیار نہیں ہے، پھر ایسی عورت کو اپنا پابند بنا کر رکھنے کا کیا فائدہ، جو مجھ کو دل سے اپنا شوہر تسلیم ہی نہ کرتی ہو۔ اکرام بھائی کا اتنا کہنا تھا کہ صبا کے باپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اس بوڑھے شخص نے جس کا سر روئی کے گالے کی مانند سفید تھا، اپنے کانپتے ہاتھوں سے ٹوپی اتار کران کے قدموں میں رکھ دی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔ میرے بیٹے یہ بے وقوف اور نادان ہے ۔ وہ آدمی غلط قسم کا ہے ، خدا کے واسطے ایسا مت کرنا۔ اگر تم نے طلاق دے دی تو بڑھاپے میں، میں خاندان والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ تم صبر سے کام لو۔ اچھے ہی بروں کو سنبھال لیا کرتے ہیں تو وہ کھائی میں گرنے سے بچ جاتے ہیں۔ ابھی میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں سمجھاتا بجھاتا ہوں، مگر طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لو۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ آنکھوں دیکھی مکھی کو نگل لو۔ میرے والدین کو بھی بلوالیا گیا۔ ان کے سامنے سارا معاملہ رکھا گیا۔ انہوں نے بھی صبا کے باپ کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے بیٹے سے کہا۔ تم کبھی بھی طلاق دے سکتے ہو۔ فی الحال ایک بار انہیں سمجھانے کی مہلت دو۔ گھر بار بار نہیں بستے۔ صبا سے بڑی چار بیٹیاں اور بن بیاہی ہیں۔ ابھی صبا کو ان کے ساتھ جانے دو اور ہم کو بھی سوچنے دو۔ اکرام بھائی کا دل ہرگز آمادہ نہ تھا کیونکہ جس تن لاگے وہ ہی جانے ۔ انہوں نے پھر بھی اپنے والدین کے کہے کی لاج رکھی اور فوری طلاق نہ دی۔ سر کی بے بسی کا خیال کرتے ہوئے ان کا بھرم رکھ لیا۔ صبا باپ کے ساتھ چلی گئی اور اکرام بھائی کی نیندیں بھی اپنے پلو میں باندھ کر لے گئی۔ کچھ عرصہ بعد سسر صاحب ہمارے والد کے پاس صبا کے ساتھ لاہور آگئے۔ انہوں نے کہا۔ میں نے بیٹی کو سمجھایا ہے، اب یہ بھی ایسا نہ کرے گی۔ صبا نے بھی میرے والدین کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگی اور بڑی قسم کی ضمانت دی کہ وہ آئندہ ہمیشہ اپنے شوہر کی وفادار رہے گی، اس شخص سے کبھی نہیں ملے گی۔ یہ بھی باور کرایا کہ وہ صرف اس سے ملاقات کر کے چلا جاتا تھا۔ وہ دونوں گناہ سے دور تھے۔ اس بات پر بھی اس نے کلام پاک کی قسم کھائی۔ میرے والدین ان کو ساتھ لے کر اکرام بھائی کے پاس روالپنڈی پہنچے۔ ان کو سمجھایا بجھایا کہ صبا نے قسم کھائی ہے اور اس کے والد ضمانت دے رہے ہیں کہ اب ایسی غلطی نہ کرے گی۔ اگر دوبارہ شکایت کا موقعہ دیا تو بے شک طلاق دے دینا۔ بھائی نے بھی بزرگوں کی شرم رکھ لی اور صبا نے شوہر سے بھی قسمیں کھا کر معافی تلافی کر لی ، تو انہوں نے اس کو رکھ لیا۔ صبا نے صریحاً فریب سے کام لیا تھا۔ اس کے دل میں تو ایسی آگ بھڑک رہی تھی ، جس کو نہ بوڑھے باپ کے آنسو بجھا سکتے تھے، نہ شوہر کی وفا راکھ کر سکتی تھی۔ ایسے باز آنا تھا اور نہ باز آئی، بلکہ اور زیادہ دیدہ دلیری سے اس شخص سے ملنے لگی۔ اب وہ اسے گھر میں نہ بلاتی کسی راز داں سہیلی کے ذریعہ باہر ملتی ۔ کہتے ہیں انسان کے پیروں پر کوئی پہرہ نہیں دے سکتا۔ جس نے جو کرنا ہو کر گزرتا ہے۔ جتنے دن وہ بھائی کے گھر رہی ، وہ جہنم کی آگ میں جلتے رہے۔ رات بھر انگاروں کے بستر پر لوٹتے تھے اور وہ قریب پڑی محو خواب ہوتی ۔ اکرام بھائی کو ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی ناگن ان کے بستر میں لیٹی ہو۔ انہوں نے ایک بار امی سے کہا تھا کہ میں اس اذیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جس کی تپش پگھلے ہوئے سورج سے بھی زیادہ تھی۔ کبھی جی چاہتا ، اس کو اور اس کے چاہنے والے کو شوٹ کر دوں اور بھی سوچ آتی کہ اپنی ہی کنپٹی پر پستول چلا کر ان کے راستے سے ہٹ جاؤں۔ دو ماہ انہوں نے بغیر کچھ کہے صبا کو اپنے گھر پناہ دی لیکن ان کا دل اسے رکھنے کا راضی نہ ہوا کیونکہ ان کے دل سے شریک حیات کی قدر ہی جاتی رہی تھی۔ دوسری طرف ان کے سسر جو بزرگ آدمی تھے، ان کے آنسوان کے ارادے کو کمزور کئے ہوئے تھے، تاہم یہ ایک جھوٹا بندھن ہی تھا، جس کا ٹوٹ جانا ہی اچھا تھا۔ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک روز انہوں نے پیارسے صبا کو اعتماد میں لے کر کہا۔ دیکھو تم اگر اب بھی والدین کی وجہ سے مجبور ہوئی ہو تو مجھے سچ بتا دو۔ میں تم کو آزاد کر دیتا ہوں۔ زبردستی کی زندگی جینا ظلم ہے۔ یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ کل کیا ہو، یہ تو خدا جانتا ہے لیکن فیصلہ ایک ہی بار کرنا چاہیے۔ اگر تم آزاد ہونا چاہتی ہو، اپنا ماضی نہیں بھلاسکتی ہو تو مجھے دوست سمجھ کر دل کی بات بتا دو اور مجھ پر اعتبار کرو۔ میں ہر گز تم کو رسوا نہیں کروں گا بلکہ تم کو تمہاری مرضی سے جینے کا راستہ دوں گا۔ صبا کم سن تھی، ان کی باتوں میں آگئی اور دل کی بات کہہ دی کہ وہ یہاں دل پر جبر کر کے رہ رہی ہے۔ وہ اپنے والد کی آہ وزاری سے مجبور ہو جاتی ہے مگر دل سے ناخوش ہے۔ کہنے لگی۔ مجھ پر احسان ہوگا اگر مجھے تم آزاد کر دو گے۔ تب اکرام بھائی نے اس کو طلاق دے دی اور کہا کہ اپنے والدین کو خود اطلاع کرو، جہاں چاہے جاسکتی ہو۔ آج ایک بڑی مشکل حل کر کے تم نے بھی مجھ پر احسان کر دیا ہے۔ بھائی اکرام نے تو اس صدمے کو جوں توں جھیل ہی لیا تھا۔ ان پڑھوں کی طرح دنگا فساد یا کسی قسم کا خوفناک ردعمل کر گزرنے کی بجائے تحمل سے تعلیم یافتہ فرد کی طرح فیصلہ کر دیا۔ کسی بات کو آنا کا مسئلہ بھی نہیں بنایا۔ مگر صبا نے جو کیا اپنے حق میں برا کیا کیونکہ اس کے والد کا کہنا صحیح تھا۔ جس شخص کے جال میں وہ گرفتار تھی، وہ واقعی غلط آدمی تھا۔ اس نے صبا کو چند دن رکھا اور پھر خوار کر کے چھوڑ دیا۔ بالآخر اسے پناہ اپنے بوڑھے باپ کی چھت تلے ہی ملی، جس کے دل کو لہو لہو کر کے وہ جھوٹی خوشیوں کے پیچھے بھاگی تھی۔ اب وہ اکرام بھائی کو یاد کر کے بہت روتی تھی، مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت | null |
null | null | null | 240 | https://www.urduzone.net/bay-mosmi-zindagi/ | تیز ہوا کے پہلے جھونکے کو خوش آمدید کہتے ہی بجلی الوداع ہو گئی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بے قراری کے عالم میں کوئی مسلسل کھڑکیاں پیٹ رہا ہو۔ گھپ اندھیرے میں گرجتے برستے بادلوں نے ماحول کی ہولناکی میں اضافہ کر دیا تھا۔ باقی کی رہی سہی کسر، بجلی کے کڑکنے کی دل دہلا دینے والی آواز اور آنکھیں چندھیا دینے والی روشنی نے پوری کردی۔ رات کے آخری پہر شائیں شائیں کرتی ہوا اور دھواں دھار بارش کی تیز بوچھاڑ سے طوفان کی شدت کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا تھا۔ منہ زور ہوا کے مستقل تپھیٹروں سے، کمرے کی لکڑی کی اکلوتی کھڑکی کے پٹ دھڑ کی زور دار آواز سے کھلے۔ یا اللہ خیر چادر میں دبک کے لیٹی نگہت خوف زدہ ہو کر ایک جھٹکے سے چارپائی سے اٹھ بیٹھی۔ چند قدم کے فاصلے پر سوئچ بورڈ کے نزدیک چارچنگ کی غرض سے دیوار پر لٹکائی ٹارچ تک وہ اندازے سے پہنچی۔ ٹارچ آن کرتے ہی کمرے میں ہلکی سفید روشنی پھیلی اور اس نے بے اختیار اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ڈرے سہمے ، بے تحاشا دھڑکتے دل کو دلاسا دینے کی کوشش کی ۔ کھڑکی کے پٹ مضبوطی سے بند کر کے دیوار پرٹنگی گھڑی پر نظر ڈالی۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ یا الله یہ اندھیری طوفانی رات اکیلے کیسے کاٹوں گی دل میں شکوہ اٹھا۔ عام دنوں میں بھی رات کی تاریکی اور ہولناک خاموشی میں اس کی آنکھوں کے سامنے کتنی ہی محرومیاں ناچتیں اور نیندیں اڑا لے جاتیں۔ آج تو پھر خوف ناک طوفانی رات تھی، جو کسی طرح کاٹے نہیں کٹنی تھی۔ ماں صحیح کہتی تھیں کہ کلاتے کوئی روئی رکھ دی نہ ہووئے۔ ماں کی یاد پر اسے اپنی تھکی ماندی آنکھوں کے گوشے نم ہوتے محسوس ہوئے تھے۔ خدا جانے بے فکری کی نیند کی مٹھاس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے اور کن لوگوں کو چکھنا نصیب ہوتا ہے اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک، نگہت کو تو بے فکری کی میٹھی نیند میسر نہیں آئی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اس نے حالات کے کتنے ہی بے رحم تھپیڑے اپنے نازک وجود پر سہے تھے۔ جس بالی عمر میں لڑکیاں شوخی سے بھر پور ہوتی ہیں، آنکھوں میں رنگین سپنے اور دل میں امنگیں پالتی ہیں ، وہ گھر کی فکر میں گھلنے لگی تھی۔ بیمار ماں ، فکر معاش میں جتا باپ ، اکھڑ مزاج بھائی اور سب کی پرواہ میں ہلکان ہوتی وہ اکیلی جان۔ اری او نگو کہاں ہے اماں کی ایک آواز پر سب کام کاج چھوڑ کر وہ ان کے پاس بھاگی چلی جاتی۔ نگو میری دھی کھانا لگا دے بہت بھوک لگی ہے۔ تھکن سے نڈھال ابا گھر میں داخل ہوتے ہی اسے پکارتا اور وہ تازی روٹی بنانے کے لیے جلدی سے پیڑے بنانے لگ جاتی۔ نگو چائے بنا دے میرے کپڑے استری کردے جلدی کر کھانا بنا دے سارا دن وقفے وقفے سے بھائی آوازیں لگاتا اور وہ جی جی کرتی پورے گھر میں پھرکی کی طرح پھرتی رہتی۔ باپ کی چلتی کریانے کی دکان ، بھائی نے کم عمری میں ہی سنبھال لی کہ اول تو اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا ، دوم ابا کی بیماری کے باعث دکان سنبھالنا ان کے بس کا کام نہیں رہا تھا۔ اماں اپنے لاڈلے اکلوتے بیٹے کے کتنے واری صدقے جاتیں۔ انھیں پورا یقین تھا کہ وہ ہی ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا کیونکہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ مگر اماں کتنی سادہ لوح اور بھولی تھیں ۔ اماں ابا کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ جسے وہ اپنے سہارے کے طور پر پال پوس کر جوان کر رہے ہیں ، وہ اپنے پیروں پہ ، کھڑا ہو کر کسی اور کا پلو تھام کے انھیں ہمیشہ کے لیے بے سہارا چھوڑ کر بھی جا سکتا ہے۔ ابا کی دکان پر سودا سیلف لینے آنے والی عالیہ ، اس کے بھائی کو بھا گئی تھی۔ اس کا باپ چند مہینے پہلے اللہ کو پیارا ہوا تھا اور ماں بیٹی لوگوں کے کپڑے سی کر گزر بسر کرتی تھیں۔ کچھ تو جادو تھا اس کی اداؤں میں کہ بھائی خود سے پانچ چھ برس بڑی ، قبول صورت عالیہ سے شادی کا ارادہ باندھ بیٹھا اور اسی چکر میں وہ اسے بخوشی ادھار پر سارے گھر کا راشن بھی دیتا رہا تھا۔ گھر میں بات کھلتے ہی طوفان برپا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ دھچکا اماں کو لگا۔ ابا بے چارہ تو بے بسی سے سارا تماشا دیکھنے پر مجبور تھا۔ دو چھوٹے کمرے، ان کے سامنے ایک چھوٹا پورچ اور کونے میں ایک چھوٹا سا کچن لوہے کی سلاخوں سے برآمدے کو بند کر کے کمروں کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس کے آگے ایک برائے نام صحن اور کونے میں ایک غسل خانہ ہے۔ یہ اس کی کل کائنات تھی، جس پر گھر والوں کے مطابق وہ اکیلا سانپ بن کر بیٹھا تھا۔ وہ یہیں پلا بڑھا، سب اس کی ماں اور باپ کو جانتے تھے۔ پڑوسی ہمدرد اور خیال رکھنے والے تھے، تب بھی اس کے پاس اکیلے رہنے کا وقت نہیں تھا۔ والد اور بھائی کی مخالفت کے باوجود نگہت نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور اب یہی تعلیم آمدنی کا ذریعہ بن گئی۔ سارا دن ایک نجی اسکول سرکھپا کے وہ اتنا کما لیتی کہ گھر چلایا جا سکے۔ شام میں محلے کے چھوٹے بچے ، اس سے ٹیوشن پڑھنے آتے تو کچھ پیسے بھی بن جاتے اور ویرانے میں ایک دو گھنٹے کے لیے بہار بھی چھا جاتی۔ سائیں سائیں کرتے گھر میں رنگ برنگی باتوں اور ہنسی کی دھیمی آوازیں گونجتیں ۔ شام کا مخصوص وقت جو وہ بچوں کے ساتھ گزارتی اس کے لیے بہترین وقت ہوتا۔ گھر کے بہت سے چھوٹے موٹے کام باہر سے دودھ، دہی، گوشت، سودا سلف وغیرہ لانے کا کام بھی بچے خوشی خوشی کر دیتے تھے۔ مگر شام ڈھلتے ہی تنہائی کا زہر رگوں میں اترنے لگتا۔ اتنے سال تنہا گزارنے کے بعد ، اب وہ اس نہج پر پہنچ گئی تھی کہ ذرا سے کھٹکے اور انہوئی آواز پر دل خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرزنے لگتا اور کچی نیند پلو چھڑا کر کوسوں دور بھاگ جاتی۔ تب ساری رات اپنے چہرے پر کنندہ نظر کی بے شمار لکیروں اور بالوں میں اترتی چاندنی دیکھتے ہوئے ، وہ اکثر سوچتی کہ کاش باقی ہم جولیوں کی طرح میری بھی وقت پر شادی ہو گئی ہوتی تو آج میرے بھی لڑکپن کی عمر کو پہنچ چکے بچے ہوتے۔ جوانی شادی کے انتظار اور بیمار ماں باپ کی خدمت کرتے ہوئے کب گزری اسے پتا ہی نہیں چلا۔ خاندان میں جسے ضرورت پیش آتی قرعہ فال ہمیشہ اس کے نام نکلتا۔ کسی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی یا شادی والا گھر ، کام کاج کے سلسلے میں سب کو اس کی یاد ستانے لگتی۔ اگر غلطی سے بھی وہ واپس جانے کا نام لے لیتی تو مزید باتیں سننی پڑتیں۔ ارے بھئی تمہارے پیچھے کون سا بچے رو رہے ہیں ۔ واپس جا کر کیا کرنا ہے ادھر تمہاری راہ تکتا بیٹھا ہی کون ہے اس جیسے بہت سے جملے اسے سننے کو ملتے اور جب اس کی ضرورت ختم ہو جاتی تو جملوں کی نوعیت خود بخود بدل جاتی۔ ہاں بہن اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے۔ اپنے گھر سے بندہ دور رہ کر اداس ہو ہی جاتا ہے۔ اسکول سے زیادہ چھٹیاں لینا مناسب نہیں ۔ زیادہ دن گھر کا بند رہنا ٹھیک نہیں ہوتا ۔ گھر آباد ر ہے تو ہی اچھا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں تم رہو لیکن ظاہر ہے جو آیا ہے وہ واپس بھی جائے گا۔ لوگوں کی رنگ برنگی کڑوی باتیں اور دل شکن رویے اس نے تنہا سہے تھے۔ اتوار کے روز اس کی ایک سی روٹین ہوتی۔ صبح سویرے ہی واشنگ مشین لگا کر ہفتے بھر کے میلے کپڑے دھو لیتی۔ تفصیل سے گھر کی صفائی کرتی من پسند کھانا بناتی اور دوپہر میں جی بھر کر آرام کرتی کبھی کوئی محلے دار ملنے آجاتی تو وقت آسانی سے کٹ جاتا۔ کھانا کھا کر وہ آرام کی غرض سے لیٹ گئی تھی ۔ عصر کے وقت اس کی آنکھ دروازے پر مستقل ہونے والی دستک سے کھلی۔ بال لپیٹتے، سائیڈ پر دھرا دو پٹہ اٹھا کر اوڑھا اور پاؤں میں چپل پہن کے وہ جیسے ہی برآمدے میں آئی موسم کے تیور دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ اللہ اللہ اتنی گھنگھور کالی گھٹائیں۔ لگتا ہے آج پھر بارش ہوگی۔ خود سے بولتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ کنڈی کھول کر اس نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ محلے میں اس کے اکلوتے دوست کا دس سالہ بیٹا اظہر ہاتھ میں پلیٹ لیے اس کے سامنے کھڑا غضب ناک نظر آرہا تھا۔ وہ شرارت سے اسے دیکھ کر مسکرایا۔ السلام علیکم محترمہ آپ پر سلامتی ہو چلو اندر چلو اس نے اسے اندر جانے دیا، اظہر اس گھر سے واقف تھا۔ وہ اتوار کے علاوہ ہفتے میں چھ دن پڑھنے نہیں آتا۔ کیا لائے ہو مس جی امی نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ بارش ہونے والی ہے جلدی دو۔ پلیٹ اس کی طرف بڑھا دی گئی۔ اوہ اچھا یہ کہنے کے لیے ماں کا شکریہ۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے بھاگ گیا۔ گرم گلگلے چکھتے نگہت نے چائے کے لیے پانی چولہے پر رکھا۔ جب تک چائے تیار ہوئی تب تک گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی۔ بھاگ کر وہ کمرے سے ٹارچ اٹھالائی۔ لائٹ کا کوئی بھروسا نہ تھا۔ دن تو مصروفیت میں کٹ جاتا تھا پر شام ڈھلتے ہی اس پر یاسیت طاری ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تو اس کا جی چاہتا کہ کہیں بھاگ جائے اور خود کو کسی رونق میلے میں گم کر دے مگر زمانے سے بغاوت کرنے کی جرات بھی تو نہ تھی اور آج تو حسین موسم میں تنہائی اور بارش طبیعت پر مزید گراں گزر رہی تھی۔ گھر کا سکون آئے دن اماں اور بھائی کی تکرار سے تہہ و بالا ہونے لگا تھا۔ دیکھ ماجد ، تو اس حرافہ کا خیال دل سے نکال دے۔ تیری شادی میں عالیہ سے کبھی نہیں کروں گی ۔ اماں اتنا کہتیں اور بھائی کی آنکھیں شرارے برسانے اور زبان آگ اگلنا شروع کر دیتی۔ اماں ، اس کا نام تمیز سے لے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ بیٹے کی بات اور لہجہ ماں کا مان چکنا چور کر دیتا۔ بھائی اماں سے تو کیسے بات کر رہا ہے اس نے پہلی بار بھائی کوٹوکا تھا۔ تو چپ کر اماں کان کھول کے سن لے شادی تو میں بس عالیہ سے ہی کروں ۔ بھائی غرایا تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی۔ تجھے اچھے سے پتا ہے کہ کئی سالوں سے تیری بہن کا رشتہ خالہ کے ہاں طے ہے۔ اب تیری خالہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی کا رشتہ تجھ سے ہو جائے۔ وہ چاہتی ہے نا میں تو نہیں چاہتا کیا کمی ہے گلشن میں خوب صورت ہے ، کم عمر اور جلد ایف اے بھی کر لے گی۔ گھر کی دیکھی بھالی بچی ہے اور کیا چاہیے کمی یہ ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں فیصلہ سنا کر وہ غصے سے تلملاتا ہوا گھر سے نکل گیا اور ماں، بہن کو وسوسوں کی نظر کر گیا۔ وہی ہوا جس کا انھیں ڈر تھا۔ خالہ انکار سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئیں۔ اگر میری بیٹی کے لیے تمھارے دلوں میں جگہ نہیں تو سن لو تمہاری بیٹی کے لیے بھی میرے گھر میں رتی برابر جگہ نہیں ۔اماں نے بیٹے اور بہن کو سمجھانے بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ لیکن واسطے، منتیں ترلے کچھ بھی کام نہیں آیا تھا۔ دیکھ ماجد ، تو میرا سوہنا پتر ہے۔ بہن کا سوچ اس کا کیا بنے گا سالوں پرانا رشتہ ٹوٹنے پر دنیا ہم پر تھوکے گی۔ پھر کیسے ہو گی اس کی شادی کچھ نہیں ہوتا اماں، اس کے لیے کوئی اور رشتہ دیکھ لے۔ میں عالیہ کو زبان دے چکا ہوں۔ماں کے سوہنے پتر پر ذرہ برابراثر نہیں ہوا تھا۔ ہاں تو تجھے اپنی زبان کی فکر ہے پر ماں کی زبان کی نہیں ۔ اماں کیا مجھ سے پوچھ کر تو نے اپنی بہن کو زبان دی تھی دیکھ میں بتا رہی ہوں میری بات نہ مانی تو تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی ۔ بے بس ماں نے اپنی طرف سے آخری حربہ آزمایا۔ اماں ، نہ ہی تم نے دنیا کا کوئی انوکھا کام کیا اور نہ ہی مجھ پر کوئی احسان کیا تھا۔ ساری مائیں ہی اپنے شیر خوار بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ ویسے بھی نگہت تیری اولاد ہے میری نہیں۔ میں کیوں اس کے لیے اپنی خوشیوں کی قربانی دوں خود سر بیٹے کے پاس اگلنے کے لیے زہر کی فراوانی تھی بے بس ماں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ ایک دن اچانک اس نے ان کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ خاموشی سے باہر ہی باہر ایک دوست کے گھر، سادگی سے نکاح کر کے وہ عالیہ کو بیاہ کر لے آیا تھا۔ ابا اور اماں بیٹے کو بہو کے ساتھ دیکھ سکتے میں رہ گئے تھے۔ تو یہ دن دیکھنے کے لیے اللہ سے دعائیں مانگ کر بیٹا لیا تھا ماں کا سہارا ہی کافی تھا۔ اماں گھر کی بڑی اور اسے زمانے کے سرد گرم سے بچا کر بیٹھی تھیں۔ ان کی زندگی میں ہی بھائی ، اپنی بیوی کے ایک دور پار کے طلاق یافتہ کزن کا رشتہ اپنی کنواری بہن کے لیے لایا تھا۔ اس کے مطابق رشتہ بہت اچھا تھا۔ یہ کیسا رشتہ ہے چالیس کے اوپر اور طلاق یافتہ۔ دونوعمر بچوں کا باپ، نہ کوئی ذریعہ آمدنی نہ کوئی ڈھنگ کا کام کاج اماں، نگہت کو کب تک گھر بٹھائے رکھنا ہے بے فکر رہ یہ وہاں بھوکی نہیں مرے گی ۔ عمر بڑھ رہی ہے یہ نہ ہو پھراسے ایسا رشتہ بھی نہ ملے۔ نگہت ستائیس کی ہے اور وہ دولہا جو پینتالیس کے قریب۔ میں نے سنا ہے کہ وہ چرس بھی پیتا ہے، کیسے دے دوں ایسے ویسوں کو اپنی کنواری پڑھی لکھی گنوں والی بیٹی کا رشتہ بس اماں، تو چاہتی نہیں کہ اس کا رشتہ ہو ۔ ہم نے تو بھلے کا سوچا تھا پر تجھے عقل ہی نہیں تو ہم کیا کریں۔ چل اٹھ عالیہ چلیں ۔ بیوہ ماں کو غصے سے باتیں سنا کر بیوی کا ہاتھ تھام کے وہ شاید اس گھر کی دہلیز ہمیشہ کے لیے پار کرگیا تھا۔ چند برس بعد وہ ماں کے جنازے پر اجنبیوں کی طرح شریک ہوا۔ آبائی گھر اور تنہا بہن سے اس نے رہا سہا تعلق بھی توڑ لیا ابا نے اپنی زندگی میں ہی دکان بیٹے کے اور ڈھائی مرلے کا گھر بیٹی کے نام کر دیا تھا۔ بے چاری نگہت کی جوانی تو ماں باپ کی خدمت کرتے اور ہم سفر کے انتظار میں گزرگی تھی۔ ٹیوشن پڑھنے آئی بیٹھی، کم و بیش ایک جیسی رکھنے والی دونوں جڑواں بچیوں پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹکی۔ وہ دونوں ہی ڈری سہمی سی بچیاں تھی۔ اس نے کبھی انھیں فضول گوئی اور شرارتیں کرتے نہیں دیکھا تھا۔ سنجیدگی اور متانت ان کے معصوم چہروں پر ہر وقت چھائی رہتی۔ پانچ سالہ فضا اور فائزہ انگلش کا قاعدہ کھولے بیٹھی تھیں۔ بغیر دھلے منہ شکن زدہ لباس اور کندھوں پر ڈھلکتے بکھرے بال ساری کہانی سنا رہے تھے۔ خالہ لطیفاں کی کہی باتیں اس کے ذہن میں تازہ ہوئیں۔ ماں تو انھیں پیدا کرتے ہی خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔ پیدا ہونے کے ساتھ ہی دونوں بچیوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داری بوڑھی دادی کے سر پڑ گئی تھی مگر سال پہلے وہ بھی مر گئی تو ساری ذمہ داری باپ کے سر پر آگئی۔ گھر اپنا ہے اور باپ سرکاری محکمے میں کلرک ہے۔ اب دیکھو کہ بے چارہ باپ نوکری کرے یا بچیاں سنبھالے بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کوئی سمجھ دار عورت ہی کر سکتی ہے۔ خالہ لطیفاں کی اس کی ماں سے اچھی سلام دعا تھی اور وہ واحد تھیں جو اس سے کبھی بھی غافل نہیں رہی تھیں۔ دیکھ نگہت، تو میری بیٹیوں جیسی ہے۔ مجھے تو اب بھی ویسے ہی عزیز ہے جیسے تیری ماں کی تو زندگی میں تھی ۔ خالہ، میں جانتی ہوں۔ پھر تو یہ بھی جانتی ہے کہ مجھے تیری فکر کتنا ستاتی ہے۔ جوانی ڈھل رہی ہے کب تک اکیلی رہے گی ابھی تو جان ہے حالات سے لڑے گی مگر کب تک میری دھی عورت کو ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سر جھکائے انہیں سنتی رہی ۔ اس دن خالہ کو بات جاری رکھنے کا حوصلہ ملا۔ صدیق بہت شریف اور سلجھا ہوا انسان ہے۔ میں اس کے خاندان کو پندرہ سال سے جانتی ہوں ۔ کوئی بری عادت نہیں، پان سگریٹ ، کوئی نشہ کچھ نہیں۔ سادا بھلا مانس انسان ہے۔ اپنا گھر، نوکری سب کچھ ہی تو ہے ۔ ہاں سب کچھ تو ہے دو بیٹیوں سمیت ۔ وہ بولی تو اسے اپنی ہی آواز اجنبی سی لگی میری نظر میں کچھ لڑکے بھی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اتنا سلجھا ہوا اور قابل بھروسا نہیں جو تجھے خوش دلی سے قبول کرے اور وہ عزت قدر بھی دے جو ہر عورت اپنے شوہر سے چاہتی ہے۔ خالہ کے سادگی سے کہنے پر اس پہ گھڑوں پانی پڑا۔ عام سے محلے میں رہنے والی ، مناسب شکل و صورت کی چھتیس سالہ نگہت کو اگر کوئی بن بیاہا ملتا بھی تو اس کی نظر اس کے گھر پر ہی ہوتی۔ وہ جیسی تھی، اسے ایسے ہی قبول کرنے والے من چاہے قسم کے مرد معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ اسے تمہارے گھر اور نوکری سے کوئی سروکار نہیں۔ مضبوط سہارا اور پرسکون زندگی کے بدلے اگر تم بن ماں کی بچیوں کو شفقت اور پیار دو گی تو اس سے تمھاری عزت اور بڑھ جائے گی۔ میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے تم اچھے سے سوچ لو۔ پھر جو فیصلہ ہو مجھے بتا دینا کہتے ساتھ ہی خالہ نے اٹھنا چاہا تھا۔ وہ سوچ چکی تھی خالہ لطیفاں کے چہرے پر سکون چھا گیا تھا۔ اس کے چھوٹے سے گھر میں معمول سے ہٹ کر رونق تھی۔ کچھ فاصلے پر بیٹھی دونوں بچیاں آنکھوں میں اشتیاق سموئے اسے دیکھے جا رہی تھیں ۔ اپنی مس کو اس حلیے میں دیکھنا ان کے لیے بڑی انوکھی بات تھی۔ خالہ لطیفاں سمیت محلے کی کچھ خواتین کمرے میں موجود تھیں۔ اپنی ہتھیلی پر بنی مہندی کی پتی کو بغور دیکھتے ہوئے اس کا دھیان ماضی میں بھٹک رہا تھا۔ آج سے پہلے تو اسے اماں ابا اتنی شدت سے یاد نہیں آئے تھے۔ اپنوں کی کمی کبھی کبھار اتنی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہر منظر دھندلا جاتا ہے، اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ ابا اماں کے چہرے اس کی جھکی آنکھوں میں چھب دکھا رہے تھے اور منتظر نگاہیں چوری چوری کھلے دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ بھائی کا خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرے۔ بھری دنیا میں اس کا ایک ہی تو خونی رشتہ بچا تھا اور وہ بھی کاش۔ مولوی صاحب آگئے ہیں ۔ کسی نے اطلاع دی۔ دل کی دھڑکنیں اتھل پھتل ہوئیں نکاح خوان کی ساتھ اپنے بھائی کو اندر دخل ہوتے دیکھ ، نگہت نے اپنے بے چین دل میں ڈھیروں سکون اترتا محسوس کیا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اکلوتے بڑے بھائی سے اس کے گھر جا کر بات کرنا رائیگاں نہیں گیا تھا۔ بھائی کا ہاتھ سر پر ٹھہرتے ہی ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ۔ ایجاب وقبول کے مراحل کب طے ہوئے اسے پتا ہی نہ چلا۔ خالہ نے صدیق کے متعلق جو بھی بتایا اس نے انہیں اپنے لیے اس سے بڑھ کر پایا ۔ شوہر کی محبت پاتے ہی وہ گلاب کی طرح کھل گئی تھی۔ چند ہفتوں میں ہی عمر کے کئی برس اس کے چہرے سے چھٹ گئے ۔ ذہنی و جسمانی سکون خوش باش دل اور ضرورت کی ہر چیز ، بے شک دیر سے مگر اسے صبر کا پھل میٹھا نصیب ہو گیا تھا۔ اسکول کی نوکری کو تو اس نے خیر آباد کہہ دیا ، مگر شام میں بچوں کو ٹیوشن پڑھائی اس نے نہیں چھوڑی تھی۔ بچے اب دو گلیاں چھوڑ کر ٹیچر کے نئے گھر میں ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ بچے بھی خوش تھے اور وہ بھی۔ شوہر کے توسط سے اپنا گھر اس نے کرائے پر چڑھا دیا تھا۔ صبح سے گھر میں ہنگامہ تھا۔ وہ کچن میں مصروف تھی اور لڑکیاں بھاگ کر اسے چیزیں دے رہی تھیں۔ ایک مختلف اور خوشگوار اتوار اس کی زندگی میں عمروں کے بعد آیا۔ فضا، بیٹا، میرے لیے کمرے میں ٹوکری لے آؤ۔ اس نے کھانا پیک کرتے ہوئے عجلت سے آواز دی۔ یہ لیں ماں۔ فائزہ پکنک ٹوکری لئے کھڑی تھی۔ میری ماں نے مجھے اسے لانے کو کہا اسی وقت فضا رو پڑی اور زور زور سے ہنس پڑی۔ کوئی مسئلہ نہیں میں نے تم دونوں کے کپڑے اتار دیے ہیں۔ کمرے میں آؤ، میں ابھی آکر تیاری کر لیتی ہوں۔ اس کے کہنے پر دونوں اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ ڈسپوزایبل پلیٹیں، سینڈوچ، کباب اور بریانی کے پیالے پیک کر کے ٹوکری میں رکھ کر اس نے صدیق کو کچن کے دروازوں کے درمیان کھڑا پایا۔ ارے، آپ یہاں کھڑے ہیں، کچھ کھانا ہے بہت بھوک لگی ہے۔ سب کچھ تیار لگتا ہے۔ ٹوکری میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جی بالکل وہ مسکرادی۔ میں ٹیکسی لے آؤں، آپ کو کتنی دیر لگے گی پیار سے اسے دیکھتے ہوئے وہ استفسار کر رہے تھے۔ لے آئیں بس آدھا گھنٹہ اور لگے گا۔ بچیوں کو تیار کر کے میں فٹافٹ خود تیار ہو جاؤ گی۔ جی بہتر کہہ کر باہر کی طرف جاتے ہوئے اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کا رواں رواں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ بے شک الله کی گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں اس کی بے موسمی سی زندگی میں بہار کا موسم ہمیشہ کے لیے آٹھہرا تھا۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 241 | https://www.urduzone.net/hazrat-luqman-ka-sabar/ | حضرت لقمان اگرچہ ایک شخص کے غلام تھے لیکن خدا کی یاد سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے۔ ان کا آقا ان کے مرتبہ سے واقف ہو گیا تھا اور ان کا دل سے احترام کرتا تھا۔ وہ تو ان کو کبھی کا آزاد کر دیتا لیکن حضرت لقمان غلام کے لباس میں ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ اس لیے وہ ان کے منشا کے بغیر کوئی کام نہ کرنا چاہتا تھا۔ تاہم اس کو ان سے اس درجہ محبت و عقیدت پیدا ہوگئی تھی کہ وہ پہلے کھانا حضرت لقمان کے پاس بھیجتا تھا اور وہ جو کچھ بچا کر واپس بھیجتے تھے اس کو کھا کر خوش ہوتا تھا۔ ایک دفعہ اس کو کسی نے ایک خربوزہ تحفہ بھیجا۔ مالک نے لقمان کو بلا بھیجا۔ جب وہ آگئے اور مالک کے سامنے بیٹھ گئے تو مالک نے خربوزہ سے ایک قاش کاٹ کر لقمان کو دی۔ انہوں نے بڑے شوق ورغبت سے یہ قاش کھائی۔ مالک ان کو اس طرح کھاتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور دوسری قاش دی۔ وہ بھی انہوں نے شوق سے کھالی۔ یہاں تک اسی طرح وہ مالک کے ہاتھ سے ستره قاشیں لے کر کھا گئے۔ ان کے کھانے کا یہ انداز تھا کہ دیکھنے والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اب صرف ایک قاش باقی رہ گئی تھی۔ مالک نے کہا کہ اس کو میں کھاؤں گا۔ جونہی اس نے یہ قاش منہ میں ڈالی اس کی کڑواہٹ نے اس کے منہ میں آبلے ڈال دیئے۔ آخ تھو کرتے ہوئے اس نے لقمان سے کہا کہ اے عزیز تو نے اس زہر کو کیوں اس رغبت سے کھالیا اور اپنی جان کا دشمن بنا۔ اگر تو اس کے کھانے میں کوئی عذر کر دیتا تو کیا حرج تھا لقمان نے جواب دیا کہ میں نے تیرے خوان نعمت سے اس قدر نعمتیں کھائی ہیں کہ ان کا شکریہ نہیں ادا کر سکتا۔ اب مجھ کو شرم آئی کہ ایک کڑوی شئے تیرے ہاتھ سے نہ کھاؤں۔ میرا گوشت پوست تیری ہی بخشش سے بنا ہے۔ اگر میں ایک تلخ چیز پر واویلا کرنے لگوں تو میرے سر پر خاک۔ | null |
null | null | null | 242 | https://www.urduzone.net/zindagi-se-samjhotah/ | بابا جان کی زمینوں کا محافظ عاطف چاچا تھا۔ وہ ان کا منشی بھی تھا۔ اس کی بیوی بچے اکثر ہمارے گھر آتے رہتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا لڑکا ابرار میرا ہم عمر تھا۔ بچپن میں جب وہ ہماری حویلی آتا تو میں بہت خوش ہوتی کیونکہ وہ اور لڑکوں سے بہادر تھا۔ اس کو اس چھوٹی عمر میں تیرنا بھی آتا تھا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر ندی پار کرا دیا کرتا تھا۔ آم کے درخت پر چڑھ جاتا اور میٹھی میٹھی کیریوں سے میرا دامن بھر دیتا۔ ابرار کے آتے ہی میں اس کے ساتھ چل پڑتی۔ ہم دن بھر کھیتوں میں گھومتے ، بیر ، چنتے اور درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر گنے کھاتے ۔ وہ مزے مزے کی کہاوتیں کہانیوں کے انداز میں سناتا۔ وہ میرا ہم مزاج اور بچپن کا ساتھی تھا۔ اس کے ساتھ خبر ہی نہ ہوتی کے کہ کب صبح ہوئی اور کب شام ہوگئی۔ گھر آتے تو خوب مار پڑتی ، پھر کافی دن وہ نہ آتا اور جب آتا تو ہم پچھلی مار بھول کر گھر سے کھسک جاتے۔ خیر، یہ تو بچپن کی باتیں تھیں۔ ذرا عمر بڑھی تو خود بخو د سوجھ بوجھ آنے لگی۔ وہ بھی بڑا ہو گیا تھا مگر اس سے گھر کی خواتین کا پردہ نہیں تھا۔ میری ماں اس گھرانے کی خدمات کی وجہ سے ابرار کا خیال کرتی تھیں، جب ہمیں میٹھی روٹی بنا کر دیتیں تو اس کے لئے بھی بنا دیتی تھیں۔ اک میرے سوا، خاندان کے سبھی افراد کے ذہنوں میں یہ بات جا گزیں تھی کہ ابرار ہمارے منشی کا لڑکا ہے۔ جب میں باشعور ہوئی تو ماں میرا اس سے بات کرنا معیوب خیال کرنے لگیں۔ میں تو پہلے کی طرح سادگی سے ہنستی بولتی تھی اور وہ ہمیں آپس میں باتیں کرتے دیکھ کر ماتھے پر بل ڈال لیتی تھیں۔ کچھ دنوں بعد میری چھوٹی چچی جو میری ہونے والی ساس بھی تھیں، ہمارے گھر آکر رہنے لگیں۔ ابرار ان کی موجودگی میں گھر کے اندر نہ آتا۔ شاید اماں نے منع کروا دیا تھا۔ مجھے بہت غصہ آتا۔ دل ہی دل میں کہتی، اماں اللہ تم کو سمجھے جو ابرار کو روکو۔ مجھ نادان کے یہ بول اللہ کی بارگاہ تک جا پہنچے کہ جلد ہی میری ماں مجھے بھرے گھر میں اکیلا کر گئیں۔ چھوٹی چچی کا اپنا گھر ہمارے گھر سے کوس بھر ہی پرے تھا۔ وہ چند دنوں کے لئے رہنے آئی تھیں مگر اماں کے اس جہان سے سدھار جانے کے باعث مزید قیام کرنا پڑ گیا۔ اب میرا بہت جی گھبراتا اور دل کسی سچے غمگسار کو تلاش کرتا ۔ ایسے میں ابرار کی بہت یاد آتی۔ وہ ڈیوڑھی میں آکر آواز لگاتا ۔ گنے لے لو یا فلاں چیز لے لو۔ ابا نے بھجوائی ہے۔ تب میں دروازے کی طرف دوڑی جاتی اور اسے اندر بلا لیتی ۔ جب اماں زندہ تھیں ، وہ بھی اسے اندر بلا لیتی تھیں مگر جب سے چچی آئی تھیں، وہ حویلی میں داخل ہونے سے جھجکتا تھا۔ دراصل دل میں میں نے ٹھان لی تھی کہ مجھے چچی کے سپوت سے شادی نہیں کرنی لہٰذا ان کی زیادہ پروا بھی نہ کرتی تھی۔ آخر کار، اصرار کر کے ایک روز میں نے ابرار کو گھر کے اندر بلا ہی لیا جب وہ ہرے چنوں کا بڑا سا گٹھر لے کر آیا تھا اور چچی کے سامنے ابرار کی خوب خاطر مدارات کی ۔ وہ خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ اب وہ روز ہمارے گھر آنے لگا۔ اس کے آتے ہی میں سارا کا کام چھوڑ کر اس سے باتیں کرنے لگتی ۔ چچی کو بھی اندازہ ہو گیا کہ ہم ایک دوسرے میں دلچسپی رکھتے ہیں مگر انہوں نے کوئی روک ٹوک نہیں کی ، بلکہ خاموش رہیں کیونکہ ہر صورت وہ اپنے بیٹے کے لئے میرا رشتہ لینا چاہتی تھیں۔ جب میری شادی میں چھ ماہ کا عرصہ رہ گیا تو میں نے اس سے کہا۔ کہ یہ عورت تو ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اب کیا ہوگا تمہارے والد کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ بابا جان سے میرا رشتہ مانگیں ۔ وہ رشتہ مانگیں بھی تو کیسے میرا ابا تو تمہاری زمینوں کا رکھوالا ہے۔ ان کو بھلا وہ کیونکر رشتہ دینے لگے۔ کچھ تو کرنا چاہیے۔ میری شادی کے دن نزد یک آرہے ہیں ۔ یہ بات سن کر وہ سوچ میں میں پڑ گیا۔ بابا جان نے ان دنوں ایک کم عمر لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اسے شہر میں کوٹھی لے کر دی ہوئی تھی وہ اکثر وہیں چلے جاتے تھے تبھی چاچا اور چاچی نے ان دنوں ہمارا گھر سنبھالا ہوا تھا۔ چاچی کافی دن رہنے کے بعد آخر کار اپنے گھر روانہ ہوئیں اور اپنی بیٹی کو بھیج دیا۔ کہا کہ شاہینہ اکیلی ہے، اس کا جی گھبرائے گا تم اس کے ساتھ رہو، یوں ناصرہ میرے ساتھ رہنے لگی۔ وہ بھی مجھے ابرار کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرتے دیکھ کر حیران ہوتی، تا ہم وہ نوجوان لڑکی تھی جلد ہی ہم سے گھل مل گئی۔ اب ہم تینوں باتیں کرتے اور ہنستے بولتے۔ ابرار کی باتیں ناصرہ کو اچھی لگتیں، گرچہ وہ بہت احتیاط کرتا کہ ناصرہ کو ہم پر شک نہ ہو جائے لیکن میں پروانہ کرتی، بلکہ چاہتی تھی اسے پتا چل جائے کہ میں ابرار کو پسند کرتی ہوں تا کہ اپنے بھائی کو منع کر دے، لیکن ناصرہ نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ ایک دن جب میں اور ابرار کمرے میں بیٹھے تھے اور میں آئندہ زندگی کے خدشوں کا اظہار کر کے رورہی تھی کہ بابا جان آگئے ۔ ناصرہ نے اس کو چھپا دیا۔ بابا جان ہمارے کمرے میں آئے اور مجھے روتا دیکھ کر پوچھا۔ یہ کیوں رو رہی ہے وہ بولی۔ اپنی امی کو یاد کر کے رورہی ہے۔ وہ چلے گئے تو میں نے اس سے پوچھا۔ ناصرہ تم نے بابا جان کو بتا کیوں نہ دیا کہ میں کیوں رو رہی تھی کہنے لگی۔ تم میرے تایا کی بیٹی ہو اور میں نہیں چاہتی کہ وہ تمہیں یا ابرار کو مار ڈالیں۔ میری شادی میں چار ماہ رہ گئے تھے اور مسئلہ جوں کا توں برقرار تھا۔ جب وہ آتا، میں اس پر غصہ اتارتی ۔ تنگ آکر اس نے کہا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرضی کی شادی کر لیں۔ اگر تم ایسی شادی پر تیار ہو تو چلو، نکاح کر لیتے ہیں۔ میں تیار ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ اس نے کہا کہ میں اپنے دوست سے بات کرلوں۔ وہ ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہے۔ وہ اپنی گاڑی پر ہمیں شہر لے جائے گا۔ ہم نکاح پڑھوا کر آجائیں گے۔ اس نے دوست سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ شاہینہ کا شناختی کارڈ ضروری ہے تبھی تم لوگ کورٹ میرج کر سکتے ہو، ورنہ گرفتار ہو جاؤ گے یا پھر میرے گھر پر مولوی صاحب تمہارا نکاح پڑھوا دیں۔ نکاح نامہ بھی بنائیں گے مگر نکاح شرعی ہوگا۔ میری عمر تب سولہ سال ہوگی۔ ان دنوں شناختی کارڈ بننے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، لہذا میں نے شرعی نکاح پر رضا مندی دے دی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے بعد کیا ہوگا بہرحال میں نے ناصرہ سے کہا کہ تم کسی کو مت بتانا، میں تھوڑی دیر کے لئے اپنی سہیلی کے گھر جا رہی ہوں۔ اس کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں۔ ہمارے گاؤں سے دوسرے گاؤں کا رستہ ایک گھنٹے کا تھا۔ ہم صبح سویرے نکلے۔ میں نے کھیتوں میں جا کر ایک جگہ درختوں کے گھنے جھنڈ میں چھپ کر برقعہ اوڑھا اور سڑک پر آگئی۔ وہاں گاڑی کھڑی تھی۔ ابرار کے دوست نے اپنے ایک اور دوست کے گھر میں نکاح کا انتظام کیا تھا۔ وہ شادی شدہ تھا۔ گھر میں اس کی بیوی کی دو تین رشتہ دار عورتیں بھی موجود تھیں۔ اس کے بھائی گواہ بنائے گئے اور نکاح ہو گیا، جیسے گڑے گڑیا کا کھیل ہو۔ واقعی یہ گڈے گڑیا کا کھیل تھا۔ نکاح خواں اسی شخص کا قریبی رشتہ دار تھا، جو سولہ سال کی لڑکی کے نکاح کو جائز سمجھتا تھا۔ میزبان نے کہا تھا کہ یہ میری چاچا زاد، یتیم لڑکی ہے۔ میں اس کا ولی ہوں۔ نکاح کے فوراً بعد ابرار کے دوست نے ہمیں گاڑی میں بٹھا کر سڑک کنارے میرے والد کے کھیتوں کے پاس پہنچادیا اور میں پیدل گھر آگئی ۔ پگڈنڈی پر چلتے ہوئے مزارعوں کی عورتیں ملیں۔ بولیں۔ بیٹی تم اکیلی اس وقت کہاں گئی تھیں میں نے کہا۔ کہیں نہیں ، کل سے میری پالتو بلی گم ہے، اسے دیکھنے نکلی تھی۔ میں ناپختہ ذہن تھی۔ نکاح کا کاغذ مل گیا تو سمجھ لیا کہ اب میں ابرار کی بیوی ہوں ۔ اب جینا مرنا اس کے ساتھ ہے۔ کوئی شادی پر مجبور کرے گا، تو بتا دوں گی کہ شادی ہو چکی ہے۔ نکاح نامہ ابرار کے پاس تھا۔ وہ آئے گا تو لے کر اپنے پاس رکھ لوں گی ، پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہی ہوگا کہ بابا جان مجھے قتل کر دیں گے، تو کر دیں۔ مجھے اب موت کی کوئی پروا نہ تھی۔ جب میری شادی میں تھوڑے دن رہ گئے تو میرے رشتے کے بھائی ، ان کی بیویاں اور سبھی رشتہ دار آگئے ۔ گھر میں گہما گہمی ہو گئی ۔ اب میں تمام وقت یہی سوچتی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ میں نے ابرار سے کہا کہ تم رات کو آنا ۔ جب سب سو جائیں گے تو ہم چھت پر چلے جائیں گے اور پھر طے کریں گے کہ آگے کیا کر کیا کرنا ہے۔ رات جب وہ آیا تو ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ سردیاں تھیں، سب کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ مجھے علم نہ تھا کہ چچی جاگ رہی ہیں یا کھٹکے پر ان کی آنکھ کھلی ہوگی۔ میں نے رات کے بارہ بجے چپکے سے گھر کا عقبی دروازہ کھول دیا جو میرے کمرے سے قریب تھا۔ ساتھ ہی چ کا کمرہ تھا۔ چھت پر سردی تھی، میں جرات کر کے اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ دبے قدموں چ آگئیں ۔ اسی وقت ابرار جانے کو اٹھ کھڑا ہوا تبھی انہوں نے غصے سے کہا۔ ابرار اس وقت کہاں جا رہے ہو یہیں سو جاؤ ، صبح چلے جانا۔ میں نے ان کے طعنے کی کوئی پروانہ کیا۔ صبح وہ کہنے لگیں کہ جوان لڑکی کو یوں رات کے وقت کسی غیر شخص سے نہ ملنا چاہئے۔ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں، تبھی لب سیئے ہوئے ہیں۔ میں خاموش ہوگئی۔ دل میں یہی اندیشہ تھا کہ ابرار جو بات طے کر گیا ہے ، وہ ہو پاتی ہے یا نہیں اس کو میں نے راضی کیا تھا کہ وہ اپنے باپ کو نکاح سے باخبر کر دے، تا کہ وہ میرے والد کو آگاہ کر دیں کہ بچوں نے یہ قدم از خود اٹھا لیا ہے اور اب نکاح پر نکاح کسی طرح جائز نہیں ہے۔ ایک دن بعد وہ آیا اور ڈیوڑھی میں کھڑا رہا۔ اک بچے نے مجھے آکر بتایا تو میں جلدی سے گئی۔ وہ بولا۔ میرا فی الحال اس وقت اندر آجانا ٹھیک نہیں ۔ یہیں پر میری بات سن لو۔ تمہارے چچا والے شادی کی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ تمہاری چچی شاید جائیداد اور دولت کی لالچ کی وجہ سے رشتہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہم نے نکاح نامہ دکھایا ، تب بھی ان کو غیرت نہیں آئے گی اور میرا باپ تو اس بات کو سن کر ہی کانوں پر ہاتھ دھرتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ ناممکن بات ہے۔ اس کو کوئی تسلیم نہ کرے گا۔ وہ تمہارے بابا جان سے بات کرنے پر راضی نہیں، بلکہ اس نے سامان باندھ لیا ہے تا کہ ہم فورا اس بستی کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ یہ دیکھو، میرے باپ نے میری کمر اور پیٹھ پر ڈنڈے مارے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی پشت دکھائی ، جس پر ڈنڈوں کے نشان تھے۔ کہنے لگا۔ میں تو سہ گیا تم نہ سہ سکوگی ۔ تو پھرگھر سے بھاگ چلتے میں نے کہا۔ گھر سے بھاگ کر کہاں جائیں گے تمہارے والد ہمیں ڈھونڈ لیں گے ۔ میرا بوڑھا باپ ماں بہن بھائی سب جیل میں بند کر دیئے جائیں گے۔ ہم اپنی مرضی سے نہیں جی سکتے ، اپنی خوشی سے شادی نہیں کر سکتے ، ہم مجبور لوگ ہیں ۔ تم یہ حقیقت مان لو۔ ابا نے مجھے بڑی کراری مار مار کر سب کچھ اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ تو تم ابا کی مار سے ڈر گئے ہو نہیں، میں تمہارے انجام سے ڈرتا ہوں۔ تمہاری زندگی مجھے عزیز ہے، میں تمہاری خیر چاہتا ہوں۔ میں ایسی مجبور زندگی جی کر کیا کروں گی مجھے دو نکاح نامہ، میں خود اپنے بابا جان سے بات کروں گی۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ میں ان کو منا لوں گی ۔ تمہارا خیال غلط ہے۔ میرے ابا نے کہا کہ شاہینہ سے کہو اپنے باپ کی عزت سے نہ کھیلے، پھر اس نے نکاح کے کاغذات جیب سے نکالے اور مجھے دینے کی بجائے پھاڑ ڈالے اور کہا۔ یہ ٹکڑے بھی جلا دو۔ ہم اب اس بستی سے ہی جا رہے ہیں ، ہمیشہ کے لئے ۔ یہی میرے ابا کا فیصلہ ہے۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا۔ وہ چلتے ہوئے لنگڑارہا تھا۔ وہ تو چلا گیا لیکن میری دنیا لٹ گئی۔ میں اس کی بزدلی پر آنسو بہا کر رہ گئی۔ اس نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ جو دکھ ملے ، برداشت کر لینا کیونکہ میں تمہاری زندگی سے ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں ، لوٹ کر ٹ کر نہیں آؤں گا۔ ہم ان کے نوکر ہیں، ان کے غضب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد میں نے اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ لیا۔ اور کیا کر سکتی تھی میری شادی چچا زاد سے ہوگئی ۔ ساس ، شاید مجھ پر بہت ظلم ڈھاتی ، مگر میں ایک بڑی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی ، اس وجہ سے اس نے اپنی زبان سی لی، بلکہ مجھ سے پیار سے پیش آتی تھی۔ سمجھاتی تھی کہ بیٹی شادی گڈے گی ے گڑیا کا کھیل نہیں۔ جس مرتبے والے گھرانے سے لڑکی ہو، اس کا جیون ساتھی بھی اسی کے ہم پلہ ہونا چاہیے۔ چچی کا شروع میں سمجھانا مجھے زہر لگتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ جب جدائی کے درد سے گزری، پختگی آنے لگی اور میں نے سمجھنا شروع کر دیا۔ واقعی وہ ٹھیک کہتی تھیں ۔ ہم ان دنوں نا پختہ ذہن بچے تھے اور وہ عقل مند عورت تھیں ۔ ہمارے معاملے کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھ رہی تھیں۔ ان کی خاموشی نے ہمیں بھیانک سانحہ سے بچا لیا تھا۔ ابرار بہادر نہ تھا۔ اگر وہ بہادر ہوتا، تو میں اس کے ساتھ موت بھی قبول کر لیتی، مگر میں نے سمجھوتہ کیا، جو دکھ ملا برداشت کیا۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے۔ | null |
null | null | null | 243 | https://www.urduzone.net/bhulna-mushkil-hai/ | اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی خاطر دادا جان نے گائوں کو چھوڑا اور شہر کے ایک پرانے محلے میں گھر خرید لیا۔ جہاں عرصہ دراز سے پرانے مکین قیام پذیر تھے۔ مکانات بھی یہاں سبھی پرانے زمانے کے تعمیر شدہ تھے لیکن بہت کشادہ اور مضبوط تھے اسی وجہ سے اس عمارت میں شکست و ریخت کم ہی تھی۔ دادا کا خیال تھا کہ نئے علاقوں کی نسبت یہاں کے باشندے زیادہ قابل بھروسہ ہیں کہ نئی کالونیوں میں طرح طرح کے لوگ آکر آباد ہو جاتے ہیں جبکہ ان کے پس منظر کا پتا نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا مکانات اور محلے بے شک پرانے ہوں، لیکن مکان کو شرف مکین سے ہوتا ہے۔ جو گھر دادا نے خریدا، وہ اچھی حالت میں تھا۔ انہوں نے معمولی شکست وریخت کو درست کرا لیا اور اپنے کنبے کے ساتھ اس میں شفٹ ہو گئے۔ اسی محلے میں قادر صاحب رہتے تھے۔ یہ دادا کے پرانے دوست تھے اور انہی نے مکان دلوایا تھا۔ محلے کی گلیاں چوڑی اور سامنے چوک تھا۔ مکانات پر لکڑی کے عمدہ چو بارے نہایت ہنر مندی سے بنائے گئے تھے جن پر پھول بوٹے ، نقش و نگار کندہ تھے۔ ان کی دیدہ زیبی نصف صدی بعد بھی قائم تھی، تبھی یہ گھر شاندار اور دلکش لگتے تھے۔ کمرے بڑے بڑے اور ہوادار جبکہ دالان پختہ سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے اس مہارت سے کہ کسی ایک اینٹ کا کونہ تک نہیں ٹوٹا تھا۔ رشتے دار آتے تو مکان کی تعریف کئے بغیر نہ جاتے تھے۔ اسی گھر کے ساتھ ہی ایک دوسر امکان برائے فروخت ہوا۔ عرصے سے خالی پڑا تھا جن کا تھا وہ اس میں چند دن رہ سکے اور فروخت کر دیا۔ نیا مالک آتے ہی بیمار ہوا اور فوت ہو گیا تبھی اس کی دلبرداشتہ بیوہ نے گھر بیچ دیا اور کسی دوسری جگہ مع بچوں کے شفٹ ہو گئی۔ یہ گھر تب سے خالی تھا۔ بد قسمتی سے تعمیر کرانے والے اور خریدنے والے کوئی بھی اس میں نہ رہ سکے تولوگ اس مکان سے خوف کھانے لگے۔ انسانوں کی طرح مکانات کی بھی ایک ایسی ہسٹری ہوتی ہے۔ ہمارے دادا نے جو گھر خریدا تھا، اس کے ساتھ والے مکان کی یہ ہسٹری قادر صاحب نے ہی ان کو بتائی تھی لیکن دادا توہمات کے قائل نہ تھے۔ یہ لوگ اسے بد قسمت مکان کہتے تھے۔ بد قسمت مکان بہر حال بہت توجہ سے بنوایا گیا تھا۔ ہر لحاظ سے عمدہ، ایک چھوٹاسا محل معلوم ہوتا تھا۔ محلے کی یہ سب سے خوبصورت عمارت تھی جس کو برسوں سے تالا لگا ہوا تھا۔ دادا جان کی گائوں میں کچھ آبائی زرعی اراضی تھی جس سے کچھ خاص آمدنی نہ آتی کیونکہ جو لوگ برسوں سے اس پر آباد تھے ، وہ تین حصے پیداوار خود رکھ لیتے اور ایک حصہ دادا کو دیا کرتے۔ان سے زمین واگزار کرانا کٹھن مرحلہ تھا، لہذا دادا نے سوچا کہ کیوں نہ اس اراضی کو فروخت کر دوں۔ انہوں نے انہی لوگوں کو آفر کی کہ اگر یہ زمین خریدنا چاہو تو میں جاری نرخ سے کچھ کم پر آپ کو فروخت کرنے پر تیار ہوں۔ وہ لوگ تو چاہتے یہی تھے ، فور اراضی ہو گئے۔ سودا طے پا گیا اور دادا جان نے وہ ملکیت فروخت کر کے ان سے رقم لے لی۔ ایک روز قادر صاحب نے بتایا کہ آپ کے برابر جو مکان خالی پڑا ہے ، اس کے مالک بیرون ملک سے آگئے ہیں اور کل مجھ سے ملنے آرہے ہیں۔ وہ اس گھر کو سستے داموں بیچ رہے ہیں کیونکہ خریدار کوئی نہ تھا۔ وہ بولے ،ان سے بات کرو۔ یہ مکان مضبوط اور خوبصورت ہے ، میرے گھر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر یہ سودا ہو جائے تو درمیانی دیوار گرادیں گے ، ہماری رہائش اور کشادہ ہو جائے گی بعد میں بچوں کے کام آئے گی۔ قادر صاحب نے مالکان سے بات کی اور سودا طے پا گیا۔ وہ تو اس جائداد کو ہر حال میں بیچنا چاہتے تھے۔ مکان چونکہ سستا مل رہا تھا، دادا ابو نے خرید لیا۔ ان دنوں ابھی میرے والد کی شادی نہ ہوئی تھی اور وہ دادا جان کے بڑے بیٹے تھے۔ جب ابو کی شادی ہو گئی، دادا نے ان کو اسی مکان میں شفٹ کر دیا۔ شروع میں امی اور ابو اس میں رہائش پذیر ہوئے لیکن میری والدہ کا جی گھبراتا تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے درخواست کی کہ انابی کو میرے پاس بھیج دیں، مجھ کو اکیلے میں ڈر لگتا ہے ۔ یہ ایک لاوارث خاتون تھیں۔ عرصے سے نانی کے پاس تھیں اور امی ان سے مانوس تھیں۔ انابی ہمارے گھر رہنے آگئیں۔ میری پیدائش کے بعد امی کو انابی کی ضرورت ہوئی، سو وہ مستقل ہمارے گھر قیام پذیر ہو گئیں۔ میں چھوٹی سی تھی، وہ مجھے لے کر پائیں باغ میں جا بیٹھتیں۔ خود چٹائی پر آنکھیں موندے لیٹ کر دھوپ سینکتیں اور قریب ہی میں کھلونوں سے کھیلتی رہتی۔ وہاں آم اور جامن کے درخت تھے۔ کھیلتے ہوئے ادھر کی طرف چلی جاتی۔ عموماً تین سال کے بچوں کو باتیں یاد نہیں رہتیں لیکن اس وقت کی باتیں اچھی طرح میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ درخت کے نیچے میری عمر کے اور بھی بچے مجھ کو کھیلتے نظر آتے۔ وہ گورے چٹے او گول مٹول سے ہوتے اور میں ان کے ساتھ کچھ ساتھ کھیلنے لگتی۔ انابی کی شاید آنکھ لگ جاتی تھی اور میں کھیل میں مگن ہو جاتی تب امی کی آواز سنائی دیتی ۔ انابی پینکی کو لے آئو ، اس کا کھانا تیار ہے، کھلا کر سلادو، تھک گئی ہو گی۔ امی کی پکار پر انابی کو ہوش آتا۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتیں اور مجھے بازوئوں سے پکڑ کر اٹھاتیں۔ وہ اندر چلنے کو کہتیں اور میں ساتھی بچوں کی طرف رہنا چاہتی، تب روتی اور ضد کرتی تو انا بی حیران ہو کر کہتیں ۔ ارے چلو پنکی آخر تم کس لئے نہیں جارہی ہو۔ میں اشارہ کرتی تب کہتیں۔ یہاں کون ہے، یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ مجھے اپنی طرف کھینچتیں اور میں چلاتی ۔ انابی وہ وہ نجانے اسے اپنی معصوم آنکھوں سے کیا نظر آتا ہے۔ کیا ہے پنکی وہاں وہ تشویش بھرے لہجے میں پوچھتیں۔ میں درخت تلے بیٹھے بچوں کی طرف اشارہ کرتی۔ اپنے ساتھ کھیلنے والے بچوں کی موجودگی کا احساس دلاتی مگر ان کو کچھ بھی دکھائی نہ دیتا۔ بازوئوں سے پکڑتیں اور زبردستی اندر لے جاتیں۔ بی بی جان دیکھو تو پنکی کو یہ روز ایسی کھیل میں مست ہوتی ہے کہ جب اندر آنے کا کہتی ہوں، ضد کرتی ہے۔ زبردستی لاتی ہوں تو رونے چلانے لگتی ہے۔ شروع میں امی نے دھیان نہ دیا۔ ایک روز وہ خود ادھر آگئیں۔ دیکھا کہ انابی مدہوش پڑی ہیں اور میں درخت کے سائے تلے کھیل میں مگن ہوں لیکن ایسے کہ جیسے کوئی بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے ۔ اس انداز سے میرا کھیلنا امی کو عجیب لگا۔ آگے بڑھ کر مجھے اٹھالیا تبھی رونے چلانے اور مچلنے لگی۔ اتنے میں جو بچے میرے ساتھ کھیل رہے تھے ، وہ اٹھ کر بھاگے اور غائب ہو گئے۔ یہ منظر صرف میری آنکھیں ہی دیکھ سکتی تھیں، کوئی اور نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن بچپن میں مجھے تو اس امر کا ادراک ہی نہ تھا کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں جو انابی اور امی کو دکھائی نہیں دیتا۔ گرمیوں کا موسم آگیا۔ اب صبح سے دھوپ تیز ہو جاتی۔ درختوں کے سایوں نے رخ بدل لیا۔ انابی مجھے وہاں نہ بٹھاتیں جہاں میں پہلے بیٹھ کر کھیلا کرتی تھی لیکن وہی بچے دوسری سمت میرے پاس آکر دائرے میں بیٹھ جاتے اور کھیلتے۔ صرف مجھے ہی نظر آتے تھے ، انابی کو نہیں۔ تپش بڑھتی تو وہ مجھے وہاں سے اٹھا کر صحن میں لے جانے لگتیں۔ میں کہتی ۔ انابی دیکھو وہ سامنے بیٹھے ہیں، مجھے انہی کے پاس جانے دو، ان کے ساتھ کھیلوں گی۔ اب میں خوب فراٹے سے بولنے لگی تھی اور اپنا مافی الضمیر سمجھا سکتی تھی۔ کون ہیں، کہاں ہیں انابی گھبرا جاتیں۔ دیکھو وہ رہے بچے۔ کونسے بچے بھئی وہاں تو کوئی نہیں ہے۔ وہ مجھے بلا رہے ہیں، کیا آپ کو نظر نہیں آرہے نہیں تو جانے کیا کہتی ہو ، چلو۔ میں مچل جاتی۔ ادھر کو بھاگتی، جدھر وہ ہوتے اور انابی حیران ہو جاتیں۔ ایک دن انابی نے والدہ کو بتایا۔ وہ مجھ کواس وقت دیکھنے آئیں جب میں پائیں باغ میں اپنی مخصوص جگہ پر کھلنے میں مصروف تھی۔ میرے کھلونے ایک طرف پڑے تھے اور میں ان بچوں کے آگے پیچھے بھاگ رہی تھی جو صرف مجھے نظر آتے تھے اور انابی کو دکھائی نہ دیتے۔ میری ماں دنگ رہ گئیں۔ انہوں نے عجب انداز سے کھیلتے پایا جیسے کہ میں کسی کے ساتھ کھیل رہی ہوں، بھاگ دوڑ کر رہی ہوں۔ وہ ڈر گئیں اور مجھے دادی کے پاس لے گئیں۔ ان کو احوال بتایا۔ وہ بولیں۔ بہو یہ مکان عرصے سے بند پڑا تھا ممکن ہے کسی اور مخلوق نے بھی اس میں بسیرا کر لیا ہو۔ تم اس کو درختوں تلے مت کھیلنے دیا کرو بلکہ پائیں باغ کی طرف جانے والا دروازہ ہی بند کر دو۔ والدہ نے ایسا ہی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں چڑچڑی اور بیمار ہو گئی، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ تب دادی مجھے دم کرانے ایک مولوی صاحب کے پاس لے گئیں۔ اب وہ روز گھر آکر مجھ پر دم درود کرتے تب میں نے کھانا، پینا شروع کر دیا لیکن پائیں باغ کو جانے کی اب بھی ضد کرتی کیونکہ میرے ساتھی وہاں تھے جن کے ساتھ کھیل کر خوش ہوتی تھی۔ انہی دنوں میری بہن پیدا ہوئی۔ اب میں اکیلی نہ تھی۔ چھوٹی کے ساتھ خوش ہوتی تھی۔ انابی اسے لے کر صحن میں بیٹھتیں اور امی کھانا بناتیں۔ ایک روز وہ برآمدے میں جھولے میں لیٹی تھی اور انابی پاس بیٹھی تھیں۔ میں بھی پالنے سے لگی تھی کہ اچانک انابی نے جمائیاں لینی شروع کر دیں، پھر وہ فرش پر لیٹ کر سو گئیں، تبھی میں نے دیکھا کہ ایک عورت پالنے کے قریب آئی، اس نے ننھی کو بازوئوں میں اٹھا لیا اور درخت کی طرف چلی گئی۔ یہ منظر دیکھ کر میں رونے لگی تو انابی کی آنکھ کھل گئی۔ میں نے پالنے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ حیران ہو گئیں کہ ننھی کدھر گئی ہے تبھی میں نے روتے ہوئے درخت کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت میں بول نہ پارہی تھی جیسے زبان کسی نے پکڑ لی ہو۔ انابی گھبرا کر اندر کو دوڑیں اور امی کو پکارا۔ بی بی جان کہاں ہو ادھر آئو۔ کیا شگفتہ کو تم اٹھا کر لے گئی ہو وہ پالنے میں نہیں ہے۔ قبل ازیں امی آتیں، مجھ کو عورت دوبارہ برآمدے میں نظر آئی۔ اس نے میری ننھی منی بہن کو پھر سے پالنے میں لٹا دیا، خود درخت کی سمت چلی گئی اور غائب ہو گئی۔ امی نے دیکھا کہ ننھی تو پالنے میں لیٹی ہے۔ بولیں انابی کیا ہو گیا ہے تم کو بچی تو یہ سورہی ہے اور تم واویلا مچارہی ہو انابی بیچاری لاجواب تھیں۔ میں بتانا چاہتی تھی سب کچھ مگر بتا نہ سکی، زبان نے ساتھ نہ دیا۔ وہ عورت بعد میں بھی کئی بار پائیں باغ میں اور نلکے پر مجھے دکھائی دی۔ کبھی بچے اس کے ساتھ ہوتے اور کبھی اکیلی ہوتی۔ وقت گزرتا رہا، سمجھ آتی جارہی تھی۔ اس گھر میں کسی کو کچھ نہ کچھ غیر معمولی ضرور محسوس ہوتا تھا لیکن ایک میں ہی تھی جو کبھی کچھ اور کبھی کچھ دیکھتی تھی اور کسی سے بیان بھی نہ کر سکتی تھی۔ ایک بار دیکھا کہ کچھ لڑکے اور لڑکیاں بیری کے درخت کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں اور دو عور تیں نلکے پر کپڑے دھو رہی ہیں۔ ایک بار جاڑے کے موسم میں دیکھا کہ درخت پر آم لگے ہیں۔ ضد کرتی ۔ انابی آم توڑ کر دو۔ وہ کہتیں ۔اے ہے ، یہ کیسی بن موسم برسات ہے بھئی، کیا سخت جاڑے میں کبھی آم کا پھل آتا ہے کہاں ہیں آم وہ دیکھو وہ رہے۔ میں اصرار کرتی۔ لا دونا۔ ارے بھئی مجھے نہ ستائو ، وہاں کچھ نہیں ہے۔ چلواند کبھی کھینچتی ہوئی کمرے میں لے آتیں۔ میں روتی رہ جاتی۔ جانے یہ کیسا کرشمہ تھا۔ گھر میں مجھے ہی کچھ نہ کچھ غیر معمولی نظر آتا تھا، کسی اور کو نہیں۔ خدا جانے ان دنوں میری آنکھوں میں کوئی ایسی قوت در آئی تھی جو ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتی تھی جن کو عام آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ سات سال کی عمر میں مجھے دور دراز فاصلے پر ہونے والی باتیں سنائی دینے لگیں۔ اگرامی نانی کے گھر بیٹھی ان کے ساتھ باتیں کر رہی ہوتیں تو میرے کان ان باتوں کو سن رہے ہوتے تھے، حالانکہ نانی کا گھر ہمارے گھر سے بیس کوس پر تھا اور یہ ایک ناممکن بات تھی۔ رات کو اپنے بستر پر لیٹی ہوتی اور ساتھ والے گھر میں ہونے والی دادا، دادی، چچا، چچی اور ان کے بچوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو میرے کان سن رہے ہوتے۔ صبح ان کو بتاتی کہ رات آپ لوگوں نے یہ باتیں کی تھیں، وہ حیرت سے منہ تکنے لگتے جیسے کہ میرے کانوں میں آوازیں کیچ کرنے والے ریڈیائی آلات لگے ہوں۔ میرے گھر والے سب پریشان تھے کیونکہ میری کہی باتیں صحیح پیش گوئیاں ثابت ہو رہی تھیں۔ کسی صبح کہتی۔ ابو آج گاڑی پر مت جائیے۔ آپ کی گاڑی کو ٹکر لگے گی اور ایسا ہو جاتا۔ یہ میں نہ کہتی تھی، کوئی میرے دل میں کہتا تھا۔ دادا کے انتقال کے بعد میرے ساتھ غیر معمولی واقعات زیادہ ہونے لگے ۔ میرا تو بچپن تھا، معصوم عمر تھی۔ جو دیکھتی، سنتی، بیان کر دیتی۔ کچھ عالموں سے پوچھا۔ انہوں نے ابا اور چچا کو مشورہ دیا کہ اس گھر کو چھوڑ دو، کسی اور جگہ سکونت اختیار کر لو۔ لگتا ہے گھر بھاری ہے اور آپ کی بچی پر اثر ہو رہا ہے۔ ابو اور چچا نے تگ و دو شروع کر دی بالآخر دونوں مکان فروخت ہو گئے۔ سامان جانے لگا۔ جس روز ہمارا وہاں آخری دن کا قیام تھا، رات کو میں نے اپنی کھڑکی سے دیکھا کہ کچھ لوگ صحن میں جھاڑو دے رہے ہیں اور عورتیں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں دیئے لئے تھے جن کی روشنی چاندنی جیسی تھی۔ وہ میری طرف افسردہ نگاہوں سے دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگے۔ یہ وہی بچے تھے جن کے ساتھ میں بچپن میں کھیلا کرتی تھی۔ اب میری عمر آٹھ سال تھی اور کافی شعور آچکا تھا۔ صبح ہم نے وہ گھر چھوڑا اور نئے گھر میں چلے گئے۔ بتاتی چلوں کہ میں بچپن میں بھی کسی شے سے خوف نہیں کھاتی تھی۔ بلیوں اور کتوں کو دیکھتی تو ان کے پیچھے دوڑنے لگتی۔ بچے خصوصاً چھوٹے ہوں تو ایسی چیزوں سے ڈر جاتے ہیں لیکن مجھ میں ڈر تھا ہی نہیں۔ بہر حال جوں جوں بچپن رخصت ہونے لگا، مجھے ڈر بھی محسوس ہونے لگا۔ اب میں اکیلے اندھیری جگہوں کی طرف جانے سے ڈرنے لگی اور کتے، بلیوں سے خوف کھانے لگی۔ نئے گھر میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ صد شکر کہ وہ غیر معمولی حالات اور چیزیں جو پرانے گھر میں دیکھی تھیں، وہ اب نہیں دیکھتی تھی۔ وہ سب کچھ بچپن کی باتیں ماضی کا قصہ بن چکی تھیں اور پرانے گھر میں ہی رہ گئی تھیں۔ نئے گھر میں والد صاحب نے آتے ہی خیرات کی اور گھر کا صدقہ دیا۔ بکرے کاٹ کر غریبوں میں کھانا تقسیم کیا اور چالیس دن تک تلاوت قرآن بھی نئے مکان میں کرواتے رہے کہ گزشتہ گھر میں جو غیر مرئی طاقتیں اگر تھیں تو وہ یہاں ہمارا پیچھا نہ کریں۔ یہ نیا گھر ہم کو راس آیا، مبارک ثابت ہوا۔ کسی وہم اور وسوسے نے بھی نہیں گھیرا۔ سبھی پرسکون اور مطمئن ہو گئے مگر میں آج تک مطمئن نہیں ہوں۔ ہمہ وقت یہی سوچتی رہتی ہوں کہ بچپن میں پرانے گھر کے اندر جاگتی آنکھوں سے جو دیکھا کرتی تھی، وہ سب آخر کیا تھا بھلانا چاہوں بھی تو ان مناظر کو بھلا نہیں سکتی۔ | null |
null | null | null | 244 | https://www.urduzone.net/bakra-eid-aur-kaleji/ | روز روز شہر کی منڈیوں کے چکر کاٹنے اور کتنے ہی دن کی چھان پھٹک کے بعد میر ہاؤس کے مکین بھی بالاخر بکرا پسند کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ عثمان نے درجنوں بکروں کے ساتھ سیلفیاں لے ڈالیں ، ان کی وڈیوز بنا بنا کر گھر والوں کو دکھانے کے جتن کے لیے مگر وہ تھے کہ کسی ایک کے لیے بھی راضی نہ ہوئے۔ یہ واحد بکرا تھا ، جسے دیکھتے ہی ہر کسی نے بخوشی اپنی رضا مندی دے دی اور یوں اتفاق رائے سے پسندیدگی کا تاج اس بکرے کے سر پہ رکھ دیا گیا۔ سفید اور براؤن رنگ کی دھاریوں والا خوب صورت اور صحت مند سا بکرا جب گھر آیا تو پہلی نظر میں ہی سب کو بھا گیا۔ واہ کیا کمال بکرا ہے۔ دادا بھی عثمان کی پسند کی داد دیے بغیر نہ رہ پائے ۔ آخر کو بکرے نے ان کی جانب سے کیے گئے تنقیدی معائنے کا کڑا امتحان امتیازی نمبروں سے جو پاس کر لیا تھا۔ پچیس سے کوئی چار کلو اوپر ہی ہو گا اس کا گوشت نظروں ہی نظروں میں بکرے کو تولتے ہوئے ابو نے پیار سے اس کے جسم پر ہاتھ پھیر کر جو اپنی رائے دینا چاہی تو وہ شرما کر فورا ہی کچھ یوں پیچھے ہٹا کہ پاؤں میں بندھے گھنگھرو بجتے ہی چلے گئے آپ دیکھ لیجیے گا ان چند دنوں میں ہی اچھی خوراک کے ساتھ بہت ساری خاطر مدارت سے ہمارا بکرا اور بھی خوب صورت اور خاصا صحت مند ہو جائے گا یہ ان شا اللہ عثمان نے پر امید ہو کر گھر والوں کو بھی یقین دلایا تو جوابا انہوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ٹھیک چھ دن بعد عید کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلتے ہی عثمان کا استقبال قصائیوں کے ایک غول نے کیا۔ جن میں سے منجھے ہوئے قصائی کا انتخاب گرچہ بکر ا خریدنے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا پھر بھی فوری طور پر سمجھ بوجھ سے کام لے کر ان میں سے شکل و صورت اور گفتگو میں نسبتا معقول قصائی کو دیکھ کر پہلے تو اس سے بکرا کٹائی کے دام کیے۔ بعد ازاں اسےگھر لے آیا بیٹا جی میرے خیال سے ہم نے بکرا ذبح کروانا ہے کوئی دنگل نہیں ، جو اس موٹے قصائی کو پکڑ لائے ہو۔ اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر جو قصائی کم اور پہلوان زیادہ لگ رہا تھا ابو نے گھبرا کر عثمان کو ایک طرف لے جا کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ ایک ماہر قصائی ہے اور بتا رہا ہے کہ پھول نگر میں اپنی گوشت کی دکان ہے آپ بالکل بے فکر ہو جائیں میں دیکھ لوں گا اسے۔ ابو کا شانہ تھپتھپا کر عثمان نے انہیں قائل کرنا چاہا۔ مگر وہ کسی طور مطمئن ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ پھر بھی میرا خیال ہے۔ تھوڑا انتظار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہمارا قصائی بھی آتا ہی ہوگا ۔کیا یہ اچھا نہیں ابو کہ اس گرمی میں ہم لوگ صبح ہی صبح قربانی سے فارغ ہو جائیں گے ۔ ہمارا قصائی نجانے کب آئے، پچھلی مرتبہ بھی تو صبح آٹھ بجے آنے کا کہہ کر ایک بجا دیا تھا۔ آپ کو تو یاد ہی ہو گا اور یہاں ابھی اس کا دوسرا ساتھی بھی مدد کو پہنچ رہا ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں میں یہ لوگ گوشت بنا کر ہمارے حوالے کر دیں گے ۔ اچھا ٹھیک ہے پھر جاؤ اور اللہ کا نام لے کر قربانی شروع کرا دو عثمان کی یقین دہانی پر ابو کو بھی راضی ہونا پڑا، ان کی طرف سے ہاں کا اشارہ ملتے ہی وہ قصائی کو لے کر پچھلے صحن میں چلا گیا جہاں بکرا بندھا تھا۔ قصائی کے تکبیر پڑھنے کی دیر تھی کہ گھر بھر میں ہلچل مچ گئی ۔ امی اور دادی تو اٹھ کر کچن میں چلی گئیں ۔ جب کہ دادا لگے بے چینی سے صحن میں چکر کاٹنے اور ٹی وی دیکھتے ابو پر جا برسے۔ بہت اچھے عاطف میاں عید کے دن تو اسے بخش دو، اٹھو اور جا کر قصائی کو دیکھو۔ دھیان رہے کہ وہ بوٹی زیادہ بڑی نہ بنانے پائے اور ہاں چانپیں بالکل خراب نہیں ہونی چاہئیں۔ ایک ایک بوٹی خود بتائے کہ وہ کسی ماہر قصائی کے ہاتھ سے نکلی ہے۔ انہیں باہر بھیج کر دادا خود کچھ دیر کو کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ آئے ہائے یہ کلیجی اندر کیوں لیے آ رہے ہو کچن میں بیٹھی دادی نے ماتھا پیٹا۔ کیوں دادی پکانی نہیں ہے کیا کلیجی کی پرات اٹھائے عثمان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے۔ نہیں بالکل نہیں۔ ایسا کر اسے ابھی کے ابھی واپس لے کرجا اور قصائی سے اس کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنواؤ اور انہیں باقی گوشت میں ہی شامل کروا دینا۔ اس سے پہلے کہ تمہارے دادا دیکھ لیں پوچھیں بھی تو بے شک کہہ دینا قصائی کو یاد نہیں رہا کلیجی علیحدہ کرنا، ، پتا بھی ہے انہیں کہ یہ سب کھا کر ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے پھر بھی کس بے تابی سے بقر عید کا انتظار کیے جاتے ہیں ۔ خبردار جو کسی نے بھی نگاہ غلط ڈالی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ۔ سرگوشی سے محو گفتگو دادی کی باتیں پیچھے کھڑے دادا کے کانوں میں پڑیں، وہ یکدم طیش میں آ گئے اور اپنی چھڑی کو ہی فرش پر ٹھوک ڈالا۔ عثمان نے تو فورا پرات رکھ کر کھسکنے میں ہی عافیت جانی تو امی بھی لہسن پیاز کی ٹوکری اٹھائے باہر نکل گئیں۔ وہ تو میں آپ کی صحت کی وجہ سے کہہ رہی تھی ۔ شوہر کی اچانک آمد پر دادی بری طرح بو کھلا گئیں۔ کیوں مجھے کیا ہوا بھلا چنگا تو ہوں میں ۔ دادا نے فوراً ہی سینہ تان کر انہیں غصے سے آنکھیں دکھائیں۔ میرا مطلب آپ کو کولیسٹرول ہے۔ مارے ڈر کے ان کی بات ہی آدھی رہ گئی۔ مجھے آپ سے بالکل بھی ایسی امید نہ تھی جہاں آرا بیگم دادا سچ میں آزردہ ہوئے۔ آج اگر پورے سال بعد کلیجی کھانے کا موقع ملا ہے تو وہ بھی آپ سے برداشت نہیں ۔ سارا سال زبان پر رکھ کے نہیں دیکھی ۔ یہ بھی اور نمکین گوشت تو ویسے بھی عید کے عید ہی کھانے کو ملتا ہے ، بقرعید پر گوشت کھا کے ارمان نہیں نکالنے تو پھر کب نکالنے ہیں ۔ یاد نہیں پچھلے سال کیسے عید کے اگلے روز ہی آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر کو بلانا پڑا تھا۔ اپنے اندر ہمت جمع کر کے دادی نے انہیں یاد دلايا بہت خوب میری طبیعت تو آپ کو یاد رہی بیگم اور جو آپ نے ڈھیروں مسالوں سے بھر کھانا کھلایا تھا۔ اس سے تو اچھا خاصا صحت مند بندہ بیمار پڑ جاتا میں تو پھر بھی بوڑھا ہوں ۔ گزشتہ عید پر ہونے والی خرابی صحت کا ملبہ بھی دادا نے ان کے سر پر ہی ڈال دیا۔ گوشت میں اگر مرچ مسالے درست تناسب سے ڈالے جائیں، تیل کی مقدار کم ہو تو کچھ نقصان نہیں دیتا۔ عثمان حیا کو بلاؤ ۔ کسی کام سے اندر آتے عثمان کو دیکھ کر داد نے حکم صادر کیا۔ کلیجی آج وہی بنائے گی۔ عثمان بے چارے کی ایک ٹانگ اندر تو دوسری گیٹ پر تھی، جہاں گوشت کے لیے لینے آنے والوں کی بھیڑ تھی جو مسلسل گیٹ بجا بجا کر اس سے گوشت کا تقاضا کیے جا رہے تھے۔ ساری زندگی میرے ہاتھ کے پکے کھانے ہی کھاتے آئے ہیں اور آج لگے نقص نکالنے دادا کی باتیں گویا دادی کے دل پہ جا لگی تھیں۔ بھول گئے وہ زمانے جب آپ کے بیس بیس دوستوں کی دعوت کا کھانا اکیلی میں اناڑی ہی بنایا کرتی تھی تب تو بڑے پل باندھے جاتے تھے میری تعریفوں کے وہ باقاعدہ خفا ہو چکی تھیں ۔ بالکل بہت اچھی طرح یاد ہے۔ وہ کھل کر ہنس دیے۔ ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ ایک زمانے میں آپ نمک کی جگہ چینی اور چینی کی جگہ نمک بھی تو ڈال دیا کرتی تھیں روٹھی روٹھی دادی کو دادا مزید بھڑکانے پر تلےہوئے تھے۔ عید کا دن ہے اب کیا کہوں آپ کو۔ تند نظروں سے انہیں دیکھتی وہ اٹھ کر چل دیں تو دادا بھی مسکراتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لیے۔ وہ اوپر اپنے کمرے میں بیٹھی اسوہ کے بال بنا رہی تھی جب ایک کی جگہ دو، دو سیڑھیاں پھلانگتا عثمان بھاگا چلا آیا۔ حیا ابھی اس وقت میرے ساتھ چلو نیچے دادا بلا رہے ہیں، وہ آج تمہارے ہاتھ کی پکی ہوئی کلیجی کھائیں گے۔ تقریبا چیختے ہوئے اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں اور اسوہ کو اٹھا کر چل دیا۔ تو حیا نے بھی دوپٹہ اٹھا کر اس کے پیچھے ہی دوڑ لگا دی ۔ کچن میں اس کی ساس کلیجی دھو کر چھلنی میں رکھ رہی تھیں اسے دیکھ کر بولیں۔ میں اسوہ کو دیکھ لیتی ہوں بیٹا تم کلیجی بنائوں لہسن پیاز سب چھلا رکھا ہے۔جی امی میں کر لیتی ہوں آپ جائیں ۔ ساس کو باہر بھیج کر وہ جلدی سے پیاز فرائی کرنے گئی ابھی یہی بھون رہی تھی کہ دادا چلے آئے۔ دراصل وہ بھی اپنی طرف سے یہی تسلی کرنے آئے تھے کہ آیا میں کلیجی بنا رہی ہوں یا کوئی اور حیا بیٹا میں یہ کہنے آیا تھا کہ پھیپھڑے میں نرخرے کی ہڈی ہوتی ہے نا کرکری والی وہ ضرور ڈال لینا بے حد لذیذ بنتی ہے۔ جی دادا میں نے شروع میں ہی ڈال دی تھی گلنے میں تھوڑا ٹائم جو لیتی ہے۔ انہیں جواب دیتی حیا تیزی سے دیگچی میں بھی چمچہ چلاتی جا رہی تھی۔ مگر اسے تاکید کو آئے دادا وہیں کرسی پر ہی براجمان ہو چکے تھے۔ ادھر قصائی کے پاس بیٹھے ابو سے مزید بیٹھا نہ گیا تو وہ بھی پانی پینے کے بہانے کچن میں آ موجود ہوئے کلیجی بھون کر آخر میں یاد سے گرم مسالے کے ساتھ میتھی کا چھڑکاؤ جی ابو اچھا یاد دلایا آپ نے کیبنٹ کھول کر میتھی کا ڈبا نکالتی حیا نے سسر کو جواب دیا جو اس دوران اسٹول کھینچ کر دادا کے برابر ہی بیٹھے گئے تھے۔ کلیجی بننے میں ٹائم ہی کتنا لگتا ہے۔ تیار کلیجی اب دم پر رکھ دی گئی تھی ۔ بزرگوں کے لیے تو چند لمحے بھی دوبھر ہو گئے۔ میتھی اور گرم مسالے کی ہوش ربا خوشبو قصائی کے پاس گوشت بنواتے عثمان کی ناک سے جو ٹکرائی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کچن کی طرف لپکا۔ جہاں حیا تیار کلیجی پلیٹ میں نکال رہی تھی۔ مزید انتظار محال تھا۔ اس لیے پلیٹ آگے آتے ہی دادا نے گرما گرم کلیجی اٹھا کر منہ میں رکھ لی اور اپنی زبان جلا لی مگر پھر بھی بے اختیار کہہ اٹھے۔ دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ مسالوں کا جو تناسب حیا بیٹی کو آتا ہے کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ جی ابا بالکل بجا فرما رہے ہیں آپ ، ایسے عمدہ ذائقے والی کلیجی بنانا بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے کہ آج کا نمکین گوشت بھی حیا بیٹی سے ہی پکوایا جائے دادا کے بعد ابو نے بھی ایک ساتھ دو بوٹیاں کھاتے ہوئے نہ صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائی بلکہ مشورہ بھی دے ڈالا۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو پیچھے کھڑے عثمان نے ابھی اپنا ہاتھ پلیٹ کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ دادا نے اسے وہیں روک دیا۔ جاؤ میاں پہلے قصائی کو تو فارغ کر آؤ پھر سکون سے بیٹھ کے کھانا کہیں بھاگی نہیں جا رہی کلیجی۔ دادا کا حکم تھا چارو ناچار واپس پلٹا تو وہاں صورت حال ہی کچھ اور تھی۔ اس نے فورا اپنی آنکھوں کو ملا کہ شاید نظر کا دھوکا ہو۔ مگر یہ سچ تھا کہ قصائی اور گوشت دونوں ندارد باہر کا ادھ کھلا دروازه اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ وہ تیزی سے نکل کر پیچھے گلی میں بھاگا۔ تنگ ہونے کی وجہ سے یہاں لوگوں کی آمد و رفت کم ہوتی تھی۔ دور تک سنسان گلی تھی۔ اوہ میرے خدا یہ کیا ہو گیا۔ اس نے سر پیٹ لیا اور بھاگتا ہوا مین گیٹ کی طرف آیا۔ مگر قصائی یہاں ہوتا تو نظر آتا۔ وہ تو موقع ہاتھ آتے ہی اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ گوشت موٹر سائیکل پر لاد کر کب کا رفو چکر ہو چکا تھا۔ عثمان پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا کہ یک دم کوئی اسے گلے آ لگا۔ عید مبارک بھائی جان سیدھا آپ کی طرف ہی آرہا ہوں۔ بڑے فون آ رہے تھے میرے واقف کاروں کے پر میں نے کہا پہلے جن کو زبان دی ہے ان کا بکرا حلال ہو گا پھر کسی اور کا۔ یہ ان کا پرانا قصائی تھا جو اس کے سامنے تھا۔ جب کہ ہونق کھڑا عثمان اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب اندر جا کر کس طرح دارا اور ابو کو اس واردات کے بارے میں آگاہ کرے جو کلیجی کے بعدنمکین گوشت کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 245 | https://www.urduzone.net/khayal-ka-hilal/ | حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ایک دفعہ لوگ رمضان المبارک کا چاند دیکھ رہے تھے۔ یکبارگی ایک شخص نے چلا کر کہا کہ اے عمر دیکھو چاند وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ حضرت عمر نے آسمان پر بہتیری نظر دوڑائی لیکن ان کو چاند نظر نہ آیا اور نہ اس شخص کے سوا دوسرا آدمی چاند دیکھنے میں کامیاب ہوا۔ حضرت عمر فاروق نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ بھائی میری نظر کافی تیز ہے لیکن مجھ کو تو چاند کہیں نظر نہیں آیا۔ تم ذرا اپنا ہاتھ تر کر کے آنکھوں اور بھنوؤں پر پھیرو اور پھر آسمان پر نظر دوڑاؤ۔ اس شخص نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی تو پھر اس کو چاند نظر نہ آیا۔ کہنے لگا امیر المومنین اب تو چاند غائب ہو گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ یہ تیرے خیال کا ہلال تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ تیرے ابرو کا ایک بال ٹیڑھا ہو کر تیری آنکھوں کے سامنے آگیا تھا تو نے اس کو چاند سمجھ لیا ۔ اگر ایک ٹیڑھا بال آسمان کا پردہ بن سکتا ہے تو جب تیرے سارے حواس ٹیڑھے ہو جائیں پھر کیا ہو گا | null |
null | null | null | 246 | https://www.urduzone.net/qismat-ka-likha/ | ریحانہ خالہ میری والدہ کی دور کی رشتہ دار تھیں ان کی شادی اپنے ایک رشتہ دار سے ہو گئی جن کا نام سلیم احمد تھا۔ اچھا کما لیتے تھے۔ ریحانہ خالہ کے والدین وراثت میں ایک مکان چھوڑ گئے تھے اور یہ مکان ریحانہ کو مل گیا تھا۔ سلیم احمد کرائے کے گھر میں قیام پذیر تھے مکان کا قبضہ حاصل کرتے ہی وہ اس میں شفٹ ہو گئے۔ سلیم احمد کو ترقی کرنے کا خبط تھا وہ ہر وقت بیوی سے کہا کرتے تھے اگر میرے پاس کچھ سرمایہ ہوتا تو میں اپنے کاروبار کو بڑھا سکتا تھا اس طرح ہم بہت خو شحال ہو جاتے۔ ریحانہ ان کو قناعت اور صبر کی تلقین کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ جب شادی کو چھ برس گزر گئے تو سلیم احمد نے ریحانہ سے کہا کہ اللہ نے اولاد سے نہیں نوازا تو کیوں نہ مکان بیچ دیں ہمارے بعد نجانے کس کے قبضے میں چلا جائے۔ جو زندگی ہے دولت کے مزے تو لیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مکان کی رقم سے کاروبار کو وسعت دیں پھر کار کوٹھی بنانے کے لائق ہو جائیں گے گھر بھی دوبارہ مل جائے گا۔ ریحانہ خالہ نے کہا ذاتی گھر ایک نعمت اور پر سکون ٹھکانہ ہوتا ہے۔ ایک گھر بنانے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ اولاد کی تمنا کریں جو انسان کی زندگی کی اصل خوشی ہوتی ہے۔ اولاد تو ہو نہیں سکتی۔ سلیم احمد مایوسی سے جواب دیتے تب ریحانہ خالہ کا دل بجھ کر رہ جاتا کیونکہ ان کو اپنے شوہر سے بہت محبت تھی اور وہ خود کو بانجھ اور مجرم سمجھتی تھیں۔ اپنے اس احساس سے نجات پانے کی خاطر انہوں نے شوہر سے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ اور شادی کر لیں۔ دن رات کان کھاتیں بالآخر اپنے جیون ساتھی کو دوسری شادی پر مجبور کر دیا۔ شوہر کو خوش دیکھنے کی خاطر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی۔ خود رشتہ داروں میں لڑکی تلاش کی۔ اپنے ہاتھوں سے شوہر کو دولہا بنا کر سہرا باندھا۔ جو زیور پاس تھا اور قیمتی جوڑے سب نئی نویلی دلہن کی نذر کر دیئے۔ اس طرح قربانی کی انوکھی مثال قائم کرنے کے شوق میں اپنی قسمت پھوڑ لی۔ سوچا تھا سوتن کو سکھ دوں گی بڑی بن کر رہوں گی اور حسن سلوک سے اس کو رام کرلوں گی مگر سوتن پھر سوتن ہوتی ہے۔ ریحانہ خالہ کے لاکھ حسن سلوک نے بھی اس عورت کو رام نہ کیا اور ریحانہ خالہ کی گھر میں موجود گی اسے کھلنے لگی وہ چاہتی تھی کہ شوہر کی پہلی بیوی گھر سے چلی جائے اور وہ بلا شرکت غیرے اس گھر کی مالکہ بن جائے۔ شادی سے قبل سلیم کہا کرتے تھے۔ اے بیوی تم میری دوسری شادی کرانے پر مصر ہو لیکن اگر اس عورت سے بھی اولاد نہ ہو سکی تب کیا کرو گی۔ ریحانہ جواب دیتی تھی ، ضرور اللہ تعالی ہم پر رحم کرے گا اور ہم اولاد کی خوشی دیکھیں گے۔ میں نے منت مانی ہے کہ اللہ تعالی اگر آپ کو بیٹا دے گا تو میں یہ مکان آپ کے نام کر دوں گی اور اس کا وارث ہمارا بیٹا ہو گا۔ اللہ تعالی نے ریحانہ کی سنی، سوتن کی کوکھ سے سلیم احمد کا وارث پہلا بیٹا ہو گیا تو سلیم نے ریحانہ کو منت یاد دلائی انہوں نے خوشی خوشی اپنا مکان شوہر کے نام کر دیا۔ سلیم کے دل میں تو عرصہ سے یہی آرزو تھی کہ کسی طرح یہ مکان ان کے نام لگے ۔ وہ اسے بیچ کر کاروبار میں روپیہ ڈالیں اور امیر آدمی ہو جائیں پھر سارا کنبہ عیش کرے گا کوٹھی کار بنگلہ ہو گا۔ مزے آجائیں گے۔ ایک انسان ایسے ہی خواب دیکھتا ہے۔ انہوں نے ایک روز چپکے سے مکان بیچ دیا اور کرائے کے مکان میں آگئے ریحانہ کو اس بات کا قلق ہوا مگر وہ اس وجہ سے خاموش ہو گئیں کہ اللہ نے اس گھر کا چراغ تو دے دیا ہے کوئی بات نہیں گھر پھر بن جائے گا۔ خاوند کواگر کاروبار وسیع کرنے کا ارمان ہے تو یہ بھی پورا کرلے۔ کیا خبر اللہ تعالی برکت دے دے اور دولت ہونے کا خواب پورا ہو جائے۔ بیٹا ہوا سوتن کا مزاج آسمان سے باتیں کرنے لگا، اب تو گھر بھی ریحانہ سے اینٹھ لیا تھا پھر کس بات کا لحاظ باقی رہا۔ وہ اولاد والی تھی اس کا پلڑا بھاری تھا، اسے نکالنے کے درپے ہو گئی۔ ریحانہ چپ چاپ گیلی لکڑی کی طرح سلگنے لگی۔ سوتن کی زیادتی برداشت کرتے کرتے بیمار پڑ گئی۔ اب کبھی کبھی سلیم احمد کا ضمیر اسے ملامت کرتا ایک نظر التفات کی بیچاری ریحانہ پر ڈالتا تو سوتن جل اٹھتی وہ جھگڑتی گھر کے برتن توڑتی اور ایک ہنگامہ اٹھا دیتی تھی مجبور اسے دوسری بیوی کی پاسداری کرنی پڑتی اور ریحانہ سے ہمدردی سے گریز کرنے لگا۔ ایک روز جبکہ سلیم احمد گھر پر نہ تھا۔ اس کی دوسری بیوی نے ریحانہ سے بہت جھگڑا کیا اور برتن اٹھا اٹھا کر اس پر پھینکنے لگی۔ اس صورت حال سے گھبرا کر ریحانہ خالہ ہمارے گھر چلی آئیں کیونکہ ان کا ہمارے سوا کوئی نہ تھا۔ جب سلیم احمد گھر آئے نئی نویلی دلہن نے خوب ریحانہ خالہ کے خلاف باتیں کر کے ان کے کان بھرے اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ مجھے رکھو یا پھر پہلی بیوی کے ساتھ رہو۔ میں تو میکے چلی۔ سلیم احمد کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا لہٰذا وہ اس دھمکی کو چپ چاپ سہہ گئے اور ریحانہ کو تلاش کرنے کی بھی زحمت نہ کی کہ کہاں چلی گئی ہے۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے دور آبادی میں ایک مکان خرید لیا اور کرایہ کا گھر چھوڑ کر چلے گئے کسی کو نہ بتایا کہ کہاں گھر لیا ہے۔ دوماہ بعد خالہ ریحانہ نے گھر جانے کی خواہش کی امی اور بھائی ان کے ساتھ گئے مگر پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ مکان چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور جاتے ہوئے اپنے گھر کا پتہ بھی بتا کر نہیں گئے۔ یہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے۔ اب خالہ ریحانہ کہاں جاتیں اس وقت کو کوسنے لیں جب گھر سے قدم نکالا تھا۔ شوہر کی بے التفاتی کا دکھ ان کو کھانے لگا۔ ہمارے مکان سے متصل ایک کوٹھری تھی جس میں ایک چار پائی جتنی جگہ تھی خالہ نے اس میں رہنا قبول کر لیا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ محلے والوں کو ان کے حالات کا علم تھا وہ ان کی ہر ممکن مدد کرتے تھے اور ان کی بچیاں بھی قرآن پاک پڑھنے ان کے پاس آیا کرتی تھیں یوں وہ زندگی کے دن گزار نے لگیں۔ چودہ برس انہوں نے صبر شکر سے گزار دیئے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا۔ ایک دن ہم اسلام آباد گئے تو اچانک سلیم احمد بھائی مل گئے۔ انہوں نے بتا یا کاروبار خوب چل نکلا تو وہ اب اسلام آباد میں شفٹ ہو گئے ہیں اور یہاں اپنا بنگلہ لیا ہے۔ وہ کافی امیر ہو گئے تھے۔ بھائی نے ریحانہ خالہ کے بارے میں دریافت کیا تو بولے کہ ان کی وفات ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر ابو اور بھائی تو سکتے میں آگئے گھر آکر خالہ کو بتایا وہ بھی غمزدہ ہو گئیں پھر بولیں اگر انہوں نے مجھے مرا ہوا سمجھ لیا ہے تو یہی سہی۔ شاید کہ ان کی خوشی میرے مر جانے میں ہے۔ والدہ اور والد صاحب نے بہت کہا کہ ہم آپ کو سلیم احمد کے گھر لئے چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیسے نہیں رکھتا۔ مگر ریحانہ خالہ نے جانے سے انکار کر دیا بولیں میں یہاں عزت سے زندگی کے دن گزار رہی ہوں۔ بس یہیں ٹھیک ہوں۔ میری غیرت اب ان کے ٹکڑوں پر پلنا گوارا نہ کرے گی۔ والد صاحب اور بھائی اسلام آباد سلیم صاحب کو سمجھانے گئے کہ تمہاری بیوی ہمارے گھر ہیں آکر لے جائے وہ بھی لے جانے پر راضی نہ ہوئے بولے۔ دوسری بیوی کو یہ بات گوارا نہیں ہو گی وہ روٹھ کر چلی جائے گی تو میرے چار بچے دربدر ہو جائیں گے اب میں نے ریحانہ کی جدائی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ میری پر سکون زندگی میں طوفان نہ لایئے تو احسان مند رہوں گا۔ ریحانہ بی بی سے ہم کو کوئی تکلیف نہ تھی وہ اپنی ذات کا خرچہ خود اٹھاتی تھیں۔ قسمت کا لکھا سمجھ کر ہم نے ان کو رہنے دیا۔ وہ بچیوں کو سپارہ پڑھاتیں محنت مشقت سے روزی کماتی تھیں۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ سلیم احمد فوت ہو گئے ہیں۔ ریحانہ خالہ سے والدہ نے ذکر کیا تو بہت غم کیا یہاں تک کہ ذہن پر ایسا اثر ہوا بیٹھے بیٹھے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگیں۔ اب ان کا ذہنی توازن کچھ ٹھیک نہ رہا تھا۔ کہتی تھیں وہ چلے گئے۔ اکیلے ہی۔ مجھے بھی ان کے پاس جانا ہے۔ یہاں رہ کر کیا کروں گی۔ ایک روز اچانک گھر سے نکل پڑیں۔ اپنے لئے گلی کی نکڑ تک سبزی لینے گئی تھیں واپس نہ لوٹیں۔ بہت تلاش کیا نہ ملیں۔ گمشدگی کے تین ماہ بعد ایک دن بازار میں سڑک پر بھیک مانگتی نظر آئیں۔ ان کی حالت دیکھ کر صدمہ ہوا۔ ہم نے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا۔ گھر لا کر امی نے نہلایا دھلایا۔ صاف کپڑے پہنائے۔ کچھ روز بعد اپنے حواسوں میں آگئیں تو بتایا کہ مجھے کچھ لوگ پکڑ کر لے گئے تھے، نیند کی دوا کھلا کر سلا دیتے تھے۔ پھر سڑک پر بھیک منگوانے لگے نگرانی کرتے تھے شام کو بھیک کی رقم سمیٹ لیتے تھے۔ یہ گروہ ہے جس کا کام ہی ہم جیسے لاچار لوگوں سے بھیک منگوانا ہے۔ میری طرح اور لوگ بھی ان کے چنگل میں پھنسے ہیں ان کو نشہ کی دواکھلاتے ہیں۔ ہم ان کا بہت خیال رکھنے لگے ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہ رہی تھی۔ نشے کی عادی ہو گئی تھیں اور کبھی کبھی بہکی بہکی باتیں کرتی تھیں اور یادداشت کھو جاتی تھی تو پہچانتی نہ تھیں۔ ایک روز ذرا سی غفلت سے دروازہ کھلا رہ گیا تو نکل گئیں اور غائب ہو گئیں۔ بہت تلاش کیا مزاروں، مسجدوں چرسیوں کے اڈوں پر دیکھا نہ ملیں۔ وہ دن اور آج کا دن ڈھونڈتے رہے مگر ریحانہ کا سراغ نہیں ملا۔ خدا جانے کہاں ہیں۔ جہاں ہوں اللہ ان کی حفاظت کرے زندہ ہیں تو ان پر زندگی کے دن آسان کر دے اگر اس جہان میں نہیں رہیں تو خداوند کریم ان کی مغفرت کرے۔ آج تک یہ بات سمجھ نہ سکی کہ ریحانہ خالہ نے خود پر ظلم ڈھایا یا ان کے شوہر نے ان پر ستم کئے یا پھر وہ قسمت ہی ایسی لے کر آئی تھیں۔ | null |
null | null | null | 247 | https://www.urduzone.net/qurbani-qurbani-mangti-hai/ | اف اتنی شدید گرمی اور ساتھ میں ہوش اڑا دینے والی مہنگائی، عید کی خریداری نے تو سچ میں عقل ٹھکانے لگادی۔ فروا فروا، ناعمہ نے چادر اتار کر دور پھینکی اور چھوٹی بہن کو آواز دی پانی لاؤ کہاں ہو۔ آتی ہوگی سانس تو لو بیٹیوں کی آواز پر کمرے میں لیٹی تسنیم بھی اٹھ بیٹھیں۔ ایک تو فروا بی بی خود گھر میں بیٹھ جاتی ہیں اور اپنے کپڑوں کی ذمہ داری ہمارے سر تھوپ دیتی ہیں، پتا ہے امی اس کے سوٹ کی وجہ سے کتنے خوار ہوئے ہیں ۔ کتنی دکانیں گھوم کر اس کا پسندیدہ کلرملا ہے۔ اب نجانے یہ کہاں چلی گئی ہے۔ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے رائمہ نے تپ کر کہا۔ میں اپنی پیاری بہنوں کے لیے کچن میں شربت بنا رہی تھی وہ بھی تخم ملنگا ڈال کر فروا نے شربت سے بھرے گلاس ناعمہ اور رائمہ کے آگے کیے اور پلاسٹک کے نیلے پیلے تھیلوں کی طرف لپکی۔ یہ میرا ہے۔ انتہائی خوب صورت اور نفیس کڑھائی والے سوٹ کو فروا نے کھولا۔ لان بھی بہت اچھی ہے۔ تسنیم نے کپڑے کو ہاتھ لگایا۔ امی ہم تینوں کے چار چار ہزار کے سوٹ ہیں بس رنگ اور تھوڑا بہت کڑھائی کا فرق ہے قیمت تو ایک ہی ہے۔ چار ہزار ایک سوٹ کا۔ تسنیم نے دوپٹہ پھیلاتے ہوئے پوچھا۔ دوپٹا بھی تو دیکھیں شیفون کا کتنا فینسی ہے مہنگائی بھی تو کتنی بڑھ گئی ہے، دو دو ہزار کا پرنٹڈ سوٹ تو اب عام گھریلو استعمال کے لیے ہے، اب کیا عید پر یہ پہنتے ہوئے اچھے لگیں گے۔ اچھا امی اپنا سوٹ تو دیکھیں بہت مشکل سے چار ہزار پر مانا۔ آپ تو جانتی ہیں پروشیا لان مہنگی ہوتی ہے۔ واہ رائمہ، ناعمہ سوٹ تو بہت پیارا ہے اور رنگ بھی تمہارے ابو کی پسند کا ہے۔ تسنیم نے جوڑے کو اپنے ساتھ لگایا۔ اچھا تمہارے ابو اور بھائیوں کے سوٹ کہاں ہیں تسنیم نے اپنے سوٹ کو واپس رکھا۔ یہ ہیں ابو اور شان فرحان کے سوٹ۔ کاٹن تو اچھی لی ہے نا۔ امی اس لیے تو ہزار پندرہ سو والی کائن نہیں لی بلکہ دو ہزار کا ایک سوٹ ہے۔ رائمہ نے سوٹ ماں کی گود میں رکھے۔ بہت کھلے گا میرے گورے بیٹوں پر۔ تسنیم نے گہرے نیلے رنگ کے سوٹ پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔ ارے تم کہاں بھاگ رہی ہو۔ بیٹیوں کواٹھتا دیکھ تسنیم چلائیں۔ امی موسم بہت اچھا ہو رہا ہے چھت پر جا رہے ہیں۔ مغرب ہونے والی ہے رات کا کھانا نہیں بنانا کیا۔ ابھی آئے۔ سیڑھیاں چڑھتے ناعمہ کی آواز آئی۔ میں اتنے میں سبزی کاٹ لوں۔ تسنیم کچن کی طرف بڑھیں۔ آئیں خالہ بیٹھیں کیسے آنا ہوا۔ اپنے سامنے والے گھر سے آئی بزرگ سی خالہ صغری کو دیکھ کر تسنیم اگے بڑھیں۔ طبیعت بوجھل سی ہو رہی تھی سوچا تمہاری طرف چکر لگاؤں۔ اچھا کیا خالہ تسنیم نے مسکرا کر کہا گھر میں کافی خاموشی ہے۔ خالہ صغری نے بیٹھتے ہوئے ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔ ذیشان اور فرحان تو اکیڈمی گئے ہیں، بچیاں ابھی بازار سے لوٹی ہیں کچھ دیر کے لیے چھت پر گئی ہیں۔ عید کی خریداری کرنے گئی تھیں خالہ صغری نے پوچھا۔ ہاں خالہ عید پر پہنے اوڑھے بغیر کہاں گزرتی ہے تن بھی تو ڈھانپنا ہے۔ تسنیم کے چہرے پر اچانک غریبی ٹپکنے لگی۔ اور سنائیں خالہ قربانی کر رہی ہیں۔ ہاں ماشا اللہ میرے دونوں بیٹے قربانی کر رہے ہیں اور تم لوگ۔ آہ خالہ صغریٰ کے پوچھنے پر تسنیم نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی۔ کاش ہم بھی اتنی استطاعت رکھتے کہ قربانی کر سکتے۔ خالہ دل تو بہت چاہتا ہے کہ ہم بھی سنت ابراہیمی ادا کریں۔ آپ تو جاتی ہیں اقبال دوسرے شہر پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ کہنے والے تو کہہ دیتے ہیں کہ چالیس پچاس ہزار ماہانہ کماتے ہیں لیکن خالہ یہ بھی تو دیکھیں مہنگائی کتنی بڑھ گئی ہے گھر کے اخراجات اور پھر بچوں تسلیم کی آدھی بات منہ میں رہ گئی۔ کچھ فاصلے پر رکھا موبائل بجنے لگا۔ اقبال کا فون ہے۔ وعلیکم السلام آپ بھی حد کرتے ہیں کیا پہلے کبھی کسی بھی تقریب یا عید وغیرہ پر آپ کے بچوں کے لیے کوئی کمی چھوڑی ہے۔ جو اس عید پہ چھوڑوں گی۔ تسنیم کو شوہر کے ساتھ باتوں میں مشغول دیکھ کر خالہ صغری نے بھی گھر کی راہ لی۔ منیر جو رات کے بارہ بجے کام سے لوٹا بغیر کوئی آہٹ کے خاموشی سے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ اکلوتے پنکھے کے آگے لگی قطار میں پڑی چارپائیوں میں سے ایک چارپائی پر آبیٹھا۔ اس یقین کے ساتھ کہ چارپائی پر سوئی اپنی شریک حیات کی نیند میں اس نے خلل نہیں ڈالا۔ آج تو بہت دیر کر دی آپ نے تم جاگ رہی ہو۔ پسینے سے بھیگے منیر نے قمیص کے بٹن کھولتے ہوئے بیوی کی طرف دیکھا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جب تک آپ خیر سے گھر نہ ا جائیں مجھے نیند کہاں آتی ہے۔ ہاں آج آخری ٹرک دیر سے آیا منیرلکڑیوں کے آرے پر لکڑیاں لوڈ کرنے کا کام کرتا تھا روٹی میں نے ہوٹل سے کھائی تھی بس تم لسی لے اؤ۔ فوزیہ کو اٹھتا دیکھ کر منیر نے کہا۔ پاؤ سے بھی کم دودھ میں برف ڈالنے کے لیے فوزیہ نے کولر کا ڈھکن کھولا لیکن برف تو پگھل کر پانی بن چکی تھی۔ فوزیہ وہ پانی اور نمک دودھ میں ڈالے پتلی سی لسی بنائے شوہر کے پاس آئی۔ کمیٹی نکلی آپ کی اسٹیل کی چھوٹی سی بالٹی کو چارپائی کی پائنتی پر رکھتے ہوئے شوہر سے پوچھا۔ تم تو جانتی ہو کہ میں اپنا نمبر آخری رکھواتا ہوں۔ تاکہ قربانی کر سکوں۔ یہ لو کمیٹی کے پیسے ۔ منیر نے پسینے سے بھیگے نوٹوں کو پنکهے کی ہوا سے سکھا کر بیوی کو دیا۔ یہ چودہ ہزار ہیں ابھی ایک ہزار کم ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے جانور بہت مہنگا ہے۔ پچھلے سال تو بارہ ہزار حصہ تھا اس سال تو پندرہ ہزار سے کم حصہ نہیں لیکن فکر کی بات نہیں ابھی تین چار دن ہیں۔ پیسے جمع کروانے میں اتنے میں جمع کرلوں گا کام آج کل کام زوروں پر ہے ہزار پندرہ سوتو آرام سے بن جاتا ہے۔ اطمینان منیر کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ یہ لیں اب ہو گئے پورے پندرہ ہزار فوزیہ اندر سے ہزار کا نوٹ لائی اور چودہ ہزار کے ساتھ ملایا۔ بچوں کے عید کے کپڑے نہیں خریدے۔ منیر نے سوالیہ نگاہوں سے بیوی کو دیکھا۔ خریدے ہیں صبح دکھاؤں گی آپ کو۔ میرے بہت ہی خوب صورت ریشمی دوپٹے رکھے تھے دو، ان کے ساتھ لان کے گلے والے پندرہ پندرہ سو کے ٹو پیس حمیرا اور سویرا کے لیے خریدے ہیں اور باقی رہے آپ کے چھوٹے بیٹے ان کے لیے کٹ پیس سے نہایت ہی اچھا کپڑا ملا ہے کاٹن کا ۔ تمہارے کپڑے۔ منیر نے فوزیہ سے اس کے جوڑے کے متعلق پوچھا۔ منیر اتنی گرمی ہوتی ہے کہ میرا تو نئے کپڑے پہنے کو دل نہیں کرتا خیر سے قربانی کر لیں پھر میں بھی خرید لوں گی نیا جوڑا اور آپ نے بھی تو نئے کپڑے نہیں لیے۔ فوزیہ نے شوہر کی طرف دیکھا جو کندھے سے قمیص ہٹائے ہوا دے رہا تھا جو کہ وزنی لکڑ اٹھانے کی وجہ سے لال اور سوجا ہوا تھا۔ ایک بات کہوں اگر ہم قربانی نہ بھی کریں تو ہمیں گناہ نہیں ملے گا آپ کیوں خود کو اتنی مشکل میں ڈالتے ہیں۔ بیوی کی بات پر منیر ہولے سے مسکرایا۔ یار پورا سال بچے گوشت کو ترستے ہیں کبھی کبھار پک بھی جائے تو ایک آدھ بوٹی سب کے حصے میں آتی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب ہم اپنی قربانی کرتے ہیں تو بچے جی بھر کے گوشت کھاتے ہیں اور کئی ایسے گھروں میں بھی گوشت بھیجتے ہیں، جو گوشت کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں بھلے ہی ہم علیحدہ بکرا خریدنے اورپچیس تیس ہزار کا حصہ لینے کی استطاعت نہیں رکھتے اور میں یہ بھی جانتا ہوں قربانی ہم پر لازم نہیں اگر ہم نہیں کریں گے تو گناہ نہیں ہوگا لیکن یہ بھی تو سوچو قربانی کرنے سے کتنا اجر و ثواب ہوگا۔ اور تم نے کہا میں خود کو مشکل میں ڈالتا ہوں تو ہم کسی سے قرض لے کر قربانی کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی کا قرض دینا ہے کوئی بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے ہمیں کہ جس کی وجہ سے ہم قربانی نہ کریں اور ویسے بھی ایسے بہت سے کام ہیں جن کو کرنے کے لیے ہم خود کو مشکل میں ڈالتے ہیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تھوڑی بہت تو جسمانی و مالی قربانی سہنی پڑتی ہے۔ منیر نے اپنا کندھا سہلایا اور منیر نے فوزیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ قربانی قربانی مانگتی ہے۔ جاؤ جا کے سو جاؤ رات بہت ہو چکی ہے۔ منیر نے فوزیہ کو سونے کا کہہ کر خود کو بستر پر گرا لیا اور اطمینان سے آنکھیں موند لیں۔ اردو کہانیاں خواتین ڈائجسٹ | null |
null | null | null | 248 | https://www.urduzone.net/yehi-naseeb-tha/ | میں اور ممتاز ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ وہ بے حد خوبصورت، سمجھدار اور چست و چالاک نوجوان تھا۔ نظرباز بھی نہ تھا۔ میں بھی کوئی ایسی ویسی لڑکی نہ تھی۔ اچھے خاندان سے تھی۔ والد صاحب کی بیماری کے باعث ہم پر برے دن آگئے۔ انہیں کینسر ہوا تو کل جمع پونچی انہی پر صرف ہو گئی۔ علاج تین سال چلا مگر نصیب میں یہی لکھا تھا کہ موذی مرض جان لے کر ہی ٹلے گا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد آمدنی کا آسرا نہ رہا۔ ہم چار بہنیں تھیں اور ہمارا کوئی بھائی نہ تھا۔ ماموں، چچا تھے مگر وہ نام کے تھے۔ انہوں نے برے وقت پر ہماری کوئی مدد نہ کی۔ میں نے انہی دنوں بی۔ ایڈ کیا تھا۔ ناچار نوکری کیلئے گھر سے قدم نکالنا پڑا۔ ایک سہیلی کے والد کی سفارش پر نوکری مل گئی۔ معقول تنخواہ تھی۔ اسی کمپنی میں ممتاز بھی کام کرتا تھا۔ وہ ہمارا آفیسر تھا اور میں اس کے ماتحت ملازم ہوئی تھی۔ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ممتاز ایک متوازن شخصیت کا مالک ہے۔ اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ نہایت مشفقانہ اور دوستانہ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ کام کر کے ہم بہت سکون محسوس کرتے۔ بے جا رعب داب کا قائل نہ تھا۔ تاہم محنت سے کام کرنے والوں کی قدر کرتا تھا۔ میں بھی بہت دیانت اور محنت سے اپنی ڈیوٹی دیا کرتی تھی۔ بہت جلد اسے احساس ہو گیا کہ مجھ میں وہ تمام اوصاف ہیں جو اچھی لڑکیوں میں ہوتے ہیں۔ وہ میری قدر کرنے لگا، بہت عزت سے پیش آتا۔ جہاں موقع ہوتا، مجھے اہمیت دیتا کیونکہ میں مناسب لباس پہنتی اور شرم کا دامن تھامے رکھتی۔ اتفاق سے انہی دنوں ممتاز کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جب ہم کو علم ہوا، سارے اسٹاف نے صلاح کی کہ ان کے گھر تعزیت کو جانا چاہئے ۔اگلے روز اتوار تھا اور چھٹی تھی۔ ہم چار لڑکیاں آسیہ کے گھر جمع ہو گئیں اور ممتاز صاحب کے گھر تعزیت کو مل کر گئیں جبکہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے مرد کو لیگ حضرات اپنے طور پر گئے تھے۔ تیسرا دن تھا ان کے والد کو فوت ہوئے اور گھر پر رسم قل تھی۔ قرآن پاک کی تلاوت ہورہی تھی، میں بھی دوسری خواتین کے ہمراہ ایک طرف بیٹھ کر سپارہ پڑھنے لگی۔ ممتاز صاحب ذرا دیر کو اندر آئے اور اپنی والدہ کو بتایا کہ یہ میری کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ ان کی والدہ نے غمزدہ ہونے کے باوجود ہم کو توجہ دی اور پیار سے ملیں۔ جب رخصت ہونے لگے تو سب کے نام دریافت کئے، تبھی میں نے محسوس کر لیا کہ وہ میری طرف خاص توجہ سے دیکھ رہی ہیں۔ اس واقعے کے تین ماہ بعد ایک روز ممتاز صاحب نے مجھے کہا کہ میری والدہ آپ کے گھر آنا چاہتی ہیں اور آپ کی والدہ سے ملنے کی آرزومند ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرا آفیسر مجھ کو اس قدر اہمیت دے رہا تھا۔ جواب دیا۔ بصد شوق آئیں، میں امی کو بتادوں گی۔ جب آنا ہو فون کر لیں۔ یہ بھی اتوار کا دن تھا، چھٹی تھی۔ ان کا فون آیا کہ وہ لوگ شام کو آنا چاہتے ہیں۔ شام کو امی نے چائے کا ہلکا پھلکا سا انتظام کر دیا اور پھر ممتاز صاحب اپنی بہن اور والدہ کے ہمراہ آگئے۔ ہمارے گھر ان کا سواگت کرنے کو کوئی مرد نہ تھا۔ امی اور اور ہم بہنوں نے ہی سواگت کیا۔ مجبوری تھی ممتاز کو بھی ساتھ ڈرائنگ روم میں بٹھا لیا کہ اکیلے وہ بٹھائے جاتے تو اچھا نہ لگتا۔ امی ان سے اور ان کی والدہ سے باتیں کرتی رہیں۔ آپانے ان کی بہن کو کمپنی دی۔ میں اور فوزیہ اپنے ان مہمانوں کی خاطر تواضع میں جت گئیں۔ دوبارہ آنے کا کہہ کر وہ چلے گئے۔ ہفتہ بعد ممتاز صاحب نے کہا کہ ان کی بہن کی سالگرہ ہے لہٰذا انہوں نے مدعو کیا ہے۔ میری والدہ اور میرے ساتھ ہماری تینوں بہنوں کو بھی آنے کیلئے اصرار کیا۔ ان کے اصرار پر ہم ان کے ہاں گئے اور یہی سمجھا کہ ہمارے افسر نے میری عزت افزائی کی ہے کہ سارے گھر والوں کو بہن کی سالگرہ پر مدعو کر لیا ہے۔ ممتاز صاحب کے گھر جا کر پتا چلا کہ اس سالگرہ کی تقریب میں ہمارے سوا اور کوئی مہمان مدعو نہیں ہے۔ گویا سالگرہ کے ایک بہانہ تھی۔ دراصل انہیں ہم لوگوں کی دعوت مقصود تھی۔ کچھ دنوں بعد ان کی والدہ کا فون امی کو آیا اور انہوں نے بالآخر اپنا مدعا بیان کر دیا۔ وہ ممتاز صاحب کیلئے میرا رشتہ چاہتی تھیں۔ والدہ نے کہا۔ سوچ کر جواب دوں گی۔ امی نے مجھ سے دریافت کیا۔ مجھے وہ پسند تھے۔ اس رشتے کیلئے خود کو ان کے لائق نہ سمجھتی تھی۔ دل میں خوشی کے پھول کھل گئے اور میں نے ہاں کہہ دی۔ پس پھر کیا تھا چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا۔ میری شادی اپنے آفیسر سے بہت طریقے کے ساتھ ہوئی اور انہی کی خواہش پر ہوئی لیکن دفتر والوں نے یہی سمجھا کہ ہمارا خفیہ عشق معاشقے کا معاملہ تھا، تبھی شادی کر لی۔ بہر حال شادی کے بعد چہ میگوئیاں ہونے لگیں تو ممتاز نے کہا کہ تم نوکری چھوڑ دو۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ میری بیوی کو کوئی ٹیڑھی نظروں سے دیکھے یا پھر باتیں بنیں۔ خدا کا دیا سبھی کچھ ہے۔ تمہارے کمانے کی ضرورت نہیں، کمانے کو میں خود کافی ہوں۔ ان کے کہنے پر میں نے نوکری چھوڑ دی اور گھر داری سنبھال لی۔ میری شادی کے سال بعد ہماری ساس بیمار ہو گئیں۔ ان کو ہڈیوں کی ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے سے معذور ہو گئیں۔ اب یہ حال تھا کہ ان کو کھلانا پلانا، نہلانا دھلانا، اٹھانا بٹھانا سبھی کچھ مجھے کرنا پڑتا تھا۔ یہ ایک کڑی ڈیوٹی تھی۔ میں دن بھر ان کی دیکھ بھال اور جی حضوری میں تھک کر چور ہو جاتی اور اپنے سراپے کا ہوش نہ رہتا۔ تب ایک روز میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں اماں جی کی اتنی زیادہ دیکھ بھال اور تیمار داری نہیں کر سکتی۔ آپ ان کیلئے کوئی نرس رکھ لیں کیونکہ یہ بیماری لاعلاج ہے اور یہ ایک دوروز کی بات نہیں۔ جب تک یہ زندہ ہیں، ان کی ایسے ہی دیکھ بھال کرنی ہے۔ آخر کب تک یہ مجھ سے ہو سکے گا ممتاز کو برا تو لگا لیکن انہوں نے مجھے مجبور نہ کیا اور بہت جلد ایک نرس لڑکی کا انتظام کر لیا جس کی عمر سولہ سترہ برس تھی۔ شکل وصورت دبتی ہوئی تھی، رنگت کالی تھی لیکن نہایت خوش اخلاق، تحمل والی اور مخلص تھی۔ اس نے اماں جی کی جی جان سے دیکھ بھال کی۔ رات، دن ان کی خدمت میں حاضر رہتی اور ذرا بھی غفلت نہ کرتی۔ اس طرح اماں جی ہی نہیں میرے شوہر بھی اس لڑکی نوشین سے ازحد خوش تھے۔ نجانے اس لڑکی میں کیا بات تھی کہ معمولی صورت ہونے کے باوجود وہ خوبصورت لگتی تھی، شاید کہ اپنے اچھے رویئے اور حسن اخلاق کی بدولت گھر بھر کی آنکھوں کا تارا ہو گئی۔ میری دو نندیں شادی شدہ تھیں۔ وہ روز اپنی والدہ کے پاس آتیں، نوشین ان کو خوش دلی سے ملتی اور بھر پور تواضع کرتی۔ میرے شوہر کا بھی خیال رکھتی، یہاں تک کہ ان کو کھانا دینا اور ان کے کپڑے دھو کر استری کرنے کے فرائض بھی اس لڑکی نے اپنے ذمے لے لئے۔ پانچ برس اسی عالم میں میری ساس زندہ رہیں اور نوشین نے رات دن ان کی خدمت میں گزارے۔ کبھی حرف شکایت زبان پر لائی اور نہ ہی تھکن کا اظہار کیا۔ نہ کسی کو شکایت کا موقع دیا۔ میری ساس کی حالت اچانک ایک روز خراب ہو گئی۔ وہ سمجھ گئیں کہ ان کا آخری وقت آچکا ہے تب میرے شوہر کو بلایا اور بولیں۔میری آخری خواہش ہے، اگر تم پوری کر دو گے تو مجھے بہت سکون ملے گا۔ ممتاز نے کہا۔ اماں جی حکم کریں۔ جو کہیں گی، حکم بجالائوں گا۔ کہنے لگیں۔ میں نے شاید بہو کے انتخاب میں کچھ غلطی کر دی۔ نوشین غریب بیوہ کی بیٹی ہے لیکن اس میں وہ صفات ہیں کہ اس کو بہو بنانا چاہئے۔ تم میری مانو تو نوشین سے نکاح کر لو۔ دین میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں سکون سے مر سکوں گی۔ پس انہوں نے بیٹے کو حکم دیا اور ممتاز نے ماں کی خاطر سر تسلیم خم کر دیا حالانکہ وہ نوشین سے نکاح کا تصور نہ کر سکتے تھے لیکن کر لیا۔ جس روز نکاح تھا، ساس نے مجھے بہانے سے میکے بھجوا دیا اور شربت کے گلاس پر نکاح کرا دیا۔ صبح نکاح ہوا اور شام کو وہ وفات پا گئیں۔ ان کے چہلم تک یہ بات راز رہی۔ مجھے کسی نے نہ بتایا کہ ممتاز نکاح کر چکے ہیں اور نوشین ان کی دوسری بیگم بن چکی ہے۔ جب چہلم ہو چکا تب میری نندوں نے یہ حقیقت مجھ پر واضح کی اور ممتاز نے کہا کہ تمہارے حقوق تم کو ملتے رہیں گے۔ نوشین کے اسے ملیں گے ۔ اماں جی نے وعدہ لیا تھا کہ انصاف کرنا۔ میں انصاف سے کام لوں گا۔ بہر حال مجھے معاف کر دو کہ میں ماں کا حکم نہیں ٹال سکتا تھا۔ دم آخر انہوں نے میر انکاح کرایا۔ مجھ پر جو قیامت ٹوٹنی تھی، ٹوٹ گئی۔ پانچ برس تک ممتاز نے انصاف سے کام لیا۔ خدا کی مرضی کہ مجھے اولاد نہ ہوئی مگر نوشین تین بیٹوں کی ماں بن گئی۔ اس کے بعد ممتاز کا رویہ مجھ سے بدلنے لگا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ وہ تمام تر نوشین کے ہو کر رہ گئے اور میری حیثیت گھر میں ایک فالتو فرد کی طرح ہو گئی۔ آج میرے خاوند کی دوسری شادی کو تیس برس گزر چکے ہیں۔ آدھی کوٹھی میں، میں رہتی ہوں اور آدھی میں ممتاز اور نوشین اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ میرا خرچا پورا ادا کرتے ہیں لیکن میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ بیمار ہو جائوں تو بھی بہت کم توجہ کرتے ہیں۔ میں خوبصورت ہوں، لمبا قد اور حسن مجھ پر تمام تھا مگر حسن ایک دن ہار گیا اور خدمت گزار بیوی جیت گئی۔ اب وہ ان کے چھ بیٹوں کی ماں ہے۔ سبھی کچھ اس کا شوہر ، جائداد اور شوہر کی رفاقت ، پیار ، توجه ، سماجی حیثیت، خاندان میں اہمیت لیکن میں بس دکھانے کی بیوی ہوں۔ خالی دامن، میری جھولی میں کوئی خوشی نہیں ہے۔ کاش اپنی ساس کی خدمت میں ہی کرتی تو شاید نوشین سوتن بن کر مجھ پر نہ آتی یا پھر خدا تعالیٰ مجھے بھی اولاد کی نعمت سے نواز دیتا چاہے ایک بیٹا یا پھر ایک بیٹی ہی دے دیتا تو میں بھی ان کے درمیان خوشیوں کی کچھ تو حقدار ہو جاتی۔ اب تو تمام حق داری نوشی کی ہے کہ وہی ممتاز کے چھ بچوں کی ماں ہے اور میں تمام حقوق سے محروم ہوں، سوائے اس کے کہ ان کے گھر میں پناہ کی خاطر رہتی ہوں۔ یہی میرا نصیب ہے۔ | null |
null | null | null | 249 | https://www.urduzone.net/khushboo-bikti-hai/ | علی گھر میں دخل ہوا ہی تھا کہ سطوت بیگم نے بیٹی کو آواز دی۔ علینہ بھائی آگیا ہے، تازہ روٹی ڈال دو۔ جی امی علینہ جواب دیتی کچن کا رخ کر گئ۔ امی کیا پکایا ہے۔ بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ مونگ مسور کی دال اور آلو کی بھجیا۔ امی کچھ ڈھنگ کا پکا لیتیں، تھکے ہوئے آؤ تو دال اور بھجیا کا سن کر بھوک ہی اڑ جاتی ہے۔ بیٹا میں بھی کیا کروں۔ تم اور تمہارے ابا جو کما کر لاتے ہو۔ اسی میں مہینہ پورا کرنا ہوتا ہے۔ روز گوشت پکانا تو مشکل ہے۔ علینہ ٹرے میں کھانا سجا کر لے آئی۔ ٹھنڈے شربت کا گلاس بھائی کو تھمایا۔ شربت پی کر علی کے چہرے پر کچھ رونق آئی۔ ٹرے اپنے آگے کر کے چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔علینہ نے بھجیا کے ساتھ پراٹھے ڈال دیے تھے۔ سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر نکل گیا۔ سطوت بیگم نے بھی سکون کا سانس لیا۔ یہ مسئلہ روز کا تھا۔ علی کھانے پینے کا بے حد شوقین تھا۔ اچھا کھانا اس کی کمزوری تھا۔ مگر روز تو پسند کا کھانا پکانا ممکن نہ تھا۔ اور پسند بھی کیا آج کل کے بچے تو بس گوشت اور مرغی کے آئیٹم ہوں تو سر جھکا کر چپ چاپ کھالیں گے۔ سبزی، دال کا حلق سے اترنا مشکل ہوتا ہے۔ سطوت بیگم علینہ کے ساتھ بازار آئی تھیں۔ پاپڑ، اچار، مسالے پاس کے بازار سے ہی خرید لیتی تھیں۔ مسالے والے نے اچار تولتے ہوئے بتایا باجی کڑھی، قورمہ، تکہ، بریانی مسالہ گھر کا بنا لے جائیں، وہ ڈبے والے مصالحے بھول جائیں گے۔ جی ہاں۔ جب یہ کھانے پکانے ہوں گے تو میں لے جاؤں گی۔ علینہ ماں کے پیچھے لگ گئی، ماں مسالے لے لیتے ہیں۔ صولت بیگم نے لاکھ سمجھایا۔ ہم کیا کریں گے ہم ان میں کون سا روز روز قورمہ یا اچار گوشت بناتے ہیں علینہ نے زد پکڑ لی، سطوت بیگم کا ماننا ہی پڑا۔ علینہ نے دکاندار سے، کڑھی، قورمہ، اچار والا گوشت، کباب تکہ مسالہ، بریانی مسالہ ایک ایک پاؤ پیک کروا لیا۔ راستے بھر سطوت بیگم علینہ کو سناتی آئیں۔ کیا کروگی اتنے مسالوں کا جب پکانا ہو۔ لے لیتے امی میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ روز بھائی کھانا دیکھ کر منہ بناتے ہیں ، اب نہیں بنائیں گے۔ کیوں اب ایسا کیا ہوگا آپ دیکھیے گا۔ آج لوکی اور چنے کی دال بنانے کا ارادہ تھا۔ علینہ کہنے لگئی۔ امی کھانا میں بناؤں گی ۔ نیکی اور پوچھ پوچھ سطوت بیگم بھی بے فکر ہو کر پڑوس کی خبر گیری کے لیے نکل پڑیں۔ علینہ نے لوکی کے سیخ کباب بنائے اور اچار گوشت مسالہ ڈال کر اچاری دال ۔ سطوت بیگم گھر میں داخل ہوئیں تو کچن سے خوشبو آ رہی تھی۔ علی نے بھی گھر آتے ہی سوال کیا۔ امی ، بڑی خوشبویں آ رہی ہیں کیا پکایا ہے آج علینہ نے کھانا بنایا ہے۔ جب تک علی کپڑے بدل کر آیا ، علینہ ٹھنڈے پانی کے گلاس کے ساتھ کھانے کی ٹرے بھی لے آئی ۔ گرم گرم پراٹھے، لوکی کے سیخ کباب اور اچاری دال خوب رغبت سے علی نے کھانا کھایا اور خوشی خوشی بہن کے سر پر ہاتھ رکھا اور دعائیں دیتا با ہر نکل گیا۔ سطوت بیگم نے بھی سکون کا سانس لیا۔ جب تک علی کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھا لیتا انہیں سکون نہیں آتا تھا۔ یہ مائیں بھی ناں۔ اب تو یہ روز کا معمول بن گیا تھا۔ علینہ روز نئی نئی ڈشیں بناتی اور علی خوش ہو کر کھانا کھا لیتا۔ ڈشیں تو وہی تھیں بس علینہ نے ترکیب بدل دی تھی۔ تری میں بریانی مسالہ ڈال کر پکاتی تو پورا گھر بریانی کی خوشبو سے مہک اٹھتا، ٹنڈے کا قورمہ، اچاری بھنڈی، سبزیوں کی کڑاہی ، چنے کا قورمہ، آلو تکہ مسالے میں۔ علی روز بغیر منہ بنائے کھانا کھاتا اور گھر میں ایسی خوشبو پھیلی ہوتی جیسے مٹن یا چکن کڑھ ، قورمہ بنا ہو۔ مسالے ختم ہونے کو تھے۔ علینہ کہنے لگئی۔ امی مسالے ختم ہو گئے ہیں۔ مارکیٹ جانا ہے۔ ہاں ہاں کل ان شا اللہ چلیں گے لسٹ بنا لینا کہ کون کون سے مسالے لینے ہیں ۔ ہاں امی اب کی بار بگھارے بینگن کا مسالہ اور چائینیز کا بھی کچھ سامان لوں گی۔ علینہ بیٹا تم نے تو مسئلہ ہی حل کر دیا۔ روز کھانا پکانے کے بعد بھی سوچ آتی کہ آج سبزی ہے۔ آج دال ہے۔ علی خوب منہ بنا بنا کر کھانا کھائے گا۔ لیکن تمہاری ترکیب کار گر رہی ۔ علینہ مسکرادی۔ امی سارا کمال خوشبو کا ہے۔ جتنے بھی ریسٹورنٹ اور کھانے کے اسٹال ہوتے ہیں۔ وہاں کے بنے کھانوں کی خوشبو سونگھ کر ہی کھانے کا دل کرتا ہے۔ پہلے خوشبو بکتی ہے پھر کھانا۔ اور آج کے دور میں ہم سب خوشبو کے پیچھے ہی تو بھاگ رہے ہیں تو بس یہی ٹرک کام آئی۔ امی زندگی میں تنوع بہت ضروری ہے ۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ ایک جیسی چیزوں سے بہت جلدا کتا جاتا ہے۔ کچھ تبدیلی کر لی جائے۔ ہمیں نیا نیا سا لگتا ہے۔ وہی چیزیں ہیں لیکن نئے انداز نے ذائقہ بدل دیا ہے اور علی بھائی کا موڈ بھی ۔ علینہ نے کہا تو سطوت بیگم مسکرا دیں ۔ آن لائن اردو کہانیاں اردو ناول شعاع شعاع ڈائجسٹ شعاع ڈائجسٹ کہانیاں | null |
null | null | null | 250 | https://www.urduzone.net/bay-sahara-aurat/ | جب ابو کی پنشن میں گزر بسر مشکل ہو گئی تو بھائی احسن نے ڈرائیونگ سیکھ لی اور ہمارے پڑوسی کی سوزوکی چلانے لگا۔ وہ روزانہ گاؤں سے سواریاں اٹھاتا اور لاری اڈے چھوڑ آتا ۔ اس طرح ہماری گزر اچھی ہو جاتی تھی۔ احسن نے میٹرک تک پڑھا، آگے حالات نے اجازت نہ دی۔ اسے مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا مگر ابو بوڑھے ہو چکے تھے اور ہم خدا کے فضل سے چھ بہنیں بیاہی جا چکی تھیں ، بس ایک بہن رہتی تھی۔ اب اس کے ہاتھ پیلے کرنے تھے۔ احسن ہمارا سب سے چھوٹا اور اکلوتا بھائی تھا۔ ایک دن وہ سواریاں لے کر گاؤں آنے لگا تو چاچا کو دیکھا۔ وہ شہر سے آئے تھے۔ بھیا نے سوزوکی روکی اور انہیں ساتھ بٹھا لیا۔ گھر پہنچ کر چاچا نے بڑی تعریف کی کہ احسن بہت اچھی گاڑی چلاتا ہے۔ چند روز ہمارے گھر قیام کے بعد جب وہ جانے لگے تو احسن کو بھی ساتھ لے لیا۔ شہر آکر چچا نے بھیا کی نوکری کی کوشش کی۔ بالآخر احسن کو ملازمت مل گئی اور وہ نرسنگ ٹریننگ سینٹر کی بس چلانے لگا۔ وہ ہر ماہ تنخواہ میں سے اپنا خرچہ نکال کر باقی پیسے گھر بھیج دیتا۔ یوں ہمارے مالی حالات کو سہارا ملا۔ اس ملازمت کی وجہ سے اب بھیا کو شہر ہی میں رہنا تھا۔ گاؤں کا سیدھا سادا لڑ کا جب شہر میں گیا تو بہت جلد ہوشیار ہو گیا۔ اس کی دوستی ایک لڑکے نیاز احمد سے ہو گئی، جو کالج کی بس چلاتا تھا اور سینٹر کے کوارٹر میں رہتا تھا۔ اس کوارٹر کا کرایہ چار سو روپے تھا، تاہم وہ یہ کرایہ بھی بمشکل ادا کر پاتا تھا۔ اس نے احسن سے کہا کہ تم میرے ساتھ رہائش اختیار کر لو تو اس طرح میرا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا اور تم کو بھی آدھے کرایے پر رہائش میسر آجائے گی۔ چچا بھی ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ وہ پہلے ایک افسر کی جیپ چلاتے تھے۔ احسن نے سوچا، بجائے چاچا پر بوجھ بننے کے کیوں نہ دوست کی پیش کش قبول کرلوں تبھی یہ دونوں ایک ہی کوارٹر میں رہنے لگے۔ بھیا کی یہ عادت تھی کہ بس چلاتے وقت اترنے اور چڑھنے والوں پر نظر رکھتا تھا۔ کچھ دونوں سے بس میں ایک نیا چہرہ دیکھ رہا تھا، شیشے میں جس کی آنکھیں کئی بار بھائی کی آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔ یہ ایک فیشن ایبل لڑکی تھی۔ ہلکے پھلکے فیشن سے اس کا حسن دوبالا اور شخصیت نکھری نکھری لگتی تھی تبھی وہ احسن کو اچھی لگنے لگی۔ دل میں اسے ایک حسرت سی ہوتی کہ کاش اس مہ جبیں سے بات ہو سکتی۔ جلد ہی یہ آرزو پوری ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ایک روز جب وہ لڑکی بس میں سوار ہوئی تو ٹکٹ چیکر کی اس سے تکرار ہوگئی۔ اتفاق سے لڑکی کی سیٹ ڈرائیور کے عقب میں تھی۔ بھائی نے مڑ کر دیکھا اور چیکر سے کہا۔ عاصم بھائی کیا بات ہے کیوں الجھ رہے ہو احسن بھائی ، اس لڑکی نے ٹکٹ نہیں لیا اور بس میں سفر کر رہی ہے ۔ رقم مجھ سے لے لینا، اس کے ساتھ تکرار مت کرو۔ ممکن ہے رقم گھر بھول آئی ہو۔ اس احسان کے بعد وہ لڑکی میرے بھائی کی بے حد ممنون ہوئی اور منزل پر پہنچ کر بس سے اترتے وقت اس نے رک کر شکر یہ ادا کیا۔ احسن یہی تو چاہتا تھا کہ کسی طور لڑ کی سے بات ہو۔ اللہ نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پھر سے ٹکٹ چیک کرتے ہوئے چیکر نے شکایت کی۔ احسن بھائی آج بھی یہ لڑکی ٹکٹ نہیں لے رہی ہے۔ اچھا یار معمولی بات ہے ، تم جھگڑا مت کرو۔ ٹکٹ کی رقم مجھ سے لے لینا۔ یہ بات بھائی نے آہستہ سے کہی تا کہ دوسرے مسافر نہ سن لیں۔ اگلے دن بس سے اترتے وقت اس لڑکی نے ایک رقعہ میرے بھائی کے ہاتھ میں دیا اور اتر گئی ۔ احسن نے حیرت سے اس رقعے کو کھول کر پڑھا، لکھا تھا۔ آپ کا شکریہ ، دوبارہ مدد کر کے مجھے بھری بس میں بے عزتی سے بچالیا۔ ان شا اللہ کبھی نہ کبھی آپ کو رقم لوٹا دوں گی۔ فی الحال مالی حالات ابتر ہیں، کہتے ہوئے حجاب آرہا ہے لیکن یقین جانئے، بہت مشکل میں ہوں۔ اگر میری مدد کر سکیں تو احسان ہوگا۔ اگلے روز جب وہ بس میں سوار ہوئی تو احسن کو یوں دیکھا جیسے جواب چاہتی ہو تبھی بھائی نے اس کو نیاز کے کوارٹر کا پتا دے دیا۔ وہ شام کو خودہی وہاں آگئی ۔ اسے دیکھ کر نیاز کوارٹر سے چلا گیا تا کہ یہ دونوں آسانی سے بات کر سکیں۔ لڑکی نے بھیا کو اپنی داستان سنائی اور مسائل بتا کر کہا۔ میں اس شہر میں ٹریننگ کے لئے آئی ہوں۔ میرے لیے پردیس ہے اور یہاں میرا کوئی نہیں ہے۔ ایک سہیلی کے پاس رہتی ہوں مگر وہ میری مالی مدد نہیں کر سکتی ۔ گھر سے کبھی رقم آجاتی ہے اور کبھی نہیں، تب بہت مشکل ہوتی ہے۔ نجانے کیوں آپ کو دیکھ کر ایسا لگا کہ آپ میری مدد کر سکتے ہیں اور میں مدعا بیان کروں گی تو انکار نہ کریں گے۔ اس کی ماں گاؤں میں رہتی تھی اور کھجور کے پتوں سے ہاتھ کے پنکھے، چٹائیاں اور چنگیریں بناتی تھی۔ وہ کبھی رقم جوڑ پاتی اور کبھی نہیں، اب بیماری کے سبب اسپتال میں داخل ہونا پڑا ۔ رقم کوکیا بجھواتی سردست اس کو علاج کے لئے رقم درکارتھی۔ اس لڑکی کا نام صبور تھا۔ وہ کچھ رقم بھی لائی تھی ، جو اس نے ماں کو بھجوائی تھی مگریہ ناکافی تھی۔ بھائی نے اس کو تسلی دی اور اپنی طرف سے اور روپے ملا کر اس کی ماں کو یہ رقم منی آرڈر کر دی۔ وہ بہت ممنون ہوئی۔ اس کے بعد ان کی جان پہچان ہو گئی ۔ اب جب وہ پریشان ہوتی یا کوئی مسلہ ہوتا، وہ نیاز احمد کے کوارٹر میں احسن سے ملنے آجاتی اور اپنی مشکل بیان کر دیتی تھی۔ احسن بہت مہمان نواز تھا، وہ اس کی بھی مہمان نوازی کرتا۔ کبھی اس کا دوست بھی موجود ہوتا ۔ ان کی کوئی بات اس سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اگر بھائی کچھ دنوں کے لئے گاؤں آجاتا اور پیچھے ملنے صبور آتی تو نیاز اس کی مہمان نوازی کرتا کہ اس کے دوست کی مہمان تھی۔ جب احسن گاؤں سے لوٹ کر شہر جاتا اس کا دوست بتا دیتا کہ صبور آئی تھی۔ بھائی کو بھی نیاز اور صبور پر کبھی بھی شبہ نہیں ہوا۔ اسی دوران چھوٹی بہن کی شادی قریب آگئی اور امی نے احسن کو بلوا لیا۔ یہاں آکر شادی کے سارے معاملات اس نے ہی دیکھنے تھے کہ والد بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان میں اب اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ ذمہ داریاں اٹھا سکتے ۔ اللہ کا فضل ہوا اور بہن کی شادی بہ خیر و خوشی انجام پاگئی ۔ اب احسن کی شادی کی باری کی تھی۔ بیٹیاں سب اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں ۔ امی ابو چاہتے تھے کہ بیٹے کی دلہن آئے ، اس کا گھر بھی بس جائے۔ وہ احسن پر زور دے رہے تھے کہ تم اپنی پھوپی کی بیٹی سکینہ کے بارے سوچو۔ وہ اچھی لڑکی ہے، میٹرک پاس ہے، سلیقہ مند اور گھریلو کاموں میں طاق ہے۔ اپنی بچی ہے تمہارا گھر بسائے گی اور ہماری بھی بڑھاپے میں خدمت کرے گی۔ میں سوچ کر جواب دوں گا ۔ یہ کہہ کر احسن شہر چلا گیا۔ احسن نے صبور سے شادی کا وعدہ کیا ہوا تھا، لہذا شہر آکر اس سے بات کرنے کا سوچا۔ وہ کوارٹر آئی مگر بھائی کو دیکھ کر خوش نہ ہوئی۔ اس کے لہجے میں پہلے جیسی چاہت اور گرم جوشی نہ تھی بلکہ سرد مہری سی تھی، جس کو میرے بھائی نے محسوس کیا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھی ، پھر چلی گئی۔ یہ تک نہ پوچھا کہ اتنے دن گاؤں میں کیوں رہے کس وجہ سے گئے تھے اور کیوں زیادہ چھٹیاں لیں۔ تمہارے گھر والے تو ٹھیک ہیں۔ یعنی اس نے رسمی سوالات بھی نہ کئے بلکہ اس طرح بیٹھی رہی جیسے اس کا دل احسن کے ساتھ نہیں لگ رہا ہے۔ اس کے رویئے سے بھیا کے دل کو ٹھیس آئی مگر وہ کچھ نہ بولے کہ ممکن ہے کہ کوئی پریشانی ہو۔ پہلے اگر کوئی پریشانی ہوتی تھی تو وہ میرے بھائی کوضرور بتائی تھی مگراب گم صم تھی۔ دوسری بار بھی احسن نے صبور میں وہ محبت نہ دیکھ جو تین ہفتے پہلے تھی۔ اس کی غیر حاضری سے گویا، پندرہ دن میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ اس کی دوستی نیاز سے ہوئی تھی۔ اب وہ اسے چاہنے لگی تھی اور نیاز بھی اس میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ بھائی نے دوست پر اعتماد کیا، جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور لڑکی کو اپنی جانب کر لیا۔ ایک دن صبور بس میں نظر نہ آئی اور جب احسن کوارٹر پہنچا تو نیاز بھی نہیں تھا ۔ وہ انتظار کرتا رہا کہ شاید دیگر دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا ہو لیکن یہ انتظار ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا۔ تب احسن کو شک ہونے لگا کہ اتنی لمبی غیر حاضری اور اس کو اطلاع تک نہیں کی۔ کیا وجہ ہو گی ادھر صبور بھی نظر نہ آئی اور نہ ملنے ہی آئی۔ اب اس کے دل میں ان دونوں کے بارے اور طرح کے خیالات آنے لگے، پھر ایک روز یہ شک اس روز یقین میں بدل گیا۔ جب صبح ہی صبح مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہوئے اس کی نظر ایک گاڑی پر پڑی جس میں نیاز اور صبور بیھٹے ہوے تھے۔ فورا اس کے دل پر اس گمان نے شب خون مارا کہ کہیں دونوں نے مل کر اسے دھوکا تو نہیں دیا اس نے نیاز کے ایک دوست سے پتا کیا، جس نے بتایا کہ اس نے صبور نامی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ احسن کا سر گھومنے لگا، وہ نوکری چھوڑ ، سامان اٹھا کر گھر آگیا۔ کچھ دن میرا بھائی بہت بجھا بجھا اور اداس رہا۔ امی ابو نے بہت پوچھا۔ ان کو کچھ نہ بتایا لیکن مجھ سے اس کی بہت بنتی تھی، لہذا مجھ سے دل کی بات کر کے من کا بوجھ ہلکا کر لیا۔ تمام آب بیتی سنادی اور کہا کہ امی ابو کو نہیں بتاتا، ورنہ ان کو صدمہ ہوگا۔ میں نے شہر کی نوکری چھوڑ دی ہے۔ شہر میں ایک دوست بن گیا تھا۔ اس کا بڑا بھائی دبئی میں رہتا ہے اور ویزوں کا کام کرتا ہے، مگر اس کو رقم دینی ہوگی ۔ سوچ رہا ہوں، کہیں سے رقم کا انتظام ہو جائے تو دبئی چلا جاؤں۔ اپنے بھائی کو اس قدر دکھی اور پریشان دیکھ کر میرا دل بھی ماندہ ہو گیا۔ میں نے اسے تسلی دی اور اپنے ہاتھ کی چوڑیاں اتار کر اس کو دیں۔ کہا کہ ان کو فروخت کر کے دبئی جانے کا انتظام کر لو۔ زیور کا کیا ہے پھر سے بن جائے گا۔ احسن چوڑیاں نہیں لے رہا تھا تا ہم میں نے اصرار کر کے اس کو دے دیں۔ اس طرح وہ دبئی چلا گیا۔ اللہ تعالی نے وہاں اس کا رزق لکھا تھا۔ پہلے چھوٹی موٹی نوکری ملی پھر اچھی ملازمت مل گئی محنتی اور دیانت دار ہونے کی وجہ سے سیٹھ قدر کرتا تھا۔ اس نے بیٹا بنا کر رکھا ۔ اس طرح اچھی تنخواہ ملنے سے ہمارے گھر میں خوشحالی آئی اور مالی حالات سدھرنے لگے۔ نیا فرنیچر ٹی وی، واشنگ مشین، فریج، غرض ضرورت کی سبھی اشیا اور سہولتیں میسر آئیں۔ چھ برس کی محنت و مشقت کے بعد والدین نے بالآخر اس کو شادی کے لئے منا لیا اور پھوپھو کی بیٹی سے اس کی شادی کر دی ۔ شادی کے بعد بھائی کی اپنی بیوی سے بن گئی اور دونوں خوش رہنے لگے۔ احسن نے تین سال بعد بھابھی کو دبئی بلوا لیا۔ اس وقت وہ دو بچوں کی ماں تھیں ، باقی دو ان کے بچے دبئی میں ہوئے۔ اب وہ چار بچوں کے والدین تھے اور خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب موقع بنتا، آکر ہم سے مل جاتے ۔ امی ابو میرے ساتھ رہتے تھے۔ میں اپنے چاچا کی بہو بنی تھی اور میرے شوہر کو انہوں نے گھر داماد بنالیا تھا کیونکہ چچا کے ماشا اللہ تین بیٹے اور بھی تھے۔ امی ابو پیرانہ سالی میں اپنے بیٹے سے جدائی کاٹ رہے تھے، لہذا چاچی اور میرے شوہر نے بھی یہی بہتر جانا کہ میں اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ رہوں۔ میری دوسری بہنیں، دور کے رشتہ داروں میں اور تین غیروں میں بیاہی گئی تھیں، لہذا میرے ساس اور سسر کا سب سے قریبی رشتہ بنتا تھا۔ یوں اس مشکل وقت میں اپنے میرے والدین کے کام آئے۔ بھائی بھابھی کو دبئی رہتے چھ برس گزر چکے تھے۔ وہ صرف چھٹیوں میں ہی چند دنوں کے لئے آتے تھے کیونکہ روزی کا معاملہ تھا۔ وہ وہاں بہت اچھا کام کر رہے تھے جبکہ اپنے وطن میں گریجوئیٹس بچارے بے روزگار پھرتے تھے۔ احسن بھائی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ بھی صبور اچانک مل جائے گی۔ وہ تو ایسے غمزدہ ہو کر شہر سے ملازمت چھوڑ کر نکل گئے کہ دوبارہ پلٹ کر بھی وہاں نہیں گیا۔ نہ ہی کبھی نیاز کا پتا کیا۔ ایک روز اپنی کمپنی کے کام سے انہیں، دوائیوں کی ایک بڑی کمپنی جانا ہوا۔ شام کے تقریباً چار بجے تھے، جب وہ منیجر کے دفتر سے نکلا۔ کمپنی کے سامنے والے بس اسٹاپ پر اس نے صبور کو بس کے انتظار میں سلگتے پایا۔ وہ حسن کی دیوی مرجھا چکی تھی، چہرہ بے رونق تھا، کپڑے بوسیدہ اور میلے تھے۔ وقت سے پہلے بڑھاپے کے آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ احسن نے اپنی کار اس کے قریب جا کر روک لی۔ اس کو دیکھ کر وہ چونک پڑی۔ بھائی نے مجھے بتایا تھا۔ رابی میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ کیا یہ وہی صبور ہے، جس نے مجھ سے پیار کی قسمیں کھائی تھیں اور جیون بھر ساتھ نباہنے کا وعدہ کیا تھا۔ جو فیشن والے شوخ رنگ کپڑے پہنتی تھی اور غربت کے باوجود لڑکیوں میں نمایاں نظر آتی تھی۔ جو اتنی خوش شکل تھی کہ چہرے پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ اس کو اچانک دیکھ کر بھول ہی گیا کہ وہ کسی اور کی ہو چکی ہے۔ فوراً اس کی طرف گیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اسی کمپنی میں دوائیں پیک کرنے کا کام کرتی ہے۔ نیاز نے شادی کے ایک سال بعد ہی اس کو چھوڑ دیا تھا۔ ماں فوت ہوگئی اور نرسنگ ٹریننگ نیاز کی وجہ سے مکمل نہ کر سکی۔ دردر کی ٹھوکریں کھائیں، کسی رشتہ دار نے پناہ نہ دی۔ آخر ایک دور کے رشتہ دار نے جو عرصے سے دبئی میں قیام پذیر تھا، ترس کھا کر دبئی میں ملازمت کروادی۔ ویزہ بھی کمپنی کی طرف سے ملا۔ یہ بتا کر وہ رونے گی۔ مجھے معاف کرو دو احسن میں نے تمہیں دھوکا دیا۔ برے آدمی کو اچھا سمجھا اور اچھے کی قدر نہ کی۔ مجھے اس بے وفائی کی سزا ملی ہے۔ مجھے معاف کردو۔ کوئی بات نہیں۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہوتے ہیں۔ تم میری قسمت میں ہی نہ تھیں ۔ احسن بھائی نے اس کو جواب دیا ۔ اس پر وہ منت کرنے لگی کہ احسن میں بہت تھک گئی ہوں۔ اب نوکری نہیں کر سکتی۔ میرا کوئی نہیں ہے، تم مجھے اپنا لو۔ میں بے سہارا ہو گئی ہوں۔ ساتھ کام کرنے والی لڑکی کے ساتھ آدھے کرایے پر رہ رہی ہوں ۔ نجانے کب یہ رہائش خالی کرنا پڑ جائے۔ میرا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ بھائی نے مجھے بتایا کہ اس وقت صبور کی حالت پر دل بہت کڑھا تھا، مگر میں اب حقیقت کی دنیا کا باسی ہو چکا تھا، جہاں دل کے معاملات سے زیادہ دوسرے حقائق اہم ہوتے ہیں، سو اسے کہا کہ صبور میں ضرور ایسا کر لیتا، میرے دل میں اب بھی تمہارے لئے جگہ ہے۔ اس حال میں ہرگز تم کو بے آسرا نہ چھوڑتا مگر کیا کروں، بہت مجبور ہوں۔ میری شادی ہو چکی ہے۔ اب میں چار بچوں کا باپ ہوں۔ میں اپنی بیوی کو کیسے دھوکا دوں۔ وہ بے لوث محبت کرنے والی، با وفا عورت ہے اور پھوپھی زاد بھی۔ یہ الفاظ بھائی اس سے کہنا نہ چاہتا تھا مگر بڑی مشکل سے کہنے پڑے کیونکہ انکار نہ کرنا، جھوٹی آس دلانا کسی کو دھوکے میں رکھنا ہوتا ہے۔ شاید صبور کی التجا پر وہ اس سے شادی کر بھی لیتا مگر وہ بیوی کی خوشیوں کو برباد کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ احسن کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کا بہت ہی کٹھن لمحہ تھا۔ ایک ایسا موڑ کہ نہ پیچھے ماضی میں پلٹ سکتا تھا اور نہ قدم آگے بڑھتے تھے۔ وہ مایوس ہو کر کار سے اتر گئی اور تھکے تھکے قدموں سے دور ہوتی چلی گئی۔ وہ اسے دور تک جاتے دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اب بھی جب اس لڑکی کی حالت زار اور مایوسی کا خیال آتا ہے تو دل ڈوب جاتا ہے۔ اور یہ سوچ تنگ کرنے لگتی ہے کہ کاش ۔ میں اس لٹی ہوئی عورت کو سہارا دے سکتا۔ | null |
null | null | null | 251 | https://www.urduzone.net/khojh-episode-20/ | میں نے اللہ کے ایک بندے پر جرح چھوڑ دی اُلٹا اُسے نواز دیا، مجھے اُمید ہے میرا اللہ اِس کا پاس رکھے گا۔ وہ بھی اِن شا اللہ مجھے بغیر جرح کے نواز دے گا۔ بِلّو عبادت کی قضا تو ممکن ہے مگر جو زندگی غفلت میں گذر جائے اُس کا کیا ہر دم اپنی ذات کی نفی کرتے رہنا چاہیئے، جو جتنا مٹا، راہِ ہدایت اُس پر اُتنی ہی مر مٹی۔ بِلّو جو فقیر غصے میں ہو اِسے بھیک نہیں ملا کرتی۔ غصہ تھوک دینا چاہیئے۔ عبداللہ نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے، اے اللہ میں نے ان تمام لوگوں کو معاف کیا جو بغیر کسی وجہ کے مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، تو بھی مجھے بغیر کسی وجہ کے معاف کر دے۔ اے اللہ، اِس ملک میں تو نیتوں کی بھی چوری ہوجاتی ہے۔ میں تیرے لئے کام شروع کرتا ہوں مگر نفس اسے بیچ میں سے اُچک لیتا ہے۔ اللہ مجھے نیتوں کے چوروں سے بچا۔ میں اپنی نیتیں تیری اَمان میں دیتا ہوں۔ اے اللہ تو ہر عیب سے پاک ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ تعریف بھی تیرے ہی لئے ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں نے بہت بُرے کام کئے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتا رہا ہوں۔ اے میرے مالک مجھے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما اور میری توبہ کو قبول فرما، بلاشبہ تو توبہ کو بہت قبول فرمانے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔ عبداللہ کو آج علی الصبح فون کال ملی ماہر بھائی کے پاس سے کہ کراچی والے مولوی صاحب اِسلام آباد سے گھنٹے کی دُوری پر ایک گاؤں میں آئے ہوئے ہیں۔ اپنے ہی ایک مدرسے کی گریجویشن میں اور اگروہ ملنا چاہے تو وہاں چلا جائے۔ عبداللہ نے گاڑی نکالی اور روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب ابھی پہنچے نہیں ہیں۔ وہ خاموشی سے مسجد میں بیٹھ گیا۔ وہاں گریجویشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں، کچھ ہی دیر میں عبداللہ بور ہوگیا۔ خیر مولوی صاحب آگئے اور فنکشن شروع ہوا۔ مدرسے کے ایک طالبِ علم نے آکر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی شان میں انگریزی میں تقریر کی۔ لوگوں نے خوب داد دی، عبداللہ فنکشن کے آخر میں اِس بچے سے مِلا اور کہا کہ گو کہ اِس کی انگریزی باقی لوگوں کی نسبت بہتر ہے کہ گاؤں میں کسی کو ڈھنگ سے اُردو بولنا نہیں آتی تو انگریزی تو دِلّی ہنوز دُور است۔ عبداللہ نے سمجھایا کہ برخوردار تم سوچتے اُردو میں ہو اور بولتے انگریزی میں ہو اِسی لئے گرامر کی ایسی غلطیاں کرتے ہو کہ حد لگ جائے۔ اِن جھوٹی تالیوں میں آ کر یہ نہ سمجھنا کہ کچھ آگیا ہے۔ میں تمہیں کچھ کتابیں بھیجوں گا وہ پڑھو اور پھر شہر میں آکر تقریری مقابلوں میں حصہ لو کہ پتہ ماری کی محنت کرنی پڑے۔ تھوڑی دیر بعد کھانے پر مسجد کے مہتمم صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ کراچی والے مولوی صاحب کے معتقدین میں سے تھے۔ کہنے لگے کہ آپ حضرت کو کیسے جانتے ہیں عبداللہ جینز ٹی شرٹ میں ہونے کی وجہ سے پوری مسجد میں انوکھا ہی لگ رہا تھا۔ جی جانتا کہاں ہوں، تعارف ہے۔ جانا تو آج تک اپنے آپ کو بھی نہیں۔ مہتمم صاحب نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا کہ ہمارے حضرت بڑے مقام والے ہیں۔ کیا شان ہے، کیا تقویٰ، ایسے لوگ تو اَب نایاب ہوگئے ہیں جی۔ اللہ کی کیسی کیسی فضیلتیں سمیٹتے ہیں کیا بتاؤں ایسے اچھے ہیں کہ بس کیا بتاؤں عبداللہ نے حد الامکان کوشش کی کہ خاموش رہے مگر کیا بتاؤں کی گردان نے سارے بند توڑ دیئے۔ اچھا یہ بتایئے کہ آپ اپنے حضرت کی جگہ کب لیں گے عبداللہ نے سوال داغا۔ جی کبھی نہیں، وہ کہاں ہم کہاں۔ عبداللہ نے سوچا اس کا کوئی اسٹوڈنٹ ایسا کہتا تو شاید وہ گولی مار دیتا۔ جناب ہمت کریں، آپ جیسے کم ہمت شاگرد اللہ کسی کو کیا، آپ کو بھی نہ دے۔ ظاہر ہے اِن جملوں کی توقع کسی کو نہ تھی۔ حضرت جی کے خوف سے شاید کچھ رعایت کرلی ورنہ عبداللہ کو آج پھر پھینٹی پڑنی تھی۔ رات کا وقت آیا تو احساس ہوا کہ مسجد میں تو ایک کمرہ ہے جہاں دو لوگ سو سکتے ہیں اور اس میں ایئرکنڈیشنر ہے۔ مولوی صاحب نے پوچھا کہ میں اور آپ کمرہ اِستعمال کرسکتے ہیں۔ نہیں جناب میں مچھروں میں سوسکتا ہوں۔ روشنی میں نہیں۔ وہ آپ کے مرید صاحب کہہ رہے تھے کہ رات کو کوئی فضل و نور کی بارش ہوتی ہے تو اِتنی روشنی میں مجھے نیند کہاں آئے گی۔ مولوی صاحب ہنسے ہنستے کشتِ زعفران ہوگئے۔ آخر کار عبداللہ کو اکیلے کمرہ دے دیا گیا اور مولوی صاحب دالان میں چارپائی پر سوگئے۔ عبداللہ اِس مہمان نوازی پر بڑا خوش ہوا۔ صبح نماز کے بعد واپسی تھی۔ فجر میں بچوں کی ایک کثیر تعداد نظر آئی، سب کے سب دُھلے دُھلائے پاک صاف سفید کپڑوں میں بالکل اپنے معصوم دِلوں کی طرح۔ عبداللہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اگر دلوں کی رنگت کپڑوں پر آجاتی، اگر رُوح کے زخم کپڑوں پر لگ جاتے تو اس نے سوائے کالے سیاہ چیتھڑوں کے علاوہ کچھ نہ پہنا ہوتا۔ فجر کے بعد عبداللہ نے ایک بچے کو جس کی عمر کوئی سال سے تھوڑا ہی شرما رہی ہو گی روک کے پوچھا کہ آپ ہر روز سفید کیوں پہنتے ہو۔ جی۔ وہ، یہ کفن کا رنگ ہے نا تاکہ موت یاد رہے۔ عبداللہ کا دل پھر بجھ گیا، وہ واپسی یہ سوچتا ہوا آیا کہ اُمید زندگی ہے۔ آس ہے، ہمت ہے۔ اِس عمر میں صرف جینا سکھانا چاہیئے۔ موت کے اِنتظار میں بیٹھے لوگ کچھ کم ہی کر پاتے ہیں۔ عبداللہ سارے راستے یہ شعر دُہراتے ہوئے آیا نامناسب ہے خون کھولانا پھر کسی اور وقت مولانا آج پھر پیپل بھائی کی باری آئی۔ آج عبداللہ سننے کے موڈ میں تھا۔ لہٰذا گھنٹوں خاموش بیٹھا رہا۔ کچھ دیر میں عورتوں کا ایک گروہ گذرا جنھوں نے پانی کے مٹکے سروں اور پہلوؤں پر اُٹھائے ہوئے تھے اور خراماں خراماں چل رہی تھیں۔ اتنے میں پاس سے گاڑی گذری۔ ایک عورت اچانک آواز سے دھڑکی اور سر سے مٹکا اُڑ کے زمین پہ آیا اور دھڑام سے ٹوٹ گیا۔ ٹوٹے ہوئے مٹکے کے ایک نسبتاً بڑے سے ٹکڑے میں صرف اِتنا پانی رہ گیا جتنا کہ بوڑھے باپ کے پاس جوان بیٹی بیاہنے کے بعد مال گھر پہنچتا ہے۔ دھیمی چال والوں کا ٹولہ گذر گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک گلہری آئی اور پانی پی کر چلی گئی۔ عبداللہ کی آنکھ سے اتنے آنسو نکلے کہ پیپل درخت کی ساری میموری ہی واش ہوگئی ہوگئی۔ وہ سوچنے لگا کہ ہم بھی پانی کی طرح اعمال جمع کرتے رہتے ہیں۔ تقویٰ کے مٹکے میں اور جن کا مٹکا جتنا بھاری ہوتا ہے وہ اتنے ہی آرام سے پیر اُٹھاتے اور رکھتے ہیں کہ گھاس بھی نہ دبے اور جو لوگ عبداللہ کی طرح کھلنڈرے ہوتے ہیں وہ اُچھل کود میں مٹکا تڑوا بیٹھتے ہیں، پھر کوئی آ کے سیراب ہوجائے تو اللہ کی شان۔ قرآن میں اللہ نے اپنی ایک صفت ذِی المعارج سیڑھیوں والا بتائی ہے کہ مومن کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ وہ ہر سیڑھی پراللہ سبحانہ وتعالیٰ کو پاتا ہے اور عجائب در عجائب کی ایک نئی دُنیا روشن ہو جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ شکر کا دروازہ کھول دے اور نعمت کا بند کر دے۔ تصوّف نام ہی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور وعدہ وعید کو جاننے اور ان پر یقین کا نام ہے۔ جیسے جیسے اِس یقین پر اضافہ ہوتا رہتا ہے، بندے کو اپنے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی موجودگی کا احساس ہوتا رہتا ہے اور یہ احساس شریعت پر پابندی کو آسان بنا دیتا ہے۔ عبداللہ کو لگا کہ اُس کا مٹکا پہلی سیڑھی پر ہی ٹوٹ گیا اور وہ پچھلی دو دہائیوں سے وہیں بیٹھا ہے۔ یہاں صرف سوال اُگتے ہیں اور عبداللہ سوالوں کی فصل کاٹتے کاٹتے تھک چکا تھا۔ ہر جواب کا ایک وقت ہوتا ہے۔ سوال کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ عبداللہ کی حالت اِسی بھکاری کی سی تھی جو جب تک نہ ٹلے جب تک اسے دروازے سے کچھ مِل نہ جائے۔ ویسے بھی جس شخص کی کُل کائنات یقین ہو اسے ہار جانے کا خوف نہیں رہتا۔ عبداللہ کو کچھ اطمینان تھا کہ جب رُوح قبض ہوگی تو بھلے پہلی سیڑھی ہی کیوں نہ سہی، راستے میں تو بیٹھا تھا، اللہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں کا خوب خیال رکھتے ہیں۔ کئی روز گذر گئے۔ عبداللہ مٹکا ٹوٹ جانے والی بات میں محو تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیونکر اُٹھے، کیسے پھر سے بھرے، کیسے نہ ٹوٹنے دے۔ دل میں خیال آیا کہ ان کے پاس چلا جائے جن کے پاس پانی کی ٹنکیاں ہوتی ہیں تا کہ سیراب ہو سکے تو بیعت کے لیے صحبت ضروری ہے۔ سیکھنے کے لئے کسی زندہ آدمی سے تعلق رکھنا ہی پڑتا ہے۔ کتابیں اور فیس بک کا فائدہ تھوڑا ہی ہے۔ جو علم اور اللہ کی معرفت صحبت سے ملتی ہے، کتاب اُس کا دھوکا ہوتی ہے۔ معرفتِ الٰہی مشینوں سے مِلا کرتی تو ہر شخص ولی اللہ ہوتا۔ کبھی کبھی رُوح پر بھی فالج گرجاتا ہے اور آدمی کو نیکی یا برائی کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ عبداللہ نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔ اے اللہ، اے اللہ سائیں ٹوٹے ہوئے مٹکے والوں کو معاف کردے۔ میرے ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی ڈال دے۔ اے اللہ دل صحرا ہوگیا ہے۔ اسے سیراب کر۔ اے اللہ، کمپنی چلانے کے لیے اچھے لوگ چاہئیں۔ اچھے مرد چاہئیں جنہیں تو نے قرآن میں رِجال کہا ہے۔ اے اللہ، لوگ تجھ سے صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی کا سوال کرتے ہیں۔ میں تجھ سے ڈیٹا سائنٹسٹ مانگتا ہوں اور کوشش کروں گا کہ نتیجہ وہی آئے۔ اللہ ایسے لوگوں سے میری مدد فرما جو سمندر کی گہرائیوں سے اتھاہ ہوں اور ہمت ایسی کے پہاڑ بے بس نظر آئیں۔ اللہ عافیت فرمائیں۔ اللہ میں تیری سلطنت میں تنہا رہ گیا ہوں۔ اجنبی ہوں، میری اجنبیت کا خیال کر، اگر میں یہ جان لیتا کہ مجھے عذاب دے کر تیری سلطنت کو بڑھاوا ملے گا تو میں کبھی اپنی معافی کا طلبگار نہ ہوتا۔ میں تجھ سے بخشش کا سوال ہرگز نہ کرتا۔ مگر اے شہنشاہ، تیرے سوا کوئی جائے اُمید نہیں، کوئی ٹھکانہ نہیں، کوئی جائے پناہ نہیں۔ تو صرف و صرف اپنے کرم سے بخش دے۔ میرے اللہ قیامت میں سب چلے جائیں گے جنت میں جنہیں تو نے چاہا۔ جنہیں نہ چاہا وہ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ مجھے اپنے اعمال سے خطرہ ہے کہ صرف میں پیچھے رہ جاؤں گا سخت ترین سزا کے لئے میرے گناہ ہوں گے اور تیری رحمت اور تو باقی رہے گا۔ باقی سب فانی۔ میرے گناہوں کو بھی فنا کر دے۔ اے اللہ تو اپنے نمازی بندوں کے اعضائے سجدہ کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرما دیتا ہے اور درحقیقت محفوظ فرمانے والا تو ہی ہے۔ اے بے نیاز ذات، بے پرواہ مالک کے لئے قصور وار غلام کو آزاد کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے۔ اپنے اِس فانی غلام پر احسان فرما اور اعضائے سجدہ کی طرح باقی جسم کو بھی جہنم سے محفوظ فرما دے ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی ڈال دے میرے اللہ آمین ۔۔۔ ۔۔۔ آج عبداللہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس کی کمپنی امریکہ میں رجسٹرڈ ہوگئی تھی، اسے فیملی سمیت ایکسٹرا اورڈنری ویزہ مِل گیا تھا اور ڈیٹا سائنسز کے ایک آن لائن کورس میں وہ دنیا میں ٹاپ ٹین میں آگیا تھا۔ عبداللہ نے پڑھائی اور بڑھادی اور امریکہ واپس شفٹ ہونے کی پلاننگ کرنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے ایک بار اور اعتکاف میں بیٹھ جائے مفتی صاحب کے ساتھ۔ ابھی عبداللہ امریکہ میں کمپنی کی پلاننگ ہی کر رہا تھا کہ اسے امریکہ کی ہی ایک بڑی کمپنی سے جاب کی آفر آگئی۔ تنخواہ اور مراعات اتنی زیادہ کہ عبداللہ شاید زندگی بھر میں اپنی کمپنی سے اتنے پیسے نہ کماسکے۔ عبداللہ کو بڑی حیرت ہوئی کیونکہ تنخواہ اس کی مارکیٹ ویلیو سے کم از کم گناہ زیادہ تھی۔ عبداللہ نے کچھ ریسرچ کرنے کا سوچا۔ ہفتے بھر کی محنت رنگ لائی۔ اُس نے دیکھا کہ جس کمپنی نے اُسے جاب دی ہے اُس پوزیشن پر وہاں کوئی سال سے زیادہ نہیں ٹکا اور تمام لوگ جنہوں نے وہاں سروس کی وہ سارے مسلمان ممالک سے ہی تھے۔ بڑی عجیب بات تھی کہ ایک امریکی کمپنی میں سالوں سے بھی زائد عرصے میں کوئی امریکن جاب کے لیے نہیں مِلا۔ عبداللہ نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے لوگ ایسے نکال ہی لئے جنہوں نے ملتی جلتی پوزیشن پر کام کیا تھا۔ عبداللہ نے باری باری سب سے بات کرنے کی ٹھانی۔ بات کرنے کے بعد جو حقیقت سامنے آئی وہ انتہائی تلخ تھی۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے ملکوں کے دماغ تھے۔ ان سب کو سے دس گنا زیادہ کی جاب دی گئی۔ یہ سب بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ شفٹ ہوگئے۔ زیادہ پیسہ زندگی میں ایک نیا لائف اِسٹائل لایا۔ بیویاں ماڈرن ہوگئیں، بچوں کو بڑے آرام دہ گھروں، موبائل فونز اور مہنگے کمپیوٹرز کی عادت پڑگئی اور پھر اچانک بغیر کسی وجہ کے انہیں نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ اب نہ مہنگے گھروں کی اقساط دے پائے۔ نہ بیوی بچوں کا لائف اسٹائل، اتنی بڑی تنخواہ سے فارغ ہوئے اور مارکیٹ میں کوئی فیصد تنخواہ بھی آفر نہ کرے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھر بینک لے گیا۔ کار شو روم لے گیا۔ بیوی میکے چلی گئی۔ ننھیال بچے لے گیا اور پیچھے بچا یہ شخص اپنی کامیابیوں کے قصے سناتے اور حالتِ زار کا نوحہ کرتے۔ کیا زبردست آئیڈیا، کچھ لاکھ ڈالرز کے عوض کسی ملک سے اس کا بل گیٹس چھین لیا تو کسی سے اُس کا محمد علی جناح، کسی سے مدر ٹریسا اُٹھالی تو کسی سے نیلسن منڈیلا اور سال بھر میں انہیں ذہنی مریض بنا کر چھوڑ دیا۔ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ کہاوت عبداللہ کو آج سمجھ آئی۔ عبداللہ نے نہایت شائستگی سے آفر کو ٹھکرادیا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ آج عبداللہ اپنے ایک دوست کے ساتھ پشاور گیا۔ وہاں یونیورسٹی میں اسے لیکچر دینا تھا۔ مگر معلوم ہوا کہ طلبہ نے فیس بک پر کچھ پیجز کی جانب سے توہین رسالت کے سبب ہڑتال کی ہوئی ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ فیس بک پر پابندی عائد کی جائے۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 252 | https://www.urduzone.net/jan-lene-wala-dushman-tha-ya-dost-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم دو بہنیں اور دو بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کے ہوچکے تھے لیکن سب سے چھوٹا بھائی کاشف والد صاحب کی اچانک وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکا۔ دوران تعلیم ہی گھر کا بوجھ اس کے کاندھوں پر آن پڑا۔ گھر کا انتظام، دکانوں کا کرایہ اور جائداد کے معاملات بھی اس کی ذمہ داری بن گئے۔ یوں وہ بی ایس سی کے آخری سال میں ہی اٹک کر رہ گیا۔ امی پر اس کی شادی آخری ذمہ داری تھی جس کو اب انہیں والد صاحب کے بغیر ہی نمٹانا تھا۔ امی نے خاندان میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں لیکن کوئی بھی ایسی لڑکی نظر نہ آئی جسے وہ بہو بنا کر گھر لے آتیں۔ خاندان چھوٹا سا تھا اور ہمارا حلقہ احباب بھی مختصر تھا۔ ایک محفل میں امی کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو دیکھنے میں شریف نظر آتی تھی۔ باتوں باتوں میں امی نے اس سے ذکر کیا کہ آج کل اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بہو کی تلاش میں ہوں۔ عورت نے فوراً ہی اپنی بھانجی کا رشتہ بتلایا اور امی دوسرے روز اس کے ساتھ اس کی بھانجی کو دیکھنے چلی گئیں حالانکہ بالکل ناواقف اور غیرلوگ تھے۔ بظاہر لڑکی اچھی نظر آئی تھی سو، امی نے اُسے ایک ہی نظر میں پسند کرلیا۔ مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ دل کی روگی ہے یعنی اپنی بہن کے دیور سے محبت کرتی ہے۔ نجانے کیوں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی والدین اس کی شادی وہاں نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شاید دونوں خاندانوں کے بیچ انا کا مسئلہ آڑے آگیا تھا۔ کیونکہ لڑکے والے ایک ہی گھر کی دو لڑکیوں کو بہو بنانے کے دل سے خواہاں نہ تھے۔ اِدھر لڑکی والے اپنی ناک نیچی کرنا نہ چاہتے تھے، اُنہیں لڑکے والوں کی بے نیازی کَھل گئی تھی۔ تبھی یہ معاملہ آگے نہ بڑھ پایا۔ اس لڑکی کا نام عالیہ تھا۔ امی دوچار بار ان کے گھر گئیں اور پھر جلد ہی عالیہ ہماری بھابی بن کر ہمارے گھر آگئی۔ میں نے جب پہلے روز بھابی کو دیکھا تو وہ مجھے خوش نظر نہیں آئی۔ ایک روز کی دلہن کے چہرے پر اداسی اور افسردگی کے گہرے بادل دیکھ کر دل دہل کر رہ گیا۔ اوروں نے اسے میکے سے جدائی کے دکھ پر محمول کیا مگر میں نے جان لیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے میرے بھیا کو یہ شادی راس آجائے۔ شادی کے پندرہ روز بعد ہی کاشف بھیا نے بھابی کا آنسوئوں سے بھیگا ہوا خط پکڑ لیا جو انہوں نے اپنی بوڑھی نوکرانی کے پلو میں باندھ دیا تھا کہ بہن کے گھر جاکر اس کے دیور کو دے دینا۔ بڑھیا جب چلنے لگی تو اس کا دوپٹہ دروازے کے کنڈے میں اٹک گیا۔ بھیا نے جو پلو چھڑایا تو خط ان کی مٹھی میں آگیا۔ نجانے کیا سوچ کر خط کھول کر پڑھ لیا۔ تب وہ پریشان ہوکر گھر کے اندر آئے اور بھابی کو علیحدہ کمرے میں لے جاکر بہت دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ جب وہ باہر نکلے تو بے حد غمزدہ تھے اور بھابی کی آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھیں۔ رورو کر ان کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ اس روز بھابی کو بھائی نے کہا تھا کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتیں تو بے شک طلاق مانگ کر آزادی حاصل کرسکتی ہیں مگر ان کے گھر میں رہ کر چوری چوری نقب لگانا اور دوسروں کو محبت نامے بھیجنا انہیں ذرا بھی پسند نہیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ باوجود بھیا کے آزادی دینے کے بھابی گھر سے نہیں گئیں اور نہ ہی انہوں نے طلاق مانگی۔ شاید وہ اپنے والدین سے خوف زدہ تھیں یا پتا نہیں ان میں اتنا حوصلہ ہی نہ تھا کہ معاشرے کا مقابلہ کرسکتیں۔ وہ رودھو کر چپ ہوگئیں، البتہ کاشف بھائی سے انہوں نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں گی اور ان کی وفادار بن کر رہیں گی۔ کاشف بھائی نے بھابی پر صرف ایک پابندی لگا دی تھی کہ اب وہ کبھی اپنی بہن کے گھر نہیں جائیں گی مگر بھابی چوری چھپے جاتی تھیں۔ اس بات کا علم مجھے بھی تھا اور امی کو بھی مگر ہم جھگڑے کے ڈر سے خاموش رہتے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بھابی اور بھیا میں جھگڑا ہوجائے اور اچھا بھلا گھر جہنم کدہ بن کر رہ جائے۔ ان دنوں میرا گھر امی کے گھر سے ملا ہوا تھا، صرف ایک دیوار بیچ میں تھی اسی لئے مجھے پل پل کی خبر رہتی تھی۔ امی کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ بھابی اپنی بہن کے دیور شکور سے محبت کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن زبردستی ان کے ماں باپ نے کاشف بھیا سے شادی کردی۔ مجھے یہ بات بھابی کی زبانی معلوم ہوئی تھی۔ اس روز وہ بہت رو رہی تھیں، میں نے رونے کا سبب پوچھا، پیار سے گلے لگا کر تسلی دی تو پھٹ پڑیں اور مجھے اصل ماجرا بتا دیا۔ اس پر میں نے انہیں دلاسہ دیا تھا۔ اپنی جیسی ایک عورت سمجھ کر ان کا دکھ درد بانٹا تھا۔ انہیں بہت سمجھایا تھا کہ اب وہ شکور کو بھول جائیں کیونکہ اس کے سوا کوئی چارا نہیں۔ میں نے کہا تھا۔ بھابی اب آپ تقدیر کے فیصلے کو دل سے قبول کرلیجئے کہ آپ کاشف بھیا کی بیوی بن چکی ہیں۔ ماضی کا رشتہ توڑ دیجئے، یہی آپ کی تقدیر میں رقم تھا اور تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان فیصلوں کو قبول نہیں کرتے، انہیں بعد میں بھی کبھی نہ کبھی بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ مگر بھابی نے شاید تقدیر کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہ کرنے کی ٹھان لی تھی، تبھی تو انہوں نے کبھی بھی ماضی سے رشتہ نہ توڑا اور وہ اپنے محبوب شکور سے بدستور چوری چھپے ملتی رہیں۔ ایک بچے کی ماں ہونے کے بعد تو وہ اور بھی نڈر ہوگئی تھیں۔ بھیا سے پہلے تو ڈرتی تھیں، اب نہیں ڈرتی تھیں۔ جب بھی وہ کام پر جاتے، یہ بہانے سے چلی جاتی تھیں۔ اگر وہ اچانک واپس آجاتے اور بھابی کو گھر میں نہ پاتے تو غصہ ہوتے، چیختے چلاّتے میرے گھر آجاتے، میں انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرتی۔ بھابی کو بھی سمجھاتی تھی کہ اس طرح نہ کیا کرو، تو وہ یہی جواب دیتی تھیں۔ میں تمہارے بھائی کی غلام تو نہیں ہوں، میں کوئی قیدی تو نہیں ہوں، آخر انسان ہوں، مجھے بھی کام ہوسکتا ہے۔ کہیں آئوں گی، نہ جائوں گی تو مر نہیں جائوں گی میں ان کی مجبوری سمجھتی تھی اور بھائی کا غصہ بھی بجا تھا مگر سوائے دونوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھانے کے اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ اب تو بھابی جب لڑتی تھیں، طلاق کا مطالبہ کردیتی تھیں کیونکہ امی فوت ہوچکی تھیں اور بھابی کے والد کا بھی انتقال ہوچکا تھا جن کا لحاظ اور ڈر تھا۔ اب بھابی کا مقصد یہی تھا کہ کسی دن زور کی لڑائی ہو اور کاشف بھیا خود ہی تنگ آکر انہیں طلاق دے دیں لیکن کاشف بھیا کو نہ جانے کیا ہوگیا تھا، بھابی سے محبت تھی یا بیٹے کا خیال تھا کہ وہ کسی صورت بھی اب عالیہ بھابی کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ انہی دنوں میرے شوہر نے شہر سے دور ایک جدید کالونی میں کوٹھی تعمیر کرائی تھی تو ہم پرانے مکان کو بیچ کر اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوگئے۔ اس کے بعد مجھے بھابی اور بھائی کے حالات کی کچھ خبر نہ رہی کیونکہ اب میں بھیا کے گھر سے بہت دور آگئی تھی۔ کبھی کبھار جب گھر سے فرصت ملتی تو دوچار ماہ بعد جانا ہوتا تھا، وہ بھی ایک آدھ گھنٹہ کے لیے کیونکہ بھابی عالیہ اب ہم سے بہت زیادہ اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھیں۔ وہ ہمارے گھر آنے پر خوش نہ ہوتی تھیں۔ میں چپ چاپ سارا تماشا دیکھنے پر مجبور تھی۔ امی حیات نہ تھیں، پھر ان کے گھر میں میری کیا اہمیت ہوتی، میں کس طرح مداخلت کرسکتی تھی۔ میں نے تو کاشف بھیا کے گھر بھی جانا چھوڑ دیا تھا، باقی سب بہنیں، بھائی دوسرے شہروں میں رہتے تھے۔ ایک میں ہی نزدیک تھی لیکن اب میں بھی کاشف بھائی سے دور ہوچکی تھی۔ وہ خود میرے گھر بہت کم آتے تھے۔ جب آتے، پہلے سے زیادہ نڈھال اور پژمردہ نظر آتے۔ گھر کی کوئی خوشی حاصل نہ تھی۔ میں بھی چاہتی تھی کہ اگر بھابی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تو زبردستی اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے انہیں طلاق دے دیں تو اچھا ہے، مگر میں یہ بات ان سے کہہ نہیں سکتی تھی۔ وہ مجھ سے دو سال چھوٹے تھے مگر رعب ایسا تھا جیسے بڑے بھائیوں کا ہوتا ہے۔ میری ان کے سامنے زبان نہیں کھلتی تھی، بس ان کی حالت دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتی رہتی تھی۔ بھیا اب مسلسل بیمار رہنے لگے تھے، پھر یہاں تک معلوم ہوا کہ وہ ایک دن کئی گھنٹے اسپتال میں بے ہوش رہے ہیں۔ بھابی کا بیان تھا کہ پان کھانے سے بے ہوش ہوگئے تھے مگر ڈاکٹر کی رپورٹ یہ تھی کہ انہیں مسلسل تھوڑا تھوڑا زہر دیا جارہا ہے جس سے آہستہ آہستہ وہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر بھابی نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر سب کو خاموش کردیا کہ ظاہر ہے پان میں تمباکو زہر ہی تو ہوتا ہے۔ ہم ناچار خاموش ہورہے کہ کر بھی کیا سکتے تھے اس واقعے کے بعد بھیا نے گھر کھانا پینا حتیٰ کہ پان کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب انہیں بھی ضد ہوگئی تھی کہ چاہے جان چلی جائے مگر وہ عالیہ کو طلاق نہیں دیں گے۔ ان کی زندگی عالیہ کے پیچھے برباد ہوچکی تھی۔ وہ کہتے تھے اب اس عورت کو حق نہیں پہنچتا کہ میری زندگی برباد کرکے اپنی مرضی کی زندگی بسر کرے اور مجھ سے طلاق لے کر رنگ رلیاں منائے، میں یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ میرے میاں نے ایک بار ہمت کرکے ان کو سمجھایا بھی تھا مگر بھیا ان سے بھی الجھ پڑے کہ اس عورت نے تمہیں رشوت دی ہے جو تم بھی اسی کی وکالت کررہے ہو۔ اس کے بعد وہ پھرکبھی اس موضوع پر بھیا کاشف سے نہیں بولے۔ بھیا کے گھر ایک لڑکا راج نامی ملازم تھا۔ ان کے تمام گھریلو کام سرانجام دیتا تھا۔ یہ لڑکا بھابی کے محلے کا تھا، بعد میں بھائی نے اسے ملازم رکھا تو گھر لے آئے۔ راج نہایت ذمہ دار اور سمجھدار نوکر تھا، اسی وجہ سے ہم سب اس سے راضی تھے۔ وہ نہایت فرماں بردار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا تھا۔ کوئی یہ سوچ بھی نہ سکا کہ اس کو ہماری بھابی نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ یہ عیدالفطر کے قریبی دنوں کا ذکر ہے جبکہ چھٹیاں تھیں اور پڑوسی بھی اپنے گائوں جا چکے تھے۔ اس روز صبح ہی بھابی اور بھائی میں تلخ کلامی ہوئی تھی اور میرے بھائی ناراض ہوکر گھر سے نکلے تھے۔ وہ تمام دن اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرے اور شب کی تاریکی میں آکر اپنے بستر پر گر پڑے۔ نجانے رات کو کون سے پہر کسی دشمن نے ان پر ریوالور سے گولی داغی اور ان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر ڈالا۔ پولیس بھی آئی مگر ملزم گرفتار نہ ہوسکے کیونکہ اس حادثے کو ڈکیتی ظاہر کیا گیا تھا۔ آہ میرے پیارے بھائی کے خون کے دھبے کوئی بھی نہ دھو سکا۔ بیڈ روم میں فوم کے گدے پر جگہ جگہ خون کے دھبے پڑے ہوئے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے زندگی کے لیے کس قدر جدوجہد کی تھی۔ جس رات یہ واقعہ ہوا، اس دن بھابی شام کو ہی اپنے میکے چلی گئی تھیں۔ وہ ملازم راج کو بھی ہمراہ لے گئی تھیں جس کا بیان تھا کہ جھگڑے کے بعد وہ اتنی افسردہ تھیں کہ تمام دن روتی رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ کھایا پیا بھی نہ تھا، تبھی راج نے منت کی تھی کہ باجی رویئے نہیں، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کو میکے چھوڑ آتا ہوں، وہاں آپ کا دل بہل جائے گا۔ راج جب بھابی کو ہمراہ لے کر ان کے میکے پہنچا تو بھابی نے اسے کہا کہ آج رات تم ادھر ہی ٹھہر جائو، صبح میں تمہارے ساتھ واپس گھر چلی جائوں گی۔ راج کا بیان تھا کہ باجی کے اصرار پر میں وہاں رک گیا کیونکہ اسی محلے میں میرے والدین کا گھر تھا لہٰذا ان کے پاس جاکر سو گیا، تبھی اسی رات بھائی جان کے ساتھ ایسا اندوہناک واقعہ گزرا کہ کوئی ان کی جان بیدردی سے لے کر چلا گیا۔ گھر میں کچھ توڑ پھوڑ ہوئی تھی اور سامان بھی بکھرا ہوا ملا۔ لگتا تھا کہ کسی نے تلاشی لی ہے مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ خدا جانے یہ ڈکیتی تھی کہ میرے پیارے بھائی کو کسی دشمن نے اس بہانے ٹھکانے لگا دیا تھا۔ پولیس نے ہمیں فون کرکے اطلاع دی۔ ایک محلے دار نے صبح دیکھا کہ گیٹ پورا کھلا ہوا ہے، اس نے اندر جھانکا اور آوازیں لگائیں۔ جب ہر طرف خاموشی ملی تو اس نے فون پر پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس نے اس واقعے میں بیوی اور ملازم کو شامل تفتیش ضرور کیا مگر پھر عدم ثبوت پر رہا کردیا۔ بھائی کی تمام کمائی بھابی نے سمیٹ لی جو بعد میں ان کی نئی زندگی کو خوشیوں سے مزین کرنے کے کام آئی۔ انہوں نے عدت کے فوراً بعد اپنے من چاہے محبوب یعنی اپنی بہن کے دیور سے شادی کرلی۔ انہوں نے تو اپنی محبت پا لی مگر ہم بہنوں سے ان کا بھائی چھن گیا۔ اللہ جانے میرے پیارے بھائی کا قاتل کون تھا اور ان کو کس کے اشارے پر قتل کیا گیا مگر جب تک ہم بہنیں زندہ ہیں، اس قاتل کو بددعا دیتی رہیں گی۔ سچ جانیے کہ ہمارا بھائی تو ایسا تھا کہ اس نے کبھی کسی کا دل نہ دکھایا تھا، پھر ان کا ایسا کون دشمن ہوسکتا تھا جس نے ان کی جان لے لی۔ کیا یہ واقعی ان کے دشمن کی کارستانی تھی یا پھر ڈکیتی تھی جبکہ ڈاکا ڈالنے والے گھر کا ایک تنکا بھی نہ اٹھا لے گئے۔ یہ وہ سوال ہے جو آج تک ہم کو پریشان رکھتا ہے۔ ن۔ س ملتان | null |
null | null | null | 253 | https://www.urduzone.net/woh-dhoop-ya-saya-tha-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | شادی کسی بھی لڑکی کے لیے اس کی زندگی کا سب سے اہم موقع ہوتا ہے۔ ہر لڑکی کے دل میں نئی زندگی کے حوالے سے نت نئے ارمان اور سہانے سپنے سجے ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب ایک ڈر بھی ہوتا ہے کہ نہ جانے اس کے نصیب میں کیا لکھا ہے۔ جن دنوں گھر میں میری شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں، میں بھی کچھ ایسے ہی متضاد جذبات کا شکار تھی۔ مجھے اپنے ہونے والے شوہر سے دلی وابستگی تھی لیکن اپنی غربت کے خیال سے پریشان تھی۔ والدین مجھے جہیز نہیں دے سکتے تھے۔ اس پر تایا ابو نے کہا کہ اوّل تو جہیز کی ضرورت نہیں ہے اور کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو ہم خود بنا دیں گے، بس آپ شادی کی تیاریاں کریں۔ بتاتی چلوں کہ میری منگنی تایا زاد فہد سے ان دنوں ہوگئی تھی جب میں ابھی نو برس کی تھی۔ تایا ابو شہر سے گائوں شفٹ ہوگئے تھے اور عرصے تک میں اپنے منگیتر سے نہ مل سکی۔ اکثر سوچا کرتی تھی کہ نجانے اب فہد کیسے ہوں گے۔ شکل و صورت کیسی نکالی ہوگی، قد بھی اونچا لمبا ہوگیا ہوگا، مدت بعد دیکھوں گی تو حجاب آئے گا، دل کی دھڑکن تیز ہوجائے گی، شاید کہ بات بھی نہ کر پائوں گی بس ایسے ہی تصورات میں گم رہتی تھی۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا، وہ مجھے بیاہنے آگئے۔ والدہ چاہتی تھیں تعلیم مکمل کرلوں تب رخصتی ہو مگر ابو نے کہا کہ جب اس نے بیاہ کر گائوں ہی جانا ہے تو میٹرک کرے یا بی اے پاس کرلے، کیا فرق پڑتا ہے۔ وہاں کون سی اسے نوکری کرنی ہے، ہانڈی چولہا ہی تو سنبھالنا ہے۔ گائوں میں تایا کو چند ایکڑ زمین الاٹ ہوگئی تھی۔ وہ محنتی تھے، خود کاشت کاری کرتے تھے لہٰذا تھوڑی سی زمین سے بھی خوشحال ہوگئے جبکہ شہر میں رہ کر میرے والدین آسودہ حال نہ ہوپائے۔ یہاں پر مکان کرائے کا تھا اور مہنگائی زیادہ تھی جبکہ والد صاحب کی تنخواہ کم تھی۔ ہمارا شمار غربا میں ہوتا تھا۔ قصہ مختصر تایا نے میرا جہیز بنا دیا اور یوں میٹرک پاس کرتے ہی میری شادی ہوگئی تو شروع میں مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی تھی۔ میں یہاں کے ماحول کی عادی نہ تھی، رفتہ رفتہ احساس ہونے لگا کہ گائوں میں کچھ نعمتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے شہری لوگ محروم رہتے ہیں، مثلاً تازہ ہوا، صاف ستھری فضا اور خالص غذا اس لئے تایا، تائی کی محبت نے میرا دل جیت لیا۔ فہد بھی پیار بھرا سلوک کرتے اور بہت خیال رکھتے تھے۔ یوں میرا دل گائوں میں لگ گیا۔ شادی کے بعد شروع کے دن خوشیوں کے تھے لیکن سال بھر بعد جب تایا ابو کا انتقال ہوگیا تو تائی کے رویئے میں فرق آگیا۔ تایا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور گھر بھر پر اُن کا رعب تھا، اس لیے تائی مجھ سے اچھا سلوک رکھنے پر مجبور تھیں۔ لیکن اب انہوں نے مجھ سے وہ کام لینے شروع کئے جو میں نے پہلے کبھی نہیں کئے تھے۔ بھینسوں کو چارہ ڈالتی، فرش سے ان کا گوبر صاف کرتی، باڑے کو روز دھوتی۔ دیہات میں گھر بڑے ہوتے ہیں، ہمارا آنگن بھی پکا نہیں تھا، بڑے سے گھر میں جھاڑو لگاتی تو بال اور کپڑے دھول مٹی سے اَٹ جاتے۔ غرض گھر کے تمام کام مجھے ہی کرنے پڑتے۔ پہلے ایک خادمہ تھی۔ جب وہ کسی وجہ سے ہمارے گھر کا کام چھوڑ گئی تو تائی نے مجھے خادمہ بنا دیا۔ سارے دن کے کام سے تھک کر چور ہوجاتی تو کبھی کبھی حرف شکایت زبان پر آہی جاتا، تب میں فہد سے شکوہ کرتی کہ آپ کی ماں مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں کھاتیں، کام کا اتنا سارا بوجھ ڈال دیا ہے کہ رات کو بدن کے درد سے سو نہیں پاتی ہوں۔ تب وہ جواب دیتے کہ گائوں میں یہاں ہر عورت کو اتنا ہی کام کرنا پڑتا ہے، تم کوئی انوکھی نہیں ہو، میں تمہارے لئے مددگار کہاں سے لائوں جو کام میں تمہارا ہاتھ بٹائے۔ کہو تو اور شادی کرکے تمہاری سوکن لے آئوں، وہ ہی تمہاری مدد کرسکتی ہے۔ سوکن کا نام سن کر میں سہم جاتی تھی اور خدا سے دعا کرتی کہ بے شک مشقت کرتی رہوں گی مگر مجھ پر کبھی سوکن نہ آئے۔ شادی کے سال بعد اللہ تعالیٰ نے صاحب اولاد کیا اور چاند سا بیٹا دیا تو میں سب شکوے بھلا کر اس کی پرورش میں کھو گئی۔ اب تو فہد اور تائی بھی مجھ سے خوش رہنے لگے، شاید قدرت کو میری یہ خوشی منظور نہ تھی کہ مسرت عارضی ثابت ہوئی۔ ایک دن کا ذکر ہے میں گندم پھٹک رہی تھی کہ میرا ننھا منا قمر گھٹنوں گھٹنوں چلتا ڈیوڑھی سے باہر نکل گیا۔ گھر کے سامنے چھوٹی سی ندی تھی جو اپنی زمین کی آب پاشی کے لیے سسر نے کھدوائی تھی اور اس میں ٹیوب ویل کا پانی آتا تھا۔ اس روز یہ ندی لبالب بھری ہوئی تھی کیونکہ پچھلی رات بھر ٹیوب ویل چلا تھا۔ ننھا قمر رینگتا ہوا ندی کے اندر جا پڑا۔ اس وقت بدقسمتی سے وہاں کوئی نہ تھا۔ بچہ سیکنڈوں میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ یہ حادثہ ایسا تھا کہ مجھ پر قیامت گزر گئی لیکن اس سے بھی بڑی قیامت یہ ہوئی کہ ساس اور شوہر نے مجھ کو موردِ الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یہ حادثہ تمہاری غفلت کے باعث ہوا ہے۔ اس دن کے بعد سے میری تقدیر کا ستارہ غروب ہوگیا۔ تین سال تک گود ہری نہ ہوسکی، تب ساس کے کہنے پر شوہر نے دوسری شادی کا فیصلہ کرلیا۔ میرے والدین کو پتا چلا تو فہد کو دوسری شادی سے منع کیا۔ فہد نے ان کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ میں آپ کی بیٹی کے حقوق پورے کروں گا اور اس کے پیار میں کوئی کمی نہ آنے دوں گا۔ پھر فہد نے ایسا ہی کیا جس طرح نئی دلہن کے زیور اور کپڑے بنوائے، اسی طرح میرے لئے بھی دوبارہ اسی طرح بنوائے۔ میری سوکن نیاز بی بی میری پھوپی زاد تھی۔ ہم دونوں میں شروع سے بہت پیار تھا۔ وہ میری سوکن بن کر گھر میں آگئی تو میں نے اس سے کوئی جھگڑا نہ کیا چونکہ شوہر ہم دونوں سے ایک سا سلوک رکھتا تھا، تبھی میں نے اسے قبول کرلیا اور ہم بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔ نیاز بی بی شروع سے ہی دبلی پتلی اور نازک اندام تھی۔ جب اس پر میری طرح گھر کا بوجھ پڑا تو وہ بیمار رہنے لگی۔ جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ وہ ٹی۔ بی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اسے مسلسل بخار رہنے لگا تھا۔ دوادارو بھی لائے مگر نیاز بی بی دوائیاں باقاعدگی سے نہیں کھاتی تھی، تبھی علاج مؤثر نہ ہوا اور وہ چند ہفتوں کے اندر چل بسی۔ فہد کو اپنی دوسری بیوی کی موت کا بے حد صدمہ تھا۔ ہر وقت غم زدہ رہنے لگے، کھانا پینا کم کردیا، یہاں تک کہ شب بیداری کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ ہر وقت ایک ہی بات سوچنے لگے کہ نیازو کیسے مر گئی، پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا، بہکی بہکی باتیں کرنے لگے اور مجھ پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ تم نے نیازو کو زہر دے کر مار دیا ہے۔ روتی تھی اور قسمیں کھاتی تھی کہ میں نے اسے زہر نہیں دیا مگر وہ میری قسموں کا بھی یقین نہیں کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے رشتہ داروں اور گائوں کے لوگوں سے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ میری پہلی بیوی نے میری دوسری بیوی کو زہر دے کر مار دیا ہے۔ اکثر لوگ اس جھوٹ پر یقین کرنے لگے اور ہر کوئی مجھ سے نفرت کرنے لگا۔ لوگوں کا نفرت آمیز اور شک و شبے سے بھرا ہوا یہ رویہ میرے لئے بہت اذیت ناک بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ یہ ایک ایسی سزا تھی جس کو جھیلنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس پر ساس کی نفرت اور فہد کی بدسلوکی نے زندہ درگور کردیا۔ اب میرے لئے جینے کی کوئی آس باقی نہ رہی، آئندہ بھی مسرت کی کونپل پھوٹنے والی نہ تھی۔ جی چاہتا تھا خودکشی کرلوں۔ بتا نہیں سکتی کہ یہ چند سال شک و شبہات کی بھٹی میں کیسے گزارے لیکن میں مجبور تھی کہ میرا جینا مرنا اسی گھر سے وابستہ تھا۔ ہر لمحہ، ہر آن فہد اور اس کی ماں یہ کہہ کر مجھے سولی پر رکھتے تھے کہ تم قاتلہ ہو۔ جیسے نیازو کو زہر دیا ہے، ہمیں بھی ایک دن زہر دے کر مار دو گی۔ ایک دن یوں ہی سوچوں میں غم زدہ بیٹھی تھی کہ میرا بھائی آگیا۔ وہ مجھے لینے آیا تھا۔ اس نے کہا۔ میرے ساتھ شہر چلو کیونکہ ماں سخت بیمار ہے۔ میرے بھائی کو تائی اور فہد انکار نہ کرسکے لیکن انہوں نے کوئی چیز مجھے لے جانے نہ دی اور میں خاموشی سے تین کپڑوں میں اپنے بھائی کے ساتھ میکے آگئی۔ میکے آنے کے دس دن بعد والدہ وفات پا گئیں۔ والد صاحب تو ایک سال پہلے ہی چل بسے تھے۔ اس بھری دنیا میں بس واحد سہارا بھائی کا رہ گیا تھا۔ جی نہ چاہتا تھا کہ لوٹ کے شوہر کے گھر جائوں۔ ان لوگوں کے سلوک سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ حالات جو بھی ہوں، شادی شدہ عورت کب تک میکے میں رہ سکتی ہے۔ رشتے دار باتیں بناتے ہیں، لوگ جینے نہیں دیتے۔ بھائی کو بھی آس پاس والے جتلاتے تھے کہ تم نے کیوں بیاہتا بہن کو روک رکھا ہے، یہ گھرہستی والی ہے، اسے شوہر کے گھر جانے دو۔ بھائی کسی کو کیا بتاتا کہ کیوں یہ اپنے گھر نہیں جاتی۔ میں نے سرسری اسے حال بتا دیا تھا۔ زیادہ کچھ کہتی تو وہ غمزدہ ہوجاتا۔ ایک روز خالہ آئیں جو میرے سسر کے گائوں رہتی تھیں۔ بتایا کہ تمہاری تائی بہت بیمار ہے، اب تم گھر جائو، ان لوگوں کو تمہاری بہت ضرورت ہے۔ خالہ کے کہنے سے میں نے ان کے ساتھ گائوں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ جب ہم وہاں پہنچے، میں نے خالہ سے کہا۔ پہلے آپ میرے سسرال جاکر اطلاع کریں کہ میں یہاں آگئی ہوں تاکہ فہد آکر مجھے گھر لے جائیں، میں ان لوگوں کے رویئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ خالہ نے فہد کو بتایا کہ تمہاری بیوی میرے ساتھ آگئی ہے، میرے گھر سے آکر اسے لے جائو۔ اس نے جواب دیا۔ ہرگز نہیں میں اسے اب نہ رکھوں گا، مجھے پروین پر اب اعتبار ہی نہیں رہا، اس نے نیازو کو زہر دیا تھا، مجھے اور میری ماں کو بھی زہر دے گی۔ ہرگز میں اسے اپنے پاس نہ رکھوں گا اور تیسری شادی کروں گا۔ خالہ نے آکر بتایا کہ بیٹی اب تیری بھلائی اسی میں ہے کہ تو ان کے پاس نہ رہے، تیرے شوہر کا دماغ چل گیا ہے، اسے وہم کی بیماری ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ نیاز بی بی کی محبت اس کے دل میں بہت گہری تھی اور اب اس کی جدائی کے صدمے نے اس کے حواس مختل کررکھے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے کوئی نقصان پہنچا دے۔ میں تو پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی جس کا ادراک اب خالہ نے کیا تھا۔ دراصل میں کسی کو اپنا مسئلہ سمجھا سکتی تھی اور نہ اپنے حق میں قائل کرسکتی تھی۔ اب کیا راستہ رہ گیا تھا، یہ کہ یا تو فہد خود مجھے طلاق دے دے یا پھر میں عدالت سے طلاق لے لیتی جس کو خلع کہا جاتا ہے اور گائوں میں یہ دونوں باتیں ہی معیوب سمجھی جاتی تھیں۔ خالہ نے مجھے اپنے گھر رکھ لیا۔ بولیں جب تک کوئی حل نہیں نکلتا، تم میرے پاس رہو۔ میں ان کے گھر رہنے لگی۔ فہد نے گائوں کی ایک عورت سے نکاح کرلیا کیونکہ ماں کی تیمارداری اور گھر میں کام کاج اور کھانا وغیرہ پکانے کی ان لوگوں کو پریشانی تھی۔ نکاح کے فوراً بعد فہد نے مجھے طلاق دے دی تو خالہ کے دیور نے ان پر دبائو ڈالا کہ پروین کو طلاق ہوگئی ہے لہٰذا اب اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں۔ وہ اجڈ، گنوار سا شخص تھا۔ لگ کر کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا، اسی لیے اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ سننے میں آیا تھا کہ وہ بیوی کو مارتا پیٹتا بھی تھا۔ میں نے انکار کردیا تو خالو نے مجھے اپنے گھر مزید رکھنے سے انکار کردیا، تبھی خالہ نے میرے بھائی کو بلوایا کہ آکر اپنی بہن کو لے جائو۔ میرا بھائی حسیب لینے آیا تو میں اس کے ہمراہ چلی گئی لیکن بھابی نے مجھے بوجھ جانا۔ وہ روز میرے بھائی سے الجھتی کہ اس کو کیوں لے آئے ہو، کیا اب عمر بھر یہ ہمارے گلے پڑی رہے گی۔ بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ بھابی نے برملا شوہر سے کہہ دیا کہ اس گھر میں تمہاری بہن رہے گی یا میں رہوں گی۔ یااللہ اب میں کہاں جائوں۔ سوچ سوچ کر نیم جان ہوگئی۔ آخرکار بھائی نے یہی حل نکالا کہ کسی شریف آدمی سے میرا نکاح کردیا جائے۔ حسیب کا ایک دوست عرصہ سے تنہائی کی زندگی بسر کررہا تھا۔ بیوی ایک بچی چھوڑ کر فوت ہوگئی تھی۔ حسیب نے مجھے اس کے ساتھ نکاح پر قائل کرلیا۔ میں نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے بھائی کی بات مان لی۔ یوں میرا نکاح کاشف سے ہوگیا اور میں اس کے گھر آگئی۔ کاشف کی معصوم بچی سات برس سے ماں کے پیار کو ترس رہی تھی، اسے ماں کا پیار دیا تو کاشف کے دل میں میری قدر و منزلت بڑھ گئی۔ وہ واقعی ایک شریف انسان تھا۔ اس نے خوش رکھنے کی ہر طرح کوشش کی اور زندگی میں پہلی بار میں نے سکھ کا سانس لیا۔ ادھر فہد کی تیسری بیوی بتول کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ یہ شخص وہم کی بیماری کا شکار ہے اور نارمل آدمی نہیں ہے۔ تائی کے سہارے اس عورت نے بمشکل چار ماہ نکالے اور پھر میکے چلی گئی۔ اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا کیونکہ فہد کی عجیب وغریب باتوں سے وہ حددرجہ دہشت زدہ ہوگئی تھی۔ برادری کے دبائو سے بالآخر اسے بتول کو طلاق دینی پڑی۔ اکیلے پن سے اور زیادہ فہد کی حالت دگرگوں ہونے لگی۔ اب وہ مجھے یاد کرکے روتا تھا اور میرے بھائی کے پاس آکر کہتا تھا کہ تم نے میری بیوی کو کہاں غائب کیا ہے، اسے واپس لائو، ضرور تم نے اسے زہر دے دیا ہوگا۔ ان دنوں گائوں میں تو ذہنی امراض کے بارے میں جانکاری نہ تھی اور نہ ہی وہم کے مریض کو لوگ مریض سمجھتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہم کی یہ بیماری بڑھتے بڑھتے فہد کو پاگل پن کی حدوں تک لے جائے گی۔ تنہائی تو یوں بھی ایسے لوگوں کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے۔ جب تائی نہ رہی اور بتول بھی چلی گئی تو سنسنان گھر فہد کو کھانے اور ڈرانے لگا۔ وہ دہشت زدہ ہوتے ہوئے راتوں کو اٹھ کر گھر سے نکل جاتے تھے اور اِدھر اُدھر مارے پھرتے۔ نہ کپڑوں کا ہوش رہا تھا نہ حلیے کا اور نہ ہی کھانے پینے کا گائوں کے لوگ جب کبھی شہر آتے، وہ بھائی کو اس کے حالات سے آگاہ کرتے تب ہم لوگوں کو افسوس ہوتا تھا۔ بے شک فہد سے سماجی رشتہ ٹوٹ چکا تھا لیکن خون کا رشتہ تو باقی تھا، وہ ہمارے تایازاد بھی تو تھے۔ سچ ہے پاگل کا غم خود اسے نہیں ہوتا مگر دوسرے ضرور اس کا غم کھاتے ہیں۔ میں کاشف کے سامنے فہد کا نام نہیں لیتی تھی لیکن جب بھائی تنہا ہوتا، ضرور اسے کہتی تھی کہ میرے برادر تم ہی جاکر فہد کی خبر لو آخر تو وہ ہمارا عم زاد ہے اور کوئی دوسرا اس کی خبرگیری کرنے والا نہیں ہے۔ میرے اصرار پر ایک دن بھائی گائوں گیا اور فہد کو تلاش کیا۔ وہ نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اس حال میں کہ اسے دیکھ کر بھائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کے کپڑے میلے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ سر کے بال بھی میل سے پتلی پتلی رسیوں جیسے ہوگئے تھے۔ وہ دبلا ، زرد اور نحیف و ناتواں ہورہا تھا۔ اس نے گلے میں میرا دوپٹہ لپیٹ رکھا تھا۔ جونہی بھائی کو دیکھا، فہد نے خوف زدہ ہوکر کہا۔ حسیب تم نے میری پروین کو غائب کردیا، اسے زہر دے کر مار دیا ہے اور اب مجھے مارنے آئے ہو، زہر دینے آئے ہو لیکن یاد رکھنا تم مجھے پکڑ نہ سکو گے، میں تمہارے ہاتھ نہ آئوں گا۔ دور رہو، مجھ سے دور رہو۔ پھر یہ کہتے ہوئے آناًفاناً نہر میں چھلانگ لگا دی۔ میرا بھائی حسیب تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور چشم زدن میں یہ واقعہ رونما ہوگیا۔ نہر بڑی گہری اور کناروں تک پانی سے لبریز تھی۔ ایک ہی پل میں فہد کا جسم نظروں سے اوجھل ہوگیا اور حسیب کچھ بھی نہ کرپایا۔ جب شہر آکر حسیب نے مجھے یہ خبر سنائی تو میں سناٹے میں رہ گئی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ خود کو مجرم سمجھنے لگی کہ کاش میں ان کی ذہنی بیماری اور روحانی تکلیف کو سمجھ سکتی تو کبھی تنہا چھوڑ کر نہ آتی۔ جانتی نہ تھی کہ تنہائی ان کا ایسا انجام کردے گی لیکن جب تک انسان کو طوفان کی سمجھ آتی ہے، کنارا دور ہوچکا ہوتا ہے۔ میں بھی خود کو بیچ منجھدار میں سمجھتی رہی جبکہ دراصل بیچ منجھدار میں تو فہد تھے جن کو بالآخر سوچوں کے گرداب نے نگل لیا۔ اس وقت اُنہیں کسی ہمدرد اور غم گسار کی ضرورت تھی لیکن جب تک مجھے اس بات کا ادراک ہوا، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ آج بھی گائوں کے لوگوں کو ذہنی بیماریوں کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ ایسے مریضوں کو وہ پیروں، فقیروں کے پاس یا درباروں پر لے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان پر جنوں، بھوتوں کا سایہ ہوگیا ہے۔ اے کاش کوئی ان کو یہ پہچان کرائے کہ ایسے لوگ نفرت کے نہیں، ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں۔ کاش ہمارے دیہاتوں اور گائوں میں بھی ایسے شفا خانے کھولے جائیں جہاں ذہنی امراض کے ماہر موجود ہوں کیونکہ دیہاتوں میں اس قسم کے لوگ خاص طور پر عورتیں زیادہ ذہنی امراض کا شکار ہوتی ہیں جن پر جعلی پیر جن نکالنے کے چکر میں اس قدر تشدد کرتے ہیں کہ بعض اوقات ان کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ خ۔ الف لاہور | null |
null | null | null | 254 | https://www.urduzone.net/ajeeb-manoos-ajnabi-tha-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | مجھے بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والدین ایسا چاہتے تھے۔ جب سے اسکول میں میرا ایڈیشن ہوا تھا، میری والدہ پیار سے اکثر یہی کہا کرتی تھیں کہ میری بیٹی تو پڑھ لکھ کر بہت بڑی ڈاکٹر بنے گی اسی لیے یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ میٹرک میں میرے اچھے نمبر آئے تھے اور میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی۔ لیکن ایف ایس سی میں باوجود کوشش کے میں مطلوبہ میرٹ پر پوری نہ اُتر سکی اور مجھے میڈیکل میں داخلہ نہیں ملا۔ مجبوراً میں نے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا اور حسب عادت جی لگا کر پڑھنے لگی۔ ہماری کلاس میں صرف دو لڑکے اور دس کے قریب لڑکیاں تھیں، سبھی کی آپس میں اچھی دعا سلام ہوگئی۔ احتشام میرا کلاس فیلو تھا، وہ بہت شریف لڑکا تھا۔ کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ مجھ کو اس کی یہی ادا بھا گئی۔ خوبرو تھا اچھے نمبر لیتا تھا، ٹیچرز اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک روز فری پیریڈ میں وہ گرائونڈ میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ میں نے قریب جا کر بات کی۔ آپ کے پاس کل کے نوٹس ہیں میں کل غیر حاضر تھی۔ اس نے مجھے اپنی ڈائری دے دی۔ وہ جب کلاس میں داخل ہوا کافی خوش لگ رہا تھا، پہلی بار میں نے اسے چہکتے دیکھا۔ اگلے روز کالج کی گیلری میں کھڑا تھا۔ میں قریب سے گزری تو بات نہیں کی لیکن لیکچر سے پہلے جب کلاس میں جانے لگی اس نے مجھے پکارا۔ قرۃ العین میری بات سنو۔ میں ٹھہر گئی، وہ کچھ ڈرا ہوا سا تھا۔ بات تو کچھ نامناسب ہے لیکن پلیز آپ برا مت مانیے گا۔ جی کہیے۔ میں نے کہا۔ وہ بولا کیا آپ کا نمبر مل سکتا ہے سوری، میں نمبر نہیں دے سکتی۔ اس جواب پر وہ مایوس سا ہوگیا، جانے کیوں میں نے کچھ سوچ کر اس کو اپنا نمبر دے دیا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایک شریف لڑکا ہے کسی غلط بات کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ گھر جا کر اس کو ایس ایم ایس کیا، تھوڑی خفگی جتلائی کہ آخر اسے میرا نمبر لینے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی۔ اس نے وضاحت کی کہ کچھ سوالات کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ اب وہ گاہے گاہے فون پر مختصر بات کرتا۔ یوں ہماری دوستی ہوگئی۔ ابھی ہماری دوستی کو ایک ہفتہ ہوا تھا کہ اس نے کالج چھوڑ دیا اور لاہور چلا گیا۔ لیکن ہمارے درمیان ایس ایم ایس کا تبادلہ اور فون پر مختصر بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ بہت اچھی گفتگو کرتا تھا، جی چاہتا اس کی باتیں سنتے رہو۔ ایک دن میں اپنی فیملی کے ہمراہ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئی تو وہ مجھے وہاں نظر آ گیا، ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور خوشگوار موڈ میں ہنس ہنس کر اس سے باتیں کر رہا تھا۔ میں نے ایس ایم ایس کیا کہ کہاں ہو سچ بتا دیا میں ایک ہوٹل میں اپنی کزن کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ابھی تک اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مجھ کو بہت جلن ہوئی کہ یہ کیوں یہاں کسی لڑکی کے ساتھ ہے۔ اس دن کے بعد سے میں اس کے ساتھ اکھڑے اکھڑے انداز سے بات کرنے لگی۔ وہ کچھ پریشان سا رہنے لگا تھا لیکن مجھ سے ناراضی کی وجہ دریافت نہ کی۔ میں اسی انتظار میں تھی۔ وہ پوچھے تو سوال کروں کہ کون تھی وہ جس کے ساتھ تم ہوٹل میں بیٹھے تھے اور کیوں جب اس نے ایک بار بھی نہ پوچھا کہ تم کیوں روٹھی روٹھی ہو تب یقین ہو گیا کہ اس کا معاملہ اسی لڑکی سے ہے۔ تبھی مایوسی کے عالم میں فون پر جھگڑ پڑی۔ اس نے کچھ کہنا چاہا تو ایک نہ سنی اور کہہ دیا کہ جس کے ساتھ ہو اسی کے ساتھ رہو اور اب کبھی مجھ سے رابطہ نہ کرنا۔ اس نے کئی بار فون کئے۔ نجانے مجھے کیا ہوگیا تھا، ہر بار بغیر سنے بند کردیتی تھی۔ سوچ سوچ کر غصہ آتا تھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ ہے۔ لہٰذا ناتا میں نے ہی توڑا۔ وہ لاہور سے واپس آ گیا۔ دوبارہ کالج میں داخلہ لے لیا مگر اب وہ پہلے والا احتشام نہ تھا، بہت بدل گیا تھا، کالج میں الگ تھلگ سب سے بیزار اور اکھڑا اکھڑا رہتا۔ مسکرانا تو کجا کسی سے بات تک نہ کرتا۔ انہی دنوں ضمنی امتحان میں اس کی اول پوزیشن آگئی۔ ہماری کلاس کی چند طالبات نے اس سے ٹیوشن لینے کی استدعا کی اور وہ ان کو فارغ وقت میں پڑھانے لگا۔ ان لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ اس کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی جس سے مجھ کو جلن ہونے لگی۔ جب وہ اس لڑکی عابدہ سے بات کرتا مجھ پر قیامت گزر جاتی، کسی پل چین نہ آتا۔ میں نے پھر سے اسے ایس ایم ایس کرنے شروع کردیئے۔ فون پر بھی رابطہ کیا لیکن احتشام نے ٹھیک طرح بات نہ کی یقین ہوگیا کہ اس نے کسی اور سے دل لگا رکھا ہے۔ بجھی بجھی رہنے لگی، پڑھائی میں بھی دل نہ لگتا تھا۔ وقت بھاری قدموں سے مجھ کو روندتا جاتا تھا، دن کاٹے نہیں کٹتے تھے، پڑھائی میں بھی من نہ لگتا۔ ایک روز میری دوست عرفانہ نے بتایا کہ احتشام کی کزن ہماری لیکچرار گلناز سے ملنے آئی ہے۔ یہ وہی تھی جس کو میں نے احتشام کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھے دیکھا تھا۔ باتوں باتوں میں میڈم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی بچپن کی دوست ہے اور احتشام کے بڑے بھائی کی بیوی ہے۔ شوہر عرصہ سے دبئی میں ہے اور اب یہ بھی دبئی جا رہی ہے، تبھی ملنے آئی تھی۔ دو بچوں کی ماں ہے، احتشام کے چچا کی بیٹی ہے۔ اتنی تفصیل جان کر میری آنکھیں کھل گئیں، خود پر غصہ آنے لگا کہ بغیر سوچے سمجھے کیوں احتشام سے رشتہ ختم کردیا۔ گھر پہنچ کر میں نے احتشام کو فون کیا اور معافی مانگی مگر اس نے کوئی بات نہ کی۔ کچھ تو بولو۔ میں نے منت سماجت کی تب گویا ہوا۔ قرۃ العین افسوس ہے میں تم کو ایسے ذہن کی لڑکی نہیں سمجھتا تھا، تبھی پسند کیا اور شادی کرنا چاہتا تھا مگر تمہارے شک نے ہماری دوستی اور محبت کے خوبصورت رشتے کو توڑ دیا۔ میں نے کئی دفعہ تم کو منانے کی کوشش کی، یہ بھی بتانا چاہا کہ وہ میری بھابی ہیں مگر تم نے کوئی بات نہ سنی لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ ایک شکی مزاج لڑکی کو اپنی زندگی میں کوئی جگہ نہیں دے سکتا۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ کالج نہیں آیا۔ اس کی تلاش میں، میں نے سر دھن لیا مگر بے سود، اس کا نمبر بھی بند تھا، رابطہ کرنا چاہا نہ کرسکی، پکارتی کب تک، اس نے جواب ہی نہ دیا۔ دعا کرتی تھی، ایک بار فون پر رابطہ کر لے تو اس کو کہوں کہ احتشام پلیز معاف کردو۔ میں تم جیسے انسان کو کھونا نہیں چاہتی لیکن اسے کھو دیا تھا۔ کیونکہ میں نے دیور بھابی جیسے مقدس رشتے پر شک کیا تھا۔ اسی کی سزا ملی تھی کہ مجھے اپنی محبت سے دائمی جدائی مل گئی۔ کافی عرصہ پریشان رہی۔ امتحان بھی نہ دے سکی۔ احتشام کو بھلانا چاہا لیکن نہیں بھلا سکتی تھی۔ ایک پھانس تھی جو دل میں چبھ گئی تھی اور پھر نکل نہ سکی۔ اس واقعے کے بعد زندگی کے جتنے بھی دن گزارے، میں نے ایک مردے کی مانند گزارے۔ وقت کسی کے لئے ٹھہرتا نہیں۔ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وقت تیزی سے گزرتا ہے لیکن ہم کو احساس نہیں ہوتا۔ کئی رشتے آئے لیکن میں شادی سے انکار کرتی گئی، بالآخر امی ابو مجھ سے اس قدر خفا ہوئے کہ ان کی خوشنودی کی خاطر سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ میرے نصیب میں جو شخص جیون ساتھی کے طور پر لکھا گیا تھا، اس کے ساتھ میری شادی ہوگئی اور ہماری نئی زندگی شروع ہوگئی۔ زبیر بہت اچھے انسان تھے۔ مجھ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں بھی بظاہر ان کو خوش نظر آنے کی کوشش کرتی مگر دل کا حال تو اللہ جانتا ہے اور دل ایسی شے ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ شادی کے چند ماہ بعد ان کی پوسٹنگ دوسری جگہ ہوگئی، وہاں بھی میرا دل نہ لگتا تھا، یہ پہاڑی علاقہ تھا اور انڈیا کی سرحد سے قریب تھا۔ انہی دنوں جبکہ میں ذہنی طور پر بے چین سی رہتی تھی، میری ملاقات گل جاناں سے ہوگئی۔ وہ ایک مقامی لڑکی تھی اور ہمارے پڑوس میں رہتی تھی، بہت اچھی عادات کی مالک تھی، جلد ہی میری اس کے ساتھ دوستی ہوگئی، گل جاناں کی باتیں بڑی معصومانہ ہوتی تھیں لیکن بہت ذہین لڑکی تھی، جلد ہی میرے دل کی اداسی کو بھانپ لیا، ایک دن کہنے لگی۔ باجی مجھے لگتا ہے آپ کو کوئی بے سکونی ہے، برا نہ مانیں تو پوچھوں کہ آپ کیوں اداس رہتی ہیں، کیا کسی کی یاد ستاتی ہے۔ ہاں ایک دوست کی کیا کروں بھلانا چاہتی ہوں لیکن بھلا نہیں سکتی۔ اس کا ایک حل ہے میرے پاس۔ آپ میرے دادا کے گائوں چلیں وہاں ایک شخص ہے جس کا نام عجب خان ہے۔ وہ واقعی بڑا عجیب آدمی ہے بس ایک بار آپ کو غور سے دیکھ کر آپ کی ہتھیلی پر پھونک مارے گا تو آپ فوراً بھلی چنگی ہو جائیں گی۔ کیا کہہ رہی ہو گل جاناں ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا وہ کوئی پیر فقیر ہے یا کوئی بزرگ ہے یہ میں نہیں جانتی لیکن اس کا حال آپ سنیں گی تو حیرت کریں گی تبھی گل جاناں نے اس کے بارے میں یوں بتایا۔ باجی یوں تو قدرت کی رنگارنگ مخلوق ہی اس دھرتی کا حسن ہے مگر جملہ مخلوق کا ایک بہت انوکھا رنگ ہمارے علاقے الائی کے گائوں راشنگ میں کب وارد ہوا، اس بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن یہ شخص عجب خان وہاں کے لوگوں کا مرکزِ نگاہ ہے۔ شروع میں یہ گائوں کے بازار میں دکان داروں اور علاقے کے لوگوں کا بوجھ اجرت پر اٹھانے کا کام کرتا تھا، اسی اجرت پر اس کی گزر بسر ہوتی تھی، اس نے شادی نہیں کی تھی، مزدوری کے پیسے وہ بہت کفایت سے خرچ کیا کرتا تھا۔ عجب خان کو سوائے عیدین کے کبھی اچھے لباس میں نہیں دیکھا گیا۔ اس کا کہنا تھا اگر اچھے اور اجلے لباس میں ہوں گا تو کون مزدوری کا کہے گا۔ وہ دو من وزن سے کم کا بوجھ ہرگز نہ اٹھاتا تھا۔ اس کا اصول تھا وہ طے شدہ مزدوری سے زائد ہر گز نہ لیتا تھا اور اگر کوئی اپنی خوشی سے اسے مزدوری سے زائد رقم دے دیتا تو وہ اسی لمحے رقم واپس لوٹادیتا اور اصرار کے باوجود قبول نہ کرتا۔ پہلے تو کسی کو پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور رات کو کہاں چلا جاتا ہے، لیکن اب عجب خان بازار میں کوئی دکان یا کوٹھڑی کرائے پر حاصل کر کے اسے بطور رہائش گاہ اور گودام استعمال میں لاتا تھا، اس رہائشی گودام میں اس کا گندم، چاول، مکئی، روٹی اور مختلف دالوں کا اسٹاک ہوتا تھا۔ یہ اجناس وہ بازار میں گرا پڑا، اجناس کی منڈی سے چن چن کر جمع کرتا رہتا تھا۔ عجب خان کو بڑے گوشت سے نفرت تھی، جسے زندگی بھر اس نے ہاتھ نہیں لگایا۔ البتہ چھوٹا گوشت وہ اس طور استعمال کرتا کہ مطلوبہ مقدار میں گوشت خرید کر اسے کچی حالت میں کھا جاتا۔ کسی نے اسے کھانا پکاتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کی گودام نما رہائش گاہ میں ایسی سہولت کا ہونا ممکن تھا۔ اس کے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی نے اسے بیمار ہوتے نہیں دیکھا بلکہ اگر کوئی بیمار ہو تو وہ اس کی ہتھیلی پر پھونک مار دیتا ہے جس سے مریض جلد ہی اچھا ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے اب اس کی کرامت کی دھوم دور دور تک ہے، لوگ اکثر جاتے ہیں اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں تو وہ سائل کی ہتھیلی پر پھونک مار دیتا ہے اور مریض اچھا ہو جاتا ہے۔ گل جاناں ایک معقول لڑکی لگتی تھی مگر جب اس نے یہ کہانی سنائی تو مجھے لگا کہ وہ کوئی افسانہ گھڑ کر مجھے سنا رہی ہے، تبھی میں نے سوال کیا گل جاناں یہ باتیں تم کو کس نے بتائیں اس عجیب و غریب شخص کے بارے میں کہنے لگی، ہمارے تایا اور چچا نے، اور جب بھی ہمارے گائوں سے کوئی رشتہ دار آتا ہے تو ہمیں عجب خان کی باتیں سناتا ہے۔ خیر میں تمہارے دادا کے گائوں جانے سے رہی اور نہ ہی میں ایسے عجیب و غریب انسان سے ملنا چاہوں گی، میں نے گل جاناں کو ٹکا سا جواب دے دیا کیونکہ یہ باتیں سن کر مجھ کو وحشت سی ہونے لگی تھی۔ چند ہفتے گزرے گل جاناں میرے پاس آئی کہنے لگی افسوس ہے باجی آپ ہمارے ساتھ گائوں نہیں گئیں، اب عجب خان اس جہان سے گزر گیا ہے۔ افسوس ہے گل جاناں اس عجیب انسان سے دنیا خالی ہوگئی ہے لیکن واقعہ کیا ہوا ہے ذرا بتائو تو کہنے لگی۔ باجی یقین کریں کبھی کسی نے عجب خان کو بیمار ہوتے نہیں دیکھا، سوائے آخری بار کے۔ موت کے بارے میں بھی اس کا نظریہ عجیب و غریب تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کبھی مقامی ندی میں نہانے کے لئے نہیں جائے گا کہ پانی میں ڈوب کر مر جائے، نہ کبھی کسی درخت پر چڑھے گا کہ جہاں سے گر کر مرنے کا اندیشہ ہے اور نہ کسی اونچی جگہ جائے گا جہاں سے گر کر مرنے کا احتمال ہو۔ دیکھئے اتنا طاقتور اور صحت مند آدمی پھر بھی فوت ہوگیا۔ سچ ہے کہ موت ایک بے حد طاقتور شے ہے، یہ جب زندگی پر غالب آنا چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آ جاتی ہے۔ کیا تم نے اس کو دیکھا تھا گل جاناں۔ میں نے سوال کیا۔ نہیں لیکن ابو، بھائی اور امی اس سے ملے تھے جب وہ دادا کے گائوں گئے تھے۔ چچا نے آ کر ابو کو بتایا تھا کہ عجب خان اپنی جمع پونجی تاجروں کے پاس بطور امانت رکھا کرتا تھا جبکہ چند لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کچھ رقم زمین میں کسی خفیہ جگہ دبا دیتا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد جب ہندو تاجروں کو گائوں چھوڑنا پڑا تو انہوں نے عجب خان کو اس کی رقم لوٹانے کی پیشکش کی تھی جو اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ ان سے یہ رقم ہرگز نہ لے گا، البتہ جب وہ دوبارہ وطن واپس لوٹیں گے تو اس وقت اس کی رقم لوٹا دیں ۔جس کی نوبت پھر کبھی نہیں آئی مگر اسے یقین تھا کہ یہ لوگ ایک بار پھر اپنے علاقے میں لوٹ کر آئیں گے۔ وقت وفات اس کی عمر ستر سال سے اوپر تھی۔ جب وہ پہلی اور آخری بار مرض الموت میں مبتلا ہوا تو اس کی شدید علالت کے باعث گائوں کے لوگ اسے گاڑی میں ڈال کر اس کے علاقے کی طرف جہاں عجب خان کے کچھ رشتہ دار اور عزیز و اقارب تھے ،لے گئے۔ مگر وہ اپنے گائوں زندہ نہیں پہنچا بلکہ راستے میں ہی فوت ہوگیا، تبھی ان لوگوں نے جو اسے لے جا رہے تھے وہاں قبر کھود کر اس کے جسدِ خاکی کو دفن کردیا اور واپس آ گئے۔ اگلی بار گل جاناں اپنی ماں کے ساتھ آئی تو اس نے بھی باتوں باتوں میں عجب خان کا تذکرہ کیا۔ میں نے پوچھا آخر وہ تھا کون اور کہاں سے آپ لوگوں کے گائوں آیا تھا۔ گل جاناں کی ماں نے بتایا۔ وہ ہمارے آبائی گائوں سے چند میل دور واقع ایک پہاڑی علاقے سے آتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس خوف سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوا تھا کہ اس کے عزیز و اقارب اسے اس کی زمین کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دیں گے، کیونکہ وہ اسے دیوانہ سمجھتے تھے۔ وہ اپنے علاقے کے قریب ہی تھا کہ اس نے دور سے اپنے گائوں پر آخری نظر ڈالی اور جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ زمین کا وہ ٹکڑا جس کی خاطر اس نے سالہاسال بن باس کاٹا اس کا مدفن بنا۔ اس عجیب و غریب داستان کو سن کر میرا ذہن پریشان رہنے لگا۔ رہ رہ کر عجب خان کا خیال آتا تھا کہ وہ کون تھا کہاں سے تعلق تھا اور کیا کرامت تھی اس میں اس خیال کی وجہ سے یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ میرے دل سے احتشام کا خیال محو رہنے لگا۔ ایک دن میں اپنے شوہر کے ساتھ بازار گئی وہاں بھیڑ میں مجھے ایک بوڑھا آدمی دکھائی دیا جو اونچا، لمبا، مضبوط بدن کا تھا۔ اس کی عمر ستر سال سے اوپر تھی لیکن سر تنا ہوا تھا اور کمر میں جھکائو نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کے بال بھی سفید نہیں بلکہ سیاہ تھے۔ پاس سے گزرتے ہوئے میں نے اس کی طرف تجسس بھری نگاہوں سے دیکھا تو اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔ اس نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ پھیلائو۔ حلیے سے وہ درویش دکھائی دے رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ اس کی سمت پھیلا دیا، اس نے میری پھیلی ہوئی ہتھیلی پر پھونک ماری اور آناً فاناً غائب ہوگیا۔ گھر آئی تو بہت زیادہ پریشان تھی جیسے کوئی غیرمعمولی واقعہ میرے ساتھ گزرا ہو۔ شوہر سے تذکرہ کرکے ان کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اگلے روز گل جاناں کو بلا بھیجا وہ اپنی ماں کے ساتھ آئی تو میں نے یہ واقعہ گوش گزار کیا، اس کی ماں نے کہا۔ مجھے اس کا ٹھیک ٹھیک حلیہ بتائو میں نے بتایا۔ کہنے لگی یہ تو ہوبہو عجب خان جیسا ہے لیکن وہ تو مر چکا ہے، پھر وہ کیسے زندہ دکھائی دیا، تاہم ہتھیلی پر پھونک والی بات بھی مماثلت رکھتی تھی۔ اس واقعہ کے بعد میں احتشام کی یاد سے غافل ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اس کو بالکل میرے دل نے فراموش کردیا۔ مجھے سکون آ گیا اور دلی طور پر شوہر سے پیار کرنے لگی، وہ بھی مجھ کو اپنا سب کچھ سمجھتے تھے، تاہم ایک پریشانی سے نجات ملی تو دوسری پریشانی دائمی طور پر میرے ساتھ رہنے لگی اور وہ یہ سوال تھا کہ آخر عجب خان مر گیا تو پھر ویسا ہی درویش نما بوڑھا مجھ کو کیوں نظر آیا اور اس نے میری ہتھیلی پر پھونک ماری۔ اللہ جانے یہ کیا معما ہے جس کو آج تک میں حل نہیں کرسکی۔ کاش کوئی دانا میر ے اس سوال کا جواب دے سکے کہ وہ تھا کون ث مری | null |
null | null | null | 255 | https://www.urduzone.net/bhatakne-bacha-liya-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | میر ی شادی کو ایک ماہ گزرا تھا اور ابھی تک ہم کہیں سیر و تفریح کو نہیں نکلے تھے۔ ان دنوں شہر میں ایک سرکس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ زید نے کہا۔ شیریں کیا تم سرکس دیکھو گی۔ میں نے خوشی سے نہال ہوکر جواب دیا۔ ہاں زید مجھے سرکس دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ کبھی ابو نے اجازت نہ دی تو یہ آرزو دل میں رہ گئی۔ میں پوری کروں گا تمہاری یہ آرزو آج شام چلیں گے۔ تیار رہنا۔ وہ یہ کہہ کر کام پر چلے گئے اور میں بے چینی سے شام کا انتظار کرنے لگی ۔ ہمارا شہر چھوٹا سا تھا۔ یہاں تفریح کا کوئی سامان نہ تھا۔ سینما گھر بھی نہ تھے لے دے کر سال میں ایک بار بیساکھی کا میلہ لگتا تھا یا پھر سرکس آتا تھا۔ البتہ سرکس میں کبھی کبھار کچھ روشن خیال لوگ اپنی خواتین کو لے جاتے تھے۔ رات کے آٹھ بجے تھے جب ہم سرکس پہنچے۔ دوگھنٹے بعد واپس جانا تھا۔ میرے خاوند نے ایک ٹیکسی والے سے بات کرلی تھی کہ وہ دوگھنٹے سرکس کے باہر ہمارا انتظار کرے گا، کیونکہ رات گئے سواری کا ملنا مشکل تھا۔ جب ہم سرکس میں مختلف کمالات دیکھ رہے تھے تو ہمارے برابر ایک لڑکی آکر بیٹھ گئی۔ اس نے کالے رنگ کی چادر سے خود کو لپیٹ رکھا تھا ۔ وہ میرے بالکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ یہ لڑکی تنہا آئی ہے۔ ساتھ کوئی مرد نہیں ہے۔ تعجب ہوا۔ یہ ہمارے شہر کی روایت نہ تھی، کوئی لڑکی رات گئے اکیلی سرکس دیکھنے کیسے آسکتی تھی۔ سوچا کہ اس کے گھر والے کہیں آس پاس ہوں گے جوآتے ہی ہوں گے ۔ سرکس ختم ہوگیا۔ ہم جانے کو اٹھے وہ لڑکی ہمارے ساتھ اٹھ گئی اور ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ جیسے ہمراہ آئی ہو۔ باہر نکل کرہم ٹیکسی کی جانب چلے وہ بھی پیچھے پیچھے آئی۔ میں نے رک کر پوچھا۔ تم کون ہو کس کے ساتھ جانا ہے۔ آپ کے ساتھ جانا ہے کیونکہ میں اکیلی ہوں اور ساتھ کوئی نہیں ہے۔ ایسا کیونکر ہوسکتا ہے تم اکیلی سرکس دیکھنے کیوں آگئیں۔ اسے آنا تھا مگر آیا نہیں۔ لڑکی نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ کس نے آنا تھا میرے ماموں زاد زاہد نے میرا اس کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔ اب ہم ٹیکسی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ میرے شوہر نے سوالیہ نظروں سے اس لڑکی کی طرف دیکھا کیا تمہاری جاننے والی ہے انہوں نے سرگوشی میں بات کی نہیں لیکن اچھا بیٹھو، زید نے گاڑی کا دروازہ کھولا خدا کے لئے مجھے بھی ساتھ بٹھالو، لڑکی نے التجا کی۔ کہاں جانا ہے آپ نے بی بی زید نے سوال کیا۔ اگلے چوک تک وہاں میں اتر جائوں گی۔ اب ہم تذبذب میں تھے کیا کریں لڑکی میرے اور قریب آگئی، تقریباً لگ کر کھڑی ہوگئی جیسے اس کو ڈر ہو میں اسے چھوڑ کر نہ چلی جائوں۔ وہ میرے سائے میں تحفظ محسوس کررہی تھی۔ میں جان گئی، تبھی زید سے کہا بٹھالیں آگے چوک پر اتر جائے گی۔ وہ کچھ نہ بولے۔ لڑکی میرے ساتھ جبکہ وہ آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے۔ چند منٹوں میں اگلا چوک آگیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے گاڑی روک کرکہا۔ اتر جائیے بی بی لڑکی نہ اتری، اب ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم کسی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ ہم دونوں دل ہی دل میں خود کو کوس رہے تھے کہ اسے کیوں ساتھ بٹھا لیا۔ بی بی اگلا چوک یہی ہے نا زید نے کنفرم کیا۔ نہیں ذرا، آگے وہاں اترنا ہے۔ ٹھیک ہے آگے چلو۔ رات کا وقت ہے یہ جہاں کہتی ہیں وہاں تک لے چلو۔ اکیلی لڑکی کو بیچ راستے اتار دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اندر سے ڈرے ہوئے زید نے بظاہر بہادر بنتے ہوئے اخلاق کا تقاضا نباہا۔ آگے چلتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے بی بی بتائو کہاں اترنا ہے اور لڑکی کوئی پتا نہ بتا رہی تھی، صاف بات تھی اسے نہیں معلوم تھا اس نے کہاں جانا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا گھر آگیا۔ چلو بیگم اترو۔ انہوں نے مجھے کہا۔ سامنے گلی میں گھر ہے ہم پیدل چلے جائیں گے۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کہا مجھے اپنے گھر لے چلئے۔ ارے بھئی کیوں آپ نے جہاں جانا ہے وہاں جائیے۔ ہم کیوں آپ کو اپنے گھر لے چلیں۔ میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ اف خدایا، اب کیا کریں، ٹیکسی والا ہماری الجھن سمجھ گیا۔ بولا۔ ایسی کئی لڑکیاں پہلے بھی میری ٹیکسی میں بیٹھ چکی ہیں۔ میں خوب جانتا ہوں ان کو کہاں اتارنا ہوتا ہے۔ آپ شریف لوگ ہیں، آپ جائیے میں اس بی بی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں، آگے جہاں کہے گی پہنچا دوں گا۔ نہیں نہیں وہ لڑکی رونے لگی۔ مجھے کسی کے حوالے نہ کریں۔ اپنے گھر لے چلیں، میں صبح ہوتے ہی چلی جائوں گی۔ جونہی ہم ٹیکسی سے اترے وہ بھی جلدی سے اتر گئی۔ زید لے چلو گھر کل دیکھیں گے۔ مجھے اس کی بے بسی پر رحم آگیا۔ اس کا نام نفیسہ تھا۔ ہمارے شہر کے قریبی قصبے کی رہنے والی تھی۔ ماں سوتیلی تھی۔ سگی ماں نے اپنی زندگی میں اس کا نکاح اپنے بھانجے سے کروادیا تھا۔ اس کی وفات کے بعد نفیسہ کے والد نے دوسری شادی کرلی تو سوتیلی ماں نے اس کی رخصتی نہ ہونے دی۔ وہ اکلوتی تھی اور باپ کی ساری ملکیت کی وارث تھی۔ جبکہ سوتیلی ماں کی پہلے شوہر سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا اور اب وہ مزید بچے پیدا کرنے کی اہل نہ تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ نفیسہ کا نکاح ختم کرادے اور پھر اس کی شادی اپنے بھائی سے کردے تاکہ گھر کی دولت گھر میں رہے۔ اس نے رفتہ رفتہ نفیسہ کے والد کو مٹھی میں لیا اور پھر نکاح کی تنسیخ کرادی۔ نفیسہ کو اس طلاق کا بہت صدمہ تھا جو اسے رخصتی سے پہلے مل گئی تھی۔ اس کے منگیتر ماموں زاد زاہد کو بھی کم صدمہ نہ تھا لیکن وہ والد اور پھوپھا کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تھا۔ سوتیلی ماں کی بن آئی۔ اس نے نفیسہ کی زبردستی شادی اپنے بھائی سے کرادی۔ جس کو لوگ بھولا کہتے تھے۔ جبکہ وہ بھولا نہیں تھا بلکہ پیدائشی ابنارمل انسان تھا۔ جس کے منہ سے رال ٹپکتی تھی اور سر ایک دم چھوٹا تھا۔ یہ سارا کھیل سوتیلی ماں نے نفیسہ کی دولت ہتھیانے کی خاطر کیا تھا۔ جب پہلی بار اس نے اپنے شوہر کودیکھا تو وہ اس چھوٹے سر والے انسان کو دیکھ کر بیہوش ہوگئی۔ نفیسہ اپنے ماموں زاد سے بہت محبت کرتی تھی مگر نکاح ہوجانے کے باوجود اس کی ماں نے دو محبت بھرے دلوں کو آباد نہ ہونے دیا۔ ایک روز زبردستی نفیسہ کو اس کے والدین سسرال چھوڑ کر آگئے جبکہ وہ ہرگز وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ ماں دھمکی دے کرگئی تھی واپس نہیں آنا۔ اب یہی رہنا سہنا ہے ورنہ جان سے ماردوں گی۔ نفیسہ نے ماموں ممانی سے التجا کی کہ مجھے اس عذاب سے نجات دلوائیے۔ اس نے بھانجی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ وہ اب شادی شدہ تھی اور کسی اور کی بیوی تھی، گرچہ یہ شادی ایک فاترالعقل لڑکے سے ہوئی تھی، مگر گائوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ماموں تھانے کچہری کے چکر میں پڑنا نہ چاہتا تھا، آخری امید خود اسکا محبوب زاہد تھا۔ ایک دن وہ کسی طرح زاہد سے ملنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کی منت کی کہ مجھے یہاں سے نکال کر لے جائو اگر ہم عدالت کو بتائیں گے کہ میرا شوہر ابنارمل ہے تو وہ میرے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ بس ایک بار تم میرا ساتھ دو۔ شہر جاکر ہم وکیل کرلیں گے۔ اس وقت تو جذبات سے مغلوب ہوکر زاہد نے ہامی بھرلی اور نفیسہ کو کہہ دیا کہ فلاں دن تم سرکس پر آجانا میں گاڑی لے کر پہنچ جائوں گا اور ہم شہر نکل جائیں گے لیکن بعد میں شاید ڈر گیا یا کیا وجہ بنی، وہ نہیں آیا جبکہ نفیسہ اس کی بات کا اعتبار کرکے سرکس پہنچ گئی۔ اس نے زاہد کو ادھر ادھر دیکھا وہ نظر نہ آیا تو کٹھ پتلی والے تھیٹر میں آگئی، کیونکہ یہ سرکس سے باہر تنبو میں لگایا گیا تھا۔ جہاں زاہد نے آنا تھا۔ تماشا ختم ہوگیا اور وہ نہ آیا تو نفیسہ گھبرا گئی۔ اب اس کی میکے میں جگہ رہی تھی اور نہ سسرال میں وہ ہمارے ساتھ چپک گئی یہ سوچ کرکہ صبح وہ زاہد سے رابطہ کرلے گی۔ اس کا احوال جان کر ہم پریشان تھے۔ بہرحال رات کو پناہ دیے بنا چارہ نہ تھا۔ اس امید پر کہ وہ صبح اپنی راہ لگ جائے گی، میری ساس نے رات کو اسے اپنے کمرے میں سلا دیا۔ صبح ہوئی میں نے نفیسہ کو ناشتہ دیا۔ اور زید نے اس کے سسرال کا پتا دریافت کیا۔ اس نے کہا اگر میرے شوہر کو دیکھنا ہے تو جاکر پیرجی کے مزار پر دیکھ لیں۔ وہ وہاں آپ کو نظر آجائے گا۔ اس نے جیسا حلیہ بتایا تھا اس کو پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ میرے شوہر کا دفترگائوں کی طرف تھا۔ مزار میرے شوہر کے دفتر کے رستے میں پڑتا تھا۔ صبح دفتر جاتے ہوئے وہ مزار پر اتر گئے اور ان کو وہ آدمی نظر آگیا۔ وہ وہاں سے واپس گھر آگئے۔ دفتر نہیں گئے آپ میں نے پوچھا۔ بہت دکھ ہوا ہے۔ یہ لڑکی صحیح کہتی ہے اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ میں اس ابنارمل کودیکھ آیا ہوں وہ مزار پر پڑا رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے گھر سے نہیں نکالنا چاہیے بلکہ سوچنا چاہیے کہ اس کے والد کو کیونکر راضی کریں وہ اس کو لے جائے۔ ابھی ہم لوگ یہ باتیں کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہی ٹیکسی والا جو ہم کو پچھلی شب سرکس سے گھر پہنچانے آیا تھا ایک شخص کے ساتھ موجود تھا اور یہ نفیسہ کا باپ تھا۔ اس نے اپنا تعارف کروایا اور سسر صاحب نے اس کو اندر بٹھاکر تواضع کی اور بتایا کہ آپ کی بیٹی رات سے ہمارے گھر پر ہے۔ شکر ہے محفوظ ہے۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور نفیسہ کو بلایا۔ کہا بیٹی گھر چلو تم جیسے کہوگی میں ویسا فیصلہ کروں گا لیکن اب مجھے دنیا میں رسوا مت کرو۔ نفیسہ کسی صورت باپ کے ساتھ جانے پر راضی نہ ہوئی۔ اس نے کہا بابا جان آپ نے جو فیصلہ کرنا ہے اسی گھر میں انہی لوگوں کے سامنے کریں۔ میں ہرگز اس گھر سے باہر قدم نہ رکھوں گی جہاں آپ کی دوسری بیوی کی حکمرانی ہے۔ ہم سب نے بہت سمجھایا۔ میرے سسر نے ضمانت دی مگر لڑکی نہ مانی، کہنے لگی میں نہر میں چھلانگ لگادوں گی مگر باپ کے ساتھ نہیں جائوں گی۔ بالآخر ہم بھی نفیسہ کے ہمنوا ہوگئے۔ اس کے والد اس کو ہمارے سپرد کرکے چلے گئے۔ انہوں نے اپنی سوتیلی بیوی کی مخالفت مول لے لی اور بیٹی کا خلع لے کر اس کو اس کے ماموں کے سپرد کرنے پر راضی ہوگئے لیکن ماموں نے کہا۔ تمام شرعی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد وہ اس کو اپنی بہو بناکر لے جائیں گے، ایسے نہیں۔ بالآخر نفیسہ کی شادی کی تجدید اس کے ماموں زاد زاہد سے ہوگئی اور وہ باضابطہ طریقے سے اپنے ماموں کی بہو بن کر ہمارے گھر سے رخصت ہوگئی۔ شکر ہے اس نیکی کے موقع کو ہم نے ضائع نہیں کیا، ورنہ جانے اس بچاری کا کیا حشر ہوتا۔ ہم اب بھی اس اندھیری رات میں خوفزدہ التجاکرتی نفیسہ کو یاد کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج نفیسہ خوش وخرم اپنے محبوب شوہر زاہد کے گھر آباد ہے اس کے چار بچے ہیں اور اس کا سابقہ شوہر جو فاترالعقل تھا گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے۔ ل ش ملتان | null |
null | null | null | 256 | https://www.urduzone.net/ghayal-complete-urdu-story/ | آج کی شام تیرے نام وہ گنگناتا ہوا آیا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی بال سنوارتی شازیہ کے بالکل قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹی پڑرہی تھی۔ جلدی سے تیار ہوجائو۔ آج ہم خوب گھومیں گے، لمبی ڈرائیو پر نکلیں گے اور پھر رات کا کھانا کسی اچھے سے ہوٹل میں کھائیں گے۔ کیوں ٹھیک ہے نا اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں شازیہ کا چہرہ تکتے ہوئے اپنے پروگرام کی تائید چاہی۔ خیال تو برا نہیں لیکن یہ سب ہے کس خوشی میں شازیہ نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا۔ ارے اس سے بڑھ کر بھی کوئی خوشی ہوگی کہ ایک حسین، دلربا، دلکش خاتون ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ آپ شاید بھول رہے ہیں کہ یہ خاتون سیکڑوں گواہوں کے سامنے آپ کے ساتھ زندگی بھر ساتھ چلنے کا تحریری عہد کرچکی ہے۔ کیا واقعی خواب سا لگتا ہے مجھے تو یہ سب کچھ اس نے شازیہ کے بالوں سے کھیلتے ہوئے والہانہ پن سے کہا۔ کیا بات ہے آج کچھ زیادہ ہی رومانٹک نہیں ہورہے ہیں آپ شازیہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ بات ہی ایسی ہے، سنو گی تو پھڑک اٹھو گی تم بھی بتائیں نا کیا بات ہے، کیوں پہیلیاں بجھوا رہے ہیں تم پہلے تیار تو ہوجائو۔ نہیں جناب جب تک آپ پوری بات نہیں بتائیں گے، میں کہیں نہیں جائوں گی۔ ارے ارے ناراض نہ ہو۔ اچھا سنو آج ایک بڑی اچھی بزنس ڈیل ہوئی ہے، کئی لاکھ کا فائدہ ہوا ہے۔ تم جانتی ہو جب جیب گرم ہو تو مابدولت کچھ نہیں سوچتے سوائے لائف انجوائے کرنے کے ہاں یہ تو جانتی ہوں مگر انجوائے منٹ کے ان لمحات میں میری شرکت تو برائے نام ہی ہوتی ہے۔ فنکشن، تقریبات، کلب کی پارٹیاں ان میں تم مجھے اپنے ساتھ کب رکھتے ہو۔ تمہارے نزدیک تو بیوی گھر میں سجا پھولوں کا ایک محض گلدستہ ہے البتہ وہ عورت جو کلبوں اور پارٹیوں میں تمہارے ساتھ قہقہے لگاتی ہے، وہ ضرور لائف انجوائے کرتی ہے۔ ارے بھئی کہاں گم ہوگئیں اس نے شازیہ کو گم صم دیکھ کر چھیڑا۔ تب وہ اپنے خیالات سے چونک اٹھی۔ ہاں کیا کہہ رہے تھے آپ پھر سنبھل کر بولی۔ کہاں چلنے کا ارادہ ہے ایسا کرتے ہیں پہلے آنٹی زبیدہ کے گھر چلتے ہیں، پھر ڈرائیوان میں پکچر دیکھیں گے۔ اس کے بعد کا پروگرام تو تمہیں پتا ہی ہے۔ بس اب جلدی کرو۔ وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا اور شازیہ بھی تیار ہونے لگی۔ آج کافی عرصے بعد عامر نے اس کے ساتھ باہر جانے کا پروگرام بنایا تھا اور وہ بھی اس قدر والہانہ انداز سے ورنہ وہ تو اس کے ساتھ کہیں جانے کو ترستی ہی رہتی تھی۔ کبھی عامر اسے اپنے ساتھ لے کر بھی جاتا تو وہ بھی چچی، پھوپھی یا ایسے ہی دوسرے قریبی رشتے داروں کے ہاں شاپنگ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ عموماً عامر خود ہی وقتاً فوقتاً اپنی پسند کی چیزیں خرید کر لاتا رہتا۔ کبھی کبھار اسے بھی ساتھ لے جاتا اور پھر ضروری، غیر ضروری ڈھیروں چیزیں خرید ڈالتا۔ وہ نہ نہ کرتی رہ جاتی مگر عامر اس کی ایک نہ سنتا۔ تب وہ اپنے آپ پر فخر کرنے لگتی۔ سوچتی کیسی قابل رشک زندگی ہے اس کی، ہر چیز اسے بن مانگے ہی مل جاتی ہے، ورنہ کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو ایک ایک چیز کو ترستی رہتی ہیں۔ ان کے دامن ہمیشہ خالی رہتے ہیں۔ خود اس کی سہیلیاں، کالج، یونیورسٹی کی ساتھی لڑکیاں جب بھی اس سے ملنے آتیں، اس کی زندگی پر عش عش کر اٹھتیں۔ شاندار گھر، اسمارٹ اور چاہنے والا شوہر اس کے سوا ایک عورت کو اور چاہئے ہی کیا وہ سوچتی اور خود بھی اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہونے لگتی لیکن کبھی کبھی عامر کا رویہ یکدم بدل جاتا خاص طور پر اس وقت جب راہ چلتے اس کی یونیورسٹی کے کسی ساتھی لڑکے یا لڑکی سے ملاقات ہوجاتی۔ ہرچند کہ سڑک پر رسمی علیک سلیک ہی ہوا کرتی تھی مگر پھر بھی عامر کا موڈ یکدم بدل جاتا۔ ایک عجیب قسم کی بیزاری اور کوفت اس کے چہرے سے ٹپکنے لگتی اور وہ بھی اس کا بگڑتا موڈ دیکھ کر جلد ہی ان لوگوں سے جان چھڑا کر آگے بڑھ جاتی، مگر اس کے باوجود وہ تمام راستے عامر کی شگفتگی بحال نہ کروا پاتی۔ عامر کی شخصیت کی یہ دورخی اسے اکثر پریشان کردیتی۔ کیوں بھئی تیار ہوگئیں کیا عامر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ جی بس ایک منٹ اس نے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگاتے ہوئے کہا۔ تب تک عامر اس کے قریب آچکا تھا۔ اسے اپنے اتنے قریب اور غور سے تکتے ہوئے پا کر شازیہ ذرا اٹھلا کر بولی۔ بتائیں تو بھلا کیسی لگ رہی ہوں میں اس کا خیال تھا کہ عامر اسے دیکھ کر خوش ہوگا، اس کی تعریف کرے گا۔ آج اس نے تیاری میں کچھ اہتمام کر ہی ڈالا تھا۔ ہلکا ہلکا میک اَپ اور زیور پہن کر وہ پہلے سے کہیں زیادہ نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ اس میں کچھ میک اَپ کا جادو تھا تو کچھ عامر کی ستائش اور توجہ کا بھی دخل تھا جو وہ آج پھول کی طرح کھل اٹھی تھی۔ یوں بھی انسان اندر سے خوش ہو تو وہ خوشی چہرے پر حسن بن کر دمکتی ہے اور پھر وہ تو تھی بھی خوبصورت کالج میں لڑکیوں نے اسے کوئین آف بیوٹی کا خطاب دیا ہوا تھا۔ پھر عامر سے شادی بھی تو اس ہی وجہ سے ہوئی تھی۔ عامر چند لمحے اسے یک ٹک دیکھتا رہا۔ پھر ذرا اکھڑے اکھڑے سے لہجے میں بولا۔ یہ تم شادی میں جارہی ہو یا شام کی سیر کو شادی میں یہ کاٹن جارجٹ کا سوٹ پہن کر جایا جاتا ہے کیا اس نے برجستہ کہا۔ میک اَپ اور زیورات تو اسی طرح چڑھا رکھے ہیں جیسے شادی ہی میں جارہی ہو۔ وہ بھی چوکنے والا نہ تھا۔ اس نے ایک نظر عامر کو دیکھا۔ پھر ٹشو پیپر کے پیکٹ میں سے ٹشو پیپر نکال کر لپ اسٹک صاف کرنے لگی۔ اس نے کن انکھیوں سے عامر کی طرف دیکھا جو بظاہر بیگانہ بنا اپنے اوپر پرفیوم کا اسپرے کرکے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس نے آواز لگائی۔ تیار ہوجائو تو باہر آجانا، میں گاڑی نکال رہا ہوں۔ اس نے خاموشی سے لپ اسٹک صاف کی، ایک ایک کرکے تمام زیور اتارا۔ زیور بھی ایسا کون سا زیادہ تھا جسے اتارنے میں دیر لگتی۔ چھوٹے چھوٹے بندے، انگوٹھیاں، لاکٹ اور سوٹ سے میچنگ کرتی ہوئی رنگین کانچ کی چوڑیاں کانچ کی چوڑیاں عامر کو بھی پسند تھیں مگر اس وقت اسے اتنا غصہ تھا کہ اس نے ایک ایک چیز اتار پھینکی۔ غسل خانے میں جاکر جلدی جلدی منہ پر پانی کے چھیٹنے مارے اور بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔ وہ بظاہر نارمل نظر آرہی تھی مگر اس کے ذہن میں لاوا سا پک رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ چیخیں مار مار کر رونے لگے، مگر بے بسی کا عجب عالم تھا کہ وہ نہ رو سکتی تھی، نہ ہنس سکتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ عامر نے اس کی بدلی بدلی سی حالت دیکھی مگر منہ سے کچھ نہ بولا، خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ گیٹ سے باہر نکلتے نکلتے اس نے چوکیدار سے کہا۔ ہم رات کو دیر سے آئیں گے۔ اگر کوئی آئے تو اسے بتا دینا۔ جی صاحب چوکیدار نے مؤدب ہوکر کہا اور کوٹھی کا مین گیٹ بند کرنے لگا۔ پہلے کہاں چلیں سڑک پر نکل کر عامر نے شازیہ سے پوچھا لیکن وہ خاموش بیٹھی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتی رہی۔ بتائو نا کہاں چلیں اس نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔ جہاں دل چاہے۔ بالآخر اسے کہنا پڑا۔ اچھا آنٹی زبیدہ کے ہاں چلتے ہیں پہلے۔ تبھی اس کی نظر شازیہ کے ہاتھوں پر پڑی جو انگوٹھیوں اور چوڑیوں سے خالی تھے۔ چوڑیاں کیوں اتار آئیں اور یہ تمہارے ہاتھ پر خون کے قطرے کیسے ہیں چوڑی ٹوٹ گئی تھی، وہ چبھ گئی ہوگی۔ اس نے کلائی صاف کرتے ہوئے کہا۔ ذرا احتیاط نہیں کرتیں۔ اب اگر ہاتھ میں سیپٹک ہوگیا تو اس نے بظاہر فکرمندی سے کہا۔ کچھ نہیں ہوگا آپ بے فکر رہیں۔ وہ بے دلی سے مسکراتے ہوئے بولی۔ وہ مسکرائے تو جان سی کلیوں میں پڑ گئی۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر گنگنانے لگا۔ گویا مصالحت اور اسے منانے کی پیش قدمی تھی اور پھر وہ دیر تک مسلسل گپیں مارتا رہا، اِدھر اُدھر کی داستانیں سناتا رہا۔ بالکل یوں ظاہر کررہا تھا جیسے گھر سے نکلتے وقت ان کے درمیان کوئی چپقلش، کوئی بدمزگی ہوئی ہی نہ تھی۔ وہ آنٹی زبیدہ کے گھر پہنچے، تب تک شازیہ کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا۔ آنٹی ہمیشہ کی طرح بڑی محبت، خلوص سے ملیں۔ وہ آنٹی سگی آنٹی نہ تھیں، مگر سگے رشتے داروں سے بڑھ کر تھیں۔ پرانے وقتوں کی تھیں، اس لئے پرانی قدروں کی شیدائی بھی تھیں۔ انہوں نے شازیہ کو جو یوں اجڑا پجڑا دیکھا تو بے اختیار بول اٹھیں۔ اے دلہن یہ کیا ڈھنگ ہیں۔ تمہارے کان میں بندہ، نہ ناک میں لونگ اور یہ لونڈوں کی طرح ننگے ننگے ہاتھ مانا کہ تم پڑھے لکھے لوگ یہ سب کچھ پسند نہیں کرتے مگر مجھے یہ تو بتائو کہ تمہاری کون سی کتاب میں لکھا ہے یوں اجڑا اجڑا رہنا انہوں نے شازیہ کو پیار بھری ڈانٹ پلائی۔ وہ ان کی باتوں پر بیٹھی مسکراتی رہی۔ کیا کہتی، دل تو چاہ رہا تھا کہ آنٹی کے سامنے ساری حقیقت کھول کر رکھ دے کہ وہ لاکھ چاہنے کے باوجود عام بیویوں کی طرح خود کو بنا سنوار کر نہیں رکھ سکتی۔ وہ عامر کی ذہنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ بظاہر بہت اچھا تھا، محبت کرنے والا تھا۔ اسے روپے پیسے کے معاملے میں بھی کوئی تنگی نہیں دیتا تھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود وہ اس کی اس بات سے ہمیشہ خائف رہا کرتی تھی کہ وہ نہ تو اسے دوستوں سے ملنے دیتا تھا اور نہ ہی کہیں آتے جاتے، بننے سنورنے کی اجازت تھی۔ وہ اس کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہوئے کہا کرتا۔ شازی تم تو یونہی اتنی پیاری، اتنی سندر ہو، تمہیں ان چھوٹی چھوٹی آرائشوں کی کیا ضرورت ہے۔ یہ مصنوعی چیزیں تو وہ عورتیں استعمال کرتی ہیں جو خوبصورت نہیں ہوتیں۔ اور شازیہ یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھتی لیکن انسان اپنی فطرت دبا نہیں سکتا، خاص طور پر ان حالات میں تو اس کو اپنی حالت پر اور بھی افسوس ہوتا جب وہ کسی محفل میں اپنے سے زیادہ حسین اور نوعمر خواتین کو زیورات اور فیشن ایبل ملبوسات میں دیکھتی۔ محفلوں میں شریک خواتین بھی اکثر اسے ٹوکتی رہتیں۔ بعض اسے ڈھنگ سے رہنے کے مشورے دیتیں تو بعض اسے مخلصانہ مشورہ دیتیں کہ بی بی شوہر کو قابو میں رکھنا ہے تو عورت کو چاہئے کہ عمر کے ساتھ ساتھ خود کو خوب سے خوب تر رکھنے کی کوشش کرے۔ وہ یہ سب سنتی اور مسکرا کر چپ ہوجاتی۔ کس سے کہتی کہ وہ بہتے دریا کے کنارے کھڑی ہے مگر پھر بھی پیاسی ہے۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ عامر کیسا انسان ہے جو خود پارٹیوں میں، کلبوں میں، گھومتا پھرتا ہے، اچھے فیشن کرتا ہے مگر اسے شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی بننے سنورنے کی، اچھے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں دیتا اور تب ایک دن خاندان کی کسی تقریب میں اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ عامر کے مزاج میں یہ سختی کیوں ہے۔ خاندان کی کچھ خواتین اس کی پچھلی لائن میں بچھی کرسیوں پر بیٹھی اسی کے بارے میں بے لاگ تبصرہ کررہی تھیں۔ ان میں سے کسی نے کہا۔ شادی ہوکر آئی تھی تو بڑی خوبصورت لگا کرتی تھی، اب تو ماند پڑتی جارہی ہے۔ نہ اچھا پہنے، نہ اچھا کھائے تو روپ کہاں سے آئے ان میں سے کسی دوسری نے ٹکڑا لگایا۔ اللہ کا دیا ہے تو بہت کچھ لیکن لگتا ہے کنجوس بہت ہے۔ نہ بہن یوں نہ کہو بھلا کس کا دل کھانے پہننے کو نہیں چاہتا۔ وہ تو یہ کہو کہ عامر ہی کا مزاج بدل گیا ہے۔ سنا ہے کہ وہ اسے بننے سنورنے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ بے چارہ بھی کیا کرے، پہلی بیوی کے کرتوت دیکھے ہوئے ہے نا، اسی لئے دوسری پر اتنی سختی ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے نا سنا ہے عامر کی پہلی بیوی بہت ایڈوانس تھی۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا اور بھئی تھی بھی تو وہ بڑے باپ کی بیٹی عامر کی یہ دولت اور ٹھاٹ باٹ اسی کی بدولت تو ہیں۔ اس کے بزنس کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی میں اس کی پہلی بیوی شائستہ اور اس کے والد کا ہاتھ ہے۔ علیحدگی اختیار کرنے کی بجائے مصالحت کا راستہ کیوں نہ اختیار کیا کسی خاتون نے پوچھا۔ وہ عامر کو خاطر ہی میں نہیں لاتی تھی۔ دولت کی ریل پیل کے علاوہ اس کے طور طریقے بھی ٹھیک نہ تھے، اس لئے نوبت طلاق تک پہنچی۔ چہ چہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی اس بیچاری بچی کا کیا قصور جو اس کو ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے شازیہ بظاہر اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی خواتین سے گفتگو میں مصروف تھی مگر اس کے کان پچھلی سیٹوں سے آنے والی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ سنتے آئے تھے کہ دوسری بیوی ہمیشہ عیش کرتی ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ عامر کے مزاج میں شک اور سختی کا عنصر دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ خواتین میں سے کسی کی زبانی یہ جملہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ تو اب تک یہ سمجھتی آئی تھی کہ خاندان والوں کو اس کی نجی زندگی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے مگر یہاں آکر اندازہ ہوا کہ اس کے حالات کا علم خود اس سے زیادہ تو ان لوگوں کو ہے۔ اس کا دل چاہتا کہ کبھی عامر سے اپنے دل کی بات کہے۔ اس سے کھل کر بات کرے، اسے اس کے کامپلکس سے نکال دے۔ اسے بتادے کہ ہر عورت شائستہ نہیں ہوتی مگر وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے منصوبے پر عمل نہ کر پاتی کہ وہ عامر کی اذیت پسندی اور خودسری سے بھی واقف تھی۔ وہ اپنی بات منوانے کے عجب عجب گر جانتا تھا۔ وہ اتنے غیر محسوس طریقے سے اپنی من مانی کر جاتا کہ شازیہ یہ سوچتی ہی رہ جاتی کہ اس موقع پر میرا کیا ردعمل ہونا چاہئے تھا۔ اسے یاد ہے شادی کے کچھ دنوں بعد ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک عامر کو باہر جانے کا خیال آگیا۔ اس دن وہ بہت موڈ میں تھا۔ اس نے شازیہ کو خوب ڈھیر ساری شاپنگ کرائی تھی اور پھر اسے کچھ بتائے بغیر ہی اس نے گاڑی کلفٹن کی طرف موڑ لی تھی۔ اولڈ کلفٹن پر اس وقت بڑا رش تھا۔ وہاں بیٹھ کر انہوں نے کولڈ کافی پی۔ خنک موسم میں کولڈ کافی کچھ زیادہ ہی لطف دے رہی تھی۔ وہاں سے انہوں نے ساحل سمندر کا رخ کیا اور گاڑی پارک کرکے پتھروں کی بنی اونچی دیوار پر بیٹھ کر سمندر کا نظارہ کرنے لگے۔ سمندر کے پانیوں پر پڑتا ہوا ڈوبتے سورج کا عکس بڑا دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ وہ اس منظر کو دیکھنے میں محو تھی کہ اچانک کسی نے آکر اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو فرزانہ، رضوانہ، نادر اور خاور کا گروپ کھڑا تھا۔ پرانے دوستوں کو یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوگئی۔ فرزانہ تو اسے دیکھتے ہی اس کے گلے میں جھولتے ہوئے بولی۔ بڑی بے وفا نکلی، شادی کے بعد کبھی پلٹ کر شکل نہ دکھائی۔ ایک ہم ہیں کہ تیرے بغیر ہر دم اداس رہتے ہیں۔ ساری محفلیں سونی ہوگئی ہیں ہماری ہاں وہ تو تمہاری صحت بتا رہی ہے کہ میرے بغیر کتنی اداس رہی ہو۔ اس نے فرزانہ کے صحت مند جسم کو دیکھتے ہوئے مسخرے پن سے کہا۔ تجھ سے یہ امید نہ تھی کہ یوں بالکل الگ تھلگ ہوکر بیٹھ رہے گی۔ رضوانہ نے بھی شکوہ کیا۔ اور سنائو کیا حال ہے، کیسی گزر رہی ہے تمہاری گھر گرہستی خاور نے بھی بشاشت سے کہا۔ فائن اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ معاً اس کی نظریں عامر کے چہرے سے جا ٹکرائیں۔ عامر کا سپاٹ اور بیزار چہرہ اس کے دلی جذبات کی ترجمانی کررہا تھا۔ تب شازیہ نے سٹپٹاتے ہوئے جلدی سے عامر کا تعارف اپنے پرانے کلاس فیلوز سے کرایا۔ ان سے ملو یہ میرے شوہر ہیں عامر اور عامر یہ سب میرے کلاس فیلوز ہیں۔ آئی ایم گلیڈ ٹو میٹ یو عامر بھی خوشدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں سے ملا تھا۔ تھوڑی سی گپ شپ کے بعد وہ ان لوگوں سے معذرت کرکے گھر واپس آنے کے لئے گاڑی میں آبیٹھے تھے۔ بہت مس کرتے ہیں تمہیں یہ سب ہاں بہت ایک طویل عرصے تک ساتھ رہے ہیں نا اس نے عامر کے جملے پر توجہ دیئے بغیر کہا تھا۔ ان میں سے کوئی زندگی بھر کا ساتھی کیوں نہ بن سکا عامر نے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا۔ اس کی بات سن کر شازیہ دم بخود رہ گئی تھی۔ اسے غصہ تو بہت آیا تھا مگر پھر بھی مصلحت سے کام لیتے ہوئے اس نے سادگی سے کہا تھا۔ عامر ضروری تو نہیں کہ ہر ملنے والے سے شادی کرلی جائے۔ میں ہر ملنے والے کی نہیں، ان دونوں کی بات کررہا ہوں۔ بڑے جذبے مچل رہے تھے ان کی نگاہوں میں یوں لگ رہا تھا جیسے تمہیں کھونے کا غم بھی ہو انہیں اور اب اچانک پانے کی خوشی بھی کیا آپ مجھے اتنا ہی گرے ہوئے کریکٹر کا سمجھتے ہیں غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ ناراض کیوں ہوتی ہو اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تم نے بے شک انہیں اس نظر سے نہ دیکھا ہو مگر کسی اور کی نظروں پر تو تم لائسنس نہیں لگا سکتیں نا ہمارے گھریلو مراسم رہے ہیں ان سب سے۔ اس نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔ پریشان کیوں ہوتی ہو دراصل تم ہو ہی اتنی اچھی، اتنی پیاری چیز کہ تمہیں چاہا جائے، پسند کیا جائے۔ عامر نے ہنستے ہوئے اتنے نارمل انداز سے یہ بات کہی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو اور پھر ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے حسب عادت چٹکلے چھوڑنے لگا اور شازیہ خاموش بیٹھی سوچتی رہی کہ یہ شخص جو اس وقت میرے مجازی خدا کے روپ میں بیٹھا میرے ماضی میں جھانکنا چاہتا ہے، اس عامر سے کس قدر مختلف ہے جو اتنے عرصے سے میرے ساتھ تھا۔ جس کی خوبیوں ہی سے نہیں خامیوں سے بھی مجھے پیار تھا۔ میں تو آنکھیں بند کرکے اس کے ہر حکم پر سر جھکاتی آئی تھی اور اس کا مجھے پچھتاوا بھی نہ تھا، مگر شک و شبہات اور بے اعتباری کی فضا میں تو لمحہ بھر سانس لینا بھی دوبھر ہے۔ یوں زندگی کیسے کٹے گی وہ گاڑی میں بیٹھی جانے کیا کیا سوچتی رہی۔ انجانے سے خدشے اور وسوسے اس کے دل کو دہلاتے رہے۔ اس کا خیال تھا کہ گھر جاکر عامر پھر اس کے دوستوں کا قصہ لے بیٹھے گا مگر اس نے کوئی ذکر نہ نکالا تو وہ بھی خاموش ہی رہی لیکن اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ عامر اس کے کلاس فیلوز سے ملنا جلنا پسند نہیں کرے گا، اس لئے اس نے پھر ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ رضوانہ اور فرزانہ نے کئی بار ٹیلیفون بھی کیا لیکن اس نے رکھائی سے بات کی۔ انہوں نے کسی دن مل بیٹھنے کا پروگرام بنایا، تب بھی اس نے مصروفیت کا بہانہ کرکے ٹال دیا۔ اس طرح خودبخود اس کا رابطہ ان لوگوں سے ٹوٹتا گیا۔ زندگی کے کتنے ہی سال یونہی گزر گئے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ عامر کی عدم اعتمادی اور شکوک میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی تھی۔ وہ شازیہ کو کچھ نہ کہتا تھا مگر اس کی نظریں کسی تھانیدار کی طرح ہر وقت اس کا تعاقب کرتی رہتیں۔ کون آیا تھا، کون گیا، کس سے کیا بات ہوئی، وہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ان چھوٹی چھوٹی گھریلو باتوں پر نظر رکھتا تھا اور وہ اس کے رویئے پر کوئی شکوہ بھی نہ کر پاتی لیکن کبھی کبھی اس کا دل یہ ضرور چاہتا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی دنیا میں واپس چلی جائے۔ کتنی عجیب بات تھی زندگی کا ایک طویل عرصہ ساتھ گزارنے کے باوجود وہ آج بھی ذہنی طور پر عامر سے بہت دور تھی۔ گڈو، پنکی کی پیدائش کے بعد اس کی مصروفیات کچھ بڑھ گئی تھیں۔ اب اسے بچوں کے جھمیلے میں پڑ کر گھر سے باہر جانے یا بننے سنورنے کا شوق بھی نہ رہا تھا۔ وہ سارا سارا دن ان کے آگے پیچھے بھاگتی رہتی۔ بچوں کے کاموں میں مگن ہوکر وہ اپنے آپ کو بھلا بیٹھی تھی۔ وہ اب اس زندگی کی کچھ عادی سی ہوتی جارہی تھی لیکن انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس نے اس کی زندگی کو درہم برہم کردیا۔ پندرہ سولہ سال بعد اچانک ایاز لندن سے پلٹ آیا۔ ایاز جو بھابھی کا چھوٹا بھائی تھا لیکن اسے بھی بھائیوں ہی کی طرح عزیز تھا۔ وہ اور ایاز برسوں ساتھ رہے تھے۔ وہ ان دنوں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی کہ اچانک بھابھی کی امی کے انتقال کی خبر ملی۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ لاہور پہنچیں کہ دم رخصت ماں کا چہرہ دیکھ سکیں۔ واپس آئیں تو اپنے ساتھ گول مٹول ایک آٹھ دس سال کا بچہ بھی لیتی آئیں۔ یہ ایاز تھا بھابھی کا سب سے چھوٹا بھائی ماں کے انتقال کے بعد جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا، بہن اور اس کے سسرال والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا، شاید اس لئے بھی گھر میں وہی سب سے چھوٹا تھا۔ بچہ سمجھ کر سب ہی اس کی ناز برداری کرتے تھے۔ اس میں کچھ ہمدردی کا جذبہ بھی شامل تھا۔ بن ماں، باپ کا بچہ سمجھ کر سب ہی اس کی جھولی میں پیار کی بھیک ڈالتے رہتے تھے۔ شروع شروع میں وہ شرمایا شرمایا، جھجکا جھجکا سا رہا مگر ماحول میں رچ بس گیا۔ شازیہ سے تو اس کی خاص دوستی تھی۔ وہ عمر میں اس سے سات آٹھ سال بڑی تھی، مگر بالکل دوستوں کی طرح تھی۔ ایاز کسی کی بات نہ سنتا تھا مگر اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ بالکل بچہ بن کر رہتی تھی۔ کبھی لٹو گھماتی تو کبھی صحن میں اس کے ساتھ ہاکی یا کرکٹ کھیلتی نظر آتی۔ گھر کے دوسرے لوگ اس سے محبت تو کرتے تھے، اس کی جا بے جا فرمائش بھی پوری کردیتے تھے، مگر کسی کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ اس کی طرح بونگی حرکتیں کرتا پھرتا۔ یوں ایاز، شازیہ سے مانوس ہوتا چلا گیا۔ کھیل کود سے لے کر لکھنے پڑھنے تک شازیہ اس کی دست راست بنی ہوئی تھی۔ اس طرح کئی سال بیت گئے۔ ایاز بھی پرائمری کلاس پاس کرکے مڈل کا طالب علم بن چکا تھا کہ اچانک کینیڈا سے ایاز کے بڑے بھائی رضوان پاکستان آئے۔ چھوٹے بھائی کو جو بہن کے گھر پر پلتے دیکھا تو جانے محبت نے جوش مارا یا عزت نے کہ انہوں نے بھائی کو اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایاز کے سامنے انہوں نے وہاں کی زندگی کا ایسا خوبصورت نقشہ پیش کیا تھا کہ اس کا دل تو پہلے ہی وہاں جاکر سیر و تفریح کے لئے مچل اٹھا تھا۔ بھابھی البتہ اپنے بھائی کے اس فیصلے پر جزبز سی تھیں مگر کہہ بھی کیا سکتی تھیں کہ بھائی کا بہتر مستقبل بھی پیش نظر تھا۔ ایاز کینیڈا کیا گیا، سارے گھر کی رونق بھی ساتھ ہی لیتا گیا۔ وہ دن بھر خالی خالی گھومتی رہتی۔ یوں لگتا جیسے کرنے کو کوئی کام ہی نہ ہو۔ امتحان ہوچکے تھے اور اب رزلٹ کا بھی جان لیوا انتظار باقی تھا۔ چار سال تک یونیورسٹی میں گزار کر اب ہمیشہ کے لئے گھر بیٹھے رہنے کا تصور بھی محال تھا مگر اسے اس حقیقت کو قبول کرنا ہی تھا۔ ملازمت کی اجازت ملنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ رزلٹ نکل بھی آیا تب بھی اسے گھر ہی میں رہنا تھا لیکن پھر ہوا یوں کہ رزلٹ کے آتے آتے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے مصداق اسے عامر کے سپرد کردیا گیا۔ اچھے رشتے مشکل سے ملتے ہیں اور عامر جیسا رشتہ تو ڈھونڈنے سے بھی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ اسی لئے یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ اسے کچھ کہنے سننے کا بھی موقع نہ ملا، پھر کہنے سننے کی ضرورت ہی کہاں تھی، اس نے کون سے اپنے ذہن میں آئیڈیل بٹھا رکھے تھے۔ عامر بظاہر بہت اچھا تھا۔ شادی کے بعد جس قسم کی پرآسائش زندگی کے خواب کوئی لڑکی دیکھ سکتی ہے، وہ اسے میسر تھی لیکن زندگی گزارنے کے لئے زیور، کپڑا، کوٹھی ، موٹر سے کہیں زیادہ پراعتماد اور سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا جیسے عامر کی زندگی اعتماد سے خالی ہو۔ اس کا اظہار وہ باربار کر بھی چکا تھا۔ شازیہ بھی اس کی اس عادت کی کچھ عادی ہوچکی تھی مگر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور اس بار اچانک ایاز کی آمد پر عامر نے جو رویہ اپنایا تھا، وہ شازیہ کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ کئی بار ایاز کے بارے میں اسے بتا چکی تھی۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک کے واقعات اتنی بار دہرائے تھے کہ اسے زبانی یاد ہوجانا چاہئے تھے، مگر پھر بھی وہ ایاز کے سامنے کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتا جسے سن کر وہ کھول اٹھتی، مگر جواب نہ بن پڑتا، مگر آج کے واقعہ نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اتنی بے عزتی، اتنی حقارت اس کا تو اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا۔ ایاز جسے اس نے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں والا پیار دیا تھا اور وہ بھی ہمیشہ اس سے بہنوں جیسے رشتے ہی سے ملتا تھا، لیکن آج عامر نے اسی مقدس رشتے کو تارتار کردیا اور وہ یقین و بے یقینی کے دوراہے پر کھڑی یہ سوچ رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ اور پھر بہت سوچ سمجھ کر اس نے بالآخر ایک فیصلہ کر ہی لیا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے اسے بڑی اذیتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ عامر اور اس کے گھر کو چھوڑنا آسان نہ تھا۔ عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے مگر اپنے کردار کے بارے میں کچھ نہیں سن سکتی اور وہ بھی شوہر کی زبانی اسے علم نہ تھا کہ ایاز جو چند دن کے لئے اس کے گھر آکر ٹھہرا ہے اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ویسا ہی کھلنڈرا اور لاپروا ہے، جیسا اب سے پندرہ برس پہلے تھا، اس کے کھلنڈرے پن کا عامر اس قدر سخت نوٹس لے گا نہ صرف اسے سخت وسست کہہ ڈالے گا بلکہ ایاز کو بھی ذلیل کرنے سے باز نہیں آئے گا تو شاید وہ کبھی بھی ایاز کو اپنے گھر نہ ٹھہراتی۔ اور پھر بہت سوچ سمجھ کر اس نے ایک بھیانک فیصلہ کرلیا۔ زندگی میں جب اعتماد کے رشتے ٹوٹ جائیں تو پھر کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا اور آج وہ یہ رشتہ بھی توڑ بیٹھا تھا۔ اس لمحے اسے اپنے آپ سے، عامر سے اور اس گھر سے نفرت ہونے لگی جہاں وہ زندگی کے سہانے دن گزار آئی تھی۔ عامر تم اسے اعتراف شکست کہہ لو یا احساس گناہ مگر یہ حقیقت ہے اور میں اپنے تمام تر جذبوں کی صداقتوں کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ تم میری زندگی میں داخل ہوتے ہوئے بھی بہت دور رہے ہو۔ تمہاری قربت نے مجھے کبھی بھی اپنائیت کا احساس نہیں بخشا۔ میں سوچا کرتی تھی کہ تم میرے جیون ساتھی ہوتے ہوئے بھی سڑک پر دوڑتی بھاگتی ان اجنبی گاڑیوں کی طرح ہو جو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، محض اپنی اپنی سلامتی اور بقا کی خاطر میں کبھی سمجھ نہ سکی تھی کہ مجھے یہ اجنبیت کا احساس کیوں ہوتا ہے لیکن آج یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ تم صرف ایک ایسے مرد تھے جو شک و شبے کا پتلا ہوتا ہے۔ وہ خود قدم قدم پر فلرٹ کرسکتا ہے، ہر لڑکی سے بیباک گفتگو کرسکتا ہے، اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا سکتا ہے، لیکن اس کی بیوی یا بہن کی طرف کوئی نظر اٹھا کر دیکھے تو یہ اس سے کبھی برداشت نہیں ہوتا لیکن عامر تم ان مردوں سے بھی مختلف ہو۔ تم شکی ہی نہیں اذیت پسند بھی ہو۔ تمہارے نزدیک مقدس رشتے بھی تارتار ہوسکتے ہیں لیکن میرے ہاں اتنے شک و شبے کی گنجائش نہیں اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب تمہاری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائوں۔ اس نے آخری جملہ لکھ کر قلم میز پر ڈالا اور خود خالی الذہن ہوکر کرسی پر نڈھال ہوکر گر گئی اور تب ہی آنسوئوں کا ایک سیلاب اس کی آنکھوں سے رواں ہوگیا۔ وہ بے اختیار سسک اٹھی۔ اس نے خالی خالی نظروں سے گھر کو دیکھا۔ کچھ دیر بعد اس میں سے کوئی چیز بھی اس کی اپنی نہ ہوگی، اس نے افسردگی سے سوچا۔ آنسو، آہیں اور کراہیں، احساس ندامت اور کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں اور میں نہ کمزور ہوں اور نہ نادم پھر یہ آنسوئوں کی برسات کس لئے تم جو اپنے حلقے میں خاصی سمجھدار، گریس فل اور ریزرو قسم کی لڑکی سمجھی جاتی رہی ہو، اچانک ریت کے گھروندے کی طرح کیوں بکھرنے لگیں اس نے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے سوچا۔ کیا بچے میری کمزوری ہیں نہیں یا شاید ہاں لیکن بچے وہ کون سے میرے ساتھ ہیں۔ وہ تو ہاسٹل میں پڑھ رہے ہیں اور پھر سال دو سال بعد عامر کا پروگرام انہیں ویسے بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکا بھجوانے کا ہے۔ وہ گھر چھوڑنے کا جواز ڈھونڈ رہی تھی۔ یوں بھی اس وقت اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی کہ کسی طور بھی سمجھوتہ کرنے پر راضی نہ تھی۔ اس نے خط لفافے میں بند کرکے عامر کے سرہانے رکھا اور خود اپنا پرس اٹھا کر گھر سے نکل گئی۔ عامر اب تک حسب معمول گھر نہیں آیا تھا۔ رات آنسوئوں سے بھرے پپوٹوں کی طرح بھاری ہوگئی تھی اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے ریگستان میں اکیلی ریت کے ٹیلوں میں گھری کھڑی ہو۔ اس نے بمشکل تمام رکشہ لیا اور امی کے پاس جا پہنچی۔ گھر پہنچ کر اس نے ساری بات تفصیل سے بتا دی۔ گھر والوں نے مصالحت کرانے کی کوشش بھی کی مگر اس نے ٹکا سا جواب دیا اور اس لمحے عامر کے کہے ہوئے جملے اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔ سنا ہے تمہارا اور ایاز کا زبردست افیئر رہا ہے ہاکس بے سے واپسی پر عامر نے اس سے پوچھا تھا اور تب وہ اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی تھی کہ اتنی بڑی بات وہ کس قدر آسانی سے، کس قدر سادگی سے کہہ بیٹھا تھا۔ اس نے عامر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی، مگر وہ تو کورے کاغذ کی طرح سپاٹ تھا اور اس لمحے اس کو عامر سے یکدم کراہیت سی محسوس ہوئی تھی۔ یہ عامر کی عام عادت تھی کہ انتہائی خوشگوار موڈ میں ہوتے ہوئے جب وہ اسے بہت اپنا اپنا سا لگنے لگتا، وہ فوراً ہی کوئی ایسا جملہ کہہ دیتا کہ وہ بکھر کر رہ جاتی۔ یہ بھی اس کی اذیت پسندی کا ایک انداز تھا۔ ارے کس سوچ میں پڑ گئیں تم میں نے تو یونہی ایک بات پوچھی تھی۔ بھلا میں پچھلی زندگی کا احتساب کیسے کرسکتا ہوں تمہارا ایاز سے چکر رہا ہو یا فیاض سے لڑکی خوش شکل اور اسمارٹ ہو تو اس سے چکر چلانے کو خودبخوددل چاہتا ہے۔ اس میں تمہارا بھلا کیا قصور عامر اپنی بات کہہ کر یوں خاموش ہوا جیسے اس نے کوئی اچھی بات کہی ہو اور تب اس کا دل چاہا تھا کہ کاش وہ بھی ڈریکولا جیسی شخصیت کی مالک ہوتی تو اس لمحے اپنے لمبے لمبے ناخنوں سے اس کی گردن دبوچ لیتی لیکن وہ کچھ نہ کرسکتی تھی، سوائے اپنے اوپر جبر کرنے کے اس نے بڑے صبر و سکون کا مظاہرہ کرتے ہوئے پراعتماد لہجے میں کہا تھا۔ افیئر اور وہ بھی ایاز سے، توبہ کریں جی یہ تو میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے۔ بچپن سے ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہا ہے۔ قرب کے شعلے انسیت کو ہوا دیتے ہیں، اس سے بھلا تم کیونکر انکار کرسکتی ہو۔ اس نے مجسٹریٹوں والے انداز سے اپنا فیصلہ سنایا اور منہ میں سگار دباتے ہوئے لاپروائی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ عامر کی باتیں سن کر اسے بے حد غصہ آیا تھا اور یہ غصہ اسے عامر سے زیادہ اپنے آپ پر تھا کہ کاش زندگی کا اتنا بڑا معاہدہ وہ یوں آنکھیں بند کرکے نہ کرتی۔ ایک ایسے انسان کے پلے نہ بندھتی جو ذہنی پسماندگی کے اس مقام پر ہے جہاں اسے ہر لڑکی اپنی ادائوں کے جال بچھا کر لڑکوں سے فلرٹ کرتی نظر آتی ہے۔ عجب منطق ہے ان مردوں کی بھی شادی کے لئے لڑکی بھی چاہئے تو ایسی جو اسمارٹ ہو، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور سوسائٹی کے آداب سے واقف ہو لیکن اس کے ساتھ ہی یہ قدغن بھی کہ اس پر کسی انسان کی تو کیا فرشتوں کی بھی نظر نہ پڑی ہو۔ تم جیسے لوگوں کو لڑکیوں سے نہیں، کسی کمپیوٹر سے شادی کرنا چاہئے۔ بارہا اس کا دل چاہا کہ عامر کو کھری کھری سنا ڈالے مگر ہر بار مصلحت آڑے آتی رہی مگر آہ تمام مصلحتیں، تمام سمجھوتے ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گئے تھے۔ اس وقت اس کے ذہن میں کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ ایک عورت ہے۔ ایک ایسی عورت جو سب کچھ برداشت کرسکتی ہے، ہر اذیت سہ سکتی ہے لیکن اپنے کردار کو، اپنی پارسائی کو مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتی، اپنے اوپر بہتان برداشت نہیں کرسکتی۔ چند دن بعد شازیہ کی طرف سے خلع کا نوٹس ملنے پر عامر حیران رہ گیا۔ وہ تو سمجھا تھا کہ چند دن کا غصہ ہے، خود ہی ٹھیک ہوجائے گی مگر اتنا بڑا قدم اٹھا لے گی، اس کا تو اسے وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اس نے سوچا ایک بار جاکر اسے سمجھانے کی کوشش کرے، شاید مان جائے۔ یہی سوچ کر وہ اس کے پاس جا پہنچا۔ گھر والے اس کی اچانک آمد پر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی کہ شاید اب معاملہ ٹھیک ہوجائے۔ اس نے بڑی معصومیت سے اپنا مقدمہ سب کے روبرو پیش کرتے ہوئے کہا۔ آپ اس سے پوچھئے کہ اسے تکلیف کیا ہے اچھا، خوبصورت گھر ہے، نوکرچاکر ہیں، روپے پیسے کی تنگی نہیں، پھر یہ سب کیا ہے تم ٹھیک کہتے ہو ہم تو خود بھی چاہتے ہیں کہ حالات سدھر جائیں۔ اب تم خود ہی اسے سمجھائو۔ امی نے مصالحت کرانے کی کوشش کی اور خود چپ چاپ کسی معقول عذر کے ساتھ کمرے سے چلی گئیں۔ سنو کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں رہا یا میری محبت میں کمی محسوس کرنے لگی ہو اس نے بڑی اپنائیت سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ مجھے تمہاری محبت نہیں، اعتماد چاہئے اور اعتماد کے معاملے میں تم بالکل مفلس ہو۔ عورت اور مرد کی زندگی میں اگر اعتبار کے رشتے قائم نہ رہیں تو پھر ان رشتوں کو ٹوٹ ہی جانا چاہئے اور تم نے مجھ پر کبھی اعتماد نہیں کیا، ہمیشہ مجھ پر شک کرتے رہے۔ میری پچھلی زندگی کے واقعات کھنگالتے رہے اور اب وہ لمحہ آگیا ہے کہ میں نے تم سے قطع تعلق کرنے پر خود کو آمادہ کرلیا ہے۔ اب میں ایک ایسی زندگی گزارنا چاہتی ہوں جو صرف میری ہو۔ جہاں کسی کو میری کردارکشی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اب مجھ میں تمہارا ساتھ دینے کا حوصلہ نہیں کہ میری روح زخمی ہوچکی ہے اس لئے خداحافظ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ عامر کے ہاتھ سے چھڑایا اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اور عامر سوچتا رہ گیا کہ اس کا معمولی مذاق اور کھوج لگانے کی عادت کیا اتنی ہی خطرناک تھی کہ ایک عورت جو اس کی بیوی اور اس کے بچوں کی ماں بھی ہے، سب کچھ چھوڑ کر اس سے قطع تعلق کر گئی۔ میں نے تو کبھی اس پر بہتان نہیں لگایا، کبھی اسے کچھ نہیں کہا مگر یہ عورت ذات ہوتی ہی بے وفا ہے۔ پہلی بیوی نے بھی یونہی منجدھار میں چھوڑا تھا تو دوسری بھی تعلق توڑ بیٹھی۔ ختم شد | null |
null | null | null | 257 | https://www.urduzone.net/dast-masehai-complete-urdu-story/ | رات کے آٹھ بجنے والے تھے۔ نبیلہ ڈیوٹی پر جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہورہی تھی۔ وہ آج لیٹ ہورہی تھی۔ بڑی دوڑ دھوپ اور مشکل سے اسے ایک پرائیویٹ اسپتال میں نائٹ شفٹ پر بطور نرس یہ جاب ملی تھی۔ اگرچہ اس نے مارننگ شفٹ میں جاب کی درخواست دی تھی مگر صبح کی شفٹ میں جگہ خالی تھی نا ہی شام کی شفٹ میں البتہ اس سے یہ ضرور کہا گیا تھا کہ جیسے ہی صبح کی شفٹ خالی ہوئی تو اسے نائٹ ڈیوٹی سے ہٹا کر صبح میں رکھ لیا جائے گا۔ صبح اور شام کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹے ہوتی تھی، جبکہ نائٹ ڈیوٹی بارہ گھنٹے کی ہوتی تھی۔ رات آٹھ سے صبح آٹھ بجے تک اس مناسبت سے تنخواہ بھی کچھ زیادہ تھی۔ جاب نبیلہ کی مجبوری تھی۔ بے شک پہلے وہ اپنے شوق کی خاطر نرسنگ کے شعبے میں آئی تھی مگر پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب یہی شوق ذریعۂ معاش بن چکا تھا۔ وہ دبلی پتلی اور گوری رنگت کی چوبیس پچیس سالہ لڑکی تھی۔ ایک اوسط درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے ابو کسی سرکاری محکمے میں آفس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ نبیلہ ان کی بڑی بیٹی تھی۔ اس سے چھوٹی بہن کوثر اور پھر بھائی تھا نعمان، جسے پیار سے نومی کہتے تھے۔ گھر چھوٹا مگر اپنا تھا۔ جس پوسٹ پر شفیق الدین فائز تھے، وہاں چاروں طرف سے ہن برستا تھا۔ تنخواہ سے زیادہ اوپر کی آمدنی تھی مگر شفیق الدین نے صرف حق حلال کی کمائی کو اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اس نیک نفس انسان کی یہ ادا بھا گئی تھی کہ اس نے شفیق الدین کی محض تنخواہ کی آمدن میں بہت برکت ڈال دی تھی، گزر بسر اچھی ہورہی تھی۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں کی اچھی تربیت کی تھی اور انہیں پڑھایا لکھایا تھا۔ اس میں ان کی بیگم ثریا خاتون کا بھی ہاتھ تھا جو خود بھی ایک قناعت پسند اور صابر عورت تھی۔ نبیلہ کو نرس بننے کا شوق تھا۔ اس نے جب نرسنگ کورس مکمل کیا تو بدقسمتی سے باپ شفیق الدین کا ایک جانکاہ حادثے میں انتقال ہوگیا۔ ایک تیز رفتار منی بس نے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ان کی بائیک کو ٹکر مار دی تھی۔ نبیلہ پر گھر کی ذمہ داری کا بار آن پڑا تھا۔ ماں کو آنکھوں سے کم نظر آنے لگا تھا۔ چھوٹی بہن کوثر انٹر کا امتحان دے چکی تھی اور اب آگے پڑھ رہی تھی۔ نومی میٹرک میں تھا۔ تینوں بچے شریف اور سعادت مند تھے۔ نبیلہ نے ایک پرائیویٹ اسپتال میں جیسے تیسے جاب ڈھونڈ لی تھی، خواہ وہ نائٹ میں تھی۔ مذکورہ پرائیویٹ اسپتال میں صرف لیڈی ڈاکٹرز کے لئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت رکھی گئی تھی۔ فیمیل نرسوں کے لئے نہیں، حالانکہ ڈاکٹرز سے زیادہ لوئر اسٹاف پر کام کی زیادہ ذمہ داری ہوتی تھی۔ نبیلہ جیسے تیسے دو بسیں بدل کر ڈیوٹی پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ایک ایمرجنسی آئی ہوئی ہے۔ اس کی ساتھی نرس سسٹر آسیہ نے بتایا تھا۔ دونوں آپس میں اچھی دوست تھیں۔ وہ ایک دوسرے کی کلاس فیلوز رہ چکی تھیں۔ اس کی طرح وہ بھی غیر شادی شدہ تھی۔ مائی گاڈ کس قدر خوبرو اور جوان لڑکا ہے اور دیکھو ایک حادثے نے اس کا کیا حشر کردیا ہے۔ سسٹر آسیہ نے نبیلہ سے بہت تاسف سے کہا۔ اچھا نبیلہ نے بھی دل میں افسوس محسوس کیا۔ بچنے کی کوئی امید ہے اس بے چارے کی پتا نہیں، ابھی تو کوما میں پڑا ہے، آئی سی یو کے بیڈ نمبر تین پر ہے۔ آج کی رات چند گھنٹوں کی نیند بھی گئی، ساری رات اس کی تیمارداری میں گزرے گی۔ ایسا نہیں کہتے آسیہ نبیلہ نے اسے سنجیدگی سے ٹوکا۔ ہم یہاں نیند پوری کرنے نہیں آتے، اپنا فرض نبھانے آتے ہیں۔ اچھا بابا اب یہ فرائض کا لیکچر چھوڑو اور جاکر تم بھی اس کے کیس کا آرڈر فالو کرو، ڈیوٹی ڈاکٹر منظور بھی وہیں ہیں۔ آسیہ نے کہا اور نبیلہ اسٹاف روم سے نکل کر آئی سی یو کی طرف بڑھ گئی۔ جنرل وارڈز کی بہ نسبت آئی سی یو میں گہری خاموشی ہوتی تھی اور جانے کیوں نبیلہ کو آئی سی یو کی یہ خاموشی موت جیسی محسوس ہوتی تھی۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے موت کا فرشتہ آس پاس ہی گردش کررہا ہو، حالانکہ وہ مضبوط دل گردے کی مالک تھی۔ کئی مریضوں کو اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جاتے دیکھا تھا، مگر باوجود اس کے جانے کیا بات تھی آئی سی یو میں داخل ہوتے ہی اس کی عجیب سی کیفیت ہونے لگتی تھی۔ آئی سی یو میں اس وقت صرف تین ہی مریض تھے۔ دو روبہ صحت تھے جبکہ تیسرے بیڈ پر وہ نیا ایڈمٹ ہونے والا بدقسمت نوجوان تھا جس کے بارے میں آسیہ نے اسے بتایا تھا۔ اس کے لواحقین آئی سی یو سے باہر کھڑے رو رہے تھے اور ہر آنے جانے والے اسٹاف سے سسکتے ہوئے نوجوان کی خیریت کے بارے میں دریافت کررہے تھے، نبیلہ اندر داخل ہوئی۔ ڈاکٹر منظور کے ہمراہ ایک اور خاتون تھیں۔ وہ خاصی عمر کی تھیں اور ان کا چہرہ اشک بار تھا، بعد میں معلوم ہوا وہ اس بدنصیب نوجوان کی ماں تھی۔ کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے۔ باپ بزنس ٹرپ پر ملک سے باہر تھا۔ اسے اطلاع کردی گئی تھی۔ وہ اپنا ٹرپ کینسل کرکے پہلی دستیاب فلائٹ سے لندن سے واپس لوٹ رہا تھا۔ نوجوان کوما میں تھا، اس کے سرہانے کے اوپر دو مانیٹر نصبب تھے۔ ایک میں اس کے دل کی اور دوسرے میں اس کی نبض کی رفتار آڑی ترچھی لکیروں کی صورت متحرک تھی۔ مصنوعی تنفس والی مشین بھی وہاں موجود تھی۔ نوجوان کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر، خاتون کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ نبیلہ کو دیکھ کر اس نے اسے کچھ ہدایات دیں۔ نبیلہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، اس کے بعد ڈاکٹر خاتون کو ساتھ لئے آئی سی یو سے باہر نکل گئے۔ نبیلہ اس بدنصیب کو بغور دیکھنے لگی، پھر اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ اب سرسری نگاہوں کے بجائے بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے پہچاننے کی کوشش کررہی ہو۔ اس کی اپنی حالت غیر سی ہونے لگی۔ مزید تصدیق کی خاطر اس نے نوجوان کی میڈیکل فائل دیکھی۔ نام اور ولدیت کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ بدنصیب نوجوان نبیلہ کا شناسا تھا۔ اب نبیلہ کا اپنا دم گھٹنے لگا، اس کی آ نکھیں اشکبار ہونے لگیں، ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس میں کھڑے ہونے کی طاقت جیسے سلب ہوگئی تھی۔ اسے چکر سا آگیا۔ وہ بمشکل کائونٹر ٹیبل تک آئی اور وہاں رکھی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔ وہی ہے یہ بالکل وہی ہے صفدر حیات مگر اس کے اندر جنگ سی ہونے لگی۔ گم گشتہ ماضی کے کئی تلخ اور کریہہ مناظر اس کے پردۂ تصور پر چلنے لگے۔ ماضی کے حوالے سے کئی در اس کے بے طرح دھڑکتے دل کے دروازے کی طرح کھلتے بند ہوتے رہے۔ وہ ایک عجیب سی کشمکش کا شکار ہوگئی۔ نبیلہ کیا سوچ رہی ہے تو اس کے اندر کوئی چیخا۔ آج وقت تیرے ہاتھ میں ہے، خبردار اپنے دشمن کو کبھی معاف نہ کرنا۔ یہ آج تیرے رحم و کرم پر ہے۔ بس ایک ذرا بٹن آف ہی تو کرنا ہے مصنوعی سانس دینے والی مشین کا نہیں نبیلہ دفعتاً اس کے اندر ایک اور آواز ابھری جو شاید اس کے ضمیر کی آواز تھی۔ یہ اپنے فرض سے غداری ہے۔ تو اس وقت ایک مسیحا کے روپ میں ہے۔ تو اس وقت نبیلہ نہیں، ایک نرس ہے جس کا کام مرتے ہوئے مریضوں کی تیمارداری کرکے انہیں زندگی کی طرف لوٹانا ہوتا ہے اور پھر یہ بدنصیب تو ویسے ہی زندہ لاش کی صورت تیرے سامنے ہے۔ مرتے ہوئے کو مارنا گناہ ہے اور فرض کی نفی ہے۔ کیا تو بھول گئی نبیلہ پہلی والی غراتی ہوئی شوریدہ آواز دماغ میں گونجی۔ تو بھی تو اس وقت مر رہی تھی، ایک زندہ لاش کی مثل تو تو بھی تھی۔ اس وقت جب یہی شیطان نما انسان تجھ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑ رہا تھا تو بھی تو بے آسرا، مجبور، بے بس اور کمزور تھی۔ بھول گئی کس طرح یہ شیطان طاقت کے نشے سے چور تھا۔ نہیں نبیلہ ہرگز نہیں ظالم کو معاف کرنے والا بھی ظالم کہلاتا ہے۔ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کو اس نے تباہ کیا ہوگا اور اگر یہ بچ بھی گیا تو نجانے اور کتنی معصوم لڑکیوں کو اپنے شیطانی مقصد کی بھینٹ چڑھاتا رہے گا۔ مار دے اسے، وقت کی نبض مانیٹر میں نہیں تیرے ہاتھ میں ہے۔ کردے مشین کا بٹن آف، چند سیکنڈ ہی کی تو بات ہے۔ جب مانیٹر کی آڑی ترچھی لکیریں سیدھی ہوجائیں گی تو آن کردینا، کسی کو ذرا بھی شبہ نہ ہوگا۔ مار دے اسے، یہ خونی ہے، تیرا مجرم ہے۔ آج تجھے ایک پرانا حساب چکانے کا موقع ملا ہے۔ نہیں نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی۔ بے اختیار نبیلہ چیخ پڑی۔ کیا ہوا نبیلہ کیا نہیں کرسکتیں تم معاً ایک حقیقی آواز اس کی سماعتوں میں گونجی اور وہ سنبھل گئی۔ اس کے قریب ساتھی نرس آسیہ کھڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نبیلہ نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کے بات بنائی۔ تم نے ٹھیک کہا تھا آسیہ بے چارہ اتنا خوبصورت، خوبرو نوجوان ہے۔ اللہ اس پر رحم فرمائے۔ یہ دعائیہ کلمات ادا کرنے کے بعد نبیلہ کو جیسے سکون سا ملا۔ اس کا ضمیر مطمئن تھا۔ وہ اب پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ نوجوان کی تیمارداری میں لگ گئی۔ ساری رات جاگتے ہوئے گزار کر ڈیوٹی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پل پل کی خبر اس نوجوان کی سنگین حالت زار کے متعلق اسے بہم پہنچاتی رہی اور مزید ہدایات لیتی رہی۔ تین دن بعد ڈاکٹروں کی ٹیم نوجوان کے ورثا کو اس خوشخبری سے آگاہ کررہی تھی کہ نوجوان صفدر کو ہوش آگیا ہے، اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ بلاشبہ اس میں نبیلہ کی خصوصی توجہ اور تیمارداری کا ہی دخل تھا جس کا اعتراف پورے میڈیکل اسٹاف نے بھی کیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ نبیلہ نے راشد کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ ساتھ والے مکان میں نئے نئے شفٹ ہوئے تھے۔ یہ اوسط درجے کا علاقہ تھا، یہاں سب لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ راشد ایک چوبیس پچیس سالہ شریف سا نظر آنے والا لڑکا تھا اور اپنے ماں، باپ کا اکلوتا بھی باپ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرتا تھا۔ راشد بھی اسی دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ دونوں باپ، بیٹے موٹرسائیکل پر دفتر آتے جاتے تھے۔ محلے داری کی نسبت سے سب سے پہلے راشد کی ماں ہی ان کے ہاں کھیر بنا کر لائی تھی اور تب سے نبیلہ کے گھر ان کا آنا جانا استوار ہوگیا تھا۔ نبیلہ کی ماں ثریا خاتون نے بھی راشد کی ماں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔ نبیلہ اس وقت سیکنڈ ایئر میں پڑھتی تھی۔ محلے سے باہر ایک مصروف چوراہے پر کالج کی پوائنٹ بس آکر رکتی تھی اور نبیلہ اسی کالج پوائنٹ کے ذریعے کالج آیا جایا کرتی تھی، بس چوراہے تک اسے ذرا پیدل چلنا پڑتا تھا۔ گلی میں آتے جاتے اکثر نبیلہ کی نگاہ راشد پر پڑ جاتی تھی جو اپنی بائیک پر اپنے والد کے ساتھ نظر آتا تھا، تب صرف ایک لمحے کے لئے راشد اور نبیلہ کی نظریں چار ہوتی تھیں۔ ایک دو بار راشد نے ان کے گھر کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا۔ جب اس کی ماں کوئی خاص ڈش بناتی تو راشد ہی کے ہاتھ ان کے گھر بھیج دیا کرتی تھی۔ ثریا خاتون بھی اسی طرح ان کا خیال کرتی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ دستک دینے پر نبیلہ دروازہ کھولتی۔ راشد اور اس کا باقاعدہ سامنا ہوجاتا تھا مگر راشد اپنی نظریں نیچی ہی رکھتا تھا۔ عورت کو سب سے پہلے مرد کی شرافت متاثر کرتی ہے۔ یہی حال نبیلہ کا تھا۔ اسے راشد اچھا لگنے لگا تھا۔ اس روز وہ بس اسٹاپ پر ذرا دیر سے پہنچی تو کالج کی بس جا چکی تھی۔ نبیلہ کو کسی وجہ سے دیر ہوگئی تھی مگر جانا بھی ضروری تھا۔ آج اس کا ٹیسٹ تھا۔ اب اگر وہ بس پر جاتی تو لیٹ ہوجاتی کیونکہ کالج ایسے روٹ پر تھا جس کے لئے دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں اور تاخیر الگ ہوجاتی خواری کے ساتھ سوئے اتفاق اس روز راشد کے والد کی طبیعت ذرا خراب تھی اس لئے راشد اکیلے ہی بائیک پر نکلا۔ محلے کی گلی سے نکل کر جب وہ چوراہے پر آیا تو اس کی نظر بھی بس کے انتظار میں کھڑی نبیلہ پر پڑ گئی جو پریشان سی نظر آرہی تھی اور باربار اپنی رسٹ واچ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ راشد کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ معاملہ کیا تھا۔ بہرطور وہ اپنی بائیک سمیت اس کے قریب جا پہنچا۔ محلے داری کے حوالے سے کچھ شناسائی تو تھی لہٰذا اسے بڑے ادب سے سلام کرنے کے بعد نہایت شستہ لہجے میں بولا۔ آپ شاید لیٹ ہورہی ہیں، مناسب سمجھیں تو آپ کو کالج ڈراپ کردوں، میرا دفتر بھی اسی طرف پڑتا ہے۔ نبیلہ اس آفر کو رد نہ کرسکی اور کچھ تامل کے بعد سنبھل کر اس کی بائیک پر بیٹھ گئی۔ شاید آج آپ کا کالج پوائنٹ نکل گیا ہے راشد نے بائیک آگے بڑھاتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ جی وہ بولی۔ عموماً ایسی صورتحال میں کالج نہیں جاتی ہوں مگر آج ہماری کلاس میں گروپ ٹیسٹ تھا۔ چلیں اچھا ہوا اس بہانے مجھے ایک کارخیر ادا کرنے کا موقع تو ملا۔ راشد نے مسکرا کر کہا۔ ویسے سچ پوچھیں میں نے آپ کو ڈرتے ڈرتے ہی لفٹ کی آفر کی تھی کہیں آپ مجھے ڈانٹ ہی نہ دیں۔ اس کی بات پر نبیلہ ہنسی پھر بولی۔ آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں ایسا کرنے سے بھی دریغ نہ کرتی، ٹیسٹ جاتا بھاڑ میں مگر آپ کی بات اور ہے۔ اس اعتبار کا شکریہ یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ آپ مجھے کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں سمجھتیں۔ وہ بولا۔ آج انکل آپ کے ساتھ نہیں ہیں، خیریت نبیلہ نے ہولے سے پوچھا۔ ہاں ان کی آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے مختصراً جواب دیا۔ یہ ان کی پہلی باقاعدہ ملاقات تھی پھر آگے چل کر مزید اس طرح کے مواقع میسر آئے تو دل کو بھی دل سے راہ ہوئی۔ محلے داری سے شناسائی اور پھر دوستی تک یہ سفر طے ہوا تو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا بھی موقع ملا۔ نبیلہ کو وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا، شریف اور سلجھا ہوا انسان لگا تھا۔ اس نے بی کام کیا ہوا تھا۔ ایک دن بہت جھجکتے ہوئے راشد نے نبیلہ سے باہر گھومنے کے لئے جانے کی فرمائش کر ڈالی۔ نبیلہ کے لئے یہ مشکل تھا۔ یوں تو دونوں تھوڑی بہت باتیں کرنے کا موقع مل جایا کرتا تھا اور یہ بھی اس وقت جب راشد اپنی ماں کی بنی کوئی سوغات لے کر ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی ایک بہانے کا دخل ہوتا تھا، تاہم اس قلیل ترین ملاقات پر بھی نبیلہ محتاط رہتی اور راشد کو بھی یہی تلقین کرتی۔ بندہ پیاسا رہے تو پیاس اتنی شدت سے نہیں ستاتی جتنی قطرہ قطرہ پانی ملنے پر ستاتی ہے۔ پیاسے کے لئے تو یہ قطرہ گویا بھڑکتی آگ پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی حال راشد کا تھا اور نبیلہ کی بھی کم و بیش یہی کیفیت تھی۔ پلیز نبیلہ کچھ کرو نا اس روز راشد نے بڑی حسرت سے کہا۔ یہ مشکل ہے میرے لئے راشد نبیلہ نے سر جھکا کر ہولے سے کہا۔ کسی سہیلی سے ملنے کے لئے جانے کا بہانہ تو بنا ہی سکتی ہو۔ اور اگر تمہاری بائیک پر کسی محلے والے یا والی نے دیکھ لیا تو نبیلہ نے پیار سے اسے گھورا۔ میں اتنا بے وقوف تھوڑا ہی ہوں، ذرا آگے جاکر تمہارا انتظار کروں گا۔ نا بابا مجھے ڈر لگتا ہے۔ یہ ہم جیسوں کے لئے بڑی بات ہے۔ دیکھو، میں جانتا ہوں عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں کبھی ایسا نہیں کرتیں اور یہ اچھی بات بھی ہے لیکن میں تم سے ذرا کھل کر بات کرنا چاہتا ہوں، کسی کھلی فضا میں راشد نے کہا۔ نبیلہ کو جانے کیوں اس کی بات پر لاج سی آگئی۔ بولی۔ تم کیا بات کرنا چاہتے ہو کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے راشد محبت پاش نظروں سے نبیلہ کے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولا۔ نبیلہ سرخ ہوگئی، تاہم ہنس کر بولی۔ جب ضرورت نہیں ہے تو باہر جانے کا مقصد تم ایسے باز نہیں آئو گی۔ راشد زچ ہوکے بولا۔ تو پھر میں اپنی امی جان کو تمہارے گھر بھیج کر رہوں گا، تمہارا رشتہ مانگنے کے لئے نا نا ابھی یہ غضب مت کرنا، ابھی تو مجھے آگے پڑھنا ہے، نرسنگ کورس کرنا ہے۔ تو پھر چلو میرے ساتھ راشد نے پیار بھرے انداز میں بلیک میلنگ سے کام لیا تو نبیلہ کو ماننا پڑا، مگر اس شرط کے ساتھ صرف ایک بار کے لئے۔ یوں شام کو ایک روز دونوں بائیک پر سوار ہوکر ساحل سمندر پر جا پہنچے۔ دونوں نے وہاں پیدل ٹہلتے ہوئے کھل کر باتیں کیں، چنے کی چاٹ کھائی پھر جب لوٹنے لگے تو انہیں ایک حادثہ پیش آگیا۔ اس وقت سورج ڈھلنے لگا تھا اور شام گہری ہونے لگی تھی۔ نبیلہ گھر سے ایک سہیلی کے ہاں منگنی کی رسم میں شرکت کرنے کا بہانہ کرکے نکلی تھی جس کی اسے بڑی مشکل سے ہی اجازت ملی تھی۔ لوٹتے سمے عقب سے آنے والی ایک کار تیزی سے انہیں سائیڈ مارتی گزر گئی۔ بائیک کو جھٹکا لگا۔ نبیلہ خوف سے چیخی، بائیک گرتے گرتے بچی تھی۔ راشد کو اس کار والے کی لاپرواہی پر غصہ آگیا۔ اس نے پرطیش انداز میں اپنے دانت بھینچ لئے اور کار کا تعاقب کرتے ہوئے ایک موڑ پر اسے جا لیا۔ اپنی بائیک اس نے کار کے سامنے جا روکی تھی۔ اندھے ہو یا نشے میں کار چلا رہے تھے۔ اگر کوئی حادثہ ہوجاتا تو راشد نے بائیک سے اتر کر کار والے کے قریب جاکر غصے سے کہا۔ وہ بھی راشد کی طرح ایک نوجوان ہی تھا۔ شکل و صورت اور اپنی وضع قطع سے وہ کوئی رئیس زادہ ہی نظر آتا تھا۔ اس نے ایک تضحیک آمیز نگاہ دونوں پر ڈالی پھر اپنے پرس سے ہزار کا ایک نوٹ نکال کر راشد کی طرف بڑھاتے ہوئے بیزاری سے بولا۔ یہ رکھ لو اور جاکر اپنی اس خوبصورت گرل فرینڈ کے ساتھ مزے کرو، میری جان چھوڑو۔ اس رئیس زادے کی اس حرکت اور بات نے راشد کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ اس نے ہونٹ بھینچ کر آئو دیکھا نہ تائو اس رئیس زادے کے چہرے پر گھونسہ جڑ دیا۔ ضرب کاری تھی، اس کا ہونٹ پھٹ گیا اور وہاں سے خون بہنے لگا۔ مگر اس نے کمال صبر سے کام لیا۔ ڈیش بورڈ پر رکھے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو لے کر اپنا خون آلود ہونٹ صاف کیا، پھر کار سے نیچے اتر آیا۔ وہ بھی راشد کی طرح خوبرو اور اسمارٹ تھا۔ نبیلہ اس صورتحال پر خوف زدہ ہوگئی اور راشد کا بازو تھام کر سراسیمہ انداز میں بولی۔ چلو راشد چلو پلیز مگر راشد ٹس سے مس نہ ہوا۔ رئیس زادے نے راشد کی بائیک کا نمبر نوٹ کیا۔ اس کے بعد اپنی جیب سے سیل فون نکال کر کھڑے کھڑے ایک نمبر ملایا جو شاید کسی قریبی تھانے کا تھا۔ ذرا ہی دیر میں وہاں پولیس آن پہنچی۔ رئیس زادے نے پہلے اپنا تعارف کروایا اس کے بعد نبیلہ اور راشد کی طرف اشارہ کیا۔ یہ دونوں مجھے لوٹنے کی کوشش کررہے تھے، میں نے ان پر قابو پانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے گھونسہ جڑ دیا۔ رئیس زادے نے جھوٹ بولا۔ چلو دونوں تھانے ایک موٹے پولیس والے نے کرخت لہجے میں ان دونوں کی طرف باری باری گھورتے ہوئے کہا۔ نبیلہ کے تو اوسان ہی خطا ہوگئے۔ تھانے کے نام پر ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ وہ رئیس زادہ بڑی شاطرانہ نظروں سے نبیلہ کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کی پریشانی سے فوراً سمجھ گیا کہ لڑکی کا تعلق بلاشبہ ایک شریف اور قدامت پرست گھرانے سے تھا۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے، اس نے ہماری بائیک کو ٹکر ماری تھی۔ راشد نے غصیلے لہجے میں پولیس والے سے کہا۔ تم میری تلاشی لے سکتے ہو، لوٹنے والوں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور پھر میں بھاگا نہیں بلکہ اپنی مرضی سے یہاں رکا ہوا ہوں۔ اسلحہ بھی ہم برآمد کرلیں گے۔ پولیس والا معنی خیز مکاری سے بولا۔ ذرا تم دونوں تھانے تو چلو۔ اس کی بات پر نبیلہ کو غش آنے لگے۔ پولیس نے راشد کو ہتھکڑی لگائی تو نبیلہ اس رئیس زادے کے سامنے منت سماجت کرتے ہوئے بولی۔ دیکھیں پلیز ہمیں معاف کردیں، ان سے کہیں ہمیں چھوڑ دیں، میں ایک شریف لڑکی ہوں۔ میرا بوڑھا باپ اور گھر والے جیتے جی اس بدنامی سے مر جائیں گے۔ رئیس زادے نے بڑی شیطانی نظروں سے نبیلہ کا جائزہ لیا، پھر پولیس والے سے بولا۔ اس مجنوں کی اولاد کو بے شک لے جائو، اسے چھوڑ دو۔ اس نے پہلے راشد کی طرف اور آخر میں نبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ نبیلہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ عزت کے خوف سے بھی ادھ موئی ہوئی جارہی تھی۔ ایسے حالات سے وہ پہلی بار ہی دوچار ہوئی تھی جس نے اس کی عقل خبط کرکے رکھ دی تھی۔ پھر سب کچھ تیزی سے ہوا۔ پولیس راشد کو لے گئی۔ اب وہاں صرف نبیلہ اور وہ رئیس زادہ رہ گئے۔ آئو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں۔ میدان صاف دیکھ کر رئیس زادے نے ہراساں اور حیران پریشان کھڑی نبیلہ سے کہا۔ نبیلہ کو دیر ہورہی تھی۔ رات سر پر تھی، اریب قریب میں کسی سواری کا آسرا بھی نہ تھا، تاہم شش و پنج میں مبتلا تھی۔ رئیس زادے نے اس کی کیفیات کا جائزہ لیتے ہوئے، لہجے میں شائستگی سموتے ہوئے کہا۔ قصور میرا اتنا بڑا بھی نہیں تھا جس پر تمہارے سے بوائے فرینڈ نے میرے منہ پر گھونسہ جڑ دیا بلکہ میں تو اسے سوری بھی کہہ چکا تھا۔ شاید بے چارے کو احساس کمتری کھا گیا تھا۔ خیر آپ فکر نہ کریں، میں تھانے فون کردوں گا، پولیس تمہارے بوائے فرینڈ کو چھوڑ دے گی۔ دراصل آج میری سسٹر کی شادی تھی، میں نے اسے پارلر سے پک کرنا تھا، دیر ہورہی تھی مجھے، اسی لئے کار تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا۔ آ آپ مجھے کسی اسٹاپ تک چھوڑ دیں، میں آگے بس میں چلی جائوں گی۔ نبیلہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ آف کورس آئیں۔ رئیس زادے نے جھٹ سے کہا اور اپنے برابر کی سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ میرا نام صفدر ہے صفدر حیات میں معروف صنعتکار ملک فیاض کا بیٹا ہوں۔ کار اسٹارٹ کرکے آگے بڑھاتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کرایا پھر چند لمحوں کے توقف سے سوال کیا۔ آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں نبیلہ پیارا نام ہے، آپ کی طرح رئیس زادے صفدر نے کہا پھر بڑی چالاکی سے دانستہ ایک ویران چوراہے پر کار روک دی جہاں دور دور تک کسی سواری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ نبیلہ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ صفدر عیاری سے بولا۔ میں نے اپنا کہا پورا کیا، آپ یہاں اتر سکتی ہیں، میرا خیال ہے کوئی نہ کوئی بس تو آ ہی جائے گی۔ نبیلہ بے بسی سے رو پڑی۔ لوہا گرم دیکھ کر صفدر نے کہا۔ آپ ہی کی ضد تھی، اب بھلا یہاں آپ کو کون سی سواری ملے گی جبکہ آپ کو پہلے ہی گھر سے دیر ہورہی ہے۔ چلیں میں آپ کو گھر پر ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ کہتے ہوئے اس نے کار آگے بڑھا دی۔ تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر اسے یقین ہوگیا تھا کہ اب یہ پریشان حال لڑکی انکار نہیں کرسکتی۔ اب دیر تو ہوہی گئی ہے۔ آپ کو یقیناً اپنے گھر والوں کو اپنی تاخیر کا کوئی نہ کوئی جواز بھی دینا پڑے گا۔ ذرا آگے جاکر صفدر نے مکاری سے کہا۔ وہ بدستور نبیلہ کی ایک ایک کیفیت کا جائزہ لے رہا تھا۔ میرے ذہن میں ایک معقول تجویز آئی ہے، آپ کے گھر والوں کو مطمئن کرنے کی، مگر پہلے آپ یہ بتائیں مجھے کہ یہ سارا معاملہ رازداری کا تھا میرا مطلب ہے اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔ راشد میرے محلے میں ہی رہتا ہے۔ نبیلہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر بالآخر بولی۔ ہمارے بارے میں کسی کو علم نہیں، میں بھی گھر والوں کو اپنی کسی سہیلی کی منگنی کا بہانہ بنا کر نکلی تھی۔ تو بس کام بن گیا۔ وہ جھٹ سے بولا۔ ایسا کرتے ہیں سب سے پہلے پارلر سے میں اپنی بہن کو پک کرتا ہوں پھر ہم ساتھ تمہارے گھر چلیں گے تاکہ انہیں بھی یقین آجائے تم نے ان سے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ میں اور میری بہن تمہارے گھر والوں سے تاخیر کی معذرت بھی کرلیں گے۔ اس طرح تمہاری بات بھی سچی ہوجائے گی۔ نبیلہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے سر سے بار اتر گیا ہو مگر وہ راشد کی طرف سے ابھی تک صفدر کے تسلی دلانے کے باوجود پریشان تھی۔ اسی لہجے میں بولی۔ وہ وہ راشد اس کی فکر نہ کرو، وہ جلد یا بدیر گھر پہنچ ہی جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کینہ پروری کی تلخی ابھر آئی تھی۔ صفدر، نبیلہ کو کسی پارلر پر لانے کے بہانے سیدھا ایک فلیٹ میں لے گیا جہاں اس کے تین چار اوباش دوست پہلے ہی سے موجود تھے۔ اس صورتحال پر نبیلہ کی حالت غیر ہوگئی۔ لو پکڑو تازہ بہ تازہ شکار صفدر نے نبیلہ کو اپنے اوباش ساتھیوں کی طرف دھکیلا جو اس کی طرف گرسنہ نظروں سے گھور رہے تھے۔ اس نے بڑے اطمینان سے اپنی جیب سے سیل فون نکالا اور متعلقہ تھانے کا نمبر ملانے کے بعد بولا۔ ہاں ابھی جو راشد نام کا وہ مجرم لڑکا پکڑا ہے، اس کی ایسی حالت بنا دو کہ گھر والے بھی اسے نہ پہچان پائیں۔ تمہارا حصہ پہنچا دیا جائے گا۔ اس نے شاید اسی پولیس والے سے بات کی تھی جس نے راشد کو ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔ یہ صفدر حیات اور اس کے ٹولے کا معمول تھا، ان کا پرانا مشغلہ تھا۔ صفدر اسی طرح معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر یہاں لایا کرتا تھا۔ نبیلہ رو رہی تھی، ان درندوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی، ان کی منتیں کررہی تھی مگر اس کی داد فریاد ان کے شیطانی قہقہوں میں دبی جارہی تھی۔ یکایک عزت بچانے کی قوت خوف پر غالب آگئی۔ ایک شیطان کے دھکا دینے پر اس نے سیدھی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ سب طاقت کے زعم میں چور نبیلہ کی پھرتی کو نہ سمجھ پائے۔ جب ہوش آیا تو نبیلہ فلیٹ کا دروازہ کھول کر دیوانہ وار باہر دوڑتی ہوئی نکل گئی۔ نجانے کسی طرح ایک بھلا مانس رکشے والا کسی فرشتے کی مانند اسے ٹکرا گیا، اس نے کرایہ بھی نہ لیا اور اسے گھر پہنچا دیا۔ عورت تو کچے گھڑے کی مانند ہوتی ہے، ذرا ہاتھ لگا اور گھڑا تڑخ گیا۔ وہ ٹوٹی تو نہ تھی مگر تڑخ گئی تھی۔ شریف زادی کے لئے یہی بے عزتی کیا کم تھی کہ غیر مردوں کے ہاتھوں نے اسے کھلونے کی طرح اچھالا تھا۔ وہ جیسے تیسے عزت تو بچا آئی تھی مگر یہ بے عزتی اس کے ضمیر میں کانٹے کی طرح چبھ کر رہ گئی۔ اسے راشد کی فکر ستانے لگی۔ بول بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جارہا تھا۔ اگلے دن راشد کی ڈھنڈیا پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ تھانے میں تھا۔ بے چارے کے گھر والے تھانے کی طرف دوڑے۔ ادھر نبیلہ کو باربار راشد کا خیال ستانے لگا کیونکہ اسے یاد تھا اس شیطان صفت انسان صفدر نے پولیس والے کو راشد کے متعلق اپنے سیل فون پر کیسی سنگین ہدایات دی تھیں۔ نجانے اب راشد کا وہ کیا حشر کرنے والے تھے۔ معاملہ ایسا تھا کہ نبیلہ اپنا منہ بھی بدنامی کے خوف سے نہیں کھول سکتی تھی، البتہ یہ ڈر ہورہا تھا کہیں پولیس والے یا پھر خود راشد ہی اصل حقیقت نہ اگل دے۔ پولیس والے تو خیر نبیلہ کو نہیں جانتے تھے مگر کیا راشد تھانے میں نبیلہ کے سلسلے میں اپنا منہ بند رکھ سکتا تھا نبیلہ کو کچھ امید تو تھی کہ چاہے کچھ ہوجائے، راشد اس کا نام زبان پر نہیں لائے گا اور کسی کو بھی اس کے بارے میں نہیں بتائے گا۔ نبیلہ کے دل میں صفدر کا بھی خیال آیا۔ اس کے جی میں تو آئی کہ وہ بھی راشد کے گھر والوں کے ساتھ تھانے جا پہنچے اور صفدر اور اس کے شیطانی ٹولے کے کرتوتوں کے بارے میں اُگل دے۔ مگر وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھی کہ کون اس کی بات پر بھروسہ کرتا، الٹا مصیبت اور بدنامی گلے پڑتی۔ بے بسی کے احساس تلے وہ بے اختیار رو پڑی۔ شام کو کہیں جاکر راشد کے گھر والے اسے لئے گھر پہنچے تھے۔ دیوار کے پار شور ابھرا تو نبیلہ کی ماں جھٹ چادر اوڑھے خیریت دریافت کرنے جا پہنچی اور نبیلہ بے چینی سے ماں کی واپسی کا انتظار کرنے لگی، تاہم اس نے خود بھی دیوار کے ساتھ چارپائی لگا کر اس پر کھڑے ہوکے دوسری طرف صحن میں جھانکنے کی کوشش کی تھی اور ایک روح فرسا منظر اسے بھی نظر آیا تھا۔ راشد کے گھر والے زاروقطار رو رہے تھے اور خود راشد انتہائی زخمی حالت میں چارپائی پر پڑا تھا۔ ظالم پولیس والوں نے اس پر بہیمانہ تشدد کیا تھا اور اس کی مرہم پٹی بھی کی تھی۔ راشد کا باپ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ بیوی اسے روک رہی تھی کہ پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، یہی کافی تھا ان کے لئے کہ انہوں نے ان کے بیٹے کو چھوڑ دیا تھا۔ بعد میں نبیلہ کی ماں نے تفصیل اسے بتائی تھی کہ پولیس نے راشد پر اور بھی نجانے کیا کیا بڑے سنگین جرائم تھوپ ڈالے تھے۔ وہ چاہتے تو راشد کے ناکردہ جرائم کا چالان بنا کر اسے سزا بھی دلوا سکتے تھے۔ تاہم معاملہ ختم کردیا گیا تھا مگر راشد اب بستر سے لگ گیا۔ نبیلہ کو اس پر بے حد ترس بھی آیا، وہ سوچنے لگی کہ اسے بھی اتنی سی بات بڑھانا نہیں چاہئے تھی۔ اتنی سی بات پر غصہ دکھانے کا بھلا کیا فائدہ ہوا، سوائے نقصان اٹھانے کے کچھ دنوں بعد جب راشد ذرا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو دونوں کی مختصر ملاقات ہوئی۔ راشد، نبیلہ سے ناراض ناراض تھا۔ وجہ پوچھنے پر اس نے کہا۔ اس رات تمہیں بھی میرے ساتھ تھانے چلنا چاہئے تھا، تم نے بڑی خودغرضی دکھائی، مجھے تمہاری فکر ستاتی رہی تھی۔ تم کیسے گھر پہنچی تھیں اس رات اس نے گویا پھٹتے ہوئے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔ نبیلہ نے بھی اس سے کچھ نہیں چھپایا۔ جو سچ تھا، وہ اس نے راشد کے سامنے اگل دیا اور اپنے دفاع میں بولی۔ میں اس وقت خود بہت خوف زدہ اور پریشان ہوگئی تھی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں کیا کروں میں پہلے کبھی ایسے حالات سے کب گزری تھی۔ تم نے دیکھا نہیں تھا کہ وہ پولیس والے صفدر نامی اس اوباش رئیس زادے کا کس طرح حکم مان رہے تھے، ہماری سن رہے تھے وہ میں بھی اگر تمہارے ساتھ تھانے جاتی تو بدنامی بدنامی بدنامی راشد غصے سے چیخا۔ کیا ہوجاتا پھر ہم نے کون سا سنگین جرم کر ڈالا تھا نبیلہ صاحبہ تم نے جب محبت کی ہے مجھ سے تو بہادر بھی بن کے دکھانا تھا۔ میں تو تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ بس ایک ذرا سیر کو ہی تو نکلے تھے اور مجھے کیا معلوم تم ان بھیڑیوں کے نرغے میں کب تک پھنسی رہیں اور انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا راشد کی بات سن کر نبیلہ سکتے میں رہ گئی۔ بولی۔ کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں۔ اس بات پر بھی نہیں کہ میں کس طرح اس قیامت کی رات کو اپنی عزت بچا کر ان خوفناک درندوں کے نرغے سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی راشد طنزیہ ہنسی سے بولا۔ میں کیسے بھروسہ کرلوں نبیلہ صاحبہ جو لڑکی مجھے پولیس والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے اس اوباش لڑکے کی کار میں بس کرو راشد نبیلہ کو بھی اس کی یاوہ گوئی پر غصہ آگیا۔ تم ایک شریف اور پاک دامن لڑکی پر الزام عائد کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو کیا تمہیں خود پہلے یہ احساس نہ ہوا تھا کہ میں تمہاری ضد اور اصرار پر مجبور ہوکے تمہارے ساتھ ایک لڑکے کے ساتھ پہلی بار گھر والوں سے جھوٹ بول کر باہر نکلی تھی۔ حالات اور موقع محل کا تو پہلے تمہیں احساس کرنا چاہئے تھا۔ کیا ضرورت تھی ایک ذرا سی بات پر اس امیرزادے سے الجھنے کی۔ نجانے ایسے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہوں گے، تمہیں بھی درگزر کرنا چاہئے تھا۔ اس کا مطلب ہے اس امیر زادے نے تمہارے بارے میں درست اندازہ لگایا تھا کہ تم نے یہ سب اپنے احساس کمتری میں آکر کیا تھا اور اس کے چہرے پر گھونسہ مار کے اسے لہولہان کر ڈالا تھا اور سنو مجھے تمہارے سامنے تمہید باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا اعتبار کرو یا نہ کرو مگر میری پاکدامنی کا گواہ میرا اللہ تو ہے۔ اگر میں اس روز تمہارے ساتھ تھانے چلی بھی جاتی تو بھی تم کیا کرلیتے، بتائو مجھے وہاں میرا اس سے زیادہ برا حشر کیا جاسکتا تھا۔ تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہئے تھا کہ ہماری عزت بچ گئی۔ اپنے گھر والوں کی بدنامی کے بعد کیا میں خوش رہ سکتی تھی اور پھر تمہارا میرے گھر والوں پر کیا خراب اثر پڑتا یہ تم نے سوچا تو اب کیا ہوا وہ بولا۔ اب بھی تمہارے گھر والے مجھے ہی مجرم سمجھ رہے ہوں گے۔ ہرگز نہیں نبیلہ مستحکم لہجے میں بولی۔ انہیں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ تم شریف لوگ ہو اور پولیس کو تم نے جو بیان دیا تھا، اس پر میں تمہارا احسان نہیں بھولوں گی کہ تم نے میرا نام نہیں آنے دیا۔ میرے گھر والے یہی سمجھ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پولیس نے ایک معمولی بات کا بتنگڑ بنا کر تم پر بلاجواز تشدد کیا۔ نبیلہ کی باتوں نے راشد پر خاطرخواہ اثر کیا تھا۔ ایک گہری سانس خارج کرکے گویا اس نے اپنے اندر کی ساری کدورت پھونک ڈالی۔ پھر ہولے سے بولا۔ سوری نبیلہ میں واقعی جذباتی ہوگیا تھا۔ میں نے تمہیں غلط سمجھا، کیا مجھ سے تم خفا ہو نبیلہ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس نے بھی اپنا سر جھکا لیا۔ راشد نے بڑی محبت سے اس کے آنسو پونچھے اور بولا۔ میں اب تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالوں گا اور اب تم بھی مجھے نہیں روکو گی۔ میں چند دنوں میں تمہارے رشتے کے لئے اپنی امی کو بھیج رہا ہوں۔ لل لیکن میرا نرسنگ کا خواب وہ بھی پورا ہوجائے گا۔ شادی کے بعد بھی تم اسے جاری رکھ سکتی ہو، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ وعدہ پکا وعدہ ٭ ٭ ٭ نبیلہ نے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اس کی زندگی میں ایک بڑا بھونچال آتے آتے پلٹ گیا تھا۔ وہ اب اس تلخ واقعے کو ایک ڈرائونے خواب کی طرح دل و دماغ سے بھلانے لگی تھی، مگر تقدیر کو شاید ابھی اور امتحان مقصود تھے۔ نبیلہ کو معلوم نہ تھا کہ راشد کے اندر کیسا لاوا پک رہا تھا۔ اس نے اس رات کی بات کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اب یہ اس کا نیک مقصد ہی کہا جاسکتا تھا یا پھر جنون کہ اس نے اس امیر زادے صفدر کی دشمنی کو دل سے لگا لیا تھا۔ نبیلہ سے اس نے اس کے اڈے نما اس فلیٹ کا پتا معلوم کرلیا تھا جدھر وہ دھوکے سے نبیلہ کو لے کر گیا تھا، ساتھ ہی اس نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کو بھی ان ساری باتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ صفدر نامی اس شیطان اور اس کے چیلوں کا کام ہی اس طرح کی عیاشی کرنا ہے جو نجانے اب تک کتنی معصوم بے گناہ لڑکیوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ظلم کرچکے ہوں گے۔ تب اس افسر نے بھی اس بات کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ انہیں بھی ایک ایسے گروہ کی تلاش ہے جو لڑکیوں کو بھلا پھسلا کر یا دھوکے سے اغوا کرکے اپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں، پھر ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں تو خودکشی کرلیتی ہیں یا قتل کردی جاتی ہیں۔ تم ہماری مدد کرو، ایسے گروہ کو کیفرکردار تک پہنچانے کی۔ بس پھر کیا تھا راشد نے فوراً مذکورہ فلیٹ کی نشاندہی کردی۔ مذکورہ پولیس افسر نے کچھ ان کے ٹھکانے کی مخبری کی اور پھر جب اسے مخبر کی طرف سے گرین سگنل ملا تو انہوں نے چھاپہ مارا۔ وہاں وہ ایک مجبور اور بے کس لڑکی کو اٹھا لائے تھے اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ ساتھ ہی اس پولیس افسر نے ان پولیس والوں کے خلاف بھی کارروائی کر ڈالی جو اس گروہ کی سپورٹ کرتے تھے۔ یہ سب راشد کی نشاندہی پر ہوا۔ صفدر اپنے اوباش ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوچکا تھا لیکن محکمہ جاتی کارروائی کی زَد میں آنے والی ایک پولیس کی ایک کالی بھیڑ نے صفدر کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ یہ سب اسی لڑکے راشد کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب راشد نے دیکھا کہ اس نے اپنے مقصد میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کرلی ہے تو اس نے بڑے فخر و انبساط کے ساتھ نبیلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے زیادتی کرنے والوں کو اور ان کے سرغنہ صفدر کو بالآخر قانون کی گرفت میں پھنسا کر چھوڑا۔ اس کا خیال تھا نبیلہ خوش ہوگی مگر اس کے برعکس یہ سن کر نبیلہ کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہوگئے۔ کیا ہوا تمہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی وہ اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔ نہیں یہ بات نہیں، اچھا ہوا وہ لوگ اپنے انجام کو پہنچے مگر راشد پتا نہیں کیوں مجھے اس قسم کے حالات اور جھگڑوں سے ڈر لگتا ہے۔ وہ بولی۔ آئے دن ٹی وی، اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ اس طرح کی دشمنیوں کے بعد میں کتنے خطرناک نتائج نکلتے ہیں اور قانون بے بس نظر آتا ہے۔ یہ تمہارا وہم ہے، عورت ہو نا سدا کی ڈرپوک ٹھہریں۔ خیر چھوڑو اور سنو وہ چہک کر بولا۔ میں نے امی جان سے بات کرلی ہے، انہیں میری پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ ابو سے وہ بعد میں بات کریں گی، پہلے وہ کل آکر تمہاری امی یعنی خالہ کا عندیہ لینا چاہتی ہیں، پھر باقاعدہ بات آگے بڑھائیں گی۔ اس کی بات پر نبیلہ نے دھیرے سے مسکرا کر اپنا سر جھکا لیا۔ محبت کی منزلیں کبھی اتنی آسان بھی ثابت ہوسکتی ہیں، اس کا اندازہ دونوں کو ہی نہ تھا۔ دونوں کی بات پکی کردی گئی۔ معاملہ ابھی زبانی کلامی تک ہی محدود تھا مگر ان دونوں کے لئے یہی کیا کم تھا کہ دونوں بہت جلد ایک ہونے والے تھے۔ اس رعایت سے دونوں کبھی کبھار سیر و سپاٹے کے لئے بھی نکل جایا کرتے تھے۔ ایک موقع پر وہ بائیک پر کہیں گھومنے کے لئے نکلے تھے۔ دونوں بہت خوش اور شاداں و فرحاں تھے۔ ایک خوبصورت تفریحی مقام سے وہ واپس لوٹنے لگے تو اچانک ایک نسبتاً سنسان مقام پر راشد کو بریک لگانے پڑے۔ بائیک سلپ ہوتے ہوتے بچ گئی۔ پیچھے بیٹھی نبیلہ کے حلق سے چیخ خارج ہوگئی۔ وجہ وہ گاڑی تھی جو اچانک ان کے راستے پر آن رکی تھی۔ راشد بائیک کو سائیڈ اسٹینڈ پر کھڑی کرکے غصے سے کار والے کی طرف بڑھا مگر اس سے پہلے ہی کار کے دو دروازے ایک دم سے کھلے۔ وہ چار نوجوان تھے۔ ایک کو تو راشد بھی پہچان گیا تھا۔ وہ وہی اوباش امیر زادہ صفدر حیات تھا باقی تین اس کے وہی ساتھی جنہیں نبیلہ بھی پہچانتی تھی۔ خوف سے وہ چیخ پڑی۔ راشد کے چہرے پر بھی غصے کی جگہ تشویش آمیز پریشانی نے لے لی۔ کیوں ہیرو کیا سمجھتا تھا تو ہمیں اندر کروا کے بچ جائے گا صفدر خوف ناک نال والا پستول نکال کر اس کی طرف رخ کرتے ہوئے نفرت سے دانت بھینچ کر بولا اور دوسرے ہی لمحے راشد نے واپس پلٹ کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ڈز ڈز ڈز سناٹے دار فضا میں تین فائر ہوئے۔ صفدر کے ہاتھ میں دبے ہوئے پستول سے تین شعلے برآمد ہوئے جنہوں نے پلک جھپکتے ہی راشد کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ نبیلہ دہشت زدہ رہ گئی۔ راشد کو لہولہان ہوکر گرتے دیکھ کر اسے غش آگیا۔ دفعتاً فائر کی آواز پر کوئی گشتی پولیس گاڑی سائرن بجاتی ہوئی ادھر کو آنے لگی تو صفدر اور اس کے ساتھی نبیلہ کو چھوڑ کر اپنی کار کی طرف دوڑے اور فوراً رفوچکر ہوگئے۔ نبیلہ بے ہوش ہوکر گر چکی تھی۔ اس کی آنکھ ایک اسپتال میں کھلی تھی۔ راشد کی لاش کو بھی پوسٹ مارٹم کے لئے وہیں لایا گیا تھا۔ نبیلہ اور راشد کے گھر والوں کو بھی مطلع کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد روتے پیٹتے وہیں آگئے۔ نبیلہ کو تو جیسے سکتہ ہوگیا تھا۔ وہ پولیس کو کوئی بیان دینے سے قاصر ہی تھی۔ کئی دنوں بعد جب نبیلہ اپنے ہوش و حواس میں آئی تو اس نے سوچا قانون شاید صفدر جیسے امیر زادوں کے لئے ہی بنا ہے۔ اگر وہ دوبارہ اس کے خلاف بیان دینے کی کوشش کرتی تو ممکن ہے اس کے گھر والوں پر بھی ویسا ہی عتاب نازل ہوسکتا تھا جو راشد کے گھر والوں پر نازل ہوچکا تھا لہٰذا اس نے پولیس کو نامعلوم افراد کے خلاف بیان دے دیا۔ کچھ دنوں بعد نبیلہ کے گھر والوں نے وہ گھر ہی نہیں محلہ بھی چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ شفٹ ہوگئے۔ اس دوران نبیلہ کے والد کا بھی ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اب ساری ذمہ داری نبیلہ کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ نبیلہ تب تک نرسنگ کورس مکمل کرچکی تھی اور ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں جاب کرنے لگی تھی، مگر اس کے دل میں راشد کی موت کا غم ہرا ہی رہا تھا۔ اپنے درد کو مصلحت کوشی تلے چھپائے وہ زندگی بسر کررہی تھی۔ اب اس کا مقصد اپنے دونوں چھوٹے بہن، بھائی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا اور کسی قابل بنانا تھا۔ بوڑھی ماں بھی ساتھ تھی۔ ٭ ٭ ٭ اس بدنصیب نوجوان اور اس کے والدین تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی کہ صفدر کی صحت یابی میں سسٹر نبیلہ کا زیادہ ہاتھ تھا۔ صفدر کے والدین نے نبیلہ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور وہ اس کے حسن سلوک اور ذمہ دارانہ فرائض کی انجام دہی کے دل سے معترف ہوئے۔ صفدر بھی نرس نبیلہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ جب اس نے نبیلہ کو دیکھا تو اسے زبردست جھٹکا لگا۔ اس کا چہرہ شرم اور ندامت کے احساس تلے بجھ کر رہ گیا۔ موت سے زندگی کی طرف پلٹتے ہوئے اور صحت یابی کی خوشی پچھتاوے اور احساس جرم کی آگ میں جھلس سی گئی۔ تت تم مجھے پہچاننے کے باوجود وہ نبیلہ سے بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔ ہاں میں نے تو تمہیں پہلے دن ہی پہچان لیا تھا۔ بھلا میں ایسے ظالم بے حس اور سنگدل شخص کو بھول سکتی ہوں، جس نے میرے ساتھ ایسا ظلم کیا کہ میری ہنستی بستی زندگی اجاڑ کر رکھ دی۔ نبیلہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے اندر کی نفرت کو نہ چھپا سکی۔ میں چاہتی تو تم سے بہت آسانی سے بے گناہ راشد کی موت اور تمہارے ہاتھوں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا انتقام لے سکتی تھی۔ تو تو پھر تم نے ایسا کیوں نہیں کیا مجھے کیوں زندہ رہنے دیا، مار ڈالتیں مجھے مگر اب تمہارے اس حسن سلوک نے میرے اندر کی خلش اور بڑھا دی ہے جو مجھے ساری زندگی بے چین رکھے گی۔ میں تو تم سے معافی مانگنے کے لائق بھی نہ رہا۔ صفدر ندامت بھرے لہجے میں بولا۔ نبیلہ نے غور سے صفدر کے چہرے کا جائزہ لیا۔ وہ واقعی اس وقت اپنے ہی ضمیر کا قیدی نظر آرہا تھا۔ ایک سسکتا بلکتا قیدی جو پچھتاوے اور احساس جرم کی شدید چبھن سے بے حال تھا۔ وہ بولی۔ اگر میں بھی بدلے میں کچھ کرتی تو تمہارے اور میرے درمیان کیا فرق رہ جاتا۔ میں اپنے فرض مسیحائی سے منہ موڑ کر تم سے انتقام لے ڈالتی تو یہ اس سے بھی زیادہ بڑا اور ناقابل معافی جرم کہلاتا اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس گناہ عظیم سے بچا لیا۔ تمہاری جزا اور سزا کا معاملہ میں اپنے رب پر چھوڑتی ہوں۔ تم مجھے معاف کرسکتی ہو آئی سی یو کے بیڈ پر دراز صفدر نے بالآخر نبیلہ کا ہاتھ تھام لیا۔ مگر نبیلہ نے انتہائی نفرت سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اسی لہجے میں بولی۔ میں نے کہا نا کہ میں نے تمہاری جزا و سزا کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، مجھ سے کوئی امید نہ رکھو۔ یہ کہہ کر نبیلہ پلٹ گئی اور آئی سی یو سے نکل کر اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپتے رو پڑی تھی۔ ٭ ٭ ٭ کئی روز بیت گئے۔ صفدر کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ نبیلہ کو اب مارننگ شفٹ کی ڈیوٹی دے دی گئی تھی اور اس کی متاثرکن کارگزاری کی بنا پر اسے ہیڈ نرس بنا دیا گیا تھا۔ ایک روز اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر پڑی اور وہ چونک پڑی۔ خبر یہ تھی۔ ملک کے معروف صنعتکار ملک فیاض کے اکلوتے بیٹے صفدر حیات نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے جہاں بے سہارا لڑکیوں اور عورتوں کی فلاح و بہبود اور ان کی شادیاں کروانے کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے۔ اس ٹرسٹ کا نام راشد میموریل ٹرسٹ رکھا گیا ہے۔ خبر کے ساتھ ٹرسٹ کے منتظم اعلیٰ صفدر حیات کی بھی تصویر تھی۔ نیچے اس کا نام تھا، ورنہ نبیلہ کو پہچاننے میں دقت ہوتی۔ صفدر نے سفید لباس اور سفید ٹوپی پہن رکھی تھی، اور اس کی وضع قطع بالکل بدلی ہوئی تھی۔ ایک شیطان کو انسانیت کی راہ پر ڈالنے کی خوشی کے احساس تلے نبیلہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ ختم شد | null |
null | null | null | 258 | https://www.urduzone.net/god-father-episode-7/ | آخر ہیگن ہی کی آواز نے کمرے کا سکوت توڑا۔ وہ ٹھہری ٹھہری آواز میں بولا۔ مجھے معلوم ہے، میں جو کچھ کہوں گا، تم اس پر عمل نہیں کرو گے۔ لیکن اگر تم میری دیانتدارانہ رائے طلب کر رہے ہو تو وہ میں دے دیتا ہوں۔ اگرخدانخواستہ ڈون کا انتقال ہو جاتا ہے تو میرا خیال ہے کہ تمہیں سچ مچ منشیات کے دھندے کے سلسلے میں سولوزو سے شراکت داری کر لینی چاہئے کیونکہ ڈون کارلیون کے بعد فیملی کا سیاسی اَثر رسوخ اور نیویارک کی دوسری فیملیز سے تعلقات آدھے رہ جائیں گے۔ شاید حالات کو پرسکون رکھنے اور بڑے پیمانے پر جھگڑے سے بچنے کیلئے دوسری فیملیز سولوزو اور ٹے ٹیگ لیا فیملی سے تعاون بھی شروع کر دیں۔ میری رائے میں تو ڈون کے انتقال کی صورت میں تمہیں معاہدہ کر لینا چاہئے اور اس کے بعد انتظار کرنا چاہئے کہ وقت اور حالات کیا صورت اختیار کرتے ہیں۔ مستقبل شاید خود ہی بتا دے کہ اس کے بعد تمہیں کیا قدم اُٹھانا چاہئے۔ سنی کے چہرے پر برہمی نمودار ہوگئی۔ وہ گویا اپنا شدید غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ یہ بات تم اتنی آسانی سے اس لئے کہہ سکتے ہو کہ جو شخص پانچ گولیاں کھا کر اسپتال میں پڑا موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے وہ تمہارا باپ نہیں ہے۔ میں نے ہر موقع پر اپنے آپ کو ڈون کے بیٹوں جیسا ہی ثابت کیا ہے۔ ہیگن جلدی سے بولا۔ یہ میں اپنی پیشہ ورانہ رائے دے رہا تھا لیکن اگر تم میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہو تو میں بتا دوں کہ اس وقت میرا دل چاہ رہا ہے کہ ان تمام کمینوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اُتاروں جو ڈون پر حملے میں ملوث ہیں۔ اس کے لہجے میں جذبات کی ایسی شدت اور خلوص نیت کا ایسا تاثر تھا کہ سنی فوراً ہی شرمندہ ہوگیا۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا ہیگن سنی کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوگیا۔ میں تمہارے خلوص پر شک نہیں کر رہا تھا۔ لیکن درحقیقت سنی دل میں سوچ رہا تھا کہ خون کے رشتے بہرحال خون کے رشتے تھے، باقی رشتے ان کے سامنے ہیچ تھے۔ وہ چند لمحے پُرخیال انداز میں خاموش رہنے کے بعد بولا۔ ٹھیک ہے ہم اس وقت تک انتظار کر لیتے ہیں جب تک پاپا ہدایات دینے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ میرا خیال ہے اس وقت تک تم بھی فیملی کے مکانوں تک ہی محدود رہو۔ خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں۔ پھر اس نے مائیکل کو مخاطب کیا۔ تم بھی محتاط رہنا۔ ویسے تو میرے خیال میں تمہاری ذات کو سولوزو سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ وہ تمہیں فیملی کا بے ضرر فرد سمجھ کر تمہاری طرف توجہ نہیں دیں گے۔ ویسے بھی سولوزو ابھی تک یہی بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ ذاتی انتقام کی لڑائی یا خاندانی جھگڑا نہیں ہے، اس کے باوجود احتیاط ضروری ہے۔ پھر وہ ٹیسو سے مخاطب ہوا۔ تم اپنے آدمیوں کو ریزرو میں رکھو اور ان سے کہو کہ شہر میں گھوم کر سن گن لینے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس کے بعد اس نے مینزا کو مخاطب کیا۔ تم پہلے گیٹو والا معاملہ نمٹا لو۔ پھر تم ان مکانات میں ٹیسو کے آدمیوں کی جگہ اپنے آدمی لگا دینا۔ اسپتال میں بہرحال ٹیسو ہی کے آدمی رہیں گے۔ پھر وہ ہیگن سے مخاطب ہوا۔ صبح تم سب سے پہلا کام یہ کرنا کہ فون یا پھر قاصد کے ذریعے سولوزو اور ٹے ٹیگ لیا فیملی سے مذاکرات شروع کر دینا اور مائیکل تم کل مینزا کے دو آدمیوں کو ساتھ لے کر براسی کے گھر جانا اور اس کی واپسی کا انتظار کرنا یا پھر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنا کہ آخر اس کے ساتھ کیا ہوا ہے وہ کہاں غائب ہے اگر اس نے پاپا پر حملے کی خبر سن لی ہوتی تو اب تک وہ بھوکے درندے کی طرح سولوزو کی تلاش میں نکل چکا ہوتا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر بک سکتا ہے یا ڈون سے غدّاری کر سکتا ہے۔ اس موقعے پر ہیگن نے ہچکچاتے ہوئے مداخلت کی۔ میرا خیال ہے تم اس قسم کا کوئی کام مائیکل کے سپرد نہ کرو۔ سنی نے اس کا یہ مشورہ بھی فوراً ہی مان لیا اور دوبارہ مائیکل کو مخاطب کیا۔ ٹھیک ہے تم گھر میں ہی رہو اور ٹیلیفون کرنے اور سننے کی ذمے داری سنبھالے رکھو۔ یہ کام زیادہ اہم ہے۔ مائیکل نے قدرے خفت محسوس کی لیکن اس نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا۔ وہ ایک بار پھر براسی کا نمبر ملا کر ریسیور کان سے لگا کر بیٹھ گیا۔ پہلے کی طرح اب بھی دُوسری طرف گھنٹی بج رہی تھی لیکن کوئی فون نہیں اُٹھا رہا تھا۔ ٭ ٭ ٭ مینزا اس روز بمشکل چند گھنٹے سو سکا تھا اور اس دوران بھی اسے نیند صحیح طور پر نہیں آئی تھی۔ اُٹھنے کے بعد اس نے اپنے لئے ناشتہ تیار کیا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ شب خوابی کے لباس میں ہی مضطربانہ انداز میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ سنی کے حکم پر عملدرآمد کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سنی نے کہا تھا کہ گیٹو کا بندوبست جلد از جلد کر دیا جائے۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ کام آج ہی ہو جانا چاہئے تھا۔ غیرارادی طور پر وہ گیٹو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کا تعلق سسلی کے ایک خاندان سے تھا اور وہ ڈون کے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر بڑا ہوا تھا۔ مائیکل کے ساتھ تو وہ کچھ عرصہ اسکول بھی گیا تھا۔ اس نے فیملی کیلئے بڑے خلوص سے کام کر کے اس میں اپنی جگہ بنائی تھی۔ اسے اپنے کاموں کا معقول معاوضہ ملتا تھا۔ مینزا کو معلوم تھا کہ اس آمدنی کے علاوہ کبھی کبھی چھوٹی موٹی لوٹ مار سے بھی رقم حاصل کر لیتا تھا۔ اس قسم کی حرکتیں فیملی کے اُصولوں کے خلاف تھیں لیکن مینزا یہ سوچ کر ان حرکتوں کو نظرانداز کر دیتا تھا کہ سرکش گھوڑا لگام ڈالے جانے کے بعد بھی کچھ دیر تک گھڑ سوار کے اشاروں کے خلاف زور آزمائی کرتا ہے۔ مینزا کو اُمید تھی کہ جب گیٹو پر زیادہ خوشحالی آئے گی تو وہ یہ حرکتیں چھوڑ دے گا۔ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے کبھی مینزا، فیملی یا خود گیٹو کو کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ مینزا کو اس بات پر حیرت نہیں تھی کہ اتنا پرانا نمک خوار اور وفادار اس طرح بک گیا تھا اور غدّاری کر بیٹھا تھا۔ مینزا کو اس کا بندوبست کرنے کے سلسلے میں بھی کسی قسم کا افسوس یا پریشانی نہیں تھی۔ البتہ دو سوال اسے پریشان کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ گیٹو کو ٹھکانے لگانے کی ذمے داری وہ کس کے سپرد کرے دُوسرے یہ کہ گیٹو کا متبادل کون ہوگا گیٹو بہرحال ایک اہم آدمی تھا۔ اس نے گیٹو کے متبادل کے طور پر کئی ناموں پر غور کیا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے وہ ہر نام کو دل ہی دل میں مسترد کر تا چلا گیا۔ آخرکار اس کے ذہن میں لیمپون نامی ایک نوجوان کا خیال آیا اور اس کے دل نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ لیمپون کو دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں فوج میں بھرتی ہونا پڑا تھا اور وہ کچھ اس طرح زخمی ہوگیا تھا کہ جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی اسے فوج سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد بھی اس کی ٹانگ میں ہلکی سی لنگڑاہٹ برقرار رہی تھی لیکن اس کی یہ کمزوری اس کی مصروفیات میں رُکاوٹ نہیں بنی تھی۔ وہ ایک مستعد، طاقتور اور فیملی کے مطلب کا نوجوان تھا۔ گیٹو سے کچھ نچلے درجے پر وہ فیملی کیلئے عمدگی سے خدمات انجام دیتا آ رہا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جسم، ہتھیار اور طاقت کے ساتھ ساتھ ذہن استعمال کرنا بھی جانتا تھا۔ ہر آزمائش کی صورت میں زبان بند رکھنے کی خوبی بھی اس میں موجود تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اگر کبھی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے تو ان کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود فیملی کے خلاف زبان نہیں کھول سکتے تھے۔ مینزا نے اس کے بارے میں اچھی طرح غور کیا اور اس فیصلے پر قائم رہا کہ لیمپون اب ترقی کا مستحق تھا۔ اسے گیٹو کی جگہ دی جا سکتی تھی۔ یہ سوچنے کے بعد اسے کچھ اطمینان ہوا۔ اس نے گیٹو کو ہدایت کی کہ وہ تین بجے اپنی کار میں اسے لینے آ جائے۔ دو بجے مینزا نے لیمپون کا نمبر ملایا۔ اُس نے فون پر اپنا نام بتائے بغیر کہا۔ تمہارے لئے ایک کام نکل آیا ہے۔ میری طرف آ جائو۔ لیمپون نے اس کی آواز فوراً پہچان لی۔ اس نے کوئی سوال نہیں کیا۔ اس اچانک پروگرام پر کوئی حیل حجت نہیں کی۔ اس میں ایک اچھے کارکن کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ مینزا نے فون بند کر دیا۔ فیملی کے مکانات پر مشتمل علاقے سے وہ ٹیسو کے آدمیوں کو ہٹا کر اپنے آدمی تعینات کر چکا تھا۔ اب اسے تھوڑا سا وقت میسر تھا۔ وہ اس دوران اپنی کیڈلک کو دھونے اور چمکانے کے ارادے سے گیراج میں چلا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اپنی اس پسندیدہ گاڑی کو دھونے اور چمکانے کے دوران وہ زیادہ یکسوئی سے اپنے مسائل کے بارے میں سوچ بچار کرنے میں کامیاب رہتا تھا۔ اسے یاد کہ جب وہ چھوٹا تھا اور اٹلی کے ایک گائوں میں تھا تو اس کا باپ بھی سوچ بچار کی ضرورت محسوس کرتا تھا تو اپنے گدھے کی جھاڑ پونچھ اور مالش کرنے لگتا تھا۔ وقت وقت کی بات تھی۔ اس کے باپ کے پاس سواری کے لئے گدھا تھا۔ مینزا کے پاس کیڈلک تھی۔ کیڈلک کی صفائی کے دوران وہ گیٹو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ گیٹو سے ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت تھی۔ وہ کسی درندے سے کم نہیں تھا۔ خطرے کی بو محسوس کر سکتا تھا۔ جب اسے ڈون کے گھر سے مینزا کے ساتھ رُخصت کر دیا گیا تھا تو اس نے غالباً یہی سمجھا کہ ان دونوں کی شخصیت کو شکوک و شبہات سے بالاتر قرار دیا جا چکا ہے۔ البتہ اب مینزا اندیشہ محسوس کر رہا تھا کہ گیٹو جب اسے لینے آئے گا اور اس کے ساتھ لیمپون کو دیکھے گا تو کہیں بدک تو نہیں جائے گا مینزا نے محسوس کیا کہ لیمپون کو ساتھ رکھنے کے لئے کوئی جواز گھڑنا ضروری تھا۔ یہ بہرحال زندگی اور موت کے معاملات تھے۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ مینزا کو ہدایت کی گئی تھی کہ گیٹو کی لاش دریافت ہو جانی چاہئے ورنہ مینزا تو کسی کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش غائب کر دینا زیادہ بہتر سمجھتا تھا۔ ایسی کئی محفوظ جگہیں موجود تھیں جہاں لاشیں غائب کی جا سکتی تھیں۔ گیٹو کی لاش کو کہیں سرعام چھوڑنے میں دو بڑی مصلحتیں کارفرما تھیں۔ اس طرح ایک تو ان کارندوں کو عبرت ہوتی جن میں غدّاری کے جراثیم موجود تھے اور جو مستقبل میں آستین کے سانپ بننے کی کوشش کر سکتے تھے۔ دوسرے سولوزو کو اندازہ ہو جاتا کہ ڈون فیملی نے اپنی صفوں میں غدار کتنی جلدی تلاش کرلیا اور اس کے سلسلے میں کسی قسم کی نرمی یا درگزر سے کام نہیں لیا۔ یعنی فیملی کے لوگ ابھی تو عقل و ذہانت سے محروم ہوئے تھے اور نہ ہی ان کے اُصولوں میں کوئی لچک پیدا ہوئی تھی۔ ڈون جتنی آسانی سے گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا، اس سے فیملی کی کچھ کمزوری ظاہر ہوئی تھی لیکن جلدی ایک غدار کو تلاش کر کے اور عبرتناک سزا دے کر اس تاثر کی تلافی کی جا سکتی تھی۔ آخر مینزا کو بیک وقت گیٹو اور لیمپون کو ساتھ لے کر روانہ ہونے کے لئے ایک بہانہ اور جواز سوجھ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گیٹو کو بتائے گا کہ وہ لوگ کوئی مناسب اپارٹمنٹ تلاش کرنے کی مہم پر جا رہے ہیں۔ فیملی کے خاص لوگوں پر اگر کوئی بُرا وقت آن پڑتا تھا یا ہنگامی حالات درپیش ہوتے تھے تو وہ کچھ عرصے کے لئے روپوش بھی ہو جاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے کسی دُورافتادہ اور گمنام جگہ پر اپارٹمنٹ کرائے پر لئے جاتے جہاں کئی کئی افراد اس طرح رہتے تھے کہ دُوسروں کی نظر میں کم سے کم آئیں۔ وہ عام طور پر فرش پر گدے بچھا کر سوتے تھے اور خانہ بدوشوں کے سے انداز میں روز و شب بسر کرتے تھے۔ ضرورت محسوس کرنے پر اپارٹمنٹ جلدی جلدی تبدیل بھی کئے جاتے تھے۔ ان لوگوں کی اصطلاح میں اسے خانہ بدوشی کا زمانہ کہا جاتا تھا۔ مینزا نے سوچ لیا کہ وہ گیٹو کو بتائے گا کہ فیملی خطرہ محسوس کر رہی تھی۔ شاید اسے خانہ بدوشی کے دن گزارنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ اس مقصد کے لئے کم از کم ایک اپارٹمنٹ کا بندوبست پہلے سے کرنا تھا۔ وہ لوگ اسی مشن پر جا رہے تھے اور لیمپون کو اسی مقصد کے تحت ساتھ لیا گیا تھا۔ اس کی نظر میں چند محفوظ اپارٹمنٹ تھے۔ مینزا کو اُمید تھی کہ اس جواز سے گیٹو مطمئن ہو جائے گا۔ لیمپون جلد ہی آن پہنچا اور مینزا نے اسے سمجھا دیا کہ صورت حال کیا تھی۔ انہیں کیا کرنا تھا اور کس طرح کرنا تھا۔ اپنی ترقی کی نوید سن کر لیمپون کے چہرے پر چمک آ گئی اور اس نے مینزا کا شکریہ ادا کیا۔ مینزا اسے اپنے ساتھ تہہ خانے کے ایک کمرے میں لے گیا جہاں اس نے دیوار گیر تجوری سے ایک ریوالور نکالا اور لیمپون کے سپرد کرتے ہوئے کہا۔ یہ استعمال کرنا۔ یہ گن بالکل محفوظ ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا۔ کام ختم کرنے کے بعد یہ گن گاڑی میں گیٹو کے پاس ہی چھوڑ دینا۔ اس مشن سے فارغ ہوتے ہی بیوی بچوں کو لے کر فلوریڈا چلے جانا۔ وہاں خوب آرام اور تفریح کرنا۔ میامی بیچ پر فیملی کا اپنا ہوٹل موجود ہے۔ اسی میں ٹھہرنا تا کہ میں ضرورت کے وقت آسانی سے تم سے رابطہ کر سکوں۔ فی الحال اخراجات کیلئے اپنی رقم استعمال کرنا۔ بعد میں سب کچھ، بھاری بونس سمیت مل جائے گا۔ تمہیں معلوم ہے فی الحال فیملی ذرا بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کا کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ چند منٹ بعد مینزا کی بیوی نے اطلاع دی کہ گیٹو آ گیا ہے اور ڈرائیو وے میں گاڑی میں بیٹھا ہے۔ مینزا گھر سے نکل آیا۔ لیمپون اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ مینزا دروازہ کھول کر گھڑی دیکھتے ہوئے گیٹو کے برابر جا بیٹھا۔ اس نے گیٹو کو دیکھ کر گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ گرمجوشی کا مظاہرہ بھی اسے شک میں مبتلا کر سکتا تھا۔ جب لیمپون پچھلا دروازہ کھول کر گیٹو کے عقب میں بیٹھا تو گیٹو ذرا چونکا۔ مینزا نے فوراً اپنی کہانی شروع کر دی۔ بھئی وہ، سنی کچھ خوفزدہ لگ رہا ہے۔ اس نے ابھی سے اپنے آدمیوں کے لئے خانہ بدوشی کا زمانہ گزارنے کے لئے اپارٹمنٹ تلاش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس نے اپنے لہجے سے کچھ ایسا تاثر دیا تھا جیسے اسے سنی کے اس حکم پر عملدرآمد ناگوار گزر رہا ہو۔ تمہاری نظر میں کوئی موزوں اپارٹمنٹ ہے گیٹو کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ وہ دِل ہی دِل میں خوش ہو رہا تھا کہ اتنے اہم اور خفیہ مشن پر اسے ساتھ لے جایا جا رہا تھا۔ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ایسے اہم اور خفیہ ٹھکانے کا پتا سولوزو کو فراہم کر کے وہ کتنا بڑا انعام حاصل کر سکتا تھا لیمپون اس دوران عدم دلچسپی سے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ اپنا کردار عمدگی سے ادا کر رہا تھا۔ مجھے اس کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ گیٹو نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے ڈرائیونگ کے دوران ہی سوچتے رہو۔ مجھے آج نیویارک بھی جانا ہے۔ مینزا بولا۔ وہ شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ خاصی دیر سفر جاری رہا۔ راستے میں مینزا نے بظاہر اپارٹمنٹ کی تلاش میں اِدھر اُدھر کافی وقت ضائع کیا۔ آخر کار وہ لانگ بیچ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ویران سی جگہ دیکھ کر مینزا نے گیٹو سے کہا۔ ذرا یہاں گاڑی روکنا میں کوئی مناسب جگہ دیکھ کر اس نے چھوٹی اُنگلی اُٹھا کر مخصوص اشارے سے گیٹو کو بتایا کہ اسے حاجت ہو رہی تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ پرانے ساتھی تھے اور مینزا پہلے بھی کئی مرتبہ دورانِ سفر ایسی درخواست کر چکا تھا۔ گیٹو نے گاڑی کچے میں اُتار کر روک دی اور مینزا اُتر کر جھاڑیوں کی طرف چلا گیا۔ اس دوران اس نے اچھی طرح گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ دُور تک ویرانی تھی۔ واپس آتے ہوئے اس نے لیمپون کو گرین سگنل دے دیا۔ بند گاڑی میں دھماکا گونجا۔ گیٹو کو گویا آگے کی طرف زوردار جھٹکا لگا اور وہ اسٹیئرنگ وہیل پر اوندھا ہونے کے بعد ساکت ہوگیا۔ اس کی آدھی کھوپڑی غائب ہو چکی تھی۔ لیمپون فوراً ہی گاڑی سے اُتر آیا۔ گن ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی۔ مینزا نے پہلے اسے گن گاڑی میں ہی چھوڑنے کی ہدایت کی تھی لیکن اب اسے ایک اور مناسب جگہ نظر آ گئی تو اس نے لیمپون کو گن وہاں پھینکنے کی ہدایت کر دی۔ وہ بڑا سا ایک دلدلی گڑھا تھا۔ اس میں کچھ تلاش کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ گن اس میں غائب ہوگئی۔ تھوڑے فاصلے پر ایک دوسری خالی کار موجود تھی۔ وہ دونوں اس میں بیٹھے اور تیز رفتاری سے روانہ ہوگئے۔ اس وقت شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ ٭ ٭ ٭ ڈون پر قاتلانہ حملے سے ایک روز پہلے رات گئے ڈون کا سب سے زیادہ وفادار اور سب سے زیادہ خطرناک آدمی لوکا براسی دُشمن سے ملنے جا رہا تھا۔ وہ پچھلے تین ماہ سے سولوزو کے آدمیوں سے رابطے میں تھا۔ وہ اپنے طور پر نہیں بلکہ ڈون کی ہدایت پر ایسا کر رہا تھا۔ تین ماہ پہلے اس نے ان نائٹ کلبوں میں جانا شروع کیا تھا جو ٹے ٹیگ لیا فیملی کی ملکیت تھے۔ ایسے ایک کلب کی ٹاپ کی کال گرل کی رفاقت خرید کر اس نے اپنے ایک خاص مشن کا آغاز کیا تھا۔ اس کال گرل کے ساتھ وقت گزاری کے دوران اس نے دبے دبے لفظوں میں یہ تاثر دیا تھا کہ وہ ڈون کارلیون فیملی کے ساتھ کچھ زیادہ خوش نہیں کیونکہ وہاں اسے اس کی خدمات کا مناسب صلہ نہیں مل رہا تھا اور اسے وہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی تھی جس کا وہ مستحق تھا۔ بظاہر اس نے کچھ نشے کی ترنگ میں اور کچھ باتوں کی روانی میں غیرارادی طور پر دل کا غبار نکالا تھا۔ اس واقعے کے چند دن بعد اس نائٹ کلب کا منیجر برونو ٹے ٹیگ لیا خود ہی اس کی میز آ کر اس سے مل بیٹھا۔ وہ ٹے ٹیگ لیا فیملی کے سربراہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ وہ خود براہ راست عورتوں کے دھندے میں ملوث نہیں تھا لیکن اس کے نائٹ کلب میں جو لڑکیاں کورس کی صورت میں ڈانس کرتی تھیں، وہ گویا یہیں کال گرل بننے کی تربیت حاصل کرتی تھیں اور آگے بڑھ جاتی تھیں۔ برونو نے پہلی ملاقات میں ہی براسی سے کافی حد تک کھل کر بات چیت کی۔ اس نے براسی کو اپنی فیملی کے لئے کام کرنے کی پیشکش کر دی۔ ایک ماہ تک اس طرح کی باتیں چلتی رہیں۔ برونو اور براسی دونوں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ براسی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اس کال گرل کی زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے جو کلب سے وابستہ تھی۔ وہ بظاہر اس کی وجہ سے وہاں باقاعدگی سے آنے لگا تھا۔ برونو ایک ایسے بزنس مین کا کردار ادا کر رہا تھا جوکسی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹو آفیسر کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے بہتر مراعات وغیرہ کی پیشکش کر کے اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ ایسی ایک ملاقات کے دوران براسی نے ظاہر کیا جیسے وہ تھوڑا سا ڈانواں ڈول ہو رہا ہے۔ اس موقع پر اس نے کہا۔ لیکن ایک بات کان کھول کر سن لو۔ میں کبھی گاڈ فادر ڈون کارلیون کے مدمقابل کھڑا نہیں ہوں گا۔ صرف وہی ایک ایسا شخص ہے جس کی میں بہت عزت کرتا ہوں۔ اس کی طرف سے بس تھوڑا سا صدمہ اسی بات سے پہنچا ہے کہ اپنے بعد بھی وہ کاروبار میں بہرحال اپنے بیٹوں کو ہی آگے لائے گا۔ میری حیثیت یہی رہے گی جو اس وقت ہے۔ یعنی میری طویل خدمات کا کوئی خاص صلہ نہیں ملے گا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ کاروبار سے لاتعلق ہو گا، کم از کم اس وقت تو مجھے بھی اس کے کسی بیٹے کے برابر اہمیت حاصل ہوگی۔ برونو نئی نسل کا نمائندہ تھا۔ وہ براسی، ڈون، حتیٰ کہ خود اپنے باپ جیسے پرانے یا وضعدار لوگوں کو کچھ زیادہ عقلمند یا ذہین نہیں سمجھتا تھا۔ تاہم احتراماً ان کے سامنے خاموش رہتا تھا۔ اس موقع پر وہ بولا۔ میرے والد کبھی تمہیں ڈون کے مقابل کھڑا کرنا یا تم سے اس کے خلاف کام لینا نہیں چاہیں گے۔ انہیں اس کی ضرورت ہی کیا ہے یہ ایک دُوسرے سے سر پھوڑنے کا زمانہ نہیں ہے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ صلح صفائی سے رہتے ہیں اور اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ پرانا قبائلی دور نہیں ہے جب ہر وقت کسی نہ کسی کے ساتھ جنگ میں مصروف رہنے کے بہانے ڈھونڈے جاتے تھے۔ تمہارا معاملہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی آدمی کسی کمپنی میں نوکری کرتے وقت زیادہ خوش نہیں ہے اور اسے کسی دوسری کمپنی میں اس سے کچھ بہتر نوکری ملتی ہے تو وہ وہاں چلا جاتا ہے براسی نے پُرخیال انداز میں آہستگی سے سر ہلایا اور خاموش رہا۔ برونو نے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے بات جاری رکھی۔ تم کہو تو میں اپنے والد کے کان میں بات ڈال دوں کہ تم بہتر مواقع کی تلاش میں ہو۔ ہم جیسے لوگوں کے کاروبار میں تم جیسے لوگوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ ہمارا کوئی کاروبار آسان نہیں ہے۔ ہمارے معاملات کو ہموار انداز میں رواں دواں رکھنے کے لئے مضبوط اور سخت جان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے بارے میں جب بھی تمہارا ذہن آمادہ ہو تو مجھے بتا دینا۔ ویسے تو خیر میں جہاں ہوں، وہاں بھی ٹھیک ہی ہوں۔ براسی نے ظاہر کیا جیسے ابھی وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ بات وہیں کی وہیں رہ گئی۔ درحقیقت اس کا مقصد ٹے ٹیگ لیا فیملی پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ لوگ منشیات کا جو کاروبار شروع کرنے جا رہے ہیں وہ اس کے بارے میں جانتا تھا اور اس سلسلے میں ایک فری لانسر کے طور پر اپنی خدمات پیش کر کے کچھ اضافی فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔ اس طرح درحقیقت وہ سولوزو کے عزائم سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ڈون نے جس طرح سولوزو کی پیشکش مسترد کی تھی۔ کیا اس کے بعد سولوزو ڈون سے چھیڑ چھاڑ کا کوئی ارادہ رکھتا تھا یہ سوال خود ڈون کے لئے بھی اہم تھا اور وہ براسی کے ذریعے اس کا جواب حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اگر یہ بات انہیں پہلے سے معلوم ہو جاتی تو وہ سولوزو سے نمٹنے کیلئے بہتر طور پر تیار رہ سکتے تھے لیکن دو ماہ تک جب سولوزو کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا تو براسی نے ڈون کو یہی رپورٹ دی کہ سولوزو نے اس کے انکار کو دل پر نہیں لیا تھا۔ اس نے اس بات پر صبر کر لیا تھا اور اس کا انتقامی کارروائی کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا تھا۔ تاہم ڈون نے براسی کو یہی ہدایت کی کہ وہ ان لوگوں کے نیٹ ورک میں گھسنے کی کوششیں جاری رکھے لیکن اس سلسلے میں زیادہ گرم جوشی یا اشتیاق نہ دکھائے۔ بس فارغ وقت میں ڈھیلے ڈھالے انداز میں کوشش کرتا رہے۔ ڈون پر فائرنگ سے ایک رات پہلے براسی نائٹ کلب گیا تو برونو فوراً ہی اس کی میز پر آن بیٹھا اور بولا۔ میرا ایک دوست تم سے کچھ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ تو اسے لے آئو۔ میں تمہارے کسی بھی دوست سے بات چیت کے لئے تیار ہوں۔ براسی نے جواب دیا۔ نہیں وہ اس وقت یہاں نہیں آ سکتا۔ وہ تم سے ذرا رازداری سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ برونو ٹے ٹیگ لیا نے کہا۔ کون ہے وہ براسی نے دریافت کیا۔ بس، میرا ایک دوست ہے۔ وہ تمہارے سامنے کوئی اہم تجویز رکھنا چاہتا ہے۔ تمہیں کوئی پیشکش کرنا چاہتا ہے۔ کیا تم آدھی رات کے بعد یہاں اس سے ملنے آ سکتے ہو یقیناً براسی بولا۔ صحیح وقت اور صحیح جگہ بتا دو۔ میں آجائوں گا۔ برونو نے ایک لمحے سوچا پھر بولا۔ کلب رات کے پچھلے پہر تقریباً چار بجے بند ہوتا ہے۔ تم اس وقت آ جائو جب ویٹرز سامان سمیٹ کر صفائی کر رہے ہوتے ہیں۔ براسی سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ وہ لوگ اس کی عادات سے واقف ہو چکے تھے۔ شاید انہوں نے اس پر نظر رکھی ہو اور اس کے بارے میں معلومات جمع کی ہوں۔ وہ دن بھر سوتا تھا اور اس کی راتیں جاگتے ہوئے گزرتی تھیں۔ اس کے معمولات کچھ اسی قسم کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔ ٹھیک ہے، میں صبح چار بجے دوبارہ آ جائوں گا۔ اس نے جواب دیا۔ اس نے نائٹ کلب میں کچھ وقت پینے پلانے اور کچھ وقت اس مخصوص کال گرل کی رفاقت میں گزارہ پھر وہاں سے نکل آیا۔ باہر آ کر اس نے ٹیکسی پکڑی اور گھر آ گیا۔ وہ ایک بڑے اور آراستہ و پیراستہ اپارٹمنٹ کے آدھے حصے میں رہتا تھا۔ باقی آدھا حصہ ایک اطالوی فیملی کے پاس تھا۔ براسی کا اس فیملی سے کوئی خاص میل جول نہیں تھا لیکن اس نے مصلحت کے تحت ان کے ساتھ اپارٹمنٹ شیئر کیا ہوا تھا۔ اس طرح اس کے بارے میں تاثر ملتا تھا کہ وہ فیملی والا اور معزز آدمی ہے جبکہ اسے ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں تھا جو فیملی والوں کو عموماً درپیش ہوتے ہیں۔ فیملی کے ساتھ اپارٹمنٹ شیئر کرنے کی وجہ سے اسے یہ خطرہ بھی کم محسوس ہوتا تھا کہ کبھی وہ اچانک گھر پہنچے تو کوئی گھات لگائے اس کے انتظار میں بیٹھا ہو۔ اسے یقین تھا کہ برونو اسے جس شخص سے ملوانا چاہ رہا تھا وہ سولوزو تھا۔ اگر معاملات صحیح انداز میں آگے بڑھتے تو اسے آسانی سے سولوزو کے عزائم کا اندازہ ہو سکتا تھا اور وہ اتنی اہم رپورٹ کرسمس کے تحفے کے طور پر ڈون کو پیش کر سکتا تھا۔ اپنے بیڈروم میں پہنچ کر براسی نے بیڈ کے نیچے سے ایک ٹرنک نکالا اور اس میں سے ایک بلٹ پروف جیکٹ نکال کر کپڑوں کے نیچے پہن لی۔ اس نے ڈون کو فون کر کے آج کی متوقع ملاقات کے بارے میں بتانا چاہا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ ڈون اس قسم کی باتیں فون پر کرنا پسند نہیں کرتا۔ ویسے بھی اس نے یہ مشن انتہائی خفیہ انداز میں اس کے سپرد کیا تھا۔ ہیگن اور ڈون کے بیٹوں تک کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا اور نہ ہی ڈون چاہتا تھا کہ انہیں پتا چلے۔ چنانچہ براسی نے فون کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ ویسے بھی معاملہ کچھ آگے بڑھنے اور کوئی کام کی بات معلوم ہونے کے بعد اسے رپورٹ دینا زیادہ اچھا معلوم ہوتا۔ براسی نے ریوالور بھی ساتھ لے لیا۔ یہ لائسنس والا ریوالور تھا اور اس کا لائسنس شاید شہر کا سب سے مہنگا لائسنس تھا۔ اسے حاصل کرنے کے لئے دس ہزار ڈالر رشوت دی گئی تھی تاہم اس کی وجہ سے براسی کو ذرا اطمینان رہتا تھا کہ کبھی راستے میں اچانک چیکنگ کے دوران پولیس اس کا ریوالور دیکھ بھی لیتی تو کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہوتا۔ آج رات اس نے لائسنس والی گن اس لئے ساتھ لی تھی کہ فی الحال اسے اس کو استعمال کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ابھی وہ صرف سولوزو کی بات سنے گا اور اگر ڈون کے بارے میں اس کے عزائم کچھ خطرناک نظر آئے پھر بھی آج رات اس کا کام تمام نہیں کرے گا بلکہ ڈون کو رپورٹ دینے کے بعد اس کے حکم کے مطابق قدم اُٹھائے گا۔ اگر سولوزو کا پتا صاف کرنے کا حکم ملا تو وہ اسے کسی ایسی گن سے ٹھکانے لگائے گا جس کا سراغ لگانا ممکن نہ ہو۔ یہی سب کچھ سوچتا ہوا وہ وقت مقررہ سے کچھ پہلے دوبارہ نائٹ کلب جا پہنچا۔ اس وقت وہاں باہر دروازے پر ڈور مین بھی موجود نہیں تھا۔ ہیٹ اور اوورکوٹ وغیرہ سنبھالنے والی لڑکی بھی جا چکی تھی۔ اندر صرف برونو موجود تھا جو اسے کلب کے ایک گوشے میں واقع بار کی طرف لے گیا۔ وہاں اس وقت ویرانی تھی اور روشنی بھی کم تھی۔ براسی ایک اسٹول پر بیٹھ گیا اور برونو کسی بار ٹینڈر کی طرح کائونٹر کے عقب میں چلا گیا۔ اس نے براسی کے لئے ایک ڈرنک تیار کی مگر براسی نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ پہلے ہی کافی پی چکا ہے۔ اس نے سگریٹ سلگا لی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ بھی عین ممکن ہے، اس کا متوقع ملاقاتی سولوزو نہ ہو مگر چند لمحے بعد اس نے کلب کے ایک اندھیرے گوشے سے سولوزو کو نمودار ہوتے دیکھا۔ سولوزو نے آ کر اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے برابر والے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ برونو نے ڈرنک اس کے سامنے رکھ دی۔ اس نے سر کے اشارے سے شکریہ ادا کیا اور براسی سے مخاطب ہوا۔ کیا تم جانتے ہو، میں کون ہوں براسی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مربیانہ انداز میں مسکرایا۔ اسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی تھی کہ چوہا بل سے باہر آ گیا تھا۔ اس شخص کا کام تمام کرتے وقت اسے مزید خوشی ہوتی جو اپنے آپ کو بڑا خطرناک لڑاکا سمجھتا تھا۔ کیا تمہیں معلوم ہے، میں تم سے کیا فرمائش کرنے والا ہوں سولوزو نے ایک اور سوال کیا۔ اس بار براسی نے نفی میں سر ہلایا۔ میرے پاس بڑے کاروبار کا ایک منصوبہ تیار ہے۔ سولوزو بولا۔ اس میں اُوپر کی سطح کے لوگوں کیلئے بڑی دولت ہے۔ میں پہلی ہی کھیپ کی کامیابی سے منتقلی پر تمہیں کم از کم پچاس ہزار ڈالر کی تو گارنٹی دے سکتا ہوں۔ یہ صرف تمہارا حصہ ہوگا۔ میں ہیروئن کی بات کر رہا ہوں۔ آنے والا دور اسی کا ہے۔ تم نے مجھے کیوں بلوایا ہے براسی نے انجان بنتے ہوئے سوال کیا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں اس سلسلے میں ڈون سے بات کروں سولوزو دانت پیس کر بولا۔ تمہارے ڈون سے میں پہلے ہی بات کر چکا ہوں۔ وہ اس دھندے میں باکل ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ بہرحال، میرے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اس کے تعاون کے بغیر بھی اپنے منصوبوں پر عمل کر سکتا ہوں تاہم مجھے اس سارے آپریشن کی نگرانی اور اس کی حفاظت کے لئے ایک مضبوط اور طاقتور آدمی کی ضرورت ہے جو اس قسم کے کاموں کو مکمل کرانا اور راستے میں آنے والی رُکاوٹوں کو دُور کرنا جانتا ہو۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم اپنی فیملی کے لئے خدمات تو بدستور انجام دے رہے ہو لیکن کچھ زیادہ خوش نہیں ہو۔ تم چاہو تو اِدھر سے اُدھر ہو سکتے ہو۔ دیکھنا پڑے گا۔ براسی نے کندھے اُچکائے۔ اگر پیشکش اچھی ہو تو سوچا جا سکتا ہے۔ سولوزو گہری نظر سے اس کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ پھر وہ گویا دل ہی دل میں کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے بولا۔ تم چند دن میری پیشکش پر غور کر لو۔ پھر ہم دوبارہ بات کر لیں گے۔ اس نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن براسی نے ظاہر کیا کہ اس نے سولوزو کو ہاتھ بڑھاتے نہیں دیکھا۔ وہ اس دوران دوسری سگریٹ سلگانے لگا۔ برونو نے اس کی سگریٹ سلگانے کیلئے لائٹر روشن کیا تھا۔ اس دوران براسی کافی حد تک مطمئن ہو چکا تھا کہ اسے کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہیں ہے۔ وہ گویا کسی حد تک اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ چکا تھا۔ اچانک برونو نے ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے لائٹر کائونٹر پر ہی گرا دیا۔ براسی کا ہاتھ کائونٹر پر ٹکا ہوا تھا۔ اچانک ہی برونو کے ہاتھ میں نہ جانے کہاں سے ایک خنجر آ گیا اور براسی کے اس ہاتھ میں پیوست ہوگیا جو کائونٹر پر ٹکا ہوا تھا۔ ہاتھ سے گزر کر خنجر کائونٹر میں گڑ گیا۔ براسی کا ہاتھ کائونٹر سے چپک کر رہ گیا۔ اس کے باوجود براسی شاید اپنا ہاتھ چر جانے کی پروا کئے بغیر اسے کائونٹر سے کھینچ لیتا مگر ہوا یہ کہ برونو نے اس کا وہ بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اس کا دُوسرا بازو اسی لمحے سولوزو نے اس سے بھی زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ تاہم براسی ایک طاقتور آدمی تھا۔ وہ اس حالت میں بھی ان کے قابو میں آنے والا نہیں تھا۔ عین ممکن تھا کہ وہ ایک ہاتھ میں خنجر پیوست ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ان کی گرفت سے چھڑا لیتا مگر اسی اثنا میں ایک شخص اس کے عقب میں نمودار اور اس نے براسی کی گردن میں نائیلون کے باریک تار کا پھندا ڈال دیا جو تیزی سے تنگ ہوتا چلا گیا۔ براسی کی آنکھیں حلقوں سے باہر آ گئیں۔ اس کے چہرے اور گردن کی رگیں اس بُری طرح پھول گئیں کہ اس حصے پر گویا ایک جال سا اُبھر آیا۔ پھندا ڈالنے والے شخص نے اتنی پھرتی اور طاقت سے اسے کسا کہ نائیلون کا تار گویا براسی کی گردن میں اُتر گیا۔ چند سیکنڈ بعد وہ تار نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ براسی کا چہرہ نیلا پڑ گیا۔ جلد ہی اس کی مزاحمت دم توڑ گئی اور ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑنے لگے۔ اس کے دائیں بائیں برونو اور سولوزو یوں دلچسپی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے جیسے سائنس لیبارٹری میں نو عمر طالب علم اپنے کئے ہوئے تجربے کے نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ دھیرے دھیرے براسی کی ٹانگیں مڑ گئیں اور وہ فرش کی طرف گرتا چلا گیا۔ برونو اور سولوزو نے اس کے بازو چھوڑ دیئے مگر پیچھے سے اس کی گردن میں پھنڈا ڈالنے والے شخص نے نائیلون کی ڈوری اس وقت تک نہیں چھوڑی جب تک براسی کو فرش پر گر کر ساکت ہوئے چند لمحے نہیں گزر گئے۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ براسی مر چکا ہے تب وہ پھندے کی ڈوری چھوڑ کر سیدھا ہوگیا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی لاش دریافت نہ ہو سکے۔ سولوزو نے پُرسکون لہجے میں کہا اور گھوم کر نپے تلے قدم اُٹھاتا اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ ٭ ٭ ٭ جس شام ڈون پر فائرنگ ہوئی، اس سے اگلا دن اس کی فیملی کیلئے بے پناہ مصروفیت کا دن تھا۔ مائیکل فون پر مصروف رہا اور ضروری پیغامات سنی کو دیتا رہا۔ ہیگن کسی ایسے آدمی کی تلاش میں رہا جس کے ذریعے سولوزو کے ساتھ میٹنگ کے انتظامات کئے جا سکیں اور جس کی شخصیت اس کام کے سلسلے میں دونوں پارٹیوں کے لئے قابل قبول ہو۔ اب کوئی اور ہی آدمی ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں پارٹیوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سولوزو اب بہت محتاط ہوگیا تھا۔ وہ کہیں روپوش تھا۔ پیش منظر سے بالکل غائب ہو گیا تھا۔ شاید اسے پتا چل گیا تھا کہ مینزا اور ٹیسو کے آدمی شہر میں پھیل گئے تھے اور اس کا سراغ پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ٹے ٹیگ لیا فیملی کے خاص خاص آدمی بھی روپوش ہوگئے تھے۔ سنی کو اس بات کی توقع تھی۔ دُشمن کو یہ ابتدائی احتیاطی تدبیر تو بہرحال کرنی ہی تھی۔ مینزا اس دوران گیٹو کو ٹھکانے لگانے کے مشن کے سلسلے میں غائب تھا جبکہ ٹیسو کو براسی کا سراغ لگانے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ ڈون پر فائرنگ کے واقعے سے پچھلی رات گھر سے نکلا تھا اور پھر واپس نہیں آیا تھا۔ یہ ایک برا شگون تھا لیکن سنی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا کہ براسی غداری کر سکتا تھا اور نہ ہی اسے اس بات پر یقین آ رہا تھا کہ براسی کو کوئی گھات لگا کر دھوکے سے ہلاک کر سکتا تھا۔ ماما کارلیون یعنی ڈون کی بیوی اور سنی وغیرہ کی ماں شہر کے مرکزی علاقے میں فیملی کے ایک خیر خواہ گھرانے کے ساتھ مقیم تھی تاکہ اسے وہاں سے ڈون کی خبرگیری کے لئے اسپتال آنے جانے میں آسانی رہے۔ اسپتال وہاں سے قریب تھا۔ اس کی بیٹی کونی بھی وہیں پہنچ چکی تھی اور اسی کے ساتھ مقیم تھی۔ ڈون کے داماد، رزی نے بھی اس موقع پر اپنی خدمات پیش کی تھیں کہ اگر وہ کسی کام آ سکتا ہے، تو حاضر ہے مگر سنی نے اسے کوئی زحمت نہیں دی تھی اور یہی کہا تھا کہ وہ اپنے کاروبار کی طرف دھیان رکھے۔ ڈون نے اب اسے مین ہٹن کے ایک ایسے علاقے میں کام شروع کرا دیا تھا جہاں اطالویوں کی آبادی زیادہ تھی۔ یہ بلا اجازت بک میکنگ کا کام تھا۔ وہ گھوڑوں کی ریس اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر شرطیں بک کرتا تھا۔ کام کی نوعیت سٹے کی سی تھی۔ رزی کا یہ کام بھی اس کے پہلے کاروبار کی طرح لشٹم پشٹم ہی چل رہا تھا۔ فریڈ ابھی تک مسکن دوائوں کے زیراثر تھا۔ وہ باپ کے گھر میں، اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا۔ سنی اور مائیکل اس کی مزاج پرسی کیلئے گئے تھے۔ سنی اس کے چہرے کی زردی اور مجموعی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ وہ جب اس کی مزاج پرسی کے بعد اس کے کمرے سے نکلے تھے تو سنی نے بڑی حیرت سے مائیکل سے کہا تھا۔ کمال ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے اسے پاپا سے بھی زیادہ گولیاں لگی ہیں۔ مائیکل کندھے اُچکا کر رہ گیا۔ اس نے میدان جنگ میں بھی بعض فوجیوں کی یہی حالت دیکھی تھی لیکن وہ زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو بالکل عام سے سویلین ہوا کرتے تھے۔ جنگ کے دوران ضرورت پڑنے پر انہیں رضاکارانہ یا جبری طور پر فوج میں بھرتی کرلیا گیا تھا اور مختصر تربیت کے بعد میدان جنگ میں بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ کے ہولناک تجربوں سے گزرتے ہوئے اور بعض ناقابل یقین مناظر دیکھ کر ان کے اعصاب جواب دے جاتے تھے۔ مگر مائیکل کو کم از کم فریڈ کے بارے میں یہ توقع نہیں تھی۔ بچپن اور لڑکپن میں وہ اپنے بڑے اور چھوٹے، دونوں بھائیوں سے زیادہ سخت جان اور لڑاکا تھا مگر مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ باپ کے سامنے بہت زیادہ سعادت مند تھا اور آنکھیں بند کر کے بس اس کے اشاروں پر چلتا تھا۔ اس کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی۔ اس کی تمام تر سعادت مندی کے باوجود ڈون کا اسے کاروبار میں کوئی بڑی پوزیشن دینے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ اس کے خیال میں اس کے اعصاب میں وہ مضبوطی اور مزاج میں وہ سفاکی نہیں تھی جو فیملی کے معاملات کو چلانے کے لئے ضروری تھی۔ اس سہ پہر، ہالی وڈ سے جونی کا فون بھی آیا۔ مائیکل نے اس کی فرمائش پر سنی سے اس کی بات کرائی۔ وہ فلم کے آخری مراحل میں پھنسا ہوا تھا مگر ڈون کی عیادت کے لئے آنا چاہتا تھا۔ اس کی ضرورت نہیں جونی سنی نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ تم پاپا سے مل تو نہیں سکو گے ان کی حالت ایسی نہیں کہ ڈاکٹر تمہیں ان سے ملنے کی اجازت دے سکیں۔ اس کے علاوہ تمہاری وہ فلم تکمیل کے قریب ہے جس میں کام کرنا تمہارا خواب تھا اور جس میں تمہیں کاسٹ کرانے کے لئے خاصے پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس موقع پر تمہارا ڈون کی عیادت کے لئے آنا ٹھیک نہ رہے۔ شاید اس سے میڈیا کے لوگوں کو تمہارے بارے میں کوئی اسکینڈل بنانے کا موقع مل جائے۔ اس بات کو پاپا ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ پاپا کو گھر آ جانے دو۔ پھر تم ضرور ان کی عیادت کیلئے آ جانا۔ میں بہرحال تمہارے جذبات ان تک پہنچا دوں گا۔ فون بند کرنے کے بعد وہ مائیکل کی طرف مڑ کر بولا۔ پاپا یقیناً یہ جان کر خوش ہوں گے کہ جونی لاس اینجلس سے فوری طور پر فلائٹ پکڑ کر ان کی عیادت کے لئے آنا چاہ رہا تھا۔ چند منٹ بعد کچن میں عام فون پر مائیکل کیلئے کال آئی۔ مینزا کا ایک آدمی مائیکل کو بلانے آیا۔ مائیکل نے جا کر فون سنا۔ دُوسری طرف کے تھی۔ تمہارے والد اب کیسے ہیں اس نے پوچھا۔ اس کے لہجے میں اضطراب اور تنائو تھا۔ مائیکل کو احساس تھا کہ اخبارات میں اس کے باپ کے بارے میں جو خبریں چھپی تھیں، انہوں نے اس کا کوئی اچھا امیج نہیں بنایا تھا۔ اخبارات نے اس کیلئے گروہ کا سرغنہ اور ناجائز دھندوں کی سرپرستی کرنے والا جیسے الفاظ استعمال کئے تھے۔ مائیکل کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ کے ان باتوں سے پریشان تھی۔ اس کے لئے ان باتوں پر یقین کرنا مشکل تھا۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ مائیکل نے جواب دیا۔ تم جب انہیں دیکھنے اسپتال جائو گے تو کیا میں بھی تمہارے ساتھ چل سکتی ہوں اس نے پوچھا۔ مائیکل کو یاد آیا، اس نے خود ہی کے کو بتایا تھا کہ اس کا خاندان قدامت پرست اور روایت پسند تھا۔ ان کے ہاں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی کہ کون کس کے دُکھ، بیماری کے موقع پر مزاج پرسی کے لئے گیا کس نے کس کی شادی بیاہ کی تقریب میں شرکت کی کس نے کیا تحفہ دیا ایک لمحے کی خاموشی کے بعد مائیکل بولا۔ تم ایک بہت معزز اور معروف خاندان کی لڑکی ہو۔ اگر اخبار والوں کو پتا چل گیا کہ اس خاندانی پس منظر کی لڑکی میرے والد کی عیادت کے لئے آئی تھی تو ڈیلی نیوز کے صفحہ نمبر تین پر تفصیلی رپورٹ چھپ جائے گی کہ ایک معزز امریکی خاندان کی لڑکی بھی مافیا چیف کی عیادت کرنے پہنچ گئی۔ کیا تمہارے والدین اس بات کو پسند کریں گے میرے والدین ڈیلی نیوز نہیں پڑھتے۔ کے نے جواب دیا پھر ایک لمحے کی خاموشی کے بعد بولی۔ مائیکل تم ٹھیک ہو نا تمہیں تو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے نا مائیکل دھیرے سے ہنس دیا۔ مجھے تو فیملی کا بے ضرر فرد سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کوئی مجھے ٹھکانے لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ ویسے بھی اب اس قسم کے مزید کسی واقعے کا امکان نہیں ہے۔ یوں سمجھو، یہ ایک طرح کا حادثہ تھا۔ جب ملاقات ہوگی تو میں تفصیل سے تمہیں سب کچھ بتا دوں گا۔ اور ملاقات کب ہوگی کے نے فوراً پوچھا۔ مائیکل نے ایک لمحے سوچا۔ پھر کہا۔ آج رات میں تمہارے ہوٹل آ جاتا ہوں۔ کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ پھر میں پاپا کو دیکھنے اسپتال چلا جائوں گا۔ میں بھی گھر میں بند رہ کر فون سنتے سنتے بور ہوگیا ہوں۔ ٹھیک ہے، میں انتظار کروں گی۔ کے کے لہجے میں بشاشت آ گئی۔ مائیکل جب فون بند کر کے واپس آفس میں پہنچا تو مینزا بھی آن پہنچا۔ ٹیسو وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ سنی نے معنی خیز سے لہجے میں مینزا سے پوچھا۔ تم نے اس کا بندوبست کر دیا ہاں۔ مینزا نے اطمینان سے جواب دیا۔ اب تم اس کی شکل نہیں دیکھو گے۔ تب مائیکل کو احساس ہوا کہ وہ گیٹو کے بارے میں بات کر رہے تھے اور مینزا کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ گیٹو کا کام تمام ہو چکا تھا۔ اس احساس سے مائیکل کے جسم میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ سنی نے ہیگن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا۔ تمہیں سولوزو والے معاملے میں کچھ کامیابی ہوئی ہیگن نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ لگتا ہے ہم سے مذاکرات کرنے کے سلسلے میں اس کا جوش خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ وہ معاہدہ کرنے کے لئے اب کچھ زیادہ بے تاب معلوم نہیں ہوتا یا پھر شاید وہ بہت زیادہ احتیاط کر رہا ہے کہ ہمارا کوئی آدمی کہیں اسے ہمارے حکم کے بغیر ہی نہ ڈھونڈ کر مار ڈالے۔ اس کے علاوہ مجھے ابھی تک ذرا اُونچے درجے کا کوئی ایسا آدمی نہیں مل سکا جو ہمارے اور سولوزو کے درمیان رابطے اور ثالثی کا کام کر سکے اور جس پر سولوزو کو بھی اعتماد ہو۔ بہرحال، سولوزو کو ہم سے بات تو کرنا ہی پڑے گی۔ خاص طور پر اس لئے کہ اس کی توقع کے برعکس ڈون زندہ بچ گیا ہے۔ وہ بہت شاطر اور چالاک آدمی ہے۔ سنی بولا۔ فیملی کو شاید پہلی بار ایسے شاطر، چالاک اور خطرناک آدمی سے واسطہ پڑا ہے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں۔ ہیگن بولا۔ بہرحال مجھے اُمید ہے کہ کل تک میں رابطے کا کوئی آدمی تلاش کرنے اور مذاکرات کا کوئی پروگرام طے کرنے میں کامیاب ہو جائوں گا۔ اس لمحے مینزا کے ایک آدمی نے دروازے پر دستک دی اور اجازت پا کر اندر آ گیا۔ وہ مینزا سے مخاطب ہوا۔ ابھی ابھی ریڈیو پر مقامی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کو گیٹو کی لاش ملی ہے۔ وہ اپنی کار میں مردہ پایا گیا ہے۔ تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مینزا نے کہا۔ اس کا آدمی اپنی دانست میں بہت بڑی اور اہم خبر لے کر آیا تھا۔ وہ اس سلسلے میں مینزا کی بے نیازی دیکھ کر ایک لمحے کے لئے حیران نظر آیا لیکن پھر سر جھٹک کر واپس چلا گیا۔ کمرے میں موجود افراد نے دوبارہ اس طرح بات چیت شروع کر دی جیسے ان کی گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی تھی۔ سنی نے ہیگن سے پوچھا۔ پاپا کی حالت میں کوئی تبدیلی آئی ان کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن وہ کم از کم دو دن بعد بات چیت کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ ہیگن نے جواب دیا۔ تب شاید وہ ہمیں آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کچھ ہدایات دے سکیں۔ تب تک ہمیں کوشش کرنی ہے کہ سولوزو کو مزید کوئی اشتعال انگیز قدم اُٹھانے سے باز رکھا جائے۔ اسی لئے میں اسے پیغام بھجوانا چاہتا ہوں کہ تم اس سے بات چیت کیلئے تیار ہو۔ اس دوران مینزا اور ٹیسو اسے تلاش کرتے رہیں گے۔ سنی غرایا۔ شاید قسمت ہمارا ساتھ دے اور ہم سارا جھگڑا طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ سولوزو کو اندازہ ہے کہ اگر وہ اس وقت مذاکرات کی میز پر آیا تو شاید اسے زیادہ باتیں ہماری ماننی پڑیں۔ ہیگن بولا۔ اس لئے وہ وقت گزاری کر رہا ہے۔ مہلت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران شاید وہ دوسری فیملیز کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو تاکہ بعد میں اگر ڈون ہمیں اس سے بدلہ لینے کا حکم دے تب بھی ہمیں اس کو انجام تک پہنچانے میں دُشواری پیش آئے یا شاید ہم اس حکم پر عملدرآمد کر ہی نہ سکیں۔ اس لمحے مائیکل نے سنی کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نمودار ہوتے دیکھے۔ اس کی آنکھیں گویا دہکنے لگیں۔ مائیکل نے ابھی تک اسے اتنے غصّے میں نہیں دیکھا تھا۔ تاہم جب وہ بولا تو اس کی آواز محض سرسراتی ہوئی تھی۔ مجھے ان فیملیز کی ذرّہ بھر بھی پروا نہیں ہے۔ ان کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ جب سولوزو پر جھپٹنے کا موقع ملے تو وہ بیچ میں نہ آئیں۔ اسی اثنا میں کچن کی طرف سے کچھ شور کی سی آوازیں سنائی دیں۔ وہاں مینزا کے آدمی کھانے پکانے میں مصروف تھے۔ مینزا اُٹھ کر دیکھنے گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 259 | https://www.urduzone.net/deewangi-episode-3/ | آپ مجھے یہاں بند کرکے نہیں جاسکتے۔ یہ کہہ کر خرم نے اس شخص کو دھکا دے دیا۔ وہ بستر پر جاگرا۔ خرم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا لیکن اسے لگا جیسے اس کی ٹانگ کو کسی نے کھینچ لیا ہو۔ خرم نے گردن گھما کر پہلے اپنے عقب میں دیکھا۔ وہ شخص بستر پر اطمینان سے لیٹا ہوا تھا، اس نے خرم کی ٹانگ بھی نہیں پکڑی ہوئی تھی۔ خرم نے اپنے پیر کی طرف دیکھا تو چونک گیا۔ خرم کے پیر میں ایک زنجیر تھی اور اس میں تالا لگا تھا اور دوسرا سرا دیوار کے ساتھ لگے کنڈے میں تھا۔ وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ زنجیر اتنی لمبی تھی کہ وہ آسانی سے کمرے میں چل پھر سکتا تھا۔ فریج تک جا سکتا تھا اور باتھ روم میں جانے میں بھی اسے آسانی تھی لیکن وہ کھڑکی تک نہیں جاسکتا تھا۔ وہ شخص مسکراتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ تم اس کمرے کے اندر آزاد ہو، اطمینان سے گھومو پھرو۔ وہ ایک بار پھر مسکرایا اور اس نے دیوار کی جانب اشارہ کیا۔ خرم نے اس طرف دیکھا۔ دیوار کے کونے میں ایک کیل لگی ہوئی تھی۔ اس کیل پر دو چابیاں لٹک رہی تھیں۔ ان چابیوں کی طرف دیکھو، یہ چابیاں زنجیر کے تالوں کی ہیں۔ افسوس یہ کہ تم ان چابیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ تم ان چابیوں کو دیکھتے رہو اور حسرت سے ہاتھ ملتے رہو کہ تم انہیں چھو بھی نہیں سکتے۔ وہ شخص ہنستا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ خرم چلاّنے لگا۔ اس کی آواز اس کمرے تک ہی محدود تھی۔ ٭ ٭ ٭ ایک ہفتہ بیت گیا۔ خرم نے گھر رابطہ نہیں کیا تھا۔ ماسٹر رشید نے کئی بار کوشش کی کہ خرم سے بات ہوجائے لیکن اس کا موبائل فون مسلسل بند جارہا تھا۔ ماسٹر رشید اور اس کے گھر والوں کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے۔ ماسٹر رشید اپنے دوست حاکم علی کے پاس پہنچا اور اسے ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ یہ سن کر حاکم علی بھی پریشان ہوگیا۔ ہادیہ اور اس کی ماں نے سنا تو وہ بھی دم بخود رہ گئیں۔ کیا کروں میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ ماسٹر رشید نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ ہماری دوڑ تو قادر ہائوس تک ہے۔ وہاں جاکر اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ ہماری مدد کریں۔ حاکم علی نے تجویز پیش کی۔ دونوں اسی وقت اٹھ کر قادر ہائوس چلے گئے۔ وہاں مہتاب موجود تھا۔ اس نے دونوں کو بڑے احترم سے بٹھایا اور دلبر کو کچھ کھانے پینے کا سامان لانے کے لیے بھیج دیا۔ خرم کو اداکاری کا بہت شوق تھا۔ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ وہ کراچی گیا تھا لیکن اس سے رابطہ نہیں ہورہا۔ اس کا فون بند جارہا ہے۔ ماسٹر رشید سے پریشانی کی وجہ سے بات نہیں ہورہی تھی۔ میں نے اسے منع بھی کیا تھا، یہ شوق چھوڑ دو، اس میں کچھ نہیں رکھا لیکن وہ بضد تھا۔ اس کا مطلب ہے وہ کراچی چلا گیا۔ مہتاب بولا۔ کہہ رہا تھا کسی ادارے نے اسے بلایا ہے۔ ماسٹر رشید نے کہا۔ ادارے ایسے ہی نہیں بلا لیتے چچا جی۔ خرم نے آپ سے جھوٹ کہا۔ آپ فکر نہ کریں، میں کراچی میں موجود اپنے دوستوں کو فون کرتا ہوں۔ مہتاب نے پہلے ان کے دل میں خرم کے لیے غلط فہمی پیدا کی اور پھر تسلی دی۔ بہت شکریہ۔ ابھی فون کرلیں۔ حاکم علی نے کہا۔ مہتاب نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ دن کے گیارہ بجے تھے۔ اس وقت تو وہ سو رہے ہوں گے۔ میں بارہ بجے کے بعد ان کو فون کروں گا۔ آپ فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مہتاب نے ان کو ایک بار پھر تسلی دی۔ وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔ ماسٹر رشید اپنی دکان پر چلے گئے۔ جب حاکم علی اپنے گھر پہنچا تو وہ چونک گیا۔ سامنے اس کی بیوی کے ہاتھ، پیر اور منہ بندھا ہوا تھا۔ حاکم علی نے جلدی سے اس کے ہاتھ، پائوں اور منہ کھولا اور پوچھا۔ کیا ہوا آپ کے جانے کے بعد دو خواتین آئی تھیں۔ انہوں نے ہم پر پستول تان لیے اور پھر ایک نے مجھے باندھا۔ اس کے بعد انہوں نے پستول ہادیہ کی کمر سے لگایا اور اسے باہر لے گئیں۔ کہاں لے گئیں ہادیہ کو کون تھیں وہ حاکم علی چلّایا۔ مجھے نہیں معلوم کون تھیں وہ حاکم علی باہر کی طرف دوڑا۔ گلی میں ایک خاتون سے پوچھا تو اس نے بتایا۔ ایک گاڑی آپ کے دروازے پر رکی تھی اور پھر ہادیہ دو خواتین کے ساتھ باہر نکلی تھی اور گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی تھی۔ حاکم علی بھاگتا ہوا ماسٹر رشید کے گھر پہنچا۔ اسے ساری بات بتائی۔ وہ دونوں ایک بار پھر مہتاب کے سامنے کھڑے تھے۔ حاکم علی کا جسم کانپ رہا تھا۔ مہتاب ان کی بات سن کر حیران تھا۔ دن دیہاڑے ایسا کام ہوگیا۔ دلبر تھانے فون ملائو۔ مہتاب نے کہا۔ دلبر نے کال کرنے کے بعد موبائل مہتاب کو دے دیا۔ مہتاب بات کرتا ہوا ایک طرف چلا گیا۔ پھر بات ختم کرنے کے بعد ان کے پاس آیا اور بولا۔ میں نے پولیس کو اطلاع کردی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ ہو کیسے گیا میری بیٹی کو لے گئیں۔ حاکم علی کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ آپ حوصلہ رکھیں۔ میرا دل کہہ رہا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔ مہتاب سوچتے ہوئے بولا۔ کیا بات ہوسکتی ہے ماسٹر رشید نے دریافت کرنا چاہا۔ مہتاب نے جواب دینے کی بجائے ایک بار پھر دلبر کو ایک آدمی کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کال کرے۔ دلبر اسے کال کرنے لگا۔ جب کال ملی تو اس نے موبائل فون مہتاب کو دے دیا۔ مہتاب ایک بار پھر بات کرتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔ وہ کچھ دیر تک بات کرتا رہا۔ بات ختم کرنے کے بعد وہ ان کے پاس آکر بولا۔ یہ کراچی کا ایک بااثر آدمی ہے جس سے ابھی میں نے بات کی ہے۔ میرا دوست ہے۔ ہر اچھی بری جگہ اس کے آدمی ہیں۔ ابھی ایک گھنٹے میں مجھے یہ سب بتا دیں گے خرم کہاں ہے اور کہیں وہ بات تو نہیں ہے جو میرے دماغ میں گھوم رہی ہے وہ کیا بات ہے، ہمیں بھی بتائیں ماسٹر رشید نے فکرمندی سے پوچھا۔ مہتاب نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ آپ تشریف رکھیں، ابھی میں اپنے دوست کے فون کا انتظار کررہا ہوں۔ وہ کیا بتاتا ہے، پھر دیکھتے ہیں۔ ماسٹر رشید چپ چاپ حاکم علی کے پاس بیٹھ گیا۔ دونوں کے افسردہ چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ اس دوران پولیس بھی آگئی۔ پولیس ہادیہ کی ماں اور گلی والوں سے پوچھ گچھ کرکے آئی تھی۔ مہتاب نے ان کو ہدایت دی کہ وہ جلد ازجلد ہادیہ کو تلاش کریں۔ پولیس والوں نے روایتی انداز میں تسلی دی اور چلے گئے۔ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوگیا تھا جب مہتاب کے دوست کا فون آیا۔ مہتاب ایک طرف ہوکر اس سے تفصیلی بات کرتا رہا۔ جب کال ختم ہوئی تو اس نے ماسٹر رشید اور حاکم علی کی طرف دیکھا۔ ان کی سوالیہ نگاہیں مہتاب کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ خرم کو کیا جوئے کی بھی عادت تھی مہتاب نے پوچھا۔ ماسٹر رشید نے ایک دم کہا۔ خرم میں ایسی کوئی عادت نہیں تھی۔ آپ تو دکان پر ہوتے ہیں۔ وہ کیا کرتا ہے، اس کی آپ کو کیا خبر۔ میرا دوست بتا رہا تھا کہ خرم وہاں کے ایک بڑے جوئے خانے میں کسی سے جھگڑ پڑا تھا۔ میرے دوست کا چھوٹا بھائی اس جگہ موجود تھا اور اسی نے ان کی لڑائی رفع دفع کرائی تھی۔ خرم وہاں اکیلا نہیں گیا، اس کے دوست بھی ساتھ ہیں۔ خرم اور اس کے دوستوں نے اس جگہ سے کافی پیسہ جوئے میں جیتا۔ پھر دوسرے دن انہوں نے اتنا پیسہ ہارا کہ خرم نے اپنی منگیتر بھی دائو پر لگا دی۔ حاکم علی اور ماسٹر رشید نے سنا تو دونوں ہی دنگ ہی رہ گئے۔ حاکم علی کو لگ رہا تھا جیسے اس کی سانس رک رہی ہے۔ مہتاب ان کے قریب ہوکر بولا۔ مجھے یہ اندیشہ اس لیے تھا کہ خرم ایک بار یہاں بھی جوا کھیلتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور دلبر نے اسے چھڑایا تھا۔ خرم نے منت سماجت کی تھی کہ وہ گھر والوں کو نہ بتائے۔ میں نے اسے بلا کر سمجھایا تھا کہ اگر تم آئندہ جوا نہ کھیلنے کا وعدہ کرو تو میں تمہارے گھر والوں کو نہیں بتائوں گا۔ اس نے وعدہ کیا لیکن وہ باز نہیں آیا۔ ماسٹر رشید اور حاکم علی گم صم بیٹھے تھے۔ ان کے لیے یہ نیا انکشاف تھا۔ کچھ توقف کے بعد مہتاب پھر بولا۔ دلبر کو کل کسی سے پتا چلا تھا کہ ہمارے علاقے کے کچھ نوجوان کراچی گئے ہیں، ان کا وہاں جوا کھیلنے کا پروگرام تھا۔ میں نے اپنے جس دوست کو فون کیا ہے، اس کا ایک دوست جواخانہ چلاتا ہے، اس لیے خرم کا پتا آسانی سے چل گیا۔ ہماری تو عزت گئی۔ حاکم علی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ آپ فکر نہ کریں۔ اس بات کو اپنے تک محدود رکھیں، وہ بااثر لوگ ہیں۔ آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیں، اطمینان رکھیں، آپ کی عزت کو کچھ نہیں ہوگا۔ مہتاب نے دونوں کو تسلی دے کر گھر بھیج دیا۔ ان کے جاتے ہی مہتاب کے چہرے پر ایک مکار مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے خرم پر الزامات لاد کر اپنی چال کامیاب کرلی تھی۔ مہتاب نے دلبر کے قریب ہوکر پوچھا۔ سب ٹھیک ہے جی بالکل ٹھیک ہے۔ دلبر نے جواب دیا۔ ابھی ایک ہفتہ خاموش رہو۔ ہادیہ کا پورا خیال رکھو، کسی طرح کی اسے تکلیف نہ ہو۔ وہاں جو چوکیدار ہے، اسے رہنے دینا اور روزانہ ایک چکر لگا لیا کرنا۔ مہتاب اسے ہدایت دے کر اندر چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ ماسٹر رشید اور حاکم علی کے گھرانوں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ سب کچھ سننے کے بعد ماسٹر رشید کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ حاکم علی سے نگاہیں ملا سکے۔ ماسٹر رشید اور حاکم علی نے اپنے گھر والوں سے حقیقت مخفی رکھی تھی۔ ان کی نظریں قادر ہائوس پر لگی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ مہتاب ان کے لیے ضرور کچھ کرے گا۔ ایک خرم کی ماں تھیں جو قادر ہائوس سے امید لگانے کی بجائے نوافل پڑھنے میں مشغول تھیں۔ ٭ ٭ ٭ خرم کو اندازہ نہیں تھا کہ اسے کتنے دن ہوگئے ہیں اس کمرے میں قید ہوئے۔ وہ اس کمرے میں چل پھر سکتا تھا لیکن اتنا ہی جتنی اس کو زنجیر اجازت دیتی تھی۔ صبح، دوپہر اور شام کو ایک آدمی آتا تھا۔ وہ اسے چائے اور کھانا دے جاتا تھا، فریج میں پھل رکھ دیتا تھا اور پانی کی بوتلیں بدل دیتا تھا۔ خرم نے کئی بار کوشش کی کہ وہ چابی جو دیوار میں ایک کیل پر لٹک رہی تھی، اسے کسی طرح سے اتار لے لیکن اس کا ہاتھ وہاں تک جاتا نہیں تھا۔ خرم اس جگہ سے نکلنے کا طریقہ سوچ رہا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہاں سے کیسے نکلے۔ آخرکار خرم کے ذہن میں ایک بات آئی۔ اس نے باتھ روم کی اس جگہ پر تولیہ اچھی طرح ٹھونس دیا جہاں سے پانی جاتا تھا، پھر اس نے پانی چھوڑ دیا اور باتھ روم پانی سے بھر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد نوجوان اس کے لیے کھانا اور گرم چائے لے کر آیا تو خرم نے کہا۔ باتھ روم کا پائپ بند ہوگیا ہے، پانی نہیں نکل رہا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی کمرے میں آجائے۔ وہ نوجوان باتھ روم میں چلا گیا۔ اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں سے پانی جاتا تھا۔ خرم نے تولیہ اس طرح اندر تک ٹھونسا ہوا تھا کہ نہیں پتا چل رہا تھا کہ پانی کیوں نہیں نکل رہا۔ پانی رک کیسے گیا معلوم نہیں۔ تم ایسا کرو کوئی ڈنڈا لے آئو تاکہ میں اس کی مدد سے اس کے اندر پھنسی ہوئی چیز نکال سکوں ورنہ یہ کمرا پانی سے بھر جائے گا۔ اس نوجوان نے کچھ دیر سوچا اور پھر باہر چلا گیا۔ خرم اس انتظار میں تھا کہ وہ نوجوان ڈنڈا لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا تو نوجوان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا۔ یہ لو میں یہاں کھڑا ہوں۔ نوجوان نے ڈنڈا اس کی طرف بڑھا کر کہا۔ خرم نے ڈنڈے کو پکڑ کر اسے غور سے دیکھا۔ وہ ایک مضبوط ڈنڈا تھا۔ خرم اب موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ہاتھ گھما کر غیر متوقع طور پر اس نوجوان کے سر پر وار کردیا۔ وہ نوجوان تکلیف سے بلبلایا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خرم نے یکے بعد دیگرے اس پر ڈنڈے سے حملہ کیا۔ نتیجے میں نوجوان نیم بے ہوش ہوگیا۔ خرم نے اس کو کھینچا اور جس جگہ چابی لٹک رہی تھی، وہاں تک لے گیا۔ اس نے اپنا ایک پیر اس نیم بے ہوش نوجوان کے سینے پر رکھا اور ڈنڈے کی مدد سے چابی نیچے گرا دی اور پھر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ خرم نے چابی اٹھا کر پیر کی زنجیر کھولی اور اسے نوجوان کے پیر پر باندھ کر تالا لگا دیا۔ اس نے جیب کی تلاشی لی۔ جیب میں کچھ پیسے اور ایک موبائل فون تھا۔ خرم نے موبائل فون سائلنٹ پر لگایا اور ابھی جانے ہی لگا تھا کہ وہ نوجوان برق رفتاری سے اٹھا اور خرم کو پیچھے سے دبوچ لیا۔ نوجوان کے دونوں ہاتھ خرم کے گلے کے گرد حمائل تھے اور خرم کی آنکھیں ابل کر باہر نکل رہی تھیں۔ خرم نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔ دونوں میں مزاحمت شروع ہوگئی۔ بمشکل خرم نے اس سے اپنے آپ کو چھڑایا اور اس کے پیٹ میں دو تین گھونسے رسید کردیئے۔ وہ نوجوان ایک بار پھر پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خرم نے تالے کی چابی اٹھائی اور بولا۔ چابی ساتھ لے جارہا ہوں۔ میں اسے وہاں نہیں لٹکائوں گا۔ بہت اذیت ناک ہے یہ۔ جب بھی میں چابی دیکھتا تھا اور اسے چھو نہیں سکتا تھا تو مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ خرم نے چابی جیب میں ڈالی، ڈنڈا پکڑا اور باہر نکل کر دروازے کے تالے میں لٹکتی ہوئی چابی سے دروازہ مقفل کیا اور چابی اپنی جیب میں ڈال لی۔ وہ دبے پائوں آگے بڑھا اور سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا گیا۔ نیچے کوئی نہیں تھا۔ اس نے ایک کمرے کے دروازے کے پاس رک کر کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کی۔ اسے کوئی آواز نہیں آئی۔ وہ دوسرے کمرے تک پہنچا تو اندر کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ اس نے رک کر غور سے سننا چاہا۔ اس کی دانست میں کوئی موبائل فون پر بات کررہا تھا۔ پھر آواز آنا بند ہوگئی۔ اچانک دروازہ کھلا اور خرم چونک گیا۔ اس کے سامنے وہ آدمی کھڑا تھا کہ جب خرم کو ہوش آیا تو وہ اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے خرم کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ خرم لمحہ ضائع کئے بغیر اس آدمی کا گلا ایک ہاتھ سے دبوچ کر اسے دھکیلتا ہوا اندر لے گیا اور اسے بیڈ پر گرا کر اس کے منہ پر مکے برسانے شروع کردیئے۔ اس دوران خرم کی نظر بیڈ کی تپائی پر پڑے پستول پر پڑی۔ خرم نے پستول اٹھا کر اس کی گردن پر رکھ دیا۔ اسی وقت بیڈ پر پڑا اس آدمی کا موبائل فون بول پڑا۔ خرم نے دیکھا اسکرین پر مہتاب کا نام تھا۔ خرم کو حیرت ہوئی۔ اس نے غصے سے کہا۔ اسپیکر آن کرکے فون اٹھائو اور اس سے بات کرو۔ اگر کوئی گڑبڑ کی تو گولی مار دوں گا۔ اس آدمی نے فون اٹھا کر اسپیکر آن کیا تو دوسری طرف سے مہتاب کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔ ہیلو جہانگیر میرا مہمان کیسا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس نے جواب دیا۔ اس کا اچھی طرح خیال رکھنا۔ اس شہر میں واپس آنے نہ پائے۔ میں نے ہیرا چُرا لیا ہے۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا جی میں سمجھ گیا ہوں۔ اوکے بائے۔ مہتاب نے فون بند کردیا۔ خرم کے لیے یہ باتیں بڑی حیران کن تھیں۔ اس نے جہانگیر کو کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیا اور پستول تان کر بولا۔ بتائو حقیقت کیا ہے ورنہ گولی مار دوں گا۔ جہانگیر نے کچھ دیر خرم کی طرف دیکھا اور خاموش رہا۔ خرم نے اس بار پہلے سے زیادہ درشت لہجے میں کہا تو جہانگیر بولا۔ مہتاب میرے ایک دوست کا دوست ہے۔ اس نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں تمہیں پکڑ کر بند کردوں۔ مہتاب نے ایسا کیوں کیا تھا میں نہیں جانتا۔ جہانگیر نے ابھی جواب دیا ہی تھا کہ خرم نے اس کے منہ پر پستول کا بٹ اس قوت سے مارا کہ وہ تکلیف سے چیخ اٹھا اور اس کے منہ سے خون نکلنے لگا۔ خرم نے پھر پستول تان لیا اور بولا۔ اگر اب نہ بتایا تو گولی چلا دوں گا۔ جہانگیر نے کچھ سوچا اور بولا۔ مجھے اتنا پتا چلا تھا کہ مہتاب کو تمہاری منگیتر اتنی پسند آئی تھی کہ وہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا، اس لیے اس نے تمہاری منگیتر کو اغوا کرلیا لیکن اس بات کا کسی کو پتا نہیں ہے۔ خرم اس کی بات سن کر دم بخود رہ گیا۔ جس کو وہ فرشتہ سمجھ رہا تھا، وہ اصل میں شیطان تھا۔ اس نے ہادیہ کو اغوا کرکے کہاں رکھا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ جہانگیر نے جواب دیا۔ خرم نے اس کے سر پر پستول کا بٹ مارا تو وہ تکلیف سے چیخ اٹھا۔ خرم نے پھر حملہ کیا تو اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ خرم نے رسی تلاش کرکے اسے اچھی طرح باندھا، اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسا، الماری کی تلاشی لی۔ ایک دراز سے بہت سے پیسے مل گئے۔ اسے اس نے جیب میں ڈالے، پستول اور دوسری جگہوں سے اپنی انگلیوں کے نشان مٹا کر کمرے کی لائٹ بجھا دی۔ دروازہ مقفل کیا اور باہر نکل گیا۔ باہر نکل کر اس نے گیٹ کو تالا لگایا اور اس کی چابی پھینکنے ہی لگا تھا کہ اسے خیال آیا۔ وہ اتنی دور کیسے جائے گا۔ اس نے گیٹ کھولا، گاڑی نکال کر گیٹ مقفل کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر نکل گیا۔ اس جگہ جرائم پیشہ لوگ اپنے مقاصد پورے کرتے تھے۔ یہاں کوئی نہیں آتا تھا۔ وہ دونوں اس مکان میں قید تھے اور بندھے ہوئے تھے۔ ان کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ٭ ٭ ٭ خرم ہوائی جہاز کے ذریعے واپس اپنے شہر پہنچ گیا۔ اس نے شیرو کے ڈیرے کا رخ کیا۔ شیرو وہاں موجود نہیں تھا لیکن اس کو اطلاع کردی گئی۔ اس نے حکم دیا تھا کہ وہ خرم کی مہمان نوازی کریں۔ خرم کو ایک اچھے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد شیرو واپس آیا تو اس نے خرم کا چہرہ دیکھتے ہی پوچھا۔ خیریت تو ہے آپ نے مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہا تھا خرم نے یاد دلانے کی کوشش کی۔ میں نے کہا تھا اور مانتا بھی ہوں کہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ شیرو نے جواب دیا۔ مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ کیسے بھی ہو، میرا یہ کام کرنا ہے آپ نے۔ خرم بولا۔ کیا کام ہے شیرو نے پوچھا۔ مہتاب کو اغوا کرکے ایک جگہ پہنچانا ہے۔ خرم نے کہا۔ شیرو اس کی طرف متحیر نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم آپ میرا کام کرسکتے ہیں یا نہیں خرم نے دوٹوک انداز میں پوچھا۔ میرے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے۔ کل دوپہر کے بعد ہم دونوں ایک ساتھ کہیں جارہے ہیں۔ چکمہ دے کر مہتاب کو تمہاری بتائی ہوئی جگہ پہنچا دینا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسے تم اغوا کیوں کرانا چاہتے ہو شیرو نے کہا۔ باقی تفصیل بعد میں بتائوں گا۔ بس اتنا جان لیں اس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنا، میری نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ بتائو مہتاب کو کہاں پہنچانا ہے شیرو نے اس کا چہرہ دیکھ کر کہا۔ خرم نے اسے تفصیل سے بتایا کہ اسے کہاں پہنچانا ہے۔ شیرو نے بھی اسے ایک منصوبے سے آگاہ کیا۔ ان باتوں سے فارغ ہوکر خرم نے اپنے ساتھ لائے ہوئے موبائل فون کو آن کیا اور ماسٹر رشید کو کال کی۔ تھوڑی دیر کے بعد ماسٹر رشید کی آواز سنائی دی۔ ہیلو کون ابا جی میں خرم بول رہا ہوں۔ خرم بولا۔ دوسری طرف سے ایک دم ماسٹر رشید نے کہا۔ کہاں ہو تم اور تم نے یہ کیا حرکت کی ہے ہمیں کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کیا کیا ہے میں نے خرم نے پوچھا۔ اب کیا بتائوں کہ کیا کیا ہے تم نے ماسٹر رشید کا لہجہ دھیما تھا کیونکہ وہ اس وقت اپنی دکان پر تھا۔ ابا جی مجھے بتائیں کہ کیا بات ہے مجھے صاف بتائیں، میں جاننا چاہتا ہوں۔ خرم نے جلدی سے کہا اور ساتھ ہی اسپیکر بھی کھول دیا۔ شیرو بھی سننے لگا۔ دوسری طرف سے ماسٹر رشید نے تفصیل بتانی شروع کردی جسے سن کر خرم کے ساتھ شیرو بھی حیران ہوتا گیا۔ جب بات مکمل ہوگئی تو خرم نے کہا۔ ابا جی مہتاب کے اندر ایک بھیڑیا چھپا ہوا ہے۔ ہم ہی کیا، اسے کوئی نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا ہے۔ آپ میرا یقین کریں، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور میں اپنی بے گناہی ثابت کردوں گا اور اس بھیڑیئے کا چہرہ لوگوں کے سامنے بھی لے کر آئوں گا۔ تم اس وقت کہاں ہو آپ بے فکر ہوجائیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا اور میرا ذکر کسی سے نہ کریں۔ جو باتیں آپ کے ساتھ ہوئی ہیں، انہیں اپنے تک رکھیں۔ میں آنے والے چند گھنٹوں میں ساری حقیقت سامنے لے آئوں گا اور اپنے دامن پر لگا داغ بھی مٹا دوں گا۔ بس اتنا ذہن میں رکھیں کہ جو کیا ہے، وہ مہتاب نے کیا ہے۔ اسی نے مجھے کراچی میں قید کرایا تھا۔ میں وہاں سے بھاگ آیا ہوں۔ خرم بولا۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم ماسٹر رشید سن کر پریشان ہوگیا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ بس آپ تھوڑا انتظار کرلیں۔ خرم نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔ شیرو سوچتے ہوئے بولا۔ مہتاب کو جانتا ہوں لیکن وہ اتنا گھنائونا ہے، یہ میں نہیں جانتا تھا۔ اب آپ نے سن لیا، مجھے بس مہتاب چاہیے۔ میرا وعدہ ہے کہ میں تمہارا کام کردوں گا لیکن تم اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد یہ شہر چھوڑ کر چلے جائو گے شیرو نے پوچھا۔ میں شہر کیوں چھوڑوں گا خرم نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ مہتاب ایک طاقتور آدمی ہے۔ جب اسے پتا چلے گا کہ اس اغوا کے پیچھے تم ہو تو وہ تمہاری اور تمہارے گھر والوں کے لیے زمین تنگ کردے گا۔ شیرو بولا۔ سفر کے دوران میں یہی سوچتا آیا ہوں کہ مجھے کیا اور کیسے کرنا ہے۔ میں جو کچھ کروں گا، اس طرح کروں گا کہ اسے شک نہ ہو۔ میں اپنا چہرہ اس کے سامنے نہیں لائوں گا۔ میں ہادیہ کا پتا اس سے نہیں پوچھوں گا۔ اگر میں نے ہادیہ کے بارے میں پوچھا تو وہ جان جائے گا۔ اس لیے میں نے سب کچھ کیسے کرنا ہے، میں نے اپنے دماغ میں سوچ لیا ہے۔ اچھی بات ہے۔ تم بہت احتیاط اور اس رازداری سے کرنا کہ میں تمہیں ان گلیوں میں آزاد گھومتا ہوا دیکھوں۔ ایسا ہی ہوگا۔ اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوگا کہ اس سارے کھیل کے پیچھے میں ہوں۔ میں کل تمہاری مطلوبہ جگہ پر مہتاب کو پہنچا دوں گا۔ تم بے فکر رہو۔ شیرو نے اسے یقین دلایا۔ ٭ ٭ ٭ شیرو سے مہتاب ضرورت پڑنے پر کوئی کام لیتا تھا۔ اس لیے اس کا مہتاب کی طرف زیادہ آنا جانا نہیں تھا۔ اس وقت بھی ایک پراپرٹی کی خریداری کا معاملہ تھا جو متنازع پراپرٹی تھی۔ متنازع ہونے کی وجہ سے مہتاب اونے پونے یہ پراپرٹی خرید لیتا تھا اور پھر اسے اپنے نام منتقل کرا کے سونے کے بھائو بیچ دیتا تھا۔ اب جو پراپرٹی وہ خریدنا چاہتا تھا، اس میں شیرو کا ہونا بہت ضروری تھا، اس لیے وہ دو گھنٹے کے بعد اس کے ساتھ نکلنے والا تھا۔ خرم سیدھا اپنے دوست مظہر کے اس مکان پر چلا گیا جو شہر سے دور اور خالی تھا۔ گیٹ کی چابی لے کر خرم نے کی چین کی طرف دیکھتے ہوئے چوکیدار سے پوچھا۔ یہ کی چین جس پر اس نے اپنے اس مکان کا نمبر لکھوایا ہے، خاص طور پر بنوائے تھے نہیں جناب، جب وہ کالونی بنی تھی اور جن لوگوں نے پلاٹ خریدے تھے تو پلاٹ نمبر کے ساتھ کی چین دیئے گئے تھے۔ چوکیدار نے بتایا۔ خرم گاڑی لے کر چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ شیرو اپنے ایک آدمی کے ساتھ اپنی گاڑی میں نکلا اور اس جگہ رک گیا جہاں مہتاب سے ملاقات کی بات ہوئی تھی۔ وہ ایک چورنگی تھی جس کے اردگرد شاپنگ پلازے، ریسٹورنٹ اور بوتیک وغیرہ تھے۔ اس جگہ رش رہتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد مہتاب اپنی پجیرو میں وہاں آگیا۔ اس کے پیچھے ایک گاڑی تھی جس میں اس کے محافظ بیٹھے ہوئے تھے۔ پجیرو میں ڈرائیور کے ساتھ دلبر اور پچھلی سیٹ پر مہتاب بیٹھا ہوا تھا۔ شیرو کے ایک آدمی نے کار کا ٹائر بدلنا شروع کردیا۔ اس نے خود ہی ہوا نکالی تھی اور پھر آہستہ آہستہ ٹائر بدلنے لگا تھا۔ شیرو کار سے باہر نکل کر دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ دلبر اس کے پاس جاکر بولا۔ کیا ہوا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے۔ دلبر نے یہ بات مہتاب کو بتائی تو مہتاب نے دلبر کو پیغام دیا کہ شیرو سے کہو کہ اس کی گاڑی میں آجائے۔ شیرو نے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ میڈیا ہر وقت مہتاب کے تعاقب میں رہتا ہے، اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ وہ میڈیا کی نظر میں آئے۔ مہتاب نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ مہتاب کے کہنے پر اس کا ڈرائیور گاڑی کچھ آگے لے گیا۔ جونہی اس کے محافظ گاڑی آگے بڑھانے لگے، ایک کار تیزی سے آکر ان کی گاڑی کے آگے رک گئی اور اندر سے ایک لڑکا باہر نکل کر مارکیٹ کی طرف جانے لگا تو ایک محافظ نے اسے آواز دے کر کہا۔ یہ گاڑی ہٹائو، ہم نے آگے جانا ہے۔ لڑکے نے رک کر اپنے عقب میں دیکھا۔ اس کی گاڑی کے دائیں طرف بھی گاڑیاں تھیں۔ اگر وہ اپنی گاڑی آگے بڑھاتا تو مہتاب کے محافظوں کی گاڑی آگے نکل سکتی تھی۔ وہ واپس کار میں بیٹھا اور کوشش کی کہ ان کی کار کو راستہ مل جائے۔ محافظوں نے تیزی سے اپنی گاڑی نکالی اور جونہی وہ آگے بڑھے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ مہتاب کی پجیرو دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ انہوں نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا لیکن اس کی کار کہیں نہیں تھی۔ ایک محافظ نے شیرو کی طرف دیکھا۔ اس کا آدمی کار کا ٹائر بدل کر سامان سمیٹ رہا تھا۔ محافظوں نے دائیں بائیں اچھی طرح تسلی سے دیکھ لیا لیکن مہتاب کی پجیرو کہیں نہیں تھی۔ جس دوران وہ اس لڑکے سے جو شیرو کا ہی ایک آدمی تھا، اس کی کار آگے بڑھوا رہے تھے، اس اثنا میں دو آدمی مہتاب کے دائیں بائیں بیٹھ چکے تھے اور انہوں نے اسلحہ اس کی پسلیوں پر لگا کر کسی کو آواز نکالنے کا بھی موقع نہیں دیا تھا اور اس کے حکم پر ڈرائیور نے پجیرو آگے بڑھا دی تھی۔ شیرو کا آدمی جب سامان سمیٹ چکا تو اس نے محافظوں کی گاڑی کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک محافظ سے اشارے سے پوچھا کہ مہتاب کی گاڑی کدھر گئی۔ محافظ نے اپنے کندھے اُچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا۔ شیرو بظاہر حیرت سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا لیکن وہ دل میں خوش تھا کہ اس کے آدمیوں نے کام دکھا دیا ہے۔ ٭ ٭ ٭ مہتاب کی پجیرو تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ جب وہ کچھ دور گئی تو ایک کار اور آگئی اور پجیرو کو اوورٹیک کرکے آگے جا کر کھڑی ہوگئی۔ مہتاب کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ اس نے پجیرو ایک طرف روک دی۔ اس کار سے کئی آدمی باہر نکلے۔ انہوں نے ڈرائیور اور دلبر کو گاڑی سے باہر نکالا۔ انہیں ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ وہ ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور ایک آدمی نے درشت لہجے میں دلبر سے کہا۔ جب تک تیرے فون پر ہماری کال نہ آجائے، مہتاب کے اغوا ہونے کی بات تیرے منہ سے نہیں نکلنی چاہیے ورنہ مہتاب کی لاش کسی ویرانے میں ملے گی۔ پھر پجیرو تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔ وہ آدمی بھی اپنی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔ دلبر اور ڈرائیور وہاں کھڑے رہ گئے۔ راستے میں مہتاب کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے جیب سے ایک محلول نکال کر رومال پر ڈالا اور مہتاب کے منہ پر رکھ دیا۔ وہ بے ہوش ہوگیا۔ پجیرو کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔ ٭ ٭ ٭ شیرو نے اپنا وعدہ نبھا دیا تھا۔ اس کے آدمیوں نے بے ہوشی کی حالت میں مہتاب کو اس مکان میں پہنچا دیا تھا جو خرم کے دوست کی ملکیت تھا اور شہر سے کافی فاصلے پر بھی تھا۔ اس طرف لوگوں کی آمدورفت نہیں تھی۔ خرم نے بالکل ویسا ہی انتظام کیا تھا جیسا اسے قید کرتے وقت کیا گیا تھا۔ شیرو کے آدمیوں نے کمرے میں زمین پر پڑی زنجیر سے اس کا ایک پائوں باندھ دیا۔ اس زنجیر کا دوسرا سرا دیوار میں پیوست ایک لوہے کے مضبوط ہک کے ساتھ تھا اور وہ زنجیر بھی اتنی لمبی تھی کہ کمرے کی ایک مخصوص حد تک جاتی تھی۔ خرم نے کمرے میں کیل کے ساتھ زنجیر کے تالے کی چابی لٹکانے کی غلطی نہیں کی تھی۔ مہتاب ابھی تک بے ہوش تھا اور زمین پر بچھے گدے پر لیٹا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا اور اس کے پائوں میں زنجیر پڑی ہوئی تھی۔ خرم اس کمرے کا کیمرا آن کرکے ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہا تھا کہ مہتاب بے ہوش پڑا ہے۔ خرم نے تمام کیمرے آن کردیئے تھے جس کی مدد سے وہ اس مکان کے اندر جھانک سکتا تھا۔ ٭ ٭ ٭ دلبر سیدھا قادر ہائوس پہنچا اور شمشاد کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر اس نے آہستہ سے دستک دی۔ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے شمشاد کی بارعب آواز آئی۔ کون ہے میں ہوں دلبر اندر آنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ ایمرجنسی ہوگئی ہے۔ دلبر نے جلدی سے کہا۔ اندر آجائو۔ اندر سے آواز آئی تو دلبر سہمے ہوئے بچے کی طرح اندر چلا گیا۔ سامنے کرسی پر براجمان شمشاد پائپ پی رہا تھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دلبر کی طرف دیکھا۔ اب پھوٹو بھی کیا ایمرجنسی ہوگئی ہے جب دلبر کچھ نہ بولا تو شمشاد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔ وہ ایک دم گھبرا کر بولا۔ بڑے صاحب مہتاب صاحب اغوا ہوگئے ہیں۔ کیا بکواس کررہے ہو شمشاد اپنی کرسی سے اٹھ کر گرجا۔ دلبر نے ساری تفصیل بتائی۔ شمشاد چپ چاپ سنتا رہا۔ جب دلبر چپ ہوا تو شمشاد نتھنوں سے آگ برساتا ہوا بولا۔ تم سب کے سب نکمے اور فضول ہو فون ملائو، میں بات کروں ایس پی سے۔ بڑے صاحب اغوا کرنے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہم نے یہ خبر کسی کو دی تو وہ اسی وقت صاحب جی کو گولی مار دیں گے۔ اس کی بات سن کر شمشاد بولا۔ پھر کیا کروں ہمیں ان کی کال کا انتظار کرنا چاہیے۔ تم نمبر ملائو، میں ایس پی سے بات کرتا ہوں۔ صاحب جی انہوں نے بڑی سختی سے مجھے کہا تھا کہ اگر کسی کو اطلاع کی تو وہ اسی وقت صاحب جی کو گولی مار دیں گے۔ دلبر نے ایک بار پھر روکنا چاہا۔ شمشاد چپ ہوگیا۔ اس کا پورا جسم مضطرب تھا۔ اسی بے چینی میں وہ تیز تیز پائپ کے کش لے کر دھواں چھوڑنے لگا۔ پھر وہ بڑبڑایا۔ کون لوگ ہوسکتے ہیں یہ معلوم نہیں بڑے صاحب۔ مہتاب کے باڈی گارڈز کہاں تھے شمشاد پھر گرجا۔ وہ اسی جگہ موجود تھے۔ اغوا اس قدر آناً فانا ہوا کہ کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چل سکا۔ دلبر نے بتایا۔ اگر مہتاب کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا میں تم سب کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ایک ایک کو مار دوں گا، تمہیں بھی مار دوں گا۔ سمجھے۔ شمشاد نے دلبر کا گریبان پکڑ کر درشت لہجے میں کہا۔ دلبر گھبرا کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ شمشاد نے دلبر کا گریبان ایک جھٹکے سے چھوڑا اور کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ کیا کرے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ دلبر ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ابھی وہ ان کی فون کال کا انتظار کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ اس کے بعد انہیں کیا کرنا چاہیے، پھر سوچا جائے گا۔ یہاں اسی کمرے میں رہنا اور اپنا موبائل فون نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لو۔ معلوم نہیں میرے نمبر پر ان کی کال آتی ہے کہ تمہارے فون پر۔ جی بہتر۔ دلبر نے اپنا موبائل فون جیب سے نکال کر ہاتھ میں تھام لیا۔ کتنے آدمی تھے وہ شمشاد نے سوال کیا۔ پہلے دو تھے جو ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھے، پھر آگے ایک کار اور آگئی تھی۔ اس کے اندر سے کئی لوگ باہر نکلے تھے۔ تم سب مفت کی روٹیاں توڑتے ہو۔ اندھے ہوگئے تھے، تم لوگوں کی آنکھوں کے سامنے وہ مہتاب کو لے گئے اور تم لوگوں کو پتا ہی نہیں چلا شمشاد کو ایک بار پھر غصہ آگیا۔ دلبر سہم کر سر جھکائے کھڑا رہا۔ ٭ ٭ ٭ ماسٹر رشید نے جب سے خرم سے بات کی تھی، وہ بھی مضطرب ہوگئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ ماسٹر رشید حاکم علی کے گھر چلے گئے۔ وہاں دونوں میاں بیوی افسردہ بیٹھے تھے۔ ماسٹر رشید نے حاکم علی کے قریب بیٹھ کر آہستہ سے کہا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے خرم کا فون آیا تھا۔ ماسٹر رشید کی بات سن کر دونوں میاں بیوی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ ماسٹر رشید بولے۔ خرم نے مجھے بتایا ہے کہ وہ صرف اداکاری کے لیے گیا تھا۔ اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے آپ لوگوں کی بدنامی ہو۔ ماسٹر رشید۔ حاکم علی نے متانت سے کہا۔ تم اپنے بیٹے کی صفائی پیش کررہے ہو میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ پرانی دوستی کا لحاظ ہے ورنہ تم اور تمہارے گھر والے اس وقت تھانے میں ہوتے۔ میں تم سب کے خلاف پرچہ کٹوا دیتا۔ حاکم علی تم کیسی بات کررہے ہو میں سچ کہہ رہا ہوں، مجھے خرم نے کال کرکے بتایا تمہارا رابطہ خرم سے ہے۔ اسے بولو کہ وہ میری بیٹی کو حفاظت سے میرے گھر پہنچا دے ورنہ میں کچھ بھی کر گزروں گا اور پرانی دوستی کو بھول جائوں گا۔ حاکم علی نے اس کی بات کاٹ کر درشت لہجے میں کہا کہ ماسٹر رشید اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ حاکم علی کی بیوی سب کچھ سن رہی تھی۔ اسے اپنے شوہر کے رویئے پر حیرانی اس لیے تھی کیونکہ اس نے اس سے حقیقت مخفی رکھی تھی۔ بھائی صاحب سے آپ کس طرح بات کررہے ہیں حاکم علی کی بیوی نے مداخلت کی۔ تمہیں میں نے اصل حقیقت بتائی نہیں ہے۔ اس کے بدبخت بیٹے نے حاکم علی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ماسٹر رشید نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ حاکم علی چپ ہوجائو۔ دیکھو انتظار کرلو۔ اگر میرا بیٹا قصوروار ہوا تو میں سزا کے لیے بیٹے کو ہی نہیں اپنے آپ کو بھی تمہارے سامنے پیش کردوں گا۔ حاکم علی چپ ہوگیا جبکہ حاکم علی کی بیوی سوالیہ نگاہوں سے کبھی اپنے شوہر اور کبھی ماسٹر رشید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کمرے میں تین افراد بیٹھے تھے لیکن وہاں خاموشی ایسی تھی جیسے وہ تینوں مُردہ ہوں۔ کچھ دیر کے بعد ماسٹر رشید اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ میں چلتا ہوں، اللہ سب ٹھیک کردے گا۔ ماسٹر رشید چلتا ہوا دروازے تک پہنچ گیا۔ وہ دونوں اپنی جگہ براجمان رہے جبکہ اس سے قبل جب بھی ماسٹر رشید ان کے گھر آتا تھا تو وہ دونوں اسے دروازے تک چھوڑنے جاتے تھے۔ حاکم علی کی بیوی چاہتی تھی کہ حاکم علی اٹھے تو وہ بھی اس کے ساتھ ہوجائے لیکن وہ منہ دوسری طرف پھیرے بیٹھا رہا۔ حاکم علی کی بیوی نے اٹھ کر دروازہ بند کردیا اور حاکم علی کے پاس آکر کہا۔ آپ مجھ سے کوئی بات چھپا رہے ہیں حاکم علی نے سر اٹھا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر کہا۔ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ آپ مجھ سے ضرور کوئی بات چھپا رہے ہیں۔ آپ بتانے لگے تھے اور رشید بھائی کے کہنے پر آپ چپ ہوگئے تھے۔ حاکم علی کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ اس نے کبھی اس سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔ پریشانی کے عالم میں اس نے ماسٹر رشید سے درشت لہجے میں بات کی تھی اور جو بات ان کے درمیان تھی، وہ بتانے لگا تھا۔ کچھ بھی تھا، ماسٹر رشید اس کا دوست تھا۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی بیوی کو حقیقت بتانے کی بجائے کہا۔ کوئی بات نہیں تھی۔ جانے غصے میں میرے منہ سے کیا نکلنے لگا تھا۔ اب تم مجھ سے مزید سوال نہ کرنا۔ میں بہت پریشان ہوں۔ حاکم علی اٹھا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ اس کی بیوی سوچ رہی تھی کہ اس سے کوئی بات ضرور مخفی رکھی جارہی ہے۔ ٭ ٭ ٭ مہتاب کو اغوا ہوئے دو گھنٹے ہوگئے تھے۔ شمشاد انتظار کی سولی پر لٹکا ہوا تھا۔ مہتاب کے فون میں نیٹ بھی تھا اور واٹس ایپ بھی ۔ خرم نے بے ہوشی کی حالت میں جب مہتاب گدے پر لیٹا ہوا تھا اور اس کے پائوں میں زنجیر تھی تو اس نے اس کی ایک مختصر سی ویڈیو بنائی اور شمشاد کے موبائل فون پر بھیج دی۔ ساتھ ہی خرم نے اسے مہتاب کے فون سے میسج کردیا۔ ڈیڈی اپنا واٹس ایپ چیک کریں۔ شمشاد نے جونہی میسج پڑھا، اس نے جلدی سے اپنا واٹس ایپ کھولا اور مہتاب کی ویڈیو دیکھی اور دلبر کو بھی دکھائی۔ مہتاب کو باندھا ہوا ہے۔ شمشاد نے کہا۔ چھوٹے صاحب بے ہوش ہیں۔ دلبر بولا۔ پھر میسج آیا۔ پیارے ڈیڈی میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ فکر نہ کریں اور میری اس ویڈیو اور اغوا کی بات کو جتنا پوشیدہ رکھ سکتے ہیں، پوشیدہ رکھیں۔ میں جلدی واپس آجائوں گا۔ یہ ساری بات آپ اپنے اور دلبر تک ہی رکھیں۔ پیغام پڑھنے کے بعد شمشاد نے دلبر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ اب بتائو تم کیا کہتے ہو جب تک کوئی واضح پیغام نہیں مل جاتا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ولید نے سوچتے ہوئے کہا۔ میں کہتا ہوں خفیہ طریقے سے پولیس کو اطلاع کردیتے ہیں۔ ابھی شمشاد نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک اور پیغام آگیا۔ لکھا تھا۔ پیارے ڈیڈی میں جانتا ہوں کہ آپ کے تعلقات بہت اوپر تک ہیں۔ ہم پوری مشینری استعمال کرسکتے ہیں لیکن فی الحال آپ ایسا کچھ نہ کریں کیونکہ جن لوگوں کے پاس میں مہمان ہوں، وہ بھی آپ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ذرا سی بھی غلطی ہوگئی تو وہ مجھے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ احتیاط لازمی ہے۔ اس میسج نے دونوں کو ایک بار پھر حیران پریشان کردیا۔ دلبر بولا۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جن لوگوں نے چھوٹے صاحب کو اغوا کیا ہے، وہ کوئی عام لوگ نہیں ہیں۔ اگر وہ عام لوگ ہوتے تو ان کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ قادر ہائوس کی طرف دیکھتے تمہاری بات ٹھیک ہے۔ میں تمام باڈی گارڈز جن کی موجودگی میں چھوٹے صاحب اغوا ہوئے تھے، ان کو انڈرگرائونڈ کردیتا ہوں تاکہ کوئی بات نہ نکلے اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 260 | https://www.urduzone.net/kis-baat-ka-khouf-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | ہمارے گائوں میں جب نیا نیا اسکول کھلا تو کچھ والدین نے اپنی بچیوں کا داخلہ کرادیا۔ لیکن میرے والد نے ہمیں اسکول بھیجنے سے انکار کردیا۔ جن لوگوں نے اپنی لڑکیوں کا داخلہ کروایا تھا یہ اسکول ان ہی کی کوششوں سے کھلا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا تعلق شہر سے تھا یا پھر ان کے رشتے دار شہروں میں رہائش پذیر تھے۔ انہی میں چچا اظہار بھی تھے۔ چچا اظہار کا گھر ہمارے گھر کے قریب تھا۔ ان کے بڑے دو بھائی مدت سے اپنی اراضی چچا اظہار کو فروخت کرکے شہر جا آباد ہوئے تھے جہاں ان کے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔ یونس ان ہی کا بیٹا تھا۔ جب تعلیم حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں تو نئی نسل کے پڑھنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ چچا اظہار کے بھتیجے بھی پڑھ لکھ کر کہیں سے کہیں پہنچ گئے، ان میں سے بڑے بھائی کے لڑکوں میں سے ایک پولیس آفیسر اور ایک مجسٹریٹ بن گیا۔ دوسرے بھائی کے بیٹے ڈاکٹر اور وکیل ہوگئے تو چچا اظہار نے تسلیم کرلیا کہ بھائیوں کا شہر جا بسنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ ان کی اولاد کی زندگی بن گئی تھی۔ انہوں نے دولت کے ساتھ ساتھ نام بھی کمایا تھا۔ تب انہیں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا خیال آیا۔ لیکن وہ اپنی اراضی چھوڑ کر شہر جا بسنے کی بجائے اپنے قصبے میں ہی رہے۔ انہوں نے حکومت کو اسکول کھولنے کے لئے اپنی اراضی میں سے قطعۂ زمین نذر کیا۔ اسکول قائم ہوگیا تو سب سے پہلے چچا اظہار نے اپنی بیٹی کو اسکول میں داخل کروادیا۔ یہ بچی چار جماعتیں اپنے تایا کے پاس شہر جاکر پڑھ کر آئی تھی لہٰذا پانچویں میں یہ پہلی اور اکلوتی طالبہ تھی۔ میں نے بھی اپنی ممانی سے گھر پر پڑھا تھا۔ ماموں شہر سے عظمیٰ ممانی کو بیاہ کر لائے تھے اور وہ اسکول میں ٹیچر تعینات ہوگئی تھیں۔ ممانی نے والد سے کہا کہ پانچویں میں طالبات کی تعداد کم ہے لہٰذا کچھ اور بچیوں کو پڑھائی کے لئے آمادہ کرنا چاہیے تاکہ باقاعدہ کلاس شروع کی جاسکے۔ آپ کی بچی نے بھی چار جماعتیں مجھ سے پڑھ لی ہیں اس کو داخل کرادیجئے۔ آپ کے پڑوسی ماسٹر اطہر کی دو بچیاں اور دو ان کی بھانجیاں داخلہ لے رہی ہیں یوں چھ لڑکیوں سے پانچویں کلاس کا اجرا ہوجائے گا۔ ابتدائی کلاسوں میں چھوٹی بچیاں پڑھنے آرہی تھیں مگر پانچویں جماعت کا کلاس روم خالی پڑا تھا۔ ہماری ممانی عظمیٰ کی کوششوں سے پانچویں کلاس بھی آباد ہونے لگی، ورنہ ان کی تعیناتی کھٹائی میں پڑ جاتی۔ وہ کوششوں میں لگی تھیں کہ مطلوبہ تعداد طالبات کی پوری ہوجائے۔ بڑی مشکلوں سے والد صاحب میرے داخلے کے لئے مانے تھے۔ جب والد صاحب مان گئے تو ممانی بہت مشکور ہوئیں اور میں بھی خوش تھی کہ ماسٹر اطہر کی بھانجیوں کے ہمراہ اسکول جارہی تھی۔ ماسٹر اطہر کی بیٹی منورہ میری بچپن کی سہیلی تھی۔ ہم ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ اسلم اپنی بہن منورہ سے دو سال بڑا تھا۔ وہ بھی بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ یونس، اسلم کا دوست تھا، یونس بھی ہمارے ساتھ ہی کھیلتا تھا۔ ذرا باشعور ہوئے تو اسلم اور یونس نے ہمارے ساتھ کھیلنا ترک کردیا۔ اب وہ محلے کے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور ہم لڑکیوں سے بات چیت سے بھی گریز کرتے تھے۔پانچویں پاس کرلی تو ہم سب چھٹی جماعت میں آگئیں۔ میری منورہ سے دوستی اور گہری ہوگئی۔ وہ میرے گھر آجاتی اور میں اس کے گھر چلی جاتی۔ ساتویں میں مجھ پر والد صاحب نے پابندی لگادی کہ میں کسی کے گھر نہیں جائوں گی۔ اسکول کے علاوہ میرا کہیں آنا جانا ممکن نہیں رہا۔ جب تک والد صاحب کی اجازت نہ ہوتی ہم کسی رشتہ دار کے گھر بھی نہ جاتے۔ امی اور ممانی تو اس بات کو ہی غنیمت جانتی تھیں کہ والد صاحب نے ہمیں اسکول جانے سے نہیں روکا تھا۔ منورہ میرے گھر آسکتی تھی لیکن میں اس کے گھر نہیں جاسکتی تھی۔ تاہم روز ہی اسکول میں ہماری ملاقات ہوجاتی تھی۔ ہمارے گائوں کے پاس ایک بہت بڑا میدان تھا۔ یہاں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ گائوں کے لوگ اس میلے میں جوق درجوق جاتے۔ یہ بسنت رت تھی اور بیساکھی کا میلہ زوروں پر تھا۔ منورہ اسکول آئی تو مجھے بتایا کہ آج وہ اپنی بہنوں کے ساتھ میلے پر جانے والی ہے۔ میں نے حسرت سے کہا۔ کاش میں بھی میلہ دیکھنے جاسکتی۔ وہ بولی، تم ہمارے ساتھ چلو۔ میں کیسے جاسکتی ہوں، ابا کی اجازت نہیں ہے۔ ارے تمہارے ابا تو لاہور گئے ہوئے ہیں۔ تم اگر ہمارے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے میلے پر چلی جائوگی تو کون ان کو بتائے گا۔ اپنی امی سے اجازت لے لو، کہو تو میں آکر ان سے بات کرلوں۔ تم آجانا مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ اجازت دیں گی کیونکہ میلے سے تو رات دیر کو لوٹنا ہوگا۔ تمہیں جلدی آنا ہوا تو جلدی آجانا ہم تمہیں جلدی واپس پہنچادیں گے۔ غرض منورہ نے مجھے اس قدر اکسایا کہ میرے دل میں بھی میلہ دیکھنے کی امنگ جاگ اٹھی۔ گھر جاکر امی سے کہا مجھے میلے پر جانا ہے۔ والدہ نے جواب دیا۔ بیٹی توبہ کر۔ اگر تیرے ابا کو پتا چل گیا کہ تو میلہ دیکھنے گئی تھی وہ تجھے جان سے مار دیں گے، جانتی نہیں وہ کتنے سخت مزاج ہیں۔ امی کے انکار پر بیٹھی میں رو رہی تھی کہ منورہ اور اس کی بہن آگئیں۔ امی سے منتیں کرنے لگیں کہ خالہ جان سمعیہ کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں، امی ساتھ جارہی ہیں، پھپھو بھی اور ہمیں اسلم بھائی لے جارہے ہیں۔ امی نے کہا کہ اس کے ابو کی اجازت نہیں ہے ان کو علم ہوگیا تو سخت غصہ ہوں گے۔ ہم ایک گھنٹے تک واپس آجائیں گے۔ منورہ نے بتایا۔ امی نے بہت مجھے دلگرفتہ دیکھ کر کہا۔ ٹھیک ہے۔ چلی جائو لیکن ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رکنا۔ جلد لوٹ آنا۔ منورہ کو بھی تاکید کردی کہ تمہارے اصرار پر اجازت دے رہی ہوں مگر تم جلد واپس آجانا۔ شام کو منورہ اور اس کی بہن مجھے لینے آگئیں۔ میلہ واقعی قابل دید تھا۔ وہاں ایسی اشیا کے اسٹال تھے کہ آنکھیں خیرہ ہورہی تھیں۔ بہت سی چیزوں کو دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ ان کو خرید لیں۔ ایک گھنٹے کی اجازت ملی تھی، گھنٹہ تو پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ میرا دل گھبرانے لگا اور میں نے منورہ سے کہا۔ مجھے واپس گھر جانا ہے۔ وہ بولی، ابھی تو ہم نے آدھا میلہ بھی نہیں دیکھا۔ اتنی جلدی جانے کا کہہ رہی ہو۔کتنی مشکل سے تو اجازت ملی ہے تھوڑی دیر اور ٹھہرو۔ کٹھ پتلیوں کا تماشہ تو دیکھ لو۔ میں نے کہا نہیں منورہ والدہ غصے ہوں گی اور وہ آئندہ کبھی تمہارے ساتھ کہیں جانے کی اجازت نہ دیں گی، ان کا اعتبار کھونا نہیں چاہتی، مجھے گھر جانا ہے۔ کہنے لگی اچھا میں اسلم بھائی سے کہتی ہوں وہ تم کو گھر چھوڑ آتے ہیں۔ اسلم اور یونس میلہ دیکھنے میں محو تھے مگر میری خاطر اسلم کو میلہ چھوڑ کر آنا پڑا۔ ہم پیدل ہی گئے تھے اور پیدل ہی لوٹ رہے تھے۔ اسلم میرے ساتھ تھا، ہم باتیں کرتے گھر کی طرف جارہے تھے۔ جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اس نے کہا۔ سمعیہ تمہیں یاد ہے کہ ہم بچپن میں ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ہاں اسلم مگر جب ہم بڑے ہوئے تو ہم پر پابندی لگ گئی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اسلم کہ ذرا بڑے ہوجائو تو ملنے سے بھی روک دیتے ہیں ہمارے بڑے۔ بس بڑوں کی مرضی۔ دیکھو مگر آج ہمیں اللہ نے ملانا تھا تو تم میلہ دیکھنے آگئیں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، کیا تمہیں بھی مجھ سے مل کر خوشی ہورہی ہے۔ ہاں۔ ہم بہت دنوں بعد ملے ہیں نا اس لئے۔ اگر تمہاری شادی ہوگئی تو ہم پھر کبھی نہیں مل سکیں گے نا۔ ہاں مگر میں شادی ہی نہ کروں گی۔ شادی تو سب لڑکیوں کی ہوتی ہے تمہاری بھی ہوگی۔ تم کرو یا نہ کرو۔ شادی لڑکیاں خود تھوڑا ہی کرتی ہیں ان کے ماں باپ کرتے ہیں۔ ہاں مگر کسی لڑکے کے ماں باپ رشتہ لاتے ہیں تب ہی تو ہوتی ہے لڑکیوں کی شادی۔ میں نے بے ساختہ ایک بات کہی اور اسلم نے مجھے معنی خیز انداز میں دیکھا جیسے وہ میری اس بات کا مطلب سمجھ گیا ہو۔ وہ بولا۔ میں اگر اپنی امی کو تمہارے گھر بھیجوں رشتے کے لئے تو ابھی یہ بات اس نے منہ سے نکالی ہی تھی کہ میرے والد صاحب سامنے گلی سے آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ ہم گھر سے نزدیک آچکے تھے۔ میں دوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی اور اسلم اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ والد کے یہ گمان میں نہ تھا کہ میں میلے میں گئی تھی اور اسلم مجھے گھر چھوڑنے آگیا تھا۔ وہ یہی سمجھے کہ ہم ملنے کے لئے گھر سے نکلے تھے اور ان کو دیکھ کر دوبارہ گھروں میں چلے گئے۔ پس گھر آتے ہی جوتا اتار لیا اور مجھے خوب مارا۔ امی مجھے خاموشی سے پٹتا دیکھتی رہیں کیونکہ میلے پر جانے کی اجازت انہوں نے دی تھی اور وہ اب اپنی شامت بلوانا نہ چاہتی تھیں۔ میلے کا نام لیتی تو شاید والد ان کو طلاق ہی دے ڈالتے۔ میرے والد غصے کے بہت تیز تھے۔ خاموشی میں ہی عافیت تھی، میں نے مار کھالی مگر لب نہ کھولے کہ اگر میلے کا نام لیا تو پھر کسی کی خیر نہ ہوگی۔ میلے میں جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ والد صاحب نے میرا اسکول جانا بند کردیا، اب میری دونوں بہنیں تو جاتی تھیں مگر میں اسکول نہیں جاسکتی تھی جس کا مجھے شدید دکھ تھا۔ میرے رونے دھونے کا اثر اب کس پر ہونا تھا، امی نے کہا۔ بدبخت میں نے منع کیا تھا کہ میلے پر نہ جا، پر تو نے ہی اصرار کیا اور اپنی سہیلی کو وکیل کردیا۔ اب بھگت اپنی ضد کو، میں کیا کروں، کیا مجھے گھر سے نکلوانا ہے تجھے خدا کرے ان کو کبھی تیرے میلے پر جانے کی خبر نہ ہو ورنہ میری بھی خیر نہ ہوگی۔ کسی نے ابا کو نہ بتایا کہ میں میلے پر گئی تھی اور اجازت والدہ نے دی تھی۔ خیر وقت گزر گیا۔ اسلم نے شہر جاکر بی اے پاس کرلیا اور نوکری مل گئی۔ جب وہ لوٹا، اس کی والدہ ایک روز ہمارے گھر میرا رشتہ مانگنے آئیں۔ والد صاحب کو امی نے رشتے کا بتایا کیونکہ ان دنوں وہ میرے رشتے کے لئے فکرمند رہتے تھے۔ اسلم کا نام سنتے ہی وہ بھڑک اٹھے۔ امی نے سمجھایا لڑکا برا نہیں ہے اور یہ برسوں کے دیکھے بھالے لوگ ہیں۔ بچوں کی غلطی معاف کردو۔ بچوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ تم بھلائی کی سوچو اور ہاں کردو۔ یہاں ہماری بیٹی سکھی رہے گی۔ والد مگر اسلم کے نام سے الرجک ہوچکے تھے وہ ایسے بھڑکے کہ قابو کرنا مشکل ہوگیا۔ امی بچاری پریشان ہوگئیں۔ انہوں نے کہا، تم بھی بیٹی کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور یہ سب تم دونوں کی ملی بھگت ہے۔ یہ مردود بے غیرت لڑکی ابھی تک اسلم کے چکروں میں ہے، تبھی اس کا رشتہ آیا ہے اور اس بے غیرت کو بھی کیسے حوصلہ ہوگیا ہے رشتہ بھجوانے کا۔ جبکہ میں اس کے ساتھ سمعیہ کو گلی میں باتیں کرتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ان لوگوں کو کہہ دو اپنے ذہن سے یہ فتور نکال دیں کہ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ ان کو دیں گے اگر دوبارہ رشتہ مانگنے آئے تو میں اسلم کو شوٹ کردوں گا۔ امی بچاری خاموش، خاوند کی باتیںسن کر کیا کہتیں کہ اصل بات کیا تھی، اب گڑے مردے اکھاڑنے کا مطلب تھا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا۔ امی نے اسلم کی والدہ کو ساری صورت حال سے آگاہ کرکے منع کردیا۔ منورہ نے بھی ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا تھا۔ یونس، اسلم کا گہرا دوست تھا اور یونس کے والد ابا کے پرانے واقف کار تھے، وہ کبھی کلاس فیلو بھی رہے تھے۔ اسلم نے تمام صورت حال سے یونس کو آگاہ کیا اور مدد کی درخواست کی۔ اس نے تسلی دی کہ دوست تم پریشان نہ ہو میں کچھ کرتا ہوں۔ یونس بھی عجیب آدمی تھا اس نے عجب حل سوچ لیا۔ اپنی والدہ کو کہا کہ اصغر صاحب اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے بہت پریشان ہیں اور آپ بھی میرے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں، تو ان کے گھر کیوں نہیں جاتیں ان کی بیٹی کو دیکھنے۔ یونس کی والدہ بیٹے کے کہنے پر ہمارے گھر رشتہ مانگنے آگئیں۔ والد صاحب واقعی میرے رشتے کے لئے پریشان تھے۔ یونس کے رشتے پر خوش ہو کر انہوں نے ہاں کہہ دی۔ گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں اور جوں جوں شادی کا دن قریب آتا جارہا تھا میں مرتی جارہی تھی۔ یونس نے نجانے کیوں مجھے منتخب کیا تھا جبکہ وہ جانتا تھا کہ اسلم مجھے پسند کرتا ہے۔ یہ بات سوچ کر میں ہلکان ہوتی جارہی تھی، جی چاہتا تھا کسی طرح یونس سے مل کر اس سے پوچھوں کہ جان بوجھ کر تم کیوں مجھے اپنی رفیقۂ حیات بنانے چلے ہو، کہیں تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔ لیکن اس سے ملنا ناممکن تھا۔ آخر وہ دن بھی آگیا جس دن کے خوف سے میں مرتی جاتی تھی۔ بارات آنے کا شور ہوا، میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ بار بار سوچتی تھی اب کیا ہوگا۔ یونس کو معلوم تھا اسلم مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا کہ وہ مجھے بچپن سے پسند کرتا تھا۔ یہ کیسا دوست نکلا کہ اب وہی مجھ سے شادی کررہا تھا۔ وقت نے دکھادیا کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ میں یونس کی دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔ میرا دل دھڑک رہا تھا جب اس نے گھونگھٹ اٹھایا۔ میں شرم و ندامت سے پانی پانی ہو کر زمین میں گڑھنے لگی۔ اس نے میری پریشانی کو بھانپ کر کہا تسلی رکھو۔ اور بچپن کی باتوں کو بھول جائو۔ مجھے معلوم ہے اسلم نے تمہیں چاہا مگر تمہارے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان کا داماد بنے۔ مجھے معلوم ہے کہ تم میلے پر والد کو بغیر بتائے منورہ کے ساتھ گئی تھیں۔ مجھے اسلم نے بتایا تھا کہ اس کے بعد تمہارے ابا نے تم کو بہت مارا تھا، اسکول سے بھی اٹھالیا تھا۔ تب مجھے بہت دکھ ہوا تھا کیونکہ تم بے قصور تھیں اور اسلم کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ وہ محض تمہارے والد کے خوف سے ہی تمہیں چھوڑنے میلے سے چلا آیا تھا۔ تم دونوں نہیں جانتے تھے کہ تمہارے ابا تم لوگوں کو گلی سے آتے ایک ساتھ دیکھ لیں گے۔ مجھے سارا واقعہ معلوم ہے۔ اف میرے خدا سب کچھ معلوم ہے پھر بھی میرا رشتہ مانگا تھا یونس نے آخر کیوں یہ سوال میرے لبوں پر تھا مگر لب جنبش نہ کر پارہے تھے۔ احساس ندامت نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ تم کیوں خود کو مجرم سمجھ رہی ہو آخر کیا قصور ہے تمہارا جو خود مجرم سمجھتی ہو بولو۔ کیا کوئی گناہ کیا ہے تم نے نہیں نا تو پھر اتنی کیوں گھبرا رہی ہو جب تم کو اپنا کر میرے دل میں کوئی بوجھ نہیں ہے تو تمہارے دل پر بھی کوئی بوجھ نہ ہونا چاہیے۔ سب کچھ بھلادو۔ آج ہم نئی زندگی کی شروعات کررہے ہیں اور سچ مچ میں نے اس روز کے بعد سب کچھ بھلا دیا۔ مجھے بچپن یاد رہا اور نہ بچپن کی کوئی یاد باقی رہی جبکہ حقیقی زندگی اب شروع ہورہی تھی۔ پرسکون زندگی کے گزرانے میں یونس کی محبت اور اس کی مضبوط شخصیت کا بہت بڑا ہاتھ ہے کہ اس نے مجھے ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی، کبھی ناخوش کرنے والی کوئی بات نہیں کی۔ س ۔ ی کراچی | null |
null | null | null | 261 | https://www.urduzone.net/shikar-episode-1/ | آج صبح سے ہی سخت گرمی پڑنا شروع ہوگئی تھی۔ پسینہ تھا کہ بہے چلا جارہا تھا۔ وسیم تولیے سے پسینہ پونچھتا اور پھر کھیلنا شروع کردیتا۔ کھیل پورا کرنے کے بعد وہ ہانپتا ہوا کورٹ سے نکل گیا اور ٹینس کا ریکٹ اس نے عارف کے حوالے کیا اور کلب سے باہر آگیا۔ شام ڈھلنے لگی تھی اور رات پڑائو کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ مین شارع کی دکانیں جگمگا اٹھی تھیں۔ وہ کلب کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ پیدل چلا جائے یا ٹیکسی، رکشہ وغیرہ کرلے۔ اس کا فلیٹ قریب ہی تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک مرد اور عورت بھی ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سڑک کے پار مخالف سمت میں ایک کار کھڑی ہوئی تھی جس میں دو افراد اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ابھی مشکل سے دس پندرہ قدم آگے گیا تھا کہ ایک نسوانی آواز نے چیخ کر کہا۔ خبردار تمہارے پیچھے وہ فوراً رک گیا اور خطرے کے احساس کے ساتھ ہی پھرتی سے گھوما اور بائیں جانب ہٹ گیا۔ اس حرکت نے اسے بچا لیا۔ حملہ آور اپنی جھونک میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہ گٹھے ہوئے مضبوط بدن مگر پستہ قامت شخص تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا تھا جس کی لمبائی ایک فٹ سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس ڈنڈے سے اس نے بھرپور وار کیا تھا جو خالی گیا تھا۔ بھاری جسامت کے باوجود وہ بلا کا پھرتیلا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فوراً ہی سنبھل کر پلٹا اور ایک بار پھر پوری قوت سے وسیم پر ڈنڈے کا وار کیا مگر اب وہ بھی اس حملہ آور کو جواب دینے کے لیے تیار تھا۔ اس نے انتہائی چابک دستی کا مظاہرہ کیا اور بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑ لی اور دائیں ہاتھ کا زوردار گھونسا اس کے جبڑے پر رسید کردیا۔ حملہ آور کے حلق سے کراہتی ہوئی آواز خارج ہوئی۔ اس نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، جیسے میدان چھوڑنے کا ارادہ کرلیا ہو مگر وسیم نے حملہ آور کی کلائی نہ چھوڑی اور نہایت پھرتی سے اس کی گردن دبوچنے کی کوشش کی کہ وہ پیچھے ہٹ گیا۔ کلائی ہنوز وسیم نے دبوچے رکھی تھی۔ حملہ آور نے مکا رسید کیا جو اس کے شانے پر لگا۔ جواب میں اس نے لات چلا دی اور ساتھ ہی اس کی کلائی چھوڑ دی۔ حملہ آور چیخ مار کر فٹ پاتھ پر گرا اور پھر وسیم نے اس کے اٹھنے کا انتظار کئے بغیر ہی بھاگنا شروع کردیا۔ موڑ سے پہلے وسیم نے گھوم کر دیکھا۔ کلب کے سامنے مخالف سمت میں کھڑی کار تیزی سے روانہ ہوگئی۔ کلب کے سامنے کھڑا جوڑا حیرت سے آنکھیں پھاڑے وسیم کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر کھڑے لوگ زور زور سے چلاّ رہے تھے۔ دوسرے ہی لمحے وسیم منہ کے بل فٹ پاتھ پر پڑا تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔ اسی دوران اس کے دونوں ہاتھ سامنے ٹٹولتے ہوئے کسی سڈول اور گداز چیز سے ٹکرائے اور چند لمحے بعد جب وہ کچھ دیکھنے کے قابل ہوا تو گھبرا کر اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔ اس نے کسی سڈول پنڈلیوں کو پکڑ رکھا تھا اور پھر اسے گرتی ہوئی وہ خوبصورت لڑکی بھی نظر آگئی۔ اگر آپ گھور چکے ہوں تو اٹھ جائیں میں آپ کے بوجھ سے دبی بلکہ مری جارہی ہوں۔ لڑکی نے قدرے چِڑ کر کہا۔ وسیم بدحواسی کے عالم میں سنبھل کر اٹھا اور شرمسار سے لہجے میں اس خوبصورت لڑکی سے بولا۔ مجھے بے حد افسوس ہے۔ آپ کو چوٹ تو نہیں آئی کہتے ہوئے اس نے اسے سہارا دینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا مگر لڑکی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور کھڑی ہوکر اپنے کپڑے جھاڑنے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب وسیم کو حملہ آور کا خیال آیا۔ پھر وہ اس لڑکی سے بولا۔ مجھے افسوس ہے۔ دراصل کسی نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کرنا چاہی تھی۔ میں جان بچا کر بھاگ رہا تھا کہ آپ سے ٹکرا گیا۔ میں جانتی ہوں۔ میں نے ہی چلاّ کر آپ کو خبردار کیا تھا۔ آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی ڈاکٹر ڈاکٹر وہ یکدم چونکا۔ نن نہیں میرا خیال ہے کہ نہیں۔ وسیم نے کہا اور اسی لمحے گزرتی ہوئی ایک ٹیکسی کو ہاتھ دیا۔ ٹیکسی ان کے برابر آکر رک گئی۔ یہاں رکنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ آئو جلدی کرو۔ وسیم نے لڑکی سے کہا لیکن جیسے ہی وسیم نے قدم آگے بڑھایا، اس کے گھٹنے میں اتنی زور کی ٹیس اٹھی کہ اگر لڑکی پکڑ نہ لیتی تو وہ وہیں گر پڑتا۔ پھر اس نے ہی اسے سہارا دے کر ٹیکسی میں بٹھایا۔ وہ جلد ہی گھر پہنچ گئے۔ لڑکی کچھ بولڈ اور ہمت والی تھی یا پھر اس میں وسیم کی صورت کا بھی دخل تھا کہ وہ خوبصورت لڑکی اسے سہارا دے کر اندر فلیٹ میں لے گئی۔ وسیم کو یوں تو زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی۔ بس اس کا ٹخنہ معمولی سا چھل گیا تھا تاہم وہ بہت شرمندہ تھا کہ اس شریف لڑکی کو اس کی وجہ سے اتنی پریشانی ہوئی لہٰذا وہ ایک بار پھر اس سے معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔ تمہارا بہت بہت شکریہ، میری وجہ سے تمہیں جو زحمت ہوئی، اس کی میں تلافی تو نہیں کرسکتا لیکن کافی ضرور پیش کرسکتا ہوں۔ آپ باتھ روم جاکر فرسٹ ایڈ لے لیں۔ کافی میں بنا لیتی ہوں۔ لڑکی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور وسیم کے اندر ایک دوسرا جھماکا ہوا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ اسے منع کرتا، لڑکی کچن میں داخل ہوچکی تھی۔ وسیم کے ٹخنے اور شانے پر معمولی سی خراشیں آئی تھیں۔ اس نے ان خراشوں کی اینٹی سیپٹک سولیوشن سے صفائی کی اور ٹنکچر آیوڈین لگایا۔ منہ دھو کر لباس اور بال درست کیے اور پھر جب کمرے میں واپس آیا تو وہ پیالی میں کافی انڈیل رہی تھی۔ اس نے بھی اب اپنا حلیہ درست کرلیا تھا۔ وہ بلاکی خوبصورت تھی۔ سیاہ گھنے بال، غزالی آنکھیں، دلکش خدوخال اور متناسب جسم، گویا ہر لحاظ سے وہ دلفریب تھی۔ تم نے مجھے ڈاکٹر کہہ کر کیوں مخاطب کیا تھا وسیم نے اس کے برابر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ مجھے پہچاننے میں غلطی ہوگئی تھی۔ میں سمجھی آپ ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر نصیر شاہ لڑکی نے جواب دیا۔ اوہ وہ تو بڑے نامور سائنسدان ہیں۔ وسیم نے کہا۔ لیکن ان سے کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ ان سے بہت مشابہ ہیں۔ وہی قد، وہی شکل و صورت اور وہی جسم بالوں میں تھوڑا فرق ضرور ہے ورنہ آپ ہوبہو ڈاکٹر نصیر شاہ ہیں۔ لڑکی نے دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ویسے آپ اپنا تعارف نہیں کرائیں گے کیوں نہیں، میرا نام وسیم ہے۔ پہلے میرین میں تھا، اب وہ ملازمت چھوڑ چکا ہوں اور آج کل ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتا ہوں۔ کافی کا شکریہ۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا اور کھڑی ہوگئی۔ وسیم کو اچنبھا ہوا کہ لڑکی نے ابھی تک اپنا نام کیوں نہیں بتایا اخلاقاً اسے اپنا بھی تعارف کرانا چاہیے تھا۔ ابھی وہ اس سے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ لڑکی دوبارہ مسکرا کر بولی۔ امید ہے کہ دوبارہ ملاقات ہوگی۔ لیکن کیسے میں تو تمہارا نام بھی نہیں جانتا بالآخر وسیم کو پوچھنے کا بہانہ مل گیا۔ مگر میں آپ کا نام اور پتا دونوں ہی جانتی ہوں۔ اللہ حافظ لڑکی نے ایک شوخ سی مسکراہٹ سے کہا اور باہر نکل گئی۔ اس خوبصورت لڑکی کی شوخ سی مسکراہٹ دیر تک اس کے دل میں گدگدیاں کرتی رہی۔ وسیم کو وہ بڑی عجیب لگی تھی۔ خوبصورت، شوخ اور بیباک، لیکن پھر اسے خیال آیا کہ آخر اس پر حملہ کیوں کیا گیا اور حملہ آور کون تھے لڑکی نے کہا تھا کہ اس کی شکل ڈاکٹر نصیر شاہ سے ملتی ہے۔ یقیناً انہوں نے اسے ڈاکٹر نصیر سمجھ کر ہی حملہ کیا تھا لیکن کیوں کیا وہ نصیر شاہ کو اغوا کرنا چاہتے تھے وسیم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا وہ اب اپنے کام کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس شہر میں وسیم کا ایک پرانا دوست اور کلاس فیلو افتخار کافی عرصے سے قیام پذیر تھا۔ یہاں اس نے کنسٹرکشن کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ کام اور بڑھا تو اس نے اصرار کرکے وسیم کو بھی بلا لیا۔ وہ دونوں شمائل کنسٹرکشن کمپنی کے پارٹنر تھے۔ بزنس افتخار دیکھتا تھا، انجینئرنگ سائڈ وسیم کی ذمے داری تھی۔ افتخار نے ایک عالیہ نامی لڑکی سے شادی کر رکھی تھی جو پہلے اس کی سیکرٹری تھی۔ وہ گھریلو قسم کی عورت تھی اور افتخار جیسے شخص کے لیے بہترین رفیق حیات ثابت ہوئی تھی۔ ان کا دفتر غازی اسٹریٹ پر واقع تھا۔ ٭ ٭ ٭ وسیم دوسری صبح دفتر پہنچا تو افتخار کسی کام کے سلسلے میں باہر جاچکا تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں حسب معمول عالیہ نے اس کی میز سنبھال رکھی تھی۔ انہیں پہاڑ گنج کے اس علاقے میں ایک نیا کام ملا تھا، اس لیے سب ہی مصروف تھے۔ افتخار اور وسیم ایک ہی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ عالیہ نے مسکرا کر اس کا خیرمقدم کیا اور ایک فائل وسیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ افتخار نے کہا ہے کہ تم اسٹرکچر کے ڈیزائن آج ہی مکمل کرلینا۔ کل وزارت داخلہ کو پیش کرنا ہے۔ اور ہاں کسی جمیل صاحب کا فون آیا تھا۔ انہوں نے ٹھیک گیارہ بجے تمہیں بلایا ہے۔ یہ رہا ان کا پتا۔ لیکن میں تو کسی جمیل کو نہیں جانتا۔ انہوں نے کچھ اور بتایا تھا نہیں بس یہی کہا تھا کہ کل رات والے معاملے سے متعلق بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ملاقات کے لیے بڑی تاکید کی تھی۔ عالیہ نے بتایا۔ وسیم تجسس سے مجبور ہوکر ٹھیک گیارہ بجے جمیل کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ دوسری منزل پر اس کا شاندار دفتر تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھی ہوئی ایک پُرکشش لڑکی نے اس کا استقبال کیا اور نام سنتے ہی اسے جمیل کے کمرے میں پہنچا دیا۔ اس کا آفس اس قدر شاندار تھا کہ وہ جمیل کی امارت کا بخوبی اندازہ کرسکتا تھا۔ مہاگنی کی ایک بیضوی میز کے گرد ایک بھاری بھرکم اور پختہ العمر آدمی دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ اس نے اٹھے بغیر مصافحہ کے لیے وسیم کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بہت اچھا ہوا کہ تم آگئے وسیم۔ میں تمہارا ہی منتظر تھا۔ اس نے مشفقانہ لہجے میں خاصی بے تکلفی سے کہا جیسے دونوں ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہوں۔ آپ کی بڑی مہربانی۔ وسیم نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔ وہ اب خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ اس طرح وسیم کا جائزہ لے رہا تھا جیسے اطمینان کرنا چاہتا ہو کہ وہ واقعی وسیم ہی تھا یا کوئی اور۔ کئی بار اسے سرتاپا دیکھنے کے بعد اس نے کہا۔ حیرت انگیز تم بلاشبہ کام کے آدمی ہو۔ میں سمجھا نہیں، آپ کس کام کے بارے میں بات کررہے ہیں وسیم نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ بڑا اہم کام ہے۔ وہ بولا۔ یقین نہیں آتا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، وہ واقعی حقیقت ہے۔ بس ذرا بالوں کا انداز بدلنا ہوگا، پھر کام بن جائے گا۔ وہ جیسے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ دیکھئے جناب میرا بھی یہاں چھوٹا سا کاروبار ہے اور میں بہت مصروف آدمی ہوں۔ وسیم نے بالآخر جھلا کر کہا۔ آپ کو مجھ سے جو کام ہے، وہ آپ بغیر وقت ضائع کئے بغیر مجھے بتا دیں تو بہتر ہوگا ورنہ میں اپنی راہ لیتا ہوں۔ اس کی بات سن کر جمیل نے ایک بے ہنگم سا قہقہہ لگایا۔ وسیم کو اب کوفت کے ساتھ غصہ بھی آنے لگا اور اسے اپنے فضول کے تجسس پر افسوس بھی ہوا جس سے مجبور ہوکر وہ یہاں اپنا وقت ضائع کرنے چلا آیا تھا۔ معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں تمہیں دیکھ کر اتنا حیرت زدہ ہوگیا تھا کہ یہ بداخلاقی ہوگئی لیکن کام اس قدر اہم ہے کہ تم اندازہ نہیں کرسکتے۔ وسیم کے لیے جمیل کی شخصیت اسرار بھری اور حیرت انگیز ثابت ہورہی تھی۔ وہ بتا رہے تھے۔ حکومت کو اپنے ایٹمی منصوبے کے لیے سائنسدانوں اور ماہر حساب دانوں کی سخت ضرورت تھی اور اس مقصد کے لیے دوست ممالک کے بہت سے سائنسدانوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ اسی سلسلے میں ایک دوست ملک کے پروفیسر ارشد زیبی بھی ایٹمی مرکز میں کام کررہے تھے۔ وہ عالمی شہرت کے حساب داں اور سائنسدان تھے۔ ان کو یہاں کام کرتے ہوئے بمشکل ایک سال کا عرصہ گزرا تھا۔ وہ بڑے گوشہ نشین اور کم گو انسان تھے۔ یہاں قیام کے دوران ان کے واحد دوست ڈاکٹر نصیر شاہ ہی تھے۔ یہ بھی ایک دوست ملک سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر ریاضی تھے۔ گزشتہ چند برس سے ایٹمی ریسرچ کے مرکز میں کمپیوٹر کے انچارج تھے۔ پروفیسر ارشد زیبی ان کو بہت پسند کرتے تھے مگر پھر اچانک پروفیسر زیبی کا انتقال ہوگیا۔ دنیا یہی جانتی تھی کہ ان کی موت ہارٹ اٹیک کے باعث ہوئی تھی لیکن درحقیقت انہیں قتل کیا گیا تھا۔ قاتل نے ان کے کمرے کی اچھی طرح تلاشی لی تھی۔ اسے کس چیز کی تلاش تھی، یہ کسی کو نہیں معلوم ہوسکا۔ یقیناً کوئی اہم دستاویز یا سائنسی فارمولا درکار ہوگا لیکن اس کے متعلق کچھ نہیں معلوم ہوسکا اور نہ ہی اب تک ان کے قاتل کا کوئی سراغ لگ سکا ہے۔ پروفیسر زیبی کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اچانک ڈاکٹر نصیر شاہ کو ایک گمنام خط ملا جس میں انہیں ایک بہت بھاری رقم کے عوض کسی نامعلوم ملک میں کام کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ پھر انہیں ایک گمنام فون ملا۔ اگر انہوں نے انکار کیا تو انجام کے لیے تیار رہیں۔ اس دھمکی سے یہ اندازہ ہوا کہ قاتل کو پروفیسر زیبی کے کمرے سے مطلوبہ دستاویز نہیں ملی اور اس کے خیال میں نصیر شاہ اس راز سے واقف ہیں۔ بلاشبہ پروفیسر ارشد زیبی کو ڈاکٹر نصیر پر بڑا اعتماد تھا اور وہ ان کے واحد دوست تھے لیکن ڈاکٹر نصیر کا کہنا ہے کہ پروفیسر نے انہیں کوئی خفیہ معلومات یا دستاویز نہیں دی اور ہمیں ان کی بات پر اعتماد نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے بعد کل شام ڈاکٹر نصیر کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ محض ایک خوش قسمت اتفاق تھا کہ وہ تمہیں ڈاکٹر نصیر شاہ سمجھ بیٹھے۔ بلاشبہ زبردست اور سنسنی خیز داستان ہے۔ وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن آپ نے صرف یہ سنانے کے لیے مجھے نہیں بلایا ہوگا، آپ اب مجھ سے کیا چاہتے ہیں تمہاری صاف گوئی مجھے پسند آئی۔ تم یوں بھی اپنی جرأت مندی کا ثبوت دے چکے ہو۔ انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ کہا اور پھر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتے ہوئے آہستہ سے بولے۔ میں اختصار سے کام لوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نصیر شاہ بن جائو۔ انجانے دشمنوں کو نصیر شاہ بن کر جواب دو کہ تمہیں ان کی پیشکش منظور ہے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مل جائو تاکہ یہ معلوم کرسکو کہ وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ ان کے نام، پتے اور ٹھکانے معلوم کرکے مجھے مطلع کرنا تمہاری ذمے داری ہوگی۔ خود ڈاکٹر نصیر شاہ یہ کام کیوں نہیں انجام دے سکے وسیم نے پوچھا۔ اس لیے کہ وہ بہت قیمتی ہیں اور ہم ان کو ہاتھ سے کھو دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ خوب لیکن اگر آپ کو ڈاکٹر نصیر شاہ کی جان بہت عزیز ہے تو مجھے اپنی جان کچھ کم پیاری نہیں ہے۔ وسیم نے اس بار طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔ جبکہ میرا چھوٹا سا کاروبار ہے اور ایک بڑا اچھا دوست بھی ہے۔ جانتا ہوں۔ جمیل نے باٹ کاٹ کر کہا۔ افتخار اور اس کی بیوی عالیہ اس دوران کام چلا سکتے ہیں۔ وہ مسکرا کر اسرار بھرے لہجے میں بولا۔ تمہارے بارے میں مجھے ساری معلومات ہیں۔ اچھی بات ہے۔ اگر میں انکار کروں تو شاید آپ مجھے حب الوطنی اور فرض شناسی کا واسطہ دیں گے۔ نہیں، میں نے تمہارے مزاج کو خوب سمجھ لیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم غور کرنے کے بعد جو فیصلہ کرو گے، وہ درست ہوگا۔ لیکن مہربانی کرکے دیر نہ کرنا۔ میں تمہارا انتظار کروں گا۔ آپ نے مجھے ابھی سے متاثر کرلیا ہے جناب۔ وسیم نے بھی معنی خیز مسکراہٹ سے کہا۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ وہ لڑکی کون تھی جس نے کل رات میری مدد کی تھی وہ مسکرا کر رہ گیا مگر جواب نہیں دیا۔ جانے سے پہلے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔ ہاں کہو آپ ہیں کون اور کس حیثیت میں مجھ سے بات کررہے ہیں وسیم کے اس سوال کا جمیل جواب نہ دے سکا البتہ اس نے اپنی میز کی دراز سے ایک فائل نکال کر سامنے رکھ دی۔ فائل پر بنے ہوئے مخصوص مونوگرام کے نیچے سیکریٹ سروس چھپا ہوا تھا۔ تم یہ فائل پڑھ کر اپنا اطمینان کرسکتے ہو۔ میں اٹامک سیکورٹی کا ڈائریکٹر ہوں، نام تم جانتے ہو، کام اتنا خفیہ ہے کہ اس بزنس آفس کی آڑ میں بیٹھ کر کررہا ہوں۔ اب تم ان چند افراد میں سے ایک ہو جن کو میری اس حقیقت کا علم ہے۔ شکریہ جناب آپ نے مجھ پر اعتماد کیا ہے تو اسے ٹھیس نہ پہنچے گی۔ اسی لمحے وہ کافر ادا مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ دن میں اس کا مسحورکن حسن مزید نکھرا نظر آرہا تھا۔ آئو ان سے ملو یہ وسیم ہیں اور یہ یاسمین ہیں۔ امید ہے تم غور کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائو گے۔ جمیل نے کہا۔ وسیم ایک لمحہ سوچتا رہا۔ پھر مسکرا کر جواب دیا۔ میں نے غور کرلیا ہے۔ آپ کی پیشکش مجھے منظور ہے۔ مجھے معلوم تھا تم یہی جواب دو گے۔ یاسمین تم انہیں اپنے ساتھ لے جائو اور میری ہدایت کے مطابق عمل کرو۔ جمیل نے بڑی شفقت بھری مسکراہٹ سے کہا۔ آئندہ چند گھنٹوں کا وقت وسیم کی زندگی کے لیے بڑا ہیجان خیز تھا۔ یاسمین اسے اپنے آفس میں لے گئی۔ ایک چھوٹا سا کمرا جس کی ہر چیز سے سادگی ٹپکتی تھی۔ وسیم اس کے لباس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ آج بھی ہلکے پنک کلر کے فراک میں تھی۔ یاسمین نے کافی اور سینڈوچ کا آرڈر دیا اور بڑی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ تم شاید میرے لباس پر حیران ہورہے ہو میں وسطی ایشین ہوں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، کوئی میرا نہیں اس دنیا میں، وہ سب ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے تھے۔ جمیل صاحب میرے والد کے قریبی دوست تھے، انہوں نے مجھے یہاں بلوا لیا۔ اب ان کے زیرسایہ ہوں میں کہتے کہتے حزن وملال نے اسے اس قدر حسین بنا دیا تھا کہ وسیم مبہوت سا ہوکر رہ گیا۔ وہ چند لمحے خاموش رہی، پھر کافی بنا کر وسیم کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔ تعارف ہوگیا۔ اب کام کی بات سنو اس نے بتایا کہ وسیم کو چند روز کے لیے ڈاکٹر نصیر شاہ کے ساتھ رہنا ہوگا تاکہ وہ ان کے بارے میں سب جان لے۔ ان کا رہن سہن، اندازِ گفتگو، مخصوص عادتیں، چلنے کا انداز، انداز تحریر، غرضیکہ ہر بات کا اچھی طرح مطالعہ کرلے کیونکہ اسے ڈاکٹر نصیر شاہ بن کر اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ معمولی سا فرق بھی کسی کو شک میں مبتلا کرسکتا تھا۔ وہ بولتی رہی اور وسیم اسے پرستش کے انداز میں دیکھتا رہا۔ وسیم کو پہلی بار احساس ہوا کہ یہ لڑکی جو مشین کی طرح بولے چلی جارہی تھی، اندر سے بڑی دکھی تھی۔ اس کی بے تکلفی تھی یا اس کا سحر خیز حسن، جس نے اس کا دل موہ لیا تھا۔ جب پہلی بار اس نے اسے دیکھا تھا۔ وہ چپ ہوگئی تو وسیم اپنی محویت سے چونکا۔ اس نے پوچھا۔ وہ میرا مطلب ہے ڈاکٹر نصیر شاہ شادی شدہ ہیں وسیم کے اس اچانک سوال پر یاسمین کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ نہیں، وہ شادی شدہ نہیں ہیں لیکن اپنے متعلق کیا خیال ہے مم میں۔ میں نے تو ابھی تک شادی کا سوچا بھی نہیں۔ کسی سے محبت وغیرہ ہاں محبت تو ہے اتنی کہ بس دیوانہ نہیں ہوا میں دیکھیں، میں آپ کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دیتا چاہتی مگر یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ تم بلاتکلف مداخلت کرسکتی ہو کوئی حرج نہیں۔ ویسے بھی وہ لڑکی اتنی قابل اعتماد ہے کہ میں اس پر اندھا اعتماد کرتا ہوں اور خوبصورت اتنی ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں اس سے شادی کرنے والا ہوں، بشرطیکہ وہ مان جائے۔ اس کا نام بتا سکتے ہیں آپ یاسمین نے گھنیری پلکیں اٹھا کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ ہاں کیوں نہیں۔ بڑا پیارا سا نام ہے اس کا یاسمین۔ اس کے رخسار گلنار ہوگئے۔ پنسل رکھ کر اس نے بظاہر غصے میں گھورا۔ آپ مذاق اچھا کرلیتے ہیں۔ نہیں یاسمین، میں زندگی میں پہلے کبھی اتنا سنجیدہ نہیں ہوا۔ کیا تم میری بات پر یقین کرو گی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نگاہیں جھکی رہی تھیں اس کی۔ وہ اسی لہجے میں بولا۔ میں صرف حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں لہٰذا اب تم جو بھی ضروری باتیں کرنا چاہتی ہو، وہ کرلو مگر میری اس بات کو بھی یاد رکھنا اور جب مناسب سمجھو، جواب دے دینا۔ وہ وسیم کو بتاتی رہی کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ اس سے فارغ ہوکر وسیم نے دفتر فون کیا تو معلوم ہوا کہ افتخار اور عالیہ لنچ کے لیے گھر جا چکے ہیں۔ جانے سے پہلے وسیم نے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ شام کو افتخار اور عالیہ سے ملنے اس کے ساتھ چلے گی۔ ٭ ٭ ٭ افتخار اور عالیہ اسی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے جس میں ان کا دفتر واقع تھا۔ وسیم جب یاسمین کو لے کر پہنچا تو عالیہ ان کی منتظر تھی۔ انہوں نے یاسمین کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ باتوں میں خاصی دیر ہوگئی۔ یاسمین نے اجازت چاہی تو افتخار نے آنکھیں نکالیں۔ کیا مطلب میں نے اتنی محنت کی، عالیہ نے ڈنر تیار کیا اور تم جانے کی بات کررہی ہو نہ بابا۔ میں پکا بزنس مین ہوں، گھاٹے کا سودا نہیں کروں گا۔ لل لیکن وسیم نے تو مجھے یہ وسیم ہمیشہ کا نالائق ہے۔ اس نے بات کاٹ کر کہا۔ تم کبھی اس پر اعتبار نہ کرنا۔ جی نہیں جناب وسیم اتنا مخلص، محبت کرنے والا اور ذہین ہے کہ اس پر اعتبار نہ کرنا نالائقی ہوگی۔ عالیہ نے کہا۔ اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کھانا لگاتی ہوں۔ کھانے کے بعد جب وہ رخصت ہوئے تو یاسمین چپ چپ سی تھی۔ کچھ دیر کے بعد بولی۔ وسیم تمہارے دوست اور ان کی بیوی بڑے خوش قسمت ہیں اور تم بھی، کیونکہ وہ تم سے بڑی محبت کرتے ہیں، عالیہ تو تم سے اس طرح پیار کرتی ہے جیسے تمہاری ماں ہو تم نے اچھا کیا جو انہیں سب کچھ بتا دیا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ عالیہ تمہارے لیے بڑی فکرمند ہیں۔ اور تم وسیم نے آہستہ سے کہا۔ میں بھی وسیم۔ کاش میں اس مہم میں تمہارا ساتھ دے سکتی۔ اس کی آواز بھرا گئی اور وسیم نے چونک کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ تم فکر مت کرو یاسمین اِن شا اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ ٹہلتے ہوئے کلب روڈ کی طرف نکل آئے۔ یاسمین رک کر وسیم سے بولی۔ ڈاکٹر نصیر شاہ تمہارے منتظر ہوں گے۔ ان کے برابر والا کمرا تمہارے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔ وہ تمہیں سب سمجھا دیں گے اور اس کلب کی ہر لمحہ نگرانی ہورہی ہے۔ محتاط رہنا۔ اب تم جائو۔ اللہ حافظ۔ وہ وسیم کو گیٹ پر چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ وہیں کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔ ایک عجیب سے خمار کی کیفیت ذہن پر طاری تھی کہ ایسی مسرت کا احساس جس کو زبان عطا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس نے اسی عالم بے خودی میں دروازے پر دستک دی۔ ڈاکٹر نصیر شاہ نے ہی دروازہ کھولا۔ وہ دونوں چند ثانیوں کے لیے دم بہ خود سے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے آئینے کے سامنے کھڑے ہوں۔ اندر آجائو ڈاکٹر نصیر شاہ۔ نصیر شاہ نے مسکراتے ہوئے وسیم کی طرف دیکھ کر کہا۔ بھئی یقین نہیں آتا لیکن جمیل نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ بس ذرا بالوں کی تراش ٹھیک کردی جائے تو پھر کوئی نہیں پہچان سکتا کہ نصیر شاہ تم ہو یا میں حیرت انگیز مشابہت ہے اور پھر اس طرح تمہارا مل جانا بھی کم حیرت انگیز نہیں۔ آئو اطمینان سے بیٹھ جائو، ہمیں ابھی بہت ساری باتیں کرنا ہیں۔ وہ بولتے رہے اور وسیم ایک صوفے پر بیٹھا سنتا رہا۔ وسیم کو معلوم تھا کہ برابر والا کمرا اس کے لیے مخصوص تھا۔ دونوں کے درمیان ایک دروازہ تھا۔ دونوں کسی کی نظروں میں آئے بغیر ایک دوسرے کے کمرے میں آجاسکتے تھے۔ حیرت انگیز انکشافات کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈاکٹر کا لباس، جوتا، جیکٹ اور ہر چیز اسے فٹ آرہی تھی، جیسے وسیم کے لیے ہی بنائی گئی ہو۔ کافی کے بعد انہوں نے وسیم کو سائنسی معلومات کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ وسیم سائنس گریجویٹ تھا لیکن بہت ساری باتیں اس کے لیے عجیب اور نئی تھی۔ بعض ناقابل فہم لیکن ہر چیز کے بارے میں معلوم ہونا ضروری تھا اس لیے وہ پوری توجہ سے سن رہا تھا۔ ڈاکٹر نصیر شاہ عمر میں وسیم سے دوچار سال بڑے تھے لیکن مشابہت اس فرق کو باآسانی چھپا لیتی تھی۔ وسیم نے میز پر رکھے ہوئے پیکٹ سے سگریٹ نکالا تو ڈاکٹر نے فوراً جیب سے لائٹر نکال کر جلایا۔ وسیم لائٹر کو غور سے دیکھنے لگا۔ یہ لائٹر تم رکھ لو۔ یہ پروفیسر زیبی کا دیا ہوا یادگار تحفہ ہے اور میرے پاس ان کی واحد نشانی، سب جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ یہی لائٹر استعمال کرتا ہوں اور آئندہ سگریٹ بھی تمہیں اسی برانڈ کی پینا ہوگی۔ میرے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ میری عادت ہے کہ دوچار ماہ میں برانڈ تبدیل کردیتا ہوں۔ وسیم نے جواب دیا۔ پھر وہ اسے اپنے حالات زندگی سنانے لگے۔ ان کا تعلق مصر کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ باپ یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے جرمنی میں ریاضی اور ایٹمی توانائی کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کیا تھا۔ وہ وسیم کو اپنی زندگی کی تفصیلات بتاتے رہے۔ پھر گھڑی دیکھ کر بولے۔ آج کے لیے اتنا کافی ہے، کل ہم دوسرے پہلوئوں پر بات کریں گے۔ صبح درزی آکر تمہارا ناپ لے جائے گا۔ باربر تمہارے بال درست کردے گا اور دیگر تیاریاں بھی مکمل ہوجائیں گی۔ اتنا کہہ کر وہ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد بولے۔ ویسے میں خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ میری خاطر تم اپنی جان کا خطرہ مول لو۔ جو بھی ہو، مجھے خود ہی حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن جمیل کی ضد کے آگے مجبور ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس بات کو بہ خوبی ذہن نشین کرلو۔ شکریہ ڈاکٹر۔ وسیم نے جواب دیا۔ لیکن آپ ذہن سے یہ بوجھ ہٹا دیں۔ میں نے یہ خطرہ کسی مجبوری یا لالچ میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے قبول کیا ہے۔ ویسے آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا پروفیسر زیبی نے کبھی اپنے کام کے بارے میں آپ کو کچھ بتایا، کوئی ایسی چیز جو ان کے راز پر روشنی ڈال سکے ذرّہ برابر نہیں۔ ڈاکٹر نصیر شاہ نے فوراً اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔ اگر انہوں نے اشارتاً بھی کچھ بتایا ہوتا تو ہم سب کو اتنی الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور شاید پروفیسر زیبی بھی آج زندہ ہوتا۔ ٭ ٭ ٭ دوسرے دن وسیم مکمل طور پر نصیر شاہ بن چکا تھا۔ وہی لباس، وہی بال اور یہاں تک کہ پرس بھی انہی کا اس کی جیب میں پہنچ چکا تھا۔ اور جب حلیہ تبدیل کرنے والے مطمئن ہوکر چلے گئے تو ڈاکٹر نے فون کرکے جمیل کو خوشخبری سنائی۔ فیصلے کے مطابق ان کو کلب کے ملازمین کا لباس پہنا کر عقبی دروازے سے خفیہ طور پر غائب کردیا گیا اور وسیم ان کے کمرے میں منتقل ہوگیا۔ جانے سے پہلے انہوں نے بڑی محبت سے وسیم کو گلے لگایا اور سنجیدہ لہجے میں کہا۔ میں ہمیشہ تمہارا ممنون رہوں گا وسیم تم میری خاطر اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہو۔ شام میں وسیم کو یاسمین کے ساتھ سندباد ہوٹل میں ڈنر کے لیے جانا تھا جو کلب کے قریب ہی واقع تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آئندہ کے لیے اسے نئی ہدایات اسی سے ملیں گی۔ وہ ٹھیک ساڑھے چھ بجے پہنچ گیا۔ یاسمین لائونج میں اس کی منتظر تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کے پاس پہنچتا، ایک ادھیڑ عمر شخص اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ او پلیز ڈاکٹر یہ تم اندھوں کی طرح کدھر چلے جارہے ہو اس نے زبردستی وسیم کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ کیا خیال ہے، پھر ایک کپ کافی ہوجائے میں ڈنر بھی ساتھ کرتا مگر اس وقت میں کسی اور کی دعوت قبول کرچکا ہوں۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ شکریہ اتفاق سے میں بھی کسی کا مہمان ہوں۔ وہ سامنے میرا انتظار کررہی ہے۔ کہتے ہوئے وسیم نے یاسمین کی طرف اشارہ کیا اور معنی خیز انداز میں مسکراتا ہوا چلا گیا۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ پہلے امتحان میں کامیاب ہوگیا تھا۔ وہ جیسے ہی یاسمین کے قریب پہنچا تو وہ بھی مسکرا کر بولی۔ تم نے پہلا مرحلہ کامیابی سے سر کیا۔ ایک لمحے کو تو میں بھی بھول گیا تھا کہ میں کون ہوں لیکن پھر فوراً یاد آگیا۔ ویسے کون تھا منحوس جو اس طرح مجھ سے چمٹ گیا تھا ارے تم ڈاکٹر سورت جیسے مشہور آدمی کو نہیں جانتے اوہ لیکن تم یہ بھول جاتی ہو کہ میں ایک سیدھا سادہ انجینئر ہوں، سائنسدان نہیں۔ شش آہستہ بولو۔ تم اب ڈاکٹر نصیر شاہ ہو، ایک مشہور سائنسدان۔ یاسمین نے آہستہ سے اسے ٹوکا۔ اور آئندہ ڈاکٹر نصیر شاہ ہی کی طرح سوچا کرو۔ لیکن ایسی صورت میں بڑی مشکل ہوجائے گی۔ میں تم سے شادی کی درخواست کیسے کروں گا یاسمین کے رخسار تمتما اٹھے لیکن پھر فوراً ہی سنجیدہ ہوکر بولی۔ ڈاکٹر نصیر شاہ ایسی باتیں تمہاری عادت کے خلاف ہیں۔ آئندہ احتیاط کرنا۔ خدا غارت کرے اس سارے چکر کو، کیا مجھے تم سے بھی اسی کے انداز میں بولنا ہوگا وسیم نے زچ ہوکر کہا۔ ہاں جب تک تم اس کا کردار ادا کررہے ہو۔ یاسمین نے لطف لیتے ہوئے کہا اور پھر ڈنر کا آرڈر دے کر وسیم کو بتانے لگی۔ صبح تم اپنے بنگلے میں منتقل ہوجائو گے جو شہر سے باہر ایک خوبصورت جگہ پر واقع ہے۔ تم ایک ہفتے کے لیے کلب میں آرام کرنے کے لیے مقیم تھے جبکہ ڈاکٹر نصیر شاہ کو کسی اور جگہ روانہ کردیا گیا ہے۔ کہاں، یہ مجھے بھی نہیں معلوم لیکن تم دونوں کا یہاں رہنا مناسب نہیں تھا۔ ویسے ڈاکٹر شاہ ان دنوں رخصت کے ایام اپنے بنگلے میں گزار رہے ہیں۔ جب وہ دونوں کھانے سے فارغ ہوگئے تو اس نے پرس سے ایک موٹا سا لفافہ نکال کر وسیم کی طرف بڑھایا۔ یہ کیا ہے، پہلا محبت نامہ وسیم نے مسکرا کر پوچھا۔ جی نہیں اتنا موٹا محبت نامہ تو میں سال بھر میں بھی نہیں لکھ سکتی۔ اس میں نقد رقم ہے تاکہ تمہیں چیک کیش کرانے کی زحمت نہ ہو۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ صبح تم اپنے بنگلے پر پہنچ جائو گے۔ تم کو لینے کے لیے گاڑی کلب آجائے گی۔ اور تم تم سے ملاقات کب ہوگی ایک ہفتے بعد۔ یاسمین نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ تمہیں اب اپنے کام پر توجہ دینا ہے۔ ایک ہفتے کی جدائی میں تو مر جائوں گا۔ نہیں ڈاکٹر تمہیں زندہ رہنا ہے۔ اپنے لیے نہیں تو دوسروں کے لیے۔ یہ کہتے ہوئے وہ اتنی تیزی سے نکل گئی کہ وسیم کا سوال اس کے لبوں پر ہی دم توڑ گیا۔ ٭ ٭ ٭ ڈاکٹر نصیر شاہ کے روپ میں رہتے ہوئے وسیم کو کئی دن گزر گئے اور اس دوران کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ وسیم اب اس تنہائی کی زندگی سے بور ہونے لگا تھا۔ نصیر شاہ کا چھوٹا سا یہ بنگلہ سادگی اور نفاست کا نمونہ تھا۔ ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ کتابوں کا بڑا قیمتی ذخیرہ تھا جس میں ہر موضوع پر کتابیں موجود تھیں۔ ایک ملازمہ روز صفائی کرنے آجایا کرتی تھی۔ وسیم ڈاکٹر کی کار پر کھانا کھانے شہر جاتا اور کچھ دیر ہوٹلوں میں گزار کر واپس آجاتا۔ ڈاکٹر نصیر شاہ کی زندگی بڑی تنہا تھی کیونکہ اس دوران کسی کا فون آیا اور نہ ہی کوئی پیغام۔ وسیم زیادہ تر وقت لائبریری میں گزارتا یا پھر چھوٹے سے باغیچے میں۔ یاسمین سے ملنے کی خواہش اضطراب کی شکل اختیار کرتی جارہی تھی۔ وہ شہر جاتا تو نگاہیں اس کو تلاش کرتی رہتی تھیں لیکن وہ ظالم لڑکی کہیں نظر نہیں آئی۔ ابھی اس کے آنے میں کئی دن باقی تھے۔ پھر ایک دن اچانک فون کی گھنٹی بجی تو وہ اچھل پڑا۔ چند لمحوں تک ریسیور کو دیکھتا رہا۔ گھنٹی جب مسلسل بجنے لگی تو آہستہ سے اس نے ریسیور اٹھا کر کہا۔ نصیر شاہ اسپیکنگ ہیلو ڈاکٹر۔ ایک بھاری آواز دوسری جانب سے ابھری تھی۔ تم نے کیا فیصلہ کیا وسیم ایک لمحہ خاموش رہا۔ پھر آہستہ سے کہا۔ میں تیار ہوں لیکن میری چند شرائط ہوں گی۔ کیا شرائط ہیں فوراً سوال کیا گیا۔ فون پر نہیں، زبانی بات کروں گا۔ ٹھیک ہے۔ ہم جلد تم سے رابطہ کریں گے۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا، سلسلہ منقطع کردیا گیا۔ دوسرا دن بڑا صبرآزما تھا کیونکہ یاسمین آنے والی تھی۔ وسیم کی بے قراری کا یہ عالم تھا کہ بار بار وہ باہر نکل کر دیکھتا۔ اَن گنت سگریٹیں پھونک ڈالی تھیں۔ کبھی غصہ آتا، کبھی اسے اپنی حماقت پر ہنسی آجاتی۔ ان کی ملاقات اتنی مختصر تھی اور وہ اس قدر فریفتہ ہوچکا تھا جیسے کب سے اسے جانتا ہو۔ اظہار محبت کی منزل گزر چکی تھی۔ لیکن ضروری تو نہیں کہ وہ بھی اسے چاہتی ہو۔ اسی تڑپ کے عالم میں ایک ٹیکسی بنگلے کے سامنے رکی۔ وہ بے اختیار باہر نکلا۔ یاسمین آگئی تھی۔ وہ ٹیکسی سے اتر کر اس کی سمت بڑھ رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ دوڑ کر اسے بازوئوں میں بھر لے لیکن مجبوری مانع تھی۔ وہ اس وقت وسیم نہیں ڈاکٹر نصیر تھا اور اسے معلوم تھا کہ قریب ہی کہیں جمیل کا آدمی موجود ہوگا جو بنگلے کی نگرانی پر مامور تھا۔ ہیلو ڈاکٹر۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی۔ ڈاکٹر نہیں، مجھے مریض کہو، جس کے درد کا درماں تمہارے پاس ہے۔ وسیم نے والہانہ انداز میں کہا۔ اس نے وسیم کو غصے بھری نگاہوں سے گھورا اور پھر مسکرا دی۔ اب تک تو یہی سنا تھا کہ سائنسدان محبت سے بے نیاز ہوتے ہیں ڈاکٹر اصلی ڈاکٹر ہوتے ہوں گے، میں تو نقلی ہوں۔ وسیم نے ہنستے ہوئے کہا۔ یاسمین کیا تم یقین کرو گی کہ میرا ہر لمحہ تمہاری یاد میں گزرا ہے۔ میں واقعی اتنی خوش قسمت ہوں وسیم اس سے بھی کہیں زیادہ یاسمین تم آزما کر دیکھو۔ وسیم نے جیسے دل کی عمیق گہرائیوں سے کہا۔ باتوں میں وقت ہوا کی طرح گزر گیا۔ شام ہونے لگی تھی۔ یاسمین نے کافی بنائی اور دونوں صورت حال پر غور کرنے لگے۔ وسیم نے اسے فون کے بارے میں بتایا۔ اوہ تو اس کا مطلب ہے کہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس نے ہونٹ سکیڑ کر کہا۔ لگتا تو مجھے بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وسیم نے کہا۔ لیکن اس کے بعد پھر کوئی جواب نہیں ملا۔ اسی لمحہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ وسیم نے چونک کر یاسمین کو دیکھا۔ ٹھہرو میں دیکھتا ہوں۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور ایک بھاری بھرکم شخص اندر داخل ہوا۔ اس نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا اور صورت و شکل سے بھلا آدمی دکھائی دیتا تھا۔ گڈ ایوننگ ڈاکٹر اینڈ ہیلو مس یاسمین۔ اس نے بڑی متانت کے ساتھ کہا۔ گڈ ایوننگ۔ وسیم نے بھی انگریزی میں جواب دیا۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ ہم نے ٹیلیفون پر بات کی تھی اور آپ نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اوہ تو آپ ہیں وہ وسیم نے چونک کر کہا۔ مجھے تورک کہتے ہیں اور مسٹر تورک وسیم نے بات کاٹ کر کہا۔ آپ کسی اور دن آجائیں۔ اس وقت میں بہت مصروف ہوں۔ یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ وہ یاسمین کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ لیکن ابھی بات کرنا ضروری ہے۔ نہیں۔ وسیم نے قدرے برہمی سے کہا۔ میں ضروری نہیں سمجھتا، آپ کسی اور دن آجائیں۔ نہیں ڈاکٹر، میرے اتنا وقت نہیں ہے۔ آپ کو آج ہی چلنا ہے بلکہ ابھی واٹ نان سینس۔ وسیم کو غصہ آگیا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔ آپ ابھی اور اسی وقت باہر نکل جایئے ورنہ یہ کہتے ہوئے وسیم نے دانستہ تہدیدی انداز میں اپنا جملہ ادھورا چھوڑا۔ یاسمین گھبرا کر آگے بڑھی لیکن اجنبی اس سے پہلے ہی دروازے کی طرف روانہ ہوچکا تھا جسے وسیم کھولے کھڑا تھا۔ اس کے پاس پہنچ کر وہ رکا۔ اس کی آنکھیں سرد تھیں۔ سرد لہجے میں وہ وسیم سے بولا۔ ڈاکٹر میں تمہیں اتنا احمق نہیں سمجھتا تھا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے بڑے اطمینان سے جیب سے ریوالور نکالا اور نال اس کے سینے پر رکھ دی۔ اندر چلو اور خبردار کوئی حرکت نہ کرنا۔ اس نے دروازے سے وسیم کا ہاتھ ہٹا دیا اور آواز دی۔ سلاسکو اندر آجائو۔ ایک دیوقامت خطرناک صورت والا شخص اندر داخل ہوا۔ اس کا رنگ ٹماٹر کی طرح سرخ تھا، جسم فولاد کی طرح گٹھا ہوا۔ اس نے چمکدار کپڑے کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ انہیں دیکھ کر اس نے اپنی کیپ اتاری تو وسیم نے دیکھا کہ اس کی تربوز جیسی کھوپڑی گنجی تھی۔ وہ اتنا تنومند اور طاقتور آدمی تھا کہ دیکھ کر ہی خوف آتا تھا۔ نووارد نے مسکرا کر کہا۔ آپ ضد نہ کرتے تو اس کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس نے ریوالور کی سمت دیکھ کر کہا۔ اب آپ چلنے کی تیاری کیجئے۔ تم پاگل ہوگئے ہو۔ اتنی جلدی چلنا کیسے ممکن ہے میرا پاسپورٹ یہاں ہے، نہ میں نے بینک سے رقم نکالی ہے اور نا ساری فکر چھوڑو۔ اس نے بات کاٹی۔ بس پانچ منٹ میں تیار ہوجائو ڈاکٹر وقت بالکل نہیں ہے۔ تم جہاں چل رہے ہو، وہاں کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت ہے نہ ہی رقم کی۔ تم سچ مچ پاگل ہوگئے ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ فرض کرو میں انکار کردوں تو اس نے بڑی سفاک نظروں سے وسیم کی طرف دیکھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم تمہیں زبردستی لے جائیں گے۔ تم اگر یہی چاہتے ہو تو تورک نے کہتے ہوئے سلاسکو کی طرف دیکھا۔ اگر یہ اب بھی راضی نہ ہو تو تم جانتے ہو کہ تم نے کیا کرنا ہے یس ماسٹر سلاسکو نے تفہیمی انداز میں سر ہلایا۔ میں سمجھ گیا، بحث بیکار ہے۔ اوکے میں سوٹ کیس میں اپنے کپڑے اور کاغذات وغیرہ رکھ لوں۔ اس کی بھی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر اپنے کام سے متعلق کوئی خفیہ ڈائری ہے تو وہ ضرور لے لو۔ اس نے ریوالور کی نال لہراتے ہوئے کہا۔ میری تمام معلومات کا ذخیرہ صرف یہاں ہے۔ وسیم نے سر کو انگلی لگاتے ہوئے کہا۔ خوب سوچ لو ڈاکٹر اگر تم نے ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کی تو بہت پچھتائو گے۔ وسیم خاموش رہا تو وہ آگے بڑھا۔ ٹھیک ہے پھر دیر نہ کرو، چلو۔ ٹھہرو۔ وسیم نے جیب سے کار کی چابی نکال کر یاسمین کی طرف بڑھائی اور اس سے بولا۔ تم واپسی میں میری کار لے کر چلی جانا یاسمین۔ تورک نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ بڑے معصوم ہو ڈاکٹر مس یاسمین اب کہیں نہیں جائیں گی۔ یہ بھی ہمارے ساتھ چل رہی ہیں۔ نہیں۔ وسیم غصے میں اس کی سمت بڑھا۔ تورک نے ریوالور والا ہاتھ بلند کیا لیکن یاسمین نے بجلی کی سی پھرتی سے اس کا بلند بازو پکڑ لیا۔ تورک نے ہاتھ چھڑانے کے لیے اسے دھکا دیا لیکن یاسمین نے اس کا بازو نہیں چھوڑا۔ ایک لمحے کے لیے وسیم نے حیرت زدہ نظروں سے یہ منظر دیکھا، پھر غصے سے آگے بڑھا۔ لیکن وہ شاید اس بھاری بھرکم آدمی سلاسکو کو بھول گیا تھا کیونکہ اسی وقت وسیم کی کنپٹی پر اتنی زور کا گھونسہ لگا کہ آنکھوں کے آگے تاریکی چھا گئی۔ وہ ایک دھماکے کے ساتھ فرش پر گرا اور کچھ دیر کے لیے ہر چیز سے بے خبر ہوگیا۔ جب حواس بحال ہوئے تو اس نے دیکھا کہ یاسمین بے بسی کے عالم میں کھڑی تھی اور اشک آلود نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ سلاسکو نے ایک ہاتھ پکڑ کر وسیم کو کھڑا کردیا۔ غور سے سنو ڈاکٹر۔ تورک نے پھنکارتے ہوئے کہا۔ اگر تم کو مس یاسمین کی زندگی عزیز ہے تو اب کوئی ایسی ویسی حرکت کرنے کی کوشش مت کرنا۔ ہم یہاں مذاق کرنے نہیں آئے۔ ہماری ہدایات پر خاموشی سے عمل کرتے رہو۔ وسیم نے بھی یہ بات محسوس کرلی تھی کہ مزاحمت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ وہ اسے گزند نہیں پہنچائیں گے کیونکہ اس کی انہیں ضرورت تھی مگر یاسمین کو بلاتامل جانی نقصان سے دوچار کرسکتے تھے۔ اگلے چند سیکنڈوں بعد تورک اور سلاسکو، ان دونوں کو لے کر باہر نکل رہے تھے۔ ہر سمت سناٹے کا راج تھا۔ یہ بنگلہ ایسی جگہ واقع تھا کہ اس طرف آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاریکی پھیل چکی تھی، اس لیے انہیں کار میں سوار ہوتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ کار نے جیسے ہی ایک قریبی پہاڑی بستی سے نکلنے والے دریا کا پل پار کیا تو وسیم بری طرح چونک پڑا۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 262 | https://www.urduzone.net/jaaon-tu-jaon-kaha-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | وہ میری کلاس فیلو تھی بہت کم گو اور سنجیدہ اتنی کہ کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا۔ سب سے پہلے میری دوستی اس سے ہوئی۔ مجھے کم گو لوگ پسند تھے کہ میں خود سنجیدہ مزاج تھی۔ رفتہ رفتہ ہم میں ذہنی ہم آہنگی بڑھتی گئی وہ مجھ سے بے تکلف ہوگئی تو بتایا کہ وہ اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہتی ہے اور ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ماموں، چچا جیسے رشتوں سے بھی محروم ہے۔ ایک بڑی بہن شادی شدہ ہے۔ بہنوئی خوشحال آدمی ہے۔ وہی ان کی مالی مدد کرتے ہیں۔ گویا اس کے سنجیدہ رہنے کی ایک معقول وجہ موجود تھی۔ ایک دن اس نے کہا میری ماں بیمار ہے۔ ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے وہ چلنے سے معذور ہیں۔ سوچ رہی ہوں کیسے لے کر جائوں۔ میرے بھائی ابھی لینے آتے ہوں گے۔ ان سے کہتی ہوں۔ ہم اپنی گاڑی میں لے چلتے ہیں۔ اس نے بات مان لی۔ چھٹی ہوئی تو بھائی جان لینے آئے ہوئے تھے، میں نے انہیں بتایا کہ فرح کی امی بیمار ہیں۔ بولے ۔ چلو جہاں جانا ہے چلتے ہیں۔ میں نے فرح کو اپنی گاڑی میں بٹھالیا۔ پہلے ہم اس کے گھر گئے فرح کی والدہ کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔ اس روزآثم بھائی نے فرح کو پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کی ماں کو ڈاکٹر کو دکھا کر گھر پہنچے تو امی پریشان تھیں، پوچھا کیوں اتنی دیر ہوگئی کہاں رہ گئے تھے میں نے فرح کی والدہ کی بیماری کا بتایا کہنے لگیں، جب ان کو ضرورت ہو، فرح سے کہنا فون کردے ، ہم گاڑی بھیج دیں گے۔ میں نے تمام احوال گھر والوں کو بتادیا تھا۔ فرح کا سبھی خیال رکھتے تھے۔ امی خاص طور پر کہ یتیم بچی ہے اور ضرورت مند لوگ ہیں۔ ان کا گھر بھی اپنا نہ تھا۔ کرائے پر ایک چھوٹے سے مکان میں ماں بیٹی رہتی تھیں جس کا کرایہ فرح کی بڑی بہن دیتی تھی۔ حالات کی وجہ سے فرح ناخوش اور مجبور سی دکھتی تھی۔ کئی بار چاہا وہ میرے ساتھ سیر پر چلے تاکہ کچھ لمحات فرحت کے محسوس کرسکے۔ راضی نہ ہوئی۔ کہتی ماں کمزور ہیں ان کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی، کبھی کہتی کتنی بدقسمت ہوں، میرا کوئی بھائی نہیں ہے بھائی اگر ہوتا کم از کم سہارا تو بنتا۔ بہنوئی بھی بھائی ہوتے ہیں، فرح وہ تمہارا خیال رکھتے ہیں۔ ہاں شہلا تم صحیح کہتی ہو۔ بہنوئی خیال رکھتے ہیں۔ تبھی ہم دو وقت کی روٹی کھا کر زندہ ہیں، مگر بھائی اور بہنوئی میں فرق ہوتا ہے۔ بھائی کی کمائی احسان نہیں لگتی لیکن بہنوئی دیتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم ان کے احسان تلے دبتے جارہے ہیں، بس یہ فرق ہے سگے بھائی اور بہنوئی میں۔ تم زیادہ محسوس کرتی ہو، فرح ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ایسی ہی بات ہے تم نہیں سمجھوگی لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان کا ہم پر خرچ کرنا ایک احسان ہے۔ اور اس کا بدلہ کسی دن اتارنا پڑے گا مجھے میرے بھائی کو فرح پہلی نظر میں اچھی لگی تھی، جب میں اس کے بارے میں باتیں کرتی، اس کے حالات بتاتی تو بھائی کے دل میں اس کے لئے ہمدردی کے جذبات جاگ جاتے۔ کہتے کہ تم اس کی مالی مدد کیا کرو، شہلا وہ یتیم ہے اور طالب علم ہے۔ اس کے تعلیمی اخراجات ہم برداشت کرسکتے ہیں۔ وہ بہت خوددار ہے بھیا، اگر میں نے اس سے کوئی ایسی بات کہہ دی جو اسے بری لگ گئی تو مجھ سے بولنا چھوڑ دے گی، کبھی میری امداد قبول نہ کرے گی۔ میٹرک کے بعد فرح پڑھائی جاری نہ رکھ سکی، اس کی ماں اب بالکل بستر سے لگ گئی تھی اور دائمی بیماری کی لپیٹ میں آچکی تھی، ماں کی دیکھ بھال کرنے والا اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ بڑی بہن کے چار چھوٹے بچے تھے۔ وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں چھوڑ کر ماں کے پاس رہنے نہیں آسکتی تھی۔ اب میں ہی کبھی کبھی کالج سے واپسی پر فرح سے ملنے چلی جاتی۔ بھائی ساتھ ہوتے وہ اکثر گاڑی میں بیٹھ کر میرا انتظار کرتے یا کبھی اس کی ماں اصرار کرکے بلاتی تو بھائی ان کی عیادت کے لئے گھر کے اندر چلے جاتے۔ آنٹی باتیں کرلیتی تھیں۔ آنٹی بھی میرے بھائی کو پسند کرنے لگی تھیں۔ شاید ان کو داماد کے روپ میں دیکھنا ان کی آرزو تھی۔ ان کی باتوں میں اس ارادے کو بھانپ کر بھائی نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ ان کی بیٹی سے شادی کریں گے۔ انہوں نے امی سے بات کی اور آنٹی کی گرتی صحت کے پیش نظر جلدی کی تاکید کی۔ فرح کے حالات امی جانتی تھیں، ان کے دل میں اس لڑکی کے لئے شفقت کا جذبہ تھا۔وہ راضی ہوگئیں۔ میں نے فرح کو بتایا، وہ مایوس نظر آرہی تھی، کہنے لگی امی دل سے چاہتی ہیں میری شادی ہو جائے لیکن باجی اور بہنوئی جب تک راضی نہ ہوں گے یہ رشتہ نہ ہوگا۔ میں نے آنٹی سے بات کی ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اگلے لمحے وہ کچھ بجھ سی گئیں، کہا۔ داماد اور بیٹی کو کل بلوالوں گی۔ آپ لوگوں کو ان سے بات کرنی ہوگی۔ خاص طور سے اس معاملے میں میرے داماد کا راضی ہونا ضروری ہے کیونکہ وہی اب ہمارے کفیل اور سرپرست ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہماری آئو بھگت کریں گے اور موزوں رشتے کے مل جانے پر خوش ہوں گے، کیونکہ ہمیں جہیز وغیرہ کا لالچ نہ تھا لیکن فرح کے بہنوئی نے ایسا سخت رویہ اپنایا کہ جس کی توقع کوئی عزت دار آدمی نہیں کرسکتا۔ انکار کا بھی ایک شائستہ طریقہ ہوتا ہے، انہوں نے امی جان کو آڑے ہاتھوں لیا کہ میری سالی کے ساتھ تمہاری لڑکی پڑھتی تھی، تبھی تمہارے لڑکے نے اس پر نجانے کب سے نظر رکھی ہوئی تھی۔ ہم حیران پریشان ان کے گھر سے نکلے امی کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ اس واقعہ سے ہم کافی صدمے میں رہے۔ بالٓاخر خود کو سمجھا بجھا کر آنٹی سے ملنے دوبارہ ان کے گھر چلی گئی اور سوال کیا کہ آنٹی آپ بڑی تھیں، جب آپ کے داماد ایسی نازیبا باتیں کررہے تھے آپ نے مداخلت کیوں نہیں کی، آپ نے کیوں ان کو نہیں روکا۔ بولیں بیٹی وہ میری ایک نہیں چلتے دیتا۔ چونکہ ہم اس پر انحصار کرتے ہیں، تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہی عقل کل ہے۔ ہمارے تمام فیصلے اس نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھے ہیں۔ آپ لوگوں کے آنے سے قبل اس رشتے پر اس نے سوال کیا تھا کہ کیا فرح سے پوچھ لیا ہے میں نے بتایا ہاں، وہ راضی ہے پوچھا، کیسے راضی ہے کیا اس نے لڑکے کو دیکھا ہے۔ جانتی ہے اسے ہاں دیکھا ہوا ہے، اس کی کلاس فیلو کا بھائی ہے۔ میں سمجھی کہ میرے صحیح جواب سے اس کو فیصلہ کرنے میں رہنمائی ملے گی لیکن اس نے الٹ ہی فیصلہ کردیا۔ میری صحیح بات کو غلط سمت لے گیا۔ کہا کہ فرح نے خود لڑکا پسند کیا ہے یہ آزاد اور آوارہ ہوگئی ہے۔ تم لوگوں کے جانے کے بعد اس پر ہم سے جھگڑا بھی کیا۔ مجھے معلوم ہوتا وہ ایسا الٹا ردعمل دکھائے گا ، کیوں آپ لوگوں کو بلوا کر بے عزتی کرواتی۔ آنٹی بچاری رو رہی تھیں۔ فرح اس واقعہ پر اتنی غمزدہ تھی کہ اس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا۔ وہ ندامت سے میرے سامنے ہی نہ آرہی تھی۔ میں ان کی مجبوری سمجھ گئی۔ بھائی سے کہا کہ میری سہیلی کی ماں مجبور ہے۔ ہمیں فرح کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔ سوچا رشتے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں، اس وجہ سے کہ ناتا نہ جڑسکا۔ مجھے اپنی دوست کی دوستی کو خیرباد نہ کہنا چاہئے۔ یہی سوچ کر کچھ دنوں بعد اس کے گھر چلی گئی وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ پڑوس میں جو لوگ رہتے تھے، ان کی لڑکی بھی فرح کی دوست تھی، اس سے پتا کیا تو اس نے بتایا کہ فرح کی بہن بہنوئی ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ آپا بتارہی تھیں کہ اب والدہ اور بہن کو اپنے پاس رکھیں گی۔ فرح نے جاتے ہوئے کچھ نہیں بتایا۔ بتایا تھا کہ آپ لوگوں کے رشتہ لانے سے اس کا بہنوئی شک میں پڑگیا ہے کہ شاید آپ کے بھائی نے اس پر پہلے سے ڈورے ڈال رکھے تھے اور یہ رشتہ تبھی آیا ہے کہ فرح کا کوئی تعلق آپ کے بھائی سے بنتا ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سوچنے لگی کہ اس کا بہنوئی کس قدر گندی ذہنیت کا مالک ہے۔ ہم ہمدردی کی وجہ سے رشتہ مانگ رہے تھے اور وہ کیا سوچ رہا ہے بھلا فرح جیسی غریب گھر کی لڑکی سے کیا لالچ وابستہ ہوسکتا ہے ہم لوگوں کا، میرا بھائی بھی نرم دل انسان ، اچھی فطرت کا مالک تھا، ان لوگوں کو مصیبت اور کسمپرسی کی زندگی سے نکالنا چاہتا تھا لیکن فرح کی قسمت میں ہماری محبت نہ لکھی تھی۔ سال بھر تک میرا فرح کے ساتھ کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔ میری شادی طے ہوگئی کارڈ دینا تھا۔ جی چاہا کہ فرح سے کسی طرح رابطہ ہو۔ اس کا حال پوچھوں اور اپنی شادی پر مدعو کروں، آئے یا نہ آئے یہ اور بات تھی۔ ان کی سابقہ پڑوسن لڑکی سے دوبارہ رابطہ کیا، اس نے فرح کی بڑی بہن کا نمبر دیا۔ میں نے کال کی، آپا نے فون اٹھایا۔ میں شہلا بول رہی ہوں کوثر آپا۔ آپ کیسی ہیں اور فرح کا کیا حال ہے ٹھیک ہو ں، فرح بھی خیریت سے ہے۔ کہو کیسے یاد کیا ہے شہلا آج تم نے۔ میں سمجھی کہ کے لئے ناراض ہوگئی ہو۔ آپا آپ لوگوں کو شادی کا کارڈ دینا تھا۔ تبھی فون کیا ہے۔ آپ کا نمبر آنٹی کی پڑوسن سے لیا ہے۔ میں کارڈ دینے گئی تو تالا تھا میں ان کے گھر چلی گئی ۔ کیا فرح سے بات ہوسکتی ہے۔ ہاں کیوں نہیں۔ انہوں نے فون فرح کو دے دیا۔ کیسی ہو فرح، اتنے دن بعد تم سے رابطہ ہوا ہے خیریت تو ہے نا۔ ہاں خیریت ہے، تم کیسی ہو۔ تمہیں شادی کا کارڈ دینا ہے۔ میں نہیں آسکوں گی شہلا، بہنوئی اجازت نہ دیں گے۔ اور تم دوبارہ فون مت کرنا ورنہ مجھ پر مزید پابندیاں لگ جائیں گی، دولہا بھائی آپ لوگوں کے ساتھ میرا ملنا جلنا پسند نہیں کریں گے، اچھا اللہ حافظ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ مجھے بہت صدمہ ہوا، اتنے دنوں بعد میں نے فون کیا تو ایسا جواب ملا کہ دل بجھ گیا۔ سوچا اس لڑکی سے الگ ہی رہنا بہتر ہے۔ اس کے بعد میں نے اس سے ملنے یا بات کرنے کی کبھی کوشش نہ کی۔ شادی کے بعد بیاہ کر میں اسلام آباد چلی گئی۔ میں اپنی بیاہتا زندگی میں مصروف اور مگن تھی۔ بچوں کی جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ہم نے امی کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ ایک روز شاپنگ کے دوران اچانک آٹھ سال بعد فرح سے بازار میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گئی، وہ بالکل پہچانی نہ جارہی تھی۔ یہ تم کو کیا ہوگیا ہے فرح تم تو جوانی میں بوڑھی نظر آرہی ہو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس کے ساتھ ایک چار برس کی بچی تھی۔ میں نے اصرار کرکے گاڑی میں بٹھالیا اور گھر لے آئی۔ تم تو بالکل اجڑ کر رہ گئی ہو۔ وقت سے پہلے بڑھاپا اور ویرانی اتنی کہ میرا دل ہی بیٹھ گیا ہے۔ خوش تو ہو اپنے گھر میں، کس سے ہوئی ہے تمہاری شادی۔ کسی سے نہیں ہوئی کیا مطلب میں نے اس کے ساتھ آئی بچی کی طرف دیکھ کر کہا۔ میرے تابڑ توڑ سوالات کے بعد بالٓاخر گویا ہوئی۔ امی کی وفات کے بعد آپا پانچ برس اور زندہ رہیں اور پانچویں بچی کو جنم دیتے وقت وفات پاگئیں، ان کے پانچ بچوں کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا، ان کے شوہر نے کہا کہ اب تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی ورنہ ان بچوں کو کون پروان چڑھائے گا جب انکار کیا تو کہا پھر میں ان کو کسی یتیم خانے میں داخل کروادیتا ہوں۔ مجھے آپا کے بچوں کی خاطر ان کی بات ماننا پڑی، کیا کرتی اور کوئی چارہ نہ تھا، شاید اسی وجہ سے میرے لئے کوئی رشتہ پسند نہ آتا تھا اور وہ میری شادی کرانے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ہمیں یہ خرچہ دیتے ہی اسی لئے تھے کہ مجھے ایک دن ان کا احسان اتارنا ہوگا سو ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے۔ اس کی حالت زار کہہ رہی تھی کہ وہ بالکل خوش نہیں ہے بس جی رہی ہے لیکن اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی اور کی مرضی سے سانس لے رہی ہے۔ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ کر وہ چلی گئی اور میں سوچتی رہ گئی کہ انسان کے نصیب میں کبھی دکھ اور کبھی سکھ ہوتے ہیں مگر کیسا نصیب لے کر آئی تھی فرح بچاری کہ پہلے یتیمی اور پھر جبر بھری زندگی اسے گزارنی پڑ گئی۔ بے شک اس نے اپنی مرحومہ بہن کی خاطر قربانی کا قرض اتار دیا تھا لیکن اس کا اپنا دامن تو خوشیوں سے خالی تھا۔ وہ کہہ رہی تھی ہر لڑکی کے خواب ہوتے ہیں اور میرا خواب تھا ایک پیارا سا پرسکون گھر، تم لوگوں نے پیار دیا تو جی چاہتا تھا تمہارے گھر کی ہی چھائوں مل جائے، مگر میں اس وقت بھی مجبور تھی جب ایسا ممکن تھا اور آج بھی جس گھر میں رہنا کبھی نہ چاہتی تھی اسی گھر میں رہنے پر مجبور ہوں کہ اس کے سوا کوئی اور میرا گھر نہیں ہے۔ جائوں تو کہاں جائوں پہلے آپا کے بچے چھوٹے تھے، میری ان کو اشد ضرورت تھی، اب بڑے ہوگئے ہیں تب بھی میری ان کو اشد ضرورت ہے۔ وہ میرے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتے جبکہ ان کے باپ سے پہلے بھی مجھے نفرت تھی اور اب بھی ہے۔ شہلا بہت مشکل ہوتا ہے اس انسان کے ساتھ عمر بھر رہنا جو آپ کو پسند نہ ہو لیکن اس کے ساتھ رہنا ایک ناگزیر مجبوری بن جائے، ہر سانس میں خنجر چلتا ہے جو میرے دل کو زخمی کرتا رہتا ہے۔ کسی سے اپنا دکھ نہیں کہہ سکتی، کسی رشتہ دار کے گھر پناہ نہیں لے سکتی کہ کوئی ایسا رشتہ دار ہے ہی نہیں جو مجھے پناہ دے۔ فرح اپنا دکھ بتا کر چلی گئی میرے دل کا سویا زخم جگا گئی۔ اس کی یاد کو بھلاچکی تھی لیکن جب دوبارہ مل کر گئی ہے تو اس کی یاد میرے کلیجے کو زخم زخم کرتی رہتی ہے۔ دعا کرتی ہوں اللہ ایسی مجبور زندگی کسی لڑکی کو نہ دے۔ پہلے فرح کو بھلادیا تھا لیکن اب کبھی نہ بھلا سکوں گی۔ ن ۔و۔ ملتان | null |
null | null | null | 263 | https://www.urduzone.net/naya-janam-episode-4/ | ایملی ہاتھ میں ٹوکری اٹھائے ہوئے بچوں کے ساتھ دروازے کی طرف جارہی تھی۔ لیمپ ایک ایک کرکے بجھائے جارہے تھے، میزوں کو صاف کیا جارہا تھا، بینڈ والے اپنی بساط سمیٹ رہے تھے اور لوگ ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔ باہر رات اور سرد ہوا تھی جو رخساروں میں خنکی بھر رہی تھی۔ سیاہ آسمان پر جڑے ستارے ٹمٹا رہے تھے۔ مس ایملی وہ اپنا نام سن کر پلٹی۔ مسز لنڈا اس سے مخاطب تھی۔ تم تھوڑی دیر کے لیے اندر آئو گی۔ تم کوئی چیز بھول گئی ہو۔ بچو تم انکل ولیم کے پاس ویگن میں چلو، میں ایک منٹ میں آتی ہوں۔ ایملی نے ٹوکری میریان کو دیتے ہوئے کہا۔ وہ مسز ولیم کے ساتھ اندر ایک ہال میں آگئی جو صرف ایک لیمپ کے روشن ہونے کی وجہ سے نیم تاریک سا معلوم ہو رہا تھا۔ ہاں میں کیا بھول گئی تھی ایملی نے ہلکے پھلکے لہجے میں پوچھا۔ وہاں مسز لنڈا کے علاوہ چند اور خواتین بھی تھیں جن میں سے وہ ایک آدھ کو ہی جانتی تھی۔ مس ایملی ہم لوگ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ مسز لنڈا نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میرا اس سے کیا تعلق ہے ایملی نے ناگواری سے کہا۔ آپ نے جو کہنا ہے، جلدی کہیں، باہر بچے میرا انتظار کررہے ہیں۔ اس نے اپنا بازو اس کی گرفت سے چھڑانا چاہا لیکن اس نے اور مضبوطی سے تھام لیا۔ ہمیں اپنی تہذیب اور اخلاقیات بہت عزیز ہیں۔ اس بارے میں ہم بہت حساس ہیں۔ ہمیں ان کا خیال رکھنا ہے۔ ایک خاتون نے کہا۔ میرا بازو چھوڑو۔ ایملی نے اپنے بازو کو جھٹکا دیا۔ اس نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔ ایملی نے مضبوط لہجے میں کہا۔ میں نے کچھ ایسا نہیں کیا جس کے بارے میں آپ لوگ اس طرح بات کررہے ہیں۔ یہاں ہمارے کچھ معیار ہیں جن کی تمہیں خبر ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں ایسی تقریبات میں ملازم شریک نہیں ہوتے، ان کے لیے ان کی اپنی تقریبات ہیں۔ ایملی کو ان لفظوں نے سخت دھچکا لگایا۔ شدید طیش کے عالم میں اس کے اندر ایک ابال سا اٹھا لیکن اس نے اپنے لہجے کو پھر بھی نرم بنایا۔ محترمہ میں یہاں کسی کی ملازم نہیں ہوں۔ میں رضاکارانہ طور پر بچوں کو سنبھال رہی ہوں۔ آئندہ آپ میں سے کوئی مجھ سے اس قسم کی بات کرنے کی جرأت نہ کرے۔ سمجھیں آپ اس نے ایک خشمگیں نگاہ ان پر ڈالی اور سر اٹھائے تیز قدموں سے باہر آگئی۔ وہ بغیر کچھ کہے آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ بچوں کے سامنے کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی لیکن اس کا وجود کھول رہا تھا۔ اس توہین نے اسے مضطرب کردیا تھا۔ ولیم کو ان اصولوں کی خبر ہونی چاہیے تھی۔ اس نے اسے اس تقریب میں آنے کے لیے کیوں کہا تھا جہاں اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ وہ تمام راستے خاموش رہی۔ بچوں کے سوالات کا بھی اس نے ہوں ہاں میں جواب دیا۔ اسے باربار ان خواتین کا توہین آمیز رویہ کچوکے لگا رہا تھا۔ گھر آکر اس نے بچوں کے کپڑے بدلوا کر انہیں بستر میں لٹایا۔ وہ شرارت کے موڈ میں تھے، اس سے باتیں کرنا چاہتے تھے لیکن ایملی نے انہیں سونے پر مجبور کیا اور لیمپ بجھا کر نیچے لائونج میں چلی آئی۔ ولیم اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھا پائپ سلگا رہا تھا۔ نیلا دھواں اس کے سر کے گرد گھوم رہا تھا۔ ایملی چند لمحے اس کی جانب تکتی رہی، پھر تنے ہوئے لہجے میں بولی۔ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔ پھر چند لمحے توقف کے بعد اس نے کہا۔ کیا میں یہاں ایک ملازمہ ہوں ولیم نے آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ کیوں تمہیں یہ خیال کیسے آیا میں پوچھ رہی ہوں کہ کیا میں تمہاری ملازمہ ہوں ایک ہائوس کیپر کو ملازم بھی کہا جاسکتا ہے۔ وہ بے نیازی سے بولا۔ ٹھیک ہے۔ ایملی نے ترش لہجے میں کہا۔ تو پھر یہاں ملازموں کے تقریبات میں شریک ہونے کے بارے میں کیا قوانین ہیں مجھے کوئی خاص علم نہیں ہے، اس بارے میں۔ تمہیں کیوں علم نہیں ہے، اپنی تہذیب کے بارے میں کیا مطلب تم نے مجھے اس تقریب میں آنے کے لیے کیوں کہا تھا جہاں میری توہین کی گئی۔ تمہیں کسی نے کچھ کہا ولیم نے اپنا پائپ نیچے رکھ دیا۔ ہاں تمہاری اسی مسز لنڈا اور اس کے ساتھ دوسری خواتین نے میری توہین کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک ملازمہ ہوں اس لیے مجھے اس تقریب میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ملازمین کی پارٹیاں علیحدہ ہوتی ہیں۔ اس کا سانس تیز چل رہا تھا اور وہ غصے میں کھول رہی تھی۔ تم خود کو پریشان مت کرو۔ یہ ان کی حماقت تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم جاکر سو جائو۔ وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔ تمہیں میری عزت کی کوئی پروا نہیں۔ تم خود کو کیا سمجھتے ہو۔ میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں جو تم مجھ پر حکم چلا رہے ہو۔ وہ روہانسی ہورہی تھی۔ خواہ مخواہ مجھ سے تکرار نہ کرو ایملی۔ جائو جاکر سو جائو۔ میرا جو دل چاہے گا، کہوں گی۔ میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایملی جائو اپنے کمرے میں۔ وہ دانت بھینچ کر بولا، جیسے غصہ ضبط کررہا ہو۔ چند لمحے ایملی اپنی جگہ کھڑی اس کو گھورتی رہی۔ پھر اس نے لیمپ اٹھایا اور زینے پر قدم رکھ کر قدرے بلند آواز میں بولی۔ تم جانتے تھے تمہیں معلوم تھا کہ یہ سب ہوگا لیکن تمہیں پروا ہی نہیں کسی کے جذبات کی، کسی کی عزت نفس کی۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایملی کو تسلی تھی کہ اس نے دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔ کم ازکم اسے اتنا تو کہنا ہی چاہیے۔ اس کی جو توہین ہوئی تھی، اس کے لیے کچھ تو احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ ایملی عقب سے ولیم کی آواز پر وہ ٹھٹھک گئی۔ لیمپ اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ بھی چند سیڑھیاں اوپر چڑھ آیا تھا۔ کسی عورت کو جرأت نہیں کہ وہ اس طرح سے بات کرے۔ تم خود کو ہم سے بہتر سمجھتی ہو ہاں۔ ایملی نے اعتماد کے ساتھ کہا۔ ہوں۔ وہ طنزیہ انداز میں بولا اور چند سیڑھیاں طے کرکے اس کے قریب آنے لگا۔ لیمپ کی روشنی میں وہ عجیب سا نظر آرہا تھا۔ ایملی گھبرائی۔ یہ اٹھارہویں صدی تھی جہاں خواتین کی حفاظت کرنے والے قوانین نہیں تھے۔ وہ خوف زدہ ہوئی کہ وہ تنہا اس کے رحم و کرم پر تھی۔ وہ اس کا مقابلہ کرسکتی تھی، نہ یہاں کوئی ایسا تھا جو اس کی حفاظت کرتا۔ لیکن اس نے اپنا خوف اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور ہمت کرکے اپنے قدموں پر جمی رہی۔ ولیم ایک زینہ اور اوپر چڑھا۔ خبردار میرے قریب نہ آنا۔ ایملی نے اپنے خوف کو دبانے کے لیے کہا۔ مگر وہ رکا نہیں۔ ایک ایک زینہ چڑھتا اس کے قریب آنے لگا۔ لیمپ کی تھرتھراتی روشنی میں اس کا سنگین چہرہ اسے خوف زدہ کررہا تھا۔ وہ رکا نہیں، ایک اور سیڑھی چڑھا۔ اگر تم ایملی نے کہنا چاہا لیکن وہ بالکل اس کے برابر پہنچ چکا تھا اور اپنی نیلی آنکھوں سے اسے کڑی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایملی سانس روک کر خود کو سہارا دینے کے لیے دیوار کے ساتھ لگ گئی ورنہ وہ شاید گر پڑتی۔ تم جانتی نہیں کہ ان عورتوں نے جو کچھ کیا، اس میں میرا کوئی دخل نہیں۔ میں تمہیں ملازمہ نہیں سمجھتا۔ تم گھر کی ایک فرد ہو۔ تم نے اس گھر کو رہنے کے قابل بنا دیا ہے۔ وہ بعض لفظ رک رک کر ادا کررہا تھا اور کئی اَن کہی باتیں اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ایسی باتیں جنہیں ایملی اس کی زبانی سننا چاہتی تھی مگر ولیم کہہ نہیں پایا تھا۔ ایملی کے ہاتھ میں موجود لیمپ لرز رہا تھا۔ ایسی باتوں کو برداشت کرنا بہت دشوار ہو چلا تھا۔ اس نے قدم بڑھایا کہ اپنے کمرے میں داخل ہوجائے مگر وہ اس کے راستے میں حائل ہوگیا اور اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ آئندہ ایسی بات مت سوچنا۔ ٭ ٭ ٭ اگلی صبح ایک انجانی سی خوشی ایملی کے اندر پھوٹ رہی تھی جو اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک بن گئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ محبت میں گرفتار ہوگئی ہے۔ مغرور ولیم کی شاندار شخصیت کے پرت کھلے تھے تو وہ اس کے دل کے بہت قریب ہوگیا تھا۔ اب یہ بات حقیقت نہیں رکھتی تھی کہ حالات کیا تھے، زمانہ کون سا تھا اور وقت الٹی چال چلتا ایک صدی پیچھے آگیا تھا۔ اب صرف ولیم ہی سب کچھ تھا۔ جب وہ شام پانچ بجے واپس آیا تو ایملی نے مسکراتے ہوئے اس کے لیے دروازہ کھولا۔ اس کا ہیٹ اور دستانے تھامتے ہوئے اسے ہیلو کہا۔ ہیلو۔ ایملی وہ بولا۔ ہمیشہ کی طرح وہ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال اور گہری نیلی آنکھیں، جادو مسحور کردینے والی تھیں۔ تمہارے پاس تھوڑا سا وقت ہوگا وہ بولا۔ تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ کیا بات ایملی نے پوچھا۔ ادھر آئو۔ وہ اسے بازو سے پکڑ کر لائونج میں لے آیا اور ایک صوفے پر بٹھا دیا اور پھر بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ ایملی نے اس کی طرف دیکھا۔ خیریت تو ہے دیکھو ایملی میں ابھی کسی کو بھیجتا ہوں کہ شہر سے فادر کو لے آئے پھر ہم شادی کرلیں گے۔ نہیں ولیم ایملی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ میں ایسا نہیں کرسکتی۔ مگر کیوں وہ حیران ہوکر بولا۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ولیم۔ یہ میرا زمانہ نہیں ہے، یہ میرا گھر نہیں ہے۔ مجھے واپس جانا ہوگا۔ نہ جانے کب میں اسی طرح سب کچھ چھوڑ کر چلی جائوں جس طرح میں یہاں آگئی تھی۔ میرا اس دور سے، اس صدی سے تعلق نہیں ہے۔ ایملی اس نے کچھ کہنا چاہا۔ نہیں ولیم تم کچھ بھی کہو، اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ میں اس موضوع پر پھر تم سے بات کروں گی تاکہ تم میرا مسئلہ سمجھ سکو۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ گرم آنسو اس کی آنکھوں میں سلگ رہے تھے۔ وہ روتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ روش طے کرتی مرکزی دروازے سے باہر نکل آئی اور غیر ارادی طور پر کسی سمت کا تعین کئے بغیر بھاگتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اس کا سانس پھول گیا لیکن وہ بھاگتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ اس طرح بھاگتے بھاگتے اسے اپنے گھر کا راستہ مل جائے گا۔ جیسے جیسے تھکتی گئی، اس کے قدموں کی تیزی میں کمی آتی گئی۔ اس کے آنسوئوں کی روانی بڑھتی گئی۔ سورج اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ وہ ریل کے اس راستے تک پہنچنا چاہتی تھی جہاں اب تک جائے حادثہ پر سب کچھ اسی شکستہ حالت میں پڑا تھا۔ شاید کسی ذریعے سے وہ اپنے زمانے، اپنے وقت میں پہنچ جائے۔ اس شادی کا کوئی انجام نہیں تھا۔ یہ محبت بے ثمر تھی جس کا نصیب بچھڑ جانا تھا۔ یہ ولیم اور بچوں کے ساتھ بھی زیادتی تھی۔ اونچے نیچے راستوں پر اس کے پائوں پھسل رہے تھے اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر رہے تھے۔ وہ اپنے آنسو اپنی انگلیوں سے صاف کررہی تھی۔ سورج اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔ اب وہ غروب کی منزل کی طرف جارہا تھا۔ اسے چلتے رہنا تھا، آگے بڑھتے رہنا تھا۔ اگر وہ واپس چلی جاتی اور محبت کی ادھوری کہانی میں رنگ بھرتی تو شاید ہمیشہ کے لیے کھو کر رہ جاتی۔ اس دنیا سے بہت دور جو اس کی دنیا تھی، اسے اپنے گھر جانا تھا۔ ہر حالت میں گھر جانا تھا۔ وہ خود کو ماضی میں گم نہیں کرسکتی تھی۔ ابھی تک وہ جگہ اسے نظر نہیں آئی تھی لیکن راستے میں آنے والی نشانیوں سے اسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ صحیح سمت میں جارہی ہے۔ دریا پر بنا ہوا پل، شہر کی طرف جانے والی سڑک اور ساتھ ساتھ بہتا دریا وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی اپنی منزل پر پہنچ سکتی تھی جہاں یقیناً اس کے لیے کوئی دروازہ کھل جائے گا جہاں سے وہ اپنے زمانے، اپنے وقت میں داخل ہوجائے گی۔ کبھی نہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے لیے وہ بہت تھک گئی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر ٹھہر کر آرام کرلے تاکہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ وہ ایک باڑ کا سہارا لے کر رک گئی کہ اچانک کسی نادیدہ قوت نے اس کا سر پیچھے کی طرف موڑ دیا۔ وہ اب سامنے دیکھنے کے بجائے پیچھے دیکھ رہی تھی۔ ایک بار پھر ماضی اس کے سامنے تھا جس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے اتنا سفر کیا تھا۔ اس وقت ایملی نے اس کو دیکھا۔ وہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا چلا آرہا تھا۔ سورج کی آخری کرنوں میں اس کے گھوڑے کے سموں سے اُٹھنے والا غبار سنہری معلوم ہورہا تھا۔ ایملی کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا۔ وہ پریشان ہوگئی۔ اسے پیچھے نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ وہ کہیں پتھر کی نہ ہوجائے، کہیں ماضی کے اس لمحے میں منجمد نہ ہوجائے۔ بھاگو۔ بھاگو اس کے دماغ نے کہا لیکن وہ ایک قدم بھی نہ اٹھا سکی، وہیں ساکت ہوکر رہ گئی۔ اس کے اندر کوئی کہنے لگا کہ ولیم کو آنے دو خود کو اس کی محبت میں کھو جانے دو یہی زندگی ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نہ ماضی، نہ حال، نہ مستقبل۔ اگلے ہی لمحے ولیم وہاں موجود تھا۔ وہ چھلانگ لگا کر گھوڑے سے اترا اور اس کی لگامیں کھلی چھوڑ دیں۔ ایملی میں اپنی جگہ سے ہلنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ کھلی آنکھوں سے ساکت کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی پلکیں خوشی کے آنسوئوں سے بھیگ رہی تھیں۔ ولیم کو اس کی پروا تھی، اس کے دل میں بھی محبت تھی، تب ہی وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔ وہ قریب آیا، بہت قریب اور بولا۔ تم احمق عورت پاگل ہوگئی ہو۔ اس کی آواز میں جھنجھلاہٹ اور غصہ تھا۔ بے وقوف تم اپنی طرف کہاں جارہی ہو۔ تم کیا کررہی ہو میں گھر جارہی تھی ولیم، اپنے گھر۔ وہ رک رک کر بولی۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ ولیم کو اپنی بات کبھی نہیں سمجھا سکے گی۔ تمہارا گھر اب میرے ساتھ ہے۔ بچوں کے ساتھ ہے۔ نہیں ایملی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی ولیم نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھایا اور گھوڑے پر بٹھا دیا۔ وہ اچک کر خود گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ مستقبل کی امید پیچھے رہ گئی اور ماضی کی جانب سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا۔ ٭ ٭ ٭ شام کو ایک بار پھر ولیم اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ایملی دیکھو اب دوبارہ بھاگ نہ جانا۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایملی نے اپنی چیزیں ایک طرف رکھیں۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔ ہاں۔ میں تم سے کہنا چاہتا تھا کہ تم ایک مرتبہ پھر میری تجویز پر غور کرو۔ وہ فرش کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے مناسب ہیں۔ ایملی نے نفی میں سر ہلایا۔ ولیم میں اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ شادی کامیاب نہیں ہوگی۔ تم جہاں سے تعلق رکھتی ہو، کیا وہاں کوئی ایسا ہے جسے تم اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ نہیں۔ ایسا کوئی نہیں ہے لیکن میں اس ماحول میں ہمیشہ کے لیے خود کو نہیں بسا سکتی۔ میں اصل میں ایک بڑے شہر اور جدید دنیا کی لڑکی ہوں۔ تم جہاں جانا چاہتی ہو، میں تمہیں وہاں کا ٹکٹ لے دوں گا۔ تم وہاں جاکر اپنے معاملات سمیٹ کر واپس آجانا۔ ہم تمہارا انتظار کریں گے۔ اس نے کہا اور پھر تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ تم مجھ سے شادی کرو یا نہ کرو ایملی لیکن میرے پاس واپس ضرور آجانا۔ پلیز مجھ سے دور نہ چلی جانا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے، جتنا تم سمجھ رہے ہو۔ میرا وعدہ ہے کہ میں اب تم سے دور نہیں بھاگوں گی۔ جب مجھے یقین ہوجائے گا کہ میں واپس اپنی دنیا میں جاسکتی ہوں تو میں تمہیں بتا دوں گی۔ تم اور بچے مجھے الوداع کہنے میرے ساتھ چلنا۔ ہم ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے۔ میں تمہیں یاد رکھوں گی۔ ہمیشہ ہمیشہ۔ چاہے میں تم سے کتنے ہی زمانوں کے فاصلے پر رہوں۔ ایسا کب ہوگا وہ اس کی شکوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں کا سامنا نہیں کرسکی۔ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولی۔ ابھی میں کچھ نہیں جانتی۔ دیکھو ایملی میں نے آج تک کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ نہ کبھی کسی کی منت سماجت کی۔ میں تمہارے لیے جس حد تک جاسکتا تھا، چلا گیا ہوں اور بس میں تمہیں کبھی مجبور نہیں کروں گا۔ تم اپنے بارے میں بہتر سمجھتی ہو۔ شکریہ ولیم۔ ایملی بس اتنا ہی کہہ سکی۔ تو پھر اب بھی تم میری ہائوس کیپر ہو ہاں۔ اس سے کچھ زیادہ شاید تمہاری دوست۔ میری دوست وہ طنزیہ ہنسی ہنسا۔ اور یہ دوستی کب تک چلے گی وہ پلٹ کر دور جاکھڑا ہوا۔ اس کے انداز میں تنائو تھا۔ ولیم ایملی نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی۔ ولیم نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا مزاج برہم تھا۔ تم اور تمہارے جدید طور طریقے ایملی تم شادی نہیں کرنا چاہتیں اور یہاں دوست کے طور پر رہنا چاہتی ہو۔ یہ ایسی بات ہے جو یہاں پسند نہیں کی جاتی۔ لوگ جو کچھ کہیں گے، وہ یقیناً تمہیں پسند نہیں آئے گا۔ تو پھر بہتر یہی ہے کہ میں یہاں سے کہیں اور چلی جائوں۔ تم نے پہلے بھی تو کوشش کی تھی۔ اس کا لہجہ تلخ تھا۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا، اس جگہ کو چھوڑنا ہوگا۔ وہ اس کے قریب آکر بولا۔ تم اپنے حواسوں میں تو ہو۔ آخر تم کیا سوچ رہی ہو خدا کے لیے مجھے بتائو تو تمہارے دل میں کیا ہے تم کوئی کمسن لڑکی تو ہو نہیں جسے خبر نہ ہو کہ اس کے ذہن میں، اس کے دل میں کیا ہے ایملی نے آہستہ آہستہ اپنی پلکیں اٹھائیں۔ اس کی نیلی آنکھیں، اس کی آنکھوں کی منتظر تھیں کہ نگاہوں سے کچھ بات کرسکیں۔ وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر نگاہوں نے جو کہا، وہ اس کے لبوں پر آیا۔ ایملی میں تمہیں گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اپنا اور صرف اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہوں۔ میرا دل تمہاری محبت سے آباد ہے۔ میرا گھر تمہارے بغیر سُونا ہے۔ میں تمہیں ہمیشہ اپنے دل میں رکھوں گی ولیم تم پہلے مرد ہو جس سے میں نے پیار کیا ہے۔ صرف تم سے۔ وہ سرگوشی کے انداز میں بولی جیسے اندیشہ ہو کہ کوئی سن نہ لے۔ رو کیوں رہی ہو ولیم نے پوچھا۔ ایملی کو احساس ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ پتا نہیں۔ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسوئوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ میں کبھی اتنا نہیں روئی تھی لیکن اب یہاں کی ہر چیز، ہر بات مجھے رُلا دیتی ہے۔ نہ جانے کیوں اوہ تم عورتیں بھی۔ وہ ہنسا۔ تم مرد بھی تو رونا چاہتے ہو لیکن رو نہیں سکتے۔ تم اسے کمزوری سمجھتے ہو۔ ہاں۔ شاید وہ ہنس پڑا۔ ہماری اس محبت کا انجام کیا ہوگا ولیم ایک بار پھر اس کی پلکیں بھیگ رہی تھیں۔ شش کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ ٭ ٭ ٭ اس دن موسم کافی گرم تھا۔ وہ برآمدے میں بیٹھے غروب آفتاب کا منظر دیکھ رہے تھے۔ ڈوبتے سورج کی شفق میں نہائی کرنیں ولیم کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ اس کی نیلی آنکھوں کے رنگ پل پل بدل رہے تھے۔ اس کے سبک نقوش، شانوں تک بکھرے ہوئے گھنگھریالے بال، وہ بے حد وجیہ اور خوبصورت تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ یہیں رہ جائے ولیم کی دنیا، اس کے زمانے میں تو وہ بہت محبت کرنے والا شوہر ہوگا، اس کا بہت خیال رکھنے والا اس آنگن میں اس کے بچے دوسرے بچوں کے ساتھ بڑے ہوں گے۔ وہ ان کے لیے گھر کو سجائے سنوارے گی۔ وہ سارے کام کرے گی جو عورتیں صدیوں سے کرتی آئی ہیں لیکن کیا یہ سب اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہوگا ولیم اخبار پڑھ رہا تھا۔ اس نے اچانک اخبار کو میز پر زور سے رکھ دیا اور اپنے پائپ کی راکھ جھاڑتا ہوا غصے سے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا۔ کیا ہوا ایملی نے پوچھا۔ کچھ نہیں۔ وہ بولا۔ ایملی نے اخبار اٹھا لیا اور پہلے صفحے کی سرخی دیکھنے لگی۔ معاشی بحران کی خبریں نمایاں تھیں۔ چاندی کے ذخائر کی خریداری، سونے کے ذخائر میں کمی، بینکوں کی ابتر حالت وہ ساری باتیں جو اکیسویں صدی میں تاریخ کا حصہ تھیں اور جن کے بارے میں وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی لیکن یہاں کوئی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ان کے یہاں یہ تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی عورت معاشیات میں دخل دے، پھر بھی اسے کوشش تو کرنی چاہیے تھی۔ ولیم۔ اس نے اخبار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تم اس کے لیے پریشان ہو ظاہر ہے۔ کوئی بھی شخص اس سے لاتعلق کس طرح رہ سکتا ہے۔ دیکھو۔ اس کو اس انداز میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ ایملی نے بہت محتاط انداز میں کچھ موٹی موٹی باتوں کی طرف اشارہ کیا۔ دیکھو ایملی میں نے پہلے بھی تمہیں بتایا ہے کہ یہ میرا مسئلہ ہے۔ تمہیں اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر میری ایک بات ضرور سن لو ولیم۔ اگر بینک دیوالیہ ہوگیا تو تم لوگ مصیبت میں پھنس جائو گے۔ ہاں۔ مگر بینکر ایک مضبوط آدمی ہے۔ وہ اتنا بے خبر اور لاپروا نہیں۔ تو پھر یقیناً پہلے وہ اپنا فائدہ سوچے گا ایملی ایملی۔ اس قصے کو بھول جائو۔ یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میرا مسئلہ ہے، میرا بھی اس سے تعلق ہے۔ مجھے تمہاری اور بچوں کی فکر ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تم لوگوں کے ساتھ یا تمہارے فارم کے ساتھ کچھ غلط ہو۔ ہم اسے ٹھیک کرلیں گے۔ لیکن ولیم میں تمہاری مدد کرسکتی ہوں۔ ایملی نے کہا۔ میں کرنا چاہتی ہوں۔ کیا اس نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ وہی ڈگری جس کا ذکر تم اکثر کرتی رہتی ہو اور وہ بینک جہاں تم کام کرتی تھیں وہ تمہارے ذہن میں نہ جانے کیسے جم گیا ہے۔ ان تمام تصوراتی چیزوں کے ساتھ تم مدد کرو گی لیکن تم لوگوں کو کیسے روک سکتی ہو کہ وہ بینک سے پیسہ نہ نکلوائیں ایملی کچھ کہنے والی تھی کہ تینوں بچے دوڑتے ہوئے آئے۔ انکل ولیم انکل ولیم ہم نے ڈیزی کا ننھا بچہ دیکھا ہے۔ وہ بڑے جوش سے بولے۔ وہ بہت ہی پیارا ہے۔ میریان نے خوش ہوکر کہا۔ وہ باربار گر پڑتا ہے۔ بیچارہ چل ہی نہیں سکتا۔ چھوٹا بولا۔ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے، اس کی ٹانگیں کمزور ہیں۔ جیسکا نے اسے بتایا۔ میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ ایملی نے اشتیاق سے کہا۔ پھر بچوں کی طرف دیکھ کر بولی۔ پہلے تم تینوں کو سلا دوں۔ جب بچے سو گئے تو ایملی، ولیم کے ساتھ اصطبل کی طرف چل پڑی۔ ولیم نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ اس کی مدھم روشنی میں چیزوں کے سائے لمبے لمبے نظر آرہے تھے۔ تاریکی میں ولیم اس کے ساتھ ساتھ قدم اٹھا رہا تھا۔ میں نے کبھی گھوڑے کا نوزائیدہ بچہ نہیں دیکھا۔ ایملی نے کہا۔ کیوں۔ کیا وہاں گھوڑے نہیں ہوتے ہاں۔ ہوتے ہیں لیکن بچے نہیں۔ اصطبل قریب آگیا تھا اور وہ بڑا کمرہ جہاں سالوں سے گھوڑے اور ان کے چھوٹے بچے رکھے جاتے تھے، سارا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ گھوڑوں کی مخصوص بو اور ان کے چارے کی خوشبو فضا میں بکھری ہوئی تھی۔ گھوڑوں کے اِدھر اُدھر پہلو بدلنے اور زمین پر سم مارنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ولیم گھوڑوں کے آخری اسٹال تک پہنچا اور اس نے لالٹین اونچی اٹھائی اور بولا۔ ہیلو ڈیزی اولڈ گرل کیسی ہو تم ڈیزی اس کی آواز پہچان کر قریب آگئی اور اس نے اپنی ناک ولیم کے ہاتھ پر رگڑی۔ ولیم اس کی گردن کو پیار سے سہلانے لگا۔ بچہ کہاں ہے ایملی نے مدھم لہجے میں پوچھا۔ اس نے لالٹین کی روشنی کو اِدھر اُدھر گھمایا تو ایک کونے میں ایک سایہ سا نظر آنے لگا۔ اس نے روشنی سے گھبرا کر اٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی۔ تھوڑی کوشش کے بعد وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگیا اور چند قدم آگے بڑھ کر اپنی ماں کے برابر کھڑا ہوگیا۔ اوہ کتنا پیارا ہے۔ ایملی نے مدھم روشنی میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں کچھ دیر لکڑی کے چھجے پر جھکے ان دونوں کو دیکھتے رہے۔ ایملی کو یہ سب کسی سہانے خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ یوں تاریکی میں فطرت کو اپنی تکمیل کے عالم میں دیکھ کر ولیم کے ساتھ کھڑے ہوکر اسے اپنے جانوروں کے ساتھ محبت اور لگائو کے ساتھ پیش آتے ہوئے دیکھ کر یہ احساس کتنا حسین تھا کہ آسمان تلے دور دور تک پھیلا ہوا تمام علاقہ، مویشی، پرندے، لہلہاتی فصلیں، سرسبز باغات اور ان کا یہ رکھوالا۔ یہ سب کچھ اس کا تھا کیونکہ یہ یونانی دیوتائوں ایسا حسین اور باوقار شخص اس سے محبت کرتا تھا۔ اسے شریکِ زندگی بنانا چاہتا تھا۔ وہ شہر کی جدید اور ہنگاموں بھری زندگی چھوڑ کر سکون، محبت اور آسودگی کی تلاش میں نکلی تھی لیکن اب جبکہ یہ سب اس کی دسترس میں تھا تو اسے لگتا تھا کہ وہ روزمرہ کے یکساں معمول سے بہت جلد تنگ آجائے گی۔ وہ ایک صدی پہلے کے ماحول میں دن بھر گھر کے کام کرنے اور بچے پالنے میں زندگی نہیں گزار سکے گی۔ جہاں نہ اس کی شخصیت کی کوئی اہمیت تھی، نہ اس کی قابلیت کی۔ ولیم ہمیشہ اس سے یہی کہتا تھا کہ وہ اپنے معاملات سے خود نمٹ لے گا۔ اسے ان میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ چلو۔ واپس چلتے ہیں۔ ولیم نے اس کا بازو چھوا۔ وہ اپنے خیالات سے چونک کر باہر آئی۔ اسے طلسم ٹوٹنے کا احساس ہوا۔ اس نے بے دلی سے کہا۔ ہاں۔ چلو۔ حالانکہ اس رومانی تاریکی اور ستاروں بھرے آسمان کے تلے پوری زندگی گزار دینے کو دل چاہتا تھا۔ ولیم نے تاریکی میں اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے کے خدوخال ہلکے سے روشن تھے۔ اس کے ہاتھ میں موجود لالٹین کی روشنی روش پر پڑ رہی تھی تاکہ انہیں راستہ دیکھنے میں آسانی ہو۔ ایملی میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔ حالانکہ مجھے اس کے لیے خود پر بہت جبر کرنا پڑے گا۔ ہاں۔ میں جانتی ہوں۔ وہ سوچتی ہوئی آواز میں بولی۔ یوں لگتا ہے جیسے ساری کائنات سمٹ گئی ہے اور یہاں صرف ہم دونوں ہیں، ایک دوسرے کے لیے کیا تمہیں وہ نغمہ سنائی نہیں دیتا جو روحوں میں گونجتا ہے اور صرف دل ہی اس کے معنی سمجھتے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہوجاتے ہیں۔ ٭ ٭ ٭ معیشت میں ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا تھا۔ کیٹل مین ایسوسی ایشن کے کئی اجلاس اوپر تلے ہوئے تھے۔ قصبے کے بینک کے بند ہونے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ بینک کا سربراہ افراتفری میں جلد جلد فیصلے کررہا تھا۔ اس نے لوگوں سے قرضے واپس لینے کا اشارہ کردیا تھا۔ جن کے پاس رقم نہیں تھی، ان سے اپنے مویشی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ سونے کے ذخائر بہت کم ہوگئے تھے اور بینک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے کچھ نہ ضروری تھا۔ ولیم صبح ہی گھر سے نکل رہا تھا تاکہ ہنگامی اجلاس میں شرکت کرسکے۔ ایملی نے اس کے گھوڑے کی لگام تھامتے ہوئے کہا۔ دیکھو ولیم جوش سے کام نہ لینا۔ اس وقت بہت سمجھداری کی ضرورت ہے۔ سب کو ملا کر رکھنا۔ سب کا فیصلہ بینک کے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ میں جانتی ہوں۔ تیز ہوا سے اس کے بال اُڑ رہے تھے اور اس کا لمبا اسکرٹ لہرا رہا تھا۔ ولیم مسکرایا۔ واہ۔ تم بھی مجھے وعظ اور نصیحت سے لاد رہی ہو۔ میں سنجیدہ ہوں۔ پلیز میری بات پر غور کرو۔ کسی کو جلدبازی نہ کرنے دینا اور پہلے دیکھنا کہ بینک کے مطالبات کیا ہیں ٹھیک ہے۔ میں تمہاری بات سمجھ رہا ہوں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ میرے اثرورسوخ کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں۔ مگر تم کوشش تو کرسکتے ہو مجھے خوشی ہے کہ تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو۔ وہ محبت سے بولا۔ ایملی نے مسکرا کر سر ہلایا اور اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر اسے یقین دلایا کہ وہ جو کچھ سمجھ رہا ہے، وہ ٹھیک ہے۔ دوپہر تک ولیم گھر نہیں آیا۔ ایملی لمبی دوپہر میں مغرب کی طرف سے آتے ہوئے سیاہ بادلوں کو دیکھتے ہوئے اس کا انتظار کرتی رہی۔ اس نے بچوں کو کھانا کھلایا اور ولیم کا انتظار کرتی رہی۔ بارش شروع ہوگئی، آسمان پر بجلی لہریں بنانے لگی اور بادلوں کی گرج خوفناک ہوگئی۔ پہاڑوں سے پانی تیزی کے ساتھ وادیوں میں اترنے لگا۔ ایملی پریشان ہوگئی۔ یہاں موبائل فون تو ایک طرف رہا، لینڈ لائن بھی نہیں تھی کہ ولیم سے کوئی رابطہ کیا جاسکتا۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ ان کی میٹنگ میں کیا طے ہوا اور وہ اس شدید موسم میں کس طرح گھر آئے گا۔ انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے دن کو ہی شام کا سماں پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے لیمپ جلا لیا تھا جس کی لو ہوا سے تھرتھرا رہی تھی۔ اس کے کان دروازے کی طرف لگے ہوئے تھے کہ کب ولیم واپس آتا ہے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ دروازے پر ولیم کے بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی۔ بارش اب بھی ہورہی تھی، بادل گرج رہے تھے۔ ولیم وہ اس کی جانب والہانہ انداز میں بڑھی۔ وہ اپنے بڑے کوٹ میں لپٹا کھڑا تھا۔ اس کے ہیٹ کے بڑے چھجے سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس کے پائوں میں پانی اکٹھا ہوگیا تھا۔ میں بہت فکرمند ہوگئی تھی۔ تمہیں آنے میں بہت دیر ہوگئی۔ موسم کتنا خراب ہوگیا ہے۔ طوفان کتنا شدید تھا۔ تم بالکل ہی بھیگ گئے ہو۔ سانس تو لو خاتون۔ اس نے اپنا کوٹ اور ہیٹ ایک طرف رکھا اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے بوٹ اتارنے لگا۔ بعض اوقات تم سوالوں کی بوچھار کردیتی ہو۔ وہ اس کا گیلا کوٹ اور بوٹ اٹھاتے ہوئے بولی۔ کھانا کھائو گے وہ اپنے بالوں سے پانی کے قطرے انگلیوں سے جھاڑتے ہوئے کہنے لگا۔ نہیں۔ ابھی نہیں۔ کیا تم کھانا کھا کر آئے ہو نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ٹھہر جائو، مجھے بھوک نہیں ہے۔ ایملی چلتے چلتے رک گئی۔ اس کا گیلا کوٹ اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ اس سے معلوم کرنا چاہتی تھی کہ میٹنگ میں کیا ہوا لیکن پوچھتے ہوئے ڈرتی تھی۔ اس کی کیفیت سے مایوسی، تھکن اور پریشانی جھلک رہی تھی۔ کافی مل جائے گی ابھی بناتی ہوں۔ ایملی کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی۔ بھاپ چھوڑتی کافی ایملی نے اس کے برابر میز پر رکھی۔ وہ چند گھونٹ لے کر بولا۔ بات نہیں بن سکی۔ انہوں نے بینک بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ اس نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔ اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔ ایملی افسردگی سے اس کی جانب تکتی رہی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ تاریخ کے دھارے میں تو یہ دور اس سے بھی زیادہ برا تھا جتنا ولیم سمجھ رہا ہے۔ اگر وہ کوشش کرے تو اس مشکل وقت کو ٹال سکتی ہے مگر کوئی اس کی بات تو سمجھے۔ ٭ ٭ ٭ گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ ولیم اپنے کارکنوں کے ساتھ کام میں لگا ہوا تھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ دور سے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کوئی اس طرف آرہا تھا۔ آنے والا جونی تھا۔ لڑکے کا چہرہ گرمی سے سرخ ہورہا تھا۔ وہ قریب آیا۔ مسٹر ولیم وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ میرے پاپا نے مجھے بھیجا ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ بینک بند کردیا گیا ہے۔ اچھا۔ ولیم نے حیرت اور پریشانی سے کہا۔ پاپا نے کہا ہے ایک میٹنگ اور ہوگی۔ یہ بہت برا ہوا ہے مسٹر ولیم سب لوگ پاگل ہورہے ہیں۔ تم اپنے پاپا سے کہہ دینا کہ میں میٹنگ میں پہنچ جائوں گا لیکن پہنچنے میں ایک گھنٹہ تو لگ جائے گا۔ مسٹر ولیم ابھی میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی بتانا ہے۔ گھر پہنچ کر پاپا کو بتا دوں گا۔ لڑکے نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور مٹی کا ایک بادل اُڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ ولیم کچھ متفکر سا اندر آیا۔ اس نے ایملی کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہوگئی۔ ولیم نے اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور ایملی سے تولیہ لے کر اپنا چہرہ پونچھتا ہوا بولا۔ مجھے ابھی شہر جانا ہوگا، ایک اور میٹنگ اٹینڈ کرنے۔ وہ بظاہر عام سے لہجے میں کہہ رہا تھا لیکن درحقیقت وہ فکرمند تھا۔ ایملی وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ یہ تو بہت برا ہوا ولیم۔ اب کیا ہوگا کچھ نہیں ہوگا۔ ہم بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دیکھو، تمہیں یہ سوچنا پڑے گا۔ ایملی نے کہنا چاہا۔ ایملی۔ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا۔ تم اپنی ان باتوں سے مجھے پاگل کرکے رہو گی۔ تم اسے ہم پر چھوڑ دو خاتون، یہ مردوں کا معاملہ ہے۔ وہ اس کے ساتھ اصطبل تک آئی۔ ولیم نے اپنے گھوڑے کی زین کسی۔ ایملی نے اس معاملے سے متعلق پھر کچھ کہنا چاہا لیکن ولیم کچھ سنے بغیر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور بولا۔ اسے تم چھوڑو۔ مجھے یہ بتائو کہ تم کب تک مجھ سے دامن چھڑاتی رہو گی یہ کون سا وقت ہے ایسی بات کرنے کا ولیم میں نے کہا ہے نا، میں جو بھی کروں گی، تمہیں اس کے بارے میں ضرور بتائوں گی کہ مجھے کب جانا ہوگا۔ اور شاید تم کبھی نہیں جاسکو گی۔ وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ میں تمہارے لیے کھانا تیار رکھوں گی۔ ایملی نے اس کے عقب سے کہا۔ معلوم نہیں، میں کس وقت فارغ ہوسکوں گا۔ میں تمہارا انتظار کروں گی۔ اس نے بغیر جواب دیئے گھوڑے کو موڑا، اسے ایڑ لگائی اور گھوڑا ہوا ہوگیا۔ ایملی اسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔ انتظار کی طویل گھڑیاں گزارنے کے بعد جب ولیم واپس آیا تو ایملی کی جان میں جان آئی۔ وہ بچوں کو سلا چکی تھی اور کھانا گرم تھا۔ ولیم نے کھانا تو کھایا لیکن ایملی دیکھ رہی تھی کہ وہ بے دلی سے اس طرح کھا رہا ہے جیسے بھوک نہ ہو۔ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا لیکن اس کی مسکراہٹ نے اس کی آنکھوں کو نہیں چھوا تھا۔ ایملی اس سے کچھ پوچھ کر اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی، اسی لیے خاموش رہی حالانکہ وہ جانتی تھی کہ ولیم پریشان ہے۔ اگلی صبح روشن اور خوبصورت تھی۔ سنہری کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف سے منعکس ہوکر سات رنگوں میں بدل رہی تھیں۔ ولیم کا موڈ اچھا تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے ان کی باتوں میں دلچسپی لے رہا تھا۔ لیکن قصبے کے ماحول میں تنائو تھا۔ ولیم نے ایملی کو بتایا تھا کہ بینک کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکا تھا۔ لوگ اپنا سونا واپس مانگ رہے تھے، اس لیے بینک کی حفاظت کے خیال سے شہر سے بندوق بردار محافظوں کو بلایا جارہا تھا جو دوپہر کی گاڑی سے قصبے میں پہنچنے والے تھے۔ ولیم کام پر جا چکا تھا۔ ایملی کچھ گھریلو خریداری کے لیے میریان کے ساتھ مارکیٹ گئی ہوئی تھی لیکن وہ دیکھ رہی تھی کہ لوگ اسٹیشن کی طرف جارہے ہیں۔ ولیم اور دونوں بچے بھی انہیں راستے میں مل گئے۔ ایملی نے فکرمند لہجے میں کہا۔ ولیم میں گھر جارہی ہوں، کہیں یہاں کوئی ہنگامہ نہ ہوجائے، بچوں کا ساتھ ہے۔ نہیںٖ۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور بچوں کو ایسی چیزیں دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے ساتھ چلتے چلتے اسٹیشن قریب آگیا جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب لوگ ان بندوق برداروں کو دیکھنا چاہتے تھے جو اس ٹرین میں آرہے تھے۔ ایک طرف گھوڑا گاڑیاں اور بگھیاں کھڑی تھیں۔ گھوڑوں کو ایک دوسرے مقام پر باندھ دیا گیا تھا۔ ایملی نے پھر ولیم کی آستین چھو کر کہا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں گھر چلنا چاہیے۔ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ عوام کا موڈ اچھا نہیں۔ نہیں ابھی کچھ نہیں ہوگا۔ ان کے عقب سے کسی نے کہا۔ جب تک گن مین بینک کے سامنے تعینات نہیں کردیئے جاتے یا وہ حملہ کرکے کسی کی زمین یا جانوروں پر قبضہ نہیں کرلیتے، پھر ہنگامے شروع ہوسکتے ہیں۔ پھر ٹرین کی سیٹی سنائی دی اور وہ دھواں چھوڑتی آتی ہوئی دکھائی دینے لگی۔ لوگ اشتیاق سے آگے بڑھتی ریل گاڑی کو دیکھنے لگے۔ ایملی نے میریان کا ہاتھ تھام کر اسے قریب کرلیا۔ ولیم نے چھوٹے کو کندھے پر بٹھا لیا اور بڑے کا ہاتھ پکڑ لیا۔ دھویں کا ایک بڑا بادل چھوڑتے ہوئے ریل گاڑی کی رفتار کم ہونے لگی۔ انجن نے دو مرتبہ سیٹی بجائی اور ٹرین ایک جھٹکے سے رک گئی۔ کنڈیکٹر نے باہر نکل کر سیڑھی اس کے ساتھ لگائی۔ دھواں ابھی تک فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ کچھ عام مسافر آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے باہر آنے لگے۔ سبھی حیرت سے باہر جمع ہجوم کو دیکھ رہے تھے جو ایک غیر معمولی بات تھی۔ پھر ایک شخص سیاہ لباس میں باہر نکلا۔ چند لمحے ٹھہر کر اس نے ہجوم پر نگاہ ڈالی اور اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ وہ لمبا، اونچا اور تنومند شخص تھا اور اس کے پہلو میں دو پستول لٹک رہے تھے۔ پھر اس کے بعد ایک کے بعد ایک ایسا ہی سیاہ یونیفارم پہنے ہوئے گن مین باہر نکلنے لگے۔ ان کے چہروں پر سنگین مسکراہٹ تھی اور ان کی آنکھیں بے تاثر تھیں جیسے قاتلوں کی ہوتی ہیں۔ پورے بارہ ہیں۔ ولیم نے اپنے کسی ساتھی سے کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ بینک خطرہ محسوس کررہا ہے۔ اور اسے کرنا بھی چاہیے۔ اس کا ساتھی تلخ لہجے میں بولا۔ مجمعے پر خاموشی طاری تھی۔ تمام چہرے اسی جانب مڑے ہوئے تھے جس طرف وہ گن مین تھے۔ ایملی کو لگ رہا تھا جیسے یہ کسی پرانی فلم کا منظر ہے۔ گن مین جس طرف جارہے تھے، لوگ بھی آہستہ آہستہ ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہوگئے تھے۔ ایملی نے ولیم سے پوچھا۔ یہ لوگ کہاں جارہے ہیں اپنے گھوڑے لینے کے لیے۔ وہ بولا اور اس کی طرف پلٹ کر تشفی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔ گھبرائو مت ایملی یہ لوگ بھی انسان ہیں، کوئی اور مخلوق نہیں۔ وہ لوگ ایک جگہ اپنے گھوڑوں کے انتظار میں ٹھہر گئے تھے۔ ان کی بندوقوں کی نالیاں دور سے چمک رہی تھیں۔ ریل گاڑی کا دھواں ابھی تک فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ پٹریوں پر پہیوں کی رگڑ سے ہوا میں ایک عجیب سی بو پھیل گئی تھی۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 264 | https://www.urduzone.net/kanton-bhari-rah-main-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | رزند کی خواہش تو سبھی کرتے ہیں لیکن اچھے بیٹے صرف نصیب والوں کو ملتے ہیں۔ ناصر ہمارا اکلوتا بھائی تھا۔ باپ کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے خود مختار ہو کر پلا بڑھا اور پھر آوارہ ہوگیا۔ ماں بیٹے کی صورت دیکھ کر جیتی تھیں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ناصر نے کوئی فرمائش کی ہو اور والدہ نے پوری نہ کی ہو۔ اس بات پر ہم بہنیں خفا ہوجایا کرتیں کہ والدہ بیٹے کو ہم سے زیادہ چاہتی ہیں۔ وہ خود بھی مانتی تھیں کہ ناصر کی محبت میں ہماری حق تلفی کرجاتی ہیں۔ لیکن بیٹے کی محبت میں کمی لانا ان کے اختیار کی بات نہ تھی۔ ہم اس بات کے عادی ہوچکے تھے لیکن ماموں جان کو اپنی بہن کا بچوں کے ساتھ یہ امتیازی رویہ کھلتا تھا۔ وہ سمجھاتے آپا اولاد کے حقوق برابر ہوتے ہیں پھر آپ کیوں بچیوں پر لڑکے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جواب دیتیں۔ یہ میرے بڑھاپے کا سہارا جو ہے۔ انسان کچھ سوچتا ہے لیکن وقت نے کچھ اور طے کر رکھا ہوتا ہے۔ والدہ پر کسی کے سمجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا اور ماموں جان، نانا کی وفات کے بعد اپنے حصے کی کچھ پراپرٹی فروخت کرکے کینیڈا چلے گئے۔ وطن میں کوشش کے باوجود ان کو اپنی تعلیمی قابلیت کے باوصف ملازمت نہ مل سکی۔ وطن میں رہ کر معمولی آمدنی سے شاید وہ گزارہ تو کرلیتے لیکن امی جان اور ان کے چار بچوں کا خرچہ بھی انہی کو اٹھانا تھا، لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں اپنے وطن کو خیرباد کہنا پڑا۔ ان کے جانے سے والدہ بہت زیادہ اکیلی ہوگئیں، تاہم ناصر کے دل میں شادیانے بجنے لگے۔ کچھ ماموں کا ڈر تھا۔ تبھی وہ اسکول جاتاتھا جب وہی چلے گئے تو میرے بھائی کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ اس نے نویں کا سالانہ امتحان نہ دیا اور اسکول سے نکل بھاگا۔ ہمارے محلے میں ایک گھرانہ ایسا تھا جہاں چار لڑکے تھے اور چاروں آوارہ تھے۔ انہوں نے میرے بھائی کو آگھیرا اور اپنے چنگل میں پھنسالیا۔ والدہ گھر سے باہر نہ جاتی تھیں ہم بھی پردے کی پابند تھیں باہر کی سرگرمیوں کا پتا نہ تھا۔ ناصر کی بن آئی، ماموں کے پردیس سدھارتے ہی وہ محلے کے اس آوارہ گروہ کے نرغے میں آگیا جو چرس پیتے اور جوا کھیلتے تھے۔ اب ہمارے برے دن آگئے۔ والدہ گھر پر سلائی مشین چلا کر آمدنی کا چارہ کرتیں تو ہم ٹیوشن پڑھا کر تعلیم کا خرچہ جمع کرتیں ان حالات میں ناصر ہمارے سروں پر لٹکتی تلوار کی طرح تھا۔ وہ روز ہی رقم کا تقاضا کرتا اور والدہ سے زبردستی ہماری محنت کا ثمر چھین لے جاتا۔ ماموںنے کینیڈا جاکر ہم سے سال تک رابطہ نہ کیا اور یہ سال ہم پر قیامت بن کر بیتا۔ بالآخر ان سے رابطہ ہوا لیکن ماں نے بیٹے کے کرتوت پھر بھی بھائی کے گوش گزار نہ کئے کہ ان کی محبت اورشفقت میں کمی آجائے۔ ماموں نے کینیڈا میں قدم جمالئے تو باقاعدہ خرچے کی رقم بھجوانی شروع کردی۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا اور دو وقت کا چولہا باقاعدگی سے جلنے لگا۔ تاہم ناصر اور شیر ہوگیا اس کی وجہ سے گھر کا سکون برباد ہی رہا۔ ان دنوں ہم تینوں بہنیں کالج جاتی تھیں۔ تعلیم کے اخراجات ماموں اٹھاتے تھے۔ ہمیں اس امر کا شدت سے احساس تھا کہ والدہ ماموں کی محتاج ہیں جبکہ ہم لڑکیاں ان کے کندھوں کا بوجھ ہیں۔ والدہ اپنے بھائی پر تاعمر بوجھ نہ رہنا چاہتی تھیں مگر مجبور تھیں۔ کسی کو میکے کا آسرا ہوتا ہے کسی کو سسرال کا امی کے پاس یہ دونوں سہارے نہیں تھے۔ امی کے سسرال والے میرے والد کے اس جہاں سے رخصت ہوتے ہی کنارہ کش ہوگئے اور امی کے میکے والے سب انڈیا میں رہ گئے تھے۔ ایک ماموں ہی تھے جن کا انہیں آسرا تھا جب ماموں کا فون آجاتا ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔ وہ تمام دن خوش نظر آتیں ورنہ زیادہ تر افسردہ رہا کرتی تھیں۔ دراصل ناصر کی بے راہ روی ان کو مارے ڈالتی تھی۔ وہ راتوں کو غائب رہتا، ماں اس کے غم میں گیلی لکڑی کی طرح سلگتی رہتی۔ بیٹے پر کنٹرول ان کے بس کی بات نہ تھی وہ جوں جوں بڑا ہو رہا تھا اس کی طرف سے ملنے والے دکھ بھی پھیلتے جارہے تھے وہ اس دکھ سے بن جل کی مچھلی کی طرح تڑپتی تھیں۔ میں اور منجھلی بہن محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتیں کچھ بچے شام کو گھر آجاتے اور کچھ کو ان کے گھر جاکر پڑھانا ہوتا۔ یہ سب ہمارے پرانے پڑوسی تھے اور حالات سے واقف تھے۔ تبھی ہم سے حسن سلوک رکھتے اور اپنی بیٹیوں جیسا جانتے کبھی کبھی ہمارے شاگردوں کی مائیں بے حد افسوس کرتیں کہ کاش تمہارے والد زندہ ہوتے یا پھر بھائی ہی کسی کام کا ہوتا تو تمہیں در در چند روپوں کی خاطر نہ جھانکنا پڑتا۔ لوگوں کی باتیں سن کر دل پر گہرا اثر ہوتا اور ہم بہنیں آپس میں عہد کرتیں کہ تعلیم حاصل کرکے ضرور کچھ بنیں گی تاکہ والدہ کو ماموں کی محتاجی سے نجات مل جائے اور وہ سکون سے جی سکیں۔ بے شک ہمارے ماموں بہت اچھے انسان تھے لیکن ہر انسان کی اپنی بھی زندگی ہوتی ہے۔ اسے اپنی خوشیاں حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے جبکہ ہمارے ماموں نے تو ہماری خاطر ابھی تک شادی بھی نہیں کی تھی۔ ناصر سے وابستہ امی جان کی تمام امیدیں وقت کے ساتھ ساتھ خاک میں ملتی جاتی تھیں۔ سب چاہتے تھے کہ ماں اور بہنوں کا احساس کرے اور سدھر جائے مگر وہ نہ سدھرا۔ یونہی کئی برس گزر گئے۔ ہم تینوں بہنوں نے کالج کی تعلیم مکمل کرلی اور ناصر بائیس برس کا جوان ہوگیا۔ ایک دن کینڈا سے ماموں کا فون آیا کہ نجو آپا میرا پردیس سے دل بھر گیا ہے۔ یہاں بالکل اکیلا ہوں، غیر قوم میں دل نہیں لگتا۔ تمہاری اور تمہارے بچوںکے خیال سے کمانے نکلا تھا کہ اتنا کمالوں کہ میرے یتیم بھانجا، بھانجیاں تعلیم مکمل کرلیں۔ ماشا اللہ اب وہ بھی بڑے ہوچکے ہیں۔ ارادہ کیا ہے کہ کینیڈا کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ کے لئے وطن آجائوں۔ میں نے یہاں شادی کرلی ہے، بیوی پاکستانی ہے اور وطن آنا چاہتی ہے۔ والدہ نے خوش ہو کر کہا۔ بھائی اس دن کا میں بے چینی سے انتظار کررہی تھی۔ میری زندگی کا سب سے زیادہ خوشیوں بھرا دن وہی ہوگا جب تم وطن لوٹ کر آئو گے۔ ماموں جان نے آنے کا عندیہ دے دیا۔ امی جان نہال تھیں۔ شکرانے کے نفل ادا کرتی تھیں۔ کہتی تھیں صد شکر کہ میرا بھائی واپس آرہا ہے۔ اب بے آسرا نہ رہوں گی کوئی تو اپنا ہوگا۔ ہم بھی خوش تھے کہ ماموں ممانی اور ان کے بچے ہمارے ساتھ رہیں گے۔ پاکستان آتے ہی ماموں نے ہمارے گھر کے قریب پلاٹ خرید کر مکان بنوالیا۔ ان کے تین بچے تھے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا جس کا نام نایاب تھا۔ وہ پانچ سال کا تھا ماموں کے تینوں بچے انگلش بولتے تھے۔ وہ اردو بالکل نہ جانتے تھے۔ وہ تینوں ہمارے پاس روزانہ اردو پڑھنے آنے لگے۔ ہم ماموں کے بچوں سے پیار کرتے تھے۔ ممانی ہم سے خوش تھیں یوں بھی اچھی فطرت کی تھیں۔ امی کا خیال رکھتیں، ہم ان سے اپنے دکھ سکھ بانٹ سکتے تھے۔ جہاں ہم اپنوں کے آنے پر خوش تھے وہاں ناصر بھائی کے برے اعمال کا بوجھ بھی دلوں پر دھرا تھا۔ شروع میں ماموں کو علم نہ ہوا کہ ناصر کو جوا کھیلنے کی لت پڑ گئی ہے اسے جیب خرچ دیتے اور وہ جوئے میں ہار کر آجاتا۔ امی اپنے بھائی کو کچھ نہ بتاتیں کہ بیٹا ماموں کی نظروں سے نہ گر جائے، تاہم محلے والوں سے ملنا جلنا ہوا انہوں نے ان کے کانوںمیں کچھ باتیں ڈال دیں اور میرے ماموں بھانجے کی طرف سے سوچوں کے الائو میں گر گئے۔ ماموں نے بہت کوشش کی کہ ناصر راہ راست پر آجائے۔ اس کو اپنے ہمراہ کام پر بھی لگانا چاہا مگر وہ ان کے قابو میں نہ آیا۔ بالآخر تھک ہار کر انہوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور جیب خرچ کے طور پر جو رقم دیتے تھے بند کردی۔ اب ان کو تمام صورتحال کا اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا۔ نانا کے ترکے سے کچھ جائداد والدہ کے حصے میں آئی تھی۔ ماموں نے پراپرٹی فروخت کی تو امی جان کے حصے میں جو رقم آئی وہ انہوںنے بینک میں جمع کرادی تھی۔ والدہ سے کہا کہ یہ تمہارا حق ہے جب چاہو رقم نکلوا سکتی ہو۔ امی بولیں فی الحال اپنے پاس رہنے دو مجھے ضرورت نہیں ہے۔ آگے بیٹیوں کی شادیاں کرنی ہیں تب ضرورت ہوگی اور یہ رقم کام آئے گی۔ اتفاق سے ناصر نے امی اور ماموں کی یہ گفتگو سن لی۔ اس نے والدہ سے اس رقم کا تقاضا کرنا شروع کردیا۔ ماموں کو پتا چلا کہ رقم کے لئے ماں کو تنگ کررہا ہے انہوں نے اسے بلا کر کہا۔ ناصر تم نالائق نکلے اگر تم ایک ذمہ دار انسان ہوتے تو میں خود اس سرمائے کو تمہارے حوالے کردیتا تاکہ تم کوئی کاروبار وغیرہ کرتے لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ نہیںچاہتا کہ میرے باپ کا ترکہ تم جوئے میں ہار جائو۔ ہم تم پر بھروسہ نہیں کرسکتے، لہٰذا اس رقم کا خیال دل سے نکال دو۔ جس دن تم خود کو نیک اور ذمہ دار کروگے ہم یہ رقم تم کو دے دیں گے۔ تمہاری تین جوان بہنوں کا بیاہ بھی کرنا ہے یہ رقم ان کے کام آئے گی۔ ناصر کو ماموں کا یہ کہنا شاق گزرا۔ اسے کسی پہلو قرار نہ تھا۔ جواری جب تک گھر کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادے اسے چین نہیںآسکتا۔ اب وہ رات دن اسی خیال میں رہنے لگا کہ کسی طرح ماموں سے یہ رقم نکلوالوں۔ اللہ جانے اس کے مجرمانہ ذہن میں کیسے کیسے منصوبے آتے ہوں گے اور اپنے جیسے دوستوں سے وہ ان منصوبوں کو شیئر بھی کرتا ہوگا۔ ایک دن جب ماموں چھٹی کے باعث گھر پر تھے، ناصر آخری کوشش کے طور پر ان کے پاس گیا اور کہا کہ امی جان کی جو رقم آپ کے پاس ہے وہ مجھے دے دیں کیونکہ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے اپنی زندگی بنانا چاہتا ہوں۔ ناصر یہ سرمایہ تمہاری ماں کی امانت ہے میں اسی کو دوں گا اور مناسب وقت پر دوں گا۔ اچھا بتائو کہ تمہیں اس رقم کی کیوں ضرورت ہے۔ مجھے مطمئن کردو تو شاید میں اپنی رقم سے اس ضرورت کو پورا کردوں۔ ناصر کو جوئے کے لئے رقم چاہیے تھی وہ ماموں کو کیا بتاتا۔ ان کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا، تب ماموں غصے میں آگئے اور بولے۔ برخوردار رقم کا یہ معاملہ تم سے متعلق نہیں ہے اور نہ یہ تمہارے والد کا چھوڑا ہوا ترکہ ہے۔ یہ میرا اور میری بہن کا معاملہ ہے میں جانوں اور آپا جان جانیں، آئندہ تم اس بارے میں کبھی مجھ سے بات مت کرنا۔ ناصر کو اس جواب پر سخت غصہ آیا۔ وہ پیچ و تاب کھاتا چلا گیا۔ تمام رات غصے سے کھولتا آنگن میں ٹہلتا رہا۔ ہم میں سے کسی نے اس کے منہ لگنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ جب کبھی وہ جوئے میں ہار کر آتا ایسے ہی بے قراری سے رات بھر آنگن میں ٹہلتا تھا۔ اس اثنا میں ماموں ہمارے گھر نہ آسکے ان کو کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا وہ چلے گئے۔ امی کو علم نہ ہوا کہ ناصر رقم مانگنے گیا تھا اور انہوںنے انکار کردیا تھا۔ ناصر نے اپنے بدقماش دوستوں کو ساتھ ملا کر ماموں کے بیٹے نایاب کو اغوا کرکے ماموں سے تاوان مانگنے کا منصوبہ بنالیا اور ایک دن جبکہ نایاب ہمارے گھر سے ٹیوشن پڑھ کر اپنے گھر جانے کے لئے نکلا۔ ناصر کے ایک دوست نے بہلا پھسلا کر بچے کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھالیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ اللہ جانے وہ اسے کہاں لے گئے۔ ماموں شام کو اسلام آباد سے لوٹے تو ممانی نے کہا۔ نایاب ٹیوشن پڑھ کر ابھی تک نہیں لوٹا ہے۔ آپا کے گھر جاکر لے آئیے۔ چونکہ ہم ماموں کے بچوں کو بہت پیار کرتے تھے اکثر دیر تک ہمارے پاس رہ جاتے تھے۔ ماموں نے گھر آکر نایاب کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ اسے یہاں سے گئے کافی دیر ہوچکی ہے لیکن وہ گھر تو نہیں پہنچا۔ ماموں کا گھر زیادہ دور نہ تھا۔ سامنے و الی لین میں تھا۔ بس چند قدم کا فاصلہ تھا۔ ان کے بچے اپنے گیٹ سے دوڑ کر ہمارے گھر آجاتے تھے۔ ہمارے گھر کے آگے ڈیوڑھی تھی اور دروازہ کھلا رہتا تھا۔ نایاب کے بارے میں سن کر ہم بھی متفکر ہوگئے۔ سامنے میدان تھا جہاں محلے کے بچے اکثر کھیلتے تھے۔ کہیںمیدان میں نہ چلا گیا ہو۔ امی نے کہا۔ ماموں فوراً ادھر گئے وہاں بھی نہ تھا، اب وہ پریشان ہوگئے تو میں اور معظمہ بچوں کا پتا کرنے محلے کے گھروں میں گئیں۔ ناصر کی طرف کسی کا دھیان نہ گیا کیونکہ اسے دو دن ہوچکے تھے گھر سے گئے، وہ واپس ابھی تک نہ آیا تھا۔ یہ اس کا معمول تھا، سبھی نے اسے اس کے حال پر چھوڑ رکھا تھا۔ شام سے رات ہوگئی۔ ماموں بیٹے کی تلاش میں پھرتے رہے۔ ممانی پریشان رات کے دس بجے ہمارے گھر آئیں۔ اسی وقت ناصر بھی آپہنچا۔ تب وہ اس سے بولیں۔ ناصر بیٹے، نایاب کا ابھی تک پتا نہیںہے تم اسے ڈھونڈو۔ ممانی آپ فکر نہ کریں ابھی دیکھتا ہوں۔ جہاں کہیں ہوگا ڈھونڈلائوں گا۔ ہم سب رو رہے تھے۔ امی سجدے میں گری تھیں۔ بار بار خیال آرہا تھا کہ کہیں ادھر کی گلی میں نہ نکل گیا ہو اور پھر رستہ بھول گیا۔ کیا خبر کسی نے پکڑ لیا ہو۔ یہ رات ہم پر قیامت کی طرح گزری۔ صبح ناصر آیا بولا۔ سارا شہر چھان مارا ہے۔ کھیتوں کی طرف بھی دیکھ آیا ہوں اس کا کہیں پتا نہیں چلا۔ نالے میں نہ گر گیا ہو۔ یہ سن کر ممانی زور زور سے رونے لگیں۔ اب وہ ہچکیوں سے رو رہی تھیں اور ناصر تسلیاں دے رہا تھا۔ فکر نہ کریں ممانی وہ ضرور مل جائے گا۔ ماموں پولیس اسٹیشن سے منہ لٹکائے واپس آگئے۔وہ بھی رو رہے تھے جیسے کسی نے جسم سے روح کشید کرلی ہو۔ تبھی ان کے فون کی گھنٹی بج گئی۔ کسی نے ہیلو کہا اور پھر بچے کی آواز سنا کر تاوان کی بات کی۔ ماموں نے فوراً حامی بھرلی اور پوچھا رقم کہاں دی جائے۔ فون پر ہدایت ملی آپ خود نہیں بلکہ رقم اپنے کسی رشتے دار کے ہاتھ میں دیں، وہی ہمیں پہنچانے آئے۔ آپ کا بھروسہ نہیں کیا خبر ہمیں پکڑوادیں۔ یاد رکھنا اگر ایسی کوئی کوشش کی تو آپ کا بچہ جان سے جائے گا۔ ماموں کا چہرہ سفید اور لب خشک تھے۔ انہوںنے ہمت جمع کرکے جواب دیا۔ بچہ صحیح سلامت چاہیے جو کہو گے مانوں گا۔ ماموں پولیس میں رپورٹ لکھوا چکے تھے، پولیس اپنے طور پر الرٹ ہوچکی تھی۔ انہوںنے ماموں کی فون کالز ٹیپ کرنے کا بھی بندوبست کرلیا تھا۔ انہوں نے از خود کارروائی کرنے کی تیاری کرلی۔ ماموں نے مطلوبہ رقم بریف کیس میں ناصر کے حو الے کردی اور خود کچھ فاصلے تک اس کے ساتھ گئے۔ پھر جہاں انہیں رکھنے کی اغوا کنندگان نے ہدایت کی تھی وہاں رک گئے۔ انہوں نے پولیس کو اغوا کاروں کے فون کے بارے میں خوف کے باعث اطلاع نہیں دی تھی لیکن پولیس اپنے طور پر عین اس وقت وہاں پہنچ گئی جہاں ناصر سے اغوا کار تاوان وصول کرنے آرہے تھے۔ یوں انہوں نے ان سب کو تحویل میں لے لیا۔ صد شکر کہ وہ نایاب کو بھی تحویل میں لینے میں کامیاب ہوگئے اور ناصر کو گواہی کے لئے اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھالیا۔ جب ان تاوان طلب کرنے والوں کو پولیس والوںنے اپنے طریقے سے سچ اگلوایا تو انہوں نے بتادیا کہ اصل منصوبہ کار خود اس بچے کا ماموں زاد بھائی ناصر ہے جس نے ہم سے تعاون کی درخواست کی تھی اور موٹی رقم کا لالچ دیا تو ہم اس کے ساتھ ہوگئے۔ ان کے بیانات پر ماموں کو یقین نہ آرہا تھا۔ ان میں سے ایک بدمعاش نے ثبوت کے طور پر وہ گفتگو جو ٹیپ شدہ تھی پولیس کے حوالے کی جس میں نایاب اپنے ماموں کے معصوم لخت جگر کو اغوا کرنے کا منصوبہ بتا رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں بچے کے سامنے نہیں آئوں گا ورنہ یہ مجھے پہچان کر والدین کو آگاہ کرسکتا ہے۔ مجھے پس پشت رہنا ہوگا۔ بچے کو تم نے گھر کے باہر سے اٹھانا ہے البتہ رقم میں لائوں گا اور پھر بچہ تم میرے حوالے کرو گے۔ اب شک کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔ ناصر ہی کا یہ کارنامہ تھا اور ناپختہ ذہن کا منصوبہ اب طشت ازبام ہوچکا تھا۔ والدہ یہ سب جان کر بے ہوش ہوگئیں۔ ناصر پولیس کی تحویل میں تھا اور ہم سب صد شکر ادا کررہے تھے کہ نایاب زندہ سلامت واپس مل گیا تھا۔ اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا تھا۔ یہ بھی میرے ماموں ممانی کی اچھی قسمت تھی ورنہ نشہ کرنے اور جوا کھیلنے والے بے ضمیر لوگوں سے کچھ بعید نہ تھا کہ اپنی لتوں کو پورا کرنے کی خاطر بالآخر ان کی غیرت اور حمیت مرجاتی ہے اور وہ بے ضمیر ہوکر کچھ بھی کرگزرتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ماموں ممانی اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ انہوں نے جلد جلد ہم دو بڑی بہنوں کی شادیاں دو سگے بھائیوں سے کرادیں اور چھوٹی بہن کو والدہ کے پاس چھوڑ کر واپس کینیڈا چلے گئے اور اپنا نیا مکان کرائے پر اٹھادیا۔ امی جان سے کہا۔ آپا اب بس اتنا ہی کرسکتا ہوں کہ اس مکان کا کرایہ آپ لیتی رہیں۔ جب تک چھوٹی بیٹی کا بیاہ نہیں ہوجاتا۔ پھر اپنی کسی بیٹی کے گھر شفٹ ہوجانا۔ داماد اگر نیک ہوں تو وہ برے بیٹوں سے اچھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا میں نے اپنی ساس سے کہہ کر چھوٹی کا رشتہ بھی اپنے شوہر کے رشتے داروں میں ایک اچھے گھرانے میں کروادیا اور میرے شوہر امی جان کو سمجھا بجھا کر ساتھ لے آئے۔ ناصر جیل میں تھا اس کے کیس کی پیروی کوئی نہ کررہا تھا۔ اولاد اچھی ہو یا بری ماں کے دل سے نہیں جاتی۔ امی جان دن رات ناصر کی خاطر روتی تھیں، تب میں نے اپنے وکیل جیٹھ کی منت سماجت کرکے ناصر کی مقدمے سے گلوخلاصی کروادی، مگر اس کی رہائی کے بعد بھی والدہ کو چین نہ تھا۔ ہر وقت کہتی تھیں تیرے باپ کے گھر میں تالا پڑا ہوا ہے مجھے اپنے گھر جانے دو۔ اس کے باپ کا گھر میرے بیٹے کا ایک ٹھکانہ تھا۔ گھوم پھر کر آخر اپنے گھر جاتا تھا اب نجانے کس قمار خانے پڑا ہے۔ امی کو کافی سمجھایا گیا کہ بیٹے کا خیال دل سے نکال دیں اور اب باقی بڑھاپا آرام سے ہمارے ساتھ رہ کر گزاردیں۔ میں امی جان کا بہت خیال رکھتی تھی۔ ان کو پھولوں کی طرح رکھا ہوا لیکن انہیں آرام نہ ملا۔ انہیں اپنے کانٹوں بھرے گھر میں ہی آرام نظر آتا تھا۔ ایک دن ضد کرکے وہ گھر چلی گئیں۔ جانتی تھیں انہیں مرحوم شوہر کے گھر کا تالا نہیں کھولنا بلکہ بیٹے کے لئے اپنا در کھلا رکھنا ہے تاکہ ناصر بے ٹھکانہ نہ ہو ایسا ہی ہوا، اپنے بھائی کے جرم کو معاف کرکے اسے گلے لگالیا کہ وہ ان کا لخت جگر تھا۔ ماموں اب بھی کبھی کبھی مجھے فون کرتے تھے لیکن وہ ناصر کی وجہ سے اب امی جان سے دور ہوچکے تھے۔ پہلے کی طرح بہن کی خبر گیری نہ کرتے تھے۔ ہاں مجھے ضرور تلقین کرتے کہ تمہاری ماں کا کوئی نہیں ہے اسے بڑھاپے میں بے آسرا مت چھوڑ دینا۔ تم تینوں بہنیں اپنی ماں کی خبر رکھنا۔ بیٹے برے ہوں تو پھر بیٹیاں ہی بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارا ہوتی ہیں۔ اسی لئے بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے رحمت کہا ہے۔ اگرچہ بیٹے اس کی نعمت ہوتے ہیں لیکن انسان نعمت سے محروم ہوجاتا ہے مگر رحمت سے نہیں۔ ماموں کی اس نصیحت کو میںنے گرہ میں باندھا۔ جب تک والدہ زندہ رہیں ان کی دیکھ بھال میں غفلت نہ کی۔ افسوس ان کی وفات کے بعد ناصر سے رابطہ نہ رہ سکا۔ اللہ جانے اب ہمارا بھائی کس حال میں ہے۔ ط جام پور | null |
null | null | null | 265 | https://www.urduzone.net/aise-bhe-hote-hain-bhai-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | حسنہ کی ماں گھر میں اکیلی تھی اور بیمار تھی، اسے پانی دینے والا بھی کوئی نہ تھا، جبکہ فہد کئی دنوں سے نہیں آیا تھا۔ صبح بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکلی تھی۔ حسب معمول اس کا سوکھا منہ دیکھ کر آج بھی میں نے کالج کی کینٹین سے اسے ناشتہ کرایا۔ تمام وقت وہ کھوئی کھوئی رہی۔ سمجھ گئی حسنہ کو کوئی نئی پریشانی لاحق ہے، تاہم اس نے مجھے اپنی پریشانی سے آگاہ نہ کیا۔ کالج سے واپسی پر ہم ساتھ جاتی تھیں، محلّہ ایک ہی تھا۔ پہلے اس کا گھر آ جاتا۔ آج مجھے خدا حافظ کہتے ہوئے حسنہ نے کہا۔ فائزہ میں تمہارے بھائی کو ٹیوشن پڑھانے نہیں آ سکوں گی، امّی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کئی روز سے نہ آنے کا کہہ کر شرمندہ ہوں۔ کیا کروں مجبوری ہے۔ کوئی بات نہیں حسنہ تم پہلے اپنی ماں کا خیال کرو، باقی باتیں بعد کی ہیں۔ وہ اپنے گھر چلی گئی اور میں سوچتی رہ گئی۔ آخر ایسا کب تک بیچاری حسنہ کی بھی کوئی زندگی ہے۔ یہ کوئی سعد گھڑی نہ تھی، جوں ہی وہ گھر میں داخل ہوئی، ایک بری خبر اس کی منتظر تھی۔ اس کی ماں نیم مردہ سی لیٹی تھی۔ بیٹی کو دیکھا تو بے قراری سے اٹھ بیٹھی۔ اس سے پہلے کہ لب کھولتی حسنہ نے سوال کیا۔ آج بھی تیرا بیٹا نہیں آیا کوئی مسئلہ نہیں۔ ماں یہ اس کا معمول ہے، کیوں اس کے انتظار میں بے قرار ہوتی ہو، پریشان مت ہو، آ جائے گا۔ یہ بات نہیں ہے، واقعہ کچھ اور ہے۔ آج ہمارے در پر پولیس والے آئے تھے، وہ تیرے بھائی کا پوچھ رہے تھے، بس تب ہی سے مجھے ہول اٹھ رہے ہیں۔ ماں کی بات سن کر وہ بھی بے دم سی ہو کر چارپائی پر ڈھے گئی۔ کچھ دن پہلے ہی تو وہ ایک سیٹھ کے پاس ملازم ہوا تھا، تب ہی سے گھر میں کم آتا تھا۔ نہ جانے کیسی ملازمت تھی اس کی، تنخواہ کا پتا تھا اور نہ کام کا ماں اور بہن نے پوچھا تو جواب دیا۔ تنخواہ تین ماہ بعد ملے گی۔ اس سے آپ کو کیا غرض، میں جو بھی کروں، آپ کو تو پیسے چاہئیں مل جائیں گے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ پڑوس سے خالہ چمن آ گئیں۔ وہ دبے لفظوں یہ بتانے آئی تھیں کہ تمہارا لڑکا کوئی غلط کام کرتا ہے، تب ہی پولیس ڈھونڈ رہی ہے، اسے گرفتار کرنے کے لئے۔ ابھی تھوڑی سی بات بتائی تھی کہ ماں نے خالہ چمن کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ خوفزدہ ہو کر خاموش ہوگئیں، لیکن ایک ادھورے جملے سے ہی حسنہ سمجھ گئی کہ وہ کیا بتانے آئی تھیں۔ خدا کرے یہ خبر غلط ہو، وہ پہلے ہی کالج سے پریشان ہو کر آئی تھی۔ آتے ہی اس عجیب سی صورتحال سے دل ڈوب گیا۔ ماں کو احساس ہوا کہ بیٹے کی چنتا میں بیٹی کے بارے سوچا ہی نہیں جو صبح بغیر کچھ کھائے کالج گئی تھی اور اب ذرا دیر بعد اسے ٹیوشن پڑھانے جانا تھا۔ کچھ کھا لو بیٹی، صبح سے بھوکی ہو۔ بھوک مر چکی ہے ماں۔ یہ کہہ کر وہ کچن میں چلی گئی۔ ماں کی خاطر صبح اس نے ناشتے میں جو تھوڑا سا دلیہ بنا کر رکھا تھا، وہ ابھی تک ویسے ہی دھرا تھا۔ گویا ماں نے بھی کچھ نہ کھایا تھا۔ اس نے جلدی سے ایک کپ دودھ ڈال کر دلیہ گرم کیا اور پیالے میں ڈال کر ماں کے سامنے رکھا اور کہا۔ اسے کھا لو ماں، تم بھی سویرے سے یوں ہی پڑی ہو، اسے کھایا کیوں نہیں دلیے سے جی بھر گیا ہے، اب تو ایک چمچہ بھی حلق سے نہیں اترتا۔ وہ جلدی سے مڑی اور چاول پکانے لگی۔ دو، چار لقمے زبردستی ماں کو کھلائے کیونکہ دوا کا وقت ہوگیا تھا۔ چاول کھا کر ماں لیٹ گئی اور وہ کپڑے بدلنے چلی گئی۔ چند منٹ گزرے تھے کہ در پر دستک سنائی دی۔ وہ فہد کا انتظار کر رہی تھی، جو ہفتے بھر سے گھر نہ لوٹا تھا۔ وہ سمجھی کہ بھائی آ گیا ہے، دوڑ کر گئی مگر یہ فہد نہ تھا۔ سامنے ایک اجنبی کھڑا تھا۔ آپ کون بے اختیار حسنہ کے منہ سے نکلا۔ میں احسان صاحب کا ڈرائیور ہوں۔ اس نے گاڑی میں بیٹھے شخص کی طرف دیکھ کر کہا۔ یہ آپ کے بھائی کے بارے میں بتانے آئے ہیں۔ فہد آپ کا بھائی ہے نا جی اس نے دل تھام لیا۔ پھر سیٹھ کی جانب دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ حسنہ کی جھلک دیکھ کر گاڑی سے اتر کر آ گیا۔ فہد سے آپ کا کیا رشتہ ہے وہ بھائی ہے میرا۔ تمہارا بھائی گرفتار ہوگیا ہے۔ وہ جیل میں ہے لیکن تم فکر مت کرو، میں اس کی ضمانت کروا دوں گا۔ اپنی والدہ سے کہنا کہ وہ اسے سمجھا دیں، آئندہ میں ذمے دار نہ ہوں گا۔ سیٹھ نے جیب سے بٹوا نکالا اور نوٹوں کی گڈّی آگے بڑھا کر بولا۔ یہ فہد کی تنخواہ ہے، اس نے بھجوائی ہے۔ حسنہ نے ہاتھ آگے بڑھا کر رقم لی اور ماں کو نوٹ دے کر ساری بات بتائی۔ ماں رونے لگی اور بولی۔ ایسی تنخواہ نہ ملتی تو اچھا تھا، جس کے کارن بیٹا جیل چلا گیا۔ ماں کیسی بات کرتی ہیں، تنخواہ کا جیل جانے سے کیا تعلق تعلق ہے، ورنہ یہ سیٹھ خود ہمارے دروازے پر نہ آتا۔ آئندہ تم در پر مت جایا کرو، میں خود جائوں گی۔ ماں تمہیں اٹھنے میں دقّت نہ ہو اس لئے میں چلی گئی، کیا ہوا، پہلے بھی تو جاتی رہی ہوں۔ ہاں مگر اب نہ جانا۔ ماں تم بھی کتنی وہمی ہو، ہر دم اندیشوں میں ڈوبی رہتی ہو۔ تو ان باتوں کو نہیں سمجھتی۔ تو نے اس اجنبی سے بات کیوںکی اور رقم بھی لے لی، مجھے کیوں نہ بلا لیا ماں کیوں نہ لیتی آخر بھائی کی تنخواہ لایا تھا وہ۔ فہد نے تین ماہ اس کی نوکری کی ہے۔ کیا ہمیں رقم کی ضرورت نہیں ہے یہ میرے بھائی کی محنت کی کمائی ہے۔ ماں کے اندیشے درست تھے، وہ جہاں دیدہ خاتون تھیں، ایک جوان بیٹی کی ماں تھیں، جانتی تھیں کہ لوگ کسی جواں سال سراپے سے کیسی خواہشات وابستہ کر لیتے ہیں۔ حسنہ نادان تھی۔ وہ سیٹھ کے سنجیدہ چہرے میں چھپی شیطانی مسکراہٹ نہ دیکھ سکی تھی۔ دو دن ان ماں، بیٹی پر قیامت کے گزرے۔ حسنہ کالج بھی نہیں آئی۔ میں اس کے لئے کافی پریشان تھی۔ تیسرے دن اس کا پتا کرنے گئی۔ ابھی وہاں بیٹھی تھی کہ اس کا بھائی آ گیا۔ یہ اس کے لئے جتنا پریشان تھیں، وہ نہیں تھا۔ وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا جیسے جیل سے نہیں کہیں سے سیر و تفریح کر کے آ رہا ہو۔ ماں، بیٹی کی تو رو رو کر آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں اور وہ کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ یا اللہ کیا ماجرا ہے ابھی میں ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ اس نے ماں سے کہا۔ماں ہمارے نصیب جاگ اٹھے ہیں، سیٹھ نے حسنہ کو پسند کر لیا ہے۔ کیا بک رہا ہے بے شرم۔ بہن کے بارے میں ایسی بات کہتے تجھے شرم نہیں آئی۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ماں۔ اس میں شرم کی کیا بات ہے جس گھر میں لڑکیاں ہوں وہاں رشتے تو آتے ہیں۔ اگر سیٹھ نے حسنہ کا رشتہ مانگ لیا ہے تو کونسی انوکھی بات ہے تیرا کیا خیال ہے کیا ساٹھ سالہ بڈھے سے رشتہ کرلیں۔ یہ بڈھا ہی رہ گیا ہے، میری بیٹی کے لئے۔ کیا عیب ہے ہماری حسنہ میں عیب ہوتا بھی تو اس بڈھے سے تو کبھی نہ بیاہتی۔ ہم کتنے غریب ہیں امّی،کیا آپ یہ بھول گئی ہیں۔ غربت عیب ہے ہاں غربت عیب ہے۔ فہد نے کہا جب تک ہم غریب ہیں عیب دار رہیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ سیٹھ کا رشتہ منظور کر لیں اور اس عیب سے جان چھڑا لیں۔ بہت امیر آدمی ہے، دولت سے ہمارا گھر بھر دے گا۔ میری بھی تقدیر بدل جائے گی۔ ہاں پھر تجھے کمانے کی فکر نہ رہے گی، یہی چاہتا ہے نا تو ماں، بیٹے کی باتیں سن کر دکھ سے رونے لگیں۔ میں اور حسنہ باورچی خانے میں تھیں۔ وہ چائے بنا رہی تھی، ماں کے رونے پر وہ ان دونوں کے درمیان پہنچ گئی۔ چپ ہو جائیں اس میں رونے کی کیا بات ہے بھائی کو دولت چاہئے۔ میری وجہ سے خوشیاں ملتی ہیں تو حاصل کر لینے دیں اسے خوشیاں۔ یہ سب ڈھونگ ہے بیٹی ایسے لوگ ہم جیسے غریبوں سے رشتے ناتے نہیں کرتے۔ سیٹھ نے اسے بیوقوف بنایا ہے۔ وہ ہماری مجبوریاں خریدنا چاہتا ہے۔ ہمارا اس کا کوئی جوڑ نہیں۔ ماں تم کتنی وہمی ہو، ہماری تکلیفوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ گھر آئی دولت کو ٹھکرانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بوڑھے سے بیٹی کا نصیب پھوڑ دوں تمہاری خوشی کی خاطر اس میں میری کیا خوشی ہے ماں، اپنے حالات بھی تو دیکھیں۔ حسنہ کے اچھے مستقبل کے لئے ہم پر ترس کھائیں۔ میں ان جیسے سیٹھوں کی کب تک غلامی کروں گا۔ اس کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ آپ کو کیا بتائوں کہ کیسے کیسے کام ان کی خاطر کرنے پڑتے ہیں۔ جو بھی کرو بیٹے مگر مجھے تم سے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ تم دولت کے لالچ میں اپنی بہن کی نیلامی کرو گے۔ پیسوں کی ضرورت نے تمہیں انسانیت سے گرا دیا ہے۔ یقین کرو میری بات کا یہ شادی نہیں ڈھونگ ہوگا، میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ ان کی باتیں سن کر میں حیرت زدہ تھی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کوئی بھائی اپنے مفاد کی خاطر اس قدر گرسکتا ہے وہ بہن کی شادی ایک بوڑھے دولت مند سے صرف روپے کی خاطر کرنا چاہتا تھا۔ حسنہ بت کی طرح ساکت کھڑی ماں، بیٹے | null |
null | null | null | 266 | https://www.urduzone.net/ache-bahoo-mileauratien-teen-kahaniyan/ | اپنی شادی کے ایک ہفتے بعد ساجد بھائی واپس راولپنڈی چلے گئے۔ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی کہ زیادہ چھٹی نہ مل سکتی تھی۔ جاتے ہوئے آزردہ تھے کہ اپنی دلہن کو ہمراہ نہ لے جاسکے۔ چچی نے بہو کو بیٹے کے ہمراہ جانے نہ دیا۔ کہا کہ پہلے وہاں رہائش کا بندوبست کرلو پھر آکے لے جانا۔ بھائی کا ارادہ تھا کہ دلہن کو گیسٹ ہائوس میں ٹھہرا لیں گے۔ مری گھوم آئیں گے، تب تک سرکاری گھر بھی منظور ہوجائے گا۔ یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ ایک ماہ بعد بڑی مشکل سے دو دن کی چھٹی پر وہ دوبارہ آئے اور بیوی سے کہا کہ تیاری کرو، میں تمہیں لینے آیا ہوں، رہائش کا انتظام ہوگیا ہے۔ وہ یہ بات کررہے تھے کہ نبیلہ باجی آگئیں۔ بتایا کہ ایک ہفتے کے بعد ان کا پتے کا آپریشن ہے۔ امی جان آپ کو اسپتال میں میرے ساتھ رہنا ہوگا۔ یہ سن کر انہوں نے بیٹے سے کہا۔ ساجد اس بار بھی دلہن تمہارے ساتھ نہ جاسکے گی، نبیلہ کا آپریشن ہو لینے دو، میں خود رمشا کو تمہارے پاس چھوڑ آئوں گی۔ ابھی بہو کا یہاں موجود رہنا ضروری ہے۔ میری غیر موجودگی میں کوئی تو گھر دیکھنے والا ہو۔ ماں کی بات سن کر بیٹے کا چہرہ بجھ گیا۔ وہ خوشی خوشی دلہن کو لینے آئے تھے لیکن بہن نے آپریشن کا بتا کر اڑچن ڈال دی۔ رمشا کے بغیر ساجد کا پنڈی میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ باہر کا کھانا کھا کر جی اوب چکا تھا، گھر کا سکون و آرام درکار تھا۔ یہ دو ماہ کی جدائی بہت شاق گزری تھی، مگر وہ چچی جان کے فرمانبردار بیٹے تھے، ان کے ہر حکم پر سر جھکا لیتے تھے۔ وہ رمشا کو ہمراہ لئے بغیر لوٹ گئے۔ رمشا افسردہ تھی مگر ساس کی حکم عدولی کی جرأت نہ تھی۔ پل پل گنتے جدائی کے یہ دن گزار لئے۔ دو ماہ مزید انتظار کرنا پڑا۔ اس بار ساجد آئے تو چچی بیمار پڑی تھیں۔ بھابی، ساس کی خاطر شوہر کے ہمراہ نہ جاسکیں۔ صاف کیوں نہ کہوں کہ ہماری چچی وہمی عورت تھیں۔ انہوں نے تیسری بار بھی رمشا کو پنڈی جانے نہ دیا۔ انہیں لگا کہ کراچی سے راولپنڈی بہت دور ہے۔ بہو وہاں اکیلے گھر میں کیسے رہے گی، جبکہ بیٹا روز صبح ڈیوٹی پر چلا جائے گا۔ وہ امی سے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔ چچا کا گھر پڑوس میں تھا۔ تقریباً روز ان کے ہاں جانا ہوتا تھا۔ مجھے رمشا بھابی سے باتیں کرکے اچھا لگتا۔ انہی دنوں باجی شدید بیمار پڑیں تو امی نے مجھے ان کے پاس بھجوا دیا۔ دو ماہ تک بھابی کے پاس نہ جاسکی۔ اس بار جب ملی تو رمشا دلگرفتہ نہ تھی۔ اس نے ایک بار بھی ساجد بھائی کا ذکر نہ کیا، جیسے انہیں صبر آگیا ہو۔ بھابی نے بتایا وہ اب پنڈی میں نہیں ہیں۔ ٹریننگ پر ایک سال کے لئے بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ میں نے کہا۔ تب تو اور یاد آتی ہوگی وہ بولیں۔ جب ہم ساتھ نہیں رہ سکتے تو یاد کرکے دکھی ہونے کا کیا فائدہ سوچ لیا ہے کہ قسمت میں ہمارا ساتھ بس اتنا ہی ہے دوچار دن کے لئے ملنا اور بچھڑ جانا۔ ان کی آنکھوں میں مایوسی کے بجھے ہوئے رنگ دیکھ کر دکھ ہوا۔ گھر آکر امی کو بتایا۔ وہ بولیں۔ تمہاری چچی ہے ہی ظالم عورت اس نے بہو کی شادی بیٹے سے نہیں بلکہ اپنے گھر کی چار دیواری سے کی ہے۔ اسے شوہر کے ہمراہ اس وجہ سے جانے نہیں دیتی کہ وہ یہاں رہ کر ساس، سسر اور دیور کی خدمت کرے۔ ہاں امی غریب گھر کی لڑکی ہے بچاری شاید اس وجہ سے یہ سب سہنے پر مجبور ہے اور بیٹا بھی تابعدار ہے، ورنہ آج کون بہو، ساس کا اتنا مان رکھتی ہے۔ کچھ عرصے بعد رمشا کے یہاں بچی پیدا ہوئی۔ ہم مبارکباد دینے گئے۔ رمشا سے زیادہ ہماری چچی خوش نظر آتی تھیں۔ بہو کی تعریفیں کرتے نہ تھکتیں کہ بڑی اچھی اور بھلی مانس ہے۔ شادی کے بعد ایک بار بھی میکے جانے کی ضد نہیں کی۔ اس کے ماں، باپ خود ہی آکر مل جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی بہت شریف ہیں، بیٹی کا گھر بسائے رکھنا چاہتے ہیں، تبھی میکے نہیں بلاتے۔ سچ ہے بیٹیاں اپنے گھر بھلی لگتی ہیں۔ امی نے ٹھنڈی آہ بھر کر چچی سے کہا تھا۔ ساجد بھائی کی ٹریننگ ختم ہوگئی، وہ لوٹ آئے۔ بچی کو دیکھا، بہت خوش تھے۔ کراچی سے ایک قریبی شہر تبادلہ کردیا گیا، رہائش بھی مل گئی، نوکرچاکر بھی تھے۔ اس بار جب ڈیوٹی پر جانے لگے تو اصرار کیا کہ بیوی اور بچی کو ساتھ لے جائیں گے۔ رمشا وہاں اکیلی ننھی منی بچی کو کیونکر سنبھال پائے گی شہر کون سا دور ہے۔ ساس کی بات سن کر رمشا نے ساجد سے کہا کہ آپ چلے جائیں۔ آپ ویک اینڈ پر تو آہی جائیں گے۔ امی ٹھیک کہتی ہیں۔ واقعی میں تنہا بچی کو سنبھال نہ پائوں گی۔ نینا ابھی بہت چھوٹی ہے اس بار خود رمشا نے ساجد بھائی کے ہمراہ جانے سے انکار کردیا تھا۔ ساجد بھائی اپنا سا منہ لے کر چلے گئے اور ننھی پوتی دادا، دادی اور چچا کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ یہ اب اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ نینا سے جدائی کا تصور ہی ان کو اداس کردیتا تھا۔ رمشا نے کلی طور پر بیٹی سے دل لگا لیا۔ اب وہ اس میں مگن رہنے لگی۔ کبھی بھولے سے بھی شوہر کے ہمراہ جانے کی بات نہ کرتی۔ کوئی پوچھتا تو کہتی۔ مجھے یہیں رہنا ہے، اب یہی میرا گھر ہے۔ ایک بار میں نے پوچھا بھی۔ رمشا بھابی کیا ماں، باپ آپ کو یاد نہیں آتے جواب دیا کہ آپ کے چچا اور چچی اب میرے ماں، باپ ہیں۔ میں اداس ہوتی ہوں تو مل جاتی ہیں۔ نینا سال بھر کی ہوگئی۔ اس خوبصورت گڑیا کی وجہ سے ان کے گھر میں بڑی رونق تھی۔ ساجد بھائی کو جب چھٹی ملتی، آجاتے۔ انہوں نے بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ چھوڑ دیا تھا۔ وہ کہتے۔ جیسے میرے والدین خوش میں ان کی خوشی میں خوش ہوں، آکر مل جاتا ہوں۔ واقعی میرے بیوی، بچے پردیس میں اکیلے نہیں رہ سکتے۔ اماں صحیح کہتی ہیں۔ نینا بہت پیاری بچی تھی۔ سارے گھر والے اس پر فدا تھے۔ وہ بھی دادا، دادی اور چچا کے بغیر نہ رہتی تھی۔ اپنے والد کے پاس جانے پر گھبرا جاتی جیسے کوئی اجنبی ہو۔ نینا اب ڈیڑھ سال کی ہوچکی تھی۔ پائوں پائوں چلتی تھی۔ ساجد بھائی کا تبادلہ لاہور ہوگیا۔ اس بار چھٹی پر آئے تو اصرار کیا کہ بیوی اور بچی کو ساتھ لے کر جائیں گے۔ سسر بیمار پڑے تھے، رمشا نے منع کردیا کہ ساتھ نہ جائوں گی۔ دادا کے لئے بچی اداس ہوجائے گی۔ اس کے دادا بیمار ہیں، مزید بیمار نہ پڑ جائیں۔ ساجد بھائی کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے ایک ماہ کی چھٹی لے لی اور کہا کہ وہ جب تک بیوی اور بچی کو ساتھ نہ لے جائیں گے، ڈیوٹی پر نہیں جائیں گے۔ عہدے کے لحاظ سے چھٹی لینا دشوار امر تھا، تاہم وہ اب ازدواجی زندگی کی کشمکش سے تنگ آچکے تھے۔ چاہتے تھے کہ بیوی اور بیٹی آنکھوں کے سامنے رہیں اور زندگی کی ناآسودگی سے نجات پا لیں۔ شادی کے بعد سے وہ بہت ڈسٹرب رہے تھے۔ ایک ماہ رہ کر وہ لوٹ گئے لیکن رمشا بھابی نہ گئیں۔ سنا کہ رمشا کی ضد کی وجہ سے وہ ان کو طلاق دے کر چلے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہ آتا تھا۔ میں اور امی ان کے گھر گئے۔ خیال تھا کہ طلاق کے بعد رمشا کو میکے بھجوا دیا گیا ہوگا لیکن وہاں عجیب معاملہ دیکھا۔ رمشا عدت کی مدت یہیں پوری کرے گی۔ چچی نے بتایا مگر طلاق کی وجہ نہ بتائی۔ عدت کی مدت تک ساجد بھائی گھر نہ آئے۔ چچی نے عذر پیش کیا کہ ہم نینا کے بغیر نہیں رہ سکتے لہٰذا رمشا میکے نہیں جائے گی۔ وہ اب ہماری پوتی کی خاطر یہیں رہے گی۔ رمشا عجیب لڑکی تھی کہ وہ شوہر سے زیادہ اس کے گھر والوں سے محبت کرتی تھی۔ ساس، سسر کو اپنے والدین کی طرح چاہتی تھی اور ان کا ادب کرتی تھی۔ اس کو شوہر کا گھر نہیں بلکہ ساس، سسر کا گھر زیادہ پیارا تھا۔ ایسی عورت ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی۔ رمشا کے بارے میں میری ماں کے لبوں سے اکثر یہ الفاظ نکل جاتے۔ جو ساس، سسر کی چہیتی ہو، ضروری نہیں شوہر کی بھی ہو۔ رمشا بلاشبہ ساس، سسر کی چہیتی تھی۔ انہوں نے اسے بے گھری کا صدمہ نہ پہنچایا۔ اس کے میکے والے بے حد غریب تھے۔ وہ ان کی پوتی کی پرورش ناز و نعم سے اس طرح نہ کرسکتے تھے، جیسے وہ دادا، دادی کے زیرسایہ پرورش پا رہی تھی۔ ان سب معاملات پر غور کرتے ہوئے محلے والے خاموش ہورہے۔ اگر ساجد بھی یہاں رہتا تو شاید کوئی اعتراض کرتا۔ چچی ہر ایک سے یہ کہتی تھیں کہ ہم رمشا کو بہو نہیں بیٹی سمجھتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، نبیلہ ان کی بہن کی بیٹی تھی جسے انہوں نے بیٹی بنایا تھا اور یہ حقیقت سارے خاندان کو پتا تھی۔ ساجد بھائی نے بھی شاید یہی سوچا کہ بجائے بچی اور اس کی ماں کو دربدر کرنے کے کیوں نہ وہ خود گھر اور گھر والوں سے ناتا توڑ لیں۔ کم ازکم اس کی بیٹی تو باپ، دادا کے گھر کی چھت تلے رہے گی۔ ہمارے پڑوس میں ہر طرح سے امن رہا۔ رمشا کو طلاق ہوئی بھی تو طلاق جیسا ہنگامہ نہ ہوا۔ سابقہ بہو کو گھر سے نکالا گیا اور نہ اس کو ایسے صدمات سے دوچار ہونا پڑا کہ جن سے عام عورتیں مطلقہ کا داغ لگ جانے کے بعد دوچار ہوتی ہیں۔ ایک سال اور گزر گیا۔ ایک روز چچی کے گھر سے رونے کی آواز سنائی دی۔ پتا چلا کہ ساجد بھائی اس دنیا میں نہیں رہے۔ امی نے کہا۔ کتنا بدنصیب تھا ساجد کہ گھر کی خوشی نصیب ہوئی اور وہ بھری جوانی میں اس دنیا سے چلا گیا۔ یہ ہمارے چچا اور چچی کے لئے ایک بڑا سانحہ تھا۔ صبر دینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے کہ جو موت کے دکھ سے دوچار کرتا ہے کہ موت اٹل حقیقت ہے، کسی کو اس سے مفر نہیں۔ رفتہ رفتہ چچا اور ان کے گھر والوں کو اللہ نے صبر دے دیا۔ اور اب وہ زین کے بیاہ کی باتیں کرنے لگے، کیونکہ اسے اچھی ملازمت مل گئی تھی۔ ان دنوں رمشا کی بچی سات برس کی ہوچکی تھی کہ ایک روز اس کے والدین اور بھائی آئے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم اپنی بیٹی کو لینے آئے ہیں۔ آپ کی پوتی بڑی ہوگئی ہے، ماں سے زیادہ آپ لوگوں سے ہلی ہوئی ہے۔ آپ بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بے شک نینا کو رکھ لیں لیکن ہم رمشا کو لے جائیں گے۔ یہ طلاق یافتہ ہے، اب ہم مزید اس کو آپ کے گھر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سن کر ساس نے دل تھام لیا۔ وہ پوتی کو خود سے جدا کرنا چاہتی تھیں اور نہ نینا کو اس کی ماں سے دور کرنا چاہتی تھیں۔ ماں، باپ نے بہت اصرار کیا تو رمشا بھی مجبور ہوگئی اور والدین کے ہمراہ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ ساس نے بادل نخواستہ اسے جانے دیا لیکن اس کے جانے کے بعد گھر میں اداسی چھا گئی۔ کچھ دن گزرے کہ ہماری چچی سابقہ بہو کے میکے گئیں۔ سب کو یہی بتایا پوتی سے ملنے جارہی ہوں، اس سے دوری برداشت نہیں کرسکتی۔ زین بھی ہمراہ گیا تھا۔ اللہ جانے وہاں کیا باتیں ہوئیں، نہیں معلوم سنا کہ زین اسلام آباد چلا گیا ہے۔ ہماری چچی بھی شوہر کے ہمراہ وقتاً فوقتاً اسلام آباد چلی جاتی تھیں اور بیٹے کے پاس کچھ دن رہ کر آجاتی تھیں۔ خاندان والے کہتے کہ چھوٹے بیٹے کے لئے لڑکی دیکھو، اس کا گھر آباد کرو مگر وہ اس کے لئے لڑکی دیکھنے کہیں نہ جاتی تھیں۔ انہی دنوں چچا نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ گھر انہوں نے بہت محنت سے بنوایا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ یوں اونے پونے بیچ کر اسلام آباد شفٹ ہوجائیں گے۔ بہرحال وہ ہمارا پڑوس چھوڑ کر ہم سے دور جابسے۔ والد صاحب اور بھائی کو کاروبار سے فرصت نہ ملتی تھی کہ ان سے ملنے جاتے۔ شروع میں فون پر رابطہ رہا پھر وہ بھی نہ رہا۔ دو سال بعد ابا جی کو کسی کام سے اسلام آباد جانا پڑا۔ انہوں نے چچا کو فون کیا اور گھر کا پتا پوچھا۔ انہوں نے بادل نخواستہ بتایا۔ کام سے نمٹ کر ابا جی ان کے گھر گئے۔ کال بیل دی تو دروازہ رمشا نے کھولا۔ وہ گود میں ایک سال کے بچے کو لئے تھی جو ہوبہو زین کی صورت تھا۔ والد صاحب اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پتا چلا کہ نینا کی خاطر ہماری چچی نے رمشا سے زین کا نکاح کردیا ہے۔ اسلام آباد بھی اسی سبب شفٹ ہوئے کہ محلے والے اور خاندان والے باتیں نہ بنائیں۔ سب سے زیادہ ان کو ڈر اپنی بیٹی سے تھا۔ ابا جی نے پوچھا۔ زین کیونکر اس نکاح پر راضی ہوگیا، جبکہ نبیلہ کی بیٹی امامہ سے شادی کا آرزو مند تھا میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا امامہ بدسلیقہ ہے اور بدتمیز لڑکی ہے۔ میری اس کے ساتھ نہ بنے گی۔ وہ مجھے پریشان کرکے رکھ دے گی۔ بہتر ہوگا نینا کی خاطر رمشا سے نکاح کرلو کیونکہ رمشا کے ماں، باپ کسی صورت اپنی بیٹی سابقہ سسرال میں چھوڑنے کو تیار نہ تھے اور ہم سبھی نینا کو اس مفلس خاندان کے سپرد کرکے ان کی مفلسی کی بھینٹ چڑھانا نہ چاہتے تھے۔ وہ لوگ تو نینا کو ہمیں دینا چاہتے تھے لیکن رمشا روتی تھی۔ جب ہم نینا کو لے آئے، وہ دن اس کے لئے قیامت جیسا تھا، تبھی میں نے سوچا کہ بیٹا تو گنوا دیا ہے، اب اس کی نشانی کو نہ گنوائوں۔ رمشا سے زین کا نکاح کروا دیا کہ اس سے اچھی بہو دوبارہ مجھے کہاں ملے گی۔ کہتی ہوں اٹھ جائو تو اٹھ جاتی ہے۔ کہتی ہوں بیٹھ جائو تو بیٹھ جاتی ہے۔ ہم نے اس کی فرمانبرداری کی وجہ سے اسے بیٹی جیسا پیار دیا ہے۔ وہ ہم سے محبت کرتی ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ نینا ماں کے بغیر نہیں رہ سکتی اور چچی، ماں کی جگہ نہیں لے سکتی۔ چچی کی باتیں سن کر والد صاحب سوائے اس کے اور کچھ نہ کہہ سکے کہ بھابی آپ نے جو اچھا کیا، شاید اللہ کو یہی منظور تھا۔ ہم نے جب یہ احوال سنا تو دم بخود رہ گئے۔ میں سوچتی تھی کہ اگر چچی نے اپنی مطلقہ بہو کا نکاح چھوٹے بیٹے سے پڑھوا ہی دیا تھا تو ہم سے اس امر کو خفیہ کیوں رکھا اب تو پوتا بھی ہوچکا تھا۔ نکاح اور اولاد چھپائے جانے والی باتیں نہیں ہیں۔ ان باتوں کا خاندان میں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔ چچی اور چچا نے جانے کیا مصلحت جانی کہ جس حقیقت کو ظاہر کرنا لازم ہے، اس کو چھپا لیا۔ آخر یہ راز یوں کھلا کہ ایک دن نبیلہ باجی سے ملاقات ہوگئی۔ وہ ہمارے گھر آئی تھیں اور بہت آزردہ تھیں، بولیں۔ وہ لوگ جن کو اپنا جانا، کتنے دھوکے باز نکلے، سوچتی ہوں تو کلیجہ شق ہونے لگتا ہے۔ بے اولاد تھے تو مجھے گود لیا، بیٹی بنا لیا۔ اپنی اولاد ہوگئی مجھے جھاڑ کا کانٹا جان کر نکال دیا۔ رمشا کو دوسری بار بہو بنا لیا اور میری بیٹی سے بچپن کی منگنی توڑ دی۔ جانتی ہو کہ میری بیٹی کو اس بات کا کتنا صدمہ پہنچا ہے اس نے خواب آور گولیاں پھانک لی تھیں۔ یہ تو شکر ہے میرے رب کا کہ وقت پر ہم اسے اسپتال لے گئے اور فوراً طبی امداد میسر آگئی، ورنہ میری بچی تو جان سے گئی تھی۔ وہ رو رہی تھیں۔ امی نے سوال کیا۔ تم کو کس نے یہ سب بتایا مجھے کسی نے نہیں بتایا تائی جان ہم مری سیر کو گئے تھے، وہاں زین اور رمشا بچوں کے ساتھ گھومنے آئے ہوئے تھے، اماں بھی ہمراہ تھیں۔ تبھی پتا چلا۔ مجھ پر تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ وہ تو میرے میاں نے تھاما ورنہ کھائی میں گر جاتی۔ وہ رودھو کر چلی گئیں اور میری اماں دانتوں میں انگلیاں دبا کر رہ گئیں۔ تبھی میں نے کہا۔ ہر ایک کے اپنے مسائل اور معاملات ہوتے ہیں۔ ہمارا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے امی جان ان کی وہ جانیں، آپ کیوں پریشان ہورہی ہیں ر۔ص کراچی | null |
null | null | null | 267 | https://www.urduzone.net/husn-bewafa-hae-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | ہمارے کالج میں بہت سی خوبصورت لڑکیاں تھیں لیکن مجھ جیسی کوئی نہ تھی۔ تبھی اپنی صورت پر غرور تھا۔ اپنے حسن کے فریب میں اتنی گم تھی کہ کسی اور کو کچھ سمجھتی تھی اور نہ منہ لگاتی تھی۔ ان دنوں یہ سمجھ نہ تھی کہ صورت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی کمتر یا برتر نہیں ہوتا بلکہ افضل وہی ہوتا ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔ اچھی سیرت ہی اعلیٰ مقام پاتی ہے۔ ایف ایس سی کی طالبہ تھی اور ڈاکٹر بننے کا ارمان لے کر کالج میں داخلہ لیا تھا اور بھی بہت سے طالب علم اور طالبات ڈاکٹری کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔ جو محنتی تھے، مقصد میں سنجیدہ تھے، وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پڑھنے میں مشغول رہتے۔ اگر کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو کینٹین کا رخ کرنے کی بجائے لائبریری چلے جاتے تھے، لیکن میں بہت زیادہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ اگر کوئی پیریڈ خالی ہوتا اور ذہن تھکا تھکا ہوتا، لائبریری جانے کی بجائے کینٹین جا بیٹھتی۔ صفدر ہمارا کلاس فیلو تھا۔ میں لڑکیوں میں اپنی شکل و صورت کی وجہ سے منفرد تھی تو وہ اپنے حسن اور مردانہ وجاہت کے باعث تمام کلاس میں نمایاں اور بے مثال تھا۔ ہم دونوں میں ایک ہی بات مشترک تھی۔ صفدر کو احساس تھا کہ وہ سب سے حسین ہے، اسی لئے معمولی صورت والوں پر توجہ نہ دیتا لیکن میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ذرا بھی نہ جھجکا۔ جہاں میں بیٹھی ہوتی، وہ وہاں آجاتا۔ لگتا تھا جیسے اس کی نظریں ہر دم میرا تعاقب کرتی ہیں۔ میں جب کینٹین میں ہوتی، وہ وہاں آکر پوچھتا۔ ہیلو کیسی ہو پھر کرسی اٹھا کر میرے سامنے لے آتا۔ چائے پیو گی یا کافی جانے کیا بات تھی اس میں کہ باوجود غرور کی پتلی مشہور ہونے کے اس کی پیشکش رد نہ کرتی اور وہ میرے لئے کچھ نہ کچھ منگوا لیتا تھا۔ اس بات پر لڑکیاں چہ میگوئیاں کرتیں لیکن ہمیں کسی کی پروا نہ تھی۔ لڑکیاں کچھ عرصے میں ہماری عادی ہوگئیں، لیکن ایک لڑکا کلاس میں ایسا تھا جو میری اور صفدر کی دوستی سے پریشان رہا کرتا تھا اور وہ تھا عاطف وہ بے حد سنجیدہ اور پڑھاکو قسم کا لڑکا تھا۔ کلاس میں سب سے زیادہ ذہین اور صفِ اول کا طالب علم ہر مضمون میں اس کے نمبر زیادہ ہوتے۔ وہ اساتذہ کا چہیتا اور لائق طالب علموں کا پسندیدہ تھا۔ سیرت کا اچھا مگر شکل کا اتنا گیا گزرا کہ مجھے اس کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ کچھ دنوں سے محسوس کررہی تھی کہ عاطف قدرے مضطرب سا ہے۔ میں اپنے موڈ سے لائبریری جاتی تھی۔ جب طبیعت پڑھائی کی طرف مائل ہوتی، اسی وقت لائبریری کا رخ کرتی تھی۔ جب وہاں جاتی، عاطف کو موجود پاتی۔ میں اس کی طرف دیکھے بغیر ایک طرف بیٹھ جاتی۔ ایک روز وہ اپنی نشست سے اٹھ کر میری جانب آیا اور بولا۔ آپ کو نوٹس چاہئیں تو بلاتکلف کہہ دیجئے۔ میرے پاس ہر مضمون کے نوٹس موجود ہیں۔ جی ہاں جی نہیں بے اختیار یہ ذومعنی الفاظ میرے لبوں سے نکل گئے۔ میں سمجھا نہیں زریں صاحبہ آپ نے ہاں کہا ہے یا نہیں میری نظر اس کی جانب اٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر شرافت کا ایسا سندر روپ تھا کہ بدصورت شکل بھی بدشکل نظر نہ آئی۔ میں نے کہا کہ مجھے فلاں مضمون کے نوٹس دے دیں۔ مجھے تمام مضامین کے نوٹس درکار تھے۔ میں زیادہ وقت تو خالی پیریڈ میں صفدر کے ساتھ کینٹین میں ضائع کردیا کرتی تھی۔ امتحان نزدیک تھا۔ پریشانی تھی کہ صفدر پڑھائی میں بالکل سنجیدہ نہ تھا۔ وہ مجھے بھی اپنے جیسا بنا رہا تھا۔ مجھے اس کی رفاقت میں خوشی ملتی تھی۔ یہ احساس کھو چکی تھی کہ کتنی مشکلوں سے اس کالج میں داخلہ ملا تھا اور کس مقصد کے لئے یہاں آئی تھی، حالانکہ والد کوایجوکیشن کے سخت مخالف تھے۔ اس شرط پر راضی ہوئے تھے کہ جی توڑ کر محنت کروں گی اور ان کو ڈاکٹر بن کر دکھائوں گی۔ عاطف سے میں نے نوٹس لئے اور ان کو کاپی کرنے لگی۔ جہاں سمجھنے میں دشواری ہوتی، ساتھ ساتھ پوچھتی بھی جاتی۔ اب مجھے خوبصورتی اور بدصورتی کے اپنے فلسفے کو بدلنا پڑا۔ اس کے اچھے اخلاق نے میری سوچ میں تبدیلی پیدا کردی۔ بدشکل انسانوں سے بیزاری کا جو جذبہ مجھ میں تھا، اس کی شدت میں کمی آتی جارہی تھی۔ گویا اب میں بدصورتی کو گوارا کرنے لگی تھی۔ سوچنے لگی تھی کہ محض کم شکل ہونے کے باعث لوگوں سے احتراز برتنا ٹھیک نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ دل پڑھائی کی طرف پھر سے مائل ہونے لگا۔ عاطف نے راضی کیا کہ میں فارغ وقت میں سے کچھ ٹائم لائبریری کو ضرور دوں اور یونہی ہنسی ٹھٹھول میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کیا کروں۔ اس کے سمجھانے کی وجہ سے احساس ہونے لگا کہ میری بیمار ماں کا مجھ پر بڑا حق ہے جو میری خاطر بیماری میں بھی سارے گھر کا کام کرتی ہیں، حتیٰ کہ میرے کپڑے دھو کر استری کردیتی ہیں اور کھانا پکا کر رکھ دیتی ہیں۔ ہر طرح سے میرے آرام کا خیال رکھتی ہیں تاکہ میں یکسوئی کے ساتھ پڑھائی کرسکوں، میرٹ بنا سکوں اور میڈیکل کالج میں داخلے کی اہل ہوجائوں، ڈاکٹر بن جائوں۔ یہ میرا ہی نہیں میری ماں کا بھی خواب تھا۔ ماں نے اپنے دور میں پڑھائی پر توجہ نہ دی اور فرسٹ ایئر میں فیل ہوگئیں تو ان کے والد نے بیٹی کی کمزور تعلیمی کارکردگی دیکھ کر کالج سے اٹھا کر شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ اتفاق سے شوہر سخت مزاج ملا۔ وہ روتی تھیں اور کہتی تھیں۔ اے کاش آج میں تعلیم یافتہ ہوتی، لیکچرار یا ڈاکٹر ہوتی تو کاہے اس شخص کی سختیاں سہتی۔ شوہر کی محتاجی کی وجہ سے اس کے ظلم کو برداشت کرنا پڑا۔ وہ مجھے بھی سمجھاتی تھیں کہ بیٹی عورت کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ دکھ سکھ میں تعلیم ہی اس کے کام آتی ہے۔ تم جب تک اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق نہ ہوجائو، تمہاری شادی نہ کروں گی۔ میں بھی ابو کا برا طرزعمل دیکھتی تو سوچتی کہ واقعی عورت کو اس قابل ہونا چاہئے کہ ضرورت پڑنے پر وہ معاشی طور پر اپنی کفالت کرسکے۔ استحصالی معاشرے میں مرد کی دست نگر رہ کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر یوں مجبور نہ ہو جیسے میری والدہ مجبور تھیں۔ ابو کے ظلم سہہ سہہ کر وہ السر جیسے مرض کو گلے لگا بیٹھی تھیں۔ امی جب بیمار پڑتیں، میں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتی۔ والد صاحب کو ان کی ذرّہ بھر پروا نہ تھی۔ والد کے پاس گاڑی تھی لیکن والدہ کو اسپتال لے جانے کے لئے میں رکشہ لاتی۔ جی دکھتا لیڈی ڈاکٹر کے اسپتال میں ٹھاٹھ دیکھتی کہ لوگ ان کے آگے پیچھے پھرتے ان کی خوشامد کرتے ہیں اور وہ عزت و وقار کا پیکر نظر آتیں۔ سوچتی کہ چاہے جتنی محنت کرنی پڑے، میں ڈاکٹر بنوں گی۔ والدہ کا علاج کروں گی۔ مالی محتاجی سے بہتر ہے کہ انسان اپنی عزت نفس کو پامال نہ ہونے دے۔ خود کمائے اور عزت سے جیئے۔ ابو، امی کی زندگی کی مثال میرے سامنے تھی۔ مجھے شادی کا کوئی ارمان نہ رہا تھا۔ اگر صفدر میری زندگی میں نہ آتا تو میں کبھی شادی شدہ زندگی گزارنے کی طرف مائل نہ ہوتی کیونکہ میری آنکھوں کے سامنے امی سسک سسک کر زندگی بسر کررہی تھیں۔ اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا تھا، تبھی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ کبھی کسی سے محبت کروں گی اور نہ شادی کروں گی۔ عاطف نے مجھے احساس دلایا کہ میں اپنی ڈگر سے ہٹ گئی ہوں۔ صفدر کے ساتھ اپنے مقصد کو بھلا کر وقت ضائع کرنے میں لگی ہوں تو مجھے ملامت ہوئی اور دکھ بھی ہوا کہ واقعی میں نے ماں کے دکھوں کو بھلا کر اپنی خوشیوں کو ترجیح دینی شروع کردی تھی، لیکن اس کا کیا حاصل تھا اب میں نے فاضل وقت باقاعدہ لائبریری میں گزارنا شروع کردیا۔ صفدر کی دلکشی کو نظرانداز کرکے محنت کرنے کی ٹھان لی۔ اسے بتا دیا کہ امتحانوں تک مجھے پڑھائی پر توجہ دینی ہے۔ گپ شپ میں وقت ضائع کرنے کی بجائے میرٹ پر توجہ دینی ہے، ورنہ میرا ڈاکٹر بننے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ میں صفدر کے ساتھ گپ شپ کرنے سے گریز کرنے لگی۔ عاطف نے پڑھائی میں میری بہت مدد کی۔ مجھے صحیح راہ دکھائی۔ وہ میرے لئے ایک روشن منزل کی مانند ہوگیا۔ ایک ایسا دوست جو مخلص تھا اور جس نے اپنی توجہ سے میرا دشوار کام آسان کردیا تھا۔ میرے من کی بجھتی شمع کو پھر سے جلا دیا تھا۔ میں اسے ایک اچھا دوست سمجھنے لگی، مگر اس کے سوا کچھ نہیں تھا میرے لئے وہ جس کی طرف اس کی بدصورتی کے باعث ایک نظر دیکھنا گوارا نہ کرتی تھی، اب وہ مجھے اتنا برا نہیں لگتا تھا۔ گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھ کر نوٹس تیار کرتی اور وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا۔ خوش تھی کہ ایک اچھا رہنما مل گیا ہے تو منزل بھی مل جائے گی۔ مجھے عاطف کے قریب بیٹھے دیکھ کر صفدر کو حسد اور رقابت محسوس ہونے لگی، جبکہ وہ طرح جانتا تھا کہ میں ہرگز کسی میں انوالو نہیں ہوسکتی، خاص طور پر عاطف جیسے بدشکل انسان میں تو بالکل نہیں جو بدصورتی میں اپنی مثال آپ تھا اور میں اچھی صورت کی دلدادہ اور بدصورتی سے نفرت کرنے والی لڑکی تھی۔ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ اس کا ذہن کب کیا سوچنے لگے، نہیں معلوم انسان کو سمجھنا واقعی مشکل امر ہے۔ میں جس قدر عاطف کی احسان مند ہورہی تھی، اتنا ہی اس کے ساتھ نرم ہوتی جاتی تھی۔ اتنی نرم خو کہ مجھ ایسی مغرور لڑکی سے کوئی اتنی نرم مزاجی کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ افسوس آدمی جتنا چاہے قابل اور ذہین ہو، وہ دل کے ہاتھوں ٹھوکر کھا جاتا ہے۔ عشق عقل کی روشنی کو بجھا دیتا ہے۔ تب اچھا بھلا باہوش بھی ہوش کھو کر عقل سے پیدل ہوجاتا ہے۔ یہ دل ہے ہی کم بخت ایسی چیز کسی بھی وقت آپ کو دھوکا دے جاتا ہے اور آپ بھٹک کر اپنی منزل سے دور چلے جاتے ہیں۔ میری نرم روئی سے عاطف کو غلط فہمی ہوگئی کہ میں اس کی اتنی قدرداں ہوں کہ وہ اگر مجھ سے اظہار محبت کرے گا تو میں برا نہ مانوں گی۔ تبھی اس نے اپنی قسمت آزمائی کو ضروری جانا۔ خدا جانے کب سے اس کے دل میں میرے لئے محبت کا شعلہ تاباں تھا اور وہ دھیرے دھیرے جلاتا رہتا تھا۔ میں تو اپنے مطلب سے اس کے قریب آئی تھی۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے، پڑھائی میں مدد لینے اور میرٹ بنانے کے لئے وہ سمجھا کہ میں اس پر مہربان ہوگئی ہوں، تبھی ایک روز جب ہم لائبریری میں پرچے کی تیاری کررہے تھے، اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اظہار محبت کردیا۔ اس نے کہا۔ زریں اب تمہارے بغیر مجھے اپنی زندگی بیکار اور ادھوری لگتی ہے۔ پلیز میرا ہاتھ مت جھٹکنا۔ اگر تم نے میرا ہاتھ تھام لیا تو زندگی میں اتنی خوشیاں دوں گا کہ جس کا تم تصور بھی نہ کرسکو گی۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ یااللہ اسے کیا ہوگیا ہے کالا کوا، حبشی صورت، دیو قامت جو آدمی سے زیادہ بن مانس نظر آتا ہے، کیا خرافات بک رہا ہے تم پاگل تو نہیں ہوگئے عاطف میں نے تنک کر کہا۔ ہوش میں تو ہو ہاتھ ہی نہیں جھٹکوں گی، الٹے ہاتھ کا تھپڑ ماروں گی تمہاری اس اندھیری رات جیسی شکل پر میں نے اپنا ہاتھ نفرت سے کھینچ لیا جیسے انگاروں نے چھو لیا تھا مجھے تین بار میں نے زمین پر تھوکا اور نفرت سے کہا۔ اپنی شکل دیکھی ہے تم نے آئینے میں کالے دیو تم میرے شریک زندگی بننے چلے ہو۔ آئندہ کبھی میرے سامنے آئے تو آج تھپڑ سے بچ گئے ہو، کل سب کے سامنے تھپڑ مار دوں گی۔ یہ کہہ کر پیر پٹختی میں لائبریری سے نکلی۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ اتفاق سے سامنے سے صفدر آرہا تھا۔ اس نے جو میرا چہرہ تمتماتا ہوا دیکھا تو میری جانب آگیا۔ پوچھا کیا ہوا ہے زریں طبیعت تو ٹھیک ہے اس کا اتنا کہنا تھا کہ آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت گرنے لگے۔ اگر اردگرد کا خوف نہ ہوتا تو میں سب کے سامنے اس کے گلے سے لگ جاتی۔ مجھے اس دن بہت صدمہ ہوا۔ اتنا کہ بتا نہیں سکتی۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ عاطف اپنی بدشکلی کا اظہار مجھ سے اظہار محبت کی صورت میں دے گا۔ غصے میں جل رہی تھی کہ اس منحوس شکل انسان کو آخر اتنی ہمت کیسے ہوئی۔ اس نے یہ سوچا بھی کیوں کہ مجھ سی حور شمائل سے شادی کی خواہش کا اظہار میرا ہاتھ تھام کر کرے گا۔ صفدر کو ساری بات بتا کر دل ہلکا کیا۔ اس نے کہا۔ مجھے پہلے ہی گمان تھا کہ تمہیں اس بن مانس سے ضرور کوئی دکھ پہنچنے والا ہے۔ اللہ جانے کیوں ساری کلاس کو چھوڑ کر اس منحوس صورت کو تم نے اپنا دوست بنا لیا۔ میں پریشان تھا کہ مجھے بھی تم نے ان دنوں نظرانداز کردیا تھا۔ میں نے بہت سا وقت تمہارے ساتھ ضائع کردیا تھا۔ پڑھائی چھوڑ کر خوش گپیوں میں لگی ہوئی تھی۔ اس نے احساس دلایا تو میں پڑھائی میں لگ گئی۔ وہ بہت لائق ہے۔ چند دنوں میں اس نے مجھے وہ حصے کور کروا دیئے جو میری لاپروائی سے پڑھنے سے رہ گئے تھے، تبھی اس کا سہارا لیا اسے نیک شریف سمجھ کر کیا جانتی تھی کہ دل میں محبت کا سانپ پال لے گا جو مجھے ڈس لے گا۔ مجھے نہیں معلوم عاطف کے دل پر کیا بیتی، میرا غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ وہ کچھ دن کالج نہ آیا پھر امتحان کی تیاری کی وجہ سے چھٹیاں ہوگئیں اور اس کے بعد سالانہ امتحان شروع ہوگئے۔ رزلٹ آگیا۔ عاطف نے ٹاپ کیا تھا۔ میں اور صفدر میرٹ سے رہ گئے۔ ہمارا ایڈمیشن میڈیکل کالج میں نہ ہوپایا۔ والدہ روزبہ روز کمزور ہوتی جاتی تھیں۔ وہ زیادہ بیمار ہوئیں تو اسپتال داخل کرانا پڑا۔ یہ دن بڑے مشکل تھے۔ امی کو میری فکر تھی اور مجھے ان کی فکر کھائے جاتی تھی۔ والدہ کا خیال تھا کہ میری شادی ان کی زندگی میں ہوجانی چاہئے کہ بعد میں میرا کیا بنے گا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتا دو تاکہ میں اس لڑکے کے والدین سے مل کر ان لوگوں کو دیکھ پرکھ لوں۔ سردست دوسرا کوئی مناسب رشتہ میرے لئے موجود نہ تھا۔ میں نے صفدر کو فون کیا۔ اس نے کہا۔ دل سے چاہتا تھا کہ تم سے شادی ہو۔ صدشکر تم نے خود پہل کی۔ عاطف کے انجام کا سوچ کر ہمت نہ پڑتی تھی کہ تمہارا ہاتھ طلب کروں۔ چند دنوں بعد صفدر کی رضا سے ان کے والدین رشتے کے لئے ہمارے گھر آئے۔ امی ان سے ملیں،صفدر کو بھی دیکھا، بات چیت کی۔ بولیں۔ بیٹی لڑکا اچھا ہے مگر حسن پرست ہے۔ اللہ کرے تم سے وفا کرے کیونکہ شکل و صورت ہمیشہ نہیں رہتی۔ امی نے ابو سے بات کی کہ میری ایک سہیلی کے توسط سے یہ لوگ آئے ہیں۔ آپ ان سے مل کر اور دیکھ بھال کرکے اگر رشتہ مناسب لگے تو ہاں کردیں۔ میں اپنی زندگی میں بیٹی کو اس کے گھر کا کرنا چاہتی ہوں۔ والد نے ان سے ملنے کے بعد صفدر سے میرا رشتہ طے کردیا اور ہماری شادی دھوم دھام سے ہوگئی۔ میری شادی کے چھ ماہ بعد والدہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میرا ایک ہی بھائی تھا جو بیرون ملک تھا۔ والد صاحب تنہا تھے لہٰذا پھوپی نے ان کی دوسری شادی کروا دی۔ سوتیلی ماں میرا زیادہ میکے آنا پسند نہ کرتی تھی، تب میں نے صفدر کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور اپنا گھر بسائے رکھنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ قسمت عجب کھیل کھیلتی ہے۔ شادی کے پانچ برس اولاد نہ ہوئی تو میں سسرال والوں کے دل سے اتر گئی۔ وہ صفدر کی دوسری شادی کے درپے ہوگئے، خصوصاً میری ساس صفدر پہلے تو راضی نہ تھے مگر جب میں بیمار پڑ گئی تو وہ پریشان رہنے لگے۔ مجھے چیچک نکل آئی اور جب میں اس بیماری سے صحت یاب ہوئی تو چہرے پر چیچک نے اپنے مہلک نشانات چھوڑ دیئے۔ میرے چہرے پر کالے داغ اور گڑھے پڑ گئے تھے۔ آئینے میں خود کو دیکھ کر یقین نہ آتا تھا کہ میں وہی حور شمائل ہوں جس کا مکھڑا چاند کی طرح چمکتا تھا اور حسن میں میرا کوئی ثانی نہ تھا۔ سچ ہے جیسے دولت اور جوانی بے وفا ہے، ویسے ہی حسن بھی آنی جانی شے ہے۔ آج جس خوبصورتی پر ہم ناز کرتے ہیں، وقت کے قدم اسے اس بری طرح پامال کر ڈالتے ہیں کہ آئینہ دیکھ کر یقین نہیں آتا یہ ہمارا ہی چہرہ ہے۔ میں نے آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا، آنا جانا، لوگوں سے ملنا ملانا چھوڑ دیا۔ خود اپنی صورت سے خوف کھاتی تھی۔ اپنا چہرہ اچھا نہ لگتا تھا تو دوسروں کو کیونکر بھاتا۔ جس حسن کی چکاچوند سے مرعوب ہوکر صفدر نے مجھ سے شادی کی تھی، وہ بھی اب میری شکل پر نگاہ ڈالنے سے گھبراتا تھا اور میری ساس اسے تو جیسے بہانہ مل گیا تھا۔ وہ پہلے ہی مجھے بانجھ کہتی تھی، اب اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرنے میں اس نے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ بالآخر اس نے طلاق کرا کر دم لیا اور صفدر کی دوسری شادی کردی۔ صفدر خود حسین و جمیل تھا تو حسن پرست بھی تھا۔ اس نے ماں کے کندھے پر رکھ کر وہ بندوق چلائی کہ میں جیتے جی مر گئی۔ والد کے گھر سوتیلی ماں نے کڑے تیوروں سے استقبال کیا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ میرا جینا حرام کردیا۔ یہاں تک کہ میں گھر سے بھاگ جانے کی تمنائی ہوگئی۔ ایسے میں اگر سرجن عاطف سے ملاقات نہ ہوتی تو جانے میں کہاں ہوتی۔ ایک روز ماں کی بدسلوکی اور طعنوں سے تنگ آکر میں نے خواب آور گولیاں کھا لیں اور بے ہوش ہوگئی۔ ابو اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے بڑی جدوجہد کرکے میری جان بچا لی۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی باقی رکھنی تھی، سو بچ گئی۔ ہوش میں آتے ہی آنکھیں کھول کر جس صورت کو دیکھا، وہ ڈاکٹر عاطف تھے۔ وہی شخص جس کو میں نے بدشکل بن مانس اور کالا کوا کہہ کر دھتکارا تھا، اسی قابل انسان نے مجھے موت کے منہ سے بچایا تھا۔ آج وہ ایک قابل ڈاکٹر تھا اور میں جو حسن پرست اور اپنے حسن پر مغرور تھی، ایک بدشکل مریضہ کے طور پر اس کے سامنے تھی۔ اس نے میری بڑی دل جوئی کی۔ ایک بار پھر ہاتھ پکڑ کر میری حوصلہ افزائی کی اور جینے کی راہ سجھائی۔ اس کی اچھی سیرت اور اخلاص کی میں قائل ہوگئی۔ آج میرے پاس وہ شکل و صورت نہ رہی تھی جس کے برتے پر میں بدصورت کہہ کر اس کی توہین کرتی۔ ڈاکٹر عاطف نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ اس بار میں نے ان سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور معافی بھی مانگی۔ ان کے دل میں ابھی تک میری محبت کی شمع روشن تھی۔ والد صاحب سے میرا ہاتھ مانگا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے ہاں کہی تب میری شادی عاطف سے ہوگئی۔ میرا غرور جھوٹا تھا اور عاطف کی لگن سچی تھی۔ ایک بار پھر میرا گھر آباد ہوگیا۔ عاطف نے صحیح کہا تھا۔ انہوں نے مجھے دنیا کی ہر خوشی دینے کی کوشش کی، یہ جان کر بھی کہ میں بانجھ ہوں، کبھی میری اس محرومی کا احساس نہ دلایا بلکہ کاسمیٹک سرجری کے لئے انگلینڈ لے گئے۔ آج میں عاطف کے ساتھ ایک پرآسائش زندگی بسر کررہی ہوں۔ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو ماضی کی راہوں میں بس خاک ہی خاک اڑتی نظر آتی ہے۔ سچ ہے کہ حسن بے وفا ہے۔ ل۔م ڈیرہ غازی خان | null |
null | null | null | 268 | https://www.urduzone.net/woh-din-yad-hain-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | میں ایک زمیندار گھرانے کی بیٹی ہوں، میری شادی بھی ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ سسر صاحب اپنی زمینوں کی دیکھ بھال بہت جانفشانی سے کرتے تھے لہٰذا انہیں شہر میں رہنا پسند نہیں تھا۔ گائوں میں ان کا ایک بڑا سا شاندار گھر تھا جو دو بیگھہ زمین پر بنا ہوا تھا۔ صاف ستھرے دودھ کے حصول کی خاطر اپنی حویلی کے پیچھے ایک باڑہ بھی بنوایا ہوا تھا۔ جب میری شادی ہوئی، بی اے کرلیا تھا۔ میری تعلیم کی خاطر والد صاحب شہر میں اقامت پذیر ہوئے تھے لیکن شادی کے بعد دیہات کی زندگی کا منہ دیکھنا پڑا۔ میرے شوہر پہلوٹی کے تھے۔ سسر صاحب کو یہ گوارا نہ تھا کہ بہو اور بیٹا ان سے جدا شہر میں رہیں۔ پس ان کی خواہش پر ہمیں بھی گائوں کی حویلی میں رہنا پڑا جہاں مشترکہ فیملی سسٹم کا راج تھا۔ مجھے اس سسٹم سے کوئی شکوہ نہ تھا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی برکتیں شامل تھیں۔ گائوں کا ماحول بھی میرے لیے اجنبی نہ تھا کہ ایک زمیندار کی بیٹی تھی۔ تھوڑے دنوں میں اس ماحول میں رچ بس گئی اور خوش و خرم زندگی گزارنے لگی۔ جب جی گھبراتا، میرے شوہر مِٹھا صاحب مجھے گھمانے پھرانے شہر لے جاتے تھے۔ میرے شوہر نے ایل ایل بی اور پھر ایل ایل ایم کیا تھا۔ ان کو وکالت کا شوق تھا ۔ روزانہ گائوں سے شہر جاتے تھے اور شام کو لوٹ آتے تھے کیونکہ کورٹ شہر میں تھا اور کورٹ کچہری کے سارے کام بھی وہیں ہوتے تھے۔ وقت گزرتا رہا۔ تین بچوں کی ماں بن گئی۔ بچوں نے میٹرک تک گائوں کے اسکول میں تعلیم حاصل کی اور جب کالج میں داخلہ کا مرحلہ آیا تو ہم میاں بیوی سوچ میں پڑ گئے۔ مٹھا صاحب کو ہرحال میں اولاد کو پڑھانا تھا۔ وہ خود بھی گھر سے دور لاہور میں پڑھنے گئے تھے۔ ہوسٹل میں رہے اور ہوسٹل کی مشکلات جھیل چکے تھے۔ لہٰذا اپنے بچوں کو ہوسٹل میں رکھنے کے خلاف تھے۔ تب ہی انہوں نے ملتان میں گھر لے لیا اور ہم لوگ گائوں سے ملتان شہر آگئے۔ ایک دن میں اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی کہ ایک جانی پہچانی صورت دیکھی۔ وہ میرے گھر میں آگئی کیونکہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پہلے تو میں نے اس طرح آنے پر ان کو ٹوکنا چاہا لیکن جب بغور دیکھا تو اپنی سی لگی۔ ذہن پر زور ڈالا، نام یاد آگیا، یہ چاندنی تھی۔ ارے چاندنی تم یہاں ہاں بی بی پریشان ہوں، کچھ کام چاہیے۔ اس نے بھی مجھے پہچان لیا تھا۔ میں نے اُسے چارپائی پر بیٹھنے کو کہا اور پانی وغیرہ دیا۔ اس کی حالت زار دیکھ کر مجھے سب کچھ یاد آگیا۔ چاندنی کوئی اجنبی نہ تھی۔ ہمارے گائوں کی رہنے والی تھی اور ایک معمولی کسان کی بیوی تھی۔ یہ بہت غریب لوگ تھے۔ اس کا شوہر خیر دین سارا سال ہل چلاتا۔ ان کا پورا کنبہ ہی شوکت زمیندار کی زمین پر کام کرتا۔ بیج بوتے اور چلچلاتی دھوپ میں فصلیں کاٹتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی غربت دور نہ ہوسکی۔ بلکہ دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر آتی تھی۔ شوکت زمیندار کچھ زیادہ فیاض آدمی نہ تھا۔ وہ رحمدل بھی نہیں تھا بلکہ سخت طبیعت کا مالک تھا۔ اپنے ہاریوں سے خوب محنت لیتا تھا لیکن محنتانہ کم دیتا تھا۔ تاہم خیر دین کے کنبے کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ کم اُجرت پر بھی کام کریں۔ ایک یہ بھی بات تھی کہ شوکت بہت اثر و رسوخ والا آدمی تھا۔ وہ چاہتا تو اس غریب کنبے کو ناکوں چنے چپوا سکتا تھا یا پھر ایسی جگہ پھنکوا دیتا کہ ان بیچاروں کو پانی دینے والا بھی کوئی نہ ملتا۔ صبح سویرے اٹھ کر کھیتوں میں ہل چلانا اور سخت زمین کا سینہ چیر کر مٹی کو بھربھرا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ خیردین صبح تڑکے کام پر آ جاتا اور گھنٹے دو گھنٹے کے بعد گھریلو کام سے فارغ ہوتے ہی چاندنی بھی اس کا بازو بن جاتی تھی۔ وہ سبزیوں سے جڑی بوٹیاں چھانٹتی یا گھاس الگ کرتی اور ان کی ڈھیریاں بناتی۔ فصل کی کٹائی کے دنوں میں تو وہ صبح سے شام تک درانتی ہاتھ میں لئے کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ شوکت ان کی محنت پر اس وقت پانی پھیر دیتا تھا۔ جب اجرت دیتے سمے وہ کام میں کوتاہی گنواتا اور نقص نکالتا۔ تب وہ اس شخص کی شقی القلبی پر کڑھتی مگر سوائے صبر کیا چارہ تھا۔ خیردین اور اس کے بھائی مرد ہوکر اس مغرور کا بال بیکا نہیں کرسکتے تھے، وہ تو پھر عورت تھی۔ وہ بس یہ کرسکتی تھی کہ اپنے شوہر کے شانہ بہ شانہ رہے اور اس کا دکھ اور کام دونوں بانٹ لے۔ جو تقدیر میں لکھا ہو وہی ملتا ہے۔ ان کا بخت روکھی سوکھی تھا۔ یہ بیچارے اسی رزق پر قانع اور شاکر تھے۔ حرفِ شکایت کبھی زبان پر نہ لاتے۔ چاندنی نے کبھی اپنی زندگی میں کسی اچھی شے کی آرزو نہ کی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنی آرزوئوں اور خواہشوں کو حسرتوں کے کفن میں لپیٹ کر دفن کردیا۔ وہ بس محنت کرنے پر ایمان رکھتی تھی، سو اس کا نازک وجود جس قدر محنت کا متحمل ہوسکتا تھا، وہ کرتی رہی۔ باوجود روکھی سوکھی کھانے کے چاندنی کی صحت قابلِ رشک تھی۔ سروقد اور ایسی دمکتی رنگت کی مالک تھی کہ جو شہری عورتوں کو بیش قیمت کریموں اور اعلیٰ ترین بیوٹی پارلرز جانے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ دیہاتی تھی، سورج کی تمازت اور کھلی فضا کی پروردہ۔ اس کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھِلا ہوا اور آنکھیں ستاروں کی طرح چمکتی تھیں۔ حالانکہ ماتھے پر سادگی کا جھومر تھا اس کا حسن پریوں کی خوبصورتی کو شرماتا تھا۔ وہ نام کی چاندنی نہ تھی، سرتاپا ماہِ تمام تھی۔ جب وہ کھیتوں سے نکلتی، اس کے حسن کی دمک دور تک جاتی تھی۔ شوکت زمیندار کا چھوٹا بھائی رفعت ایک عیاش طبیعت انسان تھا۔ وہ گائوں کی حسین لڑکیوں کے چکر میں رہتا تھا۔ مگر ابھی تک چاندنی کی طرف ہاتھ بڑھانے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔ بہت دنوں سے وہ اس پری وش پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ تاہم چاندنی کے تیور ایسے تھے کہ کوئی اس کے ساتھ بات کرنے کی جرأت نہیں کر پاتا تھا۔ وہ غریب ضرور تھی مگر اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کو زندگی کا نصب العین سمجھتی تھی۔ ایک روز جبکہ وہ فصل کاٹ رہی تھی اور اردگرد کوئی نہ تھا، رفعت وہاں آگیا۔ اس نے دیکھا کہ چاندنی اکیلی ہے، اس کے پاس بہانے سے آکر ٹھہر گیا۔ وہ کام میں منہمک تھی۔ سر اٹھا کر آنے والے کی طرف نہیں دیکھا۔ اتفاق سے اس کا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر پشت کی طرف زمین پر گر گیا۔ چاندنی کا لباس بوسیدہ تھا اور کئی جگہ سے پیوند لگے ہوئے تھے، پھر بھی اس کی خوبصورتی ماند نہیں پڑی تھی۔ چاندنی بالیاں کاٹتی جاتی تھی اور ان کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں بناتی جاتی تھی۔ اس کے بجلی کی سی پھرتی سے چلتے ہاتھ دیکھ کر رفعت کے پائوں تھم گئے تھے۔ وہ مبہوت کھڑا تھا۔ اچانک ہی چاندنی کی نگاہ اس کے چمکتے بوٹوں پر پڑ گئی۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ تب ہی رفعت نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں سے بھرا بٹوا نکال لیا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔ چاندنی کی محویت ٹوٹی تو اسے احساس ہوا کہ دوپٹہ زمین پر پڑا ہے اور وہ ننگے سر بیٹھی ہے۔ اس نے جلدی سے پشت کی طرف گرا ہوا دوپٹہ اٹھا لیا اور اس میں اپنا سراپا لپیٹ لیا۔ ایسا کرتے ہوئے حجاب سے وہ زمین میں گڑھ گئی تھی۔ رفعت نے اسے مخاطب کیا۔ چاندنی جانتا ہوں کہ میرا بھائی تم لوگوں کو پوری اجرت نہیں دیتا تو تم یہ رکھ لو۔ اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔ وہ سمجھا تھا کہ غربت کی ماری جب اتنے نوٹ دیکھے گی تو اس کی جانب مائل ہوجائے گی۔ چاندنی کو رفعت کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری، لمحہ بھر کو جی چاہا کہ اس پر تھوک دے۔ مگر یہ ایک خطرے والی بات تھی۔ اس نے اپنے غصے کو دبا لیا اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے تحمل سے کہا۔ مالک مجھے نوٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے جانے کا رستہ دو۔ رستہ بہت پڑا ہے آئو ادھر سے گزر جائو۔ اس نے اشارے سے اسے قریب سے گزرنے کو کہا۔ بہت سنبھل کر وہ اس کے قریب سے گزرنے لگی تو رفعت نے چاندنی کا ہاتھ پکڑ لیا۔چاندنی کے دوسرے ہاتھ میں درانتی تھی۔ جس کے دندانے کافی تیز تھے۔ اس نے خود کو چھڑانے کیلئے رفعت پر حملہ کردیا۔ درانتی اتنے زور سے ناک پر لگی کہ ناک کی نوک کٹ کر لٹک گئی اور خون کی تیز دھار سے رفعت کا دہانہ رنگین ہوگیا۔ وہ درد سے دُہرا ہوکر زمین پر بیٹھ گیا۔ تب ہی چاندنی وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ رفعت نے اس کے خاوند خیر دین کو پکڑوا دیا اور اس پر پرچہ کرایا کہ اس نے میرے چہرے پر درانتی سے وار کیا ہے جس کی وجہ سے میری ناک پر زخم لگا ہے اور درانتی کی نوک آنکھ میں چبھ گئی ہے۔ اس نے چاندنی کا نام نہ لیا ورنہ ضرور یہ بات مشہور ہوجاتی کہ رفعت نے اس عورت پر دست درازی کی، تب ہی اس نے وار کیا۔ چاندنی ویسے ہی سخت مزاج مشہور تھی۔ خیر دین کو جیل ہوگئی اور چاندنی جان بچا کر ملتان بھاگ آئی جہاں اس کی رشتہ کی خالہ رہتی تھی۔ وہ کام ڈھونڈتی میرے گھر آئی تو اسے خبر نہ تھی کہ جس بنگلے میں قدم رکھا ہے وہ ہمارا گھر ہے۔ میں نے اسے ملازم رکھ لیا کیونکہ مجھے ان دنوں ملازمہ کی ضرورت تھی۔ پھر وہ تو میرے ہی گائوں کی تھی، اس پر میں بھروسا کرسکتی تھی۔ میں نے اسے ہدایت کردی کہ جب ہمارے گائوں سے کوئی آئے تو سامنے مت آنا ورنہ تمہارے زمیندار کو خبر ہوجائے گی تو وہ تم کو اٹھوالے گا۔ ہوسکتا ہے کہ برا حال کرے۔ سات برس بعد خیر دین کی جیل سے گلوخلاصی ہوگئی تو وہ خود آکر بیوی کو ہمارے گھر سے لے گیا اور اس کے بعد وہ لوگ کراچی چلے گئے جہاں محنت مزدوری سے روزی کمانے لگے۔ کافی عرصہ ہوچکا ہے، اب ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ رفعت نے بیرون ملک جاکر ناک کی سرجری کرالی ہے تاہم زخمی آنکھ تو بیکار ہوچکی ہے اور اب وہ ایک آنکھ والا زمیندار کہلاتا ہے۔ جس کو لوگ عرف عام میں کانا کہتے ہیں۔ س۔ ن ملتان | null |
null | null | null | 269 | https://www.urduzone.net/god-father-episode-8/ | جب مینزا کچن سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بلٹ پروف جیکٹ تھی۔ سنی اور ہیگن اس جیکٹ کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ وہ براسی کی جیکٹ تھی جسے وہ بہت ہی خاص موقعوں پر باہر جاتے وقت لباس کے نیچے پہنتا تھا۔ اس جیکٹ کے اندر درمیانے سائز کی ایک مردہ مچھلی پھنسی ہوئی تھی۔ مینزا سپاٹ سے لہجے میں بولا۔ یہ بلٹ پروف جیکٹ چند منٹ پہلے ہمارے علاقے کے قریب پڑی پائی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سولوزو کو اپنے مخبر اورہمارے غدار گیٹو کے انجام کی خبر مل گئی ہے۔ اس کے جواب میں اس نے یہ جیکٹ ہمارے لیے بھجوائی ہے۔ ٹیسو نے بھی تقریباً سپاٹ لہجے میں کہا۔ اب ہمیں کم از کم یہ معلوم ہوگیا کہ براسی کہاں ہے۔ اب ہمیں اس کے انتظار کی الجھن میں مبتلا رہنے کی ضرورت نہیں۔ سنی نے سگار کا ایک کش لیا اور مشروب کا ایک گھونٹ بھرا۔ اس کے چہرے پر سرخی تھی مگر وہ کچھ بولا نہیں۔ مائیکل کی آنکھیں قدرے پھیلی ہوئی تھی۔ بلٹ پروف جیکٹ میں پھنسی ہوئی مچھلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ اس کا مطلب کیا ہے ہیگن بولا۔ یہ سسلی کے باشندوں کا ایک مخصوص پیغام بھیجنے کا انداز ہے۔ یہ مچھلی اس بات کی علامت ہے کہ براسی کو ہلاک کر کے سمندر کی تہہ میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں غالباً اب تک اس کی لاش مچھلیوں کی خوراک بن چکی ہوگی۔ ہیگن گو کہ سسلی کا نہیں تھا مگر وہ اس بات سے واقف تھا ٭ ٭ ٭ مائیکل اس رات جب اپنی دوست اور غیر رسمی منگیتر کے سے ملنے شہر روانہ ہوا تو اس کا دل بجھا ہوا تھا۔ مینزا کے دو آدمی اسے گاڑی میں اس ہوٹل کے قریب پہنچانے کے لیے روانہ ہوئے تھے جہاں کے ٹھہری ہوئی تھی۔ وہ اس بات کا خیال رکھ رہے تھے کہ ان کا تعاقب تو نہیں کیا جارہا یہی چیک کرنے کے لیے وہ پہلے گاڑی کو ادھر ادھر گھماتے رہے۔ جب انہیں اطمینان ہوگیا تب انہوں نے صحیح راستہ اختیار کیا۔ مائیکل نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ فیملی کے سنگین حالات میں اس حد تک ملوث ہوجائے گا۔ گو ابھی تک اس نے بہ ذات خود فون اٹینڈ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا لیکن اس کے سامنے بہرحال تمام اہم باتیں ہورہی تھیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ فیملی کے خفیہ معاملات میں شریک ہوچکا ہے۔ یہ احساس اسے مضطرب بھی کررہا تھا اور وہ اپنے آپ کو پژمردہ سا بھی محسوس کررہا تھا۔ وہ کے کے معاملے میں بھی دل ہی دل میں ایک ہلکے سے احساس جرم کا شکار تھا۔ اس نے کے کو اپنی فیملی کے متعلق صحیح طور پر کچھ زیادہ نہیں بتایا تھا۔ اگر کچھ باتوں کی طرف اشارے بھی دیئے تھے تو وہ مذاق کے سے انداز میں دیئے تھے جن سے فیملی کی اصلی تصویر ابھر کر سامنے نہیں آتی تھی۔ بس کچھ ایسا ہی لگتا تھا جیسے وہ مہم جو اور ذرا دلیر قسم کے لوگ تھے جیسے عام طور پر بعض میکسیکن جو دیہی ماحول کی فلموں میں دکھائے جاتے تھے۔ اپنے باپ پر فائرنگ کے واقعے کے بارے میں بھی اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ ایک قسم کا حادثہ تھا۔ لیکن اب حالات سے رفتہ رفتہ کچھ اور ہی تصویر ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ اس نے تو کے سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اب مزید کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن واقعات بتا رہے تھے کہ ابھی تو بات شروع ہوئی تھی۔ آگے نہ جانے کیا کچھ ہونا تھا وہ کب تک کے کے سامنے تلخ اور سنگین حقائق کو مبہم لفظوں کے پردوں میں لپیٹ سکتا تھا یہ اس کی فطرت کے بھی خلاف تھا۔ وہ بنیادی طور پر ایک راست گو نوجوان تھا۔ زیادہ تر سچ ہی بولتا تھا اور پھر جسے وہ زندگی کی ساتھی بنانے کا ارادہ رکھتا تھا، اسے بھلا کیسے اندھیرے میں رکھ سکتا تھا دوسری طرف مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس مرحلے پر وہ اپنی فیملی سے لاتعلقی بھی اختیار نہیں کرسکتا تھا۔ وہ بحران میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ بلکہ حقیقت یہ تھی، اسے ان معاملات میں اپنا بے ضرر سا کردار اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے بھائی اور ہیگن کا رویہ اس کے ساتھ کچھ ایسا تھا جیسے وہ بے چارہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ شریف، نرم مزاج اور ڈرپوک سا آدمی تھا، اس لیے صرف فون سننے پر بٹھا دیا گیا تھا۔ ان کی نظر میں گویا اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ اسے میدان جنگ میں شجاعت کے کارنامے انجام دینے پر تمغے دیئے گئے تھے۔ شاید فیملی کی سرگرمیوں میں نادیدہ تمغے حاصل کرنا میدان جنگ میں تمغے حاصل کرنے سے زیادہ مشکل تھا انہی سوچوں میں الجھا، وہ جب ہوٹل میں داخل ہوا تو کے لابی میں ہی اس کی منتظر تھی۔ انہوں نے کھانا اکٹھے کھایا۔ کھانے کے بعد کافی پینے کے دوران کے نے پوچھا۔ تم اپنے والد کو دیکھنے اسپتال کب جائو گے مائیکل گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔ ویسے تو ملاقات کا وقت ساڑھے آٹھ بجے ختم ہوجاتا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس وقت وہاں جائوں جب سب لوگ رخصت ہوچکے ہوں۔ پاپا ایک پرائیویٹ اسپتال میں پرائیویٹ کمرے میں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے نرسیں بھی خاص طور پر الگ مقرر کی گئی ہیں۔ اس لیے امید یہی ہے کہ بے وقت جانے پر بھی کوئی مجھے نہیں روکے گا اور میں کچھ دیر پاپا کے پاس بیٹھ سکوں گا لیکن میرا خیال ہے پاپا ابھی بات کرنے کے قابل نہیں ہوں گے بلکہ شاید انہیں تو پتا بھی نہ چل سکے کہ میں ان کے پاس آیا تھا لیکن بہرحال مجھے جانا تو ہے۔ کے بولی۔ مجھے تمہارے پاپا کے بارے میں سوچ کر اتنا دکھ ہورہا ہے۔ کس بے دردی سے انہیں گولیاں مار دی گئیں۔ میری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں۔ میں نے تمہاری بہن کی شادی کے موقع پرا نہیں دیکھا تھا۔ وہ اتنے اچھے، مہذب اور شائستہ انسان لگ رہے تھے۔ اخبارات ان کے بارے میں جو کچھ چھاپ رہے ہیں، مجھے تو اس پر یقین نہیں آرہا۔ تمہیں یقین کرنا بھی نہیں چاہیے غیر ارادی طور پر مائیکل کے منہ سے نکلا۔ وہ ایک بار پھر اس کے سامنے سچ بولتے بولتے رہ گیا۔ نہ جانے کون سی طاقت اسے باز رکھتی تھی۔ گو وہ کے سے محبت کرتا تھا۔ اس پر اسے پورا اعتماد تھا لیکن نہ جانے کیوں اپنے والد اور فیملی کے بارے میں مکمل طور پر سچ بولنے کے معاملے میں اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی۔ ایسے موقع پر کوئی غیبی طاقت گویا اسے مبہم سے انداز میں احساس دلاتی تھی کہ کے بہرحال خاندان سے باہر کی لڑکی تھی۔ غیر تھی۔ فی الحال اس کا فیملی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تمہیں تو کوئی خطرہ نہیں کے کے لہجے میں تشویش تھی۔ اخبارات خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ گینگ وار نہ شروع ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا تم بھی اس میں ملوث ہو گے مائیکل کے کوٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاکر مسکراتے ہوئے بولا۔ تم چاہو تو میری تلاشی لے سکتی ہو، میری بغلوں میں ہولسٹر لگے ہوئے ہیں اور نہ میری کسی جیب میں کوئی گن ہے۔ اس کے انداز پر کے ہنس دی۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں اوپر کے کے کمرے میں چلے گئے۔ انہوں نے کچھ وقت اکٹھے گزارہ اور پھر لیٹے لیٹے مائیکل کو غنودگی آگئی۔ شاید اس دوران کے کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ اچانک مائیکل ہڑ بڑا کر اٹھا اور اس نے گھڑی دیکھی۔ اوہ دس بج گئے وہ بڑ بڑایا۔ مجھے فوراً اسپتال پہنچنا چاہیے۔ وہ اپنا حلیہ درست کرنے واش روم میں چلا گیا۔ باہر آکر جب وہ بال بنا رہا تھا تو کے پُر اشتیاق لہجے میں بولی۔ ہماری شادی کب ہوگی بس ذرا پاپا ٹھیک ہوجائیں اور معاملات ٹھنڈے پڑجائیں۔ پھر جب تم کہو گی، ہم شادی کرلیں گے۔ مائیکل نے جواب دیا پھر ایک لمحے کے توقف سے بولا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس دوران تم اپنے والدین کو تفصیل سے سب کچھ بتا دو تو بہتر ہے۔ کیا بتادوں کے نے آئینے میں ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ یہی کہ تمہاری ملاقات اطالوی نسل کے ایک ہینڈ سم اور دلیر نوجوان سے ہوئی ہے۔ مائیکل مسکراتے ہوئے بولا۔ جس کا تعلیمی ریکارڈ بھی اچھا ہے اور جو جنگ میں بھی حصہ لے چکا ہے۔ کئی تمغے بھی حاصل کرچکا ہے۔ نوجوان بہت محنتی اور ایماندار ہے، صاف ستھری زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن خرابی بس یہ ہے کہ اس کا باپ مافیا کا چیف ہے جس کے کاموں کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ کبھی کبھی اسے بعض بدمعاشوں کو قتل بھی کرنا یا کرانا پڑتا ہے بڑے بڑے سرکاری افسروں کو رشوتیں بھی دینا پڑتی ہیں اور کبھی کبھی خود بھی گولیاں کھانی پڑتی ہیں لیکن ان سب باتوں سے اس کے شریف، دیانتدار اور محنتی بیٹے کا کوئی تعلق نہیں کیا تمہیں یہ سب باتیں یاد رہ جائیں گی کے پیچھے ہٹ کر باتھ روم کے دروازے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی۔ کیا یہ سب سچ ہے میرا مطلب جو کچھ تم اپنے والد کے بارے میں کہہ رہے ہو صحیح طور پر مجھے خود بھی معلوم نہیں۔ مائیکل نے دیانتداری سے جواب دیا۔ لیکن اگر ان باتوں کی تصدیق ہو جائے تب بھی مجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ پھر وہ دروازے کی طرف بڑھا تو کے بولی۔ اب تم سے کب ملاقات ہوگی مائیکل نے پلٹ کر محبت سے اس کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔ میں چاہتا ہوں کہ اب تم گھر واپس چلی جائو اور اچھی طرح حالات پر غور کرلو۔ میری خواہش اور کوشش یہی ہے کہ میری فیملی کو اس وقت جو حالات درپیش ہیں، ان کا سایہ تم پر نہ پڑے۔ کرسمس کی چھٹیاںگزر جائیں تو میں بھی کالج آجائوں گا۔ پھر اکٹھے بیٹھ کر سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ کے نے طمانیت سے جواب دیا۔ اس وقت اس کے دل میں گویا مائیکل کے لیے محبت کے سوتے پھوٹ رہے تھے۔ اسے مائیکل کی محبت میں گرفتار ہوئے تو کافی دن گزر چکے تھے لیکن اس محبت میں اتنی شدت اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اس وقت اگر کوئی اسے بتاتا کہ اب وہ ایک طویل عرصے تک مائیکل کی صورت بھی نہیں دیکھ سکے گی۔ تو شاید وہ بتانے والے کا منہ نوچ لیتی۔ وہ اس پیشگوئی کی اذیت برداشت نہ کرپاتی۔ شاید غم کی شدت سے اس کا دل پھٹ جاتا۔ ٭ ٭ ٭ مائیکل جب فرنچ اسپتال کے سامنے ٹیکسی سے اترا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سڑک سنسان پڑی تھی۔ اسپتال کے سامنے فٹ پاتھ پر بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ اسپتال میں داخل ہونے کے بعد اسے مزید حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسپتال کی لابی میں بھی کوئی نہیں تھا۔ ڈون کارلیون اس اسپتال میں داخل تھا اور مائیکل کی معلومات کے مطابق اسپتال کی چوبیس گھنٹے کڑی نگرانی ہورہی تھی۔ مینزا اور ٹیسو کے آدمی ڈون کی حفاظت پر مامور تھے۔ مگر اس وقت یہاں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ مینزا یا ٹیسو کے کسی بھی آدمی کی شکل نظر نہیں آرہی تھی۔ رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے اور اسپتال ویران سا لگ رہا تھا۔ صرف استقبالیہ کائونٹر پر سفید یونیفارم میں ایک عورت موجود تھی۔ معلومات بھی اس کائونٹر سے حاصل کی جاسکتی تھیں۔ لیکن مائیکل نے کچھ پوچھنے کے لیے وہاں رکنے کی زحمت نہیں کی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے والد کا کمرہ چوتھے فلور پر ہے۔ اسے اس کا نمبر بھی معلوم تھا۔ اس لیے وہ تیزی سے سیدھا لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے اعصاب تن چکے تھے اور ذہن میں طرح طرح کے اندیشے سر اٹھا رہے تھے۔ وہ چوتھی منزل پر پہنچ گیا اور اس دوران کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی البتہ اس منزل پر نرسوں کے لیے بنے ہوئے شیشے کے دروازوں والے کیبن میں بیٹھی ہوئی ایک نرس نے اسے آواز دے کر کچھ دریافت کیا لیکن مائیکل نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور کمروں کے نمبر دیکھتا ہوا تیزی سے اپنے والد کے کمرے کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس کمرے پر پہنچ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کمرے کے دروازے پر بھی کوئی آدمی تعینات نہیں تھا۔ حتیٰ کہ وہاں پولیس کے وہ دو سراغرساں بھی نظر نہیں آرہے تھے جنہیں سرکاری طور پر کم از کم اس وقت تک ڈون کی حفاظت کے فرائض انجام دینے تھے جب تک وہ اس کا تفصیلی بیان نہ لے لیتے۔ آخر سب کے سب کہاں مر گئے تھے کہیں اس سنہری موقع سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے کوئی ڈون کے کمرے میں گھس تو نہیں گیا تھا یہ سوچتے ہوئے اس کے اعصاب مزید تن گئے۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ سیدھا اندر چلا گیا۔ کمرے میں روشنی بھی نہیں تھی تاہم کھڑکی کے شیشے سے چاندنی اندر آرہی تھی۔ اس ملگجی روشنی میں اسے بیڈ پر لیٹے ہوئے اپنے باپ کا چہرہ نظر آگیا۔ مائیکل کو یہ دیکھ کر قدرے اطمینان ہوا کہ مدھم سانسوں کے ساتھ اس کے باپ کا سینہ اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ اس کے منہ اور ناک میں ربڑ کی نالیاں لگی ہوئی تھیں۔ بیڈ کے قریب اسٹیل کا اسٹینڈ اور نیچے شیشے کا جار وغیرہ رکھا ہوا تھا۔ مائیکل نے چند لمحے وہیں کھڑے ہوکر پہلے تو یہ اطمینان کیا کہ اس کے والد کو مزید کوئی گزند نہیں پہنچی تھی۔ پھر وہ باہر آگیا اور نرسوں کے کیبن میں پہنچا۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود نرس کو اس نے بتایا۔ میرا نام مائیکل ہے۔ میں ڈون کارلیون کا بیٹا ہوں۔ میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے لیے آیا تھا لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہورہی ہے کہ ان کے آس پاس کوئی بھی موجود نہیںہے۔ کم از کم ان دو کو تو موجود ہونا چاہیے تھا جو سرکاری طور پر ان کی حاظت کے لیے تعینات تھے نوجوان اور خوبصورت نرس کے چہرے پر قدرے نخوت تھی اور شاید اسے یہ احساس بھی تھا کہ اسے بہت سے اختیارات حاصل تھے اور اس کی شخصیت بہت اہم تھی۔ وہ نرسوں والے روایتی سے انداز میں بولی۔ آپ کے والد کے پاس ملاقاتی بہت زیادہ آرہے تھے۔ ان کی وجہ سے اسپتال کا نظام بہت متاثر ہورہا تھا۔ دس منٹ پہلے پولیس آئی اور اس نے تمام لوگوں کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ باہر موجود لوگوں کو بھی پولیس نے ہٹادیا۔ پھر پانچ منٹ پہلے پولیس کے سراغرسانوں کے لیے ان کے ہیڈ کوارٹر سے فون آیا۔ میں ہی انہیں بلانے گئی تھی اور انہوں نے یہاں آکر فون سنا تھا۔ شاید ہیڈ کوارٹر میں کوئی ہنگامی صورت حال تھی۔ انہیں فوری طور پر وہاں بلایا گیا تھا۔ چنانچہ وہ بھی رخصت ہوگئے۔ پھر نرس نے شاید مائیکل کے چہرے پر تشویش دیکھ کر قدرے ہمدردی سے کہا۔ بہرحال تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں پوری طرح تمہارے والد کا خیال رکھ رہی ہوں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد انہیں دیکھنے ان کے کمرے میں جاتی ہوں اور میں نے دروازہ بھی اسی لیے کھلا چھوڑا ہوا ہے کہ کمرے میں ذرا سی بھی آواز ہو تو مجھے سنائی دے جائے۔ شکریہ۔ مائیکل نے کہا۔ میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھوں گا۔ اب نرس ذرا خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکرائی اور بولی۔ بس تھوڑی دیر ہی بیٹھیے گا۔ میں آپ کو زیادہ بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ مائیکل اپنے والد کے کمرے میں آیا اور وہاں موجود فون پر اس نے اسپتال کے ٹیلیفون آپریٹر کو اپنے گھر کا نمبر دے کر رابطہ کرانے کے لیے کہا۔ فون سنی نے ریسیو کیا۔ مائیکل نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ سنی مجھے اسپتال پہنچنے میں دیر ہوگئی تھی۔ میں چند لمحے پہلے ہی پہنچا ہوں۔ یہاں پاپا کے پاس بلکہ اسپتال کے باہر بھی کوئی نہیں ہے۔ مینزا یا ٹیسو کا کوئی آدمی نظر نہیں آرہا۔ حتیٰ کہ پولیس کے سراغرساں بھی موجود نہیں ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں اس وقت پہنچ گیا۔ پاپا کسی قسم کے حفاظتی انتظام کے بغیر لاوارثوں کی طرح یہاں پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے لہجے میں ہلکا سا ارتعاش تھا۔ سنی ایک لمحے خاموش رہا، پھر نیچی آواز میں بولا۔ یقینا سولوزو کوئی چال چلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ تم نے پہلے ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کے پاس کوئی کام کا پتا ہے۔ اس لیے وہ اتنے اعتماد اور بے خوفی سے قدم اٹھارہا ہے۔ تمہارا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ سنی کے لہجے میں مرعوبیت تھی۔ وہ گویا مائیکل کی ذہانت اور پیش بینی کا قائل ہوگیا تھا۔ لیکن اس نے یہاں سے ہر آدمی کو ہٹا دینے کا کام پولیس سے کیسے لیا اور وہ سب کہاں چلے گئے مائیکل نے حیرت سے کہا۔ خدا کی پناہ کیا اس خبیث سولوزو کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کیا پورے نیویارک کی پولیس اس کی جیب میں ہے تم پریشان مت ہو۔ سنی نے مربیانہ انداز میں گویا اسے تسلی دی۔ خوش قسمتی بہرحال اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اس لیے تم صحیح موقع پر وہاں پہنچ گئے۔ تمہارا دیر سے جانا ہم سب کے حق میں اچھا ہوا۔ تم پاپا کے کمرے میں ہی ٹھہرو۔ دروازہ اندر سے لاک کرلو۔ میں پندرہ منٹ کے اندر اندر کچھ آدمی وہاں بھجواتا ہوں۔ مجھے بس چند فون کالز کرنا پڑیں گی۔ تب تک تم وہاں سے نہ ہلنا اور دیکھو گھبرانا مت۔ میں گھبرا نہیں رہا ہوں۔ مائیکل نے سخت لہجے میں کہا۔ اس لمحے وہ اپنے والد کے دشمنوں کے لیے اپنے دل میں شدید غصہ اور نفرت محسوس کررہا تھا۔ ڈون پر فائرنگ کے بعد سے اس کی یہ کیفیت پہلی بار ہوئی تھی۔ فون بند کر کے اس نے نرسوں کو بلانے والی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ سنی نے اسے جو ہدایات دی تھیں، وہ اپنی جگہ تھیں لیکن اب وہ خود اپنی عقل اور اپنی قوت فیصلہ کو بھی کام میں لانا چاہتا تھا۔ جب نرس کمرے میں آئی تو مائیکل نے کہا۔ میری بات سن کر تمہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، میں صرف احتیاطاً اپنے والد کو کسی اور کمرے میں منتقل کرنا چاہتا ہوں، کیا یہ ممکن ہے اس کے لیے ہمیں ڈاکٹر سے اجازت لینی پڑے گی۔ نرس بولی۔ معاملہ بہت ہنگامی نوعیت کا ہے۔ مائیکل بولا۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ میرے والد کو ہلاک کرنے کی نیت سے اسپتال میں آنے والے ہیں۔ تم اخبارات میں ان کے بارے میں پڑھ چکی ہوگی۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے، فوری طور پر کرنا ہے۔ پلیز میری مدد کرو۔ کیا انہیں منتقل کرنے کے لیے ہمیں یہ ٹیوبس ہٹانی پڑیں گی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ اسٹینڈ میں بھی پہیے لگے ہوئے ہیں۔ بیڈ کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاسکتا ہے۔ ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بعد نرس بولی۔ اس فلور پر کونے کا ایک کمرہ خالی ہے۔ چند لمحوں کے اندر اندر ان دونوں نے بیڈ اور اسٹینڈ دھکیل کر اسی فلور کے کونے کے کمرے میں منتقل کردیا۔ مائیکل نے نرس سے کہا۔ بہتر یہی ہے کہ تم بھی اسی کمرے میں رہو۔ اگر تم باہر اپنے کیبن میں رہیں تو ممکن ہے تمہیں بھی کوئی گزند پہنچ جائے۔ اسی لمحے مائیکل نے بیڈ کی طرف سے اپنے والد کی بوجھل لیکن تحکمانہ آواز سنی۔ مائیکل کیا یہ تم ہو یہاں کیا ہورہا ہے مائیکل کا دل گویا اچھل کر حلق میں آگیا لیکن اس کی یہ کیفیت خوشی سے ہوئی تھی۔ اس وقت غیر متوقع طور پر اسے اپنے باپ کی آواز سن کر بہت خوشی ہوئی تھی۔ وہ پلٹ کر بیڈ پر جھک گیا۔ اس نے باپ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ ہاں پاپا یہ میں ہوں، مائیکل۔ وہ اپنی آواز کو پر سکون رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ یہاں کچھ نہیں ہورہا۔ بس میں ذرا احتیاطی اقدامات کررہا تھا۔ مجھے خطرہ ہے کہ کچھ لوگ یہاں آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آنے والے ہیں۔ اس لیے میں نے آپ کو دوسرے کمرے میں پہنچا دیا ہے۔ اب آپ کوئی آواز مت نکالیے گا۔ اگر کوئی آپ کا نام لے کر پکارے تب بھی کوئی جواب مت دیجیے گا۔ بہرحال، میں یہاں موجود ہوں۔ آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ گوڈون کارلیون اس وقت مکمل طور پر ہوش حواس میں نہیں تھا اور دوائوں کے اثرات کے باوجود بڑی تکلیف میں تھا۔ لیکن وہ مشفقانہ انداز میں، نیم وا آنکھوں سے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرادیا اور بیٹھی بیٹھی سی آواز میں بولا۔ میں بھلا کیوں خوفزدہ ہوں گا میں جب بارہ سال کا تھا تب سے نہ جانے کون کون لوگ مجھے قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ٭ ٭ ٭ فرنچ اسپتال زیادہ بڑا نہیں تھا۔ مائیکل کمرے کی کھڑکی میں کھڑے ہوکر باہر سڑک تک کا منظر دیکھ سکتا تھا۔ اسپتال میں داخل ہونے کا ایک ہی دروازہ تھا اور وہ مائیکل کی نظر میں تھا۔ اسپتال میں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کو وہ آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اگر وہ اسپتال کے گیٹ پر جاکر کھڑا ہوجائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ داخلے کے دروازے پر اس کا بے خوفی سے کھڑے ہونا کسی بھی حملہ آور کو کم از کم وقتی طور پر تشویش میں مبتلا کرسکتا تھا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا اور اسپتال کے گیٹ سے نکل کر فٹ پاتھ پر ایک اسٹریٹ لائٹ کے عین نیچے کھڑا ہوگیا تاکہ آنے والا دور سے ہی اس کی شکل دیکھ سکے اور اگر وہ اسے پہچانتا ہو تو اس کی موجودگی سے کسی نہ کسی حد تک ہڑبڑا سکے۔ اس نے سگریٹ سلگا لی۔ اس اثنا میں اسے ایک نوجوان موڑ سے نمودار ہوکر اسپتال کی طرف آتا دکھائی دیا۔ اس کی بغل میں ایک پارسل دبا ہواتھا۔ وہ جب روشنی میں آیا تو مائیکل کو اس کا چہرہ کچھ شناسا سا لگا لیکن اسے یاد نہیں آسکا کہ اس نے پہلے اسے کہاں دیکھا تھا۔ نوجوان سیدھا اسی کی طرف آیا اور اس کے عین سامنے آن رُکا۔ پھر وہ مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔ ڈون مائیکل آپ نے مجھے پہچانا میں اینزو ہوں۔ میں مسٹر نیزورین کی بیکری پر کام کیا کرتا تھا، ان کا معاون تھا۔ اب میں ان کا داماد بھی ہوں۔ آپ کے والد نے میرے کاغذات بنوا کر مجھے امریکا کی شہریت دلوائی تھی۔ اس طرح گویا انہوں نے مجھے ایک نئی زندگی دی تھی۔ میں ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ مائیکل نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اسے اب یاد آگیا تھا کہ وہ کون تھا۔ اینزو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ میں آپ کے والد کی عیادت کے لیے آیا تھا۔ مگر مجھے بہت دیر ہوگئی ہے۔ کیا اسپتال والے اس وقت مجھے اندر جانے دیں گے اس کا لہجہ اطالوی تھا۔ مائیکل نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ نہیں لیکن بہرحال تمہارا بہت شکریہ۔ میں ڈون کو بتادوں گا کہ تم آئے تھے۔ اسی لمحے بڑی سی ایک سیاہ کار سڑک کے کونے پر نمودار ہوئی اور ہلکی مگر گرجدار سی آوازکے ساتھ ان کی طرف آتی دکھائی دی۔ مائیکل نے جلدی سے نیچی آواز میں کہا۔ شاید یہ پولیس ہو۔ ممکن ہے یہاں کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے اور تم بھی اس کی لپیٹ میں آجائو۔ تم چاہو تو فوراً یہاں سے رخصت ہوسکتے ہو۔ نوجوان اینزو کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے خوف نمودار ہوا مگر دوسرے ہی لمحے وہ گویا دل ہی دل میں کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے مضبوط لہجے میں بولا۔ اگر کوئی مسئلہ کھڑا ہوا تو میں اپنی بساط کے مطابق تمہارے کام آنے کی کوشش کروں گا۔ ڈون نے مجھ پر جو احسان کیا ہے اس کے بعد اتنا تو میرا فرض بنتا ہے۔ حالانکہ پولیس کے سامنے کسی مسئلے میں الجھنے سے اس کی وہ شہریت منسوخ ہوسکتی تھی جو اسے بڑی مشکل سے ملی تھی مگر اس وقت اس نے مائیکل کے کہنے کے باوجود راہ فرار اختیار نہ کر کے بڑی جواں مردی کا ثبوت دیا تھا۔ مائیکل کو اس کی بات بہت اچھی لگی۔ وہ اس کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اسے احساس ہوا کہ اینزو کی اس وقت اس کے ساتھ موجودگی اس کے حق میں بہت مفید ثابت ہوسکتی تھی۔ اسے خیال آیا تھا کہ عین ممکن ہے اس سیاہ کار میں پولیس کے بجائے سولوزو کے آدمی ہوں۔ وہ دروازے پر دو نوجوانوں کو کھڑے دیکھ کر خوفزدہ ہوسکتے تھے اور اپنے ارادوں پر عملدرآمد کا ارادہ ملتوی کرسکتے تھے۔ وہ کار آگے بڑھتی چلی گئی۔ اس میں کوئی فیملی تھی۔ ان لوگوں نے اسپتال کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ مائیکل کے تنے ہوئے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑ گئے۔ اس نے اینزو کو بھی ایک سگریٹ سلگا کر دیا۔ دونوں نوجوان اسٹریٹ لائٹ کے نیچے کھڑے سگریٹ کے کش لیتے رہے۔ وہ دونوں سگریٹ تقریباً ختم کرچکے تھے۔ جب ایک اور بڑی سی سیاہ کار دوسری سڑک پر نمودار ہوکر ان کی طرف مڑتی نظر آئی۔ اس کی رفتار بے حد کم تھی اور وہ فٹ پاتھ سے تقریباً لگ کر چل رہی تھی۔ ان کے قریب آتے آتے وہ گویا رکنے لگی۔ مائیکل نے اس میں موجود افراد کو دیکھنے کے لیے آنکھیں سکیڑ کر ذرا گردن جھکائی تو یکدم کار کی رفتار تیز ہوئی اور وہ آگے نکلتی چلی گئی۔ ایسا لگا جیسے کسی نے اسے پہچان کر، وہاں رکنے کا ارادہ ملتوی کردیا تھا۔ مائیکل نے ایک اور سگریٹ سلگا کر اینزو کو دی۔ اس نے دیکھا، اینزو کے ہاتھ میں ہلکی سی کپکپاہٹ تھی۔ مائیکل کو یہ دیکھ کر خود اپنے بارے میں حیرت ہوئی کہ اس کے ہاتھوں میں ذرا بھی لرزش نہیں تھی۔ انہیں وہاں کھڑے مزید دس منٹ بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ فضا میں پولیس کار کے سائرن کی آواز گونج اٹھی۔ ایک پولیس کار تیز رفتاری سے اس طرح موڑ عبور کر کے ان کی طرف آئی کہ اس کے ٹائر چرچرا اٹھے۔ کار اسپتال کے عین سامنے آن رکی۔ مزید دو اسکواڈ کاریں اس کے پیچھے پیچھے آن پہنچیں۔ چند لمحے بعد اسپتال کے گیٹ پر بہت سے باوردی پولیس والے نظر آنے لگے۔ مائیکل نے سکون کی سانس لی۔ غالباً سنی پولیس کے محکمے کو حرکت میں لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ مائیکل پولیس آفیسرز کو خوش آمدید کہنے کے ارادے سے آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ اس کے منہ سے کوئی خیر مقدمی لفظ نکلتا، دو جسیم اور مضبوط پولیس والوں نے اس کے دونوں بازو سختی سے پکڑ لیے اور تیسرا اس کی تلاشی لینے لگا۔ پھر ایک تنو مند پولیس کیپٹن آگے آتا دکھائی دیا۔ پولیس والوں نے احتراماً جلدی سے اس کے لیے راستہ چھوڑ دیا۔ اس کی ٹوپی پر طلائی نشان چمک رہا تھا۔ اس کے بال، جو ٹوپی کے نیچے سے جھانک رہے تھے، ان میں سفیدی غالب تھی اور وہ خاصا موٹا بھی تھا۔ اس کے باوجود وہ بہت توانا اور سانڈ کی طرح مضبوط معلوم ہورہا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ اور پرگوشت تھا۔ وہ مائیکل کے سامنے آن رکا اور کھردری آواز میں برہمی سے بولا۔ میرا خیال تھا کہ میں نے تم سب بدمعاشوں کو حوالات میں ڈال دیا ہے۔ تم کہاں سے آگئے اور کون ہو تم یہاں کیا کررہے ہو اس سے پہلے کہ مائیکل کوئی جواب دیتا، اس کی تلاشی لینے والے نے اپنے آفیسر کو مطلع کیا۔ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے کیپٹن مائیکل خاموشی سے کیپٹن کا گہری نظروں سے جائزہ لے رہا تھا۔ سادہ لباس والے ایک سراغرساں نے دبی دبی سی آواز میں کیپٹن کو بتایا۔ یہ مائیکل کارلیون ہے۔ ڈون کارلیون کا بیٹا۔ مائیکل نے کیپٹن کی نیلی اور سفاک آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پر سکون لہجے میں پوچھا۔ وہ دونوں پولیس سراغرساں کہاں ہیں میرے والد کی حفاظت کے لیے سرکاری طور پر تعینات کیا گیا تھا انہیں کس نے ان کی ڈیوٹی سے ہٹایا تھا پولیس کیپٹن کا سرخ چہرہ غصے سے بالکل ہی لال بھبھوکا ہوگیا۔ وہ مائیکل کو ایک گالی دیکر غضب ناک انداز میں گرجا۔ تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے میں نے ہٹایا تھا انہیں ڈیوٹی سے، اب بتائو، تم میرا کیا بگاڑو گے جب تمہارے باپ کو گولیاں ماری گئیں اس موقع پر اگر میں موجود ہوتا تو میں اسے بچانے کے لیے انگلی بھی نہ ہلاتا۔ تم لوگ جیسے سب بدمعاش اگر آپس میں لڑلڑ کر ایک دوسرے کو ہلاک کردیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ اب فوراً یہاں سے دفع ہوجائو اور مریضوں سے ملاقات کے جو اوقات مقرر ہیں ان کے علاوہ میں ایک لمحے کے لیے بھی یہاں تمہاری شکل نہ دیکھوں سمجھے مائیکل بدستور گہری نظر سے پولیس کیپٹن کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ حیرت انگیز بات تھی کہ اسے اب بھی غصہ نہیں آیا تھا۔ اس کے برعکس اس کا ذہن نہایت تیزی سے، منطقی انداز میں حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیپٹن سولوزو کے ہاتھ بکا ہوا تو نہیں عین ممکن تھا کہ چند منٹ پہلے گزرنے والی کار میں سولوزو خود موجود رہا ہو۔ اسپتال کے گیٹ پر مائیکل اور ایک توانا سے نوجوان کو کھڑے دیکھ کر اس نے اپنے ارادوں پر عمل درآمد کا ارادہ ملتوی کردیا ہو اور آگے جاتے ہی پولیس کیپٹن سے رابطہ کر کے اس سے کہا ہو۔ میں نے تو تمہیں تمام آدمیوں اور پولیس کے سراغرسانوں کو اسپتال سے ہٹانے کے لیے بھاری رقم دی تھی۔ لیکن وہاں تو اب بھی ڈون کا بیٹا اور دوسرے لوگ موجود ہیں۔ کیا راستہ صاف کرنا اسے کہتے ہیں مائیکل پر سکون لہجے میں کیپٹن سے مخاطب ہوا۔ میں اس وقت تک اسپتال سے کہیں نہیں جائوں گا جب تک تم میرے والد کے کمرے پر کچھ پولیس آفیسرز کو حفاظت کے لیے تعینات نہیں کردیتے۔ کیپٹن نے اس بات کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی اور اپنے پاس کھڑے سادہ لباس والے سراغرساں کو مخاطب کیا۔ فل اس بدمعاش کو بھی لے جاکر حوالات میں ڈال دو۔ سراغرساں نے ہچکچاہٹ آمیز انداز میں گویا کیپٹن کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اس نوجوان کے پاس سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ہے کیپٹن اس کا شمار میدان جنگ کے ہیروز میں ہوتا ہے اور یہ کبھی کسی قسم کے ناجائز دھندوں اور گروہ بازی میں ملوث نہیں رہا۔ اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تو اخبارات ہنگامہ کھڑا کرسکتے ہیں۔ کیپٹن قہر برساتی آنکھوں سے سراغرساں کی طرف دیکھتے ہوئے دھاڑا۔ لعنت ہو تم پر میں تم سے کہہ رہا ہوں، اسے لے جا کر حوالات میں بند کردو۔ اس لمحے مائیکل پلک جھپکائے بغیر کیپٹن کو گھورتے ہوئے پر سکون لہجے میں بول اٹھا۔ میرے والد کو ہلاک کرنے کے لیے راستہ صاف کرنے کا تمہیں سولوزو نے کتنا معاوضہ دیا ہے کیپٹن کیپٹن کے چہرے سے یوں لگا جیسے وہ غصے کی شدت سے ذہنی توازن کھو بیٹھے گا۔ اس نے مائیکل کے دائیں بائیں کھڑے پولیس والوں کو مخصوص انداز میں اشارہ کیا۔ انہوں نے مائیکل کے بازو زیادہ مضبوطی سے جکڑ لیے اور پھر کیپٹن کا گھونسا پوری طاقت سے مائیکل کے چہرے پر پڑا۔ گھونسا کیا وہ گویا کوئی بھاری ہتھوڑا تھا جس کی ضرب سے مائیکل کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے اپنے منہ میں خون کا ذائقہ اور تین چار چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کی موجودگی محسوس کی اور درد کا ایک سیلاب گویا اس کے چہرے اور سر میں پھیل گیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے تین چار دانت ٹوٹ گئے تھے اور جبڑا ہل گیا تھا۔ اس کے سر کے اندر گویا کوئی بم پھٹ گیا تھا۔ اگر دونوں پولیس والوں نے اس کے بازو مضبوطی سے نہ پکڑ رکھے ہوتے تو شاید وہ گر جاتا۔ تاہم وہ بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اسے احساس تھا کہ سادہ لباس والا سراغرساں اس کے اور کیپٹن کے درمیان حائل ہوگیا تھا۔ وہ کیپٹن سے کہہ رہا تھا۔ خدا کی پناہ کیپٹن تم نے اسے زخمی کردیا ہے۔ کیپٹن بلند آواز میں بولا۔ کیا بکواس کررہے ہو میں نے تو اسے چھوا بھی نہیں یہ گرفتاری میں مزاحمت کررہا تھا اور مجھ پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹ رہا تھا مگر ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ یوں اسے چوٹ لگ گئی۔ سمجھ میں آئی بات مائیکل کی آنکھوں کے سامنے سرخی آمیز دھندلاہٹ پھیل گئی تھی۔ اسی حالت میں اس نے مزید چند کاریں سڑک پر نمودار ہوتے دیکھیں۔ کاریں اسپتال کے قریب آکر رک گئیں اور ان میں سے لوگ اترتے دکھائی دیئے۔ ان میں سے ایک کو مائیکل نے پہچان لیا۔ وہ مینزا کا وکیل تھا۔ وہ سخت اور پر اعتماد لہجے میں کیپٹن سے بات کرنے لگا۔ کارلیون فیملی نے ڈون کارلیون کی حفاظت کے لیے چند پرائیویٹ سراغرسانوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ وکیل کہہ رہا تھا۔ جو میرے ساتھ آئے ہیں ان کے پاس جو ہتھیار ہیں، ان کے لائسنس بھی ان کے پاس ہیں۔ اگر تم نے انہیں گرفتار کیا تو تمہیں صبح جج کے سامنے پیش ہوکر اپنے اس اقدام کی وضاحت کرنی ہوگی۔ پھر وکیل نے مائیکل کے لہو میں لتھڑے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور اس سے مخاطب ہوا۔ تمہارے ساتھ جس نے بھی یہ سلوک کیا ہے۔ کیا تم اس کے خلاف باضابطہ طور پر رپورٹ کرانا چاہتے ہو مائیکل نے بولنا چاہا تو اسے اس میں شدید دشواری پیش آئی۔ درد کی ایک نئی لہر اس کے چہرے اور سر میں پھیل گئی۔ اس کا جبڑا اپنی جگہ سے ہل چکا تھا اور بولنے کے لیے اسے حرکت دینا گویا اس کے بس میں نہیں رہا تھا لیکن وہ بڑبڑانے کے سے انداز میں، کسی نہ کسی طرح یہ کہنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں گر گیا تھا مجھے چوٹ لگی ہے کیپٹن کے چہرے پر طمانیت پھیل گئی اور اس نے فاتحانہ انداز میں وکیل کی طرف دیکھا۔ اپنی تمام تر تکلیف اور اذیت کے باوجود نہ جانے کیوں مائیکل اس وقت اپنے آپ کو ذہنی طور پر بالکل پر سکون محسوس کررہا تھا۔ اس کے دل میں سفاکی کی ایک سرد لہر نے جنم لیا تھا جس سے اب تک وہ ناآشنا تھا۔ کیپٹن کے لیے اس کی رگ و پے میں لہو کی جگہ گویا نفرت کا لاوا دوڑنے لگا تھا لیکن وہ فی الحال عام لوگوں کی طرح اس کا ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ابھی اپنے تمام محسوسات دنیا اور خاص طور پر پولیس کیپٹن سے مخفی رکھنا چاہتا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ شاید اس کا باپ بھی اس قسم کی صورت حال میں ایسا ہی کرتا۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے سہارا دے کر اسپتال کے اندر لے جایا رہا تھا۔ اسی دوران اس کا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا۔ ٭ ٭ ٭ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے جبڑے کو تار کی مد د سے صحیح جگہ پر بٹھایا گیا تھا اور اس کے چار دانت غائب تھے۔ ہیگن اس کے بیڈ کے قریب بیٹھا تھا۔ کیسا محسوس کررہے ہو ہیگن نے پوچھا۔ اتنا برا نہیں، جتنا رات محسوس کررہا تھا مائیکل نے آہستگی سے جواب دیا۔ لیکن تکلیف بہرحال اب بھی بہت زیادہ ہے۔ سنی چاہتا ہے کہ تمہیں گھر منتقل کردیا جائے۔ ہیگن بولا۔ کیا تم خود کو اس قابل محسوس کررہے ہوکہ گھر چل سکو ہاں چلاجائوں گا۔ مائیکل نے جواب دیا پھر پوچھا۔ باباکیسے ہیں میرا خیال ہے اب مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ ہم نے ڈون کی حفاظت کے متبادل انتظامات کرلئے ہیں۔ ہم نے پرائیویٹ سراغرسانوں کی ایک پوری فرم کی خدمات حاصل کرلی ہیں جو اسپتال کے باہر تک مختلف جگہوں پر تعینات رہیں گے۔ مزید باتیں ہم کار میں گھرچلتے وقت کریںگے۔ مائیکل کو جس کار میں گھر لے جانے کا بندوبست کیا گیا تھا اسے مینزا چلا رہا تھا۔ مائیکل اس کے برابر جبکہ ہیگن پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ مائیکل کے سر میںاب بھی دھمک ہورہی تھی اور پورے چہرے پر ٹیسیں اٹھ رہی تھیں لیکن وہ حوصلے سے یہ تکلیف برداشت کررہا تھا۔ پچھلی رات آخر ہوا کیا تھا صحیح بات کا پتا بھی چلا یا نہیں مائیکل نے دریافت کیا۔ پولیس میں ایک سراغرساں فلپس ہے جسے عام طور پر فل کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ہیگن بتانے لگا۔ وہی جس نے پچھلی رات کیپٹن کو تمہارے معاملے میں خباثت دکھانے سے روکنے کی کوشش کی تھی وہ ہمارا آدمی ہے۔ اس نے ہمیںساری بات بتائی ہے۔ پولیس کیپٹن کا نام میک کلس ہے اور وہ اس وقت سے زبردست رشوت خور چلا آرہا ہے جب وہ محض ایک پیٹرول مین تھا۔ گشت پر مامور تھا۔ ہماری فیملی بھی اسے ماضی میں رقمیں دیتی رہی ہے لیکن وہ جلد ہی ایک سے دوسرے کے ہاتھ بک جانے والا آدمی ہے اور قطعی ناقابل اعتبار ہے۔ ان دنوں وہ سولوزو کے ہاتھوں بکا ہوا ہوگا مائیکل نے خیال ظاہر کیا۔ ہاں۔ ہیگن نے اثبات میں سرہلایا۔ سولوزو نے اسے ہمارے آدمیوں کو وہاں سے ہٹانے اورکوئی نہ کوئی الزام لگاکر حوالات میں ڈالنے کے لئے بھاری رقم دی ہوگی۔ پولیس کے دونوں سراغرسانوں کو بھی اس نے یہ جواز گھڑ کر واپس بلوالیا کہ کہیں اور ہنگامی قسم کی صورتحال میں ان کی ضرورت ہے۔ ان کی جگہ دوسرے دو پولیس والے بھجوائے جانے تھے لیکن جان بوجھ کرکاغذات میں ان کی ڈیوٹی کے بارے میں غلط فہمی پیدا کردی گئی تاکہ وہ اسپتال پہنچیں بھی تو دیر سے پہنچیں۔ یوں ڈو ن کو ہلاک کرنے کے لئے سولوزو کو کچھ دیر کی مہلت دی گئی اور اس کا راستہ مکمل طور پرصاف کردیا گیا۔ وہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ اس دوران تم وہاں پہنچ گئے۔ پولیس میں ہمارا جو آدمی ہے سراغرساں فلپس اس کا کہنا ہے کہ کیپٹن کلس جس قسم کا آدمی ہے اور جیسی اس کی فطرت ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ توقع رکھنی چاہئے کہ وہ دوبارہ ایسی کوشش کرے گا۔ وہ ایک بار پھر سولوزو کو موقع فراہم کرنے کی کوشش کرے گا۔ سولوزو نے اسے نہ جانے کتنی رقم دی ہوگی اور آئندہ کے لئے بھی نہ جانے کیا کیا وعدے کئے ہوں گے۔ کیاکیپٹن کلس کے ہاتھوں میرے زخمی ہونے کی خبر اخباروں میںآئی ہے مائیکل نے دریافت کیا۔ نہیں۔ ہیگن نے جواب دیا۔ ہم نے اس معاملے میں زبان بند رکھنا ہی بہتر سمجھا اور پولیس بھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ معاملہ اخباروں میںآئے۔ یہ اچھا ہوا۔ مائیکل نے طمانیت سے کہا پھرگویا اسے کچھ یادآیا ۔ اور اس نوجوان اینزو کا کیا بنا وہ تو پولیس کے چکر میں نہیں پھنسا نہیں وہ تم سے زیادہ تیز تھا ہیگن بولا۔ پولیس کی نفری دیکھتے ہی وہ وہاں سے کھسک لیا۔ تاہم جب وہ گاڑی وہاں سے گزری جس میںغالباً سولوزو بھی موجود تھا۔ اس وقت وہ لڑکا میرے ساتھ کھڑا رہا۔ مائیکل نے بتایا۔ پھر تعریفی لہجے میں کہا۔ بہر حال وہ اچھا نوجوان ہے۔ ہم اسے اس کی بہادری کے عتراف میںکسی نہ کسی انعام سے ضرور نواز دیں گے۔ ہیگن بولا۔ اور ہاں شاید یہ خبر سن کر تم اپنی طبیعت کچھ بہتر محسوس کرو کہ آخر کار لیون فیملی کا نام بھی اسکور بورڈ پر آہی گیا ہے۔ ٹے ٹیگ لیا فیملی کا سب سے بڑا لڑکا برونو جو ایک نائٹ کلب چلاتا تھا۔ آج صبح چار بچے مارا گیا ہے۔ ارے مائیکل سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ یہ کیسے ہوگیا ہم نے تو طے کیا تھا کہ فی الحال کوئی جواب نہیں دیں گے اور انتظارکرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ ہاں۔ ہیگن کندھے اچکا کر بولا۔ ارادہ تو یہی تھا لیکن رات کو اسپتال میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد سنی کا غصہ عود کرآیا۔ وہ بہت مشتعل ہے۔ اس نے اپنے تمام آدمیوں کو نیو یارک اور نیوجرسی میں پھیل جانے کا حکم دیا ہے اور رات ان لوگوں کی نئی لسٹ بنائی گئی ہے جنہیں نشانہ بنانا ہے۔ میں سنی کو زیادہ آگے جانے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ میری نہیںسن رہا شاید تم اسے سمجھا سکو۔ میرا خیال ہے، اب بھی بڑے پیمانے پر لڑائی چھیڑے بغیر معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔ میں اس سے بات کروں گا۔ مائیکل نے کہا، پھر پوچھا۔ کیا آج ہم لوگوں کی کوئی میٹنگ طے ہے ہاں۔ ہیگن نے جواب دیا۔ سولوزو نے آخر ہم سے رابطہ کیا ہے۔ وہ ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتا ہے۔ ایک درمیانی آدمی تفصیلات طے کررہا ہے۔ یہ ہماری جیت ہے۔ سولوزو کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ ہار چکا ہے اوراب وہ صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور سلامتی کی ضمانت لے کر اس صورت حال سے نکلنا چاہتا ہے۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد ہیگن بولا۔ ڈون پر حملے کے فوراً بعد چونکہ ہم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا اس لئے شاید سولوزو کو غلط فہمی ہوگئی کہ ہم نرم پڑگئے ہیں اور ہم میں وہ پہلے والی بات نہیں رہی لیکن آج صبح ٹے ٹیگ لیا فیملی کے سب سے بڑے لڑکے کا پتا صاف ہونے کے بعد اس کی عقل کافی حد تک ٹھکانے آگئی ہوگی اور ہمارے بارے میں اس کی غلط فہمی دور ہوگئی ہوگی۔ اس نے ڈون پر حملہ کروا کے بہت بڑا جوا کھیلا تھا۔ پھر اسے جیسے کچھ اور یاد آیا۔ اور ہاں براسی کے بارے میں تصدیق ہوگئی ہے۔ اسے انہوں نے ڈون پر حملے سے ایک رات پہلے ہی ہلاک کردیا تھا۔ اسے برونو کے نائٹ کلب میں ہی ہلاک کیا گیا تھا۔ اس پر یقیناً بے خبری میں جال پھینکا گیا ہوگا اور اس کے لئے کوئی زبردست سازش تیارکی گئی ہوگی۔ مائیکل نے خیال ظاہرکیا۔ ورنہ وہ اتنی سے مارا جانے والاآدمی نہیں تھا۔ ٭ ٭ ٭ مائیکل جب لانگ بیچ پہنچا تو اس بندگلی کی فضا میں پہلے سے زیادہ کشیدگی تھی جسے دی مال کہا جاتا تھا اور جہاں کارلیون فیملی کے آٹھ گھر تھے۔ گلی کے تنگ دہانے پر موٹی سی زنجیر تو لگی تھی مگر اب ایک بڑی سی سیاہ کار نے راستہ تقریباً روکا ہوا تھا۔ اس کے پاس سے ایک وقت میں دو تین آدمی ہی گزر سکتے تھے۔ کار سے دو آدمی ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ وہ دونوں مکان جو گلی کے دہانے پر تھے، ان کی بالائی منزلوں کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔ مائیکل کو احساس ہوا کہ سنی اب صحیح معنوں میں چوکنا تھا اور اس نے تمام حفاظتی انتظامات کئے ہوئے تھے۔ وہ دونوں مینزا کے آدمی تھے جوکار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ انہوں نے آنے والوں کا استقبال صرف سر کے خفیف سے اشارے سے کیا۔ ان کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ گھر کا دروازہ بھی ایک محافظ نے کھولا۔ وہ سیدھے اسی کمرے میں چلے گئے جو آفس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ سنی اور ٹیسو ان کے منتظر تھے۔ مائیکل کو دیکھ کر سنی اٹھ کھڑا ہوا اور اس کا مضروب چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر پیار اور فخر سے بولا۔ واہ واہ اب تم پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہے ہو۔ مائیکل نے آہستگی سے اس کے ہاتھ ہٹادیئے اور مشروب کی بوتل سے اپنے لئے چند گھونٹ انڈیلے۔ اسے امید تھی کہ شاید اس سے جبڑے کا دردکم کرنے میںکچھ مدد ملے۔ پانچوں آدمی کمرے میں بیٹھ گئے۔ مائیکل نے محسوس کیا کہ اس کا بڑا بھائی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مطمئن اور خوش نظر آرہا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اسے یکسوئی حاصل ہوگئی تھی۔ وہ اب الجھن میں نہیں تھا بلکہ فیصلے پر پہنچ چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ سولوزو نے گزشتہ رات ڈون کو قتل کرنے کی ایک اورکوشش کرکے گویا سنی کو یکسوئی سے فیصلہ کرنے میں آسانی فراہم کردی تھی۔ اب صلح کا کوئی امکان نہیں رہا تھا۔ سنی نے ہیگن کو مخاطب کیا۔ جب تم مائیکل کو لینے گئے ہوئے تھے تو رابطے کے آدمی کا فون آیا تھا جو ہمارے اور سولوزو کے درمیان پیغامات کا تبادلہ کر رہا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ اب سولوزو مذاکرات کے لئے ہم سے میٹنگ کرنا چاہتا ہے۔ اس سؤر کے بچے کی جرأت دیکھو جو کچھ وہ کرچکا ہے، اس کے بعد مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور اس کا خیال شاید یہ ہے کہ اس دوران وہ مزید کچھ کرے، وہ بھی ہمیں صبر و تحمل سے برداشت کرنا چاہئے۔ اس نے سولوزو کو مزید موٹی سی ایک گالی دی۔ تم نے کیا جواب دیا ہیگن نے محتاط لہجے میں پوچھا۔ میں نے کہا۔ ضرور ضرور میٹنگ تو ہونی چاہئے مذاکرات تو ضروری ہیں۔ وقت اور دن وغیرہ طے کرنے کا معاملہ بھی میں نے اس پر چھوڑ دیا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہمارے تقریباً سو آدمی اسے چوبیس گھنٹے سے تلاش کررہے ہیں۔ ان میں سے کسی کو اگر اس کی جھلک بھی نظر آگئی تو سمجھ لوکہ وہ مارا گیا۔ کیا اس نے کوئی حتمی قسم کی تجویز پیش کی ہیگن نے نرمی سے پوچھا۔ ہاں وہ چاہتا ہے کہ اس کی تجاویزسننے کے لئے مائیکل کو بھیجا جائے۔ رابطے کے آدمی نے مائیکل کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ جب تک مائیکل مذاکرات کے لئے ان کے ساتھ رہے گا، تب تک رابطے کا آدمی ضمانت کے طور پر ہماری تحویل میں رہے گا۔ سولوزو نے اپنی حفاظت کی ضمانت نہیں مانگی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ اب ایسا مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ہے۔ چنانچہ ملاقات کی جگہ کا فیصلہ وہ کرے گا۔ اس کے آدمی مائیکل کو لینے آئیں گے اور ملاقات کی جگہ پر لے جائیں گے۔ مائیکل ان کی تجاویز سنے گا۔ اس کے بعد وہ مائیکل کو چھوڑ دیں گے۔ میٹنگ کی جگہ کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتایا جائے گا۔ سولوزو کا کہنا ہے کہ اس کی تجاویز اتنی اچھی اور معقول ہوں گی کہ ہم انہیں رد کر ہی نہیں سکیںگے۔ مذاکرات کی میز پر ہمارے معاملات ضرور طے ہوجائیں گے۔ سنی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ اس قہقہے سے سفاکی عیاں تھی۔ وہ خاموش ہوا توکمرے میں اعصاب شکن سکوت چھا گیا۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 270 | https://www.urduzone.net/behan-ne-khilona-jana-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | زبیدہ رشتے میں میری دور کی خالہ ہوتی تھیں لیکن مکان نزدیک ہونے کی وجہ سے سگوں سے بڑھ کر تھیں۔ ہر وقت کا آنا جانا تھا، دکھ سکھ کی ساتھی تھیں۔ اسی لئے امی جان زبیدہ خالہ کو دل و جان سے چاہتی تھیں۔ کوئی کام ان کی صلاح و مشورے کے بغیر نہیں کرتی تھیں۔ اوج ان کا اکلوتا فرزند تھا۔ وہ بہت سادہ دل تھا۔ ہر کسی کی بات کا اعتبار کرلیتا تھا۔ اسے بھولا بھالا کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ اوج سے میری خوب گاڑھی چھنتی تھی کیونکہ میں بھی سادہ مزاج تھی۔ چالاکی مجھ میں نام کو نہ تھی۔ اس کے برعکس آپی بہت شاطر واقع ہوئی تھیں۔ ہوشیار ایسی کہ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتیں۔ بڑے بڑے دماغ ان سے پناہ مانگتے تھے۔ ہم دونوں بہنوں کے مزاج بالکل مختلف تھے۔ ہماری آپس میں نہیں بنتی تھی۔ آپا مجھے بدھو اور اوج کو بھولا پکارتیں۔ کبھی موڈ میں ہوتیں تو کہتیں۔ بدھو اور بھولے کی جوڑی خوب جچتی ہے۔ کہو تو امی سے کہہ کر تم دونوں کی شادی کرا دوں میں آپی کی ان باتوں کو مجذوب کی بڑ سمجھ کر ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے اڑا دیتی لیکن وہ باز نہ آتیں۔ اس بات کو اتنا دہرایا کہ بالآخر میرے دل میں اوج کیلئے محبت کے پھول کھِلا دیئے۔ دل ہی دل میں اوج کی آرزو کرنے لگی لیکن اسے میرے جذبات کی خبر نہ تھی۔ وہ پہلے کی طرح سادہ دلی سے ملتا اور باتیں کرتا۔ آپی اسے مجھ سے باتیں کرتے دیکھ کر معنی خیز انداز سے مسکراتیں اور کبھی منہ بنا لیتیں، تب سخت الجھن ہوتی۔ خدا جانے میری یہ بہن کیا چاہتی ہے۔ میرا دماغ مائوف ہونے لگتا تھا۔ دعا کرتی تھی کہ ان کی یہ شوخی ہم کو کسی برے انجام سے دوچار نہ کردے۔ محبت انمول شے ہے اور اس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ آپی کو اندازہ ہوگیا کہ میں اوج کو چاہنے لگی ہوں تو انہوں نے امی کے کانوں میں یہ بات ڈال دی۔ امی اوج کو پسند کرتی تھیں، اس کو پیار کرتی تھیں۔ انہیں بھلا فرزندی میں لینے سے کیا عذر ہوسکتا تھا۔ ایک روز زبیدہ خالہ سے ذکر کیا تو خالہ کی باچھیں کھل گئیں۔ جانو وہ انہی خطوط پر سوچ رہی تھیں۔ فوراً منگنی کی خواہش ظاہر کردی۔ جب آپی کو پتا چلا کہ میری منگنی اوج سے ہونے والی ہے تو یکدم بدل گئیں جیسے کوئی بڑا غلط کام ہونے جارہا ہو۔ اب انہوں نے منگنی رکوانے کی ترکیبیں آزمانی شروع کردیں۔ اس دوغلے پن پر میں حیران رہ گئی۔ آپا نے کئی گر آزمائے لیکن خالہ زبیدہ ہر صورت مجھ کو بہو بنانے پر تُل گئیں۔ انہوں نے فیصلہ نہ بدلا تو آپی نے ایک نیا سوانگ بھرا یعنی اوج کو اپنی مٹھی میں لے لیا۔ پھر اسے باور کرایا کہ کشور تم سے بہنوں جیسی محبت کرتی ہے۔ شروع سے ایک بہن کی نظر سے دیکھا کرتی تھی جبکہ میں تم کو دل سے پسند کرتی ہوں۔ تم سے شادی کی آرزومند ہوں۔ خدا جانے تمہاری امی کو کیوں یہ خیال نہیں آتا کہ جب گھر میں بڑی بہن موجود ہو تو مناسب ہے پہلے بڑی کا رشتہ طے کیا جائے، چھوٹی کی باری بعد میں آتی ہے۔ تم اپنی امی کو سمجھائو کہ جو لڑکی تم کو چاہتی ہے، اس کا رشتہ مانگیں نہ کہ جو تم کو نہیں چاہتی، اس کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔ اوج، آپی کی باتوں سے شش و پنج میں پڑ گیا۔ بے شک وہ مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں لیکن ان کی عیاری ہر ایک کو کھل جاتی تھی۔ خالہ زبیدہ بھی اسی سبب ان سے بدکتی تھیں۔ جب بیٹے نے ماں سے کہا کہ کشور مجھ سے شادی کی خواہشمند نہیں بلکہ ایک بہن جیسا انس رکھتی ہے اور مہرین مجھ سے شادی کی آرزومند ہے تو خالہ زبیدہ نے بھولے بیٹے کو سمجھایا۔ اوج ہوش کے ناخن لو۔ مہرین تمہارے لئے ہرگز مناسب نہیں۔ اس کا مزاج تم سے لگا نہیں کھاتا۔ وہ بہت چالاک ہے۔ تمہیں دن میں تارے دکھا دے گی۔ اس کی باتوں پر کان مت دھرنا اور اس سے ملنے سے باز رہو۔ بہتر ہے جب تک تمہاری شادی کشور سے نہیں ہوجاتی، تم ان کے گھر جانا موقوف رکھو۔ انہوں نے بیٹے پر ہمارے گھر آنے پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی نے ایک بڑی خرابی کو جنم دیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ملنے کے لئے بے قرار رہنے لگے کیونکہ ہمیں عادت ہوگئی تھی۔ ڈھیر ساری باتیں کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اس بے قراری کا حل ہم نے یوں نکالا کہ باہر چھپ چھپ کر ملنے لگے۔ اس معاملے کو چھ ماہ گزر گئے۔ اوج نے تعلیم مکمل کرلی۔ ایک روز آپی نے ہمیں باغ میں بیٹھے دیکھ لیا جو اوج کے گھر سے پچھلی طرف تھا۔ آپی نے وہاں آکر ہمیں خوب ڈانٹا اور دھمکی دی کہ والد کو بتا دوں گی، تم لوگ خاندان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہو۔ ظاہر ہے ہم ڈر گئے۔ آپی نے اس شرط پر گھر والوں کو نہ بتانے کی ہامی بھری کہ اب وہ بھی ہمارے ساتھ آیا کریں گی۔ خیر ہم نے یہ شرط قبول کرلی۔ بھلا ہم کو کیا اعتراض تھا بلکہ فائدہ ہی تھا کہ اب کوئی دیکھ بھی لیتا تو آپی کی وجہ سے ہمارا دفاع ہوجاتا۔ میری اور اوج کی ملاقاتیں اب آپی کی رضامندی سے ہونے لگیں۔ وہ خود ساتھ ہوتیں۔ اکثر بازار چلنے کو کہتیں اور وہ مرضی کی شاپنگ کرتیں جس کا بل اوج ادا کرتا۔ وہ آپی کی ہر فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتا تاکہ وہ ہم سے خوش رہیں۔ انہی دنوں اوج کے والد کی نوکری جاتی رہی۔ ان پر کوئی کیس بن گیا تھا۔ اوج سخت پریشان تھا۔ ان کے گھریلو حالات خراب ہوگئے تھے لیکن میں پُرامید تھی کہ ایسے حالات عارضی ہوتے ہیں۔ دن سدا ایک سے نہیں رہتے، زندگی میں دکھ سکھ آتے ہی رہتے ہیں، انسان کو حوصلہ نہ ہارنا چاہئے، ثابت قدم رہنا چاہئے کیونکہ دوست کی پہچان ہی آزمائش کے وقت ہوتی ہے۔ آپی اس آزمائش سے گھبرا گئیں۔ وہ یکسر بدل گئیں۔ اوج سے کھنچی کھنچی رہنے لگیں بلکہ مجھ سے بھی کہتی تھیں کہ اب کنارا کرلو، یہ لوگ مزید برے حالات میں پھنسنے والے ہیں، ابھی سے رویہ بدل کر جان چھڑا لو، خواہ مخواہ مفلسی کے کنویں میں گر کر خودکشی کرنے سے کیا ملے گا۔ ایک روز ہم نے باغ میں ملنا تھا۔ آپی نے جانے سے انکار کردیا تب میں نے سوال کیا۔ نہیں ملنا تھا تو فون کرکے اسے کیوں باغ میں آنے کا کہا تھا۔ وہ وہاں انتظار کررہا ہوگا، منع کردیا ہوتا۔ خیر میرے اس طرح کہنے پر وہ ساتھ چلیں مگر ہم کافی لیٹ پہنچے تھے۔ اور دیر سے راہ تک رہا تھا۔ اسے کسی ضروری کام سے جانا تھا مگر ہماری وجہ سے نہ گیا۔ آپی نے جاتے ہی اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا۔ کہنے لگیں۔ کشور تم جلدی سے گھر چلی جائو۔ لگتا ہے والد صاحب آرہے ہیں۔ تمہارا منگتیر سے یوں باغ میں ملنا بڑی معیوب بات ہوگی، میرا اور رشتہ ہے اوج سے ہمارے یہاں بیٹھ کر بات کرنے پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ میں آپی کے فریب میں آگئی۔ خوف زدہ ہوکر گھر کی طرف دوڑی۔ وہ وہاں دیر تک بھولے اوج سے باتیں کرتی رہیں۔ جانے کیا میرے بارے میں کہا کہ اوج کو مجھ سے بددل کردیا۔ وہ جو میری الفت کا دم بھرتا تھا، اب کہتا تھا کہ کشور تو میری چھوٹی بہن جیسی ہے۔ تمہارے ساتھ شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، شادی میں مہرین سے کروں گا۔ سب نے سمجھا لیا، وہ نہ مانا۔ بس مہرین ہی کی رٹ لگائے رکھی۔ بالآخر والدین نے مجھ سے پوچھا۔ کیا تم اوج سے شادی کو ضروری خیال کرتی ہو۔ اگر ہم تمہاری بجائے مہرین سے کردیں تو تم کو ملال ہوگا میں نے جواب دیا۔ اوج اگر مہرین آپی کو پسند کرتا ہے تو پھر مجھے کوئی ملال نہ ہوگا۔ آپ آپی کی اس کے ساتھ شادی کردیں۔ ایسا میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کہا تھا کیونکہ مجھے اوج سے ایسی امید نہ تھی، پَر جب اس نے میرا اعتماد توڑا تو وہ میرے دل سے اتر گیا۔ سوچا ایسے شخص سے ناتا رکھنا بے معنی ہے جو کبھی تولہ کبھی ماشہ اور پل بھر میں بدل سکتا ہے۔ آگے پوری زندگی پڑی ہے، جانے کس موڑ پر دھوکا دے جائے۔ ملال تو بے شک بہت ہوا مگر کیا کرسکتی تھی۔ عقل یہی کہتی تھی کہ آپی اس میں خوش ہیں تو ان کی خوشی کو پورا ہونے دیا جائے ورنہ وہ عمر بھر دلگرفتہ رہیں گی۔ میں بھی خوش نہ رہ سکوں گی۔ اوج جیسے سادہ دل شخص کو انہوں نے اپنی مٹھی میں لے ہی لیا تھا۔ اب میرا اس کے ساتھ شادی پر اصرار فضول تھا۔ میں ایک کنارے ہوگئی۔ آپی کی ملاقاتیں اوج کے ساتھ باغ میں بدستور جاری رہیں۔ ان ملاقاتوں کی اب کیا نوعیت تھی، کس رنگ کی باتیں ہوتی تھیں، میں نہیں جانتی تھی لیکن ایک روز اس ڈرامے کا عجیب سا ڈراپ سین ہوگیا۔ ایک روز آپی باغ میں اوج سے ملنے گئیں تو ذرا دیر بعد بولیں۔ واپس چلو، سلیمان بھائی آج جلد آنے کا کہہ گئے تھے، آتے ہی ہوں گے۔ اس نے موٹرسائیکل پر بٹھایا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ ذرا آگے جاکر وہ بولیں۔ موٹرسائیکل روکو کچھ نہ سمجھتے ہوئے اوج نے گاڑی روک لی۔ آپی فوراً اتر پڑیں۔ کیا ہوا مہرین، کیوں اتر گئی ہو اوج نے حیرت سے سوال کیا۔ تم جلدی سے نکل جائو، مجھے کسی نے دیکھ لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور سوال کرتا، آپی نے اصرار کیا۔ جلدی جائو۔ کہہ رہی ہوں نا ورنہ بڑی مصیبت آجائے گی۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس بچارے نے حکم کی تعمیل کی اور موٹرسائیکل اسٹارٹ کردی۔ آپی دم بھر کو فٹ پاتھ پر رکی رہیں۔ اگلے ہی لمحے ایک کار ان کے قریب آکر رکی اور وہ جلدی سے اس میں بیٹھ گئیں۔ پھر کار موٹرسائیکل کے قریب سے نکل گئی۔ اوج نے کار میں مہرین آپی کو دیکھ لیا لیکن وہ اس کے اندر بیٹھے شخص کو نہ دیکھ سکا۔ اب اوج سخت مضطرب تھا۔ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اسے اپنی توہین برداشت نہ ہورہی تھی۔ اس نے گھر پہنچ کر مجھے فون کیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا۔ خیر میں نے بات کو سنبھالا کہ آج کل ہمارے چچا اور ان کی فیملی آئی ہوئی ہے۔ یہ کار میرے کزن کی ہوگی، چچازاد تم کو نہ دیکھ لے، اس لئے تبھی وہ گھبرا گئی ہوگی۔ وسیم بہت غصیلہ ہے، گھر آکر جھگڑا کرتا، آپی اسی ڈر سے بھاگی ہے، مجھے یقین ہے۔ میرے جھوٹ پر اس بھولے نے یقین کرلیا حالانکہ چچا نہیں آئے تھے، نہ کسی چچازاد نے آپی کو دیکھا تھا۔ جانے کون تھا جس کی کار میں چلی گئی تھیں، یہ میں بھی نہ جانتی تھی لیکن چاہتی تھی کہ اوج کی دل آزاری نہ ہو۔ میرے سمجھانے پر اوج نے خود کو سمجھا لیا اور آپی سے ناتا توڑنے کی بجائے کچھ دن بعد ہمارے گھر آگیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مہرین اس دن کے رویئے کی معافی مانگے گی، معذرت کرے گی، کچھ تاویلیں دے کر منانے کی کوشش کرے گی اور بتائے گی کہ وہ کون تھا جس کے ساتھ یوں گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی تھی۔ ایسا نہ ہوا۔ آپی نے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ کیا بلکہ معذرت کرنے کی بجائے روکھا پھیکا انداز اپنایا۔ دلبرداشتہ ہوکر اوج چلا گیا۔ کافی دن رابطہ نہ کیا۔ آپی نے بھی پروا نہ کی۔ اس بے رخی سے وہ سخت دلبرداشتہ ہوا۔ بالآخر برداشت نہ کرسکا اور دوبارہ آپی سے بات کی تو آپی نے وضاحت کی کہ تم کسی غلط فہمی میں نہ رہو۔ میں بات صاف کرنا چاہتی ہوں۔ گل حسن سے میرا پیار تھا، ہم کلاس فیلو تھے، کسی وجہ سے رنجش ہوگئی، کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہم دور ہوگئے تھے لیکن اب وہ غلط فہمی دور ہوگئی ہے، اسی لئے تم کو بتا دینا بہتر سمجھتی ہوں کہ ہم شادی کرنے والے ہیں۔ تم میرا خیال دل سے نکال دو۔ دھوکے میں رہو گے تو بعد میں تکلیف تم ہی کو ہوگی۔ بہتر ہے کہ کشور سے شادی کرلو۔ آپی کے بیان پر بڑی حیرت ہوئی۔ جب اوج نے بتایا تو مجھے لگا جیسے آپی کے نزدیک ہم محض کھلونے ہیں، بے جان کھلونے، جس سے وہ کھیل کر پھر ان کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے رکھ دیتی ہیں۔ میں نے اوج سے کہا کہ تم خاطر جمع رکھو، یہ فیصلے باربار نہیں ہوتے اور نہ باربار بدلے جاتے ہیں، اپنے بزرگوں کے ردعمل کا انتظار کرو، اپنی طرف سے کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر یہ معاملہ تھا، اُدھر میں غم و غصے میں جل بھن رہی تھی۔ گرچہ اوج سے محبت کرتی تھی، اس کی یاد ہر وقت دل میں رہتی تھی لیکن اب میں اس سے گریز اختیار کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس میں قوت فیصلہ کی کمی تھی اور حوصلہ بھی نہ تھا۔ اس کو دوبارہ امید دلا کر خود کو کسی غیرمعمولی حالات میں جھونکنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے محسوس کیا اوج کو آپی نے ٹھکرا دیا ہے تو اسے اسی بات کا غم ہے اور وہ اس غم سے نکلنے کی خاطر میرا سہارا لینا چاہتا ہے۔ کھلونا تو بہرحال میں نہ تھی، تبھی میں نے اوج کی ہمت افزائی نہ کی۔ یوں وہ مجھ سے کنارا کرگیا۔ وقت گزرتا رہا۔ تین سال بیت گئے۔ اوج کا فون آتا، میں نہ اٹھاتی۔ اپنی زندگی میں کوئی طوفان لانا نہ چاہتی تھی۔ والدین خاموش تھے۔ اوج نے خود مجھ سے شادی سے انکار کیا تھا اور آپی کا انتخاب کیا تھا۔ اب وہ کس منہ سے کہتا کہ آپی اس سے شادی سے انکار کرچکی تھی۔ تین سال بعد ایک روز جب اوج دفتر سے گھر لوٹا، دیکھا کہ آپی اس کے گھر بیٹھی ہے۔ غالباً وہ اسی کی آمد کی منتظر تھی۔ اوج سلام کئے بغیر خاموشی سے پاس سے گزر کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ چند منٹ توقف کے بعد وہ خود اس کے پاس چلی گئی اور بولی۔ میں آپ سے ملنے آئی تھی اور آپ میری بات سنے بغیر چلے گئے۔ یہ فاصلے بھی تم ہی نے پیدا کئے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ باہر جانے لگا تو آپی نے روکا۔ میری بات سن کر جانا۔ اب غور سے اس نے نظر بھر کر آپی مہرین کو دیکھا۔ وہ کتنی بدل چکی تھی، رنگ روپ سب کھو گیا تھا۔ آنکھوں تلے سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے، وہ بیمار لگ رہی تھی۔ یہ وہ تروتازہ گلاب کے پھول جیسی مہرین نہ تھی، یہ ایک خزاں رسیدہ شاخ معلوم ہوتی تھی۔ کتنی کمزور ہوگئی تھی۔ اوج کو آپی پر رحم آگیا۔ مہرین تمہاری یہ حالت کیا ہو گیا ہے تمہیں، بیمار ہو کیا آنسو آپی کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ میں بہت شرمندہ ہوں اوج۔ میں نے تم سے دھوکا کیا اور گل حسن سے شادی کرلی۔ کورٹ میرج کی تھی کیونکہ گھر والے راضی نہ تھے۔ ایک بچی ہوگئی مگر سسرال والوں نے مجھے قبول کیا اور نہ گھر والوں نے میں گھر گھرہستی شروع ہی نہ کرسکی۔ اب بچی کے بعد وہ مجھ سے دور ہوگیا ہے اور گھر والوں کے دبائو میں آکر اپنی منگیتر سے شادی کرلی ہے۔ بچی اپنی دادی کے پاس ہے اور میں خالہ کے گھر رہتی ہوں۔ ابا گھر نہیں آنے دیتے، بڑی مشکل سے کشور کو راضی کیا ہے تو یہ میرے ساتھ تمہارے گھر تک آگئی ہے۔ وہ بھی امی ابو سے چوری چھپے۔ اب میں اپنی بچی کے لئے تڑپ رہی ہوں اور ممتا سے مجبور ہوکر تمہارے پاس آئی ہوں کیونکہ میں بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتی، اس کی جدائی نہیں سہہ سکتی۔ تو اس کے لئے میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں تم سب کچھ کرسکتے ہو۔ مجھے تحفظ دے کر، میرا سہارا بن کر، تاکہ میں کورٹ سے بچی حاصل کرسکوں، وہ ابھی بہت چھوٹی ہے، عدالت اسے میرے سپرد کردے گی۔ مہرین آپی کے بلکنے پر اوج کو رحم آگیا۔ اس کی والدہ گھر پر نہ تھیں، اسی لئے یہ کھل کر بات کرسکتے تھے۔ مہرین نے کہا۔ تم روز مجھے گل حسن کے دفتر کے سامنے ملا کرو تاکہ اسے بھی تکلیف ہو جیسے اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔ بے وقوف بھولا اوج ایک بار پھر آپی کی باتوں میں آگیا۔ وہ گل حسن کے سامنے مہرین سے ملنے لگا۔ جب گل نے نوٹ کیا تو ایک روز طیش میں آکر اس نے مہرین کے ساتھ اوج کو بھی خوب گالیاں دیں اور کہا کہ آئندہ اگر تم دونوں میرے دفتر کے سامنے نظر آئے تو مار مار کر بھرکس نکال دوں گا۔ اگلے روز گل حسن خالہ کے گھر آگیا۔ اس نے آپی کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ مہرین آپی نے اوج کو فون کرکے بلایا۔ جب وہ آیا تو آپی زاروقطار رو رہی تھیں۔ بولیں۔ اوج اگر تم کو مجھ سے محبت ہے یا میرا ذرا سا بھی خیال ہے تو گل کو بخشنا مت، میرا بدلہ اس سے ضرور لینا۔ اس نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ اب میری مرضی جس کے ساتھ گھوموں پھروں۔ وہ کون ہوتا ہے گھر آکر مجھے مارنے والا تم نے میرا بدلہ نہ لیا تو سمجھوں گی کہ تم بے غیرت ہو۔ غرض آپی نے اس بے عقل کو ایسا طیش دلایا کہ وہ پرائی آگ میں جلنے کو تیار ہوگیا۔ میں نے اسے روکنا چاہا، اس نے میری ایک نہ سنی۔ پستول جیب میں ڈال کر دفتر گیا اور گل حسن پر فائر کردیا۔ گولی اس کے سینے میں لگی اور وہ شدید زخمی ہوگیا۔ اوج کو پولیس پکڑ کر لے گئی اور وہ بچارا جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ اس واقعہ کے کچھ دن قبل اس کے ابو کا انتقال ہوگیا تھا۔ اب اس کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے والا بھی کوئی نہ رہا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد آپی ایک روز بغیر کسی کو بتائے خالہ کے گھر سے چلی گئیں۔ پتا چلا کہ اس نے اپنے شوہر سے صلح کرلی ہے۔ اس نے اسے علیحدہ فلیٹ لے کر دیا ہے تاکہ وہ اپنی بچی کے ساتھ اس میں رہ سکے۔ آپی پر مجھے بڑا غصہ آیا۔ کسی طور ان کو ڈھونڈ لیا اور وہاں پہنچی۔ پوچھا۔ آپی یہ کیا تماشا ہے بے چارے اوج کو جیل پہنچا دیا اور خود دوبارہ اسی شخص کے ساتھ رہ رہی ہو جس کے بارے میں کہتی تھیں کہ اس نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ ایک طلاق دی تھی، ایک طلاق کے بعد میاں بیوی میں صلح ہوسکتی ہے لہٰذا ہمارے درمیان صلح کی گنجائش موجود تھی۔ د راصل بچی کے بغیر گل حسن نہیں رہ سکتا اور بچی کے بغیر میں بھی نہیں رہ سکتی تھی۔ ہم دونوں کی جدائی سے میری بیٹی شدید بیمار ہوگئی تھی، اسی لئے صلح کرنی پڑی۔ اب بہرحال جیسی بھی زندگی ملی ہے، مجھے اپنی اولاد کی خاطر قبول ہے۔ اور اوج اس کا کیا بنے گا وہ ایک نہ ایک دن چھوٹ ہی جائے گا۔ اس کے ہاتھوں ایک شخص مضروب ہوا ہے، قتل تو نہیں ہوا ہے نا۔ اس لئے اسے پھانسی نہ ہوگی۔ بس یہی خیر کی بات ہے۔ آپی کی بات سن کر میں حیران رہ گئی تھی۔ ک کراچی | null |
null | null | null | 271 | https://www.urduzone.net/akhri-mulaqat-mehngi-par-gayei-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | ہم ان دنوں دیہات میں رہتے تھے جب میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ والد صاحب نے پڑھنے ماموں کے پاس شہر بھیج دیا کیونکہ دیہات میں کالج نہیں تھا۔ مجھے یہاں گھر کی یاد ستاتی تھی لیکن مجبوری تھی کہ تعلیم تو حاصل کرنی تھی۔ کالج میں میری دوستی خالدہ سے ہوگئی۔ یہ غریب ماں، باپ کی بیٹی تھی، اسے پڑھنے کا شوق تھا مگر والدین اس کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تھے۔ وہ بہت بوسیدہ کپڑے پہن کر کالج آتی تھی، اس کی کتابیں بھی پرانی ہوتی تھیں، تاہم خوددار اور سنجیدہ طبیعت تھی۔ اس کو صرف پڑھائی سے غرض تھی، فضول باتیں بالکل نہیں کرتی تھی۔ خالدہ ایک لائق طالبہ تھی۔ اس سے زیادہ احساسِ ذمہ داری میں نے کسی اور میں نہیں پایا۔ میں تو لاڈوں پلی شروع سے ہی لاپروا طبیعت تھی، کبھی اپنا کام بروقت نہیں کرتی تھی، تبھی خالدہ سے مدد لیتی۔ روز اس کی کاپی سے نوٹس نقل کرتی، اسی غرض سے میں نے اس کے ساتھ دوستی کرلی۔ خالدہ کی سنجیدگی اور سادگی سب کو پسند تھی۔ غربت کے باوجود اس کی عزت لڑکیوں اور اساتذہ کے دلوں میں تھی۔ سچ ہے انسان اپنی سیرت سے چاہا جاتا ہے۔ گھر کے مالی حالات خراب ہونے کے باوجود خالدہ نے جوں توں گریجویشن مکمل کرلی مگر اس کے لئے اب ملازمت ناگزیر ہوگئی۔ باپ بوڑھا تھا اور بھائی شادی کے بعد بیوی کو لے کر علیحدہ ہوگیا تھا۔ ایک چھوٹا بھائی اور بہن اسکول میں زیرتعلیم تھے لیکن ذریعہ آمدنی ندارد تھا۔ ایک روز اس سے ملنے گئی تو وہ بے حد افسردہ تھی۔ وجہ پوچھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ آج ان کے گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ بڑی مشکل سے حالات بتائے۔ میں نے وعدہ کیا کہ ماموں سے کہہ کر تمہاری ملازمت کا بندوبست کرا دوں گی۔ میں نے ماموں سے کہہ کر ان کی سفارش سے خالدہ کو ایک اسکول میں ٹیچر لگوا دیا۔ وہ بہت مشکور ہوئی اور میرے احسان تلے دبی دبی رہنے لگی۔ ان دنوں میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ خالدہ اب ساتھ نہ تھی، مجھے اکیلے ہی درسگاہ جانا پڑتا تھا لیکن ہماری دوستی اب بھی قائم تھی۔ گھر قریب تھے، ہر شام کو ہماری ملاقات رہتی تھی۔ گھر سے کچھ دور ایک لائبریری تھی جس کا انچارج اوج نامی نوجوان تھا۔ وہ خوبصورت اور ہنس مکھ تھا۔ کبھی کبھار شام کو جب ہم فارغ ہوتیں تو میں اور خالدہ اکٹھے لائبریری جاتے، اپنی پسند کی کتابیں رسالے لے آتے۔ خالدہ تاریخی کتابیں لیتی کیونکہ اسے ہسٹری کا شوق تھا، جبکہ میں ناول اور شعر و شاعری کی مطبوعات ایشو کراتی تھی یا پھر ڈائجسٹ وغیرہ۔ اوج کو ہم دونوں کے مزاج کا علم تھا، وہ ہمارے لئے خود ہی نئے رسالے اور اچھی کتابیں تلاش کرکے رکھ لیتا تھا۔ شروع میں تو میں نے اوج کی ذات میں کوئی دلچسپی نہ لی لیکن جب ہم دونوں اس لائبریری کی مستقل ممبر بن گئیں تو کتابیں لیتے اور واپس لوٹاتے وقت میں اس کے ساتھ اِدھر اُدھر کی دوچار باتیں بھی کرلیتی تھی۔ جیسا کہ بتا چکی ہوں خالدہ خاموش طبیعت لیکن میں باتونی تھی ۔ اوج نے میری اس کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ لہٰذا وہ زیادہ مجھی کو باتوں میں الجھانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس اثنا میں خالدہ کے ابو بیمار ہوگئے، ان دنوں اس نے میرے ساتھ لائبریری جانا بند کردیا، میں اکیلی ہی جانے لگی۔ ایک روز اوج نے مجھ سے کچھ ایسی کتابوں کا تذکرہ کیا جو کہ عام لوگوں کے پڑھنے کی نہیں تھیں۔ یہ میں نے بڑی مشکل سے منگوائی ہیں اور چھپا کر رکھی ہوئی ہیں، اگر تم پڑھنا چاہو تو لے جائو۔ اس نے کہا۔ میں نے کتابیں نہیں لیں، سوچا جانے کیسی ہوں، پہلے خالدہ سے مشورہ کرلوں پھر لے جائوں گی لہٰذا اوج سے بہانہ کردیا کہ ابھی میرے پرچے ہیں، بعد میں دیکھوں گی۔ خالدہ کے ابو ٹھیک ہوگئے تو وہ پھر سے میرے ساتھ لائبریری آنے لگی۔ اس سے میں نے ان کتابوں کا تذکرہ کیا جو اوج مجھے سب سے چھپا کر دینا چاہتا تھا اور جو سرعام آسانی سے نہیں ملتیں۔ خالدہ نے منع کردیا کہ وہ ایسی کتابیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی، ساتھ ہی کہا کہ وہ آئندہ میرے ساتھ لائبریری نہیں جائے گی۔ اس نے واقعی اپنا کہا سچ کر دکھایا اور دوبارہ میرے ساتھ نہ آئی۔ مجھے خالدہ سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اتنی سی بات پر میرا ساتھ چھوڑ دے گی۔ کئی بار ساتھ چلنے پر اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ کہنے لگی۔ تم بھی اس لائبریری جانا چھوڑ دو کیونکہ اوج صحیح بندہ نہیں ہے۔ اوج نے میرے ساتھ کبھی کوئی بدتمیزی یا غلط باتیں نہ کی تھیں، لہٰذا خالدہ کو سنکی سمجھ کر بات چیت بند کردی۔ وہ یوں روکھے پن سے کام لے گی، یہ تو سوچا بھی نہ تھا۔ ہر لڑکی کو ایک سہیلی ایک سنگی ساتھی کی تو ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ خالدہ سے قطع تعلق کرلیا مگر اب خود کو بے حد تنہا محسوس کرنے لگی تھی۔ انہی دنوں ہماری کلاس میں ایک نئی لڑکی نے ایڈمیشن لیا۔ باتوں باتوں میں پتا چلا اس کا گھر بھی قریب ہے۔ نام شبنم تھا۔ میں نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ شبنم سے واسطہ پڑا تو احساس ہوا کہ وہ اتنی زیادہ سادہ اور سیدھی نہیں ہے، جیسی خالدہ تھی، تاہم وہ مجھ سے دوستی کی خواہشمند تھی۔ گرچہ وہ چالاک و شاطر تھی، میں نے پھر بھی اس کے ساتھ دوستی کرلی کہ یہ میری ضرورت تھی۔ خالدہ کے رویئے سے دلبرداشتہ ہوکر ہی اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ اب میں شبنم کے ہمراہ یونیورسٹی آنے جانے لگی۔ اس کا گھر ہمارے ہی بلاک میں تھا۔ جب جی چاہتا شبنم کے پاس چلی جاتی اور ہم اکٹھی اپنا کام کرلیتیں۔ شبنم سے میری دوستی گہری ہوتی گئی۔ اس پر اعتبار کرنے لگی، گرچہ وہ نئے زمانے کی فیشن ایبل لڑکی تھی، مگر مجھے پسند تھی کیونکہ وہ میری ہر بات مان لیتی تھی۔ جہاں کہتی، بلاچوں چرا ساتھ چل پڑتی تھی، جبکہ خالدہ پر ملازمت کی ذمہ داریاں تھیں، وہ میرے ساتھ ہر جگہ نہیں جاسکتی تھی۔ شبنم سے گاڑھی چھننے لگی۔ اب ہم یونیورسٹی سے آکر زیادہ وقت ساتھ گزارتیں، وہی اب میرے ساتھ لائبریری بھی جاتی کیونکہ مجھے رسالوں کا چسکا تھا۔ اوج نے پہلی نظر میں اسے پسند کرلیا، وہ اس کے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا، جبکہ خالدہ ہمراہ آتی تو اس کا رویہ ہمارے ساتھ بڑا محتاط ہوتا تھا۔ اوج کی دلی خواہش پوری ہوگئی۔ شبنم نے ہم دونوں کی دوستی کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی غیر موجودگی میں وہ اوج کی تعریفیں کرتے نہ تھکتی تھی۔ دوسرے معنوں میں اس نے مجھے ایسی راہ پر لگا دیا، جس کا پہلے کبھی میں تصور بھی نہ کرسکتی تھی۔ اب میں اور اوج، شبنم کی مدد سے ایک دوسرے سے گھر کے باہر بھی ملنے لگے۔ ایک روز اوج نے وہ کتابیں دیں جن کا تذکرہ کیا تھا۔ میں ان کو گھر لے آئی لیکن یہ لٹریچر پڑھنے کے قابل نہ تھا۔ میں یہ کتابیں اور رسالے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ ماموں اور ممانی کے ڈر سے دوسرے دن ہی انہیں اوج کو واپس کردیا۔ اب سمجھ میں آیا کہ خالدہ نے اوج اور اس کی لائبریری سے کیوں کنارہ کیا تھا۔ انہی دنوں گھر سے خط آنے لگے کہ جلدی آنے کی تیاری کرو کیونکہ یہاں تمہاری شادی کی تاریخ رکھ دی ہے۔ والدین نے اپنے عزیزوں میں ایک رشتہ دار لڑکے سے میری نسبت طے کی ہوئی تھی اور اب وہ رخصتی کا تقاضا کررہے تھے۔ سالانہ امتحان ہوچکا تھا اور چھٹیاں تھیں۔ مجھے ہر حال گائوں جانا تھا، مگر اوج سے جدائی برداشت نہ تھی۔ میں کسی صورت گھر واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ جانتی تھی ایک بار گئی تو واپس نہ آسکوں گی۔ انہی پریشانیوں میں غلطاں تھی کہ ایک روز والد صاحب لینے آگئے۔ اب گھر سے قدم نکالنا محال تھا۔ میں اوج سے ملنے بھی نہیں جاسکتی تھی۔ ایک امید باقی تھی، شبنم آجائے گی اور میرا پیغام اوج تک لے جائے گی۔ شبنم آگئی۔ میں نے اس سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ وہ بھی پریشان ہوگئی اور ہر طرح سے مدد کو تیار ہوگئی۔ ادھر اوج مضطرب تھا کہ کئی دنوں سے میں گھر سے نہیں نکلی تھی، اس سے نہیں مل رہی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اپنے گائوں چلی گئی ہوں۔ وہ میری سن گن لینے ماموں کے گھر تک آگیا۔ ہمارے پڑوس میں اس کا ایک رشتے دار رہتا تھا۔ وہ اس سے معلومات لینے آیا تھا مگر وہ لوگ کہیں گئے ہوئے تھے، گھر پر تالا پڑا تھا۔ وہ ہمارے دروازے کے پاس کھڑا کچھ سوچ رہا تھا کہ ابو اور ماموں آگئے۔ اسے یوں کھڑا دیکھ کر پوچھا۔ کیا بات ہے، یہاں کیوں کھڑے ہو اس نے کہا۔ لاہور سے آیا ہوں، مسافر ہوں لیکن یہاں تالا لگا ہے۔ اس نے بند گھر کی طرف اشارہ کیا۔ یہ لوگ گھر پر نہیں ہیں، ملتان گئے ہیں۔ کیا تم ان کے رشتے دار ہو جی اوج نے سر ہلایا۔ اچھا تو آجائو۔ ماموں اس کو بیٹھک میں لے آئے۔ انہوں نے ممانی سے کہا۔ ایک مسافر ہے کھانا اور پانی وغیرہ بھجوا دو۔ اوج کو تھوڑی دیر بیٹھک میں بیٹھنے کی مہلت مل گئی۔ کھانا کھانے کے دوران والد اور ماموں بھی وہاں موجود رہے، وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ ان باتوں سے اسے علم ہوگیا کہ میری شادی گائوں میں ہے اور اب ابو مجھے لینے آئے ہیں۔ یہ باتیں سن کر وہ اور پریشان ہوا، تبھی اس نے شبنم سے رابطہ کیا اور اس کو میرے پاس بھیجا۔ شبنم نے مجھے آمادہ کرلیا کہ میں گائوں جانے سے قبل کسی طرح ایک بار اوج سے ملوں۔ شام کو ممانی سے کہا کہ مجھے خالدہ کے گھر جانا ہے، ابو پوچھیں تو یہی کہنا ہے وہ مجھ سے ناراض ہے جانے سے پہلے اسے منانا چاہتی ہوں۔ ممانی نے اجازت دے دی، کہا۔ ٹھیک ہے، جائو مگر جلد آجانا۔ مجھے خالدہ کے پاس کہاں جانا تھا، مجھے تو اوج سے ملنے جانا تھا۔ اس کے لئے بھی شبنم نے معاونت کی۔ میں کسی پارک میں یا کھلی جگہ ملنا نہ چاہتی تھی۔ لائبربری میں بھی لوگ ہوتے تھے، بیٹھ کر بات کرنے کے لئے کوئی محفوظ مقام چاہئے تھا۔ شبنم نے تجویز کیا کہ ہم اس کے کزن کی دکان پر بات کرلیں، وہ بالکل محفوظ جگہ ہے۔ یہ ایک فوٹوگرافر کا اسٹوڈیو تھا۔ وہ ہمارے ساتھ گئی اور اپنے کزن سے بات کی۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ اسٹوڈیو کے عقب میں جاکر بات کرلیں۔ وہاں دو تین کرسیاں پڑی تھیں اور کچھ دکان کا سامان رکھا ہوا تھا۔ جونہی شبنم نے بات ختم کی، وہاں اچانک والد اور ماموں آگئے اور انہوں نے مجھے اور شبنم کو دیکھ لیا، حالانکہ ہم نے پردہ چادر سے خود کو لپیٹا ہوا تھا۔ ان کو دیکھتے ہی میں تیزی سے عقبی کمرے میں چلی گئی اور شبنم دکان سے باہر نکل گئی۔ ابھی تک والد اور ماموں یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ ہم دونوں یہاں کیوں آئی تھیں۔ غلطی تبھی ہوئی جب اوج بھی میرے پیچھے عقبی کمرے میں چلا آیا۔ والد میری شادی پر کسی فوٹو گرافر کو گائوں بلوانا چاہتے تھے، وہ تبھی فوٹو اسٹوڈیو آئے تھے۔ والد نے مجھے پہچان لیا تھا، وہ ڈارک روم میں آگئے اور ہم کو وہاں دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے۔ بازو سے پکڑ کر کرسی سے اٹھا دیا اور حکم دیا کہ چلو گاڑی میں بیٹھو۔ میں تیزی سے دکان سے نکلی اور گلی میں مڑ گئی۔ ماموں اور ابو نے اوج کو دو تھپڑ رسید کئے، وہ اس سے نمٹ رہے تھے کہ اتنے میں، میں گھر جانے کی بجائے خالدہ کے گھر گھس گئی۔ خوف کی وجہ سے حواس باختہ ہورہی تھی۔ گھر کیسے جاتی ابو کا غصہ جانتی تھی، سوچا آج تو یہ مجھے گولی سے اڑا دیں گے۔ خالدہ نے حواس باختہ دیکھا تو سمجھ گئی کہ میرے ساتھ کوئی معاملہ ہوگیا ہے۔ کیا بات ہے، اتنے عرصے بعد آئی ہو تو ایسے جیسے تمہارے پیچھے دشمن لگے ہوں دشمن نہیں لگے مگر ابو اور ماموں نے مجھے شبنم کے کزن کی دکان پر دیکھ لیا ہے، جہاں میں اوج سے آخری ملاقات کرنے گئی تھی۔ یہ سن کر وہ پریشان ہوگئی۔ یہ کیا حماقت کردی تم نے، اب بتائو کہ کیا کرنا ہے مجھے کسی طرح بچا لو، گھر کیسے جائوں وہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔ خالدہ سر پکڑے بیٹھی تھی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا کہ تم مجھے اوج کا نمبر دے سکتی ہو ہاں میں نے لکھ دیا کہ مجھے تو زبانی یاد تھا۔ اس نے کال ریسیو کی اور بتایا کہ میں حوالات میں ہوں، ان کے والد نے مجھے تھانے میں بند کرا دیا ہے کیونکہ یہ گھر نہیں گئیں۔ ان سے کہیں خدا کے لئے جہاں ہیں، گھر جائیں۔ خالدہ کچھ دیر مضطرب ٹہلتی رہی پھر بولی۔ میں تھانے جاتی ہوں۔ ابو وفات پا چکے ہیں، اب مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ وہ اسی وقت تھانے چلی گئی اور تھانیدار سے کہا۔ میں ہی وہ لڑکی ہوں جو اوج کے ساتھ فوٹوگرافر کی دکان میں گئی تھی۔ ہم وہاں اپنی ایک اکٹھی فوٹو کھنچوانے گئے تھے اور ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا ہے، میں خودمختار ہوں، اپنی زندگی کا یہ اہم فیصلہ کرسکتی ہوں اور وہ دوسری لڑکی جو میری سہیلی ساتھ گئی تھی، ان کے والد کو یہاں بلوایئے، ان کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے۔ وہ لڑکی تو اسی وقت اپنے گھر چلی گئی تھی، اسے کسی نے اغوا نہیں کیا ہے۔ میں نے اپنے گھر کی دہلیز پار کی ہی تھی کہ تھانیدار کا ابو کو فون آگیا۔ اس نے کہا۔ اصل لڑکی نے اقرار کرلیا ہے، وہ ہماری تحویل میں ہے، آپ ذرا دیر کو آنے کی زحمت کیجئے۔ والد صاحب تمام معاملہ سمجھ تو گئے تھے مگر اب اپنی عزت بھی بچانی تھی۔ انہوں نے لاکھ شکر کیا کہ میں صحیح سلامت گھر پہنچ چکی تھی لہٰذا وہ تھانے چلے گئے۔ وہاں خالدہ بیٹھی تھی۔ اس نے والد صاحب کے سامنے بیان لکھوا دیا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا، اوج سے شادی کررہی ہوں اور ہم ایک یادگار تصویر کھنچوانے فوٹو اسٹوڈیو گئے تھے۔ آپ کی بیٹی میرے ساتھ دکان تک ضرور آئی تھی، پھر وہ گھر چلی گئی، اگر وہ پرگھر ہے تو ثابت ہے کہ نہ اس کو کسی نے اغوا کیا ہے اور نہ اس کا کوئی تعلق اوج سے ہے، بلکہ اوج سے میرا تعلق ہے اور ہم دونوں یہ بیان لکھوا رہے ہیں۔ ماموں نے کہا۔ تم نے جو کیا صحیح نہیں کیا، میں تو تم کو اچھی لڑکی سمجھتا تھا۔ خیر تمہاری تم جانو، آئندہ میری بیٹی سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھنا۔ ہم اس کی شادی کررہے ہیں۔ خالدہ ایک سچی دوست ہی نہیں فرشتہ صفت تھی جس نے خود پر پہاڑ جیسا الزام اٹھا کر مجھے بدنامی سے بچایا۔ پھر میری شادی گائوں میں ہوگئی۔ اپنے بیان کو سچ ثابت کرنے کی خاطر تھانیدار کی سرپرستی میں اس نے اوج سے کورٹ میرج کی کیونکہ اسی طرح اوج کی جان بخشی ہوسکتی تھی، حالانکہ وہ خالدہ کی نظروں میں صحیح لڑکا نہ تھا مگر اس لڑکی نے قربانی دے کر اس کے خیالات کا رخ ہی موڑ دیا۔ اوج نے خالدہ جیسی اچھی بیوی کی محبت میں اپنی اصلاح کرلی۔ آج میں اپنے شوہر کے ساتھ گائوں میں پرسکون زندگی بسر کررہی ہوں اور خالدہ کو بھی اللہ نے اس کی قربانی کا صلہ دیا ہے۔ وہ اوج کے ساتھ خوش و خرم ہے یا نہیں لیکن وہ اس کے ہمراہ نباہ تو رہی ہے۔ سنا ہے کہ بظاہر دونوں پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں، ان کے دو بچے ہیں۔ خالدہ کی والدہ وفات پا چکی ہیں، جبکہ اس نے چھوٹی بہن کی شادی کردی ہے اور اس کا بھائی کمانے کی خاطر دبئی چلا گیا تھا۔ جانے وہ لوٹا کہ نہیں میں اس سے شہر میں رابطہ کرنے سے قاصر ہوں اور وہ بھی میرے والد صاحب کے حکم کی پابند ہے، تبھی پھر کبھی رابطہ نہیں کیا۔ ع کراچی | null |
null | null | null | 272 | https://www.urduzone.net/serhi-episode-1/ | بارات میں شامل کچھ لوگ دولہا کی قسمت پر رشک کر رہے تھے، کچھ اسے حسد کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جن سے زمان اختر کا دولہا بننا برداشت ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ایک فارم ہائوس میں شادی کی تقریب جاری تھی۔ دولہا زمان شرمایا ہوا بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ براجمان اس کی دُلہن الماس کے چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی عیاں تھی۔ اس شادی کی تقریب میں ایک ایسا نوجوان بھی شامل تھا جو دُلہن الماس کا کزن تھا اور وہ اسے بہت پسند کرتا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کی شادی الماس سے ہو جائے۔ اس نے اپنے دل کی بات الماس سے کہی بھی تھی لیکن الماس اسے شروع سے ہی ناپسند کرتی تھی۔ حالانکہ وہ خوبصورت تھا اور اس کے والد بھی بہت بڑے کاروباری تھے، دولت کی ریل پیل تھی۔ اس کے باوجود الماس جانے کیوں اس سے چڑتی تھی اور جب اس نے اپنے دل کی بات کہی تو الماس نے اس کی طرف دیکھ کر متانت سے کہا تھا۔ مسٹر اویس میں آپ کو پسند نہیں کرتی۔ آپ جو میرے لئے محبت بھرے جذبات لئے پھر رہے ہیں۔ براہ مہربانی ان جذبات کو دل سے نکال دیں اور اپنے لئے کوئی اور لڑکی تلاش کرلیں۔ الماس کے صاف جواب کے بعد ایک دن اُسے اچانک پتا چلا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے اور وہ بھی الماس کے باپ کی کمپنی میں کام کرنے والے ایک ایسے نوجوان سے جس کا کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے سب کے لئے یہ حیران کن اور چونکا دینے والی خبر تھی لیکن سارا خاندان جانتا تھا کہ الماس کا باپ وجاہت حسین جب کوئی فیصلہ کرتا ہے تو پھر اسے دُنیا کی کوئی طاقت اس فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ الماس کی شادی زمان اختر کے ساتھ اچانک طے نہیں ہوئی تھی۔ اس کے لئے زمان کو بہت محنت کرنی پڑی تھی۔ زمان کی عمر تیس سال سے کم تھی۔ اس کا نکلتا ہوا قد اور خوبصورت چہرہ کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ ابھی زمان کی کالج کی تعلیم ختم ہوئی تھی کہ اس کا باپ چل بسا اور ٹھیک چھ ماہ کے بعد اس کی ماں بھی دُنیا چھوڑ گئی اور وہ اکیلا رہ گیا۔ زمان کی شدید خواہش تھی کہ اس کے پاس ڈھیر سا روپیہ، بڑا سا بنگلہ، قیمتی گاڑیاں ہوں اور کوئی فکر نہ ہو۔ اس کا شاطر دماغ کالج کے دنوں میں بھی اپنے دوستوں کو مختلف طریقوں سے لوٹتا رہتا تھا۔ وہ کسی کو بھی آسانی سے بے وقوف بنا لیتا تھا۔ وہ چھوٹے موٹے فراڈ کرتا رہتا تھا جس کا کسی کو پتا نہیں چلتا تھا۔ جب وہ دُنیا میں اکیلا رہ گیا تو اس نے بڑے فراڈ شروع کر دیئے اور پھر ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کے لئے وہ مزید آگے بڑھا، اس کے تعلقات جرائم پیشہ لوگوں سے ہوگئے۔ وہ ایک شہر سے دُوسرے شہر منتقل ہونے لگا۔ وہ پولیس کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ دولت لوٹنے کے چکر میں وہ کراچی پہنچ گیا۔ اس شہر میں زمان نے وجاہت حسین کو اپنی پجیرو سے اُترتے اور پھر ایک ہوٹل میں جاتے دیکھا۔ اس کے ٹھاٹ دیکھ کر زمان سوچنے لگا کہ زندگی ایسی ہونی چاہئے۔ اس نے وجاہت حسین کے بارے میں معلومات جمع کرنی شروع کر دی۔ وجاہت کا کاروبار بیرون ملک تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ ایک انتہائی امیر کبیر شخص تھا۔ اسی دوران چائے پیتے ہوئے زمان نے اخبار میں اشتہار دیکھا کہ وجاہت حسین کی کمپنی کو کچھ ملازمین کی ضرورت ہے۔ زمان نے اسی وقت درخواست لکھی، اپنی تعلیمی اسناد منسلک کیں اور اپنے شہر میں مقیم اُستاد قیوم کو فون کیا۔ اس نے کبھی بتایا تھا کہ کراچی میں اس کے بہت سے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اُستاد قیوم سے رابطہ ہوتے ہی زمان نے وجاہت حسین کی کمپنی کے بارے میں بتانے کے بعد کہا۔ میں اس کمپنی میں ملازمت کرنا چاہتا ہوں۔ سفارش کے بغیر کام بنتا نہیں۔ اگر اس نوکری کے لئے سفارش کر دیں تو مہربانی ہوگی۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں تمہارا نمبر اپنے ایک بندے کو دیتا ہوں۔ وہ تمہارا کام کر دے گا۔ اُستاد قیوم نے ہامی بھر لی۔ آدھے گھنٹے کے بعد زمان کو ایک فون آیا۔ دُوسری طرف سے کوئی شبیر بھائی بول رہا تھا۔ اس نے کچھ سوال کئے اور پھر اسے ایک پتا سمجھا کر کہا کہ وہ اس جگہ آ جائے۔ زمان اس جگہ پہنچ گیا۔ شبیر بھائی بظاہر علاقے کا معزز شخص دکھائی دیتا تھا لیکن ایسا تھا نہیں۔ اس نے اُستاد قیوم سے پہلے ہی زمان کے بارے میں ساری معلومات لے لی تھی، اب محض وہ اس کی شکل دیکھنا چاہتا تھا۔ ملاقات کے بعد شبیر بھائی نے زمان سے کہا۔ انٹرویو دینے کے فوراً بعد میرے اس نمبر پر رابطہ کرنا۔ کام ہو جائے گا۔ کوئی ٹینشن نہیں۔ قیوم بھائی نے بولا ہے پھر کام کیسے نہیں ہوگا۔ دُوسرے دن انٹرویو تھا، جب زمان انٹرویو دے کر کمرے سے باہر نکلا تو اس نے فوراً شبیر بھائی کو فون کیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا اور دُوسرے دن اس کمپنی میں زمان کو نوکری مل گئی۔ زمان نے کرائے پر ایک کمرا لیا ہوا تھا۔ وہ اس نوکری کے ملنے پر بہت خوش تھا۔ اس نے جھوم کر کہا۔ میری کامیابی کی یہ پہلی سیڑھی ہے۔ دُوسرے دن وہ تیار ہو کر آفس پہنچا۔ تین دن میں اس نے اپنا کام بھی سمجھ لیا اور وجاہت حسین کو بھی قریب سے دیکھ لیا۔ وجاہت حسین کام کے بارے میں بہت سنجیدہ تھا۔ وہ اپنے ہر کارکن پر نظر رکھتا تھا۔ ان سے اپنے کمرے میں بلا کر کام کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ اس نے زمان کو اپنے کمرے میں بلا کر کام کے حوالے سے بات کی تھی اور کچھ ہدایات دینے کے بعد زمان کو کمرے سے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ زمان نے محسوس کیا تھا کہ وجاہت حسین دولت کے ڈھیر پر بیٹھا ضرور تھا لیکن اس کے اندر زعم نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ کام کی قدر کرنے والا شخص تھا۔ اس کی نظر ہر معاملے میں بہت گہری تھی۔ وہ وقت بچا کر پیسہ بچانے کا ہنر جانتا تھا۔ ایک دن دو خوبصورت لڑکیاں آفس آئیں اور سیدھی وجاہت حسین کے کمرے میں چلی گئی تھیں۔ زمان نے باتوں باتوں میں اپنے کولیگ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ وجاہت حسین کی بیٹیاں ہیں۔ ایک کا نام الماس اور دُوسری کا نام رمشا ہے۔ الماس کا چہرہ زمان کی نگاہوں میں بس گیا تھا۔ اس نے اس کمپنی میں کسی اور مقصد کے لئے نوکری کی تھی، اس کا منصوبہ کچھ اور تھا، لیکن اب الماس کو دیکھ کر اس کی سوچ بدل گئی تھی۔ اب وہ کچھ اور سوچنے لگا تھا۔ چند دن گزر گئے۔ ایک رات زمان فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جا رہا تھا کہ اچانک ایک سیاہ پجیرو آئی جس کی رفتار بہت تیز تھی، اس نے ایک راہ گیر کو ٹکر مار دی۔ راہ گیر ایک طرف جاگرا۔ پجیرو کو یکدم بریک لگے تو اس کے ٹائر چیخے۔ زمان کی فوراً توجہ اس طرف مبذول ہوگئی۔ اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ بھاگ کر زخمی راہ گیر کے گرد جمع ہوگئے ہیں۔ پجیرو نے اس جگہ سے نکلنا چاہا تو ایک موٹرسائیکل برق رفتاری سے پجیرو کے آگے کھڑی ہوگئی۔ اس موٹر سائیکل پر دو افراد سوار تھے۔ دونوں جوان تھے اور شکل و صورت سے شریف لوگ نہیں لگتے تھے۔ موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھا شخص تیزی سے ان لوگوں کی طرف بڑھا، جو زخمی کے گرد جمع تھے۔ اس نے شور مچا کر قریب سے گزرتے رکشہ والے کو روکا اور زخمی کو رکشہ میں سوار کرا کے دو آدمیوں کے ساتھ اسپتال کی طرف بھیج دیا اور واپس موٹرسائیکل سوار کے پاس آ گیا۔ وہ دونوں پجیرو کی طرف بڑھے۔ ایک نے شیشے پر اپنی اُنگلی ماری تو ڈرائیونگ سیٹ کی طرف کا شیشہ جونہی نیچے ہوا، کچھ فاصلے پر کھڑا زمان یہ دیکھ کر چونک گیا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر الماس براجمان تھی اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ میڈم باہر آئیں اور ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلیں۔ آپ کی گاڑی کی ٹکر سے وہ شدید زخمی ہوگیا ہے۔ اس آدمی نے بارعب آواز میں کہا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ مشکل ہی سے بچے گا۔ یہ سن کر الماس کا رنگ اُڑ گیا۔ اس کے ساتھ والی سیٹ اور پیچھے اس کی دوست بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ بھی ڈری اور سہمی ہوئی تھیں۔ میں نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری۔ الماس نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔ یہ آپ پولیس کو بتایئے گا۔ باہر نکلیں۔ اس نے غصے سے کہا۔ میں پپا کو فون کرتی ہوں۔ الماس نے فون پکڑا۔ ایک دَم اس آدمی نے الماس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ فون شون جو بھی کرنا ہے تھانے جا کر کرنا۔ اُس نے کہا۔ میرا فون دو۔ الماس بولی۔ فون کی بڑی فکر ہے، اس غریب کی کوئی فکر نہیں ہے جسے آپ نے بے دردی سے ٹکر ماری ہے۔ وہ بولا۔ میں نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری۔ جب قتل کرنے پر جیل میں چکی پیسنی پڑے گی پھر سوچنا میڈم کہ جان بوجھ کر ٹکر ماری تھی یا انجانے میں ایسا ہوگیا تھا۔ آپ جیسی امیرزادیاں غریبوں کو کچھ سمجھتیں۔ کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل کر چلی جاتی ہیں۔ اس نے کہا۔ میں پولیس کو فون کر کے یہاں ہی بلا لیتا ہوں۔ اس کے ساتھی نے اپنا فون نکالا۔ پلیز مجھے میرے پپا سے بات کرنے دیں۔ الماس نے کہا۔ اس وقت تک زمان ان کے پاس پہنچ گیا اور پراعتماد لہجے میں بولا۔ کیا ہو رہا ہے زمان کی آواز سنتے ہی الماس کے ساتھ وہ دونوں شخص بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئے، ایک شخص بولا۔ اس امیرزادی نے ایک شخص کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر مار دیا ہے۔ زمان نے اس کے ہاتھ میں پکڑا الماس کا فون ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ میں لیا اور بولا۔ لڑکی کے ساتھ بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ یہ کہہ کر زمان نے موبائل فون الماس کی طرف بڑھا دیا۔ الماس نے فوراً اپنا فون تھام لیا۔ اس نے اس غریب کی جان لے لی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس سے تمیز سے بات کریں۔ اس نے زمان کی طرف غصے سے دیکھا۔ پیچھے ہو جائو۔ مجھے لڑکی سے بات کرنے دو۔ اس کے بعد میں بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں۔ زمان نے کچھ اس انداز میں کہا کہ وہ دونوں پہلے تو اسے دیکھتے رہے اور پھر پیچھے ہو کر کھڑے ہوگئے۔ زمان آگے بڑھا اور الماس کے پاس جا کر بولا۔ میرا نام زمان اختر ہے اور میں آپ کے والد کی کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں۔ چند دن پہلے میں نے آپ کو آفس میں دیکھا تھا۔ آپ یہاں سے چلی جائیں، میں انہیں سنبھال لوں گا۔ الماس اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیاکرے۔ اس کے برابر بیٹھی اس کی دوست نے کہا۔ سوچ کیا رہی ہو گاڑی پیچھے کرو اور یہاں سے نکلو۔ الماس ایک دَم چونکی، اس نے گاڑی پیچھے کی اور پھر تیزی سے نکل گئی۔ یہ کیا کیا اسے جانے کیوں دیا۔ وہ شخص تیزی سے زمان کی طرف بڑھا۔ زخمی تمہارا کیا لگتا تھا زمان نے اس سے پوچھا۔ انسانیت سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ وہ بولا۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ زیادہ زخمی نہیں ہوا تھا۔ ہلکی سی ٹکر لگی تھی جس سے وہ گر گیا تھا۔ اسے اسپتال لے جانے کی بھی ضرورت نہیں تھی لیکن تم لوگوں نے اسے جان بوجھ کر اسپتال بھیج دیا۔ تم دونوں اس لڑکی سے پیسے لینے کے چکر میں تھے ہم یہ سب پیسوں کے لئے نہیں کر رہے تھے۔ وہ آنکھیں چرا کر بولا۔ زمان نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ اب بہتر یہ ہے کہ تم دونوں یہاں سے چلے جائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں تم دونوں سے اپنا تعارف کرائوں اور پھر تم دونوں بھاگنے کا راستہ ڈھونڈتے پھرو۔ زمان کا کمال یہ تھا کہ وہ بات پورے اعتماد سے کرتا تھا۔ اس کے لہجے میں ایسا زور ہوتا تھا کہ سامنے والا ایک بار تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ اس کے سامنے کھڑا کوئی عام آدمی نہیں ہے۔ اس لئے وہ دونوں آوارہ اپنی موٹرسائیکل کی طرف بڑھے اور وہاں سے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد زمان معنی خیز انداز میں مسکرایا اور سیدھا اسپتال پہنچا۔ سرکاری اسپتال قریب ہی تھا۔ شعبہ حادثات میں زمان کووہ شخص ایک بستر پر پڑا مل گیا۔ اس شخص کی حالت سے پتا چل رہا تھا کہ وہ کوئی نشئی ہے۔ اس کو چند ہلکی چوٹیں آئی تھیں، کیونکہ اس وقت گاڑی کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔نرس نے اس کی مرہم پٹی کر دی تھی اور اسے جانے کا کہہ دیا تھا۔ وہ بدستور بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ زمان اس کے پاس چلا گیا اور بولا۔ وہ کہاں گئے جو تمہیں یہاں لائے تھے مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اس نے جواب دیا اور زمان کا جائزہ لینے لگا۔ بڑا افسوس ہوا تمہیں چوٹیں بھی آئیں اور ایک پیسہ بھی نہیں ملا۔ زمان نے افسوس کا اظہار کیا۔ اس آدمی نے زمان کی طرف دیکھا اور بولا۔ تم کون ہو میں وہاں کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔ اس امیرزادی کو تو کچھ پیسے دینے چاہئے تھے۔ ہاں۔ اس نے تاسف سے سر ہلایا۔ کہو تو میں تمہیں اس سے پیسے دلا دوں زمان نے کہا۔ تم کیسے دلا دو گے اس نے پوچھا۔ میں اس امیرزادی کو جانتا ہوں۔ میں تمہیں اچھے خاصے پیسے دلا دوں گا۔ زمان نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں چمک اُبھر آئی۔ میرا حق تو بنتا ہے۔ دیکھیں مجھے کتنی چوٹیں آئی ہیں۔ خیر چوٹیں تو اتنی نہیں آئیں اس کے باوجود میں تمہیں پیسے دلا سکتا ہوں، تمہیں ایک کام کرنا ہوگا۔ یہ ظاہر کرو کہ چل نہیں سکتے۔ تم شدید تکلیف میں ہو۔ زمان نے سمجھایا۔ تمہارا نام کیا ہے میرا نام لیاقت ہے۔ اس نے بتایا۔ میرا نام عادل ہے۔ زمان بولا۔ دیکھو تم خود کو تکلیف میں مبتلا کر لو۔ میں نرس کو لے کر آتا ہوں۔ زمان یہ کہہ کر نرسنگ روم کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد زمان اپنے ساتھ ایک نرس کو لے کرآگیا۔ نرس کو دیکھتے ہی لیاقت نے تکلیف سے چلانا شروع کر دیا۔ یہ بہت تکلیف میں ہے۔ مجھے لگتا ہے کوئی اندرونی چوٹ آئی ہے۔ ایکسرے ہو جائیں تو معاملہ صاف ہو جائے گا۔ آپ اسے ایک دو دن کے لئے اسپتال میں داخل کر لیں۔ زمان نے کہا۔ نرس منہ بنا کر واپس چلی گئی۔ زمان اس کے پیچھے گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی، وہ اس کے پاس آکر بولا۔ تم اسپتال میں داخل ہوگئے ہو۔ اگر میرے ساتھ کوئی آیا تو تم اس طرح تکلیف میں مبتلا کر لینا کہ تمہیں دیکھنے والا یقین کر لے کہ تم شدید تکلیف میں ہو۔ لیاقت نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ کچھ دیر کے بعد لیاقت کو جنرل وارڈ میں منتقل کر دیا اور زمان وہاں سے چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ دُوسرے دن آفس میں جب وجاہت حسین اپنے کمرے میں گیا تو تھوڑی دیر کے بعد زمان نے وجاہت حسین کی سیکرٹری سے کہا کہ اُسے باس سے ضروری بات کرنی ہے۔ وجاہت حسین نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ کیا ضروری بات کرنی ہے وجاہت حسین نے پوچھا۔ رات ایک حادثہ ہوا تھا۔ آپ کی بیٹی کی گاڑی سے ایک شخص ٹکرا گیا تھا۔ اس وقت وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔ زمان نے بتایا۔ اس کی بات سن کر وجاہت حسین کے چہرے پر حیرت برسنے لگی۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم یہ بات آپ کے علم میں نہیں آئی کیا زمان نے پوچھا۔ صبح ناشتے کی میز پر الماس سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ وجاہت حسین پریشان ہو گیا تھا۔ اتفاق سے میں وہاں موجود تھا۔ کچھ لوگوں نے ان کی گاڑی کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ میں نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر مس الماس کی گاڑی وہاں سے نکال دی تھی۔ انہوں نے گاڑی کا نمبر اورموبائل فون سے ویڈیو بھی بنائی تھی، میں اسپتال گیا تھا وہاں زخمی کو دیکھ کر آیا ہوں۔ وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں ہے۔ زمان نے کہا۔ وہ لوگ پولیس تک تو نہیں گئے وجاہت حسین کی تشویش دوچند ہوگئی تھی۔ میں نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ میں اس فیملی کو جانتا ہوں، اس لئے افہام و تفہیم سے معاملہ ختم کرانے کی کوشش کروں گا۔ لیکن وہ لوگ بضد ہیں کہ ہم مس الماس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے۔ میں نے ان سے آج دوپہر تک کا وقت لیا ہے۔ آپ کا فون نمبر میرے پاس نہیں تھا، ورنہ میں آپ سے اسی وقت رابطہ کرلیتا۔ زمان نے بڑی عیّاری سے بات کی۔ وجاہت حسین ایک بزنس مین تھا۔ وہ پیسہ کمانا جانتا تھا، پیسے کے لئے پریشان ہونا جانتا تھا۔ وہ ان بکھیڑوں میں کبھی پڑا تھا اور نہ اس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ ان چکروں میں اپنا وقت برباد کرے۔ میں اپنے وکیل سے بات کر تاہوں۔ وجاہت حسین نے اپنا ہاتھ انٹرکام کی طرف بڑھایا۔ سر وکیل تک بات پہنچانے سے بہتر ہے کہ ہم اس معاملے کو یہیں ختم کر دیں۔ اس معاملے میں وکیل آئے گا تو وہ لوگ بھی وکیل لے آئیں گے۔ پھر مس الماس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگی اور معاملہ عدالت میں چلا جائے گا۔ ایک نئی ٹینشن کھڑی ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کہ وہ شخص مر جائے اور معاملہ مزید گھمبیر ہو جائے، آپ اس شخص سے خود بات کر لیں جو اس معاملے کو زیادہ اُچھال رہا ہے اور چوہدری بنا ہوا ہے۔ زمان نے کہا۔ وجاہت حسین بولا۔ میں الماس سے بات کر لوں کہ اس نے مجھے اتنی بڑی بات کیوں نہیں بتائی۔ وجاہت حسین نے اپنے موبائل فون سے الماس کا نمبر ملایا اور رابطہ ہوتے ہی بولا۔ الماس رات کوئی حادثہ ہوا تھا پپا کیا پولیس آئی ہے ایک دَم الماس نے پوچھا۔ نہیں پولیس نہیں آئی۔ مجھے زمان نے بتایا ہے۔ وجاہت حسین نے جلدی سے کہا۔ پپا حادثہ اچانک ہو گیا تھا۔ میں ساری رات نہیں سوسکی۔ میں بہت ڈری ہوئی ہوں۔ الماس نے کہا۔ تم ٹینشن مت لو۔ ایسی کوئی بات ہوئی تھی تو مجھے بتا دیتیں اور اگر وہاں زمان نہ ہوتا تو مجھے کیسے پتا چلتا۔ وجاہت حسین بولا۔ وہاں میری گاڑی ان لوگوں نے روک لی تھی اور زمان اختر نے میری گاڑی وہاں نکلوائی تھی۔ الماس نے بتایا۔ تم فکر مت کرو۔ پرسکون رہو۔ اس کا ذکر اب کسی سے مت کرنا۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ وجاہت حسین نے فون بند کرکے ایک نظر زمان کی طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھا اور بولا۔ اب کیا کرنا ہے سر اسے کچھ دے دلا کر چپ کرا دیتے ہیں۔ زخمی کا علاج کسی اچھے اسپتال میں کرا دیتے ہیں۔ بس دُعا کریں کہ وہ زندہ بچ جائے۔ زمان نے کہا۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے لئے میں کچھ بااثر دوستوں کو کال کرتا ہوں۔ وجاہت حسین بولا۔ سر جیسا آپ چاہیں لیکن اگر آپ مجھ پر اعتماد کریں تو میں یہ سارا معاملہ رازداری سے ختم کرانے کی کوشش کروں گا۔ میں نے سوچا ہے کہ اگر وہ لوگ نہ مانے تو بجائے اس کے کہ ہم کسی دُوسرے کی مدد لیں، میں خود پولیس اسٹیشن چلا جائوں گا اور وہاں اقرار کر لوں گا کہ رات میری گاڑی سے ایک شخص ٹکرا گیا تھا۔ میں اپنے آپ کو آپ کا ڈرائیور ظاہر کر دوں گا۔ آپ کی عزت پر کوئی حرف نہیں آنے دوں گا۔ زمان نے کہا۔ زمان کی بات سن کر وجاہت حسین اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ تم اتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہو سر آپ کا نمک کھایا ہے۔ نمک حرامی نہیں کروں گا۔ وہ بولا۔ آج تم نے میرا دل جیت لیا۔ ایسی بات شاید میرا کوئی سگا رشتے دار بھی نہ کرتا۔ میں تمہیں پورا اختیار دیتا ہوں کہ تم اس معاملے کو جیسے چاہو حل کرو۔ جتنا پیسہ ان کے منہ میں ٹھونسنا چاہو ٹھونس دو کہ ان کے منہ نہ کھل سکیں۔ میں ابھی جاتا ہوں سر اگر وہ نہ مانے اور انہوں نے پیسہ لینے سے انکار کر دیا تو میں سیدھا پولیس اسٹیشن چلا جائوں گا اور اعترافی بیان دے کر خود کو پولیس کے حوالے کر دوں گا، بس سر آپ پولیس کے پوچھنے پر یہ بتا دیجئے گا کہ میں آپ کا ڈرائیور ہوں۔ زمان نے کہا۔ وجاہت حسین بولا۔ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی نوبت نہیں آئے گی۔ لیکن پھر بھی اگر ایسا ہوا تو میں تمہارے لئے اپنا بڑا وکیل کھڑا کر دوں گا۔ شکریہ سر آپ میرے ساتھ چلیں گے ان کے پاس زمان نے کہا۔ میرا خیال ہے کہ تم اکیلے ہی معاملہ طے کرنے کی کوشش کرو اور اس کے بعد جو ہو مجھے بتا دینا۔ بہتر سر۔ زمان کہہ کر باہر جانے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ وجاہت حسین نے اسے روک کر کہا۔ میں اکائونٹینٹ سے بول دیتا ہوں۔ تم اس سے دو لاکھ روپیہ لے جائو۔ مزید پیسوں کی ضرورت ہوگی تو مجھے کال کر دینا۔ وجاہت حسین نے پہلے اکائونٹینٹ کو ہدایت دی اوراس کے بعد اس نے اپنا ذاتی موبائل فون نمبر دے دیا۔ زمان باہر گیا۔ اس نے اکائونٹینٹ سے دو لاکھ روپے لے کر اپنی جیب میں ڈالے اور دفتر سے باہر نکل گیا۔ ٭ ٭ ٭ لیاقت اسے دیکھتے ہی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایسی اُمید تھی جیسے ابھی زمان جیب سے پیسے نکال کر اسے تھما دے گا۔ ابھی ڈاکٹر سے مل کر آ رہا ہوں۔ اس نے بتایا ہے کہ تم بالکل ٹھیک ہو اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ چھٹی دے رہے ہیں۔ زمان نے کہا۔ میں یہاں لیٹ کر کون سا خوش ہوں۔ یہ بتائو ان لوگوں سے بات ہوئی ان سے بات ہوئی تھی۔ وہ بڑے عجیب لوگ ہیں۔ ان کو کسی چیز کا ڈر خوف نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ اگر وہ زندہ ہے تو پھر خود آ کر مار دیتے ہیں۔ ارے وہ کیوں لیاقت ایک دَم خوفزدہ ہو گیا۔ تاکہ تمہارا قصہ ہی ختم ہو جائے۔ ان لوگوں کے پاس پیسہ ہے۔ وکیلوں کی فوج ہے۔ انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔ اس لئے میں تمہیں ڈسچارج کرانے جا رہا ہوں۔ زمان نے اتنا کہہ کر اس کی فائل اُٹھائی۔ اسے ڈسچارج کرایا اور اس کا بازو پکڑ کر باہر آیا۔ باہر آ کر اس نے پچاس کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا۔ جوس پی لینا۔ لیاقت پچاس روپے لے کر برا بھلا کہتا ہوا ایک طرف چل دیا۔ زمان نے مسکرا کر اسے جاتے ہوئے دیکھا اور اپنی بائیک پر گھومتا رہا اور کافی وقت گزارنے کے بعد وہ آفس پہنچ گیا۔ وجاہت حسین ایک میٹنگ میں مصروف تھا لیکن اس کا دھیان مسلسل زمان کی طرف تھا۔ کئی گھنٹے ہوگئے تھے اور زمان نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ جونہی وجاہت حسین کو زمان کے آنے کا پتا چلا اس نے فوراً میٹنگ ختم کی اور تھوڑی دیر کے بعد ہی زمان کو اندر بلا لیا۔ میں بہت بے چین تھا۔ الماس کا کئی بار فون آ چکا تھا۔ وجاہت حسین نے اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ میں آپ سے رابطہ کرنا چاہتا تھا لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا، کیونکہ وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ الماس بی بی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی ہے۔ میں نے ان کی بہت منت سماجت کی اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ میں اکیلا تھا اور وہ ایک درجن کے قریب تھے۔ میں نے ان کے سرغنہ کو لالچ بھی دیا لیکن وہ نہیں مانا۔ تب میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ جو کچھ کرنا چاہو کر لو اور میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ پھر کیا ہوا جب انہوں نے میرے تیور دیکھے تو ان کے سرغنہ کا رویہ ایک دَم بدل گیا۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا۔ اس نے پانچ لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی اور کہا کہ وہ قصہ یہیں ختم کرا دے گا۔ میں فیصلہ کر چکا تھا کہ یہاں سے سیدھا تھانے جائوں گا اور اپنا اعترافی بیان دے کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دوں گا۔ میں اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا اور اس کی پروا کئے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ میں سیدھا اسپتال گیا۔ وہاں دیکھا کہ وہ آدمی ہوش میں تھا۔ اس کے لواحقین اس کے پاس کھڑے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ میری کار سے ٹکرایا تھا۔ آپ چاہیں تو مجھے پولیس کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اچھا پھر اس آدمی کی حالت خطرے سے باہر تھی اور میں اس کے رشتے داروں کے سامنے مجرم کی طرح کھڑا تھا۔ تب انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔ میں نے اس شخص کو علاج معالجے کے لئے پیسے دینے چاہے لیکن انہوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ زمان نے یہ کہہ کر جیب سے دو لاکھ روپے نکالے اور وجاہت حسین کی میز پر رکھ دیئے۔ وجاہت حسین کبھی میز پر پڑے دو لاکھ روپے کو دیکھ رہا تھا اور کبھی اس کی نظر زمان پر چلی جاتی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ زمان کتنا ایماندار اور نمک حلال شخص ہے۔ اس نے اس کی بیٹی کی جان بچانے کے لئے خود کو قانون کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اس کی کمپنی کا ایک معمولی ملازم ہے اور اگر وہ آ کر یہ کہہ دیتا کہ دو لاکھ روپے اس نے زخمی کو علاج کے لئے دے دیئے ہیں اور وہ روپے خود رکھ لیتا تو مجھے کیسے پتا چلتا میں اس کی بات پر یقین کرلیتا۔ سر اجازت ہو تو میں اپنی سیٹ پر جائوں زمان نے پوچھا۔ وجاہت حسین چونکا۔ تم نے مجھے آج خرید لیا ہے۔ آپ ایسا مت کہیں سر میں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ تو بس میرے ماں باپ کی تربیت کا اثر ہے جو انہوں نے مجھے دی ہے۔ میں تمہارے والدین سے ملنا چاہتا ہوں۔ سر وہ دونوں حیات نہیں ہیں۔ میں اکیلا ہی ہوں۔ اوہ بہرحال تمہارے والدین کی بہترین تربیت ہے۔ تمہارا دل لالچ سے پاک ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم میری کمپنی میں کام کرتے ہو۔ وجاہت حسین بہت خوش تھا۔ سر میری کوشش تھی کہ میں آپ لوگوں کے کام آئوں۔ زمان کے لہجے میں عاجزی تھی۔ وجاہت حسین نے دو لاکھ روپے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ یہ دو لاکھ روپے اب تمہارے ہیں۔ نہیں سر بالکل نہیں میں ان میں سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا۔ زمان نے انکار کر دیا۔ یہ تمہیں میں دے رہا ہوں۔ اس لئے ان پیسوں کو رکھ لو۔ وجاہت حسین نے نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھنے کی کوشش کی۔ زمان نوٹ پکڑ کر میز پر رکھتے ہوئے بولا۔ سر آپ کے حکم سے انکار نہیں میں نے لے لئے اور اب پھر واپس کر رہا ہوں۔ پلیز سر مجھے مجبورنہ کیجئے، میں یہ پیسے نہیں لوں گا۔ میں نے آپ لوگوں کی مدد پیسوں کے لئے نہیں کی تھی۔ زمان کے چہرے پر متانت آ گئی تھی۔ زمان کی اس بات نے وجاہت حسین کومزید متاثر کیا۔ ٹھیک ہے تمہارا شکریہ اور مجھے شکریہ ادا کرنے سے منع مت کرنا، مجھے تم پر فخر ہے۔ وجاہت حسین بولا۔ میری جان بھی آپ کے لئے حاضر ہے سر اب میں اپنی سیٹ پر جائوں ہاں ٹھیک ہے۔ تم اپنی سیٹ پر جائو۔ وجاہت حسین نے اجازت دے دی، زمان کمرے سے چلا گیا۔ اسی وقت وجاہت حسین کا فون بجنے لگا۔ اس نے فون کان سے لگایا تو دُوسری طرف الماس کی گھبرائی ہوئی آواز تھی۔ پپا کیا ہوا سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ کیسے ٹھیک ہو گیا پپا تم فکر کرنی چھوڑ دو۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔ رات کو بات کریں گے۔ وجاہت حسین نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ ٭ ٭ ٭ الماس سب کچھ سُن کر دَم بخود وجاہت حسین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس دور میں بھی ایسا ایماندار نوجوان ان کی کمپنی میں موجود ہے جس نے بغیر کسی لالچ کے اس کی جان بچانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا اور جب سارا معاملہ حل ہوگیا تو اس نے ایک پائی بھی نہیں لی تھی۔ آپ ایک کام کریں۔ الماس کچھ سوچنے کے بعد بولی۔ کیا کروں وجاہت حسین اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے انعام میں کچھ نہیں لیا تو آپ اس کی ترقی کر دیں۔ تنخواہ بڑھا دیں اور کچھ مراعات بھی دے دیں۔ الماس نے تجویز دی۔ ٹھیک ہے۔ وجاہت حسین نے سوچتے ہوئے گردن ہلائی۔ کل سب سے پہلا کام یہی کروں گا۔ ٭ ٭ ٭ دُوسرے دن وجاہت حسین نے ایک لیٹر تیار کرایا اور وہ لیٹر کچھ دیر میں زمان کی میز پر پہنچ گیا۔ زمان نے لیٹر کھول کر پڑھا اور پڑھنے کے بعد وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا اور پھر دُوسرے ہی لمحے اس کے چہرے پر متانت آ گئی۔ اس نے استعفیٰ لکھا اور متعلقہ شخص کو پہنچا دیا۔ اس شخص نے ریزائن وجاہت حسین کے سامنے رکھ دیا۔ وجاہت حسین نے حیرت سے اسے پڑھا اور فوراً زمان کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ یہ کیا ہے یہ میرا ریزائن ہے سر۔ زمان نے جواب دیا۔ میں تمہیں اس کمپنی میں ترقی دے رہا ہوں اور تم ریزائن دے رہے ہو یہ میرے لئے حیران کن بات ہے۔ وجاہت حسین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ سر مجھے جو ترقی مل رہی ہے وہ میری قابلیت کی وجہ سے نہیں مل رہی بلکہ یہ اس کام کا انعام ہے جو میں نے آپ کے لئے کیا تھا۔ زمان کے چہرے پر متانت تھی۔ زمان کا جواب سن کر وجاہت حسین کی حیرت مسکراہٹ میں تبدیل ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں چمک اُبھری آئی۔ اس نے کہا۔ بیٹھ جائو۔ زمان سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ توقف کے بعد وجاہت حسین نے کہا۔ میں ایک کمپنی بنا رہا ہوں جس کا نام ہے الماس بوتیک، الماس کی کمپنی میں خواتین کے ملبوسات تیار ہوں گے اور الماس بوتیک کی چین پہلے اس شہرمیں شروع ہوگی اور پھر ہم اسے دُوسرے شہروں تک پھیلا دیں گے۔ اس کمپنی کو الماس خود ہینڈل کرے گی۔ وجاہت حسین اتنا کہنے کے بعد چپ ہوگیا۔ زمان خاموشی سے سنتا رہا تھا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد وجاہت حسین نے پوچھا۔ کیا تم الماس کے ساتھ مل کر وہ بزنس کرنا چاہو گے سر مجھے تو کام کرنا ہے اور جو کچھ کرنا ہے وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر کرنا ہے۔ زمان بولا۔ وجاہت حسین نے زمان کی طرف جھک کر مسکراتے ہوئے کہا۔ تم ایماندار ہو اور میری خواہش ہے کہ تم الماس کے ساتھ مل کر کام کرو میرے داماد بن کے۔ زمان نے چونک کر وجاہت حسین کی طرف دیکھا۔ اس کا دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔ وہ کچھ ایسا ہی چاہتا تھا اور وہ سب آسانی سے اس کی جھولی میں آ گرا تھا۔ زمان نے اپنے اندر کی خوشی اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دی تھی۔ اس کے چہرے پر بدستور سنجیدگی تھی۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سر زمان نے متحیر لہجے میں پوچھا۔ میں پورے ہوش و حواس میں بات کر رہا ہوں۔ یہ فیصلہ کرکے مجھے خوشی ہو رہی ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ الماس سمیت میرے گھر کے کسی فرد کو اعتراض نہیں ہوگا۔ وجاہت حسین نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ سر آپ نے مجھے عجیب شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ زمان نے تذبذب کے انداز میں اپنے ہاتھ ملے۔ تم ریلیکس ہو جائو اور رات کو ڈنر ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں کرو گے۔ وجاہت حسین نے مسکرا کر کہا۔ زمان یوں اُٹھا جیسے کسی سوچ میں مبتلا ہو اور کسی فیصلے تک پہنچنے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔ جونہی وہ وجاہت حسین کے کمرے سے باہر نکلا اس کا دل چاہا کہ وہ خوشی سے ناچنا شروع کر دے۔ وہ سب کے سامنے ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا اس لئے چپ چاپ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ٭ ٭ ٭ وجاہت حسین نے ساری بات اپنی بیوی غزالہ کو بتائی تو وہ حیرت سے زمان کی ایمانداری پر تو خوش ہوئی، لیکن اسے وجاہت حسین کے اچانک فیصلے پر حیرت ہوئی۔ غزالہ جانتی تھی کہ وجاہت حسین نے زندگی میں بڑے بڑے فیصلے کئے تھے، لیکن یہ فیصلہ الماس کی زندگی کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اس لئے اسے کچھ شک تھا کہ شاید الماس کو اس پر اعتراض ہو۔ لیکن اس وقت سب کچھ صاف ہوگیا جب ساری حقیقت جان کر الماس نے بخوشی اس سے شادی کرنے کی ہامی بھر لی۔ زمان کے لئے گھر میں بہترین ڈنر تیار ہو رہا تھا۔ زمان نے اچھا سا سوٹ خریدا اور رکشہ میں بیٹھ کر اس عالیشان بنگلے میں پہنچ گیا۔ زمان تقریباً آدھا گھنٹے تک وجاہت حسین اور غزالہ کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ دونوں اس کی سعادت مندی اور بہترین انداز گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ کھانے کی میز پر الماس بھی آ گئی۔ کھانے کے دوران بھی باتیں ہوتی رہیں اور ان باتوں کے دوران زمان اور الماس کی نگاہیں بھی ٹکراتی رہیں۔ رات گئے زمان کو جانے کی اجازت ملی۔ پھر ایک شام زمان اور الماس کی چند مہمانوں کی موجودگی میں منگنی ہوگئی اور اس منگنی کے دو ہفتوں کے بعد زمان اور الماس کی شادی طے تھی۔ شادی کے بعد زمان بہت خوش تھا۔ وجاہت حسین نے انہیں ایک الگ گھر دے دیا تھا۔ زمان اور الماس کی رُخصتی ہوئی تو وہ سیدھے اس گھر میں چلے گئے جو الماس کی ملکیت تھا۔ زمان نے گھر کے اندر جا کر، پہلے گھر کو اچھی طرح دیکھا، پھر مہنگی کار پر ہاتھ پھیرا اور کمرے میں چلا گیا۔ الماس دُلہن بنی بیٹھی تھی۔ زمان نے الماس کی طرف دیکھ کر اپنے دل میں کہا۔ ساری زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گا اور ہر عیش و آرام تمہارے ذریعے حاصل کروں گا اور کبھی تمہیں شک نہیں ہونے دوں گا کہ میرے دل میں کیا ہے۔ تمہیں اپنے دل کی رانی بنا کر رکھوں گا لیکن دیمک کی طرح تمہارے باپ کی دولت چاٹتا رہوں گا اور اپنے ماضی کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر تمہارے باپ کے دولت کے کنویں سے اپنا خالی کنواں بھرتا رہوں گا۔ زمان دل ہی دل میں اپنا عہد دُہرا کر مسکراتا ہوا الماس کی طرف بڑھا۔ ٭ ٭ ٭ الماس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا شوہر اس سے اتنی محبت کرتا ہے۔ شادی کے چند دنوں میں زمان نے الماس کا دل جیت لیا تھا۔ وہ اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہتا تھا۔ وہ الماس کا اتنا خیال رکھتا تھا کہ اسے اپنے آپ پر رشک آنے لگتا تھا۔ زمان کی چاہت کے قصے الماس کے گھر والوں تک بھی پہنچ گئے تھے، وہ بھی خوش تھے کہ زمان کی شکل میں انہیں بے انتہا شریف داماد مل گیا ہے۔ ایک دن رات کے وقت دونوں ٹیرس پر بیٹھے تھے۔ تاروں بھرا آسمان تھا اور ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ ستمبر کا مہینہ تھا۔ زمان نے الماس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ باتوں باتوں میں اچانک اندھیرے کا ذکر چھڑا تو الماس نے بتایا۔ مجھے اندھیرے سے بہت خوف آتا ہے۔ اندھیرے میں میرا دَم گھٹنے لگتا ہے۔ میرا دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے کہ جیسے ابھی پھٹ جائے گا۔ میں اپنے کمرے میں ٹارچ روشن کر کے سوتی تھی، ٹارچ کے ساتھ زیرو پاور کا بلب بھی روشن ہوتا تھا۔ پھر ٹارچ کیوں جلاتی تھیں زمان نے پوچھا۔ اس خوف سے کہ اگر رات کو بجلی بند ہوگئی تو میرے کمرے میں اندھیرا نہ ہو جائے۔ الماس نے بتایا۔ زمان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک اُبھری۔ وہ بولا۔ اتنا ڈرتی ہو اندھیرے سے آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ میں کتنا ڈرتی ہوں۔ ڈیڈی نے میرے لئے کمرے میں الگ یو پی ایس لگوا کر دیا تھا۔ پھر بھی میں ٹارچ روشن کر کے سوتی تھی۔ اب تو تم نے سوتے ہوئے کمرے میں کبھی ٹارچ روشن نہیں کی۔ اب آپ جو میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ اچھا کیا تم نے مجھے بتا دیا۔ میں اندھیرے میں اب تمہارے ساتھ ٹارچ کی طرح روشن رہا کروں گا۔ زمان محبت بھرے انداز میں بولا۔ اندھیرے میں ڈرنے کی بات میرے گھر والوں کے علاوہ اب صرف آپ کو پتا ہے۔ الماس بولی۔ زمان نے الماس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ٭ ٭ ٭ رات کا لباس بدلنے کے لئے الماس باتھ رُوم میں چلی گئی تو زمان تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس نے الماری کی دراز کھولی۔ اندر کچھ کاغذات کے علاوہ بینکوں کی چیک بکس پڑی تھیں۔ زمان نے دیکھا کہ دونوں اکائونٹس الماس کے نام پر تھے۔ چیک بکس کے ساتھ کریڈٹ اور اے ٹی ایم کارڈز بھی موجود تھے۔ زمان سوچنے لگا کہ اسے کسی طرح ایک چیک سائن کرا لینا چاہئے۔ شادی کے بعد وجاہت حسین نے اسے آفس میں آنے سے منع کر دیا تھا۔ یہ کہا تھا کہ وہ اب الماس کے ساتھ مل کر کاروبار سنبھالے۔ شادی ہوئے دس دن ہوگئے تھے۔ ابھی الماس نے بھی اپنے کاروبار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔ زمان نے سوچا کہ وہ الماس سے کاروبار کی بات کرے تاکہ کوئی چیک سائن کرا کے وہ رقم اپنے اکائونٹ میں منتقل کرا سکے۔ جب الماس اس کے پاس آئی تو زمان نے بات شروع کی۔ الماس ہم اپنا کاروبار شروع کرنے والے تھے بہت سا کام مکمل ہوچکا ہے، بس تھوڑا سا باقی ہے مکمل ہونے میں شاید تین دن لگ جائیں، اس کے بعد بزنس شروع ہو جائے گا۔ الماس نے بتایا۔ کام ہو رہا ہے کہ رُکا ہوا ہے زمان نے پوچھا۔ میرے نہ جانے کی وجہ سے رُکا ہوا ہے۔ الماس نے کہا۔ کام کیوں روکا ہوا ہے مجھے بتائو میں کل سے وہ کام شروع کرا دوں۔ زمان جلدی سے بولا۔ میں اس لئے ذکر نہیں کر رہی تھی کہ ہماری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپ کہیں میرے کہنے پر برا نہ مان جائیں۔ الماس نے کہا۔ میں کام کرنے والا آدمی ہوں۔ بیکار بیٹھنا میرے لئے مشکل ہے۔ ہماری شادی ہوچکی ہے، ہم نے گھر میں بہت سا وقت گزار لیا، اب ہم کل سے کام شروع کر رہے ہیں۔ زمان نے فیصلہ سنایا۔ الماس مسکرائی۔ میں سوچ رہی تھی کہ آپ سے کیسے بات کروں۔ آپ نے میری مشکل آسان کر دی۔ ہم کل سے دفتر جائیں گے۔ جتنی جلدی ہو سکتا ہے، کام مکمل کراتے ہیں اور پھر بزنس شروع کرتے ہیں۔ زمان مسکرایا تو الماس بھی مسکرا دی۔ ٭ ٭ ٭ وہ جگہ شہر کے پوش علاقے میں تھی جہاں الماس بوتیک کی خوبصورت عمارت کھڑی تھی۔ زمان اور الماس صبح سے اس جگہ پر موجود تھے۔ زمان ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھا کہ اب اسے کسی غبن، یا بے ایمانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی قسمت بدل چکی ہے۔ اس کی سوچ میں تغیر آ گیا تھا۔ اب اسے کوئی چیک سائن کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ مسلسل یہاں آرہا تھا اور اپنی نگرانی میں کام کرا رہا تھا۔ ایک شام جونہی وہ گاڑی میں بیٹھ کر کچھ آگے گئے تو اچانک لیاقت ان کی گاڑی کے سامنے آ گیا۔ زمان کو فوراً بریک لگانا پڑا۔ زمان نے نشئی لیاقت کی طرف دیکھا تو وہ ایک لمحے کے لئے پریشان ہو گیا کہ یہ اچانک کیسے آ گیا۔ اس نے لیاقت کو سامنے سے ہٹانے کے لئے ہارن دینا شروع کر دیئے۔ لیکن لیاقت اپنی جگہ جما کھڑا رہا۔ یہ سامنے سے ہٹ کیوں نہیں رہا۔ الماس اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ اس نے لیاقت کو پہچانا نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو اس کی گاڑی سے ٹکرایا تھا۔ ان کے مانگنے کے طریقے ہیں۔ میں باہر نکل کر دیکھتا ہوں۔ زمان جونہی باہر نکلا۔ الماس نے اپنی طرف کا شیشہ تھوڑا سا نیچے کر لیا۔ کیوں سامنے کھڑے ہو زمان نے رعب سے پوچھا۔ تین دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تم اس لڑکی کے ساتھ یہاں آ رہے ہو۔ یہ وہ لڑکی ہے جس نے مجھے ٹکر ماری تھی اور تم نے مجھے اسپتال میں کیا کہا تھا لیاقت بولا تو زمان گھبرا گیا۔ لیاقت کی آواز صاف الماس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ چلو یہاں سے دفع ہو جائو۔ زمان نے سختی سے کہا۔ عادل صاحب یہی نام بتایا تھا نا تم نے مجھے اسپتال میں کہا تھا کہ وہ امیرزادی ہے اور تم مجھے اس سے پیسے لے دو گے اور تم نے خود مجھے اسپتال میں داخل کرایا تھا۔ پھر دُوسرے دن مجھے اسپتال سے چلتا کر دیا۔ یہ تمہاری بیوی تھی یا تم نے بعد میں شادی کی کیا بکواس کر رہے ہو چلو جائو یہاں سے۔ زمان نے اسے ڈانٹا۔ مجھے شک تھا کہ تم اپنی لائن سیدھی کر رہے ہو۔ کل یہاں مجھے شبیر بھائی بھی ملا تھا۔ میرا جاننے والا ہے۔ نشہ پانی اسی کے بندوں سے لیتا ہوں۔ اس نے تمہیں دیکھا تو بولا کہ بڑا لمبا ہاتھ مارا ہے اس لٹیرے نے۔ لیاقت کہہ کر ہنسا۔ شبیر بھائی تمہارے بارے میں سب جانتا ہے۔ تم نشے میں ہو۔ پتا نہیں کیا کہہ رہے ہو چلو بھاگو اور راستہ چھوڑو۔ زمان نے اسے ایک طرف دھکا دیا۔ شبیر بھائی نے مجھے بتایا کہ اسی نے تمہیں اس کمپنی میں نوکری دلائی تھی۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ پنجاب کی پولیس تمہیں تلاش کر رہی ہے۔ اب تو مجھے یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ تمہارا نام عادل نہیں زمان ہے۔ لیاقت کہہ کر پھر ہنسا۔ زمان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ تذبذب میں تھا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار کا نوٹ نکال کر اس کی مٹھی میں رکھتے ہوئے بولا۔ ابھی یہ لو اور یہاں سے نکلو پھر اور بھی دوں گا۔ پکا وعدہ لیاقت نے کہا۔ ہاں ابھی نکلو۔ زمان نے کہا۔ لیاقت ایک طرف ہٹ گیا۔ زمان واپسی اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ یہ بھیک مانگنے والے ہماری جیب میں پڑا مال اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ اتنے ضدی اور چال باز ہیں کہ بندا بے بس ہو جاتا ہے۔ زمان نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ الماس چپ بیٹھی رہی۔ زمان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تو اس کی نگاہ کچھ نیچے ہوئے شیشے پر پڑی تو وہ سمجھ گیا کہ الماس نے ان دونوں کی بات سن لی ہے۔ گاڑی آگے گئی تو زمان نے کچھ ظاہر کئے بغیر مسکرا کر پوچھا۔ الماس کیا سوچ رہی ہو الماس نے زمان کی طرف دیکھا اور بولی۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی۔ زمان کے بارے میں جان کر اسے دُکھ ہوا تھا۔ اعتماد میں دراڑ آ گئی تھی۔ اس کا دِل گھبرانے لگا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی بات وہ ڈیڈی کو بتائے گی تاکہ انہیں بھی اس کی حقیقت کا پتا چل جائے کہ زمان نے ایمانداری دکھانے کے لئے پوری بے ایمانی سے کام کیا تھا۔ زمان تیز طرار شخص تھا۔ اس کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ الماس نے سب سن لیا ہے وہ ان باتوں کا ذکر اپنے باپ سے ضرور کرے گی۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس کے بارے میں تحقیق شروع ہو جائے گی، اس طرح اس کا ماضی اسے لے ڈوبے گا۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 273 | https://www.urduzone.net/yeh-kaise-majboori-hae-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | باجی بہت خوب صورت تھیں۔ سولہ برس کی ہوئیں تو رشتے آنے شروع ہو گئے۔ مگر وہ شادی کے نام سے دور بھاگتی تھیں۔ سارا دھیان پڑھائی کی طرف تھا۔ امی ابو بھی کہتے کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، پڑھنے کا شوق ہے تو پڑھنے سے کیوں روکیں۔ والدین رشتے ٹھکراتے رہے۔ باجی نے بی اے کے بعد بی ایڈ کیا، پھر ایم اے کیا۔ رشتے آتے رہے مگر وہ انکار کرتی رہیں کہ ابھی نہیں۔ کچھ بنیں گی پھر شادی کریں گی۔ خدا جانے وہ کیا بننا چاہتی تھیں مگر اسکول ٹیچر ہی بن پائیں۔ کچھ عرصہ اسکول میں پڑھایا، پھر گھر بیٹھ گئیں کہ بچوں کو پڑھانا جان جوکھم کا کام ہے، دماغ تھک جاتا ہے۔ ان دنوں میں میٹرک میں تھی، نوخیز تھی۔ اب جو رشتہ آتا، وہ باجی کو نظرانداز کرتے اور میرا ہاتھ مانگتے جبکہ والدین کی آرزو تھی کہ پہلے بڑی بیٹی کے ہاتھ پیلے کریں گے۔ وقت گزرتا رہا اور رشتے واپس ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ میں نے ایف اے کر لیا۔ اب سب امی ابو کو سمجھاتے کہ تم لوگ اچھے رشتوں کو ٹھکراتے ہو۔ ایسا نہ ہو دوسری بھی بیٹھی رہ جائے۔ ان حالات سے گھبرا کر امی ابو نے باجی کے لئے رشتہ کروانے والیوں کا سہارا لیا۔ یہ رشتہ کروانے والی عورت ایک روز ایک رشتہ لائی۔ امی ابو ان لوگوں سے ملے۔ لڑکے کی تعریف میں اس کے رشتے داروں نے زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ لڑکے سے ملے۔ وہ بہت چرب زبان تھا۔ غرض میرے سادہ دل باپ نے ہاں کہہ دی اور شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ مہندی والے دن جب ہم لوگ لڑکے کو مہندی لگانے گئے تو میں نے پہلی بار اپنے ہونے والے دولہا بھائی کو دیکھا۔ اُف میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ پکّے سن اور معمولی شکل و صورت کا گنجا، کھوپڑی پر چمک دیکھ کر پہلے تو ہنسی آئی، پھر باجی کی قسمت پر رونا آ گیا۔ کیسی قسمت پھوٹی۔میں سوچنے لگی۔ پہلے اچھے رشتوں کو ٹھکرایا اور اب یہ اجنبی شخص انہیں ڈولی میں لینے آ گیا۔ میں نے رسم کے طور پر مہندی دولہا کے ہاتھ پر لگانی تھی۔ مہندی لگانے کو ہاتھ بڑھایا تو اس نے ہاتھ پکڑ لیا۔ میرا دل وہیں ٹوٹ گیا۔ دولہا بھائی کا جو تصور ذہن میں تھا، وہ یک دم چکناچور ہو گیا۔ میں تو کھسیا کر ایک طرف ہو گئی، تبھی دوسری رشتہ دار لڑکیاں انہیں مہندی لگانے لگیں۔ دولہا صاحب خوشی سے باچھیں کھِلائے لڑکیوں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مذاق کر رہے تھے۔ مجھے ایک طرف خاموش کھڑے دیکھ کر پکارا۔ادھر تو آئو۔ بھئی ہم تو سالی کے ہاتھ سے پان کھائیں گے۔ یہ فرمائش سن کر عورتیں ہنسنے لگیں۔ کہیں پان چبانے کے بہانے سالی کا ہاتھ ہی نہ چبا لینا۔ ایسی فقرے بازیاں عموماً شادیوں میں مذاق کے طور پر ہوتی ہیں۔ مگر مجھے سخت ناگوار گزرا اور میں نے مذاق کرنے والی کو گھور کر دیکھا، تبھی ایک کم عقل لڑکی فوراً پان لے آئی اور میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ لو بھئی، اپنے دولہا بھائی کی فرمائش پوری کرو۔ یہ تم سے پہلی فرمائش ہے۔ پھر تم بھی نیگ میں زیور کی فرمائش کرنا۔ تمہارے منہ میں خاک۔ میں نے جل کر سوچا مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔ دولہا بھائی اپنا بڑا سا منہ کھولے پان چبانے کو بے تاب لگ رہے تھے۔ بار بار کہتے تھے، بھئی ہماری سالی ہو، لائوپان دو۔ میرے ہاتھ میں پان تھا مگر قدم زمین نے جکڑ لئے تھے، تبھی پان دینے والی لڑکی آگے بڑھی اور مجھے دولہا بھائی کی طرف دھکیلنے لگی۔ ناچار پان کو چٹکی میں پکڑ کر ان کے منہ کے نزدیک کیا تو انہوں نے کلائی دبوچ کر پان منہ میں رکھ لیا اور میری دو انگلیوں پر دانت مار دیئے۔ میری سسکی نکل گئی۔ آنکھوں میں آنسو بھر کے پسینہ پونچھتی میں اسٹیج سے اُتر کر بھاگی کہ اب میرا سر پیٹ لینے کو جی چاہ رہا تھا۔ رخصتی تک کھوئی کھوئی رہی۔ اب شادی کے کاموں میں بھی جی نہ لگ رہا تھا۔ اپنی پیاری باجی کو دیکھتی تو رونے کو جی کرتا۔ رخصتی کا دن آیا اور باجی اپنے دولہا کے گھر چلی گئیں۔ ان کے جانے سے گھر سونا ہو گیا تھا۔ روز یاد کر کے روتی تھی۔ ایک روز امی جان سے کہا۔ خدا جانے باجی کب آئیں گی، ان کے لئے میرا دل بہت اداس ہے۔ امی بولیں، تو چلی جائو ملنے کے لئے۔ وہ بھی تم کو یاد کرتی ہو گی۔ پھر بھائی سے کہا کہ نورین کو لے جائو، یہ بہن سے ملنا چاہتی ہے۔ بھائی نے موٹر سائیکل نکالی اور مجھے باجی کے گھر لے گئے۔ گھر کے باہر اتار دیا اور کہا کہ جا کر مل آئو، میں باہر ہی کھڑا ہوں۔ مگر دیکھو زیادہ دیر نہ لگانا۔ بھائی اندر نہ گئے۔ میں اکیلی ہی باجی کے گھر گئی۔ اس وقت وہ اپنے دولہا ارسلان بھائی کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی ارسلان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ کہنے لگے تو آ گئی ہو نا اچھا بتائو، پان لائی ہو بھئی پان تو ہم تمہارے ہاتھ کا کھائیں گے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا، بس صبر کا گھونٹ بھر کے چپ رہی۔ باجی نے کہا۔ اچھا ہوا نورین تم آ گئیں۔ میں یاد ہی کر رہی تھی۔ یہ بتائو کھانا کھایا ہے۔ آئو ہمارے ساتھ کھا لو۔ دولہا بھائی کی حس مزاح پھڑک گئی۔کہاں کھا کر آئی ہے۔ ان کی اماں نے بھوکا ہی گھر سے بھیج دیا ہو گا، تو بھئی آئو پھر کھا لو۔ ایسے بھونڈے مذاق پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ باجی آپ کو دیکھنے آئی تھی، دیکھ لیا ہے، بس اب جاتی ہوں۔ کیا دیکھنے آئی تھیں۔ کیا ان کی شادی نہ ہوتی۔ عمر بھر تمہارے ساتھ رہنا تھا کیا اب تو برداشت کی حد ہو گئی۔ روتی ہوئی ان کے گھر سے نکل آئی۔ باجی بلاتی رہ گئیں۔ باہر نومی کھڑا تھا۔ میں نے کہا۔ چلومل لیا ہے، آئندہ نہ آئوں گی۔ خیر تو ہے، بھائی نے حیران ہو کر پوچھا۔ کیا انہوں نے مارا ہے تم کو جو رو رہی ہو۔ ایسے میں اپنے بھائی کی یہ بات بھی اچھی نہ لگی۔ اگلے دن باجی آ گئیں۔ امی نے دعوت کی تھی۔ میری بہن خوش نظر نہیں آ رہی تھی۔ مجھ سے کچھ نہ بولیں مگر تنہائی میں جانے امی سے کیا کہا کہ وہ بھی رونے لگیں۔ مجھ سے کہا کہ اب کبھی اپنے دولہا بھائی کے سامنے نہ جانا۔ وہ کیوں میں نے سوال کیا تو باجی نے جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں یہ لڑکی مجھے اچھی نہیں لگتی، بہت بدصورت ہے اور بدتمیز بھی۔ بدتمیز اور بدصورت تو وہ خود ہیں۔ میں نے جل کر جواب دیا تھا۔ اس کے بعد جب بھی باجی آتیں، وہ ساتھ آتے اور ساتھ لے جاتے۔ مجھے لگتا باجی ارسلان کے ساتھ شادی سے خوش نہیں ہیں۔ امی ابو کی عزت کی خاطر نباہ رہی ہیں۔ امی ابو بھی اداس تھے۔ ایک روز میں نے وجہ پوچھی تو امی بولیں۔ ارسلان بہت کنجوس ہے۔ نوشین کو جیب خرچ نہیں دیتا۔ وہ کوڑی کوڑی کو محتاج رہتی ہے۔ جب آتی ہے۔ میں کچھ نہ کچھ رقم اس کے پرس میں ڈال دیتی ہوں۔ دراصل تمہارے بہنوئی کی تنخواہ زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے ہم سے جھوٹ بولا تھا کہ افسر ہیں۔ یہ افسر نہیں کلرک ہیں اور جس کوٹھی میں رہتے ہیں، ان کے چچا کی ہے جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ اس انکشاف پر میرا دل ٹوٹ گیا۔ مگر کیا ہو سکتا تھا کہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ اب امی ابو کو ملال ہوتا کہ نوشین کے جب اچھے اچھے رشتے آتے تھے تو ہم ٹھکراتے رہے اور ارسلان کا رشتہ فوراً منظور کر لیا۔ تحقیق بھی نہ کی۔ ایک روز ارسلان پریشان آئے، ابو سے کہا کہ چچا وطن آ رہے ہیں اور کوٹھی خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں، رہائش کا مسئلہ ہے جو میں فوری طور پر حل نہیں کر سکتا، آپ کچھ مدد کریں۔ ابو نے تسلّی دی اور اپنا پرانا مکان رہنے کو دے دیا جو عرصۂ دراز سے خالی پڑا تھا۔ باجی کو اللہ تعالیٰ نے شادی کے ڈیڑھ سال بعد بیٹا دیا اور پھر بیٹی بھی ہو گئی۔ اب وہ دو بچّوں کی ماں تھیں مگر ارسلان سے اپنی رہائش کا انتظام نہ ہو سکا۔ نوکری بھی چھوڑ دی۔ ابو سے کہا۔نوشین اور بچّوں کو کچھ دن آپ اپنے پاس رکھیں، میں کویت جا رہا ہوں، وہاں مجھے اچھی نوکری مل گئی ہے، کلرکی میں کیا رکھا ہے، آدمی اپنا گھر تک نہیں بنا سکتا۔ والد بے چارے کیا کہتے، مجبوراً بیٹی اور ان کے بچّوں کو گھر لے آئے اور ارسلان بھائی کویت چلے گئے۔ دو سال میں کافی کما لیا۔ وطن آ کر پلاٹ خریدا اور گھر بھی بنایا۔ وہ دوبارہ جانے لگے تو ابو نے کہا کہ اب اپنے بیوی، بچوں کو ساتھ لے جائو۔ ہم کب تک ان کو سنبھالیں گے۔ بچّے آپ کے بغیر اداس رہتے ہیں۔ وہ ایک ماہ رہے اور پھر نوشین باجی اور بچوں کو لے گئے۔ ایک سال کے بعد باجی اور بچّے واپس آ گئے۔ ایک اور بیٹے نے جنم لیا تھا۔ اس دفعہ میری بہن بہت افسردہ دکھائی دی۔ امّی نے پوچھا۔ ہوا کیا ہے، وہاں خوش نہیں ہو کہنے لگیں، بس جی اُداس رہتا ہے۔ ارسلان روپیہ آنے سے کافی بدل گئے ہیں۔ بات بات پر الجھتے ہیں۔ بلاوجہ طعنے دیتے ہیں اور بے رخی برتنے لگے ہیں۔ پہلی بار باجی نے اپنے شوہر کی شکایت کی تھی جبکہ بھائی بہت خوش خوش امی ابو سے ملے تھے اور بچھے بچھے جا رہے تھے۔ تبھی وہ اپنی بیٹی کی شکایت زبان پر نہ لا سکے۔ دو ماہ رہ کر باجی چلی گئیں۔ اب جب بھی وہ فون کرتیں، آواز روہانسی لگتی، جیسے ابھی ابھی روئی ہوں۔ ہر بار کہتیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ خدا جانے کیا ہو گیا ہے، دم گھٹا گھٹا رہتا ہے اور پوری طرح سانس نہیں آتا۔ ارسلان سے بات کی۔ اس نے کہا۔کئی ڈاکٹروں کو دکھایا ہے، علاج چل رہا ہے، دوا باقاعدگی سے اپنے ہاتھ سے کھلاتا ہوں مگر افاقہ نہیں ہے۔ کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا بیماری ہے لیکن آپ لوگ فکر نہ کریں، اِن شا اللہ ٹھیک ہو جائے گی۔ باجی ٹھیک نہ ہوئیں۔ اب کے آئیں تو ہڈیوں کا ڈھانچہ اور آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے تھے۔ روتی تھیں اور کچھ نہ بتاتی تھیں۔ امی نے کہا کہ اب اسے میں ارسلان کے ساتھ نہ جانے دوں گی۔ کچھ عرصہ اپنے پاس رکھوں گی اور خود علاج کرائوں گی۔ تب ہی ارسلان بھائی بھی نہ گئے۔ وہ خود ڈاکٹر کے پاس لے جاتے اور خود دوائیں کھلاتے تھے۔ ایک دن اچانک باجی کی طبیعت خراب ہو گئی، انہیں ہچکی لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ہمارے گھر قیامت کا سماں تھا۔ ان کے تین بچّے تھے جو رو رو کر ماں کو پکارتے تھے۔ ہم سب ہی روتے تھے کہ یہ کیا ہو گیا ان کو فوت ہوئے ایک ماہ بھی نہ ہوا تھا کہ ارسلان بھائی نے واپس جانے کی رَٹ لگا دی۔ امی سے کہا کہ فی الحال بچّوں کو رکھیے، جوں ہی کوئی مناسب رشتہ ملا، ان کی دوسری ماں کے آتے ہی میں اپنے بچّے لے جائوں گا۔ اس پر امّی رونے لگیں تو کہنے لگے۔ اگر یہ منظور نہیں تو نورین کو مجھ سے بیاہ دیں۔ میرے بچّے سوتیلی ماں کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ یہ سن کر مجھ پر تو غشی طاری ہو گئی۔ وہ انسان جس کو میں نے پہلے دن سے پسند نہیں کیا تھا، وہ اب میری طلب کر رہا تھا۔ رو رو کر جان کھو رہی تھی مگر امی ابو سر جوڑے بیٹھے تھے۔ امّی کہتی تھیں۔ نوشین کے بچّے میں سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں نہ دوں گی اور ان کی جدائی بھی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ بالآخر ابو نے فیصلہ کر دیا کہ نورین کا نکاح ارسلان سے کر دیتے ہیں تاکہ ہمارے نواسے محفوظ ہو جائیں۔ مجھ پر تو بجلی گر گئی لیکن والدین نے طرح طرح کے واسطے دے کر مجھے مجبور کر دیا۔ جب ارسلان سے نکاح ہوا تو اتنا روئی کہ ہچکی بندھ گئی۔ اتنے آنسو بھی تقدیر کے لکھے کو نہ مٹا سکے۔ ارسلان سے شادی کے بعد اب میں اس کی بیوی تھی۔ جس شخص سے نفرت تھی، اس کے بچّوں کو روز رات کو سینے سے لگا کر سوتی تھی کہ وہ ماں کو یاد کر کے روتے تھے اور یہ میری پیاری بہن کے جگر کے ٹکڑے تھے۔ ان کو کیسے نہ دل سے لگاتی۔ قسمت کا ستم جان کر صبر کر لیا اور ان بچّوں کی خاطر ان کے باپ کو برداشت کیا۔ لیکن ایک دن ترنگ میں آ کر ارسلان نے ایسی بات کہی کہ اب میرا رواں رواں بھی اس آدمی سے نفرت کرتا ہے اور اسے بددعائیں دیتا ہے۔ اس نے کہا۔ جانتی ہو جب پہلے روز رسم مہندی میں تم کو دیکھا تو دعا کی تھی۔ اے خدا میری دلہن جو بن رہی ہے، وہ شادی ہوتے ہی مر جائے اور میں اپنی اس سالی کو دلہن بنا کر اپنے گھر لے آئوں۔ میری دعا قبول ہو گئی، دیکھو آج وہ مر گئی ہے اور تم میری بیوی بن گئی ہو۔ کچھ روز بعد پھر انکشاف کیا کہ میں نے تمہاری بہن کو شادی کی پہلی رات بتا دیا تھا کہ مجھے تمہاری بہن نورین سے عشق ہو گیا ہے۔ خدا کرے، تم جلد مر جائو تاکہ میں اسے اپنے پہلو کا سنگھار بنا لوں۔ آہ کاش ارسلان کے منہ سے ایسے الفاظ سننے سے پہلے میں مر جاتی اور میری بہن زندہ رہتی، اپنے بچّوں کو پالتی اور ان کی خوشیاں دیکھتی۔ آج میں اسی ارسلان کی بیوی ہوں جس سے نفرت کرتی ہوں۔ باجی کے بچّوں سے پھر بھی پیار ہے کہ بہن کے بچّے ہیں۔ اللہ نے مجھے تین بچّوں سے نوازا ہے۔ بچّوں کے سامنے شوہر کے ساتھ احترام سے بات کرتی ہوں لیکن یہ دل ہی جانتا ہے کہ دل میں کیا ہے جس شخص نے شادی والے دن یہ ارادہ کر لیا کہ بیوی کی بہن سے شادی کروں گا اور یہ باتیں وہ بیوی سے کہہ کر باجی کو بھی اذیت میں مبتلا رکھتا تھا، اس کے ساتھ کیسے خوشیوں بھری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ سوچتی ہوں اسی آرزو میں اس نے میری بہن کو نہ جانے اپنی بے رخی سے کتنی اذیت دی ہو گی کہ وہ بیمار رہنے لگیں۔ پھر نہ جانے کیسی ادویات کھلائیں کہ آخر انہوں نے جیون سے ہی منہ پھیر لیا۔ یہ صدمہ میرے دل سے کبھی نہ جائے گا۔ کسی سے دل کی کیفیت کو بیان نہیں کر سکتی کہ عورت کا نام ہی مجبوری ہے۔ مرد تو پھر مرد ہوتا ہے۔ وہ جیسا بھی ہو، سر کا تاج رہتا ہے اور اس کی سلامتی کی دعا کرنا بھی عورت کا فرض ہوتا ہے کہ بیوگی کی چادر میں لپٹ کر بھی عورت بے وقعت اور اس کے یتیم بچّے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ن سکھر | null |
null | null | null | 274 | https://www.urduzone.net/anokha-chaal-baaz-episode-1/ | انسان کی اَنا کو سب سے زیادہ تسکین اس وقت ملتی ہے جب وہ اپنے آپ کو اپنے پسندیدہ ترین روپ میں دیکھتا ہے۔ میں اس وقت پیرس کے ونڈسر ہوٹل میں تھا اور کمرے کے آئینے میں خود کو دیکھ رہا تھا۔ آئینے میں اپنا جو عکس میں دیکھ رہا تھا، وہ مجھے بہت پسند تھا۔ یہ عکس ایک صحت مند، دراز قد اور وجیہ آدمی کا تھا جو پائلٹ کی خوبصورت نیلی وردی میں تھا۔ سر سے پائوں تک اس کی شخصیت سے نفاست عیاں تھی اور وہ بلاشبہ بے حد دلکش اور خوبرو دکھائی دے رہا تھا۔ انکساری جیسی اچھی عادت مجھ میں نہیں ہے بلکہ سچ پوچھئے تو کوئی اچھی عادت مجھ میں مشکل سے ہی ملے گی۔ میں آئینے میں اپنے آپ کو جیسا دیکھ رہا تھا، جیسا محسوس کررہا تھا، ویسا ہی بیان کررہا ہوں۔ اپنی ذات کے مشاہدے اور اپنی شخصیت کے نظارے سے مطمئن ہونے کے بعد میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل آیا۔ دو منٹ بعد میں ہوٹل کے کیشئر کے بوتھ کے سامنے کھڑا تھا۔ گڈ مارننگ کیپٹن کیشئر نے خوش مزاجی اور گرم جوشی سے کہا۔ وہ ایک خاتون تھی۔ میری یونیفارم پر کچھ ایسے نشانات موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ میں جہاز کا کیپٹن نہیں بلکہ فرسٹ آفیسر یعنی کوپائلٹ تھا لیکن بیچارے فرانسیسی بہت ہی با اخلاق لوگ ہوتے ہیں۔ وہ آپ کا دل رکھنے اور آپ کا حوصلہ بڑھانے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ آپ کو آپ کی اصل حیثیت سے بلند درجہ دے دیتے ہیں۔ اس نے بل میرے سامنے رکھ دیا جس پر میں نے فوراً سائن کردیئے اور روانہ ہونے لگا۔ پھر مجھے کچھ یاد آیا اور میں ایڑیوں کے بل واپس گھوما۔ میں نے اپنے کوٹ کی اندر کی جیب سے اپنی تنخواہ کا چیک نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ کیا تم میری تنخواہ کے اس چیک کے بدلے مجھے کیش دے سکتی ہو تمہارے پیرس کی رنگین راتوں نے میری جیبیں بالکل خالی کرا دی ہیں اور ابھی ایک ہفتے تک مجھے گھر سے باہر ہی رہنا ہے۔ میں نے اپنے ہونٹوں پر قدرے شرمسارانہ مسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔ خاتون نے چیک اٹھا کر ایک نظر اس پر ڈالی۔ وہ پین امریکن ایئرویز کی طرف سے دیا گیا ایک ہفتے کی تنخواہ کا چیک تھا اور ڈالر کا تھا۔ یہ سے بھی کچھ پہلے کی بات ہے، اس دور کے حساب سے ایک ہفتے کی تنخواہ کی رقم کچھ کم نہیں تھی۔ میں یہ چیک کیش تو کردوں گی کیپٹن کیشئر شیریں لہجے میں بولی۔ لیکن رقم چونکہ بڑی ہے اس لیے مجھے اپنے منیجر سے اجازت لینی پڑے گی۔ وہ اٹھ کر اپنے بوتھ کے عقب میں ایک کمرے میں چلی گئی اور چند سیکنڈ بعد ہی خوشدلی سے مسکراتی ہوئی واپس آگئی۔ اس کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ اسے اجازت لینے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ وہ میرے سائن لینے کے لیے چیک الٹا کرکے میرے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔ رقم آپ یقیناً امریکن ڈالرز میں لینا چاہیں گے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی اس نے رقم امریکن ڈالرز کی صورت میں گن کر میرے سامنے رکھ دی۔ نوٹوں کے اوپر اس نے سینٹ کے سکے بھی رکھ دیئے تھے۔ میں نے رقم اٹھا کر اس میں سے پچاس پچاس ڈالر کے دو نوٹ نکال کر اسے واپس دیتے ہوئے کہا۔ براہ کرم ایک زحمت اور کرنا، میری طرف سے ان ویٹرز کو مناسب ٹپ دے دینا جنہوں نے میرے قیام کے دوران میرا خیال رکھا۔ میں اس قسم کے کام کرنے کے معاملے میں ذرا لاپروا رہا ہوں۔ خاتون کے چہرے پر روشن سی مسکراہٹ آگئی۔ وہ فوراً بولی۔ ضرور کیپٹن تمہارا بہت شکریہ۔ میری دعا ہے کہ تمہارا سفر خوشگوار گزرے اور تم دوبارہ بھی ہمارے ہوٹل میں قیام کرنے آئو۔ اس کے شیریں لہجے اور خوشگوار اندازگفتگو کا اثر اپنے ذہن پر لیے میں باہر آیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو اورلی ایئرپورٹ چلنے کا حکم دیا۔ میں نے اسے یہ بھی ہدایت کی کہ وہ مجھے ٹرانس ویسٹرن ایئر لائنز والے گیٹ پر اتار دے۔ اس ایئرلائن کو مختصراً ٹی ڈبلیو اے بھی کہا جاتا تھا۔ ایئرپورٹ پر ہر ایئرلائن کے لیے کچھ حصہ مخصوص ہوتا ہے۔ ٹی ڈبلیو اے والے حصے میں پہنچ کر میں ٹکٹ کائونٹر کے سامنے سے گزرتا ہوا سیدھا آپریشنز آفیسر کے پاس چلا گیا۔ میں پین امریکن ایئرویز کی وردی میں تو تھا ہی لیکن قاعدے قانون کے تحت میں نے اسے اپنا پائلٹ کا لائسنس اور پین امریکن کا شناختی کارڈ دکھایا۔ آپریشنز آفیسر نے اپنے سامنے رکھے کاغذات پر نظر دوڑائی جن پر شیڈول درج تھے۔ ایک کاغذ دیکھتے ہوئے وہ سر ہلا کر بولا۔ ہاں فرسٹ آفیسر فرینک ولیم۔ تمہیں روم جانے کے لیے کسی جہاز میں لفٹ چاہئے۔ مل جائے گی۔ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ چند منٹ بعد ہماری جو فلائٹ جارہی ہے، اس میں جمپ سیٹ خالی ہے۔ لو یہ فارم بھر دو۔ اس نے ایک فارم میری طرف کھسکا دیا۔ گلابی رنگ کا یہ فارم میرے لیے جانا پہچانا تھا۔ اسے پر کرنا میرے لیے ذرا بھی مشکل نہیں تھا۔ اس میں بس اپنے ضروری کوائف ہی درج کرنا ہوتے تھے۔ کسی بھی ایئرلائن کا پائلٹ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی شہر میں موجود ہو، اسے اس کے مقررہ شیڈول سے ہٹ کر بھی کوئی طیارہ اڑانے کے لیے بلاوا آسکتا ہے اور بعض اوقات اس کی ڈیوٹی کا شیڈول ہی کچھ ایسا بن جاتا ہے کہ اس کے لیے اپنی ایئرلائن کی کوئی پرواز پکڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورت میں وہ کسی بھی ایئرلائن کی پرواز پکڑ کر مطلوبہ شہر کے ایئرپورٹ پہنچ سکتا ہے۔ لفٹ لے کر سفر کرنے کے اس عمل کو ایئرلائنز کی اصطلاح میں ڈیڈ ہیڈنگ کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر طیارے کے کاک پٹ میں ایک فاضل سیٹ خالی رکھی جاتی ہے۔ اسے جمپ سیٹ کہا جاتا ہے اور یہ پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اس سیٹ پر سفر کرنے والے پائلٹ یا کوپائلٹ سے کوئی کرایہ نہیں لیا جاتا۔ میں نے فارم بھر کر آفیسر کو دیا اور اپنا بیگ اٹھا کر کسٹمز کے گیٹ کی طرف چل دیا۔ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے پر لکھا تھا عملے کے لیے میں نے اس حصے سے گزرتے ہوئے اپنا بیگ چیک کرانے کے لیے کائونٹر پر رکھا لیکن کسٹم آفیسر نے مجھے پہچان لیا اور میرا بیگ چیک کئے بغیر ہاتھ ہلا کر مجھے آگے جانے کا اشارہ کردیا۔ میں جب جہاز کی طرف جارہا تھا تو ایک نوعمر لڑکا میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ رشک بھری نظروں سے میری نیلی یونیفارم کو دیکھے جارہا تھا جس پر سنہری پٹیاں، چمکیلے پیتل کا ایک چھوٹا سا پرندہ اور کئی دوسری چیزیں لگی ہوئی تھیں جن کی وجہ سے اس کی شان بڑھ گئی تھی۔ آپ پائلٹ ہیں لڑکے نے سحر زدہ سی آواز میں پوچھا۔ لہجے سے وہ برطانوی معلوم ہوتا تھا۔ نہیں اس وقت تو میں بھی تمہاری ہی طرح ایک مسافر ہوں۔ میں نے ہنس کر جواب دیا۔ میں پین امریکن کے جہاز اڑاتا ہوں۔ کیا آپ جمبو جیٹ بھی اڑاتے ہیں لڑکے کے لہجے میں اب بھی رشک تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ پہلے اڑایا کرتا تھا۔ آج کل میں زیادہ تر ڈی سی اڑا رہا ہوں۔ مجھے نوعمر لڑکوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے الجھن نہیں ہوتی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجھے خود اپنی عمر کا چند سال پہلے کا دور یاد آجاتا تھا۔ جہاز کے قریب سنہرے بالوں والی ایک خوبصورت اور پرکشش ایئر ہوسٹس نے میرا استقبال کیا اور میرا بیگ جہاز کے اس حصے میں رکھوایا جس میں عملے کا سامان رکھا جاتا ہے۔ یہ جہاز پوری طرح بھر کر جارہا ہے مسٹر ولیم اس نے مجھے بتایا۔ حتیٰ کہ جمپ سیٹ کے بھی دو امیدوار تھے لیکن آپ پہلے پہنچ گئے اس لیے یہ آپ کو مل رہی ہے۔ کیبن پر میری ہی ڈیوٹی ہے۔ عملے کے لوگ عام طور پر کاک پٹ کو کیبن کہتے ہیں۔ مجھے بس دودھ کا گلاس دے دینا اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی لفٹ لینے والوں کا کسی چیز پر حق نہیں بنتا۔ ان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مفت میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔ میں نے شکر گزارانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ میں ذرا جھک کر کاک پٹ میں داخل ہوا۔ پائلٹ، کو پائلٹ اور فلائٹ انجینئر معمول کے مطابق پرواز سے پہلے تمام کل پرزوں کو چیک کررہے تھے۔ انہوں نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا تو وضعداری کے تحت اپنے ہاتھ روک لیے۔ ہیلو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں فرینک ولیم ہوں۔ پین امریکن سے میرا تعلق ہے۔ آپ لوگ اپنا کام جاری رکھیں، میری وجہ سے ہاتھ نہ روکیں۔ ان تینوں نے بھی اپنا تعارف کرایا اور مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں جمپ سیٹ پر بیٹھ چکا تو وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ بیس منٹ بعد جہاز فضا میں بلند ہوگیا۔ پائلٹ جس نے اپنا نام گارنر بتایا تھا، طیارے کو تیس ہزار فٹ کی بلندی پر لے آیا۔ وہ طیارہ تھا۔ جب وہ ہموار انداز میں پرواز کرنے لگا تو گارنر اپنی حفاظتی بیلٹ کھول کر سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور گہری نظر سے میری طرف دیکھ کر بولا۔ تھوڑی دیر کے لیے اس پرندے کو تم اڑائو ولیم میں ذرا اس دوران مسافروں سے تھوڑی سی گپ شپ کرکے آتا ہوں۔ وہ بے چارے پیسے خرچ کرکے سفر کررہے ہیں، ذرا ان کا حال چال بھی پوچھ لینا چاہئے۔ یہ کسی بھی پائلٹ کی طرف سے اپنی حریف کمپنی کے پائلٹ کے لیے ایک طرح سے خوش خلقی کا اظہار ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی بہت دیر کے لیے اپنا طیارہ اس کے سپرد کردیتا تھا۔ میں نے اپنی ٹوپی اتار کر فرش پر رکھ دی اور پائلٹ کی خالی کی ہوئی سیٹ سنبھال لی۔ طیارے میں اس وقت عملے سمیت ایک سو چالیس افراد سوار تھے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ پائلٹ نے ایک سو چالیس جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی تھی۔ میں نے ہوائی جہاز کا ایک لیور کھینچ دیا جو آٹومیٹک پائلٹ کہلاتا ہے۔ طیارہ جس پوزیشن میں بھی چل رہا ہو، اس لیور کو کھینچنے کے بعد خودبخود اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ مجھے بس اسی ایک لیور کے بارے میں علم تھا اس کے سوا مجھے جہاز کی کسی چیز کے بارے میں خاک بھی پتا نہیں تھا۔ مجھے ہوائی جہاز اڑانا تو درکنار پتنگ اڑانا بھی نہیں آتا تھا۔ میں تو لیور کھینچنے کے بعد بھی دعا کررہا تھا کہ خدا کرے میں نے اسے صحیح طرح کھینچا ہو اور طیارہ خیر و عافیت سے اڑتا رہے۔ پین امریکن کو مختصراً پین ایم بھی کہا جاتا ہے۔ میں پین ایم کا پائلٹ ہرگز نہیں تھا۔ میں ایک جعلساز، نوسرباز اور بہروپیا تھا۔ میرا نام اس وقت کے چار براعظموں میں سب سے زیادہ مطلوب مجرموں کی فہرست میں شامل تھا۔ اس وقت بھی میں جعلسازی، نوسربازی اور فراڈ میں ہی مصروف تھا۔ سیکڑوں افراد کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا میں یہاں تک پہنچا تھا اور تیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے ایک جہاز کے پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میرا اکثر دل چاہتا تھا کہ میرے اس قسم کے کارناموں پر کوئی مجھے خوب داد دے لیکن افسوس کہ دنیا والے اس قسم کے کاموں پر داد نہیں دیتے، ملامت کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تو پنجے جھاڑ کر آپ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں حالانکہ دنیا کی آنکھوں میں اس دیدہ دلیری سے دھول جھونکنا بھی ایک فن ہے، ایک آرٹ ہے۔ ٭ ٭ ٭ اکیس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے میں دو مرتبہ تو لکھ پتی بن چکا تھا اور تیسری مرتبہ بنتے بنتے رہ گیا تھا۔ میرا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ تمام سرمایہ میں نے نوسر بازی اور جعلسازی کے ذریعے حاصل کیا تھا البتہ یہ ضرور بتاتا چلوں کہ اس سرمائے کو میں نے سنبھال کر ہرگز نہیں رکھا تھا بلکہ عیش و عشرت میں اڑا دیا تھا۔ میں نے خوب اپنے دل کی حسرتیں نکالی تھیں۔ دنیا کے بہترین کھانے کھائے تھے، بہترین تفریح گاہوں میں گیا تھا، بہترین ہوٹلوں میں قیام کیا تھا، بہترین شرابیں پی تھیں اور نہایت حسین خواتین کی قربت سے لطف اندوز ہوا تھا۔ بہترین گاڑیاں خریدی اور بیچی تھیں یا ویسے ہی انہیں کہیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ سرمایہ جتنی تیزی سے میرے پاس آیا تھا، اتنی ہی تیزی سے چلا بھی گیا تھا۔ مال مفت دل بے رحم والا معاملہ تھا۔ میں نے ہر یورپی ملک کے دارالحکومت کے کسی نہ کسی ہوٹل، کلب یا تفریح گاہ میں چھوٹا موٹا جشن ضرور منایا تھا۔ دنیا کے بہترین ساحلی مقامات پر یادگار وقت گزارہ تھا حتیٰ کہ کچھ مشرقی ممالک اور افریقہ کے خوبصورت مقامات بھی میری طبیعت کی جولانیوں کا نظارہ کرنے سے محروم نہیں رہے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تمام وقت میں نے نہایت سکون، سرشاری اور بے فکری کے عالم میں گزارہ تاہم میں بوکھلایا ہوا یا بدحواس بھی نہیں رہا۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیش و عشرت سے بھرپور لمحوں کے دوران بھی ایک دھڑکا سا دل کو لگا رہا۔ ذہن کے کسی تاریک گوشے میں اندیشے سر اٹھاتے رہے اور ایک ہلکی سی بے اطمینانی رگ و پے میں چٹکیاں سی لیتی رہی۔ میں ہر وقت بھاگنے دوڑنے کی سی حالت میں رہا۔ یہ بھاگنا دوڑنا بھی عام انداز میں نہیں تھا۔ کبھی کسی جگہ سے مجھے بغلی دروازے سے نکلنا پڑا۔ کبھی ہنگامی سیڑھیوں کے راستے کھسکنا پڑا اور کبھی کبھی چھت پر جاکر بھی راہ فرار تلاش کرنا پڑی۔ صرف پانچ سال کے عرصے میں، میں کپڑوں کی الماریوں میں جتنے کپڑے چھوڑ کر بھاگا ہوں، اتنے بعض لوگوںکی زندگی بھر میں خریدنے نصیب نہیں ہوتے ہوں گے۔ ہاتھوں سے چکنی مچھلی کے پھسل جانے کی مثال دی جاسکتی ہے لیکن میرا خیال ہے میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے ان لوگوں کے ہاتھوں سے پھسل جاتا تھا جو مجھے پکڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میں نے کبھی اپنے آپ کو مجرم محسوس نہیں کیا جبکہ مجھے یہ احساس تھا کہ قانونی اصطلاحوں کے مطابق میں مجرم ہی کہلائوں گا۔ حکام اور رپورٹرز مجھے اس صدی کا شاطر ترین جعلساز، نوسرباز اور فراڈیا قرار دے چکے ہیں۔ بعض رپورٹرز نے تو یہ بھی لکھا کہ اگر جعلسازی اور نوسر بازی پر اکیڈمی ایوارڈ دیئے جانے کا رواج ہوتا تو وہ یقیناً مجھے ملتا۔ بوگس چیک چلانے والوں کا تو مجھے بادشاہ قرار دیا جاتا تھا۔ ہیرا پھیری کی غیر معمولی صلاحیتیں شاید مجھے قدرت ہی کی طرف سے ملی تھیں۔ میں جس شاطرانہ ذہانت کے ساتھ اپنی ذات پر کسی دوسری شخصیت کا لبادہ اوڑھتا تھا، اس پر کبھی کبھی مجھے خود بھی حیرت ہوتی تھی۔ میرے اندر جیسے کوئی پراسرار طاقت چھپی ہوئی تھی جو مجھے نہایت کامیابی سے سب کچھ کر گزرنے کے قابل بناتی تھی اور بعد میں، میںخود بھی حیران ہوتا تھا کہ میں نے یہ سب کچھ کیسے کیا یا واقعی وہ میں ہی ہوں جس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ میرے یہ محسوسات اپنی جگہ سہی لیکن اپنے انجام کے بارے میں بہرحال میں کبھی خوش فہمی کا شکار نہیں رہا۔ مجھے معلوم تھا کہ جب بھی میں پکڑا گیا تو مجھ پر داد و تحسین کے ڈونگرے نہیں برسائے جائیں گے اور نہ ہی مجھے کسی بھی قسم کا کوئی ایوارڈ ملے گا بلکہ میں مجرم کہلائوں گا اور سیدھا جیل جائوں گا۔ میرا یہ اندازہ بالکل درست تھا۔ میں نے فرانس کی جیل میں وقت گزارہ۔ سوئیڈن کے ایک قید خانے کو شرف میزبانی بخشا۔ پھر اپنے گناہوں کی سب سے زیادہ تلافی امریکا کے شہر پیٹرز برگ کی فیڈرل جیل میں رہ کر کی۔ اس آخری جیل میں قیام کے دوران میرے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جیل کے حکام نے محسوس کیا کہ مجھ جیسے آدمی کا نفسیاتی تجزیہ بھی ہونا چاہئے۔ میری ذات کے مطالعے اور مشاہدے کے نتائ جرمیات کے طالب علموں کے لیے کافی مفید ثابت ہوسکتے تھے۔ اس سلسلے میں مجھ پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔ مجھ سے درخواست کی گئی اور میں نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو نفسیاتی تجزیئے کے لیے پیش کردیا۔ ورجینیا یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات اور جرمیات نے دو سال تک میرا مطالعہ اور مشاہدہ جاری رکھا۔ اس نے میرے کئی زبانی اور تحریری ٹیسٹ لیے۔ اس نے کئی بار مجھے ایسی دوائوں کے انجکشن بھی لگائے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انسان سے سچ بلوانے اور اس کے دل کی بات اگلوانے میں مدد دیتی ہیں۔ اس نے کئی بار مجھ پر سچ و جھوٹ کی نشاندہی کرنے والا آلہ بھی استعمال کیا جسے پولی گراف کہا جاتا ہے۔ طویل مطالعے اور مشاہدے کے بعد ماہر نفسیات نے جو رپورٹ مرتب کی، اس میں بے شمار لمبی چوڑی عالمانہ باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ آدمی بنیادی طور پر مجرم نہیں ہے۔ اس میں مجرمانہ رجحانات نہیں ہیں۔ یہ روایتی قسم کے مجرموں والی ذہنیت بالکل نہیں رکھتا۔ نیویارک کے ایک پولیس آفیسر نے مجھے پکڑنے میں سب سے زیادہ محنت اور بھاگ دوڑ کی تھی۔ اس نے جب یہ رپورٹ پڑھی تو غصے سے اس کے نتھنے پھولنے پچکنے لگے۔ وہ رپورٹ کو میز پر پٹختے ہوئے بولا۔ نفسیات کا یہ ڈاکٹر کیا ہمارے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش کررہا ہے جس بہروپیئے، جعلساز اور نوسرباز نے کئی سو بینکوں کو چونا لگایا۔ دنیا کے آدھے ہوٹلوں پر اس طرح ہاتھ پھیرا کہ صرف بستروں کی چادریں چرانے کی کسر رہ گئی۔ جس نے دنیا کی تمام ایئر لائنز اور ان کی ایئرہوسٹسوں پر ہاتھ صاف کردیا اور اتنے بوگس چیک کیش کرائے کہ اگر انہیں پینٹاگون کی دیواروں پر چپکا دیا جائے تو اس کی ساری دیواریں چھپ جائیں۔ جو کمبخت کالجوں اور یونیورسٹیوں کا مالک بن کر گھومتا رہا۔ جس نے بیس ملکوں کے آدھے پولیس والوں کو اپنے افسروں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ جس نے تھوڑے سے عرصے میں دو ملین ڈالر بٹور لیے۔ اس کے بارے میں یہ ماہر نفسیات صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ آدمی بنیادی طور پر مجرم نہیں ہے اور اس میں مجرمانہ رجحانات نہیں ہیں۔ اگر اس میں مجرمانہ رجحانات ہوتے تو پھر یہ کیا کرتا کیا فورٹ ناکس میں موجود امریکا کے سارے سونے کے ذخائر لوٹ کر لے جاتا پھر اس پولیس آفیسر نے ایک نہایت ہی ٹھنڈی سانس لے کر دردناک لہجے میں کہا ان ماہرین نفسیات سے خدا ہی سمجھے گا۔ پھر وہ سراغرساں پولیس آفیسر وہ رپورٹ لے کر میرے پاس جیل میں آیا اور اسے میرے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔ لگتا ہے تم اس ماہر نفسیات کو بھی اُلّو بنانے میں کامیاب ہوگئے ہو۔ میں نے متانت اور سنجیدگی سے کہا۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس نے مجھ سے جو سوال کیا، میں نے دیانتداری اور سچائی کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ اس نے میرے لیے جو بھی ٹیسٹ تجویز کیا، وہ میں نے ایمانداری اور سعادت مندی سے دیا۔ اب اگر اس نے مجھے مجرم تسلیم نہیں کیا تو میں کیا کرسکتا ہوں میرا اس میں کیا قصور ہے تم چاہے کچھ کہو، میں بہرحال یہی کہوں گا کہ تم نے اس اُلّو کو مزید اُلّو بنایا ہے۔ لیکن تم مجھے اُلّو نہیں بنا سکتے۔ پولیس آفیسر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ پھر وہ متاسفانہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ تمہیں اگر موقع ملے تم اپنے باپ کو بھی اُلّو بنانے سے باز نہیں رہو گے۔ سچی بات یہ ہے کہ اپنے والد کو تو میں برسوں پہلے ہی بے وقوف بنا چکا تھا۔ یوں کہنا چاہئے کہ زندگی میں پہلی بار میں نے جو مالی فائدہ حاصل کیا تھا، وہ والد صاحب کو ہی چکر دے کر حاصل کیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈیڈی کی ایک خصوصیت کو ان کی خامی کہوں یا خوبی بہرحال وہ ان میں موجود تھی اور جن لوگوں میں یہ خصوصیت ہوتی ہے، دنیا انہیں مشکل سے ہی جینے دیتی ہے۔ عام طور پر ایسے لوگوں کی زندگی بری ہی گزرتی ہے۔ ڈیڈی تو پھر بھی خوش قسمت تھے کہ بیشتر زندگی اچھی طرح گزار گئے۔ ان کی خوبی یا خامی یہ تھی کہ وہ لوگوں پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتے تھے۔ میں بہرحال اسے خامی ہی کہوں گا۔ میں نے ان کی اس عادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں تین ہزار چار سو ڈالر کا چونا لگایا تھا۔ میں اس وقت صرف پندرہ سال کا تھا اور یہ میری زندگی کی ہیرا پھیری کی پہلی کمائی تھی۔ میں نیویارک کے علاقے برونکس ول میں پیدا ہوا اور میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سولہ سال وہیں گزارے۔ میرا نام ڈیڈی نے اپنے ہی نام پر رکھا تھا۔ یہ خاصا لمبا سا نام تھا۔ فرینک ولیم ایبگ نیل۔ وہ سینئر تھے، میں جونیئر۔ میں نے زندگی میں کتنے ہی نام بدلے لیکن میں بہرحال اپنے اصل نام کا کوئی نہ کوئی حصہ اس میں ضرور شامل رکھتا تھا۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ نام یاد رکھنے میں آسانی رہے۔ اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں میں اپنا رکھا ہوا تازہ ترین نام خود ہی نہ بھول جائوں۔ میں اپنے والدین کے چار بچوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ اگر میں اپنی مجرمانہ سی زندگی کے لیے جواز گھڑنا چاہوں اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ میں بکھرے ہوئے گھرانے کی پیداوار ہوں اور میرے والدین کے شکستہ رشتے نے میری نفسیات میں پیچیدگیاں پیدا کردی تھیں جس کی وجہ سے میرے رجحانات متاثر ہوگئے اور میرا جھکائو مجرمانہ سوچوں کی طرف ہوگیا۔ لیکن میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ میرے خیال میں یہ سچ نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں جب بارہ سال کا تھا تو میرے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ میں نے اس بات کو کسی بڑے المیے کے طور پر لیا تھا یا اس سے میرے احساسات مجروح ہوئے تھے۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا کہ میں اس بات کو بنیاد بنا کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کروں۔ درحقیقت اس علیحدگی اور اس کے بعد ہونے والی طلاق سے جو شخصیت سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور جس کے احساسات سب سے زیادہ مجروح ہوئے، وہ میرے ڈیڈی تھے۔ وہ مما سے بہت محبت کرتے تھے۔ امریکی معاشرے میں اس قسم کی محبت کا تصور ذرا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ میرے نانا فرانسیسی اور نانی الجزائر کی تھیں۔ یوں میری والدہ میں مغربی حسن کی چکاچوند اور مشرقی حسن کی ملاحت یکجا ہوگئی تھی۔ وہ مثالی حسن کی مالک اور بے پناہ پرکشش تھیں۔ میرے والد کی ان سے ملاقات ان دنوں ہوئی تھی جب وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ممی اس وقت صرف پندرہ سال کی تھیں جبکہ ڈیڈی اٹھائیس سال کے تھے۔ اس وقت تو شاید یہی لگا ہو کہ عمروں کا یہ فرق کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن میرا خیال ہے بعد میں میرے والدین کے درمیان علیحدگی اور پھر طلاق میں اس فرق کا کچھ نہ کچھ دخل ضرور رہا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ڈیڈی فوج سے ڈسچارج ہوکر گھر آگئے تو انہوں نے نیویارک میں اپنا ذاتی کاروبار شروع کرلیا۔ انہوں نے اسٹیشنری کی ایک دکان کھول لی جو بڑی کامیاب رہی۔ ہم ایک بڑے سے پُرتعیش مکان میں رہتے تھے۔ ہم اگر بہت زیادہ دولت مند نہیں تھے تو تنگ دست بھی نہیں تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ اپنے بچپن اور لڑکپن میں، میں میرے دونوں بھائی اور ایک بہن کبھی کسی چیز کے لیے ترسے ہوں۔ ہمارے محدود سے ذہنوں میں اس وقت جو خواہشات سماتی تھیں، وہ پوری ہوجاتی تھیں۔ والدین کے درمیان اگر اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو بچوں کو عام طور پر ان کا اندازہ ذرا دیر سے ہی ہوتا ہے۔ اس وقت تک وہ اختلافات سنگین ہوچکے ہوتے ہیں۔ کم ازکم میرے معاملے میں تو ایسا ہی ہوا۔ میرے دونوں بھائیوں اور بہن کو شاید ان اختلافات کا اس بھی اندازہ نہیں ہوا جب مجھے اندازہ ہونے لگا تھا۔ میرا خیال ہے اختلافات کی بنیاد اس بات سے پڑی ہوگی کہ مما نے کسی نہ کسی طرح خود کو کافی حد تک ایک گھریلو عورت بنا لیا تھا۔ وہ ہماری پرورش اور گھر کے کام کاج خاصی جانفشانی سے کرتی تھیں لیکن ڈیڈی نے اپنی حیثیت صرف ایک کامیاب بزنس مین تک محدود نہیں رکھی تھی۔ انہیں سیاست کا چسکا بھی تھا۔ علاقائی سطح پر وہ ری پبلکن پارٹی کے عہدیدار تھے۔ وہ نیویارک ایتھلیٹک کلب کے ممبر اور سابق صدر بھی تھے۔ وہ اپنے سیاسی اور کاروباری دوستوں کے ساتھ بہت وقت گزارتے تھے۔ رات گئے تک کلب میں بیٹھے رہتے تھے۔ صرف یہی نہیں، وہ مچھلی کے شکار کے بھی دھتی تھے۔ مچھلی کے شکار کے لیے وہ دوردراز کے لمبے سمندری سفر پر بھی جاتے رہتے تھے۔ جہاں سے ان کی واپسی کئی کئی دن بعد ہوتی تھی۔ مما کو وہ ساتھ لے کر نہیں جاتے تھے۔ مما اس وقت سے آزادیٔ نسواں کی زبردست علمبردار تھیں جب کسی نے اس تحریک کی بنیاد بھی نہیں رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو گھرداری کے لیے وقف کرکے گویا ایک بڑی قربانی دی تھی اور ان کے خیال میں انہیں اس قربانی کا کوئی صلہ نہیں مل رہا تھا۔ ڈیڈی اپنے معمولات بدلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ ایک روز وہ مچھلی کے شکار سے واپس آئے تو ان کے اپنے گھر کے تالاب کی مچھلی چھلانگ لگا کر باہر جاچکی تھی۔ مما ہم چاروں بچوں کو ساتھ لے کر ایک کشادہ اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگئی تھیں۔ ہم بہن، بھائی حیران پریشان تھے۔ مما نے ہمیں بٹھا کر نہایت سنجیدگی سے بتایا کہ ان کا اور ڈیڈی کا ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ بہت مشکل ہوگیا تھا اس لیے دونوں نے باہمی رضامندی سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ درحقیقت یہ فیصلہ صرف مما نے کیا تھا۔ بیچارے ڈیڈی کی رضا اس میں ہرگز شامل نہیں تھی۔ وہ تو اس بارے میں جان کر دم بخود رہ گئے تھے۔ انہیں یقیناً بہت صدمہ پہنچا تھا۔ انہوں نے مما کی منت کی کہ وہ گھر واپس آجائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ وہ خود کو زیادہ اچھا شوہر اور باپ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ مچھلی کا شکار بہت کم کردیں گے اور سیاسی سرگرمیاں بالکل ترک کردیں گے۔ مما نے ان کی باتیں توجہ سے سنیں لیکن کوئی وعدہ نہیں کیا۔ معلوم نہیں ڈیڈی کو اندازہ ہوا یا نہیں لیکن مجھے کمسن ہونے کے باوجود اندازہ ہوگیا کہ ممی کا ڈیڈی کے گھر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انہوں نے ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا اور ڈینٹل ٹیکنیشن بننے کی تربیت حاصل کرنے لگیں۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کا ملازمت کرنے، کیریئر بنانے اور خودمختار زندگی گزارنے کا ارادہ تھا۔ ڈیڈی نے بہرحال ہمت نہیں ہاری۔ انہیں جب بھی موقع ملتا وہ اپارٹمنٹ میں آجاتے اور مما کو منانے کی کوششیں شروع کردیتے۔ وہ کبھی ان کی منت کرتے، کبھی انہیں ہنسانے اور خوش کرنے کی کوشش کرتے، کبھی تعریف و توصیف سے ان کا دل جیتنے کی سعی کرتے۔ یہ سب کوششیں ناکام رہتیں تو کبھی کبھی ان کا ضبط جواب دے جاتا اور وہ گرج اٹھتے۔ بدبخت عورت کیا تمہیں یہ بھی احساس نہیں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں مما پر اس بات کا بھی کوئی اثر نہ ہوتا۔ ڈیڈی کے معاملے میں گویا ان کا دل پتھر ہوگیا تھا۔ اس صورتحال کا ہم لڑکوں پر زیادہ اثر پڑ رہا تھا۔ سب سے زیادہ میں متاثر ہورہا تھا کیونکہ میں اپنے ڈیڈی سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا شاید اسی لیے ڈیڈی، مما کو واپس لانے کی مہم میں مجھے ہی استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنی مما سے بات کرو بیٹا وہ مجھ سے کہتے۔ اسے سمجھائو کہ ہم سب اکٹھے رہیں گے تو زیادہ خوش رہیں گے۔ اسے بتائو کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ وہ خواہ مخواہ اپنی ضد پر نہ اڑی رہے۔ میری خوشی کا نہ سہی کم ازکم بچوں کی خوشی کا ہی خیال کرلے۔ وہ میرے ہاتھ مما کے لیے تحفے بھجواتے اور مجھے پوری پوری تقریر یاد کراتے کہ میں کس طرح مما کے سامنے ان کی وکالت کروں اور کون سے الفاظ استعمال کروں جن سے ان کا دل موم ہوجائے۔ میں اپنے ڈیڈی کے لیے ایک ناکام قاصد اور پیامبر ثابت ہوا۔ میں نے اپنی دانست میں جتنی بھی ہوشیاری سے ڈیڈی کی وکالت اور پیغام رسانی کی، اتنا ہی اس کا الٹا اثر ہوا۔ میں مما کو متاثر نہیں کرسکا۔ مما کو الٹا اس بات پر غصہ آتا تھا کہ بڑوں کے اختلافات اور کشمکش میں ڈیڈی ایک بچے کو مہرے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یوں مجھ سے کام لینا ڈیڈی کے حق میں مفید ثابت ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا۔ مما نے اس وقت ڈیڈی سے طلاق لے لی جب میں چودہ سال کا تھا۔ ڈیڈی اس کے بعد گویا ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئے۔ مجھے بھی کافی مایوسی اور صدمہ ہوا کیونکہ میں واقعی دل سے چاہتا تھا کہ وہ دونوں دوبارہ اکٹھے ہوجائیں۔ بہرحال میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈیڈی نے زندگی میں جس عورت سے صحیح معنوں میں محبت کی، وہ مما ہی تھیں۔ میں جب ڈیڈی کا انتقال ہوا۔ اس وقت تک وہ مما کو منانے اور دوبارہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ مما کے معاملے میں انہوں نے واقعی اپنی اَنا بالائے طاق رکھ دی تھی۔ جب عدالت کے ذریعے مما کی طلاق کی کارروائی مکمل ہوگئی تو اس فیصلے کا اختیار مجھے دے دیا گیا کہ میں ڈیڈی کے ساتھ رہوں یا مما کے ساتھ۔ میں نے ڈیڈی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ مما کو اس بارے میں کوئی خاص تشویش نہیں تھی کہ میں کیا فیصلہ کرتا ہوں۔ مجھ میں اس وقت جتنی عقل اور سمجھ تھی، اسے استعمال کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ گھر کے کم ازکم کسی ایک فرد کو ضرور ڈیڈی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ انہیں اکیلا نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ مما نے میرے اس فیصلے پر کسی قسم کی خفگی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی انہیں بعد میں کبھی میرے اس فیصلے کی وجہ سے پچھتاوا محسوس ہوا۔ ڈیڈی کو البتہ شاید کبھی پچھتاوا ہوا ہو۔ نوعمری میں اکیلے ڈیڈی کے ساتھ زندگی گزارنا میرے لیے ایک بالکل مختلف تجربہ تھا۔ میرا کافی وقت ان کے ساتھ گزرتا تھا اور ان کا طرززندگی ایک بڑے بزنس مین والا تھا۔ وہ بہت زیادہ لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے اور یہ نشست و برخاست اونچے درجے کے ریسٹورنٹس اور شراب خانوں میں ہوتی تھی۔ نہایت عمدہ قسم کے کھانے کھائے جاتے تھے اور نہایت اعلیٰ قسم کی شراب پی جاتی تھی۔ ڈیڈی کے حلقۂ احباب میں سیاسی لوگ بھی تھے۔ ان کے بھی کم و بیش یہی معمولات تھے۔ میں نے دیکھا ڈیڈی کے زیادہ تر کاروباری معاملات اسی قسم کی محفلوں میں طے ہوتے تھے۔ سیاسی فیصلے بھی انہی محفلوں میں کئے جاتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ جو لوگ مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے، پینے پلانے کے بعد ترنگ میں آکر وہ بڑی بڑی باتیں کرنے لگتے تھے۔ بعض لوگوں کی باتوں سے کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے صدر امریکا ان سے مشورہ کئے بغیر کوئی بھی اہم قدم نہیں اٹھاتے۔ ڈیڈی کی محفلیں جاری رہتیں اور میں کچھ دور بیٹھا جوس یا ملک شیک وغیرہ سے شغل کرتا رہتا۔ شروع شروع میں، میں ڈیڈی کے پینے پلانے کی رفتار دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ وہ بہت زیادہ پیتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ وہ پی کر بہکتے نہیں تھے۔ نشے میں دھت یا بدمست نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے تھے۔ درحقیقت ان کے حلقۂ احباب میں کوئی بھی الٹی سیدھی حرکتیں نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی پی کر آپے سے باہر ہوتا تھا۔ بس وہ سب ذرا ترنگ میں آجاتے تھے۔ شراب ڈیڈی پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتی تھی۔ میں ڈیڈی کا حلقۂ احباب دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔ ان میں ہر شعبۂ زندگی کے ممتاز افراد شامل تھے۔ اسپیشلسٹ، ڈاکٹرز، پولیس آفیسرز، مختلف یونیئنز کے صدر، ٹرانسپورٹرز، ٹھیکیدار، بڑے بڑے بزنس مین، اسٹاک بروکرز اور نہ جانے کون کون لوگ ان کے حلقۂ احباب میں تھے۔ ایک طرف اس طرح کے لوگ تھے، دوسری طرف ان کی دوستی اور شناسائی کلرکوں، ٹرک ڈرائیوروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں سے بھی تھی۔ چھ ماہ تک ڈیڈی کے ساتھ رہ کر میں کافی ہوشیار ہوگیا۔ گو کہ میں ان کی محفلوں میں باقاعدہ شریک نہیں ہوتا تھا لیکن بہرحال قریب بیٹھا ہوتا تھا۔ ساری باتیں میرے کانوں میں پڑتی تھیں۔ تمام حرکات و سکنات میں دیکھتا تھا۔ ڈیڈی کو یقیناً احساس نہیں تھا کہ میں ان محفلوں سے کیا سیکھ رہا تھا۔ ان کی آپس کی گفتگو سے کیا کشید کررہا تھا۔ میں درحقیقت وقت سے پہلے عملی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ ہورہا تھا۔ لوگ جو کچھ گلی کوچوں، بازاروں اور دفتروں میں برسوں دھکے کھا کر سیکھتے ہیں۔ وہ میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا سیکھ رہا تھا۔ ڈیڈی نے یقیناً ایسا نہیں سوچا ہوگا، ایسا نہیں چاہا ہوگا۔ ادھر میں نے اسکول میں بھی ذرا غیر ذمہ دار قسم کے لڑکوں کے ساتھ زیادہ گھومنا پھرنا شروع کردیا۔ وہ کچھ ایسے خطرناک یا بدمعاش قسم کے لڑکے نہیں تھے اور نہ ہی وہ کسی گینگ کے ممبر تھے۔ بس وہ اس قسم کے لڑکے تھے جن کا دھیان پڑھائی کی طرف کم اور آوارہ گردی کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر ایسے لڑکوں کے گھریلو حالات بھی مناسب نہیں ہوتے۔ فیملی میں مسئلے مسائل چل رہے ہوتے ہیں۔ باہمی رشتے ناتوں کے معاملات نارمل سطح پر نہیں ہوتے۔ شاید میں بھی انہی میں سے ایک تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم جیسے بچے درحقیقت دوسروں کی توجہ چاہتے تھے۔ ان کی شخصیت میں کوئی کمی، کوئی کجی رہ جاتی تھی۔ ان کے ذہنوں میں کوئی پیاس، کوئی تشنگی ہوتی تھی شاید وہ محبت کی پیاس ہوتی تھی۔ توجہ کی تشنگی ہوتی تھی۔ شاید یہی پیاس، یہی تشنگی دور کرنے کے لیے ہم الٹی سیدھی حرکتیں کرتے تھے۔ شاید میرے لاشعور کے کسی بہت ہی تاریک گوشے میں یہ مبہم سا خیال بھی جاگزیں رہا ہو کہ اگر میں ایک بگڑا ہوا بچہ کہلانے لگا تو میری ماں کو احساس ہو کہ رشتے ناتوں کی توڑ پھوڑ کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے اور اس کے بعد شاید میرے والدین کے درمیان صلح اور ملاپ کی کوئی صورت نکل آئے۔ بہرحال نفسیات کے گورکھ دھندے اپنی جگہ سہی۔ ان کے بارے میں، میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بات کا مجھے واضح طور پر احساس ہوتا تھا کہ اپنے آوارہ گرد دوستوں کے ساتھ مل کر میں جو حرکتیں کرتا تھا، وہ مجھے نہایت بچکانہ اور احمقانہ لگتی تھیں۔ مثلاً کسی دکان سے چاکلیٹ اڑا لینا۔ کوئی اور چھوٹی موٹی چیز پار کرلینا یا آنکھ بچا کر سنیما ہال میں بغیر ٹکٹ گھس جانا۔ یہ سب حرکتیں مجھے اپنی ذہنی سطح سے کچھ کمتر لگتی تھیں۔ میں خود کو نہ صرف ذہنی طور پر پختہ محسوس کرتا تھا بلکہ جسمانی طور پر بھی اپنی عمر کے مقابلے میں خاصا آگے جارہا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں میرا قد چھ فٹ اور وزن پونڈ تھا۔ ہمارا ٹولہ بعض الٹی سیدھی حرکتوں پر اس لیے بھی پکڑے جانے سے بچ جاتا تھا کہ لوگ مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھ کر سمجھتے تھے شاید کوئی ٹیچر اپنے شاگردوں کو کسی تفریحی ٹور پر لے کر نکلا ہے یا کوئی نوجوان اپنے چھوٹے بھائیوں کو گھما پھرا رہا ہے۔ چنانچہ ایک بڑے کو چھوٹوں کے ساتھ دیکھ کر لوگ ہم پر نظر رکھنے یا ہماری طرف سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں خود بھی ایسا ہی محسوس کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں کی بچکانہ حرکتوں پر مجھے غصہ آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں کی ایک اور بات جو مجھے بہت کھٹکتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ ان کا کوئی معیار یا منفرد اسٹائل نہیں تھا۔ مجھے نوعمری میں ہی اس بات کا احساس ہوا تھا کہ کسی بھی معاملے میں اگر آپ کا معیار بلند ہو، آپ کی سوچ اونچی ہو، اس سے دوسروں میں مرعوبیت پیدا ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ برائی، گناہ یا جرم کے معاملے میں بھی اگر آپ کا معیار اونچا، آپ کا اسٹائل منفرد اور آپ کی نظر بلند ہو تو آپ کو ملامت کرنے یا سزا دینے والے لوگوں کے انداز میں نرمی آجاتی ہے جبکہ معمولی درجے کے عام سے مجرم یا گناہگار کے بارے میں لوگوں کا رویہ بہت سخت اور حقارت بھرا ہوتا ہے۔ موقع ملے تو راہ چلتا آدمی بھی اس بے چارے کو ایک آدھ جھانپڑ رسید کردیتا ہے۔ میرے ساتھیوں کو چھوٹے موٹے جرائم کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ وہ ایک کار بھی ڈھنگ سے نہیں چرا سکتے تھے۔ پہلی بار انہوں نے ایک کار چرائی تو اسے لے کر سیدھا میرے گھر آگئے۔ ابھی ہم اس میں بیٹھ کر ایک میل دور بھی نہیں گئے تھے کہ پولیس کی ایک گاڑی نے ہماری گاڑی کے آگے آکر ہمیں روک لیا۔ کچھ دیر بعد مجھے پتا چلا کہ ان گدھوں نے وہ کار ایک مکان کے ڈرائیو وے سے چرائی تھی جبکہ اس کا مالک سامنے ہی اپنے لان میں پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ کتنے عقلمند تھے۔ ہم سب کمسن مجرموں کی اصلاحی جیل پہنچ گئے جو شہر کے نواح میں تھی اور جووینائل ہلٹن کہلاتی تھی۔ ڈیڈی نے مجھے نہ صرف وہاں سے نکلوایا بلکہ اس واقعے کے سارے ریکارڈ سے میرا نام بھی کسی نہ کسی طرح خارج کرایا۔ انہیں میرے مستقبل کی فکر تھی۔ اس قسم کے واقعات آگے چل کر زندگی کے کسی موڑ پر بڑی شرمساری کا باعث بن جاتے ہیں۔ ڈیڈی سیاست میں ہونے کی وجہ سے ان باتوں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور ان معاملات میں بہت ہی محتاط تھے۔ مجھے چھڑانے اور میرا نام ریکارڈ سے حذف کرانے کے لیے انہوں نے جو پاپڑ بیلے، ان کی وجہ سے بہت سے پولیس والوں کی نیندیں کئی راتوں تک حرام رہی ہوں گی۔ تاہم مجھ پر اس سلسلے میں ڈیڈی نے زیادہ لعن طعن نہیں کی اور نہ ہی وہ مجھ پر گرجے برسے۔ انہوں نے نرم لہجے میں صرف اتنا کہا۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن کوشش کرنا کہ اس قسم کی غلطی تم سے آئندہ نہ ہونے پائے۔ مجھے معلوم ہے کم عمر لڑکے اس قسم کی حرکتیں کرکے دراصل اپنے ہونے کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اب بڑے ہوگئے ہیں لیکن یہ حرکتیں بڑوں والی نہیں، بچوں والی ہیں اور وہ بھی ایسے بچوں والی جن میں عقل نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔ قانون کے حساب سے تم ابھی بچوں میں ہی شامل ہو لیکن جسامت کے لحاظ سے تم پورے مرد ہوگئے ہو، اس لیے اب مردوں ہی کی طرح سوچنے کی کوشش کیا کرو، بچوں کی طرح نہیں۔ میں نے ڈیڈی کی نصیحت پر کافی حد تک عمل کیا۔ اپنے احمق قسم کے دوستوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسکول باقاعدگی سے جانے لگا اور ایک گودام میں شپنگ کلرک کے طور پر پارٹ ٹائم ملازمت بھی شروع کردی۔ ڈیڈی یہ سب دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے ایک سیکنڈ ہینڈ فورڈ کار دلا دی۔ یہ کار تھی تو پرانی لیکن بہت عمدہ حالت میں تھی۔ میں نے اسے اور بھی عمدہ بنا لیا۔ وہ اتنی شاندار ہوگئی کہ لڑکیاں مجھے اس میں بیٹھے دیکھتیں تو فوراً مسکراہٹیں نچھاور کرنے لگتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے بگاڑنے میں اس فورڈ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ گویا میری آئندہ زندگی کی تمامتر بے راہ روی کا نقطۂ آغاز تھی۔ فورڈ نے وہ ماڈل تیار کرکے بڑا ستم کیا تھا۔ اس میں کوئی ایسی بات تھی کہ لڑکیاں اسے دیکھتے ہی تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ دیتی تھیں۔ اس گاڑی کی وجہ سے لڑکیوں سے میری دوستی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایسا شروع ہوا کہ مجھے اپنی خبر نہ رہی۔ چھ سال تک میرے حواس ٹھکانے نہیں آئے۔ یہ چھ سال میری زندگی کے انتہائی خوبصورت اور ناقابل فراموش سال تھے۔ اس میں شک کہ انسان کی جوانی کا دور خاصا طویل ہوتا ہے اور اس دور کے اندر بھی کئی دور ایسے آتے ہیں جب اس کی عقل اور شعور پر خواہشیں غالب رہتی ہیں۔ شباب کا منہ زور گھوڑا ہر دلیل اور منطق کو روندتا ہوا انجانی منزلوں کی طرف سرپٹ دوڑتا ہے لیکن پھر بھی اس دور کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ جب آدمی لڑکپن کی دہلیز پار کرکے جوانی کی حدود میں قدم رکھتا ہے جو اس سے پہلے اس کے لیے ایک پراسرار دنیا ہوتی ہے۔ پندرہ سال کی عمر تک میری لڑکیوں سے دوستی تو شروع ہوگئی تھی اور میں ان میں ایک عجیب اور ناقابل فہم سی کشش بھی محسوس کرتا تھا لیکن بہرحال ان کی حیثیت میرے لیے ایک پراسرار جزیرے کی سی تھی۔ نسوانیت کی دنیا میں مجھے رنگینی محسوس ہوتی تھی لیکن میں اس کے بھید بھائو سے ناآشنا تھا۔ پھر ایک روز میں نے ایک سگنل پر گاڑی روکی تو ایک لڑکی مجھے فٹ پاتھ پر کھڑی نظر آئی۔ وہ سروقد تھی اور اس کی جسمانی ساخت بھرپور تھی۔ اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھا تو کچھ ایسے انداز میں مسکرائی اور کچھ اس طرح حرکت میں آئی کہ میری کھوپڑی بھک سے اڑ گئی۔ وہ میری گاڑی میں آبیٹھی اور پھر برسوں کا سفر لمحوں میں طے ہوگیا۔ سارے معمے حل ہوگئے اور پھر اس دن سے لڑکیوں سے دوستی ہی میری سب سے بڑی برائی اور سب سے بڑی کمزوری بن گئی۔ میرے دماغ میں ہر وقت لڑکیوں ہی کا خیال رہتا۔ ان کی قربت سے میرا کبھی دل نہ بھرتا۔ میں کبھی ان سے بیزار نہ ہوتا۔ رات کو میں ان کے بارے میں سوچتے ہوئے سوتا اور صبح اٹھتے ہی پھر ان کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا۔ بعض فلموں میں دکھائے جانے والے پلے بوائے کے کردار میرے سامنے کچھ نہیں تھے۔ لڑکیاں جتنی ذہین، فطین، شاطر، چالاک اور تیز طرار ہوتیں، اتنی ہی مجھے زیادہ اچھی لگتیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں سے دوستی کوئی سستا مشغلہ نہیں ہے۔ خاص طور پر جب آپ بیک وقت بہت سی لڑکیوں سے دوستی رکھنے کی کوشش کریں۔ وہ لڑکیاں خواہ آپ سے پیسہ نہ ٹھگتی ہوں لیکن آپ انہیں ادھر ادھر گھمانے، سیر و تفریح کرانے اور کھلانے پلانے تو لے جاتے ہیں۔ تھوڑی بہت میزبانی تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ جلد ہی مجھے اپنا ہاتھ تنگ محسوس ہونے لگا۔ میرے مالی وسائل میرے مشاغل کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ کسی طرح مجھے اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کافی سوچ بچار کے بعد بھی جب کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو میں نے ڈیڈی سے ہی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ لڑکیوں میں میری دلچسپی اور میری مصروفیات سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔ ایک روز میں نے تمہید باندھی۔ ڈیڈ آپ نے یہ مجھ پر بڑی مہربانی کی تھی کہ مجھے گاڑی خرید دی تھی۔ اب یہ اچھا نہیں لگتا کہ آپ کو مزید زحمت دوں لیکن کیا کروں گاڑی کی وجہ سے میرے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اسکول میں دوپہر کا کھانا کھانے، مختلف کھیلوں میں حصہ لینے اور دوستوں کے ساتھ سیروتفریح میں کافی پیسے خرچ ہوجاتے ہیں۔ پارٹ ٹائم نوکری سے جو تنخواہ ملتی ہے، وہ مہینہ پورا ہونے سے کافی پہلے ختم ہوجاتی ہے۔ میں نے ایک لمحے کے لیے خاموش ہوکر گہری سانس لی۔ پھر اصل موضوع کی طرف آیا۔ کبھی کبھی تو میرے پاس گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ اگر مجھے گیس کمپنی کا ایک کریڈٹ کارڈ مل جائے تو بہت اچھا ہو۔ میں کوشش کروں گا کہ جب کریڈٹ کارڈ کا بل آئے تو وہ خود ہی ادا کروں اور میں یہ وعدہ بھی کرتا ہوں کہ اگر مجھے یہ سہولت مل گئی تو میں اس کا ناجائز استعمال نہیں کروں گا۔ میں اس وقت کسی ایسے چالاک دکاندار کی طرح لفاظی کررہا تھا جو اپنی کوئی ناقص چیز بیچنے کی پوری پوری کوشش کررہا ہو لیکن ایسی بھی بات نہیں ہے کہ میرا ارادہ ڈیڈی کو چکر دینے کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کسی حد تک خلوص نیت سے یہ سب کہہ رہا تھا۔ جاری ہے | null |
null | null | null | 275 | https://www.urduzone.net/jana-tujhe-jab-jana-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 276 | https://www.urduzone.net/aur-mere-woh-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 277 | https://www.urduzone.net/dil-ke-dagh-episode-6/ | null | null |
null | null | null | 278 | https://www.urduzone.net/aur-mere-woh-episode-2/ | null | null |
null | null | null | 279 | https://www.urduzone.net/jana-tujhe-jab-jana-episode-9/ | null | null |
null | null | null | 280 | https://www.urduzone.net/behan-gam-gasar-hae-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | جن دنوں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا، بزنس کے سلسلے میں والد صاحب کا وہاں اکثر آنا جاتا رہتا تھا۔ ایک بنگالی دوست سے پارٹنر شپ تھی جس کا نام عبدالرحمٰن تھا، اس کی رہائش ڈھاکا میں تھی۔ ابو ڈھاکا میں اسی کے پاس قیام کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہاں کے حالات ناسازگار ہوگئے تو ابو نے کاروبار سمیٹا اور ڈھاکا کو خیرباد کہہ دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا اور وہاں جانا ممکن نہیں رہا۔ انہی دنوں والد صاحب کی شادی اپنی عم زاد صنوبر سے ہوگئی تو نانا جان نے انہیں اپنے کاروبار میں شریک کرلیا۔ رزق تو خدا کی دین ہے، اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو دیتا ہے، خواہ وہ کسی سرزمین پر اقامت پذیر ہو۔ والد صاحب نے خوب محنت کی اور دیکھتے دیکھتے دولتمندوں میں شمار ہونے لگے۔ والدہ نصیب والی تھیں کہ دولت میں کھیلنے لگیں۔ زندگی کا ہر عیش و آرام ان کو میسر تھا مگر اولادِ نرینہ نہ ہوئی۔ میں ان کی اکلوتی بیٹی تھی جس کا نام والد صاحب نے دل آرام تجویز کیا۔ جن دنوں میں کالج میں پڑھ رہی تھی، بنگلہ دیش سے ایک اردو بولنے والا خاندان ہجرت کرکے وطن آیا۔ ان کی لڑکی کا نام سائرہ بانو تھا، اس نے ہماری کالج کلاس میں داخلہ لیا اور پھر جلد ہی اپنی اچھی عادات کی وجہ سے میری دوست بن گئی۔ سائرہ بانو مجھے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن جانے کے ایسے قصے سناتی کہ سن کر دل دہل جاتا تھا اور میں سوچتی تھی خدا جانے ان لوگوں پر کیسی قیامت گزری ہوگی جو اس سانحے کے دوران کام آئے، جن پر اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں نے مظالم ڈھائے۔ وطن کی تقسیم میں خون خرابہ ہر دور کی تاریخ میں ہوتا آیا ہے مگر جو خاندان اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں، ان کا دکھ بھی سوا ہوتا ہے۔ سائرہ بانو کی ایک دور کی خالہ عذرا بنگلہ دیش میں رہ گئی تھیں۔ ان کی بیٹی شمع سے اس کی بہت دوستی تھی۔سائرہ، شمع کو بہت یاد کرتی تھی اور اس نے مجھے اپنی دوست کے بارے بہت سی باتیں بتائی تھیں۔ کافی عرصہ ان لوگوں سے رابطہ نہ رہا لیکن جب دونوں ملکوں کے درمیان رسل و ترسیل کا سلسلہ بحال ہوا تو سائرہ بانو نے شمع کو خط لکھا۔ کچھ دنوں بعد جواب آگیا اور پھر ان کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب بھی شمع کا خط آتا، سائرہ کی خوشی دیدنی ہوتی، وہ مجھے بھی اس کے خطوط پڑھواتی جن میں بنگلہ دیش کے حالات درج ہوتے تھے۔ سائرہ نے اپنے خطوط کے ذریعے میرا، شمع سے غائبانہ تعارف کرا دیا تھا۔ روز اخبار ضرور پڑھتی تھی۔ یہ میری عرصے کی عادت تھی۔ ان دنوں اخبارات میں نمایاں خبریں بنگلہ دیش اور وہاں کے حالات کے بارے میں ہوتی تھیں۔ مجھے حالات حاضرہ سے متعلق جاننے کا خبط تھا۔ اسی وجہ سے سائرہ کے توسط سے شمع کے ساتھ قلمی دوست کا رشتہ استوار ہوگیا۔ یہ قلمی دوستی مجھے راس آگئی کہ دلچسپ مشغلہ تھا اور معلومات ملتی تھیں۔ شمع کے خطوط ایسے پُرمعنی ہوتے تھے کہ جی چاہتا اس سے ملوں۔ سائرہ دعا کرتی، اے اللہ ہمیں شمع سے ملا دے۔ جب دعا مسلسل کی جائے، ایک روز ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ ہماری دعا بھی قبول ہوگئی۔ ایک دن کالج گئی تو سائرہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ بتایا کہ خالہ عذرا اور شمع کچھ لوگوں کے ساتھ پاکستان آرہی ہیں، گویا جو آرزو کی تھی وہ پوری ہونے والی تھی۔ اس خبر کے ایک ماہ بعد وہ بہاری فیملی آگئی مگر ان کے ساتھ صرف شمع آئی تھی، اس کی والدہ پاکستان روانہ ہونے سے کچھ دن پہلے وفات پا گئی تھیں۔ مجھے اس سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ جب شمع نے بلایا، دوڑی گئی، وہ سائرہ کے گھر گئی۔ بہت پیاری اور پُرکشش لڑکی تھی۔ باتوں باتوں میں بتایا کہ اس کے والد بھی مغربی پاکستان کے رہنے والے تھے۔ ہنگاموں کے دوران جب مکتی باہنی نے عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا، وہ اپنی جان بچا کر لاہور چلے گئے۔ سوچا تھا حالات بہتر ہوجائیں گے تو واپس لوٹ آئیں گے مگر نہ آسکے اور یوں وہ ہم سے بچھڑ گئے، تقدیر نے پھر نہ ملایا۔ میں اس وقت کم سن تھی اور اپنے والد کی صورت بھی یاد نہیں۔ آج کل بنگلہ دیش میں ہم لوگوں کے حالات سازگار نہیں ہیں کیونکہ ہم بنگلہ دیشیوں کو وہاں غیر سمجھا جاتا ہے۔ میرے نانا نے ابو کو اجازت نہ دی کہ وہ اپنے ساتھ ہمیں یہاں لے آتے، بعد میں نانا بھی شہید ہوگئے۔ شمع کے حالات جان کر دکھ ہوا۔ باپ بچھڑ گیا تو ماں بھی نہ رہی اور اب وہ ایک لاوارث لڑکی کی حیثیت سے یہاں پہنچی تھی۔ سائرہ کے گھر والوں نے چند دن رکھا، پھر اس کے گھر کے کچھ افراد اعتراض کرنے لگے۔ جب ملنے گئی وہ رو رہی تھی، مجھے اس پر ترس آیا، میری کوئی بہن نہ تھی، امی سے اصرار کرکے شمع کو گھر لے آئی۔ شمع کے آ جانے سے میں بہت خوش تھی۔ اس کے روپ میں مجھے ایک بہن مل گئی تھی۔ امی ابو نے اسے بیٹی بنا لیا وہ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کچھ دن میں نے اسے پڑھایا تو اسے بھی میرے ساتھ کالج میں داخلہ مل گیا۔ تمام وقت کالج میں اس کے ساتھ رہتی۔ اپنی پرانی دوستوں کو بھی نظر انداز کردیا۔ ہم میں بہنوں جیسا پیار ہوگیا۔ بی اے تک ساتھ پڑھا، پھر میرے لئے ایک اچھا رشتہ آگیا۔ والدین نے غنیمت جانا کہ اچھے رشتے جلد نہیں ملتے، سو میری شادی حفیظ سے کردی۔ امی شمع سے خوش تھیں۔ ایک بیٹی بیاہی گئی تو دوسری پاس تھی۔ میری کمی محسوس نہ ہونے دی بلکہ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ امی ابو کا خیال رکھتی تھی۔ امی کہتی تھیں۔ اگر شمع ہمارے گھر کی روشنی نہ ہوتی تو تمہاری رخصتی کے بعد میں اپنے آنگن کے سونے پن کو کیسے سہہ پاتی۔ یہ ہے تو گھر میں رونق ہے۔ آنگن میں سونا پن بھی نہیں ہے۔ سچ ہے کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ جب میکے آتی، شمع کو امی کے ساتھ ایسے گھلی ملی دیکھ کر سوچتی تھی کہ زیادہ بیٹیوں کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ لگتا تھا کہ امی جان مجھ سے بھی زیادہ پیار شمع سے کرتی ہیں۔ شمع واقعی مجھ سے محبت کرتی تھی۔ تب ہی تو میرے گھر والوں سے بھی محبت کرتی تھی اور ان کی خدمت کرتے نہیں تھکتی تھی۔ جتنے دن امی کے گھر رہتی، وہ میرے لئے طرح طرح کے مزیدار کھانے بناتی، ہر طرح سے خیال رکھتی۔ مجھے اعتراف کرنا پڑتا کہ جس کی بہن نہ ہو وہ لڑکی بھی ادھوری ہوتی ہے۔ کچھ دنوں سے شمع میرے بغیر خود کو تنہا محسوس کرنے لگتی تھی، تب ہی امی جان نے اس کا داخلہ کرا دیا اور اس نے بی ایڈ کرلیا۔ مجھے بھی اس کی تنہائی کا احساس تھا لہٰذا اسے مشورہ دیا کہ تم جاب کرلو۔ ہمارے گھر کے نزدیک ایک اسکول میں اسے جاب مل گئی لیکن گھر سے آنے جانے میں دقت محسوس ہونے لگی۔ تب ہی حفیظ سے کہا، کیوں نہ میں شمع کو اپنے پاس رکھ لوں۔ البتہ چھٹی کے دو دن یہ امی جان کے پاس رہے گی۔ وہ کہنے لگے۔ تمہاری بہن ہے چاہو تو رکھ لو۔ مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ جس اسکول میں شمع کو ملازمت ملی، وہ حفیظ کے آفس کے پاس تھا۔ صبح آفس جانے سے پہلے میرے جیون ساتھی شمع کو رستے میں اس کے اسکول گیٹ کے قریب ڈراپ کرنے لگے۔ میں تو ایک صاف دل لڑکی تھی مگر میری ساس کو یہ بات نہیں بھائی کہ شمع روز حفیظ کے ساتھ جائے۔ وہ میرے کان کھانے لگیں کہ شمع اور حفیظ ایک ساتھ نہ جایا کریں۔ اس لڑکی کے آنے جانے کا تم کوئی اور بندوبست کرو۔ ایسا نہ ہو کل کلاں کوئی اور مسئلہ نکل آئے۔ شروع میں اماں جی کی باتوں پر کان نہ دھرے، لیکن کب تک میں بھی انسان تھی۔ دل میں خدشات نے جنم لیا تو شک و شبہات سر اٹھانے لگے اور میرا رویہ بدلنے لگا۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ آفس سے واپسی پر جب حفیظ نے شمع کو اسکول سے پک کیا تو اس نے کہا کہ اُسے بازار جانا ہے اور کچھ خریدنا ہے۔ حفیظ نے انکار نہ کیا کیونکہ وہ اب ہمارے گھر کا فرد تھی۔ حفیظ اسے لے کر بازار چلے گئے۔ اتفاق کہ اسی دن اماں جی مجھے بھی بازار لے گئیں۔ بات یہ تھی کہ میری سالگرہ کا دن تھا، اسی خوشی میں ایک جوڑا دلوانا چاہتی تھیں۔ جس دکان میں ہم خریداری کرنے گئیں وہاں حفیظ اور شمع پہلے سے موجود تھے۔ شمع آرٹیفیشل جیولری دیکھ رہی تھی۔ وہ تو میرے لئے تحفہ لے رہی تھی لیکن میں بدگمان ہوگئی جبکہ شمع کو خبر تھی آج میری سالگرہ ہے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ میرے لئے تحفہ خریدنے کا کہے تو میں اسے منع کردوں گی۔ تب ہی اس نے حفیظ سے کہا کہ اسے بازار لے چلیں۔ اب یہ تو سمجھنے کی بات تھی مگر میں نے غلط سمجھ لیا۔ سوچ مثبت ہو تو ایسا خیال دل میں جاگزین نہیں ہوتا۔ لیکن میں ایک عام سوچ رکھنے والی عورت تھی تب ہی وہم اور وسوسے کا شکار ہوگئی۔ یہ نہیں سوچا کہ وہ میری محبت میں تحفہ خریدنے آئی ہوئی ہے بلکہ یہی سمجھی کہ وہ اپنے لئے میرے شوہر کی جیب سے ہار سنگھار کا سامان لے رہی تھی۔ گھر آتے ہی اس پر برس پڑی کہ تم حفیظ کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھیں۔ وہ بھی سیدھی اسکول سے۔ گھر آکر میرے یا امی جی کے ساتھ بھی تو جاسکتی تھیں۔ اتنا اسے برا بھلا کہا بلکہ بغیر سوچے سمجھے جو جی میں آیا بکتی چلی گئی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ وہ میری سہیلی ہے اور میرے آسرے پر یہاں رہ رہی ہے۔ ایک لاوارث لڑکی ہے جس کا یہاں کوئی نہیں تھا۔ صحیح کہتے ہیں کہ غصے کی آندھی دماغ کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔ میں نے بھی غصے میں بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دیا کہ تم میری حقیقی بہن نہیں ہو۔ گھر میں یہ تماشے میں برداشت نہیں کرسکتی۔ اب جہاں سینگ سمائیں چلی جائو۔ اپنے پائوں پر کھڑی ہو، کرایے کا کوئی مکان تمہیں مل ہی جائے گا۔ جب بدگمانی سانپ بن کر ذہن میں کنڈلی مار لے تو آدمی کس قدر خودغرض ہوجاتا ہے۔ میں بھی شک کے الائو میں جل کر انسانیت کے درجے سے گر گئی۔ میں نے روتی ہوئی شمع کا خیال نہ کیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس بیچاری کا کیا ہوگا۔ لڑکی ذات ہے، بھرے شہر میں جہاں اس کا کوئی نہیں ہے، آخر یہ کہاں جائے گی۔ میری ساس تو بے حسی سے اسے اپنے کپڑے بیگ میں رکھتے دیکھ رہی تھیں۔ وہ تو دل سے چاہتی تھیں وہ یہاں نہ رہے۔ البتہ حفیظ پریشان و بے بس بت بنے کھڑے تھے۔ میرا غصہ دیکھ رہے تھے لہٰذا طرفداری بھی نہیں کرسکتے تھے۔ میرا خیال تھا وہ امی کی طرف جائے گی مگر وہاں نہ گئی بلکہ ان لوگوں کے پاس گئی جن کے ساتھ وہ بنگلہ دیش سے پاکستان آئی تھی۔ انہیں تھوڑا بہت حالات سے آگاہ کیا اور سائرہ کے ابو سے کہا کہ یہ لوگ مجھے اس وعدے پر لائے تھے کہ یہاں میرے ابو کا پتا کریں گے۔ بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے اس کنبے کے سربراہ کا نام عبدالعلی تھا۔ عبدل صاحب نے اسے تسلی دی کہ خاطر جمع رکھو اور تم یہاں ہمارے پاس رہو۔ میں ہر ممکن کوشش کرکے تمہارے والد کے بارے میں کھوج لگانے کی سعی کروں گے۔ اب وہ اپنے پائوں پر کھڑی تھی، اپنا بوجھ اٹھا سکتی تھی لہٰذا عبدل صاحب کی فیملی نے بھی اسے سہارا دیا اور رہائش کے لیے کمرا دے دیا۔ عبدل صاحب کے بنگلہ دیش میں ابو کے سابق شریک کار عبدالرحمٰن سے رابطہ کیا جنہوں نے شمع کی والدہ کے ایک عزیز کا پتا اور فون نمبر ان کو مہیا کردیا۔ یوں عبدل صاحب پاکستان میں شمع کے والد کا ایڈریس معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن یہ ایڈریس پرانا تھا اور اب شمع کے والد وہ مکان چھوڑ چکے تھے۔ بہرحال اسی پتے کے ذریعے تلاش بسیار کے بعد ایک صاحب مل گئے جو نئے مکان کا پتا جانتے تھے، انہوں نے پتا ہی نہیں فون نمبر بھی دیا۔ جب فون پر عبدل صاحب سے رابطہ کیا تو یہ میرے والد صاحب کا آفس نمبر تھا۔ والد صاحب نے کال ریسیو کی۔ عبدل صاحب نے ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یوں وہ ابو کے آفس پہنچ گئے۔ یہ بڑی اہم ملاقات تھی۔ عبدل نے ابو کو ایک تصویر دکھائی تھی جو شمع کی والدہ مرحومہ کے عزیز نے بھجوائی تھی۔ اس میں میرے والد اپنی بنگلہ دیشی بیوی کے ساتھ تھے۔ درمیان میں ایک ننھی منی بچی بھی تصویر میں موجود تھی اور یہ شمع تھی۔ والد صاحب کو خوشی بھی ہوئی اور رنج بھی ہوا کہ ان کی بیٹی ان کے گھر لاوارث ہوکر پہنچی اور پھر میں نے اس کے ساتھ بدسلوکی کرکے اسے چلتا کردیا۔ وہ بچی سے ملنے کو بے قرار ہوگئے۔ عبدل صاحب نے گھر آکر شمع کو یہ خوشخبری دی کہ حسن اتفاق سے تم نے جہاں پناہ لی، وہ تمہارے حقیقی والد کا گھر تھا اور تم دل آرام کی بہن ہو تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔ گھبرائی بھی کہ یہ کیسے ہوگیا جبکہ میں اسے موردِ الزام ٹھہرا چکی تھی۔ اب وہ ہماری جانب لوٹ کر آنا نہ چاہتی تھی۔ عبدل صاحب کے سمجھانے سے وہ اپنے حقیقی والد سے ملنے پر آمادہ ہوئی جو میرے ابو تھے۔ وہ اسے لے کر گھر آگئے۔ امی جان کے علم میں نہیں تھا کہ ان کے شوہر نے پہلے کبھی بنگلہ دیش میں کسی بہاری خاتون سے شادی کی تھی اور ایک بچی بھی ہوئی تھی۔ ابو نے مصلحت کے تحت نہیں بتایا تھا، مگر اب تو بتانا ضروری ہوگیا تھا۔ انہوں نے امی سے کہا کہ تقدیر نے مجھے ان لوگوں سے جدا کردیا تھا۔ میں نے بچی کا نام نائلہ رکھا تھا لیکن اس کی ماں نے بعد میں شمع رکھ دیا ہوگا۔ یہ ان دنوں ایک برس کی تھی جب میں مغربی پاکستان آیا، اس کے فوری بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ وہاں جانے کے راستے بند ہوگئے۔ اسی آس میں کچھ وقت بیت گیا کہ بیوی اور بچی کو بعد میں جاکر لے آئوں گا مگر ان لوگوں نے کسی اور سمت ہجرت کرلی اور ہمارے رابطے بھی ختم ہوگئے۔ پھر امی ابو نے مجھے تم سے شادی پر مجبور کردیا اور تقدیر نے مجھے عذرا اور نائلہ شمع سے دور کردیا۔ میں بیوی کے عزیزوں سے بھی رابطہ کی کوشش کرتا رہا لیکن ان کے ایک عزیز نے مجھے خط میں لکھ دیا کہ تمہاری بیوی اور بچی وہاں ہنگاموں میں ختم ہوگئی ہیں، تو میں نے قسمت کا لکھا سمجھ کر اس غم کو برداشت کیا اور صبر کرلیا۔ معلوم نہ تھا کہ زندگی کے اس موڑ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ معجزہ ہوگا اور میری بچی اس طرح میرے پاس آ جائے گی۔ عبدل صاحب کا احسان ہے کہ ہماری بیٹی سے ملا دیا ہے ورنہ یہ در در کی ٹھوکریں کھاتی اور خدا جانے اس کا کیا حشر ہونا تھا۔ امی جان نے کہا۔ امی جان ایک خدا ترس عورت تھیں، اچانک سوتیلی بیٹی کا سامنے آ جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہی تھی مگر اس خدا کی بندی نے اُف نہ کیا اور نہ کوئی شکوہ کیا بلکہ آگے بڑھ کر شمع کو گلے سے لگاکر بولیں۔ تم پہلے بھی جب یہاں رہی تھیں تو میری بچی بن کر رہی تھیں، آج بھی میری بیٹی ہو۔ اب تو یہ تمہارے ابو کا گھر ہے لہٰذا حق سے رہنا اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امی کے ان الفاظ نے ڈری سہمی شمع کے بدن میں نئی روح پھونک دی۔ وہ پھر سے جی اٹھی۔ جیسے اسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ تاہم مجھ سے ابھی تک خوفزدہ تھی۔ امی جان نے مجھے فون کرکے سمجھا دیا کہ دل آرام، شمع نے مجھ سے ساری بات بتا دی ہے، اس روز وہ تمہارے لئے سالگرہ کا تحفہ لینے گئی تھی۔ تم نے ناحق اس کو باتیں سنائیں اور دل دکھایا، اب آئو تو ذرا اپنے ذہن کو صاف کرکے آنا۔ شکر کرو کہ اس دنیا میں تم بالکل اکیلی نہیں ہو۔ تمہاری ایک بہن بھی ہے۔ جب میں نہ رہوں گی تو یہی تمہارے دکھ سکھ کی ساتھی ہوگی۔ میں تو پہلے ہی اس کے لئے پریشان تھی۔ پتا چلا کہ میرے پیارے ابو کی حقیقی بیٹی ہے تو ملنے کو بے قرار ہوگئی۔ جاتے ہی گلے لگ گئی اور اس سے معافی مانگی۔ وہ میری بڑی بہن تھی لہٰذا معافی مانگنا میرا فرض بنتا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن ہم بہنوں پھر کبھی تلخ کلامی نہیں ہوئی۔ ہمیشہ پیار و محبت سے ملتے ہیں۔ اب تو شمع آپا کی شادی ہوچکی ہے اور وہ چار بچوں کی ماں ہے۔ والدصاحب ان کی شادی اپنے ہاتھوں کرگئے تھے۔ جب شمع اپنے بچوں کے ساتھ آتی ہے تو رونق آ جاتی ہے۔ میرا گھر خوشیوں سے چہکنے اور مہکنے لگتا ہے۔ ہمارے والدین کی وفات کو کئی سال گزر گئے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد سے تو اور بھی زیادہ میں اپنی بہن کی قدر کرتی ہوں کہ اب یہی میرے لئے والدین کی جگہ ہے۔ بہن اور دوست ہی نہیں میرے دکھ سکھ کی ساتھی اور غمگسار بھی ہے۔ د لاہور | null |
null | null | null | 281 | https://www.urduzone.net/kaash-keh-complete-story/ | جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے ، دروازے سے ہی اسے آواز لگائی اور اس نے جلدی سے نکل کر ان کے ہاتھ سے شاپر تھام لئے ۔ وہ صحن میں لگے واش بیسن پر منہ ہاتھ دھونے لگے۔ ابو کھانا لگا دوں۔ وہ پھلوں کو شاپر سے نکال کر باسکٹ میں رکھتے ہوئے بولی۔ ہاں بیٹا لگا دو بھوک بھی بڑی زور سے لگی ہے اور نور دین نظر نہیں آرہا۔ نوردین ان چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ نام سے لگتا تھا کہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہو گا، نام رکھتے ہوئے امی کی ایک اپنی ہی سوچ تھی۔ بہنوں نے کتنے ہی پیارے پیارے نام سوچے تھے مگر انہوں نے صاف کہہ دیا میرے بیٹے کا نام نور دین ہی ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو میرا بچہ دین کی روشنی پھیلانے کا کام کرے گا انشا اللہ، اپنے نور دین کو عالم بناؤں گی، امی کی خواہش دیکھتے ہوئے وہ سب بھی راضی ہو گئے۔ اس کے مدرسے سے فون آیا تھا کسی دوسرے شہر سے مفتی صاحب تقریر کے لئے آرہے ہیں۔ اس لئے جلدی کھانا کھا کر اپنے دوست کے ساتھ چلا گیا۔ چلو اچھا ہے، نیکی کی بات سننے سے بھی طبیعت نیکی کی طرف مائل رہتی ہے۔ ابو مطمئن ہو گئے۔ اس نے جلدی جلدی کھانا لگایا اور تینوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے، کھانے سے فارغ ہوئے تو ابو نے چائے کی فرمائش کر دی۔ وہ برتن سمیٹ کر چائے بنانے چل دی اور امی ان سے دن بھر کی مصروفیت پوچھنے لگیں۔ ابو نے جیب سے چند ہزار کے نوٹ نکال کرامی کو تھمائے، جو انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر تھام لئے۔ کام تو ٹھیک چل رہا ہے ناں غفار۔ رب کا بڑا کرم ہے اپنی بیٹیوں کے نصیب سے اس نے رزق کے دروازے کھول رکھے ہیں ہم پر۔ وہ عشنا کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے بولے۔ بیٹا جاؤ اپنی امی کے لئے پھل کاٹ کر لے آؤ۔ وہ جانتے تھے کہ امی چائے نہیں پیتیں۔ وہ جلدی سے پھل کاٹنے کے لئے اٹھی، تو امی نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ابھی میرا جی نہیں چاہ رہا۔ اری نیک بخت کھالو، بعد میں بھی تو گلا کرکھاؤ گی۔ اور یہ بات سنتے ہی امی کو پتنگے لگ گئے۔ ہاں گلا کر ہی کھاؤں گی، ساری عمر تمہاری ماں نے مجھے گلے سڑے پھل ہی دیئے کھانے کو، تو اب یہ تازہ پھل میرے حلق سے کیسے اتریں گے۔ امی کا دکھڑا شروع ہوگیا اور ابو ہنستے ہوئے بولے۔ اب تو بخش دو ہماری مرحومہ ماں کو، جب تم ساس بنو گی تو دیکھوں گا کتنی اپنائیت اور چاہت کا سلوک کروگی اپنی بہو کے ساتھ۔ ہاں زندہ رہی تو دکھاؤں گی بیٹیوں سے بڑھ کر چاہوں گی، صرف زبانی کلامی نہیں کہہ رہی عملاً کر کے دکھاؤں گی۔ امی سینے پر ہاتھ مار کے بولیں۔ تمہاری ماں کی طرح کولہو کا بیل بنا کر نہ رکھوں گی آزادی سے جینے کا حق دوں گی۔ ابو کے ماتھے پر ہلکی سی شکنیں ابھر آئیں۔ اس سے پہلے کہ بحث طول پکڑتی اس نے ابو کو عشا کی اذان کی طرف متوجہ کیا اور وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے وضو کرنے چل دیئے اس کی ہنسی نکل گئی، ان دونوں کے درمیان ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی ہی رہتی تھی مگر دونوں ایک دوسرے کا خیال بھی بہت رکھتے تھے۔ ہاں بھئی آج کی شاپنگ نے تو بہت تھکا دیا ۔ حرا باجی نے شاپر کارپٹ پر پھینکے اور خود صوفے پر دراز ہوگئیں۔ عشنا جلدی سے بہن کے لیے پانی لے آؤ۔ امی لاؤنج سے ہی پکاریں اور وہ جھٹ سے پانی کا گلاس لے آئی۔ تھکی ہوئی تو میں بھی ہوں حرا باجی مگر آپ تو ایسے ظاہر کر رہی ہیں جیسے اکیلی شا پنگ کر کے آئی ہیں۔ حرا سے چھوٹی نمرا نے شکوہ کیا۔ ارے میری بہن تم تو جوان چھڑی چھانٹ ہو، ابھی سے تمہیں کیوں تھکن ستانے لگی ۔ میں چار بچوں کی ماں، بھلا مجھ میں اب تمہاری جیسی سکت کہاں۔ وہ پانی کا گلاس عشنا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں۔ نمرا کی شادی کو تین سال ہو گئے تھے اور ابھی کوئی بچہ بھی نہ تھا۔ صحیح تو کہہ رہی ہے سارا دن گھر کے کاموں میں نوکروں کی طرح جتی رہتی ہے، جوان نندیں ہل کر پانی تک نہیں پیتیں۔ میری پھول سی بچی کملا کر رہ گئی ۔ اس کی محبت امڈ آئی اور فوراً ان کا سر دبانے لگیں۔ حرا باجی فوراً ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔ گناہگارنہ کیا کریں آپ چھوڑیں یہ دیکھیں کتنے خوبصورت سوٹ خریدے ہیں عشنا کے سسرال والوں کے لیے۔ وہ ایک ایک کر کے سوٹ نکال کر دکھانے لگیں وہ بھی اشتیاق سے دیکھنے لگی سوٹ واقعی بہت خوبصورت تھے۔ یہ دیکھیں ساس کا جوڑا کتنا پیارا ہے کیسی نفیس ایمبرائیڈری ہوئی ہے۔ نمرا نے ایک سوٹ نکال کرامی کے ہاتھ میں تھمایا وہ جوڑا ہاتھ میں لے کر خاموش سی ہو گئیں۔ کیا بات ہے امی سوٹ پسند نہیں آیا ارے نہیں بیٹا سوٹ سارے ہی بہت پیارے ہیں ، بس اللہ کرے اس کے سسرال والوں کو پسند آجائیں۔ انہوں نے عشنا کی طرف دیکھا۔ ارے واہ کیوں پسند نہیں آئیں گے کوئی بھی سوٹ تین ساڑھے تین ہزار سے کم کا نہیں ہے، رنگ، ڈیزائن، کڑھائی ہر چیز منفرد ہے۔ نمرا تنک کر بولی۔ چلو آج تم دونوں بہنوں نے یہ کام بھی مکمل کر دیا۔ اللہ تمہیں اپنے گھروں میں آباد اور خوش رکھے۔ اللہ میری عشنا کو بھی ڈھیر ساری خوشیاں دئے۔ امی آبدیدہ ہوگئیں۔ آپ خدشات کو ذہن سے جھٹک دیں بس اللہ سے اس کے اچھے نصیب کی دعا کیا کریں۔ ماؤں کی دعا ئیں اللہ ضرور سنتا ہے۔ حرا باجی نے ان کو تسلی دی۔ عشنا چلو اٹھو جلدی سے کھانا لگاؤ قسم سے پیٹ میں چوہوں کی بڑی زبردست ریس شروع ہو چکی ہے۔ نمرا نے عشنا کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور دونوں بہنیں کھانا لگانے چل دیں۔ شادی کی ڈیٹ فکس ہوتے ہی تیاریاں بھی عروج پر پہنچ گئیں، تینوں بہنیں خوب دل سے اپنی سب سے چھوٹی لاڈلی بہن کی شادی کی تیاری کر رہی تھیں۔ وہ تھی ہی ایسی ہر ایک کا خیال رکھنے والی ہمدرد، پرخلوص، بھانجوں، بھانجیوں میں تو اس کی جان تھی۔ کوئی بھی بہن میکے آجاتی خوب خدمت کرتی ان کے بچے سنبھالتی اور وہ اسے دعائیں دیتے نہ تھکتی، بہنوئیوں کی بھی خوب دل سے عزت کرتی اور وہ تینوں بھی اس سے بہت خوش تھے۔ امی بار بارا سے اپنے ساتھ لپٹاتیں، نصیحت کرتیں صبر و شکر کے ساتھ سسرال میں رہنے کی تلقین کرتی اور وہ چپ چاپ ان کی باتیں سنتی رہتی۔ ماں باپ سے جدائی کا خیال اس کی آنکھوں کو پانیوں سے بھر دیتا اور چھوٹا بھائی نور دین وہ تو باقاعدہ اس کے گلے لگ کر رونا شروع کر دیتا۔ عشنا آپی میرا آپ کے بغیر دل کیسے لگے گا میرے کپڑے کون پریس کرے گا اور میرے دوستوں کو اتنے مزے مزے کے کھانے کون بنا کر کھلائے گا۔ ایسی باتیں سب کر وہ اداس ہو جاتی۔ تمہاری پڑھائی مکمل ہونے میں صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں ماشا اللہ پھر تو تم عالم دین بن جاؤ گے اور امی فوراً ہی تمہارے سر پر سہرا سجا دیں گی۔ بس پھر تنہائی ختم اور ہر سال بچوں کی انٹری شروع ، کیونکہ مولانا صاحب فیملی پلاننگ کے حق میں تو ہونے سے رہے۔ عروج نے اس کے شرارت سے بال بکھیرے تو وہ جھینپ گیا اور سب ہنس پڑے۔ اسی طرح ہنستے گاتے ، آنسو بہاتے وہ دن بھی آگیا۔ جب باپ کے گھر کی دہلیز پار کر کے اپنے مجازی خدا کے گھر کو رونق بخشی تھی۔ باپ کی کندھے بیٹی کی جدائی پر جھک گئے ، چہرے پر صدیوں کی تھکن اتر آئی۔ جیسے آج چوتھی بیٹی بھی وداع کر کے اپنا سب کچھ ہار دیا ہو ، نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر کل جمع پونچھی لٹادی ہو۔ بھائی کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ بہنوں کے ہاتھ اور ماں کے کانپتے لب مسلسل اس کی خوشیوں کے لئے دعا کر رہے تھے۔ اور وہ روتے سکتے ماں باپ کو چھوڑ کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنے اصل گھر کی طرف روزانہ ہوگئی۔ وہ بیاہ کر فیصل آباد جارہی تھی جو اس کے شہر سے چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ ارے بھئی فائزہ اسے کسی طرح چپ کراؤ مجھے تو خفقان ہونے لگا ہے۔ الله معاف کرے ماں باپ ایسے بلک رہے تھے، جیسے پہلی بار کسی بیٹی کو رخصت کیا ہو۔ انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اپنے چاروں فرضوں سے سبکدوش ہو گئے۔ بھائی ایک طرف اشکوں کی برسات لئے کھڑا ہے تو بہنوں کی آنکھوں سے ساون کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ تو یہ لگتا تھا کہ آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا ہو۔ قدرے ناگواری سے بولتی ساس نے ایسے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو اس کی ہچکیوں کو بریک لگ گئے اور باقی کا سفر خاموشی سے گزارنے پر مجبور ہو گئی مگر اب آنسواس کے دامن پر نہیں اس کے دل پر گر رہے تھے۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی اسے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ ماؤں کے تجربات کچھ غلط نہیں ہوتے۔ واقعی سسرال میں ہر لمحہ کا نپتے ہوئے ہی گزرتا ہے کہ خدا جانے کب کسی بات پر قہر نازل ہو جائے۔ اس کی سسرال والوں نے منگنی کے عرصہ کے دوران جو شرافت و محبت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ایکدم ہی اتار کے دریا برد کر دیا۔ لگتا ہی نہ تھا کہ یہ وہی ساس نندیں ہیں، جو واری صدقے ہوتی تھیں۔ ان کے منہ سے باتیں کرتے پھول جھڑتے تھے۔ اور وہ ان کی مومنہ صورتیں دیکھ کر دل سے ہر خدشے کو جھٹک دیتی تھی اور تصور میں ایک مشفق ماں، پیار لٹاتی نندیں دیکھتی اور اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہ رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں ناں ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ان کے اس دوغلے پن اور منافقانہ رویے پر اس کا دل کڑھ کے رہ جاتا صبح سے شام تک کاموں میں ایسی غرق ہوتی کہ اپنا ہوش ہی نہ ہوتا۔ شوہر سے بھی شکوہ بیکار تھا کیونکہ اس نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا مجھے یہ ساس بہو کے جھگڑے سے ذرا دور ہی رکھنا۔ امی اور بہنوں کے فون آتے تو جلدی سے بات کر کے بند کر دیتی۔ اور وہ یہی شکوہ کرتیں کہ کبھی دو گھڑی فرصت سے بات بھی کر لیا کرو کیا بتاتی ان کو کہ فرصت ہو تو بات کروں ایک کے بعد ایک کام تیار ہوتا۔ ویسے بھی جب وہ فون سن رہی ہوتی نندیں دروازے سے کان لگائے کھڑی ہوتیں۔ ایسے حالات میں وہ ان سے کیا باتیں کرتیں تو ٹھیک تو ہے ناں گڑیا سب تیرے ساتھ صحیح رہ رہے ہیں ناں ایک دن حرا باجی نے پوچھ ہی لیا اور وہ جھٹ سے بولی۔ میں بہت خوش ہوں باجی سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس نے آنسوؤں کی نمی کو اپنے اندر اتارا۔ اللہ تمہیں خوش رکھئے وہ مطمئن سی ہو گئیں۔ آج کل وہ امی کے گھر رہنے آئی ہوئی تھی اور ابو بھائی سب اس کا بے حد خیال رکھ رہے تھے۔ میکے آکر احساس ہو کہ آزادی کیا چیز ہوتی ہے۔ مرضی کی سانسیں کیسے لی جاتی ہیں۔ بہنیں ایک شہر میں ہونے کی وجہ سے روز ملنے آجاتیں اور گھر میں خوب رونق ہو جاتی۔ سچ بتانا عشنا سب کا رویہ تیرے ساتھ ٹھیک تو ہے۔ امی کھوجتی نظروں سے پوچھتیں تو وہ اثبات میں سر ہلا دیتی۔ تو اتنی کمزور کیوں ہوگئی ہے عدنان بیٹا تو تیرا خیال رکھتا ہے ناں۔ انہوں نے پھر سے سوال داغا۔ سب بہت اچھے ہیں عدنان بھی میرا خیال رکھتے ہیں بس آپ کی دوری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے اور امی نے فورا ہی ہو کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ صبح سے اس کی طبیعت عجیب سی ہورہی تھی اور سر بھی چکرا رہا تھا۔ امی نے جب اس کی یہ کیفیت دیکھی تو فوراً حرا باجی کو فون کر کے بلا لیا اور ان کے ساتھ ڈاکٹر کی طرف روانہ کیا۔ وہیں ڈاکٹر کی زبانی یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ وہ ماں کے رتبے پہ فائز ہونے والی ہے۔ شادی کے بعد جس خبر نے پہلی بار اس کی لبوں پہ مسکراہٹ کے پھول بکھیرے تھے۔ وہ یہی خبر تھی ، ماں بننا عورت کی اولین خواہش بھی ہوتی ہے۔ اور خوش نصیبی بھی، چند دن امی کے گھر رہنے کے بعد وہ عدنان کے ہمراہ اپنے گھر آگئی، ماں نے بے تحاشا چیزیں اور دعائیں دے کر رخصت کیا تھا، شوہر کو جب یہ خبر سنائی تو اچھا کہہ کر خاموش ہو گئے، نہ خوشی اور نہ ہی کوئی خوش آئند بات۔ ساس نندیں حتی کہ سسر نے بھی اس خبر پہ کوئی خاص تاثر نہیں دیا۔ اور وہ ان کے اس رویے پر حیران رہ گئی کہ دادا دادی بننے کی خوشی ان کے چہروں سے کیوں ظاہر نہیں ہوتی۔ اس خبر کے بعد بھی ان کے رویوں میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ ساس بیماری کا بہانہ بنا کر لیٹ جاتیں ، نندوں کو ٹی وی ڈراموں سے فرصت نہ تھی۔ ویسے بھی ان کو کوئی کام کہہ دینا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مساوی تھا۔ اس کی طبیعت میں ہر وقت کسلمندی رہتی، نیند کا غلبہ رہتا مگر کیسا آرام اور کہاں کی نیند، ہاں اتنا فرق ضرور پڑا تھا کہ عدنان کچھ خیال کر لیتے تھے کبھی کبھار چوری چھپے کوئی کھانے کی چیز بھی لے آتے ۔ سرِعام تو بیوی کے لیے کچھ لانے کی اجازت نہ تھی ۔ دستر خوان ایک بار لگتا کسی کو بھوک ہے یا نہیں، کھانا ہے تو کھائے ، ورنہ بھاڑ میں جائے۔ کچن کو تالا لگا دیا جاتا جو کہ شام کوہی کھلتا اور اس گھٹیا پن پر حیران و پریشان کہ کیا سسرال میں کھانے پینے کی بھی آزادی چھن جاتی ہے، پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور اس کی طبیعت ایسی ہو رہی تھی کہ جب کھانا سامنے ہوتا تو دیکھنے کو بھی دل نہ کرتا اور بعد میں بھوک ستاتی تو کچھ کھانے کونہ ملتا، شرمندگی سے خاموش رہتی۔ پیٹ میں بھوک سے بل پڑ جاتے۔ آج تو ڈھیٹ بن کر ساس سے کچن کی چابی مانگ لی جوناگواری سے ہاتھ میں اس طرح پکڑائی کہ وہ شرم سے زمین میں گڑ گئی، کچن کھول کر اس نے جلدی جلدی وہیں پر بڑے بڑے نوالے کھانے شروع کر دیئے ۔ شکر ہے ہاٹ پاٹ میں روٹی موجود تھی۔ وہ بری طرح کھانے میں مصروف تھی کہ فائزہ یکدم کچن میں داخل ہوئی۔ توبہ ہے پتا نہیں لوگ کیسے چار چار ٹائم کھا لیتے ہیں اور کھایا پیا نظر تک نہیں آتا۔ اس نے عشنا کی پتلی جسامت پر طنز کیا اور نوالہ اس کی ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ حلق میں آنسوؤں کا پھندا بن گیا اور وہ چپ چاپ کچن سے باہر نکل آئی کمرے میں آ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ تو عشنا صاحبہ یہ ہے تمہاری سسرال میں اوقات کہ نوالے بھی گئے جاتے ہیں۔ امی کی باتیں کتنی سچ ثابت ہوئیں تھیں، وہ جب کبھی سسرال کا ذکر شکوؤں میں کرتیں تو وہ اکثر مبالغہ آرائی کا نام دے دیتی مگر اب اندازہ ہو رہا تھا کہ سسرال والے کسی حد تک بھی گر سکتے ہیں۔ سسرال میں اس کی پہلی شب برات تھی اور ساس نے پہلے ہی سنانا شروع کر دیا۔ فلاں کی بہو اتنے من شب برات لے کر آئی تھی پتا نہیں بہو کے میکے والے کیا لے کر آئیں گے کہیں ہماری ناک ہی نہ کٹ جائے اگر شاپروں میں شب برات کا سامان لے کر آگئے۔ اماں کچھ اچھی امید نہ رکھو بھابھی کے گھر والوں سے ، شادی پر دیکھا تھا کیسا کھانا دیا تھا، کسی کو بھی پسند نہیں آیا تھا۔ کیسی ہنسی اڑی تھی ہماری نند نے لقمہ دیا۔ وہ چپ چاپ کچن میں کام کرتی رہی اور ان کی باتیں سن کر جلتی رہتی، ایسی ہی سماعتوں کو چھید دینے والی باتیں کانوں سے ٹکراتیں رہتیں اور وہ ضبط کی تصویر بنی کاموں میں الجھی رہتی۔ ابو نے شادی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ بہت شاندار انتظام کیا گیا تھا کئی ڈشز بنوائی گئی تھیں اور کھانا بھی بہت لذیز تھا۔ ہر ایک نے تعریف کی تھی، دیکھنے والوں نے یہی کہا لگتا نہیں ہے غفار کی چوتھی بیٹی کی شادی ہے۔ یوں لگ رہا ہے پہلی بیٹی بیاہ رہا ہے، جہیز میں کون سی ایسی چیز تھی جو اسے نہ دی گئی ہو۔ اعلی سے اعلی چیزیں تھیں مگر اس میں بھی کیڑے نکالے جاتے چیزوں کو حقارت سے دیکھا جاتا۔ اماں صوفہ دیکھنا ذرا، کیا دھان پان سا ہے اسے تو اٹھا کے سائیڈ پر رکھوا دو، ذرا سا کوئی صحت مند بیٹھا اور یہ تڑاخ سے ٹوٹا کہیں بے عزتی ہی نہ ہو جائے۔ چھوٹی نند صوفے پر بیٹھ کر جانچتی ہوئی بولی اور وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا، ماں کی نصیحتیں جو گرہ میں باندھی تھیں چاہتے ہوئے بھی نہ کھول پائی۔ وہ ماں کو شرمندہ نہیں کروانا چاہتی تھی، ان کی تربیت پر حرف آئے وہ یہ کسی طور پر گوارا نہیں کر سکتی تھی، ہر ظلم، زیادتی ، چپ چاپ برداشت کرتی چلی گئی، ساتواں مہینہ شروع ہوتے ہی ایک نیا شوشا ساس نے چھوڑ دیا۔ بہو میکے والوں کو خبر کر دو کہ ہم ستوانسہ لگارہے ہیں۔ مگر امی یہ تو ہندوانہ رسم ہے اب کون یہ رسمیں کرتا ہے اور اچھا بھی نہیں لگتا۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔ ارے واہ کیوں اچھا نہیں لگتا، میرے بچے کی پہلے خوشی ہے میں تو ضرور کروں گی اور ہاں میں بتادوں گی کہ رسم میں کیا کچھ لے کر آتے ہیں۔ میں کہے دیتی ہوں اماں سے کہہ دینا کسی چیز کی کوئی کمی نہ ہو، سارے رشتہ دار ا کٹھے ہونگے۔ میری سبکی نہ کروا دینا سوا من مٹھائی سے کم بات نہیں چلے گی، ساس سسر کے جوڑے، شوہر کا سوٹ، جوتوں، جراب سمیت ۔ اور پتا نہیں وہ کیا کیا فہرست بنا رہی تھیں وہ چکرا کر رہ گئی۔ میرے اللہ میرا باپ کیا اسی طرح لگتا رہے گا، بوڑھے و ناتواں کندھے بیٹیوں کے سسرال والوں کی فرمائشیں پوری کرتے اب تو جھک سے گئے تھے۔ شوہر سے جب اس کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی۔ بھئی مجھے تو تم ان معاملات میں نہ گھسیٹو یہ تم عورتوں کا معاملہ ہے اماں جو بہتر سمجھتی ہیں وہی کریں گئی۔ اور وہ ان کی بات سن کر سر تھام کر رہ گئی۔ ستوانے کی رسم پر اسے اپنی امی کے ساتھ بھیج دیا گیا اور وہ دل میں شکر ادا کرنے لگی کہ جسمانی و ذہنی اذیت اٹھاتے اب وہ تھک چکی تھی اگر کچھ دن اور یہاں رہتی تو دماغ کی رگیں پھٹ جاتیں، امی صبح شام اس کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھتیں، ابو نے اس کی شادی کے بعد ایک مستقل ملازمہ رکھ لی تھی تا کہ امی کو کام کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو اپنا گھر اسے جنت کا ایک ٹکڑا لگتا۔ جہاں ممتا لٹاتی ماں محبت سے لبریز باپ کا کشادہ سینہ اور بہن بھائی کی چاہتیں یہاں آکر وہ اپنے آپ کو ایک زندہ وجود محسوس کرنے لگی میرا بچہ میری خوشیوں کا محور یقینا اس کے آنے سے میرے سارے غم و کلفتیں راحتوں میں بدل جائیں گی۔ امی نے اس کے بچے کے لیے ڈھیروں ڈھیر چیزیں خریدنی شروع کر دیں اور وہ خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کرتی رہتی کہ آخر یہ کب تک دینے کا سلسلہ چلتا رہے گا ، عدنان کا اکثر فون آجاتا اس کی خیریت دریافت کرتے اور وہ اسی میں خوش ہو جاتی کل رات سے اسے بخار ہورہا تھا، طبیعت بھی عجیب سی خراب ہورہی تھی اس کی حالت کے پیش نظر حرا باجی اسے ڈاکٹر پر لے گئی جہاں انہوں نے چیک اپ کے بعد فوراً ایڈمٹ کر لیا کیونکہ اس کی کنڈیشنڈ کچھ ایسی پیچیدہ ہورہی تھی کہ انہوں نے فوری آپریشن کی تیاری شروع کر دی، اس کے سسرال والوں کو مطلع کر دیا گیا، ابو صدقہ و خیرات کرنے میں مصروف ہو گئے ، امی کے وظیفے شروع ہو گئے اور بہنیں عشنا کو تسلی دینے لگیں اور وہ وسو سے لئے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو گئی۔ اسے اپنے آس پاس ڈھیروں لوگوں کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کچھ عجیب سا شور شرابا تھا، عدنان اور ان کی امی کی باتوں کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور امی کو اپنے پاس کھڑا ہو پایا، سامنے ہی بینچ پر ساس گود میں بچہ لئے بیٹھی تھیں۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر عدنان بھی اس کے پاس چلے آئے۔ میں میں کہاں ہوں امی بیٹا تم ہاسپٹل میں ہو، میرے رب نے تمہیں چاند سی بیٹی عطا کی ہے۔ امی نے اس کا ماتھا چوم لیا اور عدنان بھی اس کا ہاتھ پکڑ کر مسکرا دیئے۔ مگر اس کے ہونٹ بیٹی کا لفظ سن کر خشک ہو گئے۔ پورے جسم پر ایک کپکپی سے طاری ہو گئی۔ بیٹی بیٹی میری بیٹی ہوئی ہے مگر مجھے تو بیٹی نہیں چاہیے تھی میں بیٹی کی ماں کیوں بنی ۔ شکوہ اس کے لبوں پہ مچلا۔ کیسی باتیں کر رہی ہو بیٹی تو خدا کی طرف سے تحفہ ہے رحمت آئی ہے تمہارے گھر میں امی قدرے برہم ہوئیں ہاں میں جانتی ہوں کہ میری جھولی میرے اللہ نے رحمت سے بھر دی ہے مگر عدنان ہم بیٹی کو پال پوس کر اچھی تربیت و تمام خواہشات پوری کر کے جب اسے اپنے گھر سے رخصت کریں گے تو ہم کیسے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت کریں گے، اللہ نہ کرے اگر میری بیٹی بھی میرے جیسا نصیب لے کر پیدا ہوئی تو اس کے دکھوں کی اذیت تو ہمارا دل چیر دے گی، اسے شکم سیری بھی نصیب نہ ہوئی تو نوالے تو ہمارے حلق میں ہی اٹک جائیں گے تم اپنی بیٹی کو دنیا کی ہر نعمت دے کر بھیجو گے اور اس کے سسرال والے پھر بھی اسے چین سے نہ جینے دیں تو تم کیسے سکون کی نیند سو سکیں گئے۔ وہ ہذیانی انداز میں عدنان کا گریبان پکڑ کر چیختے ہوئے بولتی جا رہی تھی، عدنان نے ندامت سے گردن جھکالی تھی اور ساس اس سے نظریں چرا کر بچی کو پیار کرنے لگیں، امی اس کے دکھوں سے باخبر ہو کر سسکیاں لے رہی تھیں۔ اور عشنا کی آنکھوں سے تواتر سے بہتے اشک تکیے میں جذب ہوتے جارہے تھے ۔ آج اسے احساس ہوا کہ بیٹیوں کی مائیں بیٹی کی پیدائش پر کیوں بجھ سے جاتی ہیں اور دل میں کہیں یہ خواہش ضرور سر پٹیخ رہی ہوتی ہے کہ کاش میں بیٹے کی ماں بنتی اے کہ کاش۔ | null |
null | null | null | 282 | https://www.urduzone.net/hazrat-sheikh-saleem-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 283 | https://www.urduzone.net/nakarda-gunnah-ki-saza-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 284 | https://www.urduzone.net/jana-tujhe-jab-jana-episode-2/ | null | null |
null | null | null | 285 | https://www.urduzone.net/khuwab-toot-jate-hain-teen-auratien-teen-kahaniyan-2/ | null | null |
null | null | null | 286 | https://www.urduzone.net/god-father-episode-14/ | null | null |
null | null | null | 287 | https://www.urduzone.net/god-father-episode-15/ | null | null |
null | null | null | 288 | https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-44/ | null | null |
null | null | null | 289 | https://www.urduzone.net/aulad-kam-na-aye-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | خالہ نے میری پرورش کی اور جب میں پندرہ برس کی ہوئی تو انہوں نے میری شادی اپنے اکلوتے بیٹے نعیم سے کردی۔ نعیم میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ زیادہ امیر نہ تھے مگر اتنا کما لیتے تھے کہ ہم خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے۔ سات برس ہماری ازدواجی زندگی رہی۔ اس دوران دو بیٹے اور ایک بیٹی نے جنم لیا۔ خالہ ساس بن گئی تھیں مگر ماں جیسی محبت اب بھی کرتی تھیں۔ مجھ سے زیادہ میرے بچوں کو سنبھالتیں۔ ان کی تمام دیکھ بھال وہی کرتی تھیں۔ ہمارا گھر سکون کا گہوارہ تھا کہ اچانک وقت نے کروٹ لی اور سکون کا یہ آشیانہ تنکا تنکا ہوگیا۔ ایک روز نعیم کام سے لوٹے تو تھکے تھکے تھے۔ میں نے کھانے کا پوچھا تو کہا۔ کھانا ابھی نہیں کھائوں گا، پیاس لگی ہے، ٹھنڈا شربت دے دو۔ یہ کہہ کر وہ چارپائی پر لیٹ گئے اور میں کچن میں شربت بنانے چلی گئی۔ کچن سے لوٹی تو وہ آنکھیں بند کئے لیٹے تھے۔ میں نے آواز دی۔ نعیم کیا سو گئے شربت پی لیں۔ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ سمجھی واقعی سو گئے ہیں۔ شربت کا جگ واپس لے آئی اور کچن میں رکھ دیا کہ جب نیند سے جاگیں گے تو پی لیں گے۔ دو گھنٹے گزر گئے۔ انہوں نے کروٹ نہ لی۔ میں بچوں میں لگی رہی۔ خالہ بازار سے سودا سلف لے کر لوٹیں تو نعیم کو دراز پایا۔ بولیں۔ نعیم آگیا کیا اور یہ بے وقت کیوں سو رہا ہے اب تو مغرب ہونے کو ہے، جگادو، ورنہ رات کو نیند نہیں آئے گی۔ میں ان کے قریب گئی۔ جگانے کے لیے کندھا ہلایا مگر وہ نہ اٹھے۔ دراصل ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے بڑے ضرور تھے لیکن یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ اتنی جلدی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ مجھ پر تو جیسے قیامت ٹوٹ گئی۔ ماں، باپ سے محروم تھی۔ خالہ کا بھی بیٹے کے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ بھی نعیم کے جانے کی وجہ سے بے آسرا ہوگئی تھیں۔ اب تین چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا اور ہم دو لاچار عورتیں میں پڑھی لکھی نہ تھی اور وہ عمر رسیدہ تھیں۔ دونوں ہی نوکری کرنے سے معذور تھیں۔ غرض نعیم کے بعد ہم پر برے دن آگئے یہاں تک کہ گھر میں پھوڑی کوڑی بھی نہ رہی۔ ہم تو فاقے برداشت کرلیتے لیکن میری ساس سے پوتوں اور پوتی کا بلکنا دیکھا نہ جاتا تھا۔ ان دنوں ان کی دل جوئی کو نعیم کے ایک دوست وحید آنے لگے۔ جب انہوں نے ہمارے گھر میں فاقے دیکھے تو مالی مدد کرنے لگے۔ وہ میری ساس کے بیٹے بنے ہوئے تھے۔ شادی شدہ نہ تھے۔ ایک دن خالہ سے کہا۔ ماں جی کوئی لڑکی نظر میں ہو تو میری شادی کرادو چاہے بیوہ ہی کیوں نہ ہو۔ خالہ اس کا اشارہ سمجھ گئیں۔ ایک روز مجھے سمجھانے لگیں۔ بیٹی میں بوڑھی ہوں۔ آج ہوں کل نہیں ہوں گی۔ تم جوان ہو اور عمر بھر تنہا زندگی نہیں گزار سکتیں۔ بچوں کو بھی سہارے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہے دوسری شادی کرلو۔ خالہ جی قیامت کے دن نعیم کو کیا منہ دکھائوں گی اور بچوں کا کیا بنے گا۔ جب میری ماں نے بیوگی کے بعد دوسری شادی کرلی تو میں نے سوتیلے باپ کو قبول نہ کیا تھا اور آپ کے پاس آگئی تھی تو میرے بچے کیونکر کسی دوسرے شخص کو باپ کی جگہ قبول کریں گے۔ وہ اس سے ہی نہیں مجھ سے بھی نفرت کرنے لگیں گے پھر یہ ضروری تو نہیں کہ سوتیلا باپ ان کی پرورش کو بوجھ نہ سمجھے اور ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا رویہ رکھے۔ اگر اس نے برا سلوک کیا، تب کیا ہوگا جب گھر میں مسلسل فاقے ناقابل برداشت ہوگئے اور بچے بیمار رہنے لگے، دوا کی استطاعت نہ رہی تو میری ساس مجھ سے زیادہ بچوں کی حالت پر رویا کرتی تھیں۔ وہ بار بار سمجھاتی تھیں کہ تم بچوں کی خاطر دوسری شادی کرلو اور باقی سب مجھ پر چھوڑ دو۔ ابھی ان مسائل کے حل کرنے کا وقت ہے، بعد میں پچھتائو گی۔ وحید ایک ماہ میں دو تین بار ہمارے گھر بچوں کی خیریت دریافت کرنے آتا تھا۔ ساس نے اشارے کنایے، پھر صاف الفاظ میں سمجھایا کہ یہ آدمی اچھا ہے۔ دیکھا بھالا ہے، بچوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہے۔ کل ہم نہ رہے، تمہارے بچے فاقوں سے مر جائیں گے یا سڑکوں پر بھیک مانگیں گے۔ اپنی خاطر نہ سہی، میری خاطر اس سے نکاح کرلو۔ دوسری شادی ہرگز نہ کرنا چاہتی تھی لیکن ساس کے مجبور کرنے پر ہامی بھر لی۔ طے پایا کہ بچے، ساس اپنے پاس رکھیں گی اور میں نکاح کے بعد وحید کے گھر میں رہوں گی۔ بچوں کو فی الحال شادی کا نہیں بتائیں گے لیکن ان سے ملنے آتی رہوں گی اور وہ باقاعدگی سے خرچہ دیں گے۔ وحید نے بہت سمجھایا کہ بچوں کو ابھی بتا دو، میں ان کو ساتھ رکھنے پر تیار ہوں لیکن میں راضی نہ ہوئی۔ ان کو صدمہ نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ ابھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہ ہوئے تھے۔ نکاح کے بعد میں نے بچوں سے یہی کہا کہ شہر کے اسپتال میں ملازمت کرنے جاتی ہوں، ہر ہفتے چھٹی کے دن تمہارے پاس آجائوں گی۔ بچے، دادی کو سونپ کر میں وحید کے پاس رہنے لگی اور وہ باقاعدگی سے بچوں کا خرچہ میری ساس کو دیتے تھے۔ میں ہر ہفتے بچوں کے پاس رہنے آجاتی۔ وحید بہت اچھے آدمی تھے۔ وہ خود مجھے چھوڑنے آتے اور پھر لے جاتے۔ کبھی روکا نہ ٹوکا۔ جب جی چاہتا کہتی بچوں سے ملنا ہے اسی وقت لے جاتے۔ بچے بھی میری غیر حاضری کو زیادہ محسوس نہ کرتے کیونکہ جب آتی ان کے لیے بہت سی چیزیں لاتی۔ وہ ان چیزوں کے خیال میں دن گزار دیتے کہ ماں آئے گی تو ہمارے لیے کچھ لائے گی۔ وہ مجھ سے زیادہ اپنی دادی سے ہلے ہوئے تھے۔ میری ممتا کا گوشہ آسودہ تھا۔ تبھی وحید سے کوئی اختلاف نہ ہوا اور میں اس کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارنے لگی۔ وہ دو وقت کی روٹی اور دیگر ضرورت میرے بچوں کو مہیا کررہا تھا۔ میری شادی کا علم خالہ کے سوا کسی کو نہ تھا۔ میرے اصرار پر انہوں نے بچوں سے بھی یہ بات چھپا لی تھی۔ وحید کی شرافت اور فراخ دلی کے سبب زندگی کے دن سکون سے گزر رہے تھے۔ جب تک بچے چھوٹے تھے، وحید بھی نعیم کے گھر آتے جاتے رہے لیکن وہ جب سیانے ہوگئے تو میں اکیلی ان سے ملنے جانے لگی۔ وقت گزرتے پتا نہ چلا۔ میرا بیٹا میٹرک میں تھا۔ انہی دنوں لڑکی کا رشتہ بھی آگیا اور خالہ نے اس کا بیاہ کردیا۔ وہ اپنے گھر میں آباد ہوگئی۔ میری بچی کی شادی کے سال بعد خالہ فوت ہوگئیں اور دونوں لڑکے گھر میں اکیلے رہ گئے۔ اب ان کو ماں کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اصرار کیا۔ امی نوکری چھوڑ دو اور ہمارے پاس آکر رہو۔ اب ہم آپ کو شہر نہیں جانے دیں گے۔ وہ خود محنت مزدوری کرنے پر تیار تھے۔ مجھے ہر حال گھر میں رکھنا چاہتے تھے جبکہ میں مجبور تھی۔ میرا اپنا گھر تھا۔ میرے ساتھ وحید تھا۔ وہ میرا ایک مخلص اور باوفا جیون ساتھی تھا۔ اس نے مجھے ہر طرح کا سکھ اور آرام دیا۔ جو میں نے کہا، مانا تھا۔ میری ہر خواہش کا احترام کیا۔ مجھ سے اس کی کوئی اولاد بھی نہ ہوسکی تب بھی صبر، شکر سے کام لیا تھا۔ اتنے اچھے انسان کا اس وقت میں کیسے ساتھ چھوڑ سکتی تھی جب اسے میری رفاقت کی ضرورت تھی کیونکہ وہ اب کچھ بیمار رہنے لگا تھا۔ جب تک دادی زندہ تھی، بچوں نے میری ضرورت محسوس نہ کی لیکن اب انہیں بھی میری ضرورت تھی۔ ان کا اصرار بڑھنے لگا کہ میں ساتھ رہوں۔ وہ ایسی عمر میں تھے کہ مستقل اکیلے نہ رہ سکتے تھے۔ میں سخت پریشان تھی۔ بیٹے جوانی میں قدم رکھنے والے تھے۔ وہ اب کیسے یہ حقیقت برداشت کرتے کہ ان کا باپ کوئی دوسرا شخص تھا۔ وحید کہتے کہ بچوں کو حقیقت سے آگاہ کردو مگر میں انہیں بتانے سے ڈرتی تھی کہیں وہ مجھے چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ سوتیلے باپ کو سرے سے قبول نہ کریں یا مجھے وحید سے ملنے سے روکیں۔ ایک دن میرے دونوں لڑکے میرا تعاقب کرکے وحید کے گھر پہنچ گئے۔ اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ میں ان کے پاس رہنے سے کیوں مجبور ہوں۔ اس انکشاف پر ان کو دلی صدمہ ہوا۔ چھوٹا بیٹا رونے لگا اور بڑے نے جھگڑا شروع کردیا۔ ان کو یقین نہ آتا تھا کہ میں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ بیٹی کو بھی دکھ پہنچا کہ اگر ماں نے دوسری شادی کرلی تھی تو ہم سے کیوں چھپایا۔ لڑکے سرے سے میری شادی کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ وہ کہتے۔ تم نے دوسری شادی کیوں کی میں نے لاکھ سمجھایا کہ تمہاری خاطر کی تھی کیونکہ تمہارے اخراجات اٹھانے والا کوئی نہ تھا اور مجھ سے تمہاری حالت دیکھی نہ جاتی تھی لیکن وہ میری اس مجبوری کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ ناراض ہوکر واپس چلے گئے۔ انہوں نے میرے گھر کا پانی تک نہ پیا اور مجھ سے سارے رشتے ختم کردیئے۔ بڑے لڑکے نے محنت مزدوری شروع کردی، میٹرک کا امتحان بھی نہ دیا۔ چھوٹے نے بھی اسکول جانا چھوڑ دیا۔ وہ مجھ سے نہیں ملتے تھے۔ میں ان کی صورت دیکھنے کو ترستی تھی۔ میں ممتا سے مجبور ہوکر ان کے گھر جاتی اور باہر گھنٹوں کھڑی رہتی۔ ایک روز بڑے بیٹے نے ڈانٹ دیا کہ اماں خبردار کیا تم گائوں میں ہماری سبکی کرانا چاہتی ہو۔ کیا یہ چاہتی ہو کہ ہمارے دوست اور محلے کے لڑکے ہماری ہنسی اڑائیں۔ اگر آئندہ یہاں نظر آئیں تو ہم اپنے باپ کے گھر کو تالا لگا کر کہیں دور چلے جائیں گے۔ کیا اب تم ہمیں دربدر دیکھنا چاہتی ہو۔ اُف یہ الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو میرے کانوں میں پڑا تھا۔ جن بچوں کی خاطر میں نے قربانی دی، اب وہی مجھے گناہگار ٹھہرا رہے تھے۔ بیٹی نے بھی کہہ دیا کہ میرے گھر مت آنا، ایسا نہ ہو کہ سسرال والے تمہاری وجہ سے مجھے گھر سے نکال دیں۔ سچ ہے نکاح چھپانے کی چیز نہیں ہے اور مجھے اسی بات کی سزا ملی۔ زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ میرے دونوں لڑکوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ بڑا محنت مزدوری کرتا اور چھوٹا گائوں کی گلیوں میں آوارہ پھرتا تھا۔ انہوں نے ماں کی دوسری شادی کو اپنی بے عزتی کا معاملہ بنا لیا تھا۔ وحید نے میرا حال برا دیکھا تو کہا کہ تم بے شک مجھے چھوڑ کر اپنے بچوں میں چلی جائو۔ مگر میں بیماری میں ان کو چھوڑ کر کیسے جاسکتی تھی۔ یہ بھی خوف تھا کہ شوہر کو چھوڑ کر اولاد کے پاس چلی جائوں وہ بھی وہ بڑھاپے میں، اگر ان کی چھت تلے پناہ نہ ملی تو وحید کی دی ہوئی چھت بھی کھو دوں گی۔ میرا خیال تھا کہ بڑے ہوکر جب سمجھدار ہوجائیں گے، میری مجبوریاں جان جائیں گے۔ مجھے گلے لگا لیں گے۔ میں ان کی شادیاں کروں گی، ان کا سہرا دیکھوں گی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ وہ میرے گلے میں دوسری شادی کے جرم میں کانٹوں کے ہار ڈالیں گے۔ جب میرا ابتر حال دیکھا تو وحید نے اپنے طور پر میرے بچوں کو منانے کی کوشش کی۔ انہوں نے وحید پر حملہ کردیا اور پھر اسے تھانے میں بند کرانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ وہ بڑی مشکل سے عزت بچا کر واپس آئے تھے۔ گائوں کے بزرگوں تک بات پہنچی، وہ میرے پاس آئے اور کہا۔ اگر تم اپنے موجودہ شوہر کو چھوڑ دو تو ہم تمہارے بیٹوں کو منا لیں گے اور وہ تمہیں اپنے ساتھ رکھ لیں گے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ بڑھاپے میں طلاق لینے کے بارے میں سوچ کر سہم جاتی ہوں۔ وحید کہتے ہیں شوہر سے وفا کی امید رکھنا مگر اولاد سے نہ رکھنا کہ اولاد بے وفا ہوتی ہے۔ معلوم نہیں یہ سچ ہے کہ جھوٹ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ م۔ک گجرات | null |
null | null | null | 290 | https://www.urduzone.net/jana-tujhe-jab-jana-episode-7/ | null | null |
null | null | null | 291 | https://www.urduzone.net/dil-ke-dagh-episode-1/ | null | null |
null | null | null | 292 | https://www.urduzone.net/khushiyon-ki-talash-mian-part-2-teen-auratien-teen-kahaniyan/ | null | null |
null | null | null | 293 | https://www.urduzone.net/jana-tujhe-jab-jana-episode-5-2/ | null | null |
null | null | null | 294 | https://www.urduzone.net/jana-tujhe-jab-jana-episode-6/ | null | null |
Subsets and Splits